• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 12 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 12 ۔ یونی کوڈ

‏tav.12.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد ۱۲
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان کے پہلے سالانہ اجتماع سے لیکر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ ۱۹۵۱ء/۱۳۲۰ہش تک
مولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی چودہویں۱ جلد
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور اس کی عنایت سے جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کی مبارک تقریب پر تاریخ احمدیت کی چودہویں جلد طبع ہوکر احباب کی خدمت میں پیش ہورہی ہے یہ جلد ۱۹۴۹ء کے مجلس خدام الاحمدیہ کے مرکز ربوہ میں پہلے اجتماع سے لے کر سالانہ جلسہ ربوہ ۱۹۵۱ء تک کے ایمان افروز روح پرور اور انقلاب آفریں واقعات پر مشتمل ہے اس جلد کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے بہت سے غیر مطبوعہ پیغامات مراسلات اور تحریرات کے علاوہ حضور کے سفر بھیرہ کے موقع کی پرمعارف تقریر پہلی بار مکمل طور پر شائع ہورہی ہے اس طرح متعدد نایاب اور بالکل غیر مطبوعہ فوٹو جو مصلح موعود~رح~ کے خدا نما عہد مبارک کی پیاری یاد کو تازہ کررہے ہیں نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ شامل اشاعت ہیں۔
۱۹۵۱ء میں السید عبدالوہاب عسکری عراقی نمائندہ موقر عالم اسلامی ربوہ تشریف لائے ان کے اعزاز میں جامعتہ المبشرین میں دعوت دی گئی جامعتہ المبشرین ان دنوں اس کچی عمارت میں تھا جو جلسہ سالانہ کے لنگر خانہ کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس تقریب میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم اور مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ بھی شامل ہوئے خاکسار ان دنوں جامعتہ المبشرین کے پرنسپل کے فرائض ادا کررہا تھا اس تقریب کے فوٹو لئے گئے ان میں سے دو فوٹو خاک کے پاس محفوظ تھے۔ وہ بھی اس جلد میں تاریخی یادگار بن رہے ہیں۔
زمانہ کے حالات بڑی سرعت سے بدل رہے ہیں پچھلے سال کی نسبت اس سال بہت زیادہ مہنگائی ہوگئی ہے اور تقریباً ہر چیز کی قیمت دگنی اور بعض چیزوں کی قیمت دگنی سے زیادہ ہوگئی ہے کاغذ جو پچھلے سال ۴۰۰ روپے رم تھا اب اسی روپے رم خریدا گیا ہے ان حالات میں اخراجات طباعت کا بڑھ جانا ناگریز تھا۔ بہرحال قیمت تقریباً لاگت کے مطابق رکھی گئی ہے احباب سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کو خرید کر تعاون فرمائیں تاکہ تاریخ احمدیت کی تکمیل کے فرض سے ہم جلد سبکدوش ہوسکیں۔ بالاخر الل¶ہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مساعی کو قبول فرمائے۔ )آمین(
والسلام
خاکسار ابوالمنیر نور الحق
منیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ
۲۱۔ دسمبر ۷۳ء
۱~}~ یہ جلد اب موجودہ ایڈیشن کی جلد ۱۲ کا آخری حصہ ہے۔ )مولف(
پہلا باب
ربوہ کے پہلے سالانہ جلسہ سے لیکر سیدنا حضرت مصلح موعود کی دارالہجرت میں بغرض رہائش تشریف آوری تک
فصل اول
ربوہ کا پہلا سالانہ جلسہ
ربوہ میں پہلا سالانہ جلسہ ۱۵` ۱۶` ۱۷۔ ماہ شہادت /اپریل ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا۔ یہ مثالی جلسہ دنیائے احمدیت میں ایک منفرد مخصوص تاریخی عظمت و شان کا حامل تھا اور قیامت تک پرسوز اور پردرد اجتماعی اور عاجزانہ دعائوں کی وجہ سے دعائوں کے جلسہ کے نام سے یاد رہے گا۔
جلسہ کا روحانی پس منظر
سیدنا المصلح الموعودؓ نے جلسہ لاہور )منعقدہ دسمبر ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء( میں اعلان فرمایا تھا کہ ہمارا مرکزی سالانہ جلسہ ربوہ میں ایسٹر کی تعطیلات کے دوران ہوگا۔ اس فیصلہ پر جماعت کے مرکزی کارکنوں کے علاوہ بیرونی جماعتوں کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں بکثرت خطوط پہنچے کہ ان دنوں جلسہ کا ہونا سخت دشوار اور مشکل ہوگا۔ جلسہ کے لئے ہر چیز باہر سے پہنچانا ہوگی اور زمیندار اصحاب جن کی ہمارے یہاں بھاری اکثریت ہے فصلوں کی کٹائی کے باعث بہت کم شریک جلسہ ہوسکیں گے۔ اس لئے یا تو جلسہ کی تاریخیں بدل دی جائیں یا جلسہ ہی لاہور میں منعقد کیا جاسکے۔ مگر حضور نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اسوہ انبیائؑ و خلفاء کے عین مطابق اور رب کریم کے فرمان فاذا عزمت فتوکل علی اللہ کی تعمیل میں قطعی ارشاد فرمایا کہ یہ جلسہ بہرحال مقررہ تاریخوں پر ربوہ ہی میں ہوگا۔ اور بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ موعود اولوالعزم خلیفہ نے اپنے نور فراست و بصیرت کی بناء پر جو فیصلہ کیا وہی صحیح مناسب اور مبارک تھا۔
جلس ربوہ کا پس منظر کیا تھا اور اس کے ربوہ میں منعقد کئے جانے کی کیا حکمتیں کار فرما تھیں` حضرت اقدس نے اس پہلو پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:۔
>جب کوئی شخص سمندر میں کودتا ہے یا کوئی جہاز غرق ہوتا ہے اور اس کی سواریاں سمندر میں گرجاتی ہیں تو آخر انہیں ساحل کی تلاش کرنی ہی پڑتی ہے۔ اس ساحل کی جستجو میں خطرات بھی ہوتے ہیں اور اس کی جستجو میں خوف بھی لاحق ہوتے ہیں۔ جب کوئی جہاز ڈوبتا ہے تو چاروں طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے اور انسان نہیں جانتا کہ میں دائیں گیا تو مجھے خشکی ملے گی یا بائیں گیا تو مجھے خشکی ملے گی` سامنے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی یا پیچھے کی طرف گیا تو مجھے خشکی ملے گی۔ یہ بھی انسان نہیں جانتا کہ اگر خشکی مجھ سے بہت دور ہے اور میں کسی طرح بھی ساحل تک نہیں پہنچ سکتا تو اگر دائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی یا بائیں طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی` آگے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی یا پیچھے کی طرف تیرا تو مجھے کوئی جہاز یا کشتی مل جائے گی۔ ان آٹھوں باتوں میں سے اسے کوئی بات بھی معلوم نہیں ہوتی۔ مگر پھر بھی وہ ایک جگہ پر کھڑا نہیں رہتا۔ بظاہر اس کی جگہ پر کھڑا رہنا یا ان چاروں جہات میں سے کسی ایک کا خشکی پر پہنچنے یا جہاز اور کشتی حاصل کرنے کے لئے اختیار کرنا برابر معلوم ہوتا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ سب باتیں برابر معلوم ہوتی ہیں۔ انسان پھر بھی جدوجہد کرتا ہے اور ساحل یا کشتی کی تلاش میں دائیں بائیں یا آگے پیچھے ضرور جاتا ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی ساحل یا جہاز کے لئے جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہے` جستجو اور تلاش کی ضرورت ہے اور جلد سے جلد کسی ایسے طریق کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے اندر ایک استقلال اور پائداری رکھتا ہو۔ اس وقت تک جو کچھ خدا تعالیٰ کی مشیت ظاہر ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ربوہ ہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ ہماری جماعت دوبارہ اپنا مرکز بنائے۔ اور جب کوئی نئی جگہ اختیار کی جاتی ہے تو اس کے لئے دعائیں بھی کی جاتی ہیں` اس کے لئے صدقہ و خیرات بھی کیا جاتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت بھی طلب کی جاتی ہے` اور یہ بہترین وقت ہمیں جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہی میسر آسکتا ہے کیونکہ اس موقعہ پر وہاں ہزاروں ہزار افراد جمع ہوں گے اور ہزاروں ہزار افراد کے جمع ہونے سے طبیعتوں پر جو اثر ہوسکتا ہے اور ہزاروں ہزار افراد کی متحدہ دعائیں جو تاثیر اپنے اندر رکھتی ہیں وہ صرف چند افراد کے جمع ہونے سے نہ اثر ہوسکتا ہے اور نہ ان کی دعائیں خواہ وہ سچے دل سے ہی کیوں نہ ہوں اتنی تاثیر رکھ سکتی ہیں جتنی ہزاروں ہزار افراد کی دعائیں اثر رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے مناسب سمجھا کہ ہم ربوہ کا افتتاح جلسہ سالانہ سے کریں اور خدا تعالیٰ سے اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے متحدہ طور پر دعائیں کریں۔ بے شک ان شامل ہونے والوں میں غافل بھی ہوں گے` سست بھی ہوں گے` کمزور بھی ہوں گے` لیکن ان لوگوں میں چست بھی ہوں گے` مخلص بھی ہوں گے` سلسلہ کے فدا کار اور جانثار بھی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بھی ہوں گے اور چستیوں اور فداکاروں کی آوازکے ساتھ جب کمزوروں اور ناقص دعا کرنے والوں کی آواز خداتعالیٰ کے سامنے >ہم< کہتے ہوئے پہنچے گی تو یقیناً اس >ہم< میں جو برکت ہوگی وہ صرف چند افراد کے جابسنے سے نہیں ہوسکتی۔ پس بجائے اس کے کہ ربوہ کا کوئی افتتاح نہ کیا جاتا اور بجائے اس کے کہ چند افراد جو وہاں بس رہے ہیں انہی کا بسنا ربوہ کے افتتاح کے لئے کافی سمجھ لیا جاتا میں نے چاہا کہ ہمارا اس سال کا سالانہ جلسہ ربوہ میں ہوتا کہ جب ہماری جماعت کے ہزاروں ہزار افراد اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئیں تو ہمارا جلسہ بھی ہوجائے اور اس کے ساتھ اللہہ تعالیٰ کے حضور ایک بہت بڑی تعداد میں اکٹھے ہوکر ہم متحدہ طور پر دعائیں کریں کہ وہ اس مقام کو احمدیت کے لئے بابرکت کرے اور اسے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کا ایک زبردست مرکز بنا دے۔ میں جانتا ہوں کہ منتظمین کو تکلیف ہوگی اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ شاید ہمیں پورا سامان بھی میسر نہ آسکے۔ یہاں اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو فوری طور پر مہیا ہوسکتی ہے لیکن وہاں ایسا نہیں ہوسکتا۔ مثلاً لاہور میں سینکڑوں باورچیوں کی دکانیں ہیں۔ اگر کسی وقت کھانا کم ہوجائے اور دو تین سو افراد کو کھانا مہیا کرنے کی ڈیوٹی پر لگا دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں دو تین گھنٹہ میں دس پندرہ ہزار آدمی کا کھانا آسانی سے مہیا ہوسکتا ہے۔ لیکن جو مقصد میرے سامنے ہے وہ اس رنگ میں پورا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ لاہور کی بجائے ربوہ میں اس جلسہ کا انعقاد کیا جائے۔ باقی رہا تکلیف کا سوال` سو یہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس وادی غیر ذی زرع میں جس میں شور پانی نکلتا ہے` اس دادی غیر ذی زرع میں جس میں چالیس چالیس پچاس میل تک کھیتی کا کہیں نشان تک نظر نہیں آتا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ تک لوگ بڑے بڑے وسیع جنگلوں میں سے گزرتے ہوئے` ایسے جنگلوں میں سے جو صرف درندوں کے مسکن تھے` ایسے جنگلوں میں سے جہاں بعض دفعہ سو سو میل تک پانی کا ایک قطرہ تک میسر نہیں آتا تھا یا اونٹنیوں پر سوار اپنے مشکیزوں میں پانی اٹھائے حج کے لئے دوڑتے چلے آتے تھے` اور دنوں نہیں` مہینوں نہیں` سالوں نہیں` صدیوں نہیں` ہزاروں سال تک وہ برابر ایسا کرتے چلے گئے۔
ہماری جماعت کو ایسا بے ہمت تو نہیں ہونا چاہئے کہ اگر صرف ایک دفعہ انہیں یہ کام کرنا پڑے تو وہ گھبراہٹ کا اظہار کرنے لگ جائیں۔ اس صورت میں بھی تم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکو گے کہ عرب کے قبل از اسلام لوگوں نے جو کام دو ہزار چار سو دفعہ کیا وہ ہم نے بھی ایک دفعہ کرلیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم~صل۱~ کے درمیان کا زمانہ ۲۲ سو سے ۲۴ سو سال تک کا ہے اور ہر سال حج ہوتا ہے۔ اس لئے اگر صرف حج کو ہی لے لیا جائے عمرہ کو جانے دیا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ چوبیس سو دفعہ یہ کام ان لوگوں نے کیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں سے اکثر وہ تھے جو زمانہ نبوت کے بہت دور تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابتدائی چند نسلوں اور رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے درمیان میں صرف کفر اور تاریکی اور بے دینی کا زمانہ تھا۔ اس کفر کے زمانہ میں` اس تاریکی کے زمانہ میں` اس بے دینی اور الحاد کے زمانہ میں جو کام انہوں نے ۲۴ سو دفعہ کیا بلکہ اگر عمرے بھی شامل کرلئے جائیں تو جو کام انہوں نے ۲۴ ہزار دفعہ کیا ہمیں اگر ویسا ہی کام صرف ایک دفعہ کرنا پڑے تو ہمارے نفسوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم بھی لہو لگا کر شہیدوں میں مل گئے۔
اللہ تعالیٰ کی اپنے ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں اور اس کی حکمتیں نہایت وسیع ہیں۔ دنیا ان چیزوں کو نہیں دیکھتی جن کو خدا دیکھ رہا ہوتا ہے یا جن کے دکھانے سے اس کے فرشتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے بیج دنیا میں بوئے جاتے ہیں مگر ان بیجوں کے اچھا ہونے کے باوجود` زمینوں کے اچھا ہونے کے باوجود` نگرانی اور دیکھ بھال کے اچھا ہونے کے باوجود الٰہی مصلحت اور الٰہی تدبیر ان بیجوں کو نہ اگنے دیتی ہے نہ بڑھنے دیتی ہے نہ پھل پیدا کرنے دیتی ہے۔ مگر کئی بیج دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو سنگلاخ زمینوں اور شوربیا بانوں میں بوئے جاتے ہیں۔ ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ان کو پانی دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مگر خدا تعالیٰ کی مصلحتیں اور اس کی تقدیر ان بیجوں کو بڑھاتے بڑھاتے بہت بڑے درختوں کی صورت میں بدل دیتی ہے۔ اتنے بڑے درخت کہ ہزاروں ہزار لوگ ان کے پھل کھاتے اور ان کے آرام دہ سایہ میں ہزاروں سال تک پناہ حاصل کرتے ہیں۔ خدا کے کام خدا ہی جانتا ہے۔ انسانی عقلیں اور تدبیریں خدا تعالیٰ کی مصلحتوں اور تدبیروں پر حاوی نہیں ہوسکتیں۔ ہم بھی کوشش کررہے ہیں کہ ایک شور زمین میں اپنا مرکز بنائیں۔ عرش پر بیٹھنے والا خدا اور آسمان میں رہنے والے فرشتے ہی جانتے ہیں کہ ہماری اس ناچیز حقیر اور کمزور جدوجہد کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ ہمارے لئے مشکلات بھی ہیں۔ ہمارے راستہ میں روکیں بھی ہیں۔ ہمارے سامنے دشمنیاں اور عداوتیں بھی ہیں۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور انسانی عقل اور انسانی تدبیر آخر بیکار ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں۔ بلکہ ہم سمجھتے اور یقین ہی نہیں رکھتے ہم اپنی روحانی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ رہے ہیں جو دنیا کو نظر نہیں آتی۔ ہم اپنی کمزوریوں کو بھی جانتے ہیں` ہم مشکلات کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے راستہ میں حائل ہیں` ہم مخالفت کے اس اتار چڑھائو کو بھی جانتے ہیں جو ہمارے سامنے آنے والا ہے۔ ہم ان قتلوں اور غارتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہمیں پیش آنے والے ہیں۔ ہم ان ہجرتوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہماری جماعت کو ایک دن پیش آنے والی ہیں۔ ہم ان جسمانی اور مالی اور سیاسی مشکلات کو بھی دیکھتے ہیں جو ہمارے سامنے رونما ہونے والی ہیں۔ مگر ان سب دھندلکوں میں سے پار ہوتی ہوئی اور ان سب تاریکیوں کے پیچھے ہماری نگاہ اس اونچے اور بلند تر جھنڈے کو بھی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ لہراتا ہوا دیکھ رہی ہے جس کے نیچے ایک دن ساری دنیا پناہ لینے پر مجبور ہوگی۔ یہ جھنڈا خدا کا ہوگا۔ یہ جھنڈا محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ہوگا۔ یہ جھنڈا احمدیت کا ہوگا۔
اور یہ سب کچھ ایک دن ضرور ہوکر رہے گا۔ بیشک دنیوی مصائب کے وقت کئی اپنے بھی یہ کہہ اٹھیں گے کہ ہم نے کیا سمجھا تھا اور کیا ہوگیا۔ مگر یہ سب چیزیں مٹتی چلی جائیں گی۔ مٹتی چلی جائیں گی۔ آسمان کا نور ظاہر ہوتا چلا جائے گا اور زمین کی تاریکی دور ہوتی چلی جائے گی اور آخر وہی ہوگا جو خدا نے چاہا۔ وہ نہیں ہوگا جو دنیا نے چاہا<۱
انتظامات جلسہ کیلئے حضرت امیرالمومنین کی زریں ہدایات
ربوہ ان دنوں چونکہ لق و دق صحرا کا منظر پیش کررہا تھا۔ جہاں رہائشی مکانات کا نام و نشان تک موجود نہ تھا اور جس جگہ وسیع پیمانے پر کسی جلسہ کا انعقاد صرف اسی صورت میں ممکن خیال کیا جاسکتا تھا جبکہ جملہ ضروریات لاہور` لائل پور` سرگودھا یا چنیوٹ وغیرہ سے بہم پہنچائی جائیں اور ان کو زیر استعمال لانے کے لئے منظم طریق پر انتظامات کئے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ۱۳۰۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے اوائل ہی سے اس طرف خصوصی توجہ فرمائی اور منتظمین جلسہ کو عارضی انتظامات کے بارے میں نہایت پرحکمت اور تاکیدی ہدایات جاری فرماتے رہے جن میں سے بعض بطور نمونہ بیان کی جاتی ہیں:۔
)ہدایات فرمودہ ۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء(
۱۔
جلسہ سالانہ کے لئے مندرجہ ذیل اشیاء فراہم کی جائیں:۔
مٹی کے تیل کا کنستر= ۴۰ عدد` لال ٹینیں= ۴۰۰ یا ۵۰۰ عدد`موم بتیاں جن کی لمبائی ۴ انچ اور موٹائی ۴/۳ ہو= ۳۰۰ بنڈل۔
۲۔
ڈھائی سو بوری آٹا پسوایا جائے اور بوقت ضرورت دو سو بوری آٹا پسوانے کا انتظام رکھا جائے۔
۳۔
پانی جمع کرنے کے لئے ۴۰ ڈیزل آئیل کے خالی ڈرم فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور سے حاصل کئے جائیں اور ۱۰۰ سیکنڈ ہینڈ ڈرم اور حسب ضرورت گھڑے خرید لئے جائیں۔
۴۔
فولڈنگ کینوس ٹینک TANK) CANVAS (FOLDING کی فراہمی کی کوشش کی جائے اور ٹینکر (TANKER) کرایہ پر لینے کی کوشش کی جائے۔ یہ مہیا نہ ہوں تو چنیوٹ میں سقوں کا انتظام کیا جائے۔
۵۔
روزانہ پچاس ہزار کچی اینٹ تیار کرانے کی کوشش کی جائے۔
۶۔
۲۳۔ امان/ مارچ کو حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں حضرت مولوی عبدالغنی خاں صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے عرض کیا کہ کیا ہندوستان کے مبلغ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے پاکستان آجائیں۔ فرمایا۔ صرف اس صورت میں آنے کی اجازت ہے جبکہ یہاں سے واپس جانے کا پرمٹ بھی ساتھ لے کر آئیں۔
حضور نے ہدایت دی کہ عورتوں کی جلسہ گاہ مردوں کے پنڈال سے ۲۰۰ فٹ پرے ہٹا کر بنائی جائے اور اس کے گرد قناتیں لگائی جائیں۔ گیلریاں اگر موجود ہیں تو مردوں کے لئے استعمال کی جائیں۔ جلسہ کی کارروائی صبح و شام اور رات کو ہو` دوپہر کو نہ ہو۔
پوسٹر شائع نہ کئے جائیں۔ اگر لوائے احمدیت اس موقعہ پر لگایا جائے تو ساتھ ہی اتنا ہی اونچا پاکستان کا جھنڈا بھی نصب کیا جائے۔۲
اس کے ساتھ ہی مہمانوں کی قیام گاہوں کے لئے ایسی طرز پر بیرکیں بنانے کا حکم دیا جو جلسہ کے بعد مناسب تبدیلی کے ساتھ شہر کی پختہ تعمیر کے آغاز تک دفاتر اور کارکنوں کے رہائشی مکان کے طور پر استعمال کی جاسکیں۔۳
۷۔
۴۔ ماہ شہادت/ اپریل کو حضرت امیر المومنین نے فرمایا کہ دفتروں نے جلسہ کے موقعہ پر ربوہ جانا ہے اور افسران نے دن رات کام کرنا ہے ان کے لئے تین سو چارپائیوں کا انتظام کرلینا چاہئے تاکہ ان کو کام کے بعد آرام کا موقع مل سکے۔ نیز پچیس ہزار روپیہ کہیں سے قرض لے لیا جائے اور آہستہ آہستہ کرکے بجٹ میں رکھ کر اس کو اتار دیا جائے اور اس رقم کے ذریعہ برتن اور دیگر سامان غرباء کے لئے خرید کر ربوہ میں کام کرنے والے غرباء میں تقسیم کیا جائے۔ ایسا سامان جو ربوہ میں جائے گا اس کے انتظام کے لئے بابو فضل الدین صاحب سے گفتگو کی جائے۔ اگر وہ کام کرسکیں تو سامان کا چارج ان کو دیا جائے اور جب کوئی وہاں جائے تو وہ سامان ان کو دیں اور پھر واپس لیں۔۴
حضرت مصلح موعود کامعائنہ انتظامات کی خاطر ربوہ کاخصوصی سفر
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے صرف ہدایات جاری کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بنفس نفیس معائنہ انتظامات اور مزید راہ نمائی
کے لئے ۲۴۔ ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو لاہور سے ربوہ تشریف لائے۔ اس خصوصی سفر کی تفصیلات حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہیں۔ حضور نے ۲۵۔ امان/ مارچ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
>جلسہ سالانہ کے متعلق جو وہاں انتظامات ہورہے ہیں۔ میں کل ان کو دیکھنے کے لئے ربوہ گیا تھا۔ چونکہ اس جگہ پر کوئی رہائشی مکانات نہیں ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ ہمیں وہاں رہائش کے لئے عارضی انتظامات ہی کرنے ہوں گے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے انجینئروں سے مشورہ کرنے کے بعد ساڑھے تیرہ ہزار روپے کی منظوری عارضی شیڈ بنانے کے لئے دے دی ہے اور اس میں پچاس شیڈ بنائے جارہے ہیں۔ ہر شیڈ ۹۶ فٹ لمبا اور ۱۶ فٹ چوڑا ہے۔ درمیان میں ستون ہیں۔ اس طرح ہر شیڈ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ہر شیڈ میں ۱۲۵ یا ۱۳۰ آدمی آسکتے ہیں۔ اس طرح ۵۰ شیڈ میں تقریباً چھ ہزار آدمی کی گنجائش ہے۔ ان میں سے بیس شیڈ مستورات کے لئے مخصوص کردیئے گئے ہیں جن میں ۲/۲۱ ہزار کے قریب مستورات کے رہنے کی گنجائش ہوگی۔ لیکن چونکہ جلسہ سالانہ کے ایام آنے تک موسم گرما ہوجائے گا اور لوگ غالباً پسند کریں گے کہ وہ باہر نکل کر سوئیں اس لئے خیال ہے کہ یہ عمارت ۳۰۔ ۴۰ بلکہ ۵۰ ہزار آدمی کے لئے کافی ہوگی۔ کیونکہ صرف اسباب اندر رکھنا ہوگا۔ سونے کے لئے لوگ باہر لیٹنا زیادہ پسند کریں گے۔ اسباب کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر الگ الگ جماعتوں کو رکھا جائے۔ تب بھی ہمارا خیال ہے کہ شیڈ ۱۲۔ ۱۵ بلکہ بیس ہزار آدمی کے لئے کافی ہوں گے۔ چونکہ جماعت جب جلسہ پر آتی ہے تو بالعموم اپنے چندے بھی ساتھ لاتی ہے اور بالعموم وہ ان ایام میں اپنے گزشتہ حسابات بھی دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف دفاتر سے لوگوں کو مختلف کام ہوتے ہیں۔ بعض کو اپنے جھگڑوں اور تنازعات کے سلسلہ میں امور عامہ کے دفتر سے کام ہوتا ہے یا رشتہ ناطہ کے لئے وہ شعبہ رشتہ ناطہ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں یا بیت المال والوں سے وہ اپنے بجٹ کے سلسلہ میں ملنا چاہتے ہیں یا دفتر محاسب میں وہ اپنی امانتیں رکھوانا یا اپنی امانتیں نکلوانا چاہتے ہیں اس لئے ان دفاتر کے لئے بھی وہاں مکانات بنانے ضروری تھے چونکہ میں نے انجینئروں سے مشورہ کرنے کے بعد اس غرض کے لئے عارضی طور پر بارہ کمرے بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ اور وہیں خزانہ بنانے کی ہدایت بھی دے دی ہے۔ اسی طرح جو مستقل افسر ہیں اور جن کو جلسہ سالانہ کے ایام میں رات دن کام کرنا پڑے گا ان کے لئے بھی علیحدہ انتظام کی ضرورت تھی چنانچہ اس کے لئے بھی میں نے چھ مکانات الگ بنوانے کا فیصلہ کیا ہے اور متعلقہ کارکنان کو اس کے متعلق ہدایت دے دی ہے۔ یہ تمام مکانات صرف عارضی طور پر بنائے جائیں گے اور تقریباً ۱۸۔ ۲۰ ہزار روپیہ صرف ہوگا لیکن اس میں سے خرچ کا کچھ حصہ سلسلہ کو واپس مل جائے گا۔ مثلاً جب یہ مکانات توڑے جائیں گے تو ان کی کچی اینٹیں کچھ تو ضائع ہوجائیں گی لیکن انجینئروں کا خیال ہے کہ دو تہائی اینٹیں آئندہ کی ضروریات کے لئے بچ جائیں گی اسی طرح ان مکانات میں جو لکڑی استعمال کی جائے گی وہ بھی بچ جائے گی۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ نصف کے قریب خرچ واپس مل جائے گا اور صرف دس ہزار روپیہ ایسا ہوگا۔ جو جلسہ کی خاطر خرچ ہوگا۔ میں نے یوں اندازہ لگایا ہے کہ انجمن کے جو دفاتر ہیں وہ قادیان کی نسبت اب بہت بڑھ گئے ہیں۔ قادیان میں ہمارا سو کے قریب کلرک تھا لیکن اس وقت غالباً زیادہ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی دفتر لاہور میں ہے کوئی چنیوٹ میں ہے اور کوئی احمد نگر میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے دفاتر اب دو ملکوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ گویا ہمارے دفتر کا کام پہلے کی نسبت بہت بڑھ گیا ہے۔ بلکہ اب تو ایک مستقل دفتر حفاظت مرکز کے لئے ہی قائم ہوچکا ہے اور اس کا کام یہی ہے کہ قادیان کے متعلق جو مشکلات پیدا ہوں ان کا ازالہ کرے۔ گورنمنٹ سے خط و کتابت کرے۔ جماعتوں کو قادیان کے حالات سے باخبر رکھے اور ہر قسم کا ضروری ریکارڈ جمع کرتا رہے۔ پھر چونکہ قادیان کی صدر انجمن بھی قائم ہے۔ اس کے دفاتر الگ ہیں۔ مگر ان دفاتر کا صرف خرچ کے ساتھ تعلق ہے۔ ربوہ میں مکانات کی تعمیر یا صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح تحریک جدید کے بہت سے کارکنان ہیں۔ ان سب کارکنوں کو اگر ملایا جائے تو ہزار بارہ سو تک ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی رہائش کے لئے کم سے کم اڑھائی تین سو مکانات کی ضرورت ہے۔ اب تو ہمارے تین مکان لاہور میں ہیں۔ کالج بھی یہیں ہے۔ کچھ مکانات چنیوٹ میں ہیں۔ ۴۰` ۵۰ مکانات احمد نگر میں ہیں اور کچھ حصہ کارکنوں کے خیموں میں رہتا ہے۔ جب دفاتر اکٹھے ہوں گے تو ہمیں ضرورت ہوگی کہ ان کے لئے اڑھائی سو خیمہ لگوایا جائے اور اگر اڑھائی سو خیمہ لگوا دیا جائے تب بھی اول تو خیموں میں وہ آرام میسر نہیں آسکتا جو مکانات میں ہوتا ہے۔ دوسرے اگر اڑھائی سو خیمہ خریدا جائے تو سوا لاکھ روپیہ میں آتا ہے۔ ان خیموں کو اگر دوبارہ مکانات بننے پر بیچ بھی دیا جائے تب بھی ساٹھ ہزار کا نقصان ہمیں برداشت کرنا پڑے گا۔ اور اگر اڑھائی سو خیمہ کرایہ پر لیا جائے تو اٹھارہ روپیہ ماہور پر ایک خیمہ ملتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ۴۵۰۰ روپیہ ماہوار صرف کرایہ پر صرف ہوگا۔ اگر یہ خیمے ایک سال تک رکھے جائیں جب تک ہماری عمارتیں مکمل نہ ہوجائیں تو ۵۴ ہزار روپیہ سالانہ صرف کرایہ پر خرچ آئے گا۔ اور پھر ان خیموں کے پہنچانے اور واپس لانے میں جو خرچ ہوگا وہ بھی چار چار پانچ پانچ روپے فی خیمہ سے کم نہیں ہوسکتا۔ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم ان عارضی عمارتوں کو جو جلسہ سالانہ کے لئے بنائی جارہی ہیں بعد میں توڑیں نہیں بلکہ اسی طرح رہنے دیںتو ہمارا بیس ہزار روپیہ جو ان عمارتوں پر خرچ ہوگا۔ اس میں سے دس ہزار روپیہ تو یقیناً جلسہ سالانہ کے لئے خرچ ہونا تھا` باقی دس ہزار روپیہ جو لکڑی اور اینٹوں کی صورت میں ہمیں واپس مل سکتا تھا وہ ان عمارتوں کو سال بھر قائم رکھ کر ہمارے دفاتر اور کارکنوں کو اکٹھا رکھنے میں کام آسکتا ہے۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ فی بیرک چھ چھ مکان بن سکتے ہیں۔ اور چونکہ پچاس بیرکیں ہیں اس لئے بعد میں بڑی آسانی سے تین سو مکان بن سکتا ہے۔ اگر ہم ان مکانات کو سال بھر رہنے دیں تو دس ہزار روپیہ کا نقصان اٹھانے کی بجائے ہمیں کم سے کم چالیس ہزار روپیہ کی بچت ہوگی۔ اگر ہم خیمے لگائیں تو ہمیں پچاس ہزار روپیہ سالانہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا۔ اور اگر ہم خیمے خرید کر سال بھر کے بعد بیچیں تو ہمیں ساٹھ ستر ہزار روپے کا گھاٹا برداشت کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر یہ شیڈ اور مکانات اسی طرح پر کھڑے رہیں اور چھ چھ مکان فی بیرک بنا دیئے جائیں تو تین سو مکان بن جائیں گے۔ ان پچاس شیڈوں کے علاوہ جو عارضی مکانات وہاں جلسہ سالانہ کے لئے بنائے جارہے ہیں جن میں دفاتر بھی ہوں گے۔ ناظروں کے لئے مکانات بھی ہوں گے پرائیویٹ سیکرٹری کا بھی دفتر ہوگا اور میرا مکان بھی ہوگا۔ اس پر ہمارے اخراجات کا اندازہ چار ہزار روپیہ ہے۔ کیونکہ بہرحال کسی چھوٹی سی جگہ میں یہ سارے دفاتر نہیں آسکتے۔ دس بارہ افسروں کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی اور پھر میری رہائش کے لئے جگہ کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لئے ہم نے جو نقشہ تجویز کیا ہے اس کے مطابق چار ہزار خرچ کا اندازہ ہے۔ اور اگر اس خرچ کو پورے سال پر پھیلا دیا جائے جو ۲/۳۱ سو روپے ماہوار کا خرچ ہے جو سلسلہ کو برداشت کرنا پڑے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر جلسہ سالانہ کے فوراً بعد ہم دفاتر وہاں منتقل کرنا شروع کردیں اور موجودہ عارضی عمارات کو قائم رکھیں تو بجائے نقصان کے ہمیں تیس چالیس ہزار روپیہ کا فائدہ رہے گا اور پھر مزید فائدہ یہ ہوگا کہ سب کارکن اکٹھے رہیں گے اور کام میں پہلے کی نسبت زیادہ ترقی ہوگی<۵
ربوہ اسٹیشن کی منظوری اور گاڑیوں کی باقاعدہ آمدورفت
‏]0 [rtfحضرت مصلح موعود کے ارشاد پر میاں غلام محمد صاحب اختر عرصہ سے ربوہ اسٹیشن کی منظوری کے لئے مسلسل دوڑ دھوپ کررہے تھے جو خدا کے فضل و کرم سے جلسہ کے قریب آکر کامیاب ہوگئی اور ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے ۲۵۔ مارچ کو ربوہ ہالڈنگ سٹیشن کی منظوری دے دی۔۶
ازاں بعد مورخہ ۳۱۔ امان/ مارچ کی شام تک ربوہ کا نیا سٹیشن مکمل ہوگیا اور پلیٹ فارم اور بکنگ آفس بن گیا نیز سٹیشن کا تمام عملہ بھی ربوہ میں پہنچ گیا۔ پہلے اسٹیشن ماسٹر چوہدری محمد صدیق صاحب آف نارووال مقرر ہوئے۔ یکم ماہ شہادت/ اپریل کو گاڑیوں کی باقاعدہ آمدورفت شروع ہوگئی۔ پہلی گاڑی جو سرگودھا کی طرف سے آئی` صبح سات بجکر بیس منٹ پر کھڑی ہوئی۔ اس موقعہ پر ربوہ کے تمام احمدیوں کے علاوہ احمد نگر کے بھی اکثر احباب نیز جامعہ احمدیہ کے طلباء قطار در قطار کھڑے تھے۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ناظر ضیافت نے گاڑی آنے سے پہلے نہایت رقت انگیز دعا کرائی۔ جنگل میں پہاڑیوں اور ٹیلوں کے درمیان اجتماعی دعا کا یہ نظارہ بڑا ہی پرکیف اور عجیب تھا جس سے الہام >جنگل میں منگل< کا نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ دعا کے بعد دور لالیاں کی طرف سے گاڑی آتی دکھائی دی تو تمام دوستوں نے فرط مسرت سے بے اختیار پرجوش نعرے بلند کئے۔ ربوہ اسٹیشن سے پہلا ٹکٹ مولوی محمد اسمعیل صاحب معتبر آڈیٹر تھریک جدید نے خریدا۔ اور سب سے پہلی ٹرین پر تئیس روپے سات آنے کے ٹکٹ فروخت ہوئے۔ ٹکٹ لینے والے دوست گاڑی میں سوار ہوئے اور گاڑی نعرہ ہائے تکبیر میں چل دی۔
دوسری گاڑی اس کے معاًبعد چنیوٹ سے ربوہ آئی جس سے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جماعت چنیوٹ کے بیسیوں احباب کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تشریف لائے۔ حضرت مفتی صاحب نے جملہ حاضرین سے مصافحہ کیا۔ جس کے بعد یہ گاڑی بھی روانہ ہوگئی۔ اس طرح خدا کے فضل و کرم سے ربوہ اسٹیشن کا بابرکت افتتاح عمل میں آیا۔۷ اور اس وادی غیر ذی زرع کا رابطہ ریلوے نظام کے اعتبار سے پورے ملک سے قائم ہوگیا جس سے زائرین ربوہ کو بے انداز سہولت ہوگئی۔ چنانچہ پہلے تاریکی جلسہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اکثر و بیشتر مہمان بذریعہ گاڑی ہی ربوہ کی مقدس سرزمین میں تشریف لائے۔
صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے تربیت یافتہ رضاکاروں کیلئے اپیل
چونکہ جلسوں کے انتظامات اسلوبی سے چلانے کے لئے سینکڑوں رضاکاروں کی اشد ضرورت تھی۔ اس لئے صدر مجلس خدام الاحمدیہ حضرت
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بذریعہ الفضل اپیل کی کہ خصوصاً فرقان فورس کے تربیت یافتہ نوجوان جو نظام سلسلہ کے تحت کام کرچکے ہیں زیادہ سے زیادہ جلسہ میں شامل ہوں اپنا خیمہ نصب کرنے کا سامان ہمراہ لائیں۔ اور ۱۳۔ ماہ شہادت/ اپریل کو ربوہ پہنچ کر دفتر خدام الاحمدیہ میں اطلاع دیں تا ان کی ڈیوٹی لگائی جاسکے۔۸]body2 [tag اس اپیل پر بہت سے نوجوان ربوہ پہنچ گئے۔
جلسہ ربوہ کا افتتاح اور حضرت سیدنا المصلح الموعود کا ایمان افروز خطاب
۱۵۔ ماہ شہادت/ اپریل کو بوقت نو بجے صبح ربوہ کی سرزمین میں جماعت احمدیہ کا پہلا مبارک اور تاریخی سالانہ جلسہ حضرت مصلح موعود کی
ایمان افروز تقریر اور ہزارہا مومنین کی درد و کرب اور سوز وگداز سے بھری ہوئی عاجزانہ دعائوں اور التجائوں کے روح پرور ماحول میں شروع ہوا۔
اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے جو افتتاحی خطاب فرمایا۔ اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین نے تشہد و تعوذ کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی جس میں الحمد للہ رب العالمین کا خصوصیت کے ساتھ تین بار تکرار فرمایا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
>یہ جلسہ تقریروں کا جلسہ نہیں۔ یہ جلسہ اپنے اندر ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی تاریخی حیثیت جو مہینوں یا سالوں یا صدیوں تک نہیں جائے گی بلکہ بنی نوع انسان کی اس دنیا پر جو زندگی ہے اس کے خاتمہ تک جائے گی۔ اس میں شامل ہونے والے لوگ ایک جلسہ میں شامل نہیں ہورہے بلکہ روحانی لحاظ سے وہ ایک نئی دنیا` ایک نئی زمین اور ایک نئے آسمان کے بنانے میں شامل ہورہے ہیں۔ پس اس جلسہ کو تقریروں کا جلسہ مت سمجھو۔ تقریریں ہوں یا نہ ہوں۔ مختلف مضامین پر لیکچر سننے کا موقعہ ملے یا نہ ملے۔ اس کا کوئی سوال نہیں جو اصل مقصد ہے وہ ہمارے سامنے رہنا چاہئے۔ اور جو اصل مقصد ہے اس کو ہمیں ہر چیز پر اہمیت دینی چاہئے۔ میں اب قرآن کریم کی کچھ آیتیں پڑھوں گا اور آہستہ آہستہ کئی دفعہ دہرائوں گا۔ پڑھے ہوئے اور ان پڑھ جس قدر دوست یہاں موجود ہیں وہ بھی میرا ساتھ دے سکتے ہیں اور انہیں ساتھ دینا چاہئے۔ یعنی جب میں وہ آیتیں پڑھوں تو جماعت کے دوست کیا مرد اور کیا عورتیں ساتھ ساتھ ان آیتوں کو دہراتے چلے جائیں۔
)اس موقعہ پر حضور نے ہدایت فرمائی کہ کوئی کارکن جاکر عورتوں کی جلسہ گاہ سے پوچھ لے کہ ان کو آواز آرہی ہے یا نہیں تاکہ محروم نہ رہ جائیں(
عورتوں میں سے جو عورتیں ایسی ہیں کہ ان پر ان ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں` ان کو چاہئے کہ وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔ اور جن عورتوں کے لئے ان ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی ان آیتوں کو دہرائیں بہرحال جن عورتوں کے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں ان آیتوں کو دہراتی رہیں۔ کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوت قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ وہاں دل میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں یا دل میں بھی نہ دہرائیں بلکہ صرف اتنا حکم ہیکہ زبان سے نہ دہرائیں۔ بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع ہے مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اسی پر عمل کیا جائے۔ پس بجائے زبان سے دہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔
میں نے بتایا ہے کہ میں کئی دفعہ آیات کو پڑھوں گا۔ ممکن ہے میں پہلی دفعہ جلدی پڑھوں تاکہ ان کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ اگر لفظوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو اور انسان مضمون سے پہلے واقف نہ ہو تو آہستگی سے پڑھنے کے نتیجہ میں مضمون بجائے اچھا سمجھ آنے کے کم سمجھ آتا ہے۔ مگر جو شخص اس کے ترجمہ سے واقف ہوتا اور مضمون سے آگاہ ہوتا ہے اس کا دلی جوش اور جذبہ بعض دفعہ اسے جلدی پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لئے پہلی دفعہ کی تلاوت میں اپنے لئے مخصوص کروں گا۔ یعنی میں اس طرح پڑھوں گا جس طرح میرا اپنا دل چاہتا ہے۔ اس کے بعد جب میں تلاوت کروں گا تو اس امر کو ملحوظ رکھوں گا کہ پڑھا ہوا اور ان پڑھ` عالم اور جاہل` بڑی عمر کا اور چھوٹی عمر کا ہر شخص لفظاً لفظاً اگر وہ چاہے اور اگر اس کے دل میں ارادہ اور ہمت ہو تو میرے پیچھے پیچھے چل سکے اور ہر لفظ کو دہرا سکے<۔
ان تمہیدی الفاظ کے بعد حضور نے نہایت رقت آمیز رنگ میں قرآن کریم کی وہ دعائیں بلند آواز سے پڑھنا شروع کیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادی مکہ میں چھوڑتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں۔ جماعت کے تمام ددوست کیا مرد اور کیا عورتیں سب کے سب حضور کے ساتھ ساتھ ان دعائوں کو دہراتے چلے گئے۔
یہ دعائیں جس طرح بار بار حضور نے پڑھیں اسی طرح ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ حضور نے ابراہیمی دعائوں کو منتخب کرتے ہوئے اس موقع پر نہایت درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:۔
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد خیر ذی زرح عند بیتک المحرم
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم و ارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون۔
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
وما یخفی علی اللہ من شئی فی الارض ولا فی السماء
اس کے بعد دوبارہ حضور نے انہی دعائوں کو اس رنگ میں دہرایا۔
ربنا انی اسکنت من ذریتی
ربنا انی اسکنت من ذریتی
بداد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم۔ ربنا لیقیموا الصلوہ فاجعل
افئدہ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون۔
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
آج سے قریباً ۴۵ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کو حکم ہوا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر ڈالے۔ یہ رئویا اپنے اندر دو حکمتیں رکھتی تھی۔ ایک حکمت تو یہ تھی کہ اس وقت سے پہلے انسانی قربانی کو جائز سمجھا جاتا تھا اور خصوصیت کے ساتھ لوگ اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یا اپنے بتوں کو خوش کرنے کے لئے قربان کردیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے فیصلہ کیا کہ اب بنی نوع انسان کو اس مہیب اور بھیانک فعل سے باز رکھنا چاہئے۔ کیونکہ انسانی دماغ اب اتنی ترقی کرچکا ہے کہ وہ حقیقت اور مجاز میں فرق کرنے کا اہل ہوگیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جس کا نام ابراہیمؑ تھا یہ رئویا دکھائی۔ اس رئویا میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک حکمت یہ تھی کہ آئندہ انسانی قربانی کو روک دیا جائے۔ اور دوسری حکمت یہ تھی کہ خدا تعالیٰ انسان سے حقیقی قربانی کا مطالبہ کرنا چاہتا تھا جو مطالبہ اس سے پہلے انسان سے نہیں ہوا تھا۔ بہرحال جب سے انسان اس قابل ہوا کہ اس پر الہام نازل ہو کسی نہ کسی صورت میں لوگ خدا تعالیٰ کی عبادت کیا ہی کرتے تھے۔ لیکن ابھی ایسا زمانہ انسان پر نہیں آیا تھا کہ کچھ لوگ اپنی زندگیوں کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے لئے وقف کردیں۔ نماز تو لوگ پڑھتے تھے` روزہ بھی رکھتے تھے۔ ذکر الٰہی بھی لوگ کرتے تھے کیونکہ ان چیزوں کے بغیر روحانیت زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر آدمؑ ایک روحانی انسان تھا تو نوحؑ اور آدمؑ اور ان کے متبع یقیناً نماز بھی پڑھتے تھے۔ ذکر الٰہی بھی کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے کیونکہ روح بغیر ان چیزوں کے جلا نہیں پاتی۔ اور روح کے جلا پائے بغیر خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کا وصال حاصل نہیں ہوسکتا۔ مگر اس قربانی اور ان قربانیوں میں کیا فرق تھا؟ فرق یہ تھا کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر نمازیں ادا کرتا تھا۔ اور کوئی ایسا شخص بھی ہوتا تھا جس کو خدا تعالیٰ چن لیتا تھا اور اسے مقرر کرتا تھا کہ تم اپنی زندگی میں میری طرف سے مامور کی حیثیت رکھتے ہو۔ تم بنی نوع انسان کو مخاطب کرو اور انہیں میری طرف لانے کی کوشش کرو۔ یہ لوگ انبیاء علیھم السلام ہوتے تھے مگر ان کے علاوہ کوئی ایسے گروہ نہیں ہوتے تھے جو اپنی زندگیوں کو کسی مخصوص مقام سے وابستہ کردیں اور دن اور رات ذکر الٰہی کے شغل کو جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جہاں وہ اس غیر حقیقی قربانی کو منسوخ کردے جو چھری کے ذریعہ سے بیٹوں کو قتل کرکے ادا کی جاتی تھی وہاں وہ اس حقیقی قربانی کی بنیاد ڈال دے کہ دنیا کو چھوڑ کر انسان اپنی زندگی محض خدا تعالیٰ کے لئے وقف کردیا کرے۔ چھری انسانی زندگی کو ایک منٹ میں ختم کردیتی ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے ئے دی اور چھریوں اور نیزوں سے اپنے آپ کو قربان کروا دیا اگر وہ ایک سال اور زندہ رہتے تو مرتد ہوجاتے ایک سال اور زندہ رہتے تو ان کے ایمان کمزور ہوجاتے۔ ایک سال اور زندہ رہتے تو ان کے اندر عبادت کے لئے وہ جوش و خروش باقی نہ رہتا جو اس وقت انہوں نے دکھایا تھا۔
پس چھری کے ساتھ انہوں نے اپنے مشتبہ انجام کو چھپایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو قربان کرتا ہے یا جو شخص اپنی مرضی سے اپنی اولاد کو قربان کرتا ہے وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ وہ اور اس کی اولاد لمبے امتحانوں میں سے گزرتے ہوئے ناکام نہ رہ جائے۔ اور وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہی اپنی زندگی یا اپنی اولاد کی زندگی کو ختم کردیتا ہے مگر جو شخص ساری عمر قربان ہوتا رہتا ہے` موت کے ذریعہ نہیں بلکہ منہیات سے` ذکر الٰہی کی پابندی اختیار کرنے سے` تبلیغ اسلام کو اختیار کرنے سے` بنی نوع انسان کی تربیت کی ذمہ داری لینے سے` وہ دلیرانہ اس سمندر میں کودتا ہے۔ وہ اپنا خاتمہ موت سے نہیں کرتا بلکہ وہ اپنا ایمان اپنی زندگی سے ثابت کردیتا ہے۔ مرنے والے کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ایماندار رہتا۔ مگر جس نے زندہ رہ کر اپنے ایمان کو ثابت کردیا اور جس نے مدت تک اپنے ایمان کو سلامت لے جاکر عملی طور پر اس کے سچا ہونے کا ثبوت دے دیا` اس کے متعلق دشمن سے دشمن کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس نے اپنے عہد کو سچا ثابت کردیا۔ میں نے کہا کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو ختم کرتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا ہے جو اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کی مشیت سے ان کی زندگی ختم ہوجاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو شہداء کہتے ہیں۔
پس جو دلیل میں نے تلوار یا نیزہ سے اپنے آپ کو ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی اس لئے کہ شہداء نے خود اپنے آپ کو مار کر زندگی کی جدوجہد سے آزاد ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ کی مشیت نے ان کے زندہ رہنے کی خواہش کے باوجود یہ چاہا کہ ان کی مادی زندگی کے دور کو ختم کردے۔ اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
پس جو دلیل میں نے اپنی زندگی ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی۔ اس لئے کہ وہ خود نہیں مرتے بلکہ ان کو دشمن مارتا ہے۔ ورنہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ دشمن کو مار کر اپنے ایمانوں کو اور بھی قوی کریں۔ اس امر کا ثبوت کہ وہ اپنی زندگی ختم کرکے میدان جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔
حضرت عبداللہؓ جو رسول کریم~صل۱~ کے ایک نہایت مقرب صحابیؓ تھے جب شہید ہوگئے تو ان کے بیٹے حاضر جابرؓ کو ایک دفعہ رسول کریم~صل۱~ نے نہایت افسردہ حالت میں سر جھکائے دیکھا۔ آپﷺ~ نے جابرؓ سے فرمایا۔ جابر! تمہیں اپنے باپ کی موت کا بہت صدمہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے کہا۔ ہاں یارسول اللہ~صل۱~۔ باپ بھی بہت نیک تھا جس کی وفات کا طبعی طور پر مجھے سخت صدمہ ہے مگر میری افسردگی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے اور اب اس کی تمام بار میرے کمزور کندھوں پر آپڑا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا۔ جابر! اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ تمہارے باپ کا کیا حال ہوا تو تم کبھی افسردہ نہ ہوتے بلکہ خوش ہوتے۔ پھر آپ نے فرمایا۔ جابر! جب عبداللہؓ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا۔ عبداللہؓ کی روح کو میرے سامنے لائو۔ جب عبداللہؓ کی روح اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے فرمایا کہ عبداللہ ہم تمہارے کارنامے پر اور اسلام کے لئے تم نے جو قربانی پیش کی ہے اس پر اتنے خوش ہوئے ہیں کہ تم جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگو۔ ہم تمہاری ہر خواہش کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر عبداللہؓ یہ نہیں کہا کہ الٰہی جنت کے فلاں مقام پر مجھے رکھا جائے۔ اس پر عبداللہؓ یہ نہیں کہا کہ الٰہی مجھے ایسی ایسی حوریں دے عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی مجھے جنت غلمان خدمت کے لئے دے عبداللہؓ یہ نہیں کہا کہ الٰہی مجھے ایسے ایسے باغات مل جائیں بلکہ عبداللہؓ نے اگر کہا تو یہ کہا کہ اے میرے رب اگر تو مجھے کچھ دینا چاہتا ہے تو میری خواہش یہ ہے کہ تو مجھے پھر زندہ کردے تاکہ میں پھر تیرے دین کی خدمت کرتا ہوا مارا جائوں۔
اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ شہید ہونے والا اپنی مرضی سے مرنا نہیں چاہتا۔ وہ خطرے کے مواقع پر اپنی جان ضرور پیش کرتا ہے مگر اس کا دل چاہتا ہے کہ میں زندہ رہ ک ان تمام مشکلات کا مقابلہ کروں جو اسلام یا دین حقہ کو مخالفوں کی طرف سے پیش آنے والی ہیں۔ پس میں نے جو اعتراض خود کشی کرنے والوں یا جھوٹے جان دینے والوں پر کیا ہے وہ شہداء پر نہیں پڑتا۔ غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دین حقہ کے لئے ایسے قربانی کرنے والے پیدا کرے جو اپنی جان کو مار کر اس دنیا کی جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے بلکہ دنیا میں زندہ رہ کر دنیا کی کشمکشوں میں سے گزر کر ددنیا کی مصیبتوں کو جھیل کر دنیا کی تکالیف برداشت کرکے اپنی مردانگی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے ڈرا نہیں کرتا۔ یہی وہ حقیقی قربانی ہے جو شاندار ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کا نام لے کر سینہ میں خنجر مار لینا کوئی قربانی نہیں۔ وہ بزدلی ہے` وہ کمزوری ہے` وہ دون ہمتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ایک قربانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ ورنہ وہ خوب جانتا ہے کہ میں بزدل ہوں۔ میں اس لئے مررہا ہوں کہ دنیا میں رہ کر میں مصیبتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور وہ سمجھتا ہے کہ چند مصیبتیں آنے کے بعد ہی میرا ایمان کمزور ہوجائے گا۔ اس لئے وہ اپنی زندگی کو ختم کردیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اس قربانی کی بنیاد ڈالے جو زندہ رہ کر اور دنیا کی کشمکشوں کا مقابلہ کرکے اور دنیا کی مصیبتوں کو برداشت کرکے انسان پیش کرسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ درحقیقت یہی تھا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وہ رویاء دکھائی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اکلوتے بیٹے کو جو یقیناً اسماعیلؑ تھے ذبح کررہے ہیں تو چونکہ اس وقت لوگ اپنے بیٹوں کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کرتے تھے حضرت ابراہیمؑ نے سمجھا کہ الٰہی منشاء یہ ہے کہ میں بھی اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کردوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمعیلؑ کو جن کی عمر اس وقت تاریخ سے سات سال کی معلوم ہوتی ہے بتایا کہ میں نے ایسی ایسی رئویا دکھی ہے۔ اسمعیلؑ جو اپنے باپ کی نیک تربیت کے ماتحت دین کو سمجھتا تھا اور جس میں یہ حس تھی کہ خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنی چاہئے اس نے فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کو قبول کیا کہ خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے آپ اس پر عمل کریں۔ میں اسے حضرت اسمعیل کی ذاتی نیکی نہیں سمجھتا۔ جب وہ بڑے ہوئے تو یقیناً وہ نیک ثابت ہوئے اور انہوں نے اپنے عمل اور طریق سے خدا تعالیٰ کو اتنا خوش کیا کہ اس نے انہیں نبوت کے مقام پر فائز کردیا۔ مگر الصبی صبی ولو کان نبیا۔ بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جائے سات سال کی عمر میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کا یہ نمونہ دکھانا یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کی نیکی کا مظاہرہ تھا۔ حضرت اسمعیل کی ذاتی خوبی نہیں تھا۔ مجھے اپنے گھر کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میرا ایک بچہ جس کی عمر پانچ چھ سال تھی ایک دفعہ نچلی منزل کی سیڑھی پر کھڑا تھا اور میں اوپر تھا۔ اس کے ایک دو بھائی جو بڑی عمر کے تھے وہ اس کے پاس کھڑے اسے ڈرا رہے تھے اور میرے کان میں ان کی آوازیں آرہی تھیں۔ مجھے ان کی باتیں کچھ دلچسپ معلوم ہوئیں اور میں غور سے سننے لگا۔ میں نے سنا۔ ان میں سے ایک نے اسے کہا۔ اگر تم کو رات کے وقت جنگل میں اکیلے چھوڑ آئیں تو کیا تم اس کے لئے تیار ہوگے۔ میں نے دیکھا کہ اس بات کے سنتے ہی بچے پر دہشت غالب آگئی۔ وہ ڈر گیا اور اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد دوسرے نے کہا۔ اگر میں تم کو کہوں کہ تم رات کو اکیلے جنگل میں چلے جائو اور وہیں رہو تو کیا تم میری بات مانو گے؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر انہوں نے کسی اور کا نام لے کر کہا کہ اگر وہ کہے تو پھر بھی مانو گے یا نہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ اگر ابا جان کہیں تو کیا تم جنگل میں چلے جائو گے۔ اس نے پھر کہا نہیں۔ آخر انہوں نے کہا۔ اگر خدا کہے کہ تم جنگل میں چلے جائو تو کیا تم جائو گے؟ میں نے دیکھا کہ اس بات کے سنتے ہی اس کا رنگ زرد ہوگیا۔ مگر اس نے کہا۔ ہاں پھر میں مان لوں گا۔ اب دیکھو پانچ چھ سال کا بچہ نہیں جانتا کہ خدا کیا چیز ہے۔ وہ صرف موٹی موٹی باتیں جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے احکام کی اہمیت کو نہیں سمجھتا۔ مگر چونکہ صبح و شام وہ سنتا رہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے اور اس کے احکام کو نہ ماننا کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اور سب کا نام لینے پر اس نے انکار کیا۔ یہاں تک کہ باپ کا نام لینے پر بھی اس نے یہی کہا کہ میں نہیں جائوں گا۔ مگر جب خدا تعالیٰ کا نام لیا گیا تو اس نے سمجھا کہ اب انکار نہیں ہوسکتا۔ اور اس نے کہا کہ اگر خدا کہے تو پھر میں چلا جائوں گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنے بیٹے حضرت اسمعیلؑ سے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے رئویا میں یہ دکھایا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔ اب بتا تیری کیا رائے ہے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس نیک تربیت کی وجہ سے جو انہیں حاصل تھی یہ جواب دیا کہ جب خدا نے ایسا کہا ہے تو پھر بے شک اس پر عمل کریں میں اس کے لئے بالکل تیار ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمعیلؑ کو جنگل میں لے گئے۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی۔ انہیں زمین پر لٹادیا اور پھر چھری نکال کر چاہا کہ اس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کے نام پرذبح کردیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ بتانا چاہتا تھا کہ انسانی قربانی ناجائز ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے چھری نکالی اور ذبح کرنا چاہا تو فرشتہ نازل ہوا۔ اور اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا کہ یا ابراہیم قد صدقت الرئیا۔ اے ابراہیمؑ! تم نے عملاً اپنے بچے کو ذبح کرنے کے ارادہ سے لٹا کر اور چھری نکال کر اپنے خواب کو پورا کردیا ہے۔ مگر ہمارا منشاء یہ نہیں تھا کہ تم واقع میں اسے ذبح کردو بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ خواب میں اگر کوئی شخص اپنے بچے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی تعبیر کچھ اور ہوا کرتی ہے۔ ہم انسانی قربانی کو روکنا چاہتے تھے اور اسی لئے ہم نے یہ رئویا دکھائی تھی۔ اس ذریعہ سے تمہارا ایمان بھی ظاہر ہوگیا اور ہماری غرض بھی پوری ہوگی۔ اے ابراہیم! آج سے انسانی قربانی کو بند کیا جاتا ہے۔ اب آئندہ کسی انسان کو اس رنگ میں قربان کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے انسانی قربانی جو خودکشی یا دوسرے کو قتل کرنے کے رنگ میں جاری تھی` رک گئی۔ درحقیقت اس رئویا میں یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک وادی غیر ذی زرع میں اپنے بیٹے کو چھوڑ آئیں گے اور اس لئے چھوڑ آئیں گے لیقیموا الصلوہ تاکہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کو قائم کریں دوسری جگہ یہ ذکر آتا ہے کہ ان کو بیت اللہ کے پاس اس لئے رکھا گیا تھا` تاکہ وہ زائرین اور طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے اس کے گھر کو آباد رکھیں۔ چنانچہ جب یہ قربانی جاتی رہی۔ تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رئویا کے ذریعہ بتایا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل اور اس کی والدہ کو بیت اللہ کی جگہ چھوڑ آئیں۔
‏tav.12.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
بخاری میں روایت آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ حکم ہوا تو انہوں نے اپنا بچہ اٹھا لیا۔ یا ممکن ہے انہوں نے کسی سواری کا بھی انتظام کر لیا ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ بعض جگہ حضرت ہاجرہ بچے کو اٹھا لیتیں۔ اور بعض جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسے اٹھا لیتے۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور بچے کو ساتھ لے کر فلسطین سے مکہ کا رخ کیا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ فلسطین سے مکہ کوئی دو ہزار میل کے قریب ہوگا۔ سفر کرتے کرتے وہ خانہ کعبہ میں پہنچے۔ اس وقت صرف ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک ٹوکری کھجوروں کی ان کے پاس تھی انہوں نے اپنی بیوی اور بچے کو وہاں بٹھایا اور کھجوروں کی ٹوکری اور پانی کا مشکیزہ ان کے پاس رکھ دیا۔ مکہ میں اس وقت کوئی پانی کا چشمہ یا نہر نہیں تھی۔ کوئی نالہ بھی پاس سے نہیں گزرتا تھا۔ اور زمین کے لحاظ سے کوئی سرسبزی و شادابی اس میں نہیں پائی جاتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وہاں رکھا۔ اپنی بیوی کو چھوڑا اور کہا۔ میں ایک کام کے لئے جارہا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ وہاں سے واپس چل پڑے۔ لیکن ۸۰ سال کی عمر میں پیدا ہونے والے اکلوتے بچے کی محبت خوائی کوئی نبی بھی ہو` اس کے دل سے ٹھنڈی نہیں ہوسکتی۔ اب ابراہیمؑ نوے سال کی عمر کو پہنچ رہے تھے۔ اور اس عمر میں ان کو اپنے بیٹے اور اس بیٹے کی شریف اور نیک ماں کو چھوڑ کر واپس چلے جانا کوئی آسان امر نہیں تھا۔ پچاس ساٹھ گزر گئے تھے کہ انہوں نے مڑ کر اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر کچھ دور گئے تو محبت نے پھر جوش مارا اور انہوں نے مڑ کر ان پر نظر ڈالی وہ اس طرح کرتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے ان کا نظر آنا مشکل ہوگیا۔ اس وقت انہوں نے اس طرف مونہہ کیا جدھر ان کی بیوی بچے تھے۔ جن کو چھوڑ کر وہ ہمیشہ کے لئے جارہے تھے اور جن کے زندہ رہنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزانہ طور پر انہوں نے دعا کی کہ
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع
اے ہمارے رب! انہوں نےnsk] gat[ ربنا کہا ہے ربی نہیں کہا۔ کیونکہ اس قربانی میں وہ اپنی بیوی کو بھی شامل کرتے ہیں۔ مگر اس کے بعد وہ انی کہتے ہیں انا نہیں کہتے۔ کیونکہ یہ فعل ان کی بیوی کی طرف سے نہیں تھا۔ ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی ذریت کا ایک حصہ اس وادی میں لاکر چھوڑ دیا ہے۔ ایک حصہ انہوں نے اس لہے کہا کہ اس وقت تک حضرت اسحٰقؑ بھی پیدا ہوچکے تھے۔ جب انہوں نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا اس وقت تک حضرت اسحاقؑ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ لیکن جب انہوں نے حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ میں لاکر چھوڑا ہے اس وقت حضرت اسحاقؑ پیدا ہوچکے تھے۔ اس لئے وہ فرماتے ہیں ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد۔ الٰہی میں نے اپنی اولاد کا ایک حصہ اس وادی میں لاکر چھوڑ دیا ہے غیر ذی زرع جس میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ جیسے ربوہ میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی سرکاری کاغذات میں لکھا ہوا ہے کہ اس رقبہ میں نہ زراعت ہوتی ہے اور نہ اس وقت کی تحقیقات کے مطابق ہوسکتی ہے۔ UNAGRICULTURAL UNCULTIVABLE عند بیتک المحرم تیرے پاکیزہ گھر کے پاس۔ اس وقت تک خانہ کعبہ نہیں بنا تھا۔ لیکن اس آیت سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی زمانہ میں وہاں کوئی پرانا معبد تھا۔ اور جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ جو معبد بننے والا ہے اس کے نزدیک میں نے اپنی اولاد کو لاکر رکھ دیا ہے۔ تیسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ بیت اللہ درحقیقت تقویٰ کا مقام ہے۔ پس عند بیتک المحرم کے یہ معنے ہیں کہ میں ایک ایسے مقام کے پاس انہیں چھوڑ رہا ہوں جہاں شیطانی خیالات کا دخلنہیں ہوگا۔ یعنی دین کی خدمت کے لئے میں انہیں یہاں چھوڑ رہا ہوں ربنا لیقیموا الصلوہ اے میرے رب میں ان کو یہاں چھوڑ تو رہا ہوں مگر اس لئے نہیں کہ یہ بڑی بڑی کمائیاں کریں یا بڑے بڑے جتھے بنائیں اور فتوحات حاصل کریں بلکہ
ربنا لیقیموا الصلوہ
اے میرے رب! میں اس لئے ان کو یہاں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ تیری عبادت کو اس جنگل میں قائم کریں۔
فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھم
پس اے میرے رب تو لوگوں کے دلوں میں خود ان کی محبت ڈال اور انہیں اس طرف جھکا دے۔ چونکہ یہ خالص تیری عبادت کے لئے وقف ہوں گے اور تیرے دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں گے اس لئے اے میرے رب! تو لوگوں کے ایک طبقہ کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور ان کے دلوں میں ان کی عقیدت اور احترام پیدا کردے۔ تاکہ وہ باہر کی دنیا میں رہ کر کمائیں اور اپنی کمائی کا ایک حصہ ان کے کھانے کے لئے بھجوا دیا کریں۔ اور اے میرے رب! جب میں اپنی اولاو کو دین کی خدمت کیلئے یہاں چھوڑے جارہا ہوں تو میں یہ نہیں چاہتا کہ مسجد کے ملانوں کی طرح یہ جمعرات کی روٹیوں کے محتاج ہوں۔ میں اپنی اولاد کو ایک جنگل میں چھوڑ رہا ہں۔ میں اپنے بچے کو جو جوان ہے اور اس عمر سے گزر گیا ہے جس میں بچے بالعموم مرجایا کرتے ہیں ایک ایسی جگہ چھوڑ رہا ہوں جس میں اس کی موت یقینی ہے۔ انسان ہونے کے لحاظ سے مین علم غیب نہیں رکھتا اور میں نہیں جانتا کہ کل تو ان سے کیا سلوک کرے گا۔ میرا اندازہ انسانی علم کے لحاظ سے یہی ہے کہ میری بیوی اور بچہ یہاں مرجائیں گے۔ میں نے انسان ہوتے ہوئے قربانی کے ہر نقطہ نگاہ میں سے جو سب سے بڑا نقطہ نگاہ تھا اس کو پورا کردیا ہے۔ اب میں تیرا بھی امتحان لینا چاہتا ہوں- میں نے بندہ ہوکر وہ کام کیا ہے جو قربانی اور ایثار کے لحاظ سے اپنے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اب میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ فاجعل افئدہ من الناس تھوی الیھوم۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے کو یہاں لاکر چھوڑا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے چھوڑا ہے کہ وہ اس جنگل میں بھوکے اور پیاسے مرجائیں گے۔ اب اے خدا! اگر تو خدا ہے تو یہاں ان کے لئے لوگوں کو کھینچ لا اور ان کے قلوب اس طرف مائل کردے۔
وارزقھم من الثمرات
مگر اے خدا! میں تجھ سے ان کے لئے جمعرات کی روٹی نہیں مانگتا۔ میں تجھ سے ان کے لئے چاول بھی نہیں مانگتا۔ بلکہ میں یہ مانگتا ہوں کہ یہ جگہ جہاں گھاس کی ایک پتی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس جگہ دنیا بھر کے میوے آئیں اور یہ ان میووں کو یہاں بیٹھ کر کھائیں تو روٹی دے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ تو چاول کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ تو زردہ اور پلائو کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ میں تیری خدائی کا ثبوت تب مانوں گا جب یہ مکہ میں بیٹھ کر چین اور جاپان اور یورپ اور امریکہ کے میوے کھائیں تب میں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دے دیا ہے۔ میں نے بندہ ہوکر ایک انتہائی قربانی کی ہے۔ اب اے خدا! میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ بھی اس رنگ میں کہ اس وادی غیر ذی زرع میں دنیا کا ہر بہترین رزق تو انہیں پہنچا۔ خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس نے کہا۔ اے ابراہیم! تو نے اپنی اولاد کو ایک وادی غیر ذی زرع میں لاکر بسایا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کردیا ہے` اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے تو نے کہا ہے کہ میں نے ایک عاجز بندہ ہوکر اپنی بندگی کا ثبوت دے دیا` اب اے خدا! تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے۔ اور تو نے ثبوت یہ مانگا ہے کہ یہ نہ کمائیں بلکہ بنی نوع انسان کمائیں اور انہیں کھلائی اور کھلائی بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے میوے ان کے پاس پہنچیں۔ میں تیرے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور میں اس وادی غیر ذی زرع میں جہاں گھاس کی ایک پتی بھی نہیں اگتی تجھے ایسا ہی کرکے دکھائوں گا۔
میں نے حج کے موقعہ پر خود اس کا تجربہ کیا ہے۔ میں نے مکہ مکرمہ میں ہندوستان کے گنے دیکھے ہیں۔ میں نے مکہ مکرمہ میں طائف کے انگور کھائے۔ میں نے مکہ مکرمہ میں اعلیٰ درجہ کے انار کھائے ہیں۔ گنے کے متعلق تو مجھے یاد نہیں کہ میری طبیعت پر اس کے متعلق کیا اثر تھا لیکن انگوروں اور اناروں کے متعلق مین شہادت دے سکتا ہوں کہ ویسے اعلیٰ درجہ کے انگور اور انار میں نے اور کہیں نہیں کھائے۔ میں یورپ بھی گیا ہوں۔ میں شام بھی گیا ہوں۔ میں فلسطین بھی گیا ہوں۔ اٹلی کا ملک انگوروں کے لئے بہت مشہور ہے۔ یورپ کے لوگ کہتے ہیں کہ بہترین انگور اٹلی میں ہوتے ہیں۔ مگر میں نے اٹلی کے لوگوں سے کہا کہ مکہ کی وادی غیر ذی روح میں ابراہیمی پیشگوئی کے ماتحت جو انگور میں نے کھائے ہیں وہ اٹلی کے انگوروں سے بہت میٹھے اور بہت زیادہ اعلیٰ تھے۔ ہمارے اردگرد قندھار کوئٹہ اور کابل کا انار مشہور ہے۔ مگر میں نے جو موٹا سرخ شیریں اور لذیذ انار مکہ میں کھایا ہے اس کا سینکڑواں حصہ بھی قندھار اور کوئٹہ اور کابل کا انار نہیں۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں۔ وارزقھم من الثمرات اے خدا! میں نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا ہے۔ اب تجھ سے میں کہتا ہوں کہ تو بھی اپنی خدائی کا انتہا درجے کا ثبوت دے اور وہ ثبوت میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ یہ نہ کمائیں بلکہ لوگ کما کر ان کے پاس لائیں اور لائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہترین پھل اور میوے
لعلھم یشکرون
اے میرے رب میں احسان کے طور پر نہیں کہتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اگر ایسا ہوا تب میرا بدلہ اترے گا یا تب میری اولاد کی قربانی کا بدلہ اترے گا۔ میں نے بے شک ایک مطالبہ کیا ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں نے کوئی قربانی کی ہے بلکہ میں نے یہ مطالبہ محض اس لئے کیا ہے کہ بندے نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا۔ اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے لعلھم یشکرون۔ تاکہ میری اولاد ایمان پر قائم رہے اور اسے یقین ہو کہ کیسی زبردست طاقتوں کا مالک وہ خدا ہے جس کی خدمت کے لئے وہ یہاں بیٹھے ہیں۔ بظاہر یہ ایک چیلنج معلوم ہوتا ہے کہ دیکھ میں نے کتنی قربانی کی` اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے۔ مگر میری یہ غرض نہیں کہ تو میرے فعل کی وجہ سے انہیں یہ پھل کھلا بلکہ میری غرض یہ ہے کہ تیرے فعل سے بنی نوع انسان کے اندر ایمان پیدا ہو۔ گویا اس میں بھی اصل غرض تیرے نام کی بلندی ہے` اپنے نام کی بلندی نہیں۔
ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن
پھر ابراہیمؑ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بچہ چھوٹا ہے بیوی جوان ہے۔ یہ میری دوسری بیوی ہے۔ میری بڑی بیوی جو میری پھوپھی زاد بہن ہے میرے گھر میں موجود ہے اور اس سے نسل بھی ہورہی ہے۔ ہاجرہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ میری چہیتی بیوی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ اس سے اولاد ہوگئی ہے۔ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہ ظالم اس بیوی کی خاطر مجھے یہاں چھوڑے جارہا ہے اور اس بچے کی خاطر میرے اس بچے کو چھوڑ رہا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر گئے اور انہوں نے کہا۔ ربنا انک تعلم ما نخفی وما نعلن۔ اے میرے رب میں نے تیرے نام کی عزت کے لئے اپنے اوپر یہ دھبہ قبول کیا ہے۔ میں اپنی بیوی کو یہاں اس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اپنی پہلی بیوی کو اس پر مقدم رکھتا ہوں۔ میں اپنے بچے کو یہاں اس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اس بچے پر دوسرے بچہ کو مقدم رکھتا ہوں۔ بلکہ اے خدا! اس بیوی کو میں اس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تو نے مجھے اس کا حکم دیا ہے اور اے خدا! یہ بچہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اسحٰق سے ذلیل سمجھ کر میں اسے یہاں نہیں چھوڑ رہا۔ میں اس کی وراثت میں اسے روک سمجھ کر یہاں نہیں چھوڑ رہا۔ بلکہ اے خدا باوجود اس کے کہ یہ مجھے بہت پیارا ہے میں اسے اس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تو نے اسے یہاں چھوڑنے کو کہا ہے یہ ظلم کا الزام` یہ بے وفائی کا الزام` یہ سنگدلی کا الزام` اے خدا! میں نے محض تیرے لئے قبول کیا ہے۔ میری بیوی اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتی۔ وہ سمجھے گی کہ میں نے دوسری بیوی کی خاطر اسے یہاں چھوڑا ہے۔ میرا بچہ بھی اس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ بڑا ہوکر کہے گا کہ باپ کیسا ظالم تھا وہ مجھے اور میری ماں کو یہاں چھوڑ گیا۔ اے میرے رب!میں اپنے دل کا درد کس کو بتائوں سوائے تیری ذلت کے جسے سب کچھ علم ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ میرے دل میں کتنا دکھ ہے۔ تجھ کو پتہ ہے کہ یہ ظاہری سنگدلی اور ظالم کا الزام میں نے محض تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وما یخفی علے اللہ من شئی فی الارض ولا فی السماء۔ ابراہیمؑ نے کہا تھا۔ تو جانتا ہے کہ میرے دل میں کتنا درد ہے اور یہ کہ ظاہری طور پر میں جو کچھ سنگدلی اور سختی کررہا ہوں یہ محض تیرے لئے ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے وما یخفی علی اللہ من شئی فی الارض ولا فی السماء۔ یہ خدائی کلام ہے` ابراہیمؑ کا نہیں۔ فرماتا ہے خدا تعالیٰ کو پتہ ہے کہ زمین اور آسمان میں کیا کچھ ہے۔ اس کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ابراہیمؑ کا یہ فعل ایک بیج کی طرح زمین میں ڈالا جارہا ہے جس سے ایک دن ایک بڑی قوم پیدا ہوگی۔ اور وہ جانتا ہے کہ آسمان پر اس بیج بونے کے نتیجہ میں کیسا عظیم الشان انعام مقدر ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی تو حضرت ہاجرہؓ کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ یہ جدائی کسی عارضی کام کے لئے معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ دائمی جدائی معلوم ہوتی ہے۔ وہ دوڑتی ہوئی آپ کے پیچھے گئیں۔ اور انہوں نے کہا۔ ابراہیمؑ! ابراہیمؑ تم ہمیں یہاں کس لئے چھوڑے جارہے ہو۔ یہ تو عارضی جدائی معلوم نہیں ہوتی۔ تم ہمیں جنگل میں اکیلے چھوڑے جارہے ہو۔ ابراہیمؑ دیکھو۔ تمہارا بیٹا بھوکا مرجائے گا۔ ابراہیمؑ تمہاری بیوی یہاں موجود ہے اور اس کا بھی تم پر حق ہے۔ مگر حضرت ابراہیمؑنے ان کی طرف نہیں دیکھا کیونکہ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر میں نے جواب دیا تو بیتاب ہوجائوں گا اور رقت مجھ پر غالب آجائے گی اور یہ اس شان کے خلاف ہوگا جس کا یہ قربانی تقاضا کرتی ہے۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر ہاجرہؓ نے کہا۔ ابراہیمؑ! ابراہیمؑ تم اپنی بیوی اور بیٹے کو کس لئے ایک ایسے جنگل میں چھوڑے جارہے ہو جس میں ایک دن بھی رہائش اختیار نہیں کی جاسکتی۔ بھیڑئیے آئیں گے اور ہمیں ختم کردیں گے۔ اور اگر بھیڑئیے نہ بھی آئے تب بھی پانی ختم ہوگیا تو ہم کیا کریں گے` کھجوریں ختم ہوگئیں تو ہم کیا کریں گے۔ آخر کیوں تم ہمیں یہاں چھوڑے جارہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور زبان سے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر ہاجرہؓ نے آگے بڑھ کر ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا۔ بتائو تم کس پر ہمیں چھوڑے جارہے ہو۔ کیا خدا پر چھوڑے جارہے ہو؟ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا مونہہ موڑا اور آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی۔ بولے نہیں۔ کیونکہ جانتے تھے کہ اگر میں بولا تو رقت مجھ پر غالب آجائے گی۔ انہوں نے صرف آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں خدا پر اور خدا تعالیٰ کے کہنے پر میں یہ کام کررہا ہوں۔ ہاجرہ~رضی۱~ ایک عورت ہی سہی` وہ ایک مصری خاتون ہی سہی جس کا ابراہیمی خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر وہ ابراہیمی تربیت حاصل کرچکی تھی` وہ خدا کا نام سن چکی تھی۔ وہ الٰہی قدرتوں کا مشاہدہ کرچکی تھی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر بتایا کہ میں محض خدا تعالیٰ کی خاطر اور اسی کے حکم کی تعمیل میں تمہیں یہاں چھوڑے جارہا ہوں۔ تو ہاجرہؓ فوراً پیچھے ہٹ گئیں اور انہوں نے کہا۔
اذا لا یضیعنا
تب خدا تعالیٰ ہم کو ضائع نہیں کرے گا۔ بے شک جہاں جانا ہے چلے جائو۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ چلے گئے۔ اور وہ بے وطن اور مسکین ہاجرہؓ` اسماعیل کی ماں` پھر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھ سکی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اس کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے۔ لیکن اس وقت حضرت ہاجرہؓ فوت ہوچکی تھیں۔ تب خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی جس کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں اور جس کی طرف مونہہ کرکے نمازیں پڑھتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ آئے۔ اس وقت جرہم قبیلہ کے لوگ وہیں بس چکے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ انہوں نے اپنی بیٹی بھی بیاہ دی تھی۔ اب وہ آبادی تھی۔ چند خیمے یا چند جھونپڑیاں تھیں جن میں لوگ رہتے تھے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جھونپڑیاں تھیں۔ کیونکہ روایات میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ آپ گھر میں یہ پیغام دے گئے کہ جب اسماعیلؑ آئے تو اس سے کہنا کہ تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل دو۔ مطلب یہ تھا کہ تمہاری بیوی بداخلاق ہے اس کی بجائے کوئی اچھے اخلاق والی بیوی کرو۔ حضرت ابراہیمؑ اس کے بعد بھی کئی دفعہ آئے۔ ایک اس وقت آئے جب انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور ایک اس وقت آئے جب انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور ایک اس وقت آئے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ وہ اکثر شکار کے لئے دور پہاڑوں میں نکل جایا کرتے تھے اور پھر شکار کا گوشت سکھا کر رکھ لیتے اور استعمال کرتے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیلؑ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک عورت بولی۔ بابا تو کون ہے؟ آپ نے فرمایا۔ بی بی! میں اسماعیلؑ سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ اس نے کہا۔ بابا جائو` اسماعیلؑ گھر پر نہیں۔ انہوں نے کہا۔ اچھا` میں جاتا تو ہوں مگر جب اسماعیلؑ واپس آئے تو اس سے کہہ دینا کہ تمہارے دروازہ کی چوکھٹ اچھی نہیں اسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ پیچھے کے واقعات بتائو۔ چونکہ اس وقت مکہ میں صرف چند گھر تھے اس لئے انہیں ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کی طبعاً جستجو رہتی تھی اور بڑا بھاری واقعہ وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ فلاں قبیلہ یہاں سے گزرا ہے اور وہ یہ یہ چیزیں لے گیا اور یہ یہ چیزیں دے گیا ہے بیوی نے کہا اور تو کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ صرف ایک بڈھا آپ کے پیچھے آیا تھا۔ حضرت اسماعیلؑ کا دل دھڑکنے لگا کہ یہ بڈھا کہیں ان کا باپ ہی نہ ہو۔ انہوں نے کہا۔ اس بڈھے نے کوئی بات بھی کی تھی یا نہیں۔ اس نے کہا۔ اس بڈھے نے آپ کے متعلق پوچھا تھا۔ میں نے بتایا کہ آپ گھر پر موجود نہیں ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا تم اس بڈھے کی کوئی خاصر تواضع بھی کی۔ اس نے کہا۔ میں نے تو کوئی خاطر تواضع نہیں کی۔ البتہ جاتے وقت وہ ایک پیغام آپ کو پہنچانے کے لئے دے گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اسماعیل سے کہہ دینا۔ تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں` اسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ سنتے ہی کہا۔ بی بی میری طرف سے تم پر طلاق۔ اس نے کہا۔ اس کا کیا مطلب؟ حضرت اسماعیل نے کہا۔ وہ بڈھا میرا باپ تھا جو دو ہزار میل سے چل کر آیا مگر تم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ تم انہیں کہتیں۔ تشریف رکھئے اور آرام کیجئے۔ تمہارے اخلاق ایسے نہیں کہ میرے گھر میں رہنے کے قابل سمجھی جاسکو۔ چنانچہ حضرت اسماعیلؑ نے اسے طلاق دے دی اور ایک اور شادی کرلی۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے۔ اتفاقاً اس دن بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام باہر تھے۔ آپ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک عورت نے جواب دیا کہ کون صاحب ہیں۔ بیٹھئے` تشریف رکھئے۔ چنانچہ آپ اندر گئے۔ اس عورت نے آپ کی خدمت کی` پیر ڈھلائے` کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے رکھیں اور کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ بہت فاصلہ سے آئے مگر اسماعیلؑ سے نہیں مل سکے۔ آپ ٹھہرئیے اور ان کا انتظار کیجئے۔ اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہوسکتا ہے میں آپ کی خدمت کروں گی۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹھہرے نہیں بلکہ واپس چلے گئے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کی قوم کے افراد بہت پھیلے ہوئے تھے اور وہ ان کے ہاں ٹھہر جاتے تھے۔ جاتے ہوئے انہوں نے کہا۔ اسماعیلؑ جب واپس آئے تو اس سے کہنا کہ فلاں طرف سے ایک آدمی آیا تھا اور اس سے کہنا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ اب بالکل ٹھیک ہے اس کو قائم رکھنا۔ چنانچہ حضرت اسماعیلؑ جب واپس آئے اور انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کوئی نئی خبر سنائو تو اس نے کہا۔ آج کی نئی خبر یہ ہے کہ ایک بڈھا آیا تھا۔ حضرت اسماعیلؑ نے جلدی سے کہا۔ پھر؟ اس نے کہا۔ میں نے ان کو بٹھایا` پائوں دھلائے` پانی پلایا اور کھانے کے لئے ان کے سامنے چیزیں رکھیں۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ ٹھہرئیے جب تک اسماعیل واپس نہیں آجاتے۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ مگر جاتی دفعہ وہ ایک عجیب طرح کا پیغام دے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسماعیلؑ سے کہہ دینا` تمہارے دروازہ کی چوکھٹ بڑی اچھی ہے` اسے قائم رکھنا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا۔ میری بیوی! یہ آنے والا میرا باپ تھا۔ اور سفارش کرکے گیا ہے کہ میں تمہیں عزت و احترام سے اپنے گھر رکھوں۔][آخر وہ دن بھی آگیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیلؑ کو اپنے ساتھ لے کر اس گھر کی بنیاد رکھی جس کو خانہ کعبہ کہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
واذ جعلنا البیت مثابہ للناس وامنا ط واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی ط وعھدنا الی ابراھیم و اسماعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین و الرکع السجود )البقرہ رکوع ۱۵( اور جبکہ ہم نے وہ گھر جو ابراہیمؑ نے بنایا اس کو لوگوں کے لئے بار بار آنے کا مقام بنا دیا` زیارت گاہ بنا دیا۔ ثواب کی جگہ بنا دیا۔ وامنا اور امن کا مقام بنا دیا۔ واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی۔ اور اے لوگو! جو خانہ کعبہ کے شیدائی بنتے ہو جو بیت اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہو۔ تم ہر ایک چیز جو تمہیں پسند آتی ہے` اس کی تصویر اپنے گھر میں رکھنے کی کوشش کرتے ہو۔ اگر کوئی پھل تمہیں پسند آئے تو تم اسے اپنے گھر لاتے اور اپنے بیوی بچوں کو چکھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اے کم عقلو! جب تم بازار میں خربوزہ دیکھ کر بس نہیں کرتے بلکہ وہ خربوزہ گھر میں لاتے ہو۔ جب تم کسی اچھے نظارے کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر کھینچتے اور اپنے بیوی بچوں کو دکھاتے اور آئندہ آنے والوں کے لئے گھر میں رکھتے ہو۔ تو کیا وجہ ہے` کیا سبب ہے` اس میں کون سی معقولیت ہے کہ تم اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کی تعریفیں کرتے ہو۔ اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کے احترام کا اظہار کرتے ہو۔ لیکن تم ایک خربوزے کو تو گھر میں لانے کی کوشش کرتے ہو۔ تم تاج محل کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر لینے کی کوشش کرتے ہو مگر تم خانہ کعبہ کے ظل کو اپنے ملک اور اپنے علاقہ میں لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ خانہ کعبہ کیا ہے؟ ایک گھر ہے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف ہے۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ ساری دنیا کے انسان خانہ کعبہ میں نہیں جاسکتے پس جس طح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ابراہیم کی نقلیں دنیا میں پیدا کرے` اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تم خانہ کعبہ کی نقلیں بنائو جس میں تم اور تمہاری اولادیں اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرکے بیٹھ جائیں۔ جس طرح وہ لوگ جو ابراہیمؑ کے نمونہ پر چلیں گے` ابراہیمؑ کی اولاد اور اس کا ظل ہوں گے۔ اسی طرح یہ نقلیں خانہ کعبہ کی اولاد ہوں گی` خانہ کعبہ کی ظل اور اس کا نمونہ ہوں گے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ کے ظلی دنیا کے گوشے گوشے میں قائم نہ کردیئے جائیں اس وقت تک دین پھیل نہیں سکتا۔ پس فرماتا ہے:۔
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی
اے بنی نوع انسان! ہم تجھ کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تم بھی ابراہیمی مقام پر کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادتیں کرو۔ یعنی ایسے مرکز بنائو جو دین کی اشاعت کا کام دیں۔
وعھدنا الی ابراھیم و اسماعیل ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود۔
اب بتاتا ہے کہ وہ مقام ابراہیمؑ کیا چیز ہے۔ وعھدنا الی ابراھیم۔ اور ہم نے ابراہیمؑ کو بڑی پکی نصیحت کی۔ عھد بہ کے معنے ہوتے ہیں۔ اس نے فلاں کے ساتھ عہد کیا۔ لیکن جب عھد کے ساتھ الی کا صلہ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں پکی نصیحت کرنا یا وصیت کرنا۔ پس فرماتا ہے وعھدنا الی ابراھیم و اسماعیل۔ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو بار بار نصیحت کی اور بار بار اس طرف توجہ دلائی ان طھرا بیتی کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک بنائو اور ہر قسم کے عیبوں اور خرابیوں سے اس کو بچائو للطائفین طواف کرنے والوں کے لئے والعاکفین اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی زندگی وقف کرکے یہیں بیٹھ رہیں۔ طائفین وہ لوگ ہیں جو کبھی کبھی آئیں اور عاکفین وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی اسی گھر کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔ والرکع السجود اور ان لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور اس کی رماں برداری میں اپنی ساری زندگی بسر کرتے ہیں یا ان لوگوں کے لئے جو رکوع اور سجود کرتے ہیں۔
یہ چیز ہے جو مقام ابراہیم ہے اور جس کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتا ہے۔ ہماری نصیحت یہی ہے کہ دنیا کے گوشتے گوشتے میں خانہ کعبہ کی نقلیں بننی چاہئیں اور دنیا کے کونے کونے میں تمہیں اس کے ظل قائم کرنے چاہئیں۔ اس کے بغیر دین حق کی کامل اشاعت کبھی نہیں ہوسکتی<۔
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
>میں ایک دفعہ اس دعا کو پڑھ جائوں گا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ پڑھوں گا تمام عورتیں اور مرد میری اتباع کریں<۔
اس ارشاد کے بعد حضور نے جس رنگ میں تلاوت فرمائی اور جس طرح بعض دعائوں کا بار بار تکرار فرمایا اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ادعیہ درج ذیل کی جاتی ہیں۔
واذ قال ابراھیم رب اجعل ھذا بلدا۔ رب اجعل ھذا بلدا امنا وارزق اھلہ من الثمرات وارزق اھلہ من الثمرات وارزق اھلہ من الثمرات۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
ربنا واجعلنا مسلمین لک
حضور نے فرمایا:۔
یہاں مسلمین سے گو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ مراد ہیں مگر دعا مانگتے ہوئے مسلمین سے ہر شخص میاں بیوی بھی مراد لے سکتا ہے۔
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ربنا واجعلنا مسلمین لک
ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک
اے ہمارے رب اجعل ھذا بنا دے اس کو جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی ہے اس وقت مکہ کوئی شہر نہیں تھا۔ وہ صرف چند جھونپڑیاں تھیں جو ایک بے آب و گیا وادی میں نظر آئی تھی۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ زمین جو ویران پڑی ہوئی ہے اسے بنا دے` کیا بنا دے؟ بلدا۔ ایک شہر بنادے۔
عام طور پر جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں۔ کہ اس شہر کو امن والا بنا دے۔ حالانکہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہی منشاء ہوتا` تو آپ ھذا بلدا کہنے کی بجائے ھذا البلد فرماتے۔ مگر آپ ھذا البلد نہیں کہتے بلکہ ھذا بلدا امنا کہتے ہیں پس یہ شہر کے بنانے کی دعا ہے۔ شہر کو کچھ اور بنانے کی دعا نہیں۔ رب اجعل ھذا بلدا۔ اے میرے رب بنادے اس ویران زمین کو شہر۔ امنا` مگر شہروں کے ساتھ فتنہ و فساد کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ جب لوگ مل کر رہتے ہیں تو لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ فسادات بھی ہوتے ہیں۔ اور پھر شہروں کو فتح کرنے کے لئے حکومتیں حملہ بھی کرتی ہیں۔ یا بعض شہر جب بڑے ہوجائیں تو ان کے رہنے والے اپنا نفوذ بڑھانے کے لئے دوسروں پر حملہ کردیتے ہیں۔ اور چونکہ یہ سارے خدشات شہروں سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اسے امن والا بنائیو۔ نہ کوئی اس پر حملہ کرے۔ اور نہ یہ کسی اور پر حملہ کرے۔ وارزق اھلہ من الثمرات اور اس کے رہنے والوں کو شرارت دیجئو۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا یہ مفہوم ہے کہ اے خدا! میں تجھ سے ان کے لئے روٹی نہیں مانگتا۔ میں تجھ سے پلائو نہیں` میں تجھ سے دنتے کا گوشت نہیں مانگتا۔ بے شک یہ بھی تیری نعمتیں ہیں۔ اور اگر ان کو مل جائیں تو تیرا فضل اور انعام ہے۔ مگر میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تو ان کو وہ پھل کھلا جو دس میل لے جاکر بھی سڑ جاتا ہے۔ تو دنیا کے کناروں سے ان کے لئے ہر قسم کے پھل لا اور انہیں ان پھلوں سے متمتع فرما۔ من امن منھم باللہ والیوم الاخر۔ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ میری اولاد میں سے بھی نبی بنائیو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہ نیک ہوں گے تو ہم ان کو اپنے انعامات سے حصہ دیں گے ورنہ نہیں۔ نبی بڑا محتاط ہوتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ میں ہر ایک کو یہ انعام نہیں دے سکتا۔ جو نیک ہوگا صرف اسے انعام ملے گا۔ تو اس دوسری دعا کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ یااللہ جو نیک ہوں صرف ان کو رزق دیجئو۔ قال ومن کفر فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب النار وبئس المصیر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کے معاملہ میں ہمارا اور حکم ہے۔ اور نبوت اور امامت کے معاملہ میں ہمارا اور حکم ہے۔ نبوت اور امامت صرف نیک لوگوں کو ملتی ہے` مگر رزق ہر ایک کو ملتا ہے۔ پس جو کافر ہوگا دنیا کی روزی ہم اس کو بھی دیں گے۔ چنانچہ ¶سینکروں سال تک مکہ کے لوگ مشرک رہے مگر ابراہیمی رزق ان کو بھی پہنچتا رہا۔ ہاں تیری نسل ہونے کی وجہ سے وہ اخروی عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ مرجائیں گے تو وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
پھر فرمایا ہے۔ یاد کرو جب ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ مل کر بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کررہے تھے کہ خدایا تیرا گھر تو برکت والا ہی ہوگا۔ کون ہے جو اسے برکت سے محروم کرسکے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری نسل میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو نمازیں پڑھنے والے اور تیری یاد میں اپنی زندگی بسر کرنے والے ہوں تاکہ اس گھر کی برکت سے انہیں بھی فائدہ پہنچے۔ مگر اگلی اولادوں کو ٹھیک کرنا آئندہ نسلوں کو درست کرنا اور اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
ربنا تقبل منا۔ اے ہمارے رب! ہم نے خالص تیرے ایمان اور محبت کے لئے یہ گھ بنایا ہے۔ تو اپنے فضل سے اسے قبول کرلے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنا دے۔ انک انت السمیع العلیم۔ تو ہماری دردمندانہ دعائوں کو سننے والا اور ہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔ تو اگر فیصلہ کردے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہے گا تو اسے کون بدل سکتا ہے۔ واجعلنا مسلمین لک۔ اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیت اللہ بنانے کے درحقیقت دو حصے ہیں۔ ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے۔ چونے سے بنتا ہے۔ گارے سے بنتا ہے۔ اور یہ کام خدا تعالیٰ نہیں کرتا بلکہ انسان کرتا ہے۔ مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے۔ انسان تو صرف ڈھانچہ بناتا ہے۔ روح اس میں خدا تعالیٰ ڈالتا ہے۔ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو میں نے اور اسمعیلؑ نے بنا دیا ہے۔ مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے۔ ربنا تقبل منا۔ اے خدا تو ہمارے اس تحفہ کو قبول کر اور اسے اپنے پاس سے مقبولیت عطا فرما۔ ورنہ محض مسجدیں بنانے سے کیا بنتا ہے۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو باپ دادوں نے بنائیں اور بیٹوں نے بیچ ڈالیں۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو بادشاہوں یا شہزادوں نے بنائیں مگر آج ان میں کتے پاخانہ پھرتے ہیں اس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے انہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیمؑ اور حصرت اسمعیلؑ کہتے ہیں کہ اے خدا ہم نے تو تیرا گھر بنایا ہے مگر یہ محض ہمارے بنانے سے قیامت تک قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ اس وقت تک رہ سکتا ہے جب تک تو کہے گا۔ اس لئے ربنا تقبل منا۔ اے خدا ہم نے جو گھر بنایا ہے اسے تو قبول فرما اور تو سچ مچ اس میں رہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بس جائے تو وہ کیسے اجڑ سکتا ہے۔ گائوں اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں شہر اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں وہ مقام کبھی نہیں اجڑ سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو۔ چنانچہ دیکھ لو سینکڑوں سال تک مکہ بے آباد رہا مگر چونکہ خدا وہاں تھا اس لئے اس کی عزت قائم رہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ربنا واجعلنا مسلمین لک۔ اے خدا اس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے۔ مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے نیک ہوں۔ پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیں اور جو دو افراد ہیں۔ ہماری پہلی دعا تو یہ ہے کہ تو خود ہمیں نیک بنا ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو۔ وارنا منا سکنا۔ پھر چاہے انسان کے دل میں کتنا ہی اخلاص ہو۔ اگر اسے طریق معلوم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو آباد رکھنا ہے۔ تو پھر بھی وہ غلطی کرجاتا ہے۔ اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں یہ بھی بتاتا رہیو کہ ہم نے کس طرح اسے آباد رکھنا ہے اور ہم کون سا وہ طریق عبادت اختیار کریں جس سے تو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے۔
وتب علینا۔]ydob [tag مگر اس اخلاص کے باوجود` اس الہام کے باوجود جو یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اس گھر کو آباد رکھنا ہے۔ اے خدا ہم بندے ہیں اور ہم نے غلطیاں کرنی ہیں۔ تو تواب اور رحیم ہے تو ہمیں معاف کردیا اور ہمارے گناہوں سے درگزر کرتا رہ۔ انک انت التوب الرحیم۔ تو بڑی توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ تواب اور رحیم نام اسی لئے لائے گئے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی سے کام کرے وہ غلطی کرجاتا ہے۔ ایسی حالت میں توابیت اس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو رحیمیت اس کے کام آتی ہے۔
‏]ksn [tagربنا وابعث فیھم رسولا منھم۔ اے ہمارے رب! تو ان لوگوں میں جو اس جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ منھم اور اے ہمارے رب! رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہوجائے گی کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اس کا پتہ لگ جائے اور وہ سچے اور مخلص مومن بن جائیں گے مگر اے ہمارے رب ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آکر بسایا ہے اس میں کچھ خود غرضی بھی ہے۔ ہماری یہ بھی غرض ہے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہماری یہ بھی غرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لاکر بسا دیا ہے۔ گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اس میں کچھ خودغرضی بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہے اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اس کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ پس ہم نے جو اپنی اولاد یہاں بسائی ہے اس میں ہماری یہ غرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول انہی میں سے ہو باہر سے نہ ہو۔ یتلو علیھم ایاتک۔ وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔ تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کے ایمانوں کو بلند کرے۔ و یعلمھم الکتاب۔ اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہوسکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے۔ والحکمہ۔ اور اے ہمارے رب! جب وہ رسول آئے گا۔ انسانی عقل تیز ہوچکی ہوگی۔ اس وقت انسان بچہ نہیں ہوگا کہ اسے یہ کہا جائے کہ اٹھ اور فلاں کام کر۔ اور جب وہ کہے کہ میں کیوں کروں تو اسے کہا جائے آگے سے بکواس مت کرو۔ عیٰسیؑ کے زمانہ میں اور موسیٰؑ کے زمانے میں اور نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوچکا۔ مگر جب وہ نبی آئے گا اس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقاء کا زمانہ ہوگا۔ اس وقت بندہ صرف یہی نہیں سنے گا کہ کر بلکہ وہ پوچھے گا کہ کیوں کرو؟ پس یعلمھم الکتاب والحکمہ۔ اے خدا! تو اس کو موسیٰؑ کی طرح شریعت ہی نہ دیجئو۔ نوحؑ کی طرح صحف ہی نہ دیجئو۔ دائودؑ کی طرح احکام ہی نہ دیجئو۔ بلکہ ساتھ ہی نہ دیجئو۔ نوحؑ کی طرح صحف ہی نہ دیجئو۔ دائودؑ کی طرح احکام ہی نہ دیجئو۔ بلکہ ساتھ ہی ان کی وجہ بھی بتا دیجئو۔ اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجئو۔ تاکہ نہ صرف نہ ان کے جسم تیرے حکم کے تابع ہوں بلکہ ان کا دماغ اور دل بھی تیرے حکم کے تابع ہوں اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فلسفہ کے ماتحت کہا گیا ہے۔ عقل کے ماتحت کہا گیا ہے` ضرورت کے تحت کہا گیا ہے` فوائد کے تحت کہا گیا ہے۔ ویزکیھم۔ اور ان کو پاک کرے۔ دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلکہ حکمت یا شہزادوں نے بنائیں مگر آج ان میں کتے پاخانہ پھرتے ہیں اس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے انہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کہتے ہیں کہ اے خدا ہم نے تو تیرا گھر بنایا ہے مگر یہ محض ہمارے بنانے سے قیامت تک قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ اس وقت تک رہ سکتا ہے جب تک تو کہے گا۔ اس لئے ربنا تقبل منا۔ اے خدا نے ہم جو گھر بنایا ہے اسے تو قبول فرما اور تو مچ اس میں رہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بس جائے تو وہ کیسے اجڑ سکتا ہے۔ گائوں اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں شہر اجڑ جائیں تو اجڑ جائیں وہ مقام کبھی نہیں اجڑ سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو۔ چنانچہ دیکھ لو سینکڑوں سال تک مکہ بے آباد رہا مگر چونکہ خدا وہاں تھا اس لئے اس کی عزت قائم رہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں۔ربنا واجعلنا مسلمین لک۔ اے خدا اس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے۔ مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے نیک ہوں۔ پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیں اور جو دو افراد ہیں۔ ہماری پہلی دعا تو یہ ہے کہ تو خود ہمیں نیک بنا ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو۔ وارنا منا سکنا۔ پھر چاہے انسان کے دل میں کتنا ہی اخلاص ہو۔ اگر اسے طریق معلوم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو آباد رکھنا ہے تو پھر بھی وہ غلطی کرجاتا ہے۔ اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں یہ بھی بتاتا رہو کہ ہم نے کس طرح اسے آباد رکھنا ہے اور ہم کونسا وہ طریق عبادت اختیار کریں جس سے تو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے۔
وتب علینا۔ مگر اس اخلاص کے باوجود` اس الہام کے باوجود یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اس گھر کو آباد رکھنا ہے۔ اے خدا ہم بندے ہیں اور ہم نے غلطیاں کرنی ہیں۔ تو تواب اور رحیم ہے تو ہمیں معاف کردیا اور ہمارے گناہوں سے درگزر کرتا رہ۔ انک انت التوب الرحیم۔ تو بڑی توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ تواب اور رحیم نام اسی لئے لائے گئے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی سے کام کرے وہ غلطی کرجاتا ہے۔ ایسی حالت میں توابیت اس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو رحیمیت اس کے کام آتی ہے۔
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم۔ اے ہمارے رب! تو ان لوگوں میں جو اس جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ منھم اور ہمارے رب! رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہوجائے گی کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اس کا پتہ لگ جائے گا اور وہ سچے اور مخلص مومن بن جائیں گے مگر اے ہمارے رب ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آکر بسایا ہے اس میں کچھ خودغرضی بھی ہے۔ ہماری یہ بھی غرض ہے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہماری یہ بھی غرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لاکر بسا دیا ہے۔ گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اس میں کچھ خود غرضی بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اس کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ پس ہم نے جو اپنی اولاد یہاں بسائی ہے اس میں ہماری یہ غرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول انہی میں سے ہو باہر سے نہ ہو۔ یتلو علیھم ایاتک۔ وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔ تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کے ایمانوں کو بلند کرے۔ ویعلمھم الکتاب۔ اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہوسکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے۔ والحکمہ اور اے ہمارے رب! جب وہ رسول آئے گا۔ انسانی عقل تیز ہوچکی ہوگی۔ اس وقت انسان بچہ نہیں ہوگا کہ اسے یہ کہا جائے کہ آٹھ اور فلاں کام کر۔ اور جب وہ کہے کہ میں کیوں کروں تو اسے کہا جائے آگے س یبکواس مت کرو۔ عیٰسیؑ کے زمانہ میں اور موسیٰؑکے زمانہ میں اور نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوچکا۔ مگر جب وہ نبی آئے گا اس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقاء کا زمانہ ہوگا۔ اس وقت بندہ صرف یہی نہیں سنے گا کہ کر بلکہ وہ پوچھے گا کہ کیوں کروں؟ پس یعلمھم الکتاب والحکمہ۔ اے خدا! تو اس کو موسیٰؑ کی طرح شریعت ہی نہ دیجئو۔ نوحؑ کی طرف صحف ہی نہ دیجئو۔ دائودؑ کی طرح احکام ہی نہ دیجئو۔ بلکہ ساتھ ہی ان کی وجہ بھی بتا دیجئو اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجئو۔ تاکہ نہ صرف نہ ان کے جسم تیرے حکم کے تابع ہوں بلکہ ان کا دماغ اور دل بھی تیرے حکم کے تابع ہو اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فلسفہ کے ماتحت کہا گیا ہے۔ عقل کے ماتحت کہا گیا ہے` ضرورت کے تحت کہا گیا ہے` فوائد کے ماتحت کہا گیا ہے۔ ویزکیھم اور ان کو پاک کرے۔ دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلکہ حکمت سکھا کر ان کے قلوب کو بھی محبت الٰہی سے بھروسے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ میں جذب کردیں۔ الٰہی صفات ان میں پیدا ہوجائیں اور وہ چلتے ہوئے انسان نظر نہ آئیں بلکہ خدا نمائی کا ایک آئینہ دکھائی دیں۔
انک انت العزیز الحکیم۔ اے ہمارے رب! ہم نے جو چیز مانگی ہے بہ ظاہر یہ ناممکن نظر آتی ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ تجھ میں طاقت ہے تو عزیز خدا ہے تو غالب خدا ہے اور تیری شان یہ ہے۔ ~}~
‏poet] gat[جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تو ایسا کرسکتا ہے۔ انک انت العزیز الحکیم۔ چونکہ تو عزیز خدا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ایسا رسول آئے۔ اس پر اعتراض ہوسکتا تھا کہ اگر پہلے خدا نے ایسا رسول نہیں بھیجا تو اب کیوں بھیجے؟ اور اگر پہلے بھی ایسا رسول بھیجنا ضروری تھا تو پھر ایسے رسول کو نہ بھجوا کر بنی نوع انسان پر کیوں ظلم کیا گیا؟ اس اعتراض کا الحکیم]ydob [tag کہہ کر ازالہ کردیا کہ ہم جانتے ہیں پہلے ایسا رسول آہی نہیں سکتا تھا۔ پہلے لوگ اس قابل ہی نہیں تھے کہ محمدیﷺ~ تعلیم کو برداشت کرسکیں۔ پس ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزیز کہہ کر خدائی غیرت کو جوش دلایا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ غیر معقول نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تو ایسا کرسکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتا دیا کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اگر پہلے تو نے ایسا رسول نہیں بھجوایا تو نعوذ باللہ تو نے بخل سے کام لیا ہے۔ بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر پہلے تو نے ایسا نبی نہیں بھیجا تو صرف اس لئے کہ پہلے ایسا نبی بھیجنا مناسب نہیں تھا۔ یہ کسی کامل دعا ہے جو رسول کریم~صل۱~ کے بلند مقام اور آپ کے بلند ترین مدارج کو واضح کرنے والی ہے۔ مگر میں پھر کہتا ہوں۔ دنیا دوسری چیزوں کی نقلیں کرتی ہے۔ دنیا چاہتی ہے کہ اگر اسے اچھی تصویریں نظر آئیں تو ان کو اپنے گھروں میں لے جائے۔ وہ خوشنما اور خوبصورت مناظر دیکھتی ہے تو ان کے نقشے اپنے گھروں میں رکھتی مگر انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ خانہ کعبہ کی بھی نقلیں بنائے جنہیں لوگ دیکھیں اور جہاں لوگ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے نام کی بلندی کے لئے وقف کردیں۔ انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ میں اپنے دل میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کو لاکر بٹھائوں تا محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نمونہ اور تصویر کو دیکھ کر اور لوگ بھی محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ظل بننے کی کوشش کریں۔ حالانکہ اگر دنیا میں ہر جگہ خانہ کعبہ کے ظل اور اس کی نقلیں نہ ہوں` اگر دنیا میں ہر جگہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ظل اور آپﷺ~ کی نقلیں نہ ہوں تو وہ دنیا ہرگز رہنے کے قابل نہیں۔ دنیا تب ہی بچ سکتی ہے` دنیا تب ہی زندہ رہ سکتی ہے` دنیا تب ہی ترقی کرسکتی ہے جب ہر ملک کے وگ خانہ کعبہ کی نقل میں ایسی جگہیں بنائیں جہاں لوگ اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کردیں اور انسان کوشش کرے کہ ہر خطہ زمین پر محمد رسول اللہ~صل۱~ چلتے ہوئے نظر آئیں۔
بہرحال یہ دعائیں ہیں جو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ میں اس وقت اسی پر بس کرتا ہوں۔ اگر میری تقریر کے لمبا ہوجانے کی وجہ سے بعض تقریریں ضائع ہوگئی ہیں تو بے شک ہوجائیں۔ ہمارا مقصد اس جلسہ میں تقریریں کرنا نہیں بلکہ دعائیں کرکے اس مقام کو بابرکت بنانا ہے۔ میں نے دعائیں سکھا دی ہیں۔ یوں انسان کے ذہن میں دعائیں نہیں آتیں۔ مگر نبیوں کے ذہن میں جو دعائیں آتی ہیں وہ نہایت کامل ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے دل میں ایسے وقت میں جو خیالات آئے اور جو کچھ ان مقدس مقامات کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں اور کامیابی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کی ضرورت ہے ان تمام چیزوں کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے اور اب آپ سب لوگ میرے ساتھ مل کر دعا کریں۔ یہ زمین ابھی ہمیں پورے طور پر ملی نہیں۔ ہم تفائول کے طور پر اسے اپنا مرکز بناتے ہیں اور دعائوں کے ساتھ اسے اپنا مذہبی مقدس مقام قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس مقام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کریں اور ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی کے لئے اسے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔
پس آئو جس طرح محمد رسول اللہ~صل۱~ جب مدینہ تسریف لے گئے تو آپﷺ~ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے خدا میں ابراہیمؑ کی طرح تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مدینہ کو بھی اسی طرح برکتیں دے جس طرح تو نے مکہ کو برکتیں دی ہیں۔ اسی طرح ہم بھی اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں۔ ہم محمد رسول اللہ~صل۱~ نہیں لیکن محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خادم اور غلام ضرور ہیں۔ اور جہاں آقا جاتا ہے وہاں خادم بھی جایا کرتا ہے۔ گورنر کی جب کسی جگہ دعوت ہو تو اس مقام پر گورنر کا چپڑاسی پہنچ جایا کرتا ہے پس محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خادم ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی خدا پر حق ہے اور ہم بھی خدا تعالیٰ کو اس کا یہ حق یاد دلاتے ہوئے اس سے کہتے ہیں کہ اے خدا! جس طرح تو نے مکہ اور مدینہ اور قادیان کو برکتیں دیں اسی طرح تو ہمارے اس نئے مرکز کو بھی مقدس بنا اور اسے اپنی برکتوں سے مالا مال فرما۔ یہاں پر آنے والے اور یہاں پر بسنے والے` یہاں پر مرنے والے اور یہاں پر جینے والے سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے عاشق اور اس کے نام کو بلند کرنے والے ہوں اور یہ مقام اسلام کی اشاعت کے لئے` احمدیت کی ترقی کے لئے` روحانیت کے غلبہ کے لئے خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے` محمد رسول اللہ~صل۱~ کا نام اونچا کرنے کے لئے اور اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے بہت اہم اور اونچا اور صدر مقام ثابت ہو۔
پس آئو ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مقام کو ہمارے لئے بابرکت کرے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم منشائے ابراہیمی` منشاء محمدی اور منشاء مسیح موعود کے مطابق اس مقام کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے ایک بہت بڑا مرکز بنائیں اور خدا تعالیٰ کے فضل ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم نے اس مقام کو اشاعت اسلام کے لئے مرکز قرار دے کر جو ارادے کئے ہیں وہ پورے ہوجائیں۔ کیونکہ سچی بات یہی ہے کہ ہم نے جو ارادے کئے ہیں ان کو پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
)اس کے بعد حضور نے ان ہزارہا مخلصین کے ساتھ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس مقدس اجتماع میں شریک ہونے کی توفیق بخشی تھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر ایک لمبی دعا کی اور پھر فرمایا(
اب میں سجدہ میں گر کر دعا کرتا ہوں کیونکہ مسجد دعا کے لئے ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ اگر جگہ نہ ہو تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھوں پر بھی سجدہ کرسکتے ہیں۔
)یہ الفاظ کہتے ہوئے حضور سجدہ میں گر گئے اور حضور کے ساتھ ہی ہزاروں مخلصین جو اس بابرکت اجتماع میں شمولیت کے لئے دور و نزدیک سے تشریف لائے ہوئے تھے وہ بھی سربسجود ہوگئے اور رب العرش سے اس مقام کے بابرکت ہونے کے متعلق آنسوئوں کی جھڑی اور آہ و بکا کے شور کے ساتھ دعائیں کی گئیں(
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔۹
الفضل کی خصوصی اشاعت
۱۵۔ ماہ شہادت/ اپریل کو ادارہ الفضل نے >الفضل کا< ایک ربوہ نمبر نکالا جس میں ہجرت اور مرکز ربوہ اور جلسہ ربوہ کے متعلق مضامین اور نظمیں شائع کیں۔ ہجرت پاکستان کے بعد روزنامہ الفضل کا یہ پہلا خصوصی شمارہ تھا جو جماعت کی پرمسرت اور مقدس تقریب افتتاح پر منظر عام پر آیا اور جو ایک نئے موسم بہار کی آمد کا پتہ دیتا تھا۔
‏j1] g[taخطبہ جمعہ میں جماعت کو ہمیشہ مرکزیت سے وابستہ رہنے کی موثر تحریک
امام ہمام کی اس پرمعارف اور ولولہ انگیز تقریر کے بعد حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و امریکہ` شیخ بشیر احمد صاحب
ایڈووکیٹ لاہور اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے موثر تقاریر فرمائیں۔ ۲/۳۱ سے ۴ بجے جمعہ و عصر کی نمازیں پڑھی گئیں۔ سیدنا حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں مخلصین جماعت کے سامنے شہد کی مکھی کے تعجب خیز نظام کی مثال بیان فرمائی اور نہایت دلکش پیرایہ میں یہ نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ اس بات کو یاد رکھو کہ تم نے بے مرکز نہیں رہنا۔ اسلام کا غلبہ اور احمدیت کی ترقی مرکزیت ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔۱۰
خطبہ جمعہ اور نماز کی ادائیگی کے بعد پہلے دن کا اجلاس دوم منعقد ہوا جس میں مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے مختلف علمی موضوعات پر پراز معلومات تقریر کیں۔ ایک مختصر سی تقریر جرمن نو مسلم ہرعبدالشکور کنزے کی بھی ہوئی۔]10 [p۱۱
‏tav.12.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
مجلس مشاورت کا انعقاد
ساڑھے نو بجے شب مجلس مشاورت ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء ہوئی جو بارہ بجے شب تک جاری رہی۔ اجلاس میں پاکستان کی اکثر احمدی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آئندہ سال کے لئے قریباً اٹھارہ لاکھ روپیہ کا میزانیہ منظور فرمایا۔ اور تاجروں کو نصیحت فرمائی کہ وہ حکومت کے ٹیکس اور جماعتی چندے دیانت داری کے ساتھ اپنی صحیح اور اصل آمد کے حساب سے ادا کیا کریں۔ اس تعلق میں حضور نے اپنی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک سودے کے سلسلہ میں ہمیں سو روپیہ ٹیکس ادا کرنا تھا۔ مگر ہمیں کہا گیا کہ اگر آپ رسید نہ لیں تو اس ٹیکس سے بچ سکتے ہیں۔ مگر میں نے کہا کہ ہم اپنی بچت کا ہرگز خیال نہیں کریں گے اور یہ ٹیکس ضرور ادا کریں گے حضور نے فرمایا۔ اب تو ملک میں ہماری اپنی حکومت ہے۔ کیا ہم اپنی حکومت کو بھی ٹیکس نہ دیں۔۱۲]ttex [tag
حضرت امیرالمومنین مصلح موعود کا خواتین احمدیت سے پراثر خطاب
جلسہ کے دوسرے روز )۱۶۔ شہادت/ اپریل( کو صبح آٹھ بجے حضرت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ کی خواتین سے نہایت اثر انگیز اور
مسحور کن خطاب فرمایا جس کے شروع میں حضور نے بتایا کہ اس جلسہ کی غرض و غایت اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ جلسہ تقریروں کا نہیں` دعائوں کا ہے۔ اس تمہید کے بعد حضور نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے صبر و استقامت کے بعض نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے اور بتایا کہ انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ تکلیفوں سے عزت پاتی ہیں۔ پس اپنے نفس میں اور اپنی اولاد میں دین کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی عادت ڈالو۔ وہی عورت عزت کی مستحق ہے جو بچہ نہیں جنتی شیر جنتی ہے` جو انسان نہیں جنتی فرشتہ جنتی ہے۔ یہی وہ کام ہے جو صحابیات نے کیا۔ اور یہی تمہارے لئے حقیقی نمونہ اور حقیقی راہ نما ہے۔۱۳
حضرت امیرالمومنین کی مردانہ جلسہ گاہ میں نہایت پرمعارف تقریر
اس وقت جب کہ حضور پرنور نے خواتین احمدیت سے خطاب فرمایا مردانہ جلسہ گاہ میں اجلاس اول کی کارروائی سوا دس بجے تک
جاری رہی جس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی بی اے ایل ایل بی قاضی محمد نذیر صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ اور ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب۱۴ کی عالمانہ تقریریں ہوئیں۔ دوپہر کے وقفہ کے بعد حسب پروگرام نماز ظہر و عصر جمع کی گئیں اور ۲/۴۱ بجے سہ پہر کے قریب حضرت امیر المومنین جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور حضور پرنور نے تلاوت قرآنی کے بعد جو ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے کی اپنی پرمعارف تقریر شروع فرمائی۔
ابتداء میں حضور نے قادیان سے نکلنے کے پس منظر پر کسی قدر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے قادیان کی واپسی سے متعلق خدائی وعدوں کا تذکرہ فرمایا اور بتایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اصل مرکز قادیان سے دوامی طور پر جدا نہیں رکھ سکتی۔ ہم نے خدائی ہاتھ دیکھے ہیں اور آسمانی فوجوں کو اترتے دیکھا ہے اگر ساری طاقتیں بھی مل کر خدائی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیں تو وہ یقیناً ناکام رہیں گی۔ اور وہ وقت ضرورت آئے گا کہ جب قادیان پہلے کی طرح پھر جماعت احمدیہ کا مرکز بنے گا خواہ صلح کے ذریعہ ایسا ظہور میں آئے یا جنگ کے ذریعہ۔ بہرحال یہ خدائی تقدیر ہے جو اپنے معین وقت پر ضرور پوری ہوگی۔ قادیان ملے گا اور ضرور ملے گا لیکن اس وقت اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہم نئے مرکز میں نئی زندگی کا ثبوت دیں۔ اور اس تنظیم کو پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ قائم کریں جو آج تک ہمرا طرہ امتیاز رہی ہے۔
اس کے بعد قادیان سے ہجرت کے متعلق مزید تفصیلات بیان کرنے سے قبل حضور نے تنظیم سے متعلق بعض نہایت اہم امور کی طرف توجہ دلائی اور جماعت کو زیادہ دلجمعی استقلال اور قربانی و ایثار سے کام لیتے ہوئے فرائض ادا کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ فرمایا تبلیغی جماعتوں کی ترقی اور تنظیم میں اچھے لٹریچر کا بہت دخل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت کی طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن شائع کیا گیا تھا لیکن احباب نے اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی طرف بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ غیر ممالک کے باشندوں میں تبلیغ کا اس سے موثر طریق اور کیا ہوسکتا ہے۔ شام` شرق` اردن وغیرہ ممالک کے اخبارات نے اس ترجمہ قرآن مجید پر نہایت شاندار ریویو شائع کئے ہیں اور یورپین مستشرقین میں اس کی اشاعت سے ایک کھلبلی مچ گئی ہے اور ان میں سے کئی نے جماعت احمدیہ کی اس کامیاب کوشش کے خلاف بہت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اس لئے احباب کو انگریزی ترجمہ قرآن مجید خرید کر خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسی طرح تفسیر کبیر کی نئی جلدوں کی اشاعت میں پہلے کی نسبت کمی واقع ہوگئی ہے حالانکہ اس کی پہلی جلد بعد میں ایسی نایاب ہوئی کہ خود غیر احمدیوں نے سو سو روپے فی جلد خرید کر اس کا مطالعہ کیا آج کل آخری پارے کی آخری جلد لکھی جارہی ہے۔ دوستوں کو اس کی خریداری میں تساہل نہیں برتنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہ تساہل مہنگا ثابت ہو۔
الفضل کے متعلق تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا الفضل ایک جماعتی اخبار ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس کی خریداری بڑھائیں جہاں جہاں جماعتیں ہیں وہاں باقاعدہ ایجنسیاں قائم کی جائیں اور اس طرح اس کی اشاعت کو وسیع کیا جائے۔
وقف زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا فی زمانہ سلسلہ کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک وقف زندگی کی تحریک ہے۔ بغیر وقف زندگی کے جماعت کے کام نہیں چل سکتے۔ اس لئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اور اس طرح اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرنے کے سامان بہم پہنچائیں۔
اس موقع پر حضور انور نے بیرونی ممالک میں وقف زندگی کے فروغ کا بھی ذکر فرمایا۔ اور بتایا کہ بیرونی ممالک کے نو مسلم اہمدی نوجوانوں میں یہ تحریک بہت زور پکڑ رہی ہے چنانچہ ان میں سے کئی نوجوانوں نے قبول حق کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگیاں خدمت اسلام کے لئے وقف کی ہیں۔
اس ضمن میں حضور نے بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی جدوجہد میں وسعت کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگرچہ ہمیں یہاں پر ایک زبردست ابتلاء سے دوچار ہونا پڑا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر بیرونی ممالک میں ہماری تبلیغ کو بہت وسیع کردیا ہے اس کے بعد حضور نے ہر ملک میں تبلیغ کی رفتار اور اس کے خوشکن نتائج پر علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی۔
اس کے بعد حضور نے تحریک فرمائی کہ احباب جماعت کو آئندہ مرکز میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے بار بار آنے سے نہ صرف یہ کہ مرکز سے ان کا تعلق مضبوط ہوگا بلکہ وہ ترقی کی سکیموں اور دیگر جماعتی سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر رہیں گے۔ اور ان کا کثرت کے ساتھ یہاں آنا ان کے ایمان اور اخلاص میں ترقی کا موجب ہوگا اس مقام پر حضور نے ریلوے حکام کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے احباب جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ جب بھی آئیں حتی الوسع ریل کے ذریعہ ہی سفر کریں۔ تاکہ ریل کی آمدن ایسی دکھائی جاسکے جس سے ربوہ سٹیشن کا قیام ریلوے کے لئے ہر لحاظ سے نفع رساں ثابت ہو۔
ربوہ میں زمین خرید کی مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کو حضور نے تنبیہ فرمائی کہ ہم اس مرکز کو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت کا ایک مثالی نمونہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے جو لوگ بھی مکان بنا کر مستقل طور پر یہاں رہنا چاہیں گے انہیں بعض شرائط اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی ہوگی۔ مثلاً ہر شخص کو خواہ اس کی تجارت کو نقصان ہو یا اس کے کاروبار پر اس کا اثر پڑے سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لئے ضرور وقف کرنا ہوگا۔ ہر بچے اور بچی کے لئے سکول میں داخل ہوکر تعلیم حاصل کرنی ضروری ہوگی۔ اور ہر فرد بشر کے لئے اسلامی اخلاق کو اس درجہ اپنانا ضروری ہوگا کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکے۔ مثلاً نماز باجماعت کی پابندی` ڈاڑھی رکھنا وغیرہ وغیرہ جو شخص ان چیزوں کی پابندی نہ کرے گا اسے ربوہ میں رہنے کی قطعاً اجازت نہ دی جائے گی۔۱۵ان امور کی طرف توجہ دلانے کے بعد فرمایا:۔
>میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہم دماغی ترقی کی طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ اس وقت تک جو کتابیں ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہیں وہ کسی تنظیم کے بغیر شائع ہوئی ہیں۔ سوائے تفسیر کبیر کے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ جماعت کا ہر فرد وقتی ضرور تون کے ماتحت ایک خاص پروگرام کے ماتحت چلے اور اس طرح ترقی کرنے کی کوشش کرے۔ اس لئے میں نے سمجھا کہ میں نیا مرکز بن جانے کے بعد ایک خاص نظام قائم کروں تا جماعت کے افراد کی خاص طور پر تربیت ہو۔ اور اخلاق` عقائد` مذہب اور دیگر دنیوی علوم پر ہر آدمی آسانی کے ساتھ عبور حاصل کرسکے۔ اور اس کا یہی طریق ہے کہ آسان اردو میں ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ہر مضمون کے متعلق ہوں اور علمی مطالب پر حاوی ہوں۔ اور ایسی سیدھی سادی زبان میں ہوں کہ معمولی زمیندار بھی انہیں سمجھ سکیں۔ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی جس کے صرف چند افراد عالم ہوں۔ ہم نے اگر ترقی کرنا ہے تو ہمیں اپنی جماعت کے علم کے درجہ کو بلند کرنا ہوگا۔ اس کا طریق یہی ہے کہ کتب کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس میں دنیا کے تمام موٹے موٹے علوم آجائیں اور وہ بچوں` درمیانی عمر والوں اور پختہ کار لوگوں غرض سب کے لئے کافی ہوں۔ اس کے تین سلسلے ہوں گے۔ پہلا سلسلہ مڈل سے نیچے پڑھنے والے بچوں کے لئے یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا سلسلہ ۱۳ سال سے کم عمر والے بچوں کے لئے ہوگا۔ دوسرا سلسلہ انٹرنس پاس یا سولہ سترہ سال کے بچوں کے لئے ہوگا۔ دوسرا سلسلہ انٹرنس پاس یا سولہ سترہ سال تک کے بچوں کے لئے ہوگا۔ اور تیسرا سلسلہ اس سے اوپر عمر والوں اور پختہ کار لوگوں کے لئے ہوگا۔ یہ کتابیں ایسی سلیس اردو میں لکھی جائیں گی کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اردو لکھنے والا بھی اسے سمجھ سکے۔ اسی طرح میری رائے یہ ہے کہ یہ کتابیں اس طرز پر لکھی جائیں کہ پہلی کتاب ۵۰ صفحات کی ہو۔ دوسری ۸۰ صفحات کی ہو اور تیسری کتاب اوسطاً سوا سو صفحات پر مشتمل ہو۔ اور پھر ہر وہ کتاب جو سولہ سترہ سال تک کے افراد کے لئے ہو وہ سولہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو اور ہر وہ کتاب جو اس سے اوپر والے افراد کے لئے ہو وہ ۳۵ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو اور اس لئے کہ لکھنے والے ان کتابوں کو غور سے لکھیں اور مطالعہ کرکے لکھیں ان کے لئے ایک رقم بطور انعام مقرر کی جائے گی۔ تاکہ وہ اس علم کی کتابیں مطالعہ کرکے مضمون لکھیں اور ایسی سلیس اردو میں لکھیں کہ ہر معمولی خواندہ اسے سمجھ سکے۔ میرا خیال ہے کہ ہر اس کتاب کے لئے جو پچاس صفحات کی ہو پچاس روپے سے ایک سو روپیہ تک کا انعام رکھا جائے۔ ان کتب کی خصوصیات یہ ہوں گی کہ
۱۔
ان میں تمام قسم کے علوم کے متعلق باتیں ہوں گی۔
۲۔
یہ سلیس اردو میں ہوں گی جسے ایک معمولی اردو جاننے والا بھی سمجھ سکے۔
۳۔
ان میں کسی قسم کی اصطلاح استعمال نہیں کی جائے گی۔ ان اصطلاحوں کی وجہ سے مضمون سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
لیکن چونکہ کبھی کبھی بعض شوقین لوگ علماء کی مجلس میں بھی چلے جائیں گے اور ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ اس لئے حاشیہ میں ان اصطلاحات کا بھی ذکر کردیا جائے گا۔ اس طرح اسے یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ برکلے اور کانٹ نے کیا کہا ہے۔ بلکہ کتاب کے حاشیہ میں ہی یہ لکھا ہوا ہوگا کہ برکلے اور کانٹ کا یہ مقولہ ہے یا یہ فلاں کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ غرض جب بھی وہ چاہے اپنے عام علم کو اصطلاحی علم میں بدل لے۔ یا سیدھی سادھی اردو میں پڑھ لے۔ غرض ہر صفحہ کے نیچے ہر ایک امر کا حوالہ دیا جائے گا تا جس کو شوق ہو تحقیق کرسکے۔ اس سلسلہ کی کئی کڑیاں ہوں گی۔
اول۔ بچوں کے لئے یعنی ابتدائی تعلیم سے مڈل تک کے بچوں کے لئے مگر اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہوں۔ جو معمولی لکھنا پڑھنا ہی جانتے ہوں۔
دوم۔ بڑے بچوں کے لئے یعنی ہائی سکولوں کے طالب علموں کے لئے۔
سوم۔ بڑوں کے لئے قطع نظر اس کے کہ وہ کالجوں میں پڑھتے ہوں یا انہوں نے خود تحقیق کی ہو۔
چہارم۔ محض لڑکیوں کے لئے
پنجم۔ محض لڑکوں کے لئے
ششم۔ محض مردوں کے لئے
ہفتم۔ محض عورتوں کے لئے
ہشتم۔ میاں کے لئے
نہم۔ میاں کے لئے
دھم۔ اچھے شہری کے لئے
میرے نزدیک مختلف ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سلسلہ کتب میں ان مضامین پر بحث ہونی چاہئے۔
پہلا سلسلہ۔ ۱۔ ہستی باری تعالیٰ` ۲۔ معیار شناخت نبوت` ۳۔ دعا۔ قضاء` ۵۔ بعث بعد الموت` ۶۔ بہشت و دوزخ` ۷۔آ معجزات` ۸۔ فرشتے` ۹۔ صفات الٰہیہ` ۱۰۔ ضرورت نبوت و شریعت اور اس کا ارتقاء۔
دوسرا سلسلہ۔ ۱۔ عبادت اور اس کی ضرورت` ۲۔ نماز` ۳۔ ذکر` ۴۔ روزہ` ۵۔ حج` ۶۔ زکٰوۃ` ۷۔ معاملات` ۸۔ اسلامی حکومت` ۹۔ اچھے شہری کے فرائض` ۱۰۔ ورثہ` ۱۱۔ تعلیم` ۱۲۔ اخلاق اور ان کی ضرورت` ۱۳۔ تربیت افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں` ۱۴۔ ملت شخص پر مقدم ہے` ۱۵۔ خاندان فرد پر مقدم ہے` ۱۶۔ حکومت قوم پر مقدم ہے` ۱۷۔ حکومت اور رعایا کے تعلقات` ۱۸۔ ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت` ۱۹۔ اخوت باہمی اور اس کی وجہ سے غریب امیر` عالم جاہل پر ذمہ داریاں` ۲۰۔ اسلام کا فلسفہ اقتصادیات` ۲۱۔ مظلوم کے حقوق اور ان کا ایفاء اور اس کا طریقہ` ۲۲۔ ماں باپ کے حقوق اور ان کی ادائیگی۔ شادی کے بعد ماں باپ اور خاوند بیوی کے حقوق کا تصادم اور اس کا علاج` ۲۳۔ میاں بیوی کے باہمی حقوق میاں بیوی کے ایک دوسرے کے والدین کے متعلق فرائض۔ میاں بیوی کے حقوق غربیت اولاد کے متعلق میاں بیوی کے حقوق خاندان کے افراد کے ورثہ کے لحاظ سے۔ آقا اور نوکر کے تعلقات` ۲۵۔ تجارتی لین دین اور قرضہ کی ذمہ داریاں اور جائدادوں کے تلف ہونے صورتوں میں اور دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہر فریق کی ذمہ داری` ۲۶۔ جہاد` ۲۷۔ حفظان صحت جسمانی` ۲۸۔ حفظان صحت بحیثیت ماحول` ۲۹۔ محنت کی عادت اور وقت کی پابندی` ۳۰۔ تبلیغ اور اس کی اہمیت` ۳۱۔ چندہ اور اس کی اہمیت` ۳۲۔ احمدیت میں ہندوستان اور پاکستان کی خاص اہمیت` ۳۳۔ زندگی وقف کرنے کی اہمیت۔
تیسرا سلسلہ:۔ تاریخ مذہب قبل تاریخ` ۲۔ تاریخ ہندو زمانہ تاریخ تاریخ بدھ مت` ۴۔ تاریخ زرتشت` ۵۔ تاریخ مصلحین غیر معروف ارسطو کنفیوشس وغیرہ` ۶۔ تاریخ دنیا قبل از تاریخ` ۷۔ تاریخ عرب قبل از تاریخ` ۸۔ تاریخ ہند قبل از تاریخ` ۹۔ تاریخ علاقہ جات پاکستان قبل از تاریخ` ۱۰۔ تاریخ شمالی افریقہ قبل مسیح` ۱۱۔ تاریخ یونان قبل تیسری صدی مسیحی` ۱۲۔ تاریخ ایران قبل بادشاہان میدو فارس` ۱۳۔ تاریخ ایران بعد بادشاہان و فارس تا زمانہ عمرؓ` ۱۴۔ سیرۃ نبوی~صل۱`~ )اس کی ضرورت میری سیرت سے پوری ہوچکی ہے۔`( ۱۵۔ تواریخ خلفاء` ۱۶۔ سیرۃ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` ۱۷۔ تاریخ احمدیت بزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` ۱۸۔ سیرت حضرت خلیفہ اولؓ` ۱۹۔ تاریخ احمدیت )خلافت اولیٰ( ۲۰۔ تاریخ احمدیت خلافت ثانیہ` ۲۱۔ تاریخ احمدیت افغانستان` ۲۲۔ تاریخ صحابہؓ مسیح موعودؑ` ۲۳۔ تاریخ اکابر صحابہ رسول کریم~صل۱`~ ۲۴۔ تاریخ اکابر اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` ۲۵۔ تاریخ صحابیات رسول کریم~صل۱`~ ۲۶۔ تاریخ صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام۔
۲۷۔ تاریخ ہند بزمانہ اسلام تین حصوں میں۔ الف۔ افغانوں سے پہلے زمانہ کی` ب۔ افغانوں کے زمانہ کی` ج۔ مغلیہ زمانہ کی۔ ۲۸۔ مبلغین اسلام ہندوستان` ۲۹۔ سوانح صوفیائے کرام` ۳۰۔ تاریخ اسلام اور یورپ` ۳۱۔ تاریخ عرب بعد از چہارم صدی ہجری` ۳۲۔ تاریخ اشاعت اسلام مغربی افریقہ` ۳۳۔ تاریخ ایبے سینیا` ۳۴۔ تاریخ افریقہ وسطی و جنوبی گزشتہ ہزار سال کی` ۳۵۔ تاریخ روما۔ الف۔ قبل از مسیح` ب۔ بعد از مسیح` ج۔ بعد از زمانہ نبویﷺ`~ ۳۶۔ تاریخ قسطنطنیہ۔ الف۔ زمانہ نبوی تک` ب۔ زمانہ نبوی کے بعد اسلام کے قبضہ تک۔ ۳۷۔ تاریخ ہسپانیہ قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط` ۳۸۔ تاریخ صقلیہ۔ قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط اسلام۔ ۳۹۔ تاریخ روما جنوبی بزمانہ و اسلام` ۴۰۔ تاریخ چین بزمانہ اسلام` ۴۱۔ تاریخ فلپائن و ملحقہ جزائر بزمانہ اسلام` ۴۲۔ تاریخ انڈونیشیا قبل از اسلام و بعد از اسلام` ۴۳۔ تاریخ سیلون قبل از اسلام و بعد از اسلام` ۴۴۔ تاریخ بخارا و ملحقات قبول از اسلام و بعد از اسلام ۴۵۔ تاریخ روس از ابتداء تا پندرھویں صدی اور پندرھویں صدی سے لے کر آج تک جس میں خصوصاً اسلام سے اس کے تعلقات پر روشنی ہو۔ ۴۶۔ تاریخ مارکسزم` ۴۷۔ تاریخ بالشوزم` ۴۸۔ تاریخ شمالی امریکہ و جغرافیہ` ۴۹۔ تاریخ جنوبی افریقہ و جغرافیہ` ۵۰۔ تاریخ جزائر آسٹریلیا و نیوزی لینڈ وغیرہ` ۵۱۔ احوال الانبیاء۔
چوتھا سلسلہ:۔ ۱۔ رسالہ کیمسٹری ناواقفوں کے لئے` ۲۔ رسالہ فزکس` ۳۔ موٹے موٹے مضامین کے الگ الگ رسالے` ۴۔ تاریخ سائنس` ۵۔ مسلمانوں کا سائنس میں حصہ` ۶۔ قرآن اور علوم` ۷۔ اسلام اور علوم` ۸۔ علم الجحر` ۹۔ مسلمانوں کا علم الجری میں حصہ` ۱۰۔ فلکیات` ۱۱۔ مسلمانوں کا فلکیات میں حصہ` ۱۲۔ جغرافیہ عالم` ۱۳۔ جغرافیہ میں مسلمانوں کا حصہ` ۱۴۔ جغرافیہ طبیعات` ۱۵۔ جغرافیہ طبیعات میں مسلمانوں کا حصہ` ۱۶۔ درندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۱۷۔ چرندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۸۔ پرندے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۱۹۔ مکوڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۲۰۔ رینگنے والے جانور اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات ۲۱۔ پانی کے اندر کے سانس لینے والے جانور اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۲۲۔ پانی میں رہنے والے لیکن باہر نکل کر سانس لینے والے جانور اور ان کی خصوصیات` ۲۳۔ ساکن جانور بری اور بحری اور ان کی خصوصیات ۲۴۔ خوردبینی کیڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات` ۲۵۔ انسانی پیدائش موجودہ دور میں مادہ حیات۔ اس کے تغیرات اور اس کی صحت اور بیماری کی حالت اس کے انتقال کا طریقہ اور انتقال کے بعد پیدائش تک کے ادوار` ۲۶۔ انسانی جسم کی تشریح` ۲۷۔ صحت کی حالت میں اعضائے انسانی کے فرائض اور وظائف` ۲۸۔ مختلف بیماریاں اور ان کے اسباب` ۲۹۔ علم النباتات` ۳۰۔ علم الجمادات` ۳۱۔ منطق` ۳۲۔ فلسفہ منطق` ۳۳۔ فلسفہ` ۳۴۔ فلسفہ` فلسفہ` ۳۵۔ فلسفہ تاریخ` ۳۶۔ طبقات الارض` ۳۷۔ ارتقاء نسل انسانی` ۳۸۔ علم اللسان` ۳۹۔ علم النفس` ۴۰۔ ارتقائے عالم` ۴۱۔ کائنات کے مختلف انواع میں امتیازی نشان` ۴۲۔ انسان اور دیگر اشیاء میں فرق` ۴۳۔ علم البرق` ۴۴۔ کیفیت مادہ۔۱۶
قومی اور ملی خدمات
ایک آزاد شہری کی حیثیت سے احمدی دوستوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں حضور نے ان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔ دوستوں کو پاکستان کی حفاظت اور دفاع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ حفاظت نعرے لگانے اور جوش دکھانے سے نہیں ہوا کرتی۔ حفاظت اور استحکام کی ایک ہی صورت ہے۔ اور وہ یہ کہ قوم مرنے مارنے کے لئے تیار ہوجائے۔ لیکن مرنے مارنے کے لئے بھی ڈھنگ اور فن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ لوگ فنون جنگ سے کماحقہ واقفیت حاصل کریں۔ اور ہرممکن طریق اور موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اس سلسلہ میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نئے مرکز کا قیام اور اس سے وابستگی کی تلقین اس لئے ہے کہ ہم اپنے کام کو وسیع کریں۔ ان قیمتی ہدایت و نصائح کے بعد حضرت امیرالمومنین نے فرمایا:۔
>اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں مگر اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ آج سے تقریباً ۲۳۔ ۲۴ سو سال پہلے کی بات ہے۔ یونان میں ایک شخص ہوا کرتا تھا۔ وہ یہ تعلیم دیا کرتا تھا کہ خدا ایک ہے اور وہ دیویاں اور بت جن کے لوگ منعقد ہیں باطل ہیں۔ ہاں خدا تعالیٰ کے فرشتے موجود ہیں۔ اور کائنات کے مختلف کام ان کے سپرد ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی مرضی اپنے نیک بندوں پر ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے فرشتے اس کے نیک بندوں پر جلوہ گر ہوتے ہیں اور ان سے کلام کرتے ہیں اس کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس حکومت کے ماتحت تم رہو اس کے فرمانبردار رہو۔ اگر تم نے دنیا میں امن قائم رکھنا ہے تو تمہیں حکومت سے اپنے مطالبات ہمیشہ امن کے ساتھ منوانے چاہئیں۔ اگر کسی وقت تمہیں اس حکومت پر اعتماد نہ رہے بلکہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے مذہبی احکام کے بجا لانے میں روک بنتی ہے اور تم پر مظالم ڈھاتی ہے اور جبراً تمہارا مذہب تم سے چھڑانا چاہتی ہے۔ تو تمہیں اس ملک کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اور ایسی حکومت کے ماتحت جاکر بس جانا چاہئے جو خدائی احکام کے بجا لانے میں کوئی روک پیدا نہ کرتی ہو۔
یہ ساری تعلیمیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص کامل طور پر نبی نہیں تھا تو ایک مامور من اللہ یا مجدد کی حیثیت ضرور رکھتا تھا۔ اس کا نام سقراط تھا جب حکومت کو معلوم ہوا کہ وہ حکومت کے خلاف تعلیم دیتا ہے۔ تو اس پر مقدمہ چلایا گیا اور مقدمہ چلانے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے زہر پلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ پرانے زمانہ میں یہ بھی سزا کا ایک طریق تھا کہ جس شخص کو موت کی سزا دی جاتی تھی اسے زہر پلا کر مار دیا جاتا تھا۔ سقراط کی سزا کے لئے کوئی معین تاریخ مقرر نہ ہوئی۔ ہاں یہ بتایا گیا جس دن فلاں جہاز جو فلاں جگہ سے چلا ہے اس ملک میں پہنچے گا تو اس کے دوسرے دن اس کو مار دیا جائے گا۔ سقراط کے ماننے والوں میں بہت سے ذی اثر لوگ بھی تھے۔ وہ اس کے پاس جاتے اور اس پر زور دیتے کہ وہ ملک کو چھوڑ دے اور کسی اور ملک میں جابسے۔ افلاطون بھی سقراط کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد تھا۔ وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک دن سقراط کا >فریتو< نامی شاگرد ان کے پاس گیا۔ وہ اس وقت میٹھی نیند سو رہے تھے اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور ان کے جسم سے اطمینان اور سکون ظاہر تھا۔ فریتو پاس بیٹھ گیا اور پیار سے آپ کا چہرہ دیکھتا رہا آپ کی اس حالت کو دیکھ کر کہ آپ اطمینان سے سو رہے ہیں اس پر گہرا اثر پڑا۔ اس نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آرام سے پاس بیٹھ کر آپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا فریتو نامی شاگرد پاس بیٹھا ہوا ہے اور پیار سے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے آپ نے اس سے پوچھا تم کب آئے ہو؟ اور کس طرح یہاں پہنچے ہو فریتو نے کہا میں آپ کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے کہا تم اتنی جلدی صبح صبح کس طرح آگئے؟ فریتو نے کہا جیل کے افسر میرے دوست ہیں۔ اس لئے اندر آنے کی مجھے اجازت مل گئی ہے۔ میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ تم بہت دیر سے یہاں بیٹھے ہو۔ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔ فریتو نے کہا میں جب کمرے میں داخل ہوا تو آپ سوئے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اس لئے میں نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ اس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا کہ وہ شخص جس کی موت کا حکم سنایا گیا ہے کس اطمینان اور سکون سے سویا ہوا ہے۔
سقراط نے کہا میاں کیا خدا تعالیٰ کی مرضی کو کوئی انسان دور کرسکتا ہے` فریتو نے کہا نہیں۔ سقراط نے کہا کیا تم اس کی مرضی پر خوش نہیں؟ فریتو نے کہا ہاں ہم اس کی مرضی پر خوش ہیں۔ سقراط نے کہا جب خدا تعالیٰ نے میرے لئے موت کو مقدر کیا ہے تو اس کو کون ہٹا سکتا ہے؟ اور جب خدا تعالیٰ نے ہی میرے لئے موت مقدر کی ہے اور میں اس کی رضا پر راضی ہوں تو پھر اس پر بے چینی کی کیا وجہ؟ مجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ میرے خدا کی یہ مرضی ہے کہ وہ مجھے موت دے۔ فریتو تم بتائو کہ اس وقت تم مجھے کیا کہنے آئے تھے۔ فریتو نے جواب دیا میرے آقا میں آپ کو ایک بڑی خبر دینے آیا تھا کہ وہ جہاز جس کی آمد کے دوسرے دن آپ کو زہر پلائے جانے کا فیصلہ ہے وہ گو ابھی تک پہنچا تو نہیں لیکن خیال ہے کہ آج شاعر کو پہنچ جائے گا اس لئے کل آپ کو مار دیا جائے گا۔ اس پر سقراط ہنس پڑے اور کہا کہ میرا تو خیال نہیں کہ وہ جہاز آج پہنچے نہ کل یہاں پہنچے گا۔ فریتو نے کہا وہ جہاز فلاں جگہ پر لگا ہوا ہے اور ایک آدمی خشکی کے ذریعہ یہاں ایا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ وہ جہاز آج شام تک یہاں پہنچ جائے گا۔ کل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سقراط نے کہا فریتو بے شک اس شخص نے یہ بتایا ہے کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا تو ویسا ہی ہوگا۔ فریتو نے کہا۔ میرے آقا آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا۔ سقراط نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت میرے پاس آئی ہے اور اس نے میرا نام لیا اور کہا تیار ہو جائو پرسوں جنت کے دروازے تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ فریتو کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ جہاز آج شام کو یہاں پہنچ جائے گا۔ اور اگر جہاز آج یہاں پہنچ جائے تو کیا کل مجھے سزا دی جائے گی۔ لیکن فرشتے نے مجھے کہا ہے کہ پرسوں تمہارے لئے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے اس لئے جہاز آج نہیں آئے گا کل آئے گا۔ اور پرسوں مجھے مار دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ایک طوفان آیا اور جہاز کو وہیں ٹھہرنا پڑا۔ اور دوسرے دن وہ اس شہر میں پہنچ سکا اور تیسرے دن وہ مارے گئے۔
آپ کی بات سننے کے بعد اسی شاگرد نے کہا آپ کیوں ضد کررہے ہیں۔ کیا آپ کو ہم پر رحم نہیں آتا اگر آپ زندہ رہیں گے تو ہمیں آپ سے بہت فوائد حاصل ہوں گے۔ اگر آپ یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی اور حکومت کے زیر سایہ رہنا شروع کردیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ سقراط نے میں اس ملک سے کس طرح بھاگ سکتا ہوں کیا میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جائوں۔ اگر میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جائوں تو لوگ کہیں گے سقراط عورتوں کا لباس پہن کر بھاگ گیا یا پھر میں جانوروں کی کھال میں لپٹ کر یہاں سے بھاگ جائوں۔ کیا اس سے وہی عزت ہوگی؟ فریتو نے کہا میرے آقا یہ ٹھیک ہے لیکن ہم ان چیزوں کے بغیر آپ کو نکالیں گے۔ میں ایک مالدار آدمی ہوں اور فوجی افسر میرے تابع ہیں۔ میں نے ان سے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ میری اس بارہ میں مدد کریں گے۔ اور آپ کو عزت کے ساتھ کسی اور ملک میں چھوڑ آئیں گے۔ جن میں سے اس نے کریٹ کا نام بھی لیا۔ سقراط نے کہا پھر تم جانتے ہو کیا ہوگا ایک بھاری رقم بطور تاوان ڈالی جائے گی اور جب ایسا ہوگا تو فریتو تم ہی بتائو کیا اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو تباہ کردوں۔ فریتو نے کہا میرے آقا آپ اس کا خیال نہ کریں۔ آپ کے شاگرد بہت سے ہیں اور یہ رقم ہم آپس میں بحصہ رسدی رقسیم کریں گے سقراط نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن جب حکومت کو پتہ چلا تو وہ سب کو قید کرے گی۔ فریتو نے کہا ہاں آقا مگر وہ کچھ مدت کے بعد ہمیں چھوڑ دے گی۔ سقراط نے کہا مگر کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے شاگردوں کو قید خانہ میں ڈلوائوں۔ فریتو نے کہا مگر آقا آپ سوچئے آپ روحانیت کی تعلیم دیں گے اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف لائیں گے۔ یہ کتنا بڑا کام ہے اس کے لئے اگر ہم قید میں بھی گئے تو کیا ہوا۔ سقراط نے کہا یہ بات ٹھیک ہے اور شاید یہ بات سوچنے کے قابل ہو۔ مگر فریتو میں جو ۸۵ سال کا ہوگیا ہوں اگر کسی ملک میں جاتے ہوئے رستے میں مرجائوں تو مجھے کون عقلمند کہے گا کہ میں نے یونہی مفت میں تباہی ڈال دی۔ پھر انہوں نے کہا اے میرے شاگرد تم بتائو تو سہی میں تمہیں اس حکومت کے بارہ میں جن کے تم رہتے ہو کیا تعلیم دیا کرتا تھا؟ فریتو نے کہا آپ ہمیں یہی تعلیم دیا کرتے تھے کہ اس حکومت کا ہمیشہ فرمانبردار رہنا چاہئے۔ سقراط نے کہا اب تم ہی بتائو کہ میں اس چیز کی ساری عمر تعلیم دیتا رہا۔ اب اگر میں موت کے ڈر سے اس ملک سے بھاگ جائوں تو دنیا یہی کہے گی نہ کہ میں یہاں کی زندگی میں جھوٹے دعویٰ کیا کرتا تھا پھر تم ہی بتائو کہ کیا حکومت ظالم ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں اس ملک سے نکلنا پڑا۔ اس کے قانون کو توڑنا جائز ہے دنیا کی کوئی حکومت اپنے آپ کو ظالم نہیں کہتی۔ اگر میں یہاں سے پوشیدہ کسی اور ملک میں بھاگ جائوں تو میری بات دوسروں پر کیا اثر کرے گی۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ یہ تو وہی بات ہے جس پر اس نے خود عمل نہیں کیا۔ میں اس حکومت مین پیدا ہوا اور دعوے کے بعد چالیس سال تک اس ملک میں رہا۔ کیا چالیس سال کے عرصہ میں میرے لئے اس ملک کو چھوڑ جانے کا موقعہ نہ تھا۔ حکومت یہ کہے گی کہ اگر ہم ظالم تھے تو یہ چالیس سال کے دوران میں کیوں باہر نہیں چلاگیا۔ بلکہ یہ تو ہمارے انصاف کا اتنا قائل تھا کہ یہ شہر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا۔ میں ان باتوں کا کیا جواب دوں گا۔ غرض اس نے ایک لمبی بحث کے بعد کہا۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں یہیں رہوں گا۔ اور حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوں گا۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے سقراط کا یہ دعویٰ تھا کہ اسے الہام ہوتا ہے اور اس نے اپنے الہام کی ایک معین صورت کو پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جہاز آج نہیں پہنچے گا کل پہنچے گا۔ میرے خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے لئے جنت کے دروازے پرسوں کھول دیئے جائیں گے یہ اس جنت کا ثبوت ہے کہ وہ شخص خدا تعالیٰ سے تائب حاصل کرنے والا تھا۔ اس نے اپنی جگہ سے نکلنے کا نام نہیں لیا۔ ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر کیوں نکلا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قادیان سے نکلنا نہیں چاہئے تھا اور میں نے خود بھی کہا تھا کہ میں قادیان سے نہیں نکلوں گا بلکہ میں نے بتایا ہے کہ سقراط جو ایک مامور من اللہ تھا اس کی زندگی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا۔ اور اس نے اپنے شہر سے نکلنے سے انکار کردیا۔۱۷
جیسا واقعہ سقراط کو یونان میں پیش آیا ایسا ہی واقعہ مجھے قادیان پیش آیا۔
ایک اور واقعہ بھی ہے جو ہمیں ایک اور نبی اللہ کے متعلق ملتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے متفق یہ فیصلہ تھا کہ وہ یہود کی بادشاہت کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔ مگر آپ پر ایک وقت ایسا آیا جب سارا ملک آپ کا دشمن ہوگیا اور اس کی دشمنی ایک خطرناک صورت اختیار کرگئی۔ یہودیوں نے حکومت کے نمائندوں کے پاس آپ کے متعلق شکایتیں کیں اور آپ کو پکڑوا دیا گیا اور آخر حکام کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا کہ آپ باغی ہیں جس طرح یونان کے مجسٹریٹوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سقراط باغی ہے اسی طرح فلسطین کے مجسٹریٹوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام باغی ہیں۔ دونوں کے متعلق ایک ہی قسم کا الزام تھا۔ سقراط کے پاس جب ان کے شاگرد گئے اور آپ کو انہوں نے کہا کہ آپ ملک سے نکل جائیں۔ تو سقراط نے کہا نہیں نہیں۔ میں اس ملک سے باہر نہیں نکل سکتا۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر یہی ہے کہ میں یہاں رہوں` زہر کے ذریعہ مارا جائوں اگر میں اس ملک سے باہر نکلتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ ادھر حضرت مسیح علیہ السلام کو جب یہ کہا گیا کہ آپ کو پھانسی پر لٹکا کر مارا جائے گا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں۔ میں کوئی تدبیر کروں گا تا کسی طرح سزا سے بچ جائوں۔ اور مسیح علیہ السلام نے تدبیر کی اور جیسا کہ آپ کو پہلے بتا دیا گیا تھا آپ کو دو تین دن تک قبر میں رکھا گیا اور پھر وہاں سے سلامت نکال لیا گیا آپ اپنے حواریوں سے ملے اور انجیل کے بیان کے مطابق آپ آسمان پر اڑ گئے۔ لیکن دنیوی تاریخ کے مطابق آپ نصیبین` ایران اور افغانستان کے راستے ہوئے ہوئے ہندوستان چلے آئے پہلے آپ مدارس گئے پھر آپ گورداسپور آئے پھر کانگڑہ کی طرف چلے گئے۔ مگر وہاں موسم اچھا نہ پاکر آپ تبت کے پہاڑوں کے راستہ سے کشمیر چلے گئے۔ گویا ایک طرف یہ مثال پائی جاتی ہے کہ مامور من اللہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے مار یا جائے۔ اس کے ساتھی اسے نکالنے کے لئے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں اور پولیس بھی ان کے اس کام کیا` ہمدردی کرتی ہے مگر وہ انکار کردیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور ملک میں جانے کے لئے تیار نہیں۔ مگر حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آتا ہے وہ بھی مامور من اللہ اور خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے اور جیسا کہ واقعات بتاتے ہیں کہ سقراط بھی ایک مامور من اللہ تھا۔ دونوں ایک ہی منبع سے علم حاصل کرنے والے تھے۔ ایک ہی قسم کا کام ان کے سپرد تھا۔ لیکن ایک کو جب کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ اور خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ لیکن دوسرا شخص یعنی مسیح علیہ السلام کو جب سزا کا حکم سنایا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ میں کوشش کروں گا کہ یہاں سے نکل جائوں اور کسی اور جگہ چلا جائوں۔ یہ واقعات اس طرح کیوں ہوئے۔ کیا سقراط جھوٹا تھا یا کیا حضرت مسیحؑ نے ایک خطرناک غلطی کی اور اپنے آپ کو تقدیر الٰہی سے بچانے کی کوشش کی۔
حقیقت یہ ہے کہ سقراط اسی شہر کی طرف مبعوث تھا جس کے رہنے والوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سقراط ان جگہوں کے لئے مبعوث نہیں تھا جن کی طرف بھاگے جانے کے لئے اسے اس کے شاگرد مجبور کرتے تھے۔ سقراط دوسری قوموں کی طرف مبعوث نہیں تھا۔ لیکن مسیح علیہ السلام کو یہ کہا گیا تھا کہ تم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک بھی میرا یہ پیغام پہنچائو اور یہ بھیڑیں ایران` افغانستان اور کشمیر میں بھی بستی تھیں۔ سقراط اگر اپنے شہر کو چھوڑتا تھا تو وہ ایک مکتب اور مدرسہ کو چھوڑتا تھا جس کے لئے اسے مقرر کیا گیا تھا۔ مثلاً ایک لوکل سکول میں کسی کو ہیڈماسٹر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ اس سکول کو بلا اجازت نہیں چھوڑ سکتا اگر وہ اس سکول کو بلا اجازت چھوڑے گا تو وہ مجرم ہوگا۔ لیکن ایک انسپکٹر کو اپنے حلقہ میں کسی جگہ پر جانا پڑتا ہے تو وہ بلا اجازت چلا جاتا ہے۔ اور ایک لوکل سکول کا ہیڈ ماسٹر کسی دوسری جگہ نہیں جاتا جب تک وہ اپنے بالا افسر سے چھٹی حاصل نہیں کرلیتا لیکن ایک انسپکٹر بغیر اجازت افسر بالا کے اپنے حلقہ کا دورہ کرتا ہے۔ ایک ہیڈ ماسٹر کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اگر اپنی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ گئے تو مجرم ہوگے۔ لیکن انسپکٹر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو اسے کوئی شخص مجرم نہیں گردانتا۔ اس لئے کہ اس کا دائرہ عمل اس حد تک وسیع ہے لیکن ایک ہیڈماسٹر کا دائرہ عمل ایک سکول تک محدود ہے اور وہ اگر اس سے نکلتا ہے تو قانون کو توڑتا ہے۔ پس سقراط ایک شہر کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ اس کا دائرہ عمل محدود تھا۔ اگر وہ اس شہر کو چھوڑتا تھا تو گنہ گار تھا کیونکہ اس کے مخاطب اسی شہر کے باشندے تھے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ ان کے دائرہ خطاب میں کشمیر بھی شامل تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب فلسطین کو چھوڑا تو آپ اپنے دائرہ عمل سے بھاگے نہیں۔ بلکہ آپ اپنی دوسری ڈیوٹی پر چلے گئے۔
اگر آپ فلسطین میں ہی رہتے تو آپ فلسطین میں اپنا کام کرسکتے تھے اور نہ ہی بنی اسرائیل کی دوسری کھوئی ہوئی بھیڑوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا سکتے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اگر فلسطین چھوڑا تو اس کے بعد آپ کا دائرہ عمل اور وسیع ہوگیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے قادیان چھوڑنے کے لئے اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور کیا میرے سپرد جو کام ہے وہ صرف قادیان سے ہی نہیں تعلق رکھتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اسلام کی اشاعت کے لئے اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے۔ آپ کا دائرہ عمل خطاب صرف قادیان تک محدود نہ تھا۔ بے شک میں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں قادیان میں ہی رہوں۔ لیکن بعد میں حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات پر غور کرکے مجھے یقین ہوگیا کہ جماعت کے لئے ایک ہجرت مقدر ہے۔ تو میں نے سوچا کہ میرا کام قادیان یا صرف ایک ملک سے وابستہ نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی میرا تعلق ہے اگر میں قادیان میں رہتا ہوں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ میں ان سب کاموں کو ترک کردیتا ہوں جو میرے سپرد ہیں اور ایک جگہ اپنے آپ کو مقید کرلیتا ہوں جب کہ بعد میں قادیان والوں کی حالت ہوگئی تھی۔ لیکن اگر میں قادیان سے باہر چلا جاتا ہوں تو میں صرف ایک چھوٹے سے دائرہ سے الگ ہوتا ہوں۔ اور ایک وسیع دنیا کو ملانے پر قادر ہوجاتا ہوں۔ سقراط نے اپنے شہر کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ ان کے مخاطب صرف اس شہر والے تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ فلسطین میں ان کے مخاطبوں میں سے صرف دو قبیلے تھے اور دس قبیلے فلسطین سے باہر تھے۔
حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی لوگوں کی خاطر فلسطین کو چھوڑا وہ فلسطین میں بسنے والوں سے سینکڑوں گنا زیادہ تھے۔ لیکن میں نے جن لوگوں کی خاطر قادیان کو چھوڑا قادیان اور اس کی آبادی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ پس یہ صحیح ہے کہ پہلے یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ میں قادیان نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ ہمارے لئے ہجرت مقدر ہے تو میں نے قادیان کو چھوڑ کر یہاں چلے آنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو یہ الہام موجود تھا کہ
>داغ ہجرت<
اور ادھر میری خوابوں میں یہ بات تھی کہ ہمیں قادیان سے باہر جانا پڑے گا میں نے دیکھا کہ یہ الہام تو موجود ہے مگر ابھی تک ہجرت نہیں ہوئی۔ اس لئے یا تو یہ مثیل مسیح پر پیشگوئی صادق آئے گی اور یا اسے جھوٹا ماننا پڑے گا یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا۔ پھر یہ فیصلہ میں نے خود ہی کیا بلکہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں قادیان سے باہر آجائوں۔ ویسے میری ذاتی دلچسپیاں تو قادیان سے ہی وابستہ تھیں لیکن میرے سامنے دو چیزیں تھیں اول یہ کہ میں ان سب کاموں کو ترک کروں جو میرے سپرد کئے گئے ہیں۔ اور قادیان میں ایک قیدی کی حیثیت سے بیٹھا رہوں۔ اور اس بات کا حق میں کہ میں قادیان میں ہی بیٹھا رہوں ایک رائے بھی نہیں تھی۔ ۷۔ ستمبر کو یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام قادیان سے باہر آنے پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے ہم جذباتی چیز کو حقیقت پر قربان کریں گے پس میں نے ضروری سمجھا کہ آج میں دوستوں کو بتائوں کہ ہم نے واقعات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمارا قادیان سے باہر ہونا ان حالات میں ہوا ہے۔ اگر سقراط کے طریق پر عمل کرتے اور قادیان میں ہی رہتے تو یہ بات غلط ہوتی۔ کیونکہ ہمارے حالات سقراط کے حالات سے نہیں ملتے تھے۔ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال پر عمل کیا۔ کیونکہ آپ کے حالات ہمارے حالات سے ملتے تھے۔ خود رسول کریم~صل۱~ کا بھی جی نہیں چاہتا تھا آپ مکہ کو چھوڑیں لیکن جب آپﷺ~ نے دیکھا کہ اس کے بغیر اس پیغام کو جو آپ دنیا کی طرف لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ نہیں پھیلایا جاسکتا۔ تو آپ مکہ چھوڑنے پرپ مجبور ہوئے۔
حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم~صل۱~ غار ثور سے نکلے تو آپ نے آبدیدہ ہوکر اور مکہ کی طرف منہ کرکے فرمایا اے مکہ تو مجھے بڑا ہی پیارا تھا۔ اور میں تجھے چھوڑنا ہیں چاہتا تھا لیکن افسوس تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ رسول کریم~صل۱~ مکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ آپ کو مکہ سے محبت تھی` لیکن اشاعت اسلام چونکہ مقدم تھی اور مکہ میں رہنے سے اس کی اشاعت کا کام باطل ہوجاتا تھا۔ اس لئے آپ نے مکہ چھوڑنا قبول کرلیا میں نے بھی اسی سنت کے ماتحت قادیان چھوڑا اور اب واقعات نے تصدیق کردی ہے کہ میں اس میں حق بجانب تھا۔ غرض دین کی اشاعت چونکہ سب سے اہم تھی اس لئے میں نے قادیان چھوڑنا قبول کرلیا اور پاکستان آگیا۔۱۸
یہاں تک بیان فرمانے کے بعد حضور نے اجلاس برخاست کرتے ہوئے فرمایا کہ اس تقریر کا دوسرا حصہ آپ اگلے دن جلسہ کے آخری اجلاس میں بیان فرمائیں گے۔ چنانچہ نماز مغرب سے کچھ دیر پہلے اجلاس برخاست کردیا گیا۔۱۹
جلسہ کا آخری دن تیسرے روز کا اجلاس اول
۱۷۔ شہادت/اپریل کو جلسہ کا آخری اور تیسرا دن تھا۔ اس روز اجلاس اول میں مکرم قاضی محمد اسلم صاحب۲۰4] ft`[r مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب۲۱` کرم مولوی ابوالعطاء صاحب نے فاضلانہ تقریریں کیں جن کے بعد ماریشین کے احمد علیہ اللہ صاحب نے بھی مختصر تقریر کی۔۲۲
اجلاس دوم میں حضرت مصلح موعود کی ایمان افروز اختتامی تقریر
ازاں بعد ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرانے کے بعد حضرت مصلح موعود ۲/۴۱ بجے سٹیج پر تشریف لائے اور اس تاریخی جلسہ کے افتتاحی اجلاس میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر فرمائی۔ تقریر کے آغاز میں حضور نے فرمایا بہت سی ایسی جماعتوں کی طرف سے پیغامات آئے ہیں۔ جو جلسہ میں شامل نہیں ہوسکیں۔ انہوں نے احباب کو محبت بھر اسلام کہا ہے۔ اور دعائوں کی درخواست کی ہے۔ سب پیغامات تو سنائے نہیں جاسکتے بعض اہم مقامات کے پیغامات سنا دیتا ہوں۔
سب سے پہلا پیغام تو قادیان کی جماعت کا ہے جو وہاں کے امیر مولوی عبدالرحمن صاحب کی معرفت وصول ہوا ہے۔ اس میں وہاں کے دوستوں نے تمام احباب کو السلام علیکم کہا ہے اور دعا کی درخواست کی ہے۔ قادیان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ قادیان سے جدا ہونے کا صدمہ بہت بڑا صدمہ ہے لیکن میں نے دوستوں کو متواتر نصیحت کی ہے کہ وہ کسی قسم کے غم کو اس سلسلے میں اپنے آپ پر غالب نہ آنے دیں۔ لیکن ایک حصہ کا انسان کے ساتھ ایسا لگا ہوا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا قادیان سے ایک اہم واقعہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں ہم سوچنا اور غور کرنا شروع کردیں تو ہمارے کاموں میں خنہ پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک نہایت ہی ہے۔ نہ معلوم کوئی خدائی فرشتہ تھا جس نے مجھ سے انگلستان جاتے ہوئے یہ شعر لکھوایا کہ ~}~
یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیان
میں خدا کے فرشتوں کے ذریعہ سے اپنی طرف سے اور ساری جماعت کی طرف سے قادیان والوں کو وعلیکم السلام کہتا ہوں۔ درحقیقت وہ لوگ خوش قسمت ہیں۔ آنے والی نسلیں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے اور احترام و محبت کے ساتھ ان کے نام لیا کریں گی بعد ہزاروں لوگوں کو یہ حسرت ہوا کرے گی کہ کاش ہمارے آباء کو بھی یہ خدمت کرنے کی توفیق ملتی۔
اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل مقامات کے السلام و علیکم اور درخواست دعا پر مشتمل پیغامات پڑھ کر سنائے۔
۱۔
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن از طرف جماعت احمدیہ لنڈن۔
۲۔
چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم اے انچارج احمدیہ مشن امریکہ۔
۳۔
رئیس التبلیغ احمدیہ مشن گولڈ کوسٹ )افریقہ(
۴۔
رئیس التبلیغ صاحب احمدیہ مشن مشرقی افریقہ
۵۔
جماعت احمدیہ کولمبو
۶۔
مولوی مبارک احمد صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ مشرقی پاکستان۔
۷۔
ماخوذین مقدمہ قتل سندھ۔
حضور نے انتظامات جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا افسوس ہے کہ کھانے پینے کا انتظام بعض وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں ہوسکا۔ ہمارا اندازہ دس ہزار مہمانوں کا تھا۔ لیکن حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶ ہزار سے بھی زیادہ ہوئی ہے۔ ہم نے صرف پانی کے انتظام پر دس ہزار روپیہ خرچ کیا تھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اگر گورنمنٹ کے محکمہ حفظان صحت کی مہربانی سے ہمیں طمینک نہ مل جائے تو پانی کی بہت ہی تکلیف ہونی تھی۔ صفائی کے محکمہ نے بھی ہماری مدد کی ہے۔ اسی طرح ریلوے کے محکمہ کے ساتھ تعاون کا بہت اچھا ثبوت دیا ہے۔ درحقیقت ان تینوں محکموں کی امداد کے بغیر ہمارا یہ جلسہ کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے ہم ان محکموں کا اور چونکہ یہ محکمے گورنمنٹ پاکستان کے ہیں اس لئے ہم حکومت پاکستان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پبلک ڈیوٹی کی ادائیگی کی وجہ سے یہ محکمے یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کے مستحق ہوں گے۔
جماعت احمدیہ نے قادیان سے کیوں ہجرت کی؟
اس موضوع پر تقریر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا مقدس مقامات کو چھوڑنا قدرتاً سبع کر گراں گزرتا ہے۔ بلکہ اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں بعض فعہ اس کام کو جو عام حالات میں گناہ سمجھا جاتا ہے ثواب بنا دیتی ہیں۔ مثلاً خانہ کعبہ کتنی مقدس اور بابرکت جگہ ہے لیکن رسول کریم~صل۱~ اور آپ کے صحابہ نے وہاں سے ہجرت کی۔ اگر مقدس مقامات کو چھوڑنا ہر حالت میں گناہ ہوتا تو آپ کبھی بھی مکے کے مقام کو نہ چھوڑتے۔ درحقیقت آپ کی ہجرت بھی آپ کی صداقت کا ایک نشان تھا۔ کیونکہ سینکڑوں برس قبل اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کے ذریعہ رسول کریم~صل۱~ اور آپ کے صحابہ کے مکہ سے نکل جانے پر اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا تو قادیان سے نکلنے پر کس طرح اعتراض کیا جاسکتا ہے خاص کر جیسا کہ ہمارا ایک حصہ ابھی تک قادیان میں بیٹھا ہوا ہے ہاں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ گزشتہ انبیاء نے جس قدر ہجرتیں کیں ان کی خبر تو ضرور پہلے سے موجود ہوتی تھی۔ کیا قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی کی خبر بھی پہلے سے موجود تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قادیان سے ہجرت کی پیشگوئی بھی پوری تفصیل کے ساتھ پہلے سے موجود ہے۔
اس کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے چند الہامات اور اپنی متعدد رئویا پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جس میں قادیان سے ہجرت اور حضور کے ذریعہ جماعت کی حفاظت اور نئے مرکز میں جماعت کو اکٹھا کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ حضور نے بتایا کہ کس طرح نہایت حیرت انگیز رنگ میں یہ تمام امور پورے ہوچکے ہیں۔
آخر میں حضور نے فرمایا دیکھو جو کچھ خدا نے فرمایا تھا وہ پورا کردیا یہ خدا کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ
اس نے وعدے کے مطابق اس عظیم الشان ابتلاء میں مجھے جماعت کی حفاظت کرنے اور اسے پھر اکٹھا کرنے کی توفیق دی۔ تمہیں چاہئے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرو اور سچے مسلمان بنو اور اپنے خدا کے فضل کی تلاش میں لگے رہو یاد رکھو تم وہ قوم ہو جو آج اسلامکی ترقی کے لئے بمنزلہ بیج کے ہو۔ تم وہ درخت ہو جس کے نیچے دنیا نے پناہ لینی ہے` تم وہ آواز ہو جس کے ذریعہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اپنا پیغام دنیا کو سنائیں گے۔ تم وہ اولاد ہو جس پر محمد رسول اللہ~صل۱~ فخر کریں گے اور اپنے خدا کے حضور کہیں گے کہ اے میرے رب جب میری قوم نے قرآن پھینک دیا تھا اور تیرے نشانات کی قدر کرنے سے مونہہ موڑ لیا تھا تو یہی وہ چھوٹی سی جماعت تھی جس نے اسلام کے جھنڈے کو تھامے رکھا اسے مارا گیا` اسے بدنام کیا گیا` اسے گھروں سے بے گھر کیا گیا اور اسے مصیبت کی چکیوں میں پیسا گیا مگر اس نے تیرے نام کو اونچا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ میں آسمان کو اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوا۔ وہ سچے وعدوں والا خدا ہے جو آج بھی اپنی ہستی کے زندہ نشان ظاہر کررہا ہے۔ دنیا کی اندھی آنکھیں دیکھیں یا نہ دیکھیں یا نہ دیکھیں اور بہرے کان سنیں یا نہ سنیں لیکن یہ امر اٹل ہے کہ خدا کا دین پھیل کر رہے گا کمیونزم خواہ کتنی ہی طاقت پکڑ جائے مگر وہ میرے ہاتھ سے شکست کھا کررہے گا۔ اس لئے نہیں کہ میرے ہاتھ میں کوئی طاقت ہے بلکہ اس لئے کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کا خادم ہوں۔
خدا نے جو وعدے کئے وہ کچھ تو پورے ہوچکے اور باقی آئندہ پورے ہوں گے۔ آئندہ جو کچھ ظاہر ہوگا ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ جن کندھوں پر آئندہ سلسلہ کے کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے۔ چاہئے کہ وہ ہمت کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھائیں۔ یہاں تک کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بادشاہت پھر دنیا میں قائم ہوجائے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ زندگی کی آخری گھڑی تک مجھے اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور آپ لوگوں کو بھی اللہ تعالٰی نے خدمت دین کی توفیق دے اور آپ اس وقت تک صبر نہ کریں جب تک کہ اسلام دوبارہ ساری دنیا پر غالب نہ آجائے۔
اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور پھر اس تاریخی جلسے کے اختتام کا اعلان فرمایا۔۲۳
ربوہ کے پہلے تاریخی جلسہ سالانہ کے کوائف پر ایک طائرانہ نظر
ربوہ کے اس پہلے تاریخی جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات بھی حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی اے` بی ٹی ناظر ضیافت کے سپرد تھے اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے اور میاں عبدالمنان صاحب عمر ایم اے آپ کے نائب اور مولوی محمد شفیع صاحب اشرف واقف زندگی انچارج دفتر کے فرائض بجا لاتے رہے۔
نظارت سپلائی کے انچارج جناب قاری محمد امین صاحب تھے اور جلسہ کے انتظامات کے متعلق تمام اشیاء کی فراہمی کا انتظام آپ کے سپرد تھا۔ نظامت کے سٹور کے انچارج عبدالوحید خان صاحب تھے۔
مہمانوں کے قیام و طعام کا بندوبست ناظم جلسہ کی حیثیت سے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بی اے` بی ٹی ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ذمہ تھا آپ کے نائبین صوفی محمد ابراہیم` صوفی غلام محمد صاحب` ماسٹر ابراہیم صاحب بی اے` ماسٹر ابراہیم صاحب ناص تھے۔ چوہدری حبیب احمد صاحب سیال معاون ناظر ضیافت تھے۔ حضرت شاہ صاحب نے انتہائی بے سرو سامانی اور مشکلات کے ہجوم میں اپنے نائبین کے ساتھ عمدہ طور پر اپنی ذمہ داری ادا کی مہمانوں کی خدمت کے لئے تیس کے قریب محکمے اس نظامت کی براہ راست نگرانی میں کام کررہے تھے مثلاً شعبہ روشنی و شعبہ صفائی` شعبہ استقبال` شعبہ مہمان نوازی جس کے انچارج بالترتیب چوہدری عبدالباری صاحب` چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم اے تھے` چوہدری صلاح الدین صاحب بی اے اور مولانا ¶ابوالعطاء و چوہدری عبدالرحمن صاحب بی اے بی ٹی تھے۔
کھانا وغیرہ لنگر خانہ کے منتظم صوفی غلام محمد صاحب نائب ناظم جلسہ کی نگرانی میں تیار ہوتا تھا۔ دن رات چالیس تنور گرم رہے اور ایک ایک وقت میں ساٹھ ساٹھ دیگیں سالن وغیرہ کی تیار ہوتی رہیں۔ معزز مہمانوں کی آمد لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی اور کام کرنے والوں کی تعداد کا ہر اندازہ غلط ہوتا رہا۔ اس لئے کارکنوں کی محدود تعداد پر ہی کام کا بوجھ پڑ رہا تھا۔ اس کوشش میں کہ تمام مہمانوں کو کھانا پہنچ جائے اس محدود عملہ سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کی جاتی تھی۔ جس کے نتیجہ میں پر اور باورچی بے ہوش ہوہو جاتے تھے اور دوسرے عملہ کو بھی بعض اوقات بیس بیس گھنٹے کام کرنا پڑا۔
حضرت امیرالمومنین کی تحریک کے مطابق بہت سے احباب اپنے ہمراہ گندم آٹا اور دالیں وغیرہ لے کر آئے تھے۔ بعض دوست تو کئی بوریاں گندم کی لائے۔ چنانچہ مہمانوں کی خوراک کے لئے گندم کا کافی ذخیرہ ہوگیا تھا اور باوجود مہمانوں کی کثرت کے گندم کی قطعاً قلت محسوس نہ ہوئی ایک پہاڑی کے دامن میں لنگر قائم کیا گیا تھا۔ جہاں تمام مہمانوں کے لئے کھانا تیار ہوتا تھا۔ اس جگہ ۴۵ تنور لگائے گئے تھے۔ چونکہ لنگر خانہ مہمانوں کی قیام گاہ سے ذرا فاصلے پر تھے۔ اس لئے پانچ ٹرک قیام گاہوں تک کھانا لانے کے لئے مخصوص کردیئے گئے تھے۔ جب کھانا قیام گاہوں تک پہنچتا۔ تو اسے جماعت وار تقسیم کردیا جاتا۔ ہر جماعت کے لئے الگ الگ کارکن مقرر تھے جو کھانا کھلانے کی خدمت سرانجام دیتے۔ کارکنان کی کمی ان کی ناتجربہ کاری نئی جگہ اور نئے حالات کی وجہ سے انتظامات میں رحمتوں کا پیدا ہونا تو لازمی تھا۔ لیکن امید سے بڑھ کر مہمان آنے کی وجہ سے مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے کھانا وقت پر نہ ملنے یا ناکافی ملنے کی شکایات بھی پیدا ہوجاتی تھیں۔ لیکن احباب کو چونکہ مشکلات کا علم تھا اس لئے وہ نہایت خندہ پیشانی سے یہ تکلیف برداشت کرتے رہے۔ مہمانوں کی رہائش کے لئے اسٹیشن کے دونوں طرف پچاس نئی اور عارضی اور کچی بیرکیں تعمیر کی گئی تھیں۔ شعبہ تعمیرات کے انچارج مکرم ملک محمد خورشید صاحب تھے۔ جنہوں نے اپنے نائبین چوہدری عبداللطیف صاحب اور راجہ محمد نواز صاحب کی امداد سے نہایت تنگ وقت میں یہ کام انجام دیا۔ مستورات کی بیرکوں کے گردا گر ایک اونچی دیوار کھینچ دی گئی تھی۔ جس سے پردہ کا پورا پورا اہتمام تھا خواتین کے لئے دس بیرکیں مخصوص کی گئی تھیں۔ لیکن مورخہ ۱۴۔ شہادت/ اپریل کی رات کو اتنی تعداد میں مستورات آگئیں کہ وہ جگہ ان کے لئے قطعاً ناکافی ثابت ہوئی۔ اس کی دیوار توڑ کر قریب کی دو بیرکیں بھی مستورات کو دے دی گئیں۔ ان بیرکوں کے علاوہ احباب ایک معقول تعدا اپنے ساتھ پھولداریاں اور خیمے لائی ہوئی تھی جن کے نصب کرنے کے لئے ایک مخصوص جگہ وقف کردی گئی تھی اور جن سے میدان ربوہ میدان عرفت کی یاد دلا رہا تھا جلسہ میں کسیر وغیرہ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے نیچے بچھانے کے لئے کھجور کی بنی ہوئی چٹائیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔
وادی غیر ذی زرع ربوہ میں ۱۶۔ ۱۷ ہزار نفوس کے لئے پانی کا مہیا کرنا ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ اس اجتماع میں صرف لنگر خانہ میں پانی کا روزانہ خرچ سات ہزار گیلی تھا بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تمام مشکلات پر قابو پالیا گیا اس سلسلہ میں ربوہ میں ۲۲ نلکے لگوائے گئے۔ اور ٹینکروں کے ذریعہ ربوہ سے باہر ساڑھے سات میل کے فاصلہ سے پانی کے منگوانے کا انتظام کیا گیا۔ اسی طرح تقریباً ۶۸ ہزار گیلن پانی روزانہ مہیا ہوتا رہا۔ گورنمنٹ نے چار ٹینکر مع ضروری سٹاف کے یہاں بھجوائے۔ پانی کے سٹاک کے لئے چھوٹی چھوٹی آہنی ٹینکوں کا انتظام تھا اور وہ مناسب جگہوں پر رکھی ہوئی تھیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے اس شعبہ کے منتظم چوہدری عبدالباری صاحب بی اے نائب ناظر بیت المال تھے۔ جنہوں نے نہایت تندہی سے اس کام کو سرانجام دیا۔
قادیان میں تو ہزاروں ہزاروں تربیت یافتہ کارکن میسر آجاتے تھے لیکن یہاں مقامی کارکن قریباً نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے بیشتر کارکن خود مہمانوں پر ہی مشتمل تھے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ` جامعہ احمدیہ` مدرسہ احمدیہ کے قابل احترام اساتذہ اور جواں ہمت طلباء نے انتظامات جلسہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
جلسہ مستورات کے انتظامات کے سلسلہ میں خاندان حضرت مسیح موعود کی مستورات قابل رشک حد تک سرگرم عمل رہیں۔ بہت سی دیگر مہمان خواتین نے بھی ان کا نہایت اخلاص سے ہاتھ بٹایا۔ خواتین کا انتظام عمدہ تھا کہ خود سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس کی بہت تعریف فرمائی۔
جلسہ سالانہ کے دو دن پہلے ہی شمع احمدیت کے پروانوں کی آمد شروع ہوگئی تھی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے توقع سے زیادہ تعداد جلسہ میں شامل ہوئی۔ باوجودیکہ فصل کی کٹائی کا موسم تھا۔ پھر بھی دیہاتی جماعتوں کے احباب کثرت سے آئے۔ جلسہ میں نہ صرف پنجاب ہی کے احباب شامل ہوئے۔ بدر مشرق پاکستان اور مغربی پاکستان کے ہر صوبے کے احمدی دوست آئے۔ اسی طرح پاکستان کے علاوہ قادیان` بہار` کلکتہ اور حیدر آباد سے بھی دوست تشریف لائے۔ جن میں حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس طرح جرمن کے نومسلم بھائی عبدالشکور` کنزے اور ماریشس کے برادرم احمدید اللہ بھی شریک جلسہ ہوئے۔ ۱۳۔ اپریل سے ۱۹۔ اپریل کی شام تک ۷۷۳۷۱ مہمانوں کے کھانا کا انتظام کیا گیا جس سے حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فرمان ایک نئی شان کے ساتھ پورا ہوا کہ
لفاظات الموائد کان اکی
وصرت الیوم مطعام الاھالی
کسی زمانہ میں دستر خوان کا پس خوردہ میری خوراک تھا مگر آج میں بے شمار گھرانوں کو رات دن کھلانے والا ہوں۔
دھوپ کی شدت کی وجہ سے جلسہ گاہ اور سٹیج پر خیمے لگا دیئے گئے تھے۔ مردانہ جلسہ گاہ کی کاروائی ۱۹۸ x ۱۹۸ گز کے شامیانے میں ہوئی۔ مردانہ جلسہ گاہ کے باہر سٹیج کے قریب ایک طرف لوائے احمدیت اور دوسری طرف لوائے پاکستان لہرا رہا تھا۔ لوائے احمدیت کی حفاظت کا کام خدام الاحمدیہ کے ایثار پیشہ نوجوان کے سپرد تھا۔ مردانہ جلسہ گاہ کے قریب ہی پردوں کے اندر مستورات کی جلسہ گاہ تھی۔ لائوڈ سپیکر کا نہایت عمدہ انتظام تھا اور حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی تقاریر بیک وقت دونوں جلسہ گاہوں میں سنی جاتی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ سے طعام کے انتظام کے علاوہ عارضی طور پر بازار بھی لگایا گیا۔ جس میں موسم کے لحاظ سے مہمانوں کی ضروریات مہیا کرنے کا انتظام رہا لیکن جب متوقع مقدار سے بہت بڑھ کر مسیح موعود کے مہمان نئے مرکز میں پہنچ گئے تو جس طرح لنگر خانہ کا انتظام عاجز رہ گیا اسی طرح بازار میں بھی اشیاء فروخت ختم ہوجاتی رہیں۔
حکومت کی طرف سے مہمانوں کی روانگی کے لئے ایک سپیشل ٹرین کا انتظام بھی کیا گیا تھا گو وہ اصل وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے گئی۔ مہمانوں کی ایک معقول تعداد لاریوں کے ذریعہ بھی آئی اور گئی۔ ریلوے اسٹیشن ربوہ پر سٹاف کی کمی کی وجہ سے پورے ٹکٹ نہیں فروخت کرسکے اسی طرح یہ شکایت بھی رہی کہ بعض اسٹیشنوں سے ربوہ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔۲۴
جلسے کے ایام کے لئے گاڑیوں کے ساتھ کافی زائد بوگیاں لگا دی گئی تھیں۔ ¶مہمانوں کی طبی امداد کے لئے حسب سابق نور ہسپتال ہی یہ خدمت بجا لاتا رہا جس کے انچارج حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے۔ گورنمنٹ نے بھی سول ہسپتال چنیوٹ کے انچارج کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھی جلسہ کے کے موقع پر اپنے عملہ کو بھجوائے۔ الحمدلل¶ہ۔ اس قدر کثیر مجمع میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح خیریت رہی۔
جلسہ میں حفاظت کا کام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سپرد تھا۔ خود صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بنفس نفیس اس کی نگرانی فرماتے رہے آپ کے نائب مرزا بشیر احمد بیگ صاحب تھے۔
یہ جلسہ چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں ہورہا تھا اس کے انتظام کے لئے خود حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے غیر معمولی طور پر توجہ فرمائی۔ اور باوجود ناسازی طبع کے ان ایام میں ازحد مصروف رہے۔ بیرونی جماعتوں سے ملاقاتیں کرنے اور نہایت پرمعارف اور مفصل تقاریر ارشاد فرمانے کے علاوہ حضور نے انتظامات جلسہ کے ہر شعبہ اور ہر پہلو کی ذاتی نگرانی فرمائی۔ چنانچہ حضور لنگر خانہ میں تیاری و تقسیم طعام کی مشکلات کو حل کرنے اور دیگر ضروری اور فوری ہدایت کے لئے بعض اوقات خود تشریف لاتے رہے چنانچہ ایک موقعہ پر رات کے ایک بجے اور ایک دن ۲/۲۱ بجے دوپہر حضور لنگر خانہ میں تشریف لائے اور اپنی مفید اور ضروری ہدایات سے مشکل کشائی فرمائی اس طرح ۱۳۔ اپیل کو شام کی گاڑی پر حضور خود تشریف لے گئے۔ اور چونکہ قلیوں اور مزدوروں کا کوئی انتظام نہیں تھا اور ڈر تھا کہ ہنگامہ میں کوئی سامان ضائع نہ ہوجائے۔ حضور مسلسل دو گھنٹے تک اسٹیشن پر موجود رہے۔ اور پوری حفاظت کے ساتھ جب تک ہر ایک شخص کا سامان اس کی فرودگاہ تک والنٹیر کے ذریعہ نہیں پہنچ گیا حضور وہیں رہے۔ اور اسی طرح سب سے پہلے دن عمل طور پر کارکنوں کی تربیت کرکے استقبال کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
ایام جلسہ میں صدر انجمن احمدیہ کے مختلف محکمہ جات میں اشتراک عمل پیدا کرنے کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے سپرد تھا۔ اور اس کام میں آپ بعض اوقات رات کے دو بجے تک مصروف رہے۔۲۵
کوائف جلسہ کا ایمان افروز تذکرہ کرنے کے بعد بالاخر بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعود کی منظوری سے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اس تاریخی جلسہ کی ایک متحرک فلم کا بھی انتظامکیا گیا۔ مگر افسوس حسن فرم نے سلسلہ احمدیہ جلسہ کی کارروائی محفوظ کرنے کے لئے منہ مانگے دام وصول کئے وہ اپنے عہد سے عملاً منحرف ہوگئی اور آئندہ نسلیں خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کی ایک قیمتی یادگار سے ہمیشہ کے لئے محروم رہ گئی۔
‏tav.12.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
جلسہ کی حیرت انگیز کامیابی پر حضرت مصلح موعود کا مفصل خطبہ جمعہ
اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ انتہائی مخالف حالات اور پرخطر ماحول کے باوجود یہ جلسہ حیرت انگیز طور پر کامیاب رہا۔ حضرت مصلح موعود نے
خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں` رحمتوں` برکتوں کے اس تازہ شان پر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲۔ شہادت/ اپریل ۱۳۴۸/۱۹۴۹ء میں مفصل روشنی ڈالی چنانچہ فرمایا:۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ اس سال ہم اس جگہ پر کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کو آئندہ جماعت احمدیہ کا مرکز بنانے کی تجویز ہے بظاہر حالات ہمیں اس جگہ پر اس سال جلسہ سالانہ کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی جیسا کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا۔ جماعت کے دوستوں نے مجھے کثرت سے لکھنا شروع کردیا تھا کہ اس سال ربوہ میں جلسہ سالانہ کرنا مناسب ہے۔ کیونکہ شدت کی گرمی کی وجہ سے لوگ وہاں ٹھہر نہیں سکیں گے اور پھر یہ فصلوں کے دن ہیں اور کٹائیوں کی وجہ سے لوگ کثرت سے اس جلسہ پر نہیں آسکیں گے۔ پھر نئی جگہ ہے وہاں رہائش کا کوئی بندوبست نہیں پانی وغیرہ کی دقت ہے۔ یہ باتیں مجھے بھی نظر آتی تھیں۔ مگر میں جب سے قادیان سے آیا ہوں میں یہ جانتا تھا کہ پانچ سالہ پیشگوئی کے مطابق۲۶ ۱۹۴۹ء کا جلسہ سالانہ ہم کسی ایسی جگہ کریں گے جس کو ہم اپنا کہہ سکیں گے۔ چنانچہ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ کرسمس کی تعطیلات کی بجائے ایسٹر ہو لیڈیز میں کیا جائے لیکن جب جلسہ سالانہ کے ایسٹر ہو لیڈیز میں کرنے کی تجویز ہوگئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سال جلسہ سالانہ دسمبر کی بجائے اپریل میں منعقد ہو تو لوگوں نے یہ وہم کرنا شروع کریا کہ وہاں گرمی ہوگی۔ کھانے پینے اور رہائش کی دقت ہوگی۔ پہلے خیال تھا کہ ایسٹر کی تعطیلات مارچ میں ہوں گی۔ اور مارچ کا موسم اچھا ہوتا ہے زیادہ گرم نہیں ہوتا لیکن جب ایسٹر کی تعطیلات اپریل میں نکلیں یا یوں کہو کہ جب علم ہوا کہ ایسٹر کی تعطیلات اپریل میں ہوں گی تو لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہونا شروع ہوا کہ اس دفعہ وہاں جلسہ کرنا ناممکن ہے لیکن جرا ہمارے ذہن میں تھی اس کے خلاف لوگ بہت زیادہ تعداد میں آئے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس جلسہ سالانہ پر صرف دس ہزار آدمی آسکیں گے کیونکہ ایک تو موسم اچھا نہیں تھا گرمی تھی پھر یہ فصلوں کا وقت تھا اور کٹائیاں ہورہی تھی۔ اور زمیندار کٹائی چھوڑ کر جلسہ پر نہیں آسکتے تھے۔ پھر بعض لوگ اس لئے بھی نہ آسکے کہ نئی جگہ ہونے کی وجہ سے وہاں رہائش کا مناسب انتظام نہ تھا لیکن تقسیم پرچی سے جو اندازہ لگایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار پانچ سو کے قریب وہ عورتیں تھیں جن کے کھانے کا انتظام لجنہ اماء اللہ کے ماتحت کیا جاتا تھا۔ اور دس ہزار چھ سو کے قریب وہ پرچی تھی جس کا انتظام مردوں کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہوجاتی ہے۔ لیکن ڈیڑھ ہزار کے قریب وہ لوگ تھے جو کھانے کی پرچی میں شمار نہیں ہوسکتے تھے۔ کیونکہ وہ جلسے سننے کے لئے تو آجاتے تھے مگر کھانے کے وقت واپس چلے جاتے تھے۔ مثلاً احمد نگر میں چھ سات سو آدمی ٹھہرے ہوئے تھے وہ جلسہ سننے کے لئے آئے تھے اور پھر چلے جاتے تھے۔ کھانا ربوہ میں نہیں کھاتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ چنیوٹ میں بھی ٹھہرے ہوئے تھے اس کے علاوہ چنیوٹ میں بھی کافی احمدی بستے ہیں۔ کچھ تو فسادات کے بعد وہاں آکر بس گئے ہیں اور کچھ وہاں کے باشندے ہیں۔ بہرحال سات آٹھ سو کے قریب وہ لوگ تھے جو چنیوٹ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور جلسہ سننے کے لئے روزانہ ربوہ آجاتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ وہاں کھانا نہیں کھاتے تھے اور جلسہ سننے کے لئے روزانہ ربوہ آجاتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ وہاں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ احمد نگر اور چنیوٹ کے علاوہ بعض دوسری جگہوں سے بھی لوگ صرف جلسہ کے وقت آتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دو سو آدمی لائل پور سے بھی ایسا آتا تھا۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے کھانے کا اپنا انتظام کیا ہوا تھا۔ مثلاً سو کے قریب ہمارے ہی خاندان کے افراد تھے۔ جن کے کھانے کا اپنا انتظام تھا۔ اس طرح پندرہ سو سے دو ہزار تک ان لوگوں کی تعداد ہوجاتی تھی جو لنگر کے انتظام کے ماتحت کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ ان کا اپنا انتظام تھا۔ اس تعداد کو ملا کر سترہ ہزار کے قریب ایسے لوگ تھے جو اس سال جلسہ میں شامل ہوئے اور ان مخالف سوالات کے باوجود شامل ہوئے کہ جن کے ہوتے ہوئے بعض کہتے تھے کہ اس سال وہاں جلسہ سالانہ نہیں ہوسکے گا بلکہ بعض مخالف ایسے تھے جنہوں نے ان مخالف حالات کی وجہ سے یہ پیشگوئیاں کرنی شروع کردی تھیں کہ یہ جلسہ سالانہ اس سال نہیں ہوسکے گا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل نازل کیا اور جلسہ ہوا۔ اور صرف ہوا ہی نہیں بلکہ اس کامیابی کے ساتھ ہوا کہ لوگ حیران رہ گئے۔ چنانچہ اتنے لوگوں کا وہاں آجانا تو حسن ظن کے ماتحت بھی ہوسکتا ہے لیکن جو تکلیفیں اور مشکلات وہاں تھیں ان کے باوجود لوگوں کا وہاں رہنا اور ان کو خوشی سے برداشت کرنا یہ ایسی چیز تھی جو تائید الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ مثلاً پہلے دن ہی سوا دو بجے رات تک بہت سے لوگ ایسے تھے جنہیں کھانا نہیں ملا تھا مجھے ساڑھے بارہ بجے کے بعد یہ آوازیں آنی شروع ہوگئیں کہ ٹھہرو ابھی کھانا دیتے ہیں ٹھہرو ابھی کھانا دیتے ہیں۔ میں نے ایک آدمی لنگر خانے بھجوایا اور اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ روٹیاں ابھی پہنچی ہی نہیں۔ کچھ روٹیاں پہنچی ہیں لیکن وہ بہت تھوڑے لوگوں کو مل سکی ہیں۔ میں خود وہاں گیا اور لنگر خانہ کے کارکنوں سے پوچھا کہ روٹی کا ابھی تک کیوں انتظام نہیں ہوسکا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ہماری تمام کوششیں بالکل ناکام ہوچکی ہیں اس میں کچھ منتظمین کا بھی قصور تھا کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس دفعہ ساٹھ تندور لگائے جائیں گے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صرف چالیس تندور لگائے گئے ہیں بہرحال چونکہ عام طور پر یہ خیال تھا کہ جلسہ پر بہت کم لوگ آئیں گے اس لئے تندور کم لگائے گئے۔ باورچی بھی کم تھے نتیجہ یہ ہوا ان پر کام کا بوجھ زیادہ پڑا گرمی کا موسم تھا جو شیڈ بنائے گئے تھے وہ کم تھے پھر ایک طرف دیوار کھینچی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہوا نہیں آتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۹ باورچی بے ہوش ہوگئے۔ ان کو دیکھ کر باقی باورچیوں نے کام چھوڑ دیا اور کہ دیا کہ ہم اپنی جان کو مصیبت میں کیوں الیں۔ اس وجہ سے ۹۔ ۱۰ بجے تک روٹی کا کوئی انتظام نہ ہوسکا بلکہ اس وقت تک ان کو کام کرنے کی طرف کوئی رغبت ہی نہ تھی۔ تھوڑے سے چاول ابالے گئے اور وہ صرف بچوں کو دیئے گئے پھر جوں توں کرکے روٹی کا انتظام کیا گیا اور صبح کے پانچ بجے تک روٹی تقسیم ہوتی رہی اور وہ بھی بہت تھوڑی تھوڑی۔ حالانکہ بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جنہیں دوپہر کو بھی کھانا نہیں ملا تھا اور وہ رات بھی انہوں نے بغیر کھائے کے گزار دی مگر بجائے اس کے کہ ان کی طبائع میں شکوہ پیدا ہوتا انہوں نے اس تکلیف کو بخوشی برداشت کیا۔ پھر دوسرا دن بھی اسی طرح گزرا۔ دوسرے دن بھی کھانا تیار کروانے کی بظاہر کوئی صورت نہیں تھی آخر میں نے افسروں کی سرزنش کی اور انہیں مختلف تدابیر بتائیں اپنے بیٹوں کو اس کام پر لگایا اور بالاخر بعض ایسی تدابیر نکال لی گئیں جن کے ذریعہ اگر پیٹ بھر کر نہیں تو کچھ نہ کچھ کھانا ضرور مل گیا مثلاً ہمارے ملک میں ایک آدمی کی عام غذا تین روٹی ہے لیکن میں نے یہ فیصلہ کیا۔
سو بجائے تین تین روٹی کے دو دو روٹیاں دی جائیں پھر یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ نانبائیوں سے ٹھیکہ کرلیا گیا کہ اگر وہ اتنا کھانا تیار کردیں تو انہیں مزدوری کے علاوہ انعام بھی دیا جائے گا اس طرح ان غریب آدمیوں نے لالچ کی وجہ سے کام کیا اور ہمارے جلسہ کے ن گزر گئے۔ غرض ان تمام تکلیفوں کے باوجود ہمارے لوگوں کا بشاشت کے ساتھ وہاں بیٹھے رہنا بتاتا ہے کہ یہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے تھا پانی کے جو ہم نلکے لگوائے تھے وہ تمام ناکام گئے البتہ پانی کے لئے جو سرکاری انتظام کیا گیا تھا اس سے بہت کچھ فائدہ ہوا لیکن پانی استعمال کرنے کی ہمارے لوگوں کو جتنی عادت ہوتی ہے اتنا پانی پھر بھی مہیا نہ ہوسکا۔ رہائش کی یہ حالت تھی کہ جن بارکوں میں ۲/۴۱ ہزار عورتوں کو رکھا گیا تھا ان کے متعلق دیکھنے والا یہ تسلیم ہی نہیں کرتا تھا کہ ان بیرکوں میں اتنی عورتیں رہ سکتی ہیں جن بیرکوں میں عورتوں کو ٹھہرایا گیا تھا وہ کل سولہ تھیں ان میں اگر لوگوں کو پاس پاس بھی سلا دیا جائے تو صرف دو ہزار آمی آسکتا ہے لیکن جلسہ پر جو عورتیں وہاں ٹھہری تھیں وہ ساڑھے چار ہزار کے قریب تھیں یہ اس طرح ہوا کہ انہوں نے سامان اندر رکھ یا اور آپ باہر سو کر گزارہ کرلیا۔ مردوں کا حال اس سے بھی برا تھا۔ تمام مرد بارکوں کے اندر سو نہیں سکتے تھے اس لئے مردوں کو عورتوں سے زیادہ تکالیف ہوئی کچھ گنجائش اس طرح بھی نکل آئی کہ میری تحریک کے ماتحت بعض اپنے ساتھ بانس` کیلے اور ستنی لے آئے اور خود خیمے لگا کر انہوں نے جلسہ کے دن گزارے مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے بھی یہ تحریک کردی گئی تھی چنانچہ میں نے جب جلسہ کے انتظامات دیکھنے کے لئے چکر لگایا تو بہت سے خیمے لگے ہوئے تھے میرا خیال ہے کہ وہ سو ڈیڑھ سو کے قریب ہوں گے۔ پھر کچھ لوگ چنیوٹ ٹھہر گئے اور کچھ لوگ احمدنگر ٹھہر گئے اور اس طرح گزارہ ہوگیا۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود مخالف حالات اور مختلف تکالیف اور مشکلات کے خدا تعالیٰ کی وہ خبر جس کو میں پہلے تعبیری طور پر سمجھتا تھا عملی طور پر بھی ثابت ہوئی۔ اور وہی جو خیال کرتے تھے کہ اس سال جلسہ سالانہ نہیں ہوسکے گا انہیں بھی اقرار کرنا پڑا کہ اس جگہ رہائش کرنے کی وجہ سے لوگوں کی صحت پر براثر نہیں پڑا بلکہ اچھا ہی پڑا ہے۔ آندھیاں سارا دن چلتی رہتی تھیں اور گرد سارا دن آنکھوں میں پڑتی تھی لیکن لاہور میں میرا یہ حال تھا کہ مجھے آنکھوں میں اتنی تکلیف تھی کہ مجھے کئی بار دوائی لگوانی پڑتی تھی۔ درد کی وجہ سے مجھے شبہ ہوگیا تھا کہ کہیں کوئی بیماری نہ ہو۔ دن میں چار پانچ دفعہ مجھے لوشن لوانا پڑتا تھا تب جاکر کہیں میری حالت قابل برداشت ہوتی تھی لیکن ربوہ میں نو دن کے قیام میں مجھے صرف دو دفعہ لوشن ڈلوانا پڑا اور پہلے سے میری آنکھیں اچھی معلوم ہوتی تھیں حالانکہ سارا دن مٹی آنکھوں میں پڑتی رہتی تھی اسی طرح وہاں کے پانی کے متعلق ڈاکٹری رپورٹ یہ تھی کہ وہ زہریلا ہے۔ اور انسان کے پینے کے ناقابل ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ وہ پانی ہم پر برا اثر ڈالے اچھا اثر ڈالتا رہا۔ وہ بدمزہ ضرور تھا ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے مقابلہ میں پانی پی لیا یعنی دوسرا اور پانی میں نے پہلے پی لیا اور پھر وہاں سے نلکوں کا پانی پی لیا نتیجہ یہ ہوا کہ قریباً سوا گھنٹہ تک منہ کا ذائقہ خراب رہا لیکن باوجود اس کے کہ ڈاکٹری رپورٹ اس پانی کے متعلق تھی کہ وہ انسان کے پینے کے قابل نہیں اس پانی نے بجائے تکلیف پہنچانے کے ہمیں فائدہ پہنچایا جب میں لاہور سے گیا میرے معدہ میں سخت تکلیف تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میری انتڑیوں پر فالج گررہا ہے لیکن وہاں میری طبیعت اچھی ہوگئی۔ اجابت بھی اچھی ہوتی رہی صرف آکری دن اسہال آنے شروع ہوگئے اور بیس کے قریب اسہال آئے لیکن باقی دنوں میں میری طبیعت اچھی ہی میری بیوی ام ناصر نے بتایا کہ یہاں لاہور میں میں ایک دفعہ کھانا کھایا کرتی تھی لیکن ربوہ میں دونوں وقت کھانا کھاتی رہی۔ آج لاہور آکر پھر ایک دفعہ کھانا کھا رہی ہوں۔ اسی طرح کئی اور دوستوں نے بتایا کہ ربوہ کے پانی نے ان کی صحتوں پر اچھا ار ڈالا ہے اور بوجود گردوغبار اڑنے کے ان کی آنکھوں کو آرام آگیا۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں واپس آکر میری آنکھوں میں پھر تکلیف شروع ہوگئی یہاں آکر میں دو تین دفعہ دوائی ڈلوا چکا ہوں غرض خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایسے سامان کردیئے کہ بجائے اس کے کہ اچھا کھانا نہ ملنے کی وجہ سے ہماری صحت پر کوئی برا اثر پڑتا ہماری صحت پر اچھا اثر پڑا بجائے اس کے کہ وہاں پانی اچھا نہ ملنے کی وجہ سے ہماری صحتوں پر اثر پڑتا ربوہ کے پانی نے ہماری صحتوں پر اچھا اثر ڈالا۔ بجائے اس کے کہ گردوغبار اڑنے کی وجہ سے ہماری آنکھیں خراب ہوتیں ہماری آنکھیں پہلے سے بھی اچھی ہوگئیں۔ وہاں کے قیام میں آنکھوں میں اتنی گرد پڑی کہ اگر سال بھر کی گرد کو جمع کیا جائے تو اتنی نہ ہوگی لیکن اس گردوغبار نے ہماری آنکھوں کو اور بھی منور کردیا اسی طرح روٹیوں اور سالن کے مہیا کرنے میں بہت سی مشکلات تھیں لیکن وہی روٹیاں جو کچی ہوتی تھیں بجائے اس کے کہ ہمارے معدوں کو خراب کرتیں ان کے کھانے سے ہمارے معدوں میں اور زیادہ طاقت محسوس ہونے لگ گئی۔ پھر علاقہ نیا تھا اس وجہ سے بھی بعض دقتوں کا احتمال تھا مگر اس میں بھی خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہوا۔ اور وہاں تبلیغ کثرت سے ہوئی قادیان کے جلسوں پر ضلع جھنگ کے صرف چالیس پینتالیس آدمی آیا کرتے تھے لیکن اس جلسہ پر سب سے زیادہ آنے والے جھنگ کے لوگ تجھے لجنہ اماء اللہ نے جو عورتوں کی تعداد کے متعلق ضلعوار رپورٹ دی اس کے مطابق جلسہ پر آنے والی ایک ہزار پندرہ عورتیں ایسی تھیں جو ضلع جھنگ سے آئی تھیں چونکہ ہم نئے نئے وہاں گئے تھے اردگرد کے لوگوں نے ہمارے متعلق باتیں سنیں تو وہ جلسہ پر آگئے۔ اس طرح تبلیغ کے لئے ایک اور راستہ نکل آیا میرے ایک عزیز لالیاں ٹھہرے ہوئے تھے ربوہ میں چونکہ رہائش کا خاص انتظام نہیں تھا اس لئے وہ لالیاں ٹھہر گئے اور ڈاک بنگلہ ریزرو کروا لیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ سٹیشن پر رخصت ہونے لگے تو ایک پٹھان شور مچارہا تھا وہ پٹھان قادیان نہیں آیا تھا لیکن ربوہ کا جلسہ اس نے دیکھا تھا چونکہ یہ لوگ اسلامی ممالک کے قریب رہتے ہیں اس لئے اسلامی باتوں کا ان کے دلوں پر اچھا اثر ہوتا ہے اس عزیز نے بتایا کہ وہ پٹھان شور مچارہا تھا کہ ایسا جلسہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ایسی تقریر ہم نے پہلے سنی ہے اس کے پاس کوئی مولوی طرز کا ایک آدمی کھڑا تھا۔ اس نے کہا یہ لوگ تو کافر ہیں ان کا جلسہ کیا اور ان کی تقریریں کیسی اس نے کہا وہ کافر نہیں ہوسکتا وہ تو سو بکرا روز کھلاتا ہے وہ کافر کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کا اثر تھا جو اس پٹھان کی طبعت پر ہوا پٹھان ایک مہمان نواز قوم ہے اس نے جب جلسہ پر مہمان نوازی کا انتظام دیکھا تو اس کی طبیعت پر بہت اچھا اثر ہوا۔ اسی طرح پونچھ کے علاقہ کی ایک عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی پہاڑی علاقہ کے لوگ عام طور پر مہمان نواز ہوتے ہیں لیکن وہ ایسے علاقہ کی تھی جو مہمان نواز نہیں تھا۔ وہ عورت میری ایک بیوی کے پاس آئی ان سے کہا کہ ہمارے ہاں تو مہمان آئے تو چارپائی الٹ دیتے ہیں اور مہمان کو کھانا نہیں کھلاتے آپ تو ساروں کو کھانا دیتے ہیں بہرحال نئی جگہ اور نیا علاقہ ہونے کی وجہ سے کئی نئے لوگوں کو ہماری باتیں سننے کا موقعہ ملا۔ میں لاہور والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں )اگرچہ یہ بات میری عقل میں نہیں آتی کہ لاہور اس فعہ سیکنڈ رہا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی طرف سے جو عورتوں کی تعداد مجھے دی گئی ہے اس کے مطابق ۹۷۵ عورتیں لاہور کی تھیں۔ یہ بات میں نہیں سمجھ سکا کہ اتنی عورتیں کہاں سے آئیں۔ دو اڑھائی سو تک تو بات سمجھ میں آجاتی ہے اتنی عورتیں تو قادیان کی مہاجر عورتیں ہوسکتی ہیں لیکن پھر بھی ساڑھے چھ سو کی تعداد باقی رہ جاتی ہے اور اگر ۹۷۵ عورتیں لاہور کی تھیں تو جلسہ میں مرد بھی شامل ہوئے تھے اگر ان کی حاضر کی بھی یہی نسبت تھی تو پھر لاہوری ضلع حاضری کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آجاتا ہے۔ سرگودھا لائل پور اور سیالکوٹ کا ضلع اپنی احمدی آبادی کے لحاظ سے بہت کم شامل ہوئے۔ ان اضلاع سے آنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہونی چاہئے تھی۔ آبادی کے لحاظ سے ان ضلعوں سے آنے والے بہت کم لوگ تھے۔ ضلع سرگودھا سے آنے والوں کی تعداد اور باقی دو اضلاع سے نسبتاً زیادہ تھی اور لائل پور اورسیالکوٹ کی تعداد بہت پیچھے تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمارے جلسہ کو نہایت کامیابی سے گزرا<۔۲۷
ربوہ کی مساجد کو قبلہ رخ بنانے کا خصوصی اہتمام
چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیر کا تحریر بیان ہے کہ:۔
>ربوہ کی تعمیر کے سلسلہ میں خاکسار شروع ماہ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں جنگ فیکٹری کزی سنھ میں تعمیر کا کام ختم کرکے ربوہ پہنچ گیا تھا اور خیموں میں رہائش اختیار کی اس دوران تعمیر کا سامان اکٹھا کرنا شروع کیا۔ کچی اینٹ بننی شروع ہوئی اور عارضی تعمیرات کی صورت میں بیرکس بننی شروع ہوئیں۔ پختہ اینٹ کا انتظام کرکے چند ایک کمرے سٹورز کے لئے پہاڑی کے دامن میں بنائے گئے ماہ اپریل ۱۹۴۹ء میں ربوہ میں جلسہ سالانہ ہوا اس کے بعد ان بیریکس میں دیواریں بنا کر کوارٹرز بنائے گئے۔ ان دنوں یہ سوچ وچار ہوئی کہ مسجد کی تعمیر میں قبلہ کا رخ کس طرح تعین کیا جائے چنانچہ تھیاڈو لائٹ مشین کا انتظام کرکے دب اکبر کے ذریعہ قطبی ستارہ کا جائزہ لیا یہ ستارہ بھی ساکن نہیں ہے اور اپنے محور کے گرد ایک چھوٹے سے دائرہ میں گھومتا ہے۔ اور صحیح نارتھ کی لائن اس چھوٹے دائرہ کے درمیان گزرتی ہے۔ یہ مشین شریف احمد صاحب انجینئر رسول کالج سے چند دنوں کے لئے لائے جو سردار بشیر احمد صاحب کے ذریعہ ملی۔ شریف احمد صاحب آج کل امریکہ میں مقیم تھے اور وہ منصوری سے مہاجر ہوکر آئے تھے۔ قبلہ رخ کی تعین کے لئے ربوہ کا طول بلد اور عرض بلد معلوم کرکے سفیریکل ٹرگنو میٹری کے ذریعہ حساب نکالا گیا یہ کام قاضی محمد رفیق صاحب آرکیٹیکٹ کی عزیزہ حفیظہ صاحبہ نے کیا جو اس وقت پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ تھیں اور بعد میں جامعہ نصرت ربوہ میں بطور لیکچرار کام کرتی رہیں۔ انہوں نے یہ حساب ۵۵۔۹ منٹ ڈگری ورک اوٹ کیا اور سردار بشیر احمد صاحب نے ۳۲۔۹ منٹ ڈگری نکالا۔ یہ دونو حساب خاکسار نے حضرت میاں شریف احمد صاحب کی خدمت میں پیش کئے تو انہوں نے فرمایا کہ قادیان مین ہم ۴ ڈگری نارتھ لائن سے مشرقی طرف لگا کر مسجد کا رخ قائم کرتے تھے۔ ربوہ میں ۱۰ ڈگری لگائیں چنانچہ مسجد مبارک کی تعمیر کے وقت خاکسار نے رات کے وقت شمال اور جنوب لائن لگا کر ۱۰ ڈگری شرقی طرف turn کرکے مسجد کا لے اوٹ کیا۔ اس مسجد کی تعمیر قاضی عبدالرحیم بھٹی کے سپرد ہوئی تھی۔ بعد میں جب مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا کام چودھری نذیر احمد صاحب کے سپرد ہوا تو خاکسار نے قطبی ستارہ کے ذریعہ نارتھ لائن لگا کر ۱۰ ڈگری مشرق کی طرف turn کرکے مسجد کا رخ قائم کیا۔ مسجد ناصر محلہ دارالرحمت غربی` یادگاری مسجد فضل عمر ہسپتال` مسجد احمد فیکٹری ایریا کا لے اوٹ بھی خاکسار کے ذریعہ اسی اصول پر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ خاکسار نے ربوہ کی دیگر مساجد کی تعمیر میں اس رخ کو قائم رکھنے میں مدد کی ہے اور ٹھیکیدار ولی محمد صاحب کو تو میں نے ایک تکون کاغذ پر لگا کر بتایا ہوا ہے کہ شمال جنوب قائم کرکے اتنے فٹ پیمائش کرکے زاویہ قائم لگا کر اتنے فٹ پر لائن قائم ہوجاتی ہے۔
قبرستان خاص یعنی بہشتی مقبرہ کا ابتدائی نقشہ خاکسار نے تیار کیا تو مسجد کے مجوزہ رخ ۱۰ ڈگری شرقی طرف turn کرنے کے طریق پر رات قطبی ستارہ سے شمال جنوب قائم کرکے نقشہ پر قطعات اور راستے قائم کئے۔
محلہ دارالعلوم غربی اور شرقی کے لئے جب زمین ۱۹۶۰ء میں خرید کی گئی تھی تو خاکسار نے اس کا نقشہ پلائٹس تیار کیا اور پلاٹس اور سڑکوں کا لے اوٹ کیا تو مسجد کے رخ کے اس اصول کو مدنظر رکھا۔ اس طرح محلہ کے ۸۰ فیصد پلاٹس کی لائنیں قبلہ رخ ہیں۔
عبداللطیف اوورسیر
۹۵-۱۱-۸
پہلا باب )فصل دوم(
حضرت مصلح موعود کا سفر سندھ و کوئٹہ
سال ۱۳۲۸ہش )۱۹۴۹ء( کی دوسری ششماہی کا قابل ذکر اور اہم واقعہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی امیر المومنین المصلح الموعود کا سفر سندھ و کوئٹہ ہے۔ حضور ۲۱۔ ماہ ہجرت/ مئی کو لاہور سے سندھ کے لئے مع اہل بیت و خدام روانہ ہوئے۔۲۸ اور ۲/۴۱ ماہ کے بعد ۴۔ تبوک/ ستمبر کو کوئٹہ سے روانہ ہوکر ۵۔ تبوک/ ستمبر کو واپس لاہور تشریف لے آئے۔۲۹
روانگی
اس سفر میں پچاس نفوس پر مشتمل قافلہ حضور کے ہمرکاب تھا جو روہڑی سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ حضرت امیرالمومنین اور اہل بیت میں سے حضرت سیدہ ام متین حرم ثالث اور حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ حرم رابع اور حضور کے بعض صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور بعض خدام مثلاً حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب طبی مشیر اور چودھری سلطان احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ احمدیہ سنڈیکیٹ اور شیخ نور الحق صاحب سپرنٹنڈنٹ ایم این سنڈیکیٹ اپنے ضروری ریکارڈ کے ساتھ سندھ تشریف لے گئے۔ اور حضرت ام المومنین` حضرت سیدہ ام ناصر حرم اول` حضرت سیدہ ام وسیم حرم ثانی و صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے۔
میرپور خاص
حضرت امیرالمومنین مع اہل بیت ۲۲۔ ہجرت/ مئی کو بوقت چھ بجے صبح حیدرآباد پہنچے پھر بذریعہ کار سوا دس بجے میرپور خاص میں رونق افروز ہوئے۔ میاں عبدالرحیم احمد صاحب اور اسٹیٹ کے دوسرے مخلص کارکنوں نے حضور کا استقبال کیا۔۳۰ حضور کا یہ مبارک سفر چونکہ زیادہ تر انتظامی نوعیت کا تھا اس لئے حضور یہاں پہنچتے ہی مختلف اسٹیٹ کے کارکنوں کے ذریعہ صورتحال کا جائزہ لینے اور ضروری ہدایات دینے میں دن رات سرگرم عمل ہوگئے۔
کنزی سے محمود آباد اسٹیٹ
۴۔ احسان/ جون کو حضور اقدس مع اہلبیت کنزی تشریف لے گئے میاں عبدالرحیم احمد صاحب اویسیہ عبدالرزاق شاہ صاحب بھی ہمراہ تھے۔ دی سندھ جننگ اینڈ پریسنگ کی فیکٹری کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد حضور دیر تک مجلس میں رونق افروز ہوکر احباب سے گفتگو فرماتے رہے ظہر و عصر کی نمازیں حضور نے فیکٹری کی مسجد میں پڑھائیں پھر یہ قافلہ شام کے وقت کنری سے روانہ ہوکر سوا سات بجے شام محمود آباد اسٹیٹ میں وارد ہوا۔ سید دائود مظفر شاہ صاحب منیجر اسٹیٹ اور ماسٹر فضل کریم صاحب اکائونٹنٹ مع عملہ اسٹیٹ اور دیگر احباب اپنے مقدس آقا کا خیر مقدم کرنے کے لئے موجود تھے۔۳۱ حضور نے دو روز تک محمودآباد اسٹیٹ کا معائنہ فرمایا۔
ٹاہلی اسٹیشن پر ورود
۶۔ احسان/ جون کو حضور طاہر آباد اور خلیل آباد کی فصل کا معائنہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے طاہر آباد کو بسانے کی تجویز زیر عمل تھی اس لئے حضور نے مع خدام اجتماعی دعا فرمائی۔ ۷۔ احسان/ جون کو ۲/۲۱ بجے بعد دوپہر حضور نے بذریعہ گاڑی ٹاہلی اسٹیشن پر قدم رکھا۔ جہاں چوہدری صلاح الدین صاحب جنرل منیجر محمد آباد اسٹیٹ غلام احمد صاحب عطا ایم ایس سی انچارج تجرباتی فارم سید مسعود مبارک صاحب اور چوہدری غلام احمد صاحب بسرا ڈپٹی منیجر اپنے دیگر عملہ سمیت اھلا و سھلا و مرحبا کہنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔۳۲
حلقہ نور نگر میں >صادق آباد< کی بنیاداور گھوڑوں کی دیکھ بھال کیلئے ہدایات
۸۔ احسان/ جون کی صبح کو حضور نے حلقہ نور نگر اور حلقہ محمد آباد کی فصلیں ملاحظہ فرمائیں۔ حلقہ نور نگر میں ایک نئی بستی کی بنیاد رکھی
جارہی تھی۔ حضور وہاں بھی تشریف لے گئے اور خدام سمیت دعا فرمائی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے نام پر اس بستی کا نام صادق آباد تجویز فرمایا۔ ۹۔ جون کی صبح کو حضرت اقدس نے محمد آباد سٹیٹ کے گھوڑوں اور ان کے سامان کا جائزہ لیا اور چوہدری صلاح الدین صاحب جنرل منیجر کو ہدایت فرمائی کہ ہفتہ میں کم از کم ایک بار گھوڑوں اور زینوں وغیرہ کا معائنہ کیا جانا چاہئے یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا گھوڑوں کی صحیح دیکھ بھال ہوتی ہے یا نہیں آیا زینوں کا قابل مرمت سامان مرمت کرایا جاتا ہے۔ چمڑا کو پالش کیا جاتا ہے یا نہیں۔۳۳ یہ معائنہ جہد سلیمان کا ایک ورق تھا جو دہرایا جارہا تھا۔
تغیر عظیم پیدا کرنے کے لئے سندھی پڑھنے لکھنے اور بولنے کی تلقین
۱۰۔ احسان/ جون کو حضور نے ناسازی مطبع کے باوجود محمد آباد سٹیٹ میں نماز جمعہ خود پڑھائی اور نہایت روح پرور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں
سندھ کی جماعتوں کو اپنے اندر تربیتی اور تبلیغی لحاظ سے تغیر عظیم پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی نیز پرزور تحریک فرمائی کہ سندھی پڑھنا لکھنا اور بولنا سیکھو تا پنجابی اور سندھی کا بعد دور ہوجائے اس بارہ میں یہاں تک تاکید کی کہ اگلے سال اگر میں زندہ رہا تو میں یہاں کے کارکنوں کا امتحان لوں گا کہ انہوں نے کہاں تک میری آواز پر لبیک کہا ہے۔۳۴
احمد آباد اسٹیٹ سے کنجیجی
۱۳۔ ماہ احسان/ جون کو اکائونٹنٹ صاحب احمد آباد نے بھی سالانہ بجٹ پیش کیا۔ حضور نے دو نئی بستیاں آباد کرنے اور ان کے نام مہدی آباد اور مسیح آباد رکھنے کا ارشاد فرمایا۔ مقامی جماعت کی طرف سے دعوت طعام دی گئی۔ اس موقعہ پر حضور نے ایک مختصر تقریر میں قرب الٰہی کے حصول اور اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی نصیحت فرمائی۔ بعد ازاں حضور گھوڑے پر سوار ہوکر نبی سر روڈ ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے اور بذریعہ ٹرین مع قافلہ تین بجے دوپہر کنجیجی رونق افروز ہوئے۔ صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب اور چودھری فضل الرحمن صاحب منیجر ناصر آباد اسٹیٹ استقبال کے لئے موجود تھے۔ حضور مع اہل بیت بذریعہ کار اور باقی قافلہ بیل گاڑیوں پر ناصر آباد اسٹیٹ پہنچا۔۳۵
پرمعارف خطبہ
۱۷۔ احسان/ جون کو حضور نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ شریعت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو ورنہ اگر کوئی نقص رہ گیا تو یقیناً تمہارے ثواب میں کمی واقع ہوجائے گی۔ صحابہ کرام اس بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے اور چھوٹی سے چھوٹی بات یاد رکھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی جذبہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ نے اپنے اعمال و افکار کی تکمیل کرلی تھی۔
نماز جمعہ میں میر پور خاص اور احمدیہ اسٹیٹس کے احباب کثیر تعداد میں حاضر تھے۔ نماز عصر کے بعد پانچ وستوں نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی۔۳۶
کنجیجی سے کوئٹہ
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود قریباً ایک ماہ تک سندھ کی احمدی اسٹیٹس کا وسیع پیمانے پر دورہ و معائنہ کرنے اپنے خدام اور کارکنان کو قیمتی ہدایات سے نوازنے اور خطبات جمعہ کے ذریعہ مخلصین جماعت کے اندر فکر وعمل کی نئی قوت بھرنے کے بعد مع اہل بیت و خدام ۲۱۔ احسان/ جون کو ایک بجے دوپہر کنجینی سے روانہ ہوئے اور اگلے روز ۲۲۔ احسان/ جون کو چار بجے کے قریب بخیریت کوئٹہ پہنچے اسٹیشن پر مخلصین کوئٹہ اپنے امیر میاں بشیر احمد صاحب کے ہمراہ بھاری تعداد میں اپنے مقدس و محبوب آقا کی پیشوائی کے لئے حاضر تھے۔ حضور نے سب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر مع اہل بیت کاروں کے ذریعہ سے )جن کا اہتمام مقامی جماعت نے کیا تھا( اپنی قیام گاہ واقع یارک ہائوس میں تشریف لائے۔۳۷
قیام کوئٹہ کے اکثر و بیشتر ایام میں حضرت مصلح موعود کی طبیعت سخت علیل رہی حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ >روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے<۳۸ یہی کیفیت حضور پرنور کی تھی۔ جونہی بیماری کے حملہ میں معمولی سا افاقہ محسوس فرماتے حضور کی دینی مصروفیات میں ایسی نمایاں تیزی اور غیر معمولی سرگرمی پیدا ہوجاتی کہ دیکھنے والے ورطہ حیرت میں پڑجاتا۔ اس حقیقت کا اندازہ قیام کوئٹہ کے آئندہ درج شدہ کوائف سے باسانی لگ سکے گا۔
جماعت کو نئی آزمائشوں کیلئے تیار ہوجانے کا حکم
۲۴۔ احسان/ جون کو جمعہ تھا۔ حضرت امیرالمومنین نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ ہماری جماعت کو اب نئی آزمائشوں کے لئے تیار ہوجانا چاہئے چنانچہ فرمایا:۔
>جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علوم اور اس کی دی ہوئی خبروں سے مجھے معلوم ہوتا ہے جماعت کے لئے اب ایک ہی وقت میں دو قسم کے زمانے آرہے ہیں اور الٰہی جماعتوں کے لئے ہمیشہ ہی یہ دونوں زمانے متوازی آیا کرتے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں ترقی اور ایک ہی وقت میں تکالیف اور مصائب کا زمانہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ آخری زمانہ نہیں آجاتا جس میں تمام تکالیف ختم ہوجاتی ہیں اور صرف ترقیات ہی ترقیات باقی رہ جاتی ہیں لیکن الٰہی سنت یہ ہے کہ جب بیرونی مصائب کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے تو اندرونی مصائب شروع ہوجاتے ہیں۔ صحابہ اس نکتہ کو خوب سمجھتے تھے اسی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عرب پر فتح دی تو اس کے بعد وہ خاموش ہوکر نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے قیصر اور کسریٰ دو زبردست بادشاہوں سے لڑائی شروع کردی۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید دنیا کا لالچ یا دنیا کی بڑائی کی خواہش میں صحابہؓ نے ایسا کیا لیکن واقعات اس کی تردید کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں تھی کہ حضرت ابوبکرؓ جانتے تھے کہ جب بھی بیرونی خطرہ کم ہوا اندرونی فسادات شروع ہوجائیں گے اس لئے جب قیصر نے حملہ کیا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ قیصر نے حملہ نہیں کیا بلکہ خدا نے ایک راہ نکالی ہے تاکہ مسلمان ایک مصیبت کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے اندر نئی زندگی اور نیا تغیر پیدا کریں۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے بھی ان حملوں کو ایک خدائی انتباہ سمجھا اور وہ لڑائی کے لئے تیار ہوگئے تاکہ مسلمان بیدار رہیں اور ان کے اندر نئی روح اور نئی زندگی پیدا ہوتی رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مصائب خدا کی طرف سے اس لئے آتے ہیں تاکہ قوم میں آرام کے سامانوں کے پیدا ہونے کی وجہ سے کلی طور پر وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوجائیں۔ انفرادی طور پر تو ایسے ہزاروں لوگ مل سکتے ہیں جو بڑی بڑی دولتوں کے مالک ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کو نہیں بھولتے مگر قومی طور پر اس مقام پر پہنچنا بڑا مشکل ہوتا ہے تو میں اسی وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتی ہیں جب تک وہ مصائب اور آفات میں گھری رہتی ہیں۔
پس مصائب کا زمانہ روحانی ترقی کے لئے ایک نہایت ضروری چیز ہے اگر کسی وقت باہر سے مصائب نہ آئیں تو مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اندرونی طور پر خود مصائب تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ یہ غلط خیال ہے کہ ابتلاء صرف ابتدائی زمانہ میں آیا کرتے ہیں ترقی کے زمانہ میں ابتلائوں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور ابتلاء یہ دو توام بھائی ہیں۔ ابتدائی سے ابتائی زمانہ میں بھی ابتلا آتے ہیں اور انتہائی عروج کے وقت بھی ابتلاء آتے ہیں<۔۳۹
حضرت امیرالمومنین نے یہی حقیقت ایک دوسرے رنگ میں ۲۹۔ وفا/ جولائی کو بھی خطبہ جمعہ کے دوران واضح کی اور کھلے لفظوں میں انتباہ فرمایا کہ:۔
>الٰہی جماعتوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ دشمن انہیں مارنا چاہتے ہیں تو ان کے افراد اس سے گھبراتے نہیں بلکہ اپنے آپ کو موت کے لئے پیش کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم ایک نبی کی جماعت ہیں تو یقیناً ایک دن ہمارے مخالف ہمیں کچلنے کی کوشش کریں گے اور چاہیں گے کہ اس کانٹا کو اس رستہ سے ہٹا دیا جائے مگر جب ایسا وقت آئے گا تو کیا وہ لوگ جو اب اپنی آمد کا ۱۰/۱ حصہ بھی بطور چندہ نہیں دیتے اس وقت سینکڑوں روپے کی ماہوار آمد کو چھوڑ دیں گے؟ جماعت پر جب بھی ایسا وقت آئے گا وہ اپنے آپ کو غیر احمدی کہنا شروع کردیں گے اور اپنے دلوں کو اس طرح تسلی دے لیں گے کہ خدا تعالیٰ تو عالم الغیب ہے وہ تو جانتا ہے کہ ہم ولی سے احمدی ہیں۔ اس وقت جماعت کا کتنا حصہ ہوگا جو باقی رہ جائے گا اور کہے گا کہ اچھا تم ہمیں مارنا چاہتے ہو تو مارتے جائو۔ ملازمتوں سے الگ کرنا چاہتے ہو تو الگ کردو۔ ملک بدر کرتے ہو تو ملک بدر کردو جیل خانوں میں ڈالتے ہو تو جیل خانوں میں ڈال دو۔ ہم وہاں بھی فریضہ تبلیغ کو نہیں چھوڑیں گے تم ہمیں پھانسی دیتے ہو تو دے دو ہم پھانسی کے تختوں پر بھی نعرہ ہائے تکبیر بلند کریں گے۔ جب جماعت میں ایسا رنگ پیدا ہوجائے گا تو پھر وہی افسر جو ملک بدر کرنے پر مامور ہوں گے۔ اسی طرح جیل خانوں کے افسر اور جلاد وغیرہ سب احمدیت کو قبول کرلیں گے کہ احمدیہ جماعت واقعی الٰہی جماعتوں والا رنگ رکھتی ہے لیکن جو شخص ابھی سے اپنے آپ کو اس گھڑی کے لئے تیار نہیں کرتا اس پر ہم کیسے امید کرسکتے ہیں کہ وہ وقت آنے پر ثابت قدم رہے گا۔ بے شک جماعت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی دنیوی جائدادوں اور اپنی آمدنوں پر لات مار کر دین کی خدمت کے لئے آگئے ہیں۔ مگر پھر بھی جماعت کا ایک حصہ سست اور غافل ہے اور اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رکھو! جب تک جماعت کا اکثر حصہ نبیوں کی جماعتوں کی طرح مار کھانے کے لئے تیار نہیں ہوجاتا ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ مار کھانا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ جو مارتے ہیں وہ دنیا کی توجہ اپنی طرف نہیں پھیر سکتے۔ مگر جو مار کھاتے ہیں ان کی طرف دنیا کی توجہ پھر جاتی ہے<۔۴۰
رمضان المبارک کی برکات سے متعلق بصیرت افروز خطاب اور اجتماعی دعا
۲۶۔ وفا/ جولائی کو انتیسواں روزہ تھا۔ اس موقع پر جماعت احمدیہ کوئٹہ کے تمام احباب مرد وزن یارک ہائوس میں اجتماعی دعا کیلئے جمع
جمع ہوئے حضرت امیرالمومنین کے نے باوجود ناسازی طبع کے شمولیت کی اور ارشاد فرمایا:۔
>رمضان بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اس میں انسان خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کے لئے جتنی بھی کوشش کرسکے اسے کرنی چاہئے۔ سب سے بڑا سبق جو رمضان ہمیں دینے کے لئے آتا ہے وہ یہ ہے کہ مومن کو چاہئے کہ اپنی روحانیت کی تکمیل کے لئے دوسرے ایام میں بھی روزے رکھتا رہے۔ مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اس طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے رمضان آتا ہے تو لوگ روزے رکھنے شروع کردیتے ہیں اور بعض اتنا تعہد کرتے ہیں کہ مسافر اور مریض بھی روزے رکھتے ہیں۔ اور کوئی نہ کوئی توجیہہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے لئے روزہ رکھنا جائز قرار دیا جاسکے۔ لیکن اس کے بعد سارا سال اس سبق کو بھلا دیا جاتا ہے اور کبھی نفلی روزے نہیں رکھے جاتے حالانکہ یہ ایام صرف اپنی ذات میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ایام میں بھی روزے رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
اسلام کی بڑی بڑی عبادتیں` نماز` روزہ` زکٰوۃ اور حج ہیں۔ لیکن اگر ہم غور کے ساتھ کام لیں تو ہمیں یہ چاروں عبادتیں نوافل کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہیں۔ مثلاً نماز کے لئے اگرچہ دن میں پانچ وقت مقرر ہیں لیکن اس کے ساتھ کئی نوافل لگا دیئے گئے ہیں۔ حج اگرچہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر اس کے ساتھ عمرہ لگا دیا گیا ہے جو سال میں ہر وقت ہوسکتا ہے۔ زکٰو~ہ~ اگرچہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر اس کے ساتھ صدقہ لگا دیا گیا ہے جو ہر وقت کیا جاسکتا ہے اسی طرح رمضان بھی یہ بتانے کے لئے آتا ہے کہ دوسرے ایام میں بھی ہمیں روزے رکھنے چاہئیں۔ گویا رمضان ٹریننگ کا مہینہ ہے اور جس غرض کے لئے اس میں مشق کرائی جاتی ہے اگر وہ پوری نہ ہو تو مشق کا فائدہ ہی کیا؟ ایک سپاہی کو پریڈ گولی چلانا اور دوسرے فنون حرب اس لئے سکھائے جاتے ہیں تا وہ وقت آنے پر قوم اور ملک کی خدمت کرسکے۔ اگر وہ وقت پر یہ کہہ دے کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا ٹریننگ کے عرصہ میں کرلیا ہے تو اسے کون عقلمند کہے گا۔
صحابہؓ میں نفلی روزے رکھنے کا خاص جوش پایا جاتا تھا لیکن دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست اس طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ علاوہ رمضان میں روزے رکھنے کے نفلی وزے بھی وقتاً فوقتاً رکھتے رہا کریں اس سے جہاں روزے رکھنے والے کو ثواب ملے گا وہاں دوسرے لوگوں میں بھی روزوں کی تحریک جاری ہوگی۔
بے شک رمضان میں برکتیں زیادہ ہیں لیکن یہ اس لئے آتا ہے تا مومنوں کو اس بات کی عادت ڈالے کہ وہ دوسرے ایام میں بھی روزے رکھ کر اپنی روحانیت کی تکمیل کیا کریں<
اس نصیحت کے بعد حضور نے احباب سمیت لمبی دعا فرمائی۔ اختتام دعا پر جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے سب احباب کی افطاری کرائی گئی۔۴۱
قرآن مجید کا اردو ترجمہ سیکھنے کی پرزور تحریک
۲۹۔ وفا/ جولائی کو حضور نے یارک ہائوس میں ایک نہایت اہم پبلک لیکچر دیا۔ اخبار >پکار< کوئٹہ۴۲ نے اپنے ۱۳۔ اگست ۱۹۴۹ء کے ایشوع میں اس تقریر کا مندرجہ ذیل ملخص شائع کیا:۔
>مرزا بشیر الدین امیر جماعت احمدیہ کی تقریر۔
کوئٹہ ۲۹۔ جولائی آج شام سات بجے یارک ہائوس لٹن روڈ میں امیر جماعت احمدیہ نے ایک تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کو اردو بولنا چاہئے انہوں نے حاضرین جن میں اکثریت جماعت احمدیہ کے ممبروں کی تھی پر زور دیا کہ وہ پنجابی زبان کو ختم کردیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ قرآن کا کم از کم اردو ترجمہ ضرور یاد کریں۔ اس تقریر میں آپ نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میرے پاس دیوبند کے دو مولوی آئے اور مجھے کہا کہ آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ بھی قرآن پڑھے ہوئے تھے۔ میں بھی قرآن پڑھا ہوا ہوں۔
مرزا صاحب نے تقریباً ۲۰ منٹ تقریر کی اور اس کے بعد متعدد شہریوں اور نمائندگان پریس سے ملے اور اپنی قیام گاہ میں تشریف لے گئے۔ )نامہ نگار<(
آیت قل ان صلوتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کی لطیف اور پرمعارف تفسیر پر مشتمل سلسلہ خطبات
سیدنا حضرت المصلح الموعود خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۵۔ اخاء اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو عالم رئویا میں دیکھا کہ:۔
‏body] g>[taبہت سے لوگ جمع ہیں )اور( میں ان کے سامنے رسول کریم~صل۱~ کی زندگی پر تقریر کررہا ہوں اور آیت قل ان صلواتی و نسکی و محبای و مماتی للہ رب العالمین کو لے کر اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتا ہوں۔
فرمایا:۔ >اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر اس آیت کے مطالب کو میرے قلب میں داخل کردیا ہے اور جب ضرورت ہوگی وہ اس کے مطالب کو میرے ذریعہ سے روشن فرمائے گا<۔۴۳
یہ ایک عظیم پیشگوئی سفر کوئٹہ کے دوران پوری ہوگئی جب کہ حضور نے اس آیت کریمہ کی لطیف تفسیر پر ایک سلسلہ خطبات شروع فرمایا جو ۵۔ ظہور/ اگست سے لے کر ۲۶۔ ظہور/ اگست تک جاری رہا۔ ان پرمعارف خطبات میں حضور انور نے ایک نئے اسلوب اور اچھوتے اور دل نشین پیرائے میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح نمایاں کر دکھائی کہ آنحضرت~صل۱~ کی عبادتیں` قربانیاں` زندگی اور موت حقیقتاً رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کے لئے تھی اس سلسلہ کے آخری خطبہ میں حضور نے مسلمانان عالم کی توجہ اس انقلاب انگیز نکتہ کی طرف منعطف فرمائی کہ
>رسول کریم~صل۱~ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کا مطاع قرار دیا ہے پس آپ پر سچا ایمان رکھنے والوں کا فرض ہے کہ جس طرح رسول کریم~صل۱~ نے بنی نوع انسان کے لئے انتہائی قربانیوں کا مظاہرہ کیا اسی طرح وہ بھی اپنی اپنی روحانی استعداد کے مطابق ان قربانیوں میں حصہ لیں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی محمد رسول اللہ~صل۱~ کے قرب میں جگہ دے اور جس طرح آپ تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی امت بھی اپنی قربانیوں میں تمام امتوں سے افضل ثابت ہو<۔۴۴
اسلام اور موجودہ مغربی نظریئے کے موضوع پرایک جلسہ عام میں اثر انگیز خطاب
۲۱۔ ظہور/ اگست ۶ بجے شام جماعت احمدیہ کوئٹہ کے زیر اہتمام یارک ہائوس کے احاطہ میں ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت مصلح
موعود نے سوا گھنٹہ تک۔ >اسلام اور موجودہ مغربی نظرئیے< کے موضوع پر ایک فکر انگیز خطاب فرمایا جس میں اسلام کے مخصوص نظریات میں سے توحید` طلاق` حرمت شراب` کثرت ازدواج` جوا اور سزائے موت میں سے ایک ایک کو لے کر ثابت کیا کہ زمانہ حاضرہ میں مغرب کو اسلام کے مقابل پر مذہبی سیاسی اور اقتصادی تھیوری میں شکست فاش اٹھانا پڑی ہے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ تمام خرابی اور تباہی کی صرف رسمی رکھتے ہیں ورنہ وہ سمجھتے کہ تمام برکت قرآن کریم پر عمل کرنے میں ہے اور اگر ہم ذرا بھی اس کے احکام سے ادھر ادھر ہوئے تو ہمیں بھی نقصان پہنچے گا اور ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہوں گی۔۴۵ اس جلسہ عام میں احباب جماعت احمدیہ کے علاوہ چھ سو کے قریب غیر احمدی معززین بھی شامل ہوئے جن کی نشست کے لئے کرسیوں کا انتظام تھا خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس تقریر کا تمام سامعین پر نہایت گہرا اثر ہوا۔10] [p۴۶
کوئٹہ میں ایک فوجی افسر کی ملاقات
کوئٹہ میں حضرت مصلح موعود سے ایک فوجی افسر کی ملاقات ہوئی۔ یہ صاحب ہندوستان کی وسیع جنگی تیاری سے خوفزدہ تھے اور کشمیر کی واپسی کو ناممکن تصور کرتے تھے مگر حضرت مصلح موعود نے انہیں قرآن مجید کی روشنی میں ایسا بصیرت افروز جواب دیا جو ایک مخلص مسلمان کی تسلی و تشفی کے لئے کافی و وافی تھا۔ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں اس واقعہ کی تفصیل حسب ذیل ہے فرمایا:۔
>میں کوئٹہ گیا تو وہاں مجھے کچھ فوجی افسر ملنے آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اسی دوران میں کشمیر کا بھی ذکر آگیا میں نے کہا کشمیر مسلمانوں کو ضرور ملنا چاہئے۔ ورنہ اس کے بغیر پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ دوسرے دن میرے پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کرنیل صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے الگ بات کرنی ہے۔ میں نے ان کو لکھا کہ آپ کو کوئی غلطی تو نہیں لگی یہ تو کل مجھے مل کر گئے ہیں انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک پرائیویٹ بات کرنی ہے۔ میں نے کہا لے آئو۔ چنانچہ وہ آگئے میں نے کہا فرمائیے آپ نے کوئی الگ بات کرنی تھی کہنے لگے جی ہاں میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے۔ یہ بات آپ نے کس بنا پر کہی تھی۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے پاس فوج زیادہ ہے میں نے کہا میں خوب جانتا ہوں کہ اس کے پاس فوج زیادہ ہے۔ کہنے لگے تو کیا آپ جانتے ہیں کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی ان کے پاس ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں ان کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے جو ہزاروں ہزار بندوق ان کو ہر مہینے تیار کرکے دیتی ہے میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ان کے پاس اتنا گولہ بارود ہے اور آٹھ کروڑ کا گولہ بارود دجو ہمارا حصہ تھا وہ بھی انہوں نے ہم کو نہیں دیا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں ان کے ہاں ہوائی جہازوں کے چھ سکواڈرن ہیں اور ہمارے ہاں صرف دو ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کہنے لگے ان کی اتنی آمد ہے اور ہماری اتنی آمد ہے میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے کہنے لگے جن کالجوں میں وہ پڑھتے ہیں انہیں کالجوں میں ہم بھی پڑھتے ہیں ان پر علمی رنگ میں کوئی برتری حاصل نہیں۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ کہنے لگے پھر جب ہماری فوج کم ہے اور ان کی زیادہ ہے گولہ بارود ان کے پاس زیادہ ہے تپیں ان کے پاس زیادہ ہیں۔ ہوائی جہاز ان کے پاس زیادہ ہیں آمد ان کی زیادہ ہم اور ہم بھی انہی کالجوں میں پڑھتے ہوئے ہیں جن میں وہ پڑھے۔ ہمارے اندر کوئی خاص لیاقت نہیں تو پھر آپ نے کس بناء پر ہمیں کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کم من فئہ قلیلہ غلبت فئہ کثیرہ بان اللہ۔ کہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو الل¶ہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اس لئے بیان فرمائی ہے کہ تم تھوڑے اور کمزور ہوکر ڈرا نہ کرو خدا تعالیٰ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں بڑوں پر غلبہ دے دے اس لئے آپ گھبراتے کیوں ہیں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھئے۔ بے شک آپ تھوڑے ہیں لیکن خدا تعالیٰ آپ کو طاقت دے دے گا۔ پھر میں نے کہا میں تم کو ایک موٹی بات بتاتا ہوں۔ تم مسلمان ہو کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں کہ قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم مارے جائو گے تو جنت میں جائو گے۔ کہنے لگا جی ہاں۔ میں نے کہا اب دو صورتیں ہیں کہ اگر تم میدان میں کھڑے رہو گے اور زندہ رہو گے تو جیت جائو گے۔ اور اگر مارے جائو گے تو جنت میں چلے جائو گے اب بتائو کیا تمہارے اندر مرنے کا کوئی ڈر ہوسکتا ہے کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ اگر میں لڑائی کے میدان میں کھڑا رہا اور لڑتا رہا تو دو ہی صورتیں ہیں یا جیت جائوں یا جنت میں چلا جائوں گا پس تمہاری بہادری کا ہندو کس طرح مقابلہ کرسکتا ہے۔ وہ تو یہ جانتا ہے کہ اگر میں مر گیا تو بندر بن جائوں گا یا سور بن جائوں گا یا کتنا بن جائوں گا یہ اس کا تناسخ ہے۔ تم یہ تو جانتے ہو کہ مر کے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ یہ جانتا ہے کہ مر کے کتا بن جائوں گا۔ سور بن جائوں گا بندر بن جائوں گا تو مسلمان اور ہندو کا کوئی مقابلہ ہوہی نہیں سکتا اسے تو کتا یا سور بننے کا ڈر لگا ہوا ہے اور تم میں جنت میں جانے کا شوق ہے۔ تمہارا اور اس کا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے دلیری کے اتنا مواقع پیدا کردیئے گئے ہیں کہ اس کو کوئی گزند آہی نہیں سکتی<۔۴۷
‏tav.12.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
پہلا باب )فصل سوم(
حضرت نواب محمد الدین صاحب کا انتقال
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کوئٹہ میں ہی تشریف فرما تھے کہ حضور انور کی خدمت میں یہ روح فرسا اطلاع پہنچی کہ خان بہادر حضرت چوہدری نواب محمد الدین صاحب مری میں انتقال فرما گئے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔۴۸
آپ مشہور راجپوت باجوہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے جدامجد راجہ فتح چند جی نے سب سے پہلے قبول اسلام کا شرف حاصل کیا۔ تاریخ۔ آئینہ اکبری میں آپ کا قابل تعریف الفاظ میں تذکرہ ملتا ہے۔ راجہ فتح سنگھ جی صوبہ پسرور کے گورنر تھے آپ ہی کی اولاد میں سے حضرت جان محمد صاحب اور حضرت اسماعیل صاحب جیسے اولیاء پیدا ہوئے جن کا مقبرہ کیلاسا گائوں کے نزدیک ہے اور جن کے لڑکے عنایت اللہ خان کے نام پر قصبہ تلونڈی عنایت خاں آباد ہوا۔ حضرت چودھری محمد الدین صاحب اسی قصبہ میں ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے والد ماجد کا نام صوبہ خاں تھا۔ حضرت چوہدری صاحب کی ابتدائی تعلیم ۱۸۸۰ء میں شروع ہوئی آپ نے انگریزی تعلیم صرف میٹرک تک حاصل کی اور پٹواری کی اسامی سے ملازمت میں قدم رکھا۔ مگر اپنے خلوص محنت اور دیانتداری کے سبب بڑے بڑے عالی مراتب اور بلند مناصب تک پہنچے چنانچہ ۱۸۹۸ء میں تحصیلدار ڈیرہ اسماعیل خان اور ۱۹۰۱ء میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۶ء تک دہلی میں پہلے سیٹلمنٹ آفیسر پھر ۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۰ء تک ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر رہے۔ ۱۹۱۰ء میں نواب صاحب ریاست مالیر کوٹلہ نے آپ کی خدمات حکومت سے مستعار حاصل کیں اور آپ نے ریاست میں مہتمم بندوبست کے فرائض نہایت کامیابی سے انجام دیئے۔ ان خدمات کے صلہ میں ۱۹۱۸ء میں آپ کو خان بہادر کا خطاب دیا گیا ۱۹۱۹ء میں آپ پاکپٹن اور خانیوال میں سب ڈویژنل آفیسر رہے ۱۹۲۲ء میں آپ پونچھ ریاست میں مہتمم بندوبست و ریونیو آفیسر کی حیثیت میں فرائض بجا لاتے رہے۔ پھر ضلع رہتک کے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۴ء میں آپ کی خدمات ریاست بہاول پور نے حاصل کرلیں۔ آپ اپنے مختصر قیام ریاست میں ایک ایسی سکیم تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس میں ریاست کو ۳۸ کروڑ کا فائدہ ہوتا مگر افسوس یہاں آپ کو دربار ریاست کے اندرونی خلفشار اور انتشار کے باعث صرف ایک سال تک رہنے کا موقعہ میسر آیا تاہم آپ کی خدمات جلیلہ کا اقرار اخبار پائونیر نے اپنی ۲۷۔ جنوری ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں نمایاں طور پر کیا۔ اپریل ۱۹۲۶ء میں آپ ضلع شیخوپورہ میں دپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۸ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔ آپ کی الوداعی پارٹی میں پنجاب کے گورنر سر جعفری ڈی مائونٹ مورنس اور سردار بوٹا سنگھ پریذیڈنٹ پنجاب کونسل نے آپ کی بہت تعریف کی۔ اکتوبر ۱۹۳۰ء میں آپ کونسل آف اسٹیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۵ء تک جے پور کے پردھان منتری یعنی پرائم منسٹر رہے اور نواب کا خطاب ملا بعد میں قریباً ۶ برس تک ریاست جودھ پور کے ریونیو منسٹر رہے۔ الغرض پوری زندگی خداوند کریم کے انعامات کا مہبط و مورد رہے۔ مگر آپ کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ پر اتقاء پارسائی اور روحانیت ہی کا درویشانہ رنگ غالب رہا۔ نہایت مرنجان مرنج طبیعت رکھتے تھے اور مسلم غیر مسلم سب بڑی قدر و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے نہایت خلیق غایت درجہ رحمدل` منصف مزاج` راستگو` غریبوں کے ہمدرد و غمگسار` خدا ترس اور شب بیدار۔ اکثر بڑے بڑے مقدمات کا فیصلہ لکھنے سے پہلے بہت دعائیں کرتے تھے۔۴۹ از مضمون سید علی شاہ صاحب ایس ٹی ای ان ڈبلیو آر میرپور خاص سندھ۔ منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور نے اپنی کتاب یادگار دربار تاجپوشی ۱۹۱۱ء کے صفحہ ۳۰۷ پر آپ کے مختصر حالات سپرد قلم کئے ہیں۔
حضرت نواب صاحب سلسلہ احمدیہ کی نہایت معروف و ممتاز شخصیت اور انتہائی مخلص بزرگ تھے جنہوں نے مسیح محمدی کا مبارک زمانہ پایا اور تحریک احمدیت سے دلی طور پر وابستہ ہوئے مگر بیعت حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر ۱۹۲۷ء کے لگ بھگ کی۔
حضرت چوہدری صاحب اپنے خود نوشت حالات قبول احمدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>پچاس سال گزرے ہیں۔ میں ۱۸۸۹ء میں سیالکوٹ ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ اسی سکول میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مدرس تھے۔ میں عموماً ہر روز عصر کے بعد مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا۔ آپ اکثر ایسے وقت میں شیخ نتھو صاحب )والد ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب( کی دوکان پر یا میاں مولا بخش صاحب بوٹ فروش کی دکان پر ملتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب کی تقریر بہت موثر اور فصیح ہوا کرتی تھی۔ میں نے سکول میں عربی کا مضمون لے رکھا تھا اور مولوی صاحب سے عربی کی ابتدائی کتاب پڑھا کرتا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات اور کتابوں >براہین احمدیہ< اور >سرمہ چشم آریہ< وغیرہ کا بہت چرچا تھا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت پہلے نیچریت کی طرف زیادہ راغب تھی۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کی صحبت کے اثر سے نیچریت سے بیزار ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی غلامی میں داخل ہوگئے تھے۔ مولوی صاحب حکیم حسام الدین صاحب والی مسجد میں درس قرآن دیا کرتے تھے اور اسی میں چوہدری نصراللہ خاں صاحب مرحوم شامل ہوا کرتے تھے۔
سیالکوٹ سکول سے فارغ ہوکر میں اسی ضلع کے بندوبست میں ٹریننگ پر تحصیل ظفروال میں تعینات ہوا اور متواتر کئی سال تک دیہاتی زندگی بسر کی۔ ظفروال میں حافظ فصیح الدین صاحب تحصیلدار تھے جو بظاہر بہت متشرع اور دیندار اہلحدیث تھے اور شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے حسن ظنی رکھتے تھے مگر بعد میں سخت مخالف ہوگئے۔ ۱۸۹۶ء میں جب لاہور میں جلسہ مذاہب تھا۔ میں حافظ صاحب کے ساتھ جلسہ میں گیا۔ تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سٹیج پر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مضمون سنا رہے تھے عجیب کیفیت تھی۔ سب لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ تقریر سننے کے بعد شام کو جب ہم مکان پر پہنچے تو حافظ فصیح الدین صاحب سے حافظ محمد یوسف صاحب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مضمون کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے کہا۔ اسلام پر اس سے بہتر مضمون میں نے کبھی نہیں سنا۔ الغرض باوجود مخالفت کے انہوں نے اس مضمون کا نہایت اعلیٰ ہونا تسلیم کیا۔
میں ۱۸۹۷ء میں صاحب کمشنر بندوبست پنجاب کے دفتر میں سپرنٹندنٹ تھا۔ اور لاہور میں چوہدری شہاب الدین صاحب` مولوی محمد علی صاحب اور میں ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔ چوہدری حاجت اور مولوی صاحب ان دنوں وکالت کے امتحان کی تیاری کررہے تھے۔ مولوی صاحب اکثر قادیان جاتے رہتے تھے وکالت پاس کنے کے بعد جب انہوں نے کلی طور پر اپنے آپ کو دینی خدمت میں لگا دیا تو ان کی اس قربانی کا میری طبیعت پر بہت اثر ہوا۔
کچھ عرصہ بعد میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے بندوبست میں تعینات ہوا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب وہاں بھی اکثر مجھے تبلیغی خط لکھا کرتے تھے۔ میں حسن ظن اور اخلاص رکھتا تھا اور حسب توفیق چندہ بھی دیا کرتا تھا۔ اخبار الحکم اور البدر کا بھی خریدار تھا اور ہمیشہ پڑھا کرتا تھا لیکن جب میں دیکھا کہ بعض لوگ بیعت کرنے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں تو میں سوچا کرتا کہ حسن ظن رہنا زیادہ بہتر ہے بمقابلہ اس کے کہ بیعت کرکے پھر ارتداد کا خطرہ لاحق ہو۔ مجھ کو تو شروع سے حسن ظن رہا ہے لیکن جب کبھی میں سنتا کہ فلاں نے بیعت کی ہوئی تھی اور وہ مرتد ہوگیا ہے تو میں اکثر یہ تحقیقات کرنے کی کوشش کرتا کہ اس کے ارتداد کی کیا وجہ ہوئی؟ اکثر مرتدین سے گفتگو کرنے کا بھی موقع ملا۔ مثلاً ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب پٹیالوی سے۔ جب وہ کئی رسالے مخالفت میں لکھنے کے بعد خاموش ہوگئے تو میں نے پوچھا اب آپ خاموش کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا۔ اب احمدیت کا باقی کیا رہ گیا ہے جو میں کچھ لکھوں۔ گویا وہ بزعم خود احمدیت کو ختم کرچکے تھے۔ بعض لوگ جو باوجود ظاہری قربانیوں کے جماعت سے کٹ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے جو دنیا میں سب سے پہلے خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام کے منکروں کو پیش آئی تھی۔ یعنی وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب ہم پر سارا دارومدار ہے اور ان میں اپنی لیاقت اور قربانیوں وغیرہ کے خیال سے تکبر اور رعونت آجاتی ہے جس سے خدائی قانون کے ماتحت ان کا سارا کیا کرایا برباد ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس تکبر اور رعونت کی بیماری سے محفوظ رکھے اور ہمارے بچھڑے ہوئے دوستوں کو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تیار کردہ کشتی میں سوار ہونے اور آپ کے پاس بیٹھنے کی توفیق دے۔ ~}~
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے
اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے
یہی اک فخر شان اولیا ہے
بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے
ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے
اگر سوچو یہی دارالجزاء ہے
ہمارے خاندان میں سب سے پہلے میرے مرحوم بھائی چوہدری محمد حسین نے بیعت کی اس کے بعد رفتہ رفتہ قریباً سارا خاندان احمدی ہوگیا۔ میں ۱۹۰۶ء میں دہلی بندوبست میں اسسٹنٹ سٹیلمنٹ آفیسر تھا۔ میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اسی بندوبست میں ناظر تھے۔ میر صاحب جلسہ سالانہ پر قادیان جارہے تھے میں نے اپنے لڑکے محمد شریف )حال ایڈووکیٹ منٹگمری( کو جو اس وقت پرائمی میں پڑھتا تھا میر صاحب کے ساتھ بھیج دیا وہاں اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ دہلی کے زمانہ میں محمد شریف کا چھوٹا بھائی محمد سعید چیچک سے سخت بیمار ہوگیا۔ اس کی حالت نہایت تشویشانک تھی اور ہم قریباً مایوس ہوچکے تھے۔ میر قاسم علی صاحب نے دعا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں تار دیا۔ اور شام کو ہمیں تسلی دی کہ اس وقت قادیان میں محمد سعید کی صحت کے لئے دعا ہورہی ہے زیادہ فکر نہیں کرنی چاہئے۔ چیچک اس قدر تھی کہ اگر وہ بچ بھی گیا تو اس کی آنکھیں نہیں بچ سکیں گی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا کی برکت سے محمد سعید کو کامل شفا عطا فرمائی۔
باوجود ان سب باتوں کے میری قسمت میں نہیں تھا کہ میں صحابی ہوتا۔ اور مجھے اخلاص رکھنے کے باوجود بیعت کی توفیق بہت دیر میں ملی۔ جب حضرت خلیفہ اولؓ کے انتقال پر جماعت میں اختلاف پیدا ہوا اور ہمارے دوست جن کی میرے دل میں بہت عزت تھی قادیان چھوڑ کر لاہور جا بیٹھے تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ انہی دنوں میں نے رئویا دیکھا جو میں نے اپنے بھائی چوہدری غلام حسن صاحب کو سنایا۔ جس سے مجھ پر یہ ظاہر ہوا کہ خلافت ثانیہ حق ہے۔ اب وہ دور شروع ہوا جب میں نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اور تحریروں کو پڑھنا شروع کیا۔ اور ان سے ہمیشہ بہت فائدہ اٹھایا اختلاف کے چند روز بعد میں سیالکوٹ سے لاہور آرہا تھا راستہ میں وزیرآباد سٹیشن پر منشی نواب خان صاحب مرحوم تحصیلدار مجھے مل گئے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں سرشار نظر آیا کرتے تھے اور ہر وقت سلسلہ کی باتیں کیا کرتے تھے اس روز خلاف معمول وزیر آباد سے گوجرانوالہ پہنچنے تک انہوں نے سلسلہ کے متعلق جب کوئی تذکرہ نہ کیا۔ تو میں نے کہا معلوم ہوتا ہے آپ منکرین خلافت میں شامل ہوچکے ہیں۔ کیونکہ وہ ذوق تبلیغ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے محبت آپ میں نہیں رہی۔ میرا یہ قیاس صحیح نکلا دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے مرے حاجت برار۔
لاہور پہنچ کر میں چودھری شہاب الدین صاحب کے مکان پر ٹھہرا۔ وہاں میری برادری کے میرے ایک عزیز موجود تھے۔ جو مخلص احمدی ہوا کرتے تھے۔ اور مجھے تبلیغی خط لکھتے رہتے تھے۔ ان سے میں نے وہی سوال کیا کہ آپ مصدقین خلافت میں سے ہیں یا منکرین میں سے انہوں نے کہا آپ نے بہت سخت لفظ استعمال کیا ہے۔ میں خلافت ثانیہ کو نہیں مانتا ان سے اس سلسلہ میں گفتگو ہوتی رہی۔ دوسرے دن وہ صبح جاگے تو انہوں نے کہا رات کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وہ نظم میں پڑھتا رہا جس میں درج ہے۔ ~}~
زمین قادیاں اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
اسی نظم میں ہے ~}~
بشارت دی کہ اک بیتا ہے تیرا
جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا
دکھائوں گا کہ اک عالم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی
سبحان الذی اخزی الاعادی
ان کے والد صاحب اور سارا کنبہ احمدی ہیں میں ان کے خواب کی کیفیت ان سے سن کر بہت خوش ہوا اس خیال سے بھی کہ ان کا مصدقین میں شامل ہونا ان کے والد صاحب ہے بڑی مسرت کا باعث ہوگا۔ ان کے والد صاحب اور ان کا خاندان ہماری باجوہ برادری میں نہایت مخلص احمدی ہیں۔
پچھلے سال میں نے >الفضل< میں پڑھا تھا کہ انہوں نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ:۔
>میری روح کا زائد از چالیس برس حضور سے تعلق ہے` اور اس پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا۔
>آپ جیسے مکلص کا یہی مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ خاص فضل کرے<۔
لاہور سے دوسرے دن میں اپنی ملازمت پر چلا گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے عزیز دوست مصدقین خلافت میں شامل نہیں ہوسکے۔ اگرچہ میں امید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم ان کے متقی اور صالح والد صاحب کی دعائیں ان کے حق میں قبول فرمائے گا۔ اور ان کو اپنے والد صاحب کی زندگی میں یہ سعادت نصیب ہوگی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشند خدائے بخشندہ
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں میں اخلاص تو بہت مدت سے رکھتا تھا لیکن بیعت کا شرف مجھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زمانہ میں عطا ہوا۔
اس اثناء میں میرے بھائی اور میری اہلیہ اور بچے مجھ سے بہت پہلے بیعت کرچکے تھے اور مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں اس مقام پر بہت دیر سے پہنچا۔
میں نے جو اخلاص حاصل کرنے کے بعد بیعت میں اس قدر دیر لگا دی آج مجھے اس کا سخت افسوس ہورہا ہے لیکن ع
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
اکثر ایسے احباب ہیں جن پر صداقت کھل چکی ہے مگر وہ کسی دنیوی رکاوٹ کے ماتحت ابھی تامل ہیں۔ ایسے دوستوں سے میں کہتا ہوں ع
من نہ کردم شمار حذر بکنید
ایسا نہ ہو کہ اسی تامل اور تردد میں موت آجائے۔ اور امام وقت کی شناخت سے محروم رہ جائو۔ پس نہایت ضروری ہے کہ جب انشراح صدر ہوجائے تو بیعت میں توقف نہ کیا جائے<۔۵۰
حضرت نواب صاحب کے دل میں یہ حسرت و ارمان زندگی بھر قائم رہا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدس زمانہ دیکھا` میرے خاندان کے آدمیوں نے بیعت کی۔ حتیٰ کہ میرے بیٹے کو )چودھری محمد شریف صاحب( بفضلہ تعالیٰ صحابہ کے پاک گروہ میں شامل ہونے کی توفیق مل گئی مگر میں محروم رہا۔ اس محرومی کے شدت احساس نے بیعت کے بعد آپ کے دل میں خدمات سلسلہ کے لئے بہت جوش پیدا کر ڈالا جو رب جلیل کے فضل و عنایت سے دم بدم بڑھتا گیا اور آپ پیرانہ سالی میں بھی نوجوانوں سے بڑھ کر شوق و مستعدی سے مصروف عمل رہنے لگے۔
حضرت مصلح موعود نے ہجرت پاکستان کے بعد تبوک/ ستمبر ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء میں آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا پہلا ناظر دعوت و تبلیغ مقرر فرمایا۔ اور آپ نے یہ خدمت نہایت محنت و استقلال سے ادا کی۔ مگر اصل کام جس کی خاطر خدائے عزوجل نے اپنی تقدیر خاص سے آپ کو خلت وہود سے نوازا اور لمبی اور برکتوں سے معمور زندگی عطا فرمائی مرکز احمدیت ربوہ کے قیام کا عظیم الشان کارنامہ تھا جو آپ کے ہاتھوں خدا کے فضل اور حضرت مصلح موعود کی دعائوں اور روحانی توجہ کے طفیل معرض وجود میں آیا۔ اور جو قیامت تک آپ کو یادگار رہے گا اسی بے مثال خصوصیت کے باعث سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں قیام مرکز کے سلسلہ میں آپ کی سنہری خدمات کا ذکر نہایت شاندار الفاظ میں کرتے ہوئے فرمایا:۔
>جس طرح میرے قادیان سے نکلنے کا کام کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ سے سرانجام پانا تھا اسی طرح ایک نئے مرکز کا قیام ایک دوسرے آدمی کے سپرد تھا۔ جو پیچھے آیا اور کئی لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ میری مراد نواب محمد دین صاحب مرحوم سے ہے۔ جن کی اسی ہفتہ میں وفات واقع ہوئی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی خدمات کی وجہ سے ربوہ میں کوئی ایسا نشان مقرر کیا جائے جس کی وجہ سے جماعت ہمیشہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھے۔ اور اس بات کو مت بھولے کہ کس طرح ایک اسی سالہ بوڑھنے جو محنت اور جفاکشی کا عادی نہیں تھا جو ڈپٹی کمشنر اور ریاست کا وزیر رہ چکا تھا جو صاحب جائداد اور متمول آدمی تھا۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۹ء کے شروع تک باوجود اس کے کہ اس کی طبیعت اتنی مضمحل ہوچکی تھی کہ وہ طاقت کا کوئی کام نہیں کرسکتا تھا اپنی صحت اور اپنے آرام کو نظر انداز کرتے ہوئے رات اور دن ایک کردیا۔ اس لئے کہ کسی طرح جماعت کا نیا مرکز قائم ہوجائے۔ سینکڑوں دفعہ وہ افسروں سے ملے۔ ان سے جھگڑے کئے۔ لڑائیاں کیں` منتیں اور خوشامدیں کیں اور پھر مرکز کی تلاش کے لئے بھی پھرتے رہے۔ انہیں اس کام میں اتنا انہماک تھا کہ ایک دفعہ میں اکیلا ربوہ گیا۔ اور انہیں اطلاع نہ دی۔ میں نے سمجھا وہ ضعیف العمر ہیں۔ انہیں تکلیف نہ دی جائے۔ ان کو ریٹائر ہوئے بھی بیس سال ہوچکے تھے۔ جب میں واپس آیا تو انہوں نے کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ اس دفعہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکا مجھے بھی اطلاع دیتے میں ساتھ چلا جاتا۔ میں نے کہا صرف آپ کی تکلیف کے خیال سے میں نے آپ کو اطلاع نہیں دی۔ انہوں نے کہا میری خواہش تھی کہ میں آپ کے ساتھ جاتا اور اب نہ جانے کی وجہ سے مجھے انتہائی رنج ہوا۔ غرض اس کام کے لئے انہوں نے دن رات ایک کردیا تھا۔ اور یقیناً اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی موزوں آدمی تھے۔ ہمارے مرکز کا قائم ہونا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بڑی اہم چیز ہے اگر ہمارا نیا مرکز کامیاب ہوگا۔ اور ہمیں یقین ہے کہ وہ کامیاب ہوگا تو یہ ایک ویسی ہی اہمیت رکھنے والی چیز ہوگی۔ جیسے کہ دنیا کے بڑے بڑے مذہبی مرکزوں کی تعمیر اہمیت رکھتی تھی۔ مقامات مرکزی کا قیام ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جدید مرکز کے قیام کا سہرا یقیناً نواب محمد دین صاحب مرحوم کے سر پرد ہے اور یہ عزت اور رتبہ ان ہی کا حق ہے جب تک یہ جماعت قائم رہے گی۔ لوگ ان کے لئے دعا بھی کریں گے اور ان کی قربانی کو دیکھ کر نوجوانوں کے دلوں میں یہ جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ کہ وہ ان جیسا کام کریں۔ کجا ایک بوڑھا بیمار اور کمزور آدمی اور کجا اس کی یہ حالتکہ وہ دن کو بھی وہاں موجود ہے۔ رات کو بھی وہیں موجود ہے اور رپورٹیں پیش کررہا ہے۔ کہ آج میں فلاں سے ملا تھا۔ آج میں فلاں سے ملا تھا۔ اب بھی جب مری میں تھے وفات سے دس دن پہلے انہوں نے مجھے لکھا کہ اب ربوہ میں تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے اور چونکہ یہ کام نگرانی چاہتا ہے۔ اور میری صحت تھیک ہوگئی ہے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ ربوہ چلا جائوں اور کام میں مدد دوں۔ غرض ہرکارے و ہر مروے سینکڑوں کام ہوتے ہیں لیکن بہت برکت والا ہوتا ہے وہ آدمی جس س کوئی ایسا کام ہوجائے جو اپنے اندر تاریخی عظمت رکھتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کا ان کے ہاتھ سے ہونا ان کی کسی بہت بڑی نیکی کی وجہ سے تھا اور میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ پیچھے آئے مگر آگے گزر جائے۔
بیعت سے پہلے وہ احمدیت کے قائل تو تھے۔ چنانچہ جب وہ دہلی میں افسر مال لگے ہوئے تھے اور میر قاسم علی صاحب وہاں تھے تو انہوں نے اپنے لڑکے چوہدری محمد شریف صاحب وکیل کی بیعت کرا دی تھی۔ لیکن خود بیعت نہیں کرتے تھے غالباً ۱۹۲۷ء میں انہوں نے بیعت کی ہے۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے بیعت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری بیعت ابھی مخفی رہے انہوں نے کہا مین ریٹائر ہوچکا ہوں۔ اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں۔ اس لئے اگر میری بیعت ظاہر نہ ہو تو ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی۔ جب وہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اس وقت و ریاست مالیر کوٹلہ یا جے پور میں ملازم تھے۔ بیعت کرکے وہاں جانے کی بجائے شملہ چلے گئے۔ میں بھی چند دنوں کے لئے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا اور کہا۔ اور تو میں کوئی خدمت نہیں کرسکتا لیکن یہ کرسکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلا لوں اور آپ کا واقف کرا دوں اور مجھے ثواب مل جائے گا۔ میں دعوت پر چلا گیا۔ انہوں نے بڑے بڑے آدمی بلائے ہوئے تھے۔ میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب دوں کہ وہ کھڑے ہوگئے اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا یہ بری خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہاں تشریف لائے ہیں۔ جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے۔ وہ ہمیں دین کی باتیں سنائیں گے۔ خواہ ہم مانیں یا نہ مانیں۔ ان سے ہمیں فائدہ پہنچے گا۔ اس طرح تھوڑی دیر وہ تقریر کرتے رہے دو تین منٹ کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں ایک شخص آیا وہ اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ جب وہ تقریر کرکے بیٹھ گئے تو میں نے کہا دیکھئے نواب صاحب میں نے تو ظاہر نہیں کیا کہ آپ احمدی ہیں۔ آپ نے تو خود ظاہر کردیا ہے۔ وہ کہنے لگے مجھے سے رہا نہیں گیا۔ میں نے کہا میں تو پہلے ہی سمجھتا تھا کہ سچی احمدیت چھپی نہیں رہتی۔ آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہوکر رہے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ چندے باقاعدگی کے ساتھ دیتے تھے۔ مگر جماعتی کاموں میں انہوں نے چند سال پہلے تک کوئی نمایاں حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن یہ موقعہ انہیں ایسا ملا کہ جب تک یہ مرکز قائم رہے گا۔ ان کا نام بطور یادگار دنیا میں لیا جائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ قادیان کے واپس مل جانے پر اس مرکز کی اہمیت کم ہوجائے۔
اول تو ہمیں ایک ہی وقت میں کئی مرکزوں کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ مرکز ایک پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جارہا ہے اور جومرکز پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جائے اس میں اور دوسرے مرکزوں میں بہرحال امتیاز ہوتا ہے۔ یہ مقام چونکہ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت قائم کیا جارہا ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی برکتیں اس سے وابستہ رہیں گی۔ اور یقیناً اس مقام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نواب صاحب مرحوم کا نام بھی قیامت تک قائم رہے گا۔
مجھے چوھدری مشتاق احمد صاحب کا انگلستان سے جو خط ملا ہے اس میں انہوں نے میری ۱۹۴۴ء کی ایک خواب لکھی ہے۔ جو یہ ہے کہ میں نے رئویا میں ان کی بیوی کلثوم کو دیکھا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ باباجی اتنے بیمار ہوئے لیکن ہمیں کسی نے اطلاع تک نہیں دی۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ بالکل ایسا ہی واقعہ اس وقت ہوا ہے ہمیں ان کی بیماری کی اطلاع تک نہیں ملی اور اب وفات کی خبر بھی صرف آپ کی طرف سے ملی ہے۔ خاندان کے کسی اور فرد کی طرف سے نہیں ملی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے رشتہ داروں میں سے بھی کسی کو ان کی بیماری کی خبر نہیں ملی۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل نے مجھے لکھا کہ وفات سے پہلے دن شام کے وقت ڈاکٹر آیا اور اس نے کہا کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں۔ چوہدری عزیز احمد صاحب )جو سب جج ہیں( مجھے اطلاع کا خط لکھنے لگے تو والد صاحب نے منع کردیا اور کہا کیا ضرورت ہے؟ پس خواب میں >ہم< سے مراد صرف کلثوم ہی نہیں بلکہ سارے رشتہ دار مراد تھے میں نے یہ ذکر تفصیل کے ساتھ اس لئے کیا ہے کہ تا اس قسم کے لوگوں کے نیک افعال آئندہ کے لئے بطور یادگار رہیں۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں۔
اذکروا امرتکم بالخیر
عام طور پر اس کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ مردوں کی برائی بیان نہیں کرنی چاہئے وہ فوت ہوگئے ہیں اور ان کا معاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے۔ یہ معنی اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن درحقیقت اس میں ایک قومی نقطہ بھی بیان کیا گیا ہے آپ نے اذکر والموتی بالخیر نہیں فرمایا بلکہ آپ نے مرتکم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی اپنے مردوں کا ذکر نیکی کے ساتھ کرو۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے یہ صحابہؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔ دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم۔ میرے سب صحابی ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پاجائو گے کیونکہ صحابہؓ میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی خدمت دین کا موقعہ ایسا ملا ہے جس میں وہ منفرد نظر آتا ہے اسی لئے آپ نے >موتاکم< کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ تم ان کو ہمیشہ یاد رکھا کرو تا تمہیں یہ احساس ہو کہ ہمیں بھی اس قسم کی قربانیاں کرنی چاہئیں۔ اور تا نوجواں میں ہمیشہ قربانی` ایثار اور جرائت کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں<۔۵۱
حضرت نواب محمد الدین صاحب کا ایک نایاب مکتوب
درج ذیل مکتوب حضرت نواب محمد الدین صاحب~رح~ نے حضرت شیخ محمد الدین صاحب مختار عام کو لکھا تھا یہ مکتوب اس غیر معمولی شغف انہماک محنت و جانفشانی اور احساس ذمہ داری کا آئینہ دار ہے جو رب کریم کی طرف سے حضرت نواب صاحب کو قیام مرک نو کے لئے عطا ہوا تھا۔ اس مراسلہ پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر مضمون کی اندرونی شہادت اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطعی طور پر )۲۰ تبوک ۱۳۲۷ہش/ ستمبر ۱۹۴۸ء( سے قبل کی تحریر ہے جبکہ اس مرکز کا افتتاح عمل میں نہیں آیا تھا۔ یہ مکتوب حضرت شیخ صاحبؓ نے مولف کتاب کو مرحمت فرمایا تھا۔
اپر مال نمبر ۱۰۸ لاہور
مکرمی سلمہ تعالیٰ!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! خط پہنچا۔ غلہ گندم جو خریدنے کی تجویز ہے اس کے حفاظت سے رکھنے اور چوہوں اور کھپرا سے بچانے کے لئے کسی مناسب مکان کا احمد نگر میں یا چنیوٹ میں آیا انتظام ہوسکے گا۔ اس بات کی اطلاع فرما دیں۔
امید ہے انشاء اللہ چند روز میں ٹائون پلیننگ آفیسر )اور ان کے ساتھ ¶ہمارا کوئی سرویر ہوگا( چک ڈگیا نہ سرکاری کا موقعہ دیکھنے پہنچیں گے۔ آپ پٹواری کا بھی پتہ رکھیں۔ اور خود بھی چنیوٹ موجود رہیں۔ اور پرانے زمانہ میں ان پہاڑوں سے سنگ تراش شائد اینٹیں بنایا کرتے تھے۔ چک ڈگیانہ کے جنوب میں ایک دو میل کے فاصلہ پر ایک موضع سنگتراشان ہے معلوم نہیں آیا اس موضع میں یا چنیوٹ میں کوئی سنگ تراش آیا بھی ہے یا نہیں۔ آج کل چاندنی راتیں ہیں اگر ہوسکے آپ چنیوٹ سے چل کر صبح سویرے دریا کے پار چک ڈگیانہ میں دریا کے کنارے صبح کی نماز پڑھا کریں اور نماز اور دعا سے فارغ ہونے کے بعد چک میں ٹھنڈے وقت گشت لگایا کریں اور امور ذیل پر غور کیا کریں۔
۱۔
دریا سے پمپ کے ذریعہ پانی آراضی پر بحث پر چڑھانے کے لئے کونسا موقعہ موزوں ہوگا؟
۲۔
اراضی زیر بحث میں ایک ٹیوب ویل آب پاشی کے لئے فوراً لگانا ہے اس کے لئے کون سا موقع موزوں ہوگا۔
۳۔
عمارتوں کے لئے پختہ اینٹیں تیار کرنے کے بھٹے لگانے ہوں گے ان کے لئے کونسا موقع ہونا چاہئے۔
۴۔
آئندہ ماہ ساون میں پھلدار درخت آم وغیرہ اور نیز شیشم ویو کلپٹس ودھریک و کیکر کے درخت رقبہ زیر بحث میں کس کس موقع پر لگانے مناسب ہوں گے۔ یہ بھی معلوم کریں۔ آیا اس نواح میں کہیں درختوں کی نرسری ہے اگر نہ ہو تو احمدنگر کوئی مناسب نرسری ذخیرہ درختاں کے لئے تجویز کیا جائے۔
۵۔
موضع احمد نگر کا بہت سا رقبہ سڑک پختہ مابین چنیوٹ دلالیاں کے )بائیں جانب چنیوٹ سے لالیاں جاتے ہوئے( بنجر پڑا ہے۔ اگر وہ رقبہ مناسب قیمت پر ہم خرید لیویں تو غالباً اس کو نہری بنایا جاسکتا ہے۔ وہ رقبہ دیکھیں اور معلوم کریں کہ کس کی ملکیت ہے اور آیا اس کا خرید کرنا مناسب ہوگا۔ اپنے طور پر یہ حالات معلوم کریں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم اس کو خریدنا چاہتے ہیں۔
۶۔
آپ یہ بھی غور کریں کہ مکانات بنانے کے لئے کونسا قطعہ موزوں ہوگا۔ یعنی آبادی دیہہ کہاں ہونی چاہئے ہمارے کارخانے اور کالج و سکول و فضل عمر انسٹی ٹیوٹ و لائبریری وغیرہ کے لئے کونسا موقعہ موزون ہوگا؟
۷۔
قبرستان کہاں ہونا چاہئے۔
۸۔
احمد نگر میں کچھ رقبہ نہر سے آبپاش ہوتا ہے۔ آپ وہ راجباہا دیکھیں جس سے اس رقبہ کو نہری پانی ملتا ہے۔
آپ نہر محکمہ میں رہ چکے ہیں۔ پٹواری نہر و ضلعدار سے بھی ملیں۔ اور اس امر پر غور کریں کہ اس موضع کے باقی رقبہ کو جو اس وقت نہری نہیں ہے نہری آبپاشی میں لانے کے لئے کیا تجویز ہوسکتی ہے؟
گورنمنٹ کو ضرورت ہے غلبہ کی پیداواری بڑھانے کی اور اس ضرورت کی طرف توجہ دلا کر اس رقبہ کی آبپاشی کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ بنجر رقبہ سرکاری ہے۔ تو سردست ہم سرکار سے عارضی کاشت پر لینے کی درخواست کرسکتے ہیں۔
۹۔
جو امور میں نے اوپر درج کئے ہیں ان میں سے بعض کے متعلق آپ مولوی ابوالعطاء صاحب اور احمد نگر میں دوسرے دوستوں سے بھی مشورہ کرسکتے ہیں۔ اور اس علاقہ کے پرانے زمینداراں سے بھی اپنے طور پر معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
۱۰۔
جب کام شروع ہوگا۔ حضرت خلیفتہ المسیح )ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز( کی رہائش کے لئے چنیوٹ میں کوئی موزوں مکان )کی( ضرورت ہوگی۔ چنیوٹ اسٹیشن کے نزدیک شہر سے باہر کوئی بنگلے ہیں جو شاید پناہ گزینوں کے قبضہ میں ہوں گے۔ ان کا خیال رکھیں جب ان میں سے کوئی بنگلہ خالی ہو فوراً اپنے نام الاٹ کرانے کی کوشش کریں۔ حضرت صاحب کی طبیعت سے آپ واقف ہیں۔ حضور ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ کسی کو تکلیف پہنچے جو مکان آپ حاصل کریں ایسے طور پر عمل ہوکہ کسی کو وجہ شکایت نہ پیدا ہو۔
۱۱۔
احمدنگر اور لالیاں میں حضور کے لئے مکان ہونا چاہئے جہاں آپ کبھی کبھی استراحت فرماسکیں۔ لالیاں میں تو ڈاک بنگلہ موجود ہے لیکن احمدنگر میں ایسی صورت نہیں وہاں جس جگہ بیٹھ کر ہم نے کھانا کھایا تھا وہ ٹوٹے پھوٹے مکانات ہیں۔ گائوں کے اندر مسجد کے نزدیک اگر کوئی مکان ہو جو تھوڑے تغیر و تبدل کے بعد حضور کی عارضی رہائش کے لئے موزوں بن سکے تو بہتر ہوگا۔
۱۲۔
یہ وادی غیر ذی زرع میں مہاجرین قادیان کی بستی کی بنیاد رکھی جانے والی ہے۔ ہمارے دوستوں کو جو چنیوٹ میں ہیں اور جو احمد نگر میں ہیں تعطیل کے دن وہاں پہنچ کر دعائیں کرنی چاہئیں اور وہ نظارہ قائم کرنا چاہئے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کی بنیاد رکھتے وقت اپنی دعائوں سے قائم کیا تھا۔
۱۳۔
اس نواح میں جو احمدیوں کے مواضعات اضلاع جھنگ` لائل پور` سرگودھا میں واقعہ ہیں۔ ان کا بھی آپ پتہ لے رکھیں۔
۱۴۔
‏]din [tag لالیاں اور چنیوٹ میں غالباً کپاس وغیرہ کے کارخانے ہیں۔ ان کی میعاد اگست تک ہے۔ جن لوگوں نے پچھلے مہینوں میں کارخانوں کو ٹھیک طور پر نہیں چلایا ان سے کارخانے لے کر غالباً دوسروں کو جو انتظام کے اہل ہوں دیئے جائیں گے ان کارخانوں کی بابت بھی آپ معلوم حاصل کریں۔
۱۵۔
کیا دریا کے کنارے چنیوٹ میں کوئی لکڑی منڈی ہے۔ انشاء اللہ ہم اپنی عمارتوں کے لئے دیار اور چیڑ وغیرہ کی لکڑی وزیرآباد سے دریا کے راستہ لایا کریں گے۔ اور ڈگیانہ کے محاذ لکڑی منڈی کا موقع تجویز کرنا ہوگا۔
۱۶۔
چنیوٹ اور احمدنگر کے درمیان کسی مناسب موقع پر آئل پمپ کی تجویز بھی کرنی ہوگی۔
۱۷۔
اگر آپ ریلوے لائن پر چنیوٹ کی طرف سے لالیاں کو چنیں تو چک ڈگیاں میں ایک موقعہ پر پل ہے اس پل سے بارشی پانی شمال مشرق سے جنوب غرب کو دریا کی طرف جاتا ہے۔ اگر اس بارشی پانی کو روکنے کیلئے اس نالی پر دو تین موقعوں پر چھوٹے چھوٹے بند لگا دیئے جائیں تو بارشی پانی کی چند ایک چھپڑیاں نشیب میں بن جائیں گی اور اغلب ہے کہ اچھی بارش کی صورت میں وہاں اتنا پانی جمع ہوجائے کہ مال مویشی کے لئے کئی ماہ تک کام آسکے۔ اس کے متعلق آپ خرچ کا اندازہ کرکے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں رپورٹ کریں۔
۱۸۔
چک ڈگیاں کا رقبہ عموماً کلر اٹھی ہے کلر اٹھی زمین سے کیکر کا درخت اگرچہ نکلے تو زمین درست ہونے میں امداد ملتی ہے۔ اس لئے بارشی لائنوں میں بارش کے موسم میں کیچڑ میں اگر کیکر کا بیج دیا جاوے تو کیکر چل نکلیں گے۔
۱۹۔
ان چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں کوئی مدخت نہیں ہیں کیونکہ بکریاں چرتی ہیں ان پر درخت اگنے نہیں پاتے۔ اگر ہم بکری چرائی منع ¶کردیں گے تو امید ہے ان پہاڑوں پر گھاس اور ایندھن کی کچھ پیداوار ہوسکے۔
پہاڑیوں کے دامن میں ایسے موقع تلاش کرنے چاہئیں جہاں تھوڑا سا بند لگانے سے پہاڑ کے بارشی پانی کے چھوٹے تالاب چھپڑیاں بن جاویں۔ جودھپور میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے دامن میں رہنے والے زمیندار آبنوشی کے ایسے تالاب بنا رکھتے ہیں۔
۲۰۔
شروع مین ۶ ماہ کے لئے ہم کو عملہ کے لئے اور معماروں اور مزدوروں کے لئے چھپروں کی ضرورت ہوگی۔ اس علاقہ میں چھپر بند مل جایا کرتے ہیں اس کے متعلق بھی آپ معلوم کریں کہ کہاں سے چھپر بند مل سکتے ہیں۔
۲۱۔
ان پہاڑوں کے اوپر چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے ہیں اور ایک اچھی پختہ بلڈنگ دریا کے کنارے ریلوے برج کے نزدیک چنیوٹ کی جانب واقع ہے۔ وہ غالباً خالی ہے۔ ہم ایسے خالی مکانات کا قبضہ لے لیویں۔ جب تک ہمارے مکانات نئے قصبہ میں تیار نہیں ہوتے۔ یہ مکانات استعمال میں آسکیں گے۔ امید ہے آپ بفضلہ تعالیٰ ہر طرح صحت و عافیت سے ہوں گے۔
آپ کا
محمد الدین
پہلا باب )فصل چہارم(
حضرت مصلح موعود کا پیغام جماعت احمدیہ امریکہ کی سالانہ کنوینشن کے نام ۱۷۔ ۱۸ سال ستمبر ۱۹۶۹ء کو جماعت احمدیہ کی دوسری سالانہ کنوینشن کا انعقاد ہوا جس کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعود نے درج ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا۔
‏Road, Lytton House, York
۔Pakistan Queeta,
۔1949 Spetember, 2nd
‏children spiritual and friends dear My
‏America, of States United the of
۔Barakatuhu ۔Wa ۔Rahmatullahi ۔wa ۔Alaikum Assalamu
‏ the in Missionary-in-Charge our by asked been have I message a etirw to Nasir, Ahmad Khalil ۔Mr America, of States United ۔Convention Second your in read be to you for nine۔Twenty ۔so do to me for pleasure great a is It an Sadiq, Mohammad Mufti sent I ago, years to him), on be (peace Messiah Promised the of companion old ۔country your in Movement Ahmadiyya the introduce America, of States United the reaching after He ۔mission his of centre the as Chicago choses a about truth the of support in raised voice lonely a was His back; century a of quartter yeht when laughed people the probably and the ۔Ahmadiyyat to them call and Islam preach him heard inspired divinely and true this that thought they Probably ۔Islam of interpretation just mad was man bearded grey disciplcs his and prophet every thought old of peoples the as so thought who those But ۔mad were that sheep The ۔themselves made were and mad is shepherd the recognize not does becomes it for destruction, for destined۔salvation of hope all loses and Satan;۔wold old that of prey eht][ No children! and friends dear My are people no and country ۔truth after seekers any without absolutely a of babble the as taken was which voice The some attract to began many, by man mad the be to destined were who those of the in truth of bearers torch- and pioneers them of some be May ۔America of States United Even ۔are none be may alive, still are their world, this left have them of all if heads your over hoveriong be might spirits is which seed the you in seeing now just ,swildernes the in God by broadcast being grow to soil, prepared well some in as well as crop heavy a become and time in۔country your of people of millions and missions to life new a give to
‏God of message the is Ahmadiyyat children! and friend My any by conceived scheme a not and Almighty should you So ۔being mortal try and such as it upon look great with and literally it follow to of law the breaks citizen good No ۔care ۔believer true a of case the is so and country his og law the ttha knows He is and philosophy inafallible upon based is God your that try always So ۔betterment and good his for law the with accord complete in be may actions God ۔Creator your by you for chosen ۔Quran Holy the in says Almighty perfection to brought have I day۔<To which to according code spiritual the for filled have I thus and live to have you >۔brim very its to blessings my of cup the you Holy the by given injunction and order every that shows verse This not and man of uplift lautispir the for in Quran ۔God to serfdom their feel beings human the make to order arbitrary an as ۔Law> <The follow we if gain to nothing has God so and it from benefit who we is It his in lukeworm is who person the in law the to obedience Wose ۔loser the himself is spirit, in and letter heaven of door the finds who him to goes and face his turns but him for opened all with you advice I So ۔astry this of yourselves avail to you, for bear I love the country your in truth the of pioneers gbein of opportunity great His and God to obedience true of example grand a set and so generateions, coming the for and contemporaries your for religion God; o eyes the in become you that so much people; your and country your of deliveres the the of disciples first the like become and God; on claims special no had disciples Those ۔old of prophets first believe, to first the were they that was claim only their live to first and sacrifices make to the with conformity in not was which life a They ۔countrymen their of lives rebuke; all well bore and bore the to stuck and ridicule all heart light a with took they new to place giving out die thus and them for chose God which way governments has name good disciples, these but ones still are and died never people these but succumbed have of millions of memories the in living۔kin and kith own their than more them love who people
‏ got have you Fortunately children! spiritual my and Friends Dear of beares first the being ,ytinutroppo same the the of disciples being America, of States United the in truth of beloved ۔him) on be (peace Messiah Promised the of disciples God ۔was Christ the as sense same the in son, begotton only His God, and presence His gain who those but son no has faith, wavering never and love steadfast through pleasue his win ۔that that more even Nay ۔Him to sons like become circumstances certain in son his forsake may father A You ۔ones beloved His forsakes never God but of time the found you tath blessing further a have the of disciples more not are you so and Son promised the him) on be (peace Messih Promised the of disciples So ۔themselves disciples first the like also are but your to according act and occasion grand the to rise is everybody that forget not Do ۔position exalted copy not do Therefore, ۔God his to responsible directly God of word the follow but weaknesses anybody's life a live to try and Prophet His and come have who those of lives the than cleaner and pious erom even there, representatives my that hope also I ۔you teach to and you for example good a set will cause the to detrimental way a in act not will him to Woe ۔truth after seekers the misleading and Islam of God of fold the to people bringing of opportunity the gets who ۔Stan ۔enemy eternal His to them delivers but all that so country, your and preachers your you, help God May through country, your and God of blessings the gain you of the and efforts untiring are God of stongholds first eth of one becomes God, of grace represented truly is which Islam, ۔religion living and true His and۔AMEN ۔Ahmadiyyat by time our in
‏sincerely, very Yours
‏۵۲MASSSIH-II KHALIFATUL
‏tav.12.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
ربوہ کے پہلے جلسہ سے لیکر مصلح موعود کی رہائش تک
پہلا باب )فصل پنجم(
ربوہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود کی بغرض رہائش تشریف آوری
اور مرکز احمدیت کے نئے دور کا آغاز
۱۹۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کو مرکز احمدیت۔ ربوہ ایک نئے اور انقلاب آفریں دور میں داخل ہوا۔ کیونکہ اس روز حضرت مصلح موعود جواب تک لاہور میں قیام فرما تھے مستقل طور پر تشریف لے آئے۔ اور حضور کے انفاس قدسہ` اور روحانی توجہات کی بدولت نہ صرف یہ پاک بستی ایک فعال مرکز کی حیثیت سے جلد جلد ترقی و ارتقا کے منازل طے کرنے لگی بلکہ غلبہ اسلام کی مہم میں پہلے سے زیادہ قوت و شوکت پیدا ہوگئی۔ اور آسمانی بادشاہت کا دور قریب سے قریب تر نظر آنے لگا۔
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے اس اہم اور یادگار سفر ربوہ کی مفصل روداد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم مبارک سے ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:۔]>[یوں تو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کئی دفعہ ربوہ تشریف لے جاچکے ہیں اور گزشتہ جلسہ سالانہ بھی ربوہ میں ہی منعقد ہوا تھا۔ جب کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مع اہل و عیال کئی دن تک ربوہ قیام فرمایا تھا۔ لیکن یہ سب سفر عارضی رنگ رکھتے تھے اور ابھی تک حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی مستقل سکونت رتن باغ لاہور میں ہی تھی لیکن جو سفر ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۹ء کو بزور دو شنبہ اختیار کیا گیا وہ ربوہ کی مستقل رہائش کی غرض سے تھا۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ ہماری قادیان سے ہجرت کی تکمیل کا دن تھا۔ جبکہ خلیفہ وقت اور امام جماعت قادیان سے باہر ہونے کے بعد اپنی عارضی رہائش گاہ سے منتقل ہوکر جماعت احمدیہ کے قائم مقام مرکز ربوہ میں رہائش رکھنے کی غرض سے تشریف لے گئے۔ پس یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یادگاری دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں مختصر طور پر اس سفر کے چشم دید حالات تاریخ احمدیت کو ضبط میں لانے کی غرض سے درج کرتا ہوں۔
دراصل گو میرا دفتر ابھی تک لاہور میں ہے۔ مگر میں نے اس سفر کی تاریخی اہمیت کو محسوس کرکے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں انشاء اللہ اس سفر میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جائوں گا اور سفر اور ربوہ کی دعا میں شریک ہوکر اسی دن شام کو لاہور واپس پہنچ جائوں گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں ذیل کی چند سطور ہدیہ ناظرین کرنے کے قابل ہوا ہوں۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا فیصلہ تو یہ تھا کہ انشاء اللہ ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۹ء کو صبح ۸ بجے لاہور سے روانگی ہوگی مگر دفتری انتظام کے نقص کی وجہ سے یہ روانگی وقت مقررہ پر نہیں ہوسکی۔ چنانچہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ آٹھ بجے صبح کی بجائے دس بج کر چالیس منٹ پر یعنی تقریباً گیارہ بجے رتن باغ لاہور سے بذریعہ موٹر روانہ ہوئے۔ حضور کی موٹر میں حضرت ام المومنین اطال اللہ بقائہا اور حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ اور شاید ایک دو بچیاں ساتھ تھیں اور حضور کے پیچھے دوسری موٹر میں حضرت صاحب کی بعض دوسری صاحبزادیاں اور ایک بہو اور بعض بچے اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری سوار تھے۔ تیسری موٹر میں سیدہ بشریٰ بیگم مہر آپا صاحبہ اور محترم ام وسیم احمد صاحبہ اور بعض دوسرے بچے تھے اور ان کے پیچھے چوتھی موٹر میں خاکسار مرزا بشیر احمد اور میرے اہل و عیال اور عزیزہ آمنہ بیگم سیال اور محترمی چوہدری عبدالحمید صاحب سپرنٹندنٹ انجینئر اور میاں غلام محمد صاحب اختر اے پی او سوار تھے۔ شاہدرہ سے کچھ آگے نکل کر حضرت صاحب نے اپنی موٹر روک کر انتظار کیا کیونکہ ابھی تک تیسری موٹر نہیں پہنچی تھی۔ اور کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد آگے روانہ ہوئے۔ ایک لاری اور دو ٹرک کافی عرصہ بعد روانہ ہوئے۔
رتن باغ سے روانہ ہونے سے پہلے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ سب لوگ رتن باغ سے روانہ ہوتے ہوئے اور پھر ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے ہوئے یہ قرآنی دعا جو آنحضرت~صل۱~ کو مدینہ کی ہجرت کے وقت سکھلائی گئی تھی۔ پڑھتے جائیں۔ یعنی
رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا۔
چنانچہ اس دعا کے درد کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا۔ اور رستہ میں بھی یہ دعا برابر جاری رہی۔ چونکہ روانگی میں دیر ہوگئی تھی اس لئے موٹریں کافی تیز رفتاری کے ساتھ گئیں اور سفر کا آخری حصہ تو غالباً ستر پچھتر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے ہوا ہوگا اور اس غرض سے رستہ میں کسی جگہ ٹھہرا بھی نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی موٹر جو لاہور سے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے روانہ ہوئی تھی اور اس میں محترمی مولوی عبدالرحیم صاحب درد بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہمیں رستہ میں ہی ربوہ کے قریب چناب کے پل پر مل گئی تھی یہ گویا اس سفر کی پانچویں موٹر تھی۔ اس کے علاوہ ایک چھٹی موٹر بھی تھی۔ جس میں محترمی ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان اور ہمارے بعض دوسرے عزیز بیٹھے تھے لیکن چونکہ یہ موٹر چونکہ بعد میں چلی اور زیادہ رفتار بھی نہیں رکھ سکی اس لئے وہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ربوہ میں داخل ہونے کے کچھ عرصہ بعد پہنچی۔
چناب کا پل گزرنے کے بعد جس سے آگے ربوہ کی سرزمین کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی موٹر سے اتر آئے اور دوسرے سب ساتھی بھی اپنی اپنی موٹروں سے اتر آئے۔ البتہ مستورات موٹروں کے اندر بیٹھی ہیں اس جگہ اتر کر بعض دوستوں نے اعلان کی غرض سے اہل ربوہ تک اطلاع پہنچانے کے خیال سے ریوالور اور رائفل کے کچھ کارتوس ہوا میں چلائے اس کے بعد حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے رفقاء میں اعلان فرمایا کہ میں یہاں قبلہ رخ ہوکر مسنون دعا کرتا ہوں۔ اور ہمارے دوست بھی اس دعا کو بلند آواز سے دہرائے جائیں اور مستورات بھی اپنی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے یہ دعا دہرائیں۔ اس کے بعد حضور نے ہاتھ اونچے کرکے یہ دعا کرنی شروع کی۔
رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا وقل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔
>یعنی اے میرے رب مجھے اس بستی میں اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ داخل کر اور پھر اے میرے آقا مجھے اس بستی سے نکال کر اپنی اصل قیام گاہ کی طرف اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ لے جا۔ اور اے مومنو تم خدا کی برکتوں کو دیکھ کر اس آواز کو بلند کرو کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔ اور باطل کے لئے تو بھاگنا ہی مقدر ہوچکا ہے<۔
یہ دعا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے چناب کا پل گزر کر اور قبلہ رخ ہوکر ربوہ کی سرزمین کے کنارے پر کھڑے ہوکر کئی دفعہ نہایت سوز اور رقت کے ساتھ دہرائی اور اس کے بعد موٹروں میں بیٹھ کر آگے روانہ ہوئے۔ کیونکہ ربوہ کی موجودہ بستی چناپ کے پل سے قریباً دو میل آگے ہے۔ اس عرصہ بھی سب دوست اوپر کی دعا کو مسلسل دہراتے چلے گئے۔ جب ربوہ کی بستی کے سامنے موٹریں پہنچیں تو اس وقت ربوہ اور اس کے گردونواح کے سینکڑوں دوست ایک شامیانے کے نیچے حضرت صاحب کے استقبال کے لئے جمع تھے۔ اس وقت جب کہ عین ڈیڑھ بجے کا وقت تھا سب کے آگے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی موٹر تھی۔ اس کے بعد ہماری موٹر تھی۔ اس کے بعد غالباً سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ مہر آپا کی موٹر تھی۔ اس کے بعد حضرت صاحب کی صاحبزادیوں کی موٹر تھی۔ اور اس کے بعد غالباً محترمی شیخ بشیر احمد صاحب کی موٹر تھی۔
جب حضرت صاحب اپنی موٹر سے اترے تو ربوہ کے چند نمائندہ دوست جن میں محترمی مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے ناظر اعلیٰ اور محترمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ و امیر مقامی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور عزیز ڈاکٹر منور احمد سلمہ اللہ اور بعض ناظر صاحبان اور تحریک جدید کے وکلا صاحبان اور محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب وغیرہ شامل تھے آگے آئے اور حضور کے ساتھ مصافحہ کرکے حضور کو اس شامیانہ کی طرف لے گئے جو چند گز مغرب کی طرف نصب شدہ تھا۔ اور جس میں دوسرے سب دوست انتظار کررہے تھے۔
حضرت صاحب اس وقت بھیnsk] gat[ رب ادخلنی مدخل صدق والی دعا دہرا رہے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ میرے ساتھ ساتھ یہ دعا دہراتے جائو۔ شامیانے کے نیچے پہنچ کر حضرت صاحب نے وضو کیا۔ اور پھر سب دوستوں کے ساتھ قبلہ رخ ہوکر ظہر کی نماز ادا فرمائی۔ یہ گویا درود ربوہ کا سب سے پہلا کام تھا۔ نماز اور سنتوں سے فارغ ہوکر حضور نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی۔ جس میں فرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرت~صل۱~ کی ہجرت کی سنت کو سامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگے آکر استقبال کریں گے تاکہ ہم سب متحد دعائوں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اس لئے اب میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھر اس دعا کو دہراتا ہوں اور سب دوست بلند آواز سے میرے پیچھے اس دعا کو دہراتے جائیں چنانچہ آپ نے شاید تین یا پانچ دفعہ رب ادخلنی مدخل صدق اور قل جاء الحق وزھق الباطل والی دعا دہرائی۔ اور سب دوستوں نے بلند آواز سے آپ کی اتباع کی۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے مختصر طور پر اس دعا کی تشریح فرمائی۔ کہ یہ دعا وہ ہے جو مدینہ کی ہجرت کے وقت آنحضرت~صل۱~ کو سکھلائی گئی تھی اور اس میں]ksn [tag ادخلنی )مجھے داخل کر( کے الفاظ کو اخرجنی )مجھے نکال( کے الفاظ پر اس لئے مقدم کیا گیا ہے۔ تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مدینہ میں داخل ہوکر رک جانا ہی آنحضرت~صل۱~ کی ہجرت کی غرض و غایت نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک درمیانی واسطہ ہے۔ اور اس کے بعد پھر مدینہ سے نکل کر مکہ کو واپس حاصل کرنا اصل مقصد ہے اور پھر اس کے ساتھ قد جاء الحق والی دعا کو شامل کیا گیا تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مومن کی ہجرت حقیقتاً اعلاء کلمتہ اللہ کی غرض سے ہوتی ہے نیز اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی ہجرت خدا کے فضل سے مقبول ہوئی ہے کیونکہ خدا نے اس کے ساتھ ہی حق کے قائم ہونے اور باطل کے بھاگنے کے لئے دروازہ کھول دیا ہے اور پھر اسی تمثیل کے ساتھ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان کا ذکر کیا۔
کہ ہم بھی قادیان سے نکالے جاکر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ مگر ہمارا یہ کام نہیں کہ اپنی ہجرت گاہ میں ہی دھرنا مار کر بیٹھ جائیں۔ بلکہ اپنے اصل اور دائمی مرکز کو واپس حاصل کرنا ہمارا اصل فرض ہے۔
اس تقریر کے بعد جس میں ایک طف موٹروں میں بیٹھے بیٹھے مستورات بھی شریک ہوئی تھیں حضرت امیرالمومنین اپنی ربوہ کی عارضی فرودگاہ اس لئے کہا ہے کہ اب تک جتنی بھی عمارتیں ربوہ میں بنی ہیں وہ دراصل سب کی سب عارضی ہیں۔ اور اس کے بعد پلاٹ بندی ہونے پر مستقل تقسیم ہوگی۔ اور لوگ اپنے اپنے مکان بنوائیں گے۔ حضرت صاحب کے مکان میں ربوہ کی مستورات استقبال کی غرض سے جمع تھیں جن کی قیادت ہماری ممانی سیدہ ام دائود صاحبہ فرما رہی تھیں۔ اس کے بعد حضرت صاحب اور دوسرے عزیزوں اور اہل قافلہ نے کھانا کھایا جو صدر انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کی طرف سے پیش کیا تھا غالباً ربوہ وارد ہونے کے معاً بعد یہ پروگرام بھی تھا۔ کہ حضرت صاحب اپنی مجوزہ مستقل رہائش گاہ کے ساتھ متصل زمین میں مسجد کی بنیاد بھی رکھیں گے۔ لیکن چونکہ اس مسجد کی داغ بیل میں کچھ غلطی نظر آئی اس لئے اسے کسی دوسرے وقت پر ملتوی کردیا گیا۔ عصر کی نماز حضور نے اس مسجد میں ادا فرمائی جو حضور کے عارضی مکان کے قریب ہی عارضی طور پر بنائی گئی ہے۔ اور اسی لئے اسے مسجد کی بجائے >جائے نماز< کا نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ بعد میں یہ مسجد مستقل جگہ کی طرف منتقل کردی جائے گی۔ یہ جائے نماز ایک کھلے چھپر کی صورت میں ہے جس کے نیچے لکڑی کے ستونوں کا سہارا دیا گیا ہے۔ اور اس کے سامنے ایک فراخ کچا صحن ہے اور اس مسجد کے علاوہ بھی ایک دو عارضی مسجدیں ربوہ میں تعمیر کی جاچکی ہیں کیونکہ اس وقت ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس کے قریب بتائی جاتی ہے اور آبادی کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ عام نمازوں میں سب دوستوں کا ایک مسجد میں جمع ہونا مشکل سمجھا گیا ہے۔ عصر کی نماز کے بعد دوستوں نے حضور سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل کیا۔۵۳
‏]1daeh [tagسفر ربوہ کے چند بقیہ واقعات
۱۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کے اس یادگاری سفر کے پیش نظر احباب ربوہ نے پانچ بکروں کے ذبح کرنے کا بھی انتظام کیا تھا۔ کیونکہ خاص موقعوں پر یہ بھی ایک مسنون طریق ہے۔
۲۔
بکروں کے ذبحہ کرنے کے علاوہ ربوہ کی جماعت نے اس موقعہ پر غریبوں کو کھانا کھلانے کا بھی انتظام کیا تھا۔ چنانچہ بہت سے غریبوں کو دعا اور رد بلا کی غرض سے کھانا کھلایا گیا۔
۳۔
اسی طرح اہل ربوہ نے غرباء میں کچھ نقد رقم بھی تقسیم کرنے کا انتظام کیا تھا کہ یہ بھی ایسے موقعوں پر برکت کا ایک روحانی ذریعہ ہے۔
۴۔
دوپہر کے کھانے کے بعد جو حضرت مسیح موعود کے لنگر کی طرف سے صدر انجمن احمدیہ نے پیش کیا۔ شام کا کھانا اہل ربوہ کی طرف سے پیش کیا گیا<۔۵۴
سیدنا حضرت مصلح موعود اپنی ذات میں تجلیات الٰہیہ اور برکات ربانی کا زندہ اور چلتا پھرتا انسان تھے اور آپ کے نزول کو آسمانی نوشتوں میں بہت مبارک قرار دیا گیا تھا۔ مگر یہ مبارک سفر تو خدائی برکتوں کا ایک دریائے نور اپنے ساتھ لایا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لقاء کے آخری درجہ تک پہنچنے والے مقربان بارگاہ الٰہی کے اقتداری خوارق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>اور جیسا کہ وہ مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے تب ہریک چیز جو اس سے مس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے اور اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے۔ اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے۔ جب یہ سفر کرے تو خدا تعالیٰ مع اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نور کا ساتھ لاتا ہے<۔۵۵
واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین
حواشی
۱۔
الفضل ۱۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۵۔
۲۔
رجسٹر روداد اجلاس ہائے رتن باغ لاہور۔
۳۔
چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیر کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ۸۔ ماہ شہادت/ اپریل تک مہمانوں کی سب بیرکیں پایہ تکمیل تک پہنچ گئیں۔ اسی طرح حضور کی عارضی رہائش گاہ بھی قریباً مکمل ہوچکی تھی۔ البتہ ناظر صاحبان کے اٹھارہ کمروں کا سیٹ ابھی زیر تعمیر تھا۔
۴۔
رجسٹر روداد اجلاس رتن باغ لاہور۔
۵۔
الفضل ۳۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۶۔
بذریعہ چٹھی ۳۲g/۔/c۸۹ مورخہ ۲۵۔ مارچ ۱۹۴۹ء۔
۷۔
الفضل ۱۵۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۶۔
۸۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۶۔
۹۔
الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۳۴۰ہش/ ۱۹۶۱ء صفحہ ۵ تا ۱۳۔
۱۰۔
الفضل خطبہ الفضل ۸۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء میں شائع شدہ ہے۔
۱۱۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۸۔
۱۲۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔
۱۳۔
مفصل تقریر رسالہ >مصباح< بابت مئی ۱۹۵۰ء میں چھپ گئی تھی۔
۱۴۔
آپ کی مکمل تقریر الفضل ۶۔ ۷۔ ۱۰۔ ۱۱۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء میں چھپی ہوئی ہے۔
۱۵۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۴۔
۱۶۔
الفضل ۲۱۔ احسان/ جون ۱۳۴۰ ہش/ ۱۹۶۱ء صفحہ ۲ تا ۴۔
۱۷۔
روزنامہ الفضل مورخہ ۱۶۔ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۸۔
روزنامہ الفضل ۱۸۔ وفا ۱۳۴۰ہش بمطابق ۱۸۔ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۹۔
روزنامہ الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۸۲ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۲۰۔
مکمل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۶` ۲۷` ۲۸۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۲۱۔
پوری تقریر الفضل ۲۹۔ ۳۰۔ شہادت/ اپریل یکم ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۱ء میں طبع شدہ ہے۔
۲۲۔
الفضل ۲۲۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء پر اس تقریر کا ترجمہ چھپ گیا ہے۔
۲۳۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۸۔
۲۴۔
آیتہ کمالات اسلام صفحہ ۵۷۶ )طبع اول(
۲۵۔
الفضل ۲۳۔ شہادت/ ۲۱۔ احسان ۱۳۲۸ہش/ جون ۱۹۴۶ء۔
۲۶۔
الفضل ۴۔ فروری ۱۹۴۸ء صفحہ ۱ )رویا و کشوف سیدنا محمود صفحہ ۱۹۳۔ ۱۹۵ ناشر فضل عمر فائونڈیشن ربوہ(
۲۷۔
روزنامہ الفضل ۱۸۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۸/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔ ۴۔
۲۸۔
الفضل ۲۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۱۔
۲۹۔
الفضل ۷/۶۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۱` ۲۔
۳۰۔
الفضل ۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۱۔
الفضل ۱۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۳۲۔
الفضل ۱۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۳۔
الفضل ۱۴۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۴۔
الفضل ۶۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۵۔
الفضل ۱۹۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۶۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۷۔
الفضل یکم وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۳۸۔
مئی ۴۱/ ۲۶۔
۳۹۔
الفضل ۲۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۴۔
۴۰۔
الفضل ۵۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۴۱۔
الفضل ۲۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۴۲۔
اس اخبار کے مالک و مدیر جناب عبدالکریم صاحب بٹ تھے۔ یہ اخبار ۱۹۴۸ء سے نکلنا شروع ہوا تھا۔
۴۳۔
الفضل ۳۱۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۳۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۴۴۔
خطاب کے متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶۔ فتح ۱۳۳۸ہش/ دسمبر ۱۹۵۹ء` ۳۰۔ فتح/ ۱۳۸۸ہش/ دسمبر ۱۹۵۹ء` ۶۔ صلح ۱۳۳۹ہش/ جنوری ۱۹۶۰ء` ۳۱۔ صلح ۱۳۴۱ ہش/ جنوری ۱۹۶۲ء صفحہ ۶۔
۴۵۔
الفضل ۳۱۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۴۶۔
الفضل ۳۱۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۴۷۔
تفسیر روحانی جلد سوم صفحہ ۲۶۶ تا صفحہ ۲۶۸۔ ناشر الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ۔
۴۸۔
الفضل ۲۰۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۱۔
۴۹۔
الفضل ۲۶۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۵۰۔
روزنامہ الفضل مورخہ ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۱۔ ۳۳۔
۵۱۔
روزنامہ الفضل ۳۱۔ وفا ۱۳۲۸ہش بمطابق ۳۱۔ جولائی ۱۹۴۹ء صفحہ ۷۶۔
۵۲۔
‏ 1949, Quarter, fourth 13۔11 egPa Sunrise, Moslem The ۔A۔S۔U Illionois, 4, Chicago
۵۳۔
الفضل ۲۲۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء۔
۵۴۔
الفضل ۲۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۵۵۔
آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۶۹۔
‏tav.12.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے لیکر شہدائے احمدیت تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
دوسرا باب
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان کے پہلے سالانہ اجتماع سے لیکر اوکاڑہ اور راولپنڈی کے شہدائے احمدیت کی شہادت کے حالات تک

ترقیوں اور ابتلائوں کا متوازی سلسلہ
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی ہجرت ربوہ کا واقعہ پچھلی جلد میں آچکا ہے۔ اس اہم اور ناقابل فراموش واقعہ کے بعد جماعت احمدیہ کا قدم عظیم الشان ترقیات اور خوفناک ابتلائوں کے ایک متوازی سلسلہ میں داخل ہوگیا۔
یہ زمانہ احمدیت کے لئے بڑی تنگی اور مصیبت کا زمانہ تھا۔ مگر جہاں خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں اور قدرتوں کے پے درپے جلوے دکھائے وہاں حضرت مصلح موعودؓ اور دوسرے بزرگان سلسلہ احمدیہ نے بالخصوص اور باقی افراد جماعت نے بالعموم علیٰ قدر مراتب اپنے مولیٰ کریم سے وفاداری اور صبر و توکل کا وہی بے مثال نمونہ دکھایا جس کا نقشہ حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ السلام نے درج ذیل الفاظ میں کھینچا ہے:۔
>ایک قوی توکل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الٰہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز حب الٰہی کے اور کچھ نہیں۔ دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں۔ خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں۔ ان پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے۔ انہی پر کھلا ہے کہ ایک ہے۔ جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے۔ جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے۔ جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ ان کی طرف دوڑتا ہے۔ وہ باپوں سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی درودیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے۔ پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائیدوں سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ اور وہ ہریک میدان میں ان کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے اور وہ ان کا ہے<۔۱
تحریک احمدیت کے خلاف ہنگامہ آرائیوں اور کھلی جارحانہ کارروائیوں کا دائرہ تو زیادہ تر برصغیر پاک و ہند میں ہی محدود رہا مگر جماعت احمدیہ کی شاندار پیش قدمی نہ صرف برصغیر کے اندر بلکہ دنیا بھر میں ایک فاتحانہ شان کے ساتھ جاری رہی۔ پہلے سے قائم شدہ احمدی مشنوں میں اسلام کی پاک و مقدس خدمات کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ نئے مشن قائم ہوئے۔ نیا لٹریچر شائع ہوا۔ علاوہ ازیں سلسلہ احمدیہ کا جدید مرکز دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالی شان شہر میں تبدیل ہوگیا جس کی بدولت انوار قرآنی قدیم و جدید دنیا تک بڑی تیزی سے پھیلنے لگے۔ فالحمدللہ اولا و اخرا وظاھرا وباطنا۔ اسلمنالہ ھو مولینا فی الدنیا والاخرہ نعم المولی ونعم النصیر۔
فصل اول
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان کا پہلا سالانہ اجتماع
دنیا کی مذہبی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام پر ابتدائے زمانہ میں ایمان لانے والے زیادہ تر جوان ہی ہوتے ہیں۔ عہد شباب میں قویٰ مضبوط اور طاقت ور ہوتے ہیں اور دلوں میں ایک امنگ ولولہ اور جوش موجزن ہوتا ہے اس لئے وہ ایک لمبے عرصہ تک نور صداقت کو پھیلا سکتے اور اس کی اشاعت و ترویج میں حصہ لے سکتے ہیں۔ خاص طور پر تبلیغی` اصلاحی اور جمالی سلسلوں کے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ ان کے اندر آسمانی تعلیم کو مدت دراز تک اپنی اصلی صورت میں محفوظ رکھنے کے لئے تعلیم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے کا مفید اور بابرکت نظام پورے تسلسل سے موجود رہے تا وہ اپنے ظاہری ڈھانچہ اور حقیقی روح دونوں کے ساتھ رائج و نافذ ہو اور پختہ بنیادون پر جاری رہ سکے۔
تاریخ مذاہب کے اسی انقلابی اصول اور اٹل فلسفہ کی بناء پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۴۔ فروری ۱۹۳۸ء کو مجلس خدام الاحمدیہ جیسی عالمی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے متحدہ ہندوستان میں )۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء تک( ۹ سالانہ اجتماعات ہوئے۔
پاکستان میں مجلس کا پہلا سالانہ مرکزی اجتماع ۳۰` ۳۱۔ اخاء/ اکتوبر و یکم نبوت/ نومبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کو ربوہ کے آب و گیاہ اور وسیع میدان میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے خدام الاحمدیہ کے نظام میں اس بنیادی تبدیلی کا اعلان فرمایا کہ خدام الاحمدیہ نے چونکہ دینداری کی ان تمام توقعات کو اس حد تک پورا نہیں کیا جس حد تک میں چاہتا تھا اس لئے آئندہ کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر میں ہوا کروں گا اور شوریٰ کی طرح اس کا اجتماع بھی میری ہی صدارت میں ہوا کریں گے اور نائب صدر کا کام محض تنفیذ احکام صدر ہوگا۔ حضرت امیرالمومنین نے اس تنظیمی تبدیلی کی نسبت یہ وضاحت فرمائی کہ کہ اس کا تعلق میرے ساتھ ہے تمہارے ساتھ نہیں۔ نائب صدر میرا نمائندہ ہوگا لہذا تمہیں نائب صدر کے احکام کی پابندی صدر ہی کے احکام سمجھ کر کرنا ہوگی۔ نائب صدر اپنے عہدہ کی حیثیت سے صدر انجمن احمدیہ کا ممبر ہوا کرے گا۔۲
پاکستانی دور کے اس پہلے سالانہ اجتماع میں نوجوانان احمدیت نے تین دن خالص علمی` ورزشی اور دینی مصروفیات میں گزارے اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس اجتماع میں احمدی نوجوانوں کو تین بار خطاب سے نوازا اور ان کو بہت سی قیمتی نصائح فرمائیں جو ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیں گی۔ مثلاً:۔
۱۔
خدام الاحمدیہ ایک روحانی جماعت ہے لہذا اس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ روحانی تقاضوں کو پورا کرے۔
۲۔
انتخاب میں محض اس لئے کوئی نام تجویز کرنا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے خدام الاحمدیہ کی اس روح کے منافی ہے جس کے قیام کے لئے یہ تحریک جاری کی گئی ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کا عمل اسلام اور احمدیت کی شان کے مطابق ہے یا نہیں۔ اہل بیت کے معاملے میں تو قرآن کریم کا ارشاد نہایت ہی سخت ہے کہ اگر وہ کوئی غلطی کریں گے تو انہیں دگنی سزا ملے گی۔ پس جب تک مذہب کی صحیح روح کسی شخص میں پیدا نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی صحیح مومن نہیں ہوسکتا۔
۳۔
احمدی نوجوان کے معنے یہ ہیں کہ اسے اپنے زبان پر قابو ہو` وہ محنتی ہو` وہ دیندار ہو` وہ پنجوقتہ نمازی ہو` وہ قربانی و ایثار کا مجسمہ ہو اور کلمہ حق کو زیادہ سے زیادہ پہنچانے میں نڈر ہو۔۳
۴۔
فرمایا >فیشن اور سماج کے رواج تمہیں مرعوب نہ کرنے پائیں۔ انبیاء کی تاریخ پر نظر دوڑا کر دیکھو وہ کہاں فیشن سے مرعوب ہوتے تھے؟ انہوں نے کب نوکریاں چلے جانے کے ڈر سے اپنے فرائض کی صحیح ادائیگی چھوڑ دی تھی؟ کلمہ حق کو ہر حالمیں نڈروں کی طرح پہنچانے کے لئے تیار ہوجائو۔ مجھے ہرگز ان عقل مندوں کی ضرورت نہیں جو قدم قدم پر لوگوں سے مرعوب ہوتے پھریں بلکہ مجھے ان دیوانوں اور پاگلوں کی ضرورت ہے جو خدا کی بات منوا کر ہی چھوڑیں۔ اپنے اندر عمل کا جذبہ پیدا کرو اور دنیا والوں کے تمسخر کی پروا نہ کرو۔ یاد رکھو تعریف وہی اچھی ہے جو آسمان پر ہو دنیا والوں کی تعریف اس آسمانی تعریف کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی<۔۴
۵۔
قواعد کی پابندی ہر حالت میں لازمی ہوتی ہے۔ جو قومیں دلیلوں سے قاعدے توڑنے کا جواز نکالنا شروع کردیتی ہیں ان کی ذہنیتیں شکست خوردہ ہوجاتی ہیں۔ افسر جو قانون بنائیں سب سے پہلے اس پر خود کاربند ہوں۔۵
خلاصہ یہ کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے اپنی زندگی بخش اور روح پرور تقریروں میں مجلس کی گزشتہ جدوجہد کا تجزیہ کیا` اس کے عمدہ کاموں کو سراہا اور خامیوں کو دور کرنے کی تلقین فرمائی اور آئندہ کے لئے قوم کے نونہالوں کی تربیت کی باگ ڈور خود اپنے مقدس ہاتھ میں لے لی۔۶
حضور کی اس بروقت توجہ اور براہ راست نگرانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مجلس بہت جلد چوکس اور بیدار ہوکر پہلے سے زیادہ خدمت میں سرگرم عمل ہوگئی۔
دوسرا باب )فصل دوم(
اخبار >الرحمت< کا اجراء اور حضرت مصلح موعودؓ کا بصیرت افروز افتتاحی مضمون
حکومت ہندوستان نے اخبار الفضل پر پابندی عائد کردی تھی حضرت مصلح موعودؓ نے حکم دیا کہ ہندوستان کی احمدی جماعتوں کیلئے ایک
نیا اخبار لاہور سے جاری کیا جائے جو خالصتاً تبلیغی اور اخلاقی اقدار کا علمبردار ہو۔ اس پر ۲۱۔ نبوت/ ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو مکرم شیخ روشن دین صاحب تنویر کی ادارت میں الرحمت جاری کیا گیا جو ۷۔ ہجرت ۱۳۳۰ہش/ مئی ۱۹۵۱ء تک ایک کامیاب دینی ترجمان کی حیثیت سے باقاعدگی کے ساتھ نکلتا رہا۔
اخبار الرحمت کے پرنٹر و پبلشر مکرم مسعود احمد خاں صاحب دہلوی اور منیجر مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز تھے۔ شروع میں یہ اخبار کواپریٹو کیپٹل پرنٹنگ پریس وطن بلڈنگ لاہور میں چھپتا تھا لیکن بعد میں اس کی طباعت پہلے ویسٹ پنجاب پرنٹنگ پریس موہن لال روڈ لاہور میں پھر پاکستان ٹائمز پریس لاہور میں ہوئی۔ درمیان میں اس کے بعض پرچے جیلانی الیکڑک پریس ہسپتال روڈ لاہور میں بھی چھپتے رہے۔
اخبار الرحمت کی بنیاد چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک ہاتھوں سے رکھی گئی تھی اس لئے جماعت کے اس نئے ترجمان نے اس خلاء کو فوری طور پر بہت حد تک پورا کردیا جو اخبار الفضل کی جبری بندش نے پیدا کردیا تھا۔ اس اخبار میں پورے التزام کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے روح پرور خطبات چھپتے تھے برصغیر پاک و ہند کے علماء سلسلہ کی تقاریر اور مضامین نیز بیرونی ممالک کے مجاہدین کی معلومات افزا رپورٹیں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ ربوہ کی تازہ خبریں بھی باقاعدگی سے درج کی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس میں مرکز احمدیت قادیان اور دوسری ہندوستانی جماعتوں کی تبلیغی اور تنظیمی جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین مصلح موعودؓ نے الرحمت کے اجراء پر ایک نہایت مفصل` حقیقت افروز افتتاحی مضمون۷ سپرد قلم فرمایا جو اس کے پہلے شمارہ کے صفحہ ۳ اور ۴ پر شائع ہوا۔ ذیل میں اس مبارک مضمون کا متن درج کیا جاتا ہے:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
بسم اللہ مجرھا ومرسھا
>الرحمت<
آج سے چھتیس سال پہلے نہایت خطرناک حالات اور بالکل بے بسی اور بیکسی کی صورت میں میں نے الفضل اخباری جاری کیا تھا جو پہلے ہفتہ وار شروع ہوا اور اب روزانہ اخبار کی صورت میں شائع ہورہا ہے اور اس وقت ملک کے مقتدر پرچوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ پرچہ ہندوستان سے پاکستان میں آگیا۔ اپنی مرضی سے نہیں مجبوری سے۔ ملک کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا رہنا اور مغربی پنجاب میں ہندوئوں اور سکھوں کا رہنا قریباً ناممکن ہوگیا۔ یہ حالات یقیناً تکلیف دہ تھے۔ تکلیف دہ ہیں اور تکلیف دہ رہیں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں قدرت کی کوئی مصلحت بھی تھی۔ وہ کیا تھی؟ شاید اس کا بیان ابھی مناسب نہ ہو۔ بہرحال ان حالات کی وجہ سے علاوہ افراد کے بہت سے ہندو اور سکھ اخبار بھی مغربی پنجاب سے نکل کر مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ہوگئے اور بہت سے مسلمانوں کے اخبار مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں آگئے۔ جہاں تک اخباروں کا تعلق ہے شائد نقصان ہندوئوں اور سکھوں کا زیادہ ہوا اور مسلمانوں کا کم۔ کیونکہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا ایک ہی مقتدر اخبار الفضل تھا لیکن مغربی پنجاب میں ہندوئوں کے کئی بڑے بڑے پرچے تھے مثلاً >ٹریبون< >پرتاپ< >ملاپ< >اجیت< >ویر بھارت<۔
جو پرچے جس ملک میں گئے لازماً ان کی ہمدردیاں ان ممالک سے وابستہ ہوگئیں۔ الفضل گو ایک مذہبی پرچہ تھا لیکن کبھی کبھار اس میں نیم سیاسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے جن میں اپنی دیرینہ پالیسی کے مطابق پوری احتیاط سے کام لیا جاتا تھا اور خیال رکھا جاتا تھا کہ بین الاقوامی منافرت کی کوئی صورت پیدا نہ ہو لیکن ایک پاکستانی اخبار کے جذبات بہرحال پاکستانی ہی ہوسکتے تھے میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں مگر ہندوستان کے بعض صوبوں کی حکومتوں نے الفضل کے بعض مضامین کو قابل اعتراض سمجھ کر اس کا داخلہ بند کردیا۔ اور اب تو قریباً سارے ہندوستان میں ہی سوائے دہلی کے اس کا داخلہ بند ہے۔ ہندوستانی حکومت کے پاس جب اس کے متعلق احتجاج کیا گیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ مرکزی حکومت نے الفضل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا اور براہ راست اس کے ماتحت علاقوں میں اس کا داخلہ ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ باقی رہیں صوبہ جاتی حکومتیں سو وہ اس معاملہ میں آزاد ہیں۔ اگر کسی صوبہ جاتی حکومت نے ایسا کیا ہو تو آپ اس سے براہ راسست احتجاج کریں۔ الفضل چونکہ ایک مذہبی پچہ تھا اس لئے ہندوستان کی جماعتوں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پرچہ میں سیاسی مضامین کلیتاً ممنوع قرار دئے جائیں تاکہ کسی غیر گورنمنٹ کو اس پر اعتراض کا موقع نہ ملے لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی اور باوجود اس کے کہ الفضل میں سیاسی مضامین چھپنے بند ہوگئے ہندوستان کے مزید صوبوں میں اس کا داخلہ بند ہے۔ جس طرح ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ الفضل کے کونسے مضامین کی وجہ سے اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا جانے لگا ہے اسی طرح ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ الفضل میں سیاسی مضامین کے ممنوع ہوجانے کے باوجود اس کا داخلہ مزید صوبوں میں کیوں بند کیا جاتا رہا مگر بہرحال یہ حکومت اپنے مصالح کو خود سمجھت ہے اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں خواہ وہ مصالح آئیں یا نہ آئیں ان کے لئے احکام حکومت کی پابندی لازمی اور ضروری ہوتی ہے خصوصاً جماعت احمدیہ کے لئے جس کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کے احکام کی فرمانبرداری کرو اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ بجائے اس کے کہ الفضل کے خلاف جو قدم اٹھایا گیا ہے اس پر پروٹیسٹ کریں اور اس کے ازالہ کے لئے کوئی جدوجہد کریں ایک نیا اخبار جاری کردیا جائے جو کلیتاً سیاسیات سے الگ ہوتا کہ ان جماعت ہائے احمدیہ کی تنظیم اور تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہ ہو جو ہندوستان میں رہتی ہیں۔ اس ادارہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے کہ وہ اس پرچہ کو بابرکت بنائے اور ان مقاصد کی اشاعت میں کامیاب کرے جن کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا۔
میں >الرحمت< کو جاری کرتا ہوں۔ یہ پرچ خالص مذہبی پرچہ ہوگا۔ اور جہاں اس کی پالیسی یہ ہوگی کہ اور صدق کے قوانین کے مطابق مختلف مذاہب کے لوگوں میں عقل اور اخلاق کی پیروی کی روح پیدا کرے وہاں اس کی یہ بھی پالیسی ہوگی کہ وہ سیاسیات سے الگ رہتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
ہمیں نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ہندوستانیوں نے مسٹر گاندھی کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر ہندو اور سکھ اور غیر مسلم کو جو پاکستان میں رہتا ہے پاکستان کا مخلص اور وفادار شہری ہوکر رہنا چاہئے۔ اور کئی مسلمانوں نے قائداعظم کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر مسلمان کو جو ہندوستان میں رہتا ہے ہندوستانی حکومت کا مخلص اور وفادار شہری ہوکر رہنا چاہئے۔ ان لیڈروں کے منشاء کے خلاف کچھ لوگ ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی غیر مسلم کو پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہئے اور اگر ایسا ہو تو پھر پاکستان میں رہنے والے غیر مسلم کو دل میں پاکستان سے دشمنی رکھنی چاہئے اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کو دل میں ہندوستان سے دشمنی رکھنی چاہئے۔ اگر گاندھی جی اور قائداعظم کے بیانات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ جذبہ اور روح نہایت افسوسناک اور مذہب اور اخلاق کے خلاف تھی۔ مگر ان دو زبردست ہستیوں کے اعلانات کے خلاف اس قسم کے جذبے کا پیدا ہونا نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے۔ ہندوستان کی موجودہ دو علاقوں میں تقسیم بعض مصلحتوں کے ماتحت ہوئی تھی۔ ان مصلحتوں سے زیادہ کھینچ تان کر اس مسئلہ کو کوئی اور شکل دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہوسکتا۔ جب تقسیم اٹل ہوگئی تھ تو میں نے اس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اگر یہ تقسیم ہونی ہی ہے تو پھر کوشش کرنی چاہئے کہ دونوں ملکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں بغیر پاسپورٹ کے آنے جانے کی اجازت ہو۔ تجارت پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہ ہوں۔۸ لیکن افسوس کہ اس وقت میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور شاید آج بھی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ اگر میری بات کو مان لیا جاتا تو وہ خون ریزی جو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں ہوئی ہے ہرگز نہ ہوتی۔ ہم کلی طور پر آزاد بھی ہوتے مگر ہماری حیثیت ان دو بھائیوں سے مختلف نہ ہوتی جو اپنے والدن کی جائداد تقسیم کرکے اپنے چولہے الگ کرلیتے ہیں۔ وہ یقیناً اپنی اپنی جائداد کے کلی طور پر مالک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہوتے۔ ان کا کھانا پینا بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ ان کی آمدنیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں اور ان کے خرچ بھی الگ ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ کی جائداد کے تقسیم کرنے سے دو بھائی دشمن نہیں پیدا کرتی تقسیم کے پیچھے کسی غلط روح کا ہونا دشمنی پیدا کرتا ہے میں چاہتا تھا کہ اس غلط روح کو کچل دیا جائے اور بھائیوں بھائیوں کی طرح مسلمان اور ہندو اپنی آبائی جائداد کی تقسیم کا فیصلہ کریں مگر میری اس آواز کو اس وقت نہ سنا گیا۔ میری اس آواز کو بعد میں بھی نہ سنا گیا۔ پاکستان کے ایک متعصب عنصر نے میرے ان خیالات کی وجہ سے مجھے پاکستان کا ففتھ کالمسٹ قرار دیا اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جس کا اعلان بار بار قائداعظم نے کیا تھا۔ صرف فرق یہ تھا کہ قائداعظم نے ایک مجمل اصل بیان کیا تھا اور میں شروع سے ان تفاصیل کو بیان کررہا تھا جن تفاصیل کے ذریعہ سے ہی قائداعظم کا بیان کردہ اصل عملی صورت اختیار کرسکتا تھا۔ میرے ان خیالات کی وجہ سے ہندوستان کے احمدیوں کو بھی ہندوستان میں کشتنی اور گردن زدنی سمجھا گیا۔ شاید کسی اور مسلمان فرقہ کو اس قدر نقصان ہندوستان میں نہیں پہنچا جس قدر کہ احمدی جماعت کو پہنچا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کا امام گاندھی جی کے بیان کردہ اصل کی ترجمانی کے صحیح طریق ان کے سامنے پیش کررہا تھا۔ ہم نے ایک سچائی کے لئے دونوں ملکوں میں تکلیف اٹھائی اور شاید دونوں ملکوں کے متعصب لوگوں کے ہاتھوں سے آئندہ بھی ہم دونوں ملکوں میں تکلیف اٹھائیں گے لیکن ہم اس دائمی سچائی کو جو قرآن کریم میں بار بار بیان کی گئی ہے کبھی نہیں چھوڑ سکتے کہ جو شخص جس حکومت میں رہتا ہے وہ اس کا فرمانبردار رہے اور اس کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے۔ اور اگر کسی وقت وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اخلاق کو قائم رکھتے ہوئے اس ملک میں رہ نہیں سکتا تو اس ملک سے ہجرت کرجائے۔ اگر اس ملک کی حکومت اس کو ہجرت بھی نہ کرنے دے تو پھر وہ آزاد ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے جو بھی ذریعہ بخشا ہو اسے کام میں لاتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد کرے۔ جب کانگرس گورنمنٹ کے خلاف کھڑی ہوئی تھی تو ان ہی اصول کی وجہ سے میں نے کانگرس کی مخالفت کی تھی ورنہ میں کانگرس کا دشمن نہیں تھا۔ نہ ملک کی آزادی کا دشمن تھا۔ کانگرس کے کئی لیڈر میرے واقف تھے اور بعض دوست بھی اور وہ مختلف اوقات میں مجھ سے تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے اور جانتے ہیں کہ میں ملک کی آزادی کا ان سے کم حامی نہیں تھا۔ مجھے ان سے اختلاف صرف اس طریقہ کار کے متعلق جو میرے نزدیک ملکی حکومت کے بن جانے پر بھی تفرقہ کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ جو کچھ میں نے اس وقت کہا تھا آج پاکستان اور ہندوستان میں لفظاً لفظاً صحیح ثابت ہورہا ہے۔ حکومت کے بائیکاٹ کے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ سٹرائیکیں کی جارہی ہیں اور ملک میں رہتے ہوئے انتشار اور اختلاف کے سامان پیدا کئے جارہے ہیں۔ میں جو انگریز کے زمانہ میں انگریز کے خلاف ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ خود ملکی حکومتوں کے قائم ہوجانے کے بعد پاکستان یا ہندوستان میں میں ایسی باتوں کی اجازت دے دیتا۔ چنانچہ ہر ایسے موقع پر جو پاکستان یا ہندوستان میں پیدا ہوا میں نے اپنی جماعت کو یہی حکم دیا کہ وہ حکومت وقت کے پورے طور پر وفاداری کریں اور جو ذمہ داریاں حکومت کی طرف سے شہریوں پر عائد کی جائیں ان ذمہ داریوں کو دیانتداری سے ادا کریں۔ یقیناً یہ تعلیم پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں کی نظر میں ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھی جانی چاہئے تھی مگر افسوس کہ ہندوستان میں ایسا نہیں کیا گیا اور بعض صوبجاتی حکومتوں نے اس قیمتی خزانے کی قدر نہیں کی جو احمدیہ جماعت کی صورت میں ان کے ملک کو حاصل ہوا تھا۔ احمدی جماعت ہر ملک کے لئے ایک قیمتی جوہر ہے۔ وہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے ملک کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ وہ انصاف اور عدل کے لئے قربانی کرنے والی جماعت ہے مگر حکومت کے ساتھ عدم تعاون اس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ وہ عدل اور انصاف کو عدل اور انصاف کے ذریعوں سے ہی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ عدل اور انصاف کے حاصل کرنے کے لئے غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ ذرائع کے اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیتی۔ ہر سمجھدار انسان اس جماعت کو سر اور آنکھوں پر بٹھائے گا۔ ہر سمجھدار حکومت ایسی جماعت کو قدر اور عزت کی نگاہوں سے دیکھے گی اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر اس سے پہلے نہیں تو آئندہ ہندوستان کی مختلف صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت ان احمدی تعلیمات کو مدنظر رکھ کر جو میں نے اوپر بیان کی ہیں احمدیوں کے متعلق اپنے رویہ کو تبدیل کرے گی۔ مجھ سے بعض ہندوستانی جو ادھر آتے رہتے ہیں انہوں نے بعض دفعہ ان امور پر تبادلہ خیالات کیا ہے اور بعض ایسے سوالات کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نقطہ نگاہ کو پورے طور پر نہیں سمجھا۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان کی وفاداری کی تعلیم دیتے ہیں تو کیا پاکستان کے احمدی کشمیر کے معاملہ میں پاکستان حکومت کے ساتھ نہیں دیں گے؟ میری اوپر کی تشریح کے بعد یہ سوال کیسا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا ہے اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جو شخص جس حکومت میں رہے وہ اس کا فرمانبردار رہے اور اس کے ساتھ تعاون کرے۔ اس تعلیم کا یہ مطلب ہے کہ ہر پاکستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اس کے مقاصد اور مفاد میں پوری طرح تعاون کرے گا۔ اور ہندوستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت ہندوستان کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اس کے مقاصد اور مفاد میں اس سے پوری طرح تعاون کرے گا۔ اتنی واضح تعلیم کے بعد اس قسم کا شبہ پیدا ہی کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ سوال تو بے شک کیا جاسکتا تھا کہ کیا ہندوستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے گا؟ اس کا جواب یقیناً میں یہ دیتا کہ ہاں کرے گا۔ لیکن ہر حکومت کی وفاداری کی تعلیم سن کر یہ کہنا کہ کیا پاکستان میں رہنے والا احمدی پاکستان کی حکومت سے بغاوت کرے گا بالکل احمقانہ اور جاہلانہ سوال ہے۔ اوپر کی بیان کردہ تعلیم کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت پاکستان کی پوری فرمانبرداری کرے گا اور اس کے تمام مقاصد اور مفاد میں اس کے ساتھ تعاون کرے گا۔ اگر پاکستان ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہم ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان سے بغاوت کی تعلیم دیں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے اور اگر ہندوستان کی حکومت ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہندوستان میں رہنے والے احمدیوں کو امن سے رہنے دینے کی قیمت ہمیں یوں ادا کرنی چاہئے کہ پاکستان کے احمدی پاکستان کی حکومت سے غداری کریں یا اس سے عدم تعاون کریں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو۔ پس جو ہندوستان میں رہتے ہیں ہم ان کو یہی کہیں گے کہ ہندوستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو اور جو پاکستان میں رہتے ہیں ہم ان کو یہی کہیں گے کہ پاکستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو۔ اور یہی تعلیم ہماری انڈونیشیا` عرب` یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ` انگلستان` فرانس` جرمنی` ہالینڈ` سوئٹزرلینڈ` ایبے سینیا` مصر اور دیگر حکومتوں کے ماتحت رہنے والے احمدیوں کو ہوگی۔ کسی کی سمجھ میں ہماری بات آئے یا نہ آئے ہماری سمج میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے بیان کردہ اصولوں کے بغیر دنیا میں امن قائم کس طرح رہ سکتا ہے؟ اگر ہندوستانی اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں کہ وہ جہاں کہیں جائیں ہندوستان کے ایجنٹ بن کر رہیں تو دوسری قومیں ان کو برداشت کس طرح کریں گی؟ اور اگر پاکستانی اپنی رعایا یا اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں تو اسی سلوک کی ان کو بھی امید رکھنی چاہئے۔ ہر سیاسی حکومت کو اپنے باشندوں کو یہی حکم دینا ہوگا کہ تم اپنی حکومت کے فرمانبردار رہو۔ اور اگر باہرجائو تو عارضی طور پر اس حکومت کے قوانین کی پیروی کرو اور ایک مذہبی گروپ کو اپنے افراد کو یہی تعلیم دینی ہوگی کہ تم جس ملک کے باشندے ہو اس ملک کے وفادار رہو۔
پس یہ اخبار اسی پالیسی کے ماتحت ہر ملک کے احمدیوں کو یہ تعلیم دے گا کہ وہ اپنی اپنی حکومت کے فرمانبردار اور مطیع رہیں اور اس کے ساتھ سچا تعاون کریں۔
۲۔ اس وقت سب سے بڑی مصیبت دنیا پر یہ آئی ہوئی ہے کہ حکومتیں اپنے آپ کو اخلاقی نطام سے باہر سمجھتی ہیں۔ اخلاقی نظام کی پابندی صرف افراد کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے فساد اور خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ >الرحمت< اس مسئلہ کو بار بار سامنے لائے گا اور اپنی اس کمزور آواز کو بلند سے بلند کرتا چلا جائے گا کہ حکومتیں اور افراد دونوں ہی اخلاقی ذمہ داریوں کو اپنے اوپر حاکم تصور کریں اور اپنے آپ کو اخلاقی حکومت سے بالا خیال نہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سچائی` دیانت اور عدل کے قوانین کو اگر پوری طرح مدنظر رکھا جائے تو بہت سی مشکلات جو اس وقت ناقابل ہل معلوم ہوتی ہیں آسانی سے حل ہوسکتی ہیں۔ ہر قوم کو دوسری قوم کا حق دینا چاہئے اور ایک ملک میں رہنے والی سب قوموں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہئے۔ سیاسی اختلافات کی بنیاد ملک کی ترقی پر رکھنی چاہئے۔ نہ کہ قوموں کے اندر اختلاف اور انشقاق پیدا کرنے پر۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو اس کے اخلاقی فرائض کی طرف توجہ دلائیں جس میں ان کے مذہبی پیشوائوں نے ہم سے اتفاق کیا ہے اور ان کو اپنے پیشوائوں کی سچی پیروی کی ہدایت کریں۔
۳۔ اس وقت ایک عظیم الشان حادثہ کی وجہ سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہورہا ہے اور وہ حیران ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے؟ اس اثر سے احمدی جماعت بھی آزاد نہیں۔ ہمارے نزدیک اس انتشار کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ملک کی تقسیم کے بعد بھی مسلمان ہندوستان میں آزادی سے رہ سکتا ہے اگر وہ عقل سے کام لے سیاسی پہلوئوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم مذہبی اور اخلاقی پہلو جماعت اور دوسرے مسلمانوں کے سامنے رکھتے رہیں گے جن کی روشنی میں وہ ہندوستان کی حکومت کا ایک مفید جزو بن سکیں اور ہندوستان میں امن اور عزت کی زندگی بسر کرسکیں۔ ہم ایسی ہی خدمت ان ہندوئوں اور سکھوں کی بھی کرنے کے لئے تیار رہیں گے جنہوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے یا جو آئندہ ایسا فیصلہ کریں۔
غرض اس پرچہ کی بنیاد مذہب اور اخلاق پر ہوگی اور صلح اور آشتی پر ہوگی۔ یہ پرچہ سیاسیات سے الگ رہے گا۔ اختلافات کو بڑھائے گا نہیں کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ جہاں تک عوامی تعلقات کا سوال ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے جوش میں آئے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا اور ہر غداری کی روح کو خواہ وہ پاکستان میں سر اٹھائے یا ہندوستان میں سر اٹھائے دبانے کی کوشش کرے گا بلکہ صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر گوشہ کے لوگوں کے لئے >الرحمت< رحمت کا نشان بننے کی سعی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ارادہ میں پورا اترنے کی توفیق دے اور اس رستہ کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بخشے اور اپنی مدد اور نصرت سے سچائی` عدل اور انصاف کے غلبہ کے سامان مہیا کرے۔
میں پھر اسی آیت کو دہراتے ہوئے جس کو میں اوپر لکھ چکا ہوں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں بسم اللہ مجرمھا و مزسھا یعنی اے خدا! میں اس کمزور کشتی کو ایک متلاطم مندر میں پھینکتا ہوں تیرا ہی نام لیتے ہوئے اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہوئے تو اپنے فضل سے اس متلاطم سمندر میں اس کشتی کو آرام سے چلنے میں مدد دے اور اپنی حفاظت میں اس کے منزل مقصود پہنچنے کے سامان پیدا فرما۔ آمین<۔۹
دوسرا باب )فصل سوم(
مسجد مبارک ربوہ کے سنگ بنیاد کی مقدس تقریب
‏text] ga[t۳۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو دو شنبہ کا دن اور ۹۔ ذی الحج کی بابرکت تاریخ تھی جو سب مسلمانان عالم کے لئے عموماً اور دنیائے احمدیت کے لئے خصوصاً دوہری خوشبوں اور مسرتوں کا موجب بنی کیونکہ اس روز نماز عصر کے بعد ٹھیک اس وقت جبکہ دنیا بھر سے عشاق رسول عربی~صل۱~ میدان عرفات میں وقوف کرکے خدا تعالیٰ کے حضور متفرعانہ دعائوں میں مصروف تھے خلیفہ وقت امام ہمام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے تحریک احمدیت کے نئے مرکز >ربوہ< کی مسجد مبارک کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس مقدس تقریب میں روحانی اور معنوی اعتبار سے دنیا کے دوسرے احمدیوں کو شامل کرنے کے لئے سیدنا مصلح موعودؓ کی ہدایت پر پاک وہند کی جماعتوں اور لنڈن مشن کو بذریعہ تار اطلاعات دی گئیں نیز >الفضل< میں بھی اعلان کردیا گیا کہ ۳۔ اخاء کو ساڑھے پانچ بجے بعد دوپہر مسجد کا بنیادی پتھر رکھا جائے گا اور دعا ہوگی۔ احباب بھی اپنی اپنی جگہ دعا میں شریک ہوں۔۲۰
حضرت امیرالمومنین کی تشریف آوری
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ ۳۔ اخاء/ اکتوبر کو لاہور سے ۹ بجکر چالیس منٹ پر بذریعہ کار روانہ ہوئے اور بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر ربوہ پہنچے۔ حضور کے ہمراہ خاندان مسیح موعودؑ کی بیگمات کے علاوہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور مکرم میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے۔
بیرونی مخلص کی آمد
چونکہ الفضل میں اس مسجد کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی خبر شائع ہوچکی تھی اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے بذریعہ تار بھی جماعتوں کو اطلاعات بھجوائی جاچکی تھیں اس لئے لاہور` منٹگمری` سرگودھا شہر` چک نمبر ۴۱ جنوبی سرگودھا` چک نمبر ۴۳` چک نمبر ۸۶` چک نمبر ۹۸` چک نمبر ۹۹` چک نمبر ۱۲۴ سرگودھا` لائل پور` چک نمبر ۶۸ لائل پور` جھنگ مگھیانہ` جڑانوالہ` سیالکوٹ شہر` میانوالی` بھکر` چنیوٹ` احمد نگر اور لالیاں وغیرہ کے بہت سے مخلص افراد اس تاریخی تقریب میں شمولیت اور دعا کی غرض سے ربوہ پہنچ گئے۔ میانوالی سے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب S۔A۔P ڈپٹی کمشنر بھی تشریف لائے۔ لاہور سے آنے والے دوستوں میں شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور` چوہدری اسداللہ خاں صاحب` میاں غلام محمد صاحب اختر پرنسل آفیسر ریلوے` چوہدری عبدالحمید صاحب انجینئر اور چوہدری عبداللہ خاں صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جماعت احمدیہ ربوہ کے تمام مردوں اور بچوں کے علاوہ مقامی خواتین بھی دعا کی غرض سے موجود تھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات خصوصی
بنیاد رکھے جانے کا وقت بعد نماز عصر مقرر تھا اور چونکہ یہ ایک مقدس تقریب تھی جس میں اللہ تعالیٰ کے گھر کی بنیاد رکھی جانے والی تھی اس لئے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی ہدایت کے ماتحت نظارت علیا نے وہ دعائیں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت فرمائی تھیں دستی پریس پر طبع کروا دی تھیں تا لوگ ان دعائوں کو یاد رکھیں اور بنیاد رکھے جانے کے وقت اور اس سے قبل باواز بلند دہراتے رہیں چنانچہ نماز عصر کے وقت یہ طبع شدہ دعائیہ اوراق لوگوں میں تقسیم کئے گئے اور سب دوست ان دعائوں کو دہرات رہے۔
عصر کی نماز سے قبل حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی مندرجہ ذیل ہدایات موصول ہوئیں جو مولانا جلال الدین صاحب شمس قائم مقام ناظر اعلیٰ نے پڑھ کر سنائیں:۔
>دعا کے وقت اینٹوں اور گارے تک تین صفیں ہوں گی۔
۱۔
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک صف۔
۲۔
دوسری صف خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نرینہ افراد کی۔
۳۔
تیسری صف واقفین زندگی کی۔
یہ تینوں متوازی ہوں گی اور اینٹ گارا اس کی جگہ سے پکڑ کر وہاں تک پہنچائیں گی جہاں میں کھڑا ہوں گا۔ ایک ایک تغاری گارے یا چونے کی اور تین تین اینٹ ہر ایک صف کے لوگ مجھ تک پہنچائیں گے۔ اس وقت چند حفاظ ادعیہ رفع بیت اللہ بلند آواز سے دہراتے جائیں گے اور ساتھ ہی سب حاضرین دعائیں دہرائیں گے۔ اس کے بعد نماز مغربی ہوگی۔ عصر کی نماز بنیاد رکھنے سے پہلے ہوگی۔ اس کے بعد بنیاد شروع ہوگی۔
والسلام خاکسار
مرزا محمود احمد<
بعد ازاں حضور کے ارشاد پر مزید یہ اعلان ہوا کہ ان کے علاوہ چوتھی صف امراء جماعتہائے احمدیہ اور ناظران سلسلہ کی اور پانچویں صف مہاجرین قادیان کی ہوگی۔ باقی دوست ایک طرف کھڑے ہوکر دعا میں مشغول رہیں۔
اس کے بعد حضور نے اس مقام پر پہنچ کر خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی خواتین مبارکہ اور صحابیات و مہاجرات قادیان کی دو مزید صفوں کا بھی حکم دیا۔
نماز عصر اور بنیاد کی تقریب
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے نماز عصر اسی جگہ پڑآھائی جہاں بنیاد رکھی جانے والی تھی اور جہاں دھوپ سے بچائو کے کے لئے خیمہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جب حضور نماز عصر سے فارغ ہوئے تو اس کے معاًبعد تمام دوست اوپر کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق اپنی اپنی صفوں میں پہنچ گئے اور پھر دست بدست حضور کی خدمت میں اینٹیں اور سیمنٹ کی تغاریاں پہنچائی گئیں۔ تین اینٹیں کاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نرینہ افراد نے` تین اینٹیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے` تین اینٹیں واقفین زندگی نے` تین اینٹیں امراء جماعتہائے احمدیہ اور ناظران سلسلہ نے` تین اینٹیں مہاجرین قادیان نے` تین اینٹیں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیگمات نے اور تین اینٹیں صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور مہاجرات نے پیش کیں۔ اسی طرح ہر دفعہ سیمنٹ کی تغاری بھی دست بدست حضور تک پہنچائی جاتی رہی۔ خاندان مسیح موعودؑ کی بیگمات اور صحابیات سے حضور بنفس نفیس آگے بڑھ کر تغاری لیتے اور بنیادوں تک لاکر استعمال فرماتے رہے۔
اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنیادی اینٹوں میں اوپر کی تعداد کے علاوہ دو اینٹیں مسجد مبارک )قادیان( کی اینٹوں میں سے بھی لگائی گئیں جو صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ۱۱۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کو قادیان سے لائے۔۱۱ گویا کل ۲۳ اینٹیں بنیاد میں لگائی گئیں۔ اس دوران میں حضرت امیرالمومنین بار بار بلند آواز سے دعائیں مانگتے چلے جاتے تھے اور تمام مجمع بھی رقت اور سوز کے ساتھ ان دعائوں کو دہراتا رہا۔ حضور کی آواز میں اس وقت ایک خاص قسم کا درد اور سوز پایا جاتا تھا۔ جب تمام اینٹیں رکھی جاچکیں تو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے کھڑے ہوکر نہایت خشوع و خصوع اور انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پھر یہ دعائیں کیں کہ:۔
ربنا تقبل منا ط انک انت السمیع العلیم ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک ص وارنا مناسکنا و تب علینا ج انک انت التواب الرحیم ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمہ ویزکیھم ط انک انت العزیز الحکیم
)البقرہ: آیت ۱۲۸ تا ۱۲۹(
ایک ایک دعا حضور نے کئی بار دہرائی اور حضور کے ساتھ ہی تمام مجمع ان دعائوں کو دہراتا چلا گیا۔ مجمع پر ایک رقت کا عالم طاری تھا اور سینکڑوں آنکھیں پرآب تھیں۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا اب میں خاموشی سے دعا کروں گا دوست بھی میرے ساتھ شریک ہوں چنانچہ حضور نے ہاتھ اٹھا کر لمبی دعا فرمائی اور دوسرے دوست بھی دعا میں مشغول ہوگئے۔
حضرت امام ہمام کا ایمان افروز خطاب
دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود منبر پر رونق افروز ہوئے۔ حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور اس کے بعد فرمایا:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک الہام تھا کہ آپ کے ہم اور غم نے اسمعیل کا درخت اگایا۔۱۲ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام یا ان کی روح کے لئے نہایت تکلیف دن ہوگا ایسا تکلیف دہ کہ آپ کی روح تڑپ تڑپ کر ورزاری کرکرکے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے گی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اسمعیلی درخت اگائے گی۔ اسمعیل کا درخت کیا ہے؟ اسمعیل کا درخت خانہ کعبہ ہے۔ اس الہام میں یہ پیشگوئی تھی کہ ایک زمانہ میں احمدیوں کو قادیان سے ایک حد تک ہاتھ دھونا پڑے گا اور ان کے ہاتھ دھونے کے بعد اللہ تعالیٰ ایک نئے مقدس مقام کی بنیاد رکھے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی مقام کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور چونکہ یہ ایک مرکزی مقام ہے اور ساری دنیا کے لوگوں سے اس کا تعلق ہے اس لئے ساری دنیا کے لوگوں کو ہمیں اس کی تعمیر میں حصہ دینا چاہئے۔ پس میں اس موقعہ پر تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیں۔ میرا خیال ہے کہ بیس پچیس ہزار روپیہ بلکہ تیس پینتیس ہزار تک اس پر خرچ ہوجائے گا۔ ربوہ کی جماعت کو چاہئے تھا کہ وہ اس میں پہل کرتی مگر غالباً یہاں کے کارکنوں کا ذہن ادھر گیا نہیں۔ لائلپور کی جماعت کا ذہن ادھر گیا اور وہ اپنا چندہ آج اپنے ساتھ لائی ہے جو ۷۳۳ روپیہ آٹھ آنہ ہے۔ آخر یہ مسجد تعمیر ہوگی یہ مرکزی مسجد ہوگی۔ اس وجہ سے اس میں ساری ہی جماعت کا حصہ بھی چاہئے۔ ہماری جماعت تو مخلصین کی جماعت ہے۔ مومنین کی جماعت ہے۔ عارفین کی جماعت ہے۔ مکہ کے لوگ جن میں شرک پایا جاتا تھا اور جو دین سے دور چلے گئے تھے ان میں بھی خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لینے کا اتنا جذبہ پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ جب کہ خانہ کعبہ کی عمارت کمزور ہوگئی انہوں نے ارادہ کیا کہ چندہ کرکے وہ اس کی تعمیر نئے سرے سے کریں۔ تعمیر کرتے وقت جب وہ اس مقام پر پہنچے جہاں حجر اسود رکھا جانا تھا تو سارے قبائل میں لڑائی شروع ہوگئی۔ کچھ کہتے تھے کہ اسے ہم اٹھا کر رکھیں گے۔ یہ لڑائی اتنی بڑھی کہ نوجوانوں نے تلواریں کھینچ لیں اور انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مخالف کے خون کی ندیاں بہا دیں گے مگر اپنے سوا کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہونے دیں گے۔ آخر قوم کے بڈھوں نے کہا کہ یہ صورت تو خطرناک ہے چلو یہ فیصلہ کرلو کہ جو شخص اس وقت کے بعد سب سے پہلے ادھر آئے اس کے ہاتھ سے ہم بنیاد رکھوائیں اور اس کے فیصلہ کو قبول کرلیں اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خانہ کعبہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ہاتھ میں آنے والا تھا اس لئے اس فیصلہ کے بعد جو شخص سب سے پہلے نمودار ہوا وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ تھے۔ آپﷺ~ کو دیکھ کر سب کے سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ ہم بنیاد کا معاملہ آپ کے ہی سپرد کرتے ہیں۔ آپﷺ~ نے ایک چادر لی اور حجراسود کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اس پر رکھ دیا اور پھر ہر قبیلہ کے سردار کو کہا کہ اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑلو۔ چنانچہ تمام قبائل کے سرداروں نے اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑلیا اور اسے اٹھا کر اس مقام پر لے گئے جہاں اسے رکھنا تھا۔ جب وہاں پہنچ گئے تو آپﷺ~ نے پھر اپنے ہاتھوں سے حجر اسود کو اٹھایا اور اس کے اصل مقام پر اسے رکھ دیا۔ اس طرح وہ سارے کے سارے خوش ہوگئے۔۱۳ مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی بھی کروا دی کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ذریعہ ہی آئندہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوگی۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے ثواب میں شامل ہونے کے لئے اگر عرب کے مشرکین اتنا اصرار کرتے تھے تو مومنین کو تو بہرحال ان سے زیادہ ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جہاں بھی قومی طور پر کسی کا سوال ہو زندہ قوم کے زندہ افراد اصرار کیا کرتے ہیں کہ ہمیں اس میں حصہ دیا جائے۔ پس ربوہ کے مخلصین کو چاہئے تھا کہ چاہے وہ غریب تھے اپنے ایمان کے لحاظ سے وہ اس میں دوسروں سے پہلے حصہ لیتے۔ بہرحال جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں باہر کی جماعتوں میں سے سب سے پہلے لائلپور کی جماعت نے ۷۳۳ روپے آٹھ آنے اس غرض کے لئے پیش کئے ہیں اس کے علاوہ کچھ وعدے اور کچھ نقد روپیہ بھی اکٹھا ہوا ہے۔
میں نے اپنی طرف سے ۲۱ روپے نقد دیئے ہیں اور پانچ سو روپے کا وعہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خاندان کے افراد کے چندے کی فہرست یہ ہے:۔
صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب مع بیوی بچے
۔/۲۱ روپے
مہر آپا سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ
۔/۱۰ روپے
مرزا مظفر احمد صاحب مع سیدہ امتہ القیوم صاحبہ
۔/۲۱ روپے
حضرت ام المومنین
۔/۴۰ روپے
)حضرت( سیدہ ام وسیم احمد صاحب
۔/۵ روپے
)حضرت( سیدہ ام ناصر احمد صاحب
۔/۳۰ روپے
سیدہ امتہ النصیر صاحبہ
۔/۱۰ روپے
اس موقع پر حضور نے فرمایا کہ بعض جو یہاں نہیں ان کے رشتہ داروں نے خود ان کی طرف سے چندہ لکھوا دیا ہے تا وہ پہلے دن کے چندہ میں شامل ہوجائیں ان کی فہرست یہ ہے:۔
)حضرت( مرزا ناصر احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
مرزا مبارک احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
مرزا حفیظ احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا رفیع احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا خلیل احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا وسیم احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
مرزا طاہر احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا اظہر احمد صاحب
۔/۵ روپے
میاں عبدالرحیم احمد صاحب و سیدہ امتہ الرشید صاحبہ و بچگان
۔/۵ روپے
سید دائود احمد صاحب و سیدہ امتہ الحکیم صاحب
۔/۵ روپے
میاں مسعود احمد خاں صاحب۱۴
۔/۳۱ روپے
)حضرت( مرزا بشیر احمد صاحب مع بیگم صاحبہ
۔/۲۱ روپے
)حضرت( مرزا شریف احمد صاحب
۔/۲۱ روپے
)حضرت( سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ
۔/۱۰ روپے
)حضرت( نواب میاں عبداللہ خاں صاحب و )حضرت( سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ۔
۔/۱۱ روپے
مرزا حمید احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۵ روپے
مرزا منیر احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا مبشر احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا مجید احمد صاحب
۔/۵ روپے
امتہ الحمید بیگم صاحبہ
۔/۵ روپے
امتہ المجید بیگم صاحبہ
۔/۵ روپے
)حضرت( مرزا عزیز احمد صاحب
۔/۵ روپے
نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ )حضرت( مرزا عزیز احمد صاحب
۔/۵ روپے
)حضرت( سیدہ ام دائود صاحبہ اہلیہ )حضرت( میر محمد اسحق صاحبؓ
۔/۵ روپے
بشریٰ بیگم صاحبہ بنت )حضرت( میر محمد اسحٰق صاحبؓ
۔/۵ روپے
مرزا انور احمد صاحب
۔/۱۰ روپے
مرزا منصور احمد صاحب و سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ
۔/۱۱ روپے
مرزا رفیق احمد صاحب
۔/۱۰ روپے
مرزا حنیف احمد صاحب
‏3i] gat[ ۔/۵ روپے
میاں محمد احمد صاحب
۔/۵ روپے
مرزا ظفر احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۵ روپے
)حضرت( سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ )ام متین(
۔/۱۱ روپے
اچھی اماں صاحبہ
۔/۵ روپے
والدہ سید محمد احمد صاحب )امتہ اللطیف صاحبہ(
۔/۵ روپے
سید محمد احمد صاحب
۔/۵ روپے
پیر صلاح الدین صاحب و امتہ اللہ بیگم صاحبہ
۔/۱۱ روپے
امتہ القدوس صاحبہ
‏]i3 [tag ۔/۵ روپے
مرزا دائود احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۱۱ روپے
بے بی
۔/۱ روپیہ
مرزا رشید احمد صاحب مع اہلیہ صاحبہ و بچگان
۔/۱۱ روپے
مرزا نعیم احمد صاحب
۔/۱۰ روپے
امتہ الحفیظ صاحبہ
۔/۵ روپے
اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
بعض جماعتوں کی طرف سے میں نے رسول کریم~صل۱~ کی ایک سنت کی اتباع میں خود ان کا نام چندہ کی فہرست میں لکھ دیا ہے۔ جب حضرت عثمانؓ مکہ میں تھے اور بیعت رضوان ہورہی تھی تو رسول کریم~صل۱~ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ یہاں ہوتا تو بیعت سے کبھی پیچھے نہ رہتا۔۱۵ باہر کی جماعتوں کو چونکہ یہ آواز دیر میں پہنچے گی اس لئے میں نے ان کو ثواب میں شریک کرنے کے لئے ان کی طرف سے خودبخود چندہ تجویز کردیا ہے۔ ان لوگوں کا چندہ پہلے دن کے ثواب میں شمولیت کی وجہ سے میں نے لکھ دیا ہے۔ وہ زیادہ کرسکتے ہیں لیکن اگر کم کریں تو میں ادا کردوں گا:۔
‏]1i [tag جماعتہائے مشرقی پاکستان
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعتہائے سندھ اسٹیٹس
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعت کوئٹہ
۔/۵۰۰ روپیہ
جماعت لاہور
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت شام
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت انڈونیشیا
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت ماریشس
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت فلسطین
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت سوئٹزرلینڈ
۔/۱۰۱ روپیہ
جماعت لندن
‏3i] gat[ ۔/۱۱ روپیہ
جماعت ہالینڈ
۔/۱۱ روپیہ
جماعت جرمنی
۔/۱۱ روپیہ
جماعت سپین
۔/۱۱ روپیہ
جماعت فرانس
۔/۱۱ روپیہ
)حضرت( سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب
۔/۱۰۱ روپیہ
خاندان )حضرت( سیٹھ محمد غوث صاحب
۔/۵۱ روپیہ
جماعت قادیان
۔/۳۱۳ روپیہ
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب
۔/۱۰۱ روپیہ
آمنہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری عبداللہ خاں صاحب
۔/۱۰۰ روپیہ
)انہوں نے خود چندہ لکھوایا اور نقد ادا کردیا(

جماعت امریکہ
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعت مشرقی افریقہ
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جماعت مغربی افریقہ
۔/۱۰۰۰ روپیہ
اس سے آگے وہ فہرست ہے جنہوں نے خود اس موقع پر چندہ لکھوایا:۔
میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری مع بچگان
۔/۱۰۱ روپیہ
میاں غلام محمد صاحب اختر پرنسل آفیسر ریلوے مع اہل وعیال
۔/۱۰۱ روپیہ
چوہدری اسداللہ خاں صاحب مع اہل و عیال
۔/۵۲۱ روپیہ
کیپٹن مبارک احمد صاحب و امتہ المجیب صاحبہ اختر بنت اختر صاحب
۔/۲۱ روپیہ
قریشی عبدالرشید صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۔/۲۱ روپیہ
جماعت احمدیہ ناسنور )کشمیر(
۔/۵۰ روپیہ )نقد ادا کیا(
)حضرت( چوہدری فتح محمد صاحب سیال
۔/۱۰۱ روپیہ
چوہدری غلام محمد صاحب کڑیال شہید
۔/۵۱ روپیہ
شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور )شیخ مشتاق حسین صاحبؓ کے خاندان کی طرف سے(
۔/۱۰۰۰ روپیہ
جامعہ احمدیہ
۔/۲۰۰ روپیہ
محمد شریف صاحب خالد کی پھوپھی صاحبہ کا ترکہ
۔/۳۰۰ روپیہ
)حضور نے فرمایا محمد شریف صاحب خالد کی پھوپھی فوت ہوگئی ہیں ان کا ترکہ تین سو روپے تھا جو انہوں نے اسی غرض کے لئے رکھا ہوا تھا کہ مسجد کے لئے دیں گے چنانچہ اب وہ یہ روپیہ پیش کرتے ہیں(
حضور کی طرف سے جب ان وعدوں کے اعلانات ہوئے تو مجمع میں سے اکثر دوستوں نے اپنے اپنے وعدے پیش کرنے شروع کردئے اس پر حضور نے فرمایا کہ افراد اپنے وعدے دفتر بیت المال میں لکھوائیں یہاں صرف جماعتوں کے وعدے لکھے جائیں گے چنانچہ اس پر جن جماعتوں نے اپنے وعدے لکھوائے وہ یہ ہیں:۔
مدرسہ احمدیہ
۔/۱۰۰ روپے
جماعت شیخوپورہ
۔/۵۲۱ روپے
جماعت منٹگمری شہر
۔/۳۰۱ روپے
جماعت چک نمبر ۹۹ شمالی ضلع سرگودھا
۔/۵۱ روپے
جماعت رسالپور
۔/۷۱ روپے
‏1i] gat[ جماعت رشی نگر
۔/۱۱ روپے
واقفین ربوہ
۔/۱۰۱ روپے
جماعت چک نمبر ۶۸ لائل پور
۔/۴۷ روپے
جماعت چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودھا
۔/۱۰۱ روپے
سرگودھا شہر
۔/۵۰۰ روپے
جماعت ڈسکہ
۔/۲۰۰ روپے
جماعت ہموساں )کشمیر(
۔/۳۰ روپے
جماعت سیالکوٹ
۔/۷۰۰ روپے
جماعت کوٹلی ضلع میرپور آزاد کشمیر
۔/۵۰ روپے
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
۔/۱۰۱ روپے
تعلیم الاسلام ہائی سکول
۔/۱۰۱ روپے
جماعت میانوالی
۔/۱۱ روپے
چک نمبر ۸۶` ۸۷ شمالی سرگودھا
۔/۱۰۰ روپے
جماعت کہوٹہ
۔/۳۱ روپے
جماعت چنیوٹ
۔/۲۰۰ روپے
جماعت سیالکوٹ چھائونی
۔/۵۰ روپے
جماعت صریح چک نمبر ۹۶ تحصیل جڑانوالہ
۔/۱۱ روپے
جماعت بربط )آزاد کشمیر(
۔/۱۱ روپے
‏]i1 [tag جماعت لاہور چھائونی
۔/۲۰۰ روپے
بزم محمود )احمد نگر(
۔/۱۱ روپے
بزم احمد )احمد نگر(
۔/۵ روپے
کارکنان صدر انجمن احمدیہ
۔/۱۲۰ روپے
جماعت الہ آباد ریاست بہاولپور
۔/۵ روپے
تاجران ربوہ
۔/۱۰۱ روپے
جماعت کلکتہ
۔/۵۰۰ روپے
جماعت چک نمبر ۲۷۶ گوکھووال
۔/۵۰ روپے
جماعت بھکر
۔/۲۵ روپے
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ
۔/۵۲۱ روپے
جماعت فتح پور ضلع گجرات
۔/۵ روپے
جماعت پنڈی بھٹیاں
۔/۱۰ روپے
جماعت چک نمبر ۷۴ ریاست بہاولپور
۔/۵ روپے
جماعت احمدیہ احمدنگر
۔/۵۱ روپے
جماعت لالیاں
۔/۵۰ روپے
جماعت چک نمبر ۵ ضلع لائل پور
۔/۳۰ روپے
جماعت احمدیہ اونچے مانگٹ
۔/۲۱ روپے
بہلول پور ضلع لائل پور
۔/۱۰۱ روپے
اطفال الاحمدیہ ربوہ
۔/۲۱ روپے
جماعت چک نمبر ۳۵ جنوبی سرگودھا
۔/۵۰ روپے
جماعت حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ
۔/۵۰ روپے
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ
۔/۵۱ روپے
جماعت بدوملہی
۔/۱۰۰ روپے
جماعت پیر کوٹ ضلع گوجرانوالہ
۔/۱۰ روپے
جماعت بھیرہ
۔/۲۱ روپے
جماعت علی پور چک نمبر ۶ ضلع لاہور
۔/۵۰ روپے
جماعت چیچہ وطنی
۔/۱۱ روپے
ان وعدوں کے علاوہ مختلف افراد نے دفتر بیت المال میں پہنچ کر جو وعدے لکھوائے یا نقد رقوم ادا کیں ان تمام کی مجموعی میزان سترہ ہزار سے اوپر نکل گئی۔
نماز مغرب
تقریر کے بعد حضور نے وہیں مغرب کی نماز پڑھائی جس کی آخری رکعت میں پھر ان دعائوں کو دہرایا جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھیں اور اس طرح یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
‏tav.12.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے لیکر شہدائے احمدیت تک
دیگر کوائف
اس مبارک تقریب میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن نرینہ افراد نے حصہ لیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب )ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے صاحبزادے`( صاحبزادہ مرزا غلام اہمد صاحب )ابن حضرت مرزا عزیز احمد صاحب`( صاحبزادہ میاں محمود احمد خاں صاحب )میاں مسعود احمد خان صاحب کے صاحبزادے(۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مقدس خاندان کی جن مبارک خواتین کو اس میں حصہ لینے کا موقع ملا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔
حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحب` حضرت سیدہ ام وسیم احمد صاحب` حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ` سیدہ امتہ القیوم بیگم صاحبہ` سیدہ امتہ الباسط صاحبہ` سیدہ امتہ النصیر صاحبہ` سیدہ امتہ الجلیل صاحبہ` سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ` بیگم صاحبہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب` سیدہ ریحانہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب۔۱۶
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جن صحابہ کو اس مبارک تقریب میں شمولیت کا موقع ملا ان کے نام حسب ذیل ہیں:۔
۱۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب
۲۔ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب
۳۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب
۴۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب
۵۔ مکرم سید محمود عالم صاحب
۶۔ مکرم چوہدری برکت علی خاں صاحب
۷۔ حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری
۸۔ مکرم ڈاکٹر غلام غوث صاحب
۹۔ مکرم میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری
۱۰۔ مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب
۱۱۔ مکرم سید محمد اسمعیل صاحب
۱۲۔ مکرم شیخ فضل احمد صاحب
۱۳۔ مکرم منشی کظیم الرحمن صاحب ہیڈ کلرک نظارت امور عامہ
۱۴۔ مکرم منشی عبدالخالق صاحب
۱۵۔ مکرم منشی سربلند خاں صاحب
۱۶۔ مکرم مرزا احمد بیگ صاحب
۱۷۔ مکرم چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری
۱۸۔ مکرم مولوی عبدالحق صاحب بدوملہی
۱۹۔ مکرم خواجہ عبیداللہ صاحب ریٹائرڈ ایس` ڈی` او
۲۰۔ مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی
۲۱۔ مکرم بھائی محمود احمد صاحب
۲۲۔ مکرم حکیم دین محمد صاحب
۲۳۔ مکرم محمد عبداللہ صاحب جلد ساز
۲۴۔ مکرم مولوی فضل دین صاحب وکیل
‏coll1] gat[ ۲۵۔ مکرم شیخ محمد حسین صاحب پنشنر
۲۶۔ مکرم بابا حسن محمد صاحب
۲۷۔ مکرم عبیداللہ صاحب رانجھا
۲۸۔ مکرم ماسٹر نور الٰہی صاحب
۲۹۔ مکرم بابو فقیر علی صاحب
۳۰۔ مکرم بابو محمد اسمعیل صاحب معتبر
۳۱۔ مکرم خدا بخش صاحب مومن
۳۲۔ مکرم رسائیدار کرم داد خان صاحب
۳۳۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب
۳۴۔ مکرم خوشی محمد صاحب چک نمبر ۳۲ سرگودھا
۳۵۔ مکرم خدا بخش صاحب ساکن اورحمہ
۳۶۔ مکرم فقیر محمد صاحب سیکھواں
۳۷۔ مکرم عبداللہ صاحب بھاگووال
۳۸۔ مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب
۳۹۔ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس
۴۰۔ مکرم صوفی غلام محمد صاحب
۴۱۔ مکرم ماسٹر عطاء محمد صاحب
۴۲۔ مکرم مولوی غلام احمد صاحب
۴۳۔ مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر پی۔ او
۴۴۔ مکرم مستری محمد دین صاحب
۴۵۔ مکرم احمد دین صاحب موذن
‏]2llco [tag ۴۶۔ مکرم امیر بخش صاحب پہلوان
۴۷۔ مکرم چوہدری فضل احمد صاحب
۴۸۔ مکرم ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب
۴۹۔ مکرم مرزا مولا بخش صاحب
۵۰۔ مکرم محمد افضل صاحب
۵۱۔ مکرم محمد اسمعیل صاحب
۵۲۔ مکرم عطاء محمد صاحب
۵۳۔ مکرم عبدالسلام خاں صاحب
۵۴۔ مکرم رحمت خاں صاحب
۵۵۔ مکرم عبدالمجید صاحب
۵۶۔ مکرم رحیم بخش صاحب
۵۷۔ مکرم عبدالرحیم صاحب عرف پولا
۵۸۔ مکرم عنایت اللہ صاحب
۵۹۔ مکرم محمد دین صاحب
۶۰۔ مکرم احمد دین صاحب
۶۱۔ مکرم محمد ظہور صاحب
۶۲۔ مکرم شیخ نذر محمد صاحب
۶۳۔ مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب
۶۴۔ مکرم چوہدری غلام محمد صاحب
۶۵۔ مکرم چوہدری غلام رسول صاحب
۶۶۔ مکرم شمشیر خاں صاحب
۶۷۔ مکرم علی احمد صاحب
۶۸۔ مکرم مالی صاحب ننگل باغباناں
۶۹۔ مکرم مستری عبدالکریم صاحب۔۱۷

واقفین تحریک جدید جو اس تقریب میں شریک ہوئے ان کی تعداد ۸۸ تھی۔ امرائے جماعتہائے احمدیہ جو اس موقع پر تشریف لائے ان کے اسماء یہ ہیں:۔
شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور۔ مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سرگودھا۔ شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لاہور۔ چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعت احمدیہ منٹگمری۔ چوہدری عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی۔ ملک غلام نبی صاحب امیر جماعت احمدیہ چک نمبر ۹۸ شمالی ضلع سرگودھا۔
تعمیر مسجد سے قبل صدقہ
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبل ازیں ۱۹۔ تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۴۹ء بروز پیر سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ڈیڑھ بجے کے قریب ربوہ تشریف لائے تو اس وقت مسجد مجوزہ کی نشاندہی ہوچکی تھی۔ حضور کے اس مجوزہ مسجد کے اندر داخل ہونے کے بعد اہل ربوہ کی طرف سے تین بکرے مسجد کے تین کونوں پر ذبح کئے گئے ایک حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے` دوسرا صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے اور تیسرا حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب امیر مقامی نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اسی طرح جب حضور اپنے گھر کے اندر داخل ہونے لگے تو اس وقت بھی دو بکرے مقامی انجمن احمدیہ ربوہ کے جنرل سیکرٹری مکرم شیخ محمد الدین صاحب مختار عام نے ذبح کئے۔۱۸
مسجد مبارک کی تعمیر اور افتتاح
مسجد مبارک کا نقشہ مکرم حفیظ الرحمان صاحب واحد ہیڈڈرافٹس مین نے تیار کیا۔۱۹ اور اس کی تعمیر حضرت مسیح موعود~ع۱~ کے جلیل القدر صحابی حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب کی زیر نگرانی ماہ ظہور ۱۳۳۰ہش/ اگست ۱۹۵۱ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ مینار بعد میں بنے۔۲۰
ربوہ کی پہلی مستقل مسجد ہے جس کے بنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی۔ مسجد کے ایک رنگ میں مکمل ہونے پر حضرت مصلح موعود نے ۲۳۔ امان ۱۳۳۰ہش/ مارچ ۱۹۵۱ء کو اس میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور افتتاح سے قبل بطور شکرانہ ایک لمبا سجدہ شکر کیا اور حضور کی اقتداء میں باقی تمام دوست بھی سجدہ ریز ہوگئے۔
دوسرا باب )فصل چہارم(
حضرت امیرالمومنین کا رہائش ربوہ کے بعد پہلا روح پرور خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ربوہ میں مستقل رہائش کے بعد پہلا خطبہ جمعہ ۳۰۔ تبوک۱۳۲۸۲۱ہش/ ستمبر
۱۹۴۹ء کو ارشاد فرمایا۔ حضور نے یہ خطبہ قصر خلافت کی کچی عمارت سے متصل عارضی مسجد میں دیا جس میں احمدیت کے اس نئے دینی مرکز کے قیام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس پاک بستی میں صرف انہی مخلصین کو رہنا چاہئے جو عملاً واقف زندگی ہوں۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھیں اور ہر وقت خدمت دین کے لئے تیار رہیں۔ حضرت امیرالمومنین کے اس روح پرور خطبہ کے بعض ضروری اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
>اب یہاں ہماری عمارتیں بننی شروع ہوگئی ہیں لوگ رہنے لگ گئے ہیں دکانیں کھل گئی ہیں کچھ کارخانوں کی صورت بھی پیدا ہورہی ہے کیونکہ چکیاں وغیرہ لگ رہی ہیں۔ مزدور بھی آگئے ہیں پیشہ ور بھی آگئے ہیں اور دفتر بھی آگئے ہیں مگر یہ سب عارضی انتظام ہے مستقل انتظام کے لئے یہ شرط ہوگی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی زندگی عملی طور پر دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے والے ہوں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کرسکتا یا کوئی اور پیشہ نہیں کرسکتا۔ وہ ایسا کرسکتا ہے مگر عملاً اسے دین کی خدمت کے لئے وقف رہنا پڑے گا جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہوگی وہ بلاچون و چرا اپنا کام بند کرکے سلسلہ کی خدمت کرنے کا پابند ہوگا مثلاً اگر تبلیغ کے لئے وفد جارہے ہوں یا علاقہ میں کسی اور کام کے لئے اس کی خدمات کی ضرورت ہو تو اس کا فرض ہوگا کہ وہ فوراً اپنا کام بند کرکے باہر چلا جائے انہی شرائط پر لوگوں کو زمین دی جائے گی اور جو لوگ اس کے پابند نہیں ہوں گے انہیں یہاں زمین نہیں دی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جگہ ایک مثالی جگہ ہو جس طرح ظاہر میں اسے دین کا مرکز بنارہے ہیں اس طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں وہ بقدر ضرورت دنیا کا کام بھی کرتے ہوں لیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو یوں تو صحابہؓ بھی دنیا کے کام کرتے تھے۔ رسول کریم~صل۱~ کے لشکر میں کوئی ایک سپاہی بھی ایسا نہیں تھا جو تنخواہ دار ہو کوئی دکاندار تھا` کوئی زمیندار تھا` کوئی مزدور تھا` کوئی لوہار تھا` کوئی ترکھان تھا` غرض سارے کے سارے پیشہ ور تھے۔ جس طرح آپ لوگوں کی دکانین ہیں اسی طرح ان کی بھی دکانیں تھیں۔ جس طرح آپ لوگوں کی زمینداریاں ہیں اسی طرح ان لوگوں کی بھی زمینداریاں تھیں۔ اگر آپ لوگ مختلف پیشوں سے کام لیتے ہیں مزدوری کرتے ہیں یا بڑھئی اور لوہار کا کام کرتے ہیں تو وہ بھی یہ سب کام کرتے تھے مگر رسول کریم~صل۱~ جب جنگ کے لئے نکلتے تو وہ سب کے سب آپ کے ساتھ چل پڑتے تھے اس زمانہ مین جنگ تھی اس زمانہ میں تبلیغ کا کام ہمارے سپرد ہے۔ آپﷺ~ صحابہؓ سے فرماتے چلو تو وہ سب چل پڑتے تھے وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری دکانیں بند ہوجائیں گی۔ پھر یہ بھی نہیں کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے۔ آج کل لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر ہم دین کی خدمت کے لئے جائیں تو ہمارے بیوی بچوں کو کون کھلائے گا؟ سوال یہ ہے کہ آیا صحابہؓ کے بیوی بچے تھے یا نہیں۔ اگر تھے جنگ پر جانے کے بعد انہیں کون کھلاتا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی ترقی قربانی سے وابستہ ہے روپیہ ایک عارضی چیز ہے جیسے تحریک جدید کے ابتداء میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ روپیہ ایک ضمنی چیز ہوگی تحریک جدید کی اصل بنیاد وقف زندگی پر ہوگی مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب واقفین میں سے ایک حصہ کا رجحان روپیہ کی طرف ہورہا ہے اور وہ یہ سوال کردیا کرتے ہیں کہ ہم کھائیں گے کہاں سے؟ حالانکہ وقف کی ابتدائی شرطوں میں ہی صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ زندگی وقف کرنے والا ہر قسم کی قربانی سے کام لے گا اور وہ کسی قسم کے مطالبہ کا حقدار نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے لئے قربانی کرتا ہے خود خدا اس کا مددگار ہوجاتا ہے۔ آخر ہمارے وقف کے دو ہی نتیجے ہوسکتے ہیں یا تو ہمیں ملے یا نہ ملے۔ میں >ہمارے< کا لفظ اس لئے کہتا ہوں کہ میں بھی جوانی سے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور میں جب دین کی خدمت کے لئے آیا تھا اس وقت میں نے خدا تعالیٰ سے یا خدا تعالیٰ کے نمائندوں سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے مگر اب تم میں سے کئی لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس روپیہ بھی ہے اور میں کھاتا پیتا بھی بافراغت ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ میں نے تو کوئی شرط نہیں کی تھی جو کچھ خدا نے مجھے دیا یہ اس کا احسان ہے میرا حق نہیں کہ میں اس کی کسی نعمت کو رد کروں لیکن جب میں آیا تھا اس وقت میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پہلے میرے اور میرے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کی جائے اس کے بعد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کروں گا یہ خدا کا سلوک ہے جس میں کسی بندے کو کوئی اختیار نہیں<۔
>غرض اللہ تعالیٰ پر توکل ہی انسان کو حقیقی زندگی دیتا ہے اور توکل ہی ہر قسم کی برکات کا انسان کو مستحق بناتا ہے جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے مکہ بنوایا تو اس وقت اس نے یہی کہا کہ یہاں تو کل سے رہنا اور خدا تعالیٰ سے روٹی مانگنا بندوں سے نہ مانگان اسی نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمیں قایدان میں بھی رہنا چاہئے تھا مگر وہ احمدیت سے پہلے کی بنی ہوئی بستی تھی اور ابھی بہت سے لوگ اس سبق سے ناآشنا تھے لیکن یہ نئی بستی جہاں ایک طرف مدینہ سے مشابہت رکھتی ہے اس لحاظ سے کہ ہم قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد یہاں آئے وہاں دوسری طرف یہ مکہ سے بھی مشابہت رکھتی ہے کیونکہ یہ نئے سرے سے بنائی جارہی ہے اور محض احمدیت کے ہاتھوں سے بنائی جارہی ہے جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ بنوایا وہاں بھی خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کی نسل سے یہی کہا تھا کہ تم اپنی روٹی کا ذمہ دار مجھے سمجھنا کسی بندے کو نہ سمجھنا پھر میں تم کو دوں گا اور اس طرح دوں گا کہ دنیا کے لئے حیرت کا موجب ہوگا۔ چنانچہ دیکھ لو ایسا ہی ہوا۔ مکہ والے بے شک محنت مزدوری بھی کرنے لگ گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر وہ محنت مزدوری چھوڑ دیتے تب بھی جس طرح بنی اسرائیل کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک جنگل میں من و سلویٰ نازل کیا تھا اسی طرح مکے والوں کے لئے من و سلویٰ اترنے لگے کیونکہ وہاں پر رہنے والوں کا رزق خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اسی طرح ہم کو بھی اس جنگل میں جس جگہ کوئی آبادی نہیں تھی جس جگہ رزق کا کوئی سامان نہیں تھا جو مکہ کی طرح ایک وادی غیر ذی زرع تھی اور جہاں مکہ کی طرح کھاری پانی ملتا ہے اور جو اس لحاظ سے بھی مکہ سے ایک مشابہت رکھتا ہے کہ مکہ کی طرح یہاں کوئی سبزہ وغیرہ نہیں اور پھر مکہ کے گرد جس طرح پہاڑیاں ہیں اس طرح اس مقام کے اردگرد پہاڑیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے بسائیں پس اس موقع پر ہمیں بھی اور یہاں کے رہنے والے سب افراد کو بھی یہ عزم کرلینا چاہئے کہ انہوں نے خدا سے مانگنا ہے کسی بندے سے نہیں مانگنا تم اپنے دل میں ہنسو۔ تمسخر کرو کچھ سمجھو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے معزز روزی وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مانگی جائے۔ وہ کوئی روزی نہیں جو انسان کو انسان سے مانگ کر ملتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے )مگر یہ اعلیٰ مقام کی بات ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور شائد تم میں سے بہتوں کی سمجھ میں بھی نہ آئے( کہ وہ روزی بھی اتنی اچھی نہیں جو خدا تعالیٰ سے مانگ کر ملتی ہے بلکہ اعلیٰ روزی وہ ہے جو خداتعالیٰ خود دیتا ہے اور بے مانگے کے دیتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی مین ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی ایک بات پر )مگر یہ ابتدائی مقام کی بات تھی اور اعلیٰ مقام ہمیشہ ابتدائی منازل کو طے کرنے کے بعد ملتا ہے اور ابتدائی مقام یہی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے مین نے خدا سے مانگنا ہے( کہ میں نے بھی خدا سے کچھ مانگا اور اپنے خیال میں انتہائی درجہ کا مانگا مگر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے اپنی بیوقوفی پر اور ہمیشہ لطف آتا ہے خدا تعالیٰ کے انتقام پر کہ جو کچھ ساری عمر کے لئے میں نے مانگا تھا وہ بعض دفعہ اس نے مجھے ایک ایک ہفتہ میں دے دیا۔ میں زمین پر شرمنہ ہوں کہ میں نے کیا حماقت کی اور اس سے کیا مانگا اور وہ آسمان پر ہنستا ہے کہ اس کو ہم نے کیسا بدلہ دیا اور کیسا نادم اور شرمندہ کیا۔ پھر میں نے سمجھا کہ مانگنا بھی فضول ہے کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کریں کہ وہ ہمیں بے مانگے ہی دیتا چلا جائے ایک شخص جو کسی بڑے آدمی کے گھر مہمان جاتا ہے وہ اگر اس سے جاک کہے کہ صاحب میں آپ کے گھر سے کھانا کھائوں گا تو اس میں میزبان اپنی کتنی ہتک محسوس کرتا ہے جب وہ اس کے ہاں مہمان آیا ہے تو صاف بات یہ ہے کہ وہ اس کے ہاں سے کھانا کھائے گا۔ اس کا یہ کہنا کہ میں آپ کے ہاں سے کھانا کائوں گا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ میزبان کے متعلق اپنے دل میں یہ بدظنی محسوس کرتا ہے کہ شائد وہ کھانا نہ کھلائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا جو مہمان ہوجاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خود کھلاتا اور پلاتا ہے اگر وہ اس سے مانگے تو اس میں اس کی اعلیٰ و ارفع شان کی ہتک ہوتی ہے۔ مگر خدا کا سلوک ہر بندے سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ جو خدا کے لئے اپنی زندگی وقف نہیں کرتے ان کو بھی وہ روزی بہم پہنچاتا ہے اور جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی کو وقف کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی روزی بہم پہنچاتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کلا نمد ھولاء وھولاء ہم اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ایمان سے خارج اور دہریہ ہوتا ہے اور اس کے لئے بھی روزی کا انتظام کرتے ہیں جو ہم پر کامل ایمان رکھنے والا ہوتا ہے۔ یہ دو گروہ ہیں جو الگ الگ ہیں۔ ایک وہ ہے جو ہمیں گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خود کمائی کروں گا اور اپنی کوشش سے رزق حاصل کروں گا۔ ایک گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ کمائی لغو چیز ہے بلکہ میں نے تو خدا تعالیٰ سے بھی نہیں مانگنا اس کی مرضی ہے چاہے دے یا نہ دے۔ فرماتا ہے ہم اس گروہ کو بھی دیتے ہیں اور اس گروہ کو بھی دیتے ہیں۔ ایک ھولاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو بدترن خلائق ہوتے ہیں اور جو مادیات کے اتنے دلدادہ اور عاشق ہوتے ہیں کہ سمجھتے ہیں سب نتائج کی بنیاد مادیات پر ہی ہے اور ایک ھولاء ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جو مادیات سے بالکل بالا ہوکر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں ہم نے خدا سے بھی نہیں مانگنا اور ایک درمیانی گروہ ہوتا ہے وہ اپنے اپنے درجہ کے مطابق ظاہر میں کچھ مادی کوششیں بھی کرلیتے ہیں اور پھر ساتھ اس کے اللہ تعالیٰ پر توکل بھی رکھتے ہیں کبھی مانگتے ہیں اور کبھی نہیں مانگتے یا اپنی زندگی میں سے کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ عرصہ کوشش اور جدوجہد کو ترک کردیتے ہیں۔ ظاہری تدبیر حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی کی۔ آپ طلب کرتے تھے اور روپیہ کماتے تھے اور ظاہری تدبیر ہم نے بھی کی ہم بھی زمیندارہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ تجارت بھی کرلیتے ہیں مگر اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے اگر وہ کہے کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دینا تو ہمیں اس سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا ہمیں اس کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ہم پھر بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ ہماری اتنی ہی حمد کا مستحق ہے جتنی حمد کا اب مستحق ہے بلکہ وہ ہمدردی اتنی حمد کا ہے جتنی حمد ہم کر بھی نہیں سکتے۔ پس اس مقام کے رہنے والوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ توکل سے کام لیں اور ہمیشہ اپنی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلند رکھیں۔ جو دیانتدار احمدی ہیں میں ان سے کہوں گا کہ اگر وہ کسی وقت یہ دیکھیں کہ وہ توکل کے مقام پر قائم نہیں رہے تو وہ خودبخود یہاں سے چلے جائیں اور اگر خود نہ جائیں تو جب ان سے کہا جائے کہ چلے جائو تو کم سے کم اس وقت ان کا فرض ہوگا کہ وہ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے نام کے پھیلانے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ کے دین کی تعلیم اور اس کا مرکز بننے کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔ ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنے اعزہ اور اقارب کو اس رستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوسکے۔ نوحؑ کی کوشش کے باوجود اس کا بیٹا اس کے خلاف رہا۔ لوطؑ کی کوشش کے باوجود اس کی بیوی اس کے خلاف رہی۔ اسی طرح اور کئی اور اولیاء ایسے ہیں جن کی اولادیں اور بھائی اور رشتہ دار ان کے خلاف رہے۔ ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے خاندان میں سے کتنوں کو دین کی طرف لاسکے گا مگر اس کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اس کی ساری اولاد اور اس کی ساری نسل دین کے پیچھے چلے اور اگر اس کی کوشش کے باوجود اس کا کوئی عزیز اس رستہ سے دور چلا جاتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ میری اولاد میں سے نہیں میری اولاد وہی ہے جو اس منشاء کو پورا کرنے والی ہے جو الٰہی منشاء ہے۔ جو شخص دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں وہ ہماری اولاد میں سے نہیں۔ ہم اپنی اولاد کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ضرور دین کے پیچھے چلیں۔ ہم ان کے دل میں ایمان پیدا نہیں کرسکتے خدا ہی ہے جو ان کے دلوں میں ایمان پیدا کرسکتا ہے لیکن ہم یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ جو اولاد اس منشاء کو پورا کرنے والی نہ ہو اسے ہم اپنے دل سے نکال دیں۔ بہرحال اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اعلیٰ مقام دے تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس مقام کو دین کا مرکز بنائے رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لئے وہ اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے جائیں لیکن اگر ہماری کسی غلطی اور گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ مقام ہمیں نصیب نہ کرے اور ہماری ساری اولادیں یا ہماری اولادوں کا کچھ حصہ دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ پر توکل اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو۔ خدا تعالیٰ کی طرف انابت کا مادہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے آپ کو اس امر کے لئے تیار رکھنا چاہئے کہ جس طرح ایک مردہ جسم کو کاٹ کر الگ پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح ہم اس کو بھی کاٹ کر الگ کردیں اور اس جگہ کو دین کی خدمت کرنے والوں کے لئے ان سے خالی کروالیں<۔۲۲
منافق طبع لوگوں کی اصلاح کرنے اورخلیفہ وقت کو انکی اطلاع دینے کی تحریک
سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ۱۸۔ ماہ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو بمقام ربوہ ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں تحریک
فرمائی کہ منافق طبع لوگوں کی اصلاح کی جائے اور خلیفہ وقت کو ایسے لوگوں کی اطلاع دی جائے۔ نیز اس امر پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے کہ طبقہ منافقین کے پیدا ہونے کے بنیادی وجوہ اور اسباب کہاں ہیں؟ چنانچہ فرمایا:۔
>یہ طبقہ کہاں سے آتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی موٹی موٹی جگہیں یہ ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ بعض لوگ دلائل سن کر ایمان لے آتے ہیں لیکن جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ مثلاً جب وہ نماز نہیں پڑھتے تو لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ آخر اس سوال کا وہ کیا جواب دیں گے۔ کیا وہ یہ جواب دیں گے کہ بھئی ہم کمزور ہیں گنہگار ہیں۔ اس جواب کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ میں نے تمہارے بڑے بڑے آدمیوں کو دیکھا ہوا ہے وہ نمازیں نہیں پڑھتے۔ گویا وہ اپنا الزام دوسروں پر لگا دیں گے تا ان کا وہ عیب چھپ جاوے۔ یہ بات ان سے اگر کوئی کمزور ایمان شخص سن لے گا تو وہ دوسری جگہ پر جائے گا اور کہے گا کہ میں نے ایک معتبر شخص سے سنا ہے کہ فلاں فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا وہ معتبر شخص کون ہوگا وہ معتبر شخص وہی منافق ہوگا جس نے اپنا عیب چھپانے کے لئے اپنا الزام دوسروں پر لگا دیا۔ یا مثلاً چندہ ہے ایک شخص چندہ نہیں دیتا لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ بھئی تم چندہ کیوں نہیں دیتے۔ وہ اپنے عیب کو چھپانے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ بھئی چندہ کیا دیں مرکز میں بیٹھے لوگ چندے کھارہے ہیں۔ یہ تو کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میں بے ایمان ہوں` کمزور ہوں اس لئے چندہ نہیں دیتا بجائے اس کے کہ وہ کہے بھئی میں بے ایمان ہوں` کمزور ہوں وہ کہہ دیتا ہے مرکز میں بڑے بڑے لوگ چندے کھارہے ہیں اس لئے میں چندہ نہیں دیتا۔ اس طرح وہ اپنی عزت کو بچانا چاہتا ہے۔ غرض بدعمل لوگ اپنے عیب اور کمزوری کو چھپانے کے لئے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں۔ ان لوگوں کی بڑی پہچان یہ ہے کہ پہلے معترض کا اپنا عمل دیکھا جائے کہ وہ چندہ دیتا ہے یا دیانتداری میں خود مشہور ہے یا وہ خود تو کسی سے دھوکہ نہیں کرتا۔ اگر وہ خود چندہ دیتا ہے` وہ خود دیانتداری میں مشہور ہے تب تو ہم یہ شبہ کرسکتے ہیں کہ شاید اس کی بات سچی ہو یا شاید اس نے کسی غلط فہمی کی بناء پر کوئی بات کہہ دی ہو۔ لیکن جس کی دیانت خود مشتبہ ہے وہ خود چندہ نہیں دیتا اور پھر وہ دوسروں پر اعتراض کرتا ہے وہ منافق ہے۔ پس ہر وہ شخص جو دوسروں پر خیانت اور بددیانتی کا الزام لگائے پہلے اسے دیکھو کہ آیا وہ خود دیانتدار ہے خود چندوں میں چست ہے۔ اگر وہ خود ایماندار ہو تب تک بے شک اس کی بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ اس کی بات فی الواقع سچی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہے محض غلط فہمی کی بناء پر ہو۔ دوسری وجہ منافقت کی یہ ہوتی ہے کہ نئی نسل کی تربیت اچھی نہیں ہوتی پہلے لوگ تو سوچ سمجھ کر ایمان لاتے ہیں لیکن نئی نسل تو سوچ سمجھ کر ایمان لاتے ہیں لیکن نئی نسل تو سوچ سمجھ کر ایمان نہیں لائی ہوتی۔ وہ تو پیدائشی احمدی ہوتے ہیں اس لئے بری تربیت کی وجہ سے وہ جلد منافقت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ جو سوچ سمجھ کر ایمان لاتا ہے اس کا ایمان اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ ٹھوکر کھا جائے لیکن جو شخص سوچ سمجھ کر ایمان نہیں لایا بلکہ محض پیدائش کی وجہ سے وہ احمدی ہے اس کا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا اس شخص کا جو خود سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو۔ غرض نئی پود میں بھی منافقت زیادہ گھر کر جاتی ہے۔ اب اگر یہ صحیح ہے کہ ہر احمدی کی تربیت اچھی نہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ منافقت احمدیوں میں بھی ہوسکتی ہے۔
منافقت کی تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ ایمان دار اور مخلص شخص بھی کمزوری رکھا جاتا ہے اور چونکہ ہر کمزوری معاف نہیں ہوسکتی اس لئے بعض دفعہ اسے سلسلہ کی طرف سے سزا دی جاتی ہے اور بعض اوقات اسے سزا کی وجہ سے وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے یا اس کے اندر بغض اور کینہ پیدا ہوجاتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص منافقت والی بات کررہا ہو تو دیکھو کہ آیا وہ ایسا شخص تو نہیں جسے کسی جرم کی بناء پر سلسلہ کی طرف سے سزا دی گئی ہو یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کو سزا دی گئی ہو اگر ایسا ہے تو یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ اپنا بدلہ لے رہا ہے۔
جو لوگ مخلص نہیں وہ میرے مخاطب نہیں لیکن جو لوگ سچے مبائع اور مخلص ہیں میں انہیں ہدایت دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ان کی اطلاع مجھے دیں۔ بعض اطلاعیں مجھے مل چکی ہیں اور ان کے متعلق میں قدم اٹھانے والا ہوں لیکن اگر تم لوگ بھی مجھے اطلاع دیتے رہو گے تو مجھے اپنے کام میں مدد ملے گی۔ مثلاً میرے پاس ایک روایت پہنچتی ہے کہ فلاں شخص منافق ہے لیکن ایک روایت کے ساتھ کسی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا اور اگر ہم اس شخص کا نام پہلے ہی لے دیں تو اس کے خلاف غلط روایات جمع ہونی شروع ہوجائیں گی اس لئے ایسا کرنا اس پر ظلم ہوگا۔ پس جماعت کے ہر فرد کو چاہئے کہ جہاں کہیں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہوں جو ایسے لوگوں کے سامنے باتیں کرتے ہوں جو اصلاح پر مقرر نہیں کئے گئے ان کی اطلاع مجھے دے۔ اصلاح پر معرر خلیفہ ہے۔ صدر انجمن احمدیہ ہے مجلس شوریٰ ہے۔ ناظر ہیں اور بعض کاموں میں تحریک جدید اور تحریک جدید کی انجمن ہے اور ان کے بعد لوکل امیر اور لوکل امیر کی انجمن ہے۔ میں کسی فرد کا نام نہیں لے رہا۔ اگر ان سات کے سامنے کوئی شخص کوئی بات کرتا ہے تو وہ منافق نہیں اس لئے کہ یہ اصلاح پر مقرر ہیں لیکن ان سات کے سوا اگر وہ کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ہم اسے منافق کہیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ منافق ہو لیکن وہ اس بات کا اہل ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے کہ آیا وہ احمق ہے یا منافق۔ پس اگر کوئی شخص خلیفہ وقت` نظام جماعت یا افراد جماعت کے خلاف ان سات قسم کے لوگوں کے سوا کسی اور کے سامنے کوئی بات کرتا ہے تو ایسے شخص کی رپورٹ میرے پاس آنی چاہئے تاکہ اگر وہ اصلاح کے قابل ہے تو اس کی اصلاح کی جائے ہمارے ہاتھ میں صرف یہی ہے کہ ہم اس کا مقاطعہ کردیں یہ نہیں کہ اسے مارپیٹ کریں مار پیٹ کرنا گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔
بہرحال جماعت کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی اصلاح کی جائے۔ میں پھر یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ رحم کے یہ معنے نہیں کہ باغ میں گھاس اگا ہو اور اسے کاٹا نہ جائے اگر کوئی باغبان اس گھاس پر رحم کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ درخت مرجائے گا۔ اگر کوئی شخص سانپ پر رحم کتا ہے ۔۔۔ تو اس کے یہ معنے ہیں کہ سانپ اس کے بچہ کو کاٹ لے گا۔ بائولے کتے پر اگر کوئی رحم کرتا ہے تو اچھے شہری مارے جائیں گے یہ رحم نہیں ظلم ہے۔ رحم کی مستحق سب سے اول جماعت ہے۔ رحم کا مستحق سب سے اول سلسلہ ہے۔ رحم کا مستحق سب سے اول نظام سلسلہ ہے۔ اور جو شخص ان کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے جماعت میں رہنے دیا جائے<۔۲۳
حضرت مصلح موعود نے اس تحریک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
>منافق لوگ جماعت کو یا مجھے اس وقت تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ یہ ہماری ترقی کا زمانہ ہے۔ اس وقت ان کی حیثیت ایک مچھر کی بھی نہیں۔ مچھر کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن پھر بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر یہ بیج قائم رہا تو جب جماعت کمزور ہوجائے گی اس وقت اسے نقصان پہنچائے گا اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ہم اپنی اصلاح کریں بلکہ ایسے لوگوں کی بھی اصلاح کریں جو جماعت کے لئے آئندہ کسی وقت بھی مضر ہوسکتے ہیں۔ پس ان لوگوں کو کچلنا ہمارا فرض ہے خواہ ان کے ساتھ ان سے ہمدردی رکھنے والے بعض بڑے لوگ بھی کچلے جائیں اور ہر مخلص اور سچے مبائع کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بارہ میں میری مدد کرے اور ایسے لوگوں کے متعلق مجھے اطلاع دے۔ اور اگر کوئی احمدی میرے اس اعلان کے بعد اس کام میں کوتاہی کرے گا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن نہیں ہوگا بلکہ اس کی بیعت ایک تمسخر بن جائے گی کیونکہ اس نے جان و مال اور عزت کے قربان کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب خلیفہ وقت نے اسے آواز دی تو اس نے کسی کی دوستی کی وجہ سے اس آواز کا جواب نہیں دیا۔ پس ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ منافقین کی اطلاع مجھے دے۔ تم اس بات سے مت ڈرو کہ سو میں سے پچاس احمدی نکل جائیں گے تم پچاس سے ہی سو بنے ہو بلکہ تم ایک سے سو بنے ہو پھر اگر سو میں سے پچاس نکل جائیں گے تو کیا ہوا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ ان لوگوں کے نکل جانے سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ گھاس کاٹ دینے سے باغ سے سبزہ تو کم ہوجاتا ہے لیکن درخت نشوونما پاتا ہے اور باغ زیادہ قیمتی ہوجاتا ہے<۔۲۴
حضرت مصلح موعودؓ کا لیکچر سرگودھا
جناب ملک صاحب خاں صاحب نون ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر نے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی خدمت میں سرگودھا تشریف لانے اور اپنے خطاب سے اہل سرگودھا کو نوازنے کی درخواست کی تھی جو حضور نے قبول فرمائی چنانچہ حضور ¶۱۱۔ ماہ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو سرگودھا تشریف لے گئے اور نماز جمعہ پڑھنا کے بعد کمپنی باغ کے وسیع احاطہ میں ایک نہایت پرمعارف اور موثر تقریر فرمائی جس میں پاکستانیوں کو بدلے ہوئے حالات میں ان کی نئی ذمہ داریوں کی طرف بڑے دلنشیں پیرایہ میں توجہ دلائی۔۲۵ یہ تقریر چار بجے سہ پہر سے شروع ہوکر شام کے چھ بجے تک جاری رہی۔ حضور کا خطاب پبلک نے کمال ذوق و شوق اور دلجمعی سے سنا اور مجمع پر سکتے کا سا عالم طاری رہا۔ رئوسائے شہر اور حکام ضلع کے علاوہ سرگودھا کے دیگر معززین اور غیر احمدی احباب ہزارہا کی تعداد میں تشریف لائے اور حضور کی روح پرور ارشادات سے مستفیض ہوئے۔ علاوہ ازیں سرگودھا کے علاوہ ازیں سرگودھا کے علاوہ پنجاب کے دوسرے اضلاع کی احمدی جماعتوں کے دوست بھی کثیر تعداد میں شامل جلسہ ہوئے۔
ان دنوں جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ سرگودھا کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ آپ نے قریباً اڑھائی ہفتہ پیشتر بذریعہ الفضل حضور کے لیکچر کی خوشکن خبر شائع کرائی نیز اطلاع دی کہ احباب کے لئے دوپہر و شام کے کھانے اور قیام کا انتظام ملک صاحب خاں صاحب نون کی کوٹھی پر ہوگا۔ آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ ضلع سرگودھا کے احمدی نوجوان دس نومبر یعنی جمعرات کو دوپہر کو سرگودھا پہنچ جائیں تابروقت انتظامات جلسہ میں حصہ لے سکیں۔۲۶ اس جلسہ کے ناظم محمد اقبال صاحب پراچہ )جنرل منیجر دی یونائیٹڈ ٹرانسپورٹ سرگودھا( تھے جنہوں نے الفضل مورخہ ۶۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء میں عازمین جلسہ سرگودھا کے لئے ایک ضروری نوٹ لکھا اور مہمانوں سے انتظامات جلسہ کی مشترکہ ذمہ داری میں تعاون کی اپیل کی۔ محترم پراچہ صاحب نے لاہور سے سرگودھا جانے والے احباب کی سہولت کے پیش نظر سپیشل بسوں کا بھی انتظام کیا جیسا کہ اخبار الفضل ۸۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲ سے پتہ چلتا ہے۔ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی پنجاب اپنی سوانح میں اس عظیم الشان جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>۱۹۴۹ء میں ہم نے سرگودھا میں ایک جلسہ عام کمپنی باغ میں کروایا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تقریر ہوئی جس کا بہت اچھا اثر ہوا۔ اس جلسہ کے سارے اخراجات محترم ملک صاحب خاں صاحب نون رئیس سرگودھا نے ادا کئے۔ اس میں بہت وسیع پیمانے پر کھانے کی دعوت بھی دی گئی جس میں حکام اور رئووسا کو بھی شامل کیا گیا۔ مولویوں نے اس جلسہ کو منسوخ کروانا چاہا لیکن ڈپٹی کمشنر ہمیں پہلے اجازت دے چکے تھے انہوں نے منسوخ کرنے سے انکار کردیا<۔۲۷
دوسرا باب )فصل پنجم(
احمدیہ مسلم مشن گلاسگو کا قیام
سکاٹ لینڈ برطانیہ کلاں کا ایک ملک ہے جو ۱۷۰۷ء۲۸ سے انگلینڈ کے ساتھ قانوناً الحاق رکھتا ہے انگلینڈ کی طرح اس ملک کے پراٹسٹنٹ چرچ کو بھی شہرت حاصل ہے جس کے مدارس الٰہیات ایڈنبرا (EDUNBURGH) گلاسگو (GLASGOW) اور ایبرڈن (ABERDEEN) میں قائم ہیں۔ گلاسگو سکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا اور برطانیہ میں لنڈن کے بعد دوسرے نمبر کا شہر ہے جہاں پاکستان` ہندوستان اور مصر کے مسلمان بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ کمیونٹی ریلیشنز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سکاٹ لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد چھ ہزار اور بھارتیوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی ہے۔۲۹
‏]sub [tagمشن کی بنیاد
سکاٹ لینڈ میں اسلام و احمدیت کا بیج حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن کے ذریعہ ۱۳۱۹ہش/ ۱۹۴۰ء کے قریب بویا گیا جبکہ سکاٹ لینڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ مس وائٹ لو LOW) WHITE ۔(MISS اور مسٹر فیرشا FARSHAH) ۔(MR نے قبول اسلام کیا۔۳۰ فروری۳۱ ۱۹۴۹ء میں حضرت مصلح موعود کی خاص ہدایت پر مسٹر بشیر احمد آرچرڈ نے گلاسگو میں احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد رکھی۔۳۲
ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں
یہاں آپ کے سوا اور کوئی احمدی نہ تھا مگر دو ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ دو افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے جن میں سے ایک کا نام بشیر احمد اور دوسرے کا عبدالحق پنڈر۳۳ (PINDER) تھا۔ مقدم الذکر محکمہ ریلوے میں کام کرنے والے ایک پاکستانی تھے اور دوسرے سکاٹش مسلمان۔
۶۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش/ مئی ۱۹۴۹ء کو مسٹر بشیر آرچرڈ نے تبلیغ اسلام کے لئے پہلی پبلک میٹنگ منعقد کی۳۴ اور اس کے بعد باقاعدگی سے لیکچروں کے ذریعہ پیغام حق کا حلقہ وسیع کرنے لگے۔ چنانچہ گلاسگو کے بعد ۱۷۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء کو ایڈنبرگ میں بھی اجلاس کرنے کا اہتمام کیا جو بہت کامیاب رہا۔ اسی طرح گلاسٹر میں بھی آپ نے لیکچر دیا۔
اس کے علاوہ آپ نے سکاٹ لینڈ میں اسلامی لٹریچر کے پھیلانے کی طرف بھی توجہ دینا شروع کردی اور اپنی سرگرمیوں کا آغاز مندرجہ ذیل پمفلٹوں سے کیا:۔
۱۔
قبر مسیح۔ یسوع ہندوستان میں INDIA) IN TSCHRI ۔JESUS OF TOMB (THE مرتبہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن۔
۲۔
کلیسیا کے نام کھلا چیلنج CHURCH) THE TO CHALLENGE OPEN (AN از چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۳۔
ایک آسمانی پیغام MESSAGE) DIVINE (A۳۵
مسلم ہیرلڈ کا اجراء
ماہ ظہور ۱۳۲۹ہش/ اگست ۱۹۵۰ء میں آپ نے سائیکلو سٹائل مشین سے ایک ماہوار رسالہ مسلم ہیرلڈ HERALD) (MUSLIM جاری کیا۔ ماہ شہادت ۱۳۲۹ہش/ اپریل ۱۹۵۰ء میں آپ کی جدوجہد سے گلاسگو میں پہلی بار یوم پیشوایان مذاہب منایا گیا جس میں تیس افراد شامل ہوئے۔ ماہ احسان ۱۳۲۹ہش/ جون ۱۹۵۰ء سے آپ نے تبلیغی سرگرمیاں تیز تر کردیں اور گھر گھر پہنچ کر اسلام و احمدیت کی منادی کی اور گلاسکو کے بڑے بڑے سماجی اور مذہبی لیڈروں کو اسلامی لٹریچر بھجوایا۔۳۶
آرچ بشپ آف یارک اور پوپ کو دعوت مذاکرہ
ماہ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء میں آپ نے آرچ بشپ آف یارک YARK) OF BISHOP (ARCH کو مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے اور آسمان پر چڑھ جانے کی نسبت چیلنج دیا مگر انہیں یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ اگلے سال آپ نے ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء کے شروع میں پوپ اور کلیسا کے دوسرے مذہبی راہنمائوں کو بذریعہ اشتہار۳۷ دعوت مذاکرہ دی مگر پوپ کے سیکرٹری کی رسید کے سوا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
حلقہ اشاعت اسلام میں وسعت
۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء میں آپ نے اشاعت اسلام کے حلقہ کو وسیع کرنے کے لئے متعدد نئے اقدامات کئے۔ مثلاً ہر اتوار کو اسلامی لٹریچر کا سٹال لگانا شروع کیا جس سے تبلیغ کی نئی راہیں کھلیں۔ گلاسگو کی لائبریریوں میں اسلامی لٹریچر رکھوایا۔ پہلے مکرم نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور پھر مکرم ملک عمر علی صاحب کے ہمراہ آپ نے تبلیغی دورہ کیا اور یہوواہ وٹنس WITNESSES)۔(JEHOVER فرقہ کے لوگوں سے گفتگو کی اس سال مسٹر بشیر آرچرڈ نے عرشہ جہاز کے مسلمان عملہ سے بھی رابطہ قائم کیا۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ نے اسلام اینڈ پیس PEACE) DAN (ISLAM کے دو نسخے مشن کو بھجوائے تھے جو آپ نے غیر مسلموں تک پہنچائے۔ علاوہ ازیں اپنے بہت سے مضامین سائیکلو سٹائل کرکے کتابی صورت میں شائع کئے۔ ان مضامین میں اسلام اینڈ پیس۳۸ اور کرسچین اویک۳۹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ موخر الذکر مضمون کا عربی ترجمہ۔ >استیقظوا ایھا المسیحیون< کے عنوان سے فلسطین کے رسالہ البشریٰ۴۰ میں بھی شائع ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں میں برکت ڈالی اور ماہ فتح ۱۳۲۹ہش سے لے کر ماہ شہادت ۱۳۳۰ہش تک تین سعید روحیں قبول اسلام سے مشرف ہوئیں۔ بیعت کرنے والوں میں دو پولینڈ۴۱ کے باشندے اور ایک سکاٹش تھا۔
مبلغ اسلام کا ایثار
مجاہد گلاسگو مسٹر بشیر آرچرڈ شروع سے ہی نہایت قلیل رقم پر گزارہ کررہے تھے۔ ۸۔ ظہور ۱۳۲۸ہش )مطابق ۸۔ اگست ۱۹۴۹ء( کو ایک نو مسلم انگریز کے ہاں آپ کی شادی ہوئی جس سے آپ کے اخراجات میں اضافہ ہوا تاہم آپ نے مرکز سے اپنے مشاہرہ میں اضافہ کی کوئی درخواست نہ کی بلکہ ماہ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء سے اپنا ماہانہ تبلیغی الائونس )۵ پونڈ(۴۲ بھی بند کرادیا اور خود پرانے۴۳ ٹکٹوں` عطر اور سٹیشنری کی فروخت اور ٹائپ اور سائیکلو سٹائل کرکے مشن کے اخراجات چلانے لگے۔
ٹرینیڈاڈ کو روانگی
مسٹر بشیر آرچرڈ نے جب اس خطہ میں بغرض تبلیغ قدم رکھا تو حالات سراسر ناموافق تھے حتیٰ کہ ابتداء میں جب آپ نے اشتہارات کی تقسیم شروع کی تو کئی لوگ سخت برہم ہوئے اور اشتہار پھاڑ کر زمین پر پھینک ڈالے مگر آپ نے پوری بشاشت اور استقلال کے ساتھ اشاعت اسلام کی جدوجہد جاری رکھی اور قریباً ساڑھے تین سال تک نہایت محبت` اخلاص اور وفاشعاری سے پیغام حق پہنچاتے رہے اور ماہ اخاء ۱۳۳۱ہش/ اکتوبر ۱۹۵۲ء میں مبلغ اسلام کی حیثیت سے ٹرینیڈاڈ تشریف لے گئے۔۴۴
گلاسگو مشن دارالتبلیغ لنڈن کی براہ راست نگرانی میں
ماہ اخاء ۱۳۳۱ہش/ اکتوبر ۱۹۵۲ء سے لے کر ماہ اخاء ۱۳۴۵ہش/ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک گلاسگو مشن براہ راست لندن مشن کی نگرانی میں رہا۔ اس دوران میں متعدد پاکستانی احمدی یہاں پہنچ گئے اور ایک خاصی جماعت قائم ہوگئی جس کی تنظیم کے لئے مبلغ انگلستان بشیر احمد خاں صاحب رفیق۴۵ نے ۱۸۔ وفا ۱۳۲۸ہش/ جولائی ۱۹۵۹ء کو سکاٹ لینڈ کا خصوصی سفر کیا۔ لنڈن مشن کے ایک مخلص احمدی چوہدری عبدالرحمن صاحب بھی آپ کے ہمسفر تھے۔ اس سفر کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ گلاسگو میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوگئی اور اس نے لنڈن مشن سے باقاعدہ منسلک ہوکر ماہوار چندہ بی ادا کرنا شروع کردیا جس سے لنڈن مشن کی آمد میں اضافہ ہوا۔۴۶ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بشیر احمد خاں صاحب رفیق کی رپورٹ )۲۴۔ تبوک ۱۳۲۸ہش( پیش ہوئی تو حضور نے اس پر رقم فرمایا:۔
>سکاٹ لینڈ کا ایک احمدی میرے سفر میں مجھے ملنے کے لئے آیا تھا<۔
مکرم بشیر احمد خاں صاحب رفیق سفر سکاٹ لینڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>سکاٹ لینڈ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری چھوٹی سی جماعت موجود ہے۔ چونکہ یہ منظم نہیں تھی اس لئے مورخہ ۱۸۔ جولائی ۱۹۵۹ء کو خاکسار نے سکاٹ لینڈ` نوٹنگھم` بریڈفورڈ` لیڈز وغیرہ کا تنظیمی و تربیتی دورہ کیا۔ مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب نے اپنی کار اس مقصد کے لئے پیش کی۔ آپ نے اپنے وقت کی بھی قربانی کی اور اس سارے دورہ میں ساتھ رہے اور ہر ممکن تعاون کیا۔ مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب سلسلہ سے بے حد تعاون کرنے والے احباب میں سے ہیں اللہ تعالیٰ کو جزائے خیر دے اور زیادہ سے زیادہ خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
گلاسگو میں خاکسار نے احمدی احباب کو مکرم منصور احمد صاحب کے مکان پر جمع کیا )مکرم منصور صاحب` مکرم چوہدری علی محمد صاحب۴۷body] gat[ بی۔ اے` بی ٹی کے صاحبزادے ہیں اور مخلص نوجوان ہیں( اور تنظیم کی برکات اور چندوں کی باقاعدہ ادائیگی کے موضوع پر تقریر کی۔ تقریر کے بعد مکرم احمد صاحب کو متفقہ طور پر جماعت احمدیہ گلاسگو کا امیر و سیکرٹری مال منتخب کیا گیا چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے سکاٹ لینڈ کی جماعت منظم طور پر کام کررہی ہے۔ واپسی پر خاکسار نے نوٹنگھم میں جماعت قائم کی۔ مکرم آزاد صاحب یہاں کے امیر و سیکرٹری مال مقرر ہوئے۔ چونکہ یہاں کے احمدی دوست قریب قریب رہتے ہیں اس لئے خاکسار نے ان کو ایک دوست کے مکان پر جمع ہوکر کم از کم ایک نماز ضرور باجماعت پڑھنے کی تلقین کی۔ مکرم آزاد صاحب بہت مخلص اور نیک نوجوان ہیں۔
اس دورہ کے دوران میں متعدد مسلم و غیر مسلم احباب کو تبلیغ بھی کی۔ ایک دوست کے ساتھ اسلام میں عورت کی حیثیت اور تعدد ازدواج کے موضوع پر مباحثہ کے رنگ میں بے حد دلچسپ گفتگو ہوئی اس گفتگو میں مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب نے بھی حصہ لیا<۔۴۸
مشن کے دور ثانی کی خدمات پر ایک نظر
یکم اخاء ۱۳۴۵ہش/ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو مسٹر بشیر احمد آرچرڈ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے دوبارہ سکاٹ لینڈ میں مبلغ اسلام کی حیثیت سے مقرر ہوئے جہاں آپ اب تک اعلائے کلمہ اسلام میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ سکاٹ لینڈ مشن کے احیاء کا دور ہے جس میں مشن کی تبلیغی اور تنظیمی سرگرمیوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ مبشر اسلام مختلف سکولوں` سوسائٹیوں` گرجوں اور کلبوں میں اسلام پر تقاریر کرچکے ہیں۔ گلاسگو کے علاوہ ملک کے دوسرے قصبات تک بھی پبلک تقاریر اور تبادلہ خیالات کے ذریعہ حق و صداقت کی آواز بلند کی جارہی ہے۔ دعوت اسلام iSLAM) TO (INVITATION کے نام سے ایک انگریزی پمفلٹ پانچ ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا جاچکا ہے۔ علاوہ ازیں احمدیہ گزٹ ہر ماہ سائیکلو سٹائل کرکے شائع کیا جاتا اور مشن کی مضبوطی کا موجب بنتا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں اشاعت اسلام کا ایک موثر ذریعہ مسلم ہیرلڈ رسالہ بھی ہے جو مکرم بشیر احمد خاں صاحب رفیق کی جدوجہد سے براہ راست لنڈن میں چھپتا ہے اور جس میں دیگر نہایت قیمتی اور معلومات افزاء مقالوں کے علاوہ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ کے مضامین بھی سپرد اشاعت ہوتے رہتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثالث کا سفر سکاٹ لینڈ
سکاٹ لینڈ مشن کے اس دور ثانی کا سب سے نمایاں اور ممتاز واقعہ سیدنا حضرت امیرالمومنین کا اس سرزمین میں ورود مسعود ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ۳۱۔ وفا ۱۳۴۶ہش/ جولائی ۱۹۶۷ء کو اپنے مشہور سفر یورپ کے دوران لنڈن سے مع قافلہ عازم سکاٹ لینڈ ہوئے۔۴۹ راستہ میں حضور نے سکاچ کارنر۵۰ کے مقام پر رات بسر کی اور اگلے روز یکم ظہور بروز منگل گلاسگو رونق افروز ہوئے۔ سکاٹ لینڈ کی پوری جماعت احمدیہ حضور کی قیام گاہ )رائل سٹورڈ ہوٹل( کے سامنے نہایت بے تابی سے چشم براہ تھی۔ سب سے قبل مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے حضور کا استقبال کیا۔ جس کے بعد حضور نے سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر مع خدام مشن ہائوس تشریف لے گئے جہاں مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھائیں۔ بعد نماز احباب جماعت نے حضور اقدس کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بیعت کے بعد حضور نے لمبی دعا کی۔ ۲۔ ظہور کو حضور نے ایک استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی جو حضور کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ اس موقع پر پریس کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے بکثرت سوال کئے اور حضور نے برجستہ اور مدلل جواب دئے۔ اسی روز سہ پہر کو حضور ایڈنبرا تشریف لے گئے جہاں احمدی احباب کو اپنے مقدس آقا کی زیارت سے فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا اس سفر میں مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ` مکرم محمد ایوب صاحب )سابق صدر جماعت احمدیہ گلاسگو( مکرم ڈاکٹر سعید احمد صاحب اور بعض دیگر مخلصین جماعت بھی حضور کے ہمراہ تھے۔ قیام گلاسگو کے دوران حضور نے وہاں مسجد کے لئے زمین خریدنے کی نسبت بھی ضروری ہدایات دیں۔ حضور گلاسگو کے بعد بریڈ فورڈ اور ہڈرز فیلڈ کا کامیاب دورہ فرمانے کے بعد ۹۔ ظہور ۱۳۴۶ہش/ اگست ۱۹۶۷ء کی شام کو واپس لندن تشریف لے آئے۔۵۱
خلاصہ
المختصر گلاسگو کا وہ اسلامی مشن جو ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی توجہ سے قائم ہوا تھا خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں اسلام کے علمی و روحانی انقلاب کے پیدا کرنے میں اہم رول ادا کررہا ہے اور >مسلم سکاٹ لینڈ< کی روحانی تعمیر میں مصروف ہے جس سے اس تثلیث کدہ میں اسلام کے پرامید اور روشن مستقبل کی جھلک نمایاں نظر آرہی ہے۔]ksn [tag فالحمدللہ علے ذلک۔
‏tav.12.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
دوسرا باب )فصل ششم(
کوائف قادیان
اس سال کی ایک بھاری خصوصیت یہ ہے کہ درویشان قادیان جو ۱۳۲۷ہش تک قادیان میں قیدیوں کی سی زندگی بسر کررہے تھے اور اپنے حلقے سے باہر پولیس کی حفاظت کے بغیر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ نہ صرف قادیان کے محلوں میں بلا روک ٹوک جانے لگے بلکہ قادیان کے مضافات اور بعد ازاں بٹالہ میں بھی دو ایک دفعہ صرف مقامی پولیس کو اطلاع دے کر پہنچ گئے۔ ہندو سکھ اصحاب کے نزدیک مسلمانوں کا ان کے درمیان بلا خوف و خطر چلنا پھرنا ایک اچنبھے کی بات تھی اور وہ ایک ہجوم کی شکل میں اکٹھے ہوجاتے تھے ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے پہلے ہفتہ میں کئی درویشوں نے نظام سلسلہ سے درخواست کی کہ انہیں کاروبار کی غرض سے بیرونی دیہات اور بٹالہ اور گورداسپور وغیرہ میں جانے کی اجازت دی جائے مگر حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک اس سے بچنا چاہئے۔ اس ہدایت کی روشنی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مزید یہ نصیحت فرمائی کہ میری رائے میں قدم تدریجی اٹھانا چاہئے چنانچہ درویشان قادیان نے نہایت حرم و احتیاط سے آمدورفت کا سلسلہ شروع کیا اور انہیں یہ دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی کہ غیر مسلم پبلک کے جذبات نفرت میں کافی کمی واقع ہوگئی ہے اور کم از کم بٹالہ اور گورداسپور میں ان کے جانے پر کسی قسم کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا البتہ حیرت و استعجاب کا اظہار ضرور کیا گیا جو ایک طبعی امر تھا۔ اس صورت حال نے درویشوں کے حوصلے بہت بلند کردئے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مطبوعہ نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خوشگوار تبدیلی جس سے درویشوں کا دور محصوریت اللہ عزوجل کی عنایت اور فضل و کرم کی بدولت دور رابطہ میں بدل گیا` ماہ شہادت و ہجرت ۱۳۲۸ہش کے دوران ہوئی۔ چنانچہ آپ نے الفضل ۱۰۔ ماہ ہجرت ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲ میں لکھا:۔
>آہستہ آہستہ نقل و حرکت کی سہولت پیدا ہورہی ہے چنانچہ ہمارے بعض دوست بعض ضروری کاموں کے تعلق میں متعدد دفعہ بٹالہ جاچکے ہیں اور ایک دفعہ گورداسپور بھی ہوآئے ہیں اور واپسی پر راستہ میں دھاریوال بھی ٹھہرے تھے ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ احتیاطاً چار چار پانچ پانچ کی پارٹی میں جاتے ہیں اور جلد واپس آجاتے ہیں<۔
امیرالمومنین سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے گزشتہ سالانہ جلسہ قادیان )۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء( کے موقع پر جو روح پرور پیغام۵۲ دیا اس میں خاص طور پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ >قادیان میں احمدیوں کے آنے اور قادیان کے احمدیوں کو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزاد کرانے کے لئے آپ لوگ باقاعدہ کوشش کریں اور کوشش کرتے چلے جائیں<۔
حضور کے اس فرمان مبارک کی تعمیل میں ہندوستان بھر کی احمدی جماعتوں۵۳]4 [rtf نے بھارت کے گورنر جنرل` وزیراعظم` ہوم منسٹر` گورنر مشرقی پنجاب اور ہوم منسٹر مشرقی پنجاب کو قراردادیں پاس کرکے بھجوائیں کہ جماعت احمدیہ ایک پرامن مذہبی جماعت ہے جس کا مذہبی مرکز قادیان ہے جس کی مرکزی تنظیم صدر انجمن احمدیہ ہے اور جس کے ذمہ ہندوستان کی تمام مقامی احمدی جماعتوں کی مذہبی` تعلیمی اور اخلاقی نگرانی کا کام ہے۔ فسادات ۱۹۴۷ء کے باعث یہ تعلق منقطع ہوگیا اور مرکز سے عہدیدار` مبلغین اور انسپکٹر جماعتوں کی نگرانی کے لئے نہیں بھجوائے جاسکے اور نہ بیرونی مقامی جماعتوں کے افراد اور عہدیدار ہی قادیان پہنچ کر مذہبی اور اخلاقی امور میں مرکز سے ہدایات لے سکتے ہیں۔ اس طرح بھارتی جماعتوں کی تنظیم اور تعلیم و تربیت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے لہذا ہم درخواست کرتے ہیں کہ حکومت ہمارے لئے اپنے مقدس مرکز قادیان میں بلا روک ٹوک کثرت سے جانے کے لئے سفر کی سہولت اور حفاظت کا انتظام فرمائے اور اس طرح مرکزی عہدیداروں اور مبلغین وغیرہ کے لئے آسانیاں مہیا کرے۔ ہم یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ قادیان صرف مرکزی تنظیمی انجمن کا ہیڈکوارٹر ہی نہیں بلکہ اس میں جماعت احمدیہ کے خصوصی اہمیت رکھنے والے مقامات مقدسہ بھی ہیں۔ یہیں بانی جماعت احمدیہ پیدا ہونے اور منصب نبوت پر فائز ہونے خدا کے بے شمار نشانات آپ کے ذریعہ ظاہر ہوئے اور آپ نے خود اس بستی کے متعلق فرمایا کہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے اور خدا نے اس کو برکت دی ہے۔ اندرین صورت قادیان کی زیارت ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ بھارتی احمدیوں کے لئے دہلی سے قادیان اور پھر واپسی تک کے لء سفر کی حفاظتی تدابیر بروئے کار لائی جائیں جس کے لئے عملی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ قادیان جانے والے احمدی جماعت احمدیہ دہلی کے مقامی مبلغ و امیر مولوی بشیر احمد صاحب )بلیماراں سٹریٹ( کی معرفت سرکاری افسروں کو مناسب وقت پہلے یہ اطلاع دے دیا کریں کہ فلاں تاریخ کو اتنے افراد قادیان جانا چاہتے ہیں یا مرکزی نمائندے اور دوسرے احمدی فلاں تاریخ کو قادیان سے روانہ ہونا چاہتے ہیں ان ہر دو صورتوں میں سرکاری سطح پر حفاظتی انتظام فرمایا جائے۔
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۵` ۱۶۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء کو مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا:۔
>جلسہ قریب آرہا ہے اب آپ کو پوری طرح کوشش کرنی چاہئے کہ مختلف جگہوں سے پچیس تیس آدمی کم سے کم مستقل مہاجر ہوکر قادیان آجائیں اور پچیس تیس آدمیوں کو قادیان سے فارغ کرکے ادھر بھجوا دیا جائے کیونکہ غالباً اتنے لوگ وہاں ہیں جو ادھر آنا چاہتے ہیں۔ یا ان کے حالات ایسے ہیں کہ ان کو ادھر بھجوا دینا چاہئے۔ اس طرح دس بارہ نوجوانوں کو بلوا کر دیہاتی مبلغوں کی طرح تعلیم دینی چاہئے۔ ملکانہ` مالا بار` بہار اور بنگال سے ایسے آدمی منگوانے چاہئیں اس طرح کے اضلاع سے اور جو موجودہ دیہاتی مبلغ ہیں وہ تین سال سے پڑھ رہے ہیں ان کو باہر بھجوانا چاہئے تا وہ کام کریں۔ پہلے موجودہ جماعتوں کو سنبھالنے اور ان کو بڑھانے کی کوشش ہونی چاہئے اس کے بعد نئے نئے تبلیغی مرکز مختلف صوبوں میں کھولنے چاہئیں۔ یہ وقت انتہائی کوشش کا ہے کوئی مشکل نہیں کہ اگر آپ لوگ توجہ کریں تو سال ڈیڑھ سال میں لاکھ دو لاکھ کی جماعت ہندوستان میں پیدا نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو چھ سات لاکھ سالانہ کی آمد آسانی سے قادیان میں ہوتی رہے گی جو زمانہ کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی اور آپ لوگ پھر مدرسہ احمدیہ` دینیات کالج` ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج وہاں بنانے کی توفیق پالیں گے۔ جو زمانہ زندہ رہنے کی کوشش کا تھا اللہ تعالیٰ نے خیریت سے اس زمانہ کو گزار دیا ہے اب آپ نے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے۔ نئے ماڈل سوچنے کا ابھی سوال نہیں قادیان میں جو کچھ پہلے تھا اسے دوبارہ قائم کرنے کے لئے کسی سکیم کے سوچنے کی ضرورت نہیں وہ سکیم تو سامنے ہی ہے اس کے لئے صرف ان باتوں کی ضرورت ہے:۔
اول:۔ قادیان میں عورتوں` بچوں کا مہیا کرنا۔ اڑیسہ` کانپور اور بہار میں بہت غریب عورتیں مل جاتی ہیں جو شادیاں کرسکتی ہیں ان کی ان علاقوں میں شادیاں کروائیے اور قادیان میں عورتیں بسوائیے۔
دوم:۔ ہزاروں ہزار مسلمان جو مارا گیا ہے ان کے بیوی بچے ابھی دہلی اور اس کے گردونواح میں موجود ہیں ایسے پندرہ بیس بچے منگوائیے اور پرائمری سکھول کھول دیجئے۔ دس بیس نوجوان باہر سے وقف کی تحریک کرکے دیہاتی مبلغ بنانے کے لئے منگوائیے اور مدرسہ احمدیہ قائم کردیجئے۔ اگر پرانا پریس نہیں ملتا تو نئے پریس کی اجازت لیجئے۔ دستی پریس پتھروں والا ہو یہ سو دو سو میں آجاتا ہے بلکہ خود قادیان میں بنوایا جاسکتا ہے اس پر ایک پرچہ ہتہ وار چھاپنا شروع کردیجئے آپ لوگوں کے لئے کام اور شغل نکل آئے گا۔ کچھ لوگ کاتب بن جائیں گے کچھ کاغذ لگانے والے اور ہتھی چلانے والے بن جائیں گے اور کئی لوگوں کے لئے کام نکل آئے گا۔ آبادی بڑھے گی تو خالی جگہوں کو دیکھ کر لوگوں کو جو لالچ پیدا ہوجاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور جو خالی ٹکڑے پڑے ہیں ان میں نئی عمارتیں بن جائیں گی۔
سوم:۔ حکیم خلیل احمد صاحب میرے خیال میں اگر وہاں آجائیں یا کوئی حکیم تو ایک مطب بھی کھول دیا جائے اور ایک طبیہ کلاس کھول دی جائے دیہاتی مبلغ بھی طب سیکھیں اور مرزا وسیم احمد صاحب بھی طب سیکھ لیں اور ایک بہت بڑا دواخانہ کھول دیا جائے جس کی دوائیں سارے ہندوستان میں جائیں خدا چاہے تو لاکھوں کی آمدنی اس ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔ یہ خط تمام ممبران انجمن کو سنا دیں تا سب لوگ اس سکیم کو اپنے سامنے رکھیں اور جلد سے جلد اس سکیم کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے<۔۵۴
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۶۔ شہادت ۱۳۲۸ہش/ اپریل ۱۹۴۹ء کو بذریعہ مکتوب ارشاد فرمایا کہ ہندوستان کی جماعتوں کو منظم کرنے کی جو میں نے ہدایت دی ہے اس کے بارے میں یاد رکھیں کہ سب سے اول یوپی` بمبئی` بہار اور مدراس کے چندے جمع کرنے پر زور دیں نیز سب جگہوں پر سالانہ جلسہ کرانے اور قادیان کے لئے زندگی وقف کرنے پر زور دیں جو اپنے بال بچوں سمیت رہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے احمدی نوجوانوں کو تبلیغ کے لئے وقف ہونے کی تحریک کریں۔ حضور نے اس مکتوب میں یہ بھی حکم دیا کہ قادیان میں تبلیغی کالج کھول دیں تا ہندوستان میں تبلیغ وسیع ہوسکے۔
صدر انجمن احمدیہ قادیان ہندوستانی جماعتوں کی تنظیم کے لئے اس سال صرف یہ قدم اٹھا سکی کہ نظارت بیت المال کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب ارشد کو یوپی بھجوا دیا جنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس علاقہ کی جماعتوں کو ازسرنو منظم کیا اور ان کا باقاعدہ سروے کرکے احمدی افراد کی فہرستیں تیار کیں۔
قادیان کے متعلق حکومت کی پالیسی میں تبدیلی
بجائے اس کے کہ بھارتی حکومت ہندوستانی احمدیوں کی درخواست پر ہمدردانہ غور کرکے حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی اس نے اپنی پالیسی میں اور زیادہ سخت گیری اور سختی پیدا کردی اور براہ راست درویشوں پر بعض نئی پابندیاں عائد کردیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے انہی دنوں اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے لکھا:۔
>قادیان میں اب بظاہر نارمل حالات پیدا ہورہے ہیں اور ہمارے دوستوں کو نقل و حرکت کی کافی سہولت مل گئی ہے لیکن حالات کے گہرے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی ابھی تک کسی طرح تسلی بخش نہیں سمجھی جاسکتی۔ حقیقتاً یہ تبدیلی سکھ قوم کے اقتدار کی جگہ ہندو قوم کے اقتدار کا رنگ رکھتی ہے۔ جب تک سکھ قوم اور سکھ پالیسی کا غلبہ رہا قادیان اور اس کے ماحول میں برملا ظلم و تشدد اور لوٹ مار کا منظر نظر آتا رہا لیکن اب آہستہ آہستہ اس منظر نے بدل کر ہندو اقتدار کی پالیسی کی جگہ دے دی ہے جس میں بظاہر نارمل حالات کا دور دورہ نطر آتا ہے اور ابتری کی بجائے تنظیم کے حالات دکھائی دیتے ہیں لیکن تنظیم کے اس ظاہری پردہ کے پیچھے نقصان پہنچانے کی منظم پالیسی نظر آرہی ہے۔ چنانچہ نئے دور میں حکومت کی پالیسی نے تین ایسی باتوں کو چنا ہے جو اوپر کی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ کررہی ہیں۔
)۱( قادیان میں یا یوں کہنا چائے کہ مشرقی پنجاب میں الفضل کا داخلہ حکومت مشرقی پنجاب کے حکم کے ماتحت بند کردیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے قادیان کے دوست حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ کے خطبات اور جماعتی تحریکات اور احمدیہ مشنوں کی رپورٹوں وغیرہ سے کلیت¶ہ محروم ہوگئے ہیں یا بالفاظ دیگر جماعت تحریکات اور احمدیہ مشنوں کی رپورٹوں وغیرہ سے کلیت¶ہ محروم ہوگئے ہیں یا بالفاظ دیگر جماعت کی مذہبی تنظیم کے مرکزی نقطہ سے بالکل کاٹ دئے گئے ہیں۔ بظاہر اس حکم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ الفضل میں ایسی باتیں شائع ہوتی ہیں جو حکومت ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہیں لیکن ظاہر ہے کہ الفضل کی پالیسی میں کوئی نئی تبدیلی پیدا نہیں بلکہ فسادات کے بعد سے ایک ہی پالیسی چلی آرہی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اب الفضل میں پہلے کی نسبت مذہبی مضامین کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے کیونکہ یہی اس کی غرض وغایت ہے اور سیاسی نوعیت کے مضامین بہت کم ہوتے ہیں باوجود ان حالات کے الفضل کا فسادات کے بعد تو جاری رہنا مگر اب آکر بند کیا جانا حکومت کی تبدیل شدہ پالیسی کی ایک واضح دلیل ہے۔
)۲( قادیان جماعت احمدیہ کا مقدس مقام ہے اور دنیا بھر کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر قوم اپنے اپنے مقدس مقامات کی خدمت اور احترام کے لئے تحائف اور ہدایا اور مالی نذرانے بھیجا کرتی ہے اور آج تک دنیا کی کسی مہذب حکومت نے اس قسم کے مال یا جنسی تحائف میں روک نہیں ڈالی اور اس وقت تک قادیان میں بھی اس قسم کے تحائف جاتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں بعضان منی آرڈروں کو جو باہر سے قادیان بھجوائے گئے تھے ہندوستان کی حکومت نے روک لیا ہے حالانکہ جو احمدی قادیان میں بیٹھے ہیں ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ ان کی سب جائدادیں ان کے ہاتھ سے چھنی جاسکتی ہیں۔ پس ان حالات میں بیرونی منی آرڈروں کو روکنا مقامی مسلمان آبادی کو بھوکے مارنے کے مترادف ہے۔
)۳( قادیان میں سالہا سال سے یعنی تقسیم پنجاب سے بھی پہلے سے حکومت جماعت احمدیہ کو اس بات کی اجازت دیتی رہی ہے کہ وہ لنگر خانہ اور دوسرے احمدیہ اداروں کے لئے اکٹھی گندم خرید لیا کریں لیکن اس سال حکومت مشرقی پنجاب نے اس بات کی اجازت نہیں دی اور ہدایت جاری کی ہے کہ ہر احمدی اپنا الگ الگ راشن کارڈ حاصل کرے جن کی غرض سوائے اس کے کوئی نظر نہیں آتی کہ قادیان کے کی خوراک کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں محفوظ کرلیا جائے۔ ہمارے دوستوں کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ جو نطام سالہا سال سے چلا آیا ہے اسے بدلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور انفرادی راشن کارڈوں میں یہ خطرہ بھی ظاہر ہے کہ ہر شخص کو اپنا علیحدہ علیحدہ راشدن لینے کے لئے بازار جانا ہوگا جس میں ٹکرائو کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اور پھر جب قادیان کی احمدی آبادی معین ہے اور اس میں حکومت کی اجازت کے بغیر کمی بیشی نہیں ہوسکتی تو پھر اکٹھی خرید کر اجازت دینے میں یہ خطرہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ضرورت سے زیادہ گندم خرید کی جائے گی یا کہ خرید کے بعد ضائع کردی جائے گی۔ علاوہ ازیں گندم کا جو بھی ذخیرہ ہوگا وہ بہرحال قادیان میں ہی رہے گا اور حکومت کی نظروں کے سامنے ہوگا مگر باوجود ان معقول دلیلوں کے گورنمنٹ نے اپنے حکم کو نہیں بدلا اور ابھی تک یہ اصرار کررہی ہے کہ ہر احمدی انفرادی راشن کارڈ حاصل کرے۔
اوپر کی باتوں سے واضح ہے کہ برملا ظلم وتشدد اور لوٹ مار کا دور دورہ تو اب بظاہر گزر چکا ہے لیکن اس کی جگہ ایسی پالیسی نے لے لی ہے جسے مخفی مگر منظم تشدد کا نام دیا جاسکتا ہے۔ بہرحال ہماری اصل اپیل خدا کے پاس ہے اور وہی انشائاللہ اپنی جماعت کا حافظ و ناصر ہوگا اور درمیانی ابتلاء خواہ کوئی بھی صورت اختیار کریں آخری فتح و ظفر یقیناً خدا کے نام کی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی۔ ولا حول ولا قوہ الا باللہ العظیم<۔۵۵]ydob [tag
دشمنان اسلام واحمدیت کا ایک تباہ کن منصوبہ اور اسکی ناکامی
معاندیں اسلام کو وہ طبقہ جو درویشوں کو اپنے محبوب و مقدس مرکز سے بے دخل کرنے کی سازشوں میں مصروف چلا آرہا تھا۔ ۱۹۴۹ء میں اللہ رکھا نامی ایک منافق کو احمدی آبادی کے خلاف کھڑا کرکے اپنے مذموم اور ناپاک منصوبہ کی کامیابی کے خواب دیکھنے لگا۔
الل رکھا گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کا باشندہ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے زمانہ میں دارالشیوخ قادیان میں رہا کرتا اور اس ادارہ کے لئے مختلف دیہات سے آٹا اکٹھا کرکے لایا کرتا تھا۔ فسادات ۱۹۴۷ء میں یہ شخص قادیان سے اپنے گائوں چلا آیا لیکن چند ماہ بعد جماعتی اجازت کے بغیر غیر ذئینی صورت میں ہندو پاک سرحد پار کرکے قادیان پہنچ گیا۔ مقامی جماعت نے اسے ہر طرح سمجھایا کہ وہ واپس چلا جائے اور باضابطہ اجازت لے کر آئے مگر وہ مخالفین احمدیت کا آلہ کار تھا بھلا کیسے چلا جاتا۔ جہاں دشمنان احمدیت کی نگاہ میں دوسرے تمام درویش خار کی طرح کھٹکتے تھے اور ان کا قادیان میں رہنا انہیں گوارا نہیں تھا وہاں اس شخص کی غیر قانونی آمد پر کبھی اعتراض نہیں اٹھایا بلکہ اسے ان کی ہمیشہ پشت پناہی حاصل رہی۔
اللہ رکھا نے قادیان کے نظام احمدیت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سب سے پہلے وہی حربہ جماعت کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا جو خلفائے راشدین اور خلافت راشدہ کے دشمنوں کا طرہ امتیاز رہا ہے یعنی اس نے قادیان پہنچتے ہی صدر انجمن احمدیہ کی مرکزی شخصیتوں کو برسرعام اعتراضات کا نشانہ بنانے کی باقاعدہ مہم جاری کردی جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تحریری پیغام کے ذریعہ اسے اپنی شرمناک روش بدلنے کی طرف توجہ دلائی مگر جب اس کی روش میں پہلے سے زیادہ اشتعال اور تیزی کا رنگ پیدا ہوگیا تو حضور نے اس فتنہ پرور سے مقاطعہ کرنے کا حکم دے دیا نیز ہدایت فرمائی کہ درویش اسے اپنے حلقہ میں داخل نہ ہونے دیں۔ حضور نے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اعلان مقاطعہ کیا جو الفضل ۹۔ ظہور ۱۳۲۸ہش/ اگست ۱۹۴۹ء کے الفضل میں بھی شائع ہوا:۔
>میاں اللہ رکھا سیالکوٹی حال قادیان چونکہ جماعت میں فتنہ پیدا کرتے ہیں اور جماعتی نظام میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے میں اس اعلان کے ذریعہ انہیں اپنی جماعت سے خارج کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کے لئے تمام احمدیوں کو حکم دیتا ہوں کہ ان سے سلام کلام بند رکھیں اور اپنی مجالس میں آنے کی اجازت نہ دیں تاکہ وہ خواہ مخواہ جماعت کی بدنامی کی کوئی صورت پیدا نہ کردیں۔ میں ان کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے اندر اگر ذرہ بھی ایمان کا باقی ہے تو اس سے باز آجائیں اور اپنی حرکات کو چھوڑ دیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہوگا اور وہ اپنی عاقبت آپ خراب کریں گے۔
مرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی
اگر یہ شخص مبائعین کی طرف منسوب ہوتا تھا لیکن دل سے خلافت کا ہی منکر تھا اس لئے اس نے حضور کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لئے علی الاعلان کہنا شروع کردیا کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو خدا کا برحق خلیفہ مانتا ہے لیکن اس ذاتی معاملے میں ان کی بات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور ساتھ ہی اس نے اپنے مکان کی چھت پر درویشوں کے خلاف نہایت بدزبانی اور بدکلامی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ چند دن بعد سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کی شہ پر ایک پھٹا ہوا مصلی لے کر دارالمسیح کے بیرونی دروازے پر پہنچ جاتا اور زبردستی اندر گھسنے کی کوشش کرتا نیز کہتا وہ احمدی ہے اس کو کوئی خارج نہیں کرسکتا اور اس کا حق ہے کہ وہ بھی مقامات مقدسہ کی زیارت کرے اور مساجد میں عبادت بجالائے۔ دارالمسیح کے اندر جانے میں جب کامیابی نہ ہوتی تو وہ دفتر تحریک جدید کے سامنے مصلیٰ بچھا لیتا ہے جہاں نماز تو کم پڑھتا لیکن خدا کے درویش بندوں کو گالیاں زیادہ دیتا۔ درویش یہ المناک نظارہ دیکھ کر بے بس رہ جاتے اور سلسلہ کی روایات اور ہدایات کے مطابق صبر وتحمل کے دامن کو نہ چھوڑتے۔
معاندین احمدیت روزانہ اپنی آنکھوں سے یہ مظاہرے دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کرتے اور اسے ہنگامہ آرائی کے نت نئے سے نئے ڈھنگ بتاتے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اس شخص کو یہ پٹی پڑھائی کہ وہ درویشوں کی برسر عام بازاروں میں توہین و تحقیر کرے چنانچہ اس کے مطابق ماہ جولائی ۱۹۴۹ء کے آخر میں اس نے یہ شرارت کی کہ بازار سے گزرتے ہوئے ایک احمدی درویش کو پکڑ لیا اور اسے نہایت درجہ فحش اور بازاری گالیاں دیں اور پھر رات کو ایک کوٹھے پر چڑھ گیا اور یہ مفتریانہ پراپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ احمدیوں نے گزشتہ فسادات میں غیر مسلموں کا قتل عام کیا ہے اور فلاں فلاں غیر مسلم کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
ان افترا پردازیوں نے جو مسلسل کئی ماہ سے جاری تھیں ستمبر ۱۹۴۹ء میں ایک تکلیف دہ مقدمے کی شکل اختیار کرلی چنانچہ اللہ رکھا نے سردار امولک سنگھ سابق ریذیڈنٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مندرجہ ذیل پچیس درویشوں کے خلاف بذریعہ زیر دفعہ ۱۰۷ مقدمہ دائر کردیا:۔
۱۔ خان فضل الٰہی صاحب امور عامہ ۲۔ منشی محمد صادق صاحب مختار عام ۳۔ مولوی برکات احمد صاحب راجیکی بی۔ اے ناظر امور عامہ ۴۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مولف اصحاب احمد ۵۔ مولوی برکت علی صاحب جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان ۶۔ چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی ۷۔ صوفی عبدالقدیر صاحب ۸۔ خواجہ عبدالکریم صاحب ۹۔ محمد اشرف صاحب گجراتی ۱۰۔ محمد یحییٰ صاحب سرساوی ۱۱۔ محمد رفیق صاحب سرساوی ۱۲۔ میر رفیع احمد صاحب ۱۳۔ محمد ابراہیم صاحب خادم ۱۴۔ محمود احمد صاحب سرگودھی ۱۵۔ عبدالحمید صاحب دکاندار ۱۶۔ مبارک علی صاحب کمپونڈر ۱۷۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب ۱۸۔ سلطان احمد صاحب کھاریاں )یہ درویش مقدمہ کی کارروائی شروع ہونے سے قبل انتقال فرما گئے تھے( ۱۹۔ شیر محمد صاحب پٹھان ۲۰۔ چوہدری سعید احمد صاحب مہار ۲۱۔ کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ۲۲۔ مستری غلام قادر صاحب ۲۳۔ بدر دین صاحب عامل ۲۴۔ افتخار احمد صاحب اشرف ۲۵۔ بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار بھٹہ۔
۱۸۔ ستمبر ۱۹۴۹ء کومقدمہ کی باضابطہ کارروائی بٹالہ میں شروع ہوئی۔ عدالت نے ان درویشوں کو نوٹس جاری کیا کہ وجہ بیان کریں کہ کہیں آپ سے ایک سال کے لئے ہزار ہزار روپے کی ضمانت حفظ امن نہ لی جائے۔ درویشوں نے ضمانت دینے سے انکار کیا جس پر اللہ رکھا کا بیان ہوا جو بے بنیاد اور بے سروپا الزامات کا مجموعہ تھا۔ دوران بیان اس نے عدالت کو بھی بتایا کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم کی تعمیل کے لئے ہر وقت تیار ہے مگر اس ذاتی معاملہ میں ان کا کوئی حکم نہیں مان سکتا۔ اللہ رکھا کی طرف سے منوہر سنگھ` پریتم سنگھ )پناہ گیر( اور ماسٹر رام سنگھ اور ریشم سنگھ منشی چوکی پولیس قادیان نے گواہی دی۔ اور درویشوں کی طرف سے بٹالہ کے دو وکیل بخشی سائیں داس صاحب اور لالہ رام تن صاحب ایڈووکیٹ بطور وکیل پیش ہوئے مگر انہیں پہلے دن مدعی اور اس کے گواہوں پر جرح کرنے کا موقع نہیں ملا۔ درویشوں نے ۳۰۔ نومبر ۱۹۴۹ء کو شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور اور صدر بار ایسوسی ایشن لاہور کی لکھی ہوئی ایک مدلل بحث بھی عدالت میں ¶پیش کی مگر مجسٹریٹ صاحب نے اس پر کوئی توجہ دینے کی بجائے باقی بحث بند کرا دی اور درویشوں کو ایک ایک ہزار کی ضمانتیں پیش کرنے یا انہیں ایک ایک سال قید کئے جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ غریب درویش بھلا چوبیس ہزار روپے کی رقم کہاں سے لاتے انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس ضمانت کے لئے کوئی رقم نہیں ہاں وہ جائیداد ضرور ہے جس پر اس وقت حکومت مشرقی پنجاب کا قبضہ ہے چنانچہ مجسٹریٹ نے یہی ضمانت قبول کرلی۔ جو درویش اپنی جائیدادیں نہ رکھتے تھے ان کی طرف سے بھائی شیر محمد صاحب` میاں عبدالرحیم صاحب امانت سوڈاواٹر اور ڈاکٹر عطر دین صاحب نے اپنی جائیدادیں بغرض ضمانت پیش کردیں مقدمہ کے فیصلہ کے ایک ماہ بعد یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو اللہ رکھا قادیان چھوڑ کر پاکستان چلا آیا اور اس مقدس بستی کی فضا اس فتنہ سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوگئی۔
اللہ رکھا نے پاکستان پہنچ کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
سیدنا حضرت اقدس امیرالمومنین السلام علیکم
بندہ مظلومیت کی حالت میں حضور کی خدمت میں حضور کے ارشاد کے مطابق امیر صاحب قادیان کی اجازت سے آیا ہے اور حضور کے ارشاد کے مطابق قادیان رہتا تھا۔ قادیان سے کبھی بھی منہ پھرا نہیں سکتا۔ قادیان میرا مقدس شہر۔ میرے پیارے حضرت مسیح موعودؑ بکا مقدس شہر اور وہاں آپؑ کا مزار اور مذہبی یادگاریں ہیں جہاں ہم لوگ جاتے ہیں۔ میں احمدی ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ کو مانتا ہوں اور خلیفہ وقت کو مانتا ہوں اب بھی اگر خدا نے چاہا تو حضور کے ارشاد سے ہی قادیان جائوں گا حضور کی ناراضگی میں نہیں جائوں گا<۔۵۶
اس خط پر حضرت مصلح موعود~رضی۱~ نے فرمایا کہ:۔
>معاف تو ہم نے کردیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے جھوٹ نہیں بولا اور منافق نہیں ہے۔ میری صحت اچھی ہونے پر میں مجلس میں بلوا کر پیش کروں گا کہ یہ جھوٹ بول کر قادیان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا رہا اور منافق ہے<۔۵۷
جلسہ قادیان کے لئے پہلا پاکستانی قافلہ
اس سال بھی سالانہ جلسہ قادیان حسب دستور ۲۶` ۲۷` ۲۸۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا جس میں علاوہ قادیان اور ہندوستان کی دیگر جماعتوں کے شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی قیادت میں پچپن پاکستانی احمدیوں کا ایک قافلہ بھی شامل ہوا اور اس مقدس و مبارک اجتماع کی برکات سے مستفید ہوا۔
اس پہلے پاکستانی قافلہ کے مختصر حالات و کوائف حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے قلم سے درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
>قادیان جانے والے قافلہ کے لئے قریباً درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں سے حکومت کی مقرر کردہ حد بندی کے ماتحت صرف پچاس کا انتخاب کرنا تھا چنانچہ پچاس افراد کا انتخاب کرکے انہیں اطلاع دی گئی کہ ۲۴۔ دسمبر کی شام تک سب لاہور لاہور پہنچ جائیں چنانچہ یہ جملہ پچاس افراد ۲۴۔ دسمبر کی شام تک لاہور پہنچ گئے۔ ان میں تین بوڑھی دیہاتی عورتیں بھی شامل تھیں جو مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے بچوں کو ملنے کے لئے جارہی تھیں جو اس وقت قادیان میں درویشی زندگی بسر کررہے ہیں۔
حسن اتفاق سے حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ایک تقریب کے تعلق میں ۲۴۔ تاریخ کی شام کو لاہور تشریف لے آئے اور قافلہ کی روانگی کے خیال سے ۲۵۔ تاریخ کی صبح کو بھی لاہور میں ٹھہر گئے چنانچہ حضور کی نہایت دردمندانہ اور پرسوز دعائوں کے ساتھ یہ پچاس افراد کا قافلہ ہریکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کی دو لاریوں میں لاہور سے روانہ ہوا۔ یہ قافلہ رتن باغ سے ۲۵ تاریخ کی صبحکو نو بجے روانہ ہوا اور قافلہ کی کل تعداد ۵۴ تھی کیونکہ پچاس ممبران قافلہ کے علاوہ دو ڈرائیور اور دو کلینر کنڈکٹر بھی اس قافلہ میں شامل تھے۔ رستہ میں کچھ وقت رکنے کے بعد قافلہ قریباً ساڑھے دس بجے بارڈر پر پہنچا جہاں مسٹر اے۔ جی چیمہ مجسٹریٹ درجہ اول اور مسٹر ایس۔ ایس جعفری ڈپٹی کمشنر لاہور انہیں رخصت کرنے کے لئے پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے بہت سے دوست بارڈر تک ساتھ گئے ان لوگوں میں یہ خاکسار بھی شامل تھا اور وہاں ہم سب نے روانگی کی آخری دعا کرکے اپنے بھائیوں کو رخصت کیا۔ میری گھڑی کے مطابق ہمارے قافلہ نے دس بج کر پینتیس منٹ پر پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کو عبور کیا اور پھر ہم تھوڑی دیر تک ان کی لاریوں کو دیکھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے لاہور واپس آگئے۔
جیسا کہ پہلے سے پروگرام مقرر تھا قافلہ نے ۲۵۔ دسمبر کو قادیان جاکر ۳۰۔ دسمبر کو واپس آنا تھا چنانچہ یہ قافلہ دو بجے بعد دوپہر قادیان پہنچ گیا اور سب سے پہلے بہشتی مقبرہ میں جاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مزار پر دعا کی جہاں قادیان کے بہت سے دوست قافلہ کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے۔ ایک طرف تو بچھڑے ہوئے بھائیوں سے ملاقات دوسری طرف قادیان کا ماحول اور تیسری طرف بہشتی مقبرہ کا مقام ان سب باتوں نے مل کر اس دعا میں سوز و گداز پیدا کردیا جو اہل قافلہ کی رپورٹ کے مطابق صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ بہرحال ہمارے یہ دوست تیس دسمبر کی صبح تک قادیان میں ٹھہرے اور جلسہ کی شرکت کے علاوہ جو حسب دستور ۲۶` ۲۷` ۲۸ تاریخوں میں مقرر تھا ان ایام کو مقامات مقدسہ میں خاص دعائوں اور عبادت میں گزارا۔ اور سب واپس آنے والے دوست بلا استناء کہتے ہیں کہ قادیان کے جملہ درویش اپنی جگہ نہایت قربانی اور للہیت کے جذبہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے اوقات دعائوں اور نوافل سے اس طرح معمور ہیں جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی سے بھر جاتا ہے۔ اور سب درویش یہ عزم رکھتے ہیں خواہ موجودہ حالات میں ان کا قادیان کا قیام کتنا ہی لمبا ہوجائے وہ انشائاللہ پورے صبر اور استقلال اور قربانی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے بلکہ ان میں سے بعض نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ جب ہم خود انتہائی خوشی اور رضا اور عزم کے ساتھ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے بعض پاکستانی رشتہ داروں کو ہماری وجہ سے کوئی گھبراہٹ ہو۔ قادیان کے قیام کے دوران میں ہمارے دوستوں کو ان ہندوستانی احمدیوں کی ملاقات کا بھی موقع ملا جو ہندوستان کے مختلف صوبوں سے جلسہ کی شمولیت کے لئے قادیان آئے تھے اور ان میں محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیدرآباد دکن اور چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ اور مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت دہلی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری اور سیٹھ محمد اعظم صاحب تاجر حیدرآباد دکن اور سید ارشد علی صاحب ارشد تاجر لکھنو اور مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ مغربی بنگال بھی شامل تھے۔ اور تین دوست کشمیر سے بھی آئے تھے۔ ان ایام میں قادیان کے ہندوئوں اور سکھوں نے پاکستانی اور ہندوستانی زائرین اور بعض درویشوں کو چائے کی دعوت دی اور اس موقع پر ہمارے کئی دوستوں نے جن میں شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ پاکستان اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری شامل تھے دعوت دینے والوں کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ مناسب رنگ میں تبلیغ بھی کی۔ اور ہمارا جلسہ تو گویا مجسم تبلیغ ہی تھا کیونکہ اس میں بیشتر تعداد غیر مسلموں کی شامل ہوئی تھی اور وہ سب ہمارے مقررین کی تبلیغی تقریروں کو نہایت درجہ توجہ اور سکون سے سنتے رہے بلکہ وہ اس بات کو سخت حیرت کے ساتھ دیکھتے تھے کہ یہ چند گنتی کے مسلمان اس درجہ غیر اسلامی ماحول میں گھرے ہوئے ہیں اور پھر بھی کس جرات کے ساتھ ہمیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہمارا قافلہ ۳۰۔ دسمبر کو ۱۱ بجے کے قریب قادیان سے روانہ ہوکر ۴ بجے سہ پہر کے قریب رتن باغ لاہور میں پہنچ گیا اور بہت سے دوستوں نے دعا کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور پھر محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ اور محترمی میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ رپورٹ دینے کی غرض سے ربوہ بھی پہنچے۔ قافہ میں شامل ہونے والے اصحاب کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
۱۔ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور امیر قافلہ ۲۔ مولوی محمد صدیق صاحب مبلغ مغربی افریقہ حال لاہور ۳۔ شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ حال ربوہ ضلع جھنگ ۴۔ شیخ محمد عمر صاحب )مہاشہ( مبلغ ربوہ ۵۔ مرزا واحد حسین صاحب )گیانی( مبلغ ربوہ ۶۔ میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ ۷۔ چوہدری محمد احمد صاحب واقف زندگی کارکن تعلیم الاسلام کالج لاہور ۸۔ شکیل احمد صاحب مونگھیری لاہور ۹۔ منشی عبدالحق صاحب کاتب جودھامل بلڈنگ لاہور ۱۰۔ مولوی عطاء اللہ صاحب واقف زندگی ربوہ ۱۱۔ چوہدری نور احمد صاحب سابق خزانچی صدر انجمن حال ملتان ۱۲۔ چوہدری غلام محمد صاحب کوٹ رحمت خاں شیخوپورہ ۱۳۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم جلیانوالہ لائلپور ۱۴۔ مرزا مہتاب بیگ صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ ۱۵۔ مرزا محمد حیات صاحب مالک دواخانہ رفیق حیات سیالکوٹ ۱۶۔ خواجہ محمد عبدالل صاحب عرف عبدل جہلم۔ ۱۷۔ خواجہ عبدالواحد صاحب گوجرانوالہ ۱۸۔ والدہ عثمان علی درویش بنگالی حال ربوہ ۱۹۔ چوہدری فضل احمد صاحب ہیڈ ماسٹر بھکر )میانوالی( ۲۰۔ محمد یعقوب صاحب کاتب الفضل لاہور ۲۱۔ مستری عبدالحمید صاحب گوجرہ لائل پور ۲۲۔ ملک نورالحق صاحب دوالمیال جہلم ۲۳۔ ملک محمد شفیع صاحب منٹگمری ۲۴۔ چوہدری لال خاں صاحب کھاریاں گجرات ۲۵۔ چوہدری فیض احمد صاحب گھٹیالیاں چیف انسپکٹر بیت المال ربوہ ۲۶۔ حاجی خدا بخش صاحب میانوالی مہاراں سیالکوٹ ۲۷۔ مبارک احمد صاحب اعجاز احمد نگر )جھنگ( ۲۸۔ عبدالغفار صاحب شادیوال )گجرات( ۲۹۔ ملک محمد ابراہیم صاحب لالہ موسیٰ )گجرات( ۳۰۔ محمد یوسف صاحب شادیوال )گجرات( ۳۱۔ ڈاکٹر برکت اللہ صاحب کوٹ فتح خان )کیمبلپور( ۳۲۔ مرزا احسن بیگ صاحب ٹنڈوآدم سندھ ۳۳۔ میاں مولا بخش صاحب خانقاہ ڈوگراں )شیخوپورہ( ۳۴۔ ملک عبدالکریم صاحب ترگڑی )گوجرانوالہ( ۳۵۔ شیخ عبدالکریم صاحب چنیوٹ ۳۶۔ )چوہدری نور محمد صاحب کوئٹہ ۳۷۔ مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ پریم کوٹ )گوجرانوالہ( ۳۸۔ قاضی مبارک احمد صاحب احمد نگر )جھنگ( ۳۹۔ چوہدری محمد خاں صاحب بن باجوہ )سیالکوٹ( ۴۰۔ منور احمد صاحب پسر مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی چنیوٹ ۴۱۔ ملک نیاز محمد صاحب کسمووال )منٹگمری( ۴۲۔ ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب لاہور ۴۳۔ میاں مبارک احمد صاحب پنڈی چری )شیخوپورہ( ۴۴۔ سردار محمد صاحب بہوڑہ چک نمبر ۸ )شیخوپورہ( ۴۵۔ مسماۃ جیوا رتن باغ لاہور ۴۶۔ ڈاکٹر محمد دین صاحب ایمن آباد )گوجرانوالہ( ۴۷۔ منیر احمد صاحب احمد نگر )جھنگ( ۴۸۔ مرزا عبدالمنان صاحب۔ واہ )کیمبلپورہ( ۴۹۔ منظور احمد صاحب شیخ پور )گجرات( ۵۰۔ ڈاکٹر محمد احمد صاحب حمیدیہ فارمیسی جڑانوالہ )لائل پور(
‏body] g[taان کے علاوہ دو مزید احمدی دوست یعنی مستری عبدالحکیم صاحب لاہور اور میاں نذیر احمد صاحب ڈسکہ کنڈکٹر کی حیثیت میں شامل ہوئے<۔۵۸
پاکستانی قافلہ کا خیرمقدم
قادیان کی انوار وبرکات سے فیضیاب پاکستانی قافلہ کے خیرمقدم کا منظر بڑا ہی پرکیف تھا۔ اس خوش نصیب قافلہ نے جو واہگہ کی پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی پاکستان زندہ باد` احمدیت زندہ باد اور حضرت امیرالمومنین زندہ باد کے نعرے بلند کئے۔ جماعت احمدیہ لاہور کے بہت سے احباب نے آگے بڑھ کر زائرین کا استقبال کیا اور زیارت مرکز سے مشرف ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ امیر قافلہ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے احباب لاہور کو درویشان قادیان کا ایک مختصر لیکن پیارا پیغام سنایا جو السلام علیکم اور درخواست دعا کے دو مختصر جملوں پر مشتمل تھا۔ قافلہ دعائیں کرتا ہوا واہگہ سے روانہ ہوکر رتن باغ پہنچا جہاں مقامی جماعت کے بہت سے احباب جمع تھے قافلہ کے یہاں پہنچنے پر فضا دوبارہ نعروں سے گونج اٹھی۔ زائرین نے رتن باغ کی مسجد میں نماز عصر ادا کی جس کے بعد امیرقافلہ نے ایک رقت آمیز دعا کرائی اور تمام زائرین کو جانے کی اجازت دی۔۵۹
دوسرا باب )فصل ہفتم(
قادیان اور ربوہ میں سالانہ جلسہ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء
حسب سابق اس سال بھی احمدیت کے دائمی مرکز قادیان کا سالانہ جلسہ ۲۶ تا ۲۸ ماہ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو زنانہ جلسہ گاہ میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں قریباً ایک ہزار افراد نے شرکت کی۔ تقسیم ہند کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی احمدی شامل جلسہ ہوئے۔ زائرین میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر مقیم جالندھر میجر جنرل راجہ عبدالرحمن صاحب کا نام قابل ذکر ہے۔ جلسہ میں ۱۳۸ ہندوستانی احمدی تشریف لائے جن میں چار مستورات اور پانچ بچے بھی شامل تھے۔ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر جماعت قادیان نے اپنی افتتاحی تقریر میں بعض مقتدر احمدی اکابر کے پیغامات اور دنیا بھر کے احمدی مشنوں کے مراسلات سنائے۔ ازاں بعد پاکستانی قافلہ کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے صدارتی تقریر میں بتایا کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے دیگر بابرکت ارشادات کے علاوہ مجھے یہ پیغام پہنچانے کے لئے فرمایا تھا کہ >اپنے رب پر بھروسہ رکھو۔ اس کی کامل اطاعت کرو۔ اس پر کامل یقین اور اس کی کامل اطاعت کے ساتھ دنیا میں امن قائم ہوسکے گا<۔
مندرجہ ذیل مقررین نے اس جلسہ سے خطاب کیا:۔
۱۔
مکرم عبدالحمید صاحب عاجز )ہستی باری تعالیٰ(
۲۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر )ذکر حبیبﷺ(~
۳۔
مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی )حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے(
۴۔
مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی )پیشگوئی مصلح موعودؓ(
۵۔
مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری )صداقت مسیح موعودؑ(
۶۔
مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مولف >اصحاب احمد< )جماعت احمدیہ کا سلوک غیر مسلموں سے(
۷۔
مکرم مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی )صداقت مسیح موعودؑ از روئے ہندو سکھ مذہب(
۸۔
مکرم مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ کلکتہ )اسلام اور کمیونزم۔ قادیان سے ہماری ہجرت(
۹۔
مکرم مولوی عبدالقادر صاحب دہلوی )اسلام میں عورت کا درجہ(
۱۰۔
مکرم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی بی۔ اے )قادیان کی تاریخ(
۱۱۔
مکرم گیانی مرزا واحد حسین صاحب )سکھ مسلم اتحاد(
۱۲۔
حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری )حکومت و رعایا کے تعلقات اسلام کے نقطہ نظر سے(
۱۳۔
مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب )ہندو مسلم اتحاد(
۱۴۔
مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیر )آنحضرت~صل۱~ کے اخلاق قافلہ(
۱۵۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ
۱۶۔
مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ سیرالیون
موخرالذکر مبلغین نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کے موضوع پر اظہار خیال فرمایا۔
اس مبارک اجتماع پر بالاتفاق ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں بھارتی حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ:۔
۱۔ قادیان میں مقیم درویشوں کو یہ اجازت ضرور ملنی چاہئے کہ ان کے اہل و عیال ان سے مل سکیں۔
۲۔ قادیان میں قریباً پچاس ساٹھ ایسے احمدی زائر مقیم ہیں جو ایام فسادات میں یہاں آئے تھے اور اب وہ واپس اپنے وطن پاکستان جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ اس کے علاوہ قادیان کے بعض ابتدائی باشندے یہاں ازسرنو آباد ہونا چاہتے ہیں۔۳۔ حکومت نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کی قیمتی جائداد متروکہ قرار دے کر اپنے قبضہ میں لے رکھی ہے حالانکہ یہ انجمن اب بھی قادیان میں قائم ہے۔
۴۔ قادیان کے بعض تعلیمی اداروں کو بہت جلد واگزار کردیا جائے کیونکہ محض ان اداروں کے نہ ہونے کی وجہ ہی سے احمدی بچوں کی تعلیم نظرانداز ہورہی ہے۔
۵۔ جو ہندوستانی احمدی مذہبی اور دینی تعلیم سیکھنے کے لئے باہر جانا چاہیں انہیں ہ قسم کی سہولتیں دی جائیں۔
۶۔ احمدیوں کی جو مسجدیں اور قبرستان ملکی فسادات کے دوران مسمار کئے جاچکے ہیں وہ واگزار کی جائیں اور ان کی مرمت و تعمیر کے لئے مناسب انتظامات کئے جائیں۔
۷۔ قادیان احمدیوں کا مذہبی مرکز سے مگر حکومت نے شرنارتھیوں کو بعض حالات کے تقاضا کے تحت اس میں رہنے کی اجازت دے دی ہے نیز قادیان میونسپلٹی نے قادیان کے بعض ایسے محلوں اور گلیوں کے اسلامی نام بدل دیئے ہیں جن سے مذہبی تقدس اور سلسلہ احمدیہ کی بعض قدیم روایات وابستہ ہیں۔ اس اقدام سے احمدیوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ قادیان کے محلوں اور گلیوں کے پہلے اسلامی نام بحال کئے جائیں ورنہ جماعت احمدیہ کے مذہبی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
جلسہ قادیان میں شامل ہونے والے ہندوستانی
اس مبارک جلسہ میں ہندوستان کے طول و عرض سے جو مخلص احمدی شامل ہوئے ان کے نام یہ ہیں۔
۱۔
مولانا بشیر احمد صاحب انچارج احمدیہ مشن دہلی و امیر جماعت احمدیہ دہلی امیر وفد
۲۔
محمود حسین صاحب کمپونڈر دہلی
۳۔
مکرم نبی حسن صاحب احمدیہ فرنیچر سٹور دہلی
۴۔
مکرم مختار احمد صاحب پسر بابو نذیر احمد صاحبؓ دہلی سابق امیر جماعت احمدیہ دہلی
۵۔
مکرم محمد حسین صاحب دہلی
۶۔
عبدالمجید صاحب دہلی
۷۔
محترمہ اہلیہ صاحبہ مولانا بشیر احمد صاحب مبالغ دہلی
۸۔
محترمہ اہلیہ ثانی بابو نذیر احمد صاحبؓ سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور
۹۔
‏ind1] gat[ محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ منیر احمد صاحب ابن بابو نذیر احمد صاحبؓ سابق امیر جماعت احمدیہ دہلی
۱۰۔
مکرم حافظ سخاوت علی صاحب شاہجہان پور۔ یوپی
۱۱۔
مکرم حاجی محمد نذیر صاحب شاہجہان پور۔ یوپی
۱۲۔
مکرم الطاف خان صاحبؓ اودے پورکٹیا ضلع شاہجہان پور یوپی۔
۱۳۔
مکرم امام علی صاحب اودے پور کٹیا ضلع شاہجہان پور یوپی۔
۱۴۔
مکرم قریشی محمد عقیل صاحب۔ شاہجہان پور۔ یوپی
‏in1] g[ta۱۵۔
مکرم سید قاسم میاں صاحبؓ شاہجہان پور۔ یوپی
۱۶۔
مکرم انوار محمد صاحب راٹھ ضلع ہمیرپور۔ یوپی
۱۷۔
مکرم اسرار محمد صاحب راٹھ ضلع ہمیرپور یوپی
۱۸۔
مکرم محمد تقی صاحب مودھا ضلع ہمیرپور یوپی
۱۹۔
مکرم محمد کریم صاحب مکڑ ضلع ہمیرپور یوپی
۲۰۔
مکرم دیدار محمد صاحب راٹھ ضلع میرپور یوپی
۲۱۔
مکرم محمد حنیف صاحب مکہریا ضلع ہمیرپور یوپی
۲۲۔
مکرم سید ارشد علی صاحب مرحوم لکھنو یوپی
۲۳۔
مکرم قریشی مختار احمد صاحب مرہوم لکھنو یوپی
۲۴۔
مکرم اختر حسین صاحب لکھنو یوپی۔
۲۵۔
مکرم حاجی بشیر احمد صاحب بجوپورہ ضلع سہارنپور یوپی
۲۶۔
مکرم ٹھیکیدار بشیر احمد صاحب بھکرہ ضلع مظفر نگر یوپی
۲۷۔
مکرم مولوی عبداللطیف صاحب مبلغ رینیٹہ ضلع مظفر نگر یوپی
۲۸۔
مکرم امیر احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۲۹۔
مکرم انوار احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۳۰۔
مکرم جمشید احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۳۱۔
مکرم سلیمان احمد سلیمان ضلع مظفرنگر یوپی
۳۲۔
مکرم سجاد احمد صاحب ضلع مظفرنگر یوپی
۳۳۔
مکرم فرمان احمد صاحب ضلع مظر نگر یوپی
۳۴۔
مکرم گیانی بشیر احمد صاحب مبلغ بجوپورہ ضلع سہارنپور یوپی
۳۵۔
مکرم مولوی محمد صادق صاحب مبلغ۔ شاہجہانپور یوپی
‏in1] ga[t۳۶۔
مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب مبلغ ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۳۷۔
مکرم بہادر خان صاحب مکرم ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۳۸۔
مکرم سردار خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۳۹۔
مکرم بشیر احمد خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۴۰۔
مکرم سعید احمد خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۴۱۔
مکرم عنایت اللہ خان صاحب ساندہن ضلع آگرہ یوپی
۴۲۔
مکرم منور احمد خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
)مکرم پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ(
۴۳۔
مکرم جعفت خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
۴۴۔
مکرم محمود احمد خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
۴۵۔
مکرم عزیز احمد خان صاحب صالح نگر آگرہ یوپی
۴۶۔
مکرم ماسٹر جان الحق صاحب میرٹھ یوپی
۴۷۔
مکرم ماسٹر بشیر احمد صاحب میرٹھ۔ یوپی
۴۸۔
مکرم مولوی خورشید احمد صاحب بنارس یوپی
۴۹۔
مکرم قریشی محمد یونس صاحب بریلی یوپی
۵۰۔
مکرم قریشی حبیب احمد صاحب بریلی یوپی
۵۱۔
مکرم قریشی مسعود احمد صاحب بریلی یوپی
۵۲۔
مکرم حاجی بقاء اللہ صاحبؓ بھوپال یوپی
۵۳۔
مکرم افتخار احمد صاحب بھوپال یوپی
۵۴۔
مکرم ملک علی بخش صاحب بھوپال یوپی
۵۵۔
مکرم ارشاد احمد صاحب امروہہ۔ یوپی
۵۶۔
مکرم ضمیر احمد صاحب امروہہ۔ یوپی
۵۷۔
مکرم محمد صدیق صاحب۔ امروہہ۔ یوپی
۵۸۔
مکرم علائو الدین صاحب امروہہ۔ یوپی
۵۹۔
مکرم محمد اسماعیل صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۰۔
مکرم ننھے میاں صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۱۔
مکرم منشی عبدالرحیم صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۲۔
مکرم ماسٹر عبدالحمید صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۳۔
مکرم رحیم اللہ صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۴۔
مکرم عبدالحئی صاحب امروہہ۔ یوپی
۶۵۔
مکرم بشیر اہمد صاحب مراد آباد۔ یوپی
۶۶۔
مکرم شہامت علی صاحب کانپور۔ یوپی
۶۷۔
مکرم مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ حیدرآباد دکن
۶۸۔
مکرم حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ مبلغ حیدر آباد دکن
۶۹۔
علی محمد الٰہ دین صاحب حیدر آباد۔ دکن
۷۰۔
مکرم محمود احمد صاحب۔ حیدرآباد۔ دکن
۷۱۔
مکرم صالح محمد الٰہ دین صاحب حیدر آباد۔ دکن
۷۲۔
مکرم مسیح الدین صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۳۔
مکرم عبدالرئوف صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۴۔
مکرم محمد احمد صاحب غوری حیدرآباد۔ دکن
۷۵۔
مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۶۔
محترمہ اہلیہ صاحبہ سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۷۔
محترمہ انیہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۸۔
محترمہ امینہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۷۹۔
‏ind1] g[ta مکرم محمد انور صاحب ابن سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد۔ دکن
۸۰۔
مکرم سیٹھ معین الدین صاحب حیدرآباد۔ دکن
۸۱۔
مکرم محمد اسماعیل صاحبؓ )یادگیر( حیدرآباد۔ دکن
۸۲۔
مکرم محمد یعقوب صاحب حیدرآباد دکن
۸۳۔
مکرم عبدالحی صاحب حیدرآباد دکن
۸۴۔
مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب بمبئی
۸۵۔
مکرم مولوی محمد دین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ بمبئی
۸۶۔
مکرم عبدالحق صاحب بمبئی
۸۷۔
مکرم شیر محمد صاحب بمبئی
۸۸۔
مکرم حضرت مولوی عبداللہ صاحب مالا باریؓ مبلغ سلسلہ احمدیہ۔ مالا بار
۸۹۔
مکرم عبدالرشید صاحب مالابار
۹۰۔
مکرم مولوی زین الدین صاحب مالابار
۹۱۔
مکرم صدیق امیر علی صاحب مالابار
۹۲۔
مکرم عبداللہ صاحب مالابار
۹۳۔
مکرم محمد صاحب مالابار
۹۴۔
مکرم علی محی الدین صاحب مدراس
۹۵۔
مکرم شیخ محمد رفیق صاحب مدراس
۹۶۔
مکرم حضرت سید بزارت حسین صاحب۔ اورین۔ بہار
۹۷۔
مکرم ڈاکٹر سید منصور احمد صاحب۔ مظفرپور۔ بہار
۹۸۔
مکرم سید غلام مصطفیٰ صاحب مظفرپور۔ بہار
۹۹۔
مکرم محمد عقیل صاحب کملی مظفرپور۔ بہار
۱۰۰۔
مکرم دوست محمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۱۔
مکرم محسن احمد صاحب مظفرپور۔بہار
۱۰۲۔
‏ind1] [tag مکرم دائود احمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۳۔
مکرم تسنیم احمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۴۔
مکرم حامد احمد صاحب مظفرپور۔ بہار
۱۰۵۔
مکرم محمد عاشق حسین صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۶۔
مکرم محمد خورشید عالم صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۷۔
مکرم محمد نظام الدین صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۸۔
مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب خانپور ملکی بہار
۱۰۹۔
مکرم محمد ظریف صاحب خانپور ملکی بہار
۱۱۰۔
مکرم حافظ الٰہی بخش صاحب خانپورملکی بہار
۱۱۱۔
مکرم حسن محمد صاحب خانپورملکی بہار
۱۱۲۔
مکرم حضرت حکیم خلیل احمدصاحبؓ مونگھیری بہار
۱۱۳۔
مکرم سید عبدالغفار صاحب مونگھیری بہار
۱۱۴۔
مکرم مولوی محمدسلیم صاحب فاضل مبلغ کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۵۔
مکرم چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ
۱۱۶۔
‏ind1] gat[ مکرم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۷۔
مکرم میاں دوست محمد صاحبؓ کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۸۔
مکرم ڈاکٹر اصغر حسین صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۱۹۔
مکرم بابو محمد صدیق صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۰۔
مکرم سید عبدالشکور صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۱۔
مکرم مقصود احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۲۔
مکرم سید بشیر احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۳۔
مکرم سید بشیر الرحمن صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۴۔
مکرم میاں شریف احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۵۔
مکرم میاں محمد انور صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۶۔
مکرم میاں شفیق احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۷۔
مکرم مولوی فضل کریم صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۸۔
مکرم سہیل احمد صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۲۹۔
مکرم سیف الدین صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۰۔
مکرم مخلص الرحمن صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۱۔
مکرم حافظ عبدالمنان صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۲۔
مکرم سراج الدین صاحب کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۳۔
مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب مرحوم انسپکٹر بیت المال کلکتہ۔ مغربی بنگال
۱۳۴۔
مکرم کالے خان صاحب اڑیسہ مغربی بنگال
۱۳۵۔
مکرم رحیم بخش صاحب اڑیسہ مغربی بنگال
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ
اس تاریخی جلسہ کی نسبت پاکستان کے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے خصوصی نمائندہ کے قلم سے حسب ذیل نوٹ سپرد اشاعت کیا۔
‏QADIAN AT JALSA 59th
‏Present Ahmediyas Thousand
‏Correspondent) Own OUt (From
‏ Including Muslims Ahmediya 56 years, 21 nearly after 28- ۔Dec ۔QADIAN Bashir Sheikh by headed womens, two from Sunday on here arrived Ahmad, of community Ahmediya the of Jalsa Annual 59th the for Pakistan Indian 38 ,ylsuoenasimult Qadian women four including Muslims Ahmediya the of parts all from drawn children five and۔Sunday on here arrived country
‏ Ahmediya the to escorted were They in lodged were and town the in colony witnessed were seenes Touching houses, different Pakistani the met Ahmediyas Indian the when mosque the in both prayers offered them of All ۔Ahmediyass۔yard given Bahisit the at and
‏ own their and police armed by guraded Closely was Jain the volunteers, was and compound year's spreviou the in held ۔all in persons ,000 about by attended Pakistan's ۔Rehman Abdur General۔Major was visitors the Among۔Jullundur in Commissioner High Deputy
‏ the inaugurated Ahmediyas, local the of head Jutt, Rehman Abdur Maulvi the as it describing Jalsu, Ahmediyas distinguished from messages out read and partition, after third from branches of head and۔world the of parts all
‏ Pakistan from delegation the headed who Ahmed, Bashir Sheikh Mirza Hazrat how mentioned He Chair, the doccupe then Mahmood Din۔ud۔Bashir message special a them send not could preoccupations to owing Ahmad to come had the but year this to them asked blessings his in had and off them see had He ۔God in falth with on carry۔God in faith through world the in peace be could there that said also
‏ visit to anxlous were Ahmediyas Pakistan Although pecullar had and importance international an acquired had which Qadian, faith, their for sanctly could they control their beyond elrcumstances of esubeca that hoped however ۔so do not reign the and run lon the in prevall would will God's۔disappear soon would world, the ecllpsing temporarlly Batan of
‏TEACHINGS OF SIMILARITY
‏ religions on discourses of consisted Juisa The existence the to training subjects his of some founders, the of propheets and deeds God, of the of teachings the and mhacles, of similiarity the on emphasts great said speakers The ۔faith Ahmediya ۔Hindustan including rellgons all of sgnihteac stressed they and Christtanity and lam is Sikhism of understanding proper for need the and hatred of feelings discarding view, of point other's each۔animostly
‏ sponsored was which resolution, lengthy a adopted Jaisa The and Ahmediyas indian the by by voted unanimously also the to gratitude expressed It ۔Ahmediyas Indian the East and India of Governments the for provided facilities the for Punjab Ahmediyas of participation convey to permision tought and Pakistan and India morfrequests: following the
‏ the of headquarters religious and spiritual the is Qadian That (1) ۔world the over all spread community Ahmediya leave to had Ahmediyas Several and 1947 of disturbances the to owing plae this۔here settle and return to anxious now were
‏ arranged, be cannot Ahmediyas all of retugn the as long So (2) Qadian the living still those of famllies the ۔them visit to allowed be should
‏ pllgrims Ahmediyas 60 to 60 are There (3) disturbances the during here dearriv who to anxious are they and 947 of eiderly some Likewise ۔Pakistan in homen their to back go۔here return to eager are Qadian of inhabitants
‏ belonging crores two worth Property (4) body a Qadian, Anjuman Sadar the to as Government by seized 1906, in registered its because restored be should property evacuce Qadian at be to continued headquarters۔migrated never had members its and
۔etc hostels, institutions, education their of Most (5) the as them to restored be also dluohs being was Ahmediyas Indian of education۔imparied seriously
‏ Indian allowed be should facilities Adequate (6) frequent perform to wanted who Ahmediyas۔education religious recive or pilgrimage
‏ of damaged were ۔etc graveyards, mosques, their of Serveral (7) These ۔947 of distirbances the during destroyed۔repair for made arrangements suitable and estored be should
‏ and Ahmediyas the of centre religious the is Qadian (8) settled has Government the although the cicrumstances, of stress the under refugees changing in Committe Municipal local of action religious the injures mohallas and streets of names Islamic community Ahmediyas The ۔Ahmediyas of susceptibilites the restore to Government the Requests religious the potect and names Islamic۶۰۔community the of rights
‏tav.12.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
جلسہ ربوہ
ٹھیک انہی تاریخوں میں جبکہ حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی مقدس بستی میں شمع احمدیت کے پروانے تبع ہو۔ سرزمین ربوہ میں احمدیت کے نئے مرکز کا دوسرا سالانہ جلسہ منعقد ہوا جس میں دیگر علمائے سلسلہ کی تقاریر کے علاوہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اپنے روح پرور اور ایمان افروز خطابات سے نوازا۔
حضور نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا:۔
>ہماری موجودہ مثال ان کمزور پرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں سستانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور شکاری جو ان کی تاک میں لگا ہوا ہوتا ہے ان پر فائر کردیتا ہے اور وہ پرندے وہاں سے اڑ کر ایک دوسری جگہ پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم بھی آرام سے اور اطمینان سے دنیا کی چالاکیوں اور ہوشیاریوں اور فریبوں سے بالکل غافل ہوکر` کیونکہ مومن چونکہ خود چالاک اور فریبی نہیں ہوتا وہ دوسروں کی چالاکیوں اور فریبوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اپنے آرام گاہ میں اطمینان اور آرام سیے بیٹھے تھے اور ارادے کررہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اڑ کر امریکہ جائے گا` کوئی انگسلتان جائے گا` کوئی جاپان جائے گا اور دین اسلام کی اشاعت ان جگہوں میں کرے گا لیکن چالاک شکاری اس تاک میں تھا کہ وہ ان غافل اور سادہ لوح پرندوں پر فائر کرے چنانچہ اس نے فائر کیا اور وہ چاہا کہ وہ ہمیں منتشر کردے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں پرندہی قرار دیا گیا ہے اپنے اندر ایک اجتماعی روح رکھتی تھی<۔
>مشرقی پنجاب سے بہت سی قومیں بہت سے گائوں نکلے` بہت سے شہر نکلے` بہت سے علاقے نکلے لیکن انہوں نے اپنے فعل سے ثابت کردیا کہ وہ قومی روح اپنے اندر نہیں رکھتے تھے۔ وہ پراگندہ ہوگئے` وہ پھیل گئے` وہ منتشر ہوگئے یہاں تک کہ بعض جگہ پر بھائی کو بھائی کا` باپ کو بیٹے کا اور ماں کو اپنی لڑکی کا بھی حال معلوم نہیں۔ صرف وہ چھوٹی سی قوم` وہ تھوڑے سے افراد جو دشمن کے تیروں کا ہمیشہ سے نشانہ بنتے چلے آئے ہیں۔ اور جن کے متعلق کہنے والے کہتے تھے کہ دشمن کے حملہ کا ایک ریلا آنے دو پھر دیکھو گے کہ ان کا کیا حشر ہوتا ہے؟ جونہی حملہ ہوا یہ لوگ متفرق ہوجائیں گے منتشر اور پراگندہ ہوجائیں گے وہی ہیں جو آج ایک مرکز پر جمع ہیں وہ کثیر التعداد آدمی جو وہاں سے نکلے تھے وہ پھیل گئے وہ بکھر گئے وہ پراگندہ ہوگئے مگر وہ چھوٹی سی جماعت جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایک معمولی سا ریلا بھی آیا تو یہ ہمیشہ کے لئے منتشر ہوجائے گی وہ مرغابیوں کی طرح اٹھی تھوڑی دیر کے لئے ادھر ادھر اڑی مگر پھر جمع ہوئی اور ربوہ میں آکر بیٹھ گئی چنانچہ جو نظارہ آج تم دیکھ رہے ہو یہ خواہ اتنا شاندار نہیں جتنا قادیان میں ہوا کرتا تھا کیونکہ ابھی ہماری پریشانی کا زمانہ ختم نہیں ہوا لیکن اور کون سی قوم ہے جس کی حالت تمہارے جیسی ہے۔ اور کون سی جماعت ہے جو آج اس طرح پھر جمع ہوکر ایک مقام پر بیٹھ گئی ہے یقیناً اور کوئی قوم ایسی نہیں۔ پس تمہارے اس فعل نے بتا دیا کہ تمہارے اندر ایک حد تک قومی روح ضرور سرایت کرچکی ہے۔ تم اڑے بھی` تم پراگندہ بھی ہوئے` تم منتشر بھی ہوئے مگر پھر جو تمہاری جبلت ہے` وہ تمہاری طینت ہے` جو چیز تمہاری فطرت بن چکی ہے کہ تم ایک قوم بن کر رہتے ہو اور ایک آواز پر اکٹھے ہوجاتے ہو یہ فطرت تمہاری ظاہر ہوگئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت تمہیں ہمیشہ کے لئے پراگندہ نہیں کرسکتی<۔
اس کے بعد حضور نے شعبان ۵ھ۶۲ کے مشہور واقعہ غزوہ بنو مصطلق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:۔
>مجھے اس وقت یاد تو کیا آگیا ایک واقعہ تھا جس کا اس بات کے کہتے کہتے میری آنکھوں کے سامنے نقشہ کھینچ گیا۔ ایک جنگ کے موقع پر انصار اور مہاجرین میں جھگڑا ہوگیا۔ اور یوں معلوم ہونے لگا جیسے آج مہاجر اور انصار آپس میں لڑہی پڑیں گے۔ اس وقت عبداللہ بن ابی ابن سلول دیرینہ منافق ۔۔۔۔ نے کہا اے انصار یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم ان لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سن رہے ہو میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم ایسا قدم مت اٹھائو مگر تم نہ مانے اب شکر ہے کہ میری بات تمہاری سمجھ میں آرہی ہے تم ذرا ٹھہرو اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کمبخت )نعوذ باللہ( مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی محمد رسول اللہ~صل۱~ کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے دور ہوجائے گا۔ عبداللہ کا بیٹا مومن تھا وہ ایک سچا مسلمان تھا جب اس نے اپنے باپ کی یہ بات سنی تو وہ رسول اللہ~صل۱~ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یارسول اللہ~صل۱~ میرے باپ نے جو بات کہی ہے اس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہوسکتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ یہی سزا اسے دیں گے۔ لیکن میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر کسی اور مسلمان کو آپﷺ~ نے کہا اور اس نے میرے باپ کو قتل کردیا اور پھر کوئی کمزوری کا وقت مجھ پر آگیا اور وہ مسلمان میرے سامنے آیا تو ممکن ہے میرے دل میں خیال آجائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میں جوش میں آکر اس پر حملہ کر بیٹھوں اور اس طرح بے ایمان ہوجائوں۔ یا رسول اللہ میری درخواست یہ ہے کہ آپﷺ~ مجھے ہی حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں تاکہ کسی مسلمان کا کینہ میرے دل میں پیدا نہ ہو۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ ہم تمہارے باپ کو قتل کریں اس نے بات کی اور اپنے اندرونہ کو ظاہر کردیا ہماری طرف سے اس پر کوئی گرفت نہیں۔ اب باتت بظاہر ختم ہوگئی اور وہ آئی گئی ہوگئی۔ انصار اور مہاجر آپس میں پھر بغلگیر ہوگئے عبداللہ بن ابی ابن سلول پھر ذلیل اور شرمندہ ہوکر اپنے خیمہ میں جاگھسا۔ پھر انصار اور مہاجرین میں بھائیوں بھائیوں کا سا نظارہ نظر آنے لگا<۔
>غیر اس کی بات بھول گئے` رشتہ دار اس کی بات بھول گئے` دوست اس کی بات بھول گئے` دشمن اس کی بات بھول گئے لیکن اس کا بیٹا اس بات کو نہیں بھولا اور بغیر اس واقعہ کے اسے اور کسی چیز کا خیال تک نہیں آیا۔ جس وقت محمد رسول اللہ~صل۱~ کی سواری مدینہ منورہ میں داخل ہوچکی اور اسلامی لشکر اندر داخل ہونے لگا تو وہ لڑکا اپنی سواری سے کود کر گلی کے کنارے پر کھڑا ہوگیا اور جب اپنے باپ عبداللہ بن ابی کو دیکھا تو اس نے تلوار نکال کر اپنے باپ سے کہا تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیا الفاظ کہے تھے تم نے کہا تھا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ نے تم کو معاف کردیا لیکن میں تمہیں معاف نہیں کروں گا اور تمہیں اس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم تین دفعہ میرے سامنے یہ اقرار نہ کرو کہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ~صل۱~ سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ باپ نے دیکھ لیا کہ آج اس بیٹے کی تلوار میرے پیٹ میں جائے بغیر نہیں رہے گی` آج اس کی تلوار میرے دل کو چیرے بغیر نہیں رہے گی اس نے اپنے سارے ہمنشینوں اور مجلسیوں کے سامنے جن میں وہ اپنی بادشاہت کی لافیں مارا کرتا تھا اقرار کیا کہ ہاں میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور محمد رسول اللہ~صل۱~ سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ مجھے یہ واقعہ یاد آگیا اور میں نے کہا خدا کی رحمتیں ہوں عبداللہ کے بیٹے پر کہ اس نے اس طعنہ کو نہیں بھلایا اور تب تک اس نے آرام نہیں کیا جب تک اپنے باپ کے منہ سے اس نے یہ نہ کہلوایا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ ہی سب سے زیادہ معزز وجود ہیں اور اس کا باپ سب سے زیادہ ذلیل آدمی ہے۔ مگر خدا رحم کرے ہم پر بھی جن کے سامنے دنیا نے محمد رسول اللہ~صل۱~ کو اتنی گالیاں دی ہیں کہ کسی ذلیل انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں مگر ہم آرام سے بیٹھے ہیں۔ ہمارے دلوں میں یہ جوش پیدا نہیں ہوتا کہ ہم وہ بات غیر کے منہ سے کہلوا سکیں جو عبداللہ کے بیٹے نے عبداللہ کے منہ سے کہلوائی۔ کس طرح ہم کو چین آرہا ہے۔ کس طرح ہمارے دل ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول ہیں۔ اگر عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان ہی ہمارے دلوں میں ہوتا حالانکہ چاہئے تھا کہ اس سے بہت زیادہ ایمان ہوتا تو ہمارا فرض تھا کہ دنیا کا سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ہے اور اس کا دشمن سب سے زیادہ ذلیل ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر یہاں جمع ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی عنایت اور اس کی مہربانی سے آئو ہم سچے دل سے یہ عہد کریں کہ ہم کم سے کم عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان دکھائیں گے اور جب تک محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عزت کا اقرار دنیا سے نہیں کروالیں گے اس وقت تک ہم اطمینان اور چین سے نہیں بیٹھیں گے<۔۶۳
حضرت امیرالمومنین کی دوسری تقریریں
حضور نے افتتاحی خطاب کے علاوہ ۲۷` ۲۸۔ فتح/ دسمبر کو مفصل تقاریر فرمائیں جن میں ان پیشگوئیوں پر تفصیلاً روشنی ڈالی جو اس زمانہ میں حضور کے بابرکت وجود سے پوری ہوئیں۔ ربوہ میں زمین خریدنے اور اس میں مکان بنانے کی نصیحت کی۔ غرباء کے مکانات کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی۔ انگریزی ترجمہ قرآن کی ایک اور جلد تیار ہونے کی خوشخبری دی۔ خدام الاحمدیہ کو پابندی نماز` ذکر الٰہی` شعار اسلامی کے قیام خدمت خلق اور بہادری جذبہ قربانی اور ایثار کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا بہادری کا نمونہ دکھائو اور ماریں کھانے` گالیاں سن کر برداشت کرنے کی عادت ڈالو لیکن بے غیرتی مت دکھائو کیونکہ بہاری بے غیرتی کا نام نہیں۔ زراعت کے تعلق میں اگلے سال احمدی زمینداروں اور ماہرین فن کی ایک مجلس شوریٰ بلانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تجارت کے بارے میں بتایا کہ اس کے بغیر جماعت ترقی نہیں کرسکتی نیز یہ کہ ہم نے ایک چمبر آف کامرس قائم کیا ہے۔ چھوٹے بڑے سب تاجروں کو چاہئے کہ وہ اس میں شامل ہوں تا جماعت منظم ہوسکے۔ حضور نے دوران تقریر مہاجرین کو خوش رہنے کی بھی تلقین فرمائی۔ پھر اس تجویز کا اعلان کیا کہ قاضیوں کا بورڈ قائم کیا جائے جو مشرقی پنجاب سے آنے والے مقروضوں کے تنازعات کا فیصلہ کرے۔ جس شخص کا کسی دوسرے کے ذمہ قرض ہو وہ محکمہ قضاء میں نالش کرے۔ البتہ اگر کسی کو رجسٹرڈ یا لمیٹڈ کمپنیوں کے بارہ میں شکایت ہو تو وہ سرکاری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے کیونکہ معاملہ کو لٹکانا فساد پیدا کرتا ہے اور اس سے دلوں پر زنگ لگتا اور فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ الغرض حضور نے پیش آمدہ حالات میں احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی۔۶۴
جلسہ ربوہ کی بعض خصوصیات
اس جلسہ میں گزشتہ جلسہ کے مقابل سامعین کی تعداد تیرہ ہزار سے بڑھ کر تیس ہزار تک پہنچ گئی جیسا کہ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پاکستان ٹائمز )مورخہ( ۳۱۔ دسمبر ۱۹۴۹ء نے سٹار نیوز ایجنسی کے حوالہ سے خبر شائع کی۔
جلسہ میں مستورات کے لئے ایک الگ لنگر خانے کا انتظام کیا گیا۔ لجنہ اماء اللہ کی منتظمات اپنی ضرورت کے مطابق کھانا پکواتیں اور اپنے زیر نگرانی تقسیم کراتی تھیں۔ یہ پہلا تجربہ تھا جو بہت کامیاب رہا۔
اس دفعہ مہمانوں کے قیام کے لئے دو سو بیرکیں تیار کی گئیں جن میں حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی ہدایت کے مطابق کچی اینٹوں کے علاوہ پانچ لاکھ پکی اینٹیں بھی استعمال کی گئیں۔ یہ کام حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ کی مسلسل تگ ودو اور شب روز کی محنت شاقہ سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بیرکوں کے علاوہ پانچ سو پینتیس خیموں اور چھلداریوں کا بھی بندوبست کیا گیا۔
ماہ شہادت ۳۲۸ہش/ اپریل ۹۴۹ء کے پہلے جلسہ ربوہ میں تو مصارف کثیر کے باوجود پانی کی سخت دقت رہی تھی اور ٹینکروں کے ذریعہ ساڑھے سات میل کے فاصلہ سے پانی منگوانا پڑا تھا مگر اس جلسہ پر زندہ خدا کا یہ زندہ نشان ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی اس بشارت کے مطابق کہ ربوہ میں باافراط پانی میسر آنے لگا۔۶۵ نہ صرف یہ کہ ربوہ کی بنجر اور کلر زدہ زمین میں سے میٹھا پانی نکلا بلکہ اس کثرت سے نکلا کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے تیس ہزار مہمانوں کی ضروریات باسانی پوری ہوتی رہیں۔ اور پھر نکلا بھی عین اس جگہ کے قریب جو پہلے سے پاس شدہ نقشہ کے مطابق حضرت مصلح موعود کے مکان کے لئے مخصوص تھی۔۶۶
دوسرا باب )فصل ہشتم(
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال متعدد جلیل القدر صحابہ نے انتقال کیا جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:۔
۱۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی۶۷:۔
)ولادت اندازاً ۱۸۶۹ء۔ بیعت ۲۳۔ نومبر ۱۸۸۹ء۔ وفات ۱۷۔ امان ۱۳۲۸ہش/ مارچ ۱۹۴۹ء بعمر اسی)۸۰( سال(
حضرت مسیح محمدی علیہ السلام کے ان اولین صحابہ میں سے تھے جن کو بیعت اولیٰ سے بھی قبل حضورؑ سے تعلق عقیدت وارادت تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے تین سو تیرہ اصحاب کبار میں آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام میں ۱۹۸ نمبر پر اور ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۲ نمبر پر درج فرمایا۔
۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حکم پر ایک سہ رکنی وفد نصیبین کے آثار قدیمہ کی چھان بین اور سفر مسیح ناصری کی مزید تحقیقات کے لئے تیار کیا گیا۔ اس موقعہ پر سیکھوانی برادران نے جو مالی قربانی پیش کی اس پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قلم مبارک سے اظہار خوشنودی کیا اور تحریر فرمایا:۔
>ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں۔ گویا حضرت ابوبکرؓ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی<۔۶۸
۱۹۰۰ء میں جب حضور علیہ السلام نے مینارۃ المسیح کے لئے اپنے خدام سے ایک ایک سو روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی تو حضرت میاں صاحبؓ اور ان کے بھائیوں نے مع اپنی والدہ ماجدہ کے درخواست پیش کی کہ ہم اس چندہ میں شامل ہونا اپنی سعادت سمجھتے ہیں لیکن اس قدر وسعت نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک سو سو روپیہ دے سکے اس لئے ہم چاروں ہی ایک سو روپیہ دیں گے اگر منظور فرمایا جاوے۔ حضور نے یہ درخواست منظور فرمالی اور جب خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں مینارۃ المسیح کی تکمیل ہوئی تو ان تینوں خوش نصیب بھائیوں اور ان کی والدہ کے نام مینارۃ المسیح پر کندہ کئے گئے۔۶۹
حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً دوسروں کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے لیکن بعض دفعہ آپؑ خود بھی نماز پڑھاتے تھے۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ نے دو بار حضورؑ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ ایک بار قبل از دعویٰ مسجد اقصیٰ میں شام کی نماز جس کی ایک رکعت میں حضورؑ نے سورۃ والتین کی تلاوت فرمائی۔ دوسری دفعہ نماز ظہر حضورؑ کی اقتداء میں پڑھنے کا موقع ملا۔ حضورؑ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے جارہے تھے اور حضورؑ نے یہ نماز بڑی نہ پر پڑھائی۷۰ آپ نظام الوصیت سے بھی وابستہ تھے اور مجاہدین تحریک جدید بھی شامل تھے۔ پنجگانہ نماز بلکہ تہجد کا نہایت درجہ التزام رکھتے تھے۔ روزوں کی پابندی میں اپنی نظیر آپ تھے۔ ۳۲۶ہش/ ۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کرکے جہلم شہر میں فروکش ہوگئے تھے جہاں گاڑی کے ایک حادثہ سے انتقال فرما گئے۔۷۱
۲۔ میاں خیرالدین صاحب متوطن قادر آباد متصل قادیان:۔
)ولادت۷۲ جنوری ۱۸۸۹ء بیعت۷۳ ۱۹۴۰ء` زیارت۷۴ ۱۹۰۴ء` وفات۷۵ ۴۔ وفا ۱۳۲۸ہش مطابق ۴۔ جولائی ۱۹۴۹ء بمقام احمد نگر ضلع جھنگ(
آپ کے والد میاں محمد بخش صاحب ابتداء میں ہی شامل احمدیت ہوگئے تھے۔ آپ کا گھرانہ گویا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر سایہ ہی رہتا تھا اور نہ صرف یہ کہ اس مبارک خاندان کے دوسرے افراد قادر آباد )قادیان سے متصل ذیلی بستی( میں جاتے اور مستری صاحب کو شرف خدمت حاصل ہوتا بلکہ ایک بار خود حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام تشریف لے گئے۔ فرمایا کرتے تھے جب میں نجاری کا کام سیکھنے لگا تو حضورؑ کے لئے عرض کیا تو حضورؑ نے دعا فرمائی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بے حد برکت دی۔
آپ حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت کے ایک عظیم نشان کے عنی شاہد بھی تھے جس کی تفصیل ان کے الفاظ میں یہ ہے:۔
>جب ہمارے ملک میں طاعون پھوٹی تو ہمارے گائوں قادر آباد میں بھی شروع ہوگئی اور بہت سے لوگ بیمار ہوگئے منجملہ ان میں سے میرے والد صاحب بھی تھے۔ میں اور میری والدہ صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس گئے آپ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے میری والدہ صاحبہ نے سارا حال بیان کیا اور دعا کے لئے عرض کی۔ آپﷺ~ نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور اپنے میز کی دراز سے ایک نرلسبی )جدوار( کی گنڈی دی اور فرمایا کہ اس کو رگڑ کر پھوڑے پر لگائو اور چار پانچ آنے کے پیسے بھی دیئے اور آپ نے یہ حکم دیا کہ تم رب کل شئی خادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی بہت پڑھو اور لوگوں کو بھی پڑھائو۔ میری والدہ صاحبہ نے عرض کیا کہ مجھے یہ دعا یاد نہیں رہے گی آپ اس کو کاغذ پر لکھ دیں تو آپﷺ~ نے یہ دعا ایک کاغذ پر لکھ دی اور یہ بھی فرمایا کہ تم گھروں سے نکل جائو اور لوگوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی گھروں سے نکل جائیں تب ہم نے گھر آکر والد صاحب کی چارپائی گائوں کے باہر درختوں کے نیچے بچھائی اور لوگوں کو بھی کہا کہ تم گھروں سے نکل جائو ۔۔۔۔۔۔۔ جو ان میں سے نکلے وہ بچ گئے اور باقی سب کے سب موت کا شکار ہوئے اور ہم نے حضورؑ کے حکم کے مطابق نرلسبی کی گھنڈی پھوڑے پر لگائی اور دعا رب کل شئی خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی بکثرت پڑھی اور سب لوگوں کو یاد کرائی تب خداوند تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا سے اور آپ کے بیان کردہ علاج سے ہمارے والد صاحب کو شفا بخشی اور ہمیں غموم و ہموم سے نجات بخشی<۔۷۶
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کی بعض مرکزی تعمیرات میں آپ کو خدمت بجا لانے کا موقع ملا۔ تقسیم ملک سے پہلے جماعت احمدیہ قادرآباد کے پریذیڈنٹ تھے۔ ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد اہل وعیال سمیت احمد نگر متصل ربوہ میں پناہ گزین ہوئے یہاں بھی ایک سال تک سیکرٹری ضیافت رہے۔ مہمانوں کی خدمت شوق سے کرتے تھے۔ طبیعت میں بہت فروتنی اور ملنساری تھی۔ بزرگان سلسلہ کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔ اکثر وقت تلاوت قرآن عظیم میں گزارتے تھے۔ خود بھی نمازوں کے پابند تھے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی پابندی صلٰوۃ کی تاکید کیا کرتے تھے۔ موصی اور صاحب رئویا تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کے حالات دردمند لہجے میں سنایا کرتے تھے۔ المختصر ایک نیت سیرت سچے اور مخلص احمدی بزرگ تھے۔۷۷`۷۸
۳۔ حضرت شیخ مشتاق حسین صاحبؓ:۔
)ولادت۷۹ ۱۸۷۸ء` بیعت۸۰ ۱۹۰۰ء` وفات۸۱ ۲۳۔ ظحور ۱۳۲۸ہش مطابق ۲۳۔ اگست ۱۹۴۹ء( حضرت شیخ مشتاق حسین صاحبؓ کے قبول احمدیت کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے دلی دروازہ لاہور کے باہر جماعت احمدیہ کی طرف سے دیواروں پر ایک پوسٹر لگا ہوا دیکھا جس میں دعویٰ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر تھا۔ پوسٹر پڑھتے ہی آپ کے دل میں حضور علیہ السلام کی محبت پیدا ہوگئی اور آپ نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ اس کے بعد سلسلہ کے ساتھ جوں جوں واقفیت بڑھتی گئی آپ ایمان و عرفان میں ترقی کرتے چلے گئے حتیٰ کہ طاعون کی شدت کے زمانہ میں جبکہ عام موتا موتی لگ رہی تھی اور لوگ پر خوف وہراس طاری تھا آپ دیوانہ وار مصروف تبلیغ رہتے تھے۔ آپ کا قیام ان دنوں اندرون بھاٹی دروازہ لاہور محلہ پٹ رنگاں کے ایک چوبارے میں تھا نچلی منزل میں اور لوگ رہتے تھے جو سب لقمہ طاعون ہوئے جس پر لوگوں نے انہیں چوبارہ خالی کرکے کسی اور مکان میں منتقل ہونے کا مشورہ دیا مگر آپ نے فرمایا کہ طاعون کے کیڑے احمدیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کشتی نوح سے پیش کرکے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم بھی طاعون سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو آئو احمدیت قبول کرلو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں آپ کو سالانہ جلسہ قادیان میں شرکت کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ ۱۵۔ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے مسلمانوں کے مشہور روشن خیال سیاسی لیڈر مسٹر فضل حسین صاحب بیرسٹر کی ملاقات ہوئی۸۲ جس کے دوران آپ بھی موجود تھے جو رئیس دہلی حافظ عبدالکریم صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔۸۳
حضرت شیخ صاحبؓ لاہور میں ریلوے کلرک تھے پھر عہد خلافت اولیٰ میں سرکاری ملازمت ترک کرکے پشاور آگئے اور فوج میں گوشت کی سپلائی کرنے لگے۔ ۱۹۱۳ء میں ان کا قیام سٹھ رحمت اینڈ سنز کے احاطہ میں تھا۔۸۴ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کی اطلاع پشاور میں پہنچی تو آپ پہلے احمدی تھے جنہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فضل عمرؓ کی بیعت بذریعہ تار کی۔ شروع جون ۱۹۱۴ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ غیر مبائعین سے مباحثہ کے لئے پشاور تشریف لے گئے تو آپ ہی کے ہاں مقیم ہوئے۔۸۵
پشاور میں کچھ عرصہ رہائش کے بعد آپ گوجرانوالہ آگئے۔ ۱۹۲۲ء سے مجلس مشاورت میں گوجرانوالہ کی طرف سے نمائندگی کے فرائض انجام دینے لگے۔ قیام گوجرانوالہ کے دوران آپ نے سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت سے متعدد تبلیغی پمفلٹ لکھے۔۸۶
آپ عاشق قرآن تھے اور اکثر پرنم آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ ~}~
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
بارہا فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ قرآن کریم کا طواف کروں۔
آپ سلسلہ کے سارے اخبارات منگوایا کرتے تھے۔ کتابیں بھی خاصی تعداد میں جمع کر رکھی تھیں۔ بعض اوقات کتابوں کے کئی کئی نسخے خریدتے اور زیر تبلیغ افراد میں تقسم کردیتے تھے۔۸۷`۸۸
حضرت شیخ صاحب پانچ ہزاری مجاہدین تحریک جدید میں شامل تھے۔
۴۔ حضرت مرزاغلام رسول صاحبؓ ریڈر جوڈیشنل کمشنر پشاور
)ولادت بیعت۱۹۰۷۸۹ء` وفات۹۰ ۵۔ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق ۵۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء(
اصل وطن موضع پنڈی لالہ ضلع گجرات تھا۔۹۱ بی۔ اے تک تعلیم اسلامیہ کالج لاہور میں پائی تھی۔ آپ بیعت سے قبل کالج کی تعلیم کے دوران بھی اکثر قادیان جاکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت مجلس میں حاضر ہوا کرتے تھے چنانچہ آخر دسمبر ۱۹۰۵ء میں جبکہ حضورؑ نے رسالہ >الوصیت< تصنیف فرمایا آپ قادیان میں تھے۔ ایک روز نماز عصر سے قبل حضرت اقدس مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے کہ آپ مسجد میں پہنچے حضور اس وقت رسالہ >الوصیت< کی وجہ تصنیف اور بہشتی مقبرہ کے قیام کے مقصد پر روشنی ڈال رہے تھے۔۹۲
فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ زندگی` دینی غیرت اور انتہائی درجہ کے تقویٰ و طہارت سے بہت متاثر ہوا۔
خلافت ثانیہ کے قیام پر اگرچہ آپ فوراً مبائعین میں شامل نہیں ہوئے مگر انہیں نور فراست سے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ غیر مبائعین کی اصل جنگ حضرت سیدنا محمود کے خلاف نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ہے تب آپ ان سے بددل ہوگئے۔ پھر ایک روز اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکشاف ہوا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اس وقت قرب الٰہی کے سب سے بلند مقامات پر فائز ہیں اس پر آپ نظام خلافت سے وابستہ ہوگئے۔۹۳
۷۔ مارچ ۱۹۲۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے علاقہ ملکانہ کی شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اس پر جن سرفروشوں نے لبیک کہا ان میں آپ بھی شامل تھے آپ تین ماہ کی رخصت لے کر اس تبلیغی جہاد میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے اور گرانقدر خدمات سرانجام دے کر حضور کی سند خوشنودی حاصل کی۔
دوران جہاد کا واقعہ ہے کہ ۲۶۔ جولائی ۱۹۲۳ء کو موضع اسپار ضلع متھرا میں ایک مسلمان راجپوت غیاثی نام نے مسجد کے باہر مسجد ہی کی زمین میں بکرے کی قربانی کی۔ مرتدین آئے اور خفیہ طور پر گوشت لے گئے قریباً تین بجے بعد دوپہر آریوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے لوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا اور کم و بیش چالیس پچاس کی تعداد میں مسلح ہوکر آپ کی رہائش گاہ پر حملہ کردیا۔ مولوی صاحب کو گالیاں دیں۔ پھر ان کی جھونپڑی پر حملہ کرکے اسے گرا دیا آپ نیچے دب گئے اور ایک شخص نے آپ کو بازوئوں سے کھینچ کر باہر نکالا پھر وہ لوگ آپ کو کھینچتے ہوئے گائوں سے باہر لے گئے آپ اپنے بعض کاغذات لینے کے لئے مسجد میں داخل ہونے لگے تو مسلح لوگ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بزور روکا اور آپ کو دھکے دے کر گائوں بدر کردیا گیا۹۴ مگر آپ اسی گائوں میں ڈٹے رہے۔ چنانچہ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائل پور اس واقعہ کی تفصیل فرماتے ہیں:۔
>۱۹۲۳ء میں مرحوم تین ماہ کی رخصت لے کر تبلیغی جہاد کے لئے آئے تو موضع اسپار ضلع متھرا میں ان کی تعیناتی بطور مبلغ ہوئی۔ گائوں میں ایک کچا کوٹھہ مسجد کے نام سے موسوم تھا اس کے ساتھ ایک چھپر تلے انہوں نے تنہاء ڈیرا جمایا اور کام شروع کیا اور اس خوشی اور حسن تدبیر سے کام کیا کہ قرب وجوار کے آریہ پرچارک اپنی چالبازیوں میں ناکام اور دیوبندی معاندین اپنی دراندازیوں میں خائب و خاسر ہوکر رہ گئے۔ دونوں قسم کے مخالفین کو ایک ایسے ذہین اور فطین حریف سے پالا پڑا تھا جو ہر جوڑ کا توڑ اور ہر زہر کا تریاق ان کے مقابلے میں اپنے پاس مہیا رکھتا تھا۔ اسی طرح یہ کام جاری تھا کہ عیدالاضحیہ آگئی مرزا صاحب مرحوم نے قربانی کا گوشت گائوں میں تقسیم کیا تو شدھی قبول کرنے والوں کے کام ودہن بھی اس سے محروم نہ رہے۔ آریہ پرچارکوں کو جب اس کا علم ہوا تو وہ سرپیٹ کر رہ گئے۔ آخر ایک بڑا مجمع کرکے انہوں نے اشتعال انگیز تقریریں کیں کہ اس مولوی نے گوشت کی چند بوٹیوں سے تمہارا دھرم بھرشٹ کردیا اور ہمارا صرف کثیر اور محنت سب اکارت گئے۔ نتیجہ یہ تھا کہ تیس چالیس بلوائیوں نے مولوی صاحب مرحوم پر ہلہ بول دیا` انہیں زدوکوب کیا اور چھپر ان کے اوپر گرا دیا۔ پھر انہیں زمین پر گھسیٹا اور قتل پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن انہی میں سے چند ملکانے جو مولوی صاحب کے زیر بار احسان تھے مانع آئے اور مولوی صاحب مرحوم کی جان سلامت رہی۔ پھر انہوں نے تقاضا کیا کہ ہمارے گائوں سے نکل جائو۔ مرحوم نے مومنانہ عزم و استقلال سے جواب دیا کہ یہ گائوں میرے امام نے میرے سپرد کیا ہے میں اپنا کام کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتا۔ ~}~
تاسر نہ دہم پانکشم ازسر کویش
نامری و مروی قدمے فاصلہ دارد
ایسے پرخطر ماحول برابر اپنے فرض پر جمے رہے۔ آگرہ ہمارا تبلیغی مرکز تھا وہاں بھی بعد میں اطلاع ہوئی۔ مرحوم کا یہ نمونہ ایسا اعلیٰ تھا کہ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور ہمارے دوستوں کے حوصلے بلند سے بلند تر ہوگئے۔
حالات کا تقاضا تھا کہ مجرموں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے تاکہ دوسرے مبلغین کے خلاف اس قسم کی شرارتیں آریوں کی طرف سے برپا نہ ہوں اور اس کا قوی احتمال بھی تھا۔ پولیس نے بعد تفتیش ملزمان کا چالان نہ کیا تو مولوی صاحب مرحوم کی طرف سے استغاثہ دائر ہوگیا اور شہر متھرا میں بعدالت انگریز مجسٹریٹ مسٹر فرامپٹسن سماعت شروع ہوئی۔ ان دنوں تبلیغی سفر دور ونزدیک کرنے پڑتے تھے۔ ساتھ نہ سامان نہ بستر ~}~
سبکبار مردم سبک تر روند
حق ایں است صاحبدلاں بشنوند
بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کچھ رات گئے گاڑے متھرا سٹیشن پر پہنچی۔ کوئی ٹھکانہ تو تھا نہیں ہم پلیٹ فارم پر ہی ایک طرف کو ایک چادر بچھا کر پڑ رہتے تھے اور مرزا صاحب مرحوم کی زندہ دلی اور خوش طبعی سے باتوں باتوں میں وقت کٹ جاتا اور خود ان کاموں میں ایسی لذت اور سرور محسوس کرتے تھے کہ گویا کوئی مشکل` کوئی بات ہی نہیں۔ مرحوم اس وقت جوڈیشنل کمشنر پشاور کے ریڈر تھے اور اپنی قابلیت اور دیانت کی وجہ سے ممتاز اور معتمد علیہ۔ ناموافق حالات کے ماتحت مقدمہ کی کامیابی بظاہر مشکل نظر آتی تھی لیکن مرحوم کی ذہانت تدبیر اور خصوصاً شبانہ روز دعائوں نے اس مہم کو آسان کرکے چھوڑا۔ مقدمہ کی پیشی کے دن مرحوم کا قاعدہ تھا کہ احاطہ عدالت میں ایک طرف جاکر عالم تنہائی میں گھنٹوں سربسجدہ اور دست بدعا رہتے اور جب مقدمہ کے لئے آواز پڑتی تو اکثر وہ جائے نماز سے اٹھ کر ہی عدالت کے کمرے میں جاتے۔ یہی ان کا معمول اور وظیفہ تھا۔ اور بایں ہمہ ان کی خود اعتمادی` زندہ دلی اور بے تکلفی میں ذرا فرق نہ آتا تھا ہر وقت خوش نظر آتے تھے اور میں انہیں زندہ دل صوفی کہا کرتا تھا۔
اس زمانہ کی ڈائری اتفاق سے میرے پاس محفوظ رہ گئی ہے جس کا ایک ورق مندرجہ بالا کیفیت کا آئینہ دار ہے اور یہ تاریخ فیصلہ مقدمہ سے متعلق ہے۔ وھو ھذا:۔
>۳۔ اکتوبر ۱۹۲۳ء بروز بدھ ۲/۹۱ بجے کچہری پہنچے۔ ہم ورجا میں انتظار و دعا کرتے رہے۔ اتنے میں بارہ بج گئے۔ ہاں رات پیشکار صاحب کو خواب آیا کہ چلتے چلتے ان کی ایڑیاں زخمی ہوگئیں کسی نے مرہم لگایا اور اچھی ہوگئیں۔ اسی شب مجھے دو خواب آئے ایک میں مجسٹریٹ سے میں کہہ رہا ہوں کہ مقدمہ صاف ہے سزا کیوں نہیں دیتے۔ اس نے کہا کہ مستغیث کا بیان کچھ کمزور ہے۔ میں نے کہا حالات کے ماتحت ایسا ہی بیان ہونا چاہئے تھا۔ اس نے کہا اچھا میں سزا تجویز کرتا ہوں اور ایک ملزم تو خود مجھے آکر کہہ گیا ہے کہ اس کے دو بید لگا دو اور فیصلہ لکھنا شروع کیا۔ اسی طرح پیشکار صاحب کو اسی شب خواب آیا کہ عبداللہ سقہ ساکن اسپار نے ایک سانپ ایک سوٹی میں بند کرکے دیا اور چوہدری فتح محمد صاحب نے اسے مار ڈالا۔ صبح ہم نے ایک دوسرے کو خوابیں سنائیں اور کچہری روانہ ہوئے۔ ایک بجے کے قریب آواز پڑی۔ ۱۶ ملزمان میں سے ۱۳ کو سزا ہوئی اور ایک ایک سال کے لئے حفظ امن کی ضمانتیں ملزمان سے لی گئیں اور جرمانہ میں سے یک صد )۱۰۰( روپیہ مستغیث کو حرجانہ دلایا گیا۔ ہمارے دل سجدے میں جھک گئے۔ لپک کر ڈاک خانہ گئے۔ تار بخدمت حضرت صاحب اور خطوط لکھے گئے۔ ملزمان اور ان کے آریہ مربی اور وکلاء مبہوت اور ہم اور ہمارے ملکانے ہمراہی مسرور تھے۔ پیشکار صاحب اسی وقت اسپار جانے کے لئے مشتاق۔ لیکن صلاح ٹھہری کہ اس رات پیشکار صاحب اسپار کی بجائے مانا کے بنگلے ٹھہریں سردار خان آکر اطلاع دے۔ خیال ہے کہ فوری رنج کا اثر زائل ہوکر صبح دیہہ میں امن ہوجائے گا<۔ >دوسرے دن سات اخبارات کے نام فیصلہ مقدمہ کی تاریں دے دی گئیں<۔
مرحوم عجیب مستقیم الحال انسان تھے مقدمہ ختم ہوتے ہی پھر اپنے کام پر جاڈٹے۔ پھر وہی مسجد کا کچا کوٹھہ وہی چھپر اور پھر وہی تبلیغ کا سلسلہ تھا اور پھر
حریفاں را نہ سرماند ونہ دستار
اس کے ایک ماہ بعد بہت سے ملکانے ضلع اسپار کے باشندے واپس اسلام میں داخل ہوئے اور مولوی صاحب کی دعائیں مستجاب ہوئیں۔ مضمون لمبا ہوگیا۔ ~}~
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم
لیکن تین باتیں ابھی قابل ذکر ہیں۔ ایک دن مولوی مولوی صاحب مرحوم غمناک لہجے میں فرمانے لگے کہ بھئی میں نے تو ابھی وہ کام نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا تین ماہ کی رخصت نے آکر دوبارہ آئوں گا۔ اس قدر احساس و ایثار کے باوجود ان کا یہ بے ساختہ انکسار بہت ہی دور انگیز تھا۔ انہی ایام میں اسپار کے آریہ پرچارک نے کچھ حلوا پوری ایک تیہوہار کی تقریب پر مولوی کے لئے بھیجا مرحوم فوراً اس کی چال کو بھانپ گئے اور لانے والے کو سختی سے ٹوکا کہ پنڈت جی سے جاکر کہہ دو کہ ع
عطائے تو نجشیدم بہ لقائے تو
یہ ناپاک کھانا ہم نہیں کھاسکتے۔ بات یہ تھی کہ آریوں کی عامیانہ اور چلتی ہوئی دلیل ان دنوں میں ایک یہ بھی تھی کہ مسلمان ادنیٰ ہوتے ہیں اس لئے ہندوئوں کے ہاتھ کا کھالیتے ہیں اور ہندو اعلیٰ ہونے کی وجہ سے مسلمان کے ہاتھ کا نہیں کھاتے۔ مبلغین کو ان ایام میں خصوصیت سے ہدایت تھی کہ ہندوئوں کے ہاتھ کی کوئی چیز قطعاً نہ کھائیں۔
استغاثہ کے دو گواہ غیاثی اور سردار خان نامی موضع اسپار کے دو ملکانے تھے جنہوں نے مولوی صاحب کے فیض صحبت کی بدولت بڑی ہمت دکھائی اور اپنے دیہہ کے جتھے کے خلاف بحق استغاثہ شہادت دی تھی۔ اس کے بعد دیہہ میں ان کا رہنا آسان نہ تھا دونوں قادیان چلے گئے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ مولوی صاحب مرحوم کئی سال تک اپنے پاس سے ماہانہ وظیفہ ان کو دیتے رہے<۔۹۵
حضرت مرزا غلام رسول صاحب دعاگو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا بہت التزام کرتے تھے۔ آپ کی دعائوں میں اتنا سوز اور اتنی شدت والحاح ہوتا تھا کہ بسا اوقات یوں معلوم ہوتا کہ آپ کے سینہ میں ایک ہندیا ابل رہی ہے۔ آپ کو دعائوں کی تاثیرات پر زبردست ایمان تھا۔ آپ نے ایبٹ آباد میں مکان بنانے کے لئے زمین خریدی تو صوبہ سرحد کے ایک بڑے اور مقتدر شخص نے آپ پر مقدمہ دائر کردیا اور کہا کہ میں یہاں مرزائیوں کے قدم نہیں جمنے دوں گا۔ قانونی طور پر اس کا کیس بظاہر بہت مضبوط تھا مگر آپ نے جرات ایمانی سے کہا کہ اب انشائاللہ مجھے ضرور کامیابی ہوگی کیونکہ اب تمہارا مقابلہ غلام رسول سے نہیں بلکہ احمدیت سے ہے چنانچہ عجیب تصرف الٰہی کے ماتحت اس مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوگیا۔
تلاوت قرآن کریم نہایت ذوق و شوق سے کرتے تھے۔ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے تھے۔ بیکسوں` مظلوموں` مسکینوں اور غریبوں کی امداد کے لئے آپ کے اندر ایک خاص جوش تھا اور آپ اس میں روحانی لذت و فرحت محسوس کرتے تھے۔ بعض موقعوں پر آپ نے اپنی ملازمت تک کو خطرے میں ڈال کر صوبہ سرحد کی عظیم شخصیتوں کے مقابلے میں بعض غریب` مظلوم اور بیکس لوگوں کی علی الاعلان مدد کی۔ آپ کے گھر میں مہمانوں کا عموماً تانتا بندھا رہتا تھا۔
آپ ۱۲۔۱۹۱۱ء میں پشاور گورنمنٹ ہائی سکول کے استاد ہوکر آئے مگر جلد مدرسی ترک کرکے دفتر سیشن جج پشاور میں انگریزی مترجم مقرر ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی کرکے سیشن جج کے مثل خواں مقرر ہوئے۔ بالاخر جوڈیشنل کمشنر کے ریڈر )مثل خواں( بنا دئے گئے۔
آپ سرحد ہائی کورٹ کے نہایت کامیاب اور ماہر سینئر ریڈر تھے اور بڑے سے بڑے افسر بھی آپ کی قانونی باریک نظری اور تبحر معلومات کے قائل اور آپ کی محنت` دیانتداری اور پاکیزگی کے معترف تھے۔ صوبہ سرحد کی ہائی کورٹ کے انگریز چیف جج اور جوڈیشنل کمشنر مسٹر فریزر نے بعض ناجائز تصرفات یعنی رشوت لینے میں آپ سے مدد لینا چاہی مگر آپ نے صاف انکار کردیا اور صاحب کی مخالفت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی ملازمت تک خطرے میں پڑگئی۔ آپ نے دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ اتنی دفعہ متواتر یہ بھی دعا کرو لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین اور تہجد بھی پڑھو۔ چنانچہ آپ نے تہجد اور دعائوں کا خاص مجاہدہ کیا۔ چندہ دن بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہوگئی ہیں اور جس شخص کی طرف آپ دیکھتے ہیں وہ مرجاتا ہے۔ اسی اثناء میں آپ نے دیکھا کہ انگریز چیف جج بھی آپ کے سامنے آیا اور مرگیا۔ چند روز بعد اس کو سل کے مرض کی تشخیص ہوئی اور وہ چھٹی لے کر ولایت چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔
آپ مالی قربانی کو خاندانی اور قومی ترقی کا ذریعہ سمجھتے اور سلسلہ احمدیہ کی مالی تحریکوں میں ضرور حصہ لیتے تھے چنانچہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ سرحد کا بیان ہے کہ:۔
>اپنے چندوں میں باقاعدہ تھے۔ موصی تھے۔ ہر مرکزی تحریک میں ضرور حصہ لیتے بلکہ مقامی چندوں میں بھی امداد کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ ایک دفعہ ۱۹۱۲ء میں خاکسار نے حقیقتہ المسیح نامی کتاب لکھی طباعت کے واسطے روپے کی ضرورت تھی۔ مولوی صاحب کو معلوم ہوا تو آپ نے بیوی سے ذکر کیا کہ میرے پاس اس وقت کوئی پیسہ نہیں ہے۔ یہ کتاب تبلیغ کے لئے چھاپنی ضروری ہے۔ ان کی بیوی صاحبہ نیکی میں ان کے نقش قدم پر تھیں انہوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے<۔۹۶
خلیفہ وقت سے عقیدت و شیفگتی کا یہ عالم تھا کہ مرض الموت میں جب کہ آپ بستر مرگ پر تڑپ رہے تھے آپ نے اپنے فرزند مرزا عبداللہ جان صاحب سے کہا کہ کل حضور ربوہ میں مسجد مبارک کی بنیاد رکھیں گے اس موقع پر مسجد احمدیہ پشاور میں بھی اجتماعی دعا ہوگی تم نے اس میں ضرور شامل ہونا ہے۔
آپ آخر دم تک قرآنی آیات اور دعائوں کا ورد کرتے رہے۔ >مومن اگر تقویٰ و طہارت سے کام لے تو کبھی نہیں مرتا< >صالح بنو` متقی بنو خدا تمہاری مدد کرے گا< آپ کے آخری الفاظ تھے۔۹۷
آپ کا جنازہ آپ کے چھوٹے بھائی مرزا غلام حیدرؓ وکیل نوشہرہ نے پڑھایا اور آپ امانتاً احمدیہ قبرستان پشاور میں سپرد خاک کئے گئے۔۹۸
۵۔ حضرت منشی سید صادق حسین صاحب مختارؓ اٹاوہ )یوپی( ولد حکیم وارث علی صاحب
)بیعت۹۹ ۱۱۔ اپریل ۱۸۸۹ء` وفات۱۰۰ ۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق ۶۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء بعمر نوے )۹۰( سال( ۳۱۳ اصحاب کبار میں
آپ کا نام ۱۳۸ نمبر پر درج ہے۔۱۰۱
داخل احمدیت ہونے سے قبل بھی آپ کا شمار یوپی کے کامیاب اور مشہور وکیلوں میں ہوتا تھا۔ آپ اردو` فارسی اور عربی زبانوں میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور علمی حلقوں میں آپ کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔ شعر وادب کا شوق ابتداء ہی سے تھا۔ ایام جوانی میں آپ نے >صبح صادق< کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا جس میں سیاسی` ادبی و علمی مضامین کے علاوہ مشاہرہ کی چیدہ چیدہ نظمیں بھی شائع کی جاتی تھیں۔ یہ مشاعرہ آپ ہی کے زیر اہتمام ہوتا تھا اور اس میں نواب فصیح الملک داغ دہلوی اور ملک الشعراء حضرت امیرمینائی لکھنوی ہر ماہ مصرعہ طرح پر اپنا کلام بھیجتے جو اس رسالہ کی زینت ہوا کرتا تھا۔
حضرت منشی صاحبؓ اٹاوہ` مین پوری` آگرہ` کانپور وغیرہ اضلاع میں احمدیت کا ایک محکم ستون تھے` آپ کی دیانت اور انصاف پروری کا یہ عالم تھا کہ غیراحمدی دوست بھی اپنے تنازعات میں آپ کو بخوشی ثالث بناتے اور بلاچون وچرا آپ کا فیصلہ قبول کرلیتے تھے۔ اٹاوہ میں انجمن حمایت اسلام نے ایک مڈل سکول جاری کررکھا تھا جس کا سال میں ایک مرتبہ ایک جلسہ بھی ہوتا تھا جس میں علماء مذہبی تقریریں کرتے تھے۔ ایک بار دوران جلسہ مسلمانوں اور آریوں کے مابین مباحثہ منعقد ہوا جس کی صدارت کے لئے مسلمانوں نے خاص طور پر آپ کا انتخاب کیا۔ آپ کے نیک نمونہ اور تبلیغ سے بیسیوں لوگ احمدی ہوئے۔۱۰۲]body [tag
آپ کی پوری عمر قلمی جہاد میں گزری۔ آپ کے زوردار معلومات افزا اور محققانہ مضامین رسالہ >تشحیذ الاذہان< >ریویو آف ریلیجنز< اور الفضل میں شائع ہوتے تھے۔ شیعہ لٹریچر پر آپ کو خاص دستگاہ تھی اور حضرت منشی خادم حسین صاحبؓ بھیروی کی طرح اس تحریک کے بہترین ناقد و مبصر تھے۔ لکھنو کے ایک مجہد العصر سے آپ کا تحریری مناظرہ ہوا مگر آٹھ دس پرچوں کا جواب دینے کے بعد وہ میدان چھوڑ گئے۔
آپ کی مختصر لائبریری میں بعض لاجواب اور نایاب قلمی نسخے موجود تھے۔۱۰۳ رسالہ >صبح صادق< اور اخبار >اظہار الحق< کے علاوہ آپ کے قلم سے مندرجہ ذیل تالیفات شائع ہوئیں:۔
صادق کلمات۔ ثنائی ہفوات۔ ازالتہ الشکوک )رد آریہ سماج( الحق دہلی۔ تصدیق کلام ربانی )رد آریہ( مثنوی پیام صادق۔ تبلیغی خط۔ تحفتہ الشیعی نمبر ۱` نمبر ۲` نمبر ۳۔ سیف اللہ القہار علی رئوس الاشرار` صمصام الحق )رد شیعہ تحریک( اٹاوہ میں شیعہ سنی تحریری مباحثہ۔ ترکیب بند صادق منظوم۔۱۰۴ کشف الاسرار )قبر مسیح(
۶۔ حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ:
‏]text )[tagولادت۱۰۵ اندازاً ۱۸۷۹ء` بیعت و زیارت۱۰۶ دسمبر ۱۹۰۰ء` وفات۱۰۷ ۲۷` ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق اکتوبر ۱۹۴۹ء(
ملک صاحب نے حضرت مہدی معہودؑ کی پہلی زیارت مباحثہ آتھم کے دوران ۱۸۹۳ء میں کی۔ ان دنوں حضورؑ امرتسر میں رونق افروز تھے۔ میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری نے حضورؑ کے اعزاز میں ایک دعوت دی۔ میاں صاحب کے مکان کے ساتھ ہی ملک صاحب کرایہ کے مکان میں رہتے تھے۔ یہ مکان کٹڑا اہلووالیہ کوچہ شیخ کمال الدین میں واقع تھا اور وسیع تھا اس لئے اس کے صحن میں حضرت اقدسؑ کو بٹھایا گیا۔ ملک صاحب نے اس وقت اپنے کوٹھے پر سے حضورؑ کو دیکھا۔ ۱۸۹۹ء میں آپ بیمار ہوگئے اور بغرض علاج حضرت مولانا نور الدینؓ کی خدمت میں قادیان پہنچے اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سل کا مرض ہے جو لاعلاج ہے۔ اس پر حضرت مولانا صاحبؓ نے بڑے جوش سے کہا حکیموں کے بادشاہ نے فرمایا ہے لکل داء دواء ہر بیماری کی دوا ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے ایک دوا تجویز فرمائی جس کے استعمال سے آپ کوئی دو ہفتہ میں شفایاب ہوگئے سفر قادیان میں امرتسر کے ممتاز صحابی حضرت ڈاکٹر عباداللہ صاحب آپ کے ساتھ تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے ملک صاحب ڈاکٹر صاحب کے محلہ میں ہی مقیم ہوگئے اور ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعض کتب حاصل کرکے مطالعہ کرتے رہے۔ اسی اثناء میں ایک دفعہ حضرت مولوی محمد احسن صاحبؓ امروہی نے مسجد احمدیہ امرتسر میں خطبہ جمعہ پڑھا اور سورۃ نور کی آیت استخلاف سے حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت پر استدلال کیا۔ چند روز بعد آپ کو >شہادۃ القرآن< کے مطالعہ کا موقع ملا اور آپ دل سے احمدی ہوگئے اور دسمبر ۱۹۰۰ء کے سالانہ جلسہ پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔
ملک صاحب موصوف کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں کئی بار قادیان جانے اور حضور سے روحانی فیض اٹھانے کا موقع ملا۔
ماسٹر عبدالحق صاحب قصوری بی۔ اے سابق طالب علم مشن کالج لاہور نے جو عرصہ تین سال سے عسائی تھے ۲۶۔ دسمبر ۱۹۰۱ء کو پانچ سوالات لکھ کر پیش کئے جس کے جواب میں حضورؑ نے مفصل تقریر فرمائی۔۱۰۸ ملک صاحب موصوف کو یہ تقریر سننے کا شرف حاصل ہے۔ ماسٹر عبدالحق صاحب اس تقریر سے متاثر ہوکر اسلام لے آئے۔۱۰۹
ملک صاحب فرماتے ہیں:۔
)>۱۹۰۳ء میں( صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے کابل میں سنگسار ہونے کے فوراً بعد ہم قادیان گئے تو مغرب کی مجلس کے بعد اس کا تذکرہ تھا۔ غالباً احمد نور صاحبؓ کابلی آئے تھے اور انہوں نے حالات سنائے تھے۔ حضور کو سخت صدمہ تھا۔ حضور نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم اس کے متعلق ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے چونکہ حضورؑ کے فارسی اشعار سے بہت محبت ہے میں نے عرض کیا حضور کچھ فارسی اشعار بھی ہوں۔ حضورؑ نے جھٹ فرمایا نہیں ہمارا مضمون سادہ ہوگا۔ لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی تو اس میں ایک لمبی پردرد فارسی نظم تھی۔ مجھے اس وقت خیال آیا کہ کیسے پاک لوگ ہیں اپنے ارادہ سے نہیں بلکہ صحیح ربانی تحریک کے ماتحت کام کرتے ہیں ورنہ ان کو شعر گوئی سے کوئی نسبت نہیں<۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری سفر دہلی سے واپسی پر ۹۔ نومبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو رائے کنہیالال صاحب وکیل ک لیکچر ہال امرتسر میں تقریر فرمائی جس کے دوران ایک ہنگامہ عظیم برپا کردیا گیا۔ ملک صاحب اس ہنگامہ کے وقت لیکچر ہال میں موجود تھے چنانچہ وہ اس واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:۔
>جب ہم نے دیکھ لیا کہ حضورؑ جاچکے تو ہم حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کے ہمراہ ۔۔۔۔۔۔۔ باہر بازار میں نکلنے لگے کسی شخص نے حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ٹھہرجاویں لوگ پتھر ماررہے ہیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے ایک درد بھرے دل سے کہا وہ گیا جس کو مارتے تھے مجھ کو کون مارتا ہے یہ ہر کسی کو نصیب نہیں<۔
ملک صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کی المناک اطلاع کیسے ملی؟ اس واقعہ پر آپ درج ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی خبر میرے ایک چچا صاحب نے مجھے اس وقت دی جب میں عدالت مطالبہ خفیفہ امرتسر میں ایک عرضی دعویٰ کا انگریزی ترجمہ کررہا تھا۔ اس وقت گو چند لمحوں کے لئے ایسا ہوا مگر میری نظر بالکل جاتی رہی اور سامنے پڑے ہوئے کاغذ کے حروف نظر نہ آتے تھے۔ دوسرے روز ہم بمعہ ڈاکٹر عباداللہ صاحبؓ اور دوسرے دوستوں کے صبح کی گاڑی سے بٹالہ اور وہاں سے یکہ پر قادیان گئے۔ وہاں حضورؑ کے چہرے کو جو اس وقت بھی نورانی تھا دیکھا۔ انتخاب خلافت )اولیٰ( ہوا اور پہلے جن لوگوں نے بیعت کی ان میں میں نے بھی خلافت اولیٰ کی بیعت کا شرف حاصل کیا<۔۱۱۰
۱۹۳۴ء میں آپ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم پر نائب ناظر بیت المال مقرر کئے گئے۔ ازاں بعد حضور نے آپ کو اراضیات سندھ کی نگرانی کے لئے بھجوایا جہاں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد آپ بیمار ہوگئے۔ طبیعت سنبھل جانے پر قادیان آگئے تو حضرت امیرالمومنین نے آپ کو ناظم جائیداد کی خدمت سپرد فرمائی جس پر آپ آخر عمر تک فائز رہے۔
بالفاظ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بہت زندہ دل خوش مزاج بزرگ تھے<۔ قرآن عظیم کے مطالعہ اور اس پر غور و تدبر کرنے کا بہت شوق تھا۔ جب کسی آیت کی لطیف تفسیر ذہن میں آتی اسے نوٹ کرلیتے اور اپنے بچوں کو سناتے تھے۔ >الفضل< اور >ریویو آف ریلیجنز< انگریزی میں آپ کے کئی مضامین چھپے ہوئے ہیں۔ ہومیو پیتھی دوائیں ہمیشہ گھر میں رکھتے اور مفت دیا کرتے تھے۔ آپ کے اخلاق میں تحمل` ملنساری` جرائت` اور اصابت رائے اور موقع شناسی کے اوصاف بہت نمایاں تھے ماتحتوں سے عمدہ سلوک تھا۔ بہت اچھے دوست اور دوستوں کے لئے قربانی کا مادہ رکھتے تھے۔ عرصہ تک عدالتوں میں کام کرنے کے باعث مروجہ قانون سے خوف واقف تھے۔ ڈرافٹ تیار کرنے اور خلاصہ نکالنے میں ماہ تھے اور اسی لئے حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں اپنے سامنے اپیلیں پیش کرنے کا فریضہ بھی سونپ رکھا تھا۔ غیر احمدی اور ہندو وکیل بھی آپ کے مداح تھے۔ دوران ملازمت جہاں جہاں گئے سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ میں سرگرم رہے اور کئی لوگوں کی ہدایت کا موجب بنے۔ نظام الوصیت سے بھی وابستہ تھے اور تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہدوں میں سے تھے۔
سیالکوٹ میں وفات پائی اور قبرستان سائیں مونگا ولی میں بطور امانت دفن کئے گئے۔۱۱۱
۷۔ میاں نور محمد صاحبؓ کھوکھر امیرپور ضلع ملتان۱۱۲:۔
)ولادت ؟ بیعت۱۱۳ ۱۵۔ اگست ۱۹۰۷ء` وفات۱۱۴ ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش بعمر ۷۴ سال(
میاں نور احمد صاحب مدرس امدادی بستی وریام کملانہ ڈاک خانہ ڈب کلاں تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ جن کا ذکر حضرت مہدی معہودؑ نے حقیقتہ الوحی کے نشان نمبر ۱۴۱ میں فرمایا ہے آپ کے چھوٹے بھائی تھے۔ میاں نور احمد صاحب نے آپ کو تبلیغ بھی کی اور حق پانے کے لئے استخارہ بھی بتایا اور ایک حمائل شریف مترجم حضرت شاہ رفیع الدین~رح~ بھی دی کہ اسے بلاناغہ پڑھیں اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں۔ تلاوت قرآن مجید اور استخارہ کے نتیجہ میں آپ کو پروانہ وار بیعت اور حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا شوق پیدا ہوگیا اور آپ مولوی محمد فاضل صاحب احمدی کو ساتھ لے کر قادیان پہنچے۔ چار پانچ روز مسجد مبارک میں حضرت اقدسؑ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی۔ ۱۵۔ اگست ۱۹۰۷ء کو بوقت عصر حضورؑ تشریف لائے تو آپ بیعت کے لئے آگے بڑھے بیعت کے بعد حضورؑ نے ان سے ملتان کے کوائف دریافت فرمائے اور پوچھا کہ اس طرف سلسلہ کی مخالفت کثرت سے نہیں۔
آپ نے عرض کیا بہت لوگ مخالف ہیں۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے ایک روح پرور تقریر فرمائی جس کے آخری الفاظ یہ تھے:۔
>خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ جہاں ہماری مخالفت میں زیادہ شور اٹھا ہے وہاں ہی زیادہ جماعت تیار ہوئی ہے جہاں مخالفت کم ہے وہاں ہماری جماعت بھی کم ہے<۔
حضور~ع۱~ کی تقریر مع کوائف ملتان الحکم ۲۴۔ اگست ۱۹۰۷ء میں چھپ چکی ہے۔
میاں نور محمد صاحب غریبوں کے ہمدرد اور منکسر المزاج تھے۔ نماز تہجد کے باقاعدہ پابند تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے بے انتہا محبت تھی۔ ترقی احمدیت` درویشان قادیان اور مبلغین سلسلہ اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے لئے درد دل سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ گنگا رام ہسپتال لاہور میں فوت ہوئے۔ جنازہ حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھایا اور تدفین قبرستان ربوہ میں ہوئی۔۱۱۵
‏tav.12.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
۸۔ حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹیؓ:۔
)ولادت ۶۷۔۱۸۶۶ء` زیارت ۱۸۹۳ء` بیعت ۱۹۰۰ء وفات ۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۹ء(
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے پھوپی زاد بھائی تھے۔ سیالکوٹ کے اکابر صحابہ حضرت حسام الدین صاحبؓ` حضرت میر حامد علی شاہ صاحبؓ` حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ آپ سے بوجہ تقویٰ اور پارسائی بہت محبت رکھتے تھے۔ تبلیغ احمدیت کا خاص شغف تھا۔ خلافت اولیٰ کے عہد مبارک میں آپ کو قادیان بلا لیا گیا۔ آپ قادیان اور اس کے ماحول میں قرآن پڑھاتے اور پیغام احمدیت پہنچاتے رہے تھے۔ کئی لوگ آپ کے نیک نمونہ سے شامل احمدیت ہوئے۔ سلسلہ کی ہر تحریک پر لبیک کہتے تھے۔ آپ موصی تھے اور تحریک جدید کا چندہ اعلان ہوتے ہی ادا کردیتے تھے۔ آپ نے چندہ مسجد لنڈن اور تراجم القرآن کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔ حضرت منشی صاحبؓ کو ارتداد ملکانہ کے دوران ۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۴ء میں ¶دوبار علاقہ اجمیر میں بھیجا گیا۔ ۱۹۳۹ء میں آپ نے چار ماہ تک مکیریاں اور مہت پور ضلع ہشیارپور میں تبلیغ کی ہمیشہ درثمین اردو اپنے پاس رکھتے اور بغرض تبلیغ تقسیم کیا کرتے تھے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی وفات پر فرمایا:۔
>منشی محمد اسمعیل صاحب نہایت سادہ طبع` نیک اور صاحب الہام آدمی تھے ان کو کثرت سے الہام ہوتے تھے۔ اور وہ کثرت سے دعائیں کنے والے انسان تھے۔ نماز تہجد کے اتنے پابند تھے کہ بیماری کی حالت میں بھی تہجد نہیں چھوڑی۔ آپ حال میں ہی سیالکوٹ میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی بڑی بیوی )جن کو مولوی صاحب کی وجہ سے ہم مولویانی کہا کرتے تھے( کے بھائی تھے۔ نہایت مخلص اور اچھے نمونہ کے احمدی تھے اور تبلیغ میں اس طرح منہمک رہتے تھے کہ ایسا انہماک بہت کم لوگوں کو نصب ہوتا ہے۔ سکول سے پنشن لی اور ریل اور ڈاکخانہ کے محکموں میں جو کوئی ہندو قادیان آجاتا اس کو پکڑ لیتے اور اسے قرآن کریم پڑھانا شروع کردیتے۔ میں نے خود ایک ہندو کو دیکھا ہے جس نے ان سے قریباً بیس سپارے ترجمہ کے ساتھ پڑھ لئے تھے۔ وہ دل سے مسلمان تھے۔ اب شاید پارٹیشن کے بعد وہ ہندوستان چلا گیا ہو کیونکہ اس کا نام ہندوانہ ہی تھا لیکن دراصل وہ مسلمان تھا۔ نمازیں پڑھتا تھا۔ اسی طرح روزے بھی رکھتا تھا۔ وہ صرف انہی کے طفیل اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں مسلمان ہوا تھا<۔۱۱۶
حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ مجاہد ماریشس:۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ان ممتاز صحابہ مژیں سے تھے جو عنفوان شباب سے حضورؑ کے دامن سے وابستہ ہوئے اور مئی ۹۸ء میں بمقام عزت لاہور حضرت اقدسؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے چنانچہ ¶فرماتے ہیں:۔
>میرے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی میں بذریعہ خط حضور اقدسؑ کی بیعت کی تھی اور میں اس وقت قریباً پندرہ سولہ برس کا تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام آخری ایام میں لاہور میں قیام فرما تھے لاہور میں آیا اور مجھے حضورؑ کی زیارت نصیب ہوئی اور میری آمد سے پندرہ سولہ روز بعد حضورؑ اس دارفانی سے رحلت فرما گئے<۔۱۱۷
حضرت حافظ صاحب کو صحابہ حضرت مسیح موعودؑ میں یہ منفرد خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اکیس برس تک ماریشس میں جہاد تبلیغ میں سرگرم عمل رہے۔ آپ ۲۷۔ جولائی ۱۹۲۸ء کو قادیان سے ماریشس پہنچے اور ۲۷۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو ماریشس میں ہی انتقال فرما گئے اور سینٹ پیری میں سپرد خاک کئے گئے۔۱۱۸ آپ کی وفات کی اطلاع پر حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے ۳۰۔ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جو خطبہ دیا اس میں آپ کی وفات کو نشان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ
>حافظ جمال احمد صاحب کی وفات اپنے اندر ایک نشان رکھتی ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ماریشس بھیجے گئے تو اس وقت جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی اتنی کمزور کہ ہم کسی مبلغ کی آمدورفت کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ میں نے تحریک کی کہ کوئی دوست اس ملک میں جائیں۔ اس پر حافظ صاحب مرحوم نے خود اپنے آپ کو پیش کیا یا کسی اور دوست نے تحریر کیا کہ حافظ جمال احمد صاحب کو وہاں بھیج دیا جائے۔ چونکہ پہلے وہاں صوفی غلام محمد صاحب تھے اور وہ حافظ تھے اس لئے احباب جماعت نے وہاں ایک حافظ کے جانے کو ہی پسند کیا۔ گو صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے تھے اور ان کی عربی کی لیاقت بھی بہت زیادہ تھی اور حافظ جمال احمد صاحب غالباً مولوی فاضل نہیں تھے ہاں عربی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی اور قرآن کریم حفظ کیا ہوا تھا لیکن بہرحال انہیں صوفی صاحب کی جگہ مبلغ بناکر ماریشس بھیج دیا گیا۔
حافظ صاحب مرحوم کی شادی مولوی فتح الدین صاحب کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی جنہوں نے شروع شروع میں پنجابی میں کامن لکھے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعوے سے پہلے کے تعلق رکھنے والے دوستوں میں سے تھے۔ ان کے سسرال کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ان کے بعد ان کے بیوی بچوں کا انتظام مشکل تھا اس لئے انہوں نے مجھے تحریک کی کہ انہیں بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ اس وقت سلسلہ کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ پیسے پیسے کا خرچ بوجھ معلوم ہوتا تھا اور ادھر حافظ صاحب مرحوم کی حالت ایسی تھی کہ انہیں اپنے بیوی بچے اپنے پیچھے رکھنے مشکل تھے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو بیوی بچے ساتھ لے جانے کی اجازت دیتا ہوں مگر اس شرط پر کہ آپ کو ساری عمر کے لئے وہاں رہنا ہوگا۔ اس وقت کے حالات کے ماتحت انہوں نے یہ بات مان لی اور سلسلہ اور ان کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد جب ان کے لڑکے جوان ہوئے اور لڑکی بھی جوان ہوئی انہوں نے مجھے تحریک کی کہ میرے بچے جوان ہو گئے ہیں اس لئے ان کی شادی کا سوال درپیش ہے آپ مجھے واپس آنے کی اجازت دیں تا بچوں کی شادی کا انتظام کرسکوں لیکن میری طبیعت پر چونکہ یہ اثر تھا کہ وہ عہد کے مطابق عمل کرنا چاہئے انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اپنا عہد یاد ہے لیکن میری لڑکی جوان ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مجھے واپس آنے کی ضرورت پیش آئی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں یہیں رہوں تو میں اپنی درخواست واپس لے لیتا ہوں بعد میں محکمہ کی طرف سے بھی کئی دفعہ تحریک کی گئی کہ انہیں واپس بلا لیا جائے لیکن میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہوں نے عہد کیا ہوا ہے اور اس عہد کے مطابق انہیں وہیں کا ہورہنا چاہئے۔ ابھی کوئی دو ماہ ہوئے میں نے سمجھا کہ چونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اور اب نیا مرکز بنا ہے اس لئے ان کو بھی نئے مرکز سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہئے میں نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دے دی اور محکمہ نے انہیں واپس بلوا بھیجا لیکن خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں۔ جب تک ان کی اپنی خواہش واپس آنے کو تھی وہ زندہ رہے۔ چونکہ وہ آخری اختیار رکھنے والے نہیں تھے اس لئے اپنی خواہش کے مطابق وہ واپس نہیں آسکتے تھے۔ لیکن جب میں نے اجازت دے دی تو خدا تعالیٰ نے کہا اب ہم اپنا اختیار استعمال کرتے ہیں اور انہیں وہیں وفات دے دی۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے واقعات اپنے اندر ایک نشان رکھتے ہیں۔ ایک شخص عہد کرتا ہے اور سالہا سال تک اس پر پابند رہتا ہے اس کے بعد وہ اسے توڑتا نہیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے واپس آنے کی اجازت مانگتا ہے لیکن میں اصرار کے ساتھ ان کی درخواستیں رد کرتا چلا جاتا ہوں اور وہ چپ کرجاتا ہے۔ پھر محکمہ بھی اس کے بلانے پر اصرار کرتا ہے لیکن میں اسے واپس بلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بھی نہیں کہ حافظ صاحب کوئی بڑی عمر کے تھے۔ شاید وہ مجھ سے چھوٹے تھے۔ انہوں نے جب خود واپس آنا چاہا تو میں نے ان کی درخواستیں رد کردیں جب محکمہ نے ان کے واپس بلانے پر اصرار کیا تب بھی میں نے اصرار کیا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں۔ لڑکوں کے متعلق انہوں نے اصرار کیا کہ ان کی تعلیم کا حرج ہورہا ہے تو میں نے کہا اچھا انہیں یہاں بھیج دو چنانچہ ان کا ایک لڑکا لاہور پڑھتا ہے اور سلسلہ کی طرف سے اسے امداد دی جاتی ہے۔ لیکن قادیان سے نکلنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ انہوں نیا ماحول تو دیکھا نہیں اس لئے انہیں واپس بلا لیا جائے اور اس نئے ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے میں نے انہیں واپس آنے کی اجازت دی۔ لیکن جب اس حکم پر عمل کرنے کا وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں واپس بلا لیا تا وہ اپنے عہد کو پورا کرنے والے بنیں اور منھم من قضی نحبہ کی جماعت میں شامل ہوجائیں۔ اس آیت قرآنیہ میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ منھم من قضی نحبہ کچھ تو ایسے صحابہؓ ہیں جنہوں نے موت تک اپنے عہد کو نباہا ہے۔ ومنھم من ینظرbody] ga[t اور کچھ ایسے ہیں کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں موقع ملے تو وہ اپنے عہدے کو پورا کریں<۔
اسی تسلسل میں فرمایا:۔
>ہماری جماعت میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ حافظ جمال احمد صاحب بھی انہی میں سے تھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ منھم من قضی نحبہ وہ یہاں سے عہد کرکے گئے تھے کہ وہ وہیں کے ہو رہیں گے۔ جب ہم نے چاہا کہ وہ آجائیں تو خدا تعالیٰ نے کہا نہیں میں ان کا عہد پورا کروں گا۔ ماریشس ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت ابتداء سے ہمارے مشن جارہے ہیں۔۱۱۹ میری خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال سے وہاں مشن جارہے ہیں۔ ایسے پرانے ملک کا بھ یہ حق تھا کہ وہ کسی صحابی یا تابعی کی قبر پر اپنے اندر رکھتا ہو۔ ہم شرک نہیں کرتے ہم قبروں پر سے مٹیاں لینے والے نہیں۔ ہم قبروں پر پھول چڑھانے والے نہیں۔ ہمیں تو یہ بھی سن کر تعجب آتا ہے کہ ابن سعود کے نمائندے بھی قبروں پر پھول چڑھانے لگ گئے ہیں۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ اگر کوئی پھول چڑھانے کی مستحق قبر تھی تو وہ رسول کریم~صل۱~ کی قبر تھی۔ کیا حضرت ابوبکر~رضی۱~ کو پھول نہ ملے کہ وہ آپ کی قبر مبارک پر پھول چڑھاتے۔ کیا حضرت عمرؓ کو پھول نہ ملے کہ وہ آپﷺ~ کے مزار پر پھول چڑھاتے۔ اگر آپ کے مزار پر ان بزرگوں نے پھول چڑھائے ہوتے تو ہم اپنے خون سے پھولوں کے پودوں کو سینچتے تا آپ کے مزار پر پھول چڑھائیں۔ مگر افسوس زمانے بدل گئے اور ان کی قدریں بدل گئیں لیکن ہم موحد ہیں مشرک نہیں بلکہ ہمیں تو ان موحدوں پر افسوس آتا ہے جو توحید پر عمل کرتے تھے لیکن اب ان کے نمائندے قبروں پر جاتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں۔ دنیا میں جو لوگ اچھے کام کرجاتے ہیں ان کی قبروں پر جانا اور ان کے لئے دعائیں کرنا ہی ان کے لئے پھول ہیں گلاب کے پھول ان کے کام نہیں آتے عقیدت کے پھول ان کے کام آتے ہیں۔ اور یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں۔ ان کے مزاروں پر دعا کرنا بسا اوقات بہت بڑی برکتوں کا موجب ہوجاتا ہے۔ ان سے مانگنا جائز نہیں ہاں ان کی قربانی یاد دلا کر خدا تعالیٰ سے مانگنا چاہئے جسے حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قحط پڑا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے زمانہ میں ہم آپ کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا مانگا کرتے تھے اب وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں ان کے چچا عباسؓ کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ اس قحط کو دور فرما۔ جیسے لوگ کہتے ہیں بچوں کا صدقہ اسی طرح خداتعالیٰ سے بھی اس کے پیاروں کا واسطہ دے کر مانگنا جائز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماریشس اس بات کا مستحق تھا کہ اس میں کسی صحابی یا کسی ایسے تابعی کی جس کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قریب پہنچتا ہو قبر ہوتا وہ اس کے مزار پر خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں میں نے صحابی یا تابع اس لئے کہا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ حافظ صاحب مرحوم صحابی تھے یا نہیں جب سے میں انہیں دیکھتا رہا ہوں وہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کا زمانہ تھا۔ اور اگر میرے دیکھنے پر اس کی بنیاد ہو تو وہ تابعی تھے<۔
>میں دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہوسکتی۔ انہیں بھی اس چیز کا احساس ہونا چاہئے۔ سینکڑوں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کیا مگر سینکڑوں انتظار کرنے والے بھی آگے آئیں تا ان کے نام خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں لکھے جائیں<۔۱۲۰
ان جلیل القدر صحابہ کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہ بھی انتقال کرگئے:۔
۱۔
شیخ عمر بخش صاحب بنگوی )بیعت ۱۹۰۳ء` وفات ۱۷۔ تبلیغ ۱۳۲۸ہش بعمر ۹۲ سال(۱۲۱
۲۔
میاں محمد دین صاحب ساکن بھڈیا ضلع امرتسر )بیعت ۱۸۹۵ء` وفات ۱۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش(۱۲۲ آپ کے تفصیلی حالات مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے قلم سے الفضل ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵ پر شائع شد ہیں۔
۳۔
منشی غلام حیدر صاحب سب انسپکٹر اشتمال اراضی گوجرانوالہ )بیعت ۱۹۰۸ء` وفات ۲۔ نبوت ۱۳۲۸ہش(۱۲۳
بزرگ صحابیات سے اس سال محترمہ کریم بی بی صاحبہ۱۲۴ )اہلیہ حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواری( اور محترمہ عزیز بیگم صاحبہ۱۲۵ )اہلیہ حضرت خان صااحب منشی برکت علی صاحب شملوی( بالترتیب ۷۔ اخاء اور ۲۱۔ فتح کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں۔
دوسرا باب )فصل نہم(
۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات][
اب ہم ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ میں تقاریب مسرت
اس سال بھی رب جلیل کے پاک وعدوں کے مطابق حضرت مسیح محمدیﷺ~ کے خاندان میں اضافہ ہوا۔
چنانچہ ۲۲۔ صلح۱۲۶ کو صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کے ہاں صاحبزادہ مرزا لئیق احمد صاحب اور ۴۔ امان۱۲۷ کو میاں الیاس احمد خاں صاحب کے ہاں میاں جعفر احمد خاں پیدا ہوئے اور ۲۷۔ ۱۲۸۲۸ ماہ تبلیغ کی درمیانی شب کو صاحبادہ مرزا دائود احمد صاحب کے ہاں صاحبزادی امتہ المصور صاحبہ اور ۲۱۔ ماہ نبوت۱۲۹ کو صاحبزادہ` مرزا حمید احمد صاحب کے ہاں صاحبزادی امتہ الغفور کوثر صاحب کی ولادت ہوئی۔
نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ میں
نصرت گرلز ہائی سکول جو ہجرت کے بعد اخاء ۱۳۲۶ہش سے لے کر امان ۱۳۲۸ہش تک رتن باغ میں جاری رہا اس سال ماہ شہادت/ اپریل میں ربوہ منتقل کردیا گیا سلسلہ احمدیہ کا یہ پہلا مرکزی تعلیمی ادارہ تھا جو دارالہجرت میں قائم ہوا۔۱۳۰
حضرت امیرالمومنینؓ کی مسلمانان عالم کو نصیحت
۲۔ صلح )جنوری( کو بیگم سلمہ تصدق حسین نے مفتی فلسطین کے ذاتی نمائندہ الشیخ عبداللہ غوثیہ اور سید سلیم الحسینی کے اعزاز میں ایک دعوت کا انتظام کیا تھا جس میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ اگر ہم فی الحقیقت کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر کام سوچ سمجھ کر اور ایک خاص سکیم کے ماتحت کرنا چاہئے۔۱۳۱
جرمن نومسلم کو حضرت مصلح موعودؓ کا خصوصی ارشاد
۱۹۔ ماہ صلح/ جنوری کو رتن باغ لاہور میں جرمن نومسلم ہر عبدالشکور کے اعزاز میں ایک دعوت دی گئی جس میں اکابر جماعت کے علاوہ مغربی پنجاب کے اعلیٰ حکام` پولیس اور فوج کے اعلیٰ افسر` پروفیسر` سکالرز` موقر جرید نگار کے علاوہ متعدد بااثر شخصیتوں نے شرکت کی جن میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر مسز جعفری` سابق ڈپٹی کمشنر لاہور مسٹر ظفر الاحسن` بیگم سلمہ تصدق حسین صاحب ایم۔ ایل۔ اے` چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ایم۔ ایل۔ اے اور جناب علائو الدین صاحب صدیقی کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس تقریب سعید پر ایک نہایت روح پرور تقریر کی جس کی ابتداء میں فرمایا کہ میرے آقا ومولا کے ارشاد کے مطابق اسلام اور اس کے سچے متبع ہی کونے کے پتھر ہیں وہ جس پر بھی گریں گے اسے پاش پاش کردیں گے اور جو ان پر گرے گا وہ چکنا چور ہوجائے گا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا ہر کنزے اس سے پہلے جس مذہب سے وابستہ تھے اس میں شریعت کو *** قرار دیا گیا تھا لیکن اسلام شریعت کو برکات خداوندی سے معمور گردانتا ہے۔ لہذا میں ہر عبدالشکور صاحب کو نصیحت کروں گا کہ وہ جو اب اپنے تمام اعزہ و اقرباء کو چھوڑ کر خدا کے دامن سے وابستہ ہوگئے ہیں شریعت کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی کرنے کی کوشش کریں۔ اور جس طرح وہ پہلے ہر ہٹلر کے سپاہی تھے آج میرے آقا محمد عربی~صل۱~ کے ایسے جاں نثار سپاہی بنیں کہ خدا ان کے ہاتھ پر فتوحات کی بارشیں کرے اور پیدائشی مسلمانوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے کی کوشش کریں<۔۱۳۲`۱۳۳
حضرت مصلح موعود~رضی۱~ اخبار نویسوں کے قافلہ سمیت محاذ کشمیر پر
۲۷۔ تبلیغ ۱۳۲۸ہش/ فروری ۱۹۴۹ء کو سیدنا حضرت فضل عمر المصلح الموعودؓ فرقان فورس کے مجاہدوں کا جائزہ لینے کے لئے بھمبر سے ہوتے ہوئے محاذ کشمیر پر تشریف لے گئے۔ اس سفر میں مندرجہ ذیل صحافیوں کو حضور کی بابرکت معیت کا مبارک اور زرین موقع میسر آیا:۔
۱۔
ثاقب صاحب زیروی )نامہ نگار خصوصی >الفضل< لاہور(
۲۔
میاں محمد شفیع صاحب )چیف رپورٹر روزنامہ >پاکستان ٹائمز< لاہور(
۳۔
‏]dni [tag سردار فضلی صاحب )چیف رپورٹر روزنامہ >احسان< لاہور(
۴۔
پروفیسر محمد سرور صاحب )مدیر >آفاق< لاہور(
حضور بذریعہ جیپ کار قصبہ بھمبر سے ہوتے ہوئے نوشہرہ کے جنوب میں بکسر کے اس مشہور قلعے کے قریب پہنچے جس کی پیشانی پر احمد شاہ ابدالی کی سطوت و شوکت کا نشان عیاں تھا اور جس کی مستحکم دیواروں سے ٹکرا کر دشمن کی دور مار توپوں کے گولوں کو بیسیوں ہی نہیں سینکڑوں بار منہ کی کھانا پڑی تھی اور جس کے قرب و جوار میں خدا کے فضل سے احمدیت کے شیر دل اور جاں نثار نوجوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے اس مقدس سرزمین کے چپہ چپہ کی پاسبانی اور حفاظت کررہے تھے۔۱۳۴
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو اس مبارک سفر کے دوران محاذ پر ایک واقعہ نے یکایک قادیان کی ایسی یاد دلائی کہ آپ بے چین ہوکر تڑپ اٹھے مگر آپ نے اپنے قلبی غم و اندوہ کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا اور کمال ضبط نفس کا ثبوت دیتے ہوئے چند منٹ تک بالکل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
>میں تھوڑے دن ہوئے کشمیر کے محاذ پر فرقان فورس دیکھنے گیا۔ فرقان فورس نے میرے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا میں جب وہاں گیا تو ایک جگہ پر ہاتھ دھلانے کے لئے دو چھوٹے لڑکے کھڑے تھے۔ مجھے بڑا تعجب تھا کہ جس جگہ جاتے ہوئے بڑی عمر والے اور پختہ کار لوگ ہچکچاتے ہیں وہاں پر یہ چھوٹی عمر کے دونوں بچے آئے ہوئے ہیں اور خوشی سے اپنی ڈیوٹی کو نبھارہے ہیں۔ وہ دونوں ہاتھ دھلانے کے لئے وہاں کھڑے تھے۔ چھوٹی عمر میں اتنی بڑی قربانی کرنے کی وجہ سے مجھے ان کا یہ فعل پیارا لگا اور نادانی اور غفلت میں میں نے سوال کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ میں نے خیال کیا کہ وہ کہیں گے کہ ہم گجرات سے آئے ہیں` جہلم سے آئے ہیں` راولپنڈی سے آئے ہیں یا سیالکوٹ سے آئے ہیں۔ میں ان سے کوئی دوسرا جواب سننے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن میں نے جب یہ سوال کیا کہ تم کہاں سے آئے ہو تو ان دونوں لڑکوں نے بے اختیار کہا ہم قادیان سے آئے ہیں۔ مجھے یہ جواب سننے کی امید نہ تھی اس لئے مجھے اپنی حالت سنبھالنے کے لئے بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت پڑی۔ میرے ساتھ اس وقت اخباروں کے نمائندے بھی تھے اور بعض دوسرے افسر بھی۔ میں نے زور سے اپنی زبان دانتوں میں دبالی۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ اگر میں اپنے آپ کو نہیں روکوں گا تو میری چیخیں نکل جائیں گی۔ کئی غیر احمدی بھی اس وقت مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی اور میں بات کرہی نہیں سکا تھا۔ انہوں نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ میں بہت معزور ہوں اور ان کے ساتھ بات کرنا نہیں چاہتا لیکن میں مختصر جواب دے کر اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔ پندرہ بیس منٹ بعد جاکر کہیں میری طبیعت سنبھلی اور میں بات کرنے کے قابل ہوا۔ غرض میں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں قادیان کے چھوٹ جانے پر غم نہیں کروں گا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں۔ آپ لوگ بھی اپنے تما جوشوں کو دباتے چلے جائیں خدا تعالیٰ وہ وقت جلد لے آئے گا جب تمہارے دبائے ہوئے جذبات ایک طوفان کی شکل اختیار کریں گے اور وہ طوفان ہر قسم کے خس و خاشاک کو اڑا کر پرے پھینک دے گا۔ لیکن جب تک وہ مرکز جماعت کو نہیں ملتا سب جماعت کو ایک دوسرے مرکز کی طرف منہ کرنا ہوگا کیونکہ مرکز کے بغیر کوئی جماعت نہیں رہ سکتی<۔۱۳۵
انجمن حمایت اسلام کے مشاعرہ میں احمدی شاعر کے کلام کی مقبولیت
۲۶۔ امان ۱۳۲۸ہش کو انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مشاعرہ ہوا جس میں جناب ثاقب زیروی صاحب نے ایک نظم پڑھی جو حاصل مشاعرہ
سمجھی گئی۔ گورنر جنرل الحاج خواجہ ناظم الدین صاحب نے مشاعرہ میں اس نظم کو دوبارہ سننے کی فرمائش کی اور یہ اعزاز اس نشست میں کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکا۔ دوسرے دن لاہور کے تقریباً تمام اخبارات میں اس نظم کا چرچا تھا۔ چنانچہ اخبار >انقلاب< نے ۲۸۔ مارچ ۹۴۹ء صفحہ ۱ کالم ۱ پر >ثاقب نے سب کو مات دی< کے عنوان سے حسب ذیل خبر شائع کی:۔
>لاہور ۲۶۔ مارچ۔ انجمن حمایت اسلام کے مشاعرے میں ایک انیس سالہ نوجوان شاعر صدیق ثاقب زیروی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہزایکسی لینسی گورنر جنرل پاکستان نے اس سے فرمائش کی کہ وہ تیسری بار اپنا کلام سنائے۔
اس مشاعرے میں بڑے بڑے شعراء نے حصہ لیا لیکن عوام اور خواص سب نے ثاقب کے کلام کا اتنا پسند کیا کہ اسے تین بار سٹیج پر بلایا گیا۔ یہ سعادت کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی۔ ثاقب کی نظم کا عنوان تھا >میرا جواب< جو ایک اخبار نویس کی طرف سے شراب کی پیشکش پر لکھی گئی تھی۔ یہی نظم خواجہ ناظم الدین کو خاص طور پر پسند آئی اور انہوں نے اسی کو دوبارہ پڑھوایا<۔
جماعت احمدیہ اور حکومت مجاز کی وفاداری
سکھوں کے اخبار >شیر پنجاب< نے ایک مضمون میں یہ اعتراض اٹھایا کہ ہندوستان یا پاکستان کے احمدی اس وقت تک اپنی اپنی حکومتوں کے وفادار رہیں گے جب تک ان کے امام جماعت کی طرف سے ایسا حکم ہوگا جب ان کا حکم نہیں رہے گا ان کی وفاداری بھی ختم ہوجائے گی۔
اس اعتراض کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے >جماعت احمدیہ اور حکومت مجاز کی وفاداری< کے عنوان پر حسب ذیل مضمون سپرد قلم فرمایا:۔
>۔۔۔۔۔۔ ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کے رو سے جس حکومت میں بھی کوئی شخص رہے اس حکومت کا اسے وفادار رہنا چاہئے۔ اگر کبھی حالات خلاف ہوجائیں اور وہ وفادار نہ رہ سکے تو اسے اس ملک سے ہجرت کرجانی چاہئے۔ انگریزوں کے زمانہ میں اس عقیدہ کی وجہ سے ہندوئوں` سکھوں اور مسلمانوں نے ہماری مخالفت بھی کی لیکن ہم نے یہ عقیدہ نہیں بدلا کیونکہ عقائد کو بدل دینا کسی انسان کے اختیار میں نہیں عقائد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور ان کو خدا ہی بدل سکتا ہے۔
ہمارے نزدیک قرآن کریم کی تعلیم کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو بھی قرآن کریم کی تعلیم کا بدلنے والا نہیں مانتے بلکہ اس کا خادم مانتے ہیں۔ ہمارے عقیدہ کی رو سے وہ اسلام کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی تبدیل نہیں کرسکتے تھے۔ جب بانی سلسلہ احمدیہ بھی کسی حکم کو تبدیل نہیں کرسکتے تھے تو پھر ان کو کوئی خلیفہ خواہ کتنا بڑا ہو کسی حکم کو کس طرح تبدیل کرسکتا ہے۔ پس یہ خیال کرلینا کہ ہندوستان یا پاکستان کے احمدیوں کی اپنی حکومتوں سے وفاداری اسی وقت تک ہوگی جب تک امام جماعت احمدیہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے اول درجہ کی حماقت اور بیوقوفی ہے اس معاملہ میں امام جماعت احمدیہ کوئی حق ہی نہیں رکھتا۔ اسلامی تعلیم کو دوہرانا اس کا کام ہے اسے بدل نہیں سکتا۔ اگر کسی وقت جماعت احمدیہ کا امام کسی ملک کی جماعت کو یہ حکم دے کہ تم اپنی حکومت کے وفادار نہ رہو تو اس کے معنی یہی نہیں ہوں گے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنی حکومت کے وفادار نہ رہو بلکہ احمدیہ جماعت کے مذہبی مسلمات ک رو سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تم نعوذ باللہ من ذلک قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار نہ رہو۔ اور کیا کوئی نائب اپنے افسر کے حکموں کو بدل سکتا ہے۔ خلیفہ بے شک جماعت کا امام ہے لیکن وہ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا تابع ہے` محمد رسول اللہ~صل۱~ کا تابع ہے۔ قرآن کریم کا تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ کاتابع ہے اسے اپنے بالا افسروں کے احکام کے بدل دینے کا حق ہی کہاں ہے۔ پس یہ کہنا کہ جماعت احمدیہ قادیان کی وفاداری چونکہ امام جماعت احمدیہ کے حکم کے ساتھ وابستہ ہے جو پاکستان میں رہتا ہے اس لئے ان کی وفاداری پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک خلاف عقل قول ہے۔ حکومت کی وفاداری کا حکم ہمارے نزدیک قرآن کریم کا حکم ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے۔
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کی جس حکومت میں بھی کوئی احمدی رہتا ہے اس حکومت کا اس کو وفادار رہنا چاہئے۔ کوئی خلیفہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اس حکم کو بدل دے کیونکہ خلیفہ ڈکٹیٹر نہیں ہے وہ نائب ہے اور نائب اپنے سے بالا حکام کے احکام کا ویسا ہی فرمانبردار ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے لوگ<۔۱۳۶
پاکستانی سائنسدانوں کو نصیحت
۱۱۔ ماہ شہادت ۱۳۲۸ہش کو فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے پاکستانی سائنسدانوں کو نصیحت فرمائی کہ انہیں استقلال کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔ اخبار انقلاب ۱۴۔ اپریل ۱۹۴۹ء میں اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل لفظوں میں چھپا:۔
>حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے کہا پاکستان کے سائنسدانوں کو اس بات پر حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے کہ ان کے پاس نہ مناسب تعداد میں آلات ہیں نہ سکالر۔ اگر تم میں رسول کریم~صل۱~ کے پیروئوں کا جوش موجود ہے تو جس طرح اسلام ایک چھوٹی سی جگہ سے نکلا اور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا اسی طرح تمہارے لئے یہ بات مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ سائنس کی دنیا میں اسی طرح کامیابی حاصل کرو<۔۱۳۷
جماعت احمدیہ لاہور کی تبلیغی و تعلیمی ذمہ داریاں
حضرت مصلح موعودؓ نے ۶۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش کو بذریعہ خطبہ جمعہ جماعت احمدیہ لاہور کی تبلیغی و تعلیمی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ چنانچہ فرمایا:۔
>اگر لاہور کی جماعت کمزور ہوگی` اگر لاہور کی جماعت اپنے مقام کو جو اس کا جائز حق ہے حاصل نہ کرے گی تو اس کا اثر صوبہ کی دوسری جماعتوں پر بھی ضرور پڑے گا۔ اور وہ تبلیغ جس کے رستے اب خدا تعالیٰ نے کھول دئے ہیں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے جو مواقع ہمیں میسر آچکے ہیں انہیں زبردست دکھا لگے گا جس کا ازالہ آسانی سے نہیں ہوسکے گا لیکن لاہور کی جماعت اگر اخلاص سے کام لے گی اور اپنے فرض منصبی کو سمجھے گی تو ہماری تبلیغ اور بھی وسیع ہوجائے گی اور جماعت یوما فیوما بڑھتی چلی جائے گی۔ اگر لاہور کی جماعت لاہور میں اپنے اثر کو اتنا نمایاں اور ظاہر کردے کہ دشمن کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے کہ جماعت احمدیہ نے اپنا ایک نقش قائم کردیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صوبہ کے باقی اضلاع` شہروں اور دیہات میں احمدیت اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ پھیلنے لگ جائے گی جس سرعت سے وہ اب پھیل رہی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق تین چار ماہ تک ہم ربوہ میں جابسے اور ایسی سہولتیں ہمیں حاصل ہوگئیں کہ اسے ہم مرکز بنالیں تو پھر جماعت کا تنظیمی مرکز تو بے شک ربوہ ہی ہوگا لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ اس کا سیاسی مرکز ایک رنگ میں لاہور ہی ہوگا کیونکہ جماعت کا تنظیمی مرکز جس جگہ ہوضروری نہیں کہ دوسرے لوگ جو جماعت سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ بھی اپنی توجہ کا مرکز اسے بنالیں گے۔ لوگ قدرتی طور پر سہل ترین طریق کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ذاتی کاموں کے لئے لاہور آنا پڑتا ہے جب وہ لاہور آتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی توجہ ان اداروں اور تحریکوں کی طرف بھی ہوتی ہے جن کے مرکز یا مرکزوں کے ظل لاہور میں موجود ہیں۔ گویا وہ ایک تیر سے دو شکار کرلیتے ہیں۔ وہ یہاں آکر اپنے ضروری کام بھی کرتے ہیں اور ایسے ادارے اور تحریک سے واقفیت بھی حاصل کرلیتے ہیں جو ان کی توجہ کا مرکز بن رہا ہو۔ پس جہاں تک لاہور کو سیاسی حیثیت حاصل ہے ہم اس جماعت کو بعد میں بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اگر لاہور میں جو مشکلات ہمیں پیش آرہی ہیں وہ دور ہوجائیں اور ہمیں ایسی جگہیں مل جائیں جہاں ہم مرکز کا ایک حصہ رکھ سکیں تو مرکز بھی مقامی جماعت کے ان کاموں میں ممد ثابت ہوگا جس کے کرنے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی گئی ہے<۔۱۳۸
حضرت مصلح موعود~رضی~ کا ایک اہم بیان کشمیر میں استصواب رائے کے سلسلہ میں
۱۰۔ مئی ۱۹۴۹ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیر میں استصواب رائے کے لئے تین سب کمیٹیوں کی تشکیل کا اعلان کیا گیا:۔
۱۔
>پبلیسائٹ اڈوائزی کمیٹی< COMMITTEE) ADVISORY (PUBLICITE
۲۔
>ریفیوجی ری ہیبلی ٹیشن اڈوائزری کمیٹیCOMMITTEE)< ADVISORY HABLITATION۔RE (REFUGEE
۳۔
>پبلسٹی پالیسی کمیٹی< COMMITTE) POLICE (PUBLICITY
سرکاری اعلامیہ میں وضاحت کی گئی کہ ہر ایک کمیٹی میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں اور عوام کے نمائندہ ممبر کتنی تعداد میں ہوں گے۔ چونکہ یہ نئی جدوجہد بھی تحریک آزادی کشمیر کے اسی سلسلہ کی لازمی کڑی تھی جس کا آغاز ۱۹۳۱ء میں سیدنا المصلح الموعودؓ کی صدارت و قیادت میں ہوا تھا اس لئے حضور کو قدرتاً اس اعلان پر بے انتہا خوشی ہوئی اور آپ نے اس کا نہایت دلچسپی سے مطالعہ کرنے کے بعد ایک اہم بیان دیا جس کا متن اخبار >انقلاب< میں حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا:۔
>میرے دل میں تڑپ ہے کہ کشمیر آزاد ہو<
مرزا بشیر الدین کا بیان
لاہور ۱۶۔ مئی۔ جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود نے حسب ذیل بیان بغرض اشاعت جاری کیا ہے:۔
>حکومت پاکستان کے محکمہ بغیر پورٹ فولیو نے ۱۰۔ مئی ۱۹۴۹ء کو ایک اعلان شائع کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے کے لڑنے کے لئے ایک پالیسی طے کرلی ہے اور اس کے اصول انہوں نے شائع کردئے ہیں اور مختلف کاموں کے لئے سب کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ چنانچہ اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سب کمیٹی پبلیسائٹ اڈوائزری کمیٹی کے نام سے مقرر کی گئی ہے۔ دوسری ریفیوجی ری ہیبلی ٹیشن اڈوائزری کمیٹی اور تیسری پبلیسٹی پالیسی کمیٹی کے نام سے۔ ان تینوں کمیٹیوں کی ساخت اس طرح کی گئی ہے کہ پہلی کمیٹی میں چار ممبر پاکستان پبلک کے نمائندے یا آزاد کشمیر گورنمنٹ کے نمائندے ہیں اور تین مسلم کانفرنس کے نمائندے ہیں۔ دوسری میں نوممبر ہیں جن میں سے دو آزاد کشمیر گورنمنٹ کی طرف سے ہیں اور مسلم کانفرنس کے نمائندے ہیں اور پانچ پاکستانی حکومت یا پاکستان پبلک کے نمائندے ہیں۔ تیسری سب کمیٹی یعنی پروپیگنڈا کی کمیٹی میں سات ممبر ہوں گے جن میں سے چھ پاکستانی حکومت کے نمائندے ہوں گے اور ایک مسلم کانفرنس کا نمائندہ ہوگا۔ اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کشمیر کی جدوجہد کے خاتمہ کا زمانہ اب قریب آرہا ہے اور یہ جدوجہد اپنے آخری دور میں داخل ہونے والی ہے مجھے چونکہ قدرتاً اس نئی جدوجہد سے دلچسپی ہے جو اس سابقہ سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا میں صدر رہا ہوں۔ مجھے خصوصیت سے یہ تڑپ ہے کہ کشمیر کے مسلمان آزاد ہوں اور اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں سے مل کر اسلام کی ترقی کی جدوجہد میں نمایاں کام کریں۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں تمام ان لوگوں سے جو کشمیر کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ یہ آزادی کی تحریک آخری ادوار سے گزررہی ہے اپنی سب طاقتیں اس کی کامیابی کے حصول کے لئے لگادیں اور ایسی باتوں کو ترک کردیں جو اس مقصد کے حصول میں روک ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ صاف اور سیدھی بات ہے کہ جو اہمیت مقصد کو حاصل ہوتی ہے ذریعہ کو حاصل نہیں ہوتی۔ ہم خیال لوگوں کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں مگر مقصد الگ الگ نہیں ہوسکتے۔ یہ بھی امر ظاہر ہے کہ ایک متحد خیال کو مختلف تدابیر پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف تدابیر ہی میں سے بعض کو مقصد وحید کے لئے قربان کیا جائے گا۔ پس پاکستان کے ارباب حل و عقد کو یہ موقع دینے کے لئے کہ وہ ایسی پالیسی کو جسے وہ صحیح سمجھتے ہیں اچھی طرح چلا سکیں تمام مہاجرین کشمیر اور پاکستانی مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچانی چاہئیں تاکہ پاکستانی حکومت دلجمعی سے کام کرسکے اور ان نتائج کو پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے جو وہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی شخص اپنے اختلاف رائے کو ان لوگوں کے سامنے بھی پیش نہ کرے جو حکام مجاز ہیں ان کے سامنے اپنے خیالات کو بغیر جوش اور تعصب کے رکھ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ اصل کام کی جگہ لڑائی جھگڑوں کے تصفیہ میں لگے رہیں اور اصل کام کا حرج ہوجائے۔ پس تمام مختلف الخیال کشمیری مہاجرین کو اس کام کے لئے اکٹھے ہوجانا چاہئے اور حکومت پاکستان کے مقرر کردہ اداروں سے مل کر اس طرح زور لگانا چاہئے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہوجائے اور یہ عظیم الشان خطرہ جو ہر وقت پاکستان کے سامنے رہتا ہے کلی طور پر دور ہوجائے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو اعلان میں کشمیر کے نمائندوں کا نام نہیں ہے۔ اگر اہل کشمیر میں سے بعض سے اختلاف بھی ہو تو یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ہر نمائندہ ضرور ان سے اختلاف خیال رکھتا ہوگا۔ لیکن اگر فرض کرو ایسا ہو بھی تو کیا چند دنوں کے لئے ایک مخصوص کام کے لئے جس پر کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی اور موت کا انحصار ہے وہ صبر سے کام نہیں لے سکتے۔ میں تمام اہل کشمیر سے جن پر میرا پہلی جنگ آزادی کی وجہ سے یقیناً حق ہے کہتا ہوں کہ پاکستانی حکومت کی مذکورہ بالا تجاویز کو کامیاب کرنے کے لئے وہ پوری طرح تعاون کی روح کا مظاہرہ کریں۔ کشمیر اگر پاکستان سے ملا تو دوسروں کا ہی نہیں ان کا بھی فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان اسباب کو دور کردے جو تفرقہ اور شقاق کا موجب ہوتے ہیں<۔۱۳۹
نائجیریا` انگلستان اور امریکہ میں کامیاب سالانہ جلسے
۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء کی یہ خصوصیت ہے کہ اس سال نائجیریا اور انگلستان کی احمدی جماعتوں نے سالانہ جلسوں کا سلسلہ شروع کیا اور امریکہ کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ سب اجتماعات خدا کے فضل و کرم سے بہت کامیاب رہے۔ چنانچہ
۱۔ ۱۳` ۱۴۔ ظہور ۱۳۲۸ہش مطابق ۱۳` ۱۵۔ اگست ۱۹۴۹ء کو جماعت احمدیہ نائجیریا کا پہلا سالانہ جلسہ مسجد احمدیہ لیگوس میں انعقاد پذیر ہوا جس میں مقامی احباب کے علاوہ الارد` کوٹہ` رجب واڈے` الینے` ایپے` اجڈے` اودین` اونڈو` اکیٹی یوپا` اولیو` ادوم` اودو` آڈو اکیتی` زاریا` آگے ڈنگبی کی احمدی جماعتوں کے احباب شامل ہوئے۔ جلسہ کے چار اجلاس ہوئے جن میں مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی امیر وانچارج نائجیریا` قریشی محمد افضل صاحب اور مولوی سید احمد شاہ صاحب )پاکستانی مجاہدین( کے علاوہ مندرجہ ذیل نائجیرین احمدیوں نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا:۔
الفابیض صالح آف اوٹا` مسٹر اے بی ابانو گون` آئی ڈی اولوکو ڈانا` الحاج اے اے ابٹولا آف الارو` الحاج عبدالوحید فلادیو آف زاریا` ایچ اوسنیالو` بی بی بالوگون` الفا اے بی ڈنمالا آف اجڈے۔
جلسہ کے اختتام پر ایک مقامی غیر احمدی عالم الحاج عبدالل¶ہ آدم فارغ التحصیل الازہر یونیورسٹی مصر نے جماعت احمدیہ کی یورپ میں اسلامی خدمات کو سراہا۔ جلسہ کے ایام میں سالانہ مجلس مشاورت کے اجلاس بھی ہوئے جن میں فضل عمر احمدیہ سکول کے قیام اور احمدیہ اخبار >دی ٹروتھ< کے اجراء کے لئے اخراجات کی تحریک کی گئی۔ نائجیریا کے پریس نے اس کامیاب جلسے کی رپورٹیں شائع کیں۔ چنانچہ اخبار افریقین ایکسپریس نے ۲۳۔ اگست ۹۴۹ء کے شمارہ میں صفحہ اول پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہہ مبارک اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر بانی نائجیریا مشن کی تصویر شائع کی اور لکھا:۔
>صدر انجمن احمدیہ قادیان کی شاخ نائجیریا مشن نے اپنی پہلی سالانہ کانفرنس کے اجلاسوں میں نہایت اہم امور پر بحث کی ہے جو جماعت احمدیہ اور تمام مسلمانان نائجیریا کے مفاد سے وابستہ ہیں۔ اس پہلی سالانہ کانفرنس میں صوبہ جات کے ساٹھ نمائندے شامل ہوئے۔ علاوہ ازیں معززین شہر اور جملہ مذاہب کے علماء نے شرکت کی۔ احمدیہ سکول کھولنے کے لئے خاص تجاویز زیر غور آئیں۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ سکول وسط تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۴۹ء میں مسجد احمدیہ واقع اجوگیوا سٹریٹ میں جاری کیا جاوے۔ اس سکول میں تمام طلباء کو بلا امتیاز مذہب و ملت داخلہ کی اجازت ہوگی۔ کوٹہ اور السنے میں دارالتبلیغ کی تعمیر کے ریزولیوشن بھی پاس ہوئے۔ اس کے علاوہ اخبار ٹروتھ جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کا مقصد مسلمانان نائجیریا کے حقوق کی حفاظت ہوگا۔۱۴۰
۲۔ جماعت احمدیہ انگلستان کا پہلا سالانہ جلسہ ۲۹` ۳۰۔ ماہ اخاء ۱۳۲۸ہش مطابق ۲۹` ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا۔ جلسہ کا پہلا دن آنحضرت~صل۱~ کی سیرت کے لئے مخصوص تھا۔ جس میں مختلف مذاہب کے درج ذیل نمائندوں نے دربار رسالتﷺ~ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا:۔
۱۔
پروفیسر پرفرسٹ صدر شعبہ مذہب و فلسفہ گریگری پیرسن کالج۔
۲۔
مسٹر ڈسمنڈ مشہور برطانوی مصنف۔
۳۔
سوامی اویکانندن صدر لنڈن وید انتا سوسائٹی۔
۴۔
آلڈرمن ایڈیٹر سائوتھ ویسٹ ہیرلڈ۔
۵۔
چینی ڈاکٹر جی پی ایچ ڈی۔
۶۔
مسٹر ٹوثیگ ایڈیٹر ایسٹرن ورلڈ۔
اسی روز نماز مغرب و عشاء کے بعد بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سکاٹ لینڈ نے مناظر قادیان کی فلم دکھائی۔ دوسرے دن مسٹر بلال نٹل کی صدارت میں صبح گیارہ بجے سے لے کر نماز ظہر تک جلسہ ہوا جس میں سب سے پہلے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی تحریک پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حضور جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے اظہار عقیدت و محبت کا متفقہ ریزولیوشن پاس کیا گیا جس کے بعد انگریز نومسلموں میں سے مسٹر فرید احمد کلیٹن` مسٹر جمال الدین ڈائر` مسٹر بشارت احمد گریک` مسٹر عبدالکریم ہربرٹ اور مسٹر بشیر احمد آرچرڈ نے >میں نے اسلام کیوں قبول کیا< کے موضوع پر تقریریں کیں۔ ان تقریروں کے معاًبعد یورپ کے مبلغین نے >میرے مشن کے کام< کے عنوان پر خطاب فرمایا۔ آخر میں میر عبدالسلام صاحب نے بائبل کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقانیت ثابت کی۔ آخری اجلاس میں جو بعد نماز ظہر وعصر شروع ہوکر سات بجے شام تک جاری رہا جماعت انگلستان کے تبلیغی اور تربیتی نظام کو وسیع کرنے کے لئے آٹھ اہم قراردادیں پاس کی گئیں۔۱۴۱
۳۔ گزشتہ سال )۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء( میں جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کی پہلی یک روزہ سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس سال پٹس برگ میں ۱۷` ۱۸۔ تبوک ۱۳۲۸ہش )ستمبر ۱۹۴۹ء( کو دوسری کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ایک خاص پیغام اس کے لئے ارسال فرمایا جس میں حضور نے >میرے پیارے دوستو اور روحانی بچو< کے پرمحبت خطاب کے بعد جماعت امریکہ کو فرمایا:۔
>مجھ سے خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ انچارج امریکہ نے اس بات کی خواہش کی کہ میں آپ کو آپ کی دوسری سالانہ کانفرنس کے موقع پر ایک پیغام بھیجوں۔ >آج سے ۲۹ سال پہلے میں نے مفتی محمد صادق صاحب کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابیوں میں سے ہیں` آپ کے ملک میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھیجا تھا تاکہ وہ آپ کے سامنے خدا تعالیٰ اور ہدایت کے راستہ کو پیش کریں۔ اس وقت شاید ان کی باتوں کو ایک بوڑھے مجذوب کی بڑ سمجھا گیا مگر آخر اسی آواز کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے وہ لوگ پیدا کئے جو امریکہ میں سچائی اور صداقت کے علمبردار ہوئے<۔
آگے چل کر حضورؓ نے رقم فرمایا:۔
>احمدیت خدائے ذوالجلال کا پیغام ہے یہ کسی انسان کا کام نہیں۔ پس آپ ہمیشہ اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کو اسلام اور احمدیت کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل ہوتا کہ آپ کے اعمال خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعہ ایک مکمل شریعت آپ کو دی اور اس پر عمل کرنا آپ کے ہی فائدہ کے لئے ہے<۔
حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ
>آپ اس عظیم الشان موقع کو جو کہ آپ کو خدا تعالیٰ کا پیغام شروع میں ماننے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے فائدہ اٹھالیں اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی خدمت میں لگا دیں۔ اگر کسی میں کوئی کمزوریاں ہوں تو ان کی نقل نہ کریں بلکہ آپ خدا تعالیٰ کے کلام کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں<۔
آخر میں حضور نے دعا کی کہ
>خدا تعالیٰ آپ کی اور ان مبلغین کی جو آپ کے ملک میں ہیں اور آپ کے ملک کی مدد فرمائے اور آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں آپ کا ملک اسلام کے لئے ایک قلعہ ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں آپ پر نازل ہوں<۔ )اس روح پرور پیغام کا مکمل متن باب اول فصل سوم میں آچکا ہے(
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی اور دو دفعہ خطاب فرمایا۔
اس کانفرنس کا افتتاح چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ انچارج امریکہ نے کیا۔ کانفرنس میں رشید احمد صاحب شکاگو` محترمہ علیہ علی صاحبہ` احمد شہید صاحب` محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ نے بالترتیب تبلیغ` مال` تعلیم اور تمدن و معاشرت سے متعلق رپورٹیں سنائیں جن پر مختلف احباب نے اپنے مشورے پیش کئے اور غور و تمحیص کے بعد آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل تجویز کیا گیا جسے بروئے کار لانے کے لئے ایک سیکرٹری کا انتخاب عمل میں آیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پیغام نے خصوصاً امریکن احمدی خواتین میں ایسا زبردست جوش و خروش پیدا کردیا کہ جونہی حضور کا پیغام پڑھا جاچکا محترمہ علیہ علی صاحبہ نے تقریر کی کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی کا یہ نہایت ہی پیارا پیغام سننے کے بعد ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مزید قربانی کریں۔ اس امر کے اظہار کے لئے کہ احمدی نومسلم عورتیں حضور کے ارشاد پر ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ ہم لجنات امریکہ مشن فوری طور پر ۵۳۵ ڈالر نقد حضور کی خدمت میں پیش کرتی ہیں۔ یہ اخلاص کا منظر نہایت ہی روح پرور اور ایمان افروز تھا کہ ان نو مسلم مستورات نے جو بظاہر اسلام میں ابھی تک حدیث العہد تھا قربانی کا شاندار نمونہ دکھایا۔
کانفرنس میں مندرجہ ذیل جماعتوں کے نمائندے شامل ہوئے:۔
پٹس برگ` بالٹی مور` نیو یارک` ڈوکین` بریڈک` ہوم سٹرٹ` ڈیٹن` سینٹ لوئیس` ایسٹ سینٹ لوئیس` کین سٹی` آئی یوواسٹی` شکاگو` کلیولینڈ` میگس ٹائون` ڈی ٹرائٹ` انڈیانہ پوس۔
حضرت امیرالمومنین کے فوری ارشاد کے مطابق مولوی عبدالقادر صاحب ضیغم بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان سے پٹس برگ پہنچے اور کانفرنس میں شرکت کی۔ عبدالقادر صاحب ضیغم بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان سے پٹس برگ پہنچے اور کانفرنس میں شرکت کی۔ عبدالقادر صاحب ضیغم کے ورود پر جماعت احمدیہ امریکہ نے اپنے پیارے امام ہمام کا بہت شکریہ ادا کیا کہ پچھلے سال ۱۷۔ ستمبر کو جو موجودہ کنونشن کا پہلا دن ہے۔ مجاہد امریکہ مرزا منور احمد صاحب دفن ہوئے اور اس پر ایک سال نہیں گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک نیا مبلغ عطا فرما دیا۔۱۴۲
لبنانی پریس میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا تذکرہ
بیروت کے اخبار >الیوم< نے ۲۲۔ کانون الاول ۱۹۴۹ء کے پرچے میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی عظیم شخصیت کے بارے میں مندرجہ ذیل تعارفی نوٹ شائع کیا:۔
>یتمتع الخلیفہ میرزا بشیر الدین محمود احمد بمکانہ دینیہ کبیرہ فی باکستان` وھو من لاھور عاصمہ البنجاب` ویبلغ من العمر ۶۰ عاما و یعتبر ثقہ فی امور الاسلم ویتولی رئاسہ الجماعہ الاحمدیین` الذین ینتشرون فی کل بقعہ من بقاع العالم مبشرین بتعالیم الدین الاسلامی الحنیف` ویرجع الیہ الفضل الاول فی انشاء مراکز التبشیر فی اکثر بلدان العالم` وقد لعب ھذا الزعیم الدینی المسلم دورا ھاما فی کشمیر وفی تاسیس دولہ باکستان لجماعہ نظام خاص من الفقیر الی الوزیر` وھو ای السید میرزا بشیر الدین تقی ورع و مستجاب الدعوات وقد کتب عن حیاتہ السید محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجیہ باکستان باللغتین الانکلیزیہ والارادیہ۔ ولھذا الزعیم الدینی الکبیر مولفات متعددہ فی الاسلام وفی تفسیر تعالیمہ باللغتین الاردیہ والانکلیزیہ` وقد سبق لہ ان تولی رئاسہ لجنہ کشمیر کما مثل مسلمی الھند فی موتمر الادیان الذی انعقد فی عام ۱۹۲۴ فی لندن ۔۔۔۔۔۔<۱۴۳
خلیفہ میرزا بشیر الدین محمود احمد کو پاکستان میں مذہبی اعتبار سے بڑی عظمت و اہمیت حاصل ہے آپ کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہے اور آپ کا تعلق پنجاب کے دارالحکومت لاہور۱۴۴ سے ہے۔ آپ اسلامی مسائل میں ثقہ سمجھے جاتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے امام ہیں جو اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہے اور اسلامی عقائد کی تبلیغ کررہی ہے اور دنیا کے اکثر ممالک میں تبلیغی مراکز کیے قیام میں اس کا نمایاں دخل ہے۔ اس مسلمان مذہبی لیڈر نے پاکستان کی تاسیس اور مسئلہ کشمیر میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے افراد فقیر سے لے کر وزیر تک ایک خاص نظام سے وابستہ ہیں۔
میرزا بشیر الدین متقی` پارسا اور مستجاب الدعوات ہیں۔ محمد ظفراللہ خان وزیر خارجہ پاکستان نے انگریزی اور اردو زبانوں میں آپ کی سیرت لکھی ہے۔ اس عظیم مذہبی لیڈر نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی تفسیر میں اردو اور انگریزی میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے ہیں۔ اسی طرح آپ نے مسلمانان ہند کی طرف سے مذاہب عالم کانفرنس میں بھی نمائندگی کی جو ۹۲۴ء میں بمقام لنڈن منعقد ہوئی تھی۔
مبلغین کی بیرونی ممالک سے آمد اور روانگی
اس سال حسب ذیل مجاہدین احمدیت بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد پاکستان تشریف لائے:۔
۱۔
مولوی محمد صدیق صاحب انچارج مشن سیر الیون )آمد لاہور ۳۔ احسان ۱۳۲۸ہش۱۴۵4] ([rtf
۲۔
ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی )آمد لاہور یکم تبوک ۱۳۲۸ہش۱۴۶(
۳۔
شیخ نور احمد صاحب منیر مبشر اسلامی بلاد عربیہ )آمد ربوہ ۱۷۔ فتح ۱۳۲۸ہش(
شیخ نور احمد صاحب منیر کے استقبال کے لئے دوسرے مخلصین کے علاوہ سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود بھی ربوہ اسٹیشن پر تشریف لے گئے۔۱۴۷
اسی طرح شیخ صاحب کی آمد سے دو روز قبل )۱۵۔ فتح کو( مولانا محمد صادق صاحب مجاہد انڈونیشیا سنگاپور کے لئے روانہ ہوئے تو اس موقع پر بھی حضور پرنور اسٹیشن پر رونق افروز تھے اور حضور نے آپ کو دعائوں سے الوادع کیا۔۱۴۸
نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل کتابیں مصنفین سلسلہ کی طرف سے شائع ہوئیں جن سے جماعتی لٹریچر میں بے بہا اور مفید اضافہ ہوا:۔
لائف آف احمد )مولانا عبدالرحیم صاحب درد( مقامات النساء )مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری( البیان ی اسلوب القران۔ اعجاز القران ما یثبت بالقران]ydob [tag )حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ( تلخیص العربیہ یا خلاصتہ المنجد )حکیم عبداللطیف صاحب شاہد( انذاز و بشارت )حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب( فقہ احمدیہ زنانہ حصہ دوم )مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری( سیرت خاتم النبینﷺ~ حصہ سوم )مولفہ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے(۱۴۹
‏tav.12.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
دوسرا باب )فصل دہم(
کتاب >اسلام اور ملکیت زمین< کی اشاعت۔ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء کا انعقاد۔ دفاع وطن کی تیاری میں حصہ لینے اور جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک۔ حضرت مصلح موعودؓ کا سفر کوئٹہ و سندھ۔ اوکاڑہ اور راولپنڈی میں دو احمدیوں کی المناک شہادت
)خلافت ثانیہ کا چھتیسواں سال ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء(
>اسلام اور ملکیت زمین< کی اشاعت
پاکستان میں کمیونسٹ تحریک نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر یہ آواز بلند کرنا شروع کی کہ ملکیت زمین کے بارے میں ہمارے ملک میں اصلاح کی ضرورت ہے مگر جو اصلاح تجویز کی اگرچہ وہ تفصیلاً وہی تھی جو کمیونزم نے تجویز کی ہے لیکن اس کا نام >اسلامی اصلاح< رکھ دیا۔ بعض حلقوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ موڑ کر ایسی شکل دینے کی کوشش کی کہ لوگ اس تحریک کو اسلامی ہی سمجھیں۔ بعض نے رسول اکرم~صل۱~ اور آپ کے صحابہؓ کے تعامل کو نظر انداز کرکے کچھ نئے معنی ان آیات اور احادیث کو دے دیئے جن سے ان کے نظریہ کی تصدیق ہوتی تھی۔
برسر اقتدار مسلم لیگ پارٹی نے اس پروپیگنڈا سے متاثر ہوکر زمیندارہ سسٹم کی اصلاح کے لئے پنجاب` سندھ اور مشرقی بنگال میں کمیٹیاں مقرر کردیں جن کی رپورٹوں پر غور کرنے کے بعد مرکزی مسلم لیگ نے ایک رپورٹ تیار کی جس پر مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے زمیندارہ اصلاح سے متعلق کچھ اصول وضع کئے اور فیصلہ کیا کہ بڑی بڑی زمینداریاں اور جاگیرداری بہرحال جلد ختم کردی جائے۔ اور صوبجاتی حکومتوں کو توجہ دلائی کہ وضع کردہ اصولوں کو جاری کرنے کی کوشش کریں۔
جہاں تک حکومت وقت کے نمائندوں کے فیصلوں کا تعلق تھا حضرت مصلح موعودؓ کو اس پر بحث کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ آپ کا یہ قطعی مملکت تھا کہ سیاسی امور سیاسی لوگوں پر ہی چھوڑ دینے چاہئیں لیکن ایک بین الاقوامی مذہبی جماعت کے دینی راہ نما کی حیثیت سے آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کے نام پر کوئی ایسی بات کہی جائے جو اسلام سے ثابت نہ ہو چنانچہ آپ نے اس اہم مذہبی فرض کی بجاآوری کے لئے >اسلام اور مملکت زمین< کے نام سے ایک پراز معلومات کتاب سپرد قلم فرمائی جو صلح ۱۳۳۹ہش/ جنوری ۱۹۵۰ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بارہ ۱۲ ابواب پر مشتمل تھی اور اس میں اپنے ملکیت اشیاء کے قانون` ملکیت زمین کے اصول` جاگیرداری` وسیع رقبہ اراضی کی ملکیت` لگان اور بٹائی پر زمین دینے اور حکومت کا عوام کی جائیداد پر جبراً قبضہ کرنے کے مسائل پر خالص اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی۔ نیز سندھ زمیندارہ کمیٹی اور مسلم لیگ کی زمیندارہ کمیٹیوں کی بعض خامیوں پر بھی عقلی بحث کی۔ اور آخر میں کسانوں اور کاشت کاروں کی حالت زار کی اصلاح کے لئے ایسی مفید تجاویز بتائیں جن سے ملک میں رائج شدہ فرسودہ زمیندارہ نظام کی کایا پلٹ سکتی تھی۔ ان تجاویز کا خلاصہ یہ تھا:۔
۱۔
زمیندار ان تمام طریقوں کو استعمال کریں جن کے ذریعہ مغربی ممالک کے زمیندار آمدن پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً غیرملکی کاشت کار اپنی مملوکہ جائداد کے ہر حصہ کو ہر طریق سے آمدن پیدا کرنے میں لگاتا ہے اور اپنے فارم میں باغ لگا کر` شہد کی مکھیاں` مرغیاں اور گائے پال کر اور علاوہ غلہ کے سبزی ترکاری پیدا کرکے زمین کے چپہ چپہ کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ زمین سونا اگلنے لگتی ہے۔
۲۔
حکومت دیہات میں سوختنی اور تعمیری لکڑی کے ذخائر قائم کرنے کا انتظام کرے تا کسانوں` کاشتکاروں اور زمینداروں کا کھاد ایندھن کی بجائے پیداوار بڑھانے کے کام آسکے۔
۳۔
ہمیں اپنے زمیندارہ نظام کی اصلاح کے لئے امریکہ اور روس کی بجائے )وہاں وسیع اور کھلی زمینیں پڑی ہوئی ہیں یا آبادی کے وسیع مواقع موجود ہیں( اٹلی` جنوبی انگلستان اور وسطی جرمنی میں جانا ۔ ممکن ہے فرانس` سپین` شام اور لبنان سے بھی اس بارہ میں ہم کو کچھ مدد مل سکے۔ جو وفد ان ملکوں کے دورہ کے لئے جائیں ان کو عملی طور پر ایسے کھیتوں میں کام کرنے کی ہدایت ہو جن کی کل زمین دس پندرہ ایکڑ سے زیادہ نہ ہو۔ وہ عملی طور پر معلوم کریں کہ ان کے مالکوں کی کیا حالت ہے؟ اگر ہمارے ملک سے اچھی حالت ہے تو وہ کس ذریعہ سے بنائی جاتی ہے اور کہاں سے اس کے لئے آمد پیدا کی جاتی ہے؟
۴۔
ملکی صنعت و حرفت کو ترقی دی جائے اور اسے صرف بڑے بڑے شہروں میں محدود کرنے کی بجائے پورے ملک میں ایسے طریق پر پھیلایا جائے کہ زمیندارہ آبادی اپنے کاموں کو چھوڑے بغیر صنعت و حرفت میں ترقی کرسکے اور اس کی دلچسپیاں اپنی زراعت کے ساتھ بھی باقی رہیں۔
۵۔
کاشت کار کو یہ بتانے کے لئے پراپیگنڈا کی مہم چلائی جائے کہ مزدوری سے ہرگز نفرت نہیں کی جانی چاہئے۔
۶۔
زمین کے مالک کاشت کاروں سے جو جابرانہ اور ظالمانہ سلوک روا رکھتے ہیں اس کی روک تھام کے لئے قانون بنایا جائے۔ بیگار بند کرانے کے لئے سزائیں مقرر کی جائیں۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ مزار عین اور زمین کے مالکوں سے مشورہ کرکے یہ قانون بھی پاس کرا دے کہ ہر زمین کا مقاطعہ تین سے چھ سال تک کے لئے ہوگا۔ اس مقررہ عرصہ سے پہلے کسی مزارع کو زمین سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔
۷۔
ابتداًء جب پنجاب اور سندھ میں نہریں کھودی گئیں تو ماہرین سائنس نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ اتنے اتنے سال میں یہاں سیم شروع ہوجائے گی لیکن باوجود اس کے حکومت کی طرف سے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری وقت پر نہ کی گئی۔ اول تو نہریں بناتے وقت ایسی احتیاطیں اختیار کی جانی چاہئیں کہ سیم یا تو پیدا نہ ہو یا کم سے کم پیدا ہو۔ لیکن اگر اس کے لئے بھاری اخراجات درکار ہوں تو کم سے کم معالجاتی تدابیر تو فوراً ہی شروع ہوجانی چاہئیں۔
۸۔
حکومت کو کاشت کے متعلق صحیح اور بروقت راہ نمائی کرنی چاہئے۔ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر ایک ہی جگہ کا بیج استعمال کرتے رہنا فصل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اچھی فصلوں کے لئے ضروری ہے کہ مختلف دوسری جگہوں سے بیج منگوا کر ڈالا جائے۔ پھر اس معاملہ پر بھی غور کیا جائے کہ کلر اور سیم یا پانی کے بغیر کون سی اجناس پرورش پاسکتی ہیں۔ اور ہمیں وہ بیج نکالنے پڑیں گے جو کلر اور سیم میں یا بغیر پانی کے بھی پرورش پاسکیں اور نہروں کو محدود کیا جائے تاکہ ہمارا ملک دلدل بن جانے سے بچ جائے ورنہ جس رنگ میں ہمارے ملک میں سیم بڑھ رہی ہے تیس یا پینتیس سال میں اس رفتار کے ساتھ اس کی حالت ایسی خطرناک ہوجائے گی کہ ملک کے لئے خوراک مہیا کرنا بھی مشکل ہوجائے گی۔
۹۔
افتادہ زمینوں کے صحیح استعمال کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ غیر مسلموں کی متروکہ زمین کا بھی بہت سا حصہ نکلوانے کے قابل ہے۔
۱۰۔
اگر گورنمنٹ تحقیقات کرائے تو اسے معلوم ہوگا کہ سندھ میں کئی لاکھ غیر پاکستانی زمیندارہ یا غیر زمیندارہ مزدوری کررہا ہے۔ یہ لوگ بیکانیر` جیلمیز` جودھ پور` جے پور` کچھ اور تھل کے علاقہ سے آتے ہیں اور مقاطعہ پر زمینیں لے کر کاشت کرتے ہیں یا زمیندارہ مزدوری کرتے ہیں۔ یہ لوگ جو ادھر سے آتے ہیں بعض صورتوں میں بڑے منظم ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں کانگرس کے مقرر کردہ افسر ان کے ساتھ آتے ہیں۔ خطرہ کے وقت میں یہ لاکھوں کی آبادی نہایت ہی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اپنے ملک کی آبادی کے لئے گزارہ کی صورت نہ پیدا کی جائے اور غیر ملک کے لوگوں کو یہ موقع دیا جائے۔
۱۱۔
کاشت کار کی آمدن کا ایک کافی حصہ خود حکام کے پیٹوں میں جاتا ہے اگر اس کو بچایا جائے تو اس سے بھی زمیندار کی حالت بہتر ہوجائے گی۔
۱۲۔
کاشت کار فخر و مباہات اور شادی بیاہ پر بہت خرچ کردیتا ہے جس سے اسے بچنا چاہئے۔
۱۳۔
حکومت کو ایسے ذرائع سوچنے چاہئیں جن سے کاشت کاروں کو مقدمہ بازی کی *** سے نجات ملے۔ صحیح طور پر عوام کی تربیت کی جائے تو مقدمات کم ہوں گے اور گورنمنٹ اور کاشتکار دونوں کا روپیہ بچے گا۔
۱۴۔
اگر تعاون باہمی کی انجمنیں بنائی جائیں اور ان کو سودی اصول کی بجائے تجارتی بنیاد پر چلایا جائے اور گورنمنٹ ایک حد تک روپے یا اجناس کی وصولی میں مدد کرے تو کاشت کار کی گئی فوری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اور وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔
اس کتاب میں حضور نے ایک طرف مسلم لیگی حکومت کو بھی زبردست انتباہ کیا کہ اگر اس نے غیر طبعی یا غیر شرعی تجاویز کی طرف توجہ کی تو وہ کمیونزم کے حملہ کا مقابلہ کرنے کی طاقت کھو بیٹھے گی دوسری طرف بڑے زمینداروں کو بھی توجہ دلائی کہ:۔
>اسلام کی بنیاد اخوت اور رحم پر ہے۔ ان کو اپنے بھائیوں کی مشکلات کے حل کرنے میں سیاسی لیڈروں سے زیادہ کوشاں ہونا چاہئے۔ اگر وہ غریب زمیندار کی مدد خود خوشی سے کریں گے اور ایسے قوانین کے بنانے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں گے جن سے ظلم دور ہوجائے اور ان کا غریب بھائی آرام سے زندگی بسر کرے تو یہ بات دین اور دنیا دونوں میں ان کے لئے عزم اور آرام کا موجب ہوگی اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے سرخرو جاسکیں گے ورنہ وہ سمجھ لیں کہ اگر حکومت اسلامی احکام کے ادب سے کوئی جابرانہ قانون نہ بھی بنائے تو بھی خدائی عذاب سے ان کو دوچار ہونا پڑے گا اور کوئی چیز بھی ان کو نہ بچا سکے گی<۔۱۵۰
حضرت مصلح موعودؓ کی اس معرکتہ الاراء تصنیف کی بھاری خصوصیت یہ تھی کہ اس میں آپ نے مسلمانان عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرکے اتمام حجت کردی کہ:۔
>اس وقت کمیونزم کا خوف دنیا پر طاری ہورہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ بڑی بڑی حکومتیں بھی جو اس وقت کمیونزم کا مقابلہ کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں ان کے دل اندر سے کھوکھلے ہورہے ہیں۔ اردو زبان کا یہ مشہور مقولہ ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو یعنی جب دنیا میں لوگ کثرت سے ایک آواز سے اٹھانے لگتے ہیں تو قلوب مرعوب ہوجاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ الٰہی فیصلہ ہے اور اسی طرح ہوکر رہے گا حالانکہ یہ آواز محض ایک رو ہوتی ہے جیسے بہائو کی طرف پانی بہتا ہے لیکن ہمیشہ بہائو کی طرف پانی بہنے دینا کوئی عقلمندی نہیں ہوتی۔ جن لوگوں نے یہ کہا کہ پانی بہائو کی طرف بہا کرتا ہے ان کے ملک اجڑتے رہے لیکن جنہوں نے یہ کہا کہ بے شک پانی بہائو کی طرف بہتا ہے۔ لیکن بہائو کا بنانا بھی خدا تعالیٰ نے انسانوں کے اختیار میں رکھا ہے آئو ہم نئے بہائو بنائیں انہوں نے نہریں بنائیں اور نالے بنائے اور ویران ملکوں کو آباد کردیا۔ پس کوئی شخص میری بات سننے یا نہ سننے میں یہ صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کمیونزم کے خوف کی وجہ سے کوئی بات نہیں کہنی چاہئے۔ اگر کمیونزم اچھی چیز ہے تو اس سے خوف کے کوئی معنی نہیں ہمیں شوق سے اس کو قبول کرنا چاہئے اور اس کے خلاف سب باتوں کو چھوڑ دینا چاہئے خواہ مذہب کے نام پر کہی جاتی ہوں یا کسی اور نام پر۔ جو بات ٹھیک ہے وہ بہرحال ٹھیک ہے لیکن اگر کمیونزم غلط ہے تو پھر محض اس وجہ سے کہ وہ ایک ایسی تعلیم پیش کررہی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس اس کی طرف بھاگے جارہے ہیں ہمارا اس کو قبول کرلینا خودکشی کے مترادف ہوگا اور ہمیں بہادروں کی صف میں نہیں بلکہ بزدلوں کی صف میں کھڑا کرے گا<۔۱۵۱
مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء کا انعقاد
اس سال جماعت احمدیہ کی اکتیسویں مجلس مشاورت مورخہ ۷`۸`۹۔ شہادت کو منعقد ہوئی جس میں علاوہ دیگر اہم فیصلوں کے ۷۶۵۴۲ روپے کا بجٹ آمد وخرچ منظور کیا گیا۔ مشاورت کا انتظام نصرت گرلز ہائی سکول کے صحن میں کیا گیا۔ کل ۳۷۷ نمائندگان نے شرکت کی جن میں مغربی افریقہ` مشرقی افریقہ` امریکہ` سپین` شام` مصر اور ہالینڈ وغیرہ کی احمدی جماعتوں کے ۱۳ نمائندے بھی تھے۔۱۵۲
ہجرت کے بعد سے اب تک نمائندگان مشاورت زمین پر ہی بیٹھتے تھے اور ان کے لئے کرسیوں کا کوئی انتظام نہ ہوتا تھا مگر اس دفعہ حضور نے کارکنوں کو اول نمبر پر یہ ہدایت فرمائی کہ:۔
>وہ مجلس شوریٰ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ اس کے لئے سامان جمع کریں۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ رہے گی اور مجلس شوریٰ بھی ہمیشہ ہوتی رہے گی بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ منظم ہوتی چلی جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ نمائندگان اور زائرین کے بیٹھنے کے لئے مناسب انتظام کیا جائے<۔۱۵۳
اس ضمن میں حضورؓ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مجلس میں ہر ضلع کے نمائندوں کو اکٹھا بٹھایا جائے زائرین کو بھی الگ ایک ترتیب سے بٹھانے کا انتظام کیا جائے اور خدام الاحمدیہ کی طرح شوریٰ کے کارکن بھی مشاورت کے دوران بیج لگائیں تاکہ نمائندگان سے ان کا امتیاز ہوسکے۔ قبل ازیں تحریک جدید انجمن احمدیہ کا بجٹ ممبران مجلس تحریک جدید باہمی مشورہ سے بنالیتے تھے اور پھر حضور سے منظوری لے لیتے تھے مگر اس مشاورت پر حضور نے اس فیصلہ کا اعلان فرمایا کہ آئندہ تحریک جدید کا بجٹ بھی مجلس شوریٰ میں پیش ہوا کرے۔
دفاع وطن کی تیاری میں حصہ لینے کی پرزور تحریک
قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لینے کے باعث جماعت احمدیہ پاکستان پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ دوسرے محب وطن پاکستانی شہریوں سے بڑھ کر اس نوزائیدہ مملکت کے استحکام میں کوشاں رہے اور اس کے دفاع اور تحفظ کی خاطر فوجی ٹریننگ سیکھے تا جب اسلام` پاکستان اور ملت اسلامیہ کے لئے جانی قربانیاں پیش کرنے کا موقع آئے تو جماعت احمدیہ کے مجاہد صف اول میں کھڑے ہوکر مثالی نمونہ قائم کرسکیں۔
اسی پاک مقصد کے پیش نظر فرقان بٹالین کا قیام عمل میں لایا جاچکا تھا اور حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر بہت سے احمدی نوجوان محاذ کشمیر پر شاندار خدمات انجام دے رہے تھے مگر ایک طبقہ مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کا ثبوت دے رہا تھا جس پر حضرت امیرالمومنین نے مشاورت ۱۳۲۹ہش میں انتہائی خفگی کا اظہار کیا اور جماعت کو آزادی ملک کے نتیجہ میں عائد ہونے والی قومی اور ملکی فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا:۔
>قادیان میں رہتے ہوئے ہمارے لئے ایک مشکل تھی ورنہ ان دنوں بھی ہم یہی پسند کرتے کہ دشمن سے لڑ کر مرجائیں اور وہ مشکل یہ تھی کہ ہمیں حکومت سے لڑنا پڑتا تھا اور حکومت سے لڑنا ہمارے مذہب میں جائز نہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے ہمارا پیچھے ہٹنا حرام اور قطعی حرام ہوتا اگر حکومت سے مقابلہ نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔ مگر چونکہ خدا کا حکم تھا کہ حکومت سے نہیں لڑنا اس لئے ہم پیچھے ہٹ گئے جیسے مکہ میں رہتے ہوئے رسول کریم~صل۱~ کے لئے دشمن سے جنگ کرنا جائز نہیں تھا مگر جب آپﷺ~ مدینہ تشریف لے گئے تو لڑائی ہوگئی تو حکومت کے ساتھ ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی اس لئے اب پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں<۔۱۵۴
حضورؓ نے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشین کرانے کے بعد بڑے موثر پیرایہ میں تحریک فرمائی کہ احمدیوں کو ملکی قانون کے تحت فوجی ٹریننگ کے ہرممکن موقع سے کماحقہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ جہاد اور جنگ کی تیاری تو چندہ سے بہت زیادہ اہم ہے۔ جیسے نماز فرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے۔۱۵۵ چنانچہ فرمایا:۔
>جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے اور جہاد میں کوئی شخص حصہ ہی کس طرح لے سکتا ہے جب تک وہ فوجی فنون کو سیکھنے کے لئے نہیں جاتا۔ کشمیر کی جنگ کا شروع ہونا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اہم موقع تھا جس سے ہماری جماعت بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتی تھی بلکہ اب بھی اٹھا سکتی ہے۔ لیکن اگر کشمیر کی جنگ نہ ہوتی تب بھی ہماری جماعت کا فرض تھا کہ وہ فوجی فنون کو سیکھنے کے لئے اپنے نوجوانوں کو پیش کرتی تاکہ اگر براہ راست پاکستان پر ہی حملہ ہوجاتا تو وہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتی۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ فوجی خدمت سے جی چراتے ہیں اس وجہ سے جی چراتے ہیں کہ ان کی اس کام سے جان نکلتی ہے حالانکہ دنیا میں جب بھی کوئی قیمتی چیز کسی کو ملے گی لوگ اسے اس سے چھیننے کی کوشش کریں گے۔ حضرت عیٰسی علیہ السلام ساری عمر یہ کہتے رہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیردو لیکن دشمنوں نے اس شخص کی قوم پر تھی تلوار چلائی اور خود حفاظتی پر مجبور کردیا۔ اسلام کتنا صلح کن مذہب ہے مگر مسلمانوں کو حکومت ملی تو ان کے ملک کو تباہ کرنے کے لئے چاروں سے دشمن کود پڑے۔ رسول کریم~صل۱~ کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت اس قدر استوار تھی کہ گولڑائی میں سب سے زیادہ بہادر آپ سمجھے جاتے تھے مگر آپ دشمن کو اپنے ہاتھ سے مارتے نہیں تھے صرف لوگوں کو ہدایتیں دیتے تھے کہ اس میں اس طرح لڑائی کرو گویا آپﷺ~ کا دل نہیں چاہتا تھا کہ لڑائی کریں لیکن چونکہ دشمن نے آپ کو لڑنے پر مجبور کردیا اس لئے آپﷺ~ کو بھی اس کے مقابلہ میں نکلنا پڑا۔ صرف ایک دفعہ ایک دشمن نے اصرار کیا کہ آپ اس سے لڑائی کریں اور آپ اس کے مجبور کرنے پر اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے۔ مگر بعض دفعہ ایمان کے ساتھ محبت مل کر ایک عجیب مضحکہ خیز مثال پیدا کردیتی ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کی بہادری اور جرائت کا حال سب کو معلوم تھا مگر ایک لڑائی میں جب کفار کو ایک جرنیل مقابلہ کے لئے نکلا اور اس نے چیلنج کیا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ میرے مقابلہ کے لئے نکلیں تو صحابہ~رضی۱~ آپﷺ~ کے گرد اکٹھے ہوگئے کہ آپﷺ~ کی حفاظت کریں حالانکہ آپ ان سے زیادہ بہادر تھے۔ چنانچہ آپﷺ~ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو اور اسے آنے دو۔ جب وہ آگے بڑھا اور اس نے حملہ کردیا تو رسول کریم~صل۱~ نے اس کے وار کو روک کر اپنا نیزہ لمبا کرکے محض اس کے جسم کو چھوا اور وہ اسی وقت واپس لوٹ گیا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ تم اتنے بہادر تھے مگر آج تم نے کیا کیا کہ نیزہ ادھر تمہارے جسم سے چھوا اور ادھر تم واپس لوٹ آئے۔ اس نے کہا تمہیں حقیقت نہیں معلوم تمہیں یہی نظر آرہا ہے کہ وہ نیزہ میرے جسم سے چھوا ہے تم مجھ سے پوچھو جس کے نیزہ لگا ہے تو مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا جہان کی ساری آگ میرے جسم میں بھر دی گئی ہے۔ یہ ایک معجزہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ مگر بہرحال اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم~صل۱~ لڑائی سے نفرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کو لڑنا پڑا۔ پس یہ خیال کرنا کہ ہم محبت اور پیار سے تبلیغ کرنے والے ہیں ہمارے ساتھ کسی نے کیا لڑنا ہے یا یہ کہ ہمارا ملک صلح پسند ہے اس پر کسی نے کیا حملہ کرنا ہے محض جہالت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھیں اور فوجی ٹریننگ حاصل کریں تا وقت پر اپنے ملک کی حفاظت کرسکیں۔ پس جماعت کو اب یہ فیصلہ کرکے یہاں سے جانا چاہئے کہ وہ اپنے سارے نوجوانوں کو نکال کر فوجی ٹریننگ کے لئے بھجوائے گی ۔۔۔۔۔۔ تاکہ جب کبھی جہاد کا موقع آئے یا رسول کریم~صل۱~ کے اس ارشاد کے مطابق کہ >من قتل دون مالہ و عرضہ فھو شھید< ہمیں اپنے ملک` اپنے امول اور اپنی عزتوں کی حفاظت کے لئے قربانی کرنی پڑے تو ہم اس میدان میں بھی سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں اور دوسرے مسلمان ہمیں یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ مولوی ملک کی حفاظت کے وقت کچے ثابت ہوئے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ کافر بھی بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے ہیں۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ایک شخص کفار پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایسی بے جگری کے ساتھ لڑائی کی اور اس طرح کفار کو تہ تیغ کرنا آسان شروع کیا کہ مسلمان اس کو دیکھ دیکھ کر بے اختیار کہتے کہ خدا اس شخص کو جزائے خیر دے یہ اسلام کی کتنی بڑی خدمت سرانجام دے رہا ہے مگر رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا کہ اگر کسی نے اس دنیا کے پردہ پر کوئی دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ جب رسول کریم~صل۱~ نے یہ بات فرمائی تو صحابہؓ سخت حیران ہوئے کہ اتنی بڑی قربانی کرنے والے اور آگے بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والے کے متعلق رسول کریم~صل۱~ نے یہ کس طرح فرما دیا کہ اگر کسی نے اس دنیا کے پردہ پر کوئی دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اسے دیکھ لے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں میں نے کئی لوگوں کو اس قسم کی باتیں کرتے سنا کہ رسول کریم~صل۱~ نے یہ کیا فرما دیا اور میں نے سمجھا کہ ممکن ہے اس سے بعض لوگوں کو ٹھوکر لگے چنانچہ میں نے قسم کھائی کہ میں اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں میں اس کے ساتھ ساتھ رہا یہاں تک کہ وہ لڑتے لڑتے زخمی ہوا اور اسے لوگوں نے اٹھا کر ایک طرف لٹا دیا۔ وہ درد کی شدت کی وجہ سے کراہتا تھا اور چیخیں مارتا تھا۔ صحابہؓ اس کے پاس پہنچتے اور کہتے کہ >ابشر بالجنہ< تجھے جنت کی خوشخبری ہو۔ اس پر وہ انہیں جواب میں کہتا >ابشرونی بالنار< مجھے جنت کی نہیں دوزخ کی خبر دو۔ اور پھر اس نے بتایا کہ میں آج اسلام کی خاطر نہیں لڑا بلکہ اس لئے لڑا تھا کہ میرا ان لوگوں کے ساتھ کوئی پرانا بغض تھا۔ آخر وہ صحابیؓ کہتے ہیں اس نے زمین میں اپنا نیزہ گاڑا اور پیٹ کا دبائو ڈال کر خود کشی کرلی۔ جب وہ مر گیا تو وہ صحابیؓ رسول کریم~صل۱~ کی مجلس میں پہنچے تو انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اللہ کے رسول ہیں۔ آپﷺ~ نے بھی جواب میں فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کا رسول ہوں۔ پھر آپﷺ~ نے فرمایا تم نے یہ بات کیوں کہی ہے۔ اس نے کہا یارسول اللہ آپﷺ~ نے فلاں شخص کے متعلق یہ بات کہی تھی اس پر بعض صحابہؓ کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ اتنے بڑے نیک انسان کے متعلق رسول کریم~صل۱~ نے یہ کیا کہہ دیا ہے مگر میں نے کہا خدا کے رسول کی بات جھوٹی نہیں ہوسکتی اور میں نے قسم کھائی کہ میں اسے چھوڑوں گا نہیں جب تک میں اس کا انجام نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ میں اس کے ساتھ رہا اور آخر وہ خودکشی کرکے مر گیا۔ تو بے دین لوگ بھی ملک کی خاطر اور حمیت کی خاطر اور جاہلیت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے ہیں۔ پس جان اتنی قیمتی چیز نہیں کہ اسے اس طرح سنبھال سنبھال کر رکھا جائے لیکن جب سینکڑوں سالکی غلامی کے بعد کسی کو آزادی ملے اور سینکڑوں سال کے بعد کسی کو اس بات کے آثار نظر آنے لگیں کہ خدا تعالیٰ پھر اسلام کی سربلندی کے مواقع بہم پہنچارہا ہے تو اس وقت بھی اپنے حالات میں تغیر پیدا نہ کرنا اور غلامی کے احساسات کو قائم رکھنا بڑی خطرناک بات ہے۔ ہم تو انگریزوں کے زمانہ میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ غلامی اور چیز ہے اور اطاعت اور چیز۔ جب گاندھی کہتا کہ ہم کب تک انگریزوں کے غلام رہیں گے تو میں ہمیشہ اس کے جواب میں یہ کہا کرتا تھا کہ میں تو انگریزوں کا غلام نہیں میری ضمیر خدا تعالیٰ کے فضل سے اب بھی آزاد ہے اور اگر مجھے جائز رنگ میں ان کا مقابلہ کرنا پڑے تو میں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ غرض غلامی کے غلط اور گندے احساسات اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے اندر نہیں تھے لیکن دوسرے لوگ اگر ان ہی احساسات کو اب بھی لئے چلے جائیں اور یہ نہ سمجھیں کہ آئندہ ان پر کیا ذمہ داری آنے والی ہے تو یہ بالکل تباہی والی بات ہوگی۔ بہرحال جماعت کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اب ان باتوں کو قطعی طور پر برداشت نہیں کیا جاسکتا<۔
نیز فرمایا:۔
>تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب تمہاری وطنی حکومت ہے اور وطنی حکومت اور غیر حکومت میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے۔ ہمارے اصول کے مطابق تو غیر حکومت جو امن دے رہی ہو اس کی مدد کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور وطنی حکومت کی مدد کرنا تو اس حدیث کے ماتحت آتا ہے کہ >من قتل دون مالہ وعرضہ فھو شھید< جو شخص اپنے مال اور اپنی عزت کا بچائو کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے۔ یہ شہادت چاہے اتنی شاندار نہ ہو جتنی دینی جہاد میں جان دینے والے کی شہادت ہوتی ہے لیکن بہرحال یہ ایک رنگ کی شہادت ضرور ہے اور انسان جتنا بھی ثواب حاصل کرسکے اس کے ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے<۔
>ایک کرنل نے سنایا کہ کشمیر میں ایک بڑا سخت مورچہ تھا` مہاراجہ کشمیر کا اس کے متعلق یہ اعلان تھا کہ یہ مورچہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہوسکتا۔ یہ ان کی ایک خاندانی جگہ تھی جسے انہوں نے بڑا مضبوط بنایا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ پٹھانوں کو آگے بھیجو۔ اس وقت کابل کی طرف سے پاوندے آئے ہوئے تھے فوجی افسر نے انہیں اپنے ساتھ لیا اور نقشوں سے بتانا شروع کیا کہ فلاں جگہ سے رستہ گزرتا ہے فلاں جگہ نالہ ہے` فلاں رستہ بڑا خطرناک ہے کیونکہ وہاں دشمن نے مائنز بچھائی ہوئی ہیں پہلے اس طرف سے جانا پھر پہاڑی کے اس طرف چلے جانا پھر اس نالے کو عبور کرنا۔ وہ گھبرائیں کہ یہ اپنی بات کو ختم کیوں نہیں کرتا اور یہ بتاتا کیوں نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔ جب وہ بات کرچکا تو انہوں نے کہا کہ تم صرف اتنا بتائو کہ ہم نے کرنا کیا ہے؟ اس نے کہا فلاں قلعہ پر قبضہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا بس اتنی بات تھی تم نے خواہ مخواہ ہمارا اتنا وقت ضائع کیا۔ اس کے بعد وہ سیدھے اس قلعہ کی طرف چل پڑے` پندرہ بیس گز گئے تھے کہ دشمن کو علم ہوگیا اور اس نے فائرنگ شروع کردی۔ ان کے چالیس پچاس آدمی وہیں ڈھیر ہوگئے۔ اس پر انہوں نے ان لاشوں کی اوٹ میں آگے بڑھنا شروع کردیا پھر کچھ مرے تو انہوں نے ان کی لاشوں کو آگے رکھ لیا اس طرح وہ اپنی لاشوں کو پناہ بناتے ہوئے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور جس قلعہ کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ چھ مہینے تک فتح نہیں ہوسکتا اس قلعہ پر شام کے وقت ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس کرنل نے بتایا کہ وہ اتنی دلیری سے آگے بڑھے کہ ہمیں دیکھ کر حیرت آتی تھی۔ ہم ان سے کہتے کہ دشمن سے چھپو اور وہ ناچنے لگ جاتے اور کہتے کہ ہم تو حملہ سے پہلے ناچار کرتے ہیں۔ یہ دینوی چیزیں جو ایمان کے نہ ہوتے ہوئے بھی مختلف قوموں میں پائی جاتی ہیں۔ اگر یہ پہلی چیزیں ہی ہمارے اندر نہیں پائی جاتیں تو اگلی خوبیاں ہم میں کہاں ہوسکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا دار لوگ جتنی قربانیاں کرتے ہیں وہ ایک چھوٹا پیمانہ ہوتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے مومن اپنی آئندہ ترقی کی عمارت تیار کرتا ہے۔ اگر نئی عمارت بنانے کی بجائے ہم اس پیمانہ کی قربانیاں بھی نہ کریں جس پیمانہ کی قربانیاں عام دنیا دار لوگ کیا کرتے ہیں تو ہم سے زیادہ اپنے دعووں میں جھوٹا اور کون ہوسکتا ہے۔ پس آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب یہ غفلت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کی جاسکتی۔ دنیا میں کبھی بھی مذہب نے قربانی کے رستوں کے بغیر ترقی نہیں کی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم کو وہ تکلیفیں نہیں پہنچیں گی جو پہلے لوگوں کو پہنچی ہیں۔ اگر تم ایسا خیال کرتے ہو تو یہ تمہاری غلطی ہے۔ اب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں یا تو تم یہ سمجھو کہ قرآن نعوذباللہ جھوٹا ہے اس نے یوں ہی ایک گپ ہانک دی ہے اور یا تم یہ سمجھو کہ احمدیت جھوٹی ہے اس نے ترقی ہی نہیں کرنی پھر اس کے لئے جان کی قربانی کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر قرآن نے جو کہا وہ سچ ہے اور اگر احمدیت بھی سچی ہے تو لازماً اپنے ملک کی عزت کی حفاظت کے لئے اس وقت جو موقع پیدا ہوا ہے اس میں تمہیں حصہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ تغیر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے زیادہ قربانیاں ہم کو ہندوستان میں دینی ہوگے یا افریقہ میں لیکن فرض کرو افریقہ میں پیش آتی ہیں تو وہاں کے احمدی ہمارا نمونہ دیکھیں گے اگر ہم اس وقت اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے تو ہم ان سے کہہ سکیں گے کہ پاکستان میں ہم کو دینی جہاد کا موقع تو نہیں ملا لیکن ہمارے دنیوی حکومت پر یا ہمارے ملک اور ہماری قوم پر جب حملہ ہوا تو ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کردیا ہے۔ یہ نمونہ ہے جس سے وہ سبق سیکھیں گے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے<۔۱۵۶
تبلیغ اسلام کے لئے جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک
چونکہ دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں تحریک احمدیت کا اثر و نفوذ تیزی سے بڑھ رہا تھا اس لئے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود خلیفتہ المسیح الثانی نے اسی مجلس شوریٰ میں نئی ضروریات اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید لٹریچر تیار کرنے کے لئے ایک مفصل سکیم جماعت کے سامنے رکھی جو یہ تھی۔ فرمایا:۔
>ہمارا سلسلہ اس وقت مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے اور لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں مگر ہمارے پاس کوئی لٹریچر ایسا نہیں ہوتا جو ان کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو۔ ابتدائی زمانہ میں احمدیت صرف ہندوستان میں محدود تھ اور یہاں زیادہ ان مسائل کا چرچا تھا کہ حضرت عیٰسی علیہ السلام زندہ ہیں یا نہیں` دجال کسے کہتے ہیں` یاجوج ماجوج سے کیا مراد ہے` آنے والے مسیح اور مہدی کی علامات کیا ہیں` جہاد کا کیا مسئلہ ہے۔ یہ اور اسی قسم کے دوسرے مسائل پر جماعت نے لٹریچر شائع کیا۔ اس کے بعد احمدیت انگلستان میں پھیلی تو عیسائیوں کے مخصوص مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی لٹریچر شائع کیا گیا لیکن اب ہماری جماعت ایسے ملکوں میں پھیل رہی ہے جن میں اردو تو نہیں بولی جاتی لیکن وہاں مسائل وہی ہیں جو ابتدائی زمانہ احمدیت میں ہمیں پیش آئے یعنی دجال سے کیا مراد ہے` مسیح ناصریؑ نے آنا ہے یا نہیں` جہاد کی کیا حقیقت ہے` مسیح اور مہدی کی پیشگوئیاں کس طرح پوری ہوئی ہیں۔ ایسٹ افریقہ` ویسٹ افریقہ` انڈونیشیا` ماریشس` مڈغاسکر اور عرب ممالک میں یہی مسائل پوچھے جاتے ہیں۔ اور جب وہ ہم سے کہتے ہیں کہ لائو اپنا لٹریچر تو ہم ان کے سامنے اپنا لٹریچر پیش کردیتے ہیں جن میں ان مسائل کا تفصیلی طور پر کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ پس جہاں ہمیں جدید لٹریچر کی ضرورت ہے وہاں ہم نے اپنے لٹریچر کو کہیں عربی زبان میں بدلنا ہے کہیں انڈونیشین میں بدلنا ہے` کہیں افریقن میں بدلنا ہے اور اس کے لئے بڑی بھاری جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا علمی کام ہے جو ہماری جماعت نے سرانجام دینا ہے<۔
>اگر تم صحیح معنوں میں کام کرنا چاہتے ہو تو پہلے تم یہ فیصلہ کرو کہ تم نے کرنا کیا ہے؟ اور جماعت کو اس وقت کن مسائل پر قلم اٹھانے کی ضرورت ہے مگر یہ تو کبھی فیصلہ ہی نہیں ہوتا اور جو جی میں آجائے اس کے متعلق اشتہار ہوجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کا ازالہ ہونا چاہئے اور میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوراً اس غرض کے لئے ایک کمیٹی مقرر کرے اس کمیٹی کے نصف ممبر تحریک جدید کے ہوں اور نصف ممبر صدر انجمن احمدیہ کے ہوں` اس کمیٹی کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اپنے کام کی ہفتہ وار رپورٹ میرے سامنے پیش کرے۔ اس کمیٹی کا یہ کام ہوگا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کا قدیم اور جدید لٹریچر شائع کرنے کے لئے ایک مفصل سکیم تیار کرے جو میرے سامنے پیش کی جائے اور پھر منظور شدہ لائنوں پر جماعت کے لئے لٹریچر مہیا کرے۔ اس غرض کے لئے کمیٹی کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ تمام ممالک کی ایک لسٹ تیار کرے اور پھر ان زبانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو ان ممالک میں بولی جاتی ہیں۔ اور پھر یہ جائزہ لے کہ ہر مک کے لوگوں کے لئے کس قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے اور کون کون سے مسائل مخصوصہ ہیں جن کے لئے وہ لوگ ہم سے لٹریچر کا مطالبہ کرسکتے ہیں یا جن مسائل میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کی راہنمائی کریں۔ اس طرح یہ بھی غور کیا جاوے کہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے لوگ کن کن مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا اس مقصد کے لئے ہمارے پاس کوئی سابق لٹریچر موجود ہے یا نہیں` اگر ہے تو کون کون سا ہے۔ پھر اس امر پر بھی غور ہونا چاہئے کہ ہمارے پہلے لٹریچر میں کون کون سے مسائل پر زیادہ تفصیلی مواد موجود ہے جس کا خلاصہ شائع کرنے کی ضرورت ہے اور کن مسائل پر ہمارے پاس کم مواد ہے جن پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ تمام امور پر غور کرنے کے بعد عملی کام شروع کیا جائے اور نہ صرف جماعت کو بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی ان کی زبانوں میں لٹریچر مہیا کیا جائے<۔۱۵۷
حکومت پاکستان کا ایک تردیدی بیان
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف احراری لیڈر نے جھوٹے الزامات کی مہم جار رکھی تھی جو اس سال تیز سے تیز تر ہوگئی جس پر حکومت پاکستان کی طرف سے حسب ذیل اعلان جاری کیا گیا:
>کراچی ۷۔ مئی:۔ حکومت پاکستان کو گزشتہ چند ماہ میں وقتاً فوقتاً ان الزامات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ جو بعض اردو اخبارات میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں وزیر امور خارجہ پاکستان کے خلاف لگائے گئے ہیں۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جولائی ۱۹۴۷ء میں بانڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کے مقدمہ کی وکالت کرتے ہوئے موصوف نے اس پر اصرار کیا کہ انہیں احمدیہ فرقہ کی وکالت کرنے کا بھی موقعہ دیا جائے اور انہوں نے کمیشن پر زور دیا کہ قانون کو ایک >کوہ شہر وار دیا جائے۔ اور بتایا کہ احمدی عام مسلمانوں سے علیحدہ ایک فرقہ ہیں۔ ان الزامات کی بناء پر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ بانڈری کمیشن کے سامنے احمدیہ فرقہ کی حمایت میں آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں کا یہ موقف ضلع گورداسپور کے مسلمانوں کے فیصدی تناسب میں کمی کا موجب بنا۔ جس کی وجہ سے اس ضلع کے مسلم اکثریت کے ضلع کے بجائے مسلم اقلیت کا ضلع شمار کیا گیا اور تقسیم کے فیصلے میں اسے پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے جیسا کہ اسے ہونا چاہئے تھا بھارت میں شامل کرلیا گیا۔
حکومت پاکستان کو ان الزامات پر سخت حیرت ہے کیونکہ یہ ان واقعات کے طقعی خلاف ہیں جو حکومت کے نام میں ہیں۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان نے الزامات کی پوری تحقیقات کی اور اس تحقیقات سے اس کا یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ یہ الزام بالکل غلط دور بے بنیاد ہیں۔ آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں نے احمدیہ فرقہ کی بانڈری کمیشن کے سامنے نہ تو وکالت کی نہ اس فرقہ کی طرف سے بحث کی نہ انہوں نے کسی حیثیت سے کمیشن کے سامنے مبینہ دلائل پیش کئے اور نہ کبھی وہ بیانات دیئے جو ان سے منسوب کئے جاتے ہیں )معتمد کابینہ حکومت پاکستان(۱۵۸
جھوٹ کے بطن سے ہمیشہ ایک نیا جھوٹ جنم لیتا ہے۔ یہی ردعمل اس بیان کا ہوا چنانچہ اس تردیدی بیان پر احراری اخبار >آزاد< ۲۔ جون ۱۹۵۰ء( نے اپنے اداریہ میں احراری لیڈروں کی افترا پردازی پر معذرت کرنے کی بجائے پینترا بدلا اور بدحواسی سے یہ دلچسپ نوٹ کر ڈالا کہ:۔
>احرار زعماء نے مختلف شہروں میں تقریریں فرمائیں برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش سر ظفراللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سرظفراللہ کی ذات< حالانکہ جیسا کہ بائونڈری کمیشن کی مطبوعہ رپورٹوں سے ثابت ہے جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کے موقف کی تائید کے لئے اور اس کے وقت میں اپنا میمورنڈم پیش کیا جن میں قادیان کو پاکستان میں شامل کئے جانے کی پرزور حمایت کی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ کا سفر کوئٹہ و سندھ اور بعض خاص علمی تقریبات
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے اس سال بھی دینی جماعتی اغراض کیلئے کوئٹہ اور سندھ کا سفر کیا۔ حضور معہ افراد قافلہ ۵۔احسان
)جون( کو لاہور سے عازم کوئٹہ ہوئے۔۱۵۹]4 [rtf جہاں آپ دو ماہ قیام فرما رہے۔ پھر ۹۔ ظہور )اگست( کو سندھ روانہ ہوئے۱۶۰ اور ۳۱۔ ظہور )اگست( کو سندھ اسٹیٹس کا دورہ ختم کرکے یکم تبوک )ستمبر( کو حیدرآباد اور ۲۔ تبوک )ستمبر( کو کراچی میں رونق افروز ہوئے۱۶۱ اور مسیح موعودؑ کے دلی محبتوں اور دیگر بے شمار بندگان الٰہی کو اپنے علوم ظاہری و باطنی سے فیضیاب کرکے ۲۱۔ تبوک )ستمبر( کو لاہور تشریف لائے۔۱۶۲
یوں تو اس للہی اور مبارک سفر کا ایک ایک دن برکات سماوی کے نزول کا باعث تھا مگر اس کے دوران بعض ایسی خاص علمی تقریبات کا انعقاد بھی ہوا جس نے اس سفر کی افادیت کو مستقل اور دائمی حیثیت دے دی جن کا ذکر آئندہ سطور میں کیا جاتا ہے۔
کوئٹہ میں درس القرآن
حضرت مصلح موعودؓ کے سفر کوئٹہ۱۶۳ کی بڑی غرض یہ تھی کہ ایک تو آپ رمضان کے روزے زیادہ سہولت سے رکھ سکیں۔ دوسرے قرآن کریم کے چند پاروں کے نوٹ مجلس میں بیٹھ کر لکھوا دیں تاکہ احباب جماعت بھی فائدہ اٹھالیں اور پھر یہ نوٹ صاف ہونے کے بعد ان دوستوں کو بھجوا دیئے جائیں جو انگریزی ترجمہ قرآن کو ایڈٹ کررہے تھے کیونکہ پچھلا درس ختم ہوچکا تھا۔ پندرہ پارے انگریزی تفسیر قرآن کے شائع ہوچکے تھے اور مزید مضمون کا تقاضا کیا جارہا تھا۔۱۶۴ چنانچہ یکم رمضان المبارک ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۷۔ جون ۱۹۵۰ء کو ایک لمبی دعا کے بعد سورہ مریم درس قرآن کا آغاز کیا جو وجع المفاصل اور درد نقرس کے شدید حملہ کے باوجود بارہ روز تک مسلسل جاری رہا اور رمضان المبارک کے اختتام پر بھی درس دیا۔۱۶۵
جلسہ عام سے حقیقت افروز خطاب
درس کے علاوہ حضور نے سات خطبات دیئے اور مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ اور لجنہ اماء اللہ کوئٹہ کے اجتماعات میں بھی تقریر کی نیز یکم ظہور )اگست( کو ایک جلسہ عام سے بھی خطاب فرمایا جس میں سول اور ملٹری کے اعلیٰ افسر بھی شامل تھے۔
حضورؓ اپنے خطاب میں درج ذیل دو سوالات کے نہایت شرح و بسط سے جواب دیئے:۔
۱۔
احمدی مسلمان دوسروں کے ساتھ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے؟
۲۔
احمدی مسلمانوں کے لئے کیا مستقبل پیش کرتی ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے حضور نے مذہبی` عقلی` واقعاتی اور عملی پہلوئوں کے اعتبار سے اس کے مدلل اور عارفانہ جواب دیئے۔
چنانچہ حضور نے فرمایا یہ سوال اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے جن میں سے ایک اس کا مذہبی پہلو ہے ہمارا بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ ان پیشگوئیوں کے مطابق دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں جو مسیح و مہدی کی آمد کے متعلق اسلام میں پائی جاتی تھیں۔ یہ سوال الگ ہے کہ ان کا دعویٰ صحیح تھا یا غلط بہرحال جب ہم انہیں مسیح و مہدی تسلیم کرتے ہیں تو لازماً ہم سے ان ہی باتوں کی امید کی جائے گی جو رسول کریم~صل۱~ نے آنے والے کے متعلق بیان فرمائی ہے۔ اور جب ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو ان میں ہمیں رسول کریم~صل۱~ کا یہ ارشاد نظر آتا ہے کہ کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم واما مکم منکم تم اس وقت کیسے اچھے حال میں ہوگے جب مسیح تم میں نازل ہوگا اور اس وقت تمہیں نمازیں پڑھانے والا تم ہی میں سے ہوگا۔ دوسری روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وامکم منکم تمہاری نماز کی امامت ایسا شخص کرے گا جو تم میں سے ہوگا۔ اب اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ مسلمانوں کو اس وقت مسلمان ہی نماز پڑھایا کریں گے اور دوسرے یہ کہ مسیح کی جماعت کو مسیح کے پیرو ہی نمازیں پڑھایا کریں گے۔ پہلے معنی ایسے ہیں جو یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ کہنا کہ مسلمانوں کو مسلمان ہی نمازیں پڑھایا کریں گے اس کے یہ معنی ہیں کہ گویا پہلے عیسائی اور یہودی اور زرتشتی بھی ان کے امام ہوا کرتے تھے مگر مسیح کے آنے کے بعد صرف مسلمان ہی نمازیں پڑھایا کریں گے۔ پس یہ معنی تو بالبداہت باطل ہیں لازماً اس کے دوسرے معنی ہی ہوسکتے ہیں کہ مسیح کو ماننے والوں کا امام انہی میں سے ہوگا۔ پس یہ تو سوال ہوسکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر وہ مسیح موعود ہیں تو ان کی جماعت دوسروں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتی یا پھر یہ بحث ہوسکتی ہے کہ یہ حدیث غلط ہے یا یہ کہ اس کا کچھ اور مطلب ہے مگر نماز کا مطالبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ تم رسول کریم~صل۱~ کی بات کیوں مانتے ہو۔ دوم` رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے کہ امام وہ ہو جو اتقی ہو۔ اس حکم کی موجودگی میں بھی یہ مطالبہ خلاف عقل ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک مامور پر ایمان رکھتی ہے اور جب اس کا یہ عقیدہ ہے تو لازمی طور پر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ دوسروں سے تقویٰ میں` طہارت میں اور پاکیزگی میں افضل ہے اور جب جماعت احمدیہ کے لوگ دوسروں سے اتقیٰ ہوئے اور رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ امام وہ ہونا چاہئے جو اتقیٰ ہو تو یہ کس طرح مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اتقیٰ شخص دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے۔ آخر وہ اپنے عقیدہ کے مطابق مسیح و مہدی پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا مسیح و مہدی کو ماننے والے کا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو اتقیٰ سمجھے<۔
حضورؓ نے فرمایا:۔
>اس مسئلہ کا ایک عقلی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ الف:۔ ہر مامور کو ماننے والے ابتداء میں تھوڑے ہوتے ہیں` تھوڑے ماننے والے کثرت سے ملیں تو اپنا جوہر کھو بیٹھتے ہیں۔ پس ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے الگ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ کونوا مع الصادقین تم ہمیشہ سچوں کے ساتھ بیٹھا کرو انسان اپنے ہم جلیس کے اخلاق اور اس کی عادات کو اختیار کرلیتا ہے۔
ب۔ پھر مامور کا سوال بھی جانے دو کم از کم اتنا تو ہر ایک شخص تسلیم کرتا ہے کہ احمدی جماعت دنیا بھر میں تبلیغ کرتی ہے اور اس میں وہ دوسروں سے ہزاروں گنے زیادہ ہے اگر وہ دوسروں میں جذب ہوجائے تو یہ خدمت اسلام ختم ہوجائے گی اور جس طرح اور لوگ اپنی طاقتوں اور اپنے روپیہ کو دنیوی کاموں میں صرف کررہے ہیں وہ بھی دنیوی کاموں پر روپیہ وغیرہ صرف کرنے لگ جائے گی۔ پس اس نیکی اور خدمت اسلام کا بھی تقاضا ہے کہ احمدی دوسروں سے الگ رہیں۔
ج۔ یہ تو احمدی جماعت سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آپ کو جھوٹا کہے وہ بہرحال اپنے آپ کو سچا کہے گا اور وہ اپنے آپ کو سچا کہتی ہے تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس سچ کو ہر ایک تک پہنچائے۔ اب اس کے لئے کوئی طبعی ذرائع ہونے چاہئیں تھے تاکہ لوگوں کو احمدیت کے بارے میں سننے کا شوق پیدا ہو۔ نماز وغیرہ مسائل ہی ہیں جو لوگوں کو ادھر توجہ دلاتے ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تو ہر ایک کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے میں ان کو سمجھاتا ہوں اور جب وہ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہماری تبلیغ کا رستہ کھل جاتا ہے۔ اور اس طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو احمدیت کی واقفیت ہوجاتی ہے<۔
تقریر جاری رکھتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا:۔
>اس مسئلہ کا ایک واقعاتی پہلو بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء کے فتویٰ کفر کے کئی سال بعد تک نماز کو منع نہیں کیا بلکہ خود بھی ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے مگر علماء اپنے فتویٰ کی شدت میں بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی مسجدوں پر لکھ کر لگا دیا کہ >اس مسجد میں کتے مرزائی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں< جس جگہ احمدیوں کا پیر پڑجاتا اسے ناپاک سمجھا جاتا اور پانی سے دھویا جاتا۔ کئی جگہ مسجدوں کی صفیں اس لئے جلا دی گئیں کہ ان پر کسسی احمدی نے نماز پڑھ لی تھی۔ جب انہوں نے اس معاملہ کو انتہا تک پہنچا دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی حکم دے دیا کہ اب ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے جیسے رسول کریم~صل۱~ مکہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں مگر یہودی اور عیسائی ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ ہم سے ڈر کر اس طرف نمازیں پڑھی جاتی ہیں آخر خدا نے بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اس پر یہود نے شور مچا دیا کہ دیکھو کتنا بڑا ظلم ہے اتنا پرانا قبلہ تھا مگر اسے چھوڑ دیا گیا۔ گویا جب تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے نعوذباللہ ڈرپوک کہلائے اور جب چھوڑا تو ظالم بن گئے۔ یہی حالت علماء کی ہے کئی سال تک ہماری جماعت ان کے پچیھے نمازیں پڑھتی رہی مگر یہ لوگ یہی کہتے رہے کہ احمدی اتنے ناپاک ہیں کہ اگر یہ مسجد میں بھی داخل ہوجائیں تو مسجد کو صاف کرنا چاہئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے حکماً منع کردیا۔ پس جب خود علماء نے ہمارے خلاف فتوے دئے ہیں اور اب تک انہوں نے اپنے فتووں کو واپس نہیں لیا تو احمدیوں پر کیا الزام ہے۔
۲۔ حضور نے فرمایا علماء کی طرف سے جو سلوک احمدی جماعت سے ہوتا رہا ہے وہ بھی اس مطالبہ کو جائز نہیں کرتا۔ نماز علماء پڑھاتے ہیں اور ان کا یہ حال ہے کہ شروع سے ہمیں دکھ دیتے چلے آئے ہیں سب سے پہلے احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا انہوں نے فتویٰ دیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر دہلی اور امرتسر میں پتھرائو کیا گیا۔ لاہور میں آپؑ کی وفات پر بدترین نمونہ دکھایا گیا اور مصنوعی لاش بنا کر اس پر پاخانہ پھینکا گیا` جوتیاں ماری گئیں اور احمدیوں کی شدید دل آزاری کی گئی۔ ہم اس سلوک کی پرواہ نہیں کرتے لیکن جب ہم سے اس قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں تو ہمیں یہ باتیں یاد آجاتی ہیں۔ پھر مجھ پر سیالکوٹ میں پتھر برسائے گئے` میرے قتل کی تدبیریں کی گئیں` کابل میں ہمارے احمدیوں کو سنگسار کیا گیا۔ مصر میں ہمارے ایک احمدی کو شہید کیا گیا۔ گزشتہ سال اسی کوئٹہ میں ڈاکٹر میجر محمود کو خنجر مار کر شہید کردیا گیا۔ کیا اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ساتھ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے۔ کیا یہ سلوک نماز پڑھانے کی ہی تمہید ہے؟
اس کے بعد حضور نے فرمایا اس مسئلہ کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔ کوئی بتائے کہ کیا مسلمانوں پر کبھی کوئی مصیبت آئی ہے جس پر ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا ہو یا احمدی قومی کاموں میں دوسروں سے پیچھے رہے ہوں۔ ملکانہ میں ارتداد ہوا تو ہم پہنچے` بہار کے فسادات میں ہم نے مسلمانوں کی مدد کی` پنجاب کے فسادات میں ہم نے مسلمانوں کی مدد کی` مسلم لیگ کی ہم نے مدد کی` مشرقی پنجاب کے فسادات کے دوران ہم نے مسلمانوں کی مدد کی۔ ان حالات میں نماز پڑھ لینے سے کیا فرق پڑجائے گا اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ آخر غرض تو یہی ہے کہ اختلاف عقائد کے باوجود مسلمان سیاسی اتحاد رکھیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ہمیشہ اس میں حصہ لیتے رہے ہیں پھر کونسی نئی تبدیلی ہے جو اس مسئلہ سے پیدا ہوجائے گی۔
حضور نے فرمایا:۔ اس مسئلہ کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ قومی کام ایک ایک فرد یا جماعت میں تقسیم ہوتے ہیں۔ فوج سے فوجی بات کرسکتے ہیں` پولیس سے پولیس والے اور مجسٹریٹ سسے مجسٹریٹ۔ نماز ایک مذہبی عقیدہ ہے اور اس کی امامت علماء کے سپرد ہے پس وہی حق رکھتے ہیں کہ اس کا تصفیہ کریں۔ تعجب ہے کہ ایک فوجی افسر سے اگر فوجی امور کے تصفیہ کے لئے کوئی دوسرا بات کرے تو وہ کہیں گے یہ فوجی امر ہے۔ بالمقابل فوجی افسر بات کرے۔ لیکن نماز کا تصفیہ ایک فوجی افسر جسے قوم کی طرف سے بولنے کا حق نہیں` ایک سیاسی لیڈر جسے قوم کی طرف سے مذہبی فیصلہ کا اختیار نہیں وہ تصفیہ چاہتا ہے حالانکہ یہ امر دونوں فریق کے علماء میں طے ہوسکتا ہے۔ پس آپ اپنے علماء میں تحریک کریں کہ وہ احمدیوں سے کہیں کہ ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں آپ ہمارے پیچھے نماز پڑھیں۔ ان کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جائے تو جماعت کے علماء ان سے بات کرسکتے ہیں ورنہ تعلیم یافتہ طبقہ میں سے کونسا شخص ہے جویہ کہے کہ میں تمام پاکستان کی مساجد کا ذمہ دار ہوں کہ وہاں کے علماء احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھیں گے احمدی ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ نہ وہ ایسا دعویٰ کرسکتے ہیں نہ ان کی بات علماء مانیں گے۔ پھر ایسا مطالبہ جو وہ خود اپنے علماء سے نہیں منوا سکتے کس طرح تقویٰ کے مطابق ہوسکتا ہے۔ آخر قومی کام قوم کے نمائندے کرتے ہیں اور نمائندے بھی اسی محکمہ کے جس سے وہ سوال تعلق رکھتا ہو۔ پس جو نمائندہ نہیں اور دین کے بارہ میں علماء کا نمائندہ نہیں اسے ایسی باتیں ہی نہیں کرنی چاہئیں۔ مصنف مزاج آدمی کو اگر کوئی بات غلط معلوم ہوتی ہے تو پہلے وہ اپنی قوم سے غلطی منواتا ہے پھر دوسرے فرقہ کی طرف توجہ کرتا ہے۔
اپنی معرکتہ الاراء تقریر کے دوسرے حصہ میں حضور نے فرمایا:۔
دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ احمدیت مسلمانوں کے لئے کیا مستقبل پیش کرسکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ سوال صحیح الفاظ میں پیش نہیں کیا گیا۔ احمدیت کوئی نیا دین نہیں کہ اس نے کوئی نیا پروگرام بنایا ہے احمدیت تو اسلام کی ترقی کی ایک کڑی ہے۔ فوجی محکمہ بالا ایک سکیم بناتا ہے اس کے حصے وہ مختلف افسروں کے سپرد کرتا ہے ہر افسر اپنے اپنے حصہ اور اپنے وقت کو پورا کرتا ہے` اجزاء بدلتے جاتے ہیں مگر سکیم ایک ہی رہتی ہے کیونکہ ہر نیا جزو پرانی سکیم کا ایک حصہ ہوتا ہے نئی شے نہیں ہوتی۔ پس سوال یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کا کیا مستقبل اس زمانہ کے بارہ میں تجویز کیا ہے جسے پورا کرنے کے لئے احمدیت کھڑی ہوئی ہے۔ حضور نے فرمایا مستقبل خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ~صل۱~ مقرر کرسکتے ہیں۔ مرزا صاحب ایک نائب کمانڈر ہیں ان کا اور ان کی جماعت کا کام یہ ہے کہ کمانڈر کی مقرر کی ہوئی سکیم کو جاری کریں اور کامیابی تک پہنچائیں۔ فوجی یہ سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ بادشاہ ہے محمد رسول اللہ~صل۱~ چیف آف دی جنرل سٹاف ہیں اور مرزا صاحب لوکل کمانڈر ہیں مگر چونکہ یہ کمان جگہ کی بجائے وقت میں پھیلی ہوئی ہے۔ لوکل کمانڈر کو اصولی پلین چیف آف دی جنرل سٹاف سے آتی ہے تفصیلات ان کے مطابق وہ خد طے کرتا ہے۔ حضور نے فرمایا:۔ دعائے ابراہیمی محمد رسول اللہ~صل۱~ کا یہ کام بتایا گیا ہے کہ یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتاب والحکمہ و یزکیھم۱۶۶ گویا تعلیم آیات` تعلیم کتاب` تعلیم حکمت اور تزکیہ یعنی پاک کرنا اور اسلام کو پھیلانا( یہ تعلیم ہے جو مختلف زمانوں کے لحاظ سے تفصیلات میں تو بدلے گی لیکن اصول وہی رہیں گے۔ رسول کریم~صل۱~ کے بعد ہمیشہ جو کمانڈر آئے ان کا کام یہ تھا کہ لوگوں کو اسلام پر قائم رکھیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ملک کی حفاظت کریں لیکن پھر ایک ایسا زمانہ آیا کہ رسول کریم~صل۱~ کی طرف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہیں دنیوی شکست بھی پہنچی` دشمن غالب آگیا اور چھا گیا۔ اب اس زمانہ کے مامور کا پروگرام یہ ہے کہ تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ پھر سے کرے اور اسلام کی ترقی کے لئے پھر سے سکیم بنائے سو اس نے تلاوت آیات اور تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کی اور اس کی جماعت ایسا کررہی ہے۔ حضور نے فرمایا:۔ قومیں ہمیشہ آئیڈیز۱۶۷ سے ترقی کرتی ہیں حضرت مرزا صاحب نے مسلمانوں کے سامنے آئیڈئیز۱۶۸ رکھ دیئے ہیں جن سے مسلمانوں کے لئے ترقی کرنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ مثلاً حضرت مرزا صاحب نے مندرجہ ذیل عظیم السان اصول پیش کئے ہیں جن کو مان کر مسلمان دشمن کے روحانی حملہ سے بچ جاتا ہے اور دشمن اس کے آگے آگے بھاگتا ہے:۔
۱۔
قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں۔
۲۔
قرآن کریم اپنے اندر شاندار ترتیب رکھتا ہے۔
۳۔
الہام الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے۔
۴۔
مسلمان رسول کریم~صل۱~ کی شاگردی اور اتباع میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے حاصل کرسکتا ہے۔
۵۔
نبی معصوم ہوتے ہیں خصوصاً نبی کریم~صل۱~ بالکل معصوم تھے اور آپ پر دشمن کے ہر قسم کے اعتراضات باطل ہیں۔
۶۔
مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔
۷۔
مسیح علیہ السلام کی طرف خدائی صفات منسوب کرنا غلطی ہے۔ اللہ کی طرف سے ایسے معجزات ہرگز نہیں دکھائے جاتے جو صفات الٰہیہ کے خلاف ہوں۔
ان تمام پہلوئوں پر حضور نے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحبؑ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلمان اپنی اپنی جگہ اپنے بچائو کی تو بے شک کوشش کریں لیکن چونکہ اس وقت ان کے خلاف مذہبی جنگ نہیں کی جاتی اس لئے غیر ادیان سے اس وقت تبلیغی جنگ کی جائے گی اور تبلیغ سے ہی اسلام کو سب دنیا میں پھیلایا جائے گا۔ پس اس وقت مسلمان اگر دنیا پر غالب آسکتے ہیں تو تبلیغ کے ذریعہ ہی مگر افسوس مسلمان اس چیز کو بول گئے ہیں جو ان کے غلبہ کا ایک ہی ذریعہ ہے۔ یہ مستقبل ہے جو مرزا صاحب نے پیش کیا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہی وہ حربہ ہے جس سے اسلام اس وقت ساری دنیا میں غالب آسکتا ہے۔۱۶۹
کوئٹہ کے غیر متعصب اور متین غیر احمدی طبقہ نے یہ پرمعارف اور مدلل لیکچر بہت پسند کیا اور تسلیم کیا کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کا موقف نہایت خوش اسلوبی سے صحیح ثابت کر دکھایا ہے چنانچہ شیخ کریم بخش صاحبؓ نائب امیر جماعت احمدیہ۱۷۰ کوئٹہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں لکھا کہ:۔
>حضور کی کل کی تقریر سے پبلک پر بہت اچھا اثر ہوا ہے اور میں نے کئی غیر احمدیوں سے سنا ہے کہ آج ہمیں احمدیت کے متعلق پورا علم ہوا ہے۔ ہمارے ایک غیر احمدی مہمان شیخ عبدالرحمن صاحب نے بھی جلسہ میں کہہ دیا تھا کہ حضرت صاحب بہت ذہین اور عالم بزرگ ہیں اور ان پر بفضل خدا بہت اچھا اثر ہوا ہے۔ لوگوں نے بہت دلچسپی سے حضور کے لیکچر کو سنا حالانکہ مجلس میں بہت سے کٹر شیعہ سنی اور اہل حدیث موجود تھے۔ بندہ کا تو یہ خیال ہے کہ احمدیت کے متعلق کوئٹہ میں پہلا موثر لیکچر ہے جو حضور نے فرمایا اور عام پبلک میں بخوبی مقبول عام ہوا<۔۱۷۱
اسی ضمن میں بعض غیراز جماعت معززین کے تاثرات ملاحظہ ہوں:۔
۱۔
کیپٹن محمد اظہر حسن انصاری صاحب:۔
>نہایت بصیرت افروز لیکچر تھا۔ مجھے ان لوگوں پر جو دوران لیکچر میں اٹھ رہے تھے )گو وہ نماز عصر کے لئے اٹھے تھے( سخت غصہ آرہا تھا میں اس سے بہت محظوظ ہوا۔
۲۔
لیفٹیننٹ سید احمد شعاع زیدی )فرید آبادی:(۔
>اس لیکچر کا خوب لطف آیا<
۳۔
جمعدار محمد ہاشم صاحب:۔
>شرافت کا تقاضا ہے کہ خواہ ہم انکار کریں صداقت صداقت ہی ہے۔ MESS میں جاکر کئی ایک جمعدار صوبیدار حالت رات بارہ بجے تک خوب اس لیکچر پر بحث کرتے ہوئے سوائے ایک دو کے جو مخالف تھے باقی بہت مداح تھے۔ نماز الگ پڑھنے کے دلائل ہر طرح سے نہایت مسکت تھے۔ مجھے لیکچر سے نہایت ہی روحانی خوشی حاصل ہوئی<۔
۴۔
مسٹر غلام احمد منشی )سویلین آفیسر اصل وطن پونا:(۔
>یہ لیکچر سن کر میں ان لوگوں کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا جو محض دشمنی کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتے اور گالیاں بکتے ہیں۔ لیکچر نہایت عمدہ تھا اور میں نے بہت پسند کیا<۔
۵۔
مسٹر محمد صادق صاحب پراچہ )سویلین آفیسر۔ اصل وطن میانی ضلع شاہ پور:(۔
>لیکچر بہت عمدہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں آپ کی جماعت کی تنظیم بہترین ہے<۔
۶۔
مسٹر نصیر الدین حیدر )سویلین آفیسر۔ اصل وطن یوپی:(۔
>مضمون بہت اچھا تھا۔ حضور کے علم کی وسعت اور قابلیت میں ذرا بھر کلام نہیں<۔۱۷۲
‏tav.12.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
حیدرآباد میں اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر لیکچر
یکم تبوک ۱۳۲۹ہش/ ستمبر ۱۹۵۰ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے حیدرآباد کے تھیوسافیکل ہال میں اسلام اور کمیونزم کے موضوع پر ایک حقیقت افروز لیکچر دیا جو قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا۔
صدر جلسہ مکرم محمد حافظ صاحب بار ایٹ لاء ریٹائرڈ اے۔ ڈی۔ ایم و ڈپٹی کلکٹر تھے۔ حضور نے اسلام اور کمیونزم کے اختلاف پر تفصیلی طور پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات بیان فرمائے:۔
اول:۔ اسلام کی بنیاد ایک ایسے خدا کی ذات پر ہے جو زندہ اور فعال ہے لیکن کمیونزم کے بانی اپنی کتب میں واضح طور پر کہتے ہیں دنیا کا کوئی خدا نہیں بلکہ وہ خدا تعالیٰ تمسخر کرتے ہیں اور اس کی ذات پر ایمان لانے والوں کو بیوقوف قرار دیتے ہیں۔ ابتدائی ایام میں روس میں ایسے تماشے بھی دکھائے جاتے تھے جن میں خدا تعالیٰ کو ایک مجرم کی حیثیت میں ۔۔۔۔۔ پیش کیا جاتا تھا اور پھر اس مجسمہ کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا جاتا تھا ایسی صورت میں ایک مسلم کہلانے والے کا کمیونزم کے ساتھ جوڑ ہی کیا ہوسکتا ہے؟
دوم۔ کمیونزم مذہب کا مخالف ہے اور اس کا سارا سسٹم ایسا ہے جو مذہب کو تباہ کرنے والا ہے۔ ہمارا مشن اس وقت قریباً تمام ممالک میں ہیں لیکن روس میں ہم نے ایک دفعہ اپنا مبلغ بھیجا تو اسے سخت دکھ دئے گئے اور آخر انہوں نے اپنے ملک سے باہر نکال دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کمیونزم میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں۔
سوم۔ اسلام کی بنیاد روحانی صفائی پر ہے لیکن کمیونزم یہ کہتی ہے کہ روح کوئی چیز نہیں اور یہ کہ دنیوی مسائل کو کلی طور پر مادیات کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے اس کا خیال ہے روحانیت کو پیش کرنے سے غرباء کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے حقوق تلف ہوتے ہیں۔
چہارم:۔ اسلام کی بنیاد نبوت پر ہے لیکن کمیونزم کے نزدیک سارے نبی نعوذباللہ جھوٹے اور مفتری تھے بلکہ مذہب کے بانی ان کے نزدیک ۔۔۔۔۔ امراء کے ایجنٹ تھے تاکہ امراء ترقی کرتے جائیں اور غرباء ہلاک ہوتے جائیں۔
پنجم۔ اسلام کی بنیاد کلام الٰہی پر ہے لیکن کمیونزم کے نزدیک یہ کوئی چیز نہیں۔
ششم:۔ اسلام کی بنیاد بعث بعد الموت پر ہے لیکن کمیونزم اس کے بالکل خلاف ہے گویا کمیونزم ہمارے پنج ارکان اسلام کے ہی خلاف ہے۔
اور جب اس کا اسلام کے ساتھ اس قدر بنیادی اختلاف ہے تو ایک باغیرت اور سمجھدار انسان کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں مسلمان بھی ہوں اور کمیونسٹ بھی۔
جماعت کے دوستوں کے علاوہ جلسہ میں تین سو کے قریب غیر احمدی معززین بھی موجود تھے جو بے حد متاثر ہوئے اور صدر جلسہ نے بھی اپنے صدارتی ریمارکس میں تقریر کی بہت تعریف کی۔۱۷۳
حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ کا ایک اہم مکتوب
جناب ہدایت اللہ صاحب بنگوی افسر جلسہ سالانہ انگلستان مولف کتاب کے نام( تحریر فرماتے ہیں۔
>خاکسار فارن منسٹری میں ملازم تھا ۱۹۵۰ء میں خاکسار کی تبدیلی پاکستانی سفارتخانہ فرانس میں ہوگئی جو ابھی کھلا نہ تھا۔ اگست کے دوسرے ہفتہ میں میں نے دفتر سے ۱۵۔ دن کی رخصت حاصل کی تاکہ پنجاب پنجاب میں ربوہ اور دیگر مقامات پر جاکر حضور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور اپنے عزیز و اقرباء سے مل آئے۔ جب سفر کے لئے تیار ہوا تو پتہ لگا کہ حضرت صاحب تو زمینوں پر سندھ تشریف لے آئے ہیں چنانچہ خاکسار بجائے پنجاب کے سیدھا ناصر آباد )سندھ( حضور کی ملاقات کے لئے چلا گیا اور تمام رخصت وہیں پر گزار دی۔ حضور اکثر ذرہ نوازی فرماتے شام کو سیر کو جاتے ہوئے بھی خاکسار کو ساتھ لے لیتے نیز اکثر اوقات سندھ کی زمینوں کے ایجنٹس/ منیجروں وغیرہ کے اجلاس حضور کی صدارت میں ہوتے تو اس میں بھی اس عاجز کو بلا کر شامل کرلیتے اور یوں یہ مبارک دن بہت جلد گزر گئے۔ چلنے سے پیشتر اس عاجز نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور کچھ نصائح اس عاجز کو اپنے ہاتھ سے رکھ کر عطا فرماویں جس پر ازراہ بندہ پروری حضور نے کمال شفقت سے ایک خط اپنے ہاتھ سے لکھ کر مورخہ ۱۹۵۰-۰۸-۱۳ عطا فرمایا جس کی نقل پیش خدمت ہے۔ بندہ ۲۴۔ اگست ۱۹۵۵ء کو بذریعہ سمندری جہاز پیرس کے لئے روانہ ہوا اور پھر حضور سے ۱۹۵۵ء میں ہیگ کے مقام پر جبکہ حضور علاج کے لئے تشریف لائے تھے خاکسار نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
‏SECRATORY GENERAL
خاکسار ہدایت اللہ بنگوی
‏JAMMAT AHMADIYYA
1985۔08۔11
‏K)۔(U (LONDON)
‏ad] gROAD[ta PARK DEN WIMBLE ۔152
18۔SW LONDON,
حضرت مصلح موعود کا مکتوب
ناصر آباد اسٹیٹ 1950۔8۔13
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیزم چوہدری ہدایت اللہ صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ فرانس جارہے ہیں۔ سیر کے لئے نہیں ملک و قوم کی خدمت کے لئے۔ اس غرض کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھئے کامیابی کی کلید ثابت ہوگی۔ ہمارے زمانے کی خطرناک بیماریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کشش میری طرف سے ہے نتیجہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے حقیقتاً یہ اصل درست ہے مگر اس کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ اس یقین نے قوت عملیہ کو بے کار کردیا ہے۔ لوگ دماغ پر پورا زور نہیں ڈالتے کیونکہ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے الزام اس پر لگے گا۔ یہ بری الذمہ رہیں گے۔ علاوہ جناب باری میں گستاخی کرنے کے قوم اور ملک کو تباہ کرنے کا بھی یہ عقیدہ ذمہ دار ہورہا ہے۔ جس طرح خوارج کے دعوٰ¶ پر کہ الحکم للہ والامر شوری بیننا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ کلمہ الحکمہ ارید بہ الباطل۔ یہ ایک سچی بات ہے جسے بے محل استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سچی ہے کہ کوشش انسان کی اور نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے مگر اس سچی بات کو آج کل بہت غلط طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور اسلام اور مسلمان تباہ ہورہے ہیں۔ مسلمان کارکن اپنے دماغ اور دل کا صحیح استعمال نہیں کرتے اور اپنی ناکامیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور مجرم بدی بن جاتا ہے اور خدا تعالیٰ جو پاک اور قدوس ہے مجرم بن جاتا ہے یہی قاعدہ دینی امور اور انفرادی جدوجہد پر بھی لگتا ہے۔ اگر مسلمان اس غلطی کی اصلاح کرلیں اور بدنتیجہ کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ سمجھیں تو ملت و ملک بہت سی تباہیوں سے بچ جائیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
کراچی میں ایک خاص خطبہ جمعہ
جماعت احمدیہ کراچی نے انہی دنوں وکٹوریہ روڈ میگزین لین میں ایک شاندار دو منزلہ مسجد قریباً ایک لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کی تھی۔ اس مسجد کی تیاری اور تعمیر کے انچارج شیخ عبدالحق صاحب ایس` ڈی` او تھے جنہوں نے نہایت محنت اور اخلاص کے ساتھ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔۱۷۴
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۸۔ تبوک ۱۳۲۹ہش/ ستمبر ۱۹۵۰ء کو اس مسجد میں خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا جس کے آغاز میں حضور نے کراچی کی مخلص جماعت کو مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
>سب سے پہلے تو میں جماعت کے دوستوں کو اس بات کی مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے یہاں مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں نے دو دفعہ یہاں تقریر کی ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ دونوں دفعہ ایک ہی ہال میں تقریر ہوئی تھی یا الگ الگ ہال تھے بہرحال اوپر کے برآمدوں اور نیچے کے برآمدوں کو ملا کر یہ مسجد ان ہالوں سے بڑی نظر آتی ہے۔ بہرحال اوپر کے برآمدوں اور نیچے کے برآمدوں کو ملا کر یہ مسجد ان ہالوں سے بڑی نظر آتی ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی جگہ بناتا ہے تو آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس کی ترقی کے سامان بھی پیدا کردیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وقتاً فوقتاً اس قسم کے الہام ہوتے رہتے تھے کہ آپ اپنے مکانات کو وسیع کریں تاکہ آنے والے لوگ وہاں آکر رہیں۔ چنانچہ ان الہامات میں سے ایک یہ بھی الہام تھا کہ وسع مکانک اپنے مکان کو وسیع کرو۔ میں ہمیشہ ہی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہوں کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کو مسجدیں بناتے رہنا چاہئے لیکن افسوس ہے کہ جماعت ہمیشہ ہی اپنی توفیق سے زیادہ بڑی جگہ کی تلاش میں رہتی ہے۔ یہ مسجد میں غالباً نہ بنتی اگر آج سے آٹھ دس سال پہلے مجھے متواتر یہاں آنے کا موقع نہ ملتا اور جماعت پر یہ زور دینے کا موقع نہ ملتا کہ جس طرح بھی ہو زمین خریدلو چنانچہ میرے ایک ایسے ہی سفر کے زمانہ میں یہ زمین دیکھی گئی اس وقت بھی بعض مقامی دوستوں کی تجویز تھی کہ اس سے بڑی جگہ لینی چاہئے مگر میں نے کہا کہ زمین جو بھی ملتی ہے لے لو اور بڑی کا انتظار نہ کرو ایسا نہ ہو کہ یہ بھی ہاتھ سے جاتی رہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج خداتعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ آباد ہے اور یہاں ایک شاندار مسجد بنی ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جماعت کا ایک حصہ اس کی تائید میں تھا اور دوسرا حصہ اس بات کی تائید میں تھا کہ کوئی اور بڑی جگہ تلاش کی جائے مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت پر فضل کیا اور ان کو ہدایت دی کہ وہ چھوٹی چیز پر قناعت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد ان کے لئے بڑی چیز کے سامان پیدا کرے۔ دنیا میں کوئی مسجد ایسی نہیں بن سکتی جس میں زیادہ سے زیادہ افراد جو مبارک ہوں آسکیں۔ خانہ کعبہ کی مسجد کے برابر شاید کوئی مسجد نہیں لیکن کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب خانہ کعبہ میں بھی نمازی سما نہیں سکتے اور بازاروں اور دکانوں پر کھڑے ہوکر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں۔ مسجد نبوی جو مدینہ منورہ کی ہے اس کا بھی یہی حال ہے کہ اس میں بھی بعض اوقات نمازی پوری طرح سما نہیں سکتے۔ پس یہ خیال غلط ہے کہ ہم آئندہ کی تمام ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مسجد بنائیں اور جب تک ان ضرورتوں کے مطابق مسجد نہ بن سکے ہم اپنی نماز کے لئے کوئی انتظام نہ کریں۔ میں تو سمجھتا ہوں یہ اسی مسجد کی برکت ہے کہ آج سے چار سال پہلے موجودہ نمازیوں سے پانچواں حصہ بھی جماعت نہیں تھی بلکہ جو لوگ مجھے اس وقت نظرآرہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دسواں حصہ بھی جماعت نہیں تھی صرف ایک کمرہ جماعت نے کرایہ پر لیا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں جمعہ کے لئے جاتا تو زیادہ سے زیادہ ایک وقت میں تین صفتیں ہوا کرتی تھیں بلکہ ایسے جمعے بھی گزرے ہیں جب دو صفیں بھی نہیں بنتی تھیں اور وہ کمرہ اس مسجد کے برآمدہ کے کوئی تیسرے حصہ کے برابر ہوگا۔ حد سے حد نصف ہوگا جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے گھر بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس گھر کی آبادی کے بھی سامان پیدا کیا کرتا ہے۔ اب اس خیال میں نہ رہو کہ یہ مسجد ہم نے بنالی ہے اور ہمارا فرض ہے ہوگیا ہے جیسا کہ اس وقت نظر آرہا ہے اس مسجد کے بنتے ہی یہ مسجد بھر بھی گئی ہے<۔۱۷۵
پھر حضورؓ نے یہ قیمتی نصیحت فرمائی کہ:۔
>جماعت نے جب یہ جگہ بنائی ہے تو اسے اب یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ کراچی میں جہاں جہاں احمدی زیادہ ہیں اور وہ اس مسجد سے دور رہتے ہیں وہاں بھی چھوٹی چھوٹی مساجد بنادے کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جاکر نماز پڑھنا بعض دفعہ فتنہ کا موجب ہوجاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جس شخص کے گھر پر نماز پڑھی جاتی ہے بعض دفعہ جب اس سے نماز پڑھنے والا کسی بات میں اختلاف کرتا ہے تو وہ غصہ میں آکر کہہ دیتا ہے کہ تم میرے گھر پر نہ آیا کرو حالانکہ وہ اس کے گھر پر نہیں جاتا بلکہ مسجد میں جاتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنا گھر قرار دیتا تو یہ اس کے مکان پر نہ جاتا۔ اس رنگ میں دین کی بھی ہتک ہوتی ہے اور آنے والے شخص کی بھی ہتک ہوتی ہے۔ پس پہلے تو مجبوری کی حالت میں یوں کرنا چاہئے کہ جہاں جہاں جماعت کے دوست اکٹھے ہوسکیں وہاں کسی دوست کے مکان پر اکٹھے ہوکر نمازیں پڑھ لیا کریں۔ پھر اس کے بعد کوشش کرنی چاہئے کہ ہرمحلہ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنالی جائے چاہے وہ ایک مرلہ کی ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ اگر میونسپل قانون میں اجازت ہو تو معمولی کچی اینٹوں کی ہی مسجد بنالی جائے<۔۱۷۶
حصرت اقدس نے ان تمہیدی کلمات کے بعد بتایا کہ:۔
>کچھ عرصہ سے میرے کانوں میں )یہ امر(۱۷۷ پڑرہا ہے اور یہاں آکر بھی متفرق صورتوں اور متفرق جہات سے میرے کانوں میں پڑا ہے کہ کراچی میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے مال یا دولت کی وجہ سے مغرور ہوکر سلسلہ کے لئے بدنامی اور فتنہ کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ان کے متعلق کئی قسم کی رائیں ہیں لیکن جو مجھ پر اثر ہے وہ یہ ہے کہ کافی حصہ جماعت کا ایسا ہے جو ان کی دولت یا مال کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ بڑے لوگ ہم سے الگ ہوگئے ہیں یہ سلسلہ کا بڑا نقصان ہوا ہے<۔۱۷۸
ازاں بعد حضور نے زبردست قوت و شوکت سے بھرے ہوئے الفاظ میں اس خیال کی لغویت اور بطلان پر تفصیلی روشنی ڈالی چنانچہ فرمایا:۔]>[خداتعالیٰ کا قائم کردہ خلیفتہ اور یہ دو دو چار چار یا پانچ پانچ ہزار روپیہ کمانے والے آپس میں نسبت ہی کیا رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی تو اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی ہاتھی کے مقابلہ میں ایک مچھر کی ہوتی ہے۔ شاید تم میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ خلیفہ بیمار رہتا ہے اور وہ بڈھا بھی ہوگیا ہے اب شاید وہ جلد ہی مرجائے گا پھر ان لوگوں کے مقابل پر ہمارا کیا حال ہوگا میں ایسے لوگوں سے یہ کہتا ہوں کہ اردو کا محاورہ ہے کہ >ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا<۔ ہم وہ لوگ ہیں جو مر کر زیادہ طاقتور ہوا کرتے ہیں۔ ہماری زندگی میں خداتعالیٰ ہمارے دشمن کو بالعموم محفوظ رکھتا ہے کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے لیکن ہماری موت کے بعد وہ ہمارے لئے اپنی غیرت دکھاتا ہے جس کے مقابلہ میں کسی قریب ترین عزیز یا عاشق کی غیرت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ پس لوگوں کی کوئی ہستی نہیں بلکہ مجھے تعجب آتا ہے کہ تم ان کی طرف کیوں توجہ کرتے ہو۔ ان کے افعال اور ان کی باتیں محض ایک نشان دکھانے کے لئے زندہ رکھی جاتی ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عجائب گھروں میں مرے ہوئے سانپ رکھے جاتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عجائب گھروں میں مردہ بچھو رکھے جاتے ہیں۔ جس طرح عجائب گھروں میں مردہ سانپ اور مردہ بچھو رکھے جاتے ہیں اسی طرح خدائی سلسلہ میں ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر نصیحت حاصل کریں۔ وہ اس لئے نہیں رکھے جاتے کہ ان کو کوئی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس لئے نہیں رکھے جاتے کہ خداتعالیٰ کے سلسلے کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ وہ اس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر ہوشیار رہیں اور وہ اس حقیقت کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں کہ بعض لوگ چند قدم چل کر ایسے خطرناک گڑھے میں گرجاتے ہیں<۔۱۷۹
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پوزیشن ۱۹۰۸ء میں تھی اس سے اب سینکڑوں گنے زیادہ ہے اور دنیا کے بہت سے ایسے ممالک میں اب احمدیت قائم ہے جن ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بھی احمدی نہیں تھا۔ تو بات وہی ہے کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا بلکہ سوا لاکھ بھی انسانی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے کہا گیا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے لحاظ سے تو کروڑوں کروڑ بھی کہا جائے تو کم ہے۔ پس شاید تم میں سے کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ اگر میں مرگیا تو کیا ہوگا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آخر ہر انسان نے مرنا ہے اور میری صحت تو شروع ہی سے کمزور چلی آرہی ہے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ڈاکٹر صاحب آپ کچھ اس کی طرف بھی توجہ کریں مجھے تو اس کی صحت کا سخت فکر رہتا ہے ایسی صحت کے ساتھ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کچھ عرصہ بھی زندہ رہے گا یا نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس چند دنوں بعد وفات پاگئے اور میں جو ہر وقت بیمار رہتا تھا اب بھی خداتعالیٰ کے فضل سے زندہ ہوں۔ مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط انسان مجھ سے پہلے گزر گئے۔ حافظ روشن علی صاحبؓ مجھ سے بہت زیادہ قوی تھے اور ان کی عمر بھی میرے قریب قریب تھی وہ بڑے مضبوط اور طاقتور تھے مگر ۹۲۹ء میں میرے دیکھتے ہی دیکھتے فوت ہوگئے۔ میر محمد اسحٰق صاحبؓ مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط تھے اور دو سال مجھ سے چھوٹے تھے مگر ۱۹۴۴ء میں وہ بھی فوت ہوگئے اور میں جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ اب مرا کہ اب مرا اب اپنی عمر کے باسٹھویں سال میں سے گزررہا ہوں بہت سے تندرست اور سکول میں میرے ساتھ پڑھنے والے نوجوان جو بچپن میں ہر میدان میں مجھے شکست دیا کرتے تھے اور جو مجھ سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط تھے وہ قریباً سارے کے سارے فوت ہوچکے ہیں شاید ان میں سے کوئی ایک دو ہی اب زندہ ہوں۔ پس یہ امر تو خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے اور جب یہ اس کا قائم کردہ سلسلہ ہے تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا وقت آجائے اور دنیا یہ کہے کہ مجھے اپنے کام میں کامیابی نہیں ہوئی۔ میری وفات خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دن ہوگی جس دن میں خدا تعالیٰ کے نزدیک کامیابی کے ساتھ اپنے کام کو ختم کرلوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوجائیں گی جن میں میرے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کی خبر دی گئی ہے۔ اور وہ شخص بالکل عدم علم اور جہالت کا شکار ہے جو ڈرتا ہے کہ میرے مرنے سے کیا ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں تو جاتا ہوں لیکن خدا تمہارے لئے قدرت ثانیہ بھیج دے گا۔ مگر ہمارے خدا کے پاس قدرت ثانیہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرت ثالثہ ہی نہیں اس کے پاس قدرت رابعہ بھی ہے۔ قدرت اولیٰ کے بعد قدرت ثانیہ ظاہر ہوئی اور جب تک خدا اس سلسلہ کو ساری دنیا میں نہیں پھیلا دیتا اس وقت تک قدرت ثانیہ کے بعد قدرت ثالثہ آئے گی اور قدرت ثالثہ کے بعد قدرت رابعہ آئے گی اور قدرت رابعہ کے بعد قدرت خامسہ آئے گی اور قدرت خامسہ کے بعد قدرت سادسہ آئے گی اور خداتعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور زبردست سے زبردست بادشاہ بھی اس سکیم اور مقصد کے راستہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا جس مقصد کے پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو پہلی اینٹ بنایا اور مجھے اس نے دوسری اینٹ بنایا۔ رسول کریم~صل۱~ نے ایک دفعہ فرمایا کہ دین جب خطرہ میں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لئے اہل فارس میں سے کچھ افراد کھڑے کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان میں سے ایک فرد تھے اور ایک فرد میں ہوں لیکن رجال کے ماتحت ممکن ہے کہ اہل فارس میں سے کچھ اور لوگ بھی ایسے ہوں جو دین اسلام کی عظمت قائم رکھنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے کھڑے ہوں۔ پس ہمارا مقابلہ کرنے والا ہمارا مقابلہ نہیں کرتا خداتعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے<۔۱۸۰
آخر میں منصب خلافت کی حقیقی اور بلند شان ایک نہایت لطیف مثال سے واضح کی چنانچہ فرمایا:۔
>کیا تمہیں دنیا میں کوئی شخص ایسا نظر آتا ہے خواہ وہ کروڑپتی ہو` حاکم ہو` وزیر ہو` بادشاہ ہو جو خدا تعالیٰ کو مار سکے پھر یہ کس طرح خیال بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اب تو ہم نے سینما دیکھنے سے روکا ہوا ہے اس سے پہلے تم بھی دیکھتے تھے اور میں نے بھی سینما دیکھا ہے۔ اگر تم سینما کی تصویر پر گولی مارو تو کیا وہ اس ایکڑ کو جالگے گی جس نے اس میں کام کیا ہے وہ تو اس وقت ہالی وڈ یا بمبئی یا کراچی میں زندہ پھر رہا ہوتا ہے اگر تم دس ہزار گولی بھی مارو تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اسی طرح ہم بھی تصویریں ہیں اور ہم پر حملہ کرنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اگر تم دو لاکھ توپیں چلادو اور اگر تم تصویر کی دھجیاں بھی اڑادو تب بھی تم اس شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ جو چیز تمہارے سامنے ہے وہ محض ایک نشان اور تصویر ہے اصل چیز تو آسمان پر ہے اور وہ تمہارے قبضہ و تصرف سے باہر ہے۔ پس تمہیں اصل حقیقت کو دیکھنا چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے۔ ہم اصل نہیں ہیں اور اگر ہم اصل ہوتے تو دنیا ہمیں کبھی کی فنا کرچکی ہوتی۔ ہم تصویریں ہیں اس لئے دنیا ہمیں جتنا بھی نقصان پہنچاتی ہے دین کا کچھ نہیں بگڑتا۔ تصویروں میں بعض دفعہ بادشاہ کا جلوس بھی دکھایا جاتا ہے اب اگر کوئی شخص بادشاہ کے جلوس پر گولیاں برسائے تو کیا بادشاہ مرجائے گا؟ اس طرح ہم بھی تصویریں ہیں۔ ہم کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے تاکہ اس کی حکومت دنیا میں قائم ہو۔ جس طرح تصویر پر گولی چلانے والا اصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اگر کوئی شخص ہم پر گولی چلاتا ہے تو گو ہم مرجاتے ہیں ہم ختم ہوجاتے ہیں لیکن اس مشن کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا جس کو قائم کرنے کے لئے اس نے ہمیں کھڑا کیا ہے۔ بلکہ اگر کوئی بادشاہ کے جلوس پر گولی چلاتا ہے تو بادشاہ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ میرے مخالف ہیں اور وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت تدابیر اختیار کرتا ہے۔ پس اپنے اندر خداتعالیٰ کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق پیدا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام یا ان کے خلفاء بے شک بوجہ خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کے ادب کے قابل ہیں لیکن وہ مقصود نہیں ان کے لئے اس نے یہ سکیم نہیں بنائی بلکہ اپنے لئے بنائی ہے۔ پس یہ سمجھ لو کہ تم جس کام کے لئے کھڑے ہو وہ خدا تعالیٰ کا ہے اور اس کے نام کو تم نے روشن کرنا ہے باقی ساری چیزیں اظلال کے طور پر ہیں اور اظلال آتے بھی ہیں اور جاتے بھی ہیں ہاں خداتعالیٰ یہ ضرور کرتا ہے کہ جب ظل کی کوئی شخص ہتک کرتا ہے تو وہ اسے اپنی ہتک قرار دیتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ تم کسی کے دوست کی تصویر کو جوتیاں مارو اور وہ اسے برداشت کرے۔ اسی طرح ہم ہیں تو انسان تو نے اس کو جوتی نہیں ماری بلکہ مجھ کو جوتی ماری ہے` تو نے اس کو گالی نہیں دی بلکہ مجھ کو گالی دی ہے` تو نے اس کو ذلیل نہیں کیا بلکہ مجھ کو ذلیل کیا ہے۔ اس لئے ایسا آدمی بچتا نہیں آدم سے لے کر اب تک ایسا آدمی نہیں بچا اور قیامت تک نہیں بچ سکتا<۔۱۸۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
کراچی پریس کانفرنس
قیام کراچی کے دوران دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ حضورؓ نے ۲۱۔ تبوک/ ستمبر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں مسمانان عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ ان کا مستقبل فریضہ تبلیغ کی ادائیگی سے وابستہ ہے۔
حضور کا بیان انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:۔
اسلامی دنیا میں ان دنوں بیداری اور نئی زندگی پیدا ہونے کے آثار نمودار ہیں۔ ہر جگہ کے مسلمانوں میں بیداری نظر آرہی ہے اور وہ اس امر کے لئے کوشاں ہیں کہ وہ ان خطرات کو جن کے بوجھ کے نیچے وہ کچھ عرصہ سے دبے ہوئے ہیں اپنے اوپر سے اتار پھینکیں۔ البتہ یہ بیداری جو ان میں پیدا ہوئی ہے وہ فی الحال قومی بیداری ہے۔ بے شک چند مسلمان ایسے پائے جاتے ہیں جو ایک متحد اسلامی دنیا کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر ان کے خیالات اس وقت تک محض سطحی ہیں جن کو وہ تاحال کسی مستقل شکل میں نہیں ڈھال سکے۔ اس وجہ سے ان خیالات کے پس پشت قربانی کی روح موجود نہیں ہے۔ یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ محض خواہشات بغیر ضروری عزم کے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتیں۔ ادھر حالات یہ ہیں کہ کوئی مسلم حکومت نہ اس بات کے لئے تیار رہے اور نہ ہی خواہشمند ہے کہ وہ اسلامی دنیا کے اتحاد کے لئے اپنے قومی فوائد کو خیرباد کہہ سکے۔ پان اسلامی تحریک کے پیچھے بعینہ وہی خیالات کام کررہے ہیں جن کو جمہوریت کے دلدادہ ممالک یعنی یورپ اور امریکہ ایک متحد سیاسی محاذ قائم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن بعض یورپین مصنفین اسلام کے خلاف اس قدر زہر اگل چکے ہیں کہ پان اسلامک کا محض تصور ہی یورپ اور امریکہ کے ملک کے باشندے کو کپکپا دینے کے لئے کافی ہے۔ اسلام جو فی الواقع اسلامی دنیا کے لئے ایک قوت متحرکہ ہے یا کم ازکم ہونی چاہئے اس کو مغربی اقوام تحقیر اور بے اعتمادی کی نظر سے دیکھتے ہیں ان حالات میں میرا پیغام مسلمان نوجوانوں کے لئے اور خصوصیت سے صحائف نویس احباب کے لئے یہ ہوگا کہ وہ اسلام کو نظر عمیق کے ساتھ مطالعہ کریں اور اس کی تعلیم کو اپنے اندر ایسے رنگ میں جذب کریں کہ جس کا اثر ان کی تحریروں میں نمایاں ہو۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ غیر مسلم اسلام کی خوبیوں سے واقف ہوسکیں گے ان کو یہ بھی چاہئے کہ اپنے غیر مسلم ہم پیشہ لوگوں سے اسلام کی تعلیم کے متعلق اور خصوصیت سے اس پہلو کے متعلق کہ اسلام غیر مذاہب کے ساتھ کس رویہ کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے کھلے اور آزادنہ طور پر تبادلہ خیالات کریں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند سالوں میں ہی اسلام کے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں وہ رفع ہوجائیں گی اور ان لوگوں کو جو اسلام کو اپنی لاعلمی کی وجہ سے شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یقین ہوجائے گا کہ اتحاد المسلمین کی تحریک بھی ایسے ہی بے لوث اور پاکیزہ ہے جیسا کہ مختلف عیسائی اقوام کو متحد کرنے کی تحریکیں۔
البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی یورپین ممالک میں تحریک کی بنیاد سیاسی اصولوں پر ہے لیکن پان اسلامک کی تحریک کی بنیاد محض مذہبی اصولوں پر ہے مگر اس کے اسباب اس روپیہ میں پائے جاسکتے ہیں جو یورپین اقوام خود اسلام کے متعلق رکھتی ہیں۔ گزشتہ سات سو سالوں کی تاریخ اس امر پر شاہد ناطق ہے کہ یورپین اقوام نے جو مسلمانوں پر غلبہ حاصل کیا اس کی وجہ نہ کئی سیاسی اختلاف تھا اور نہ یہ کہ ان کے ساتھ بے انصافیاں کی گئی تھیں بلکہ اس کی وجہ صرف مذہبی تعصب تھا۔
اسلامی سلطنت کے خلاف جو بغاوت جنوبی اٹلی اور سسلی میں کھڑی کی گئی ممکن ہے وہ اپنے اندر سیاسی پہلو رکھی ہو مگر جو صلیبی جنگ اور لڑائیاں سپین والوں نے جنوبی سپین کی اسلامی سلطنت کے خلاف کیں ان کو سیاست کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی ان فتوحات کے متعلق کہا جاسکتا ہے جو عیسائیوں نے مراکو` الجیریا` ٹریپولی` لیبیا` آذربائیجان` بخارا اور ایسے ہی اور ملکوں میں حاصل کیں۔
بے شک برطانیہ اور چند دیگر یورپین سلطنتوں نے جو فتوحات بعد کی صدیوں میں حاصل کیں وہ محض سیاسی فتوحات تھیں لیکن جو لڑائیں تیرھویں` چودھویں اور پندرھویں صدی میں لڑی گئیں ان کی وجوہات ہرگز ہرگز سیاسی نہ تھیں۔
پان اسلامک تحریک یقیناً ان عیسائی ادیبوں اور سیاستدانوں کی تحریروں اور ریشہ دوانیوں کا ردعمل ہے جنہوں نے سات سو سال متواتر نہ صرف اسلام کے خلاف سخت زہر اگلا بلکہ ان کی انتہائی کوشش رہی کہ وہ مختلف اسلامی سلطنتوں کے درمیان نسلی اور تاریخی وجوہ پر اختلاف کے بیج بوئیں اس لئے پان اسلامک تحریک کے موجد اور بانی مبانی ہرگز قابل ملامت نہیں قرار دئے جاسکتے۔
اس جگہ اس حقیقت کا اظہار نامناسب نہ ہوگا کہ آخری صدی کے دوران میں عیسائیوں کی آپس کی لڑائیوں میں جہاں کہیں بھی وہ لڑی گئی ہوں ہمیشہ ہی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ >عیسائی تمدن کے محافظ بنو!< یہاں تک کہ دوسری عالمگیر جنگ کے دوران میں ایک ہندوستانی نمائندہ نے )جو اب کٹر مسلم لیگی اور مشہور پاکستانی ہے( اپنی تقریر میں یورپ میں کہا کہ عیسائی تمدن خطرہ میں ہے اور ہندوستان اس کی حفاظت میں ضرور لڑے گا۔ پس اگر یورپ اور امریکہ یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ آپس میں متحد رہیں اور عیسائی تمدن کی حفاظت میں جنگیں کریں اور دوسروں کو اس میں شمولیت کی دعوت دیں تو پھر مسلمانوں کو آپس میں متحد رہنے اور اسلامی تمدن کی حفاظت کے لئے جنگیں کرنے کا کیوں حق حاصل نہیں؟
اگر عیسائی تمدن کی چیخ و پکار کو ایک سیاسی تحریک قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ صلیبی جنگ۔ اور جس کا مدعا اور مقصد یہ قرار دیا جاتا ہے کہ ناانصافیوں اور حقوق تلفیوں کو دور کیا جائے تو پھر پان اسلامک تحریک کو کیوں ایک مذہبی جہاد سمجھا جاتا ہے اور اسے بھی کیوں ایک سیاسی جدوجہد نہیں تصور کیا جاتا؟
اس سوال کے علمی پہلو کی طرف بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف اسلامی ممالک کا وجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر ملک اپنے اپنے فوائد اور جدا جدا خواہشات رکھتا ہے۔ پس جب تک ہر اسلامی ملک مختلف نام سے پکارا جائے گا تب تک ان کے فوائد بھی جدا جدا رہیں گے۔ اگر تمام اسلامی ممالک سیاسی` معاشرتی` تمدنی اور اقتصادی لحاظ سے ایک مرکز پر جمع ہوجائیں تو اس وقت مختلف حکومتوں کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ اسلامی ممالک مثلاً پاکستان` افغانستان` ایران` سیریا` سعودی عرب` عراق` مصر اور انڈونیشیا باوجود وسعت آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ہونے اور اپنی اپنی خودمختارانہ سلطنت رکھنے کے اس امر کے اقراری ہیں کہ وہ اس نقطہ پر تاحال نہیں پہنچے کہ جہاں پر سب کا کامل اتحاد ہوسکے۔ ان حالات میں اتحاد تب ہی حاصل ہوسکتا ہے کہ ہر ایک سب کی خاطر قربانی کرسکے۔
ہمیں اس معاملہ میں آہستہ آہستہ مگر احتیاط سے قدم اٹھانا چاہئے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے عزم بالجزم سے کام لینا چاہئے اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ دن دور نہیں کہ جب >اسلامی تمدن< ایک اصلیت ہوگی جو ہر مسلمان کے اندر ایک ایسا جوش و خروش پیدا کردے گی جو >عیسائی تمدن< کے نعرے کے پیدا کردہ جوش سے بہت زیادہ ہوگا۔ پہلا قدم جو ہمیں اس بارے میں اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو >پان اسلامک< کے حامی اور پکے مسلمان کہلانے سے ہرگز نہ ڈرنا چاہئے۔ سیاسی ویزا میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی سعی کرنا ہمارا پیدائشی حق ہے اور اس کو ہرگز مذہبی جنون نہیں کہا جاسکتا۔ یہ مجنونانہ حالت تب ہی پیدا ہوسکتی ہے کہ جب کہ دنیا میں انصاف اور حسن معاملگی کا خاتمہ ہوچکا ہوتا ہے۔ ہر ہاتھ دوسروں کے حق غصب کرنے میں کوشاں ہوتا ہے۔
دوسرا قدم یہ اٹھانا چاہئے کہ ہم ان خیالات کو مسلم اور غیر مسلم ممالک میں کثرت سے پھیلائیں تاکہ مسلمان پورے طور پر اس زمانے کی ضروریات کو سمجھ سکیں اور غیر مسلم مسلمانوں کی جائز خواہشات کا صحیح اندازہ لگا سکیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو اسلامی تعلیمات کی اشاعت غیر مسلم ممالک اور غیر مسلموں میں ازبس ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ لوگوں کو علم ہے کہ احمدیہ جماعت جس کے امام ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے گزشتہ چالیس سال سے اشاعت اسلام کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ ہمارے مشن اس وقت تمام عیسائی ممالک مثلاً امریکہ` انگلستان` فرانس` ہالینڈ` جرمنی` سوئٹزرلینڈ اور بہت سے مغربی افریقہ کے ممالک میں ہیں اور اس وقت تک عیسائیوں میں سے تقریباً تیس ہزار افراد مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں۔ ان نو مسلموں میں سے بعض نے اپنی زندگیاں اسلام کے لئے وقف کردی ہیں۔ امریکہ کے ایک نومسلم اور جرمنی کے ایک نومسلم اس وقت پاکستان میں اسلامی تعلیم کا اس نظریہ سے مطالعہ کررہے ہیں کہ حصول علم سے فراغت کے بعد اپنے ملک میں تبلیغ اسلام کے فرائض سرانجام دیں۔ نومسلموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور انشائاللہ چند سالوں میں یہ سلسلہ عروج تک پہنچ جائے گا۔مادیات کا یہ زمانہ ہم سے یہ حقیقت فراموش نہیں کراسکتا کہ جب کبھی بھی ظاہری طاقت کا مقابلہ سچائی سے پڑا ہے سچائی ہی ہمیشہ غالب رہی ہے۔ مجھے کئی مغربی سیاستدانوں سے گزشتہ دو سالوں میں ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے ان کو یہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ جہاں کہیں بھی کمیونزم کا مقابلہ مغربی تمدن سے ہوا ہے تو کمیونزم دس میں سے نو جگہ کامیاب ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک قوت بازو سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں برخلاف کمیونزم کے کہ وہ مزعومہ اصول کو پیش کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مغربی اقوام کے سازوسامان طاقتیں انحطاط پر ہیں مگر روس روز افزوں ترقی پر ہے۔
مغربی اقوام جب تک اس نصیحت پر عمل پیرا نہ ہوں گی ان کا قدم تنزل کی طرف جاتا رہے گا۔ مسلمانوں کا بھی یہی حشر ہوگا اگر انہوں نے اسلام اور اس کے زرین اصولوں کی اشاعت کا کام غیر مسلم ممالک میں اپنے ہاتھوں میں فوری طور پر نہ لیا کیونکہ ان کا مستقبل اسی سے وابستہ ہے۔ وہ جو اس کارخیر میں حصہ نہیں لے سکتے ان کے راستہ میں تو روک نہ بنیں جو اس کام کو کرسکتے ہیں اور کررہے کررہے ہیں۔۱۸۲
مسلم لیگی حکومت کا معاندانہ رویہ اور حضرت مصلح موعودؓ کی راہ نمائی
پنجاب میں احرار اور ان کے ہمنوا علماء ۱۹۴۸ء سے جو آگ احمدیوں کے خلاف بھڑکا رہے تھے وہ ۱۹۵۰ء میں اور بھی شدت اختیار کرگئی
حتیٰ کہ مسلم لیگی حکومت کے بعض افسروں نے بھی مخالفین پاکستان سے گٹھ جوڑ کرکے درپردہ ایک مخالفانہ تحریک چلانی شروع کردی جس پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو بھی اپنے خطبات کے ذریعے جماعت کو اصل صورت حال سے بار بار آگاہ کرکے پرزور طور پر یہ تلقین کرنا پڑی کہ اس کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنے خلاف جھوٹے پراپیگنڈا کی قلعی کھولنے کے لئے عوام کو احمدیت کے صحیح اسلامی عقائد سے باخبر کرے۔ کیونکہ پاکستان کی سالمیت` قیام امن اور جماعت احمدیہ کی ترقی کا اس کے سوا کوئی اور حل ممکن نہیں تھا ان دنوں سرکاری افسران کس طرح معاندانہ روش اختیار کئے ہوئے تھے اس کی تفصیل حضور ہی کے الفاظ میں ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔ فرمایا:۔
)۱( >گزشتہ دنوں بعض افسروں نے سرکلر جاری کیا تھا کہ ان کے محکمہ کے تمام ملازم یہ فارم پر کرکے بھجوائیں کہ وہ کس کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور احمدی ہونے کی صورت میں یہ بھی لکھیں کہ قادیانی احمدی یا لاہوری احمدی۔ اس سرکلر کی عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس سے کوئی نیا فتنہ کھڑا کرنا مقصود تھا۔ بعض غیر احمدی اخباروں نے بھی اس پر نوٹس لیا اور لکھا کہ اس تجویز سے صاف پتہ لگتا ہے کہ بعض فرقوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مقصود ہے۔ کسی فرد کے خلاف بے شک کارروائی کی جائے اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر کسی فرد کے خلاف کارروائی کرنا مقصود ہے تو پھر اس کے فرقہ سے کیا مطلب؟ وہ خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ مجرم ہے تو آپ اس کے خلاف کارروائی کریں لیکن پہلے یہ دریافت کرنا کہ تمہارا فرقہ کونسا ہے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کسی فرد کی شرارت کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی کرنا مقصود نہیں بلکہ کسی خاص فرقہ میں ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف کوئی شرارت کرنا مقصود ہے۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے ہماری جماعت کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے اندر ایک بیداری پیدا کرلیتی اور اس آدمی کی مانند جو آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوتا ہے اپنے آپ کو تیار کرلیتی خواہ کوئی دوبارہ غلط ڈائری لکھ لے اور گورنمنٹ کے پاس جھوٹی رپورٹ کردے واقعہ یہی ہے کہ تبلیع کے بغیر ہمیں چارہ نہیں )مگر اپنے رسوخ سے کام لے کر تبلیغ کرنا یا جبر کرنا یہ ہمارے مذہب میں جائز نہیں(۔ پس ایک طرف تبلیغ کرنی چاہئے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئیں تب ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اور اپنے مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ تبلیغ تمہاری تعداد کو بڑھائے گی اور دعائیں خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچیں گی۔ تبلیغ سے ہر درجہ اور حلقہ کے لوگ احمدی ہوں گے یا پھر انہیں کم از کم یہ پتہ لگ جائے گا کہ احمدی کیسے ہوتے ہیں۔ بے شک وہ احمدی نہ ہوں لیکن انہیں یہ تو پتہ لگ جائے گا کہ احمدیت کی تعلیم کیا ہے۔ اور جب انہیں احمدیت کی تعلیم کا پتہ لگ جائے گا تو پھر اگر کوئی شخص احمدیوں کے خلاف ان کے کان بھرنے کی کوشش کرے گا تو وہ فوراً کہہ دیں گے کہ ہم جانتے ہیں کہ احمدی ایسے نہیں ہیں۔ لیکن اگر وہ احمدیت کی تعلیم سے واقف نہیں تو جس طرح کوئی ان کے کان بھرے گان کے پیچھے لگ جائیں گے۔ گویا تبلیغ کے ذریعہ ہمیں دو فائدے حاصل ہوں گے` اول جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کی جرات رکھتے ہیں وہ صداقت کو قبول کرلیں گے اور جو صداقت کو قبول کرنے کی جرات نہیں رکھتے وہ ہمارے حالات سے واقفیت کی بناء پر کلمہ خیر کہا کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔ دعائوں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے<۔۱۸۳]4 [rtf
)۲( >پاکستان میں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مجلسوں میں لوگوں کو اکسایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے آدمیوں کو قتل کردیں` ہماری جائدادوں کو لوٹ لیں اور دوسرے لوگوں کو یہ تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مکانات پر نشان لگالیں تا قتل عام کے وقت انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ سارے پاکستان میں ایسا ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔ گورنمنٹ کا کام امن قائم کرنا ہے گورنمنٹ کا کام اس قسم کے فتنوں کو دبانا ہے مگر وہ دیکھ رہی ہے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ پولیس کے آدمی جاتے ہیں اور وہ ان مجالس میں جاکر ڈائریاں لیتے ہیں لیکن وہ اس قسم کی باتوں کا ڈائریوں میں ذکر نہیں کرتے۔ بعض جگہوں میں تو ڈائریاں لی ہی نہیں جاتیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کی مقامی پولیس دل سے ان کے ساتھ ہے اور بعض جگہ پولیس نے ڈائریاں لی ہیں لیکن ضلع حکام نے حکومت تک ان باتوں کو پہنچایا نہیں۔ ایک جلسہ میں ایک شخص نے کہا کہ تم میں سے کون ہے جو احمدیوں کو قتل کرے۔ ایک آدمی نے اٹھ کر کہا میں حاضر ہوں۔ پولیس نے ڈائری نہیں لکھی لیکن ایک مجسٹریٹ نے جو وہاں موجود تھا اپنی ڈائری میں یہ بات لکھ دی کہ میرے سامنے مقرر نے یہ سوال کیا کہ تم میں سے کون کون فلاں فلاں احمدیوں کو قتل کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا میں اس کام کے لئے حاضر ہوں اور اپنا نام پیش کرتا ہوں جب پولیس کے افسروں سے پوچھا گیا کہ کیوں پولیس کی ڈائری میں یہ بات نہیں آئی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ آدمی پاگل تھا اس لئے اس واقعہ کو نہیں لکھا گیا۔ یعنی جب شرارت کا پتہ لگ گیا تو یہ کہہ دیا گیا کہ وہ پاگل تھا۔ حالانکہ اگر کھڑا ہونے والا پاگل تھا تو کیا تقریر کرکے اشتعال دلانے والا بھی پاگل تھا۔ مگر ہم نے اپنے طور پر تحقیق کی ہے وہ شخص ہرگز پاگل نہیں ایک کام کاج کرنے والا آدمی ہے< ۔۔۔۔۔۔۔۔
)۳( >اور جگہوں کو تو جانے دو اسی جگہ پر جب میں نے تقریر میں کہا کہ اگر تم تبلیغ کرو تو بلوچستان جیسے چھوٹے سے صوبے کو احمدی بنالینا کوئی مشکل امر نہیں تو پولیس کے بعض نمائندوں نے کتنا جھوٹ بولا انہوں نے گورنمنٹ کی ڈائریاں بھیجیں اور ان کی نقل دوسرے صوبجات میں بھی بھجوائی گئی کہ امام جماعت احمدیہ نے تقریر کی ہے کہ گورنمنٹ کے محکموں میں جو بڑے بڑے احمدی افسر ہیں وہ اپنے ماتحتوں کو مجبور کرکے احمدی بنائیں اور اگر وہ احمدی نہ ہوں تو انہیں دق کرکے محکمہ سے نکال دیں۔ اس قسم کی ڈائریوں تک ہی بس نہیں کی گئی فوجی حکام کو بھی ورغلانے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے کیا کارروائی احمدی افسروں کے خلاف کی ہے مگر جس طرح سول میں اچھے افسر بھی ہیں اسی طرح فوج میں شریف افسر ہیں ان افسروں نے ان رپورٹوں پر کوئی توجہ نہ دی اور کہہ دیا فوج میں امن ہے ہم ایسی تحریروں پر کارروائی کرکے خود فساد پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے دشمن جب اس کارروائی میں ناکام رہے تو انہوں نے پہلے افسروں پر جو بالا افسر تھے ان کے پاس رپورٹیں کروائیں مگر ان کی طرف سے بھی یہ جواب دیا گیا کہ کوئی فساد بھی نظر آئے تو کسی کے خلاف کارروائی کی جائے جب فساد ہے ہی نہیں تو ہم خود فساد کیوں پیدا کریں۔ ہاں اگر فساد پیدا کروانا ہے تو اور بات ہے۔ مجھے ایک احمدی افسر نے بتایا کہ جب یہ ڈائری میرے پاس پہنچی کہ خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ نے یوں کہا ہے تو میں نے کہا میں خود احمدی ہوں اور میں خود وہاں موجود تھا میں نے وہ خطبہ جمعہ سنا ہے وہاں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اس پر وہ پولیس کا نمائندہ فوراً بات بدل گیا اور کہنے لگا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ غرض جہاں پاکستان میں ایک شریف عنصر ہے وہاں ایسا متعصب عنصر بھی ہے جسے پاکستان کے بھلے سے غرض نہیں اسے صرف اپنے دلی بغض اور کینہ کے نکالنے سے غرض ہے اور وہ پاکستان کو تباہ کرنا زیادہ پسند کرتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اسے کوئی احمدی زندہ نظر آئے اور ایسا عنصر جھوٹ` دھوکے اور فریب سے ہرگز پرہیز نہیں کرتا۔ جو افسر شرافت اور انصاف اور پاکستان کی محبت سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ایسے موقع پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ خواہ ایسی رپورٹوں پر کارروائی نہ کریں مگر ایسے جھوٹوں کو کوئی سزا بھی نہ دیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ سوال انتظامی نہیں رہے گا بلکہ سیاسی ہوجائے گا اور انہیں اپنا دامن چھڑوانا مشکل ہوجائے گا۔ پس ان کا انصاف نصف راستہ تک چل کر کھڑا ہوجاتا ہے<۔۱۸۴
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کی دینی غیرت اورعشق رسول عربیﷺ~
۲۴۔ ستمبر ۱۹۵۰ء کو نیویارک ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران مسٹر بی انجیامن کوہن اسسٹنٹ سیکرٹری اقوام متحدہ نے آنحضرت~صل۱~ )فداہ ابی وامی( کا ذکر مبارک نہایت بیہودہ انداز سے کیا جس سے یہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے زبردست احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں اس نے معافی مانگ لی اور اس ناقابل فراموش واقعہ کی خبر اخبار دی سول اینڈ ملٹری گزٹ GAZETTE) MILTARY AND CIVIL (THE نے ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں دی جس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے:۔
‏ Pakistan's 24, Spetember On (APP) 19 ۔Oct ۔YOURK <NEW television a witnessed Khan, Zafrulla Mohammad Sir Minister, Foreign the Platform", People's <The called programme deton the Culbertson, Ely ۔Mr being speakers Secretary Assistant Cohen, Benjamin ۔Mr and player, bridge۔Nation United General
‏ said ۔success ۔N۔U the of talking Culbertson ۔Mr his to travelled had ۔N۔U the respects certain in that۔N۔U the to he not and view of point
‏ going Mohammed "Like replied: Cohen ۔Mr this "To۔him to come not would mountain the when mountain the to
‏ General ۔Secretary the to letter a in Minister, Foreign Pakistan's and statement this against protested ۔N۔U the fo and calumnious as it labelled Muslim to offensive eeply and responsible ۔high a from came it when specially ۔sentiment of dignitary enlightened organisation, international greatest the۔world civilised the of consence the represent to claiming
‏ not was there that out pointed further letter The the for foundation slightest the the which on ineident alleged the in proverb a become almost has which ۔saying۔based been has ۔West
‏ taught Islma that letter his in lear it made dammahoM Sir offence the and prophets, the all of reverence and respect though Cohen, ۔Mr of utterance the by sentimers Muslim against۔grevious was inadvertently committed
‏ Ministher Foreign that assssured replay his in Cohen ۔Mr Khan), Zafrulla Mohammad (Sir him, by anticipated already as that lofty whose Muslims to offence causse to intention his not was it۔respected and honoured fully he spirit religious
‏ foreign the thanked and apologised profusely also Cohen ۔Mr correct to offered and eignoranc his dispelling for Minister his of effect unformate >the۔programme television next the in quotation
ترجمہ:۔ نیویارک ۱۹۔ اکتوبر )اے پی پی( ۲۴۔ ستمبر ۱۹۵۰ء کو پاکستان کے وزیرخارجہ چودھری محمد ظفراللہ خاں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام موسومہ >عوامی پلیٹ فارم< کا ملاحظہ فرمایا۔ جن لوگوں نے اس پروگرام میں حصہ لیا۔ ان میں ایل کلبرٹسن اور مسٹر بی انجامن کوہن اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل یونائیٹڈ نیشن۔ شامل تھے۔
اس پروگرام میں اقوام متحدہ کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر کلبرٹسن نے کہا:۔
کہ۔ >بعض معاملات میں اقوام متحدہ میرے نظریات تک پہنچی ہے۔ میں اس تک نہیں گیا<
اس کے جواب میں مسٹر کوہن نے کہا )حضرت( محمد~)صل۱(~ کی طرح جو پہاڑ اپنی سمت آتا نہ دیکھ کر خود اس کی جانب بڑھے تھے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری محمد ظفر اللہ خاں نے مسٹر کوہن کے اس بیان کے خلاف احتجاج کیا ہے اس سلسلہ میں انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ
مسٹر کوہن کا یہ بیان` مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور انہیں مشتعل کرنے کا موجب ہوا ہے۔ خصوصاً
>ایسی صورت میں جب کہ یہ بیان دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم جو مہذب دنیا کی نمائندگی کرتی ہے( کی انتہائی اعلیٰ اور ذمہ دار شخصیت کی طرف سے آیا ہے اس کے اثرات اور بھی زیادہ گہرے اور گھنائونے ہوسکتے ہیں<
چودھری صاحب نے اپنے مکتوب میں مزید لکھا ہے کہ یہ واقعہ )جس پر مغرب کی مذکورہ بالا ضرب المثل مبنی ہے( کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔
اپنے مکتوب میں چودھری صاحب نے اس امر کی وضاحت کی کہ اسلام` تمام انبیائؑ کے احترام کی تلقین کرتا ہے اور مسٹر کوہن نے مسلمانوں کے جذبات پر جو حملہ کیا ہے۔ وہ بجاطور پر خطرناک ہے۔
چودھری صاحب کے مکتوب کے جواب میں مسٹر کوہن نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ان کا مقصد مسلمانوں کے جذبات پر حملہ نہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی قدر اور احترام کرتے ہیں۔ مسٹر کوہن نے پاکستان کے وزیر خارجہ سے معذرت ظاہر کی ہے۔ اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ کہ انہوں نے انہیں )مسٹر کوہن( کو صحیح راستہ بتایا ہے۔
مسٹر کوہن نے یہ پیش کش کی ہے کہ ٹیلی ویژن کے کسی اگلے پروگرام میں وہ اس اقتباس کی تصحیح کردیں گے۔ )رائٹر(
اوکاڑہ اور اس کے ماحول کی آتشیں فضا
مسلم لیگی حکومت کی طرف سے ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی کے خوفناک نتائج ماہ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء کے شروع میں رونما ہونے شروع ہوگئے جبکہ مغربی پاکستان میں ہر طرف جماعت احمدیہ کی مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور خصوصاً اوکاڑہ اور اس کے گردونواح میں احمدیوں کے قتل عام کے کھلم کھلا وحظ کئے جانے لگے چنانچہ الفضل کے نامہ نگار نے مرکز احمدیت میں یہ اطلاع دی کہ
>یکم اکتوبر کو احراریوں نے بعض احمدیوں کا جب کہ وہ کسی چک کی طرف جارہے تھے جلوس بناکر اس کا تعاقب کیا۔ سات افراد کے منہ پر سیاہی ملی` ان پر مٹی اور کیچڑ پھینکا اور انہیں دھکے دیتے ہوئے اوکاڑہ ریلوے سٹیشن پر لے آئے۔ چند پولیس والوں نے ان کو بچانا چاہا تو شرپسند عنصر نے ان تانگوں پر بھی حملہ کردیا جن میں احمدی اور پولیس کانسٹیبل سوار تھے۔ اس کے بعد احراریوں نے شہر بھر میں جلوس نکالا۔ احمدیوں کو گالیاں دیں اور پولیس والوں پر احمدیوں کی پاسداری کا الزام لگا کر انہیں کوسا۔ یہ جلوس دیر تک مسجد کے سامنے ناچتا رہا۔ اسی شام کو چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ اوکاڑہ اور شیخ غلام قادر صاحب پر احراریوں نے حملہ کیا اور ریلوے لائن کے نزدیک سخت پتھرائو کیا جن سے دونوں احمدی مجروح ہوگئے<۔۱۸۵
اس فتنہ انگیزی نے چند دنوں میں ہی کیا صورت پکڑلی؟ اس کا نقشہ اوکاڑہ کے ایک غیر احمدی دوست جناب محمد عابد صاحب جالندھری نے انہی دنوں درج ذیل الفاظ میں کھینچا:۔
>ہفتہ عشرہ کے عرصہ تک بعض ناعاقبت اندیش اور خود غرض لیڈروں کی غلط لیڈر شپ کی بناء پر ایک طوفان بدتمیزی برپا رہا۔ اور احراری غنڈوں نے اسلام کے نام پر اخلاق سوز۔ نہیں نہیں۔ بلکہ اسلام سوز حرکات کا ارتکاب کیا۔ مگر ان کے متعلق کچھ تحریر کرنے سے قبل میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نہ مرزائی ہوں اور نہ ہی مرزائیت سے مجھے کوئی لگائو ہے بلکہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے جو کچھ میری ان آنکھوں نے اس غنڈہ گردی کے دوران میں دیکھا میں بقول کسے >قلم کی عصمت کو ماں بہن کی عصمت سے کم نہ سمجھتے ہوئے< اس کا تفصیلی جائزہ لوں گا<۔
ان ابتدائی الفاظ کے بعد لکھا:۔
>یکم اکتوبر۔ حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر کی یکم کو جبکہ چند مرزائی مبلغ اوکاڑہ سے دو اڑھائی میل دور واقعہ ایک دیہہ چک نمبر ۵ میں بغرض تبلیغ روانہ ہوئے تو شہر سے ۲۰` ۲۵ غنڈے ان کے پیچھے ہولئے اور وہاں ان کی تمام مساعی کو ناکام بناتے رہے اور واپسی پر راستہ میں کوٹ نہال سنگھ کے قریب ان بیچاروں کے منہ سیاہ کرکے ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے شہر کی طرف لے آئے جہاں اسٹیشن کے قریب شہر کے امن کو خاک میں ملانے والے بعض دیگر افراد نے بھی >مرزائیت مردہ باد< اور >مرزائے قادیان مردہ باد< و دیگر اسی قسم کے ہتک آمیز نعرے لگائے اور مرزائی مبلغین پر پتھرائو کیا۔
اس شور وغوغا کو سن کر پولیس وہاں پہنچ گئی اور مرزائی مبلغین کو اپنی حفاظت میں لے لیا مگر جب پولیس کے تانگہ پر غنڈہ عنصر نے حملہ کردیا تو مجبوراً پولیس نے آٹھ نو حملہ آوروں کو زیر دفعہ ۱۵۱/۱۰۷ گرفتار کرلیا۔
ان گرفتاریوں کے فوراً ہی بعد شہر میں زبردستی ہڑتال کروا دی گئی مگر حکام بالا نے نہایت ہوشمندی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے گرفتار شدگان کو رہا کردیا اور اس طرح شہر میں فرقہ واریت کی سلگتی ہوئی آگ کو کسی حد تک ٹھنڈا کردیا۔
۲۔ اکتوبر:۔ یہ دوسرا دن بخیر و عافیت گزر گیا اور اگرچہ اس دن بظاہر امن رہا اور کسی قسم کا کوئی ناگوار واقعہ پیش نہ آیا مگر اس حقیقت کو کسی صورت جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ کشیدگی اور کھچائو اس دن بھی کسی حد تک پایا جاتا تھا۔
۳۔ اکتوبر: ۔ ۳۔اکتوبر کا دن بھی ۲ بجے تک امن و امان کے ساتھ گزر گیا مگر ۲/۲۱ بجے کے قریب جبکہ پولیس نے نقص امن کے اندیشہ میں حافظ فضل الٰہی سابق صدر مومن کانفرنس کو گرفتار کرلیا تو شہر کی فضا پھر سے مکدر ہوگئی اور کوئی تین چار بجے کے قریب ۴۔ اکتوبر کو عام ہڑتال اور رات کو رضوی چوک اوکاڑہ میں ایک جلسہ عام کا اعلان کردیا۔
جلسہ میں مقررین نے نہایت اشتعال انگیز اور تہدید آمیز تقریریں کرکے عوام کے جذبات کو کافی حد تک اکسایا اور یہی اکساہٹ دوسرے دن یعنی ۴۔ اکتوبر کو ایک مرزائی کے قتل پر منتج ہوئی۔
۴۔ اکتوبر:۔ اسی دن کے لئے عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا چنانچہ صبح سے ہی غنڈوں اور نافہم چھوٹے چھوٹے بچوں کے گروہ درگروہ بازاروں کے چکر کاٹنے لگے اور اگر کسی غریب خوانچہ فروش نے غلطی سے یا پھر اپنے بچوں کی بھوک اور افلاس سے تنگ آکر کوئی شے فروخت کرنی چاہی تو ان غنڈوں نے اس غریب کی ساری پونجی کو لوٹ لیا اور جو کسی کے ہاتھ لگا لے کر چلتا بنا۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ سارا دن یہ لوگ بازاروں اور گلیوں میں چھوٹے چھوٹے جلوسوں کی شکل میں آوارہ گردی کرتے رہے اور مرزائیوں کے خلاف نہایت اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہے یہاں تک کہ مسجد احمدیہ کے دروازے پر جاکر ان لوگوں نے نہایت تہدید آمیز الفاظ استعمال کئے اور مسجد کے صحن میں گندگی تک پھینکنے سے گریز نہ کیا۔
شام کے تین بجے ایک جلوس عام کا اعلان کیا گیا تھا مگر جناب سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کی بروقت مداخلت اور چک نمبر ۴۰ میں ایک مرزائی کے قتل نے جلوس نکالنے کی جرات نہ ہونے دی۔ اسی دن شام کو منٹگمری سے سپیشل پولیس فورس منگوائی گئی اور شہر کے تمام اہم ناکوں پر پولیس کی چوکیاں بٹھا دی گئیں<۔۱۸۶
ماسٹر غلام محمد صاحب کا واقعہ شہادت
اس رپورٹ میں جس شہید احمدیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ماسٹر غلام محمد صاحب تھے جو چک ۳۔ آر/ ۴۸ میں دیہاتی سکول کے ٹیچر تھے اور تقسیم ملک سے قبل جماعت احمدیہ پھمبیاں ضلع ہوشیار پور میں سیکرٹری مال تھے۔۱۸۷
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء میں آپ کے واقعہ شہادت کے حالات میں لکھا ہے:۔
>یکم اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ایک احمدی مولوی نور دین سات دوسرے احمدیوں کے ساتھ تبلیغی مہم پر چک نمبر ۵ میں گیا۔ یہاں کے غیر احمدیوں نے ان مبلغوں کو گھیر لیا۔ پھر ان پر کیچڑ پھینکی۔ ان کے چہروں پر کالک ملی اور گندے پانی میں سے انہیں ہنکا کر ریلوے سٹیشن اوکاڑہ تک پہنچایا۔ پولیس میں اس واقعہ کی رپورٹ لکھوائی گئی جس پر ایک شخص مولوی فضل الٰہی زیر دفعات ۱۴۷` ۳۴۲ زیر حراست لے لیا گیا۔ اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کے طور پر اوکاڑہ میں دکانیں بند ہوگئیں اور ۳۔ اکتوبر کی رات کو ایک جلسہ عام ہوا جس میں ہزاروں اشخاص شامل ہوئے۔ بہت سے مقررین نے تقرریں کیں جو بے انتہا اشتعال انگیز تھیں۔ ایک مقرر نے جلسے کے نوجوان حاضرین سے اپیل کی کہ مرزائی فتنہ سے قوم کو نجات دلائو۔ دوسرے دن محمد اشرف نے جو تقریریں سن چکا تھا ایک چھرے سے مسلح ہوکر غلام محمد کا تعاقب کیا جبکہ وہ اوکاڑہ جارہا تھا۔ محمد اشرف نے غام محمد کو ایک نہر کے قریب جالیا اور اس کے چھرا گھونپ دیا۔ غلام محمد کا زخم کاری تھا۔ چنانچہ وہ تھانے کو لے جانے سے پہلے ہی مر گیا۔ محمد اشرف ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے بیان دیا:۔
>پہلے یہ کہا کہ ستمبر میں پھر کہا کہ اکتوبر کی تیسری تاریخ کو اوکاڑہ میں ایک جلسہ ہوا جس میں رضوان بشیر احمد` مولوی ضیاء الدین` قاضے عبدالرحمن` چوہدری محبوب عالم اور صدر جلسہ نے جو غالباً قاضی تھے پرجوش تقریریں کیں جن میں بتایا کہ مرزائی نبی کریم~)صل۱(~ کو گالیاں دیتے ہیں ہم حضورﷺ~ کی عظمت کے لئے اپنی جانیں دے دیں گے۔ تقریر میں یہ کہا گیا کہ جو لوگ ان کو )احمدیوں کو( پہچان کر نابود کرنے پر آمادہ ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں۔ جلسے میں علم دین غازی کا ذکر بھی کیا گیا اور اس کی سرگزشت سنائی گئی۔ میں نے اس سے پہلے بھی علم دین غازی کی سرگزشت پڑھی تھی اور ایک دفعہ اس کے مقبرے پر بھی گیا تھا۔ اس کے بعد جلسہ ختم ہوگیا۔ میں گھر واپس آگیا۔ تقریروں کے الفاظ رات بھر میرے دماغ میں گونجتے رہے۔ صبح اٹھ کر میں سائیکل پر چک نمبر ۴۸ گیا جہاں ماسٹر تفریحی چھٹی پر اپنے گھر گیا ہوا تھا۔ میں چک میں ٹھہرا رہا تاوقتیکہ وہ سکول میں نہ آگیا۔ گائوں کے چوک کی ایک دکان پر میں نے ایک سگریٹ پیا۔ جب میں باہر نکال ماسٹر سکول میں نہ تھا مجھے یقین تھا کہ ماسٹر مرزائی ہے۔ اور میں اسی نیت سے آیا تھا۔ چک میں میں نے ایک سید سے پوچھا کہ آیا حضور نبی کریمﷺ~ کے زمانے میں ہمارے بچوں کو پڑھانے پر کوئی کافر مقرر تھا؟ اس ماسٹر کو کیا حق ہے کہ وہ ہمارے چک میں مقیم ہے۔ زمین الاٹ کرا رکھی ہے اور بچوں کو پڑھا رہا ہے۔ اس کے بعد میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ ماسٹر کہاں گیا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ چک ۳۔ آر/۴۰ کو گیا ہے۔ میں نے پوچھا سائیکل پر یا پیدل؟ جواب ملا سائیکل پر۔ میرے پاس اس وقت ایک چھرا تھا میں نے اس کو دو میل کے فاصلے پر جا لیا۔ وہاں میں نے اپنے سائیکل سے اتر کے اس کے سائیکل کو دھکا دیا اور اسے گرا لیا۔ میں نے ماسٹر کو چھرے سے ایک ضرب لگائی اور وہ بھاگ کر چھوٹی نہر کے پاس میں گھس گیا۔ چھرا ٹھیک نہ رہا میں نے اسے درست کیا اور پھر پانی میں اور ضربیں لگائیں۔ میں اس ک مار ہی رہ رہا تھا کہ ادھر ادھر سے کچھ لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے مجھے روکا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے نہ روکو میں ایک کافر کو قتل کررہا ہوں۔ اور ایک اجنبی شخص نے مجھ سے سوالات کئے میں نے اس کو بھی یہی بتایا کہ میں نے ایک کافر کو ہلاک کردیا ہے۔ پھر میں اوکاڑہ چلا گیا<۔۱۸۸
‏]sub [tagپنجاب پریس کا جانبدارانہ رویہ اور >تسنیم< کی معذرت
>ناعاقبت اندیش< اور >خود غرض لیڈروں< کے اس ظلم وستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے پنجاب پریس خصوصاً >آزاد<۱۸۹ اور >تسنیم<۱۹۰ لاہور نے اصل حقائق کو مسخ شدہ صورت میں نہایت درجہ رنگ آمیزی سے شائع کیا جس پر اخبار >الفضل< نے سختی سے نوٹس لیا اور بالاخر ادارہ >تسنیم< کو حسب ذیل الفاظ میں معذرت شائع کرنا پڑی:۔
>لاہور ۱۰۔ اکتوبر۔ قیم جماعت اسلامی ضلع منٹگمری اطلاع دیتے ہیں کہ تسنیم کے نامہ نگار اوکاڑہ نے قادیانیوں کے متعلق جو خبریں بھیجیں ہیں وہ جذباتی اور خلاف واقعہ ہیں اس لئے نامہ نگار مذکور کو تسنیم کی نامہ نگاری سے علیحدہ کردیا۔ ادارہ کو ان خبروں پر افسوس ہے جو نامہ نگار مذکور نے قادیانیوں کی اشتعال انگیزی کے متعلق بھیجی ہیں۔ تسنیم جس دعوت اور مسلک کا داعی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے کالموں میں دانستہ کوئی ایسی چیز شائع نہ ہو جو خلاف واقعہ ہو<۔۱۹۱
افسوس >تسنیم کے علاوہ کسی اور اخبار کو اس اخلاقی جرات کی توفیق نہ ہوسکی حالانکہ محمد عابد صاحب جالندھری کے الفاظ میں ان اخبارات نے یا پھر ان کے نامہ نگاروں نے حق و صداقت کا منہ چڑانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا<۔۱۹۲
‏tav.12.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
اخبار تنظیم )پشاور( کا پرزور نوٹ اور حکومت سے مطالبہ
جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے اس کے اخبارات نے انتہائی غیر جانبدارانہ روش اختیار کی بلکہ پشاور کے ہفت روزہ >تنظیم< نے اپنی ۲۶۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں >احرار کی پاکستان دشمن سرگرمیاں< کے زیر عنوان مندرجہ ذیل پرزور نوٹ سپرد اشاعت کیا:۔
>کسے معلوم نہیں کہ مجلس احرار بھی کانگرس کی طرح مسلمانوں کے محبوب مطالبہ پاکستان کی روز اول سے شدید مخالفت کرتی رہی ہے۔ پاکستان کو پلیدستان اور قائداعظم~رح~ کو اول درجہ کا فرقہ پرست کہنے والی اس نام نہاد اور پاکستان دشمن جماعت نے قیام پاکستان کے بعد ملک کے قومی اتحاد کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لئے پنجاب میں مذہبی تبلیغ کے نام سے گزشتہ عرصہ میں جو کانفرنسیں اور جلسے کئے ان احرار مبلغوں نے نہ صرف شیعہ سنی مناقشات کو ہوا دی بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہلاکت آفرین ہر اگلا۔ اس کی تفصیل ہم کسی گزشتہ اشاعت میں دے چکے ہیں۔ احرار نے اپنے یہ تبلیغی جلسے پنجاب کے ان اہم مرکزی مقامات اور دیہات میں کئے جہاں کے نوجوان پاکستانی افواج میں ملک و ملت کی خدمت کررہے ہیں اور آئندہ بھی یہی علاقے ملک کی خدمت کے لئے نوجوانوں کی بھرتی دے سکتے ہیں۔ پنجاب کے سادہ لوح دیہاتیوں میں پاکستان کی فوجی قوت اور قومی اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے مرزائیت اور احمدیت کو کافر اور خارج از اسلام بے دین فرقہ ظاہر کرکے عوام سے کہا گیا کہ تمہیں یہ کیا معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان کے جتنے اہم سرکاری شعبے ہیں ان میں شیعوں اور احمدیوں کی حکمرانی ہے اور خاص کر پاکستان کی طرف سے سرظفراللہ کا بطور وزیر خارجہ تقرر مسلمانوں کے لئے مذہبی اور ملکی نقطہ نظر سے شدید خطرہ و نقصان کا باعث ہے۔ اسلام کسی حالت اور کسی صورت میں احمدیوں سے اشتراک عمل کی اجازت نہیں دیتا۔
لہذا مسلمانو! احمدیوں کی خفیہ ریشہ دوانیوں اور سرظفراللہ کے ہندوئوں سے کشمیر کے سودا کے سازباز وغیرہ مسلم دشمن حرکات سے بروقت خبردار رہو۔ اگر سر ظفراللہ اسی طرح وزارت خارجہ کے اہم عہدہ پر فائز رہا تو بس یہی سمجھو کہ تمہارا اسلام اور کلچر وغیرہ سب مٹ جائیں گے حالانکہ سر ظفر اللہ کی سلامتی کونسل میں نہ صرف پاکستان بلکہ تمام اسلامی ممالک کے مسائل سے گہری` بے لوث اور ٹھوس ترجمانی کے باعث تمام عرب ممالک سر ظفراللہ پر اپنے اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں اور مسلم ممالک کے حقوق کی نگہداشت کے لئے اقوام متحدہ کے ادارہ میں سرظفراللہ کی موجودگی کو اسلامی ممالک کی خوش قسمتی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ نیز پاکستان کے قیام اور بعد میں پاکستان کے استحکام کے لئے مسلم جماعت احمدیہ کو جو بے مثال اور ناقابل فراموش قربانی ادا کرنی پڑی ہے اس کے پیش نظر چاہئے تو یہ تھا کہ اس جماعت کی جو بے مثال اور ناقابل فراموش قربانی ادا کرنی پڑی ہے اس کے پیش نظر چاہئے تو یہ تھا کہ اس جماعت کی جو اپنا ناموس اور گھربار اور کروڑوں روپیہ کی جائداد اور اپنا مرکز چھوڑ کر پاکستان پہنچی تھی ۔۔۔۔۔ قدر کی جاتی ۔۔۔۔۔۔ یقیناً پاکستان کے لئے اس جماعت کی قربانیاں باقی مسلمانان ہند کے مقابلہ میں اگر زیادہ قابل قدر نہیں تو اس درجہ حقیر اور خلاف انسانیت سلوک کے قابل نہیں کہ احرار کی فتنہ انگیز تقاریر سے متاثر ہوکر اوکاڑہ میں وہاں کے غنڈوں کے ہاتھوں نہ صرف کہ چند احمدیوں کے منہ کالے کئے گئے بلکہ مسجد احمدیہ میں گندگی تک پھینکی گئی اور غنڈوں کا انتقامی جوش ایک بے گناہ احمدی مسلمان کی شہادت بھی بنا۔ ابھی اوکاڑہ کی فضا احمدیوں کے مزید کشت و خون کے لئے مکدر بیان کی جاتی ہے۔ گو عارضی طور پر وہاں پولیس کی چوکیاں بٹھا کر امن قائم کردیا گیا ہے۔
ضرورت ہے کہ آنریبل ڈاکٹر لیاقت علی خان صاحب وزیراعظم پاکستان اپنی اولین توجہ اوکاڑہ کے تازہ سانحہ پر دیں اور وہابیوں` شیعوں اور احمدیوں کو کفر و الحاد کی سندیں دینے والی پاکستان دشمن احرار جماعت کی اس قسم کی فتنہ انگیز تقریروں پر کڑی پابندی عائد کی جائے اور سانحہ اوکاڑہ کا اصل پس منظر معلوم کیا جائے کہ آیا وہ کونسے اسباب تھے کہ پورے چار دن اوکاڑہ کے غنڈوں نے امن و قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر وہاں کے احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا۔ چونکہ پاکستان کا قیام ایک جمہوری اور قومی ریاست کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے اس لحاظ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر پاکستانی کو ملکی قانون کے اندر رہتے ہوئے پوری مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ سانحہ اوکاڑہ کے اصل محرک جو لوگ ہیں انہوں نے اسلامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے اور ان کے اس فعل سے پاکستان کے قومی اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ ایسی مجرمانہ اور غیر ذمہ دارانہ حرکات کا آئندہ کے لئے مکمل سدباب کرے اور پاکستان میں رہنے والی تمام ایسی نام نہاد مذہبی جماعتوں کی تقریر و تحریر پر پابندی عائد کی جانی ضروری ہے جو فرقہ وارانہ جذبات کی انگیخت کا باعث ہوں<۔
حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اپنے اندر روحانی انقلاب برپا کرنے کی تلقین
شہید احمدیت ماسٹر غلام محمد صاحب کے المناک واقعہ شہادت پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۶۔ اخاء ۱۳۲۹ہش کو ایک عارفانہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے جماعت پر واضح کیا کہ
نبیوں کی جماعتوں کو پتھر` کنکر اور کانٹوں پر سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ مگر یاد رکھو کہ جب تم خدا کے لئے اپنے آپ کو بدل دو گے تو خدا تمہارے لئے ساری دنیا کو بدل دے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
>آج میں اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت بہت سخت ہوتی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو کل تک ہماری جماعت کی تعریف میں رطب اللسان تھے آج ان کے خون کے پیاسے نظرآرہے ہیں۔ آپ لوگوں نے اخبار میں اوکاڑہ کے واقعات پڑھے ہوں گے کہ وہاں ہمارے ایک دوست کو شہید کردیا گیا ہے۔ اب پردہ ڈالنے کے لئے یہ کہا جارہا ہے کہ قتل کرنے والے کی مخالفت کی بناء کوئی لین دین کا جھگڑا تھا مگر ساتھ ہی یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ وہ جھگڑا دو سال کا پرانا تھا حالانکہ اگر یہ بات درست بھی تسلیم کرلی جائے کہ دو سال پہلے کا کوئی جھگڑا تھا تب بھی اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت اس کا قتل کرنا درحقیقت ان مولویوں کی انگیخت کا نتیجہ تھا جنہوں نے ہماری جماعت کے خلاف تقریریں کیں۔ ورنہ اگر صرف یہی جھگڑا اختلاف کا باعث تھا تو اس نے گزشتہ دو سال میں یہ فعل کیوں نہ کیا۔ اگر ایک شخص دیکھے کہ کوئی اس کے بچہ کو پیٹ رہا ہے اور وہ اس وقت خاموش رہے لیکن دو سال کے بعد مارنے والے کو پیٹنے لگے اور کہے کہ میں اس لئے پیٹ رہا ہوں کہ اس نے آج سے دو سال پہلے میرے بچہ کو مارا تھا تو کون شخص اس کی بات کو تسلیم کرے گا یہ شخص کہے گا کہ اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد تمہارا پیٹنا اگر اشتعال کی وجہ سے ہے تب بھی اس اشتعال کو کسی اور چیز نے تازہ کردیا ہے۔ اسی طرح اس اشتعال کو زندہ کرنے والا` اس اشتعال کو تازہ کرنے والا اور اس اشتعال کو ابھارنے والا مولویوں کا لوگوں کو حرش دلانا اور ان کا احمدیوں کے خلاف تقریریں کرنا تھا۔ اور یہ ایک جگہ کا حال نہیں ہر جگہ یہی ہورہا ہے۔ ان حالات میں پہلی نصیحت تو میں جماعت کے دوستوں کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ان امور کو ابتلاء شر نہ سمجھیں بلکہ دینی ترقی کا ذریعہ سمجھیں۔ یہ بزدلوں اور بے ایمانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ مصائب کے آنے پر گھبرا جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے ابتداء میں ہی منافق کی یہ علامت بیان فرمائی کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ ٹھہر جاتا ہے اور جب آرام اور راحت کا وقت آتا ہے تو چل پڑتا ہے۔ مومن وہ ہوتا ہے جو مصائب کے وقت اور بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ احزاب کے موقع پر جب مسلمانوں سے کہا گیا کہ لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور وہ تمہیں مارنے کی فکر میں ہیں تو انہوں نے کہا یہ تو ہمارے ایمانوں کو بڑھانے والی بات ہے کیونکہ ہمارے خدا نے پہلے سے ان واقعات کی خبر دے رکھی تھی۔ اس سے ہمارے ایمان متزلزل کیں ہوں گے وہ تو اور بھی بڑھیں گے اور ترقی کریں گے۔ پس ایسے امور سے مومنوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مدارج کو بلند کرنے کے سامان پیدا کررہا ہے ہم میں سے کون ہے جس نے ایک دن مرزا نہیں مگر ایک موت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ طبعی موت ہوتی یہ اور دوسری موت کے متعلق فرماتا ہے کہ ایسے مرنے والے ہمیشہ سے زندہ ہیں بلکہ فرماتا ہے کہ تم ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو رزق مل رہا ہے یعنی ان کی روحانی ترقیات کے سامان متواتر ہوتے چلے جائیں گے۔ دشمن تو یہی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ تم کو مٹا دے اور وہ تم کو غمگین بنا دے مگر جب وہ دیکھتا ہے کہ تمہیں مارا جاتا ہے تو تم اور بھی زیادہ دلیر ہوجاتے ہو` تم اور بھی زیادہ خوش ہوجاتے ہو اور کہتے ہو کہ خدا نے ہماری ترقی کے کیسے سامان پیدا کئے ہیں تو اس کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے<۔
نیز فرمایا:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلے ایک تھے پھر ایک سے دو ہوئے` دو سے چار ہوئے` چار سے آٹھ ہوئے` آٹھ سے سولہ ہوئے` سولہ سے بتیس ہوئے` بتیس سے چونسٹھ ہوئے` چونسٹھ سے ایک سو اٹھائیس ہوئے اور اسی طرح ہم بڑھتے چلے گئے۔ کب وہ وقت آیا کہ ہمارا دشمن کمزور تھا اور ہم طاقت ور تھے۔ ہماری تاریخ میں کوئی وقت ہم پر ایسا نہیں آیا کہ دشمن کمزور ہو اور ہم طاقتور ہوں یا کب وہ وقت آیا کہ ہمارے پاس سامان تے اور دشمن کے پاس سامان نہیں تھے۔ ہمیشہ ہمارے دشمن کے پاس ہی سامان تھے اور ہمارے پاس کوئی سامان نہیں تھے یا کب وہ وقت آیا کہ دشمن نے ہمیں امن دینے کا ارادہ کیا ہو اور اس کے اس ارادہ کی وجہ سے ہم بچے ہوں۔ ہمیشہ ہی دشمن نے ہمارے قتل کے فتوے دیئے لیکن ہمیشہ ہی خدا نے ہم کو بچایا اور خدا تعالیٰ نے ہم کو بڑھایا۔ پس وہ کونسی نئی چیز ہے جس سے تم گھبراتے ہو یا کونسی نئی بات ہے جو تمہیں تشویش میں ڈالتی ہے۔ کیا کوئی نبی دنیا میں ایسا آیا ہے جس کی جماعت نے پھولوں کی سیج سے گزر کر کامیابی حاصل کی ہو۔ پتھر اور کنکر اور کانٹے ہی ہیں جن پر سے نبیوں کی جماعتوں کو گزرنا پڑا اور انہی پر سے تم کو بھی گزرنا پڑے گا۔ جس طرح ایک بکری کے بچہ کے پیر میں جب کانٹا چبھ جاتا ہے تو گلہ بان اس کو اپنی گود میں اٹھا لیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرتے ہوئے اگر تمہارے پائوں میں کانٹا بھی چبھے گا تو ایک غریب اجڑی نہیں` ایک کمزور گلہ بان نہیں بلکہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا خدا تم کو اپنی گود میں اٹھا لے گا۔ لیکن اگر تم ڈرتے ہو تو تم اپنے ایمان میں کمزور ہو اور ان نتائج کے دیکھنے کے اہل نہیں جو انبیاء کی جماعتیں دیکھی چلی آئی ہیں۔ تم اپنی سستیوں اور غفلتوں کو دور کرو۔ مایوسیوں کو اپنے قریب بھی نہ آنے دو۔ تمہیں خدا تعالیٰ نے شیر بنایا ہے تم کیوں یہ سمجھتے ہو کہ تم بکریاں ہو۔ جدھر تمہاری باگیں اٹھیں گی ادھر ہی اسلام کے دشمن بھاگنے شروع ہوجائیں گے اور جدھر تمہاری نظریں اٹھیں گی ادھر ہی صداقت کے دشمن گرنے شروع ہوجائیں گے۔ بے شک خدا تعالیٰ کے دین کے قیام کے لئے تم ماریں بھی کھائو گے۔ تم قتل بھی کئے جائو گے تمہارے گھر بھی جلائے جائیں گے مگر تمہارا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اور کوئی طاقت تمہاری ترقی کو روک نہیں سکے گی۔ الٰہی سنت یہی ہے کہ اس کی جماعتیں مرتی بھی ہیں` اس کی جماعتیں کچلی بھی جاتی ہیں۔ اور اس کی جماعتیں بظاہر دنیوی نقصان بھی اٹھاتی ہیں مگر ان کا قدم ہمیشہ ترقی کی طرف بڑھتا ہے۔ اور یہی وہ معجزہ ہوتا ہے جو سنگدل سے سنگدل دشمن کو بھی ان کے آگے جھکا دیتا ہے اور انہیں فتح اور کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو۔ نمازوں پر زور ددو۔ دعائوں پر زور دو۔ شب بیداری پر زور دو۔ صدقہ و خیرات پر زور دو۔ دین کی خدمت پر زور دو۔ تبلیغ پر زور دو اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ جب تم خدا کے لئے اپنے آپ کو بدل لو گے تو خدا تمہارے لئے ساری دنیا کو بدل دے گا<۔
راولپنڈی میں چوہدری بدرالدین صاحب کی شہادت
ماسٹر غلام محمد صاحبؓ کی دردناک شہادت کا زخم بالکل تازہ ہی تھا کہ صرف چند روز بعد جماعت احمدیہ راولپنڈی کے ایک سادہ مزاج اور خاموش طبع بزرگ اور صحابی چوہدری بدرالدین صاحبؓ لدھیانوی گولی مار کر شہید کردیئے گئے۔
چوہدری صاحب موصوف ۱۸۹۰ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں پائی۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے ۱۸۹۹ء کے لگ بھگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ لدھیانہ کے سیکرٹری مال اور سیکرٹری امور عامہ رہے۔ آپ کو یہ بھی فخر حاصل تھا کہ ایک بار حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ اور حضرت ام المومنینؓ مالیر کوٹلہ تشریف لے جاتے ہوئے آپ کے مکان واقع سرائے نواب متصل اسٹیشن لدھیانہ میں قیام فرما ہوئے تھے۔ فسادات ۱۹۴۷ء میں آپ گوالمنڈی راولپنڈی میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ راولپنڈی میں احرار کانفرنسوں نے سخت اشتعال پھلا دیا تھا۔ ۱۰۔ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ساڑھے چھ بجے شام گوالمنڈی کے باغیچہ میں آرہے تھے کہ فائر بریگیڈ کیپاس ایک شخص ولایت نے ان پر پیچھے سے فائر کیا اور گولی ان کی پشت کو چیرتی ہوئی پیٹ کی طرف سے نکل گئی۔۱۹۴ اتفاق سے اس وقت ایک سب انسپکٹر پولیس نے جو کسی کام کے تعلق میں باہر سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے قاتل کو گولی چلاتے دیکھ لیا اور اسے موقع پر ہی گرفتار کرکے اس کا پستول چھین لیا۔ اور جیسا کہ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کے فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے >عینی شاہدوں میں سے ایک نے جس پر سیشن جج اور ہائی کورٹ دونوں نے اعتبار کیا ہے یہ بتایا کہ جب مجرم کو عین موقع پر گرفتار کیا گیا تو اس نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ میں نے بدر دین کو اس لئے ہلاک کیا ہے کہ وہ احمدی ہے<۔۱۹۵
چوہدری بدر الدین صاحب گولی لگنے سے گر پڑے۔ ان کے ایک داماد ڈاکٹر میر محمد صاحب قریشی نے آپ کو فوراً ایمبولینس کار کے ذریعہ سول ہسپتال پہنچایا مگر آپ جانبر نہ ہوسکے اور اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اپنے حقیقی مولا کے پاس پہنچ گئے۔ فان للہ وان الیہ راجعون۔
بیہوشی کے عالم میں بھی آپ کی زبان پر مسنونہ دعائیں اور کلمہ طیبہ جاری رہا۔۱۹۶ آپ اپنے خاندان میں کے لئے احمدی تھے مگر آپ نے اپنے پیچھے چونتیس افراد کا کنبہ بطور یادگار چھوڑا۔
اخبارات کی جھوٹی` گمراہ کن اور متضاد خبریں
چوہدری صاحب کی المناک شہادت پر گوالمنڈی راولپنڈی کے تمام غیر احمدی معززین و شرفاء نے قاتل کی اس ناجائز کارروائی کو نہایت ہی ظالمانہ فعل قرار دیا۔۱۹۷ مگر اس دفعہ بھی پنجاب کے اخبارات نے جن میں احرار اور جماعت اسلامی کے ترجمان پیش پیش تھے۔ اصل واقعہ شہادت کے متعلق بالکل غلط گمراہ کن اور متضاد اطلاعات شائع کیں حتیٰ کہ تسنیم نے ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کے پرچہ میں یہ خبر وضع کی کہ >رسول کریم~صل۱~ کی شان میں گستاخی کرنے پر ایک قادیانی کو گولی کا نشانہ بنا دیا<۔ اس کے برعکس >تسنیم< مورخہ )۱۵۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء( میں ہی مجلس احرار راولپنڈی کے سیکرٹری کی اطلاع چھپی کہ یہ قتل روزنامہ تعمیر راولپنڈی کی ۱۳۔ اکتوبر کی شائع شدہ خبر کے مطابق ایک مکان کی وجہ سے جھگڑا ہونے پر ہوا ہے اور پاکستان ٹائمز نے ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں یہ بتایا کہ کبوتر بازی کا جھگڑا تھا جو قتل پر منتج ہوا ہے۔ حالانکہ قاتل نے واضح رنگ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ میں نے ایک احمدی کو قتل کیا ہے کیونکہ علماء نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ یہ لوگ اسلام کے دشمن اور واجب القتل ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے جماعت کو تبلیغ حق کا خصوصی ارشاد
حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ شہادت پر بھی ۱۳۔ اخاء کو خطبہ دیا جس میں اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ جب ہم ۱۹۴۷ء
میں قادیان سے ہجرت کرکے آئے تو میں نے جماعت کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ لوگ آج تمہاری تعریفیں کرتے ہیں حتیٰ کہ اخبار >زمیندار< تک میں احمدی جماعت کی بہادری کی تعریفیں ہورہی ہیں لیکن ان عارضی تعریفوں پر مت جائو اور یاد رکھو کہ تم ان حالات میں سے گزرنے پر مجبور ہو کہ جن حالات میں سے پہلے نبیوں کی جماعتیں گزری ہیں۔ تمہیں خون بہانے پڑیں گے۔ تمہیں جانیں دینی پڑیں گی۔ اس پر کچھ افراد اور جماعتوں نے کہا کہ آج کل جماعت کی بہت تعریف ہورہی ہے اس وقت تو تبلیغ بالکل نہیں کرنی چاہئے۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ آنے والے ہیں کہ یہی تعریف کرنے والے تمہیں گالیاں دیں گے اور تم اس وقت کہو گے کہ آج ہماری بہت مخالفت ہے اس لئے ہمیں تبلیغ نہیں کرنی چاہئے۔ گویا کچھ دن تو تم تبلیغ سے اس لئے غافل ہوجاتے ہین کہ لوگ تمہاری تعریف کرتے ہیں اور کچھ دن تم تبلیغ سے اس لئے غافل ہوجاتے ہو کہ لوگ تمہاری مخالفت کرتے ہیں۔ پھر وہ دن کب آئے گا جب تم تبلیغ کرو گے؟
حضرت امیرالمونین نے ان درد بھرے کلمات کے بعد احباب جماعت کو نہایت پرجوش الفاظ میں دوبارہ تاکیدی حکم دیا کہ وہ پیغام احمدیت پہنچانے کی طرف پوری توجہ دیں چنانچہ فرمایا:۔
>یاد رکھو یہ واقعات تمہیں بیدار کرنے کے لئے ہیں۔ تم کب سمجھو گے کہ تم ایک مامور کی جماعت ہو۔ تم کب سمجھو گے کہ تم دنیا سے نرالے ہو۔ تم کب سمجھو گے کہ خدا تمہارے خون کے قطروں سے دنیا کی کھیتیوں کو نئے سرے سے سرسبز و شاداب کرنا چاہتا ہے۔ جب تک تم یہ نہیں سمجھو گے نہ خدا تعالٰی کی مدد تمہارے پاس آئے گی اور نہ تم ترقی کا منہ دیکھ سکو گے۔ تم مت سمجھو کہ تبلیغ کے نتیجہ میں بہت کم لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تبلیغ کے نتیجہ میں بعض کے نزدیک مکہ میں صرف ایس اور بعض کے نزدیک تین سو آدمی اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ گویا تیرہ سال کی تبلیغ سے ان دونوں میں سے جو تعداد بھی سمجھ لو اسی سمجھو یا تین سو سمجھو صرف اتنے لوگ ہی اسلام میں داخل ہوئے۔ لیکن جب وقت آیا تو دو سال کے اندر اندر سارا عرب مسلمان ہوگیا۔ اصل میں یہ چیز بطور امتحان کے ہوتی ہے۔ تبلیغ خدا اس لئے کرواتا ہے تابعد میں تم خوش ہو کہ کہہ سکو کہ ہماری محنت اور ہماری قربانی اور ہماری جدوجہد اور ہماری تبلیغ کے نتیجہ میں دنیا مسلمان ہوئی ہے ورنہ دنیا کو مسلمان کرنا خدا کا کام ہے۔ جس دن خدا یہ دیکھ لے گا کہ اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کے لئے جماعت نے ہر قسم کی قربانیاں کرلی ہیں۔ اس نے اپنے مالوں کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنی جانوں کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنی عزتوں کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنے رشتہ داروں کو بھی قربان کردا ہے۔ اس نے اپنے اوقات کو بھی قربان کردیا ہے۔ اس نے اپنے وطنوں کو بھی قربان کردیا ہے تو وہ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ جائو اور دنیا کے دلوں کو بدل دو اور لوگوں کو ان کے پاس کھینچ کر لے آئو۔ اور جب خدا کی مدد آجائے تو لوگ اس کے سلسلہ میں داخل ہونے سے رک نہیں سکتے۔ وہ آپ فرماتا ہے اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا جب خدا دیکھتا ہے کہ اس جماعت نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ہے تو وہ خود لوگوں کے دلوں کو بدل دیتا ہے ورنہ صرف تبلیغ سے لوگوں کے دلوں کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اگر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تبلیغ سے ہی مسلمان لوگ ہوتے تو صرف عرب کے لئے ہی شاید کئی صدیاں درکار ہوتیں۔ آپ کی تبلیغ سے ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہوئی اور باقی لوگوں کے دلوں کو فرشتوں نے خود بدل ڈالا۔ پس اس بات کو عجیب نہ سمجھو کہ تمہاری تبلیغ کے نتیجہ میں دنیا کس طرح احمدی ہوجائے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف تمہارے ایمان کو ثابت کرے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف تمہارے یقین کو ثابت کرے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف تمہارے تعلق باللہ کو ثابت کرے گی۔ تمہاری تبلیغ صرف اس بات کو ثابت کرے گی کہ تم خدائی قانون کے معترف ہو۔ جس دن یہ مقام تمہیں حاصل ہوگیا اور جس دن تم نے یہ ثابت کردیا کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تکمیل میں تم کسی سے نہیں ڈرتے اس دن وہ آپ ہی آپ لوگوں کے دلوں کو بدل دے گا جیسے رسول کریم~صل۱~ نے اس زمانہ کے متعلق خبریں دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ دن ایسے ہوں گے کہ رات کو لوگ کافر سوئیں گے اور صبح اٹھیں گے تو مسلمان ہوں گے۔ پھر خدا لوگوں کے دلوں کو بدلے گا اور وہ انہیں کھینچتے ہوئے تمہاری طرف لے آئے گا۔ دو ارب دنیا کے دلوں کو بدلنا تمہارے اختیار میں نہیں خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ خدا تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے دلوں کو بدل دو اور یہی تبلیغ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تبلیغ یہ نتیجہ پیدا نہیں کرتی کہ دنیا مسلمان ہوجائے تبلیغ یہ نتیجہ پیدا کرتی ہے کہ تم مسلمان ہوجائو۔ اگر تم تبلیغ نہیں کرو گے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم ڈرتے ہو کہ لوگ ہمیں دکھ دیں گے لیکن جب تمہارے اندر تبلیغ کا جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ جوش ثابت کردیتا ہے کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے مخالفت کا زمانہ ختم ہوگیا۔ کفر کا زمانہ جاتا رہا۔ جائو اور ہمارے مامور کی ڈیوڑھی پر سر رکھ دو کہ اس کے بغیر تمہاری نجات نہیں۔ اور جب خدا کہتا ہے تو دنیا آپ ہی آپ کھچی چلی آتی ہے۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے۔ عیسائیت کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ ایک دن عیسائیوں کے پادری روم کے گڑھوں اور ان کی غاروں میں پناہ لئے بیٹھے تھے۔ شام کے وقت ان کے قتل کے فتوے جاری تھے اور صبح کو تمام روم میں ڈھونڈورا پیٹا جارہا تھا کہ بادشاہ نے آج رات خواب میں دیکھا ہے کہ عیسائیت سچا مذہب ہے اس لئے روم کا بادشاہ عیسائی مذہب میں شامل ہوگیا ہے۔ آئندہ حکومت کا مذہب عیسائیت ہوگا۔ آج سے جو عیسائیوں کو دکھ دے گا یا ان کو قتل کرے گا وہ پکڑا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔ شام کو وہ اس غم سے سوتے ہیں کہ نہ معلوم صبح تک ہم میں سے کون زندہ رہے اور کون مارا جائے۔ اور صبح کو اٹھتے ہی تو وہ دنیا کے بادشاہ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا دشمن غاروں کی طرف بھاگ رہا ہوتا ہے۔ یہی حال محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ساتھ ہوا۔ اور جو کچھ اب تک ہوتا رہا وہی تمہارے ساتھ ہوگا مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے بار بار توجہ دلانے کے باوجود تم اب تک اس بات کو نہیں سمجھ سکے۔ تم ہی بتائو کہ کس ذریعہ سے میں تم کو سمجھائوں اور وہ کونسا طریق ہے جس سے میں تم پر اس حقیقت کو واضح کروں۔ آخر تم حضرت عیٰسی علیہ السلام کو راست باز سمجھتے ہو اور تم محمد رسول اللہ~صل۱~ کو خدا تعالیٰ کا راستباز انسان سمجھتے ہو۔ اور ان سے جو کچھ گزرا وہ تمہارے سامنے ہے۔ لیکن اگر تم پھر بھی نہ سمجھو تو میں کیا طریق عمل اختیار کروں۔ اگر تم اتنی وضاحت کے باوجود بھی نہ سمجھو تو پھر تمہیں سمجھانا میرے بس کی بات نہیں میں تو خدا تعالیٰ سے پھر یہی کہہ سکتا کہ میں نے جو کچھ کرنا تھا وہ کرچکا مگر میں انہیں یقین نہیں دلا سکا اب تو آپ ہی ان کو سمجھا کیونکہ ان کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں<۔۱۹۸
حواشی
۱۔
سرمہ چشم آریہ صفحہ ۳۱ حاشیہ طبع اول۔
۲۔
الفضل ۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۸۔
۳۔
الفضل یکم نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۸۔
۴۔
الفضل ۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۵۔
الفضل ۲۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۶۔
اجتماع کے پہلے روز خدام کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی اور ۸۹ خیمے نصب ہوئے۔ اجتماع میں دینی معلومات اور پیمائشی ذہنی کے امتحانات ہوئے جن کے دلچسپ پرچے الضل ۲۔ نبوت و ۲۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش میں چھپ چکے ہیں۔ پیمائش ذہنی کا پرچہ شعبہ نفسیات تعلیم الاسلام کالج نے مرتب کیا تھا۔ خدام کے ساتھ ساتھ اطفال کے علمی اور ورزشی مقابلوں کے پروگرام جاری رہے۔ پہلے دن احمدی بچوں نے اپنے مقام اجتماع میں ۲۶ خیمے لگائے۔ )الفضل یکم نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳(
۷۔
اس پہلے پرچہ میں >اسلام ایک رحمت کا پیغام ہے< کے عنوان سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا ایک قیمتی نوٹ بھی شائع ہوا۔
۸۔
حضرت مصلح موعودؓ کے اس خیال کے پیچھے صرف یہ جذبہ کار فرما تھا کہ بھارت کو تبلیغ اسلام کے ذریعہ پھر سے مسلم ہند یعنی پاکستان بنانے کا رستہ کھلا رہے چنانچہ فرماتے ہیں:۔
>ہم ہندوستان کو چھوڑ نہیں سکتے۔ یہ ملک ہمارا ہندوئوں سے زیادہ ہے۔ ہماری سستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے۔ ہماری تلواریں جس مقام پر جاکر کند ہوگئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کرکے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنالیں گے مگر اس کے لئے ہمیں راستہ کو کھلا رکھنا چاہئے<۔ )الفضل ۶۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔ ۷۔
>الرحمت< چونکہ ہندوستان کے لئے جاری کیا گیا تھا اس لئے برصغیر کے ماحول کو اشاعت اسلام کے لئے سازگار بنانے کا مسئلہ اولیت رکھتا تھا ورنہ حضور ایک بین الاقوامی تبلیغی جماعت کے آسمانی راہ نما تھا اس لئے امن کے معاملہ میں بھی علاقائی یا ملکی سطح کی بجائے مستقل طور پر ایک عالمی مسلک رکھتے تھے جو حضور کے الفاظ میں یہ ہے:۔
>ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہوتا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو مگر ہم اس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ )الفضل ۲۲۔ اخاء ۱۳۲۴ہش/ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
۹۔
>الرحمت< الفضل ۲۱۔ نبوت ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۰۔
الفضل ۲۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے >الفضل کا یہ اعلان پڑھتے ہی درویشان قادیان کو پہلے تار دیا پھر فون کرکے اس بات کی تسلی کرلی کہ آپ کا پیغام صحیح صورت میں درویشوں تک پہنچ گیا ہے۔
۱۱۔
الفضل ۲۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۲۔
>یخرج ھمہ و عمہ دوحہ اسمعیل< بدر ۱۶۔ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و الحکم ۱۰۔ فروری ۹۶ء صفحہ ۱۱(
۱۳۔
طبری` ابن ہشام` زرقانی` تاریخ خمیس۔
۱۴۔
آپ نے جماعت لائل پور میں دس روپے چندہ الگ بھی دیا۔
۱۵۔
ابن سعد۔
۱۶۔
الفضل ۸۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳` ۴` ۵۔
۱۷۔
روزنامہ الفضل ۱۹۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۱۸۔
روزنامہ الفضل ۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔
۱۹۔
حفیظ الرحمن صاحب ڈرافٹس مین آج کل انگلستان میں ہیں آپ لکھتے ہیں:۔ >میں ۱۴۔ جولائی ۱۹۴۹ء کو ربوہ میں آیا۔ میرے سپرد دفتر تعمیرات کی پلیننگ برانچ کی گئی یعنی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی تمام پختہ عمارت کے نقشہ جات کے ڈیزائن تیار کرنا میرے ذمہ لگایا گیا۔ سب سے پہلا نقشہ مسجد مبارک ربوہ کا تیار کیا گیا۔ دفتر تعمیر کے ایک کچے مکان میں رات کے وقت گیس کی روشنی کی گئی اور خاکسار نے محترم قاضی عبدالرحیم صاحبؓ بھٹی کی ہدایات کے مطابق نقشہ تیار کیا۔ کیونکہ منظوری کے لئے نقشہ جلد کمیٹی میں پیش ہونا تھا اس لئے رات کے وقت کام کیا گیا۔ پھر یہ نقشہ کمیٹی کی منظوری کے لئے بھجوا دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر مسٹر بٹر نے اس پر منظوری کے دستخط کئے<۔
۲۰۔
اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۷۴` ۷۶ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے طبع اول جنوری ۱۹۵۹ء۔
۲۱۔
حضور اگرچہ ۱۹۔ تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۴۹ء کو وارد ربوہ ہوئے مگر جلد ہی حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کی بیماری کی وجہ سے لاہور تشریف لے گئے جہاں ۲۳۔ تبوک کو مسجد احمدیہ دہلی دروازہ میں خطبہ دیا۔ اس کے بعد اگلا جمعہ حضور نے ربوہ میں پڑھایا جو رہائش ربوہ کا پہلا جمعہ تھا۔ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی مرکزی سالانہ رپورٹ ۲۸۔۱۳۲۹ہش/ ۴۹۔۱۹۵۰ء سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۔ تبوک تا ۷۔ نبوت ۱۳۲۸ہش حضور لاہور میں قیام فرما رہے لیکن اس دوران خطبہ جمعہ کے لئے باقاعدگی سے ربوہ تشریف لاتے رہے۔ )صفحہ ۶(
۲۲۔
الفضل ۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳` ۴` ۵۔
۲۳۔
روزنامہ الفضل مورخہ یکم فتح ۱۳۲۸ہش/ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۴` ۵۔
۲۴۔
روزنامہ الفضل یکم فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔
۲۵۔
مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۷۔
۲۶۔
روزنامہ الفضل ۲۵۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۲۷۔
تابعین اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۷۷ طبع اول ماہ نومبر ۱۹۷۱ء۔
۲۸۔
انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینکا زیر لفظ سکاٹ لینڈ۔
۲۹۔
مساوات لاہور ۱۳۔ جون ۱۹۷۳ء صفحہ ۶۔
۳۰۔
الفضل ۲۷۔ اخاء ۱۳۱۹ہش/ اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۔
۳۱۔
رپورٹ مرسلہ بشیر آرچرڈ زیر عنوان SCOTLAND> IN <TABLIGH
۳۲۔
الفضل ۲۰۔ امان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴ گلاسگو میں آپ ابتداًء FODT CROFT CRESCENT, MILK CASTLE 69 میں رہتے تھے بعد ازاں دوسرے مقامات میں رہائش پذیر ہوئے۔ مثلاً۔
2۔S GLASGOW ROAD, LANGCIDE 279 ۔1
1۔S GLASGOW ROAD HOUSE MANSION 36 ۔2
۳۳۔
الفضل ۱۹۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲۔
۳۴۔
الفضل ۱۲۔ احسان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵۔
۳۵۔
پمفلٹ عبدالرحمن صاحب دہلوی )حال کارکن نظارت امور عامہ( نے جماعت احمدیہ کوئٹہ سے چندہ جمع کرکے شائع کرایا تھا اور اس کے ڈاک خرچ کا ایک حصہ شیخ محمد اقبال صاحب )خلف الرشید حضرت شیخ کریم بخس صاحبؓ( نے ادا کیا۔ یہ پمفلٹ یک ورقہ اور ایک طرف چھپا ہوا تھا اور اس کی پہلی قسط جو دو ہزار پر مشتمل تھی ۱۸۔ وفا ۱۳۲۸ہش/ جولائی ۱۹۴۹ء کو مسٹر بشیر آرچرڈ کے پاس پہنچی جیسا کہ ان کی ایک تبلیغی رپورٹ میں درج ہے۔
‏h1] ga[t ۳۶۔
بعنوان DIGNITARIES> HIGH AND POPE THE TO CHALLANGE <A
۳۷۔
بعنوانDIGNITARIES> HIGH AND POPE THE TO CHALLANGE <A
۳۸۔
‏ PEACE AND ISLAM
۳۹۔
‏ AWAKE CHRISTIAN
۴۰۔
رسالہ البشریٰ فلسطین اخاء و نبوت ۱۳۳۲ہش صفحہ ۱۶۲ تا ۱۷۶۔
۴۱۔
ان میں سے مسٹر بی۔ ٹارزویکا TORZEVERA) ۔B ۔(MR کو پہلے ایمان نصیب ہوا۔ سیدنا حضرت المصلح الموعود نے ۱۸۔ امان ۱۳۳۰ہش کو ان کی نسبت اپنے قلم مبارک سے لکھا >انعام اللہ نام رکھیں<۔
۴۲۔
یاد رہے ان ایام میں آپ کے مکان کا ہفتہ وار کرایہ ہی تین پونڈ تھا۔
۴۳۔
گلاسگو مشن کی ابتدائی فائل سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر ذرائع کے علاوہ احمدیہ ٹریڈنگ کمپنی )بازار گنڈا والا امرتسر( کی طرف سے بھی آپ کو پرانی ٹکٹیں بھجوائی جاتی تھیں۔ ۲۶۔ شہادت ۱۳۳۰ہش کی رپورٹ میں آپ نے ٹکٹوں کی فروخت` مسلم ہیرلڈ کی اشاعت اور اپنی دیگر تبلیغی مساعی کا ذکر کیا جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا >رسالہ بھی مل گیا اللہ تعالیٰ برکت ڈالے<۔
۴۴۔
الفضل ۲۲۔ اخاء ۱۳۳۱ہش/ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۔
۴۵۔
ان دنوں آپ نائب امام )انگلستان مشن( کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
۴۶۔
ملخصاً از رپورٹ بشیر احمد خاں صاحب رفیق ۲۷۔ تبوک ۱۳۲۸ہش/ ستمبر ۱۹۵۹ء )غیر مطبوعہ(
۴۷۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی!! ان دنوں آپ >ریویو آف ریلیجنز< میں قلمی خدمات بجا لارہے ہیں۔
۴۸۔
الفضل ۶۔ امان ۱۳۳۹ہش/ مارچ ۱۹۶۰ء صفحہ ۴۔
۴۹۔
اس سفر میں کار چلانے کی سعادت مکرم بشیر احمد خاں صاحب رفیق کو حاصل ہوئی۔
۵۰۔
لب سڑک ایک عوامی قیام گاہ ہے جس کے اردگرد کوئی آبادی نہیں۔ گلاسگو جانے والے لوگ اکثر یہیں رات گزارتے ہیں۔
۵۱۔
روزنامہ الفضل ۱۵ اور ۱۳۔ ظہور/ اگست ۱۳۴۶ہش/ ۱۹۶۷ء حضور کے اس تاریخی سفر کی مفصل روداد خلافت ثالثہ کی تاریخ میں آرہی ہے۔ )مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۹۔ ظہور ۱۳۴۶ہش صفحہ ۳(
۵۲۔
پیغام کا متن >تاریخ احمدیت< جلد ۱۳ صفحہ ۸۵ تا ۹۴ میں درج ہے۔
۵۳۔
مثلاً بمبئی` شاہجہانپور` بنارس` دہلی` سہارنپور` کانپور` پٹنہ` جے پور شہر` کلکتہ` لکھنو` مظفرپور` کٹک` پوری` بھدرک` مونگھیر` بھاگلپور` سکندرآباد دکن` میرٹھ` الہ آباد` بریلی` علی گڑھ` موسیٰ بنی مائنز` فیض آباد` میلسی )بہار(
۵۴۔
مثل نمبر ۲۶ دفتر خدمت درویشاں ربوہ۔
۵۵۔
روزنامہ الفضل ۲۰۔ ہجرت ۱۳۲۸ہش/ مئی ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۵۶۔
اصل خط شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے۔
۵۷۔][ حضور کا یہ ارشاد بھی شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے نیز الفضل میں شائع شدہ ہے۔
۵۸۔
روزنامہ الفضل ۷۔ صلح ۱۳۲۹ہش/ جنوری ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۵۹۔
روزنامہ الفضل ۳۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۱ و ۸۔
۶۰۔
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۹۔ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۶۔
۶۱۔
خبر کا متن ضمیمہ میں ملاحظہ ہو۔
۶۲۔
سیرت خاتم النبین~صل۱~ حصہ دوم طبع اول صفحہ ۴۲۴ تا صفحہ ۴۳۰ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔
‏]1h [tag ۶۳۔
الفضل ۳۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴۔
۶۴۔
الفضل ۱۰۔ صلح ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳` ۴۔
۶۵۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ۱۳ صفحہ ۴۵` ۴۶۔
۶۶۔
جلسہ سالانہ کے تفصیلی کوائف روزنامہ الفضل ۱۱` ۱۳` ۱۶۔ صلح ۱۳۲۹ہش میں شائع شدہ ہیں۔
۶۷۔
والد ماجد مولوی قمر الدین صاحب۔
۶۸۔
اشتہار >جلسہ الوداع< مشمولہ >تبلیغ رسالت< جلد ہشتم صفحہ ۷۶۔
۶۹۔
روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۱۳ صفحہ ۴۵۲۔
۷۰۔
روایات صحابہ جلد نمبر ۱۳ صفحہ ۴۴۰ تا صفحہ ۴۵۵ و جلد ۱۴ صفحہ ۱ تا ۳۴ میں آپ کی بیان فرمودہ روایات محفوظ ہیں۔
۷۱۔
الفضل ۳۰۔ امان ۳۲۸ہش صفحہ ۵ کالم ۲۔
۷۲۔
الفضل ۱۳۔ وفا ۱۳۲۸ہش/ صفحہ ۴۰ کالم ۱۔
۷۳`۷۴۔
رجسٹر روایات صحابہ جلد ۷ صفحہ ۲۳ )غیر مطبوعہ(
۷۵۔
الفضل ۱۷۔ وفا ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۷۶۔
رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر ۴ صفحہ ۲۳۔
۷۷۔
الفضل ۱۷۔ وفا ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶ ملخصاً از مضمون مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری` ملاحظہ ہو الفضل ۵۔ ظہور ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶۔
۷۸۔
مولوی صدر الدین صاحب فاضل )مجاہد ایران( اور مولوی عبدالمنان صاحب شاہد مربی اصلاح و ارشاد آپ ہی کے بیٹے ہیں۔
۷۹۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۳ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب نو مسلم( طبع اول فروری ۱۹۶۶ء۔
۸۰۔
مولف کتاب لاہور تاریخ احمدیت اور اخبار الفضل )۲۳۔ ظہور ۱۳۲۸ہش( کے مطابق حضرت سیخ صاحب کا سن بیعت ۱۹۰۰ء ہی ہے۔
۸۱۔
‏h2] [tag الفضل ۲۴۔ ۱۳۲۸ہش۔
۸۲۔
ملاحظہ ہو بدر ۲۴۔ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۴ و تاریخ احمدیت جلد سوم طبع اول صفحہ ۵۳۷۔
۸۳۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۵ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ( ۸۴۔
تاریخ احمدیہ )سرحد( ۱۸۷` ۸۸ مولفہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ سرحد۔
۸۵۔
یہ مباحثہ ۷۔ جون ۱۹۱۴ء کو حضرت مولوی غلام حسن صاحب کے مکان پر ہوا تھا۔
۸۶۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۴ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل نو مسلم(
۸۷۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۸۴ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل نو مسلم(
۸۸۔
اولاد:۔ ۱۔ شیخ نذیر احمد صاحب مرحوم` ۲۔ شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم سینئر ایڈووکیٹ و سابق جج ہائی کورٹ مغربی پاکستان` ۳۔ شیخ محمد اسلم صاحب مرحوم` ۴۔ شیخ محمد اسحق صاحب ۵۔ ہاجرہ بیگم مرحومہ` ۶۔ سلیمہ بیگم مرحومہ` ۷۔ آمنہ بیگم صاحبہ` ۸۔ محمودہ بیگم صاحبہ۔
۸۹۔
بروایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ سرحد تاریخ احمدیہ سرحد صفحہ ۱۱۷۳(
۹۰۔
الفضل ۱۴۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵` الرحمت لاہور ۵۔ فتح ۳۲۸ہش صفحہ ۲۔
۹۱۔
بروایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ تاریخ احمدیہ سرحد صفحہ ۱۷۳(
۹۲۔
روایت مرزا غلام رسول صاحب )رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱۴ صفحہ ۳۶۶(
۹۳۔
الفضل ۴۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵ کالم ۳` ۴۔
۹۴۔
بیان عبداللہ خاں صاحب بھٹی بی۔ اے` بی ٹی نائب امیر وفد المجاہدین آگرہ )الفضل ۳۔ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۲ کالم ۱` ۷۔ )بیان میں سہواً غیاثی کی بجائے غیاٹی چھپ گیا تھا جس کی تصیح کردی گئی ہے(
۹۵۔
روزنامہ الفضل ۲۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶۔
۹۶۔
>الرحمت< ۵۔ فتح ۱۳۲۸ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۹۷۔
الفضل ۱۴۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵` ۶۔
۹۸۔
اولاد۔ مرزا عبدالحفیظ صاحب` مرزا عبداللہ جان صاحب` مرزا منصور احمد صاحب` مرزا منظور احمد صاحب` مرزا بشیر احمد صاحب۔ ان کے علاوہ تین بیٹیاں آپ کی یادگار ہیں۔
۹۹۔
رجسٹر بیعت۔
۱۰۰۔
الفضل ۱۳۔ وفا ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲ کالم ۳ )نوٹ سید رضا حسین احمدی عرائض نویس کلکٹری اٹاوہ یوپی(
۱۰۱۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۳` ملفوظات مسیح موعود جلد نمبر ۸ صفحہ ۱۹۸` ۱۹۹ میں بھی آپ کا ذکر ملتا ہے۔
۱۰۲۔
مثلاً خانزادہ عبدالعلی خان آف اٹاوہ۔ حافظ سلیم احمد صاحب اٹاوی حال ربوہ۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۱۔ نبوت ۱۳۲۸ہش۔
۱۰۴۔
بحوالہ فہرست بعنوان >واذا الصحف نشرت<۔ مرتبہ میاں عبدالعظیم صاحب تاجر کتب قادیان صفحہ ۱۸۔
۱۰۵۔
اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۱۶ )از ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان(
۱۰۶۔
الحکم ۱۰۔ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۶ کالم ۳ میں آپ کا نام فہرست مبائعین میں مرقوم ہے۔
۱۰۷۔
الفضل ۳۰۔ اخاء ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۔
۱۰۸۔
الحکم ۱۴۔ فروری ۱۹۰۲ء۔
۱۰۹۔
الحکم ۱۰۔ جنوری ۱۹۰۲ء )روداد بیعت(
۱۱۰۔
یہ واقعات ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کی تالیف >اصحاب احمد< جلد اول صفحہ ۱۱۶ تا صفحہ ۱۴۳ سے ماخوذ ہیں۔
۱۱۱۔
مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۱۶ تا ۱۷۵ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے ایضاً الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۴` ۵۔ الرحمت ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۲۔
۱۱۲۔
والد ماجد مولوی غلام احمد صاحب ارشد سابق درویش قادیان۔
۱۱۳۔
الحکم ۲۴۔ اگست ۱۹۰۷ء۔
۱۱۴۔
روزنامہ الفضل یکم فتح ۱۳۲۸ہش۔
۱۱۵۔
روزنامہ الفضل یکم فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶۔
۱۱۶۔
روزنامہ الفضل ۱۶۔ تبلیغ ۱۳۲۹ہش مطابق ۱۶۔ فروری ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۱۷۔
روایات صحابہ )غیر مطبوعہ( جلد نمبر ۷ صفحہ ۲۴۸۔
۱۱۸۔
حضرت حافظ صاحبؓ کی آخری رپورٹ )جس میں مخالفت احمدیت کے لئے تائیدی نشانات اور اپنی بیماری کا ذکر ہے( الفضل ۱۱۔ امان ۱۳۲۹ہش/ مارچ ۱۹۵۰ء میں درج شدہ ہے۔
۱۱۹۔
نقل مطابق اصل۔
۱۲۰۔
روزنامہ الفضل ۱۲۔ تبلیغ ۱۳۲۹ہش/ ۱۲۔ فروری ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۲۱۔
روزنامہ الفضل ۲۳۔ تبلیغ ۱۳۲۸ہش/ فروری ۱۹۴۹ء۔
‏h1] gat[ ۱۲۲۔
الفضل ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۸ہش۔
۱۲۳۔
الفضل ۸۔ صلح ۱۳۲۹ہش۔
۱۲۴۔
اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۱۰۷` صفحہ ۱۱۵ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔
۱۲۵۔
الفضل ۱۴۔ صلح ۱۳۲۹ہش۔
۱۲۶تا۱۲۹۔
الفضل ۲۶۔ صلح` ۵۔ امان` ۲۴۔ نبوت ۱۳۲۸ہش۔
۱۳۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۳۰۔۱۳۹۲ہش/ ۵۱۔۱۹۵۰ء صفحہ ۳۸ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ دوم صفحہ ۱۲۴۔ ۱۲۶ )از حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم سیدنا حضرت مصلح موعودؓ(
۱۳۱۔
الفضل ۴۔ صلح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۔
۱۳۲۔
الفضل ۲۰۔ صلح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۔
۱۳۳۔
کنزے صاحب کیا ہی بدقسمت انسان ہیں کہ انہوں نے یہ نصیحتیں خلیفہ موعود کی زبان مبارک سے سنیں اور بجائے صدق و اخلاص میں قدم آگے بڑھانے کے اسلام ہی سے پلٹ گئے ہیں۔
۱۳۴۔
الفضل ۲۔ امان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۲۔
۱۳۵۔
الفضل ۵۔ احسان ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵۔
۱۳۶۔
الفضل ۵۔ شہادت ۱۳۲۸ہش صفحہ ۳۔
‏]h1 [tag ۱۳۷۔
انقلاب ۱۴۔ اپریل ۱۹۴۹ء صفحہ ۱۔
۱۳۸۔
الفضل ۲۱۔ ظہور ۱۳۲۸ہش صفحہ ۳` ۴۔
۱۳۹۔
>انقلاب< لاہور ۱۸۔ مئی ۱۹۴۹ء۔
۱۴۰۔
روزنامہ الفضل ۱۰۔ تبوک ۱۳۲۸ہش صفحہ ۴۔
۱۴۱۔
روزنامہ الفضل ۲۵۔ فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۱۱` ۱۲۔
۱۴۲۔
روزنامہ الضل ۲` ۶۔ اخاء ۱۳۲۸ہش۔
۱۴۳۔
الیوم )البیروت( ۲۲ کانون الاول بحوالہ البشریٰ المجلد ۱۶۔ ربیع الاول۔ ۱۳۷ ھجریہ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۳۷۔
۱۴۴۔
یاد رہے کہ حضور ان دنوں لاہور میں فروکش تھے۔
۱۴۵تا۱۴۷
الفضل ۶۔ وفا` ۲۔ تبوک` ۲۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش۔
۱۴۸۔
الفضل ۳۱۔ فتح ۱۳۲۸ہش صفحہ ۸۔
۱۴۹۔
اخبار انقلاب نے اپنے ۳۔ جون ۱۹۴۹ء کے شمارہ میں سیرت خاتم النبین~صل۱~ حصہ سوم پر حسب ذیل تبصرہ کیا:۔
سیرت خاتم النبین~صل۱~
)حصہ سوم جزء اول
صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کی کتاب >سیرت خاتم النبین~صل۱(~ کے دو حصے شائع ہوچکے ہیں اور تمام حلقوں نے ان کی تعریف کی ہے۔ اب اس کتاب کا تیسرا حصہ شائع ہوا ہے جس میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد سے آنحضرت~صل۱~ کے تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج کئے گئے ہیں اور یہ حصہ کوئی سوا دو سو صفحے پر ختم ہوا ہے۔ مرزا بشیر احمد صاحب کا علم و فضل کسی تعریف و تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا انداز تحریر بے حد سادہ` سلیس اور دلنشیں ہے۔ چونکہ سیرت پر آپ کی نظر بہت وسیع ہے اس لئے آپ کی کتاب میں بے شمار ایسے واقعات بھی ملیں گے جو سیرت کی عام کتابوں میں حذف کر دیئے گئے ہیں۔ مرزا صاحب اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ جب کوئی مسلمان مولف آنحضرت~صل۱~ کی سیرت پر کتاب لکھتا ہے تو اس کا مقصد محض تاریخی واقعات بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ حضور~صل۱~ کی حیات طیبہ کے تمام شعبوں کو اجاگر کرنا اور حضور~صل۱~ کی تعلیمات کی طرف پڑھنے والوں کو متوجہ کرنا مقصود حقیقی ہے چنانچہ کتاب زیر تبصرہ میں فاضل مولف نے جابجا اس مقصد کو مدنظر رکھا ہے اور بیان سوانح کے ساتھ ساتھ ازدواج` مساوات اسلامی` تعلقات آقا و خادم` تقسیم دولت` مساوات اقتصادی` فلسفہ دعا` معجزات` دین و سیاست اور بعض دوسرے مسائل پر اسلامی نقطہ نگاہ سے اور سیرت مقدسہ کی روشنی میں بحث بھی کردی ہے گوا پڑھنے والے کو نہ صرف حضورﷺ~ کی سیرت مقدسہ کے واقعات معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ اسوہ حسنہ کی پیروی کا راستہ بھی مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔<
۱۵۰۔
اسلام اور ملکیت زمین صفحہ ۲۶۲` ۲۶۳۔
۱۵۱۔
>اسلام اور ملکیت زمین< صفحہ ۲۰۴` ۲۰۶ )اس کتاب کا ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء میں سندھی ایڈیشن بھی چھپ گیا(
۱۵۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱` ۲ و الفضل ۱۱۔ شہادت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۴۔
۱۵۳۔
رپورٹ صفحہ ۶۔
‏h1] gat[ ۱۵۴۔
رپورٹ مشاورت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۲۔
۱۵۵۔
رپورٹ مشاورت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۳۔
۱۵۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۴` صفحہ ۲۰۔
۱۵۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۳ تا ۴۵۔
۱۵۸۔
الفضل ۳۱۔ مئی ۱۹۵۰ء۔
۱۵۹تا۱۶۲۔
الفضل ۶۔ احسان` ۲۷۔ ظہور` ۱۳۔ تبوک` ۲۲۔ تبوک ۱۳۲۹ہش۔
۱۶۳۔
سفر کوئٹہ کے ضروری کوائف مولانا محمد یعقوب صاحب طاہرؓ نے الفضل ۲۷۔ ظحور ۱۳۲۹ہش/ اگست ۱۹۵۰ء میں شائع کردیئے تھے جن سے مخلصین جماعت احمدیہ کوئٹہ کی اپنے امام ہمام سے والہانہ عقیدت و الفت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
۱۶۴۔
الفضل ۲۴۔ احسان ۱۳۲۹ہش صفحہ ۶۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۷۔ ظہور ۱۳۲۹ہش۔
۱۶۶۔
البقرہ : ۱۲۹۔
۱۶۷۔
‏ IDEAS
۱۶۸`۱۶۹۔
)ملخص( الفضل لاہور ۹۔ ظہور ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳ تا ۵۔
۱۷۰۔
ان دنوں میاں بشیر احمد صاحب پاسپورٹ آفیسر امیر جماعت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
‏]1h [tag ۱۷۱۔
مکتوب محررہ ۲۔ ظہور ۱۳۲۹ہش۔
۱۷۲۔
ماخوذ از ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ۳۔ ظہور ۱۳۲۹ہش۔
۱۷۳۔
الفضل ۱۳۔ تبوک ۱۹۲۹ہش صفحہ ۲۔
۱۷۴۔
الفضل ۲۲۔ تبوک ۱۳۲۹ہش۔
۱۷۵۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۱۷۶۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۷۷۔
واوین کے درمیان وضاحتی الفاظ ناقل کے ہیں۔
۱۷۸۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۔
۱۷۹۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵` ۶۔
۱۸۰۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۶۔
۱۸۱۔
الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۷۔
۱۸۲۔
الفضل ۸۔ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴` ۷۔
۱۸۳۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۸۴۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۸۵۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۱۸۶۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۸۷۔
الفضل ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
‏h1] [tag ۱۸۸۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۴` ۲۵۔
۱۸۹۔
مجلس احرار کا ہفت روزہ ترجمان۔
۱۹۰۔
جماعت اسلامی کا روزنامہ۔
۱۹۱۔
بحوالہ روزنامہ الفضل ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۱۹۲۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۱۹۳۔
الفضل ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳ تا ۵۔
۱۹۴۔
الفضل ۱۲۔ اخاء و ۱۶۔ نبوت ۱۳۲۹ہش۔
۱۹۵۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۷ )اردو ایڈیشن(
۱۹۶۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۶۔ نومبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۶ )مضمون محمود احمد صاحب ناصر اسسٹنٹ انسپکٹر آف ورکس ریلوے کیملپور(
۱۹۷۔
الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۷ )مضمون چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر مبلغ اسلام سپین(
۱۹۸۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
‏tav.12.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتشزدگی تک
تیسرا باب )فصل اول(
حضرت مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لے کر احمدیہ مسجد سمندری کے حادثہ آتشزدگی تک
)ماہ نبوت ۱۳۲۹ہش/ نومبر ۱۹۵۰ء۔ احسان ۱۳۳۰ہش/ جون ۱۹۵۱ء(
حضرت مصلح موعودؓ کا سفر بھیرہ

ذکر بھیرہ کی سرزمین تاریخ احمدیت میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اسی میں حضرت حاجی الحرمین حکیم الامت خلیفتہ المسیح الاول مولانا نور الدین جیسا نورانی اور پاک وجود پیدا ہوا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار فرمایا کہ >بھیرہ کو قادیان سے ایسی مناسبت ہے جیسے کہ مدینہ کو مکہ سے۔ کیونکہ بھیرہ سے ہم کو نصرت ملی ہے<۔۱
حضرت مصلح موعودؓ ایک مدت سے بھیرہ تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور آپ نے نہ صرف اپنی حرم محترم اور حضرت خلیفہ اولؓ کی صاحبزادی حضرت امتہ الحی صاحبہ سے ان کی زندگی میں دلی آرزو اور خواہش کا اظہار فرمایا چنانچہ جلسہ ۱۹۲۹ء کے موقع پر اعلان فرمایا:۔
>یہ بھی ارادہ ہے کہ آنے والے سال میں اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا ٹور کروں۔ برہما کے دوستوں کا خیال ہے کہ میرے جانے سے اچھی تبلیغ ہوسکتی ہے۔ بنگال کے دوستوں کو بھی مدت سے خواہش ہے کہ میں وہاں جائوں۔ اگر یہ سفر تجویز ہو تو راستے کے بڑے بڑے شہروں میں ٹھہر سکتے ہیں۔ اور اگر یہ سفر کامیاب ہو تو اور علاقوں میں بھی جاسکتے ہیں۔ بھیرہ جانے کا ارادہ مدت سے ہے کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اولؓ کا وطن ہے<۔۲
حضورؓ کی یہ مبارک خواہش ہجرت قادیان کے چوتھے سال ۲۶۔ ماہ نبوت ۱۳۲۹ہش )مطابق ۲۶۔ نومبر ۱۹۵۰ء( کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس روز حضور دارالہجرت ربوہ سے صبح سات بج کر دس منٹ پر بذریعہ کار بھیرہ کے لئے روانہ ہوئے۔ حضور کی قیادت میں جانے والا قافلہ پانچ کاروں اور ایک بس پر مشتمل تھا جس میں جماعت احمدیہ بھیرہ کے ممتاز احمدیوں کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر` تحریک جدید کے وکلاء` جامعہ احمدیہ` جامعتہ المبشرین` مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے محترم اساتذہ اور دیگر اکابر سلسلہ و بزرگان جماعت تھے۔ علاوہ ازیں ایک بس قبل ازیں ربوہ سے سید دائود احمد صاحب کی قیادت میں بھی روانہ ہوئی جس میں حضرت امیر المومنینؓ کے صاحبزادگان` خاندان مہدی موعودؑ کے دیگر ارکان اور جامعہ احمدیہ` جامعتہ المبشرین اور مدرسہ احمدیہ کے بعض طلباء شامل تھے۔
حضور معہ قافلہ آٹھ بجے کے قریب امیر جماعت ہائے احمدیہ سرگودہا مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ کے ہاں پہنچے۔ مرزا صاحب موصوف نے حضور اور دیگر ارکان قافلہ کو چائے پیش کی۔ جس کے بعد حضور ۹ بج کر ۵ منٹ پر بھیرہ جانے کے لئے بھلوال کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن ابھی ۲۵ میل کے قریب ہی سفر طے ہوا تھا کہ نہر کے ایک پل کے قریب ہی )جو سڑک کو کاٹتی ہوئی گزر رہی تھی( ملک صاحب خان صاحب نون معہ رفقاء کار سڑک پر راستہ روکے ہوئے کھڑے نظر آئے۔ اور حضور کی کار جونہی ٹھہری اپنے گائوں فتح آباد چلنے کے کچھ اس اخلاص و لجاجب کے ساتھ التجاء کی کہ حضور اس تاریخی سفر کے دو حصے ہوگئے۔ بس اور ایک کار تو سیدھی بھیرہ پہنچی اور تین کاریں فتح آباد پہنچیں۔ یہاں حضور نے کوئی بیس منٹ کے قریب آرام فرمایا۔
بھیرہ والوں پر بھی اپنے وطن کی عظمت کا انکشاف شاید آج ہی ہوا تھا کہ ان کے وطن کی زمین میں کیسا بے بہا نگینہ پیدا ہوا تھا جس کی آب و تاب دیکھنے کے لئے مصلح موعود جیسا جلیل القدر اور موعود خلیفہ راشد آرہا ہے۔ مکرم فضل الرحمن صاحب بسمل بی۔ اے` بی ٹی بھیرہ کے بیان کے مطابق >شہر میں مخالفین نے جامع مسجد کے قریب بسوں کے اڈہ پر شورش برپا کرنے کا پروگرام بنایا تھا لہذا حضور کی کار اور ہمراہی قافلہ کو ایک اور راستہ سے شہر میں داخل کیا گیا۔ جب حضور کو اس کا علم ہوا تو حضور نے فرمایا کہ شورش والی جگہ سے گزرنے میں کوئی حرج نہ تھا اگر لوگ دکھ بھی دیتے تو میں برداشت کرتا<۔ بہرحال قافلہ کی کاریں اور بسیں جونہی شہر میں داخل ہوئیں یوں دکھائی دیتا تھا جیسے سارے کا سارا بھیرہ ہی خیر مقدم کے لئے لپک پڑا ہے۔ قافلہ جدھر سے بھی گزرا سڑکوں` گلیوں اور راستوں کے دونوں طرف لوگ پرے جمائے کھڑے تھے اور محمود کی زیارت کے شیدائی پروانہ وار گرتے پڑتے نظر آتے تھے۔ بیسیوں طلباء جامعتہ المبشرین اور جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ کے اپنے اپنے ذرائع سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے اور آس پاس کی جماعتوں کے احباب بکثرت اس تقریب میں شرکت کی برکت حاصل کرنے کے لئے صبح ہی سے موجود تھے۔
سیدنا حضرت امیر المومنین کار سے اترتے ہی۳ سب سے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے آبائی مکان میں تشریف لے گئے جس کا بیشتر حصہ پہلے ہی مسجد پر مشتمل تھا اور جس کے باقی حصے اب بھی تمام مسجد ہی کے نام وقف ہیں۔
اسی مکان کے ایک کونے میں احباب جماعت نے حضور کو کرم دین۴ نامی تنور والے کی رہائش گاہ بھی دکھائی جس کو اللہ تعالیٰ نے غیر احمدی ہونے کے باوجود محض حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی محبت اور عظمت کی وجہ سے تعصب و تنفر کے اس تند وتیز جھکڑوں میں ثابت قدم رہنے کی توفیق دی تھی۔
جب مکہ و مدینہ شریف سے واپسی پر سارے بھیرہ والوں نے حضور کا مجلسی اور تمدنی بائیکاٹ کردیا تھا۔ حتیٰ کہ تنور والوں نے روٹی تک پکانے سے انکار کردیا لیکن کرم دین نے ہر قسم کے لالچ اور رعب و داب کی پروانہ کرتے ہوئے حضور سے بائیکاٹ کرنے سے انکار کردیا تھا حضور نے بھی اس کے اس اقدام کی قدر کی اور اس کو اپنے آبائی مکان کا ایک حصہ دے دیا جس میں اس کے خاندان کے بعص لگ اب بھی رہتے ہیں۔ اس واقعہ کا دوہرانا تھا کہ حضور کی آنکھوں میں وہ زمانہ پھر گیا اور آپ نے خواہشکی گو اس کا لڑکا غیر احمدی ہی ہے لیکن اسے کہا جائے کہ وہ میرے لئے روٹی اپنے ہاتھ سے پکائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور احمدیت کے اس عظیم الشان خلیفہ نے اسی کرم دین کے بیٹے غلام احمد کے ہاتھ سے پکی ہوئی روٹی کھائی جس کے باپ نے کبھی احمدیت کے شیدائی اور آپ کے شفیق استاد سے مصائب کے دور میں وفا کی تھی۔
حضور دیر تک مسجد نور میں کھڑے ہوکر حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے خاندانی حالات` جائداد اور اوائل زندگی کے واقعات کے متعلق بھیرہ کے عمر رسیدہ احباب سے دریافت فرماتے رہے۔ پھر اس مسجد میں شکرانے کے دو نفل ادا کئے۔ پھر صدر مقامی مخدوم محمد ایوب صاحب کی استدعا پر مسجد میں سنگ مرمر کا ایک >یادگار کتبہ< نصب فرمایا جس پر حضور کی بھیرہ میں تشریف آوری کا ذکر تھا اور اسکے بعد دعا فرمائی۔
مکانات کے ملاحظہ کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ اولؓ کا وہ مطب دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے جو رہائشی مکانات میں تبدیل کیا جاچکا تھا۔ بچے` بوڑھے` جوان پروانوں کی طرح گرے پڑتے تھے۔ مستورات دو رویہ چھتوں پر سے پھول نچھار کررہی تھی۔ راستے میں مختلف موڑوں پر دروازے نصب تھے جن پر سنہری حروف میں اھلا و سھلا و مرحبا لکھا ہوا تھا اور فضا ہر دو منٹ بعد >اسلام زندہ باد< >احمدیت زندہ باد< >حضرت امیر المومنین زندہ باد< کے پرجوش نعروں سے گونج اٹھتی تھی۔ الغرض ایک عجیب بابرکت ہماہمی تھی جس نے عقیدتوں کو پر لگا دیئے تھے۔
مطب کے دیکھنے کے بعد حضور محمد افضل صاحب ملک کے مکان پر تشریف لے آئے۔ یہیں جماعت کی طرف سے وسیع پیمانے پر دعوت طعام کا انتظام تھا۔ کھانا تناول کرنے کے بعد حضور نے تھوڑے دیر تک آرام فرمایا مگر یہ آرام محض بیٹھنے تک ہی محدود تھا کیونکہ اس کے دوران بھی حضور سے تعارف کا سلسلہ جاری رہا اور حضور بھیرہ اور بھیرہ والوں کے متعلق استفسارات فرماتے رہے۔
نماز ظہر کے لئے حضور جماعت احمدیہ بھیرہ کی دوسری مسجد میں تشریف لے گئے اور ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں۔ نمازوں کے معاًبعد امیر جماعت مقامی کی استدعا پر پہلے آپ نے ایک سنگ یادگار اس مسجد میں نصب فرمایا اور پھر دعا کے بعد برسرمنہ تشریف لے آئے۔
حافظ مبارک احمد صاحب نے تلاوت کلام پاک کی اور جناب ثاقب زیروی نے رسول اکرم~صل۱~ کی شان میں ایک نعت پڑھی۔ بعد ازاں مخدوم محمد ایوب صاحب بی۔ اے )علیگ( صدر جماعت احمدیہ بھیرہ نے مقامی جماعت کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا۔
حضرت امیر المومنین کا اہل بھیرہ سے پرمعارف اور ایمان افروز خطاب
سپاسنامہ کے بعد حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ایک پرمعارف اور نہایت ایمان افروز خطاب فرمایا جو پانچ منٹ کم دو گھنٹہ تک
جاری رہا۔۵ حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
>ایک ربع صدی سے زیادہ عرصہ ہوا یعنی قریباً تیس سال ہوئے جب سے میرے دل میں اس شہر میں آنے کا شوق ہوا۔ بھیرہ بھیرہ والوں کے لئے ایک اینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چونے سے بنا ہوا ایک شہر ہے مگر میرے لئے یہ اینٹوں اور چونے کا بنا ہوا شہر نہیں تھا بلکہ میرے استاد جنہوں نے مجھے نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بخار کا بھی ترجمہ پڑھایا ان کا مولد و مسکن تھا۔ بھیرہ والوں نے بھیرہ کی رہنے والی مائوں کی چھاتیوں سے دودھ پیا ہے اور میں نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا۔ پس بھیرہ والوں کی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہر کی ہے میری نگاہ میں اس کی اس سے بہت زیادہ قدر ہے۔
بچپن سے ہی میری صحت کمزور تھی اور میں اکثر بیمار رہتا تھا جس کی وجہ سے میں پڑھنے میں بھی کمزور تھا۔ میری آنکھوں میں ککرے تھے اور گلے میں سوزش رہتی تھی اس لئے نہ تو میں پڑھ سکتا تھا اور نہ دیکھ سکتا تھا۔ اس وقت حضرت خلیفہ اول مولوی نور الدین صاحبؓ نے جو بھیرہ کے رہنے والے تھے مجھے بلا کر کہا میاں! تم مجھ سے قرآن پڑھا کرو۔ تمہیں نہ دیکھنے کی تکلیف ہوگی اور نہ پڑھنے کی تکلیف ہوگی کیونکہ میں ہی بولا کروں گا اور میں ہی کتاب دیکھا کروں گا چنانچہ میں نے آپ سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کردیا۔ میں قرآن کھول کر سامنے رکھ لیتا تھا اور مولوی صاحبؓ پڑھتے بھی جاتے تھے اور ترجمہ بھی کرتے جاتے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ میری ذہانت کا نتیجہ تھا یا ان کے اخلاص اور محنت کا کہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں چھ ماہ کے اندر تھوڑا تھوڑا وقت پڑھنے کے بعد قرآن کریم کا ترجمہ ختم ہوگیا۔ پھر جب میری عمر بیس بائیس سال کی ہوئی تو آپ نے مجھے بلایا اور کہا۔ میاں! تم مجھ سے بخاری شریف پڑھا کرو چنانچہ میں نے بخاری شریف پڑھنی شروع کردی۔ گلے کی سوزش کی وجہ سے مجھ سے پڑھا نہیں جاتا تھا اور آنکھوں میں ککروں کی وجہ سے میں کتاب کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور خود ہی ترجمہ کرتے جاتے تھے دو اڑھائی ماہ میں چھٹیاں وغیرہ نکال کر میں نے بخاری کا ترجمہ ختم کرلیا۔ پھر عربی کے کچھ ابتدائی رسالے بھی میں نے آپ سے پڑھے۔ پس یہ علم تھا جو آپ نے مجھے سکھایا اور جس کی وجہ سے میرے اندر مزید مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ آپ جو کچھ مناسب سمجھتے تھے بیان کردیتے تھے اور اگر میں سوال کرتا تو مجھے روک دیتے تھے۔ ہمارے ایک ہم جماعت تھے۔ تھے تو وہ بڑے عمر کے لیکن دوبارہ کلاس میں شامل ہوئے تھے ان کا نام حافظ روشن علی صاحب تھا۔ آپ حضرت نوشہ کے خاندان میں سے تھے جن کا مزار رنمل تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں ہے اور گدی کے مالکوں میں سے تھے آپ بڑے عالم تھے انہی کے داماد )حضرت مبارک احمد صاحب( نے ابھی قرآن کریم کی تلاوت کی ہے جب مولوی صاحبؓ کوئی معنے بیان کرتے تو چونکہ حافظ روشن علی صاحب ذہین اور خالص علم حاصل کرچکے تھے اس لئے آپ اعتراض کرنا شروع کردیتے تھے اور کہتے ان معنوں پر یہ یہ اعتراض پڑتا ہے میری عمر اس وقت ۲۰` ۲۱ سال کی تھی۔ میں نے جب حافظ صاحب کو اعتراض کرتے دیکھا تو میرے دل میں بھی ایک گدگدی سی اٹھی اور میں بھی اعتراض کرنے لگا۔ مولوی صاحب کو مجھ سے بہت محبت تھی ایک وہ دن تک تو آپ نے برداشت کیا پھر فرمایا۔ میاں تمہارا معاملہ اور ہے اور حافظ صاحب کا معاملہ اور ہے یہ ہے مولوی۔ ان کا طریق ہوتا ہے بال کی کھال نکالنا لیکن تم مولوی نہیں تم نے تو دین حاصل کرنا ہے۔ پھر فرمایا میاں! یہ تو دیکھو مجھے تم سے کتنا عشق ہے اگر میں ان معنوں سے جو بیان کرتا ہوں زیادہ معنے جانوں تو تمہیں نہ بتائوں اگر مجھے کوئی اور معنے معلوم ہوتے تو میں ضرور بتا دیتا۔ اگر میں نے تمہیں کوئی اور معنے نہیں بتائے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ مجھے صرف اتنے ہی معنے آتے ہیں۔ پھر فرماتے۔ میاں! اتنا تو سوچو کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی امت میں سے اللہ کا بندہ میں ہی ہوں یا تم بھی ہو۔ کیا یہ میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر جو اعتراض پڑتا ہے اس کا جواب دوں۔ اور جن معنوں کو میں سمجھ نہیں سکا وہ بھی بتائوں یا تمہارا بھی فرض ہے کہ تم خود سوچو اور اسلام پر پڑنے والے اعتراضات کا جواب دو۔ تم سوال نہ کیا کرو بلکہ خود سوچا کرو اور ان اعتراضات کے خود جواب دیا کرو۔
آپ نے جو کچھ مجھے پڑھایا میں اس کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن جو آپ نے مجھے نہیں پڑھایا وہ میرے لئے زیادہ قیمتی ہے کیونکہ جونہی یہ آواز کہ >کیا صرف میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر پڑنے والے شبہات کا جواب دوں یا تمہارا بھی فرض ہے۔ کیا رسول کریم~صل۱~ کی امت میں میں ہی اللہ کا بندہ ہوں یا تم بھی اللہ کے بندے ہو<۔ میرے کانوں میں پڑی اس نے میرے اندر ایک آگ لگا دی۔ گویا اسرافیل فرشتے نے صور پھونکا ہے میں نے پوچھنا بند کردیا اور سوچنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے علم کے سمندر سکھا دیئے۔ اب اگر کوئی اسلام کا دشمن اسلام پر ہی اعتراض کرے تو میں انہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم سے ہی رد کرسکتا ہوں۔
چونکہ بھیرہ آنے کا شوق مجھے مدت سے تھا اس لئے یہاں آکر میں خوش بھی ہوں کہ میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ مگر بھیرہ کی دیواروں میں داخل ہونے کے بعد میرے دل کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے بھیرے کی ہی ایک لڑکی امتہ الحی سے جو حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اولؓ کی بیٹے تھیں میری شادی ہوئی اور ہم دونوں میں بہت محبت تھی۔ بے وقوف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام اور روحانیت کے یہ معنے ہیں کہ میاں کو بیوی سے محبت نہ ہو اور بیوی کو میاں سے محبت نہ ہو لیکن جو لوگ اسلام اور روحانیت کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے محبت کا حکم دیتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول کریم~صل۱~ بعض دفعہ جس گلاس میں ہم پانی پیتیں اسی گلاس میں اسی جگہ ہونٹ رکھ کر پانی پیتے اور فرماتے میں یہ بتانے کے لئے ایسا کرتا ہوں کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ پھر حصرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دفعہ میرے سر میں شدید درد ہورہا تھا میں تڑپ رہی تھی رسول کریم~صل۱~ تشریف لائے آپﷺ~ نے فرمایا عائشہ! صبر کرو لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں شدت درد سے مجھے تکلیف ہورہی تھی اور رسول کریم~صل۱~ کی بات کو جو مجھے دین سکھانے کے لئے تھی سمجھی نہیں مجھے غصہ آگیا کہ مجھے شدید درد ہورہا ہے اور بجائے اس کے کہ آپ مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرتے آپﷺ~ کہتے ہیں صبر کرو لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں۔ میں نے غصہ سے کہا یا رسول اللہ~صل۱~ آپ کو کیا میں مرجائوں گی تو دوسری شادی کرلیں گے۔ حضرت عائشہؓ تکلیف میں کہتی تھیں۔ ہائے میں۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا اچھا عائشہؓ اگر یہ بات ہے تو ہائے تو نہیں ہائے میں۔ اور چند دن کے بعد آپ بمار ہوکر فوت ہوگئے۔ حضرت عائشہؓ جب تک زندہ رہیں ہمیشہ ہی اس بات پر افسوس کیا کرتی تھیں کہ میں نے یہ فقرہ کہا اور رسول کریم~صل۱~ کو صدمہ پہنچا کہ میں نے آپ کی محبت پر شبہ کیا ہے کاش میں یہ فقرہ نہ کہتی اور رسول کریم~صل۱~ سے پہلے مر جاتی تو یہ صدمہ نہ دیکھتی۔ غرض ناواقف اور جاہل لوگوں نے یہ سمجھا کہ ایک مسلمان کے معنے ہیں کہ وہ کوئی پتھر دل کا انسان ہے۔ گویا مسلمان وہ ہے جس میں محبت اور وفا کے جذبات پائے ہی نہیں جاتے حالانکہ رسول کریم~صل۱~ محبت اور وفا کا مجسمہ تھے۔ ایک دفعہ آپ ایک مجلس میں بیٹھے صحابہ سے باتیں کررہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا۔ یارسول اللہ~صل۱!~ آپ کی بیٹی آپ کو بلا رہی ہے کیونکہ اس کا لڑکا بیمار ہے۔ آپ باتوں میں مشغول تھے آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں اور پھر باتوں میں لگ گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ آپ کی بیٹی یاد فرماتی ہیں۔ لڑکے کی حالت زیادہ خراب ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں لڑکے کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ آپ تشریف لے گئے اور اپنے نواسہ کو گود میں لے لیا۔ تھوڑی دیر میں اس کی جان نکل گئی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ کے پاس ایک انصاری تھے وہ بھی ملانوں کی ذہنیت کے تھے۔ انہوں نے کہا آپ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اور رو رہے ہیں بھلا رسول کو جذبات سے کیا تعلق۔ آپﷺ~ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر خواہ وہ رسول ہو یا غیر رسول محبت کے جذبات پیدا کئے ہیں اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں محبت کے جذبات سے محروم رکھا ہے تو میرے پاس اس کا کیا علاج ہے۔
غرض آج سے چھبیس ستائیس یا اٹھائیس سال پہلے امتہ الحی مرحومہ سے جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے میں کہا کرتا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کے وطن لے جائوں گا پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت میں یہاں نہ آسکا اور امتہ الحی مرحومہ فوت ہوگئیں۔ اور جب مجھے بھیرہ آنے کا موقع ملا تو ان کی وفات پر چھبیس سال گزر رہے ہیں۔ پس جونہی میں بھیرہ میں داخل ہوا وہ باتیں مجھے یاد آگئیں۔ کہ میں نے امتہ الحی مرحومہ سے ان کے ابا کا وطن دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ جب تک وہ زندہ رہیں مجھے یہاں آنے کا موقع نہ ملا اور جب مجھے یہاں آنے کا موقع ملا تو بھیرے کی بیٹی اور میری بیوی امتہ الحی مرحومہ فوت ہوچکی تھی۔ بہرحال جیسے اللہ تعالیٰ کی مشت ہوتی ہے اسی طرح ہوتا ہے۔ میں امتہ الحی مرحومہ کو بھیرہ لاسکا یا نہ لاسکا یہ سب رسمی باتیں ہیں۔ انسان کے اندر محبت کے جذبات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہوتی ہے لیکن اگر فلسفیانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کوئی بات نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ جب بدر کی جنگ میں تشریف لے گئے تو جو لوگ قید ہوکر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے ان میں آپ کا ایک داماد بھی تھا جس کو کفار جبراً جنگ کے لئے ساتھ لے گئے تھے۔ آپ نے قیدیوں سے کہا تم فدیہ دو اور رہائی حاصل کرلو۔ آپ کے داماد نے کہا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہاں مکے جاکر کچھ انتظام کردوں گا۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا بہت اچھا یہ نوجوان ایک شریف الطبع انسان تھا باوجود اس کے کہ لوگ اسے کہتے رسول کریم~صل۱~ کی بیٹی کو دکھ دو وہ دکھ نہ دیتا وہ کہتا میں مسلمان نہیں اور محمد رسول اللہ~صل۱~ سے کوئی عقیدت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی ان کی لڑکی کو کیوں ماروں چنانچہ وہ باوجود دوسروں کے اکسانے کے رسول کریم~صل۱~ کی بیٹی کو دکھ نہیں دیتا تھا۔ جب وہ واپس مکے گیا تو گھر میں کوئی چیز نہ تھی جو فدیہ کے طور پر دی جاتی۔ رسول کریم~صل۱~ کی بیٹی کے پاس ایک سونے کا ہار تھا۔ جو شادی کیموقع پر والدہ کی طرف سے اسے دیا گیا تھا اس نے اپنے خاوند کو وہ ہار دے کر کہا یہ ہار لے لو اور اسے فدیہ کے طور پر بھجوا دو۔ مسجد میں جاکر جب دوسرے لوگوں نے فدئے پیش کرنے شروع کئے تو ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ~صل۱!~ آپ کے داماد نے یہ ہار بطور فدیہ بھجوایا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے جب ہار پر سے کپڑا اٹھایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگر آپ خوشی سے منظور کرلیں کہ یہ ہار واپس کردیا جائے تو میں اس کی سفارش کرتا ہوں۔ ہار تو ہار ہی ہے مگر اس میں اتنا فرق ہے کہ یہ ہار میری مرحومہ بیوی کے ہاتھ کا تحفہ ہے جو اس نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اور میری بیٹی کے پاس بس یہی ہار اپنی والدہ کی ایک یادگار ہے اس کے سوا اور کوئی یادگار نہیں۔ مجھے یہ ہار دیکھ کر صدمہ ہوا کہ خاوند کی جان بچانے کے لئے میری بیٹے نے ایک ہی چیز جو اس کے پاس والدہ کی یادگار تھی بطور فدیہ بھیج دی ہے۔ اگر آپ لوگ خوشی سے اسے معاف کردیں تو میں یہ ہار واپس کردوں- صحابہ کرامؓ تو رسول کریم~صل۱~ پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ ہار کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی صحابہؓ نے عرض کیا اس سے زیادہ خوشی ہمارے لئے اور کیا ہوگی کہ ہم اس ہار کو جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو بطور تحفہ دیا تھا اسے واپس کردیں۔ چنانچہ رسول کریم~صل۱~ نے وہ ہار واپس کردیا۔ اب دیکھو سونے میں کیا رکھا تھا۔ رسول کریم~صل۱~ نے اپنا وطن چھوڑا` جائدادیں چھوڑیں` مکان چھوڑے اور مشیت الٰہی کے مقابلہ میں ان کی کچھ پروا نہ کی۔ پھر آپ کی شان تو بڑی تھی۔ صحابہؓ نے بھی اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے قربان کردیا لیکن سونے کے اس ہار کو دیکھ کر رسول کریم~صل۱~ کو صدمہ پہنچا اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہؓ کا دیا ہوا ہار تھا۔ سونے کا سوال نہیں اگر وہ مٹی کا بھی بنا ہوا ہوتا تو آپ کو تکلیف ہوتی کیونکہ اس کا جذبات کے ساتھ تعلق تھا۔ پس امتہ الحی نے مرنا تھا اور وہ مر گئی۔ میں پہلے مرجاتا یا وہ پہلے مر گئی اس میں کوئی فرق نہیں یہ خدا تعالیٰ کا قانون تھا جو پورا ہوا لیکن یہ جذبات کی چیز ہے کہ جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے تو میں ان سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کا وطن دکھائوں گا لیکن جب وقت آیا کہ میں نے بھیرہ دیکھا تو وہ ہستی جس سے میں وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں اسے اسس کے ابا کا وطن دکھائوں گا وہ دنیا سے گزر چکی تھی۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مجھے یہاں آنے کی دیرینہ خواہش تھی۔ مقامی جماعت کے بعض دوست ڈرتے تھے کہ کہیں دوسرے لوگ شورش نہ کریں اور انہوں نے چاہا کہ میں بھیرہ نہ چلوں لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر یہاں کے لوگ میری وجہ سے شورش کیوں کریں گے۔ آخر کوئی کسی کے خلاف ہوتا ہے تو اس لئے کہ وہ اس کا کام بگاڑتا ہے میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ میرے خلاف ہوں گے۔ اگر کوئی شخص میرے یہاں آنے کی وجہ سے شورش کرے گا تو وہ غلط فہمی کی بناء پر ہوگی۔ وہ اس خیال سے شورش کرے گا کہ میں )نعوذ باللہ( محمد رسول اللہ~صل۱~ کا دشمن ہوں مجھ کو تو یہ مخالفت اچھی لگتی ہے کہ یہ میرے آقا ~)صل۱(~ کی محبت کی وجہ سے ہے۔ آخر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہاں کسی سے میرا زمین کا جھگڑا ہے یا مکان کا جھگڑا ہے۔ میں گورداسپور کا رہنے والا ہوں اور ہجرت کے بعد ضلع جھنگ میں مقیم ہوں۔ اور جہاں تک جائداد کا سوال ہے یہاں کے کسی رہنے والے کو مجھ پر شکوہ نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی کو مجھ پر کوئی شکوہ ہے تو کسی جائداد کے جھگڑے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ شکوہ مولویوں کی ان باتوں سے ہے کہ میں )نعوذ باللہ( محمد رسول اللہ~صل۱~ کو گالیاں دیتا ہوں مجھے مارنے کو تیار ہوجاتا ہے یا مجھ پر پتھرائو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ وہ اپنی غلط محبت کی وجہ سے مجھے رسول کریم~صل۱~ کا دشمن سمجھتا ہے۔ میرے لئے تو یہ بھی خوشی کا موجب ہے کہ وہ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کرتے ہیں جو انہوں نے عملاً نہیں کی۔ یا وہ مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو عملاً انہوں نے نہیں کیا۔ اگر وہ عملاً بھی ایسا کرتے تب بھی میں خوش ہوتا کہ ان کے اندر میرے آقا محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت تو ہے۔ آخر میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اتباع میں سے ہوں آپ کو شعر کی صورت میں ایک الہام ہوا اس کے الفاظ میں پہلے سنا دیتا ہوں اور پھر اس کا ترجمہ کردوں گا۔ اس وقت لوگ بڑی مخالفت کرتے تھے میں ابھی بچہ ہی تھا۔ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ایک دعوت سے واپس تشریف لارہے تھے آپ جب بازار میں سے گزر رہے تھے لوگ چھتوں پر کھڑے ہوکر آپ کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا۔ اسی اثناء میں میں نے ایک بڈھا کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور اس پر تازہ ہلدی لگی ہوئی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ہاتھ کٹے زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ بڈھا اپنا صحیح ہاتھ کٹے ہوئے ہاتھ پر مار کر کہہ رہا مرزا نٹھ گیا مرزا نٹھ گیا۔ میں حیران تھا کہ آخر یہ کیوں کہتا ہے مرزا نٹھ گیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود~ع~ لاہور شہر میں جارہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے حملہ کیا اور آپ زمین پر گر گئے۔ اس طرح لوگوں کو پتھرائو کرتے ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے۔ غرض ان دنوں مخالفت بڑے زوروں پر تھی اور قدرتی طور پر جماعت کے بعض دوستوں کو بھی غصہ آجاتا تھا کہ آخر یہ لوگ بلاوجہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو الہام ہوا۔ ~}~
اے دل تو نیز خاطر ایناں نگہدار
کاخر کنند دعوی حب پیمبرم
یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں خدا تعالیٰ یہ الفاظ ڈالتا ہے اور فرماتا ہے اے ہمارے مامور! یہ مسلمان جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں تو پھر بھی ان کا لحاظ کر آخر یہ تمہیں کیوں گالیاں دیتے ہیں تمہیں مارنے کو کیوں دوڑتے ہیں اور تم پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں۔ یہ لوگ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت کی وجہ سے تمہیں مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اس لئے ان کا لحاظ رکھنا بھی بڑا ضروری ہے۔ غرض ہماری جو مخالفت ہوتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس کے پیچھے کیا بات ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ لوگ جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہاری چائے بھی شراب سے بدتر ہے )گویا شراب پینا جائز ہوسکتا ہے لیکن ہماریی چائے پینا جائز نہیں( اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ میرے اندر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت کا جو شعلہ جل رہا ہے وہ ان کے لاکھوں لاکھ کے اندر بھی نہیں جل رہا تو وہ فوراً تمہارے قدموں میں گر جائیں گے۔ یہ لوگ مخالفت اسی لئے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھی محمد رسول اللہ~صل۱~ کے مخالف ہیں یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے اسی لئے جب میں نے سنا کہ لوگ میرے آنے پر شورش کریں گے تو مجھے غصہ نہیں آیا مجھے یہ سن کر کہ لوگ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کریں گے خوشی ہوئی کہ ابھی میرے آقا محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت کی چنگاری ان کے اندر سلگ رہی ہے اگرچہ وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ایسا کررہے ہیں لیکن اس کا موجب رسول کریم~صل۱~ کی محبت ہی ہے اس لئے ہمیں بجائے غصہ میں آنے کے تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے۔ اگر کسی شخص کا بھائی بیمار ہوجاتا ہے تو وہ اسے زہر دے کر مارا نہیں کرتا` وہ اسے گلہ گھونٹ کر مارا نہیں کرتا بلکہ اس کا علاج کرتا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بجائے ناراض ہونے کے اس مخالفت کو رفع کرنے کی کوئی تدبیر کریں۔ اگر لوگ مخالفت کرتے ہیں اور مجھے یا بانی سلسلہ احمدیہ کو یا تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تو جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں پس تم بجائے ناراض ہونے کے دعائیں کرو` ان مخالفت کرنے والوں کو اصل حقیقت سے واقف کرو جب تم انہیں اصل حقیقت سے واقف کردو گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ ہم محمد رسول اللہ~صل۱~ کے دشمن نہیں بلکہ آپﷺ~ کے سچے عاشق ہیں اور وہی لوگ جو تمہیں مارنے پر آمادہ ہیں تمہاری خاطر مرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ آخر مکہ والوں نے رسول کریم~صل۱~ کی کتنی مخالفت کی تھی۔ وہ رسول کریم~صل۱~ کی مخالفت اسی لئے کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے یہ شخص دین حقہ یعنی ان کے آباء واجداد کے دین کی مخالفت کرتا اور اسے بگاڑتا ہے۔ لیکن جب انہیں پتہ لگ گیا کہ رسول کریم~صل۱~ ہی دین حقہ لائے ہیں تو وہی مکہ والے جو آپ کو مارنے کے درپے تھے آپ کی خاطر قربانیاں کرنے اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ رسول کریم~صل۱~ کے اشد ترین دشمن عتبہ` عاص اور ابوجہل تھے اور ان کے ساتھ لگا ہوا ابوسفیان تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اکرم~صل۱~ کی ابتداء سے مخالفت کی۔ ایسی شدید مخالت کی جس کی مثال دنیا کے پردہ پر نظر نہیں آتی۔ ابوجہل کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ رسول کریم~صل۱~ ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ ابوجہل پاس سے گزرا اس نے جب آپﷺ~ کو چٹان پر اس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو شیطان نے اس کے دل میں شرارت پیدا کی۔ اس نے آپﷺ~ کو گالیاں دیں برا بھلا کہا اور پھر آپﷺ~ کو ایک تھپڑ مارا اور کہا تو باز نہیں آتا اپنی باتوں سے۔ رسول کریم~صل۱~ چپکے بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے۔ جب ابوجہل نے آپﷺ~ کو تھپڑ مارا آپ نے صرف اتنا کہا میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ تو میرا دشمن ہوگیا ہے میں نے تو تمہیں صرف خدا تعالیٰ کا پیغام سنایا ہے۔ آپﷺ~ نے یہ فرمایا اور چٹان پر بیٹھ گئے۔ حضرت حمزہؓ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ آپ نہایت ہی دلیر` بہادر اور مضبوط پہلوان تھے۔ آپ ہر وقت شکار میں لگے رہتے تھے اور دین کے متعلق سوچنے کا کبھی آپ کو خیال بھی نہیں آتا تھا۔ جب ابوجہل نے محمد رسول اللہ~صل۱~ کو مارا تو آپ کی ایک پرانی لونڈی اس واقعہ کو دیکھ رہی تھی۔ پرانی لونڈیاں اور خادم بھی گھر کے فرد بن جاتے ہیں۔ اس لونڈی نے جب یہ ناظرہ دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ وہ مسلمان تو تھی نہیں وہ سارا دن کام کرتی جاتی تھی اور رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کے دوسرے بزرگوں کو یاد کرکے بڑبڑاتی جاتی تھی کہ آمنہؓ کے بچے نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ یونہی اسے مارتے ہیں اور وہ انہیں کچھ بھی تو نہیں کہتا۔ سارا دن اس کے سینہ کے اندر آگ لگی رہی۔ رسول کریم~صل۱~ اس پتھر پر سے اٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہؓ شکار کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔ شام کو وہ توپچی بنے نیزہ اور تلوار لٹکائے ہوئے تیر کمان پکڑے ہاتھ میں شکار لٹکائے گھر واپس آئے۔ حضرت حمزہؓ کا گھر میں داخل ہونا تھا کہ وہ لونڈی کھڑی ہوگئی اور اس نے کہا تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو کیا تمہیں معلوم نہین کہ صبح ابوجہل نے تمہارے بھتیجہ سے کیا کیا۔ حضرت حمزہؓ نے کہا کیا بات ہے۔ یہ سوال سن کر لونڈی رو پڑی اور اس نے کہا میں دروازہ میں کھڑی تھی کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اس پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے اور چپ کرکے بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوجہل پاس سے گزرا اور بغیر کچھ کہے اس نے آپﷺ~ کے منہ پر تھپڑ مارا اور برا بھلا کہا۔ آپﷺ~ نے صرف اتنا کہا کہ اے لوگو میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے میں نے تمہیں کیا دکھ دیا ہے کہ تم مجھے مارتے ہو میں صرف خدا تعالیٰ کا پیغام تمہیں سناتا ہوں۔ پھر وہ لونڈی غصہ میں آکر کہنے لگی خدا کی قسم محمدﷺ~ نے ابوجہل کو کچھ بھی تو نہ کہا تھا۔ ایک جاہل عورت کی زبان سے یہ بات سن کر حمزہ کو غیرت آگئی اور فوراً واپس لوٹے۔ شام کا وقت تھا۔ ابوجہل سرداروں کی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے اردگرد دوسرے سرداران مکہ بیٹھے تھے۔ رسول کریم~صل۱~ کی بدگوئیاں ہورہی تھیں۔ حضرت حمزہؓ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور سیدھے اس جگہ پہنچے جہاں ابوجہل دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بدگویاں کررہا تھا۔ ہاتھ میں تیر کمان تھی آپ نے اس کا ایک سرا پکڑ کر ابوجہل کے منہ پر دے مارا اور کہا تو بڑا بہادر بنا پھرتا ہے میری لونڈی نے مجھے بتایا ہے کہ میرا بھتیجا آج صبح جب ایک پتھر پر بیٹھا تھا تو نے اسے تھپڑ مارا اور اس نے تمہیں کچھ جواب نہ دیا۔ اب میں تمہیں مارتا ہوں اگر تم بہادر ہو تو میری مار کا جواب دو۔ یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابوجہل گھبرا گیا اس کے ساتھی جوش سے کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہؓ کے ساتھ لڑنے کو اٹھے مگر ابوجہل پر صداقت کا اثر تھا وہ کہنے لگا جانے دو مجھ سے ہی صبح غلطی ہوگئی تھی۔ حضرت حمزہؓ واپس آئے اور اس مکان کا پتہ لے کر جہاں ان دنوں آنحضرت~صل۱~ مقیم تھے وہاں پہنچے اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں۔ یہ ابوجہل کی دشمنی کا حال تھا۔ بلاوجہ رسول کریم~صل۱~ کی دشمنی کیا کرتا تھا۔ اگر یہ ہوتا کہ آپ توحید کا وعظ کررہے ہوتے اور ابوجہل پاس سے گزرتا اور آپ کا وعظ سن کر غصہ میں آجاتا تو کچھ جواز بھی نکل سکتا تھا لیکن آپ خاموش پتھر پر بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے اور ابوجہل نے بلاوجہ آپ کو پتھر مارا۔ یہ ابوجہل کی مخالفت کی حالت تھی۔ اس کا بیٹا عکرمہؓ بھی اس کے نقش قدم پر چلتا تھا اور وہ آپﷺ~ کی دشمنی میں انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ بیسیوں مسلمانوں کو اس نے مارا اور قتل کیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور رسول کریم~صل۱~ ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میں داخل ہوئے اور آپﷺ~ نے چند افراد کو جو تعداد میں سات کے قریب تھے اور جنہوں نے مسمانوں کو مارا تھا ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کرنے کی وجہ سے مار دینے کا حکم دیا۔ یورپ والوں نے بھی بعض لوگوں کو اسی قسم کے جرموں کی بناء پر قتل کیا یا پھانسی پر لٹکایا چنانچہ گزشتہ جنگ کے اختتام پر ہی جب بعض سرکردہ جرمن لیڈروں پر مقدمہ چلایا گیا تو یہ کہا گیا کہ انہیں جنگ کے بدلہ میں نہیں بلکہ ان انسانیت سوز جائم کے عوض میں پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے جو ان سے سرزد ہوئے۔ اسی طرح رسول کریم~صل۱~ نے بھی فتح مکہ کے بعد ان سات افراد کے متعلق یہ احکام جاری کئے کہ اگر یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر بھی کھڑے ہوں تب بھی انہیں قتل کردیا جائے چنانچہ وہ لوگ مکہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ان سات افراد میں عکرمہؓ بھی تھا۔ ان کی بیوی دل سے مسلمان ہوچکی تھی وہ رسول کریم~صل۱~ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ~صل۱~ میں دل سے مسلمان ہوں میرا خاوند مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ وہ اسلام کا کتنا دشمن ہی سہی لیکن پھر بھی آپ کا بھائی ہے۔ کیا یہ بہتر ہوگا کہ وہ کسی اور ملک میں جاکر کسی غیر کے ماتحت رہے اور وہاں دھکے کھاتا پھرے یا یہ بہتر ہے کہ آپ اسے معاف کردیں اور وہ آپ کے زیر سایہ زندگی بسر کرے۔ آپﷺ~ نے فرمایا اچھا ہم اسے معاف کرتے ہیں وہ واپس آجائے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے اس کی بیوی نے پھر عرض کیا۔ یا رسول اللہ~صل۱!~ وہ بڑی غیرت والا شخص ہے اگر اپ یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہوکر یہاں رہے تو وہ یہاں نہیں رہے گا۔ اگر آپ اجازت دیں کہ وہ کافر ہوتے ہوئے بھی یہاں رہ سکتا ہے تو وہ واپس آجائے گا۔ آپﷺ~ نے فرمایا بہت اچھا ہم اسے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہیں گے وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے۔ عکرمہؓ کی بیوی رسول کریم~صل۱~ سے یہ عہد لے کر عکرمہ کی تلاش میں گئی۔ عکرمہ حبشہ کی طرف بھاگا جارہا تھا وہ جہاز میں سوار ہونے کو تیار تھا کہ اس کی بیوی وہاں پہنچی۔ وہ جگہ مکہ سے سات دن کے فاصلہ پر تھی بیوی نے خاوند سے کہا تم کہاں جارہے ہو۔ یہاں تمہارا اپنا بھائی حاکم ہے۔ کیا یہ بہتر ہے کہ تم اس کے ماتحت ہو یا یہ بہتر ہے کہ تم غیر کی غلامی کرو۔ عکرمہ نے کہا کیا تجھے علم نہیں کہ مجھے قتل کردینے کے احکام جاری ہوچکے ہیں۔ اس نے کہا تم محمد رسول اللہ~صل۱~ کو نہیں جانتے تمہارے سینہ میں کفر کی آگ بھڑک رہی ہے میں جانتی ہوں کہ جو کچھ انہوں نے مجھ سے کہا ہے۔ انہوں نے سچ کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر عکرمہؓ مکہ واپس آجائے تو میں اسے معاف کردوں گا۔ عکرمہؓ نے کہا اچھا انہوں نے اگر معاف بھی کردیا تو وہ مجھے مسلمان ہونے کے لئے کہیں گے لیکن میں تو مسلمان نہیں ہوں گا۔ بیوی نے کہا۔ نہیں عکرمہؓ۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ تمہیں مسلمان ہونے کے لئے بھی نہیں کہیں گے تم اپنے مذہب پر قائم رہ کر مکہ میں رہ سکتے ہو۔ عکرمہؓ نے کہا۔ کیا یہ سچ ہے۔ بیوی نے کہا ہاں یہ بالکل سچ ہے میں نے خود محمد رسول اللہ~صل۱~ سے بات کی ہے۔ عکرمہؓ نے کہا۔ اچھا میں چلتا ہوں لیکن میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کے منہ سے یہ باتیں سنوں گا تب مانوں گا۔ رسول کریم~صل۱~ مجلس میں بیٹھے کہ عکرمہ کی بیوی اسے ساتھ لئے حاضر ہوئی۔ عکرمہؓ نے کہا محمد~)صل۱(~ )عکرمہؓ ابھی ایمان نہیں لایا تھا اور وہ آپﷺ~ کو اسی نام سے پکارتا تھا( میری بیوی کہتی ہے کہ آپﷺ~ نے مجھے معاف کردیا ہے۔ آپﷺ~ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے۔ عکرمہؓ نے کہا میری بیوی نے ایک اور بات بھی کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مین مکہ میں اپنے مذہب کو مانتے ہوئے بھی رہ سکتا ہوں مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ آپﷺ~ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے عکرمہؓ نے کہا اشھدان لا الہ الا اللہ واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا عکرمہؓ میں نے تجھے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہا عکرمہؓ نے کہا عکرمہ نے اتنا بلند حوصلہ اور ایثار خدا تعالیٰ کے رسول~صل۱~ کے سوا اور کسی میں نہیں ہوسکتا۔ جب میں نے اپنے کانوں یہ بات سن لی کہ آپ نے مجھ جیسے شدید دشمن کو بھی معاف کردیا ہے تو میں آپﷺ~ کی رسالت پر ایمان لے آیا ہوں اب آگے دیکھو عکرمہؓ میں کتنی جلدی فرق پڑتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے اسے فرمایا عکرمہؓ ہم صرف تمہارے قصوروں کو ہی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تم کچھ مانگ لو اگر ہماری طاقت میں ہوا تو ہم تمہاری خواہش کو پورا کردیں گے تو اس کے منہ سے یہ بات سجتی تھی کہ مجھے دو سو اونٹ دے دیں۔ میرے مکان مجھے واپس دے دیں۔ لیکن وہ کلمہ پڑھتے ہی بدل چکا تھا۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ میں آپ سے صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میں نے آپﷺ~ سے لڑائیاں کرکے جو گناہ سیڑے ہیں خدا تعالیٰ وہ گناہ مجھے معاف کردے۔ پھر اسی عکرمہؓ نے مسلمان ہونے کے بعد وہ قربانی دکھائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی فوجیں قیصر کی فوجوں سے ¶لڑنے کیلئے گئیں تو ایک جگہ پر دشمن کو زور حاصل ہوگیا دشمن نے ایک ٹیلہ پر عرب تیر انداز بٹھا دئے جو صحابہؓ کو پہچانتے تھے اور انہیں ہدایت تھی کہ صحابہؓ کو چن چن کر ان کی آنکھوں پر تیر ماریں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اکثر صحابہؓ اندھے ہوگئے۔ مسلمانوں کو فکر پڑی کہ صحابہؓ کی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ حضرت عکرمہؓ` حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس گئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی فوج کے کمانڈر تھے اور کہا صحابہؓ کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے جب تک ہم اچانک حملہ کرکے انہیں خوفزدہ نہیں کریں گے یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں تیس آدمی ساتھ لے کر کفار کے لشکر کے قلب پر حملہ کروں تا وہ تتر بتر ہوجائے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا یہ بات خلاف عقل ہے کہ ۶۰ ہزار دشمن کے مقابلہ پر تیس آدمی جائیں۔ حضرت عکرمہؓ نے کہا آخر ہہم مر ہی جائیں گے اور کیا ہوگا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا میں اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بلایا اور ان سے کہا عکرمہؓ یوں کہتا ہے۔ خالد~رضی۱~ نے کہا عکرمہؓ نے ٹھیک کہا ہے جب تک دشمن پر ہمارا رعب نہیں پڑے گا وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ میں تیس مسلمان مروا دوں۔ خالدؓ نے کہا آخر آدمی مرا ہی کرتے ہیں۔ تب حضرت ابوعبیدہؓ نے عکرمہؓ کی بات مان لی۔ ہاں اتنا کردیا کہ تیس آدمی کی بجائے ساٹھ آدمی ان کے ساتھ کردئے تا دشمن کے ہر ہزار کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہوجائے۔ دوسرے دن ان ساٹھ افراد نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور ساٹھ ہزار دشمن میں گھس گئے۔ پہلی صاف والے ابھی تلوار ہی اٹھا رہے تھے کہ یہ وہ صف گزر چکے تھے۔ جب دوسری صف والے تلواریں اٹھانے لگے تو یہ تیسری صفت میں پہنچ چکے تھے۔ دشمن فوج کا کمانڈر جس سے قیصر نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کی تو وہ اسے اپنی لڑکی بیاہ دے گا۔ وہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا یہ وہاں پہنچے لشکر کو بھی ہوش آچکی تھی یہ مرتے گئے لیکن پیچھے نہ ہٹے۔ جب یہ عین اس جگہ پر پہنچے جہاں کمانڈر بیٹھا تھا تو وہ گھبرا کر بھاگ اٹھا لیکن ساٹھ کے ساٹھ یا تو زخمی ہوگئے یا مرگئے اتنے میں جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے ساٹھ جانباز سپاہی لڑرہے ہیں تو انہوں نے دشمن پر حملہ کردیا اور دشمن کو جب خبر پہنچی کہ ان کا کمانڈر بھاگ گیا ہے تو وہ بھی بھاگ گئے۔ فتح کے بعد جب تلاش کیا گیا تو سوائے چند کے جو شدید زخمی تھے باقی سب مرچکے تھے۔ گرمی کا موسم تھا شدت پیاس کی وجہ سے زخمیوں کی زبانیں باہر نکل رہی تھیں۔ بعض سپاہی پانی کی کپیاں لے کر وہاں پہنچے۔ جب وہ حضرت عکرمہؓ کے پاس گئے تو آپ کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی انہیں پانی پینے کے لئے کہا گیا جب وہ پانی پینے لگے تو ان کی نظر اپنی داہنی طرف پڑی آپ نے دیکھا کہ حضرت فضلؓ )حضرت عباسؓ کے بھائی( شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں۔ آپ نے ان کی طرف اشارہ کیا اور کہا پہلے انہیں پانی دو۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے پہلو میں ایک اور زخمی دیکھا جو شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلائو۔ دس آدمی زخمی پڑے ہوئے تھے ان دسوں کے پاس جب آدمی چھاگل لے کر گئے تو انہوں نے دوسرے کی طرف بھیج دیا تاکہ اسے پہلے پانی پلایا جائے۔ جب وہ آدمی دسویں کے پاس پانی لے کر گیا تو وہ مرچکا تھا۔ نویں کے پاس گیا تو وہ بھی مرچکا تھا۔ آٹھویں کے ¶پاس گیا تو وہ بھی مرچکا تھا۔ اسی طرح وہ ہر ایک کے پاس سے ہوتا ہوا دوبارہ عکرمہؓ کے پاس گیا تو وہ شہید ہوچکے تھے۔ اب دیکھو کجا یہ کہ ابوجہل کی دشمنی کی یہ حالت تھی کہ اس نے انتہائی مخالفت کی اور کجا یہ کہ جب اسکے بیٹے عکرمہؓ کو پتہ لگ گیا کہ اس کے باپ نے غلطی کی تھی تو وہی عکرمہؓ جو اپنی ذاتی عزت اور وجاہت کی خاطر اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا ہوا رسول کریم~صل۱~ سے لڑائی کیا کرتا تھا اس نے اپنے آپ کو رسول کریم~صل۱~ کی خاطر اس طرح قربان کیا کہ اس کی نظیر کم ملتی ہے۔ خالدؓ بن ولیدد کو دیکھ لو مسلمان ان کے ناملیتے تھکتے نہیں لیکن وہ بھی رسول کریم~صل۱~ کا اشد ترین دشمن تھا۔ عمرو بن العاصؓ کی بھی مسلمان تعریف کرتے ہیں کہ وہ بہترین جرنیل تھے لیکن وہ بھی رسول کریم~صل۱~ کے اشد ترین دشمن تھے۔ ان کو دیکھو اور ان کی اولادوں کو دیکھو احد کے واقعات کو دیکھو وہ شخص جس کی وجہ سے فتح مبدل بہ شکست ہوگئی تھی وہ خالد بن ولیدؓ ہی تھے۔ وہ حملہ جس کی وجہ سے مسلمان لشکر میں کہرام مچ گیا تھا وہ خالد کا ہی کیا ہوا تھا اور خالد ہی ہے جس کے متعلق رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیںnsk] ga[t سیف من سیوف اللہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ وہی خالدؓ اسلام کی لڑائیوں میں اتنا زخمی ہوا کہ جب وہ مرنے لگا تو اس نے کہا میرے سر سے لے کر پائوں تک کوئی ایسی جگہ نہیں جس میں تلوار کا نشان نہ ہو لیکن یہ وہی خالد تھا جس نے اسلامی لشکر کو پسپا کردیا تھا اور رسول کریم~صل۱~ کو زخمی کردیا تھا۔ دوسرا جرنیل جس نے خالدؓ کے ساتھ مل کر مسلمان لشکر پر حملہ کیا وہ عمروؓ بن عاص تھا جس نے بعد میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مصر فتح کیا لیکن جنگ احد کے وقت یہی دونوں تھے جنہوں نے حملہ کرکے صحابہؓ کو زخمی کرکے رسول کریم~صل۱~ پر پھینک دیا اور آپﷺ~ کو بھی زخمی کردیا۔ حضرت عمروؓ بن عاص کے بیٹے حضرت عبداللہ عمروؓ آپ سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے )جو لوگ حدیث سے واقف ہیں وہ عبداللہ بن عمروؓ اور عبداللہ بن عمرؓ میں فرق نہیں کرتے۔ درحقیقت یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے بہت سی روایات مروی ہیں( حضرت عمرو بن العاصؓ جب فوت ہونے لگے تو آپ رو رہے تھے حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے کہا باپ کیا آپ بھی روتے ہیں۔ اگر آپؓ کفر کی حالت میں مرتے تب تو کوئی بات تھی خدا تعالیٰ نے آپ کو اسلام نصیب کیا اور اب تو آپ کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا بیٹا تمہیں معلوم نہیں اسلام کے ساتھ میری دو کیفیتیں رہی ہیں جب تک میں مسلمان نہیں ہوا تھا رسول کریم~صل۱~ کے ساتھ مجھے اتنا بغض تھا اور اسلام کے ساتھ مجھے اتنی دشمنی تھی کہ میں نے کبھی آنکھ اٹھا کر آپ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ اگر میں اس وقت مرتا اور کوئی شخص مجھ سے یہ پوچھتا کہ آپﷺ~ کی شکل کیا تھی تو میں آپﷺ~ کی شکل نہ بتا سکتا۔ پھر جب اسلام لایا تو مجھے آپﷺ~ سے اتنا عشق پیدا ہوا اور میرے اندر آپﷺ~ کی اس قدر محبت جاگزین ہوئی کہ میں آپ کے رعب کی وجہ سے آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ اگر اب مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کی شکل کیا تھی تو میں نہیں بتا سکتا۔ کفر کی حالت میں بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہ دیکھی اور اسلام کی حالت میں محبت اور عشق کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ رسول کریم~صل۱~ کے وقت میں اگر فوقت ہوجاتا تو کوئی فکر نہ تھا لیکن آپﷺ~ کی وفات کے بعد کئی غلطیاں مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں میں نہیں جانتا ان غلطیوں کی وجہ سے قیامت کے دن بھی آپﷺ~ کا دیدار نصیب ہو یا نہیں۔ اور وہ یہ کہہ کر پھر رونے لگ گئے۔
ہماری جماعت کے لوگ مخالفت سے گھبراتے اور غصہ میں آجاتے ہیں لیکن مخالفت کی وجہ سے گھبرانے اور غصہ میں آجانے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ لوگ مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ یہ لوگ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ہم رسول کریم~صل۱~ کے مخالف ہیں اور نعوذ باللہ آپﷺ~ کو گالیاں دیتے اور اسلام کو بگاڑتے ہیں۔ گویا وہ مخالفت رسول کریم~صل۱~ کی محبت اور اس غلط فہمی کے نتیجہ میں کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے دشمن ہیں ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور ساتھ ہی ساتھ تبلیغ کرنی چاہئے۔ آخر ہم ان کی غلط فہمیوں کو کیوں دور نہیں کرتے۔ اگر ایک مولوی ہمارے متعلق یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت امام حسینؓ کی ہتک کرتے ہیں تو تم نے کیوں لوگوں کو یہ نہیں بتایا کہ ہم حضرت امام حسینؓ کی ہتک نہیں کرتے بلکہ ان کی تم سے بھی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ اگر تم نے انہیں یہ بتایا ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے تو یہ کہا ہے۔ ع
خاکم نثار کوچہ آل محمدﷺ~ است
تو وہ حقیقت سمجھ جاتے اور مولویں سے کہتے کہ کیا یہ فقرہ کہنے والا شخص حضرت امام حسین کا دشمن یا ہتک کرنے والا ہوسکتا ہے لیکن تم گھروں میں بیٹھے رہے اور گھر بیٹھے بیٹھے تم نے سمجھا لیا کہ لوگوں نے اس کے معنے سمجھ لئے ہیں۔ پھر فرض کرو اگر دشمن یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب )علیہ الصٰوۃ والسلام( نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو تم ان کے سامنے گالیوں کی ایک فہرست رکھ دیتے کہ یہ گالیاں مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دی ہیں۔ یہ سب گالیاں کتابوں میں چھپی ہوئی ہیں تم وہ کتابیں ان کے سامنے رکھ دیتے اور انہیں بتاتے کہ کیا یہ مولویوں کا کام ہے تو ساری بات ان کی سمجھ میں آجاتی۔ مثلاً اگر کوئی کسی کو حرام زادہ کہے اور وہ اسے کہے بے ایمان یہ بات مت کہو اور پہلا شخص جس نے اسے حرام زادہ کہا ہے اس سے لڑنے لگ پڑے۔ اب اگر تیسرا شخص پاس سے گزرتا ہے اور وہ اس سے دریافت کرتا ہے میاں تم لڑکے کیوں ہو اور وہ وہ کیسا ہے اس نے مجھے بے ایمان کہا ہے تو اگر پہلا شخص اسے یہ بتا دیتا ہے کہ اس نے مجھے حرام زادہ کہا ہے اور قرآن و حدیث نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے تو وہ کہے گا یہ تو قرآن اور حدیث کی بات کہتا ہے یہ گالی نہیں گالی وہ ہے جو تم نے دی۔ پس اگر تم لوگوں کے پاس جاتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ مولویں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان کے جواب میں آپ نے انہیں یہ کہا ہے کہ قرآن کریم نے ان سے منع فرمایا ہے تو وہ مولویوں کے پاس جاتے اور انہیں کہتے مرزا صاحب کو تم نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اب اگر انہوں نے اس کے جواب میں کچھ کہا ہے تو شریعت میں اس کا نام گالی نہیں۔ اس پر مولوی یا تو یہ کہہ دیتے کہ یہ ہماری کتابیں نہیں یا یہ فتویٰ دیتے کہ ہمارے ماں باپ اور آباء و اجداد جھوٹے اور مفتری تھے لیکن یہ صاف بات ہے کہ وہ یہ فتویٰ ہرگز نہیں دیں گے کہ ہمارے ماں باپ جھوٹے اور مفتری تھے۔ اگر ایک اہل حدیث تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو تم جھٹ انہی کی کتابیں اس کے سامنے رکھ دو اور کہو کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے علماء اہل حدیث نے مرزا صاحب کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور مرزا صاحب نے انہیں ان گالیوں سے منع فرمایا ہے لیکن جب ایک مولوی یونہی شور مچا دیتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو لوگوں کو چونکہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے باپوں نے مرزا صاحبؑ کو کیا کچھ کہا ہے اس لئے وہ مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں تم ان کے پاس جائو اور ان کے سامنے ان کی کتابیں رکھ دو اور بتائو کہ تمہارے علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور کیا یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ بعض غیر اسلامی گالیاں ہیں اور بعض غیر اسلامی نہیں مثلاً احمق ہے کسی کو احمق کہنا شرافت کے تو خلاف ہے لیکن اسلام کے خلاف نہیں۔ لیکن اگر کوئی حرام زادہ کہہ دیتا ہے تو یہ اسلام کے خلاف ہے۔ اسلام نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر اس قسم کی احادیث موجود ہیں کہ اگر کوئی کسی کو برا کلمہ کہتا ہے تو وہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اب یا تو یہ باتیں احادیث سے نکال دو اور اگر انہیں احادیث سے نہیں نکالتے تو پھر غصہ میں کیوں آتے ہو۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ نے فرمایا ہے جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی کسی کو کافر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہوجاتا ہے۔ اب یا تو یہ حدیث کاٹ دو یا اور یا ہماری بات مانو۔ ہم کوئی نیا فتویٰ نہیں دیتے آج سے چودہ سو سال قبل سے یہ باتیں کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں ہم تو آج پیدا ہوئے ہم امام مسلم~رح~ کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے ہم امام بخاری~رح~ کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے` ہم ابودائود اور ترمذی کے ساتھ تو نہیں بیٹھے` ہم نسائی~رح~ اور ابن ماجہؓ کے پاس تو نہیں بیٹھے تھے لیکن ان بزرگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہیں اور وہ اب تک موجود ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہودی رسول کریم~صل۱~ کے متعلق کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے تم اسے جھوٹا کیونکر کہہ سکتے ہو؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جو پیشگوئیاں اس کے متعلق پائی جاتی ہیں اور وہ اس کے حق میں پوری ہوگئی ہیں کیا وہ پیشگوئیاں اس نے موسیٰ علیہ السلام کو لکھوا دی تھیں۔ اگر آج سے کئی سو سال قبل کی لکھی ہوئی باتیں اس شخص کے حق میں پوری ہوجاتی ہیں تو یہ شخص یقیناً سچا ہے اگر یہ جھوٹا ہوتا تو خدا تعالیٰ اتنے سو سال قبل کی کہی ہوئی باتیں اس کی ذات میں کیوں پوری کرتا۔ غرض جب بات مسلمان عیسائیوں اور یہودیوں کے اعتراضات کے جواب میں کہتے ہیں وہی بات ہم کہتے ہیں کہ مسلم اور بخاری میں یہ باتیں لکھی ہیں ہم تو اس وقت موجود نہیں تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں لکھوا دیں۔ اگر تم کہو کہ میں مسلم اور بخاری کے وقت میں موجود تھا تو تمہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میں فرشتہ ہوں اور اگر میں فرشتہ ہوں تو تم فرشتے کی کیوں مخالفت کرتے ہو اور اگر میں انسان ہوں تو صاف بات ہے کہ یہ بات میں نے مسلم اور بخاری کو نہیں لکھوائیں پھر اگر انہوں نے یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے لکھی ہیں تو اگر خدا اور اس کے رسول کا دشمن تھا تو یہ باتیں میرے ساتھ کیسے پوری ہوگئیں آخر اس کی بھی تو کوئی دلیل ہونی چاہئے۔ مثلاً رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کے نتیجہ میں اس کی اولاد بھی ہوگی یتزوج ویولد لہ۔۶ اب سیدھی بات ہے کہ خالی شادی کوئی اہم بات نہیں لوگ شادیاں کرتے ہی ہیں۔ مان لیا مرزا صاحب جھوٹے ہی ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ اگر آپ جھوٹے تھے تو خدا تعالیٰ یہ بات پوری نہ ہونے دیتا۔ اول تو آپ شادی ہی نہ کرتے یا اگر شادی کرتے تو آپ کی بیوی مر جاتی تو یا وہ اچھے خاندان سے نہ ہوتی یا اس کے ہاں اولاد نہ ہوتی یا اولاد پیدا ہوتی تو وہ مرجاتی لیکن وجہ کیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر افترا بھی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ رسول کریم~صل۱~ کی سب باتیں اس کی ذات میں پوری کردیتا ہے یا مثلاً رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ آنے والے مسیح اور مہدی کے زمانہ میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینہ میں گرہن لگے گا اور فرمایا یہ ایک ایسی آیت ہے کہ یہ کسی اور مدعی نبوت پر پوری نہیں ہوئی۔ یہ بات شیعوں اور سنیوں سب کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۷ اور یہ ۱۸۹۴ء میں پوری ہوئی۔ گجرات کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مولوی کہتا تھا مرزا )علیہ الصلٰوۃ والسلام( سچا کیسے ہوسکتا ہے۔ حدیثمیں یہ لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور ایسا گرہن اس سے قبل کسی مدعی نبوت کے زمانہ میں نہیں لگا ہوگا۔ جب یہ گرہن لگا تو اس مولوی کے ہمسایہ میں ایک احمدی رہتا تھا اس نے اسے بتایا کہ گرہن لگنے کی علامت پوری ہوگئی تب وہ مولوی کوٹھے پر کھڑا ہوکر سورج گرہن دیکھتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا اب لوگ گمراہ ہوجائیں گے اب لوگ گمراہ ہوجائیں گے۔ یہ نہیں کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے جس کے نتیجہ میں لوگ ہدایت پائیں گے بلکہ وہ کہتا تھا کہ اس کے نتیجے میں لوگ گمراہ ہوجائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو جھوٹا ہوتا ہے اس پر سچوں ¶والی علامتیں کیسے پوری ہوسکتی ہیں مثلاً حکومت ہے وہ افسر مقرر کرتی ہے اور اس کی علامتیں مقرر کرتی ہے۔ وہ گزٹ شائع کرتی ہے کہ فلاں افسر فلاں جگہ پر مقرر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک ڈپٹی کمشنر ہے حکومت کہتی ہے فلاں شخص کو فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر مقرر کیا جاتا ہے سب محکمے اس کے ماتحت ہوں گے۔ تحصیلدار` ضلعدار` گرداور اور پٹواری سب اس کے تابع ہوں گے۔ اس کے بعد ایک شخص آتا ہے گزٹ میں اس کا نام چھپ جاتا ہے۔ سب محکمے اس کی اطاعت کرتے ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے بھلا گورنمنٹ ایسا کرنے دیتی ہے اگر کوئی شخص جعلی طور پر اپنے آپ کو افسر ظاہر کرے گا تو فوراً اسے گرفتار کرلے گی۔ اور اگر کوئی حکومت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تو کیا خدا تعالیٰ اتنا کمزور ہے کہ ایک شخص اس پر الزام لگاتا ہے اور افترا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے وحی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ سب پیشگوئیاں اس کی ذات میں پوری کردیتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں اس زمانے میں عیسائیوں کا زور ہوگا اور عیسائیوں کا زور ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس زمانہ میں یاجوج اور ماجوج چاروں طرف سے پہاڑوں کی چوٹیوں اور سمندروں کی لہروں پر سے گزر کر دنیا پر قابض ہوجائیں گے اور وہ قابض ہوجاتے ہیں لیکن لوگ کہہ دیتے ہیں یہ شخص جھوٹا ہے یہ بالکل وہی بات ہے کہ کسی بزدل کو فوج میں بھرتی کرلیا گیا لڑائی میں اسے تیر آلگا اور اس کے جسم سے خون بہنے لگا۔ وہ بزدل تو تھا ہی تیر لگنے کے بعد وہ میدان میں کیسے ٹھہر سکتا تھا وہ بیساختہ پیچھے کو بھاگا وہ دوڑتا چلا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا یااللہ یہ خواب ہی ہو یااللہ یہ خواب ہی ہو۔ تیر تو جسم میں لگ چکا تھا اور خون بہہ رہا تھا اب اس کے کہنے سے کہ یااللہ یہ خواب ہی ہو خواب کیسے بن سکتا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک شخص میں یہ سب علامات پوری ہوچکی ہوں لیکن لوگ کہیں یااللہ یہ جھوٹا ہی ہو یااللہ یہ جھوٹا ہی ہو یہ باتیں بھلا ہوسکتی ہیں اور یہ سب کچھ پورا ہوگیا ہے۔ اب کیا ہم اس وقت موجود تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں انہیں لکھوا دیں اور اگر ہم اس وقت موجود نہ تھے تو پھر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ماننے میں انکار کیا ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ من کل حدب ینسلون۸ یاجوج اور ماجوج پہاڑی رستہ سے بھی آئیں گے اور نشیب کے رستہ سے بھی۔ وہ سمندر کے رستہ سے بھی آئیں گے اور خشکی کے رستہ سے بھی اور ساری دنیا پہ چھا جائیں گے۔ بائیبل میں لکھا ہے اے جوج روس اور مسک اور توبل کے فرمانروا )حزقیل باب ۳۹( یہ سب باتیں پہلے سے لکھی ہوئی ہیں اگر ان میں سے ایک بات پوری ہوگئی تو یقیناً دوسری بھی ٹیک ہے۔ اگر روس کا ذکر آگیا تو یقیناً دوسرا فریق برطانیہ اور امریکہ ہے۔ یہ دانیال اور حزقیل کی پیشگوئی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے یہ یاجوج ماجوج تمام دنیا پر چھا جائیں گے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں پوری ہوگئی ہیں۔ آج سے سو سال قبل کسی کا وہم بھی ہوسکتا تھا کہ روس اس طرح ترقی کرجائے گا۔ میں اس صدی والوں کو کہتا ہوں کہ ۱۹۰۴ء میں جاپان نے روس کو کس طرح گرایا تھا۔ اس وقت کیا کوئی خیال بھی کرسکتا تھا کہ ایک دن روس اتنا زور پکڑ جائے گا کہ دوسری حکومتیں اس سے لرزنے لگ جائیں گی لیکن نوشتوں میں لکھا تھا کہ تو دنیا میں پھیلے گا اور میں تجھے تباہ کردوں گا۔ اور ادھر یاجوج کے متعلق لکھا ہے کہ وہ سمندروں کی لہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے گزر کر دنیا پر چھا جائے گا یہ کتنی صاف پیشگوئی ہے کیا تم اسے قرآن کریم سے نکال دو گے یا تو تم کہو یہ غلط ہے لیکن سوال یہ ہے جب پیشگوئی پوری ہوچکی ہے تو غلط کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ تو وہی بزدلی والی بات ہے کہ یاالٰہی خواب ہی یا الٰہی خواب ہی ہ۔ ایک قوم جس کا نام بائیبل میں آتا ہے اور جس کے پھیلنے کے متعلق قرآن مجید اور بائیبل میں پیشگوئی تھی وہ دنیا میں پھیل گئی۔ اب کیا تم یہ کہو گے کہ قرآن اور بائیبل جھوٹے ہیں اس لئے کہ مرزا صاحب جھوٹے ثابت ہوجائیں۔ اسلامی طریق تو یہ تھا کہ تم کہتے مرزا صاحب سچے ہیں کیونکہ اس طرح محمد رسول اللہ~صل۱~ سچے ثابت ہوتے ہیں۔
‏tav.12.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتشزدگی تک
ایک راجہ نے دربار میں کہا میں نے بینگن کھائے ہیں بڑا مزہ آیا بینگن بڑی لذیز سبزی ہے۔ ایک درباری نے کہا ہاں ہاں حضور بینگن بڑی لذیذ چیز ہے۔ وہ طب بھی پڑھا ہوا تھا اس نے کہا اس میں یہ یہ خوبیاں ہیں پھر کہا حضور اس کی شکل دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی صوفی نماز کے لئے کھڑا ہو۔ چند دنوں کے بعد راجہ نے دربار میں کہا میں نے بینگن کھائے تو مجھے بواسیر ہوگئی میں سمجھتا تھا کہ یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے یہ بڑی ناقص چیز ہے۔ اب ہر چیز میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اور خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ سنکھیا کو دیکھ لو سنکھیا مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔ اسی طرح دوسری چیزوں کا حال ہے لیکن جب راجہ نے کہا میں نے بینگن کھائے تو مجھے تکلیف ہوگئی یہ بہت ناقص سبزی تھی تو وہی درباری اٹھا اور اس نے کہا ہاں ہاں حضور یہ بڑی ناقص چیز ہے اس میں یہ یہ برائیاں ہیں اور پھر اس کی شکل بالکل ایسی ہے جیسے کسی چور کو اس کے ہاتھ باندھ کر سولی پر لٹکا دیا جائے۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا بات ہے اگلے دن تو تو نے بینگن کی اتنی تعریف کی کہ حد نہ رہی اور آج اتنی مذمت کی کہ گویا اس جیسی پلید چیز دنیا میں کوئی نہیں۔ اس نے کہا میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں۔ اسی طرح اے بھائیو! ہمیں اس سے کیا کہ عیٰسی علیہ السلام آئیں گے یا نہیں تم محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نوکر ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر آج تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ آپ حدیث اور سنت کے خلاف جاتے ہیں حالانکہ آپ حدیث و سنت سے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں دلائل دیتے تھے۔ پھر آپ حنفیوں میں پیدا ہوئے اس طرح آپ ان کے عقیدوں سے واقف تھے۔ پھر آپ قرآن کریم سے دلائل دیتے تھے۔ ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بڑے عالم سمجھے جاتے تھے وہ اعتراض کرتے وقت کہتے تھے کہ قرآن میں یہ لکھا ہے حدیث میں یہ لکھا ہے۔ سنت رسول کریم~صل۱~ سے یہ ثابت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام قرآن و حدیث سے ہی ان اعتراضات کے جواب دیتے تھے اور فرماتے قرآن میں یہ لکھا ہے حدیث میں یہ لکھا ہے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول~رضی۳~ ایک دفعہ اتفاق سے قادیان آئے اور کسی کام کے لئے لاہور شہر گئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور آئے ہوئے تھے انہوں نے خیال کیا کہ مولوی صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مقرب ہیں ان سے بحث مباحثہ ہوجائے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب نے اشتہار بازی شروع کردی۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اولؓ کی دو ماہ کی رخصت تھی اور وہ لاہور میں ہی ختم ہوگئی۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا بتائو حضرت عیٰسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں یا زندہ ہیں اور وہ حیات مسیح کے بارہ میں احادیث سے دلائل دیتے لیکن حضرت خلیفتہ المسیح اول ان کا قرآن کریم سے رد کردیتے اور قرآن کریم سے وفات مسیح ثابت کرتے۔ مولوی محمد حسین صاحب قرآن کریم کی طرف نہیں آتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کو بھی قرآن کریم سے ہٹا کر احادیث کی طرف لے آئیں۔ آخر حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ نے اس کی بات کو جھوٹا کرنے کے لئے کہا کہ جو بخاری کہے وہ میں مان لوں گا۔ ایک دوست نظام الدین نامی تھے انہیں حج کرنے کا بڑا شوق تھا انہوں نے دس حج کئے تھے وہ بمبئی تک پیدل جاتے اور آگے جہاز کے ذریعہ سفر کرتے انہوں نے براہین احمدیہ پڑھی ہوئی تھی اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دونوں سے عشق تھا جب یہ لوگ شور مچاتے کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے عیٰسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں تو یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی کہ مرزا صاحب قرآن و حدیث کے بلند پایہ عالم ہوکر اتنی بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک دفعہ وہ حج کے لئے گئے جب واپس آئے تو کسی شخص نے ان سے اس بات کا ذکر کردیا کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ عیٰسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور یہ امر قرآن کریم سے ثابت ہے۔ انہوں نے کہا مرزا صاحب میرے دوست ہیں میں جانتا ہوں کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں اور قرآن و حدیث کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں وہ ایسا نہیں کہہ سکتے۔ وہ کہنے لگے یا تو مرزا صاحب نے یہ کہا نہیں کہ حضرت عیٰسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور اگر کہا ہے تو میں ان کے پاس جائوں گا اور انہیں کہوں گا کہ وہ ایسا دعویٰ نہ کریں اور وہ مان لیں گے چنانچہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس حاضر ہوکر کہنے لگے میں حج پر گیا ہوا تھا۔ جب واپس آیا تو میں نے یہ عجیب بات سنی کہ آپ نے فرمایا ہے عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہاں میں نے یہ بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا میں لوگوں سے کہہ آیا ہوں کہ میں مرزا صاحب سے کہوں گا کہ آپ یہ دعویٰ نہ کریں تو آپ لاہور یا دہلی کی کسی مسجد میں توبہ کا اعلان کریں اگر وہ نہ مانے تو میں کہوں گا کہ اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہوسکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہاں اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہوا تو میں ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا اچھا میری تسلی ہوگئی ہے میں نے مولوی صاحب سے کہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تین سو آیات سے حضرت عیٰسی علیہ السلام کی حیات ثابت کرکے دکھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا تین سو آیات کی کیا ضرورت ہے اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے۔ میاں نظام دین صاحب کو شبہ پڑا کہ شاید قرآن کریم میں حیات مسیح کے متعلق تین سو آیات نہ ہوں اس لئے انہوں نے کہا اچھا دو سو آیات سے ہی وہ حیات مسیح ثابت کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پھر فرمایا کہ اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے۔ انہیں پھر شبہ پڑا کہ شاید قرآن کریم میں حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے دو سو آیات بھی نہ ہوں اس لئے انہوں نے کہا اچھا وہ ایک سو آیات سے حیات مسیح ثابت کریں۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے اور پھر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح نیچے اترتے گئے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے لوط کی بستی کے متعلق فرمایا تھا خدایا اس میں اگر چالیس تجھ پر یقین رکھنے والے ہوں کیا تب بھی تو اسے تباہ کردے گا تو خدا تعالیٰ نے کہا اے ابراہیم! تب میں انہیں معاف کردوں گا۔ اس سے آپ کو شبہ ہوا کہ شاید اس بستی میں اتنے مومن نہ ہوں اس لئے آپ آہستہ آہستہ نیچے اترتے گئے یہاں تک کہ آپ دس تک آگئے اور خدا تعالیٰ نے کہا ابراہیم اگر اس میں دس مومن بھی ہوں تب بھی اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا۔ اور جب حضرت ابراہیمؑ کو معلوم ہوا کہ اس بستی میں دس مومن بھی نہیں تو آپ نے دعا کرنی چھوڑ دی۔ اسی طرح میاں نظام الدین صاحب بھی دس آیات پر آگئے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا نہیں دس آیات تو کیا وہ ایک آیت سے ہی حیات مسیح ثابت کردیں تو وہ کہنے لگے آخر قرآن کریم میں حیات مسیح کو ثابت کرنے والی اتنی کم آیات تو نہیں ہوں گی وہ خوشی خوشی لاہور پہنچے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس وقت مسجد چینیاں والی میں بیٹھے تھے اور وہ وہ دن تھا جب حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ نے یہ بات مان لی تھی کہ قرآن کے علاوہ آپ بخاری بھی پیش کرسکتے ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب جب خوش تھے کہ وہ بالاخر حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کو قرآن کریم سے ہٹا کر احادیث پر لے ہی آئے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب میں خودنمائی کا شوق پایا جاتا تھا وہ اپنے شاگردوں کو بتا رہے تھے کہ مولوی نور الدینؓ مرزا صاحب کا شاگرد ہے اور بہت بڑا طبیب ہے میں نے اسے یوں رگیدا اور یوں لتاڑا اور آخر وہ احادیث کی طرف آہی گیا۔ اتنے میں میاں نظام الدین صاحب آگئے اور انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ یونہی کام خراب کررہے ہیں مرزا صاحبؑ تو سیدھے سادھے آدمی ہیں اور وہ قرآن کریم کو مانتے ہیں میں انہیں یہ بھی منوا آیا ہوں کہ اگر قرآن کریم میں سے ہم دس آیات حیات مسیح کی نکال دیں تو وہ دہلی یا لاہور کی کسی مسجد میں وفات مسیح کے عقیدہ سے توبہ کرلیں گے اور یہ دس آیات بھی میں نے ہی کہی ہیں ورنہ وہ تو کہتے ہیں کہ تم حیات مسیح کی ایک ہی آیت قرآن کریم سے نکال دو لیکن میں نے کہا دس سے بھی کیا کم آیات ہوں گی۔ آپ مولوی نور الدین صاحب سے جھگڑا کرنا چھوڑ دیں اور دس آیات حیات مسیہ کی بتا دیں۔ مولوی محمد حسین صاحب غصہ میں آکر کہنے لگے تم کو کس نے کہا تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتے۔ میں مولوی نور الدینؓ کو گھسیٹ کر حدیث کی طرف لایا ہوں اور تم پھر قرآن کریم کو بیچ میں لے آئے ہو۔ میاں نظام الدین صاحب اس صدمہ میں چند منٹ خاموش بیٹھے رہے پھر کہنے لگے اچھا مولوی صاحب جدھر قرآن ہے ادھر میں۔ اور اس کے بعد قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیعت کرلی۔
پس حقیقت یہی ہے کہ جو مسلمان محمد رسول اللہ~صل۱~ سے عقیدت رکھتا ہے اس کے دل میں یہی ہے کہ جدھر محمد رسول اللہ~صل۱~ ہیں ادھر میں ہوں تم جائو اور انہیں بتائو کہ لوگ تمہیں دھوکہ دیتے ہیں اور تم دھوکہ میں آکر ہماری مخالفت کرتے ہو تم ان کے سامنے قرآن رکھو اور کہو ہم پر کیا الزام رکھتے ہو قرآن کریم میں سب کچھ لکھا ہے اسے پڑھو اور پھر اس پر عمل کرو۔ ان کے سامنے احادیث رکھو اور کہو کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ سب احادیث میں پہلے سے موجود ہے ہم نے اپنے پاس سے یہ عقیدہ نہیں گھڑ لیا بلکہ آج سے کئی سو سال پہلے یہ بات احادیث میں لکھی ہوئی موجو تھی اس طرح ایک شخص جس کے اندر کفر اور ارتداد پیدا نہیں ہوا وہ جب دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ~صل۱~ اس طریق کے اختیار کرنے پر خوش ہیں تو اس کا جوش ٹھنڈا ہوجائے گا۔ جس طرح نظام الدین نے کہا تھا کہ جدھر قرآن ادھر میں۔ یہ لوگ بھی کہیں گے جدھر محمد رسول اللہ~صل۱~ ادھر ہم۔ اور تم دیکھو گے کہ جو لوگ آج قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہاری چائے نہیں پئیں گے تمہیں ماریں گے اور تمہارا بائیکاٹ کریں گے وہ تمہارے ساتھ چمٹ جائیں گے اور کہیں گے جدھر قرآن ادھر ہم۔ انہیں محمد رسول اللہ~صل۱~ اور قرآن کریم سے دشمنی نہیں۔ انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ تم محمد رسول اللہ~صل۱~ اور قرآن کریم کے دشمن ہو۔ تم ان پر ثابت کردو کہ ہم محمد رسول اللہ~صل۱~ اور قرآن کریم کے دشمن نہیں دوست ہیں پھر ان کے دل صاف ہوجائیں گے۔ ابھی مسلمانوں کے اندر انسانیت زندہ ہے۔ ان کے اندر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت کی چنگاری موجود ہے تم اسے ٹھنڈا کرنے کی بجائے گرم ہوا دو یہ مخالفت خودبخود ہٹ جائے گی۔
یہاں آیا تو میں بیمار کی حالت میں ہوں اور جیسا کہ دوستوں کو محسوس ہورہا ہے کہ میرا گلا بیٹھ رہا ہے اور میں بولنا نہیں چاہتا تھا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں مدتوں کی انتظار کے بعد اس بستی میں آیا ہوں اور اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی تعلق ہے۔ اس بستی کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی میری بیوی تھی اور اس بیوی سے میری اولاد بھی ہے۔ پھر اس بستی کے ایک معزز شخص سے میں نے قرآن کریم اور بخاری کا ترجمہ پڑھا۔ پس اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی نسبت ہے میرا دل کہتا ہے کہ جس کو میں سچا سمجھتا ہوں اس کو یہاں کے رہنے والے لوگ بھی سچا سمجھنے لگ جائیں اور جس طرح ان کا حق ہے کہ وہ مجھے کہیں تم غلطی پر ہو ہم سچ کہتے ہیں اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں انہیں کہوں میں حق پر ہوں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ ناپسندیدہ امر ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے مجھے تو تمہیں غلطی میں مبتلا سمجھنے کا حق ہے لیکن تمہیں ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں۔ کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا تم نام لو اور میں نے اس کی کتابیں نہ پڑھی ہوں۔ ایک پاگل شخص جو مولوی محمد علی صاحب کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ کبھی کبھی مجھے خط لکھ دیتا ہے اور اس کی نقل مولوی محمد علی صاحب کو بھیج دیتا ہے اور کبھی مولوی محمد علی صاحب کو خط لکھتا ہے اور اس کی نقل مجھے بھیج دیتا ہے۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہا کیا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا اچھا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا جب کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے یوں کہا تو میں اس کے خطوط کیوں نہ پڑھوں۔ وہ حق پر ہو یا نہ ہو لیکن میرا فرض ہے کہ وہ چیز جسے وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے ضرور پڑھوں۔ وہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس گیا اور انہیں کہنے لگا آپ بڑے تنگ دل واقع ہوئے ہیں میں آپ کا مرید تھا لیکن آپ میرے خطوط نہیں پڑھتے اور جس کا میں مرید نہیں تھا وہ کہتا ہے کہ میں تمہارے خطوط پڑھتا ہوں۔ غرض میں نے دنیا کے ہر مذہب کا لٹریچر پڑھا ہے۔ میں نے سنیوں کا لٹریچر پڑھا ہے۔ میں نے شیعوں کا لٹریچر پڑھا ہے۔ میں نے خارجیوں کا لٹریچر پڑھا ہے۔ ہندوئوں` زرتشیوں اور عیسائیوں کا لٹریچر میں نے پڑھا ہے۔ مجھے جب خدا تعالیٰ کہے گا بتائو تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سچے ہیں تو میں کہوں گا میں نے ہر مذہب کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور ان سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جو کچھ کہا ہے وہ ٹھیک ہے لیکن جس نے دوسرے مذاہب کا لٹریچر نہیں پڑھا وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دے گا۔ خدا تعالیٰ کہے گا مان لیا سنی مذہب سچا ہے لیکن جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا شائع کردہ لٹریچر نہیں پڑھا تمہیں یہ کس طرح پتہ لگا کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ رسول کریم~صل۱~ جب وعظ فرماتے تو ابوجہل اور اس کے ساتھی شور مچا دیتے تھے اور آپﷺ~ کی بات نہیں سنتے تھے۔ اب خواہ وہ اپنے خیال میں سچے بھی ہوں پھر بھی وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے جب انہوں نے رسول کریم~صل۱~ کی بات کو سنا ہی نہیں اور اس پر غور نہیں کیا۔ پس میں جھوٹا سہی` احمدیت جھوٹی سہی لیکن خدا تعالیٰ کے سامنے تم کیا جواب دو گے۔ اگر تم احمدیت کا لٹریچر پڑھا ہوتا اور پھر تم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ماننے میں غلطی ہوجاتی تو تم کہہ سکتے تھے خدایا! ہم نے ان کے عقائد کو بغور پڑھا تو تھا لیکن ہم نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں تو خدا تعالیٰ کہے گا اچھا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ قابل معافی ہے لیکن ایک شخص اگر یہ کہے کہ میرے پاس ایک شخص آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں لیکن میں نے اسے پرے دھکیل دیا اور کہا تم جھوٹ بولتے ہو تو خدا تعالیٰ کہے گا تم نے میری ہتک کی۔ ایک شخص نے تمہارے سامنے یہ کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے یوں کہا ہے لیکن تم نے اس کی بات کو بغور سنا نہیں اور اسے رد کردیا۔ ایک شخص اگر ایسی بات کہتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ محض افتراء ہے تو تم اسے سمجھا دو کہ میاں یہ بات درست نہیں لیکن اس کی بات سن لو کیونکہ اگر تم اس کی بات سنتے ہی نہیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے کہ اسے میں نے کیوں رد کردیا تھا۔
محمد رسول اللہ~صل۱~ جب وعظ فرمایا کرتے تھے تو مکہ والوں نے لوگوں کو یہ سکھا دیا تھا کہ جب یہ وعظ کریں تو تم وہاں سے بھاگ جائو` کانوں میں انگلیاں ڈال لو اور اس کی بات نہ سنو۔ تیرہ سال تک آپ~صل۱~ نے تبلیغ کی اور مصائب اور تکالیف کا مقابلہ کیا۔ ایک دفعہ حج کے موقع پر جب لوگ کثرت سے مکہ میں جمع ہوگئے تو رسول کریم~صل۱~ جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے انہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے۔ بعض لوگ آپﷺ~ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کرکے علیحدہ ہوجاتے اور بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے ان کو ہٹا دیتے اور بعض جو مکہ والوں سے آپﷺ~ کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اڑا کر آپ سے جدا ہوجاتے۔ اس دوران آپ کی نظر مدینہ کے سات افراد پر پڑی مکہ والے اردگرد بھاگتے پھرتے تھے اور جس طرح یہ مولوی کہتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بدتر ہے وہ بھی لوگوں کو آپﷺ~ کے خلاف بہکاتے تھے اور آپﷺ~ کی باتیں سننے سے منع کرتے تھے۔ سب لوگوں نے آپﷺ~ کو رد کردیا لیکن جب آپﷺ~ مدینہ والوں کے پاس گئے تو انہوں نے آپﷺ~ کی باتیں سننے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے آپﷺ~ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا اس سال ہم تھوڑی تعداد میں آئے ہیں اگلے سال ہم زیادہ تعداد میں آئیں گے اور آپﷺ~ کی باتیں سنیں گے چنانچہ اگلے سال بارہ آدمی آئے آپﷺ~ کی باتیں ان کے دلوں میں گھر کر گئیں اور وہ آپﷺ~ کی بیعت کرکے واپس چلے گئے اور اگلے سال اس سے زیادہ تعداد میں آنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اگلے سال ایک بڑا قافلہ آیا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے لیکن مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ مشرکین مکہ لوگوں کو رسول کریم~صل۱~ کی بات نہیں سننے دیتے تھے اس لئے رسول کریم~صل۱~ نے مدینہ سے آنے والوں سے رات کے بارہ بجے ملاقات فرمائی۔ مدینہ والوں نے جب آپﷺ~ کی باتیں سنیں تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ آپ نے جو کچھ بیان کیا وہ سب ٹھیک ہے ہم آپﷺ~ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپﷺ~ نے ان کی بیعت لی۔ حضرت عباسؓ کو بھی رسول کریم~صل۱~ ساتھ لے گئے تھے۔ حضرت عباسؓ آپﷺ~ سے دو سال بڑے تھے اور دل سے آپﷺ~ پر ایمان لے آئے تھے۔ جب وہ لوگ بیعت کرچکے تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ اس بستی نے آپ کو قبول نہیں کیا آپ ہماری بستی میں آجائیں۔ حضرت عباسؓ نے کہا یہ آسان بات نہیں مکے والوں کو پتہ لگا کہ رسول کریم~صل۱~ مدینہ تشریف لے گئے ہیں تو وہ مدینہ پر حملہ کردیں گے تم پہلے سوچ سمجھ لو یہ نہ ہو کہ پھر مقابلہ سے گریز کرو۔ انہوں نے کہا ہم نے خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے ہم بہرحال رسول کریم~صل۱~ کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ حضرت عباسؓ نے کہا اچھا معاہدہ کرلو چنانچہ ایک معاہدہ ہوا کہ اگر مدینہ میں آپﷺ~ پر یا مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپﷺ~ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم مدافعت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اتنے میں کسی نے کفار مکہ کو یہ خبر دے دی کہ مدینہ سے ایک قافلہ آیا ہے اور وہ رسول کریم~صل۱~ سے گفتگو کررہا ہے ان کا جلد کوئی انتظام ہونا چاہئے۔ رسول کریم~صل۱~ کو بھی یہ بات پہنچ گئی اور آپﷺ~ نے خیال کیا ایسا نہ ہو وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچائیں اس لئے آپﷺ~ نے فرمایا اب گفتگو ختم کردینا چاہئے اور یہاں سے چلے جانا چاہئے لیکن مدینہ والے اب ایمان لاچکے تھے اور موت ان کی نظروں میں حقیر ہوچکی تھی انہوں نے کہا ہم کمزور نہیں ہم بھی عرب ہیں اگر مشرکین مکہ نے کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو ہم ان کا مقابلہ کریں گے اور آپﷺ~ پر جب انہوں نے ظلم کئے ہیں ان کا بدلہ لیں گے جب آپﷺ~ مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے تو یہ معاہدہ موجود تھا۔ جب آپﷺ~ جنگ بدر کے لئے باہر تشریف لے گئے اور خدا تعالیٰ نے الہاماً آپﷺ~ کو یہ خبر دے دی کہ آپﷺ~ کا مقابلہ قافلہ سے نہیں ہوگا بلکہ مکہ سے آنے والے لشکر کے ساتھ ہوگا تو آپﷺ~ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پر ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوا اور اس نے کہا یارسول اللہ~صل۱~ جب ہم مدینہ سے لڑائی کے لئے نکلے ہیں تو بہرحال ہمیں لڑائی سے بھاگنا نہیں چاہئے۔ یارسول اللہ~صل۱~ اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہر ایک کا جواب سن کر آپﷺ~ یہی فرماتے لوگو مجھے مشورہ دو` لوگو مجھے مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اس وقت تک خاموش تھے جب رسول کریم~صل۱~ نے بار بار فرمایا مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مرادہم باشندگان مدینہ سے ہے۔ آپﷺ~ نے فرمایا ہاں۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب کررہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپﷺ~ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپﷺ~ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم اس میں حصہ لینے کے پابند نہیں ہوں گے۔ آپﷺ~ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اس نے کہا یارسول اللہ~صل۱~ جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا ہم پر آپﷺ~ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہ ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم نے آپ کے معجزات اور نشانات دیکھ لئے ہیں ہم آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہوچکی ہے یارسول اللہ~صل۱~ اب اس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں ہم موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون۹body] gat[کہ جا تو اور تیرا رب اپنے دشمنوں سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یارسول اللہ~صل۱~ دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے۔ یارسول اللہ~صل۱~ جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو اور ہم بلادریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔ یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو اسلام میں داخل ہونے کے بعد صحابہؓ کے اندر پیدا ہوگیا۔ پس حقیقت یہی ہے کہ لوگ احمدیت سے واقفی ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ خداتعالیٰ نے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس تاریک زمانہ میں اس نے اپنا ایک مامور بھیجا تا وہ اسلام کو باقی ادیان پر غالب کردے۔ ان لوگوں کے پاس جائو اور ان سے دریافت کرو کہ ہم کافر ہی سہی مان لیا ہم قرآن کریم کے منکر ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کے مخالف ہیں لیکن یہ تو بتائو کہ ہم نے امریکہ اور لنڈن میں مسجدیں بنائی ہیں کیا مسجدیں کافر بناتے ہیں۔ پھر یہ بتائو کہ دوسرے فرقوں کے نوجوان لہو ولعب میں اپنا وقت بسرکررہے ہیں لیکن ہمارے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرکے محض خدا کی خاطر باہر نکل گئے ہیں اور وہ کافروں کو مسلمان بنارہے ہیں کیا یہ کام کافر کتے ہیں۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا صرف کافر کو ہی محمد رسول اللہ~صل۱~ سے عشق ہے مومن کو آپ سے عشق نہیں۔ میں نے ایک دفعہ احرار کو یہ چیلنج دیا تھا کہ تم بھی تبلیغ کی غرض سے باہر نکل کھڑے ہو اور ہم بھی تبلیغ کے لئے باہر نکل آتے ہیں پھر دیکھیں گے کہ کس کی کوشش کے نتیجہ میں اسلام پھیلتا ہے لیکن اس چیلنج کا جواب موصول نہیں ہوا۔ اگر ان کے پاس سچائی ہے تو وہ میدان میں کیوں نہیں آتے۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جو لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں اور عشق رسول~صل۱~ کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی اسلام کی اشاعت کے لئے باہر نکل کھڑے ہوں ہم بھی باہر نکلتے ہیں اگر ہم جھوٹے ہیں تب بھی اسلام کے لئے بہرحال یہ طریق مفید ہوگا اور دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ اسلام کے لئے اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کے لئے کون قربانی کرتا ہے اور محض زبانی دعووں پر کون اکتفاء کرتا ہے۔ لیکن ہوتا کیا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ میرا چیلنج قبول کرتے ہمارے خلاف جلسے کرتے ہیں اور تقریروں میں یہ فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بھی بدتر ہے شراب پی جاسکتی ہے لیکن ان کی چائے پینا جائز نہیں۔ ان کا پکا ہوا گوشت خنزیر کے گوشت سے بھی بدتر ہے تم سور کا گوشت کھالو لیکن ان کا پکا ہوا گوشت نہ کھانا۔ کیا ان فتووں سے محمد رسول اللہ~صل۱~ اور اسلام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اسلام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو اس طرح کہ میرا مبلغ اگر دس مسلمان بناتا ہے تو یہ بیس مسلمان بنائیں- میرا مبلغ اگر ایک روٹی کھا کر گزارہ کرتا ہے تو یہ آدھی روٹی کھائیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو کیا میری آنکھیں کھل نہ جائیں گی۔ یہ کتنا بڑا نشان ہوگا تمہاری صداقت کا اور اس سے اسلام کو کتنا بڑا فائدہ پہنچے گا۔ ہماری لڑائی بھی ختم ہوجائے گی اور مقابلہ بھی ہوجائے گا۔ مثلاً یہ تو مقابلہ ہوگا کہ دریا کا بند ٹوٹ جائے تو کون دریا کا بند باندھتا ہے۔ یہ خدمت خلق کا کام ہے لیکن اگر ہم بند بنانے سے پہلے آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور لوگ پانی کی زد میں آکر تباہ و برباد ہوجائیں تو کیا یہ خدمت خلق ہوگی۔ غرض اگر یہ لوگ اپنے دعووں میں سچے ہیں تو یہ بھی تبلیغ کے لئے باہر نکل جائیں اور ہم بھی تبلیغ کے لئے باہر جاتے ہیں پھر جو فریق جیت جائے گا اسے حق ہوگا کہ وہ معاہدے کو جھوٹا کہہ سکے اور لوگ بھی سمجھ لیں گے کہ کونا جیتا اور کون ہارا اور اس سے اسلام کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ لیکن مارنے` گالیاں دینے اور اس قسم کے فتوے دینے میں کیا رکھا ہے۔ کیا رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کے صحابہؓ کو پتھر نہیں پڑتے تھے۔ ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان آئے اور انہوں نے ایک لیکچر دیا اور لوگوں کے سامنے یہ پیش کی کہ میاں محمود احمد بھی کلکتہ جائیں اور میں بھی کلکتہ جاتا ہوں پھر دیکھیں گے کہ کس پر پتھر پڑتے ہیں اور کس پر پھول برستے ہیں بلکہ اس چیز کا پتہ امرتسر کے اسٹیشن پر ہی لگ جائے گا۔ لوگ اس بات کو سن ک نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگے ان کی اس بات کا جواب میں نے اسی دن عصر کے وقت دیا کہ مولوی صاحب نے خود ہی اس جھگڑے کا فیصلہ کردیا مجھے اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا ہے کہ کلکتہ تک جاکر ہم دیکھتے ہیں کہ پتھر کس کو پڑتے ہیں اور پھول کس پر برسائے جاتے ہیں۔ آپ عالم آدمی ہیں احادیث نکال کر دیکھیں کہ مکہ والے پتھر کو کس مارتے تھے اور پھول کس پر پھینکتے تھے اگر پتھر رسول کریم~صل۱~ کو پڑتے تھے اور پھول ابوجہل پر پھینکے جاتے تھے تو میں سچا اور یہ جھوٹے۔ لیکن اگر پھول رسول کریم~صل۱~ پر پھینکے جاتے تھے اور پتھر ابوجہل کو مارے جاتے تھے تو میں جھوٹا اور یہ سچے۔
رسول کریم~صل۱~ جب تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے تو طائف والوں نے لڑخوں کو اکسایا انہوں نے آپﷺ~ پر پتھر پھینکنے شروع کردئے آپﷺ~ وہاں سے چلے آئے اور رستہ میں ایک باغ میں پناہ گزین ہوئے۔ آپﷺ~ کے ساتھ حضرت زیدؓ بھی تھے اور وہ بھی زخمی تھے۔ آپ کے پائوں سے لہو بہہر رہا تھا۔ وہ باغ اتفاقاً آپ کے ایک شدید دشمن کا تھا۔ مکہ میں زراعت نہیں ہوتی تھی اس لئے بعض لوگوں نے مکہ سے باہر زمین خرید کے باغات لگائے ہوئے تھے رسول کریم~صل۱~ اس باغ کے کنارے پر بیٹھ گئے اس لئے کہ اگر آپ اس کے اندر گئے تو باغ کا مالک کیا کہے گا۔ ایسے موقع پر ایک شدید سے شدید دشمن میں بھی شرافت کا احساس پیدا ہوجاتا ہے جب اس باغ کے مالک نے رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کے ساتھی حضرت زیدؓ کی یہ حالت دیکھی تو اس نے کہا ان پر ظلم ہوا ہے خود تو اسے جرات نہ ہوئی اس نے اپنے ایک غلام کو جو نینوا شہر کا رہنے والا تھا حکم دیا کہ ان کو اچھے اچھے انگور کھلائو وہ غلام انگور لے کر آپ کے پاس گیا اس نے جب آپ کو سر سے پائوں تک زخمی دیکھا تو وہ حیران ہوا اور آپ سے دریافت کرنے لگا کہ ایسا کیوں ہوا۔ آپ نے فرمایا میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور وہ مجھے مارتے ہیں۔ وہ غلام عیسائی تھا جب اس نے آپ سے تمام قصہ سنا تو عیسائیت کی یاد اس کے دل میں پھر تازہ ہوگئی اس نے محسوس کیا کہ اس کے سامنے خدا کا ایک نبی بیٹھا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم~صل۱~ نے اس غلام سے کہا اے میرے بھائی یونس بن متی کے بیٹے میں تمہیں خدا تعالیٰ کی کچھ باتیں سنانا چاہتا ہوں چنانچہ آپ نے اسے تبلیغ شروع کی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول کریم~صل۱~ سے لپٹ گیا اور آپ کے سر` ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا۔ باغ کے مالک نے پہلے تو ترس کھا کر رسول کریم~صل۱~ کے لئے انگور بھیجے تھے لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کا غلام عقیدت مندانہ طور پر آپ کے پاس بیٹھا ہے تو وہ غضب ناک ہوگیا اور اپنے غلام کو بلا کر کہنے لگا یہ شخص میرا رشتہ دار ہے۔ میں جانتا ہوں یہ مجنون ہے اس غلام نے کہا یہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی باتیں تو نبیوں والی معلوم ہوتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں جب اوکھلی میں سردیا تو موہلوں کا کیا ڈر۔ اگر کوئی صداقت کی مخالفت کرتا ہے تو کسی مومن کو مخالفت سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جب شہید کیاجارہا تھا تو دیکھنے والوں کا بیان ہے اور انہوں نے شہادت دی ہے کہ جب آپ پر پتھر برسائے جارہے تھے اس وقت آپ یہ کہہ رہے تھے اے اللہ! تو ان لوگوں پر رحم کر دراصل ان کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں یہ مجھے جھوٹا اور مرتد خیال کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ایک نیکی کا کام کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے اندر سچائی ہوتی ہے وہ تکالیف اور مصائب سے گھبراتا نہیں۔ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ اپنا رستہ چھوڑ نہیں دیتا وہ کہتا ہے اچھا جتنا ستانا ہے ستالو۔ جب اس کے پاس حقیقت ہے تو وہ ڈرے گا کیوں۔ ہاں اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس سچائی نہیں تو وہ بے شک ڈرے گا۔ رسول کریم~صل۱~ کے پاس بجز ان کے عیسائیوں کا جب وفد گیا تو ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ مسجد میں بیٹھ کر گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہوگئی۔ وہ باتیں سنتے رہے آخر انہوں نے کہا ہماری نماز کا وقت ہوگیا ہم باہر جاکر نماز ادا کرلیں۔ نبی کریمﷺ~ نے فرمایا آپ اپنی عبادت ہماری مسجد میں ادا کرلیں آخر ہماری مسجد خدا تعالیٰ کے ذکر ہی کے لئے بنائی گئی ہے لیکن اب یہ رواداری باقی نہیں مسجدوں پر اب یہ لکھا ہوا ہوتا ہے اس مسجد میں کئی وہابی کتا یا مرزائی سور داکل نہ ہو۔ رسول کریم~صل۱~ جن کی اتباع کا یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں وہ تو عیسائیوں سے فرماتے ہیں تم اپنی عبادت ہماری مسجد میں ہی کرلو لیکن یہ لوگ مسلمانوں کو بھی مسجد میں عبادت کرنے سے منع کرتے ہیں اب یہ حدیث میری لکھی ہوئی نہیں ہے میں اس وقت موجود نہیں تھا جب بخاری اور مسلم لکھی گئی تھی۔ انہیں پتہ بھی نہیں تھا کہ میں کس زمانہ میں پیدا ہوں گا۔ جب فتح مکہ ہوئی تو رسول کریم~صل۱~ نے چند لوگوں کے متعلق یہ احکام نافذ کئے تھے کہ جہاں کہیں بھی وہ ملیں قتل کر دئے جائیں ان لوگوں میں ایک عکرمہؓ بھی تھے۔ آپﷺ~ کے پاس عکرمہؓ کی بیوی آئی اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱~ آپ میرے خاوند کو قتل کرنے کے احکام واپس لے لیں اور اسے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے مکہ میں رہنے کی اجازت دیں۔ آپﷺ~ نے فرمایا اچھا اگر وہ یہاں آجائے تو ہم صرف اسے معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ اس کے مذہب میں مداخلت بھی نہیں کریں گے۔ یہ تو رسول کریم~صل۱~ کا طریق تھا مگر ہمارے مخالف کہتے تو یہ ہیں کہ رسول کریم~صل۱~ ہمارے آقا اور سردار ہیں مگر جو کام یہ لوگ کرتے ہیں وہ آپ کے رویہ کے خلاف ہیں اگر یہ سب لوگ محمد رسول اللہ~صل۱~ والے کام کرنے لگ جائیں تو دشمن کس طرح اسلام سے باہر جاسکتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کے پاس ایک یہودی آیا آپﷺ~ نے اسے کھانا وغیرہ کھلایا اور رات وہ وہیں سو گیا لیکن جاتے ہوئے وہ بستر پر پاخانہ کرگیا۔ رسول کریم~صل۱~ نے جب دیکھا تو فرمایا تم نے مہمان پر ظلم کیا کہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ نہ بتائی چونکہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ کا پتہ نہیں لگا اس لئے وہ بستر پرہی پاخانہ پھر گیا۔ آپﷺ~ نے ایک عورت کو بلایا اور اسے فرمایا تم پانی ڈالتی جائو اور میں خود کپڑا دھوتا ہوں۔ اس عورت نے پانی ڈالتے ہوئے کہا خداتعالیٰ اس شخص کو غارت کرے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا گالی مت دو پتہ نہیں اسے کتنی تکلیف ہوئی ہو۔ یہ آپﷺ~ کے اخلاق فاضلہ کا ہی نتیجہ تھا کہ لوگ آپ کے پاس آتے اور مسلمان ہوتے جاتے۔ جب نور قلب پیدا ہوجائے` جب وسعت قلب نصیب ہوجائے اور جب روحانیت دکھائی جائے تو کیا کسی کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ جہنم میں جائے تنور میں جان بوجھ کر کوئی نہیں پڑتا جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے غلط فہم کی بناء پر جائیں گے۔ پس تم ان کے پاس جائو اور انہیں سمھائو۔ جب ان کے اندر نور ایمان پیدا ہوجائے گا` جب ان کی محبت تیز ہوجائے گی تو جو لوگ آج تمہارے مارنے کا فتویٰ دیتے ہیں اگر کوئی تمہیں پتھر مارے گا تو وہ خود اپنے سینہ پر لیں گے۔ رسول کریم~صل۱~ کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص نے بظاہر اسلام قبول کرلیا اور وہ جنگ حنین میں شریک ہوا لیکن اس کی نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پاکر رسول کریم~صل۱~ کو شہید کردوں گا۔ جب لڑائی تیز ہوئی تو اس شخص نے تلوار کھینچ لی۔ رسول کریم~صل۱~ اس وقت اکیلے تھے صرف حضرت عباسؓ ساتھ تھے۔ اس شخص نے موقع غنیمت جانا اور آگے بڑھ کر وار کرنا چاہا۔ خدا تعالیٰ نے رسول کریم~صل۱~ کو الہاماً بتادیا کہ اس شخص کے اندر مخالفت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ وہ شخص خود شہادت دیتا ہے میں آپ کی طرف بڑھتا گیا اور میں خیال کرتا تھا کہ اب میری تلوار آپﷺ~ کی گردان اڑا دے گی لیکن جب میں آپﷺ~ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور سینہ پر رکھ کر فرمایا اے خدا تو اس کو شیطانی خیالات سے نجات دے اور اس کے بغض کو دور کردے۔ وہ شخص کہتا ہے کہ مجھے یکدم یوں معلوم ہوا کہ آپﷺ~ سے زیادہ پیاری چیز اور کوئی نہیں۔ اس کے بعد رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا آگے بڑھو اور لڑو میں نے تلوار سونت لی اور خدا کی قسم اگر اس وقت میرا باپ بھی زندہ ہوتا اور وہ میرے سامنے آجاتا تو میں اپنی تلوار اس کے سینہ میں گھونپ دینے سے بھی ذرا دریغ نہ کرتا۔ یہ محبت تھی جس نے اس کی دشمنی کو دور کردیا۔
پس تم محبت سے تبلیغ کرو اور نرمی سے سمجھائو اور دعائیں کرو کہ خداتعالیٰ ان لوگوں کے اندر بھی محبت پیدا کرے ان کی دنیاداری بغض اور کینہ و فساد کی آگ کو مٹادے اور انہیں ایمان بخشے` انہیں اسلام کی محبت بخشے` محمد رسول اللہ~صل۱~ کی اطاعت کا جذبہ بخشے اور بجائے اس کے کہ یہ ہمیں مارتے پھریں یہ بھی آگے بڑھیں اور عیسائیت کے سینے میں خنجر گھونپ دیں<۔۱۰
اس تقریر کے بعد حضور نے حاضرین سمیت دعا فرمائی۔
دعوت چائے میں شرکت اور مراجعت
جلسہ کے بعد میاں فضل الرحمن صاحب و میاں محمد اقبال صاحب پراچہ نے حضور کے اعزاز میں دعوت عصرانہ پیش کی جس میں کوئی ڈیڑھ سو سے زائد احمدی و غیر احمدی معززین مدعو تھے۔ چائے کے اختتام پر بعض غیراحمدی دوستوں کی فرمائش پر اور حضور کی اجازت سے جناب ثاقب زیروی صاحب نے اپنی ایک نظم >میرا جواب< سنائی۔ حضور سے بعض غیر احمدی معززین کا تعارف کرایا گیا۔ ان تمام تقاریب کے بخیروخوبی پذیر ہونے کے بعد حضور معہ قافلہ شام کو چھ بج کر دس منٹ پر واپس عازم ربوہ ہوگئے۔
اس مبارک سفر میں ۲۶۔ نومبر )نبوت( کی صبح سے لیکر رات کے دس بجے تک مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سرگودھا اور میاں محمد اقبال صاحب پراچہ کو حضور کی معیت کا شرف حاصل کرنے اور انتظامات کی نگرانی کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔۱۱
تیسرا باب )فصل دوم(
کوائف قادیان )۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء(
یہ سال تنظیمی` تعلیمی اور تبلیغی لحاظ سے بہت مبارک سال تھا۔ کیونکہ اس میں قادیان نے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی دعائوں اور توجہات و ہدایات کی بدولت اپنی پوزیشن ایک فعال مرکز کی حیثیت سے پہلے سے بہت مضبوط ومستحکم بنالی اور ہندوستان میں جماعت احمدیہ کی ترقی کا میدان بھی وسیع سے وسیع تر ہوگیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی اہم سکیم
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے وسط ماہ نبوت ۳۲۸ہش )نومبر ۱۹۴۹ء( میں قادیان اور بھارت کی دیگر احمدی جماعتوں کی تنظیم جدید کے لئے ایک اہم سکیم تجویز فرمائی جس کی تفصیلات ایک مکتوب سے ملتی ہیں جو حضور نے ۱۴` ۱۵۔ ماہ نبوت ۱۳۲۸ہش کو امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام تحریر فرمایا۔ حضور نے لکھا کہ:۔
>اب آپ کو پوری طرح کوشش کرنی چاہئے کہ مختلف جگہوں سے پچیس تیس آدمی کم سے کم` مستقل مہاجر ہوکر قادیان آجائیں اور پچیس تیس آدمیوں کو قادیان سے فارغ کرکے ادھر بھجوا دیا جائے کیونکہ غالباً اتنے لوگ وہاں ہیں جو ادھر آنا چاہتے ہیں یا ان کے حالات ایسے ہیں کہ ان کو ادھر بھجوا دینا چاہئے۔ اس طرح دس بارہ نوجوانوں کو بلوا کر دیہاتی مبلغوں کی طرح تعلیم دینی چاہئے۔ ملکانہ` مالابار` بہار اور بنگال سے ایسے آدمی منگوانے چاہئیں ۔۔۔۔۔۔ اور جو موجودہ دیہاتی مبلغ ہیں وہ تین سال سے پڑھ رہے ہیں ان کو باہر بھجوانا چاہئے تا وہ کام کریں۔ پہلے موجودہ جماعتوں کو سنبھالنے اور ان کو بڑھانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ اس کے بعد نئے نئے تبلیغی مرکز مختلف صوبوں میں کھولنے چاہئیں۔ یہ وقت انتہائی کوشش کا ہے کوئی مشکل نہیں کہ اگر آپ لوگ توجہ کریں تو سال ڈیڑھ سال میں لاکھ دو لاکھ جماعت ہندوستان میں پیدا نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو چھ سات لاکھ سالانہ کی آمد آسانی سے قادیان میں ہوتی رہے گی جو زمانہ کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی اور آپ لوگ پھر مدرسہ احمدیہ` دینیات کالج` ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج وہاں بنانے کی توفیق پالیں گے۔ جو زمانہ زندہ رہنے کی کوشش کا تھا اللہ تعالیٰ نے خیریت سے اس زمانہ کو گزار دیا ہے اب آپ نے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے۔ نئے ماڈل سوچنے کا ابھی سوال نہیں۔ قادیان میں جو کچھ پہلے تھا اسے دوبارہ قائم کرنے کے لئے کسی سکیم کے سوچنے کی ضرورت نہیں وہ سکیم تو سامنے ہی ہے اس کے لئے صرف ان باتوں کی ضرورت ہے:۔
اول:۔ قادیان میں عورتوں` بچوں کا مہیا کرنا۔ اڑیسہ` کان پور اور بہار میں بہت غریب عورت مل جاتی ہے جو شادیاں کرسکتے ہیں ان کی ان علاقوں میں شادیاں کروائیے اور قادیان میں عورتیں بسوائیے۔
دوم:۔ ہزاروں ہزار مسلمان جو مارا گیا ہے ان کے بیوی بچے ابھی دہلی اور اس کے گردونواح میں موجود ہیں ایسے پندرہ بیس بچے منگوائے اور پرائمری سکول کھول دیجئے۔ دس بیس نوجوان باہر سے وقف کی تہریک کرکے دیہاتی مبلغ بنانے کے لئے منگوائے اور مدرسہ احمدیہ قائم کردیجئے۔ اگر پرانا پریس نہیں ملتا تو نئے پریس کی اجازت لیجئے۔ دستی پریس پتھروں والا ہو یہ سو دو سو میں آجاتا ہے بلکہ خود قادیان میں بنوایا جاسکتا ہے اس پر ایک پرچہ ہفتہ وار چھاپنا شروع کردیجئے۔ آپ لوگوں کے لئے کام اور شغل نکل آئے گا۔ کچھ لوگ کاتب بن جائیں گے` کچھ کاغذ لگانے والے اور ہتھی چلانے والے بن جائیں گے اور کئی لوگوں کے لئے کام نکل آئے گا۔ آبادی بڑھے گی تو خالی جگہوں کو دیکھ کر لوگوں کو جو لالچ پیدا ہوجاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور جو خالی ٹکڑے پڑے ہیں ان میں نئی عمارتیں بن جائیں گی۔
سوم:۔ حکیم خلیل احمد صاحب میرے خیال میں اگر وہاں آجائیں یا اور کوئی حکیم تو ایک مطب بھی کھول دیا جائے اور ایک طبیہ کلاس کھول دی جائے۔ دیہاتی مبلغ بھی طب سیکھیآں اور مرزا وسیم احمد صاحب بھی طب سیکھ لیں اور ایک بہت بڑا دواخانہ کھول دیا جائے جس کی دوائیں سارے ہندوستان میں جائیں۔ خدا چاہے تو لاکھوں کی آمدنی اس ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔ یہ خط تمام ممبران انجمن کو سنادیں تا سب لوگ اس سکیم کو اپنے سامنے رکھیں اور جلد سے جلد اس سکیم کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے<۔
اس سکیم کو جلد از جلد بروئے کار لانے کے لئے حضور نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱۔ صلح ۱۳۲۹ہش/ جنوری ۹۵ء میں تاکیدی ارشاد فرمایا کہ:۔
>ایک ہی طریق آپ کے لئے کھلا ہے کہ ہندوستان سے نئے آدمی منگوائے ۔۔۔۔۔۔۔ اور جو پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں واپس آجائیں ۔۔۔۔۔۔ ایک سو پینتیس آدمی کی درخواست آچکی ہے جو پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں۔ وہ قریباً سب کا سب ایسا ہے جس کو سلسلہ خرچ دے رہا ہے۔ وہی خرچ پر ہندوستان والوں کو کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ وہاں ہندوستان والے آدمی بلا لئے جائیں انہیں گزارے دئے جائیں اور جو آدمی واپس کئے جانے چاہئیں ان کو واپس کروا دینا چاہئے۔ ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ سو ہے کیونکہ سب پاکستان واپس آنا نہیں چاہتے۔ پس آسانی کے ساتھ یہ تبادلہ ہوسکتا ہے بغیر قادیان کو خطرہ میں ڈالنے کے<۔
نیز فرمایا:۔
>قادیان ایک مذہبی مرکز ہے مقبرہ یا درگاہ نہیں ہے۔ تبلیغ کے وسیع رستے ہندوستان میں کھلے ہیں پاکستان سے بھی زیادہ۔ لیکن نئے علماء پیدا کرنے کی کوشش نہیں ہورہی۔ ہم پاکستان سے تو علماء وہاں نہیں بھیج سکتے یہی چھ سات علماء جو وہاں ہیں انہوں نے ہی علماء پیدا کرنے ہیں۔ اگر نئے علماء پیدا کئے بغیر یہ لوگ مرگئے تو وہ علاقہ علماء سے خالی ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ بیس دیہاتی مبلغ قادیان میں بیٹھا ہے میں بار بار لکھتا ہوں کہ ان کو باہر نکالو اور ان کی جگہ ہندوستان سے دوسرے آدمنی منگوائو۔ یہ بیس آدمی اگر سارے ہندوستان میں تبلیغ کرے گا تو کتنا بڑا تغیر پیدا ہوجائے گا ۔۔۔۔۔۔ اگر بیس خاندان باہر سے منگوائے جائیں اور انہیں تیس روپیہ ماہوار دیا جائے تو چھ سو روپیہ ماہوار خرچ پڑے گا۔ ایک تو یہ فائدہ ہوگا کہ ان کے بیوی بچے بھی ساتھ آجائیں گے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ آزادی کے ساتھ ملک میں پھر سکیں گے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بیس نئے شہروں میں ہماری تبلیغ شروع ہوجائے گی صرف بیس شہروں کی تنظیم سے ہی چھ سو روپیہ چھوڑ کر ایک ہزار روپیہ ماہوار کی آمد بڑھ جائے گی<۔
نظام عمل میں خوشگوار تغیر
حضور کے ان تاکیدی ارشادات نے درویشان قادیان کے نظام عمل میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا کردی اور اس کے متعدد اثرات رونما ہوئے۔ مثلاً:۔
۱۔
۲۲۔ شہادت )اپریل( کو قادیان سے بارہ مبلغین ہندوستان کے مختلف اطراف میں بھجوائے گئے جس کے نتیجہ میں جماعت کی تربیت و تبلیغ میں نئی روح پیدا ہوگئی۔
۲۔
یوپی سے ۳۵ احمدی خاندان مستقل ہجرت کرکے قادیان میں آگئے جس سے قادیان کی احمدی آبادی میں اضافہ ہوا۔
۳۔
احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے پرائمری سکول جاری ہوا۔
‏]in [tag۴۔
نئے مبلغین پیدا کرنے کے لئے جامعتہ المبشرین کا قیام عمل میں لایا گیا۔۱۲
۵۔
مشرقی پنجاب میں بعض غیر مسلموں نے خفیہ طور پر قبول اسلام کیا اور بعض نومسلم خوش عقیدگی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعودؓ کا تبرک بھی مانگنے لگے۔۱۳
۶۔
نظارت بیت المال قادیان کے ماہ وفا ۱۳۲۹ہش کے گوشوارہ آمد سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک ہندوستان و کشمیر کی حسب ذیل جماعتیں جماعت احمدیہ کے مالی جہاد میں سرگرم عمل ہوچکی تھیں:۔
قادیان۔ دہلی۔ بجوپور۔ شاہجہان پور۔ انبیٹہ۔ لکھنو۔ ساندھن۔ علی گڑھ۔ جے پور۔ اٹاوہ۔ میرٹھ۔ کانپور۔ راٹھ مسکرا۔ بنارس۔ علی پور کھیڑا۔ امروہہ۔ رام پور۔ کشن گڑھ۔ جھانسی۔ صالح نگر۔ مظفر نگر۔ پٹنہ۔ بھاگلپور۔ موسی بنی مائنز۔ خانپور ملکی۔ مہوبھنڈار۔ مونگھیر۔ جمشید پور۔ کلکتہ۔ دارجیلنگ۔ سونگھڑ۔ بھدرک۔ پنکالو۔ کرڑاپلی۔ کٹک۔ سری یا ریدن یدا۔ پوری۔ کیرنگ۔ کوٹپلہ۔ کندرہ باڑہ۔ او ایم پی۔ سنبل پور۔ سرلونیا گائوں۔ بمبئی۔ وینگوالا۔ باندھ۔ حیدرآباد۔ سکندر آباد۔ یادگیر۔ دیوورگ۔ اوٹکور۔ رائچور۔ شموگہ۔ کینانور۔کالی کٹ۔ بنگلور۔ پینگاڈی۔ سامان کولم۔ ٹیلی چری۔ آسنور۔ شورت۔ماندوجن۔ کنہ پورہ۔ بانڈی پورہ۔ بھدرواہ۔
یہ صرف ان جماعتوں کے نام ہیں جنہوں نے ماہ وفا ۱۳۲۹ہش میں مرکزی چندوں میں حصہ لیا۔ اس ماہ حیدرآباد دکن نے سب سے زیادہ چندہ دیا دوسرے نمبر پر قادیان اور تیسرے نمبر پر مدراس و میسور کی جماعتیں رہیں۔
۷۔
اس سال )ماہ ہجرت میں( ۲۴ درویش اپنے گھر یلو حالات کی وجہ سے پاکستان آئے۔
۸۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کوشش سے اس سال درویشوں کو پہلی بار یہ موقع ملا کہ وہ واہگہ کی ہندو پاک سرحد پر اپنے اعزہ و اقارب سے ملاقات کرسکیں۔ چنانچہ اس دور کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں پہلی ملاقات ۲۹۔ ماہ ہجرت ۱۳۲۹ہش کو ہوئی اور حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ بھی اس موقع پر تشریف لائے چنانچہ انہوں نے ۳۱۔ ہجرت ۱۳۲۹ہش کو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا:۔
>۲۸۔ مئی شام کی گاڑی سے میں معہ بارہ چودہ درویشوں کے )اپنے اپنے عزیزان کی ملاقات کے لئے( واہگہ گیا تھا۔ یہ سب درویش ایسے تھے جن کے رشتہ داروں کی طرف سے بذریعہ تار یا خطوط اطلاعات آچکی تھیں چنانچہ ۲۹۔ مئی کی صبح ۲/۹۱ بجے ہم سب نے ملاقات کی سوائے دو درویشوں کے باقی سب کے ورثاء آئے ہوئے تھے۔ پاکستان کی طرف سے ایک سو افراد تشریف لائے۔ ملاقات دن میں دوبار ہوتی ہے بعض دوستوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کو پھر ملاقات کریں میں چونکہ صرف ایک رات کے لئے باہر گیا تھا اس لئے بمجبوری مجھے تو واپس آنا پڑا اور باقی درویش وہیں رہ گئے اور وہ شام کو دوبارہ ملاقات کرکے دوسرے دن واپس آئے<۔
۲۹۔ ماہ ہجرت/ مئی کے بعد ۱۵۔ احسان/ جون کو قریباً ایک سو پاکستانی احمدی بچوں اور خواتین نے درویشوں سے ملاقات کی۔ ۷۔ احسان/ جون کو ۸۰ افرا دکو باہمی ملاقات کا موقع میسر آیا۔
تیسرا باب )فصل سوم(
سالانہ جلسہ قادیان ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء اور حضرت مصلح موعودؓ کا روح پرور پیغام
اس سال بھی سالانہ جلسہ قادیان ۲۶۔ ۲۷۔۲۸۔ فتح ۱۳۲۹ہش/ دسمبر ۱۹۵۰ء کی مقررہ تاریخوں میں منعقد ہوا۔ اس مقدس تقریب پر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے حسب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا:۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
اے برادران کرام جو قادیان میں مسنون جلسہ سالانہ کے موقع پر ہندوستان کے مختلف کناروں سے جمع ہوئے ہیں میں پہلے تو آپ لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ایام میں خدائے وحدہ لاشریک کا ذکر بلند کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت ایک صوفیوں کا فرقہ نہیں ہے بلکہ احمدیت ایک تحریک ہے` ایک پیغام آسمانی ہے جو دنیا کو بیدار کرنے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے کے لئے ایسے وقت میں نازل ہوا ہے جبکہ دنیا خدا کو بھول چکی تھی اور مذہب سے بیزار ہوچکی تھی اور اسلام ایک نام رہ گیا تھا اور قرآن صرف ایک نقش رہ گیا تھا۔ نہ اسلام کے اندر کوئی حقیقت باقی رہ گئی تھی اور نہ قرآن کے اندر کئی معنے رہ گئے تھے۔ اسلام اسلام کہنے والے اسلام پر غور کرتے تھے نہ قرآن پڑھنے والے قرآن کے معنے سمجھتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس غفلت اور اس سستی کو دور کرے اور اسلام کو نئے سرے سے دنیا میں قائم کرے اور پھر اپنا وجود اپنے تازہ نشانوں کے ساتھ دنیا پر ظاہر کرے اور رسول کریم~صل۱~ کے روحانی کمالات اپنے پیروئوں اور اپنے جانشینوں کے ذریعہ سے دنیا کو دکھلائے اور آپﷺ~ کے حسن سے جہان کو روشناس کرے۔ پس جہاں تک فرد کی اصلاح کا سوال ہے کسی ایک فرد کا بھی اس طریق کار کو اختیار کرلینا احمدیت کے مقصد کو پورا کردیتا ہے لیکن جہاں تک اسلام کو دنیا میں پھیلانے کا سوال ہے کسی ایک فرد یا دس ہزار افراد کے ساتھ بھی یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا بلکہ یہ مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جبکہ اسلام اور احمدیت کے پیغام کو ہندوستان اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا دیا جائے` سوتوں کو جگایا جائے` غافلوں کو ہوشیار کیا جائے` وہ جن کو توجہ نہیں ان کو توجہ دلائی جائے` وہ جو اسلام سے متنفر ہیں ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا کی جائے` جو اسلام سے ناواقف ہیں انہیں اسلام سے واقف کیا جائے۔ کوئی کان نہ رہے جس میں اسلام اور احمدیت کی آواز نہ پڑے۔ کوئی آنکھ نہ رہے جو احمدیت کے لٹریچر کے پڑھنے سے محروم ہو۔ کوئی دل باقی نہ ہو جس کو خدائے وحدہ لاشریک کے سندیسے سے آگاہ نہ کردیا جائے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کام بغیر تنظیم کے` بغیر کوشش کے` بغیر جدوجہد کے` بغیر سعی لامتناہی کے پورا نہیں ہوسکتا۔ آپ کے دل بے شک اس صدمہ سے چور ہوں گے کہ ایک بڑی بھاری جماعت کٹ کے ٹکڑے ہوگئے ہے اور آپ ہندوستان جیسے وسیع ملک میں تھوڑے سے رہ گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگ جو آج قادیان میں جمع ہوئے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۱ء کے جلسہ میں قادیان میں جمع ہوئے تھے۔ وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۲ء کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے۔ وہ ان سے بھی بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۳ء کے جلسہ قادیان میں جمع ہوئے تھے۔ وہ ان سے بھی زیادہ ہیں جو ۱۸۹۴ء کے جلسہ میں قادیان میں جمع ہوئے تھے۔ اور وہ ان سے بھی زیادہ ہیں جو ۱۸۹۵ء کے جلسہ میں قادیان میں جمع ہوئے تھے۔ لیکن یہ ۱۸۹۱ء اور ۱۸۹۲ء اور ۱۸۹۳ء اور ۱۸۹۴ء اور ۱۸۹۵ء میں قادیان میں جمع ہونے والے لوگ ہر سال اس یقین سے زیادہ سے زیادہ معمور ہوتے چلے جاتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آنے والے ہیں اور دنیا کو احمدیت کی تعلیم منوانے والے ہیں۔ آپ لوگ تو ان سے بہت زیادہ ہیں۔ آپ کی مالی حیثیت بھی ان سے زیادہ ہے۔ آپ کی دنیوی تعلیمیں بھی ان سے زیادہ ہیں۔ صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ ان لوگوں والا ایمان پیدا کریں اور یہ آپ کے لئے کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ وہ نشان جو ان لوگوں کے سامنے تھے ان سے بہت بڑے نشان آپ کے سامنے ہیں۔ ۱۸۹۵ء کے بعد تیرہ سال برابر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نشانات ظاہر ہوتے رہے اور آپؑ کی وفات سے لے کر اس وقت تک بھی آپ کے نشانات نئی نئی صورتوں میں دنیا پر ظاہر ہورہے ہیں۔ پھر خدا نے میرے ذریعہ سے بہت سے غیب ظاہر کئے ہیں جو کہ مردہ کو زندہ کرنے والے` بہروں کو شنوائی بخشنے والے اور اندھوں کو بینائی بخشنے والے ہیں۔ پس آپ کے ایمانوں کو زیادہ کرنے والے جو سامان موجود ہیں وہ ان لوگوں سے بہت زیادہ ہیں جو ۱۸۹۵ء کے لوگوں کو میسر تھے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کو ان نشانوں کے پڑھنے اور سوچنے اور ان پر غور کرنے میں صرف کریں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ ایسا کریں تو دنیا کی محبت آپ کے دلوں سے یقیناً سرد ہوجائے گی اور دین کی محبت کی آگ آپ کے دلوں میں سلگنے لگ جائے گی اور آپ صرف انہی نشانوں پر جو ظاہر ہوچکے ہیں زندہ نہیں رہیں گے بلکہ خدا تعالیٰ آپ کے اندر سے بولنے لگے گا اور آپ خود خدا تعالیٰ کا ایک نشان بن جائیں گے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارا خدا سب دنیا کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ اس کا مملوک اور غلام ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کی تمام بادشاہتیں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جتنا کہ ایک مچھر ایک ہاتھی کے مقابلہ میں حیثیت رکھتا ہے۔ پھر آپ کے حوصلوں کو پست کرنے والی کیا چیز ہے؟ صرف ارادے کی کمی ہے ورنہ نشانوں کی کوئی کمی آپ کے پاس نہیں۔ آج آپ لوگ یہ عہد کرلیں کہ ہم احمدیت کو نئے سرے سے پھر ہندوستان میں قائم کریں گے۔ اس کے گوشے گوشے میں احمدیت کا پیغام پہنچا دیں گے۔ اس کے خاندان خاندان سے احمدیت کے سپاہی نکال کر لائیں گے۔ اس کی قوم قوم کو احمدیت کا غلام بناکر چھوڑیں گے اور یہ کام مشکل نہیں ہے۔ حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے اور ناراستی ہمیشہ مغلوب ہوتی ہے۔
پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ ۱۔ ایک تو اس بات کا عزم کرلیں کہ ایک زندہ احمدی کی زندگی آپ بسر کریں گے نہ کہ مردہ احمدی کی۔ ۲۔ آپ اپنے علاقہ اور اس کے اردگرد احمدیت کے پیغام کو اس زور سے پھیلائیں گے کہ لوگ مجبور ہوجائیں اس پر کان دھرنے کے لئے اور لوگ مجبور ہوجائیں اس کو ماننے کے لئے۔ ۳۔ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ساتھ مل کر سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت کے لئے ایک وسیع سکیم بنائیں گے کہ ہندوستان کی ہر زبان بولنے والے کے لئے احمدی لٹریچر موجود ہو۔ ۴۔ اپنے نوجوانوں کو یہ تحریک کریں گے کہ وہ زندگیاں وقف کریں اور دین سیکھیں اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں دین پھیلانے کی طرف توجہ کریں۔ ۵۔ قادیان میں پریس کے قیام کے لئے کوشش کریں گے کہ بغیر قادیان میں پریس کے قیام کے باقاعدہ لٹریچر باہر کی جماعتوں کو نہیں پہنچ سکتا۔ ۶۔ اپنے چندوں میں باقاعدگی اختیار کریں گے اور نئے آنے والے احمدیوں پر بھی چندوں کی اہمیت ظاہر کریں گے تاکہ جماعتی فنڈ مضبوط ہو اور تبلیغ کے کام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے۔ ۷۔ جلسہ سالانہ میں تو اب آپ لوگ آنا شروع ہوہی گئے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی قادیان میں آتے رہیں گے تاکہ مرکز سے آپ کے تعلقات زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں اور آپ لوگوں کے آنے سے مرکز والوں کا حوصلہ بلند رہے اور مرکز کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے آپ کے ایمان میں تازگی ہو۔ اگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل کریں گے تو میں امید کرتا ہوں کہ اگلے سال کا جلسہ اس سال کے جلسے سے بہت بڑا ہوگا اور اگلے سال کی جماعت اس سال کی جماعت سے زیادہ مخلص ہوگی اور اگلے سال کی مالی وسعت اس سال کی مالی وسعت سے کہیں بڑھ کر ہوگی اور خدا تعالیٰ کے فضل کی ہوائیں چلنے لگ جائیں گی۔ مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے امیدیں دلوں میں کلبلانے لگ جائیں گی۔ عزم اور یقین قلوب میں ڈیرہ لگا لیں گے اور پھر احمدیت کی روحانی فوج بنی نوع انسان کو گھیر کر خدا تعالیٰ کے دروازے کے آگے لانے کے لئے ایک پرشوکت اور پرہیبت مارچ کررہی ہوگی۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ والسلام۔
خاکسار مرزا محمود احمد )خلیفتہ المسیح الثانی(۱۴
‏tav.12.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتش زدگی تک
کوائف جلسہ
اس جلسہ سالانہ میں ساڑھے تین سو کے قریب مقامی درویش بزرگوں اور بھائیوں کے علاوہ پاکستان کے ۹۷ افراد شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں مثلاً حیدرآباد دکن` بمبئی` بہار` یوپی` بنگال اور کشمیر سے اڑھائی سو احمدی احباب نے شرکت کی جن میں سے حضرت سیٹ عبداللہ الٰہ دین صاحبؓ` حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ` چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ` حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری اور حضرت سید وزارت حسین صاحب امیر جماعت ہائے صوبہ بہار کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ غیر مسلم حضرات بھی کثرت سے جلسہ میں شریک ہوتے رہے چنانچہ ۲۷۔ دسمبر کے دوسرے اجلاس میں نو سو کے قریب غیر مسلم حضرات موجود تھے۔ شہر کے ہندو سکھ معززین کے علاوہ ڈی سی صاحب گورداسپور۔ ڈی` ایس` پی صاحب گورداسپور آر` ایم صاحب بٹالہ۔ انسپکٹر صاحب سی` آئی` ڈی۔ پریذیڈنٹ صاحب میونسپل کمیٹی بٹالہ اور پبلسٹی آفیسرز گورداسپور و شملہ بھی جلسے میں شامل ہوئے۔ پروفیسر عبدالحمید صاحب سابق سفیر حکومت ہند متعینہ جدہ بھی تینوں دن جلسہ میں شامل ہوتے رہے۔
سٹیج کے دائیں طرف لوائے احمدیت لہرا رہا تھا جلسے کے پہلے دو دن درویشان قادیان باری باری اس کا پہرہ دیتے رہے اور آخری دن پاکستان اور ہندوستان کے احباب نے پہرہ دینے کی سعادت حاصل کی۔ اس سال احمدی خواتین کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق بخشی چنانچہ پاکستان و ہندوستان کی متعدد خواتین جلسے میں شامل ہوئیں جن کے لئے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کے مکان میں جلسے کی تقاریر سننے کا انتظام کیا گیا تھا جہاں پر لائوڈ سپیکر کے ذریعہ آواز بخوبی پہنچتی تھی۔ مہمانوں کے قیام و طعام اور جلسہ کے دیگر تمام انتظامات سرانجام دینے کی سعادت دیار حبیب کے خوش قسمت درویشوں نے حاصل کررکھی تھی۔ جلسہ کے منتظم اعلیٰ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ اور آپ کے نائب مولوی عبدالقادر صاحب دہلوی جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان تھے۔ ان کے ماتحت قریباً تمام درویش بھائی اپنی اپنی ڈیوٹی بڑی تندہی سے سرانجام دے رہے تھے۔ بہت سے ایسے درویش تھے جنہیں سالہا سال کے بعد اسی موقع پر اپنے کسی عزیز یا بزرگ سے ملنے کا موقع ملا تھا اور وہ بھی نہایت محدود وقت کے لئے لیکن وہ اس عرصہ میں بھی اپنے ذاتی جذبات اور تعلقات کو قربان کرکے جلسہ کے سلسلہ میں اپنے فرائض سرانجام دینے میں مصروف نظر آتے تھے اور اس طرح اپنے عمل سے ثابت کررہے تھے کہ وہ فی الحقیقت تمام دنیوی تعلقات اور علائق سے منہ موڑ کر اپنے تئیں خداتعالیٰ کے لئے وقف کرچکے ہیں۔ ہندوستان سے تشریف لانے والے اکثر دوست مدرسہ احمدیہ اور بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے کمروں میں رہائش رکھتے تھے۔ جلسہ کی تصاویر لینے کی خدمت میاں منور علی صاحب درویش )پروپرائٹر >علی سٹوڈیو(< اور چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ سرانجام دے رہے۔
۲۷۔ فتح )دسمبر( کی رات کو مسجد اقصیٰ میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی صدارت میں ایک تربیتی جلسہ ہوا جس میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ اور چوہدری محمد عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے مختلف تربیتی امور پر تقاریر فرمائیں۔ جلسہ کے بعد حضرت مولوی راجیکی صاحب نے اجتماعی دعا کرائی اور دعا کے بعد اپنا یہ کشف بیان فرمایا کہ جب دعا شروع ہوئی تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی عالم کشف میں مسجد میں تشریف لائے اور دعا میں شامل ہوئے۔ )الحمدلل¶ہ(
مورخہ ۲۹۔ فتح )دسمبر( بروز جمعہ میجر جنرل عبدالرحمن صاحب ڈپٹی ہائی کمشنر پاکستان متعینہ جالندھر قادیان تشریف لائے` پاکستانی زائرین کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے آپ کا خیر مقدم کیا۔ بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں آپ نے پاکستانی زائرین سے ملاقات فرمائی۔ شام کو آپ واپس تشریف لے گئے۔ ۲۹۔ فتح )دسمبر( کی صبح کو پاکستان سے جانے والے احباب نے اپنے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی سرکردگی میں گروپ فوٹو کھنچوائی پھر مقبرہ بہشتی دعا کی۔ مسجد اقصیٰ میں نوافل ادا کئے اور ساڑھے نو بجے مقامی پولیس کے انتظام کے ماتحت محلہ دارالانوار` دارالبرکات` دارالفضل` دارالرحمت اور دارالفتوح کی مساجد کے علاوہ تعلیم الاسلام کالج اور مسجد نور میں جاکر بڑی رقت اور درد کے ساتھ اجتماعی دعا کی` تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نور ہسپتال میں سے ہوتے ہوئے بڑے بازار کی طرف سے واپس دارالمسیح آئے۔
مورخہ ۲۹۔ ماہ فتح )دسمبر( کو نماز جمعہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ کے اس مخصوص حصہ میں جہاں حضور علیہ السلام کا جنازہ پڑھا گیا تھا )اور جو حضرت بھائی عبدالرحٰمن صاحبؓ قادیانی کی سعی اور نگرانی میں اس حصہ کی حد بندی کریک اس باقی جگہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا( حیدرآباد کے نہایت مخلص خادم سلسلہ حضرت سیٹھ محمد غوث صاحبؓ کا جنازہ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت مقامی نے پڑھا۔ حضرت سیٹھ صاحب موصوف کا ۲۸۔ فروری ۱۹۴۷ء کو حیدرآباد میں انتقال ہوا تھا اور آپ کو وہیں امانتاً دفن کردیا گیا تھا۔ اس جلسہ کے موقع پر آپ کے فرزند سیٹھ محمد اعظم صاحب۱۵ آپ کا تابوت حیدرآباد سے دارالامان لائے۔ حضرت سیٹھ صاحب اگرچہ صحابی نہیں تھے لیکن اپنی شاندار خدمات سلسلہ کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت پر مقبرہ بہشتی کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے۔
جنازہ سے قبل مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے پرنم آنکھوں کے ساتھ احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
>اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ۲۷۔ مئی ۱۹۰۸ء کا دن ہے جبکہ ٹھیک اسی میدان میں ہمارے آقا اور محسن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ رکھا گیا تھا اور یہی وہ میدان تھا جس میں ہم نے خلافت اولیٰ کی بیعت کی تھی۔ وہ بیعت اسی امر پر کی تھی کہ ہم خلیفہ وقت کو واجب الاطاعت امام سمجھتے ہیں۔ حضرت سیٹھ محمد غوث گزشتہ ۴۲ سال میں وہ پہلے خوش قسمت انسان ہیں جن کا جنازہ ٹھیک اس جگہ اور اسی حلقہ میں پڑھا جارہا ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسم اطہر رکھا گیا تھا اور جنازہ پڑھا گیا تھا۔ خدا تعالیٰ کے بے شمار فضل ہوں محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس حلقہ زمین کو محدود کرنے کی توفیق دی۔ میں اس امر کی تصدیق کرتا ہوں کہ ٹھیک اسی جگہ حضور علیہ السلام کا جنازہ پڑھا گیا تھا۔ یاد رکھو مقامات مقدسہ پرستش کے لئے نہیں ہوتے ہاں وہ اس لئے ضرور ہمارے لئے قابل احترام ہوتے ہیں تاکہ ہم انہیں دیکھ کر اپنے نفوس کا تزکیہ کرنے اور ان مقامات سے وابستہ برکات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں<۔
حضرت عرفانی صاحبؓ نے حضرت سیٹھ محمد غوث صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
>وہ بڑے مخلص` خادم سلسلہ تھے۔ وہ گداز تھے حضرت صاحب کی محبت میں اور یہی رنگ دوستوں سے ان کی محبت کا تھا۔ میں مبارکباد دیتا ہوں ان کے بیٹے عزیز محمد اعظم کو کہ انہیں آج ان کا تابوت یہاں لانے کی توفیق ملی<۔
جلسہ کے ایام کی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت وہ دعائیں` عبادتیں اور نمازیں تھیں جو دارالمسیح کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں سے معمور رکھتی تھیں۔ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ` دار حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام خصوصاً بیت الدعاء` بیت الذکر اور بیت الفکر تو مومنوں کی خشوع و خضوع سے نکلی ہوئی دعائوں اور مناجاتوں کی آماجگاہ بنی رہتیں۔ علاوہ ازیں صبح سوا پانچ بجے مساجد میں باجماعت نماز تہجد ادا کی جاتی جس میں احباب بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے۔ مقبرہ بہشتی میں مرزا حضرت مہدی موعود علیہ السلام پر حاضر ہوکر دعائیں کرنے والے احباب کا بھی ہر وقت تانتا لگا رہتا تھا۔۱۶
قافلہ پاکستان کے مختصر حالات
قافلہ پاکستان مورخہ ۲۵۔ ماہ فتح )دسمبر( بروز پیر صبح سوا نو بجے رتن باغ لاہور اومنی بس سروس کی تین بسوں میں روانہ ہوئے۔ قافلہ کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور تھے جو بس نمبر میں سوار تھے اور ان کے ماتحت بس نمبر ۲ کے انچارج میاں عطاء اللہ صاحب وکیل امیر جماعت راولپنڈی اور بس نمبر ۳ کے انچارج چوہدری محمد عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت کراچی تھے۔ اس موقع پر الوداع کرنے کے لئے بہت سے احباب جمع تھے۔ پھر حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے اجتماعی دعا کرائی اور پریس فوٹو گرافر نے فوٹو لئے۔ روانگی کے وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی رقم فرمودہ ضروری ہدایات کی ایک ایک کاپی تمام زائرین کو دے دی گئی۔ ان ہدایات میں امیر قافلہ کی اطاعت کرنے کے علاوہ اس امر کی خاص طور پر نصیحت کی گئی تھی کہ اس مقدس سفر کے دوران میں اپنے دلوں کی نیت کو پاک و صاف رکھنا چاہئے اور دعائوں پر خاص زور دینا چاہئے >تاکہ خدا تعالیٰ اس سفر کو نہ صرف آپ کے لئے اور نہ صرف اہل قادیان کے لئے بلکہ تمام جماعت کے لئے اور احمدیت اور اسلام کے لئے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے چنانچہ ارکان قافلہ نے روانہ ہوتے ہی دعائیں شروع کردیں اور سفر کا زیادہ سے زیادہ وقت دعائوں میں گزارا۔ جب قافلہ واہگہ سرحد پر پہنچا تو شیخ محمود الحسن صاحب جنرل سیکرٹری جماعت لاہور اور شیخ نذیر احمد صاحب کے علاوہ خان محمد شفیع خان صاحب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لاہور بھی قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھے۔ ضروری امور کی سرانجام دہی کے بعد پونے بارہ بجے قافلہ کے ارکان پیدل ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوئے۔
امرتسر کے ڈپٹی کمشنر سردار بہادر سردار نریندر سنگھ صاحب نے ہندوستان کی طرف سے قافلہ کا خیرمقدم کیا۔ پریس فوٹو گرافر نے آپ کی معیت میں قافلہ کی تصویر لی۔ آپ کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد امرتسر چلے آئے۔
ہندوستانی سرحد پر قادیان کے دو درویش چوہدری فضل الٰہی صاحب اور بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار بھی درویشان قادیان کی نمائندگی میں موجود تھے۔
ڈی۔ سی صاحب امرتسر کے جانے کے بعد قافلہ بسوں میں سوار ہوکر ہندوستان کسٹم آفس کے آگے رکا جو سرحد سے تھوڑے فاصلے پر کاہن گڑھ نامی گائوں کے قریب واقع ہے۔ سامان وغیرہ کی تلاشی ہونے کے بعد ایک بج کر بیس منٹ پر انڈین پولیس کے حفاظتی دستے کے ہمراہ قافلہ روانہ ہوا پونے دو بجے امرتسر میں سے گزرا اور پونے تین بجے بٹالہ پہنچ گیا یہاں بھی بعض درویش استقبال کے لئے موجود تھے۔ چند منٹ بٹالہ ٹھہرنے کے بعد قافلہ سری گوبند پور والی سڑک کے راستے سے قادیان روانہ ہوا۔ پنجگرائیں کے موڑ پر اسے کچھ رکنا پڑا کیونکہ نہر کی پٹڑی کا دروازہ بند تھا۔ جب یہاں سے قافلہ روانہ ہوا تو چند منٹ بعد ہی مینارۃ المسیح نظر آنے لگا اسی وقت امیر قافلہ کے ارشاد پر اجتماعی دعا شروع کردی گئی جو دیر تک جاری رہی۔ جوں جوں منارۃ المسیح نمایاں نظر آتا تھا اور قادیان کی محبوب بستی قریب آتی جاتی تھی اہل قافلہ میں خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے عجیب کیفیت پیدا ہورہی تھی۔ جب قادیان اور قریب آگیا تو درویشان قادیان کا مجمع نظر آنے لگا جو کئی گھنٹوں سے قافلہ کا منتظر تھا۔ آخر وہ مبارک ساعت آگئی جبکہ پانچ بجے یہ بسیں موضع ببل کلاں سے مقبرہ بہشتی کی طرف جانے والی سڑخوں پر باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ٹھہر گئیں۔ درویشان قادیان نے قافلہ کا خیر مقدم کیا۔ مقامی جماعت کے امیر حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل نے آگے بڑھ کر میرا قافلہ شیخ بشیر احمد صاحب سے مصافحہ اور معانقہ کیا اس موقع پر حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب آف سکندر آباد دکن اور ہندوستان سے تشریف لانے والے متعدد دیگر احباب بھی موجود تھے۔ قادیان کے بعض ہندو سکھ اصحاب بھی آئے ہوئے تھے۔ چونکہ نماز کا وقت بہت تنگ ہورہا تھا اس لئے بسوں سے اترتے ہی قافلہ نے حضرت مولوی راجیکی صاحبؓ کی اقتداء میں اسی جگہ نماز ظہر و عصر ادا کیں۔ نماز کے بعد ارکان قافلہ نے باری باری تمام مقامی احباب سے مصافحہ کیا پھر یہ سارا مجمع مقبرہ بہشتی میں اپنے آقا و مطاع سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مزار مبارک پر حاضر ہوا اور بڑے درد` رقت اور سوز کے ساتھ لمبی دعا کرنے کے بعد قافلہ دارالمسیح میں داخل ہوا۔
مورخہ ۳۔ ماہ فتح )دسمبر( بروز ہفتہ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ارکان قافلہ کا مسجد مبارک میں درویشان قادیان اور ہندوستان کے احمدی احباب سے تعارف اور ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا چنانچہ مسجد کے مغربی حصہ میں ارکان قافلہ لائن میں کھڑے ہوگئے ہندوستانی احباب اور درویشان کرام باری باری لائن کے ساتھ گزرتے چلے جاتے اور ہر دوست سے ملاقات کرتے جاتے۔ ملاقات اور تعارف کے بعد پاکستانی زائرین سفر کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ بسوں پر سامان لدوانے کے بعد سوا نو بجے قافلہ کے ارکان اور مقامی احباب سب مقبرہ بہشتی میں جمع ہوگئے۔ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر لمبی الوداعی دعا کی گئی پھر قافلہ کی روانگی تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا سب احباب ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے تھے مگر اس حالت میں کہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں تھے۔ اخلاص اور درد سے بھری ہوئی یہ ملاقاتیں جاری رہیں حتیٰ کہ دس بج کر پچپن منٹ پر اجتماعی دعا کے بعد بسیں روانہ ہوگئیں جبکہ قافلہ کا ہررکن اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعائوں میں مصروف تھا اور درویش بڑے درد اور رقت کے ساتھ یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ ~}~
ہم بھی کرتے ہیں دعا اور آپ مانگا کریں
جلد شاہ قادیاں تشریف لائے قادیاں
الغرض قافلہ روانہ ہوگئے اور قادیان اور اس کے درویش آنکھوں سے اوجھل ہوگئے حتیٰ کہ نہر عبور کرتے ہوئے قادیان کی آخری جھلک یعنی منارۃ المسیح بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ سوا بارہ بجے قافلہ بٹالہ کی سڑکوں کو عبور کررہا تھا اور دو بجے امرتسر سے گزرتا ہوا سرحد پر پہنچ چکا تھا۔ چار پانچ درویش سرحد تک چھوڑنے کے لئے آئے۔ اس جگہ ظہر وعصر کی نمازیں باجماعت ادا کی گئیں۔ چار بجے انڈین کسٹم آفس کے ارکان نے ہمارے سامان کی تلاشی لینا شروع کی۔ یہ تلاشی کتنی کڑی تھی اور کتنی صبر آزما اس سلسلہ میں امیر قافلہ کا بیان انہی دنوں اخبارات میں بھی شائع ہوگیا تھا۔ مختصر یہ کہ دو بجے قافلہ سرحد پر پہنچا اور ساڑھے پانچ بجے تک بمشکل ایک بس کی مکمل اور دوسری بس کی ادھوری تلاشی ختم کی گئی اور اس امر کا سخت خطرہ پیدا ہوگیا کہ شاید قافلہ کو رات سرحد پر ہی گزارنی پڑے کیونکہ دونوں ملکوں کے سرحدی پھاٹک ساڑھے پانچ بجے داخلہ کے لئے بند ہوجاتے ہیں۔ آخر امرتسر کے ڈی سی صاحب کے مداخلت سے یہ کٹھن مرحلہ کسی نہ کسی طرح ختم ہوا لیکن اس وقت دونوں طرف کی سرحدی پھاٹک داخلہ کے لئے بند ہوچکے تھے اور ¶مغرب کا وقت ہورہا تھا۔ آخر دو گھنٹہ کی خاص کوشش کے بعد یہ مرحلہ بھی طے ہوا اور رات کے آٹھ بجے قافلہ پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا۔۱۷
تیسرا باب )فصل چہارم(
کوائف ربوہ ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء
اگرچہ دونوں مراکز احمدیت میں ترقیات کا سلسلہ متوازی شکل میں جاری رہا مگر ربوہ کی وادی غیر ذی زرع کی رفتار ترقی نسبتاً زیادہ تیز رہی اور ہر لحاظ سے اس کی اہمیت و شہرت میں اضافہ ہوا۔
ربوہ باقاعدہ اسٹیشن بن گیا
ماہ امان ۱۳۲۹ہش/ مارچ ۱۹۵۰ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کے ایک خاص گزٹ کے ذریعہ ربوہ کو باقاعدہ اسٹیشن بنا دیا گیا۔۱۸ اور دوسرے اسٹیشنوں کی طرح ماہ شہادت ۱۳۲۹ہش/ اپریل ۱۹۵۰ء سے مال واسباب کی بکنگ بھی ہونے لگی۔
حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتی لائبریری ربوہ میں
حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتی لائبریری جو ماہ احسان ۱۳۲۸ہش/ جون ۱۹۴۹ء میں لاہور سے چنیوٹ لائی گئی تھی امان ۱۳۲۹ہش/ مارچ ۱۹۵۰ء میں چنیوٹ سے ربوہ منتقل کی گئی۔۱۹
مصباح کا اجراء
لجنہ اماء اللہ مرکزہ کا ترجمان مصباح جو ماہ وفا ۱۳۲۶ہش/ جولائی ۱۹۴۷ء کے فسادات میں بند ہوچکا تھا اس سال ماہ شہادت/ اپریل میں دوبارہ جاری ہوگیا مصباح پہلے پنجاب الیکڑک پریس لائل پور میں چھپتا تھا پھر ظہور ۱۳۳۳ہش/ اگست ۱۹۵۴ء سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں چھپنے لگا۔ یہ پہلا رسالہ تھا جو ربوہ سے شائع ہوا۔۲۰
اراضی ربوہ کی مستقل الاٹمنٹ اور مکانات کی تعمیر کا آغاز
ابتداء میں ربوہ کے عارضی محلہ جات کے یہ نام تھے۔ الف۔ ب۔ ج۔ د۔ س۔ ص۔ ط۔ تبوک ۱۳۳۰ہش/ ستمبر ۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے ان کو مندرجہ ذیل ناموں سے موسوم کیا گیا:۔
دارالیمن )الف( باب الابواب )ب( دارلنصر )ج( دارالبرکات )د( دارالرحمت )س( دارالصدر )ص( دارالفضل )ط(
ان محلہ جات میں مستقل الاٹمنٹ کا کام اس سال شروع ہوا چنانچہ اس سلسلہ میں دفتر کمیٹی آبادی ربوہ کی طرف سے ۲۵۔ صلح/ جنوری اور ۹۔ تبلیغ/ فروری کو ربوہ کا نقشہ دے کر یہ پہلا اعلان جاری کیا گیا کہ:۔
>ایک کنال اور دس مرلہ کے پلاٹ محلہ جات الف۔ ب۔ ج۔ د اور س میں واقع ہیں۔ ایک کنال اور دس مرلہ خریدنے والے دوست اطلاع دیں کہ وہ کس محلہ میں پلاٹ خریدنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اگر وہ پسند کردہ پلاٹ میں نہ آسکیں تو ان کی دوسری پسند کیا ہوگی۔ ہر محلہ کے قطعات مقرر ہیں ان میں دوستوں کو حسب پسند الاٹمنٹ کی کوششکی جائے گی لیکن اگر کسی محلہ میں قطعات کی مقررہ تعداد سے زائد کا مطالبہ ہوا تو جن دوستوں کی رقمیں پہلے داخل خزانہ ہوئی ہیں انہیں ترجیح دی جائے گی۔ جن دوستوں کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئے گی ان کے لئے محلے کا فیصلہ قرعہ اندازی سے کیا جائے گا۔
یہ اعلان پہلے کیا جاچکا ہے کہ رشتہ داروں کو بھی اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بعض دوستوں کی طرف سے اطلاعات آچکی ہیں باقی جو دوست بھی پلاٹ اکٹھے کروانا چاہیں وہ اطلاع دیں لیکن یہ خیال رہے کہ صرف خونی رشتہ یعنی باپ` بیٹا` بہن` بھائی اور اسی طرح بیوی کے خونی رشتے اکٹھے کئے جائیں گے جن دوستوں نے اپنی پہلی اطلاعات میں رشتہ کی اطلاع نہیں دی وہ اس کے مطابق مکمل اطلاعات دوبارہ بھجوا دیں۔ ایسی اطلاعات دفتر میں ۱۰۔ فروری تک پہنچ جانی چاہئیں<۔۲۱
اس اعلان کے بعد جس میں الاٹمنٹ کے طریق کار پر مفصل روشنی ڈالی گئی تھی بذریعہ الفضل ۱۴۔ تبلیغ/ فروری کو یہ اعلان بھی شائع کیا گیا کہ مطلوبہ اطلاعات کے لئے ۲۸۔ ماہ تبلیغ/ فروری تک انتظار کیا جائے گا اس کے بعد انشاء اللہ قطعات کی الاٹمنٹ شروع کردی جائے گی لیکن جو دوست فوری طور پر مکان تعمیر کرانے کے خواہشمند ہوں ان کے لئے قطعہ بھی فوراً الاٹ کردیا جائے گا۔
ان اعلانات کے مطابق جلد ہی الاٹمنٹ ششروع کردی گئی۔ سب سے پہلے جن محلوں کی الاٹمنٹ شروع ہوئی وہ محلہ الف )دارالیمن( اور ص )دارالصدر( تھے۔ اس کے بعد محلہ ب )باب الابواب( اور ط )دارالفصل( کی الاٹمنٹ کی گئی۔
دارالصدر میں سب سے پہلی کوٹھی نواب محمد احمد صاحب کی تعمیر ہوئی۔ دارالیمن میں پہلا مکان۲۲ ٹھیکیدار نور احمد صاحب کا بنا اور باب الابواب اور دارالفضل میں آبادی کی داغ بیل ڈالنے کی سعادت بالترتیب چوہدری عبداللطیف صاحب اور کیپٹن نواب دین صاحب کے حصہ میں آئی۔
مرکزی عمارات کا سنگ بنیاد اور تعمیر
۲۹۔ ماہ ہجرت/ مئی کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دست مبارک سے سوا سات بجے صبح اپنے ذاتی مکان کا اور ۳۱۔ ماہ ہجرت کو مندرجہ ذیل مرکزی عمارات کا سنگ بنیاد رکھا اور دعا فرمائی:۔
تعلیم الاسلام ہائی سکول۔ قصر خلافت۔ دفاتر تحریک جدید۔ دفاتر صدر انجمن احمدیہ۔ دفاتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ۔
اس موقع پر حضور کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نیز جرمنی` مصر اور سوڈان وغیرہ ممالک کے بعض احمدی احباب نے بھی اینٹیں رکھیں اور اجتماعی دعا میں شرکت کی۔10] [p۲۳ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ۔
اس موقع پر حضور کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نیز جرمنی` مصر اور سوڈان وغیرہ ممالک کے بعض احمدی احباب نے بھی اینٹیں رکھیں اور اجتماعی دعا میں شرکت کی۔۲۴
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۵۔ احسان ۱۳۲۹ہش کو ارشاد فرمایا کہ >تعمیر کے اسٹیمیٹ حاصل کئے جائیں اور مجھے بھجوائے جائیں۔ کسی صورت میں بھی کسی عمارت کا کام شروع نہیں ہونا چاہئے۔ جب تک کہ میری منظور کردہ اخراجات کی حد اور انجینئر سے گارنٹی نہ لی جائے<۔۲۵
چنانچہ اس ہدایت کے مطابق یہ سب تعمیرات مکمل ہوئیں جن کے اخراجات کا ذکر رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۵۰ء۔۱۹۵۱ء میں شائع شدہ ہے۔۲۶
تیسرا باب )فصل پنجم(
سالانہ جلسہ ربوہ اور حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے مخالفین احمدیت کے دو الزامات کا حقیقت افروز جواب
ربوہ کا تیسرا سالانہ جلسہ ۲۶ تا ۲۸۔ ماہ فتح ۱۳۲۹ہش/ دسمبر ۱۹۵۰ء کو منعقد ہوا جس میں پاکستان کے علاوہ مشرقی افریقہ` برٹش گی آنا` جرمنی` بورنیو اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک کے احمدی بھی کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔۲۶
ان ایام میں احمدیت کے مخالف احراری اور دوسرے علماء عوام کو بھڑکانے کے لئے نہایت وسیع پیمانے پر غلط فہمیاں پھیلا رہے تھے خصوصاً حضرت مسیح موعودؑ کے معاذاللہ برطانوی ایجنٹ ہونے اور ۹۴۷ء کے بائونڈری کمیشن میں الگ میمورنڈم پیش کرکے ضلع گورداسپور کے کٹوانے کے الزامات کو ملک بھر میں ہوا دی جارہی تھی۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے جہاں اپنی روح پرور اور پرمعارف تقاریر میں بہت سی علمی` تربیتی اور تبلیغی مسائل پر روشنی ڈالی وہاں ان دونوں الزامات کا )۲۷۔ ماح فتح کو( بڑی شرح و بسط سے تنقیدی جائزہ لیا اور نہایت مدلل` مسکت اور حقیقت افروز جواب دیا۔ شروع میں حضورؓ نے بتایا کہ اس وقت جو جماعتیں ہماری مخالفت میں پیش پیش ہیں وہ مجلس احرار` علامہ مشرقی کی اسلام لیگ اور اسلامی جماعت ہے۔ مجلس احرار نے اپنی تقاریر میں متواتر ہمارے قتل کی تحریک کی ہے اور منٹگمری میں کھلے بندوں یہ کہا ہے کہ ایک رات تمام احمدیوں کے مکانوں پر نشانات لگا دو اور پھر کسی وقت ان سب کو قتل کردو۔ کسی جگہ گورنمنٹ کو توجہ دلا رہی ہے کہ وہ ہمیں خلاف قانون قرار دے دیں یا اقلیت قرار دے دیں یہ لوگ جو چاہیں کہیں لیکن ان کے نزدیک پاکستان میں چونکہ اسلامی حکومت ہے اس لئے ہمیں ان کی باتوں کا جواب دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ پھر کھلے بندوں ہم پر کھلے حملے کرنے کی تیاریں کی جارہی ہیں۔ اور ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول کریم~صل۱~ کی )نعوذ باللہ( ہتک کررہے ہیں حالانکہ اگر دنیا میں کوئی ایسا فرقہ موجود ہے جو رسول کریمﷺ~ کے عشق میں گداز اور آپﷺ~ کے نام اور عزت کو قائم کرنے والا ہے تو وہ صرف احمدیت ہی ہے۔ ہماری تو بنیاد ہی یہ ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کا نور ہمیشہ قائم رہے گا۔ آپ~صل۱~ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آخری زمانہ میں آپﷺ~ کے ہی ایک غلام نے آپﷺ~ کے دین کو زندہ کرنا ہے۔ کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ ایسا فرقہ رسول کریم~صل۱~ کی مخالفت کرسکتا ہے یہ عقلی طور پر محال ہے یہ ہونہیں سکتا کہ ایک شخص کسی دوسرے کے شاگرد ہونے کا بھی دعویٰ کرے اور پھر اس کو جاہل بھی کہے۔۲۷
اس تمہید کے بعد حضور نے سب سے پہلے اس افترا کی قلعی کھولی کہ احمدی انگریزی استعمار کے ایجنٹ ہیں چنانچہ حضور نے فرمایا:۔
برطانوی ایجنٹ ہونے کے الزام کا جواب
>ہماری جماعت کے خلاف لوگوں میں اشتعال پیدا کرنے کے لئے مخالف علماء کی طرف سے جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی غلط فہمی یہ پھیلائی جاتی ہے کہ انگریزوں کی عادت تھی کہ وہ رعایا میں تفرقہ ڈال کر حکومت کیا کرتے تھے چنانچہ اسی عادت کے مطابق انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے احمدیوں کو کھڑا کیا گویا احمدی نعوذ باللہ انگریز کے ایجنٹ ہیں اور انہی کی سکیم کے مطابق اس جماعت کا وجود عمل میں آیا ہے۔ یہ اعتراض اس قدر بودا اور دوراز حقیقت ہے کہ میں حیران ہوں لوگوں نے اسے کیونکر قبول کرلیا۔ اگر وہ ذرا بھی غور کرتے اور سوچتے اور تدبر سے کام لینے کی عادت پیدا کرتے تو اس غلط فہمی میں کبھی مبتلا نہ ہوتے۔ اس اعتراض کی لغویت تو اس سے ظاہر ہے کہ خود انہی علماء کے پیشرو ایک زمانہ میں جبکہ انگریز حکمران تھا بڑے زور سے کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب حکومت کے باغی ہیں اگر ان کی طرف فوری توجہ نہ کی گئی تو حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پانچ سات سال بعد کی کتب جو مخالف علماء کی طرف سے لکھی گئیں ان میں کہیں بھی یہ اعتراض نظر نہیں آتا کہ مرزا صاحب انگریزوں کے ایجنٹ ہیں بلکہ ان کی تمام کتب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مرزا صاحب حکومت کے مخالف اور باغی ہیں۔ لیکن اب یہ کہا جاتا ہے کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اصل غرض لوگوں کو اشتعال دلانا ہے۔ جب انگریزوں کو اشتعال دلانا مقصود تھا تو یہ کہا جاتا تھا کہ مرزا صاحب حکومت کے باغی ہیں اور جب عوام کو اشتعال دلانا چاہا تو کہہ دیا کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں۔ اگر احمدی انگریزں کے ایجنٹ تھے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۲۸ اور لدھیانہ کے علماء نے اس وقت یہ کیں لکھا کہ مرزا صاحب انگریزوں کے مخالف اور حکومت کے باغی ہیں۔ ذمہ دار افسروں کو ان کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے تو اس اعتراض کو اتنی اہمیت دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاماً بتایا گیا کہ ~}~
سلطنت برطانیہ تا ہشت سال
بعد ازاں ضعف و فساد و اختلال۲۹
)بعض روایات میں ایام ضعف و اختلال کے الفاظ بھی آئے ہیں( تو بعض مصلحتوں کی بناء پر اسے شائع نہ کیا گیا بلکہ صرف اپنی جماعت کے دوستوں کو بتانے تک اکتفاء کیا گیا لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو ہر وقت اسی ٹوہ میں رہتے تھے کہ کوئی قابل اعتراض بات مل جائے انہوں نے یہ الہام احمدی سے سن لیا اور فوراً ایک مضمون لکھا کہ کیا میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ شخص )یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام( حکومت کا باغی ہے۔ اب اسے یہ الہام بھی ہونے لگا ہے کہ حکومت برطانیہ چند سال تک ہی ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فی الواقعہ انگریزوں کے ایجنٹ تھے اور جماعت احمدیہ انگریزوں کی قائم کردہ تھی تو آپ کو انگریزوں کے خلاف الہام کیوں ہوا یہ تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے قائم کیا مگر کیا یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آپ انہی کے خلاف اپنے الہامات دوستوں کو بتاتے اور پھر وہ پورے بھی ہوجاتے۔ آپ کو یہ الہام ۱۸۹۲ء میں ہوا اور ۱۹۰۰ء کے بعد سے انگریزوں کی حکومت میں ضعف و اختلال ¶شروع ہوگیا۔ ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئی اور آہستہ آہستہ کینڈا` آسٹریلیا اور ہندوستان میں بیداری پیدا ہوئی اور انہوں نے آزادی حاصل کرلی۔ پس یہ عقلی طور پر محال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا جائے۔ اگر آپ کو انگریزوں نے قائم کیا تھا تو چاہئے تھا کہ وہ آپ کو ایسی باتیں سکھاتے جو ان کی تائید کرنے والی ہوتیں۔ کیونکہ جہاں یہ لوگ سیاست میں بڑھے ہوئے ہیں وہاں مذہبی تعصب میں بھی بڑھے ہوئے ہیں چنانچہ سابق بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے دستبرداری کا واقعہ اس کا ثبوت ہے کہ ان کا ایک عورت مسز سمپسن سے تعلق تھا۔ وہ دیر سے شاہی دعوتوں میں بلائی جاتی تھیں۔ ان میں خود وزیراعظم بھی شامل ہوتے تھے۔ وہ اکثر اوقات شاہی حلقہ میں رہتی تھیں اور شاہی نوکر ان کی کدمت پر مامور تھے لیکن کسی وزیر نے ان کے میل جول پر اعتراض نہ کیا۔ مسٹر بالڈون جنہوں نے بعد میں اعتراض کیا وہ کئی دفعہ ان ناچ گانوں میں شامل ہوچکے تھے جن میں وہ عورت ایڈورڈ ہشتم کے ساتھ شریک ہوتی تھیں لیکن جب ایڈورڈ ہشتم کی تاجپوشے کی رسم طے ہونے لگیں اور اس غرض کے لئے ایک خاص کمیٹی عمل میں آئی اور اس نے اپنی رپورٹ بادشاہ کے سامنے رکھی تو بادشاہ نے مذہبی رسم کا حصہ ادا کرنے سے انکار کردیا اور صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس پر یقین نہیں رکھتا اس لئے مجھے معذور سمجھا جائے۔ جب یہ بات وزراء اور پادریوں کو معلوم ہوئی تو انہوں نے سخت برا منایا اور آرچ بشپ آف کنٹربری نے اس تقریب میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور پھر مسٹر سمپسن کے ساتھ شادی کے واقعات کو بہانہ بنا کر ان کے خلاف اس قدر شور بلند کیا گیا کہ آخر ایڈورڈ ہشتم کو تخت سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑا۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ انگریز مذہب کے بارہ میں نہایت متعصب واقع ہوئے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کے وزیراعظم مسٹر اٹیلی کی بہن سخت کٹر پادری تھی۔ ہمارے مشن میں بھی وہ آیا کرتی تھی۔ وہ سائوتھ افریقہ میں بطور مشنری کام کیا کرتی تھی۔ پس انگریز خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان میں اسلام کے خلاف اور عیسائیت کی تائید میں ایک شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں میں جب انگلستان گیا تو ایک دہریہ ڈاکٹر سے میرا تبادلہ خیالات ہوا۔ جب اس سے میری گفتگو ہوئی تو اس نے دوچار فقرات کے بعد ہی رسول کریم~صل۱~ پر حملہ کردیا میں نے کہا آپ تو خدا کو بھی نہیں مانتے محمد رسول اللہ~صل۱~ پر کیوں اعتراض کرتے ہیں صرف ہستی باری تعالیٰ تک اپنی گفتگو کو محدود رکھیں مگر اس نے پھر اعتراض کردیا میں نے اسے دوبارہ نرمی سے سمجھایا لیکن وہ باز نہ آیا۔ آخر جب اس نے رسول کریم~صل۱~ پر اعتراض کیا تو میں نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اعتراض کردیا۔ اس پر اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور کہنے لگا میں مسیح )علیہ السلام( کے متعلق کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ میں نے کہا اگر تم مسیح کے متعلق کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تو کیا میں ایسا بے غیرت ہوں کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی ذات کے متعلق اعتراضات سنتا چلا جائوں اور خاموش رہوں۔ غرض برطانیہ کے ایک دہریہ کو بھی عیسائیت سے محبت ہے۔ عیسائیت کی محبت میں برطانیہ اور امریکہ سب سے زیادہ بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ارب پونڈ سے زیادہ اپنے مشنوں پر سالانہ خرچ کرتے ہیں اور چھوٹے حکام سے لے کر وائسرائے اور بادشاہ تک گرجا میں جاتے ہیں پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ علماء کے خیال کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو کھڑا تو انگریزوں نے کیا مگر آپ کو کہا یہ کہ تم کہو عیٰسی مر گیا ہے۔ کیا یہ بات کسی انسانی عقلمیں آسکتی ہے؟ جو حکومت اربوں روپیہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کررہی ہے` جس کی بنیاد ہی مسیح کی الوہیت پر ہے جس کے پادریوں میں اتنی طاقت ہے کہ ان کی مخالفت کی وجہ سے ایک بادشاہ بی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجاتا ہے کیا اس نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے یہی کہلوانا تھا کہ عیٰسی مر گیا ہے حالانکہ عیٰسی کے مرنے میں عیسائیت کی موت ہے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی جب سیالکوٹ میں ۱۹۰۴ء میں تقریر ہوئی تو علماء نے آپؑ پر کفر کے فتوے لگائے اور ان میں سب سے پیش پیش پیر جماعت علی صاحب تھے۔ ڈھونڈورے پیٹے گئے اور اشتہاروں اور اعلانوں کے ذریعہ یہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ جو شخص مرزا صاحب کی تقریر سننے جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ آپ کی یہ تقریر ایک سرائے میں ہوئی تھی لوگ باوجود ان فتووں کے تقریر سننے کے لئے گئے۔مولوی اشتہار بانٹتے تھے اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر کہتے تھے کہ دیکھو اس میں کیا لکھا ہے تو لوگ یہ کہہ کر آگے چلے جاتے کہ نکاح کا کیا ہے نکاح تو پھر سوا روپیہ دے کر ہم پڑھا لیں گے لیکن مرزا صاحب شاید دوبارہ یہاں نہ آئیں۔ لیکچر کے بعد جب آپ جائے قیام کی طرف روانہ ہوئے تو لوگوں نے آپ کی گاڑی پر خشت باری شروع کردی۔ ان دنوں سیالکوٹ میں ایک انگریز لیفٹیننٹ سپرنٹنڈٹ پولیس تھا جس کا نام بیٹی (BETTI) تھا اس نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مسلمانو یہ ہمارے خدا کو ماررہا ہے لیکن میں خاموش کھڑا تقریر سن رہا ہوں اور تمہارے مذہب کو زندہ کررہا ہے اور تم شور مچارہے ہو۔ غرض ہم نے عیسائیوں کا خدا مار دیا لیکن پھر بھی ان کی نظروں میں ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ لوگ ان کے خدا کو زندہ آسمان پر بٹھائے ہوئے ہیں اور پھر بھی انگریزوں کے مخالف ہیں۔
میں بتا چکا ہوں کہ یہ بات عقلی طور پر محال ہے کہ ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا جاسکے۔
اب میں واقعاتی مثالیں لیتا ہوں۔ اگر احمدیوں کو فی الاقعہ انگریزوں نے قائم کیا ہوتا تو ضروری تھا کہ پادری جو واقعہ میں عیسائیت کے ایجنٹ ہیں اور جن کی مدد سے عیسائیت ہر ملک میں پھیلی ہے وہ ان کے دوست ہوتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ سب سے پہلے جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مخالفت کی وہ پادری ہی تھے۔ امرتسر میں پادری رلیا رام کا ایک مشہور پریس تھا۔ ایک دفعہ آپ نے ایک مسودہ چھپنے کے لئے بھجوایا اور مسودہ کے ساتھ ایک خط بھی رکھ دیا جس میں طباعت کے متعلق ہدایات درج تھیں۔ اس وقت کسی علیحدہ کط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا۔ آپ رلیا رام کے کسٹومر (CUSTOMER) تھے اور دکاندار اپنے گاہک سے کوئی برا سلوک نہیں کرتا لیکن رلیا رام نے ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ ڈاکخانہ جات کی مدد سے آپ پر مقدمہ چلا دیا۔ مقدمہ میں خود سپرنٹنڈنٹ پیش ہوا مجسٹریٹ نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے پیکٹ میں خط ڈالا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں میں نے مسودہ کے ساتھ خط بھی بھیجا تھا۔ آپ کی اس سچائی کا مجسٹریٹ پر نہایت گہرا اثر ہوا۔ سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات نے بہتیرا زور لگایا کہ آپ کو کسی طرح سزا ہوجائے لیکن مجسٹریٹ نے کہا میں سچ بولنے کو سزا نہیں دے سکتا اور اس نے آپ کو بری کردیا۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سب سے پہلے عیسائی پادریوں نے ہی مخالفت کی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مشہور مخالف پادری ٹھاکر داس تھا۔ اس نے اسلام اور احمدیت کے خلاف >ریویو براہین احمدیہ< >ازالتہ المرزا قادیانی< >دلوب محمدیہ< اور >انجیل یا قرآن< چار کتابیں لکھی ہیں۔ پھر پادری ایس پی جیکب JACOB) ۔P۔(S تھا اس نے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی جس کا نام >مسیح موعود< تھا۔ ڈاکٹر گریس وولڈ GRISWOLD)۔(DR نے >مرزا غلام احمد قادیانی< کے نام سے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی۔ پھر مشہور پادریوں فتح مسیح` وارث مسیح` عماد الدین` سراج الدین` عبداللہ آتھم اور ہنری مارٹن کلارک نے آپ کی مخالفت کی۔ عجیب بات یہ ہے کہ عبداللہ آتھم سرکاری ملازم تھا اور ڈپٹی کے عہدہ پر فائز تھا۔ اگر انگریزوں نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو کھڑا کیا تھا تو کیا انہوں نے اپنے ایک اعلیٰ افسر سے کہنا تھا کہ وہ آپ کی مخالفت کرے۔ پھر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے آپ پر اقدام قتل کا مقدمہ چلایا۔ امرتسر کے ڈی۔ سی۔ اے۔ ای۔ مارٹینو نے آپ کے نام خلاف قاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کیا۔ کیا یہ ایجنٹوں والا سلوک ہے جو آپ سے کیا گیا۔ پھر قادیان جانے والے ہر احمدی کا نام نوٹ کیا جاتا تھا۔ کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ احمدیت انگریزوں کی قائم کی ہوئی ہے۔
ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم بیان کیا کرتے تھے کہ ابھی وہ احمدی نہیں ہوئے تھے کہ وہ ڈی سی جالندھر کو کسی کام کے سلسلہ میں ملنے کے لئے گئے۔ اس نے کہا مجھے یہ معلوم کرکے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنے باپ والا عقیدہ نہیں رکھتے۔ مرزا سلطان احمد صاحب گو احمدی نہیں تھے لیکن ان میں غیرت پائی جاتی تھی۔ انہوں نے ڈی۔ سی کو کہا کہ آپ نے تو مجھے حرام زادہ قرار دیا ہے۔ ا سنے کہا آپ کو کس نے ایسا کہا ہے میں نے تو نہیں کہا۔ مرزا سلطان احمد صاحب نے جواب دیا کہ جو شخص اپنے باپ کا مخالف ہوتا ہے وہ حرام زادہ ہی ہوتا ہے۔ اس پر اس نے معذرت کی کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔
غرض عیسائیوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اتنی مخالفت پائی جاتی تھی کہ ایک عیسائی ڈی۔ سی مرزا سلطان احمد صاحب کو اپنے باپ کی جماعت میں شامل نہ ہونے پر مبارکباد دیتا ہے۔
قادیان جانے والوں پر پہرہ اس وقت تک قائم رہا جب تک کہ آپ کی وفات سے دو سال قبل ایبٹس (ABBETS) نہ آیا۔ اس نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ پہرہ کیوں ہے۔ جب اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مرزا صاحب نے حکومت کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے وہ ایک مذہبی آدمی ہیں تو پھر یونہی اتنے آدمی رستہ پر کیوں بٹھائے جاتے ہیں اور کیوں اتنا روپیہ خرچ کیا جاتا ہے؟ چنانچہ اس کے آنے پر خفیہ پولیس کی ڈائریوں کا سلسلہ ختم ہوا۔ اگر ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہوتے تو پادری مارٹن کلارک ہماری مدد کرتا لیکن اس نے ہماری مخالفت کی اور اس کی تائید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا کہ عدالت میں میں بھی یہی کہوں گا کہ مرزا صاحب نے عبدالحمید کو آپ کے قتل کے لئے بھیجا تھا اور سرڈگلس صاحب گورداسپور آئے تو پادریوں نے انہیں بار بار کہا کہ مرزا غلام احمد ہمارے دین کی ہتک کرتا ہے اسے کسی نہ کسی طرح ضرور سزا ملنی چاہئے۔ پھر جب امرتسر کے ڈی۔سی مسٹر اے۔ ای مارٹینو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرائے اور بعد میں اسے خیال آیا کہ اس نے یہ حکم خلاف قانون دیا ہے وہ گورداسپور کے کسی ملزم کے نام وارنٹ جاری نہیں کرسکتا تو اس نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور مسٹر ڈگلس کو تار دیا کہ میں نے غلطی سے مرزا غلام احمد قادیانی کے جو وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں انہیں منسوخ سمجھا جائے۔ انگریز افسر عموماً اپنے ساتھیوں سے مشورہ لے لیتے ہیں انہوں نے دوسرے افسروں کو بلوا کر ان سے مشورہ لیا۔ مسلمان افسروں نے کہا مرزا غلام احمد صاحب مذہبی آدمی ہیں اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یہ مناسب نہیں کہ ان کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا جائے۔ اگر انہیں بلانا ضروری ہے تو کوئی آدمی بھیج کر انہیں بلا لیا جائے۔ انہوں نے مشورہ مان لیا اور گورداسپور سے حضور کے نام نوٹس جاری کردیا گیا کہ آپ بٹالہ میں پیش ہوں اور پولیس کے ایک افسر جلال الدین یہ نوٹس لے کر قادیان آئے۔ جب آپ عدالت میں پیش ہوئے تو آپ کو دیکھتے ہی ان کے دل کی کایا پلٹ گئی اور انہوں نے عدالت کے چبوترے پر کرسی پر بچھا کر آپ کو عزت کے ساتھ بٹھایا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اس بات کے حریص تھے کہ آپ کو ہتھکڑی لگی ہوئی دیکھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مقدمہ کرنے والا انگریز ہے` فیصلہ کرنے والا انگریز ہے اور میں اہلحدیث کا ایڈووکیٹ بطور گواہ جارہا ہوں اب تو مرزا صاحب کو ضرور پھانسی کی سزا ہوگی۔ وہ اس دن ایک بڑا جبہ پہن کر عالمانہ شان میں آئے اور سمجھتے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہوں گی اور میں انہیں دیکھ کر مسکرائوں گا۔ مگر جب عدالت میں آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بجائے ہتھکڑی لگنے کے اعزاز کے ساتھ مجسٹریٹ کے پاس کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ مولوی صاحب آپ کا یہ اعزاز دیکھ کر جل گئے )یہ مولوی صاحب جو عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے کے لئے عدالت میں آئے تھے انہیں تو انگریزوں کا دشمن کہا جاتا ہے اور مرزا صاحب جن پر انگریزوں نے قتل کا مقدمہ کھڑا کیا تھا انہیں انگریزوں کا دوست قرار دیا جاتا ہے( مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عدالت میں آتے ہی آگے بڑھ کر مجسٹریٹ سے کہا مجھے بھی کرسی دی جائے۔ ڈپٹی کمشنر حیران ہوا کہ کیا یہ ملاقات کا کمرہ ہے کہ کرسی مانگی جارہی ہے۔ اس نے کہا تم کون ہو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا میں اہل حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور مشہور مولوی ہوں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا تم گواہی دینے آئے ہو ملاقات کرنے نہیں آئے پھر کرسی کا مطالبہ کیسا؟ مولوی محمد حسین صاحب نے کہا اگر عدالت میں مجھے کرسی نہیں مل سکتی تو مرزا صاحب کو کیوں کرسی دی گئی ہے؟ ڈپٹی کمشنر نے کہا ان کا نام خاندانی کرسی نشینوں میں ہے۔مولوی صاحب نے کہا مجھے بھی کرستی ملتی ہے اور میرے باپ کو بھی کرسی ملتی تھی۔ میں جب لاٹ صاحب کو ملنے جاتا ہوں تو وہ مجھے کرسی دیتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہوجا۔ یہ سنتے ہی اردلی آیا اور اس نے مولوی صاحب کو کمرہ سے باہر کردیا۔ مولوی صاحب وہاں سے نکلے تو خیال کیا کہ اگر یہ بات باہر نکل گئی تو بدنامی ہوگی اس لئے اندر کے معاملہ کے اخفا کے لئے ایک کرسی پر جو برآمدہ میں پڑی تھی بیٹھ گئے۔ اردلیوں کو چونکہ معلوم ہوچکا تھا کہ کرسی کی درخواست پر اسے جھاڑ پڑی ہے انہوں نے خیال کیا ایسا نہ ہو کہ مولوی صاحب کو یہاں بیٹھے دیکھ کر صاحب ہم پر ناراض ہو انہوں نے اس کرسی پر سے بھی انہیں جھڑک کر اٹھا۔ مولوی صاحب وہاں سے بھی ذلت کے ساتھ اٹھ کر باہر چلے گئے۔ عدالت کے باہر ہزاروں آدمی مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے کھڑے تھے۔ ان میں سے بعض تو یہ دعائیں کررہے تھے کہ اے خدا اسلام کے پہلوئوں کو عیسائیوں کی طرف سے دائر شدہ مقدمہ میں بری کردے۔ اور کچھ لوگ مخالفت کی وجہ سے وہاں جمع تھے تاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سزا پاکر باہر نکلیں تو وہ خوشی کے شادیانے بجائیں۔ ان لوگوں میں سے بعض تو زمین پر بیٹھے تھے اور کچھ چادریں بچھا کر ان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے اپنی سبکی چھپانے کے لئے مناسب سمجھا کہ کسی چادر پر ہی بیٹھ جائیں تاکہ باہر کے لوگ یہ سمجھیں کہ انہیں اندر بھی کرسی ملی ہوگی۔ انہوں نے ایک چادر کا کنارہ کھینچا اور اس پر بیٹھ گئے لیکن ان کا بیٹھنا ہی تھا کہ چادر کے مالک نے کہا اٹھ اٹھ تو نے میری چادر پلید کردی ہے مسلمان ہوکر اسلام کے ایک سپاہی کے خلاف عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے۔
غرض عیسائیوں کی مخالفت انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی لیکن پھر بھی ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ ان کے مخالف۔ یہ مربعوں کی درخواستیں دیں اور ملازمتیں حاصل کرنے کے لئے انگریزوں کی خوشامدیں کرتے پھریں تو پھر بھی انگریزوں کے مخالف ہیں لیکن ہم جن پر انگریزوں نے مقدمات کئے ان کے ایجنٹ ہیں۔
غرض جتنے افسر آئے وہ سارے کے سارے ہمارے مخالف رہے۔ صرف میرے زمانے میں ایڈوائر پر یہ اثر ہوا کہ احمدیوں سے جو برتائو کیا جارہا ہے وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور ہر مجلس میں کہتا تھا کہ احمدیوں سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ درست نہیں لیکن ایمرسن کے زمانہ میں پھر انگریز حکام ہمارے خلاف ہوگئے اور یہ مخالفت جنکنسن کے زمانہ تک جاری رہی۔ آخر بتائو وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ کیا یہ ہماری انگریز دوستی کی علامت ہے کہ ۱۹۳۴ء میں کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ کے تحت مجھے نوٹس دیا گیا کہ تمہیں اپنی حفاظت کے لئے باہر سے احمدیوں کو بلانے کی بھی اجازت نہیں۔ اور یہ نوٹس مجھے گیارہ بجے رات کو دیا گیا اور پھر چار پانچ سو پولیس افسر` دو سپرنٹندنٹ پولیس اور ایک ڈپٹی کمشن اس لئے قادیان بھیجے گئے تاکہ تلواروں کی نوکوں کے نیچے مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری تقریر کریں۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے آیا یہ کہ انگریز احمدیوں کا دوست تھا یا یہ کہ انگریز احمدیوں کا مخالف تھا۔ پس یہ الزام جو ہماری جماعت پر عائد کیا جاتا ہے بالکل بے بنیاد اور واقعات کے سراسر خلاف ہے<۔۳۰
بائونڈری کمیشن میں الگ میمورنڈم پیش کرنے کے اعتراض کا جواب
اس پہلے الزام کا واقعاتی جائزہ لینے کے بعد فرمایا:
>احرار نے عوام کو بھڑکانے کے لئے یہ جھوٹا الزام بھی تراشا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے بائونڈری کمیشن کے موقع پر ملک سے غداری کی چنانچہ اخبار >آزاد< ۹۔ دسمبر ۱۹۴۹ء لکھتا ہے:۔
>اگلے دن سکھوں نے اپنا کیس پیش کیا کہ ننکانہ ہماری زیارت گاہ ہے اسے کھلا شہر قرار دا جائے ہمارے ظفر اللہ خاں صاحب بھی آن موجود ہوئے کہ آج میں پھر پیش ہونا چاہتا ہوں مجھے بھی اجازت دی جائے۔ آج میں نے مسلمانوں کا کیس پیش نہیں کرنا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ہے تاکہ قادیان بھی کھلا شہر قرار دیا جائے۔ ستیل واد نے اعتراض کیا کہ اس نام کی کیا کوئی اقلیت ملک میں موجود ہے۔ ظفر اللہ نے کہا ہم اقلیت ہیں ہم تمام مسلمانوں سے علیحدہ ہیں<۔
آزاد ۹۔ دسمبر ۱۹۴۹ء(
یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو اپنے آپ ک شریعت کے ٹھیکیدار سمجھتے اور ختم نبوت کے محافظ کہلاتے ہیں۔ اور جن کا لیڈر یہ کہا کرتا ہے کہ میں آل رسول ہوں۔ اس جھوٹ کے بعد انہیں پتہ لگا کہ احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے پیش ہی نہیں کیا بلکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا۔ اس پر سول اینڈ ملٹری گزٹ میں انہوں نے یہ نوٹ شائع کردیا کہ:۔
>شیخ بشیر احمد نے جو لاہور کی جماعت احمدیہ کے امیر ہیں بائونڈری کمیشن کے سامنے اپنی جماعت کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلع گورداسپور جو اس وقت تک ۳۔ مارچ ۱۹۴۷ء کی ابتدائی سکیم کے مطابق پاکستان کا حصہ تھا ضرور اس سے علیحدہ کردیا جائے اور قادیانیوں کی ایک علیحدہ اور آزاد ریاست بنا دی جائے۔ اس نے اپنے دعویٰ کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ چونکہ قادیانی مسلمانوں کا حصہ نہیں ہیں اس لئے ان کو علیحدہ وحدت تسلیم کیا جائے<۔
)آر۔ اے سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۱۔ دسمبر ۱۹۴۹ء(
ظاہر ہے کہ اس بات کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کے معنی ہی یہ تھے کہ جن لوگوں کو واقعات کا صحیح علم نہیں وہ کہیں گے کہ آخر کچھ نہ کچھ تو اس نے ضرور کہا ہوگا مگر بعد میں انہیں پتہ لگا کہ یہ بات بھی ثابت نہیں ہوسکتی اس پر انہوں نے دوسرا رخ بدلا اور کہا:۔
>جب تین مارچ ۱۹۴۷ء کے بیان سے ضلع گورداسپور کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور جب وہ مسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کرلیا گیا تھا اور جب قادیان بھی اس ضلع میں شامل تھا اور اس طرح قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا تھا تو پھر آپ کو کیا ضرورت محسوس ہوئی تھی کہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت سے علیحدہ اپنا محضر پیش کرتے اور آپ کے اس جواب کے کیا معنی کہ ہم نے محضر اس لئے پیش کیا تھا کہ قادیان پاکستان میں شامل ہوجائے جب کہ اس کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ایک عرصہ پہلے ہی ہوچکا تھا اور جب اس فیصلہ پر ہندوستان کو بھی اعتراض نہ تھا ہم الفضل اور ان کے وکیل شیخ بشیر احمد کو چیلنج کرتے ہیں کہ اس محضر کو جو آپ نے مسلمانوں سے جدا جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا تھا من و عن شائع کرو تاکہ ملت اسلامیہ کو معلوم ہوسکے کہ تم نے ہم سے جدا کیا بات چیت کی تھی اور ۳۔ مارچ کے واضح بیان کے بعد گورداسپور ہم سے کیوں چھین لیا گیا<۔
)آزاد یکم جنوری ۱۹۵۰ء(
یہ وہ الزامات ہیں جو عام مسلمانوں کو بھڑکانے کے لئے احمدیوں پر لگائے گئے۔ یہ صاف بات ہے کہ اگر عوام کو یہ محسوس ہو کہ احمدیوں نے ضلع گورداسپور کو جدا کرنے کی کوشش کی اور وہاں جو خونریزی ہوئی ہے وہ محض احمدیوں کی وجہ سے ہوئی ہے تو لازماً ان کے اندر جوش پیدا ہوگا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے متعلق جب یہ بات کہی گئی کہ انہوں نے گورداسپور کو پاکستان سے علیحدہ کرانے کی کوشش کی تو چونکہ وہ حکومت کے رکن تھے اس لئے حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس کی تردید کرے چنانچہ حکومت نے اعلان شائع کیا کہ:۔
>یہ کہا گیا ہے کہ جولائی ۱۹۴۷ء میں بائونڈری کمیشن کے روبرو آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں )موجودہ وزیر خارجہ پاکستان( نے مسلم لیگ کی طرف سے کیس پیش کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی بحث کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر بحث کے دوران میں انہوں نے کمیشن سے کہا کہ >قادیان< کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے دوران بحث اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ احمدیہ جماعت عام مسلمانوں سے ایک علیحدہ امتیازی حیثیت کی مالک ہے پھر ان مفروضہ بیانات کی بناء پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ آنریبل چوہدری صاحب کی اس بحچ نے کہ جماعت احمدیہ ایک علیحدہ فرقہ ہے گورداسپور کے مسلمانوں کی عام آبادی کے تناسب کو کم کردیا ہے اور کمیشن نے اس جماعت کی علیحدہ حیثیت کی وجہ سے گورداسپور کے مسلم اکثریت والے ضلع کو مسلم اقلیت کا ضلع قرار دے کر پاکستان کی حدود سے نکال دیا ایوارڈ کی رو سے اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا۔
حکومت کو یہ اعتراضات سن کر سخت تعجب اور حیرت ہوئی ہے کیونکہ اسے پہلے ہی یہ علم تھا کہ ان اعتراضات میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ اصل واقعات کے بالکل خلاف ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت نے ان اعتراضات کی پوری پوری تحقیقات کی جس نے یہ ثابت کردیا کہ یہ الزامات اور اعتراضات کلیت¶ہ بے بنیاد` خلاف واقعہ اور جھوٹے ہیں۔ آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ہرگز جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش نہیں ہوئے نہ آپ نے ان کی طرف سے کسی کیس کی وکالت کی اور نہ انہوں نے کبھی بحث کے دوران میں وہ باتیں کہیں جو ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں<۔
جب گورنمنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو احراریوں نے سوچا کہ اب کیا کریں اب تو گورنمنٹ نے بھی تردید کردی اور ہمارا جھوٹ طاہر ہوگیا چنانچہ انہوں نے اپنا رخ بدل لیا۔ دیکھئے کیا ہی نرم الفاظ میں اعلان ہوتا ہے >آزاد< لکھتا ہے:۔
>برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سر ظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفراللہ کی ذات<۔ )آزاد ۲۔ جون ۱۹۵۰ء(
اب ذرا اس کو پہلے بیان کے ساتھ ملا کر دیکھو کیا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا نام ضمناً آتا رہا ہے؟ پہلے انہوں نے کہا تھا >ہمارے ظفر اللہ بھی آن موجود ہوئے کہ آج میں پھر پیش ہونا چاہتا ہوں<۔ مگر احرار کے نزدیک یہ واقعات کا ذکر نہیں صرف خطابت اور تقریر کی روانی کا جوش ہے۔ پھر کہا تھا >آج میں نے مسلمانوں کا کیس پیش نہیں کرنا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ہے<۔ یہ بھی جوش خطابت ہے اور چوہدری ظفر اللہ خاں کا ذکر ضمناً آرہا ہے دراصل مخاطب جماعت احمدیہ ہے۔ گویا ظفر اللہ اصطلاح ہے اور مراد اس سے جماعت احمدیہ ہے۔ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو انہوں نے بولا۔ پہلے کیا چوہدری ظفر اللہ خاں نے یوں کہا لیکن اس کے بعد آزاد نے مندرجہ ذیل مضمون لکھا جو میں سارا سنا دیتا ہوں پہلے میں نے اس کا تھوڑا سا حصہ سنایا تھا:۔
>حکومت نے اس بیان سے عوام کو جہل مرکب میں ڈالنے اور غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے )اس لئے کہ ان کے جھوٹ کو ظاہر کیا گیا ہے اور ایسا کرنا سخت غلطی ہے( اس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد شدہ الزامات کو سر ظفر اللہ پر منطق کرکے عوام کے ذہنوں سے اس اثر اور دلوں سے ان تاثرات کو دور کرنا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق ان کے دلوں میں موجود ہے ۔۔۔۔ برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سرظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سرظفر اللہ کی ذات )گویا جو کچھ ہوا زور خطابت سے ہوا یعنی جب احرار میں زور خطابت پیدا ہوتا ہے تو وہ سو فیصدی جھوٹ بولا کرتے ہیں پھر کسی کو کیا حق ہے کہ ان کو اس عادت کے باوجود ان پر اعتراض کرے(۔
پھر لکھا ہے:۔ >ہمارا الزام سرظفر اللہ کی ذات پر نہیں بلکہ قادیانی جماعت پر ہے )گویا جہاں ہم نے ظفراللہ کہا ہے وہاں قادیانی جماعت سمجھو( وہ جماعت کہ سرظفراللہ جس کا نفس ناطقہ ہے یعنی ہم نے خلاصت¶ہ جماعت احمدیہ نہین لکھا ظفر اللہ لکھ دیا ہے( اور وہ الزام یہ نہیں کہ گورداسپور کیوں گیا )گویا یہاں گورداسپور کا سوال ہی نہیں( بلکہ یہ الزام یہ ہے کہ جب مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی تو مرزائیوں نے مسلم لیگ کے نمائندے سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا۔ اور جب انتخابات کے ذریعہ یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ حق نمائندگی صرف مسلم لیگ کو ہی حاصل ہے تو مرزائی وکیل کو بائونڈری کمیشن کے سامنے یہ کہنے کا کیا حق تھا۔ >قادیان بین الاقوامی یونٹ بن چکا ہے اور اسے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں<۔ اور یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا جب سرظفراللہ مسلم لیگ کے نمائندہ کی حیثیت سے موجود تھے اور جب تمام مسلمان انہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرتے تھے تو انہوں نے بشیر احمد کو جدا پیش ہونے سے کیوں نہ روکا اور کیوں قادیانیوں کو جدا پیشی کے خلاف احتجاج نہ کیا۔ اصل بات` اصل مسئلہ` اصل ملزم` اصل مجرم قادیانی جماعت ہے کہ جس نے جدا نمائندہ اور الگ محضر پیش کیا اور مسلم لیگ کو نمائندہ تسلیم کرنے سے عملاً انکار کردیا۔ حکومت نے سر ظفر اللہ کے متعلق تحقیقات تو فرمائی اور اس کی تردید بھی کی تاکہ کسی طرح قادیانی جماعت کا چہرہ دھل سکے۔ کیا حکومت پاکستان اس بات کی تحقیقات کو بھی تیار ہے کہ قادیانی جماعت نے وزارتی کمیشن سے کیا مطالبہ کیا تھا اور بائونڈری کمیشن کے سامنے کیا بحث تھی<۔
)آزاد ۲۔ جون ۱۹۵۰ی(
‏tav.12.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتش زدگی تک
اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ:۔
>حکومت نے اس بیان سے عوام کو جہل مرکب میں ڈالنے اور غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی جو ناکام کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے۔ اس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد کردہ الزامات کو سر ظفراللہ پر منطق کرکے عوام کے ذہنوں سے اس اثر اور دلوں سے ان تاثرات کو دور کرنا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق ان کے دلوں میں موجود ہیں<۔
آخر میں لکھا ہے:۔
>برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سرظفراللہ کا نام بھی آتا رہا۔ لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سرظفراللہ کی ذات<۔
میں نے اصل مضمون پڑھ دیا ہے اس میں جماعت کا کہیں ذکر نہیں صرف چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا ذکر ہے۔ پس >آزاد< کا یہ دعویٰ صراحتاً جھوٹا ہے۔ نہ زور خطابت کا اس سے تعلق ہے نہ کسی اور شے کا خالصتاً ظفر اللہ خاں صاحب پر الزام ہے اور وہ بھی خلاف واقع۔ کیونکہ سرظفراللہ خاں صاحب نہ جماعت کی طرف سے پیش ہوئے اور نہ انہوں نے ۔۔۔۔ یہ باتیں کہیں۔ اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اس بیان میں جتنی بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب جھوٹی ہیں کیونکہ یہ طبقہ جو احرار سے تعلق رکھتا ہے ایک فیصدی بھی سچ نہیں بولتا۔ پہلی بات تو میں نے بتا دی ہے کہ یہ جھوٹ ہے کہ الزام چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب پر تھا جماعت پر نہیں تھا۔ اب مین دوسری بات لیتا ہوں۔
دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی تو >مرزائیوں< نے مسلم لیگ کے نمائندے سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا۔
میرا جواب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے الگ میمورنڈم پیش کرنے کی وجہ احرار اور ان کے ہم خیال تھے اگر وہ نہ ہوتے تو ہم کو لیگ سے علیحدہ میمورنڈم پیش کرانے کی ضرورت کیا تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بائونڈری کمیشن مقرر ہوا تو طبعاً ہر جماعت نے خدمت قوم کے خیال سے اپنے اپنے میمورنڈم تیار کئے اور یہ خیال کیا گیا کہ جتنے زیادہ میمورنڈم ہوں گے اتنا ہی کمیشن پر زیادہ اثر ہوگا۔ زمیندار بھی کہیں گے کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ تاجر بھی کہیں گے ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اسی طرح دوسرے لوگ بھی ہندوئوں کی طرف سے بھی بیسیوں انجمنوں نے میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ کیا۔ اسی خیال کے ماتحت جماعت احمدیہ نے بھی ایک میمورنڈم تیار کیا اور غالباً گورداسپور مسلم لیگ کی طرف سے بھی ایک میمورنڈم تیار کیا گیا اور وہ لوگ جنہوں نے یہ میمورنڈم تیار کیا تھا ان کے نام یہ ہیں:۔
غلام فرید صاحب ایم ایل اے` شیخ کبیر الدین صاحب` شیخ شریف حسین صاحب وکیل جو احراریوں کے لیڈر تھے۔ مولوی محبوب عالم صاحب جو اوکاڑہ میں احراریوں کے لیڈر بنے ہوئے ہیں اور مرزا عبدالحق صاحب وکیل۔
کیا یہ لوگ مسلم لیگ کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ خیال نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح امرتسر کی ایک انجمن نے بھی علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ کیا۔ اور بعض انجمنوں نے جالندھر اور ہوشیارپور سے بھی یہی ارادہ کیا کہ علیحدہ میمورنڈم پیش کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک خاص جوش تھا کہ کسی طرح پاکستان کی طرف سے زیادہ سے زیادہ میمورنڈم بنائیں اور یہ کہیں کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اس کا حکومت پر اثر ہوگا۔ گویا صرف >قادیانیوں< نے ہی علیحدہ میمورنڈم پیش نہیں کیا بلکہ مسلم لیگ کی ایک شاخ نے بھی ایسا کرنے کا ارادہ کیا۔ اور جنہوں نے علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ نہیں کیا وہ وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ہم پاکستان کی >پ< بھی نہیں بننے دیں گے۔ اس لئے نہیں کہ وہ مسلم لیگ کے نمائندے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ پاکستان کا وجود ہی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ورنہ خود لیگیوں نے بھی علیحدہ میمورنڈم تیار کئے تھے تاکہ لیگ کو مضبوطی حاصل ہو۔ جب میمورنڈم پیش کرنے کا وقت قریب آیا اور چوہدری صاحب مسلم لیگ کی طرف سے نمائندہ مقرر ہوئے تو انہوں نے جماعت کو اطلاع دی کہ فیصلہ یہ وہا ہے کہ دونوں فریق کی طرف سے صرف کانگریس اور لیگ کے میمورنڈم پیش ہوں کیونکہ دو ہی نقطہ نگاہ ہیں اور یہ دونوں انجمنیں دو مخالف خیالات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس پر جماعت نے اپنے میمورنڈم کے پیش کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا )یاد رہے کہ احمدیہ میمورنڈم تیار کرکے مسلم لیگ کو بھجوا دیا گیا تھا کہ کوئی اعتراض ہو تو وہ بتا دیں مگر انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا(
اس کے بعد کانگریس نے کسی مصلحت کے ماتحت اپنے وقت میں سے کچھ وقت سکھوں کو دے دیا اور اسی طرح اچھوتوں کو بھی۔ شاید ان کا یہ مطلب ہو کہ سکھوں کے مطالبے تو وہی ہیں جو کانگریس کے ہیں لیکن کیونکہ یہ اجڈ قوم ہے کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ جب تک سردار جی نہ بولیں گے ہم راضی نہیں ہوں گے۔ اور جب سکھ بولے تو شاید اچھوتوں میں بھی یہ خیال پیدا نہ ہوجائے اس لئے ان کو بھی وقت دو )پہلے فیصلہ کے مطابق وقت صرف لیگ اور کانگریس میں تقسیم تھا۔ اگر لیگ یا کانگریس اجازت نہ دیتی تو کوئی اور میمورنڈم پیش نہ ہوسکتا(
جب اس فیصلہ کا علم مسلم لیگ کو ہوا تو اس خیال سے کہ ہندوئوں کی طرف سے بعض دوسری قوموں کے لیڈر بھی پیش ہوں گے شاید اس کا بھی کوئی اثر پڑجائے لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی ایک علیحدہ میمورنڈم پیش کردیں چنانچہ لیگ کی طرف سے ہمیں اور عیسائیوںکو ہدایت ملی کہ علیحدہ علیحدہ میمورنڈم پیش کرو ورنہ ہم پہلے ایسا کرنے کا ارادہ چھوڑ چکے تھے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ صرف احمدیوں کو ہی علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کی اجازت کیوں دی گئی گورداسپور کی مسلم لیگ کو اجازت کیوں نہ دی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ گورداسپور بہرحال مسلم لیگ کہلاتی ہے اور کوئی عقل مند نہیں کہہ سکتا کہ وہ مرکزی مسلم لیگ کے ساتھ متفق نہیں ہوگی لیکن احراریوں نے یہ پراپیگنڈا کیا ہوا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں اور شبہ تھا کہ ہندو سکھ ریڈ کلف کو یہ نہ کہہ دیں کہ مسلمان احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اس لئے ان کی آبادی کو نکال کر دیکھا جائے کہ آیا گورداسپور میں مسلم اکثریت ہے یا غیر مسلم اکثریت۔ حقیقت یہ ہے کہ ضلع گورداسپور میں ۶۰ ہزار احمدی تھے اور انہیں ملا کر مسلمان ۱۴ء۵۱ تھے جس کے یہ معنی تھے کہ اگر احمدیوں کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کردیا جاتا تو مسلمان ۶۹ء۴۵ رہ جاتے اور غیر مسلم زیادہ ہوجاتے تھے۔
پس احراریوں نے جو یہ شرارت کی کہ احمدیوں کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ سمجھا جائے اس کی وجہ سے مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم علیحدہ میمورنڈم پیش کریں ورنہ ہندو کہہ دیں گے کہ یہ مسلمان نہیں اور ثبوت میں احراریوں کا فتویٰ پیش کردیں گے۔ گویا احمدی اس لئے الگ پیش نہیں ہوئے کہ وہ اپنے آپ کو الگ سمجھتے تھے بلکہ ان کے الگ پیش ہونے کی ضرورت اس لئے سمجھی گئی کہ احراریوں نے یہ اعلان کیا ہوا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں۔ اگر ان سے علیحدہ پاکستان کی حمایت میں میمورنڈم پیش نہ کرایا جاتا تو ضلع گورداسپور میں مسلمان بڑی نمایاں اقلیت ہوجاتے تھے چنانچہ بعد میں سرتیجا سنگھ کی جرح نے ثابت کردیا کہ احرار` سکھوں اور ہندوئوں کی سکیم کا کس طرح احمدیہ میمورنڈم نے خاتمہ کردیا۔ سرتیجا سنگھ نے احمدی میمورنڈم کے پیش ہونے پر سٹپٹا کر کہا کہ >احمدیہ موومنٹ کا اسلام میں موقف کیا ہے؟< یعنی آپ لوگ تو مسلمانوں میں ہیں ہی نہیں آپ ان کی طرف سے کس طرح بول رہے ہیں؟ شیخ بشیر احمد صاحب نے جو احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم پیش کررہے تھے جواب دیا کہ >ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اول سے آخر تک مسلمان ہیں ہم اسلام کا ایک حصہ ہیں<۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوئوں اور سکھوں کا منصوبہ تھا کہ وہ کہیں احمدی مسلمان نہیں۔ انہیں نکال کر معلوم کرو کہ آیا ضلع گورداسپور میں مسلمان اقلیت میں ہیں یا اکثریت میں۔ لیگ اسے بھانپ گئی اور اس نے پاکستان کی حمایت میں احمدیوں سے علیحدہ محضر پیش کروا دیا۔
دیکھو یہ احراری جھوٹے ہیں پہلے انہوں نے کہا میمورنڈم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے پیش کیا تھا اور اس لئے علیحدہ میمورنڈم پیش کیا کہ احمدی مسلمان نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میمورنڈم شیخ بشیر احمد صاحب نے پیشکیا اور سرتیجا سنگھ کے اس سوال کے جواب میں کہ احمدیوں کا موقف کیا ہے شیخ بشیر احمد صاحب نے کہا ہم شروع سے آخر تک مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو اسلام کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ مگر احرار جھوٹ بول کر کہتے ہیں کہ ہم نے بائونڈری کمیشن کے سامنے یہ کہا کہ ہم مسلمان نہیں ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ کسی شاعر کا شعر ہے۔ ~}~
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہ لوگ کتنا بھی جھوٹ بولیں انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن بدنام ہم ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہم مسلمانوں کا ایک حصہ ہیں لیکن وہ کہتے ہیں انہوں نے کہا تھا ہم مسلمان نہیں >ہے< کو >نہیں< کہہ دینا کیا چھوٹی سی بات ہے؟
خلاصہ یہ ہے کہ احمدیوں کا الگ میمورنڈم پیش کرنا احرار کی اس شرارت کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ احمدی مسلمان نہیں۔ کیونکہ اگر اس کا جواب احمدی میمورنڈم میں دوسرے مسلمانوں کی حمایت کرکے نہ دیا جاتا تو گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت کو ہندو سکھ اعداد و شمار سے غلط ثابت کرسکتے تھے۔ یاد رہے کہ بٹالہ تحصیل میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب تھی اور احمدی ووٹ پچپن ہزار ووٹ میں سے پانچ ہزار سے اوپر تھا اور تحصیل گورداسپور` شک گڑھ اور پٹھانکوٹ میں دو ہزار سے زائد تھا۔ پس ووٹوں کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد زیادہ ۔۔۔۔۔ بنتی ہے۔ مگر چونکہ احمدیوں میں تعلیم زیادہ تھی اس لئے تعلیم کی وجہ سے ان کے ووٹ ساٹھ ہزار میں سے اتنے بن گئے۔ صرف قادیان میں احمدی بارہ ہزار سے زائد تھے اور اردگرد کے پانچ چھ دیہات میں مزید پانچ ہزار تھے۔ گویا صرف قادیان اور اس کے اردگردکے دو دو میل کے حلقہ میں احمدی سترہ ہزار تھے یعنی ۵ء۱ سارے ضلع کے آبادی کے۔ اگر قادیان کے علاوہ کوئی احمدی نہ ہوتا تب بھی احمدیوں کے نکالنے سے مسلمان اقلیت میں آجاتے تھے پس احمدیوں نے میمورنڈم پیش کروانا مسلمانوں کے مفاد کے لئے نہایت ضروری تھا اور لیگ نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل درست تھا۔
دوسری بات یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فیصلہ کے مطابق وقت صرف مسلم لیگ اور کانگریس کو ملا تھا۔ اگر مسلم لیگ ہمیں اجازت نہ دیت تو احمدی میمورنڈم پیش ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ خان افتخار حسین صاحب آف ممدوٹ` خواجہ عبدالرحیم صاحب سابق کمشنر` چوہدری اکبر علی صاحب اور دوسرے مسلم لیگی لیڈر اس بات کے گواہ ہیں کہ وقت صرف مسلم لیگ کو دیا گیا تھا ہمیں براہ راست وقت نہیں ملا بلکہ مسلم لیگ نے اپنے وقت میں سے ہمیں کچھ وقت دیا ورنہ ہم الگ محضر پیش ہی نہیں کرسکتے تھے۔ پھر کمیشن کے دو نو مسلمان جج جسٹس محمد منیر اور سابق جسٹس وحال گورنر سندھ ہزایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب بھی اس کے گواہ ہیں` ان لوگوں کو معلوم ہے کہ اس میمورنڈم کے پیشکرنے میں برابر ان مسلم ججوں سے مشورہ کیا جاتا رہا کیونکہ ان ججوں کے متعلق فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ قوم کے نمائندے ہیں۔ میں خود مسٹر جسٹس منیر کی کوٹھی پر گیا ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ بھی وہاں آگئے تھے۔ اسی طرح چوہدری نذیر احمد صاحب ممبر سرور کمیشن بھی اتفاقاً آگئے تھے۔ میرے ساتھ شیخ بشر احمد صاحب اور درد صاحب تھے ہم نے اس میمورنڈم پر قانونی طور پر ڈس کس (DISCUSS) کی اور اس کی کاپیاں ہم نے ان میں سے اکثر کو الگ محضر پیش کرایا گیا اور اس کی وجہ میں بتا چکا ہوں کہ احرار کی یہ شرارت تھی کہ احمدی مسلمان نہیں اور اس کا انہوں نے پراپیگنڈا کیا ہوا تھا۔ اگر ہم علیحدہ پیش نہ ہوتے تو ریڈکلف کو ادھر ادھر کے بہانے بنانے کی ضرورت ہی نہ تھی اور وہ احراریوں کا اپنا فتویٰ پیش کرکے کہہ سکتا تھا کہ چونکہ احمدی مسلمان نہیں اس لئے ان کو نکال دیا جائے تو مسلم آبادی ۴۵ فیصد رہ جاتی ہے اس لئے یہ ضلع ہندوستان میں شامل ہونا چاہئے۔ اس میمورنڈم کو پیش کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ریڈکلف کو اور بہانے تلاش کنے پڑے جن کی وجہ سے ہم آج تک انگریزوں کو بدنام کررہے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ احراریوں کی شرارت کو بھانپ گئی اور اس نے دھوکہ نہیں کھایا۔ اب انگریزوں کے پاس اس فیصلہ کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں۔ چنانچہ جب کوئی انگریز ہمارے پاس آتا ہے وہ شرمندہ ہوجاتا ہے۔ ان لوگوں کے ہندوستان سے تعلقات ہیں۔ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلہ میں جوزک پہنچی اس کا اثر زائل کرنے کے لئے یہ شرارتیں کروائی جارہی ہیں اور یہ پراپیگنڈا کروایا جارہا ہے کہ ضلع گورداسپور کا پاکستان سے الگ ہونا احمدیوں کی وجہ سے تھا۔ حالانکہ ہم نے میمورنڈم صرف اس لئے پیش کیا تھا کہ احراری چونکہ ہمیں مسلمانوں سے خارج سمجھتے تھے۔ اس لئے تم ہمیں مسلم سمجھو یا غیر مسلم ہم بہرحال پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں<۔۳۱
اخبار >تنظیم< پشاور میں سالانہ جلسہ ربوہ کی رپورٹ
پشاور )سرحد( کے ہفت روزہ اخبار >تنظیم< نے اپنی ۵۔ جنوری ۱۹۵۱ء کی اشاعت میں اس جلسہ کی حسب ذیل الفاظ میں رپورٹ شائع کی:۔
>ربوہ شریف میں مسلم جماعت احمدیہ کا انسٹھواں سالانہ اجلاس ۱۹۵۰ء
۲۶۔ دسمبر ۱۹۵۰ء بروز منگل حضرت امیروامام جماعت احمدیہ جناب مرزا بشیر الدین محمود نے افتتاح فرمایا
علماء کرام اور مبلغین جماعت احمدیہ کی حالات حاضرہ پر قرآن و احادیث فقہ و تاریخ کے مطابق اسلامی شعور` ذہن وفکر کے اعتبار سے موثر تقریروں و مواعظ
پشاور ۲۵۔ دسمبر کو شام کی گاڑی سے تنظیم کے نامہ نگار خصوصی ربوہ روانہ ہوئے اور ۲۶۔ کو پہلے اجلاس میں شامل ہوئے۔ مندرجہ حالات ہمارے نامہ نگار کے چشم دید اور اپنی قلم سے لکھے ہوئے ہیں جس پر >اخبار تنظیم< ہر طرح سے اعتماد رکھتا ہے۔
پنڈال میں اسی ہزار )۸۰۰۰۰( نفوس کے لئے انتظام تھا اور ہر شخص پوری ذمہ داری سے اجلاس کے ٹائم میں اپنی نشست پر پہنچ جاتا تھا۔ جماعت احمدیہ کے امام نے پہلے روز یعنی ۲۶۔ دسمبر ۱۹۵۰ء بروز منگل تلاوت قرآن اور حمد و نعت کے ساتھ اجلاس کا افتتاح فرمایا۔
اس وقت عجیب کیفیت تھی اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اس زمانے کے محمود نے اپنے لئے کئی ہزار ایاز پیدا کرلئے ہیں اور یہ یقین ہورہا تھا کہ مستقبل میں کفر و شرک کے سومنات گرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اس کے عقیدت مند پیغمبر آخر زمان کی امت میں اسے نبی کا درجہ دیتے ہیں۔
مسلمانوں کا جماعت احمدیہ سے صرف ایک اختلاف ہے کہ وہ مرزا صاحب کو صرف امتی ہی خیال کریں دوسرے اختلاف مثلاً پولیٹیکل عقیدوں کے متعلق یا جہاد کے متعلق تھے تو اس کا بھی پاکستان کے قیام میں جہانداری اور جہانبانی کی ذمہ داری نے اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرلیا ہے اور پاکستانی مسلمانوں کے ہر فرقے کا مرکز اب لندن` امریکہ` لین گراڈ` برلن اور ٹوکیو نہیں رہا بلکہ اب کراچی ہے۔ جنگ اور صلح زندگی کے عظیم الشان نصب العین میں سے ہے اور جنگ اور صلح کو چاہے کوئی مذہبی نقطہ نظر سے حل کرے یا اس کو دینی اور دنیاوی جدوجہد قرار دے مقصد ایک ہی بنتا ہے۔
جناب مرزا بشیر الدین صاحب محمود نے اپنی وسطی اور اختتامی تقریر مورخہ ۲۷۔ دسمبر بروز بدھ اور ۲۸۔ دسمبر ۱۹۵۰ء بروز جمعرات میں صاف فرما دیا کہ ہمارا نصب العین اسلام ہے۔ جماعت احمدیہ اسلام کے لئے زندہ رہے گی اور اسلام ہی کے لئے مرے گی۔ جماعت احمدیہ کا دستور العمل قرآن کریم ہے جس نے ہر وقت اور ہر زمانے میں انسان کی راہ نمائی کی ہے اور انسان نے اس کتاب الٰہی سے اپنے لئے مقام انسانیت اور فلاح و بہبود کا راستہ متعین کیا۔ اسلام تمام دنیا پر غالب رہا ہے اور غالب رہے گا۔ حضرت رسول اکرم محمد رسول اللہ~صل۱~ سب نبیوں کے امام و پیشوا ہیں اور نسل انسانی کے سب سے بڑے خیرخواہ اور مختار حیثیت کے نبی اور رسول ہیں۔ مرزا بشیر الدین صاحب کی تقریر میں درد تھا وہ درد جو کسی چشتی پیر کے حلقہ قوالی میں کبھی نہیں ہوسکتا۔ آج ہمارے پیروں اور سجادہ نشینوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے کہ ان کے گردوپیش میں قوال ہی قوال رہتے ہیں لیکن مرزا بشیر الدین صاحب نے فعالوں کا گروہ پیش کیا ہے۔
حضرت جناب ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب سابق مبلغ انگلینڈ وامریکہ` جناب پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے` جناب مولانا عبدالمنان صاحب ایم۔ اے` جناب قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری` جناب مولوی عبدالغفور صاحب` جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لنڈن` صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔اے` جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم` جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` جناب مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ` جناب خواجہ جلال الدین صاحب شمس فاضل سابق امام مسجد احمدیہ لندن` جناب مولوی رحمت علی صاحب فاضل مبلغ انڈونیشیا جن کی ہر تقریر اور ہر لفظ اور ہر مباحث میں انسانوں کو انسان اور انسانیت میں درس حیات اور دنیا و آخرت کے نجات کا ذریعہ قرار دے کر بتایا کہ تو حیدباری تعالیٰ اور رسول عربی~صل۱~ اور اللہ کی کتاب قرآن کریم ہی نجات آخرت کا وسیلہ ہے اور اس سے ہر شخص سرشار ہے۔
ہمارا نامہ نگار لکھتا ہے کہ پاکستان کے پیر اور پیرزادے اگر ربوہ کے اجتماع میں ہوتے تو کافی سبق لیتے جہاں علماء اور فضلاء کا اجتماع عظیم تھا` جہاں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ اختلاف ہمارا بھی جماعت احمدیہ سے اتنا ہی ہے جتنا ہمارے پیروں اور سجادہ نشینوں اور پیرزادوں کا ہے لیکن حق بات حق ہے۔ مرزا بشیر الدین محمود صاحب بھی اپنے مریدوں سے چندہ وصول کرتے ہیں لیکن وہ تعمیر پر خرچ کرتے ہیں۔ ربوہ میں دس ہزار کنال زمین خریدی ہے` سندھ میں محمود آباد سٹیٹ قائم کیا ہے۔ اپنے مریدوں سے لیتے بھی ہیں لیکن پھر تکلیف میں ان کی امداد بھی کرتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے علماء` پیران` سجادہ نشینان بھی ایسے ہی حالات پیدا کیں جو آج مرزا بشیر الدین محمود نے پیدا کئے ہیں۔ نصیحت جہاں سے بھی ملے غنیمت ہے<۔ )نامہ نگار(
تیسرا باب )فصل ششم(
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء میں متعدد بزرگ صحابہ رحلت فرما گئے جن میں سے بعض کا تذکرہ اس فصل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ مولوی رحمت اللہ صاحب سنوریؓ
)تاریخ وفات ۱۱۔ صلح ۱۳۲۹ ہش مطابق ۱۱۔ جنوری ۱۹۵۰ء(
آپ حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے سرخ سیاہی کے شہرہ آفاق آسمانی نشان کے حامل بزرگ حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ سنوری کے فرزند ارجمند تھے۔
آپ ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد موضع ثابت شاہ متصل پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ میں تھے کہ پیغام اجل آگیا۔ نعش بذریعہ لاری ربوہ لائی گئی۔ حضرت مصلح موعود منتظر رہے کہ کوئی اطلاع دے تو جنازہ پڑھائیں مگر افسوس مسجد میں اعلان تک کئے بغیر ان کی نماز جنازہ پڑھا دی گئی اور آپ سپرد خاک کردئے گئے اور حضور انور جنازہ میں شرکت نہ فرماسکے۔ ایک قدیم اور ممتاز صحابی کے لخت جگر کی نماز جنازہ کے بارے میں غفلت اور کوتاہی کا یہ ایسا افسوسناک مظاہرہ تھا کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے اسے آئندہ نسلوں کی راہ نمائی کے لئے پوری جماعت کے سامنے رکھنا ضروری سمجھا چنانچہ حضور نے ۱۳۔ صلح ۱۳۲۹ہش کو خطبہ جمعہ کے شروع ہی میں اس ناقابل برداشت سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔
>پیشتر اس کے کہ میں خطبہ کے مضمون کی طرف توجہ کروں میں اس امر پر اظہار افسوس کرنا چاہتا ہوں کہ پرسوں یہاں ایک پرانے صحابی کا جنازہ آیا جس کے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ترین صحابہ میں سے تھے اور آپ کے ایک بہت بڑے نشان کے حامل تھے لیکن یہاں کے کارکنوں نے اسی بے اعتنائی اور غفلت برتی جو میرے نزدیک ایک نہایت شرمناک حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ جنازہ مہمان خانہ میں لایا گیا مگر کسی نے تکلیف گوارا نہ کی کہ وہ س کی طرف توجہ کرے اور نہ ہی اس جنازہ کا مسجد میں اعلان کیا گیا۔ میں دوسرے دن دوپہر تک انتظار کرتا رہا کہ کوئی مجھے اطلاع دے اور میں نماز جنازہ پڑھائوں لیکن کسی نے مجھے اطلاع نہ دی۔ جب درد صاحب آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جنازہ کسی نے پڑھا دیا ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میری طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ میں بیمار ہوں اور جنازہ کے لئے باہر نہیں آسکتا اس لئے جنازہ پڑھا دیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں میں بیمار تھا اور باہر نہیں آسکتا تھا لیکن جب وصیت کا کاغذ میرے پاس دستخط کے لئے آیا تو ان کے تعلقات کی وجہ سے جو ان کے والد صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے تھے میں نے فیصلہ کیا کہ خود جنازہ پڑھائوں مگر یونہی کہہ دیا گیا کہ میں جنازہ پڑھانے کی اجازت دے دی ہے حالانکہ مجھے اطلاع ہی نہیں دی گئی۔ میں کل دوپہر تک انتطار کرتا رہا۔ رات کو تو میں نے خیال کیا کہ مناسب نہیں سمجھا گیا کہ رات کو جنازہ پڑھا جائے اور کل دوپہر تک میں نے سمجھا کہ رشتہ داروں کے آنے کی وجہ سے دیر ہوہی جاتی ہے اس لئے شاید دیر ہوگئی ہو لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ جنازہ خود پڑھا دیا گیا ہے اور میری طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ میں بیمار ہوں اس لئے جنازہ کے لئے باہر نہیں آسکتا جنازہ پڑھا دیا جائے۔ میں نے یہ کیس ناظر صاحب اعلیٰ کے سپرد کردیا ہے اور تمام ایسے آدمیوں کو جنہوں نے یہ حرکت کی ہے سرزنش کی جائے گی خصوصاً وصیت کا محکمہ بہت حد تک اس کا ذمہ دار ہے۔ میں جماعت کو بدقسمت سمجھوں گا اگر وہ اپنی تاریخ سے ناواقف ہوجائے۔ جو جنازہ آیا تھا وہ عبداللہ صاحب سنوریؓ کے بیٹے کا تھا جو صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کے بڑے بھائی اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد )ناظر امور خارجہ صدر انجمن احمدیہ( کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ مولوی عبداللہ صاحبؓ سنوری کی ہستی ایسی نہیں کہ جماعت کے جاہل سے جاہل اور نئے سے نئے آدمی کے متعلق بھی یہ قیاس کیا جاسکے کہ اسے آپ کا نام معلوم نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کشف جس میں کپڑے پر سرخ روشنائی ظاہری طور پر دکھائی دی مولوی صاحب اس نشان کے حامل اور چشم دید گواہ تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ چھینٹے گرے اور پھر خدا تعالیٰ نے انہیں یہ مزید فضیلت بخشی تھی کہ ایک چھینٹا ان کی ٹوپی پر بھی آپڑا۔ گویا خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان میں اور ایسے نشان میں جو دنیا میں بہت کم دکھائے جاتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ شامل تھے لیکن ان کے لڑکے کا جنازہ مہمان خانہ میں پڑا رہا مگر کسی نیک بخت کو یہ نہیں سوجھا کہ وہ مساجد میں اعلان کرے کہ فلاں کا جنازہ آیا ہے احباب نماز میں شامل ہوں<۔
پھر فرمایا:۔
>بہرحال ایسے کارکنوں کے خلاف مناسب اقدام کیا جائے گا اور انہیں سرزنش کی جائے گی لیکن چونکہ میں جنازہ میں شریک نہیں ہوسکا اس لئے نماز جمعہ کے بعد میں ان کا جنازہ پڑھائوں گا<۔۳۲
چنانچہ حضور نے جمعہ کے بعد مولوی رحمت اللہ صاحب کا جنازہ پڑھایا اور اس طرح ہزاروں احمدیوں کو خلیفہ وقت کی اقتدا میں ایک اہم قومی و جماعتی فریضہ کی بجاآوری کا شرف حاصل ہوا۔
الحاج حضرت چوہدری غلام حسین صاحب پی۔ ای۔ ایس ریٹائرڈ
)ولادت ۱۲۔ ذی الحجہ۳۳]ttex [tag مطابق ۳۱۔ جنوری ۱۸۷۴ء بیعت۳۴ تحریری و زیارت بمقام لاہور ۱۹۰۸ء وفات۳۵ ۲۴۔ جنوری ۱۹۵۰ء۔
آپ کے جدامجد بڈھن ایک راجپوت خاندان کے شاہزادے تھے جو ولی کامل مخدوم حضرت غوث بہاء الحق ذکریا~رح~ کے ذریعہ مسلمان ہوئے اور مخدوم سعد بڈھن کہلائے اور حضرت غوث کے معتبر واقع پرانا قلعہ ملتان کے اندر دفن کئے گئے۔۳۶
آپ حضرت چوہدری محمد حسین صاحب )والد ماجد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مشہور عالم نوبل پرائز یافتہ مسلمان سائنسدان( کے برادر اکبر تھے اور ابتدا میں احمدیت کے شدید مخالف تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی پہلی مسجد موحدین کے امام و جانشین رہے اور معاند احمدیت منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ لاہور کو >عصائے موسیٰ< کتاب لکھنے میں امداد کرتے رہے۔ منشی صاحب تو اپنے متریانہ دعاوی کی پاداش میں ۸۔ اپریل ۱۹۰۷ء کو طاعون سے ہلاک ہوگئے لیکن آپ سعید الفطرت تھے اس لئے ہیضہ میں مبتلا ہونے کے بعد بچ گئے۳۷ اور کمال خلوص و ارادت مندی کیا تو حضرت مسیح موعود کی بیعت کرلی اور پھر آخر دم تک دینی خدمات میں سرگرم عمل رہے۔
پہلی بار ۱۹۱۲ء میں قادیان تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ ضلع ڈیرہ غازی خان میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر تھے۔ ڈیرہ غازی خان کے بعد آپ ضلع لدھیانہ کرنال اور فیروزپور میں بھی اعلیٰ گزٹیڈ آفیسر کی حیثیت سے رہے اور پھر ڈیرہ غازی خان میں 1۔D مقرر ہوئے اور یہیں سے ریٹائر ہوکر ۱۹۳۲ء میں اپنے وطن مالوف جھنگ چلے آئے۔ پنشن یاب ہونے کے بعد آپ نے حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔
مرزا اعظم بیگ صاحب۳۸ مقیم حیدرآباد سندھ کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>حضرت چوہدری غلام حسین صاحب مرحوم ومغفور نے دو دفعہ خاکسار سے یہ واقعہ اپنی زبانی بیان فرمایا کہ وہ حدیث پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے ایک جگہ پڑھا کہ حضرت رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ >فلاں جگہ آگ لگے گی اور فلاں جگہ کے لوگ دیکھنے آئیں گے جگہ کا نام خاکسار کو یاد نہیں رہا(۳۹
وہ فرمانے لگے کہ اس حدیث کو پڑھ کر بہت حیران ہوئے کہ دونوں مذکورہ جگہوں کے درمیان تو تین سو میل کا فاصلہ ہے۔ وہ کونسی ایسی آگ دھہکتی ہے جو ۳۰۰ سو میل تک نظر آئے۔ اور یہ امر میری سمجھ سے بالا تھا۔ مگر چونکہ حضرت رسول کریم~صل۱~ کا فرمودہ تھا انکار بھی نہ کرسکتا تھا۔ کہ اس معمہ کے حل کے لئے مضطرب رہا۔ جب حج بیت اللہ کو گیا تو حج کرنے کے بعد میں اس مقام پر تحقیقات کے لئے گیا جہاں آگ لگنے کا حضور~صل۱~ نے فرمایا تھا۔ وہاں میں نے بیٹھ کر دہان کی مٹی سونگھ کر دیکھی تو اس سے مجھے تیل یا پٹرول کی بو آئی۔ چونکہ طبقات الارض کا ماہر بھ تھا اس نے سمجھ لیا کہ اس کے نیچے پٹرول کے چشمے ہیں۔ تو کسی وقت بیان کی وجہ سے آگ لگ گئی کہ اس کا Flame اس شدت کا ہوتا کہ ۳۰۰ میل تک نظر آئے گا۔ اس کے بعد حجاز و نجد کے شاہ عبدالعزیز ابن سعود سے جاکر ملا۔۴۰ اور ان کو اس امر سے آگاہ کیا بلکہ حضرت رسول کریم~صل۱~ کی حدیث دکھلائی۔ بلکہ ان سے کہا کہ آپ کسی Foreign کمپنی سے اسے Explore کروائیں۔
ابن سعود نے حضرت چوہدری صاحب مرحوم و مغفور کو کہا کہ آپ کو میں ۔/۳۵۰۰ )ساڑھے تین ہزار( روپیہ ماہوار تنخواہ دیتا ہوں۔ آپ میرے پاس آجائیں۔ اور ایسی کار کو یہاں تک لے آئیں۔ اس کے آگے میں منگوا لوں گا۔ مگر چوہدری صاحب نے معذرت کی جس کے بعد شاہ ابن سعود نے ایک ngeFori کمپنی سے بات کرکے پٹرول کے چشمے نکلوا۴۱لئے جس سے آج مکہ معظمہ کی سرزمین سعودی عرب کو اربوں روپوں کی دولت مل رہی ہے۔ اسی طرح ایک مخلص احمدی کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم~صل۱~ کے مکسن کو پاک زمین کی خوشحال کا ذریعہ بنایا۔۴۲
فریضہ حج کی بجاآوری کے بعد آپ اپنے وطن مالون جھنگ میں واپس تشریف لائے۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے احرار کو مباہلہ کا کھلا چیلنج دیا تو اس میں شرکت کے لئے جن مخلصین نے شرکت کی درخواست کی ان میں آپ بھی شامل تھے اس وقت آپ جھنگ میں تھے۔۴۳
۱۹۴۳ء میں آپ نے نمائندہ جھنگ کی حیثیت سے مجلس مشاورت قادیان میں شرکت کی۔ تقسیم ملک سے چند سال قبل آپ قادیان میں رہائش پذیر ہوگئے اور معاون ناظر امور عامہ اور پریذیڈنٹ محلہ دارالفضل کے عہدوں پر ممتاز رہے۔ اگست ۱۹۴۷ء میں آپ ہجرت کرکے پاکستان آگئے پہلے ملتان رہے پھر جھنگ میں مقیم ہوئے اور وہیں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
حضرت چوہدری صاحب` صاحب رویا و کشف۴۴ تھے۔ سلسلہ کی برابر مالی تحریک میں آپ نے حصہ لیا۔ دفتر اول تحریک جدید کے مجاہد تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ ڈیرہ غازی خاں اور جھنگ میں کئی لوگ آپ کے ذریعہ احمدی ہوئے۔ خوش خلقی` ملنساری` غریب پروری` مہمان نوازی اور سادگی آپ کا شعار تھا اور احمدیت کا عمدہ نمونہ تھے۔
اولاد
۱۔ فاطمہ بیگم صاحبہ )اہلیہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب خاکی(
۲۔
فضل الرحمن صاحب اسلم تحصیلدار۔
۳۔
نور الدین صاحب جہانگیر )اسسٹنٹ ڈائریکٹر فوڈ ڈیپارٹمنٹ(
۴۔
غلام محمد اقبال صاحب کرنل۔
۵۔
عبدالشکور صاحب ریڈیو الیکڑک سنٹر ملتان۔
۶۔
محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مصلح الدین سعدی مرحوم(
۷۔
امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ )اہلیہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب لنڈن و صدر لجنہ اماء اللہ انگلستان(
۸۔
ناصر احمد صاحب۔۴۵
۲۔ حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب لدھیانویؓ خلف الرشید حضرت صوفی احمد جانؓ:۔
)ولادت ۱۸۶۶ء قریباً۔ پہلی زیارت ۱۸۸۴ء بمقام لدھیانہ۔ بیعت ۶۔ فروری ۱۸۹۲ء۔ وفات ۲۱۔ احسان ۱۳۲۹ہش/ جون ۱۹۵۰ء(
حضرت پیر صاحبؓ سلسلہ احمدیہ کے باخدا بزرگوں میں سے تھے۔ ہجرت قادیان سے قبل ریاست جموں کے محکمہ تعلیم میں ملازم تھے لیکن جب حضرت حاجی الحرمین الشریفین مولانا نور الدین )خلیفتہ المسیح الاولؓ( مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے تو آپ نے بھی ہجرت کرلی اور الدار میں رہائش پذیر ہوگئے۔
آپ نے محض اس جذبہ سے کہ حضرت مہدی موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تصانیف بہترین صورت میں چھپ سکیں کتابت سیکھی۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بہت سی کتابوں کے پہلے ایڈیشن آپ ہی کے قلم سے لکھے ہوئے ہیں اور بہت دیدہ زیب اور نفیس ہونے کے علاوہ نہایت صاف اور صحیح چھپے ہوئے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اپنے اشتہار ۴۔ اکتوبر ۱۸۹۹ء مین خاص طور پر آپ کی اس عظیم خدمت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:۔
>بطور شکر احسان باری تعالیٰ کے اس بات کا ذکر کرنا واجبات سے ہے کہ میرے اہم کام تحریر تالیفات میں خدا تعالیٰ کے فضل نے مجھے ایک عمدہ اور قابل قدر مخلص دیا ہے یعنے عزیزی میاں منظور محمد کاپی نویس جو نہایت خوشخط ہے جو نہ دنیا کے لئے بلکہ محض دین کی محبت سے کام کرتا ہے اور اپنے وطن سے ہجرت کرکے اسی جگہ قادیان میں اقامت اختیار کی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ میری مرضی کے موافق ایسا مخلص سرگرم مجھے میسر آیا ہے کہ میں ہر ایک وقت دن کو یا رات کو کاپی نویسی کی خدمت اس سے لیتا ہوں اور وہ پوری جاں فشانی سے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے لئے اس خدمت کو سرانجام دیتا ہے یہی سبب ہے کہ اس روحانی جنگ کے وقت میں میری طرف سے دشمنوں کو شکست دینے والے رسالوں کے ذریعہ سے تابڑتوڑ مخالفوں پر فیر ہورہے ہیں۔ اور درحقیقت ایسے موید اسباب میسر کردینا یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے جس طرف سے دیکھا جائے تمام نیک اسباب میرے لئے میسر کئے گئے ہیں اور تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی ہے کہ گویا میں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں<۔۴۶
پیر صاحب کتابت کے دوران ہی جوڑوں کے درد کی وجہ سے معذور ہوگئے تو انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی منظوری سے حضور کے صاحبزادگان اور صاحبزادیوں کو قرآن شریف ناظرہ پڑھایا اور انہی کی تعلیم کی غرض سے >یسرنا القرآن< کا مشہور و معروف قاعدہ ایجاد کیا۔ جس کے ذریعہ نہ صرف برصغیر بلکہ بیرونی ممالک کے لاکھوں ان پڑھ لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی توفیق ملی اور اس وقت تک اس کے بہت سے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اس قاعدہ کی تعریف میں حضورؑ نے ۱۹۰۱ء میں اپنی اولاد کی آمین میں فرمایا۔ ~}~
پڑھایا جس نے اس میں بھی کرم کر
جزا دے دین اور دنیا میں بہتر
رہ تعلیم اک تو نے بتا دی
فسبحان الذی اخز الاعادی
نیز اپنے قلم مبارک سے لکھا:۔
>قاعدہ یسرنا القرآن بچوں کے لئے بے شک مفید چیز ہے اس سے بہتر اور کوئی طریقہ تعلیم خیال میں نہیں آتا<۔
خلافت ثانیہ کے قیام پر پیر صاحب نے رسالہ >تشحیذ الاذہان< میں >پسر موعود< >نشان فضل< اور >قدرت ثانیہ< کے عنوان سے تین معرکتہ الارء مضامین لکھے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ثابت کر دکھایا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ہی اشتہار ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کے حقیقی مصداق اور مصلح موعود ہیں۔ یہ مضامین جن میں سے دو کتابی شکل میں بھی چھپ گئے ان مباحث کی ریسرچ میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ان کی وفات پر ایک نوٹ میں لکھا کہ >حضرت پیر صاحب کے مزاج میں تصوف بہت غالب تھا مگر اس کے ساتھ زندہ دلی بھی بہت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اولؓ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ساتھ خاص عقیدت رکھتے تھے<۔۴۷
حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی وفات پر فرمایا:۔
>پیر منظور محمد صاحبؓ جنہوں نے قاعدہ یسرنا القرآن ایجاد کیا تھا وہ پرسوں فوت ہوگئے ہیں۔ پیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور پھر حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے سالے تھے۔ ہم جتنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہیں پیر صاحب ان کے استاد بلکہ ہم تینوں بھائیوں اور ہماری بہن مبارکہ بیگم کو قرآن کریم پڑھانے کے زمانہ میں ہی انہوں نے قاعدہ یسرنا القرآن ایجاد کیا تھا<۔۴۸
۳۔ ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ آف نیروبی:۔
وفات ۲۳۔ تبلیغ ۱۳۲۹ہش مطابق ۲۳۔ فروری ۱۹۵۰ء(
مشرقی افریقہ کے اولین صحابہ میں سے تھے۔ آپ کا نام الحکم ۱۰۔ اپریل ۱۹۰۱ء میں شائع شدہ ہے آپ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اور ایک لمبے عرصہ سے نیروبی )مشرقی افریقہ( میں مقیم تھے بلکہ نیروبی کے ابتدائی آبادکاروں میں سے تھے اور اسی بناء پر احمدیہ مسجد نیروبی کی ملحقہ ذیلی سڑکوں کا نام نیروبی میونسپلٹی نے >احمدی روڈ< رکھا تھا۔ حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم )برادر حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ( یوگنڈا ریلوے کی تعمیر کے سلسلہ میں ابتدائی بھرتی میں جب مشرقی افریقہ گئے تھے ان کی تبلیغ کے طفیل جہاں اور کئی نیک روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہاں مرحوم کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ نیروبی کی عالی شان احمدیہ مسجد کی تعمیر و چند جمع کرنے اور دیگر متعلقہ کاموں میں آپ نے آغاز کار ہی سے نمایاں حصہ لیا۔ علاوہ ازیں احمدیہ مسجد بٹورا کی نہایت خوبصورت عمارت کے چندہ کی فراہمی میں بھی آپ نے بڑی محنت و کاوش سے کام کیا۔ اپنی مٹر کار پر اس بڑھاپے میں جوانوں کی طرح مختلف دیہات و قصبات میں اور دوستوں کے پاس جاتے رہے اور تحریک کرکے چندہ وصول کرنے میں مدد دیتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اپنے عزیزوں کو یہ تلقین کرتے کہ شہری زندگی کی وجہ سے اور بعض اوقات مجبوری کی وجہ سے بھی لوگ مہمانوں کی خدمت کماحقہ نہیں کرسکتے تمہارا گھر ہمیشہ مہمانوں کے لئے کھلا رہے اور مہمانوں کی خدمت سے کبھی تمہیں گریز نہیں کرنا چاہئے۔ کانفرنسوں اور دیگر مواقع پر آپ مہمانوں کو حتی المقدور اپنے عزیزوں کے گھروں میں لے جاتے۔ باوجود بڑھاپے اور بیماری کے خود فرش پر لیٹ جاتے اور مہمانوں کو چارپائی اور بسترا دے دیتے مبلغین سلسلہ سے بالخصوص محبت و پیار کا سلوک کرتے اور ان کی خدمت سے بھی خوش ہوتے اور اپنے بچوں بچیوں کو ان کی مہمان نوازی کی تلقین کرتے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود سے آپ کو بے انتہاء محبت تھی۔ کسی کو حضور یا خاندان کے مقدس افراد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد طیبہ کے متعلق کچھ کہتے سنتے تو نہایت سختی سے اس کا مقابلہ کرتے اور اس کا بہترین جواب پیش کرتے اور ہمیشہ جماعت اور اپنے عزیزوں کو فتنہ پردازوں کی شرارتوں کے متعلق اصل حالات بتا کر آگاہ کردیتے۔
۴۔ صاحبزادہ حکیم خواجہ کرم داد صاحبؓ سابق حکیم شاہی ریاست جموں و کشیر متوطن چنگا بنگیاں` ضلع راولپنڈی
)ولادت قریباً ۱۸۳۵ء۔ وفات ۲۔ امان ۱۳۲۹ہش مطابق ۲۔ مارچ ۱۹۵۰ء بعمر ۱۱۵ سال(
حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور حضرت خلیفہ اولؓ کے شاگرد بھی تھے اور آپ کے ساتھ بہت عرصہ دربار کشمیر میں ملازم رہ چکے تھے اور اکثر چشم دید سمالات جو نہایت ایمان افروز ہوتے سنایا کرتے تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود نماز پنجگانہ کو بالالتزام ادا کرتے اور ہر نماز کے وقت تازہ وضو کرتے۔ تبلیغ کے بہت شائق تھے اور اکثر مریضوں اور ملنے والوں کو تبلیغ کرتے اور اشتہارات یا کتب سلسلہ بھی تقسیم کرتے رہتے تھے۔ آپ سلسلہ پر نہایت سچا ایمان رکھنے والے اور مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کا بے حد ادب و احترام کرنے والے بزرگ تھے۔ ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء کو حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثانیؓ کراچی تشریف لائے تو انہوں نے نظر کمزور ہونے کی وجہ سے اپنے نواسہ چوہدری فیض عالم خاں صاحب کو ساتھ لیا اور نماز جمعہ کے بعد حضور سے مصافحہ کیا اور بہت خوشی ظاہر کی۔
انہی دنوں آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سب سے اچھی بات کونسی دیکھی؟ فرمایا:۔
>میں نے سب سے اچھی بات اس وقت یہ دیکھی کہ صحابی مسیح موعود علیہ السلام میں ہر وقت ایک یہ جذبہ موجزن رہتا تھا کہ حضور علیہ السلام کی طرف سے کوئی حکم یا خدمت ملے تو وہ عاشقوں کی طرح اس کو کرنے کو تیار رہتے تھے اور ہر صحابی کا یہی خیال بلکہ خواہش اور تڑپ ہوتی تھی کہ یہ خدمت مجھے دی جائے اور اس کام کے کرنے کا مجھے ہی شرف حاصل ہو اور یہ ان میں ایک والہانہ جذبہ تھا جو صحابہ میں سب سے اچھا مجھے نظر آیا<۔۵۰
۵۔ حضرت سید محمد قاسمؓ میاں بخاری شاہجہانپوری:۔۵۱
‏text] g)[taبیعت ۱۸۹۴ء۔ زیارت اکتوبر ۱۸۹۹ء۔۵۲ وفات ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء بعمر ۸۱ سال قریباً(
حصرت سید محمد قاسم صاحب ان عشاق احمدیت میں سے تھے جن کو قادیان دارالامان میں بار بار آنے اور اس کی برکات سے بہت مستفید ہونے کا موقع ملا۔
آپ نے ۲۳۔ ستمبر ۱۹۳۹ء کو اپنی چشم دید روایات بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
۱۔
>میں نے حضور )حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ناقل( کی خدمت میں دو سوال کئے تھے ایک تو رشتہ کے متعلق تھا اور ایک نماز کے بارہ میں۔ نماز عشاء میں وتر کے متعلق سوال تھا کہ وتر کیسے پڑھے جاویں؟ آپؑ نے فرمایا کہ وتر کہتے ہیں دو کے اوپر جو ایک ہوتا ہے اور ایسے تین ہوجاتے ہیں اس لئے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بعد پھر کھڑے ہوکر ایک رکعت پڑھنی چاہئے۔
دوسرا سوال رشتوں کے متعلق تھا۔ میں چونکہ سادات خاندان سے ہوں مجھے اور میرے والد صاحب کو قومیت کا بہت خیال تھا۔ مگر یہ کہاں گیا کہ کوئی امتیاز نہیں۔ یہ بات میرے والد۵۳ کے لئے گراں تھی میں نے حضورؑ سے عرض کی کہ اس کے متعلق یہ مشکلات ہیں تو حضور~ع۱~ نے یہ فرمایا کہ ہمارا یہ منشاء نہیں ہے کہ امتیاز مٹایا جائے بلکہ اس کے اوپر ضد یا ہٹ کرکے مصر نہ ہونا چاہئے۔ اور ہماری جماعت میں سید بھی ہیں آپ ان سے رشتہ کرسکتے ہیں۔ ہاں اگر سید نہ ملیں تو سید پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔
۲۔
میں مسلسل چالیس سال سے جلسہ میں شرکت کررہا ہوں ایک ناغہ بھی نہیں کیا۔
۳۔
جب دوا >تریاق الٰہی< تیار ہوئی تو میری خواہش پر حضرت صاحب نے مجھے بھی کچھ دیا اور کچھ کونین بھی عطا فرمائی تھی۔
۴۔
ایک کرتہ حضرت ام المومنینؓ نے حضرت صاحب کو عطا فرمایا تھا جو اس وقت میرے لڑکے سید محمد ہاشم خاں بخاری کے پاس محفوظ ہے۔ حضرت صاحب نے مجھے براہین احمدیہ کے پہلے چاروں حصے خود اپنے دست مبارک سے عطا فرمائے تھے۔ حقیقتہ الوحی بھی آپ کی عطیہ میرے پاس ہے۔ تریاق القلوب` تحفہ گولڑویہ اور خطبہ الہامیہ عطا فرما کر حضور نے فرمایا تھا کہ ان کتابوں کو ایک جلد میں کرلینا۔ ریویو اردو بھی حضور نے ہی میرے نام جاری فرمایا تھا۔ ایک سال کے بعد میں خریدار بن گیا<۔۵۴ آپ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے ۳۰۔ احسان ۱۳۲۹ہش/ جون ۱۹۵۰ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
>قاسم میاں اکثر قادیان آتے رہتے تھے اور دیر دیر تک قادیان رہا کرتے تھے۔ حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ ہندوستان کے گزشتہ فسادات میں جو تباہی مسلمانوں پر آئی اس کا صدمہ ان پر گراں گزرا اور اسی صدمہ کی وجہ سے وہ نڈھال ہوگئے اور فوت ہوگئے<۔۵۵
۶۔ حضرت بابا حسن محمد صاحبؓ۵۶
)بیعت ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء۔ وفات ۲۰۔ وفا ۱۳۲۹ہش مطابق ۲۰۔ جولائی ۱۹۵۰ء بعمر اسی سال(
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے >موصی نمبر۱ بابا حسن محمد صاحب بھی چل بسے< کے عنوان سے مندرجہ ذیل نوٹ سپرد قلم فرمایا جس سے حضرت بابا صاحب کے حالات و سوانح اور شمائل و خدمات پر مختصر مگر بلیغ روشنی پڑتی ہے۔ فرمایا:۔
>بابا صاحب مرحوم اوجلہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور صحابیوں کی ایک خاص پارٹی کے رکن تھے جو چھ مخلصین پر مشتمل تھی یعنی ایک تو بابا صاحب مرحوم کے قریبی عزیز میاں عبدالعزیز صاحبؓ مرحوم اور منشی امام دین صاحبؓ مرحوم اور دوسرے سیکھواں متصل قادیان کے تین مشہور و معروف بھائی یعنی میاں جمال الدین صاحب مرحوم اور میاں امام دین صاحب مرحوم اور میاں خیر دین صاحب مرحوم ان چھ بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اوائل زمانہ ہی میں بیعت کی اور پھر آخر تک بیعت کے عہد کو نہایت اخلاص اور استقلال کے ساتھ نبھایا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں ان کا قادیان میں آنا جانا بھی اکثر ہوا کرتا تھا۔ ان میں سے میاں عبدالعزیز صاحب مرحوم نے ایک رات قیام گورداسپور کے دوران میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار تھے حضور کی اس رنگ ۔۔۔۔۔۔ میں خدمت کی اور ساری رات اس طرح جاگ کر کاٹی کہ بعد میں حضورؑ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ہم پر کتنا فضل ہے کہ حضرت عیٰسیؑ صلیب کے واقعہ پر اپنے حواریوں کو بار بار دعا کے لئے جگاتے تھے اور وہ پھر بھی بار بار سو جاتے تھے مگر ہم نے منشی عبدالعزیز صاحبؓ بکو بار بار سونے کے لئے کہا مگر وہ پھر بھی اپنے اخلاص میں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سوئے اور ساری رات خدمت میں لگے رہے۔ بہرحال بابا حسن محمد صاحب مرحوم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کے والد تھے اس مقدس شش ممبر پارٹی کے رکن تھے جنہوں نے اوائل میں ہی احمدیت سے مشرف ہونے کی سعادت پائی اور پھر ان کی زندگی کا ہر دنیا دن انہیں خدا سے قریب تر کرتا گیا۔ افسوس کہ ایسے مخلصین صحابیوں سے ہماری جماعت بڑی سرعت کے ساتھ محروم ہوتی جارہی ہے اور نئی پود میں سے اکثر نے ابھی تک وہ درس وفا نہیں سیکھا جس کے بغیر خدائی جماعتیں دنیا پر چھا نہیں سکتیں۔
بابا حسن محمد صاحب نے قریباً اپنی ساری عمر وعظ و نصیحت اور قرآن شریف پڑھنے پڑھانے میں گزاری اور ان کے وعظ کا طریق بھی ایسا دلکش ہوتا تھا کہ سننے والے دیہاتی لوگ اس سے بہت محظوظ ہوتے تھے اور فائدہ اٹھاتے تھے اور میرے خیال میں ان سے غالباً سینکڑوں عورتوں نے قرآن شریف پڑھا اور دینی مسائل سیکھے ہوں گے حتیٰ کہ جب وہ آخری ایام میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے چنیوٹ میں مقیم ہوئے تو کئی غیر احمدی عورتیں بھی ان کے درس میں شامل ہوتی تھیں اور میں نے سنا ہے کہ وہ ان کی وفات پر اس طرح روتی تھیں جس طرح ایک نی اور شفیق باپ کی موت پر سعادت مند بچے روتے ہیں۔ لیکن غالباً بابا صاحب مرحوم کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ انہیں موصیوں میں سے موصی نمبر ۱ ہونے کا شرف حاصل ہوا کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۶ء کے شروع میں رسالہ الوصیت لکھ کر وصیت کی تحریک فرمائی تو اس تحریک پر سب سے اول نمبر پر لبیک کہنے والا بابا حسن محمد صاحب مرحوم ہی تھے اور ان کی وصیت کا نمبر ۱ درج ہوا اور دوسرا امتیاز ان کا یہ ہے کہ ان کے اکلوتے فرزند رحمت علی صاحب کو سمندر پار فریضہ تبلیغ ادا کرنے کا سب دوسرے مبلغوں سے زیادہ لمبا موقع ملا ہے کیونکہ انہوں نے غالباً ۲۵ سال سے زیادہ جاوا` سماٹرا میں ¶تبلیغ کی سعادت حاصل کی ہے اور ظاہر ہے کہ اولاد کی نیکی میں مومن باپ کا بھی ضرور حصہ ہوتا ہے<۔۵۷
حضرت بابا صاحبؓ کی روایات جو انہوں نے ۳۰`۳۱۔ دسمبر ۱۹۴۷ء کو قادیان میں چوہدری عبدالستار صاحب بی۔ اے )آنرز( ایل ایل بی کے سامنے بیان فرمائیں الفضل )مورخہ ۲۳ تا ۲۸۔ تبوک ۱۳۲۹ہش/ ستمبر ۱۹۵۰ء( میں چھپ چکی ہیں اور بہت ایمان پرور ہیں۔
۷۔ حضرت ماسٹر مولا بخش صاحبؓ۵۸ متوطن موضع منیہ تحصیل روپڑ ضلع انبالہ:۔
)ولادت ۱۸۷۶ء۔ بیعت ۱۹۰۳ء۔ زیارت قادیان ستمبر ۱۹۰۵ء۔ وفات ۶۔ ظہور ۱۳۲۹ء مطابق ۹۔ اگست ۱۹۵۰ء(
حضرت ماسٹر صاحب کو داخل احمدیت ہونے کی تحریک مرزا خدا بخش صاحب کی کتاب >عسل مصفی< سے ہوئی جو انہیں مولوی محمد تقی صاحب سنوری مدرس سرہند کے ہاں ملی تھی۔ آپ ۱۹۰۵ء سے حضور کے وصال تک ہر سال موسمی تعطیلات میں ایک ماہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ آپ کی روایت ہے کہ:۔
>میں ایک دفعہ قادیان آیا ہوا تھا غالباً ستمبر کا مہینہ تھا سن مجھے یاد نہیں مسجد مبارک بڑھ چکی تھی صبح آٹھ بجے کا وقت ہوگا میں اکیلا ہی مسجد مبارک میں ٹہل رہا تھا کہ حضورؑ اندر سے تشریف لے آئے۔ میں نے مصافحہ کیا۔ حضورؑ مسجد مبارک کے پرانے حصہ میں بیٹھ گئے۔ اندر کی سیڑھویں سے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ اور ڈاکٹر یعقوب بیگ بھی آگئے حضورؑ ان سے باتیں کرنے لگے۔ میں حضور کے ہاتھ دبانے لگا۔ دباتے دباتے جب میرے ہاتھ دائیں ہاتھ کے پنجہ کے قریب تھے تو حضورؑ کو یکدم جھٹکا لگا اور حضور کا سارا جسم ہل گیا۔ حضور فوراً ہی اندر تشریف لے گئے پھر کوئی بات نہیں کی۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول فرمانے لگے کہ اب وحی کے نزول کا وقت ہے<۔
خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں جن بزرگ صحابہ کو عرصہ دراز تک مرکز سلسلہ میں تعلیمی خدمات بجالانے کا موقع میسر آیا ان میں حضرت ماسٹر صاحب موصوف کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ آپ ۱۹۔۱۹۱۸ء میں سپیشل ٹیچر کی حیثیت سے مدرسہ احمدیہ کے سٹاف میں شامل ہوئے۵۹ اور لمبی مدت تک اس مرکزی ادارہ سے منسلک ہوکر نونہالان احمدیت کو اپنے علم سے فیض یاب کرتے رہے۔ دارالہجرت ربوہ میں ۲۱۔ اخاء ۱۳۲۸ہش/ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو لوئر مڈل سکول جاری کیا گیا جس کے آپ پہلے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔
حضرت مصلح موعود` حضرت صاحبزادہ مرزا بشر احمد صاحبؓ` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحبؓ کے جن صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے آپ استاد تھے ان میں سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ( اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بھی شامل ہیں۔
حضرت ماسٹر صاحب تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہد تھے۔ قرآن مجید سے عاشقانہ تعلق اور لگائو تھا نمازوں اور تہجد کے باقاعدگی سے پابند تھے اور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کی طرح اکثر نمازیں محلہ دارالعلوم )قادیان( سے چل کر مسجد مبارک میں ادا کیا کرتے تھے۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے فدائی تھے۔ اکرام ضعیف کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ ہر ایک شخص سے نہایت خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ آپ کے دل میں بزرگوں کا احترام اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ غایت درجہ صابر و شاکر اور قانع بزرگ تھے دست سوال دراز کرنا ان کی طبیعت کے خلاف تھا۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ٹیوشن کرکے اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور انہیں سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ آخر عمر میں نحیف اور بوڑھا ہونے کے باوصف غیر معمولی ہمت و استقلال سے کئی کئی گھنٹے تک نہایت بشاشت سے مسلسل کام کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے فارغ بیٹھنا دوبھر معلوم ہوتا ہے اور میں کام میں خوش رہتا ہوں۔ دن کو سونا پسند نہیں کرتے تھے اور سستی کی علامت سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ سست آدمی اکثر بیمار رہتا ہے اور میں ساری عمر میں دو ایک مرتبہ کے سوا کبھی بیمار نہیں ہوا۔
۹۔ ماہ ظہور ۱۳۲۹ہش/ اگست ۱۹۵۰ء کو ملک عمر علی صاحب کھوکر رئیس ملتان کے ہمراہ کوئٹہ سے واپس آکر ملک صاحب کے آبائی گائوں کی طرف تشریف لے جارہے تھے کہ ملان اور لودھراں اسٹیشن کے درمیان ریل گاڑی میں ہی حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پائی۔ ۲۰۔ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے جمعہ کے خطبہ ثانیہ کے بعد آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
>ماسٹر مولا بخش صاحبؓ ان بزرگوں میں سے تھے جو استثنائی ہوتے ہیں۔ باوجود اندھے ہوجانے کے ان کا پڑھانے کا شوق نہیں جاتا تھا۔ ان کی عمر ۸۰ سال سے اوپر ہوگی کیونکہ مجھے خیال پڑتا ہے کہ وہ بیس پچیس سال سے ریٹائر ہوچکے تھے۔ وہ ہمیشہ پڑھاتے رہتے تھے۔ جہاں بھی خدمت کا کوئی موقع نکلتا وہ اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کردیتے۔ باوجود زور دینے کے میں نے دیکھا ہے کہ وہ پیسے نہیں لیتے تھے میری بچیوں کو بھی انہوں نے پڑھایا ہے مگر باوجود زور دینے کے انہوں نے پیسے نہیں لئے۔ بعض دفعہ میری طبیعت پر یہ امر گراں بھی گزرتا تھا لیکن وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ میں ثواب کی خاطر یہ کام کروں گا حالانکہ میں جانتا ہوں کی ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی۔ اس دفعہ وہ کوئٹہ گئے تو انہیں دیکھ کر مجھے رحم آگیا ۔۔۔۔۔ یہ لوگ ہیں جو شہید کہلانے کے مستحق ہیں۔ ۷۵` ۸۰ سال کی عمر تھی۔ نظر اتنی کمزور کہ میں بات کرتا تھا تو پہچانتے تھے لیکن پڑھانے کے لئے وہ ہرجگہ چلے جاتے تھے۔ ممکن ہے وہ کسی سے کچھ لے بھی لیتے ہوں لیکن عام خیال تھا کہ وہ مفت ہی پڑھاتے ہیں حالانکہ ان کا گزارہ بہت حقیر تھا یہ وہ لوگ تھے جنہیں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن پر فمنھم من قضی نعبہ و عنھم من ینتظر۶۰ کی آیت صادق آتی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے فرائض ادا کردیئے ہیں اور کچھ اپنے فرائض کو ادا کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں<۔۶۱
‏tav.12.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتش زدگی تک
۸۔ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل صاحبؓ بٹالوی:۔
)ولادت ۱۸۸۳ء۔ بیعت ۱۹۰۱ء` وفات ۲۰۔ ماہ ظہور ۱۳۲۹ہش/ اگست ۱۹۵۰ء(
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کے مختصر حالات تاریخ احمدیت جلد سوم میں ۱۹۰۱ء کے ممتاز صحابہ کے ضمن میں آچکے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت ماسٹر مولانا بخش صاحبؓ اور آپ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:۔
>یہ دونوں بزرگ بہت نیک اور مخلص اصحاب میں سے تھے جو عرصہ ہوا اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے قادیان میں آباد ہوچکے ہیں اور پھر گزشتہ انقلاب کے نتیجہ میں قادیان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور دونوں کو سلسلہ کے محکمہ تعلیم میں کافی خدمت کا موقع میسر آیا اور حسن اتفاق سے دونوں بالاخر مدرسہ احمدیہ سے )جو سلسلہ کی ایک مخصوص دینی درسگاہ ہے( اپنی ملازمت کا عرصہ پورا کرکے ریٹائر ہوئے مگر اس ریٹائرڈمنٹ کے بعد بھی ان کی خدمت کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ ماسٹر مولا بخش صاحب مرحوم حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ کے چھوٹے بچوں اور ہمارے خاندان کے دوسرے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوٹر کی حیثیت میں پڑھاتے رہے اور ماسٹر محمد طفیل صاحب مرحوم کو جلسہ سالانہ کے ایام میں سلسلہ کے مہمانوں کی خدمت کا نمایاں موقع ملتا رہا۔ دونوں اصحاب موصی تھے اور نماز اور دیگر اعمال صالحہ کے بجالانے میں خوب چوکس اور مستعد تھے<۔۶۲
۹۔ حضرت مولانا محمد امیر صاحبؓ آف آسام:۔۶۳
)ولادت اندازاً ۱۸۵۴ء۔ وفات ۳۔ تبوک ۱۳۲۹ہش مطابق ۳۔ ستمبر ۱۹۵۰ء بعمر ۹۶ سال(
حضرت مولانا صاحب علاقہ آسام میں احمدیت کے ستون اور بڑے جوشیلے مخلص اور بہادر احمدی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ۱۸۸۵ء میں پہلا تبلیغی۶۴ اشتہار جو انگریزی اور اردو میں شائع ہوا تھا حضرت امام الواعظین مولوی غلام امام صاحبؓ منی پور۶۵ کے ذریعہ آپ کے ہاتھ لگا اشتہار کا پڑھنا تھا کہ آپ کا چہرہ روشن ہوگیا اور آپ نے بلاتامل بیعت کا خط حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھ دیا۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں مدت سے مسیح موعود اور مہدی معہود کی آمد کا منتظر تھا کیونکہ مجھے تفہیم ہوئی تھی کہ یہ زمانہ امام الزمان کے نزول کا مقتضی تھا۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور میری زندگی میں ہوا اور ان کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔
رب جلیل کے قائم کردہ پاک سلسلہ میں شامل ہونے کے بعد آپ پر مصائب کے بادل چھا گئے اور آپ کو زمانہ دراز تک دنیاوی مشکلات اور صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا مگر آپ ہر ابتلاء پر ثابت قدم رہے اور ہر فتنہ کے موقع پر نہ صرف یہ کہ آپ خود ایک مضبوط چٹان کی طرح حق و صداقت پر قائم رہے بلکہ اپنے وعظ و تبلیغ کے نتیجہ میں قریباً دو سو اشخاص کو تحریک احمدیت سے وابستہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ ایک عالم متبحر تھے۔ قرآن کریم سے ان کو عشق تھا اور خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے ان کو فہم قرآن کا ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ مشکل سے مشکل مقامات کو دعائوں کے ذریعہ حل کرلیتے تھے اور سلسلہ کے بعض بزرگوں کی تفاسیر سے توارد ہوجاتا تھا۔ سلسلہ عالیہ کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو انہوں نے مطالعہ نہ کی ہو۔ عمر کے آخری دو سال میں آپ کی بینائی بالکل کمزور ہوگئی تھی اور مطالعہ ناممکن ہوگیا تھا پھر بھی اخبارات سلسلہ اور تازہ تالیفات و تصنیفات اپنی بیٹیوں سے سنا کرتے تھے۔ درثمین سے تو آپ ایک بے نظیر عشق تھا۔ بصارت کی کمزوری کے اس زمانے میں بھی درثمین آپ کے تکیہ کے نیچے رکھی رہتی تھی۔ آنکھوں پر زور ڈال کر اشعار یاد کرنا آپ کا محبوب شغل تھا۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ درثمین میری کمزوری کے لئے ٹانک اور میری بیماری کے لئے دوا اور روحانی غذا ہے۔ آخری دنوں میں بار بار وقت پوچھا کرتے تا کئی نماز فوت نہ ہوجائے یہاں تک کہ آخری رات تہجد اشارے سے پڑھی۔
آپ رئویا صالحہ کی نعمت سے بھی مستفیض تھے اور تعبیریں بتایا کرتے تھے اور صاحب الہام بھی تھے گو وہ اپنے الہاموں کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔۶۶
۱۰۔ خواجہ عبدالرحمن صاحبؓ رینج آفیسر امیر جماعت احمدیہ کشمیر )آسنور:(۔
)زیارت قایان ۱۹۰۱ء۔ وفات ۸/۷۔ فتح ۱۳۲۹ہش/ دسمبر ۱۹۵۰ء(
خواجہ صاحب کشمیر میں احمدیت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ ۱۹۰۱ء میں اپنے والد میاں حبیب اللہ صاحب کے ساتھ قادیان دارالامان میں گئے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہوئے اور میٹرک تک تعلیم بھی اس مرکزی ادارہ سے پائی اور حضرت مہدی موعود علیہ السلام کی بابرکت مجالس میں بھی شامل ہوئے۔ آپ کی متعدد چشم دید روایات حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی کتاب >سیرت المہدی< حصہ دوم و سوم میں درج فرمائی ہیں۔۶۷
فسادات ۱۹۴۷ء کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے خواجہ صاحب موصوف کو مقبوضہ کشمیر کی تمام احمدی جماعتوں کا پہلا امیر مقرر فرمایا اور آپ اس قومی خدمت کی بجاآوری کے لئے صبح و شام سرگرم عمل ہوگئے۔ جماعتی کاموں کے سلسلہ میں آپ مختلف جماعتوں کا دورہ ختم کرکے سرینگر پہنچے تو بیمار ہوگئے اسی حالت میں اپنے گائوں آسنور لائے گئے اور ڈیڑھ ماہ بعد واصل بحق ہوگئے۔۶۸
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ لکھا:۔
>میں اس عزیز کو اس وقت سے جانتا تھا جب کہ وہ چھوٹی عمر میں قادیان کے ٹی آئی ہائی سکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اس وقت اس سکول کا ہیڈماسٹر ¶تھا اور خواجہ صاحب مرحوم سکول کے بورڈنگ میں رہتے تھے۔ بلحاظ سکول اور بورڈنگ کا افسر ہونے کے مجھے ان کے حالات اور اخلاق دیکھنے کا بہت اتفاق ہوتا رہا۔ مرحوم ایک نہایت ہی نیک اور شریف طالب علم تھے کبھی کسی کے ساتھ ان کا کوئی جھگڑا نہ ہوا۔ اپنے استادوں کا اتنا ادب کرتے تھے کہ سب ان سے خوش رہتے تھے۔ اس کے بعد جب وہ اپنے وطن جاکر ملازم ہوگئے تب بھی ان سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ان کو طبعاً ایک جوش تھا اور نہایت اخلاق کے ساتھ وہ دوسروں پر اپنا نیک اثر ڈالتے تھے خداتعالیٰ کی توحید اور محمد~صل۱~ کی رسالت اور حضرت مرزا صاحبؑ کی مسیحیت اور مہدویت پر ان کو صدق دل سے ایمان تھا اور ان کی طبیعت میں یہ جوش تھا کہ خداتعالیٰ کی توحید کشمیر میں اور تمام ملکوں میں پھیل جائے اور قائم ہوجائے اور سب لوگ شرک کو ترک کرکے توحید پر قائم ہوجائیں۔ ان کی وفات کا مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ ان کی بیماری کی کوئی خبر نہیں آئی تھی اور ان ایام میں وہ میرے دو پوتوں کی خبرگیری کرتے تھے جو میرے بیٹے مفتی منظور مرحوم کی وفات کے بعد کشمیر میں رہ گئے تھے اور سیاسی انقلابات کے سبب ان کا میرے پاس آنا ایک مدت تک نہ ہوسکا۔ خواجہ صاحب مرحوم ہر طرح سے ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی طرف متوجہ رہے اور میں انہیں بچوں کی ضرورت کے مطابق خرچ بھیجتا رہا۔ مرحوم نے اپنے بیٹوں۶۹ کو تعلیم و تربیت کے واسطے قادیان بھیج دیا تھا اور تب سے ان کے دو لڑکے پاکستان میں مقیم ہیں اور نیکی میں اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں ۔۔۔۔۔ جب میں نے اپنی کتاب میں شائع کرنے کے لئے سرینگر میں قبر مسیح کا فوٹو لیا۷۰ تو مرحوم بھی میرے ساتھ اس فوٹو میں شامل تھا اور میری کتاب کی تصنیف کے کام میں مجھے امداد دیتے رہے<۔۷۱
ان اکابر صحابہ کے علاوہ میاں رمضان علی صاحبؓ جھنگ کا بھی اسی سال انتقال ہوا۔ میاں صاحب نے لکھنو کے مدرسہ دینیہ میں تعلیم کے دوران مخالف علماء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تذکرہ سنا اور تحقیقات شروع کردیں اور بالاخر داخل احمدیت ہوگئے۔ آپ لدھیانہ اسٹیشن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ چنانچہ آپ کا بیان ہے:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔۔۔۔۔۔ سیکنڈ کلاس میں تشریف رکھتے تھے۔ ریل کا ڈبہ ریزرو نہیں کرایا ہوا تھا۔ اس وقت ایک گھنٹہ تک وہ گاڑی لدھیانہ اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ اس وقت گاڑی کے اندر میں نے حضرت صاحب کی بیعت کی۔ بہت سے ہندو اور مسلمان اسٹیشن پر کھڑے ہوگئے تاکہ آپؑ کی زیارت کرسکیں اور پلیٹ فارم کھچاکھچ بھر گیا<۔
آپ نے ۱۹۲۶ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے پر قرآن شریف مکمل حفظ کیا اور صحابح ستہ مطالعہ کیں۔ آپ کو مسائل دینیہ خصوصاً احادیث` کتب سلسلہ اور ثنائی لٹریچر پر خاصا عبور تھا۔ پابند صوم و صلٰوۃ` شب بیدار اور جماعت کے مالی جہاد میں باقاعدگی سے حصہ لیتے تھے اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے دلی محبوں میں شامل تھے۔۷۲ آپ جھنگ میں مدفون ہیں۔۷۳
جماعت احمدیہ کبابیر کے عظیم بزرگ کا انتقال
ان صحابہ کے علاوہ اس سال کے شروع میں ۳۔ فروری ۱۹۵۰ء کو جماعت کے قدیم بزرگ الحاج صالح عودی بھی انتقال فرماگئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے فرزند محمد الحاج صالح کو حسب ذیل تعزیت نامہ ارسال فرمایا:۔
~بسم۳~
>ربوہ<
۲۲ شباط سنہ ۱۹۵۰م
عزیزی السید محمد الحاج صالح سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
وبعہ فقہ تلقینا بمناتقی الاسف الخبر الفاجع بوقاہ والدکم الحاج صالح العودی رحمہ اللہ فاناللہ وانا الیہ راجعون ط
کد ابن انثی وان طالت سلامہ
یوما علی الہ حدباء محمول
ان والدکم المرحوم کما علمت کان اول شخص دخل فی الجماعہ الاحمدیہ من الکبابیر وکان مثالا للجد وانشاط والاخلاص فی سبیل نشر الدعوہ الحقہ بین ابناء وطنہ فحزاہ اللہ منا خیر الجزاء علی ما ابدی من الاخلاص والمحبہ وادعواللہ ان یتغمد برحمہ الواسعہ۔ واسکنہ فسیح جنانہ ویجزل لہ الاجر والثواب فی دارلنسیم ویلھمکم واخوانکم وبتیہ اقربائکم علی فقدہ الصبر الجمیل` ووفقکم ان تکونوا خیر خلف لخیر سلف وادعواللہ تعالی ان یشفی المولوی محمد شریف شاء لا یفادر سقما وبلغوا صلامی الی جمیع الاخوان فی الکبابیر ووصتی بان یکونوا قدوہ حسنہ ومثالا اسمی للذین یاتون بعدھم والسلام علیکم۔
مرزا محمود احمد
الخلیفہ الثانی المسیح الموعود علیہ السلام
)ستمبر ۱۶۵۰ء صفحہ ۱۷۸` ۱۷۹(
~بسم۳~
)ترجمہ(
ربوہ
۲۷۔ ماہ شباط ۱۹۵۰ء
عزیزم سید محمد صاحب ابن الحاج صالح صاحب۔ سلمکم اللہ تعالیٰ!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ` کے بعد واضح ہو کہ آپ کے والد الحاج صالح العودی صاحب )اللہ کی رحمتیں ہوں ان پر( کی وفات کی ناگہانی خبر سن کر ازحد افسوس ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
کل ابن انثی وان طالت سلامتہ
یوما علی الہ حدباء محمول
)ہر شخص` خواہ وہ کتنی ہی لمبی عمر پالے۔ ایک روز موت کا شکار ہونے والا ہے(
آپ کے والد مرحوم` جیسا کہ مجھے علم ہے` کبابیر کے پہلے شخص ہیں جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے۔ وہ ابناء وطن میں دعوت حقہ کی اشاعت و تبلیغ کا فریضہ سعی کوشش` بشاشت اور اخلاص سے بجالانے میں ایک نمونہ تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہماری طرف سے ان کے اخلاص و محبت کی بہترین جزا دے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی بے پایاں رحمت سے ڈھانپ لے۔ انہیں اپنی وسیع جنتوں میں جگہ دے اور دارالنصیم میں ان کا اجر و ثواب فراواں کرے اور آپ کے اور آپ کے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے دل پر اپنی طرف سے صبر جمیل نازل فرمائے اور آپ کو اپنے نیک پیش رو کے نیک جانشین بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
نیز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولوی محمد شریف صاحب کو ایسی کامل شفاء عطا فرمائے جو مرض کا کوئی حصہ باقی نہ رہنے دے۔
کبابیر کے تمام بھائیوں کو میرا سلام پہنچا دیں اور میری یہ وصیت بھی کہ وہ اپنے سے بعد میں آنے والوں کے لئے نیک نمونہ اور اعلیٰ مثال بنیں۔
والسلام علیکم
میرزا محمود احمد
خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام<
مجلہ >البشریٰ< حیفا فروری ۱۹۵۰ء میں مرحوم کی شبیر کے ساتھ انجام کے سوانح پر بھی ایک قیمتی نوٹ مولانا محمد شریف صاحب مجاہد مبلغین کے سپرد قلم فرمایا جس میں بتایا کہ آپ کو مولانا جلال الدین صاحب شمس کا ذریعہ ۱۹۲۹ء میں شامل احمدیت ہونے کا شرف حاصل ہوا آپ کبابیر کے مبائعین میں دوسرے نمبر پر یہ تھے آپ سے قبل آپ کے فرزند اکبر السید عبدالقادر صالح العودہ احمدی ہوئے اور اول المبائعین ہونے کی توفیق پائی۔
‏]body [tag
تیسرا باب )فصل ہفتم(
۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
صاحبزادہ محمد اکرم خاں صاحبؓ کی شہادت
اس سال کے شروع کا ایک المناک واقع چار سدہ ضلع پشاور کے رئیس اور مخلص احمدی صاحبزادہ محمد اکرم خاں صاحبؓ کا واقعہ شہادت ہے جو ۱۰۔ ماہ صلح/ جنوری کو پیش آیا۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
> وہ ۷۶ سال کی عمر کے تھے اور ایک رئیس خاندان میں سے تھے۔ یہ وہی ہیں جن کے متعلق ان کے بھائی نے بیان کیا تھا کہ ہم نے ایک اٹھنی احمدیوں کو دے دی ہے اور ایک اٹھنی غیر احمدیوں کو۔ یہ پہلے پیغامی جماعت کے ساتھ تھے بعد میں مبائعین میں شامل ہوگئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی شہادت میں بعض مولویوں کا ہاتھ ہے لیکن ممکن ہے یہ غلط ہو کیونکہ پٹھانوں میں چھوٹی سے چھوٹی رنجش پر بھی ایک دوسرے کو قتل کردیا جاتا ہے۔ بہرحال وہ نہایت مخلص اور جوشیلے احمدی اور مبلغ تھے<۔۷۴`۷۵
حضرت مصلح موعود~رضی۱~ کا انگریزی زبان میں خطاب
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے انڈونیشین احمدی مسٹر بارام رنگوکوتی اور بیرونی ممالک کے دیگر احمدی مہمانوں کے اعزاز میں ۱۷۔ ماہ صلح کو ایک دعوت عصرانہ دی جس میں سورۃ بقرہ رکوع نمبر ۲ کی تلاوت کے بعد انگریزی زبان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
>قربانی کرو اور کرتے چلے جائو۔ خداتعالیٰ کے احکام پر مجنونانہ عمل کرو اور کرتے چلے جائو اور نتائج کے متعلق کوئی تردد نہ کرو کیونکہ جس کے ہاتھ میں نتائج ہیں وہ انشاء اللہ اپنے سلسلہ کو خود بارآور کرے گا اور اسے ہر قسم کی تباہی سے بچا لے گا<۔۷۶
جلسہ سیالکوٹ پر سنگباری اور ایک سعید روح کا قبول احمدیت
۱۹۔ ماہ صلح/ جنوری کو جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے پبلک جلسہ منعقد کیا جس کا پہلا اجلاس صبح ساڑھے دس بجے سے لیکر ڈیڑھ بجے تکے احراریوں کی مزاحمت کے باوجود جاری رہا جس سے پرنسپل جامعہ احمدیہ مولانا ابوالعطاء صاحب` مولانا جلال الدین صاحب شمس اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب نے تقریریں کیں۔ اس کے بعد جب دوسرے اجلاس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کی تقریر شروع ہونے لگی تو احرار اور خاکساروں نے شور مچانا اور حاضرین جلسہ پر بے دریغ پتھر پھینکنا شروع کردئے اور ساتھ ہی لائوڈ سپیکر لگا کر بانی سلسلہ احمدیہ` جماعت احمدیہ` اکابر سلسلہ اور وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف گالیاں دینے لگے۔ پولیس نے صورت حال پر قابو پانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن جب یہ لوگ اپنی ان غیر اسلامی حرکات سے باز نہ آئے تو بالاخر حکام نے امیر جماعت احمدیہ کو جلسہ بند کردینے کی تلقین کی۔ احمدی اس دوران میں نہایت پرامن رہے اور حکومت سے تعاون کرتے ہوئے جلسہ ختم کردیا۔ احراریوں کی ٹولیاں جلسے کے بعد بازاروں میں گشت لگا کر بھی اکا دکا احمدیوں کو زدوکوب کرتی رہیں اور وہ ایک احمدیوں کی دکانیں بھی لوٹیں مگر احمدیوں نے قانون کو ہاتھ میں لینا گوارا نہ کیا۔ احمدیوں کے اس صحیح اسلامی نمونہ کا یہ اثر ہوا کہ ایک شخص نے داخل احمدیت ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر یہی اسلام ہے جو احراریوں نے آج پیش کیا ہے تو مجھے اس کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ع
مجھے یہ کفر بہتر ہے ترے اسلام سے توبہ۷۷
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کوقتل کرنے کی سازش اورحضرت مصلح موعودؓ کی تحریک دعا
حضرت مصلح موعودؓ کو شروع ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی نسبت ایک تشویشناک رئویا دکھائی گئی۔ چوہدری صاحب ان دنوں نیویارک میں پاکستان
کی نمائندگی کے تعلق میں قیام فرما تھے۔ حضور نے مورخہ ۱۲۔ امان/ مارچ کو ان کے نام حسب ذیل تار دیا:۔
۔1948۔03۔13 Dated 273 ۔No <Telegrame
۔Newyork Khan zafrullah Sir۔To
‏ It ۔۔۔۔۔slain been have you anounced Radio Newyork seen Have I so warning, a be may it but success, unexpected means ordinarly۔becareful
۔Ahmad> Mahmood
)ترجمہ( میں نے رئویا میں دیکھا ہے کہ نیویارک ریڈیو نے اعلان کیا ہے کہ آپ شہید کردیئے گئے۔ عام طور پر اس کی تعبیر کوئی غیر متوقع کامیابی ہوتی ہے لیکن یہ ایک انذار بھی ہوسکتا ہے اس لئے آپ محتاط رہیں۔ محمود احمد۔۷۸
ڈیڑھ دو سال بعد ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء میں چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کے نام گمنام خطوط آنے شروع ہوگئے جن میں آپ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ بات جونہی اخبارات کے ذریعہ منظر عام پر آئی حضرت مصلح موعودؓ نے مندرجہ ذیل مضمون کے ذریعہ احباب جماعت کو دعائے خاص کی تحریک فرمائی:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کے بارہ میں ایک تشویشناک خبر
حال میں اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ سرظفراللہ خان صاحب کو تہدیدی خطوط ملے ہیں جن میں انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں ہر سر سے محفوظ رکھے۔ اس بارہ میں احباب کی اطلاع کے لئے تحریر ہے کہ ۱۹۴۸ء کی شوریٰ سے پہلے جب میں سندھ گیا تو میں نے وہاں یہ رئویا دیکھا کہ کوئی مجھے کہتا ہے یا میں نے اخبار میں دیکھا ہے کہ نیویارک ریڈیو اعلان کررہا ہے کہ سرظفراللہ خان کو >شہید< کردیا گیا ہے۔ میں نے اس وقت چوہدری صاحب کو اس بارہ میں اطلاع دی کہ گو خواب میں قتل سے مراد کوئی بڑی کامیابی ہے یا ظاہری تعبیر کے لحاظ سے یہ خوب تنذر بھی ہوسکتی ہے اس لئے وہ احتیاط رکھیں۔ اب اس تازہ خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خواب کے مضمون کو ظاہری صورت میں پورا کرنے کی سکیم دشمنوں کے مدنظر ہے۔
مختلف اطلاعات ملا کر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہندو لیڈروں نے پہلے احرار کے ذریعہ سے پاکستان میں چوہدری صاحب کے خلاف پراپگینڈا کروایا اور انہوں نے بعض مجالس میں یہاں تک کہا کہ امام جماعت احمدیہ اور سرظفراللہ کو قتل کیوں نہیں کردیا جاتا۔ جیسا کہ مجھے بعض لوگوں نے آج سے کوئی ایک ماہ پہلے اطلاع دی تھی اس پراپیگنڈا سے راستہ کھولنا مقصود تھا کہ اگر خدانخواستہ دشمن اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو تو ہندو لیڈر کہہ سکیں کہ ان کے مارنے والے خود مسلمان تھے۔ اس کے ساتھ ہی کہا جاتا ہے اسی سکیم کو اور زیادہ موثر بنانے کے لئے بنگال سے چند ہندو نوجوان مسلمانوں کے لباس میں بھجوائے گئے ہیں جو امریکہ میں چوہدری صاحب پر حملہ کریں۔ تاکہ ہندو لیڈر یہ کہہ سکیں کہ ان کا اس کام میں کوئی دخل نہیں یہ کام مسلمانوں نے خود طیش میں آکر کیا ہے۔ حالانکہ احراری پراپیگنڈا بھی ان کے اشارے سے شروع کیا گیا ہے اور اب یہ کوشش بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
اللہ کی یہ سنت ہے کہ بعض دفعہ کسی منذر امر سے ہوشیار کرنے کے لئے وہ خواب یا الہلام سے اطلاع دے دیتا ہے تاکہ دعا اور تدبیر سے مومن اسے ٹلا سکے۔ سو احباب کو چاہئے کہ چوہدری صاحب کے لئے ان دنوں میں خاص طور پر دعا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ احرار اور ہندوئوں کے مشترکہ منصوبہ سے ان کو بھی اور سب جماعت کو بھی محفوظ رکھے۔ کاش ہندو لیڈر یہ سمجھتے کہ ایسی کمینہ سازشیں فسادات کا ایک ایسا دروازہ کھول دیتی ہیں کہ ان کو بند کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کاش احرار یہ سمجھتے کہ وہ اپنے لئے تباہی کا گڑھا کھود رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت اسلام کو فتح دینا چاہتا ہے۔ احرار اور ہندو لیڈر دیکھ لیں گے اور دنیا بھی دیکھ لے گی کہ اس کھیل کا خداتعالیٰ کیا جواب دیتا ہے۔ خاکسار مرزا محمود احمد<۔۷۹
خدا تعالیٰ کے خلیفہ موعود اور اس کے پاکباز بندوں کی دعائیں جناب الٰہی میں قبول ہوئیں اور نہ صرف احرار اور ہندو لیڈروں کا چوہدری صاحب کے خلاف یہ خفیہ منصوبہ ناکام ہوگیا بلکہ چند ماہ بعد یہ حقیقت بھی طشت ازبام ہونے لگی کہ احرار بھارت کے آلہ کار اور ایجنٹ کی حیثیت سے ملک میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ برصغیر پاک وہند کے مشہور مسلمان لیڈر خواجہ ¶حسن نظامی صاحب دہلوی نے انکشاف کیا کہ:
>جو لوگ اس وقت مسلمانوں کے فرقوں خاص طور پر قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں پاکستان کے دشمن اور بھارت کے ایجنٹ ہیں<۔۸۰
حضرت امیرالمومنین کی طرف سے احرار کے ایک جعلی ٹریکٹ کی تردید
احرار پاکستان کا تختہ الٹنے کے لئے اب تک >جوش خطابت< سے کام لے کر اشتعال پھیلا رہے تھے مگر اس سال ان کی فساد انگیز
کارروائیوں نے ایک نیا رخ بدلا اور وہ یہ کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے خود ایک ٹریکٹ لکھا اور کراچی` گوجرانوالہ لاہور اور لائل پور سے شائع کرایا اور پھر لاہور کے اخبار آزاد` زمیندار اور سفینہ وغیرہ میں احمدیوں کے خلاف احتجاج کرکے ملک بھر میں فتنہ اٹھانا شروع کردیا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس جعلی اور شر انگیز ٹریکٹ کا جواب ایک مفصل مضمون میں دیا جو الفضل میں چھپنے کے علاوہ بذریعہ اشتہار ملک بھر میں شائع کیا گیا۔ یہ مضمون حسب ذیل الفاظ میں تھا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مسلمانوں اور پاکستان کا قیام اسلام کے قیام پر منحصر ہے
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی یہ شان بتاتا ہے کہ وہ جھوٹ سے بچتے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کی شان نبوت سے پہلے اہل مکہ پر اسی صفت سے ظاہر تھی کہ وہ صدوق و امین کہلاتے تھے یعنی نہایت راستباز اور ہرامانت کو پورا کرنے والے۔ آج بھی اگر مسلمان کوئی عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سچ ہی سے عزت حاصل کرسکتے ہیں لیکن افسوس کہ اس وقت بھی کہ اسلام اور مسلمان دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہوئے ہیں اور سرحد پار دشمن ان کی تاک میں لگے ہوئے ہیں بعض مسلمان کہلانے والے بلکہ علماء کہلانے والے اور اسلام کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والے جھوٹ اور فریب سے کام لے رہے ہیں۔ چنانچہ پرسوں مجھے گوجرانوالہ کے دو دوستوں کی طرف سے اشتہارات ملے ہیں جن کے نیچے ناظر دعوۃ و تبلیغ انجمن خدام احمد~صل۱~ گوجرانوالہ شہر لکھا ہے۔ یہ اشتہار سراسر جھوٹا اور افترائوں کا پلندا ہے۔
جماعت احمدیہ میں ناظر مرکزی سیکرٹری کو کہتے ہیں اور اس مفتری اور کذاب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ گوجرانوالہ جماعت احمدیہ کا مرکز نہیں اور وہاں کوئی ناظر نہیں۔ پھر لطف یہ کہ وہ انجمن خدام احمد کا ناظر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور کدام احمد نام کی کوئی انجمن احمدیوں میں نہیں۔ پھر اس مفتری نے احمد کے آگے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ہے~صل۱~ لکھا ہے یہ بھی اس کی جہالت نہیں بلکہ شرارت پر دلالت کرتا ہے۔ جماعت احمدیہ رسول کریم~صل۱~ کے سوا کسی اور نبی یا مامور کو~صل۱~ نہیں لکھتی۔ میں نے یا سلسلہ کے ناظروں نے کبھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو~صل۱~ نہیں لکھا۔ پس صرف مشتہر کے نام میں ہی اس شخص نے تین جھوٹ بولے ہیں اور وہ خیال کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اور اسلام کی جھوٹ بول کر خدمت کرتا ہے۔ حالانکہ خدا اور اس کا رسول~صل۱~ اور دین اسلام جھوٹ کے ہرگز محتاج نہیں وہ سچے ہیں اور سچ سے فتح پاسکتے ہیں۔ جھوٹ شیطان کے لئے ہے خدا اور اس کے رسولﷺ~ کے لئے نہیں ہے۔ وہ مفتری ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اسلام جھوٹ کا محتاج ہے۔
اس اشتہار کا عنوان ہے >امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کا تازہ ترین الہام >اکھنڈ ہندوستان< یہ عنوان بھی سراسر جھوٹا اور افترا ہے مجھے ہرگز ایسا کوئی الہام نہیں ہوا ہے اور میں نے یا میری جماعت نے ہرگز کوئی ایسا الہام شائع نہیں کیا۔ پس میں اس کے جواب میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ *** اللہ علی الکاذبین خداتعالیٰ کی *** ہو اس پر جو جھوٹ بولتا ہے۔ اس شخص نے اپنے نام کو چھپایا ہے لیکن خدائے علیم و خبیر اس کے نام کو جانتا ہے پس میں خدائے علیم و خبیر سے جو جھوٹ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے` جو پوشیدہ درپوشدہ رازوں سے واقف ہے جس نے اپنی پاک کتاب قرآن کریم میں جھوٹ سے منع فرما دیا دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے علیم و خبیر` اے خدائے قادر و توانا تو جانتا ہے کہ تو نے ایسا کوئی الہام مجھے نہیں کیا اگر باوجود اس کے میں نے یہ جھوٹ تجھ پر بولا ہے اور اس قسم کا الہام تیری طرف منسوب کیا ہے تو اے خدا میں تیری سچائی اور پاکیزگی کی قسم دے کر تجھ سے کہتا ہوں کہ تو مجھے اور ان لوگوں کو جو اس جھوٹ میں میرے شریک ہوں نیست و نابود کردے تاکہ دنیا پر یہ واضح ہوجائے کہ خداتعالیٰ پر جان کر جھوٹ بولنے والا تباہ اور برباد کیا جاتا ہے۔ اور اے میرے خدا اگر یہ اشتہار احرار یا اسی قسم کے اور لوگوں کی طرف سے جھوٹ اور افترا اور ناکردہ گناہ لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے ہے تو اے میرے رب جو سچائی سے پیار کرنے والا اور مظلوم کی مدد کرنے والا ہے میں تجھ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ اس قسم کے جھوٹے اشتہار دینے والوں اور اپنے افترا سے اسلام کو بدنام کرنے والوں پر اپنی *** بھیج اور اپنے عذاب میں ان کو پکڑتا تیرا نام دنیا میں روشن ہو اور صداقت دنیا میں پھیلے اور تیرا نام لے کر جھوٹ بولنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔
یہ تو میری خداتعالیٰ سے اپیل ہے اور اس قسم کا اشتہار دینے والوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ جھوٹ وہی بولتا ہے جس میں ایمان نہیں ہوتا اور جو خدا تعالیٰ پر توکل نہیں رکھتا اس لئے ایسے شخص کو سچائی اور صداقت کے نام پر بلانا فضول ہے۔ وہ تو لالچ ہی کا شکار ہوتا ہے۔ پس میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ اے پیٹ کی خاطر جھوٹ بولنے والو اگر اس اشتہار میں تم نے سچ بولا ہے تو میں ایک ہزار روپیہ تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں کہ وہ میری تحریر پیش کرو جس میں میں نے یہ لکھا ہو کہ اکھنڈ ہندوستان کی تائید میں مجھے الہام ہوا ہے یا یہ کہ پاکستان کے عارضی ہونے کے بارے میں مجھے الہام ہوا ہے۔ اگر تم ایسا ثابت کردو تو فوراً ایک ہزار روپیہ میں تم کو انعام دوں گا اور جھوٹ بولنے کی ذلت مجھے الگ نصیب ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہندو مسلمان میں اختلاف انتہاء کو نہیں پہنچا میری کوشش تھی کہ کسی طرح ملک تقسیم نہ ہو اور اس کے بارہ میں میں نے اپنے ذاتی خیالات کئی دفعہ ظاہر کئے تھے مگر کوئی الہام شائع نہیں کیا۔ مگر جب مئی ۱۹۴۷ء میں یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اب یہ اختلاف مٹائے نہیں مٹ سکتا میں نے اپنی رائے بدل لی اور پورے زور سے پاکستان کی تائید شروع کردی۔ چنانچہ تقسم ملک سے پہلے ہی میں نے پاکستان کی تائید میں لکھنا شروع کردیا جو الفضل اور دوسرے احمدی لٹریچر میں موجود ہے۔ اور اس وقت جب احراری اس امر کی کوشش میں تھا کہ پاکستان کی پ بھی نہ لکھی جائے میں اس امر کی تائید میں تھا کہ پاکستان سب کا سب مکمل ہوجائے اور خداتعالیٰ اس عزت اور شان کے ساتھ قائم رکھے۔ اگر مجھے کوئی الہام ہوا ہے تو یہی کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت بخشے گا اور مسلمان ذلیل ہوکر دشمن کے سامنے نہیں گرے گا بلکہ قدم بہ قدم آگے بڑھے گا۔ مشکلات ہوں گی عارضی طور پر قدم پیچھے بھی ہٹیں گے لیکن انجام اچھا ہوگا۔ اسلام کے لئے اب فتح مقدر ہے۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کا جھنڈا اب بلند ہوکر رہے گا اور احراری یا دوسرے لوگ اسے نیچا نہیں کرسکیں گے۔ انشاء اللہ۔
خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ<۸۱
جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں اور علماء سلسلہ کو احساس ذمہ داری کی تلقین
تحریک احمدیت ایک عالمی تحریک ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے یوں تو جماعت کے ہر فرد کو بین الاقوامی ذہن پیدا کرنے
اور اس کے مطابق اپنے فرائض کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے مگر جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں اور علماء سلسلہ پر تو اولین فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں اور فرض شناسی کا ثبوت دیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ )۲۸۔ شہادت/ اپریل( میں اس نکتہ کی طرف اس سال بھی بڑی وضاحت سے توجہ دلائی اور فرمایا:۔
>میں نے مدت سے جماعت کو اس طرف توجہ دلانی شروع کی ہے کہ اسے اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے فرض کا محسوس کرنا ان مرکزی انجمنوں پر عائد ہوتا ہے جو اس کام کے لئے مقرر ہیں یعنی صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید اور پھر صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ناظر اور وکلاء یعنی جن اعضاء سے یہ دونوں انجمنیں بنتی ہیں ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے۔ اور پھر ان سے اتر کر دوسرے کارکن جو ان کے ماتحت ہیں ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ نہایت ہی اہم طور پر فرض جماعت کے علماء پر عائد ہوتا ہے جو مذہبی خیالات اور اخلاقی معیاروں کے لئے ایک راہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک نمونہ کی شکل میں دیکھے جاتے ہیں۔ ان سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے کاموں کے لئے دماغ کا ہر وقت کام میں لگائے رکھنا ضروری ہوتا ہے اور یہی وہ عادت ہے جس کے ماتحت کوئی شخص کسی بڑے کام کے قابل ہوسکتا ہے<۔
>انبیائے کرام کو ہم دیکھتے ہیں کہ رات دن وہ اپنی قوم کی اصلاح و بہبودی کے فکر میں لگے رہتے تھے۔ رسول کریم~صل۱~ اپنی نسبت فرماتے ہیں کہ میں سوتے ہوئے بھی جاگتا ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سوتے ہوئے واقعی جاگ رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں سونے لگتا ہوں تب بھی قوم کی اصلاح و بہبود کے لئے سوچ رہا ہوتا ہوں اور جب جاگنے لگتا ہوں اس وقت بھی میرا دماغ انہی افکار میں مشغول ہوتا ہے۔ گویا آپﷺ~ کا یہ دعویٰ تھا کہ میں چوبیس گھنٹے قوم کی ترقی و اصلاح کے کاموں اور ان کے صحیح طور پر سرانجام پانے کی فکر میں لگا رہتا ہوں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھا رہا ہوتا ہوں اور اسلامی لشکر بھی تیار کروا رہا ہوتا ہوں۔ اب بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نماز سے غافل ہوتے تھے اور وہ ایسا کام کرنے لگ جاتے تھے جس کا نماز کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا تھا۔ آپ فرماتے ہیں اصلی واجھزا الجیوش میں نماز پڑھتا ہوں اور ساتھ ساتھ لشکر کی تیاری میں بھی لگا رہتا ہوں۔ یہ کیفیت ناتجربہ کار اور جاہل لوگوں کے لئے واقعی ٹھوکر کا موجب ہوسکتی ہے وہ سمجھیں گے کہ پھر نماز کیا ہوئی لیکن واقف کار جانتا ہے کہ فکر کا ایک مقام ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک وقت میں دو دو تین تین کاموں میں مشغول رہتا ہے نماز بھی پڑھ رہا ہوتا ہے اور قوم کے کاموں میں بھی مصروف ہوتا ہے۔ مجھے کئی دفعہ لوگ ملنے کے لئے آتے ہیں میں بعض کاغذات دیکھ رہا ہوتا ہوں وہ خاموش ہوجاتے ہیں تا میں اپنے کام سے فارغ ہوجائوں لیکن میں انہیں کہتا ہوں کہ بات کریں میں آپ کی بات بھی سنتا جائوں گا اور اپنا کام بھی کرتا جائوں گا اور یہ چیز میرے لئے ممکن ہوتی ہے۔ میں کھانا کھاتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں۔ پانی پیتے ہوئے بھی سوچ رہا ہوتا ہوں۔ پیشاب کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں۔ پاخانہ کرتے وقت بھی سوچ رہا ہوتا ہوں۔ غرض کوئی وقت مجھے ایسا نظر نہیں آتا جب میرا دماغ فارغ ہو یا میرا دماغ فارغ ہونا چاہئے یا میرا دماغ فارغ ہوسکے لیکن اس کا مقابلہ میں میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہماری یہ دونوں انجمنیں بیکار اور عضو معطل کے طور پر ہیں۔ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ کاغذ جو ان کے سامنے آتا ہے ان کی توجہ کو پھرا لیتا ہے اور اہم چیزوں کے متعلق تو ان کا دماغ چلتا ہی نہیں میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنے اوقات کو اس طرح صرف کرنا چاہئے جس طرح ایک قومی لیڈر اپنے اوقات کو صرف کرتا ہے<۔۸۲
خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق ایک ضروری اعلان
ایک مخلص احمدی عرصہ سے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی خدمت میں یہ درخواست کرتے آرہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لئے >خاندان نبوت< کے الفاظ ترک کردئے جائیں۔
حضور نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے۔ ۲۔ ماہ ہجرت ۱۳۲۹ہش کو بذریعہ الفضل حسب ذیل اعلان عام فرمایا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ایک ضروری اعلان
ایک صاحب دیر سے یہ لکھ رہے تھے کہ خاندان نبوت کا لفظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے خاندان کے متعلق نہ لکھا جایا کرے۔ مجھ پر چونکہ یہ اثر تھا کہ اس کے پیچھے صرف بزدلی کا جذبہ ہے کہ اس سے غیر احمدی چڑتے ہیں۔ اس لئے میں کوئی وجہ نہیں پاتا تھا کہ جب ایک بات میں صداقت پائی جاتی ہے تو اس کو کیوں نہ استعمال کیا جائے لیکن متواتر خط وکتابت میں ان صاحب نے ایک بات لکھی جس نے میری طبیعت پر اثر کیا اور وہ بات یہ تھی کہ خاندان نبوت سے یہ دھوکا لگتا ہے کہ شاید یہی ایک خاندان نبوت ہے اور میں نے سمجھا کہ اس قسم کا دھوکا ضرور پیدا ہوجاتا ہے اس لئے اس لفظ کا استعمال ٹھیک نہیں۔ اصل نبوت تو رسول کریم~صل۱~ کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نبوت تو ظلی ہے۔ پس اصل >خاندان نبوت< تو رسول کریم~صل۱~ کا خاندان ہے جس نے اپنی قربانیوں سے اور اپنے ایثار سے اور اپنی خدمت اسلام سے یہ ثابت کردیا کہ ان کے دل میں اس فضل اور احسان کی بہت بڑی قدر ہے جو خداتعالیٰ نے انہیں محمد رسول اللہ~صل۱~ کے گھر میں پیدا کرکے کیا ہے پس ایسا کوئی لفظ جس سے یہ شبہ پیدا ہوجائے کہ کسی اور خاندان کو رسول کریم~صل۱~ کے خاندان کے علاوہ کوئی امتیاز دیا جاتا ہے تو خواہ وہ نادانستہ ہی ہو پسندیدہ نہیں اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ >الفضل< میں اور دوسری احمدی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ کے خاندان کو خاندان نبوت کی بجائے خاندان مسیح موعودؑ لکھا جایا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جتنے دعاوی ہیں وہ سارے کے سارے مسیح موعودؑ کے لفظ میں شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ یہی نام آپ کا حاوی نام ہے۔ پس خاندان مسیح موعودؑ کہنے سے وہ تمام باتیں اس خاندان کی طرف منسوب ہوجاتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے ان کی طرف منسوب ہوسکتی ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا خاندان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اس مقام کا اہل ثابت کرے جو مقام خداتعالیٰ نے ان کو بخشا ہے۔ اگر ان میں سے ہی بعض دنیا کے کاموں میں لگ جائیں اور روٹی انہیں خدا تعالیٰ پر مقدم ہو تو انہیں خاندان نبوت کہا جائے یا خانوادہ الوہیت کہا جائے بلکہ خواہ خدا ہی کہہ دیا جائے ہر تعریف ان کے لئے ہتک کا ہی موجب ہوگی۔ کسی عزت کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کی تعریف کرنے والے لوگ ان کو زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ سے پھرانا چاہتے ہیں۔ خاکسار مرزا محمود احمد<۔۸۳
سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک روایت اور حضرت مصلح موعودؓ کی راہنمائی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۸۴ء میں جبکہ آپؑ کی دوسری شادی نہیں ہوئی تھی ایک فرشتہ کے ذریعہ ایک دوا بتائی گئی جس کے
استعمال سے خدا نے برکت ڈال دی اور آپ کو اس کا بے انداز فائدہ ہوا۔۸۴ یہ دوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی۔ روایات کے مطابق >زدجام عشق< تھی جو اشارہ غیبی کے ماتحت آپؑ کو سکھائی گئی۔۸۵ مگر حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم نے حضرت خلیفہ اولؓ کی سوانح عمری میں اور حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیٰسی نے اپنی کتاب >مائتہ عامل< میں اس نسخہ کو سہواً حضرت خلیفہ اولؓ کی طرف منسوب کردیا جس کی تصیح کے لئے حصرت مصلح موعودؓ نے مندرجہ ذیل مضمون شائع فرمایا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک تاریخی روایت کے بارہ میں ایک مقابل روایت
حضرت خلیفہ اولؓ کی سوانح عمری میں جو حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم کی شائع کردہ بیاض نور الدین کے ابتداء میں درج ہے اور حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیٰسی کی نئی طبی کتاب >مائتہ عامل< میں دوائی زوجام عشق کے بارہ میں ایک روایت شائع ہوئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ زدجام عشق کا نسکہ حضرت خلیفہ اولؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دیا اور یہی نسخہ آپ نے ایک مریض کو دیا تھا جس سے اس کو بہت کچھ فائدہ ہوا اور اس کے اولاد ہوئی اور اس نے آپ کو بہت کچھ انعام دیا۔
یوں تو یہ ایک معموی بات ہے لیکن تاریخی روایتوں کو زیادہ سے زیادہ صحیح کرنے کی کوشش چاہئے۔ اس لئے اس بارہ میں جو بات میں نے حضرت خلیفہ اولؓ سے سنی ہوئی ہے وہ بھ میں درج کرتا ہوں۔ مجھے حضرت خلیفہ اولؓ نے یہ بتایا تھا کہ یہ نسخہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو کسی اور شخص نے بتایا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ نسخہ تیار فرمایا۔ انہی دنوں میں حضرت خلیفہ اولؓ آپ سے ملنے کے لئے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بتایا کہ یہ نسخہ بہت اچھا ہے آپ کو بھی میں کچھ دوائی دیتا ہوں آپ بھی استعمال کرکے دیکھیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ میں نے وہ دوائی لے کر رکھ لی اور استعمال نہیں کی کیونکہ بوجہ طبیب ہونے کے میرا یہ خیال تھا کہ فائدہ تو تشخیص پر مبنی ہوتا ہے جب تک کسی شخص کی بیماری یا اس کی کمزوری کی وجہ مشخص نہ ہو کسی دوائی کو اس کے لئے مفید نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے میں نے ادب کی وجہ سے دوائی تو رکھ لی مگر استعمال نہ کی۔ واپس جموں جاتے ہوئے میری اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ ہم راستہ میں ایک رئیس کے پاس ٹھہرے اس کے اولاد نہیں ہوتی تھی میری بیوی نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ تمہارے اولاد کیوں نہیں ہوتی۔ اس نے کہا اولاد کیا ہونی ہے میرے خاوند میں تو بعض مردانہ کمزوریاں پائی جاتی ہیں آپ ہی حکیم صاحب سے کہیں کہ وہ کوئی دوائی دیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں کہ جب میری بیوی نے مجھ سے یہ ذکر کیا تو چونکہ ہم مسافرت میں تھے اور تو کوئی دوائی تھی نہیں میں نے وہی گولیاں >زدجام عشق< اس کو دے دیں۔ ایک دو دن کے استعمال سے اسے بے نظیر فائدہ ہوا جس کا نتیجہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے اولاد بھی ہوگئی۔ جب ہم چلنے لگے تو اس کی بیوی نے میری بیوی کو یہ کہہ کر کہ آپ نے تو ہمارا اجڑا گھر بسا دیا ہے اپنے سونے کے کڑے اتار کر تحفہ کے طور پر دے دیئے اور مجھے بھی اس رئیس نے بہت سی رقم اور دوسری چیزیں تحفہ میں دیں۔ تب میرے دل میں خیال آیا کہ خداتعالیٰ کے بندوں کی کوئی بات بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔ میں نے تو سمجھا تھا کہ یونہی دوستانہ رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے گولیاں مجھے دے دی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ گولیاں اس لئے دلوائی تھیں کہ وہ میرے کام آنے والی تھیں اور مجھے ان سے بہت فائدہ پہنچنے والا تھا۔
یہ روایت میں نے حضرت خلیفہ اولؓ سے سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت بھی ہماری تاریخ میں محفوظ ہوجانی چاہئے۔ اس روایت کی تفصیلات سے مجھ پر یہ اثر ہے کہ یہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ علم درایت میں یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ تفصیلی روایت مجمل روایت کی شارح ہوتی ہے۔ ممکن ہے حضرت خلیفہ اولؓ نے مختصراً یہ فرمایا ہو کہ ہم نے یہ گولیاں ایک رئیس کو دیں تو اس کو فائدہ ہوا۔ اور اتنا حصہ روایت کا اوپر والی روایت کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے اور سننے والے نے دوسرے ذرائع سے یہ بات معلوم کرکے کہ حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی یہ نسخہ استعمال فرماتے تھے یہ خیال کرلیا کہ وہ رئیس والا واقعہ پہلا کا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس نسخہ کے استعمال کرنے کا واقعہ بعد کا ہے اور اس طرح روایت کی شکل بدل دی<۔۸۶
حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ارشاد خاص عالمگیر اسلامی نظام کے قیام سے متعلق
۲۳۔ احسان/ جون کو حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ جمعہ کے ذریعہ ایک بار پھر جماعت احمدیہ کو یہ خصوصی ہدایت فرمائی کہ وہ تبلیغ
کے ذریعہ احمدیت کے روحانی غلبہ اور فتح کی سرگرمیوں کو تیز تر کردیں تا جلد سے جلد صحیح اسلامی نظام کا دنیا بھر میں نفاذ ہوسکے۔ چنانچہ فرمایا:۔
>یہ امر ظاہر ہے کہ جب بھی کبھی کسی مامور کی جماعت کو خدا تعالیٰ غلبہ دیا کرتا ہے تو پہلے وہ افراد پیدا کیا کرتا ہے تو پھر غلبہ دیا کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہوا۔ اور اب بھی ایسا ہی ہوگا یہ کبھی نہیں ہوگا کہ خدا تعالیٰ لاکھ دو لاکھ افراد کو دنیا پر غالب کردے وہ پہلے لاکھ دو لاکھ کو دس بیس کروڑ بنائے گا اور پھر انہیں غلبہ بخشے گا۔ اور یا اگر ہمیں خدا تعالیٰ نے فوری طور پر ترقی دی تو پھر کسی ایسے ملک میں جس کی آبادی پانچ چھ لاکھ کی ہو دو تین لاکھ آدمی اس جماعت میں داخل کرے گا اور اس جگہ پر احمدیت کو غلبہ عطا کرے گا اور پھر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ملک پر غلبہ عطا کرتا جائے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ خداتعالیٰ افراد میں کثرت کے بغیر کسی جماعت کو پہلا غلبہ عطا کرے اگر ہمارے افراد کی زیادتی نہیں تو ہم دنیا میں صحیح جمہوریت کو قائم نہیں کرسکتے۔ اسلام جبر کو جائز نہیں سمجھتا اگر ہم تھوڑی تعداد کے ذریعہ دنیا میں حکومت کو قائم کریں گے اور اسلامی نظام کو دنیا میں جاری کریں گے تو یہ ظلم ہوگا اور اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا اور اسلام کی بناوٹ ہی اس قسم کی ہے کہ وہ صحیح جمہوریت کو قائم کرتا ہے<۔۸۷
حضرت مصلح موعودؓ کا ایک مختصر مگر پرمعارف نوٹ
چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ امام مسجد لندن اس سال کوئٹہ میں حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے انہیں لندن مشن سے متعلق بعض اہم ہدایات دینے کے علاوہ مندرجہ ذیل الفاظ بھی ان کی نوٹ بک میں تحریر فرمائے۔ یہ الفاظ حضور نے ناسازی طبع کے باعث حضرت سیدہ ام متین صاحبہ مدظلہا العالی سے لکھوائے تھے اور نیچے اپنے دستخط ثبت فرما دیئے تھے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کے مکان سونے کی کانوں پر بنے ہوئے تھے لیکن ان سونے کی کانوں سے فائدہ غیرملکی لوگوں نے اٹھایا مگر ان سے بھی زیادہ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو تعلق باللہ کی سرنگ پر حیران بیٹھے ہیں غیرقومیں آئیں گی اور اس سرنگ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ تک پہنچیں گی` بعض انسان کتنا بدقسمت ہوتا ہے<۔ مرزا محمود احمد۔ ۵۰۔۷۔۴۔۸۸
جماعت احمدیہ اور مغربی پاکستان پریس
احراری فتنہ نے جہاں عوامی فضا کو بہت مسموم اور زہر آلود کیا وہاں مغربی پاکستان کا محب وطن پریس بھی ان کے اثرات کی لپیٹ میں آگیا تاہم بعض اخبار گاہے گاہے حق و انصاف کی خفیف سی آواز بھی بلند کرتے رہے۔ اس سلسلہ میں پنجاب کے روزنامہ >آفاق< اور پشاور کے ہفت روزہ >تنظیم< کے نوٹ یہاں درج کئے جاتے ہیں تا اس دور کے غیر جانبدار اور سنجیدہ صحافت کا نقطہ نگاہ بھی سامنے آجائے۔
۱۔ اخبار >آفاق< )لاہور( نے ۱۶۔ جولائی ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں پروفیسر محمد سرور صاحب کا حسب ذیل مضمون شائع کیا:۔
>ہمارا یہ اصرار کہ مملکت پاکستان کا دستوری اساس جمہوری ہو اور پاکستان دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ >قرارداد مقاصد< کے الفاظ میں
>مملکت تمام حقوق و اختیارات کو عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے کام میں لائے ۔۔۔۔۔ )کیونکہ( خدا نے اختیارات سوائے جمہور کے کسی اور کو تفویض نہیں کئے ہیں اور اس کا فیصلہ خود جمہور کے سپرد ہے کہ اس اقتدار کو کن لوگوں کے ذریعے استعمال کیا جائے<۔
اور یہ اس لئے جیسا کہ اس >قرار داد مقاصد< میں وضاحت کردی گئی ہے:۔
>جمہورہی اختیارات کی امانت کے حامل ہیں اور انہی کو اختیارات کو استعمال کرنے کا مجاز ٹھہرایا گیا ہے<۔
محض پاکستان کے عوام کی بہبودی کے پیش نظر ہے اور چونکہ ان عوام کی غالب اکثریت مسلمان ہے اس لئے جو نظام حکومت ان کی بہبودی کا ضامن ہوگا اور بہبودی سے مراد صرف پیٹ پالنے کی آسودگی نہیں بلکہ ان کی معنوی اور روحانی فلاح بھی ہے اسے غیر اسلامی کہنا صحیح نہیں۔ ہمارے نزدیک حکومت کے نظم ونسق کو جمہور کے سامنے جواب دہ ماننا اور اسے جمہور کے تابع سمجھنا اسلام کے منافی نہیں اور اسی کا نام سیاسی زبان میں جمہوریت ہے اور پھر جب ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت مذہبی حکومت نہ ہو تو مذہب سے ہماری مراد اصلاً مذہب نہیں ہوتا جو کہ انسانیت کا جوہر ہے اور جس کے بغیر انسان` انسان نہیں بلکہ حیوان ہوجاتا ہے۔
دراصل مذہبی حکومت سے ہمارا مطلب کسی مذہبی طبقہ کی حکومت ہے اور اسی کے ہم خلاف ہیں اور اسے اس زمانہ میں انسانیت کے لئے سب سے بڑا روگ سمجھتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان میں احمدی فرقے کی حکومت ہو` نہ ہم اس کے روادار ہیں کہ شیعیت پاکستان کا سرکاری مذہب ہو۔ اسی طرح جماعت اسلامی اسلامی نظام کی جو تعبیر کرتی ہے وہ بحیثیت ایک مذہبی فرقے کے اس کی تعبیر ہے اسے اسلام کا نام دینا اور اسلام اور اس کے پیش کردہ نظام کو مترادف سمجھنا صحیح نہیں۔
یعنی جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ اسلام جاگیرداری کا مخالف نہیں یایہ کہ ہماری حکومت میں ذمی یعنی غیر مسلم کو ووٹ کا حق نہیں ہوگا۔ اس طرح وہ سمجھتی ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہوجائے تو بہت اچھا لیکن اگر ہماری حکومت میں کوئی مسلمان مرتد ہوگا )اور یاد رہے کہ مرتد کی تعریف وہی ہوگی جو یہ جماعت کرے گی( تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ اس طرح آج اس زمانے میں جماعت اسلامی کا غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت دینا اور اسے اسلامی نظام سمجھنا یہ سب باتیں مسلمانوں کی ایک مخصوص مذہبی جماعت کی فقہی تعبیریں ہیں اور انہیں پاکستان کا دستوری اساس نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کو اہم اصطلاحاً مذہبی حکومت کہیں گے۔
لیکن اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ صاحب! اسلام دشمن سے بھی انصاف کا حکم دیتا ہے اور تقویٰ اور انصاف اس کے نزدیک ہم معنی ہیں۔ وہ انسان اور انسان میں کسی تفریق کا روادار نہیں۔ نیز اس کا حکم ہے کہ اپنے غیر مسلم ہمسائے تک کو بھائی سمجھو اور ایسا نہ ہو کہ خود تو پیٹ بھرلو اور اسے بھوکا چھوڑ دو۔ اور پھر اسلام مشورے کو حکومت کا اساس مانتا ہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ امیر کوئی کام جمہور سے پوچھے بغیر نہ کرے اور وہ اپنے آپ کو ان کے سامنے مسئول سمجھے اور یہ کہ امیر کو منتخب اور معزول کرنے کا حق جمہور کو ہے اور وہ ظلم اور معاہدہ شکنی سے روکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے ضروری ہے کہ دستور پاکستان کا اساس اسلام کے یہ عمومی اور عالمگیر اصول ہوں۔ ہمارے خیال میں کوئی شخص بھی اسلام کے ان عمومی اصولوں کو اساس دستور بنانے پر معترض نہیں ہوگا۔ نہ سنی` نہ شیعہ` نہ احمدی` نہ ہندو` نہ عیسائی اور نہ پارسی۔ اور ان مجموعی اصولوں پر جو حکومت بنے گی اسے سب پسند کریں گے۔ وہ بھی جو اس کے ماتحت رہتے ہوں گے اور وہ بھی جو اس سے ہزاروں میل دور کے ملک کے باشندے ہوں گے ۔۔۔۔۔ دوسرے یہ کہ ہم تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مانتے ہیں یعنی ان سب کو جو اس سرزمین کے باشندے ہیں یا جنہوں نے اب اس کو اپنا وطن بنالیا ہے۔ ہم ان میں سے کسی قسم کی سیاسی تفریق کے حامی نہیں۔ یہاں کا ایک ہندو بھی اتنا ہی پاکستانی ہے جتنا ایک مسلمان۔ اگر ایک ہندو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوجائے تو وہ ہماری پارلیمنٹ میں اسی طرح بیٹھنے کا حقدار ہے جس طرح ایک مسلمان` اور اس کو ترقی کے تمام مواقع ملنے چاہئیں کہ جس طرح کہ مسلمانوں کو۔ یعنی قانوناً ہندو اور مسلمان کی تمیز نہیں ہونی چاہئے۔
اسی طرح ہمارے نزدیک شیعہ اور سنی مسلمان اور احمدی میں سیاسی تفریق بھی صحیح نہیں اور گو ہم ذاتی طور پر جماعت احرار کے بزرگوں کے بے حد نیاز مند ہیں لیکن احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی جدوجہد جو انہوں نے شروع کررکھی ہے اس سے کبھی ہمیں اتفاق نہیں رہا کیونکہ ایک جمہوری ملک میں سیاسی اکثرتیں اور اقلیتیں نہیں ہوتیں۔ ہم انور پاشا مرحوم کی مشہور ترکی انجمن اتحاد و ترقی کے اس مشہور فقرے کے کہ
>سب کی ایک سی ذمہ داریاں اور ایک سے حقوق<
کے قائل ہیں اور یہی جمہوری نظام کی اصل اصول ہے۔ اب اگر پاکستان میں کسی ایک مذہبی فرقے کی حکومت مان لی جاتی ہے تو اس سے پاکستان کی قومی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی اور شیعہ` سنی اور مسلمان اور احمدی کا جھگڑا ہماری زندگی کا معمول ہوجائے گا۔ اس لئے جہاں تک حکومت کا تعلق ہے جمہوری نظام میں کسی کے مذہبی اعتقادات سے بحث نہیں کی جاتی۔ اگر منڈل مملکت کا وفادار ہے تو وہ ہزار ایسے مسلمانوں سے جو مملکت کے وفادار نہیں اچھا ہے۔ اسی طرح اگر ظفراللہ خاں اپنے فرائض ایمان داری سے سرانجام دیتا ہے تو اسے احمدی بتا کر مطعون کرنا قانوناً غلط قرار دینا چاہئے<۔۸۹
۲۔ اخبار >تنظیم< پشاور نے لکھا:۔
>کون نہیں جانتا کہ امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود نے بنفس نفیس حضرت قائداعظم~رح~ کے حضور میں پہنچ کر اپنے اور اپنی جماعت کے حلقہ وفاداری کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ پاکستان کے حصول میں مسلمانوں کی دوسری جماعتوں سے بڑھ کر من حیث الجماعت مالی وجانی قربانیاں پیش کیں اور ناقابل تلافی نقصانات برداشت کئے اور حضرت میرزا بشیر محمود نے اپنی جماعت کو مسلمانوں کے سواد اعظم سے وابستگی کے خطبات و بیانات ارشاد فرمائے۔ کشمیر کے سلسلہ میں آپ کی جدوجہد عیاں ہے۔ آپ کے والد کے ایک بہت بڑے چہیتے مرید خان سر محمد ظفر اللہ خان ابھی تک پاکستان کے ایک بہت بڑے منصب پر فائز ہیں اور قلمدان وزارت خارجہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ آپ نے جس قابلیت سے مجلس اقوام میں پاکستان` حیدرآباد دکن اور کشمیر کے مسائل پیش کئے ہیں وہ آتی دنیا کے لئے مشعل راہ اور تاریخ میں سنہری حروف سے نقش کرنے کے قابل ہیں۔ ہم خود قادیانی نہیں اور نہ ہمیں پیر پرستی سے کوئی واسطہ ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اگر صدیق اکبر` عمر فاروق` عثمان غنی اور علی المرتضیٰ محمد الرسول اللہ~صل۱~ پر ایمان نہ لاتے تو ان کو بھی اسلام میں کوئی وقعت نہ ہوتی۔ صحابہ کرامؓ ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمانوں کو جو عزت نصیب ہوتی ہے وہ حضرت عمرؓ کے الفاظ میں صرف مسلمان ہونے کی صورت میں اسلام نے ہی بخشی ہے۔ ہم جماعت احمدیہ کو خواہ وہ لاہوری یا قادیانی اسلامی فرقوں کی ایک کڑی تصور کرتے ہیں اور یورپ و جرمن میں ہمیں جماعت کی دونوں شاخوں کی سرگرمی کو بنظر تحسین دیکھتے ہیں۔ ہمیں بعض تبلیغی حلقوں اور مسلم معاصرین شکایت ہے کہ و اس جماعت کے بعض اراکین پر جاسوسی اور اس قسم کے کئی اور الزامات تراشتے ہمیں پاکستان کے لئے مرزا بشیر الدین کو جس کو ہم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا فرزند ہونے کے ساتھ ساتھ مغل خون کا ایک مجسمہ سمجھتے ہیں۔ اور ہمیں یہ یقین ہے کہ ان کی غیرت وحمیت کا یہ تقاضا ہوگا جیسا کہ اس نے بارہا اظہار بھی کیا ہے کہ ہندوستان و پاکستان غلامی کی *** سے آزاد ہوگئے ہیں ۔۔۔۔<۹۰
‏tav.12.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتشزدگی تک
درد مند دل مقتدر کشمیری مسلمانوں کی طرف سے احراری شورش کے خلاف احتجاج
کشمیر کی رائے شماری کی بناء پر فیصلہ کرنے کا اصول یو۔ این۔ او` بھارت اور پاکستان تینوں تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے تھے اور یہ
خیال ہو چلا تھا کہ وادی کشمیر کے باشندے آزادانہ انتخاب کے ذریعہ اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیں گے کہ احرار میدان مخالفت میں آگئے اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دئے جانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ چونکہ کشمیر کے اس مرکزی حصہ میں جو انتخاب کے معاملہ میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرسکتا تھا احمدی بھاری تعداد میں موجود تھے اور موجود ہیں اس لئے یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر احرار اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوگئے اور احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا تو کشیری مسلمانوں کا تناسب غیر مسلم آبادی کے مقابل کم رہ جائے گا اور بھارت انتخاب کے مسلمہ جمہوری طریق سے پورے کشمیر کو اپنے ملک کا اٹوٹ انگ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اس تشویشناک صورت حال نے دردمند حال رکھنے والے کشمیری مسلمانوں کو لرزا دیا اور ان کی طرف سے حسب ذیل اشتہار ملک بھر میں تقسیم کیا گیا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کے لئے کشمیر اور کشمیریوں پر رحم کریں!
تمام مسلمانان پاکستان کی خدمت میں عموماً اور اہالی صوبہ سرحد وآزاد علاقہ کی خدمت میں خصوصاً ہم ساکنان کشمیر کی طرف سے عرض ہے کہ ہم لوگ پانچ سال سے متواتر مصائب اور مظالم کا تختہ مشق بن رہے ہیں۔ ساری آبادی کشمیر کے مسلمانوں کی کوئی بتیس تیتیس لاکھ ہے اس میں سے قریباً ایک لاکھ سے زائد مارا گیا ہے یعنی پانچ فیصدی سے بھی زیادہ اور بعض کی جائدادیں منقولہ ہوں یا غیرمنقولہ دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں اور باقی غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ نہ جائے ماندن ہے نہ پائے رفتن۔
پنجاب اور دیگر علاقوں سے جو مسلمان مغربی یا مشرقی پاکستان میں گئے ہیں انہیں غیر مسلموں کی متروکہ جائدادوں سے زمین` مکان` دوکانیں ملی ہیں اور ان میں سے نوے فیصدی آباد ہوچکے ہیں اور بعض تو پہلے سے اچھی حالت میں ہوگئے ہیں۔ بڑے بڑے کارخانوں کے مالک بن چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن اور علاقہ کا چھوڑنا بھی بہت قربانی ہے اور ابتدائی دنوں میں جو ان لوگوں نے جانی قربانیاں پیش کیں` وہ بھی بہت بڑی قیمت رکھی ہیں ہم ان کی قدر کرتے ہیں لیکن ہم نے صرف مقابلہ کے لئے لکھا ہے کہ ان میں سے اکثر نے جائداد کا مقابلہ پر جائداد اور تجارت کے مقابلہ میں تجارت اور کارخانہ کے مقابلہ میں کارخانہ حاصل کرلیا ہے۔ لیکن گو ہماری قربانیاں بھی اسی رنگ کی ہیں مگر ہم نے حاصل کچھ نہیں کیا۔ ہم اب تک بھی مہاجر ہیں اور خدا معلوم کب تک مہاجر رہیں گے۔
کشمیر ویلی اس وقت تک ساری کی ساری شیخ عبداللہ کی حکومت میں ہے اور ہمارا وطن اور ہماری جائدادیں دشمن کے قبضہ میں ہیں۔ ہم صرف اس امید پر جی رہے ہیں کہ خداتعالیٰ اپنے فضل سے کشمیر پاکستان سے ملا دے تو ہم جاکر چھتوں کے نیچے سوئیں` اپنی تجارتیں اور اپنی زمینیں سنبھالیں اور اپنے بیوی بچوں سے ملیں جو ایک سیاسی دیوار کے اس طرف ہماری یاد میں ظالموں کی ٹھوکریں کھا کر جی رہے ہیں۔ جس طرح ہم ان کے ملنے کی امید میں دیوار کی دوسری طرف خدا کے فضل اور اس کے بعد اس کے ان بندوں کی کوششوں کے نتیجہ پر آس لگائے بیٹھے ہیں جنہوں نے اسلام کے رشتہ کا احترام کرکے ہمیں غلامی سے آزاد کرانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ خصوصاً صوبہ سرحد اور آزاد قبائل علاقہ کے لوگ جنہوں نے عملاً جنگ کشمیر میں حصہ لے کر سینکڑوں ہزاروں شہداء کے خون سے ہماری وادی کو ہمیشہ کے لئے وادی شہداء بنا دیا ہے اور کشمیر اور سرحد اور آزاد علاقہ کے درمیان محبت اور پیار کی ایک مضبوط گرہ باندھ دی ہے۔
مگر جہاں ہم آپ لوگوں کی قربانیوں اور ہمدردیوں کے ممنون ہیں وہاں ہم آپ ¶سے یہ بھی امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے نیک کام کو انجام تک پہنچائیں اور کسی غلطی کے مرتکب ہوکر اور کسی غلطی کرنے والے کا ساتھ دے کر اپنی ساری کوشش کو خاک میں نہ ملا دیں۔
برادران! آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں ہمیں یہی امید دلائی جاتی رہی ہے کہ کشمیر میں رائے شماری ہوکر اس کے مطابق فیصلہ ہوگا اور کشمیر آزادی حاصل کرکے آرام کا سانس لے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ دنوں سے ہندوستانی گورنمنٹ کی شہ پر وہ لوگ جو پہلے کانگرس کا بایاں بازو تھے ایسے سوالات پیدا کررہے ہیں جو کشمیر کی رائے شماری کو سخت نقصان پہنچانے والے ہوں گے۔ مثلاً اس وقت یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مرزائیوں کو ایک اقلیت قرار دیا جائے۔ اسی طرح مرتد بھی۔ جہاں تک مذہب کا سوال ہے ہم خود مرزائی نہیں ہیں اور اہلسنت و دیگر مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم میں سے بعض مرزائیوں کی سخت مخالف کرتے رہے ہیں اور اب تک کرتے ہیں مگر جہاں تک کشمیر کے مسئلہ کا سوال ہے ہم اس فرقہ وارانہ اختلاف کو کشمیر کی آزادی میں رخنہ انداز ہونے دینا کسی صورت میں پسند نہیں کرتے۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت کچھ عرصہ سے مغربی حکومتوں پر یہ زور دے رہی ہے کہ جن جن علاقوں میں جس فریق کی اکثریت ہو ان علاقوں کو اپنے ہمدرد لوگوں سے ملا دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اس اصل کو پنجاب اور بنگال کے حق میں مان چکا ہے کیوں نہ وہی اصل کشمیر کے متعلق بھی تسلیم کیا جائے کیونکہ پاکستان ایک دفعہ اس اصل کو تسلیم کرچکا ہے۔ اس دلیل کا اثر مغربی دماغ پر بہت پڑتا ہے اور قریباً ہر یو۔ این۔ او کے نمائندے نے زور لگایا کہ اس پر فیصلہ ہوجائے تو اچھا ہے اور مغربی اخبارات خصوصاً امریکہ اور انگلستان کے اخبارات اس نظریہ کی تائید میں مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئے کہ کشمیر کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جہاں کی رائے شماری مشکوک ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو کشمیر کا مستقبل بالکل تاریک ہوجائے گا اور کشمیر کا مسلمان زندہ درگور ہوجائے گا۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر اگر آپ کشمیر کے نقشہ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جموں کے ہندو علاقہ کے ساتھ اگر اننت ناگ )اسلام آباد( کا علاقہ مل جائے تو سرینگر کا تعلق جموں سے ہوجاتا ہے کیونکہ ایک طرف اننت ناگ سری نگر کو راجوری اور اودھم پور سے ملاتا ہے تو دوسری طرف جموں سرینگر روڈ اننت ناگ میں سے ہوکر گزرتی ہے۔ لیکن اننت ناگ پاکستان سے ملے تو سری نگر لازماً پاکستان سے ملنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ کوئی باقاعدہ راستہ اسے ضلع اننت ناگ سے باہر جموں سے نہیں ملاتا۔ پس اننت ناگ ضلع کی حیثیت رائے شماری کے لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔
ہم لوگ جو اس علاقہ کے رہنے والے ہیں جانتے ہیں کہ اس علاقہ میں مرزائیوں کا کافی زور ہے اور اچھے زمیندار اور تاجر اور بعض لوگ سالم گائوں پاس پاس احمدیوں کے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں شیخ عبداللہ کی پارٹی کے خلاف احمدی ہی کونسل کے لئے کھڑے ہوئے تھے مگر گو وہ شیخ عبداللہ کی پارٹی` ڈوگروں اور مولویوں کے مشترکہ محاذ کی وجہ سے جیت نہ سکے مگر ان تین طاقتوں کے نمائندے سے احمدی نمائندے کے ووٹ صرف دو سو کم تھے۔ اور سب لوگ جانتے ہیں کہ شیخ عبداللہ نے اتنا خطرہ محسوس کیا تھا کہ سارے کشمیر کو چھوڑ کر وہ اس علاقہ میں آگئے تھے اور اپنی ساری طاقت احمدیوں کو شکست دینے میں لگا دی تھی۔ اس علاقہ میں اکثر ڈوگرہ رئوساء کی جائدادیں ہیں اور غریب مسلمان ان سے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابل پر احمدی کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ وہ زمیندار اور تاجر اور منظم ہیں۔ ان کی مدد سے ہی ہندو ڈوگروں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ رشی نگر کا مشہور مقدمہ اس کا گواہ ہے کہ ڈوگرہ رئیس کا مقابلہ احمدی جماعت نے مل کر کیا۔ اگر احمدی جماعت بھی ان لوگوں سے جاملے تو مسلمانوں کی طاقت اس درمیانی علاقہ میں بہت کمزور ہوجاتی ہے اور سری نگر اکثر طرف سے اسلامی علاقوں سے کٹ جاتا ہے۔
ان حالات میں ہم پوچھتے ہیں کہ کیا احمدیوں کے خلاف موجودہ شورش کشمیر کے مفاد میں ہوگی؟ ایک قوم سے آپ کتنی امید رکھیں مگر اسے کافر اور مرتد اور اچھوت قرار دے کر اس سے یہ خواہش رکھنی کہ وہ آپ کے حق میں ووٹ دیں کتنی خلاف عقل بات ہے۔ آخر جب ایک شخص دوسرے سے ملتا ہے تو یہ سمجھ کر ملتا ہے کہ دوسرا شخص اس کا دوست ہے۔ اگر دوسرا اپنی دشمنی کا ثبوت دے تو وہ اسے ووٹ کیوں دے گا اور دشمنی ظاہر کرنے والا اس سے امید ہی کیوں رکھے گا۔ پس گردن زدنی اور اقلیت قرار دے کر اور ان کے خلاف شہروں میں بلوے کرکے بعض آدمیوں کو قتل کرکے یہ امید کرنا کہ کشمیر کا احمدی شوق سے آگے بڑھے گا اور کہے گا کہ میں پاکستان جانا چاہتا ہوں کہاں تک عقل کے مطابق ہے؟ اور احمدیوں کو جو بڑی تعداد میں اس علاقہ میں پائے جاتے ہیں اور جنہوں نے پہلے ایجی ٹیشن میں دوگرہ حکومت کے دانت کھٹے کردیئے تھے ڈرا دینا اور پاکستان سے متنفر کردینا تاکہ وہ ڈوگروں اور شیخ عبداللہ کی جماعت سے مل کر پاکستان سے الگ رہنے کا ووٹ دیں کشمیر کے مستقبل کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں ہندوستانی حکومت سے مدد مل رہی ہے اور وہ کشمیر کی رائے شماری کو ناکام بنانے کے لئے ایسا کررہے ہیں۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ سرحد کا وہ غیور مسلمان جس کے خون سے ہماری وادیاں چمک رہی ہیں کیا اپنی قربانی کو اس طرح ضائع ہونے دے گا؟ اگر رائے شماری سے فیصلہ ہونا ہے اور اگر رائے شماری کو کامیاب بنانا ہے تو ہمیں احمدیوں کے خلاف شور کرکے انہیں ڈرانے سے اجتناب کرنا ہوگا ورنہ نتیجہ خطرناک نکلے گا اور اس وقت ندامت ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اور ہم لوگ ہمیشہ کے لئے مہاجر ہی بنے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس عذاب سے ہمیں بچائے<۔
>۱۔ میر عبدالعزیز صاحب بی۔ اے آنرز )جائنٹ سیکرٹری آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس( حال راولپنڈی۔ ۲۔ مرزا احمد بیگ نون )ممبر مجلس عاملہ و کمیٹی آف ایکشں و جنرل کونسل آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس( حال پشاور۔ ۳۔ تاج الدین مالک >تاج محل ہوٹل< امیر اکدال سرینگر حال مقیم اکبری گیٹ لاہور۔ ۴۔ خواجہ علی محمد بابا بی۔ اے` ایل ایل بی ایڈووکیٹ پریذیڈنٹ ضلع مسلم کانفرنس بارہ مولہ حال مظفرآباد۔ ۵۔ خواجہ غلام مصطفیٰ ملک ایم۔ ایل۔ اے کشمیر تحصیل اننت ناگ حال مظفر آباد۔ ۶۔ سید محمد مقبول شاہ شناگی سپرنٹنڈنٹ دفتر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس مرکزیہ راولپنڈی۔ ۷۔ خواجہ غلام قادر سوپوری ممبر جنرل کونسل آل جموں و کشمیر حال مظفرآباد۔ ۸۔ خواجہ غلام احمد کرنائی آف سوپور ممبر جنرل کونسل آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس حال مظفر آباد۔ ۹۔ منظور الحق ڈار سمبوری فرزند خواجہ غلام محمد صاحب خادم مرحوم ممبر جنرل کونسل آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس حال راولپنڈی۔ ۱۰۔ ایم۔ اے حفیظ بی۔ اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرینگر جنرل سیکرٹری مسلم لیگ سرینگر کشمیر حال ایبٹ آباد۔ ۱۱۔ خواجہ بشیر احمد فرزند حاجی مامہ کلو صاحب جنرل فروٹ مرچنٹ سرینگر حال مری۔ ۱۲۔ عبدالغنی خاں سابق نمبردار ملیاں تحصیل ہندواڑہ ریفیوجی اسسٹنٹ حال مری۔ ۱۳۔ وزیر غلام مہدی ایم۔ اے` ایل ایل۔ بی آ اسکردو حال راولپنڈی۔ ۱۴۔ غلام حسن ڈار مخدومی سابق سیکرٹری کشمیر پریس رپورٹرز ساکن بیج بیاڑہ کشمیر حال مری۔ ۱۵۔ ڈاکٹر سجاد حسن ڈینٹس سابق چیف آرگنائزر انجمن مہاجرین کشمیر حال مظفرآباد۔ ۱۶۔ خواجہ غلام محمد کار سوپوری ممبر مجلس عاملہ آل جموں و کشمیر کانفرنس حال مری۔ ۱۷۔ غلام مہدی ملتستانی ممبر ورکنگ کمیٹی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس حال مری۔ ۱۸۔ عبدالرحمن بٹ صدر ڈسٹرکٹ ہزارہ مسلم کانفرنس حال مقیم ایبٹ آباد۔ ۱۹۔ خواجہ عبدالرحمن جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس ہزارہ حال ایبٹ آباد۔ ۲۰۔ )مولوی( عبدالعزیز مالک کشمیر کلاتھ ہائوس ایبٹ آباد۔ ۲۱۔ محمد شریف قریشی پبلسٹی سیکرٹری مسلم کانفرنس ہزارہ۔ ۲۲۔ ماسٹر عبدالرحمن قریشی راجوڑی حال ایبٹ آباد ضلع ہزارہ۔ ۲۳۔ خواجہ غلام رسول وانی آف بارہ مولہ ممبر جنرل کونسل آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس حال مظفرآباد۔ ۲۴۔ سید محمد ہدایت اللہ شاہ راجوروی جنرل سیکرٹری انجمن تحفظ سادات کشمیر حال پاکستان۔ ۲۵۔ پیرزادہ نشتر کاشمیری سابق صدر انجمن درس الاسلام کشمیر و پبلسٹی سیکرٹری آل جموں و کشمیر مسلم کانرنس حال مظفر آباد۔ ۲۶۔ پیرزادہ غلام احسن ساکن مرہامہ تحصیل گولہ گام کشمیر حال مقیم مظفر آباد۔ ۲۷۔ عبدالرزاق ڈرا آف بڈگام کشمیر حال مقیم واہ کیمپ پاکستان۔ ۲۸۔ محمد لطیف خاں آف گلمرگ کشمیر حال ایبٹ آباد۔ ۲۹۔ شیخ عبدالرحمن ساکن اسلام آباد حال مقیم مظفرآباد۔ ۳۰۔ خواجہ ثناء اللہ میر آف کورہ ہامہ تحصیل بارہ مولہ حال مقیم پشاور۔ ۳۱۔ منشی حبیب اللہ پت چھتہ بلی سرینگر حال مقیم پشاور۔ ۳۲۔ راجہ عطاء اللہ خاں برادر راجہ محمد عنایت اللہ خاں صاحب علاقہ دراز چلڈار تحصیل ہندواڑہ کشمیر۔ ۳۳۔ سردار سمیع خاں درانی فرزند سردار محمد اکرم خاں صاحب وزیر وزارت کشمیر حال مقیم پشاور۔ ۳۴۔ سعید احمد خاں )ایف ایس سی( سرینگر کشمیر حال مقیم راولپنڈی۔ ۳۵۔ خواجہ حبیب اللہ ڈرا آف بارہ مولہ حال جنرل کلاتھ مرچنٹ پشاور۔ ۳۶۔ خواجہ علی محمد پھلو سرینگر کشمیر حال لیدر مرچنٹ پشاور۔ ۳۷۔ خواجہ غلام رسول رشی وائس پریذیڈنٹ آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس حال راولپنڈی۔ ۳۸۔ محمد مظفر فاضلی ساکن بانڈی پورہ حال مہاجر راولپنڈی۔ ۳۹۔ شاعر کشمیر خواجہ احمد اللہ غازی سوپوری حال راولپنڈی۔ ۴۰۔ سردار بشیر احمد خاں آف سرینگر فرزند سردار عمرائو خاں صاحب سپرنٹندنٹ پولیس کشمیر حال راولپنڈی<۔
حضرت امیرالمومنینؓ کی ایک اہم نصیحت
‏]0 [rtf۱۵۔ تبوک/ ستمبر کو حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے جماعت کو بتایا کہ:۔
>وہ وقت قریب سے قریب ترآرہا ہے جب دینوی نقطہ نگاہ سے یا تو احمدیت کو اپنی فوقیت ثابت کرنی ہوگی اور یا اس جدوجہد میں فنا ہونا پڑے گا اور دینی نقطہ نگاہ سے اور روحانی نقطہ نگاہ سے خداتعالیٰ کی طرف سے ان تغیرات کے رونما ہونے کا وقت آچکا ہے جو احمدیت کو ایک لمبے عرصہ تک کے لئے دنیا میں قائم کردیں گے اور اس کا غلبہ اس کے دوستوں اور اس کے مخالفوں سے منوالیں گے مگر ان تمام تغیرات کے لئے انسان کی قربانیاں اور انسان کی جدوجہد نہایت ضروری ہوتی ہے<۔
اس حقیقت کو واضح کرنے کے بعد حضرت امیرالمومنینؓ نے مخلصین احمدیت کو نصیحت فرمائی کہ:۔
>یہ زندگی صرف چند روزہ ہے اس دنیا میں نہ میں نے ہمیشہ رہنا ہے نہ آپ نے۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے ایک نیک بنیاد قائم کردیں گے تو ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجائیں گی۔ لیکن اگر ہم اس نیک بنیاد کو قائم کرنے میں حصہ نہیں لیں گے تو آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو روحانی نقطہ نگاہ کے ماتحت ہم کچھ کریں یا نہ کریں یہ سلسلہ بہرحال ترقی کرتا چلا جائے گا کیونکہ یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے۔ لیکن دینوی نقطہ نگاہ کے ماتحت ہم اور ہماری اولادیں ان انعامات سے محروم ہوجائیں گی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ کی خدمت کرنے والوں کے لئے مقدر ہیں اور جو لازماً ایک دن ملنے والے ہیں۔ زمین ٹل جائے` آسمان ٹل جائے آخر احمدیت نے دنیا میں قائم ہونا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی ایک اٹل تقدیر ہے۔ اس کی طرف یہ منسوب کرنا کہ اس نے اپنا ایک مامور بھیجا مگر وہ ہار گیا ایک پاگل پن کی بات ہے۔ اگر خدا ہے اور اگر خدا اپنے نبیوں کو بھجتا رہا ہے اور اگر خداتعالیٰ نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھیجا تھا تو ہم اپنے وجود میں شبہ کرسکتے ہیں مگر ہم اس بات میں کوئی شبہ نہیں کرسکتے کہ خداتعالیٰ کا مامور اور مرسل جس تعلیم کو لے کر آیا ہے وہ یقیناً اپنے وقت پر کامیاب ہوگی دشمن اس سے ٹکرائے گا تو پاش پاش ہوجائے گا جس طرح ایک دریا کی زبردست لہریں چٹان سے ٹکرا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتی ہیں اسی طرح ان کی مخالفت ناکام ثابت ہوگی اور یہ سلسلہ عروج حاصل کرتا چلا جائے گا ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ خداتعالیٰ کی تقدیر سے ہم نے کتنا فائدہ اٹھایا ہے۔ لوگ نہ ہونے والی چیزوں کے متعلق اپنا پورا زور صرف کردیا کرتے ہیں اور ہم تو وہ کام کررہے ہیں جو یقیناً ہونے والا ہے اور جس کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ ~}~
جس بات کو کہے کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
اگر خدا تعالیٰ کی بات ٹل جائے تو اس کی خدائی ہی باطل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی باتوں میں فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ بندہ بعض دفعہ پورے سامانوں کے ساتھ اٹھتا ہے اور ناکام ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کرلے اس کے پورا ہونے میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی۔ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی اگر آپ اس کام میں حصہ لے کر آنے والی کامیابی کو قریب کردیں اور خدا تعالیٰ کی بات کو پورا کرکے اس کا ہتھیار بن جائیں کیونکہ وہ شخص جو خداتعالیٰ کا ہتھیار بن جاتا ہے وہ بابرکت ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خداتعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ میں تجھے بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑے آپؑ کے جسم سے چھو کر بابرکت ہوگئے تو یہ سمجھ لو کہ اگر تم خداتعالیٰ کے ہتھیار بن جائو گے تو تم میں کتنی برکت پیدا ہوجائے گی۔ یقیناً اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جسم کے ساتھ چھو جانے کی وجہ سے آپ کے کپڑوں کو برکت حاصل ہوگئی تو وہ شخص جو خداتعالیٰ کا ہتھیار بن کر خود اس کے ہاتھ میں آجائے گا وہ ان کپڑوں سے بہت زیادہ بابرکت ہوگا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کو بھی اگر برکت دی تو خداتعالیٰ نے دی اور آپؑ کے کپڑوں کو بھی اگر برکت دی تو خداتعالیٰ نے دی۔ پس یقیناً وہ ان برکتوں کا وارث ہوگا جو دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتوں میں بھی نہیں پائی جاتیں<۔۹۱
نوجوانان احمدیت کو قربانیوں کی دعوت
۲۱`۲۲`۲۳۔ ماہ اخاء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ربوہ میں منعقد ہوا جس میں حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے خدام کو بہت سی قیمتی ہدایات دیں بالخصوص مذہب کی اس بنیادی روح کی طرف متوجہ فرمایا کہ عقیدے اور قوت متحرکہ کے مجموعے کا نام ایمان ہے۔ عمل کے بغیر محض عقیدہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا۔۹۲ اس سلسلہ میں انہیں قربانیوں کی پرزور دعوت دیتے ہوئے فرمایا:۔
>یاد رکھو کہ اسلام کی ترقی کا وہ زمانہ تمہیں نصیب ہوا ہے جو پھر کبھی نہیں آئے گا۔ جس طرح یہ درست ہے کہ اسلام جتنا اب گرا ہے اتنا کبھی نہیں گرے گا اسی طرح یہ بھی یقینی امر ہے کہ جس شان سے اسلام اب بڑھے گا اتنا آئندہ کبھی نہیں بڑھے گا اور تمہیں خدا نے قربانی کرنے کا جو موقع دیا ہے وہ آئندہ کسی کو میسر نہ آئے گا۔ آج زمین و آسمان کا خدا ایک غلام کی حیثیت سے دنیا کی منڈیوں میں بک رہا ہے اور تمہاری چھوٹی سے چھوٹی قیمت بھی اسے خرید سکتی ہے۔ خدا کی خدائی انسانی ذہن کے مطابق ہوتی ہے۔ جب میں نے خدا کو غلام کہا تو میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارا واحد اور احد خدا نعوذ باللہ غلام ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ آج دنیا کی نگاہ میں اس کی یہی حیثیت ہے اور آج تمہی ہو جنہوں نے اپنے خدا کی عزت اور عظمت دنیا میں دوبارہ قائم کرنی ہے۔ جس قربانی کے لئے تمہیں بلایا جارہا ہے وہ ہیچ ہے اس اجر کے مقابلہ میں جو اس کے بدلہ میں تمہارے لئے مقدر ہے۔ تمہیں خدام الاحمدیہ کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا۔ تمہیں تحریک جدید کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا۔ تمہیں صدر انجمن کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا۔ تمہیں لوکل انجمن کی طرف سے قربانی کے لئے بلایا جائے گا۔ شاید تمہیں خیال آئے کہ کیوں چاروں طرف سے تمہارے لئے ہی قربانی قربانی کی آواز آرہی ہے۔ مگر یاد رکھو جب زمین میں ہر طرف سے تمہارے لئے قربانی قربانی کی آواز اٹھ رہی ہوگی تو عین اس وقت اس کے بالمقابل آسمان پر ہر طرف سے تمہارے لئے انعام انعام انعام انعام کی آواز اٹھ رہی ہوگی۔ پس اس کام کا جھوٹا مت سمجھو بلکہ بڑا سمجھو اور اس کام کی نوعیت اور اہمیت کے مطابق ہم تم قربانی پیش کرو<۔۹۳
بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں
جماعت احمدیہ کے عالمگیر اسلامی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں اس سال بھی نمایاں اضافہ کے ساتھ جاری ہیں۔ بعض مشنوں کے چند ضروری کوائف درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
شام مشن:۔
جماعت احمدیہ دمشق نے ۲۶۔ ماہ نبوت )نومبر( ۱۳۲۹ہش کو سیرت النبی کا جلسہ عام منعقد کیا جس میں مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کے علاوہ شام کی بعض اہم شخصیات نے بھی تقریریں کیں۔ دمشق کے اخبار >الکفاح< )۱۶۔ صفر ۱۳۷۰ھ( اور >القبس< )۱۷۔ صفر ۱۳۷۰ھ( نے اس جلسہ کی خبر شائع کی۔ چنانچہ اخبار الکفاح نے لکھا:۔
>الجماعہ الاحمدیہ تحتفل بسیرہ النبی<
اقامت الجماعہ الاحمدیہ بدمشق احتفالا عظیما نھارا مس لبیان سیرہ الرسول الاعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم والقیت فیہ خطب قیمہ من قبل بعض الشخصیات السوریہ کما وتکلم فیھا ایضا الاستاذ الباکستانی میرزا رشید احمد چغتائی الاحمدی` الذی ذکر قوہ قدسیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و تاثیرھا فی قلوب اصحابہ والاخرین من العرب والعجم۔ وھنا اھل الشام علی ما بورکت بلادھم و شرفت اراضیھم بقدوم فخر الکائنات الیھا حیث وطات قدمہ صلی اللہ علیہ وسلم علیھا وکان لھذہ الخطب اثرھا العظیم فی قلوب الحاضرین الذین اکثر وامن الصلوات والسلام علی سیدنا محمد افضل الرسل وخاتم النبین علیہ افضل الصلوات واتم التسلیم<۔۹۴
)ترجمہ(
جماعت احمدیہ کا جلسہ سیرت النبی~صل۱~
جماعت احمدیہ دمشق نیس کل ایک عظیم الشان جلسہ حضرت رسول اعظم محمد~صل۱~ کی سیرت بیان کرنے کے لئے منعقد کیا جس میں بعض شامی اشخاص کی قیمتی تصاویر کے علاوہ میرزا رشید احمد چغتائی احمدی پاکستانی نے بھی تقریر کی جس میں آپ نے حضرت نبی کریم~صل۱~ کی قوت قدسیہ اور حضور کے صحابہ اور عرب و عجم کے دوسرے لوگوں کے دلوں میں اس کی تاثیر کا ذکر کیا۔ اور آپ نے اہل شام کو اس بات پر مبارکباد دی کہ ان کے ملک کو یہ خاص برکت حاصل ہوئی اور ان کی سرزمین کو حضور فخر کائنات~صل۱~ نے اپنی تشریف آوری سے مشرف فرمایا۔ جبکہ حضور کے مبارک قدموں نے اس کو برکت بخشی۔
ان تقاریر کا بڑا شاندار اثر حاضرین کے قلوب پر ہوا جنہوں نے سیدنا محمد افضل الرسل خاتم النبین~صل۱~ افضل الصلوات و اتم التسلیم پر بکثرت درود وسلام بھیجا۔
اخبار القبس نے لکھا:۔
حفلہ سیرہ النبی
اقامت الجماعہ الاحمدیہ اول امس احتفالا تکلم فیہ عدد من الخطباء عن سیرہ الرسول الاعظم وتحدثوا عن قدسیہ الرسالہ التی قام بھا ھذا العربی العظیم )ص( الذی اسس مدینہ۔ مازال العالم یسیر بھد حتی الیوم<۔۹۵
)ترجمہ(
جلسہ سیرت النبی~صل۱~
پرسوں جماعت احمدیہ نے جلسہ منعقد کیا جس میں بہت سے مقررین نے حضرت رسول اعظم~صل۱~ کی سیرت طیبہ پر تقاریر فرمائیں اور رسول عربی~صل۱~ کی شان قدسیت کو بیان کیا جنہوں نے شہریت کے ایسے اصول وضع فرمائے ہیں جن سے دنیا آج تک راہنمائی حاصل کرتی چلی آرہی ہے۔
فلسطین مشن:۔
ماہنامہ البشریٰ جو پندرہ سال سے اسلام و احمدیت کا نور پھیلا رہا تھا اس سال بھی باقاعدگی سے )جبل الکرمل حیفا سے( چھپتا اور عرب و عجم میں بھجوایا جاتا رہا۔ البشریٰ میں حضرت مہسی مسعود علیہ السلام کی تصانیف میں سے >آئینہ کمالات اسلام< >الھدی والتبصرہ لمن یری< کے اقتباسات کے علاوہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب کا مکمل عربی ترجمہ بھی چھپا جو السید عبداللہ اسعد العودہ کی کاوش کا نتیجہ تھا۔ علاوہ ازیں ابن عبدالرزاق کے قلم سے براہین احمدیہ حصہ پنجم کے ایک حصہ کا ترجمہ شائع ہوا۔ الاستاذ رشید البسطی کے متعدد نوٹ اور مضامین بھی شامل اشاعت ہوتے رہے۔
البشریٰ۹۶ نے اخبار >الیوم< یافا اور >النھضہ< الاردن )۲۲۔ فروری ۱۹۵۰ء( کے حوالہ سے چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کی اس معرکتہ الاراء تقریر کا بھی ذکر کیا جو آپ نے سلامتی کونسل میں مسلسل سات گھنٹے تک کی اور جس میں ثابت کیا تھا کہ کشمیر ہر اعتبار سے پاکستان کا جزو لاینفک ہے۔
غانا مشن:۔
بیرون پاکستان جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا کالج ۳۰۔ ماہ صلح ۱۳۲۹ہش کو گولڈ کوسٹ )غانا( میں کھلا اور ڈاکٹر سفیر الدین بشیر احمد پی ایچ ڈی لندن اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔۹۷ یہ کالج ابتداء میں کماسی کی ایک عارضی عمارت میں کھولا گیا۔
مشرقی افریقہ:۔
۱۵۔ ماہ احسان )جون( کو مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر نے لینڈی میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔۹۸
انگلستان مشن:۔
امام مسجد لندن چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے ومبلڈن سپر چولسٹ چرچ میں تقریر کی جس میں جماعت احمدیہ کے مخصوص علم کلام کی روشنی میں پیغام حق پہنچایا۔ رسالہ دی لندن سپر چولسٹ SPIRTULIST>) LONDON (<THE۹۹ فزک نیوز NEWS) (PSYCIC۱۰۰ اور دی فرینڈ FRIEND) (THE۱۰۱ نے اس تقریر پر عمدہ ریمارکس۱۰۲ شائع کئے۔
)۲( چوہدری صاحب کی زیر قیادت جماعت احمدیہ انگلستان کے ایک وفد نے وزیراعظم برما تھا کن نوکو قرآن مجید کی انگریزی تفسیر تحفت¶ہ پیش کی۔ وزیراعظم نے اس مقدمہ تحفہ کو نہایت احترام اور جذبات تشکر کے ساتھ قبول کیا۔۱۰۳
سوئٹزرلینڈ۔ انڈونیشیا:۔
اس سال سوئٹزرلینڈ سے ISLAM> <DER اور انڈونیشیا سے >اسلام< کے نام سے نئے احمدی رسائل جاری ہوئے۔
امریکہ مشن:۔
۱۔ سال کے آغاز سے احمدی جماعتوں کی تنظیم و تربیت کے لئے >احمدیہ گزٹ< جاری کیا گیا۔
۲۔
امریکن نومسلموں کو اسلامی تعلیم سکھانے کے لئے نورالدین سکھول کھولا گیا۔۱۰۴
۳۔
جماعت احمدیہ امریکہ کا تیسرا سالانہ جلسہ ۲۔ ۳۔ تبوک/ ستمبر کو انعقاد پذیر ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ لجنہ اماء اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیموں نے مرکزی حیثیت سے اپنے اپنے اجتماع منعقد کئے۔ جلسہ کے دوران چھ افراد نے قبول اسلام و احمدیت کا اعلان کیا۔ اس دفعہ گزشتہ جلسوں کی نسبت بہت زیادہ مندوبین اور اراکین نے شرکت کی۔ جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کے آئندہ سال کے پروگرام کے متعلق بعض نہایت ہی اہم فیصلے کئے۔ مثلاً ۱۔ جنوبی ریاستوں میں ایک نیا تبلیغی مرکز قائم کیا جائے۔ ۲۔ امریکہ کی کم از کم سو لائبریریوں میں اسلامی لٹریچر رکھوایا جائے۔ ۳۔ آئندہ سال کے اندر اندر قبرستان کے لئے جگہ خرید کی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔۱۰۵
مجاہدین احمدیت کی مرکز میں تشریف آوری
اس سال مشرقی افریقہ` انڈونیشیا اور انگلستان کے بعض مجاہدین مرکز میں واپس تشریف لائے۔ چنانچہ مولوی نورالحق صاحب انور مبلغ مشرقی افریقہ` مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا` چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لندن بالترتیب ۱۲` ۳۰۔ ماہ شہادت و ۱۶۔ ماہ ظہور کو اعلائے کلمہ اسلام کا فریضہ بجا لانے کے بعد لاہور پہنچے۔ ممتاز بزرگان سلسلہ کے علاوہ کثیر التعداد احمدیوں نے اپنے کامیاب مجاہد بھائیوں کا پرجوش استقبال کیا۔۱۰۶
مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی
اس سال مغربی و مشرقی افریقہ ایران اور ہالینڈ کے لئے مرکز سے مندرجہ ذیل مبلغین اسلام روانہ ہوئے:۔
۱۔
‏ind] gat[ سعود احمد خاں صاحب۔ )روانگی از لاہور ۲۵۔ مارچ ۱۹۵۰ء۱۰۷ برائے مغربی افریقہ(
۲۔
مولوی عبدالخالق صاحب۔ )روانگی از لاہور ۲۵۔ مارچ ۱۹۵۰ء برائے ایران(
۳۔
مولوی محمد صدیق صاحب۔ )روانگی از لاہور ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء برائے سیرالیون(
۴۔
مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم۔ )روانگی از لاہور ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء برائے غانا(
۵۔
مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی۔ )روانگی از لاہور ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء برائے نائیجیریا(
۶۔
مولوی عبدالکریم صاحب۔ )روانگی از لاہور ۲۵۔ مارچ ۱۹۵۰ء۱۰۸ برائے سیر الیون(
۷۔
مولوی ابوبکر ایوب صاحب۔ )روانگی از لاہور ۲۳۔ نومبر ۱۹۵۰ء۱۰۹ برائے ہالینڈ(
۸۔
مولوی غلام احمد صاحب بشیر۔ )روانگی از لاہور ۲۳۔ نومبر ۱۹۵۰ء برائے ہالینڈ(
علماء سلسلہ کی نئی مطبوعات
۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء میں جماعت احمدیہ کے مرکزی صیغہ نشر واشاعت ربوہ کی طرف سے پمفلٹوں کی بکثرت اشاعت۱۱۰ کے علاوہ علماء سلسلہ کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں:۔
۱۔
>قیام پاکستان و جماعت احمدیہ< )از علامہ جلال الدین صاحب شمسؓ سابق مبلغ بلاد عربیہ و امام مسجد لندن(
۲۔
>چالیس جواہر پارے< )از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۳۔
>روزنامچہ مبلغین یا ڈائری ۱۹۵۰< )مرتبہ نظارت دعوۃ و تبلیغ ربوہ(
۴۔
>انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات< )حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ(
تیسرا باب )فصل ہشتم(
دعائوں کے چلہ کی خاص تحریک` طلبہ انجینرنگ کالج لاہور سے پراثر خطاب` نمائندہ عراق عبدالوہاب عسکری کی ربوہ میں آمد` احمدی وفد موتر عالم اسلامی کے دوسرے سالانہ اجلاس میں` بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ پر علمائے سلسلہ کا تبصرہ` سنت الٰہی کے موضوع پر پرمعارف خطبات` احمدیہ مسجد سمندری کی آتشزدگی۔ خلافت ثانیہ کا اڑتیسواں سال ۱۹۵۱ء/۱۳۳۰ہش
دعائوں کے چلہ کی خاص تحریک
پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت بہت ترقی کررہی تھی اور احراری اور کانگرسی علماء کا ایک خاصہ گروہ ایسا میدان مخالفت میں نکل آیا تھا کہ اس کا کام سوائے اس کے اور کوئی نہیں رہا تھا کہ وہ احمدی جماعت کے خلاف لوگوں میں جوش پھیلائیں اور ان کو فساد پر آمادہ کریں۔ ان تشویشناک حالات کے پیش نظر سیدنا امیرالمومنین حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۔ تبلیغ ۱۳۳۰ہش/ فروری ۱۹۵۱ء کو دعائوں کے چلہ اور سات نفلی روزوں کی تحریک فرمائی۔ حضور نے اس تحریک کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:۔
>ہماری جماعت ۔۔۔۔۔۔ ایک مذہبی جماعت ہے۔ اور پھر صرف مذہبی جماعت ہی نہیں وہ ایک انقلابی جماعت ہے۔ اس نے دنیا کے خیالات` دنیا کے افکار` دنیا کے عقائد اور دنیا کے عمل کو بدلنا کا بیڑا اٹھایا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کاموں کے لئے خدا تعالیٰ نے اسے کھڑا کیا ہے۔ اور انقلابی جماعتیں پہلے اپنے اندر انقلاب پیدا کیا کرتی ہیں۔ تم دوسروں میں اس وقت تک انقلاب پیدا نہیں کرسکتے جب تک تم اپنی ذاتوں میں انقلاب پیدا نہیں کرلیتے` جب تک دنیا تمہیں دیکھ کر یا تمہاری صحبت میں آدھ گھنٹہ یا گھنٹہ رہ کر چلا نہ اٹھے کہ تم ویسے آدمی نہیں جن کو ہم جانتے تھے اس وقت تک تم تغیر پیدا نہیں کرسکتے۔
اسی طرح انقلابی جماعتوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ دنیا ان کی مخالفت کرے۔ اگر دنیا کسی انقلابی جماعت کی مخالفت نہیں کرتی یا وہ اس کی اتنی مخالفت نہیں کرتی جتنی وہ ایسے مواقع پر کیا کرتی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے اپنے اندر کوئی نقص ہے۔ اگر ایک باز سے چڑیا ڈرتی نہیں تو سمجھ لو اس باز میں کوئی نقص ہے۔ اگر ایک ماں باپ کے سامنے اور ان کی موجودگی میں بچہ شرارتیں کرتا چلا جاتا ہے تو سمجھ لو ماں باپ میں نقص ہے۔ اگر کوئی استاد جماعت میں بیٹھا ہے اور لڑکے شرارتیں کررہے ہیں اور کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں تو سمجھ لو استاد میں کوئی نقص ہے۔ اسی طرح اگر کوئی جماعت انقلابی جماعت ہوئے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کی مخالفت نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ اس جماعت میں کوئی نقص ہے۔
پس مخالفت اپنی ذات میں عجیب نہیں بلکہ اس کا نہ ہونا عجیب ہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ فرمایا کرتے تھے کہ ان کے دوست نے ایک کام شروع کیا وہ بڑی عمر کے ساتھ اور حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ ان سے چھوٹے تھے اس لئے وہ آپ کا بے تکلفی سے نام لے دیتے تھے انہوں نے کہا نورالدین میں نے ایک کام شروع کیا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کو پسند نہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ نے فرمایا آپ کو یہ خیال کیونکر ہوا کہ آپ کا وہ کام خداتعالیٰ کو پسند نہیں۔ انہوں نے کہا میں نے یہ کام دو تین ہفتہ سے شروع کررکھا ہے لیکن ابھی تک اس کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔ اور جو کام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں ان کی ضرور مخالفت ہوا کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک خداتعالیٰ کو پسند نہیں دو تین دن کے بعد ان کو کسی کی طرف سے مغلظ گالیوں سے پرایک خط آیا۔ وہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے نورالدین مبارک ہو میں نے جوکام شروع کررکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کو پسند آگیا ہے مجھے آج ایک شخص کی طرف سے مغلط گالیوں کا ایک پلندا آیا ہے۔ غرض ہر الٰہی جماعت کی مخالفت لازمی ہے لیکن اسے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ آیا اس نے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کرلیا ہے کہ دنیا اس سے خفا ہو اور خداتعالیٰ اس سے راضی ہو۔ اگر یہ دونوں باتیں پیدا نہیں ہوئیں اور خدا تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوگیا ہے اور دنیا بھی اس پر ناراض ہے تو وہ خسر الدنیا والاخرہ ہوگیا۔ دنیا میں بھی اسے گھاٹا ہوا اور اگلے جہان میں بھی اسے گھاٹا ہوگا۔
پس ہماری جماعت جو انقلاب پیدا کرنے کی دعویدار ہے اس کی مخالفت تو ضروری ہے لیکن ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم پہلے اپنی اصلاح کریں۔ یہ روحانی انقلابی جماعتوں کی مخالفت یکساں نہیں رہتی کبھی زوروں پر ہوتی ہے اور کبھی کم ہوجاتی ہے جیسے سورج چڑھتا ہے غروب ہوتا ہے اور دوسرے دن پھر چڑھتا ہے۔ انسان کو کسی وقت بھوک لگی ہوئی ہوتی ہے اور کسی وقت وہ سیر ہوتا ہے اسی طرح مخالت میں بھی اتار اور چڑھائو پایا جاتا ہے کبھی مخالفت ایسی شدید ہوتی ہے کہ وہ انسانی مقابلہ سے بالاتر ہوجاتی ہے اور کبھی وہ اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ انسان کی طاقت کے اندر ہوتا ہے ایسے وقت میں وہ بوجھ خود اٹھاتا ہے لیکن جب اس کا مقابلہ اس کی طاقت سے بالا ہوجاتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور اس سے استمداد کرتا ہے۔ ہماری جماعت پر بھی یہ مصائب مختلف جگہوں اور مختلف زمانوں میں آئے ہیں۔ ہم پر وہ وقت بھی آیا جب ہماری مخالفت اتنی شدید ہوگئی کہ اس کا مقابلہ ہماری طاقت سے بالا تھا ایسے مواقع پر ہم نے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اس سے مدد مانگی۔ اور جب ہماری دعائیں اور گریہ وزاری اس مقام پر پہنچ گئی جب عرش بھی ہل جایا کرتا ہے تو وہ سنی گئیں اور مخالفت ھبا منبثا ہوکر رہ گئی۔ یہ زمانہ بھی ہم پر ایسا آرہا ہے جب اندرونی اور بیرونی طور پر نیز بعض حکام کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی` علماء کی طرف سے اور امراء کی طرف سے بھی` غرض ہر جتھہ اور ہر گروہ میں ایک حصہ ایسا ہے جو احمدیت کی مخالفت پر ہوا ہے<۔۱۱۱
>اس قسم کے نازک مواقع پر میں جماعت کو اتنے حصہ میں شریک کرتا رہا ہوں کہ میں انہیں دعا کی طرف تحریک کیا کرتا ہوں اور مخلصین نے ہمیشہ میری اس تحریک کو قبول کیا ہے اور انہوں نے اس طرح دعائیں کی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مصیبت کو ٹلا دیا۔ سو میں ایک دفعہ پھر اس نازک موقع پر جس کی اہمیت کو جماعت نہیں سمجھتی حتیٰ کہ قریب ترین لوگ اور اعلیٰ درجہ کے افسر بھی اسے نہیں سمجھتے جماعت میں دعا کی تحریک کرتا ہوں<۔۱۱۲
اس تمہید کے بعد فرمایا:۔
>یہ وقت بہت نازک ہے اور اس وقت میں جماعت کے مخلصین دوستوں کو بلاتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ وہ دعائوں میں لگ جائیں۔ اس وقت سب سے زیادہ کام دینے والی رسول کریم~صل۱~ کی بیان فرمودہ دعا ہے۔
اللھم انا نعجلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم
کہ اے خدا ہم دشمنوں کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے۔ ہم اس کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے اس لئے چاہتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ہماری طرف سے تو کھڑا ہوجا۔ ہم ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ دوسری بات جو اس موقع پر زیادہ مفید ہوا کرتی ہے وہ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ کا ورد ہے۔ تیسری چیز درود ہے اور چوتھی چیز نماز میں زیادتی ہے۔ جو لوگ تہجد پڑھ سکتے ہیں وہ تہجد کے وقت یہ دعا کیا کریں۔ اور جو تہجد نہیں پڑھ سکتے وہ کسی اور وقت دو نفل پڑھ لیا کریں۔ خواہ اشراق کے وقت یعنی ۹ بجے کے قریب یا عصر سے پہلے دو نفل پڑھ لیا کریں اور ان نفلوں میں خصوصیت سے یہ دعائیں مانگا کریں۔ ہم اپنا پہلا چلہ چالیس دن کا مقرر کرتے ہیں۔ چونکہ خطبہ کے شائع ہونے میں کچھ دیر لگے گی اس لئے جو احباب اس چلہ میں شریک ہونا چاہتے ہیں ان کی سہولت کے لئے ہم آج سے چودہ دن بعد یہ چلہ شروع کریں گے یعنی یہ چلہ ۱۶۔ فروری سے شروع ہوگا اور چالیس دن جاری رہے گا یعنی ۲۷۔ مارچ تک۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ تحریک بھی کرتا ہوں کہ ان ایام میں سات روزے رکھے جائیں۔ ہر ہفتہ میں پیر کے روز روزہ رکھا جائے۔ پہلا پیر ان ایام میں ۱۹۔ فروری کو آئے گا اور ۱۲۔ اپریل تک یہ سات روزے ختم ہوں گے۔ یہ روزے اس طرح بھی رکھے جاسکتے ہیں کہ جن پر کوئی فرضی روزے ہوں وہ ان ایام کے روزوں کو اپنے فرضی روزوں کی جگہ رکھ لیں۔ عورتیں جن کو بعض ایام میں روزے منع ہوں یا بیمار ہوں ہفتہ میں جمعرات کو یا اگلے ہفتوں میں جمعرات میں روزے رکھ کر اپنی کمی پوری کرسکتی ہیں۔
شاید لوگ ہنسیں گے کہ اتنے بڑے مجموعی ارادوں کے مقابلہ میں انہوں نے کیا تیر مارا ہے لیکن جو ہنستے ہیں انہیں ہنسنے دو۔ ہمارے خدا کو انہوں نے نہیں دیکھا` ہمارے خدا کے تیروں اور ہتھیاروں کو انہوں نے نہیں دیکھا۔ لیکن ان کے نہ دیکھنے کی وجہ سے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ نہیں ہے۔ ان کے نہ دیکھنے کی وجہ سے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خداتعالیٰ کی گرفت کوئی معمولی گرفت ہے۔ ہمارا خدا وہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر]ydbo [tag تو جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ تمام خیر اور نیکیاں تیرے قبضہ میں ہی ہیں یہی وہ چیز ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے انبیاء ہمیشہ فتح پاتے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کے پاس کونسی فوج تھی` حضرت نوحؑ کے پاس کونسی فوج تھی۔ کوئی دس سال کی کوشش سے اور اربوں ارب روپیہ خرچ کرنے کے بعد امریکہ نے ایٹم بم ایجاد کیا ہے اور اب روس کی نقل کررہا ہے۔ لاکھوں آدمی اس کام پر لگے رہے اور سینکڑوں سائنسدان اس کی تیاری میں دن رات مشغول رہے۔ لیکن نوحؑ کو دیکھو وہ رات دن تبلیغ میں لگا رہا۔ اس نے ایک تیر اور کمان بھی نہیں بنائی وہ صرف دعائوں اور لوگوں کو تبلیغ اور نصیحت میں لگا رہا۔ اس کے لئے آسمان پر ایٹم بم تیار ہورہے تھے` عرش پر اس کے لئے توپیں بن رہی تھیں۔ چنانچہ ایک دن آیا کہ آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین نے بھی پانی اگل دیا اور اس سے اتنا وسیع علاقہ برباد ہوگیا جس کو دس ہزار ایٹم بم بھی برباد نہیں کرسکتے۔ پس جو کچھ میں تمہیں دیتا ہوں وہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ اتنی طاقت اور قوت دنیا کی حکومتوں کے پاس نہیں ہوتی۔ لیکن ضرورت ایمان کی ہے` ضرورت یقین کی ہے` ضرورت عمل کی ہے۔ جو خدا کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے خدا اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے۔ اور جو خدا کی طاقت پر یقین رکھتا ہے اور اس کے سامنے دنیا کی ساری طاقتیں ہیچ ہوجاتی ہیں<۔۱۱۳
تحریک دعا کی اہمیت پر مزید روشنی
حضور نے ۲۳۔ تبلیغ/ فروری کو بھی اس تحریک کی اہمیت و ضرورت پر مزید روشنی ڈالی اور ارشاد فرمایا:۔
>ہم میں سے ہر شخص کو اس مخالفت کے دیکھتے ہوئے یہ سوچنا چاہئے کہ کیا اس میں وہ تقویٰ پایا جاتا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیا اس میں کامل سچائی پائی جاتی ہے۔ کیا وہ فریب تو نہیں کرتا۔ کیا وہ دھوکہ بازی سے تو کام نہیں لیتا۔ کیا وہ نمازوں کا پابند ہے۔ کیا وہ انصاف سے کام لیتا ہے۔ کیا وہ خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھتا ہے۔ کیا وہ اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہے۔ کیا وہ بنی نوع انسان کا ہمدرد ہے۔ اگر یہ تمام باتیں اس میں پائی جاتی ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس مخالفت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہو۔ لیکن اگر افراد قوم میں کثرت ایسے لوگوں کی ہو جو یہ کہیں کہ ہم میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں۔ نہ ہمارے دلوں میں خداتعالیٰ کی سچی محبت پائی جاتی ہے۔ نہ ہم اس کے لئے قربانی کرتے ہیں۔ نہ ہمارے اندر دین کی خدمت کا کوئی جوش پایا جاتا ہے۔ نہ ہم نمازوں کے پابند ہیں۔ نہ ذکر الٰہی کے عادی ہیں۔ نہ جھوٹ اور فریب سے بچتے ہیں۔ نہ ظلم اور فساد سے پرہیز کرتے ہیں۔ نہ اخلاق کے معیار پر پورے اترتے ہیں تو پھر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مخالفت کسی نشان کے ظہور کا پیش خیمہ نہیں ہوسکتی یہ انہیں گناہوں کی سزا دینے کے لئے پیدا کی جارہی ہے۔ اس صورت میں انہیں بہت زیادہ فکر کرنا چاہئے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ عام حالات میں انسان کا غافل رہنا بعض دفعہ قابل معافی بھی ہوجاتا ہے لیکن اگر سامان ایسے ظاہر ہورہے ہوں جن سے یہ خطرہ ہوکہ یہ سامان شاید ہماری سزا کے لئے پیدا کئے جارہے ہیں تو اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنی اصلاح نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان اور اپنی قوم کو تباہ کرتا ہے۔ پس یہ معمولی حالات نہیں۔ جماعت کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہئے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اگر کچھ لوگوں کے اعمال کی وجہ سے یہ سزا کا سامان بھی ہو تب بھی وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرلیں کہ یہ عذاب نازل کرنا چاہا مگر جب اس قوم نے اپنی اصلاح کی اور توبہ اور گریہ وزاری سے کام لیا تو وہی عذاب اس کے لئے رحمت بن گیا۔ پس ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ عذاب آتے ہیں مگر وہ انسانوں کے لئے رحمت بن جاتے ہیں۔ اسی لئے میں نے یہ تحریک کی ہے کہ ان دنوں میں اپنی کامیابی اور دشمن کی ناکامی کے لئے متواتر دعائیں کی جائیں اور ہر پیر کے دن روزہ رکھا جائے تاکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اگر کوئی خرابی یا نقصان اس وقت ہمارے لئے مقدر ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو بدل دے ہمیں طاقت اور غلبہ عطا فرمائے اور ہمارے دشمنوں کو ان کی کوششوں میں ناکام بنا دے<۔۱۱۴
احمدی جماعتوں کا والہانہ لبیک
حضور کی اس خصوصی تحریک پر دنیا بھر کی احمدی جماعتوں نے والہانہ طور پر لبیک کہا اور مخلصین جماعت نے نہ صرف ۱۶۔ ماہ تبلیغ/ فروری سے لے کر ۲۷۔ ماہ امان/ مارچ تک متضرعانہ اور نیم شبی دعائیں کیں اور آنسوئوں سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کردیا بلکہ نفلی روزوں کا بھی التزام کیا۔ یہ ایام گویا پاکستان میں طاغوتی اور رحمانی طاقتوں کی کشمکش کے تھے۔ ایک طرف باطل کے پرستار تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ قریہ قریہ میں حق وصداقت کے خلاف نفرت وحقارت کی آگ بھڑکا رہے تھے تو دوسری طرف حضرت مہدی موعودؑ کی مظلوم جماعت جو حقیقی معنوں میں خاتم الانبیاء~صل۱~ کی عاشق و فدائی تھی شبانہ روز دعائوں کے باعث حضرت مہدی موعودؑ کے اس شعر کا مصداق بنی ہوئی تھی کہ ~}~
عدو جب بڑھ گیا شور وفغاں میں
نہاں ہم ہوگئے یار نہاں میں
>ملتان کانفرنس< کے جواب میں الفضل کا خصوصی نمبر
احراریوں نے ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء کے آخر میں >تحفظ ختم نبوت< کے نام پر ملتان میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں احراری لیڈروں نے جماعت احمدیہ پر بے بنیاد اعتراضات کئے۔ احراری ترجمان >آزاد< نے ۲۶۔ دسمبر ۱۹۵۰ء کے پرچہ میں اس کانفرنس کی روداد شائع کرکے ملک بھر میں اس کے زہریلے اثرات پہنچا دیئے۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر تالیف و تصنیف نے ان اعتراضات کے جواب میں ایک مبسوط و مدلل مقالہ سپرد فرمایا جو ۲۸۔ فروری ۱۹۵۱ء )مطابق ۲۸۔ تبلیغ ۱۳۳۰ہش( کے الفضل میں شائع کیا گیا۔ مولانا شمس صاحبؓ نے ۳۲ صفحات کے اس خاص نمبر میں نہ صرف ہر احراری لیڈر کی تقریر پر محققانہ تبصرہ کیا بلکہ ان کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا نہایت خوبی سے ازالہ کیا جس سے ملک کے سنجیدہ اور اہل علم طبقہ کو احراری تحریک کے خدوخال سمجھنے اور جماعت احمدیہ کا علم کلام سمجھنے میں بھاری مدد ملی۔
طلبہ انجینئرنگ کالج لاہور سے حضرت امیرالمومنین کا پراثر خطاب
۲۔ ماہ شہادت/ اپریل کو بعد نماز عصر انجینئرنگ کالج لاہور کے احمدی نوجوانوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے اعزاز میں ایک دعوت عصرانہ دی۔ یہ دعوت تعلیم الاسلام کالج کے احاطہ میں دی گئی جو اس دور میں لاہور ہی میں تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر ایک پرمعارف لیکچر دیا۔ حضور نے سورہ ممتحنہ کے آخری رکوع کی آخری آیت کی روشنی میں جس میں خدا تعالیٰ کی صفت مصور کا ذکر ہے فن انجینئری کے اصول کا ذکر فرمایا۔ اس تقریب میں انجینئرنگ کالج کے پرنسپل )ڈاکٹر ایس۔ ڈی مظفر مرحوم( اور پروفیسروں کے علاوہ اکابر سلسلہ میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی شرکت فرمائی۔۱۱۵]txet [tag
افریقہ کے شاندار مستقبل سے متعلق پیشگوئی
الحاج الحسن عطاء کو جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۰ء کے موقع پر جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ کے نمائندہ کی حیثیت سے شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی جس کے بعد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا ان سے آپ کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں سیدنا مصلح موعود نے تقریر کرتے ہوئے یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی کہ اہل افریقہ کا مستقبل نہایت شاندار اور تابناک ہے۔ چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا:۔
‏ that in egassem special may Hasan ۔Mr you <To ۔future distant or future near say cannot I ۔future in for future great a is there that wall the on writing the reading am I to times the all for race a forsake not does God ۔race your ۔ever for not but time some for it does He ۔come one and nation one to opportunity gives once He and nation another to opportunity same the gives He then and continent time glorious your assured Rest ۔time your is Now ۔continent that think to made were People ۔approching fast si my in that myself about say can I ۔race inferior an is yours your think to used I ۔books English read to used I when ۔age younger traditions the read and up grew I when But ۔one interior as race all was it that know to came I ۔Quran Holy the and all mentions God ۔people your of exception an made not has God ۔humbug He world the in Prophets sends He When ۔equals as nations and races addressed are who men the to also intelligence sufficient gives sufficient not have you If ۔prophet that tpecca to race, inferior an are words other in or intelligence, who people a to prophet a sent who God o fault the is it forbid God then Islam ۔case the not is this But ۔him accept to intelligence no have in people and Africans Asiatics, Americans, Europeans, says of power same the have them of All ۔equal all are islands off far ۔inventing and memorising learning, understanding,۔Europeans hate even They ۔men super as themselves consider Americans
‏ I goes, Ahmadiyyat as far As ۔asiatics hate snEuropea The Ahmadis the all and myself mean I we, say I when and we that you assure of All ۔equals as earth on people the all consider ۔me follow who assure I ۔powers same the have and equal are us Ahmadi any allow to going not am I time life my during that you he that said Prophet Holy the as Just ۔idea mistaken this adopt to also I heels, his under ideas such crush would۔heels my under ideas such crush also will I that you assure
‏ went you that brothers your Tell ۔Ahmadi true a flesruoy prove and go So, are there also Pakistan in that found and Rabwah and Pakistan to Africans but Pakistanis see nog did you and brothers are they and colours different in am I ۔kin and kith own their as brothers African their towards looking nation other any from as Africans from sacrifice same the expecting every to Islam of message the convey and preach to you ask and۔country your of corner
‏ Coast Gold in everbody bring to you upon look always will >Rabwah۔God of religion the Islam, etru the Ahmadiyyat of fold the in
‏Bulletin> Ahmadiyya Nigeria <The from Extract
‏I) (Page 1951 August
>مسٹر حسن آپ کے لئے میرا خصوصی پیغام یہ ہے کہ مستقل میں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل قریب میں یا مستقبل بعید میں۔ میں یہ نوشتہ دیوار پڑھ رہا ہوں کہ آپ کی نسل کے لئے عظیم مستقبل مقدر ہے خدا تعالیٰ کسی نسل کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ نہیں دیتا وہ کچھ زمانے کے لئے تو ایسا کرتا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں۔ وہ ایک بار ایک قوم اور ایک براعظم کو موقع عطا فرماتا ہے اور پھر وہ یہی موقع کسی اور قوم اور براعظم کو عطا کردیتا ہے۔ اب وقت آپ کا ہے آپ پر ایک لمبا عرصہ ظلم ڈھایا گیا۔ اور آپ لوگوں کو زیر نگیں رکھا گیا ہے۔ یقین کیجئے کہ اب آپ کے لئے شاندار زمانہ بڑی تیزی سے آرہا ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرایا جارہا تھا کہ آپ کی قوم ادنیٰ ہے۔ میں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنی کم عمری کے زمانہ میں جب میں انگریزی کی کتب پڑھا کرتا تھا تو میں آپ کی قوم کو ادنیٰ خیال کیا کرتا تھا لیکن جب میں بڑا ہوا اور احادیث اور قرآن کریم کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ بے حقیقت )یا لایعنی( تھا۔ خداتعالیٰ نے آپ کی قوم کے ساتھ کوئی الگ سلوک نہیں برتا۔ خدا تعالیٰ سب نسلوں اور قوموں کو برابر قرار دیتا ہے۔ جب وہ دنیا میں انبیاء بھیجتا ہے تو ان لوگوں کو بھی خاصی فراست عطا کرتا ہے جنہیں اس پیغمبر کو قبول کرنے کے لئے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اگر کسی میں کافی فراست نہیں یا بالفاظ دیگر وہ ایک ادنیٰ نسل سے ہے تو نعوذ باللہ یہ خدا تعالیٰ کا قصور ہے جس نے ایسے لوگوں کی طرف نبی بھیج دیا جن میں اسے قبول کرنے کا فہم ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ بات نہیں ہے۔ اسلام بتاتا ہے کہ اہل یورپ` اہل امریکہ` اہل ایشیا` اہل افریقہ اور دور دراز جزائر میں بسنے والے لوگ سب برابر ہیں۔ ان سب میں سمجھنے` سیکھنے` یاد کرنے اور تخلیق کرنے کی ایک جیسی قابلیت موجود ہے۔ امریکی اپنے آپ کو مافوق البشر خیال کرتے ہیں۔ وہ اہل یورپ تک سے نفرت کرتے ہیں۔ اہل یورپ امریکیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جہاں تک احمدیت کا تعلق ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم۔ اور جب میں >ہم< کا لفظ کہتا ہوں تو میری مراد خود میں اور میری پیروی کرنے والے تمام احمدی لوگ ہیں۔ دنیا کے تمام انسانوں کو برابر سمجھتے ہیں۔ ہم سب مساوی ہیں اور ایک جیسی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اپنے عرصہ حیات میں کسی احمدی کو اس غلط تصور )کہ کوئی قوم دوسری قوم سے ادنیٰ ہے۔ مترجم( کو اپنانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ حضرت نبی کریم ~)صل۱(~ نے فرمایا تھا کہ وہ ایسے تصورات کو اپنے پائوں تلے مسلتے ہیں۔ میں بھی آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں بھی ایسے خیالات کو اپنے پائوں تلے مسل دوں گا۔
پس جائیں اور اپنے آپ کو ایک سچا احمدی ثابت کریں۔ اپنے بھائیوں کو بتائیں کہ آپ پاکستان اور ربوہ گئے تھے اور یہ حقیقت پائی کہ پاکستان میں بھی بھائی بستے ہیں اور یہ کہ آپ نے پاکستانیوں کو نہیں دیکھا بلکہ مختلف رنگوں میں افریقیوں کو ہی دیکھا ہے۔ اور وہ اپنے افریقی بھائیوں کو اپنے عزیز و اقارب جانتے ہیں۔ میں افریقیوں سے ایسی ہی قربانی کی توقع رکھ رہا ہوں جیسی کہ کسی اور قوم سے اور آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ تبلیغ کریں اور اپنے ملک کے کونے کونے میں اسلام کا پیغام پہنچا دیں۔
ربوہ کی نظریں ہمیشہ آپ کی طرف لگی رہیں گی کہ آپ گولڈ کوسٹ میں موجود ہر شخص کو احمدیت کی آغوش میں لے جائیں جو کہ سچا اسلام ہے اور اللہ کا دین ہے۔
)اقتباس از نائیجیریا احمدیہ بلیٹن۔ اگست ۱۹۵۱ء صفحہ ۱(
‏tav.12.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتشزدگی تک
عبدالوہاب العسکری کی ربوہ میں آمد
الحاج الدکتور عبدالوہاب عسکری )ایڈیٹر >السلام البغدادیہ(< جو عراق کی طرف سے موتمر عالم اسلام کے نمائندہ تھے ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء کے شروع میں سلسلہ احمدیہ کے جدید مرکز ربوہ میں تشریف لائے۔ ۲۴۔ ماہ صلح/ جنوری کو جامعتہ المبشرین میں آپ کے اعزاز میں ایک اہم جلسہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ دمشق نے کی۔ اس جلسہ میں الدکتور عبدالوہاب عسکری نے اپنے تاثیرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:۔
>تقسیم ملک کے بعد جو تباہی آئی اس سے جس طرح دوسرے مسلمان محفوظ نہیں رہے آپ لوگ بھی اس کی زد سے نہیں بچ سکے۔ لیکن اتنی بڑی تکالیف کو برداشت کرنے کے بعد اس علاقہ میں آپ جس قسم کی جدوجہد کررہے ہیں اور اپنی زندگی کا جو ثبوت آپ لوگوں نے پیش کیا ہے وہ ہمارے لئے قابل تقلید ہے اور میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں۔ سبقت کی جو روح آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے اور آپ جو تیز رفتاری سے ترقی کررہے ہیں بلاشک یہ حضرت صاحب المقام الجلیل امام جماعت احمدیہ کی خاص توجہات کا نتیجہ ہے<۔
پھر کہا:۔
>میں نے آپ کی جماعت کو بہترین جماعت پایا ہے جو نیکی کا حکم دیتی ہے۔ نماز قائم کرتی ہے۔ زکٰوۃ دیتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے جو کچھ انہیں دیا ہے خرچ کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کرتی ہے۔ ان صفات کی مالک جماعت اس لائق ہے کہ اس کا مستقبل شاندار اور روشن ہو کیونکہ خداتعالیٰ اپنے مومن بندوں کی ہمیشہ مدد کرتا ہے<۔۱۱۷`۱۱۸
احمدی وفد موتمر عالم اسلامی کے دوسرے سالانہ اجلاس میں
موتمر عالم اسلامی ممالک اسلامیہ کی اس عالمی تنظیم کا نام ہے جس کا قیام فروری ۱۹۴۹ء میں پاکستان کے پہلے دارالسلطنت کراچی میں ہوا۔ اس موقع پر مسلم نمائندگان نے موتمر کا ایک دستور مرتب کیا۔ جس کی بنیاد قرآن عظیم کے ارشاد ربانی >انما المومنون اخوہ< پر رکھی۔
موتمر کا دوسرا سالانہ اجلاس اس سال ۹ سے ۱۳۔ فروری تک کراچی میں منعقد ہوا جس میں ۳۵ اسلامی ملکوں کے مندوبین نے شرکت کی اور دنیائے اسلام کو درپیش مسائل پر اپنے ممالک کی نمائندگی کی اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ کشمیر` فلسطین اور دوسرے ان تمام اسلامی ممالک کو آزاد کرانے کی متحدہ کوشش کی جائے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی دیرینہ خواہش تھی کہ عالم اسلامی کے متفررق اجزاء کسی طرح ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی عالمگیر مشکلات حل کرنے کی راہ سوچیں اور ایک دوسرے سے ان کا رابطہ اور تعلق قائم ہو۔ چنانچہ ہجرت ۱۳۲۶ہش/ مئی ۱۹۴۷ء کے بعد حضور نے لاہور` راولپنڈی` پشاور` کوئٹہ اور کراچی میں متعدد تقریریں فرمائیں جن میں اس اہم ضرورت کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی۔ علاوہ ازیں ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء میں کراچی کے صحافیوں کی کانفرنس میں مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد پر بہت زور دیا۔
>موتمر عالم اسلامی< چونکہ وحدت عالم اسلام کے لئے پہلا خوشکن قدم تھا جس کو اٹھانے کی توفیق پاکستان کو میسر آئی تھی اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد مبارک پر موتمر کے اس دوسرے اجلاس میں مرکز احمدیت سے ایک احمدی وفد نے خاص طور پر شرکت کی۔ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب دعوت و تبلیغ اس وفد کے امیر تھے اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ وکیل التبشیر تحریک جدید اور ملک عمر علی صاحب نائب وکیل التبشیر اس کے رکن۔ احمدی وفد کو موتمر کے ہر اجلاس کی کارروائی میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ نمائندگان وفود سے الگ الگ ملاقاتیں کیں` ان کی تقاریر سنیں اور ان تقاریب میں شریک ہوا۔ جو موتمر کے نمائندوں کو سرکاری طور پر دی گئیں۔ جماعت احمدیہ کراچی نے اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کی ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۵۰ء کی کراچی پریس کانفرنس کو عربی اور انگریزی زبانوں میں شائع کیا جو بیرونی ممالک کے مندوبین میں سے ایک معتدبہ حصہ کو دیا گیا تا وہ اپنے ملکوں میں واپس جائیں تو حضرت امام جماعت احمدیہ کے قیمتی افکار و خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر اختیار کریں۔
امیر وفد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے اپنے ایک مفصل بیان میں موتمر عالم اسلامی کو عالم اسلامی میں وحدت اور اتحاد پیدا کرنے کی مبارک تحریک قرار دیا اور اپنے ایک مفصل بیان میں اس کی سرگرمیوں کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے بتایا کہ:۔
>تمام عرب مندوبین نے اس بات پر زور دیا کہ تمام باہمی فرقہ بندیوں کی حدود سے بالاتر رہ کر اس موتمر عالم اسلامی کی بنیاد اٹھانی چاہئے ورنہ یہ سانس لیتے ہی موت کا منہ دیکھے گی۔ اقوام عالم کے مشترکہ اسٹیج سے یہ آواز ایک احمدی کے دل میں کس قسم کی خوشی پیدا کرسکتی ہے اس کا اندازہ اس مسلمہ حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ عرصہ ۔۔۔۔۔ سے ہماری جماعت کے اسٹیج سے یہ آواز بار بار بلند کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی مشترکہ اغراض کی خاطر ایک سٹیج پر جمع ہوکر روح تعاون کے ساتھ اپنی عالمگیر مشکلات کا حل سوچنا اور اپنی حالت بہتر بنانے کے لئے اکٹھا ہوجانا چاہئے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری آواز بازگشت بے نتیجہ نہیں رہی اور اب ممالک اسلامیہ کے درمیان وحدت پیدا کرنے کی غرض سے موتمر عالم اسلامی کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے<۔
ان دنوں پاکستان اور بیرونی ممالک کے بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ موتمر اسلامی کا قیام محض ایک سیاسی سٹنٹ ہے جس سے حکومت پاکستان اپنی ہردلعزیزی اور مقبولیت بڑھانا چاہتی ہے تاکہ ملکی انتخابات کے لئے موافق اور سازگار حالات پیدا ہوں۔ عرب نمائندگان میں سے بھی ایک نمائندہ نے اس قسسم کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان وفود کے پاس ان کی حکومتوں کی طرف سے کوئی اختیار نہیں اور نہ حکومتیں ایسا اختیار دے سکتی ہیں بلکہ اگر اختیار دے بھی دیتیں تو اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہماری آواز کے ساتھ اپنی مقررہ اور مستقل پالیسی کو ہم آہنگ کریں گی۔ امیر وفد حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے اس عرب نمائندے کو بھی جواب دیا اور اپنے بیان میں بھی بتایا کہ موتر عالم اسلامی کے قیام اور بقاء سے کم از کم جو فائدہ ہمیں پہنچ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ باہمی تعارف اور ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت حاصل ہونے کے علاوہ عالم اسلامی کے اتحاد کی ضرورت کا شعور اور احساس پیدا ہوجانا خود ایک بڑی نعمت ہے۔ تقریباً ہر ایک نمائندے نے بلند آواز اور موثر انداز میں بار بار سنایا کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے تم مسلمان بنو یہ آواز بھی احساس بیداری پیدا کرنے والی ہے۔ اور جب قوم میں ایک دفعہ احساس پیدا ہوجائے تو امید کی جاتی ہے کہ دوسرا قدم بھی اٹھایا جائے۔ پس احساس بیداری سے فائدہ اٹھانا چاہئے نہ کہ مایوسی سے اس کو ضائع کردینا چاہئے<۔
حضرت شاہ صاحبؓ نے اس بیان میں مزید فرمایا کہ:۔
>میں نے محسوس کیا ہے کہ جمعیت علماء میں بھی قابل قدر ایسی شخصیتیں موجود ہیں جو سمجھتی ہیں کہ اسلامی فرقوں کے درمیان جو اختلاف ہیں ان کی نوعیت زیادہ تر تاویلی اور اصطلاحی ہے ہمیں ان اختلافات سے بلند اور بالا رہ کر عالم اسلامی کے لئے تنظیم وحدت کا سٹیج کھڑا کرنا چاہئے۔ مجھ سے ایک عالم نے کہا کہ نبوت اور ختم نبوت کی تعریف میں جو اختلاف آپ کے اور ہمارے درمیان ہے وہ دراصل اصطلاحی تعریف کا اختلاف ہے ورنہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ اختلاف ایسا نہیں کہ اس پر آپس میں دست و گریبان ہوں۔ آپ بھی مانتے ہیں کہ اسلام کی شریعت کامل ہے اور اس کے بعد کوئی شریعت نہیں اور نبوت کی تعریف میں صرف یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونا اور نبی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت بھی ہو اور ہمارے علماء نبی کے لئے شریعت کا لانا ضروری قرار دیتے ہیں۔ تو یہ صرف اختلاف تعریف کا ہے۔ یہ ایسا اختلاف نہیں کہ اپس میں دست و گریبان ہوا جائے۔ علماء کے طبقہ میں اس قسم کی آزاد خیالی کا پیدا ہونا خوش کن ہے۔ جوں جوں ہمارا نقطہ نظرہ وسعت اختیار کتا جائے گا اور رواداری کی روح ہم میں کار فرما ہوگی ہم ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے جائیں گے جو ہمارے درمیان خلیج ہے کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ موتمر عالم اسلامی کے ذریعہ سے مسلمانوں کے درمیان وحدت کی صورت پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں<۔۱۱۹
سندھیوں میں حلقہ تبلیغ وسیع کرنے کی تحریک
حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۔ امان/ مارچ کو ناصر آباد سندھ کے مقام پر ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں احمدی جماعتون کو تحریک فرمائی کہ وہ صوبہ کے اصل باشندوں یعنی سندھیوں میں حلقہ تبلیغ کو وسیع کریں۔ چنانچہ فرمایا:۔
>جب تک تم سندھیوں میں احمدیت کی تبلیغ نہیں کرتے یا جب تک تم ان کے ساتھ اس طرح مل جل نہیں جاتے کہ تمہارا تمدن بھی سندھی ہوجائے` تمہارے کپڑے بھی سندھیوں جیسے ہوجائیں` تمہاری زبانیں بھی سندھی ہوجائیں اس وقت تک تمہاری حیثیت محض ایک غیرملکی کی رہے گی۔ یہ کتنی واضح چیز ہے جو نظر آرہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے اس حقیقت پر کبھی غور کیا ہے۔ اس وقت بیرونی جماعتوں میں سے ڈیڑھ سو آدمی یہاں آیا ہوا ہے اور ہم خوش ہیں کہ جماعت میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں کہ ایک جنگل میں اتنے آدمی اکٹھے ہوگئے ہیں لیکن اگر ہم غور سے کام لیں تو یہ زندگی کے کیا آثار ہیں کہ جس ملک میں ہم بیٹھے ہیں اس ملک کے باشندے ہمارے اندر موجود نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ہم انگلستان میں ایک بہت بڑا جلسہ کریں اور اس میں پاکستان کے پاکستانی` افریقہ کے حبشی` انڈونیشیا کے انڈونیشین` سیلون کے سیلونی` برما کے برمی` افغانستان کے افغان اور عرب ممالک کے عرب سب موجود ہوں لیکن انگلستان کا کوئی آدمی نہ ہو اور ہم بڑے خوش ہوں کہ ہمارا جلسہ نہایت کامیاب ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جلسہ کیا کامیاب رہا جس میں اور ممالک کے لوگ تو موجود تھے اور انگلستان کا کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ اس طرح تو ہم نے اپنے روپیہ کو ضائع ہی کیا کیونکہ جس ملک کے لوگوں پر ہم اپنا اثر پیدا کرنا چاہتے تھے اس ملک کا کوئی فرد اس میں موجود نہیں تھا۔ اسی طرح ہم جب سندھ میں آئے ہیں تو سندھ کے لوگوں کی خاطر آئے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سندھیوں میں اپنی تبلیغ کے حلقہ کو وسیع کریں اور ان کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل کریں۔ غرض اگر غور سے کام لیا جائے اور سوچنے کی عادت ڈالی جائے تو یہ چیز ہمارے سامنے آجاتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت اس صوبہ میں رہتے ہوئے ہم نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں کا حق پنجابیوں سے زیادہ ہے اور ہمارے لئے خوشی کا دن دراصل وہ ہوگا جب ہمارے جلسہ میں اگر پانچ سو آدمی ہوں تو ان میں سے چار سو سندھی ہوں اور ایک سو پنجابی ہو۔ اگر ہم ایسا تغیر پیدا کرلیں تب بے شک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے اپنے فرض کو ادا کردیا<۔۱۲۰
بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ پر علمائے سلسلہ کا تبصرہ
پاکستان میں دستور سازی کی جو مہم تین سال سے جاری تھی اس نے ۶۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ایک معین صورت اختیار کرلی یعنی ملک کی دستور ساز اسمبلی نے بنیادی حقوق کمیٹی کی عبوری رپورٹ منظور کرلی۔ اس رپورٹ کے سارے پہلوئوں پر غور وفکر کے لئے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کے ارشاد مبارک پر ایک کمیٹی تشکیل کی گئی جس میں مندرجہ ذیل علمائے سلسلہ شامل تھے:۔
۱۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ناظر دعوت و تبلیغ سابق پروفیسر تاریخ الادیان کلیہ صلاح الدین ایوبی بیت المقدس۔ ۲۔ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ ناظر تالیف و تصنیف سابق مبلغ بلاد عربیہ و امام مسجد لندن۔ ۳۔ ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ و سند یافتہ صدر مدرس مدرسہ تح پوری دہلی سابق مدرس دارالعلوم دیوبند۔ ۴۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ سابق مبلغ بلاد عربیہ۔ ۵۔ حضرت مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی سلسلہ عالیہ احمدیہ۔ ۶۔ مولوی خورشید احمد صاحب شاد پروفیسر جامعتہ المبشرین سندیافتہ شیخ الحدیث ڈابھیل۔ ۷۔ مولوی محمد احمد صاحب ثاقب پروفیسر جامعتہ المبشرین و سندیافتہ صدر مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی سابق مدرس دارالعلوم دیوبند۔ ۸۔ ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین۔ ۹۔ چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب بار ایٹ لاء مشیر قانونی سلسلہ عالیہ احمدیہ۔ ۱۰۔ مولوی تاج الدین صاحب قاصی سلسلہ عالیہ احمدیہ۔ ۱۱۔ مولوی محمد صدیق صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین سند یافتہ شیخ الحدیث ڈابھیل۔
ان علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عبوری رپورٹ کی دفعات کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس کے پہلوئوں پر ایک سیر حاصل تبصرہ لکھا جو الفضل )۲۴۔ امان ۱۳۲۰ہش( میں شائع ہوا۔ اس تبصرہ کے بعض اہم نکات حسب ذیل تھے:۔
اول:۔ جہاں تک حدود شرعیہ کا سوال ہے جیسے قصاص` زنا` سرقہ وغیرہ ان میں قرآن مجید اور نے کسی کا استثناء نہیں کیا لہذا حدود شرعیہ میں نہ تو صدرمملکت کا استثناء مناسب ہے اور نہ صدر صوبہ کا نہ کسی اور کا۔ البتہ جن احکام کے نافذ کرنے کا قانون نے کسی عہدیدار کو حق دیا ہے ان کے نفاذ کے بارہ میں کوئی فوجداری نالش نہیں کی جاسکتی خواہ اس فیصلہ سے لوگوں کو اختلاف ہی ہو ایسے امور کی سماعت صرف مجلس شوریٰ یعنی اسمبلی میں ہوگی۔
دوم:۔ صدر مملکت یا صدر صوبہ کی گرفتاری` قید یا حاضری کا حکم اس کے عہدہ کے دوران کسی عدالت کی طرف سے جاری کیا جاسکتا ہے۔
سوم:۔ صدر مملکت کو حدود شرعیہ کے معاف کرنے کا حق نہیں۔ مثلاً قتل اور جروح میں قصاص کی معانی یا دیت کی صورت میں سزا کی تبدیلی کا صرف مقتول کے وارث یا زخم خوردہ کی رضامندی سے صدر کو حق حاصل ہوسکتا ہے ورنہ نہیں اور باقی امور میں مصالح ملکی اور سیاسی کے ماتحت حق دیا جاسکتا ہے۔
چہارم:۔ اسلام میں صدر مملکت کو دستور معطل کرنے کا اختیار کبھی حاصل نہیں البتہ اگر کسی دقت کی وجہ سے وقتی طور پر دستور پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے تو اس وقت صدر مملکت کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ یہ اعلان کرے کہ چونکہ موجودہ حالات میں دستور پر عمل کرنا ناممکن ہوگیا ہے اس لئے میں حالات کی درستی تک جس کے لئے میعاد معین مذکور ہونی چاہئے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں یا فلاں فلاں نمائندوں کو یہ اختیار سپرد کرتا ہوں۔
پنجم:۔ اسلام نے عدالتی فیصلہ کے بغیر کسی شخص کو قید میں رکھنا جائز نہیں رکھا۔ البتہ خاص حالات میں ہنگامی ضرورت کے وقت اگر کسی کو گرفتار کیا جائے تو اس کا معاملہ قریب سے قریب وقت میں عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے۔ البتہ اگر ضرورت سمجھی جائے تو عدالت کو ازخود یا حکومت کی درخواست پر مقدمہ کی سماعت بند عدالت میں کرنے کا اختیار ہے۔ یہ اسلامی اصول کہ کسی کو عدالتی فیصلہ کے بغیر قید میں نہیں رکھا جاسکتا آئینی حکومت کو قائم رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ جو حکومت یہ سمجھے گی کہ وہ عدالت کے فیصلہ کے بغیر کسی کو قید میں نہیں رکھ سکتی تو وہ لازماً اپنے قانون کو زیادہ مکمل کرنے کی کوشش کرے گی۔
ششم:۔ عبوری رپورٹ کے تتمہ دوم دفعہ ۱۱۔ ۱۳ میں مذہبی تعلیم و آزادی کے لئے اسلامی فرقوں کے ساتھ >مسلمہ< کا اضافہ کیا گیا تھا جس پر علمائے سلسلہ نے حسب ذیل رائے دی کہ:۔
>لفظ مسلمہ خود تشریح طلب ہے اگر مسلمہ سے مراد قرآن کریم اور حدیث کی رو سے مسلمہ لیا جائے تو اس کے لئے کسی قید کے بڑھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن و سنت کا حکم سب کے لئے ماننا ضروری ہے اور اس کے خلاف چلنا ناجائز ہے۔ اور اگر مسلمہ سے مراد حنفی` شافعی` حنبلی` مالکی وغیرہ فرقے لئے جائیں تو ایسی قید کسی طرح جائز نہیں سمجھتی جاسکتی۔ قرآن مجید میں یہ کہاں بیان ہوا ہے کہ فلاں صدی تک کے لوگوں کو امور شرعیہ میں استنباط کرنے کا حق ہوگا اور فلاں صدی کے بعد کسی کو یہ حق نہیں ہوگا۔ اگر رسول اللہ~صل۱~ کے بعد کسی کو اجتہاد کرنے کا حق تھا تو یہ حق ہمیشہ کے لئے قائم ہے۔ کسی خاص فرقہ کے ساتھ اس حق کو مقید نہیں کیا جاسکتا۔ پس اگر رسول اللہ~صل۱~ کے بعد کسی ایک مجتہد کی جماعت کو بھی مسلمہ جماعت قرار دیا جائے تو پھر لازماً ہر مسلمان کہلانے والی جماعت کو مسلمہ جماعت قرار دینا پڑے گا۔ اور دوسری طرف اگر کسی جماعت کو یا اس کے عقائد کو غیر مسلمہ قرار دیا گیا تو پھر رسول اللہ~صل۱~ کے بعد کسی سلسلہ کو بھی مسلمہ قرار دینا جائز نہیں ہوگا<۔
محبت الٰہی کے موضوع پر پر معارف خطبات
تحریک احمدیت کے قیام اور حضرت مہدی موعود کی بعثت کا مقصد وحید محبت الٰہی ہے جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
>وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں<۔۱۲۱
پھر فرماتے ہیں:۔
>میری ہمدردی کے جوش کا اصل مہرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے اندر تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہوجائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے۔ وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا۔ اور اس ک حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا<۔۱۲۲
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ چونکہ حسن و احسان میں حضرت مہدی مسعود علیہ السلام کے مثیل و نظیر تھے اس لئے آپ کو اپنے بابرکت دور خلافت کے آغاز ہی سب سے بڑا فکر یہی دامنگیر رہا کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد کسی طرح خدا تعالیٰ سے مخلصانہ تعلق پیدا کرے اور ان کا مولیٰ ان سے راضی ہوجائے۔ چنانچہ حضور انور نے سالانہ جلسہ ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء پر اپنے درد اور تڑپ کا اظہار بایں الفاظ کیا کہ:۔
>مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمہاری درد میں پیدا ہوجائے اور اس سے سچا اور مخلصانہ تعلق تم کو حاصل ہو۔ اور میں اس غرض کے لئے ہمیشہ قسم کی کوششیں کرتا رہتا ہوں۔ میں نے ہزاروں رستے اور ہزاروں ذرائع تمہارے سامنے رکھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ذرائع پر عمل کرکے سینکڑوں اور ہزاروں مخلص بھی پیدا ہوئے مگر پھر بھی ہماری جماعت میں حقیقی اخلاص کی ابھی کمی ہے جس کے لئے میں اللہ تعالیٰ سے متواتر دعائیں کرتا رہتا ہوں۔ اس موقع پر میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یاد رکھو کہ میری موت یا حیات تو کو نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی موت بڑی چیز تھی اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ان سے بھی بڑی چیز تھی مگر اس حقیقت کے باوجود میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت حقیقی ایمان نہ ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے سچا اور مضبوط تعلق رکھتی ہے تو کسی بڑے سے بڑے نبی کی وفات بھی ان کے قدم کو متزلزل نہیں کرسکتی بلکہ بعص برکات اور ترقیات ایسی ہوتی ہیں جو انبیاء کی وفات کے رد کو حاصل ہوتی ہیں بشرطیکہ قوم صحیح رنگ میں ایمان پر قائم ہو۔ پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرے۔ اپنے نفوس میں ایسے تغیر رونما کرو کہ تمہارے دلوں میں یہ بات گڑ جائے کہ ہم نے اپنے آپ کو اس سے وابستہ کرنا ہے اور اس کی محبت اور پیار حاصل کرنا ہے<۔۱۲۳
حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو تحریک احمدیت کے اس بنیادی کی طرف ایک بار پھر توجہ دلانے کے لئے اس محبت الٰہی کے پیارے موضوع پر متعدد دیئے۔ یہ سلسلہ خطبات ۳۰۔ ماہ/ امان سے لے کر ۲۰۔ ماہ شہادت تک جاری رہا۔
ان پر معارف خطبات میں حضور نے کمال وضاحت سے بتایا۔ اب کے عملی حصہ کی بنیاد محبت الٰہی پر ہے جسے عام اصطلاح میں تعلق باللہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے کسی جنتر منتر کی ضرورت نہیں بلکہ ان فطرتی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح لوگ اپنے ماں باپ` بیٹے بیٹی اور بھائی بہنوں سے تعلق پیدا کرلیتے ہیں۔ جس طرح لوگ کسی کو اپنا دوست بنالیتے ہیں وہی فطری طریق خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ہیں۔ ماں باپ سے ہر ایک انسان محبت کرتا ہے اس لئے کہ ان کی طرف آپ ہی آپ توجہ ہوجاتی ہے اور وہ خود بھی اسے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہم تمہارے خیر خواہ ہیں لیکن استادوں سے لوگوں کو بہت کم محبت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ عام طور پر اپنے احسانات کو دہراتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ماں باپ اور استاد سے بھی زیادہ مخفی ہے اس لئے وہاں توجہ کی زیادہ ضرورت ہے اس کی محبت پیدا کرنے اور اس کے قرب کو حاصل کرنے کے لئے چیزیں وہی ہیں` گروہی ہیں لیکن ضرورت صرف توجہ کی ہے۔ بعض موٹی موٹی چیزیں ہیں جن پر لوگ عمل نہیں کرتے اس لئے وہ قرب الٰہی سے محروم رہتے ہیں۔ مثلاً رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے جب کھانا کھائو تو پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔ اب کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنے کے یہی معنتے ہیں کہ یہ کھانا مجھے خدا تعالیٰ نے دیا ہے۔ بسم اللہ کے لفظی معنی تو یہ ہیں کہ میں خداتعالیٰ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کھانا خدا تعالیٰ کا ہے میرا کوئی حق نہ تھا کہ اسے کھائوں مگر خداتعالیٰ نے مجھے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے اور اس نے کہا ہے تم کھالو اس لئے میں کھارہا ہوں۔ نہ گندم میری پیدا کی ہوئی ہے` نہ پانی میرا بنایا ہوا ہے` نہ نمک میرا بنایا ہوا ہے` نہ مرچ میری پیدا کی ہوئی ہے` نہ گوشت میرا پیدا کیا ہے` نہ ترکاریاں میں نے پیدا کی ہیں` یہ سب چیزیں میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں۔ بڑے سے بڑا خاندان کا ذکر بھی سو پشتوں سے آگے نہیں جاتا لیکن گندم` پانی` ترکاری` گوشت` نمک` مرچ اور لونگ وغیرہ ہزار پشتوں سے بھی پہلے سے موجود ہیں اور جب یہ سب اشیاء میری پیدائش بلکہ باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں تو یہ میری نہیں ہوسکتیں۔ بسم اللہ کے معنے ہی یہ ہیں کہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی ہیں لیکن اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ تم اسے کھالو اور ہم کھارہے ہیں۔ پھر یہ بات بھی اسلام نے سکھائی ہے کہ جب تم کھانا کھاچکو تو الحمدلل¶ہ کہا کرو اور دوسری دفعہ خداتعالیٰ کو یاد کرلیا کرو۔ گویا الحمدلل¶ہ کہنا خداتعالیٰ کے احسان کا دوسری بار شکریہ ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی انسان اس پر مداومت اختیار کرے تو آپ ہی آپ اس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا ہوجائے گی<۔
محبت الٰہی کا دوسرا اہم نسخہ حضور نے یہ بیان فرمایا کہ:۔
>خداتعالیٰ کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے۔ اسے بار بار دہرایا جائے اور آنکھوں کے سامنے اس کی تصویر لائی جائے تا انسان مجبور ہوجائے کہ اس سے پیار کرے۔ اور اس کا نام قرآن کریم میں ذکر الٰہی رکھا گیا ہے۔ رب` رحمن` رحیم` مالک یوم الدین` ستار` قدوس` مومن` مہیمن` سلام` جبار` قہار اور دوسری صفات الٰہیات یہ سب نقشے ہیں جو ذہن میں کھینچے جاتے ہیں۔ جب متواتر ان صفات کو ذہن میں لاتے ہیں اور ان کے معنوں کو ترجمہ کرکے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں تو کوئی صفت خدا تعالیٰ کی کان بن جاتی ہے تو کوئی صفت آنکھ بن جاتی ہے۔ کوئی صفت ہاتھ بن جاتی ہے۔ اور یہ سب مل کر ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے اور اسی کے نتیجہ میں محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے<۔۱۲۴
احمدیہ مسجد سمندری کی آتشزدگی
گزشتہ سال >تحفظ ختم نبوت< کی آڑ میں بعض پاکستانی احمدیوں کو شہید کردیا گیا تھا اس سال نام نہاد >مخالفین ختم نبوت< نے ۱۳۔ ماہ ہجرت/ مئی کو سمندری )ضلع لائل پور( کی احمدیہ مسجد کو آگ لگا دی۱۲۵ جیسا کہ اخبار الفضل کے نامہ نگار نے اطلاع دی:۔
>احراری نقارہ پیٹ کر اپنے حواریوں کو اکٹھا کرکے مسجد احمدیہ پر ٹوٹ پڑے اور اسے آگ لگا دی یہ ہجوم نہایت ہی فساد انگیز نعرے لگاتا ہوا مسجد کے اندر داخل ہوا اور اس میں مقیم احمدیوں کو زخمی کردیا واٹر پمپ اکھاڑ کر اس کا سامان اکٹھا کر لے گئے<۔۱۲۶
ضلع لائلپور کے معزز مسلمانوں کا کھلا اظہار نفرت
اس خلاف اسلام حرکت اور شر انگیز اقدام سے قرب و نواح کے علاقوں میں نہایت ہی نفرت اور غضے کی لہر دوڑ گئی۔ اس حقیقت کا اندازہ درج ذیل خطوط سے باسانی لگایا جاسکتا ہے جو ان دنوں ضلع لائلپور کے شرفاء اور سربرآوردہ مسلمانوں کی طرف سے اخبار الفضل میں شائع ہوا۔
)۱( سمندری کے معزز مسلمانوں کا احتجاج:۔
>ہم حنفی المذہب مسلمان ہیں ہمارا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں مگر ہم اس بات پر نفرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ سمندری میں جن لوگوں نے احمدیہ مسجد کو جلایا ہے ان لوگوں نے نہایت گندہ فعل کیا ہے اور ان کی یہ حرکت پاکستان کے مسلمانوں کو سخت بدنام کرنے کا موجب ہے۔ صرف ہم ہی نہیں ہر شریف انسان کے دل میں ایسی حرکت کرنے والوں کے متعلق نفرت اور غصہ کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ عبادت گاہوں کو جلانا خواہ وہ کسی مذہب اور فرقہ کی ہوں نہایت ہی شرمناک حرکت ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ مہربانی فرما کر ہماری یہ رائے اخبار میں شائع کردیں۔ ہم تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مکروہ فعل پر نفرت کا اظہار کریں تاکہ ملک کی فضا خراب نہ ہو۔ )دستخط ۱۔ محمد حسن بقلم خود ۲۔ محمد شفیع بقلم خود ۳۔ الٰہ دین بقلم خود ۴۔ محمد دین ۵۔ محمد عبداللہ سمندری خاص(
)۲( چک نمبر ۳۸۸ گ۔ب متصل سمندری کے مسلمان شرفاء کے تاثرات:۔
>سمندری میں احمدیوں کی مسجد کو جلا کر شرارت پسند عنصر نے بہت ہی گندہ نمونہ پیش کیا ہے عبادت گاہ کو جلانا خواہ وہ کسی فرقہ کی ہو نہ صرف اسلام کی رو سے گناہ ہے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی بہت قابل شرم فعل ہے۔ پاکستان خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک امن پسند جمہوری ملک ہے اس ملک میں کسی فرقہ کی عبادت گاہ کو جلانا ایسا فعل ہے جس کی ہندو` سکھ` اور عیسائی سے بھی توقع نہیں ہے۔ افسوس ہے ہے کہ ہمارے ملک کے مسلمان اسلام کی خدمت سے تو محروم تھے ہی اب ان میں سے چند شرارت پسند لوگوں نے اپنے اعمال سے اسلام کو بدنام کرنے والی حرکتیں شروع کردی ہیں جن کو تمام شریف الطبع پاکستانی مسلمان نہایت نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا جماعت احمدیہ سے مذہبی اختلاف ہے مگر ہم اس فعل کو بہت برا اور ظالمانہ فعل سمجھتے ہیں۔
دستخظ ۱۔ محمد شفیع ۲۔ جلال الدین ۳۔ محمد حسین ۴۔ ALI HAKAM ۵۔ RAFI <MOHAMMAD
)۳( چک نمبر ۳۸۷ گ۔ ب متصل سمندری کے مسلمان شرفاء کے تاثرات:۔
جن لوگوں نے سمندری کی احمدیہ مسجد کو جلایا ہے انہوں نے اسلام اور قرآن مجید کی تعلیم کے بالکل الٹ کرکے پاکستان کے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور پاکستان کی پرامن فضاء کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم باوجود جماعت احمدیہ سے مذہبی اختلاف رکھنے کے اس فعل پر سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ حکومت ایسے شریر لوگوں سے بازپرس کرے گی اور جو لوگ مجرم ثابت ہوں ان کو سزا دیکر آئندہ کے لئے ملک کی فضا کو پاکیزہ بنائے گی۔
دستخظ ۱۔ غلام محمد ۲۔ سردار محمد
>مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرپسند عناصر نے سمندری میں ایک مسجد کو جلا دیا ہے۔ میں اور میرے دوست اس فعل پر انتہائی نفرت کرتے ہیں۔ جب ہم ان واقعات کو مشرقی پنجاب کی سرزمین پر دیکھتے تھے تو انہیں دشمنان اسلام کے صریح مظالم قرار دیتے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تخریب پسند عناصر کے حد سے گزرنے کی وجہ سے پاکستان میں بھی عبادت گاہیں محفوظ نظر نہیں آتیں۔ پاکستان ایک ایسی مملکت ہے جس کے حصول کے لئے لاکھوں انسانوں نے اپنی زندگیاں اس لئے قربان کیں کہ یہاں اسلامی نظام رائج ہوسکے۔ کیا ان کی روحیں اس ظالمانہ حرکت کو دیکھ کر تڑپ نہ گئی ہوں گی۔ ہم آج بھی اسلام کے نام پر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن پاکستان میں اسلام کو ذلیل ہونا نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی حکومت کو اس چیز کی اجازت دے سکتے ہیں کہ مسجدیں جلتی دیکھ کر حکومت کی مشینری میں کوئی حرکت پیدا نہ ہو۔
میں اور میرے احباب حکومت سے پرزور استدعا کرتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت کے ان دشمنوں اور خدا کے باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھے۔
خاکسار محمد الطاف حسین طالب علم بی۔ ایس سی زراعت( زراعت کالج لائل پور<
)۵( احراریوں کی حرکت سراسر خلاف اسلام ہے:۔
>جناب ایڈیٹر صاحب الفضل! السلام علیکم
سمندری میں مسجد کو جو آگ لگائی گئی ہے یہ سراسر غلطی ہے اور خلاف اسلام حرکت ہے۔ مسجد خدا کا گھر ہے اس میں جس فرقہ یا خیال کا آدمی بھی عبادت کرنا چاہے کرسکتا ہے مسجد اس کو نہیں روکتی کہ فلاں آدمی نماز پڑھے اور فلاں نہ پڑھے۔ مسجد فرقہ پرستی سے بالا جگہ ہے۔
مسجد میں ایک شیعہ بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔ ایک اہلحدیث بھی پڑھ سکتا ہے۔ ایک احمدی فرقہ کا آدمی بھی پڑھ سکتا ہے۔ مسجد کا نام سب کے لئے قابل عزت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کی جائے بعض لوگوں نے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ دوسروں کو عبادت کرنے سے روکا جائے اور ان کی مسجد کو جلایا یا گریا جائے۔ مسجد کو آگ لگانا اسلام کے سراسر خلاف ہے ایسے لوگوں کو دین سے کیا محبت ہوسکتی ہے جو دوسروں کو خدا کی عبادت کرنے سے روکیں۔
)دستخط( عبدالرزاق پروپرائٹر اقبال پرنٹنگ پریس لائل پور۔
)۶( یہ فعل از حد شرمناک ہے:۔
>جناب ایڈیٹر صاحب الفضل! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
میں ایک حنفی المذہب مسلمان مہاجر ہوں۔ جب میں نے سمندری میں احمدیہ جماعت کی مسجد کو جلانے کی خبر سنی تو مجھے بہت دکھ ہوا کہ ہم لوگ سکھوں کے مظالم پر روتے تھے خود ہمارے پاکستان میں بھی بعض ایسے گندے اور ظالم لوگ موجود ہیں جو مسجد کو جلا دینے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ میں حیران ہوں کہ جب یہ خبر دوسرے ملکوں کے لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے۔ یہ فعل بہت ہی شرمناک ہے۔ پاکستان کی رعایا اور حکومت دونوں کو مل کر کوشش کرنی چاہئے کہ اس قسم کے فسادی لوگ ایسی حرکتیں نہ کرسکیں جن سے پاکستان اور اسلام کی بدنامی ہو اور ملک کا امن خراب ہوجائے۔
)عبدالغنی چک نمبر ۶۹ ج۔ب تحصیل و ضلع لائل پور(
)۷( مذہب کے نام پر دھبہ:۔
>جناب ایڈیٹر صاحب الفضل! السلام علیکم ورحمتہ اللہ
کچھ دن ہوئے میں نے خبر سنی کہ سمندری میں ایک مسجد کو آگ لگا دی گئی۔ میرے خیال میں جس نے بھی مسجد کو آگ لگائی ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہے یہ اس نے اپنے مذہب کے نام پر دھبہ لگایا ہے کیونکہ مذہب اسلام یہ کسی بھی حالت میں اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی عبادت گاہ کو آگ لگائی جائے۔
محمد ابراہیم بقلم خود منشی محلہ لائل پور۔۱۲۷
روزنامہ >جدید نظام< کا احتجاج
‏]text [tagلاہور کے اخبار >جدید نظام< نے اپنی ۲۱۔ مئی ۱۹۵۱ء کی اشاعت میں اس افسوسناک سانحہ پر حسب ذیل احتجاجی نوٹ لکھا:۔
حکومت اور پاکستان میں شر انگیزی
ملک کی تقسیم سے قبل سیاسی جماعتوں نے پاکستان قیام کی انتہائی مخالفت کی۔ اور پاکستان کے قیام کے ادارے کو شریعت اسلامیہ کے خلاف قرار دے دیا۔ اور اپنے ہر فرد آقائوں کو خوش کرنے کے لئے بانی تحریک >پاکستان< مرحوم قائداعظم کو ملک کا دشمن اور انگریز کا ایجنٹ کہنے میں بھی دریغ تک نہ کیا۔ تمام ملک کے دورے کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر مسلمان قوم ان کی شر انگیزیوں پوری طرح سے آگاہ ہوچکی تھی۔ اس لئے تمام مسلم قوم نے متفقہ طور پر ان کی ہندوانہ سیاست کو رد کرتے ہوئے قائداعظم مرحوم کی قیادت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ اور پاکستان کے حصول کی کوشش میں مصروف ہوگئی۔ چنانچہ ان غداران ملت نے آپ مذہبی بھروپ دھارنے کی کوشش کی۔ اور تبلیغ دین کے بہانے سے پاکسنیوں میں )اپنے دیرینہ ہندو آقائوں کو خوش کرنے کے لئے اور ان کے اشاروں پر( اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ کیونکہ جس کسی ملک کو تباہ کرنے کا پروگرام بنایا جاتا ہے۔ پہلے اس کے باشندوں میں اندرونی خلفشار اور اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ ملک کے اندر بیرونی سے پیشتر ہی اندرونی انتشار پیدا کیا جاسکے۔ چنانچہ یہ سنہری خدمات کے سرانجام دینے کا سہرا پاکستان میں اور خصوصاً پنجاب میں مجلس احرار کے کارکنوں کے سر بندھا ہے۔ کہیں ان بزرگوں نے شیعہ و سنی کے۔ کہیں وہابی و اہلحدیث اور کہیں احمدی وغیرہ۔ احمدی کے نام سے شر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب کے مختلف شہروں سے یہ افسوسناک خبریں آرہی ہیں۔ کہ آج فلاں جگہ مسلمانوں میں آپس میں سر پھٹوں ہوئی۔ آج فلاں مقام پر مسلمانوں میں آپس میں تصادم ہوگیا۔ آج ایک ایسی افسوسناک اور دل ہلا دینے والی خبر سمندری ضلع لائل پور سے ملی کہ وہاں احمدیوں کی ایک مسجد کو مجلس احرار کے کھ کارکنوں نے آگ لگا کر جلا دیا ہے۔ اور کئی آدمی زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے موقعہ پر پہنچنے سے زیادہ فساد پھیل نہ سکا۔ ورنہ ممکن تھا کہ یہ زیادہ جانی نقصان ہوتا۔ ہم مجلس احرار یا دوسرے دوستوں سے ایک سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان میں تمام اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہبی عقائد کی پوری پوری آزادی ہے یا نہیں؟ اگر ہے اور واقع ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم کسی احمدی کو یا اس کی عبادت گاہ کو یا ان کی عبادت گاہ کو تباہ و برباد کردیں۔ آج اگر کوئی سکھ یا ہندو ایسی حرکت کرتا۔ تو کوئی مسلمان بھی ایسی ذلیل حرکت کو گوارہ نہ کرتا۔ لیکن آج اگر کوئی مسلمان ہی محض ایک شر انگیزی کی وجہ سے ایسی ذلیل حرکت کا مرتکب ہوتا ہے۔ تو حکومت کو ایسے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت اقدام کرنا چاہئے۔ تاکہ یہ شر تمام صوبہ میں نہ پھیلنے پائے۔ مذہبی عقیدہ کے لحاظ سے ممکن ہے کہ ہمیں بھی احمدی حضرات سے اختلاف ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں۔ کہ ہم ان کی عبادت گاہیں جلا دیں۔ یا ان کے آدمیوں پر حملہ کئے جائیں۔ اور پاکستان میں ایک ایسی بری فضا پیدا کردیں۔ کہ دشمن آسانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر سے حملہ کردے۔ ہمارے خیال میں تو وہ لوگ جو اس نازک وقت پر ملک میں مختلف فرقوں میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ وہ ملک کے دشمن اور ملت کے مخالف ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایسی حرکتوں کو روکنے کے لئے حکومت اور عام مسلمانوں دونوں کو مل کر روکنا چاہئے۔ تاکہ ملک کی فضا زیادہ خراب نہ ہونے پائے۔ ورنہ یہی وباء ہماری تباہی اور بربادی کا باعث بن جائے گی۔ پاکستان میں اگر ہندو۔ سکھ۔ عیسائی۔ اقلیت کو اپنے مذہبی رسوم ادا کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ تو کوئی وجہ نہیں۔ کہ احمدی حضرات کو اپنی عبادت کرنے کی کیوں نہ اجازت ہو۔ باقی دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہئے۔ تاکہ کسی ایک فرق کو بھی دوسرے سے کسی قسم کی رغبت ہی پیدا نہ ہو<۔۱۲۸
دوسرا نوٹ
روزنامہ >جدید نظام< ۳۰۸ نے ۲۸۔ مئی ۱۹۵۱ی کو حسب ذیل نوٹ سپرد قلم فرمایا:۔
>کچھ عرصہ سے حکومت پاکستان کو پاکستان کی دیرینہ دشمن اور مخالف جماعت مجلس احرار کے ارکان نے یہ یقین دلانے کی کوشش کررکھی ہے کہ مجلس احرار کی سیاسی پالیسی بالکل ناکام ہوچکی ہے اس لئے وہ لوگ جو کل تک یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ہندوستان میں کوئی ایک بھی ایسا مسلمان موجود نہیں ہے جو پاکستان کا قیام تو درکنار پاکستان کی صرف پ ہی بنا کر دکھاوے۔ لیکن آج جبکہ خدا کے فضل و کرم سے پاکستان کا قیام ہی عمل میں نہیں آیا بلکہ دنیا کی بہترین طاقتور حکومتوں میں سے ایک اعلیٰ پایہ کی حکومت کے طور پر شمار ہونے لگا ہے تو دشمنان پاکستان کی تحریک پر پاکستان کی بعض ایسی جماعتوں نے جو ہمیشہ مشرکین اور کفار کی سٹیج سے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان اور بانی پاکستان کے خلاف ذلیل قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم مرحوم و مغفور کو عام جلسوں میں نعوذ باللہ کافر اعظم کے خطاب سے نوازتے رہے آج وہی لوگ حکومت پاکستان کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں منافرت پھیلا کر آپس میں سر پھٹول کرانا اپنا شیوہ بنا چکے ہیں جیسا کہ ضلع لائل پور کی ایک مسجد کو آگ لگا کر تماشا دکھایا گیا ہے۔
عبادت گاہ خواہ کسی کی ہو ہر لحاظ سے قابل احترام ہے۔ مرزائیوں سے ہمیں بھی مذہبی اور عقیدہ کے لحاظ سے احراریوں سے زیادہ اختلاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی عبادت گاہوں کو آگ لگا کر جلا دیں۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ حضور نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کو خدا کا آخری نبی اور سچا نبی نہ مانیں۔ کچھ عرصہ ہوا امپروومنٹ ٹرسٹ کانپور نے سڑکوں کی فراخی کی سکیم کے پیش نظر کانپور کی ایک مسجد کا پیشاب خانہ گرا دیا تو طول و عرض ہند میں مسلمانوں نے پرزور احتجاج کیا اور اتنا زبردست پروٹسٹ کیا کہ اس عظیم سانحہ کا ذکر کئے بغیر برعظم برصغیر کی تاریخ مکمل نہیں کی جاسکتی۔
پھر ابھی کل کی بات ہے کہ لنڈے بازار میں صدہا مسلمان ظفر الملت حضرت مولانا ظفر علی خاں کی زیر قیادت مسجد شہید گنج کے تحفظ کے لئے زخموں سے چور خاک و خون میں لت پت ہوکر تڑپ رہے تھے اور اس حالت میں ان کی لاٹھیوں اور گولیوں سے زخمی جسموں پر گھوڑا سوار دستے سرپٹ دوڑائے گئے تھے لیکن مسجد کے عاشق مسلمان کا پائے ثبات ڈگمگا نہ سکا۔ ہزاروں مسلمان زخمی ہوئے اور بیشمار جام شہادت نوش کرکے مسجد کی عزت کے تحفظ پر اپنے نسوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح قربان کرگئے۔ ان حقائق کے پیش نظر کیا کسی کو یقین آسکتا ہے کہ مسلمانوں نے مسجد کو آگ لگا کر راکھ کر دیا ہو؟ نہیں ہرگز نہیں۔ مسلمانوں سے اس قسم کی توقع کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ہمارے احراری بھائی جو مسجد شہید گنج کے تحفظ کے لئے جانیں دینے والوں کو حرام موت مرنے والے کہتے تھے کسی مسجد کو آگ لگا کر راکھ کردیں تو یہ دور از قیاس امر نہیں۔ خانہ خدا )مسجد( کو جلا کر راکھ کر دینے کے بعد احراری بھائیوں کا منار خصوصی اخبار >آزاد< مسجد کو مرزائیوں کا گرجا کہہ کر اس خفت کو محو کرنا چاہتا ہے جو دنیا کی نظروں میں رہتی دنیا تک ہمیشہ ان کے شامل حال رہے گی۔ لیکن اختلاف عقائد کی بناء پر دوسرے فرقہ والوں کی مسجد کو گرجا گھر کہہ کر جلا دینے کا جو دروازہ کھولا گیا ہے یہ قطع نظر آسمانی حکومت کی غداری کے کہ جس نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں گرجا` مندر اور مسجد وغیرہ ہر قسم کے عبادت گھروں کی یکساں تعظیم کا تاکیدی حکم دیا ہے ملک کے خرمن امن کو جلانے کا باعث ہوگا۔
ذرا سوچئے کہ مرزائیوں کی مسجد کیوں جلائی گئی۔ اس لئے کہ علماء نے انہیں کافر کہا ہے۔ لیکن کیا علماء نے دیوبندی عقائد والوں کو کافر نہیں کہا۔ کیا ہمارے احراری بھائی جو عموماً دیوبندی خیال کے ہیں بریلوی علماء` احناف و اہل سنت والجماعت کے فتاویٰ کفر بھول گئے اور کیا انہیں معلوم نہیں کہ مذہبی طور پر ملت اسلامیہ کا کوئی گروہ اور فرقہ ایسا نہیں ہے جس پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہو۔ یہاں تک کہ مفتیان عرب شریف بھی اس ثواب میں برابر کے شریک ہیں۔
شمس العلماء مولانا حالی~رح~ حیات جاوید میں سرسید مرحوم پر اس قسم کے فتاویٰ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مکہ معظمہ کے اربعہ مذاہب کے مفتیوں کے فتاویٰ کا خلاصہ لکھتے ہیں کہ
>یہ شخص )سرسید مرحوم( ضال اور مضل ہے بلکہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے۔ اس کا فتویٰ یہود و نصاریٰ کے فتنہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ خدا اس کو سمجھے۔ ضرب اور حبس سے اس کی تادیب کرنی چاہئے<۔
ہم آخر میں حکومت اور عوام دونوں کو اس طرف پوری توجہ دلاتے ہوئے اپیل کریں گے کہ اس شر کو جلد سے جلد ختم کرنے کے لئے کوئی موثر اقدام کریں ورنہ پاکستان کے لئے یہ چنگاری کہیں آگ ثابت نہ ہو جس کا بجھنا بے حد محال و مشکل ہوگا<۔
ہائیکورٹ کا فیصلہ
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لائل پور تحریر فرماتے ہیں:۔
>احراریوں کا چالان ہوا۔ سزا ہوئی اور اپیل نامنظور ہوئی اور پھر ہائی کورٹ سے بھی قرارداد مجرمیت ان کے خلاف قائم رہی۔ اور ہائی کورٹ نے مبلغ چار صد روپیہ پر پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ سمندری کو ادا کرنے کا حکم دیا<۔۱۲۹
رپورٹ تحقیقاتی عدالت میں ذکر
فاضل ججان >تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳< نے اپنی رپورٹ میں اس سانحہ کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کیا ہے:۔
امیر جماعت احمدیہ بھیرہ نے فضیلت ماب گورنر جنرل پاکستان کی خدمت میں ایک تار بھیجا جس میں شکایت کی کہ سمندری میں احمدیوں کی ایک مسجد جلا دی گئی ہے۔ اور وہاں پرامن نمازیوں کو بے دردی سے زدوکوب کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے اپنی چٹھی نمبری )۱( -poll۵۱/۱/۴۴ مورخہ ۲۸۔ مئی ۱۹۵۱ء کے ساتھ اس تار کی ایک نقل چیف سیکرٹری حکومت پنجاب کو بھیج کر استدعا کی کہ اس واقعہ کی روداد اور اس پر حکومت پنجاب کا تبصرہ جلد از جلد ارسال کیا جائے۔ اس چٹھی کے جواب میں سید احمد علی ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب نے مندرجہ ذیل چٹھی نمبری BDSB۔۸۴۴۷ مورخہ ۲۸۔ جون ۱۹۵۱ء لکھی:۔
>بحوالہ آپ کی چٹھی نمبری )۱( -poll۵۱/۱/۴۴ مورخہ ۲۸۔ مئی ۱۹۵۱ء مجھے یہ اطلاع دینے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ۳۱۔ مئی ۱۹۵۱ء کی سہ پہر کو قصبہ سمندری ضلع لائل پور کے غیر احمدیوں )احراریوں( کا ایک ہجوم جمع ہوا۔ اور اس نے ایک کچی مسجد کی چھت اور اس کی چٹائیوں کو آگ لگا دی۔ یہ مسجد ایک کمرے اور ایک چبوترے پر مشتمل ہے۔ اور ڈسٹرکٹ بورڈ سکول کے نواح میں اراضی متروکہ پر بنائی گئی ہے۔ احمدی جماعت کے چند افراد اس وقت وہاں موجود تھے۔ جو نشانہ زدوکوب بنائے گئے۔ ڈسٹرکٹ بورڈ سکول کے ایک چپراسی نے توہین مسجد اور آتش زنی کی اطلاع مقامی پولیس کو پہنچائی۔ اور پولیس فوراً موقع پر پہنچ گئی۔ ڈسٹرکٹ مجسریٹ اور سپرنٹندنٹ پولیس بھی بلاتاخیر موقع پر پہنچ گئے۔ اور صورت حالات پر قابو پالیا گیا۔ چودہ قانون شکن اشخاص بحالت ارتکاب جرم گرفتار کر لئے گئے۔ کچھ دیر بعد چھ اور اشخاص گرفتار کرلئے گئے۔ اور تفتیش کی تکمیل کے بعد مقدمہ عدالت میں دائر کردیا گیا۔ مقامی حکام کی فوری اور مستعدانہ کارروائی نے صورت حالات کو بگڑنے سے بچالیا اور اب فضا بالکل پرسکون ہے۔
جن اشخاص نے پولیس کو ابتدائی رپورٹ دی انہوں نے واقعہ کے متعلق مبالغہ آمیز بیان دیا اور بعض بے گناہوں کو بھی لپیٹ لیا۔ جن میں سے دو محکمہ مال کے ملازم ہیں۔ تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے ارتکاب جرم میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ اور ان کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں۔ مزید حالات و کوائف سے مناسب وقت پر اطلاع دی جائے گی<۔۱۳۰
‏tav.12.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
مصلح موعودؓ کے سفر بھیرہ سے لیکر حادثہ آتشزدگی تک
حواشی
۱۔
ذکر حبیب صفحہ ۴۴ )مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مبلغ اسلام امریکہ(
۲۔
الفضل ۷۔ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۳۔
مخدوم الطاف احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ میانی کا بیان ہے کہ حضور جب بھیرہ پہنچے تو بزرگوارم والد صاحب جناب مخدوم محمد ایوب صاحب بی۔ اے )علیگ( صدر جماعت احمدیہ بھیرہ استقبال کے لئے آگے بڑھے تو حضور نے ازراہ شفقت بزرگوارم والد صاحب سے معانقہ فرمایا اور یہ بات بزرگوارم والد صاحب کے زندگی بھر بڑے فخر کا موجب رہی۔
۴۔
یہ الفضل کے رپورٹر کا بیان یہ مگر جناب فضل الرحمن صاحب بسمل بی۔ اے` بی ٹی بھیرہ کے ایک مکتوب )مورخہ ۶۳۔ امان ۱۳۵۱ہش( سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نام لال تھا۔
۵۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۶۔
مشکٰوۃ مجتبائی باب نزول عیٰسی بن مریم۔
۷۔
دارقطنی جلد نمبر ۱ صفحہ ۱۸۸۔
۸۔
الانبیاء : ۹۱
۹۔
المائدہ : ۲۴۔
۱۰۔
شعبہ زود نویسی کے غیر مطبوعہ ریکارڈ سے ماخوذ۔
۱۱۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۵۱ء/ نبوت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۴۔
۱۲۔
رسالہ >درویشان قادیان< صفحہ ۲۲ )بزم درویشان قادیان مطبوعہ دسمبر ۱۹۵۰(
۱۳۔
مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بحضور حضرت مصلح موعودؓ مورخہ ۵۔ امان ۱۳۲۹ہش۔
۱۴۔
الفضل ۳۱۔ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴` ۵۔
۱۵۔
۱۹۔ مارچ ۱۹۶۳ء کو سیٹھ صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور اب ربوہ میں رہائش پذیر ہیں۔
۱۶۔
الفضل ۷۔ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۳ تا ۵۔
۱۷۔
الفضل ۱۱۔ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۵۔
۱۸۔
الفضل ۲۴۔ مارچ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۱۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن ۱۳۲۸۔ ۱۳۲۹ہش/ ۱۹۴۹ء۔ ۱۹۵۰ء صفحہ ۷۔
‏h1] [tag ۲۰۔
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >تاریخ لجنہ اماء اللہ< جلد دوم صفحہ ۱۹۶ )مولفہ امتہ اللطیف صاحبہ سیکرٹری اشاعت لجنہ اماء اللہ مرکزیہ(
۲۱۔
الفضل ۲۵۔ صلح ۱۳۲۹ہش صفحہ ۸۔
۲۲۔
یہ مکان ربوہ بھر میں پہلا رہائشی اور ذاتی مکان تھا جو تعمیر ہوا۔
۲۳۔
الفضل ۳۔ احسان ۱۳۲۹ہش/ جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۲۴۔
ارشاد برنقول ریزولیوشن صدر انجمن احمدیہ ۵۰-۶-۵/ ۱۸۲ غم۔
۲۵۔
سلسلہ احمدیہ کی مرکزی تعمیرات اور دوسری پبلک عمارات کے لئے سیمنٹ ایک ضروری چیز تھی جس کی فراہمی کے لئے صدر انجمن احمدیہ نے سرگودھا کے ایک ناجر سے دو ویگن کا سودا کیا مگر وہ بیانہ وصول کرنے اور دو ویگن کے لالیاں تک پہنچانے کے باوجود سیمنٹ کو ٹرکوں پر لدوا کر واپس سرگودھا لے گیا اور ربوہ کو سیمنٹ دینے بلکہ پیشگی رقم تک واپس کرنے سے منحرف ہوگیا۔ بالاخر نوبت عدالت تک پہنچی۔ صدر انجمن احمدیہ نے ایک طرف اپنی رقم اور خرچ مقدمہ وصول کرکے راضی نامہ کرلیا دوسری طرف مسلسل جدوجہد کے بعد سال کے آخر میں ڈالمیا سیمنٹ کمپنی کی ایجنسی قائم کرلی اور الفضل )۳۱۔ فتح ۱۳۲۹ہش/ دسمبر ۱۹۵۰ء( میں اعلان کیا کہ:۔
>جو دوست جس مقدار میں سیمنٹ خریدنے کے خواہش مند ہوں وہ اس کی قیمت اندازاً پیشگی خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں داخل کرکے اس کی اطلاع سیکرٹری تعمیر کو بھی ساتھ ہی کردیں تاکہ وہ ان کی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر زیادہ سے زیادہ سیمنٹ سٹاک کرسکیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ احباب کو کسی وقت کے بغیر اور بدوں زائد خرچ کے معقول حیثیت میں ربوہ میں سیمنٹ مہیا ہوسکے گا<۔
۲۶۔
تفصیل کوائف الفضل ۳۱۔ دسمبر ۱۹۵۰ء` ۲۔ ۳۔ ۱۳۔ جنوری ۱۹۵۱ء میں شائع ہوئے۔
۲۷۔
الفضل ۶۔ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۸۔
ملاحظہ ہو >اشاعتہ السنہ< جلد ۱۶ صفحہ ۱۶۸ )حاشیہ(
۲۹۔
تذکرہ طبع سوم صفحہ ۷۶۶ و تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحہ ۲۰۳۔
۳۰۔
الفضل ۱۹۔ مارچ ۱۹۶۳ء مطابق ۱۹۔ امان ۱۳۴۲ہش صفحہ ۵ تا ۷۔
۳۱۔
الفضل ۳۰۔ تبوک ۱۳۴۳/ ستمبر ۱۹۶۴ صفحہ ۲ تا ۴۔
۳۲۔
الفضل ۲۲۔ جنوری ۱۹۵۰ء مطابق ۲۲۔ صلح ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۔
۳۳۔
نوشت سوانح حیات چوہدری محمد حسینؓ صفحہ ۵۸ مرتبہ مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی ناشر محمد احمد اکیڈیمی رام گلی نمبر ۳ لاہور ۱۹۷۴ء۔ مطبع نقوش اردو بازار لاہور۔
۳۴`۳۷۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۱۳۱ فرماتے ہیں۔ ۱۹۰۱ء میں ایمان بالغیب لاکر احمدی ہوا` تحریری بیعت ۱۹۰۸ء میں کی۔ دستی بیعت ۱۹۱۲ء میں )زیارت( ۱۹۰۸ء میں بمقام لاہور رجسٹر صحابہ >قادیان< مشمولہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ ۴۱ زیر نمبر ۱۲۱۔
۳۵`۳۶۔
سوانح حیات چوہدری محمد حسینؓ
۳۸۔
سابق انکم ٹیکس آفیسر OFFICER) (TEXATION جھنگ۔
۳۹۔
بخاری کتاب الفتن )مصری جلد ۴ صفحہ ۱۵۲( میں ہے کہ
>اجنرنی ابوھریرہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تقوم الساعہ فی تخرج ناہ من ارض الحجاز تضی اعناق الابل ببصری<
حضرت ابوہریرہؓ نے مجھے خبر دی کہ اے رسول اللہ~صل۱~ نے فرمایا الساعتہ نہیں آئے گی۔ یہاں تک کہ سرزمین حجاز سے آگ نکل آئے جس سے بصری میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہوجائیں گی۔
۴۰۔
بعض دیگر ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی یہ ملاقات ابوالبرکات حضرت سید محمد شفیع صاحب متحقق دہلوی~رح~ کے توسط سے ہوئی تھی جن کے جلالت الملک ابن سعود سے ذاتی مراسم تھے۔ سعودی حکومت کا پٹرول کے سلسلہ میں ۴۔ صفر ۱۳۵۲ھ مطابق ۲۹۔ مئی ۱۹۳۳ء کو سٹینڈرڈ آئل اوف کیلیفورنیا کا معاہدہ ہوا اور مسٹر ایل۔ این عاسٹون نے جدہ میں کمپنی کی طرف سے دستخط کئے۔
۴۱۔
قریباً دو سال بعد ۲۶۔ محرم ۱۳۵۴ھ مطابق ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۵ء کو کھدائی کا آغاز کیا گیا اور ۱۱۔ محرم ۱۳۵۹ھ مطابق ۱۲۔ مارچ ۱۹۳۸ء کو پٹرولیم کے وسیع ذخائر کی برآمد میں پہلی کامیابی ہوئی )شبھہ الجزیرہ فی عھد الملک العزیز( صفحہ ۶۹۶۔ ۶۹۹ الجزء الاول تالیف خیر الدین الذر کلی ناشر دارالعلم للملاینین بیروت ۱۹۸۵ء۔
۴۲۔
)غیر مطبوعہ( مکتوب مولانا عظیم بیگ صاحب بنام حضرت چوہدری محمد حسین صاحب والد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔
۴۳۔
الفضل ۲۴۔ اکتوبر ۱۹۳۵ صفحہ ۹۔
۴۴۔
جس زمانہ میں آپ کرنال میں سے آپ کو مصلح موعود کی علامت >تین کو چار کرنے والا ہوگا< کے معنی بذریعہ خواب بتلائے گئے چنانچہ آپ نے دیکھا کہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان میدان ہے۔ )الفضل ۹۔ مارچ ۱۹۴۵ صفحہ ۴( یہ دراصل ربوہ کا نظارہ تھا جو ربوہ کی بنیاد سے ۲/۳۱ سال قبل آپ نے مشاہدہ کیا۔
۴۵۔
سوانح حضرت چوہدری محمد حسن صاحبؓ صفحہ ۵۲۔
۴۶۔
>تبلیغ رسالت< جلد ہشتم صفحہ ۷۰۔
۴۷۔
الفضل ۲۳۔ جون ۱۹۵۰ صفحہ ۲ ۔
۴۸۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۵۰ صفحہ ۵۔
۴۹۔
الفضل ۱۹۔ امان ۱۳۲۹ہش/ مارچ ۱۹۵۰ صفحہ ۵۔ )ملخصاً از مضون مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ(
۵۰۔
الفضل ۳۰۔ مارچ ۱۹۵۰ صفحہ ۶۔ )ملخصاً(
۵۱۔
والد ماجد سید محمد ہاشم صاحبؓ بخاری مبلغ غانا و سیرالیون۔
۵۲۔
>روایات صحابہ< )غیر مطبوعہ( جلد ۱۱ صفحہ ۲۲۰` ۲۲۱۔
۵۳۔
نام سید محمد تقی میاں صاحب۔
۵۴۔
>روایات صحابہ< جلد نمبر ۱۱` صفحہ ۲۲۰` ۲۲۱ )غیر مطبوعہ(
۵۵۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۔
۵۶۔
والد ماجد مولانا رحمت علی صاحبؓ مجاہد جاوا و سماٹرا۔
۵۷۔
الفضل ۲۵۔ وفا ۱۳۲۹ہش/ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۶۔
۵۸۔
پروفیسر مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب مرحوم پروفیسر نصرت ربوہ اور مولوی عبدالقادر صاحب ضغیم سابق مبلغ امریکہ آپ کے صاحبزادے اور مولوی حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب مبلغ ماریشس و بلاد عربیہ آپ کے داماد ہیں۔
۵۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۱۸۔ ۱۹۱۹ء صفحہ ۴۲ مرتبہ حضرت خلیفتہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب ایل ایم ایس ٹرسٹی و جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ۔ مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان۔
۶۰۔
احزاب : ۶۰۔
۶۱۔
مفصل حالات ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے نے رسالہ >اصحاب احمد< مئی و جولائی و نومبر ۱۹۵۵ء میں شائع کردیئے ہیں مندرجہ بالا اقتباسات و معلومات بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔
۶۲۔
الفضل ۸۔ تبوک ۳۲۹ہش/ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۔ زیر عنوان دو مخلصین کی وفات۔
۶۳۔
والد ماجد خان بہادر محمد عطاء الرحمن صاحب سابق ہوم سیکرٹری حکومت آسام۔
۶۴۔
تفصیل تاریخ احمدیت جلد دوم میں آچکی ہے۔
۶۵۔
۳۱۳ صحابہ کبار میں سے تھے۔ آپ کا نام ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۲` نمبر ۴۲ پر مندرج ہے۔
۶۶۔
الفضل ۱۳۔ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۔
۶۷۔
>سیرت المہدی< حصہ دوم صفحہ ۲۸` ۲۹` ۳۰ حصہ سوم صفحہ ۲۴` ۳۰` ۳۴` ۶۸` ۷۱۔
۶۸۔
الفضل ۲۶۔ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۸۔ )مضمون خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار سابق ایڈیٹر اخبار >اصلاح< سرینگر حال راولپنڈی(
۶۹۔
آپ کی اولاد:۔ میر محمد عبداللہ صاحب۔ میر عبدالسلام صاحب۔ میر عبدالوہاب صاحب۔ امتہ الرحیم صاحب۔ امتہ الرحمن صاحب۔ امتہ اللہ صاحبہ۔
۷۰۔
یہ ۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے۔
۷۱۔
الفضل ۳۔ صلح ۱۳۳۰ہش/ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ حضرت مفتی صاحبؓ کی یہ کتاب >تحقیق جدید متعلق قبر مسیح< کے نام سے بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں ڈیڑھ ہزار کی تعداد میں شائع کی۔ کتاب کے صفحہ ۹۲ تا ۹۵ میں ان عبرانی الفاظ کی فہرست درج ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے کشمیری زبان میں مستعمل ہو۔ یہ فہرست خواجہ عبدالرحمن صاحبؓ ہی نے تیار کی تھی۔
)خواجہ صاحبؓ کے مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو >تاریخ احمدیت کشمیر< صفحہ ۳۴` ۳۵ مولفہ جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ۱۳۵۲ہش/ ۱۹۷۳(
۷۲۔
اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۶۸` ۱۶۹ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔ ناشر احمدیہ بک ڈپو ربوہ ۱۹۶۱ء(
۷۳۔
ماسٹر سعداللہ خاں صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ آپ ہی کے فرزند ہیں۔
۷۴۔
الفضل ۱۶۔ تبلیغ ۳۲۹ہش صفحہ ۴۔
۷۵۔
حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعتہائے احمدیہ سرحد کی تحقیق کے مطابق صاحبزادہ اکرم خاں کو احمدیت کی تحریک ابتداًء حضرت مولوی محمد الیاس صاحبؓ سے پہنچی تھی۔ >)تاریخ احمدیہ سرحد< صفحہ ۲۵۰ مطبوعہ ۱۹۵۹ء۔ منظور عام پریس پشاور(
۷۶۔
الفضل ۲۶۔ صلح ۱۳۲۹ہش/ جنوری ۱۹۵۰ء صفحہ ۳`۴۔
۷۷۔
الفضل ۱۷۔ صلح ۱۳۲۹ہش/ جنوری ۱۹۵۰ء صفحہ ۱` ۸۔
۷۸۔
الفضل ۲۔ امان ۱۳۲۹ہش/ مارچ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۷۹۔
الفضل ۲۸۔ تبلیغ ۱۳۲۹ہش/ فروری ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۔
۸۰۔
احراری آرگن >آزاد< ۲۱۔ جون ۱۹۵۰ء۔
۸۱۔
الفضل ۹۔ امان ۱۳۲۹ہش/ مارچ ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۸۲۔
الفضل ۷۔ ہجرت ۱۳۲۹ہش/ مئی ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۸۳۔
الفضل ۲۰۔ مئی ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۸۴۔
>تریاق القلوب< طبع اول صفحہ ۳۶۔
۸۵۔
الفضل ۴۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۸۶۔
الفضل ۲۳۔ مئی ۱۹۵۰ء صفحہ ۶۔
۸۷۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۔
۸۸۔
الفضل ۱۳۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۸۹۔
>آفاق< لاہور ۱۶۔ جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۷ بعنوان >آخر جمہوری ریاست ہی کیوں؟<
۹۰۔
>تنظیم< پشاور ۳۰۔ جولائی ۱۹۵۰ء۔
۹۱۔
الفضل ۲۹۔ تبوک )ستمبر( ۱۳۲۹ہش صفحہ ۶۔
۹۲۔
الفضل ۵۔ اخاء )اکتوبر( ۱۳۲۹ہش صفحہ ۲۔
۹۳۔
‏h2] ga[t الفضل ۳۱۔ اخاء ۱۳۲۹ہش/ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۔
۹۴۔
جریدہ >الکفاح< دمشق ۱۶۔ صفر ۱۳۷۰ھ۔
۹۵۔
جریدہ >القبس< دمشق ۷۔ صفر ۱۳۷۰ھ مطابق ۲۸۔ نومبر ۱۹۵۰ء۔
۹۶۔
ماہ شہادت ۱۳۲۹ہش۔
۹۷۔
الفضل ۶۔ احسان ۱۳۲۹ہش مطابق ۶۔ جون ۱۹۵۰ صفحہ ۳۔
۹۸۔
الفضل ۲۲۔ وفا ۱۳۲۹ہش/ صفحہ ۳۔
۹۹۔
شمارہ فروری ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۹۔
۱۰۰۔
شمارہ ۲۵۔ فروری ۱۹۵۰ء۔
۱۰۱۔
شمارہ ۲۴۔ فروری ۱۹۵۰ء۔
۱۰۲۔
ترجمہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴۔ شہادت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۴۔
۱۰۳۔
)اسٹار( بحوالہ الفضل ۲۳۔ ہجرت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۔
۱۰۴۔
الفضل ۲۱۔ احسان ۱۳۲۹ہش صفحہ ۲۔
۱۰۵۔
الفضل ۱۰۔ تبوک ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۔
۱۰۶۔
الفضل ۱۳۔ شہادت` ۲۔ ہجرت و ۱۶۔ ظہور ۱۳۲۹ہش۔
۱۰۷۔
الفضل ۲۶۔ امان ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۔
۱۰۸۔
الفضل یکم نبوت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۔
۱۰۹۔
‏]2h [tag الفضل ۲۴۔ نبوت ۱۳۲۹ہش صفحہ ۲۔
۱۱۰۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۱۹۴۹ء۔۱۹۵۰` ۱۹۵۰۔۱۹۵۱ء۔
۱۱۱۔
الفضل ۱۱۔ تبلیغ ۱۳۳۰ہش/ فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۔
۱۱۲۔
الفضل ۱۱۔ تبلیغ ۱۳۳۰ہش/ فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۔
۱۱۳۔
الفضل ۱۱۔ تبلیغ ۱۳۳۰ہش/ فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۲ و ۷ فرمودہ ۲۔ فروری ۱۹۵۱ء۔
۱۱۴۔
الفضل ۴۔ امان ۱۳۳۰ہش/ مارچ ۱۹۵۱ء صفحہ ۴۔
۱۱۵۔
الفضل ۳۔ شہادت ۱۳۳۰ہش صفحہ ۱` و مکتوب چوہدری خالد سیف اللہ صاحب اسسٹنٹ ڈائریکٹر واپڈا ۷۴۰۔ این سمن آباد لاہور۔
۱۱۶۔
۔time long very a for ruled and oppressed been have You
۱۱۷۔
الفضل ۷۔ تبلیغ ۱۳۳۰ہش صفحہ ۴۔
۱۱۸۔
وطن جانے کے بعد الدتکور عبدالوہاب عسکری نے اپنی کتاب >مشاھداتی فی سماء الشرق< میں بھی یہی رائے ظاہر کی۔ ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد نمبر ۸ صفحہ ۱۴۰۔
۱۱۹۔
الفضل ۱۷۔ امان ۱۳۳۰ہش/ مارچ ۱۹۵۱ء صفحہ ۶۔
۱۲۰۔
الفضل ۲۸۔ امان ۱۳۳۰ہش صفحہ ۶۔
۱۲۱۔
لیکچر لاہور صفحہ ۴۷۔
۱۲۲۔
اربعین نمبر ۱۔
۱۲۳۔
الفضل ۲۲۔ صلح ۱۳۳۹ہش/ جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۱۔
۱۲۴۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۰۔۱۳۔۱۹۔ وفا ۳۳۰ہش/ جولائی ۱۹۵۱ء۔
۱۲۵۔
الفضل ۱۶۔ ہجرت ۱۳۳۰ہش/ مئی ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۔
۱۲۶۔
الفضل ۱۶۔ ہجرت ۱۳۳۰ہش/ مئی ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۔
۱۲۷۔
الفضل ۹۔ احسان ۱۳۳۰ہش/ جون ۱۹۵۱ء صفحہ ۵۔
۱۲۸۔
روزنامہ جدید نظام لاہور مورخہ ۲۱۔ مئی ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۔
۱۲۹۔
مکتوب حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ بنام مولف۔
۱۳۰۔
رپورٹ صفحہ ۳۰۔ ۳۱۔
‏tav.12.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
چوتھا باب
جامعہ نصرت ربوہ کے افتتاح سے لیکر سالانہ جلسہ ربوہ ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء تک
)ماہ وفا ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء ماہ فتح ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء(
)فصل اول(
جامعہ نصرت کا افتتاح اور حضرت مصلح موعودؓ کا ایمان افروز خطاب
‏0] [stfجامعہ نصرت ربوہ کا پس منظر
حضرت المصلح الموعودؓ کے زمانہ خلافت میں احمدی خواتین نے دینی و علمی میدان میں حیرت انگیز ترقی کی۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ قادیان اور ربوہ دونوں مراکز سلسلہ میں تعلیم یافتہ عورتوں کی تعداد غیر تعلیم یافتہ عورتوں سے ہمیشہ زیادہ رہی جس کا اصل سبب تعلیم نسواں کے باب میں حضور کی ذاتی دلچسپی تھی جو قرآن عظیم کے گہرے مطالعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔
دراصل حضور نے ابتداء ہی سے یہ قرآنی راز پالیا تھا کہ وہی قوم ترقی کرسکتی ہے جس کی ساری عورتوں کا دینی معیار بلند ہو۔ چنانچہ آپ کلام ربانی >وکواعب اترابا ۱ سے یہ لطیف استدلال فرمایا کرتے تھے کہ اس میں >اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ایسی برکتیں دے گا کہ جب وہ مقام مفاز میں پہنچیں گے تو ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ ان کی عورتوں کا دینی معیار بھی اونچا ہوجائے گا اور پھر وہ اس معیار میں ایک دوسری کے برابر ہوں گے۔ غرض کواعب میں ان کے معیار کے اونچے ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عورتوں کا دینی معیار بلند ہوگا اور سب میں جوش اور جوانی اور بلندی پائی جائے گی اور تراب سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کی ترقی قومی ترقی ہوگی انفرادی نہیں۔ یعنی سب میں یہ جوش ایک دوسرے سے ملتا جلتا پایا جائے گا ۔۔۔۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کثرت سے ایسی عورتوں کی مثالیں نظر آتی ہیں<۔۲
حضرت مصلح موعودؓ نے اسلام کے عہد ثانی کی تاریخ میں اسی بلند تخیل کو عملی شکل دینے کے لئے اوائل خلافت ہی سے اقدامات شروع کردیئے تھے چنانچہ ۱۹۱۵ء میں پنجاب کے مختلف مقامات پر لڑکیوں کے لئے تین مدرسے کھلوائے۔۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں جاری شدہ مدرستہ البنات )گرلز سکول( کو جس کی جماعت بندی ۱۹۰۹ء سے ہوچکی تھی۴ مگر جو ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں سے گزر رہا تھا پرائمری سے ترقی دے کر پہلے مڈل پھر ہائی سکول تک پہنچایا۔ ازاں بعد بالکل اسی طرح نصرت گرلز ہائی سکول کے ساتھ اپریل ۱۹۳۶ء۵ سے ایک دینیات کلاس کا اضافہ فرمایا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ ایک شاخ دینیات جاری فرمائی تھی جو خلافت اولیٰ میں مدرسہ احمدیہ جیسے عظیم دینی ادارہ کی شکل اختیار کرگئی۔ اس ابتدائی دور میں کلاس کی طالبات سے تعلیم کے ساتھ ساتھ مصباح کے لئے باقاعدہ تربیتی مضامین لکھوائے جاتے تھے اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ۶ پروفیسر جامعہ احمدیہ کلاس میں نہایت قیمتی اور معلومات افروز لیکچر دیتے تھے جو طالبات بھی اسلام سے وابستگی اور دلچسپی کا موجب بنتے تھے۔ حضرت مصلح موعود~رضی۱~ نے اس کلاس کے لئے شروع میں ایک عارضی نصاب تجویز فرمایا اور مستقل نصاب کے لئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے )کینٹب( پر مشتمل کمیشن مقرر فرمایا جس کی رپورٹ پر حضور نے قیمتی ہدایات دیں۔۷ اور پر حضور کی سکیم کے مطابق کلاس کی طالبات تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوتی رہیں۔
ماہ شہادت ۳۲۲ہش )اپریل ۹۴۳ء( میں کلاس کے نصاب میں انقلابی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں جبکہ مجلس تعلیم نے حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی ہدایت پر ایک نیا نصاب تجویز کیا۸ اور حضور کے اصولی ارشاد کے ماتحت مشورہ دیا کہ شاخ دینیات کے کورس کو دو دو سال کے چار درجوں میں یعنی کل آٹھ سالوں میں پھیلا کر مقرر کیا جائے جس میں دینیات` اردو` عربی` انگریزی` تاریخ` تدبیر منزل وغیرہ مضامین رکھے جائیں۔ دینیات کی تعلیم لازمی ہو اور اس پر زیادہ زور دیا جائے۔ عربی کی تعلیم ابتدائی چھ سالوں تک لازمی ہو اور اس کے بعد اختیاری ہو اور انگریزی کی تعلیم صرف ابتدائی چار سالوں تک لازمی ہو۔ مجلس۹ تعلیم کے معزز ارکان نے دو دو سال کے چار درجوں کے بالترتیب حسب ذیل نام تجویز کئے۔ درجہ صالحہ۔ درجہ راشدہ۔ درجہ عالمہ۔ درجہ فاضلہ۔ ہر درجہ میں دینیات کا کورس قرآن مجید۔ حدیث۔ فقہ اور کلام کی کتابوں پر مشتمل تھا۔ مجلس نے آخری درجہ میں پاس ہونے کے لئے ایک مفصل تحقیقی مضمون کا سپرد قلم کرنا بھی لازمی قرار دیا۔
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی خدمت میں جب مجلس تعلیم کے اس مجوزہ نصاب کی تفصیل رپورٹ بغرض منظوری پیش ہوئی تو حضور نے اپنے قلم مبارک سے بعض ناگزیر اور ضروری ترمیمات کے ساتھ حسب ذیل فیصلہ فرمایا:۔
>میں نے مجلس تعلیم کا نصاب تجویز کردہ برائے شعبہ دینیات مدرسہ بنات دیکھا ہے اس میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں ہونی چاہئیں:۔
۱۔
درجات کے نام یہ ہوں:۔ میٹرک کے مقابلہ پر درجہ ممہدہ۔ اس کے اوپر عالمہ اور اس کے اوپر علمیہ اور اس کے اوپر علامہ اور اس کے اوپر ایک آخری انتہائی درجہ اکٹھا کر )کے( اس کا نام فقیہ رکھا جائے۔
۲۔
شعبہ دینیات اور پنجاب یونیورسٹی کی تعلیم کو اکٹھا کرکے مخلوط نہ کیا جائے بلکہ دونوں کو الگ الگ رکھا جائے مگر کوشش کی جائے کہ شعبہ دینیات میں زیادہ سے زیادہ طالبات آئیں۔
۳۔
انگریزی کا کورس زیادہ رکھنا چاہئے۔ درجہ عالمہ پاس کرنے کے بعد طالبات میں اتنی استعداد پیدا ہوجانی چاہئے کہ وہ انگریزی سمجھ سکیں اور صحیح انگریزی بول اور لکھ سکیں۔
۴۔
درجہ عالمیہ میں بھی انگریزی کا مضمون رکھا جائے تا جو طالبہ چاہے ان درجوں میں انگریزی کو پڑھ سکے۔ یہ مضمون اردو کے مقابل پر انتخابی ہو۔
۵۔
اردو میں پاس ہونا ضروری ہونا چاہئے اور اپنی زبان ہونے کی وجہ سے اس پر زیادہ زور دینا چاہئے۔ درجہ علمیہ میں اردو کو انگریزی کے ساتھ ALTERNATIVE رکھ دیا جائے تا جو اردو پڑھنا چاہے وہ اردو پڑھ سکے اور جو انگریزی پڑھنا چاہے وہ انگریزی پڑھ سکے۔
۶۔
تمام لازمی مضامین جن کا پڑھایا جانا ضروری قرار دیا جائے وہ درجہ علیمہ میں ختم کردیئے جائیں۔
۷۔
درجہ علیمہ میں جو تمدن` اقتصادیات` علم نفس )کے( مضامین تجویز کئے گئے ہیں ان کی جگہ ایک مضمون علم التعریفات والا صطلاحات رکھا جائے اور اس میں صرف مذکورہ بالا مضامین ہی نہیں بلکہ تمام ضروری علوم حاضرہ کو شامل کیا جائے اور ہر علم کی تعریف اور مختلف کیفیت بتائی جائے۔ اس کے لئے ایک فہرست BOOKS RECOMANDED کی تجویز کردی جائے جو طالبات خود پڑھیں اور اس کے لئے ہر مضمون پر چھ سات لیکچر سال میں مقرر کردیئے جائیں جن میں انہیں تمام نصاب کے مضامین ضرور کی اصطلاحات اور تعریفات سمجھا دی جائیں اور اس کے لئے ضروری ماخذ وغیرہ بتا دیئے جائیں۔ انگریزی اور عربی اصطلاحات بھی حتی الوسع خطوط وحدانی میں دے دی جائیں۔
۸۔
درجہ علامہ میں صرف دو مضامین رکھے جائیں جو ہر طالبہ مندرجہ ذیل مضامین میں سے خود اپنی پسند کے مطابق منتخب کرسکے۔ )الف( قرآن شریف )ب( حدیث )ج( فقہ و تصوف )د( کلام بشمول دینیات۔۱۰ و علوم مناظر )ح( عربی )خ( تاریخ )س( انگریزی۔
۹۔
درجہ فقیہہ میں صرف ایک مضمون لکھنا ہوگا جس کا موضوع منظور کردہ مجلس تعلیم ہوگا اور حسب شرائط مجلس تعلیم دو سال میں تحقیقات کرکے مکمل کرنا ہوگا نیز اس کے ساتھ اس مضمون کے متعلق مجوزہ کورس کا مطالعہ کرنا ہوگا<۔
دستخط حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مورخہ ۱۳۲۲ء/۲۴ ہش۔۱۱
شاخ دینیات کے اس جدید نظام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قادیان میں ایک کامیاب آغاز ہوگیا اور طالبات کی ایک معقول تعداد نے جن میں امتہ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ( نصیرہ نزہت صاحبہ )اہلیہ حافظ بشیر الدین صاحب مبشر ماریشس و بلاد عربیہ و افریقیہ( اور مبارکہ صاحبہ )اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ و انڈونیشیا( بھی شامل ہیں قادیان کے اس دینیات کالج سے علیمہ کی سند بھی حاصل کی مگر جلد ہی ملک تقسیم ہوگیا جس کے بعد مرکز ربوہ میں اس شاخ کا احیاء عمل میں لایا گیا۔
جامعہ نصرت کا افتتاح
بدلے ہوئے اور نئے ماحول اور مخدوش حالات میں صرف چند طالبات نے اس میں داخلہ لیا۱۲ جس پر اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ کے غیور آسمانی قائد اور اولوالعزم امام حضرت مصلح موعودؓ کی توجہ کو اس طرف مبذول کردیا کہ مرکز احمدیت ربوہ میں شاخ دینیات کو بند کرکے اس کی بجائے عورتوں کا کالج قائم کردینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ چنانچہ حضور نے خالص الٰہی منشاء کے مطابق ۱۳۳۰ہش مطابق ۱۹۵۱ء میں جامعہ نصرت کی بنیاد رکھی ۵۔ ماہ احسان کو اس کا اجراء عمل میں آیا اور اس کا افتتاح اپنے مقدس ہاتھوں سے ۱۴۔ احسان ۱۳۳۰ہش کو فرمایا۔
افتتاح تقریب کا آغاز
یہ مبارک تقریب سات بجے صبح شروع ہوکر ساڑھے آٹھ بجے اختتام پذیر ہوئی۔ ربوہ کی احمدی خواتین کا ایک جم غفیر اس تقریب سعید کے موقع پر دعا کی غرض سے جامعہ نصرت میں جمع تھا۔ حضور کی تشریف آوری پر کالج کی ایک طالبہ امتہ المجید بیگم صاحبہ نے تلاوت قرآن کریم کی۔
حضرت امیرالمومنین کا بصیرت افروز خطاب
تلاوت کے بعد حضور پرنور کے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
>زمانہ کے حالات بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک عام قانون ہے جو دنیا میں جاری ہے۔ دریا چلتے ہیں اور پہاڑوں اور میدانوں کے نشیب و فراز کی وجہ سے ان کے بعض حصوں پر دبائو پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کچھ دور جاکر دریا کا رخ بدل جاتا ہے۔ بعض دفعہ دس دس` پندرہ پندرہ` بیس بیس` تیس تیس میل تک دریا بدلتے چلے جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ زمانہ بدل جاتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے نظارے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں۔ کبھی زمانہ کے بدلنے سے انسان بدلتے ہیں اور کبھی انسانوں کے بدلنے سے زمانہ بدلتا ہے۔ انسان کمزور ہوتا ہے تو زمانہ کے بدلنے سے وہ بدل جاتا ہے اور جب طاقتور ہوتا ہے تو اس کے بدلنے سے زمانہ بدل جاتا ہے۔ کمزور قومیں اپنی حاصل شدہ عظمت اور طاقت کو زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتی چلی جاتی ہیں۔ وہ اپنے ہمسایوں سے بدرسوم کو لیتی ہیں` اپنے ہمسایوں سے بداخلاق کو لیتی ہیں` اپنے ہمسایوں سے سستی اور جہالت کو لیتی ہیں` اپنے ہمسایوں سے جھوٹ اور فریب کو لیتی ہیں` اپنے ہمسایوں سے ظلم اور تعدی کو لیتی ہیں` اور وہی قوم جو کسی وقت آسمان پر چاند اور ستاروں کی طرف چمک رہی ہوتی ہے نہایت ذلیل اور حقیر ہوکر رہ جاتی ہے۔ تم اپنے ہی اسلاف کو دیکھو اگر تمہیں اپنے بنائو اور سنگھار سے فرصت ہوکہ تمہارے اسلاف کیا تھے اور اب تم کیا ہو؟
مجھے بتایا گیا کہ کالج کی طالبات نے جب مضمونوں کا انتخاب کیا تو ان میں سے اکثر نے تاریخ سے بچنے کی کوشش کی۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کسی بچہ کو کہیں کہ آئو ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کا نام بتائیں اور وہ بھاگے۔ تاریخ کیا ہے تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارا باپ کون تھا؟ تمہارا دادا کون تھا؟ تمہاری ماں کون تھی؟ تمہاری نانی کون تھی؟ تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارے آبائو اجداد کیا تھے؟ اور اب تم کیا ہو؟ تاریخ سے کسی شخص کا بھاگنا یا اس مضمون کو بوجھل سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے آبائواجداد کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو۔ حالانکہ اگر دینوی لحاظ سے کوئی مضمون ایسا ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں لڑنا چاہئے تو وہ تاریخ ہی ہے۔ تاریخ سے بھاگنے کے معنے ہوتے ہیں طبیعت میں مردہ دلی ہے۔ جیسے کسی کمزور آدمی کو زخم لگ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے نہ دکھائو میں نہیں دیکھتا میرا دل ڈرتا ہے۔ تاریخ سے بھاگنے والی قوم وہی ہوتی ہے جو ڈرپوک ہوجاتی ہے اور ڈرتی ہے کہ اگر میرے ماں باپ کی تاریخ میرے سامنے آئی اور اس میں میرا بھیانک چہرہ مجھے نظر آیا اور مجھے پتہ لگا کہ میں کون ہوں تو میرا دل برداشت نہیں کرے گا چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس آئینہ میں میری شکل مجھے نظر آئے گی اس لئے وہ اپنی مشکل کے خیال اور تصور سے کہ وہ کتنی بدصورت ہوگی اسے دیکھنے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات فطرت انسانی میں داخل ہے کہ وہ اپنے آبائواجداد اور اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کو اپنی شکل کا دیکھنا چاہتا ہے۔ کئی ماں باپ جن کے ہاں کسی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے بدصورت بچے پیدا ہوجاتے ہیں ان سے ان کی مائیں بھی نفرت کرنے لگتی ہیں اور وہ بدصورت بچے اپنے دوسرے بھائیوں سے نفرت کرتے ہیں اس خیال سے کہ یہ ہم سے اچھے ہیں۔ اس طرح جب تاریخ میں انسان اپنے آباء کو دیکھتا ہے کہ انہوں نے یہ یہ کارنامے سرانجام دیئے اور ان کی یہ شان تھی اور اس کے مقابلہ میں وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم کیا ہیں۔ اور پھر وہ اس چلن اور طریق کو دیکھتا ہے جو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اختیار کیا ہوا ہے تو دیانتداری کے ساتھ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میری غفلت اور میری سہل انگاری اور میری اپنے فرائض سے کوتاہی اور میری عیش و آرام کی زندگی مجھ کو مجرم بنانے کے لئے کافی ہے۔ اسے تاریخ کے اس آئینہ میں اپنا گھنائونا چہرہ نظر آجاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ جب میں پرانے حالات پڑھوں گا اور دیکھ لوں گا کہ وہ لوگ جو میرے آباء تھے ان کاموں سے نفرت کیا کرتے تھے تو مجھے بھی اپنے اندر تغیر پیدا کرنا پڑے گا پس وہ اپنے بدصورت چہرہ کو ان کے خوبصورت چہرہ سے ملانے سے گھبراتا ہے اور اس لئے تاریخ سے دور بھاگتا ہے۔ جب آج کل کا مسلمان تاریخ کے آئینہ میں یہ دیکھتا ہے کہ اس کے باپ اور ماں ہمالیہ سے بھی اونچے قدوں والے تھے۔ آسمان بھی ان کے دبدبہ سے کانپتا تھا اور اس کے مقابلہ میں وہ اپنی تصویر کا خیال کرتا ہے کہ بالکل ایک بالشتیہ نظر آتا ہے اور اس کی مثال ایک کارک جتنی بھی نہیں جو دریا میں بہتا چلا جاتا ہے۔ سمندر کی لہریں اٹھتی ہیں اور اس کے آبائو اجداد کی مضبوط چٹان سے ٹکراتی ہیں اور وہ بلند وبالا ہونے والی لہریں جن کو دیکھ کر بسا اوقات انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دنیا کو بہا کر لے جائیں گی وہ اس کے ابائو اجداد کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ ان کا پانی جھاگ بن کر رہ جاتا ہے اور اس چٹان کے قدموں میں وہ جھاگ پھیل رہی ہوتی ہے۔ ہوا میں بلبلے پھٹ پھٹ کر غائب ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کو نظر آتا ہے کہ اس کے آبائو اجداد کی کیا شان تھی پھر وہ اپنی طرف دیکھتا ہے کہ ایک چھوٹی سی ندی جس کی حیثیت ہی نہیں ہوتی اس میں وہ ایک کارک کی طرح ادھر ادھر پھررہا ہے کبھی وہ کسی چٹان سے ٹکراتا ہے اور کبھی کسی سے۔ کبھی دائیں طرف چلا جاتا ہے اور کبھی بائیں طرف۔ کبھی وہ خس و خاشاک کے ڈھیروں میں چھپ جاتا ہے اور کبھی گندی جھاگ میں` اور ہر شخص اس کی لرزتی اور کپکپاتی ہوئی حالت کو دیکھ کر اس سے اپنا منہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے یہ کیا ہی ذلیل چیز ہے تاریخ سے بھاگنے والا وہی بزدل ہوتا ہے جس میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ حقائق کے آئینہ میں اپنے باپ دادا کی شکل کے سامنے اپنی شکل رکھ سکے۔ بہادر اور ہمت والا انسان خود جاتا ہے اور اس آئینہ کو اٹھاتا ہے اور وہ اس آئینہ میں اپنی شکل کو دیکھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے ہاں میرے آبائو اجداد اگر چٹان تھے تو میں بھی چٹان بن کر رہوں گا۔ وہ اگر طوفان تھے تو میں ان سے بھی اونچا طوفان طوفان بنوں گا۔ وہ اگر سمندروں کی لہروں کی طرح اٹھتے تھے تو میں ان سے بھی اونچا اٹھوں گا۔ تم جانتی ہو کہ وہ لڑکی جس کے نمبر کلاس میں زیادہ ہوتے ہیں وہ نمبروں کو چھپاتی نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتی ہے۔ نمبروں کا بتانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کا اپنا منہ دکھانا۔ وہ اپنا اندرونہ دکھاتی ہے۔ اور جس کے نمبر کم ہوتے ہیں وہ ان کو چھپایا کرتی ہے۔ پس تاریخ کے پڑھنے سے گریز درحقیقت بزدلی کی علامت ہے۔ درحقیقت یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اپنے مکروہ چہرے کا پتہ ہے اور اس شخص کو اپنے آبائو اجداد کے حسین چہرے کا بھی پتہ ہے۔ مگر ان دونوں کے معلوم ہونے کے بعد وہ یہ جرات نہیں رکھتا کہ ایک آئینہ میں دونوں کی اکٹھی شکل دیکھ سکے۔
یہاں تک تو میں نے صرف عام پیرایہ میں اس مضمون کی اہمیت بیان کی ہے اگر مذہبی پہلو سے لو تو تاریخ ہی ایک مسلمان کو بتا سکتی ہے کہ کس طرح ایک ریگستان سے ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی مقناطیسی قوت سے اپنے اردگرد کے فولادی ذروں کو جمع کرنا شروع کیا پھر تھوڑے ہی عرصہ میں وہ ایک علاقہ میں پھیل گیا` پھر ملک میں پھیل گیا` پھر زمین کے تمام گوشوں میں چپے چپے پر اس کی جماعت پھیل گئی۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ ان کا نام >بررہ< اور >سفرہ< رکھا ہے یعنی کے قدم گھر میں ٹکتے ہی نہیں تھے۔ دنیا کے گوشوں گوشوں میں پھیلتے جاتے تھے اور جہاں جاتے تھے خوش اخلاقی اور اعلیٰ درجہ کے چلن کی خوشبو پھیلاتے جاتے تھے۔ لیکن کجا وہ پھیلنے والا مسلمان اور کجا کٹنے والا مسلمان۔ کجا وہ زمانہ کہ رسول کریم~صل۱~ نے مدینہ میں فرمایا کہ مردم شماری کرو اور دیکھو کہ اب کتنے مسلمان ہوچکے ہیں۔ مردم شماری کی گئی اور مسلمان مردوں` عورتوں اور بچوں کی تعداد سات سو نکلی۔ تم جانتی ہو کہ ربوہ کی آبادی اس وقت اڑھائی ہزار کے قریب ہے گویا تمہاری ربوہ کی آبادی کا ۴/۱ حصہ تھے۔ اور یہ وہ مردم شماری تھی جو ساری دنیا کے مسلمانوں کی تھی کیونکہ اس وقت مدینہ سے باہر مسلمان بہت تھوڑے تھے سوائے حبشہ کے کہ وہاں کوئی پچاس کے قریب مسلمان ہوں گے یا مکہ میں کچھ مسلمان تھے جو ڈر کے مارے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرتے تھے اور کھلے بندوں اسلام میں شامل نہیں تھے۔ غرض مردم شماری کی گئی اور سات سو کی آبادی نکلی۔ وہ صحابہؓ جن کے سپرد یہ کام تھا وہ رسول کریم~صل۱~ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ~صل۱!~ مسلمانوں کی آبادی سات سو نکلی ہے۔ پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ~صل۱~ آپ نے مردم شماری کا حکم کیوں دیا تھا؟ کیا آپ کو یہ خیال آیا کہ مسلمان تھوڑے ہیں؟ یا رسول اللہ! اب تو ہم سات سو ہوگئے ہیں اب ہمیں دنیا سے کون مٹا سکتا ہے؟ آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان ساٹھ کروڑ ہیں لیکن ان کا ساٹھ کروڑ کا دل اتنا مضبوط نہیں جتنا ان سات سو کا دل مضبوط تھا۔ آخر یہ تفاوت جو دلوں کے اندر رہے تمہیں اس کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے بغیر تاریخ کے مطالعہ کے۔ ایک ایک مسلمان نکلتا تھا اور دنیا کی طاقتیں اس کے سامنے جھک جاتی تھیں۔ وہ نقال نہیں تھا بلکہ خود اپنی ذات میں اپنے آپ کو آدم سمجھتا تھا۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ دنیا میری نقل کرے گی میرا کام نہیں کہ میں اس کی نقل کروں۔ تم اگر تاریخ پڑھو تو تمہیں پتہ لگے گا کہ آج تم ہر بات میں یورپ کی نقل کررہی ہو۔ تم بعض دفعہ کہ دیتی ہو فلاں تصویر میں میں نے ایسے بال دیکھے تھے اف جب تک میں بھی ایسے بال نہ بنالوں مجھے چین نہیں آئے گا` فلاں پوڈر نکلا ہے جب تک میں اسے خرید نہ لوں مجھے قرار نہیں آئے گا۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ تم سمجھتی ہو کہ تمہارا دشمن بڑا ہے اور تم چھوٹی ہو۔ اگر تم بڑی ہو تو اس کا کام ہے کہ وہ تمہاری نقل کرے اور اگر وہ بڑا ہے تو پھر تمہارا کام ہے کہ تم اس کی نقل کرو۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی لشکر ایران کے ساتھ ٹکر لے رہا تھا کہ بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ عرب ایک غریب ملک کے رہنے والے بھوکے ننگے لوگ ہیں اگر ان کو انعام کے طور پر کچھ روپیہ دے دیا جائے تو ممکن ہے یہ لوگ واپس چلے جائیں اور لڑائی کا خیال ترک کردیں۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کے کمانڈر انچیف کو کہلا بھیجا کہ اپنے چند آدمی میرے پاس بھجوا دیئے جائیں تو میں ان سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ جب وہ ملنے کے لئے آئے تو اس وقت بادشاہ بھی اپنے دارالخلافہ سے نکل کر کچھ دور آگے آیا ہوا تھا اور عیش اور تنعم کا ہر قسم کا سامان اس کے ساتھ تھا۔ نہایت قیمتی قالین بچھے ہوئے تھے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کے کائوچ اور کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور بادشاہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ مسلمان سپاہی آپہنچے۔ سپاہیوں کے پائوں میں آدھے چھل یہوئے چمڑوں سے چھلی ہوئی جوتیاں تھی جو موٹی سے اٹی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے جس وقت وہ دروازے پر پہنچے چودار نے آواز دی کہ بادشاہ سلامت کی حضور میں تم حاضر ہوئے ہو تو اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ پھر اس نے مسلمان افسر سے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ کس قسم کے قیمتی قالین بچھے ہوئے ہیں تم نے اپنے ہاتھوں میں نیزے اٹھائے ہوئے ہیں اور ان نیزوں سمیت قالینوں پر سے گزرو گے تو ان کو نقصان پہنچے گا۔ اس مسلمان افسر نے کہا تمہارے بادشاہ نے ہم کو بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے اگر ملنے کی احتیاج ہے تو اس کو ہے ہمیں نہیں` اسے اگر اپنے قالینوں کا خیال ہے تو اسے کہہ دو کہ وہ اپنے قالین اٹھالے ہم جوتیاں اتارنے یا نیزے اپنے ہاتھ سے رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اس نے بہتیرا پروٹسٹ کیا اور کہا کہ اندر نہایت قیمتی فرش ہے جوتیاں اتار دو اور نیزے رکھ دو مگر انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا اس نے ہم کو بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے۔ غرض اسی حالت میں وہ اندر پہنچے۔ وہاں تو بڑے سے بڑا جرنیل اور وزیر بھی زمین بوس ہوتا اور بادشاہ کے سامنے سجدہ کرتا تھا مگر یہ تنی ہوئی چھاتیوں اور اٹھی ہوئی گردنوں کے ساتھ وہاں پہنچے` بادشاہ کو سلام کیا اور پھر پوچھا کہ بادشاہ تم نے ہمیں کیوں بلایا ہے؟ بادشاہ نے کہا تمہارا ملک نہایت جاہل` پست` درماندہ اور مالی تنگی کا شکار ہے اور پھر عرب وہ قوم ہے کہ جو گوہ )ایک ادنیٰ جانور ہے( کھاتی ہے وہ عمدہ کھانوں سے ناآشنا ہے` عمدہ لباس بھوک اور افلاس نے اسے پریشان کررکھا ہے معلوم ہوتا ہے اس تنگی اور قحط کی وجہ سے تمہارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ ہم دوسرے ملکوں میں جائیں اور ان کو لوٹیں۔ میں تمہار یسامنے تمہاری اس تکلیف کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ تمہارا جتنا لشکر ہے اس میں سے ہر سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو دو اشرفیاں دے دوں گا تم یہ روپیہ لو اور اپنے ملک میں واپس چلے جائو۔ مسلمان کمانڈر نے کہا اے بادشاہ یہ جو تم کہتے ہو کہ ہماری قوہ تک کھانے والی تھی اور ہم غریب اور لاچاری میں اپنے ایام بسر کررہے تھے یہ بالکل درست ہے ایسا ہی تھا مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول~صل۱~ بھیجا اور اس نے ہم کو خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور ہم نے اسے قبول کرلیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم روپوئوں کے لئے نکلے ہیں مگر ہم روپوئوں کے لئے نہیں نکلے تمہاری قوم نے ہم سے جنگ شروع کی ہے اور اب ہماری تلواریں تب ہی نیام میں جائیں گی جب یا تو کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوجائو گے اور یا پھر مسلمانوں کے باجگزار ہوجائو گے اور ہمیں جزیہ ادا کرو گے۔ ایران کا بادشاہ جو اپنے آپ کو نصف دنیا کا بادشاہ سمجھتا تھا وہ اس جواب کو سن کر برداشت نہ کرسکا۔ اسے غصہ آیا۔ اس نے چوبدار سے کہا جائو اور ایک بوری میں مٹی ڈال کر لے آئو۔ وہ بوری میں مٹی ڈال کر لے آیا تو اس نے کہا یہ بوری اس مسلمان سردار کے سر پر رکھ دو اور اسے کہہ دو کہ تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں اور سوائے اس مٹی کے تمہیں کچھ اور دینے کے لئے تیار نہیں۔ وہ مسلمان افسر جس کی گردن ایران کے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکی تھی ایس موقع پر اس نے فوراً اپنی گردن جھکا دی۔ پیٹھ پر بوری رکھی اور اپنے ساتھیوں سے کہا جائو بادشاہ نے خود ایران کی زمین ہمارے سپرد کردی ہے۔ مشرک تو وہمی ہوتا ہے بادشاہ نے یہ سنا تو اس کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان لوگوں کو جلدی پکڑو مگر وہ اس وقت تک دور نکل چکے تھے انہوں نے کہا اب یہ پکڑی جانے والی مخلوق نہیں ہے۔ پھر وہی بادشاہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں وہ میدان چھوڑ کر بھاگا۔ پھر ملک چھوڑ کر بھاگا اور شمالی پہاڑیوں میں جاکر پناہ گزین ہوگیا اور اس کے قلعے اور محلات اور خزانے سارے کے سارے مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔
ابوہریرہؓ` وہ غریب ابوہریرہؓ جو رسول کریم~صل۱~ کی مجلس میں سارا دن بیٹھے رہنے کے خیال سے کوئی گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتا تھا اور جسے بعض دفعہ کئی کئی دن کے فاقے ہوجایا کرتے تھے ایک دفعہ وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں کھانسی اٹھی انہوں نے اپنی جیب میں سے رومال نکالا اور اس میں بلغم تھوکا اور پھر کہا بخ بخ ابوہریرہؓ یعنی واہ واہ ابوہریرہؓ کبھی تو تو فاقوں سے بیہوش ہوجایا کرتا تھا اور آج تو کسریٰ کے اس رومال میں تھوک رہا ہے جسے بادشاہ تخت پر بیٹھتے وقت اپنی شان دکھانے کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا۔ لوگوں نے کہا۔ یہ کیا بات ہے۔ انہوں نے کہا میں آخری زمانہ میں مسلمان ہوا تھا میں نے اس خیال سے کہ رسول کریم~صل۱~ کی باتیں لوگوں نے بہت کچھ سن لی ہیں اور اب میرے لئے بہت تھوڑا زمانہ باقی ہے یہ عہد کرلیا کہ میں رسول کریم~صل۱~ کے دروازہ سے نہیں ہلوں گا سارا دن مسجد میں ہی رہوں گا تاکہ رسول کریم~صل۱~ جب بھی باہر تشریف لائیں میں آپ کی باتیں سن سکوں۔ کچھ دن تو میرا بھائی مجھے روٹی پہنچاتا رہا مگر آخر اس نے روٹی پہنچانی چھوڑ دی اور مجھے فاقے آنے لگے بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہوجاتا تھا اور بھوک کی شدت کی وجہ سے میں بے ہوش ہوکر گرجاتا تھا۔ لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہوگیا ہے۔ اور عربوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا تو وہ اس کے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے۔ جب میں بے ہوش ہوتا تو میرے سر پر بھی وہ جوتیاں مارنی شروع کردیتے حالانکہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوتا تھا۔ اب کجا وہ حالت اور کجا یہ حالت کہ ایران کا خزانہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور اموال تقسیم ہوئے تو وہ رومال جو شاہ ایران تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا وہ میرے حصہ میں آیا۔ مگر ایران کا بادشاہ تو آرائش کے لئے اس رومال کو اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور میرے نزدیک اس رومال کی صرف اتنی قیمت ہے کہ میں اس میں اپنا بلغم تھوک رہا ہوں۔
سوائے تاریخ کے کونسی چیز ہے جو تمہیں اپنے آباء کے ان حالات سے واقف کرسکتی ہے اور تمہیں بتاسکتی ہے کہ تم کیا تھے اور اب کیا ہو؟ کسی ملک میں مسلمان عورت نکل جاتی تھی تو لوگوں کی مجال تک نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس کی طرف اپنی آنکھ اٹھا سکیں آج کل ربوہ کی گلیوں میں احمدی عورتیں پھرتی ہیں تو ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو باہر کا کوئی اوباش یہاں آیا ہوا ہو اور وہ کوئی شرارت کردے۔ لیکن ایک وہ زمانہ گزرا ہے کہ مسلمان عورتیں دنیا کے گوشے گوشے میں جاتیں اکیلے اور تن تنہا جاتیں اور کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کی طرف ترچھی نگاہ سے دیکھ سکے اور اگر کبھی کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتا تو وہ اس کا ایسا خمیازہ بھگتتا کہ نسلوں نسل تک اس کی اولاد ناک رگڑتی چلی جاتی۔
مسلمان اپنے ابتدائی دور میں ہی دنیا میں پھیل گئے تھے۔ رسول کریم~صل۱~ کی وفات پر ابھی اسی نوے سال ہی گزرے تھے کہ وہ چین اور ملایا اور سیلون اور ہندوستان کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے۔ ادھر وہ افریقہ کے مغربی ساحلوں تک چلے گئے تھے اور ان کہ لہریں یورپ کے پہاڑوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ اس ابتدائی دور میں مسلمانوں کا ایک قافلہ جس کو سیلون کے بدھ بادشاہ نے خلیفہ وقت کے لئے کچھ تحائف بھی دئے تھے سیلون سے روانہ ہوا اور اسے سندھ میں لوٹ لیا گیا۔ سندھ میں ان دنوں راجہ داہر کی حکومت تھی۔ جب اس قافلہ کے لوٹ جانے کی خبر مشہور ہوئی تو گورنر عراق کا والی مکران کو حکم پہنچا کہ ہمارے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ جو سیلون سے چلا تھا وہ سندھ میں لوٹا گیا اور مسلمان مرد اور عورتیں قید ہیں تم اس واقعہ کی تحقیق کرکے ہمیں اطلاع دو۔ والی مکران نے راجہ داہر سے دریافت کیا تو اس نے اس واقعہ سے انکار کردیا۔ مسلمان چونکہ خود راستباز تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی سچ بولتے ہیں۔ جب راجہ داہر نے انکار کردیا تو انہوں نے بھی مان لیا کہ یہ بات سچ ہوگی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک اور قافلہ انہوں نے اسی طرح لوٹا اور ان میں سے بھی کچھ عورتیں انہوں نے قید کی۔ ان عورتوں میں سے ایک عورت نے کسی طرح ایک مسلمان کو جو قید نہیں ہوا تھا یا قید ہونے کے بعد کسی طرح رہا ہوگیا تھا` کہا کہ میرا پیغام مسلمان قوم کو پہنچا دو کہ ہم یہاں قید ہیں اور مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہم کو بچائے۔ اس وقت خلیفہ بنوامیہ افریقہ پر چڑھائی کی تجویزیں کررہا تھا اور سپین فتح کرنے کی سکیم بن رہی تھی اور تمام علاقوں میں یہ احکام جاری ہوچکے تھے کہ جتنی فوج میسر آسکے وہ افریقہ کے لئے بھجوا دی جائے۔ اس وقت وہ پیغامبر پہنچا اور اس نے عراق کے گورنر کو جو حجاج نامی تھا اور جو سخت بدنام تھا یہ پیغام پہنچایا۔ اس میں بدنامی کی بھی باتیں ہوں گی مگر اس جیسا نڈر` بہادر اور اسلام کے لئے قربانی کرنے والا آدمی بھی س زمانہ میں ہمیں شاذونادر ہی نظر آتا ہے۔ آنے والے نے حجاج سے کہا کہ میں سندھ سے آیا ہوں وہاں یکے بعد دیگرے دو مسلمان قافلے لوٹے گئے اور کئی مسلمان قید ہیں۔ راجہ داہر نے گورنر مکران سے یہ بالکل جھوٹ کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ حجاج نے کہا میں کس طرح مان لوں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو درست کہہ رہے ہو۔ ہر بات کی دلیل ہونی چاہئے بغیر کسی دلیل کے میں تمہاری بات نہیں مان سکتا۔ اس نے کہا آپ مانیں یا نہ مانیں واقعہ یہی ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ حجاج نے کہا اول تو تمہاری بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہم نے گورنر مکران کو لکھا اور اسنے جو جواب دیا وہ تمہارے اس بیان کے خلاف ہے دوسرے تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خلیفہ وقت کا حکم ہے کہ جتنی فوج میسر ہو افریقہ بھیج دو پس اس وقت ہم اپنی فوجوں کو کسی اور طرف نہیں بھیج سکتے۔ غرض اس نے ہر طرح سمجھایا مگر حجاج پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے کہا میرے حالات اس قسم کے نہیں کہ میں اس طرف توجہ کرسکوں۔ جب وہ ہر طرح دلائل دے کر تھک گیا تو اس نے کہا میرے پاس آپ کے لئے اور خلیفہ وقت کے لئے ایک پیغام بھی ہے۔ حجاج نے کہا وہ کیا ہے۔ اس نے کہا جب میں چلا ہوں تو ایک مسلمان عورت جو قید ہونے کے خطرہ میں تھی اور اس وقت تک قید ہوچکی ہوگی اس نے مجھے یہ پیغام دیا تھا کہ اسلامی خلیفہ اور عراق کے گورنر کو ہماری طرف سے یہ پیغام دے دیں کہ مسلمان عورتیں ظالم ہندوئوں کے ہاتھ میں قید ہیں اور ان کی عزت اور ان کا ناموس محفوظ نہیں ہے۔ ہم مسلمان قوم سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے فرض کو ادا کرے اور ہمیں یہاں سے بچانے کی کوشش کرے۔ کوئی ملک نہیں کوئی قوم نہیں دو یا تین عورتیں ہیں اور بیس یا پچیس مرد ہیں جن کے بچانے کے لئے بعض دفعہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس سپاہی موجود نہیں یہ ایک معمولی واقعہ ہے اس کا حجاج پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہی حجاج جو یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس فوج نہیں ہم یورپ پر حملہ کی تیاری کررہی ہیں وہ اس پیغام کو سن کر گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ اور جب اس آنے والے آدمی نے پوچھا کہ اب آپ مجھے کیا جواب دیتے ہیں تو حجاج نے کہا اب کہنے اور سننے کا کوئی وقت باقی نہیں اب میرے لئے کوئی اور فیصلہ کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب اس کا جواب ہندوستان کی فوج کو ہی دیا جائے گا۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو لکھا اس نے بھی یہی کہا کہ ٹھیک فیصلہ ہے اب ہمارے لئے غور کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں۔ اور اس فیصلہ کے مطابق مسلمان فوج سندھ کے لئے روانہ کردی گئی۔ درمیان میں کوئی ہزار میل کا فاصلہ ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ اور اس زمانہ میں موٹروں کے ساتھ بھی اس فاصلہ کو آسانی کے ساتھ طے نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن بادشاہ نے حکم دیا کہ اب مسلمانوں کی عزت اور ناموس کا سوال ہے بغیر کسی التواء کے جلد سے جلد منزل مقصود پر مسلمانوں کا پہنچنا ضروری ہے چنانچہ مسلمان درمیان میں کہیں ٹھہرے نہیں۔ انہوں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر رات اور دن سفر کیا اور بارھویں دن اس فاصلہ کو جو آج ریلوں اور موٹروں کے ذریعہ بھی اتنے قلیل عرصہ میں طے نہیں کیا جاسکتا اپنی انتھک محنت اور کوشش کے ساتھ طے کرتے ہوئے وہ ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گئے۔ اب تو تمہارا اپنا وجود ہی بتا رہا ہے کہ اس مہم کا نتیجہ کیا ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آٹھ ہزار سپاہی جو بصرہ سے چلا تھا اور اس آٹھ ہزار سپاہی نے دو مہینہ کے اندر اندر سندھ` ملتان اور اس کے گردونواح تک کو فتح کرلیا اور وہ قیدی بچائے گئے۔ عورتیں بچالی گئیں۔ اور سندھ کا ملک جس میں راجہ داہر کی حکومت تھی اسے سارے کا سارا فتح کرلیا گیا اور پھر مسلمان لشکر ملتان کی طرف بڑھا۔
مگر بدقسمتی سے بادشاہ کی وفات کے بعد اس کا بھائی تخت نشین ہوا اسے ان لڑائیوں میں بادشاہ سے بھی اختلاف تھا اور افسروں سے بھی اختلاف تھا۔ جب اپنے بھائی کی وفات کے بعد وہ حکومت کے تخت پر بیٹھا تو اس نے محمد بن قاسم کو جو ایک فاتح جرنیل تھا اور جو ارادہ رکھتا تھا کہ حملہ کرکے بنگال تک چلا جائے معزول کرکے واپس آنے کا حکم دے دیا اور جب وہ واپس آیا تو اسے قتل کروا دیا ورنہ ہندوستان کا نقشہ آج بالکل اور ہوتا آج صرف یہاں پاکستان نہ ہوتا بلکہ سارا ہندوستان ہی پاکستان ہوتا۔ جن ملکوں کو عربوں نے فتح کیا ہے ان میں اسلام اس طرح داخل ہوا ہے کہ کوئی شخص اسے قبول کرنے سے بچا نہیں۔ غیرقومیں جو ہندوستان میں آئی ہیں ان کے اندر تبلیغی جوش نہیں تھا اس لئے انہوں نے چند علاقوں کو فتح کیا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں میں اسلام کی دشمنی بھی تھی` اسلامی تعلیم سے منافرت بھی تسی۔ اور پھر ان فاتح اقوام کا سلوک بھی زیادہ اچھا نہیں تھا۔ لیکن عرب تو اس طرح بچھ جاتا تھا کہ وہ جس ملک میں جاتا اپنے آپ کو حاکم نہیں سمجھتا تھا بلکہ لوگوں کا خادم سمجھتا تھا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی سارے کا سارا ملک مسلمان ہوجاتا۔ پس اگر اس زمانہ میں ہندوستان کو فتح کرلیا جاتا تو یقیناً آج ہندوستان` ایران` اور مصر کی طرح ایک طرح ایک مسلمان ملک ہوتا کیونکہ وہ لوگ عربوں کا نمونہ دیکھنے تھے` ان کی خدمت اور حسن سلوک کو دیکھتے تھے۔ ان کی دیانت اور راست بازی کو دیکھتے تھے اور ان اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ ان کے سامنے عرب اور غیر عرب کا سوال نہیں ہوتا تھا بلکہ صرف سچائی کا سوال ہوتا تھا جس کے بعد بغض اور کینے آپ ہی آپ مٹ جاتے ہیں۔
تمہارے باپ دادا کے یہ حالات سوائے تاریخ کے تمہیں اور کس ذریعہ سے معلوم ہوسکتے ہیں` یہی چیز ہے جو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے ورنہ محض >دو دو نے چار< یعنی دو کو دو سے ضرب دی جائے تو چار حاصل ہوتے ہیں تمہیں کیا نفع حاصل ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر تم تاریخ پڑھو اور تم ذرا بھی عقل رکھتی ہو ذرا بھی جستجو کا مادہ اپنے اندر رکھتی ہو تو تمہاری زندگی ضائع نہیں ہوسکتی۔
مضمون تو میں نے اور شروع کیا تھا مگر میں رو میں بہہ کر کہیں کا کہیں چلا گیا۔ میں کہہ یہ رہا تھا کہ کبھی زمانہ بدلتا ہے اور لوگ اس کے ساتھ بدلتے چلے جاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ زمانوں کو بدل دیتے ہیں۔ مسلمان قوم وہ تھی جو زمانہ کے ساتھ نہیں بدلی بلکہ زمانہ کو اس نے اپنے ساتھ بدل دیا۔ وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے لوگوں کو اپنے اخلاق کی نقل پر مجبور کردیا` اپنے لباس کی نقل پر مجبور کردیا` اپنے تمدن کی نقل پر مجبور کردیا اور وہ دنیا کے استاد اور رہنما تسلیم کئے گئے۔ آج مسلمان عورت یورپ کی بے پروگی کی نقل کررہی ہے حالانکہ کبھی وہ زمانہ تھا کہ مسلمان عورتوں کے پردہ کو دیکھ کر یورپ کی عورتوں نے پردہ کیا چنانچہ ننز (NUNS) کو دیکھ لو یورپ ایک بے پرو ملک تھا اور بے پردگی ان میں فیشن سمجھا جاتا تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان عورت پردہ کرتی ہے تو بہت حد تک انہوں نے بھی پردہ لے لیا۔ چنانچہ ننز (NUNS) میں گو پورا پردہ نہ ہو لیکن ان کی نقاب بھی ہوتی ہے ان کی پیشانی بھی ڈھکی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے جسم پر کوٹ بھی ہوتا ہے جس سے ان کے تمام اعضاء ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور گو ہم اسے پورا اسلامی پردہ نہ کہہ سکیں مگرے نوے فیصدی پردہ ان میں ضرور پایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ وہ عورت تھی جو اسلام کے` یورپ میں جانے سے پہلے ننگی پھرتی تھی اور جیسے بندریا کو ایک گھگھری پہنا دی جاتی ہے اسی طرح انہوں نے ایک گھگھری پہنی ہوتی تھی چنانچہ یورپ کی پرانی تصویریں دیکھ لو عورتوں کے بازو` ٹانگیں اور سینہ وغیرہ سب ننگا ہوتا تھا مگر جب مسلمان عورتوں کو انہوں نے پردہ کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی پردہ کے بہت سے حصوں کو لے لیا مگر یورپ اب پھر اسی پہلے زمانہ کی طرف جارہا ہے اور مسلمان عورت بھی پردہ اتار کر خوش ہوتی ہے کہ وہ یورپ کی نقل کررہی ہے آج کی مسلمان عورت یہ کہتی ہے کہ ہم زمانہ کے ساتھ چلیں اور پرانی مسلمان عورت یہ کہتی تھی کہ زمانہ میرے ساتھ چلے۔ یہ اپنی غلامی کا اقرار کرتی ہے اور وہ اپنی بادشاہی کا اعلان کرتی تھی کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں دوسروں کی نقل کروں لوگوں کا کام ہے کہ وہ میری نقل کریں۔
غرض میں کہہ یہ رہا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے لئے تعلیم میں مشکلات تھیں` ایک عیسائی قوم ہم پر حاکم تھی اور مغربی تعلیم دلوانے میں ہمارے لئے مشکلات تھیں۔ پس میں اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہماری لڑکیاں دینیات کلاس میں پڑھیں اور اپنا سارا زور مذہبی اور دینی تعلیم کے حصول میں صرف کریں۔ اور شاید جماعت میں اکیلا میں تھا جو اس بات پر زور دیتا تھا ورنہ جماعت کے افسر کیا اور افراد کیا ان سب کی مختلف وقتوں میں یہی کوشش رہی کہ ہائی سکول کے ساتھ ایک بورڈنگ بنانے کی اجازت دے دی جائے تاکہ بیرونجات سے لڑکیاں آئیں اور وہ قادیان میں رہ کر انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ اسی طرح اس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا کہ لڑکیوں کے لئے کالج کھولنے کی اجازت دی جائے مگر میں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی لیکن آج میں اس زنانہ کالج کا افتتاح کررہا ہوں۔ یہ تیسری قسم کی چیز ہے نہ میں زمانے کے ساتھ بدلا نہ زمانہ میرے ساتھ بدلا بلکہ خداتعالیٰ نے زمانہ میں ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کردی کہ اب تعلیم کو اسلامی طریق کے ماتحت ہم کالج میں رائج کرسکتے ہیں۔ یہ کہ اس تعلیم کی آئندہ کیا تفصیلات ہوں گی اس کو جانے دو لیکن یہ کتنا خوشگوار احساس ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یونیورسٹی کے مضامین میں ایک مضمون اسلامیات کا بھی رکھا گیا ہے جس میں اسلامی تاریخ پر خاص طور پر زور دیا جائے گا۔ پس ہم زمانہ کے ساتھ نہیں بدلے` زمانہ بھی ہمارے ساتھ نہیں بدلا۔ کیونکہ جو زور ہمارے نزدیک اسلامی تعلیم پر ہونا چاہئے وہ ابھی نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے زمانہ کو سمو دیا ہے اور اسے کچھ ہمارے مطابق کردیا ہے۔ پس ان بدلے ہوئے حالات کے مطابق جبکہ ہم سہولت کے ساتھ کالج میں بھی دینیات کی تعلیم دے سکتے ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ دینیات کلاسز کو اڑا دیا جائے اور اسی کالج میں لڑکیوں کو زائد دینی تعلیم دی جائے تاکہ وہ کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجہ کی معلومات حاصل کرلیں اور اسلام پر ان کی نظر وسیع ہوجائے۔ عیسائی حکومت جو تعلیم میں پہلے دخل دیا کرتی تھی وہ اب باقی نہیں رہی۔ پس میں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں کالج قائم کردینا چاہئے تاکہ ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پاکستان میں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتیں ہیں ان کی برابری کرسکیں اور ایک مقام پر ان کے ساتھ بیٹھ سکیں۔ گو ہونا تو یہ چاہئے کہ اس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد تمہاری دماغی کیفیت اور تمہاری قلبی کیفیت اور تمہاری ذہانت دوسروں سے بہت بالا اور بلند ہو اور جب بھی تم ان کے پاس بیٹھو وہ یہ محسوس کریں کہ تمہارا علم اور ہے اور ان کا اور۔ تمہارا علم آسمانی اور ان کا زمینی۔ اور اگر تم قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔
تم انٹرنس پاس ہو لیکن میں انٹرنس میں فیل ہوا تھا بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ میں مڈل پاس بھی نہیں کیونکہ میں مڈل میں بھی فیل ہوا تھا۔ درحقیقت قانون کے مطابق میری تعلیم پرائمری تک ختم ہوجانی چاہئے تھی کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے پرائمری کا امتحان بھی پاس نہ کیا تھا مگر چونکہ گھر کا سکول تھا اس لئے اساتذہ مجھے اگلی کلاسوں میں بٹھاتے چلے گئے۔ پس میں پرائمری پاس بھی نہیں تھا اور تم تو میٹرک کا امتحان پاس کرچکی ہو پھر ایف۔ اے بنو گی اس کے بعد بی۔ اے بنوگی اور پھر انشاء اللہ ایم۔ اے کی کلاسز کھل جائیں گی اور تم ایم۔ اے ہوجائو گی۔ اگر تم یہ سمجھو کہ قرآن کریم کے علوم کے مقابلہ میں دنیا کے علوم بالکل ہیچ ہیں تو یقیناً تم تلاش کرو گی کہ قرآن کریم میں وہ علوم کیوں پائے جاتے ہیں۔ پہلے ہمیشہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر عمل پیدا ہوتا ہے اگر تمہیں یقین ہو کہ قرآن کریم میں وہ علم بھرا ہوا ہے جو دنیا میں نہیں تو یقیناً تم تلاش کرو گی کہ وہ ہے کہاں؟ اور جب تم تلاش کرو گی تو وہ تمہیں مل جائے گا۔ قرآن کریم خود بتاتا ہے کہ وہ ایک بند خزانہ ہے اس کے الفاظ ہر ایک کے لئے کھلے ہیں۔ اس کی سورتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہیں۔ مگر اس کے لئے کھلی ہیں جو پہلے ایمان لاتا ہے۔ وہ فرماتا ہے لا یمسہ الا المطھرون ۱۳ وہ لوگ جو ہماری برکت اور رحمت سے ممسوح کئے جاتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کیا کچھ بیان ہوا ہے۔ باقی عربی کتابیں عربی جاننے سے سمجھی جاسکتی ہیں لیکن قرآن کریم ایمان سے سمجھا جاسکتا ہے اگر تمہیں کامل ایمان حاصل ہو اور پھر تم اس کو دیکھو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی کسی مجلس میں دنیا کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ عورت سے تم نیچی نہیں ہوسکتیں وہ تمہیں اس طرح دیکھیں گی جس طرح شاگرد اپنے اساتذہ اور معلمین کو دیکھتے ہیں کیونکہ تمہارے پاس وہ چیز ہوگی جو ان کے پاس نہیں ہوگی۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ احمدی نوجوان بھی ابھی اس بات پر تو ایمان لے آیا ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنا مامور بھیجا۔ وہ اس بات پر بھی ایمان لے آیا ہے کہ احمدیت سچی ہے مگر ابھی اس بات پر اسے پختہ ایمان حاصل نہیں ہوا کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے اگر یہ بات حاصل ہوجاتی تو آج ہماری جماعت کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔ اگر تمہاری جیب میں روپیہ موجود ہو تو کیا ضرورت ہے تم صندوق کھولنے جاتی ہو تم اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتی ہو اور روپیہ نکال لیتی ہو۔ اگر واقعہ میں ایک احمدی مرد اور عورت کے دل میں یہ ایمان ہو کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے تو وہ کسی اور طرف جائے گا کیوں؟ وہ قرآن پر غور کرے گا اور اسے وہ کچھ ملے گا جو اسے دوسری کتابوں سے مل سکتا ہی نہیں تب اس کی زندگی دوسروں سے زیادہ اعلیٰ ہوگی اور وہ ان میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہوگا۔ بے شک بعض مجبوریوں کی وجہ سے اسے بھی یونیورسٹیوں میں پڑھنا پڑے گا مگر اس کو آخری ڈگری دینے والا کوئی چانسلر نہیں ہوگا` کوئی گورنر نہیں ہوگا` کوئی وزیر نہیں ہوگا بلکہ اسے آخری ڈگری دینے والا خدا ہوگا اور ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی ڈگری کا مقابلہ میں انسانوں کی ڈگری کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔
غرض یہ کالج میں نے اس لئے کھولا ہے کہ اب دین اور دنیا کی تعلیم چونکہ مشترک ہوسکتی ہے اس لئے اسے مشترک کردیا جائے۔ اس کالج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہوسکتی ہیں۔ کچھ تو وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیوی کام کریں اور کچھ وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کریں۔ میں دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت بھی دنیا سے الگ نہیں ہوسکتی اور دنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہوسکتے۔
اسلام نام ہے خداتعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا۔ اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دنیوی چیز ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی محبت ایک دینی چیز ہے۔ پس جب اسلام دونوں چیزوں کا نام ہو اور جب وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کا کام کرے اور وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرے دونوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ جو لڑکی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دنیا کام کرے اسے کیا معلوم ہے کہ خداتعالیٰ سے محبت کرنا بھی دینا کا حصہ ہے اور جو لڑکی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دین کا کام کرے اسے کیا معلوم ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے۔ پس دونوں کا مقصد مشترک ہوگیا۔ جو دینی خدمت کی طرف جانے والی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے۔ دین کے معنے صرف سبحان اللہ سبحان اللہ کرنے کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے اور ان کے دکھ درد کو دور کرنے میں حصہ لینے کا بھی ہیں۔ اور جو لڑکیاں دنیا کا کام کرنا چاہتی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کی محبت پر بھی زور دیا ہے پس انہیں دنیوی کاموں کے ساتھ خداتعالیٰ کی محبت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیشہ اس کی محبت اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ پیدا کرتے چلے جانا چاہئے۔ اور چونکہ دونوں قسم کی لڑکیاں درحقیقت ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں اس لئے وہ جو اختلاف تمہیں اپنے اندر نظر آسکتا تھا وہ نہ رہا اور تم سب کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا ہوگیا۔
پس یہ مقصد ہے جو تمہارے سامنے ہوگا اور اس مقصد کے لئے تمہیں دینی روح بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے تاکہ وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئی ہو۔ دوسرے کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں ہوسکتا ہے کہ خداتعالیٰ کو بھلا کر دنیوی کاموں میں ہی منہمک ہوجائیں مگر چونکہ یہ کالج احمدیہ کالج ہے اس لئے تمہارا فرض ہوگا کہ تم دونوں دامنوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو اگر ایک دامن بھی تمہارے ہاتھ سے چھٹ جاتا ہے تو تم اس مقصد کو پورا نہیں کرسکتیں جو تمہارے سامنے رکھا گیا ہے اور جس کے پورا کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے۔ پس ان ہدایات کے ساتھ میں احمدیہ زنانہ کالج کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جو اس کالج میں پڑھانے والی ہوں گی وہ بھی اس بات کو مدنظر رکھ کر پڑھائیں گی کہ طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے جو ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے۔ جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا بلکہ وہ ہرآن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اسی طرح تمہارے اندر وہ سیمات کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اور اسلام کو اور احمدیت اور اسلام کی حقیقی روح کو دنیا میں قائم نہ کردو۔ اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں۔ اخلاق فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں۔ تمہیں برا تو لگے گا مگر واقعہ یہی ہے کہ عورت سچ بہت کم بولتی ہے۔ اس کے نزدیک اپنے خاوند کو خوش کرنے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور سچائی کی کم۔ جب اسے پتہ لگتا ہے کہ فلاں بات کے معلوم ہونے پر میرا خاوند ناراض ہوگا تو بھی اس معاملہ میں جھوٹ ہی بولتی ہے سچائی سے کام نہیں لیتی کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر میں نے سچ بولا تو میرا خاوند ناراض ہوگا۔ وہ ایک طرف تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ میں محکوم نہیں مجھے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں اور دوسری طرف وہ مرد سے ڈرتی ہے۔ اگر اس کا مرد سے ڈرنا ٹھیک ہے تو پھر وہ محکوم ہے` اسے دنیا کے کسی فلسفہ اور کسی قانون نے آزاد نہیںکیا۔ اور اگر وہ مرد کے برابر قویٰ رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ جھوٹ بولے اور اسی طرح صداقت پر ائم نہ رہے جس طرح آزاد مرد صداقت پر قائم رہتے ہیں یہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے لیکن تمہاری اصلاح کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ تمہیں اپنے دل میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ تم آزاد ہو یا نہیں۔ اگر تم آزاد نہیں ہو تو کہو کہ خدا نے ہم کو غلام بنا دیا ہے۔ اور چھوڑو اس بات کو کہ تمہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ اور اگر تم آزاد ہو تو خاوند کے ڈر کے مارے جھوٹ بولنا اور راستی کو چھپانا یہ لغو بات ہے۔ اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی عورت میں کام کرنے کی عادت بہت کم ہے۔ لجنہ بنی ہوئی ہے اور کئی دفعہ میں اسے اس طرف توجہ بھی دلاچکا ہوں مگر ہنوز روز اول والا معاملہ ہے۔
‏tav.12.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
تمہیں اپنے کالج کے زمانہ میں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ عورت کی زندگی زیادہ سے زیادہ کس طرح مفید بنائی جاسکتی ہے۔ یہ پرانا دستور جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور اب بھی ہے کہ کھانا پکانے کا کام عورت کے ذمہ ہے اس میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں عورت صرف کھانے پینے کے کام کے لئے ہی رہ گئی ہے اس کے پاس کوئی وقت ہی نہیں بچتا جس میں وہ دینی یا مذہبی یا قومی کام کرسکے۔ یورپ کے مدبرین نے مل کر اس کا کچھ حل سوچا ہے اور اس وجہ سے ان کی عورتوں کا بہت سا وقت بچ جاتا ہے۔ مثلاً یورپ نے ایک قسم کی روٹی ایجاد کرلی ہے جسے ہمارے ہاں ڈبل روٹی کہتے ہیں۔ یہ روٹی عورتیں گھر میں نہیں پکاتیں بلکہ بازار سے آتی ہے اور مرد` عورتیں اور بچے سب اسے استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ بادشاہ کے ہاں کیا دستور ہے آیا اس کی روٹی بازار سے آتی ہے یا نہیں لیکن یورپ میں ایک لاکھ میں سے نناوے ہزار نو سو ننانوے یقیناً بازاری روٹی ہی کھاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا بہت سا وقت بچا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس قسم کے کھانا پکانے کے برتن (COOKER) نکالے ہوئے ہیں جن سے بہت کم وقت میں سبزی اور گوشت وغیرہ تیار ہوجاتا ہے۔ پھر انہوں نے اپنی زندگیاں اس طرح ڈھال لی ہیں کہ عام طور پر وہ ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ یورپ میں بالعموم چار کھانے ہوتے ہیں۔ صبح کا ناشتہ` دوپہر کا کھانا` شام کا ناشتہ اور رات کا کھانا۔ عام طور پر درمیانی طبقہ کے لوگ صبح کی چائے گھر پر تیار کرلیتے ہیں باقی دوپہر کے کھانے اور شام کی چائے وہ ہوٹل میں پی لیتے ہیں اور شام کو کھانا گھر پر پکاتے ہیں۔ پھر سرد ملک ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا کئی کئی وقت چلا جاتا ہے۔ اور پھر کھانے انہوں نے اس قسم کے ایجاد کرلئے ہیں جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے مثلاً MEAT COLD ہے۔ روٹی بازار سے منگوالی اور کولڈ میٹ کے ٹکڑے کاٹ کر اس سے روٹی کھالی۔ لیکن ہمارے ہاں ہر وقت چولہا جلتا ہے۔ جب تم کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتی ہو تو تمہیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ تم اپنی زندگی کس طرح گزارو گی۔ اگر چولہے کا کام تمہارے ساتھ رہا تو پھر پڑھائی بالکل بیکار چلی جائے گی۔ تمہیں غور کرکے اپنے ملک میں ایسے تغیرات پیدا کرنے پڑیں گے کہ چولہے پھونکنے کا شغل بہت کم ہوجائے اگر یہ شغل اسی طرح جاری رہا تو پڑھائی سب خواب و خیال ہوکر رہ جائے گی۔ یہی چولہا پھونکنے کا شغل اگر کم سے کم وقت میں محدود کردیا جائے مثلاً اس کے لئے ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام رکھ لیا جائے تب بھی اور کاموں کے لئے تمہارے پاس بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ تم نوکر رکھ لو گی۔ نوکر رکھنے کا زمانہ اب جارہا ہے اب ہر شخص نوکر نہیں رکھ سکے گا بلکہ بہت بڑے بڑے لوگ ہی نوکر رکھ سکیں گے کیونکہ نوکروں کی تنخواہیں بڑھ رہی ہیں اور ان تنخواہوں کے ادا کرنے کی متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی استطاعت نہیں ہوسکتی۔ جب میں یورپ میں گیا ہوں تو اس وقت تک ابھی نوکروں کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں تب ہم نے جو عورت رکھی ہوئی تھی اسے ہم ۲۱ شلنگ ہفتہ وار یا ساٹھ روپیہ ماہوار دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی کھانا بھی دیتے تھے۔ پھر ان کی یہ شرط ہوا کرتی تھی کہ ہفتہ میں ایک دن کی پوری اور ایک دن کی آدھی چھٹی ہوگی۔ ڈیڑھ دن تو اس طرح نکل گیا جس میں گھر والوں کو خود کام کرنا پڑتا تھا۔ آقا بہتیری شور مچاتی رہے کہ کام بہت ہے وہ کہے گی میں نہیں آسکتی کیونکہ میری چھٹی کا دن ہے۔ پھر جتنا وقت مقرر ہو اس سے زیادہ وہ کام نہیں کرے گی کتنا بھی کام پڑا ہو وہ فوراً چھوڑ کر چلی جائے گی اور کہے گی کہ وقت ہوچکا ہے۔ دراصل اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتا کہ زیادہ کام کریں کیونکہ وہاں ہر طبقہ کے لوگوں کی الگ الگ انجمنیں بنی ہوئی ہیں۔ کوئی گھر کے نوکروں کی انجمن ہے` کوئی قلیوں کی انجمن ہے` کوئی انجمن میں کوئلہ ڈالنے والوں کی انجمن ہے` کوئی استادوں کی انجمن ہے` ان انجمنوں کی سفارش کے بغیر کسی کو نوکری نہیں ملتی۔ اگر وہ زائد کام کریں تو انجمن کی ممبری سے ان کا نام کٹ جاتا ہے اور پھر انہیں کہیں ملازمت نہیں ملتی۔ ہمیں وہاں مضمون لکھنے کے لئے ایک ٹائپسٹ کی ضرورت تھی۔ دفتر نے ایک عورت اس غرض کے لئے رکھی جو چیکوسلویکیا کی رہنے والی تھی۔ اسے ہمارے ۔۔۔۔ مضامین پڑھنے کے بعد سلسلہ سے دلچسپی ہوگئی مگر مشکل یہ تھی کہ اس کا وقت ختم ہوجاتا اور ہمارا کام ابھی پڑا ہوا ہوتا۔ بعض دفعہ ہمیں دوسرے ہی دن مضمون کی ضرورت ہوتی اور وہ کہتی کہ میں اب جارہی ہوں کیونکہ وقت ہوگیا ہے۔ مگر چونکہ اسے ہمارے سلسلے سے دلچسپی ہوگئی تھی اس لئے وہ کہتی کہ میں زائد وقت کی ملازمت تو نہیں کرسکتی لیکن میں یہ کرسکتی ہوں کہ مضمون ساتھ لے جائوں اور گھر جاکر اسے ٹائپ کروں انجمن والے مجھے گھر کے کام سے نہیں روک سکتے اس وقت میرا اختیار ہے کہ میں جو چاہوں کروں آپ مجھے اس وقت کی تنخواہ نہ دیں میں آپ کا کام مفت میں کردوں گی اگر آپ مجھے کچھ دینا چاہیں تو بعد میں انعام کے طور پر دے دیں۔ اس طرح وہ مشن کا کام کیا کرتی تھی کیونکہ ڈرتی تھی کہ اگر انہیں پتہ لگا کہ میں چھ گھنٹہ سے زیادہ کہیں کام کرتی ہوں تو وہ مجھے نکال دیں گے اور پھر مجھے کہیں بھی نوکری نہیں ملے گی۔ یہ چیزیں ابھی ہمارے ملک میں نہیں آئیں لیکن جب آئیں تو پھر لوگوں کے لئے بہت کچھ مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ اب تو وہ پانچ سات روپیہ میں نوکر رکھ سکتے ہیں لیکن جس دن نوکر کی پچاس روپیہ تنخواہ ہوگئی اور سو روپیہ تمہیں ملا تو تم نوکر کہاں رکھو گے۔ آج کل یورپ میں نوکر کی تنخواہ تین پونڈ ہفتہ وار ہے جس کے معنے آج کل کے پاکستانی روپیہ کی قیمت اس کے لحاظ سے ایک سو بیس روپیہ ماہوار کے ہیں اور کھانا بھی الگ ہی دینا پڑتا ہے۔ اس زمانہ میں اوپر کے طبقوں کی تنخواہیں گررہی ہیں اور نیچے کے طبقہ کی تنخواہیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص سات آٹھ سو روپیہ ماہوار لیتا ہے وہ بھی ملازم نہیں رکھ سکتا صرف ہزاروں روپیہ ماہوار کمانے والا ملازم رکھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں یہی ہوسکتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا دو تین وقتوں میں کھالیا یا ایک وقت ہوٹل میں جاکر کھالیا اور دوسرے وقت میں کھانے میں کولڈ میٹ استعمال کرلیا۔ اس طرح بہت سا وقت اور کاموں کے لئے بچ سکتا ہے۔
پھر ہمارے ہاں یہ بھی ایک نقص ہے کہ بچوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی۔ بچے دستر خوان پر بیٹھے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ امی نوکر پانی نہیں لاتا کہ ہم ہاتھ دھوئیں` امی نوکر نے برتن صاف نہیں کئے۔ امریکہ میں ہر بچہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے کھانے کے برتن کو خود دو کر رکھے اور اگر وہ نہ دھوئے تو اسے سزا ملتی ہے کیونکہ ماں اکیلی تمام کام نہیں کرسکتی اگر وہ کرے تو اس کے پاس کوئی وقت ہی نہ بچے۔ وہ اسی طرح کرتی ہے کہ کچھ کام خود کرتی ہے اور کچھ کاموں میں بچوں سے مدد لیتی ہے۔ غرض یورپ میں اول تو روٹی بازار سے منگوائی جاتی ہے۔ پھر انہوں ¶نے کولڈمیٹ اور اسی قسم کی اور چیزیں ایسی بنالی جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے اور بجائے اس کے کہ ہر وقت گرم کھانا کھایا جائے وہ اس سے روٹی کھالیتے ہیں۔ پھر ایک وقت کا پکا ہوا کھانا دو وقتوں میں کھالیتے ہیں۔ اور پھر کام میں بچوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح بہت سا وقت بچالیا جاتا ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک لطیفہ پڑھا جو امریکہ کے ایک مشہور رسالہ میں شائع ہوا تھا اور جس سے ان لوگوں کے کیریکٹر پر خاص طور پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک باپ کہتا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ میرے بچوں کو کبھی کبھی یہ تو بھول جاتا ہے کہ آج ہم نے سکول جانا ہے۔ کبھی یہ بھول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے برتن صاف کرنے ہیں۔ کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے کپڑے بدلنے ہیں کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اتنے بجے سونا ہے۔ لیکن اگر کبھی ہنسی میں میں نے اپنے بچوں سے کوئی وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے اور اس پر پانچ سال بھی گزر چکے ہوں تو وہ ان کو نہیں بھولتا۔ اس مثال سے ان کے کیریکٹر کا پتہ لگتا ہے کہ وقت پر سونا` وقت پر سکول جانا` وقت پر کپڑے بدلنا اور کھانے کے برتن دھونا یہ سب بچوں کو سکھایا جاتا ہے اور یہ باتیں ان کے فرائض میں شامل کی جاتی ہیں۔ اس رنگ میں انہوں نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ ان کا بہت سا وقت بچ جاتا ہے۔ پھر بچوں کے پالنے کا کام ایسا ہے کہ جس میں بہت کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یورپ میں تو عورتیں بچے کو پنگھوڑے میں ڈالتی ہیں` چوسنی تیار کرکے اس کے پاس رکھ دیتی ہیں اور مکان کو تالا لگا دفتر میں چلی جاتی ہیں۔ جب بچے کو بھوک لگتی ہے وہ خود چوسنی اٹھا کر منہ سے لگا لیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اگر ماں دو منٹ کے لئے بھی بچے سے الگ ہوجائے تو وہ اتنا شور مچاتا ہے کہ آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ماں بچے کو الگ نہیں کرتی اسے ہر وقت اپنے ساتھ چمٹائے پھرتی ہے۔ بچہ پیدا ہوا اور اسے گود میں ڈال لیا اور پھر تین چار سال تک اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہیں۔ بلکہ ہمارے ملک میں تو پانچ پانچ سال تک لاڈلے بچوں کو اٹھائے پھرتی ہیں۔ یہ سارے رواج اس قابل ہیں کہ ان کو بدلا جائے۔ جب تم ہمت کرکے ان رسوم کو بدلوگی تو آہستہ آہستہ باقی عورتوں میں بھی تمہارے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہوجائے گا۔
میں نے بتایا ہے کہ سب سے پہلے روٹے پکانے کے طریق میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عربوں میں بھی بازار سے روٹی منگوانے کا طریق ہے مگر وہاں تنور کی خمیری روٹی ہوتی ہے انگریزی روٹی کا رواج نہیں جتنے ملکوں میں بازار سے روٹی منگوانے کا طریق رائج ہے ان سب میں خمیری روٹی کھائی جاتی ہے۔ خمیری روٹی ہمیشہ تازہ ہی پکا کر کھانی پڑتی ہے۔ بہرحال بغیر اس کے کہ روٹی کا سوال حل ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہوسکتیں۔ اور بغیر اس کے کہ بچہ پالنے کے طریق میں تبدیلی ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہوسکتیں۔ جب تک بچہ گود میں رہے گا یا ماں بیکار رہنے پر مجبور ہوگی یا بیٹی مجبور رہے گی۔ کام کے لئے فراغت اسے اسی وقت ہوسکتی ہے جب بچہ کو پیدا ہوتے ہی پنگھوڑے میں ڈال دیا جائے اور پھر وقت پر اسے دودھ پلا دیا جائے۔ گود میں اسے نہ اٹھایا جائے۔ غرض جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتا ماں کی زندگی بیکار رہے گی` اور جب تک کھانے کا سوال حل نہیں ہوتا عورت کی زندگی بیکار رہے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روزانہ چار وقت کے کھانے کی بجائے صرف دو وقت کا کھانا رکھ لیا جائے اور ناشتہ کا کوئی سادہ دستور نکالا جائے اور کھانے ایسے تیار کئے جائیں جو کئی کئی وقت کام آسکیں اور روٹی بازارسے منگوالی جائے۔ لیکن اگر صبح شام کھانا پکانے کے برتن مانجھنے کا کام عورت کے ہی سپرد رہے گا تو وہ بالکل بیکار ہوکر رہ جائے گی اور کسی کام کے لئے وقت صرف نہیں کرے گی۔
پس جہاں دینی مسائل کو مدنظر رکھنا تمہارے لئے ضروری ہے وہاں ان عائلی مشکلات کو حل کرنا بھی تمہارے لئے ضروری ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے تنزل اور ان کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہوئی ہے کہ جب ان کے پاس دولت آگئی تو انہوں نے اس قسم کے مشاغل بیکاری کو اختیار کرلیا۔ گھروں میں مرد بیٹھے چھالیا کاٹ رہے ہیں۔ گلوریاں بنارہے ہیں اور عورت بھی کھانے پکانے میں مصروف ہے کبھی یہ چیز تلی جارہی ہے کبھی وہ چیز تلی جارہی ہے۔ کبھی کہتی ہے اب میں چٹنی بنالوں کبھی کہتی ہے اب میں میٹھا بنارہی ہوں نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تو کھانے تیار کرنے میں مشغول ہوگئے اور حکومت انگریزوں نے سنبھال لی۔ یہ مصیبت جتنی ہندوستان میں ہے باہر نہیں۔ عرب میں جاکر دیکھ لو سارا عرب بازار سے روٹی منگواتا ہے۔ مصر میں جاکر دیکھو سارا مصر بازار سے روٹی منگواتا ہے اور سالن بھی وہ گھر پر تیار نہیں کرتے بازار سے ہی منگوا لیتے ہیں۔ وہاں لوبیا کی پھلیاں بڑی کثرت سے ہوتی ہیں۔ صبح کے وقت مکہ میں چلے جائو۔ قاہرہ میں چلے جائو بازاروں میں لوبیا کی دیگیں تیار ہوں گی اور ہر شخص اپنا برتن لے جائے گا اور تنور کی روٹیاں اور لوبیا کی پھلیاں لے آئے گا۔ غریب اسے یونہی کھالیتے ہیں۔ اور امیر آدمی گھی کا تڑکا لگا لیتے ہیں۔ اسی طرح دوپہر کے وقت روٹی بازار سے آتی ہے اور سالن کے طور پر بھی وہ کوئی سستی سی چیز لے لیتے ہیں اور گزارہ کرلیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں یہ حالت ہے کہ لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم وہ ماما رکھنا چاہتے ہیں جو ایک سیر آٹے میں اسی پھلکے پکا سکتی ہو۔ بازار والوں نے اپنا کام اس طرح ہلکا کرلیا کہ سیر آٹے میں چھ روٹیاں تیار کرلیں اور انگریزوں نے سیر میں چار اور بعض دفعہ دو اور انہوں نے اپنے کام کو اس طرح بوجھل بنالیا کہ اسی اسی پھلکے بنانے لگے۔ یسہ شغل بیکاری ہیں جن کو دور کرنا پڑے گا اور جن کو دور کرکے ہی تم اپنا وقت بچا سکتی ہو۔ آخر علم کے استعمال کے لئے تمہارے پاس وقت چاہئے۔ اگر تم نے اپنے آپ کو ایسا بنالیا کہ تمہارے پاس کچھ بھی وقت نہ بچا تو تم نے کرنا کیا ہے بس پہلا سوال وقت کا ہے تم کو اپنی زندگی ایسی بنانی پڑے گی کہ تم ان کاموں کے لئے اپنے اوقات کو فارغ کرسکو پھر تمہارے لئے آسانی ہی آسانی ہے اور تم اس وقت سے فائدہ اٹھا کر بیسیوں ایسے کام کرسکتی ہو جو تمہاری ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ پس یہ مسئلہ بھی تمہیں ہی حل کرنا پڑے گا اور اگر تم حل کرلو تو تمہاری مائیں آپ ہی آپ تمہاری نقل کرنے پر مجبور ہوں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لڑکی پرائمری پاس ہوتی ہے تو جاہل مائیں اپنی لڑکی کے آگے پیچھے پھرتی ہیں اور کہتی ہیں ہماری یہ بیٹی پرائمری پاس ہے بڑی عقل مند اور ہوشیار ہے۔ اگر مائیں اپنی پرائمری پاس لڑکیوں کی بات رد نہیں کرسکتیں تو تم بی۔ اے ہوگی تمہاری بات وہ کیوں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی۔
یہ کام جو میں نے بتایا ہے اس معمولی نہ سمجھو یہی وہ چیز ہے جس نے ہمارے ملک کی عورت کو بیکار بنا دیا ہے۔ دوسری قوموں نے تو اس مسئلہ کو حل کرلیا اور چھ سات گھنٹے بچا لئے لیکن تمہارے کھانے پکانے کے دھندوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اگر تم بھی چھ سات گھنٹے بچا لو تو یقیناً تم ان اقوام سے بہت زیادہ ترقی کرسکتی ہو کیونکہ اگر وہ چھ گھنٹے بچاتی ہیں تو دو گھنٹے قومی کاموں میں صرف کرتی ہیں اور چار گھنٹے ناچ گانے میں صرف کرتی ہیں لیکن تم اپنا سارا وقت قومی اور مذہبی کاموں میں صرف کروگی اس لئے یورپ کی عورت کے مقابلے میں تمہیں اپنے کاموں کے لئے تین گنا وقت مل جائے گا۔ اور جب وہ چھ گھنٹوں میں سے چار گھنٹے ناچ گانے میں صرف کرے گی اور تمہارا تمام وقت خالص دینی کاموں میں صرف ہوگا اور اس طرح تم ان سے تین گنا کام کرو گی تو تمہاری فتح یقینی ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے یورپ کی تین تین عورتوں کے مقابلے میں تمہاری ایک ایک عورت ہوگی۔ اس وقت تمہاری سو عورت بھی یورپ کی ایک عورت کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ تمہارا علم بھی کم ہے اور تمہارے پاس اپنے قومی کاموں کے لئے بھی وقت نہیں بچتا۔ لیکن جب تم علم حاصل کرلو گی تو قومی کاموں کے لئے وقت بھی ان سے زیادہ صرف کرو گی تو تمہاری ایک عورت کے مقابلہ میں یورپ کی سو عورت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھے گی۔ جب تک یورپ کا ماحول ایسا ہے اور اس کا طریق عمل ایسا ہے کہ اس کی ایک عورت تمہاری سو عورت کے برابر ہوگی اس کا جیتنا یقینی ہے۔ لیکن جب تم اپنے آپ کو ایسی بنالو گی کہ تمہاری ایک عورت ان کی سو عورت کے برابر ہوگی تو پھر تمہارا جیتنا یقینی ہے۔
ان ریمارکس اور نصیحتوں کے ساتھ میں اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوا کالج کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے زنانہ کالج کی اس چھوٹی سی بنیاد کو اپنی عظیم الشان برکتوں سے نوازے اور یہ چھوٹا سا ادارہ دنیا کے تمام علمی اداروں پر چھا جائے<۔۱۴
اس ایمان افروز خطاب کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
ابتدائی سٹاف
سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کو جامعہ نصرت کی نگران اور محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ )اہلیہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ( کو پرنسپل مقرر فرمایا اور پہلے سال تعلیمی و تدریسی ذمہ داریاں مندرجہ ذیل اساتذہ کے سپرد کی گئیں:۔
حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ )عربی(
مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری )دینیات(
محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ )انگریزی و اقتصادیات(
حضرت پروفیسر علی احمد صاحب ایم۔ اے )اردو۔ فارسی(
چوہدری علی محدم صاحب بی۔ اے` بی ٹی )تاریخ(
محترمہ استانی سردار صاحبہ )عربی(
عمارت
جامعہ نصرت جو سال اول کی صرف سولہ طالبات پر مشتمل تھا حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی ذاتی کوٹھی میں جاری ہوا ۱۳۳۱ہش/ ۱۹۵۲ء میں اس کو دفتر لجنہ اماء اللوہ مرکزیہ میں کھولا گیا ۱۳۳۲ہش/ ۱۹۵۳ء میں جامعہ نصرت کی موجودہ مستقل عمارت کے پہلے چار کمرے تیار ہوئے تو یہ اس میں منتقل کردیا گیا۔ ۱۳۴۰ہش/ ۱۹۶۱ء میں اس کی وسیع عمارت میں بارہ دری کا اضافہ ہوا۔ ۸۔ امان ۱۳۴۹ہش/ ۸۔ مارچ ۱۹۷۰ء کو سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دست مبارک سے اس کے سائنس بلاک کا سنگ بنیاد رکھا اور اسی سال ای۔ ایس سی میڈیکل اور نان میڈیکل کلاسز کا اجراء ہوا۔ ۱۳۵۰ہش/ ۱۹۷۱ء میں اس کی طالبات پہلی بار ایف۔ ایس سی کے امتحان میں شامل ہوئیں۔
دوسرے کوائف
جامعہ نصرت کے ساتھ دارالاقامہ )ہوسٹل( کا قیام عمل میں آیا اور محترمہ استادنی سردار صاحبہ اس کی پہلی ناظمہ )سپرنٹنڈنٹ( تھیں۔
تبلیغ ۱۳۳۱ہش/ ۱۹۵۲ء میں جامعہ نصرت کا پہلا ٹورنامنٹ ہوا۔ اسی سال سے جلسہ تقسیم انعامات کا آغاز ہوا اور پہلی بار حضرت ام دائودؓ نے صدارت فرمائی ۱۳۳۲ہش/ ۱۹۵۳ء کی تقریب انعامات میں حضرت مصلح موعودؓ ¶رونق افروز ہوئے اور ایک اہم خطاب فرمایا۔۱۵ ۱۳۴۰ہش/ ۱۹۶۱ء و ۱۳۴۱ہش/ ۱۹۶۲ء میں بالترتیب حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ ناب مبارکہ بیگم صاحبہ کے صدارت کے فرائض انجام دیئے۔
۱۳۴۱۔۱۳۴۲ہش/ ۱۹۶۲ء۔ ۱۹۶۳ء میں پہلی بار جلسہ ہائے تقسیم اسناد کی سادہ اور موثر تقریب منائی گئی جس میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے شرکت فرمائی۔ ۱۳۴۲ہش/ ۱۹۶۳ء میں رسالہ >النصرت< جاری کیا گیا۔ ۱۳۴۷ہش/ ۱۹۶۸ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اور ۱۳۴۸ہش/ ۱۹۶۹ء میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جلسہ تقسیم اسناد کی صدارت فرمائی اور خطاب سے نوازا۔۱۶ اسی سال حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے نظارت تعلیم کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے والی طالبات کے لئے >نصرت جہاں میڈل< عطا کرنے کا اعلان فرمایا۔ ۱۳۴۹ہش/ ۱۹۷۰ء و ۱۳۵۰ہش/ ۱۹۷۱ء کے جلسہ ہائے تقسیم اسناد میں بالترتیب بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدارت کے فرائض انجام دیئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی دعائوں کے نتیجہ میں جامعہ نصرت کی حیرت انگیز اور فقید المثال ترقی
جامعہ نصرت ایک زندہ جماعت کی مثال درس گاہ` حضرت مصلح موعود اور امام ہمام ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعائوں کا زندہ اعجاز اور قرآنی آیت >وکواعب اترابا< کی عملی تعبیر و تفسیر
ہے جس نے اپنے بائیس سالہ دور میں تعلیمی` تریبی اور دینی ہر اعتبار سے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ جیسی بزرگ ہستیوں کی سرپرستی اور نگرانی میں فقید المثال ترقی کی ہے۔ وہ جامعہ جو گنتی کی صرف چند لیکچرر خواتین سے جاری ہوا اب اس کے سٹاف میں ۳۲ سند یافتہ فرض شناسی اور شفیق و مونس پروفیسر اور لیکچرر خواتین شامل ہیں۔ اور جہاں پہلے سال صرف سولہ طالبات کالج میں داخل ہوئیں وہاں ۱۳۵۲ہش/ ۱۹۷۳ء میں طالبات کی تعداد ساڑھے تین سو سے بھی بڑھ چکی ہے۔
جامعہ نصرت کی کامیابی کا تناسب کیفیت و کمیت کی رو سے یونیورسٹی اور بورڈ کے تناسب سے ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے اور اس کی طالبات نے مخصوص مضامین میں اچھی پوزیشن لے کر طلائی تمغے ہی حاصل نہیں کئے بلکہ بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں بھی اول آتی رہی ہیں۔
جامعہ نصرت کا خالص اور مثالی اسلامی ماحول
دینیات کا مضمون جامعہ نصرت میں لازمی اور اس کی علمی و تربیتی سرگرمیوں کا نقطہ مرکزیہ اور روح رواں ہے اور مغربی دنیا کے اس چیلنج کا واقعاتی اور مسکت جواب ہے کہ پردہ عورت کی ترقی میں روک ہے۔ علاوہ ازیں جامعہ نصرت کے پاک اور بابرکت اسلامی ماحول نے قران اول کی علم پرور مسلم خواتین کی یاد تازہ کردی ہے جس کا اعتراف دوسروں کو بھی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر علی محمد صاحب پرنسپل لاہور کالج نے اس کے معائنہ کے بعد اپنے تاثرات درج ذیل الفاظ میں لکھے:۔
>ربوہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے۔ عجب سماں ہے۔ پڑھنے والیاں اور پڑھانے والے ایک ہی مقصد کے تحت رواں دواں ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اور طرف نہیں۔ اس بے لوث جذبہ کو دیکھ کر بے اختیار کہنے پر مجبور ہوں کہ صحیح اسلامی تعلیم کی فضاء ربوہ ہی میں پائی جاتی ہے<۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا اظہار خوشنودی
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے یکم وفا ۱۳۳۴ہش/ جولائی ۱۹۵۵ء کو جامعہ نصرت کے خوشکن نتائج پر غایت درجہ خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:۔
>امسال یونیورسٹی کے امتحانات کے نتائج صرف بائیس فیصدی نکلے لیکن ہمارے ربوہ کی لڑکیوں کے کالج )جامعہ نصرت( کا نتیجہ تریسٹھ فیصدی رہا اور ان پاس ہونے الی طالبات میں سے اکثر وہ ہیں جن کی فیس ہر ماہ میں خود ادا کرتا تھا وہ کالج کی فیس مہیا نہیں کرسکتی تھیں لیکن ہم نے ان کے اخراجات کو برداشت کیا اور اس طرح عورتوں کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا وہاں پر کل تعلیم کا تناسب باسٹھ فیصدی تھا۔ لڑکوں کی تعلیم کا تناسب نوے فیصدی تھا اور عورتوں کی تعلیم کا تناسب سو فیصدی تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی قوم پردہ میں ترقی نہیں کرسکتی لیکن ہماری طرف دیکھو کہ ہماری بچیوں کو جو عورتین پڑھاتی ہیں وہ بھی پردہ کی پابند ہیں۔ خود میری اپنی بیوی۱۷ کالج کی پرنسپل ہے وہ عربی میں ایم۔ اے ہے اور وہ اس کام کا کچھ معاوضہ نہیں لیتی لیکن وہ خود بھی پردہ میں رہتی ہیں۔ اگر ضرورت کے موقع پر کالج میں بعض مرد تعلیم کے لئے لگائے جاتے ہیں تو وہ بھی پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھاتے ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ میں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی کے بائیس فیصدی نتائج کے مقابل میں ان کا نتیجہ تریسٹھ فیصدی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی عورتیں پختہ عزم اور ارادہ کرلیں تو وہ علم حاصل کرلیں گے اور دنیا کو دکھا دیں گے کہ پردہ میں رہ کر بھی ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔۱۸`۱۹
حضرت مصلح موعود کا ایک اہم ارشاد مبارک
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۲۹۔ جولائی ۱۹۵۱ء کو چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ شیخوپورہ کے نام حسب ذیل تحریری ارشاد فرمایا:۔
>میرے نزدیک حکومت سے مل کر اور اس کے تعاون سے کام کریں۔ اس کے اداروں میں آگے آکر ان کی اصلاح کریں۔ زیادہ سے زیادہ احمدیوں کو داخل کروائیں۔ شیخوپورہ بہترین محفوظ جگہوں میں سے ہے۔ ہمارے رشتہ دار لاہور سے صرف اس لئے آئے ہیں کہ حکام نے اشارہ کیا تھا کہ جنگی ضرورتوں کے لئے رتن باغ` جودھامل بلڈنگ لے لئے جائیں گے ورنہ وہ بھی نہ آتے۔ جماعت کو میری طرف سے تسلی دیں۔ مشکلات ہر کام میں آتی ہیں مگر انشاء اللہ فتح پاکستان کی ہے۔ یہ موقع بہت فائدہ اور ثواب اٹھانے کا ہے۔
مرزا محمود احمد<
چوتھا باب )فصل دوم(
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کے رقم فرمودہ بعض سوالات کے غیر مطبوعہ جوابات
)۱۳۳۰ہش مطابق ۱۹۵۱ء(
۱۔
مرزا عبدالوہاب صاحب شوکت نے ۲۴۔ وفا/ جولائی ۱۳۳۰ہش )۱۹۵۱ء( کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بذریعہ خط تین سوالات عرض کئے۔
الف۔ اگر امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے کوئی نماز ادا کررہے ہوں تو کیا صف بالکل سیدھی ہونی چاہئے یا امام تھوڑا سا آگے ہو۔
ب۔ جمعہ کے وقت دو خطبے ہوتے ہیں ایک تو مبا جو اردو یا جونسی زبان میں چاہیں پڑھیں اور دوسرا جو عربی میں ہوتا ہے کیا دوسرا خطبہ پڑھنے کی بجائے ہم دعائیں یا صرف درود شریف پڑھ سکتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟
ج۔ جب الہام الٰہی نازل ہوتا ہے تو اس وقت ملہم کی کیا حالت ہوتی ہے۔
حضرت امیر المومنین نے اس کے بالترتب مندرجہ ذیل جوابات لکھوائے:۔
>اگر امام اور مقتدی ایک ہی صف میں ہیں تو کوئی ضرورت نہیں کہ مقتدی پیچھے ہو۔ حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت~صل۱~ نے ابن عباسؓ کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اور اگر امام یہ بتانے کے لئے کہ اصل مقام اس کے آگے ہے آگے کھڑا ہوجائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
>دوسرا خطبہ وہی ہے جو مسنون عربی کا ہے پڑھنا ضروری ہے وہ خود رسول اللہ~صل۱~ کا بتایا ہوا ہے<۔
)کیفیت نزول الہام سے متعلق سوال پر ارشاد فرمایا(
>کئی حالتیں ہوتی ہیں کبھی جاگ رہا ہوتا ہے اور یہ کیفیت ہوتی ہے کہ جیسے کسی اور نے جسم پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور الفاظ زبان سے جاری ہوجاتے ہیں۔ اور علائق دینوی علیحدہ ہوجاتا ہے۔ کبھی سوتے میں الفاظ زبان پر جاری کردیئے جاتے ہیں۔ جو دوسرے بھی سن لیتے ہیں۔ بسا اوقات جاگتے میں بھی وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے سن رہے ہیں مگر دوسرے نہیں سن رہے ہوتے۔ کبھی خواب دکھائی جاتی ہے اور آخر میں الہام سے بدل جاتا ہے کبھی جاگتے میں الہام ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میرا جسم دوسرے کے قبضہ میں چلا گیا۔ لیکن دوسرے لوگ نہیں محسوس کررہے ہوتے۔
سوالات میں شرم نہیں کرتے ورنہ علم نہیں بڑھتا<۔
۲۔ پسرور )ضلع سیالکوٹ( سے ایک غیر مبائع دوست محمد ابراہیم صاحب بٹ نے ۲۔ دسمبر فتح ۱۳۳۰ہش کو حضور کی خدمت میں لکھا:۔
>کس قدر دکھ اور رنج ہوتا ہے نہ ہم ادھر کے رہے )د( ادھر کے رہے ان سب باتوں کو سوچ کر میں نے یہ دل سے پختہ عہد کرلیا ہے نبوت و مسئلہ کفر کے بارے میں ابھی میرے خیالات وہی ہیں جو کہ لاہوری جماعت کے ہیں مگر خیالات وہی رہنے کے باوجود آپ میری بیعت قبول کرسکتے ہیں تو بندہ حاضر غلام ہے کیونکہ میں نے جہاں تک غور کیا ہے آپ کی جماعت کا نظام و آپس میں ہمدردی حضرت صاحب کے وقت کا خاص نمونہ ہے اس واسطے میری گزارش ہے کہ آپ اگر ان شرائط کے ماتحت میری طبیعت لے سکتے ہیں تو قبول فرما کر جواب سے ممنون فرمائیں<۔
حضور نے جواباً لکھوایا:۔
>میں نے تو خلافت کے شروع میں ہی کہا تھا کہ جماعت میں تفرقہ پیدا نہ کریں اپنے عقیدہ پر بے شک رہیں آپ بیعت کرسکتے ہیں لیکن بحث وغیرہ کرکے جماعت میں تفرقہ نہ ڈالیں<۔
۳۔ ایک غیر احمدی خاتون رشیدہ وحید صاحبہ )معرفت چوہدری عبدالوحید صاحب محلہ مسجد کشمیری( نے سیالکوٹ سے اپنے خط میں تحریر کیا کہ:۔
>آج کل پاکستانی سرحدوں پر ہندوستانی فوج کے اجتماع کی وجہ سے جو صورت حالات پیدا ہوگئی ہے اس کے مدنظر جہاں حفاظت خود اختیاری کے پیش نظر بہت سے اقدام اٹھائے جارہے ہیں۔ وہاں عورتوں کو بھی جگہ بجگہ ۔P۔R۔A اور نرسنگ وغیرہ کی ٹریننگ دی جارہی ہے۔ ۔۔۔۔ اے آر پی` فرسٹ ایڈ اور نرسنگ کی ٹریننگ دینے کا انتظام تو ٹرینڈ نرسوں ہی کے سپرد ہے اور سب لڑکیاں ان چیزوں کے سیکھنے میں غیرمعمولی جوش و خروش کا اظہار بھی کررہی ہیں ۔۔۔۔۔ اگرچہ دوران ٹریننگ میں تو ہم کو پردہ اتارنے کی ضرورت نہیں لیکن جنگ کے دنوں میں ہسپتال میں کام کرنے کے دوران میں پردہ مکمل طور پر اتارنا پڑے گا۔ کیونکہ وہاں پر برقعہ اوڑھ کر زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹی کی اجازت تو نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ ہم آپ سے پوچھنا چاہتی ہیں کہ ہمارا اس طرح پردہ اتارنا اسلام کے خلاف تو نہیں ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل جواب رقم فرمایا:۔
>آپ کا خط ملا۔ قرآن کریم میں جو پردہ کی آیت ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پردہ حالات کے مطابق بدل سکتا ہے۔ پس جہاں تک مرہم پٹی اور خدمت کا سوال )ہے۔ ناقل( یہ جائز ہے اور اس سے دریغ کرنا درست نہیں۔ مگر جہاں تک پردہ کا لحاظ رکھا جاسکتا ہے وہ کیوں نہ کیا جائے؟
کیا ہمارا فرض یہی ہونا چاہئے کہ ہر حکم شریعت کا توڑیں! مسیحی ننوں نے اٹھارہ سو سال سے اسلامی ضروری پردہ پر عمل کیا ہے۔ سر اور گردن ڈھانکتی ہیں۔ لاتوں کا لباس مناسب رکھتی ہیں۔ چھاتی طرح طرح ڈھانکنی ہے )نقل مطابق اصل( کیوں پاکستان میں یہ احتیاط نہ ہو اور خدمت قوم کے بہانہ سے لڑکیاں ڈاکٹروں سے کھیلتی ہنستی پھریں۔ اگر وہ اس سے بچیں اور حکومت میں ان کی مدد کرے جو اب نہیں کررہی تو ہر مسلمان عورت کو خدمت قوم کے لئے نکل کھڑا ہونا چاہئے<۔
۴۔ لائل پور کے کسی صاحب نے لکھا:۔
>میں نے اپنی خالہ کی لڑکی کے ساتھ دودھ پیا تھا کیونکہ میری والدہ فوت ہوگئی تھی۔ میری خالہ کی تین لڑکیاں ہیں کیا ان میں سے کسی کی شادی میرے ساتھ ہوسکتی ہے دیوبندی مولوی سے دریافت کیا گیا تھا اس نے کتاب کنز الرقائق کی رو سے جائز قرار دیا ہے<۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس سوال کا مندرجہ ذیل جواب لکھوایا:۔
>آپ کی خالہ زاد بہنیں تمام کی تمام آپ کی حقیقی بہنیں ہی ہوں گی۔ آپ کا ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ یہ ان مولوی صاحب نے غلط کہا ہے ذرا ان سے کہئے کہ وہ ہمیں اس کتاب کا نام اور حوالہ لکھیں۔ ہاں ان لڑکیوں کا رشتہ آپ کے بھائیوں سے ہوسکتا ہے۔ مگر آپ سے نہیں کیونکہ لڑکیوں نے اس صورت میں آپ کی والدہ کا دودھ بھی پیا ہوگا۔ اس لئے یہ بالکل غلط ہے<۔
۵۔ چوہدری سردار خان صاحب نے مری روڈ راولپنڈی سے ۱۸۔ اگست ۱۹۵۱ء کو بذریعہ مکتوب دو سوال عرض کئے:۔
۱۔ کیا موجودہ صورت میں اگر جنگ ہو خواہ ہندوستان پر پاکستان یا پاکستان ہندوستان پر حملہ کرے تو کیا جماعت احمدیہ کے لئے یہ جہاد ہوگا؟ اگر جہاد ہوگا اور اس جنگ میں مرنے والے احمدی شہید کہلائیں گے تو دوسرے مسلمان )غیر احمدی( شہید کہلائیں گے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں۔
حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے اس کے جواب میں لفافہ پر ہی رقم فرمایا:۔
>رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے من قتل دون عرطعہ ومالہ فھو شھید۔ دوسرے رسول کریم~صل۱~ نے ایک شریک جہاد کے بارہ میں فرمایا کہ وہ دوزخ ہے۔ سو جہاد کے بھی مدارج ہیں اور جہاد کا ثواب معتقدات کے مطابق ملتا ہے<۔
۶۔ مولوی علی محمد صاحب مسلم منٹگمری )ساہیوال( کے ایک سوال کے جواب میں اپنے قلم سے رقم فرمایا:۔
>ظہر کے بعد چار درست ہے لیکن مغرب کے بعد سنت دو ہی ہیں۔ اس کے بعد نفل جتنے چاہیں پڑھے۔
)۶۔ تبوک ۱۳۳۰ہش مطابق ۶۔ ستمبر ۱۹۵۱ء(
۷۔ شیر محمد صاحب قریشی نے نیروبی سے مورخہ ۱۵۔ ستمبر ۱۹۵۱ء/ تبوک ۱۳۳۰ہش کو بذریعہ خط استفسار کیا کہ رخصتانہ کے موقع پر چائے پیش کرنا شریعت اسلامی یا احکام سلسلہ کے خلاف ہے یا مطابق؟
حضور نے اپنے قلم مبارک سے یہ جواب تحریر فرمایا کہ:۔
>یہ درست ہے کہ ہم نے اس چائے کی رسم کی ممانعت کردی ہے سنت سے ثابت نہیں اور غریبوں پر برا اثر پڑتا ہے<۔
باب چہارم )فصل سوم(
تحریک جدید کی طرف سے سیلون مشن کا قیام اور اس کی عظیم الشان اسلامی خدمات
۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء کا نہایت اہم واقعہ تحریک جدید کی طرف سے سیلون مشن کا قیام ہے۔
سیدنا حضرت مہدی معہودؑ کی تحریرات مالدیپ اور سیلون میں
سیدنا حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے عہد مبارک میں حضورؑ کی تحریرات یورپ` امریکہ اور افریقہ کی طرح جنوبی ہند سے آگے مالدیپ اور سیلون )سری لنکا( کے جزائر تک بھی پہنچ چکی تھیں۔ چنانچہ اس دور کی قدیم دستاویزات سے ثابت ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی ایک تصنیف سے متاثر ہوکر محل ویپ کے ایک بزرگ >اخ السلطان حاج محمد عماد الدین تو تو منفرط< صاحب حضور~ع۱~ کی زندگی میں ہی حضور کے دعویٰ پر ایمان لے آئے اور اپنا بیعت کا خط۲۰ )جو دو صفحات پر مشتمل تھا( حضورؑ کی خدمت اقدس میں قادیان بھیجا۔ بعض روایات سے مزید پتہ چلتا ہے کہ محل دیپ کی طرح سیلون میں بھی ۱۹۰۷ء کے دوران حضرت مسیح پاک علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریرات کی برکت سے ایک سیلونی عالم دین کو حضورؑ سے عقیدت پیدا ہوگئی جو بعد میں بیعت کرکے داخل احمدیت بھی ہوگئے۔۲۱ تاہم سیلون کے پبلک حلقوں تک احمدیت کی پہلی موثر اور منظم آواز خلافت ثانیہ کے اوائل میں بلند ہوئی جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممتاز صحابی حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اےؓ قادیان سے ماریشس جاتے ہوئے ۴۔ مارچ ۱۹۱۵ء کو سیلون )سری لنکا( کے مرکزی شہر کولمبو (COLOMBO) پہنچے اور تین ماہ تک وہاں قیام کرکے مہدی معہودؑ کے ظہور کی پرجوش منادی کرتے رہے۔
حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کی تبلیغی مساعی
حضرت صوفی صاحبؓ نے سیلون میں تبلیغ احمدیت کا آغاز ینگ مسلم لٹریری ایسوسی ایشن کولمبو کے زیر اہتمام ایک لیکچر سے کیا جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کی پیشگوئیوں اور نشانات پر جو اپنی آنکھوں سے آپ نے مشاہدہ کئے مفصل روشنی ڈالی۔ ۲۵۔ اپریل ۱۹۱۵ء کو آپ کا سیلو آئی لینڈ میں کامیاب انگریزی لیکچر ہوا جس کی ترجمانی کے فرائض مسٹر ٹی۔ کے۔ لائی نے انجام دیئے۔ یہ لیکچر بہت مقبول ہوا۔ جلسہ کے اختتام پر اکثر حاضرین نے نہایت ارادت مندی کے ساتھ آپ سے مصافحہ کیا اور ہاتھ چومے۔ جلسہ کے پریذیڈنٹ ایک بیرسٹر تھے جنہوں نے صوفی صاحب کو بتایا کہ میں دل سے احمدی ہوں۔ نیز ان کے بھائی قریش اور مسٹر ٹی۔ کے۔ لائی اور بعض اور سعید روحیں باقاعدہ بیعت کرکے حلقہ بگوش احمدیت ہوگئیں اور اس طرح چند ماہ کے اندر اندر سیلون کی ایک مخلص احمدیہ جماعت معرض وجود میں آگئی جو تیس کے قریب معمر` سمجھدار اور تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی۔۲۲
حضرت صوفی صاحبؓ نے کولمبو میں انجمن احمدیہ تشکیل کی اور مسٹر ٹی۔ کے۔ لائی LYE)۔K۔(T کو اس کا سیکرٹری مقرر۲۳ کرکے ماہوار چندہ کا انتظام کیا۔
یکم مئی کو آپ کانڈی (KANDY) بھی تشریف لے گئے اور گرینڈ ہوٹل کانڈی میں مقیم ہوئے۔ شام کو آپ کے پاس عبدالجواد شمس الدین اور غوث نامی تین مسلمان بغرض ملاقات آئے۔ ۲۔ مئی کی رات کو غوث محمد کی دعوت پر آپ مولود کی ایک مجلس میں پہنچے یہاں آپ نے اس رسم کے خلاف انگریزی میں فی البدیہہ تقریر کی اور عبدالجواد نے اس کا ترجمہ کیا۔ اس تقریر کا پورے شہر میں بہت چرچا ہوا۔ بعض نے آپ کو وہابی مشہور کردیا اور بعض آپ کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کی خدمت میں تلاش حق کے لئے آنے لگے۔
۹۔ مئی کو آپ نے کانڈی مسلم ینگ مین ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک جلسہ کو خطاب کیا جس میں کھلے اور واضح لفظوں میں جماعت احمدیہ کے مخصوص علم کلام خصوصاً وفات مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ کے دلائل پر بڑی شرح و بسط سے روشنی ڈالی اور کانڈی کے باشندوں پر حجت تمام کردی۔
‏ the under says, ۔95 13, May for Independent Cerlon The ۔Association": Men's Young Muslim "Kandy ۔heading
‏ was `Islam' on leature inspiring and interesting very <A Hafiz Moulvi by Hall Assocation above the at delivered ۔lecture the dintroduce and president Amt ۔D۔N ۔Mr ۔A۔B Mohammad Ghulam in `Islam' of purity the on dwelt leetnrer learned The of traditions authenticated and Quran Holy the with accordance and out pointed also He ۔Prophet Holy the of rejection the recommended which ideas superstitious the since in crept have Islam of propagation The ۔purity its in ably was lectare interpreted Tamil into ۔Mr Rehman,by ۔T۔S Mudailyar acting۔ex ۔Kandy of District the of ۔A۔M۔A ۔Mr conclusion the At ,noitaiAssoc the of member a Azeez, lecturere, the to thanks of vote a proposed Secretary) (Hony, Yoosuf۔M۔I ۔Mr by seconded was this and the Mantara ۔H۔C ۔Mr and interpreter the thanked also hiswho for Island, Slave Club, Sport Orient the of Secretary Hony, the towards rendered assistance and presence kind audience the thanked Assan۔M۔S ۔Mr ۔function the of success meeting The ۔occnsion the on presence their for Tamil >in۔chairs the to thanks o vote a with terminated
‏ in men thirty that ecnuoann to glad are We Promised the as Ahmad accepted have Ceylon themselves organised have and Mahdi and Messsiah congratulate We ۔Association Ahmadiyya an into this on ۔A۔B Muhammad Ghulam Maulawi Hafiz brother our mercy, infinite His of out God, the pray earnestly and success and Ceylon of island histori the in him by sown seed the prosper may He ۔tree big a into grow to it cause small the where Maaritius, for May 27th the on Sailed impatiently is brothern Ahmadi our of community۔speed۔doG brother our wish We ۔him awaiting
اخبار >سیلون انڈی پینڈنٹ< نے ۱۳۔ مئی ۱۹۱۵ء کے پرچہ میں اس کامیاب لیکچر کی بایں الفاظ خبر شائع کی:۔
>ایک بہت دلچسپ اور پرمعلومات لیکچر اسلام کے متعلق مولوی غلام محمد بی۔ اے نے کانڈی مسلم ینگ مین ایسوسی ایشن کے ہال میں دیا۔ مسٹر این۔ ڈی۔ ایمٹ صدر جلسہ تھے انہوں نے لیکچرار کا حاضرین سے تعارف کرایا اور فاضل لیکچرار نے اسلام کی پاکیزگی کو قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ~ کے حوالجات سے ثابت کیا اور بتایا کہ وہ تمام باطل خیالات جو مسلمانوں کے اندر باہر سے آگئے ہیں نکال دئے جائیں اور اسلام کو اصل پاکیزگی کے ساتھ اختیار کیا جائے۔ اس لیکچر کو نہایت قابلیت کے ساتھ مسٹر ایس۔ ٹی۔ سابق مدایر ضلع کانڈی ن تامل زبان میں ترجمہ کرک حاضرین کو سنا دیا۔ خاتمہ لیکچر پر مسٹر اے۔ ایم۔ اے عزیز ممبر ایسوسی ایشن نے لیکچر کے لئے شکریہ کا ووٹ تجویز کیا اور آئی۔ ایم۔ یوسف آنریری سیکرٹری نے تائید کرتے ہوئے مترجم کا بھی شکریہ ادا کیا نیز مسٹر سی۔ ایچ منٹارا MANTARA)۔H۔(C )احمدی( آنریری سیکرٹری اورینٹ پشلورس کلب سیلو آئی لینڈ کا ان کی تشریف آوری اور امداد کے لئے شکریہ ادا کیا گیا۔ مسٹر ایس۔ ایم۔ احسان نے حاضرین کی تشریف آوری کا تامل میں شکریہ ادا کیا۔ صاحب صدر جلسہ کے لئے شکریہ کا ووٹ پاس کرنے کے بعد جلسہ بخیر و خوبی برخاست ہوا<۔ ترجمہ )بحوالہ الفضل ۲۳۔ مئی ۱۹۱۵ء صفحہ ۸(
اس لیکچر کی اگرچہ ملائوں نے مخالفت کی اور ہر طرف ایک شور بپا کردیا مگر حق کے طالب حضرت مہدی موعودؑ کے دعویٰ اور حالات کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے ہوٹل میں آپ کے پاس آتے رہے اور آپ انہیں دس دن تک پورے زور شور سے پیغام حق پہنچانے کے بعد واپس کولمبو اور سیلون میں احمدیت کا بیج بونے کے بعد اگلے ماہ ماریشس روانہ ہوگئے۔
مشکلات کے باوجود جماعت احمدیہ سیلون کی مخلصانہ خدمات
حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کے بعد ۱۹۱۵ء میں ہی جماعت احمدیہ سیلون مشکلات میں گھر گئی۔ سیلون کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ اس ملک میں احمدی مبلغین کو داخلہ کی اجازت نہ دی جائے گی۔۲۴ ان حالات کے باوجودہ سیلون کے مخلص احمدیوں نے اشاعت احمدیت کا کام نہایت سرگرمی سے جاری رکھا اور ہر سال باقاعدگی سے سالانہ جلسوں کا انعقاد کرتے رہے۔۲۵ علاوہ ازیں تبلیغی ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ نیز ۱۹۱۷ء سے MASSAGE> <THE )تامل نام تمودن( کے نام سے ہفتہ وار اخبار بھی جاری کیا جو ۱۹۴۳ء تک چھپتا رہا۲۶ جس سے احمدیت کا پیغام جزیرہ کے علمی طبقوں تک پہنچا۔ اس ابتدائی دور میں سیلونی احمدیوں کو کئی تکالیف پہنچیں۔ بعض پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے بعض کو احمدیت کی پاداش میں زدوکوب کیا گیا۔۲۷ مگر یہ مصائب کے طوفان سیلونی احمدیوں کے ایمان و اخلاص کو متزلزل کرنے کی بجائے مستحکم کرنے کا موجب بنے جس پر خود حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۱۹ء پر ان کی خاص تعریف فرمائی۔ ایک اور موقع پر مجلس شوریٰ کے اجلاس میں فرمایا >سیلون کی جماعت میں سے بعض میں کمزوری ہو لیکن ان میں بڑے بڑے مخلص بھی ہیں<۔۲۸ ۱۹۲۰ء کے آخر میں جماعت احمدیہ سیلون نے ایک نہایت ہی عمدہ موقع کا مکان مسجد اور پریس کے لئے دو ہزار روپیہ میں خریدا۔۲۹ ستمبر ۱۹۲۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک ممتاز صحابی حضرت سردار عبدالرحمن صاحب بی۔ اےؓ سیلون میں چند روز کے لئے تشریف لے گئے۔ جماعت احمدیہ سیلون نے ٹائون ہال میں آپ کا پبلک لیکچر دلایا۔ سامعین سب کے سب تعلیم یافتہ تھے۔ اس سے قبل کسی مسلمان کا پبلک لیکچر اس ہال میں نہیں ہوا تھا۔ اس لیکچر کے علاوہ آپ قریباً روزانہ ہی انگریزی میں لیکچر دیتے رہے جس کا ترجمہ تامل میں سنایا جاتا رہا۔۳۰
جولائی ۱۹۲۳ء میں حکومت نے سیلون میں احمدی مبلغین کے داخلہ پر ۱۹۱۵ء سے عائد شدہ پابندی محدود رنگ میں بعض شرائط کے ساتھ واپس لے لی۔ یہ پابندی سر ہیوک الفورڈ سابق گورنر نائیجیریا کی آمد پر دور ہوئی جو لائیجیریا میں جماعت احمدیہ سے خوب واقف تھے۔۳۱
اس سلسلہ میں سیلون گورنمنٹ کے نائب کالونیل سیکرٹری ایچ۔ آر۔ بلٹ نے ۲۶۔ جولائی ۱۹۳۰ء کو آنریری سیکرٹری احمدیہ ایسوسی ایشن سیلون ۳۰۔ شارٹس روڈ کولمبو کو جو خط بھیجا اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:۔
جناب من! آپ کے خط مرسلہ ۹۔ جولائی ۹۲۳ء بنام کالونٹیل (COLONIAL) سیکرٹری کے بارے میں جو مسلمان احمدی مبلغین کی پابندیوں کے متعلق تھا` مجھے آپ کو اس بات پر مطلع کرنے کی ہدایت ہوئی ہے کہ ہز ایکسی لینسی گورنر بہادر نے بخوشی حکم صادر فرمایا ہے کہ احمدی مبلغین کے سیلون میں داخل ہونے کے متعلق جو ممانعت تھی اس کو دور کیا جائے اور یہ کہ وہ حسب ذیل پابندیوں کے ساتھ سیلون میں داخل ہوسکتے ہیں:۔
۱۔
تمام جلسے جن میں کہ یہ مبلغین اپنے ایڈریس اور لیکچر دیں سیلون کی احمدیہ جماعت کے ہیڈکوارٹر میں ہونے چاہئیں جو کہ سیلو آئی لینڈ کے شہر کولمبو میں واقع ہے۔
۲۔
کوئی وعظ یا گلیوں میں جلسہ کرنے کی ان مبلغین کو اجازت نہ ہوگی۔
۳۔
اور ایسے تمام مشنری جزیرہ میں وارد ہونے کے بعد چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر بذات خود حاضر ہوکر کالونئیل سیکرٹری کے دفتر میں اپنے آنے کی رپورٹ دیں۔
مشنریوں کو یہ شرائط منظور کرنا ہوں گی اور ایک تحریر کالونئیل سیکرٹری کو دینی ہوگی کہ اگر وہ لوگ ان شرائط کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کو اس جرم میں جزیرہ سے فوراً نکل جانا ہوگا۔ بشرطیکہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا۔ میں ہوں آپ کا خادم۔ ایچ۔ آر۔ بلڈ نائب کالونئیل سیکرٹری۔۳۲
اس جزوی آزادی کے بعد سیلون کے احمدیوں کی تبلیغی جدوجہد میں نمایاں اضافہ ہوا اور مرکز کی طرف سے مولوی اے۔ پی ابراہیم صاحب سیلون مشن کے انچارج مقرر کئے گئے۔۳۳
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی تشریف آوری اور جزیرہ میں احمدیت کا زبردست چرچا
۱۰۔ اکتوبر ۱۹۲۷ء کو حضرت مہدی موعودؑ کے محب صادق مدیر بدر اور احمدیہ مسلم مشن امریکہ کے بانی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ
سیلون میں تشریف لائے۳۴ اور ۶۔ نومبر ۱۹۲۷ء تک یہاں قیام فرما رہے۔۳۵ حضرت مفتی صاحبؓ کی آمد نے حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کے زمانہ کی یاد تازہ کردی اور جزیرہ بھر میں احمدیت کی گویا دھوم مچ گئی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے کولمبو کی مختلف سوسائٹیوں میں اسلام اور احمدیت سے متعلق متعدد کامیاب لیکچر دیئے آپ نے ایک لیکچر >اسلام اور عیسائیت< کے موضوع پر دیا اور مسلمانوں نے تسلیم کیا کہ اسلام کی تائید میں انہوں نے کبھی ایسی زبردست تقریر نہیں سنی۔ ایک لیکچر بدھسٹ انجمن کے ہال میں ہوا جس کا تمام انتظام بدھ لوگوں نے کیا۔ جلسہ میں غیر معمولی حاضری تھی۔ مفتی صاحبؓ نے بدھوں کے کالج کا بھی معائنہ کیا۔ نیز کولمبو میں بدھوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا سے بھی ملاقات کی اور انہیں خبر دی کہ اس زمانہ کا بدھ قادیان میں آچکا ہے بدھ لیڈر نے کہا کہ بدھ آسمان سے آئے گا اور ہم اس کو آسمان سے نازل ہوتے خود دیکھیں گے۔ آپ کا ایک عیسائی مناظر ڈی سلوا کے ساتھ الوہیت مسیح اور دعوٰی مسیح موعودؑ کی صداقت پر دوبارہ مناظر بھی ہوا جس میں پادری صاحب لاجواب ہوگئے۔ ان لیکچروں اور آپ کی نجی ملاقاتوں کے نتیجہ میں کئی غیر احمدی معززین احمدیت کے بہت قریب آگئے بلکہ بعض علماء نے یہاں تک مشہور کردیا کہ مفتی صاحبؓ فی الواقع ولی اللہ ہیں جو محض اتفاق سے احمدیوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر دراصل وہ احمدی نہیں ہیں۔ ابتدائی چند لیکچروں کے سوا اکثر لیکچروں کا انتظام غیر احمدی معززین نے اپنے خرچ پر کیا اور نہایت خوشی کے ساتھ اپنی گرہ سے ہال کا کرایہ اور اشتہار وغیرہ کے اخراجات ادا کئے۔
حضرت مفتی صاحبؓ نے عیسائیوں کے ویزلی کالج کی لٹریری سوسائٹی میں بھی ایک لیکچر دیا۔ یہ لیکچر امریکہ کے عام حالات پر تھا اور صدر جلسہ خود پرنسپل تھے جو لندن کے پادری تھے۔ حضرت مفتی صاحبؓ سیلونی بدھوں کے مرکزی شہر کانڈی میں بھی تشریف لے گئے جہاں آپ کے دو لیکچر ہوئے۔ ایک کا عنوان تھا >پیغام اسلام< یہ لیکچر ٹائون ہال میں ایک معزز وکیل جارج ڈی سلوا صاحب نے صدارت کی۔ ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا آخر میں معززین شہر نے کہا کہ ہمیں یہ خوشی ہے کہ اسلام اس قدر خوبیوں سے پر ہے جیسا کہ مفتی صاحبؓ نے بیان کیا ہے۔ دوسرا لیکچر اسی شہر کے بدھسٹ ہال میں ہوا۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے اپنے لیکچر میں دور جدید کے بدھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھی پیش کیا۔ یہ لیکچر بھی بہت مقبول ہوا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اپنے لیکچروں میں صداقت اسلام کے علاوہ تحریک احمدیت کے مخصوص مسائل پر بھی روشنی ڈالی اور اپنے عقائد کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔ چنانچہ یہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپ کے ایک لیکچر کے دوران جس کے صدر مسٹر برہان ایک وکیل تھے کسی اہلحدیث دوست نے دعویٰ کیا کہ قرآن شریف میں بہت سی آیات ہیں جن میں لکھا ہے کہ حضرت عیٰسیؑ زندہ آسمان پر ہیں۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے فرمایا مولوی صاحب تو کہتے ہیں بہت سی آیات ہیں اگر وہ ایک بھی ایسی آیت دکھا دیں جس میں لکھا ہو کہ عیسی حیی فی السماء تو میں اسی مجلس میں مولوی صاحب کو مبلغ تین سو روپے انعام دوں گا۔ اس پر لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں اور سب مولوی صاحب کی طرف دیکھنے لگے کہ اب وہ تین سو روپے انعام لینے ہی والے ہیں مگر مولوی صاحب دم بخود ہوکر بیٹھ گئے۔ اس پر ایک اور صاحب نے اٹھ کر کہا کہ اگر حضرت عیٰسیؑ آسمان پر نہیں تو ان کی قبر دکھائو۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے فی البدیہہ جواب دیا کہ آپ کے دادا کا دادا زندہ ہے یا مر گیا ہے؟ اگر مر گیا ہے تو اس کی قبر دکھائو ورنہ کہا جائے گا کہ وہ بھی آسمان پر ہے۔ اس جواب پر دوسرے صاحب نے بھی چپ سادھ لی۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے لیکچروں کا سیلون پریس میں بہت چرچا ہوا بطور نمونہ دو انگریزی اخبارات کے دو نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔
اخبار >سیلون ڈیلی نیز< )۲۵۔ اکتوبر ۱۹۲۷ء( نے لکھا کہ:۔
ولزلے کالج لٹریری ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ڈاکٹر ایم۔ ایم۔ صادق نے کل طلباء کے سامنے زیر صدارت پرنسپل کالج ہذا ریورنڈ ہیچنسن اپنے وہ تجربات بیان فرمائے جو آپ کو قیام یورپ و امریکہ کے زمانہ میں حاصل ہوئے تھے۔ دوران تقریر آپ نے کئی ایک دلچسپ واقعات بیان کئے اور غیر ممالک میں زندگی بسر کرنے کے متعلق طلباء کو وہاں کے اخلاق اور طرز معاشرت کے بارے میں مفید معلومات بہم پہنچائیں۔ )ترجمہ(
اخبار >سیلون انڈی پینڈنٹ< نے ۲۵۔ اکتوبر ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں ایک نامہ نگار کے حوالہ سے لکھا:۔
ینگ مسلم لیگ )جو کہ روشن دماغ اور آزاد خیال افراد پر مشتمل ہے( کے اجلاس میں دو معزز اشخاص ڈاکٹر صادق اور مسٹر حمید کو نیومور سٹریٹ کے سکول میں حفظان صحت کے متعلق حضرت رسول کریم~صل۱~ کے ارشادات بیان کرنے کا موقع دیا گیا۔
نامہ نگار نے مزید لکھا کہ میں بخوشی اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کے ممبروں نے اخوت اور رواداری کا نمونہ دکھایا ہے۔ گزشتہ سال جب خواجہ کمال الدین صاحب سیلون میں لیکچروں کے متعلق خط وکتابت کررہے تھے تو اس کے خلاف ایک عام مخالفت کی لہر پیدا ہوگئی تھی اور وہ اس جزیرہ میں نہیں آسکے تھے۔ اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں اور قوی بیداری کے ساتھ رواداری کی روح بھی پیدا ہورہی ہے۔ غیر مسلم اصحاب نے فاضل ڈاکٹر کے ساتھ مختلف مسائل پر لیکچر اور ملاقاتوں کا انتظام کیا۔ ڈاکٹر صاحب یہاں قلیل عرصہ ہی ٹھہریں گے اس لئے عام مسلمانوں کو چاہئے کہ تعدد ازواج` غلامی` اکراہ فی الدین اور جہاد کے متعلق لیکچر دلوانے کا انتظام کرکے صحیح مذہب اسلام کی تبلیغ کا موقع بہم پہنچائیں<۔۳۶
‏tav.12.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ مالاباری کی پرجوش تبلیغی جدوجہد
صدر انجمن احمدیہ قادیان کی سالانہ رپورٹ )یکم مئی۔ ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۳ء( سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۲ء تک جزیرہ سیلون میں کولمبو۔ نیگمبو (NEGOMBO) گیمپولا اور الکام میں احمدیہ جماعتیں قائم ہوچکی تھیں اور سیلونی احمدیوں کی تعداد اسی تک پہنچ چکی تھی۔ اس جزیرہ کی تبلیغی مہم ان دنوں مرکز کی طرف سے حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ مالاباری چلا رہے تھے جو عربی` ملیالم اور انگریزی کے عالم و فاضل اور بڑے بلند پایہ مقرر تھے اور سیلون اور مالا باری میں باری باری سے اعلائے کلمتہ الحق میں مصروف عمل رہتے تھے اور اشاعت اسلام و احمدیت کا کوئی تقریری اور تحریری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء تک سیلون میں بڑے موثر رنگ میں اشاعت احمدیت کے جہاد میں دیوانہ وار منہمک رہے۔ حضرت مولوی صاحب نے اس جزیرہ میں کسی جانفروشی اور خلوت سے اشاعت احمدیت کا فریضہ ادا کیا ہے؟ اس کا اندازہ صدر انجمن احمدیہ قادیان کی قبل از تقسیم مطبوعہ رپورٹوں سے بخوبی لگ سکتا ہے۔ بطور نمونہ حضرت مولوی صاحبؓ کے قلم سے دارالتبلیغ سیلون کی صرف ایک رپورٹ )بابت ۱۹۳۷۔۹۳۸ء( ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں:۔
>دو سال زیر رپورٹ )۳۷/۱۵ تا ۳۸/۳۰۴( میں ساڑھے تین ماہ خاکسار سیلون میں مقیم رہا۔ مقررہ اندازہ کے لحاظ سے ۴ ماہ سیلون میں ٹھہرنا تھا لیکن کالی کٹ میں مصری فتنہ کے زیر اثر بعض افراد کے ہلاکت میں پڑنے اور جماعت کا اس سے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوجانے کی وجہ سے مقررہ میعاد کے گزرنے سے دو ہفتہ پہلے مجھے سیلون سے مالا بار کو واپس جانا پڑا۔ سیلون میں چار مقامات پر جماعتیں موجود ہیں جن میں مرکزی جماعت کولمبو کی ہے۔ جس طرح شہر کولمبو جزیرہ سیلون کا صدر مقام ہے کولمبو کی جماعت بھی دیگر جماعتوں سے بڑی اور اہم ہے اس لئے خاکسار کا قیام زیادہ تر اسی جماعت میں رہا ہے۔ اس کے علاوہ پانا دورا (PANADURA) نیگومبو۔ گیمپولا کی جماعتوں میں بھی کئی دفعہ دورہ کرتا رہا۔ پھر مٹروٹا (MATURATA) اور پوسلاوا]15 [p (PASSULAWA) دو مقامات کے بھی دور کئے گئے۔ سیلون میں بھی انفرادی گفتگو` تحریر اور تقریر کے ذریعہ تبلیغ کے فرائض اور خطبات و نصائح اور درس و تدریس کے ذریعہ جماعتوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ قریباً ڈیڑھ صد افراد کو پرائیویٹ گفتگو کے ذریعہ تبلیغ حق پہنچائی گئی اور اسلام اور احمدیت کے متعلق ۱۷ علمی لیکچر دیئے گئے جن میں اسلام کی برتری` احمدیت کی صداقت اور غیر اسلامی عقائد کی تردید بیان کی گئی۔ ان میں سے زیادہ لیکچر راوتر کمپنی کے صحن میں دیئے گئے تھے اور کچھ لیکچر یہاں کی سنٹرل جیل میں دیئے گئے جہاں ہر ایتوار کو جاکر قیدیوں میں لیکچر دینے کے لئے جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل سے اجازت حاصل کی گئی تھی اور دو لیکچر میدانوں میں اور ایک لیکچر ہندوئوں کے ایک مشہور ہال میں دیا گیا تھا۔ جماعت کا ہفتہ واری اخبار مالی مشکلات کے سبب بند ہوجانے کی وجہ سے اشاعت تحریر کے ذریعہ تبلیغ کرنا مشکل ہوگیا تھا اس لئے عرصہ زیر رپورٹ میں ٹریکٹوں کی اشاعت سے یہ کام لیا گیا۔ چنانچہ خاکسار نے اس عرصہ میں چار ٹریکٹ لکھے۔ ایک چار صفحات کا اور تین چار صفحات کے اور جماعت کے خرچ پر یہ ٹریکٹ ہزاروں کی تعداد میں طبع کراکر لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔
اس کے علاوہ خطبات` انفرادی نصائح اور درس و تدریس کے ذریعہ سے جماعتوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کیا گیا۔ ہر ہفتہ انصار اللہ کی میٹنگ میں حاضر ہوکر ان کو ضروری ہدایات دیتا اور علمی باتیں بتاتا رہا۔ بعض دوستوں کو قرآن کریم کا درس سناتا رہا۔ خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ کرنے کے علاوہ دیگر مقامات کی جماعتوں کی تربیت اور اصلاح کے لئے بھی سیلون سے مالابار اور ساتان کولم وغیرہ مقامات میں کئی خطوط بھیجے گئے ۔۔۔۔۔ الغرض اس عرصہ میں سیلون کی مختلف جماعتوں میں ٹھہر کر پرائیویٹ گفتگو` تقریر اور تحریر کے ذریعہ تبلیغ حق پہنچانے اور نصائح درس و تدریس سے جماعتوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ خاکسار عبداللہ مالا باری از کولمبو<۔۳۷
>اسلامیہ سورین< کا اجراء
اخبار تھوون چونکہ عرصہ سے بند ہوچکا تھا اس لئے احباب جماعت کو روحانی غذا بہم پہنچانے کے لئے جماعت سیلون کے مخلص دوست اور عبدالمجید صاحب نے اسلامیہ سوریہ نامی رسالہ جاری فرمایا۔ چونکہ عبدالمجید صاحب ۱۹۱۵ء سے ہی جماعت کے اخبار تھوون سے وابستہ چلے آرہے تھے اس لئے ان کی ادارت میں اس رسالہ نے جماعت کو تبلیغی و علمی میدان میں آگے بڑھانے میں بہت مدد دی۔ پھر بعض احباب کی مالی مدد سے انہوں نے اسلامیہ سورین پریس بھی قائم کرلیا جس سے جماعت کے لٹریچر کی طباعت میں مزید آسانی پیدا ہوگئی۔ کچھ عرصہ مفید کام کرنے کے بعد جب تھوون دوبارہ جاری ہوا تو یہ رسالہ بھی تھوون میں مدغم ہوگیا۔
تحریک جدید کے سیلون مشن کا قیام
۶۔ ظہور ۱۳۳۰ہش/ اگست ۱۹۵۱ء کو جماعت احمدیہ سیلون کی تاریخ کا ایک نیا اور انقلاب انگیز دور شروع ہوا جبکہ سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کے حکم سے مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر )مع اہلیہ( اس جزیرہ میں پہنچے اور تحریک جدید کے زیر انتظام مستقل مشن کی بنیاد رکھی۔ مولوی صاحب قریباً پونے سات برس تک سیلون کے طول و عرض میں نہایت جوش` اخلاص اور مستعدی سے اشاعت احمدیت میں سرگرم عمل رہے اور بالاخر جنوبی اور وسطی ہند کا طویل سفر کرتے ہوئے ۸۔ شہادت ۱۳۳۷ہش/ اپریل ۹۵۸ء کو ربوہ میں تشریف لائے۔ آپ اگرچہ مقامی زبان سے واقف نہ تھے۔10] [p۳۸ ماحول سراسر اجنبی تھا۔ ویزا صرف تین ماہ کا ملا تھا اور ایک ایسے نازک موقع پر مرکز کی طرف سے بھجوائے گئے تھے جبکہ جماعت سیلون اندرونی اور خارجی مشکلات سے دوچار تھی مگر خدا کے فضل اور حضرت مصلح موعودؓ کی دعائوں کی برکت سے انتہائی بے سروسامانی کے باوجود آپ کے دور میں اشاعت حق کے نئے سے نئے رستے کھلے اور آپ کی کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈالی گئی۔ جماعت احمدیہ سیلون نے آپ کے زمانہ قیام میں جو نمایاں خدمات سرانجام دیں ان میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:۔
جماعتی تربیت و اصلاح کا نظام
جماعت سیلون کو ایک نظام سے منسلک کرنے کے لئے ہر سیلونی احمدی خاندان کے ہر فرد کے مختصر اور ضروری کوائف۳۹ کا ریکارڈ تیار کیا گیا۔ مجلس خدام الاحمدیہ` مجلس اطفال الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی مرکزی تنظیموں میں نئی حرکت پیدا ہوئی اور احمدیوں کی نوجوان نسل کی تربیت و اصلاح کے لئے مختلف تدابیر بروئے کار لائی گئیں۔ اور احمدی عورتوں نے بھی محترمہ مبارکہ نسرین صاحبہ )اہلیہ مولوی صاحب موصوف( کی رہنمائی میں تبلیغ و تربیت کے پروگرام میں اہم کردار ادا کیا۔
احمدیہ باغ
جماعت احمدیہ سیلون نے کولمبو میں اپنے مستقل مشن ہائوس اور مرکزی مسجد کی تعمیر کے لئے قریباً پندرہ ہزار روپے۴۰ جمع کئے جن میں سے پانچ ہزار روپے کی لاگت سے مسجد احمدیہ نیگمبو کے دائیں جانب ایک ایکڑ زمین خریدی گئی اور اس طرح جماعت کی وسعت کے پیش نظر ایک احمدیہ باغ کی صورت میں اس مسجد کی توسیع عمل میں آئی۔ یہ مسجد آپ کے زمانہ میں سیلون مشن کی واحد مسجد تھی۔
انجمن احمدیہ کے قدیم کمرہ کی مرمت
کولمبو میں انجمن احمدیہ کا ایک قدیم کمرہ تھا جماعت سیلون نے ایک بھاری رقم سے اس کی بھی مرمت کرائی اور اس میں لائبریری کا اجراء ہوا۔
مالی قربانیوں میں ترقی
اس عرصہ میں جماعت احمدیہ سیلون کے چندوں میں نمایاں ترقی ہوئی اور سیلون کے مخلص احمدی مردوں اور عورتوں نے وصیت` تحریک جدید` وقف جدید اور دوسری مرکزی تحریکوں میں شامل ہونے کے علاوہ مقامی اور ہنگامی چندوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالی قربانیوں میں بھی ایک عمدہ مثال قائم کی۔
لائبریریوں کا قیام
کولمبو اور نیگمبو میں احمدیہ لائبریریاں قائم کی گئیں۔ کولمبو کی فضل عمر لائبریری میں سات سو کے قریب جلدیں آپ کی واپسی کے وقت موجود تھیں اور ریویو آف ریلیجنز کے تقریباً مکمل فائل مہیا ہوچکے تھے۔ نیگمبو لائبریری کے لئے مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے اپنی ایک الماری اور بہت سی کتابیں بطور عطیہ دیں۔
>دی میسیج< کا احیاء
اس دور میں جماعت احمدیہ سیلون کا پہلا انگریزی اخبار >دی میسیج< MESSAGE) (THE جو ۱۳۲۲ہش/ ۱۹۴۳ء سے بند ہوچکا تھا دوبارہ پوری آب و تاب کے ساتھ ماہ ظہور ۱۳۳۴ہش/ اگست ۱۹۵۵ء سے نکلنا شروع ہوا۔ یہ انگریزی و تامل اخبار سیلون کے علاوہ جنوبی ہند` بورنیو` برما اور ملایا میں بھی بھیجا جاتا تھا۔ اور تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم حلقوں میں بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔ ماہ صلح ۱۳۳۶ہش/ جنوری ۱۹۵۷ء میں اس اخبار کے سنہلی ایڈیشن کا بھی اجراء کیا گیا۔ اس زبان میں یہ پہلا اسلامی اخبار تھا اور اس کی اشاعت پر سنہلی پریس نے قابل قدر تبصرے کئے۔ سنہلی ایڈیشن کے پہلے پرچہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی شبیہ مبارک کے ساتھ حضور کا حسب ذیل افتتاحی مضمون اشاعت پذیر ہوا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سنہالیز برادران! جماعت احدیہ کا سنہالی رسالہ نکل رہا ہے اور اس کے لئے تمہیدی نوٹ میں لکھ رہا ہوں۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سیلون کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ کیمرج ہسٹری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ سیلون کے بادشاہ نے حجاج کو جو امیہ خلافت کی طرف سے مشرقی صوبہ کا گورنر تھا ان مسلمانوںکے یتامی بھجوائے جو کہ سیلون کے بادشاہ کے علاوہ میں فوت ہوئے تھے۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک غیر مصدقہ روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سیلون کا بادشاہ خود بھی مسلمان ہوگیا تھا اور امیہ خلیفہ کو باج بھیجا کرتا تھا۔ ہندوستان پر محمد بن قاسم کے حملہ کی وجہ بھی یہی تھی کہ سیلون کے بادشاہ نے جو مسلمان یتامیٰ خلیفہ اسلام کو بھجوائے تھے ان پر سندھ کے ساحل کے قریب کچھ ہندو ڈاکوئوں نے حملہ کرکے انہیں گرفتار کرلیا تھا انہیں کے بچانے کے لئے محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہوئے تھے اور یہی بنیاد عالم اسلام اور ہندوستان میں جنگ کی تھی۔ پس قدیم سیلون سے مسلمانوں کا ایک ہزار سال سے )زائد۔ ناقل( کا تعلق ہے ہم اس تعلق کو زندہ کرنے کے لئے پھر اس ملک میں آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ بھی ہمارے مشن سے وہی سلوک کریں گے جو کہ آٹھویں صدی عیسوی کے سیلون بادشاہ نے مسلمانوں سے کیا تھا۔ خدا تعالیٰ آپ کے دلوں کو ۔۔۔۔۔ ہدایت کے لئے کھول دے اور جس طرح ہم قدیم زمانہ میں بھائی بھائی تھے اس زمانہ میں بھی ہم بھائی بھائی ہوجائیں اور اس خطرناک زمانہ میں اپنے ملک و ملت کی حفاظت کے لئے دوش بوش ایک دوسرے کی حفاظت کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں۔ اللھم آمین۔
خاکسار
)دستخط( مرزا محمود احمد
خلیفتہ المسیح الثانی ۵۶۔۱۲۔۶
مشرقی صوبہ میں ذیلی مشن کی بنیاد
پہلی بار سیلون کے مشرقی صوبہ میں جو مسلم اکثریت کی وجہ سے سیلون کا پاکستان کہلاتا ہے یکم اخاء ۱۳۳۴ہش/ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں جماعت احمدیہ کا ایک ذیلی مشن قائم کیا گیا جس کے انچارج مولوی محمد تمیم صاحب تھے۔ جماعت احمدیہ سیلون نے اس مشن کے لئے اپنی بلڈنگ خریدی۔
سنہلی زبان میں سلسلہ احمدیہ کا وسیع لٹریچر
۱۳۳۱ہش/ ۱۹۵۲ء میں سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ پر بذریعہ رئویا یہ انکشاف کیا گیا کہ >ہمارے سلسلہ کا لٹریچر سنہالیز زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہوگیا ہے اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے۔۴۱ حضور فرماتے ہیں:۔ میں خواب میں کہتا ہوں کہ سنگھالیز زبان تو ہے یہ سنہالیز کیوں لکھا ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ سنہالیز زبان کونسی ہے<۔۴۲
۱۳۳۱ہش/ ۱۹۵۲ء میں اگرچہ یہ زبان ملک میں بکثرت بولی جاتی تھی لیکن اسے کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی لیکن ۱۹۳۵ہش/ ۱۹۵۶ء میں حالات نے حیرت انگیز پلٹا کھایا اور نئی پارٹی >سری لنکا فریڈم پارٹی< PARTY) FREDOM (SRILANKA برسر اقتدار آئی جس نے دو ماہ کے اندر سنہلی زبان کو واحد سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ اس وقت جماعت احمدیہ سیلون کے لئے اس زبان میں کتابیں شائع کرنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا۔ نہ روپیہ تھا نہ مترجم اور نہ اس خواب کی عملی تعبیر کے لئے کوئی ذرائع موجود تھے لیکن جلد ہی پردہ غیب سے ایسے سامان پیدا ہوگئے کہ مترجم بھی میسر آگیا اور سنہلی لٹریچر کی اشاعت کے فنڈ بھی غیر احمدی دوستوں ہی نے فراہم کردیئے اور پھر سنہلی لٹریچر بڑی کثرت سے چھپا اور ملک بھر میں خدائی خبر کے مطابق مقبول بھی بہت ہوا جو صداقت احمدیت کا ایک چمکتا ہوا نشان ہے۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر اس ایمان افروز نشان کی تفصیل میں فرماتے ہیں:۔
>وہاں کے احمدیہ مشن کے پاس قطعاً ایسے وسائل موجود نہیں تھے کہ وہ اس زبان میں لٹریچر کی اشاعت کا انتظام کرسکتی دفعتاً خدائی تقدیر حرکت میں آئی اور نہایت غیر معمولی طور پر اس زبان میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت کا خودبخود انتظام ہوگیا اور وہ اس طرح کہ ابھی سنہلی کو سرکاری زبان کا درجہ ملے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک معزز شخص ڈاکٹر اے۔ سی۔ ایم۔ سلیمان صاحب SULAIMAN) ۔M۔C۔A ۔(DR جن کے نام سے بھی میں واقف نہ تھا موٹرکار میں احمدیہ مشن ہائوس تشریف لائے اور انہوں آتے ہی یہ سوال کیا کہ آپ لوگ سنہلی میں اسلامی لٹریچر کیوں شائع نہیں کرتے؟ میں نے مالی اور بعض دوسری مشکلات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا آپ مجھے کوئی کتاب دیں میں اس کا سنہلی زبان میں ترجمہ کرنے کا انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ میں نے انہیں آنحضرت~صل۱~ کی سیرت پر سلسلہ کی ایک کتاب دے دی جس کا نام MOHAMMAD۔P۔H OF TEACHINGS AND LIFE ہفتہ عشرہ کے بعد جب وہ دوبارہ آئے تو کتاب کا ترجمہ اور طبع شدہ پروف ساتھ لے کر آئے۔ چنانچہ چند یوم میں نظر ثانی کے بعد انہوں نے وہ کتاب پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوا دی۔ اس کے بعد انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکتہ الاراء تصنیف >اسلامی اصول کی فلاسفی< دی گئی۔ اسے بھی انہوں نے بعد ترجمہ نہایت قلیل مدت میں پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوانے کا انتظام کردیا۔ چونکہ اس وقت حکومت سنہلی کو خاص اہمیت دے رہی تھی اس لئے خود وزیراعظم نے اس زبان میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت میں خاص دلچسپی کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے ہماری درخواست پر اس کتاب کے ساتھ اشاعت کے لئے بخوشی اپنا ایک پیغام بھی بھجوا دیا چنانچہ وہ پیغام بھی کتاب کے ساتھ شائع ہوا۔ کتاب کی طباعت کے بعد اس کی اشاعت کے آغاز ایک خاص تقریب میں کیا گیا جس میں بعض وزراء اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شریک ہوئے<۔۴۳
چنانچہ ان وجود کی بناء پر کتاب کا ملک بھر میں بہت چرچا ہوا اور لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ الغرض نہایت بے سروسامانی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت نمائی کے ذریعہ حضور کے کشف کو پورا کرنے کے خود سامان فرمائے اور اس طرح یہ امر ہم سب کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب بنا<۔۴۴
>اسلامک لٹریچر سنٹر<
اسی دور میں جماعت احمدیہ سیلون کے ایک مستقل اشاعتی ادارہ >اسلامک لٹریچر سنٹر< کی بنیاد پڑی جس کا حساب و کتاب اور کلرک الگ تھا اور جس کی نگرانی مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مشن انچارج اور جماعت احمدیہ کے نہایت مخلص بزرگ ایم۔ ای۔ ایم۔ حسن صاحب جنرل احمدیہ پریذیڈنٹ آل سیلون و سیکرٹری مال کولمبو کرتے تھے۔ غیر احمدی دوست کثرت کے ساتھ اسی ادارہ کی کتابیں خریدتے تھے۔ سنٹر سے سیلون کے علاوہ پاکستان` ہندوستان` ملایا اور برما کو بھی کتابیں بھجوائی جاتی تھیں۔ مولوی صاحب نے جب واپسی پر نئے مبلغ قریشی عبدالرحمن صاحب شاہد سیلونی کو چارج دیا تو اس ادارہ کے سٹاک میں پچاس ہزار سے زائد کتابیں تھیں جن کی قیمت اس وقت تیس ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔ مختلف کتب فروشوں کے پاس سنٹر کی جو کتابیں برائے فروخت رکھی تھیں ان کی تعداد اس کے علاوہ تھی۔ اس سنٹر کی آمد کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ سیلون نے سکول کے مسلم طلباء کے لئے بعض مفید کتابیں شائع کیں۔ سنہلی ریڈرز )۱ تا ۴( کا مسودہ ابھی محکمہ تعلیم کے پاس بغرض منظوری پڑا تھا کہ مولوی صاحب کو سیلون سے روانہ ہونا پڑا۔ اس سنٹر کی نگرانی میں ریویو آف ریلیجنز انگریزی کی توسیع اشاعت کے لئے بھی جدوجہد کی جاتی تھی۔ نیز سلسلہ احمدیہ کا مرکزی لٹریچر اور غیر ملکی احمدی اخبارات بھی منگوائے جاتے تھے۔ اس ادارہ کے انچارج کلرک عباسی مبارک احمد صاحب تھے۔ آپ کا وجود مغتنمات سے تھا۔ آپ نے نہایت ذوق و شوق سے یہ قومی فریضہ ادا کیا۔
شائع ہونے والے اسلامی لٹریچر کی تفصیل
اس دور میں نہایت وسیع پیمانہ پر انگریزی` تامل` سنہلی زبانوں میں تراجم ہوئے اور اسلامی لٹریچر شائع ہوا جس کی تفصیل یہ ہے۔ >اسلامی اصول کی فلاسفی< >لیکچر لاہور< )حضرت مسیح موعودؑ( >ہمارے رسول~صل۱<~ >تحفہ شہزادہ ویلز< )حضرت مصلح موعودؓ( نماز مترجم` احادیث النبی~صل۱`~ قرآن مجید کی دو سورتیں` صداقت مسیح موعودؑ` وفات مسیح` مسئلہ نبوت` اسلامی قاعدہ )سنہلی( اسلام کا خلاصہ )تامل` انگریزی( معترضین کے جوابات` روح اسلام۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں ٹریکٹ بھی شائع کئے گئے۔۴۵
لائبریریوں میں احمدیہ لٹریچر
جماعت کے مرکزی لٹریچر جس میں انگریزی تفسیر القرآن بھی شامل تھی اور مقامی لٹریچر کے سیٹ ملک بھر کی پچیس اہم لائبریریوں میں رکھوائے گئے۔
ملک بھر کے وسیع دورے اور ان کا اثر
ملک کے سب علاقوں کے وسیع دورے کرکے گوشہ گوشہ میں پیغام حق تقاریر کے ذریعہ پہنچایا اور اسلامی لٹریچر کی بکثرت تقسیم کی۔ جس کی وجہ سے مشن کا دائرہ واقفیت بڑا وسیع تھا یہاں تک کہ ایک دفعہ پاکستانی ہائی کمشن کے فسٹ سیکرٹری مسٹر انور کے ایک لمبے دورے کا انتظام ہوا تو جہاں بھی وہ گئے وہاں احمدی مبلغ کی تقریر کے مطالبہ کو پاکر وہ خوش ہوئے جو ان کے ہمسفر ہی تھا۔
قرآنی اسباق کی وسیع اشاعت
قرآن عظیم کی تعلیمات کو پھیلانے کی غرض سے >قرآنی اسباق< بذریعہ ڈاک بھجوانے کا سلسلہ شروع ہوا جس پر حضرت المصلح الموعودؓ نے خوشنودی کا اظہار کیا اور ارشاد فرمایا کہ >مسلمانوں کو قرآن سے محبت ہے اس لئے اس سلسلہ کو جاری رکھو<۔ چنانچہ یہ اسباق اتنے مقبول ہوئے کہ بعد میں کتابی شکل میں ISLAM OF OUTLINE AN کے نام سے شائع ہوئے اور میٹرک کے طلبہ کو اسلامیات کے مضمون میں اتنے ممد ثابت ہوئے کہ غیر مسلمہ طلبہ نے بھی اس کتاب کو پڑھ کر اس مضمون کا امتحان دیا اور اعلیٰ نمبر حاصل کرکے امتحان پاس کیا۔ بعدہ اس کتاب کا تامل ترجمہ بھی بڑا مقبول ہوا۔
مشن کی اسلامی خدمات کا ردعمل
احمدیہ مسلم مشن کی اسلامی خدمات سے عوام الناس کے علاوہ خواص بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نوجوان تو بڑی کثرت سے احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کرنے لگے۔ یہ بات بعض متعصب اور خود غرض علماء کو پسند نہ آئی تو ان میں سے ایک نے اپنی تقریر میں )جو سیلون ریڈیو سے نشر ہوئی( جماعت احمدیہ پر کچھ جھوٹے الزامات عائد کئے جس کا فوری نوٹس اس شکل میں بھی لیا گیا کہ وزیر براڈکاسٹنگ سے پارلیمنٹ کے ایک ممبر KAM) CYELVANAYA ۔(MR نے ذیل کے چند سوال کئے جن کے جو جوابات پارلیمنٹ میں وزیر براڈکاسٹنگ نے دیئے تھے وہ ان کے سامنے درج ہیں:۔
سوال:۔ کیا وزیر ڈاک خانہ جات اور براڈکاسٹنگ کو علم ہے کہ ۹۔ نومبر ۱۹۵۷ء کو سیلون ریڈیو نے ایک ایسی تقریر نشر کی ہے جس میں جماعت احمیہ کے بانی حضرت احمد کو ناملائم اور نامناسب الفاظ میں یاد کیا گیا۔
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا وزیر موصوف کو یہ علم ہے کہ سیلون میں احمدیہ جماعت کے پیروکار بکثرت ہیں۔
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا وزیر موصوف یہ جانتے ہیں کہ حضرت احمد کی عزت نہ صرف اس کے پیرو کرتے ہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ نیز کیا اس اخلاق سوز تقریر نے نہ صرف احمدیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہوگی بلکہ دوسرے لوگوں کو لمبی ناراضگی کا موجب بنی ہوگی۔
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا وزیر موصوف نے ملزم کو پکڑنے اور اسے سزا دینے کے لئے کوئی فوری اقدام کیا ہے۔
جواب:۔ متعلقہ افراد کے خلاف محکمانہ اقدام کیا گیا ہے۔
سوال:۔ آئندہ اس قسم کی بات کا اعادہ نہ ہونے کے لئے کچھ کیا گیا ہے۔
جواب:۔ براڈ کاسٹنگ کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس قسم کی بات کا اعادہ نہ ہونے دیں۔
سوال:۔ جن لوگوں کے جذبات کو اس تقریر نے ٹھیس پہنچائی ہے ان کی تلافی کیسے ہوگی۔
جواب:۔ براڈ کاسٹنگ کے ڈائریکٹر جنرل نے ۲۲۔ نومبر ۱۹۵۷ء کو اپنے خط DB/NS/6 کے ذریعہ جنرل سیکٹری سیلون احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن کو معذرت نامہ بھجوا دیا ہے۔۴۶
مستقبل کے لئے انتظامیہ کی تشکیل
مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے ایک آخری اور اہم قدم یہ اٹھایا کہ سیلون سے روانگی سے قبل سربرآوردہ سیلونی احمدیوں کے مشورہ۴۷ سے مشن کو چلانے کے لئے ایک انتظامیہ تجویز کی جس کو تقسیم کار کے اصول پر مشن کے ضروری فرائض سپرد کئے۔ مثلاً اخبار MESSAGE THE کے تینوں ایڈیشنوں کی ادارت۔ مالی امور اور تقسیم۔ لٹریچر سنٹر کی حفاظت` اس کے حسابات اور نگرانی` لائبریری کا انتظام۔ خط و کتابت مشن ہائوس سے متعلق معاملات۔ جماعت سیلون کی عمومی نگرانی وغیرہ یہ سب تفصیلات مولوی صاحب کے مکتوب مورخہ ۱۲۔ ماہ تبلیغ ۱۳۳۷ہش/ فروری ۱۹۵۸ء میں درج ہیں جو انہوں نے مرکز سلسلہ سے مزید مشورہ اور راہ نمائی کے لئے ربوہ لکھا تھا اور جو اس احساس ذمہ داری کا آئینہ دار ہے جو اسلام کے ایک مخلص سپاہی اور فرض شناس مبلغ کے دل میں ہمیشہ موجزن رہنا چاہئے۔
چوتھا باب )فصل سوم(
رسالہ >التبلیغ< کا اجراء۔ صوبہ سرحد کے دو احمدیوں کی شہادت۔ نوابزادہ لیاقت علی خاں صاحب وزیراعظم پاکستان کا سفاکانہ قتل اور حضرت مصلح موعودؓ کا حقیقت افروز تبصرہ
سیلون مشن کے حالات پر مفصل روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ماہ ظہور ۱۳۳۰ہش/ اگست ۱۹۵۱ء اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کا بالترتیب ذکر کرتے ہیں۔
ربوہ سے رسالہ >التبلیغ< کا اجراء
اس زمانہ میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ کی نگرانی میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے صیغہ نشر واشاعت نے )جس کے مہتمم ان دنوں مکرم شیخ عبدالقادر صاحبؓ نو مسلم تھے( احراری مغالطہ انگیزیوں کے بروقت ازالہ کے لئے کم و بیش پچاس ٹریکٹ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئے۔۴۸ جو تبلیغ احمدیت کا نہایت مفید` موثر اور کارگر ذریعہ ثابت ہوئے۔ چونکہ مرکز سے ان کو انفرادی طور پر بھجوانے کا ڈاک خرچ زیادہ ہوتا تھا اس لئے >التبلیغ< کے نام سے ایک مختصر رسالہ کا ڈکلریشن اور ایل نمبر )۵۶۹۵( حاصل کیا گیا۔ یہ رسالہ یکم ظہور ۱۳۳۰ہش/ اگست ۱۹۵۱ء سے ۱۳۳۲ہش/ ۱۹۵۲ء کے شروع تک مکرم شیخ عبدالقادر صاحبؓ کی ادارت میں جاری رہا۔
رسالہ >التبلیغ< جو ٹریکٹ کی صورت میں چھپتا تھا گورنر` وزراء` سرکاری عہدیداران` ڈاکٹر` وکلاء` ائمہ مساجد` تجار` اساتذہ` طلباء` ایڈیٹر` لائبریریوں کے ناظم غرضکہ پاکستان کے ہر طبقہ کے لوگوں کو بھجوایا جاتا تھا اس کے اجراء کے ساتھ ہی غیر احمدی معززین کی ایک کثیر تعداد نے خودبخود خواہش کی کہ یہ ان کے نام جاری کردیا جائے چنانچہ ان کی اس خواہش کو پورا کیا گیا۔ شروع میں یہ رسالہ بذریعہ ڈاک اڑھائی ہزار کے قریب بھجوایا جاتا تھا لیکن ۱۳۳۱ہش/ ۱۹۵۲ء میں اس کی ماہوار تعداد اشاعت ساڑھے چھ ہزار اور ۱۳۳۲ہش/ ۱۹۵۳ء میں چودہ ہزار تک پہنچ گئی۔
احرار نے احمدیت کے خلاف بھی فضا کو مسموم کرنے کی جو خطرناک راہ بھی اختیار کی >التبلیغ< نے اس کا دٹ کر علمی تعاقب کیا اور دلائل و شواہد کی روشنی میں تحریک احمدیت کے صحیح خدوخال نمایاں کرنے کی بھرپور جدوجہد کی۔
>التبلیغ< چونکہ ۱۳۳۰۔ ۱۳۳۲ہش/ ۱۹۵۱ء۔ ۱۹۵۳ء کی مدافعانہ مہم کا ایک یادگار حصہ ہے اس لئے اس میں شائع شدہ اہم مضامین کے عنوانات کا ذکر کرنا اس دور کی تبلیغی معرکہ آرائیوں کی نوعیت کو سمجھنے میں ممدو معاون ہوگا۔
پہلی جلد کے عنوانات
۱۔ ۴۹ رسول کریم~صل۱~ کی شریعت ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔ ۲۔ جماعت احمدیہ کے عقائد ۳۔ وفات مسیحؑ ۴۔ کاذب مدعی نبوت کے متعلق قانون الٰہی ۵۔ خیر خواہان پاکستان سے دردمندانہ اپیل ۶۔ منصب نبوت اور اس کی خصوصیات ۷۔ نشان رحمت کی عظیم الشان پیشگوئی ۸۔ روحانی نظام کی تکمیل کے لئے قرآنی اصول ۹۔ حضرت مسیح موعودؑ کے آسمانی اور زمینی نشان ۱۰۔ پیشگوئی نشان رحمت کے تعلق میں چمکے ہوئے بیسیوں نشانات ۱۱۔۱۲۔ نشان رحمت کا انذاری حصہ کیونکر پورا ہوا۔ ۱۳۔ جہاد کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ ۱۴۔ پیشگوئی نشان رحمت محکمات اور متشابہات کی کسوٹی پر ۱۵۔ نشان رحمت کا انذاری حصہ محکمات اور متشابہات کی کسوٹی پر ۱۶۔ شرعی تعزیر کے متعلق صحیح اسلامی تعلیم۔ ۱۷۔۱۸۔ نشان رحمت ۱۹۔ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار۔
دوسری جلد کے عنوانات
۱۔ زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار ۲۔ احرار کی دفاع پاکستان کے نام سے ملک کے امن کو برباد کرنے کی ناپاک کوشش۔ ۳۔ تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع دس شرائط ۴۔۵۔ مسیح ابن مریم ایک سو بیس برس زندہ رہے۔ ۶۔ مسلمانوں کے آپس میں اختلافات مٹانے کا واحد ذریعہ قرآن مجید ہے ۷۔ اظہار حق نمبر ۱ ۸۔ اظہار حق نمبر ۲۔ ۹۔ ایک اعتراض کا جواب۔ ۱۰۔ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ۱۱۔ نئی جماعت بنانے کی وجہ ۱۲۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اہل بیت رسول خدا~صل۱~ سے محبت و اخلاص ۱۳۔ ایسٹر کے موقع پر عیسائی صاحبان کے نام پیغام ۱۴۔ احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ ۱۵۔ مسلمانوں کی اصلاح کے لئے پہلا اور نہایت ضروری قدم ۶۔ اھدنا الصراط المستقیم ۱۷۔۱۸۔ احراری مقررین کی جلسہ چنیوٹ منعقد ۱۹۔ اپریل میں غلط بیانیاں۔ ایک ہزار روپیہ انعام ۲۳۔ واقعہ` کراچی کے متعلق رائے عامہ ۲۴۔ آنحضرت~صل۱~ کی شان ۲۵۔ جماعت احمدیہ صدق دل سے آنحضرت~صل۱~ کو خاتم النبین مانتی ہے ۲۶۔ کیا مولوی عبدالحامد صاحب بدایونی کو جرات ہے؟ ۲۷۔ جو خاتم النبین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے ۲۸۔ ۲۹۔ احمدیت کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ نمبر ۱۔ ۲۔ ۳۰۔ فیصلہ کی آسان راہ۔ ۳۱۔۳۲۔ ہماری جماعت کا نام احمدیہ جماعت کیوں رکھا گیا ۳۵۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک عظیم خدمات ۳۶۔ بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ نبوت کی وضاحت خود اپنی قلم سے ۳۸۔ خاتمیت محمدیہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ۔
تیسری جماعت کے عنوانات
۲۔ مسئلہ ختم نبوت اور احمدیت ۳۔ مدیران زمیندار کی انگریز پرستی کے واضح ثبوت۔
مندرجہ بالا مضامین کا ایک حصہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعودؓ کے اقتباسات پر مشتمل ہے جو نہایت عمدگی کے ساتھ انتخاب کرکے سپرد اشاعت کئے گئے۔ بعض مضامین حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور بعض دوسرے اہل قلم بزرگوں اور دوستوں کی محنت و کاوش کا نتیجہ تھے مگر ایک معتدبہ حصہ مدیر >التبلیغ< مکرم شیخ عبدالقادر صاحبؓ کے قلم سے نکلا۔
رسالہ کی جبری بندش
>التبلیغ< باقاعدگی سے چھپ رہا تھا کہ ۱۳۳۲ہش/ ۱۹۵۳ء کے اوائل میں مغربی پنجاب کی دولتانہ وزارت کی طرف سے سیفٹی ایکٹ کے تحت غیر معین عرصہ کے لئے بند کردیا گیا۔۵۰
حضرت امیرالمومنین کے دو پیغام یوم تحریک جدید کے موقع پر
۲۔ تبوک ۱۳۳۰ہش/ ستمبر ۱۹۵۱ء کو تحریک جدید کے مطالبات کو ذہن نشین کرانے اور دستوں کو اس کے مالی جہاد میں شمولیت کی دعوت دینے کے لئے پاکستان بھر میں یوم تحریک نجات منایا گیا۔ بانی تحریک جدید سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے ۲۸۔ ظہور/ اگست کو جماعتوں کے نام حسب ذیل پیغام دیا اور ہدایت فرمائی کہ >میرا یہ پیغام تحریک جدید کے جلسہ ۲۔ ستمبر کے موقع پر جماعت مین پڑھ کر سنایا جائے<۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
اے دوستو احرار اور ان کے ہم نوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو جھوٹا` کذاب` دجال اور دشمن اسلام کہتے ہیں۔ باقی سب دنیا رسول کریم~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی قسم کے ناموں سے یاد کرتی ہے۔ دنیا میں اس قدر گالیاں کسی سابق نبی کو نہیں دی گئیں بلکہ دسواں حصہ بھی نہیں دی گئیں جتنی کہ مسیحی اور آریہ لٹریچر میں آنحضرت~صل۱~ کو ی گئی تھیں۔ صرف ایک احمدیہ جماعت ہے جو سب راست بازوں کو مانتی ہے اور ان کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کرنے کی مدعی ہے۔ جماعت احمدیہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ اتنے بڑے حملہ کا جواب دینے کی اس میں طاقت نہیں سوائے اس کے کہ وہ انتہائی قربانی سے کام لے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی قربانی کے قریب بھی ابھی جماعت نہیں آئی اس لئے ایک دفعہ پھر میں آپ لوگوں سے خواہ مرد ہوں خواہ عورت خواہ بچہ ہوں کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اور مسیح موعودؑ کو مارنے کے لئے دشمن جمع ہیں۔ اپنی غفلت چھوڑ دو۔ قربانی کو بڑھائو اور اس کی رفتار کو تیز تر کردو۔ تحریک جدید کے چندوں کو جلد سے جلد ادا کرو۔ سادہ زندگی اور پیسہ بچانے کی عادت ڈالو اور تبلیغ کو وسیع کردو۔ دنیا پیاسی مررہی ہے۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ارواح مومنوں کو روحانی جہاد کے لئے آگے بلارہی ہیں تم کب تک خاموش رہو گے۔ کب تک بیٹھے رہو گے قربانی کرو اور آگے بڑھو اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرو۔
خاکسار مرزا محمود احمد۔۵۱
اگلے سال مخلصین سلسلہ کو تحریک جدید کی مالی قربانیوں کی طرف دوبارہ متوجہ کرنے کے لئے ۵۔ اخاء/ اکتوبر کو دوسرا >یوم تحریک جدید< منایا گیا جس کے جلسوں میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اور ولولہ انگیز پیغام پڑھا گیا جس نے مخلصین کو قربانی و ایثار کے جذبہ سے سرشار کردیا۔ یہ پیغام حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے۔ فرمایا:۔
>تحریک جدید کی طرف سے جماعت کو ہوشیار کرنے کے لئے اور وعدہ کرنے والوں کو وعدے یاد دلانے کے لئے ۵۔ اکتوبر کو یوم تحریک جدید منایا جارہا ہے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس دن کے لئے ایک پیغام جماعت کے نام دوں۔ میں اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے چند سطور لکھوا رہا ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پیغام خود آپ کے دل سے پیدا ہونا چاہئے۔ اگر آپ کا دل آپ کو اس موقع پر کوئی پیغام نہیں دے رہا تو میرا پیغام کچھ لوگوں کے لئے تو ضرور مفید ہوجائے گا لیکن ان لوگوں کی اکثریت کے لئے مفید نہیں ہوگا جن کا دل اس موقع پر انہیں کوئی پیغام نہیں دے رہا۔
تحریک جدید کی غرض نوجوانوں میں احمدیت کی روح پیدا کرنا ہے اور تبلیغ اسلام و احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلانا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی تھی کہ مصلح موعود زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گے۔ اس کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلانے کے سوائے اس کے کوئی معنی نہیں کہ احمدیت اس کے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک پہنچے۔ پس درحقیقت اس پیشگوئی میں تحریک جدید کے قیام کی پیشگوئی تھی اور تحریک جدید کا قیام اس پیشگوئی کے ذریعہ سے ۱۹۳۴ء سے نہیں بلکہ ۱۸۸۶ء سے بنتا ہے یعنی اڑتالیس سال پہلے سے خدا تعالیٰ اس کی بنیاد قائم کرچکا تھا۔ اور اگر اور گہرا خود کریں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ درحقیقت ۱۳۴۸ سال پہلے تحریک جید کا قیام ہوچکا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کے متعلق فرماتا ہے کہ اس نے اسلام کو اس لئے بھیجا یظھرہ علی الدین کلہ کہ تاکہ اسلام کو دنیا کے سب مذاہب پر غلبہ ہوجائے اور مفسرین لکھتے ہیں کہ جس زمانہ کے متعلق یہ خبر ہے وہ آخری زمانہ یعنی مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے۔ پس تحریک جدید درحقیقت اسی پیشگوئی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہے اور ہر احمدی جو اس تحریک میں حصہ لیتا ہے اور پھر اپنے وعدہ کو پورا کرتا ہے اور وقت پر پورا کرتا ہے وہ لیظھرہ علی الدین کلہ۵۲ کی پیشگوئی کا مصداق ہے اور بہت بڑا خوش نصیب ہے کہ خاتم النبین کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے والوں میں شامل ہوتا ہے اور محمدی فوج کے سپاہیوں میں اس کا نام لکھا جاتا ہے۔ اور بدقسمت ہے وہ جس کو اس کا موقع ملا اور وہ تحریک جدید میں شامل نہ ہوا۔ اسی طرح بدقسمت ہے وہ جس نے منہ سے تو اس میں شامل ہونے کا اقرار کیا لیکن عملاً اس میں کمزوری دکھلائی۔
پس اے عزیزو! تم احمدیوں میں سے کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اس تحریک میں شامل نہ ہو اور کوئی ایسا نہ ہونا چاہئے جو وعدہ کرکے اس میں کمزوری دکھائے بلکہ چاہئے کہ کوئی شریف الطبع اور نیک غیر احمدی بھی اس تحریک سے باہر نہ رہے خواہ ابھی اسے جماعت میں داخل ہونے کی جرات نہ ہوئی ہو<۔۵۳
صوبہ سرحد میں دو احمدیوں کی دردناک شہادت
احراری فتنہ کا اصل مرکز اگرچہ اول نمبر پر پنجاب اور پھر بلوچستان تھا مگر اس سال اس کی چنگاریاں صوبہ سرحد کے کنارے تک بھی پہنچ گئیں اور مخالف علماء کی اشتعال انگیز تقریروں نے علاقہ مانسہرہ کے سادہ مزاج عوام کے جذبات بھی احمدیوں کے خلاف بھڑکا دیئے جس کا تکلیف دہ نتیجہ ۲۱۔ تبوک ۱۳۳۰ہش/ ستمبر ۱۹۵۱ء کو یہ برآمد ہوا کہ کوئٹہ` اوکاڑہ اور راولپنڈی کے بعد یہاں بھی دو مظلوموں کا خون بہایا گیا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک مخلص صحابی حضرت مولوی عبدالغفور صاحب اور ان کے سات سالہ معصوم بچے عبداللطیف نہایت بے دردی سے شہید کردیئے گئے۔
مولوی صاحب موضع تمرکھولہ ڈاک خانہ بہرکنڈ تحصیل مانسہرہ کے باشندے تھے۔ دس برس کی عمر میں قادیان پہنچے اور ۱۹۰۶ء میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ کو قادیان کی پیاری اور پرانوار و برکت بستی سے اس قدر محبت و عقیدت پیدا ہوگئی کہ اپنے بڑے بھائی حضرت حکیم نظام جان صاحبؓ۵۴ کو بھی آنے کی تحریک کی جس پر حکیم صاحب مستقل ہجرت کرکے قادیان ہی کے ہوگئے۔
مولوی عبدالغفور صاحب کی قادیان میں ایک لاکھ روپے کی جائداد زمین اور مکانات کی صورت میں تھی۔ اس کے علاوہ دریائے سرن سے پار دو گائوں مصر اور ماڑی میں بھی ایک لمبا سلسلہ آپ کی مملوکہ اراضی کا تھا جو آٹھ سو گھمائوں پر پھیلا ہوا تھا جس کا ایک سرا ضلع ہزارہ سے اور دوسرا سرا ریاست امب سے جاملتا تھا۔ اس کے علاوہ دریائے سرن کے کانرے آپ کی چار پن چکیاں تھیں جن میں سے ایک کی وصیت آپ نے بحق صدر انجمن احمدیہ ربوہ کردی تھی۔
آپ کا معمول تھا کہ روزانہ اذان سے پہلے اٹھتے اور اپنے ملازم کو ہمراہ لے کر دریا سے پار چکیوں پر چلے جاتے تھے۔ نماز فجر وہیں ادا کرتے اور اسی عرصہ میں ان کا سات سالہ بچہ عبداللطیف چائے لیکر وہاں پہنچ جاتا دونوں ناشتہ کرتے اور زمین کی دیکھ بھال کے بعد اپنے گائوں لوٹ آتے۔
۲۱۔ تبوک/ ستمبر کو بوقت صبح آٹھ بجے آپ اپنے ننھے بچہ )عبداللطیف( کو لے کر اپنے گھر سے پن چکیوں کی نگہداشت کے لئے نکلے۔ آپ چار فرلانگ تک گئے تھے کہ ایک کمین گاہ سے آپ پر بندوق کا فائر کیا گیا جس کے بعد آپ کو اور آپ کے بچہ کو کلہاڑی سے شہید کردیا گیا۔ ظالم قاتل بھاگ گئے اور بے گورو کفن لاشوں کی نگرانی آپ کا گھریلو کتا کرتا رہا جو کبھی آپ کی لاش کی طرف جاتا اور کبھی ان کے بچہ کی نعش کی طرف بھاگتا تھا۔
مولوی عبدالغفور صاحب نے اپنے پیچھے ایک بیوہ` تین لڑکے اور تین لڑکیاں یادگار چھوڑیں۔۵۵
نوابزادہ لیاقت علی خان کی مخالفت اور سفاکانہ قتل
پاکستان کے دشمنوں نے محض اختلاف رائے کی بناء پر اشتعال اور قتل و تشدد کا جو خونی چکر چلا رکھا تھا اور جس طرح اسلام کے نام پر عوام کی ذہنیت کو بدامنی اور شورش کے لئے باقاعدہ تیار کیا جارہا تھا اس کا خمیازہ پاکستان کو اپنے محبوب قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خاں کے سفاکانہ قتل کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
نواب زادہ لیاقت علی خاں جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب کا بار اٹھائے ہوئے تھے۔ ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۵۱ء )مطابق ۱۶۔ اخاء ۱۳۳۰ہش( کو کمپنی باغ راولپنڈی کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ ابھی آپ >برادران اسلام< کے دو نہایت پیارے لفظ ہی کہہ پائے تھے کہ ہزارہ سے آنے والے ایک بدبخت شخص سید اکبر نے آپ پر گولی چلا دی قائد ملت ڈائس پر گر پڑے اور تھوڑی دیر بعد زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگئے۔
نواب زادہ لیاقت علی خاں ایک عظیم قومی لیڈر تھے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری ۱۹۴۶ء کی عبوری حکومت میں قائداعظم کے نائب ہونے کی حیثیت سے اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے بھی نمایاں سیاسی خدمات انجام دی تھیں تاہم باوجود اپنی ان خدمات کے وہ بھی عمر بھر قائداعظم کی طرح جماعت اسلامی کے سیاسی لیڈروں اور اخباروں کے تنقیدی نشتروں کا ہمیشہ نشانہ بنے رہے چنانچہ اس کے بانی و امیر مودودی صاحب نے ایک سال قبل ان پر دورہ امریکہ کے دوران قوم کا ۲۵ لاکھ روپیہ خرچ کرنے کا الزام بھی لگایا جس کی خان لیاقت علی خاں نے کراچی کے جلسہ عام میں پرزور تردید کی اور کہا:۔
>اس الزام میں پانچ فیصدی بھی صداقت نہیں ۔۔۔۔۔ ہم علماء کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر علماء ہی جھوٹ پر اتر آئیں تو ملت کا خدا حافظ<۔۵۶
ایک اور موقع پر ان کو واشگاف لفظوں میں کہنا پڑا:۔
>مولانا مودودی انتشار پھیلاتے ہیں۔ وہ پاکستان کے امیرالمومنین بننا چاہتے ہیں<۔۵۷
افسوسناک طرز عمل
خان لیاقت علی خاں کی دردناک موت سچ مچ ایک قومی المیہ تھی جس پر سوائے ملک کے انتشار پسند عناصر کے کوئی خوش نہ ہوسکتا تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کے بعض ممتاز سیاسی لیڈروں نے اس موقع پر افسوسناک ذہنیت کا ثبوت دیا۔ مثلاً جناب حمید نظامی۵۸ مدیر >نوائے وقت< نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا:۔
>لیاقت نے پچھلے دو ماہ جنگ کا اتنا زیادہ پرواپیگنڈا کیا تھا اور لوگوں کے جذبات میں اتنا اشتعال پیدا کردیا تھا کہ خدا کی پناہ۔ اس کے بعد لیاقت علی نے فقدان جرات اور فقدان تدبر کا جو ثبوت یا اس سے عوام میں بڑی بددلی پھیلی۔ ممکن ہے یہ قتل اسی بدولی کا نتیجہ ہو۔ بہرحال جو کچھ ہوا بہت برا ہوا۔
خدا جانے اب ملک کا کیا حشر ہوگا؟ لیاقت علی نے نہ اپوزیشن بننے دی ہے نہ مسلم لیگ میں کوئی مضبوط آدمی رہنے دیا اب کہیں انتشار نہ پھیل جائے<۔۵۹
پھر لکھا:۔
>لیاقت علی سے پاکستان کو حقیقی خطرہ تھا۔ وہ اس ملک کو ڈکٹیٹر شپ کی طرف لے جارہے تھے اور لازمی طور پر اس کی تباہی کا موجب بنتے۔ لیاقت علی میں ہٹلر کی کوئی خوبی نہ تھی مگر اس کی سب برائیاں موجود تھیں۔ دس سال بعد ہی مورخ لیاقت علی کے کام کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے سکتا ہے۔ وہ پاکستان کے لئے ایسے ایسے مسائل پیدا کرگئے ہیں کہ ان کے جانشینوں کے لئے انہیں حل کرنا بڑا مشکل ہوگا<۔۶۰
جماعت احمدیہ کی طرف سے گہرے رنج و غم کا اظہار اور خدمت ملک وقوم کے عزم کا اعلان
اس انداز فکر و تصور کے برعکس جماعت احمدیہ کے امام حضرت مصلح موعودؓ نے درد بھرے دل کے ساتھ
گورنر جنرل پاکستان فضیلت ماب جناب غلام محمد صاحب کو تعزیتی تار دیا جس میں خان لیاقت علی خاں کی اندوہناک وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار فرمایا اور گورنر جنرل پاکستان کو اپنے اور اپنی جماعت کے کامل تعاون اور حکومت اور اہل پاکستان کی ہرممکن خدمت کا یقین دلایا۔
گورنر جنرل پاکستان کے نام تار کا متن یہ تھا:۔
>میں اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خاں کی نہایت اندوہناک وفات پر جو ایک نہایت بزدل اور سفاک قاتل کے ہاتھوں پر واقع ہوئی گہرے رنج والم کا اظہار کرتا ہوں اور ملک پر اس نازک وقت میں میں اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے آپ سے کامل تعاون اور حکومت و اہل پاکستان کی ہرممکن خدمت کا یقین دلاتا ہوں<۔۶۱
اس کے علاوہ حضور نے مرحوم وزیراعظم پاکستان کے صاحبزادہ نواب زادہ ولایت علی خاں کو بھی تعزیت نامہ تحریر فرمایا۔ نواب زادہ ولایت علی خاں نے حضور کی خدمت میں اس کے جواب میں خاص طور پر شکریہ کا خط لکھا۔ تعزیت نامہ میں درج کیا جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۳۔ لارنس روڈ لاہور
۸۔ نومبر ۱۹۵۱ء
محترمی السلام علیکم
پیغام تعزیت موصول ہوا اس صدمہ میں آپ کی ہمدردی کا دلی شکریہ۔ ہمیں آپ سے اتفاق ہے کہ قائد ملت کی شہادت ایک قومی سانحہ اور ملی نقصان ہے۔ اس ناقابل تلافی نقصان میں ہم آپ کو برابر کا شریک تصور کرتے ہیں۔
ہم بھی آپ کے ساتھ برگاہ ایزدی میں دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر جمیل عطا فرمائے قوم کو اتحاد` نظم و ضبط اور تنطیم کی دولت سے مالا مال ¶کرے اور قائداعظم اور قائد ملت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوگوار
دستخط محمد ولایت علی خان
)غیر مطبوعہ(
یہی نہیں حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر ۱۷۔ اخاء/ اکتوبر کی رات کو اہل ربوہ کا ایک غیر معمولی تعزیتی جلسہ بھی حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ ایم۔ اے سابق مبلغ انگلستان و ناظر امور عامہ و خارجہ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں لیاقت علی خاں کی سیاسی اور تنظیمی صلاحیتوں کو نہایت شاندار الفاظ میں خراچ عقیدت پیش کیا گیا اور مندرجہ ذیل قرار داد متفقہ طور پر پاس کی گئی۔
>ہم جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کی مرکزی جماعت کے ارکان اپنے محبوب وزیراعظم خان لیاقت علی خاں کے قتل کے سانحہ عظیم پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ اس ناگہانی صدمہ کا دکھ اور قلق اور بھی شدید ہوجاتا ہے جب ایک طرف ان نازک حالات پر نظر پڑتی ہے جن میں ہمارا ملک )پاکستان( گزر رہا ہے اور دوسری طرف ہمارا ذہن ان خداداد صلاحیتوں کی طرف جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے وزیراعظم خان لیاقت علی خاں کو عطا کی ہوئی تھیں اور وہ ان صلاحیتوں کی بدولت ان تمام گتھیوں کو باسانی سلجھا سکتے تھے جو اس نازک وقت میں ہماری اس خداداد مملکت کو درپیش ہیں۔ وہ عظیم قابلیت جس کا مظاہرہ قائداعظم کی وفات کے بعد امور سلطنت کی انجام دہی میں لیاقت علی خاں نے کیا اور اس کی یاد ہمیشہ پاکستانیوں کے ذہنوں میں جاگزین رہے گی اور وہ ہمیشہ انتہائی تعظیم اور محبت کے جذبات کے ساتھ اپنے قائد کو یاد کرتے رہیں گے۔ ہم بیگم لیاقت علی خاں` ان کے بچوں اور حکومت پاکستان سے اس عظیم سانحہ پر اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم صمیم کا پھر اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کی خدمت اور تعمیر و تحفظ کے سلسلہ میں ہرممکن قربانی کرنے میں کوئی دقیہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔ آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مصائب اور آزمائشوں کے دور میں ہماری اس مملکت کا محافظ اور کفیل ہو<۔۶۲
لاہور ریڈیو کا نشریہ
ربوہ میں منعقدہ اس تعزیتی جلسہ کی خبر ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے ۶ بجے شام حسب ذیل الفاظ میں نشر ہوئی:۔
>کل ربوہ میں جماعت احمدیہ کا اجتماع ہوا۔ ربوہ پاکستان میں احمدیوں کا صدر مقام ہے اس اجتماع میں قائد ملت کی وفات پر انتہائی رنج و الم کی قرارداد پاس کی گئی<۔
اس سے قبل ۱۷۔ اکتوبر کو شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے پیغام کا ایک حصہ نشر ہوا۔ الفاظ یہ تھے۔
>قائد ملت کی وفات پر شیخ بشیر احمد امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ایک بیان میں قوم کو پہلے سے بھی زیادہ متحد اور منظم ہونے کی تلقین کی ہے<۔
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کا حادثہ قتل پر بصیرت افروز تبصرہ
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے صرف تعزیتی تار خط اور مرکزی جلسہ کے انعقاد پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ حضور نے
۲۶۔ اکتوبر ۱۹۵۱ء/ ۲۶۔ اخاء ۱۳۳۰ہش کو ایک مضبوط خطبہ جمعہ دیا جس میں اس حادثہ قتل کے پس منظر پر خالص دینی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور پیش آمدہ واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے دنیائے اسلام کو عموماً اور پاکستان کے باشندوں کو خصوصاً اسلام کی اس بنیادی اور حقیقی تعلیم کی طر توجہ دلائی کہ اسلام میں شرعی تعزیر کی اجازت کسی فرد کو نہیں بلکہ اس کا اختیار صرف اور صرف حکومت وقت کو حاصل ہے۔ حضور کا یہ خطبہ جمعہ جو اسلام کے نظام حیات کے ایک اہم پہلو کی ترجمانی کا شاہکار ہے بجنسہ درج ذیل کیا جاتا ہے:۔
حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
>پچھلے جمعہ کو عین اس وقت جبکہ میں جمعہ میں آنے کی تیاری کررہا تھا مجھے بخار چڑھنا شروع ہوگیا اور سردرد بھی ہونے لگی جس کی وجہ سے میں مسجد میں نہ آسکا۔ اس کے دو تین بعد نزلہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے بخار بھی ہوجاتا تھا۔ اب مرض میں کمی تو ہے لیکن گلے میں ابھی خراش باقی ہے اس لئے میں زیادہ لمبا خطبہ نہیں پڑھ سکتا۔ گو مرض میں اتنا افاقہ ضرور ہے کہ میں خطبہ جمعہ پڑھ سکتا ہوں۔
‏tav.12.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
اس وقت میرا ارادہ اس واقعہ کے متعلق کچھ کہنے کا ہے جو گزشتہ ہفتہ راولپنڈی میں وزیراعظم پاکستان نواب زادہ خان لیاقت علی خان کے ساتھ گزرا۔ جہاں تک انسانی زندگی کا سوال ہے ہر انسان نے بہرحال مرنا ہے۔ چاہے وہ قاتل کی چھری سے مرجائے۔ چاہے وہ ہیضہ سے مرجائے۔ چاہے وہ بخار کی شدت سے مرجائے۔ اور چاہے وہ سل اور دق سے مرجائے۔ موت تو بہرحال آنی ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے لکل داء دواء الا الموت ہر بیماری جب تک کہ وہ بیماری کی صورت میں ہے اس کا علاج ہے لیکن وہ چیز جو بظاہر بیماری ہے لیکن دراصل وہ موت کا پیغام ہے اس کا کوئی علاج نہیں۔ پس انسان نے مرنا تو ہے لیکن بعض چیزیں تکلیف دہ پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ اگر کسی کو اچانک موت آجاتی ہے تو رسول کریم~صل۱~ نے بھی فرمایا ہے کہ وہ حسرت ناک ہوتی ہے۔ گو دراصل اچانک حادثہ کی وجہ سے جو موت آتی ہے وہ مرنے والے کے لئے آرام دہ موت ہوتی ہے۔ مثلاً اگر وہ آٹھ دس دن ٹائیفائڈ میں مبتلا رہتا۔ راتوں کو جاگتا۔ تکلیف کی وجہ سے کراہتا اور پھر اسے موت آجاتی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موت اسے بہرحال آنی تھی لیکن یہ موت اس کے لئے تکلیف دہ ہوتی۔ لیکن اگر اس کا اچانک ہارٹ فیل ہوجاتا ہے یا اسے گولی لگتی ہے اور وہ فوراً مر جاتا ہے تو یہ موت بظاہر آرام دہ موت ہے لیکن اس لحاظ سے یہ تکلیف دہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا۔ اور قرآن کریم میں آتا ہے کہ اگر کسی کے سر ذمہ داری ہو جسے اس نے ادا کرنا ہو تو اس کے لئے وصیت کرنا ضروری ہے۔ جب کسی کے پاس قومی اسرار ہوتے ہیں تو باپ بیٹے کو وصیت کرتا ہے۔ آگے بیٹا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔ اور کوئی قوم کامیاب اسی وقت ہوتی ہے جب اس کا تسلسل قائم ہو اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے نصیحت اور وصیت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی کی اچانک موت ہوجائے تو یہ موقع اس سے چھین لیا جاتا ہے۔ اور جن باتوںں کا مرنے والوں کو تجربہ ہوتا ہے۔ جن خطرات کا اسے علم ہوتا ہے اور بعض فوائد جو اس کے علم میں اس کی قوم حاصل کررہی ہوتی ہے اگر اسے چند دن بیمار رہنے کے بعد موت آئے تو وہ اپنے جانشینوں کو بعض نصائح کردیتا ہے۔ وہ انہیں بتا دیتا ہے کہ فلاں فلاں فائدہ تم اس طرح حاصل کرسکتے ہو۔ اور ساتھ ہی وہ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ تمہارے سامنے فلاں فلاں قسم کے خطرات ہیں ان خطرات سے بچنے کا یہ طریق ہے۔ اس رنگ میں اس کی موت زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتی۔ رسول کریم~صل۱~ نے اچانک موت کو تکلیف دہ اسی لئے فرمایا ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا اور اس طرح اس کی اولاد` اس کا خاندان اور اس کی قوم اس کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ لیکن سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ ایسی موت جو اچانک آجاتی ہے مثلاً اگر کسی کی حرکت قلب بند ہوجاتی ہے اور وہ فوراً مر جاتا ہے تو کسی شخص پر افسوس نہیں ہوتا۔ لیکن جب یہ موت کسی انسان کے ہاتھوں سے ہو تو جہاں تک مرنے والے کا سوال ہے یہ کوئی بری بات نہیں اس نے بہرحال مرنا تھا۔ بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ موت مونیوالے کے لئے آرام دہ ہے۔ گولی لگی اور مر گیا۔ اس طرح اسے زیادہ تکلیف نہ ہوئی لیکن خاندانی اور قومی لحاظ سے اس میں کئی قباحتیں ہوتی ہیں۔ ایک قباحت تو میں نے بتادی ہے کہ مرنے والے کو وصیت کا موقع نہیں ملتا اور اس طرح اس کی اولاد` اس کا خاندان اور اس کی قوم اس کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ دوسری قباحت یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی قومی خادم کسی انسان کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ قومی اخلاق میں بہت کچھ خرابی پیدا ہوچکی ہے کیونکہ کام کے تسلسل سے قوم ترقی کرتی ہے اور جب افراد میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ہم آپ ہی آپ اپنا حق لے سکتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تسلسل قائم نہیں رہ سکتا اور قوم حکومت پر اعتبار کرنے کی بجائے خود بدلہ لے لیتی ہے۔ حالانکہ تسلسل حکومت سے قائم رہتا ہے۔ اگر افراد میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ وہ اپنا بدلہ آپ لے سکتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ حکومت کو بیکار سمجھتے ہیں۔ اگر یہ احساس کہ ہم اپنا بدلہ خود لے سکتے ہیں ساری قوم یا اس کے اکثر افراد یا اس کے بعض افراد میں پیدا ہوجائے تو حکومت قائم نہیں رہ سکتی وہ حکومت آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ٹوٹجائے گی اور اس کا نظام باقی نہیں رہے گا۔
پس وہ واقعہ جو خان لیاقت علی خان کے ساتھ گزرا جہاں تک ان کا اپنا سوال ہے یہ کوئی غیر معمولی چیز نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نسبتاً آرام میں رہے کیونکہ اگر وہ کسی اور ذریعہ سے وفات پاتے تو دس پندرہ دن بیماری کی تکلیف اٹھاتے۔ اب چونکہ وہ گولی لگنے سے یکدم مر گئے ہیں س لئے یہ موت ان کی ذات کے لئے آرام دہ ثابت ہوئی ہے لیکن قومی لحاظ سے یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ پاکستان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں میں نظام کی پابندی کا احساس باقی نہیں رہا۔ مان لیا کہ قاتل کابل کا رہنے والا تھا لیکن وہ پاکستان میں آبسا تھا اور پاکستان کی قومیت کو اس نے قبول کرلیا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قاتل کو کسی غیر قوم نے اس ذلیل فعل کے لئے اکسایا تھا۔ لیکن ہم اسے غیر قوم کا فرد نہیں کہہ سکتے۔ ہم سب باہر سے آئے ہیں۔ اگر وہ پاکستانی نہیں تو مغل بھی پاکستانی نہیں مغل بھی باہر سے آئے ہیں۔ سید بھی پاکستانی نہیں کیونکہ وہ بھی مکہ اور مدینہ سے آئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی اکثر دوسری قومیں بھی باہر سے آئی ہیں۔ کئی ایران سے یہاں آبسا ہے۔ کوئی شام سے آیا ہے اور کوئی دوسرے ممالک سے آکر اس ملک کی قومیت کو اختیار کرچکا ہے۔ اس طرح تو کوئی بھی پاکستانی نہیں۔ انگلستان کے ملک میں بھی جرمن اور فرانسیسی موجود ہیں اور وہ اسی ملک کے باشندے کہلاتے ہیں۔ انگلستان کے بادشاہ کا خاندان بھی جرمنی ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ انگلستان کا رہنے والا نہیں۔ کیونکہ جو کسی ملک میں آبستا ہے وہ اسی ملک کا باشندہ کہلاتا ہے۔ پس گو خان لیاقت علی خان کے قاتل کے تعلقات پر شبہ ہے کہ افغانستان نے اسے ان کے قتل پر اکسایا تھا۔ لیکن چونکہ قاتل پاکستان میں آبسا تھا اور پارٹیشن سے پہلے کا یہاں رہتا تھا اس لئے وہ پاکستانی تھا اور اس کے یہ معنی ہیں کہ بعض پاکستانیوں کو نظام حکومت پر اعتبار نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک فرد کا فعل ہے اور ایک فرد کا فعل ساری قوم کا فعل نہیں کہلاسکتا۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایک فرد کا فعل تھا اور ایک فرد کا فعل ساری قوم کا فعل نہیں کہلا سکتا۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایک فرد کے فعل سے ساری قوم ذلیل ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہے۔ اس لئے بے شک وہ ایک فرد کا کام تھا اور اس کی ساری قوم ذمہ دار نہیں ہوسکتی لیکن اس کی وجہ سے ساری قوم ذلیل ہوگئی ہے۔ پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ داری کا سوال ہے یہ ایک فرد کا کام ہے لیکن جہاں تک شہرت کا سوال ہے اس سے قوم ذلیل ہوگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ قوم میں ذلت` عزت اور زندگی کا کوئی احساس نہیں اور یہ کتنی ذلت کی بات ہے۔ یوں سمجھ لو کہ اگر کسی خاندان میں سے کوئی لڑکا یا لڑکی بدکار ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری خدا تعالیٰ کے سامنے اس لڑکی یا لڑکے کے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر عائد نہیں ہوگی خدا تعالیٰ کے سامنے وہی لڑکی یا لڑکا مجرم ہوگا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اس خاندان کی لڑکی لینے پر تیار نہیں ہوتا اور نہ کوئی اس خاندان کے کسی لڑکے کو اپنی لڑکی دینے پر رضامند ہوتا ہے۔ حالانکہ اس میں خاندان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ وہ اس سے اتنا ہی متنفر ہوتا ہے جتنے دوسرے لوگ اس سے متنفر ہوتے ہیں۔ لیکن بوجہ ایک لڑکی یا لڑکے کی بدکاری کے وہ خاندان دنیا کی نظروں میں ذلیل ہوجاتا ہے۔ پس جہاں تک خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ داری اور سزا پانے کا سوال ہے خان لیاقت علی خان کا قاتل خود ذمہ دار ہے قوم ذمہ دار نہیں۔ لیکن جہاں تک عزت اور شہرت کا سوال ہے اس سے لوگوں میں بدظنی پیدا ہوگئی ہے کہ اس قوم کو نظام حکومت سے پیار نہیں۔ اور جب دشمن کو اس چیز کا پتہ لگ جائے گا کہ رعایا نظام حکومت سے پیار نہیں رکھتی تو وہ کتنا دلیر ہوجائے گا۔ غرض قومی لحاظ سے یہ واقعہ جو خان لیاقت علی خان کے ساتھ گزرا نہایت خطرناک ہے۔ لیکن مجھے یہ مضمون خطبہ جمعہ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی میں اس کے متعلق الگ مضمون بھی لکھ سکتا تھا۔ میں نے اس مضمون کو خطبہ جمعہ میں بیان کرنے کے لئے اس لئے انتخاب کیا کہ اس کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے یعنی یہ فعل نتیجہ تھا اسلام کی تعلیم کو بگاڑنے کا۔ یہ فعل نتیجہ تھا احراریوں کے وعظوں کا کہ احمدیوں کو قتل کردو۔ جس قوم میں یہ روح پیدا کردی جائے کہ جس کسی سے تمہیں اختلاف ہو تم اسے خود قتل کردو تو ملک کا کوئی آدمی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مثلاً ایک احراری کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ احمدیوں کو مار دو۔ لیکن ایک دوسرا شخص جس کو احمدیوں سے بغض نہیں ہوتا وہ جب یہ سمجھتا ہے کہ جس کسی سے اختلاف ہو اسے خود مار دینا چاہئے تو وہ کسی دوسرے شخص کو جس سے اسے اختلاف ہوگا مار دے گا۔ پس میں کہتا ہوں کہ بے شک قومی لحاظ سے خان لیاقت علی خان کا قتل نہایت افسوس کی بات ہے اور سیاسی لحاظ سے یہ امر ملک کے لئے نہایت نقصان دہ ہے لیکن اس کا مذہبی پہلو اور بھی خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری سیاست تو گئی تھی اب مذہب پر بھی حملہ ہوگیا ہے اور دنیا سمجھتی ہے کہ ہم وحشی ہیں اور جسے چاہتے ہیں قتل کردیتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے۔ ع
زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
سیاست پر تو ہمارے حملہ ہوا ہی تھا اب مذہب پر بھی حملہ ہوگیا ہے۔ دنیا اس بات سے غافل نہیں کہ احراری کیا کہتے ہیں۔ احراری مولوی علی الاعلان سٹیجوں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ تم احمدیوں کو قتل کیوں نہیں کرتے لیکن کوئی انہیں منع نہیں کرتا۔ حکومت کا نظام موجود ہے۔ گورنر جنرل اور سنٹرل وزراء اور صوبائی گورنر اور صوبائی وزراء اور دوسرے سیکرٹری موجود ہیں لیکن احراری اس کے باوجود سٹیجوں پرکھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ حکومت اپنے فرض کو ادا نہیں کررہی۔ اے جانباز مسلمانو! تم خود رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کا بدلہ لو )حالانکہ یہ احراری خود رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرنے والے اور ننگ اسلام ہیں( اور احمدیوں کو قتل کردو۔ اور جب یہ فتویٰ رعایا کے سامنے لایا جائے گا کہ اسلام` قرآن کریم اور قانون سب اس بات پر متفق ہیں کہ جس کسی سے تمہیں اختلاف ہو تم اسے مار دو تو صرف احمدیوں ہی کو نہیں مارا جائے گا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی جس سے کسی کو اختلاف ہوگا مار دیا جائے گا۔ خان لیاقت علی کان سیاسی اختلاف کی وجہ سے نہیں مارے گئے کیونکہ سیاست دوسرے شخص کے مارنے کو جائز قرار نہیں دیتی۔ مارنے کا جواز جھوٹا مذہب دیتا ہے کیونکہ مولوی کھلے بندوں سٹیج پر چڑھ کر یہ کہتا ہے کہ جس شخص کی بات تمہیں بری لگے تو تم اسے مار دو۔ سننے والے اسی نکتہ کو وسیع کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر بھی یہ فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ جب تک حکومت اس منبع کو ختم نہیں کرتی ملک میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ حکومت نے ایک کمیشن مقرر کیا ہے جو اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ حفاظتی تدابیر میں کیوں کوتاہی ہوئی ہے۔ میں نے بھی جب یہ خبر سنی تھی تو مجھ پر یہی اثر تھا کہ منتظمین نے پوری طرح نگرانی نہیں کی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت پر بھی یہی اثر ہے۔ لیکن تم کتنی بھی ہوشیاری کرلو جب افراد میں یہ احساس پیدا ہوجائے گا کہ جس کسی سے اختلاف ہو تم اسے مار دو تو کونسی طاقت ہے جس کے ذریعہ تم کسی کو ۸ کروڑ افراد سے بچالو۔ لاہور میں جو صوبہ کی حکومت کا مرکز ہے وہاں آکر احراری علماء نے یہ حدیثیں سنائیں کہ تم جو چیز ناپسندیدہ دیکھو اسے ہاتھ سے دور کردو۔ اگر تم ہاتھ سے دور نہیں کرسکتے تو زبان سے اس کی مذمت کرو۔ اور اگر تم زبان سے بھی اس کی برائی نہیں کرسکتے تو دل میں ہی برا منائو۔ اور ان کو احمدیوں پر چسپاں کرکے کہا گیا کہ اے باغیرت مسلمانو! کیوں رسول اللہ~صل۱~ کی ہتک کا بدلہ نہیں لیتے۔ ان مجالس میں جن میں یہ حدیثیں سنائی جاتی تھیں حکومت کے بعض وزراء اور اس کے سیکرٹری موجود ہوتے تھے۔ جب کھلے بندوں اور حکومت کے ذمہ دار کارکنوں کے سامنے یہ سنایا جاتا تھا کہ اختلاف کا ازالہ جبر اور تعدی سے کرنا جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ اور اگر تم اختلاف کا ازالہ نہیں کرتے تو تم کافر ہوجائو گے۔ جب ملک کے آٹھ کروڑ باشندوں میں یہ احساس پیدا کردیا جائے تو پولیس تو ایک فرد سے بچا سکتی ہے۔ دو افراد سے بچا سکتی ہے یا بیس افراد سے بچا سکتی ہے لیکن جب یہ شک ہو کہ ایڈی کانگ اور پولیس والوں نے بھی علماء سے یہ سبق لیتا ہے کہ جس کسی سے اختلاف ہو اسے قتل کردو تو کسی کی جان کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔ سو جب تک مولویوں کو بند نہیں کیا جائے گا کسی کی حفاظت نہیں ہوسکے گی۔ نہ میری` نہ کسی وزیر` گورنر یا کمانڈر انچیف کی۔
انگلستان کی حکومت سینکڑوں سال سے قائم ہے لیکن ابھی تک اس میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی وزیر قتل کردیا گیا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں بعض افسروں پر حکومت کو شبہ پڑجاتا ہے کہ وہ زور سے حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ابھی مقدمہ چل رہا ہے لیکن بہرحال اس قسم کا واقعہ ہوچکا ہے۔ ادھر ہندوستان میں گاندھی جی کو جنہیں وہاں نئی وقت کہا جاتا تھا مار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ مولویوں اور پنڈتوں نے یہ شور ڈالنا شروع کیا ہے کہ جب تمہیں کسی شخص سے اختلاف پیدا ہوجائے تو فوراً قانون ہاتھ میں لے لو۔ یہ ذہنیت جتنی جتنی پھیلتی جائے گی اتنی اتنی پولیس اور فوج بیکار ہوتی جائے گی۔ پولیس اور فوج محدود ہوتی ہے اور وہ ایک حد تک ملک میں کنٹرول کرسکتی ہے۔ صوبہ پنجاب کی پولیس کوئی آٹھ دس ہزار ہے لیکن آبای دو کروڑ ہے۔ اب آٹھ دس ہزار پولیس سے یہ امید کرنا کہ وہ دو کروڑ کی نگرانی کرسکے گی درست نہیں۔ صوبہ میں زیادہ سے زیادہ پانچ فیصدی مجرم ہوسکتے ہیں گویا کوئی دس لاکھ آدمی ایسے ہوسکتے ہیں جو لوٹ مار` ڈاکے` نقب زنی اور قتل و غارت کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان دس لاکھ آدمیوں کو پولیس کہاں سنبھال سکتی ہے۔ اسی واسطے ملک میں کوئی چھ سات ہزار چوری ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں کہتا کہ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ اس قدر نگرانی کی پولیس سے امید ہی نہیں کی جاسکتی۔ یہ فردی خرابی ہے اور فرد کی نگرانی نہیں کی جاسکتی۔
اگر کوئی قومی خیال ہوتا ہے تو اس تنظیم کا کوئی پریذیڈنٹ ہوتا ہے۔ کوئی سیکرٹری ہوتا ہے اور اس طرح اس کا پتہ چل جاتا ہے لیکن جہاں فرد کے دماغ کو بگاڑ دیا جائے وہاں کوئی پولیس کام نہیں دے سکتی مثلاً اگر کوئی کمیونسٹ جماعت ہو تو اس کا کوئی پریذیڈنٹ ہوگا۔ کوئی سیکرٹری ہوگا اور کوئی کنویز ہوگا۔ اور اس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ لوگ فلاں فلاں ہیں اور فلاں فلاں جگہ ان کا مرکز ہے اور پھر ان کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی فرد کوئی ارادہ کرے تو اس کی نگرانی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی سکیم کے اپنے دماغ میں ہوتی ہے اور کوئی ذریعہ ایسا نہیں کہ اسے معلوم کیا جاسکے۔ مثلاً کوئی پریذیڈنٹ نہیں۔ کوئی سیکرٹری نہیں` کوئی فتر نہیں جس میں جمع ہونے والوں سے معلوم ہوسکے کہ کچھ لوگ مل کر کوئی کام کررہے ہیں اور اس سے ان کی نگرانی کی صورت پیدا ہوجائے۔ یہاں بھی چونکہ ایک فرد تھا جس نے خباثت کی اس لئے اس کی خباثت کا قبل از وقت پتہ نہیں لگ سکا تھا سب باتیں اس کے دماغ میں تھیں۔ پس فرد کے دماغ کو بگاڑ دینے سے امن برباد ہوجاتا ہے۔ جب کوئی سازش تنظیم سے ہوتی ہے تو اس کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے لیکن جب افراد کے دماغ بگڑ جائیں تو کوئی چیز ان کی نگرانی نہیں کرسکتی۔ چونکہ مولویوں نے افراد کے دماغوں کو گندہ کردیا ہے اس لئے مزید خباثت کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ان مولویوں کو روکا جائے۔ یہی لوگ دماغ کو صحیح بنانے والے بھی ہیں بشرطیکہ ان میں ایمان ہو۔ اور یہی لوگ دماغ کو گندہ کردیتے ہیں جب ان میں ایمان نہیں ہوتا۔ پس میرے نزدیک ان خطرات کو دور کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ مولویوں کو افراد کی ذہنیت خراب کرنے سے روکا جائے۔
حکومت کی طرح میرا خیال بھی یہ ہے کہ جلسہ کا انتظام ٹھیک نہ تھا۔ قادیان میں مساجد میں میری یہ ہدایت تھی کہ پہلی صف میں معروف لوگ بیٹھیں۔ اب پہرے لگا دیئے گئے ہیں مگر یہ ہرگز ویسے مفید نہیں۔ انسانی فطرت میں یہ بات ہے کہ جب کوئی دوسرا آدمی سامنے ہو تو انسان کسی پر وار کرنے سے گھبراتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کو گولی نہ لگ جائے۔ پھر وہ اس وجہ سے بھی گھبراتا ہے کہ اگر اس کا پہلا وار بھی خالی گیا تو وہ پکڑا جائے گا۔ اس لئے منتظمین کو چاہئے تھا کہ وہ جلسہ کا انتظام کرتے وقت سٹیج کے سامنے معروف لوگوں کو بٹھاتے۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ قاتل نے خان لیاقت علی خان کو مائزر پستول سے مارا ہے۔ وہ بڑا پستول ہوتا ہے اور بڑے پستول کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ اتنی بڑی چیز لے کر وہ شخص سٹیج کے سامنے بیٹھا ہوا تھا یا وہ جیب میں ڈالے ہوئے تھے لیکن کسی شخص کو قبل از وقت اس کا علم نہیں ہوسکا۔ پھر کہتے ہیں کہ وہ شخص چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ یہ بات اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ہمارے ہاں بھی اتنی احتیاط کرلی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص ملاقات کے لئے آئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے ہو تو منتظم اس کی چادر اتروا دیتے ہیں حالانکہ یہاں ملاقات والے اکثر مرید ہوتے ہیں۔ بعض لوگ جوشیلے ہوتے ہیں اور وہ میرے پاس شکایت کرتے ہیں کہ ہماری اس طرح ہتک کی گئی ہے تو میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ آپ تو مخلص ہیں لیکن کوئی بدمعاش بھی تو اس طرح یہاں آسکتا ہے۔
پچھلے دنوں مسلم لیگ کے ایک ممبر مجھے ملنے آئے۔ وہ مجھے اندر آتے ہی کہنے لگے کہ وہ اپنا پستول باہر چھوڑ آئے ہیں کیونکہ انہوں نے پسند نہیں کیا کہ پستول لے کر اندر آئیں۔ اور درحقیقت یہ عام اور ضروری احتیاط ہے۔ لیکن اس شخص کے پاس مائزر پستول تھا جو بڑے سائز کا ہوتا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ پستول پکڑے ہوئے ہے یا اس کی جیب میں کوئی بڑی چیز ہے۔ پھر جب وہ شخص فائر کرتا ہے تب بھی اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ پھر وہ دوسرا فائر کرنے کی بھی جرات کرتا ہے۔ اس سے شبہ پڑتا ہے کہ اس کے دائیں اور بائیں اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ امر اور بھی خطرناک ہے کہ وہ آدمی مارا گیا۔ تمام متمدن دنیا میں ایسے آدمی کو مارا نہیں جاتا تاسازش پکڑی جائے۔ اس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید اس کے ساتھ اس کا کوئی دوسرا ساتھی بھی تھا۔ انارکسٹ اسی طرح کرتے ہیں۔ وہ جب کسی شخص کو کسی لیڈر کے مارنے پر مقرر کرتے ہیں تو ایک اور شخص کو اس کے مارنے پر بھی مقرر کردیتے ہیں تا وہ پکڑا نہ جائے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے قاتل کو پیٹ پیٹ کر مار دیا تھا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اور بھی افسوسناک امر ہے کیونکہ اس سے سازش کے کھلنے کا امکان بہت کم ہوگیا۔ پولیس کو فوراً اس شخص کے گرد گھیرا ڈال لینا چاہئے تھا اور اسے زندہ گرفتار کرنا چاہئے تھا اس کے ذریعہ سے اصل سازش کا سراغ مل سکتا۔ اس کا بچانا اس کی خاطر ضروری نہیں تھا بلکہ اس کا بچانا ملک کی خاطر ضروری تھا تا اس سے سازش کا پتہ لگایا جاتا۔ ممکن ہے تحقیقات سے یہ معلوم ہو کہ حفاظت کا ہر ممکن انتظام کردیا گیا تھا اور یہ محض وہم ہے کہ اس میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے بلکہ یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہوگیا۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مجرم بھی مل جائے لیکن اس سے یہ امر حل نہیں ہوسکتا کہ مولیوں نے افرا کی ذہنیت خراب کردی ہے۔ جب تک یہ ہوتا رہے گا اور قانون ہاتھ میں لینے کا وعظ ہوتا رہے گا نہ پولیس کام دے سکے گی نہ فوج کیونکہ جب افراد کے ذہنوں کو گندہ کردیا جائے اور قانون کے ادب کو ختم کردیا جائے اور اختلاف کی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تعلیم دی جائے تو پھر کس کس پر شبہ کیا جائے گا یا کس کس کو شبہ سے بالا سمجھا جائے گا۔ اس صورت میں خود وزراء کے ایڈی کانگوں پر بھی شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید ان کے دل میں بھی قتل کا خیال ہو۔ کیونکہ اگر افراد کی ذہنیت کو بگاڑ دیا جائے تو پھر خواہ کوئی سیکرٹری ہو یا ایڈی کانگ وہ اپنے افسر سے ناراض ہوسکتا ہے اور اختلاف رائے کی وجہ سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ارادہ کرسکتا ہے۔ جن ملکوں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ حکومت کا کام ہے کہ کسی شخص کو مجرم قرار دے افراد کو یہ اختیار حاصل نہیں وہ ملک پرامن ہیں۔ اس قسم کی پابندی سب سے زیادہ انگلستان میں ہے اور وہ پرامن ہے۔ امریکہ کتنی بڑی جمہوریت ہے لیکن وہاں افراد پر کنٹرول نہیں کیا جاتا اس لئے وہاں فساد ہوتے ہیں۔ جرمنی والے بھی قانون کے پابند ہیں اس لئے وہاں فساد نہیں ہوتے۔ بے شک ہٹلر کے وقت میں حکومت کی طرف سے رعایا پر سختیاں ہوئیں لیکن یہ کہ افراد ایک دوسرے پر سختی کریں یہ کبھی نہیں ہوا۔ اور ملکوں میں بھی یہ طریق پایا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ محفوظ انگلستان ہے اور اس کے بعد جرمنی ہے۔ پھر دوسرے ممالک میں انسانوں کے ہاتھوں سے مارے جانے والے بالعموم وہ ہوتے ہیں جو ملک میں بدنام ہوتے ہیں لیکن یہاں اندھیر یہ ہے کہ ہندوستان میں گاندھی جی کو مارا جاتا ہے جنہیں وہاں نبی کہا جاتا تھا اور ادھر پاکستان میں خان لیاقت علی خان کو مارا جاتا ہے جن کو ملک کی آزادی کو برقرار رکھنے والا اور اس کو ترقی دینے والا کہا جاتا ہے۔ یہ محض مولویوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ کھیل ہے جو وہ ہمارے ساتھ کھیل رہے تھے لیکن حکومت نے ان کو منع نہ کیا جس کی وجہ سے یہ گند زیادہ پھیل گیا۔ تم اگر کسی کو کہتے ہو کہ فلاں کو مارو مثلاً بچے ہیں ماں باپ یا بہن بھائی کھیل کے طور پر بعض دفعہ انہیں سکھاتے ہیں کہ فلاں کو مارو تو وہ مارتے ہیں اور ماں باپ بہن بھائی اس پر ہنستے ہیں۔ دوسرے دن وہ بچے ماں باپ کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں اور اس وقت روکنا کوئی معنے نہیں رکھتا۔ ایک دفعہ اگر تم انہیں کہو گے کہ فلاں کو مارو تو وہ پھر دوسروں کو ماریں گے اور تم روک نہیں سکو گے۔
پس میں حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ افراد کی ذہنیت کو بدلے ورنہ امن قائم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لیڈر مرتے جائیں گے اور نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔ پھر مولویوں اور دوسرے لوگوں کی جانیں بھی محفوظ نہیں ہوں گی۔ روس میں دیکھ لو زار نے جو طریق رعایا سے اختیار کیا تھا وہی طریق رعایا نے اس کے خلاف چلایا۔ پس یہ کھیل محدود نہیں چلے گا۔ ہمارے خلاف یہ کھیل کھیلا گیا تھا لیکن آخر پاکستان کے نہایت اہم اور ابتدائی لیڈر کے خلاف ایک بدباطن نے وہی حربہ چلا دیا کیونکہ دلوں سے قانون کے ادب اور سوچنے اور نفس پر قابو پانے کا جذبہ مٹا دیا گیا تھا۔ اگر یہ بات جاری رہی تو ایک دن یہ مولوی خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ خود انہی کے متعلق کسی بات پر خفا ہوکر ان پر بھی حملے کریں گے۔ میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی ہوگ کہ میں امرتسر گیا اور دیکھا کہ ایک مولوی صاحب بڑی داڑھی والے جبہ پہنے ہوئے اور ہاتھ میں عصا لئے جارہے تھے ان کے پیچھے پیچھے ایک اور آدمی تھا جو ہاتھ جوڑتا اور ان کی منتیں کرتا جارہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ میں مفلس و غریب ہوں میری حالت پر رحم کھائیں۔ اور مولوی صاحب پیچھے مڑ کر اس گھورتے اور کبھی کبھی گالی بھی دے دیتے تھے۔ جب مولوی صاحب دور نکل گئے میں نے اس شخص سے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میں نے اس خبیث کے پاس ایک سو روپیہ رکھوایا تھا اب واپس مانگتا ہوں لیکن یہ واپس نہیں دیتا۔ سو مولویوں میں حرام خور بھی ہیں` ظالم بھی ہیں اور ان میں دوسرے عیوب بھی پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اگر انہوں نے ایسی تعلیم دی تو ایک نہ ایک دن ان پر بھی وار ہوگا۔ کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ ان سے کسی اور کو اختلاف نہ ہو۔
اصل امن والی تعلیم قرآن کریم کی ہے۔ یہ کتنی پاکیزہ تعلیم ہے کہ حکومت کے سوا کسی کو شرعی تعزیر دینے کا اختیار نہیں۔ اور حکومت بھی اسی تعزیر کا اختیار رکھتی ہے جس کا اختیار اسے قرآن کریم نے دیا ہے۔ گویا پہلے عوام کے ہاتھ بند کئے پھر حکومت کے ہاتھ یہ کہہ کر بند کردیئے کہ تم بھی قضاء کے ذریعہ ہی تعزیر کو اختیار رکھتے ہو۔ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ~صل۱!~ اگر میں اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو دیکھوں تو آیا مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت ہے؟ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا۔ اگر تم اسے قتل کرو گے تو اس کے بدلہ میں تمہیں قتل کیا جائے گا۔ تم گواہ پیش کرو۔ اس شخص نے کہا یارسول اللہ~صل۱!~ اتنا دیوث کون ہوگا کہ وہ اپنی عورت کے پاس غیر مرد دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے۔ اسلام نے ایسے شخص کی سزا قتل رکھی ہے تو کیوں نہ میں اسے مار دوں۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو پکڑے جائو گے۔ اس وقت تک زانی کو رجم کیا جاتا تھا اور وہ صحابی بھی اسے قتل کرنے کے لئے ہی اجات چاہتے تھے۔ لیکن رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ تم نے اپنی عورت کے پاس غیر مرد کو دیکھا لیکن تم قاضی کے پاس جائو وہ فیصلہ کرے گا کہ تم ٹھیک کہتے ہو یا غلط۔ اب یہ کتنی واضح دلیل ہے کہ اسلام نے کسی صورت میں بھی شرعی تعزیر کی جس میں قتل کرنا` ہاتھ پائوں کاٹنا اور قید کرنا شامل ہیں کسی فرد کو اجازت نہیں دی۔ ہاں بعض سزائوں کی اجازت دی ہے مثلاً ایک باپ یا استاد بچے کو اس کے کسی قصور پر مار سکتا ہے۔ پھر قومی سزائوں کا قوم کو اختیار ہے۔ مثلاً کسی قصور پر ہم ایک شخص کو جماعت سے خارج کردیتے ہیں تو اس کا ہمیں اختیار ہے کیونکہ یہ شرعی تعزیر نہیں۔ جو شرعی تعزیریں ہیں مثلاً قتل کرنا` ہاتھ پائوں کاٹنا` کوڑے لگانا وغیرہ ان کا اختیار حکومت کو ہے اور وہ بھی قضاء کے ذریعہ۔ حکومت عارضی طور پر کسی کو قید کرسکتی ہے لیکن بعد میں اس کا فیصلہ قضاء ہی کرے گی۔ اگر تم اسلام کی اس تعلیم کو ملک میں جاری کردو تو کوئی قتل ممکن ہی نہیں۔ نہ آگ لگائی جاسکتی ہے اور نہ کسی کو مارا پیٹا جاسکتا ہے۔ اس تعلیم کو جاری کرنے کے بعد ہی ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ تم پہلے اسلامی ذہنیت پیدا کرو۔ یہ نہیں کہ ایک طرف مولوی یہ کہے کہ ملک میں اسلامی تعلیم پھیلائو اور دوسری طرف یہ کہے کہ فلاں شخص اسلامی تعلیم کے خلاف چلتا ہے اس لئے اسے قتل کردو۔ ہم حکومت کو کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکے ہیں لیکن اس کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو ذہنیت احمدیوں کے خلاف پھیلائی گئی تھی وہ پاکستان کے خلاف چل گئی۔ اور اگر اس ذہنیت کو جلدی تبدیل نہ کیا گیا تو صرف احمدیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ لوگ ان مولویوں کے خلاف بھی جو یہ فتوے دیتے ہیں کارروائی کریں گے۔ غرض یہ ذہنیت نہایت خطرناک ہے اگر اسے جلد روکا نہ گیا تو یہ ملک کے لئے بہت خطرے کا موجب ہوگا۔ اگر مولوی حقیقت میں ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تو وہ رعایا کو سکھاتے کہ شرعی تعزیر ان کے اختیار میں نہیں شرعی تعزیر حکومت کے اختیار میں ہے۔ بلکہ حکومت بھی شرعی تعزیر قضاء کے ذریعہ دے سکتی ہے۔ اگر واقعہ میں یہ تعلیم دی جائے تو خان لیاقت علی خان تو پاکستان کے پریمیئر تھے پاکستان کا ایک غریب لڑکا بھی نہیں مارا جاسکتا۔ جب ہر شخص کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ ایسا فعل خدا تعالیٰ کے منشاء` اس کے رسول~صل۱~ کی تعلیم` قرآن کریم` اخلاق` حب الوطنی` روح نظام اور ملک و ملت کے خلاف ہے تو کوئی شخص ایسا فعل کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ اگر خان لیاقت علی خان جنگل میں بھی ہوتے اور سوائے ان کے اور قاتل کے وہاں کوئی نہ ہوتا۔ لیکن قاتل کے ذہن میں اسلام کی صحیح تعلیم ہوتی تو وہ کبھی نہ مارے جاتے۔ ایسی صورت میں پولیس وغیرہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم کو قائم کرو۔ یہ ملاں جو ہلاکو کی تعلیم کو پھیلا رہے ہیں خان لیاقت علی خان کے قتل کے اصل ذمہ دار ہیں جب تک حکومت ان کے منہ بند نہیں کرے گی ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا<۔۶۳
حادثہ قتل کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ
حکومت پاکستان نے اس حادثہ قتل کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا ہے۔ کمیشن نے اگرچہ متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی کہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وزیراعظم مرحوم کا قتل سید اکبر کا محض انفرادی فعل تھا یا کسی سازش کا نتیجہ تاہم کمیشن نے قاتل کے اس شرمناک فعل کے امکانی محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے اس محرک کا بھی ذکر کیا کہ اس جرم کی تہ میں اس کے انتہاء پسندانہ مذہبی نظریات کار فرما تھے اور یہ وہی امکانی پہلو تھا جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مفصل روشنی ڈالی تھی اور جس سے حضور کے نظریہ کی لفظاً لفظاً تائید ہوتی تھی۔ چنانچہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس مذہبی محرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو رائے قائم کی اس کا خلاصہ جماعت اسلامی کے آرگن کوثر )۴۔ ستمبر ۱۹۵۲ء( کے الفاظ میں یہ تھا:۔
>اگر وجہ قتل یہ ہو کہ سید اکبر نے مسٹر لیاقت علی خاں کو اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ وہ اس کے معیار اسلام پر پورے نہیں اترتے تھے تو یہ ایک خوفناک صورت حال کا پتہ دیتا ہے اور کمیشن حکومت کو توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر اس قسم کے رجحانات ملک میں پنپ رہے ہوں تو ان کو سختی سے دبا دینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں کمیشن کی طرف سے اس امر کا بھی ذکر کیا گیا تھا کہ اس کے سامنے بعض اخباروں کے مضامین اور بعض مصنفین کی تحریریں بھی پیش کی گئیں جن میں مسٹر لیاقت علی خاں کے خلاف نہایت سوقیانہ انداز میں رائے زنی کی گئی تھی۔ اس کے بعد کمیشن نے ان لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا جن کا تصور اسلام کے نزدیک بھونڈا اور خام ہے اور ان کی سخت الفاظ میں مذمت کی<۔
رپورٹ کے حق میں پاکستانی پریس کی آواز
جماعت اسلامی اور اس کے بعض حاشیہ برداروں کے سوا پاکستانی اردو اور انگریزی پریس نے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے اس زاویہ نگار کی متفقہ طور پر تائید کی اور عوام اور حکومت کو فرقہ پرستی اور ملائیت کے اس خوفناک اور سنگین خطرہ سے خبردار کیا جو ملک میں ہر لمحہ اور ہر طرف سیلاب رواں کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا۔
مثلاً اخبار >آفاق< نے لکھا:۔
>محب وطن پاکستانی ہم سے اتفاق کریں گے کہ کمیشن نے آزادی صحافت اور اسلام کا نام لے کر عمائدین ملک کے خلاف گندگی اچھالنے والے اخبارات ۔۔۔۔۔ کے اصل عزائم کو بے نقاب کرکے ایک بہت بڑی خدمت انجام دی ۔۔۔۔۔ اسلام و صالحیت کے یہ اجارہ دار اور بزعم خویش ملک و قوم کے یہ >مخلص خادم< اپنے سیاسی مخالفین کو فاسق و فاجر اور بددیانت کہتے رہے ۔۔۔۔ ہمیں یہ کہتے میں مطلق تامل نہیں کہ دراصل یہی لوگ قائد ملت کے قاتل تھے کیونکہ انہی لوگوں کی تحریروں نے وہ ماحول پیدا کیا جس کی پیداوار کمیشن کے الفاظ میں سید اکبر بھی تھا<۔
اخبار >احسان< )لاہور( نے یہ نوٹ سپرد اشاعت کیا کہ:۔
>ہمیں کمیشن کی اس رائے سے پورا پورا اتفاق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض طالع آزما جماعتیں )جو اسلام کے نام کو استعمال کرتی ہیں( اقتدار کے بھوکے پٹے ہوئے سیاسی مہرے لیاقت مرحوم کے خلاف تقریروں میں زہر اگل رہے تھے ۔۔۔۔۔ اخبارات معاصر نوائے وقت بالخصوص اور اس کے انداز میں سوچنے والے ایک دو اور جرائد لیاقت مرحوم اور ان کی قابل احترام رفیقہ حیات کی بابت جھوٹے واقعات اختراع کرکے طرح طرح سے انہیں بدنام کرتے اور ان کا تمسخر اڑاتے رہے ۔۔۔۔۔ نتیجہ ظاہر تھا نفرت و حقارت کا یہ زہر پھیلا اور اس نے سید اکبر کو جنم دیا<۔
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے کمیشن کی رپورٹ پر حسب ذیل شذرہ لکھا:۔
ہماری سیاسی زندگی کے دامن پر جو سب سے زیادہ تاریک داغ ہے اس پر انگلی رکھ دی گئی ہے۔ یہ بات کہ ایک مسلمان کو دوسرا مسلمان اسلام کے نام پر قتل کردے یہ ایک نزاعی بحث نہیں ہے بلکہ ملائوں کے مذہب کا ایک مسلمہ ہے۔ ایک مسلمان خواہ وہ کتنا ہی دیانتدار اور زندگی میں پاکباز ہو اگر وہ ملا کے معیار اسلام پر پورا نہیں اترتا تو اس کو فوراً >کافر< کا خطاب دے دیا جاتا ہے اور ایسی صورت میں یہ ایک بڑا دینی کارنامہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی جان لے لی جائے۔ اگر مذہبی جنون کا نظریہ قبول کرلیا جائے تو نواب زادہ لیاقت علی اسی نفسیات کا شکار ہوئے۔ جاہل مذہبی جنونی قاتل نے اپنے ہی اسلامی معیار پر ان کو پرکھا اور اس سے فروتر پایا۔ ملا کے مسلمہ مذہبی معیار کے مطابق یہ بات اس امر کا کافی جواز تھا کہ ان کی جان لے لی جائے۔ جو حادثہ وزیراعظم مرحوم کو پیش آچکا ہے وہ ہر وزیر کو پیش آسکتا ہے بشرطیکہ عوام کے جوش کو اس کے خلاف کافی طور پر بھڑکا دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس رپورٹ نے اس خطرناک رجحان کی طرف متوجہ کرکے بڑی خدمت سرانجام دی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ رائے عامہ کو اس عظیم معاشرتی خطرے کے علاوہ منظم ہونا چاہئے۔ مذہب کے نام پر تشدد اسلام میں بہت عام ہے۔ چھوٹے چھوے اختلافات نے بڑے بڑے فساد برپا کئے ہیں اور لوگوں کے سر توڑے ہیں۔ ملا کے نزدیک مغربی لباس پہننا بھی >کفر< ہے۔ داڑھی مونچھ کا منڈا ہوا ہونا تو >کفر< کی سب سے بڑی علامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ملا کو اسلام کا آخری حکم بنا دینا اس پاکیزہ دین کی توہین ہے جو محبت` وسعت نظر اور ہمدردی انسانی کا پیغام لے کر آیا۔ علاوہ ازیں یہ پاکستان کی تخریب کا بھی یقینی راستہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ان دنوں حالات فی الواقع خوفناک ہوتے جارہے ہیں۔ جسٹس محمد منیر کا انتباہ نہایت بروقت اور برمحل ہے۔ ملا کا خطرہ بڑھ رہا ہے وہ موجودہ نظام کو الٹ دینے کے لئے باہر نکل آیا ہے اور اس کو بدنام کررہا ہے۔ اس کا ہتھیار وہی پرانا حربہ ہے کہ ہر چیز کو غیر اسلامی قرار دے دیا جائے۔ کافر سازی ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ انکوائری رپورٹ نے صحیح طور پر موجودہ رفتار میں پاکستان کی تخریب کے جراثیم کو دیکھ لیا ہے۔ )ترجمہ(
اخبار >پاکستان ٹائمز< نے کمیشن کی رپورٹ پر درج ذیل ادارتی نوٹ لکھا:۔
مسٹر لیاقت علی خاں کے قتل کے متعلق کمیشن نے فوری حالات پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے کچھ کم اہم اور قیمتی اس کی وہ شدید تنقید نہ ہوگی جو ہماری قومی زندگی کے مذہبی جنون کے رجحانات کے بارے میں کی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے قیام کے وقت ہی سے قومی زندگی کے تمام معقول اور ترقی پسند عناصر افسوس اور خطرے کے احساس کے ساتھ اپنی قوم میں خطرناک متعصبانہ رجحانات کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ بات کہ یہ حالات بالاخر مسٹر لیاقت علی خاں کے قتل کے کس حد تک ذمہ دار ہیں اس کا معلوم کرنا آسان نہیں ہے لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہ ہمارے جسد قومی میں داخل ہوگئے ہیں اور بہت سے لوگ پہلے ہی حیران ہیں کہ ہماری قومی زندگی ان سے کس طرح نجات حاصل کرے گی۔ پیشتر اس کے کہ وہ اس کو کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچاوے ان رحجانات سے ملک کو کتنا خطرہ ہے۔ اس بات پر کمیشن نے پوری طرح زور دے دیا ہے اور حکومت کو اس نے متنبہ کردیا ہے کہ اگر ان کو اپنے رخ پر جاری رہنے دیا گیا تو اس سے پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ واقع ہوگی۔۶۴
حضرت مصلح موعودؓ کی پانچ اہم ہدایات جامعتہ المبشرین کی ایک الوداعی تقریب میں
۲۹۔ اخاء ۱۳۳۰ہش/ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو بعد نماز عصر جماعت احمدیہ کی جدید مرکزی درس گاہ جامعتہ المبشرین کی طرف سے
سب سے پہلے کامیاب ہونے والے مبلغین کو الوداعی پارٹی دی جس میں حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے بھی از راہ شفقت و ذرہ نوازی شرکت فرمائی اور ایک معلومات افروز تقریر کے ذریعہ اساتذہ اور طلباء جامعہ کو پانچ نہایت اہم اور قیمتی ہدایات سے نوازا جو تحقیق و تفحص اور علمی ترقی کے میدان میں ہمیشہ خضر راہ ثابت ہوں گی۔
پہلی ہدایت
حضور پرنور نے اپنے خطاب کے شروع میں پہلی ہدایت یہ فرمائی کہ >طلباء کی صحت کا خیال رکھا جائے اور وہ اس کے مقابل پر محنت کا خیال رکھیں<۔
دوسری ہدایت
دوسری اہم چیز جس کی طرف حضور نے توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ >عربی زبان میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کا ہر حرف الگ پڑھا جاتا ہے۔ جب تک ہر حرف کو الگ نہ پڑھیں تلفظ ٹھیک نہیں ہوتا۔ دوسری زبانوں میں ہم حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط کردیتے ہیں لیکن عربی زبان میں ہم حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط نہیں کرسکتے ۔۔۔۔ حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے معنی کچھ نہیں بنیں گے ۔۔۔۔۔ یہ دست درازی کم ازکم قرآن کریم پر نہیں ہونی چاہئے تیرہ سو سال سے مسلمانوں نے اس کو محفوظ رکھا ہے تمہیں بھی اسے محفوظ رکھنا چاہئے اور قرآن کریم کی تلاوت پر خاص توجہ دینی چاہئے<۔
تیسری ہدایت
تیسری ہدایت حضور نے مقررین کے لئے دی جو یہ تھی کہ >جب ایک واعظ کھڑا ہوتا ہے تو اس وقت وہ سامعین کو کچھ بتلانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے پس اسے لوگوں سے گھبرانے کی کیا وجہ ہے؟ جو اس سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ پس تقریر آہستگی کے ساتھ کرنی چاہئے۔ پھر آہستہ آہستہ جب سامعین کے دماغوں اور تقریر کرنے والے کے دماغ میں توازن قائم ہوجائے تو بے شک وہ اپنی آواز بلند کرے اور الفاظ بھی جوش سے ادا کرے۔ لیکن اگر وہ شروع میں ہی جلدی جلدی بولنے لگ جاتا ہے تو سامعین تاڑ جاتے ہیں کہ وہ ان سے ڈر رہا ہے اس لئے وہ اس کا اثر قبول نہیں کرتے<۔
چوتھی ہدایت
حضور کی چوتھی ہدایت یہ تھی کہ >ہمارے طلباء مطالعہ کے لئے بہت کم وقت نکالتے ہیں اپنے وقت میں سے ہمیشہ ایک حصہ زائد مطالعہ کے لئے بھی نکالنا چاہئے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ایک اچھا پڑھنے والا ایک گھنٹہ میں اوسطاً ۳۰ صفحے پڑھتا ہے۔ عربی ٹائپ ذرا چھوٹا ہوتا ہے اور کتاب کے صفحات بڑے ہوتے ہیں اس لئے اگر آپ لوگ زائد مطالعہ کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ بھی دیں تو اوسطاً دس پندرہ صفحات فی گھنٹہ پڑھے جاسکتے ہیں<۔ اس ضمن میں حضور نے یہ بھی بتایا کہ >اسی لئے میں نے عربی کتابیں منگوا کر دی ہیں جن میں علم ادب` علم تاریخ` فلسفہ` منطق` صرف و نحو` علم نحو` علم معانی اور دوسرے علوم پر لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا منشاء یہی ہے کہ ایک دو سال میں دس پندرہ ہزار روپیہ صرف کرکے ایک لائبریری بنائی جائے جو کالج کے لحاظ سے مکمل لائبریری ہو چنانچہ اس سلسلہ میں میں نے انگریزی کی بعض کتابیں بھی منگوا کر دی ہیں۔ یہ کتابیں مختلف علوم کے متعلق ہیں<۔
پانچویں ہدایت
مقالہ (THESIS) لکھنے کے بارے میں اساتذہ اور طلبہ دونوں کو مخاطب کرکے یہ خاص ہدایت فرمائی کہ:۔
>مضمون ایسے رنگ میں بیان کرو کہ پڑھنے والا اسے سمجھ سکے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے بطنی عنوان مقرر کئے جائیں پھر ماہرین کی ایک کمیٹی اس پر غور کرے اور اس کی ترتیب بھی بتائے پھر لٹریچر بھی بتایا جائے کہ کون کون سی کتابوں میں یہ مضمون مل سکتا ہے ۔۔۔۔ پس تھیسس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے عنوان مقرر ہوں` اس کی ترتیب بتائی جائے اور پھر مشورہ دیا جائے کہ یہ مضمون فلاں فلاں کتاب سے مل سکتا ہے۔ پھر مضمون زیادہ لمبا نہیں ہونا چاہئے۔ ایم۔ اے میں جو تھیسس (THESIS) لکھے جاتے ہیں وہ بھی پچاس ساٹھ صفحات کے ہوتے ہیں۔ اگر مضمون چھوٹے ہوں گے تو خواہ لکھنے والا پہلے دو ماہ میں ایک سطر بھی نہ لکھ سکے اور تیسرے ماہ وہ دس کالم روزانہ لکھے تب بھی وہ ۳۰۰ کالم لکھ لے گا جو پچاس مطبوعہ صفحات کے برابر ہوگا اور یہ کافی لمبا مضمون ہے۔ اس طرح مفید لٹریچر مل سکتا ہے اور تبلیغ میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے<۔۶۵
حضرت مصلح موعودؓ نے بیش قیمت ہدایات پر مشتمل تقریر کے بعد جامعتہ المبشرین کے اساتذہ طلبہ اور فارغ التحصیل مبلغین کے لئے دعا فرمائی۔ اور یہ حضور کی دعا ہی کا اثر ہے کہ اس سال جامعہ پاس کرنے والے مبلغین کو جو جامعتہ المبشرین کے پہلے پھل کہلانے کے مستہق ہیں اندرون پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک بھی اعلائے کلمتہ اللہ کی توفیق ملی ہے۔ ان میں سے اکثر اب بھی خدمت اسلام میں مصروف عمل ہیں۔ اس پہلی کلاس کے بعض مبلغین کے نام مع ان کے ممالک تبلیغ کے حسب ذیل ہیں:۔
مرزا محمد ادریس صاحب )بورنیو۔ یوگنڈا۔ انڈونیشیا( مولوی عبدالقدیر صاحب شاہد )غانا۔ سیر الیون( عبداللطیف صاحب پریمی )غانا( مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری )سیر الیون۔ غانا امریکہ( مولوی مبارک احمد صاحب ساقی )نائیجیریا۔ لائبیریا( میر مسعود احمد صاحب )ڈنمارک( صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب )انڈونیشیا( مولوی محمد اجمل صاحب شاہد )نائیجیریا(
چوتھا باب )فصل چہارم(
سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کا خصوصی پیغام جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے نام` اخبار >الرحمت< اور مسئلہ عزل خلفاء` ملتان اور لائلپور کے جلسہ ہائے سیرۃ النبی~صل۱~ میں ہنگامہ آرائی` اخبار >بدر< کا دوبارہ اجراء اور حضرت مصلح موعودؓ کا پر معارف افتتاحی مضمون

سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کا خصوصی پیغام جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے نام
اسی سال کے آخر میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی دوسری سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے لئے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے ایک خصوصی پیغام ارسال فرمایا۔ جس میں انڈونیشیا کے مخلص احمدیوں کو اپنے عملی نمونہ` تعلیم و تربیت` مرکز احمدیت سے گہری وابستگی اور غیر متزلزل ایمان کے ذریعہ انڈونیشیا کی اکثریت کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل کرنے کی ولولہ انگیز تحریک فرمائی۔ اس پیغام سے انڈونیشیا کی احمدی جماعتوں میں ایک نیا ذوق و شوق اور جوش و خروش پیدا ہوگیا۔ ذیل میں حضرت مصلح موعودؓ کے اس پیغام کا متن درج کیا جاتا ہے:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
احباب جماعت انڈونیشیا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
مجھے عزیزم شاہ محمد صاحب مبلغ انچارج انڈونیشیا کے ایک خط سے یہ معلوم کرکے نہایت افسوس ہوا کہ گزشتہ سال باوجود ان کی تحریک کے میں جماعت انڈونیشیا کے سالانہ جلسہ میں کوئی پیغام نہ بھجوا سکا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں میں میں بیمار تھا ان دنوں میں ایسا خط پہنچا ہے ورنہ جماعت انڈونیشیا جس نئے دور میں سے گزررہی تھی اس کے لحاظ سے ضروری تھا کہ میں اسے پیغام بھجواتا۔
جہاں تک امام جماعت احمدیہ کے پیغاموں کا سوال ہے چونکہ جماعتیں اب ساری دنیا میں پھیل گئی ہیں یہ تو بعید از عقل ہے کہ امام جماعت کی طرف سے ہر جماعت کو ہر سال کوئی نیا پیغام پہنچے لیکن یہ خواہش ہو جماعت کی بالکل معقول ہے کہ کسی خاص اور اہم موقع پر جو اسے پیش آئے اس کے امام کی طرف سے اس کو کوئی تسلی` مبارکباد یا رہنمائی کا پیغام پہنچے۔ پس چونکہ انڈونیشیا کی جماعت ایک نئے نظام کے ماتحت چلائی جانے والی تھی میری طبیعت اچھی تو میں ضرور مختصر پیغام ان کی کانفرنس کے موقع پر بھجواتا لیکن گزشتہ سال جلسہ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی میں شدید بیمار ہوگیا تھا۔
مجھے اس بات پر نہایت خوشی ہے کہ جماعت انڈونیشیا جس کی ابتداء ۱۹۲۶ء سے ۱۹۲۷ء۶۶ میں ہوئی تھی اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی ترقی کرچکی ہے اور منظم ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ انڈونیشیا کے نوجوان تعلیم کے لئے احمدیہ مرکز میں آتے رہتے ہیں۔ گو اتنی توجہ اس طرف نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہئے تھی۔ میں سمجھتا ہوں اور تجربہ سے یہ معلوم ہوتا کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن کے لئے خدا تعالیٰ نے سعادت مقدر کی ہوئی ہے۔ انڈونیشین لوگوں میں مجھے وہ کیر نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے ممالک کے لوگوں میں نظر آتا ہے۔ ان کی طبائع میں صلاحیت اور نرمی ہے اور وہ سچ کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں۔ پس میں سمجھتا ہوں اگر جماعت احمدیہ اپنے فرض کو اچھی طرح پہچانتی تو جماعت جو اس وقت دس ہزار کے قریب ہے یقیناً ایک لاکھ سے بھی زائد ہوتی۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں اور کم از کم یہ کوشش کریں کہ ان کی جماعت اگلے سال دس ہزار سے بیس ہزار ہوجائے پھر اس سے اگلے سال بیس ہزار سے چالیس ہزار ہوجائے اور پھر اس سے اگلے سال چالیس ہزار سے اسی ہزار ہوجائے اور اسی طرح ہر سال جماعت اپنی تعداد میں بڑھتی چلی جائے۔ مگر یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ہر انڈونیشین احمدی اپنے فرض کو سمجھے اور مناسب لٹریچر کثرت کے ساتھ مہیا کیا جائے اور مبلغوں کی تعداد موجودہ تعداد سے زیادہ ہو۔ موجودہ پولیٹیکل حالات ایسے ہیں کہ پاکستان کے مبلغ اس ملک میں زیادہ نہیں جاسکتے۔ پس مناسب تدبیر یہی ہے کہ انڈونیشیا کے نوجوان تعلیم کے لئے پاکستان آئیں اور پھر یہاں سے تعلیم پاکر اپنے ملک کو واپس جائیں لیکن پچھلے ایک دو سال سے اس طرف کچھ توجہ دیکھتا ہوں مگر وہ توجہ ضرورت اسے ابھی بہت کم ہے۔
پھر جماعت کی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کا امام سے براہ راست تعلق ہو اور وہ اس کی دعائوں سے حصہ لے مگر مجھے افسوس ہے کہ امریکہ اور مغربی افریقہ میں جو دونوں علاقے امام کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں نہایت ہی آگے آگے ہیں انڈونیشیا کی جماعتوں نے اس رنگ میں امام سے تعلق پیدا نہیں کیا۔ اب کچھ عرصہ سے ایک وہ جماعت کے عہدیداروں نے اور چند افراد نے خط و کتابت شروع کی ہے اور یہ ایک نیک تبدیلی انڈونیشیا میں پیدا ہوئی ہے لیکن ابھی اس میں بہت کچھ اصلاح کی ضرورت ہے۔ جس کو بھی جس زمانہ میں خدا تعالیٰ ساری جماعت کا امام بناتا ہے وہ باقی جماعت کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ اور جب تک افراد جماعت کا تعلق اس سے ایسی صورت میں نہ ہو جیسا کہ شریف اور نیک بیٹے کا اپنے باپ سے ہوتا ہے اس وقت تک وہ شخص یا وہ قوم یا وہ ملک ان وحانی برکات کا امیدوار نہیں ہوسکتا جو خداتعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو اس کے مقرر کردہ خلیفہ کے ساتھ تعاون کرتے اور اس کے ناصر ومددگار بنتے اور اس کے کام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ ہماری جماعت ایک روحانی جماعت ہے اور اگر وہ سچی ہے تو پھر یہ بھی سچی بات ہے کہ جو کوئی بھی اس جماعت کے نظام کی اتباع کرے گا اور اس کی قدر کرے گا اور اس کے ساتھ تعاون کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہوگا۔ کیونکہ جب ایک ادنیٰ انسان بھی اپنے ساتھ تعاون کرنے والے کی قدر کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے تو خدا تعالیٰ جو غیرمحدود ذرائع رکھنے والا ہے اس کی نسبت یہ کب امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کے مقرر کردہ خلیفہ یا اس کی مقرر کردہ جماعت کے ساتھ تعاون کرنے والوں اور محبت کرنے والوں اور اخلاص رکھنے والوں کی قدر نہیں کرے گا اور ان کی مدد نہیں کرے گا۔ یقیناً جو لوگ اس رستہ کو اختیار کریں گے وہ اپنی روح کے اندر ایک تبدیلی پائیں گے اور اپنے آپ کو خلیفہ وقت کا روحانی بیٹا ثابت کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا اس دنیا میں روحانی فرزند بننے کا فخر حاصل کریں گے اسلام کا خدا محبت کرنے والا خدا ہے اور وہ فرمانبردار بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے جتنا کہ محبت کرنے والا باپ اپنے بیٹوں سے محبت کرتا ہے۔ مگر باپ کی محبت حاصل کرنے کے لئے بھی انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ صلاحیت اور نیک اطوار اور تعاون اور محبت ہی باپ کی طبعی محبت کو ابھارتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت کے بھارنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ جو اس کے اظلال دنیا میں موجود ہوں اور جو اس کا نظام دنیا میں قائم ہو اس کے ساتھ تعاون کیا جائے اور اس کی مدد کی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے کام کو دنیا میں پھیلایا جائے۔
مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جن میں ارتداد بہت کم ہوتا ہے جو مانتے ہیں وہ سچے طور پر مانتے ہیں بعض اور ممالک میں یہ نقص پایا جاتا ہے کہ ایمان اور ارتداد بالکل اس طرح چلتے ہیں جس طرح دو متوازی لیکن مختلف اطراف میں بہنے والے دریا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اور بھی زیادہ اپنے عملی نمونہ اور تعلیم اور تربیت کے ساتھ اس بات کو ناممکن بنادیں گے کہ کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوکر پھر اس سے واپس لوٹے۔ اسی طرح آپ لوگ ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ مرکز احمدیت سے آپ لوگوں کا تعلق مضبوط ہو۔ آپ کا ایمان غیر متزلزل ہو اور آپ کا رشتہ قطع نہ ہونے والا ہو۔ زمین و آسمان ٹل سکیں مگر آپ لوگ اس وابستگی کو نہ چھوڑ سکیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے دلوں میں احمدیت اور اس کے مرکز سے پیدا کی ہے۔ میں امید اور یقین اور دعا کے ساتھ اس پیغام کو ختم کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ لوگ ایک نئی طاقت اور نئی قوت کے ساتھ اشاعت احمدیت میں لگ جائیں گے اور مجھے وہ دن دیکھنے کی خوشی نصیب ہوگی جب انڈونیشیا کی اکثریت احمدیت ہوگی اور احمدیت کی روشنی میں اسلام کے اولین علمبرداروں میں انڈونیشیا کا ملک بھی ہوجائے گا۔ اللھم آمین۔
خاکسار
)دستخط( مرزا محمود احمد ۵۱۔۹۔۲۹
اخبار >الرحمت< اور عزل خلفاء
سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کے عہد خلافت کا ایک زندہ` ناقابل فراموش اور دائمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے نظام خلافت کے قیام و استحکام کے لئے ہمیشہ ہی چومکھی لڑائی لڑی اور جب بھی نظام خلافت کے خلاف کوئی خفیف سی آواز کسی گوشہ سے بھی بلند ہوئی آپ خدا کے ایک جری پہلوان اور شیر کی طرح میدان مقابلہ میں اتر پڑے۔ آپ کا یہ قطعی عقیدہ تھا کہ >اگر کلمہ شریف کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام سب سے بلند ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلمہ طیبہ اسلام کی اساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر جو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف اشارہ کرتا ہے ان میں سے سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہی ہے<۔۶۷
جہاں تک عزل خلفاء کے ناپاک نظریہ کا تعلق ہے آپ اس کو اسلام کی روح کے سراسر خلاف سمجھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ >گو خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن آیت )استخات( کی نص صریح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اسی امر میں ذریعہ بناتا ہے اور اس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے لیکن مقرر اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لیستخلفنھم کہ وہ خود ان کو خلیفہ بنائے گا۔ پس گو خلفاء کا انتخاب مومنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے خلفاء میں میں فلاں فلاں خاصیتیں پیدا کردیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعام الٰہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو امت اسلامیہ معزول نہیں کرسکتی۔ ایسے کو تو شیطان کے چیلے ہی معزول کریں گے<۔۶۸
اللہ تعالیٰ کی مصلحت خاص نے حضرت مصلح موعودؓ کے فولادی قلم سے اس سال عزل خلفاء کے خیال کو پاش پاش کرنے کا ایک نیا موقع پیدا کردیا۔ واقعہ یہ ہوا کہ لاہور کے ایک ادبی اور علمی اخبار >الرحمت<۶۹ نے ایک مضمون قدوسی کے اخباری نام سے شائع کیا جس میں نادانستہ طور پر تاریخ اسلام کا ایک ایسا ورق چھپ گیا جس میں دوسری روایتوں کے ساتھ جبلہ بن ایہم کے متعلق ایک ایسی کمزور روایت بھی آگئی جس میں نعوذ باللہ حضرت خلیفہ ثانی سیدنا عمرؓ کو عبادہ بن صامت کے ملامت کرنے کا ذکر تھا جس سے یہ تاثر پیدا ہوسکتا تھا کہ گویا اسلام کی رو سے معاذ اللہ خلیفہ برحق کا عزل بھی جائز ہے۔ لہذا حضرت امیرالمومنین نے ۲۴۔ اخاء ۱۳۳۰ہش کو >اخبار الرحمت و عزل خلفاء< کے عنوان سے ایک پرجلال تنقیدی نوٹ لکھا جس میں بتایا کہ قرن اول میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ جیسے نامور خلفاء نے مسئلہ عزل خلفاء کے خلاف زبردست جہاد کیا اور ہزاروں مسلمانوں نے محض اسی لئے اپنی جانیں راہ حق میں نچھار کردیں کہ وہ اس باطل نظریہ کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ علاوہ ازیں اسلام کے دور ثانی میں حضرت مولانا نور الدین خلیفتہ المسیح الاولؓ نے اپنے عمل سے اس نظریہ کا باطل ہونا ثابت کر دکھایا۔ پس یہ مسئلہ کسی نئے احمدی اور نسلی احمدی کے لئے بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں اور اس پر اسلام کے دور اول اور ثانی میں ایک فیصلہ کن مسلک امت مسلمہ کے لئے متعین ہوچکا ہے۔ اس سلسلہ میں حضور نے نہایت درجہ قوت و شوکت بھرے الفاظ میں تحریر فرمایا:۔
>اگر خلیفہ اسلام میں معزول ہوسکتا تھا تو یقیناً حضرت علیؓ مجرم ہیں کیونکہ ان کی اپنی جماعت کے ایک بڑے حصہ نے کہہ دیا تھا کہ ہم آپ کو خلافت سے معزول سمجھتے ہیں۔ لیکن بجائے اس کے کہ >قدوسی< کی روح کو خوش کرنے کے لئے حضرت علیؓ خلافت چھوڑ دیتے انہوں نے تلوار میان سے نکال لی اور ہزاروں ہزار خارجی کو قتل کرکے رکھ دیا۔ اگر خلیفہ معزول ہوسکتا ہے تو ان لوگوں کا قصور کیا تھا وہ تو وہی بات کرتے تھے جس کا قرآن نے ان کو حق دیا تھا۔ جب ایک مسلمان کا قتل بھی دوزخی بنا دیتا ہے تو کیا کہیں گے قدوسی صاحب حضرت علیؓ کے متعلق جنہوں نے ہزاروں ہزار مسلمان کو اس مسئلہ پر قتل کرکے رکھ دیا۔ دوسری مثال حضرت عثمانؓ کی ہے حضرت عثمانؓ سے بھی باغیوں کا یہی مطالبہ تھا کہ آپ خلافت چھوڑ دیں ہم آپ کو معزول کرتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے نرم مزاج ہونے کی وجہ سے تلوار تو نہیں نکالی لیکن خود اپنی جان قربانی کے لئے پیش کردی اور عزل کا عقیدہ رکھنے والوں کا منہ کالا کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے خلافت کی ضرورت کا مسئلہ ثابت کیا اور حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے خلیفہ کے معزول نہ ہونے کا مسئلہ ثابت کیا۔ گویا ابتدائی خلافت راشدہ نے اپنے عمل اور اپنے فیصلہ سے ان مسائل کو حل کردیا تھا اور پھر ہمارے زمانہ میں آکے حضرت خلیفہ اولؓ کے عہد میں یہ سوال اٹھا اور آپ نے فرمایا تم کون ہوتے ہو مجھے معزول کرنے والے گویا ابتدائے اسلام اور ابتدائے احمدیت میں یہ مسئلے زیر بحث آئے<۔۷۰
خدائے ذوالجلال کے خلیفہ موعود کے قلم مبارک سے نکلے ہوئے ان کلمات نے صور اسرافیل کا کام دیا جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے مخلصین احمدیت خصوصاً الرحمت کے مدیر اور اس اخبار کے نگران ناظرہ دعوۃ و تبلیغ کی خفتہ روحوں کو یکایک بیدار کردیا اور خلافت سے محبت کا پاک چشمہ جو ان کے سینوں میں پہلے سے موجزن تھا ان کی زبانوں اور قلموں سے بھی جاری ہوگیا اور وہ نظام خلافت کے حقیقی اور جانثار خادموں اور چاکروں کی طرح اپنے پیارے امام کے حضور ندامت بھرے الفاظ میں اپنی کوتاہی اور غفلت کا اظہار کرکے معافی کے خواستگار اور دعائوں کے طلب گار ہوئے۔ چنانچہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کا معذرت نامہ الفضل میں چھپا اور ایڈیٹر صاحب >الرحمت< نے نہ صرف >مقدسمی صاحب< کے مضمون کی الرحمت میں پرزور تردید ¶کی بلکہ حضور کی خدمت میں نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا کہ:۔
>گو الرحمت کا کوئی مستقل دفتر نہ تھا۔ ڈاک کا کئی معقول انتظام نہ تھا۔ مجھے دونوں طرف کام کرنا پڑتا تھا اور اکثر ادھر ادھر بیٹھ کر ہی پرچہ ترتیب پاتا تھا اور ڈاک اکثر دفتری دستبرد کی نذر ہوجاتی تھی لیکن اس کے باوجود میں دفتری افراتفری کی آڑ نہیں لیتا۔ غلطی ہرحال غلطی ہے اور اسے تسلیم کرنے ہی میں نجات مضمر ہے اور میں اس پر سخت نادم ہوں۔
خلافت ایک رحمت ہے ایک برکت جس کے عنقا ہوجانے کی وجہ سے نہ صرف قوم کی جمعیت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے بلکہ میرے نزدیک تو اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی رک جاتی ہے۔ خلافت کے عزل کا ناپاک خیال بھی دل میں لانا اپنی عاقبت اور اپنے انجام پر اپنے ہاتھوں کلہاڑا چلانے کے مترادف ہے۔ میں نے حضور کے ارشادات اور مکرم جناب ناظر صاحب کا اعلان پڑھنے کے بعد جتنی دفعہ بھی اپنے دل کو ٹٹولا ہے مجھے اس میں خلافت سے محبت` ارادت اور والہانہ عقیدت کے سوا اور کچھ نہیں ملا اور یہی میرا سرمایہ حیات ہے<۔۷۱
الغرض >الرحمت< کے کالموں میں مسئلہ عزل سے متعلق بظاہر چند ضمنی فقروں کی اشاعت جماعت احمدیہ میں خلافت کے بابرکت اور دائمی نظام کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر عقیدت و الفت پیدا کرنے کا موجب بن گئی اس طرح رحمت خداوندی نے شر کے اندر سے ہی بالاخر خیر و برکت کا نیا سامان پیدا کردیا۔
ملتان اور لائلپور کے جلسہ ہائے سیرت النبی~صل۱~ میں ہنگامہ آرائی
۱۸۔ ماہ نبوت ۱۳۳۰ہش/ نومبر ۱۹۵۱ء کو جماعت احمدیہ کی طرف سے لائل پور اور ملتان میں حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کی سیرت` فضائل و برکات اور ارفع اور فقید المثال شان پر روشنی ڈالنے کے لئے جلسے مقرر تھے جو ایک باقاعدہ سوچی سمجھی سکیم کے ساتھ ہنگامہ آرائی` قانون شکنی` تشدد انگیزی اور غنڈہ گردی کی نذر کردیئے گئے۔
‏tav.12.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
جلسہ سیرت النبی~صل۱~ ملتان
جماعت احمدیہ ملتان نے سیرۃ النبی~صل۱~ کا جلسہ کرنے کا انتظام پبلک جگہ باغ لنگے میں کیا تھا۔ ضلع کے ذمہ دار افسران جناب ڈی۔ سی صاحب اور ایس۔ پی صاحب ملتان کو جماعت کی طرف سے ایک وفد نے قبل از وقت اطلاع کرکے اجازت حاصل کرلی تھی۔ نیز جلسہ کے جائے مقررہ پر انعقاد کا اعلان بذریعہ پوسٹر شہر بھر میں کردیا گیا تھا۔ پولیس کی کافی معیت قبل از وقت پہنچ گئی تھی۔ بعد ازاں سٹی انسپکٹر صاحب` پراسیکیوٹنگ ڈی۔ ایس۔ پی صاحب اور دو سب انسپکٹر اور ڈیوٹی مجسٹریٹ صاحب بھی جلسہ شروع ہونے سے قبل پہنچ چکے تھے چنانچہ حسب اعلان ٹھیک دو بجے زیر صدارت مکرم مولوی احمد خاں صاحب نسیم سابق مبلغ برما۷۲ جلسہ کی کارروائی شروع کردی گئی۔ تلاوت و نظم کے بعد صدر صاحب نے اعلان کیا کہ دوران تقریر میں جس وقت ہمارے آقا و مولا سیدنا آنحضرت~صل۱~ کا نام آئے ہر شخص بلند آواز سے درود شریف پڑھتا رہے اور پہلی تقریر رحمتہ للعالمین کے موضوع پر مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل شروع کریں۔ اس کے بعد مولوی صاحب موصوف نے اس پاکیزہ موضوع پر نہایت ادب و احترام کے جذبات سے محبت بھرے الفاظ میں ابھی چند تمہیدی کلمات ہی کہے تھے کہ احراریوں نے جو ایک خاص منصوبہ کے تحت پہلے ہی بھاری تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔ مقرر کی طرف ایک رقعہ بھیجا جو ابھی صدر جلسہ تک پہنچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ لوگ ہلہ کرکے جلسہ گاہ میں شور مچانے لگے >ہم جلسہ نہیں ہونے دیں گے< >پہلے ہماری باتوں کا جواب دو< >سر ظفر اللہ مردہ باد< >مرزا محمود مردہ باد< >مرزا غلام احمد مردہ باد<۔ اس نعرہ بازی کے ساتھ ہی شامیانہ کے بانس اور کیلے اکھیڑنے شروع کردیئے۔ دریاں کھینچنی شروع کردیں اور احمدیوں سے دست و گریباں ہونے لگے اسی دوران میں پولیس کے جو آدمی پہلے دور بیٹھے ہوئے تھے شوروغوغا سن کر پہنچ گئے اور بیچ بچائو شروع کردیا مگر مشتعل ہجوم اپنی امن شکن حرکات میں تیز تر ہوتا گیا۔ احمدیوں کو سختی سے روک دیا گیا تھا کہ وہ کسی گالی یا کمینہ حرکات کا جواب تک نہ دیں بلکہ صبر سے کام لیں چنانچہ احمدیوں نے اس ہدایت پر پوری طرح عمل کیا۔ جب صورت حال قابو سے باہر ہونے لگی تو پولیس نے چند سرغنوں کو ہتھکڑیاں لگادیں مگر جلسہ گاہ سے باہر نہیں لے جاسکی۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ صاحب نے یہ محسوس کرکے کہ صورت حال ان کے قابو سے باہر ہے جلسہ بند کرنے کا حکم دے دیا اور ساتھ ہی اعلان کردیا کہ اب جلسہ نہیں ہوگا لوگ چلے جائیں۔ اب جماعت احمدیہ نے ڈیوٹی مجسٹریٹ صاحب کے اعلان پر جلسہ بند کردیا مگر یہ شوریدہ سر اس مقام پر جماعت احمدیہ اور جماعت کے بزرگان کے خلاف انتہائی اشتعال انگیزی اور دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور پھر سارے شہر کا چکر لگا کر احمدیوں کی دکانوں اور مکانوں کے سامنے کھڑے ہوکر خاص طور پر اشتعال انگیز اور دلازار نعرے لگائے۔
چونکہ یہ جلسہ خالص مذہبی و دینی اور صرف آنحضرت~صل۱~ کی سیرت طیبہ کے لئے مخصوص کیا گیا تھا جس میں اشتعال کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی تھی اس لئے شرفاء ملتان کی طرف سے >ختم نبوت< کے نام نہاد محافظوں کے اس فعل پر اظہار نفرت کیا گیا۔۷۳
جلسہ سیرت النبی~صل۱~ لائلپور
جماعت احمدیہ لائل پور کا جلسہ سیرت النبی~صل۱~ کمپنی باغ لائلپور میں منعقد ہورہا تھا جس کی اطلاع ایک روز پیشتر پولیس کو دے دی گئی تھی۔
دو بجے جلسہ کا وقت تھا لیکن ڈیڑھ بجے کے قریب احراریوں نے شہر کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور احمدیہ پنڈال کے قریب آکر اپنا اڈہ لگا دیا۔ اس امر کی اطلاع فوراً پولیس کو کردی گئی۔
ابھی پولیس نہیں پہنچی تھی کہ یہ لوگ احمدیوں کے پنڈال میں گھس آئے اور کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ احمدیوں کا جلسہ ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت احمدیوں پر حملہ کردیا۔ کرسیاں اٹھا کر احمدیوں پر پھینکی شروع کردیں اور سامان توڑنا شروع کردیا۔ احمدیوں نے بمشکل تمام اس حملے کو روکا۔ اتنے میں پولیس انسپکٹر صاحب معہ دو تین سپاہیوں کے پہنچ گئے مگر حملہ آوروں نے ان سے بھی صاف کہہ دیا کہ وہ احمدیوں کا جلسہ ہرگز نہیں ہونے دیں گے اور پھر دوبارہ انسپکٹر کی موجودگی میں پنڈال پر حملہ کردیا جسے احمدی رضاکاروں نے بمشکل تمام روکا۔ احراریوں کو بے قابو دیکھ کر اس اثناء میں انسپکٹر پولیس صاحب نے مزید جمعیت پولیس منگوائی احراریوں کا کثیر مجمع ہوچکا تھا جو مزید پولیس کے آنے پر کچھ تو منتشر ہوگیا اور باقی وہیں رہا۔ زاں بعد ایڈیوشنل ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور مجسٹریٹ صاحب موقع پر پہنچے اور انہوں نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
اس شور وشر کے دوران جلسہ کی کارروائی بند رہی اور پھر لائوڈسپیکر کے بغیر تقریر کی اجازت ہوگئی اور سلسلہ احمدیہ کے ممتاز عالم مولانا ابوالعطاء صاحب نے سیرۃ النبی~صل۱~ پر تقریر فرمائی۔ پولیس نے موقع پر دس کے قریب فتنہ پردازوں کو گرفتار کیا اور ۲۵ احمدی جلسے کے اندر سے گرفتار کرلئے جو ۱۲ بجے شب ضمانت پر رہا کردیئے گئے۔ یہ جلسہ ایک معزز غیر احمدی دوست اور لائل پور کے سابق سرکاری وکیل چوہدری شریف احمد صاحب ایڈووکیٹ لائل پور کی صدارت پر ہوا جنہوں نے اخلاقی جرائت سے کام لے کر معزز سپرنٹندنٹ صاحب پولیس اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر صاحب کو توجہ دلائی کہ احرار نے احمدیوں پر ظلم و تعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے باکانہ حملہ کیا ہے۔۷۴
دراصل ضلع لائل پور میں احمدیوں کے خلاف منظم حملہ اور اعلانیہ قانون شکنی کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے پیشتر مندرجہ ذیل واقعات حکومت اور پولیس کے نوٹس میں لائے جاچکے تھے:۔
۱۔
شوریدہ سروں نے اپنے اخبار میں اعلان کرنے کے بعد مولوی فضل دین صاحب بنگوی احمدی پر کارخانہ بازار لائل پور میں قاتلانہ حملہ کیا۔
۲۔
ان کے صدر نے دھوبی گھاٹ گرائونڈ میں نہایت اشتعال انگیز تقریر کی جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ پر ناپاک حملے اور احمدیوں کے خلاف قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تلقین کی۔
۳۔
مولوی محمد اسمعیل صاحب مبلغ جماعت احمدیہ لائل پور پر بازار میں حملہ کیا گیا۔
۴۔
مسجد احمدیہ سمندری روز روشن میں نذر آتش کردی گئی۔
۵۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں جن میں ایک مخلص احمدی پیر محمد یوسف صاحب بی۔ اے کے خلاف قتل اور حملہ کرنے کی تلقین کی گئی۔
۶۔
اسی طرح آئے دن لائل پور کے اخبارات میں روز مرہ من گھڑت جھوٹے قصے چھاپ کر لوگوں کو احمدیوں کے خلاف اکسایا گیا۔۷۵
الغرض لائل پور اور اس کے مضافات میں فتنہ انگیزی کا باقاعدہ سلسلہ جاری تھا اور اس کی ایک کڑی سیرت النبی~صل۱~ کے اس جلسہ پر حملہ کی صورت میں ظاہر ہوئی جس نے >تحفظ ختم نبوت< سے متعلق احرار کے سب بلند بانگ اور بے بنیاد و دعاوی کی قلعی کھول کر رکھ دی۔
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< )فسادات ۱۹۵۳ء( کے صفحہ ۳۶ پر لکھا ہے:۔
>سپرنٹنڈنٹ پولیس لائل پور نے لاسلکی پیغام مورخہ ۱۸۔ نومبر ۱۹۵۱ء میں اطلاع دی کہ لائل پور میں احمدیوں نے سیرت النبی~صل۱~ کا جلسہ کیا جس کو احراریوں نے درہم برہم کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں فریقوں میں فساد ہوگا اور فریقین کے کئی آدمی زخمی ہوگئے<۔
اخبار >بدر< کا دوبارہ اجراء اور حضرت مصلح موعودؓ کا پرمعارف افتتاحی مضمون
ہفتہ وار اخبار >بدر< جو اخبار >الحکم< کی طرح سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی دور کی تاریخ کا امین و پاسبان اور حضرت مسیح موعود و مہدی معہود
کا دست و بازو تھا اور ۱۹۱۳ء میں بند ہوچکا تھا ۲۰۔ ماہ فتح ۱۳۳۰ہش/ دسمبر ۱۹۵۱ء کو دوبارہ قادیان سے جاری کردیا گیا۔ بدر کے دور جدید کا پہلا پرچہ نمونے کا تھا جس کے بعد ۷۔ امان ۱۳۳۱ہش/ مارچ ۱۹۵۳ء میں یہ باقاعدگی سے شائع ہونے لگا۔ شروع میں مولوی برکات احمد صاحب راجیکی اس کے ایڈیٹر اور مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری اس کے نائب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ۷۔ تبلیغ ۱۳۳۳ہش/ فروری ۱۹۷۴ء سے لیکر ۲۸۔ ظہور ۱۳۳۵ہش/ اگست ۱۶۵۶ء تک ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دئے جس کے بعد ۸۔ تبوک ۱۳۳۵ہش/ ستمبر ۱۹۵۶ء سے اس وقت تک۷۶ مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری اس کے ایڈیٹر ہیں اور نہایت جانفشانی اور کامیابی سے یہ اپنا فرض منصبی بجالارہے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے >بدر< کے باقاعدہ اجراء پر حسب ذیل افتتاحی مضمون سپرد قلم فرمایا جو اس کی ۷۔ امان ۱۳۳۱ہش کی اشاعت میں صفحہ اول پر شائع کیا گیا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران جماعت احمدیہ ہندوستان! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے خاص تصرف کے ماتحت ہندوستان کی جماعتیں اب پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ سیاسی طور پر تقسیم ہوچکی ہیں بلکہ بین المملکتی اختلافات کی وجہ سے آپس میں میل جول بھی بہت ہی محدود رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کی جماعتیں پاکستان میں شائع شدہ لٹریچر سے خواہ وہ موقت الشیوع ہو یا مستقل ہو بہت حد تک محروم رہ گئی ہیں۔ ان حالات میں یہ ضروری تھا کہ قادیان سے ایسے لٹریچر شائع کرنے کی تدبیر کی جاتی جو کہ آسانی کے ساتھ ہندوستانی جماعتوں تک پہنچ سکتا۔ چنانچہ اس بات کے مدنظر میں نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کو بار بار ہدایت کی کہ وہ کم سے کم ایک ہفتہ واری اخبار قادیان سے جاری کرنا شروع کریں تاکہ قادیان اور ہندوستان کی دوسری جماعتوں میں اتصال و اتحاد پیدا ہو۔ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ بدر کے نام سے ایسے اخبار کے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور وہ عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ یہ مضمون میں اسی اخبار کے لئے بھجوا رہا ہوں۔
سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس اخبار کو بہتر سے بہتر کام کرنے کی توفیق بخشے۔ اور اس اخبار کو چلانے والوں کو ظاہری اور باطنی علوم عطا کرے جن سے وہ قوم اور ملک کی صحیح راہنمائی کرسکیں اور جماعت احمدیہ کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس اخبار کو خرید کر اخبار کی اشاعت کو وسیع سے وسیع کرتے چلے جائیں اور ملک کے ہر گوشہ میں اسے پھیلا دیں یہاں تک کہ یہ اخبار روزانہ ہوجائے اور وسیع الاشاعت ہوجائے۔ اس اخبار کا نام بدر رکھا گیا ہے اور یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا پسندید تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے رئویا اور کشوف شائع کرنے میں ایک زمانہ میں اس اخبار کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی تھی کیونکہ مفتی محمد صادق صاحب ہی اس کے ایڈیٹر تھے اور مفتی محمد صادق صاحب ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پرائیویٹ سیکرٹری کا کام کرتے تھے اس لئے انہیں الہامات کے جار سے جلد حاصل کرنے کا موقع دوسروں سے زیادہ مل جاتا تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اب ان الہامات کی تشریح اور تفسیر اور ان کا مقصد اور مدعا بنانے اور شائع کرنے میں یہ اخبار پیش پیش رہے گا۔
برادران۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ وقت ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کے لئے بڑا نازک ہے اور جماعت کے لئے خصوصاً نازک ہے۔ مگر ہم ایک ایسے خدا کے بندے ہیں اور اس پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں جس کے ایک اشارہ سے دنیائیں پیدا ہوتی اور مٹتی ہیں اور قومیں ابھرتی اور گرتی ہیں اور حکومتیں قائم ہوتی اور تباہ ہوتی ہیں۔ پس ہمارے حوصلے دوسروں لوگوں کے حوصلوں کی طرح نہیں ہونے چاہئیں۔ جن کا کام خدا نے کرنا ہے انہیں ایسے حالات کی طرف نگاہ کرنا جائز ہی نہیں ہوسکتا آپ لوگ خدا کا ہتھیار ہیں۔ آپ لوگ خدا کی تدبیر ہیں۔ آپ لوگ وہ نیا بیج ہیں جو خدا تعالیٰ نے دنیا میں بکھیرا ہے۔ نہ خدا کا ہتھیار کند ہوسکتا ہے۔ نہ خدا کی تدبیر ضائع ہوسکتی ہے۔ نہ خدا کے پھینکے ہوئے بیجوں کو کیڑا کھاسکتا ہے۔ پس اپنی نظریں آسمان کی طرف رکھو اور زمین کی طرف مت دیکھو۔ یہ نہ دیکھو کہ تمہارے دائیں بائیں کون ہے بلکہ یہ دیکھو کہ تمہارے سر پر کس کا سایہ ہے۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کا جھنڈا تمہارے ہاتھوں میں ہے اور فرشتوں کی فوجیں تمہارے پیچھے ہیں۔ سچائی اور حق اور انصاف کو تم نے قائم کرنا ہے۔ نیکی اور تقویٰ کو تم نے دنیا میں پھیلانا ہے۔ آئندہ دنیا کی زندگی اور اس کی ترقی تمہارے ساتھ وابستہ ہے۔ اور کائنات کی حرکت تمہارے اشاروں پر تیز یا سست ہونے والی ہے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔ تبلیغ کو وسیع کرو۔ زیادہ سے زیادہ یکجہتی` یکرنگی اور اتحاد پیدا کرو۔ اپنے مرکز کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرو اور ایسا کبھی نہ ہونے دو کہ تمہیں قادیان آنے کی فرصت حاصل ہو اور تم اس سے فائدہ نہ اٹھائو۔
دنیا تم پر ہنس رہی ہے اس لئے کہ تم پارہ پارہ ہوچکے ہو۔ لیکن خدا کے فرشتے آسمان پر تمہارے لئے ہنس رہے ہیں اس لئے کہ تم فاتح` کامیاب اور کامران ہو۔ اندھا جو کچھ بیان کرتا ہے وہ قابل اعتبار نہیں نابینا جو کچھ دیکھتا ہے وہ صحیح ہے۔ پس خدا کی باتوں پر یقین رکھو اور لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ ہوگا وہی جو خدا چاہتا ہے خواہ اس امر کے رستہ میں مشکلات کے پہاڑ ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تم کو ایسا طریق پر کام کرنے کی توفیق دے کہ خدا کے فضلوں کی بارش تم پر ہو اور ہمیشہ ہوتی رہے۔ آمین۔۷۷
اخبار بدر کے ابتدائی معاونین
مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری نے اپنے ایک مضمون میں اخبار بدر کے ابتدائی معاونین پر تفصیلی روشنی ڈالی چنانچہ لکھا:۔
ملکی تقسیم کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کی تعمیل میں قادیان سے ہفت روزہ بدر کی باقاعدہ اشاعت تو ۷۔ مارچ ۱۹۵۲ء سے شروع ہوئی لیکن اخبار کے اجراء کی دفتری کارروائی ایک سال سے ہورہی تھی۔ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ تھے آپ نے ایڈیٹر اور اسسٹنٹ ایڈیٹر کا کام کرنے کے لئے علی الترتیب مرحوم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی اور خاکسار کے نام تجویز کرکے حضرت اقدس کی منظوری کے لئے کاغذات بھجوائے۔ حضورؓ نے ازراہ کرم منظوری مرحمت فرما دی۔ ادھر ہمارا یہ حال تھا کہ ہم دونوں میں سے کسی کو بھی پہلے سے اخبار کے کام کا نہ تجربہ تھا اور نہ ہی اس بارہ میں کچھ معلومات ہی تھیں بایں ہمہ مقدس آقا کے ارشاد کی تعمیل میں سب برکتیں یقین کرتے ہوئے اللہ کا نام لے کر کام شروع کردیا۔ یہ حضورؓ کی روحانی توجہ اور دعائوں کا نتیجہ ہے کہ احمدیت کے دائمی مرکز قادیان سے جس کا آغاز خدا کے اولوالعزم خلیفہ نے فرمایا تھا وہ بدستور جاری رہا اور آج اس اخبار کی اشاعت پر ۲۶ سال پورے ہوتے ہیں۔ خدا کا ہزار ہزار شکر اور اس کا احسان ہے کہ وہ محض اپنے فضل سے ایسے سامان کرتا چلا گیا کہ اس عرصہ میں بغیر کسی غیر معمولی وقفہ کے اخبار کا ہر پرچہ اپنے وقت پر شائع ہوتا رہا۔ اس کے ذریعہ اسلام و احمدیت کی آواز اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں بھی پہنچانے کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذلک۔
فی زمانہ کوئی بھی دینی اور مذہبی اخبار دیگر افراد کے مخلصانہ تعاون کے بغیر چل نہیں سکتا۔ خدا کا شکر ہے کہ اخبار بدر کو شروع ہی سے قابل صد احترام بزرگوں اور مہربان دوستوں کی طرف سے قلمی اور مالی تعاون حاصل رہا۔ قلمی تعاون کے لحاظ سے علمی مضامین ہوں یا تبلیغی و تربیتی` مبلغین اسلام کی کارگزاری کی رپورٹیں ہوں یا جماعتی جلسوں اور تقاریب کی روئیداد` یہ سب تفصیلات اپنے اپنے وقت پر سب ہی قلمکاروں کے تعاون سے اخبار بدر کے صفحات کی زینت بنتی رہی ہیں۔
اس طرح کا قلمی تعاون مرکزی علماء کی طرف سے اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا اہم فریضہ سرانجام دینے والے مبلغین و مبشرین اسلام کی طرف سے اسی طرف جماعت کے ذی علم مضمون نگاروں کی طرف سے بدر کو حاصل رہا۔ مقامی علماء میں سے اس سلسلہ میں سرفہرست محترم مکرم مولانا محمد ابراہیم صاحب فاضل قادیانی کا نام ہے۔ جب تک آپ کی صحت نے ساتھ دیا آپ بدر کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور ہی لکھتے رہے اور سب کا سب بڑا مفید اور کارآمد ہوتا۔ اسی طرح محترم جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے اور جناب چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی )اخبار بدر کے مخصوص کام سے فراغت کے بعد( اپنے اپنے انداز میں وقتاً فوقتاً اخبار بدر کے لئے ضرور لکھتے رہے ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
ہندوستان کے مبلغین میں سے سرفہرست محترم مولانا شریف احمد صاحب امینی کا نام ہے۔ اب تو آپ ماشاء اللہ ناظر دعوۃ و تبلیغ کے اہم عہدہ پر فائز ہوچکے ہیں( اسی طرح محترم مولانا بشیر احمد صاحب فاضل دہلوی اور مکرم مولوی حکیم محمد دین صاحب جب تک میدان تبلیغ میں رہے اس وقت بھی اور اب جبکہ ہر دو حضرات قادیان میں سلسلہ کی دوسری خدمات سرانجام دے رہے ہیں` دونوں کا قلمی تعاون جاری ہے اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ یہ تو پرانے مبلغین کرام ہیں۔ زمانہ درویشی کے فارغ التحصیل جو خاکسار کے ساگرد بھی رہے ہیں جوں جوں میدان تبلیغ میں بھیجے گئے یا مرکز میں کسی خدمت کا موقع ملا اور ان کا علم اور تجربہ بڑھتا گیا ہر ایک نے حسب حالات و حسب توفیق اخبار بدر سے قلمی تعاون کیا اور کررہے ہیں۔ ایسے نوخیز علماء میں سے مکرم مولوی عبدالحق صاحب فضل۔ مکرم مولوی منظور احمد صاحب گھونکے۔ مکرم مولوی محمد عمر صاحب مالاباری اور مکرم مولوی محمد کریم الدین صاحب شاہد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بڑھ چڑھ کر دینی خدمات بجالانے کی توفیق دے اور صحت و عافیت کے ساتھ رکھے۔ آمین۔
ہندوستان کے مبلغین کے بعد اندرون ملک کے دوسرے مضمون نگاروں کی قلمی اعانت کا نمبر آتا ہے۔ گو ابتدائی دور میں تو ایسے معاونین کی بڑی کمی رہی تاہم بعد میں نوخیز قلمکاروں میں سے مکرم عبدالحمید صاحب انصاری حیدرآباد کے اور عزیز مکرم سید رشید احمد صاحب سونگھڑ دی بی۔ اے نے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہ دونوں دوست ذاتی شوق اور خلوص و محبت کے جذبہ سے اپنے مضامین اخبار بدر کے لئے بھیجتے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں قیام پذیر ہمارے احمدی دوست وقتاً فوقتاً وہاں کی اخبارات اور کتب ورسائل میں شائع شدہ مفید حوالہ جات ارسال کرتے رہے جن کو منقولات کے تحت شائع کیا جاتا رہا ان میں مکرم سید عبدالعزیز صاحب آف نیوجرسی امریکہ اور مکرم سید شہاب احمد صاحب وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے۔
ادھر ربوہ میں بھی ہمارے نہایت درجہ قابل احترام بزرگ نے اخبار بدر کو اپنے بلند پایہ خصوصی مضامین سے ہر موقعہ پر نوازتے رہے۔ اس سلسلہ میں سرفہرست حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا نام نامی اور اسم گرامی ہے۔ آپؓ کا قادیان کے ساتھ دینے بھی رنگ میں نہایت درجہ گہرا اور قریبی تعلق رہا ہے۔ لیکن اخبار بدر پر تو آپ کی خاص نظر عنایت رہی۔ اعلی اللہ درجاتہ فی الجنہ۔ دوسرے نمبر پر حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکملؓ ہیں۔ آپ کو تو اخبار بدر سے غیر معمولی پیار تھا۔ ایسا پیار کہ غالباً کبھی بھی اس کی یاد آپ کے دل سے محو نہ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود پیرانہ سالی کے اخبار بدر کو بغور مطالعہ فرماتے۔ بڑی ہی ذرہ نوازی فرماتے مدیر بدر اور بدر کے مضمون نگاروں کی ہمت بڑھاتے رہتے اور اپنا تازہ منظوم کلام بڑے تعاہد کے ساتھ بھجواتے جو زیادہ تر قادیان اور اس کے دینی ماحول سے متعلق ہونا۔ اور اپنے آپ کو ہمیشہ ہی >مہجور< لکھتے کہ گویا قادیان کی محبت ان کو ہر آن بے قرار رکھتی جس سے ہجرت کے بعد اس کی میٹھی یادیں انہیں ہمیشہ ہی تڑپاتی رہتی ہیں۔ رضی اللہ عنہ۔ تیسرے نمبر پر خالد احمدیت مرحوم و مغفور مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کا اسم گرامی ہے۔ آپ کے موقر رسالہ الفرقان سے بدر کے لئے بہت کچھ استفادہ ہوتا رہا۔ اس کے باوجود آپ بدر کے لئے خصوصی مضامین ارسال فرماتے اور بڑی محبت و شفقت کے ساتھ پرچہ )جب تک ڈاک کی سہولت میسر رہی( مطالعہ فرماتے۔ آپ کی قلمی احانت اور علمی افاہد کبھی بھی بھلایا نہ جاسکے گا۔
روزنامہ >الفضل< ربوہ میں تو بدر کے لئے مستقل استفادہ کا ذریعہ رہا ہے اور رہے گا۔ اسی مرکزی آرگن سے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح کے خطبات اور تقریریں بدر میں نقل کرکے احباب ہندوستان تک تازہ بتازہ روحانی غذا کے طور پر پہنچائی جاتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ علمی مضامین` بیرونی ممالک میں تبلیغی مہم اور تعمیر مساجد اور اشاعت قرآن کی تفصیلات کا بہت کچھ حصہ حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ الفضل کے ساتھ ساتھ جب تک ڈاک کی سہولیات حاصل رہیں اور رسالہ >انصار اللہ< ہمیں ملتا رہا` اس سے بھی بہت سے علمی مضامین نقل کرکے احباب تک پہنچانے کا موقع ملا۔ اسی طرح جناب ثاقب صاحب زیروی کے ہفت روزہ لاھور سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا۔ ان سب اخبارات و رسائل میں کام کرنے والے ہماری طرف سے بہترین شکریہ کے حق دار ہیں۔ شکراللہ سعیھم وجزاھم جزاء حسنا۔
قلمی معاونت کے ساتھ ساتھ مالی معاونت کرنے والے دوستوں کا ذکر کیا جانا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں خاکسار کے نزدیک سرفہرست تو اخبار بدر کے وہ سب ہی خریداران ہی معاون ہیں جن کی طرف سے بدر کی خریداری قبول کرکے بہترین تعاون ملا۔ اگرچہ اس کے نتیجہ میں خود انہیں بھی بدر کے ذریعہ بہت سا علمی` روحانی اور تبلیغی فائدہ ہوا۔ لیکن اس وقت ہم بدر کی اعانت کی بات کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی اخبار کے خریدار ہی ایسا بنیادی تعاون پیش کرتے ہیں جن پر اخبار کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اور اس کا دائرہ وسعت پذیر ہوتا ہے۔ باوجودیکہ فی زمانہ لوگ مذہبی اخباروں کو ایسی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جیسا کہ فلمی رسالوں یا جاسوسی ناولوں اور سیاسی اخباروں کو دیکھتے ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اخبار بدر کو شروع ہی سے ایسے مخلصین کا تعاون بصورت خریدار حاصل رہا جو اس کو شوق سے مطالعہ کرتے ہیں۔ خدا کے فضل سے یہ دائرہ دن بدن وسیع ہورہا ہے۔ نہ صرف احمدی احباب ہی اخبار بدر میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ غیر احمدی اور غیر مسلم حضرات بھی اسے شوق سے پڑھتے اور دور کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذلک۔
مالی معاونت کے سلسلہ میں انفرادی پہلو سے مرحوم و مغفور حضرت سیٹھ محمد ¶صدیق صاحب بانی آف کلکتہ کا اسم گرامی سر فہرست ہے۔ آپ کو اخبار بدر سے اس قدر محبت تھی کہ اس کی توسیع اشاعت کے لئے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے بلکہ کئی طریقوں سے جو اللہ تعالیٰ ہی آپ کے دل میں ڈالتا` اخبار کی توسیع اشاعت میں اپنے پاکیزہ مال کو پیش کرتے مثلاً کبھی ایسا ہوتا کہ ایک بڑی رقم اپنی خاص جیب سے اخبار بدر کی عنایت فرما دیتے اور دفتر کو ہدایت فرماتے کہ نادار دوستوں سے نصف شرح پر چندہ وصول کیا جائے اور باقی نصف اس فنڈ سے شامل کرلیا جائے۔ اسی طرح اپنی دکان کا اشتہار برسوں اخبار بدر میں محض اعانت کی غرض سے دیتے۔ اس کی اجرت بڑے تعاہد کے ساتھ ادا فرماتے حالانکہ آپ کا تجارتی کاروبار اخبار بدر میں اشتہار دینے کا محتاج نہ تھا۔ چونکہ آپ کو بدر سے عقیدت اور خاص قسم کی محبت تھی` اس لئے آپ نے اعانت بدر کی یہ صورت نکال رکھی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے سعادت مند بیٹے اپنے مرحوم و مغفور باپ کے اس طریق کو حتی الامکان اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں فجزاھم اللہ تعالی اجمعین حضرت سیٹھ بانی صاحب مرحوم کے علاوہ محترم سیٹھ محمد معین الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد اور محترم سیٹھ محمد الیاس صاحب امیر جماعت احمدیہ یادگیر۔ محترم اختر حسین صاحب شموگہ اور محترم ایس ایم شہاب احمد صاحب آف کینڈا اور محترم بشیر الدین الہ دین صاحب آف سکندر آباد بھی خصوصی معاونین کے طور پر ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزاء دے۔
مذکورہ مخیر دوستوں کے علاوہ خود مرکز میں ہمارے ایک درویش بھائی محترم مکرم قریشی عطاء الرحمن صاحب ناظر بیت المال خرچ جو نظارت کے فرائض منصبی بجالانے کے علاوہ زائد وقت میں ایک عرصہ تک منیجر بدر کا اہم کام کرتے رہے۔ آپ نے اخبار بدر کے مرکزی دفتر کو بہت ہی باقاعدہ اور منضبط کیا۔ اس خدمت کے عوض مرکز کی طرف سے جو الائونس آپ کو ملتا` آپ نے سال بھر کا الائونس بطور اعانت بدر کو دیکر بہت سے مستحق اور نادار افراد کے نام اخبار بدر جاری فرمایا۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
اس سلسلہ میں آخر پر وہ سب ہی معاونین ہیں جو اپنے یہاں خوشی کی تقاریب پر اخبار بدر کی مالی اعانت کرتے ہیں۔ مثاً نکاح۔ شادی۔ ولادت۔ امتحان میں کامیابی وغیرہ مواقع پر اس فنڈ میں حسب توفیق رقم ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ ابتدا میں اس طرف احباب کی توجہ زیادہ نہ تھی لیکن کچھ عرصہ سے اللہ تعالیٰ نے احباب کے دلوں کو اس طرف پھیر دیا ہے۔ اس طرح ان کے لئے اخبار میں دعا کی تحریک بھی ہوجاتی ہے اور اخبار کی اعانت ہوکر وہ اشاعت اسلام کے ثواب میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے نیک جذبہ کو قبول فرمائے اور ان کی مرادیں انہیں دے۔
اخبار بدر کی اس طور پر مالی اعانت کی مذکورہ تفصیل پڑھ کر یہ خیال کرلینا کہ اس طرح کے محاصل سے اخبار کے تمام اخراجات پورے ہوجاتے ہیں` درست نہیں۔ کیونکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ جو کچھ زر خریداری یا مختلف النوع اعانتوں سے رقوم حاصل ہوتی ہیں ان کے مقابل پر اخراجات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ پہلے نمبر پر اخبار کے سالانہ چندہ ہی کی مقدار کو لے لیں۔ یہ اس قدر کم ہے کہ بازار میں اس قدر صفحات والے اخبارات کی قیمتوں کے مقابل پر اس کی کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی طرح بدر کو کوئی ایسے اشتہارات بھی نہیں ملتے جو اس کے لئے معقول آمدنی کا ذریعہ بن سکیں۔ چونکہ جماعت کی طرف سے مرکز قادیان سے ایسا اخبار پیسہ کمانے کی غرض سے جاری نہیں کیا گیا بلکہ اس کی غرض اور تمام تر مقصد تو یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ افراد تک اس روحانی پیغام کو موثر طریق پر پہنچایا جائے جس کی اس وقت بنی نوع انسان کو بڑی ضرورت ہے۔ لیکن دنیا اپنی ناواقفیت کی وجہ سے اس سے غافل ہے۔ قادیان کی مبارک بستی سے یہ روحانی آواز حضرت امام مہدی علیہ السلام اور اقوام عالم کے موعود روحانی مصلح اور امام الزمان کی طرف سے بلند ہوئی۔ اس سے زائد اخراجات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے محض بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے جذبہ سے صدر انجمن احمدیہ اپنے خاص بجٹ سے بہت بڑی رقم خرچ کرکے اس نیک کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ خدا کرے کہ اخبار بدر ان تمام اغراض و مقاصد کو بہتر رنگ میں پورا کرنے کی توفیق پائے اور اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ سعید روحوں کو شناخت حق کی سعادت ملے۔۷۸
اخبار >بدر< کی اہمیت
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخبار >بدر< کے ذریعہ ہندوستان بھر میں اسلام و احمدیت کا نور نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے اور قدیم الٰہی نوشتوں کے مطابق وہ دن جلد یا بدیر بہرحال آنے والا ہے جبکہ دوسری تمام دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی اسلامی حکومت کا پرچم پوری شان و شوکت سے لہرانا شروع ہوجائے گا۔ چنانچہ حکیم الملت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کشفی قوت اور آسمانی بصیرت کی روشنی میں یہ حیرت انگیز پیشگوئی کی:۔
>ان اتفق غلبہ الھنود مثلا علی اقلیم ھندوستان غلبہ مستقرہ عامہ وجب فی حکمہ اللہ ان یلھم رئوسائھم التدین بدین الاسلام کما الھم الترک<۔۷۹
یعنی اگر ہندوئوں نے کسی زمانہ میں برصغیر ہند پر اپنا قبضہ و تسلط قائم کرکے غلبہ پالیا تو حکمت خداوندی کی رو سے بھی واجب ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہندوئوں کے لیڈروں کو دین اسلام کے قبول کرنے کا الہام کرے جیسا کہ اس نے ترکوں کو الہام فرمایا تھا )اور وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی غلامی میں شامل ہوگئے(
علاوہ ازیں زمانہ حاضر کے امام موعود مہدی مسعود علیہ السلام نے خدا سے علم پاکر یہ عظیم الشان خبر دی کہ:۔
علاوہ ازیں زمانہ حاضر کے امام موعود مہدی مسعود علیہ السلام نے خدا سے علم پاکر یہ عظیم الشان خبر دی کہ:۔
>مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا<۔۸۰
نیز فرماتے ہیں۔ ~}~
خوب کھل جائے گا لوگوں پر کہ دیں کس کا ہے دیں
پاک کر دینے کا تیرتھ کعبہ ہے یا ہر دوار
ان خدائی بشارتوں کی روشنی میں درویشان قادیان` جماعت احمدیہ ہندوستان اور ان کے واحد مرکزی ترجمان >بدر< کی ملک گیر تبلیغی جدوجہد کا حقیقی مقام باسانی متعین کیا جاسکتا ہے۔
چوتھا باب )فصل پنجم(
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی علم و معرفت سے لبریز تقاریر
سالانہ جلسہ ربوہ ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء کی مقدس تقریب پر
سالانہ جلسہ ربوہ ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء کا انعقاد
جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ ربوہ حسب معمول اس سال بھی ۲۶ تا ۲۸۔ ماہ فتح/ دسمبر کو اپنی مخصوص دینی روایات اور خالص اسلامی اور روحانی ماحول میں منعقد ہوا۔ ہزارہا پاکستانی احمدیوں کے علاوہ امریکہ` انگلستان` ترکی` جرمنی` فرانس` سوڈان` حبشہ` چین` چینی` ترکستان اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک کے بعض احمدی بھی اس بابرکت اجتماع میں تشریف لائے۔۸۱text] ga[t
علاوہ ازیں پاکستان کے بعض ممتاز صحافیوں نے بھی شرکت کی اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی پرجذب وکشش شخصیت` جماعت احمدیہ کی وحدت و تنظیم اور جذبہ ایثار وعمل سے غایت درجہ متاثر ہوئے جیسا کہ ضمیمہ سے منسلک ایک پرانی یادداشت سے بھی پتہ چلتا ہے جو الفضل کے موجودہ ایڈیٹر مسعود احمد خاں صاحب دہلوی کے قلم سے لکھی ہوئی ہے۔ آپ ان دنوں اخبار الفضل کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے دوسرے صحافیوں کے ساتھ شامل جلسہ ہوئے تھے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس تقریب پر اپنے مستقل دستور کے مطابق مردانہ جلسہ گاہ سے تین بار خطاب۸۲ فرمایا اور آپ کی علم و عرفان سے لبریز تقریروں نے مومنوں کے دل و دماغ کو قرآنی انوار سے منور کیا اور جماعت احمدیہ کے افراد میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ سے محبت و شیفتگی کی نئی شمعیں روشن کردیں۔
مخالفت کو انعام سمجھنے اور سالانہ جلسہ کے ایام کو شکر گزاروں کی طرح بسر کرنے کی تلقین
حضرت امیرالمومنین نے اپنی افتتاحی تقریر میں ارشاد فرمایا:۔ >درحقیقت سب سے محفوظ مقام` سب سے عزت والا مقام` سب سے مزے
والا مقام اس وقت اگر دنیا میں کسی کو حاصل ہے تو وہ آپ لوگوں کو ہی حاصل ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ` دنیا کے بڑے سے بڑے حاکم` دنیا کے بڑے سے بڑے حکمران` دنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر انسانی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان کی تکلیفوں کے وقت کچھ انسان آگے آتے ہیں مگر تمہاری تکلیفوںکے وقت خدائے واحد خود آسمان سے اتر آتا ہے۔ پس یہ ایام بہترین ایام ہیں جو کسی قوم اور کسی فرد کو کبھی حاصل ہوئے ہوں۔ یہی وہ انعام ہے جو کہ نبی کریم~صل۱~ کی جماعت کو حاصل ہوا۔ یہی وہ انعام ہے جو حضرت عیٰسیؑ کی جماعت کو حاصل ہوا۔ یہی وہ انعام ہے جو حضرت موسیٰؑ کی جماعت کو حاصل ہوا اور یہی وہ انعام ہے جس کے لئے خدا نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ اھدنا الصراط المسقیم صراط الذین انعمت علیھم لا۸۳ پس یہ چیز جو کہ بہترین انعاموں میں سے ہے اور وہ خلعت جو ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے خاص لوگوں کو پہنایا جاتا ہے وہ آج آپ لوگوں کو پہنایا گیا ہے اور درحقیقت ہم اس لئے بھی یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ اپنے رب کے حضور میں اپنا اظہار شکریہ کریں اور اس کی خدمت میں عرض کریں کہ ہم اس انعام کی قدر کرتے ہیں جو آپ کی طرف سے ہم پر نازل کیا گیا ہے۔ پس اپنے ان ایام کو شکر گزاروں اور قدر دانوں کے ایام کی طرح گزارو۔ لغو باتوں` فضول باتوں اور بیکار باتوں میں اپنے اوقات صرف مت کرو<۔۸۴
تغیرات عالم اور جماعت احمدیہ
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دوسرے روز کی پرمعارف تقریر میں جو کم و بیش پونے چار گھنٹے تک جاری رہی جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی` تربیتی اور مالی سرگرمیوں پر مفصل تبصرہ کرنے اور اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ:۔
>اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے تبلیغی مشنوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری تبلیغ میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور جماعت نے ترقی کی ہے جس مقام پر ہم ابھی ہیں یقیناً گزشتہ سال وہ مقام ہمیں حاصل نہ تھا اور جس قسم کے تغیرات اس وقت رونما ہورہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جس مقام پر ہم آج ہیں آئندہ سال انشاء اللہ ہم اس سے یقیناً آگے ہوں گے۔ یہ تغیرات نہ تمہارے اختیارات میں ہیں نہ میرے یہ خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔ پس انسانی تدابیر کو نہ دیکھو بلکہ خدائی تقدیر کی انگلی کو دیکھو جو بتارہی ہے کہ حالات خواہ اچھے ہوں یا برے احمدیت کی گاڑی بہرحال چلتی چلی جائے گی۔ انشاء اللہ<۔۸۵
عالم اسلام کے مسائل پر تبصرہ اور دعائے خاص کی تحریک
حضور نے عالم اسلام کے مختلف اہم مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
>اس سال ہمارے علاوہ عام مسلمانوں کے لئے بھی کافی مشکلات رہی ہیں۔ مثلاً کشمیر کا مسئلہ ہے جو حل ہونے میں ہی نہیں آتا۔ میرے نزدیک اس مسئلہ کو یوں غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی کرنا قرین مصلحت نہیں ہے۔ ایک لمبے عرصہ تک باشندگان کشیر کو ایک غیر ملکی حکومت کے ماتحت رہنے دینا اور پھر یہ امید کرنا کہ وہ ہمیں ووٹ دیں گے کوئی ایسی تشفی کی بات نہیں ہے پھر ہمارے ملک میں اسی سال نواب زادہ لیاقت علی صاحب کا قتل بھی ایک افسوسناک واقعہ ہے جو نتیجہ ہے مولویوں کے اس پراپیگنڈا کا کہ جس سے اختلاف رائے ہو بے شک اسے قتل کردیا کرو۔ مسئلہ فلسطین بھی کشمیر کے مسئلہ سے کم اہم نہیں ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور وہاں لاکھوں مہاجرین کو آباد کرنے کا سوال درپیش ہے۔ پاکستان کو یہ سہولت تھی کہ یہ ایک وسیع ملک ہے جہاں مہاجرین کافی تعداد میں بسائے جاسکتے تھے لیکن وہاں یہ حالت نہیں ہے۔ مہاجرین کی آبادکاری کے سوال کے علاوہ اس مسئلہ کا ایک نازک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے آقا محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے جوار میں دشمن اسلام کو بسا یا گیا ہے۔ میں نے تو ابتداء میں ہی اس خدشہ کا اظہار کیا تھا لیکن اب تو یہودی علانیہ اپنی کتابوں میں مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر قابض ہونے کے ناپاک عزائم کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ علاوہ ازیں ایران میں تیل کا مسئلہ` مصر کا برطانیہ سے تنازعہ` سوڈان کی بے چینی اور شام کے فسادات یہ سب ایسے امر ہیں جو مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ ہیں۔ ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اس لئے ان مشکلات کے ازالہ کے لئے عملاً زیادہ حصہ نہیں لے سکتے لیکن کم از کم دعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے۔ پس آئو ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ان مشکلات کو اپنے خاص فضل سے دور کرے اور نقصان کی بجائے ان مشکلات کو اسلام کی ترقی کا ذریعہ بنائے<۔۸۶
عقیدہ احمدیت کی فاتحانہ شان
اس جلسہ سے کچھ عرصہ پیشتر مخالف احمدیت اخبار نے حکومت پاکستان کو امام جماعت احدیہ کے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے ایسے اخبار نویسوں کو مخاطب کرتے ہوئے جلال انگیز الفاظ میں کہا۔
>تمہارے کہنے پر حکومت بے شک مجھے پکڑ سکتی ہے قید کرسکتی ہے مار سکتی ہے لیکن میرے عقیدہ کو وہ دبا نہیں سکتی اس لئے کہ میرا عقیدہ جیتنے والا عقیدہ ہے اور وہ یقیناً ایک دن جیتے گا تب ایسا تکبر کرنے والے لوگ پشیمان ہونے کی حالت میں آئیں گے<۔
لیکن ساتھ ہی فرمایا:۔
>خواہ اس وقت میں ہوں یا میرا قائم مقام تم سے بھی بہرحال یوسف والا سلوک ہی کیا جائے گا<۔۸۷
حضرت مصلح موعودؓ نے عقیدہ احمدیت کی اس فاتحانہ شان کی ایک دوسرے موقع پر مزید تشریح بھی کی اور فرمایا کہ احمدیت صداقت اور سچائی پھیلانے آئی ہے اور چونکہ احمدیت سچائی اور صداقت پھیلانے آئی ہے۔ اس لئے ایک وقت آنے والا ہے کہ ۹۹ فیصدی لوگ اس میں داخل ہوجائیں گے اور اس وقت باقی لوگ یہ خیال کریں گے کہ شاید اب احمدی ان کے خلاف فتویٰ دیں گے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ جب خدا تعالیٰ ہمیں اکثریت عطا کرے گا تو ہم باقی لوگوں سے کہیں گے کہ جو باتیں تم نے پہلے کہی ہیں ہم وہ بھی معاف کرتے ہیں اور آئندہ بھی تم اپنا اختلاف ہم سے ظاہر کرسکتے ہو<۔
>کبھی تم نے ایسی صداقت بھی دیکھی ہے یا دنیا میں کوئی ایسی سچائی بھی آئی ہے جس نے یہ اعلان کیا ہو کہ وہ گھٹے گی بڑھے گی نہیں۔ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں۔ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا وہ اس وقت فساد کرتے تھے اور سرزنش کے قابل تھے۔ کیا حضرت عیٰسی علیہ السلام یہ نہیں کہا کرتے تھے کہ وہ بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں۔ اور جب وہ کہا کرتے تھے ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا وہ فساد کرتے تھے یا شرارت کرتے تھے اور کیا وہ قابل مواخذہ تھے۔ پھر محمد رسول اللہ~صل۱~ نے بھی یہی بات کہی کہ ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں۔ اور جب آپ~صل۱~ نے یہ بات کہی کہ ہم بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں تو کیا آپ~صل۱~ فتنہ پھیلا رہے تھے۔ یہ بات تو عقل کے ہی خلاف ہے۔ جو صداقت بھی دنیا میں آئے گی وہ یہی کہے گی کہ ہم نے بڑھنا ہے۔ سچائی کی علامت ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ بڑھے۔ کیا کسی کا کسی عقیدہ کو صحیح سمجھ کر مان لینا فتنہ ہوتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اگر ہم انگلینڈ میں جاکر کہیں کہ ہم یہاں اتنی تبلیغ کریں گے کہ بادشاہ بھی احمدی ہوجائے گا تو یہ فتنہ نہیں ہوگا۔ یہ فساد نہیں ہوگا۔ وہ اتنا ہی کرسکتا ہے کہ کہہ دے کہ میں احمدی نہیں ہوتا ہم کہیں گے اچھا تم احمدی نہ ہوئے تو تمہاری اولاد احمدی ہوجائے گی۔ یہ صداقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کجا یہ کہ اسے فتنہ کہا جائے۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ احمدیت سچی ہے تو ہم یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ نوے فیصدی تو کیا اس سے بھی زیادہ لوگ اس میں داخل ہوں گے<۔۸۸
تحریک احمدیت کے دس بنیادی اصول اور ان کی برتری
عقیدہ احمدیت کیون جیتنے والا ہے؟ اس کی تشریح و توضیح میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اس تقریر کے دوران نہایت لطیف پیرایہ میں بتایا کہ عقیدہ وہی درست ہوسکتا ہے جس کی تائید عقل و نقل اور جزبات صحیحہ سے ہوتی ہے اور احمدیت کا ہر عقیدہ اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس سلسلہ میں حضور نے بطور نمونہ احمدیت کے مندرجہ ذیل دس اصول کا ذکر فرمایا:۔
‏]in [tag۱۔
تمام انسان جو اب تک پیدا ہوئے اپنا کام ختم کرکے فوت ہوچکے ہیں۔ خواہ وہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے` خواہ روحانی بزرگ ہوں یا مادی۔
۲۔
رسول کریم~صل۱~ ان معنوں میں خاتم النبین~صل۱~ تھے کہ تمام سابقہ نبیوں کی نبوت آپ کی تصدیق کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتی اور آئندہ آنے والے مامورین بھی آپ کی مہر سے ہی کسی درجہ کو پہنچ سکتے ہیں محض آخری ہونا کوئی فخر کی بات نہیں۔
۳۔
اسلام کا روحانی غلبہ تمام دنیا پر ہوگا۔
۴۔
الہام الٰہی کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔
۵۔
قرآن کریم ایک زندہ` ناقابل منسوخ اور ایک غیر محدود مطالب والی کتاب ہے۔
۶۔
خداتعالیٰ ہمیشہ اپنی قدرتوں کے ذریعہ سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔
۷۔
مذہب کی بنیاد اخلاق پر ہے۔
۸۔
قانون شریعت اور قانون قدرت کا متشارک اور متشابہہ ہونا ضروری ہے۔
۹۔
اسلام کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور اسی وجہ سے قرآن کریم کے مطالب میں ترتیب پائی جاتی ہے۔
‏in] [tag۱۰۔
خدا تعالیٰ ہمیشہ ایسے آدمی پیدا کرتا ہے جو تزکیہ نفس کریں۔
اس کے بعد حضور پرنور نے ان دس اصولوں میں سے ایک ایک کو نمبروار لیا اور آفتاب و المتاب کی طرح ثابت کر دکھایا کہ تحریک احمدیت کا ہر نظریہ` ہر اصول اور ہر عقیدہ عقل و نقل اور جذبات صحیحہ کے عین مطابق ہے اس لئے یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ عقائد احمدیت ہی بالاخر دنیا میں قائم ہوں گے۔۸۹
اسلام کے روحانی غلبہ کا شاندار تصور
مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ اصول پیش فرمایا کہ اسلام کا روحانی غلبہ تمام دنیا میں ہوگا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت اثر انگیز طریق اور ایک جدید اور سائینٹفک طرز سے اس اصول کی حقانیت بیان کی اور احمدیت کے نقطہ نگاہ سے اسلام کے روحانی غلبہ کا شاندار تصور پیش کرتے ہوئے فرمایا:۔
>یہ اصل ھی نہایت اہم ہے اور مسلمان بغیر اس مطمح نظر کے دنیا میں کبھی بھی حقیقی سربلندی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان پہلے تو اس اصل کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کرتا تھا مگر اب ہماری مخالفت میں اس نے اس اصل کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ پہلے کہتا تھا کہ مسیح اور مہدی دنیا میں آئیں گے تو سب کفار کو مسلمان بنا لیں گے اور گو وہ کہتا یہی تھا کہ تلوار کے زور سے مسلمان بنائیں گے مگر یہ سیدھی بات ہے کہ جب مسیح اور مہدی نے آنا تھا تو کچھ نہ کچھ اس کے ذریعہ روحانیت نے بھی غلبہ پانا تھا مگر اب جوں جوں ہماری تبلیغ وسیع ہوتی جارہی ہے اور جوں جوں وہ مسیح اور مہدی کی آمد سے مایوس ہوتا جارہا ہے تعلیم یافتہ طبقہ نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی عیٰسی اور مہدی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ گویا تھوڑا بہت جو وہ سچائی کے قریب تھے وہ بھی ختم ہوگیا۔ اب دنیا میں صرف ہماری ہی جماعت ہے جو اس مسئلہ کو پیش کرتی ہے کہ اسلام روحانی طور پر ساری دنیا پر غالب آئے گا۔ مسلمان اس بات کو رد کرتا ہے اور وہ کہتا ہے ہمیں اس روحانی غلبہ کی ضرورت نہیں ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی طور پر ایران آزاد ہوجائے۔ شام آزاد ہوجائے۔ فلسطین آزاد ہوجائے۔ لبنان آزاد ہوجائے۔ سعودی عرب آزاد ہوجائے۔ مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں۔ پاکستان کی حکومت مضبوط ہوجائے۔ سوڈان کو آزادی حاصل ہوجائے۔ اگر یہ ممالک سیاسی رنگ میں مکمل آزادی حاصل کرلیں تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوگئے مگر میں پوچھتا ہوں اگر یہ ساری باتیں ہم کو حاصل ہوجائیں۔ اگر پاکستان ایک مضبوط اسلامی ملک بن جائے اور تھوڑی بہت اس کی طاقت میں جو کمی ہے وہ دور ہوجائے` اگر ایران کے تیل کے چشموں کا سوال حل ہوجائے اور پھر اس کی مالی حیثیت بھی اتنی مضبوط ہوجائے کہ اس کا خزانہ ہر قسم کے مالی بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوجائے۔ اگر سعودی عرب بھی آزاد ہوجائے اور اس کے تیل کے چشمے اسی کے قبضہ میں آجائیں اور وہ موجودہ آمد سے دس بیس گنا آمد اسے دینے لگیں۔ اگر مصر میں سے بھی انگریزی فوجیں نکل جائیں۔ اگر شام کے جھگڑے بھی ختم ہوجائیں اور آئے دن جو وہاں قتل کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کوئی کمانڈر انچیف مارا جاتا ہے اور کبھی کوئی وزیر یہ سب باتیں ختم ہوجائیں۔ اگر پاکستان میں اندرونی طور پر جو جھگڑے پائے جاتے ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں اور دشمنوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاتی رہیں تب بھی تم غور کرکے دیکھ لو کہ اس موجودہ دنیا کے نقشہ پر روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ان ممالک کی آزادی اور ان کی طاقت ہمارے لئے کوئی بھی فخر کی چیز ہوگی۔ یہ ساری حکومتیں آزاد بھی ہوجائیں تو دنیا کی پالٹیکس میں ان کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے۔ روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کے مقابلہ میں ان کا کیا درجہ تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایک بادشاہ کے گھر کے پاس کسی غریب آدمی کا مکان ہو اور فرض کرو کہ اس کے پاس کسی وقت لاکھ دو لاکھ روپیہ بھی آجائے تب بھی بادشاہ کے مقابلہ میں اس کی کیا حیثیت تسلیم کی جاسکتی ہے۔ جس دن اس کا روپیہ ختم ہوجائے گا اسی دن اس کی ساری حیثیت جاتی رہے گی اور وہ پھر دنیا میں ایک بے حقیقت چیز بن کر رہ جائے گا۔ پس سوال یہ ہے کہ اگر وہ سب کچھ ہوجائے جو مسلمان چاہتے ہیں تب بھی دنیا میں مسلمان کی کیا حیثیت ہوگی کیا اس کا پھیلائو کیا اس کا روپیہ۔ کیا اس کی فوج۔ کیا اس کی تعداد اور کیا اس کی طاقت اس قابل سمجھی جاسکتی ہے کہ دنیا کی پالٹیکس پر کوئی غیر معمولی اثر پیدا کرسکے اگر نہیں تو بتائو اس مطمح نظر سے اسلام کو کیا فائدہ اور مسلمان نوجوانوں کے اندر اس مطمح نظر سے وہ کونسا انقلاب پیدا ہوسکتا ہے کہ ہر مسلمان کا دل اچھلنے لگے کہ میں بھی اس مطمح نظر کے حصول کے لئے کچھ کوشش کروں شاید کہ میرا نام بھی تاریخ میں محفوظ ہوجائے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو پولیٹکل دنیا میں ایک تیسرے درجہ کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور تیسرے درجہ کی حیثیت کوئی ایسی چیز نہیں جو انتہائی مقصود قرار دیا جاسکے۔ اس میں کوئی شب نہیں کہ مسلمان ممالک کی آزادی ضروری چیز ہے۔ کون چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ غلام بنا رہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مطمح نظر ایسا ہوسکتا ہے جس سے مسلمان نوجوانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑنے لگے اور کیا اس کے ذریعہ سے اسلام کو کوئی اہم پوزیشن دنیا میں حاصل ہوجاتی ہے۔
پس سوال یہ نہیں کہ اسلامی ممالک کی آزادی اچھی چیز ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ اگر وہ آزادی ان کو حاصل ہوجائے تو پھر ہم کیا بن جاتے ہیں۔ ایک غریب آدمی جس کے گھر میں آٹا بھی نہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے آٹا نہ ملے مگر آٹا مل جانے سے کیا اس کی دنیا میں کوئی پوزیشن قائم ہوسکتی ہے۔ اگر سیر بھر آٹے کا اس کے لئے انتظام بھی ہوجائے تب بھی وہ جن کے پاس کئی کئی کروڑ روپیہ ہے ان کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی۔ پس ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمان حکومتوں کو آزادی حاصل نہ ہو ۔۔۔۔۔ ہم چاہتے ہیں مسلمان ممالک آزاد ہوں` ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان حکومتیں طاقتور ہوں۔ لیکن جب سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اس آزادی کے بعد دنیا میں ہماری پوزیشن کیا بنتی ہے۔ مسلمان اس بات کا مدعی ہے کہ وہ ساٹھ کروڑ ہے عیسائیوں نے جو تازہ جغرافیہ لکھا ہے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی تعداد اڑتالیس کروڑ بیس لاکھ مان لی ہے لیکن دنیا کی آبادی دو ارب چالیس کروڑ ہے۔ دو ارب چالیس کروڑ ہی میں اڑتالیس کروڑ بیس لاکھ تمام آبادی کا چوتھا حصہ بنتے ہیں۔ گویا اگر سارے مسلمان آزاد ہوجائیں۔ اگر ہر اسلامی ملک میں اتنی ہی دولت ہو جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے` اتنا ہی اسلحہ ہو جتنا امریکہ میں پایا جاتا ہے` اتنی ہی تجارب ہو جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے۔ پھر بھی روپیہ میں سے چونی انہیں حاصل ہوگی۔
اب تم خود ہی بتائو کہ بارہ آنے بڑے ہوتے ہیں یا چونی بڑی ہوتی ہے۔ چونی بہرحال چھوٹی ہوتی ہے اور بارہ آنے بڑے ہوتے ہیں۔ وہ ہندو جس کو ہمارے آدمی تحقیر کے طور پر کر اڑ کر اڑ کہا کرتے تھے وہ بھی آزادی کے بعد بتیس کروڑ آبادی کا مالک بن چکا ہے۔ پھر چین کو دیکھ لو۔ اس کی آبادی اور رقبہ کو لے لو اس کی آبادی پچاس کروڑ ہے۔ اگر مسلمان اڑتالیس کروڑ ہی ہوں تو خالی چین کے لوگوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ اگر ایسا بھی ہوجائے تو یہ کونسا مقصد ہے جو ہر مسلمان کے سامنے رہنا چاہئے۔ میں نے بتایا ہے کہ اگر کوئی آدمی مررہا ہو تو ہماری خواہش ہوگی کہ خدا کرے وہ بچ جائے۔ لیکن کیا جو شخص مرنے سے بچ جائے وہ بادشاہ ہوجایا کرتا ہے یا کوئی بڑا عالم ہوجایا کرتا ہے۔ مسلمانوں کی آزادی کے لئے جدوجہد کے معنے صرف اتنے ہیں کہ مسلم باڈی پالیٹکس میں مرض پیدا ہوچکا ہے اور وہ اس مرض کو دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہماری خواہش ہوگی کہ وہ مرض دور ہوجائے بلکہ ہماری دعا ہوگی کہ وہ مرض دور ہوجائے۔ لیکن اگر یہ مرض دور ہوجائے تب بھی دنیا کی قوموں میں بیٹھتے وقت ایک مسلمان کی کیا پوزیشن ہوگی؟ اگر ایران بھی آزاد ہوجائے۔ اگر مصر کے مسائل بھی حل ہوجائیں۔ اگر فلسطین اور شام اور لبنان بھی آزاد ہوجائیں۔ اگر سوڈان بھی آزاد ہوجائے۔ اگر تمام اسلامی ممالک کے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ ان کی طاقت بڑھ جائے۔ ان کا روپیہ زیادہ ہوجائے۔ ان کی عظمت ترقی کرجائے۔ تمام دولت ان کے ہاتھ میں آجائے۔ تمام تجارت جو اس وقت امریکہ کے پاس ہے اس پر ان کا قبضہ ہوجائے پھر بھی بارہ آنے کے مقابلہ میں وہ چار آنے کے مالک رہتے ہیں۔ اور جب ان کی حالت یہ ہوگی کہ چونی ان کے پاس ہوگی اور بارہ آنے غیر کے پاس ہوں گے تو اسلام کس طرح غالب آیا اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عظمت کس طرح قائم ہوئی۔ غرض جو شخص بھی اس مسئلہ پر اس رنگ میں غور کرے گا اور قتل سے کام لے گا وہ بعثت محمدیہ کی یہ غرض قرار دینا کہ سیاسی لحاظ سے ایران آزاد ہوجائے` مصر آزاد ہوجائے۔ شام اور فلسطین آزاد ہوجائیں۔ لبنان آزاد ہوجائے۔ سوڈان آزاد ہوجائے۔ پاکستان مضبوط ہوجائے اپنی انتہائی پست خیالی تصور کرے گا۔ وہ شرمائے گا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں اور کونسا مقصد ہے جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بعثت کی طرف منسوب کررہا ہوں۔ کیا محمد رسول اللہ~صل۱~ اس لئے آئے تھے کہ یہ چھوٹے چھوٹے علاقے آزاد ہوجائیں۔ کیا محمد رسول اللہ~صل۱~ اس لئے آئے تھے کہ مسلمان دنیا میں ایک چونی کی حیثیت حاصل کرلیں۔
میں تو سمجھتا ہوں اگر میرا واہمہ اور خیال میں بھی ایسا نظریہ آئے تو میرا ہارٹ فیل ہوجائے کہ میں کتنا پست نظریہ اس عظیم الشان اور مقدس انسان کی بعثت کے متعلق رکھ رہا ہوں جسے خدا نے اولین و آخرین کا سردار بنایا۔ میں تو سمجھوں گا میرے جیسا جھوٹا انسان دنیا میں اور کوئی نہیں جو محمد رسول اللہ~صل۱~ جیسے عظیم الشان رسول کی طرف اتنا چھوٹا` اتنا معمولی اور اتنا ادنیٰ درجہ کا خیال منسوب کررہا ہوں کہ اتنا بڑا رسول اس لئے آیا تھا کہ ایران کے تیل کے چشمے آزاد ہوجائیں۔ اس لئے آیا تھا کہ مصر آزاد ہوجائے۔ اس لئے آیا تھا کہ فلسطین اور شام اور لبنان کے جھگڑے دور ہوجائیں۔ میں جانتا ہوں کہ مخالف یہ کہیں گے کہ دیکھا ہم نہیں کہتے تھے یہ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں انہیں اسلامی ممالک کے آزادی سے کوئی تعلق نہیں لیکن میں ان کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتا میں جانتا ہوں کہ محمد رسول الل¶ہ~صل۱~ کی عظمت اور آپ کی شان کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس عظمت اور شان کے مقابلہ میں اس ادنیٰ ترین مقصد پر آکر ٹھہرجانا قطعی طور پر اپنی نابینائی کا اطہار کرنا ہے۔ اگر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عظمت ایران کے تیل کے چشموں کے آزاد ہونے سے قائم ہوتی ہے تو پھر جب انگریزوں نے ایک ایک ملک سے مسلمانوں کو کان پکڑ کر نکال دیا تھا تو تمہیں کہنا چاہئے تھا کہ عیٰسیؑ کی عظمت ظاہر ہوگئی بلکہ عیسائیت کی موجودہ طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہیں اب بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ عیسائیت اسلام پر بازی لے گئی لیکن ہر باشعور انسان جو حقیقت کو جانتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ ملکوں کی آزادی بالکل اور چیز ہے اور مذہب کا غلبہ ایک دوسری چیز ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دنیا میں آکر یہ اصول پیش فرمایا کہ تمہارا یہ مطمح نظر نہایت ادنیٰ ہے تمہیں اپنے افکار کو بلند کرنا چاہئے۔ تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہارا کیا منصب ہے اور کونسا کام ہے جو خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کیا ہے۔ بے شک سیاست کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی اصلاح ضروری ہے۔ بے شک دولت کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو ترقی کی ضرورت ہے۔ بے شک تمدن کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بعثت کی غرض یہ تھی کہ اسلام کو روحانی طور پر دنیا میں غالب کیا جائے۔ اب اس کی تشریح کرو اس عظیم الشان مقصد کے یہ معنے بن جاتے ہیں کہ اسلام اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عظمت کے دلائل اتنی طاقت پکڑ جائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ باتیں کرتے وقت وہ کنی کترانے لگیں۔ آج یورپ میں جو بھی لٹریچر شائع ہوتا ہے اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اسلام میں فلاں نقص ہے اور اسلام میں فلاں خرابی ہے` لیکن کل اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہو کہ یورپ کے رنے والے اپنی کتابوں میں یہ لکھیں کہ اسلام میں فلاں خرابی ہے` لیکن کل اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہو کہ یورپ کے رہنے والے اپنی کتابوں میں یہ لکھیں کہ اسلام میں فلاں بات بہت اعلیٰ ہے مگر عیسائیت بھی اس سے بالکل خالی نہیں۔ مسیحؑ کے فلاں فلاں بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی دنیا کے سامنے یہی بات پیش کی تھی۔ آج کا یورپ زدہ مسلمان یورپ کی ڈیماکرسی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ قرآن سے بھی کچھ کچھ ایسے ہی اصول ثابت ہوتے ہیں اور یہ خوبی ہمارے اندر بھی پائی جاتی ہے یہ اپالوجی (APOLOGY) ہے جو آج کا مسلمان پیش کررہا ہے اور یہ اسلام کے لئے فخر کا دن نہیں۔ اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہوگا جب یورپ اور امریکہ میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اسلامی پردہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں اس کی کچھ کچھ انجیل سے بھی تائید ہوتی ہے اور ہمارے مسیحؑ نے بھی جو فلاں بات کہی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
‏tav.12.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۲
اصل بات یہ ہے کہ عیسائیت کے وہ بزرگ جو پہلی صدی میں گزرے ہیں انہوں نے بھی دو و تین تین شادیاں کی ہیں` پس کثرت ازدواج کی خوبی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ عیسائیت میں بھی پائی جاتی ہے۔ جس دن یورپ اور امریکہ کے گرجوں میں کھڑے ہوکر ایک پادری اپنے مذہب کی اس رنگ میں خوبیاں بیان کرے گا وہ دن ہوگا جب ہم کہیں گے کہ آج اسلام دنیا پر غالب آگیا اب ہمیں اپالوجی (APOLOJY) کی ضرورت ہے جو آج کا مسلمان پیش کررہا ہے اور یہ اسلام کے لئے فخر کا دن نہیں۔ اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہوگا جب یورپ اور امریکہ میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اسلامی پردہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں اس کی کچھ کچھ انجیل سے بھی تائید ہوتی ہے اور ہمارے مسیحؑ نے بھی جو فلاں بات کہی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کا پردہ ہونا چاہئے۔ اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہوگا جب یورپ اور امریکہ کا عیسائی اپنی تقریروں میں یہ کہے گا کہ کثرت ازدواج کا مسئلہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں بے شک یہ بڑا اچھا مسئلہ ہے اور عیسائیوں نے کسی زمانہ میں اس کے خلاف بھی کہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ عیسائیت کے وہ بزرگ جو پہلی صدی میں گزرے ہیں انہوں نے بھی دو ددو تین تین شادیاں کی ہیں` پس کثرت ازدواج کی خوبی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ عیسائیت میں بھی پائی جاتی ہے۔ جس دن یورپ اور امریکہ کے گرجوں میں کھڑے ہوکر ایک پادری اپنے مذہب کی اس رنگ میں خوبیاں بیان کرے گا وہ دن ہوگا جب ہم کہیں گے کہ آج اسلام دنیا پر غالب آگیا اب ہمیں اپالوجی (APOLOJY) کی ضرورت نہیں۔ اب دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوبیاں اس کے اندر بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ ہوگا اسلام کا غلبہ اور یہ ہوگا محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عظمت کا دن۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عظمت کا وہ دن ہوگا جب دو ارب چالیس کروڑ کی دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان نہیں ہوگا بلکہ دو ارب مسلمان ہوگا اور چالیس کروڑ غیر مذاہب کا پیرو ہوگا۔ مگر یہ نظریہ کس نے پیش کیا یہ صرف حضرت مرزا صاحبؑ نے پیش کیا اور یہی وہ چیز ہے جس پر آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور کہا گیا کہ اسلام کے غلبہ کا یہ کونسا طریق ہے۔ اسلام تو اس طرح غالب آسکتا ہے کہ تلوار ہاتھ میں لی جائے اور کفار کو تہہ تیغ کردیا جائے۔ مگر غور کرکے دیکھ لو کہ کونسا نظریہ ہے جو اسلام کی عظمت کو قائم کرنے والا ہے اور کون سا مطمح نظر ہے جس پر ایک سچا مسلمان تسلی پاسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ مطمح نظر پیش کیا ہے کہ اسلام کو روحانی غلبہ سب دنیا پر حاصل ہوگا اور روحانی غلبہ کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کے سیاسی اور اخلاقی اور مذہبی معیاروں کو بدل دیا جائے گا۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام قابل اعتراض نہیں کیونکہ یورپین تہذیب کی فلاں فلاں بات کی وہ تائید کرتا ہے یا وہ ڈیماکرسی جو آج یورپ پیش کرتا ہے بڑی اچھی چیز ہے مگر اسلام نے بھی اس ڈیماکرسی کی تائید کی ہے یہ طریق جو آج مسلمانوں نے اختیار کررکھا ہے یہ ہرگز اسلام کے لئے کسی عزت کی بات نہیں۔ ہم تو اس دن کے منتظر ہیں جب امریکہ کے منبروں پر کھڑے ہوکر عیسائی پادری یہ کہا کریں گے کہ وہ اسلامی حریت اور آزادی جس کو قرآن پیش کرتا ہے ہماری قوم بھی اس سے بالکل خالی نہیں اور ہم اس کی تائید میں اپنی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں یا وہ اخلاقی` مذہبی اور سیاسی معیار جو اسلام پیش کرتا ہے اس سے ملتے چلتے معیار ہماری کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
غرض آج کل کا مسلمان آزادی کا تو دعویٰ کرتا ہے مگر ذہنی غلامی اختیار کرتے ہوئے وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی مغربی تہذیب کے اچھے نقالوں میں سے بن جائے اور انہی کے نام پر ان کی نقل کرنے میں عزت محسوس کرتا ہے اور اگر وہ آزادی ظاہر کرتا ہے تو صرف اتنی کہ کسی میں مغربی تہذیب کا نقال بننا چاہتا ہے اور کسی میں کمیونسٹ نظریہ کا نقال بننا چاہتا ہے۔ اور نقل خواہ دس متفرق آدمیوں کی کی جائے بہرحال نقل ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ مطمح نظر رکھا کہ کسی دن یورپ بھی میرا نقال ہوگا اور امریکہ بھی میرا نقال ہوگا۔ اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جو بات کہی کہ دنیا کا سیاسی اور اخلاقی اور مذہبی نقطہ نظر بدل کر ان کو مسلمان بنا لینا اور پھر اسلام کے مطابق ان کے اعمال کو ڈھال دینا یہ مطمح نظر ہے جو تمہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے اس کا قرآن کریم سے بھی ثبوت ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علے الدین کلہ )پ ۲۸ سورہ صفحہ۹( خدا ہی ہے جس نے محمد رسول اللہ~صل۱~ کو دنیا میں بھیجا ہے ہدایت دے کر اور دین حق دے کر۔ تلوار دے کر اور ڈنڈا دے کر نہیں۔ لیظھرہ علے الدین کلہ تاکہ وہ سارے دینوں پر اسے غالب کرے سارے ملکوں پر نہیں کیونکہ ملکوں پر قبضہ کرلینا کوئی بڑی بات نہیں بڑی بات یہی ہے کہ دلوں پر قبضہ ہو۔ اب دیکھو اس آیت میں وہی چیز بیان کی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش فرمائی کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بعثت کا یہ مقصد نہیں کہ ایران کے تیل کے چشمے آزاد ہوجائیں۔ مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں۔ شام اور فلسطین آزاد ہوجائیں۔ یہ باتیں ہوں گی اور ضرور ہوں گی مگر بہرحال یہ ابتدائی چیزیں ہیں مسلمان اس کے لئے جدوجہد کررہا ہے اور وہ ایک دن اپنی غلامی کا جامہ چاک چاک کرکے پھینک دے گا لیکن یہ آزادی اس کا مقصد نہیں۔ جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کا ناک بھی پونچھتا ہے مگر اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بچہ پیدا ہو تو میں اس کا ناک پونچھا کروں گا۔ مقصد اس کا یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑا عالم فاضل ہے۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ چند ریاستوں پر کسی کا قبضہ کرلینا کوئی بڑی بات نہیں۔ دلوں کو بدل لینا اور ان کو فتح کرلینا یہ بڑی بات ہے۔
فرض کرو پاکستان کسی وقت اتنی طاقت پکڑ جائے کہ وہ حملہ کرے اور سارے امریکہ کو فتح کرلے اور امریکہ کے لوگ ہمیں ٹیکس دینے لگ جائیں لیکن امریکہ کا آدمی اسلام اور قرآن کو گالیاں دیتا ہو تو یہ بڑی فتح ہوگی یا امریکہ آزاد رہے لیکن امریکہ کے ہر گھر میں رات کو محمد رسول اللہ~صل۱~ پر درود بھیج کر سونے والے لوگ پیدا ہوجائیں تو یہ بڑی بات ہوگی؟ پس عقل بھی یہی کہتی ہے کہ یہی مقصد سب س بالا ہے۔ یا مثلاً پاکستان کی ہندوستان سے کسی وقت لڑائی ہوجائے اور پاکستان ہندوستان کو فتح کرلے تو بھی یہ کونسی فتح ہے۔ پہلے بھی یہی کہا گیا تھا ہندوستان کو فتح کرلیا گیا لیکن پھر وہ فتح کس طرح بے حقیقت بن کر رہ گئی اور کس طرح مسلمان سخت ذلت کے ساتھ وہاں سے نکلے کہ ہر شخص بزبان حال یہ کہہ رہا تھا کہ ~}~
بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچہ سے ہم نکلے
لیکن اگر پھر۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بتائے ہوئے مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے مسلمان کھڑا ہو اور وہ پھر ہندوستان میں داخل ہو تلوار کے زور سے نہیں بلکہ قرآن کے زور سے۔ بندوق کے زور سے نہیں بلکہ سچائی کے زور سے۔ شام لال ہندو عبداللہ بن جائے۔ سندر داس ہندو عبدالرحمن بن جائے۔ ویدوں کی جگہ قرآن پڑھا جانے لگے تو آج تو تم اس طرح نکلے ہو کہ وہ تمہیں نکال کر خوش ہوئے ہیں لیکن اگر تم یہ فتح حاصل کرلو اور تم کسی دن ان سے یہ کہو کہ اب ہمارا کام ہندوستان میں ختم ہوچکا ہے اب ہم چین کو جاتے ہیں تو تم دیکھو گے کہ اس دن سارے ہندوستان میں کہرام مچ جائے گا اور ہر شخص رونے لگ جائے گا اور کہے گا خدا کے لئے ہمیں چھوڑ کر نہ جائو تم ہمارے لئے خیر اور برکت کا موجب ہو۔ یہ چیز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش فرمائی اور اسی کی قرآن بھی تائید کرتا ہے اور عقل بھی تائید کرتی ہے اور جذبات صحیحہ بھی تائید کرتے ہیں کیونکہ جذبات صحیحہ اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ کسی کو مکہ مار کر اس سے یہ کہا جائے کہ تو مجھے پیار کر لیکن محبت اور پیار کے ساتھ اسے اپنا غلام بنالو تو پھر تم اسے کہو بھی کہ خدمت نہ کرو تو وہ کہے گا مجھے ثواب لینے دیں اپنی خدمت سے محروم کیوں کرتے ہیں<۔۹۰
>عالم روحانی کا دربار خاص<
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کی تیسری تقریر سیر روحانی کے شہرہ آفاق سلسلہ سے تعلق رکھتی تھی جس میں حضور نے خدا تعالیٰ کے دربار خاص کا قرآن مجید سے روح پرور نقشہ کھینچا اور پھر اس دربار کے روحانی گورنر جنرل محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بے مثال مقام پر ایسے اچھوتے رنگ میں روشنی ڈالی کہ حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی اس مبارک اور یادگار تقریر کے اختتامی الفاظ یہ تھے کہ:۔
>اللہ تعالیٰ نے اس مقام محمود کی تجلیات کو اور زیادہ روشن اور نمایاں کرنے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اور آپ کے بعد مجھے پیدا کیا اور ہم سے اسی نے آپﷺ~ کے حسن کی وہ تعریف کروائی کہ آج اپنے تو الگ رہے بیگانے بھی آپ کی تعریف کررہے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو محمد رسول اللہ~صل۱~ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں۔ مگر یہ تغیر کیوں ہوا اس لئے کہ اس روحانی دربار خاص کا بادشاہ جس انعام کا اعلان کرتا ہے وہ انعام چلتا چلا جاتا ہے اور کوئی انسان اس کو چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جب اس نے اپنے دربار میں یہ اعلان کیا کہ اے ہمارے گورنر جنر ہم تجھے ایسے مقام پر پہنچانے والے ہیں کہ دنیا تیری تعریف کرنے پر مجبور ہوگی تو کون شخص تھا جو خدا تعالیٰ کے اس پروگرام میں حائل ہوسکتا` اس نے محمدی انوار کی تجلیات کو روشن کرنا شروع کیا اور اس کے حسن کو اتنا بڑھایا کہ دنیا کی تمام خوبصورتیاں اس حسین چہرہ کے سامنے ماند پڑ گئیں اور دوست اور دشمن سب کے سب یک زبان ہوکر پکار اٹھے کہ محمدﷺ~ حقیقتاً محمدﷺ~ اور قابل تعریف ہے` ~صل۱~۔
غرض یہ کیسا عظیم الشان دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے اپنے درباری کو جو انعام دیا گیا وہ دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود قائم رہا اور قائم رہے گا۔ حکومتیں اس روحانی گورنر جنرل کے مقابلہ میں کھڑ ہوئیں تو وہ مٹا دی گئیں` سلطنتوں نے اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھا تو وہ تہ و بالا کردی گئیں۔ بڑے بڑے جابر بادشاہوں نے اس کا مقابلہ کیا تو وہ مچھر کی طرح مسل دیئے گئے` کیونکہ اس دربار خاص کا بادشاہ یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے مقرر کردہ گورنر جنرل کی کوئی ہتک کرے یا اس کے پہنائے ہوئے جبہ کو کوئی اتارنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے درباریوں کے لئے بڑا غیور ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اس درباری کے لئے غیرت مند ہے جس کا مبارک نام محمد مصطفیٰ~صل۱~ ہے خدا تعالیٰ کی اس پر لاکھوں برکتیں اور کروڑوں سلام ہوں۔ امین یارب العلمین<۔۹۱
سالانہ جلسہ ۱۹۵۱ء کے بارے میں لاہور کے بعض بااثرات صحافیوں کے تاثرات
اس مبارک اجتماع میں پاکستان کے متعدد نامور صحافی شامل ہوئے جن کے تاثرات الفضل کے خصوصی رپورٹر کے قلم سے درج ذیل ہیں۔
>میاں محمد شفیع نے کہا۔
>حضرت صاحب جیسا ماہر نفسیات میں نے اپنی زندگی میں کوئی نہیں دیکھا میں سمجھتا ہوں ان جیسا زیرک سیاستدان اور ماہر نفسیات شاید ہی اس صدی میں کوئی ہوا ہو<۔
اس پر پاکستان ٹائمز کے مسٹر خورشید نے کہا کہ حضرت صاحب نے مسلمانوں کے مصائب کا علاج خوب بتایا کہ سب ان کے ہاتھ پر اکٹھے ہوجائیں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ سنتے ہی میاں شفیع جھٹ بول اٹھے۔
>میں بھی کہتا ہوں کہ سارے مسلمان ان ہی کے ہاتھ پر اکٹھے ہوجائیں<۔
اس پر سردار فضلی نے کہا۔
>میاں صاحب ایمان سلامت لے کر جائو گے یا نہیں<۔
وہ بولے >مذاق نہیں کررہا ہوں بلکہ سچ کہہ رہا ہوں کہ اگر سارے مسلمان ان کے ہاتھ پر جمع ہوجائیں تو یہ ساری قوم کو کہہ دیں گے۔ جائو آرام کرو اور سارا بوجھ خود اٹھالیں گے اور پھر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی نکل آئے گا<۔
ایک اور موقع پر میاں شفیع نے کہا:۔
>تم نے یہ نہیں دیکھا کہ حضرت صاحب کیسے کیسے دقیق مسائل عام فہم طریق پر پیش کرتے ہیں اور پھر اس قدر مدلل کہ انکار کی گنجائش نہیں<۔
پھر میاں شفیع نے بھی یہ کہا:۔
>مجھے تو جلسہ میں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ حفاظت کا انتظام تھا۔ کاش راولپنڈی کے جلسہ میں ایسا ہی انتظام ہوتا تو میرا لیڈر خان لیاقت علی کبھی قتل نہ ہوتا۔ لوگ تو شاید حفاظت کے ایسے کڑے انتظامات پر اعتراض کریں لیکن میرے نزدیک یہ چیز قابل ستائش ہے میں اس تاثر کا ذکر ڈائری میں ضرور کروں گا<۔
ربوہ میں گھومتے وقت ایک اور تاثر جس کا اظہار کیا یہ تھا کہ دیکھو ان لوگوں نے وہ کام کر دکھایا ہے جو دوسرے مہاجر تو کیا خود ہماری حکومت نہیں کرسکی۔ ربوہ کے پیمانے کا کوئی ایک شہر بتائو جو اب تک حکومت نے آباد کیا ہو۔ اگر ہم لوگ بھی ایسے صاحب عزم ہوتے تو آج نہ معلوم کتنے ہی نئے شہر آباد ہوچکے ہوتے۔
جب جلسہ ختم ہوا اور جلسہ گاہ سے ہزاروں کی تعداد میں احباب باہر نکلنے شروع ہوئے تو ہم ایک طرف کھڑے دیکھ رہے تھے۔ میاں شفیع نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:۔
>ان لوگوں کے انتشار میں بھی تنظیم کی جھلک موجود ہے۔ سب نے پوچھا >مطلب< کہا ربوہ کے علاوہ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو ہزاروں لوگوں اور کاروں کی آمدورفت کی وجہ سے ایسی شور زمین سے گردوغبار کے بادل اٹھ رہے ہوتے اور وہاں ہمارا تمہارا چلنا مشکل ہوجاتا لیکن یہ لوگ کیسے آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب ذہنی تربیت کے تحت غیرشعوری طور پر ان سے ظہور میں آرہا ہے<۔
)غیر مطبوعہ رپورٹ(
تمت بالخیر
حواشی
۱۔
النباء پ ۳۰ ع۱
۲۔
تفسیر کبیر )النباء( صفحہ ۵۲ کالم ۱۔
۳۔
الفضل )قادیان( ۲۔ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۴۔
>قادیان گائیڈ< صفحہ ۵۱ )مرتبہ میاں محمد یامین صاحبؓ تاجر کتب قادیان( مطبوعہ ۲۵۔ فروری ۱۹۲۰ء۔
‏h1] g[ta ۵۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۳۵ء۔۱۹۳۶ء صفحہ ۱۲۶۔
۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۳۶ء۔ ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۹۶۔
۷۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۳۴ء۔ ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۲۶۔
۸۔
اس غرض کے لئے صدر مجلس تعلیم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی صدارت میں ۲۷۔ تبلیغ ۱۳۲۲ہش کو ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں حسب ذیل اصحاب نے شرکت فرمائی۔ حضرت مولوی محمد دین صاحب بی۔ اے` خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خاں صاحبؓ` مولوی عبدالمنان صاحب عمر` حضرت صاحبزاد مرزا ناصر احمد صاحب۔ پروفیسر عبدالقادر صاحب۔ مولوی سیف الرحمن صاحب۔ مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ )سیکرٹری(
۹۔
تفصیلی نصاب اور اجلاس کی مفصل کارروائی مجلس تعلیم کے قدیم ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۱۰۔
یہاں ایک لفظ صحیح پڑھا نہیں گیا۔ )ناقل(
۱۱۔
ریکارڈ مجلس تعلیم۔
۱۲۔
>تاریخ لجنہ اماء اللہ< پہلی جلد صفحہ ۳۲۳ )رقم فرمودہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ( ناشر دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ربوہ۔ سال اشاعت دسمبر ۱۹۷۰ء۔
۱۳۔
الواقعہ : ۷۹۔
۱۴۔
الفضل ۱۵۔ وفا ۱۳۳۰ہش/ جولائی ۱۹۵۱ء صفحہ ۲ تا ۸۔
۱۵۔
مصباح ماہ نبوت ۱۳۳۴ہش/ نومبر ۱۹۵۵ء والازھار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ ۱۳۴` ۱۴۶۔
۱۶۔
حضور کا پرمعارف خطبہ صدارت مصباح ماہ احسان ۱۳۴۷ہش/ جون ۱۹۶۸ء صفحہ ۱۲ تا ۱۸ میں شائع شدہ ہے۔
۱۷۔
ان دنوں محترمہ فرخندہ اختر صاحبہ لاہور میں ایم۔ اے کی تیاری کررہی تھیں اور حضور کی حرم حضرت سیدہ ام متین صاحبہ مدظلہا پرنسپل کے فرائض بھی انجام دے رہی تھیں۔
۱۸۔
الفضل ۱۹۔ ظہور ۱۳۳۴ہش/ اگست ۱۹۵۵ء صفحہ ۴۔
۱۹۔
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >تاریخ لجنہ اماء اللہ< جلد دوم مرتبہ امتہ اللطیف صاحبہ ناشر دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ طبع اول جنوری ۱۹۷۲ء۔
۲۰۔
یہ تاریخی خط تاریخ احمدیت ربوہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۲۱۔
الفضل ۳۰۔ تبوک ۱۳۳۰ہش/ ستمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵۔ )مضمون مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مبلغ سیلون(
۲۲۔
الفضل ۲۲۔ مارچ ۱۹۲۳۷ء صفحہ ۳۔
۲۳۔
الفضل ۲۳۔ مئی ۱۹۱۵ء صفحہ ۶۔
۲۴۔
الفضل ۱۱۔ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۲۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال جماعت احمدیہ سیلون نے گھیمپولا (GAMPOLA) میں تیرھواں سالانہ جلسہ منعقد کیا۔
۲۶۔
اس آرگن نے ایک اپنا وسیع حلقہ اثر پیدا کیا۔
۲۷۔
الفضل ۲۷۔ مئی ۱۹۱۹ء صفحہ ۲ و ۳۱۔ مئی ۱۹۱۹ء صفحہ ۲۔
۲۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۶۔
۲۹۔
الفضل ۸۔ نومبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۔
۳۰۔
الفضل ۲۹۔ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۸۔
۳۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت قادیان ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۹۔
۳۲۔
اخبار >ٹائمز آف سیلون< مورخہ ۲۲۔ اگست ۱۹۲۳ء )بحوالہ الفضل ۱۱۔ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۳(
۳۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۹۔
۳۴۔
الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۔
۳۵۔
الفضل ۱۸۔ نومبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۔
۳۶۔
حضرت مفتی صاحبؓ کے سفر سیلون کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الفضل ۲۱۔ اکتوبر` ۱۱۔ اکتوبر` ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۲۷ء۔
۳۷۔
رپورٹ )یکم مئی ۱۹۳۷ء۔ ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۸ء( صفحہ ۱۴۴`۱۴۵۔
۳۸۔
تبلیغی اور تربیتی تقاریر کے موقع پر اردو سے تامل میں ترجمانی کے فرائض بھائی جے بشیر احمد صاحب اور اے ایس محمود احمد صاحب نے اور انگریزی سے تامل میں ترجمہ کے فرائض ٹی۔ اے۔ احمد صاحب اور ایم۔ جمال الدین صاحب نے انجام دیئے۔
۳۹۔
مثلاً تاریخ ولادت۔ تاریخ بیعت۔ ولدیت۔ سکونت۔ پیشہ۔ آمد اور چندہ جات۔
۴۰۔
اس فنڈ سے وفا ۱۳۳۶ہش/ جولائی ۱۹۵۷ء میں ایک سہ منزلہ عمارت کولمبو شہر کے وسط میں خریدی گئی۔ یہ عمارت ۳۲ ہزار میں خرید کی گئی تھی اور ۱۵ ہزار روپے قرض کے عوض مکان رہن رکھا گیا تھا۔ یہ بہت شاندار عمارت تھی جو افسوس مولوی صاحب کے بعد مخالفین کی شرارت کے باعث جماعت کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
۴۱`۴۲۔
الفضل ۱۴۔ فتح ۱۳۳۱ہش/ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۳۔
وزیراعظم سیلون7] [p BANDARANAIKE) ۔D۔R۔W۔(S نے اس تقریب پر ایک خصوصی پیغام دیا جس میں کہا >بدھسٹ اور سنہلیز ہونے کے لحاظ سے میں اس کتاب DHARMAYA> <ISLAM کے لئے مختصر پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کرتا ہوں۔ اس ملک کی تاریخ کے اس اہم دور میں سنہلی زبان میں اسلامی کتاب کا شائع ہونا باعث اطمینان ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ایک دوسرے سے تعلقات بڑھیں گے۔ یہ کتاب جو عام فہم زبان میں تیار کی گئی ہے یقیناً سنہلی زبان میں اسلامی لٹریچر کی ضرورت کو پورا کرنے والی ہوگی اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت سے لوگوں تک پہنچے گی<۔ کتاب کے مترجم مسٹر پی۔ ایچ۔ ویدیگے نے اپنی تقریر میں بتایا کہ >جب وہ ترجمہ کررہے تھے تو کئی غیر مسلموں نے ان کی شدید مخالفت کی مگر انہوں نے اس قومی اور مذہبی خدمت کو تکمیل تک پہنچانا ضروری سمجھا اور اس کتاب کے مطالعہ کے بعد انہیں اس سے عقیدت ہوگئی جس کی وجہ سے اس کا ترجمہ بہت کم وقت میں ختم ہوا<۔ اس تقریب پر کتاب کے ترجمہ کی اشاعت کا اعلان سیلون کے وزیر ڈاک خانہ جات و براڈ کاسٹ نے کیا۔ ملک کے ہر روزنامے نے اس موقع کا نمایاں ذکر مع تصاویر کے کیا اور احمدیہ مشن کے اس کارنامے کو قومی خدمت قرار دے کر خواب سراہا۔ اسی طرح سیلون ریڈیو میں مسلسل کئی ایام جماعت احمدیہ کی اس عظیم الشان خدمت کی خبر نشتر ہوتی رہی حالانکہ قبل ازیں امیر جماعت احمدیہ کے خلاف زبردست پراپیگنڈا کیا جارہا تھا۔ اسی طرح ایک حلقہ کے ممبر آف پارلیمنٹ آنریبل سر رازک فرید FAREED) RZIK (SIR نے جماعت احمدیہ سیلون کی درخواست پر اس کتاب کی پہلی کاپی وزیر ڈاک خانہ جات و براڈ کاسٹنگ اور سنہلی کے بلند پایہ شاعر آنریبل عبدالستار ماریکر MARIKAB) ۔S۔((A کی خدمت میں پیش کی اس تقریب میں پاکستان میں سیلون کے مشہور ہائی کمشنر مسٹر ٹی۔ بی۔ جایا JAYA) ۔B۔(T بھی تشریف لائے اور جماعت کی اس شاندار اسلامی وقومی خدمت پر خراج تحسین ادا کیا۔
۴۴۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت ۱۳۳۷ہش/ مئی ۱۹۵۸ء صفحہ ۴۔
۴۵۔
تحریک جدید کے سیلون مشن کی مندرجہ بالا معلومات اس مشن کے قدیم ریکارڈ )۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء تا ۱۳۳۸ہش/ ۱۹۵۹ء( سے حاصل کی گئی ہیں۔ یہ ریکارڈ دفتر وکالت تبشیر ربوہ میں موجود ہے۔
۴۶۔
30)۔VOL DEBATES (PARLIAMENTARY
۴۷۔
اس مشورہ میں نئے انچارج مشن قریشی عبدالرحمن صاحب شاہد` مبارک احمد صاحب ایڈیٹر میسیج اور ایم۔ ای۔ ایم حسن صاحب جنرل پریذیڈنٹ جماعت سیلون شامل تھے۔
۴۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان )۱۹۵۰ء۔ ۱۹۵۱ء و ۱۹۵۱ء۔ ۱۹۵۲ء( میں ان ٹریکٹوں کے عنوانات درج شدہ ہیں۔
۴۹۔
وہ نمبر جس میں یہ مضمون شائع ہوا۔
۵۰۔
یہ تفاصیل صدر انجمن احمدیہ پاکستانکی سال ۱۳۳۰ء` ۱۳۳۱` ۱۳۳۲ہش کی سالانہ رپورٹوں میں مذکور ہے۔
۵۱۔
الفضل ۲۸۔ ظہور ۱۳۳۰ہش/ اگست ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۔
۵۲۔
الصف ع۱۔
۵۳۔
الفضل یکم اخاء ۱۳۳۱ہش/ اکتوبر ۱۹۵۲ء۔
۵۴۔
آپ کے تفصیلی واقعات اپنے مقام پر آئیں گے۔ انشاء اللہ۔
۵۵۔
الفضل ۲۵۔ تبوک ۱۳۳۰ہش )مضمون حکیم عبدالواحد صاحب مانسہرہ( و الفضل ۱۴۔ اخاء ۱۳۳۰ہش )مضمون حمید قریشی صاحب ابن حکیم نظام جان صاحبؓ(
۵۶۔
امروز ۱۷۔ اگست ۱۹۵۰ء )بحوالہ >جماعت اسلامی کا رخ کردار< صفحہ ۱۱۳ از چوہدری حبیب احمد صاحب مطبوعہ پاکستان ٹائمز پریس لاہور۔ مارچ ۱۹۶۳ء(
۵۷۔
>مولانا مودودی کی نظر بندی کیوں< صفحہ ۲۲ ناشر شعبہ نشر واشاعت جماعت اسلامی پاکستان۔
۵۸۔
ان صاحب نے اس حادثہ قتل سے تھوڑا عرصہ قبل جبکہ خان لیاقت علی خاں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہندوستان پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور اس نے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد پر جمع کررکھی ہیں یہ نظریہ قائم کیا کہ >میرے خیال میں لیاقت علی نے انتہائی مبالغہ آرائی کی ہے۔ لیاقت علی کا اقتدار خطرے میں ہے وہ عوام کی توجہ کو اندرونی اور ملکی مسائل سے ہٹا کر دوسری طرف منتقل کردینا چاہتا ہے نہرو جب تک ہندوستان کا وزیراعظم ہے دونوں ملکوں میں جنگ نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔ گو کشمیر کے بارے میں اس کا رویہ انتہائی نامعقول ہے مگر وہ پاکستان سے جنگ کبھی نہیں کرے گا وہ صرف سٹنٹ سے کام لے گا<۔
>)نشان منزل< حمید نظامی مدیر >نوائے وقت< کے خطوط کا مجموعہ صفحہ ۲۳ پرنٹر شعیب نظامی قندیل پریس لاہور طبع اول ۲۔ فروری ۱۹۷۰ء(
۵۹۔
>نشان منزل< صفحہ ۲۳۔
۶۰۔
>نشان منزل< صفحہ ۳۳۔
۶۱۔
الفضل ۱۹۔ اخاء ۱۳۳۰ہش صفحہ ۱۔
۶۲۔
الفضل ۱۹۔ اخاء ۱۳۳۰ہش صفحہ ۱۔
۶۳۔
الفضل ۶۔ نبوت ۱۳۳۰ہش صفحہ ۳ تا ۵۔
۶۴۔
بحوالہ اخبار کوثر لاہور ۴۔ ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۔ ۴ )جماعت اسلامی کا ترجمان(
۶۵۔
الفضل ۷۔ فتح ۱۳۳۰ہش صفحہ ۳۔ ۵ پر حضور کا مکمل خطاب شائع شدہ ہے۔
۶۶۔
سہو ہے یہ مشن ۱۹۲۵ء میں قائم ہوا تھا۔ )ناقل(
۶۷۔
تقریر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء >خلافت راشدہ< صفحہ ۳۔
‏h1] g[ta ۶۸۔
>خلافت راشدہ< صفحہ ۲۳۰` ۲۳۱۔
۶۹۔
یہاں مزید وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جب الرحمت نے یہ مضمون شائع کیا اس وقت نہ تو یہ اخبار شیخ روشن دین صاحب تنویر مدیر الفضل کی ادارت میں نکلنا تھا اور نہ اسے جماعت کے مذہبی ترجمان ہی کی حیثیت حاصل تھی۔
۷۰۔
الفضل ۲۸۔ اخاء ۱۳۳۰ہش/ اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۳۔
۷۱۔
الفضل ۲۱۔ نبوت ۱۳۳۰ہش/ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵۔
۷۲۔
حال ناظر اصلاح و ارشاد مقامی ربوہ۔
۷۳۔
الفضل ۲۱۔ نبوت ۱۳۳۰ہش/ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۸۔
۷۴۔
الفضل ۲۰۔ نبوت ۱۳۳۰ہش/ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۔
۷۵۔
الفضل ۲۰۔ نبوت ۱۳۳۰ہش/ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۔
۷۶۔
یہ سطور ۱۵۔ ماہ فتح ۱۳۷۲ہش )مطابق ۱۵۔ دسمبر ۱۹۷۳ء( کو لکھی جارہی ہیں۔
۷۷۔
ہفت روزہ اخبار بدر قادیان ۷۔ امان ۱۳۳۱ہش/ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۔
۷۸۔
بدر ۱۵۔ دسمبر ۱۹۷۷ء صفحہ ۲۰۔ ۲۱۔
۷۹۔
>التفہیمات الالہیہ< جلد اول صفحہ ۲۰۳ )از حجتہ الاسلام الشیخ قطب الدین شاہ ولی اللہ المتوفی ۱۱۷۶ھ( طبع مدینہ برقی پریس بجنور۔ یوپی۔
۸۰۔
اشتہار ۲۔ مارچ ۸۹۷ء۔
۸۱۔
الفضل یکم صلح ۱۳۳۱ہش/ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۔
۸۲۔
قبل ازیں حضور جلسہ سالانہ کے موقع پر احمدی خواتین میں الگ بھی تقریر فرمایا کرتے تھے لیکن اس دفعہ خود عورتوں نے اپنے اس حق کو چھوڑنے پر آمادگی کا اظہار کیا البتہ یہ خواہش کی کہ حضور مردانہ جلسہ گاہ میں ہی عورتوں سے بھی کچھ خطاب فرماویں۔ چنانچہ حضور نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور لجنات کو تبلیغ` چندہ دفتر لجنہ اور چندہ مسجد ہالینڈ کی طرف توجہ دلائی۔ )الفضل ۲۔ صلح ۱۳۳۱ہش صفحہ ۳(
۸۳۔
الفاتحہ : ۶۔ ۷۔
۸۴۔
الفضل یکم صلح ۱۳۳۱ہش/ جنوری ۹۵۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۵۔
الفضل ۲۔ صلح ۱۳۳۱ہش صفحہ ۳۔
۸۶۔
الفضل ۲۔ صلح ۱۳۳۱ہش/ جنوری ۹۵۲ء صفحہ ۴۔
۸۷۔
الفضل ۳۔ صلح ۱۳۳۱ہش/ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۲۔ ۳۔
۸۸۔
الفضل ۱۳۔ تبلیغ ۳۳ہش/ فروری ۹۵۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۹۔
تقریر دلپذیر کا یہ حصہ الفضل ۲۱۔ امان ۱۳۴۱ہش میں پہلی بار چھپا جس کے بعد خواجہ محمد شریف صاحب سیکرٹری اصلاح و ارشاد )حال پریذیڈنٹ( جماعت احمدیہ حلقہ دہلی دروازہ لاہور نے اسے کتابی شکل میں بھی >چشمہ ہدایت< کے نام سے شائع کردیا تھا۔
۹۰۔
الفضل ۲۔ امان ۱۳۴۱ہش/ مارچ ۱۹۶۲ صفحہ ۱۰ تا ۱۲۔
۹۱۔
>سیر روحانی< جلد دوم صفحہ ۲۷۸` ۲۷۹ ناشر الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ اپریل ۱۹۵۶ء۔
 
Last edited:
Top