• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 13 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 13 ۔ یونی کوڈ

‏tav.13.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر حضرت سیدنا مصلح موعودؓ
کے ایمان افروز اور پر شوکت پیغام )مورخہ ۳ مارچ ۱۹۵۳ء( تک
مولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد طبع ہو کر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ نئی جلد کو پیش کرتے ہوئے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے کہ تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کے بارے میں جو ذمہ داری سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ادارۃ المصنفین پر ڈالی تھی اس کو ادا کرتے ہوئے ہم ایک قدم اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
تاریخ احمدیت کی پہلی جلد دسمبر ۱۹۵۷ء میں` دوسری جلد دسمبر ۱۹۵۸ء میں اوت تیسری جلد دسمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت خیلا یہ تھا کہ خلافت اولیٰ کے دور کی تاریخ ایک جلد میں خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ دو جلدوں میں مکمل ہوجائے گی اور تاریخ کی تدوین کا کام ختم ہوجائے گا اور ہم اس بار گراں سے سبکدوش ہوجائیں گے جو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا تھا لیکن معرض وجود میں وہی آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے انسان کے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خلافت ثانیہ کے واقعات پر مشتمل جب دو جلدیں طبع ہوئیں تو ان میں صرف ۱۹۳۱ء تک کے واقعات ہی ختم ہوسکے اور ہمارے اندازے درست ثابت نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تدوین تاریخ کا کام ہوتا رہا اور مزید جلدیں شائع ہوتی چلی گئیں۔ اب پندرھویں جلد شائع ہورہی ہے۔ اس میں جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء سے لے کر مارچ ۱۹۶۳ء تک کے واقعات کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو صحیح علم ہے کہ خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ کو مکمل کرنے میں مزید کتنی جلدیں درکار ہوں گی کیونکہ واقعات تذکرہ کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سیرت پر کچھ لکھنا بھی ضروری ہوگا اور اس کے بعد پھر خلافت ثالثہ کے دور کے واقعات شروع ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ جب اس نے محض اپنے فضل سے پندرہ جلدیں شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو بقیہ کام کو مکمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور تکمیل کی خوشی سے بہر ور کرے )آمین( وھو علی کل شی قدیر وبالا جابتہ جدید]ydob [tag
نئی جلد تقریباً چھ صد صفحات پر مشتمل ہے اور گیارہ نایاب تصاویر سے اس مزین کیا گیا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ کاغذ جو بازار میں دستیاب ہوسکتا تھا اسے حاصل کیا گیا اور کتابت و طباعت کو معیاری بنانے کی پوری کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ التجا ہے کہ وہ ہماری ان حقیر مساعی کو قبول فرمائے اور اپنے فضلوں سے نوازے )آمین(
ادارۃ المصنفین کا ابتداء سے یہ اصول رہا ہے کہ وہ اپنی شائع کردہ کتابوں کو تقریباً لاگت پر احباب کو پیش کرتا ہے نفع حاصل کرنا اس کے مدنظر نہیں ہوتا۔ اس جلد کی قیمت مقرر کرنے میں اسی اصول کو مدنظر رکھا گیا ہے لیکن پہلے کی نسبت کتابوں کی قیمت کا بڑھ جانا ایک ناگزیر امر ہے کیونکہ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ کاغذ کی قیمت` کتابت ` طباعت اور جلد بندی کی اجرتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کتاب کا شائع کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ چونکہ سلسلہ کی تاریخ کو محفوظ کرنا نہایت ہی ضروری ہے اس لئے ادارہ پوری کوشش کرتا چلا آیا ہے کہ بہرحال ہر سال تاریخ احمدیت کی ایک جلد پیش کرتا چلا جائے۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب احباب پورا تعاون فرمائیں اور کتاب کو ہاتھوں ہاتھ خریدیں خرچ کردہ رقم واپس آجائے اور اگلی کی تیاری میں استعمال ہوسکے۔
ادارہ مولف کتاب ہذا مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے رات دن ایک کر کے مواد جمع کیا اور اسے نہایت احسن طریق سے ترتیب دی اور ہر لحاظ سے اسے معیاری بنانے کی کوشش کی فجزاہ للہ حسن الجزاء اسی طرح مکرم حمید الدین صاحب کاتب اور دیگر کارکن جنہوں نے کاپی اور پروف ریڈنگ کا کام کیا وہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فضلوں سے نوازے )آمین(
خاکسار
ابو المنیر نور الحق
مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین۔ ربوہ
دسمبر ۱۹۷۵ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب
جلسہ سالانہ قادیانہ ۱۳۳۰ ہش ۱۹۵۱ء سے لیکر حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ کی وفات تک
)از ماہ فتح ۱۳۳۰ ہش تا ماہ شہادت ۱۳۳۱ ہش از ماہ دسمبر ۱۹۵۱ء تا ماہ اپریل ۱۹۵۲ء(
مذہبی تاریخ کا اہم واقعہ
‏]0 [rtfاسلام میں مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ جیسی عالمگیر تبلیغی اور روہانی تحریک کا آغاز ہمارے نبی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے~صل۱~ کی قوت قدسیہ کا زندہ نشان اور مذہبی تاریخ کانہایت اہم واقعہ ہے۔
سلسلہ احمدیہ کامقصد
قیام سلسلہ احمدیہ کا مقصد مہدی موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ ہے کہ:۔
>یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجود میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے< ۱
مخالفت کے باوجود شاندار ترقی
اس آسمانی سلسلہ کی ابتداء اگرچہ سنت ربانی کے مطابق پہلی خدائی جماعتوں کی طرح غربت` بے کسی اور گمنامی کے ماحول میں ہوئی مگر اس کے اثرات ہر قسم کی مخالفت وعداوت کے مضبوط حلقوں کو توڑتے` اور منافرت کی ہولناک خندقوں کو پھاندتے ہوئے ` وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے ۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۷ء کے ان خونچکاں اور ہوش ربا واقعات کے باوجود` جنہوں نے جماعتی نظم و نسق کی بنیاد تک ہلا ڈالی تھی` چند برسوں کے اندر اندر قادیان اور ربوہ سے اٹھنے والی آوازیں دنیا بھر میں گونجنے لگیں اور اسلامی انقلاب کا وہ نقشہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الاسلام کو ۱۸۹۱ء میں ایک نئے نظام ` نئے آسمان اور نئی زمین کی صورت میں بذریعہ خواب دکھایا گیا تھا۲ ایک حقیقت بن کر ابھرنے لگا۔
حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
>کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہوجائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزارہا پرند اس پر آرام کررہے ہیں۔<۳
سالانہ جلسہ کی اہمیت
جماعت احمدیہ کی اس حیرت انگیز تگرقی میں اس کے سالانہ جلسہ کو ہمیشہ بھاری دخل رہا ہے جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کے اشتہار میں بطور پیشگوئی لکھا :۔
>اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیاد اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی۔ کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔<۴
جلسہ سالانہ کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر >تاریخ احمدیت< کی جلد ۱۴ کا اختتام جلسہ سالانہ ربوہ ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء کے کوائف پر کیا گیا تھا۔ اب موجودہ جلد کا آغاز اسی سال کے جلسہ قادیان کے واقعات سے کیا جاتا ہے۔
فصل اول
جلسہ سالانہ قادیان
کوائف جلسہ
۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء کا سالانہ جلس حسب دستور اپنی شاندار اور مخصوص روایات کے ساتھ شروع ہوا اور )۲۶ تا ۲۸ ماہ فتح / دسمبر( تین روز تک جاری رہا۔ اس مبارک اجتماع میں بھارت کے جن دور دراز علاقوں سے شمع احمدیت کے پروانے جمع ہوئے ان کے نام یہ ہیں :۔
حیدر آباد دکن` چنتہ کنتہ` کرنول` یادگیر` بمبئی` سورت` مدراس` مالا بار` پٹنہ` مظفرپور` حسینا` پرکھوپٹی` مونگھیر` سہارنپور` بجوپورہ` امروہہ` بریلی` شاہجہان پور` راٹھ` علی پور کھیڑہ` ننگلہ گھنو` آگرہ` صالح نگر` ساندھن` انبٹیہ` کرہل` کان پور` انبالہ` اور کشمیر
علاوہ ازیں پاکستان زائرین کا ایک قافلہ بھی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی امارت۵ ایڈووکیٹ لاہور کی امارت میں قادیان پہنچ اور مرکز احمدیت کی برکات و فیوض سے مستفیض ہوا۔
مردانہ جلسہ گاہ کی حاضری سوا گیارہ سو کے قریب تھی جس میں سے آدھے غیر مسلم تھے۔ جلسہ سے ہندوستان کے علاوہ انگلستان` ہالینڈ اور انڈونیشیا کے بعض احمدی مجاہدین نے بھی خطاب فرمایا جس سے غیر مسلم متاثر ہوئے اور انہوں نے اسلام کا پیغام سننے میں دلچسپی کا اظہار کیا جلسہ میں پریس کا نمائندہ بھی موجود تھا۔
زنانہ جلسہ کے طور پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب ۶ قادیانیؓ کا مکان استعمال کیا گیا جہاں آلہ جہیر الصورت کے ذریعہ سے مردانہ جلسہ کی پوری کارروائی سنائی دیتی تھی۔ ۲۹ فتح/دسمبر کو سو خواتین کا علیحدہ اجلاس بھی منعقد ہوا۔ غیر مسلم خواتین کی تعداد تیس تھی۔
افسر جلسہ کے فرائض صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے انجام دیئے اور مسیح پاک کی مقدس بستی کے ایثار پیشہ درویش انتظامات جلسہ کے لئے وقف رہے اور مہمانوں کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی خاطر ہر تکلیف بخوشی گوارا فرمائی۔
پاکستانی زائرین کی روانگی
پاکستان کے خوش نصیب زائرین جو ۲۴/۲۵ فتح/دسمبر کی درمیانی شب کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے وارد قادیان ہوئے تھے مقامات مقدسہ کی زیارت اور اس مبارک اجتماع میں شرکت کرنے اور شب و روز عبادتوں اور دعائوں میں منہمک رہنے کے بعد ۳۱ فتح / دسمبر کی شام کو واپس ہوئے۔
روانگی سے قبل زائرین کا مسجد اقصیٰ میں فوٹو لیا گیا اور اجتماعی دعا ہوئی۔ پانچ بجے شام مزار مسیح موعود پر مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل نے اجتماعی دعا کرائی بعدازاں سب درویش زائرین کو الوداع کہنے کے لئے بٹالہ والی سڑک پر تشریف لے گئے اور ٹھیک پونے چھ بجے شام زائرین کی دونوں بسیں نصرہ ہائے تکبیر` احمدیت زندہ باد` اور حضرت امیر المومنین زندہ باد کے درمیان روانہ ہوئیں۔ اس موقعہ پر رخصت ہونے والوں اور الوداع کہنے والوں کے جو جذبات تھے الفاظ ان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستانی حدود میں داخل ہوگیا۔۷
امیر قافلہ کے تاثرات
امیر قافلہ نے واپسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ۲۴ دسمبر کی رات کو گیارہ بجے ہمارا قافلہ نہر کا پل عبور کر کے حدود قادیان میں داخل ہوا۔ جونہی منارۃ المسیح پر ہماری نگاہ پڑی تو طبعیت میں عجیب رقت پیدا ہوئی۔ تقسیم کے وقت مشرقی پنجاب میں مساجد و مقابر اور دینی مدرسوں کی بربادی اور ویرانی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور جہاں ان کی خستہ حالی سے دل میں ایک درد پیدا ہوا وہاں خدا تعالیٰ کی تحمید و تمجید کی طرف بھی طبعیت مائل ہوئی کہ ایک مقدس بستی اس خطہ میں ایسی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ اور محمد~صل۱~ کے ذکر سے معمور ہے۔
ہمارا قافلہ ابھی قادیان سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر تھا کہ ہم نے وہاں دس بارہ سال کے ایک بچہ کو استقبال کے لئے موجود پایا حضرت امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان نے اسے راستہ دکھانے پر مقرر کیا تھا تاکہ ہماری بڑی بڑی لاریاں ایک خاص راستے سے ہو کر مسیح پاک کی بستی میں داخل ہوں وہ بچہ فرط مسرت میں میل ڈیڑھ میل تک لاریوں کے آگے بھاگتا چلا گیا اور اس نے اس وقت تک دم نہ لیا جب تک قافلہ درویشوں کی بستی میں جا داخل نہ ہوا۔ اس بچے کا یہ ولولہ شوق اور جذبہ اخلاق دیکھ کر ہم بہت متاثر ہوئے۔
بستی کے سرے پر درویشان قادیان قافلے کے انتظار میں ہمہ تن شوق بنے کھڑے تھے۔ لاریوں کے پہنچتے ہی تمام فضا نعرہ ` تکبیر اور احمدیت زندہ باد کے پرجوش نعروں سے گونج اٹھی۔ درویشوں نے نہایت محبت بھرے الفاظ سے ہمیں خوش آمدید کہا اور نہایت درجہ اشتیاق کے عالم میں ہم سے بغلگیر ہوئے قادیان کی مقدس بستی` مسیح کے درویشوں کا مسکن` زندہ خدا کی زندہ امانت ہے۔ وہاں ہمارے درویش بھائی اپنے دن اور رات جس طرح خدا تعالیٰ کے حضور آہ وزاری میں بسر کرتے ہیں` اس کے تصور ہی سے روحانی مسرت نصیب ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے یہ عاشق صادق عابد شب بیدار ہیں۔ آدھی رات کے بعد میاں مولا بخش صاحب ۸ باورچی اور سید محمد شریف صاحب سیالکوٹی قادیان کی گلیوں میں نہایت سوز و گذار سے آواز دیتے ہیں کہ مسیح پاک کے درویشو !! آٹھو تہجد کا وقت ہوگیا۔ آٹھو !! اور اپنے مولا کریم کو راضی کر لو۔ چنانچہ درویش اٹھتے ہیں اور پہلے بیت الدعا یا بیت الذکر میں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہیں پھر چار بجے کے قریب مسجد مبارک میں باجماعت تہجد پڑھتے ہیں۔ اس وقت جس درد کے ساتھ آخری رکعتیں ادا ہوتی ہیں اور جس سوز وگذار کے ساتھ آہ وزاری کی آوازیں بلند ہوتی ہیں ان کی نظیر ملنا محال ہے۔ یقیناً یہ انعام باقی دنیا سے منقطع ہوجانے کا ہی ہے کہ درویشوں کو انقطاع الی اللہ کی آسمانی اور لازوال دولت حاصل ہے۔ ان پاک بندوں کی اس کے سوا کوئی خواہش نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے جلد پورے ہوں اور اسلام کی آخری فتح قریب سے تر آجائے
درویش ذکر و فکر کے ساتھ` اپنے دیگر فرائض سے غافل نہیں بیشتی مقبرہ میں چوبیس گھنٹے پہرہ دینا ان کے معمول میں شامل ہے۔ وہ تبلیغ اسلام کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کے عزم و ثبات کا اثر ہے کہ دنیا کے دور دراز علاقوں سے سیاح اور زائرین ہزاروں کی تعداد میں قادیان آتے ہیں۔ رجسٹر زائرین کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں قریباً تیس ہزار ہندو` سکھ اور عیسائی اور غیر ملکی باشندے محض زیارت قادیان کے لئے آچکے ہیں وہ ان کو جی بھر کے تبلیغ کرتے ہیں۔ انہیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور لٹریچر دیتے ہیں۔
اس بے بضاعتی کے عالم میں بھی انہوں نے ہندوستان کی احمدی جماعتوں کو منظم کر لیا ہے۔ ان کے مبلغ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں جاتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ الغرض وہ اس ملک میں اسلام کی عظمت کا نشان ہیں اور اس کی سر بلندی کی خاطر کوہ وقار بن کر اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں اور اس یقین سے لبریز ہیں کہ بالاخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئے گا۔ اس یقین کے برملا اظہار سے وہ قطعاً نہیں ڈرتے بلکہ اپنی تقریروں میں برملا کہتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب کہ احمدی دنیا میں غالب ہو کر رہیں گے۔ یہ خدائی تقدیر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔۹
فصل دوم
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اصحاب مہدی موعود کاپاک گروہ ۱۳۲۶ ہش/۱۹۴۷ء کی حجرت کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہورہا تھا اور جماعت احمدیہ ان مبارک وجودوں سے جلد جلد خالی ہونے لگی تھی جن کو تیرہ سو سال کے بعد خدا کے ایک مرسل کا خدا نما چہرہ دیکھنے اور اس کی بابرکت صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ نصیب ہوا تھا۔
۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء میں جو ممتاز بزرگ صحابہ رحلت فرما گئے ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:۔
حضرت صاحبزادہ حاجی پیر افتخار احمد صاحبؓ لدھیانوی
)ولادت ۱۴ شعبان ۱۰۱۲۸۲ ھ مطابق ۳ جنوری ۱۸۶۶ء۔ زیارت ۱۱ ۱۸۸۴ء۔بیعت ۱۲ ۹ جولائی ۱۸۹۱ء ۔ وفات ۸ ۔ جنوری ۱۳ ۱۹۵۱ء(
>سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام< میں اپنے مخلصین و محبین میں آپ کا ذکر نہایت پیارے اور محبت بھرے الفاظ میں کیا ہے۔ حضورﷺ~ تحریر فرماتے ہیں:۔
>جی فی اللہ صاحبزادہ افتخار احمد۔ یہ جوان صالح میرے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے حلف رشید ہیں اور بمقتضائے الولد سر لابیہ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ اور وہ مادہ ان میں پایا جاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کردیتا ہے۔ خدا تعالیٰ روحانی غذائوں سے ان کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے۔<۱۳
>حاجی افختار ۔۔۔۔۔ اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رشد و اصلاح و تقویٰ ان کے چہرے پر ظاہر ہیں۔ وہ باوجود متوکلانہ گذارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل و جان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے۔۱۴
خود نوشت سوانح
حضرت صاحبزادہ صاحب کی خودنوشت سوانح میں ہے :۔
>میری پیدائش بروز منگل بوقت عصر ۱۴ شعبان ۲۸۲ ہجری کی ہے۔ میرے والد ۱۵ صاحب کو حضرت صاحب کی اطلاع اس وقت ہوئی جب کہ براہین احمدیہ کے تین حصے شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے جب ان تین حصوں کو پڑھا اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کی عقیدت واردات آپ کے دل میں مستحکم ہوگئی۔ اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ چہارم شائع ہوئی۔ والد صاحب کی ارادت سے آپ کے اہل و عیال اور مریدین بھی زمرہ معتقدین میں شامل ہوگئے۔<
>میرے والد صاحب کو اور میرے بھائی منظور محمد صاحب کو اور مجھ کو حضرت صاحب کی ابتدائی زیارت اس وقت ہوئی جب کہ حضور ۱۸۸۴ء میں سب سے پہلے تین دن کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے تھے۔ میرے والد صاحب اور میرے بھائی صاحب اور میں اور سب احباب حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر گئے تھے حضور کی پہلی زیارت اسٹیشن پر ہوئی ۔ میرے والد صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں بغیر تلائے حضرت صاحب کو پہچان لوں گا۔ ایسا ہی ہوا کہ حضور جب گاڑی سے اترے بغیر بتلائے والد صاحب نے فرمایا کہ وہ یہ ہیں۔<
>حضرت صاحب نے تین روز محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب صوفی کے ہاں >جو کہ میرے والد صاحب کے مرید تھے< قیام فرمایا<
>حضور تین دن کے بعد لدھیانہ سے تشریف لے گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اطلاع ملی کہ حضرت صاحب شادی کے لئے دہلی تشریف لے جائیں گے اور فلاں وقت ریلوے سٹیشن لدھیانہ سے گاڑی گذرے گی۔ والد صاحب اور لدھیانہ کے احباب پہلے سے سٹیشن پر جا پہنچے میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ تھا۔ جتنی دیر گاڑی کھڑی رہی حضور پلیٹ فارم پر ٹھہرے رہے۔ حضور کے ساتھ جو احباب آئے تھے میرے خیال میں شاید چھ سات ہوں گے۔ حضور اور ساتھی سب اپنے معمولی سادہ لباس میں تھے۔ کوئی ایسی علامت نہ تھی جس سے یہ ظاہر ہوسکتا کہ یہ دولہا اور یہ اس کی برات ہے۔<
>حضور مع رفقاء شاید ۱۰۔۱۵ منٹ لدھیانہ پلیٹ فارم پر کھڑے رہے پھر گاڑی پر سوا ہو کر دہلی روانہ ہوگئے۔ واپسی کے وقت پھر لدھیانہ سٹیشن پر گاڑی ٹھہری۔ احباب سے ملاقات کی۔ میرے والد صاحب نے پھلور کے دو ٹکٹ پہلے سے لے لئے تھے۔ میرے بھائی منظور محمد صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی گاڑی کے ڈبہ میں سوار ہوگئے میں ساتھ نہیں گیا۔ پھلور لدھیانہ سے ۵ میل ہے اور انجن بدلتا ہے۔ گاڑی نصف گھنٹہ وہاں ٹھہری۔ یہ میرے والد صاحب کا ولی اخلاص تھا جو اس تھوڑے عرصہ کی ملاقات کو غنیمت سمجھا۔ یہ والد صاحب کی حضرت صاحب سے آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد حج کو تشریف لے گئے۔ واپسی کے وقت راستہ میں بیمار ہوگئے اور لدھیانہ آکر چند روز بعد ۱۹۔ ربیع الاول ۳۰۳۰ ۱۶ ہجری کو وفات پاگئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
والد صاحب کی وفات سے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحب تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لائے تھوڑی دیر قیام فرمایا۔ والد صاحب مرحوم کی محبت` اخلاص اور دینی خدمت کا ذکر فرماتے رہے۔ پھر حضور نے مع حاضرین دعا فرمائی۔ حضور نے قرآن شریف کی یہ آیات وکان ابوھما صالحا۱۷ پڑھ کر فرمایا کہ ان دونوں بچوں پر مہربانی کرنے کی یہ وجہ تھی کہ ان کا باپ صالح تھا )ہم بھی اپنے باپ کے دو ہی لڑکے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر بھی فضل فرمائے ۔ آمین(
یہ وقت بھی گزر گیا اور حضور کے یہاں صاحبزادہ بشیر احمد صاحب اول تولد ہوئے ۱۸ حضور کا خط لدھیانہ کے احباب کے نام عقیقہ میں شمولیت کے لئے آیا جس میں حضور نے یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ عقیقہ کا ساتواں دن اتوار کو پڑتا تھا مگر کچھ قدرتی اسباب ایسے پیدا ہوگئے کہ عقیقہ بجائے اتوار کے پیر کے دن ہوا جس سے یہ الہام دوشنبہ ہے مبارک دوشنہ پورا ہوتا ہے۔ ہم سب احباب لدھیانہ سے قادیان پہنچے۔ یہ سفر قادیان کا میرا پہلا سفر تھا اس سے پہلے میں نے قادیان کو ہیں دیکھا تھا مہمان مسجد اقصیٰ میں ٹھہرے۔ عقیقہ میں ایک دن یا دو دن باقی تھے کہ بارش شروع ہوئی اور تین دن لگاتار برستی رہی۔ قادیانہ کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہوگیا۔ صاحبزادہ بشیر احمد اولؓ کا عقیقہ بیت الفکر میں ہوا جو کہ بیت الذکر یعنی مسجد مبارک کے ساتھ کا حضور کے دولت خانہ کا کمرہ ہے اور جس کا وہی دروازہ مسجد مبارک کے داہنی طرف اب تک موجود ہے۔ حاضرین مہمانوں کی تعداد اتنی تھی کہ بیت الفکر میں گنجائش ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ صاحبزادہ بشیر احمد اول مولوی رحیم بخش صاحب کی گود میں تھے جس وقت کح حجام نے سر کے بال اتارے۔ ۔۔۔۔۔ عقیقہ کے بعد ایک دو دن مہمان ٹھہرے۔ پانی کا وہی عالم تھا اگرچہ بارش بند ہوگئی تھی لیکن راستہ پانی سے لبریز تھا۔ یکہ پر اسباب لاد کر احباب پا پیادہ روانہ ہوئے۔ حضور نے پلائو کی دیگر ساتھ کردی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بٹالہ کے راستے میں بعض جگہ پانی کمر تک پہنچ جاتا تھا۔ یکہ کے پہیے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسی حال میں ہم بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ اسٹیشن بٹالہ پر حضر میر ناصر نواب صاحب رحمتہ اللہ علیہ دو دن سے پانی کی وجہ سی رکے ہوئے تھے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے حضرت میر صاحب کی رخصت بھی ختم ہوچکی تھی` وہ بھی ہمارے ساتھ ریل پر واپس ہوگئے۔
کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب معہ اہل بیت لدھیانہ تشریف لے گئے اور ہمارے مکان کے بالکل متصل ایک حولی میں فروکش ہوئے اور بیعت کا اعلان کیا<
>اس کے کچھ عرصہ بعد بحمد اللہ تعالیٰ ۱۸۹۲ء کو میں مع اہل و عیال ہجرت کر کے قادیان آرہا حضور نے اپنے رہائش ہی کے مکانوں میں جگہ دی ۔ ۔۔۔۔۔۔ ایک روز حضور نے مجھے فرمایا کہ انسپکٹر مدراس آیا ہوا ہے اس سے کہو کہ قادیان کے سکول میں تم کو رکھ لے۔ ۔۔۔۔۔۔ میں نے محض حضور کے ارشاد کی تعمیل میں انسپکٹر سے مل کر کہا کہ آپ مجھے قادیان کے سکول میں مدرسی کی آسامی دے دیں۔ انہوں نے میری تعلیم وغیرہ کا حال پوچھا اور کہا بہت اچھا میں جا کر حکم بھیج دوں گا۔ اس نے جا کر میری تعیناتی کی باضابطہ کارروائی کی اور میں قادیان کے سکول میں مدرس ہوگیا۔<
>ان دنوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )حضرت خلیفہ ثانیؓ ناقل( خورد سال تھے۔ حضور نے مجھے فرمایا کہ میاں کو بھی سکول لے جایا کرو۔ میں حضرت صاحب کے ارشاد کے مطابق حضور کو بھی ساتھ لے جایا کرتا تھا۔<
>پانچ سال کے قریب یہاں قادیان میں رہا پھر مع عیال لدھیانہ چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔ پھر ۱۹۰۱ء کو مع اہل و عیال قادیان آیا اور بفضل خدا یہیں رہا۔ ۱۹۰۲ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت اقدس کی اجازت سے محرری کے کام پر مجھے رکھ لیا۔ لنگر اور سکول کا چندہ اور حضرت صاحب ؑ کے خطوط کا جواب لکھنا میرا کام تھا۔ بفضل خدا مسلسل دفتر ڈاک کا کام کرتا رہا یہاں تک کہ ۱۹۲۷ء میں بموجب قواعد ریٹائرڈ ہوگیا۔ محمد اللہ اب حضور کے قدموں میں پڑا ہوں اور دعا کرتا ہوں من دعا ہائے برد بار تو اے ابر بہار۔< ۱۹
حضرت عرفانیؓ کا نوٹ
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے آپ کی وفات پر لکھا :۔
>جہاں تک میرا علم ہے بچپن سے سعادت مند اور زاہد تھے۔ ہر دیکھنے والے کو ان کے چہرہ پر نوڑ نظر آتا تھا۔ وہ رمضان کا مہینہ خصوصیت سے عبادت میں گذارتے اور اعتکاف کرتے تھے اوت تہجد گذار تھے۔ مجھے بارہا ان کے ساتھ تہجد میں شرکت اور سحری میں شریک طعام ہونے کا موقعہ ملا۔ ان کے چہرے پر تبسم کھیلتا تھا میں نے کبھی ان کو غصہ کی حالت میں نہیں پایا۔ وہ اپنے گھر کے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ارشاد خیرکم خیرکم لاھلہ 10] p[۲۰ پر جوانی سے بڑھاپے تک مخلصانہ عامل رہے۔ اولاد کی تربیت اور اولاد پر شفقت کا بھی وہ ایک خاص نمونہ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور اپ کے اہلیت سے انہیں محبت و اخلاص کا نہایت بلند مقام حاصل تھا۔ وہ توکل علی اللہ کا ایک خاص درجہ رکھتے تھے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام شہزادوں کی طرح سے گزرے اس لئے کہ ان کے خاندان کے فیض یافتہ لوگ بڑے اخلاص سے خدمت کرتے تھے` لیکن احمدی ہوجانے کے بعد ہی دراصل ان کے توکل کے مقام کا پتہ لگا۔ وہ نہایت قانع انسان تھے اور اپنے فرض کو نہایت محنت اور جفاکشی سے ادا کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا قرب انہیں آپ کے گونہ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے حاصل تھا اس لئے کہ آپ صیغہ ڈاک میں کام کرتے تھے۔< ۲۱
دیگر خصائل و شمائل
حضرت پیر صاحبؓ کا قد لمبا تھا` آپ کی زندگی فروتنی` کسر نفسی اور عجز و انکسار کی مجسم تصویر تھی۔ فرشتہ خصلت بزرگ تھے۔ خط نہایت پاکیزہ اور بہت عمدہ تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بے تکلف بات کر لیتے تھے۔ طبعیت پر غور و فکر کا رنگ غالب تھا۔
غایت درجہ کم سخن تھے اور فضول اور زائد باتوں سے طبعی نفرت تھی۔ ہمیشہ راضی بقضاء رہے اور شدید تکلیف میں بھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ ان کے جوان لڑکے فوت ہوگئے۔ مگر کیا مجال کہ زبان سے اف تک نکل جائے یا چہرے سے کسی قسم کے درد یا تکلیف کا اظہار ہو۔ بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں بھی مسجد میں تشریف لاتے۔ آخری عمر میں زیادہ دیر تک بیٹھ نہ سکتے تھے۔ جماعت شروع ہونے سے قبل مسجد میں لیٹ جاتے اور باجماعت نماز کا انتظار فرماتے۔ ۲۲]ydob [tag کتاب >انعامات خدا وند کریم< جو پر حکتگم نصائح پر مشتمل ہے آپ ہی کی تصنیف لطیف ہے اور آپ کے صوفیانہ مزاج کا پتہ دیتی ہے۔
حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ کی اولاد کے نام درج ذیل ہیں :۔
اولاد
)۱( پیر مظہر قیوم صاحب )وفات ۱۸ ۔ جولائی ۱۹۱۷ء(۲۳ )۲( پیر مظہر الحق صاحب ۲۴ )سابق خزانچی صدر انجم احمدیہ ربوہ(۔ )۳( پیر حبیب احمد صاحب )ولادت ۱۹۰۱ء ۔ وفات ۲۶ ۔ فتح ۱۳۴۱ ہش/۲۶ دسمبر ۱۹۲۶ء( )۴( پیر نثار احمد صاحب )وفات ۲۲ اپریل ۱۹۱۲ء( )۵( سعیدہ بیگم صاحبہ )وفات ۲۰ دسمبر ۱۹۱۰ء( )۶( پیر خلیل احمد صاحب مرحوم )ولادت ۱۳ اگست ۱۹۰۷ء وفات ۲۰ امان ۱۳۴۳ ہش/۲۰ مارچ ۱۹۶۴ء( )۷( پیر محمد عبد اللہ صاحب مرحوم ٹیچر مدرسہ احمدیہ قادیان )۸( پیر عبدالرحمن صاحب )۹( سلیمہ بیگم صاحبہ )۱۰( سعیدہ بیگم صاحبہ۔
۲۔ چوہدری امیر محمد خاص صاحب متوطن اہرانہ تحصیل وضلع ہوشیار پور
)بیعت ۴۔۱۹۰۳ء۔۲۵ وفات ۳ امان ۱۳۳۰ ہش/۳مارچ ۱۹۵۱ء(
آپ چوہدری سکندر خان صاحب کے بیٹھے اور چوہدری پیر بخش صاحب عرف باب اولیا سخی پیر شاہ جمال علیہ الرحمتہ کے پوتے تھے۔ ضلع ہوشیار پور میں موضوع اہرانہ` پھگلانہ اور مٹھیانہ کی احمدی جماعتیں آپ ہی کی تبلیغ سے قائم ہوئیں۔
آپ کے بیٹے چوہدری عبداللہ خان صاحب کی روایت ہے کہ آپ نے بتایا کہ ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط ملا جس میں چندہ لنگر خانہ کی تحریک تھی میرے پاس اس وقت کوئی روپیہ موجود نہ تھا میں نے اسی وقت حضرت اقدس کی خدمت میں واپسی خط لکھا کہ ایک شخص میری کچھ اراضی خریدنا چاہتا ہے۔ اس کی آمد پیش حضور کردوں گا۔ دعا فرمائیں۔ حضور کا اپنے قلم مبارک سے لکھا ہوا جواب ملا کہ دعا کی گئی الل تعالیٰ آپ کی یہ منشاء پوری کرے۔ اس خط کے چند دن بعد میرا یہ کام ہوگیا اور روپیہ بھی مجھے مل گیا۔ چنانچہ میں یہ رقم لئے پیدل قادیان کی طرف روانہ ہوگیا۔ دریائے بیاس کو بیٹ کے پتن سے پار کیا ہی تھا کہ کانگڑہ کا زلزلہ آگیا۔ قادیان پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے باغ میں تشریف فرما تھے میں نے وہ رقم پوٹلی کی صورت میں حضور کی خدمت میں نذر کردی۔ )یہ ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے(
چوہدری امیر محمد خان صاحب کے نزدیک ۲۶ حضرت مصلح موعودؓ کے ہسب ذیل الفاظ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے:۔
>پھر جب زلزلہ آیا اور حضرت اقدس باہر باغ میں تشریف لے گئے اور مہمانوں کی زیادہ آمد و رفت وغیرہ ذالک وجوہات سے لنگر کا خرچ بڑھ گیا تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ قرض لے لیں۔ فرماتے ہیں میں اسی خیال میں آرہا تھا کہ ایک شخص ملا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے تھے اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی اور پھر الگ ہوگیا۔ اس کی حالت سے میں ہرگز نہ سمجھ سکا کہ اس میں اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی لیکن جب گھر آکر دیکھا تو دو سو روپیہ تھا۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی حالت سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری عمر کا اندوختہ لے آیا۔ پھر اس نی اپنے لئے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ میں پہچانا جائو یہ شاکر کا مقام ہے۔< ۲۷
۳۔ منشی حسن دین صاحبؓ رہتاسی :۔
)بیعت ۱۸۹۶ء۲۸ وفات ۱۰۔ امان ۱۳۳۰ ہش/۱۰ مارچ ۱۹۵۱ء۲۹(
آپ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابی اور بلند پایہ شاعر حضرت منشی گلاب الدین صاحبؓ رہتاسی۳۰ کے بیٹے اور خود بھی نغزگو اور پرجوش فطرتی شاعر تھے جو عرصہ دراز تک احمدیت اور اردو آدب کی خدمت کرتے رہے۔ آپ کے اشعار کا مجموعہ >کلام حسن< کے نام سے شائع شدہ ہے ۳۱ ملکی تقسیم ۱۹۴۷ء کے بعد آپ جہلم میں تشریف لے آئے۔ وفات سے دو ماہ قل لائلپور میں فروکش ہوئے جہاں بیمار ہوگئے جماعت احمدیہ لائلپور نے ان کے علاج معالجہ اور تیمارداری کی پوری کوشش کی مگر بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ ۱۰ امان ۱۳۳۰ہش/۱۰ ۱۹۵۱ء کو انتقال فرما گئے اور لائلپور کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کئے گئے۔ ۳۲
۴۔ حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ بٹالوی
)ولادت اندازاً ۸۸۰ء۔ زیارت۱۹۰۰ء بیعت۱۹۰۱ء۔ وفات ۲۷۔ ہجرت۱۳۳۰ ہش/۲۷۔ مئی ۱۹۵۱ء(
آپ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان مخلص صحابہ میں سے تھے جو عہد شباب کے آغاز میں احمدیت سے وابستہ ہوئے اور باوجود خاندانی مخالفت کے آخر دم تک حق و صداقت کو پھیلانے میں کوشاں رہے۔
آپ کی بیعت کا موجب عبداللہ اور چراغ الدین نامی دو شخص تھے جو امرتسر سے بٹالہ آئے اور قادیان جانے کا شوق ظاہر کر کے آپ کو بھی ہمسفر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ قادیان پہنچے جہاں ان کا ایک رشتہ دار گورنمنٹ کی طرف سے اس خفیہ ڈیوٹی پر متعین تھا کہ آنے والے مہمانوں کے نام نوٹ کرے۔ اس دن حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین بھیرویؓ نے الحمد کی تفسیر فرمائی جس نے آپ کے دل پر خاص اثر کیا۔ اس کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ گول کمرہ میں کھانا کھانے اور حضور کی زبان مبارک سے نئے سے نئے حقائق و معارف سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے نورانی چہرے اور پرجذب کلام نے آپ پر گہرا نقش قائم کردیا اور آپ بار بار قادیان جانے لگے اور پھر جلد ہی حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔
قبول احمدیت کے بعد آپ پر مخالفت کے گویا پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اہل حدیث برادری نے قافیہ حیات تنگ کردیا۔ اور تو اور آپ کی والدہ صاحبہ بھی آپ پر بہت سختی کرتی تھیں اور آپ کو عاق کرانے کے درپے ہوگئیں۔ آپ کے والد صاحب نے شروع میں تو یہ جواب دیا کہ پہلے یہ دین کے سراسر غافل و بے پروا تھا مگر اب نمازی بلکہ تہجد گذار بن گیا ہے اسے میں کس بات پر عاق کردوں لیکن بعد ازاں وہ بھی اپنی برادری کے سامنے جھک گئے جس پر آپ کو کئی ماہ تک گھر سے باہر رہنا پڑا۔ ۳۳
آپ کا وجود جماعت احمدیہ بٹالہ کے لئے ایک ستون کی حیثیت رکھتا تھا چنانچہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل )سابق سوداگرمل( تحریر فرماتے ہیں کہ :۔
>بٹالہ احمدیت کا مرکز ان کا مکان ہی تھا۔ بہت خوش خلق ` مہمان نواز اور سخی تھے۔ ساری عمر جماعت بٹالہ کے پریذیڈنٹ رہے۔ بٹالہ میں احمدیوں کے غیروں کے ساتھ متعدد مناظرے اور جلسے ہوئے ان کا انتظام بھی حضرت شیخ صاحبؓ کے ذمہ ہوتا تھا اور عموماً مہمان نوازی کے فرائض بھی شیخ صاحب ہی سرانجام دیتے تھے< ۳۴
۵۔میاں محمد صاحب بستی مندرانی تحصیل سنگھڑ ضلع ڈیرہ غازی خان:۔
)ولادت ؟ وفات ۱۹ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۱۹ ستمبر ۱۹۵۱ء(
آپ ایک نیک طبع` غریب النفس مگر دل کے غنی اور دینی غیرت رکھنے والے بزرگ تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذکر پر آپ کی آنکھیں اکثر پرنم ہوجایا کرتی تھیں۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود آپ ہمیشہ پر اثر رنگ سے تعلیم یافتہ لوگوں تک پیغام حق پہنچاتے رہے۔
آپ دو دفعہ حضورؑ کی زندگی میں دارالامان تشریف لے گئے۔ جب پہلی بار بیعت کر کے اپنے وطن واپس آئے تو آپ کا بائیکاٹ کردیا گیا مگر اس مرد خدا نے اپنے حقیقی رزاق کا سہارا کافی سمجھا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھے۔ پورے کنبہ کے اخراجات سر پر تھے اور ذریعہ معاش بند تھا۔ انہیں ایام کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ بعض رشتہ داروں نے تکالیف اور تنگی کو دیکھ کر کہا کہ اگر تم بظاہر ہم لوگوں میں ہی رہتے اور دل میں مرزا صاحبؑ پر اعتقاد رکھتے تو ایسے تنگ نہ ہوتے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں منافق کی سی زندگی بسر کروں ؟ مجھے بھوکا مرنا منظور ہے لیکن مجھ سے منافقت نہیں ہوسکتی۔ اگر میں ایسا کروں اور خدا مجھے اندھا کردے تو اس وقت میرا کون رازق بنے گا ؟
بیان فرمایا کرتے تھ کہ جب میں پہلے پہل قادیان دارالامان گیا تو ان دنوں مجھ پر گریہ زاری کی حالت طاری تھی اور میں اکثر رویا کرتا تھا۔ ان دنوں میرے ہاں اولاد نرنیہ نہیں تھی۔ میں دل میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ حضور سے اس بارے میں دعا کی درخواست کروں گا لیکن انہی دنوں میں حضور نے ایک تقریر فرمائی کہ بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بعض لوگوں کے خط آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں یا حضرت !! دعا فرمایئے ہمیں اللہ تعالفی اولاد دے۔ کوئی اپنی مالی تنگی کے بارے میں کہتا ہے۔ کوئی اور ایسی ہی خواہش پیش کرتا ہے۔ گو ہم سب کے لئے دعا کرتے ہیں مگر میرے آنے کی غرض یہ ہے کہ کوئی ایمان سلامت لے جائے مجھے اپنے خواہش کا اظہار کرتے شرم محسوس ہوتی تھی۔ خاموش رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خاموشی کو نواز کر اولاد نرینہ عطا فرمائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی برکت تھی۔ ۳۵
۶۔ حضرت میاں محمدالدین صاحبؓ واصلباقی نویس۔ بلانی ضلع گجرات درویش قادیان:۔
)ولادت۱۸۷۲ء۔ بیعت ۱۸۹۴ء۔ زیارت جون ۱۸۹۵ء۔ وفات یکم نبوت ۳۳۰ ہش/یکم نومبر ۱۹۵۱ء بمقام قادیان(
ابتدائی حالات
موضع حقیقہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے ۵ مارچ ۱۸۸۵ء کو پرائمری کا امتحان کھاریاں سے اور جنوری ۱۸۸۸ء میں مڈل کا امتحان ڈنگہ سیپاس کیا۔ ۱۹ جولائی ۱۸۹۰ء کو حلقہ بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات )پنجاب( میں بطور پٹواری تعینات ہوئے جہاں ۱۹۰۵ء تک رہے۔ بعد میں گرد اور قانون گو بن گئے۔ ۱۹۱۰ء سے لے کر ۱۹۲۹ء تک تحصیل کھاریاں میں واصل باقی نویس رہے پھر چار ماہ ضلع دفتر میں تبدیل ہو کر پنشن حاصل کی۔
>براہین احمدیہ< سے روحانی انقلاب
ان ایام میں جب کہ آپ نے ملازمت شروع کی آپ کی دینی اور عملی حالت سخت ابتر تھی حتیٰ کہ آپ بالکل دہریہ ہوگئے تھے۔ اسی دوران میں حضرت مسیح موعود السلام کے ممتاز صحابی حضرت مرزا جلال الدین صاحبؓ ۳۶ نے اپنے بیٹوں کو اسلمی لٹریچر بھجوایا جس میں براہین احمدیہ بھی تھی۔ آپ کو ان کے بڑے صاحبزادہ مرزا محمد نسیم صاحب۳۷ کے ذریعہ یہ عظیم الشان کتاب دیکھنے کا موقعہ ملا اور اس کے ابتدائی مطالعہ سے آپ کے سب ظلماتی پردے اٹھ گئے اور ایک ہی رات میں کایا پلٹ گئی۔ خود فرماتے ہیں :۔
>آریہ` برہمو` دہریہ لیکچراروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور اکثروں کو ہلاک کردیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لا یعنی زندگی بسر کررہا تھا کہ براہین پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں۔ صفحہ ۹۰ کے بقیہ حاشیہ نمبر۴ اور صفحہ نمبر ۱۴۹ کے بقیہ حاشیہ نمبر ۱۱ پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہوجاتا ہے۔ سردی کا موسم جنوری ۱۸۹۳ء کی ۱۹ تاریخ تھی آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں >ہونا چاہئے< اور >ہے< کے مقام پر پہنچا چڑھتے ہی معاً توبہ کی ۔۔۔۔۔۔۔ عین جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میرا ایمان جو ثریا سے شاید اوپر ہی گیا ہوا تھا` اتار کر میرے دل میں داخل کیا اور مسلماں را مسلماں باز کروند کا مصداق بنایا جس رات میں میں بحالت کفر داخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی۔ اس مسلمانی پر میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد الدین نہ تھا جو کل شام تک تھا۔ فطرتاً مجھ میں حیا کی خصلت تھی اور وہ اوباشوں کی صحبت بس عنقا ہوچکی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی برکت سے وہی خصلت حیا واپس دی۔ میں اس وقت اس آیت کے پرتو کے تحت مزے لے رہا تھا الیکم الایمان وزینہ فی قبلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون فضلا من اللہ ونعمتہ واللہ علیم حکیم )الحجرات :۸(
)ترجمہ : لیکن اللہ نے تمہاری نگاہ میں ایمان کو پیارا بنایا ہے اور تمہارے دلوں مین اس کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور تمہاری نگاہ میں کفر اور اطاعت سی نکل جانے اور نافرمانی کرنے کو ناپسند کر کے دکھایا ہے وہی لوگ سیدھے راستہ پر ہیں یہ محض اللہ کے فضل اور نعمت سے ہے اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے۔(
میاں محمد دین صاحب اپنے واقعہ بیعت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
واقعہ بیعت
>ایمان لانے کے ساتھ ہی قرآن کی عظمت اور محبت نے میرے دل میں ڈیرہ لگایا گویا علم شریعت جو ایمان کی جڑھہے اس کے حاصل کرنے کا شوق اور فکر دا منگیر ہوا۔ ازاں بعد سال ۹۴۔۱۸۹۳ء براہین احمدیہ کا ایک دور ختم کیا جو نماز تہجد کے بعد کیا کرتا تھا اور پھر آئینہ کمالات اسلام پڑھا جو توضیح مرام کی تفسیر ہے۔
حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب پنشنر میر منشی رسالہ نمبر ۱۲ ساکن بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات دو ماہ کی رخصت لے کر سیالکوٹ چھائونی سی بلانی تشریف لائے اور بلانی میں ہی میں پٹواری تھا ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا جس کا جواب مجھے اکتوبر ۱۸۹۴ء میں ملا جس میں لکھا تھا کہ ظاہری بیعت بھی ضروری ہے جو میں نے ۵ جون ۱۸۹۵ء مسجد مبارک کے چھت پر بالاخانہ کے دروازہ کی چوکھٹ کے مشرقی بازو کے ساتھ حضرت صاحب سے کی۔<
>مسجد مبارک میں ظہر کی نماز مولوی عبدالکریم صاحب کے اقتدار میں ادا کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ان دنون نماز ظہر اور عصر کے درمیان اور نماز مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد میں تشریف رکھا کرتے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب شمالی دیوار کے ساتھ کھڑکی )دریچہ( کے جانب غرب بیٹھے تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور چہرہ اور پیشانی سے نور کی شعاعیں سفید رنگ کی اٹھتی دیکھیں جو بڑی لمبی تھیں اور چھت کو پھاڑ کر آسمان کی طرف جارہی تھیں میں اس نظارہ سے مسرور اور تصویر حیرت ہوگیا۔<
>میں نے حضرت مسیح موعود السلام سے عرض کیا کہ قرآن شریف کس طرح آئے؟ آپ نے فرمایا واتقوااللہ ویعلمکم اللہ ۳۸ )ترجمہ( اور تم تقویٰ کرو خدا تمہارا خود استاد ہوجائے گا۔
پھر میرے دل میں گذار کہ کہ میں علم دین سے ناواقف ہوں اور مولوی لوگ مجھے تنگ کریں گے میں کیا کروں گا اور پوچھنے سے بھی شرم کررہا تھا جو اپ نے بغیر میرے سوال ۔۔۔۔۔۔ ایسے بلند لہجہ اور رعب ناک انداز سے فرمایا کہ میں کانپ گیا۔ فرمایا ہماری کتابوں کو پڑھنے والا کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔<۳۹
کتب حضرت مسیح موعودؑ میں ذکر
جنوری ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست مشمولہ انجام اتھم میں آپ کا نام تیسرے نمبر پر درج فرمایا۔ اسی سال >سراج منیر< شائع ہوئی جس میں مہمان خانہ قادیان کے چند دہندگان میں بھی آپ کا نام شامل تھا۔ ازاں بعد ۲۴ فرور ۱۸۹۸ء کے اشتہار )مشمولہ کتاب البریہ( میں آپ کا نام ۱۱۰ پر شائع ہوا۔
آپ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں دو مرتبہ قادیان دارالامان تشریف لے گئے ۴۰ اور اس پاک اور پر انوار اور برکتوں سے معمور بستی میں ایک ایک ماہ تک قیام فرمایا اور حضرت امام الزمان کی بابرکت مجالس سے اکتساب فیض کیا اور حضورؑ کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کی تازہ بہ تازہ وحی سنی ۴۱
خدمات سلسلہ
یکم جولائی ۱۹۰۰ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے چندہ منارۃ المسیح کی تحریک ہوئی جس میں آپ نے ایک سو روپیہ دیا۔
۲۳ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو آپ نے اپنی جائیداد کے پانچویں حصہ کی وصیت کی اور ۱۹۰۹ء میں اپنا حصہ جائیداد ادا بھی کردیا۔ بعد میں جو جائیداد پیدا کی اس کا اندراج بھی صدر انجمن احمدیہ میں کرادیا۔ ازاں بعد اپنی آمد کی بھی وصیت کردی اور آخر دم تک اس کی ادائیگی کرتے رہے۔
۱۹۲۹ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کردی۔ کشمیر فنڈ جمع کیا۔ ضلع گجرات کی جماعتوں کا بجٹ تیار کیا۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ کی اراضیات میں پھر دفتر جائیداد صدر انجمن احمدیہ میں سرگرم عمل رہے۔
دور درویشی اور وفات
۱۲ تبوک ۱۳۳۶ ہش/۱۲ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہجرت کر کے پاکستان آگئے مگر اگلے سال ماہ ہجرت / مئی میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر لبیک کہہ کر مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے۔
درویش آپ سے دینی مسائل سیکھتے اور ناظرہ قرآن پڑھتے تھے۔ بڑھاپے میں بھی بہت ذی ہمت تھے۔ مسجد مبارک سے اترتے اگر کوئی درویش سہارا دینے کی کوشش کرتا تو آپ منع کرتے اور فرماتے کہ میں بوڑھا نہیں ہوں۔ آپ درویشوں کو اکثر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی باتیں سناتے رہتے تھے۔ آپ کا دستور تھا کہ جب آپ لنگر خانہ میں کھانا لینے کے لئے جاتے اس مقدس دور کی کوئی ایک بات ضرور سنادیتے تھے۔ آپ نے عہد درویشی کمال صدق و صفا کے ساتھ نبھایا اور وفات کے بعد بہشتی مقبرہ کے قطعہ صہابہ میں دفن کئے گئے ۴۲ اور ان ابدال میں شامل ہوئے جن کا ذکر حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے درج ذیل عبارت میں فرمایا ہے :۔
>پنجاب اور ہندوستان سے ہزارہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ایسا ہی سرزمین ریاست امیر کابل سے بہت سے لوگ میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں۔ اور میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزارہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہرگز ایسا صاف نہیں ہوسکتا۔ اور میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزارہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کرچکے ہیں کہ ایک فرد ان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے۔< ۴۳
حضرت میاں محمد الدین صاحب کی اولاد :۔
اولاد
۱۔ غلام فاطمہ صاحبہ )ولادت ۳۰ نومبر ۱۸۹۵ء( ۲۔ صوفی غلام محمد صاحب ۴۴ بی۔ایس سی` بی ٹی ریٹائرڈ ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول حال ناظر بیت المال )خرچ( )ولادت ۱۹ اکتوبر ۱۸۹۸ء( ۳۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے صاحب )ولادت ۳۰ مارچ ۱۹۰۱ء( ۴۔ زینب بی بی صاحب )ولادت ۳۱ دسمبر ۱۹۰۳ء( ۵۔ آمنہ بی بی صاحبہ )ولادت ۶ دسمبر ۱۹۰۵ء( ۶۔ چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب بی ۔ اے ` ایل ایل بی۔ بیرسٹر وکیل القانون تحریک جدید )ولادت ۲۱ دسمبر ۱۹۰۹ء( ۷۔ غلام احمد مرحوم )ولادت ۱۵ اپریل ۱۹۱۲ء وفات ۱۸ء مارچ ۱۹۳۲ء( ۸۔ چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔ اے سابق مبلغ اسلام امریکہ )ولادت ۲۸ فروری ۹۱۵ء( امتہ اللہ صاحبہ )ولادت ۱۳ نومبر ۱۹۲۰ء(
حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب~رضی۱~ متوطن سیالکوٹ چھائونی :۔
)ولادت تقریباً ۱۸۷۳ء ۔ بیعت ۱۸۹۶ء۴۵۔ وفات ۹۔ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۹ نومبر ۱۹۵۱ء(
ابتدائی حالات
سیالکوٹ چھائونی کے ایک موحد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چوہدری نبی بخش صاحب بہت متدین اور مہمان نواز تھے۔ آپ نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا۔ آپ نہایت صحت اور خوش الحانی سے کتاب اللہ کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ خاندانی وجاہت کے علاوہ اپنی ذاتی خوبیوں کے باعث بچپن ہی سے محبت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
پاکیزہ دینی ماحول میں جواب ہوئے اور عنفوان شباب ہی سے مذہبی مطالعہ کرنے اور دینی مجالس میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ صدر بازار سے آپ شہر سیالکوٹ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا درس سننے کے لئے آیا کرتے تھے۔
سلسلہ احمدیہ میں شمولیت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چرچا سنا تو اپنے پیرو مرشد سید جماعت علی شاہ صاحب علی پوری )ثانی(۴۶ سے پوچھا کہ مرزا صاحب اپنے دعوے میں کیسے ہیں جواب ملا کہ )نعوذ باللہ( جھوٹے ہیں۔ آپ نے دلیل مانگی تو پیر صاحب موصوف نے فرمایا مرید کا کام دلیل مانگنا نہیں بس پیر نے کہا اور مرید نے مان لیا۔ مگر حافظ صاحب ہر بات دلیل سے ماننے کے عادی تھے اس طرح اندھا دھند تقلید آپ کے مزاج اور فطرت کے منافی تھی۔ آپ نے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور پیر صاحب کی دعوت کی۔ دونوں میں مذہبی گفتگو ہوئی اس تبادلہ خیالات میں پیر صاحب احمدیت کے علم کلام کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے جس پر آپ ان کو چھوڑ کر حضرت مہدی موعود کے دامن سے وابستہ ہوگئے۔
قبول احمدیت کے بعد
قبول احمدیت کے بعد مخالفت کا سلسلہ لازمی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کو ثبات و استقلال بخشا بلکہ آپ کے بابرکت وجود سے سیالکوٹ چھائونی کی قدیم وفدائی جماعت کو بھی بہت تقویت پہنچی اور آپ کے نیک نمونہ اور تبلیغ سے بہت سی سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں۔
۱۹۱۴ء میں جب کہ مولوی مبارک علی صاحب جیسے عالم فاضل بھی غیر مبائعین میں شامل ہوگئے۔ آپ اس نازک ابتلاء میں مستحکم چٹان بن کر کھڑے رہے اور دوسرے احباب جماعت کی بھی خلافت سے وابستگی کا موجب بنے۔
۱۹۲۸ء میں آپ نے اپنا مکان چھائونی میں تعمیر کرایا تو دو کمرے نماز باجماعت اور جمعہ کی نیت سے بنوائے۔ ایک مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے۔ اس طرح آپ کا مکان مرکز کا کام دینے لگا اللہ تعالیٰ نے آپ کے مال میں اتنی برکت ڈالی کہ آپ نے انیس مکانات اپنے ورثہ میں چھوڑے۔ ان اللہ لایضیع اجر المحسنین۔
حضرت حافظ صاحب قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ ایک دفعہ کسی بدر زبان نے اپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں تحقیر آمیز الفاظ کہے تو آپ کو اتنا صدمہ ہوا کہ بخار ہوگیا اور دو دن تک ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہے۔ ۴۷
حضرت مولوی عبدالاحد خانؓ میرٹھی کا بیان
حضرت مولوی عبدالاحد خان صاحب میرٹھی نے آپ کی وفات پر لکھا :۔
>حافظ عبدالعزیز صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابہ میں سے تھے۔ حافظ صاحبؓ اور خاکسار نے ایک ہی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی مجھے جہاں تک یاد ہے غالباً نومبر دسمبر ۱۸۹۵ء کے ایام تھے۔ حضرت حافظ صاحبؓ پہلے پیر جماعت علی شاہ کے مرید تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت بھی زوروں پر تھی چھائونی سیالکوٹ صدر میں مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب احمدی تھے اور ایک اور دوست بھی۔ مولوی صاحب نے درس قرآن شریف شروع کیا ہوا تھا اور حافظ صاحبؓ درس میں شامل ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و احسان کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی۔ حضرت مولانا عبدالکریمؓ کا درس قرآن شریف شہر میں حکیم حسام الدینؓ کی مسجد میں ہوتا تھا۔ خاکسار اور حافظ صاحب سردیوں میں صبح ۵ بجے چھائونی سے اڑھائی تین میل کا فاصلہ چل کر مولوی عبدالکریمؓ کے پیچھے نماز صبح پڑھتے اور درس میں شامل ہوتے۔ اصل میں حافظ صاحبؓ کی بیعت کا بڑا سبب یہ ہوا کہ میں نے حافظ صاحب کو تحریک کی کہ پیر صاحب کی دعوت کریں اور مولوی صاحب کو بھی بلائیں )مولوی مبارک علی صاحب( پھر کچھ ذکر ضرور ہوگا۔ دیکھیں گے پیر صاحب کیا فرماتے ہیں۔ خیر شام کو حافظ صاحب کی بیٹھک میں انتظام ہوا اور پیر صاحب` مولوی صاحب` حاجی حسین بخش صاحب مرید پیر بخش صاحب` منشی الہ بخش احمدی` حافظ صاحب` خاکسار ایک یا دو اور دوست تھے غالباً ۷۔۸ آدمی تھے۔ پیر صاحب نے فرمایا مولوی صاحب کوئی رکوع قرآن شریف کا سنائیں۔ مولوی صاحب نے یاعیسی انی متوفیک۴۸ یہ ہی رکوع سنایا۔ اس وقت شروع شروع میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی زیادہ زیر بحث رہتے تھے اب تو غیر احمدی صاحبان اس بحث کو چھوڑ بھاگے۔ جب پیر صاحب اس رجوع کو سن کر کچھ بولے نہیں بلکہ مولوی صاحب کی خوش الحافی کی تعریف کی تو مولوی صاحب نے خود ہی دریافت کیا کہ آپ کا حضرت مرزا صاحب کے متعلق کیا خیال ہے ؟ پیر صاحب نے فرمایا کہ میں نے باوا صاحب ۴۹ سے پوچھا تھا۔ )یعنی اپنے پیر صاحب سے( باوا صاحب نے کہا وہ >کوڑا< )جھوٹا( ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کوئی دلیل ؟ پیر صاحب نے کہا باوا صاحب کے کہنے پر دلیل کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔< دوسرے دن صبح ہی میں نے اور حافظ صاحب نے بیعت کا خط حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت شریف میں ارسال کردیا جس کا جواب حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قلم کا لکھا ہوا مجھ کو اور حافظ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مل گیا۔ الحمد لل¶ہ علی حسبانہ۔
خاکسار اور حافظ عبدالعزیزؓ بچپن کے دوست تھے۔ ایک ساتھ قریب ۲۵۔۳ برس رہے۔ ایک ہی سکول میں پڑھے بلکہ انہیں کے گھر میں رہے۔ حافظ صاحبؓ مجھ سے دو برس بڑے تھے۔ بچپن ہی سے خاموش` کم سخن` سنجیدہ مزاج` نیک سیرت اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ہمارے محلہ میں نیز سارے بازار یعنی چھائونی سیالکوٹ میں بغیر امتیاز مذہب و ملت کیا ہندو کیا مسلمان ہر ایک آپ کو عزت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہ بالکل سچی حقیقت ہے اور ہر ایک آپ کا احترام کرتا تھا۔ باوجود احمدیت کی سخت مخالفت کے آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے کسی مخالف کو آپ کے سامنے احمدیت کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ آپ کی صفائی گوئی` راست بازی` نیک چلنی` اخلاص اور تقویٰ کا ہر ایک مداح تھا۔ علاوہ چھائونی کے چونکہ آپ سنگر کمپنی کے مینجر تھے شہر سیالکوٹ میں بھی بہت آنا جانا رہتا تھا شہر سیالکوٹ کے اکثر و بیشتر لوگ جن سے آپ کو معاملہ پڑتا آپ کے حسن اخلاق` اپ کے اوصاف حمیدہ کے معترف تھے اور آپ کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے تھے۔ ہمارے ایک دوست مستری نظام الدین صاحب سپورٹ ورکس سیالکوٹ شہر جو کاربار کے سلسلہ میں چھائونی آتے رہتے تھے اور مولا بخش صاحب بوٹ فروش )جو بعد میں پیغامی ہوگئے( بھی آتے اور حافظ صاحب کی دکان پر ضرور بیٹھک رہتی۔ ایک مرتبہ حافظ جی کی نظر مستری نظام الدین صاحب کے موزوں پر پڑ گئی جو پھٹے ہوئے تھے۔ آپ نے فوراً ان کے پھٹے ہوئے موزے اتروایئے اور اپنے نئے موزے ان کو پہنائے۔۔۔۔۔۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دارالامان سے مولوی کرم دین کے مقدمہ میں ۵۰ تشریف لے جارہے تھے تو میں اور حافظ جیؓ اور مستری نظام الدین تینوں آدمی وزیر آباد سٹیشن سے اسی ٹرین میں سوار ہو کر حضور علیہ السلام کے ساتھ ہی جہلم گئے اور حضور علیہ السلام کے قیام جہلم تک وہیں رہے اور ساتھ ہی واپس ہوئے۔ آہا ! اسٹیشنوں پر کیا کیا نظارے دیکھے اور خاص کر جہلم سٹیشن پر پھرکچہری احاطہ میں` کیا بتائو ؟ جن کا بیان کرنا بڑا طویل ہے جس کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے۔ اکثر واقعات میری نوٹ بک میں ہیں جو ذکر حبیب کے وقت دوستوں کو از دیاد ایمان کے لئے سناتا ہوں۔
احاطہ کچہری میں حضور مسیح موعود علیہ السلام کرسی پر بیٹھے ہوتے تھے اور باقی دوست دری پر بیٹھ جاتے اور کچھ دوست چاروں طرف گھیرا باندھ کر کھڑے رہتے حضور تقریر فرماتے۔ اکثر و بیشتر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے جن میں حافظ صاحبؓ اور خاکسار بھی شامل تھے۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹ والے بھی تھے جنہوں نے قریب ہی تھوڑی دوری پر مخالفت میں اکھاڑا لگایا ہوا تھا۔ پھر حضور مسیح موعود علیہ السلام کے لیکچر سیالکوٹ میں بھی حافظ صاحب اور خاکسار شامل رہے۔۵۱
‏tav.13.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
اولاد
ڈاکٹر رشید احمد صاحب۵۲۔ ارشاد احمد صاحب۵۳ شبیر احمد صاحب۵۴بی۔ اے۔ بشارت احمد صاحب۵۵ بی۔اے۔ شمشاد احمد صاحب۵۶۔ ریاض احمد صاحب۵۷ اعجاز احمد صاحب۵۸ ذوالفقار احمد صاحب۵۹ مبارکہ بیگم صاحب۔ سلطان حیدری بیگم صاحبہ۔ اقبال حیدری بیگم صاحبہ۔
تادم تحریری خدا کے فضل و کرم سے حضرت حافظ صاحب کی اولاد کی مجموعی تعداد ۵۳ تک جا پہنچی ہے خدائے عزوجل نے مہدی موعود کو بشارت دی تھی :۔
>میں تیرے خالص اور ولی محبوں کا گروہ بھی بڑھائوں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا۔<۶۰
۸۔ اخوند محمد اکبر خان صاحبؓ آف ڈیرہ غازی خاں :۔
)ولادت اپریل ۱۸۸۵ء تحریری بیعت ۱۹۰۴ء۔ زیارت ۱۹۰۵ء ۔ وفات ۴۔ فتح ۱۳۳۰ ہش/۴ دسمبر ۱۹۵۱ء(
۱۹۰۳ء میں دفتر ضلع ڈیرہ غازی خان میں ملازم ہو کر راجن پور میں تعینات تھے کہ ایک سعید نوجوان حکیم عبدالخالق صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کا مطالعہ کرچکے تھے اور رسالہ >ریویو آف ریلیجز< خود آپ کے زیر نظر رہ چکا تھا۔ دونوں نے تحریک احمدیت پر علمی تحقیقی شروع کردی اور دونوں خوش نصیبوں پر اللہ تعالیٰ نے حق کھول دیا اور انہوں نے اوائل ۱۹۰۴ء میں بیعت کا خط لکھ دیا۔
ایک نشان
پرانے ڈیرہ غازی خان میں احمدیت کی سخت مخالفت تھی اور اس میں آپ کے خاندان کے ایک بارسوخ پولیس افسر اخوند امیر بخش خاں صاحب بہت پیش پیش تھے۔ غیر احمدیوں نے احمدیہ مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے سخت ہنگامہ کھڑا کردیا تھا اور یہ صاحب ان کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے۔ انہون نے سب انسپکٹر پولیس ڈیرہ غازی خان کو اکسایا کہ فریقین کے سرگردہ لوگوں کی ضمانتیں لی جائیں ۶۱ اخوند صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں ایک عریضہ لکھا جس میں ان صاحب کی مخالفت کا ذکر کیا کہ ان کو اس قدر عناد ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو مجھے قتل کردیں اور ضمانت طلبی کا بھی ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی حضور نے اپنے مبارک ہاتھ سے اس عریضہ کی پشت پر جواب رقم فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے دعا کی گئی ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کا جلد نیک نتیجہ ظاہر ہوگا اور جماعت کو چاہئے کہ ضمانت ہرگز نہ دیوے ہاں مسجد چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دی جاوے اور کسی احمدی کے مکان پر باجماعت نمازوں کا انتظام کر لیا جاوے مگر جماعت کے کسی فرد کو ضمانت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔
حضور کے اس جواب کے تھوڑے دنوں بعد اخوند امیر بخش خاں لقمہ اجل ہوگئے اور صاحب ڈپٹی کمشنر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈیرہ غازی خان کی رپورٹ پر ایک مسلمان۔ ای۔ اے سی کو مقرر کردیا کہ وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مصالحت کرادے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ یہ کشمکش جاری تھی کہ آخر دریائے سندھ کی طغیانی سے سارا شہر غرق ہوگیا اور نیا شہر آباد کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنی نئی مسجد تعمیر کرائی جو نئے شہر میں سب سے پہلے مسجد تھی ۶۲ یہ مسجد فراخ اور کشادہ ہے اور شہر کے مرکزی اور بارونق حصہ میں واقع ہے مسجد میں لائبریری اور مربی سلسلہ کی رہائش کاہ بھی موجود ہے اور جمعہ کے علاوہ پبلک جلسے بھی اسی میں منعقد کئے جاتے ہیں۔
اخلاق
اخوند صاحبؓ نے اپنے زمانہ ملازمت میں خوب پیغام حق پہنچایا۔ آپ مبلغین سلسلہ کو بلوا کر تقریریں کراتے اور اخراجات خود برداشت کرتے تھے۔ اپنے افسروں کو ہمیشہ جماعتی لٹریچر دیتے مستقل چندوں کے علاوہ سلسلہ کی دیگر مالی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ سلسلہ کے لٹریچر سے گہرا شف تھا۔ مرکزی اخبارات` رسائل اور کتب منگواتے اور فرماتے یہی ترکہ میں اپنی اولاد کے لئے چھوڑ جائوں گا۔ جماعتی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتے۔ آپ کو اپنے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے تکالیف پہنچیں مگر آپ نے ہمیشہ صبر کیا ور دکھ دینے والوں سے نیکی اور احسان کیا حضرت مصلح موعودؓ اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ اور بزرگان سلسلہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔
جب آپ دوران ملازمت ملتان میں قیام فرما تھے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا پانچ مرتبہ آپ کے گھر تشریف لائیں۔
عسر ویسر دونوں حالتیں آپ پر آئیں مگر آپ میں شفقت علی خلق اللہ انفاق فی سبیل اللہ اور مہمان نوازی کے اوصاف بدستور قائم رہے۔ مفوضہ کام نہایت توجہ اور محنت سے انجام دیتے آپ کی دیانتداری اپنوں اور بیگانوں میں مسلم تھی۔
ہجرت اور وفات
۱۹۳۸ء میں پنشن ملی تو قادیان آگئے اور ۱۹۴۰ء میں محلہ دار الفضل میں اپنا مکان بنا لیا۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء میں قادیان سے آکر ملتان میں پناہ گزین ہوئے اور ۴ ماہ فتح ۱۳۳۰ہش/۴دسمبر ۱۹۵۱ء کو وفات پائی اور ربوہ میں دفن کئے گئے۔ ۶۳
اولاد
۱۔ صفیہ خانم صاحبہ اہلیہ اخوند محمد عبدالقادر خان صاحب ایم۔ اے مرحوم ریٹائرڈ پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ
۲۔بشری خانم مرحومہ )بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون(
۳۔ اخوند فیاض احمد خان صاحب حال مینجر سیلز انٹرہام لمٹیڈ لاہور۔
۴۔ثریا خانم صاحبہ اہلیہ ضیاء الرحمن صدیقی صاحب۔ ملتان
۵۔ رضیہ خانم صاحبہ اہلیہ پروفیسر حفیظ احمد اعوان صاحب۔ خانپور )ضلع رحیم یار خان(
۶۔ آصفہ خانم صاحبہ اہلیہ پروفیسر ناصر احمد صاحب پشاور
۷۔ فرحت خانم صاحبہ
۸۔ اخوند ریاض احمد خان صاحب۔ ایم ۔ ایس سی۔ حال ربوہ
حضرت ملک برکت علی صاحبؓ والد ماجد خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ
)ولادت۶۴ قریباً ۱۸۶۹ء۔ تحریری بیعت ۶۵ ۱۸۹۷ء دستی بیعت ۶۶ ۲۔۱۹۰۱ء وفات ۶۷ ۲۰ ماہ فتح ۱۳۳۰ ہش / ۲۰ دسمبر ۱۹۵۱ء
خود نوشت حالات
حضرت ملک صاحبؓ اپنے قبول احمدیت اور سفر قادیان کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :۔
>میں گجرات سے تعلیم حاصل کرکے لاہور میں ملازم ہوگیا۔ وہاں جو دفتر کے کلرک تھے انہوں نے پیر سید جماعت علی شاہ ۶۸ کی بیعت کے اور مجھے بھی تحریک کی۔ میں نے بھی ان کے کہنے سے پیر صاحب کی بیعت کر لی اور ہر روز صبح و شام دفتر کے وقت کے علاوہ ان کی صحبت میں رہنے لگا۔ جب عرصہ گزر گیا اور میری طبعیت پر کوئی اثر پیدا نہ ہوا اور نہ ہی میں نے کوئی روحانی ترقی حاصل کی تو پیر صاحب سے سوال کیا کہ مجھے بیعت کئے ہوئے اس قدر عرصہ گزر گیا ہے مگر میری حالت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ پیر صاحب نے کہا کہ آپ مجاہدات کریں اور اس حد تک میرا تصور کریں کہ میرا نقش ہر وقت آپ کے سامنے رہے پھر آپ کو بارگاہ الٰہی میں رسائی حاصل ہوگی۔ میں عرصہ تک ان کا تصور بھی کرتا رہا۔ مجاہدات بھی بڑے کئے مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔ اکونٹنٹ جنرل کے دفتر میں ایک شخص میاں شرف الدین صاحب ہوا کرتے تھے وہ احمدی تو نہ تھے مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھا کرتے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو پیر صاحب کی بیعت کئے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر آپ کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں تو ہر روز پیر صاحب کو یہی کہتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ میری حالت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آپ کو کوئی کتاب دوں تو کیا آپ پڑھیں گے میں نے کہا کہ ضرور۔ آپ دیں میں انشاء اللہ ضرور پڑھوں گا۔ اس پر انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ایک کتاب مطالعہ کے لئے دی۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا۔ پھر انہوں نے دوسری دی۔ یہاں تک کہ چار کتابیں میں نے پڑھ لیں۔ اس کے بعد ایک دن میں نے پیر صاحب کی خدمت میں حضرت صاحب کا ذکر اور پوچھا کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ پیر صاحب نے کہا کہ نہ ہم ان کو اچھا کہتے ہیں نہ برا۔ میں اس جواب پر بہت مستعجب ہوا مگر اس وقت خاموش ہوگیا۔ ایک روز پھر میں نے یہی سوال کردیا۔ پیر صاحب نے پھر وہی جواب دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ >مگر نہ ان کی کوئی کتاب پڑھو اور نہ وعظ سنو< میں حیران ہوا کہ ایک طرف تو ان پر اچھا یا برا ہونے کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں لگاتے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ ان کی کتابیں پڑھو اور نہ وعظ سنو۔ میں نے کہا کہ کیا آپ نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ؟ اس پر پیر صاحب جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ان کی کتابیں پڑھیں علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ جو لگا دیا ہے۔ ان کا جواب سن کر میرے ذہن میں حضرت اقدس کی تحریرات کا نقشہ کھنچ گیا جس میں حضور نے مخالف علماء کے کفر کے فتویٰ کا ذکر کر کے فرمایا تھا کہ یہ لوگ نہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور نہ میرے خیالات کو انہیں سننے کا موقعہ ملا ہے مگر محض مولوی محمد حسین کے کہنے پر یک طرفہ فتویٰ لگادیا ہے۔
میں نے دل میں کہا کہ پیر صاحب کی بھی یہی حالت ہے کہ بالکل یک طرفہ فتویٰ لگارہے ہیں۔ یہ باتیں سن کر میں پیر صاحب سے بدشطن ہوگیا اور واپس آکر تحقیقات میں مشغول ہوگیا۔ ان ایام میں عبداللہ آتھم کے متعلق حضور کے اشتہارات نکل رہے تھے اور عیسائیوں کی طرف سے بھی اشتہارات نکلا کرتے تھے۔ میں فریقین کے اشتہارات کو ایک فائل کی صورت میں محفوظ کررہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضڑت اقدس کی پیشگوئی آتھم کے بارہ میں بالکل صحیح پوری ہوگئی ہے۔ اس کے بعد لیکھرام کے متعلقہ حضور کے اشتہارات اور تحریرات نکلنا شروع ہوگئیں ان کو بھی میں فائل میں محفوظ کرتا گیا۔ ان ہر دو واقعات کے گزرنے کے بعد مجھے حضرت اقدس کی صداقت کے متعلق اطیمنان ہوگیا اور میں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر قریباً ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء میں قادیان جا کر دستی بیعت کی۔<
>جب قادیان پہنچے تو مہمان خانہ میں ٹھہرے۔ دوسرے دن حضرت اقدس نماز ظہر کے لئے تشریف لائے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت اقدس کے زمانہ میں چونکہ مسجد چھوٹی ہوا کرتی تھی اس لئے جب آدمی زیادہ ہوتے تو چھت پر جہاں حضور تشریف فرما ہوتے تھے جہاں کسی کو جگہ مل جاتی وہ بیٹھ جاتا اور ہمہ تن گوش ہو کر حضور کی باتوں کو سنتا۔ بعض غیر احمدی معترض ہوئے کہ آپ پیر ہیں اور نیچے بیٹھے ہیں مگر مرید شہ نشین پر اوپر بیٹھے ہیں۔ حضرت صاحب فرماتے کہ معذوری ہے جگہ تنگ ہے لوگ مجھے پوجنے کے لئے نہیں آئے بلکہ تقویٰ اور طہارت کی باتیں سننے کے لئے آئے ہیں اور میں تو انسان پرستی کو دور کرنے کے لئے آیا ہوں۔
ایک دفعہ جب کہ میں بھوچرا بنگلہ نہر لوئر جہلم ضلع سرگودھا میں تھا ایک ¶سب ڈویژنل افسر مسٹر ہاورڈ میرے خلاف ہوگیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بددیانت تھا اور پہلے کلرک کے ساتھ مل کر کھایا کرتا تھا مگر جب میں گیا تو میں نے ایسی بل بنانے سے انکار کردیا اور کہا اپ میئر منٹ بک ۶۹Book) (Mesurement میں درج کر کے دے دیں میں بل بنادوں گا لیکن کتاب میں درج نہیں کروں گا۔ اس پر وہ بگڑ گیا اور میرے خلاف رپورٹ کردی اور مجھے معطل کردیا۔ وجہ یہ لکھی کہ میں اس کو بدمعاشی کی وجہ سے معطل کرتا ہوں لیکن افسر بالا نے لکھا کہ اس پر چارج شیٹ لگائو اور جواب لے کر بھیجو۔ اس وقت جو جرم مجھ پر لگایا گیا وہ کوئی بھی جرم نہ تھا بلکہ اس قسم کی باتھیں تھیں کہ اس نے فلاں کاغذ پر دستخط کئے ہیں لیکن لفظ پڑتال نہیں لکھا۔ ایسی باتوں کا میں نے مدلل جواب دے دیا۔ خیر کیس چل پڑا اور تین مہینہ تک چلتا رہا۔ میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کی حضور کی طرف ے ایک کارڈ پر جواب آیا کہ >دعا کی ہے اللہ تعالیٰ رحم کرے گا۔< اتفاق سے یہ خط ایک شخص پر سرام اور رسیئر کے ہاتھ آگیا اور اس نے پڑھ لیا اس نے مجھے آکر کہا کہ مقدمہ آپ کے حق میں ہوگیا ہے اور آپ بری ہوگئے ہیں۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا ؟ اس نے وہ کارڈ مجھے دیا اور کہا اس پر لکھا ہوا ہے۔ میں نے اس سے پڑھا اور کہا کہ یہاں تو یہ نہیں لکھا کہ آپ بری ہوگئے ہیں۔ وہ بولا کہ اتنے بڑے خدا کے بندے نے آپ کے لئے دعا کی ہے بھلا اب کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ بری نہ ہوں ؟؟ چنانچہ اس خط کے مطابق تھوڑے ہی عرصہ کے بعد میں بری ہوگیا اور باوجود اس بات کے کہ میں کلرک تھا اور جھگڑا ایک انگریز سب ڈوینل افسر کے ساتھ تھا مگر اس مقدمہ کی تفتیش کے لئے سپرنٹنڈنٹ اور چیف انجینئر مسٹر مبنٹین تک آئے اور خوب اچھی طرح سے انکوائری کی اور مجھے بری کیا۔<۷۰
اخلاق و عادات
ملک صاحب نے محکمہ نہر میں ملازمت کر کے ۱۹۲۷ء میں پنسن حاصل کی۔ عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ گجرات کے جنرل سیکرٹری۔ اور پھر امیر رہے۔ دوران ملازمت اور بعد مین بھی تبلیغ دین کو اپنی غذا بنائے رکھا۔ آپ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سلسلہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تہجد گذار اور متقی بزرگ تھے ۔ اولو الضرمی اور راست گوئی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ بہت دعائیں کرنے والے` مستجاب الدعوات` صاحب کشوف و رویا تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور~صل۱~ کے خلفاء کے ساتھ عشق تھا۔ سلسلے کے لئے غیرت رکھنے والے انسان تھے۔ دینی اور دنیاوی لحاظ سے کامیاب اور کامران زندگی گزاری وفات تک تبلیغ کا کام سرانجام دیتے رہے۔ باوجود پیرانہ سالی کے جواں ہمت اور جواں دل تھے اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کیا۔ آپ کے ذریعہ سے آپ کے خاندان اور متعلقین کا اکثر حصہ احمدیت میں داخل ہوا۔ ۷۱
بہتر علمی یادگار
حضرت ملک صاحبؓ کی بہترین علمی یادگار آپ کے فرزند خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ تھے جن کے تبلیغی معرکے ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔ خادم صاحبؓ نے اپنی مایہ ناز کتاب >احمدیہ پاکٹ بک< کا چھٹا ایڈیشن آپ سے معنوں کرتے ہوئے لکھا ہے :۔
>میں اپنے والد مرحوم و مغفور حضرت ملک برکت علی کا نام زیب عنوان کرتا ہوں جن کا عشق دیں اور جوش تبلیغ مجھے ورثہ میں ملا ہے اور جن کی تعلیم و تربیت سے میں خدام احمدیت میں شمار ہونے کے قابل بنا۔<۷۲4] ftr[
فصل سوم
۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں تقریب مسرت
۲۶ فتح ۱۳۳۰ ہش /۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے سالانہ جلسہ ربوہ کے افتتاح سے قبل اپنے صاحبزاہ مرزا وسیم احمد صاحب اور اپنی صاحبزادی امہ النصیر بیگم صاحبہ کے نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب کا نکاح حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی بیٹی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سے اور صاحبزادی صاحبہ کا پیر معین الدین صاحب ایم۔ ایس سی ابن حضرت پیر اکبر علی صاحب ۷۳ مرحوم سے ایک ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا تھا۔
حضور نے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ >میں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفین زندگی سے کررہا ہوں اور اس رشتہ میں میرے لئے یہی کشش تھی کہ لڑکا واقف زندگی ہے۔< ۷۴
مجاہدین احمدیت کا تبلیغی دورہ
بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے والے مجاہدین کے ایک وفد نے صوبہ پنجاب و صوبہ سرہد کا کامیاب تبلیغی دورہ کیا۔ وفد نے لائلپور` سیالکوٹ` جہلم ` راولپندی` کیمبلپور` نوشہرہ` پشاور اور لاہور جیسے مرکزی شہروں کی انفرادی مجالس اور پبلک جلسوں سے خطاب کیا۔ اور`انڈونیشیا` سنگاپور` مشرق وسطیٰ` افریقہ اور یورپ وغیرہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات کے ایمان افروز اور دلچسپ واقعات بیان کئے اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کے اسلامی مشن مسلمانان عالم خصوصاً پاکستان کے وقار اور مفادات کا ہر ممکن تحفظ و دفاع کرتے ہیں اور انڈونیشیا کی جنگ آزادی میں احمدیوں نے شاندار کردار ادا کیا ہے۔ وفد کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ مسلمانان پاکستان کو مسئلہ فلسطین کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کر کے انہیں صیہونی حکومت کے خلاف متحد ہونے کی تلقین کرے۔ چنانچہ اس پہلو پر بھی خاص زور دیا گیا۔
وفد جہاں جہاں پہنچا` مقامی جماعتوں نے اس کا پرجوش استقبال کیا اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے عمدہ مواقع پیدا کئے۔ احمدیوں کی معلومات اور قوت عمل میں اضافہ ہوا اور غیر احمدی معززین مجاہدین کے کارناموں اور تبلیغی مساعی سے بہتر متاثر ہوئے۔ ۷۵
وفد میں شامل مبلغین کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ حضرت مولانا رحمت علی صاحبؓ مبلغ انڈونیشیا )امیر وفد(
۲۔ حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایازؓ مبلغ سنگاپور
۳۔ شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ فلسطین و شام
۴۔ مولوی غلام احمد صاحب مبلغ عدن۔
۵۔ مولوی عنایت اللہ صاحب احمدی مبلغ مشرقی افریقہ
۶۔ مولوی محمدﷺ~ اسحاق صاحب ساقی مبلغ سپین۔
ربوہ میں ٹیلی فون کا اجراء
خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ربوہ میں دینی خدمت بجالانے کی ساری سہولتیں قلیل ترین عرصہ میں مہیا فرمادیں۔ ریلوے لائن پہلے ہی ربوہ کے رقبہ میں سے گزرتی تھی بعد کو اسٹیشن بھی قائم ہوگیا اور اسٹیشن` ڈاک خانہ اور تار گھرکھلنے کے بعد اس سال ۲۱ ماہ ہجرت/مئی سے ٹیلی فون بھی جاری ہوگیا۔ ربوہ سے پہلا فون امیر جماعت احمدیہ قادیان کو کیا گیا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے درج ذیل الفاظ پر مشتمل تھا۔ :۔
>جماعت کو سلام` بیماروں کی عیادت اور دعائوں کی تحریک۔<۷۶
دفاع وطن کا عہد
ماہ وفا/جولائی کے وسط میں ہندوستان کی بکتر بند فوجیں مشرقی پنجاب اور ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی حدود کے اتنے قریب فاصلہ پر جمع ہوگئیں کہ پاکستان کی سالمیت خطرہ میں پڑ گئی۔
اس نازک موقع پر مرکز احمدیت ۔۔۔ ربوہ کی طرف سے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان کے احمدی مادر وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اس سلسلہ میں ناظر صاحب امور خارجہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے وزیراعظم کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا :۔
>پاکستانی سرحدات کے قریب ہندوستانی فوجوں کے جمع ہونے کی خبر سے افسوس ہوا ہم حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ قوم کے اس نازک وقت میں پاکستان کے احمدی ہر حال میں اپنی حکومت سے پورا پورا تعاون کریں گے اور مادر وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کی خاطر ہر ممکن قربانی کے لئے ہرآن تیار رہیں گے۔< ۷۷
رسالہ الفرقان کا اجراء
وسط ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء میں مولانا ابو العطا صاحب جالندھری سابق مبلغ بلاد عربیہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے رسالہ >الفرقان< جاری فرماا۔ اس رسالہ کے تین بنیادی اغراض و مقاصد تھے۔
۱۔ قرآن مجید کے حسن کو نمایاں کرنا اور فضائل قرآنی بیان کرنا۔
۲۔ غیر مسلموں )آریوں` عیسائیوں اور بہائیوں وغیرہ( کے قرآن مجید پر اعتراضات کے جوابات۔
۳۔ اہل پاکستان میں آسان اسباق کے ذریعہ عربی زبان کی ترویج و اشاعت۔
اس رسالہ کے اولین مینجر حضرت بابو فقیر علی صاحب )والد ماجد مولانا نذیر احمد علی صاحب شہید افریقہ( مقرر کئے گئے۔ یہ رسالہ چوبیس سال سے نہایت باقاعدگی اور التزام کے ساتھ چھپ رہا ہے اور اپنے بلند پایہ اور تحقیقی مضامین کے اعتبار سے رسالہ >ریویو آف ریلیجز اردو< کی نمائندگی کرتا ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی نگاہ میں >الفرقان< کو جو علمی افادی اہمیت حاصل تھی اس کا اندازہ حضور کے مندرجہ ذیل ارشاد سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا :۔
>میرے نزدیک الفرقان جیسا علمی رسالہ تیس چالیس ہزار بلکہ لاکھ تک چھپنا چاہئے اور اس کی بہت وسیع اشاعت ہونی چاہئے۔<۷۸
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے نے لکھا :۔
>رسالہ الفرقان بہت عمدہ اور قابل قدر رسالہ ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ وسیع ہو کیونکہ اس میں تہقیقی اور علمی مضامین چھپتے ہیں ار قرآن کے فضائل اور اسلام کے محاسن پر بہت عمدہ طریق پر بحث کی جاتی ہے۔ ایک طرح سے یہ رسالہ اس غرض و غایت کو پورا کررہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر رسالہ ریویو آف ریلیجز اردو ایڈیشن کے جاری کرنے میں تھی۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ خواہش بڑی گہری اور خدا کی پیدا کردہ آرزو پر مبنی ہے کہ اگر ایسے رسالہ کی اشاعت ایک لاکھ بھی ہو تو پھر بھی دنیا کی موجودہ ضرورت کے لحاظ سے کم ہے۔ پس مخیر اور مستطیع احمدی اصہاب کو یہ رسالہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں خود خریدنا چاہئے بلکہ اپنی طرف سے نیک دل اور سچائی کی تڑپ رکھنے والے غیر احمدی اور غیر مسلم اصہاب کے نام بھی جاری کرانا چاہئے۔ تا اس رسالہ کی غرض و غایت بصورت احسن پوری ہو اور اسلام کا آفتاب عالمتاب اپنی پوری شان کے ساتھ ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کرے۔<۷۹
دفتر >حفاظت مرکز< ربوہ میں
دفتر >حفاظت مرکز ہند< جو قریباً تین برس سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی نگرانی میں جو دھامل بلڈنگ )لاہور( میں قائم تھا اس سال کے آغاز میں ربوہ منتقل ہوگیا ۸۰ اور حضڑت میاں صاحبؓ بھیاس جدید مرکز میں رہائش پذیر ہوگئے۔
اس دفتر کا نام سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی منظری سے ۷ ماہ شہادت ۱۳۳۹ ہش/۷ ماہ اپریل ۱۹۶۰ء کو خدمت درویشاں رکھا گیا۔ حضور کے الفاظ مبارک یہ تھے >خدمت درویشاں نام بدل دیں< حضور کا یہ ارشاد اس دفتر میں زیر نمبر ۹۲۷۔۶۰۔۴۔۷ ریکارڈ شدہ ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے نام مبارکباد کا پیغام
۴۔ صلح/جنوری سے لنڈن میں دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس ہورہی تھی۔ وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جائے گا وہ اس میں شامل نہین ہوں گے۔ اس جرات مندانہ اقدام پر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے درج ذیل الفاظ میں ان کو مبارکباد کا پیغام دیا:۔
>آپ نے دولت مشترکہ کے وزیراعظم کی کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کی شمولیت پر زور دیتے ہوئے جس عزم و ثبات کا اظہار کیا ہے میں اس پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اگرچہ ہمارے جماعت کے نزدیک دولت مشترکہ کی رکنیت بھی اہم ہے لیکن اس کے نزدیک یقیناً پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کا سوال اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے خیر سگالی کا جذبہ بیشک ایک قابل قدر اور نہایت بیش قیمت چیز ہے لیکن اپنے ملک کے مفاد کے لئے ثابت قدمی دکھانا بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔ خدا آپ کے ساتھ ہو۔<۸۱
درویشان قادیان کے اہل و عیال کی واپسی
اس سال ایک لمبی جدوجہد اور انتظار کے بعد بارہ درویشوں کے اہل و عیال )جو انقلاب ہجرت کے باعث پاکستان میں آگئے تھے( واپس قادیان جا کر آباد ہوگئے اور یہ سب ان درویشوں کے رشتہ دار تھے جو شروع سے ہندوستان کے باشندے تھے۔ ان بارہ خاندانوں میں سے ایک تو کچھ عرصہ قبل قادیان چلا گیا تھا اور باقی ۲۸ ماہ احسان/ جون کو واپس گئے تھے۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مصنف >اصحاب< اس واقعہ کی تفصیل میں تحریر فرماتے ہیں :۔
>۱۹۴۸ء سے اہل و عیال کی واپسی کے لئے کوشش ہورہی تھی بالاخر حکومت ہند کی طرف سے چند ماہ قبل اہل و عیال منگوانے کی اجازت ملی اور حکومت پاکستان نے بھی اس کی اجازت دیدی گویا دونوں حکومتوں کے اتفاق رائے سے یہ کام ہوا۔ لیکن گزشتہ ماہ کی ابتداء میں اچانک یہ روح فرسا اطلاع گورنمنٹ ہند کی طرف سے آئی کہ اجازت کی میعاد گزر چکی ہے۔ اس میعاد کی ادھ اور ادھر کے منتظمین کو کوئی اطلاع نہ تھی بلکہ یہ اطلاع تھی کہ کوئی میعاد مقرر نہیں ہے۔ بہرحال منسوخی کی اطلاع ملنے پر صدر انجمن احمدیہ قادیان نے مکرم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز اور خاکسار کو اس سلسلہ میں ولی بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۲ جون کو میعاد توسیع منظور ہو کر لاہور اطلاع چلی گئی۔ پاکستان حکومت کی طرف سے میعاد ۳۰ جون تک کی تھی۔ وقت بہت تنگ تھا اور درویشوں کے اہل و عیال متفرق مقامات پر تھے۔ ان کے جلد اور بروقت پہنچنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بہت ہی سعی فرمائی جو خدا کے فضل سے مشکور ہوئی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء قریباً سارے دوست جن کے اہل و عیال آرہے تھے۔ فون پر اطلاع ملنے پر استقبال کے لئے واہگہ بارڈر پر پہنچ گئے۔ نظارت امور عامہ کی طرف سے انتظام کے لئے اخویم فضل الٰہی صاحب مقرر تھے۔ ۲۸ جون کو گیارہ درویشوں کے اہل و عیال قریباً ساڑھے بجے دن سرحد پاکستان عبور کر کے سرزمین ہند میں داخل ہوئے جہاں سے لاری کے ذریعہ ساڑھے چھ بجے شام روانہ ہو کر قریباً ۸ بجے شام بٹالہ اور وہاں سے ڈیڑھ بجے شب بخیریت تمام قادیان پہنچے۔ سڑک کی خرابی کی وجہ سے قادیان کے راستہ میں ٹرک پھنس گیا اس وجہ سے کافی وقت صرف ہوگیا جوں جوں ان کی آمد میں دیر ہوتی جاتی تھی۔ درویشوں کا اشتیاق اور فکر بڑھتا جاتا تھا اور وہ دست بدعا تھے کہ اللہ تعالیٰ قافلہ کو خیریت سے لائے۔ احمدیہ چوک )نزد مکان حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب( میں درویش ہلال عید کی طرح چسم براہ تھے اور قافلہ کی آمد پر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔< ۸۲
جماعت احمدیہ پشاور کی نئی جامع مسجد
پشاور میں ۱۹۲۳ء سے صرف ایک احمدیہ مسجد کوچہ گلہ اوشاہ میں تھی۔ اب اس سال حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجکیؓ مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تحریک پر سول کوارٹرز میں دوسری عالیشان مسجد بنی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مولانا صاحب~رضی۱~ نے ۲۸ ماہ شہادت ۱۳۳۰ ہش/۲۸ اپریل ۱۹۵۱ء بروز اتوار صبح آٹھ بجے رکھا بنیاد کے بعد آپ نے احادیث نبوی اور اسلامی واقعات کی روشنی میں تعمیر مسجد میں حصہ لینے کی اہمیت بتائی جس پر احمدی دوستوں نے نایت اخلاص اور فراخدلی سی چندہ فرہام کیا یکم شوال ۱۳۷۱ ھ مطابق ۲۴ جون ۱۹۵۲ء کو حضرت مولانا مہبی نے اس میں نماز عید پڑھا کر اس کا افتتاح کیا۔
یہ مسجد صوبہ سرحد کی احمدی مساجد میں سب سی وسیع مسجد ہے اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے حیات قدسی ۸۳< جلد سوم صفحہ ۰۰۱ پر اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فاروقی امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد نے اپنی کتاب >تاریخ احمدیہ ۸۴ )سرحد( کے صفحہ ۹۷ پر اس مسجد کا تذکرہ فرمایا ہے۔
قادیان سے رسالہ >درویش< کا اجراء
قادیان کے اہل علم و قلم درویشوں نے ۱۲ صلح ۱۳۲۷ ہش/۱۲ جنوری ۱۹۴۸ء کو >بز درویشاں< کے نام سے ایک علمی مجلس قائم کی جس کا مقصد اسلامی طریق پر فن تقریر سکھانا اور دینی اور علمی قابلیت میں اضافہ کرنا تھا۔ اس مجلس کی ابتدائی دو تین سال درویشوں میں تقریری شوق پیدا کرنے کے لئے وقف رہے ماہ فتح ۱۳۲۹ ہش/دسمبر ۱۹۵۰ء میں مجلس کی پہلی تحریری جدوجہد ایک مجموعہ نظم و نثر کی صورت میں سامنے آئی جس کا نام بھی >درویشان قادیان< تھا۔ ازاں بعد بزم نے اپنے اجلاس )مورخہ ۴ صلح ۱۳۳۰ ہش / ۴ جنوری ۱۹۵۱ء( میں قادیان سے ایک ماہنامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس رسالہ کا نام >درویش< تجویز فرمایا جس کا پہلا شمارہ ماہ تبوک ۱۳۳۰ ہش/ستمبر۱۹۵۱ء میں شائع ہوا۔
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اس رسالہ کے لئے حسب ذیل پیغام بذریعہ تار ارسال فرمایا :۔
‏IDARWESHAN۔BAZM
‏QADIAN MASIH DARUL ALI MOBARIK O/o
‏ faith your to or God your to do you service Whatever straightiorward, be honst, be earnest, be conuntry, and is work your If you help to people upon look don't۔you help will nobody not if you, help will God God, for
51۔26 RABWAH MASIH KHALIFATUL
)ترجمہ( آپ اپنے خدا` مذہب اور ملک کی خاطر جو خدمت بھی انجام دیں اس میں پوری سنجیدگی` دیانتداری اور استنبازی سے کام لیں۔ انسانی امداد پر انحصار نہ رکھیں۔ اگر آپ کا کام محض اللہ کے لئے ہے تو وہ خود آپ کی تائید و نصرت فرمائے گا ورنہ کوئی فرد آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔
خلیفتہ المسیح
۲۶ جولائی۱۹۵۱ ربوہ
رسالہ >درویش< نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کی نگرانی میں چھپتا تھا اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اس کے نگران تھے۔ مولوی مبارک علی صاحب طالب پوری` چوہدری سعید احمد صاحب بی۔ اے آنرز` محمد صادق صاحب ناقد لائلپوری نے بالترتیب اس کی ادارت کے اور مکرم یونس احمد صاحب اسلم نے تابع و ناشر کے فرائض انجام دیئے ابتداً یہ رسالہ پریم پرنٹنگ پریس امرتسر سے چھپوایا گیا۔ پھر راما آرٹ پریس امرتسر سے طبع ہونے لگا۔ رسالہ کا سرورق منارۃ المسیح کے نہایت دلکش اور خوبصورت فوٹو سے مزین ہوتا تھا۔
انقلاب ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد مرکز سے شائع ہونے والا یہ پہلا رسالہ تھا اور اسے ہندوستان اور پاکستان کے مشہور احمدی علماء اور ادباء کی علمی و ادبی سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے مضمون نگاروں میں حضرت عرفانی الکبیرؓ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ حضرت مرزا برکت علی صاحب جیسی بزرگ صحابہ اور مولانا ابو العطاء صاحب` مولوی شریف احمد صاحب امینی ` مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیری` مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری` ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔ اے اور مولوی مد ابراہیم صاحب مجاہد بلاد عربیہ جیسے علماء اور سید اختر احمد صاحب اور نینوی ایم ۔ اے پٹنہ کالج جیسی اوباء اور شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت` سید ارشد علی صاحب لکھنوی اور پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب جیسے فاضل شامل تھے۔
احمد شعراء میں سے خاص طور پر چوہدری عبدالسلام صاحب اختر` جناب قیس سینائی صاحب` جناب مصلح الدین صاحب راجیکی` جناب عبدالمنان صاحب ناہید اور جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کا کلام رسالہ کی زینت بنتا رہا۔
۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء میں ادارہ >درویش< کا دفتر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کی بلڈنگ میں قائم تھا اور بزم درویشاں کی لائبریری بھی یہیں تھی۔۸۵
یہ ماہنامہ ماہ ۱ خاء ۱۳۳۱ ہش/اکتوبر ۱۹۵۲ء تک جاری رہا اور پھر اقتصادی مشکلات کے باعث بند کردیا گیا۔ ۸۶
پیغام امام جماعت احمدیہ سیر الیون کے نام
حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ سیر الیون کے سالانہ جلسہ ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے لئے مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران جماعت احمدیہ ملک سیر الوین !!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
یہ پیغام میں آپ کے ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء جلسہ کے لئے بھجوارہا ہوں۔ آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے۔ لیکن آپ کا ملک چار طرف سے ایسے علاقوں سے گھرا ہوا ہے جو احمدیت سے ناآشنا ہیں۔ پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہوجاتے ہیں۔ پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور کوشش کو بڑھائیں اور نہ صرف اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں بلکہ لائبریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو ادا کریں گے تو آپ کے لئے آخرت میں بہت سا ثواب جمع ہوجائے گا۔ اور اس دنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر سچے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاص اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کرے۔
خاکسار )دستخط( مرزا محمود احمد
خلیفتہ المسیح الثانی ۸۷
دعائوں کی خاص تحریک
تحریک احمدیت کا ایک عظیم مقصد دعا پر زندہ اور غیر متزلزل ایمان بھی ہے اسی لئے سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نئے سے نئے انداز میں جماعت احمدیہ کو اس نقطہ مرکز یہ کی اہمیت و ضرورت کا احساس تازہ رکھتے تھے۔ اس مستقل دستور کے مطابق آپ نے ۲۸ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۲۸ ستمبر ۱۹۵۱ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :۔
>خدا تعالیٰ جس کی نصرت پر آتا ہے کوئی طاقت اس کا کچھ بگاڑ نہین سکتی پس اگر دینوی امور میں وہ اس طرح مدد کرتا ہے تو وہ دینی باتوں میں کس طرح مدد نہ کرے گا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس راتوں کو اٹھو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکسار کرو۔ پھر یہی نہیں کہ خود دعا کرو بلکہ یہ دعا بھی کرو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیار مل جائے۔ ایک سپاہی جیت نہیں سکتا۔ جتنی فوج ہی ہے۔ اسی طرح اگر ایک فرد دعا کرے گا تو اس کا اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا ایک جماعت کی دعا کا فائدہ ہوگا۔ تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعتکے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہوجائے کہ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جماعت کے سب افراد مین ایک آگ سی لگ جائے۔ ہر احمدی اپنے گھر پر دعا کررہا ہو۔ پھر دیکھو خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے ؟< ۸۸
جلسہ >سیرۃ النبیﷺ<~ میں حضرت مصلح موعودؓ کی ایمان افروز تقریر
۱۸ ماہ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۱۸ نومبر ۱۹۵۱ء کو پاکستان کے طول وعرض میں جماعت احمدیہ کے زیراہتمام وسیع پیمانے پر سیرۃ النبیﷺ~ کے جلسے منعقد ہوئے۔
اس تقریب پر حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ میں ایک معرکتہ الاراء تقریر فرمائی جس میں سورۃ علق کی سب سے پہلی قرآنی وحی سے نہایت لطیف استدلال کر کے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفٰے~صل۱~ کے ارفع و اعلیٰ و رعدیم المثال خلق عظیم کا روح پرور نقشہ کھینچا۸۹
مبلغین احمدیت کی روانگی اور آمد
اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت بغرض تبلیغ اسلام بیرونی ممالک کو روانہ ہوئے :۔
۱۔ مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر )برائے سیلو۔ روانگی ۱۶۔ وفا ۱۳۳۰ ہش(
۲۔ شیخ نور احمد صاحب منیر )برائے لبنان ۔ روانگی ۶ ظہور ۱۳۳۰ ہش(
۳۔ مولوی غلام احمد صاحب مبشر )برائے حلب۔ روانگی ۶ ظہور ۱۳۳۰ ہش(
۴۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل )برائے سیر الیون۔ روانگی ۲۴ تبوک ۱۳۳۰ ہش(
علاوہ ازیں مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب )مبلغ لنڈن( مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب )مبلغ جرمنی( مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب )مبلغ گولڈ کوسٹ( مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب )مبلغ فرانس( مکرم ملک احسان اللہ صاحب )مبلغ مغربی افریقہ( مکرم قریشی مقبول احمد صاحب )مبلغ انگلستان( اور مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی )مبلغ اردن و شام و لبنان( اعلائے کلمہ اسلام کا فریضہ بجا لانے کے بعد مرکز میں واپس تشریف لائے۔ ۹۰
‏0] fts[بیرونی ممالک میں احمدیﷺ~ مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں
لبنان ۔ لبنان میں احمدیت کا بیج ۱۳۲۹ ہش/۱۹۵۰ء میں بویا گیا جہاں مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو اردن و شام میں دعوت حق دینے کے بعد بھجوایا گیا تھا اور جن کے ذریعہ سید فائز الشہابی داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔ یہ پہلے لبنانی تھے جنہیں احمدیت کی نعمت نصیب ہوئی۔ ان کے بعد اس سال السید حسن احمد قزق` السیدہ فخریہ زوجہ ہسن اور الحاج حسین قزق نے بیعت کی اور لبنان میں مقامی احمدیوں کی ایک مختصر جماعت قائم ہوگئی۔
مکرم مولوی رشید اہمد صاحب چغتائی نے پریس اور نیوز ایجنسی سے رابطہ قائم کیا اور ملک کی ممتاز شخصیتوں )مثلاً رفیق بے قصار` لبنانی قانون دان مسٹر فوا درزق ڈاکٹر عمر فروخ وغیرہ( سے ملاقاتین کیں اور ان تک تحریک احمدیت کی آواز پہنچائی۔ آپ نے لبنان کے علمی حلقوں میں کشتی نوح استنقاء حمامتہ البشریٰ` اسلامی اصول کی فلاسفی ` ابطال الوہیت` اور پیغام احمدیت کی بھی اشاعت کی ۔
جناب چغتائی صاحب اسی سال واپس مرکز میں آگئے اور ان کی جگہ جناب شیخ نور احمد صاحب منیر تشریف لے گئے۔
امریکہ
یہ سال امریکہ مشن کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں واشنگٹن کے اندر ایک تین منزلہ مکان خرید کر مسجد فضل کا قیام ہوا۔ یہ مسجد دارالتبلیغ اور لائبریری کے لئے بھی استعمال ہوئی ہے اور امریکہ بھر میں تربیت و اصلاح ` تبلیغ اسلام اور لٹریچر کی تقسیم و اشاعت کا مضبوط اور فعال مرکز ہے۔
اس مسجد میں بااثر طبقہ کے مسلمانوں کے علاوہ نامور غیر مسلم شخصیتوں کی آمد کا باقاعدہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تمام امریکن مشنون پر کنٹرول اور ان کی تنظیم` ان کے چندوں کے انفرادی حسابات` احباب جماعت کے خطوط اور غیر مسلم اصحاب کے سوالوں کے جوابات` امریکن پریس میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کی اشاعت پر ان کی تصحیح کا انتظام` اہم اداروں` لائبریریوں ` یونیورسٹیوں سے رابطہ مستشرقین سے تعلقات کا قیام` اور اسلام و احمدیت کے لٹریچر کی وسیع تقسیم و اشاعت وغیرہ سب امور مسجد فضل امریکہ کی دینی سرگرمیوں کا ایک مستقل حصہ ہیں۔ تعمیر مسجد کے بعد نئی دنیا کے تین ہزار میل پر پھیلے ہوئے لمبے محاذ پر اشاعت اسلام کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی۔ ۹۱
>امریکن احمدیوں کی چوتھی سالانہ کنونشن یکم ۲ تبوک/ستمبر کو کلیو لینڈ میں منعقد ہوئی جس میں دو سو مندوبین نے شرکت کی۔ کنونشن میں تربیتی تقاریر کے علاوہ گزشتہ سال کی کارگزاری اور آئندہ سال کے پروگرام پر بھی غور و فکر کیا گیا ۔ ۹۲
اس سال امریکہ مشن کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی مندرجہ ذیل تحریرات شائع کی گئیں :۔
۱۔ کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی )حضرت مصلح موعودؓ(
۲۔ ISLAM I BELIEVE I WHY )حضرت مصلح موعودؓ(
۳۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام )اس کے امریکن ایڈیشن کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دیباچہ بھی رقم فرمایا(
۴۔ CULTURE> ISLAMIC OF BASIS THE AS PRINCIPLES <MORAL )مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(۹۳
واشنگٹن کے اخبار >واشنگٹن پوسٹ< نے اپنے ۲۲ مارچ ۱۹۵۱ء کے ادارتی نوٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے متعلق ایک نازیبا فقرہ اور بے بنیاد محاورہ استعمال کیا جس پر احمدیہ مشن کی طرف سے پرزور احتجاج کیا گیا۔ مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج مبلغ اسلام امریکہ نے ایڈیٹر کے ام خط لکھا اور اس افسوسناک حرکت کو آنحضرتﷺ~ کی توہین اور دنیا بھر کے ۳۵۰ ملین مسلمان کی دل آزاری کے مترادف قرار دیا۔
یہ خط واشنگٹن پوسٹ نے ۲۶ ۹۴ مارچ کو قارئین کے کالم میں TO> <OFFENCE MUSLIMS کے عنوان میں سے من و عن شائع کردیا۔
اس موثر احتجاج کا ذکر امریکن رسالہ PATHFINDER نے ۱۸ اپریل ۱۹۵۱ء کے پرچہ میں بھی کیا۔
نائیجیریا
اس سال مکرم مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی انچارج مشن نے تحریک احمدیت سے روشناس کرنے اور مرکز احمدیت اور دیگر جماعتی خبروں کو بروقت افراد جماعت تک پہنچانے کے لئے لیگوس سے >دی نائیجریا احمدیہ بلٹین< BULLENTIN) AHMADIYYA NIGERIA (THE جاری کیا جو پہلے سائیکلوسٹائل ہوتا تھا پھر )اگست ۱۹۵۱ء سے( پریس میں چھپنے لگا۔ بلیٹن کو ابتدائی مراحل میں ہی ایسی غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی کہ اسے دسمبر ۱۹۵۱ء میں TRUTH> <THE کے نام سے ایک باتصویر ماہوار اخبار کی صورت دے دی گئی جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا :۔
>اخبار ٹروتھ کا اجراء خوشکن ہے خدا کرے اس میں ترقی ہو۔ اخبار کو اچھا بنائیں یہ آمد کا بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اپنا پریس بھی بنانے کی کوشش کریں اس کے ذریعہ بہت کامیابی ہوسکتی ہے۔ آپ پہلی تجارت پریس کے ذریعہ ہی سروع کریں۔ اس ملک میں پریس کی زیادہ ضرورت ہے۔<
اس کے بعد تحریر فرمایا :۔
‏Truth> کا پرچہ ملا۔ بہت بڑی کامیابی ہے۔ خدا کرے اس سے بڑا ہو۔<
پھر حضور نے اس دلی خواہش کا اظہار فرمایا کہ :۔
>میں سمجھتا تھا کہ آپ کا اخبار ہفتہ وار ہے اب معلوم ہوا ماہوار ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہفتہ وار کرنے کی توفیق بخشے اور خدا کرے پھر روزانہ ہوجائے۔<
اس ارشاد پر جولائی ۱۹۵۲ء میں پرچہ کے سائز کو دگنا کر کے اسے ہفتہ وار کردیا گیا۔ یہ اخبار نائیجیریا میں پہلا مسلم اخبار ہے جو اب تک نہایت کامیابی سے ملکی` قومی اور ملی خدمات بجالارہا ہے۔
حضرت امیرالمومنینؓ نے ہفتہ وار ایڈیشن لکھا :۔
>اللہ تعالیٰ ہفتہ واری اخبار مبارک کرے۔ نائب ضرور رکھیں۔ اور پریس کو اور سکول کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ ملک کی آزادی سے پہلے زبردست جماعت بنالیں چار پانچ لاکھ کی جماعت تو شروع میں ضرور ہونی چاہئے۔ ۹۵
انڈونیشیا
انڈونیشیا میں تحریک احمدیت کو اس سال انڈونیشیا کے طول و عرض میں کئی اعتبار سے نمایاں کامیابی نصیب ہوئی اور ترقی کے نئے دروازے کھل گئے۔ دوران سال قریباً آٹھ سو نفسو مہدی موعود کی جماعت میں شامل ہوئے۔ ملک کی احمدی جماعتوں میں تنظیم اور یکجہتی کا دور جدید شروع ہوا اور ان کے چندوں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ باقاعدگی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ اس سال پہلے سالوں کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ آمد ہوئی۔ اس کے عالوہ طوعی چندوں کی کئی مدات میں انفرادی اور اجتماعی طور پر جماعت انڈونیشیا نے اپنے اخلاص و قربانی کا شاندار نمونہ پیش کیا گزشتہ مالی سال ۹۶ سال میں چونسٹھ ہزار آٹھ سو چھتیس روپے چندہ عام اور حصہ آمد میں جمع ہوئے جب کہ ان مدات میں اس سال ہجرت/مئی سے لے کر اخاء/ اکتوبر تک کی صرف ششماہی آمد باون ہزار روپیہ ہوئی۔
اس سال تا سکملایا میں جماعت نے ایک بار موقعہ جگہ زمین اور مکان خرید کر اسے دار التبلیغ میں تبدیل کردیا۔ جا کرتا کی خستہ مسجد ایک وسیع اور پختہ مسجد کی صورت میں از سر نو تعمیر کی گئی۔ اس کے پہلو میں مبلغ کے لئے رہائشی مکان اور اس کے اوپر مہمان خانہ بنایا گیا۔ پاڈانگ کے ایک پرانے احمدی تاجر باگنڈا ذکریا۹۷ صاحب نے اپنی گنرہ سے ایک بار موقعہ اور وسیع قطعہ زمین اور مکان خرید کر جماعت کے نام وقف کردیا۔
ماہ تبلیغ ۱۳۳۰ ہش/فروری ۱۹۵۱ء میں جا کرتا میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی گئی جس کے چند ماہ بعد مجلس اپنا رسالہ سینار اسلام Islam) (Sinar جاری کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
احمدی مبلغین کو دوران سال کئی ایک انڈونیشین لیڈروں` احکام اور دوسری بڑی شخصیتوں سے ملاقاتوں کا موقعہ ملا۔ مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ اس سال بھی حسب سابق ملک کے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر سکارنو (Sukarno) کی طرف سے کئی تقریبوں پر مدعو تھے۔ شاہ صاحب کا تعارف ڈاکٹر سکارنو سے پہلی بار مارچ ۱۹۴۷ء میں ہوا تھا جب کہ آپ نے تبلیغی مقاصد کے لئے جو گجا کرتا میں ان کے محل میں ملاقات کی اور لٹریچر پیش کیا۔
اس سال کا اہم واقعہ جماعت ہائے انڈونیشیا کی تیسری سالانہ کانفرنس ۹۸ کا انعقاد ہے جو ۲۷۔۲۸۔۲۹ ماہ فتح/دسمبر کو پاڈانگ )سماٹرا( میں ہوئی پہلی دو کانفرنسیں جاوا میں ہوئیں جہاں احمدیوں کی تعداد زیادہ ہے اور ذرائع آمد و رفت میں سہولتیں بھی ہیں لیکن سماٹرا میں معاملہ اس کے برعکس تھا اور جاوا سے آنے والوں کے پندرہ بیس دن صرف ہوتے تھے۔ مرکزی عہدیداران میں نوے فیصدی سرکاری ملازم تھے جن کے لئے اتنی چھٹی کا ملنا مشکل تھا پر اخراجات سفر کا سوال الگ تھا لیکن ان مشکلات کے باوجود یہ کانفرنس نہایت کامیاب اور ازدیاد ایمان کا باعث ہوئی۔ پہلے روز مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس المبلغین` مکرم مولوی عدالواحد صاحب` مکرم مولوی امام الدین صاحب` مکرم مولوی محمد ایوب صاحب` مکرم مولوی ذینی دھلان صاحب` مکرم سوکری` برماوی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ انڈونیشیا اور دیگر نمائندگان جماعت نے خطاب فرمایا۔ دوسرے دو دن جماعت احڈیہ انڈونیشیا کی ترقی و بہبود کے لئے بعض تجاویز زیر غور لائی گئیں۔ اور ایک لاکھ چوراسی ہزار روپیہ کا بجٹ منظور کیا گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب کہ جماعت کی آمد و خرچ کا تفصیلی بجٹ جماعت نمائندوں کے سامنے رکھا گیا۔ بجٹ کے اعلان پر پریس کے رپورٹر حیران رہ گئے کہ ایک چھوٹی سی جماعت کس قدر اخلاق اور جوش سے اتنی بھاری رقم ادا کرنے کا وعدہ کررہی ہے۔
آخری اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ چوتھی سالانہ کانفرنس تاسکملایا میں ہوگی۔ اس اجلاس میں مبلغین احمدیت نے دوبارہ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آخر میں جماعت پاڈانگ کے مخلص پریذیڈنٹ جناب ابوبکر نے دردناک تقریر کی جس سے اکثر احباب چشم آب ہوگئے۔ کانفرنس ایک لمبی اور پرسوز دعا پر اختتام پذیر ہوئی۔
اگلے روز پاڈانگ کے ایک بڑے سینما ہال کیپٹل میں جماعت کا تبلیغی جلسہ ہوا جس کی تفصیلی روداد مقامی پریس اور ریڈیو دونوں نے نشر کی۔
مجاہدین انڈونیشیا ہمیشہ ہی اپنے اپنے رنگ میں پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھتے رہے ہیں۔ انڈونیشیاء میں پاکستان لیگ کا قیام سید شاہ محمدﷺ~ صاحب کی کوشش سے ہوا۔ آپ ان دنوں مرکزی آل انڈیا پاکستان لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی تھے جو گجا کرتا جس زمانہ میں جمہوریہ انڈونیشیا کا دارالحکومت تھا۔ آپ کو پاکستان کے لئے شاندار جدوجہد کرنے کا موقعہ ملا۔ اس مرکزی شہر میں آپ نے اس محنت سے ملک و قوم کی خدمت کی کہ معلوم ہوتا تھا آپ پاکستان کے باقاعدہ نمائندہ ہیں۔ ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب سابق سفیر پاکستان برائے انڈونیسیاء جو گجا کرتا کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آپ کو مقامی اکابرین کے ذریعہ شاہ صاحب کی ان سنہری خدمات کا علم ہوا اور آپ بہت متاثر ہوئے۔ اس سال ڈاکٹر صاحب اپنے دورے میں جہاں جہاں بھی تشریف لے گئے مبلغین سلسلہ اور دیگر احمدی افراد نے ان سے پورا پور اتعاون کیا خاص طور مکرم ڈاکٹر عبدالغفور صاحب احمدی سرا بابا نے )جن کی پرخلوص خدمات کو خود ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب نے خراج تحسین ادا کیا( بالی میں میاں عبدالحی صاحب مبلغ جزیرہ بالی نے ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں مقامی حکام ورئو ساء بھی مدعو تھے۔ تاسکلمایا میں پاکستان لیگ کے صدر مکرم ملک عزیز احمد صاحب تھے جنہوں نے اس سال ماہ ظہور/اگست میں پاکستان کے متلعق ایک مختصر کتاب بھی تصنیف فرمائی ۹۹۔
شام السید منیر الضنی امیر جماعت احمدیہ شام کے قلم سے >عثرت العلاما فی مخالفہ الاحمدیتہ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی۔
نئی مطبوعات
اس سال برصغیر پاک و ہند میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئیں جن سے سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ ہوا:۔
۱۔ اسلام اور مذہبی رواداری
)تقریر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ
۲۔ اصحاب احمد۔ جلد اول
)ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے درویش قادیان(
۳۔ کتاب الاداب
)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ
۴۔ حیات احمد۔ جلد دوم نمبر سوم
)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ
۵۔ حیات احمد۔ جلد دوم نمبر سوم
)حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ(
۶۔ اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ
)حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۷۔ اشتراکیت اور اسلام
)حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۸۔ اسلام اور اشتراکیت
)چوہدری سردار احمد صاحب بزمی مولویفاضل جامعہ احمدیہ(۱۰۰
۹۔ >تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات<
‏]2lcol )[tagخطبات مصلح موعودؓ کا سلسلہ مرتبہ ادارہ ترقی اسلام سکندر آباد و دکن(
۱۰۔ یومیہ ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء
)نظارت دعوۃ و تبلیغ کی تیار کردہ سالانہ ڈائری(
ان کتابوں کے علاوہ صیغہ نشر و اشاعت ربوہ کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب >احمدیت کا پیغام )انگریزی( ساڑھے سات ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی نیز ۴۱ مختلف عنوانات کے تحت ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ اور ٹریکٹ بھی چھپوائے گئے۔ ۱۰۱
‏20] p[فصل چہارم
افتاء کمیٹی کا احیاء سالانہ پروگرام بنانے اور صوبجاتی نظام کو مستحکم کا فرمان تبلیغ اسلام کی موثر تحریک اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدوجہد بے لوث قومی خدمات بجالانے کی تلقین چوہدری محمدحسین صاحبؓ کی المناک شہادت جلسہ سیالکوٹ پر منظم یورش
)خلافت ثانیہ کا انتالیسواں سال )۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء(
افتاء کمیٹی کا احیاء
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء میں فقہ اسلامی کے مختلف مسائل پر غور و فکر کرنے کے لئے ایک افتاء کمیٹی قائم فرمائی تھی ۱۰۲ جس کا احیاء اس سال عمل میں آیا اور اس کے دور لو کا پہلا صدر ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدہ و پرنسپل جامعتہ المبشرین کو اور پہلا سیکرٹری مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو مقرر فرمایا۔
اس سلسلہ میں حضور کے قسلم سے الفضل ۱۱ صلح ۱۳۳۱ ہش کو حسب ذیل اعلان شائع ہوا :۔
>جیسا کہ جلسہ پر اعلان یا گیا تھا فقہی مسائل پر یکجائی غور کرنے اور فیصلہ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کی ایک کمیٹی مقرر کی جاتی ہے۔ تمام اہم مسائل پر فتویٰ اس کمیٹی کے غور کرنے کے بعد شائع کیا جائے گا۔
ایسے فتاویٰ خلیفہ وقت کی تصدیق کے بعد شائع ہوں گے اور صرف انہی امور کے متعلق شائع ہوں گے جن کو اہم سمجھا گیا ہو۔ ایسے فتاویٰ جب تک ان کے اندر کوئی تبدیلی نہ کی گئی ہو یا تنسیخ نہ کی گئی ہو` جماعت احمدیہ کی قضاء کو پابند کرنے والے ہوں گے اور وہ ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی۔ ہاں وہ ان کی تشریح کرنے میں آزاد ہوگی لیکن اگر وہ تشریح غلط ہو تو یہی مجلس فتویٰ دہندہ اس تشریح کو غلط قرار دے سکتی ہے۔
اس کمیٹی کے ممبر فی الحال مندرجہ ذیل ہوں گے :۔
۱۔ مولوی سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعتہ المبشرین ۲۔ مولوی جلال الدین صاحب شمس ۳۔ مولوی راجیکی صاحب ۴۔ مولوی ابو العطاء صاحب ۵۔ مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۶۔ مولوی محمد احمد صاحب جلیل نمائندہ قضاء ۷۔ مولوی تاج دین صاحب نمائندہ قضا ۸۔ مولوی نذیر احمد صاحب ۱۰۳ پروفیسر جامعہ احمدیہ ۹۔ مولوی محمد صدیق صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین ۱۰۔ مولوی خورشید احمد صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین ۱۱۔ مرزا بشیر احمد صاحب ۱۲۔ مرزا ناصر احمد صاحب ۱۳۔ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا ۱۴۔ شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ لائلپور ۱۵۔ چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج۔
ان ممبران ۱۰۴ کا اعلان سال بہ سال خلیفہ وقت کی طرف سے ہوا کرے گا اور ایک سال کے لئے یہ ممبر نامزد کئے جایا کریں گے۔ مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ممبر اس میں سے بدلے جایا کریں تاکہ جماعت کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے۔ خاص امور کے متلعق خلیفہ وقت اس انجمن کا اجلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن اس کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کرے گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے۔ مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ممبر اس میں سے بدلے جایا کریں تاکہ جماعت کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے۔ خاص امور کے متعلق خلیفہ وقت اس انجمن کا اجلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن ان کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کری گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے۔ سردست اس کمیٹی کے صدر جامعتہ المبشرین کے پرنسپل ملک سیف الرحمن صاحب ہوں گے اور اس کے سیکرٹری مولوی جلال الدین صاحب شمس ۔
>مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۵۲۔۷۔۱<
یہ مجلس جس کی بنیاد سیدنا محمودؓ جیسے خلیفہ موعود کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی تھی۔ خدا کے فضل سے اب بھی خلیفہ وقت کی زیر نگرانی گرانقدر فقہی خدمات بجا لارہی ہے۔ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے قاعدہ ۸۷ کے مطابق جن امور میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے وحدت فکری کے بھی متقضی ہوتی ہیں ان کے بارے میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فتویٰ کی بجائے مجلس افتاء فیصلہ کرتی ہے۔
مجلس افتاء کے سال میں کم از کم چار اجلاس ضرور منعقد ہوتے ہیں ۱۰۵۔ اجلاس کو کورم دس مقرر ہے۔ ۱۰۶ ممبران مجلس کے لئے حکم ہے کہ وہ بیماری یا عدالت میں پیشی کے سوا بہرحال شریک اجلاس ہون یا کم از کم سیکرٹری مجلس کو اجلاس سے ایک روز قبل اپنی معذوری سے مطلع کردیں ورنہ وہ غیر حاضر متصور ہوں گے ایسے رکن سے باز پرس ہوسکے گی۔ ۱۰۷
مجلس افتاء کے فیصلہ )۲۸ ماہ شہادت ۱۳۴۱ ہش/ اپریل ۱۹۶۲ء( کے مطابق اگر کوئی ایسا مسئلہ مجلس افتاء کے زیر بحث آئے جو کسی رکن مجلس کے تنازع متدائرہ قضاء پر اثر انداز ہوتا ہو تو وہ رکن اس مسئلہ کی بحث اور فیصلہ میں شریک نہیں ہوسکتا۔ ۱۰۸
خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں جن مسائل پر مجلس افتا نے غور و فکر کیا ان میں سود اور انشورنس کا مسئلہ خاص طور پر قال ذکر ہے۔ اول الذکر مسئلہ پر مولوی ابو العطاء صاحب` صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور ملک سیف الرحمن صاحب نے ٹھوس اور پرمغز تحقیقی مقالے لکھے جو مجلس افتاء کی طرف سے >اسلام اور ربو< کے عنوان سے شائع شدہ ہیں۔
‏tav.13.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
فہرست اراکین مجلس افتاء
)از ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء تا ۱۳۵۴ ہش/۱۹۷۵ء(
۱۔
مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ صدر ۲۵۹۱ ء تا ۱۹۶۱ء سیکرٹری ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۵ء۔
۲۔
مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ سیکرٹری ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء۔
۳۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۳۶ء ممبر ۔ ۳۶۱ سے اعزازی ممبر۔
۴۔
مکرم مولوی ابو العطاء صاحب ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۔
مکرم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۸ء ممبر۔
۶۔
مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۹ء ممبر۔
۷۔
مکرم مولوی تاج الدین صاحب ناظم دارالقضا۱۹۵۲ء تا ۱۹۲۹ء ممبر۔
۸۔
مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۹۔
مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۱۰۔
مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد ۱۹۲۵ء تا ۱۹۲۶ء ممبر۔
۱۱۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۲۶ء ممبر ۱۹۶۲ء سے اعزازی ممبر
۱۲۔
حضڑت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر۔ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء نائب صدر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء صدر۔
۱۳۔
مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی سرگودھا ۱۹۵۲ء تا ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۸ء نائب صدر۔ ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء صدر
۱۴۔
مکرم شیخ احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۷ء ممبر۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء صدر ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء نائب صدر۔
۱۵۔
مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر۔
۱۶۔
مکرم مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء ممبر ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۱۷۔
مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ صدر۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۵ء اعزازی ممبر۔
۱۸۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۳ء ممبر ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۴ء اعزازی ممبر۔
۱۹۔
مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لندن و مبلغ سوئٹزر لینڈ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۴ء اعزازی ممبر
۲۰۔
مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۱۔
مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید ۱۹۶۱ء ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۲۔
کرمل صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء ممبر۔
۲۳۔
مکرم سید میروائود احمد صاحبؓ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۶ء ممبر ۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۳ء نائب صدر
۲۴۔
مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ سینئر ایڈووکیٹ و جج ہائی کورٹ پنجاب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۳ء نائب صدر۔
۲۵۔
مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء اعزازی ممبر۔۱۹۶۶ء صدر ۱۹۶۷ء نائب صدر۔ ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۰ء ممبر۔
۲۶۔
مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف ۱۹۶۱ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۷۔
مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ غانا ۱۹۶۲ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۸۔
مکرم میاں عبدالسمیع صاحب نون ایڈووکیٹ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۳ء ممبر۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۹۔
مکرم سید میر محمود احمد صاحب ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۲ء ممبر۔
۳۰۔
مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم۔اے ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۳۱۔
مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم۔اے ایڈیٹر تفسیر القرآن انگریزی ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۵ء ممبر۔
۳۲۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرق افریقہ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۳۳۔
مکرم مولوی عبداللطیف صاحب فاضل بہاولپوری ۱۹۶۳ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔
۳۴۔
مکرم مولوی محمد صادق صاحب سماٹری ۱۹۶۵ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۳۵۔
مکرم ملک مبارک احمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۳۶۔
مکرم شیخ عبدالقادر صاحبؓ )سابق سوداگر مل( مربی لاہور نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر
۳۷۔
مکرم مولوی محمد یار عارف صاحب )سابق مبلغ لندن( نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر۔
۳۸۔
مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر۔
۳۹۔
مکرم مولوی عبدالمالک خان صاحب ۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء ممبر ۱۹۷۰ء تا نومبر ۱۹۷۴ء ممبر۔
۴۰۔
مکرم مولوی امام الدین صاحب مبلغ انڈونیشیا نومبر ۱۹۶۷ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔
۴۱۔
مکرم سید احمد علی صاحب مربی سلسلہ نومبر ۱۹۶۷ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۲۔
مکرم پروفیسر حیبب اللہ خان صاحب ۱۹۶۷ء تا ۱۹۲۹ء ممبر۔ نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۴۳۔
مکرم مولوی محمد اجمل صاحب شاہد مربی سلسلہ نومبر ۱۹۶۸ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۴۔
مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نومبر ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۴۵۔
مکرم ڈاکٹر خلیل الرحمن صاحب ملتان نومبر ۱۹۶۸ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۶۔
مکرم پروفیسر سلطان محمود صاحب شاہد ایم۔ایس سی نومبر ۱۹۶۹ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔][۴۷۔
مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب )ممتاز عالمی سائنسدان( ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۵ء اعزازی ممبر۔
۴۸۔
مکرم نور محمد نسیم سیفی صاحب نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۴۹۔
مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۰۔
مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مبلغ ماریشس و سیلون و افریقہ نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۱۔
مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لندن نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۲۔
مکرم عبدالحکیم صاحب اکمل مبلغ ہالینڈ نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۳۔
مکرم زا خورشید احمد صاحب ناظر خدمت درویشاں نومبر ۱۹۷۴ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۴۔
مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب )خلف اکبر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے( نومبر ۱۹۷۴ء تا نومبر ۱۹۷۵ء )ووٹ کے بغیر ممبر(
دیگر کوائف
۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء تعداد ممبران ۱۵۔ صدر مجلس مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ سیکرٹری مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ
۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء تعداد ممبران ۲۵ صدر مجلس مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ سابق جج ہائیکورٹ و حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔
۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۳ء ۔ تعداد ممبرا ۲۴۔ صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم قاضی محمد اسلم صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۴ء ۔ تعداد ممبر ۲۴۔ صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ حضڑت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے کنیٹب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۵ء تعداد ممبران ۲۵۔ صدر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۶ء۔ تعداد ممبر ۶۸۔ صدر مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتا احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء تعداد ممبر ۶۷۔ صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری مہمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۸ء تا ۱۹۶۹ء۔ تعداد ممبر ۶۸ صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحب۔ مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۰ء تعداد ممبر ۲۳۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۱ء تعداد ممبر ۲۳۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمں صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحبؓ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۲ء۔ تعداد ممبران ۲۶ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ کرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۳ء تعداد ممبر ۲۲۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۴ء تعداد ممبران مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۵ء تعداد ممبران ۱۸۔ صدر مجلس مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب لندن۔
)دارلافتاء ربوہ کے ریکارڈ سے مرتب شدہ(
سالانہ پروگرام تجویز کرنے کی ہدایت
۴۔ صلح ۱۳۳۱ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو سال کا پہلا جمعہ تھا جس میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے تاکیدی ہدایت فرمائی کہ جماعتی ادارے ہر سال اپنا پروگرام شروع سے ہی تجویز کر لیا کریں اور پھر اس پر سختی سے عمل پیرا ہوں چنانچہ فرمایا :۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر اب یہ نیا سال چڑھ رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ کے لحاظ سے باسٹھواں سال ہے اور بیعت کے لحاظ سے چونسٹھواں سال ہے۔ بیعت پر گویا ۲۳ سال گذر گئے ہیں اور دعویٰ کے لحاظ سے جماعت پر ۱۶ سال گذر گئے ہیں۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہماری جماعت کی عمر صدی کے نصف سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مگر کیا ہم جہاں عمر کے لحاظ سے نصف صدی سے اوپر جارہے ہیں ہم ترقی کے لحاظ سے بھی نصف صدی سے اوپر جارہے ہیں یا نہیں۔ جہاں تک جماعت کے متعدد ممالک میں پھیل جانے کا سوال ہے ہماری ترقی قابل تحسین و فخر ہے مگر جہاں تک تعداد کا سوال ہے ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے۔ جہاں تک مرکزی طاقت کا سوال ہے ہم اخلاقی اور عقلی طور پر اپنی پوزیشن قائم کرچکے ہیں مگر جہاں تک نفوذ کا سوال ہے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ مگر ہماری مخفلت ترقی کررہی ہے اور اب ان گروہوں اور جماعتوں میں بھی پھیل رہی ہے جو پہلے ہمیں نظر انداز کردیتی تھیں یا ہمارے افعال کو خوشی کی نگاہ سے سے دیکھتی تھیں۔ پس آنے والے سال میں ہمیں مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک انقلابی تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک انقلابی تغیر پیدا کئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ انقلاب ہمارے دماغوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہماری روحوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہمارے دلوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہمارے افکار اور جذبات میں پیدا ونا چاہئے۔ ہم اپنے دلوں` روحوں اور دماغوں میں عظیم الشان انقلاب پیدا کئے بغیر اس مقام کو حاصل نہیں کرسکتے یا کم از کم اس مقام کو جلد حاصل نہیں کرسکتے جس کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہر سال اپنے لئے ایک پروگرام مقرر کرنا چاہئے اور اسے پورا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔<
>ہماری جماعت ایک جہاد کرنے والی جماعت ہے بے شک ہم تلوار کے اس جہاد کے مخالف ہیں جو کسی ناکردہ گناہ پر تلوار چلانے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم سے زیادہ اس جہاد کا قائل کوئی نہیں جو جہاد ذہنوں جذبات اور روحوں سے کیا جاتا ہے پس حقیقتاً اگر کوئی جماعت جہاد کی قائل ہے تو وہ صرف ہماری جماعت ہی ہے۔<۱۰۹
‏]bus [tagصوبجاتی نظام کو مستحکم کرنے کا فرمان
متحدہ ہندوستان میں جماعت احمدیہ کا صوبجاتی نظام ۱۹۳۳ء میں معرض وجود میں آیا تھا۱۱۰ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے علاوہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے صوبوں میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی صوبائی انجمنیں خوش اسلوبی سے کام کررہی تھیں۔ اس سال سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے پنجاب میں بھی صوبائی امارت قائم فرمائی جس کے انتخاب کے لئے صوبہ کے جملہ اضلاع اور ان کے ساتھ دو دو سیکرٹریوں نے حصہ لیا۔ یہ انتخاب ربوہ کی پہلی مسجد مبارک میں ہوا جو اس وقت کچی بنی ہوئی تھی۔ اس انتخاب میں مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا صوبائی امیر مقرر ہوئے۔ صوبائی امارت اگرچہ صرف ایک سال کے لئے قائم کی گئی تھی مگر جب پہلا تجربہ کامیاب رہا تو اس کو مستقل حیثیت دے دی گئی۔ صوبائی امیر کے فرائض اب تک مرزا عبدالحق صاحب ہی انجام دے رہے ہیں۔۱۱۱
حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء کے پہلے خطبہ جمعہ میں مکرم مرزا عبدالحق صاحب اور ان کے رفقاء کار کی مساعی پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :۔
>پہلے پنجاب کا صوبہ` صوبجاتی نظام سے باہر تھا لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے پنجاب کو بھی صوبجاتی نظام میں شامل کردیا گیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ صوبہ پنجاب کے لئے یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اسے ابتداء میں ہی ایسے کارکن مل گئے جو اپنے اندر قربانی اور ایثار کی روح رکھتے ہیں۔ مگر خالی اچھے کارکنوں کامل جانا کوئی چیز نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام کارکن اپنا پروگرام مقرر کریں اور پھر اس کے لئے وقت مقرر کریں اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں یہ امر ضرور مدنظر رکھا جائے کہ پروگرام ایسا نہ ہو کہ جس پر عمل نہ کیا جاسکے۔ بعض لوگ خیالی تجاویز بنا لیتے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ انہیں پورا نہیں کرسکیں گے۔ پروگرام ایسا ہونا چاہئے۔ جس کو وہ مالی لحاظ سے` افراد کے لحاظ سے` اور وقت کے لحاظ سے پورا کرسکتے ہین یعنی عملی پروگرام ہونا چاہئے ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے کہ جس کو مالی لحاظ سے جاری نہ کیا جاسکے۔ ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے جس کے لئے اتنے کارکنوں کی ضڑورت ہو جو مہیا نہ ہوسکیں یا ایسا پروگرام ہو جس کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت ہو۔ ہر کام معقول اور طاقت کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہماری جو طاقت اور قوت ہے اسی کے مطابق ہم کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں۔ اور اپنی طاقت کو خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ پروگرام ایسا ہونا چاہئے جو عقلی لحاظ سے` مالی لحاظ سے` وقت اور افراد کے لحاظ سے ممکن ہو۔ پھر پوری کوشش کی جائے کہ جو تجویز اور ملپین ۱۱۲ شروع سال میں بنائی جائے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے۔
صوبجاتی نظام کے لحاظ سے بھی ایک پروگرام کی ضرورت ہے۔ پہلا تجربہ ہم یہ کریں گے کہ امراء کو بلا کر شوریٰ کریں گے اور باہمی مشورہ سے ان کے علاقوں کے لئے ایک پروگرام تجویز کریں گی یہ کام نظارت علیا کا ہوتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد امراء کو بلا کر مشورہ لے اور ان کے لئے ایک پروگرام مقرر کرے۔ پھر آئندہ ہر سال یہ مجلس ہوا کرے۔ اور پھر آہستہ آہستہ بیرونی ممالک میں سے بھی اگر کسی میں اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ وہ اس مجلس میں شریک ہوسکے تو پھر وہ شریک ہوا کرے اور اس طرح اسے ایک عالمگیر ادارہ بنادیا جائے۔<۱۱۳]ybod [tag
محاسبہ نفس کی دعوت
۱۱ ماہ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کو محاسبہ نفس اور وقت کی قیمت پہچاننے کی تلقین کی اور فرمایا:۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ہر انسان کے اندر کوئی وقت سستی کا آجاتا ہے اور کوئی وقت چستی کا آجاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام باسط بھی ہے اور قابض بھی ہے اس لئی وہ کبھی انسان کی فطرت میں قبض پیدا کردیتا ہے اور کبھی بسط پیدا کردیتا ہے۔ اس حالت کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنے گرد و پیش کے حالات کا بھی محاسبہ کرتا رہے۔ اسی لئے صوفیاء نے محاسبہ نفس کو ضرورت قرار دیا ہے۔ میرے دل میں خیال گزرا ہے کہ اگر ہم اپنے تمام وقت کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید ہم بہت سی سستیوں سے محفوظ رہتے۔ کسی شاعر نے کہا ہے~}~
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
یعنی گھڑیال سے وقت کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں کی عمر زیادہ ہوگئی لیکن دراصل اس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ فرض کرو کسی کی ۶۰ سال عمر مقدر تھی وہ جب پیدا ہوا تو اس کی عمر کے ساٹھ سال باقی تھے لیکن جب وہ ایک سال کا ہوگیا تو اس کی ایک سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دو سال کا ہوگیا تو اس کی دو سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دس سال کا ہوگیا تو اس کی دس سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ بیس سال کا ہوگیا تو اس کی بیس سال عمر گھٹ گئی۔ غرض ہر وقت جو اس پر گزرتا ہے وہ اس کی عمر کو گھٹاتا ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی ہے۔ ہمارے بہت سے اوقات یونہی گزر جاتے ہیں اور ہم خیال تک نہیں کرتے کہ ہمارا وقت ضائع ہورہا ہے۔ مثلاً کل مجھے خیال آیا کہ کسی وقت ہم جلسہ سالانہ کی تیاریاں کررہے تھے۔ رات دن کارکن اس کام میں لگے ہوئے تھے اور خیال کررہے تھے کہ جلسہ سالانہ آئے گا تو مہمان آئیں گے۔ ان کے ٹھہرانے اور ان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہم نے کرنا ہے۔ وہ دن آئے۔ دوست آئے ہم سے ملے جلے اور چلے بھی گئے ہم دل میں خوش ہوئے کہ ایک سال ختم ہوگیا ہے۔ مگر سوچنے والی یہ بات تھی کہ ہم نے نئے سال کو کس طرح گزارنا ہے۔ جو سال گزر گیا وہ تو کوتاہیوں سمیت گز گیا۔ اصل چیز تو آنے والا سال ہے۔ کل مجھے خیال آیا کہ یا تو ہم اتنے جوش اور زور شور سے آئندہ جلسہ کی تیاریاں کررہے تھے اور یہ اب اس جلسہ پر چودہ دن گزر گئے ہیں اور ابھی ہم بیکار بیٹھے ہیں۔ چودہ دن کے معنے دو ہفتے کے ہیں ۵۳ ہفتوں کا سال ہوتا ہے دو ہفتے گزر جانے کا مطلب یہ ہوا کہ سال ۲۶ واں حصہ گزر گیا لیکن ابھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ جلسہ سالانہ کی کوفت دور کررہے ہیں۔ دو ہفتے اور گزر گئے تو سال کا تیرھواں حصہ گزر جائے گا لیکن نئے سال کے لئے شورا شوریٰ شروع نہیں ہوگی چودہ دن اور گزر جائیں گے تو سال کا گیارہ فیصدی حصہ گزر جائے گا۔ اور چودہ دن اور گزر گئے تو سال کا پندرہ فیصدی حصہ گزر جائے گا۔ غرض بہت تھوڑی تھوڑی غفلت کے ساتھ ایک بہت بڑی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ہر سال جو ہم پر آئے بجائے پچھلے سال کے ہم آئندہ سال پر نظر رکھیں۔ ہر دن ہم سوچیں کہ کام کے ۳۶۵ دنوں میں سے ایک دن گزر گیا ہے۔ ہم نے کس قدر کام کرنا تھا اس میں سے کس قدر کام ہم نے کر لیا ہے اور کس قدر کام کرنا باقی ہے ؟ اگر ہم اس طرح غور کرنا شروع کردیں تو ہم اپنے وقت کو پوری طرح استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔< 4] f[st۱۱۴
تبلیغ اسلام کی موثر تحریک
تحریک جدید کا نظام دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کی غرض سے قائم کیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ ہمیشہ اس کے مالی جہاد میں شرکت کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضورؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء میں جماعت کو نصیحت فرمائی کہ :۔
>جس جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش کیا تھا اور جو جہاد ہم کررہے ہیں وہ کسی وقت بھی ہٹ نہیں سکتا۔ ہر وقت نماز یا جہاد اور ذکر الٰہی ضروری ہیں۔ جہاد کے معنے ہیں اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور غیر مسلموں کو اسلام میں لانے کے لئے تبلیغ کرنا اور روز و شب جماعت سے ہمارا یہی خطاب ہوتا ہے ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ تم دوسرے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعہ مسلمان بنائو۔ ہمارا جہاد وہ ہے جو نماز کی طرح روزانہ ہورہا ہے اور جو احمدی اس جہاد میں حصہ لیں گے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جہاد کررہے ہیں لیکن جو لوگ اس جہاد میں حصہ نہیں لیں گے ہم ان کے متعلق فتویٰ تو نہیں دیتے لیکن جس طرح نماز نہ پڑھنے والا سچا مسلمان نہیں ہوسکتا اسی طرح اسلام کی اشاعت کے لئے قربانی نہ کرنے والا بھی سچا مسلمان یا سچا احمدی نہیں کہلا سکتا۔ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مقدمات میں کس طرح اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں۔ اب کفر و اسلام کے مقدمہ میں جو حصہ نہیں لیتا اور اسے نفلی سمجھتا ہے وہ کیسے سچا مسلمان کہلا سکتا ہے؟ تحریک جدید نفلی اس لئے ہے کہ ہم اس میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دیتے لیکن فرض اس لحاظ سے ہے کہ اگر تمہیں احمدیت سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے۔ جب ماں بچہ کے لئے رات کو جاگتی ہے تو کون کہتا ہے کہ اس کے لئے رات کو جاگنا فرض ہے۔ بچہ کی خاطر رات کو جاگنا فرض نہیں نفل ہے۔ لیکن اسے رات کو جاگنے سے کون روک سکتا ہے؟ جس سے حبت ہوتی ہے اس کی خاطر ہر شخص قربانی کرتا ہے اور یہ نہیں کہ ایسا کرنا فرض نہیں نفل ہے۔ اسی طرح جو شخص اسلام اور احمدیت سے سچی محبت رکھتا ہے وہ یہ نہیں کہے گا کہ ان کی اشاعت کی خاطر قربانی کرنا فرض نہیں بلکہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے قربانی کرنا اسے فرض سے بھی زیادہ پیارا لگے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ ایسا کرنے سے اسلام کو دوبارہ شوکت و عظمت حاصل ہوجائے گی بلکہ جب تبلیغ جہاد کا ایک حصہ ہے تو اس میں حصہ لینا فرض ہی کہلانے کا مستحق ہے۔< ۱۱۵
اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدوجہد
۲۵ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بذریعہ خطبہ جمعہ یہ ارشاد فرمایا کہ قومی اخلاق کو راسخ کرنے کے لئے ہمیں اجتماعی جدجہد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے خطبہ کے پہلے حصہ میں فرمایا کہ:۔
>ہم نے دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کرنا ہے کہ اخلاق فاضلہ دنیا سے مٹ گئے تھے اب جماعت احمدیہ اخلاق فاضلہ پر قائم ہے اور ہر نیا تغیر جو رونما ہوتا ہے` ہر خرابی جو پیدا ہوتی ہے اس سے اگر ہم بھی متاثر ہوجاتے ہیں تو ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیسے کرسکتے ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے جرائم میں قومی اثر بھی ضرور داخل ہوتا ہے۔ مثلاً چوری ہے` ڈاکہ ہے` یہ ایک شخص کا فعل نہیں ہوتا بلکہ ایسا فعل کرنے والوں کو اس کے ہمسائے بھی جانتے ہیں۔ اگر سارے لوگوں کے اندر غیرت پیدا ہوجائے اور احساس پیدا ہوجائے تو ایسے لوگوں کا پکڑا جانا آسان ہے۔ مثلاً حرام خری ہے دکاندار ٹھگی کرتے ہیں وہ اچھی چیز میں خراب چیز کی آمیزش کردیتے ہیں تو اس کا ہر گاہک کو پتہ ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص بجائے یہ کہنے کے کہ مجھے مصیبت اٹھائے کی کیا ضڑورت ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے اور کہے کہ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا تو دیکھ لیں ایسی لوگ فوراً اپنی اصلاح کرلیں گے۔<
خطبہ کے آخر میں اس نکتہ معرفت کی طرف متوجہ فرمایا :۔
>شیطانی کاموں کے لئے قربانی اور ایثار کی ضرورت نہیں ہوتی قربانی اور ایثار کی ضرورت خدائی کاموں کے لئے ہوتی ہے۔ شیطان کو نبی بھیجے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شیطانی باتیں خودبخود چلتی جاتی ہیں کیونکہ ان میں ہر ایک کو مزا ملتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نبی بھیجتا ہے۔ انہیں ماریں پڑتی ہیں` دکھ دیئے جاتے ہیں اور بعض اوقات انہیں جانیں دینی پڑتی ہیں۔ اس طرح بڑی قربانی اور ایثار کے بعد ایک جماعت بنتی ہے اور شیطان اسے پھر خراب کردیتا ہے۔ انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں ترقی کی لیکن جب ان کا زمانہ ختم ہونے کا وقت آیا تو شیطان نے کتنی جلدی انہیں ختم کردیا ؟ غرض شیطانی آواز کی طرف لوگ جلد آتے ہیں کیونکہ انہین تر لقمہ ملتا ہے وہ آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ اس لئے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور قومی احساس پیدا کرے۔< ۱۱۶
قوم کی بے لوث خدمات بجالانے کی تلقین
حضرت مصلح موعودؓ نے ۸ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ قومی خدمات اپنے اندر بھاری برکات رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں ان کے فوائد اور بلند معیار کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی:۔
>ایک لیڈری شیطان بن کر ملتی ہے اور ایک لیڈری خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ تھوڑے ہوتے ہیں جن کو فریب` دھوکہ بازی اور منصوبہ بازی کے بغیر لیڈری مل جائے۔ بعض لوگ قوم کی خدمت کرتے ہیں اور اس طرح آگے آجاتے ہیں۔ مثلاً سرسید علی گڑھ۱۱۷` مولانا محمد علی جوہر۱۱۸ میاں فضل حسین۱۱۹ اور قائداعظم محمد علی جناح۱۲۰` سر اقبال۱۲۱ یہ وہ لوگ تھے جن کو تمام مسلمان جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی اغراض کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ محض قوم کی خدمت کی` نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ انہیں آگے لے آیا۔ مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ ورنہ چھوٹی چھوٹی انجمنوں تک میں ہزاروں ریشہ دوانیاں ہوتی ہیں کہ کسی طرح کوئی خاص پارٹی آگے آجائے اور غرض یہ ہوتی ہے کہ زیدیابکر اس انجمن کے لیڈر بن جائیں۔ سیکرٹری بن جائیں یا انہیں کوئی اور عہدہ مل جائے۔ ایسے آدمی جنہوں نے قوم کی خدمت کی اور آگے آئے وہ کروڑوں کی جماعت میں درجنوں اور بیسیوں کے اندر ہی رہ جاتے ہیں لیکن ہماری جماعت میں بغیر کسی قسم کے دھوکہ` فریب اور منصوبہ کے آپ ہی آپ نظام کے ماتحت کچھ لوگ اوپرآجاتے ہیں اور جماعت کی باگ ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ ان کی زندگیوں میں تو ایک تغیر ہونا چاہئے تھا جس طرح خدا تعالیٰ نے ان سے سلوک کیا ہے اور انہیں بلا استحقاق قوم کا لیڈر بنا دیا ہے اسی طرح ان کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے لیڈر بنیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہو۔ ان کے کام اپنے نفس کی خاطر نہیں ہونی چاہئیں بلکہ ان کے کردار` ان کے افعال` ان کے اخلاق اور ان کے طریق خالصتاً مذہب کے لئے وقف ہوں۔ اور جب کسی کی زندگی خالصتاً کسی مذہب یا جماعت کے لئے ہوجاتی ہے تو اس کے عمل میں دیوانگی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ ڈاک خانہ بن کر نہیں رہ جاتا کہ چند خطوط کا جواب دے دیا اور سمجھ لیا کہ بڑا کام کیا ہے بلکہ ایسا شخص رات دن سکیمیں سوچتا ہے کہ کس کس طرح میں اپنی قوم کو اونچا کروں جس کی وجہ سی اسے عزت ملی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر جو خدمات کی جاتی ہیں وہ پے در پے نفع لاتی ہیں ان کی یہ خدمت بھی بلا معاوضہ نہیں ہوتی۔ فرض کرو جماعت اب تین لاکھ کی ہے اور وہ قربانی کرتے ہیں اور تعداد تین لاکھ سے چھ لاکھ ہوجاتی ہے` تو انہون نے صرف قوم کی خدمت نہیں کی انہوں نے اپنی خدمت بھی کی ہے۔ وہ پہلے تین لاکھ کے لیڈر تھے اب چھ لاکھ کے لیڈر ہوگئے۔ اگر وہ اور قربانی کریں اور تعداد بارہ لاکھ ہوجائے تو یہ خدمت اسلام کی بھی ہوگی مگر ساتھ ہی اپنی کدمت بھی ہگی کیونکہ کل وہ چھ لاکھ کے لیڈر تھے تو آج وہ بارہ لاکھ کے لیڈر بن گئے ہیں۔ غرض ان کے اندر ایسی دیوانگی ہونی چاہئے۔ جو دوسری قوموں میں نہ ملے۔< ۱۲۲
چوہدری محمد حسین صاحبؓ کی ریاست خیرپور میں المناک شہادت
یکم فروری ۱۹۵۲ء سے احراری لیڈروں نے سندھ کو اپنی اشتعال انگیز سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا اور کانفرنس منعقد کرکے صوبہ کی فضا
کو اس درجہ مکدر کردیا کہ ۱۹ فروری ۱۹۵۲ء کو ایک مخلص احمدی چوہدری محمد حسین صاحب گمبٹ ریاست خیر پور میرس سندھ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا۔ چوہدری صاحب کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آپ ۲۲ فروری ۱۹۵۲ء کو رحلت کرگئے۔۱۲۳
جلسہ سیالکوٹ پر یورش
جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ ۱۶۔۱۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء کو قرار پایا تھا اور احمدیون کی کثیر تعداد بیرونی مقامات اور مضافات سے اس میں شرکت کے لئے پہنچ چکی تھی کہ بعض احواری علماء نے پہلے تو احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا فتوٰ¶ نشر کیا پھر ایک ہجوم میں یہ اعلان کر کے ہم احمدیوں کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے جلسہ گاہ کا رخ کر لیا اور جونہی پہلا اجلاس ختم ہوا اور سامعین جلسہ گاہ سے باہر نکلے تو ان پر شدید سنگ باری کی گئی جس سے چالیس سے زائد افراد بری طرح مجروح ہوئے۔ اس کے بعد بلوائیوں نے بازار میں متعدد اشخاص کو مارا پیٹا اور گلیوں میں بھی تشدد سے کام لیا۔
رات کو ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ نے جماعت احمدیہ کے ارکان کو بلایا اور مشورہ دیا کہ جلسہ احمدیہ مسجد میں کر للیں لیکن جماعت سیالکوٹ نے اس رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اگلے روز کا پروگرام منسوخ کردیا۔۱۲۴
فصل پنجم
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا سفر بشیر آباد سندھ بصیرت افروز خطبات حیدر آباد میں پریس کانفرنس اتحاد المسلمین پر شاندار لیکچر
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ اراضی سندھ کی نگرانی اور حسابات کی پڑتال کرنے کارکنوں کو ہدایات دینے اور بہت سے تربیتی و تبلیغی امور کی انجام دہی کے لئے سالہاسال سے سندھ تشریف لے جارہے تھے۔ حضور حسب سابق اس سال بھی ۳۴ نفوس پر مشتمل قافلہ سمیت ۲۵ تبلیغ/فروری کو بشیر آباد سندھ تشریف لے گئے اور ایک ماہ کے کامیاب دورہکے بعد ۲۶ امان/مارچ کو ربوہ میں رونق افروز ہوئے۔ حضور نے اس سفر کے دوران مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو امیر مقامی نامزد فرمایا۔۱۲۵
۱۳۳۱/ہش/۱۹۵۲ء کے بابرکت سفر سندھ کے واقعات میں سے تین کا ذکر ضروری ہے:۔
۱۔ خطبات جمعہ ۲۔ پریس کانفرنس ۳۔ اتحاد المسلمین پر لیکچر
بصیرت افروز خطبات
دوران سفر حضور نے اپنے خطبات میں احباب میں احباب جماعت کو بہت قیمتی نصائح فرمائیں جن کا ملخص یہ تھا کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرو` تبلیغ کرو` جماعت کو وسیع کرتے چلے جائو ہمیشہ اپنے کاموں میں محبت اور عقل کا توازہ قائم رکھو اور اخلاق فاضلہ کا بہترین نمونہ بنو۔
پریس کانفرنس
‏]0 [rtfحضورﷺ~ نے ۲۵ امان / مارچ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس کی روداد اخبار المصلح کراچی )مورخہ ۲۸ مارچ ۱۹۵۶ء( کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے:۔
>حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت مرز بشیر الدین محمود احمد صاحب نے گزشتہ روز حیدر آباد میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :۔
>میں اصولاً تو یہی سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی زبان لازمی طور پر اردو ہے لیکن موجود حالات میں یہ ضروری ہے کہ بنگالیوں کی دلجوئی کر کے ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھے جائیں اور زبان کے سوال کو موجودہ حالات میں اٹھانا اور خواہ مخواہ اس مسئلہ کو اختلاف کی بنیاد بنانا درست نہیں۔<
ایک سوال کے جواب میں مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا:۔
>ہم قرآن کریم کو مانتے ہیں۔ لامحالہ جو چیز قرآن مجید کریم میں ہوگی وہی ہمارا عقیدہ اور مسلک ہوگا ہاں اس کی توضیح اور مفہوم میں فرق ہوسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد دشمنوں کے حملوں کے دفاع کا نام ہے اور ایک دفعہ دفاعی جنگ شروع ہوجانے کے بعد اقدام بھی لازماً اس کا ایک حصہ بن جائے گا۔<
پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والی اسلامی ممالک کے وزراء اعظم کی کانفرنس کے متعلق آپ نے فرمایا:۔
>جہاں تک میرا خیال ہے اس کانفرنس میں باہمی عام مسائل پر عام مشورہ ہوگا اور اس کے فیصلے سب پر عائد نہیں کئے جائیں گے۔ بہرحال یہ اقدام نہایت خو شکن ہے اور آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ ہے۔< ۱۲۶
اتحاد المسلمین پر عظیم الشان لیکچر
قیام حیدر آباد کا اہم ترین واقعہ امیر المومنین حضرت مصلح موعودؓ کا >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر عظیم الشان لیکچر ہے جو ۲۵ امان/مارچ کو پریس کانفرنس کے بعد تھیوسافیکل ہال میں ہوا۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا۔ قریباً ایک ہزار ٹکٹ غیر احمدی معززین میں تقسیم کئے گئے۔ جلسہ میں آلہ نشرالصوت کا خاطر خواہ انتظام تھا۔ ہال کا اندرونی حصہ اس قدر پر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی حتیٰ کہ احمدی اور غیر احمدی احباب کثیر تعداد میں دونوں طرف باغ اور صحن میں بیٹھے یا کھڑے کھڑے آخر وقت تک پوری توجہ دلجمعی اور سکون کے ساتھ تقریر سنتے رہے۔ مستورات کے لئے ہال کے ایک ملحقہ کمرہ میں الگ پردہ کا بندوبست تھا۔ جناب ایم۔اے حافظ بار ایٹ لاء ہیرہ آباد کی صدارت میں کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے مولوی سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ سلسلہ ۱۲۷ نے تلاوت فرمائی پھر مبارک احمد صاحب نے کلام محمود سے ایک نظم پڑھی۔ ازاں بعد صدر جلسہ نے حضرت مصلح موعودؓ کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے اس تقریب پر اظہار مسرت و شادمانی کیا اور فرمایا :۔
>ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام میں جماعت احمدیہ جیسی ایک جماعت موجود ہے جس کے کارنامے طویل ہیں۔ اس جماعت نے اسلام کو جس جوش و خروش سے یورپ میں پیش کیا ہے وہ اس کا ہی حصہ ہے اور ہم سب مسلمان اس کے ممنون ہیں۔ اس جماعت کے ایک ممبر آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں حکومت میں شامل ہیں۔ اس ممبر نے دنیا میںپاکستان کی عزت کو چار چاند لگادیئے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنے اور اسلامی ممالک کو متحد بنانے میں عظیم الشان کامیابی حاصل کی ہے یہ ممبر ساری اسلامی دنیا کے لئے ایک قابل فخر ہستی ہے۔ آج اس عظیم الشان جماعت کے عظیم الشان لیڈر کی تقریر سننے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اور میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آج صدارت کے لئے مجھے چنا گیا۔<
اس کے بعد حضور اقدس نی اتحاد المسلمین کے موضوع پر سوا گھنٹہ کے قریب ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی۔
اس تقریر کے ضروری حصے درج ذیل کئے جاتے ہیں :۔
اتحاد اور اس کا فلسفہ
>اتحاد عربی لفظ ہے اور وحدت سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں یکجہتی اختیار کر لینا۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بہت سی چیزیں ہیں اور انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو کھو کر اجتماعیت اختیار کریں گی۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مطالب کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ ایک لفظ کے اندر سارا فلسفہ بیان کردیا جاتا ہے۔ اتحاد نے اردو زبان میں آکر اپنے معنی کھو دیئے ہیں لیکن عربی زبان میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے فلسفہ کو جاننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ بولنے والا کئی باتیں تسلیم کرتا ہے۔<
اسلام اور اجتماعیت
>اجتماعیت اور ملت کا جو احساس اسلام نے پیدا کیا ہے وہ کسی اور مذہب نے پیدا نہیں کیا۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔<
کلمہ
>مثلاً اسلام میں ایک کلمہ ہے جو ہر مسلمان کے لئے ماننا ضروری ہے۔ بے شک اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً ہماری جماعت کو بھی دوسرے فرقوں سے اختلاف ہے لیکن کوئی احمدی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ میں کلمہ طیبہ نہیں مانتا۔ پھر شیعوں کو سنیوں سے اختلاف ہے اور سنیوں کو شیعوں سے اختلاف ہے۔ لیکن سنی یا شیعہ کو یہ جرات نہیں کہ وہ کلمہ سے انکار کردے۔ تم کسی اسلامی فرقہ میں چلے جائو اور ان سے پوچھ لو وہ کلمہ سے باہر نہیں جائیں گے۔ ہر ایک مسلمان یہ کہے گا کہ ہمارا ایک کلمہ ہے اور وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ ہر شخص جو مسلمان ہوگا وہ اس بارہ میں دوسرے مسلمانوں سے متحد ہوگا۔ شیعہ سنیوں سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ کے بارہ میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا سنی شیعہ سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ میں دونوں متحد ہوں گے اور یہ کلمہ صرف مسلمانوں میں ہے اور کسی مذہب میں نہیں۔ اس کا یہ مطلب کہ ایک عیسائی کو لا الہ الا اللہ کہنا نہیں آتا۔ ایک عیسائی بھی لا الہ الا اللہ کہہ سکتا ہے لیکن ان کا اپنا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ خدا تین ہیں۔ تم کسی مشن میں چلے جائو اور عیسائیوں سے پوچھو کہ کیا تمہارا بھی کوئی کلمہ ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ہمارا کوئی کلمہ نہیں۔ وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ ہمارا کوئی کلمہ ہے کیونکہ ان کے ہاں مذہب کا ضروری حصہ وہ لوگ بھی ہیں جو تین خدا مانتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے لوگ بھی پائے جاتے جو باوجود عیسائی ہونے کے ایک خدا کے قائل ہیں لیکن ہمارا ہر شخص لا الہ الا اللہ میں دوسرے مسلمانوں سے اتحاد رکھتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص لا الہ الا اللہ کے خلاف کسی تعلیم کو مانتا ہو اور وہ اسلام میں بھی رہے۔<
>ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳۷۰ سال قبل فرما دیا تھا کہ ہمارا کلمہ لا الہ الا اللہ ہے اور اس میں اسلام کا خلاصہ آگیا ہے۔ باقی لوگ ابھی ٹکریں مار رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے ؟ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو مسلمانوں کے سوا دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔<
قبلہ
>پھر اسلام میں ایک قبلہ پایا جاتا ہے لیکن اسلام کے سوا کسی مذہب میں قبلہ نہیں پایا جاتا بے شک ہندوئوں کے پاس سومناتھ کا مندر موجود ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر سارے ہندو جمع ہوجائیں عیسائیون اور یہودیوں میں بھی کوئی قبلہ نہیں وہ یروشلم کی مسجد کو بطور قبلہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد حضرت دائود علیہ السلام نے بنائی تھی۔ حضرت دائود علیہ السلام سے پانچ سو سال قبل یہودیوں کے پاس کونسا قبلہ تھا ہمارے پاس پہلے سے قبلہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ظاہر ہوئے تو آپ نے بتادیا کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے اور اس طرح مسلمانوں پر کوئی دن ایسا نہیں آیا جب ان کے پاس کوئی قبلہ نہ ہو۔ یہ نہیں کہ ایک سال دو سال یا دس سال کے بعد قبلہ کا حکم ہوا ہو بلکہ پہلے دن سے بتادیا گیا ہے کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے۔ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو دوسرے مذہب والوں کو حاصل نہیں۔<
نماز باجماعت
>پھر نماز باجماعت ہے۔ اسلامی نماز بھی انفرادی نماز نہیں بلکہ ایک قومی نماز ہے۔ پہلے صفوں مین سیدھے کھڑے ہوجائو۔ قبلہ رخ ہو۔ اقامت ہو پھر ایک امام ہو۔ امام کھڑا ہو تو مقتدی کھڑا ہو امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلا جائے۔ یہ خصوصیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے اور مذاہب میں نہیں نہ عیسائیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور یہودیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ عیسائی اور یہودی اکٹھے تو ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اکٹھا ہونے کا کہاں حکم ہے ؟ ساری تو رات میں اکٹھے ہو کر عبادت کرنے کا حکم نہیں ملتا تورات میں یہی آتا ہے کہ کامل عبادت یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے لئے قربانی پیش کرو۔ باقی یہ کہ عبادت کے لئے تم اکٹھے ہوجائو ایسا کوئی ۔ حکم نہ پرانوں اور ویدوں میں موجود ہے اور نہ ایسا حکم تورات اور انجیل میں پایا جاتا ہے۔<
‏sub] [tagاذان
>صرف اسلام ہی ایس امذہب ہے جو کہتا ہے پہلے اذان دو پھر اس طرح مسجد میں آئو سیدھ صفوں میں کھڑے ہوجائو۔ پھر قبلہ کی طرف منہ کرو۔ سامنے ایک امام ہو۔ جو حرکت امام کرے وہی حرکت مقتدی بھی کرے۔ امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلے جائیں امام کھڑا ہو تو مقتدی بھی کھڑے ہوجائیں۔ اس طرح ساری قم امام کے تابع ہوجاتی ہے اور یہ طاقت ہٹلر میں بھی نہیں تھی کہ اس کے اشارہ سے سارے لوگ جھک جائیں لیکن یہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام رکوع میں جاتا ہے تو سارے مقتدی رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ امام سجدہ میں جاتا ہے تو سارے لوگ سجدہ میں چلے جاتے ہیں۔ گویا خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت بخشی ہے جس نے اجتماعیت کی ایسی مستحکم روح قائم کردی ہے جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔<
حج
>پھر حج ہے یہ خصوصیت بھی صرف اسلام میں ہے۔ بے شک ہندو لوگ یاترا کے لئے جاتے ہیں لیکن یاترائیں بیسیوں ہیں۔ کوئی مشخصہ یاترا نہیں۔ اور نہ ایسی تعلیم ہے کہ جس شخص کے پاس سرمایہ ہو۔ پھر امن ہو اس کے لئے کوئی روک نہ ہو۔ ایسا شخص اگر حج نہیں کرتا تو وہ گنہگار ہے یہ اجتماعیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔ باقی لوگ یاترا گئے تب بھی بزرگ ہیں اور اگر یاترا کو نہ گئے تب بھی بزرگ ہیں۔<
زکٰوۃ
>پھر زکٰوۃ ہے۔ اسلام میں جیسی زکٰوۃ پائی جاتی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی بے شک یہودیوں میں بھی زکٰوۃ پائی جاتی ہے لیکن اس میں اتنی باریکیاں نہیں پائی جاتیں جتنی باریکیاں اسلامی زکٰوۃ میں پائی جاتی ہیں۔ اسلامی زکٰوۃ کے اخراجات کو نہایت وسیع طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس میں قومی ترقی کی ہر چیز آجاتی ہے۔ اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکٰوۃ میں نہیں پائی جاتی۔ اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکٰوۃ میں نہیں پائی جاتی۔ اسلامی زکٰوۃ میں ہر قسم کے غرباء کا حق مرر کردیا گیا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس تجارت کے لئے سرمایہ نہیں تو اسلام کہتا ہے اسے کچھ سرمایہ دے دو۔ ایک درزی ہے وہ درزی کا کام جانتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی مشین نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ ایک شخص کو یکہ چلانا آتا ہے لیکن اس کے پاس روپیہ نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ اس طرح ایک مسافر آتا ہے وہ مالدار ہوتا ہے۔ لیکن وہ شہر میں جاتا ہے اور اس کا مال چوری ہوجاتا ہے اور وہ گھر سے بھی روپیہ منگوا نہیں سکتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ ایک غریب آدمی قید ہوجاتا ہے۔ اس کے بچوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دیدو گوایا اسلام نے زکٰوۃ کے نظام کو اس قدر وسیع کیا ہے اور اتنا نرم رکھا ہے کہ ہر قوم اور ہر گروہ کے لوگ اس سے اس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ کسی کا سر بھی نیچا نہ ہو۔ کیونکہ بڑی زکٰوۃ حکومت خو دے گی۔ مثلاً زمین ہے۔ زمین کی زکٰوۃ میں ذاتی طور پر نہیں دے سکتا بلکہ یہ زکٰوۃ گورنمنٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی اور وہ آگے مستحقین میں تقسیم کرے گی۔ اگر حکومت اس رقم میں سے کچھ میرے ہمسایہ کو دیتی ہے تو اگرچہ وہ میری رقم ہوگی لیکن میرا ہمسایہ اسے گورنمنٹ سے حاصل کرے گا اس طرح وہ میرا ممنون نہیں ہوگا اور میرے سامنے نظریں نیچی نہیں کرے گا۔ گویا زکٰوۃ لینے کے نتیجہ میں جو تحقیر پیدا ہوتی ہے وہ پیدا نہیں ہوگی۔ غرض اسلامی زکٰوۃ میں اس امر کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ غریب کی نظر نیچی نہ ہو۔ اور باوجود مدد لینے کے وہ امیر ہمسایہ کو کہہ سکے کہ میں نے تجھ سے مدد نہیں لی۔<
قضاء
>پھر قضاء ہے یہ بھی اسلام کی ہی ایک خصوصیت ہے اور یہ خصوصیت بھی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ اسلام اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک فرد اگر کسی کو ڈنڈا مارے تو قضاء اسے کہے گی کہ تم قاضی کے پاس جائو وہ اسے ڈنڈا مارے گا۔ یہاں تک کہ اسلام میں بدکاری کی سزا سخت ہے لیکن اس کے لئے بھی اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ تم سزا کو اپنے ہاتھ میں نہ لو بلکہ معاملہ قاضی کے پاس لے جائو وہ سزا دے گا۔
ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا۔ اس وقت یہودی سزا پر عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا یارسول اللہ اگر خاوند دیکھے کہ اس کی بیوی بدکاری کررہی ہے تو کیا اسے حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مار ڈالے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا نہیں۔۱۲۸ اسے خود سزا دینے کا حق نہیں۔ موسوی شریعت میں زنا کی سزا قتل تھی اور اس وقت تک اس بارہ میں موسوی شریعت کے مطابقہی عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا جب زنا کی سزا قتل ہے تو خاوند جب اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیوں نہ اسے قتل کردے ؟ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا اسے سزا دینے کا حق نہیں سزا دینے کا حق قاضی کو ہے۔ اگر وہ اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور اسے قتل کردیتا ہے تو اسے قاتل سمجھ کر موت کی سزا دی جائے گی اب دیکھو اسلام اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کہیں بدلہ لینے میں جلد بازی سے کام تو نہیں لیا گیا۔ کیا جرم کی تحقیق کے سامان پوری طرح مہیا کئے ہیں ؟ اور یہ باتیں قاضی دیکھ سکتا ہے دوسرا نہیں۔ اگرچہ یہ انفرادی حق ہے لیکن کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی ائے گی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے لے مجرم کو سزا صرف حکومت کے ذریعہ ہی دلائی جاسکتی ہے۔<
جہاد
>پھر فرضیت جہاد ہے۔ جہاد بھی اکیلا شخص نہیں کرسکتا بلکہ جب جہاد فرض ہوگا تو ساری قوم لڑے گی۔ پس جہاد بھی ایک اجتماع چیز ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جب امام کہے کہ اب جہاد کا موقع ہے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فریضہ کو پورا کرے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو وہ شریعت اور قاون کا مجرم ہے یہ ایک اجتماعی حکم ہے پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام انفرادی مذہب ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسلام انفرادی مذہب نہیں بلکہ اجتماعی مذہب ہے۔<
انفرادیت و اجتماعیت
>اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک طرف تو انفرادیت کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ صرف تسلیم کرتا بلکہ اسے ضروری قرار دیتا ہے اور وہ دوسری طرو وہ اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے یہ دونون چیزیں اکٹھی کیسے ہوسکتی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔ ان دونوں کو جمع کئے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی۔
جس مزہب نے صرف انفرادیت کی تعلیم دی ہے وہ بھی تباہ ہوا ہے۔ کوئی مذہب اور کوئی حکومت اپنے لئے ترقی کا راستہ نہیں کھول سکتی جب تک وہ ان دونوں چیزوں پر بیک وقت عمل نہ کررہی ہو۔ اگلے زمانہ میں خدا سے تعلق محض انفرادیت کے طور پر ہوتا تھا لیکن صحیح راستہ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان ہے۔ جیسے اگلے جہاں میں ایک پل صراط ہوگی یہ اس دنیا کی پل صراط ہے۔ اسلام دونوں چیزوں کو ایک وقت میں بیان کرتا ہے۔ ایک طرف وہ انسان کو اثنا بلد کرتا ہے کہ اسے عرض پر پہنچتا دیتا ہے اور اس کے درمیان اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا اور دوسری طرف جس طرح یونانی جب لڑتے ہیں تو وہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں تاکہ وہ اگر مریں تو اکٹھے مریں اسی طرح اسلام بھی ایک انسان کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتا ہے پس حقیقت یہی ہے کہ اتحاد موجودہ حالات اور افراد سے اتحاد کا نام ہے۔ اتحاد اس بات کا نام ہے کہ موجودہ حالات اور افراد سے کام لیا جائے اور ترقی کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ حالات اور افراد میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ جب تک تجربہ اور تھیوری سے اختلاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی۔ غرض انفرادیت کے بغیر ترقی مشکل ہے اور اتحاد کے بغیر امن قائم رکھنا مشکل ہے۔<
قرآن مجید کی تعلیم
>قرآن کریم نے ان دونوں کو تسلیم کیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ واطیعوا اللہ و رسولہ ولاتنازعو فتفشلو و تذھب ریحکم واصبر وان اللہ مع الصبرین )انفال : ۴۷(
اے مسلمانو !! تم آپس میں اختلاف نہ کرو۔ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے تو کمزور ہوجائو گے اور دشمن سے شکست کھا جائو گے۔ تم ہمیشہ اکٹھے رہنا اور ایک دوسرے کے مددگار رہنا۔ واصبروا اور چونکہ اکٹھے رہنے میں تمہیں کئی مشکلات پیش آئیں گی اس لئے تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ جب تم اجتماعیت کی طرف آئو گے تو کئی جھگڑے پیدا ہوں گے۔ رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں بھی شکوہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ آپﷺ~ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا جارہا۔ اس پر رسول کریم~صل۱~ فرمایا ۔ اے شخص اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا ؟ حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے آپ نے تلوار نکال لی اور عرض کیا یارسول اللہ آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن کاٹ دوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو اس شخص نے بے شک غلطی کی ہے لیکن اگر اس کی گردن کاٹ دی گئی تو لوگ کہیں گے محمد~صل۱~ اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کردیتا ہے۔۱۲۹ پس اگر اس زمانہ کے لوگ بھی شکورہ کردیتے تھے اور اختلاف کا اظہار کردیتے تھے تو پاکستان اور شام اور عراق اور ارون کے لوگ کیوں نہیں کرسکتے ؟ غلطیاں ہوجاتی ہیں اور لوگ شکوہ بھی کرتے ہیں پھر تم کیا کرو۔
فرمایا واصبروا اور مجھ پر امید رکھو میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ پھر فرماتا ہے واعتصموا بجبل اللہ جمعیا ولاتفرقوا )آل عمران رکوع ۱۱( اے مسلمانو ! تم سارے مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔ اگر تم نے تفرقہ کیا تو اس کے نتیجہ میں تمہاری طاقت زائل ہوجائے گی۔ یہ اجتماعی اتحاد کی دعوت ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے مذہب کو کیسی چھوڑ سکتے ہیں وہ بے دین ہیں۔ گویا قرآن کریم اختلاف و اتحاد دونوں کو تسلیم کرتاہے۔ رسول کریم~صل۱~ کے کلام میں بھی اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں اختلاف امتی رحمتہ ۱۳۰ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ اب دیکھو رسول~صل۱~ اختلاف کو بجائے عذاب کے رحمت قرار دیتے ہیں اور اختلاف کرنے والے دونوں فریق کو اپنی امت قرار دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف آپﷺ~ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ جو شخص ۱۳۱جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں۔ گویا آپﷺ~ نے ایک طرف یہ کہا کہ اختلاف رحمت ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوگا وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ایک صحابی رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ جب تفقہ ہوگا تو میں کیا کروں۔ کیا میں تلوار لوں اور لوگوں کا مقابلہ کروں۔ تو آپﷺ~۔ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ جس طرف جماعت ۱۳۲ ہو تم اسی طرف چلے جائو۔ گویا آپ نے ایک طرف انفرادیت پر اس قدر زور دیا ہے کہ اختلاف امت کو رحمت قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ شدید ہے کہ اگر تم پر ظلم بھی کیا جائے تب بھی تم اختلاف نہ کرو بلکہ جماعت کا ساتھ دو۔ غرض رسول کریم~صل۱~ اور قرآن کریم دونوں نے اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا ہے۔<
پہلا اسلامی اصول اتحاد
>اگر ہم اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اتحاد کی گئی صورتیں نکل آئیں گی۔ فلاں مردہ باد۔ فلاں زندہ باد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا۔ اگر کوئی نقطہ مرکزی ایسا ہے جس پر اتحاد ہوسکتا ہے تو اس کو لے لو کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اختلافات قائم رکھو بلکہ بعض دفعہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم اختلاف رکھنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ پھر یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ ہم ان اختلافات کی وجہ سے اتحاد کو چھوڑ دیں۔ میں نے عملی طور پر بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔ جب تحریک خلافت کا جھگڑا شروع ہوا اور مولانا محمد علی اور شوکت علی نے یہ تحریک شروع کی کہ انگریزوں کو کہا جائے کہ وہ سلطان ترکی کو جسے ہم مسلمان خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کچھ نہ کہیں ورنہ ہم سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں گے تو انہوں نے باقی مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ شامل ہوں اور اس کے تعلق میں لکھنو میں ایک جلسہ کیا گیا۔ میں نے جب اس بات پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ شیعہ اور اہل حدیث سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ خوارج اسے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہم احمدی بھی اس بات کے خلاف ہیں۔ ہمارا ہیڈ خود خلیفہ ہوتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ سارے لوگ یہ بات کیوں کہیں گے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں اس لئے اگر تم نے اس پر ہاتھ ڈالا تو ہم سب متحد ہو کر اس کی امداد کریں گے۔ میں نے جلسہ میں شرکت کے لئی ایک وفد لکھنوء بھیجا اور انہیں تحریر پیغام بھجوایا ۱۳۳ کہ اگر تم اس صورت میں انگریزوں کے پاس جائو گے تو وہ کہیں گے کہ خوارج` اہل حدیث اور شیعہ مسلمان عبدالحمید کو اپنا خلیفہ نہیں مانتے تم کیسے کہتے ہو کہ وہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے ؟ میں نے کہا تم یوں کہو کہ سلطان ترکی جسے مسلمانوں کی اکثریت خلیفہ تسلیم کرتی ہے اور باقی مسلمان بھی ان کا احترام کرتے ہیں اگر تم نے اسے کچھ کہا تو ہم سب مسلمان مل کر تمہارا مقابلہ کریں گے۔ اگر تم یوں کہو گے تو کام بن جائے گا۔ کسی احمدی` شیعہ یا اہل حدیث کو یہ جرات نہیں ہوسکے گی کہ وہ کہے سلطان عبدالحمید کو مار دو۔ وہ دل میں بے شک کہے لیکن اس کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا۔ مولانا شوکت علی کی طبعیت جوشیلی تھی جب وفد میرا خط لے کر گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تفرقہ کی بات ہے۔ پندرہ دن کے بعد اہل حدیث کی طرف سے اعلان شائع ہوا کہ ہم سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے شیعوں کی طرف سے بھی اس قسم کا اعلان شائع ہوا اور پھر سرپھٹول شروع ہوگئی۔ خورج اس ملک میں موجود نہیں تھے ورنہ وہ بھی اس قسم کا اعلان کردیتے اور پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد خود ترکوں نے بھی اسے جواب دے دیا۔ تین چار سال کے بعد شملہ میں ہم سب ملے تو مولانا محمد علی نے کہا کتنا اچھا کام تھا۔ لیکن آخر ہم اس میں ناکام ہوگئے مسلمانوں میں تفرقہ ہوگیا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ مین نے کہا مولانا میں نے مشورہ دے دیا تھا کہ یہ نہ لکھا جائے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو خلیفہ مانتے ہیں کیونکہ اہل حدیث` خوارج` شیعہ اور ہم احمدی اسے خلیفہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ کہا جائے کہ سلطان ترکی جس کو مسلمانوں میں سے اکثریت خلیفہ مانتی ہے اور جو خلیفہ نہیں مانتے وہ بھی ان کا احترام کرتے ہین۔ اگر میری بات مان لی جاتی تو یہ ناکامی نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا آپ نے یہ مشورہ ہمیں دیا ہی نہیں۔ میں نے کہا آپ کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کو دیا تھا مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ کی میں نے کہا اگر آپ میرا مشورہ مان لیتے تو اہل حدیث` خوارج اور شیعہ کو شکایت پیدا نہ ہوتی۔ آپ یہ لکھتے کہ اکثریت مسلمانوں کی سلطان ترکی کو خلیفہ مانتی ہے اور اقلیت اسے اپنے اقتدار کا نشان مانتی ہے۔ وہ افسوس کرنے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا۔ پس شیعہ` سنی اور حنفی` وہابی اور احمدی اور غیر احمدی کے اختلاف کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی اتحاد کی باتوں کو لے لیا جائے یہی اتحاد کا اصول ہے۔<
‏tav.13.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
دوسرا اسلامی اصول اتحاد
>دوسرا اصول اتحاد کا یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کردیا جائے۔ اگر تم دیکھتے ہو کہ ہر بات میں اتحاد نہیں ہوسکتا تو تم چھوٹی باتوں کو چھوڑ دو اور بڑی باتوں کو لے لو۔ دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جہاں توحید کا ذکر کرتا ہے وہاں ماں باپ کا بھی ذکر کرتا ہے اور ان کی اطاعت اور فرنبرداری پر زور دیتا ہے لیکن جب انبیاء دنیا میں آئے اور ان کی قوم نے یہ کہا کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے تو خدا تعالیٰ نے یہاں تک کہہ دیا کہ تم جاہلوں کی بات مانتے ہو۔ باپ دادا سے کی عزت بے شک بڑی ہے لیکن جب ان کا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہوجائے تو انہیں چھوڑ دیں۔<
عالم اسلام کو دعوت اتحاد
>پس ان دونوں باتوں پر عمل کیا جائے تو اتحاد ہوسکتا ہے اس وقت پاکستان` لبنان` عراق` اردن ` شام ` مصر` لیبیا` ایران`افغانستان`انڈونیشیا اور سعودی عرب یہ گیارہ مسلم ممالک ہیں جو آزاد ہیں اور ان سب میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اگر انہوں نے آپس میں اتحاد کرنا ہے تو پھر اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ بھی ہے جس پر وہ متحد ہوسکتے ہیں ؟ اور اگر کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے تو وہ اس پر اکٹھے ہوجائیں اور کہیں کہ ہم یہ بات نہیں ہونے دیں گے۔ مثلاً یہ سب ممالک اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم کسی مسلم ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور بجائے اس کے کہ اس بات کا انتظار کریں کہ پہلے ہمارے آپس کے اختلافات دور ہوجائیں وہ سب مل کر اس بات پر اتحاد کر لیں کہ وہ کسی ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور سب مل کر اس کی آزادی کی جدوجہد کریں گے جس طرح رسول کریم~صل۱~ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی تھی کہ آئو ہم توحید پر جو ہم سب میں مشترک ہے متحد ہوجائیں` اسی طرح ہم سب مسلمان اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ ہم کسی کو غلام نہیں رہنے دیں گے اختلافات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ اسی طرح پاکستان کے مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے ہین اور ان میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان سب ممالک میں کوئی چیز مشترک بھی ہے وہ اس پر متحد ہوسکتے ہیں۔ مثلاً یہی بات لے لو کہ ہم نے پاکستان کو ہندوئوں سے بچانا ہییا کشمیر حاصل کرنا ہے تم ان چیزوں کو لے لو اور بجائے آپس میں اختلاف کرنے کے ان چیزوں پر متحد ہوجائو بعد میں ملنے ملانے سے دوسرے اختلافات بھی دور ہوجائیں گے ۔۔۔۔۔ عالم اسلامی کا اتحاد بھی اسی طرح ہوگا۔ اگر مسلم ممالک آپس میں اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ اختلاف کے باوجود ہم دشمن سے اکٹھے ہو کر لڑیں گے اور ہم بھی اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ باہمی اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے نہیں۔<
نازک زمانہ کی خبر
>اسلام پر ایک نازک زمانہ آرہا ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو کھولیں اور خطرات کو دیکھیں اور کم از کم اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم رسول کریم~صل۱~ کا ذکر مٹنے نہیں دیں گے۔<۱۳۴
غیر احمدی معززین کے تاثرات
اس پراز معلومات خطاب کے بعد بعض غیر احمدی معززین نے فرط محبت سے حضور سے مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ آج کی تقریر سننے کے بعد ہمارے بہت سے مشکوک و شبہات رفع ہوگئے ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا سفر حیدر آباد سندھ
)مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کی ایک غیر مطبوعہ یادداشت(
مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۵۲ء کو حضورؓ اڑھائی بجے صبح کو پنجاب سے حیدر آباد تشریف لائے۔ حضور کو الوداع کہنے کے لئے ہم لوگ ٹنڈوالہیار تک گئے جہاں حضور کو ناشتہ دیا گیا۔ جماعت احمدیہ حیدر آباد آدھی رات سے استقبال کے لئے موجود تھی۔ ۲۹ فروری کو جماعت حیدر آباد میں جلسہ کرانے کی تجویز ہوئی اور پھر حضور سے اجازت کے لئے خاکسار نے ناصر آباد جا کر عرض کیا تو فرمایا :۔
>وہاں جلسہ ہو بھی سکے گا۔ ابھی تھوڑے دن قبل احراری تقریریں کر کے گئے ہیں<
آخر حضورؓ نے ہماری درخواست منظور فرمائی۔ کیونکہ حضور کی گاڑی میر پور خاص کی طرف سے ان دنوں دس بجے آتی تھی اور چناب ایکسپریس ۸ بجے روانہ ہوجاتی تھی۔ حضور نے ۲ گھنٹے حیدر آباد قیام فرمایا تھا۔
۱۵ مارچ کو جماعت کی میٹنگ ہوئی اور مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب نے جو ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اپنے تمام کمرے خالی کر کے دینے اور حضور کے قیام و طعام کا ذمہ لیا اور مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب ٹیچر ہائی سکول ہیرہ آباد نے مکرم ماسٹر نور محمد صاحب ہیڈ ماسٹر سے اجازت لے لی کہ حضور کے ہمراہی اصحاب اور دیگر تمام مہمانوں کا قیام اور زائرین کے لئے ہائی سکول کا ہوسٹل فارغ ہوگا جو ہسپتال کے ساتھ ہی تھا درمیان میں صرف سڑک تھی۔
حضور نے جلسہ کی اجازت کے ساتھ مجھے یہ ہدایت فرمائی کہ جماعت کراچی سے مدد حاصل کی جائے چنانچہ ۲۱ مارچ کو پھر میٹنگ کی گئی اور مورخہ ۲۵ مارچ کی شام کو >تھیا صوفیکل ہال< میں جلسہ کا پروگرام بنا کر سندھ کی بڑی بڑی ۳۲ جماعتوں کو کو جلسہ کی دعوت دی اور حاضری کی تاکید کی گئی اور پہرہ کا خاص اہتمام کیا گیا۔
۱۷ مارچ کو مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کو میں نے چٹھی لکھ اور حضور کے ارشاد سے آگاہ کر کے پہرہ اور صدر جلسہ کا اہتمام کر کے آنے کے لئے تاکید کی اور ۳۲ جماعتوں کو بھی دعوتی خطوط خاکسار نے لکھے۔
۲۰ مارچ کو پھر جلسہ اور حضور کے قیام کے بارہ میں میٹنگ ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ میں حضور کو >مسلم ہوسٹل< میں قیام کے انتظام کی اطلاع ناصر آباد میں جاکردوں اور جلسہ کے لئے دعوتی پاس چھپوانے کا اہتمام کیا گیا چنانچہ خاکسار سید احمد علی جو ان دنوں زیریں سندھ )ضلع حیدر آباد` ٹھٹھہ` تھرپارکر` سانگھڑ` نواب شاہ اور ضلع دادو( کا انچارج مبلغ تھا ۲۱ مارچ بروز جمعہ صبح کو ناصر آباد گیا اور حالات تحریری چٹھی میں عرض کئے تو حضور نے میرے لفافہ میں حسب ذیل الفاظ تحریر فرمائے :۔
>اگر مسلم ہوسٹل بہتر ہے تو وہیں انتظام کردیں لیکن موقعہ پر لوگوں کے شور سے اکثر افسر ڈر جاتے ہیں۔<
)یہ اصل لفافہ میرے پاس ہے جس کے اوپر یہ الفاظ ہیں(
خاکسار حضور کی اقتداء میں نماز جمعہ کے بعد رات کو واپس حیدر آباد پہنچا اور جماعت کو حالات سے آگاہ کر کے کہا کہ ہمیں کوئی دوسرا انتظام فوری طور پر کر لینا چاہئے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعد میں بعض اساتذہ سے مرعوب ہو کر مکرم` ماسٹر نور محمد صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ہیرہ آبادنے معذرت کردی ادھر ہم نے متبادل انتظام کر لیا ہوا تھا۔
۲۲۔ مارچ کو دفتر >تبلیغ< ربوہ کی طرف سے تار آیا کہ حضور کی تقریر کے قلم بند کرنے کا انتظام کریں چنانچہ جواب میں عرض کیا گیا کہ مکرم مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوٹی تقریر قلم بند کریں گے۔
اسی رات کو پھر میٹنگ ہوئی اور مورخہ ۲۳۔ مارچ کو حضور کے قیام کے لئے >مسلم ہوسٹل< کی بجائے >انسپکشن بنگلہ< نزد سرکٹ ہائوس انتظام کر لیا گیا اور جلسہ کے لئے حسب ذیل دعوت نامہ پوسٹ کارڈ سائز پر طبع کرایا گیا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی جناب !
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بروز منگل مورخہ ۲۵ مارچ ۱۹۵۲ء کو ساڑھے چار بجے شام تھیا صوفیکل ہال نزد جنرل پوسٹ آفس حیدر آباد میں >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر تقریر فرمائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
آپ اس جلسہ میں شرکت فرما کر منتظمین کو شکریہ کا موقعہ دیں۔
نوٹ :۔ براہ مہربانی یہ دعوت نامہ ہمراہ لایئے گا۔
والسلام
الداعی سیکرٹری جماعت احمدیہ حیدر آباد< یہ دعوت نامہ صرف ۵۰۰ کی تعداد میں طبع کرایا گیا تھا کیونکہ ہال میں اسی قدر بمشکل گنجائش تھی مگر شائقین و سامعین کا اتنا اشتیاق و اصرار ہوا کہ کارڈ تقسیم کرنے کے بعد جس کو کارڈ بوجہ واقفیت دیا گیا اس کی سفارش پر اسی کے کارڈ پر دو دو تین تین بلکہ چار چار کے بھی نام مجھے درج کرنا پڑے۔ اور ہال میں تنگی کی وجہ سے اکثر لوگوں کو جلسہ میں تقریر لائوڈ سپیکر کے ذریعہ باہر کھڑے ہو کر سننا پڑی۔ میں دعوتی کارڈ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دیتا تو پہر داران کو داخل ہونے دیتے تھے۔
۲۴ مارچ بروز سوموار حضور دس بجے شب بذریعہ ٹرین ناصر آباد سے میر پور خاص کے راستے حیدر آباد تشریف فرما ہوئے۔ جماعت احمدیہ حیدر آباد نے حضور کا استقبال کیا اور کاروں کے ذریعہ حضور مع عملہ >انسپکشن بنگلہ< نزد سرکٹ ہائوس حیدر آباد میں تشریف لے گئے۔ جہاں رات کو قیام فرمایا۔
۲۵ مارچ کی صبح کو مکرم چوہدری محمد سعید صاحب نے اپنے مکان واقع ہیرہ آباد میں حضور کو دعوت ناشتہ دی۔ اس موقع پر لی گئی ایک تصویر میرے پاس تھی جو آپ ہنگاموں میں ضائع ہوگئی ہے۔ اسٹیشن پر سے اترنے کے وقت بھی ایک تصویر تھی وہ بھی ضائع ہوگئی ہے۔ مکرم بابو عبدالغفار صاحب فوٹو اسپیڈ کمپنی حیدر آباد سندھ کے پاس بھی ہے ان کے بھائی مکرم نثار احمد صاحب کے پاس غالباً یہ مل سکیں گی جنہوں نے یہ تصاویر لی تھیں۔
۲۵۔ مارچ بروز منگال حضور سے معززین شہر حیدر آباد آ آ کر دن بھر ملاقات کرتے رہے۔
مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ امیر جماعت کراچی نے کراچی سے کافی تعداد میں موٹر کاروں کے ذریعہ احباب جماعت کو حیدر آباد بھیجا اور خود بھی تشریف لائے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حیدر آباد کے اس جلسہ کے صدر کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ تو انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ میں اب یہاں کوشش کرتا ہوں چنانچہ ہم دونوں مکرم جناب ایم۔اے حافظ صاحب بار ایٹ لاء ہیرہ آباد کے پاس پہنچے۔ انہوں نے اس جلسہ کی صدارت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔ وہ مکرم چوہدری صاحب کے واقف اور دوست تھے اور آنے کا وعدہ کیا بڑی خوشی کا اظہار کیا۔
وقت مقررہ سے قبل ہی ہال کھچا کھچ بھر گیا جس مین انتظامی لحاظ سے احمدی نصف کے قریب تھے باہر بھی دعوت نامہ والے صحن میں کھڑے تھے۔حضور وقت مقررہ پر ساڑھے چار بجے بذریعہ کار ہال میں تشریف لائے۔ مکرم جناب ایم۔اے اے حافظ صاحب بار ایٹ لاء کی صدارت کا مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب نے اعلان کیا۔ تلاوت قرآن کریم خاکسار سید احمد علی مبلغ نے کی۔ نظم مکرم میر مبارک احمد صاب تالپور نے پڑھی اور پھر صدر جلسہ نے حضور سے تقریر کی درخواست کی جو حضور نے >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر ساڑھے چھ بجے شام تک فرمائی۔ آخر میں دعا کرائی اور پھر اس کے بعد چناب ایکسپریس کے ذریعہ پنجاب کے سفر کے لئے بذریعہ کار حضور سید حیدر آباد اسٹیشن تشریف لے گئے جہاں تمام احباب جماعت ہائے احمدیہ حیدر آباد )سندھ اور کراچی سے آنیوالوں نے حضور سے ملاقات کی۔ گاڑی کے آنے میں کافی وقت تھا حضور کے لئے پلیٹ فارم پر کرسی کا انتظام کیا گیا جس پر رونق افروز ہر کر حضور نے مشتاقین کو زیارت سے مشرف فرمایا اور غیر از جماعت اصحاب کو بھی شرف ملاقات بخشتے رہے۔ اس موقع پر حضور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ پچھلی دفعہ جب یہاں میرا لیکچر ہوا تھاتو صرف ۳۵ افراد سننے والے تھے مگر اب کے تھیا صوفیکل ہال کیاندر ۵۰۰ سے زائد اور باہر اسے بھی زیادہ صحن میں موجود تھے اس طرح حاضری ہزار بارہ سو تھی مگر جو باہر کھڑے لائوڈ سپیکر کے ذریعہ حضور کی تقریر سنتے رہے وہ بھی کئی صد تھے۔ حضور بے حد خوشی اور مسرتمحسوس فرمارہے تھے۔ اور یہ خدا کا خاص فضل تھا کہ جلسہ میں ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگ یعنی سنی` حنفی` بریلوی` شیعہ اہل حدیث` دیو بندی وغیرہ بلکہ عیسائی اور ہندو بھی موجود تھے اور بہت ہی اچھا اثر لے کر گئے اور حضور کی تقریر کے مدح سراتھے۔
دس بجے حضور چناب ایکسپریس پر سوار ہوئے احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر خوش و شادمانی اور جلسہ کی شاندار کامیابی کے ساتھ پنجاب کو تشریف لے گئے۔
اگلے ہی دن ۲۶ مارچ کو خاکسار نے اس جلسہ کی رپورٹ دفتر >تبلیغ ربوہ< الفضل< اور >المصلح< کراچی کو روانہ کردی >الفضل< مورخہ ۳۰ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ پر زیر عنوان >حضرت امیر المونین ایدہ اللہ تعالیٰ کی حیدر آباد میں تشریف آوری اور بصیرت افروز تقریر شائع ہوئی` فالحمدلل¶ہ
میری ۱۹۵۲ء کو ڈائری اب تک موجود ہے اس سے یہ حالات مرتب کئے گئے ہیں۔ والسلام
خاکسار سید احمد علی مربہ جماعت احمدیہ
از شہر گوجرانوالہ ۵۷۔۳۔۷
دیگر کوائف
اس یادگار اور تاریخی موقع پر جن مقامات کے احمدی تشریف لائے ان کے نام یہ ہیں:۔
کرچی` بدین` میرپور خاص` نواب شاہ` سکھر` روہڑی` کرونڈی )خیر پور اسٹیٹ`( سانگھڑ` پڈعیدن` ٹنڈوالہ` یار باندھی` لاکھا روڈ` بنی سر روڈ` ڈگری` کوٹ احمدیاں اوراحمدیہ اسٹیٹس۔
چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور قائد و نائب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے بھی جماعت کی خاصی تعداد اور قریباً ڈیڑھ سو خدام کے ساتھ شرکت کی اور انتظامی اور حفاظتی امور میں مقامی جماعت سے مخلصانہ تعاون کیا۔ اسی طرح مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب )نگران اعلیٰ( پریذیڈنٹ حیدر آباد` مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ حیدر آبا` مکرم مولوی غلام احمد صاحب فرخ مبلغ بالائی سندھ` مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب سیکرٹری تبلیغ۔ مکرم بابو عبدالغفار صاحب کانپوری` مکرم ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوشاں رہے۔]4 [stf۱۳۵
فصل ششم
حکام وقت کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا پارلیمنٹ میں اعلان حق خلافت احمدیہ سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی وضاحت دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا افتتاح
حکام کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت
پاکستان میں اب تک کئی احمدی جام شہادت نوش کرچکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مخالفت کا دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ لٰہذا سیدنا محمود خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۱۳۳۱۲۸ہش کے خطبہ جمعہ میں واضح رنگ میں یہ ہدایت دی کہ ہر صورت میں احباب جماعت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ حکام وقت کو ہمیشہ حالات سے باخبر رکھیں۔ چنانچہ فرمایا:۔
>جہاں تک قانون کا سوال ہے میرے نزدیک صاف بات ہے کہ جماعت کو ایسے افعال کی طرف بار بار توجہ دلانی چاہئے کیونکہ حکومت کے ذمہ دار افراد نے خواہ وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں جو نام اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ کریں۔ اگر جماعتیں انہیں اس طرف توجہ نہ دلائیں تو وہ دنیا کے سامنے کہہ سکتے ہیں کہ ہم حالات سے واقف نہیں تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کی حفاظت کے لئے تیار تھے لیکن انہوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں۔ پس دنیا کے دربار میں اور خدا تعالیٰ کے دربار میں بھی حکومت کے آفیسروں پر محبت پوری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر ضلع اور ہر صوبہ کے حکام اور گورنمنٹ پاکستان کے سامنے متواتر اپنے حالات رکھیں اور قطعاً اس بات کا خیال نہ کریں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا جتنی دیر سے نتجہ نکلے گا اتنا ہی وہ انہں مجرم بنانے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا موجب ہوگا۔ دنیا کی حکومت جتنی گرفت کرسکتی ہے خدا تعالیٰ کی حکومت یقیناً اس سے زیادہ گرفت کرسکتی ہے لیکن کسی شخص پر حجت تمام کردینا سب سے بڑا کام ہے خودسر` جوشیلے اور بے وقوف لوگ اسے فضول سمجھتے ہیں لیکن عقل مند لوگ جانتے ہیں کہ سب سے بڑی سا یہ ہے کہ کسی شخص پر حجت پوری ہوجائے اور اس کے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں پر حجت پوری ہوجائے اس کے بعد وہ خواہ عمل نہ کرے اس کے لئے ہی سزا کافی ہے پھر خدا تعالیٰ جو سزا دے گا وہ الگ ہے میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو کہتے ہیں کہ حکومت نے پہلے کیا کیا ہے کہ ہم پھر اس کے پاس جائیں۔ یہاں اس بات کا سوال نہیں کہ وہ کوئی علاج بھی کرتے ہیں یا نہیں یہ لوگ ہم پر مقرر کردیئے گئے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ نے ہم پر حاکم مقرر کیا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی انہیں اسی نام سے مخاطب کریں اور کہیں کہ تم ہمارے حاکم ہوا اور امن قائم رکھنا تمہارا فرض ہے۔ اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کرں تو ہم دوبارہ ان کے پاس جائیں گے اور انہیں اس طرف توجہ دلائیں گے۔<
>جو لوگ مادی چیزوں کو لیتے ہیں وہ کسی افسر کے موقوف ہوجانے اور اس کے ڈسمس ہوجانے کا نام سزا رکھتے ہیں بے شک وہ سزا ہے لیکن وہ سزا گھٹیا درجہ کی ہے کسی شخص کا مجرم ثابت ہو جاتا ` اس کا غیر ذمہ دار قرار پانا اور فرض ناشناس قرار پانا اس کے ڈسمس ہوجانے اور معطل ہو جانے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کتنے آدمی ہیں جو معطل ہوئے لیکن بعد میں آنے والوں نے انہیں بری قرار دیا۔ پرانے زمانے میں کئی کمانڈر اپنی کمانوں سے الگ ہوئے۔ کئی بادشاہ اپنی بادشاہتوں سے الگ ہوئے لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں بری قار دے دیا۔ وہ کتنے سال تھے جو انہوں نے تکلیف میں گزارے ؟ یہی دس بارہ سال وہ تکلیف میں ہے اور انہوں نے ذلت کو برداشت کیا لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں اتنا اچھالا کہ وہی معطل شدہ کمانڈر اور بادشاہ عزت والے قرار پائے۔ اس کے مقابلہ میں کتنے بڑے سرکش بادشاہ اور کمانڈر گزرے ہیں جنہیں اپنے وقت میں طاقت` قوت اور دبدبہ حاصل تھا` انہوں نے ماتحتوں پر ظلم بھی کئے لیکن سینکڑوں اور ہزاروں سال گزر گئے کوئی شخص انہیں اچھا۔ ہر تاریخ پڑھنے والا نہیں ملامت کرتا ہے اور انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتاہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی اولاد بھی اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتی۔<
>اگر تم پر کوئی شخص ظلم اور تعدی کرتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ افسر فرض شناس ہے اور وہ تمہاری مدد بھی کرے گا تو پھر بھی وہ اس وقت تک ظلم کو نہیں مٹا سکتا جب تک کہ وہ وقت نہ آجائے جو خدا تعالیٰ نے اس مٹانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ ایک صداقت کی دشمنی محض یہ نہیں ہوتی کہ اس کے قبول کرنے والے کو مارا جائے بلکہ دشمنی یہ ہوتی ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے۔ اب کیا حکومتیں کسی کو جھوٹا کہنے سے روک سکتی ہیں ؟ اگر وہ جلسے روک دیں گے تو لوگ گھروں میں بیتھے باتوں باتوں میں جھوٹا کہیں گے۔ اور اگر حکومت اور زیادہ دبائے گی تو وہ دلوں میں جھوٹا کہیں گے اب دلوں میں برا منانے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے ؟ اگر ایک شخص صداقت سے محروم ہے` وہ ناواقف ہے اس لئے وہ صداقت سے دشمنی کرتا ہے اور وہ شیطان کا ہاتھ میں پڑ گیا ہے۔ تو جب تک اس کا دل صاف نہ ہو اس کی دشمنی کو دور نہیں کیا جاسکتا اور جس دن اس کا دل صاف ہو جائے گا تو کیا ایسی طاقت ہے یا کوئی ایسی حکومت ہے جو اس سے مخالفت کرواسکے ؟ جو لوگ احمید کے دشمن میں حکومت اگر چاہے بھی تو ان کے دلوں سے دشمنی کو نہیں نکال سکتی۔ اسی طرح جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے اگر حکومت چاہے بھی تو بھی ان کے دلوں سے بانی سلسلہ احمدیہ کی محبت کو نہیں نکال سکتی۔
ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے` اور جب ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے تو حکومت پر نظر رکھنی فضول ہے۔ تمہاری فتح دلوں کی فتح ہے اور جب دل فتح ہوجائیں گے تو تمہیں فتح حاصل ہوجائے گی۔ اگر تم نے دلوں کو فتح کر لیا تو تم دیکھو گے کہ یہی افسر جو آج تمہارے خلاف دوسروں کو اکساتے ہیں ہاتھ جوڑ کر تمہارے سامنے کھڑے ہوجائیں گے اور کہیں گے ہم تو آپ کے ہمیشہ سے خادم ہیں۔<]>[آخر کوئی حکومت ہو مسلم ہو یا غیر مسلم` بری ہو یا اچھی اس کے بننے میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
ترتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعزمن تشاء و تذل من تشاء۱۳۶
یعنی حکومت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے وہ جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں فلاں شخص نے لڑائی کر کے حکومت لے لی ہے` فلاں شخص نے غصب کر کے حکومت لے لی ہے یا فلاں شخص نے بغاوت کر کے حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے` لیکن ہر حکومت میں خدا تعالیٰ کی مرضی ضرور شامل ہوتی ہے۔ جس طرح انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے جس طرح انسان کی موت میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے۔ جس طرح رزق میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے اسی طرح اس کی مرضی حکومت مین بھی شامل ہوتی ہے۔ بے شک اس میں انسانی اعمال کا بھی دخل ہے۔ بے شک اس میں انسانی کوششوں` سستیوں اور غفلتوں کا بھی دخل ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ ہماری طرف سے ہے۔ جس طرح موت اور حیات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی طرح حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
کسی قوم کی موت اور حیات اس کا ٹوٹ جانا اور بننا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں۔
توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعزمن تشاء و تذل میں تشاء
تو حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوا۔ اور جس خدا کے ہاتھ میں حکومت کا قائم کرنا ہے جس خدا کے ہاتھ میں حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا ہے وہی خدا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی تکلیفیں افسران بالا کے سامنے لے جائو اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا بے وقوفی ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مذہبی لحاظ سے بار بار اپنی تکالیف گورنمنٹ تک پہنچائیں۔ اس طرح اگر کوئی افسر فرض شناس ہوگا تو وہ ہماری مدد بھی کرے گا اور ہمیں فائدہ پہنچائے گا۔ لیکن اگر وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہہ سکو گے کہ اے خدا جو ذریعہ اصلاح کا تونے بتایا تھا وہ ہم نے اختیار کیا ہے۔<
>پھر تم یہ بات بھی مت بھولو کہ تمہارا توکل خدا تعالیٰ پر ہے حکومت پر نہیں۔ پھر جہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ان امور کو حکومت کے سامنے لے جائو وہاں اگر تمہیں مایوسی نظر آتی ہے تو مایوس مت ہو کیونکہ اصل بادشاہ خدا تعالیٰ ہے اور جو فیصلہ بادشاہ کرے گا وہی ہوگا انسان جو فیصلہ کرے گا وہ نہیں ہوگا۔ ایک افسر کی غلطی کی وجہ سے حکام کو توجہ دلانا چھوڑ نہ دو اور ایک افسر کی غفلت کی وجہ سے فائدہ اٹھانا ترک نہ کرو۔ محض چند افسران کا اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہونا ایسی چیز نہیں کہ تم حکام کے کام سے غافل ہوجائو۔ تم انہیں توجہ دلاتے رہو اور ان کے پاس اپنی شکایت لے جائو۔ لیکن تمہارا تبھی مکمل ہوگا جب تم اپنی شکایات حکومت کو سامنے پیش تو کرو` تم ان امور کو لے کر افسران کے پاس جائو تو ضرور لیکن یہ خیال مت کرو کہ اگر وہ توجہ نہ کریں گے تو تم کو نقصان پہنچے گا۔ اگر یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے تو خدا تعالیٰ نے ہی اسے پورا کرنا ہے۔ جس دن تمہیں یہ یقین ہوجاے گا کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور وہ اسے ضرور کرے گا تو تم موجودہ مخالفت سے گھبرائو گے نہیں۔ ہر انسان میں تھوڑی بہت شرافت ضرور ہوتی ہے تم اگر متواتر افسروں کے پاس جاتے رہو گے تو ایک نہ ایک دن وہ شرما جائیں گے اور وہ خیال کریں گے ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا لیکن یہ لوگ اپنا فرض ادا کئے جارہے ہیں اور جب تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو گے تو تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمام رحمتوں اور فضلوں کا منبع ہے یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ ایک جماعت کو خود قائم کرے اور پھر اسے مٹا دے اسے بڑی بے دینی اور بدظنی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں چھوڑ دے گا ؟<
آخر میں حضور نے قو و یقین سے لبریز الفاظ میں پیشگوئی فرمائی کہ :۔
>اگر تم نیکی اور معیار دین کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کردیں تو خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ اس کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہاری مدد کے سامان پیدا کریں گے۔<۱۳۷
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کاپارلیمنٹ میں اعلان حق
مارچ ۱۹۵۲ء کا واقعہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کے بعض لیڈروں نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی کہ برطانیہ اور امریکہ کے دامن سے بندھن ہوئی ہے۔ نیز کہا:۔
>وزیر خارجہ کا ریکارڈ یہ ہے کہ تیس سال تک برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ ریز رہے ہیں۔<
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے جواب میں پہلے تو چند ایک مثالیں پیش کیں جن میں پاکستان نے بڑی بڑی طاقتوں کی سخت سے سخت مخالفت کے علی الرغم مسلم ممالک کی آزادی کے لئے حمایت کی اور ان کو مدد دی۔ آپ نے کہا ان میں سے لیبیا` ایرٹیریا ` سمالی لینڈ` مراکو ` ٹیونس اور انڈونیشیا بعض مثالیں ہیں۔ آپ نے ان لیڈروں کو دعوت دی کہ وہ ان مشرق وسطی کے ممالک کا دورہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان ممالک کا ہر ایک انسانی معترف ہے کہ جہاں کہیں بھی آزدی` حریت اور سامراجیت کے خلاف لڑائی اور نو آبادیاتی پالیسی کی مخالفت کا سوال پیدا ہوا پاکستان ہمیشہ صف اول میں رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مری برطانوی جھگڑے میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ کوئی ایسا فیصلہ ہو جس سے مرصی عوام کی پوری پوری تسلی ہو اور جو مصر کے وقار` عزت نفس اور علو شان کے شادیاں ہو۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ برطانوی ایرانی جھگڑے میں ہماری تمام جدوجہد اس اصول کے پیش نظر رہی ہے کہ اس امر کو غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کر لیا جائے کہ ایران کو اپنی تیل کی صنعت کو قومی بنانے کا حق حاصل ہے اور یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ قومی بنانے کا اقدام اب منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت چوہدری صاحب نے برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے اعتراض کے جوبا میں واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ:۔
>میں کبھی کسی کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوا خواہ کوئی حکومت ہو یا ایک بادشا یا رعایا سوائے اس کے کہ جو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ اور چونکہ میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہوں میں کسی دوسرے کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا۔<
پھر فرمایا :۔
>میں نے ہرگز کبھی کسی کے پاس کسی عہدے یا مرتبے کے لئے درخواست نہیں کے۔ وزارت خارجہ مجھے پیش کی گئی جیسا کہ میں غیر منقسم ہندوستان میں اس عہدہ پر فائز تھا اور مجھے اس عزت افزائی کا فخر ہے کہ جو مجھے پاکستان کی تاریخ کے ایسے نازک مرحلے پر اس کی حقیر سی خدمت کرنے کا موقعہ دینے سے کی گئی ہے۔<۱۳۸
حضرت مصلح موعودؓ کی وضاحت خلافت احمدیہ سے متعلق
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے الفضل )۲۵ فتح ۱۳۳۰ ہش/۲۵ دسمبر ۱۹۵۱ء( میں >اسلامی خلافت کا نظریہ< کے زیر عنوان ایک پرمغز مقالہ تحریر فرمایا ۱۳۹]4 [rtf جس میں یہ ذوقی بات بھی شامل ہوگئی کہ >یہ اٹل تقدیر ظاہر ہو کر رہے گی کہ کسی وقت احمدیت کی خلافت بھی ملکویت کو جگہ دے کر پیچھے ہٹ جائے گی۔<
صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو یہ نظریہ حضرت مسیح موعودؓ علیہ السلام کی تصریحات اور جماعتی منسلک کے منافعی معلوم ہوا اور آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھی اپنی رائے عرض کردی جس پر حضور پر نور نے موجودہ آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لئے حسب ذیل وضاحت نوٹ سپرد قلم فرمایا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
خلافت عارضی ہے یا مستقل
عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریکیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق اور وقت ہے۔ میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت` خلافت کے بارہ میں پیش نہیں کی گئی۔
مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے اس حدیث میں قانون نہیں بنایا کیا گیا بلکہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے سب اوقات کے متلعق نہیں ہوتی یہ امر کہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبدہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہوگیا۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا۔ قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہان یہ بتایا گیا ہے کہ خلاف ایک انعام ہے۔ پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسی ملتا رہے گا۔ پس جہاں تک مسئلے اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپںی آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کردے۔ لیکن اس اصل سے یہ بات ہرگز نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنون میں حضرت مسیح کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں۔ پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰؑ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسیٰؑ کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی` اسی طرح گو رسول~صل۱~ کے بعد خلافت محمدیہ تواتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معینہ عرصہ تک چلتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر ولالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں۔ ان میں علاقہ محمدیت` علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کردیا ہے جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا۔ کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اورمسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی۔ خلافت چونکہ ایک انعام سے ابتلاء نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں۔ کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں۔
پس جہاں میرے یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کردیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہوگا جیسی دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا۔< ۱۴۰
دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا افتتاح
نوجوانان احمدیت کی عالمی تنظیم۔خدام الاحمدیہ۔۔ کے مرکزی دفتر کی بنیاد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۶ ماہ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/۶ فروری ۱۹۵۲ء کو اپنے دست مبارک سے رکھی۔ قریباً پانچ ہزار روپیہ کی لاگت سے دفتر کے دو کمرے اور ان کے آگے آٹھ فٹ چوڑا برآمدہ` ایک سٹور اور ایک چوکیدار کا کمرہ تعمیر ہوچکا تو مورخہ ۵ اپریل ۱۹۵۲ء )مطابق ۵ شہادت ۱۳۳۱ ہش( کو دفتر اپنی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ اس روز سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بعد نماز عصر دفتر میں تشریف لا کر افتتاحی دعا کی۔ دعا سے قبل حضور نے مجلس کے دفتر بنانے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اسے جلد مکمل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ۱۴۱
اس موقعہ پر حضور نے ایک مختصر مگر ایمان افروز خطاب کیا جس میں فرمایا:۔
>اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہئے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے۔ ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کردیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں۔ اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مرجائیں۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں تمہیں خدا تعالیٰ نے رکھا ہے تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کردینا چاہئے۔ اگر خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جا کر کام شروع کردو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو۔ مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے۔ گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہوتی ہے۔<۱۴۲
فصل ہفتم
مجلس مشاورت ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کا انعقاد چندہ تعمیر مساجد کا مستقل نظام اشاعت لٹریچر کیلئے دوکمپنیوں کے قیام کا اعلان مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ
مجلس مشاورت ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء اور اہم فیصلے
۱۱۔۱۲۔۱۳۔ ماہ شہادت ۱۳۳۱ ہش/ اپریل ۱۹۵۲ء کو جماعت احمدیہ کی تینتیسویں مجلس مشاورت کا ربوہ میں انعقاد ہوا۔
خطبہ جمعہ میں نصیحت
حضرت مصلح موعود~رضی۱~ نے افتتاح مشاورت سے قبل خطبہ جمعہ میں نصیحت فرمائی کہ :۔
>جب تک کسی قوم کے افراد اپنے اندر صحیح تبدیلی پیدا نہ کریں` وہ اپنے اندر سچا تقویٰ نہ پیدا کریں` وہ اپنے اندر درمیانہ روش کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر سوچنے اور فکر کرنے کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر عقل اور دانائی سے کام لینے کی روح پیدا نہ کریں` اس کے نمائندے بھی درحقیقت صحیح رستہ اور سچائی سے ایسے ہی دور ہوں گے جیسے اس جماعت کے افراد جس کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا۔ پس یہ جو ہم شوریٰ کرتے ہیں وہ اس غرض کو تو پورا کرتی ہے کہ اگر جماعت کے افراد صحیح ہوں تو شوریٰ مفید ہوسکتی ہے لیکن اس غرض کو پورا نہیں کرتی کہ اس کے افراد ٹھیک ہوں افراد کا ٹھیک ہونا ان کے اپنے ارادے اور کوشش کے صحیح ہونے پر مبنی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو آپ لوگ کر سکتے ہیں کوئی نمائندہ نہیں کرسکتا۔ دل کی اصلاح کے لئے انسان کی اپنی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس کی اپنی کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر تم ٹھیک ہوجائو تو تمہاری شوریٰ اور مشورے بھی ٹھیک ہوجائیں اور پھر صحیح مشورے پورے بھی ہوجائیں۔ کیونکہ اگر تم صحیح ہوگے تو تم اپنے مشوروں کو پورا کرنے کی کوشش کرو گے۔<۱۴۳
مشاورت کے عمومی کوائف
مشاورت دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوئی جس میں ۳۷۳ نمائندوں نے شرکت فرمائی۔ بیرونی ممالک میں سے اس مرتبہ جرمنی` امریکہ ` سوڈان` انڈونیشیا اور چین کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ آئندہ سال بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے قریباً تیرہ لاکھ روپیہ خرچ کیا جاے۔ صدر انجمن کا میزانیہ جس کی منظوری حضرت امام ہمام نے عطا فرمائی پندرہ لاکھ ۷۶ ہزار روپیہ پر مشتمل تھا۔
چندہ تعمیر مساجد کا مستقل نظام
اس تقریب پر حضورؓ نے تعمیر مساجد کے چندہ کی فراہمی کے لئے ایک مستقل نظام تجویز فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ )۱( ملازم پیشہ اپنی سالانہ ترقی کے پہلے ماہ کی رقم )۲( بڑے پیشہ ور ایک مہینے کی آد کا پانچواں حصہ )۳( چھوٹے پیشہ ور مہینے کی کسی معینہ تاریخ کی مزدوری کا دسواں حصہ )۴( تاجر اصحاب مہینہ کے پہلے سودا کا منافع اس مد میں دیا کریں۔ اور )۵( زمیندار احباب ہر فصل پر ایکڑ زمین میں سے ایک کرم کے برابر چندہ تعمیر مساجد ادا کیا کریں۔<
مندرجہ بالا طبقوں کے نمائندوں نے خلیفہ وقت کے سامنے بشاشت کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مجوزہ نظام کے مطابق بالالتزام چندہ دیا کریں گے۔ اس موقعہ پر سیالکوٹ کے ایک تاجر دوست خواجہ محمد یعقوب صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک سو روپیہ اس فنڈ کے لئے پیش کیا جس پر حضور کی خدمت بابرکت میں نقدی پیش کرنے کی ایک عام رو پیدا ہوگئی اور حضورؓ کے اردگرد اتنا ہجوم ہوگیا کہ نظم و ضبط کی خاطر انہیں قطاروں میں کھڑا کرنا پڑا` چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے چار ہزار سے زائد روپیہ نقد اور ایک ہزار روپیہ سے زائد کے وعدے وصول ہوگئے۔ خواتین کی طرف سے ۔/۶/۰۹ نقد کے علاوہ دو طلائی انگوٹھیاں بھی حضور کی خدمت می پیش ہوئیں۔ چندہ دینے کا یہ سلسلہ ابھی پورے جوش و خروش سے جاری تھا کہ حضور نے مجلس کی کارروائی کی خاطر اسے روک دینے کا اعلان کیا اور ارشاد فرمایا کہ مسجد فنڈ کے مزید چندے اور وعدے بعد میں دیئے جائیں۔ ۱۴۴
سب سے پہلے احمدی تاجر جنہوں نے مشاورت کے معاً بعد اس مالی جہاد مین حصہ اور ڈھائی سو روپیہ اس مد میں بھجوایا حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ کے فرزند شیخ محمد اقبال صاحب ہیں جن کا ذکر خصوصی خود حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ ۲۶ ہجرت ۱۳۳۱ ہش میں فرمایا ۱۴۵
اشاعت لٹریچر کے لئے دو کمپنیوں کے قیام کا اعلان
حضورؓ نے اس مشاورت پر اشاعت لٹریچر کے لئے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی دو اشاعت کمپنیوں کے قیام کا بھی اعلان فرمایا۔ ایک کمپنی اردو لٹریچر کے لئے اور ایک کمپنی غیر ملکی زبانوں خصوصاً عربی زبان کے لٹریچر کے لئے !!
‏body] g[taکمپنیوں کے سرمایہ کی نسبت حضورؓ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :۔
>خلافت جوبلی فنڈ کا روپیہ جو دو لاکھ ستر ہزار کے قریب ہے میں اس کمپنی کو دیتا ہوں جو صدر انجمن احمدیہ کی ہوگی۔ اس کے علاوہ گزشتہ سالوں میں صدر انجمن احمدیہ چھ ہزار روپیہ سالانہ مجھے گذارہ کے لئے قرض کے طور پر دیتی رہی ہے بعض سالوں میں اس سے کم رقم بھی لی ہے بہرحال آپ لوگ مجھے امداد کے طور پر وہ رقم دینا چاہتے )تھے( اور میں نے قرض کے طور پر لی۔ ا میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو بھی جب میں ادا کرنے کے قابل ہو سکوں تو اس مد میں ادا کر دوں۔ اس رقم کو ملا کر تین لاکھ ستر ہزار بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع ہوجائے گی۔ کچھ سرمایہ پہلے سے اس مد میں فروخت کتب سے حاصل ہوچکا ہے اسے ملا کر قریباً چار لاکھ روپیہ کا سرمایہ ہوجاتا ہے۔ جب کمپنی جاری ہو تو اس وقت ایک لاکھ کے حصے اگر صاحب توفیق احباب خرید لیں تو پانچ لاکھ سرمایہ ہوجائے گا اور یہ اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا پریس اور کافی کتب شائع کی جاسکتی ہیں۔ سردست میں اس غرض کے لئے چار لاکھ سرمایہ کی ہی اجازت دیتا ہوں اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اس رقم کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ جب اس کمپنی کی وجہ سے آمد شروع ہوگئی تو چونکہ خلافت جوبلی فنڈ کے روپیہ پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور میں نے اس فنڈ سے وظائف دینے کا بھی اعلان کیا تھا اس لئے آمد کے پیدا ہونے پر اس کا ایک حصہ وظائف میں بھی جاسکتا ہے۔
اب رہ گئی تحریک جدید کی چار لاکھ روپیہ کی کمپنی جس کا کام اردو کے سوا دوسری زبانوں میں لٹریچر شائع کرنا ہوگا` اس کمپنی کے سرمایہ کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے غیر زبانوں میں تراجم کا کام` چونکہ اس کا حصہ ہے اور اس کا سرمایہ ہماری جماعت دس سال سے جمع کرچکی ہے` جو دو لاکھ کے قریب ہے اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تراجم قرآن کا دو لاکھ روپیہ اس کمپنی کو دے دیا جائے۔ وہ تراجم بھی یہی کمپنی شائع کرے گی اور اس کے علاوہ دوسرا لٹریچر بھی یہ کمپنی شائع کرے۔ باقی دو لاکھ روپیہ رہ گیا اس کے لئے میرے ذہن میں ایک اور صورت ہے` اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور وہ کام بن جائے تو اس کمپنی کے لئے بھی پورا سرمایہ حاصل ہوسکتا ہے۔ میرے ذہن میں جو صورت ہے وہ ایسی نہیں کہ فوری طور پر روپیہ مل جائے لیکن بہرحال اگر کوشش کی جائے تو مجھے امید ہے کہ دو لاکھ روپیہ ہمیں مل جائے گا۔ اس کے لئے ایک زمین کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے جو مجھے کسی دوست نے تحفہ کے طور پر پیش ککی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ تحفہ بھی اس طرف منتقل کردوں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کئے جائیں۔< ۱۴۶
اس عظیم الشان سکیم کے مطابق >الشترکتہ الاسلامیہ< اور >ڈی اورنٹیل اینڈ میلحبس پبلشنگ کارپوریشن لمٹیڈ< کے نام سے دو مستقل اشاعتی ادارے معرض وجود میں آئے جن کی بدولت سلسلہ احمدیہ کا اردو` عربی اور انگریزی لٹریچر کثیر تعداد میں چھپ کر منظر عام پر آچکا ہے۔<۱۴۷
ایک مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ
اس مشاورت کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں حضورؓ نے پہلی بار جماعت احمدیہ کے سامنے ایک ایسی مکمل اور جدید لٹریچر سے آراستہ لائبریری کا منصوبہ رکھا جو سلسلہ احمدیہ کی جملہ علمی و تبلیغی ضروریات میں اس کو خود کفیل بنادے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جماعت احمدیہ کی مرکزی لائبریری اور اس کے کارکنوں کے فرائض کا نقشہ کیا تھا ؟ اس کی تفصیل حضور انور کے مبارک الفاظ ہی میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ فرمایا :۔
>لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کرسکتی یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ نہیں تبلیغ اسلام` مخالفوں کے اعتراضات کے جواب` تربیت یہ سب کام لائبریری ہی سے متعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت تک جتنا کام ہورہا ہے یا تو حضرت خلیفہ اولؓ کی لائبریری سے ہورہا ہے اور یا پھر میری لائبریری سے ہورہا ہے میں نے اپنے طور پر بہت سی کتابیں جمع کی ہوئی ہیں جن پر میرا پچاس ساٹھ بلکہ ستر ہزار روپیہ خرچ ہوچکا ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کو کتابوں کا شوق تھا اور آپ نے بھی ہزاروں کتابیں اکٹھی کی ہوئی تھیں وہ کام آتی ہیں۔ لیکن وہ جماعت جو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے اس کے علوم کی بنیاد کسی دوسرے شخص کی لائبریری پر ہونا عقل کے بالکل خلاف ہے۔
ہمارے پاس تو اتنی مکمل لائبریری ہونی چاہئے کہ جس قسم کی مکمل مذہبی لائبریری کسی دوسرے جگہ نہ ہو مگر ہمارا خانہ اس بارہ میں بالکل خالی ہے۔ پچھلے سال لائبریری کی مد میں میں نے کچھ رقم رکھوائی تھی مگر وہ زیادہ تر الماریوں وغیرہ پر ہی صرف ہوگئی۔ شائد بارہ چودہ سو روپیہ الماریوں پر صرف ہوگیا تھا باقی جو روپیہ پچاس اس میں سے ایک کتاب ہی آٹھ سو اسی روپیہ میں آئی ہے اور جو باقی کتابیں منگوائی گئی ہیں ان کی قیمت سردست امانت سے قرض لے کر دی گئی ہے۔
غرض میں نے ایک خاصی رقم کتابوں کے جمع کرنے پر خرچ کی ہے۔ تقسیم کے وقت قادیان میں میری لائبریری کی بہت سی کتابیں رہ گئیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی لائبریری کا بھی ایک اچھا خاصہ حصہ وہیں رہ گیا اور گورنمنٹ نے اس لائبریری کو تالا لگا دیا۔ میرے بیٹے چونکہ وہاں موجود تھے اس لئے میں شروع ہجرت میں ان کو لکھتا رہا کہ میری کتابیں بھجوانے کی کوشش کرو چنانچہ انہوں نے میری بہت سی کتب بھجوادیں لیکن انجمن کے نمائندوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی کتابوں کا اکثر حصہ وہیں رہ گیا
پھر دنیا میں نئی سے نئی کتابیں نکل رہی ہیں اور ان کتابوں کا منگوانا بھی ضروری ہے۔ صرف مذہب سے تعلق رکھنے والی ہی نہیں` بلکہ تاریخی اور ادبی کتابیں منگوانا بھی لائبریری کی تکمیل کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اچھی لائبریری وہ ہوسکتی ہے جس میں کم سے کم ایک لاکھ جلد منتخب کردہ کتب کی موجود ہو اور اگر ایک جلد کی اوسط قیمت ۲۵ روپے لگا لی جائے تو میرے نزدیک صرف ایک لائبریری کے لئے پچیس لاکھ روپیہ ہونا چاہئے لیکن ظاہر ہے کہ پچیس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں۔ ایسی صورت میں یہی طریق رہ جاتا ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس بوجھ کو اٹھائیں اور اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کام کو اپنے سامنے رکھیں اور اپنی لائبریری کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرتے چلے جائیں۔ لائبریری کا بجٹ بھی پرائیویٹ سیکرٹری کے بجغ میں ہوگا گو اس کے کرچ کا تعلق لائبریری سے ہوگا۔ عام طور پر ہمارا طریق یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں کسی کام کی ہمت نہیں تو ہم اس کام کو کرتے ہی نہیں حالانکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے۔
پس میں تجویز کروں گا کہ فائنانس۱۴۸ کمیٹی ان تمام حالات کو دیکھ لے اور بجٹ میں اس کی گنجائش رکھے۔ اور جماعت کو بھی اس بات کی اجازت ہوگی کہ اگر وہ دیکھے کہ میری کوئی تجویز ضروری تھی مگر فائنانس کمیٹی نے اس طرف توجہ نہیں دی تو وہ ترمیم کے طور پر اس کو یہاں مجلس میں پیش کردے میری تجویز یہ ہے کہ سردست ہم کو دس ہزار روپیہ سالانہ کے کام کو شروع کردینا چاہئے لیکن دس ہزار روپیہ سالانہ خرچ کرنے کے بھی یہ معنے ہیں کہ ہم اڑھائی سو سال میں پچیس لاکھ روپے کی کتابیں اکٹھی کرسکیں گے۔
پس میرا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہمیشہ دس ہزار روپیہ پر ہی کھڑے رہنا چاہئے جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھے گی اور چندہ میں زیادتی ہوگی یہ رقم بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہم اس خرچ کو کسی وقت لاکھ دو لاکھ بلکہ دس پندرہ لاکھ سالانہ بھی کرسکتے ہین۔ یہ دس ہزار روپیہ صرف کتابوں کے لئے ہوگا۔ عملہ جو تھوڑا بہت پہلے بجٹ میں رکھا جاچکا ہے وہ الگ ہوگا۔ شاید اس میں بھی کچھ زیادتی کرنی پڑے گی کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ لائبریرین کے طور پر صرف ایک ہی نیا آدمی رکھا گیا ہے حالانکہ وہاں کم از کم دو آدمی اور ہونے چاہئیں۔
لائبریرین کا کام ایسا ہے کہ اس کے لئے آج کل پاس شدہ آدمی رکھے جاتے ہیں۔ پہلے انسان گریجوایٹ ہو اور پھر لائبریرین کا امتحان پاس کرے تب وہ لائبریرین لگایا جاتا ہے ورنہ نہیں لائبریرین کے معنے محض چپڑاسی یا کتابوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے نہیں ہوتے بلکہ لائبریرین کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مختلف مضامین کی کتابون سے واقف ہو اور جب اس سے پوچھا جائے کہ فلاں فلاں مضمون پر کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں تو وہ فوراً ان کتابوں کے نام بتاسکے اور پوچھنے والے کی رہنمائی کرسکے کہ اسے کس کتاب سے کس قسم کی مدد مل سکتی ہے۔<
>لائبریری میں ہر فن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں۔ ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور ان کے خلاصے نکالتے رہیں اور ان اخلاصوں کو ایک جگہ نتھی کرتے چلے جائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب لوگوں کو ان کتابوں کے حوالوں کی ضرورت ہوگی وہ خلاصہ سے فوراً ضروری باتیں اخذ کر لیں گے مثلاً ہماری جماعت کا یہ ایک معروف مسئلہ ہے کہ حضرت مسیح کشمیر گئے تھے۔ اب مسیح کے کشمیر جانے کا کچھ عرصہ انجیلوں سے تعلق رکھتا ہے کہ کچھ انجیلوں کی تفسیروں میں بحث آئے گی کہ یہ جو لکھا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی طرف نہیں بھیجا گیا` اس میں کھوئی ہوئی بھیڑوں سے بنی اسرائیل کے کو کون سے قبائل مراد ہیں اور مسیح ان کی تلاش کے لئے کہاں کہاں گئے ؟؟ یا یہ جو لکھا ہے کہ مسیح کہر میں غائب ہوگیا اس کے کیا معنی ہیں ؟ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ اس میں مسیح کے سفر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ غرض جو لوگ تفسیر کریں گے ان کا ذہن اس طرف ضرور جائے گا کہ ان فقروں کا حل کیا ہے ؟ اور وہ اس پر بحث کریں گے۔ جس طرح ہمارے ہاں تفسیریں ہیں اسی طرح عیسائیوں میں بھی سینکڑوں تفسیریں ہیں۔ اب جو لائبریرین مقرر ہوں گے ان میں سے وہ جو عیسائی لٹریچر پر مقرر کیا جائے گا اس کا کام یہ ہوگا کہ وہ زائد وقت میں تمام تفاسیر پر نظر ڈالتا چلا جائے اور ان کے انڈکس تیار کرتا چلا جائے جس وقت ہم و کسی تحقیق کی ضرورت ہوگی ہم انچارج کو بلا کر کہیں گے کہ کتابوں پر نشان لگا کر لائو کہ مفسرین نے اس بارہ میں کہاں کہاں بحث کی ہے۔ پھر یہی مضمون تاریخوں میں بھی آتا ہے چنانچہ اس کے بعد تاریخوں کے ماہر کو بلایا جائے گا اور اسے کہا جائے گا کہ اس اس مضمون کے متعلق تاریخ کتابوں پر نشان لگا کر لائو۔ اس طرح کتاب لکھنے والا آسانی اور سہولت کے ساتھ کتاب لکھ لے گا۔ کتاب والے کا یہ فن ہوگا کہ وہ اپنی کتاب کے لئے چند اصول تجویز کرے اور پھر اپنے مضمون کو ترتیب دے اور اسے ایسی عبارت میں لکھے جو موثر اور دلنشین ہو۔ گویا لڑنے والا حصہ اور ہوگا اور گولہ بارود تیار کرنے والا حصہ اور ہوگا۔ کیا تم نے کبھی کوئی سپاہی ایسا دیکھا ہے جسے لڑائی پر جانے کا حکم ملے تو وہ کارتوس بنانا شروع کردے یا بندوق بنانا شروع کردے۔ کیا کبھی تم نے کبھی دیکھا کہ کسی کو مدرس مقرر کیا گیا ہو تو ساتھ ہی اسے یہ کہا گیا ہو کہ اب جغرافیہ پر ایسی کتاب لکھ دو جو پڑھانے کے کام آسکے۔
ہمیشہ اصل کام والا حصہ الگ ہوتا ہے اور تعارفی حصہ الگ ہوتا ہے۔<
>درحقیت لائبریرین کے عہدہ پر ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو صرف ونحو کا علم رکھتے ہوں` تاریخ جانتے ہوں` ہدیث` فقہ` اصول فقہ` تفسیر قرآن اور اصول تفسیر تعلق رکھنے والے تمام علوم سے آگاہ ہوں اور جب منصفین کو حوالہ جات وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ کتابیں نکال نکال کر ان کے سامنے رکھتے چلے جائیں۔ جیسے لڑنے کے لئے سپاہی جاتا ہے تو اسے وردی تم سلا کر دیتے ہو` اسے گولہ بارود خود تیار کر کے دیتے ہو۔ اس کے بعد ہمیں ضرورت ہوگی کہ جرمن جاننے والے آدمی ہمارے پاس موجود ہوں۔ فرانسیسی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں۔ انگریزی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں۔ اسی طرح عربی علوم کے جاننے والے لوگ موجود ہوں۔ کوئی تفسیر کا ماہر ہو۔ کوئی حدیث کا ماہر ہو۔ کوئی لغت کا ماہر ہو اور ان کا کام یہی ہو کہ وہ رات دن ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے خلاصے تیار کرتے رہیں۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہوں جو سلسلہ کے خلاف دشمنوں کا شائع کردہ لٹریچر ہی پڑھتے رہیں۔ کچھ لوگ ایسی ہوں جو وفات مسیح وغیرہ کے متعلق نئے دلائل کی جستجو میں مشغول رہنے والے ہوں۔ اب تو اس مسئلہ پر کچھ لکھتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ مضمون پامال ہوچکا ہے لیکن بعض دفعہ کوئی نیا نکتہ بھی ذہن میں آجاتا ہے بعض دفعہ کوئی نیا اعتراض آجاتا ہے جس کے متلعق انسان سمجھ لیتا ہے کہ اس کا حل ہونا ضروری ہے۔ یہ لائبریرین کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ فلاں فلاں مسائل پر ہمارے علماء نے روشنی نہیں ڈالی یا ان کو ان ان کتابوں سے مدد مل سکتی ہے۔ گویا لائبریری ایک آرڈ نینس ڈپو یا سپلائی ڈپو ہے کہ مبلغین اور علماء سلسلہ کی مدد کے لئے ضروری ہے۔
یہ کام بہت بڑا ہے۔ میں جب حساب لگاتا ہوں تو میرا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے پاس ایک لاکھ کتاب ہو تو ہمارے پاس پچاس آدمی لائبریرین ہونا چاہئے جن میں سے کچھ نئے کتابوں کے پڑھنے میں لگا رہے` کچھ پرانی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے میں لگارہے` کچھ ایسے ہوں جو طلباء کے لئے نئی کتابوں کے ضروری مضامین الگ کرتے چلے جائیں تاکہ وہ تھوڑے سے وقت مین ان پر نظر ڈال کر اپنے علم کو بڑھا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ طالب علموں کو جو سکولون اور کالجوں میں کتابیں پڑھائی جات ہیں ان سے دنیا میں وہ کوئی مفید کام نہیں کرسکتے کیونکہ وہ صرف ابتدائی کتابیں ہوتی ہیں مگر پھر بھی کسی کالج اور سکول سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہر طالب علم کو لاکھ لاکھ دو دو لاکھ کتاب پڑھا دے۔ یہ لائبریرین کا کام ہوتا ہے کہ وہ ایسے خلاصے نکال کر رکھیں کہ جن پر طلباء کا نظر ڈالنا ضروری ہو۔ اور جن سے تھوڑے وقت میں ہی وہ زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہوں۔<
>غرض یہ کام نہایت اہم ہے اس کے بغیر ہماری جماعت کی علمی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مرکزی لائبریری یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی لائبریری بھی اسی میں شامل ہوجائے گی اور پھر میری کتابیں بھی آخر آپ لوگوں کے ہی کام آنی ہیں۔ اس طرح پانچ سات سال میں اس قدر کتابیں جمع کر لی جائیں کہ ہر قسم کے علوم ہمارے پاس محفوظ ہوجائیں۔< ۱۵۰۱۴۹
اختتامی خطاب
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے مشاورت کے پراثر اختتامی خطاب میں جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی نصب العین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
>ہمارا مقابلہ اڑھائی کروڑ یا تین کروڑ سے نہیں بلکہ ہمارا مقابلہ اڑھائی ارب سے ہے اور یہ مقابلہ کم نہیں۔ جو حالت آپ لوگوں کی ہے وہی حالت ہماری ہے۔ ہم نی دنیا میں تبلیغ کرنی ہے حوصلہ پست نہ کیجئے اور یہ مت کئے کہ فلاں رعایت ملے گی تو کام ہوگا۔ اگر پنجاب والے حوصلہ چھوڑ دیں تو کام ہی رک جائے۔ تم اپنا کام بھی کرو اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام کرو۔ کسی مومن کے ذمہ کوئی خاص گھر نہیں` کوئی خاص گائوں نہین` کوئی خاص سہر نہیں` کوئی خاص ملک نہیں بلکہ ساری دنیا ہے۔<۱۵۱
فصل ہشتم
حضرت سید نصرت جہاں بیگمؓ کا انتقال
مسیح محمدی علیہ السلام کے یوم وصول ۔۔ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ۔۔ کی طرح ۲۱۔۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی درد بھری راتبھی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ یہ وہ رات تھی جس میں جماعت احمدیہ اور مہدی موعودؓ کے درمیان وہزندہواسطہ جو حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم کے مقدس وجوہ کی شکل میں اب تک باقی تھا آپ کی وفات کے ساتھ ہمیشہ کے لئے منقطع ہوگیا۔
علالت
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم حرم مسیح پاکؑ قریباً دو ماہ سے بیمار تھیں۔ ڈاکٹر تشخیص کے مطابق گردوں کے فعل میں نقص پیدا ہوجانے سے ہماری کا آغاز ہوا اور پھر اس کا اثر دل پر اور تنفس پر پڑنا شروع ہوا۔ بیماری کے حملے وقتاً فوقتاً بڑی شدت اختیار کرتے رہے لیکن آپ نے ان تمام شدید حملون میں نہ صرف کامل صبر و شکر کا نمونہ دکھایا بلکہ بیماری کا بھی نہایت ہمت کے ساتھ مقابل کیا۔ اس عرصہ میں لاہور سے علی الترتیب ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ صاحب` ڈاکٹر غلام محمدﷺ~ صاحب بلوچ اور ڈاکٹر محمد یوس صاحب غلام کے لئے بلائے جاتے رہے۔ ان کے ساتھ مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب بھی ہوتے تھے لیکن وقتی افاقہ کے سوا بیماری میں کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس کے بعد حکیم محمد حسن صاحب قرشی کو بھی بلا کر دکھایا گیا جن کے ساتھ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ بھی تھے لیکن ان کے علاج سے بھی کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ مقامی طور پر ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب بھی معالج تھے جن کے ساتھ بعد میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی شامل ہوگئے اور چند دن کے لئے درمیان میں ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب نے بھی علاج میں حصہ لیا۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک خواتین اور نونہال نہایت تندہی کے ساتھ خدمت میں لگے رہے۔ بالاخر ۲۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی صبح کو ساڑھے تین بجے کے قریب دل میں ضعف کے آثار پیدا ہوئے جو فوری علاج کے نتیجہ میں کسی قدر کم ہوگئے مگر دن بھر دل کی کمزوری کے حملے ہوتے رہے۔ اس عرصہ میں حضرت سیدہ کے ہوش و حواس خدا کے فضل سے اچھی طرح قائم رہتے۔ صرف کبھی کبھی عارضی غفلت سی آتی تھی۔ جو جلد دور ہوجاتی تھی۔ رات پونے نو بجے آپ نے دل میں زیادہ تکلیف محسوس کی اور اس کے ساتھ ہی نظام تنفس میں خلل آنا شروع ہوگیا اور نبض کمزور پڑنے لگی۔ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے خود ہی ٹیکے وغیرہ لگائے مگر کوئی افاقہ کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس وقت حضرت اماں جانؓ نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ قرآن شریف پڑھو چنانچہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے چھوٹے صاحبزادے میر محمود احمد صاحب۱۵۲ نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔ اس وقت حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ آپ کے سامنے بٹھے ہوئے تھے آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا دعا کریں` چنانچہ حضور بعض قرآنی دعائیں کسی قدر اونچی آواز سے دیر تک پڑھتے رہے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود حضرت اماں جان مصروف دعا ہیں۔ آپ کی نبض اس وقت بے حد کمزور ہوچکی تھی بلکہ اکثر اوقات محسوس تک نہیں ہوتی تھی لیکن ہوش و حواس بدستور قائم تھے اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد نظر ڈالتی تھیں اور آنکھوں میں شناخت کے آثار بھی واضح طور پر موجود تھے۔
حضرت امیر المومنین تھوڑے وقفہ کے لئے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سیدہ کے سامنے بیٹھ کر دعائیں کرتے رہے۔ اس وقت بھی آپ آنکھ کھول کر دیکھتی تھیں۔
اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دعا میں مصروف ہیں۔ دیگر عزیز بھی چارپائی کے اردگرد موجود تھے اور اپنے اپنے رنگ میں دعائیں کرتے اور حسب ضرورت خدمت بجالاتے تھے۔
سوا گیارہ بجے شب کے بعد آپ نے اشارۃ کروٹ بدلنے کی خواہش ظاہر فرمائی لیکن کروٹ بدلتے ہی نبض کی حالت زیادہ مخدوش ہوگئی اور چند منٹ کے بعد تنفس زیادہ کمزور ہونا شروع ہوگیا۔
وفات
بالاخر ساڑھے گیارہ بجے شب آپ کی روح اپنے مولائے حقیقی کے حضور پہنچ گئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
وفات کے وقت اپ کی مبشر اولاد میں سے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کے پاس موجود تھے۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ چند روز قبل ربوہ آکر لاہور واپس تشریف لے گئے تھے اور وفات کی خبر پانے کے بعد ربوہ پہنچے۔ ۱۵۳
‏MUMENEEN۔UMMUL <HAZRAT
‏THIRTY ELEVEN AWA PASSED
‏INNALILLAH۔TONIGHT-
‏MORNING> TUESDAY ۔M۔A 5 JANAZA
)ترجمہ( ربوہ ۲۱۔۲۰ اپریل )سوا بارہ بجے شب( حضرت ام المومنینؓ آج شب ساڑھے گیارہ بجے انتقال فرما گئیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون نماز جنازہ منگل کو صبح پانچ بجے ادا کی جائے گی۔
ریڈیو خبر
صبح سوا آٹھ بجے ریڈیو پاکستان لاہور نے حضرت سیدہ ممدوحہؓ کی وفات کی خبر حسب ذیل الفاظ میں نشر کی:۔
>ہم افسوس سے اعلان کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی زوجہ محترمہ گزشتہ رات ساڑھے گیارہ بجے ربوہ میں انتقال کر گئیں۔ آپ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی والدہ ہیں۔ جنازہ کل )صبح( ۵ بجے ربوہ میں ہوگا۔< ۱۵۴
تکفین
آپ ایک تھان قادیان دارالامان سے بوقت ہجرت ساتھ لائی ہوئی تھیں اور اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے اسے اپنے کفن کے لئے رکھا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک متبرک کرتہ بھی ململ کا آپ نے محفوظ رکھا ہوا تھا چنانچہ غسل کے بعد پہلے یہ مبارک کرتہ اور پھر کفن پہنایا گیا۔
‏tav.13.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
ہزاروں احمدیوں کی ربوہ میں مضطربانہ آمد
حضرت امام سیدنا المصلح الموعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ جنازہ ۲۲ اپریل کی صبح کو ہو تاکہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوسکیں چنانچہ ۲۲ اپریل کی صبح تک ملک کے چاروں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں احمدی مردو زن ربوہ میں پہنچ چکے تھے اور پشاور سے لے کر کراچی تک کی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ ۲۱ اپریل کی شام کو حضرت سیدہ کی نعش مبارک کی زیارت کا موقع مستورات کو دیا گیا۔ قریباً ڈیڑھ ہزار مستورات نے زیارت کا شرف حاصل کیا اور ابھی ایک بڑی تعداد باقی رہ گئی۔
جنازہ اور تدفین کا دردناک منظر
حضرت سیدہ کا جنازہ اندرون خانہ سے اٹھا کر چھ بجکر ایک منٹ پر تابوت میں باہر لایا گیا۔ اس وقت خاندان مسیح موعود کے زخم رسیدہ جگہ گوشے اسے تھامے ہوئے تھے۔ تابوت کو ایک چارپائی پر رکھ دیا گیا جس کے دونوں طرف لمبے بانس بندھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک ملک کے کونے کونے سے ہزاروں احمدی مردوزن پہنچ چکے تھے جو اپنی مادر مشفق کے لئے سوز و گداز سے دعائیں کرنے میں مصروف تھے۔ چھ بجکر پانچ منٹ پر جنازہ اٹھایا گیا جب کہ سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعدد دیگر افراد جنازے کو کندھا دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی دعائیں بعض اوقات خاموشی کے ساتھ اور بعض اوقات کسی قدر بلند آواز سے دہرا رہے تھے۔
چونکہ احباب بہت بڑی تعداد میں آچکے تھے اور ہر دوست کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کا متمنی تھا اس لئے رستے میں یہ انتظام کیا گیا کہ اعلان کر کے باری باری مختلف دوستوں کو کندھا دینے کا موقع دیا جائے- چنانچہ صحابہ مسیح موعود` امرائے صوبجات` اضلاع یا ان کے نمائندگان` بیرونی ممالک کے مبلغین` غیر ملکی طلباء ` کارکنان صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید` مدراس` مجلاس خدام الاحمدیہ و انصار اللہ کے نمائندگان اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ مختلف مقامات کی جماعتوں نے بھی وقفے وقفے سے جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کی۔ سیدنا حضرت امیر المومنین` حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد نے شروع سے آخر تک کندھا دیئے رکھا۔
چھ بج کر چھپن منٹ پر تابوت جنازہ گاہ میں پہنچ گیا` جو موصیوں کے قبرستان کے ایک حصہ میں مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر کی مساعی سے قبلہ رخ خطوط لگا کر تیار کی گئی تھی صفوں کی درستی اور گنتی کے بعد سات بج کر پانچ منٹ پر سیدنا حضرت امیر المومنین مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ شروع فرمائی جو سات بجر کر ستر منٹ تک جاری رہی۔ نماز میں رقت کا ایک ایسا عالم طاری تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
نمازہ جنازہ کے بعد تابوت مجوزہ قبر تک لے جایا گیا جہاں اماں جانؓ کو امانتاً دفن کرناتھا۔ قبر کے لئے حضورؓ کے منشاء کے ماتحت قبرستان موصیاں ربوہ کا ایک قطعہ مخصو کردیا گیا تھا۔ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لئے نظم و ضبط کی کاطر مجوزہ قبر کے اردگرھ ایک بڑا حلقہ قائم کردیا گیا جس میں جماعت کے مختلف طبقوں کے نمائندگان کو بلا لیا گیا چنانچہ صحابہ کرام` مختلف علاقوں کے امراء افسران صیغہ جات` بیرونی مبلغین` غیر ملکی طلباء اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو اس حلقہ میں بلا کر شمولیت کا موقع دیا گیا۔
پونے آٹھ بجے تابوت کو قبر میں اتارا گیا۔ اس وقت سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اور تمام حاضر الوقت اصحاب نہایت رقت اور سوز و گذار کے ساتھ دعائوں میں مصروف تھے۔ رقت کا یہ سماں اپنے اندر ایک خاص روحانی کیفیت رکھتا تھا۔
تابوت پر چھت ڈالنے کے بعد حضرت امیر المومنین ۸ بجکر ۲۲ منٹ پر قبر پر اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی جس کی تمام احباب نے اتباع کی۔ جب قبر تیار ہوگئی تو حضور نے پھر مسنون طریق پر مختصر دعا فرمائی۔
نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے احباب کا اندازہ نامہ نگار الفضل کی رائے کے مطابق چھ سات ہزار تھا جو پاکستان کے ہر علاقہ اور ہر گوشہ سے تشریف لائے تھے- علاوہ ازیں پندرہ سولہ وہ غیر ملکی طلباء بھی شامل تھے جو دنیا کے مختلف حصوں سے دین سیکھنے اور خدمت دین میں اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے ربوہ آئے ہوئے تھے ان غیر ملکی طلبہ میں چین` جاوا` سماٹرا` ملایا` برما` شام` مصر` سوڈان` حبشہ` مغربی افریقہ` جرمنی` انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طلبہ شامل تھے۔<۱۵۵
ریڈیو میں خبر
اگلے روز ریڈیو پاکستان سے ۲۲ اپریل ۵۲ء بوقت ۵ بج کر ۲۰ منٹ شام حسب ذیل خبر نشر کی گئی:۔
>آج ربوہ میں سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی وفات کل )۲۰ اپریل بروز اتوار( ربوہ میں ہوئی تھی۔ ایک بڑے مجمع نے جنازہ میں شرکت کی۔ نماز جنازہ ان کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پڑھائی۔ آپ سلسلہ احمدیہ کے موجودہ امام ہیں۔<
پریس میں اطلاعات
پاکستانی پریس نے حضرت سید موصوفہ کی وفات پر اطلاعات شائع کیں- اس سلسلہ میں لاہور کے اخبارات میں سے احسان` آفاق` خاتون` امروز` سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پاکستان ٹائمز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
>مرزا غلام احمد کی بیوہ ربوہ میں دفن کردی گئیں-
لاہور ۲۲ اپریل بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد کی اہلیہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں انتقال کیا تھا۔ )نامہ نگار<(
۲- روزنامہ >آفاق< لاہور )مورخہ ۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء( کی خبر:۔
>بانی احمدیت کی بیوہ کا انتقال
لاہور ۲۲ اپریل- مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیت کی بیوہ نصرت جہاں بیگم کا پرسوں شب ۸۶ برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ نصرت جہاں بیگم احمدی فرقہ کے موجودہ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی والدہ تھیں۔ ان کی تدفین آج ربوہ میں ہوگئی۔ )۱-پ<(
روزنامہ >خاتون< لاہور نے ۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں بعنوان >مرزا بشیر الدین کی والدہ کا انتقال< لکھا :۔
>لاہور ۲۲ اپریل۔ بانی سلسلہ احمدیہ )حضرت( مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں وفات پائی تھی۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین صاحب امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی۔<
روزنامہ >امروز< لاہور )۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء( کے نامہ نگار( نے لکھا:۔
بانی جماعت احمدیہ کی زوجہ محترمہ سپرد خاک کردی گئیں-
لاہور ۲۲ اپریل - مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو جو اتوار کی شب وفات پاگئی تھیں آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی` جس میں ہزارہا افراد نے شرکت کی۔
مرحومہ کو احمدیہ جماعت میں کافی بلند مقام حاصل تھا۔ مقاصد کی تکمیل میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک سرگرم عمل رہیں۔<
۵- اخبار >دی سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء( کی خبر کا متن یہ تھا:۔
‏WIDOW AHMAD'S GHULAM MIRZA
‏REST TO LAID
‏Correspondent) a (From
‏Nusrat Sayyeda body The۔23 April ۔RABWAH the of founder Ahmad, Ghulam Mirza late to widow Begum, Jhan was night sunday on last her breathed who Movement Abmadiyya ۔rabwah at morning this rest to laid
‏Din۔ud۔Bashir Mirza son, eldest her ledoy was prayer funcial The attended was and comnunity the of head present the Ahmad, Mahmud Besides ۔society of clases lal from people thousand several by country ofthe parts various from community ۔madiyy Ah the of member tuneral the join to Rabwah reached public general the of number large a
‏community ahmadiyya the in estoem high in held was lady deceased The husband, her of work the with countury a half over for association her for pouring are messages Conoolence ۔Movement ahmadiyya the of founder the ۔indonesia including word the and India, ۔Pakistan of parts all from in movement the of followers the erewh America and Europe ۔Est Meddle the "۔spread are
)ترجمہ( )حضرت( مرزا غلام احمد )صاحب( کی بیوہ کو سپرد خاک کردیا گیا۔
ربوہ ۲۲ اپریل سیدہ نصرت جہاں بیگم جو مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کی بیوہ تھی گزشتہ اتوار کی رات کو وفات پاگئیں اور اور آج صبح انہیں ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
آپ کی نماز جنازہ ان کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد جو کہ جماعت کے موجودہ سربراہ ہیں نے پڑھائی اور جنازہ میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ کے ممبران کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کثیر تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کے لئے ربوہ پہنچے۔
مرحومہ کا اپنے شوہر محترم کے کام کے ساتھ نصف صدی سے زائد تعلق کی وجہ سے بہت بلند مقام تھا۔ پاک و ہند کے ہر حصے سے اور دنیا کے دیگر ممالک مثلاً انڈونیشیاء شرق اوسط ` یورپ اور امریکہ سے جہاں جہاں بھی جماعت کے ممبران موجود ہیں تعزیتی پیغامات موصول ہورہے ہیں۔
اخبار >دی پاکستان ٹائمز< )۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء( نے حسب ذیل الفاظ میں خبر دی:۔
‏AHMAD MALGHU MIRZA BEGUM
‏REST TO ALID
‏ consort the Begum, Jahan Nusrat Sayyeda of body The ۔Movement Ahmadivya the of Founder the Ahmad, Ghulam Mirza late of on rest to laid was right, sunday on place took demise sad whose ۔Rabwh at morning Tuesday
‏ Din۔ud۔Bashir Mirza ۔son oldest her by led was praver tuneral The attended was and Community the of Head present the Ahmad, Mahmud ۔society of clases all to belonging people thousand several by various from Community Ahmadiyya the of srebmem devoted only Not the joined relations and wishers۔well of number large a also but large a also but headquarter the to flocked country the of parts rites, burit the joined relations and wishers۔well of number
)ترجمہ( بیگم )حضرت( مرزا غلام احمد )صاحب( کو سپرد خاک کردیا گیا۔
سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحب زوجہ محترمہ مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کو جو اتوار کی شب کو فوت ہوگئی تھیں منگل کی صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
نماز جنازہ آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبامام جماعت احمدیہ نے پڑھائی جس میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاوں افراد شریک ہوئے۔
تجہیز و تکفین کی رسومات میں شریک ہونے کے لئے نہ صرف جماعت احمدیہ کی مخلصین ہی تشریف لائے بلکہ دوسرے بہن خواہان اور متعلقین بھی کثیر تعداد میں حاضر ہوئے۔
تعزیتی تاریں اور خطوط
حضرت ام المومنینؓ کی وفات حسرت آیات پر جماعت کے مخلصین کی طرف سے جن میں صحابی بھی شامل تھے` اور غیر صحابی بھی ` بچے بھی شامل تھے اور بوڑھے بھی ` عورتیں بھی شامل تھیں اور مرد بھی ` خاندان مسیح موعود کے مختلف افراد کے نام بے شمار تارے ۱۵۶ اور خطوط پہنچے- یہ ہمدردی کے پیغامات نہ صرف۔ بی اور شرقی پاکستان کے ہر حصہ سے بلکہ قادیان اور دلی اور لکھنئو اور حیدر آباد اور مالیر کوئلہ اور مونگھیر اور کلکتہ اور بمبئی اور مدراس اور ہندوستان کے دوسرے حصوں اور بلاد عربی اور براعظم ایشیا اور افریقہ اور یورپ اور امریکہ کے مختلف ملکوں سے اس طرح چلے آرہے تھے جس طرح ایک قدرتی نہر اپنے طبعی بہائو میں بہتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر ان اصحاب میں صرف ہماری جماعت کے دوست ہی شامل نہیں تھے۔ بلکہ غیر مبائع اور غیر احمدی اور غیر مسلم سب طبقات کے لوگ شامل تھے۔ اظہار ہمدردی کے لئے بعض غیر احمدی معززین اور غیر مبائع اصحاب مثلاً مرزا مسعود بیگ صاحب لاہور سے اور مکرم عبداللہ جان صاحب پشاور سے ربوہ تشریف لائے۔۱۵۷
حضرت ام المومنین کا مقام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی نظر میں
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ حضرت ام المومنین کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا ہے اور وہ ہے حضرت ام المومنین کی وفات۔ ان کا وجود ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان میں ایک زنجیر کی طرح تھا اولاد کے ذریعے بھی ایک تعلق اور واسطہ ہوتا ہے مگر وہ اور طرح کا ہوتا ہے۔ اولاد کو ہم ایک درخت کا پھول تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے اس درخت کا اپنا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ پس حضرت ام المومنینؓ ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں اور یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہوگیا۔ پھر حضرت ام المومنینؓ کے وجود کی اہمیت عام حالات سے بھی زیادہ تھی کیونکہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے قبل از وقت بشارتیں اور خبریں دیں۔ چنانچہ انجیل میں آنے والے مسیح کو آدم کہا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ جس رنگ میں حوا آدم کی شریک کا تھیں اسی طرح مسیح موعودؑ کی بیوی بھی اس کی شریک کار ہوگی۔ پھر رسول کریم~صل۱~ کی حدیث ہے کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ اب شادی تو ہر نبی کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس خبر میں یہی اشارہ تھا کہ اس کی بیوی کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ وہ اس کے کام میں اس کی شریک ہوگی۔ اسی طرح دلی میں ایک مشہور بزرگ خواجہ میر ناصر گزرے ہیں ان کے متلعق آتا ہے کہ ان کے پاس کشف میں حضرت امام حسنؓ تشریف لائے اور انہوں نے ایک روحانیت کی خلعت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحفہ ایسا ہے جس میں تم مخصوص ہو۔ اس کی ابتداء تم سے کی جاتی ہے اور اس کا خاتمہ عہدی کے ظہور پر ہوگا۔ چنانچہ یہ کشف اس طرح پورا ہوا کہ آپ کی ہی اولاد میں سے حضڑت ام المومنین کا وجود پیدا ہوا۔ یہ کشف خواجہ ناصر نذیر فراق کے بیٹے خواجہ ناصر خلیق نے اپنی کتاب میخانہ درد )۲۵( میں درج کیا ہے۔<۱۵۹۱۵۸
حضرت سیدہ کے شمائل و اخلاق اور بلند سیرت
حضرت ام المومنین کے شمائل و اخلاق اور بلند سیرت کے متعلق سب سے جامع اور سب سے زیادہ مختصر کلام وہ ہے جو حضرت مسیح موعودؑ والسلام کی زبان مبارک پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا یعنی اذکر نعمتی رائیت خدیجتی ھذا من رحمتہ ربک ۱۶۰ میری نعمت کو یاد کر کہ تو نے میری خدیجہ کو دیکھا یہ تیرے رب کی رحمت ہے۔
اس مختصر فقرہ کی کسی قدر تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے الفاظ میں دی جاتی ہے۔
۱- حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں-:
دوامتیازی خصوصیات
>حضرت اماں جاںؓ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی شادی خاص الٰہی تحریک کے ماتحت ہوئی تھی۔ اور دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ یہ شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی۔ اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مجددیت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود انہیں انتہاء درجہ محبت اور انتہاء درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلدادی فرماتے تھے۔ کیونکہ حضرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے۔ چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے جس پر حضرت مسیح موعودؑ مسکرا کر فرماتے تھے کہ >ہاں یہ ٹھیک ہے۔< دوسری طرف حضرت اماں جان بھی حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق کابل محبت اور کامل یگانگت کے مقام پر فائز تیں اور گھر میں یوں نظر آتا تھا کہ گویا دو سینوں میں ایک دل کام کررہا ہے۔
حضرت اماں جانؓ کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونتاً چند باتوں کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔
عبادات میں شغف
آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحیٰ کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دلوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقعہ ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت~صل۱~ )فداہ نفسی( کی یہ پیاری کیفیت کہ جعلت قرہ عینی فی الصلوہ۱۶۱ )یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے( حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی۔
پھر دعا میں ببھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا۔ اپنی اولاد اور دوسرے عزیزوں بلکہ ساری جماعت کے لئے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے درود و سوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔
اولاد کے متعلق حضرت اماں جان کی دعا کا نمونہ ان اشعار سے ظاہر ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اماں جان کے جذبات کی ترجمانہ کرتے ہوئے ان کی طرف سے اور گویا انہی کی زبان سی فرمائے۔ خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ عرض کرتے ہیں ~}~
کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تیرا طالب ہے
کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جویاں تیرا
آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں
کوئی ہوجائے اگر بندہ فرماں تیرا
اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے ریب و گماں
وہ جو ایک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا
میری اولاد کو تو ایسی ہی کردے پیارے
دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ نمایاں تیرا
عمردے ` رزق دے` اور عافیت و صحت بھی
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاجائیں وہ عرفاں تیرا
اپنی ذاتی دعائوں میں جو کلمہ حضرت اماں جانؓ کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ :۔
یاحیی یا قیوم برحمتک استغیث
یعنی اے میرے زندہ خدا اور میرے زندگی بخش آقا! میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فرمایا ہے کہ ~}~
تیری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر
مری جاں تیرے فضلوں کی پنہ گیر
مالی جہاد میں شمولیت
جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جانؓ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔ تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا کام سرانجام پاتا ہے اس کے اعلان کے لئے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بلا توقف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کردیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں وعدہ جب تک ادا نہ ہوجائے دل پر بوجھ رہتا ہے۔ دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق و شوق کا عالم تھا۔
صدقہ و خیرات
صدقہ و خیرات اور غربیوں کی امداد بھی حضرت اماں جاں نور اللہ مرقدھا کا نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غریبوں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے۔ جو شخص بھی ان کے پاس اپنی مصیبت کا ذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان انے مقدور سے بڑھ کر اس کی امداد فرماتی تھیں اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں مدد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا۔ اسی ذیل میں ان کا یہ طریق بھی تھا کہ بعض اوقات یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں اور بعض اوقات ان کے گھروں پر بھی کھانا بھجوا دیتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو کسی ایسے شخص )احمدی یا غیر احمدی` مسلم یا غیر مسلم( کا علم ہے جو قرض کی وجہ سیقید بھگت رہا ہو )اوائل زمانے میں ایسے ۱۶۲ سول قیدی بھی ہوا کرتے تھے( اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرنا` میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کرسکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کار ثواب ہے۔
قرض سے مدد
قرض مانگنے والوں کو فراخدلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں مگر یہ دیکھ لیتی تھیں کہ قرض مانگنے والا کوئی ایسا شخص تو نہیں جو عادی طور پر قرض مانگا کرتا ہے اور پھر قرض کی رقم واپس نہیں کرتا ایسے شخص کو قرض دینے سے پرہیز کیا کرتی تھیں تاکہ اس کی یہ بری عادت ترقی نہ کرے مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دے دیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے ان سے کچھ قرض مانگا اس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھیں مجھ سے فرمانے لگیں >میاں! )وہ اپنے بچوں کو اکثر میاں کہہ کر پکارتی تھیں( تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دے دو یہ عورت لین دین میں صاف ہے۔< چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دیدی اور پھر اس غریب عورت نے تنگدستی کے باوجود عین وقت پر اپنا قرض واپس کردیا جو آج کل کے اکثر نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔
یتامیٰ کی پرورش و تربیت
حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کو اسلامی احکام کے ماتحت یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی یتیم لڑکی یا لڑکے کو پلتے دیکھا اور وہ یتیموں کو لوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ ان کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ ان کے آرام و آسائش اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے واجب اکرام اور عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ اس طرح ان کے ذریعہ بیسیوں یتیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے۔ بسا اوقات اپنے ہاتھوں سے یتیموں کی خدمت کرتی تھیں مثلاً یتیم بچوں کو نہلانا` ان کے بالوں کو کنگھی کرنا اور کپڑے بدلوانا وغیرہ وغیرہ مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جاں رسول~صل۱~ کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گی کہ انا و کافل الیتیم کھاتین ۱۶۳` >یعنی قیامت کے دن میں اور یتیمون کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح کہ ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں۔
مہمان نوازی
مہمان نوازی بھی حضرت اماںؓ کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا۔ اپنے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اور اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں- خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے۔ اور اگر کوئی عزیز یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جائو چنانچہ اکثر اوقات زبردستی روک لیتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے۔ عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہے اور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں۔ جبآخری عمرمیں زیادہ کمزور ہوگئیں تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور میری طرف سے کھانے کا انتظام کردے۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہوچکی تھیں اور کافی بیمار تھیں مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو ان دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس ان کی عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں` فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں۔ میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف س حضرت اماں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے۔ اس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے ان کے کہنے پر آپ کی یہ دعوت دی تھی۔
محنت کی عادت
حضرت اماں جانؓ میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں۔ میں نے انہیں اپنی انکھوں سے بارہا کھانا پکاتے` چرخہ کاتنے` نواڑ بکتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے۔ بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں۔ گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلوکی بیل لگانے کا بھی شوق تھا عموماً انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں۔
مریضوں کی عیادت
مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی احمدی عورت کے متعلق یہ سنتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلاامتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت~صل۱~ کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبرائو نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہوجائوگی۔ ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت اماں جان پر جان چھڑکتی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی مائوں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں- اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں۔ اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اماں جان کا مبارک وجود احمدی مستورا کے لئے ایک بھاری ستون تھا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں۔
تقویٰ اور توکل کے دو واقعات
مگر غالباً حضرت اماں جانؓ کے تقویٰ اور توکل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار اظہار ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے علم پاکر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دن دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ و زاری اور سوز و گذار سے یہ دعا فرمارہی ہیں کہ خدایا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعودؑ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا کررہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیہ میں تم پر سوکن آتی ہے ؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا >خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو۔
دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور کسی تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیتاً قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جارہا ہے اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ ان کی اسی بے نظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیشگوئی کو اس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پورا فرما دیا۔ پھر جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوئی )اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے( اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت امان جان نور اللہ مرقدھا و رفعھا فی اعلی علیین آپ کی چارپائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ :۔
>خدایا ! یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو۔<
یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور دل اس یقین سے پر تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ اللہ اللہ !۔
خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گویا ظاہری لحاط سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا توکل` ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے۔ مجھے اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کا وہ بے حد پیارا اور مضبوطی کے لحاظ سے گویا فولادی نوعیت کا قول یاد آرہا ہے جو آپ نے کامل توحید کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضرت~صل۱~ )فداہ نفسی( کی وفات پر فرمایا کہ :۔
>الا من کان منکم یعبد محمدا فان محمد اقدامات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حیی لا یموت<- ۱۶۴
>یعنی اے مسلمانو! سنو کہ جو شخص محمد رسول اللہ~صل۱~ کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد~صل۱~ فوت ہوگئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستا ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔< ۱۶۵
۲- حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں :۔
غیر معمولی محبت کرنے والی ماں
>صرف اس لئے نہیں کہ اماں جانؓ غیر معمولی محبت کرنے والی ماں تھیں اور اس لئے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو محض ذکر خیر ے طور پر آپ کا تاریخی پہلو لکھا جائے۔ اور اس لئے بھی نہیں کہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی )اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح میں ان کی جدائی کو برداشت کررہی ہوں( بلکہ حق اور محض حق ہے کہ حضرت اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ نے سچ مچ اس قابل بنایا تھا کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چن لے اور اس وجود کو اپنی خاص >نعمت< قرار دے کہ اپنے مرسل کو عطا فرمائے۔
صابرہ و شاکرہ
آپ نہایت درجہ صابرہ اور شاکرہ تھیں- آپ کا قلب غیر معمولی طور پر صاف اور وسیع تھا۔ کسی کے لئے خواہ اس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو آپ کے دل پر میل نہ آتا تھا۔ کان میں پڑی ہوئی رنج دہ بات کو اس صبر سے پی جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی اور ایسا برتائو کرتی تھیں کہ کسی دوسرے کو کبھی کسی بات کے دوہرانے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ شکوہ` چغلی` غیبت کسی بھی رنگ میں نہ کبھی اپ نے کیا` نہ اس کو پسند کیا۔ اس صفت کو اس اعلیٰ اور کابل رنگ میں کبھی کسی میں میں نے نہیں دیکھا۔ آخر دنیا میں کبھی کوئی بات کوئی کسی کی کر ہی لیتا ہے` مگر زبان پر کسی کے لئے کوئی لفظ نہیں آتے سنا۔
شفقت
حضرت اماں جانؓ سے جہاں کسی نے مجلس میں کسی کی بطور شکایت بات شروع ی اور آپ نے فوراً کا حتیٰ کہ اپنے ملازموں کی شکایت جو خود آپ کے وجود کے ہی آرام کے سلسلے میں تنگ آکر کبھی کی جاتی پیچھے سے سننا پسند نہ کرتی تھیں۔ اپنے ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں۔ آخری ایام میں جب آواز نکلنا محال تھا مائی عائش )والدہ مجید احمد مرحوم درویش قادیان( کی آواز کسی سے جھگڑے کی کان میں آئی۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بدقت فرمایا >مائی کیوں روئی ؟< میں نے کہا نہیں اماں جان روئی تو نہیں یوں ہی کسی سے بات کررہی تھی۔ مگر جو درد حضرت اماں جان کی آواز میں اس وقت مائی کے لئے تھا وہ آج تک مجھے بے چین کردیتا ہے۔ آپ نے کئے لڑکیوں اور لڑکوں کو پرورش کیا اور سب سے بہت ہی شفقت و محبت کا برتائو تھا۔ خود اپنے ہاتھ سے ان کا کام کیا کرتی تھیں اور کھلانے` پلانے` آرام کا خیال رکھنے کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر تربیت کا بھی بہت خیال رکھتیں اور زبانی نصیحت اکثر فرماتیں۔ ایک لڑکی تھی` مجھے یاد ہے میں ان دنوں حضڑت اماں جانؓ کے پاس تھی۔ وہ رات کو تہجد کے وقت سے اٹھ بیٹھتی اور حضرت اماں جاںؓ سے سوالات کرنے اور لفظوں کے معنے پوچھنا شروع کرتی اور آپ اس کی ہر بات کا جواب صبر اور خندہ پیشانی سے دیا کرتیں۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ اس وقت نہ ستایا کرو۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ نے بہت زیادہ صبر و تحمل کا نمونہ دکھایا مگر آپؑ کی جدائی کو جس طرح آپ محسوس کرتی رہیں اس کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس صبر کو اور بھی حیرت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
حضرت مسیح موعودؑ سے غیر معمولی محبت
آپ اکثر سفر پر بھی جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو بہت بہلائے رکھتی تھیں۔ باغ وغیرہ یا باہر گائوں مین پھرنے کو بھی عورتوں کو لے کر جانا یا گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہنا` کھانا بکوانا اور اکثر غرباء میں تقسیم کرنا )جو آپ کا بہت مرغوب کام تھا( لوگوں کا آنا جانا اپنی اولاد کی دلچسپیاں یہ سب کچھ تھا مگر حضرت مسیح موعودؑ کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے۔ ایک سفر ہے جس کو طے کرنا ہے۔ کچھ کام ہیں جو جلدی جلدی کرنے ہین۔ غرض بظاہر ایک صبر کی نثان ہونے کے باوجود ایک قسم کی گھبراہٹ سی بھی تھی جو آپ پر طاری رہتی تھی مگر ہم لوگوں کے لئے تو گویا وہ ہر غم اپنے سینہ میں چھپا کر خود سینہ سپر ہوگئہی تھیں` دل میں طوفان اس درد جدائی کے اٹھتے اور اس کو دبا لیتیں اور سب کی خوشی کے سامنے کرتیں۔ مجھے ذاتی علم ہے کہ جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ ایک رنج حضرت مسیح موعودؑ کی جدائی کا آپ کے دل میں تازہ ہوجاتا اور وہ آپ کو اس بچہ کی آمد پر یاد کرتیں۔
چشمہ محبت
میں اپنے لئے ہی دیکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد ایک چشمہ ہے` بے حد محبت کا ` جو اماں جان کے دل میں پھوٹ پڑا ہے اور بار بار فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے اور میرے اعتراض کرنے پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ >لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں۔ یہ کیا یاد کرے گی جو یہ کہتی ہے وہی کرو۔< غرض یہ >محبت بھی دراصل حضرت مسیح موعودؑ کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجزن تھی۔
اس کے بعد میری زندگی مں ایک دوسر امرحلہ آیا یعنی میرے میاں مرحوم کی وفات ! ان کے بعد ایک بار اور میں نے اس >چشمہ محبت< کو پورے زور سے پھوٹتے دیکھا جیسے بارش برستے برستے یکدم ایک جھڑا کے سے گرنے لگتی ہے۔ اس وقت وہی بابرکت ہستی تھی` وہی رحمت و شفقت کا مجسمہ تھا جو بظاہر اس دنیا میں خدا تعالیٰ رفیق اعلیٰ و رحیم و کریم ذات کے بعد میرا رفیق ثابت ہوا` جس کے پیار نے میرے زخم دل پر مرہم رکھا۔ جس نے مجھی بھلا دیا تھا کہ میں اب ایک بیوہ ہوں بلکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں کہیں جاکر پھر آغوش مادر میں واپس آگئی ہوں۔ اب دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو میرا منہ دیکھے کہ اداس تو نہیں ہے۔ اب کوئی ایسا نہیں جو میرے احساس کو سمجھے ! میرے دکھ کو اپنے دل پر بیتا ہوا دکھ محسوس کرے۔ خدا سب عزیزوں کو سلامت رکھے۔ میرے بھائیوں کی عمر مین اپنے فضل سے خاص برکت دے۔ مگر یہ خصوصیت جو خدا نے ماں کے وجود میں بخشی ہے اس کا بدل تو کوئی خود اس نے ہی پیدا نہیں کیا اور میری ماں تو ایک بے بدل ماں تھیں` سب مومنوں کی ماں۔ ہزارون رحمتیں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی رحمتیں ہمیشہ ہمیشہ آپ پر نازل ہوتی رہیں۔ وہ تو اب خاموش ہیں مگر ہم جب تک خدا ان سے نہ ملائے گا ان کی جدائی کی کھٹک برابر محسوس کرتے رہیں گے۔~}~
عمر بھر کا ہش جاں بن کے یہ تڑپائے گی
وہ نہ آئیں گی مگر یاد چلی آئے گی
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کے لئے زیادہ ہی زیادہ ان دعائوں کو جو حضرت مسیح موعودؓ نے ہمارے لئے فرمائیں )اور حضرت اماں جاںؓ نے جو سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا( قبول فرمائے اور ایسا ہو کہ گویا وہ دعائیں جاری ہیں اور ہر گھڑی مقبول ہورہی ہیں` آمین` اور ہم سب کو اس قابل بنائے کہ ہم ان فضلوں کے جاذب بنیں جو ہماری لئے مانگے جاتے رہے۔ ثم آمین۔
حضرت اماں جانؓ کو ہماری تعریف کی حاجت نہیں خدا نے جس وجود کی تعریف کردی اس کو اور کیا چاہئے مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ جو عمر بھر دیکھا اس کو آئندہ ہونے والوں کے لئے ظاہر کردیں۔
آپ ایک نمایاں شان کے ساتھ صابرہ تھیں اور خدا تعالیٰ کی رضا پر خوشی سے راضی ہونے والی تکالیف کا حوصلہ سے مقابل کرنے والی ! کبھی کسی کا شکوہ شکایت زبان پر نہ لانے والی کسی سے پہنچے ہوئے رنج کو مہر بہ لب ہو کر ایسی خاموشی سے برداشت کرنے اور مٹا ڈالنے والی کہ وہ مٹ ہی جاتا تھا۔
جس سے تکلیف پہنچتی اس پراپنی مہربانی اس طرح جاری رکھتیں بلکہ زیادہ حتی کہ وہ امر اورون کے بھی دلوں سے محو ہوجاتا۔
خشیت الٰہی
بہت خشو و خضوع سے` بہت سنوار کر نمازیں ادا کرنے والی` بہت دعائیں کرنے والی کبھی میں نے آپ کو کسی حالت میں بھی جلدی جلدی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تہجد اور اشراق بھی جب تک طاقت رہی ہمیشہ باقاعدہ ادا فرماتی رہیں- دوسرے اوقات میں بھی بہت دعا کرتی تھیں۔ اکثر بلند آواز سے دعا بے اختیار اس طرح آپ کی زبان سے نکلتی گویا کسی کا دم گھٹ کر یکدم رکا ہوا سانس نکلے۔ بہت ہی بے قرار اور تڑپ سے دعا فرماتی تھیں۔ کبھی کبھی موزوں نیم شعر الفاظ میں اور کبھی مصرع اور شعر کی صورت میں بھی دعا فرماتی تھیں اسی درد اورتڑپ سے ایک بار لاہور میں غیر آباد مسجد کو دیکھ کر ایک آہ کے ساتھ فرمایا
الٰہی مسجدیں آباد ہوں گر جائیں` گرجائیں
آپ کی دعائوں میں سب آپ کی احمدی اولاد شریک ہوتی۔ اکثر ایسوں کا نام لے کر بے قرار ہو کر دعا کر تین جن کا بظاہر ہر کسی کو خیال تک نہ ہوتا۔ ایک بار لیٹے لیٹے اس طرح کرب سے >یااللہ< کہا کہ میں گھبرا گئی مگر اس کے بعد کا فقرہ کیا تھا؟ یہ کہ >میرے نیر کو بٹا دے< خدا نے آپ کے نیر )مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب نیر۱۶۶( کو اس کے بعد محمودہ کڑک سے دو بیٹے عطا فرمائے۔ خدا نیکی اور زندگی ان کو بخشے` سب جماعت سے محبت دلی فرماتی تھیں اور خصوصاً حضرت مسیح موعودؑ والسلام کے زمانہ کے لوگوں سے آپ کو بہت ہی پیار تھا۔ ان کی اولادوں کو اب تک دیکھ کر شاد ہوجاتی تھیں۔ شاید آپ میں سے بعض کو پورا احساس نہ ہو مجھے پوچھیں آپ سچ مچ ایک اعلیٰ نعمت سے` ایک ہزار ماں سے بہتر ماں سے محروم ہوگئے ہیں۔
شریکہ غم
ہر چھوٹے بڑے کی خوشی اور تکلیف میں بدل شریک ہوتی تھیں۔ جب تک طاقت رہی یعنی زمانہ قریب ہجرت تک جب باہر جاتیں اکثر گھروں میں ملنے جاتیں- حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے آپ کا یہی عمل تھا۔ مجھے کئی واقعات یاد ہیں کہ کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا اور آپ برابر ان کی تکلیف کے وقت میں زچہ کے پاس رہیں اور یہی طریق بعد میں جب تک ہمت رہی جاری رہا۔
خاص چیز جو پکواتیں بہت کھلی اور ضرور سب میں تقسیم کرتیں۔ حضرت مسیح موعودؓ کے زمانہ میں چونکہ لوگ کم تھے تو سب کو گھروں سے بلا کر اکثر ساتھ ہی کھلوایا کرتی تھیں۔
خیرات و فیاضی
خیرات کثرت سے فرماتی تھیں` غرباء کو کھانا کھلانا آپ کو بہت پسند تھا۔ حضڑت مسیح موعودؑ کے پسند کی چیز تو ضرور کھلایا کرتی تھیں۔ اور گھر میں روزمرہ جب کوئی چیز سامنے آتی تو اول اول دنوں میں تو بہت فرمایا کرتی تھیں کہ یہ چیز آپؑ کو پسند تھی لو تم کھائو!
ہاتھ سے کام کرنا
ہاتھ سے کام کرنے میں ہرگز کبھی آپ کو عار نہ تھا۔ قادیان س آتے وقت بھی برابر خود کوئی نہ کوئی کام کرتی تھیں۔ باورچی خانہ جا کر خود کچھ پکا لینا` چیز خود ہی جا کر بکسوں میں سے نکالنا` کسی کو بہت کم کہتی تھیں` خود ہی کام کرنے لگتی تھیں۔ جب تک کمزوری حد سے نہ بڑھی سہارا لینا ہرگز پسند نہیں فرماتی تھیں کوئی سہارا دینا چاہتا تو نہیں دینے دیتیں کہ میں خود چلوں گی سہارا نہ دو۔
‏]sub [tagذکر الٰہی
ایک خاص بات آپ کی اپنی بچپن سے مجھی یاد ہے کہ جن ایام میں آپ نے نماز نہیں پڑھنی ہوتی تھی اس وقت کو کبھی باتوں وغیرہ میں ضائع نہیں فرماتی تھیں برابر مقررہ اوقات نماز میں تنہا ٹہل کر یا بٹھ کر دعا اور ذکر الٰہی کرتی تھیں اور پھر ہمیشہ میں نے اس امر کا التزام دیکھا۔
نظافت پسندی
جن لڑکیوں کو پالا ان کی جوئیں نکالنا` کنگھی کرنا یہ کام اکثر خود ہی کرتی تھیں اور باوجود نہایت صفائی پسند ہونے کے گھن نہیں کھاتی تھیں۔
صاف لباس` پاکیزہ بستر اور خوشبو آپ کو بے ہد پسند تھی مگر ان چیزوں کا شغف کبھی اس درجہ کو نہیں پہنچا کہ آپ کے اوقات نماز یا دعا یا ذکر میں حاج ہوا ہو۔
عطر کا استعمال
مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ بھی عطا اور چنبیلی کا تیل آپ کے لئے خاص طور منگایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد آپ نے اپنا عطر کا صندوقچہ مجھے پاس بلا کر تیسرے روز دے دیا تھا۔ )جو مین نے بھاوجوں میں تقسیم کردیا تھا( زمانہ عدت میں آپ نے خوشبو نہیں استعمال کی ` نہ زیور ہی کوئی پہنا سفید لباس پہنتی تھیں مگر صاف ` میلا نہیں۔ مجھے یاد ہے جس دن ایام عدت ختم ہوئے آپ نے غسل کیا` صاف لباس پہنا` عطر لگایا اور اس دن جو کیفیت صدمہ کی اور پھر ضبط آپ کے چہرہ سے مترشح تھا وہ تحریر میں نہیں آسکتا۔ آپ کا رونا نمازوں کا رونا` دعائوں کا رونا ہوتا تھا ویسے نہین۔ روزانہ بہشتی مقبرہ جاتیں اور نہایت رقت سے دعا کرتین۔ وہ آپ کی ہالت دیکھی نہیں جایا کرتی تھی جس مقام میں آخر آرام کرنے کے لئے آپ کی روح چالیس سال تڑپ سے انتظار کرتی رہی اور دل میں جس زمین کو دیکھ دیکھ کر بے قرار ہوتا رہا اس میں آپ کے جسد مبارک کا فی الحال رکھا جانا تقدیر الٰہی کے مطابق نہ تھا۔ دل بے چین ہوجاتا ہے جب یاد کرتی ہوں کہ قادیان سے آنے کا صدمہ بھی صبر اور تحمل سے برداشت کر جانے والی میری اماں جانؓ کس بے قرار سے وہاں سے آکر بار بار کہا کرتی تھیں کہ >مجھے قادیان ضرور پہنچانا یہاں نہ رکھ لینا< )یعنی بعد وفات( اگر کوئی گھبراہٹ ظاہراً دیکھی تو بس ایک اسی بات کے لئے !
داغ ہجرت میں وفات
سخت کرب پیدا ہوتا ہے اس خیال سے کہ یہ آرزو حضرت اماں جانؓ کی پورا نہ ہونا اور ان کا ہجرت میں داغ جدائی دینا` بے شک پیشگوئی کے مطابق ہوا مگر کہیں ہم لوگ کی شامت اعمال تو اس وقت کو نزدیک نہیں کھینچ لائی۔ یہی منشاء الٰہی تھا اور ہو ہوا۔ مگر آب تو خدا کرے وہ دن بھی جلدی لائے کہ حضڑت اماں جانؓ کی تمنا کو پورا کرنے والے آپ لوگ بنیںاور ہم سب اس طرح حضرت اماں جانؓ کو ان کے اصل مقام میں لے جائیں جس طرح جانا ان کے شایان شان ہے )آمین(
ایک دعا اور اس کی قبولیت
بہت سال ہوئے حضرت سیدنا۱۶۷ بھائی صاحب نے ایک دن مجھے کہا تھا کہ >میں بھی یہ دعا کیا کرتا ہوں تم بھی کیا کرو کہ اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ مدت دراز تک سلامت رکھے مگر اب اماں جانؓ ہم میں سے کسی کا صدرمہ نہ دیکھیں< میں نے اس دن س اس دعا کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپنی خاص اس دعا کے ساتھ کہ ایسا وقت اس حالت میں نہ آئے کہ میں اماں جان سے دور ہوں۔ میں سالہال مالیر کوٹلہ وہی گو بار بار اور جلد جلد آتی تھی کیونکہ حضرت اماں جانؓ اور اس گھر کو ` بھائیوں کو` دیکھے بغیر مجھی چین ہی نہ آتا تھا مگر جب بھی وہاں ہوتی حضرت اماں جانؓ کے متعلق توہمات مجھی چین سے نہ رہنے دیتے۔ میں نے میان مرحوم سے صاف کررکھا تھا کہ میں یہان آپ کا ساتھ دے کر رہتی تو ہوں لیکن اگر کبھی اماں جانؓ کی علالت کی خبر مجھے ملی تو ہر گز نہ مجھے کسی اجازت کی حاجت ہوگی نہ کوئی ساتھ ڈھونڈنے کی ` میں ایک منٹ بھی پھر نہیں ٹھہروں گی خواہ اکیلے چل پڑنے کی صورت ہو۔ ہمیشہ ہر حال میں میں نے ایک رقم الگ محفوظ رکھی اس نیت سے کہ اماں جانؓ کو خدا نہ کرے کبھی تکلیف ہو تو کسی روپیہ کے انتظام کے لئے میرا گھنٹہ بھر بھی ضائع نہ ہو۔
الحمد لل¶ہ ! کہ وہ دعا بھی خدا تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ خدمت کے قابل گو میں نہ رہی تھی مگر پاس رہی منہ دیکھتی رہی اور وہ پاکیزہ نعمت الٰہی جو مجھے دنیا میں لانے کا ذریعہ ایک دن بنی تھی میری آنکھوں کے سامنے میرے ہاتھ میں اس دنیا سے رخصت ہو کر محبوب حقیقی سے جا ملی۔<۱۶۸
>چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے<
تاریخی شخصیت
>آپ میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے یہ دعا حضرت مسیح موعودؑ بزبان حضرت اماں جانؓ نہ پڑھی ہوگی۔ یہ مصرعہ آپ کو اس وجود کی اہمیت اور بزرگی کا مرتبہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیحا کے لئے چن کر چھانٹ لیا وہ کیا چیز ہوگی ؟
حضرت ام المومنینؓ کا وجود بھی اس زمانہ کی مستورات کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ بنا کر` اپنے مرسل مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کے لئے تفیق حیات منتخب فرما کر بھیجا تھا اور آپ کی تمام حیات آپ کی زندگی کا ہر پہلو اس پر روشن شہادت دیتا رہا اور دے رہا ہے اور ہمیشہ تاریخ احمدیت پر مرد درخشاں کی مانند چمک دکھلا کر شہادت دیتا رہے گا۔<۱۷۰۱۶۹
حواشی
۱۔
>حجتہ الاسلام< ۱۲`۱۳ )اشاعت ۸ مئی ۱۸۹۳ء( مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر
۲۔
>آئینہ کمالات اسلام< ۵۶۴ - ۵۶۶ طبع اول )اشاعت ۱۸۹۳ء( و >ختاب البریہ< ۷۸` ۷۹ )اشاعت ۲۴ جنوری ۱۸۹۸ء(
۳۔
>نزول المسیح< ۶ )اشاعت اگست ۱۹۰۹ء(
۴۔
>تبلیغ رسالت< )مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ مدیر >فاروق< قادیان
۵۔
ولادت ۲۳ اپریل ۱۹۰۲ء۔۔ وفات یکم اپریل ۱۹۷۳ء(
۶۔
ولادت یکم جنوری ۱۸۷۹۔۔ وفات ۴ جنوری ۱۹۶۱ء / ۴ صلح ۱۳۴۰ ہش
۷۔
الفضل ۱۶ صلح و الفضل ۲ صلح ۱۳۳۱ ہش/۱۶ء ۲ جنوری ۱۹۵۲ء
۸۔
وفات ۲۴ وفا ۱۳۳ ہش/۲۴ جولائی ۱۹۵۴ء
۹۔
ملخصاً ازا الفضل ۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ و ۸
۱۰۔
روایات صحابہ )غیر مطبوعہ( رجسٹر ۷ صفحہ ۱
۱۱۔
رجسٹر بیعت )غیر مطبوعہ(
۱۲۔
الفضل لاہور ۱۱- صلح ۱۳۳۰ ہش/۱۱ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱
۱۳۔
ازالہ اوہام صفحہ ۸۱۲ )طبع اول(
۱۴۔
ازالہ اوہام صفحہ ۷۹۳ )طبع اول(
۱۵۔
یعنی حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ )ناقل(
۱۶۔
مطابق ۲۷ دسمبر ۱۸۸۵
۱۷۔
کہف :۳۸
۱۸۔
ولادت ۷ اگست ۱۸۸۷ء
۱۹۔
تلخیص >روایات صحابہ< جلد ۷ )غیر مطبوعہ( صفحہ ۱`۶
۲۰۔
ابن ماجہ )ابواب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء( صفحہ ۱۴۳
۲۱۔
الفضل ۲۸ صلح ۱۳۳۰ ہش/۲۸ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۲۲۔
الفضل ۲ تبلیغ ۱۳۳۰ ہش/۲ فروری ۱۹۵۱ صفحہ ۵
۳۲۔
قادیان گائیڈ صفحہ ۶۲`۵۸ )ازمیاں محمد یامین صاحبؓ تاجر کتب قادیان۔ اشاعت ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء(
۲۴۔
اولاد :۔ پیر عبدالرحیم صاحب۔ پیر سلطان احمد صاحب پیر ہارون احمد صاحب۔ پیر مبارک احمد صاحب )مون لائٹ ربوہ( صفیہ بیگم صاحب اہلیہ مولاا بذل الرحمن صاحبؓ فاضل بنگالی مبلغ سلسلہ احمدیہ )وفات ۳۱ فتح ۱۳۲۸ ہش/۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ء( امتہ الحکیم صاحبہ اہلیہ مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر مجاہد بلاد عربیہ
۲۵۔
ریکارڈ بہشتی مقبرہ ۔ربوہ
۲۶۔
الفضل ۱۱-۱خاء ۱۳۳۰ ہش/۱۱- اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۲۷۔
بدر ۱۱ جنوری ۱۹۱۲ صفحہ ۸ کالم ۲ )تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۱۱ء بعنوان >مدراج تقٰوی(<
۲۸۔
>روایات صحابہ< )غیر مطبوعہ( جلد ۱۳ صفحہ ۱۰۷
۲۹۔
الفضل ۱۵۔ امان ۱۳۳۰ ہش/۱۵۔ مارچ ۱۹۵۱ صفحح ۲
۳۰۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء کو انہیں تحریر فرمایا :۔ >بیعت کنندوں کے نمبر ۳۵۲ میں آپ کا نام ہے۔< >سراج منیر< میں حضور نے آپ کی ایک نظم درج فرمائی ہے۔ ۲۳ نومبر ۱۹۲۰ء کو جہلم ہسپتال میں انتقال کیا۔ قلعہ رہتاس کے دروازہ خواص خوانی کے برہا آپ کا مزار ہے۔ )الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۲۱ء صفہہ ۷ ` ۸
۳۱۔
مرتبہ ڈاکٹر ملک نذیر احمد صاحب ریاض۔ بھابڑا بازار راولپنڈی
۳۲۔
روزنامہ الفضل ۱۵۔ امان ۱۳۳۰ہش/۱۵۔ مارچ ۱۹۵۱ء
۳۳۔
الفضل ۴ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۴ ستمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴ )مضمون حضرت مولانا جلال ادلین صاحب شمسؓ(
۳۴۔
>لاہور ۔۔ تاریخ احمدیت< ۳۸۶ مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ طبع اول ۲۰ فروری ۱۹۶۶ء(
۳۵۔
الفضل ۲۷ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶
۳۶۔
۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام سرفہرست نمبر ۳ پر درج ہے۔ )ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۱(
۳۷۔
۲ ستمبر ۱۹۰۲ کو فوت ہوئے اور ۱۹ ستمبر ۱۹۰۳ء کو جمعہ کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کا جنازہ غائب پڑھا۔ حضرت مرزا محمد اشرف صاحب ریٹائرڈ محاسب صدر انجمن احمدیہ آپ ہی کے صاحبزادے تھے۔
۳۸۔
البقر : ۲۸۳
۳۹۔
>روایات اصحابہ< جلد ۷ صفحہ ۴۸` ۴۹
۴۰۔
۷ جنوری ۱۹۰۰ ء تا یکم فروری ۱۹۰۰ء ۔ یکم نومبر ۱۹۰۱ء تا ۲۲ دسمبر ۱۹۰۱ء )ڈاکٹر غلام مصطفٰے صاحب کی تحریری یادداشتوں سے ماخوذ(
۴۱۔
آپ کی خود نوشت روایات کے حوالہ سے تذکرہ طبع سوم ۷۷۷ تا صفحہ ۷۷۹ میں کئی امامات محفوظ ہوچکے ہیں۔
۴۲۔
الفضل یکم فتح ۱۳۳۰ ہش/یکم دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵ و ۱۴ نبوت ۳۳۰ ہش/۱۴ ۔ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۲
۴۳۔
حقیقہ الوحی صفحہ ۲۳۷ ` ۲۳۸ طبع اول ۱۵ مئی ۱۹۰۷ء مطبع میگزین قادیان
۴۴۔
مبارک مصلح الدین احمد صاحب واقف زندگی جو وکیل المال ثانی تحریک جدید ہیں آپ ہی کے صاحبزدے ہیں۔
۴۵۔
بروایت سردار عبدالحمید صاحبؓ آڈیٹر برادر اصغر
۴۶۔
ولادت ۱۸۶۰ء وفات ۱۹۳۹ء >)صوفیائے نقش بند< از سید امین الدین احمد صاحب ناشر مقبول اکیڈیمی لاہور طبع اول ۱۹۷۳ء(
۴۷۔
الفضل ۸۔ فتح ۱۳۳۰ ہش/۸ دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵ )مضمون چوہدری شبیر احمد صاحب بی ۔ اے(
۴۸۔
آل عمران : ۵۶
۴۹۔
چورہ شریف کے پیر جناب فقیر محمدﷺ~ صاحب عرف باوا جی مراد ہیں
۵۰۔
جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے۔
۵۱۔
مکتوب حضرت مولوی عبدالاحد خاںؓ مکان نمبر ۸۳۹ پیر کالونی چوہدری شبیر احمد صاحب
۵۲۔
دندان سازی کی پریکٹس کرتے ہیں
۵۳۔
ٹرانسپورٹ مینجر ۱۹۵۰ء
۵۴۔
وکیل المال اول تحریک جدید ربوہ و نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ )صف دوم(
۵۵۔
اسسٹنٹ ان ملٹری اکونٹس کراچی
۵۶۔
متوفی ۱۹۵۱ء غیر شادی شدہ ہونے کی حالت میں وفات پائی
۵۷۔
ملازم آرڈی نینس کراچی
۵۸۔
چیف ٹیک ایر فورس کراچی
۵۹۔
میڈیکل اسسٹنٹ مسقط
۶۰۔
اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و تذکرہ ۴۱ ایڈیشن سوم
۶۱۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۲۶ >بشارات رحمانیہ< جلد اول ۲۰۵ صفحہ ۲۰۷ مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر )طبع دوم(
۶۲۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۲۶` ۱۲۸ )خود نوشت روایات اخوند محمد اکبر خان صاحبؓ
۶۳۔
الفضل ۲۸ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶
۶۴۔
روایات صہابہ جلد نمبر ۱۰ صفحہ ۴۷` ۵۰
۶۵۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۶۶۔
روایات صحابہ جلد ۱۰ صفحہ ۴۷ ` ۵۰
۶۷۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۶۸۔
علی پور سیداں میں سید جماعت علی شاہ کے نام سے دو پیرہم عصر گزرے ہیں یہاں کون سے مراد ہیں اس کی تحقیق نہیں ہوسکی
۶۹۔
پیمائش کی کتاب
۷۰۔
)رجسٹر >روایات صحابہ< )غیر مطبوعہ( جلد نمبر ۱۰` ۵۹( خود نوشت حالات حضرت ملک برکت علی صاحبؓ مورخہ ۱۰ جون ۱۹۳۹ء
۷۱۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش/۴ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۵ )مضمون منشی محمد رمضان صاحب احمدی پوسٹل پنشنر گجرات سابق ضلع وار کلرک جماعت احمدیہ گجرات(
۷۲۔
مندرجہ بالا بزرگ صحابہ کے علاوہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر اور صدر مولانا محمد علی صاحب ایم۔اے سابق ایڈیٹر >ریویو آف ریلیجز< کی وفات بھی اسی سال ہوئی۔
)ولادت دسمبر ۱۸۷۴ء۔ زیارت جنوری ۱۸۹۲ء دستی بیعت ۱۸۹۷ء ہجرت قادیان ۱۸۹۹ء لاہور میں مستقل قیام ۲۰ اپریل ۱۹۱۴ء ۔ وفات ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۱ء(
>تاریخ احمدیت< جلد دوم میں آپ کے حالات زندگی کا اجمالی خاکہ دیا جاچکا ہی۔ آپ کے مفصل سوانح کے لئے ملاحظہ ہو >مجاہد کبیر< مولفہ جناب ممتاز احمد صاحب فاروقی بی۔ ایس سی۔ ای ۔ ای ستارہ خدمت و جناب محمد احمد صاحب ایم۔ اے خلف مولانا محمد علی صاحب مرحوم۔
۷۳۔
آپ کی سوانح ۱۳۴۶ ہش/۱۹۶۷ء میں ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کے قلم سے >تابعین اصحاب احمد< جلد نمبر ۶ میں چھپ چکی ہیں۔
۷۴۔
الفضل یکم صلح ۱۳۳۱ ہش/یکم جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۷۵۔
تفصیل الفضل ۱۶ ہجرت / مئی تا ۵ ۔ احسان/ جون ۱۳۳۰ ہش میں ملاحظہ ہو
۷۶۔
الفضلی ۲۳ و ۲۴ ہجرت ۱۳۳۰ ہش/۲۳`۲۴ مئی ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۷۷۔
الفضل ۱۸۔ وفا ۱۳۳۰ ہش/۱۸ جولائی ۱۹۵۱ء
۷۸۔
الفضل ۵ صلح ۱۳۳۵ ہش/۵ جنوری ۱۹۵۶ء
۷۹۔
الفضل ۱۸ وفا ۱۳۳۸ ہش/۱۸ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۴
۸۰۔
الفضل ۹ صلح ۱۳۳۰ ہش/۹ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۸۱۔
الفضل لاہور ۶ صلح ۱۳۳۰ ہش/ ۶ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱
۸۲۔
روزنامہ الفضل ۱۲۔ وفا ۱۳۳۰ ہش/۱۲ جولائی ۱۹۵۱ء صفحہ ۵
۸۳۔
ناشر سیٹھ محمد معین الدین صاحب احمدی چنت کنٹہ حیدر آباد دکن طبع اول جنوری ۱۹۵۴ء مطبوعہ تاج پریس حیدر آباد دکن
۸۴۔
طبع اول ۱۳۳۸ ہش مطابق ۱۹۵۹ء مطبوعہ منظور عام پریس پشاور
۸۵۔
ماہنامہ درویش اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۸
۸۶۔
‏]h2 [tagبدر ۲۱۔ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲۳
۸۷۔
الفضل ۴ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۴۔ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۸۸۔
الفضل ۱۷ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۱۷ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۳`۴
۸۹۔
پوری تقریر الفضل ۲۵ امان ۱۳۳۱ ہش/۲۵ مارچ ۱۹۵۲ء میں شائع شدہ ہے۔
۹۰۔
الفضل ۲۱۔ وفا ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۵` الفضل ۱۸ ظہور ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۵` الفضل ۲۸ تبوک ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۲ الفضل ۱۰۔ نبوت ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۱` الفضل ۱۱ فتح ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۱ الفضل یکم صلح ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۶
۹۱۔
الفضل ۲۵ ۱۳۳۰ ہش/فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۳ ` ۶ و ۶ اخاء ۱۳۳۰ ہش/اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴
۹۲۔
الفضل ۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۴
۹۳۔
الفضل ۱۶ اخاء ۱۳۳۰ ہش/اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴
۹۴۔
ان اخبارات کے تراشے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہیں
۹۵۔
رسالہ تحریک جدید صلح ۱۳۵۳ ہش/ جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۴۰` ۴۱
۹۶۔
ماہ ہجرت ۱۳۲۹ ہش/مئی۱۹۵۰ء تا ماہ شہادت ۱۳۳۰ ہش/اپریل ۱۹۵۱ء
۹۷۔
ان کے صاحبزادے بختیار ذکریا صاحب ربوہ میں دینی علم حاصل کرتے رہے ہیں۔
۹۸۔
پہلی سالانہ کانفرنس ۹۔۱۰۔۱۱ ماہ فتح ۱۳۲۸ ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جا کرتا میں اور دوسری ۲۴۔۲۵ ۲۶ فتح ۱۳۲۹ ہش/ دسمبر ۱۹۵۰ء کو بانڈونگ میں ہوئی۔
۹۹۔
الفضل ۷ تا ۱۳ امان ۱۳۳۱ ہش/ مارچ ۱۹۵۲ء )تلخیص(
۱۰۰۔
حال انگلستان
۱۰۱۔
تفصیلی رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۵۲۔۱۹۵۱ء صفحہ ۲۶` ۲۸ میں درج ہے۔
۱۰۲۔
>تاریخ احمدیت< جلد ۹ صفحہ ۴۵۴` ۴۵۶
۱۰۳۔
محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مراد ہیں )ناقل(
۱۰۴۔
۱۳۱ ہش / ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۳۵۴ ہش/۱۳۷۵/۱۹۷۵ء تک کے ممبران کمیٹی کی فہرست شامل ضمیمہ ہے۔
۱۰۵۔
فیصلہ ۵ ہجرت ۱۳۳۶ ہش/مئی ۱۹۵۷ء
۱۰۶۔
فیصلہ ۲۷ ہجرت ۱۳۴۱ ہش/مئی ۱۹۶۲ء
۱۰۷۔
فیصلہ ۶ تبوک ۱۳۴۰ ہش/ستمبر ۱۹۶۱
۱۰۸۔
>مجلس افتاء اور اس کے فرائض صفحہ ۴ )شائع کردہ دارالافتاء ربوہ ضلع جھنگ(
۱۰۹۔
الفضل ۱۱۔ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۱۰۔
مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۵
۱۱۱۔
تابعین اصحاب احمد جلد ۷ صفحہ ۷۶ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے` مطبوعہ شہادت ۱۳۵۰ ہش/۱۹۷۱ء ناشر احمدیہ بک ڈبو داراالرحمت شرقی ربوہ
۱۱۲۔
تجویز (Plan)
۱۱۳۔
الفضل ۱۱۔ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳` ۴
۱۱۴۔
الفضل ۳ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۱۵۔
الفضل ۲۴ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ ` ۳
۱۱۶۔
الفضل ۱۵ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۱۷۔
وفات ۱۸۹۸
۱۱۸۔
وفات ۱۹۳۱ء
۱۱۹۔
وفات ۱۹۳۶ء
۱۲۰۔
وفات ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ء
۱۲۱۔
۲۰ اپریل ۱۹۳۸ء
۱۲۲۔
الفضل ۱۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ صفحہ ۲`۳
۱۲۳۔
الفضل ۴ امان ۱۳۳۱ ہش/مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۱۲۴۔
اس موقعہ پر مقامی جماعت کی طرف سے صاحب ڈپٹی کمشنرکو یہ مراسلہ بھیجا گیا:۔
>ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بجائے اپنی جلسہ گاہ کے مسجد میں جا کر جلسہ کرنا کسی حالت میں بھی مناسب نہیں اور ہمارے حق کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے بار بار آپ کی کدمتمیں عرض کی کہ ہم خطرہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار ہین لیکن پہلی مرتبہ کے التواء کے بعد وسری بار ایک نہایت ہی مختصر اجلاس کو کافی سمجھنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ ہم یقیناً اس بات کے حق دار ہیں کہ اس تعاون کے بعد جو ہم نے پچھلی بار دکھایا تھا اس دفعہ حالات کی مشکلات کو برداشت کر کے ہمارے لئے جلسہ کرنا ممکن کیا جاتا۔ اس جلسہ میں شرکت کے لئے بعض دوست باہر کے اضلاع سے آئے ہوئے تھے ہم حکومت جو یقیناً مشکلات میں پھنسانا نہیں چاہتے لیکن اس کا یہ اثر ضرور ہوگا کہ ایسا شرارت پسند عنصر جو ہر ممکن طریق سے حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور زیادہ دلیر ہوجائے گا اور امن پسند لوگوں کے لئی اپنے حقوق کی حفاظت مشکل ہوجائے گی۔ بہرحال آپ کی انتظامی معذوریوں کے یش نظر ہمارے لئے بجز اس کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ہم اپنا بقیہ پروگرام منسوک کردیں۔<
الفضل ۱۹ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۱۲۵۔
الفضل ۲۷ تبلیغ و ۲۸ امان ۱۳۳۱ ہش )مطابق ۲۷ فروری ۲۸ مارچ ۱۹۵۲ء(
۱۲۶۔
روزنامہ الفضل ۲ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۲ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۲۷۔
آپ ان دنوں زیریں سندھ )ضلع حیدر آباد ` ٹھٹھہ` تھرپارکر` سانگھڑ` نواب اور ضلع دادو( کے انچارج مبلغ تھے ؟
۱۲۸۔
ابودائود )کتاب الحدود(
۱۲۹۔
مسنداحمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۳۵۳
۱۳۰۔
>کنوز الحقائق< )از حضرت علامہ امام عبدالروئوف منادی(
۱۳۱۔
ابو دائود میں ہے >من فارق الجماعتہ قید شبیر فقد خلع ربقتہ الاسلام عن عنقہ )کتاب السنہ( بخاری کتاب الاحکام میں ہے< لیس احد یفارق الجماعتہ شبرا فیموت الامات میتتہ جاھیلتہ۔<
۱۳۲۔
بخاری کتاب الفتن کے الفاظ ہیں >تلزم جماعتہ المسلمین وامامھم۔<
۱۳۳۔
یہ پیغام >ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض< کے نام سے چھپا ہوا ہے
۱۳۴۔
روزنامہ الفضل ربوہ ۱۲۔۱۹ فتح ۱۳۴۱ ہش مطابق ۱۲۔۱۹ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۲ تا ۵
۱۳۵۔
الفضل ۳۰ امان۔ یکم شہادت ۔ ۱۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش )مطابق ۳۰ مارچ یکم و ۱۰ اپریل ۱۹۵۲ء( بابو عبدالغفار صاحب نے خوردو نوش کے سامان اور لائوڈ سپیکر کی فراہمی کے علاوہ حضور کی تقریر بھی ریکارڈ کی۔ قیام گاہ اور ٹرانسپورٹ کا انتظام ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب کے سپرد تھا اور ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب پریس کانفرنس اور معززین کی ملاقات کی منتظم تھے۔
۱۳۶۔
آل عمران : ۲۸
۱۳۷۔
الفضل ۲۳ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/۲۳ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ تا ۴
۱۳۸۔
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ )لاہور( ۲۵۲ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۸ )ترجمہ و تلخیص( بحوالہ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۱۳۹۔
یہ مقالہ >اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ< کے نام سے شائع شدہ ہے۔
۱۴۰۔
روزنامہ الفضل ۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۳ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۴۱۔
روزنامہ الفضل ۱۶ شہادت ۱۳۳۱ ہش۔۱۶ اپریل ۱۹۵۲ء
۱۴۲۔
>مشعل راہ< صفحہ ۷۳۸ )خدام الاحمدیہ سے متعلق سیدنا حضڑت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے خطبات و تقاریر کا مجموعہ( شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ )پاکستان تاریخ اشاعت ۱۴ دسمبر ۱۹۷۰ء
۱۴۳۔
الفضل ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۴۔
‏h2] [tagالفضل ۱۷ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۵۔
الفضل ۱۳ احسان ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۰۷` ۱۰۸
۱۴۷۔
تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
۱۴۸۔
‏ Committy Finance )مالیات کی کمیٹی(
۱۴۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۹ تا ۱۸
۱۵۰۔
جیسا کہ ۱۳۳۱ ہش/ ۱۹۵۲ء کے واقعات کی آخری فصل میں ذکر ارہا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے اس منصوبہ کی داغ بیل کے طور پر اپنی ذاتی لائبریری اور صدر انجمن احمدیہ کی لائبریری کو مدغم کر کے خلافت لائبریری قائم فرمادی جس نے خلافت ثانیہ کی علمی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ازاں بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸ صلح ۱۳۴۹ ہش/۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو خلافت لائبریری ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور ۳ اخاء ۱۳۵۰ ہش۳اکتوبر ۱۹۷۱ء کو اس کا افتتاح فرمایا )تفصیل خلافت ثالثہ کے حالات میں آئے گی(
۱۵۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۳۶ )یہاں اشارہ بنگالی احمدیوں کی طرف ہے جن کے امیر صاحب صوبائی نے مشاورت میں بعض مطالبات پیش کئے تھے(
۱۵۲۔
حال پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ
۱۵۳۔
روزنامہ الفضل لاہور ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش مطابق ۲۳ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
۱۵۴۔
روزنامہ الفضل لاہور ۱۲ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۱
۱۵۵۔
روزنامہ الفضل لاہور ۲۳ شہادت ۱۳۵۱ ہش مطابق ۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۱`۲
۱۵۶۔
محکمہ تار نے تاروں کی کثرت دیکھ کر حضرت سیدہ کی بیماری کے ایام ہی سے ایک اور سگنیلر عارضی طور پر ربوہ میں متعین کردیا تھا )الفضل ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش(
۱۵۷۔
روزنامہ الفضل لاہور ۳۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۴
۱۵۸۔
تمن کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲ صفحہ ۳۵
۱۵۹۔
الفضل ۱۳ فتح ۱۳۳۱ ہش/۳۱ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۱۶۰۔
الحکم ۲۴ اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰ بحوالہ تذکرہ صفحہ ۳۷۷ ایڈیشن سوم
۱۶۱۔
نسائی باب النساء مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۲۸`۱۹۹`۲۹۵
۱۶۲۔
‏ Civil
۱۶۳۔
بخاری )کتاب الطلاق۔ کتاب الادب( مسلم )کتاب الزہد(
۱۶۴۔
نارژ لتان الغزوات )باب وفات النبی~صل۱(~
۱۶۵۔
>چار تقریریں< صفحہ ۹۴ تا ۱۰۸ مولفہ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` نسر شعبہ نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد صدر انجمن صدر انجمن احمدیہ پاکستان )طبع دوم دسمبر ۱۹۶۶ء(
۱۶۶۔
بانی نائیجیریا مشن )وفات ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء( مفصل حالات تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۲۰۵ طبع اول میں درج ہیں۔
۱۶۷۔
یعنی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ
۱۶۸۔
روزنامہ الفضل ۱۱ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/۱۱ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۷۳
۱۶۹۔
>نصرت الحق< ۱۳`۱۴ ناشر خدام الاحمدیہ ربوہ طبع اول
۱۷۰۔
آپ کی سوانح اور سیرت پر مستقل لٹریچر شائع ہوچکا ہے مثلاً )۱( سیرت نصرت جہاں بیگم حصہ اول )مصنفہ شیخ محمود احمد صاحبؓ عرفانی مجاہد مصر مدیر الحکم ۔ طبع اول دسمبر ۱۹۴۳ء مطبوعہ انتظامی پریس حدر آباد )دکن( )۲( سیرت نصرت جہاں بیگم حصہ دوم )مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی الکبیر موسس الحکم تاریخ اشاعت ۲۵ جولائی ۱۹۴۵ء مطبوعہ انتظامی پریس حیدر آباد )دکن( )۳( نصرت الحق )ناشر چوہدری عبدالعزیز صاحب واقف زندگی مہتتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ(۔
ان کتابوں کے علاوہ وہ وسط ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء میں رسالہ >مصباح< اور رسالہ >درویش< کے خصوصی نمبر آپ کے اخلاق و شمائل پر شائع کئے گئے۔
‏tav.13.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ کراچی سے لیکر حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
دوسرا باب
جماعت احمدیہ کے جلسہ کراچی سے لیکر مسئلہ اقلیت سے متلعق حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
فصل اول
مرکزی تعلیمی اداروں کو ایک ضروری ہدایت الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد جماعت احمدیہ کا جلسہ کراچی` مخالف عناصر کا ہنگامہ اور پاکستان اور بیرونی ممالک میں اس کا وسیع ردعمل`
مرکزی تعلیمی اداروں کو ایک ضروری ہدایت
چونکہ سلسلہ احمدیہ کے مرکزی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو علمی و اخلاقی اعتبار سے بہت بلند معیار پر ہونا چاہئے اس لئے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۲ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/مئی ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمعہ واضح ہدایت دی کہ ہمارے مرکزی سکولوں اور کالجوں کے منتظمین کا فرض اولین ہے کہ وہ آئندہ نسل کی ایسے بہترین رنگ میں تربیت کریں کہ وہ مستقبل میں اسلام کیلئے مفید وجود بن سکیں۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا:۔
>اساتذہ کا فرض ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہورہیں تو وہ ان کے ماں باپ سے مشورہ کریں اور ان کی اصلاح کی تدابیر سوچیں۔ مگر یہ طریق صرف انلڑکوں کے متعلق اختیار کیا جاسکتا ہے جو بورڈنگ میں نہیں رہتے۔ جو لڑکے بورڈنگ میں رہتے ہیں ان کی تو سو فیصدی ذمہ داری اساتذہ اور نگران عملہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہی ضرورت میں سمجھتا ہوں دینیات کے مدراس میں بھی ہے۔ وہاں بھی یہی غفلت پائی جاتی ہے۔ لڑکے تعلیم پارہے ہوتے ہیں اور ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بیس مبلغ تیار ہوجائیں گے مگر ہوتا یہ ہے کہ بیس بے دین یا بیس نکمے یا بیس نکارہ یا بیس جاہل پیدا ہوجاتے ہیں۔<
>استاد کا کام نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے کورس کو پورا کرے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے۔ کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہو کہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتابیں باہر کی پڑھتا ہو۔ باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے۔ استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کیلئے ممد ہوتا ہے` سہارا ہوتا ہے` یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعہ وہ سارے علوم پر حاوی ہوسکے۔ دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیںپڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیں پڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی وکیل` وکیل نہیں بن سکتا اگر وہ صرف اتنی کتابوں پر ہی انحصار رکھے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی مبلغ` مبلغ نہیں بن سکتا اگر وہ صرف انہی کتابوں تک اپنے علم کو محدود رکھے جو اسے مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہیں۔ وہی ڈاکٹر` وہی وکیل اور وہی مبلغ کامیاب ہوسکتا ہے جو رات اور دن اپنے فن کی کتابوں کا مطالعہ رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے علم کو بڑھاتا رہتا ہے۔ پس جب تک ریسرچ ۱ ورک کے طور پر نئی نئی کتابوں کا مطالعہ نہ رکھا جائے اس وقت تک لڑکوں کی تعلیمی حالت ترقی نہیں کرسکتی۔<۲
الجزائری نمائندہ احتفل العلامء کی ربوہ میں آمد
کراچی میں >احتفال علماء اسلام< کا ایک سہ روزہ اجلاس ۱۶۔۱۷۔۱۸ فروری ۱۹۵۲ء کو منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے ۴۳ علماء نے شرکت کی۔ ۲۱ علماء پاکستان کے تھے اور ۲۲ ایران` انڈونیشیا` عراق` افغانستان` مصر` شام` ہندوستان اور الجیریا سے تشریف لائے۔ اجلاس نے متفقہ قرار داد کے ذریعہ استعماری طاقتوں کو خبردار کیا کہ وہ کشمیر اور تمام دوسرے اسلامی ممالک کے متعلق اپنی پالیسی فوراً بدل میں ورنہ امن عالم خطرہ میں پڑ جائے گا۔ ۳
اجلاس میں الجزائر کی نمائندگی علامہ محمد بشیر الابراہیم الجزائری نے کی جو اس ملک کے ایک مقتدر عالم اور قریباً ۱۳۰ سکولون کے نگران و ناظم تھے۔ علامہ موصوف اجلاس کے بعد کراچی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد ۵ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/ مئی ۱۹۵۲ء کو مرکز احمدیت میں تشریف لائے۔
جلسہ
آپ کے اعزاز میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال مین ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ربوہ کے عربی دان بزرگ اور اصہاب خصوصیت سے شامل ہوئے۔ تلاوت قرآن عظیم کے بعد الجزائری مندوب کے ترجمان محمد عادل قدوسی صاحب نے آپ کا تعارف کرایا۔ پھر اہل ربوہ کی طرف سے مکرم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ پرنسپل جامعہ احمدیہ نے خوش آمدید کہا۔ آپ نے سب سے پہلے معزز مہمان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ گرمی کے موسم میں سفر کے صعوبتیں برداشت کر کے ربوہ تشریف لائے جہاں نئی بستی ہونے کی وجہ سے نہ اشجاء ہیں نہ پانی کی کثرت اور نہ یہ کوئی بڑا شہر ہے گو انشاء اللہ بہت جلد ربوہ ایک بڑا شہر بن جائے گا لیکن فی الحال اس کی حیثیت ایک چھوٹی ہی بستی کی ہے جس میں شہروں جیسے آرام و سامان میسر نہیں آسکتے۔ ازاں بعد آپ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے تمام ممبر چھوٹے اور بڑے` مرد اور عورتیں سب کے دماغ میں صرف ایک ہی بات سمائی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا اور تمام مسلمانوں کو وحدت کے رشتہ میں پرونا ہے۔
مولانا ابو العطاء صاحب کی تقریر کے بعد جناب علامہ محمد بشیر ابراہیمی نے الجزائری مسلمانوں کی فرانسیسی انقلاب کے خلاف تحریک آزادی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی جدوجہد آزادی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح طویل جدوجہد کے بعد الجزائر کو غلام سے نجات ملی۔
تقریر کا دوسرا حصہ تربیتی رنگ کا تھا جس میں اپ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ مسلمان قوم پو جو آج کل نکبت و آدبار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس قوم کے ساتھ کوئی دشمنی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی تعلیم بھلادی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے اور آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں آپ یورپ میں اسلامی تعلیمات پھیلاتے ہیں وہاں مسلمانوں کی اصلاح کو مقدم کرین مین آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان علماء کی حالت خصوصاً اعمال کے لحاظ سے نہایت ناگفتہ بہ ہے وہی ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اسلام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں آپ کو ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔
آخر میں آپ نے فرمایا یہاں مین اجنبیت محسوس نہیں کرتا کیونکہ کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو عربی زبان مادری زبان کی طرح بول سکتے ہیں۔
آپ کی تقریر کے بعد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے صدارتی خطاب میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی۔ ۴
جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ
اب ہم اس سال کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر آن پہنچے ہیں جہاں سے حالات نے یکایک پلٹا کھایا اور اہل پاکستان عموماً اور جماعت احمدیہ پاکستان خصوصاً ایک سنگین اور تشویش انگیز صورتحال سے دو چار ہوگئے۔ واقعہ یوں ہوا کہ جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ ۱۸۱۷ مئی بروز ہفتہ وار اتوار بعد نماز مغربہ جہانگیر پارک میں مقرر تھا جس کا اعلان دو پوسٹروں` ہینڈ بل اور دعوتی خطوط کے ذریعہ اچھی طرح سے کیا گیا۔ پوسٹروں کے شائع ہوتے ہی ایک طرف تو مسجوں میں تقریریں کر کے عوام الناس کو اشتعال دلانے اور جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے ہر ناجائز طریق استعمال کرنے کی ترغیب دلائی گئی` دوسری طرف ذمہ دار حکام پر تاروں وغیرہ کے ذریعہ زور دیا گیا کہ وہ اس جلسہ کے انعقاد کی اجازت نہ دیں لیکن اس میں صریح ناکامی ہوئی۔
پہلا اجلاس
پروگرام کے مطابق پہلے دن کے اجلاس میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد محترم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے افتتاحی خطاب فرمایا۔ اس کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں:۔
۱۔ قرآن کریم کے کامل ہونے کے دلائل
مولانا ابو العطاء صاحب فاضل مبلغ بلاد عربیہ
۲۔ اتہاد بین المسلمین
ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف ہوگا۔
کیا یہ وہی زمانہ ہے جس میں مسیح موعودؓ مہدی مسعود کا ظہور مقدر تھا ؟
مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ بلاد عربیہ و انگلستان
۴۔ حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ سے اسلام کو کیا نقصان پہنچا ہے ؟
سید احمد علی شاہ صاحب سیالکوٹی
صاحب صدر کی تقریر شروع ہوتیے ہی بعص لوگوں نے آوازے کسنے` نعرے لگانے اور گالیاں دینی شروع کردیں۔ پولیس نے ان لوگوں کو جو ایک پروگرام کے ماتحت جلسہ گاہ کی مختلف سمتوں میں پھیلے ہوئے تھے ایک طرف دھیکلنا شروع کیا تاکہ انہیں جلسہ گاہ کے باہر نکال دے لیکن جب یہ لوگ تشد پر اتر آئے اور پولیس پر بھی پتھرائو شروع کردیا تو پولیس کو مجبوراً لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ہر تقریر کے دوران شر پسند باہر والوں کو اکسا کر اندر لے آتے اور پھر شور مچانا شروع کردیتے جس سے ان کی غرض یہ ہوتی کہ تقریریں نہ ہوسکیں اور جلسہ بند ہوجائے لیکن جب اس مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آوازے کسے` نعرے لگائے بلکہ سخت سے سخت گندی اور فحش گالیان دیں ` تالیاں پسٹیں سیٹیاں بجائیں اور رقص کرنا شروع کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ مولانا ابو العطاء صاحب قرآن کریم کے کامل ہونے کے دلائل بیان کررہے تھے۔ اس ہنگامے آرائی کے باوجود سامعین جلسہ خصوصاً غیر از جماعت معززین اور شرفاء جو محض تقریریں سننے کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے آخر تک نہایت دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ تقیریریں سنتے رہے۔
اس کے بعد جونہی صاحب صدر نے اجلاس اول کی کارروائی کے خاتمہ کا اعلان کیا ایک جبتھہ آگے بڑھا اور ان رسیوں کو جو پولیس نے سٹیج کے گرد بغرض حفاظت باندھی تھیں پھلانگ کر سٹیج پر حملہ کرنا چاہا۵ جس پر پولیس کی ایک بڑی جمعیت نے اندر جانے سے روک دیا۔ اس موقعہ پر ان لوگوں نے پولیس پر پتھر وغیرہ پھینکے اور مقابلہ کیا لیکن پولیس نے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور ان کا ایک آدمی بھی حفاظتی لائن کے اندر داخل نہ ہوسک۔ اس ہنگامہ میں جماعت کے بعض احباب کو بھی جنہیں یہ حکم تھا کہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں پولیس کے لاٹھی چارج سے چوٹیں آئیں۔ اس سے قبل بجلی کی تاریں کاٹ دی گئیں۔ لائوڈ سپیکر گرا دیا گیا لیکن چونکہ سٹیج پر لائوڈ سپیکر ٹھیک کام کررہا تھا اس لئے وہ اپنی اس حرکت سے بھی جلسہ کو خراب نہ کرسکے جلسہ ختم ہونے کے بعد لوگ باہر جانے لگے تو بعض احمدیوں کی کاروں پر بلکہ اس کا کار بھی جس میں علماء کرام تشریف لے جارہے تھے۔ پتھر پھینکے گئے جس سے کاروں کے شیشے ٹوٹ گئے اور بعض کو سخت نقصان پہنچا۔
دوسرا اجلاس
دوسرے دن اتوار کی صبح کو ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ صاحب نے جہانگیر پارک کے چاروں طرف آدھ آدھ میل تک دفعہ ۱۴۴ نافذ کردی اور تمام شہر میں اعلانکرایا کہ احمدیہ جماعت کا جلسہ جہانگیر پارک میں بدستور منعقد ہوگا لیکن پارک کے اردگرد دفعہ ۱۴۴ نافذ کردی گئی ہے کوئی آدمی لاٹھی وغیرہ ساتھ لے کر نہ آئے اور پانچ سے زائد آدمی باہر جمع نہ ہوں۔ دوسرے دن کے جلسہ میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں:۔
۱۔ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات
مولانا عبدالمالک خان صاحب
۲۔ آنحضرت~صل۱~ کے فیاص` احمدیہ نقطہ نگاہ سے
مولانا ابو العطاء صاحب
‏coll1] ga[t۳۔ اسلام زندہ مذہب ہے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان
۴۔ مخالفین احمدیت کے اعتراضات کے جوابات۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس
اجلاس دوم میں بھی شور و غوغا بلند کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ بایں ہمہ جلسہ کی کارروائی بدستور جاری رہی۔ اس روز سامعین کی تعداد سات آٹھ ہزار کے قریبتھی جلسہ میں چیف کمشنر صاحب آئی جی پولیس ` سپرنٹنڈنٹ` ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس` ڈسٹرکٹ اور ایڈیشنل میجسٹریٹ وغیرہ اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر۵ شروع ہوتے ہی باہر کے لوگوں کو اندر آنے سے روک دیا گیا اور ان لوگوں کو جو ایک بھاری تعداد میں باہر جمع ہو کر نعرے لگارہے تھے اور شور مچارہے تھے` پولیس نے سمجھایا کہ دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت ان کا وہان آنا خلاف قانون ہے لیکن اس کا الٹ نتیجہ برآمد ہوا اور غضب ناک ہجوم تشدد پر اتر آیا مجبوراً پولیس کو بھی کئی بار اشک آور گیس استعمال کرنا پڑی جس کے بعد بلوائیوں نے شیزان ہوٹل کو آگ لگادی` شاہنواز موٹر کے شوروم پر سنگباری کر کے شیشے توڑ دیئے اور نئی موٹروں کو نقصان پہنچایا ` احمدیہ فرنیچر ہائوس میں آگ لگادی۔ بلوائیوں نے بند روڈ پر احمدیہ لائبریری اور احمدیہ ہال )احمدیہ مسجد( کو بھی جلانے کی کوشش کی اور گو فائر بریگیڈ نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھا دی لیکن اس کے باوجود ان مقامات پر ہزاروں روپے کا نقصان ہوگیا۔ اس وقت اکے دکے احمدیوں کو بھی ظلم کا تختہ مشق بنایا گیا۔ ایک نوجوان کے سر پر سخت چوٹیں آئیں۔ ایک احمدی نوجوان پر چاقو سے قاتلانہ حملہ کیا گیا مگر وہ خدا کے فضل سے محفوظ رہے۔
احمدیوں کا صبر و تحمل
‏0] [rtfاس نہایت دل آزار اور اشتعال انگیز فضا میں احمدیوں نے صبر و تحمل اور اطاعت و فرمانبرداری کا جو نمونہ دکھایا وہ اپنی نظیر آپ تھا فحش گوئی اور گالیوں کی بوچھاڑ میں بھی ہر احمدی نے قانون کا احترام ضروری سمجھا اور شروع سے آخر تک پورے وقار کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کی اس پاکیزہ مجلس سے ہر ممکن استفادہ کیا۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی ایمان افروز تقریر
جلسہ کراچی کے موقعہ پر علماء سلسلہ کی تقاریر نہایت بلند پایہ اور پراز معلومات تھیں خصوصاً چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا خطاب بہت ایمان افروز تھا جس میں آپ نے علمی اور واقعاتی دلائل سے روز روشن کی طرح ثابت کیا کہ دنیا میں صرف اسلام ہی زندہ مذہب ہے آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم~صل۱~ کو نہ صرف صاحب شریعت نبی بنایا بلکہ آپ کو خاتم النبین کا بے مثال مقام عطا فرمایا اور وہ کتاب بخشی جو مختصر سی کتاب ہونے کے باوجود معانی و مطالب میں غیر محدود ہے اور ایک صحیفہ میں گویا کئی سمندر بند ہیں۔ ان حقائق پر روشنی ڈالنے کے بعد آپ نے قرآن مجی کی اس خصوصیت کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نزول کے ساتھ ہی اس کی لفظی` لغوی اور معنوی ہر اعتبار سے حفاظت کا وعدہ فرمای جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔
انا نحن نزلنا الذکر ونالہ لحفظون ۷
میں نے ہی اس ذکر کو نازل کیا اور میں ہی اس کی حفاظت کروں گا۔
قرآن مجید کی معنوی حفاظت کے صمن میں آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے منظوم اور عارفانہ کلام میں سے متعدد اشعار پڑھے جن میں حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت وجد آفریں اور روح پرور انداز مین خدا تعالیٰ ` قرآن مجید` خاتم الانبیاء محمد مصطفٰے~صل۱~ اور اسلام کے فضائل و محاسن کا تذکرہ فرمایا ہے۔
چوہدری صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں واصح فرمایا کہ احمدیت خدا کا لگایا ہوا پودا ہے۔ یہ پودا قرآنی وعدہ کے عین مطابق اسلام کی حفاظت کے لئے لگایا گیا ہے اور اس غرض سے لگایا گیا ہے تا اس زمانہ میں بھی اسلام کا زندہ مذہب ہونا` قرآن کا زندہ کتاب ہونا اور خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ رسول ہونا پوری دنیا پر ظاہر ہوجائے۔
>تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں جلسہ کراچی کا ذکر
جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ء میں جلسہ کراچی اور چوہدری صاحب کی تقریر کا خاص طور رپ ذکر کیا ہے چنانچہ لکھا ہے:۔
>کراچی میں اشتہار دیا گیا کہ انجمن اہمدیہ کراچی کا ایک جلسہ۱۸۱۷ مئی ۱۹۵۲ء کو جہانگیر پارک میں منعقد ہوگا اور اس میں دوسرے مقررین کے علاوہ چوہدری ظفر اللہ خان بھی تقریر کریں گے اگرچہ یہ جلسہ انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا لیکن یہ جلسہ عام تھا جس میں جمہور کا کوئی فرد بھی تقریر سننے کیلئے شریک ہوسکتا تھا۔ اس جلسے سے چند روز پہلے کواجہ ناظم الدین وزیراعظم نے اس امر کے خلاف اپنی ناپسندی کا اظہار کیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے ایک فرقہ وار جلسہ عام میں شرکت کا ارادہ کیا ہے لیکن چوہدری ظفر اللہ نے خواجہ ناظم الدین سے کہا کہ میں انجمن سے وعدہ کر چکا ہوں اگر چند روز پہلے مجھی یہ مشورہ دیا جاتا تو میں جلسی میں شریک نہ ہوتا لیکن وعدہ کر لینے کے بعد میں اس جلسہ میں تقریر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اور اگر اس کے باوجود بھی وزیراعظم اس بات پر مصر ہوں کہ مجھے جلسے میں شامل نہ ہونا چاہئے تو میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو تیار ہوں۔
اس جلسے کے پہلے اجلاس پر عوام کی طرف سے ناراضی کا مظاہرہ کیا گیا اور اجلاس کی کارروائی میں مداخلت کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ۱۸ مئی کو قیام امن کیلئے خاص انتظامات کئے گئے اور چوہدری ظفر اللہ خان نے اس عنوان پر تقریر کی کہ >اسلام زندہ مذہب ہے۔< ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے اسلام کی برتری اور ختمیت کے مسئلے پر یہ ایک فاضلانہ تقریر تھی مقرر نے واضح کیا کہ قرآن آخری الہامی کتاب ہے جس میں عالم انسانیت کے لئے آخری ضابطہ حیات مہیا کیا گیا ہے کوئی بعد میں آنے والا ضابطہ اس کو موقوف نہیں کرسکتا پیغمبر اسلام صلعم خاتم النبین ہیں جنہوں نے عالم انسانی کو اللہ کا آخری پیغام پہنچایا ہے اور اس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت کا حامل ہو یا قرآنی شریعت کے کسی قانون کو منسوخ کرسکے۔ احمدیوں کے مسلک کے متعلق پوری تقریر میں صرف اتنا اشارہ کیا گیا تھا کہ )رسول اللہ کے( وعدہ کے مطابق ایسے اشخاص آئے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے خود لگایا ہے اور اب جڑ پکڑ گیا ہے تاکہ قرآن کے وعدے کی تکمیل میں اسلام کی حفاظت کا ضامن ہو۔4]< fts[۸
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا بیان
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اپنی خود نوشت سوانح عمری میں واقعہ کراچی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
۱۹۵۲ء کے جماعت احمدیہ کراچی کے سالانہ جلسے میں مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا تھا میں نے اپنی تقریر کا عنوان >اسلام زندہ مذہب ہے< انتخاب کیا۔ جب جلسے کا دن قریب آیا تو بعض عناصر کی طرف سے جلسے کے خلاف اور خصوصاً میرے تقریر کرنے کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ جلسے کے دن تک یہ مخالفت بظا ایک منظم صورت اختیار کر گئی۔ میں نے تقریر کی۔ دوران تقریر میں کچھ فاصلے سے مشورہ شغب کے ذریعے جلسے کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش جاری رہی کچے آوازے بھی کئے گئے۔ تقریر کے بعد میں اپنے مکان پر واپس آگیا۔ جہاں تک علم ہے گو کسی قدر بدمزگی تو پیدا کی گئی۔ لیکن الحمدلل¶ہ کوئی فساد نہیں ہوا۔
وقتاً فوقتاً جماعت احمدیہ کے جلسوں یا دیگر سرگرمیوں کے خلاف مختلف مقامات پرجوش کا مظاہرہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جہاں کہیں ایسی صورت پیدا ہوتی رہی جماعت کا ردعمل بفضل اللہ امن پسندی کا رہا۔ جماعت کی طرف سے کبھی خلاف وقار یا موجب اشتعال کارروائی یا حرکت ظہور میں نہیں آئی نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ وہ چار روز میں مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا۔ اس موقعہ پر خلاف معمولی ایک تو متعدد عناصر نے مل کر مخالفت کا ایک محاذ قائم کر لیا اور دوسرے مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑنے کی بجائے زور پکڑتا گیا اور بعض دوسرے مقامات پر بھی تائیدی مظاہرے شروع ہوگئے۔ رفتہ رفتہ اس محاذ کی طرف سے ایک فہرست مطالبات کی تیار کی گئی اور کثرت سے عوام کے دستخطوں کے ساتھ بذریعہ ڈاک حکومت کو پہنچائی جانے لگی یہ سلسلہ جاری تھا کہ میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک چلا گیا۔ میری غیر حاضری میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل کا تو مجھے کوئی ذاتی علم نہیں کیونکہ اس نوع کی بہت کم کوئی خبر مجھے امریکہ پہنچی لیکن واپسی پر معلوم ہوا کہ یہ تحریک بہت زور پکڑ چکی ہے۔
امریکہ جانے سے پہلے بھی اور امریکہ سے واپسی کے بعد بھی میں نے خواجہ ناظم الدین صاحب کی خدمت میں گذارش کی کہ اگر میرے وزارت خارجہ سے علیحدہ ہوجانے سے آپ کیلئے سہولت ہوجاتی ہے تو میں آپ کی خدمت میں اپنا استعفٰے پیش کردیتا ہوں لیکن خواجہ صاحب نے اسے پسند نہ فرمایا بلکہ کہا کہ تمہارا استعفیٰ دینے سے مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اور بڑھے گی۔ جو صورت حال پیدا کردی گئی وہ ہر چند مجھ پر گراں تھی لیکن >اقامتہ فی امام اقام اللہ< )جہاں اللہ کھڑا کرے وہاں قائم رہنا( کا مقدس ارشاد اور فرض کی ادائیگی کا احساس ترک خدمت کے رستے میں روک تھے۔< ۹
جماعت احمدیہ کے خلاف تین مطالبات
تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب کے فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے >احراریوں نے اس موقعہ سے جس کا وہ مدت سے انتظار کررہے تھے خوب فائدہ اٹھایا۔۱۰ اس سلسلہ میں احرار نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ کراچی میں ہی مختلف علماء کو فوراً جمع کر کے خفیہ مشورہ کیا اور ۲ جون ۱۹۵۲ء کو ایک کانفرنس میں مندرجہ ذیل مطالبات تشکیل دیئے:۔
۱۔ احمدی غیر مسلم اقلیتی قرار دیئے جائیں۔
۲۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ کے عہدہ سے برطرف کئے جائیں۔
۳۔ احمدیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹا دیا جائے۔
پس منظر
جو مطالبات ایک اسلامی مملکت کے اندر آتش زنی` ہلڑ بازی اور قانون شکنی کی کوکھ سے جنم لیں ان کے صحیح خدوخال کا پہچاننا چنداں مشکل نہیں تاہم مذکورہ مطالبات کے حقیقی پس منظر کو سمجھنے کیلئے پاکستان کے ایک سوشلسٹ ادیب عبداللہ ملک صاحب کا مندرجہ ذیل تجزیہ بہت ممدو معاون ہوگا۔ آپ لکھتے ہیں:۔
>قادیانیوں کے خلاف مجلس احرار کی تحریک کو ایک مذہب تحریک کے طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہی ہے لیکن تمام تقدس کے باوجود یہ مذہبی تحریکیں سیاسی اور اقتصادی تقاضوں` خواہشات اور ضرورتوں کیلئے اپر کا خول ہوتی ہیں کبھی یہ تحریکیں عوامی خواہشات کا مظرہ بن جاتی ہیں تو کبھی یہ بدترین قسم کے رجعت پسند طبقون کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتی ہیں چنانچہ خود احرار کے قائد بھی اس تحریک کے سیاسی تقاضوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔< ۱۱
عبداللہ ملک صاحب کے اس نظریہ کی مکمل تائید خود زعمائے احرار کے مستقل عقیدہ و مسلک سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مفکر احرار >چوہدری افضل حق صاحب >فتنہ قادیان< کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:۔
>لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہوگیا کہ مذہب کی دل دل میں پھنس گئے یہاں پھنس کر کون نکلا جو یہ نکلیں گے؟ مگر یہ کون لوگ ہیں وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبوں سے خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں اس لئے کہ اس کی سار تاریخ شہنشاہیت اور جاگیرداری کی دردناک کہانی ہے۔ کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تاکہ انسانیت کی چاک دامانی کارفو کرسکے۔ اس کے پاس کارل مارکس کے سائنٹفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے وہ اس کے ذریعہ سے امراء اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں ؟ <۱۲
احراری لیڈروں نے اسی بناء پر متحدہ ہندوستان میں اعلان کیا تھا:۔
>اسلام کے باغی پاکستان سے نم اس ہندو ہندوستان کو پسند کریں گے جہاں نماز روزہ کی اجازت کے ساتھ اسلام کے باقی عدل و انصاف کے پوگرام کے مطابق نظام حکومت ہوگا یعنی ہر شخ کو صرف رسول کریم~صل۱~ اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی زندگی کی پیروی میں محض ضروریات زندگی مہیا کی جائیں گی اور کسی کو کسی دوسر پر سیاسی یا اقتصادی فوقیت نہ ہوگی۔<
>امراء اور سلاطین کو لوٹ کھسوٹ سے لوگوں کو بچانا پیغمبر~صل۱~ کا مشن تھا۔ پس اگر محمد علی جناح اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو نفع کیا اور اگر جواہرالعل اور گاندھی خلفائے راسدین کی پیروی میں سوسائٹی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹاتے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے ہمیں نقصان کیا؟<۱۳
پھر لکھا:۔
>مجلس احرار کا ہر دستور عمل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا جاتا ہے اس لئے پاکستان کے مسئلے پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اسلام دنیا میں کسی قسم کی جغرافیائی تقسیم یا وطنوں کا تعین کرنے نہیں آیا ہم وطنی تقسیم کے قائل نہیں ہم تو صرف ایک ہی تقسیم کے قائل ہیں اور وہ ہے دولت کی منصفانہ تقسیم۔< ۱۴
چیف کمشنر کراچی کی پریس کانفرنس
مندرجہ بالا احراری مسلک و عقیدہ کی روشنی میں ہنگامہ کراچی کا اصولی پس منظر بیان کرنے کے عبد اب ہم اس کے اندرون و بیرون ملک ردعمل کی طرف آتے ہیں اور سب سے پہلے یہ بتاتے ہیں کہ جلسہ کے اگلے روز ۱۹ مئی کو کراچی کے چیف کمشنر مسٹر ابو طالب نقوی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
>انجمن احمدیہ کراچی کے زیر انتظام دو جلسے ہوئے۔ پولیس کی اطلاع کے مطابق ان جلسوں میں گڑبڑ کا اندیشہ تھا اس لئے جہانگیر پارک میں پولیس کی جمعیت تعینات کردی گئی تھی۔ ۱۷ مئی کو حسب معمول گڑ بڑ ہوئی اور جو لوگ گڑ بڑ کے ذمہ دار تھے انہیں گرفتار کر کے تھانے پہنچا دیا گیا۔ اس رات کو جلسہ گاہ میں پتھرائو بھی ہوا تھا جس سے پولیس کے ۲۱ سپاہی زخمی ہوئے۔ گرفتار شدگان کو جلسہ ختم ہونے ے بعد رہا کردیاگیا تھا۔ ۱۸ مئی کو جلسہ گاہ سے باہر ہنگامہ ہوا اور ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کو حکم ہوا اور گیس استعمال کرنا پڑی۔ جس ہجوم کو پولیس نے جہانگیر پارک کے قریب منتشر کیا تھا اس نے شیزان ریسٹورنٹ کے شیشے وغیرہ توڑ ڈالے اور اندر گھس کر فرنیچر کو آگ لگانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے بعد ہجوم نے شاہ نواز موٹرز کمپنی کی دکان کے شیشے توڑے اور احمدیہ فرنیچر اسٹور کو آگ لگادی جس سے ایک ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ کل رات کے ہنگامہ میں کل ساٹھ آدمی گرفتار ہوئے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ہجوم کا رویہ بہت زیادہ قابل اعتراض تھا اور وہ اپنے اس رویہ کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر پاکستانی کو قانونی حدود میں رہت ہوئے اپنے مذہب اعتقادات پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ قادیانیوں کے ان دونوں جلسوں کی کارروائی پولیس کے رپورٹروں نے قلم بند کی ہے اور اگر مقررین نے اپنی تقاریر میں کوئی قابل اعتراض بات کہی ہے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن کسی شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے۔ میں یہ تہیہ کرچکا ہوں کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا چیف کمشنر نے بتایا کہ ان کے پاس جلسے سے کئی روز قبل اس قسم کے تار آئے تھے کہ جلسے میں گڑ بڑ ہوگی اور ان کا خیال تھا کہ اس گڑ بڑ میں کسی جماعت کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا گرفتار ہونے والوں میں مجلس احرار کے چند کارکن ہیں اور اس امر کی تحقیق ہورہی ہے کہ اور کسی جماعت اس میں ہاتھ ہے یا نہیں۔ مسٹر نقوی نے کہا >غنڈوں اور کرایہ کے آدمیون کے ذریعہ ہنگامہ کرایا گیا تھا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جن اشخاص یا جماعتوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کا ہنگامہ کرنے پر اکسایا تھا ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی چیف کمشنر نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر کراچی میں ہندو کوئی جلسہ کر کے اسلام پر تبصرہ کریں تو حکومت انہیں اس کی اجازت دے گی ؟ >کہا< ضرور بشرطیکہ وہ قانونی حدود سے باہر نہ جائیں۔< ۱۵
کراچی بار ایسوسی ایشن کا متفقہ بیان
کراچی بار ایسوسی ایشن کے ۴۷ وکلاء نے چیف کمشنر صاحب کراچی کی پالیسی کی تائید میں متفقہ طور پر حسب ذیل بیان جاری کیا:۔
>۱۔ ہم مندرجہ ذیل دستخط کنندگان ممبران انجمن وکلاء کراچی نے بعض معتصب افراد کے نہایت ہی افسوسناک اور ناخوشگوار رویہ اور اس سے پیدا شدہ غنڈہ گردی کے متعلق چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی و دیگر اداروں کے متعدد بیانات پر انتہائی غورو خوض کیا ہے۔
۲۔ پاکستان جو انجام کار ایک خالص اسلامی مملکت یا سیکولر سٹیٹ بنے` اس کا قیام اس بات کی ضمانت اور مسلم لیگ کی یقین دہانی پر ہوا تھا کہ پاکستان مختلف اقلیتوں اور فرقہ جات کے تمام جائز حقوق کی حفاظت کرے گا لٰہذا اب حکومت کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ ان تمام مواعید اور یقین دہانیوں پر کاربند رہے۔ کوئی مملکت اپنی ہستی کے قیام کا ثبوت جھوٹے بیانات اور بہانہ تراشیوں سے نہیں دے سکتی۔
۳۔ ہر قسم کی جمہوریت جس کا دستور تحریری ہو یا غیر تحریری۔ ہر شہری کو بلا لحاظ عقیدہ` رنگ ` مذہب اور ملت تقریر و تحریر جدوجہد اور مذہبی رسومات کی بجا آوری کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے اب ان وعدوں کا احترام نہ کرنا جو اس و قت کئے گئے جب پاکستان جملہ مسلم فرقوں کی متحدہ جدوجہد سے حاصل کیا جارہا تھا ایک اخلاقی اور مذہبی جرم ہے۔
۴۔ ہر اچھی حکومت کا سب سے مقدم کام یہ ہے کہ وہ اپنے آہنی اور مضبوط ذرائع سے لاقانونیت` غنڈہ گردی اور تباہ کن سرگرمیوں کا قلع قمع کرے۔ چاہے وہ کسی شکل میں یا کسی طبقہ سے نمودار ہوں ایسے اقدامات مملکت کے مختلف شہریوں کے دل میں اعلیٰ انتظام مملکت کی بابت اعتماد اور وثوق کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے اور بھی زیادہ ضروری ہیں۔
۵۔ ایک اعلیٰ حکومت کے بقاء کا انحصار صرف اس کے دلکش فلسفہ اور نظریات پر نہیں ہوتا جو اوراق پر مکتوب ہوں یا لاسلکی سے نشر کئے جائیں بلکہ اس کا انحصار ہر فرد چاہے وہ اقلیتی فرقہ سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو` کے اس درجہ ایقان پر ہے جو اسے ملکی قوانین کی رو سے اپنے اظہار خیالات اور عملی جدوجہد کی ادائیگی کیلئے دیئے گئے قانونی حقوق کے متعلق حاصل ہے۔
۶۔ ہمیں علاقی دارالحکومت میں جو پاکستانی قوم اور اس کے احساس کا مظہر ہے کسی غنڈ گردی کو برداشت نہیں کرنا چاہئے۔
۷۔ اگر مختلف فرقوں کے درمیان جذبات منافرت کو پھیلانے کی اجازت دی گئی تو یہ مملکت کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
۸۔ یہ ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ وقت کی نزاکت اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان کے شہریوں میں ایسی حالت میں جب کہ ہم دشمنوں سے گھرے ہوئے ہیں اتحاد کے جذبات کی ہمت افزائی کی جائے اور اندرون مملکت ایک مضبوط چٹان کی مانند یک جہتی پیدا کی جائے۔
۹۔ ہر گروہ سے جو کسی حیلہ سے پھوٹ پیدا کرے مذہبی اختلافات کی آگ کو ہوا دے کر انارکی پھیلائے مملکت کے انتہائی خطرناک دشمن کا سا سلوک کیا جائے۔
۱۰۔ ہم عوام سے مستدعی ہیں کہ وہ ہر گمراہ کن تحریک سے اجتناب کریں جو ملک کے اتحاد کو کمزور اور اس کی پرسکون فضا کو زہر آلود کرے۔
۱۱۔ ہم چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی کے امن اور قانون کی برقراری کے سلسلہ میں اختیار کئے گئے طرز عمل اور بیان کی پر زور حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے اس مقصد پر قیام امن کے بارے میں دیا ہے۔
دستخط ایڈووکیٹ و وکلاء صاحبان
)۱( سید بشیر احمد رضوی )۲( ثروت حسین )۳( فاروقی صاحب )۴( محمد معجز علی )۵( ایم۔اے حسینی )۶( زیڈ ایچ نقوی )۷( ایس علی حسین )۸( عبدالحکیم خان )۹( ایم خان )۱۰( انعام الحق )۱۱( شیخ عبدالغنی )۱۲( اے` ایچ قریشی سیکرٹری )۱۳( ایس۔ ایم ۔ ایس حسینی )۱۴( ایس حسن علی رضوی )۱۵( آسانند جوشی )۱۶( ایس جعفر حسین )۱۷( ایم۔ آر ۔ عباسی )۱۸( پی` ایف کھلنانی۔ )۱۹( ایس۔ایم احمد )۲۰( مسٹر رضا )۲۱( سید ممتاز الدین )۲۲( قاضی خورشید علی )۲۳( شبیر حسین )۲۴( نصیر حسین )۲۵( آغا علی حیدر )۲۶( محمد علی خاں )۲۷( کبیر الدین خاں )۲۸( محمد جلال الدین )۲۹( فیض الجلیل )۳۰( مسٹر کرمانی )۳۱( پی اے مین والا )۳۲( محمد حسن صدیقی صدر )۳۳( ایس ایم نور الحسن )۳۴( افتخار الدین )۳۵( عبدالمجید )۳۶( حافظ محمد صدیقی )۳۷( ایم نجم الدین قریشی )۳۸( حیدر حسین )۳۹( محمد دائود )۴۰( سید اے رفیق سابق صدر )۴۱( حیات احمد خاں۔ )۴۲( ایم فصیح الدین )۴۳( ایم ایس قریشی )۴۴( عبدالمجید خاں )۴۵( عبدالرئوف )۴۶( سید معزز حسین )۴۷( کے اے قدوائی۔
حادثہ کراچی اور پاکستان کا محب وطن پریس
حادثہ کراچی اور کنونیشن کا ردعمل مغربی پاکستان کے محب وطن اور متین و سنجیدہ پریس پر بھی نہایت شدید ہوا اور نہ صرف کراچی بلکہ دوسری صوبوں کے اخبارات نے بھی اس کی پر زور مذمت کی بلکہ کراچی کے بعض اخبارات نے تو خدشہ ظاہر کیا کہ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ کام کررہا ہے اور کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے۔
مشہور مسلم لیگی راہ نما سردار شوکت حیات کا کہنا ہے >تحریک ختم نبوت بھی ایک سازش کا نتیجہ تھی۔ یہ تحریک مرکزی حکومت کے سی ایس پی افسروں نے چلائی۔<۱۶
ذیل میں بطور نموننہ بعض >اخبارات و رسائل کے تبصرے درج کئے جاتے ہیں۔
کراچی
۱۔ کراچی کے ہفتہ وار اخبار >ایوننگ اسٹار< نے ۲۴ مئی ۱۹۵۲ء کو صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا
‏ Riots> Karachi Directed <Who )کراچی کا بلوہ میں کس کا ہاتھ تھا ؟(
اس مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
‏￿ Hand Foreign
‏Riots Karachi Directed Who
‏Man)۔Karachi `STAR' (From
‏ sporadic the behind hand foreign some sense here Observers resulted and Conference Ahmadia the greeted that disturbances feature a unpleasantness of much and injuries arrests, several in ۔calm characteristic Karachi's defaced never dah which
‏ rather considered is demonstrations ugly such of time The inspired۔American obviously the after immediately۔۔significant۔flopped miserably so had Tamasha O P M
‏ was O P M the way the about bitter very are Americans The Pakistan in press and public the by only not insulted and ignored to due considered was it of Much ۔Goverenment the by also but ۔Zatrullah ۔Ch Minister, Foreign the
‏ opportunity better a got have not could Americans aggrieved The ۔Minister Foreign the dislike to public the induce to exploit to the of ruins the on almost held being is Conference Ahmadi The ۔dismantling of process the in only still is Pandal O P M The ۔۔O P M had has Zafrullah Chaudhri Park, Jehangir same the in here just And ۔life his in demonstration ever۔hostile۔most the perhaps face to
۔S۔U the perhaps that fact the of evidence increasing is There the playing۔ever are country this in missions and Offices recognsed interntionally the within play to entitled are they part had sah ۔S۔U weeks several last the During ۔diplomacy of sphere the in comment pleasant so not of stream increasing an face to ۔offcial semi or offcial be to considered is what particulary Press,
‏the at witness to had has Karachi that spectacle The ruliness۔un such was before Never ۔shocking been has Park beenJehangir have charges Lathi and gassing۔Tear ۔city this in seen۔town this to alien parcically
‏ religious a was occasion the that is worse it makes What probably was, inspiration that fact eht from Apart ۔byconference disrupted being conference one of sight ugly the troubleforeign, off ward to vain in trying police and camp hostile another ۔country any of capital the to insult an was
‏1371 29, Shaban 1952 , 24 May 37, ۔No 2 ۔Vol ۔Exclusive `STAR'
احمدیہ کانفرنس کے دوران جو اکا دکا فسادات ہوئے اور جن کے نتیجہ میں کئی گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی لوگ زخمی ہوئے اور ایسے ناخوشگوار اور حالات پیدا ہوئے جن سے کراچی کا پرسکون ماحول کبھی آلودہ نہ ہوا تھا مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ کام کررہا ہے۔
ان بدنما مظاہروں کیلئے جو وقت منتخب کیا گیا وہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکی شہ پر منعقدہ O P M تماشا بری طرح ناکام ہوچکا تھا۔
جس طریق پر O P M کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی تذلیل کی گئی۔ نہ صرف عوام اور پریس کی طرف سے بلکہ حکومت کی طرف سے بھی امریکنوں کو یہ بہت تلخ محسوس ہوا ہے۔ غالب خیال یہی کیا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی وجہ سے ہوا ہے۔
زخم خوردہ امریکنوں کیلئے اس سے بہتر اور کوئی موقع نہ مل سکا کہ وہ عوام کو وزیر خارجہ کے خلاف بھڑکا سکیں۔
احمدیہ کانفرنس کلیت¶ہ O P M کے کھنڈرات پر منعقد ہورہی ہے۔ O P M کا پنڈال ابھی تک گرایا جارہا ہے اور اسی جہانگیر پارک میں ہی چوہدری ظفر اللہ خان کو اپنی زندگی کا بدترین مظاہرہ دیکھنا پڑا۔
اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ امریکن سفارت خانہ اور ان کے قونصل خانے اس ملک میں ہمیشہ وہی کردار ادا کرتے رہے ہیں جو بین الاقوامی سیاست کے حلقوں میں ادا کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے سے امریکنوں کو سرکاری یا نیم سرکاری پریس کی ناخوشگوار تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جہانگیر پارک میں کراچی کو جو نظارہ دیکھنا پڑا وہ سخت وحشت ناک تھا۔ شہر میں اس قدر بے لگامی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آنسو گیس یا لاٹھی چارج اس شہر میں عملی طور پر کبھی دیکھنے میں نہیں آئے جو بات اسے اور بھی بدتر بنارہی ہے وہ یہ کہ یہ ایک مذہبی کانفرنس کا موقعہ تھا۔ باوجود اس امر کے کہ اس کے پیچھے ایک غیر ملکی ہاتھ تھا ایک بدنما داغ یہ ہے کہ ایک مخالف گروہ ایک کانفرنس درہم برہم کررہا ہے اور پولیس ہنگامہ کو فرد کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ایک ملک کے دارالسلطنت کی توہین ہے۔ ۱۷
اسی اخبار نے ۱۹ جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں حسب ذیل اداریہ بھی لکھا:۔
ہم نہایت سختی سے ان تمام لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو جہانگیر پارک میں غنڈہ گردی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو خاص نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان اور پاکستانیوں کی یکجہتی کو برباد کرنا چاہا ہے۔
فرقہ وارانہ مذہبی اختلافات و فسادات اور بغیر مقصد مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان و مال کی تباہی نے ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک مہیب نقصان پہنچایا ہے اور ایسا رویہ یقیناً ہماری عزیز آزادی کو خطرہ میں ڈال دے گا۔ اسلام نے کبھی بھی اجازت نہیں دی کہ کسی دوسرے پر اپنے خیالات جبر کے ساتھ ٹھونسے جائیں اور متضاد نظریوں کو دلائل اور بات چیس سے حل نہ کیا جائے۔ بدقسمتی سے لوگوں کے ایک طبقے نے تبلیغ کی اہمیت کو نظر انداز کردیا اور اسے ایک ثانوی حیثیت دے کر زیادہ زور عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے پر صرف کیا جارہا ہے۔ سیاسی معروضات اس طبقہ کو تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرنے دیتیں۔ یہ طبقہ دلائل کا جواب تشدد سے دینا چاہتا ہے یہ قابل مذمت ہے اور بدامنی اور قانون شکنی کو ہر گز برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایسے آدمیوں میں جو خدا تعالیٰ کا پیغام مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارموں سے عوام کو سمجھاتے ہیں اور ان سیاسی گرگوں میں جو مذہبی پلیٹ فارموں کو اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں امتیاز کیا جائے۔ آخر الذکر لوگ عوام کے مذہبی جذبات کو خطرناک حد تک برکا کر ایسے کام ان سے کراتے ہیں جن سے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کی عزت پر بٹہ لگتا ہے ایسے لوگوں کو مسلمانوں کو ہرگز کوئی پناہ نہیں دینی چاہئے۔۱۸
۲۔ ہفت روزہ>مسلم آواز< کراچی )۱۹ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>کل ایک ہفتہ وار میری نظروں سے گذرا جس میں فرقہ قادیانی کی مخالفت میں شرافت سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ مضمون نگار کے مضمون کو دیکھ کر ہر شخص یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ مضمون نگار کو ابھی یہ ہی نہیں معلوم کہ ارکان اسلام کیا کیا ہیں ایسی حالت میں کسی فرقہ کے خلاف قلم اٹھانا ہی نہایت واہیات طریقہ ہے۔ ہم مضمون نگار سے صاف صاف کہہ دینا بہتر سمجھتے ہیں کہ پاکستان تمام فرقوں کا ملک ہے۔ دوسروں پر انگشت نمائی کرنے سے بہتر ہے کہ وہ گریبان خود دیکھے یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے اور تمہارے مقابلہ میں اس فرقہ کا ہر فرد اپنے طریقہ مذہب کا سختی سے پابندی احکام خدا وندی کو بجا لانے والا ہے۔ ہم لوگ نہ تو نماز روزہ کے پابند ہیں۔ اور نہ کسی نیک کام کے عادی صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ باقی اللہ کا نام۔
اس گمراہ کن پراپیگنڈہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ۱۷ مئی کی رات کو جہانگیر پارک کے جلسہ میں ہنگامہ ہوا۔ اول تو ہمارے انڈے پراٹھے والے مولوی دوسرے ہم تعلیم یافتہ اخبار نویس حضرات بلاوجہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں نتائج سے بے خبر رہتے ہوئے ایسا خطرناک پراپیگنڈہ کرتے ہیں جو کسی وقت بھی بجائے فائدہ کے ملک و ملت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ پاکستان میں ہر شخص اور ہر فرقہ کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور رہے گی۔ کیا اچھا ہوتا کہ اگر اسلام کے تمام فرقے قائداعظم کے اصول عمل` اتحاد اور تنظیم پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کریں۔<
۳۔ اخبار >ڈان< انگریزی نے مورخح ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
گذشتہ دنوں کراچی میں مسلسل دو روز تک تشدد کا جو شرمناک مظاہرہ ہوتا رہا ہے اسے محض اتفاقی حادثہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے تعصب اور قانون شکنی کے اس خطرناک رجحان کی نشان دہی ہوتی ہے جو ملک میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان کے مذہبی اور سیاسی زندگی میں مسلمہ خوبیوں کے انحطاط پذیر ہونے اور رواداری کی بجائے قریب قریب لاقانونیت کی سی کیفیت پیدا ہونے کی ذمہ داری ہمارے بہت سے مذہبی اور سیاسی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان سے کہیں زیادہ اس صورتحال کی خود حکومت ذمہ دار ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اصول اور اسلامی اتحاد کی ضرورت اور اس کی اہمیت بیان کنے میں لوگوں کی زبان نہیں تھکتی۔ لیکن عجب ستم ظریفی ہے کہ اس بارے میں کوئی جتنا زیادہ چرب زبان واقع ہوا ہے اتنا ہی وہ رواداری کے اصولوں کو خاک میں ملانے اور لوگوں کو خود تشدد پر اکسانے میں پیش پیش نظر آتا ہے۔ حالانکہ مذہبی آزادی اور رواداری کے جذبات ہی اسلام کی اصل روح ہے۔
رواداری کے اصول کو خاک میں ملنے والے یہ چرب زبان لوگ اسلام اسلام پکارنے کے باوجود مسلمانوں کے درمیان تشتت و افتراق کی خلیج دن بدن وسیع کررہے ہیں اور پھر اس پر استہزائیہ کہ ہماری حکومت جو اپنی ذات میں کلی اختیارات مجتمع کرنا چاہتی ہے ایسی شر پسند عناصر کے بروقت انسداد کے لئے معمولی اختیارات کے استعمال سے بھی گریزاں ہے۔
گزشتہ اتوار کو بے شک حکومت نے سخت قدم اٹھایا اور صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے کراچی میں پولیس کی کافی جمعیت موجود تھی۔ لیکن اگر ہماری حکومت زیادہ مستعد ہوتی` یا سخت اقدام کیلئے بروقت جرات مندی سے کام لیتی تو یقیناً وہ فتنہ جسے روکنے کیلئے بالاخر یہ سب کچھ انتظامات کرنے پڑے بہت پہلے ہی دبا دیا جاتا۔ یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ حکام اس فتنہ سے جو اندر ہی اندر پرورش پارہا تھا بے خبر تھے یا ان کیلئے چند لوگوں ¶کی نشان دہی ممکن نہ تھی جو اعلانیہ یا درپردہ فتنہ پردازی کی مہم کو ہوا دینے میں مصروف تھے۔ ہمیں اس بحث سے کوئی واسطہ نہیں کہ مذہبی اعتبار سے کس فرقہ کا موقف زیادہ صحیح ہے اور کس کا کم لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک مہذب سوسائٹی میں کسی مذہب یا سیاسی جماعت کے اس حق کا احترام لازمی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تبلیغ کرسکے البتہ یہ ضروری ہوگا کہ ایسا کرنے میں مروجہ قانون اور عام ضابلہ کی خلاف ورزی نہ ہو۔
جہاں تک ایک قضیہ کا تعلق ہے` احمدیوں کو پبلک جلسے کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے مخالفین کو ہے۔ اگر یہ حق استعمال کرنے میں ان دونوں میں سے کوئی ایک قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس بارے میں اصلاحی قدم اٹھانا حکومت کا کام ہے نہ عوام الناس کا۔ اسی طرح اگر دوسرے فرقوں کے لوگ بھی اسی طرح ایسے ہی جرم کا ارتکاب کریں تو بھی اصلاح حال کی یہی صورت ہوگی۔ برخلاف اس کے نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ کوئی فرقہ یا گروہ حقیقی یا محض خیال وجہ اشتعال کو آڑ بنا کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس طرح معاشرے کا وجود ہی معرض خطر میں پڑ جائے گا۔ لیکن کیا کیا جائے گا فی مکروہ حد تک پاکستان کے مختلف حصوں میں وایسا ہی کچچھ وقوع میں آتا رہا ہے۔ اس ہفتہ کے واقعات سے قطع نظر پہلے ہی ہم تعصب وعدم رواداری کے اس جذبہ کا بعض نمایاں اور واضح صورتوں میں مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ بعض لوگوں کو کھلم کھلا قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ تصور یہ تھا کہ انہوں نے مذہبی امور سے تعلق رکھنے والے معاملات میں اظہار خیال کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا۔ اسی طرح تقریر و تحریر کے ذریعہ علی الاعلان تشدد کا پرچار کیا گیا لیکن حکومت کمال بے تعلقی سے اس صورتحال کا نظارہ کرتی رہی مذہب کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی بعض عناصر کی جرات کا یہ علام ہے کہ وہ تشدد سے کام لے کر قانون کے پرخچے اڑا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ حیطہ اقتدار کو بھی تہ و بالا کرسکتے ہیں۔ کیا یہی وہ طریق ہے جس پر چل کر ہم اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ؟
اس تمام صورت حال کا علاج کیا ہے ؟ اس کا علاج خود معاشرے میں موجود ہے۔ ضروری ہے کہ ہر فرقہ کے افراد اس بڑھتے ہوئے خطرے کو جو ان کی پرامن زندگی کو دن بدن لاحق ہوتا جارہا ہے پوری شدت سے محسوس کریں اور ان عناصر کی قطعاً ہمت افزائی نہ کریں جو مذہب کے نام پر ناجائز انتفاع کی خاطر انہیں آلہ کار بنا رہے ہیں۔ ہمارا پریس اور بالخصوص اردو اور دوسری قومی زبانوں کے اخبارات اس گند کو روکنے میں بڑی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں اس کے سوا بھی چارہ نہیں کہ حکومت فتنہ پردازوں کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کرے اور آئندہ اس امر کا انتظار ترک کردے کہ حالات نازک صورت اختیار کریں تو وہ حفاظتی سامان اشک آور گیس اور حکومتی رعب و داب کے نشانوں سے مسلح پولیس کی مدد سے حالات پر قابو پائے۔ یہ زریں دستور العمل کہ >قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں< کتبوں اور طغروں کی شکل میں لکھوا کر وزراء اور دیگر حکام کے کمروں میں آویزاں کر دینا چاہئے بعض لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اونچے منصب داروں اور بعض مذہب کے نام کو اچھال کر ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان ملی بھگت چل رہی ہے وہ تمام لوگ جو اپنے اپنے مخصوص حلقہ میں نمایاں شخصیت رکھتے ہیں یقیناً اس بات کے حق دار ہیں کہ معاشرے میں ان کی عزت و توقیر کو محفوظ رکھا جائے اور بالخصوص جہاں تک حقیقی علماء کا تعلق ہے کوئی ان کے احترام سی روگردانی نہیں کرسکتا۔
اگر ان میں سے کوئی عالم اور بالخصوص پیشہ ور قسم کے وہ ملاں جو روشن دماغی اور بیدار مغزی سے یکسر محروم ہیں اور جن کا کاروبار ہی لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ہے اگر انہیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ از خود اقتدار اعلیٰ کی حیثیت اختیار کر لیں اور کوئی ان کے بہکائے ہوئے یا کرایہ پر ملازم رکھے ہوئے کتبوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے بغیر ان کے خلاب لب کشائی نہ کرسکے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بین الاقوامی لحاظ سے ہمارے وقار کو پہلے ہی کافی صدمہ پہنچا ہے اس ہفتہ کے واقعات اس میں اور اضافہ کا سبب ہوں گے۔ کیا ہم امید رکھیں کہ خواجہ ناظم الدین صاحب نے جہاں اور بہت سے معاملات کو سلجھا کر اپنے فہم و تدبر کا ثبوت بہم پہنچایا ہے اب بھی مملکت کی کشتی کو تعصب و تنفر کے متلاطم سمندر سے نکال کر امن و عافیت کی بندرگاہ پر جلد واپس آئیں گے۔<
>ڈان< نے ایک اور اشاعت میں لکھا:۔
گزشتہ ہفتہ کے شرمناک واقعات میں جو فتنہ پنہاں تھا وہ اب کسی نہ کسی شکل میں برابر سر اٹھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض عناصر اپنی خطرناک سرگرمیوں سے ابھی دستکش نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی پبلک کو روزانہ مشورہ دینے والے بعض مشیروں )یعنی( اخبارات نے( معاملہ فہی اور سمجھ بوجھ کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ عوامی زندگی کے چشمے برابر زہر آلود کئے جارہے ہیں ان حرکات سے بیرونی ممالک بھی ہمارے قومی وقار کو سخت صدمہ پہنچ رہا ہے۔ کراچی کے چیف کمشنر نے فتنہ پردازوں کو زبردست تنبیہہ کی ہے اور ساتھ ہی حکومت کے اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ ان شورش پسندوں کو فتنہ انگیزی کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی فی الحقیقت ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ گزشتہ اتوار کی شب کو سخت اقدامات کئے گئے ان کے متلعق سستی شہرت کے دلدادہ تقریر و تحریر کے ذریعہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہیں اس میں شک نہیں ان اقدامات نے ایک حد تک یہ اعتماد بحال کردیا ہے کہ حکومت میں حکمرانی کی صلاحیت موجود ہے لیکن جیسا کہ ہم نے گزشتہ مضمون میں بھی اشارہ کیا تھا یہی نہیں کہ حکومت کو بہت دیر میں ہوش آیا بلکہ خدشہ یہ ہے کہ اس کی یہ بیداری شررنا پائیدار کی طرح دیر پا ثابت نہ ہو۔
چیف کمشنر نے اپنے بیان میں اس امر کا اعتراف کیا کہ حالیہ فساد کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ برباد ہوا تھا اگر یہ صحیح ہے تو پھر ضرور ایسے لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے کرایہ پر ان غنڈوں کی خدمات حاصل کیں۔ ہم پوچھتے ہیں ان لوگوں کی نشان دہی کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ؟ اگر اگر ان کی نشان دہی ہوچکی ہے تو پھر ان کے خلاف کیا کارروائی عمل میں آئی ہے ؟ یہ خیال کرنا عبث ہے کہ ہر قسم کے ہنگامی اور غیر ہنگامی قوانین وضع کر لینے کے بعد حکومت میں اچانک ایک ایسا فطری تغیر رونما ہوا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال سے خود ہی کترانے لگی ہے حقیقت الامر یہ ہے کہ حکومت نے اب تک اس بارے میں کوئی معین پالیسی ہی وضع نہیں کی اور نہ ہی اس میں اتنی ہمت ہے ۔ ہمیں اس امکان بھی نظر آرہا ہے کہ کہیں حکومت ایک مرتبہ پھر بے تعلقی اور لاپرواہی کی اسی رو میں نہ بہہ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت پھر ملک کو لاقانونیت اور نراج سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی اور عوام الناس کے جذبات سے کھیلنے والوں کے حوصلے جو پہلے ہی کافی بڑھے ہوئے ہیں اور زیادہ بلند ہوجائیں گے۔ ہمارے نزدیک ایسے خطرناک رجحانات کا سدباب سخت قسم کی مثبت پالیسی سے ہی کیا جاسکتا ہے گاہے گاہے اشک آور گیس استعمال کرنے سے نہیں۔ اگر سردست خاص قسم کے مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لے جانا اور معمول کے مطابق ان کے خلاف چارہ جوئی کرنا ممکن نہیں ہے تو متعلقہ تعزیری قوانین میں یقیناً ترمیم ہونی چاہئے۔ تعزیرات کا موجودہ مجموعہ برطانوی راج کی یادگار ہے اور ان ہی سے ہم کو ورثہ میں ملا ہے۔ اس میں سے بعض خطرناک جرائم کی سزا کا جنہوں نے بعد میں معین صورت اختیار کی ہے کوئی ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس سے کسی کو اتفاق نہ ہوگا کہ ایسی تشدد آمیز دھمکیاں جن کا مقصد دوسروں پر خاص قسم کے مذہبی یا سیاسی نظریات ٹھونسنا ہو یا دوسرے طبقہ خیال کے لوگوں کو تحریر و تقریر اور تمدنی میل جول کی آزادی سے محروم کرنا ہو جرائم کی فہرست میں شمار ہونی چاہئیں اور وہ لوگ جو اعلانیہ طور پر جرم کا ارتکاب کئے بغیر بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسی لاقانونیتکو ہوا دیتے ہیں انہیں بھی ملزم گرداننا چاہئے۔ اگر موجودہ تعزیری قوانین میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ ان کے تحت ایسے لوگوں پر عدالت میں مقدمہ چلا جاسکے تو جرائم کی از سر نو وضاحت ہونی چاہئے یا نئے جرائم کی تعبین عمل میں آنی چاہئے تاکہ عدالتیں ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔ اس کام کیلئے ضروری نہیں کہ میکالے کو قبر سے نکال کر اسی پھر زندہ کیا جائے۔ خود اپنے ملک میں ایسے ماہر قانون دان موجود ہیں جو یہ کام باسانی کرسکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت اس کام کو سرانجام دینے کا عزم کرلے۔ رہا عبوری دور سو اس کیلئے بھی حکومت اتنی بے بس نہیں ہے جتنا کہ اس کے بعض ترجمان اسے ظاہر کرتے ہیں۔
بعض مخصوص قسم کے مذہبی دیوانوں کے ہاتھوں پاکستان کا حال ہی میں مہلک قسم کاجو نقصان پہنچا ہے ان میں سے ایک ملک کے نامور وزیر خارجہ کے خلاف گند اچھالنے کی مہم ہے۔ حالانکہ جہاں تک بیرونی دنیا میں پاکستان کی شہرت اور وقار کو چار چاند لگانے کا سوال ہے موجودہ قائدین میں سے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان کو بدنام کرنے کی مہم اگر عاقبت ن اندیش مذہبی دیوانگی کی پیداور ہے تو یہ جذبہ قومی استحکام کیلئے اتنا ہی مضر ہے جتنا کہ یہ خود اسلام کی اصل روح کے منافی ہے۔ ہمارے موجودہ مقاصد کے پیش نظر یہ قطعی غیر ضروری ہے کہ مذہبی مناقشات کا دروازہ کھولا جائے۔ لیکن ہم پورے انشراح کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے الے سیاسی اغراض کے تحت ایسا کررہے ہیں اور مذہب کو محض روغ قاز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ ان کے اصل مقاصد پر پردہ پڑا رہے۔ کوئی ہوش مند پاکستانی یہ خیال نہیں کرسکتا کہ چوہدری محمد ظفر اللہہ خان کا کسی فرقہ سے تعلق ملک کی خارجہ پالیسی پر کوئی خفیف سے خفیف اثر بھی ڈال سکتا ہے۔ ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کی خارجہ پالیسی یا اس کی خامیون پر نکتہ چینی کرے اور اگرچہ خارجہ پالیسی اور اس کی جزئیات کی تمام تر ذمہ داری مجموعی طور پر کابینہ پر عائد ہوتی ہے پھر بھی وزیر خارجہ کی حیثیت میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو زیر تنقید لایا جاسکتا ہے لیکن ان کو بدنام کرنے والوں کا طرز عمل یہ نہیں ہے۔ وہ حملہ کرنے میں حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ چوہدری صاحب کے اپنے خیالات خواہ کچھ ہی ہوں لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ امر ان کیلئے موجب اطیمنان ہوگا کہ ان کو بدنام کرنے والے اہل دانش کی نظر میں خود اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں منہ لگایا جائے۔ قوم ان لوگوں کے حق میں جو پورے خلوص اور انہماک کے ساتھ اس کی خدمت کررہے ہیں اتنی ناشکر گزار نہیں ہوسکتی کہ وہ معدو دے چند رجعت پسندوں کی غوغہ آرائی سے گمراہ ہوجائے اور پھر ان گنے چنے لوگوں کی غوغہ آرائی سے جو جہالت کے محدود متعفن ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں اور کنوئیں کے مینڈک کی طرح ساری کائنات کو اس تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔<۱۹body] [tag
‏tav.13.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ کراچی سے لیکر حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
۴۔ اخبار >سندھ آبزرور< )۲۰ مئی ۱۹۵۲ء( میں حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:۔
>جماعت احمدیہ کے جلسہ سے بہت سے اہم امور ہمارے سامنے آگئے ہیں جن کا فیصلہ عوام کے ذہنوں سے الجھن دور کرنے اور ایسے واقعات کے سدباب کیلئے اسی وقت کرنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ اس ضرورت سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری مجلس دستور ساز کی مقرر کردہ سب کمیٹی بنیادی اصول کی تدوین کررہی ہے۔ لٰہذا یہ فیصلے اس رہنمائی کیلئے بہت ممد ثابت ہوں گے۔ سہولت کیلئے ان امور کو دو حصوں میں منقسم کردینا چاہئے ایک وہ جو خاص اس وقعہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے جن کا اثر مستقبل پر پڑنے والا ہے۔ جہاں تک موجودہ حادثہ کا تعلق ہے دو نظریے ہمارے سامنے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ قرار داد مقاصد کے مطابق )جس کی تشریح لیاقت علی مرحوم نے ۷ مارچ ۱۹۴۹ء کو کی( ان کو جلسے کرنے اور اپنے خیالات کے اظہار و اشاعت کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ جلسہ حکام متعلقہ کی اجازت کے ساتھ خاص پنڈال میں منعقد کیا گیا تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ احمدیوں کے خیالات سے ان کے جذبات مجروح ہوں گے وہ جلسہ میں شرکت کیلئے مجبور نہ تھے چنانچہ ہجوم کا متشددانہ رویہ قانون کی خلاف ورزی ہے لٰہذا ان کے خالف موثر کارروائی ہونی چاہئے۔ برعکس اس کے علماء کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو اس قسم کے جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ قادیانیوں کے عقائد مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں اور ان کی اشاعت سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جلسہ میں جو تقریریں کی گئیں وہ اشتعال انگیز تھیں۔ پولیس کا اقدام اس اشتعال انگیزی میں اضافہ کا باعث ثابت ہوا۔ چند قادیانیوں کیلئے سولہ لاکھ مسلمانوں کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے ان کو اقلیت قرار دیا جائے۔ گرفتار شدگان نے چونکہ مشتعمل ہو کر ہنگامہ برپا کیا اس لئے انکو رہا کیا جائے۔ ان ہر دو قسم کے خیالات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور ناقابل اتفاق ہیں۔ جہاں احمدی اپنے خیالات کو آزادانہ استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں دوسری طرف علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ احمدیوں کو عام جلسی کرنے اور اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں کیونکہ اس سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں لٰہذا جنہوں نے ان کے جلسہ میں تشدد کیا ہے ان کو رہا کیا جائے۔ ان حالات میں حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے:۔
۱۔ کیا وہ فرقے اور مذاہب جو اکثریت کے خلاف عقائد رکھتے ہیں اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ اپنے عقائد کی آزادانہ تبلیغ کریں خواہ اس سے اکثریت کے دل مجروح ہی کیوں نہ ہوں ؟
۲۔ برعکس اس کے کیا اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقلیت کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے خیالات` معتقدات کی اشاعت کریں۔
۳۔ حضرت رسول~صل۱~ کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو حکومت قانونی حیثیت دے گی اور جو نہ مانے گا اس کے خلاف تعزیری کارروائی کرے گی ؟
۴۔ کیا حکومت کا مذہب اسلام ہے اگر ایسا ہے تو وہ کس فرقہ سے اپنے آپ کو وابستہ اور کون سے فقہ پر عمل کرے گی۔ کیا وہ کسی خاص فرقہ اور فقہ کی تائید کرے گی ایسی صورت میں کیا مخالف فقہ رکھنے والوں کو ریاست کے فقہ کی آزادانہ مخالفت کرنے کا حق دیا جائے گا ؟
۵۔ کیا حکومت ایسے معاملات میں اکثریت کی اتباع کرے گی یا اپنے خیالات کو خواہ وہ اکثریت کے خیالات کے خلاف ہوں نافذ کرے گی ؟
۶۔ مذہب کے معاملہ میں قرار داد مقاصد کے تحت عطا کردہ حقوق کی کونسی حدود مقرر کی جائیں گی ؟
۷۔ متنازعہ فیہ امور کے تصفیہ کیلئے کونسا ذریعہ مقرر کیا جائے گا ؟
مندرجہ بالا امور کا فیصلہ صاف صاف ہونا چاہئے اور لوگوں کے حقوق شہریت کی حدود متین کردینی چاہئے۔ تذبدب اور قائل سے اور زیادہ الجھنیں پیدا ہوں گی جس سے بسا اوقات خود حکومت کی اپنی پوزیشن نازک ہوجائے گی۔ قرار داد مقاصد اور لیاقت علی خاں صاحب مرحوم کے بیان میں صرف اجمالی طور پر ان اصولوں کا خاکہ کھینچا گیا ہے اور تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ وہ خلاء ہے جس سے یہ تمام تر الجھنیں پیدا ہورہی ہیں جتنی جلدی اس خلا کو پورا کردیا جائے گا اتنا ہی ہماری مملکت کیلئے مفید ہوگا۔ بالاخر ہم پھر یہ تجویز کرتے ہیں کہ جہانگیر پارک میں جلسہ کے دوران میں جو ہنگامہ ہوا اس کی پوری پوری تحقیقات کی جائے اور قانون کے مطابق جو بھی اس کا ذمہ دار ہے خواہ وہ احمدی ہو یا غیر احدی اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی جن لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور اشتعمال کے عذر کو عدالت کے فیصلے پر چھوڑا جائے۔
۵۔ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< کراچی کے ۱۹ مئی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں >سیہ کاری< کے تحت ایک مقالہ افتتاحیہ شائع ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
)۱۷۔ مئی کو( ہفتہ کے روز ایک بے لگام ہجوم نے جہانگیر پارک میں احمدیوں کے جلسہ پر زبردست ہلہ بول دیا اور منہ میں کف لا لا کر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے خلاف نعرے لگائے۔ ان کے اس طرز عمل نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ مذہبی تعصب کا مکروہ جذبہ جو ذہنی اور روحانی آزادی کے حق میں زہر کا درجہ رکھتا ہے ظلم روا رکھنے میں کیا کچھ گل نہیں کھلا سکتا۔ ظاہر ہے کہ ہجوم نے تشدد اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ اس لئے کیا کہ وہ بعض مخصوص روحانی اور اخلاقی نظریات کے پبلک اظہار اور خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ہمیں صف اول کی چند نامور ہستیوں میں سے ایک ہستی کی راہنمائی اور نگرانی حاصل ہے جس کو بجا طور پر ایشیا بھر میں علم و دانش اور فہم و فراست کا مظہر قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس سر پھرے ہجوم نے یہ نعرے بلند کئے کہ >قادیانی برطانیہ کے ایجنٹ ہیں< ظفر اللہ کو وزارت خارجہ سے الگ کردو< اور ساتھ ہی پرامن جلسہ پر پتھرائو بھی کیا۔ ان کی یہ نعرہ بازی اور شرہ پستی ان کے اس خوفناک رجحان کو بے نقاب کررہی تھی کہ وہ لوگوں کو اتنی بھی آزادی دینے کے روادار نہیں ہیں کہ وہ مظاہرین کے مخصوص عقائد و نظریات کے سوا کوئی اور عقیدہ یا نظریہ اختیار کرسکیں ہمیں احمدیت یا کسی دوسرے فرقے کے مذہبی معتقدات کے متعلق بحث کی ضرورت نہیں۔ البتہ مسلمہ طور پر ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جلسوں وغیرہ کے ذریعہ اپنے مخصوص مذہبی عقائد و نظریات کی تبلیغ کرسکے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ملائیت ہر قسم کی انفرادی اور اجتماعی آزادی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے پر کمر بستہ ہوچکی ہے اور اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اس نے ضروری خیال کیا ہے کہ پوری طرح مسلح ہو کر علی الاعلان میدان میں نکل آئے۔ ہمارے ملک میں ملا ازم کا فریب ان لوگوں پر باسانی چل جاتا ہے جو احیائے دین کے تو دل سے حامی ہیں لیکن ان کے ذہنوں میں اس کی ماہیت اور اہمیت کا صرف ایک مبہم سا تصور ہے۔ جہاں تک اس کے مالہ و ما علیہ کا تعلق ہے مذہبی تعصب نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے اور وہ اس کے صحیح جذبات سے بالکل عاری ہیں۔ ایک جمہوری حکومت شخصی آزادی کی اس حد تک اجازت نہیں دے سکتی کہ لوگ فساد برپا کر کے فرقہ دارانہ امن کو خاک میں ملا کر رکھ دیں۔ حکومت کے قیام کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ وہ امن کو برقرار رکھے۔ بالخصوص وہ اس ذمہ داری کو تو کبھی فراموش کر ہی نہیں سکتی کہ وہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے ہر طبقہ خیال کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرے کہ وہ اپنے خیالات کا پوری آزادی اور بے باکی سے اظہار کرسکتے ہیں اور ایسا کرنے میں انہیں تشدد آمیز دھمکیوں اور مظاہروں کے خلاف قانون کی پوری پوری حمایت حاصل ہوگی۔ جمہوری خیالات کی صحت مند نشوونما کیلئے ضروری ہے کہ قانوناً شخصی آزادی کی حدود تعین کردی جائیں اور باقاعدہ ان کی وضاحت کر کے ہر قسم کا اوہام دور کردیا جائے۔
شخصی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جاسکتا کہ انسان اپنے نظریات اور رجحانات کو دوسروں پر بالجبر ٹھونسنے کی کوشش کرے کسی کو بدگوئی اور تذلیل و تحقیر کی اجازت دینا جمہوری آزادی کے یکسر منافی ہے۔ اس سے جہاں دوسروں کی آزادی رخنہ پڑتا ہے وہاں جماعتی تحفظ اور مفاد عامہ کو بھی سخت نقصان پہنچتا ہے۔
مظاہرین نے ایک ایسی ہستی کو ہدف ملامت بنایا جو ان اسلامی نظریات پر صدق دل سے ایمان رکھنے میں کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہے جن کا یہ مظاہرین خود اپنے آپ کو علمبردار سمجھتے ہیں اور پھر اسے شاندار قومی و ملی خدمات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ایسی قابل قدر شخصیت کے خلاف بدگوئی سے کام لے کر احسان فراموشی کا انتہائی شرمناک مظاہرہ کیا۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے جو اس وقت اقوام عالم میں دنیائے اسلام کے عظیم ترین سیاستدان تسلیم کئے جاتے ہیں پاکستان کی خدمت بجا لانے میں حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سامنے ملک کا معاملہ پیش کرنے کا سوال ہو یا مسلمان قوموں کے نظریات و مقاصد کو فروغ دینے کا مسئلہ امن عالم کے قیام کا تذکرہ ہو یا دنیا کی پسماندہ قوموں کے حق خود اختیاری کی تائید کا ذکر بہرحال جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے انہوں نے پاکستان کی عظمت و وقار میں وہ گرانقدر اضافہ کیا ہے کہ جس کی مثال ملنی محال ہے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں اورنادر روزگار مدبرین میں سے ایک ہیں جن کی سیاسی پیش بنیوں میں روحانی بصیرت کا عنصر نمایاں طور پر غالب نظر آتا ہے۔ ایمان و یقین اور باطنی پاکیزگی کے باہمی امتزاج نے ان کے ضمیر اور قول و فعل میں کامل مطابقت پیدا کردی ہے وہ موجودہ وقت کے الجھے ہوئے سیاسی مسائل کو مذہبی عرفان کی مدد سے حل کرتے ہیں لیکن ان کی باطنی معرفت اور روحانی بصیرت نام نہاد صوفیاء کی کرامات اور فاسد قسم کے مذہبی جنون سے یکسر پاک ہے تاریخ کے گہرے مطالعہ اور دور بینی کی خداداد صلاحیت نے ان کے نقطہ نظر میں ایسا توازن پیدا کردیا ہے جو بلاشبہ کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔
ایک ایسا شخص جس کی باطنی تربیت کا معیار بے حد بلند ہو جس میں عجز و انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو جس کی حب الوطنی اور جس کا جذبہ وفاداری حد درجہ پختہ اور مستحکم ہو اور جو کمال خاموشی سے تعمیر ملت میں ہمہ تن کصروف ہو ایسے شخص کیلئے دل میں محبت و اخلاص اور احسان مندی کے گہرے جذبات کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس پر >برطانیہ کا پٹھو< ہونے کا الزام لگانا حق و صداقت کا خون نہیں تو اور کیا ہے۔ )اس کے سوا کیا کہا جائے کہ( اس الزام تراشی کا کوئی فاسد اور بدنما داغ ہی مرتکب ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا واجب التعظیم شخص بھی حاسدوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکتا تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ پر ہونی صورت حال اس دور میں انسانی سیہ کاری کی انتہائی پست ہالت پر دلالت کرتی ہے۔<
۶۔ اخبار >نئی روشنی< نے اپنی ۲۵ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>۱۷ مئی اور ۱۸ مئی کو کراچی میں فرقہ احمدی کے جلسے منعقد ہوئے۔ ان جلسوں میں جو ناخوشگوار واقعات پیش آئے اس قدر شرمناک ہیں کہ کوئی شخص تردید کی جرات نہیں کرسکتا۔
فرقہ احمدیہ آج سے نہیں برسوں سے اس برصغیر ہندو پاکستان میں موجود ہے اور اس فرقہ کے عالم وجود میں آنے سے لے کر آج تک سینکڑوں مناظرے احمدیوں اور عام مسلمانوں کے درمیان ہوئے۔ اختلافات پیدا ہوئے۔ سوال و جواب کے سلسلے جاری ہوئے لیکن کوئی غیر سنجیدہ اور تکلیف دہ قسم کا حادثہ پیش نہیں ایا بلکہ ہر موقعہ پر ضبط و نظم کا خیال رکھا گیا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
احمدیوں کے متذکرہ جلسہ سے کچھ ہی دن قبل رام باغ میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں فرقہ احمدیہ کے خلاف انتہائی زہر افشانی کی گئی تھی مگر انجلسوں میں کسی قسم کا کوئی ہنگامہ نہیں ہوا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو جلسہ کا نظم و نسق برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ احمدیوں نے انتہائی صبر و سکون کے ساتھ جلسہ کی کارروائیوں کو جاری رہنے دیا۔ کوشش یہ کی کہ ان کا کوئی فرد اس میں شریک نہ ہو اور اگر شریک ہو بھی نہایت صبر و سکون کے ساتھ جلسہ کی کارروائی کو سنے۔ اس کے برعکس احمدیوں کے جلسہ میں چند شر پسند عناصر نے مجمع کو اکٹھا کر کے ایسے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کی جو انتہائی شرمناک متصور ہوتے ہیں۔ ہم ان حضرات سے براہ راست مخاطب ہو کر یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ان میں مخالفانہ نظریات کو سننے کی جرات نہیں تھی تو وہ جلسہ گاہ میں شرکت کی غرض سے گئے کیوں ؟ اور یہ کہ کیا اختلافات کو مٹانے اور اپنے نظریات کو سمجھانے کا یہی طریقہ کار ہے ؟ کہ شہر میں بدامنی پھیلا دی جائے اور دکانوں اور ہوٹلوں کو آگ لگادی جائے ؟
اس ہنگامہ میں شیزان ریسٹورنٹ احمدیہ فرنیچر مارٹ اور شاہنواز لمٹیڈ کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سمجھ کر کہ یہ سارے ادارے احمدیوں کی ملکیت ہیں ان داروں کو آگ لگا کر عام مسلمانوں نے جس غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کی گئی ہے اور ہم وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کسی کا ہاتھ ہے یا عوام نے خود ایسا کیا ہے؟ لیکن صرف اس قدر کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہمیں عوام کے جذبات کا احترام ہے لیکن ہم کسی ایسی حرکت کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے پاکستان کا امن خطرے میں پڑے اور نہ ہی ہمیںیہ توقع رکھنا چاہئے کہ کوئی پاکستانی پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
اس ناخوشگوار واقعہ سے کوئی اور نتیجہ برآمد ہو یا نہ ہو۔ یہ تلخ حقیقت ضرور سامنے آتی ہے کہ کراچی میں ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جو عوامکو ایسے موقعوں پر صحیح راہ دکھا سکے۔ کراچی میں عوام کے محبوب قائدین کا کال شہید ملت کی یاد کو اور تازہ کررہا ہے ہمیںیقین ہے کہ آج قائد ملت لیاقت علی خاں زندہ ہوتے تو پولیس کو اشک آور گیس اور لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ان کا صرف ایک جملہ عوام کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کافی ہوتا۔ بلکہ ہم اس قدر کہنے کیلئے تیار ہیں کہ ان کی موجودگی میں ایسا واقعہ سرے سے رونما ہی نہ ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ ہمارے درمیان سے دانستہ طور پر ہٹا دیئے گئے جن کے بعد ایسا واقعہ پیش آگیا اور وہ بھی پاکستان کے دارالخلافہ میں جس کے متعلقہ یہ اندیشہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ آگ کہیں دوسرے شہروں میں نہ پہنچ جائے اس لئے کہ وہ جو چیز مرکز سے شروع ہوتی ہے وہ دوسرے شہروں میں ضرور پھلنے پھولنے کے مواقع تلاش کرتی ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ حیرت تو اس امر پر ہے کہ مرکزی وزراء میں سے کسی نے اس واقعہ سے دلچسپی نہیں لی۔ یقیناً مرکزی کابینہ میں ایک دو شخصیتیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی قدر و منزلت عوام کی نظر میں بے انتہا ہے اور جن کو عوام کا اعلیٰ ترین اعتماد حاصل ہے۔ اگر اس وقت مسلم لیگ زندہ ہوتی اور سرکاری جماعت نہ بن چکی ہوتی تو ایسے موقعوں پر صدر مسلم لیگ کے فرائض نہایت اہم مسلم لیگ کے پرانے کارکن۔ آج اگر میدان عمل میں ہوتے تو یقیناً پاکستان کی اس قدر بے عزتی نہ ہوتی۔ افسوس کہ علماء اسلام بھی اپنے گھروں میں بیٹھتے رہے بلکہ ہم تو اس خیال کے حامی ہیں کہ اس واقعہ نے مذہب اسلام کو بدنام کیا ہے کیونکہ آج عام مسلمانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی اختلافی نظریہ کو سننے کی اہلیت نہیں رکھتے اور مخالفین کیلئے کیچڑ اچھالنے کا موقعہ فراہم کردیا گیا ہے۔ کیا ہم اپنی حکومت سے توقع رکھیں کہ وہ اس ناخوشگوار واقعہ کے سلسلہ میں نہایت سخت اقدام سے بھی گریز نہیں کرے گی ؟ اور اس فتنہ کے اٹھانے والوں کو انتہائی عبرتناک سزائیں دے کر ملک میں اس آگ کو پھیلنے سے روک دے گی۔ ہمیں خواجہ ناطم الدین وزیراعظم پاکستان سی قوی توقع ہے کہ وہ اس شرر کو کچلنے کیلئے ہر ذریعہ استعمال کریں گے اور ان >مولویوں< کے فتنہ کا قلع قمع کردیں گے جنہوں نے غیر منقدم ہندوستان میں مسلمانوں کو آپس میں لڑائو کو مسلم خون کی ارزانی کا ثبوت دیا تھا۔ اگر پاکستان میں غیر مسلم ہندوستان کی فرقہ وارانہ روایات کو دہرایا گیا تو ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان تباہ ہوجائے گا۔
عام مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان کو سوچنا چاہئے کہ جن شر پسندوں نے یہ حرکت کی ہے کیا انہوں نے احمدیت کے قلع قمع کرنے کا یہ صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ کہاں ہیں مفتی محمدشفیع صاحب` کدھر ہیں سید سلیمان ندوی ` مولانا احتشام الحق اور صدر پاکستان مسلم لیگ کہاں ہیں ؟ یہ سب کیوں نہیں اس موقعہ پر پہنچے ؟ اور کہاں ہیں کراچی مسلم لیگ کی صدارت کے امیدوار۔ اگر یہ سوچی سمجھی تجویز اور پروگرام نہیں ہے تو برانگیختہ مسلمانوں کو کیوں نہیں سمجھایا گیا کیا اسے عوام حکومت کے پاس گیس مارنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔ شرپسندوں کو سمجھانے کی ضرورت تھی اگر ان کو کوئی عوامی شخصیت سمجھانے ولای ہوتی تو یہ ہنگاہ اس قدر شدید صورت اختیار نہ کرتا۔ ہم ان افراد کی جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے یا جنہوں نے اس کا پروگرام بنایا ہے سخت مذمت کرتے ہیں۔<
۷۔ ہفت روز >پیام مشرق< )۸ جون ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>پاکستان کا باشعور طبقہ بہت عرصہ سے یہ سوچ رہا ہے کہ مملکت اسلامیہ دولت خداداد پاکستان کا کیا مفہوم ہے اور اسلامی حکومت کا نعرہ کمزور حکومت کے ایوانوں میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ کیا اسلامی حکومت سے مراد ایک ایسا نظام ہے جہاں صرف مولانا بدایوانی ہی شہریت کے پورے حقوق کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں یا قرار داد مقاصد کی چھائوں میں سوامی کلجگانند بھی پاکستان کے شہری ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ؟
آج پانچ سال کے بعد یہ سوال اس وجہ سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ شہرت و اقتدار کے بھوکے پاکستان کے نام نہاد ملا اور مولوی پاکستان کی سالمیت کیلئے ایک مستقل خطرہ بن کر اس کے سامنے آگئے ہیں اور آج ہی ہمیںیہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس اجتماعی قومیت کو باقی رکھنے کیلئے ہمارا ¶آئندہ قدم کیا ہونا چاہئے۔
احمدیہ عقائد سے ہمیں شدید اختلاف ہے اور ہم کبھی بھی ان کے ہمنوا نہیں ہوسکتے لیکن پچھلے دنوں جہانگیر پارک کراچی میں سالانہ کانفرنس میں شر پسند عناصر نے اسلامی حکومت کا نام لے کر جس طرح قرار داد مقاصد کو ننگا کیا ہے ساری دنیا کی جمہوریت پسند انسانوں کی نگاہ میں اسلام ایک متعصب ملا کا ایک پرفریب سیاسی عقیدہ بن کر رہ گیا ہے۔
اسلام دنیا کے ہر انسان کیلئے امن اور خوشحالی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ پاکستان کے ان تنگ نظر اور مفاد پرست ملائوں نے اس مقدس تعلیم کو محض کارخانوں اور وزارتوں کی ہوس میں بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے۔ ۲ جون ۱۹۵۲ء کو >آل مسلم پارٹیز کنونشن< کے نام سے تھیاسوفیکل ہال کراچی میں علماء کرام کا ایک جلسہ منعقد ہوا۔ کارکنان جلسہ میں بہت سے ایسے علماء کے نام بھی درج ہیں جن کی مذہبی خدمات آج کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں اور برصغیر پاک و ہند کا ہر مسلمان ان کا ذکر آنے پر عقیدہ سے سرجھکا دیتا ہے۔ ہم ان کے تقدس اور علمیت کا پورا احترام کرتے ہوئے ان سے یہ دریافت کرنے کی جرات ضرور کریں گے کہ احمدیوں کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں لیکن وہ پاکستان کے آزاد شہری ہیں یا نہیں ؟
اگر اسلامی جمہوریت کے اصولوں کے تحت ابوسفیان اور اس کے ساتھیون کو فتح مکہ کے بعد مکہ کی آزاد شہریت فراغ دلی سے بخشی جاسکتی ہے تو احمدیہ عقائد کے پرو تو پھر بھی خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں۔ ویسے وہ بھی اگر سر ظفراللہ کی سرخ ٹوپی کو نعوذ باللہ خدا مان لیں تو بھی پاکستان دنیا کے نقشہ پر کعبہ بن کر نہیں بلکہ ایک آزاد جمہوریت بن کر ابھرا ہے۔
کسی پاکستان کے ٹھیکیدار یا مذہب کے رکھوالے کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ ان کو محض احمدی ہونے کی بناء پر پاکستان کا غڈار قرار دے دے۔ پاکستان کے اصل غدار لمبی عبائیں قبائیںپہنے ہوئے وہ دشمنی اسلام افراد ہیں جو لاکھوں پاکستانی شہریوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کر کے انہیں پانچویں کالم والوں کی ایک بڑی فوج بنا دینا چاہتے ہیں۔
آل مسلم پارٹیز کنونشن نے ایک قرار داد کے ذریعہ مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان ممالک اسلامیہ اور کشمیر کے مفادات کے پیش نظر وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو کابینہ سے فوری علیحدہ کردیا جائے کیونکہ وہ پاکستان اور ہندوستان کو دوبارہ اکٹھا بنانے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔
کیونکہ نہیں قائداعظم یا قائد ملت کی زندگی میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ تمہارا انتخاب غلط ہے اور وزیر خارجہ کی وفاداری مشکوک ہے ؟ شاید وجہ یہ ہو کہ ان قائدین کے آہنی ہاتھوں کا شکنجہ مضبوط اور ایک مولانا چند ماہ جیل میں رہ کر اور انتہائی گریہ وزاری کے بعد معافی مانگ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ بین الاقوامی سیاست اور ملائی ذہنیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن آنر بیل خواجہ ناظام الدین کی اس وزارت میں جہاں عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے` انہیں بدامنی کی تلقین کرنے اور امن کی بحالی پر پولیس کے رویہ پر قرار داد مذمت منظور کرنے والے شر پسند کو پاکستانی دشمن کے الزام میں گرفتار نہیں کیا جاتا وہاں قائداعظم کے زمانہ کا زمین و آسماں والا فرق خودبخود ایک سراب میں تبدیل ہوجانا چاہئے تھا چنانچہ آل پارٹیز کنونشن کی ساری قرار دادیں اس سراب ک پس منظر ہی پر پیش کی گئیں اور اگر حکومت کو اب بھی ہوش نہ آیا تو ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے اور خود مستفید ہونے کیلئے یہ نام نہاد علماء ایک اتنا بڑا ہنگامہ شروع کرادیں گے کہ پولیس کے اشک آور گیس کے گولے بھی کوئی مدد نہ کریں گے۔
پاکستان دشمن ملالئوں کی نظر میں سر محمد ظفر اللہ اور احمدیہ فرقہ کے لاتعداد پیرو محض اس وجہ سے پاکستان کے غدار قرار دیئے گئے ہیں کہ وہ آنحضرت~صل۱~ کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے احمدیہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ ہم اعلان کردیں کہوہ تمام فرقے جو ہمارے مذہبی عقائد کو تسلیم نہیں کرتے قابل گردن زدنی ہیں اور ان پر کسی طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
کل یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ شیعہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لٰہذا ان کے کسی آدمی کو پاکستان کا کوئی اہم عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح آغا خانی` مہدوی ` ذکری` ہندو` عیسائی` پارسی اور وہ تمام لوگ جو اپنی اجتماعی جدوجہد اور پوری توانائی سے پاکستانقومیت کی تخلیق کررہے ہیں پاکستان کے غدار قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ ہم حکومت سے پر زور مطالبہکرتے ہیں کہ قبل اس کے کہ تعصب کی یہ آگ بھڑک کر اپنے ہی گھر کو جلا ڈالے اس کے خلاف سخت انسدادی تدابیر اختیار کی جائیں۔
سر چوہدری محمد ظفر اللہ وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف عام طور پر انگریز نوازی کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ہمیں انتہائی افسوس ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ کابینہ سے چوہدری سر ظفر اللہ کی علیحدگی کا پر زور مطالبہ کر کے یہ سمجھ لیتا ہے کہ سر ظفر اللہ کی علیحدگی سے انگریز نوازی ختم ہوجائے گی۔
سر ظفر اللہ کی خارجہ پالیسی خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کی خارجہ پالیسی ہے۔ مرکزی حکومت جس حکتم عملی کا تعین کرتی ہے وزیر خارجہ پاکستان ان بنیادوں پر اپنی تقاریر کا خاکہ تیار کرتے ہیں۔
یہ تو انتہائی بچپن ہوگا کہ ہم سامنے کی چیزوں کو دیکھ کر بھڑک اٹھیں اور ان اندرونی دھاروں سے چشم پوشی اختیار کریں جو ان حالات کی اصل ذمہ دار ہیں۔
۷۔ ہفت روز >شیراز< )۲۶ مئی ۱۹۵۲ء( نے زیر عنوان >کراچی کا ہنگامہ< لکھا:۔
>قادیانی جماعت کے سالانہ اجتماعات کے موقع پر کراچی میں جو ہنگامہ ہوا ہے اس نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو واضح کردیا کہ جب تک تنگ نظر متعصب مذہب باغیوں کو ڈھیل دی جاتی رہے گی پاکستان کی سالمیت خطرے میں رہے گی۔ کراچی کے بعض علمائے اسلام کا بیان ہے کہ اس ہنگامہ کا سبب قادیانی جماعت کی دل آزار اور اشتعال انگیز تقریریں تھیں۔ اور مسٹر ابو طالب نقوی چیف کمشنر کا اعلان یہ ہے کہ ہنگامہ ایک منظم سازش کے ماتحت کرایا گیا۔ اور اگر پولیس کی پوری طاقت استعمال نہ کی جاتی تو خدا جانے قادیانیوں کے خلاف یہ گڑ بڑ کیا رخ اختیار کرتی ؟ نقوی صاحب نے اپنے بیان میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس ہنگامہ کی وسعت اور اس کے پس منظر کی طرف اشارے کئے ہیں چیف کمشنر کے وضاحتی بیان کی تردید مفتی محمد شفیع مولانا احتشام الحق` مفتی جعفر حسین )رکن پارلیمنٹ( اور مولانا لال حسین اختر نے کی ہے اور اشتعال انگیزی کا سرچشمہ قادیانی جماعت کے مقرروں بلکہ خود چوہدری سر محمد ظفر اللہ صاحب کو قرار دیا ہے۔ ان متضاد بیانات کی موجودگی میں بیک وقت کسی قطعی نتیجہ تک پہنچنا مشکل ہے تاہم اگر سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ صورت حالات کا تجزیہ کیا جائے تو چند >واضح حقائق< تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ بھلا اس بات سے کون واقف نہیں کہ پورے پاکستان میں قادیانی جماعت کی تعداد چند لاکھ )شاید یہ اندازہ بھی زیادہ ہے( سے زیادہ نہیں۔ اور اس قلیل تعدد کو ہمیشہ ایک عظیم ترین مخالفت سے دو چار رہنا پڑتا ہے مرزا غلام احمد صاحب کے متلعق قادیانیون کے کیا عقائد ہیں ؟ وہ ان کی مجدیت کے قائل ہیں یا نبوت کے ؟ وہ ختم رسالت کے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں ؟ یہ تمام مباحث علمی اور تحقیقی نوعیت رکھتے ہیں اور یہ منصب علماء کا ہے کہ وہ ان عقائد کی تردید اور اصلاح کریں۔ اور جو گمراہ لوگ ختم رسالت کے عقیدے میں متذبذب ہیں ان کو راہ راست پر لائیں۔ لیکن یہ بحث و مباحثہ مناظرہ و مکالمہ کی حدود تک رہنا چاہئے۔ بے شک جو شخص >ختم رسالت< کے عقیدے کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں۔ اس باب میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ لیکن قادیانی اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ تحمل کے ساتھ اسے سنیں اور جہاں جہاں انہیں اعتقادی طور پر غلط پائیں نرمی کے ساتھ متنبہ اور محبت کے ساتھ خبردار کریں۔ یہ تو ہے اصلاح نفوس اور امر بالمعروف کا وہ طریقہ جو اسلام نے تسلیم کیا ہے اور قرآن مجید میں بار بار اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ غنڈہ گردی اور جہالت کا راستہ یہ ہے کہ لاٹھیاں لے کر مخالف عقیدہ رکھنے والوں پر دھاوا بول دیا جائے اور ڈنڈے کے زور سے ان کی اصلاح کی جائے۔ افسوس یہ ہے کہ بعض حلقوں نے قادیانیوں کی اصلاح کیلئے یہی دوسرا راستہ اختیار کررکھا ہے جس کے نتائج >جہانگیر پارک< کے جلسے میں ظاہر ہوگئے۔ ہم ہر گز اس الزام کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ قادیانیوں کے جلسہ میں اشتعال انگیزی کی گئی۔ مولانا احتشام الحق صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ >سو ڈیڑھ سو قادیانیوں کی خوشنودی کیلئے کراچی کے سولہ لاکھ باشندوں کو کچلا نہیں جاسکتا<۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جلسہ میں قادیانیوں کی تعداد سو ڈیڑھ سو سے زائد نہ تھی۔ انصاف کیجئے کہ مخالفت کے ایسے عظیم طوفان میں مٹھی بھر انسانوں کو اشتعال انگیزی اور بد زبانی کی جرات ہوسکتی ہے ؟ نہیں یہ الزام کوئی شخص تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس سلسلہ میں چیف کمشنر نے جو وضاحت کی ہے صرف وہی قابل تسلیم ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کافی عرصہ سے قادیانیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر اشتعال انگیزی کی جاری ہے اور اس پرجوش مخالفت کے سبب پنجاب میں کہیں کہیں چند ناخوشگوار حوادث بھی پیش آئے چند ماہ قبل کراچی میں اینٹی قادیانی اجتماعات ہوئے تھے انہوں نے بھی مخالفانہ احساست کو کافی بھڑکایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے ایک مشتعل ہجوم نے پولیس سے مڈبھیڑ کے بعد شیزان ریسٹورنٹ` احمدیہ فرنیچر سٹور` احمدیہ لائبریری اور بعض دوسرے ایسے اداروں کو جن کے متعلق احمد ملکیت ہونے کا شبہ تھا آگ لگانے کی کوشش کی اور اگر کراچی ایڈمنسٹریشن اس موقع پر غیر معمولی احتیاطی تدابیر نہ اختیار کرتا اور پولیس وسیع پیمانے پر حرکت میں نہ لائی جاتی تو خدا جانے کراچی میں کیا کیا مناظر دیکھنے میں آتے ہم ایک طرف تو حضرت علماء کرام کے روشن خیال طبقہ سے درخواست کریں گے کہ وہ خدا اور رسولﷺ~ کیلئے میدان میں آئیں اور جاہلوں کو موقع نہ دیں کہ وہ دس لاکھ انسانوں کے خون سے خریدی ہوئی اس گراں مایہ مملکت کے اتحاد` سالمیت اور آزادی کو خطرہ میں ڈال دیں اور دوسری حکومت پاکستان کے اصرار کریں گے کہ >مذہبی اشتعال انگیزی< کے مقابل اس کا رویہ اب تک تحمل اور نرمی کا رہا ہے۔ یہ رویہ ایک دن پوری قوم کو خطرے میں ڈال دے گا جہاں تک قادیانیوں کا تعلق ہے ہم اس کے حامی ہیں کہ ان کے عقائد کی تردید موثر طور پر کی جانی چاہئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ علماء اسلام تحقیق و علم کے میدان میں ان کا مقابلہ کریں لیکن یہ غنڈہ گردی یہ بلوے` یہ اشتعال انگیزیاں ! ہمیں صاف لفظوں میں اعلان کرنا چاہئے کہ پاکستان میں مذہبی مخالفت پر لاٹھیاں برسانے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔<
)۷( >شیراز< نے علماء کنونشن کے مطالبات پر حسب ذیل رائے کا اظہار کیا:۔
>کراچی میں >علمائے کراچم< اور مفتیان عظام< کے ایک کنونشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۔
>چونکہ سر محمد ظفر اللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہوسکتی اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کردیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں >مذہبی اقلیت< قرار دے دیا جائے۔<
حضرات علمائے کرام نے جس بناء پر چوہدری صاحب کی >برخواستگی< کا مطالبہ کیا ہے ہم اس بنیاد کو پاکستان کی سالمیت` خوشحالی` ترقی` اور اتحاد کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور ملت کیلئے سخت تباہ کن ہے >قادیانیت< کو >پاکستانیت< کا حریف اور ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان قرار دینا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی باشعور پاکستان اتفاق نہیں کرسکتا۔ اس موقع پر جب کہ ابھی ہم اپنے قومی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے ایک شدید جنگ لڑرہے ہیں مذہبی بنیادوں پر ایک اس قسم ے ہنگامے گرم کرنا اور سیاسیات کو خواہ مخواہ فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھنا گویا اجتماعی خودکشی کا سامان فراہم کرنا ہے۔ ہم اس ملک کے سمجھدار طبقے سے درخواست کریں گے کہ وہ میدان میں آئے اور بغیر کسی توقف اور قاتل کے اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔ حکومت کو بھی زیادہ عرصہ تک اس سلسلہ میں >مجہول پالیسی< اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کا فرض ہے کہ اور کسی سبب سے نہیں تو اپنے وزیر خارجہ کی پوزیشن کے تحفظ ہی کیلئے حرکت میں آئے اور ان مدعیان دین سے صاف الفاظ میں کہہ د کہ تم فقہی تاویلات کی بناء پر مسلمانوں کو کافر یا مومن بناتے رہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ تم پوری قوم کے مفادات سے )اس قسم کے مطالبات کر کے( کھیلو۔< ۲۰
۸۔ ہفت روز >تارا< )۲۶ جون ۱۹۵۲ء( نے علماء کی کنونشن کی نسبت لکھا:۔
>کراچی میں حال میں > مفتیان عظام< اور علماء کرام کا ایک عظیم الشان کنونشن ہوا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ )خلاصہ یہ ہے(
>چونکہ سر ظفر اللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کردیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں ایک >مذہبی اقلیت< قرار دے دیا جائے۔< ~}~
ہنسی ہنسی میں بعض اوقات
طول پکڑ جاتی ہے بات
اس مطالبہ پر بحث کرنے اور لکھنے کیلئے تو بہت کچھ ہے مگر مختصراً ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ قومی حکومت کی خارجہ پالیسی سے نامطمئن ہو کر حضرات علماء کرام نے جن بنیادوں پر وزیر خارجہ کی برخواستگی طلب کی ہے وہ بنیادیں پاکستان کی سالمیت` خوشحالی` ترقی اور اتحاد کیلئے نشتر اور زہر ہلاہل کا حکم رکھتی ہیں۔ اور ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور ملت کیلئے انتہائی تباہ کن ہے۔ ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان اور قادیانیت کو پاکستانیت کا تضاد ٹھہرانا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی باشعور پاکستانی اتفاق نہیں کرسکتا۔ ایسے حالات میں جب ہمیں اپنا قومی وجود قائم رکھنے کیلئے زندگی کے ہر شعبہ میں ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مذہبی بنیادوں پر اس قسم کے ہنگامے برپا کرنا اور سیاسیات کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنا کہاں کی دانشمندی ہے بلکہ مضحکہ خیز ہے۔
ہم ملک کے دانشمند اور باشعور طبقہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میدان عمل میں آئیں اور اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور بلاتامل و توقف حکومت کے اس >مجہول پالیسی< اختیار کرنے پر آداب سیاست کا خیال رکھتے ہوئے احتجاج کریں<۔۲۱
۹۔ سہ روز >رہبر< )۳۰ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
بہاولپور
>مجلس احرار جب سے قائم ہوئی ہے تب ہی سے بزرگان احرار نے مسلمانوں کے سودا اعظم` مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مخالفت کرنا اپنا شیوہ ملی قرار دے رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد خیال تھا کہ یہ بزرگ اپنے رویہ میں خوشگوار تبدیلی کر کے ملت کا ساتھ دیں گے لیکن ملت کی بدنصیبی ہے کہ ایسے لوگوں سے کوئی بھلائی کی توقع کیونکر ہوسکتی ہے جنہوں نے جنم ہی ہندو کانگرس کی گود اور سیٹھ ڈالیا کی دولت کی تجوریوں میں لیا ہو اور جنہوں نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہو کہ انہوں نے ہمیشہ لت کے خلاف ہی محاذ قائم کر کے ملت کی صفوں مین انتشار پیدا کرنا ہی اپنا فریصہ ملی تصور کر رکھا ہو۔ کہیں قادیانیوں کی مخالفت کے بہانے سے تبلیغی کانفرنس اور کہیں ختم نبوت کانفرنسوں کے نام پر بڑے بڑے اجتماع کر کے مسلمانوں میں وزیر خارجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی جاتی ہے اور کئی حیلے بہانے تلاش کر کے پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بزرگان احرار اگر تبلیغ اور تحفظ نبوت تک ہی اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں اور قادیانیوں کی مذہبی نقطہ نگاہ سے ہی مخالفت کریں تو ہم جیسے ہنفی العقیدہ لوگ بھی ان کا ضرور ساتھ دیں۔ لیکن قوم و ملک کی بدنصیبی ہے کہ اس احرار ٹولے کے یہ ڈرامہ صرف اپنے ان احراری زعماء کے ایماء پر )جو پاکستان کے قیام کے بعد بھارت میں اپنے ہندو آقائوں کو خوش کرنے کیلئے چلے گئے تھے اور بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کو ختم کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں( پاکستان کے مسلمانوں کو حکومت پاکستان کے خلاف اکھانے کیلئے کھیلنا شروع کررکھا ہے۔
حال ہی میں معاصر عزیز >نوائے وقت< لاہور کی ایک خبر کے مطابق احراری امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ بخاری نے یہ اعلان پشاور کے ایک عام اجتماع میں کیا ہے کہ >میں ہوں قائداعظم اور میرے مرکزی دفتر کے چپڑاسی کا نام بھی قائداعظم ہے< اور ساتھ ہی حکومت پاکستان کو چیلنج بھی دیا ہے کہ >اگر حکومت میں طاقت ہے تو توہین قائداعظم کے سلسلے میں میرے خلاف مقدمہ چلائے< قائداعظم مرحوم کی زندگی میں بھی یہ احراری بزرگ مرحوم کو >کافر اعظم< کے نام سے خطاب کرتے رہے لیکن پاکستان کے بانی کی وفات کے بعد ان لوگوں کو اتنی ہمت اور جرات ہوگئی ہے کہ وہ برسرعام مسلمانوں کے اجتماع میں پشاور جیسے غیور شہر میں قائداعظم مرحوم کی توہین کرنے کے بعد حکومت پاکستان کو چیلنج دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان میں واقعی کوئی غیرت اور طاقت ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے رہنما کی توہین کو خاموشی اور بے غیرتی سے برداشت کر لیتی ہے یا اس گستاخی کے خلاف کوئی عملی اقدام کرتی ہے تاکہ آئندہ کسی دوسرے شخص کو ایسی گستاخی اور ذلالت کی جرات ہی نہ ہو ورنہ یہ چنگاری جس کی داغ بیل احراری بزرگوں نے آج پشاور جیسے شہر میں رکھی کہیں پاکستان کے سارے خرمن امن کو جلا کر خاکستر نہ کردے۔ کیونکہ بھارتی حکومت صرف اسی وقت کے انتظار میں ہے کہ بانی پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف پاکستانیوں کے جذبات کو ابھار ر پاکستان میں اختلاف پیدا کر کے حکومت پاکستان کے خلاف عوام میں جذبات نفرت پیدا کر کے پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کو خدانخواستہ ختم کردیا جائے ن کی ابتداء ہندوئوں کے دیرینہ زر خرید غلاموں اور ایجنٹوں نے پشاور سے کردی ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان کو سختی سے اس فتنہ کو جلد سے جلد دبا دینا چاہئے ورنہ بعد میں پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا۔ وما علینا الا البلاغ۔<۲۲
کوئٹہ
۱۰۔ کراچی کے فساد پر کوئٹہ کے پارسی اخبار >کوئٹہ ٹائمس< مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۵۲ء کا تبصرہ:۔
>ہنگامہ کراچی کے وہ مکروہ واقعات جو حال ہی میں رونما ہوئے ایک مہذب ملک کیلئے شرم کا باعث ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کی تہ میں مذہبی تعصب اور عدم رواداری کا جذبہ کار فرما ہے۔ یہ جہالت اور تعصب کی بدولت ہے کہ مذہب کے نام پر عدم رواداری کا بندبہ پروان چڑھتا ہے۔ تاریخ عالم پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے آپ کو باسانی معلوم ہوجائے گا جب کبھی کسی ملک میں مذہب کی آڑ میں ظلم اور ایذارسانی کا دور دورہ ہو تو ترقی کی راہیں اس ملک پر مسدود ہوگئیں۔
مذہب کے نام پر ظلم روا رکھنے سے انسانی فطرت مسخ ہوجاتی ہے اور جس ملک میں بھی یہ دور دورہ ہو وہ دنیا میں ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ تنگ نظری نے جہاں راہ پائی وہیں آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی۔ ایک مہذب اور روشن خیال قوم مذہبکے نام پر کبھی ظلم روا نہیں رکھتی۔ علم انسان کے نقطہ نظر میں وسعت پیدا کردیتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ ایک مقدس ماحول میں زندگی بسر کررہا ہے۔ پس ایک ایسی قوم ہی جو جہالت کی تاریکیوں میں رینگ رہی ہو مذہبی غلامی کو برداشت کرسکتی ہے۔ تاریخ ایسی واضح مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نیک دل بادشاہوں نے رواداری کی بدولت بڑی مستحکم سلطنتیں قائم کیں اور بعد میں آنے والوں نے عدم رواداری کے ہاتھوں انہیں خاک میں ملا دیا۔
یہ کہتے ہوئے دشمنان اسلام کی زبان نہیں تھکتی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا اس کی تبلیغ و اشاعت میں تلوار کا بہت بڑا دخل ہے۔ جو لوگ گزشتہ ہفتہ کے ہولناک واقعات کے ذمہ دار ہیں افسوس کہ انہوں نے اپنی حماقت سے ایسے دشمنان اسلام کی خود ہی تائید کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کئے۔ رسول پاک~صل۱~ نے اپنے ماننے ولاوں کو بار بار تاکید کی ہے کہ وہ رواداری کے اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کریں۔ لیکن کیا کیا جائے تعصب اور غیظ و غضب کی گرمی نے ان لوگوں کو اندھا کر رکھا ہے بانی اسلام~صل۱~ کی روشن دماغی کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ نے ہمیشہ اشاعت دین کی راہ میں طاقت استعمال نہ کرنے کی تعلیم دی۔
یہ جھگڑا مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں کے درمیان نہیں ہے یہ جھگڑا ہے جہالت اور علم کے درمیان` نام نہاد مولویوں کے اندھے مقلدوں اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اسلام کی صحیح روح اپنے اندر جذب کی ہوئی ہے۔
جہاں تک مذہب اور مملکت کا تعلق ہے حکومت پر بعض فرائض عائد ہوتی ہیں۔ ایسے تعصب کے قلعے سر کرنے میں ہر ممکن امداد کرنی چاہئے۔ اگر کٹر اور متعصب لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا گیا تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ حکومت بھی ان عناصر کی گردنیں اور اکڑ جائیں گے اور پھر آگے چل کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا آسان نہ رہے گا۔ امن برباد کرنے والون کے لئے ایک ہی قانون ہے قانون شکنی کرنے والوں میں سے کسی کو بھی اس کے نتائج بھگتنے سے مستثنیٰ قرار نہ دینا چاہئے۔<
۱۱۔ اخبار >تنظیم< پشاور )۲۰ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
پشاور
>حضرت قائداعظم اور مسلمانان پاکستان و ہند کے محبوب مطالبہ پاکستان کے وقت سے لے کر قیام پاکستان کے کافی عرصہ تک ہندوئوں کے اشارہ پر پاکستان` قائداعظم اور پاکستان کے حامی مسلمانوں کو جو بے نقطہ اور ان گنت گالیاں ۲۳]txet [tag جماعت احرار نے سنائی ہیں اعید ہے مسلمانان پاکستان ابھی تک انہیں نہ بھولے ہون گے۔ غرضیکہ پاکستان کے قیام کی مخالفت میں احرار بزرگوں کی ترکش کا زہر میں بجھا ہوا کوئی ایسا تیر باقی نہ رہا تھا جو انہوں نے استعمال نہ کیا ہو۔ پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ پاکستان قائم ہو اور اب انشاء اللہ ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ نامعلوم اب اللہ تعالیٰ پاکستان کے مسلمانوں سے ناراض ہوگئے ہیں کہ انہوں نے اب پاکستان کی تخریب کیلئے شاید ایک دوسرے >قائداعظم< پیدا کردیئے ہیں جن کا کام پہلے سرے سے پاکستان کے قیام کی مخالفت تھا اور اب ان کا کام پاکستان میں رہنے والوں کو آپس میں لڑا کر تخریب پاکستان ہے۔ پیر عطاء اللہ صاحب پاکستان کے ہر حصہ میں ختم نبوت کانفرنسیں منعقد کر کے اپنے آپ کو قائداعظم ظاہر کررہے ہیں حالانکہ ختم نبوت کے مسئلہ سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے کہ حضور رسول~صل۱~ خاتم النبین ہیں۔ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو وہ >غلط کار اور جھوٹا< ہے اور مسلمانوں سے نہیں۔ اگر >مرزائی کافر< ہندو کافروں سے کٹ کر پاکستان کے >مومن مسلمانوں< کے سایہ میں آگئے ہیں تو کیا ہمارا اسلام اور آئین ہمیں یہی اجازت دیتا ہے کہ اختلاف عقائد کی بنا پر ہم ایک فرقہ کی زندگی دوبھر کردیں۔
سادہ لوح جوشیلے مذہب اور اسلام کے نام پر کٹ مرنے اور مارنے والے مسلمانوں کو یہ جوش اور اشتعال دلاتے پھریں کہ مرزائیوں کو قتل کرنا عین ثواب اور اسلام دوستی ہے۔
مرزائیوں سے حضرت شاہ صاحب کو درحقیقت اتنی نفرت ہے یا نہیں البتہ پاکستان سے آپ کی دشمنی مسلمہ ۲۴ ہے۔ آپ لوگ پاکستان کو باہر کی مسلمان دنیا اور جمہوری ممالک میں بدنام ` تنگ نظر اور غیر اسلامی حکومت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو خود بخود قائداعظم بن کر تخریب پاکستان کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مرزائی کافر سہی لیکن پاکستان کے باشندے اور اپنے آپ کو وفادار شہری ظاہر کر رہے ہیں۔ اور حضرت قائداعظم نے احمدیوں کے وجود کو پاکستان کیلئے مفید پا کر اکثر موقعہ پر ان سے پاکستان کیلئے امداد دیں بھی حاصل کیں ہیں اور پاکستان سے اپنا تعلق و انس ثابت کرنے کیلئے اپنے مرکز کو چھوڑنے اور کروڑوں روپیہ کی جائیدادیں چھوڑ کر مرزائی کافروں نے اپنی جانیں پاکستان کی خدمت کیلئے پیش کی ہیں۔ حضرت قائداعظم نے سر ظفر اللہ کو ایک قابل وفادار پاکستانی سمجھتے ہوئے وزارت خارجہ کا ایک نہایت اہم اور ذمہ دار عہدہ پیش کیا تھا۔ چنانچہ اپنی بے نطیر دماغی صلاحیتوں اور قانونی قابلیتوں کے باعث نہ صرف خود ظفر اللہ اقوام عالم میں ہمہ گیر ہر دلعزیزی حاصل کرچکے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کے وقار اور عزت کو بھی چار چاند لگادیئے ہیں۔ البتہ اگر حکومت کو اب ان کی خدمات کی ضرورت نہ ہو تو ان سے استعفے مانگا جاسکتا ہے اور مرزائیوں کو ایک علیحدہ اور اقلیتی فرقہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے مرزائیوں کو ان کے عقائد` جان و مال کے تحفظ اور دوسرے شہری و ملکی حقوق کی مراعات دینی ہوں گی۔ نامعلوم حکومت کن سیاسی مصلحتوں کی بناء پر خاموش نئے قائداعظم کے تخریبی پروگرام کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس موقعہ پر حکومت ناقابل تلافی سیاسی غلطیوں سے کام لے رہی ہے۔ یہی نیا قائداعظم کل کہے گا` جو اسلامی آئین ہم چاہتے ہیں پاکستان کے موجودہ حکمران صحیح اسلامی آئین نہیں بنا سکے۔ لٰہذا جس حکومت کا آئین اسلامی نہ ہو وہ مسلمان نہیں کہلا سکتی۔ >میں قائداعظم ہوں< کا خطاب حاصل کرنے کے باعث احرار مذہبی جھگڑوں کے ذریعہ تخریب پاکستان کے مواقع پیدا کررہی ہے اور وہ ایک مذہبی وہیں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خیالات و عقائد کا جو احرار اس وقت ان میں پیدا کررہے ہیں مقابلہ نہ کرسکے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت اور مسلمانوں کو اسلامی اور اخلاقی شعور پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور چور دروازوں سے داخل ہونے کی بجائے احرار کیلئے بھی سیاسی اقتدار کی کوئی راہ نکالے تاکہ پاکستان تخریبی سرگرمیوں کا اڈہ بننے سے بچ سکے۔<
لاہور
۱۲۔ اخبار >امروز< )۲۲مئی ۱۹۵۲ء( نے >کراچی کا ہنگامہ< کے زیر عنوان حسب ذیل شذرہ سپرد قلم کیا:۔
>جہانگیر پارک کراچی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ عام میں جو ہنگامہ ہوا وہ ہر اعتبار سے افسوسناک ہے اور ایک آزاد و مہذب قوم کے شایان شان نہیں۔ ذمہ دار قوموں کے افراد انتہائی اشتعال کے عالم میں بھی اپنے فرائض کا خیال رکھتے ہیں اور تہذیب و دمن کی حدود سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ جبر و تشدد کے ذریعہ نہ تو کوئی مسئلہ حل ہوسکت اہے اور نہ عقائد ہی میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے تاہم یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ اس فوری اشتعال کے اسباب و علل کیا ہیں کیونکہ جب تک ہم کو ملت نمائی کا علم نہ ہو ہم اس حادثے کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔
ہجوم کے طرز عمل سے یہ حقیقت بالکل آشکار ہوجاتی ہے کہ وہ انتہائی مشتعل تھا اور اس قدر بے قابو تھا کہ پولیس کے لاٹھی چارج کے باوجود اس نے جلسہ کو درہم بدرہم کرنے کی پیہم کوششیں کی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا خشت باری ہوئی۔ لوگوں کے چوٹیں آئیں۔ شامیانے پھٹے۔ کاروں لائوڈ سپیکروں اور روشنیوں کو نقصان پہنچا۔ گرفتاریاں ہوئیں منتظمین کا باہر نکلنا مشکل تھا۔ غرض یہ کہ سوا گیارہ بجے رات تک میدان کا رازر کا نقشہ جما رہا۔
قطع نظر اس سے کہ اس اشتعال کے اسباب کیا تھے ؟ کسی شہری کو اس کا حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے اس لئے اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ اگر ہر شخص اسی طرح عمل کرتا رہے تو نظم و نسق تباہ ہوجائے گا اور لاقانونیت اور نراج کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ رہا یہ سوال کہ یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا تو اس کی ظاہری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے جیسا کہ کراچی کے اخبارات میں مذکور ہے کہ جلسہ کی اجازت اس بناء پر دی گئی تھی کہ اس میں اختلافی امور پر کچھ نہ کہا جائے گا لیکن اس کے باوجود مقررین نے اختلافی مسائل پر تقریریں کیں۔ مجمع نے احتجاج کیا مگر انہوں نے اس کے جذبات و احساسات کا احترام نہیں کیا۔
اگر یہ واقعات صحیح ہیں تو ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ منتظمین اور مقررین جلسہ نے انتہائی غیر ذمہ داری اور فرض ناشناسی کا ثبوت دیا۔ اگر وہ حدود سے تجاوز نہ کرتے تو غالباً یہ افسوسناک واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا جس طرح مشتعمل ہجوم کو قانون شکنی کا حق نہیں تھا اسی طرح منتظمین و مقررین بھی اس کے مجاز نہیں تھے کہ وہ ان شرائط سے روگردانی کریں جو اس جلسے کے انعقاد کیلئے لازمی قرار دی جاچکی تھیں۔ لیکن اس سلسلے میں ہر شخص یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر منتظمین اور مقررین کی طرف سے عہد شکنی کا مظاہرہ ہوا تھا۔ حاضرین نے اعتراض کیا تھا اور مقررین نے اس کی پروا نہیں کی تھی تو نظم و نسق کے ذمہ دار خاموش کیوں رہے۔
اس واقعہ کا ایک پہلو جو ان سب سے زیادہ اہم اور نتیہ خیز ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کی آویزشات کی حوصلہ افزائی ہوئی تو اس سے قوم کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی جس سے ملک دشمن عناصر خوب فائدہ اٹھائیں گے اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔
پاکستان میں مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف عقائد رکھنے والے لوگ بستے ہیں انہیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدے پر چلیں۔ لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے فرقے کی دل آزاری کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدے پر چلیں لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے فرقے کی دل آزاری پر اتر آئے اور دوسرے فرقہ کے جذبات و احساسات کا خیال نہ رکھے کیونکہ اگر اس کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو پھر ملک میں ہنگاموں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور جدال وقتال کا بازار ہمیشہ گرم رہے گا جو ملک کے مستقبل کیلئے کسی طرح بھی مفید نہیں۔ اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ملک کے تمام ذمہ دار سنجیدہ اور وطن دوست حضرات اس واقعہ کی مذمت کریں گے۔ ساتھ ہی ہم کراچی کے حکام کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ اس ہنگامہ کی نہایت احتیاط سے تحقیقات کریں اور طرفین کے رویہ کا جائزہ لیں۔<۲۵
۱۳۔ روزنامہ >آفاق< )یکم جون ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>احمدیوں کے خلاف عام مسلمانوں کو جو شکایات ہیں ان میں سب سے بڑی شکایت تو یہی ہے کہ وہ حضرت سرور کائنات کے بعد اجرائے نبوت کے قائل ہیں حالانکہ خاتم النبین کا مطلب ۱۴۴۰ سال سے یہی سمجھا جارہا ہے کہ حضورﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس کے علاوہ احمدیوں کا یہ شیوہ بھی مسلمانوں کو بہت ناگوار ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے سوا کسی دوسرے مسلمان کیلئے دعائے مغفرت نہیں کرتے نہ کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر جذبات کی ہنگامہ آرائی سے الگ ہو کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو دوسرے مسلمان فرقوں کے اختلافات لبھی کچھ کم تکلیف نہیں ہیں۔ شیعہ حضرات صدیقؓ اکبر` فاروق اعظم` عثمان غنیؓ کو غاصب و ظالم کہہ کر ناگفتہ بہ کلمات سے یاد کرتے ہیں۔ سنیوں کے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی۔ گو وہ کسی وقت منافقت سے شامل صلٰوۃ ہو بھی جاویں یا کسی سنی کی نماز جنازہ بھی پڑھ لیں لیکن ان کے عقائد کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ بریلوی عقیدے کے لوگ اہل حدیث کے نزدیک پرلے درجے کے مشرک ہیں جو انسانوں کی روحوں اور مردوں کی قبروں کو قبلہ ` مراد مانتے ہیں اور ایسے شمار ایسی رسوم کے پابند ہیں جن کی اصل دین میں موجود نہیں ہے۔ دنیائے اسلام میں بعض ایسے فرقے بھی مسلم معاشرے کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں جن کے عقائد سواد اعظم کے سخت خلاف ہیں۔ مثلاً آغا خانی` بہائی اور دروزی۔ لیکن ہندوستان` ایران` پاکستان ` شام وغیرہ میں وہ ملت اسلامی ہی سمجھے جاتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ احمدیوں کے بارے میں مسلمان صبر اور رواداری سے کامنہ لیں اور لکم دینکم ولی دین کہہ کر ان سے تعرض نہ کریں۔ اگر مذہبی فرقوں کے درمیان جنگ و شقاق کا ہنگامہ جاری رہا تو ظاہر ہے کہ اس سے کلمہ گویوں کے اتحاد کی بنیاد کمزور ہوجائے گی۔ میں ان جوشیلے حضرات سے متفق نہیں ہوں جو یہ کہنے کے عادی ہیں کہ احمدی ہندوئوں ` سکھوں` عیسائیوں` یہودیوں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو شخص توحید الٰہی` نبوت محمدی` حشر نشر` سزا` جزا` قرآن اور کعبہ کا` قائل ہے۔ اور نماز روزہ` زکٰوۃ حج اور تمام احکام فقہی میں سواد اعظم سے متشابہ ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ کفار سے زیادہ کیون کر برا ہوسکتا ہے اور ملت سے خارج کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان آئمہ اسلام نے تو نہایت شدید اختلافات کی حالت میں بھی دوسروں سے انتہائی رواداری کا ثبوت دیاہے۔ اور خود امام ابوحنیفہ کا یہ ارشاد مشہور ہے کہ جس شخص میں ننانوے وجوہ کفر کی اور ایک وجہ اسلام کی بھی موجود ہو اس کو کافر کہنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ خیر مجھے مذہبی مسائل کی پیچیدگیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ آج کل ان بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو کھو دینے کا زمانہ ہے میں تو یہ کہتا ہون کہ پاکستان میں ملت اسلامیہ کے اندر فرقہ پرستی کی آگ کو ہو دینا ملت اور بہبود وطنکے خلاف ہوگا۔ جب پاکستان کے ہندوئوں` اچھوتوں` عیسائیوں پارسیوں کے شہری حقوق مسلمانوں کے برابر ہیں اور ان کے جان و مال و آبرو کی حفاظت اور تحریر و تقریر اجتماع کی آزادی کی ضامن و کفیل خود حکومت پاکستان ہے )بشرطیکہ وہ قانون ملکی کی خلاف ورزی نہ کریں( تو پھر اللہ اور رسول~صل۱~ کا کلمہ پڑھنے والی جماعتوں کو وہتمام حقوق اور آزادیاں کیون حاصل نہیں۔ عیسائیوں کو تو تبلیغی جماعتیں مثلاً مثن اسکول۔ وائی۔ ایم۔ سی۔ اے سالولیشن آرمی و مکتی فوج تک پاکستان میں اپنا کام آزادانہ طور پر کررہی ہیں اوف ان سے کوئی معترض نہیں ہوتا پھر مرزائیوں سے معترض کے کیا معنی ؟
بعض متعصب مولوی اور ان کے جوشیلے پیرو یہ کہنے کی تو جرات نہیں کرسکتے کہ فلاں فرقے کے تمام مردوں` عورتوں اور بچوں کو پاکستان بدر کردیا جائے اور اگر وہ ایسا مطالبہ بھی کریں تو اہل عقل میں سے کون ہے جو ان کا ہم زبان ہوسکے۔ پھر جب تمام حنفیوں` وہابیوں` بریلویوں` شیعوں` مرزائیوں` ہندوئوں ` عیسائیوں اور اچھوتوں کو اسی ملک میں رہنا اور یہیں مرنا گرنا ہے اور پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان سب کے حقوق مساوی ہیں تو سمجھ مں نہیں آتا کہ ان قوموں اور فرقوں کی آپس میں ہنگامہ آرائی کرنا کس اعتبار سے پاکستان کیلئے مفید ہے۔
ہمارے بعض علماء کو اس امر کا اندازہ نہیں کہ کراچی میں مرزائیوں کے جلسے پر ہزاروں مسلمانوں کی یورش سے ہم دنیا بھر کے ممالک میں حد درجہ بدنام ہوئے ہیں اور حریت رائے اور جمہوریت کے بلند بانگ دعوئوں کی کس طرح قلعی کھلی ہے۔ خدا کیلئے اپنے وطن کو اقوام عالم میں بدنام و رسوا نہ کرو تم اپنے عقائد پر قائم رہو اور دوسروں کو اپنے عقائد پر قائم رہنے کا حق دو عیسیٰ بدین خود موسیٰ بدین خود۔ بعض علماء کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ >ہجوم نے جو کچھ کیا برا کیا ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔< علماء اسلامی شائستگی اور اخلاق کے امین ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اختلاف عقائد کو الگ رکھ کر عامتہ المسلمین کو اس طرح احتجاجی کی بنا پر سختی سے ڈانتیں اور ملک بھر کی مسجدوں سے یہ آواز بلند کریں کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ احکام اسلام ` وقار اسلام اور اخلاق اسلام کے منافی ہے اور اس سے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مولوی کبھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ یہ فتنہ فساد کا ہنگامہ اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہ خلوت میں اسی پر بغلیں بجا رہا ہے۔
قانون امن کی طاقتوں کو بلا خوف لومتہ لائمہ قانون و انتظام کو تباہ کرنے والوں کے خلاف شدید کارروائی کرنی چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ ہر صحیح ہر صحیح الدماغ اور ذمہ دار پاکستانی اس اقدام میں ان کا حامی ہوگا۔
حکومت کے صیغہ داخلہ کو مذہبی فرقہ آرائی کے ذمہ داروں اور اشتعال انگیز و اعظموں اور مقرروں پر نہایت کڑی نظر رکھنی چاہئے خواہ وہ کسی فرقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔ احراری ہوں یا مرزائی جو بھی فتنہ انگیزی کے درپے ہو اس کے ساتھ قانونی سلوک ہونا چاہئے۔<
سرگودھا
>قارئین کو ریڈیو پاکستان اور روزانہ اخبارات کے ذریعہ سے معلوم ہوچکا ہوگا کہ ۱۷۔۱۸ مئی ۱۹۵۲ء کو کراچی کے جہانگیر پارک کے اندر >اسلام ایک زندہ مذہب< کہنے والے کے خلاف مردہ بار کے نعرے لگائے گئے جلسہ میں پتھرائو کیا گیا جس سے حالات کافی مخدوش ہوگئے۔
ہمارے ایک احراری بزرگ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہمارا لب و لہجہ احرار کے بارے میں نہایت تند و تلخ ہوتا ہے اس لئے ہم ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے نہایت نرم الفاظ میں کچھ گذارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
>مجلس احرار< یہ گرگٹ جماعت جو مرغ بادنما کی طرح اپنا رخ بدلتی رہتی ہے جسے کل اپنا آج کا مسلک غلط نظر آتا ہے اور پرسوں آج کا مسلک راست معلوم ہوتا ہے جسے خود یہ علم نہیں کہ وہ چاہتی کیا تھی اور چاہتی کیا ہے جس کے مقدس >لیڈر ان کرام< ۱۵ اگست تک سیاست کا رخ معلوم نہ کرسکے اور ان سے کس سمجھ بوجھ کی توقع رکھی جاسکتی ہے جس کا وجود ہی محض اس لئے معرض ظہور میں لایا گیا کہ کچھ خود غرض لوگ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کیلئے اس جماعت کو بطور >حربہ< استعمال کریں جس نے ہر موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ غداری کی۔ جس نے نظریہ پاکستان کا مذاق اڑایا کبھی تو یہ جماعت سیاسی ہے کبھی مذہبی پر سیاسی ۔ پھر مذہبی۔ غرضیکہ مذہبیوں کی یہ جماعت گرگٹ کی طرح رنگ ہی بدلتی نظر آئی۔<
مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور تخریبی کارروائیاں کرنا اس جماعت کا پرانا مشغلہ ہے جس پر نہایت استقلال کے ساتھ آج تک قائم ہے۔ کراچی کے تلخ واقعات بھی اس روش کا نتیجہ ہیں۔ آج قائداعظم علیہ الرحمتہ کی روح >مسلمانوں< سے پوچھ رہی ہے کہ کیا میں نے تمہیں اتحاد اور تنظیم کا یہی سبق دیا تھا ؟ ان کے جلسہ میں پتھرائو کیوں کیا گیا ؟ اس جلسہ میں موضوع تقریر یہی تھا >اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔< کیا ان مفسیدن کو اس چیز سے اختلاف ہے ؟ آخر یہ متشددانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ مسلمانوں سے دلچسپی ہے نہ اسلام سے انہیں صرف اپنے ہی موضوع سی دلچسپی ہے۔ فساد ! ان کی گزشتہ روایات بھی یہی کہتی ہیں۔ انہوں نے ہر اس موقعہ پر فساد کیا اور کرایا جہاں مسلمان آپس میں مل بیٹھے۔ کبھی شیعہ سنی فتنہکو ہوا دی گئی کبھی مدح صحابہ کی راگنی الاپی گئی۔ کبھی رد مرزائیت کے نام پر منہ میں جھاگ لا لا کر مظاہرے کئے گئے۔
اس وقت تو یہ تخریبی کارروائیاں انگریز کراتا تھا کیونکہ اس کا مفاد ہی اسی میں تھا کہ لڑائو اور حکومت کرو۔ مگر اب ۔۔ ؟
اب یہ نتیجہ ہے ہماری حکومت کی نرم پالیسی کا۔ ان بھیڑوں کے منہ کو انسان خون لگ چکا ہے یہ اب بھی برہ معصوم کی تلاش میں ہیں۔
ہم حکومت سے امن` اتحاد` تنظیم اور انسانیت کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اس فتنہ کو فی الفور دبا دیا جائے ورنہ یہ آئے دن کے فسادات نہ صرف حکومت کیلئے درد سرکار موضوع ہیں بلکہ عامتہ الکمسلمین میں بھی بددلی ` تشکک اور عدم اعتماد کو ایک لہر پیدا کردیں گے جو قوم کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے ملی شیرازہ پارہ پارہ کرنے کا باعث ہوں گے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ پاکستانی سورما بڑے بہادر ہیں۔ کاش ! حکومت ابھی سے ان کی فہرست مرتب کرے تاکہ جب کبھی جہاد کشمیر کا وقت آئے تو انہیں محاذ پر بھیج کر ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
حکومت پاکستان کے دل ` کراچی میں حکومت پاکستان کا متدین اور متقی وزیر خارجہ ایک جلسہ کے اندر اسلام کے افضلیت پر تقریر فرما رہا ہے اور اس جلسہ گاہ کے باہر چند شوریدہ سر کرایہ پر لائے ہو مفسد گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ایک ایسے جلسہ میں جہاں اسلام کی فضیلت بیان کی جانی مقصود ہو غیر مسلم اور بیرونی ممالک کے سفر اور معززین بھی مدعو ہوں گے۔ صرف یہتصور کیجئے کہ جب ہمارا وزیر خارجہ یو۔ این او میں اور دیگر ممالک میں اپنی مدلل تقاریر سے ان لوگوں کو محو حیرت بنا کر خراج تحسین حاصل کرتا ہوگا۔ اور پھر ان ممالک کے معززین جو کراچی میں مقیم ہیں اور جلسہ کے اندر ہمارے وزیر خارجہ کی اس طرح گت بنتی دیکھتے ہوں گے تو ان کی مقبولیت کے متعلق ان کا تاثر کیا ہوگا؟
اگر ہمارے وزیر خارجہ کا وقار ان لوگوں کی نظروں کے سامنے خاک میں ملا دیا جائے تو کیا ہمارے ملک کا وقار قائم رہ سکتا ہے ؟ اگر یہ کوئی انتخابی جلسہ ہوتا یا الیکشن کے سلسلہ میں کوئی اجتماع ہوتا تو بھی مفسدین کی یہ حرکت قابل برداشت نہ ہوتی لیکن ۔۔۔ لیکن یہ ایک خالص مذہبی جلسہ تھا مفسدین کی روش یقیناً حد درجہ افسوسناک ہے۔
ہمیں اب یہ اندازہ لگانا ہوگا کہ آئندہ کیلئے حکومت اس سلسلہ میں کیا پالیسی مقرر کرتی ہے ؟ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت میں یہ معاملہ ملزمان کے سزا پانے یا بری ہوجانے پر ختم ہو جائے گا یا اس حادثہ کی روشنی میں آئندہ کیلئے اس قسم کی تخریبی سرگرمیوں کے استیصال کیلئے بھی حکومت کوئی اقدامات کرتی ہے< ؟ ۲۶
سیالکوٹ
۱۵۔ اخبار >درنجف< سیالکوٹ نے >حادثہ کراچی< کے زیر عنوان اپنی یکم جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>۱۷۔۱۸ مئی کو جہانگیر پارک کراچی میں احمدیوں کے سالانہ اجتماع کے موقعہپر اکثریتی عوام نے جو نازیبا مظاہرہ کیا ہے وہ ہر حساس پاکستان کیلئے موجب مذمت ہے۔ مملکت پاکستان نئے جذبات اور بلند ترین قدروں کی اساس پر قائم ہوئی ہے جس کی صیانت اور مزید استحکام ہر محب وطن کا اولین فریضہ ہونا چاہئے ہمیں احمدیت سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ان کا کوئی مسئلہ ہمارے مسائل سے میل کھاتا ہے بلکہ بلاخوف تردید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعی مسلمات جس شدت سے احمدیت کی نفی کرتے ہیں مسلمانوں کے کسی فرقہ کے معتقدات میں اتنی سختی نہیں کیونکہ شیعہ عصمت انبیاء اور وجود امام عصر کا راسخ عقیدہ رکھتے ہیں۔ برخلاف اس کے دوسرے فرقوں میں یہ اصول کچی ٹہنی کی طرح لچکدار ہیں۔ لٰہذا مسلمانوں کے عام مکاتب تو کسی نہ کسی گنجائش کے سبب ممکن ہے برداشت بھی کر لیں مگر تشیع تو کسی صورت بھی احمدیت وغیرہ کو کوئی جگہ نہیں دے سکتا اس کے باوجود شیعہ علماء پریس اور عوام نے کسی لمحہ مخالفت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہیںکیا جس سے شرمناک فرقہ واریت کی ہمت بڑھتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مجلس احرار )جس کا مقصد وحید احمدیت کا استیصال ہے( کا اسٹیج ایک عرصہ تک بد زبانی اور غیر مہذب طریق جدل کا اکھاڑہ بنا رہا مگر جب سے شیعہ علماء کو مدعو کیا جانے لگا اسی پلیٹ فارم پر مثالی شائستگی پیدا ہوگئی۔
شیعہ علماء وجادلھم بالتی ھی احسن کے قرآنی فلسفہ سے اچھی طرح واقف اور اس پر عامل ہین۔ اسی طرح شیعہ پریس بھی اپنی روایتی متانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ عوام خواہ کسی فرقے کے ہوں ان ہی دو ذرائع سے اثر قبول کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت کے علماء اور پریس نے اپنے عوام کو اس درجہ اشتعال دلایا ہے کہ جب کبھی بھی انہیں موقعہ ملتا ہے دوسرے فرقوں کے مقابلہ کوہ آتش فشان کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔
جہانگیر پارک کا حادثہ یقیناً تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری کس پر عائد کئے بغیر تمام پاکستانی عوام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقلیت کے مفہوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس مملکت کے ارباب بست و کشاد کا دعویٰ بھی ہے کہ سبز پرچم کا سایہ اقلیتوں
‏tav.13.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
جہانگیر پارک کا حادثہ یقیناً تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری کس پر عائد کئے بغیر تمام پاکستانی عوام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقلیت کے مفہوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس مملکت کے ارباب بست و کشاد کا دعویٰ بھی ہے کہ سبز پرچم کا سایہ اقلیتوں کی آسودگی کا ضامن ہے لٰہذا کسی خام خیالی کے باعث غلط راہیں اختیار کر کے کوئی ایسی صورت پیدا کرنے کی کوشش نہ کرنا چاہئے جس سے ملک کی نیک نامی پر آنچ آئے جمہور کو چاہئے کہ وہ مسٹر طالب نقوی چیف کمشنر کراچی کے ان الفاظ پر توجہ دیں اور ہمیشہ کیلئے انہیں مشعل راہ بنائیں:۔
>مرزائی بھی پاکستانی ہیں اور انہیں بھی اجلاس منعقد کرنے کا حق اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ وہ مروجہ قانونکی خلاف ورزی نہ کریں حکومت کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔<
ساتھی ہی علمائے کرام کی خدمت میں بھی گذارش پیش کریں گے کہ وہ >جو ازو عدم جواز< کی بحث چھیڑ کر جارحانہ ذہنیتوں کی حوصلہ افزائی نہ فرمائیں نیز پریس کو بھی اپنے واجبات اور ملک کے حالات کا احساس کرنا چاہئے۔
اس سلسلہ میں ۲۰ مئی کو کراچی میں مجلس ختم نبوت کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں طبقہ علماء نے جو بیان دیا ہے اسے ہم کم از کم پاکستان معیار کے علماء کے اذہان کا نتیجہ نہیں کر سکتے۔
اس کانفرنس میں ہمارے ذمہ دار عالم مولانا مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ بھی شریک تھے اس اعتبار سے مولانائے موصوف بھی ایک حد تک مسئول ہیں جس کا ہمیں سخت ملال ہے۔ اور بصد ادب و احترام ہم قبلہ و کعبہ کی خدمت میں بلتجی ہیں کہ وہ آئندہ ایسی کسی نشست میں شمولیت نہیں فرمائیں گے جس میں شعوری طور پر قرار داد مقاصد کا پاس اور اقلیتوں کیلئے جذبہ احترام موجود نہ ہو۔ اس وقت سواد اعظم کے علماء صرف احمدیت کے خلاف اپنی جنبہ دارانہ ذہنیت کا استعمال کررہے ہیں مگر ان کے بگڑے ہوئے تیور شیعوں کو بھی للکار سکتے ہیں اور فضا اعلان کررہی ہے >آج کل وہ ہماری ہاری ہے۔<۲۷
مشرقی پاکستان

روزنامہ >آزاد< )مشرقی پاکستان( مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء نے لکھا:۔
معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کا ایک فریق کراچی میں ایک جگہ متواتر دو دن سے اپنا )سالانہ( جلسہ کررہا ہے اور ایک اور فریق کے لوگ جلسہ گاہ پر حملہ کر کے روک ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسرے دن وزیر خارجہ پاکستان چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تقریر کررہے تھے کہ عین اس وقت دوسرے فریق نے گڑ بڑ ڈالنے کیلئے حملہ کردیا۔ اگر یہ خبر صہیح ہے تو اس سے بعض لوگوں کی بے صبری اور عدم رواداری ہی ثابت ہوتی ہے۔ کسی معاملہ میں خاص کر مذہبی معاملات میں عدم رواداری اسلامی تعلیم کی روح کے بالکل خلاف ہے۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کے کسی کونہ میں بھی ایسی ذہنیت کا وجود بڑے اچنبھے کی بات ہے۔ ان دنوں جب کہ تمام اسلامی دنیا کے اتحاد کے خواب کو امر واقع اور حقیقت مشہودہ بنانے کی کوشش ہورہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں فرقہ وارانہ مناقشات کو ہوا دینا اتحاد و یگانگت کی تمام تدبیروں کو ملیامیٹ کرنے کا موجب ہوگا۔ جب مسلمان کیلئے غیر مذاہب کی لوگوں کو محض اختلاف عقائد کی بناء پر تکلیف دینا اسلامی شریعت میں ناجائز ہے تو خود کسی مسلمان کو اختلاف عقائد کی وجہ سیکوئی دکھ یا تکلیف دینا کہاں جائز ہوسکتا ہے ؟ اختلاف خواہ کسی وجہ سے بھی ہو جنگل کا قانون یعنی یہ دستور کہ اپنی داد رسی آپ ہی کر لو اور جس سے اختلاف ہو اس کو مار کر تباہ کر دو قومی ترقی کیلئے ایک بہت بڑی سدراہ ہے۔ آج پاکستان کے ہر مرد اور ہر عورت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمان اپنے علم و عمل اور ریاضیت ہی کے ذریعہ سے دوسروں کو ختم کرسکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔< ۲۸ )ترجمہ(
بھارت کا پریس
‏0] f[rtاس حادثہ کی بازگشت بھارت میں بھی سنی گئی۔ ۱۔ چنانچہ اخبار >حقیقت< )لکھنئو( نے ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں ہنگامہ کراچی کی مذمت کرتے ہوئے لکھا:۔
>کراچی کا فرقہ وار فساد<
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے بنانے میں جن مسلم جماعتوں نے نمایاں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں مسلم لیگ کی بہت زیادہ مدد کی ان میں پیش پیش جماعت احمدیہ قادیان بھی رہی ہے۔ اس جماعت کے افراد نے آنکھیں بند کر کے اور بغیر انجام پر غور کئے پاکستان بنائے جانے کی حمایت کی۔ آج اسی پاکستان میں اس کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور اس کو ایک غیر مسلم >اقلیت< قرار دیئے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ قادیانی جماعت کے مذہبی عقائد کیا ہیں > لیکن جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکسان میں ہر فرقہ کو یکساں مذہبی آزادی حاصل ہے تو پھر قادیانیوں پر اس قدر تشدد کیوں کیا جارہا ہے ؟ خاص کراچی میں پچھلے ہفتہ جو افسوسناک واقعہ پیش آیا اور جس کے نتیجہ میں ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے اور جابہ آتشزدگی اور لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے۔ کیا یہ پاکستانیوں کے اس دعویٰ کی قطعی تردید نہیں ہے کہ وہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے ؟ دیکھنا ہے کہ قادیانیوں کے بعد اور کس فرقہ پر پاکستان کے مذہبی دیوانوں کا نزلہ گرتا ہے؟< ۲۹
اخبار >حقیقت< کے اسی پرچہ میں درج ذیل خبر بھی شائع ہوئی:۔
>کراچی میں قادیانی ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے آگ لگانے کی اکا دکا وارداتیں۔ پولیس کا وسیع انتظام<
کراچی ۲۲ مئی ۔ قادیانیوں میں ابھی تک خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ وہ ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نکلتے گھبراتے ہیں۔ ان کاروبار ابھی تک بند ہے۔ ان کی حفاظت کیلئے ان کے مکانوں پر پولیس بٹھا دی گئی ہے پھر بھی کہیں کہیں آگ لگانے کی اکا دکا واردات ہورہی ہے۔
جہانگیر پارک میں بلوہ کے سلسلہ میں جو تین سو اشخاص گرفتار کئے گئے تھے ان سے پولیس نے صرف ساٹھ اشخاص کو حراست میں رکھا ہے اور باقی کو چھوڑ دیا ہے۔ کل پولیس افسروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام صورت حالات پر غور کیا گیا۔ بندر روڈ پ احمدیہ ایسوسی ایشن کی لائبریری بالکل بند پڑی ہے اس کے باہر پولیس کا پہرہ ہے۔ کراچی کے کمشنر نے ایک بیان میں کہا کہ قادیانیوں اور غیر قادیانیوں کے درمیان سنیچر اور اتوار کو جو تصادم ہوا ہے اس کے پس پشت ایک آرگنائزیشن کام کررہی ہے۔ آپ نے کہا کہ حکومت کو اس بلوہ کا پہلے ہی علم تھا۔ حکام کو نامعلوم اشخاص کی طرف سے پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا کہ جلسوں میں جھگڑا کیا جائے۔<۳۰
۲۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنے ہفتہ وار اخبار >صدق جدید< لکھنئو )۲ جون ۱۹۵۳ء(
میں چوہدری صاحب کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ نوٹ لکھا:۔
>تبلیغ غیروں کی مجلس میں<
سر ظفر الل خاں وزیر خارجہ پاکستان کا بیان ۲ جون کی پریس کانفرنس کراچی میں >میرے اوپر بارہا یہ اعتراض ہوچکا ہے کہ میں ملکی اور بین الملکی مسائل کو دینی سند مل جائے تو بہتر ہی ہوا کرے۔ چنانچہ اس وقت بھی اس اعتراض کا مزید خطرہ لے کر میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو تعلیم اس کی ملی ہے کہ تعاونو اعلی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدون ۳۱۔ اور ہمارے پیغمبر کا قول ہے جسے میں پیرس میں جنرل اسمبلی میں پچھلے نومبر کو پیش بھی کرچکا ہوں کہ انصراخاک ظالما او مظلوما۳۲۔<
کاش یہی شیوہ عرب اور مصر اور عراق اور ایران اور شرق یردن اور شام اور افغانستان کے نمائندوں کا بھی ہوتا۔ کاش ان میں بھی جرات غیروں کے سامنے اپنے ہاں کی چیزوں کے پیش کرنے کی ہوتی ! اور ایک تو نمائندہ پاکستان اپنے منفرد ہونے کی بناء پر غیروں کی مجلس میں بے شک عجیب سا معلوم ہوتا ہوگا اور اسی لئے اس کا استحقاق اجر بھی کہیں بڑھ رہا ہوگا۔ غیروں کی مجلس مے بے باکانہ تبلیغ دین کی یہ سنت قائم کی ہوئی مولانا محمد علی کی ہے۔ اور ایک بار مرحوم وزیراعظم پاکستان نے بھی اس کا حق امریکہ میں ادا کیا تھا اور اب تو اونچے حلقوں میں یہ وزیر خارجہ پاکستان کے دم سے ہی قائم ہے۔ ۳۳
۳۔ رسالہ >مولوی< دہلی ظبابت ماہ جولائی ۱۹۵۳ء( نے اس واقعہ پر ایک درد انگیز مقابلہ سپرد اشاعت کیا جس کا متن یہ ہے:۔
>آپ اپنی تاریخ پر چاہے جتنا فخر کیجئے۔ آپ سلف صالحین کی حیات طیبہ پڑھ کر کتنا ہی رقص کیجئے مگر اس کی حیثیت پدرم سلطان بود سے ہرگز زیادہ نہ ہوگی۔ اسی اپنی گمشدہ متاع کو بروئے کار لانے اور اپنے بے چارگی کے بندھن توڑنے کیلئے تو اسے راہبران دین متین اور اے مجاہدین اسلام آپ نے تقسیم کی مانگ کی تھی اور خدا نے` اگر یہ اس کا فضل تھا تو آپ کو اس نے نواز دیا۔
آج پورے پانچ سال ہوگئے کہ آپ آزاد ہیں۔ آپ حاضر اور استقبال کے پورے مالک ہیں۔ آپ کے معاملات میں کوئی مداخلت کرنے ولا بھی نہیں ہے۔ اللہ کے واسطے بتایئے کہ آپ نے ہم پسماندہ بھارت کے مسلمانوں کی نسبت سے زیادہ کونسا قدم اسلام کی طرف اٹھایا اور وہ کونسی بات کی جس سے آپ کے دعویٰ کی ذرا سی بھی سچائی دنیا پر روشن ہوئی۔
الاہ ثم اہ: دہلی۔ یو۔پی۔سی۔ بمبئی۔مدراس کے مسلمانوں نے اپ کی ہمنوائی میں پورا پورا حصہ۔ یہ جان کر یہ بوجھ کر اس سے ہمیں مادی نفع تو درکنار ہماری غلامی کے طوق اور بوجھل ہوں گے۔ ہماری بیڑیاں اب سے ہزار درجہ گراں بار ہوں گی۔ ہماری دنیاوی عزتیں خاک میں ملیں گی۔ ہمارے اعزہ ہم سے جدا ہوں گے۔ ہماری پیٹھیں ہی تازیانوں سے زخمی نہ ہوں گی۔ ہم پر پیٹ کی ماریں بھی پڑیں گی۔ ہم رکوال اکثریت کی فیاضی سے بھی پوری طرح واقف تھے اور ان کی تنگ نظریاں بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ تھیں۔ اور وہ مصیبت جو ہم پر آئی اورہی ہے اور شاید ابھی پوری نہ ہوئی ہو وہ ہماری توقع سے چاہے شدید ہو لیکن غیر متوقع ہرگز نہ تھی۔ پھر اسے سرفروشان اسلام ! یہ بربادی ہم نے کیوں قبول کی ؟ ہم پاگل تو نہ تھے صرف ایک لگن تھی اور وہ یہ کہ اس آزادی کے بعد یہ مجاہدین اور شیدایان اسلام قرون اولیٰ کا اسلام زندہ کریں گے۔ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ ہدایت کے چشمے پھوٹ نکلیں گے۔ رشد کی چمکاہٹ غنی کی ظلمت کو نابود کردے گی۔ یہ ہمارا اسلامی وطن حرم محترم ہوگا۔ یہاں انسانی خون ہی نہیں اس کے پسینہ کا ہر قطرہ محترم ہوگا اور دنیا کو یہ بتا دینے کے پورے اسبابوسائل ہمارے ہاتھ میں ہوں گے کہ امن` ایٹم بموں۔ جراثیم بموں۔ زہر کی گیسوں سے قائم نہیں ہوسکتا کہ یہ سب شیطانی ہتھیار ہیں رحمانی ہتھیار تو ایثار ہے۔ انسانی ہمدردی ہے۔ انسانی برابری ہے۔ ادائے حقوق العباد ہے۔ اور دیکھو کہ ہم دنیا کی ہر مادی اتباع سے تہی دست ہیں لیکن پھر بھی پوری دنیا سے مالدار ہیں کہ خدا کی تائید ہے۔ اس کا فضل ہمارے ساتھ ہے۔ وکفی باللہ وکیلا
یہ تھا وہ خواب جس پر ہم نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ اے اونچے ایوانوں میں رہنے والے راہنمائو ! اے موفہ اور قالینوں کو زینت دینے والے مجاہدو ! اور اے کفن بردوش مسلمانو ! تم ہم سے کیا کہہ کر گئے تھے اور اب کیا کررہے ہو۔ ابتدائی صعوبات کے زمانہ کو چھوڑ کر جب خدا نے تم کو اپنے کرم سے بے خوف کیا۔ غنی کیا۔ تم کو حکومت دی تم نے اس کے افضال کا کونسا قرضہ چکایا؟
ہمارے دل کتنے درد مند ہیں ہم تم کو یہ نہیں بتا سکتے اور بتانا بھی نہیں چاہتے۔ ہم یہاں کتنے بے عزت ہیں اس کا استفسار بھی تم سے مقصود نہیں کہ اس بے عزتی کے ذمہ دار تم ہو اور تم سے گلہ بھی نہیں کرتے کہ تم اس کے اہل نہیں۔ تم سے کوئی مدد بھی نہیں چاہتے کہ تمہارے پاس دھرا کیا ہے ؟ تم نے متاع ایمان و اسلام کو ہی زنگ آلود بنادیا تو پھر تمہارے پاس کیا رکھا ہے جو ہماری مدد کرو گے ؟ ہم فاقوں کو برداشت کر لیتے ہیں کہ روزہ ہم کو اس پر صبر دلا دیتا ہے۔ ہم اس بے عزتی کو بھی سہار لیتے ہیں کہ بھارت کا فروتر غیر مسلم آج اس دور میں ہم سے زیادہ معزز ہے۔ آج ہمارے آگے ہاتھ پھیلانے والا ہم کو بے تکلف گالی دیتا ہے اور ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہم معمولی سی چپقلش میں اکثریت اور اس کے بعد پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں۔ پھر جیل بھی ہم ہی جاتے ہیں۔ ہماری منقولہ متاع یہاں بنے بسنے والوں نے چھین لی اور غیر منقولہ محافظین جائیداد نے اپنی حفاظت میں لے لیں۔ ہم نہایت محنت شاقہ کے بعد مٹھی بھر آن جوں توں حاصل کر لیتے ہیں اور پیٹ کی آگ بھجا لیتے ہیں۔ ہمارے خاندان متفرق ہوئے۔ مائیں اولاد سے دور ہوئیں۔ خاوند بیویوں سے جدا ہوئے۔ بہنیں بھائیوں کی صورتوں کو ترس گئیں۔ بچے باپ کے جیتے جی یتیم ہوگئے۔ اس پر طرہ یہ کہ آنے جانے کے راستے ہم پر بند ہوگئے۔ ہم نے ان طبعی تلملاہٹوں اور فطری بے چینیوں کو نیچی نظروں سے قبول کر لیا۔ تمہاری طرف تو کیا دیکھتے ہم نے تو آسمان کی طرف نظر نہیں اٹھائی اور کھل کر آہ بھی نہ کی۔ یہ سب کہانیاں نہیں۔ کسی ڈرامہ کی ٹریجڈی کے ٹکڑے نہیں۔ اے مجاہدین ! اسلام حقیقت ہے اور اس کا بھارت کے مسلمان کا ہر دل گواہ ہے۔ یہ سب ہم نے برداشت کیا۔ جو نہیں برداشت ہوسکتا وہ یہ کہ ہمارے غیر مسلم بھائی ہمارے دل و دماغ میں بھالے چبھوتے ہیں کہ یہ ہے تمہارا پاکستان۔ اسی کیلئے تم نے ہم سے لڑائی مول لی۔ تم تو کہتے تھے کہ اسلام بڑا روا دار مذہب ہے اس میں انسانی خون اور آبرو کی بڑی عزت ہے۔ کیا یہی رواداری ہے کہ غیر مسلم تو کجا تو مسلم کے بھی تھوڑے سے اختلاف کو نہیں بخش سکتے۔ تمہارے بھائیوں نے اپنے ہی قوم اور وطن کے بھائیوں کو ذرا سے بل بوتے پر کیا ناچ نچایا۔ ان کے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے جو انہوں نے تمہاری حکومت میں تمہاری اجازت لے کر کیا۔ تم نے ان کو رسوا کیا۔ ان کا جلسہ درہم برہم کیا۔ اس پر ہی بس نہیں ان کی دکانوں کو آگ لگائی۔ ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ یہ وہ مرزائی ہیں جن کا تمہارا دینی اختلاف ہے۔ جب ان کی زیست حرام کرسکتے ہو تو غیر مسلموں پر کیا آفت نہ ڈھائو گے ؟ وہ تمہارا الزام اسلام پر لگاتے ہیں اور ان کو لگانا بھی چاہئے کیونکہ نہ انہوں نے قرآن پڑھا ہے نہ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کیا۔ ہاں ان کو تمہارا وہ دعویٰ آج بھی یاد ہے کہ ہم بااختیار ہوئے تو ہماری حکومت کی تشکیل اسلامی ہوگی اور ان کا اب یہ سمجھنا کون غلط بتا سکتا ہے کہ جو کچھ تم کہتے ہو اور کرتے ہو اسلام نہیں ہے۔<۳۵۳۴
مسلم پریس کے علاوہ بھارت کے مشہور غیر مسلم صحافی سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون اخبار >ریاست دہلی )۲۶ مئی ۱۹۵۲ء( میں لکھا:۔
>چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں کے حالات اور ان کے کیریکٹر سے جو لوگ واقف ہیں وہ اقرار کریں گے کہ جہاں تک مذہبی خیالات کا سوال ہے پاکستان کی وزارت تو کیا دنیا کے تمام ممالک کی وزارتیں بھی ان کے پائوں میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنے خیالات کو چھوڑ دیں۔<
مصری لیڈر رالسید مصطفیٰ مومن کا بیان
مصر کی وفد پارٹی کے ایک راہنما اور شعوب المسلمین کے مندوب السید مصطفیٰ مومن نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری ظفر اللہ خان کی خدمات صرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی نہیں بلکہ آپ مشرق وسطی اور بالخصوص مصر اور عرب دنیا کے بھی وزیر خارجہ ہیں۔ وہ بہت بڑے مدبر ہیں انہوں نے اقوام متحدہ میں تیونس` مراکش` ایران اور مصر کی حمایت کر کے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔ چوہدری صاحب پر حملہ پوری اسلامی دنیا پر حملہ ہوگا۔ ۳۶
چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے عہدہ وزارت کی خارجہ پالیسی کی نسبت چوہدری محمد علی صاحب سابق وزیراعظم پاکستان کا بیان ہے کہ:۔
>عالم اسلام کی آزادی` استحکام` خوشحالی اور اتحاد کیلئے کوشاں رہنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل مقصد ہے۔ حکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ملکون میں ایک خیر سگالی وفد بھیجا گیا۔ پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کے حقوق کو اپنا مسئلہ سمجھا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں اس کے فصیح ترین ترجمان تھے۔ علاوہ ازیں انڈونیشیاء ملایا` سوڈان` لیبیاء تونس` مراکش` نائیجیریا اور الجزائر کی آزادی کی مکمل حمایت کی گئی۔ مغربی ایریان کے مسئلے پر پاکستان نے انڈونیشیا کا پورا ساتھ دیا۔ کئی مسلم ملکوں کے ساتھ دوستی کے معاہدے کئے گئے اور ثقافتی ارتباط کا انتظام کیا گیا ہے۔ موتمر عالم اسلامی کی تنظیم عمل میں لائی گئی۔ ۱۹۴۹ء میں کراچی میں بین الاقوامی اقتصادی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۱۸ مسلم ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے تھے۔ کانفرنس نے اتفاق رائے سے اسلامی ایوان ہائے صنعت و تجارت کا بین الاقوامی وفاق قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔< )ظہور پاکستان ۴۴۵(
اسی کتاب میں انہوں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی خدمات کشمیر کا تذکرہ بایں الفاظ کیا ہے:۔
>سلامتی کونسل نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو ہندوستان کی شکایت اور پاکستان کے جواب کی سماعت شروع کی۔ ظفر اللہ خاں نے مقدمہ کی ایسی اعلیٰ وکالت کی کہ سلامتی کونسل کو یقین آگیا کہ مسئلہ محض کشمیر سے نما نہاد حملہ آوروں کو نکال دینے کا نہیں ہے جیسا کہ ہندوستان کا نمائندہ اسے باور کرانا چاہتا تھا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے تعلقات کو منصفانہ اور پرامن اساس پر استوار کیا جائے اور تنازع کشمیر کو ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے۔<
)ظہور پاکستان از چوہدری محمد علی صاحب مترجمہ بشیر احمد صاحب ارشد۔ ناشر مکتب کارواں کچہری روڈ لاہور طبع ثانی ۱۹۷۲ء مسعود پرنٹرز لاہور صفحہ ۰۶۳(
فصل دوم
خدا زندہ تعلق کیلئے خصوصی دعائوں کی تحریک رسالہ پاکستان لاء ریویو )کراچی( میں حضرت مصلح موعودؓ کا مقالہ ایک فقہی مسئلہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی واضح راہنمائی عروج احمدیت کی پیشگوئی صبر و صلٰوۃ کی پر زور تلقین
خدا سے زندہ تعلق کیلئے دعائوں کی خاص تحریک
آسمانی جماعتوں اور سلسلوں کیلئے ابتلائوں اور مخالفتوں کا زمانہ خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا موسم ہوتا ہے۔ یہی وہ سنہری دور ہوتا ہے جس میں خدا کے سچے بندوں کا اپنے مولیٰ سے تعلق پختہ اور مستحکم ہوتا ہے اور سلسلہ احمدیہ میں یہ نظارے ابتداء سے اب تک مسلسل دکھائی دیتے ہیں۔ ~}~
عدو جب بڑھ گیا شورو فغاں میں
نہاں ہم ہوگئے یار نہاں میں
تحریک احمدیت کی اس مخصوص روایت کوی ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کے مصائب و آلام میں قائم رکھنا از بس ضروری تھا اسی حکمت کے پیش نظر حضرت مصلح موعودؓ نے اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعتہ المبارک میں خاص تحریک فرمائی کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا زندہ تعلق پیدا ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا:۔
>خدا تعالیٰ کی محبت` خدا تعالیٰ پر یقین اور وثوق پیدا کرنا اور اسے ملنے کی کوشش کرنا ایک طبعی جذبہ ہے لیکن کتنے نوجوان ہیں جو ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ فرمای تھا اس وقت ہر انسان کا ایک ہی مقصد تھا ک وہ آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کو ملے گا۔ وہ لوگ آگے بڑھتے تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ اگر کسی چیز نے حضرت مسیح موعودؑ کو دوسرے علماء پر امتیاز دیا ہے تو وہ یہی چیز ہے کہ آپ کی پیروی کرنے سے خدا ملتا ہے۔ مسائل دوسرے علماء بھی جانتے ہیں۔ اگر آپ کی وجہ سے کوئی فرق پیدا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے۔ اپ کا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ کو ملنے کا دروازہ کھلا ہے بند نہیں لیئکن اب کتنے نوجوان ہیں جو خدا تعالیٰ کو ملنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ جتنا وقت دور ہوتا جاتا ہے لوگوں سے یہ خواہش مٹتی جاتی ہے۔ حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ ہمت اور کوشش سے اس جذبہ کو ابھارا جاتا۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو حضرت مسیح موعودؑ کا آنا بھی بیکار ہے۔
پس ان دنوں میں دعائیں کرو۔ نوجوان اپنے اندر یہ روح پیدا کریں کہ خدا تعالیٰ کا زندہ تعلق حاصل ہوجائے پہلے اگر ایک شخص جاتا تھا جسے خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا تھا تو اس کی جگہ کئی اور پیدا ہوجاتے تھے۔ بجائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ اب ایسا کوئی شخص نہیں جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو یا جسے الہام ہوتا ہو۔ تم خود کوشش کرو کہ اگر ایک ایسا شخص مر جائے تو بیس اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ اور اگر ۲۰ آدمی مرجائیں تو ۲۰۰ اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ اگر ۲۰۰ مر جائیں تو ۲۰ ہزار اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ یہ چیز ہے جو تمہارے حوصلوں کو بڑھائے گی اور دنیا کو مایوس کردینے والی ہوگی۔ دنیا مادی ہتھیاروں کی طرف دیکھتی ہے۔ اگر ¶ہزاروں لوگ ایسے پیدا ہوجائیں جو خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھنے والے ہوں پر یقین رکھنے والے ہوں اور اس کا ظہور اپنی ذات میں محسوس کرنے والے ہوں تو دوسرے لوگ خود۔ بخود مایوس ہوجائیں گے۔ کیونکہ دوسرے لوگ قصے سناتے ہیں اور یہ لوگ آپ بیتی سنائیں گے اور جگ بیتی آپ بیتی جیسی نہیں ہوتی۔ جب ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوگا تو جگ بیتی بھاگ جائے گی اور آپ بیتی غالب آجائے گی کیونکہ سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات پر غالب نہیں آسکتی۔<۳۷
پاکستان میں قانون کا مستقبل
سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ پاکستان لاء ریویو کے نام سے کراچی سے جاری کیا جس کے اگست ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا رقم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپرد اشاعت ہوا:۔
>مجھے یہ معلوم کر کے ازحد مسرت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالج عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ اس مقصد کیلئے جاری کررہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوصاً رہنمائی کرسکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علم قانون کے نظریات اور خیالات میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تاکہ ماہرین علم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عہدہ برآ ہوسکیں۔
اس میں شک نہیں کہ علم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کرسکے۔ لیکن بدقسمتی سے ایشیاء کے باشندے کئی صدیون سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہوچکے ہیں۔ اب جب کہ کم از کم ایشیاء پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے یہ امر اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علم قانون کے مطالعہ کیلئے زیادہ توجہ اور زیادہ وقت صرف کریں۔ دنیا کی آزاد اقوام نے علم قانون کیلئے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کیلئے ایک مخصوص راستہ اور پس منظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہرا علم رکھنے والے ماہرین قانون موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے پرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایشیائی لوگوںکیلئے بہرحال یہ مشکل ہے کہ ان میں جو لوگ قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں قوانین بنانے میں مدد مل سکے۔ پس ان کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قانو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش ائے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یا ملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرض وجود میں آئی ہے اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو باوجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گا اور نہ اس کو اس بات کا بجا طور پر ملزم گردانا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا۔ جوش اور ولولہ اگرچہ ایک قابل تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ جانا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے۔ ترکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا دراصل اسی قسم کے غلط مذہبی جوش کا رد عمل تھا۔ اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں۔ لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دور لے جانے کا باعث بن جائیں گے۔
ہمارے رسول پاک~صل۱~ نے بھی مکہ والون کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں بھی صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کر لے تو اسے مکہ جانے کا پورا اختیار ہوگا لیکن اس کے برعکس اگر کوئی کافر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کیلئے بظاہر نقصان دہ اور ذلیل کن معلوم ہوتی تھی اور انہوں نے اس ہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت کیلئے تذبذب میں پڑ گئے۔ ابھی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابوجندل تھا بیڑیوں میں جکڑا ہوا بمشکل تمام اس مجلس میں آ پہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابوجندل کو مکہ واپس کیا جائے۔ مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور ذلیل کن خیال کیا اور ابوجندل کی حفاظت میں فوراً کھینچ لیں لیکن رسول پاک~صل۱~ نے انہیں سمجھایا اور فرمایا:۔
>خدا کے رسول اپنا عہد کبھی توڑا نہیں کرتے< ۳۸
اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابوجندل کو اس کے باپ کے حوالہ کردیا۔ اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اسلام کی محبت اور خیر خواہی میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی~صل۱~ تھے اور رسول پاک~صل۱~ اس معاملہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے ایفاء سے ذرا بھی پہلو تہی کرتا ہے تو وہ درحقیقت اسلام سے دور جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہوگا کہ:۔
الف۔ تعلیم اسلام کی روح ہمیشہ ہمارے مدنظر رہے
ب ۔ ہمارے قوانین فطرت انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں۔
ج۔ ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں۔
آنحضرت~صل۱~ کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ )بخاری کتاب القدر(
اب اگر حضور کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضو~صل۱~ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہوسکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہوسکتی ہے۔ پس ہمارا یہ ایک مقدس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اگر اسلام کی تعلیم کا وہ حصہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں واقعیانسانی فطرت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس حصہ تعلیم کی روح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر سمجھا ہے تو فطرت انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہوسکتی اور یقیناً کہیں پر ہماری ہی غلطی ہوگی۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کریں۔ اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم یقیناً بہت جلد صداقت کو پالیں گے اور اپنے ملک کے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں` مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں` غریبوں اور امیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کرسکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقیناً انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے میں دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اوران پر عمل کرانے والوں کو۔ ان کے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارحین کو اللہ تعالیٰ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفید رسالہ جو کہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کیلئے ایک مفید آلہ ثابت ہو۔< ز۳۹
احترام مساجد سے متعلق ایک فقہی مسئلہ اور حضرت مصلح موعودؓ کا موقف
پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فرقہ وارانہ تقاریر سے صوبہ بھر کا امن و امان درہم برہم ہونے لگا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز
محمد خان دولتانہ نے ۱۱ جون ۱۹۵۲ء کو فرقہ وارانہ نوعیت کے تمام جلسوں پر پابندی لگادی اور تمام ڈسٹرکٹ میجسٹریٹوں کو ہدایت دی کہ جمعہ کے ایسے اجتماعات پر بھی نگاہ رکھیں جن کو خطیب فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کریں۔۴۰
حکومت پنجاب نے اس پابندی کی وضاحت میں حسب ذیل پریس نوٹ جاری کیا:۔
>حکومت پنجاب عوام کی اطلاع کیلئے ان واقعات کا پس منظر بنتانا چاہتی ہے جس کے پیش نظر صوبہ کے مختلف اضلاع میں ایک خاص نوعیت کے پبلک جلسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کرنا پڑی۔
کچھ عرصہ سے صوبہ میں مجلس اخرار اور احمدیوں کے درمیان مناقشت نے پبلک جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر کی ناگوار صورت اختیار کر لی ہے۔ ان تقریروں میں اکثر مذہبی بحث و مناظرہ کی تمام جائز حدود کو نظر انداز کردیا گیا اور ان تقریروں سے زیادہ تر پاکستانی شہریوں کے دو طبقات کے درمیان نفرت اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اس طرح ماحول میں جو کشیدگی پیدا ہوئی اس کے باعث چند مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش ائے جن سے جانی نقصان اور دوسرے نہایت افسوسناک نتائج برآمد ہوئے امن عامہ برقرار رکھنے کے اولین فریضہ کا خیال کرتے ہوئے حکومت اس صورت حال کے جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی خصوصاً اس خطرہ کے پیش نظر کہ اگر تشدد کیلئے بالواسطہ اور بلاواسطہ اشتعال انگیزیوں کا موثر سدباب نہ کیا گیا تو حالات اور بھی ابتر ہوجائیں گے اور آبادی کے دو حصوں میں کھلم کھلا زبردست تصادم شروع ہوجائیں گے۔
نصرت انگیزی کے اس ماحول میں بعض لوگوں کے ذہنون کی افتاد کیا ہوگئی ؟ اس کی مثال ایک پوسٹر سے ملتی ہے جس کی کاپیاں متعلقہ جماعتوں میں سے ایک جماعت کے دفتر سے دستیاب ہوئی ہیں اس پوسٹر میں اعلانیہ تلقین کی گئی ہے کہ دوسری جماعت کے مبلغوں کو قتل کردیا جائے۔ اور ان کی مساجد پر جبراً قبضہ کر لیا جائے۔ اس پوسٹر میں ایک طبقہ کے مزارعین سے بھی کہا گیا ہے کہ دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے جاگیرداروں کو بٹائی بھی نہ دیں اور ان کی جائیداد کی ضبطی کو ایک جائز اقدام تصور کریں۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ حالات کو ابتر ہونے سے بچایا جاتا۔ چنانچہ پبلک جلسوں پر پابندی عائد کرنا ضروری سمجھا گیا تاکہ دونوں میں سے کوئی جماعت باہمی مناقشت کو جاری نہ رکھ سکے۔
حکومت اس ضمن میں اس امر کی پوری وضاحت کردینا چاہتی ہے کہ اس نے پوری پوری احتیاط کی ہے کہ یہ احکام کسی جگہ بھی عوام کی جائز مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت یا ایسی مذہبی سرگرمیوں پر معمولی سی پابندی عائد کرنے کے بھی موجب نہ ہوں۔ حکومت صوبہ میں کسی جائز سیاسی یا سماجی سرگرمی کے رستہ میں بھی رکاوٹ حائل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی جلسوں پر پابندی کے احکام اسی سپرٹ پر عائد کئے گئے ہیں۔<۴۱
حکومت کے اس اقدام پر علماء کے حلقوں میں سخت تنقید کی گئی حتیٰ کہ اسے >مداخلت فی الدین< کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا گیا:۔
>خانہ خدا پر کسی سلطنت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوسکتا مساجد حکومت کے قوانین سے مستثنیٰ ہوا کرتی ہیں۔<۴۲
اس پر حکومت پنجاب نے اعلان کیا:۔
>یہ بالکل غلط ہے کہ سرکاری احکام کسی قسم کے مذہبی اجتماعات یا مذہبی عبادات یا مساجد میں کسی مذہبی سرگرمی میں مخل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص قانون کے خلاف کوئی حرکت کرتا ہے تو اس سے یقیناً مواخذہ کیا جائے گا قطع نظر اس سے کہ اس سے یہ حرکت مسجد میں سرزد ہوئی ہے یا مسجد سے باہر۔<ز۴۳
احرار حکومت کی اس کشمکش سے عوام میں یہ سوال خودبخود ابھر آیا کہ کیا حکومت پنجاب نے ایسا حکم دے کر واقعی مداخلت فی الدین کا ارتکاب کیا ہے یا وہ اس کی شرعاً مجاز ہے۔
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اس اہم فقہی مسئلہ پر راہنمائی کیلئے حسب ذیل مضمون سپرد قلم فرمایا:۔
>آج کل یہ سوال بڑے زور شور سے پیدا ہے کہ آیا حکومت کسی ایسے معاملہ میں دخل سکتی ہے جس کا فیصلہ یا جس کا انعقاد کسی مسجد میں ہوا ہو۔ اور آیا حکومت اگر ایسا کرے تو یہ تداخل فی الدین ہوگا یا نہیں ؟ اس سوال کے دو پہلو ہین۔ اول تو یہ کہ کیا مساجد منعقد ہونے والے جلسوں یا مساجد میں کئے گئے فیصلوں یا مساجد کی پناہ میں آنے والے لوگوں کو اسلامی شریعت نے قانون سے بالا سمجھا ہے۔ دوسرے یہ کہ کیا عقلاً یہ بات قابل قبول اور قابل عمل ہے ؟ ان دونوں سوالون کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حکومت وقت یعنی رسول~صل۱~ اور آپﷺ~ کی جماعت کے خلاف کارروائیاں کرنے کیلئے ایک مسجد تیار کی تھی اور خود رسول کریم~صل۱~ کو اس میں آکر نماز پڑھنے اور دعا کرنے کی دعوت دی تھی۔ درحقیقت ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ اس جگہ پر جمع ہو کر بعض سیاسی امور کا تصفیہ کریں جو کہ رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کی جماعت کی خلاف تھے غالباً ان لوگوں کا خیال بھی آج کل کے احرار ی طرح تھا کہ جو امر مسجد میں طے کیا جائے وہ قانون کی زد سے بالا ہوتا ہے اور جو کوئی اس معاملہ میں دخل اندازی کرے وہ مداخلت فی الدین کا موجب سمجھا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کیا اور ان کے اس فعل کو ناجائز قرار دیا چنانچہ فرماتا ہے:۔
والذین اتحذوامجسدا اضرار وکفر و تفریقا بین المومنین وارصاد المن حارب اللہ و رسولہ من قبل ولیحلفن ان اردنا الا الحسنی واللہ یشھد انھم لکذبون لا لاتقم فیہ ابدا لمسجد اسس علی التوی من اول یوم احق ان تقوم فیہ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین افمن اسس بنیانہ علی تقوی من اللہ و رضوان خیر ام من اسس بنیانہ علی شفا جرف ھارفانھا ربہ فی نارجھنم واللہ لایھدی القوم الظلمین لا یزال بنیانھم الذی بنواریبتہ فی قلوبھم الا ان تقطع قلوبھم واللہ علیم حکیم )التوبتہ ع(
ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ جو کوئی مسجد بناتے ہیں یا کسی مسجد کو اختیار کر لیتے ہیں اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو نقصان پہنچائیں اور نافرمانی کی تعلیم دیں اور مسلمانوں میں تفرقہ یدا کرنے کی کوشش کریں اور وہ لوگ جو کہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر لڑرہے ہیں ان کیلئے گھات میں بیٹھیں اور ان کے اوپر حملہ کریں اور بڑی شدت سے اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم اپنے افعال سے صرف نیکی اور بھلائی چاہتے ہیں۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ ایسے لوگ جھوٹے ہیں۔ اے خدا کے رسول تو ایسی مسجد میں مت کھڑا ہو۔ وہ مسجدیں جن کی بنیادی تقویٰ پر قائم کی گئی ہے ابتدائی دن سے وہ زیادہ حق دار ہیں کہ تو ان میں کھڑا ہو۔ ان مسجدوں میں ایسے لوگ جاتے ہیں جو کہ نفس کی پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی پاکیزہ نفس لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ کیا وہ لوگ جو مسجدوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ پر رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پر رکھتے ہیں وہ اچھے ہیں یا وہ لوگ جو مسجد کی بنیاد ایک ایسی کھوکھلی زمین ے کنارے پر رکھتے ہیں جو کہ گرنے والی ہے اور جو ان لوگوں کو دوزخ کی آگ میں گرا کر پھینک دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ظلم اور فساد کرنے والے لوگوں کو کبھی پسند نہیں فرماتا۔ جو لوگ اس قسم کی مسجدوں کی بنیادیں رکھتے ہیں )یعنی جن میں ضرر اور فتنہ کی کارروائیاں ہوتی ہیں ان کی یہ تعمیر ہمیشہ کے ان دلوں میں شک و شبہات ہی پیدا کرتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد اپنی ذات میں کسی شخص کو نہیں بچا سکتی۔ اگر مسجد میں کوئی برا کام کیا جائے گا تو اس کو برا سمجھا جائیگا اور اگر مسجد میں کوئی اچھا کام کیا جائے گا تو اس کو اچھا سمجھا جائے گا۔ اگر مسجد اپنی ذات میں ہر ای فعل کو بچا لیتی ہے اور مسجد میں کیا جانے والا فعل مذہبی کہلاتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ وہ منافق لوگ جن کا مذکورہ بالا آیات میں ذکر ہے اور جو مسجد میں اسلامی سیاست کے خلاف منصوبے کرتے تھے وہ بھی مسجد میں مجالس کرنے کی وجہ سے دینی افعال کرتے تھے اور ہر قسم کی گرفت سے بالا تھی بلکہ حکومت اگر ان کو پکڑتی تو وہ مداخلت فی الدین کی مرتکب ہوجاتی تھی اور اس صورت میں نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم~صل۱~ پر الزام آئے گا کہ آپﷺ~ نے جو مذکورہ مسجد کو گروا دیا اور اس کی جگہ کھاد کا ڈھیر لگوا دیا یہ فعل نعوذ باللہ ناجائز کیا۔ پس تعجب ہے ان لوگوں پر جو علمائے اسلام کہلاتے ہیں اور مسجد کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پبلک کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اگر فعل کی نوعیت کو دیکھے بغیر صرف مسجد کے نام سے کوئی فعل مذہبی ہوجات اہے تو پھر یہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کی اس مذکورہ بالا مسجد میں انجمنیں اور جلسے کرنے شروع کئے تھے انہیں کیوں حق بجانب نہ سمجھا جائے مگر کیا کوئی مسلمان کہلانے والا ایسا خیال بھی کرسکتا ہے کہ رسول اللہ~صل۱~ نے ایک درست فعل کرنے والے کو سزا دی۔ احرار اور ان کے ساتھی یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے جو فعل مسجد میں کیا وہ قانونی تھا۔ مسجد کے باہر بھی اگر وہ فعل ہم کرتے تو اس پر گرفت کرنی ناجائز تھی۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر فعل جو مسجد میں کیا جائے وہ مذہبی ہوتا ہے اور اگر ہر فعل جو مسجد میں کیا جاتا ہے وہ مذہبی نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دنیوی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خلاف قانون ہو تو مسجد کے اندر کئے گئے ایسے فعل پر گرفت بھی جائز ہوگی جیسا کہ رسول کریم~صل۱~ نے مذکورہ بالا مسجد میں فتنہ کرنے والے لوگوں پر گرفت کی اور ان کی مسجد کو توڑ دیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر گرفتاریاں کرنی مداخلت فی الدین ہے اور اسی سے متاثر ہو کر حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے ایک اعلان بھی کیا ہے کہ ہم نے تو ہدایت دی ہوئی ہے کہ مسجد کے اندر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ لیکن احرار اور ان کے ساتھی علماء کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط اور خلاف اسلام ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کا اپنا فعل ان کے اس دعویٰ کے خلاف ہے تمام کی تمام مساجد خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ~ کے نمونہ پر بنائی گئی ہیں یعنی تمام مساجد ان کے اظلال ہیں۔ چونکہ ہر شخص خانہ کعبہ میں نہیں جاسکتا اور ہر شخص مسجد نبویﷺ~ میں نہیں جاسکتا اس لئے اجازت دی گئی ہے کہ ان کی نقل میں ہر جگہ پر مسجدیں بنالی جائیں۔ پس کسی مسجد کو وہ فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی جو خانہ کعبہ کو یا مسجد نبویﷺ~ کو حاصل ہے اور کسی مسجد کو وہ حفاظت حاصل نہیں ہوسکتی جو خانہ کعبہ یا مسجد نبویﷺ~ کو حاصل ہے لیکن رسول کریم~صل۱~ نے فتح مکہ کے موقعہ پر گیارہ افراد کے نام لے کر فرمایا کہ کعبہ بھی ان لوگوں کو پناہ نہیں دے گا اگر یہ کعبہ میں پائے جائیں تو وہاں بھی ان کو قتل کردیا جائے۔ بلکہ آپ~صل۳~ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر تم ان لوگوں کو خانہ کعبہ کے پردوں سے بھی لٹکا ہوا پائو تو وہاں بھی ان کو نہ چھوڑو۔ )سیرت ۴۴ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۹۲(
اب یہ علماء کہلانے والے لوگ مجھے بتائیں کہ کیا یہ مسجدیں جن میں وہ سازشیں کرتے ہیں اور حکومت کے احکام کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں یہ خانہ کعبہ سے زیادہ معزز ہیں ؟ اگر بعض مجرموں کو رسول کریم~صل۱~ خانہ کعبہ میں بھی قتل کردینے یا پکڑ لینے کا حکم دیتے ہیں تو دوسری مسجدوں کی خانہ کعبہ کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ ان میں خلاف آئین کام کرنے والے لوگوں کو قانون سے آزادی ملنی چاہئے قرآن کریم تو صاف فرماتا ہے کہ مساجد تقویٰ کے قیام کیلئے قائم کی گئی ہیں نہ کہ قانون شکنی کیلئے۔ اگر مسجدیں قانون شکنی کیلئے ہیں تو پھر شیطان کیلئے تو کوئی گھر بھی بند نہیں رہتا۔ جن گھروں کو خدا تعالیٰ نے امن کیلئے` تسکین کیلئے روحانیت کیلئے` تقویٰ کیلئے` تعاون کیلئے` اتحاد کیلئے بنایا تھا ان گھروں کو مسلمانوں میں فتنہ ڈالنے کا ذریعہ بنانا` ان گھروں کو حکومت سے بغاوت کا ذریعہ بنانا` ان گھروں کو فتنہ و فساد کی بنیاد رکھنے کی جگہ بنانا تو ایک خطرناک ظلم ہے۔ ان افعال کے مرتکب کو مسجدوں میں پکڑنے والا مسجدوں کی بے حرمتی نہیں کرتا وہ مسجدوں کی عزت کو قائم کرتا ہے اور مسجدوں میں ایسے افعال کے مرتکب لوگ اول درجہ کے بزدل ہیں کہ حکومت کے ڈر کے مارے مسجدوں کی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولﷺ~ کے نام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اور تقویٰ کے مقامات کو فساد اور گناہ کی جگمیں بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے سوا کیا زور ہے کہ وہ عوام الناس کو بھڑکا رہے ہیں لیکن عوام الناس کے مل جانے سے نہ قرآن بدل سکتا ہے` نہ محمد~صل۱~ کی تعلیم بدل سکتی ہے` نہ محمد~صل۱~ کا عمل بدل سکتا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ گو مسلمان عوام تعلیم اسلام سے بے بہرہ ہیں مگر محبت اسلام ان کے دلون میں باقی ہے اور وہ اس دھوکے میں نہ آئیں گے اور ان لوگوں سے پوچھیں گے کہ شہید گنج کی مسجد کے سوال پر تو تم کو مسجد کی حرمت کا خیال نہ آیا مگر اب مسجد کے نام سے اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کرتے ہو آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک عالم کہلانے والے صاحب نے تاریخ اسلام میں سے ایک مثال مسجد کی حرمت کی پیش کی ہے۔ انہوں نے ایک عباسی خلیفہ کا ذکر کیا ہے کہ اس نے اپنی بیوی سے خفا ہو کر حکم دیا کہ شام سے پہلے پہلے وہ بغداد سے نکل جائے اگر وہ نہ گئی تو اسے سزا دی جائے گی لیکن بعد میں وہ اپنے حکم سے پچھتایا اور اس نے علماء س پوچھا کہ اب میں کیا کروں۔ سب علماء نے بے بسی کا اظہار کیا لیکن امام ابو یوسف نے کہا کہ اس کا علاج تو آسان ہے وہ مسجد میں چلی جائے اس طرح وہ بچ جائے گی۔ میں ان عالم سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہر چور اور ڈاکو اور قاتل اورزانی اگر مسجد میں چلا جائے تو اس کا پکڑا جانا ناجائز ہوجائے گا۔ کیا اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر اسلام اور اس کے شعائر کو نعوذ باللہ گالیاں دینی شروع کردے تو اس کی گرفتاری ناجائز ہوجائے گی۔ اور چونکہ آپ لوگوں کے نزدیک جو جگہ ایک دفعہ مسجد بن جائے پھر وہ مسجد کی شرطوں سے باہر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر مسجد کی عمارت ہی کو گرانے لگ جائے تو اس کو کوئی سزا نہیں مل سکتی کیونکہ وہ مسجد میں کھڑا ہے اور ایک دینی کام کررہا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک
امام ابو یوسف نے اگر یہ واقعہ صحیح ہے )جو بظاہر صحیح نہیں( تو بادشاہ کو ایک حیلہ بتاتا ہے کیونکہ جب بادشاہ اپنے کئے پر پچھتایا تو بادشاہ خود اس عورت کو بچانا چاہتا تھا اس لئے مسجد میں جا کر وہ عورت قانون شکنی کی مرتکب نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ قانون بنانے والے کی مرضی کو پورا کررہی تھی۔ پس ان دونوں باتوں کا جوڑ کیا ہے؟ اگر تو امام ابو یوسف یہ کہتے کہ مسجد میں گھس کے جو چاہے جرم کرے اس کی اجازت ہے تو بے شک ان کے فتویٰ کے یہ معنی لئے جاسکتے تھے مگر وہ تو بادشاہ کی تائید میں ایک فتویٰ پیش کرتے ہیں اس کے خلاف فتویٰ پیش نہیں کرتے۔ میں ان فتویٰ دینے والے مفتیوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر انہی مسجدوں میں اور ان کے جلسوں میں کھڑے ہو کر کوئی احمدی ان کے خلاف تقریر شروع کردے تو کیا وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ مسجد میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور کوئی اس آدمی کو مارے پیٹے گا نہیں اور کیا مسجد اس کو بھی پناہ دے گی جو احرار کے خلاف مسجد میں بولے یا صرف ان احرار کو پناہ دے گی جو حکومت کے خلاف مسجد میں بولیں ؟
یہ علماء یہ بھی تو سوچیں کہ اگر مسجد ہر عمل کو پاک کردیتی ہے تو جب پولیس مسجد کے اندر جا کر غیر آئینی کارروائی کرنے والے کو پکڑ لے تو اس کا یہ مسجد کے اندر کیا ہوا فعل کیون دینی قرار نہ دیا جائے۔ آخر یہ امتیاز کہاں سے نکالا گیا ہے کہ دوسرے لوگ مسجد میں کوئی بھی کام کریں تو وہ دینی ہوجاتا ہے لیکن اگر پولیس یا حکومت مسجد میں کوئی کام کرے تو وہ دینی نہیں ہوتا۔
آخر میں میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ایک احراری اخبار نے لکھا ہے کہ قانون شکن لوگوں کو مسجد میں گرفتار کر کے پاکستان کی حکومت نے وہ ظالمانہ فعل کیا ہے کہ انگریز کی حکومت نے بھی ایسا نہ کیا تھا۔ اول تو ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب نے اس امر کی تردید کی ہے اور بیان دیا ہے کہ حکومت نے مسجد کے اندر گرفتار کرنے سے حکام کو روکا ہوا ہے۔ لیکن فرض کرو یہ صحیح ہو تو کیا احرار اس واقعہ کو بھول گئے ہیں جب انگریزی حکومت نے مساجد میں گھس کر خاکساروں پر حملہ کیا تھا اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا فعل اچھا تھا کیونکہ سارے واقعات میرے سامنے نہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے پاس سے بات گھڑ کر اس کی بناء پر انگریزی حکومت کو پاکستان کی حکومت پر ترجیح دینا کیا محض فساد کی نیت سے نہیں ؟<۴۵
عروج احمدیت کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی
جماعت احمدیہ اپنے محبوب امام سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کی قیادت میں خارق عادت رنگ میں ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک جاپہنچی تھی کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود تحریک احمدیت کی آخری منزل کو قریب سے قریب تر لانے اور عالمگیر اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے مزید ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت تھی۔
اس ضرورت کے پیش نظر حضورؓ نے ۲۷ احسان ۱۳۳۱ ہش / جون ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمعہ ایک تو یہ اصولی راہنمائی فرمائی کہ جب قومین اپنے زمانہ جوانی میں داخل ہوتی ہیں تو ان کا ہر تغیر ان کیلئے ایک نیک نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ دوسرے یہ پیشگوئی فرمائی کہ غلبہ احمدیت میں جتنی دیر لگ رہی ہے اسی نسبت سے جماعت احمدیہ کی عظمت و شوکت کا زمانہ بھی لمبا ہوگا۔
حضور کے اس انقلاب انگیز خطبہ کے بعض ضروری حصے درج کئے جاتے ہیں۔:
>سلسلہ احمدیہ اور میری عمر ایک ہی ہے جس سال حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا ہے اور بیعت لی ہے میں اسی سال پیدا ہوا تھا۔ گویا جتنی میری عمر ہے اتنی عمر سلسلہ کی ہے لیکن افراد کی عمروں اور قوم کی عمر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک فرد اگر ۷۰ یا ۱۰۰ سال زندہ رہ سکتا ہے تو قومیں ۳۰۰` ۴۰۰ سال تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ اگر تین سو سال بھی کسی قوم کی زندگی رکھ لی جائے تو اس کی جوانی کا زمانہ اس کے چوتھے حصہ کے قریب سے شروع ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کی عمر ۷۲`۷۴ سال فرض کر لی جائے تو اس کی عمر کے چوتھے حصہ سے جوانی شروع ہوتی ہے یعنی ۱۸۔۱۹ سال سے انسان جوانی کی عمر میں داخل ہوتا ہے۔ اس طرح اگر کسی قوم کی عمر ۳۰۰ سال قرار دے لی جائے تو اس کی جوانی ۷۵ سال کی عمر سے شروع ہوگی۔ تمہاری عمر تو ابھی ۶۳ سال کی ہے ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ابھی جوان بھی نہیں ہوئی۔ اس پر ابھی وہ زمانہ ہے جب انسان کچھ بھی کھالے تو وہ اسے ہضم ہوجاتا ہے۔ ہزاروں مخالفتیں ہوں` مصائب ہوں` ابتلاء ہوں۔ یہ اس کی قوت کو بڑھانے کا موجب ہونے چاہئیں کمزوری کا موجب نہیں۔ اگر تم اس چیز کو سمجھ لو تو یقیناً تمہارے حالات اچھے ہوجائیں گے۔ جو لوگ جسمانی بنائوٹ کے ماہر ہیں ان کا خیال ہے کہ انسانی جسم اس یقین کے ساتھ بڑھتا ہے کہ اس کی طاقت بڑھ رہی ہے` طاقت کا مشہور ماہر سینڈو گزار ہے اس نے طاقت کے کئی کرتب دکھائے ہیں اور کئی بادشاہوں کے پاس جا کر اس نے اپنی طاقت کے مظاہرے کئے ہیں۔ اس نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ مجھے ورزش کا کہاں سے خیال پیدا ہوا اور میرا جسم کیسے مضبوط ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ مجھے ایسے رنگ میں کام کرنے کا موقعہ ملتا تھا کہ میرے باز و بنیان سے باہر رہتے تھے۔ میں نے ایک دن اپنے بازو دیکھ کر خیال کیا کہ میرے بازو مضبوط ہورہے ہیں۔ اس خیال کے انے کے بعد میں نے ورزش شروع کردی اور آہستہ آہستہ میرا جسم مضبوط ہوتا گیا۔ سینڈو کا یہ خیال تھا کہ ورزش لنگوٹا باندھ کر کرنی چاہئے تا ورزش کرنے والے کی نظر اس کے جسم کے مختلف حصوں پر پڑتی رہے اور اسے یہ خیال رہے کہ اس کا جسم بڑھ رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے لنگوٹا باندھ کر ورزش شروع کی۔ میں ہمیشہ یہ خیال کرتا تھا کہ میرے جسم کا فلاں حصہ بڑھ رہا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہوا کہ صحت کی دوستی خیال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جب تک انسان کا خیال اس کی مدد نہیں کرتا اس کا جسم مضبوط نہیں ہوتا۔ اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ورزش کرنے والا اپنے جسم کو دیکھ رہا ہو۔ یہ نہایت کامیاب اصل ہے۔ ہزاروں نے اس کا رجربہ کیا اور اسے کامیاب پایا اور انہوں نے اپنے جسموں کو درست کیا۔ تمہیں بھی اٹھتے بیٹھتے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ تم ہمت محسوس کررہے ہو اور تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تم تو ابھی جوان بھی نہیں ہوئے۔ تمہاری عمر ابھی ۶۳ سال کی ہے۔ اور اگر تمہاری عمر کم سے کم عمر بھی قرار دے لی جائے تو تم نے ۷۵ سال کے بعد جا کر جوان ہونا ہے اور پھر ۱۵۰۔۱۷۵ سال جوانی کے بھی گزرنے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی عمر کو لیا جائے تو اس کی جونای کی عمر ۵۰۰ سال کی تھی ۲۶۰ سال گزر جانے کے بعد ان کی جوانی کا وقت شروع ہوا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں ان کے مطابق ہماری جوانی پہلے شروع ہوگی۔ بہرحال ہماری ان سے کچھ مشابہت تو ہونی چاہئے ممکن ہے ہماری جوانی کا وقت ۱۰۰ یا سوا سو سال سے شروع ہو۔ اس صورت میں جونای کا زمانہ پونے دو سو سے اڑھائی سو سال تک کا ہوگا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جن کی جوانی میں دیر لگتی ہے ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں اور جن کی عمریں چھوٹی ہوتی ہیں ان کی جوانی بھی جلدی آتی ہے۔ جانوروں کو دیکھ لو جن جانوروں کی عمر چار پانچ سال کی ہوتی ہے ان کی جوانی مہینوں میں ہوتی ہے اور جو جانور ۲۷`۲۸ سال تک زندہ رہتے ہیں ان کی جوانی سالوں میں آتی ہے۔ گھوڑے کو لے لو اس کی عمر بیس پچیس سال کی ہوتی ہے اور اس کی جوانی کی عمر کہیں چار سال سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن بکری اور بلی چوتھے پانچویں ماہ جوان ہوجاتے ہیں۔ گویا جتنی کسی کی عمر چھوٹی ہوگہی اسی نسبت سے اس کی جوانی پہلے آئے گی اور جتنی کسی کی عمر لمبی ہوگی اسی نسبت سے اس کی جوانی بھی بعد میں آئے گی۔ تمہاری زندگی کا لمبا ہونا مقدر ہے۔ اور یہ نیک فال ہے کہ ابھی تمہاری جوانی کا وقت نہیں آیا۔ اگر تم ۶۳ سال کی عمر میں ابھی نیم جوانی کی حالت میں ہو تو معلوم ہوا کہ تمہاری عمر لمبی ہے۔ عمر اور جوانی میں کچھ نسبت ہوتی ہے۔ لمبی عمر ہو تو جوانی دیر سے آتی ہے اور اگر جوانی دیر سے آئے تو معلوم ہوا کہ عمر لمبی ہوگی۔ بہرحال اس زمانہ تک جماعت احمدیہ کا ترقی نہ کرنا حیرت کا موجب نہیں ۶۳ سال جماعت پر گز چکے ہیں اگر ۶۳ سال میں جماعت غالب نہیں آئی تو یہ خوشی کی بات ہے عیسائیوں پر پونے تین سو سال میں جوانی آئی اور اج تک وہ پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ ایک لمبے عرصہ تک انہیں مصائب جھیلنے پڑے۔ تکالیف برداشت کرنی پڑیں اور وہ غور و فکر کرتے رہے جس کی وجہ سے انہیں ہر کام کے متعلق غور کرنے اور فکر کرنے کی عادت پڑ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے بعد میں شاندار ترقی حاصل کی۔
پس ہماری جماعت پر جوانی کا وقت انے میں جو دیر لگی ہے اس کی وجہ سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے جوانی دیر سے آنے کے یہ معنے ہیں کہ جماعت کی عمر بھی لمبی ہوگی اور احمدیت دیر تک قائم رہے گی۔ یہ چیزیں تمہاری گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو لمبی عمر دینا چاہتا ہے۔ تم سوچنے اور فکر کرنے کی عادت ڈالو۔ تمہاری طاقت` تمہارا ایان` تمہاری قوت مقابلہ اور عقل سوچنے سے بڑھے گی۔< ۴۶
صبر و صلٰوۃ کی پر زور تحریک
ابتلائو اور آزمائشوں کے ان پرفتن ایام میں جب کہ مخالف عناصر کا سارا زور غیر اسلامی بلکہ غیر اخلاقی حربوں ۴۷ کے استعمال پر صرف ہورہا تھا` حضرت مصلح موعودؓ اپنے مستقل طریق کے مطابق قدم قدم پر خدا کی جماعت کو صبر و صلٰوۃ کی تاکیدی فرما رہے تھے۔
چنانچہ حضور نے ۴ وفا ۱۳۳۱ ہش/جولائی ۱۹۵۲ء کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:۔
>قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو یہ کریں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن ان کو آزمائشوں اور ابتلائوں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولو امنا وھم لایضلنون کیا یہ لوگ وہم بھی کرسکتے ہیں۔ کیا مسلمان اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ انہیں آزمائشوں اور ابتلائوں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے گا۔ انہیں تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ انہیں ٹھوکریں نہیں لگیں گی حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسے ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ضرور ڈالا جاتا ہے۔ اگر یہ قاعدہ کلیہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ابتدائے اسلام میں یہ نہ فرماتا کہ تم کس طرح یہ خیال کرتے ہو کہ تم دعویٰ تو یہ کرو کہ ہم ایمان لائے لیکن تمہیں ابتلائوں اور آزمائشوں میں نہ ڈالا جائے۔ اسے ٹھوکریں نہ لگیں۔ وہ مخالفت کی آگ میں نہ پڑے۔
پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم ایک مامورمن اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں تو انہیں ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالا جائے گا خدا تعالیٰ فرماتا ہے وھم لا یغتنون اگر یہ سچ ہے کہ تم ایمان لائے ہو تو یہ بات بھی سچ ہے کہ تمہیں ابتلائوں میں ڈالا جائے گا۔<
حضور نے یہ حقیقت ذہن نشین کرانے کے بعد ارشاد فرمایا:۔
>پس ہماری جماعت کو مشکلات کے مقابلہ میں دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ میرے تو وہم میں بھی یہ نہیں ایا کہ کوئی احمدی نماز چھوڑتا ہے۔ اگر کوئی ایسا احمدی ہے جو نماز کا پابند نہیں تو میں اسے کہوں گا کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت تم پر نماز گراں نہیں ہونی چاہئے۔ مصیبت کے وقت میں نماز گراں نہیں ہوتی مصیبت کے وقت لوگ دعائیں مانگتے ہیں گر یہ وزاریاں کرتے ہیں۔ ۱۹۰۵ء میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت ہمارے ماموں میر محمد اسمعیل صاحبؓ لاہور میں پڑھتے تھے آپ ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھے کہ زلزلہ آیا۔ آپ کے ساتھ ایک ہندو طالب علم بھی تھا جو دہریہ تھا اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہنسی اور مذاق کیا کرتا تھا۔ جب زلزلہ کا جھٹکا آیا تو وہ رام رام کر کے باہر بھاگ آیا جب زلزلہ رک گیا تو میر صاحب نے اسے کہا تم رام پر مذاق اڑایا کرتے تھے اب تمہیں رام کیسے یاد آگیا ؟ اس کے بعد خوف کی حالت جاتی رہی تھی۔ زلزلہ ہٹ گیا تھا۔ اس نے کہا یونہی عادت پڑی ہوئی ہے اور منہ سے یہ لفظ نکل جاتے ہیں۔ پس حقیقت یہ ہے کہ مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔ جس شخص کو مصیبت کے وقت بھی خدا تعالیٰ یاد نہیں آتا سمجھ لو کہ اس کا دل بہت شقی ہے۔ وہ اب ایسا لاعلاج ہوگیا ہے کہ خطرہ کی حالت بھی اسے علاج کی طرف توجہ نہیں دلاتی پس اگر ایسے لوگ جماعت میں موجود ہیں جو نماز کے پابند نہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ وقت ایسا ہے کہ انہیں اپنی نمازوںکو پکا کرنا چاہئے اور جو نماز کے پابند ہیں میں انہیں کہتا ہوں آپ اپنی نمازیں سنوا دیں اور جو لوگ نماز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ بہتر وقت دعا کا تہجد کا وقت ہے نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور لوگوں کو صداقت قبول کرنے کی توفیق دے۔ مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ دشمن کیا کہتا ہے۔ لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ جب اس قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ صداقت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پس ہماری سب سے مقدم دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہماری مسکلات کو دور کردے۔ جو لوگوں کے صداقت قبول کرنے میں روک ہیں اور ان کی توجہ اس طرف پھیر رہی ہیں۔ ابتلاء مانگنا منع ہے لیکن اس کے دور ہونے کیلئے دعا مانگنا سنت ہے اس لئے یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ وہ روکیں دور کردے جو لوگوں کو صداقت قبول کرنے سے ہٹا رہی ہیں اور ہماری فکر مندیوں کو دور کردے۔ ہاں وہ ہمیں ایسا بے فکر اور بے ایمان نہ بنائے کہ جس کی وجہ سے ہمارے ایمان میں خلل واقع ہو۔ درحقیقت ایمان کا کمال یہ ہے کہ انسان خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے اگر کوئی شخص خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے امن دیتا ہے۔ لیکن جو مومن خوف کی حالت میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے امن کی حالت میں نہیں خدا تعالیٰ اس کیلئے ٹھوکریں پیدا کرتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ اسے مرتذ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کیلئے امن کی حالت پیدا کردیتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے۔ پس جو لوگ نماز کے پابند ہیں وہ نماز سنوار کر پڑھیں اور جو نماز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں وہ تہجد کی عادت ڈالیں پھر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں پھر نہ صرف نوافل پڑھیں بلکہ دوسروں کوبھی نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ خدا تعالیٰ نے لوگوں کو روزہ کی عادت ڈالنے کیلئے ایک ماہ کے روز سے فرض کئے ہیں۔ روزے فرض ہونے کی وجہ سے ایک مسلمان ایک ماہ جاگتا ہے اور پھر اپنے ساتھیوں کو بھی جگاتا ہے ڈھول پٹتے ہیں اور اسی طرح تمام لوگ اس مہینہ میں تہجد کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اگر ایک ہمسایہ روزہ کیلئے نہ اٹھتا تو دوسرا بھی نہ اٹھتا۔ لیکن چونکہ ایک آدمی روزہ کیلئے اٹھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرا بھی بیدار ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے اس طرح روزے فرض کرنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ سب لوگوں کو اس عبادت کی عادت پڑ جائے پس اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ ربوہ کی جماعت کے افسران اور عہدیداران محلوں میں تہجد کی تحریک کریں اور جو لوگ تہجد پڑھنے کیلئے تیار ہوں اور یہ عہد کریں کہ وہ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہیں ا نکے نام لکھ لیں اور جب وہ چند دنوں کے بعد اپنے نفوس پر قابو صالیں تو انہیں تحریک کی جائے کہ وہ باقیوں کو بھی جگائیں۔ جب سارے لوگ اٹھنا شروع ہوجائیں۔ پیسے بچنے لگ جائیں تو کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نماز پڑھنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن نیند کے غلبہ کی وجہ سے بیدار نہیں ہوتے وہ بھی تہجد کیلئے اٹھ بیٹھیں گے رمضان میں لوگ اٹھ بیٹھتے ہیں اس لئے کہ اردگرد شور ہوتا ہے۔ اکیلے آدمی کو اٹھائیں تو وہ سوجاتا ہے لیکن رمضان میں وہ نہیں سوتا اس لئے کہ اردگرد آوازیں آتی ہیں۔ کوئی قرآن کریم پڑھتا ہے۔ کوئی دوسرے کو جگاتا ہے۔ کوئی دوسرے آدمی سے کہتا ہے کہ ہارے ہاں ماچس نہیں ذرا ماچس دے دو۔ ہمارے ہاں مٹی کا تیل نہیں تھوڑا سا مٹی کا تیل دو۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے ہاں آگ نہیں آگ دو۔ کوئی کہتا ہے میں سحری کھانے کیلئے تیار ہوں روٹی تیار ہے ؟ یہ آوازیں اس کا سونا دوبھر کردیتی ہیں وہ کہتا ہے نیند تو آتی نہیں لیٹنا کیا ہے چلو چند نفل ہی پڑھ لو۔ رمضان بے شک برکت ہے لیکن رمضان میں جاگنے کا بڑا ذریعہ یہی ہوتا ہے کہ اردگرد سے آوازیں آتی ہیں اور وہ انسان کو جگادیتی ہیں۔ ایک آدمی آٹھ بجے سوتا ہے اور اسے دو بجے بھی جاگ نہیں آتی لیکن ایک آدمی بارہ بجے سوتا ہے لیکن تین بجے اٹھ بیٹھتا ہے اس لئے کہ اردگرد سے آوازیں آتی ہیں۔ ذکر الٰہی کرنے کی آوازیں آتی ہیں۔ قرآن کریم پڑھنے کی آوازیں آتی ہیں۔ کوئی کسی کو جگا رہا ہوتا ہے اور کوئی کھانا پکا رہا ہوتا ہے اور اس کی آواز اسے آتی ہے۔ اس لئے صرف تین گھنٹے سونے والا بھی اٹھ بیٹھتا ہے یہ ایک تدبیر ہے جس سے جاگنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ پس مقامی عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ اس کا محلوں میں انتظام کریں اور پھر اسے باہر بھی پھیلایا جائے تا آہستہ آہستہ لوگ تہجد کی نماز کے عادی ہوجائیں پھر اگر کوئی تہجد کا مسئلہ پوچھے تو اسے کہو کہ اگر تہجد رہ جائے تو اشراق کی نماز پڑھو جو دو رکعت ہوتی ہے۔ وہ بھی رہجائے تو ضحیٰ پڑھو جو تہجد کی طرح دو سے آٹھ رکعت تک ہوتی ہے اس طرح تہجد اور نوافل کی عادت پڑ جائے گی۔ صلٰوۃ کے دو معنے ہیں نماز اور دعا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واستعینو بالصبر والصلوہ تم مدد مانگو صبر` نماز اور دعا سے۔ اور جو شخص خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ کوئی شخص اس پر غالب نہیں آسکتا۔ اگر خدا تعالیٰ ہے تو سیدھی بات ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں یقیناً وہی شخص جیتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے۔ بے شک کسی کے ساتھ دنیا کی سب طاقتیں ہوں` جلسے ہوں` جلوس ہوں` نعرے ہوں` قتل و غارت ہو` قید خانے ہوں` پھانسیاں ہوں` *** و ملامت ہو لیکن جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے۔ دلوں کی حالت کے متعلق رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ ۴۹ خدا تعالیٰ ہی دلون کے بھید جانتا ہے وہی دلوں کو بدل سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان کے کیا خیالات ہیں اور ان کا ردعمل کیا ہے ؟ وہ دلوں کو جانتا ہے۔ وہ اعمال کو جانتا ہے اور ان کے ردعمل کو جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو میری طرف آتا ہے اسے دلوں کی طرف ایک سرنگ مل جاتی ہے۔ آخر دلون کو بدلنے کا کونسا ذریعہ ہے سوائے اس کے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں۔ خدا تعالیٰ نے اس کا ذریعہ صبر و صلٰوۃ مقرر کردیا ہے۔ صبر کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مقدم ہے اور باقی ہر چیز موخر ہے اس لئے وہ اس کیلئے ہر مشکل اور تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے۔ گویا صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور صلٰوۃ میں عشقیہ طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ صبر جبری محبت اور نماز طوعی محبت ہم کچھ کام جبری طور پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا یہ چیز جبری ہے۔ مشکلات اور مصائب تم خود پیدا نہیں کرتے۔ دشمن مشکلات اور مصائب لاتا ہے اور تم انہیں برداشت کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے لیکن نماز طوعی ہے نماز تمہیں کوئی اور نہیں پڑھاتا نماز تم خود پڑھتے ہو۔ پس تم صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا ثبوت دیتے ہو اور نماز میں طوعی طور پر اس کا اظہار کرتے ہو اور یہ دونوں چیزیں مل جاتی ہیں تو محبت کامل ہوجاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فیضان جاری ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فیضان کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس سے صبر و صلٰوۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ خدا تعالیٰ کا دلوں پر قبضہ ہے وہ انہیں بدل دے گا۔ میں جب تم سے کہتا تھا کہ جماعت پر مصائب اور ابتلائوں کا زمانہ آنے والا ہے اس لئے تم بیدار ہوجائو اس وقت تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے تم ہنسی اڑاتے تھے اور لکھتے تھے کہ آپ کہاں کی باتیں کرتے ہیں ہمیں تو یہ بات نظر نہیں آتی۔ اور جب کہ فتنہ آگیا ہے میں تمہیں دوسری خبر دیتا ہوں کہ جس طرح بگولا آتا ہے اور چلا جاتا ہے یہ فتنہ مٹ جائے گا یہ سب کارروائی ھباء منثواً ہوجائیں گی۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور وہ ان مشکلات اور ابتلائوں کو جھاڑو دے کر صاف کردیں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ تم صبر اور صلٰوۃ کے ساتھ میری مدد مانگو تمہیں مدد دوں گا لیکن تم دو باتیں کرو اول مصائب اور ابتلائوں پر گھبرائو نہیں۔ انہیں برداشت کرو اور دوسرے نمازوں اور دعائوں پر زور مجھے پتہ لگ جائے کہ تمہاری محبت کامل ہوگئی ہے۔ اور جب تمہاری محبت کامل ہوجائے گی تو میں بھی ایسا بے وفا نہیں ہوں کہ میں اپنی محبت کا اظہار نہ کروں< ۵۰
‏tav.13.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
فصل سوم
>مسلمان فرقہ احمدیہ< کی تکفیر کا نیا دور مطالبہ >غیر مسلم اقلیت< پر مختلف مسلمان حلقوں کی طرف سے تشویش واضطراب احمدی علم کلام کی برتری کا اعتراف اور ایک دلچسپ تجویز۔
ماہ جولائی ۱۹۵۲ء کے شرع میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے نمائندہ خصوصی مقیم مصر نے یہ انکشاف کیا کہ مصر میں بھارت اور افغانستان مل کر اس قسم کی سازشیں کررہے ہیں کہ پاکستان کو عرب ممالک سے بالکل الگ کردیا جائے۔ پاکستان اور عرب ملکوں میں کشیدگی پیدا کرنے کی ایک عرصہ سی یہاں بھارتی اور افغان ایجنٹ منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ عرب ممالک میں پاکستان کو بدنام کر کے عرب ملکوں کو بھارتی حلقہ اقتدار میں شامل کردیا جائے۔۵۱
جماعت احمدیہ کی تکفیر کا نیا دور
اس انکشاف کے چند روز بعد احرار کی کوشش سے ۱۳۔ جولائی ۱۹۵۲ء کو برکت علی محمڈن ہال لاہور میں ایک >آل پاکستان پارٹیز کنونیشن< منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے سیاسی اور مذہبی راہنما اور دیگر مندوب کم و بیش سات سو کی تعداد میں جمع ہوئے اور احراری مطالبات کے حق میں زور شور سے پراپیگنڈا کرنے کا فیصلہ کیا ۵۲ جس کے بعد حکومت پاکستان اور جماعت احمدیہ کے خلاف جارحانہ سرگرمیاں تیز کردی گئیں اور >مسلمان فرقہ احمدیہ< یا احمدی مذہب کے مسلمانوں ۵۳]txet [tag کے خلاف تکفیر کا نیا دور شروع ہوا۔
جماعت احمدیہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے روح کافر گری کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی بلکہ خود حضرت مسیح موعودؑ پر تو براہین احمدیہ جیسی عظیم الشان تصنیف اور علمی شاہکار کی پاداش میں ۱۸۸۴ء ہی سے فتویٰ کفر لگ چکا تھا اور اس میں مختلف فرقوں کے علماء حتیٰ کہ حرمین شریفین کے حنفی مسلک کے مفتیان بھی شامل ہوگئے تھے جیسا کہ نومبر ۱۸۸۸ء کے مطبوعہ رسالہ >نصرت الابرار< سے ثابت ہے۔ ۵۴
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بار فرمایا تھا:۔
>عجیب بات یہ ہے کہ جتنے اہل اللہ گذرے ان میں کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا۔ کیسے کیسے مقدس اور صاحب برکات تھے ۔۔۔۔۔۔ یہ تو کفر بھی مبارک ہے جو ہمیشہ اولیاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس لوگوں کے حصہ میں ہی آتا رہا ہے۔< ۵۵
تکفیر کے قدیم و جدید دور میں ایک فرق
اس اعتبار سے ۱۹۵۲ء کا فتنہ تکفیر احمدیوں کے لئے کوئی انوکھی چیز نہ تھی نہ ہوسکتی تھی البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ تقسیم ملک سے قبل جو فتاویٰ کفر صادر کئے گئے ان سے انگریزی حکومت یا ہندوئوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ تقویت پہنچتی تھی مگر تکفیر کے اس نئے دور میں اس کا مقصد ایک اسلامی مملکت کو نقصان پہنچانا تھا۔
ملک محمد جعفر خان کا بیان
چنانچہ ملک محمد جعفر خاں )وزیر مملکت پاکستان برائے اقلیتی امور و سیاحت( فرماتے ہیں:۔
>پنجاب میں ختم نبوت کی ایجی ٹیشن میں سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ احمدیون کو سیاسی لحاظ سے ایک اقلیت کا درجہ دے دیا جائے۔ اس مطالبے کی تہ میں کوئی قابل ستائش ملک یا قومی مفاد نہ تھا۔<
>یہ بات تو انسانی فہم ہی سے بالا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے ختم نبوت کا کیا تعلق ہے بہرحال تحریک جو کچھ تھی چلی اور خوب چلی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مملکت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔< ۵۷۵۶
محض لفظی نزاع
ملک صاحب موصوف نے کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت میں احمدی اور غیر احمدی علماء میں محض لفظی نزاع ہے اس لئے مخالف احمدیت علماء احمدیوں کو خارج از اسلام اور غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:۔
>ہمیں اس امر نے ہمیشہ حیران کیا ہے کہ جس ختم نبوت کے عقیدہ سے انکار کی بناء پر علماء جماعت احمدیہ کو اسلام سے کارج قرار دیتے ہیں اس کی روشنی میں یہ علماء اپنے پوزیشن پر کیوں غور نہیں کرتے ؟ اگر ختم نبوت سے یہ مراد ہے کہ محمد~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہمارے نزدیک یہی مراد ہے تو جماعت احمدیہ اور غیر احمدی علماء جو نزول مسیحؑ پر ایمان رکھتے ہیں دونوں ہی ختم نبوت کے منکر ہیں مسیح ابن مریمؑ کے نبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اور اگر ان کو رسول کریم~صل۱~ کے بعد آنا ہے تو نبی کریم خاتم النبین نہیں ہوسکتے۔ احمدیوں کے نزدیک مسیح ابن مریمؑ کو نہیں آنا بلکہ ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں آگیا۔ ساتھ ہی ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مثیل بھی نبی ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں اگیا۔ ساتھ ہی ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مثیل بھی نبی ہے بلکہ اپنی شان میں مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے۔ اس طرح بنیادی لحاظ سے ان دو فریقوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ایک فریق ایک نبی کے آنے کا منتظر ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ نبی آچکا ہے۔< ۵۸
>تحفظ ختم نبوت< کا ادعا اور اس کی حقیقت
ان لوگوں کو >ختم نبوت< اور اس کے تحفظ سے کہاں تک تعلق تھا ؟ اس کا اندازہ >امیر شریعت< ۵۹ احرار سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی لگ سکتا ہے جو انہوں نے ۶ جولائی ۱۹۵۲ء کو ملتان کے ایک معزز اجتماع میں دیا:۔
>میں ممتاز صاحب دولتانہ کو اس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ ایک تو وہ صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان لے آئوں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفتہ المسیح مان لوں گا۔ ۶۰
یہ وہی >امیر شریعت< تھے جنہوں نے قبل ازیں >ختم نبوت کانفرنس کراچی< میں یہ فرماتا تھا کہ :۔
>اگر خواجہ غریب نواز اجمیری` سید عبدالقادر جیلانی` امام ابوحنیفہ` امام بخاری` امام مالک` امام شافعی ` ابن تیمیہ` غزالی` حسن بصری` نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا ہم انہیں نبی مان لیتے۔ علیؓ دعویٰ کرتا کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی نے دی۔ عثمان غنی دعویٰ کرتا` فاروق اعظم دعویٰ کرتا` ابوبکر صدیق دعویٰ کرتا تو کیا بخاری اسے نبی مان لیتا۔< ۶۱
حکومت پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی
آل مسلم پارٹیز کنونیشن کے انعقاد کے بعد عوام کو کس طرح کھلم کھلا تشدد اور بغاوت پر اکسایا جانے لگا اس کا صرف ایک نمونہ کافی ہے۔ احرار کے >مجاہد ملت< مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے اگست ۱۹۵۲ء میں ملتان کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:۔
>اگر حکومت نے کراچی کی طرح سنگینوں کے سائے میں مرزائیت کی جبری تبلیغ کروانی ہے تو پھر ہماری تمہاری جنگ ہے۔ اگر اظہار استبداد کے معنی بغاوت ہے۔ اگر مظلوم کی فریاد کے معنی بغاوت ہے۔ اگر بیزاری بیداد کے معنی بغاوت ہے تو پھر میں ایک باغ ہوں میرا مذہب بغاوت ہے۔<
>محمدﷺ~ ملک کے لئے نہیں ملک محمد کے لئے ہے اور ایسے کروڑوں خطہ ارضی محمد کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔ ۶۲]ydob [tag اپنی وزارتوں کے تحفظ کے لئے سیفٹی اور سیکیورٹی ایکٹ بنانے والو ! اس دن کے متلعق بھی سوچ لو جب حوض کوثر پر محمد~صل۱~ کوثر کا پیالہ ہاتھ میں لئے سوال کریں گے تمہاری وزارتوں میں میری نبوت کیوں کر رسوا ہوئی تو سوچ لو اس وقت تمہارا کیا جواب ہوگا؟<۶۳
محب وطن حلقوں میں تشویش واضطراب اور سیاسی ردعمل
یہ شعلہ نوائی جلد ہی رنگ لائی اور عوام میں اپنے حکمرانوں کے خلاف آتش انتقال سلگنے لگی۔ امن غارت ہونے لگا اور انتشار اور بدامنی اور بے اطیمنانی کا مہیب طوفان امڈتا دکھائی دینے لگا تو تمام محب وطن مسلمان حلقوں میں تشویش و اضطراب کی زبردست لہر پیدا ہوگئی۔ حتیٰ کہ وہ طبقہ بھی جو اب تک خاموش کھڑا اس معاملہ کو ایک دینی مسئلہ سمجھے بیٹھا تھا` احتجاج کرنے لگا۔
ملتان
ان دنوں اس تحریک کا اصل مرکز ملتان تھا جس کے بیس صحافیوں نے >تحریک ختم نبوت کا موجود دور< کے عنوان سے حسب ذیل اشتہار شائع کیا:۔
>تحریک ختم نبوت کی ابتداء جن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کی گئی اس نے بلا امتیاز فرقہ ہر ایک مسلمان کا دل و دماغ اپنی طرف متوجہ کر لیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ یہ مقدس تحریک جس موجودہ دور سے گذر رہی ہے اور اس سے پاکستانی عوام` پاکستان کی سالمیت` سکون اور امن پر جو ہولناک حملے ہورہے ہیں اس نے ہر ایک ذی شعور مسلمان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ بانیان تحریک کون ہیں اور اس تحریک سے ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟
ہم صحافیان ملتان نے دیگر صوبہ جات مملکت خدا داد پاکستان کے مسلمانوں کے خیالات کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ ہم نے حکومت کے اعلانات` بیانات اور انسدادی تدابیر پر بھی غور کیا ہے۔ ہم نے ان خیالات پر بھی دھیان دیا ہے جو دیگر ممالک کی صہافت نے اس تحریک کے متعلق ظاہر کئے ہیں۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ سمجھدار طبقہ اس تحریک کی موجودہ انتشار انگیز ضرر رساں شکل کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلم عوام کا ایمان تازہ` ارادے مستقل اور قدم مضبوط ہیں اور وہ ہر ایسی تحریک سے دیوانہ وار منسلک ہوجاتے ہیں جو قوم` ملک اور مذہب کے نام پر چلائی جائے۔ لیکن اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ ان کی یہ قربانیاں ملک و ملت کے لئے مفید بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر تحریک کے علمبردار پاکستان دشمنی` قوم کی تباہی اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے درپے ہوں تو فدیان ناموس رسولﷺ~ کا اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے دشمنوں کے دھوکہ میں نہ آئیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے وقت میں قومی مفاد کے تحفظ کی ذمہ داری جہاں گونمنٹ پر عائد ہوتی ہے وہاں ملکی صحافت اور عوام پر بھی اسی طرح اس ذمہ داری کا بوجھ پڑتا ہے۔
ہم صحافیان ملتان پورے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تحریک کو موجودہ انتہائی خطرناک اور غیر آئینی رنگ دینے میں یقیناً دشمنان پاکستانکا ہاتھ ہے اور وہ اس مقدس نعرہ کی آڑ لے کر ملک کی خوشحالی و امن و سکون کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ لٰہذا ہم صحافیان ملتان کو تحریک کے اصل پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے ان پر یہ واضح کردیں کہ تحریک کی موجودہ شکل کو تحریک ختم نبوت کا نام دینا ہی اس مقدس ترین نام کی توہین سے لٰہذا وہ اسے تحریک ختم نبوت کا نام نہ دیں بلکہ اسے دشمنان پاکستان کے ایجنٹوں کی تحریک سمجھیں۔
)شیخ( مظفر الدین ایڈیٹر روزنامہ >زمیندار سدھار< )چوہدری( محمد ظفر محزون ایڈیٹر رونامہ >کارزار< )صاحبزادہ ڈاکٹر( عبدالستار حامد ایڈیٹر ہفت روز >کلیم< )شیخ( عاشق حسین حسینی ایڈیٹر >روشن چراغ< )مولانا( منظور احمد اختر ایڈیٹر >الجیلان< )مسٹر( رسول بخش ارشد ملتان ایڈیٹر ہفت روزہ >صدائی حق< )مسٹر( امان اللہ غازی ایڈیٹر >جدت< )قاری( وحید الزمان رزمی ایڈیٹر ہفت روزہ >بیوپاری< )مولانا الحاج( محبوب احمد اویسی ایڈیٹر ہفت روزہ >محسن< )مولانا( خدا بخش اویسی ایڈیٹر ہفت روزہ >مقبول< )مسٹر( اختر رسول ایڈیٹر ہفت روزہ >طوفان< )شیخ( غلام علی ظفر حیدری ایڈیٹر >الکائنات< )شیخ( علائو الدین اختر ایڈیٹر >زمیندار سدھار< )خان( محمد اکرم خان ایڈیٹر روزنامہ ¶>شمس< بد )شیخ( منور دین ایڈیٹر سہ روزہ >نوائے عامہ< )خواجہ( عبدالکریم قاصف ایڈیٹر ہفت روزہ >ملتان کرانیکل< )چوہدری( نظر حسین نطر ایدیٹر ہفت روز >زلزلہ< )ڈاکٹر( احتشام الحق ایڈیٹر >ہومیوپیتھی< بیگم شمیم حسینی مدیرہ >شمیم< )ڈاکٹر حکیم( فاروق احمد اویسی جرنلسٹ۔ )خادم کاتب( )یونین پریس ملتان شہر<( ۴۶
لاہور
لاہور جہاں >آل مسلم پارٹیز کنونیشن< منعقد ہوئی اور جہاں سے >آزاد< اور >زمیندار< وغیرہ اخبارات شورش کو ہوا دینے میں سرگرم تھے۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ` امروز اور نوائے وقت جیسی وقیع اخبارات نے ڈٹ کر اس امن شکن تحریک کے خلاف آواز بلند کی۔ چنانچہ روزنامہ >نوائے وقت< لاہور نے ۲۳ جولائی ۱۹۵۲ء کے ایشوع میں مسلمانوں کی فرقہ وارانہ کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
>ہم مسلمانوں کے پڑھے لکھے افراد سے یہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو کیوں محسوس نہیں کرتے ؟ اور اپنے ان پڑھ اور سادہ لوح بھائیوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ اگر مسلمانوں میں یہ باہمی مناقشت اسی طرح جاری رہی تو مسلمانوں کا یہ نیا ملک پاکستان خدانخواستہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ سپین میں مسلمانوں کی تاہی کا باعث ان کے باہمی جھگڑے ہی تھے؟ اور یہ ان جھگڑوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج سپین میں ایک مسلمان بھی نہیں ملتا حالانکہ مسلمانوں نے صدیوں اس ملک پر حکومت کی ہے۔ خلافت بغداد کی بربادی بھی مسلمانوں کے ان باہمی مناقشات کے باعث ہوئی اور آپ کے اپنے زمانہ میں سلطنت عثمانیہ مہض اس وجہ سے پارہ پارہ ہوئی کہ مسلمان مسلمان کا دشمن تھا۔ سپین` بغداد اورترکان عثمانی کی سلطنیں اپنے اپنے زمانہ میں دنیا کی طاقتور تر سلطنتوں میں شمار ہوتی تھیں اور ہم عصر یورپ ان کے دبدبہ اور ہئیت سے کانپنا تھا مگر آج ان عظیم الشان سلطنتوں کے صرف کھنڈر باقی رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں نے آپس میں لڑ بھھڑ کر اپنے ہاتھوں سے ان سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔
وطن عزیز پاکستان سے محبت اور عقیدت بجا` مگر ان سلطنتوں کے مقابلہ پر پاکستان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اس بچہ نے تو ابھی گھٹنوں پر چلنا بھی نہیں سیکھا۔ اور ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹنے کے درپے ہیں۔ کیا وطن سے محبت اور عقیدت کا یہ تقاضا نہیں کہ پڑھے لکھے لوگ مسلمان عوام کو اس مہیب خطرہ سے آغاہ کریں۔ ابھی پاکستان میں قومیت یا ملیت کا شعور یکسر ناپید ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت` اخبار` سیاسی کارکن اور پڑھے لکھے لوگ عوام میں ملیت اور قومیت کا شعور پیدا کرتے اور ہر شخص میں یہ احساس پیدا کیا جاتا کہ وہ مسلمان اور پاکستانی ہے مگر ہماری قوم کن جھگڑوں میں الجھ گئی ہے ؟ اور ان جھگڑوں کا کیا انجام ہوگا ؟ جن خود غرضیوں کے منہ کو لہو لگ چکا ہے۔ کیا وہ اسی پر اکتفاء کریں گے ؟ جن کی دکان مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی وجہ سے چلتی ہے۔ کیا وہ شیعہ سنی کو ایک دوسرے سے لڑانے کے بعد یہ دکان بند کردیں گے ؟ ہر گز نہیں آج شیعہ سنی جھگڑا ہے کل یہی لوگ سنیوں کو وہابیوں سے لڑائیں گے۔ پھر اہل حدیث اور اہل قرآن میں جنگ ہوگی۔ اور اگر یہی دلیل و نہار رہے تو کچھ عرصہ بعد پاکستان میں شیعہ سنی ` وہابی چکڑالوی بریلوی` دیو بندی تو بہت مل جائیں گے مگر سیدھے سادے مسلمان اور پاکستانی چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکیں گے۔
شکر ہے کہ ارباب اقتدار میں سے دو اصحاب کو اللہ نے توفیق دی کہ وہ اس مسئلہ پر لب کشائی کریں۔ میاں ممتاز دولتانہ نے پسرور میں کہا ہے کہ:۔
>فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ جب بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا جارہا تھا تو کسی نے مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں کوئی تمیز روا نہ رکھی تھی۔ اس کے برعکس سبھی نشانہ ستم بنے محض اس لئے کہ وہ مسلمان تھے۔<
خان عبدالقیوم وزیراعلیٰ سرحد نے مانسہرہ میں یہ کہا ہے کہ:۔
>ماضی میں مسلمانوں کی سلطنتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ دوسروں نے ان مسلمان سلطنتوں میں انتشار کا بیج بو دیا۔ مسلمانان پاکستان کو ان تاریخی واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور انرونی انتشار پید اکر کے اپنی آزادی خطرے میں نہ ڈالنی چاہئے نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود سے سخت ناخوش ہیں۔ وہ ہر ممکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں۔ بنگال میں زبان کا جھگڑا اسی قسم کا ایک بارود تھا۔ اب پنجاب میں اور دوسری جگہ حد درجہ بھک سے اڑ جانے والے بارودی جھگڑے کھڑے کردیئے گئے ہیں۔<
خدا کا شکر ہے کہ ارباب اقتدار اس خطرے سے آگاہ ہیں جو ملک و ملت کو درپیش ہے۔ پھر وہ اس کا استیصال کیوں نہیں کرتے ؟ اس معاملہ میں دوزخی یا نیم ملاناہ پالیسی ملک و ملت کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ ارباب اقتدار کا فرض ہے کہ حکومت کی مشینری کو اس خطرہ کے استیصال کے لئے استعمال کریں۔ تبلیغ اور تشہیر کے بے شمار ذرائع حکومت کے پاس ہیں یہ ذرائع اس کام آنے چاہئیں کہ مسلمان عوام کو یہ بتایا جائے کہ ماضے میں دنیا کے ہر خطہ میں مسلمانوں کے باہمی جھگڑے ہی ان کی تباہی و بربادی کا باعث بنے۔ اب پاکستان کو بھی )جیسا کہ قیوم صاحب اور دولتانہ صاحب دونوں نے فرمایا ہے( یہی خطرہ درپیش ہے۔ مسلمان عوام کو ملک و ملت کے ان دشمنوں سے خبردار رہنا چاہئے جو مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔
تبلیغ و تشہیر کے ذرائع کے علاوہ قانون کی قوت بھی حکومت کو حاصل ہے۔ آخر وہ قوت جائز اور نیک مقصد کے لئے کیوں استعمال نہیں کی جاتی ؟ دولتانہ صاحب نے بعض سرگرمیون کے متعلق صاف لفظوں میں یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ہیں۔ اور قیوم صاحب نے صرف یہی نہیں یہ بھی اشارہ کردیا ہے کہ بعض نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود پر سخت ناخوش ہیں اور ہر ممکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں اور خطرناک سرگرمیاں اسی ناپاک مہم کے ہتھیار ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو ارباب اقتدار کے اختیارات ملک و ملت کے ان بدترین دشمنوں کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آتے جو ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو خود ارباب اقتدار ے قول کے مطابق ملک کے لئے تباہ کن ہیں ؟
حیرت ہے کہ جائز سیاسی اختلاف کا اظہار کرنے پر تو زبان کٹتی ہو مگر ان عناصر کو جو ملک کو برباد کردینے والی سرگرمیوں میں مصروف ہوں کھلی چھٹی ہو۔ اس کی وجہ دو رخی ہے یا نیم دلی اور کمزوی ؟
خدارا اب بھی آنکھیں کھولئے ورنہ جب پانی سر سے گذر گیا تو پھر جاگنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ملک اپنی زندگی کے ابتدائی چند سالوں بعد ہی تباہی کے موڑ پر پہنچ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ہمیں لوگ ہیں۔ یہ آگ ہم نے لگائی ہے اب اگر نیک نیتی کے ساتھ ملک کو بربادی سے بچانا مقصود ہے تو ہم سب کا۔۔ صرف حکومت کا نہیں۔۔ حکوتم` لیڈروں` اخبارات علمائے کرام` پڑھے لکھے افراد سب کا فرض ہے کہ وہ اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں ورنہ یاد رکھئے شیعہ` سنی ` وہابی کسی کا گھر محفوظ نہیں۔
>جو ڈوبی یہ نائو تو ڈو گے سارے<
روزنامہ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< لاہور نے ایجی ٹیشن سے متاثر ہو کر حسب ذیل اداریہ لکھا:۔
عین اس وقت جب کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق بات چیت انتہائی نازک مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے ظفر اللہ کے خلاف موجود ایجی ٹیشن اس یقینی کیفیت کا پتہ دیتی ہے کہ جب کہ کشمیر جل رہا ہے۔ علماء بنسریاں بجارہے ہیں۔ دو ہفتہ کے اندر اندر جینیوا میں کشمیر کے متعلق آخری بات چیت جس پر پاکستان کی موت و حیات کا دارومدار ہے شروع ہوجائے گی لیکن اسلام کے ان مقدس پاسبانوں نے >اسلام خطرے میں ہے۔< کا نعرہ لگا کر اس شخص کی فوری برطرفی کا مطالبہ شروع کردیا ہے جو پاکستان کی زندگی اور موت کی لڑائی لڑنے کے لئے جارہا ہے۔ اگر احرار شور و غوغا کریں تو یہ بات بڑی حد تک سمجھ میں آنے والی ہوسکتی ہے کہ وہ عین اس موقعہ پر جب کہ مسئلہ کشمیر اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے اور دو ٹوک فیصلہ کا وقت آچکا ہے اس مسئلہ سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا کر اپنے آقائوں کا نمک حلال کررہے ہیں لیکن جب بعض علماء بھی دشمن کا کردار ادا کرنے لگیں تو ان کی سمجھ کی کمی پر ماتم کناں ہونے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے ؟
بات چیت کے اس خطرناک مرحلہ پر ملک کو صرف ایک امر کا تہیہ کر لینا چاہئے تھا یعنی ہر قیمت پر کشمیریوں سے انصاف کرانا لیکن ب کہ کشمیر کا معاملہ تیزی سے بگڑتا جارہا ہے عوام کی طرف سے جو چند روز قبل گلے پھاڑ پھاڑ کر اس جنت ارضی کی خاطر اپنے خون کا خری قطرہ تک بہا دینے کا اعلان کیا کرتے تھے اب اس کے متلعق ایک آواز بھی نہیں اٹھتی۔ کیا اب بھی ملا کے نشہ اور نعرے >اسلام خطرے میں ہے< کا شکریہ ادا نہ کیا جائے ؟
قوم کو اس زبردست فریب پر جو مذہب کے نام پر اسلام اور پاکستان دونوں سے کھیلا گیا ہے ہوش میں آجانا چاہئے۔ اب یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ جہاں تک ظفر اللہ کے خلاف ایجی ٹیشن کے پیچھے اندرونی طاقتوں کا سوال ہے سب کچھ ذاتی اغراض اور خواہشات کو بروئے کار لانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی یک جہتی اور سلامتی کے لئے ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال دیں۔ ہمیں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اگر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قائداعظم کا ایک رفیق کار بھی محض ذاتی مقاصد کے لئے پاکستان کی یک جہتی قائم رکھنے کے اصول کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کررہا ہے تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے۔
ایک سے زائد بار ہم واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم قادیانیوں کی ختم نبوت کی تاویل کو قبول نہیں کرتے تاہم ایک سرکاری ملازم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اس کے مذہبی خیالات کو بیچ میں لانے کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں۔ مملکت کے کسی وزیر یا افسر کو پرکھنے کی واحد کسوٹی یہ ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کیا اس کے ذریعہ ملک کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں اور اس کا وجود ملک کے لئے سود مند ہے یا کہ نہیں ؟ اس میزان پر جب ہم چوہدری ظفر اللہ خان کو جانچتے ہیں تو ملک میں اس کے متعلق دو مختلف رائیں نہیں ہوسکتیں کہ بحیثیت وزیر خارجہ کے چوہدری صاحب نے ایک عظیم الشان کام سرانجام دیا ہے اور اپنی ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معمار ان پاکستان نے ایک عظیم الشان کام سرانجام دیا ہے اور اپنے ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معمار ان پاکستان کی صف اولین میں ہونے کے قابل ہے۔ ہم قوم کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب فضیلت ماب غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کانفرنس کی صدارت کا گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کانفرنس کی صدارت کا مسئلہ پیش ہوا تو ہر مسلم ملک نے بلا استثناء اعزاز کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام ہی تجویز کیا۔ اکیلا یہی امر اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وزیر خارجہ کے خلاف پراپیگنڈہ کی جو کھڑی کی جارہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے شاید لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ظفر اللہ خاں نے کبھی کسی عہدے کے لئے درخواست نہیں کی۔ اور دو موقعوں پر جب پاکستان کی نیابت کا سوال اٹھا قائداعظم کی نظر آپ پر ہی پڑی۔ بائونڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کی پیروی کرنے کے موقعہ پر اور بعد ازاں پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کرنے کے وقت۔ دونوں مواقع پر متحدہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے مسلم لیڈر کی معرفت آپ سے ان اہم ذمہ داریوں کو اٹھانے کی درخواست کی گئی۔ یہ لیڈر جن کا نام ہم بعض مخصوص وجوہات کی وجہ سے ظاہر نہیں کرسکتے ابھی تک بھارت میں مقیم ہیں۔ بائونڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرنے کے معاملہ میں بھی آپ کو ہدف ملامت بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ ہی گورداسپور کو پاکستان کے ہاتھ سے کھو دینے کے ذمہ دار ہیں۔ ایک معمولی آدمی بھی اگر ذرا سی سمجھ بوجھ سے کام لے تو سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس الزام میں رائی برابر بھی صداقت ہوتی تو قائداعظم آپ کو وزارت خارجہ جیسے اہم عہدہ کے لئے کسی صورت میں بھی نہ چن سکتے تھے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ظفر الل¶ہ خان نے اس عہدہ کو قبول کرنے میں بڑی ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ قائداعظم کی پیشکش کے جواب میں آپ نے کہا کہ اگر آپ کو میری قابلیت اور دیانت و امانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی اور صورت میں پاکستان کی خدمت کرنے کو تیار ہوں۔ اس پر قائداعظم نے یہ تاریخی جواب دیا >آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھ سے ایسے جذبات کا اظہار کیا ہے مجھے پتہ ہے کہ آپ عہدوں کے بھوکے نہیں ہیں۔<
قائداعظم کا یہ جواب چوہدری صاحب کی قابلیت اور استبازی کا ایک روشن ثبوت ہے یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چوہدری صاحب کے مذہبی متقدات کے باوجود قائداعظم آپ کے ہاتھوں پاکستان کے مفادات کو پوری طرح محفوظ سمجھتے تھے۔ اس پاکستان میں جس کا تصور قائداعظم کے ذہن میں تھا عوام کے خادموں کو ان کی قابلیت اور دیانت و امانت کے پیمانہ سے ناپنا چاہئے نہ کہ ان کے مذہبی معتقدات کی بناء پر قائداعظم کے تصور میں ایسے پاکستان کا نقشہ تھا جس میں نہ مسلمان ہوگا` نہ ہندو نہ عیسائی مذہبی اعتقاد کی بناء پر نہیں بلکہ پاکستان کے شہری ہونے کی بناء پر۔ ۶۵
الحاج خواجہ ناظم الدین کو جن کے کندھوں پر قائداعظم کا بوجھ آپڑا ہے قائداعظم کے مقدس ترکہ >پاکستان< کی جسے علماء ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں پوری حفاظت کرنی چاہئے- حالات کی موجودہ رفتار سے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت میں ابتری پیدا ہونے کا سخت خطرہ ہے۔ علماء جو پاکستان کو اپنے خود ساختہ مذہبی اصولوں کی بناء پر اپنی جائیداد سمجھتے ہیں موجودہ ایجی ٹیشن کو ملک میں اپنی قیادت قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنارہے ہین۔ ان کا اصل مقصد طاقت حاصل کرنا ہے لیکن انتخابات کے سیدھے راستہ سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اب وہ مذہبی عصبیت کے چور دروازہ سے داخل ہو کر اپنی اغراض حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ مملکت نوزائیدہ پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔
ہمیں یقین ہے کہ مرکزی کابینہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ وہ خلاء جو ظفر اللہ خاں کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے پیدا ہوگا اس کا پر کرنا ناممکن ہوگا۔ چند روز قبل ان کے استعفے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو روشن خیال عوام کو سخت دھکا پہنچا تھا۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے موجودہ کشتی بان خواجہ ناظم الدین جنہوں نے دلیر قیادت کی ایک مثال قائم کردی ہے اور قوم کی زندگی میں جن طوفانوں سے انہیں سابقہ پڑا ان کا انہوں نے دلیری سے مقابلہ کیا حالات کی نزاکت کو پوری طرح محسوس کریں گے اور ملک کی ایسی دلیرانہ قیادت کریں گے جس کا حالات تقاضا کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ کو جب کہ وہ اس آخری نازک مرحلہ پر پاکستان کی نیابت کرنے جنیوا تشریف لے جا رہے ہیں ملک کے واحد ترجمان کی حیثیت سے قوم کا پورا اعتماد حاصل ہونا چاہئے- دشمن کے جاسوسوں نے ایسے آدمی کے عزت و وقار اور اقتدار کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں جو ملک کی جنگ لڑنے باہر جارہا ہے۔ کشمیر کے معاملہ پر بھرپور ضرب لگائی ہے۔ اب یہ پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی ایک ایسے جرات مندانہ بیان سے کرے جس میں وزیر خارجہ کی قابلیت دیانت و امانت اور نمائندہ حیثیت پر پورا اعتماد ظاہر کیا گیا ہو۔ ۶۶ )ترجمہ(
اسی طرح سالار نیشنل گارڈ مسلم لیگ نے >امروز< کے ایک حقیقت افروز مضمون کی بناء پر حسب ذیل اشتہار دیا:۔
>بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم<
پاکستان کے دوست نما دشمنوں کو انتباہ
کراچی میں احرار نے یہ پوسٹر لگایا کہ >ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے ہٹا دو< اس کی بابت سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخری کیوں ہٹایا جائے ؟
کیا اس لئے کہ
چوہدری صاحب کو ہمارے محبوب رہنما بانی پاکستان حضرت قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی دور بین نگاہ نے وزارت خارجہ کے لئے منتخب کیا اور حضرت قائد ملت لیاقت علی خاں نے ان کے کام کی تعریف کی۔ حضرت قائد پاکستان الحاج خواجہ ناظم الدین وزیراعظم و صدر مسلم لیگ اور آپ کے رفقاء کار قائدین نے بار بار ان پر اعتماد کا اظہار فرمایا۔ تمام اسلامی ممالک کے مدبرین نے ان کی اسلامی خدمات کی تعریف کی اور آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد نمائندوں نے انہیں اپنا مشیرو معاون بنا رکھا ہے۔
یا اس لئے کہ ؟
اس فتنہ کو کھڑا کرنے والے اور ہوا دینے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے شروع سے ہی ہمارے ان محبوب رہنمائوں پر اعتما نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے محبوب وطن پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیا بلکہ شدید مخالفت اور پاکستان کو پلیدستان اور بیوقوفوں کی جنت بتایا اور آج بھی ان کی موجودہ روش سے یہی ظاہر ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشمکش پھیلا کر ہمارے زریں اصول
اتحاد تنظیم یقین محکم
کو برباد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہوں۔ وہ اپنی روش سے حضرت قائداعظم اور قائد ملت کی ارواح کو اذیت پہنچا رہے ہیں۔ ہم ان کو اپنے محبوب رہبر ملت جناب الحاج خواجہ ناظام الدین وزیراعظم پاکستان و صدر مسلم لیگ کا ارشاد پیش کر کے تنبیہہ کرتے ہیں کہ وہ انتشار پسندی اور فرقہ پرستی سے باز آجائیں۔ اپنے بے اعتمادی کے مرض کا علاج کریں اور قوم کا شیرازہ منتشر کر کے غرقابی کی طرف نہ دھکیلیں ورنہ یاد رکھیں کہ قوم ان باتوں کو ہر گز برداشت نہ کرے گی ہوشیار باش۔
رہبر ملت وزیراعظم کا ارشاد
ملک کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو ہماری آزادی پر بالواسطہ حملہ کر رہے ہیں تاکہ ملک کے لیڈڑوں اور حکومت ے ارکان کے متعلق عوام کے دلوں میں بے اعتمادی پیدا ہوجائے یہ صوبہ پرستی` فرقہ پرستی اور اسی قسم کے دوسرے امور چھیڑ کر پاکستانیوں کے درمیان نفاق و نفرت پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ تمام مسلم لیگی حضرات اور ہر وفادار پاکستانی کا فرض ہے کہ ان شر انگیز سرگرمیوں کی مخالفت کرے- انہیں رسوا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ اٹھا رکھے۔ یہ وہی ہیں جو تقسیم سے پیشتر پاکستان کے عقیدے ہی کے خلاف تھے۔ اگرچہ ان میں سے بعض آج پاکستان اور اسلام کی حمایت کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن ہم ان پر ہرگز اعتبار نہیں کرسکتے۔< )اروز ۱۴ اکتوب۴ ۱۹۵۲ء(
)المشتھر:۔
سالار نیشنل گارڈ۔
مسلم لیگ لاہور( )ناظر پریس کراچی(
گوجرانوالہ
گوجرانوالہ بھی احراری تحریک کا ایک مضبوط مرکز بنا ہوا تھا۔ اس شہر کے اخبار >لاحول< نے اپنی ماہ ستمبر ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں احراری ایجی ٹیشن کو ملک و ملت کے مفاد کے لئے سخت مضرت رساں قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>گذشتہ تین ماہ حکومت عالیہ پاکستان کی آزمائش کے دن تھے۔ احرار جو کہا کرتے تھے کہ مسلمان کو پاکستان تو کیا اس کی >پ< بھی میسر نہ ائے گی ختم نبوت کی آڑ میں ملک میں شور و شر پھیلانے اور کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہین۔ اور حکومت یہ جانتی تھی کہ ان کی تار دہلی سے مولوی حبیب الرحمن بلارہے ہیں جو پنڈت نہرو کے معتمد خاص بنے ہوئے ہیں۔ ۶۷]4 [rtf اور حکومت یہ بھی جانتی تھی کہ احرار جو کام کرتے ہیں قوم یا اسلام کی خاطر نہیں کرتے بلکہ اپنے ذاتی وقار اور بگڑی ہوئی شہرت کو بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ چنانچہ مسئلہ شہید گنج جو خالص قومی اور اسلامی مسئلہ تھا اور مسلمانوں کی موت و حیات کا سوال تھا اس کو احراری لیڈروں نے اس لئے ادھورا چھوڑ دیا اور عین موقعہ پر اس سے الگ ہوگئے کہ اگر یہ کامیاب ہوگیا تو نام فدائے ملت حضرت مولانا ظفر علی خاں کا ہوگا جو اس وقت اس تحریک کے قائد تھے- چنانچہ ایک جوٹی کے احراری لیڈر کے ایک خط کا عکس بھی اخبار زمیندار میں شائع ہوا تھا جس میں خود ساختہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اس تحریک سے لیحدہ رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور صاف لکھا تھا کہ کام تو احرار کریں گے لیکن نام مولانا ظفر علی خاں کا ہوجائے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ اس پارٹی کے لیڈروں کا کردار ہے کہ مسجد شہید گنج ایسے اہم مسئلہ کو جس پر لاہور کے مسلمانوں نے اپنی جانیں نچھاور کرردی تھیں اور یکی دروازہ کے باہر ان کے خون کی ندیاں بہہ گئی تھیں محض اس لئے ادھورا چھوڑ دیا کہ کام تو احرار کریں گے نام دوسروں کا ہوجائے گا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اس کے بعد اس پارٹی نے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لئے جتنے بھی ہتھکنڈے اختیار کئے وہ ناکام رہے۔ شہید گنج کے مسئلہ پر قوم کے ساتھ غداری کرنے والوں کو مسلمان کبھی بھی معاف نہیں کرسکتے چاہے وہ فرشتہ بن کر بھی آجائیں چنانچہ جب بھی احرار کوئی نئی تحریک شروع کرتے تھے تو اخبار زمیندار لکھا کرتا تھا کہ
ع نیا جال لائے پرانے شکاری
ع روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
ع نمازی اپنے جوتوں سے رہیں ہوشیار
لیکن جوئندہ یا بندہ آخر وہ ایک ایسا مسئلہ تلاش کرہی لائے جس سے وہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی حاصل کر لیں اور دہلی کے مخالف پاکستانی آقائوں کو بھی خوش کر لیں اور یہ دونوں مقاصد اس پارٹی نے قریب قریب حاصل کر لئے ہیں۔ وقار تو خیر چند روزہ ہی ہے کیونکہ جونہی ان کا ساتھ دینے والوں پر یہ بھید کھل گیا کہ احرار کا دوسرا مقصد حاصل ہوچکا ہے اور وہ ملک میں بدامنی اور انتشار اور عوام اور حکومت میں بدظنی` غلط فہمی اور ایک حد تک نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں` جو ان کے دہلوی آقائوں کے مدنظر تھا` تو وہ ان سے الگ ہوجائیں گے۔
ملک چاروں طرف سے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو گلے سے پکڑ رکھا ہے اور کشمیر ہضم کرنے کے لئے سرحدوں پر ساری فوج جمع کئے بیٹھا اور احرار حکومت کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور عوام سمجھنے لگے ہیں کہ حکومت دیدہ دانستہ ایک جماعت کا ساتھ دے رہی ہے اس کی پشت پناہی کررہی ہے اور اسے کشتی و گردی زدنی قرار دینے میں بہت لیت و لعل کررہی ہے۔ جو مسئلہ ختم نبوت میں ان کے ہم خیال نہیں اور اپنی تبلیغ کے وسیع وسائل اختیار کررہی ہے جس سے مسلمان اور خود ساختہ امیر شریعت کے ساتھی قطعاً غافل ہیں۔ ان کے پاس دلائل کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے اور اب وہ مجبور ہو کر دھینگا مشتی پر اتر آئے ہیں اور حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس جماعت کا حقہ پانی بند کردے۔ ان پر کاروبار اور ملازمت کے دروازے بند کردے اور پھر ان کو دیس نکالا دے۔ لاحول ولا قوہ۔
ایک مٹھی بھر جماعت سات کروڑ پاکستانی مسلمانوں کو خائف کرنے اور اس جماعت کی نامہ بندی کرنے میں احرار پوری طاقت خرچ کررہے ہیں حالانکہ صاف اور سیدھی سی بات ہے۔ اگر یہ جماعت باطل پر ہے تو کسمپرسی سے اپنی موت آپ مر جائے گی اسے اتنی اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر وہ راستی پر ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی` غلبہ اور قیام سلطنت کے منصوبہ کو نہیں روک سکتی۔
معلوم نہیں احرار کو پاکستان کی وفاداری کا بار بار اظہار کرنے کا مروڑ کب سے اٹھا ہے ؟ بانی پاکستان قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کی روح پر لاکھ لاکھ رحمتیں نازل فرمائے( ان کے متلعق احرار جو کچھ کہا کرتے تھے فحاشی کی ڈکشنری م=بھی اس سے شرمسار ہوجاتی تھی۔ اور بھی چند ہی روز قبل کی باتہے سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری نے ایک تقیر کے دوران کہا تھا >میں قائداعظم ہوں جائو جو کچھ میرا کرسکتے ہو کر لو۔< اس پر بھی مسلمان ان کی پاکستان ہمدردی کے قائل ہوجائیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ جب بھی ملک پر مصیبت آئے گی احرار کے ہاتھوں آئے گی۔ نوٹ کر لیں۔
مسئلہ ختم نبوت کی نوعیت اور اہمیت سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کی باگ ڈور ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں دینا جو اپنے وقار کے لئے سرگرم عمل ہو قرین دانشن و عقلمندی نہیں۔ مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنا چاہئے اور حکومت اس سلسلہ میں جو کچھ کررہی ہے یا آئندہ کرے گی وہ مسلمانان پاکستان و مملکت پاکستان کے شایان شان ہوگا اور دنیا بھر مین اہمیت اور فوقیت حاصل کرنے والا پاکستان قرین انصاف و دانش طرز عمل اختیار کرے گا۔ حکومت کسی بھی جماعت کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کرسکتی۔ احرار کو تبلیغ کا جواب تبلیغ سے دینا چاہئے اور حکومت کو مجبور و پریشان کرنے یا عوام کو اس کے خالف اکسانے کا طرز عمل ترک کردینا چاہئے۔
مسلمان عوام نہایت صائب رائے اور دانشمند ہیں اور وہ ہر معاملہ میں حکومت کا ساتھ دیں گے اور پاکستانکی شہرت و سالمیت کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیں گے اور ہر معاملہ میں ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کریں گے اور وقتی جوش میں کوئی ایسا اقدام نہ کریں گے جو بعد میں انہیں کف افسوس ملنے پر مجبور کردے۔ وما علینا الا البلاغ۔<۶۸
صوبہ سرحد
صوبہ سرحد مغربی پاکستان کا واحد صوبہ تھا جہاں عبدالقیوم خاں صاحب کی مسلم لیگی وزارت کے ہاتھوں صورت حال مکمل طور پر قابو میں تھی۔ اس صوبہ کے اخبار >تنظیم< نے اس نام نہاد تحریک کو ختم پاکستان کی سازش قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>خدا کی شان آج وہی لوگ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ارکان حکومت پر اس امر کا زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کے مختلف العقائد مسلمانوں کو جن میں ایک جماعت احمدیہ بھی ہے اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو اور پاکستان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس مطالبہ کی تائید میں ان دونوں جماعتوں )مولانا موودی کی جماعت اسلامی اور امیر شریعت ر عطاء اللہ شاہ صاحب کی جماعت احرار( نے مسلم رائے عامہ کو بھی متاثرکررکھا ہے جو سرے سے پاکستان کے قیام کے ہی نہ صرف مخالف تھے بلکہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم اور ان کے دوزرے ساتھی مسلم لیگی زعماء بھی ان کے نزدیک صحیح مسلمان ہی نہ تھے۔ مطالبہ پاکستان کی مخالفت میں قائداعظم سمیت مسلم لیگی لیڈروں کو جو بڑی سے بڑی فحش کلامی ہوسکتی ہے سے یاد کیا۔
جماعت احمدیہ نے مالبہ پاکستان کی تائید میں ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہوئے اپنے مرکز اور لاکھوں روپیہ کی جائیداد کو چھوڑ کر اپنے کلمہ گو بھائیوں کے زیر سایہ آگئے ہیں مہر و محبت سے انہیں اپنے سینوں سے ملانے کے بجائے یہ کہاں کا انصاف اور اسلام ہے کہ اقتدار کے خواہش مند چند سیاسی لیڈروں کی خاطر ایک کلمہ گو فرقہ سے متعلق ہزاروں انسانوں کی زندگی دوبر کردی جائے ؟ حکومت کو پریشان کرنے اور مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کی خاطر ایک ایسا مطالبہ پیش کردیا گیا ہے جسے اگر آج تسلیم کر لیا جائے تو اس سے کل دوسرے مسلم فرقوں کو بھی اقلیت قرار دینے کی راہ صاف ہوجاتی ہے نیز حکومت اور مسلمانوں کے پاس اس امر کی کیا گارنٹی ہوسکتی ہے کہ جب اسلام کا دائرہ احرار کے نزدیک اس قدر تنگ ہے کہ کلمہ` نماز` روزہ` حج`زکٰوۃ پانچوں ارکان اسلام کی سختی سے پابندی کرنے والے ایک گروہ کو سرے سے ہی کافر اور غیر مسلم قرار دیا جارہا ہے خدانخواستہ` اگر ان کے ہاتھ اقتدار آجائے تو پاکستان کے دوسرے مسلمانوں سے جو کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسلامی اور منصفانہ سلوک روا رکھیں گے دوسری صورت میں جب تک ان کے ہاتھ اقتدار نہیں آجاتا پھر بھی یہ لوگ اسی طرح پاکستان میں رہنے والے دوسرے فرقوں کو بھی اقلیت قرار دلوانے کے لئے پاکستان میں کسی نہ کسی وقت قومی جنگ کی ہولی گرم کر کے ہی دم لیں گے۔ جب یہ لوگ سرے سے ہی مسلم حکومت کے قیام کے مخالف تھے اور ہیں تو انہیں اس سے کیا غرض )اگر اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں آسکتا( تو مسلمانوں کی اس کمزوری سے خواہ ہندو فائدہ اٹھائیں یا روس لیکن یہ لوگ موجود حکومت کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہندو سے ان کا تعاون ہوسکتا ہے۔ انگریزی ڈپلومیسی کی یہ تائید کرسکتے ہیں اور ان کے اشتراک عمل سے بقول احرار` مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا خود ساختہ پودا تھا اور انگریزوں نے اس پودا کی کاشت بقلو احرار` مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا خود ساختہ پودا تھا اور انگریزوں نے اس پودا کی کاشت اس لئے کی کہ مرزا غلام احمد جہاد کا مخالف تھا اور اس نے حکومت وقت )یعنی انگریزوں( کے خلاف مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کے جذبہ کو مفقود کرنے کی کوشش کی لیکن ان مذہبی رہنمائوں )جماعت احرار و اسلامی( والوں کی تو جہاد کی حقیقت و اہمیت معلوم تھی کہ ایک غیر ملکی مشرک حکمران ان قوم کے خلاف جہاد روا بلکہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔ آپ بتایئے آپ لوگوں نے کس حد تک انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے کام کیا کیا پاکستان میں شرعی آئین کے نفاذ کے یہ دعویدار )جماعت اسلامی اور احرار( ایک اسلامی سلطنت کے قیام کی مخالفت میں غداری کی جو سزا شرعی آئین پیش کرتا ہے اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے تو قیام پاکستان کے پہلے روز سے ہی پاکستان میں خود ہی شرعی آئین کے نفاذ کا اجراء ہوجاتا۔ غداری سے بڑھ کر اسلامی آئین میں کوئی جرم نہیں۔ جب یہ لوگ خود اسے بچ نکلے ہیں تو یہ پاکستانی عوام کے کونسے اتنے خیر خواہ ہیں جو ہندوئوں سے ان کی فروختگی کا سودا )متحدہ حندوستان کی صورت یں( کرنا چاہتے تھے- شرعی آئین کے قیام کے لئے زمین و آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ کیا شرعی آئین کے دعویدار یہ لوگ نہیں جب سکھوں کے قبضہ سے مسجد شہید گنج کو چھڑانے کے لئے ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے شہید گنج کے حصول کے لئے قربانیاں پیش کیں اس وقت بھی شہید گنج ایجی ٹیشن میں احرار بزرگوں نے فوج کی گولی سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی شہادت کو حرام موت اور کتے کی موت مرنے کا فتویٰ دیا تھا اور بجائے اس کے مسلمانوں کے ساتھ شہید گنج ایجی ٹیشن میں شریک ہوتے الٹا ان کی انگریزوں اور سکھوں سے ساز باز تھی۔ ہم حیران ہیں کہ جس جماعت نے ہر موقعہ پر مسلم رائے عامہ کے خلاف مشرکوں اور مرتدوں کا ساتھ دیا ہو وہ آج کس طرح پاکستان کو ضعف پہنچانے اور اپنے اقتدار کے لئے ایک کلمہ گو فرقہ کو اقلیت اور اقلیت بھی غیر مسلم قرار دلوانے کے لئے ایک بار پھر مذہبی روپ میں پاکستان کے سادہ لوح اور مذہب کے نام پر اپنا سب کچھ لٹا دینے والے غیور مسلمانوں کو اپنے ہمنواز بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے اور قوم ان کے سابقہ کارناموں کو جانتے بوجھتے ہوئے پھر ان کا آلہ کار بننے کے لئے ہوگئی ہے- باہمی خانہ جنگی کے ذریعہ بیرونی اقتدار کے ہاتھوں غلامی کے ایک ایسی گڑھے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایک طویل عرصہ کی غلامی کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمان قوم کو قائداعظم کے اخلاص و استقلال کے ذریعہ ای آزاد ملک دیا تھا اور آج اس ملک کو دوبارہ غیر ملکی استبدادیت کے پنجہ میں دینے کی کوششیں شروع ہیں۔
چونکہ ہماری موجودہ حکومت ایک دفعہ خود مذہب کے نام پر پاکستان کے حصول میں قوم کو استعمال کرچکی ہے اور اس لئے اب وہ مسلم رائے عامہ کے جوش و خروش کا اپنے آپ میں مقابلہ کی تاب نہ پاتے ہوئے باوجود نتیجہ سے باخبر ہونے کے یہ کھیل دیکھ رہی ہے اور بے بس ہے یا نادانستہ طور پر پہلے اس تحریک کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اور اب پانی سر سے چڑھ چکا ہے اور ہمارے یہ مولوی جو پاکستان اور جو مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ پاکستان کے دشمنون سے قیام پاکستان سے پہلے جو سودا کرچکے ہیں نصف قوم ہلاک اور تباہ برباد کرانے کے باوجود بھی اپنے اس سودا پر پوری ایمان داری سے قائم ہیں خواہ ملک اور ساری قوم اس سودا کی نذر ہوجائے۔ احمدی تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے احرار بزرگ خود انہیں سرکاری طور پر اقلیت قرار دلوا رہے ہین۔ اب جب کہ ان کو پاکستان کے کسی صوبہ میں آئین ساز اداروں یا لوکل باڈیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کوئی ایک نشست بھی مخصوص نہیں اور نہ ہی احرار نظریات کے رو سے ان کی جان و مال` عزت و آبرو محفوظ ہیں عیسائی مشتریوں کی طرح قانوناً انہیں بھی اپنے عقائد کی اشاعت یا تبلیغ کی اجازت مل گئی۔ احمدیوں کو اس رعایت کے لئے احرار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہیں پاکستان سے باہر نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ نیز اگر احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں اور میں تو احرار کی طرف سے >غیر مسلم اقلیت< کا لیبل الٹا ان کے مفید ثابت ہوگا جب آپ عملاً قولاً اور فعلاً مسلمان ہوں گے تو >غیر مسلم اقلیت< کا ٹائیٹل آپ کے لئے مزید تقویت کا باعث ہوگا کیونکہ پاکستان کے مقتدر علماء کی تمام تر توجہ سیاسیات اور اقتدار کی طرف لگی ہوئی ہے اور ان کی سیاسیات کی راہ میں مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی اثر انداز ہوا اس کی بھی یہی سزا ہوگی جو آپ کے لئے تجویز کی گئی ہے۔
جہاں تک ہماری ناقص رائے کا تعلق ہے ملک افتراق و تشتت سے اسی صورت میں بچ سکتا ہے کہ موجودہ حکمران احرار اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کے حق میں دستبردار ہوجائیں ورنہ افتراق و تشتت کے بیج کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نہایت موثر اور مدلل پراپیگنڈا کی ضرورت ہے جو پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں مسلمانوں کی کئی شاندار حکومتیں فتویٰ ساز علماء کے ہاتھوں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور اگر یہاں پاکستان میں بھی جو کئی مسلم فرقوں کا ملک ہے فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دی گئی تو پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو ماضی میں کئی شاندار اسلامی سلطنتوں کا ہوچکا ہے۔ کابل اور امان اللہ کی مثال سامنے ہے۔
آخر میں ہم اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ احرار سے ہماری فی سبیل اللہ دشمنی اور نہ ہی ہم احمدی ہیں البتہ احرار اور احمدی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کو نقصان پہنچنا کسی حالت میں برداشت نہیں کرسکتے۔< ۶۹
کراچی
کراچی پریس نے بھی ان ملک دشمن سرگرمیوں پر تنقید کی چنانچہ ہفت روزہ >مسلم آواز< نے لکھا:۔
>یوں تو حقیقت مدتوں قبل بے نقاب ہوچکی بلکہ اسلامی دنیا کے علاوہ یورپ کے تمام ممالک کے سیاستدان تسلیم کرچکے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے تمام امور میں آج تک جو اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں ان کے ہر پہلو کے نقش و نگار کو دیکھ کر بڑے بڑے مدبرین وقت انگشت بدنداں ہیں۔
امور خارجہ میں سیادت تدبر کے اعتبار سے ایک طرف آپ سارے ایشیا کے لئے سرمایہ ناز و صد افتخار ہیں تو دوسری طرف اکناف عالم میں سیاسی دانش کے آئینہ دار بھی۔ وہ اوصاف اور قابلیت کے وہ جوہر ہیں جن کی قدر قائداعظم اور قائدملت کرتے تھے لیکن افسوس بھارتی ایجنٹ اور بعض احراری علماء جو کل تک کانگرس کی ہمنوائی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قائداعظم اور مسلم لیگ میں شریک ہونے والوں کو کفر کا فتویٰ دیتے تھے آج ایک طرف پاکستان کا لیبل لگا کر ملک اور ملت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف مذہب کی آڑ لے کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
کہیں تو عوام کو قادیانی اور غیر قادیانی کا غلط فلسفہ سمجھا کر اپنے ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے اور کہیں خلیفہ جاعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں استغاثہ پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کے دلوں میں فرقہ احمدیہ کے خلاف بدظنی قائم رہے اور وقت ضرورت یہ حضرات جہلا کو جلتی ہوئی آگ میں دھکیل دیں۔ ان حضرات کو غلط روش کی ایک زندہ مثال میرے پاس موجود ہے جو عنقریب ایک خاص ایڈیشن میں بمعہ نام عوام کے سامنے پیش کردیں گے۔
بولٹن مارکیٹ کے پاس نیو میمن مسجد زیر تعمیر تھی۔ چند علماء حضرات میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ حکیم صاحب آپ کے اخبار کے لئے دس ہزار روپیہ دلوانے کے لئے ہم ذمہ دار ہیں اگر آپ اس فتویٰ کو اپنے اخبار میں شائع کردیں۔
میں نے شائع کرنے کا وعدہ کر لیا اور فتویٰ ان حضرات سے لے لیا جس میں لکھا تھا کہ اس میمن مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس فتویٰ پر تیرہ مقتدر علماء حضرت کے دستخط بمعہ ثبت ہیں۔ میں نے دوسرے ایڈیشن میں مختلف واقعات لکھتے ہوئے آخر میں لکھا تھا کہ اصل فتویٰ میرے پاس موجود ہے۔ ہر شخص میرے دفتر میں آکر دیکھ سکتا ہے۔
فتویٰ میں نے اس وجہ سے شائع نہیں کیا کہ مجھ کو یقین تھا کہ یہ علماء ہضرات قوم میں ٹکراہ پید اکرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بعد میں چندے بازی سے جیبیں گرم کریں گے- آج یہی علماء حضرات جنہوں نے فتویٰ دیا تھا اسی نیو میمن مسجد میں خود نماز پڑھتے ہیں اور لمبے لمبے وعظ کرتے ہیں۔ ¶یہ حالت ہے ان حضرات کی۔<۷۰
ہفتہ وار >سٹار< کراچی ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء نے اپنے اداریہ میں لکھا :۔
اب جب کہ احرری` احمدی تنازعہ سے پیدا شدہ شور و غوغا کچھ مدہم ہوگیا ہے تو آیئے ہم ایک لمحہ کے لئے بیٹھ کر غور کریں کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو مرکزی وزارت سے علیحدہ کرنے کے جو مطالبات کئے جارہے ہیں ان کے سیاسی نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟ ؟
حکومت پاکستان نے حسب معمول نرم طریقے سے پوزیشن کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے اور چوہدری ظفر اللہ خاں نے بھی جنیوا جاتے ہوئے ایک بیان دیا ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے اس سانپ کے سوراخ کو بند کرنے کی پوری کوشش نہیں کی اور نہ دلیری سے اس شورش کے خطرات کو واشگاف کیا ہے۔ ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ ہم مسئلہ کے مذہبی پہلو پر بحث کریں کیونکہ سبمسلمان ختم نبوتپر متفق ہیں۔ ہمارے نزدیک جو خطرہ بڑا ہم ہے وہ یہ ہے کہ ایسی شورش پاکستان کو بطور ایک ایسی جدید قسم کی جمہوری ریاست کے سخت نقصانپہنچا سکتی ہے جو مشترک قومی ثقافت وکردار` مشترک تاریخ` مشترک رسم و رواج` مشترک مقاصد اور مطمح نظر مشترک معیار اور آرزوئوں سے باہم پیوست ہے۔ افسوس ہے کہ یہ تمام تنازعہ ایسی جذبات فضا میں ہوا ہے کہ کوئی آدمی عقل کی بات سننے کو تیار نہیں لیکن ہم عصر جدید کے تقاضوں اور پاکستان کو پیش آمدہ حالات سے آنکھیں بند نہیںکرسکتے۔ ہمارا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں مگر ان میں آنکھیں کھول کر دیکھنے کی صلاحیت ابھی کچھ باقی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے فہمیدہ ناظرین ہمارے خیالات کو تسلیم کرنے سے پہلے حالات پر گہری اور دانشمندانہ نظر ڈالیں گے۔ کیا یہ مجرمانہ دیوانگی نہیں ہے کہ ہم اپنا وقت` قوت` جوش اور تعمیری فوائد ایسے معاملات پر ضائع کریں جو قوم کے وسیع مفادات کے مقابلہ میں نہایت حقیر اور بے وقعت ہیں۔
پاکستان ایسے ملک میں جہاں ابھی ہمیں اپنا دستور مکمل کرنا ہے جہاں ابھی ہمیں زندگی اور موت کے سوالات حاصل کرنے ہیں جہاں مہاجرین ابھی تک تباہ حال پڑے ہیں۔ جہاں فاقہ کش عورتیں بداخلاقی پر مجبور ہیں۔ جہاں گداگر اور معذور سینکڑوں کی تعداد میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔ جہاں پر بیماریاں` بھوک اور جہاں گداگر اور معذور سینکڑوں کی تعداد میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔ جہاں پر بیماریاں` بھوک اور جہالت مستولی ہیں کیا ہم ایسے تنازعات میں الجھ سکتے ہیں جو ہمارے قومی اتحاد کی جڑیں کھوکھلی کرسکتے ہیں۔ اور یہ تنازعہ بھی کیا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قادیانیت کے یہ مخالف مولوی جو اس وقت پیش پیش ہیں اس فریق کے نمائندہ ہیں جس کے ارکان نے ماضی میں قائداعظم اور علامہ اقبال تک کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ مولانا ظفر علی خاں کو بھی نہیں چھوڑا جو اس تحریک کے سالہا سال تک قائد رہے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ان مولویوں نے جس طریقے سے کفر کے فتوے صادر کئے ہیں اس نے ان کے موقف کے نیچے سے زمین نکال دی ہے۔ یہ فتوے اس طرح بے سوچے سمجھے دئے گئے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے کوئی اپیل نہیں رکھتے اور نہ ان کے کوئی معنے ہیں۔
دوئم:۔ اگر آج ہم قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدیں تو کل ان پیشہ ور ملائوں کو یہ مطالبہ کرنے سے کون روک سکتا ہے کہ شیعوں` وہابیوں اور آغاخانیوں کو بھی غیر مسلم قرار دیا جائے۔ اخراج کا طریق اگر جاری رہا تو اس کے انجام کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ ہم تو اس خیال سے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ کیا آپ بھی ؟
سوم:۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگر کسی مذہبی فرقہ یا معاشی گروہ یا سیاسی پارٹی کو زبردستی دبا دیا جائے تو وہ مرتا نہیں ہے بلکہ زمین دوز ہو کر زیادہ خطرناک بن جاتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ قادیانی پاکستان کے لئے مفید نہیں تو ہمیں اس بات کا بھی پہلے سے اندازہ کر لینا چاہئے کہ انہیں مسلمانوں سے نکالنے کے بعد کیا ان کا سوال اور زیادہ پچیدہ نہ بن جائے گا ؟
چہارم-: اگر ہم تعصب سے اس طرح اقلیتیں پیدا کرتے جائیں تو کیا ہم دنیا کی نظرون میں بے وقوف اور مذہبی دیوانے نے سمجھے جائیں گے حالانکہ جمہوری رجحانات تو یہ ہیں کہ مختلف ثقافتی وحدتوں کو ملک میں یک جا کردیا جائے اور ذات پات اور رنگ کے اختلافات مٹا دیئے جائیں تاکہ ایک قوم کہلانے کے لئے لوگوں میں مشترکہ شہریت کا شعور پیدا ہوا۔
آئو ہم سوچیں کیا ہم پاکستان کا یہ نقسہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہب کو محض نمائشی رنگ دے دیا گیا ہے۔ جہاں مذہبی دیوانگی کا دور دورہ ہے اور جہاں قانون محض تعصب ہے۔
پنجم:۔ اگر ہم احراری مولویوں اور ان کے پٹھوئوں کے کہنے پر قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدیں اور انہیں کلیدی آسامیوں سے محروم کردیں۔ پھر اگر بھارت بھی ہمارے نقش قدم پر چل کر بھارت کے مسلمانوں کو ایسی اقلیت قرار دیدے جس کے ارکان ملک میں کسی کلیدی عہدے پر نہیں لگائے جاسکتے تو ہم اس کو کس طرح محسوس کریں گے ؟؟ اگر ہم میں ذرا بھی دور اندیشی کا مادہ ہے اور ہم ایسی حرکت کے نتائج کا اندازہ کرسکتے ہیں تو ہمیں اپنے ملک میں حقائق کو بنظر غور دیکھنا شروع کردینا چاہئے۔
ششم:۔ ہمیں یاد ہوگا کہ کشمیر پر ہمارے دعویٰ کی بنیاد اس دلیل پر تھی کہ ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اور اگر ریڈ کلف اس علاقہ کو بدنیتی سے پاکستان سے علیحدہ نہ کردیتا تو ریاست کشمیر خودبخود پاکستان کا ایک حصہ بن جاتی۔ اگر ہم قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ کردیں تو کیا ہماری یہ دلیل بے اثر نہیں ہوجائے گی ؟
آخری سوال یہ ہے کہ چونکہ اس شورش کا مرکزی نشانہ چوہدری ظفر اللہ خان ہیں کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم پاکستان کے وزیر خارجہکو فی الفور وزارت سے علیدہ کردیں تو مشرق وسطیٰ اور مغرب کے اسلامی ممالک میں اس کا کیا ردعمل ہوگا ؟ سوال یہ نہیں ہوگا کہ وہ قادیانی ہیں یا نہیں بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کا غیر ممالک میں بطور ایک پاکستانی ترجمان کے کیا مقام اور کیا مرتبہ ہے ؟ چونکہ اس کے متعلق دو رائیں نہیں ہوسکتیں اس لئے اگر ہم احراری مطالبہ مان لیں تو اس کے بین الاقوامی نتائج کے متعلق ہم کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے۔
ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آئو ہم غور کریں اور پھر غور کریں کہ اگر ہم نے پاگل بننے کا عزم بالجزم کر لیا ہے تو ہمارے پاگل پن میں بھی کچھ نہ کچھ نظرم تو ہونا چاہئے- ۷۱ )ترجمہ(
مشرقی پاکستان
مشرقی پاکستان پریس کی نظر میں احراری کی تحریک کے عزائم و مقاصد کس درجہ مکروہ اور ملک و ملت کے لئے تباہ کن تھے ؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مندرجات باسانی لگ سکتا ہے:۔
۱- روزنامہ >ستیہ جوگ< ڈھاکہ نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء میں احراری تحریک کو خالص سیاسی قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کیا:۔
کراچی ۱۹ جولائی۔ مغربی پاکستان کے سیاسی اور سماجی میدان میں ایک اشتعال پیدا ہو کر انتہاء کو پہنچ گیا ہے۔ ادھر قادیانیوں کے خلاف تحریک زوروں پر ہے اور ملتان میں فساد ہوا ہے ادھر )پاکستان کی( راجدھانی کراچی میں مزدوروں اور ملازمین نے ہڑتال کررکھی ہے۔ قادیانی فرقہ کے خلاف تحریک اور اس کے نتیجہ میں جو فسادات رونما ہوئے ہیں اس کی خبر اس سے پہلے اخباروں میں چھپ چکی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قادیانیوں کے خلاف جو تحریک چلائی جارہی ہے اس کا پس منظر سیاسی ہے۔ ان دونوں یہ تحریک کچھ مدھم پڑ گئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی بلکہ خفیہ خفیہ اس کا پرچار جاری ہے۔ پاکستان کے سب سے پرانے روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کی ایک خبر سے ظاہر ہے کہ احراری پارٹی کے لوگوں مسجدوں میں گھوم گھام کر خلاف فرقہ قادیانیہ تحریک کے عام لوگوں کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بہت سے مقامات میں ان کی یہ کوشش ناکام ہوئی ہے۔
‏tav.13.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
لاہور کے قانون پیشہ لوگوں کا خیال ہے کہ احرار کی یہ تحریک اہل پاکستان کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ایک خطرناک کوشش ہے- اسلامی دنیا کے لیڈر کی حیثیت سے ملک پاکستان کو دنیا میں جو مقام اور عزت حاصل ہے احراریوں کی یہ تحریک صرف اس مقام کو گنوانے اور عزت کو بٹہ لگانے کی خاطر جاری ہے وہ لوگ )یعنی لاہور کے قانون پیشہ( یہ امید رکھتے ہیں کہ رائے عامہ کا تعاون حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک آہستہ آہستہ اپنی طعبی موت مر جائے گی تاہم پاکستان میں اس قسم کے خود غرض لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس قسم کی فساد انگریز تحریکات اور ذلیل اور ناجائز پروپیگنڈے کے سہارے سے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس قسم کے لوگ اس طرح کے فسادوں کے لئے لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں۔ حکومت اگر سختی سے ان فسادات کی روک تھام کا انتظام کرے تو حکومت اور عوام دونون کی خیر اسی میں ہے۔ ۷۲ )ترجمہ(
بنگال کے ہفت روزہ >شیی نیک< اپنی اشاعت مورخہ ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء میں لکھتا ہے:۔
ان دنوں مغربی پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتی قرار دینے کی تحریک کا بہت چرچا ہے افواہ ہے کہ مرکزی مجلس کے وزراء کے بعض ایسی ارکان نے جو اپنا اقتدار بڑھانا چاہتے ہیں غالباً اس تحریک کی بنیادی رکھی ہے۔ چوہدری ظفر اللہ کان جو مرکزی مجلس وزراء کے ممبر ہیں آئندہ ان کے وزیراعظم ہوجانے کا امکان ہے اسی ڈر سے ان کو مجلس وزراء سے کارج کرانے کے لئے غالباً احمدیت کے خلاف تحریک پیدا کی گئی ہے- یہ امر اس بات سے ظاہر ہے کہ ہر جگہ احمدیت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ چوہدری ظفر اللہ خان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ ان دنوں مختلف مقامات پر اس بات پر فساتات بھی ہوئے ہیں اور ملتان میں اسی شورش کی وجہ سے پولیس لوگوں پر گولیاں چلانے پر بھی مجبور ہوئی۔ ۲۱ جولائی کو شہر بغداد الجدید )ریاست بہاولپور( سہروردی صاحب کی صدارت میں عوامی لیگ نے ایک جلسہ کیا اور اس میں احمدیوں کو اقلیتی قرار دیتے ہوئے ظفر اللہ خاں کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس قدر شور و غوغا کے ساتھ احمدیوں کی مخالفت کی اس وقت کیا ضرورت تھی ؟ خیال کیا جاتا ہے کہ چند خود غرض لوگ اپنی مطلب براری کے لئے یہ تحریک چلا کر عوا کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان ابھی اندرونی اور بیرونی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر ابھی حل ہونے میں نہیں آتا۔ افغانستان والے روزبروز دشمنی میں بڑھ رہے ہیں ان حالات میں خواہ مخواہ آپس میں الجھنے سے کیا ہوگا ؟
حصول پاکستان کی جنگ شیعہ` سنی` احمدی سبھی نے مل کر لڑی تھی۔ خود قائداعظم شیعہ تھے مگر ان کی قیادت پر کوئی اعتراض نہ اٹھا ظفر اللہ خاں احمدی ہیں لیکن قائداعظم کے وقت سے لے کر چار سال تک ان پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔ ایک صحیح العقل آدمی کے لئے اس بات کا سمجھنا ناممکن نہیں ہے کہ جو گندرناتھ جو غیر مسلم تھے ان کی وزارت پر گیر مسلم ہونے کی وجہ سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا تو سر ظفر اللہ خاں کو غیر مسلم قرار دے کر وزارت سے برطرف کرنے کی تحریک کیوں کی جارہی ہے ؟
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ وزراء میں ظفر اللہ خاں بہترین قابلیت کے مالک ہیں۔ بعض دیگر وزراء کی نسبت بہت سی باتیں سنی جاتی ہیں لیکن ظفر اللہ خاں کے خلاف آج تک کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی۔ اہم عہدوں پر ناقابل لوگوں کے ہجوم سے پاکستان کے تباہی کی طرف جانے کا خطرہ ہے۔ اندریں حالات ظفر اللہ جیسے قابل ترین شخص کو وزارت سے برطرف کرنے کا مطالبہ قوم کے لئے مہلک ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اہم ترین بھلائی کی خاطر اس قسم کی دیوانگی اور آپس کی توتو میں میں کو بند کردینا چاہئے۔ ۷۳ )ترجمہ(
روزنامہ >ملت< )ڈھاکہ( نے ۹ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں چوہدری محمد ظفر اللہہ خاں صاحب کے استعفیٰ کی خبر پر حسب ذیل ریمارکس دیئے:۔
کراچی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی استعفیٰ کی خبر غیر سرکاری طور پر جاری ہے۔ گزشتہ ۶ اگست کو یہ خبر اڑی کہ وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن وزیراعظم نے دوسرے وزراء سے مشورہ کر کے ان سے استعفیٰ واپس لینے کو کہا ہے۔
وزیر خارجہ کے استعفیٰ کی ابھی تک صرف افواہ ہی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا استعفیٰ دے دینا قرین قیاس بھی ہے اور اس سے جو نقصان ہوگا اس کے خیال سے پاکستان کے تمام بہی خواہوں کا پریشان ہونا ایک طبعی امر ہے۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں پاکستان نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ صرف چوہدری ظفر اللہ خان کی جانفشانی اور مساعد جمیلہ ہی کا نتیجہ ہے۔ ایک قابل سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے تمام حکومتوں کی نگاہ تحسین و استعجاب کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ مصر` ٹیونیشیاء` ایران اور فلسطین کی جنگ آزادی میں ان کی گرانقدر امداد کی اہمیت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم جو باوجود طرفداری کے ارادے اور نیت کے ہندوستان کی جنبہ داری نہیں کرسکی تو اس کا موجب وہ براہین قاطعہ کے پہاڑ ہیں جو انہوں نے اپنے حسن خطابت سے ان کی راہ میں رکھ دیئے ہیں۔
ابھی تک مسئلہ کشمیر حال ہونے میں نہیںآیا اور ان دنوں یہ سوال ایک نازک مرحلے میں ہے اور انہی دنوں میں ہر سہ فریق خصومت کی مجلس )جنیوا میں( شروع ہونے والی ہے ایسی وقت میں چوہدری صاحب کے استعفیٰ کا امکان غایت درجہ تکلیف دہ ہے۔ اگر واقعی انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور وہ استعفیٰ منظور بھی کر لیا گیا تو مملکت پاکستان کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ پھر تلافی نہ ہوسکے گی پاکستان کے سامنے جب کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی لاینحل ہے ایسے وقت میں ظفر اللہ خاں جیسے آدمی کو کھو دینا بڑی غلطی ہے۔ آخر پاکستان کے اعلیٰ عہوں پر بعض یورپین اور دوسرے غیر مسلم بھی تو کام کررہے ہیں اسی طرح اگر ظفر اللہ خاں سے بھی کام لیا جائے تو اس میں پاکستان کا کیا نقصان ہے ؟ ہمارے مسلمان بھائیوں کی اس تحریک نے تو فقط یہی ثابت کیا ہے کہ مخالف رائے کو برداشت کرنے کی تربیت ابھی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ ۷۴ )ترجمہ(
بنگالی اخبار >انصاف< نے اپنے ۱۵ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں ایک اداریہ لکھا س کا آخری حصہ درج ذیل ہے:۔
چوہدری ظفر اللہ خاں کی مغرب زدہ خارجی پالیسی کو جو لوگ ناپسند کرتے ہیں وہ بھی ان کے خلاف افواہیں پھیلانے والے اخبارات اور ملک کی متعصب پارٹی کے غیر روادارانہرویے اور ناجائز پراپیگنڈے کو دیکھ کر دلی صدمہ محسوس کرتے ہیں۔ پاکستانکی سیاست میں یہ لوگ فرقہ پرستی کا زہر داخل کررہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کے لئے ایک ترقی یافتہ ملک بننا ممکن ہو جائے گا۔ آیا فرقہ قادیانیہ مسلمان ہے یا نہیں ؟ اس سولا کو اٹھا کر جو ان لوگوں نے وزیر خارجہ کے خلاف جنگ شروع کی ہے اس طبعاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس قسم کی تفرقہ اندازی کو جتنی جلدی روکا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ۷۵ )ترجمہ(
‏Prompted India Agitation
‏Chief Ahmadiyya
‏ necessary if up given be to lable Distinctive
‏ of back the at is India of hand secret the that convinced am <I Din۔ud۔Bashir Mirza declared Agitation>, Ahmadiyya۔Anti present the ۔Mail Daily London the with interview an in sunday on Ahmad Mahmud
‏ to prepared be would and possession his in proof positive dha He ۔added he time, proper the at Autborities proper the before it put
‏ his declaring Pakistan in body authoritative the of event the In mandate a issuing is hesitation no have would he minority, a Muslims,community themselves call and Ahmadi of lable the drop to followers his to ۔declared Leader Ahmdiyya the
‏ Ahmadiyya the of branch Qadiani the of head old year three۔Sixty an of course the in Ahmad, Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza ۔Community Mail Daily the of Shafi ۔Mohd Main with interview exclusive coup a planning was he that allegation the denied categorically ۔Pakistan In power political seize to d'etat
‏ a is Ours ۔theory political a not is <Ahmadiyat said He Ahmadyas between tension present the With ۔movement religious pohitical seizing of think can man mad a only non-Ahmadyas and Ahmadis> for Power
‏ tiny the argument, of sake the for if, Even added: He authority of seat the into getting in succeeds minority Ahmadiyya very the liquidated be to prepared be should it ,force by >۔non-Ahmadis hostile bitterly the of hands the at day next
‏ the and you between conflict a of case In GovernmentQuestion: in Ahmadis that presume to correct it is Government,￿ you to loyalty first their owe would Service
‏an is day the of Government the to <Loyalty conflictAnswer: such into entered I moment The ۔us with faith of GovernmentArticle in Ahmadis of loyalty the test the to put will presentwhich may of out thrown be to ready be should I <Weservice said: he Continuing >۔Khalifa the being of Governmentposition the against unconstitutional anything do never >shall۔law by established Country the of
‏Ahmadis declaring for agitation wide۔country tothe Referring it, dislike <I : said Shahib Mirza community, minority ita because but us, to harm any do to going is it because <Wenot : added he Explaining >۔Islam to name bad a bring ourwill of because and community growing۔internationally and are If ۔Muslims and Islam to kudos of lot bring we work restmissionary eth from separate community minority a branded are we be not will abroad activities missionary our Muslims, wholeof a as people Mslim the of behalf on effort an as willinterpreted This ۔community religious distinct a of work the as but and Ahmadis the between fulf unbridgeable an creat >also۔Muslim rothodox
‏<Wht : question a posed then leader religious shrewd mincrityThe Ahmadiyya proposed the of lines delimiting the be authoritativewill the of event the in that said He >￿ wouldcommunity eh community, minority a as it declaring Pakistan in dropbody to followers his to mandate a issuing in hisitation no have۔only muslim themselves call and Ahmadi of label the
‏mandatory a not is Ahmadi of nomeclature <The : said sakeHe the for only was It ۔book religious our in declareprovisison to followers his asked had founder the that showing of in poerations census the during and in Ahmadis as >themselves۔lifetime his
‏Anjuman your declare Government the <Suppose : yourQuestion be will what it, bans then and organisation Political ofa name the change Will <I : said promptly He >￿ >attitude۔Government the with conflict into come never but Anjuman, the
‏conflict inter-sectarian the of view in whether asked being ofOn establishment the advocate would he isues, religious :eek:n said he Pakistan, in State Islamic freedom> neligious complete a
‏ Islam ۔freedom religious complete is there Stat Islamic an ><In۔ideals religious their to up live to non-Muslims even expects
‏the that dconvince am <I said emphatically then AhmadiyyaHe۔anti present the of back the at is India of hand wouldsecret and possession his in proof positive had He ۔agitation>۔time proper the at authorities proper the before it put to prepared be
‏of Ulema of convention a that like you <Would uponQustion: adjudicate to held be world the over fromall >Islam￿ Islam of pale the outside declared be Ahmadis whether issue the
۔Convention proposed the to party a made are we provided Yes : onAnswer deralced are you vote majority a by <Suppose : inQuestion persist the even you Will ۔non-Muslims be to basis >dectrial۔Muslims are you that claiming
‏attached be to continue still, will Answer<Se۔Islam of brotherhood universal Lahoreto Gazette, Military & Civil The
‏1-3 Pages 1952 22, July Teusday,
بھارت کی بھڑکائی ہوئی شورش
از امام جماعت احمدیہ
اگر ضروری ہوا تو امتیازی شناخت کو ترک کردیا جائے گا۔
>مجھے اس بات کا یقین ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف موجودہ شورش کی پشت پر ہندوستان کا خفیہ ہاتھ ہے< اس بات کا واضح اعلان )حضرت( مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اتوار کے روز لندن کے اخبار >ڈیلی میل< سے ایک انٹرویو میں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس حتمی ثبوت موجودہے۔ اور وہ اسے مناسب وقت پر متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
>اس صورت میں کہ پاکستان صا صاحب اقتدار طبقہ ان کی جماعت کو اقلیت قرار دے دے وہ اپنے پیروکاروں کو یہ حکم جاری کرنے سے دریغ نہیں کریں گے کہ وہ اپنی شناختی >احمدی< کو ترک کردیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے لگ جائیں<
سربراہ جماعت نے واضح الفاظ میں کہا۔
جماعت احمدیہ کی قادیانی شاخ کے تریسٹھ سالہ سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمدنے >ڈیلی میل< کے میان محمد شفیع سے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران اس الزام کی و ٹوک الفاظ میں تردید کی کہ وہ پاکستان میں سیاسی اقتدار پر قابض ہونے کے لئے کسی غیر آئینی انقلاب کا منصوبہ بنارہے ہیں۔
انہوں نے کہا >احمدیت کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے ہماری تحریک مذہبی ہے۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان موجودہ کشمکش کے ہوتے ہوئے کوئی دیوانہ ہی ہوگا جو احمدیوں کے لئے سیاسی تسلط حاصل کرنے کا سوچے<
انہوں نے مزید کہا >اگر بغرض بحث مان بھی لیا جائے کہ قلیل التعداد جماعت احمدیہ بزور قوت سند اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اسے اگلے روز ہی شدید معانہ غیر احمدیوں کے ہاتھوں نیست و نابود ہوجانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔<
سوال-: آپ اور گورنمنٹ کے درمیان تصادم کی صورت میں کیا یہ قیاس کرنا درست ہوگا کہ جو احمدی گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں وہ آپ کے ساتھ وفاداری کو اولیت دیں گے ؟
جواب-: >حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کرنا ہمارے نزدیک ایماں کا جزو ہے۔ عین اس لمحہ کہ میں ایسے تصادم میں حصہ دار بنوں جو کہ حکومت کی ملازمت میں شامل احمدیوں کی وفاداری کا ایک امتحان ہوگا میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ میں خلیفہ ہونے کے موجودہ منصب سے الگ کردیا جائوں۔< آپ نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا >ہم کبھی بھی ملک حکومت` جو قانونی طور پر معرض وجود میں آئی ہے کے خلاف کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے۔<
ملک بھر میں احمدیوں کو اقلیتی گروہ قرار دینے کے ہنگامہ کا ذکر کرتے ہوئے مرزا صاحب نے فرمایا >میں اسے پسند نہیں کرتا۔ اس لئے نہیں کہ اس سے ہمیں نقصان پہنچے گا بلکہ اس لئے کہ یہ اسلام کی بدنامی کا باعث ہوگا۔< اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا >ہم بین الاقوامی سطح پر ایک پھیلتی ہوئی جماعت ہیں اور ہم اپنے گبلیغی کام کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے بے پناہ افرام و احتشام کا موجب بنتے ہیں۔ اگر ہم پر باقی مسلمانوں سے الگ ایک اقلیتی گروہ ہونے کا دھبہ لگایا گیا تو بیرون ملک ہماری تبلیغی سرگرمیوں کو من حیث المجموع مسلمان قوم کی طرف سے مساعی قرار نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ اس ایک علیحدہ مذہبی جماعت کا کام سمجھا جائے گا۔ نیز یہ احمدیوں اور کٹر مسلمانوں کے درمیان ناقابل عبور خلیج پیدا کرے گا۔<
اس کے بعد اس زیرک مذہبی رہنمائے ایک سوال داغ دیا< اس مجوزہ اقلیتی احمدیہ جماعت کی حدود و قیود کیا ہوں گی؟< انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صاحب اقتدار طبقہ کی طرف سے جماعت کو اقلیتی قرار دینے کی صورت میں وہ اپنے پیروکاروں کو یہ حکم جاری کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کریں گے کہ وہ اپنی شناخت >احمدی< تو ترک کردیں اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہنے لگ جائیں۔<
انہوں نے کہا >احمدی نام رکھنا ہماری مذہب کتب میں کوئی لازم شق نہیں ہے یہ صرف اس غرض کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ )حضرت( بانی سلسلہ نے اپنی پیروکاروں کو یہ ارشاد فرمایا تھا کہ وہ ان کے زندگی میں ہونے والی مردم شماری کے عمل کے دوران اپنے آپ کو احمدی ظاہر کریں۔
سوال:۔ >فرض کیجئے کہ حکومت آپ کی انجمن کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیتی ہے اور پھر اس پر پابندی عائد کردیتی ہے اس صورت میں آپ کا ردعمل کیا ہوگا ؟ >انہوں نے بلا تامل جواب دیا >میں انجمن کا نام بدل دوں گا لیکن حکومت کے ساتھ کبھی تصادم کی راہ اختیار نہیں کروں گا۔<
یہ دریافت کرنے پر کہ مذہبی مسائل کے بارہ میں مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کے پیش نظر کیا وہ اس امر کی حمایت کریں گے کہ اسلامی ریاست پاکستان میں مکمل مذہبی آزاد ہو۔
جواب:۔ >اسلامی ریاست میں پوری مذہبی آزادی ہوتی ہے۔ اسلام تو غیر مسلموں سے بھی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی اقدار کے مطابق زندگی بسر کریں۔<
اس کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا >مجھ یقین ہے کہ احمدیوں کے خلاف موجودہ شورش کی پست پر ہندوستان کا خفیہ ہاتھ ہے۔< ان کے پاس اس کا حتمی ثبوت موجود ہے اور وہ مناسب وقت پر اسے متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
سوال:۔ >کیا آپ پسند کریں گے کہ دنیا بھر سے علمائے اسلام کا ایک اجتماع اس مسئلہ پر فیصلہ دینے کے لئے منعقد کیا جائے کہ کیا احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے۔<
جواب:۔ >جی ہاں بشرطیکہ مجوزہ اجتماع میں ہمیں ایک فریق بنایا جائے<
سوال:۔ >فرض کیجئے کہ اکثریتی ووٹ کے ذریعے آپ کو مذہبی تعلیمات کی بناء پر غیر مسلم قرار دے دیا جاتا ہے کیا آپ پھر بھی اس دعویٰ پر مصر ہوں گے کہ آپ مسلمان ہیں۔< ؟
جواب:۔ ہم پھر بھی اسلام کی عالمی برادری کے ساتھ وابستگی کوجاری رکھیں گے۔<
)سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور - منگل ۲۲ جولائی ۱۹۵۲ء ص ۱ تا ۳(
مطالبہ اقلیت کا مذہبی ردعمل
پاکستانی پریس کی طرف سے احراری تحریک کے سیاسی پہلوئوں پر جو ردعمل ہوا اس کا ذکر آچکا ہے اب یہ بتانا باقی ہے کہ جہاں تک اس مطالبہ کے >مذہبی< پہلو کا تعلق تھا اس زمانہ کے بعض سنجیدہ ` باوقار اور مذہبی اقدار کے علمبردار رسائل و اخبارات نے اسے فتنہ` تکفیر سے تعبیر کیا اور اس کی پر زور مذمت کی جس کے ثبوت میں حیدر آباد سندھ کے اخبار >ناظم< ` پشاور کے اخبار >تنظیم< اور کوئٹہ کے رسالہ >کوہسار< کے ادارتی نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ اخبار >ناظم حیدر آباد )سندھ( نے ۷۲ جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں اس فتنہ کو قلب پاکستان میں چھرا گھونپنے کی ناپاک سازش قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>کفر سازی:۔ ہمارے علماء کرام کو کفر سازی کا پورا ملکہ ہے تبلیغ دین کی بجائے کفر گری آج کل ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی بجائے خود مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں۔ دیوبندی علماء کی تحریرات ملاحظہ کیجئے۔ بریلوی علماء کو کفر کی سند دیتے نظر آئیں گے اور بریلوی علماء کے دربار سے دیو بندیون کو کفر کا سرٹیفکیٹ ملے گا وغیرہ وغیرہ ` سنی` شیہ` مقلد ` غیر مقلد` وہابی` بدعتی خدا معلوم کتنے فرقے ان علماء کی بدولت پیدا ہوگئے اور کتنے پیدا ہوں گے۔ کمال یہ ہے کہ جن کے خلاف خود کفر کے فتاویٰ موجود ہوں وہ کس طرح دوسروں پر کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ ان ہی فرقہ بندیوں کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں پر ادبار کی گھٹائیں رہیں۔ اور یہی فرقہ بندی اور عقائدی جنگ آج پاکستان کے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کو ختم کرنے اور انہیں باہم متصادم کرنے کے لئے شروع کی جارہی ہے جس کو فتنہعظیم کہنا بے جانہ ہوگا۔جہاں تک عقائدی اختلافات کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے- بڑے بڑے مصلحان دین اور برگزیدہ ہستیوں کی ان تھک کوششوں کے باوجود یہ اختلاف قائم رہے پھر بھلا یہ ہمارے موٹر نشین اور نرم گدوں پر استراحت کرنے والے علماء جو اپنے نفس کی فرمانبرداری کا کسی حد تک عہد کرچکے ہیں اور جن کا خود امن ملوث ہے کس طرح ان سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے؟
ہوشیارباش-: آج پاکستان میں جس تحریک کا آغآز کیا جارہا ہے۔ جا بجا جلسے کر کے کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں اور فنڈ اکٹھے کئے جارہے ہیں کیا اس تحریک کا مقصد خدمت اسلام ہے ؟ کیا اس تحریک سے مسلمانوں میں ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ؟ کیا اس سے پاکستانی مسلمانوں کی تنظیم پر ضرب نہیں لگتی ؟ کیا اس تحریک سے استحکام پاکستان پر چوٹ نہیں پڑتی ؟ آخر یہ اتنی مدت کے بعد باسی کڑھی میں کیوں ابال ہے ؟ کیا اس میں سیاسی اغراض پوشیدہ نہیں ہیں ؟ کیا اس طرح دشمنان پاکستان کے عزائم کو تقویت نہیں پہنچتی ؟ اور کیا یہ پاکستان اور پاکستانیوں سے غداری نہیں ہے ؟
مسلمان بالکل سادہ واقع ہوا ہے۔ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ آج جو معصومیت کا چولہ پہن کر ان کے سامنے آیا کل وہ کون تھا ؟ اور قوم کے لئے کس طرح عذاب بنا ہوا تھا ؟ یہی ہمارے احراری علماء کرام اور احراری بھائی قیام پاکستان کی مخالفت میں ہندو دوستوں کی آغوش میں بیٹھے ہوئے مسلمانوں کی پھتیاں اڑانے میں کونسی کسر چھوڑ رہے تھی۔ مسلم لیگیوں اور مسلم لیگ پر دشنام طرازی سے کس وقت چوکنے تھے ؟ کیا انہوں نے قائداعظم پر کفر کے فتوے نہیں جاری کئے ؟ کونسا برا لفظ تھا جو ان مولوی حضرات نے قائداعظم کی شان میں استعمال نہیں کیا ؟
پاکستان بن جانے پر طوعاً کرہاً ہمارے ان احراری بھائیون نے پاکستان بننا قبول کیا۔ کیونکہ بھارت کی زمین ان کے لئے تنگ تھی۔ ہندوئوں نے کہہ دیا کہ جب تم اپنے بھائیوں کے ہی نہ ہوئے تو ہمیں کیا توقع رکھنی چاہئے۔ ہماری جمعیتہ الماء پاکستان کے محترم صدر جو آج احراری بھائیوں کے دوش بدوش پاکستان میں عقائدی جنگ کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ برائے خدا اتنا تو بتادیں کہ قیام پاکستان سے قیا اور قبل پاکستان کے بعد انہوں نے قادیانیوں کے خلاف کتنے احتجاجات کئے ؟ کیا انہوں نے مسلم لیگ کے ذریعہ سے قادیانی امیدواروں کو اسمبلیوں میں کامیاب نہیں کیا ؟ کیا مسلم لیگی حکومت پاکستان نے جب چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ مقرر کیا تو کوئی احتجاج کیا گیا ؟ جب دستور پاکستان کے لئے بنیادی حقوق کی کمیٹی میں چوہدری ظفر اللہ خاں کو لیا گیا تو کوئی احتجاج کیا گیا ؟ اور جب آپ نے اس کمیٹی سے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی تو انہیں مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اس کمیٹی سے الگ نہ ہوں >؟ اگر یہ سب حقائق ہیں تو پھر اس وقت راگنی کا مقصد کیا ہے؟
پاکستان سے غداری نہیں کی جاسکتی
ہر پاکستان جانتا ہے کہ استحکام پاکستان کے لئے تمام پاکستانیوں کا بلا لحاظ مذہب و ملت متحد و منظم رہنا ضروری ہے۔ اس وقت کی ذرا سی لغزش نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پاکستان کے ساتھ غداری ہے۔ ایسی حالت میں فرقہ پرستی اور عقائدی جنگ کے حامی خواہ ان کی نیت صاف ہی کیوں نہ ہو سیاسی نوعیت سے پاکستان دوستی کا ہرگز ثبوت نہیں دے رہے بلکہ پاکستان کے قلب میں چھرا گھونپنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عوام اس تحریک سے عدم دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں۔<۷۶
۲- ماہنامہ >کوہسار< کوئٹہ )ماہ اگست ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>پاکستان سے ہندوئوں اور سکھوں کے انخلاء کے بعد خیال ایسا تھا کہ اس ملک میں اب فرقہ وارانہ قضنیوں کے لئے کسی قسم کی گنجائش کا امکان نہیں ہوگا مگر یار لوگ بھلا کب چین سے بیٹھنے والے تھے ؟ فرقہ وارانہ ہنگامہ آرائی کے لئے آخر کار انہوں نے موقعہ تلاش کر ہی لیا۔ احمدیت اور غیر احمدیت کا مسئلہ آج کل پاکستان کے بعض حصوں میں خطراک حد تک نزاعی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس ضمن میں ہماری احراری دوست اور احمدیوں کا ایک طبقہ بہت پیش پیش نظر آتے ہیں۔
جہاں تک احمدیوں کے عقائد کا تعلق ہے کوئی مسلمان انہیں اسلامی اصولوں کے مطابق ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ اس سلسلہ میں علمائے اسلام کے فتاویٰ اور بیانات واضح ہیں مگر ان اختالفات کی بنا پر کسی انسان کو گردن زدنی قرار دینا نہ اسلام کی رو سے جائز ہے` نہ انسانیت کی رو سے احسن` اور نہ اختلافات کو ہوا دینے سے کسی فائدہ کی توقع ہوسکتی ہے۔ البتہ برخلاف اس کے ملی اور ملکی نقصان کے امکانات زیادہ ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد خود احمدیوں کا وطن اور اصلی مرکز ان سے اس بناء پر چھن گیا کہ انہیں بھی مسلمان سمجھا گیا تھا۔ اس لئے اس سرزمین میں رہنے اور بسنے کے لئے ان کے حقوق بھی ہمارے ساتھ ہوگئے ہیں۔ پاکستان سے پہلے احمدیوں کے خلاف تکفیر بازی کا فتویٰ دینے والے سات کروڑ کی اکثریت کے باوجود حکومت وقت سے یہ مطالبہ منوانے سے قاصر رہے کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ایک مختصر سی جماعت ہیں۔ آج پاکستان میں وہ ایک پناہ گزیں جماعت کی حیثیت سے مقیم ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا جواز پیدا کرنا ہمارے نزدیک بین الانسانی اخلاق کے لحاظ سے بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہمارا اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ احمدیوں کو اپنے عقائد کی برسرعام اشاعت اور تبلیغ کے لئے کھلی چھٹی دے دی جائے۔ احمدی ہوں یا غیر احمدی کسی کو کسی کے جذبات کی بے احترامی کی اس سرزمین پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ امن اور رحمت کی سرزمین ہے جسے ہم نے لاکھوں جان` مالی اور آبروئی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس سرزمین پر اس قسم کی ہنگامہ آرائیوں کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ دشمنان وطن اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ملک کی توجہ تعمیری کاموں سے ہٹا کر ہماری تباہی کا باعث بنیں اور بس۔ احمدیوں کے عقائد کی تردید اور مخالفت بوجہاحسن بھی ہوسکتی ہے وہ اس طرح کہ علمائے اسلام متفقہ طور پر ان صحیح عقائد سے مسلمانوں کو روشناس کرنے کی کوشش کریں جنہیں اچھی طرح سمجھ کر کوئی مسلمان احمدیون کے پھندے میں نہیں پھنس سکے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس موعظہ حسنہ سے بعض احمدی حضرات بھی آپ کے ہم خیال ہوجائیں۔ کسی کے عقیدہ کو طاقت اور قانون سے توڑنا کامیابی کی دلیل نہیں ہوسکتی۔<۷۷
مطالبہ غیر مسلم اقلیت اور برصغیر کی ممتاز مسلم شخصیتیں
ان دنوں >مطالبہ غیر اقلیتی< کی برصغیر پاک و ہند کی جن شخصیتوں نے زبردست مذمت کی ان کے نام یہ ہیں:۔
۱- دیو بندی عالم مولانا منور الدین صاحب۔ ۲۔ اہل حدیث عالم مولانا محی الدین صاحب قصوری ۳۔ ممتاز صحافی مولانا عبدالمجید سالک۔ ۴۔ صدق جدید لکھنئو کے ایڈیٹر مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی ۔۵۔ مصور فطرت خواجہ حسن نظامی مدیر منادی دہلی۔۶۔ بھارتی مسلمانوں کے رسالہ >مولوی< کے مدیرمولوی عبدالحمیدی خاں صاحب۔
۱- مولانا منور الدین صاحب )معتقد مولانا حسین علی آف واں بھچراں ضلع میانوالی( نے اپنے رسلالہ >مکتوب بنام علماء< میں لکھا:۔
>حضرات میں یقیناً کہتا ہوں جس ڈھب سے تم لوگ مرزائیوں پر فتح پانا چاہتے ہوں اس میں تم ہر گز کامیاب نہ ہوسکو گے کیونکہ اعداء پر فتح پانے کی جو شرائط قرآن مجید نے بیان کی ہیں قرآن کو اٹھا کر پڑھو خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے انا لننصر رسلان والذین امنو۔<۷۸ادھر تمہارے لیڈروں کو ایمان کی خبر نہیں۔ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے۔ انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔۷۹ ادھر تمہاری تحریک میں اکثریت مشرکوں کی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ومن یتول اللہ و رسولہ والذین امنوا فان حزباللہ ہم الغالبون۔۸۰ ادھر آپ کی nsk] [tagتولی والذین اشرکوا سے ہے خدا تعالیٰ کی ذات کو حاضر ناظر جانتے ہوئے آپ فرمائیں کیا یہ تحریک ساری کی ساری مجموعہ علماء سوء نہیں ؟ کیا اپ لوگ قلباً و صدراً ظفر علی خاں اور اختر علی جیسی ابناء الوقت کو دینی پیشواما نئے ہیں ؟ کیا تمہاری تحریک میں کوئی کامل اہل اللہ وارث علوم نبوی ہے > کیا تم میں کوئی حکیم الامت تھانوی جیسا ہے ؟ کیا تم میں کوئی اسمعیل شہید جیسا امام موجود ہے ؟ کیا تم میں کوئی جنید وقت حضرت مولانا حسین علی مرحوم جیسا کوئی موحد موجود ہے۔ ہاں لے دے کر آپ کے پاس ایک امیر شریعت موجود ہے جس کی شریعت کی حقیقت سے آپ لوگوں کے سینے تو واقف ہیں۔ لیکن کیا کہوں ان زبانوںکو جن پر آج مہریں لگ گئیں ہیں۔ ادھر خدا کے چند بندے جو خدا کی توحید سناتے تھے انہوں نے قسم اٹھالی کہ ہم کلمہ توحید ہرگز کسی کو نہسنائیں گے- گویا ان کے نزدیک ربانی حکم سبحو بکرہ واصیلا۸۱آج سے منسوخ ہوگیا ؟ جس کا یہ مطلب تھا کہ اے مومنو ! صبح شام خدا کی توحید بیان کرو اور اس کو شریکوں سے پاک کہو۔ سوچئے ! بھلا جس کشتی تحریک کے ایسے ناخداہوں کیا وہ ساحل تک پہنچ سکتی ہے ؟<
>حضرت تیر اصلاحاً کہتا ہوں کہ آپ کی تحریک کسی خدائی تحریک کے نقش قدم پر نہیں ہے کیونکہ آسمانی کتابیں گواہ ہیں کہ خدائی تحریکوں نے ابتداًء ہمیشہ دلائل سے کام لیا نہ کہ زور اور لاٹھیوں سے۔ ہاں باطل تحریکیں جب دلائل سے عاجز آجاتی ہیں تو کبھی اکثریت کے بل پر اقلیتوں کو ملک بدر کرنے کو تازیانہ دکھاتی ہیں جس طرح قوم لوط نے کہا لا لم تنتہ یا لوط لتکونن من المغرجین۔۸۲ اور کبھی واویلا کرتی ہیں کہ فلاں اقلیت ملک میں ارتدا پھیلنا چاہتی ہے اور ملک میں انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے جس طرح فرعون نے کہا انی اخاف ان یبدل دینکم او ان یظھر فی الارض الفساد۸۳ اور کبھی حکام کے پاس جا کر سچی اقلیتوں پر جھوٹے الزام لگاتی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں خدا کے پیارے بندوں کو بے جا آلام و مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے اسلامی تاریخ میں ذرا امام اعظم۔ امام احمد حنبل۔ امام ابن تیمیہ۔ مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہم کے حالات ملاحظہ فرمائے جائیں<
>اور باطل تحریکیں کبھی اکثریت کے نشہ میں اکر سچی اقلیتوں کو کچلنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور مملکت کے کونہ کونہ میں اپنے داعی بھیجتی ہیں جو عوام میں یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فلاں اقلیت نے ہم کو تنگ کررکھا ہے آئو ہم سب اکٹھے ہو کر اس کا استیصال کردیں جس طرح فرعون نے کیا فارسل فرعون فی المدائن حشرین ان ھو لاء لشر ذمتہ قلیلون و انھم لنا لغائظون وانا لجمیع حذرون ۸۴
اس مقام پر میں حکومت پاکستان کے بااقتدار طبقہ کی روشن ضمیری پر بھی داد دیتا ہوں جنہوں نے خوب سمجھ لیا ہے کہ اگر بمطالبہ احرار آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تو کل دیو بندیوں کو اقلیت قرار دینا پڑے گا اور پرسوں اہلحدیثوں کو علی ہذا لقیاس۔ اور اس طرح سے ملت پاکستانیہ کا شیرازہ بکھر جائے گا اور نوزائیدہ مملکت کا وجود ہی سرے سے ختم ہوجائے گا۔ اور میں گورنر جنرل پاکستان کے ان الفاظ کی بہت قدر کرتا ہوں جو انہوں نے کراچی میں ایک کانفرنس میں کہے کہ گزشتہ ہزار سال میں شخصی حکومتوں اور ملائوں نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے<
>حضرت خدا اور انبیاء اور بعثت انبیاء اور آخرت کا واسطہ دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ تبلیغ توحید کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ کیا مشرکین سے الگ ہو کر ہم مرزائیوں کا رد نہیں کرسکتے۔ کیا علماء سوء کے تعاون کے )کے(۸۵ بغیر دین کا کام نہیں ہوسکتا ؟ کیا ختم نبوت کا مسئلہ ختم توحید کے بغیر حل نہ ہوسکتا تھا۔ مرزائیوں نے ایک فتنہ قلیلہ ہوتے ہوئے اتنی مخالفت کے باوجود اپنی تبلیغ کو نہ چھوڑا۔ اہل شرک و بدعت کے پیشوائوں نے یہ اعلان نہ کیا کہ آئندہ ہم عقائد شرکیہ کی تبلیغ نہ کریں گے مگر ہمارے موحد علماء نے سوچا کہ مصلحت وقت کا تقاضا ہے کہ مسئلہ توحید کو بند کردیا جائے کیونکہ تحریک کو نقصان پہنچتا ہے۔<
>میں پوچھتا ہوں اگر تحریک کے بااثر لوگ مشرک ہیں تو آپ لوگوں کو ان کی اطاعت کرنی ہوگی اور ان کی خوشامد کے لئے کتمان حق کرنا ہوگا جیسا کہ گجرات میں کیا گیا ہے تو پھر وان اطعتموھم انکم لمشرکون کے مصداق کون ہوں گے ؟ کیا مرزائیت کا دور ہمارے حضرت صاحب کی زندگی میں نہ تھا۔ کیا ان کی کوئی تحریر و تقریر ملتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ جب تک مرزائیوں کو اقلیت قرار نہ دیا گیا میں گو لڑے والوں یا سیال والوں کے ساتھ مل کر دینی کام کروں گا ؟
خدارا سوچئے ! اگر کل ابوالحسنات` قمر دین سیالوی` پیرگولڑوی جن کے گھٹنوں پر تمہارے امیر شریعت نے لاہور میں سجدہ کیا یا شیعہ مجتہدین جیسے بزرگوں کے ہاتھ میں زمام حکومت آگئی اور قانون ان کے ہاتھ میں آگیا تو جیسے آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دے رہے ہیں کل ہمیں اقلیت قرار دیں گے۔
اگر یہ لوگ برسراقتدار آگئے تو محمد بن عبدالوہاب` اسمعیل شہید` محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین تو ان کے ہاتھ نہ لگیں گے ہم ہی ہیں جو ان کی گولی کا اولین نشانہ بنیں گے۔
لٰہذا آخری التجا کرتا ہوں کہ ہم کو ان لوگوں سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھنی چاہئے اور مرزائیوں سے بڑھ کر ان لوگوں کے عقائد شرکیہ کو دلائل سے رد کرنا چاہئے- اگر مرزائی اس وجہ سے کافرین سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک انسان میں وہ صفات اور کمالات ثابت کئے جو تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انسانوں میں پہلے پائے جاتے ہیں تو یہ لوگ جو ہزاروں انسانوں میں خدائی صفات ثابت کرتے ہیں یقیناً مشرک اور اصل ہیں۔
خدا کے لئے اپنے دلوں کو ٹٹولو اور ان سے پوچھو ان دونوں فتنوں میں کونسا بڑا فتنہ ہے<؟۸۶
۲- مولان محی الدین صاحب قصوری ممتاز اہلحدیث عالم نے لکھا:۔
>آب ذرا علمائے کرام کی حالت ملاحظہ فرمایئے:۔ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ تمام ارکان اسلامی کا پابند ہے لیکن کسی ایک عقیدے یا عمل میں اس کا آپ سے اختالف ہے۔ بس وہ مرتد ہے۔ واجب القتل ہے۔ کوئی اگر ان سے کہہ دے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص گمراہ ہے۔ اس کے بعد عقائد اسلام کے ٹھیٹھ عقائد کے خلاف ہیں۔ وہ فاسق ہے۔ لیکن خدارا آپ کس دلیل سے اسے مرتد کہتے ہیں۔ تو آپ خود >فھومنھم< کی بناء پر کافر` مرتد اور واجب القتل اور جہنمی ہیں۔ وزراء کے خلاف کچھ کہنے والا تو صرف یہاں چند مہینوں یا زیادہ سے زیادہ چند برسوں کے لئے محبوس کردیا جاتا ہے مگر ہمارے خدا فوجدار` خدائی جنت و دوزخ کے مالک ایسے آدمی کو اگلی دنیا میں بھی نہیں چھوڑتے۔
ہم نے صرف ان دو مثالوں پر اکتفاء کیا ہے۔ اگر زیادہ اطناب سے کام لیں تو صر فاس ایک موضوع پر پوری تصنیف تیار ہوجائے۔ بریلویوں کی طرف سے تمام اہل سنت والجماعت )اہل حدیث` دیوبندی` احناف وغیرہ( اور تمام شیعہ حضرات کی تکفیر` شیعہ صاحبان کی طرف سے تمام اہلت سنت و الجماعت اور بریلویوں کی بلکہ اہل سنت کے آئمہ ہدی خلفائے راشدین المحدثین کی تکفیر )نعوذ باللہ من ھذہ الاباطیل الکاذبہ : ان یقولون الا کذبا( اور پھر سب کی طرف سے )یعنی سنیوں اور شیعہ کے کل فرقوں کی طرف سے( مرزائیوں کی تکفیر کیا یہ اسی جہالت اور کبر و نخوت کا کرشمہ نہیں جو لوگوں کے دلوں میں نہ تو قرآن پاک کی وعید : ولا تقولو لمن القی الیکم السلم لست مومنا ۸۷ اور ان الذین فرقوا دینھم وکانو شیعا لست منھم فی شی۸۸ کا خوف پیدا ہونے دیتا ہے اور نہ ھل لا شققت قلبہ 4] fts[۸۹ کی تنبیہہ کی طرف انہیں وجہ ہونے دیتا ہے۔ کیا قران پاک اسی تحدید کا بالکل عملی نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں پیش کرتا جو نبی اسرائیل کو ہوئی تھی؟ قالت الیھود لیست النصری علی شی وقالت النصری لیست الیھرد علی شی وھم یتلون الکتب۹۰ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ لاہور کے دو نہایت جید دیوبندی علماء نے جن کی میرے دل میں عزت ہے برسرمجلس ایک جماعت کو مرتد کہہ کر اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا۔ لا یکادون یفقھون حدیثا۔<]4 [stf۹۱
۳- مولانا عبدالمجید خاں سالک نے تجویز پیش کی کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت تکفیر مسلمان کو قانوناً جرم قرار دے۔ ان کے الفاظ یہ تھے:۔
>اسلام کے بعد ایمان کا درجہ ہے اور قرآن مجید کے نزدیک ایمان یہ ہے کہ اللہ اس کے فرشتوں` پیغمبروں ` اس کی کتابوں ` حشر و نشر اور سزا و جزا کا اقرار کیا جائے۔ حدیث میں اسلام کے ارکان پانچ بیان کئے ہیں سہادت` نماز` روزہ` زکٰوۃ` حج
>صفت ایمان مفصل< اور ارکان اسلام پر عمل کا درجہ تو بعد میں آتا ہے اولین چیز توحید و رسالت کا اقرار ہے اور جو شخص یہ اقرار کرتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت کا فر قرار نہیں دے سکتی۔ بخاری میں حدیث ہے۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں۔ ایک شخص نے حضورﷺ~ سے سوال کیا۔ اسلام کیا ہے؟ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ >تم اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو۔ نماز کو قائم کرو۔ رمضان میں روزہ رکھو اور زکٰوۃ۔< پھر جو شخص توحید و رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضور~صل۱~ کے ان احکام پر بھی عمل کرتا اس کو کون کا فرقرار دے سکتا ہے؟
قرآن حکیم کا حکم
سورۃ النساء میں الل¶ہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم بست مومنا جو شکص تم کو سلام کہے اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ یعنی اللہ کے نزدیک اس شخص کو کبھی کافر قرار نہیں دیا جاسکتا جو مسلمانوں کو >السلام علیکم< کہتا ہے۔ اس پر بعض شائقین تکفیر کہا کرتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی یا ہندو ہم کو سلام کہے تو کیا ہم اس کو بھی مسلمان مان لیں؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ تمہارے اعتراض کا جواب ہم نہیں دے سکتے کیونکہ آیت صاف ہے اور اللہ کا حکم ہے اگر تم اللہ کے بندے ہو تو تمہیں اللہ کا حکم ماننا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ >لست مومنا< کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کسی مومن کو یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے جس حالت میں وہ تم کو مومنا نہ سلام کہتا ہے۔ غیر مسلم کا تو اس سے تعلق ہی نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ ظاہر اخوت کا ثبوت )یعنی سلام و کلام بھی دیتا ہے اس کو کافر کہنا ازروئے قرآن ممنوع ہے۔
حدیث رسولﷺ~ کا حکم
عن ابن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلک الذی لہ ذمتہ اللہ و ذمہ رسول اللہ فلا تخفر واللہ فی ذمتہ )بخاری کتاب الصلٰوہ(
انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ~صل۱~ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھتا ہے` ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے تو یہ شخص مسلم ہے جس کیلئے اللہ کا عہد ہے اور رسول اللہ کا عہد ہے پس اللہ کے عہد کو نہ توڑو حضورﷺ~ نے فرمایا جس نے لا الہ الا اللہ کہنے والون کی تکفیر کی وہ خود کفر سے زیادہ قریب ہے۔
ایسی حدیثیں متعدد ہیں جن میں حضورﷺ~ کے قول و عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص توحید کا اقرار کر لیتا تھا حضورﷺ~ اسے مسلمان سمجھتے تھے۔ اور اگر کوئی اعتراض کرتا تھا کہ فلاں شخص شاید ولی سے مسلمان نہ ہوا ہو تو حضورﷺ~ فرماتے کہ مجھے یہ حکم نہیں ملا کہ میں لوگوں کے دلوں کو پھاڑ کر دیکھوں۔ اسلام کے لئے اقرار کافی ہے۔
آئمہ اسلام اور تکفیر
ہمارے آئمہ کبارنے اہل قبلہ کی تکفیر کو ہمیشہ ناواجب ٹھہرایا ہے۔ امام ملحاوی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ جس اقرار کے بعد کوئی مسلمان ہوتا ہے جب تک اس اقرار سے برگشتہ نہ ہو دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا۹۲ )رد المحتار سوم صفحہ ۳۱۱(
ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک کافر جس وقت کلمہ پڑھ کر توحید و رسالت کا اقرار کر لیتا ہے تو مسلمان ہوجاتا ہے اور تمام مسلم اور غیر مسلم اس کو مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔ اب جب تک وہ اس اقرار کو واپس نہ لے یعنی توحید و رسالت سے منکر نہ ہوجائے اس کو کافر اور غیر مسلمکیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ حاکم نے اپنی کتاب منتفیٰ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے بیان کیا ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی کو بھی کافر نہیں کہتے اور ابوبکر رازی نے امام کرخی سے بھی یہی روایات کی ہیں۔ )شرح مواقف(
شرح عقائد نفسی صفحہ ۱۲۱ میں لکھا ہے کہ اہل السنت والجماعت کے قواعد میں سے ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے۔
ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے وصال کے بعد مسلمانوں میں کئی امور پر اختلاف ہوا۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہ کہنے لگے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے لیکن اسلام ان سب کو یکجا کر کے اپنے دائرہ میں جمع کرتا ہے۔ >)مقالات الاسلامیین< ابوالحسن اشعری صفحہ ۱`۲(
مولانا احمد بن المصطفیٰ کہتے ہیں کہ حنفیوں` شافعیوں` مالکیوں اور اشعریوں کے معتمد علیہ اور مستند اماموں کی رائے یہی ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا۔ )مفتاح دارالسعادۃ حصہ اول صفحہ ۴۶(
فقہ حنفی کی مستند ترین کتابوں سے صاف ظاہر ہے کہ اہل السنت کو تکفیر کی ممانعت کی گئی ہے۔ مثلاً ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
کسی مسلمان کی تکفیر نہ کی جائے جب تک اس کے کلافم کے کوئی اچھے معنی نہ لئے جاسکیں۔ )در مختار(
اگر کسی مسئلے میں ننانوے وجوہ کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفی کفر کا` تو قاضی و مفتی کا فرض ہے کہ اس احتمال کو اختیار کرے جو نفی کفر کا ہے۔ )شرح فقہ اکبر ملا علی قاری صفحہ ۱۴۶(
جب کسی مسئلے میں کئی وجوہ کفر کے ہوں اور ایک وجہ عدم تکفیر کی ہو تو مفتی پر واجب ہے کہ وہ حسن کی راہ سے اسی وجہ کو اختیار کرے جو تکفیر کی مانع ہے۔ )سل الحسام الہندی سید محمد عابدین صفحہ ۴۵(
ہم کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔ اگرچہ وہ بہت سی باتوں میں باطل پر ہی ہو۔ کیونکہ اقرار تو حید الٰہی تصدیق رسالت محمدیہ اور توجہ الی القبلہ کے بعد کوئی شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور آنحضرت~صل۱~ نے فرمایاکہ جو لوگ لا الہ الا اللہ انہیں کافر نہ کہو۔ )علم الکتاب میر درد صفحہ ۷۵(
حضرت شاہ اسمعیل شہید نے اپنی کتاب >منصب امامت< میں جہاں بعض سلاطین کو ان کے اعمال بد پر زجرو تو بیخ کی ہے وہاں یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ لوگ چونکہ ظاہری شعائر اسلامی مثلاً ختنہ` عیدین پر اظہار شکریہ` تجہیز و تکفین` نماز جنازہ وغیرہ کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
>پس یہ دعویٰ اسلام جو ظاہر اطوار پر ان کی زبانوں سی صادر ہوتا ہے انہیں کفر صریح سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ آخرت کے مواخذہ کے لئے خفیہ کفر کافی ہے لیکن ظاہری اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے ساتھ دنیوی احکام میں مسلمانوں کا سا سلوک کیا جائے۔ اور معاملات کی حد تک انہیں بھی مسلمانوں میں ہی شمار کیا جائے۔<
ابو الحسن اشعری نے اپنی کتاب >مقالات الاسلامیین واختلاف المصلین< میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا ذکر کیا ہے مثلاً شیعہ` خوارج` مرحبہ` معتزلہ وگیرہ پھر ان فرقوں کے اندرونی گروہون پربھی بحث کی ہے۔ مثلاً شیعہ کے تین گروہ ہیں غالیہ` رافضہ` زیدیہ` ان میں سے غالیہ کے پندرہ چھوٹے گروہ ہیں۔ اشعری کے نزدیک یہ بھی مسلمان ہیں یہاں تک کہ وہ غالیہ کو خارج از اسلام قرار نہیں دیتے حلانکہ وہ اپنے ایک سردار کو نبی کا رتبہ دیتے ہیں۔ مثلاً بیانیہ فرقہ کے لوگ ایک شخص بیان کو عبداللہ بن معاویہ کے پیرو اس کو اپنا خدا وند اور پیغمبر مانتے ہیں لیکن چونکہ یہ سب لوگ حضرت رسول کریم~صل۱~ کی نبوت اور قران مجید کا کلام الٰہی ہونا تسلیم کرتے ہیں اس لئے وہ خارج از اسلام قرار نہیں دیئے جاتے۔۹۴
مسلمانوں کو کافر نہ بنائو
غرض جہاں تک دیکھا جائے کتاب اللہ` حدیث رسول اللہ` تصانیف اہل ` السنت والجماعت میں تکفیر اہل قبلہ کو قطعی طور پر ناجائز قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ دین اسلام دنیا میں توحید و رسالت کا اقرار کرانے کے لئے آیا تھا اس لئے نہیں آیا کہ اچھے خاصے توحید و رسالت کے اقرار انسانوں کو جو مسلمان ہیں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں زبردستی اسلام کے دائرہ سے نکال کر باہر کرے۔ یہ تکفیر کا مشغلہ پاکستان میں مسلمانوں کی وحدت کے لئے سخت مہلک ہے- اگر اس کو رائے عامہ نے اپنی قوت سے فوراً دبانہ دیا تو دین مقدس اور ملت پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
کفر کی دو قسمیں
ممکن ہے تکفیر کے بعض شوقیں بزرگان اسلام کی بعض تحریروں سے ایسے اقوال نقل کریں جن میں بعض مسائل پر >کفر< کی مہر لگائی گئی ہے اس لئے میں یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کفر کی دو قسمیں ہیں جیسا کہ علامہ ابن اثیر اپنی کتاب >نہایہ< میں لکھتے ہیں:۔
کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک کفر تو وہ ہے جس میں خود دین کا انکار ہو )یعنی توحید و رسالت کا( اور دوسرا کفر یہ ہے جس میں کسی فرع کا انکار ہو۔ احکام اسلامی فروع کا حکم رکھتے ہیں ان میں سے کسی کے انکار سے کوئی شخص دین سے خارج نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں قتال بھی شروع کردیں جو صریحاً دین و ملت کے مقاصد کے خلاف ہے تو خود قرآن بھی ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ ان کو >طائفتان من المومنین< قرار دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ یعنی وہ آپس میں لڑنے کے بعد بھی مومن ہی رہتے ہیں کافر نہیں ہوجاتے۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ علامہ ازہری سے کسی نے پوچھا کہ آیا فلاں شخص فلاں قسم کی رائے ظاہر کرنے کی وجہ سے کافر ہوگیا جواب ملا کہ ایسی رائے کفر ہے۔ پوچھا گیا کیا وہ مسلمان رہا؟ آپ نے جواب دیا بعض اوقات مسلمان بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔۹۵
اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان کوئی کافرانہ عمل بھی کرے تو اس کو فاسق` عاصی ` گمراہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن کافر نہیں کہہ سکتے۔ جس طرح اگر کسی کافر سے کوئی مومنانہ عمل سرزد ہوجائے تو اس عمل کو تو مومنانہ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ کافر محض اس عمل سے مومن و مسلم تسلیم نہیں کیا جاسکتا ¶کیونکہ مسلم اور کافر کے درمیان خط فاضل توحید اور رسالت کا اقرار ہے-
ہر مسلمان کہلانے والا مسلمان ہے
لٰہذا ہر شخص جو توحید و رسالت کا اقراری ہے وہ مسلمان ہے۔ باقی رہے اس کے اعمال تو اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ اگر شریعت ظاہری ان اعمال کو جرم سمجھے گی تو اسے سزا دے گی اور اگر وہ اعمال شریعت کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے عذاب دے گا ہمارا کام صرف اتنا ہی ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ہر قائل کو مسلمان سمجھیں اور مسلمانوں کی تکفیر کو ہمیشہ کے لئے ترک کردیں بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی حکومت تکفیر مسلمین کو قانوناً جرم قرار دے تاکہ معاشرہ اسلامی اس *** سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے<۹۶
۴۔ مولانا عبدالمجاد صاحب دریا بادی مدیر >صدق جدید< کو ہمیشہ یہ خصوصیت حال رہی ہے کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کی تکفیر کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی ہے اور ان ایام میں تو آپ نے مسلسل پر زور شدزرات سپرد قلم فرمائے- مثلاً ایک صاحب نے لائل پور سے مولانا عبدالماجد خاں صاحب دریا بادی کو بطور شکوہ لکھا کہ وہ >متفقہ مطالبہ تکفیر< کی مخالفت کیون کررہے ہیں ؟ آپ نے اس کا جواب حسب ذیل الفاظ میں دیا:۔
>یہ مطالبہ اگر مکتوب نگار صاحب اپنے دل میں سوچیں تو انہیں خود کچھ عجیب سا نظر آئے گا کہ مدیر >صدق< کے نزدیک تکفیر قادیانیہ کا فتویٰ غیر مدلل ہو۔ غیر تشقی بخش ہو پھر بھی اسے بولنے کا حق نہ تھا۔ اسے خاموشی ہی اختیار کر لینا تھی۔ گویا اظہار حق کا حق صرف اکثریت کو حاصل ہے۔ اور جو فرد اپنے کو اس درجہ میں حق پر سمجھتا ہے لیکن چونکہ اقلیت میں ہے اس لئے اسے اکثریت پر جرح کا بھی حق نہیں اور اس پر لازم ہے کہ اگر وہ بے چون و چرا سر اطاعت ختم نہیں کرتا تو کم از کم خاموش ہی رہے خواہ اس میںاپنے ضمیر و دیانت کا گلا ہی گھونٹ دینا پڑے۔
اکثریت کی یہ نازک مزاجی مکتوب نگار خود غور کریں کہ کسی حد تک معقول ہے۔ ~}~
ع کان ان کے نازم کہ گراں میری غزل بھی
مکتوب میں کوئی نئی اور مستقل دلیل تکفیر قادیانیہ پر پیش کرنے کی بجائے اکتفا صرف اس پر کیا گیا ہے کہ یہ چونکہ دنیائے اسلام کا فتویٰ ہے متفقہ فیصلہ ہے۔ فلاں فلاں بزرگوں کا اس پر اجماع ہوچکا ہے اس لئے یہ بہر صورت واجب التسلیم ہے۔ لیکن گزارش یہی ہے کہ اتفاق رائے کا یہ مظر >بے نظیر< آخر کیسے قرار دے لیا گیا ہے ؟ یہ اتفاق و اجماع کب اور کس فرقہ کی تکفیر سے متعلق ایسے ہی بزرگوں کا نہیں ہوچکا ہے ؟ کون فرقہ ایسا ہے۔ کس کی تکفیر کا اعلان بالجبر انہیں دلائل کے ماتحت اس جوش و قوت کے ساتھ بار بار نہیں کیا جاچکا ہے؟ کیا فرقہ شیعہ ؟ مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی مدظلہ ماشاء اللہ ابھی ہمارے درمیان بہ خیریت و عافیت موجود ہیں اور وہ یقیناً اہل سنت کے ایک بڑے اور ممتاز عالم دین ہیں ذرا انہیں سے دریافت فرمایا جائے ان کے قلم کا مرتب کیا ہوا >علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ )یہ لفظ یاد رہے( درباب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ< ابھی یاد میں تازہ ہے جس میں یہ تفریح موجود ہے کہ شیعوں کی تکفیر میں کسی کو اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ اور تصریح در تصریح یہ کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام` ان سے مناکحت ناجائز` ان کا جنازہ پڑھنا ناجائز` انہیں اپنے جنازوں میں شریک کرنا ناجائز` ان کا چندہ اپنی مسجدوں میں لینا ناجائز۔ غرض یہ کہ ان سے کوئی سا بھی معاملہ مسلمانوں کا سا کرنا جائز نہیں۔ گویا سید کلب حسین اورلالہ گھگوان دین ایک سطح پر۔
اس فتویٰ کفر و ارتداد شیعہ پر آپ دستخط سنیں گے کہ کن کن بزرگوں کے ہیں۔ کہنا چاہئے کہ سارے دیوبند کے ` مولانا مرتضیٰ حسین` مولانا حسین احمد` مولانا محمد شفیع` مولانا اعزاز علی` مولانا اصغر حسین` مولانا عقیل احمد` مولانا محمد انور )عجب نہیں کہ یہ وہی مشہور فاضل عصر مولانا انور شاہ کاشمیری ہی ہوں( مولانا محمد طیب` مولانا مفتی مہدی حسنشاہجہانپوری` مولانا محمد چراغ )گوجرانوالہ( مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ۔ پھر اس نہلہ پر دہلہ جناب ناظام صاحب تعلیمات دیوبند کے قلم سے کہ >اور صرف مرتد اور کافر خارج از اسلام ہی نہیں ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی اس درجہ میں ہیں کہ دوسرے فریق کم ہی نکلیں گے< اور اس متفقہ فتویٰ میں تائیدی حوالہ حضرت بحر العلوم فرنگی محلی کا بھی درج ہے۔ اور خود موجودہ امیر شریعت پنجاب آج سے چند سال قبل اپنی لکھنئو )احالہ شیخ شوکت علی( کی تقریروں میں فرقہ شیعہ کے باب میں جو کچھ فرما چکے ہیں اسے کوئی کیسے بھلا دے ؟
پھر انہیں حضرات کا فیصلہ ایسے ہی دلائل کی بناء پر اسماعیلیوں اور آغا خاں اور سارے آغا خانیوں کے کفر اور اسلام سے متعلق کیا ہے؟
اور خود بانی پاکستان قائداعظم کے عقائد مذہبی سے متعلق انہیں مقدمات ومبادی کو تسلیم کرنے کے بعد فتویٰ کیا مرتب ہوتا ہے ؟
سرسید کا زمانہ گزرے ابھی ایک ہی پشت ہوئی ہے۔ مکتوب نگار کے علم یا حافظہ میں یقیناً یہ حقیقت محفوظ نہیں رہی کہ >جمہور علماء< کے حلقہ میں ان کا استقبال کس روش و انداز سے ہوا تھا ؟ وہ >پیرنیچر< شائد مرزائے قادیان اور اس کے پیرو >نیچری< شائد قادیانیوں سے کچھ بڑھ چڑھ کر ہی تھے اور ان کے اسلام کا دعویٰ کرنا >خرق اجماع< کا مرتکب ہونا تھا۔ اپ اسے مبالغہ سمجھ رہے ہیں ؟ مولوی امداد العلی مرحوم کا رسالہ >امداد الافاق بہ رحم اہل النفاق< کسی لائبریری کے پرانے ذخیروں میں دبا دیا ہوا ضرور پڑا مل جائے گا۔ ذرا اسے ملاحظہ فرما لیا جائے یا اس زمانہ کے دوسرے اخبارات اور رسالوں کی فائلوں کو لکھنئو` دہلی` سہانپور` رام پور` ہندوستان کے ہر ہر شہر کے فقہاء کرام کا متفقہ فتویٰ اس شخص کے کفر و ارتداد اور اس کے کالج اس کی کانفرنس سب کی ملعونیت پر ناطق ملے گا۔ دہلوی فتویٰ آپ سنیں گے ؟
>ایسے مکان نااک کا نام مدرسہ رکھنا اور محل تعلیم و تحصیل سمجھنا آدمیت سے نکلنا ہے- اور زمرہ حیوانات میں داخل ہونا ہے صرف کرنا مال کا ایسے محل میں موجب کندہ ہونا جہنم` اور ایسے بے محل میں ساعی ہونا ہیمہ اور حطب بننا لازم۔< ۹۷
اور لکھنئوی فرنگی محلی فتویٰ:۔
>وجود شیطان اوراجنہ کا منصوص قطعی ہیں اور منکر اس کا شیطان ہے بلکہ اس سے بھی زائد کیونکہ خود شیطان کو بھی اپنے وجود سے انکار نہیں وہ شخص مخرب دین ابلیس لعین کے وسوسہ سے صورت اسلام میں تخریب دین محمدی کی فکر میں ہے۔< ۷۸
اور مفتیان حرم شریف حنفیہ` شافعیہ` مالکیہ` حنبلیہ چاروں مفتی صاحبان کے متفقہ فیصلہ کی تاب آپ آج لاسکیں گے ؟
>یہ شخص ضال و مضل ہے بلکہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے اس کا فتنہ یہود و نصارے کے فتنہ سے بھی بڑھ کر ہے خدا اس کو سمجھے۔ واجب ہے اولوالامر پر اس سے انتقال لینا اگر باز آوے تو بہتر ہے ورنہ ضرب اور جنس سے اس کی تادیب کرنی چاہئے۔< ۹۹
مدینہ منورہ کے مفتی احناف کا قلم کیوں پیچھے رہنے لگا تھا ؟
>یہ شخص یا تو ملحد ہے یا شرع سے کفر کی کسی جانب مائل ہوگیا ہے یا زندیق ہے کہ کوئی دین نہں رکھتا یا اباحی ہے کیونکہ متحنقہ کا کھانا مباح بتاتا ہے اور اہل مذہب )حنفیہ( کے بیانات سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایسی لوگوں کی توبہ گرفتاری کے بعد قبول نہیں ہوتی ورنہ اس کا قتل واجب ہے دین کی حفاظت کے لئے اور ولاۃ امر پر واجب ہے کہ ایسا کریں۔< ۱۰۰
اور شیعہ نیچر یہ اسماعیلیہ کے علاوہ عام اہل اہوا و بدعت و خوارج اور >)وہابیہ تجدید(< اور تازہ ترین >مودودیہ< سے متعلق جوجو موتی قلم پروچکا ہے اگر ان سب کے اقتباسات نمونہ کے طور پر ہی نقل ہونے لگیں تو مقالہ رسالہ نہیں پوری ضخیم کتاب بن جائے۔ مغالطہ سب میں مشترک ہے بس یہی ہے کہ نصوص کی تاویل و تعبیر کو ہر جگہ انکار و تکذیب کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے اور تاویل و تعبیر میں ٹھوکر کھانے والوں کو جوش دینی سے مغلوب ہو کر منکرین و مکذبین کے حکم میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس بے علم و بے عمل کے دل میں اپنے اکابر کی بحمد اللہ پوری عزت و رفعت عظمت و عقیدت موجود ہے لیکن انقیاد کامل کا رشتہ صرف ذات رسول معصوم کے ساتھ محدود و مخصوص ہے اور جو حضرات آج اپنے علماء و شیوخ کے ہر فیصلہ کو ناطق اور ان کے ہر قول کو
گفتہ او گفتہ اللہ بود
سمجھے ہوئے ہیں۔ وہ خوش عقیدگی کے غلو میں مبتلا ہیں اور نادانستہ و غیر شعوری طور پر سہی عملاً خود ختم نبوت کے منکر ہورہے ہیں کہ غیر معصوم کو معصوم کے درجہ پر رکھے ہوئے ہیں
آج سے ۳۰ ۔ ۱۳ سال پیشتر جب تحریک خلافت ہندوستان میں زور شور سے اٹھی ہر شہر ہر قریہ میں مجلس خلافت بننے لگی اور بوڑھے سے لے کر بچے تک پورے جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگے تو ایک بڑا اہم اور سنجیدہ مسئلہ یہی پیش ہو اتھا کہ آخر مسلمان سمجھا کس کو جائے گا ؟ اور کن کن فرقوں کو امت سے الگ رکھا جائے گا ؟ اس وقت پورے غور و خوض کے بعد بڑے بڑے علما و مفکرین امت کے مشورہ سے یہی فارمولا طے ہوا تھا کہ جو بھی اپنے کو مسلمان کہے اور توحید و رسالت کا قائل ہو پس اسے مسلمان سمجھا جائے گا اور اس کے دوسرے عقائد سے قطع نظر کر لی جائے گی۔ ان غلط و باطل عقائد پر جرح یقیناً بجائے خود جاری رہے گی لیکن کسی کلمہ گو کو بھی اسلام کی عام وسیع برادری سے خارج نہ کیا جائے گا۔۔ مجلس خلافت کے زمانہ میں غالباً سرکار کی طرف سے سوال اٹھا تھا کہ مسلمان کسے سمجھا جائے ؟ اس کا جوبا اس مرد ظریف و لطیف نے یہ دیا تھا کہ جو رائے شمار کے رجسٹر میں مسلمان لکھائے وحدت کلمہ کی یہ ضرورت جب اس وقت تھی تو موجودہ حالت ضعف و انتشار میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
جن حضرات نے دین کے تحفظ کی خاطر اخلاص نیت سی کفر کے فتوے دئے ہیں یقیناً وہ عند اللہ ماجور ہوں گے لیکن دوسرے شائع معذور ہیں جنہوں نے اپنی فہم و بصیرت کے موافق اس قطع و برید و عمل اخراج کو امت کے حق میں زہر سمجھا ہے )اور ان ہی میں مولانا محمد علی اور شوکت علی اور خود قائداعظم سے لے کر آپ کے صوبہ کے مہر صاحب اور سالک صاحب شامل ہیں( انہیں بھی ¶اخلاص اسلامی اور درد ملی سے معرانہ سمجھ لیا جائے۔<۱۰۱
مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے ایک اور خط کے جواب میں لکھا:۔
‏tav.13.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
>ختم نبوت اور ہم<
ایک طرف ایک ایسا شخص ہے جو ختم نبوت کا قولاً منکر ہے)؟( اب دوسری طرف ایک شخص ہے جو قولاً تو منکر نہیں ہے لیکن عملاً اس کی تکذیب کرتا ہے آپ اس کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ حقیقت میں دونوں ہی ختم نبوت کا انکار کررہے ہیں زبانی اقرار کی وجہ سے فقہی طور پر ہم اس کو کافر نہ کہیں یہ اور بات ہے لیکن آیا میزان عمل میں بھی کوئی قدر و قیمت و زن رکھے گا یا نہیں؟ قابل غور ہے۔
پھر ذرا سوچئے تو سہی کہ آج دنیا بھر کے مسلمانوں میں کتنے فیصدی ایسے ہیں کہ ختم نبوت کے عملاً معتقد ہیں؟ جاہلوں اور امیدوں ہی میں نہیں عالموں اور صوفیوں میں بھی قادیانیوں کو کافر کہنے والوں اور ظفر اللہ خان کو وزارت سے برطرف کرنے والون کو بھی ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچنا چاہئے کہ کہیں خدانخواستہ ع
ہم الزام ان کو دیتے تھی قصور اپنا نکل آیا
والا معاملہ تو نہیں ہے؟ کیا ہم نے اپنے سیاست و معیشت` اخلاق و معاشرت` حکومت و عدالت سے اس عقیدہ کو عملاً خیر باد نہیں کہہ دیا ہے؟ کیا ہمارے مدرسے` خانقاہ بھی اب اس کی روح سے خالی ہوگئے ہیں۔ پھر ایک فریق ایک جرم کی وجہ سے کافر اور گردن زدنی اور دوسرا قریباً اسی جرم کا مجرم لیکن نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے۔ )الانصاف(۔< ۱۰۲
۵- خواجہ حسن نظامی صاحب نے اخبار >منادی< بابت ماہ جون ۱۹۵۲ء میں لکھا:۔
>میں نے مئی کے منادی میں قادیانی جماعت کرای کی نسبت لکھا تھا کہ اس جماعت کے جلسے کے خلاف جو ہنگامہ ہوا وہ مصلحت وقت کے خلاف تھا۔ میں نے قرآن مجید کی آیت بھی لکھی تھی کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ہر شخص سے اس کے عمل کا حساب لیا جائے گا دوسروں کے اعمال کو پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور یہ بھی لکھا تھا کہ میں قادیانی جماعت کے عقائد کے ہمیشہ خلاف رہا ہوں اور اب بھی خلاف ہوں مگر موجودہ وقت ایسا نازک ہے کہ مسلمانوں کو شیعہ` سنی` مقلد` غیر مقلد کے اختلافات ترک کردینے چاہئیں۔
چوہدری ظفر اللہ خاں نے باوجود قادیانی ہونے کے پاکستان بننے کے بعد سے آج تک یورپ اور امریکہ اور اسلامی دنیا میں جو خدمات پاکستان کی انجام دی ہیں وہ بے مثل ہیں- اگر پاکستان کی تخت گاہ کراچی میں مسلمان ان کی مخالفت کریں گے تو امریکہ اور یورپ اور اسلامی ملکوں کے دلون سے پاکستان کا وقار جاتا رہے گا۔
مجھے یقین تھا کہ کراچی میں مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی جیسے معاملہ فہم اور تاریخ کے ماہر موجود ہیں وہ عوام کی غلط فہمیاں دور کردیں گے اور یہ فتنہ زیادہ نہ بڑھے گا مگر یہ میرا خیال غلط ثابت ہوا اور اخباروں نے ایک ایسی کبر شائع کی کہ میرا دل پاش پاش ہوگیا یعنی اخباروں نے شائع کیا کہ مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحبندوی وغیرہ علماء نے جمع ہو کر ایک نیا جلسہ کیا جس میں سر ظفر اللہ خان کو وزارت سے خارجہ سے الگ کردینے کا مطالبہ کیا گیا۔ مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی کو جب کراچی میں نظر بند کیا گیا تھا تو میں نے کراچی جا کر حاجی خواجہ شہاب الدین صاحب وزیر داخلہ پاکستان سے کہا تھا کہ آپ نے ایسے عالم کو نظر بند یا ہے جس نے ساری عمر مسلم لیگ کی خدمات انجام دی ہیں اور خواجہ شہاب الدین صاحب نے اس کو تسلیم کر کے نظر بندی کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ان کو رہا کردیا تھا۔
اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کی نسبت تو بھارت کے پانچ کروڑ مسلمانوں اور پاکستان کے سب چھوٹے بڑے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آج بھارت اور پاکستان میں ان سے زیادہ گذشتہ تاریخ کے نیک و بد حالات کے نتائج پر کسی دوسرے مورخ کی نظر نہیں جاتی۔ پھر میں کیونکہ یقین کر لوں کہ جو کچھ اخباروں میں چھپا ہے وہ درست ہے؟ اخباروں میں بہت سی غلط باتیں شائع ہوجاتی ہیں۔ میں پچاس برس سے اخبار نویسی کرتا ہوں اور آج کل باوجود بینائی خراب ہوجانے کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے سب روزانہ اخبار پڑھتا ہوں اور بھارت اور پاکستان کے عوام کے رجحان طبع اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے جب میں نے مذکورہ خبر پڑھی تو بے اختیار میری زبان سے نکلا غلط ہے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا سید سلیمان ندوی کبھی ایسی بے عقلی کا کام نہیں کرسکتے لیکن اب تک کسی نے اس خبر کی تردید نہیں کی۔ پاکستان کے اخباروں کو بھی پڑھا ریڈیو بھی سنے مگر اس خبر کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی۔
اگر سچ مچ علماء مذکور نے ایسا جلسہ کیا تھا تو مجھے خدا کے سامنے سجدے میں گر کر اور رو رو کر دعا کرنی چاہئے کہ وہ علماء مذکور کو اس غلط طرز عمل سے بچائے اور یا مجھ کو اس دنیا سے جلدی اٹھالے تاکہ میں اپنی مسلمان قوم کی تباہی اور پاکستان کی تباہی نہ دیکھوں جو ایسے غلط کاموں سے ہونی ضروری ہے۔< ۱۰۳
۶۔ مولوی عبدالحمید خاں صاحب مدیر رسالہ >مولوی< )دہلی( )ذوالحجہ ۱۳۷۱ھ مطابق ستمبر ۱۹۵۲ء نے حسب ذیل اداریہ سپرد اشاعت کیا:۔
>آب ذرا ان کو بھی دیکھئے۔ یہ بھی اسی بدنصیب بھارت کے مسلمانوں ے خوش نصیب بھائی ہیں جن پر خدا کا >فضل< ہوا۔ آزادی ملی مختار ہوئے` اپنے آپ حاکم بنے` اپنی قسمتوں کے مالک ہوئے۔ ہاں بھارت کے مسلمان آسمانی بلائوں` اپنے وطنی بھائیوں کی بے انصافیوں سے پامال نڈھال وہاں ان ہی کے صدقہ میں پاکستان والے چونچال ۱۰۴ نہال نہال اور خوش حال ہوئے۔ ہم نے فاقوں پر بھی بھوک سے واویلا نہ کی کہ اسلام صبر کی تلقین کرتا ہے۔ ہم نے اپنی بے عزتی پر بھی بین نہ کیا کیونکہ قرآن کافران تھا کہ >نہیں آتی تم پر کوئی مصیبت مگر تمہارے ہی ہاتھوں۔< اب بین کا موقعہ تھا نہ شکوہ کا وقت غم ہے تو یہ اور صرف یہ کہ مسلمان کہیں پیٹ کے ئے دین نہ بیچ دیں اور کمیونزم کے سیلاب میں نہ بہہ جائیں کہ اس سے بھوک تو مٹے گی۔ تن پوشی تو ہو ہوگی مگر بہت بڑی قیمت دے کر >ایمان< واسلام<۔
ہم سر جوڑ کر بیٹھنے کے سو سو جتن کرتے ہیں۔ لڑنا بھول گئے۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھتے ہیں کہ اللہ کو راضی کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے بلکہ شاید یہی ایک طریقہ ہے۔ جب سیلاب آتا ہے تو شیر اور بھیڑ دونوں برابر کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہ تو مصائب کا مال ہے۔
ان کا حال جن کو اللہ نے بندوں سے بے خوفی دی یہ ہے کہ ان کو اللہ کا خوف نہ رہا اور وہ سب کچھ کیا جو اللہہ کے پسندیدہ دین اسلام کے یکسر خلاف تھا۔ منہایت قبول کرنے کے ساتھ وہ آپس میں بھی شدومد سے دست و گریبان ہونے لگے۔ اگر آنکھیں غافل نہ ہوتیں تو اللہ کی ایک ہلکی سی تنبیہہ کافی تھی کہ اللہ نے ان کا رزق کم کردیا۔ جو ملک دوسرے ممالک کو غلہ فراہم کرتا تھا آج اسے دوسروں سے مانگنا پڑا۔
سنی سنی سے لڑتا ہے۔ شیعہ سنی سے لڑتا ہے اب مرزائیوں اور سنیوں کا مقابلہ ہے اور مقابلہ بھی ایسا سخت کہ اب مرزائی مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم اقلیت اور کافروں سے بھی بدتر۔
یہ کاغذی مولوی فتویٰ دینے کے اہل نہ اس نے فتویٰ بازی کو اپنے صفحات میں جگہ دی۔ اس کو یہ دکھ ہے کہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے والے پاکستانی غیر مسلموں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ غیر مسلم کہتے ہیں کہ >وہ کبھی مسلم حکومت میں بے خوف اور باعزت نہیں رہ سکتے ہیں۔ ہوگا اسلام صلح کل اور اسلام قران میں ہو تو ہو ۔ مسلمانون میں کم از کم نہیں ہے۔ تمہاری کتنی ہی چھوٹی بڑی حکومتوں میں ایک پاکستان ہی کا تو دعویٰ تھا کہ وہ اسلامی حکومت ہے اور اس کی بنیاد ہی اس پر رکھیگ ئی اور تم ناسمجھ بھارت کے مسلمانوں نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنی زندگی خراب کر لی۔ اچھا احمدی ہم ہی جیسے غیر مسلم سہی تو کیا اسلام کہتا ہے کہ اپنے غیر مسلم محکوموں کے جان لیوا بن جائو۔ ان کی عزتیں خاک میں ملائو۔ ان سے نوکریاں واپس لے لو ۔ پرستانہ ۱۰۵ کرے اگر ان کو پورا بنگال ` آسام اور پورا پنجاب مل جاتا تو ہمارا کیا بناتے۔ بتلایئے ہمارے پاس کیا جواب ہے؟ ہم شرم نے نیچی گردنیں کر لیتے ہیں وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم احراریون کو لیگیوں سے بدرجہا بہتر سمجھتے تھے لیکن یہ بھی حکومت ملتے ہی ننگے ہوئے اور ہندو مسلم بھائی بھائی کہتے نہ تھکنے والے آج مسلم مسلم قصائی قصائی بن رہے ہیں۔<
ایک تو ہم پر فاقوں کی بھرمار دوسرے بے عزت اور بے کار اس پر ان طعنوں کی بوچھاڑ ہمارا ہی دل گردہ ہے کہ یہ سب سہہ رہے ہیں۔
نعوش باللہ من شرور انفسنا کبھی کبھی تو ہمارے دل میں وسوسہ اٹھنے لگتا ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائی جو مسلمانوں کے عمل سے اسلام کو برا سمجھتے ہیں کہیں یہ سچ تو نہیں ہے۔
شیعہ` سنیوں` وہابی اور بدعتیوں میں پہلے ہی یہ انتشار کیا کم تھا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ہاں شادی نہ کرتے تھے اور یہی بیوپار قادیانیوں سے بھی تھا۔ یہ افتراق نجی تھا منظر عام پر نہ آتا تھا کہ ایسی ہلڑ بازی ہوتی تھی کہ غیر مسلموں کو طعنہ زنی اور نشتر چبھونے کا موقعہ ملتا۔ آج پاکستانیوں نے اس کو بھی اجاگر کر کے اور ہمارا جینا دوبر کردیا۔
مذہبی موشگافیاں فتویٰ سازوں کو مبارک۔ اس کاغذی مولوی کو اس میں دخل نہیں۔ میں یہاں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے موقعہ بہ موقعہ اسلام کی رواداریوں اور خوبیوں کا بقدر استطاعت ذکر کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا وہ مسلمانوں کو چاہئے برا کہیں لیکن اسلام کی خوبیوں کا بقدر استطاعت ذکر کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا وہ مسلمانوں کو چاہئے برا کہیں لیکن اسلام کی خوبیوں کے قائل ہوجائیں- ان میں سے ایک بھائی میرے چڑانے کو کہیں سے الفضل کا خاتم النبین نمبر ۱۰۶ اٹھا لائے اور مجھ سے فرمایا۔ مولوی جی ذرا اس کا پہلا پیج پڑھنا۔ یہ آپ کے دکھانے کو لایا ہوں۔ دیکھئے اس میں لکھا ہے:۔
>ہم سچے مسلمان ہیں< جماعت احمدیہ کسی نئے مذہب کی پابند نہیں بلکہ اسلام اس کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا وہ حرام اور موجب شقاوت خیال کرتی ہے اس کا نیا نام اس کے نئے مذہب پر دلالتنہیں کرتا بلکہ اس کی صرف یہ غرض ہے کہ یہ جماعت ان دوسرے لوگوں سے جو اسی طرح اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ممتاز حیثیت سے دنا میں پیش ہوسکے غرض ہم لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جس کا ماننا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں اور وہ شخص جو باوجود تمام صداقتوں کی تصدیق کرنے کے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو ماننے کے ہم پر کفر کا الزام لگاتا ہے اور کسی نئے مذہب کا ماننے والا قرار دیتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جواب دہ ہے۔ انسان اپنے منہ کی بات سے پکڑا جاتا ہے نہ کہ اپنے ل کے خیال پر۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا ہے؟ جو شخص کسی دوسرے پر الزام لگاتا ہے کہ جو کچھ یہ منہ سے کہتا ہے وہ اس کے دل میں نہیں ہے وہ خدائی کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دلوں کا حال جاننے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے۔< )دعوۃ الامیر ۱۰۷ صفحہ ۱`۲(
پھر فرمانے لگے کہ مولوی جی ہن دسو۔ اگر یہی بات پوری کی پوری میں کہوں تو کیا آپ مجھے مسلمان نہیں کہیں گے اور مجھے اپنا دینی بھائی نہیں جانیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر مجھ پر اتیاچار ہو اور یہ کہا جائے کہ تم مسلمان نہیں ہو تو کیا یہی اسلام کی تعلیم ہے؟ اور میں نے سنا ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان کرتے وقت یہی تو اس سے کہلواتے ہیں۔ میں دم بخود رہ گیا۔ کیا شرما جی اس میں ایک بات یہ ہے کہ وہ ہمارے رسول کو خاتم الانبیاء نہیں مانتے۔ انہوں نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا بھلا اس فقرے میں یہ بات نہیں آتی >اسلام کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا حرام اور موجوب شقاوت خیال کرتی ہے۔< کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق کے لئے یہ کافی نہیں ہے اور جناب اس فقرے میں کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق نہیں ہے۔< ہم لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جو ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں۔ اب میں خاموش تھا۔ کہنے لگے کہ اگر میں مسلمان ہونا چاہوں تو اتنی بات کہہ دینی مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھتا ہوں- پھر قہقہہ لگایا اور کہا دیکھئے اب کیا فرمائیں گے آپ جناب مولوی صاحب ! احمدیوں کے امام کے بیانات پر جو اسی پرچہ کے صفحہ ۷ ء ۸ پر درج ہیں۔ انہوں نے ۲۷ جگہ اقرار کیا ہے کہ آپ رسولﷺ~ خاتم الانبیاء ہیں- اور سرخی دیکھئے >مجھ کو خدا کی عزت و جلال کی قسم کہ میں ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے رسول حضرت محمدﷺ~ تمام رسولوں سے افضل اور خاتم الانبیاء ہیں۔<
ایک غیر مسلم کو سمجھانے کے لئے میرے پاس کیا تھا؟ پسینہ آگیا کہ آب یہ میرے مسلمان ہونے اور اسلام کے گن گانے پر ہمیشہ قہقہہ ہی لگائیں گے پھر میں کیونکر اسلام کی رواداری پر بحث کرسکوں گا۔ شرماجی کو تاریخ اسلام پڑھنے کی کیا ضرورت ان کے تو آنکھوں کے سامنے مملکت اسلامی پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ موجود ہے۔
ہمارے سورما بھائیوں اگر اس کی تہہ میں کوئی سیاسی جوڑ توڑ تھا تو ویسے ہی دائو پیچ کرتے` ہماری گردنیں تو یہاں کے غیر مسلموں کے سامنے خم نہ ہوتیں اور ہم ان کی زبان سے اسلام رسوا ہوتا نہ دیکھتے۔
یہ ہیں ہمارے ابتلاء اور یہ ہیں ہماری مشکلات جن سے ہم اور مایوس وہراس مند ہوجاتے ہیں اور اے پاکستانی بھائیو آپ کی ان باتوں کا کوئی ڈیفنس نہیں کرسکتے۔
ہم نے آپ کے لئے اپنی ساری آسودگیاں نذر تباہی کیں- ہر مشکل پر صابر و صابط رہے۔ آپ سے کوئی مدد نہیں چاہی۔ آپ سے کسی ہمدردی کی توقع نہیں رکھی۔ جو بچے` بیویاں` مائیں` بہنیں ہم سے جدا ہو کر آپ کے زیر نگیں آئیں ہم نے تو ان کے مصائب پر بھی آپ کو متوجہ نہیں کیا اور بس
مرا بخیر تو امید نیست ` بدمرساں۔<۱۰۸
احرار کا مطالبہ اقلیت اور شیعان پاکستان
احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتی قرار دینے کے مطالبہ پر پاکستان میں اہل تشیع کے مشہور آرگن درنجف )۲۴ اگست ۱۹۵۲ء( میں ایک شیعہ دوست کا حسب ذیل مکتوب شائع ہوا:۔
>میں اتفاق بین المسلمین کا ہمیشہ حامی رہا ہوں اور ہوں۔ لیکن صرف معاملات معاشرت اور حدود سیاست تک۔ ہمارا مذہبی اتحاد نہ کسی فرقہ سے ممکن ہے نہ آج تک ہوسکا۔ جب ہمارے اصول دین ہی کسی سے متحد نہیں تو دینی اتحاد کے کوئی معنی نہیں۔ اس لئے گذارش ہے حدود پاکستان میں جو خلفشار سواد اعظم اور جماعت قادیانیہ کے درمیان اس وقت نظر آرہا ہے اور اہل سنت زعم اکثریت میں قادیانیوں پر حملے کررہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ان کی پرانی روایات ہیں جن کا دہرانا اگر فرض نہیں تو سیرت شخین کے لحاظ سے سنت ضرور ہوگا۔ سواد اعظم نے جب جہان کسی کو کمزور دیکھا بڑھ گئے۔ دبالیا تو شیر ورنہ میدان چھوڑ بھاگے۔
قادیانی جماعت کوئی اجنبی جماعت نہیں۔ سواد اعظم کی ایک شاخ` عقائد و اعمال میں ہم خیال` توحید` رسالت` امامت۔ قیامت میں سارے معتقدات قریب قریب یکساں` عبادات ملتے جلتے ہیں فرقہ` حقہ امامیہ کو نہ ان سے واسطہ نہ ان سے مطلب۔ پھر قادیانیوں کے ویساور بھی یہی ہیں جتنا مال اٹھایا اسی منڈی سے۔ خدا کا شکر ہے ہماری جماعت پر نہ کسی فرقہ باطلہ کا اثر اب تک ہوسکا نہ آئندہ بتصدق ائمہ المہار علیہم السلام اندیشہ ہے۔
ان حالات میں علماء شیعہ کا ختم نبوت کے نام پر ان برادران یوسف سے تعاون عمل کیسا؟ کیا اطیمنان ہوگیا؟ یہ لوگ ہماری دوست بن گئے۔ ان کے دلوں سے فرقہ شیعہ کی عداوت دیرینہ نکل گئی؟ حکومت بنی امیہ و بنی عباس کے روایات دہرائے نہیں جاسکتے؟ قادیانیوں پر کفر کے فتوے شائع کرنے والے ہم کو مسلمان سجھنے لگے؟ انہوں نے اپنے سابقہ فتوئوں سے توبہ کر لی؟ ان کی غلطی کا اعتراف کرچکے؟ عزاداری سید الشہدائؑ کو بدعت کہنا چھوڑ دیا؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو آپ حضرات کا ان سے کسی معاملہ میں تعاون کیا معنی رکھتا ہے؟
تعجب ہے جو لوگ رسول خداﷺ~ پر طرح طرح کے الزامات` قسم قسم کے اتہامات لگاتے رہے پیغمبر اسلامﷺ~ کو )معاذ اللہ( خاطی` گنہگار وغیرہ وغیرہ قرار دے کر نبوت رسالتﷺ~ تو درکنار آپ کی شرافت و نجابت سے بھی انکار کرتے رہے خدا جانے آج اثبات ختم نبوت پر کس منہ سے تیار ہوئے ہیں؟ اور اس سے زیادہ تعجب خیر و حیرت انگیز علمائے شیعہ کا ان سے تعاون ہے۔ اگر ایک خاطی غیر معصوم جس کی حیثیت بڑھے بھائی سے زیادہ نہ ہو اس کی ختم نبوت تو درکنار اصل نبوت ہی ثابت نہ ہو تو کیا تعجب؟ بالخصوص جب کہ اس جماعت کے سرپرست مولوی عنایت اللہ شاہ بخاری` مولوی محمد علی صاحب جالندھری` مولوی لعل حسین اختر جیسے حضرات ہوں تو ہمارا تعاون حیرت بالائے حیرت ہے ۱۰۹ یہ ہرسہ حضرات تقریباً تین سال ہوئے جیلانی متصل بھریاروڈ )سندھ( آئے تو اپنی تقریر میں کہا خلفائے راشدین تو بڑی چیز ہیں اگر امیر معاویہؓ کی شان میں بھی کوئی شخص گستاخی کا کلمہ کہے تو کافر خارج از اسلام۔ اس پر سید امام علی شاہ صاحب رئیس بھریا سٹی سے بحث ہوئی۔ دوران بحث میں فدک کا ذکر آگیا تو انہی مولوی صاحبان نے برجستہ کہا >حضرت ابوبکرؓ حق پر تھے بی بی فاطمہ زہرا کی سخت غلطی تھی جو ناجائز دعویٰ لے کر ان کے پاس گئیں۔< ان خیالات اور ایسے دریدہ دہن لوگوں سے علماء شیعہ کا اتحاد کسی جگہ ممکن ہے؟ مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے جامع مسجد خیر پور میرس میں اہلیت رسول علیہم السلام کی شان میں جس قدر سب دشتم کر کے شیعوں کی دلازاری کی اہل خیر پور ہی خوب واقف ہیں- بالخصوص معصومہ عالم کی ذات پر جو ناسزا الزامات لگائے بس خدا کی پناہ۔ آج تک اہالیان خیر پور بے چین ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی تعاون درست ہے؟ حضرات علماء کرام کو سمجھتے رہنا چاہئے کہ قادیانیوں سے ان کی ناچاقی ان کا گھریلو معاملہ ہے۔ کسی سیاسی مصلحت سے ناراض ہوگئے تو اپنی کمزور محسوس کر کے آپ حضرات کو اپنا ساتھی بنانے کی کوشش کی۔ آئو بھگت کر کے ریاکاری کا مکمل مظاہرہ کررہے ہیں جانتے ہیں کہ قادیانی علماء کا ہم مقابلہ نہیں کرسکتے ان کا منہ توڑ جواب اگر دے سکتے ہیں تو علمائے شیعہ اس لئے آپ کو ہر تدبیر سے ہمنوا بنا کر وقتی کام نکالنا چاہتے ہیں اور وقت نکل جانے پر حسب دستور قدیم آنکھیں پھر جائیں گی۔ غنیمت ہے اس وقت سواد اعظم اور ہمارے درمیان یہ قادیانی موجود ہیں اگر کبھی ان کو اس گروہ سے فرصت ملی تو دوسرا قدم ہمارے سروں پر رکھنے کی کوشش کریں گے- وہی ہتھیار جو آج قادیانیون کی گردن پر چلا رہے ہیں کل کو براہ راست دوبارہ تیز کر کے ہماری گردنوں پر چلائیں گے۔ جس طرح انکار خاتمیت کی وجہ سے قادیانیوں پر کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں کل کو انکار خلافت ثلاثہ کی وجہ سے ہم پر صادر ہو کر مطالبہ پیش کریں گے چونکہ روافض خلفائے راشدین سے حسن عقیدت نہیں رکھتے ان کی خلافت و امامت کے منکر ہیں اس لئے کافر ہیں ان کو غیر مسلم اقلیتی قرار دیا جائے۔
اس لئے بصد ادب التجا رہے کہ آپ اپنی اور اپنی پوری قوم کی حفاظت کی تدابیر پر غور کریں تاکہ برادران یوسف جب قادیانیوں سے فرصت پا کر ہماری طرف رخ کریں تو ہم بھی پوری طرح سے تیار ہوں-
آپ حضرات کے لئے یہ فرصت کا وقت اور اپنے تحفظ کے ذرائع پر غور کرنے کا قدرتی موقع ہے اور یہ کام موجود تعاون سے زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے۔ یہ لوگ جانیں ان کے بھائی قادیانی جانیں نہ ہم کو ان سے مطلب جنہوں نے سرہندی کو دوسری ہزار صدی کا مجدد مانا اور نہ ان سے واسطہ جنہوں نے مرزا غلام احمد کو چودھویں صدی کا مجدد مان لیا اور نہ ان سے تعلق جنہوں نے خاتم المرسلین کی نبوت کو جبریل امین کی طرفداری کا نتیجہ قرار دیا ورنہ حضرت ابوبکرؓ بنی ہوتے۔ نہ ایسے لوگوں سے غرض جو مرزا غلام احمد کو نبی جانتے ہیں۔ اصل یہ ہے سواد اعظم نے توہین رسول خدا میں کونسی کسر باقی رکھی جو قادیانی پوری کریں گے۔ فقط< ۱۱۰
احمدی علم کلام کی برتری کا بالواسطہ اعتراف اور دلچسپ تجویز
بزرگان امت محمدیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحریرات سے چونکہ ختم نبوت کے ان معنوں کی تائید ہوتی تھی جو احمدی علم کلام نے پیش کئے ہیں` اس لئے ان دنوں بعض غیر احمدی اصحاب نے یہ دلچسپ تجویز پیش کی کہ ہمارے علماء کرام کو چاہئے کہ ہمارے ان بزرگوں کا لٹریچر ہی غائب کردیا جائے۔ یہ تجویز ایک ٹریکٹ کی شکل میں شائع کی گئی جس کا متن یہ تھا:۔
>یہ عمل کا وقت ہے خاموشی کا نہیں<
برادران !! احرار اسلام۔ مولوی عبدالحامد صاحب بدایونی` سید سلیمان صاحب ندوی اور مولوی احتشام الحق صاحب دیوبندی نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے ایک کشادہ راستہ کھول دیا ہے یعنی یہ کہ جو لوگ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں لیکن اہل سنت و الجماعت کے عقائد سے یا بالفاظ دیگر اس وقت کے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں انہیں اسلام سے باہر کیا جائے تا آئندہ اختلافات کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہے۔ نہ رہے گا بانس نہ باجے گی بانسریا۔ اس عمدہ نسخہ کے ذریعہ سے امید ہے کہ آئندہ مصلحت دیکھتے ہوئے مناسب وقت پر بعض اور فرقوں کو بھی اسلام )سے( باہر کرنے اور اختلاف کا نام و نشان مٹا دینے کی صورت نکلتی رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے بہت سے ممالک میں جہاں تک ہماری دسترس نہیں یہ کانٹا موجود رہے گا اوراسلام کے وہ معنی نہیں سمجھے جائیں گے جو یہاں کے علماء سمجھتے ہیں بلکہ وہی پرانے معنے جو امام ابوحنیفہؓ اور بعض دوسری بزرگوں کی طرف منسوب ہیں سمجھے جائیں گے لیکن اپنے ملک کو پاک کرنا یہان کے علماء کا کام ہے۔ باہر والے جانیں ان کا کام جانے۔
موجودہ موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ علماء کو پوری طرح گھر کی صفائی کردینی چاہئے مثلاً مرزائی لوگ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا تھا جو دیوبند کے بانی تھے اور مولانا احتشام الحق صاحب اور مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے روحانی باپ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کتاب تحذیر الناس میں ایسے فقرات موجود ہیں جن کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مرزائی لکھ رہا ہے۔ جب تک یہ کتاب موجود ہے مرزائیوں کو دوسرے مسلمانوں پر غلبہ رہے گا اور موجودہ جدوجہد ناکام رہے گی- اس لئے ہمارے نزدیک وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احرار اسلام اور مولانا احتشام الحق صاحب کو اس بات پر راضی ہوجانا چاہئے کہ نانوتوی صاحب کی یہ کتاب اور دوسری کتابیں جن میں اس وقت کا ذکر ہے پاکستان میں ممنوع الاشاعت قرار دی جائیں بے شک مولانا بخاری اور مولانا احتشام الحق کے لئے یہ گھونٹ پینا تلخ ہوگا لیکن اس بڑے کام کے پورا کرنے کے لئے جو انہوں نے شروع کیا ہے یہ تلخ گھونٹ پینا کوئی ایسا بڑا کارنامہ بھی نہیں۔ مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے تو ان علماء سے بھی کلی برات کا اظہار کیا جائے جنہوں نے مرزائی عقائد کی تائید کی ہے اور نادانستہ ان کی اشاعت میں ممد ثابت ہوئے ہیں۔ یہ پتھر تو سخت ہے مگر چاٹنا ہی پڑے گا ورنہ وہ مغرب زدہ مسلمان جو ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں وہ کمزور ایمان والے اپنی عقل کے برتے پر شور مچائیں گے کہ جب دیو بندی علماء یہی کہتے چلے آئے ہیں جو یہ مرزائی کہتے ہیں تو ان پر یہ فتویٰ کیوں نہیں لگایاجاتا۔ دلوں میں ان لوگوں کی بے شک عزت کی جائے مگر ظاہر میںبرات ضرور ظاہر کی جائے ورنہ یہ مہم ناکام رہے گی۔
ہاں ایک اور مشکل ہے اور وہ یہ کہ خالص حنفی طبقہ کے علماء نے بھی کچھ اسی قسم کی حرکات کی ہیں۔ ملا علی قاری جن کو عقائد کے بیان میں امام ابوحنیفہ صاحب سے کچھ ہی کم مرتبہ دیا جاتا ہے اور مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی نے جو احناف ہند کے لئے گویا شیخ المشائخ کا رتبہ رکھتے ہیں اسی قسم کے الفاظ اپنی کتابوں میں لکھ دیئے ہیں جو مرزائی کہتے ہیں اور مرزائی ان کتب کو دکھا دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان عقیدوں کے باوجود بزرگ اور امام اور ہم کافر اور مرتد؟ آخر یہ فرق کیوں؟ اور یہ مغرب زدہ مسلمان اس دلیل کو سن کر متاثر ہوجاتے ہیں حالانکہ عقل انسان کو علماء کی تائید کے لئے ملی ہے نہ کہ ان کی مخالفت کے لئے۔ مگر بہرحال اس مغربیت کی مرض کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اگر کسی نہ کسی رنگ میں ملا علی قاری اور مولانا عبدالحی فرنگی محلی کی کتب کو بھی ضبط کر لیا جائے تو یہ ایک بڑی دینی خدمت ہوگی اور اس سے احرار اسلام جیسے مجاہدین کو بڑی تقویت پہنچے گی۔
مگر ایک اور بات بڑی مشکل ہے اس کا علاج ذرا جان جوکھوں کا کام ہے۔ مگر احرار اسلام ارادہ کر لیں تو وہ بھی کوئی ایسی بڑی بات نہیں اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں پیروں فقیروں کا بہت زور ہے اور یہ لوگ محی الدین صاحب ابن عربی` معین الدین صاحب چشتی اور خواجہ میر درد صاحب کے ذرا ضرورت سے زیادہ معتقد ہوتے ہیں اور ان بزرگوں نے بھی اپنی کتب میں ویسی ہی باتیں لکھی ہوئی ہیں جیسے مرزائی کہتے ہیں- حضرت معین الدین صاحب چشتی نے تو اپنے آپ کو مسیح تک کہہ دیا ہے اور اپنے اوپر جبرائیل کے اترنے اور ان پر وحی نازل کرنے تک کا دعویٰ کردیا ہے۔ ان حوالوں سے مرزائیوں کو بہت تقویت ملتی ہے اور ان حوالوں کو سن کر صوفیوں کے شاگرد اور معتقد چلا اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو کافر کہیں یا مرزائیوں کو مسلمان اور پھر گھبرا کر کہہ اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو تو کافر کہنا مشکل ہے ان مرزائیوں کو ہی مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔ اب اس شر کا ازالہ یہی ہے کہ کم سے کم مرزائی فتنہ کے استیصال تک ان بزرگوں کی کتب کو پاکستان میں ضبط کر لیا جائے اور داخلہ ممنوع قرار دیا جائے تاکہ مرزائی ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اور تمام مساجد میں علماء یہ خطبہ پڑھیں کہ بعض ضروری مصالح کی وجہ سے ان کتب کا پڑھنا ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ کم سے کم عقل کی مرض میں مبتلا ان کو ہرگز نہ دیکھیں۔ اس وقت مسلمانوں کی تو وہی حالت ہے کہ۔
ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
چند سال ہوئے ایک شخص نے شیخ شلتوت پروفیسر جامعہ ازہرو صدر مجلس افتاء سے پوچھا کہ قرآن کی رو سے مسیح زندہ ہیں یا فوت ہوگئے؟ تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ قرن کی رو سے مرد ہیں۔ ان کی توجہ جب اس طرف پھرائی گئی کہ مولانا علماء ہند تو متوفیک کے معنی موت کے نہیں کرتے تو انہوں نے اس اشارہ کو بھی نہ سمجھا اور صاف لکھ دیا کہ غیر عرب جو عربی نہیں جانتے )یہ ہتک کی ہمارے علماء کی( جو چاہیں معنے کریں ہم عرب لوگ جن کی مادری زبان عربی ہے متوفیک کے معنے وفات دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر بھی جب فتویٰ پوچھنے والے نے کہا کہ اس فتوے سے مرازئیت کو تقویت پہنچتی ہے تو انہوں نے یہ جواب لکھ کر بھجوادیا کہ مجھے اس سے کیا کہ اس فتویٰ سے مرزائیت کو تقویت پہنچتی ہے میں نے تو وہ فتویٰ دیا ہے جو قرآن سے ثابت ہے۔ اگر موجودہ دور کے علماء بھی مصلحت وقت کو نہیں سمجھ سکتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان علماء سے اس دنیا میں کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
یہ وقت کام کا ہے ہمیں سب پرانے بزرگوں کا ایسا لٹریچر غائب کردینا چاہئے جس سے مرزائی فائدہ اٹھا سکیں۔ آخر ان بزرگوں سے ہم نے اب کیا فائدہ اٹھانا ہے؟ انہوں نے جو کچھ لکھنا تھا لکھ چکے اور فوت ہوگئے کام تو اب احرار اسلام آئیں گے۔ کوئی الیکشن لڑنا پڑا یا باہمی مناقشتوں میں استمداد کی ضرورت ہوئی تو آخر یہی کام دیں گے پس انہی کی تائید ہمیں کرنی چاہئے- اگر ایسا نہ کیا گیا تو موجودہ علماء کے فتووں سے مرزائیوں کا کچھ نہ بگڑے گا۔ مسلمان فطرتاً بہادر اور شریف الطبع واقع ہوا ہے وہ ان فتوئوں سے متاثر ہو کر اور زیادہ تحقیق کرنے لگ جائے گا اور مرزائیوں کے قتل اور ان کے بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شریف اور بہادر مسلمان مظلوم کی حمایت کے جذبہ سے متاثر ہو کر کھڑا ہوجائے گا۔
پس اس وت کے انے سے پہلے سب ایسا لٹریچر غائب کردینا چاہئے۔ نہ وہ لٹریچر ہوگا نہ مرزائی اسے مسلمانوں کو دکھا سکیں گے۔
خاکسار
کامریڈ محمد حسین پریذیڈنٹ انجمن نوجوانان اسلام
پاکستان پنجاب لاہور
فصل چہارم
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا اخبار >لنڈن ڈیلی میل< کے نمائندہ کو اہم انٹرویو پنجاب مسلم لیگ کا اجلاس لاہور >اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدم میں چند معروضات< وزیراعلیٰ پنجاب کا احمدیوں سے متعلق موقف اور حضرت مصلح موعودؓ کا بیان
حضرت مصلح موعودؓ >ڈیلی میل< کو ایک اہم انٹرویو
احرار نے احمدیوں کے خلاف تحریک تو جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے اٹھائی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سی اسے جماعت احمدیہ کی تبلیغ اور اس کی عالمی شہرت میں اضافہ کا موجب بنادیا۔ چنانچہ جب مطالبہ اقلیت کا زور بڑھا اور احرار بعض مسلم لیگی عہدیداروں اور ممبروں کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بیرونی پریس نے بھی دلچسپی لینا شروع کردی۔ اسی کی ایک کڑی اخبار >لنڈن ڈیلی میل< کے نمائندہ خصوصی )میاں محمد شفیع صاحب( کا اہم انٹرویو ہے جو انہوں نے ربوہ میں
جولائی ۱۹۵۲ء کے تیسرے عشرہ میں حضرت مصلح موعودؓ سے لیا۔
اصل انٹرویو انگریزی میں چھپا۔ انٹرویو کا مکمل متن حسب ذیل ہے
مرزا بشیر الدین محمود احمد نے لنڈن ڈیلی میل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اتوار کو فرمایا:۔۱۱۱>مجھے یقین ہے کہ احمدیوں کے خلاف موجودہ ایجی ٹیشن میں ہندوستان کا مخفی ہاتھ کام کر رہا ہے۔
آپ نے بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس اس کا حتمی ثبوت موجود ہے جسے متعلقہ حکام کو مناسب وقت پر پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
اگر پاکستان کی ہائی کمان نے ان کی جماعت کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کردیا تو انہیں اپنی جماعت کو یہ حکم جاری کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو احمدی نہ کہیں بلکہ مسلم کہیں ڈیلی میل کے میاں محمد شفیع کو خصوصی بیان دیتے ہوئے جماعت احمدیہ کی قادیانی شاخ کے تریسٹھ سالہ سربراہ نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ طاقت کے زور پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کسی قسم کا کوئی منصوبہ بنایاہے۔
آپ نے فرمایا کہ احمدیت کو سیاسی نظریہ نہیں ہے ہماری جماعت تو مذہبی جماعت ہے۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں کی موجودہ کشمکش کے پیش نظر صرف ایک دیوانہ ہی احمدیوں کے لئے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا سوچ سکتا ہے۔
آپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر بفرض محال یہ مان ہی لیا جائے کہ یہ چھوٹی سی اقلیت طاقت سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہے تو اگلے ہی دن غیر احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر اسے چھوڑنے کے لئے تیار بھی رہنا چاہئے۔
سوال:۔کیا یہ فرض کرنا صحیح ہوگا کہ حکومت کے ساتھ تصادم کے نتیجہ میں حکومت کے احمدی ملازم آپ کی اطاعت کو حکومت کے احکام پر ترجیح دیں گے؟
جواب:۔ حکومت وقت کے ساتھ وفاداری ہمارے مذہب کا جزو ہے۔ اگر کسی وقت بھی میرے ساتھ ایسے تصادم کا وقت آجائے جس سے احمدیوں کی حکومت وقت کے ساتھ اطاعت پر آزمائش آجائے تو اسی لمحہ بحیثیت خلیفہ اپنا موجودہ متمام چھوڑنے کے لئے مجھے تیار رہنا چاہئے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا ہم کسی ایسی ملکی حکومت کے خلاف کبھی کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کریں گے جو قانون کے ذریعہ قائم کی گئی ہو۔
احمدیوں کے خلاف اس ملک گیر تحریک کے خلاف کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے مرزا صاحب نے فرمایا: >مجھے یہ پسند نہیں اور اس لئے پسند نہیں کہ ہمیں اس سے کوئی نقصان ہوگا بلکہ اس لئے کہ اس سے اسلام بدنام ہوجائے گا۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:۔
ہماری جماعت بین الاقومی طور پر ترقی پذیر جماعت ہے اور تبلیغی کاموں کی وجہ سے ہم اسلام اور مسلمانوں کے لئے کئی شاندار کام سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ہمیں مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت قرار دے دیاجائے تو ممالک بیرون میں ہمارے کاموں میں روک پیدا ہوگی اور اسے مجموعی طور پر ایک مسلم قوم کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا بلکہ یہ ایک علیحدہ مذہبی فرقہ کا کام سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج بھی پیدا ہوجائے گی۔
اس پر نہایت ذہین لیڈر نے یہ سوال کیا کہ پھر مجوزہ احمدی اقلیت کے لئے کون سی حدود مقرر کی جائیں گی؟
ہئیت حاکمہ نے اگر جماعت کو اقلیت قرار دیا تو میں یہ حکم جاری کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں کروں گا کہ ہم اپنے ساتھ احمدی کا نام ترک کردیں اور صرف مسلم کہلائیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہماری مذہبی کتب میں لفظ احمدی ہمارے لئے قطعی )یا لازمی( نہیں۔ یہ نام بانی سلسلہ نے اپنے معتقدین کو مردم شماری کے لئے اپنی زندگی میں صرف امتیاز کے لئے استعمال کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔
فرض کریں کہ حکومت آپ کی انجمن کو سیاسی جماعت قرار دے کر غیر قانونی قرار دے دیتی ہے اس وقت آپ کا رویہ کیا ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں انجمن کا نام تبدیل کردوں گا لیکن حکومت کے ساتھ تصادم نہیں ہونے دوں گا۔
اسلامی مملکت پاکستان میں آپ سے دریافت کیا گیا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں بھی آپ مکمل مذہبی آزادی کی حمایت کریں گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ایک اسلامی ریاست میں مکمل مذہبی آزادی ہوتی ہے۔ اسلام غیر مسلموں ¶سے بھی امید کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی اصولوں پر عمل کریں گے۔
آپ نے پھر فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ موجودہ احمدیہ ایجی ٹیشن میں ہندوستان کا مخفی ہاتھ کام کررہا ہے۔ ہمارے پاس اس کا حتمی ثبوت ہے جسے وقت آنے پر متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کے لئے ہم تیار ہوں گے۔
سوال:۔ کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ ساری دنیا کے علماء اسلام کا ایک کنونشن بلایا جائے جو احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے بارہ میں غور کرے۔
جواب:۔ ہاں بشرطیکہ ہمیں مجوزہ کنونشن میں نمائندگی دی جائے۔
سوال:۔ فرض کریں کہ اکثریت آپ کو عقائد کی بناء پر غیر مسلم قرار دیتی ہے تو کیا پھر بھی آپ اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کریں گے؟
جواب:۔ ہاں ہم پھر بھی عالمی اسلامی برادری کے ساتھ منسلک رہیں گے۔۱۱۲
وضاحت
مندرجہ بالا انٹرویو کی اشاعت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایڈیٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ کو وضاحت مکتوب لکھا جو جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں شائع ہوا
‏Clarification
‏ report a instant 22nd the Tuesday of issue your In ۔۔ ,riS interiewer The ۔published been has me with interview an of ۔person honest and experienced very a is Shafi Mohammad Mian and questions his to replies my recorded carefully most has He faithfully very has he discrepancies immaterial some from apart misunderstanding some been however has There ۔said I what reporduced somehow has Shafi Muhmmad Main ۔point one regarding definite of possession in already are we that impression the taken say to meant I What ۔India from help getting Ahrar the of sfproo they that persons certain by informed been had I that was other the from help getting Ahrar the about proof some possessed ۔it verify finally to power no had I that but border the of side some to as cluse important some had too we that said also I parties Indian certain from help receiving workers Ahrar the of when that added I ۔cluse those up following were we that and before them put would we conclusions definite some reached we that seems It ۔tie proper the at authorities proper the
‏and point the on clearly myself express not could I unfortunately ۔other each with intermixed got things two the
‏Ahmad Mahmud ۔B Mirza
‏Community Ahmadiyya the of Head
‏Lahore, Gazette Military & Civil (The
‏3) Page 1952, 25, July (Friday,
اس مکتوب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:۔
جناب عالی ! آپ کی بروز منگل ۲۲ ماہ حال کی اشاعت میں میرے ایک انٹرویو کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ میاں محمد شفیع صاحب جنہوں نے انٹرویو لیا ہے ایک آزمودہ کار اور دیانتدار شخص ہیں انہوں نے میرے جوابات کو نہایت احتیاط کے ساتھ ریکارڈ کیا ہے اور معمولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے وہی چیز شائع کی ہے جو میں نے بیان کی۔ لیکن ایک امر کے بارہ میں کچھ غلط فہمی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب نے یہ اثر لیا ہے کہ ہمارے پاس اس امر کا حتمی ثبوت موجود ہے کہ احرار کو ہندوستان سے مدد مل رہی ہے۔ لیکن میرا مطلب یہ تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کے پاس کچھ ثبوت موجود ہے کہ احرار کو سرحد پار سے کچھ مدد مل رہی ہے۔ لیکن میرے پاس اس کی تصدیق کے لئے کوئی طاقت نہیں ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس کچھ ایسی اہم باتیں موجود ہیں کہ بعض احراری کارکنان بعض ہندوستانی پارٹیوں سے امداد حاصل کررہے ہیں۔ ہم ان کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور میں نے مزید کہا تھا کہ جب یقینی معلومات حاصل ہوجائیں گی تو ہم مناسب وقت پر یہ معلومات متعلقہ حکام کے سامنے پیش کردیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں بدقسمتی سے یہاں یہ بات واضح نہ کرسکا اور دونوں باتیں آپس میں غلط ملط ہوگئیں۔ ۱۱۳
‏]bsu [tagپنجاب مسلم لیگ کونسل کا اجلاس لاہور
۲۶-۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء کو لاہور میں پنجاب مسلم لیگ کونسل کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں کونسل کے بعض ممبروں کی ان قرار دادوں کو زیر بحث لایا گیا جن میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے۔۱۱۴
اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات
اس موقعہ پر پنجاب پراونشل مسلم لیگ کونسل کے ممبر جناب اصغر بھٹی صاحب بی۔ اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرگودھا کی طرف سے بعنوان >اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات< ایک حقیقت افروز رسالہ شائع ہوا جس میں مطالبہ اقلیت کی حقیقت واضح کی گئی تھی۔ اس رسالہ کے دو اقتباسات ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں:۔
۱- >میں تو ایک سیدھا سادھا مسلمان ہوں قران پاک نے اسلامی زندگی کی بنیاد چار باتوں پر رکھی ہے۔
ایمان۔ عمل صالح۔ توصیہ حق۔ توصیہ صبر
میں نہ قادیانی مرزائی ہوں اور نہ لاہوری۔نہ میرا شیعہ فرقہ سے تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور فرقہ سے میں مہص مسلمان ہوں جس کا مسلک یہ ہونا چاہئے کہ وہ حق کے اعلان میں کسی سے نہ ڈرے- نہ تو دنیا کا کوئی لالچ اس پر غالب آئے اور نہ کوئی خوف۔ مسلمان اگر طمع بھی رکھے تو صرف خدا سے اور ڈرے بھی تو صرف خدا سے۔
پاکستان نوزائیدہ بچہ ہے جس کو معرض وجود میں آئے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں معمار ملت حضرت قائداعظم نے ہمیں اپنے اندر >اتحاد` یقین محکم عمل پیہم ` مبت فاتح عالم< کی صلاحیتیں پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی تھی اور حکم دیا تھا کہ فرقہ پرستی کا چغہ اتار کر اسلام کے نام پر متحد رہیں تاکہ ہم عالم اسلام اور خود اپنے لئے ایک طاقت بن سکیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہی سیاسی پارٹی جو قیام پاکستان کے خلاف تھی اور جس نے حضرت قائداعظم کو کافر قرار دیا تھا ایک نئے لیبل کے تحت ہماری ملی وحدت اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستانی بنگال میں >بنگالی اردو< جھگڑا کھڑا کردیا گیا جس کو اگر حکمت علی سے نہ دبا دیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ ہم ایک اندرونی خلفشار میں مبتلا ہوجاتے جس سے نکلنا اگرچہ ناممکن نہ تھا لیکن محال ضرور تھا۔ یہ سیاسی بساط کے پٹے ہوئے مہرے یعنی اراکین مجلس احرار بمصداق >نیادام لائے پرانے شکاری< نے ہمارے دیس پنجاب میں مرزائی اور غیر مرزائی کا نیا فتنہ کھڑا کردیا اور یہی نہیں بلکہ سادہ عوام کو گمراہ کر کے حکومت وقت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ >قادیانیوں کو پاکستان کی ایک اقلیت قرار دیا جائے۔<
سادہ لوح عوام احراریوں کی گزشتہ سیاسی زندگی سے کما حقہ` آگاہ ہونے کے باوجود جذبات کے سمندر میں بہے جارہے ہیں اور اس طرح نادانستہ نظام ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ان کے ممدو معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کیا جائے اور عامتہ المسلمین کو آنے والے خطرہ سے قبل از وقت آگاہ کردیا جائے ~}~
کھول کر آنکھ میرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
امتیاز حق و باطل کی طاقتیں خواہ کس قدر ماند پڑ گئی ہوں تاہم حقیقت ایک ایسی چیز ہے کہ اخلاص کے ساتھ موثر انداز میں جب بھی اس کو پیش کیا جائے گا تو سخت سے سخت طبائع بھی اس کے آگے سر تسلیم خم کردیں گی۔ ان حالات کے پیش نظر میں آپ سے مدوبانہ گذارش کرتا ہوں کہ مندرجہ ذیل کوائف کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں اور پھر جائزہ لیں کہ >احرار< اپنے اس مطالبہ میں کہاں تک حق بجانب ہیں۔ کیا ان کا کھڑا کیا ہوا فتنہ کہیں پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا ایک دوسرا حیلہ تو نہیں ہے!
۱- مرزائیوں کو اقلیت بنا کر ہم کیا فائدہ اٹھالیں گے؟ کیا ہم سیاسی حقوق سے ان کو محروم کریں گے؟ کیا ہم ان کو تبلیغ سے روک دیں گے؟ کیا عیسائی تبلیغ نہیں کررہے؟ کیا آریہ سماج تبلیغ نہیں کررہے؟ کیا بہائی ہمارے ملک میں بیٹھے ہوئے تبلیغ نہیں کررہے؟ کراچی کے قریباً تمام ہوٹل ان کے قبضہ میں ہیں۔
وہ قرآن کریم کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور بہاء اللہ کو خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے ہیں مگر وہ تبلیغ کررہے ہیں اور پاکستان ان کو نہیں روکتا۔ پارٹیشن کے بعد بھی کئی لوگ عیسائی ہوئے ہیں ان کو گورنمنٹ نہیں روکتی اور نہ روک سکتی ہے۔ خود ہم بھی تو ہر ملک میں اسلام کے لئے تبلیغ کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
۲- اگر مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہے تو ہمارا ان کو اقلیت قرار دینے سے بنتا ہی کیا ہے یا پھر ہمیں یہ قانون بنانا پڑے گا کہ کوئی شخص مولویوں کی اجازت کے بغیر اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا اور پھر اگر یہی جھگڑا جاری رہا تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ آئندہ سنیوں اور شیعوں اور حنفیوں اور دیوبندیوں کے خلاف ایسے ہی الزام نہیں لگائے جائیں گے اور ایسی ہی شورش نہیں کی جائے گی اور پاکستان میں فتنہ کی خلیج وسیع سے وسیع تر نہیں کی جائے گی؟
۳- پھر ایک یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مرزائی اپنی آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کرتے رہے اور مسلمانون کے دین پر چلتے رہے تو آپ کو گورنر جنرل سے ایک ایسا آرڈی نینس نافذ کرانا پڑے گا کہ جس کی رو سے کوئی مرزائی اپنا نام مسلمانوں کا سانہ رکھے نہ ہی کلمہ پڑھے اگر پڑھے تو اس کی زبان گدی سے نکال لی جائے- قرآن کو ہاتھ لگائے تو ہاتھ کاٹ دیئے جائیں- اور اگر مسلمانوں کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے بلکہ مسلمانون کی طرح نماز بھی پڑھے تو اس کو سخت سزا دی جائے۔ یا اور کوئی اسلامی کام کرے تو اس کو ازروئے قانون ماخوذ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کوئی مہذب حکومت ایسا قانون نافذ نہیں کرسکتی۔ اور جب یہ حقیقت ہے تو پھر خدارا سوچیں کہ ہم کہاں اور کس طرف جارہے ہیں۔ آخر دنیا ہمیں کیا کہے گی؟
۵- اس کے علاوہ ہمیں ایک قربانی اور دینی پڑے گی اور وہ ہے کشمیر کا ہندوستان سے الحاق۔ ضلع گوداسپور کی قبل تقسیم مسلم اور غیر مسلم آبادی کا تناسب کچھ اس قسم کا تھا کہ مسلمان نصف سے زیادہ تھے اور غیر مسلم جن میں ہندو` سکھ` اور عیسائی وغیرہ سب شامل تھے مل ملا کر مسلمانوں کے برابر نہ تھے۔ اس لحاظ سے یہ ضلع بحیثیت مجموعی مسلم اکثریت کا ضلع تھا۔ اس ضلع یں مرزائی کثرت سے آباد تھے ان کی آبادی کو الگ کر کے شمار کیا جاتا تو پھر مسلمان نصف سے کم رہ جاتے تھے اس صورت میں یہ ضلع غیر مسلم اکثریت کا ضلع ہو کر رہ جاتا تھا۔ چونکہ کانگرس کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی اور اس راہ میں گورداسپور کا ضلع بری طرح حائل تھا کیونکہ ہندوستان کو کشمیر جانے کے لئے بہرحال گوداسپور ہو کر جانا پڑتا تھا اس لئے کانگرس نے پورا زور لگایا کہ ضلع گوداسپور بھی ہندوستان میں شامل ہوجائے چنانچہ اس نے گوداسپور کو غیر مسلم اکثریت کا ضلع ثابت کرنے کے لئے پوری کوشش کی۔ اس وقت احرار مسلم لیگ کے سخت مخالف بلکہ پاکستان کے نظریے ہی کے قائل نہ تھے اور بڑے سرگرم کانگرسی تھے اس لئے کانگرس نے ان سے خوب فائدہ اٹھایا اور ان کے پوسٹر اور لٹریچر وغیرہ کمیشن کے سامنے پیش کئے جن میں ثابت کیا گیا تھا کہ مرزائی مسلمانوں سے الگ فرقہ یعنی خود مسلمان مرزائیوں کو اپنا حصہ نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ثابت ہونے سے مسلم لیگ کو ایک عظیم نقصان کا ڈر تھا چنانچہ اس وقت کے دوربین قائداعظم اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے اس سازش کو بروقت بھانپ لیا اور اس کے جواب کے طور پر خود قادیانیوں کی طرف سے ایک میمورنڈم ٹربیونل کے سامنے پیش یا اس میں قادیانیوں نے خود اس بات کو پیش کیا کہ وہ مسلمانوں کا ایک حصہ ہیں اور کوئی الگ فرقہ نہیں ہیں۔ یعنی >احرار نے ثابت کرنا چاہا کہ قادیانی الگ فرقہ ہیں اور مسلم لیگ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کا حصہ ہیں< گو بعد میں ضلع گوداسپور پاکستان کو نہ مل سکا لیکن پاکستان کی یہ دلیل کہ ضلع گوداسپور مسلم اکثریت کا ضلع ہے قائم رہی اور یہ دلیل ایک ایسی مضبوط بنیاد تھی جس پر آئندہ مسئلہ کشمیر` نہروں اور بجلی وغیرہ کے مسائل میں پاکستان کے دلائل کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کردی جس کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر ہندوستان کی تمام دلیلیں ٹوٹتی پھوٹتی ہیں۔ آج بھی یہ دلیل قائم ہے اور پاکستان کے ہاتھ میں ایک زبردست ہتھیار ہے جس پر مسئلہ کشمیر کا دارومدار ہے۔
۵۔ ہندوستان میں اس وقت پانچ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ انتہائی کسمپرسی اور قابل رحم حالت مین ان کی زندگی کے دن گزررہے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں سے جس قسم کا سلوک ہوتا ہے اس کی طرف ان کی ملتجیانہ نگاہیں لگی رہتی ہیں۔ پاکستانیون کی ذرا سی لغزش ان کے لئے قیامت کا نمونہ بن سکتی ہے۔ اگر مرزائیوں کو محض اقلیت قرار دینے کی بات ہوتی تو کچھ نہ تھا لیکن آج کل خونی مولوی تو برملا اعلان پر اعلان کررہے ہیں کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دے کر اس ملک سے ہی نکال دیا جائے اور شاید ان کا پیٹ تو اس طرح بھی نہ بھرے گا خواہ ایسا کرنے سے پانچ کروڑ جانیں خطرہ میں پڑ جائیں۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر مرزائیوں کو آپ اقلیت قرار دے دیا تو آخر ان سے وہی سلوک ہوگا جو ہندوئوں سے۔ اور ہندو پاکستان میں دو کروڑ ہیں۔ یہ دو کروڑ ہندو کیا پانچ کروڑ مسلمانوں کو زندہ رہنے دے گا؟ کیا یہ دو کروڈ ہندو مسلمان کا اپنے میں سے علیحدہکئے ہوئے فرقہ پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا؟ کیا وہ اس خدشہ پر ہی آفت نہ لے آئے گا۔ خدارا ذرا تو سوچئے کہ آیا آپ چند لاکھ مرزائیوں پر ظلم کر کے پاکستان کے وجود کو خطرے میں تو نہیں ڈال رہے؟ ~}~
تازہ خواہی داشتن گرد داغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را<
۲- >کیا یہ حقیقت نہیں کہ مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے اور رسول اکرمﷺ~ خدا کے آخری نبی ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں وہی نماز جس کی حقیقت ہم لوگوں نے کھودی ہے۔ زکٰوۃ ادا کرتے ہیں )جس کا ہم میں اخلاص باقی نہیں رہا( حج کرتے ہیں ہاں وہی حج جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے اور ان کے عقیدہ میں صرف لفظ >نبی< کا اختلاف ہے۔ وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں` ایسا نبی کہ جس کی نبوت رسول اکرمﷺ~ کی غلامی کی رہین منت ہے۔ ہمیں ان کے اس عقیدہ سے ایک بنیادی اختلاف ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کا لفظ سوائے رسول خداﷺ~ کے اور کسی پر استعمال نہیں ہوسکتا۔ وہی نبی آخر الزماں ہیں ان کے بعد نبوت کے دروازے ہمیشہ کے لئے مسدود ہوگئے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا محض عقیدہ کے اس اختلاف پر ہم ان کو خارج از اسلام قرار دے سکتے ہیں؟ مسلمانوں کے اس وقت بہتر فرقے ہیں ان میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآن کے دس پاروں کو نہیں مانتے۔ بعض ایسے ہیں جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآن کے دس پاروں کو نہیں مانتے۔ بعض ایسے ہیں جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے چند ایک کو کالعدم قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان ہیں اور ہماری حکومت میں اور سوسائٹی میں ایک امتیازی درجہ حاصل کئے ہوئے ہیں اور ہمیں بجا طور پر ان سے کوئی پرخاش نہیں۔ اگر ایک آدمی اپنے آپ کو مسلمان کہے تو ازروئے قرآن پاک ہم اس کو خارج از اسلام نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں جس کے تحت ہم ان کو کافر بنا سکیں۔ مذہب کا تعلق دل سے ہے اور دل کے بھید سوائے حق تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں ہوسکتے۔ ہاں اگر مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام سے ماوریٰ دعویٰ نبوت کیا ہوتا` قرآن سے انکار کیا ہوتا` کسی آیت قرآنی کو کالعدم قرار دیا ہوتا یا اس میں تبدیلی پیدا کی ہوتی` کوئی نئی شریعت لائے ہوتے` حضور سرور کائنات کی اطاعت سے آزاد ہو کر کسی نئی نبوت کا اعلان کیا ہوتا تو ہم حق بجانب تھے کہ ان کو غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے کارج قرار دیتے حالانکہ قرآن کا فیصلہ یہ ہے:۔
>جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاریٰ اور صابی ہوں کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں ہو لیکن کوئی بھی جو خدا پر اور اس کے آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان اور عمل کا اجرا اپنے پرودگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لئے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔<
میرا خطاب حضرات احرار سے ہے کہ خدارا پاکستان میں نیا فتنہ نہ پھیلائے۔ فساد کو اللہ کریم نے قرآن حکیم میں قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے اور فتنہ و فساد سے ارض الٰہی کو پاک کرنے کے لئے تلوار سے مدد لینے تک کی اجازت دے دی ہے۔ آپ نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اس وقت کی تھی جبکہ ہمیں آپ کی امداد کی اشد ضرورت تھی لیکن آپ جان بوجھ کر دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلے مسلمانوں کی من حیث القوم مخالفت کی۔ حضرت قائداعظم کو کافر قرار دیا اور ان کو طرح طرح کی گالیاں دیں۔ ہم نے یہ سب کچھ سنا اور سہا کیونکہ اس وقت ہمارا دشمن قوی تھا اور ہم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہم اپنوں کا مقابلہ کرتے۔ لیکن آپ کو اپنے عزائم میں شکست ہوئی اور خدا کے فضل و کرم سے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ اب ہمیں ایک عظیم سلطنت کی بنیادوں کو مستحکم کرنا ہے۔ اسلام کے تمام فرقے اسلام کے نام پر متحد ہیں۔ آپ شیرازہ ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایئے۔ مسلم لیگ اسلامی وحدت کی علمبردار ہے اس کو اللہ کریم نے اتنی طاقت بخشی ہے کہ آپ کے ان خطرناک ہتھکنڈوں کو یکسر ناکام بنادے۔
ہاں اگر آپ صدق دل سے مرزائیوں کو مسلمانوں کے لئے ایک فتنہ عظیم سمجھتے ہیں تو آپ تبلیغ فرمائیں وعظ کریں` اعلیٰ اخلاق پیش کریں تاکہ نئی پود مرزائیوں کے چنگل میں پھنسے اور پرانے مرزائی اپنے عقیدہ کو خیرباد کہہ کر آپ کی صفوں میں آملیں۔ آپ اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کردیں تاکہ ہندو` عیسائی اور دوسری خارج از اسلام جماعتیں اسلام کی لذتوں سے سرشار ہو کر مسلمان ہوجائیں۔
ایک تبلیغی مذہب کے پیرو صرف محبت اور اسوہ حسنہ پیش کر کے مخالفین کے دل موہ سکتے ہیں۔ نفرت اور حقارت کا آلہ استعمال کر کے کوئی مبلغ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ حضرات ! صوفیائے کرام کا طریقہ تبلیغ استعمال کریں کہ کس طرح غیر مسلموں سے بے پناہ محبت کرنے اور ان کو اپنے ہمہ گیر اخلاق حسنہ سے گرویدہ بنا کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتے تھے اسوہ رسولﷺ~ کو مشعل راہ بنائیں۔ کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر فرمائیں کہ کیا آپ کا یہ مطالبہ کہ مرزائیوں کو جا ببانگ دہل اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں قانون کے ذریعہ کافر قرار دیا جائے حق بجانب اور نیک نیتی پر مبنی ہے؟ وما علینا الاالبلاغ<۱۱۵
‏tav.13.12
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
وزیراعلیٰ پنجاب کا احمدیوں سے متعلق موقف
مطالبہ اقلیت پر پنجاب مسلم لیگ کونسل نے ۸ کے مقابلہ میں ۲۷۲ ممبران کی بھاری اکثریت سے یہ فیصلہ کیا کہ گروہوں اور جماعتوں کو اقلیت قرار دینے کے جملہ سائل مرکزی قیادت کی بالغ نظری اور مدبرانہ فراست پر چھوڑ دیئے جائیں۔ اس موقعہ پر پنجاب مسلم لیگ کے صدر میان ممتاز محمد خاں دولتانہ نے اپنی تقریر میں اس مسئلہ کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ آپ نے تمام عواقب سے آگاہ کرنے کے بعد متنبہ کیا کہ اگر سوچے سمجھے بغیر جلد بازی میں کوئی فیصلہ کیا گیا تو )اس انوکھے اقدام پر کہ جس کی تاریخ عالم میں اور کوئی مثال موجود نہیں ہے( نہ صرف یہ کہ دنیا پاکستان کا مضحکہ اڑائے گی بلکہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایسی الجھیں پیدا ہوں گی جنہیں کسی صورت میں حل نہیں کیا جاسکے گا۔ ان کی تقریر کے بعض ضروری اقتباسات درج ذیل ہیں۔ انہوں نے کہا:۔
>جہاں تک اقلیت قرار دینے کا سوال ہے اس کے متعلق اکثر کونسلر صاحب نے سیاسی شعور کے لحاظ سے کچھ اچھی سمجھ بوجھ کا ثبوت نہیں دیا۔ عقائد کی بحث سے قطع نظر اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اقلیت قرار دینے کا سوال ایک آئینی اور سیاسی سوال ہے جو بعض دوسرے مسائل کے ساتھ بری طرح الجھاہوا ہے۔ آپ لوگوں نے ان جملہ مسائل اور ان بے شمار پیچیدگیوں پر قطعاً غور نہیں کیا ہے۔ اور جب تک آپ تدبر اور فراست کے ساتھ ٹھنڈے دل سے ان پیچیدگیوں کا حل تلاش نہ کر لیں آپ فیصلہ دینا تو کجا مشورہ دینے کے بھی اہل نہیں ہیں۔
اگر پورے غور و خوض کے بعد آپ ان مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ بے شک مشورہ دے سکتے ہیں۔ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود میں ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا ہوں یہ امر میرے لئے محال ہے کہ میں چار دن کے جلسے جلوسوں سے متاثر ہو کر دو ٹوک فیصلہ دے دوں۔ کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ہمیں تمام پہلوئوں پر غور کرنا ہوگا اور اس کی وجہ سے جو الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونی لازمی ہیں ان کو بھی حل کرنا ہوگا۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں ان میں سے بعض پیچیدگیوں کا یہاں ذکر کردوں۔
تقریر جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا۔ سوچئے۔ اقلیت سے مراد کیا ہوتی ہے؟ یہی ناکہ ایک ملک میں کچھ ایسے لوگ بستے ہیں جو اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ عام قانون کے تحت ان کے حقوق محفوظ نہیں رہ سکتے تو وہ اپنے لئے اکثریت سے علیحدہ تحفظات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اقوام عالم کی تاریخ میں آج تک کوئی اس کی دوسری مثال نہیں ہے کہ اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ اکثریت والے گروہ کی طرف سے تحفظ حقوق کے علاوہ کسی اور شکل میں پیش کیا گیا ہو۔ آپ کو یاد ہوگا کہ متحدہ ہندوستان میں ہندوئوں نے خود کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کو ہم سے علیحدہ کردو۔ مطالبہ کیا تو ہم نے کیا کہ ہمیں ہندوئوں سے علیحدہ اقلیت قرار دیاجائے۔ ہندو یہی چاہتے تھے کہ وہ ہمیں کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ رکھیں اور ہم علیحدہ تحفظات حاصل نہ کرسکیں۔ آج ہم کس مصلحت کی بناء پر تاریخ عالم اور تمام دستری روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مسلم اکثریت میں سے ایک حصہ کو اقلیت قرار دے دیا جائے۔ اس انوکھے اقدام کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس انتہائی مدلل جواز ہو ایسا جواز جس سے ہم ہی قائل نہ ہوں بلکہ باقی دنیا کو بھی قائل کرسکیں۔ آج کل کی دنیا میں پاکستان الگ تھلگ زندہ نہیں رہ سکتا اس کی زندگی دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کہیں اس اقدام سے ہماری بین الاقوامی ساکھ پر تو اثر نہیں پڑتا۔ ہمارے خلاف پہلے ہی یہ جھوٹا پراپیگنڈا کیا جارہاہے کہ ہم اقلیت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرسکتے۔ نئی اقلیتیں بنانے سے اس غلط پراپیگنڈے کو مزید تقویت پہنچے گی اور پھر دنیا والے کیا کہیں گے کہ عجیب لوگ ہیں پاکستان بننے سے پہلے کہتے تھے کہ ہمیں اکثریت سے بچائو اور اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایک معمولی سی اقلیت سے بچائو۔
پہلے اکثریت کا خوف سوار تھا اور اب اقلیت کا فکر دا منگیر ہے۔
اس ضمن میں میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے مزید فرمایا۔ اس مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم نے اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کر بھی دیا تو اس فیصلہ کو نافذ کرنے کا طریقہ کیا ہوگا۔ احمدی کی آپ کیا تعریف مقرر کریں گے۔ کسی ملک کا طور طریق اور آئین اٹھا کر دیکھ لو اس ضمن میں ایک ہی تعریف ملے گی اور وہ یہ کہ جو شخص اپنے آپ کو جس مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے وہ اسی مذہب کا پیروشمار ہوگا۔ جو اپنے آپ کو عیسائی کہتا ہے وہ عیسائی شمار ہوگا اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان کہلائے گا۔ اگر احمدی بھی جیسا کہ انہوں نے اعلان کیا ہے اپنے آپ کو صرف مسلمان ظاہر کرنا شروع کردیں تو آپ کیا کریں گے۔ اس کا ایک حل یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ علماء کا بورڈ بنادیا جائے اور ہر شخص کے لئے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ ووٹنگ رجسٹر میں درج ہونے سے پہلے امتحان میں سے گزرے اگر علماء اسے مسلمان قرار دیں تو وہ مسلمان شمار ہو ورنہ نہیں۔ بظاہر تو یہ تجویز درست معلوم ہوتی ہے لیکن اگر کل کلاں کو ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ بعض اغراض کے ماتحت مسلمانوں ہی کو غیر مسلم قرار دیا جانے لگا تو اس کا کیا علاج ہوگا؟ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک وقت میں ایک دو نہیں اکٹھی چالیس فیصدی آبادی کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو ان بے چاروں کا کیا حال ہوگا؟
اس مسئلہ کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر پنجاب مسلم لیگ نے فرمایا:۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ )نعوذباللہ( احمدیوں نے قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کا ساتھ نہیں دیا اگر یہ صحیح اور اس بنیاد پر ان کو اقلیت قرار دینا جائز ہے تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ کس کس کو اقلیت قرار دیا جائے۔ مسلم لیگ اور قیام پاکستان کی مخالفت تو اور بڑے بڑے لوگوں نے بھی کی تھی اور پھر اس کی زد میں اور بہت سے لوگ بھی آئیں گے۔ میں کہنا تو نہیں چاہتا لیکن مثال کے طور پر کہنا پڑتا ہے کہ کیا اس بناء پر آپ احراریوں کو بھی اقلیت قرار دینے کے لئے تیار ہیں؟ )پر زور تالیان( بہرحال ایسی صورت میں ہمیں یہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ جو کچھ ہوچکا سو ہوچکا ہم میں اتنی وسعت قلبی موجود ہے کہ ہم مخالفوں کو بھی اپنے میں جگہ دینے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ کامل وفاداری کا یقین دلائیں۔ ہاں ہمارے اندر رہ کر اگر کوئی سازش کرے گا اور ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آئے گا تو پھر ہم ان کا قلع قمع کئے بغیر نہیں رہیں گے۔
دوران تقریر میں آپ نے مزید فرمایا:۔
>پھر یہ بھی کہا گیاہے کہ ہم احمدیوں کو اس لئے اقلیت قرار دلانا چاہتے ہیں کہ انہیں اسمبلیوں وغیرہ میں نمائندگی مل سکے۔ اس میں شک نہیں کہ اب احمدیوں کا کوئی نمائندہ نہیں ہے اور ان کے حقوق متعین ہوجانے پر انہیں نمائندگی مل جائے گی اور وہ فائدے میں رہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات میں وزن تو اس وقت ہو کہ جب یہ مطالبہ خود احمدیوں کی طرف سے کیا جائے۔
اس مسئلہ کی مذکورہ بالا پیچیدگیاں بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا ایک خطرہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ احمدی لوگ سروسز میں بہت گھسے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی وفاداری مشتبہ ہے تو پھر واقعی یہ بہت گہرا مسئلہ ہے۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا انہیں اقلیت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان کے کم سے کم حقوق کا تعین کرنا ہوگا۔ کم از کم سے مراد یہ ہے کہ ان کی تعداد سروسز میں مقررہ حد سے کم نہیں ہونی چاہئے زیادہ ہو کر حرج نہیں۔ کیونکہ حد مقرر کرنے کا مقصد حقوق کا تحفظ ہوتا ہے ان کا اتلاف نہیں۔ ایسی صورت میں موجود ملازمین کو ہم ہٹا نہیں سکیں گے اور آئندہ مقررہ کوٹے کے مطابق نئے آدمی لازمی طور پر ملازم ہوتے رہیں گے< ردمرزائیت< نہیں >فروغ مرزائیت< کا خود اپنے ہاتھ سے راستہ صاف کریں گے۔ ان آئینی اور قانونی مشکلات کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ہمارے جذبات خواہ کتنے بھی مشتعل کیوں نہ ہون ہمیں اپنی مرکزی قیادت کو جو ہم سے زیادہ بالغ نظر اور صاحب فراست ہے کامل غور و خوض اور تحمل بردباری سے فیصلہ کرنے کا موقعہ دینا چاہئے۔<
دوران تقریر میں شہری حقوق کی حفاظت کا ذکر کرتے ہوئے آنریبل میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے فرمایا:۔
>احمدیوں کے متعلق خواہ تمہارا کچھ ہی اعتقاد کیوں نہ ہو مگر جب تک انہیں شہریت کے حقوق حاصل ہیں تمہارا فرض ہے کہ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری پوری حفاظت کرو لیکن آپ لوگوں سے مجھے توقع نہیں کہ آپ اس فرض کو کما حقہ ادا کرسکیں گے۔ چاہئے یہ کہ اس کونسل کا ایک ایک رکن شہید ہوجائے قبل اس کے کہ کسی احمدی کے خونکا ایک قطرہ بھی زمین پر گرے۔ اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو آپ لوگ حکومت کے نااہل ہیں۔
ہم میں سے کوئی مارا جائے یا نہ مارا جائے اس کی اتنی اہمیت نہیں۔ لیکن پاکستان میں ایک ہندو` ایک سکھ یا ایک عیسائی کا مارا جانا بہت بری بات ہے۔ اگر ان میں سے ناحق کوئی مارا جاتا ہے تو حیف ہے ہم پر اور ہمارے صاحب اقتدار ہونے پرامن کیسے قائم رہے؟<
تقریر جاری رکھتے ہوئے آپ نے مزید فرمایا:۔
>لیکن موجودہ حالات میں امن کیسے قائم رہے گا؟ ہمارے مولوی صاحبان آسمانی مقصد کی خاطر یا کسی نجی غرض کے تحت غم و غصہ پھیلاتے ہیں اور امن بحال کرنے کے لئے جب پولیس مداخلت کرتی ہے یا دفعہ ۱۴۴ لگائی جاتی ہے تو اس پر برا منایا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں مجلس احرار کے بعض برگزیدہ کارکن تشریف لائے اور انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ان کا مطالبہ ہے امن برقرار رکھنے میں وہ حکومت کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں گے بلکہ انہوں نے کہا امن کا تحفظ ہمارا سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی فرض بھی ہے۔ اس ضمن میں احراریوں اور مسلم لیگیوں سے ایک بات کہوں گا اور وہ یہ ہے کہ امن و امان قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے شہری حقوق کی حفاظت کی جائے لیکن وزیر آباد کے شہر میں جو کچھ ہوا ہے وہ اس لحاظ سے بہت قابل اعتراض ہے۔ وہاں بعض نوجوان طلباء نے جلوس نکالا کہ ایک احمدی استاد کو برطرف کیا جائے۔ اسی شام میونسپل کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا اور ہر آئینی پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس احمدی استاد کو برطرف کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ میں احرار سے کہتا ہوں کہ اگر تحفظ امن کا وعدہ سچا ہے تو لاہور چھوڑ کر وزیر آباد جائیے اور لوگوں کو بتایئے کہ یہ مسئلہ محض عقیدے کا ہے ہم انسانیت کا خون نہ ہونے دیں گے اور اس بات کو گوارانہ کریں گے کہ لوگوں کے شہری حقوق تلف ہوں۔
مسئلہ زیر بحث کے تمام پہلوئوں پر بخوبی روشنی ڈالنے کے بعد آپ نے فرمایا >جب تک غور و خوض کے ساتھ تمام پہلوئوں پر غور نہ کیا جائے تو ہم صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ اور اگر آپ نازک مسائل پر صبر و تحمل سے ٹور کرنے کے لئے تیار نہیں تو مجھے ایسی جماعت کی صدارت قبول نہیں جو مسائل کی نزاکت کا احساس نہ کرتے ہوئے فیصلے کرنے میں تدبر سے کام نہ لے۔ آگر آپ نے جلد بازی میں کوئی غلط فیصلہ کردیا جو پاکستان کے مجموعی مفاد کے خلاف ہوا تو یہ پنجاب مسلم لیگ پر ایک دھبہ ہوگا۔< ۱۱۶
قائداعظم کا مسلک
مندرجہ بالا بیان قائداعظم کی اس مستقل پالیسی اور عملی مسلک کے عین مطابق تھا کہ تمام کلمہ گو بلا تفریق فرقہ سب مسلمان ہیں اور پاکستان کے آئینی وقانونی جنگ میں مسلم لیگ کی کامیابی کا سارا راز اسی نکتہ میں مضمر تھا جیسا کہ قائداعظم نے ۲۳ مئی ۱۹۴۴ء کو کشمیر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
>مجھ سے ایک پریشان کن سوال پوچھا گیا کہ مسلمانوں میں سے مسلم لیگ کا ممبر کون بن سکتا ہے؟ یہ سوال خاص طور پر قادیانیوں کے سلسلے میں پوچھا گیا۔ میرا جوبا یہ ہے کہ جہاں تک آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کا تعلق ہے اس میں درج ہے کہ ہر مسلمان بلاتمیز عقیدہ و فرقہ مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا بشرطیکہ وہ مسلم لیگ کے عقیدہ پالیسی اور پروگرام کو تسلیم کرے` رکنیت کے فارم پر دستخط کرے اور دو آنے چندہ آدا کرے۔ میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ فرقہ وارانہ سوالات نہ اٹھائیں بلکہ ایک ہی پلیٹ فارم پر ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اسی میں مسلمانوں کی بھلائی ہے۔ اس سے نہ صرف مسلمان موثر طریقے سے سیاسی` سماجی` تعلیمی اورمعاشرتی ترقی کرسکتے ہیں بلکہ دیگر اقوام بھی اور بحیثیت مجموعی ریاست کشمیر بھی۔< 4] fts[۱۱۷
حضرت مصلح موعود کا بیان
امام جماعت احمدیہ حضرت مصلح موعودؓ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے اپنے موقف کی حمایت میں استقامت دکھانے پر حسب ذیل بیان جاری فرمایا:۔
>پنجاب مسلم لیگ کونسل کے اتوار کے اجلاس کی رپورٹ میں مطالعہ کی ہے جو الفاظ احراری احمدی تنازعہ کے متلعق قرار داد میں کہے گئے ہیں مجھے ان سے اختلاف ہوسکتا ہے۔۱۱۸ لیکن اس قرار داد کے متعلق جو بحث کونسل میں ہوئی ہے اس سے ایک بات نہایت نمایاں طور پر واضح ہوگئے ہے اور وہ یہ کہ پنجاب کی سیاسی دنیا میں وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے وجود میں ایک ایسا انسان موجود ہے جو اپنے معتقدات کی خاطر اپنے دوستوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی مخالفت کے علی الرغم استقمات دکھانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے یہ نہایت صحت مند آثار ہیں۔ اگر پاکستان کے مسلمانوں کے ہر طبقہ میں سے ان جیسے دل گردہ کے انسان اور بھی نکل آئیں تو پنجاب محفوظ ہوجائیں گا اور پاکستان کے متعلق کہا جاسکے گا کہ وہ بفضلہ تعالیٰ ہر خطرہ سے باہر ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانان پاکستان کا حامی و ناصر ہوتا کہ وہ ان فرائض ذمہ داریوں کو جو خدا وند تعالیٰ` حضرت محمد~صل۱~ اور وطن عزیز کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں پوری دلیری اور دیانتداری سے بجا لائیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپن برکات سے نوازے۔<۱۱۹
فصل پنجم
جماعت احمدیہ کے وفد کی جناب وزیراعظم پاکستان سے ملاقات
ابتلائوں میں لقاء الٰہی کی بشارت بحیثیت مسلم بہترین شان انفرادیت دکھانے کی تلقین مسئلہ اقلیت سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اہم خطبہ
جماعت احمدیہ کے وفد کی جناب وزیراعظم پاکستان سے ملاقات
اس سال کے اہم واقعات میں سے جماعت احمدیہ کے وفد کی عزت ماب خواجہ ناظم الدین صاحب وزیراعظم پاکستان سے ملاقات ہے جو کراچی میں ۱۷ جولائی ۱۹۵۲ء کو ہوئی۔ وفد میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مندرجہ ذیل ممتاز اور بزرگ علماء و مبلغین شامل تھے:۔
۱۔ مولانا عبدالرحیم صاحب درد سابق مبلغ انگلستان و ناظر امور عامہ ربوہ۔ ۱۲۰body] ga[t
۲۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس مجاہد بلاد عربیہ و انگلستان۔ ۱۲۱
۳۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ۔
۴۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجرات۔ ۱۲۲
۵۔ جناب شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ لاہور ۱۲۳
وفد کی تبلیغی روداد مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:۔
>سیدنا حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک وفد تجویز فرمایا جو کراچی جا کر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین صاحب سے ملاقات کرے اور حقیقت حال سے انہیں مطلع کرے۔ اس وفد میں )۱( جناب مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے ناظر امور عامہ ربوہ )۲( جناب مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ )۳( جناب شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ لاہور )۴( جناب ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم ایڈووکیٹ گجرات اور )۵( خاکسار ابو العطا جالندھری شامل تھے۔
ہم سب محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی ٹمپل روڈ لاہور پر جمع ہوئے۔ پہلے دن کراچی کے لئے ریل میں سیٹیں ریزرو نہ ہوسکیں۔ ہمیں ایک رات لاہور میں قیام کرنا پڑا۔ شام کے وقت صوفی عبدالرحیم صاحبنے محترم شیخ بشیر احمد صاحب کو فون کیا آج جناب مودودی صاحب سے ملاقات ہوسکتی ہے اگر چاہیں تو آجائیں۔ جناب شیخ صاحب موصوف` جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم اور خاکسار بذریعہ کار جناب مودودی صاحب کے مکان پر پہنچ گئے وہ گویا ملاقات کے لئے تیار ہی بیٹھے تھے کہنے لگی کہ اچھا ہوا کہ آپ لوگ آگئے میں چاہتا ہی تھا کہ جماعت احمدیہ کے کوئی نمائندے مل جائیں تو میں آپ کے امام کو ایک پیغام بھجوائوں ہم نے کہا کہ فرمائیے کیا پیغام ¶ہے؟
جناب مودودی صاحب نے فرمایا کہ آپ لوگ جا کر اپنے امام سے کہیں کہ اس وقت جماعت احمدیہ کے خلاف سخت شورش برپا ہے اور شید خونریزی کا خطرہ ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ خاموشی سے اپنے اپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کر لیں یا پھر وہ عقائد اختیار کر لیں جو ہمیں گورا ہوں ورنہ سخت خطرہ ہے۔
میں مودودی صاحب سے پٹھاں کوٹ کے دارالاسلام میں اچھی طرح گفتگو کرچکا تھا اور غالباً اس مجلس میں میں ان کے قریب اور سامنے تھا میں نے جواباً عرض کیا کہ جناب آپ نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے؟ یہ پیغام ہم اپنے امام ایدہ اللہ بنصرہ کو کس طرح دے سکتے ہیں؟ اس پیغام کو تو سن کر ہم خود شرمندہ ہیں کہ آپ ہمیں کیا کہہ رہے ہیں۔ الٰہی جماعتوں کی مخالفتیں ہوتی آئی ہیں اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے اس ملک میں بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت ہورہی ہے۔ یہ وہی مخالفت ہے۔ مودودی صاحب نے ناصحانہ انداز میں کہا کہ آپ میری بات مان لیں اور یہ پیغام اپنے امام کو پہنچادیں۔ اس مرتبہ کی مخالفت عام مخالفت نہیں یہ بہت گہری ہے اور اس کے نتائج بڑے سخت ہیں۔ خاکسار نے مودودی صاحب سے پھر زور سے کہا کہ پیغام دینے کا تو سوال ہی نہیں ہے ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ مخالفت بھی بعینہ ویسی ہی ہے جیسی جملہ نبیوں کے وقت میں ہوتی رہی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ تجربہ ہوچکا ہے کہ مخالفتوں کے باوجود الٰہی جماعت ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی رہی ہے آج بھی یہی نظارہ دہرایا جائے گا۔
پھر میں نے کہا کہ جناب معاملہ دو حال سے خالی نہیں یا تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے دعویٰ ماموریت میں سچے ہیں یا معاذ اللہ جھوٹے اور مفتری ہیں۔ اگر وہ سچے ہیں اور ہمیں کامل یقین ہے کہ وہ سچے ہیں تو اس مخالفت سے کچھ احمدیوں کے گھر جلائے جاسکتے ہیں` ان کی فصلیں اجڑی جاسکتی ہیں` ان کی دکانیں لوٹی جاسکتی ہیں` ان میں سے بعض کو شہید بھی کیا جاسکتا ہے مگر یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی جارہ کردہ تحریک کو مٹایا جاسکے یا اس کی قائم کردہ جماعت کو نابود کردیا جائے اور اگر خدانخواستہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مفرتی اور جھوٹے تھے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو پھر ان کو کی جماعت سے کیا ہمدردی ہے؟ اگر ایسی جماعت نے کل ہلاک ہونا ہے تو اسے آج ہلاک کردینا اچھا ہے اس لئے آپ کے پیغام دینے کا عقلاً بھی کوئی سوال نہیں اس مرحلہ پر گفتگو دیگر مذہبی و سیاسی مسائل کے متعلق جاری ہوگئی اور خاکسار کے علاوہ محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب اور محترم مولانا شمس مرحوم بھی گفتگو فرماتے رہے۔ اس گفتگو میں مسلمان کی تعریف اور جماعت کے خلاف ہنگامہ آرائی کا جواز بھی زیر بحث آیا۔ دوسرے روز ہم کراچی کے لئے روانہ ہوگئے۔ یہ جولائی ۱۹۵۲ء کے آخری ایام تھے یا اگست ۱۹۵۲ء کے شروع کے دن تھے۔ ہمارا قیام ایک ہوٹل میں تھا۔ امیر وفد جناب مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے ہر رکن کے ذمہ الگ الگ مضمون مقرر کردیا اور ہم سب نے باقاعدہ حوالے نوٹ کر لئے۔ اصل کتابیں ساتھ رکھ لیں مقررہ تاریخ پر ہم سب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین صاحب مرحومکے بالائی کمرہ میں حاضر ہوئے۔ بڑے میز کے ایک طرف خواجہ صاحب موصوف کے علاوہ و سردار عبدالرب نشتر` میاں مشتاق احمد صاحب گورمانی` فصل الرحمن صاحب بنگالی اور خواجہ صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری تشریف فرما تے اور میز کے دوسری طرف علی الترتیب خاکسار ابوالعطا` محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم` ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم` محترم شیخ بشیر احمد صاحب اور محترم مولانا عبدالرحیم صاحب درد مرحوم بیٹھے تھے۔ ہمارے امیر وفد نے خواجہ صاحب اور دیگر وزیروں سے ہمارا تعارف کرایا اور یہ بھی فرمایا کہ پہلے ہماری طرف سے ابو العطاء بات کریں گے۔
خاکسار نے آغاز گفتگو یوں کیا کہ ہم احمدی بھی پاکستان کے آزاد شہری ہیں اور ہمیں بھی اس ملک میں تمام باشندوں کی طرح مساوی حقوق حاصل ہیں۔ آپ اس ملک کے ذمہ دار وزراء ہیں اپ کے پاس ہمارے مخالف علماء نے آکر ہمارے خلاف بہت سی باتیں کہیں ہیں ہم اس بارے میں وضاحت کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ ہماری باتوں کو بھی توجہ سے سماعت فرمائیں گے۔
میں نے جناب وزیراعظم صاحب کو توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا کہ علماء کے جو وفود آپ کو ملے ہیں انہوں نے آپ سے کہا ہوگا کہ احمدی رسول~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے محترم خواجہ صاحب مرحوم نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے عرض کیا کہ میں صرف اس حصہ کے متلعق وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
میں نے عرض کیا کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کو مانتے ہیں انہوں نے ہمیں فرمایا ہے کہ:۔
>تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کی مہجور کی طرح نہ چھوڑو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کی عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہرایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر ابکوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ~صل۱~ سوتم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبیﷺ~ کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جائو۔< )کشتی نوح ۱۳(
میں نے موثر انداز میں یہ عبارت پڑھتے ہوئے اصل کتاب جناب وزیراعظم کے سامنے رکھ دی اور پھر عرض کیا کہ جب ہمیں بانی سلسلہ احمدیہ نے قرآن مجید پر ایسے مضبوط ایمان کی تلقین فرمائی ہے اور قرآن مجید کی صریح ہے ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتمہ النبین۱۲۴ کہ رسول~صل۱~ خاتم النبین ہیں تو اب یہ امکان کس طرح پیدا ہوسکتا ہے کہ احمدی آنحضرت~صل۱~ کے خاتم النبین ہونے کا اکنار کریں؟ ایسا الزام سراسر غلط اور باطل ہے۔ میں نے عرض کیا۔ محترم وزراء کرام!! اگر علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ خاتم النبین کے معنوں اور تفسیر میں ہمارا احمدیوں سے اختلاف ہے تو بات قدرے معقول ہوتی مگر انہوں نے تو آپ کو بھی اور سارے ملک کے باشندوں کو بھی یہ کہا ہے کہ احمدی رسول~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ زعم ہر گز درست نہیں۔ پھر میں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سے مندرجہ ذیل دس حوالہ جات مجلس میں بلند آواز سے سنائے اور ہر حوالہ پر اصل کتبا میز پر کھول کر سامنے رکھ دی جاتی تھی۔ وہ حوالہ جات یہ ہیں۔
۱- >میں جناب خاتم الانبیاء~صل۱~ کی ختم نبوت کا قائل ہوں۔ اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔<
)اشتہار تقریر واجب الاعلان صفحہ ۵ مطبوعہ ۱۹۸۱ء مشمولہ تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ ۴۴ ۲۰ اکتوبر ۱۸۹۱ء(
۲- مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر میرا عقیدہ ہے اور ولکن رسول اللہ و خاتمہ النبین پر آنحضرت~صل۱~ کی نسبت میرا ایمان ہے۔<
)کرامات الصادقین صفحہ ۲۵ مطبوعہ ۱۸۹۴ء ۱۳۱۱ ھ(
۳۔ >ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبو نہیں اور سیدنا حضرت محمد~صل۱~ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔<
)ایام اصلح ۸۶۔۸۷ مجریہ ۱۸۹۹ء(
۴۔ عقیدے کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد~صل۱~ اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔<
)کشتی نوح صفحہ ۱۵ مطبوعہ ۱۹۰۲ء(
۵۔ >آنحضرت~صل۱~ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہوگئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اس طرح وہ آنحضرت~صل۱~ اور اپ کا وارث ہوگا<-
)ریویو بر مباحثہ بٹالوی ` چکڑالوی صفحہ ۶۔۷ مطبوعہ ۱۹۰۲ء صفحہ ۷(
۶۔ >مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے یہ ہم پر افتراء عظیم ہے۔ ہم جس قوت یقین و معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت~صل۱~ کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی وہ لوگ نہیں مانتے۔<
)اخبار الحکم ۱۷ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۶ کالم ۴(
۷۔ >اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔<
)تجلیات الیہہ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۳(
۸۔ وان نبینا خاتم الانبی بعدہ الا الذی ینوربنورہ ویکون ظھورہ ظل ظھورہ۔< )الاستضاء صفحہ ۲۲ مطبوعہ ۱۹۰۷ء(
۹۔ اللہ جل شانہ نے آنحضرت~صل۱~ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افضا کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی اسی وجہ سے آپﷺ~ کا نام خاتم النبین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔<
)حقیقت الوحی صفحہ ۹۷ حاشیہ مطبوعہ ۱۹۰۷ء(
۱۰۔ >خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اس کے رسول حضرت محمد )مصطفیٰ~(صل۱~ کو درحقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے۔< )چشمہ معرفت ۵۲۳ مطبوعہ ۱۹۰۸ء(
ان دس حوالہ جات کے پڑھنے سے اس مجلس میں عجیب موقعہ پیدا ہوگیا تھا` الحمدلل¶ہ میں نے کہا کہ جب ہم آنحضرت~صل۱~ کو خاتم النبین مانتے ہیں۔ خودبانی سلسلہ احمدیہ کے کلمات اپ کے سامنے ہیں۔ کتابیں موجود ہیں تو پھر کسی مولوی صاحب کا یہ کہنا یہ کیا وزن رکھتا ہے کہ احمدی رسول مقبول~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے؟
میں نے واضح کیا کہ آنحضرتﷺ~ کو خاتم النبین تو احمدی بھی مانتے ہیں اور غیر احمدی بھی۔ اس تفسیر میں بھی دونون فریق متفق ہیں کہ خاتم النبین کی رو سے نئی شریعت اولاد نبی نہیں آسکتا۔ اس مرحلہ پر خاکسار نے سلف صالحین کے دس اقتباسات عربی و اردو میں پیش کئے اور اصل کتابیں میز پر رکھ دیں۔ان اقتباسات کا خلاصہ یہ تھا کہ آنحضرت~صل۱~ کے بعد انقطاع صرف تشریعی نبوت کا ہے۔ پھر میں نے واضح کیا کہ ہمارے معنوں کی رو سے فیوض محمدیہ جاری ہیں اور آنحضرتﷺ~ کی پیروی سے خیر امت کے افراد کو وہ تمام انعام کل سکتے ہیں جو پہلی امتوں کو ملے تھے ان معنوں کی رو سے رسول مقبول~صل۱~ کی افضلیت اور برتری نمایاں ہوتی ہے۔
پچیس تیس منٹ کے اس بیان کے آخر میں میں نے کہا کہ درحقیقت تو خاتمیت محمدیہ کے بارے میں ہمارے دوسرے علماء میں اختلاف کا کوئی سوال نہیں وہ بھی ایک مسیح موعودؓ کے امت میں آنے کے قائل ہیں اور ہم بھی۔ اور دونوں فریق حضرت خاتم النبین~صل۱~ کے بعد آنے والے مسیح موعود کو آنحضرتﷺ~ کا تابع نبی مانتے ہیں جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ خاتم النبینﷺ~ کے بعد امتی اور تابع نبی آسکتا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف تو صرف شخصیت میں ہے کہ امت محمدیہ کا مسیح موعود کون ہے؟ آیا حضرت عیسیٰ ابن مریم ہیں جنہیں قرآن مجید نے صرف رسولا الی بنی اسرائیل ۱۲۵ قرار دیا ہے یا امت محمدیہ کا ایک فرد اور آنحضرت~صل۱~ کا ایک متی ہے۔ پس جماعت احمدیہ پر یہ الزام سراسر خلاف واقع ہے کہ ہم معاذ اللہ رسول~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے۔ ہم حضور~صل۱~ کو پورے یقین اور حقیقی رنگ میں خاتم النبین مانتے ہیں۔ میری تقریر کے دوران دو ایک موقعہ پر مکرم سردار عبدالرب صاحبنشتر نے سوال کئے تھے جن کے خاکسار نے جواب دے دیئے مگر جناب خواجہ ناظم الدین صاحب کی خواہش تھی کہ کا تسلسل قائم رہے اور سوال بعد میں ہوں۔
جب میں آخری حصہ بیان پر پہنچا تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ یہ پوائنٹ تو واضح ہوچکا ہے اب دوسرے صاحب بیان شروع کریں- اس پر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم نے مخالفین کی اشتعال انگیزی پر مدلل تقریر فرمائی اور اخبارات کے حوالے پیش فرمائے۔ یاد رہے کہ شروع ہی سے مخالف لماء برآمدہ میں ہمارے بیانات سن رہے تھے وہ بعض کتابیں وزراء کرام کو بھجوانے لگے جس پر مجلس کا رنتکچھ بدل گیا۔ تیسرے نمبر پر جناب ملک عبدالرحمن صاحبخادم مرحوم نے جب مختلف فرقوں کے علماء کے باہمی فتوئوں کے انبار پیش فرمائے تو خواجہ صاحب موصوف حیران رہ گئے کہ علماء نے بات کہاں تک پہنچا دی ہے؟ اسی دوران مکرم فضل الرحمن صاحب بنگالی بول پڑے کہ ہم آپ لوگوں کو اب تک برداشت کرتے رہے ہیں آئندہ یہ صورت نہ ہوگی۔ اس کے جواب میں محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے نہایت غیورانہ جواب دیا کہ آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا سلوک یا رعایت کی ہے اور آپ آئندہ کیا کریں گے؟ گفتگو میں قدرے تلخی پیدا ہوگئی۔ گفتگو کا یہ حصہ زیادہ تر انگریزی میں ہوا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے بھی اس میں موثر حصہ لیا اور جماعت کی خدمات پاکستان کا بھی تذکرہ فرمایا نیز بتلایا کہ ہم تو اپنے اصول کے مطابق حکومت سے تعاون کرتے ہیں یہ ہماری مذہبی تعلیم ہے ہمیں کوئی لالچ یا طمع نہیں ہے۔ اس مرحلہ پر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین صاحب مرحوم کی حلیمی اور بردباری نے پھر ماحول کو تحقیقی اور علمی بنادیا اور قریباً تین گھنٹے کی یہ مجلس آخر نہایت اچھی فضا میں ختم ہوئی۔
خواجہ صاحب کے آخری بیان سے مترشح ہوتا تھا کہ ان کے نزدیک جماعت احمدیہ کو منکر ختم نبوت ٹھہرانا یا انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینا بے معنی بات ہے البتہ انہوں نے فرمایا کہ میں یہ اعلان کردوں گا کہ سرکاری ملازم تبلیغ نہ کیا کریں اور یہ اعلان سب فرقوں پر یکساں حاوی ہوگا۔
چنانچہ انہوں نے چند روز بعد یوم پاکستان کے موقع پر اپنی تقریر میں یہ اعلان کردیا تھا۔<۱۲۶
سردار عبدالرب صاحب نشتر سے انفرادی ملاقات
مولانا ابو العطاء صاحبمزید فرماتے ہیں:۔
>وزیراعظم کے بالائی کمرہ کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے میں نے سردار عبدالرب مرحوم سے کہاکہ آپ ایک علم دوست بزرگ ہیں اگر کبھی موقعہ ملے تو آپ سے مفصل گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ ضرور تشریف لائیں۔ جب ربوہ واپس پہنچنے پر حضرت امام جماعت احمدیہ سے اس امر کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان دنوں جامعہ احمدیہ میں تعطیلات ہیں )میں ان دنوں جامعہ احمدیہ کا پرنسپل تھا( چند دن کے لئے کراچی ہو آئیں۔ چنانچہ میں جلد ہی کراچی گیا ور محترم سردار صاحب کو ملاقات کے لئے وقت معین کرنے کے لئے چھٹی لکھی۔ غالباً ۱۷ اگست ۱۹۵۲ء کی تاریخ تھی کہ میں اور محترم مولوی عبدالمالک خاں صاحبمرتی کراچی ۱۲۷ سردار صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ ملاقات کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ خیر و عافیت کی ابتدائی گفتگو کے بعد سردار صاحب نے فرمایا کہ فرمایئے کس طرح آنا ہوا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں حسب وعدہ آپ کو تبلیغ کرنے کے لئے آیا ہوں کہنے لگے کہ آپ نے وزیراعظم کا پندرہ اگست والا اعلان نہیں سنا کہ سرکاری آدمی تبلیغ نہ کریں؟ میں نے کہا کہ میں تو سرکاری آدمی نہیں ہوں میں تبلیغ کرنے آیا ہوں۔ مسکرا کر فرمانے لگے کہ آپ مجھے کیا تبلیغ کریں گے میں تو آپ کی جماعت کے عقائد کا کٹر مخالف ہوں۔ میں نے کہا کہ ایسے آدمی کو ہی تبلیغ کرنے کالطف ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسا آدمی جباحمدی ہوگا تو وہ پختہ احمدی ہوگا۔
سردار صاحب کہنے لگے کہ میں تو پہلے ہی نمازیں پڑھتا ہوں` قرآن مجید پڑھتا ہوں` آپ مجھے کس امر کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا آج کی اس مختصر ملاقات میں میں صرف ایک بات کی تبلیغ کرنے آیا ہوں اور یہ کہ آپ قرآن مجید تدبر سے تلاوت فرمایا کریں۔ سردار صاحب کہنے لگے کہ قرآن مجید سوچ کر ہی پڑھتا ہوں` نماز میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں میں نے عرض کیا کہ میری بات ابھی واضح ہوجائے گی آپ فرمائیں کہ جب آپ سورہ فاتحہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم۱۲۸ کی دعا کرتے ہیں تو منعم علیہم سے آپ کی مراد کون لوگ ہوتے ہیں؟ سردار صاحب نے جھٹ سورہ نساء کی آیت ومن یطع اللہ والرسول فائولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا۱۲۹ پڑھ کر فرمایا کہ اس وقت میرے ذہن میں انعام پانے والے یہ لوگ مراد ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ جناب! اس آیت میں میں انعام پانے والے لوگوں کے چار گروہ مذکور ہیں )۱( نبی )۲( صدیق )۳( شہید )۴( صالح۔ اب آپ فرمائیں کہ کیا انعمت علیھم کی دعا کے نتیجہ میں امت میں یہ سارے گروہ آنحضرت~صل۱~ کی اتباع و اطاعت میں بن سکتے ہیں؟ سردار صاحب نے ذرا توقف کے بعد سوچ کر فرمایا کہ نبی تو آنحضرت~صل۱~ کی اطاعت میں نہیں بن سکتے۔ میں نے کہا کہ بس قرآن مجید کو تدبر سے بڑھنے کی تبلیغ کا یہی مقصد ہے۔ آپ غور فرمائیں کہ قرآن مجید تو اطاعت رسول~صل۱~ کرنے والوں کے لئے چاروں انعامات کے دروازے کھلے قرار دیتا ہے مگر آپ سب سے پہلے ذکر ذدہ اور سب سے بڑے انعام کے دروازہ کو مسدود قرار دیتے ہیں۔ سردار صاحب ذرا حیران ہو کر کہنے لگے کہ کیا آپ حیات و وفات مسیح کی بات کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہرگز نہیں میرا تو آج کا پیغام بس قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنے کی تلقین تک محدود ہے۔ ذرا سوچ کر سردار صاحب کہنے لگے کہ اب مجدد اور عالم تو ہوسکتے ہیں مگر نبی نہیں ہوسکتا کیونکہ آفتاب کی موجودگی میں ٹمٹائے چرغوں کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہ یہ اعتراض تو آپ کے عقیدہ پر پڑتا ہے۔ آپ آفتاب کی موجودگی میں علماء اور مجددین کی ضرورت کو ٹمٹماتے چراغ ہیں مانتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ تو قانون نیچر کے عین مطابق ہے یعنی آفتاب کے ساتھ ہم ماہتاب کے قائل ہیں۔ ماہتاب امتی نبی مسیح موعود ہے۔ باقی یہاں تقابل نہیں ہے بلکہ آفتاب کی فیض رسانی اور ماہتاب کے فیض کے قبول کرنے کا مسئلہ ہے۔ سردار صاحب نے فرمایا کہ حدیث میں تو لانبی بعدی آیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ طے ہوجائے کہ ہم نے یہی ایک حدیث ماننی ہے۔ یارسول~صل۱~ کی سب حدیثیں ماننی ہیں۔ فرمانے لگے کہ نہیں سب حدیثیں ماننی ضروری ہیں۔ مسیح موعود کے مبعوث ہونے کا بھی بیان ہے۔ اور پھر حدیث صحیح مسلم میں مسیح موعود کو نبی اکرم~صل۱~ نے چار دعہ نبی ۱۳۰ اللہ کے لفظ سے یاد فرمایا ہے۔ احادیث پر مجموعی غور کیا جائے تو وہ قرآن مجید کے عین مطابق ہیں۔ حدیث میں صاحب شریعت یا مستقل نبی کے آنے کی نفی ہے اور آیت میں تابع اور مطیع نبی کے آنے کی خبر ہے۔ پس قرآن مجید اور حدیث میں واضح تطبیق موجود ہے۔
سردار صاحب فرمانے لگے کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ پیدائشی احمدی ہیں یا بعد میں آپ نے احمدیت کو قبول کیا ہے؟ میں نے کہا کہ سردار صاحب! اگر کسی شخص کو میں اسلام کی دعوت دوں اور اس کے پاس کوئی عذر نہ رہے تو وہ مجھے کہے کہ آپ پیدائشی مسلمان ہیں یا بعد میں مسلمان ہوئے تھے تو کیا اسکا یہ طریق معقول ہے؟ فرمانے لگے کہ میں صرف علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں وہ طریق اختیار نہ کروں گا میں نے کہا کہ میں پیدائش احمدی ہوں میرے والد صاحب مرحومؓ نے اوائل زمانہ میں احمدیت کو قبول کیا اور پیدائش کے وقت سے ہی انہوں نے مجھے خدمت دین کے لئے وقف کردیا تھا میں نے اپنی زندگی میں دہریوں` آریوں` یہودیوں` عیسائیوں` اور مسلمانوں کے جملہ فرقوں کے ماہر علماء سے گفتگو اور مناظرے کئے ہیں اور میں علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہوں کہ اسلام کے وہ عقائد جو احمدیت پیش کرتی ہے وہی حق اور سب پر غالب آنے والے ہیں۔ اس پر سردار صاحب کہنے لگے کہ میں حیران ہورہا تھا کہ ایسا عالم ہم میں سے نکل کر احمدیوں میں کس طرح شامل ہوگیا ہے؟ میں نے کہا کہ بات تو وہی ہوئی جس کا میں نے اشارہ کیا تھا۔ اس مرحلہ پر انہیں مجلس وزراء کے اجلاس کے لئے بلایا گیا۔ ہم نے انہیں چند کتب اور ایک مفصل تحریری بیان پیش کیا جس کا مطالعہ کرنے کا انہوں نے بخوشی وعدہ فرمایا۔ اس طرح یہ گفتگو ختم ہوئی۔ واخردعونا ان الحمد اللہ رب العلمین۔<۱۳۱
ابتلائوں میں لقاء الٰہی کی بشارت
یکم ظہور ۱۳۳۱ ہش مطابق یکم اگست ۱۹۵۲ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ کو خوشخبری دی کہ اگرچہ ہم ابتلاء سے دو چار ہیں مگر خدا کے قرب کو پانے کے یہی ایام ہیں۔ حضور نے فرمایا:۔
>ان ایام میں جو فتنہ پاکستان کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب کے مختلف مقامات میں پیدا ہورہا ہے اگرچہ حکومت کے بعض اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رپورٹوں کے مطابق اس میں کمی آرہی ہے۔ لیکن جو ہماری اطلاعات ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کمی نہیں آرہی بلکہ وہ اپنی جگہ بدل رہا ہے۔ بعض جگہوں سے ہٹتا ہے اور پھر آگے بعض دوسری جگہوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ جہاں تک فتنہ کا سوال ہے میرے نزدیک کوئی اول درجہ کا ناواقف اور جاہل احمدی ہی ہوگا جو یہ کہے کہ یہ فتنہ ایسی چیز ہے جس کی امید نہیں تھی۔ تم دریا میں کودتے ہو اور بعد میں شکایت کرتے ہو کہ تمہارا جسم گیلا ہوگیا ہے یا تمہارے کپڑے گیلے ہوگئے ہیں۔ تم آگ میں ہاتھ ڈالتے ہو اور کہتے ہو میری انگلی جل گئی ہے یا تم دھوپ میں بیٹھتے ہو اور کہتے ہو مجھے گرمی لگتی ہے یا تم برف پیتے ہو اور کہتے ہو مجھے ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ کوئی عقل کی دلیل نہیں۔ تم برف پیتے ہو تو یہ سمجھ کر پیتے ہو کہ تمہیں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ کوئی عقل کی دلیل نہیں۔ تم برف پیتے ہو تو یہ سمجھ کر پیتے ہو کہ تمہیں ٹھنڈک لگے گی۔ تم دھوپ میں بیٹھتے ہو تو یہ سمجھ کر بیٹھتے ہو کہ تمہیں گرمی لگے گی۔ تم آگ میں ہاتھ ڈالتے ہو تو یہ سمجھ کر ہاتھ ڈالتے ہو کہ تمہارا جسم جل جائے گا یا تم دریا میں کودتے ہو تو تم یہ جانتے ہوئے کودتے ہو کہ ہمارا جسم گیلا ہوگا۔
پس جب تم ایک صداقت کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے ہو اور تم نے مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی آواز کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بلند ہوئی ہے سنایا مان لیا تو تمہیں لازماً اس بات کے لئے بھی ہونا پڑے گا کہ لوگ تمہاری مخالفت کریں` شورشیں برپا کریں اور تمہارے خلاف منصوبہ بازی کی جائے پس کون احمدی ہے جس کے حواس درست ہوں اور وہ یہ کہہ سکے اوہو یہ کیسا فساد ہے مجھے تو اس کی امید نہیں تھی۔ حالانکہ جب وہ احمدی ہوا تھا تو یہ سمجھ کر ہوا تھا کہ لوگ اس کے خلاف فساد کریں گے` شورش کریں گے اور منصوبہ بازی کریں گے۔ اس کا کام یہ ہے کہ ان فسادوں` شورشوں اور منصوبہ بازیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ دیکھو رمضان کے مہینہ میں اپنی مرضی اور ارادے سے ایک پروگرام کے ماتحت انسان تکلیف اٹھاتا ہے۔ وہ رات کو اٹھتا ہے۔ بے شک وہ یہ تدبیر کر لیتا ہے کہ اگر گرمی ہو تو وہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرے۔ پھر اگر گرمی کا موسم ہو تو وہ چھت سے باہر تہجد کی نماز پڑھ لے اور اگر سردی ہو تو چھت کے نیچے تہجد کی نماز پڑھ لے۔ یا گرم لباس پہن لے۔ پھر اگر وہ بیمار ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے۔ صحت اچھی نہیں ہے تو زیادہ عمدہ غذا کھا لے یا گر معدہ خراب ہے تو نرم غذا کھالے۔ پیاس کے دن ہوں تو دو تین گلاس پانی کے اکٹھے پی لے یا چائے کی ایک پیالی پی لے تا تکلیف دور و۔ دن کو گرمی کی تکلیف ہو تووہ سائے اور ٹھنڈک میں رہے تا گرمی کی شدت کم ہو۔ مگر باوجود اس کے کہ رمضان میں تمہارے پاس ایسے ذرائع موجود ہوتے ہیں جن سے تم گرمی کی شدت کو کم کرسکتے ہو پھر بھی تمہاری تکلیف کو دیکھ کر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں دعائیں سننے کے لئے آسمان سے نیچے اتر آتا ہوں اور کہتا ہے مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ پس اگر خدا تعالیٰ روزہ میں جس کی تکلیف کم کی جاسکتی ہے` جس کے ضرر سے بچنے کے لئے تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں مومن کے لئے اتنی رعایت کرتا ہے کہ وہ کہتا ہے چونکہ تم تکلیف اٹھاتے ہو اس لئے میں تمہارے قریب ہوجاتا ہوں- دعوہ الداع اذا دعان ۱۳۲ میں اس پکارنے والے )یعنی روزہ دار( کی آواز کو سنتا ہوں اور میں اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں۔ پھر ان تکالیف اور مصائب میں جو تمہارے اختیار میں نہیں جن کو کم کرنے کے لئے تم کوئی تدبیر نہیں کرسکتے ان میں وہ تمہارے کس قدر قریب ہوجاتے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر روزہ میں خدا تعالیٰ تمہارے لئے بے چین ہوجاتا ہے کہ جس میں ہر قسم کی سہولت بہم پہنچانا تمہارے اختیار میں ہوتا ہے تو دوسرے آلام اور مصائب میں وہ کتنا قریب ہوجاتا ہوگا۔ مومن کو ابتلائوں میں خوشی محسوس ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے قریب آگیا ہے۔<۱۳۳
حضور نے اس خطبہ کے بعد ۲۶ تبوک ۱۳۳۱ ہش /۲۶ ستمبر ۱۹۵۲ء کو اسی موضوع ¶رپ ایک اور خطبہ دیا جس میں خصوصاً نوجوانان احمدیت کو نصیحت فرمائی کہ:۔
>اگر تم احمدیت اسلام اور مذہب سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو وہ فائدہ تم اس وقت تک نہیں اٹھاسکتے جب تک کہ تمہیں خدا تعالیٰ نہ ملے۔ باقی چیزیں اس کی تابع ہیں مذہب اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ تعلق باللہ پیدا نہ ہو۔ مذہب خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا نام ہے۔ آپ لوگ نمازیں پڑھیں` ذکر الٰہی کی عادت ڈالیں` غور و فکر کی عادت پیدا کریں` ہرایک بات کو سوچیں اور اس سے نتیجہ نکالیں۔ آج کل لاکھوں میں کوئی ایک ہوگا جسے سوچنے کی عادت ہو۔ سب لوگ نقل کے عادی ہوتے ہیں بات سن لی اور نقل کردی یہ نہیں کہ خود سوچ بچار کر کے کوئی نتیجہ اخذ کیاجئے وہ خود اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سچ کی کیا تعریف ہے` قومیں کیسے بنتی ہین` کن ذرائع سے بھلائیاں ` برائیاں نظر آتی ہیں۔ جب انسان بائے غور و فکر کے محض جذبات سے کام لیتا ہے وہ ٹھکر کھاتا ہے۔ تم اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو` تم اگر بامراد ہونا چاہتے ہو` تم خوشی کی موت مرنا چاہتے ہو تو تم اپنی زندگی کو مفید بنائو جیسا کہ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے کہ >بہتر عبادت یہی ہے کہ تم یہ محسوس کرو کہ تم خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے تو تمہیں یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھتا ہے۔ تم بھی اپنے اندر یہی رنگ پیدا کرو تاکہ جب موت آئے تو اگر تم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھتے تو تمہیں یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے اس کے بغیر حقیقی راحت حاصل نہیں ہوسکتی۔ باقی چیزیں سب ڈھوکوسلے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں۔ اگر کسی مذہبپر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نہیں ملتا تو وہ مذہب محض نام کا مذہب ہے اس کے اندر کوئی حقیقت نہیں۔4]< [stf۱۳۴
شان انفرادیت کا نمونہ دکھانے کی تلقین
۱۵ ظہور ۱۳۳۱ ہش/۱۵۔ اگست ۱۹۵۲ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے انحضرت~صل۱~ کے فیض یافتہ صحابہؓ کی شان اجتماعیت و انفرادیت کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور جماعت احمدیہ کو پیش آمدہ حالات کے مطابق بحیثیت مسلمان بہترین رنگ میں شان انفرادیت کا نمونہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:۔
>قومیں امن کی حالت میں اور شرارت کی ابتداء میں اجتماعی طاقت سے فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن اگر شرارت لمبی ہوجاتی ہے تو پھر انفرادیت کام کرتی ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں بھی جب شرارت بڑھ گئی تو آپﷺ~ نے اجتماعیت کو بکھیر دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ حبشہ چلے جائو اور بعض کو آپﷺ~ نے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا ارشاد فرمایا۔ پھر انہوں نے اپنی اپنی جگہ اکیلے کام کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی انفرادیت اجتماعیت کی شکل اختیار کر گئی۔ رسول کریم~صل۱~ کی وفات کے بعد جب خلافت کا دور شڑوع ہوا صحابہؓ پر کچھ ابتلاء آئے صحابہؓ کو بھی رسول کریم~صل۱~ نے اجتماعیت اور انفرادیت دونوں چیزیں سکھائی تھیں- آپﷺ~ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ ایسے خاندان سے نہیں تھے جو حکمران خاندان ہو۔ بے شک آپ ایک شریف خاندان کے ایک فرد تھے لیکن وہ خاندان ایسا نہیں تھا کہ دوسرے خاندان اس کی ماتحتی برداشت کر لیں۔ آپ کے والد کا نام ابو قحافہؓ تھا۔ ابو قحافہؓ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور وہ بھی رسمی طور پر جب رسول کریم~صل۱~ فوت ہوئے تو آپﷺ~ کی وفات کی خبر مکہ میں بھی پہنچی۔ ابو قحافہؓ بھی اس مجلس میں بیٹھے تھے کہ جس میں پیغامبر نے رسول کریم~صل۱~ کی وفات کی خبر سنائی۔ عرب لوگ پراگندہ تھے کہ محمد~صل۱~ نے آکر انہیں ایک نظام کے ماتحت کردیا۔ جس طرح اس شخص کی زندگی اس کے لئے نرالی تھی اسی طرح اس کی وفات بھی ان کے لئے نرالی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب کیا ہوگا؟ اس شخص نے کہا ہوگا کیا۔ ایک شخص خلیفہ بن گیا ہے اور اس نے نظام کو دوبارہ قائم کردیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ عربوں کی تلواریں میانوں سے نکل آئی ہون گی اور قتل و غارت شروع ہوگئی ہوگی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کس شخص کو خلیفہ منتخب کیا گیا ہے تو پیغامبر نے کہا کہ ابوبکرؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا ہے۔ ابو قحافہؓ کو اس بات پر یقین نہ آیا انہوں نے خیال کیا میرا بیٹا خلیفہ نہیں ہوسکتا کوئی اور ابوبکرؓ ہوگا جس کی اطاعت سب عرب قبائل نے قبول کر لی ہے۔ چنانچہ انہوں نے دوبارہ دریافت کیا کون ابوبکرؓ؟ اس شخص نے کہا کہ تیرا بیٹا۔ ابو قحافہؓ کے لئے یہ عجیب بات تھی۔ عرب قبائل آزاد تھے` غیور تھے اور اپنے سے چھوٹے آدمی کی اطاعت نہیں کرتے تھے لیکن سب عربوں نے حضرت ابوبکرؓ کو مان لیا اور خونریزی کے بغیر مان لیا۔ یہ بات ابوقحافہؓ کے لئے نہایت عجیب تھی اس لئے انہوں نے دوبارہ دریافت کیا کہ کیا بنو ہاشم نے ابوبکرؓ کی بیعت کر لی ہے؟ اس شخص نے کہا ہاں ابوقحافہؓ نے پھر کہا۔ کیا بنو عبوالمطلب نے ابوبکرؓ کی بیعت قبول کر لی ہے؟ اس شخص نے کہا۔ ہاں۔ ابوقحافہؓ نے جب یہ سنا کہ رسول کریم~صل۱~ کی قوت قدسیہ کی وجہ سے عربوں میں اجتماعیت اس حد تک آگئی ہے کہ ایک شخص جو حاکم قوم میں سے نہیں سب قبائل اس کی بیعت کے لئے تیار ہوگئے ہیں اور انہوں نے بلا چون و چرا اس کی بیعت کر لی ہے تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ]ksn [tag اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ آج میرا دل مان گیا ہے کہ محمد رسول~صل۱~ واقعی خدا تعالیٰ کے رسول تھے۔ اگر سارے قبائل میرے بیٹے کی بیعت کے لئے تیار ہوگئے ہیں تو یہ کام ایک رسول کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا۔ گویا عربوں نے اجتماعیت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ پھر جب رسول~صل۱~ کی وفات کی خبر عرب میں پھیلی تو نئے مسلمان مرتد ہوگئے اور وہ مدینہ پر چاروں طرف سے حملہ کر کے آگئے۔ رسول کریم~صل۱~ نے ایک لشکر کو اپنی زندگی میں شام کی طرف جانے کا حکم دیا تھا جس کی روانگی آپﷺ~ کی وفات کی وجہ سے رک گئی تھی حضرت ابوبکرؓ نے خلافت کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس لشکر کو شام کی طرف روانہ کردیا۔ صحابہؓ نے اس بات کو برا منایااور کہا مدینہ اس وقت ننگا ہوگیا ہے اور یہ بوڑھا شام کی طرف لشکر بھیج رہا ہے۔ انہوں نے حضرت عمر کو کہا کہ ابوبکرؓ کو سمجھائو شاید اس بوڑھے نے حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ آپ کے پاس گئے اور کہا کیا آپ نے لشکر کو شام کی طرف جانے کا حکم دیا ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ہاں حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرا اور صحابہ کا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس لشکر کو روک لیں کیونکہ چاروں طرف سے اس قسم کی خبریں آرہی ہیں کہ دشمن مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نئے مسلمان کثرت سے مرتد ہوگئے ہیں اور بہت تھوڑی جگہیں ایسی رہ گئی ہیں جہاں پرانے مسلمان ہیں۔ اس حالت میں لشکر کا باہر بھیجنا اچھا نہیں۔ جس طرح حضرت ابوبکرؓ کی جان خطرہ میں تھی اسی طرح حضرت عمرؓ کی جان خطرہ میں تھی` اسی طرح حضرت عثمانؓ کی جان خطرہ میں تھی` اسی طرح حضرت علیؓ` حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی جانیں خطرہ میں تھیں` اسی طرح ان کے بیو بچوں کی جانیں خطرہ میں تھیں` اسی طرح جو لشکر روانہ ہورہا تھا ان کے بیوی بچوں کی جانیں خطرہ میں تھیں۔ اس وقت ہر ایک شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ اس وقت اسے اپنے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر لڑنا چاہئے اور اپنے بیوی بچوں کی جانیں بچانی چاہئیں لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ابو قحافہؓ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ محمد رسول~صل۱~ کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک سکے؟ پھر جب ایسی خبریں آنی شروع ہوئیں کہ لوگوں نے زکٰوۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ ہمارا روپیہ مدینہ کیوں جائے` نجد کا روپیہ نجد میں خرچ ہونا چاہئے` بحرین کا روپیہ بحرین کا روپیہ بحرین میں خرچ ہونا چاہئے مدینہ اپنے اخراجات کا خود انتظام کرے ہم روپیہ علاقہ سے باہر نہیں لے جانے دیں گے تو صحابہؓ نے آپس میں مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجا۔ حصرت عمرؓ نے کہا وقت نازک ہے آپ لوگوں کو کچھ وقت تک ڈھیل دے دیں آہستہ آہستہ ان میں اسلام آجائے گا تو وہ زکٰوۃ دے دیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمای عمرؓ تم وہ بات کہتے ہو جو رسول کریم~صل۱~ نے نہیں کہی۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ رسول کریم~صل۱~ کے وقت میں اونٹ باندھنے کی رسی بھی بطور زکٰوۃ دیا کرتے تھے تو میں ان سے وہ رسی بھی لے کر چھوڑوں گا۔ اور اگر کوئی شخص زکٰوۃ نہیں دے گا تو اس سے میں اس وقت تک لڑوں گا یہاں تک کہ میں مارا جائوں یا وہ مارے جائیں عمر اس میں ڈرنے کیا بات ہے؟ اگر دشمن مدینہ کی تمام عورتوں کو مادے اور کتنے ان کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ڈروں گا نہیں۔ اب دیکھو مدینہ خطرہ میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہر مسلمان کا گھر` مال اور اس کی عزت خطرہ میں ہوتی ہے لیکن حضرت ابوبکرؓ کے منہ سے یہ فقرات نکلتے ہیں تو ہر مسلمان امان و صدقنا کہہ کر اطاعت پر تیار ہوجاتا ہے۔ یہ اجتماعی روح کا کمال تھا۔ پھر اسلام پر وہ زمانہ آیا جب خلافت کے پرخچے اڑ گئے۔ اب مسلمان کے لئے انفرادیت دکھانے کا وقت آیا اور اس میں بھی انہوں نے کمال کر دکھایا۔ کوئی ایران چلا گیا` کوئی افغانستان چلا گیا` کوئی افریقہ کے صحرائوں کی طرف چلا گیا اور کوئی چین چلا گیا۔ آج کل جو کروڑوں کروڑ مسلمان ان ممالک میں موجود ہیں وہ انہی لوگوں کی اعلیٰ درجہ کی انفرادیت کا نمونہ ہیں۔ پس صحابہؓ کو جہاں انفرادیت میں کام کرنا سیکھایا گیا تھا وہاں اجتماعیت میں بھی انہوں نے کام کیا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ایک سردار کے ماتحت کس طرح کام کیا جاتا ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ فرداً فرداً کام کس طرح کرنا چاہئے- چنانچہ اب بھی بمبئی میں ایسے صحابہؓ کی قبریں موجود ہیں جو اس وقت ہندوستان آئے اور یہاں تبلیغ اسلام کی خدا کی قدرت ہے کہ سندھ میں جہان ہم نے زمین خریدی ہے خصوصاً جہاں پر میری زمین ہے وہاں ایک جگہ ولیہ صابو کہلاتی ہے اس جگہ کے متعلق بھی مشہور ہے کہ وہاں کسی صحابی~رضی۱~ کی قبر ہے۔ جب صحابہؓ نے دیکھا کہ خلافت کے ماتحت جو نظام چلا تھا وہ درہم برہم ہوگیا ہے تو انہوں نے خیال کیا کہ اب وقت کیوں ضائع کیا جائے وہ دنیا میں پھیل گئے اور مختلف ممالک میں جاکر انہوں نے اشاعت اسلام کی پس ہماری جماعت کو یہ دونوں طاقتیں یعنی اجتماعیت اور انفرادیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں بسااوقات اجتماعیت کمزور پڑ جاتی ہے تو اس وقت انفرادیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہر جگہ فتنہ و فساد برپا ہوجاتا ہے اور مرکز سے تمہارے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں تو اس وقت ہر احمدی اپنے ذات میں مرکز احمدیت ہونا چاہئے اور اسے سمجھ لینا چاہئے کہ احمدیت کا جھنڈا اس کے ہاتھ میں ہے۔ اسے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ربوہ آکر وہ مشورہ کرے بلکہ اس وقت اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ح خود خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔ اس وقت اس کا گھر ربوہ ہونا چاہئے۔ اس وقت اس کا گھر قادیان ہونا چاہئے۔ اور جس طرح خلافت کا نظام ٹوٹ جانے کے بعد صحابہؓ نے ایک ایک گھر کو مدینہ بنا لیا اورجب تفرقہ ہوا تو ہر مسلمان نے یہ عزم کر لیا کہ وہ اسلام کا جھنڈا نیچے نہ ہونے دے گا اسی طرح تم نے اجتماعیت کی حالت میں نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ تم تھوڑے تھے تم نے اپنے پیٹ کاٹے اور معمولی آمدنوںمیں سے ایک حصہ اشاعت اسلام کے لئے دیا۔ تم نے چندے دیئے اور جماعت نے مبلغ تیار کئے۔ پھر جماعتنے ان مبلغوں کو دیانت کے ساتھ بیرونی ممالک بھیجا۔ جماعت نے تمہارے روپیہ کو اعلیٰ طور پر استعمال کیا یہاں تک کہ دنیا میں احمدی جماعت کی دھوم مچ گئی اور دشمنوں نے بھی اقرار کیا ہ پچھلے تیرہ سو سال میں مسلمانوں نے وہ کام نہیں کیا جو اس چھوٹی سی جماعت نے ایک قلیل عرصہ میں کردیا ہے۔ پس تم نے اجتماعیت کا نہایت اعلفی نمونہ دکھایا ہے اب تم نے انفرادیت کا بھی نمونہ دکھانا ہے۔ بہت سے احمدی گھبرا کر میرے پاس آتے ہیں تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک خلیفہ کا قائممقام ہے۔ تم میں سے ہر ایک دین کا مرکز ہے۔ تم میں سے ہر ایک کو سمجھ لینا چاہئے کہ احمدیت اور اسلام کا احیاء اور بقاء اس کے ذمہ ہے۔ تم میں سے ہر ایک کا گھر احمدیت کا مرکز ہے جس سے احمدیت کا نور دنیا میں پھیلے گا۔ تم نے اجتماعیت کا بہت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے۔ اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم انفرادیت کا نمونہ بھی دکھائو اگر مخالفت بڑھ جائے تو تم نے مرکز سے مشورہ کئے بغیر اپنا مدعا اپنے سامنے رکھ کر اسلام کو پھیلانا ہے احمدیت کی اشاعت کرنا ہے۔ تمہیں یہ عزم کر لینا چاہئے کہ اگر تمہارے چاروں طرف دشمن کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی ہوا تو تمہاری گردن نیچے نہیں ہوگی۔ تم چپ نہیں ہوگے بلکہ اسلام اور احمدیت کے پیغام کو مرتے دم تک لوگوں تک پہنچاتے چلے جائو گے۔< ۱۳۵
مسئلہ اقلیت سے متعلق اہم خطبہ جمعہ
ان دنوں پاکستان کے مختلف حلقوں میں خاص طور پر یہ افواہیں پھیلائی جارہی تھیں کہ پاکستان کی مرکزی حکومت احراری ایجی ٹیشن سے متاثر ہو کر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے گی۔
اس خدشہ کی بنا پر حضرت مصلح موعودؓ کے نمائندہ >لنڈن ڈیلی میل< کو بیان دینے کے علاوہ ۱۸ ظہور ۱۳۳۱ ہش/۱۸ اگست ۱۹۵۲ء کو مفصل و مبسوط خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے مسئلہ اقلیت کے مختلف امکانی گوشوں پر بصیرت افروز روشنی ڈالی اور بحیثیت خلیفتہ المسیح اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔
یہ خطبہ اس موضوع پر ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضور نے فرمایا:۔
>میں نے کہا تھا کہ اگر حکومت احمدی نام کو خلاف قانون قرار دے دے تو ہم احمدی مسلمان کی جگہ محض مسلمان کہلانا شروع کردیں گے کیونکہ ہمارا اصل نام مسلمان ہے احمدی تو اس کے ساتھ صرف امتیاز کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھو سمکم المسلمین ۱۳۶ اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ پس جب ہمارا اصل نام مسلمان ہی ہے تو اگر کوئی حکومت احمدی نام پر پابندی لگائے گی تو ہم صرف مسلمان کہلانے لگ جائیں گے۔ بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور بعض اخبارات نے بھی لکھا ہے کہ آج کل کی حکومتیں ایسی نہیں جو محض نام پر پابندی عائد کرنے پر اکتفاء کریں۔ آج کل نظم و نسق اس قسم کا ہے کہ جب لوگ سوال کرتے ہیں تو اس سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکتی۔ یہ درست ہے کہ انسان اگر کرنے پر آئے تو کیا کچھ نہیں کرسکتا لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ جہاں ہم اس بات کو جائز سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت ایسا حکم دے جو افراد کے مذہب سے تعلق رکھتا ہو اور وہ ہماری اصولی چیزوں سے ٹکراتا نہ ہو تو ہم جماعت کو یہ تعلیم دیں گے کہ وہ حکومت کی اطاعت کرے وہاں شریعت یہ بھی کہتی ہے کہ اگر تمہارے ایمان کا امتحان ہو اور تمہارے سروں پر آرے رکھ کر تمہیں چیر دیا جائے تو تم آخر تک چر جائو لیکن ایمان کو ضائع نہ ہونے دو۔ پس جہاں یہ ٹھیک ہے کہ کوئی حکومت ایسی بھی ہوسکتی ہے جو اس قسم کے عقل کے خلاف احکام دے دے اور وہ افراد کے مذہب میں مداخلت کرے وہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ دنیا میں ایسے مست بھی ہوسکتے ہیں جو مذہب کے لئے جائز قربانیاں کرتے چلے جائیں اور ایمان پر قائم رہیں۔ جس شخص کو ہم نے مانا ہے اس کا شعر ہے۔
در کوئے تو اگر سر عشاق رازنند
اول کسیکہ لاف تعشق زندمنم
یعنی اگر تیرے کوچہ میں عشاق کے سروں کو کاٹنے کا حکم دے دیا جائے تو سب سے پہلے جو عشق کا شور مچائے وہ میں ہوں گا۔ پس یہ ٹھیک ہے کہ بعض حکومتیں ایسا ظلم بھی کرسکتی ہیں جیسا کہ روس میں ہورہا ہے کہ وہاں مذہب کو بالکل بیکار کردیا گیا ہے۔ اسی طرح اور بھی ایسے ممالک ہوسکتے ہیں لیکن میرے خیال میں روس سے زیادہ ان میں مذہب پر پابندی نہیں ہوسکتی۔ آج کل کی ظاہری روش اور جمہوری خیالات کے نتیجہ میں کوئی حکومت روس کا سا طریق اختیار نہیں کرسکتی اور کوئی قوم ایسی نہیں جو مذہب میں اس حد تک دخل دے پس عقلی بات تو یہی ہے کہ کوئی حکومت افراد کے مذہب دخل نہیں دے سکتی لیکن کوئی حکومت اگر عقل سے باہر جا کر ایسے قوانین بنا دے جو مذہب میں روک پیدا کردیں- اور الفاظ کی تبدیلی سے کام نہ بنے تو بھی کہیں گے کہ تم ہمیں گولی مار دو لیکن ہم اپنے اصول کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہم مرتے جائیں گے لیکن صداقت کا انکار نہیں کریں گے۔ موت سے زیادہ حقیر چیز اور ہے ہی کیا؟ ساری چیزوں پر کچھ نہ کچھ خرچ ہوتا ہے۔ دستخطوں کے لئے سیاہی لینے جائیں تو اس پر بھی دھیلہ خرچ آجاتا ہے لیکن موت پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا موت آخر آنی ہے اور جو چیز ضرور آنی ہے اس پر خرچ کیا آئے گا۔ پس یہ ٹھیک ہے کہ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں آج کل کی متمدن دنیا میں کسی حکومت کے قوانین مذہب کے بارہ میں اس حد تک نہیں جایا کرتے کہ وہ ظالمانہ صورت اختیار کر جائیں۔ بعض جگہوں پر حکومتیں ایک حد تک سختی کرتی ہیں۔ مثلاً سائوتھ افریقہ کی حکومت نے یہ قانون بنایا ہے کہ کالے گوروں سے الگ رہیں لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ کالے ملک میں نہ رہیں- اس نے یہ کہا ہے کہ گورے اور کالے ریلوں میں اکٹھے سفر نہ کریں لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ کالے سفر ہی نہ کریں۔ اس نے یہ کہا ہے کہ گوروں کے ہسپتال میں کالے نہ جائیں لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ کالوں کا علاج ہی نہ ہو۔ اس نے یہ کہا ہے کہ گورے اور کالے آپس میں شادی نہ کریں لیکن وہ نہیں کہتی کہ کالے شادی ہی نہ کریں۔
‏tav.13.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
پس بعض ممالک میں بے شک سختیاں ہوتی ہیں مگر ایک حد تک۔ لیکن دنیا چونکہ متمدن ہوچکی ہے اس لئے اب کوئی ایسی حکومت نہیں ہوسکتی جو کوئی ایسا قانون بنائے جو عقل کے خلاف ہو۔ لیکن فرض کرو کہ اگر کوئی ایسی حکومت ہو جو عقل سے باہر جا کر ایسے قانون بنا سکتی ہو تو عاشق بھی عقل سے باہر جا کر اپنی جانوں کو شہادت کے لئے پیش کرسکتے ہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں جس پر لوگوں کو حیرت ہو۔ ہمارے جماعت امن پسند جماعت ہے لیکن جن ملکوں میں احمدیوں کے لئے امن نہیں رہا وہاں ہم نے اپنے آپ کو بچایا نہیں۔ کابل میں دیکھ لو احمدی پتھر کھاتے گئے مگر مرتد نہیں ہوئے۔ پس حکومت کی فرمانبرداری اور چیز ہے اور عقائد اور چیز ہیں۔ متمدن دنیا افراد کے مذاہب میں دخل نہیں دیتی۔ متمدن دنیا حریت ضمیر میں دخل نہیں دیتی۔ رسول کریم~صل۱~ جب مکہ میں تھے جہاں تک آئین کا سوال تھا آپﷺ~ مکہ کی حکومت کے قانون کے پابند تھے اور حکومت کی اطاعت کرتے تھے لیکن آپﷺ~ نے تبلیغ کو ترک نہیں کردیا تھا۔ سچ کو آپﷺ~ نے ترک نہیں کردیا تھا۔ کسی کے کہنے پر آپﷺ~ نے اپنا کام نہیں چھوڑ دیا تھا۔ لیکن جہاں تک آئین اور قانون کا سوال تھا رسول کریم~صل۱~ نے حکومت کے قوانین کی پابندی کی۔ اور جہاں تک عقائد کا سوال تھا۔ آپﷺ~ نے اپنے آپ کو ان پر مضبوطی سے قائم رکھا۔ حضرت مسیحؑ پر بھی ہماری طرح متضاد سوالات کئے جاتے تھے- لوگ عوام الناس کے پاس جاتے تو کہتے یہ حکومت کے خوشامدی ہیں اور حکومت کے پاس جاتے تو کہتے یہ باغی ہیں۔ ہمارے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے۔ مخالفوں کی کتب میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جن میں لکھا گیا ہے کہ ہم حکومت کے خوشامدی ہیں اور حکومت کے نام ایسے محضرنامے بھی موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ہم حکومت کے باغی ہیں۔ ایک طرف باغی کہنا اور دوسری طرف خوشامدی کہنا یہ دونوں چیزیں اکٹھی کیسے ہوسکتی ہیں ؟ لیکن لوگ اکثریت کے گھمنڈ میں سب کچھ کہہ لیا کرتے ہیں۔ وہ طاقت کے گھمنڈ میں یہ خیال نہیں رکھتے کہ سچ کیا ہے ؟ لو اکثریت کے گھمنڈ میں بجائے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے کے یہ کہتے ہیں کہ تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم ڈنڈاماریں گے۔ مثل مشہور ہے کہ کوئی بھیڑیا یا ندی کے کنارے پانی پی رہا تھا۔ ایک بکری کا بچہ آیا اور اس نے بھی پانی پینا شروع کردیا بکری کا بچہ دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے یہ چاہا کہ اسے کھالے۔ انسانوں اور حیوانوں کے حالات ایک سے نہیں ہوتے انسان دلیل دیتا ہے لیکن ایک حیوان دلیل نہیں دیتا۔ مثال میں چونکہ دلیل دی گئی ہے اس لئے یہاں بھیڑیے سے مراد وہ آدمی ہے جو بھیڑیے کے خصائل رکھتا ہو۔ بہرحال بھیڑیے کو یہ لالچ پیدا ہوا کہ کسی نہ کسی طرح بکری کے بچہ کو کھالے۔ چنانچہ وہ بکری کے بچہ کو دیکھ کر کہنے لگا تجھے شرم نہیں آتی کہ میرا پانی گدلا کررہا ہے۔ بکری کے بچہ نے کہا کہ سرکار یہ کونسی بات ہے ؟ آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اوپر ہیں اور میں نیچے آپ کا پیا ہوا پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میرا پیا ہوا پانی آپ کی طرف جارہا ہے۔ بھیڑیے نے آگے بڑھ کر بکری کے بچہ کو تھپڑ مارا اور اسے مار دیا اور کہا نالائق آگے سے جواب دیتا ہے۔ پس زبردست کثرت پر گھمنڈ کرتا ہے ہی ہے جیسے آج کل احراری اخبار آزاد` زمیندار اور آفاق کررہے ہیں۔ وہ کہیں گے اور ہم سنیں گے۔ اور چونکہ ہم تھوڑے ہیں اس لئے ہم تھوڑے ہونے کی سزا بھگتیں گے یہاں تک کہ ہمارے خدا کی غیرت بھڑک اٹھے اور وہ ہمیں اقلیت سے اکثریت میں تبدیل کردے۔ لیکن جب تک ہم تھوڑے ہیں ہمیں تھوڑے ہونے کی سزا بھگتنی پڑے گی` ماریں کھانی پڑیں گی` گالیاں` سننی پڑیں گی۔ کئی احمدی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آخر ہم کب تک ان تکالیف کو برداشت کریں گے ؟ میں انہیں یہی کہتا ہوں تم تھوڑے ہو اور جب تک تم تھوڑے ہو تمہیں تھوڑا ہونے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ خدا تعالیٰ اگر تمہیں دکھوں میں مبتلا نہ کرنا چاہتا تو وہ تمہیں اقلیت میں نہ رہنے دیتا۔ لیکن جس طرح کثرت دماغ میں غرور پیدا کر کے عقل مار دیتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک عاشق صادق کے اندر کبریائی پیدا کردیتا ہے۔ مگر عشق ہمیشہ کبریائی کے نشہ میں آکر مرتا ہے مارتا نہیں۔ چنانچہدیکھ لو عاشقوں نے معشوقوں کے لئے اپنی جانیں دی ہیں اور کثرت والوں نے تھوڑی تعداد والوںکو غرور میں آکر مارا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے جو بدل نہیں سکتی۔ تم کوئی نئی جماعت نہیں جو اقلیت میں ہو۔ کثرت والے کہتے ہیں ہم تمہیں اقلیت بنادیں گے۔ ہم کہتے ہیں بنانے کا کیا سوال ہے ہم تو پہلے ہی اقلیت میں ہیں کیونکہ ہم تھوڑے ہین۔ جس چیز کا ہمیں انکار ہے وہ یہ ہے کہ ہم وہ اقلیت نہیں جس کے معنے غیر مسلم کے ہیں۔ پھر اگر پاکستان میں اقلیت میں نہیں ؟ ہندوستان میں ہندو زیادہ ہیں اور مسلمان کم ہیں۔ پھر اگر پاکستان میں کوئی ناجائز سلوک اقلیت سے ہوسکتا ہے تو کیا وہی سلوک ہندوستان میں مسلمانوں سے بھی ہوسکتا ہے یا چین میں مسلمانوں سے ہوسکتا ہے۔ اگر اقلیت پر سختی کرنا جائز ہے تو پھر وہی سلوک انگسلتان میں بھی مسلمانوں سے جائز ہے۔ کتنی بے حیائی ہے کہ ایک قوم متمدن ہونے کا دعوفی بھی کرے اور پھر وہ یہ خیال کرے کہ اگر وہ اقلیت والوں سے اپنی کثرت کی وجہ سے کوئی برا سلوک کرتی ہے تو جائز ہے لیکن دوسری شریف حکومتوں سے جہاں وہ قوم خود اقلیت میں ہے یہ امید رکھے کہ وہ اس سے ایسا سلوک نہیں کرے گی کتنے تعجب کی بات ہے کہ اسلام جو سب سے زیادہ شرافت سکھاتا ہے اس کی طرف منسوب ہونے والے آج غیر قوموں کی شرافت سے تو ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ملک میں تھوڑے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرو لیکن اپنے ملک میں تھوڑوں پر ظلم کرنا چاہتے ہیں اور تھوڑا سمجھ کر ان کو آزادی سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ شرافت ہے ؟ ہم اقلیت سے جو سلوک کرتے ہیں وہی سلوک اگر وہ ممالک ہم سے کریں جہاں ہم اقلیت میں ہیں تو ان کا یہ طریق جائز ہوگا۔ لیکن ہم اسے جائز نہیں کہتے۔ جو سلوک ہندوستان میں مسلمانوں سے ہورہا ہے کوئی احمدی ہو یا غیر احمدی برا مناتا ہے کیونکہ مسلمان بھی حکومت کے اعضاء ہیں اور حکومت میں سب کو برابر ہونا چاہئے۔ یہی سلوک پاکستان میں بھی ہونا چاہئے۔ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس کا قرآن کریم کے احکام اور رسول کریم~صل۱~ پر ایمان ہے وہ مسلمان ہے اور پھر جتنا جتنا وہ احکام قرآن اور احکام رسولﷺ~ پر عملاً ایمان لاتا ہے اتنا وہ حقیقتاً مسلمان ہے۔ لیکن جب وہ منہ سے کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ ظاہر میں سو فیصدی مسلمان ہے کیونکہ وہ منہ سے کہتا ہے مسلمان ہوں اور نام کے لحاظ سے منہ سے کہنا کافی ہے اور عمل حقیقت کے لحاظ سے ضروری ہے۔
یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کوئی کیسا مسلمان ہے بندے کا کام نہیں۔ بندے کا کام یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے تو وہ اسے مسلمان کہے۔ اگر میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں تو اسے مجھے مسلمان ماننا پڑے گا۔ اگر زید کہتا ہے میں مسلمان ہوں تو اسے زید کو مسلمان ماننا پڑے گا چاہے وہ شافعی ہو` حنفی ہو` مالکی ہو` حنبلی ہو <
>تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم تھوڑے ہو اس لئے نہیں کہ تم مسلمان نہیں بلکہ اس لئے کہ احمدی کہلانے والے مسلمان غیر احمدی کہلانے والے مسلمانوں سے کم ہیں اور عربی زبان میں اسے اقلیت کہتے ہیں اقلیت کے یہ معنے نہیں کہ ہم مسلمان نہیں۔ کیونکہ ہممنہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور قیامت تک اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جائیں گے یہاں تک کہ ہم بڑھ جائیں۔ اور اگر خدا تعالیٰ کی تقدیر چاہتی ہے کہ وہ احمدیت کو قائم رکھے تو یقیناً ہم بڑھیں گے اور بڑھے چلے جائیں گے میں دیکھتا ہوں کہ اس فتنہ کے ایام میں بھی جن لوگوں میں جرات ہوتی ہے وہ لوگوں کے غلط الزامات کی تردید کردیتے ہیں۔ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ میں احمدی نہیں میں سیاسی آدمی ہوں مذہبی نہیں۔ لیکن جوں جوں اخبارات میں میں نے پڑھنا شروع کیا کہ احمدی پاکستان کے غدار ہیں تو مجھے پتہ لگا کہ ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں۔ میں کٹر پاکستانی تھا میں نے پاکستان کی خاطر بہت سی قربانیاں کیں اور میرے وفا دار ساتھیوں میں بعض احمدی بھی تھے۔ پس میں جب اخبارات میں پڑھتا ہوںکہ احمدی غدار ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کہنے والے جھوٹے ہیں۔ یہ خیالات ہزاروں کے نہیں لاکھوں کے ہیں لیکن سب میں یہ جرات نہیں کہ اس کا اظہار کریں لیکن ایک وقت آئے گا جب لوگ جرات سے اس کا اظہار کریں گے۔ لاہور` گوداسپور` فیروزپور وغیرہ کے لاکھوں آدمی ہیں جن کے ساتھ احمدی مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ راولپنڈی کا اخبار >تعمیر< آج کل >زمیندار< کا ہمنوا ہے لیکن آج سی کچھ سال پہلے ایڈیٹر نے ایک ناول میں لکھا تھا کہ احمدیوں نے پاکستان کی خاطر بہت سی قربانیاں کی ہیں۔
آج وہ جو کچھ چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت ایڈیٹر اخبار >تعمیر< نے کیا لکھا تھا ؟ مصیبت کے وقت اس کے منہ سے سچ نکل گیا تھا۔ پس یہ چیزیں وقتی ہیں۔ مومن اور شریف آدمی وہی ہے جس کے ہاتھ سے ایک طرف چیونٹی کو بھی ضرر نہیں پہنچتا۔ وہ قانون کا بڑا ہی پابند ہوتا ہے۔ وہ قانون پر بڑا چلنے والا ہوتا ہے اور بڑا ہی بے ضرر ہوتا ہے جیسے رسول کریم~صل۱~ اور صحابہؓ نے اپنے سینیا اور مکہ میں رہ کر وہاں کی حکومتوں کے قواعد کی پابندی کی۔ لیکن ساتھ ہی وہ نڈر بھی ہوتا ہے کوئی اسے مارتا ہے یا گالیاں دیتا ہے تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا۔ ایک صحابیؓ جو پہلے مسلمان نہیں تھے بعد میں وہ مسلمان ہوگئے ہمیشہ یہ واقعہ سنایا کرتے تھے۔ اس وقت سارا واقعہ تو سنا نہیں سکتا۔ اختصار کے ساتھ بیان کردیتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں میں مسلمان نہیں تھا میں ایک لڑائی میں شامل ہوگیا اور ہم نے مسلمانوں کو مارنا شروع کیا۔ اتنے میں مسلمانوں کا ایک لیڈر نیچے اتر آیا۔ ہم میں سے دو تین آدمیوں نے اس پر حملہ کردیا اور ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس کے سینہ پر نیزہ مارا وہ گر پڑا جب وہ گرا تو اس کی زبان سے نکلا فزت برب الکعبتہ۱۳۷ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ وہ صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اس قبیلے کا آدمی نہیں تھا جس نے اس شخص کو شہید کیا۔ میں نے ان کے ہاں بطور مہمان مقیم تھا اور لڑائی میں ان کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر میں مدینہ آگیا تا دیکھوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں موت میں لذت محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ میں رسول کریم~صل۱~ کی خدمت میں حاضر ہوا اور چند دن وہاں رہا۔ مجھے صداقت کا احساس ہوا اور میں مسلمان ہوگیا۔ پھر آگے وہ صحابیؓ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اتنے سال گذر گئے کہ یہ واقع ہوا۔ رسول کریم~صل۱~ کے وصال پر بھی اتنے سال گذر گئے لیکن میں جب بھی یہ واقعہ سناتا ہوں وہ نظارہ میرے سامنے آجاتا ہے اور میرے رونگٹے کھرے ہوجاتے ہیں اور میں اس نظارہ کو بھول نہیں سکتا۔
پس جہاں تک قانون کا سوال ہے جماعت اس کی پابندی کرے گی لیکن جہاں تک لٹھ بازی کا سوال ہے ہر مخلص احمدی لاٹھیاں کھاتا جائے گا اور صداقت کا اظہار کرتا جائے گا۔ بعض کمزور کمزوریاں دکھا چکے ہیں اور ممکن ہے آئندہ بھی دکھائیں کیونکہ بعض طبائع کمزور بھی ہوتی ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کے ساتھ احد میں بھاگے تو آپﷺ~ نے فرمایا توم لوگ فرار نہیں کرار ہو کیونکہ تمہارا جنگ میں دوبارہ جانے کا ارادہ تھا۔ اسی طرح ایک اور صحابیؓ تھے ان پر مخالفین نے سختی کی۔ وہ ابھی بچے تھے مخالفین نے ان کے منہ سے بعض الفاظ نکلوالئے۔ رسول کریم~صل۱~ کو پتہ لگا تو آپﷺ~ نے محبت سے ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور ایسے الفاظ کہے جن سے ان کی دلجوئی ہو۔ مومن کی شان یہی ہے کہ جتھے اسے مارتے ہیں تو مارتے رہیں۔ لوگ اسے صداقت سے پھیرنا چاہتے ہیں لیکن وہ پھیرتا نہیں وہ صداقت پر قائم رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی کمزور طبعیت شخص کمزوری دکھا جاتا ہے تو طاقتوروں کو بھی چاہئے کہ وہ کمزور کا خیال رکھیں۔ آپ اس کے ساتھ ایسے رنگ میں پیش آئیں کہ اسے پشیمانی محسوس ہو اور وہ توبہ کرے۔ بہرحال ایک مومن ڈر` رعب اور جتھے سے ڈر کر اپنا ایمان نہیں چھوڑتا` وہ دوسروں پر خود حملہ نہیں کرتا` وہ خود آئین شکنی اور فساد نہیں کرتا` وہ دوسروں سے لڑتا نہیں۔ لیکن جہاں تک عقائد کا سوال ہے وہ قانون سے بالا ہیں کیونکہ خدا تعالفی اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔ خدا اور بندے کے درمیان کوئی حکومت بھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک مذہباور ایمان کا سوال ہے کہ کسی حکومت کو اس میں دخل حاصل نہیں۔ ایسی کوئی حکومت نہیں جو کسی کے مذہب میں دخل دے عقیدہ کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے یہ حکومت کے زور سے بدلا نہیں جاسکتا۔ اگر عیسائی کسی مسلمان کو ماریں اور کہیں کہ تم تین خدا تسلیم کر لو تو یہ کیسے ہوسکتا ہی۔ اگر کوئی شخص مجھے پکڑلے اور کہے تم یہ کہو کہ میں ایک نہیں دو ہوں تو خواہ وہ کتنا عذاب دے میں اپنے آپ کو ایک ہی کہوں گا۔ پس اگر خدا تعالفی ایک ہے تو کون کہے گا کہ خدا تین ہیں۔ اگر کمزور طبعیت کا کوئی شخص تین خدا کہہ بھی دے تو اس کا اپنا دل یہ تسلیم کرے گا کہ میں ایسا کہنے میں سچا نہیں جان بچانے کی خاطر جان بچانے کی خاطر میں نے جھوٹ بولا ہے۔ پس اگر حضرت مسیح موعودؑ سچے ہیں تو خواہ سارا شہر چڑھ آئے` لاکھ دو لاکھ کا جتھا حملہ کردے` ڈرائے اور طاقت کا رعب دے کر کہے تم کہو کہ حضرت مسیح موعودؑ )نعوذ باللہ( جھوٹے ہیں تو ہم کس طرح آپ کو جھوٹا کہیں گے۔ کمزور طبعیت انسان اگر کہہ بھی دے تو اس کا دل اسے جھوٹا کہہ رہا ہوگا وہ سمجھتا ہوگا کہ حضرت مسیح موعودؑ سچے ہیں جھوٹا میں ہوں جس نے بزدلی دکھائی ہے۔ پس تم اپنے ایمان کو مضبوط کرو اور ساتھ ہی اپنے جذبات پر قابو رکھو۔ میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں- ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک مار کھاتے جائیں گے۔ میں ان کی اس بات کا یہی جواب دیتا ہوں کہ تم ماریں کھاتے جائو۔ جب خدا تعالیٰ نے تمہیں اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تم ماریں کھائو تو میں کون ہوں جو تمہیں بچا سکوں۔ جس حرکت پر معشوق راضی ہوتا ہے عاشق وہی کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے لکھا جہاد کرنا بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ نے تم سے انگریزوں کے مقابلہ میں جہاد کروانا ہوتا تو وہ تمہارے ہاتھ میں تلوار دیتا۔ اگر اس نے ان کے مقابلہ میں تم سے تلوار چھین لی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزوں سے جہاد کرنے کا موقعہ نہیں۔ اب تلوار ہمارے ہاتھ میں آگئی ہے۔ پاکستان آزاد ہوچکا ہے۔ اب ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی پاکستان کی آزادی میں فرق لائے تو جہاد فرض ہوجائے گا۔ یہی دلیل ہمیں بھی اپنے مدنظر رکھنی چاہئیں۔ اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں مار سے بچانا` ہوتا تو وہ ہماری تعداد زیادہ کیوں نہ کردیتا خدا تعالیٰ آج یہ نظارہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم ماریں کھائو۔ جتنی زیادہ ماریں تم کھائو گے خدا تعالیٰ تم سے اتنا ہی راضی ہوگا۔< ۱۳۸
حواشی
۱۔
‏ WORK RESEARCH
۲۔
الفضل یکم احسان ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۳۔
زمیندار لاہور ۱۹ فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۔ مولانا منظور نعمانی صاحب کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر احراری علماء کے ایک وفد نے صدر اجلاس مفتی امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین پر زور دیا کہ احدمیوں کے غیر مسلم قرار داد پاس کریں مگر انہوں نے صاف انکار کردیا۔ )ضمینی امور شاعشریہ کے بارے میں علماء کا فیصلہ صفحہ ۱۵ مطبوعہ لکھنئو دسمبر ۱۹۸۷ء
۴۔
الفضل ۱۱ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/۱۱ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۵
۵۔
یاد رہے احرار کے مذہبی راہ نمائوں کا فتویٰ احمدیوں کی نسبت یہ ہے کہ ان کی واہیات مت سنو اگر ہوسکے تو اپنی جماعت سے خارج کردو بحث کر کے ساکت کرنا اگر ہوسکے ضرور ہے ورنہ ہاتھ سے ان کو جواب دو
)تذکرہ الرشید حصہ اول صفحہ ۱۴۰ سوانح مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی مولفہ مولوی محمد عاشق الٰہی صاحب میرٹھی ناشر حافظ محمد مقبول الٰہی صاحب طبع دوم مطبع محبوب المطالع دہلی(
۶۔
تقریر کا خلاصہ الفضل ۳۱ ہجرت ۱۳۳۱ ہش میں شائع شدہ ہے ایضاً تحدیث نعمت صفحہ ۷۸۳ مولفہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب طبع اول دسمبر ۱۹۷۱ء مطبع جسارت پرنٹرز ۲۴ سرکلر روڈ لاہور
۷۔
سورۃ الحجر آیت-:
۸۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۷۶` صفحہ ۷۷ اردو ایڈیشن
۹۔
>تحدیث نعمت< صفحہ ۵۸۳` ۵۸۴ مولفہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۔ اشاعت اول دسمبر ۱۹۷۱ء مطبع جسارت پرنٹرز` ۲۴ سرکلر روڈ لاہور۔ ناشر ڈھاکہ بے نیولینٹ ایسوسی ایشن۔ ڈھاکہ
۱۰۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء اردو صفحہ ۸۰` مطبوعہ انصاف پریس لاہور۔
۱۱۔
پنجاب کی سیاسی تحریکیں صفحہ ۲۰۹ از عبداللہ ملک صاحب۔ ناشر نگار شات پبلشر طبع اول یکم جنوری ۱۹۷۱ء مطبع علمی پرنٹنگ پریس لاہور۔
۱۲۔
>تاریخ احرار< صفحہ ۱۷۶ از چوہدری افضل حق صاحبطبع اول ۱۹۴۱ء طبع ثانی ۱۹۶۸ء۔ ناشر دفتر مکتبہ مجلس احرار اسلام پاکستان کا شانہ معاویہ صفحہ ۲۳۲ کوٹ تغلق شاہ ملتان۔ دفتر مجلس احرار اسلام پاکستان مقابل شاہ محمد غوث بیرون دہلی دروازہ لاہور شہر۔
۱۳۔
ایضاً صفحہ ۶۰
۱۴۔
ایضاً صفحہ ۶۱۔۶۲
خود >امیر شریعت احرار< جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے قیام پاکستان کے بعد کہا:۔
>سیاستدانوں نے جغرافیائی نقشہ اٹھا کر اس پر ضرب و تقسیم کی ہے لیکن اس کی بدولت بڑی مدت کے لئے انسان مر گیا ہے۔<
>برعظیم میں تبلیغ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ ہم نے سیاسی حقوق کے حصول کی خاطر دینی فرائض سے بغاوت کردی ہے۔<
>پاکستان سیاسی یزیدوں کی آمجگاہ بن کے رہے گا۔<
)کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ۲۹۸ مولفہ شورش کاشمیری مدیر چٹان مطبوعہ چٹان پرنٹنگ پریس ۸۸ میکلوڈ روڈ لاہور(
۱۵۔
جنگ کراچی ۲۱ مئی ۱۹۵۲ء- شیخ حساب الدین صاحب صدر مجلس احرار نے اس بیان پر >کراچی کا ایک کمشنر صرف کمشنر ہے مفتی نہیں< اسے فتویٰ دینے کا کوئی حق نہیں ہے تم اسے سازش کہہ کر یاد فرمارہے ہو ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے کسی گوشے میں مرزائیوں کا کوئی جلس نہ ہونے دیں گے۔<
)آزاد< لاہور ۳۲ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۳
۱۶۔
روزنامہ مشرق لاہور ۵۔ جون ۱۹۷۰ء صفحہ ۸
۱۷۔
مضمون کا متن کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ درج کیا جارہا ہے۔
۱۸۔
)ترجمہ( ایوننگ سٹار کراچی ۱۹ جون۔ ۱۹۵۲ء
۱۹۔
روزنامہ >ڈان< کراچی مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۵۲ء )ترجمہ(
۲۰۔
ہفت روزہ >شیراز< کراچی ۱۵۔ جون ۱۹۵۲ء
۲۱۔
ہفت روزہ >تارا< کراچی ۲۶ جون ۱۹۵۲ء
۲۲۔
سہ روزہ >رہبر< بہاولپور ۳۰ مئی ۱۹۵۲ء
۲۳۔
شورش کاشمیری صاحب سابق جنرل سیکرٹری مجلس احرار لکھتے ہیں:۔
>احرار اپنے طبقاتی مزاج کے مطابق ملک کی سالمیت کو مسلمانوں کے طبقہ امراء کی سیاست قرار دیتے اور گفتنی و ناگفتنی سب کہہ جاتے تھے ان کا خیال تھا کہ ملک کی تقسیم سے کہیں انسب دولت کی تقسیم ہے اسلام کا نام لے کر کسی ٹکڑے میں کسی یزید جیسے مسلمان کے لئے تخت سلطنت بچھانے کے حق میں نہ تھے۔ ان کے نزدیک ایسا سوچنا یا کرنا اسلام سے غداری کے ہم معنی تھا۔
)سید عطاء اللہ شاہ بخاری )سوانح افکار( صفحہ ۲۶۹ مولفہ شورش کاشمیری ایڈیشن دوم نومبر ۱۹۷۳ء مطبوعات چٹان ۸۸ میکلوڈ روڈ لاہور۔ طباعت چٹان پرنٹنگ پریس لاہور(
۲۴۔
شاہ صاحب موصوف نے لاہور کی ایک تقریر میں کہا:۔
>پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے۔< )رپورٹ تحقیقاتی عدالت شاہ صاحب کے سیاسی پیشوا جناب مولانا ابوالکلام آزاد کا مسلک انہی کے لفظوں میں یہ ہے:۔
>میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ پاکستان کا لفظ ہی میری طبعیت قبول نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تو پاک ہے اور باقی ناپاک` پاک اور ناپاک کی بنیاد پر کسی قطعہ ارض کی تقسیم قطعاً غیر اسلامی اور روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔<
اس کے مقابل وطن الیہود کی تائید میں لکھتے ہیں:۔
>جہاں تک یہودیون کے قومی وطنکا مطالبہ ہے اس سے ہمدردی کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ساری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں اور کسی علاقہ میں بھی وہاں کے نظم و انصرام پر کوئی اثر نہیں رکھتے۔ لیکن ہندوسان کے مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے۔<
)آزادی ہند )ترجمہ صفحہ ۲۵۶ FREEDOM> WINS <INDIA از مولانا ابوالکلام آزاد مترجم مولانا رئیس احمد جعفری۔ ناشر ` مقبول اکیڈیمی شاہ عالم مارکیٹ لاہور(
۲۵۔
اداریہ روزنامہ >امروز< لاہور مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۵۲ء
۲۶۔
ہفت روزہ >بیباک< سرگودھا یکم جون ۱۹۵۲ء
۲۷۔
>درنجف< بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۳ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۲
۲۸۔
بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور مورخہ ۱۱ تبوک ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۸
۲۹۔
روزنامہ >حقیقت< لکھنئو ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۲
۳۰۔
روزنامہ >حقیقت< لکھنئو ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳][۳۱۔
مائدہ ع
۳۲۔
بخاری کتاب المظالم
۳۳۔
>صدق جدید< لکھنئو ۲۔ جون ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۲۹ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۳۴۔
بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۵۲ء
۳۵۔
>حادثہ کراچی سے متعلق اکثر و بیشتر تبصرے >احراری ناپاک سازش< )مولفہ ملک محمد اکبر علی صاحب واقف زندگی( سے ماخوذ ہیں۔ ناشر مکتبہ تحریک انارکلی لاہور۔ طبع اول۔
۳۶۔
روزنامہ >آفاق< )لاہور( ۲۵ مئی ۱۹۵۲ء
۳۷۔
روزنامہ الفضل لاہور ۸۔ وفا ۱۳۳۱ ہش/۸۔ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۳۸۔
طبری جلد ۲ )حالات صلح حدیبیہ( از علامہ ابو جعفر محمد بن جرید الطبری )۲۳۴ ھ ۔ ۳۱۰ھ(
۳۹۔
روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۲۰۔ تبوک ۱۳۳۱ ہش مطابق ۲۰ ستمبر ۱۹۵۲ء
۴۰۔
سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۷ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم نمبر ۴
۴۱۔
آفاق یکم جولائی ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ یکم جولائی ۱۹۵۲ء
۴۲۔
>آزاد< لاہور۔ ۳۰ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ بحوالہ الفضل ۶ جولائی ۱۹۵۲ء
۴۳۔
>آفاق< لاہور ۳۔ جولائی ۱۹۵۲ء بحوالہ الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۴۴۔
مولفہ حضرت علامہ علی بن برحان الدین الجلی الشافعی
۴۵۔
روزنامہ الفضل لاہور ۸ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۱`۲
۴۶۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷۔ جون ۱۹۵۲ء بمقام ربوہ مطبوعہ روزنامہ الفضل لاہور ۱۲ جولائی ۱۹۵۲ء
۴۷۔
احراری آرگن >آزاد< لکھتا ہے:۔
>یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطیبوں میں جذباتیت` پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا عنصر غالب ہے یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے ؟ آپ ذرا حقیقت پسند سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہوجائیں اور کوئی تعمیری اور اصلاحی کام کر لیں تو ہمارا ذمہ۔ یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے آپ بڑے بڑے دیانتدار` بااخلاق اور سنجیدہ متین پہاڑوں کو کھودیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا۔ الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم کام لیتا ہے اور کوئی زیادہ ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں۔< )اخبار >آزاد< ۲۷ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۱۷۔۱۸(
جہاں تک کذب بیانی کا تعلق ہے جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا یہ فتویٰ ہے:۔
>احیائے حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض سے کام لیوے۔ اگر ناچار ہو تو کذب صریح بولے۔< )فتاویٰ رشید یہ ۴۶۰ مولفہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی۔ ناشران محمد سعید اینڈ سنز۔ قرآن محل مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی(
اس دور میں جناب گنگوہی صاحب کے اس فتویٰ پر ان کے معتقدین اور مریدان باصفانے جس شدت` کثرت اور وسعت سے عمل کیا ہے اس کی نظیر گزشتہ زمانوں میں بہت کم ملتی ہے۔
۴۸۔
البقرہ ع ۱۹
۴۹۔
سورہ انفال آیت ۲۵
۵۰۔
الفضل یکم ظہور ۱۳۳۱ ہش/یکم اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۔۴
۵۱۔
جنگ )کراچی( ۵۔ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۵۲۔
کنونشن کی مفصل کارروائی مجلس احرار کے آرگن >آزاد< ۱۷۔ جولائی ۱۹۵۲ء ۱۔۶ میں شائع شدہ ہے۔
۵۳۔
یہی دونوں نام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے >اشتہار واجب الاظہار< )۴ نومبر ۱۹۰۰ء( میں اپنے قلم سے تجویز فرمائے تھے چنانچہ فرمایا >وہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیہ ہے اورجائز ہے کہ احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے پکاریں۔ یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمدیہ۔< )اشتہار مشمولہ >تریاق القلوب(<
۵۴۔
یہ رسالہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی سابق صدر مجلس احرار اسلام کے بزرگوں کی تصنیف ہے جس میں آل انڈیا کانگریس میں شرکت کو مباح اور سرسید کی تحریک علی گڑھ سے وابستگی کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ رسالہ مطبع صحافی ایچی سن گنج لاہور میں چھپا تھا۔
۵۵۔
الحکم ۱۸ مئی ۱۹۰۸ء
۵۶۔
احرار کی دو رخی پالیسی ملاحظہ ہو کہ یہ اصحاب ان دنوں جہاں پاکستان میں احمدیوں کے اکابر بزرگوں بلکہ بانی سلسلہ پر کیچڑ اچھالنا >تحفظ ختم نبوت< کا لازمی تقاضا سمجھتے تھے۔ وہاں انہوں نے جامع مسجد دہلی میں یہ قرار داد پاس کی کہ >ہندوستان کے تمام مذہبی گروہوں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بزرگوں کی عزت کرنا سیکھیں اور سکھائیں تاکہ ہمارا ملک دنیا میں اخلاقی بلندی کے ساتھ ترقی کرسکے۔<
>)آزاد< لاہور ۲۸ مئی ۱۹۵۱ء صفحہ ۶ کالم ۳(
۵۷۔
>احمدیہ تحریک< مولفہ ملک محمد جعفر خاں صاحب صفحہ ۴۲ ناشر سندھ ساگر اکادمی لاہور چوک مینار بیرون لوہاری دروازہ لاہور۔ جنوری ۱۹۵۸ء
۵۸۔
>احمدیہ تحریک< صفحہ ۱۲۹` ۱۳۰
۵۹۔
لکھا ہے>شاہ جی نے فرمایا یار لوگوں نے شریعت کو نہ ماننے کے لئے مجھے امیر شریعت بنا رکھا ہے۔< )فرمودات امیر شریعت< ۷۸ مرتبہ حکیم مختار احمد صاحب الحسینی۔ ناشر مکتبہ تعمیر حیات دفتر جمعیتہ علماء اسلام چوک رنگ محل لاہور(
۶۰۔
اشتہار زین العابدین گیلانی سابق صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ملتان ۳۰ جولائی ۱۹۵۲ء۔ پاکستان پبلسٹی پرنٹنگ ورکز چوک شہیداں ملتان شہر
۶۱۔
>آزاد< لاہور ۱۸ مئی ۱۹۵۱ء
۶۲۔
اسی سے ملتے جلتے الفاظ رئیس الاحرار نہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی نے بھی استعمال فرمائے تھے فرق یہ تھا کہ انہوں نے >محمد< کی بجائے >جواہر لال نہرو< کا نام لیا اور فرمایا< دس ہزار جینا اور شوکت اور ظر جواہر لال نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔< )چمنستان صفحہ ۱۰۱ از مولانا ظفر علی خاں۔ ناشر مکتبہ کارواں کچہری روڈ لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء(
۶۳۔
ہفت روزہ >حکومت< کراچی >عقیدہ< ختم نبوت کا علمبردار >۱۴ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۳`۴
۶۴۔
اصل اشتہار خلافت لائبریری میں محفوظ ہے۔
۶۵۔
قائداعظم کا اہل امریکہ کے نام نشری پیغام )فروری ۱۹۴۸ء:(۔
>پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگا جس میں مذہبی پیشوا مامور من اللہ کے طور پر حکومت کریں گے۔ ہمارے ہاں بہت سے غیر مسلم ہیں۔۔ ہندو عیسائی اور پارسی ۔۔ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ وہ بھی تمام دوسرے شہریوں کی طرح یکساں حقوق اور مراعات سے بہرہ ور ہوں گے اور پاکستان کے معاملات میں کما حقہ` کردار ادا کریں گے۔< )ظہور پاکستان >مصنفہ چوہدری محمد علی صفحہ ۴۵۱ ناشر مکتبہ کارواں مکتبہ کارواں کچہری روڈ۔ لاہور۔ طبع دوم ۱۹۷۲ء(
۶۶۔
>سول اینڈ ملٹری گزٹ< لاہور ۱۲ اگست ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور ۲۰ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۶۷۔
ملاحظہ ہو کتاب >رئیس الاحرار< از عزیز الرحمن جامعی لدھیانوی
۶۸۔
اخبار >لاحول< )گوجرانوالہ( ستمبر ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور مورخہ ۲۵ ستمبر ۱۹۵۲ء مطابق ۲۵ تبوک ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۸
۶۹۔
بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور مورخہ ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲
۷۰۔
بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور مورخہ ۲۸ نومبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲
۷۱۔
ہفتہ وار >سٹار< مورخہ ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء بحوالہ الفضل ۲۴ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۷۲۔
روزنامہ >ستیہ جوگ< ڈھاکہ ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء بحوالہ روزامہ >الفضل< لاہور ۳۱ اگست ۱۹۵۲ء مطابق ۳۱ ظہور ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۲
۷۳۔
ہفت روزہ اخبار >شیئی نیک< بنگال بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور ۳۰ اگست ۱۹۵۲ء مطابق ۳۰ ظہور ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۲
۷۴۔
روزنامہ >ملت< ڈھاکہ ۹ اگست ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور ۱۳ ستمبر ۱۹۵۲ء
۷۵۔
بحوالہ الفضل ۷۔ اخاء ۱۳۳۱ ہش/۷ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲
۷۶۔
>ناظم< حیدر آباد سندھ ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء بحوالہ >الفضل< ۴ ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۷۷۔
ماہنامہ >کوہسار< کوئٹہ ماہ اگست ۱۹۵۲ء بحوالہ >الفضل< ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء مطابق ۲۳ ظہور ۱۳۳۱ ہش
۷۸۔
سورہ غافر ۵۲
۷۹۔
آل عمران ۱۴۰
۸۰۔
الانبیاء ۴۵
۸۱۔
الاحزاب ۴۳
۸۲۔
الشعراء۔ ۱۶۸
۸۳۔
غافر۔ ۲۷
۸۴۔
الشعراء ۵۴
۸۵۔
سہوراًرہ گیا ہے
۸۶۔
مکتوب بنام علماء صفحہ ۸ تا ۱۴ از مولانا منور الدین صاحب چک منگلا )سرگودھا( مطبوعہ خالد پریس سرگودھا ۱۹۵۳ء
۸۷۔
النساء۔ ۹۵
۸۸۔
الانعام ۱۶۰
۸۹۔
مسلم کتاب الایمان۔ ابودائود ابواب الجہاد:۔ ابن ماجہ کتاب الفتن۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۴۳۹ جلد ۵ صفحہ ۲۰۷
۹۰۔
البقرہ۔ ۱۱۶
۹۱۔
اخبار ہفت روزہ >الاعتصام< گوجرانوالہ ۱۹ ستمبر ۱۹۵۲ صفحہ ۶
۹۲۔
صحیح مسلم)کتاب الایمان(
۹۳۔
عربی متن ہے ]1ksn [tag >لایخرج الرجل من الایمان الا بجحود ما ادخلہ فیہ<
)ایضاً معین الحکام< صفحہ ۲۰۹(
۹۴۔
ایضاً >کتاب الفرق بین الفرق< صفحہ ۹۔۱۱ )الامام حضرت ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر متوفی ۴۲۹ ھ( ناشر مطبتہ المعارف بشارع الفجالہ بمصد<
۹۵۔
حضرت علامہ امام حسین بن محمد راغب اصفہانی )متوفی ۵۰۶ ھ ۱۱۰۸ء فرماتے ہیں:۔
>الاسلام باللسان وبہ یحقن الدماء حصل معہ الاعتقاد اولم یحصل وایاہ قصد بقولہ قالت الاعراب امنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا والثانی فوق الایمان وھو ان یکون مع الاعتراف و اعتقادا بالقلب ووفاء بالفعل واستسلام للہ جمیع ماقضی وقدر۔< )مفردات امام راغب صفحہ ۲۴۰(
یعنی اسلام دین محمدی کی رو سے دو طرح کا ہوتا ہے ایک اسلام ایمان سے نیچے ہوتا ہے اور وہ زبان سے اعتراف کرنا اور کلمہ پڑھنا ہے جان کی حفاظت اتنے سے ہی ہوجاتی ہے اس کے ساتھ اعتقاد کی صحت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کی آیت قالت الاعراب میں اسی طرح کے اسلام کی طرف اشارہ ہے۔ اور دوسرا اسلام وہ ہوتا ہے جو ایمان سے اوپر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھنے کے علاوہ وہ دل میں بھی اس کا اعتقاد ہو اور عملاً بھی وفاداری کا اظہار کرے اور خدا تعالیٰ کی تمام قضا و قدر کے سامنے اپنے اپ کو جھکادے۔
۹۶۔
اخبار >آفاق< لاہور ۴۔۵ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۹۷۔
حیات جاوید حصہ دوم ۲۳۱ )مولفہ مولانا الطاف حسین حالی( طبع اول
۹۸۔
حیات جاوید حصہ دوم صفحہ ۲۳۲
۹۹۔
حیات جاوید حصہ دوم از مولانا الطاف حسین حالی صفحہ ۲۳۵
۱۰۰۔
حیات جاوید حصہ دوم صفحہ ۲۳۵
۱۰۱۔
>صدق جدید< ۱۲ ستمبر ۱۹۵۲ء بحوالہ اخبار الفضل یکم اخاء ۱۳۳۱ ہش مطابق یکم اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۵`۶
۱۰۲۔
>صدق جدید< لکھنئو مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۵۲ء بحوالہ الفضل ۷۔ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۱۰۳۔
بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور ۱۱۔ جولائی ۱۹۵۲ء مطابق ۱۱ وفا ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۴
۱۰۴۔
ہوشیار۔ چالاک۔ سمجھدار۔ توانا )فرہنگ آصفیہ(
۱۰۵۔
)نقل مطابق اصل پر سا ہوگا جس کے معنی عذر خواہی اور ماتم پرسی کرنے کے ہیں۔ )فرہنگ آصفیہ(
۱۰۶۔
پرچہ ۲۷۔ جولائی ۱۹۵۲ء
۱۰۷۔
تالیف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ )۱۹۲۴ء(
۱۰۸۔
رسالہ >مولوی< دہلی ذوالحج ۱۳۷۱ ھ مطابق ستمبر ۱۹۵۲ء بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور ۱۹ ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۵
۱۰۹۔
۳۔ جولائی ۱۹۵۵ء کی بابت ہے کہ کوٹ سمابہ تحصیل و ضلع رحیم یار خاں میں ایک مناظرہ ہوا جس میں شیعہ عالم جناب مولوی محمد اسمعیل صاحب گوجرہ نے حضرت امام علی القاری رحمہ اللہ کی یہ عبارت پڑھی۔]>[فلاینا قض قولہ تعالی خاتم النبین لا یاتی نبی بعدہ ینسخ ملتہ ولم یکن من امتہ۔)<موضوعات کبیر صفحہ ۵۸` ۵۹( یعنی حضور کے بعد کسی نبی کا آنا خدا کے قول خاتم النبین کے مخالف نہیں ہے۔ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ حضور کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ائے گا جو آپ کی ملت کو منسوخ کردے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب نے یہ حوالہ پیش کرنے کے بعد کہا یا معشر العلماء باللہ خبروا اواحرار و تنظیم کے عالمو ! تاج و تخت ختم نبوت کے جھوٹے محافظو! خدا لگتی کہو کہ ملا علی قاری اور مرزا قادیانی کے ترجمہ میں کیا فرق رہا۔ اگر مرزا قادیانی کافر ہے تو ملا علی قاری کیا ہیں ؟ یہ ہے تمہاری ختم نبوت جس کے لئے عوام کو لوٹتے پھرتے ہو۔<
>)معیار الصحابہ< مرتبہ جناب خادم بخاری صاحب۔ ناشر شیعہ داراالتبلیغ گوجرہ ضلع لائلپور(
۱۱۰۔
>درنجف< سیالکوٹ ۲۴۔ اگست ۱۹۵۲ء بحوالہ الفضل ۲۶ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۱۱۱۔
یہ انٹرویو >سول اینڈ ملٹری گزٹ< لاہور میں بھی شائع ہوا۔
۱۱۲۔
ترجمہ >از سول اینڈ ملٹری گزٹ< لاہور مورخہ ۲۲ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۱`۳
۱۱۳۔
ترجمہ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< ۲۵ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ )متن اور وضاحتی مکتوب شامل ضمیمہ ہے(
۱۱۴۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء
۱۱۵۔
>اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات< مطبع پاکستان پرنٹنگ ورکس ایبک روڈ۔ لاہور
۱۱۶۔
ٹریکٹ بعنوان >میاں ممتاز محمد خان دولتانہ صدر پنجاب مسلم لیگ< مطبوعہ ایس ڈبلیو پریس رام نگر لاہور ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء
۱۱۷۔
ہفت روزہ >اصلاح< )سری نگر کشمیر( ۱۳ جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۲
۱۱۸۔
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء< کے صفہ ۹۶۔۹۷ پر اس قرار داد کا مکمل متن درج ہے۔
۱۱۹۔
انگریزی سے ترجمہ )الفضل ۲۹ وفا ۱۳۳۱ ہش مطابق ۲۹ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۱(
۱۲۰۔
ولادت ۱۹ جون ۱۸۹۴ء وفات ۷ فتح ۱۳۳۴ ہش مطابق ۷ دسمبر ۱۹۵۵ء
۱۲۱۔
ولادت ۱۹۰۱ء وفات ۱۴ اخاء ۱۳۴۵ ہش مطابق ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۶ء
۱۲۲۔
ولادت ۱۹۰۶ء وفات ۳۱ فتح ۱۳۳۶ ہش مطابق ۳۱ دسمبر ۱۹۵۷ء
۱۲۳۔
وفات یکم شہادت ۱۹۵۲ء ہش مطابق یکم اپریل ۱۹۷۱ء
۱۲۴۔
احزاب ۔ ۴۱
۱۲۵۔
آل عمران۔ ۵۰
۱۲۶۔
>الفرقان< ربوہ ماہ نومبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۲۔۸
۱۲۷۔
حا ناظر اصلاح و ارشاد صدر انجمن احمدیہ پاکستان
۱۲۸۔
الفاتحہ
۱۲۹۔
النساء ۔ ۷۰
۱۳۰۔
مسلم )باب ذکر الدجال(
۱۳۱۔
ماہنامہ >الفرقان< دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۲۸ تا ۳۰
۱۳۲۔
البقرہ۔ ۱۱۸۷
۱۳۳۔
الفضل ۸۔ ظہور ۱۳۳۱ ہش/۸ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۳۴۔
روزنامہ >الفضل< لاہور مورخہ ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۳۵۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵ اگست ۱۹۵۲ء بمقام ربوہ مطبوعہ روزنامہ >الفضل< لاہور ۲۶ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۵`۶
۱۳۶۔
الحج۔ ۷۹
۱۳۷۔
بخاری جلد ۳ صفحہ ۲۰ )باب غزوۃ الرجیع( مطبوعہ صر ۱۳۵۱ ھ/ ۱۹۳۲ء
۱۳۸۔
>الفضل< ۱۹۔ ظہور ۱۳۳۱ ہش/۱۶۔ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ تا ¶۵
‏tav.13.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
مفتی مصر کے فتویٰ سے لیکر حضرت مصلح موعود کے پیغام تک
تیسرا باب
مفتی مصر کے فتویٰ تکفیر سے لے کر حضرت مصلح موعودؓ کے ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کے پرشوکت پیغام تک
)از احسان ھ ۱۳۳۱ہش/جون ۱۹۵۲ء تا ۳ امان ۱۳۳۲ ہش/۳ مارچ ۱۹۵۳ء(
فصل اول
مفتی کا فتویٰ تکفیر` مصری پریس کا احتجاج اور خدائے ذوالجلال کے جلالی نشان کا ظہور اخبار >الیوم< )مصر( کے نام حضرت مصلح موعودؓ کا مکتوب اور مسئلہ ختم نبوت سے متعلق ایک وضاحتی بیان
نہر سویز کا قضیہ اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب
نہر سویز پر برطانوی فوجیں قابض تھیں جس کی وجہ سے حکومت انگلستان اور حکومت مصر کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب )وزیر خارجہ پاکستان( مشرق وسطی کے اسلامی ممالک کے دوسرے مسائل کی طرح اس تنازعہ کو نمٹانے کی بھی جدوجہد فرمارہے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ نے جنوری ۱۹۵۳ء کے اجلاس جنرل اسمبلی کے بعد لنڈن میں برطانوی وزیراعظم مسٹر ایڈن سے بھی بات چیت کی۔ برطانیہ نے مصر کو مطلع کردیا کہ وہ ایک معینہ میعاد کے اندر نہر سویز سے اپنی تمام فوجیں ہٹالے گا۔ اخبار >الاہرام< مصر )۲۱ فروری ۱۹۵۲ء( نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ اس فیصلہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان کی مساعی کا بھاری دخل ہے۔ ۱
اس کامیاب گفت و شنید کے بعد چوہدری صاحب مشرق وسطی کے دورہ کے سلسلہ میں چار روز تک قاہرہ میں ٹھہرے اور اس قضیہ کو نمٹانے کے لئے مصر کے وزیراعظم علی ماہر پاشا` عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عزام پاشا نیز صلاح الدین پاشاء فوزی بے )اقوام متحدہ میں مصر کے مستقل مندوب( اور دیگر زعماء سے ملاقاتیں کیں۔۲ اخبار >المصری< )قاہرہ( نے ۲۵ فروری ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں آپ کی مصر میں تشریف آوری پر ایک مقابلہ افتتاحیہ سپرد قلم کیا جس میں آپ کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے اعتراف کیا کہ آپ کی سرگرمیوں اور دینی صلاحیتوں سے اسلامی ممالک کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ میں اخبار >المصری< کے نامہ نگار نے اس سے بھی شاندار الفاظ میں آپ کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ پچھلے تین برسوں میں اسلام اس کے فلسفے اور مقاصد کے متعلق مغربی طاقتوں کے رویہ میں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ اکثر و بیشتر چوہدری )محمد( ظفر اللہ خاں کی قابلیت اور فہم و تدبر کی رہین منت ہے۔ ۳
مفتی مصر کا فتویٰ تکفیر
حضرت چوہدری صاحب تو ملت اسلامیہ کے جدال جلیل کی حیثیت سے عرب ممالک کی بے لوث خدمات میں سرگرم عمل تھے کہ استعماری ملاقتوں کی ان خفیہ اور جارحانہ کوششوں میں یکایک تیزی پیدا ہوگئی جو ان کی طرف سے >الکفر ملتہ واحدہ کے مضمون اشاعت کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف جاری تھیں۔۴ دشمنان دیں نے اپنی انتقامی کارروائی کے لئے مصر کی سرزمین کوچنا اور مفتی دیار مصر بہ فضیلتہ الاستاذ الشیخ حسنین محمد مخلوف کے ذریعہ حضرت صاحب پر احمدی ہونے کی بناء پر فتویٰ کفر شائع کرادیا گیا۔
یہ فتویٰ >اخبار الالجدیدہ< کے ۲۲ جون ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں منظر عام پر آیا جس میں فضیلہ الاستاذ الشیخ مخلوب نے لکھا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ پاکستان غیر مسلم بلکہ کافر ہیں کیونکہ پاکستان کے ایسے مخصوص فرقہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو آنحضرت~صل۱~ کے خاتم الانبیاء ہونے کا منکر ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اسلام میں سلسلہ انبیاء جاری ہے۔ ۵ یہ فتویٰ مشرق وسطی کے عرب ممالک نے نمایان طور پر شائع کیا۔۶
مصری عالم الاستاذ احمد بہائوالدین نے اپنی کتاب >فاروق< ملکا< میں اس فتوی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب کو خراج تحسین بھی ادا کیا ہے مگر ساتھ ہی ایک فرضی واقعہ بھی ان کے قلم سے لکھا گیا ہے فرماتے ہیں:۔
>السید ظفر اللہ خان معروف بجراتہ و صراحتہ ` و قد کان مارا بالقاھرہ فی طریقہ الی بلدہ و تشرف بمقایلتہ الملک وکان الرجل قد عاش فی الخارج زمنا طویلا`و قرامن فضائح فاروق ومھازلہ مایسی الیہ والی مصر والی بلاد الشرق کلھا وقال الرجل لفاروق بلباقتہ مولمتہ ۷ ان بلاد العالم الاسلامی محط انظار العالم اجمع۔ وان عادء ھا الکثیرین یتربصون بھا ویحصون علیھا الخطاء۔ وان ھذا لموقف یلزم روساء الدول الاسلامیتہ بان یرعوا فی سلوکھم تقالید الاسلام وان یتمسکوا بقواعدہ` وان تکون حیاتھم المستقیمتہ قدوہ لشعوبھم و دعایتہ امام العالم اجمع!!
وفھم فاروق المصود۔ فنھض وقفا وانھی المقابلتہ وکتم الملک السابق غیظہ ونعمتہ علی الوزیر الصریح وبات یتربص بہ و یتربص معہ الشیخ مخلوف مفتی الدیار المصریتہ اوبالاخری مفتی القصور الملکیتہ۔
وانتھز الشیخ مخلوف الفرصتہ` وادلی بحدیث عجیب` قال فیہ ان ظفر اللہ خان من طائفتہ القادیانیتہ` وھی ملتہ کافرہ ولم یقف عند ذلک حتی یبقی غرض الحدیث مستورا` بل استطرد یقول ان علی حکومتہ الباکستان وھی حکومتہ اسلامیتہ ان تطرد من وزارہ خارجیتھا ھذا الوزیر الکافر الانہ لایجب ان بیقی علی راس دولتہ اسلامیتہ وزیر کافر !
وھکذارد علی قول ظفر اللہ خان انہ لایجب ان بیقی علی راس دولتہ اسلامیتہ ملک فاسق !!
وثارت الصحف فی مصرو الباکستان تحمل علی المفتی المدفوع واقسم الھلالی۔ وکان رئیسا للوزارہ لیعزلنہ من منصبہ جزاء رعونتہ ولکن الھلالی لم یلبث ان تبین الامدو عرف ان الملک لایقبل ابدا ان تمس شعرہ من راس مخلوف۔ ھذا الراس التی تخرج لہ الفتاوی والتحلیلات <!!
)صفحتہ (
)ترجمہ( چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی جرات اور دلیری میں مشہور ہیں۔ آپ ایک مرتبہ پاکستان واپس جاتے ہوئے قاہرہ سے گذرے تو قاہرہ میں آپ کو شاہ فاروق سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ بیرونی دنیا میں انہوں نے ایک لمبا عرصہ گذارا ہے۔ فاروق کی ایسی رسوا کن اور بیہودہ حرکات کے متعلق انہیں پڑھنے کا اکثر موقعہ ملا ہے جو فاروق` ملک مصر اور تمام مشرقی ممالک کی بدنامی اور رسوائیوں کا موجب ہیں۔ چنانچہ چوہدری صاحب نے نہایت حکمت` دانشمندی اور کمال ملاطفت کے ساتھ شاہ مصر سے کہا کہ >ساری دنیا کی نظریں عالم اسلام پر ہیں۔ اسلامی ملکوں کے دشمن بے شمار ہیں اور ان کی تاک میں ہیں نیز ان کی لغزشوں پر نگاہ رکھتے اور شمار کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمان حکومتوں کے سربراہوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ اپنی زندگی میں اسلامی طریقوں کو رواج دیں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں تا ان کی راست باز زندگی ان کی قوموں کے لئے نمونہ ہو اور تمام دنیا کے لئے اسلام کی تبلیغ کے پروپیگنڈا کا موجب ہو۔۹4] [rtf
شاہ فاروق نے وزیر خارجہ پاکستان کی اس جرات پر اپنا غیظ و غضب چھپایا اور موقعہ کی تلاش میں رہے۔ شیخ مخلوف بھی موقع ڈھونڈتے رہے۔ مفتی الدیار المصریہ کی بجائے وہ شاہی محلات کے مفتی کہلانے کے زیادہ مستحق تھے۔
شیخ مخلوف نے بالاخر موقع پاتے ہی اس سے فائدہ اٹھایا اور ایک عجیب بیان شائع کردیا۔
جس میں کہا کہ ظفر اللہ خاں قادیانی ہے اور یہ لوگ کافر ہیں۔ شیخ مذکور نے اسی پر بس نہ کی بلکہ اس نے اپنے مقصد کو چھپا نہ رہنے کی خاطر یہ بھی کہہ دیا کہ حکومت پاکستان چونکہ اسلامی سلطنت ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ اس کافر وزیر کو اپنی وزارت خارجہ نکال دے کیونکہ اسلامی سلطنت میں کافر وزیر کا باقی رہنا مناسب نہیں۔ گویا اس طرح شیخ مخلوف نے چوہدری ظفر اللہ خاں کے اس قول کا جواب دیا کہ اسلامی سلطنت میں بدکار بادشاہ کی کوئی جگہ نہیں۔
شیخ مخلوف )جنہیں آلہ کار بنایا گیا تھا( کہ بیان پر مصر اور پاکستان کے اخبارات نے پرجوش جوابی حملہ کیا اور اس کی تغلیط کی۔ ہلالی پاشا نے جو ان دنوں مصر کے وزیراعظم تھے قسم کھائی کہ شیخ مخلوف کی اس حماقت اور رعونت کے باعث انہیں کے منصوبہ سے معزول کردوں گا۔ لیکن انہیں بہت جلد معلوم ہوگیا کہ )سابق( شاہ مصر نے تو شیخ مخلوف کے سر کا بال تک بیکا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہی سر بادشاہ کے لئے حسب منشاء فتویٰ اور جواز پیدا کرتا رہتا ہے ۱۰ الاستاز احمد بہار الدین نے شاید یہ بات بیروت کے کثیر الاشاعت ہفت روزہ >الصیاد< )۷ اگست ۱۹۵۲ء( کی مندرجہ ذیل خبر سے اخذکی ہے۔
>اشتھر عن الملک السابق فاروق انہ کان یکرہ الذین یجراون علی نصحہ وارشادہ و حدث حسین سرالسید ظفر اللہ خان` وزیر خارجیتہ الباکستان بمصرعائد امن ھیتہ الامم المتحدہ ان استقبلہ الملک السابق` طماکان من الوزیر الباکستانی الذی یعتبر من کباررجالات السیاستہ والاسلام الا ان وجہہ للملک بعض النصائح السیاسیتہ والدینیتہ۔ لغضب الفاروق واستدعی علی اثر المقابلتہ شیوخ الازھر واجبرھم علی اصدار فتوی ضد ظفر اللہ خاں بانہ ملحد و خارج علی الدین` صدرت الفتوی و نشرت فی المحف وقامت قیامتہ / لباکستان` و قدم وزیرھافی القاھرہ احتجاجا رسمیا الی الحکرمتہ المصریتہ التی کانت یرئسھا احمد نجیب الھلالی فبادر الھلالی الی وضع المرسوم بدحض الفتوی الجدئیتہ والغائھا` ثم حملہ الی الملک لیرقعہ ولکن فاروق رفض توقیع المرسوم` فاصر الھلالی وھدد بالاستقالتہ وھذا لملک السابق کتفیہ مستھذا واستقال الھلال < ۱۱
یعنی سابق شاہ فاروق کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ ہر نصیحت اور راہنمائی کو ناپسند کرتے تھے بالخصوص سیاسی اور مذہبی معاملات میں جو لوگ ان کو نصیحت کرنے کی جرات کرتے وہ انہیں سخت حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان وزیر خارجہ پاکستان مجلس اقوام متحدہ میں شمولیت کے بعد واپسی پر مصر سے گزرے تو سابق شاہ فاروق نے جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا استقبال کیا۔ اس موقعہ پر موصوف نے جن کا شمار دنیا کی خاص سیاسی اور اسلامی معزز شخصیتوں میں ہوتا شاہ فاروق کو دوران ملاقات مذہبی امور پر مشتمل اہم مشورے دے۔ اس پر شاہ فاروق خفا ہوگئے اور اس ملاقات کے بعد علماء ازہر کو بلا کر مجبور کیا کہ وہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے ملحد اور خارج اذ دین ہونے کا فتویٰ دیں۔ چنانچہ فتویٰ صادر کردیا گیا اور اخبارات میں اس کی اشاعت بھی ہوئی۔
اس فتویٰ سے پاکستان میں کہرام مچ گیا۔ پاکستان سفیر مقیم قاہرہ نے سرکاری طور پر مصری حکومت کے پاس احتجاج کیا۔ اس وقت اس حکومت کے وزیراعظم نجیب الہلالی تھے۔ وزیراعظم الہلالی نے اس بیبکانہ فتویٰ کی تردید اور اسے لغو قرار دینے کا معاملہ شاہ فاروق کے سامنے رکھا اور دستخط کے لئے کاغذ پیش کیا لیکن شاہ فاروق نے الہلالی کی تجویز پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس پر وزیراعظم الہلالی نے اصرار کرتے ہوئے استعفیٰ کی دھمکی دی۔ بایں ہمہ سابق شاہ فاروق نے عواقب سے بے نیاز ہو کر متکبرانہ انداز میں فتویٰ کی منسوخی پر دستخط کرنے سے انکار کردیا چنانچہ وزیراعظم الہلالی پاشا مستعفی ہوگئے۔
مصری زعماء اور صحافیوں کا زبردست احتجاج
اس فتویٰ کی اشاعت پر مصریوں کو از حد قلق ہوا اور مصری عوام و خواص سرتاپا احتجاج بن گئے چنانچہ اس موقعہ پر مصری زرماء اور پریس نے جو بیانات دیئے وہ ان کی فرض شناسی ` تدبر` اور معاملہ فہمی کی بہت عمدہ مثال تھی۔ ان بیانات میں سے بعض کا متن ضمیمہ میں شامل ہے اور ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کا بیان
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام پاشا نے شدید تنقید کی اور الاخبار الجدیدہ جس میں یہ فتویٰ شائع ہوا تھا( کے نمائندہ خصوصی کو حسب ذیل بیان دیا:۔
)ترجمہ( میں حیران ہوں کہ آپ نے قادیانیوں یا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق مفتی کی رائے کو ایک موثر مذہبی فتویٰ خیال کیا ہے۔ اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر بنی نوع انسان کے عقائد` ان کی عزت و وقار اور ان کا سارا مستقبل محض چند علماء کے خیالات و آراء کے رحم و کرم پر آرہے گا۔
فتویٰ کسی مخصوص اور غیر مبہم واقعہ سے متعلق ہونا چاہئے اور پھر ایسی صورت میں بھی اس کی حقیقت محض ایک رائے سے زیادہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہر شخص کے لئے اس کا تسلیم کرنا واجب اور لازمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے علماء کے ذریعہ کسی کلیائی نظام کی بنیاد نہیں ڈالی جو لوگوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرسکے۔
بلاشبہ یہ رائے کی حیثیت محض رائے کی ہے نہ کہ دین کی کسی کی رائے نہ تو کسی کو دین سے خارج کرسکتی ہے اور نہ داخل۔
ہر وہ شخص جو کلمہ لاہ الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہے اور قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے وہ یقیناً مسلمان ہے۔
یہ امر مسلمانوں کے مفاد کے سراسر خلاف ہے کہ کسی ایک فرقہ کو بے دین قرار دیا جائے۔ اسلام کی بنیادی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے کو کافر قرار دینے سے بچے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خان اپنے قول اور اپنے کردار کی رو سے مسلمان ہیں- روئے زمین کے تمام حصوں میں اسلام کی مدافعت کرنے میں آپ کامیاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو موقف بھی اختیار کیا گیا اس کی کامیاب حمایت ہمیشہ اپ کا طرہ امتیاز رہا اس لئے اپ کی عزت عوام کے دلوں میں گھر کر گئی اور مسلمانان عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہوگئے۔ آپ ان قابل ترین قائدین سے ہیں جنہیں عوام اور ملی مسائل کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔۱۲
اخبار >المصری< کا بیان
مصر کی حکمران وفد پارٹی کے مشہور اخبار >المصری< نے ۲۶ جون ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں ایک زور دار مقالہ افتتاحیہ سپرد قلم کیا جس میں لکھا:۔
>اے کافر خدا تیرے نام کی عزت بلند کرے
ہماری مسلامن مملکت پاکستان نے >شاہ سوڈان< کی حیچیت سے شاہ فاروق کے نئے خطاب کو تسلیم کیا۔
پاکستان نے یہ لقب برطانوی تاج کے تحت دولت مشترکہ کا رکن ہونے کے باوجود تسلیم کیا شاہ فاروقا کو سوڈان کا بادشاہ تسلیم کرنا ایک جرات مندانہ اقدام تھا اور اس کے لئے ہم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی مساعی جمیلہ کے ممنون احسان ہیں۔ یہ ہم پر ایک نئی کرم فرمائی تھی۔ یہ ہماری دل جوئی اور ہمارے ساتھ ہمدردی کا ایک نیا اظہار تھا۔ ہمیں احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اس کا اعتراف کرنا چاہئے تھا۔۔ بالکل خلاف توقع اور اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ مفتی مصر نے اسی ظفر اللہ خان کو ایک بے دین اور ایک >غیر مقلد< فرقہ کا رکن قرار دے دیا ہے۔
ہمیں رحم آتا ہے کہ اس فتویٰ کی موجودگی میں ہمارے سفیر مقیم کراچی عبدالوہاب عزام کی کیا حالت ہوگی جو اس ملک میں >شاہ سوڈان< کا نمائندہ ہے اور جس ملک نے برطانوی تاج سے وابستہ ہونے کے باوجود ہمارے بادشاہ کا نیا لقب تسلیم بھی کر لیا ہے۔
ہاں ہاں ! ہمیں ترس آتا ہے اپنے وزیر خارجہ عبدالخالق حسونہ پاشا پر جسے اپنے عہدے کی وجہ سے ہمارے ملک اور ہماری قومی مطالبات کے بارے میں پاکستان کے موقف کا بخوبی علم ہے اور جسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جہاں تک ہماری امنگوں اور ہمارے قومی مطالبات کا تعلق ہے ان کے بارے میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے کیا جذبات ہیں۔
ہمیں ترس آتا ہے اپنے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد صلاح الدین پاشا پر بھی کہ جس نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا اعتماد حاصل کیا اور اقوام متحدہ میں ان کی امداد و حمایت سے فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح ہمیں رحم آتا ہے محمد علی علویہ پاشا پر احمد خشابہ پاشا دیگر سیاستدانوں اور دنیائے عرب و اسلام کے مقتدر مدبرین پر جو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو جانتے ہیں اور مصر` فلسطین` تونس اور دیگر مسلمان و عرب مملکتوں کے مفاد کی خاطر آپ نے جو دوڑ دھوپ کی ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ سب مدبرین کیا سوچتے ہوں گے ! ہمیں رحم آتا ہے ان سب پر اور پھر خود مفتی پر اس نے صفائی کا موقعہ دیئے بغیر خواہ مخواہ ایک شخص کو مجرم قرار دے دیا اور اس پر بے دینی کا الزام لگا ڈالا۔ خدا کی پناہ خدا کی پناہ
ظفر اللہ خاں ہماری ہمدری کے محتاج نہیں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اب بھی اسلامی مفادات کی حفاظت کی خاطر اسی طرح سینہ سپر رہیں گے اور مصر کے ساتھ اپنی دوستی کا وہم بھرتے رہیں گے۔ مفتی نے ظفر اللہ کو کافر و بے دین قرار دیا ہے۔ آئو ہم سب مل کر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں پر سلام بھیجیں۔ ظفر اللہ خاں کافر کے کیا کہنے ان جیسے اور بڑے بڑے دسیوں کافروں کی ہمیں ضڑورت ہے۔
بالاخر ہم پوچھتے ہیں کہ حکومت مصر اس بارے میں کیا کرنا چاہتی ہے؟ ایسی حالت میں اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟ اس سلسلہ میں وہکیا بیان جاری کرے گی ؟ اور یہ کہ آئندہ اسی کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے تاکہ اسے محض چند احمقانہ الفاظ کی وجہ سے جو کوئی عاقبت نا اندیش سوچے سمجھے بغیر زبان سے نکال دے اپنے معدودے چند دوستوں کی رفاقت سے ہی ہاتھ دوھنا پڑے۔ ۱۳
احمد خشابہ پاشا کا بیان
مصر کی بااثر شخصیت احمد خشابہ پاشا کا حسب ذیل بیان اخبار الزبان )۲۵ جون ۱۹۵۲ء( میں شائع ہوا:۔
)ترجمہ( خشابہ پاشا نے اعلان کیا ہے کہ >مجھے اس فتویٰ سے سخت رنج پہنچا ہے کیونکہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے اسلام اور عرب دنیا کی بالعموم اور مصر کی بالخصوص بہت خدمت سرانجام دی ہے۔ عالم اسلام ان کی خدمات جلیلہ کے لئے ان کا ممنون احسان ہے۔< خشابہ پاشا نے مصر کے معاملات میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اس تائید و حمایت کا بھی ذکر کیا ہے جو موصوف نے اقوام متحدہ کے مختلف اجلاسوں میں ہمیشہ روا رکھی اور بالخصوص سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرنے میں آپ نے مصر کو بے حد تقویت پہنچائی۔ خشابہ پاشا نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا:۔
میں اس عظیم شخصیت کا بے حد ممنون احسانہوں کیونکہ اس نے میرے ملک کی بے حد خدمت سرانجام دی ہے اور مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایسا فتویٰ دیا بھی گیا ہے تو ایسی نمایاں اور بلند ہستی کے خلاف ۱۴
‏]sub [tagاخبار >النداء< کا بیان
اخبار النداء )یکم جولائی ۱۹۵۳ء( نے لکھا:۔)ترجمہ( نمائندہ النداء کو معلوم ہو اہے کہ مفتی کی شخصیت بالکل محل بحث نہیں تھی بلکہ ارباب حل و عقد نے مفتی کے منصب کے دائرہ عمل پر غور کیاہے۔ اور یہ معاملہ مفتی کے منصب کے محدود کرنے پر مشتمل ہے کہ اس کو کس حد تک اجتہاد کرنا اہئے- ہاں سرکاری حدود میں اس کو اجازت نہیں ہے۔ چونکہ مطالبات دارالافتاء میں آتے ہیں اس لئے کوئی فتویٰ اس وقت تک صادر نہ کیا جائے جب تک اس کو مجلس افتاء کے سامنے پیش نہ کیا جائے جو مزاہب اربعہ کے آئمہ پر مشتمل ہو۔
مولانا محمد شریف صاحب مدیر البشریٰ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:۔
بعد ازاں ہم دریافت کرتے ہیں: کیا حضرت مفتی مصر کئیسالوں سے نہیں جانتے کہ سر ظفر اللہ خاں احمدیت کے ستاروں میں سے ایک ستارہ ہے ؟ وہ کونسی وجہ ہے جس کی وجہ سے مفتی اس فتویٰ کے جاری کرنے پر مجبور کیا گیا کہ )جیسا کہ کہا گیا ہے کہ یہ غلطی ہے یا اس کا بیان ہے جیسا کہ فاضل مفتی نے خود بیان دیا ہے۔ موجود نازک حالات میں جن سے عالم اسلامی گز رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر` مسئلہ حیدر آباد` ملک فارس کے پٹرول کا مسئلہ` مسئلہ ٹیونس` نہر سویز کا مسئلہ` مسئلہ سوڈان` فلسطین کے پناہ گزینوں کا مسئلہ اسلامی ممالک کی حفاظت کا مسئلہ جو انے والی جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہے جس کے لئے جنگجو اقوام مسلح اور تیار ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ اور کئی مشکل مسائل ہیں جو ان ایام میں مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ کیا یہ مسائل مسلمانوں کے اتحاد کا تقاضا کرتے ہیں یا مسلمانوں کے افتراق کے فتاویٰ یا اس قسم کے شخصی آراء کی اشاعت کا تقاضا کرتے ہیں۔
ہم ان مشکلات کے پیش نظر اور مشرق میں سب سی بڑی اسلامی حکومت اورمصر اور دنیا میں سب سے بڑی اسلامی حکومت پاکستان کے اتحاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کے اسلامی اور عالمی مسائل میں متفقہ موقف کو دیکھتے ہوئے اس نتیجہ کے اخذ کرنے ۔۔۔ پر مجبور ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن جو سر ظفر اللہ خان کے سامنے اپنے نظریات کو عالمی مجالس میں بذریعہ دلائل و براہین ثابت کرنے سے عاجز آگئے ہیں اور جنہوں نے قاہرہ )۲۶ جنوری ۱۹۶۲ء( کو بروز سیاہ ہفتہ آغ کے شعلہ میں تبدیل کردیا۔ ایسی ہی اشخاص نے مفتی` مصر کو استعمال کیا ہے اور مفتی کو اس امر کا احساس ہی نہیں ہے مفتی کو افتراق کے لئے دو بڑی اسلامی حکومتوں کا درمیان آلہ کار بنایا گیا ہے اس کے سوا کچھ مقصد نہیں تھا۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون
اخبار >الجمہور مصری< کا بیان
اخبار الجمہور المصری< )۲۱ جولائی ۱۹۵۲ء( نے ایک شذرہ میں لکھا:۔
)ترجمہ( ہم اس امر کی وضاحت کرنا پسندکرتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر احمد شلبی پروفیسر فواد لاول یونیورسٹی کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ مفتی مصر کا فتویٰ برطانیہ کی چال ہے اور ان برطانوی اخبارات کی سازش ہے جو عربی زبان میں مصر سے شائع ہوتے ہیں۔ عوام کے تصور سے یہ مسئلہ کہیں گہرا ہے۔
دھوکہ کی بنیاد۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ ظفر اللہ خاں نے جو تمام دنیا کے مسلمانوں کے معاملات میں دفاع کیا ہے اس نے انگریزوں کو خوفزدہ کردیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی خاطر اور اس کی دلیرانہ آواز نے انگریزوں کو پریشان کردیا ہے اور ان کو اس امر کا خوف ہے کہ پاکستان مضبوط ہاتھ ہو جائے گا۔ جو ہر جگہ مسلمانوں کے معاملات میں ان کو سہارا دے گا۔
ظفر اللہ خاں نے کہا ہے کہ پاکستان ہرگز اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا چاہے عرب لیگ اس کو تسلیم کرے۔ اس وجہ سے انگریزوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے خلاف سازش کی تاکہ وہ مصر اور مشرق کو اس پاکستانی بڑے لیڈر کی تائید سے محروم کردے۔
الدکتور اللبان بک کا بیان
الدکتور ابراہیم اللبان بک پرنسپل کلیہ دارالعلوم المصریہ نے >النحلتہ القادیانیتہ ومااعرف عنھا >)فرقہ قادیانی کے متعلق میری معلومات(< کے زیر عنوان لکھا:۔
)ترجمہ( مجھے انتہائی افسوس ہے کہ عرب حکومتوں نے ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ پاکستان جیسی شخصیت کو تکلیف دی جس نے عرب حکومتوں کے دفاع میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جس کی وجہ سے اس نابغہ اور مثالی شخصیت کی تائید اور دوستی کو مفقود کردیا گیا ہے حالانکہ آج کے عالمی سیاسی تنازعہ اور خطرناک ناری بحران میں عرب حکومتیں ظفر اللہ خاں کی شجاعت` بلاغت اور آپ کے دفاع کی بہت ضرورت محسوس کرتی ہیں۔
قادیانی فرقہ کے متعلق میں انتہائی باریک بینی پر مبنی اپنی معلومات بیان کرتا ہوں اور پڑھنے والے پر اس کا فیصلہ چھوڑتا ہوں۔ میں ہرگز اس امر کا دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے قادیانیت کا کما حقہ مطالعہ کیا ہے۔ میرا ان سی مسلسل تعلق رہاہے بلکہ اس جماعت سے مجھے واسطہ بھی پڑا ہے۔
قادیانی مذہب سے میرا تعلق پہلی مرتبہ میرے قیام لندن کے دوران ہوا جن دنوں میں وہاں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ میرا پہلا تاثر یہ ہے کہ یہ دو قسموں میں منقسم ہے۔ جماعت کا ایک گروہ تو اس رائے کا حامل ہے کہ اس کا امام )احمدی( القادیانی اسلامی مصلح سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ مصلحین جن کو خدا تعالیٰ وقتاً فوقتاً دین کی تجدید کے لئے مبعوث کرتا ہے جب کہ دوسرا گروہ اپنے امام کی عزت میں غلو کرتا ہے اور وہ اس کو نبی یقین کرتا ہے۔ لندن کے محلہ پٹنی میں اس گروہ کی مسجد بھی ہے۔
ان ایام میں اس فرقہ کے خلاف میں نے سخت ناقدانہ حملہ کیا چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ امام مسجد کو میرے ہاں بھیجے اور وہ میرے ساتھ تبادلہ خیالات کرے` یا تو وہ مجھے خاموش کرادے اور یا میں اس کو خاموش کردوں۔ چنانچہ دو مرتبہ مصری کلبلندن میں ہم مناظرہ کے لئے اکٹھے ہوئے بحث کا دائرہ ان کے زعیم )احمد( القادیانی کی نبوت کا تھا۔ میں نے امام صاحبکی توجہ کو اس طرف پھیرا کہ یہ مسئلہ قرآن کے صریح خلاف ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ماکان محمدابا احمد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین یہ دلیل رسول اکرمﷺ~ کے بعد ہر شخص کے لئے اس رستہ کو ختم کردیتی ہے کہ وہ اپنے کو نبی کہے۔ میں اب تک اس امام کے جواب کو یاد کرتا ہوں کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح ہی محمدﷺ~ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کی کتاب قرآن کریم ہے اور اس کے سوا اور کوئی ان کی کتاب نہیں ہے۔ اس سے وہ عقیدہ اور شریعت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن امام نے جیسا کہ مجھے یاد ہے قادیانی کی نبوت کے عقیدہ پر اصرار کیا اور جب میں نے اس کے سامنے قرآنی آیت کو پیش کیا تو اس نے تاویل کرنی شروع کردی اور صراحتاً کہا کہ ان کے لئے ناممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کریں جو قرآن کے خلاف ہو لیکن یہ عقیدہ قرآن کے ہرگز مخالف نہیں ہے۔ آیت قرآنی خاتم النبین کی وہ خاص تاویل کرنے لگا جس کی رو سے انبیاء کے ظہور کے لئے دروازہ کھلا ہے اور اس میں ان کے لئے کوئی روک نہیں ہے۔
بعد ازاں امام نے نبی اور رسول کے فرق کو بیان کرنا شروع کردیا ان قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ محمدﷺ~ کے بعد کوئی رسول نہیں ہے اور آپﷺ~ کی رسالت ہی آخری دینی رسالت ہے لیکن وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ آپ کے بعد انبیاء ظاہر ہوں جن کا کام احیاء شریعت ہو اور اس کی تعلیم کی روحانی اشاعت۔ قادیانی بھی ان انبیاء سے ایک ہے جو لوگوں کو اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی شریعت پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
اس صورت میں یہ لوگ تاویل کرنے والے ٹھہرتے ہیں نہ کہ قطعی منکر۔ اور تاویل کرنے والے کا حکم قطعی منکر جیسا نہیں ہوا کرتا۔<۱۵
الشیخ محمد ابراہیم سالم بک کا بیان
الشیخ محمد ابراہیم سالم بک )سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ مصر( نے ایک بیان مین کہا:۔
بلاشبہ ہماری طرف سے یہ جلد بازی ہوگی کہ ہم قادیانیوں پر کفر کا فتویٰ لگائیں اور یہ اس لئے کہ ہمیں ابھی تک ایسے وسائل میسر نہیں کہ ہم اس مذہب کے متعلق علم اور اس کے میلانات بذریعہ کتب معلوم کرسکیں۔
اور جب تک ہمیں اس مذہب کے متلعق کچھ معلوم ہو تو یہ جلد بازی اور جسارت ہوگی کہ ہم اس مذہب کے پیروکاروں پرکفر کا فتویٰ لگادیں- وہ اس وقت تک مسلمان ہی ہیں جب تک کہ ان کے کفر پر دلیل قائم نہیں ہوجاتی۔ اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ کئی ایسے پہلو ہیں جو فرقہ قادیانی کے مسلمان ہونے کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان کے )مسلمان ہونے کی( تائید میں یہ پہلو بھی ہے کہ احمدی اسلام اور مسلمانوں کی تائید کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے بلکہ ہر موقعہ سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ تائید خواہ سرکاری تقریبات کے مواقع پر ہو یا ان کے علاوہ۔
ان امور کی بناء پر یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ جناب ظفر اللہ خاں کی ذات پر کفر کا اتہام لگایا جائے ہم جانتے ہیں کہ وہ شخص اسلامی اخلاق سے آراستہ ہے اور اسلامی روایات اور سنت پر عامل ہے۔
ظفر اللہ خاں مصر میں کئی مرتبہ آئے ہیں۔ ہم نے آپ کودیکھا ہے کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے معاملات میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ اور آپ ہر ایسے معاملہ میں جس میں اسلام اور مسلمانوں کی شان بلند ہوتی ہو دلیر ہیں۔ اس بناء پر اس شخص کے مسلمان ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ۱۶
الشیخ غلام نصار بک کا بیان
مصر کے سابق مفت الشیخ غلام نصار بک نے اپنے بیان میں کہا:۔
نہ تو یہ جائز ہے اور نہ آسا کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے کسی فرقہ پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے اور نہ ایسے دلائل ہی پائے جاتے ہیں جو اس امر کو جائز قرار دیں کہ قادیانی جماعت پاکستان میں اسلام سے خارج ہے۔ میں اس امر کو مناسب نہیں سمجھتا کہ ایک عظیم سیاسی آدمی پاکستان کے وزیر خارجہ کی پوزیشن جیسے شخص سے تعرض کیا جائے کہ ان کا دین کا عقیدہ کیا ہے حالانکہ وہ شخص دین اسلام کا علی الاعلان اظہار کرتا ہے۔ اسلام اور مسلمانون کی طرف سے بڑی بڑی مجالس میں دفاع کرتا ہے۔ اپنے موقف اور بیانات کی تائید میں قرآن کریم اور احادیث محمد~صل۱~ کو بطور دلیل پیش کرتا ہے اور علی الاعلان اس کی اقتداء کا اظہار کرتا ہے اور اسلام کو ہی بہترین رابطہ مصر` اسلامی ممالک اور پاکستان کے درمیان یقین کرتا ہے اس لئے دین میں انصاف کی خاطر یہ امر حکمت کے خلاف ہے کہ کوئی ان کو خارج از اسلام قرار دینے کی مصیبت میں مبتلا ہو حالانکہ وہ شخص اپنے اسلام کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے اور اس کو پاکیزہ تعلق یقین کرتا ہے۔ اسلام اور اقوام اسلامیہ کی خدمت کے لئے قابل قدر چستی سے کا لیتا ہے۔ ان کے دوست اور جاننے والے اشخاص )جو مصر میں اکابرین اسلام ہیں( کی آراء سے یہ واضح تاثر لیا جاتا ہے کہ وہ آپ کو ایک مسلم شخصیت ہی تصور کرتے ہیں جو اسلام کے آداب اور شرائط پر مضبوطی سے عامل اور اسلامی اخلاق و صفات سے مزین اور اسلام کی اتباع اور اس کے اصول کے الزام پر ترغیب دیتے ہیں۔
مسلمان اس واقعہ سے ناواقف نہیں ہیں جو آنحضرت نبی اکرم~صل۱~ کے زمانہ میں ہوا جبکہ کسی نے ایک آدمی کو جنگ میں قتل کے ڈر سے کلمہ شہادت پڑھا ہے۔ آنحضرت~صل۱~ نے اس کو اس کے اس فعل پر ملامت کی اور اس کے عذر کو قبول نہ کیا اور آپﷺ~ نے فرمایا کیا تو نے اس کے دل کو پھاڑ کر دیکھا تھا؟ ۱۷]4 [rtf
اخبار >الیوم< کے نامہ نگار خصوصی مقیم کراچی کا بیان
اخبار >الیوم< )۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء( نے اپنے نامہ نگار خصوصی مقیم کراچی کے حوالہ سے لکھا:۔
>اصبح الابرار کافرین< )نیک لوگ کافر ہوگئے(
شیخ مخلوف نے جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اب اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش عبث اور بے معنی ہے۔ اس غلطی کا نام وہ فتویٰ رکھیں یا بیان نام دیں دونوں برابر ہیں بہرکیف وہ خود ہی اس کا شکر ہو گئے ہیں۔ حکومت کے لئے اگر اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے تو اب مفتی صاحب کو ان کے اس منصب سے علیحدہ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ مفتی صاحب کے فتویٰ کے جاری ہونے کے وقت ہی سے ہم نہ صرف اس کو ناقابل التفات سمجھ رہے تھے بلکہ لوگوں کے اس طاق نسیان پر رکھ دینے میں بھی ان کے ممد تھے مگر اس کے باوجود مفتی صاحب اپنی اس غلطی کا دفاع کررہے ہیں اور ایک غلطی کو محو کرنے کے بدلہ میں دوسری کا ارتکاب کررہے ہیں اور ایک گمراہی کے عوض دوسری میں اپنے کو ملوث کررہے ہیں۔
مفتی صاحب اس بات کو جانتے ہیں کہ قادیانی جماعت میں اعتدال پسند اور صاحب وقار لوگ بھی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ظفر اللہ خاں بھی ان ہی میں سے ایک ہوں۔
مفتی صاحب یہ سب کچھ بھی جانتے ہیں جیسا کہ الاخبار کو انہوں نے بیان بھی دیا ہے اور و جمعرات کو شائع بھی ہوچکا ہے ان کا فرض تھا کہ کسی کو خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرنے اور اس کے دین سے نکالنے سے پیشتر وہ فقہ اسلامی کے عام اور معمولی قوانین ہی ملاحظہ فرما لیتے جو انہیں اس معاملہ پر تحمل اور بردباری سے غور کرنے کی طرف توجہ دلارہے تھے اور جلد بازی سے کام نہ لیتے۔
فاضل مفتی صاحب کو علم ہوگا کہ ایک روز رسول اکرم~صل۱~ نے ایک گواہ کو فرما اتھا کہ کیا تو یہ سورج دیکھ رہا ہے پس اس طرح گواہی دے ورنہ رہنے دے۔
اسی طرح ان کو یہ بھی علم ہوگا کہ علماء اسلام اور آئمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ مسلمان جس کے اسلام کا ایک فیصدی بھی احتمال ہے اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ پس اس شخص کے لئے جو منصب افتاء پر فائز ہو مناسب نہ تھا کہ کسی مسلمان کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کرنے میں جلد بازی سے کام لیتا اور مسلمان بھی اتنی عظمت شان کا مالک کہ صحافت اس کے وجود ہی کو ایک بڑی خبر تصور کرتی ہو۔ اگر بالفرض ایسی کوئی بات تھی جو مفتی صاحب کو ظفر اللہ خان کے اسلام سے خارج کرنے ہی پر مجبور کرتی تھی )جس کا ہمیں علم نہیں( تب بھی انہیں اپنے فتویٰ یا بیان کو بہتر اور مناسب صورت دینا چاہئے تھی اور پاکستان سے >وزیر زندیق< کی معزولی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ مفتی صاحب نے اپنی تعیناتی سے متعلق قوانین کا مطالعہہی نہیں کیا اور یہ گمان کر لیا کہ وہ مصر اور پاکستان کے مفتی ہیں اور اس طرح اپنے ہم مشرب کے معاملات میں بھی دخل اندازی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کے حقوق کا احترام نہیں کیا۔
مفتی پاکستان اپنے ملک اور اپنے وزیر کے متلعق یقیناً وہ کچھ جانتا ہے جس کا شیخ مخلوف )مفتی مصر( کو کوئی علم نہیں۔
اس مسئلہ کے اور بھی کئی پہلو جو زیادہ خطرناک ہیں اور نتائج کے لحاظ سے سنگین بھی۔
اسلامی اصول ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا وہ خود کافر ہوگیا۔ ظفر اللہ خاں جب تک ہم آنکھوں سے ان کا کفر مشاہدہ نہ کر لیں اور اس بارہ میں ہمیں یقینی علم نہ حاصل ہوجائے ہمارے نزدیک مسلمان ہیں اور ان کا اسلام کامل ہے۔
مفتی مصر نے خود اپنے آخری بیان میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ظفر اللہ خاں اعتدال پسند اور وقار کے حامل ہوں یہ امر بھی مفتی صاحب کو اس کے خلا فتویٰ صادر کرنے کا حق نہیں پہنچاتا اور نہ ہی غیض و غضب اور *** ملامت کے نشانہ بنانے کا
ہماری رائے ہے کہ مفتی صاحب نے ایک مسلمان کو کافر ٹھہرایا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کو کانفر ٹھہرایا ہو وہ خود کافر ہوجاتا ہے۔
میں قارئین سے امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے کسی کی تنقیص کا مرتکب نہ تصور کریں گے۔ میں حقیقت کے اظہار میں سنجیدہ ہوں۔ اس سلسلہ میں تمام ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔
جہاں تک ظفر اللہ خاں کا تعلق ہے اس قسم کی کہی گئی باتوں سے اس کا کوئی نقصان نہیں۔ لیکن یہ واقعہ اس امر کی ضرور یاد دلاتا ہے کہ لوگوں نے رسول عظیم )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کی شان میں بھی کاہن` ساحر` صابی اور مجنوں کے الفاظ استعمال کئے تھے۔
وہ شخص جو استعماریت کا بڑی قوت` بلاغت اور صدق بیانی سے مقابلہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی جس کی زبان اور دل پر حق جاری کرتا ہے وہ بھی اگر کافر قرار دیا جاسکتا ہے تو نیک لوگوں کی اکثریت ایسے کافر بن جانے کی خواہش کرے گی۔
)خالد محمد خالد(
اخبار >المصری< کا مقالہ خصوصی
‏0] ftr[اخبار >المصری< نے اپنے مقابلہ خصوصی )مورخہ ۲۷۔ جون ۱۹۵۲ء( میں بعنوان >ظفر اللہ خاں< لکھا:۔
المصری کے قارئین اس کالم کے علاوہ کسی دوسری جگہ مصر میں پاکستان کے سفیر کے بیان کا مطالعہ کریں گے جس میں آپ نے مصری صحافت کی عزت افزائی کی ہے اور بالخصوص روزنامہ المصری کی جس نے اپنے اور پاکستان کے دوست لوگوں کے خیالات کی اشاعت اس اتہام کے رد میں کی ہے۔ جسے مصر کے علماء و عظام میں سے ایک عوام کی خلاف توقع مشرق کی عظیم شخصیت محمد ظفر اللہ خاں پر عائد کیا تھا۔
اس اتہام سے قبل شاید پاکستان اس امر سے واقف نہ تھا کہ مصر پاکستان کے لئے دل کی گہرائیوں سے محبت` خلوص اور ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے اور عالمی اخوت کا بھی حامل ہے۔ دونوں ایک جیسے مقاصد رکھتے ہیں۔ عربوں میں کیا خوب کہاوت ہے کہ بسااوقات ضرر رساں اشیاء بھی مفید مطلب ہوجایا کرتی ہیں۔ پاکستان کے مصری دوست ظفر اللہ خان کے مقام کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ بین الاقوامی سوسائیٹیوں میں وہ قضیہ مصر کے بلند پایہ ارکان میں سے ہیں اور دنیا کی عظیم ترین ان شخصیتوں سے ایک ہیں جنہوں نے مصر کی خاطر اپنی ذات` وقت اور وطن تک کو وقف کررکھا ہے۔ استعماریت کا مقابلہ کھلم کھلا اور بڑی جرات سے کرتے ہیں۔ اس شخص کے وجود میں اور بھی کئی خوبیاں موجود ہیں۔ یہ سب باتیں اس امر کی متقاضی ہیں کہ آپ کے خلاف نہ صرف کچھ بھی نہ کہا جائے بلکہ اپ کی گرانقدر خدمات کو سراہا جائے اور ان کے بارہ میں انصاف سے کام لیا جائے۔ محمد ظفر اللہ خاں عصر حاضر میں دولت اسلامیہ کی نہایت درجہ بلند پایہ اور ممتاز شخصیتوں سے ایک ہیں بلکہ سرفہرست ان کا ہی کا اسم گرامی آتا ہے۔ آپ ہی وہ شخص ہیں جس نے سیاست کا مطالعہ تو اچھی طرح کیا ہے لیکن نظری سیاست کے اصولوں کو اپنایا نہیں بلکہ سیاسی ثقافت کو قرآنی انداز فکر کے تابع اور ہم آہنگ کردیا ہے۔ آپ نے ایسا اسلامی نظریہ اختیار کیا ہے جو عصر حاضر کے افکار کی آراء اور اسلامی نظریات پر مشتمل ہے۔
ظفر اللہ خاں کو اقتصادیات پر وسیع نظر حاصل ہے۔ آپ نے اقتصادیات کا نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ ایک بڑی قوم کا جس کے اغراض و مقاصد وسیع تر ہیں اور جو ابھی ابھی استعماری اقتصادیات کے بھنور سے نکلی ہے بجٹ تیار کیا ہے۔ اقتصادی نظام میں آپ علم اقتصادیات پر صرف انحصار نہیں کرتے بلکہ اقتصادی ثقافت کو اسلامی تعلیم کے تحت لے آتے ہیں۔ دولت اسلامیہ کی تعمیر میں آپ کا یہ نظریہ ہے کہ افراد کے فرائض اور حقوق حکومت کے حق میں کیا ہیں اور حکومت کے فرائض اور حقوق افراد کے حق میں کیا ہیں؟
ظفر اللہ خاں وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے حکومت کے جھنڈے کو اٹھایا اور پاکستان کی خارجہ سیاست کو حکومت کے دو بڑے وجودوں محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی طرف سے سپرد ہونے پر سنبھالا اور ان کے اسلامی طریق کار کو جاری رکھا۔ اس طرح اس نوزائیدہ مملکت کو عصر حاضر کی ترقی یافتہ صف میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی ہر دو )مذکورہ بالا( بڑی شخصیتوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی اقتداء میں جو روایات قائم کی تھیں ان کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ مزید چار چاند لگادیئے۔
امریکہ اور یورپ کے عالمی سیاسیات کی شہرت کے مالک ان کی قدرو منزلت محض نمائش کے طور پر نہیں کرتے بلکہ ان کی ذاتی خوبیوں کے مداح ہونے کی صورت میں نہایت قدر کی نگاہ سے ان کو دیکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ آپ اپنی لیاقت اور قابلیت کی بدولت اطراف عالم میں کس احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ آپ مشرقی محاسن کے آئینہ دار ہیں اور سلامتی کی دعویدار` نئی دنیا میں` آپ دو متقابل و متحارب بلاکوں میں تیسرے گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ ہیں وہ ظفر اللہ خاں جن کو تکفیر کا نشانہ بنایا گیا ہے حالانکہ تنہا آپ ہی ہیں جو اقوام تحتہدہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر فریضہ نماز اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں اور اس غرض کے لئے اقوام متحدہ کے ہال میں کوئی علیحدہ جگہ تلاش کرتے ہیں تاکہ امت اسلامیہ کی نصرت طلب کرنے کے لئے خدا کی جناب میں سجدہ ریز ہوسکیں۔
بیروت پریس
مصر کے علاوہ بیروت کے پریس نے بھی فتویٰ پر تنقید کی چنانچہ بیروت کے کثیر الاشاعت روزنامہ >بیروت المساء< نے لکھا:۔
ہم وزیر خارجہ پاکستان السید محمد ظفر اللہ خاں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ بیروت میں ان سے کئی ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان کا فصاحت و بلاغت سے پر لیکچر بھی سنا۔ آپ کا لیکچر سن کر ہمارا متاثر ہونا لازمی تھا جب کہ اقوام متحدہ کی مجالس آپ کی زور دار تقاریر سن کر ورطہ حیرت میں پڑ چکی تھیں۔ ہم نے آپ کو قرآن مجید کے علوم بیان کرتے ہوئے سنا جس میں آپ نے شاعر کا یہ قول بھی بیان فرمایا:۔
وکل العلم فی القران لکن ۔۔۔۔ تقاصرعنہ افھام الرجال
تمام علوم قرآن مجید موجود ہیں لیکن عام لوگوں کے فہم انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔
پھر ہم نے آپ کو >پالم تپیش< ہوٹل میں نماز تہجد پڑھتے اور عبادت کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے آپ کے پیچھے نماز میں آپ کے ساتھ بھی تھے- پھر ہم نے دیکھا کہ آپ اسلامی حکومتوں کے وزراء اعظم کی ایک کانفرنس منعقد کرنے میں کوشاں ہیں۔ پھر آپ نے مصر کی امداد اور تائید و حمایت کے لئے آپ اپ کو وقف کررکھا ہے۔ اسی طرح مسئلہ تونس کے متعلق اسلامی مفادات کے تحفظ میں آپ جس طرح سینہ سپر ہوئے وہ بھی ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔
یقیناً ظفر اللہ خاں ایک مفر دماغ کے حامل ہیں اور آپ ترقی پذیر پاکستانی مملکت کے لئے لسان ناطق کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس مملکت کے لئے جس کی مسلم آبادی آٹھ کروڑ نفوس بھی متجاوز ہے۔ جس نے قرآن کریم کو اپنا دستور بنایا ہوا ہے اور جہاں عربی زبان کو ممتاز درجہ پر شمار کیا جاتا ہے۔
اس ہمسایہ مملکت کو جو ایشیا میں تعمیر و ترقی کا علم بلند کررہی ہے اور جو عربوں کے تمام مسائل میں خلوص نیت اور صدق دلی سے ان کا ہاتھ بٹارہی ہے۔ عرب دنیا کے ایک وسیع حصہ کی طرف ایک طعنہ دیا گیا ہے۔ ہماری مراد اس سے مصر ہے۔
ہاں مفتی صاحب نے جہالت کا ثبوت دیا ہے۔ اس کا منصب صرف دینی ہے۔ اس کا کام لوگوں کو کافر قرار دینا نہیں ہے جس نے مومن کو کافر کہا وہ خود کافر ہوا۔
آہ! اس نے یہ فتویٰ دے کر` کہ پاکستان کا وزیر خارجہ کافر ہے اور یہ کہ پاکستانی حکومت پر واجب ہے کہ وہ ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے الگ کردے انتہائی غفلت کا ثبوت دیا ہے۔
مذہبی لوگ خدمت دین کے لئے پیدا کئے گئے ہیں سیاسی امور میں دخل دینا ان کا کام نہیں۔ اگر ظفر اللہ خاں مختلف اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقے )یعنی جماعت احمدیہ( کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو یہ امر ان کو کافر نہیں بناتا۔ وہ ایمان باللہ وملئکتہ و کتبہ ورسلہ کے قائل ہیں۔ وہ اسلامی ارکان پر پوری طرح عامل ہیں۔ کیا مفتی کے لئے جائز ہے کہ وہ ان مسلمانوں پر بھی کفر کا فتویٰ لگائے جو دین اسلام پر عمل پیرا ہوں ؟
شیخ مخلوف مسلمانوں کی صفوں میں انتشار برپا کررہا ہے اور ایسے وقت میں تفرقہ کی اشاعت کررہا ہے جب کہ انہیں اتحاد کی بے حد ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کافروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے لکم دینکم ولی دین۔ body] ga[t مفتی مصر کو کیا ہوگیا کہ وہ احمدی مسلمانوں کو مخاطب کررہا ہے اور ان پر کفر کا اتہام لگارہا ہے۔ جس نے مومن کو کافر کہا وہ خود کافر ہوا۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اہل مصر بالخصوص اور دیگر مسلمان بالعموم قرون وسطی کی جمود انگیز اور غیر ترقی پذیر روش سے خلاصی حاصل کریں۔
شیخ مخلوف اور ظفر اللہ خاں کے درمیان نمایاں فرق ہے۔ اول الذکر مسلم غیر عامل ہے۔ اور اگر شیخ مذکور عمل کرتا بھی ہے تو تفرقہ انگیزی کے لئے` برخلاف اس کے ظفر اللہ خاں` مسلم عامل الخیر< ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیات میں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کا اکٹھا ذکر کیا ہے۔
آہ! ایمان اور عمل صالح کے باوجود مسلمانوں کو کافر قرار دینا کتنا ہی دورراز عقل ہے۔ ۱۹
مفتی الدیار المصریتہ یقول ان ظفر اللہ خان کافر
القاہرہ۔ نشر الشیخ محمد حسنین مخلوف` مفتی الدیار المصریتہ` بیانا فی الصحف المصریتہ` علن فیہ بان السید ظفر اللہ خان` وزیر خارجیتہ الباکستان` غیر مسلم بل کافر لانہ ینتمی الی طائفتہ خاصتہ فی الباکستان لاتومن بان النبی محمد ھو خاتم الانبیاء بل تعتقد بانہ سیطلع انبیاء اخرون فی الاسلام۔
وقد ادی ھذاالبیان الی ھیاج الخواطر فی الباکستان و مصر` و طلبت بعض صحف القاھرہ اقالتہ المفتی لاجل ترضیتہ الباکستان` صدیقتہ مصر` و یحاول بعض الساستہ والصحفین المصربین التقلیل من اھمیتہ بیان المفتی بقولہم ان ھذا کان رابا شخصیا بحتا وکان نشر اقوال المفتی مبعث استغراب الحکومتہ المصریتہ-
وقد اوضح موظف کبیر فی المفوضیتہ الباکستانیتہ فی القاھرہ فی صحیفتہ مصریتہ حقیقتہ الطائفتہ التی ینتمی الیھا ظفر اللہ خان فقال ان ابناء ھذہ الطائفتہ لایومنون بانہ سیطلع انبیاء بعد محمد لانھم ھم ایضا یومنون بان محمدا ھو خاتم الانبیاء الا انھم یعتقدون بانہ سیطلع مصلحون آخرون فی الاسلام۔
ولاجل اصلاح الامر تشرت صحف القاھرہ مقالات فیھا کثیر من المدائح لظفر اللہ خان` المسلم العظیم` صدیق مصر والشعیب المصری ومما قالتہ جریدہ )المصری(
>اذا کان ظفر اللہ خان کافرا فلیکئر عدد الکفار من امثالہ فی الاسلام<- )اخبار >الیوم< یانا ۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء(
اخبار >المصری< کے نمائندہ نے مفتی شیخ حسینی محمد مخلوف سے اس فتویٰ کی اصل حقیقت کے بارے میں دریافت کیا تو مفتی مذکور نے اپنے فتویٰ کی وضاحت میں فرمایا۔
>ون مانشر لیس بفتوی رسمیہ ولیس لھا رقم فی سجل خاص` وانما ھی مجرد حدیث دار فی مجلس خاص یتضمن رای فضیلتہ فی ھذہ المسالتہ< )اخبار >المصری` ۲۳ جون ۱۹۵۲ء(
تحدید مھمتہ المفتی
عرض الفتاوی علی مجلس الافتاء
علم مندوب >النداء< ان شخصیتہ المفتی لم تکن محل بحث اطلاقا` وانما عنی المسولون ببحث حدود منصب المفتی۔
ویشمل ھذا البحث تقیید من یشغل ھذا المنصب بالحدمن الاجتھاد الا فی الحدود الرسمیتہ وبنائا علی الطلبات التی تصل الی دارالافتاء علی ان لا تصدر فتوی الا بعد عرضھا علی مجلس الافتاء المکون من ائمتہ المذاھب الاربعتہ ۔۔۔<
)اخبار >النداء< المصری ۱ جولائی ۱۹۵۲ء(
یو این او میں مصری نمائندہ نے اخبار >الاعرام< مصری کے ساتھ گفتگو کے دوران فرمایا۔
مواقف یفخر بھا الشرق
المتحدہ عن مواقف یفخربھا الشڑق کلھا وقفھا السید ظفر اللہ خان وزیر خارجیتہ الباکستان` فی الجمعیتہ العمومیتہ لامم المتحدہ عام ۱۹۵۲ء القی عن فلسطین الشھیدہ خطبتہ استغرقت تلاث ساعات کاملتہ لم یتناول خلالھا جرعتہ ماء واحدہ ولم بسکت عن الکلام لحظتہ واحدہ واثبت بھا قوہ ایمانہ بالدین الاسلامی و بالوطن العربی` ولقد بکی واستبکی تحت عبارات قویتہ فی معناھا و رضینتہ فی مبناھا` وشھدلہ الجمیع بانہ رجل عظیم` مسلم کریم` وطنی صعیم` سیاسی حکیم و متمکن من الغتہ الانجلیزبتہ کا حد ابنائھا من العلامء الافذاذ۔
وقال ھذ القانونی الکبیر ان السید ظفر اللہ خان الرجل الوفور ذاللحیتہ المکتثتہ اخذتہ نشوہ فرح لا توصف بانتصار الدول العربیہ و مزیدیھا فی قضیتہ لیبیا امام الجمعیتہ العمومیتہ لامم المتحدہ عام ۱۹۵۲ء` وقال بصوت مسموع للجمیع ان سرورہ لا یقدر بانتصار قضیتہ لیبیا العربیتہ و کذلک کان دفاعہ مجیدا عن طرابلیس ۔۔۔۔۔<
)اخبار >الاھرام< المصری ۲۸ جون ۱۹۵۲ء(
عذام باشاہ یقول: ظفر اللہ خان رجل مسلم وراء المفتی لایخرج احداء من دینہ
جریدہ الاخبار کے نمائندہ نے جناب عبدالرحمن عزام پاشا سیکرٹری جنرل جامعہ عربیہ سے مفتی استاذ شیخ مخلوف کے فتویٰ کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی جو اس نے قادیانیوں اور ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں دیا ہے۔ تو جناب نے فرمایا۔
>عجبت الاعتبار کم رای المفتی فی القادیانیتہ او فی معالی وزیر خارجیتہ الباکستان محمد ظفر اللہ خان فتوی دینیتہ لھا اثرھا ولو کان الامر کذلک لکانت عقائد الناس و کراستھم و مستقبلھم رھنا باراء بعض العلماء
فالفتوی یجب ان تنصب علی حادثتہ معینتہ و واضحتہ وھی بحد رای لادین بلزم الناس` ان الاسلام تنزہ عن ان یجعل من العلماء ھیات کھنوتیتہ تفصل و تحرم من رحمتہ اللہ
ولاشک فی ان ھذا الراء ھور راء خاص لایخرج احدا من دینہ ولا یدخل احا فی دین فمن قال >لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ< واستقبل قبلتہ المسلمین فہو مسلم ولیس من مصلحت المسلمین فی شئی تکفیر طائفتہ لطائفتہ بل ان من احسن مبادی الاسلام البعد عن التکفیر۔
و ظفر اللہ خان رجل مسلم لم نشھد علیہ الا قولا حسنا و عملا حسنا وقدارتی حظا کبیرا فی الدفاع عن الاسلام فی مشارق الارض و مغاوبھا ولہ مواقف دولیتہ مشہودہ دفاعا عن الاسلام قدرھا الناس و شکرہ المسلمون` وھو کذلک من اکفا رجال الاسلام لتولی الشئون التی تولا ھا فی مصروفی الدولتہ العثمانیتہ ایام الخلافتہ وفی دول غیر ھا فی تاریخ المسلمین رجال ینتسبون الی ادیان مخالفتہ لل سلام ومع ذلک لم یعترض احد باسم الدین علی تولیھم ھذا المناصب و بذلک یعتبر کلام المفتی فی ھذا الشان رایا شخصیا و یتحمل ھو وحدہ مسئولیتہ<
>)الاخبار< المصری ۳۲ جون ۱۹۵۲ء(
اخبار >الجمھور< المصری لکھا ہے۔
>نحب ان نوضع اتنا توافق الدکتور احمد شلبی المدرس بجامعتہ فزاد الاول فقد ارسل الینا بقول ان فتوی فضیلتہ مفتی لدیار المصریتہ کانت خدعتہ بریطانیتہ و مناورتہ من الصحف البریطانیہ التی تصدر فی مصر باللغتہ العربیہ وان المسالتہ اعمق بکثیر مما یتصور الراء العام۔
واقیقتہ الوضحتہ ھی ان الانجلیز ھالھم موقف السید ظفر اللہ خان فی الدفاع عن المسلمین و قضایاھم فی جمیع اقطار الارض وزاعجھم صوتہ الجری من اجل الاسلام و السملمین وھالھم ان تکون الباکستان یدا قویتہ تسند قضایا المسلمین فی کل مکان تبارک مصر فتعرف بلقب ذلک مصر والسودان و تصرہ علی لسان ظفر اللہ خان بان الباکستان لن تعترف باسرائیل ولواعترفت بھا الجامعتہ العربیتہ
ھذا ھو ما جعل الانجلیز یتربصون لوزیر خارجیتہ الباکستان فرسموا ھذا المناورتہ لیحر موا مصر والشرق من تابیدہ القطب الباکستانی الکبیر<
)الجمھور` المصری` ۲۱ جولائی ۱۹۵۲ء(
اخبار >المصری< نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا:۔
>اعترافت الباکستان` الدولتہ الاسلامیتہ الشقیقتہ بلقلب جلالتہ ملک مصر والسودان۔
اعترفت الباکستان بھذا القلب` وھی العوض بمجموعتہ الامم البرطانیہ الخاضعتہ للتاج البریطانی۔
وکان ھذا لاعتراف خطرہ جریئتہ تمت بفضل جھود وزیر خارجیتہ الباکستان السید ظفر اللہ خان<
وکان ھذا صنیعا جدیدا` و مکرمتہ نبیلتہ ینبغی لنا ان نقابلھا بالشکر` والاعتراف بالجمیل ولکنا مع زلک قابلناھا بمالم یکن یتوقعہ احد` اذا اعلن فضیلتہ مفتی الدیار المصریتہ ان السید ظفر اللہ خان کافر ینتحل تحلتہ باطلتہ
واننا لمشفقون علی الموقف الذی یقفہ الان سعادہ الدکتور عبدالوھاب عزام بک سفیر مصر فی کراتشی و ممثل جلالتہ ملک مصر والسودان فی الدولتہ التی اعترفت بالقلب مع انھا خاضعتہ للتاج البریطانی۔
واننا لمشفقون علی الموقف الذی یقفہ الان معالی عبدالخالق حسونہ باشا وزیر الخاریتہ المصریتہ الذی یعرف بحکم منصبہ موقف الباکستان مناومن قضیتنا` و یعرف موقف ظفر اللہ خان من مطالبنا الوظنیہ وامنینا
ومشفقون ایضا علی سعادتہ الدکتور محمد صلاح الدین باشا وزیر الخارجیہ المصریتہ الاسبق الذی وثق بظفر اللہ خان و تلقی منہ العون فی ھیتہ الامم المتحدہ
ومشفقون علی محمد علی علوبتہ باشا واحد خشبتہ باشا وغیرھما من رجال السیاسہ` ورجال العروبتہ و رجال العالم الاسلامی` الذین یعرفون ظفر اللہ خان و جہودہ فی سبیل مصر و فلسطین و تونس و غیرھا من الدول العربیتہ والاسلامیہ` انن مشفقون علی ھولا جمعیا و مشفقون علی فضیلتہ المفتی اذ ادان رجلا دون محاکمتہ` فاتھمہ بالکفر والعباذ باللہ
ولسان نشفق علی السید ظفر اللہ خان` فسیظل ھو ھو کما نعرفہ` المدافع عن قضایا الاسلام والدولتہ` والصدیق الحمیم لمصر والمصرین ` و اذا کان فضیلتہ المفتی قد اتھمہ بالکفر` فانعم بظفر اللہ خان کافرا` ومااحوجنا الی عشرات من امثالہ من الکفار الکبار۔
وبعد فما الذی تنوی الحکومتہ المصریتہ ان تفعلہ ؟ ما الاجراء الذی جیب ان تتخزہ و ما البیان الذی ینبغی ان تصدرہ` وما السیاستہ التی یجدربھا ان تنتھجھا فی المستقبل حتی ال تخسر مصر اصدقائھا القلیلین بسبب بعض کلمات طائشتہ` تقال دون رویتہ او اتزان۔
>)المصری< ۲۶ جون ۱۹۵۲ء(
دکتور ابراھم لبان بک عمید کلیتہ دارالعلوم المصری نے اس بارے میں ایک مضمون اخبار >المصری< میں شائع کیا۔ جو درج ذیل ہے۔
النحلتہ القادریانیتہ وما اعرف عنھا
انی لاسف اشد الاسف ان تنال الدول العربیتہ من شخصیتہ السید ظفر اللہ خان وزیر خارجیتہ الباکستان` الذی لم یدخر وسعا فی سبیل الذود عن حیاضہا` فتفقد بذلک ولا ھذا النابغتہ و تضعف من حمیتہ ھذا العبقری وھی احوج ماتکون الی شجاعتہ و بلاغتہ و دفاعہ المجیدہ عنھا فی حومتہ النطمال السیاسی الدولی المستعر الاورا۔
اماالنحلتہ القادیانیتہ فساقرر ماعرفہ عنھا بدقتہ تامتہ تارکا للقاری` ان یصدر علیھا حکمہ ولا اقول انی درستھا حق دراستھا ولکنی مع ذلک لم اکن مقطوع الصلتہ بھا بل کان لی شان معھا۔
قابلت المذھب القادیانی بصورہ واضحتہ لاول مرہ فی حیاتی فی لندن فی اثنساء دراستی ھناک` وکان اول مالاحظتہ ان القوم ینقسمون قسمین فطائفتہ تری ان امامھم` >احمد< القادیانی لایعدو ان یکون مصلحا اسلامیا من اولئک المصلحین الذین یبعثم اللہ من حین الی حین لیجدوا شباب الدین۔
امام الطائفتہ الاخری فتغلو فی تقدیر امامھم و تذھب الی انہ نبی` ولھا مسجد خاص فی بثنی احدا احیاء لندن` وقد حملت علی ھذہ الطائفتہ حملتہ شعواء فی ذلک الحین فقرروا ان یرسلوا الی امام المسجد لیاقشنی فاما افنعنی او افتحمتہ` وقد اجتمعنا للمناقشتہ بالنادی المصری` بلندن مرتین و دارالبحث حول نبوہ زعیمھم >احمد< القادیانی۔
فوجھت نظرہ الی ان ھذہ الفکرہ مخالفتہ لصریح القرآن فاللہ بقول >ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین<
وھذا یقط الطریق علی کل من تحدثہ نفسہ بالنوہ بعد ظہور الرسول` ولا ازال اذکر ردہ الی الان` فقد قرر انھم کغیرھم من المسلمین یومنون برسالتہ >محمد< وبان کتابھم ھو القرآن الکریم و لیس لھم کتاب سواہ و منہ یستمدون العقیدہ والشریعتہ ولکنہ فی ما اذکر اصر علی فکرہ نبوہ القادیانی ولما واجھتہ بالایتہ ملک سبیل التاویل فصرح بانھم لایکمن ان یعتنقوا عقیدہ مخالفتہ لصرح الکتاب ولکن ھذا العقیدہ لیست مخالفتہ للقرآن` فالابہ تقول انہ خاتم النبین بالفتح لاخاتمہم بالکسر` وردت الا یتہ اذا بالفتح ولوجامت بالکسر لدت دلالتہ فاطعتہ علی انہ لا نبی بعد محمد علیہ السلام۔ اما کلمتہ خانم التی وردت فی الایتہ الکریمتہ فقد ذھب یوولھا تاویلا خاصا یترک الباب مفتوحا لظھور الانبیاء ولا یوصدہ فی وجہ احد منھم۔
ثم شرح الفرق بین النبی والرسول وانھم یعتقدون انہ لارسول بعد محمد وان رسالتہ ھی الرسالتہ الدینیتہ الاخیرہ` ولکنھم یومنون ایضا بانہ من الممکن ان یظھر بعدہ انبیا تقتصر مھتمھم علی احیاء الشریعتہ وبٹ الروح فی تعالیمھا` وان القادیانی احد اولئک الانبیاء الذین جائودا لیحملوا الناس علی کتاب ربھم و شریعتہ نبیھم۔
القوم اذا متاولون لا منکرون جاحدون و حکم المناول غیر حکم الجاحد المنکر۔
و فی اعتقادی انہ لایمکن الفصل فی ھذہ المسالتہ الا بعد دراستہ علیہ مستوعبتہ لتایخھا ولاصول ھذاالمذھب العامتہ و للفروق الرئیسیتہ بینہ و بین مذھب اھل السنتہ
ومن الخیر ان یدرس الازھر النحل الدینیتہ التی ظہرت اخیرا فی بعض الممالک الاسلامیتہ دراستہ مستوعبتہ لیستطیع ان یصدر فی حکمہ علیھا و تقدیر` لھا عن علم و بصیرہ و قدیما کانو یقولون ان الحکم علی الشی >فرع عن تورہ< )المصری ۲۷ جون ۱۹۵۲ء(
خشبتہ باشا یستنکر الفتوی
>وصرح لنا سعادہ احمد خشبتہ باشا بانہ فی شدہ الالم مما قسمت الی سعادہ ظفر اللہ خان وزیر خارجیتہ الباکستان اذان معادتہ یری ان الخدمات التی اداھار السید ظفر اللہ خان للسلام و العالم العربی عامتہ و مصر خاصتہ خدمات جلیلتہ یدین لہ بھا العالم الاسلامی و مصر و اضاف سعادتہ قائلا:
>الہ لایمکن ان بنسی مواقف السید ظفر اللہ خان بجانب مصر سواء فی دورات الامم المتحدہ فی باریس` او فی الولایات المتحدہ و خاصتہ عند مارشحت مصر نفسھا لمجلس الامن۔ وقال سعادہ خشبتہ باشا ھذا کلہ فضلا عن الخدمات التی اداھا السید ظفر اللہ خان للسلام والمسلمین والتی لا تحصی` ولا یمکن الا ان تکون محل تقدیر و اعجاب من الجمیع<
واختم حدیثہ قائلا:
>اننی اشعر بان فی عنقی دینا نحو ھذا الرجل العظیم الذی ادی خدمات جلیلتہ لبلادی و اننی فی شدہ الامتعاض لھذہ الفتوی التی افتیت بصدد ھذا الرجل الکبیر<
)اخبار >الزمان< المصری ۲۵ جون ۱۹۵۲ء(
رئیس المحکمتہ العلیا الاسبق
اخبار >البلاغ< مصری کے نمائندہ سے انٹرویو کے دوران
قال صاحب الفضیلتہ الشیخ محمد ابراھیم سالم بک:۔
>تسرع منا دون شک ان تحکم علی القادیانین بالکفر` و ذلک لاننا لم تتح لنا بعد وسائل بحث ھذا المسذھب و اتجاھاتہ عن طریق کتب تعرفہ و تحدہ۔
وما دمنا لم نعرف شیاء عن ھذا المذھب فانہ یکون من الجراہ و التسرع ان نر معتنقیہ بالکفر` فھم ھم المسلمون اذن ان یقوم دلیل علی کفرھم۔
علی انی اری ان عناک نواحی توید اسلام الطائفتہ الفادیانیتہ بل توید انھم لایدعون فرصیتہ تمر الا و یبذلون کل مظاھر التائید للاسلام والمسلمین` سواء کان ذلک التائید فی الحافل الدولیتہ ام فی غیرھا۔
من ھنا نری ان الامر المولم ان یتھم سعادہ السید ظفر اللہ خان بالذات بالکفر و ھو من تعرف الرجل المتخلق بخلق الاسلام الحریص علی تقالیدہ و سننہ فی کلما یصدر عنہ
ونقد زار السید ظفر اللہ خان مصرا کثر من مرہ ورائنا یدافع عن الاسلام والمسلمین ویوازر قضایاھم متحمسا لکل ما من شانہ اعلاہ کلمتہ الاسلام واھلہ ` و ذلک لاشک ان اسلام الرجل اسلاما لا تشوبہ شائبہ<
)البلاغ المصری ۲۶ جون ۱۹۵۲ء(
امفتی الاسبق
>لیس من الجائز ولامن الھین رمی فرقہ من فرق المسلمین بالکفر` ولا یوجد من الادلتہ مایبرر القول بان القادیانیتہ بالباکستان خرجث عن الاسلام اولااری الترض بصفتہ خاصتہ لمرکز رجل سیاسی عظیم کو زبر خارجیتہ الباکستان فی دینہ و عقیتہ وھو الرجل الذی ینادی باسلام دینا` و یناضل عن الاسلام والمسلمین فی مواقف مشہودہ و یجاھر باتباع القرآن و یتمثل بہ و باحادیث محمد~صل۱~ حین قتل احد رجلا فی الحرب بعد ان نطق بالشھادتین لانہ ایقن انہ انما نطق بھاھربا من القتل فلامہ النبی~صل۱~ علی فعلہ ولم یقبل عذرہ وقال ھلا شفقت عن قلبہ۔
فیجدر بنا ان نتربث و نتدہر عواقب الامور` ولانتعجل بالتعرض لرجل کو زیر خارجتہ الباکستان فی دینہ و عقیدتہ وھو یجاھر بالاسلام و یدافع عنہ طول حیاتہ<
)البلاغ ۲۶ جون ۱۹۵۲ء(
خطاب مفتوح مفتی الدیا
ثار حضرہ صاحب الفضیلتہ الشیخ حسنین مخلوف علی السید ظفر اللہ خان وزیر خارجیتہ الباکستان` واتھمہ الاستاذ المفتی` افادنا اللہ منہ ولاحرمنا` ن واسع علمہ و فضلہ` اتھمہ فی النہابتہ بانہ کافر و زندیق۔ ولا ارید ان اتعمق فی اسباب ثورہ الاستاذ مفتی الدیار` ولا فی اسباب اتھامہ للوزیر الباکستانی بالکفر والذندقتہ ولکنی ادو ان اخرج من ھذا البحث الضیق الی بحث اوسع۔
کان علی الاستاذ المفتی قبل ان یھاجم وزیر خارجیتہ الباکستان ان یفرق بین الدین والسیاستہ۔
ثم کان علیہ بعد ھذا ان یفرق بین المسلم الباکستانی محمد ظفر اللہ خان و بین الوزیر الباکستانی السید ظفر اللہ خان۔
و وزیر ابتہ وزارہ ؟
وزارتہ خارجیتہ !
ثم کان علی الاستاذ المفتی ان یعلم شیا` او ان یطلب ممن یعلم ان یحیط فضیلتہ علما بمالا یعلمہ فضیلتہ عن الوزیر الباکستانی۔
ان ظفر اللہ خان لم یتوان عن خدمتہ مصر منذاعلنت مصر الفاء المعاہدہ و فی شھور دیسمبر و ینابر و فبرایر کنت فی باریس اثناء انعقاد دورہ ہیئت الامم المتحدہ و فی ھذہ الفترہ لمست و علمت بعض ماحاول ظفر اللہ خان ان یقوم بہ من مساع لخدمتہ القضیتہ المصریتہ و صدقونی اننی لمست اخلاص ھذا الرجل اکثر ممالمست اخلاص بعض رجالت العرب۔
ویومھا لمس الجمیع جھودہ و شکروہ علیھا الا جریدہ واحدہ ھی الاخبار >الیوم< التی ھاجمت ظفر اللہ خان ذات صباح و بلامناسبتہ` ولمصلحتہ من ؟ کلنا نعلم۔
فلنفرض ان ظفر اللہ خان کافر` ھل انتھی فضیلتہ المفتی من تعقب کفار مصر و بداء یتعقب و یحصی کفار البلاد الاخری۔
ھل انتھی فضیلتہ من محاربتہ الذندقتہ فی مصر فانتقل الی محاربتھا فی الخارج۔ ولایجدر بفضیلتہ ان یھم قلیلا بمصر بلدہ و بنفسہ` ان فضیلتہ ھو مفتی الاسلام فی مصر` و مصر حسب الدستور بلد دینہ الاسلام` وفی مرتب فضیلتہ الذی یتقاضاء کل شھر جانب لاباس بہ تحصلہ الحکومتہ من الکباریھات والخمارات` ومھمتہ الکباریہ ھی تھیتہ الجو لزانی و الزانیتہ اللذین لا یرجمان ہجر فی مصر الاسلامیتہ
علی فضیلتہ المفتی ان یارب ھذا او ذاک او علیہ علی الاقل` وھذا اضعف الایمان` ان یتنازل عن کل ملیم مرتب یحصل من ہزالارداف والبطون والتفاف الساق علی الساق۔
علی فضیلتہ المفتی ان بحارب ھذا او ذاک قبل ان یحرک علینا الدنیا بلا مناسبتہ۔
)النداء ۲۵ جون ۱۹۵۲ء(
اصبح الابرار کافرین
عبثا یجاول الشیخ مخلوف ان ینفض عن نفسہ تراب الاثم الذی اجترحہ ۰۰ و سواء اسمی خطبتہ ھذہ فتوی ام حدیثا` فقد احاطت بہ و جعلت تنحیتہ عن منصبہ حتما مفروضا علی الدولتہ اذا اردات ان تحترم نفسھا۔
ولقد آثرنا الا نعقب علی فتوی الشیخ یوم صدورھا حتی تعاون الناس علی نسیانھا بیدان الشیخ وھو بسبیل الدفاع عن سقطتہ راح یمحوالخطا بالخطا و یکفر عن الضلال بالضلال والمفتی الذی یعلم ان فی القادیانیتہ >معتدلین متزلین و برجو ان یکون ظفر اللہ خان منھم<
المفتی الذی بعلم ذلک کما قال فی یانہ المنشور >بالاخبار< یوم الخمیس۔۔ کان واجبا علیہ ان یلنم ابسط قواعد الفقہ الاسلامی التی تھیب بہ ان یتربث و یتانی قبل ان یخرج الناس من رحمتہ اللہ ودینہ
فغضیلتہ یعلم ان الرسول علیہ السلام قال لشاھد ذات یوم:
بلاغتہ و صدقہ : والرجل الذی جعل اللہ الحق علی لسانہ و قلبہ:
اذا کان ھذا الرجل کافرا فان کثیر من الابرار یودون علی ھذا النحو۔ ان یصبحوا کافرین۔
خالد محمد خالد
)الیوم ۲۶ جون ۱۹۵۲ء(
کلمتہ المصری
ظفر اللہ خان
یطلع قراء >المصری< فی غیر ھذا المکان علی تصریح لسفیر باکستان فی مصر عن تقدیرہ للصحافتہ المصریتہ و علی راسھا >المصری< الذی استطاع برایہ وبما نشرہ عن اراء المصربین من اصدقاء باکستان ان یرد عن ظفر اللہ خان رجل الشرق الکبیر` تلک الدعوی التی ماکان احد یتوقع ان تصدر ضدالرجل من مصرومن علمائھا الا جلاء۔
ولعل باکستان لم تکن تعرف قبل تلک الدعوی ان مصر تکن لھا الحب من شغاف القلوب` الغاطفتہ من اعماق الضمیر` ولاخوہ الدولیتہ التی تتکون من وحدہ الا ھداف والمصیر` و قد صدق العرب حین قالوا ! رب ضارتہ نافعتہ۔
علی ان مکانتہ ظفر اللہ خان لا یقدرھا اصدقاء الباکستان من المصربین لان الرجل من اصدق انصار القضیتہ المصریتہ فی المحافل الدولیتہ وحسب` ولا لان الرجل احد الرجال العالمین الکبار الذی شغل نفسہ و وقتہ` بل ووطنہ فی سبیل مناصرہ الشقیقہ مصر` و مناطحتہ الستعمار علنا و جھارا ہل لصفات کثیرہ تترکز فی الرجل و تجعلہ یحق من الذین لاتقال فیھم کلمتہ الا یقدر و الا بمیزان۔
ان ظفر اللہ خان احد رجال الدولتہ الاسلامیتہ القلائل فی العصر الحدیث` بل ھو فی الصدارہ منھم ! فھو الرجل الذی درس السیاستہ ولم بسلک سبیلہ فیھا علی قواعد سیاستہ نظریتہ` وانما اخضع ثقافتہ الساسیتہ لکفرہ القرآن ` ولنظرہ الاسلام فی تکوبن الدولتہ وسار بمنھاجہ العصری الفرید الذی یجمع بین الذی یجمع بین آراء العصر و نظرہ الاسلام۔
وظفر اللہ خان ` ھو الرجل الذی درس القتصاد` و وازن مالیتہ امتہ کبیرہ العدد` کبیرہ الغایات والا` غراض` قریبتہ عھد الانسلاخ میں دولاب الاستعمار الاقتصادی المجردہ` وانما ھو قد اخض ثقفتہ الاقتصادیتہ لتعالیم الاسلام` و نظرتہ الشاملتہ فی بناء الدولتہ الاسلامیتہ من حیث حقوق الافراد و واجباتھم نحود الدولتہ` و موازنتہ ذلک بحقوق الدولتہ و واجباتھا نحو الافراد۔
و ظفر اللہ خان` ھوالرجل الذی تسلیم رایتہ الدولتہ و سیاستہ البکاستان الخارجیتہ من رجلیھا الکبرین` محمد علی جناح` و لیاقت علی خان` فسار علی نھجھما الاسلامی` و رغبتھما فی دفع الدولتہ الولیدہ سیاسیا` الریقتہ تاریخا` نحو حضارہ العصر الحاضر` مع الابقاء علی سمات الدولتہ الاسلامیتہ` دینا و تقلید و تعالیماو استطاع الرجل ان یحافظ علی منھاج رجلی الباکستان` بل و یعلی من شانہ۔
ومان کان لرجالات العالم السیاسین` فی اوربا وامریکا ان یقدروا للرجل قدرہ` مجاملتہ` او تظاھر بالمجاملتہ` وانما لعرفانھم قدرہ` ووقوفھم علی الشفافتہ الضاربتہ من کل الافاق بوعیہ وادراکھم لہ علی انہ رجل یحمل بین طوایاہ روح الشرق الکبیر` و فکرہ حاضر الدنیا الجدیدہ التی تنشد السلام` مماجعل الرجل یمثل فکرہ الکتلتہ الثالثتہ بین الکتلتین الممتازعین۔
ھذا ھو ظفر اللہ خان الذی اتھم بالکفر مع انہ کان قیوم من مقعدہ فی ہیتہ الامم اذا حان وقت فرض من فروض الصلاہ فیبحث عن مکان منزول فی قاعتہ الھیتہ یرکع فیہ للہ مبتھلا الیہ ان بنصرامتہ الاسلام <!
)المصری ۲۷ جون ۱۹۵۲ء(
‏tav.13.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
مفتی مصر کے فتویٰ سے لیکر حضرت مصلح موعود کے پیغام تک
مفتی مصر کے لقب کی منسوخی کا مطالبہ
مفتی مصر کے فتویٰ پر صرف تنقید ہی نہیں کی گئی بلکہ مشور ومعروف مصری مصنف ڈاکٹر احمد ذکی بک نے مطالبہ کیا کہ >مفتی مصر< کے لقب کو حکومت آئندہ کے لئے منسوخ قرار دے دے۔ آپ نے کہا:۔
مفتی مصر نے کس حیثیت سے خارجی مسائل و معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق >کفر< کا فتویٰ صادر کیا ہے ؟ اور اسے حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے موصوف کی اس عہدہ جلیلہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کرے جب کہ پاکستان ایک علیحدہ آزاد خود مختار مملکت ہے؟
اس نے ہزارہا میل دور بیٹھ کر یہ مطالبہ سننے اور سنانے کے بغیر کیا ہے اور اس طرح مذہب کے نام پر سب سے بڑی اسلامی حکومت کی پوزیشن کو نازک بنایا ہے۔ میں پوچھتا ہوں >ومن اعطاہ حق الافتاء<؟ کس شخص نے مفتی کو فتویٰ کا حق دیا ہے اور کسی شخص نے مفتی کو مذہب کے نام پر تمام دنیا کے متعلق رائے ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے۔ کیا مصر ہی صرف ایک اسلامی حکومت ہے اس کے سوا اور کوئی حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے؟ اور کیا صرف مفتی مصر ہی دنیا میں ایک مفتی ہے اور اس کے سوا اور کوئی مفتی نہیں ہے؟
وفی ای رجل افتی ؟ فی رجل صنع للسلام والمسلمین مالم یصنعہ المفتی ولن یصنعہ ولوعاش مثل عمرہ الحاضر اس نے کس عظیم المرتبت شخص کے متعلق یہ فتویٰ دیا ؟ ہاں اس شخصیت عظیمہ کے متعلق جس نے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے وہ کام کیا ہے جو نہ مفتی کرسکا ہے اور نہ آئنہ کرسکے گا خواہ وہ اپنی موجودہ عمر کے برابر بھی زندہ ہے۔
ان تمام وجوہات کی بناء پر ہم مطالبہ کرتے ہیں:۔
اول:۔ >مفتی الدیار< کے لقب کے منسوخی کا۔ کیونکہ وہ ایک فرد کی حیثیت سے >ڈکٹیٹر شپ< کی نمائندگی کرتا ہے جس کی دین میں کوئی سند نہیں ہے۔
دوم:۔ مجلس افتاء کے توڑنے کا` ہاں اس مجلس کو مختلف علمی امور کی تحقیقات کے ایسے حلقے میں بدل دیا جائے جس کا فیصلہ نہ تو کسی کو ملزم بنائے اور نہ ہی کسی مسلمان کو کافر ٹھہرائے۔
سوم:- ازہر یونیورسٹی کے ایک سو نوجوانوں کو یونیورسٹی سے فراغت کے بعد علوم جدیدہ کی تحصیل کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ علاقوں میں بھیجا جائے تاکہ ازہر یونیورسٹی کو جدید لباس پہنایاجاسکے اور اس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کی تدریس کا بھی انتظام ہوسکے۔ یہ تبدیلی دور رس نتائج کی حامل ہونی چاہئے تاکہ >الازھر< علمی لحاظ سے ایک جدید یونیورسٹی کی شکل اختیار کرے جس میں صحیح خطوط پر آزادانہ بخشیں ہوں اور اس طرح دین قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ~ کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور اسے محض علماء کی سند کی بجائے عقل کی تائید بھی حاصل ہو۔ ۲۰
مفتی مصر کا بیان
مفتی مصر کو مصری پریس اور شخصیتوں کے احتجاج اور مذمت پر اپنے فتویٰ کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر یہ بیان دینا پڑا:۔
>ان ما نشر لیس بضوی رسمیتہ ولیس لھا رقم فی سجل خاص وانما ھی مجرد حدیث دار فی مجلس خاص یتضمن رای فضیلتہ فی ھذہ المسئلتہ<۲۱
یعنی شائع شدہ بیان سرکاری فتویٰ نہیں ہے اور نہ اس کا اندراج خاص رجسٹر میں ہوا ہے اس کی حیثیت ایک نجی مجلس کی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں اور مسئلہ مذکورہ میں محض ایک شخص رائے کی ہے۔
مفتی مصر نے ایک اور بیان میں کہا:۔
>انہ فوجی بنشر حدیثہ محرفا ومنسوبا الیہ بوصفہہ الرسمی وباعتبارہ فتوی صدرت عنہ<۲۲
یعنی اچانک اس کی گفتگو محرف و مبدل کر کے اور اسے فتویٰ ظاہر کر کے شائع کی گئی ہے۔
مفتی مصر کو پنشن دیدی گئی۔
بالاخر مفتی حسنین محمد مخلوف ریٹائرڈ کردیئے گئے۔ اخبار المصور )۱۲ مارچ ۱۹۵۴ء( نے لکھا:۔
>فی الاسبوع الماضی احیل فضیلتہ الاستاذ الشیخ حسنین محمد مخلوف مفتی الدیار المصریہ ال المعاش بعد ان اثار اکثر من مشکلتہ و اکثر من ازمتہ۔<
یعنی گزشتہ ہفتہ شیخ حسنین محمد مخلوف کو پنشن دے دی گئی ہے انہوں نے بہت سی مشکلیں اور الجھنیں پیدا کردی تھیں۔
نیز بتایا:۔
>ولم تکن فتاوی الاستاذ الشیخ مخلوف عادیتہ یمرء لیھا الانسان مرالکرام بل ان کثیرا منھا اثار روائح و عواصف وکان موضوع القیل والقال و فی مقدمتہ ھذہ الفتاوی فتواہ فی شان الطائفتہ القادیانیتہ<۲۳
یعنی الاستاذ الشیخ مخلوف کے فتاویٰ ایسی معمولی حیثیت کے نہ تھے جن کو انسان باسانی نظر انداز کردے بلکہ ان کے اکثر فتوے آندھیاں اٹھانے اور طوفان برپا کرنے کا موجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر ہر جگہ اعتراضات کی بوچھاڑ کی گئی۔ ان قابل اعتراض فتاویٰ میں سرفہرست قادیانی جماعت سے متعلق فتویٰ ہے۔
شاہ فاروق مصر کا عبرتناک انجام
الشیخ حسنین محمد مخلوف تو دو سال کے بعد پنشن یاب ہوئے مگر شاہ فاروق کی نسبت خدائے ذوالجلال کا آسمانی فیصلہ اس نام نہاد فتویٰ کے چند دن بعد ہی نافذ ہوگیا یعنی ۲۲۔۲۳ جولائی ۱۹۵۲ء کی شب کو مصری افواج نے لیفٹیننٹ جمال عبدالناصر کی قیادت میں بغاوت کردی۔ مصر و سوڈان کے اس مطلق العنان بادشاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور عسکری انقلاب کے بعد جنرل محمد نجیب مصر کے سربراہ مقرر ہوئے۔
جنرل محمد نجیب نے بادشاہ کو معزول اور ملک بدر کرنے کے لئے حسب ذیل العمایہ جاری کیا:۔
>انہ نظرا الما لافتہ البلاد فی العھد الاخیر من فوضی شاملتہ عمت جمیع المرافق نتیجتہ سوء تصرفک و عبثکم بالدستور وامتھانکم لارادہ الشعب حتی اصبح کل فرد من افوادہ لایطمن علی حیاتہ اومالہ اوکرامتہ۔
ولقد سائت سمعتہ مصربین شعوب العالم من تمادیکم فی ھذہ المسلک حتی اصبح الخونتہ والمرتشون یجدون فی ظلکم الحمایتہ ولامن والثراء الفاحش والاسراف الماجن علی حساب الشعب الجائع الفقیر ولقد تجلت ایتہ ذالک فی حرب فلسطین وماتبعھا من فضائح الاسلحتہ الفاسدہ وماترتب علیھا من محاکمات تعرضت لتدخلکم السافر ! مما افسد الحقائق وزرعزع التقتہ فی العدالتہ وساعد الخونتہ علی ترسم ھذہ الخط۔ فاثری من اثر۔ وفجرمن فجر۔ وکیف لاء ؟ والناس علی دین ملوکھم ! لذالک قدفوضنی الجیش المثل لقوہ الئعب ان اطلب من جلالتکم التنازل عن العرش لسموولی عھدکم الامیر احمد فواد علی ان یتم ذالک فی موعدغایتہ الساعتہ الثانیتہ عشر من ظھر الیوم )السبت الوافق ۲۶ یولیو ۱۹۵۲ء والرابع من ذی القعدہ ۱۳۷۱( و مغادرہ البلاد قبل الساعتہ السادستہ من مساء الویم نفسہ والجیش یحمل جلالکم کل مایترتب علی عدم النزول علی رغبہ الشعب من نتائج۔
فریق )ارکان حرب( محمد جیب القائد العام اللقوات المسلحتہ الاسکندریتہ فی یوم ۲۶ یولیو سنتہ ۱۹۵۲ء۔<
)ترجمہ( ان آخری ایام میں یہ دیکھتے ہوئے کہ ملک میں عام افراتفری پھیل گئی ہے جس نے زندگ کے تمام شعبوں پر اثر ڈالا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کے ناجائز تصرف اور آئین کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں ہے۔ عوام کی خواہش کو نظر انداز کیا گیا ہے یہاں تک کہ ہر فرد اپنی جان` مال اور عزت کو بھی محفوظ نہیں سمجھتا۔ آپ کی بے جا زیادتیوں کی وجہ سے جملہ اقوام عالم میں مصر کے وقار کو نقصان پہنچا ہے۔ آپ کے زیر سایہ خائن` رشوت خور اشخاص ناجائز حمایت بے جا اسراف اور ثروت کا ناجائز اور اندھا دھند استعمال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مفلس اور غریب مصری عوام کے خزانہ سے ہورہا ہے۔ یہ کوائف جنگ فلسطین میں منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ ناقص اسلحہ کی خرید و فروخت کے رسوا کن واقعات عدالتوں کے فیصلے جن میں آپ کی شرمناک مداخلت سے حقائق پر پردہ پڑتا رہا` اعتماد اور انصاف کی بے حرمتی ہوئی` مجرموں کو جرائم کے ارتکاب کے لئے حوصلہ افزائی ہوئی` کئی لوگ بے تحاشا دولت مند ہوگئے اور بدکرداری میں حد کردی۔ اور ایسے حالات کیوں نہ رونما ہوتے جب کہ عوام اپنے بادشاہوں کی عادات و خصائل کو ہی اختیار کرتے ہیں۔
ان حالات کی وجہ سے فوج نے جو دراصل عوام کے اقتدار کی نمائندہ ہے مجھے اختیار دیا ہے کہ میں جلالتہ الملک سے مطالبہ کروں کہ آپ ہفتہ کے دن ۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء کو بارہ بجے دوپہر لعیہد شہزادہ احمد فواد کے حق میں دستبردار ہوجائیں اور اسی روز چھ بجے شام سے پہلے اس ملک کو چھوڑ دیں ورنہ فوج عوام کی خواہش سے انکار کے جملہ نتائج کی ذمہ دار آپ کو قرار دے گی۔
محمد نجیب کمانڈر انچیف مسلح افواج )اسکندریہ ۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء(
مصری حکومت نے سابق شاہ کی تمام جائیداد و املاک پر قبضہ کر لیا اور فاروق کو نوٹس دے دیا گیا کہ وہ اپنی جائیداد میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتے۔ اور ان کی تمام خواہشات کو رد کردیا گیا۔ شاہ کی ذاتی ملکیت مصر میں دو لاکھ ایکڑ سے زیادہ تھی اور اس کے علاوہ وہ دو کروڑ پونڈ کی دولت کے مالک تھے جو امریکہ اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع تھی۔ شاہی محل میں ایک کمرہ جو قیمتی جواہرات سے لبالب تھا` کئی محلات` قسماقسم کے پھلوں کے باغات` یب سب کچھ بحق سرکار ضبط کر لئے گئے اور شاہ فاروق نے اپنے ہاتھ سے پروانہ معزولی یوں تحریر کیا:۔
>امر ملکی رقم ۵۶ لسنتہ ۱۹۵۲ء انحن فاروق الاول ملک المصوو السودان لما کنا نتطلب الخیر دائما لامتنا` ونبتغی سعادتھا و وقیھا و کنانرغب رغبتہ اکیدہ فی بحنیب البلاد المصاعب التی تواجھھا فی ھذہ اظروف الدقیقتہ و نزولا علی ارادہ الشعب۔
قدرنا النزول عن العرش لولی عہدنا الامیر احمد فواد وصدرنا امرنا بھذا الی حضرہ صاحب المقام الرفیع علی ماھر باشا رئیس مجلس الوزراء للعمل بمقتضاہ
صدر بقصرر راس فاروق التین فی ۴ من ذی العقعدہ سنتہ ۱۳۷۱۔۲۶ تولیو سنتہ ۱۹۵۲ء< ۲۴
)ترجمہ( شاہی فرمان نمبر ۵۶ ۱۹۵۲ء ہم ہیں فاروق الاول شاہ مصر و سوڈان۔ چونکہ ہم ہمیشہ اپنی رعایا کی بہبود` خوشحالی اور ترقی کے خواہش مند رہے ہیں اور ہماری یہ انتہائی خواہش رہی ہے کہ ملک کو مشکلات سے ان نازک حالات میں مفوظ رکھا جائے جن سے آج کل وہ دو چار ہے۔ لفہذا عوامی خواہش کے مطابق ہم نے تخت شاہی چھوڑنے اور ولی عہد احمد فواد کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم علی ماہر پاشا اس سلسلہ میں کارروائی کریں۔
فاروق
راس التین کے محل سے پروانہ معزولی
۲۶۔ جولائی ۱۹۵۲ء کو جاری کیا گیا۔
جلا وطنی کا دردناک منظر
شاہ فاروق اپنی معزولی پر دستخط کرنے کے بعد بوقت شام سکندر سے اپنے بحری جہاز میں بیٹھ کر اٹلی روانہ ہوگئے جہاں ۱۳ برس تک گم نام زندگی بسر کرنے کے بعد ۱۸ مارچ ۱۹۶۵ء کو اگلے جہان سدھار گئے۔ مصر سے ان کی روانگی کا نظارہ نہایت درد انگیز اور عبرتناک تھا۔ ملک کو الوداع کہتے وقت شاہ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور انہوں نے اپنا چہرہ شرم کے مارے ڈھانپ لیا۔ شاہ اس وقت حسرت ویاس اور مایوسی کی تصویر بنے ہوئے تھے اور زبان حال سے حضرت مہدی موعودؑ کے مندرجہ ذیل حقیقت افروز عربی اشعار کی عملی تصدیق کررہے تھے کہ ~}~
یا مکفری ان العواقب للتقی
فانظر مال الامر کالعقلاء
ان راک تمیس بالخیلا
انیت یوم الظعن والاسراء
تب ایھا الغالی و تاتی ساعتہ
تمسی تعض یمینک الشلاء۲۵
)ترجمہ( اے میری تکفیر کرنے والے ! عاقبت تو متقی کی ہے پس دانشمندوں کی طرح آخری انجام پر نظر رکھ۔ میں دیکھتا ہوں کہ تو مٹک کر ناز سے چلتا ہے کیا تو نے کوچ کے دن اور شام کو روانگی کو بھلا رکھا ہے؟ اسے حد سے گزرنے والے توبہ کر !! وہ گھڑی آنے والی ہے کہ تو اپنے شل ہاتھ کو دانتوں سے کاٹے گا۔
مصریوں کا ردعمل اور تاثرات
شاہ فاروق کی دستبرداری کی خبر مصر ریڈیو نے نشر کی تو ملک بھر میں بہجت و شادمانی کی ایک لہر دوڑ گئی ۲۶ حتیٰ کہ برطانیہ میں رہنے والے اکثر مصری باشندوں نے بھی شاہ کا تختہ الٹنے پر اظہار مسرت کیا۔ نیز یہ رائے دی کہ شاہ کے خود عرض اور مطلب پرست حواری ہی شاہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غیر ممالک میں مصر کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کا موجب بنے ہیں۔ ۲۷
سابق وزیراعظم حسین سری پاشا کے داماد ڈاکٹر محمد ہاشم پاشاہ نے شاہ فاروق کی پرائیویٹ زندگی کی تفاصیل بے نقاب کیں جن میں ان کی عیش پرستی` رات کی زندگی` سرکاری کام میں مداخلت اور بددیانت افسروں سے میل ملاپ پر روشنی ڈالی۔۲۸ رائل آٹو بائل کلب کے صدر شہزادہ عباس حلیم )شاہ کے بھتیجے( کے حکم سے کلب کے ان کمروں کو بند کردیا گیا جن میں شاہ مصریوں کے ساتھ ایک رات میں لاکھوں پائونڈ کا جواء کھیلتے تھے۔ ۲۹
وفد پارٹی کے لیڈر مصطفیٰ نحاس پاشا اور سیکرٹری جنرل فواد سراج الدین پاشا نے انکشاف کیا کہ شاہ فاروق وفد پارٹی کو ختم کرنے کے لئے برطانوی استعمار پسندوں کے اشارات پر اخبارات کو مالی امداد دیتے رہے۔ ۳۰
اخبار >المصری< نے لکھا کہ شاہ فاروق کی بے پروائی اور ان کا تشدد ان کے اس حسرت ناک انجام کا باعث بنے ہیں اور ہمارے سینوں سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا ہے۔
>الاخبار< نے لکھا آج تاریخ کے ظالم اور جابر بادشاہوں کی فہرست میں شاہ فاروق جیسے ظالم اور تنگ دل بادشاہ کا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔ فاروق ایک ایسا بادشاہ تھا جس نے اپنے عوام پر بے انصافی` بددیانتی اور تشدد سے حکومت کی جس نے انصاف اور آزادی کو کچلنے کے لئے شہنشاہیت کو تازیانے کے طور پر استعمال کیا اور جس نے مصر پر غلامی اور افلاس کو مسلط کیا۔ شاہ فاروق کو عوام نے تخت چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ ان کی کرتوتوں اور بدعنوانیوں نے انہیں تخت سے محروم کردیا۔ ۳۲۳۱
حضرت مہدی موعودؑ کی پیشگوئی
حضرت مہدی موعودؑ فرماتے ہیں:۔
>نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہوجائے گا مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت نہیں کہ اس کو محو کرسکے وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے ؟ پس یقیناً سمجھو صادق ضائع نہیں ہوسکتا وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھیرتا ہے۔ بدقسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے۔< ۳۳
~}~
مے دہم فرعونیاں راہ زماں
چوں ید بیضائے موسیٰ صد نشاں
زیں نشا نہا بدرگاں کو رو کراند
صد نشان جنند و غافل بگذرند
>حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ کا مکتوب مصری اخبار >الیوم< کے نام
یایھا الذین امنوا ان جائکم فاسق بنیا فتبینوا ان تصیبرا قوما بجھالتہ فتصبحوا علی ما فعلتم ندمین ۳۵
مکرمی ایڈیٹر صاحب اخبار >الیوم<
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آپ کے اخبار مورخہ ۲۶ جون ۱۹۵۲ء میں مکرم شیخ حسنین محمد مخلوف مفتی دیار مصری کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ احمدیون میں کچھ غالی ہیں اور کچھ معتدل غلو کرنے والے وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے اور انہوں نے ظاہر کیا ہے کہ شاید ظفر اللہ خاں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو غالی نہیں ہیں۔ میں بحیثیت امام جماعت احمدیہ ہونے کے اور بحیثیت اس کے ظفر اللہ خاں بھی میرے اتباع میں سے ہیں سب سے زیادہ اس بات کا حق رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کو عمومی طور پر اور ظفر اللہ خاں کے عقائد کو بحیثیت اپنے قلمیذ کے خصوصی طور پر بیان کروں۔ پس میں یہ مضمون اپ کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھجوارہا ہوں کہ آپ اس مضمون کو اپنے اخبار میں شائع کردیں تاکہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ بھی معلوم ہوجائے۔ چونکہ آپ کا اخبار سیاسی اور عام امور کے ساتھ تعلق رکھنے والا اخبار ہے اس لئے میں مذہبی تفاصیل میں نہیں جائوں گا صرف واقعات اور عقائد کے بیان تک محدود رہوں گا۔ یہ میں اس لئے کہتا ہون کہ تا کسی شخص کو یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ انہوں نے اپنے عقیدے کی دلیل نہیں بیان کی۔ جس شخص کے دل میں دلیل اور توجیہہ معلوم کرنے کا شق ہو وہ براہ راست مجھے خط لکھ کر ان سوالات کا جواب حاصل کرسکتا ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں۔ میں مفتی مصر کی شخصیت کا پورا احترام کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کاش آپ اپنا اعلان شائع کرنے سے پہلے مجھ سے یا ظفر اللہ خاں سے پوچھ لینے کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے عقیدہ کسی شخص کا وہی ہوسکتا ہے جو وہ خود بیان کرتا ہے کسی دوسرے شخص کا حق نہیں کہ وہ کسی شخص کی طرف اپنی طرف سے عقیدہ نکال کر منسوب کرے۔ یہ دعویٰ کہ احمدی رسول~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں سمجھتے۔ یہ محض احمدیوں کے دشمنوں کا پراپیگنڈا ہے ہم اس عقیدہ کے قائل ہیں رضیت باللہ ربا و بمحمد رسولا و بالا سلام دینا ہم قرآن شریف کو سورہ فاتحہ کی بسم اللہ کی ب سے لے کر سورہ والناس کی آیت من الجنتہ والناس تک تمام کا تمام صحیح محفوظ اور ابدالاباد تک قابل عمل سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم کی سورہ احزاب میں صاف طور پر آنحضرت~صل۱~ کی نسبت آتا ہے ولکن رسول اللہ و خاتم النبین قرآن مجید میں نسخ کا قائل تو شاید یہ کہہ دے کہ یہ آیت منسوخ ہے مگر ہم تو قرآن مجید کے بین الدقتین کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو بھی اس میں ہے وہ قابل عمل ہے اور اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں اور خاتم النبین تو عقائد میں سے ہے اور عقائد واقعات کے متعلق تمام آئمہ اہل سنت کا اتفاق ہے کہ ان میں ناسخ و منسوخ کا قاعدہ جاری نہیں۔ پس کسی صورت میں بھی ممکن نہیں کہ ہم خاتم النبین کے منصب کے منکر ہوں جو محض اس منصب کا منکر ہوگا اسے لکن رسول اللہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیونکہ یہ دونوں منصب ایک آیت میں اکٹھے کئے گئے ہیں۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور یہ وہ عقیدہ ہے جس کو ہم دل میں یقین کرتے ہیں۔ ہم اسی عقیدہ پر انشاء اللہ زندہ رہیں گے اسی عقیدے پر مریں گے اور اسی پر انشاء اللہ اٹھائے جائیں گے۔ اگر میں اپنے اس بیان میں جھوٹ سے ` یا اخفاء سے یا تمدیہ سے` کام لے رہا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ لعنتہ اللہ علی الکاذبین کے وعدے کو میرے حق مین جاری کردے اور اگر میں اور میری جماعت اس عقیدے کے اظہار میں سچ سے کام لے رہے ہیں تو میں الزام لگانے والے کے لئے بدعا نہیں کرتا میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ سچ اس کی زبان پر جاری کرے اور سچ اس کے دل میں قائم کرے اور اسے توفیق بخشے کہ وہ کونوا مع الصدقینbody] ga[t کے ارشاد پر عمل کرنے والا ہو۔
اے اہل مصر ! آپ کی تہذیب بہت پرانی ہے۔ آپ کا تمدن بہت قدیم ہے جس کا کچھ حصہ تاریخی زمانہ سے بھی پہلے کا ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اتنی پرانی تہذیب اور پرانے تمدن کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ایک ایسی قوم پر الزام نہ لگنے دیں جو آپ کے ملک سے سینکڑوں میل دور بیتھے ہے اور جو ان الزاموں کے دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتی جو اس کے پس پشت اس پر لگائے جاتے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ میرا یہ بیان بھی مصر کے کسی اخبار میں شائع ہوسکے گا یا نہیں۔ لیکن میں اس یقین کے ساتھ اس بیان کو بھجوا رہا ہوں کہ مصر کی روح انصاف` مقامی اور ذاتی حد بندیوں سے آزاد ہو کر ضرور اس آواز کو اپنے اہل ملک تک پہنچا دے گی جو صرف ایک تکلیف دہ الزام سے اپنی برات کرنا چاہتی ہے مفتی صاحب کے مضمون کے ساتھ بعض اور مضامین بھی مصر کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ سلسلہ احمدیہ نے کوئی نیا قبلہ بنایا ہے اور یہ کہ جماعت احمدیہ اپنے آپ کو کسی اور نبی کا امتی قرار دیتی ہے۔ میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں بالکل اتہام ہیں۔
ہم مکہ مکرمہ میں واقعہ کعبہ کو ہی اپنا قبلہ سمجھتے ہیں۔ قادیان کے احترام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہمارا قبلہ ہے۔ مسلمانوں کے لئے سینکڑوں مقامات قابل احترام ہیں۔ ہم سب لوگ بیت المقدس کو محترم سمجھتے ہیں۔ کیا بیت المقدس ہمارا قبلہ ہے ؟ اہل مصر خصوصاً اور سب مسلمان عموماً ازہر کو علوم اسلامیہ کی تعلیم و تدریس کا ایک بڑا مرکز سمجھتے ہیں اور اس کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ کیا اہل مصر اور ہم لوگ ازہر کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں ؟ قبلہ تو وہ ہے جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے اور ہم سب نماز خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں اور اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح قرآن ` حدیث اور سنت نے بیان کیا ہے۔ خانہ کعبہ کا ہم حج کرتے ہیں۔ میں نے بھی خانہ کعبہ کا حج کیا ہے اور دوسری دفعہ حج کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ پس یہ ہرگز درست نہیں کہ ہم خانہ کعبہ کے سوا کسی اور مقام کو قبلہ قرار دیتے ہی۔ اسلام کا قبلہ اور ہمارا قبلہ وہی ہے جو رسول اللہ~صل۱~ کی زبان سے قرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے اور قیامت تک وہی قبلہ رہے گا۔
اسی طرح یہ امر بھی درست نہیں ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ~صل۱~ کے سوا کسی اور کا امتی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ تھا کہ وہ رسول~صل۱~کے امتی ہیں اور اس پر فخر کرتے تھے تو پھر ہم لوگ کس طرح کسی اور کے امتی ہوسکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم رسول اللہ~صل۱~ کے ہی امتی ہیں اور ہمارے سلسلہ کے بانی بھی محمد~صل۱~ کے امتی تھے اور ان کے دعویٰ کے مطابق انہیں جو کچھ ملا محمد~صل۱~ کے امتی ہونے کی وجہ سے ملا پس ہم محمد~صل۱~ کے امتی ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اسی مقام پر زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اسی مقام میں مرنا چاہتے ہیں اور اسی مقام پر دوبارہ اٹھنا چاہتے ہیں۔ بانی سلسلہ احمدیہؑ فرماتے ہیں:۔
‏nsk] ga[tوموتی بسبل المصطفی خیر میتہ ۔ فان فزتھا فساحشرن بالمقتدی ۳۶
آنحضرت~صل۱~ کی راہ میں میری موت بہترین موت ہے۔ اگر میری یہ آرزو پوری ہوئی تو مجھے اپنے پیشوا کے ساتھ ہی اٹھایا جائے گا۔
انا نطیع محمدا خیر الوری نور المیمن دافع الظلماء ۳۷
ہم محمد~صل۱~ کی` جو تمام جہان سے بہتر ہیں فرمانبرداری کرتے ہیں۔ آپ~صل۱~ دنیا کی حفاظت کرنے والے خدا کے نور ہیں اور تمام اندھیرے آپ کی بدولت دور ہوتے ہیں۔
اور جو کوئی اس کے خلاف ہمارے متعلق کہتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے خدا تعالیٰ اس پر رحم کرے اور خدا تعالیٰ اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی قبیح عادت سے بچائے۔
ہمارے متعلق یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم جہاد کے منکر ہیں۔ یہ درست نہیں۔ جہاد کا حکم قرآن کریم میں ہے اور قرآن کریم ہماری نزدیک غیر منسوخ ہے پھر ہم جہاد کو کس طرح منسوخ کرسکتے ہیں ؟ جہاد کے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے وہ بعد ہندوستانی ملائوں کے عقیدہ کے خلاف لکھا ہے جن کے نزدیک اکا دکا گیر مسلم مل جائے تو اسے قتل کردینا یا جبراً کسی سے کلمہ پڑوا لینا یا اپنی ہمسایہ قوموں سے بلا کسی ظہور فساد کے لڑ پڑنا جہاد کہلاتا ہے۔ اس عقیدہ سے اسلام دنیا میں بدنام ہورہا ہے اور بدنام ہوچکا ہی۔ مصر کے تمام بڑے مصنف جہاد کی اس تشریح میں ہم سے متفق ہیں۔ ہمارے نزدیک جو جہاد قرآن کریم میں پیش کیا گیا ہے اس کے بغیر کوئی آزاد قوم دنیا میں محفوظ نہیں رہ سکتی۔ مذہبی اور سیاسی طور پر ان شرائط کے ساتھ ظالم سے لڑنا جو قرآن مجید نے بیان کئے ہیں ایک ایسا ضروری امر ہے کہ جس کے بغیر حریت ضمیر اور بلاد قائم ہی نہیں رہ سکتی۔ ہم اس جہاد کے صرف قائل ہی نہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ ہم تو بربریت اور فوزویت ۳۸ کے مخالف ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کا فرمان ہے الامام جنتہ یقاتل من وراء ہ۳۹
ہماری طرف یہ بھی منسوب کیا گیا ہے کہ ہم تناسخ کو مانتے ہیں اور شاید یہ عقیدہ اس امر سے مستنبط کیا گیا ہے کہ ہم بانی سلسلہ کو مسیح کہتے ہیں۔ یہ الزام بھی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ ہم تناسخ کے منکر ہیں اور خودبانی سلسلہ نے تناسخ کے عقیدہ کا اپنی کتابوں میں رد کیا ہے۔ ہمارا عقیدہ صرف یہ ہے کہ مسیح موعود جس کی آمد کی خبر انجیلوں میں دی گئی ہے یا حدیثوں میں ہے اس سے مراد مسیح ناصری نہیں ہے جس کے متلعق قرآن مجید فرماتا ہے یاعیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطھرک من الذین کفروا و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو الی یوم القیامتہ ۴۰ بلکہ جیسا مسیح نے خود یوحنا کو ایلیا کا نام دیا ہے اسی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ اس امت میں سے عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں ایک ایسا شخص کھڑا ہوگا جو اسلام کی طرف سے عیسائیت کے ساتھ علمی و روحانی جنگ لڑے گا نہ یہ کہ مسیح کی روح اس میں حلول کر جائے گی۔ ایک بات ہماری طرف یہ بھی منسوب کی گئی ہے کہ ہم ہندوستان کو فتح کر کے ساری دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ مجھے تعجب ہے کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی کو ہماری طرف یہ بات منسوب کرنے کی جرات کیسے ہوئی ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں یہ پیشگوئیاں موجود ہیں کہ ہم پھر قادیان میں اکٹھے ہوں گے لیکن یہ بات تبلیغ سے بھی ہوسکتی ہے اور یہ بات پاکستان اور ہندوستان کے باہمی سمجھوتہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۴۱ مفسرین ۴۲ کہتے ہیں کہ یہ آخری زمانہ کے متعلق ہے کیونکہ جمیع ادیان پر غلبہ پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوا تو کیا ان آیات کے یہ معنی کئے جائیں کہ مصر` شام یا سعودی عرب یا پاکستان یا کوئی اور اسلامی مملکت یا ارادہ کررہی ہے کہ باری باری چین` جاپان` روس اور جرمنی پر حملہ کر کے انہیں فتح کریں گے- اور ساری دنیا میں اسلام کو غالب کردیں گے ؟ خدا تعالیٰ نے اسلام کے متعلق ایک خبر دی ہے اور مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی دوسری اقوام پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ وہ اس خبر کے پورا ہونے کی تفصیلات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے اس طرح قادیان میں احمدیوں کے لئے آزادی حاصل ہونے کی پیشگوئی موجود ہے لیکن وہ ہوگی انہی ذرائع سے جو قرآن مجید کے نزدیک جائز ذرائع ہیں۔ اور قرآن کریم کسی ایسی قوم کو دوسرے ملک سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جس کے پاس حکومت نہیں۔ وہ اسے فساد قرار دیتا ہے۔ پس ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے مجانین نہیں جو اس قسم کے خیالات کو اپنے دل میں جگہ دیں۔ ہم یہ جائز نہیں سمجھتے کہ بغیر اس کے غیر قومیں ہم سے لڑیں ہم ان سے خود ہی جنگ شروع کردیں- یہ مغربی حکومتوں کا حصہ ہے اور انہیں کو مبارک رہے۔ اسلام نے کبھی بھی اپنی حکومت کے زمانہ میں اپنے کمزور ہمسایہ پر دست درازی نہیں کی۔ وسطی اور جنوبی افریقہ کے وسیع علاقے اس بات کے شاہد ہیں کہ شمالی افریقہ میں باقاعدہ حکومتیں قائم تھیں جو اسلام سے ٹکرائیں اور اسلام ان سے ٹکرایا لیکن اسلام کے لشکر جب ان حدود تک پہنچتے جہاں پر مخاصم حکومتوں کی حدیں ختم ہوتی تھیں اور کمزور قبائل کے علاقے شروع ہوتے تھے وہاں ٹھہر گئے اور انہوں نے جنگ بند کردی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج یورپین لوگوں کے افریقین کالونیز کے بنانے کی گنجائش نہ رہتی۔ وسطی اور جنوبی افریقہ کی کون سی طاقت تھی کہ جس نے مسلمانوں کے ان لشکروں کو روکا ؟ جنہوں نے روسی ` ہسپتانوی` فرانسیسی اور اطالوی منظم لشکروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا۔ وہ اسلام کی منصفانہ اعادلانہ اور رحیمانہ تعلیم ہی تھی جس نے یہ عظیم الشان معجزہ دنیا کو دکھایا اور جس کی بدولت اب مسلمان ہر سیاسی مجلس میں یورپ اور امریکہ کے سیاسی لوگوں کے سامنے اپنا سر اونچا رکھ سکتا ہے۔
مضمون ختم کرنے سے پہلے میں عرب اور مصر کے پریس کو ایک خاص ذمہ داری کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ایک لمبے افتراق کے بعد اکثر مسلمانوں میں اتحاد کا جوش پیدا ہورہا ہے۔ پاکستان سے عرب ممالک اور مصر نے جس ہمدردی کا سلوک کیا ہے یا عرب اور اسلامی امور سے جس ہمدردی کا ثبوت پاکستان نے دیا ہے وہ اس زمانہ کی خوشگوار ترین باتون میں سے ہے مگر مذکورہ بالا امر کی اشاعت نے جماعت احمدیہ ہی نہیں پاکستان کے رستہ میں مشکلات پیدا کردی ہیں۔ اس مضمون کی بناء پر جو سرتاپا غلط ہے ہندوستان پاکستان پر الزام لگا سکتا ہے کہ اس میں رہنے والی بعض جماعتیں ہندوستان پر حملہ کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ یہ الزام سو فیصدی غلط ہے مگر ہندوستان کا متعصب عنصر اس الزام سے ضرور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ الزام ایک جماعت پر ہے نہ پاکسان پر۔ کیونکہ ہندوستان کا متعصب گروہ کہے گا کہ جس امر کی اطلاع مصر کے ایک نامہ نگار کو مل گئی پاکستان کی حکومت کو اس کی کیوں اطلاع نہ ملی ہوگی- دوسرے وہ کہیں گے کہ جس جماعت پر یہ الزام ہے پاکستان کا وزیر خارجہ اس کا ممبر ہے پس وہ اس سے ناواقف نہیں ہوسکتا۔ ان حالات میں ایک نامہ نگار کی خواب پریشان پاکستان` کے لئے کتنی مشکلات اور بدنامی کی صورت پیدا کرسکتی ہے۔ اور کیا یہ ظفر اللہ خان کی خدمات پاکستان کا اچھا بدلہ ہوگا ؟ ہرگز نہیں علاوہ اس کے کہ یہ جھوٹ ہے` یہ ایک وفادار دوست پر ناواجب حملہ بھی ہے جسے مصر کا غیور مسلمان یقیناً برداشت نہیں کرے گا۔۔ اس کوشش کے بعد جو عرب اور مصر نے پاکستان کی مملکت کے استحکام کے لئے کی` ایسی آواز کو اٹھنے دینا ایسا ہی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کالتی نقضت غزلھا من بعد قوہ انکاتا۴۳ میں اس دعا پر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان ممالک کو اس لمبی نیند سے بیدار ہونے کی توفیق بخشے جس میں وہ مبتلا تھے اور اغیار کے تصرفات سے ان کو آزاد کرے اور مسلمان کی اس شان کو بحال کرے جو اسے گزشتہ زمانہ میں حاصل تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت اسے عطا کرے۔ اللھم آمین۔
مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ ۴۴
عربی رسالہ >البشریٰ< )حیفا( نے اپنے ماہ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں اس کا مفصل ترجمہ دیا اور مشرق وسطی کے علاوہ دوسرے ملکوں میں اس کی بکثرت اشاعت کی اور اس طرح عرب دنیا پر خدائی نشان اور محبت و برہان دونوں اعتبار سے حجت تمام ہوئی۔
مسئلہ ختم نبوت سے متعلق ایک وضاحتی بیان
حضرت مصلح موعودؓ نے جہاں اخبار >الیوم< کے ذریعہ مشرق وسطی کے اسلامی ممالک کو پیغام حق پہنچایا وہاں اہل پاکستان کے لئے مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مندرجہ ذیل وضاحتی بیان تحریر فرمایا جو ایک ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا گیا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رح کے ساتھ
ہوالناصر
جو خاتم النبین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے
>اے عزیز ! آج کل احمدی احراری جھگڑے میں ایک طوفان بے تمیزی اٹھ رہا ہے۔ اور جن لوگوں کا اس اختلاف سے دور کا تعلق بھی نہیں وہ بھی سنی سنائی باتوں پر کان دھر کے اشتعال میں آرہے ہیں اور غلط رائے قائم کررہے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ ایسا نہیں کہ صرف اظہار غضب سے اسے حل کیا جاسکے۔ جب رسول کریم~صل۱~ کے احترام کا سوال ہو تو کم سے کم اس وقت رسول کریم~صل۱~ کے ارشادات کو سامنے رکھنا چاہئے۔ کیونکہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک شخص آپﷺ~ کے احترام کے لئے جان دینے کا دعویٰ کرتا ہو لیکن اس غرض کے لئے وہ کام کرتا ہو جنہیں آپﷺ~ نے منع فرمایا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ باتیں کرتے ہیں تو غلط بیانی کرتے ہیں اور جب کسی سے اختلاف ہوتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔۴۵ مومنوں کو ایسا نہیں ہونا چاہئے-
اب آپ لوگ خود ہی دیکھ لیں کہ کیا احمدیت کے خلاف تقریریں کرنے والے جن کی تقریریں آپ نے سنی ہیں اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ نہیں ؟ کیا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ فساد نہ کرو تو کیا آپ پر یہی اثر ہوتا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ فساد نہ کرو یا اس کے نتیجہ میں بہت سے بچے اور چند نوجوان فوراً جلوس بناتے اور گلیوں میں احمدیوں کے خلاف شور مچاتے پھرتے ہیں اور بعض پرائیویٹ مجالس میں احمدیوں کے قتل اور بائیکاٹ کے منصوبے کرنے لگ جاتے ہیں۔ اگر مقررہ واقعہ میں امن کی تعلیم ¶دیتے ہیں تو اس کا الٹا اثر کیوں ہوتا ہے ؟ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ سامعین بین السطور مطلب ان تقریروں کا یہی سمجھتے ہیں کہ مقرر رکھتا ہے کہ ہمیں قانون کی زد سے آزاد رہنے دو اور خود جا کر جو نقصان احمدیوں کا ہوسکتا ہے کرو۔ اسی طرح جو الفاظ وہ میری نسبت یا چوہدری ظفر اللہ خاں کی نسبت یا باقی جماعت احمدیہ کے متعلق بولتے ہیں کیا وہ گالی گلوچ کی حد میں نہیں آتے ؟ اور کیا یہ سچ نہیں کہ ان لوگوں کی طرف سے جو جلوس مختلف جگہوں پر نکالے گئے ان میں چوہدری ظفر اللہ خاں کو نہایت ناپسندیدہ طور پر پیش کیا گیا اور ایک کتا پکڑ کر اسے ظفر اللہ خاں ظاہر کیا گیا اور اس پر جوتیاں لگائی گئیں۔ لیکن یہ رسول کریم~صل۱~ کے اس قول کے مطابق نہیں کہ:۔
>جب وہ جھگڑتا اور مخالفت کرتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے<
اے اسلام کی غیرت رکھنے والو ! اور اے وہ لوگو ! جن کے دل میں محمد~صل۱~ کا ذرا بھی عشق ہے میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال کرسکتے ہیں کہ ان مجالس اور ان اجلاسوں کو رسول کریم~صل۱~ پسند کرسکتے تھے ؟ کیا اگر کوئی دشمن ایسے جلوس کا نقشہ کھینچ کر یہ کہے کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم~صل۱~ نے ایسے کسی جلوس کو پسند فرمایا تھا۔ تو کیا آپ کے جسم پر لرزہ طاری نہ ہوجائے گا؟ کیا آپ اسے غلط بیانی کرنے والا نہیں کہیں گے ؟ پھر آپ یہ کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اسی تقریریں کرنے والے اور ایسے جلوس نکلوانے والے احترام رسولﷺ~ کی خاطر ایسا کررہے ہیں ؟ کیا سچ جھوٹ سے قائم ہوتا ہے ؟ کیا احترام اور اعزاز گالی گلوچ کے ذریعہ سے قائم کیا جاتا ہے ؟ کیا یہ مظاہرات دنیا کی نگاہ میں اسلام کی عزت کو بڑھانے والے ہیں یا گھٹانے والے ؟ کیا اگر اللہ تعالیٰ رسول کریم ~صل۱~ کو یہ نظارہ دکھا دے تو آپ فخر کریں گے کہ ان کے نام پر تقریریں کرنے والے امن کا نام لے کر فساد کی تعلیم دے رہے ہیں۔ کیا وہ اس جلوس کو دیکھ کر خوش ہوں گے ؟ جس میںگالیاں دی جاتی ہیں۔ جس میں ماتم کیا جاتا ہے جس میں کتوں کو جوتیاں مار کر اپنے ملک کا وزیر خارجہ قرار دیا جاتا ہے۔ کیا اگر صحابہ~صل۱~ یہ نظارہ دیکھیں تو وہ خوش ہو کر ایک دوسرے سے کہیں گے کہ یہ ہمارے سچے پیرو۔ یہ وہی کام کررہے ہیں جس کا کرنا ہم پسند کرتے تھے ؟ اگر ایسا نہیں بلکہ آپ کا دل گواہی دیتا ہے کہ نہ رسول کریم~صل۱~ یہ کام پسند کرسکتے تھے۔
نہ صحابہؓ ان کاموں کا کرنا پسند کرسکتے تھے تو بتائیں کہ حرمت رسول~صل۱~ کا دعویٰ کرنے والے اگر سچے ہیں تو یہ کام کیوں کرتے ہیں ؟
اے عزیزو ! عقیدہ وہی ہوتا ہے جو ایک شخص بیان کرتا ہے نہ وہ جو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ پس اچھی طرح سن لو کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا ایمان تھا کہ رسول کریم~صل۱~ خاتم النبین تھے اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے۔ آپﷺ~ فرماتے ہیں:۔
>میں مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء~صل۱~ کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔< )تقریر جامع مسجد دہلی ۱۸۹۱ء(۴۶
اسی طرح فرماتے ہیں:۔
>آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے۔ اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ بنی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔<
)کتاب کشتی نوح صفحہ ۱۳(
ان الفاظ کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبین نہ مانتے تھے تو وہ یاد رکھے کہ وہ خدا کی گرفت تلے ہے اسے ایک ناکردہ گناہ پر اتہام لگانے کی خدا تعالیٰ سزا دے گا اور ہر شخص جو اس امر سے واقف ہو کر مہض اس لئے اس الزام لگانے والے کے پیچھے چلے گا کہ وہ اس کا مولوی ہے یا وہ قومی یا شہری جدوجہد میں اس کی مدد کرے گا اور اس کا رفیق کا ہوگا تو اسے یاد رہے کہ اتنے بڑے اتہام پر خاموش رہنے والا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ پس چاہئے کہ وہ عاقبت کو سنوارے اور اس دنیا کے کاموں اور اس کی ترقیوں میں بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرے نہ کہ ان لوگوں پر جو رسول کریم~صل۱~ کا نام لے کر یہ اخلاق سوز جلوس نکلواتے ہیں اور قتل اور فساد کی سازشیں کرتے ہیں۔
اے عزیزو ! بانی سلسلہ ہی نے ختم نبوت کے عقیدہ پر اتنا زور نہیں دیا بلکہ میں نے بھی اسے بیعت کی شرائط میں قرار دیا ہے اور ہر بیعت کرنے والے سے اقرار لیتا ہوں کہ میں رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبین یقین کروں گا۔ اب بتائو کہ اس سے زیادہ زور اس عقیدہ پر کیا ہوسکتا ہے ؟ ابجو نہ سمجھے قیامت کے ن ہمارا ہاتھ ہوگا اور اس کا دامن۔ باقی رہا یہ کہ ہم یہ سب کچھ دل سے نہیں کہتے بلکہ جھوٹ بولتے ہیں تو یہ دلیل تو دونوں طرف چل سکتی ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر الزام لگانے والے لوگ رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے۔ اگر ہم ایسا کہیں تو کیا آپ ہماری بات مان لیں گے اور وہی غیرت جس کا مظاہرہ ہمارے متعلق کرتے ہیں ان کے متعلق بھی دکھائیں گے ؟
اے عزیزو ! ایک دن ہم سب نے مرنا ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ آپ کے آباء بھی مرے اور آپ بھی مریں گے اور آپ کی اولاد بھی مرے گی اور یہی حال میرا اور میرے ساتھیوں کا ہے پس چاہئے کہ ہم اس دن کے لئے تایری کریں جو آنے والا ہے۔ یہ دنیا چند روزہ ہے۔ لاف و گزاف اور کثرت پر ناز اور پھکڑ بازی اور گالی گلوچ مالک الملک رب العلمین کے سامنے ہر گز کام نہ دیں گے۔ پس چاہئے کہ جس نے ایسی غلطی نہیں کی وہ اپنے بھائی کو سمجھائے اور جس نے کی ہے وہ توبہ کرے۔ اسی کی جان محفوظ ہے جو رسول کریم~صل۱~ کے بتائے ہوئے اخلاق پر چلتا ہے نہ کہ منہ سے آپﷺ~ کے احترام کا دعویٰ کرتا ہے مگر عمل اس کے خلاف کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں کہ ہمیں مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بے شک اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے ہیں مگر وہ اس دن کو بھی یاد رکھیں جس دن ہم سب خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے` جس دن محمد رسول~صل۱~ کو منہ دکھانا ہوگا۔ جو اس دن خوش ہوگا وہی کامیاب ہے اورجو اس دن آنکھ اونچی نہ کرسکے گا اس کی زندگی رائیگاں گئی۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا کاش ! اسے رسول کریم~صل۱~ کی غضبناک آنکھ نہ دیکھنی پڑتی۔ والسلام ۴۷
فصل دوم
عالمی یوم امن کے لئے دعا حکومت پاکستان کے اعلان کا خیر مقدم سیدنا حضرت مصلح موعوؓ کی طرف سے مساجد میں ذکر الٰہی کرنے اور فریضہ حج بجالانے کی تحریک آل پاکستان مسلم لیگ کا اجلاس ڈھاکہ گوجرانوالہ میں احمدیوں کا بائیکاٹ اور اخبار >الاعتصام< حضرت امام ہمامؓ کا روح پرور پیغام جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے نام
عالمی یوم امن کے لئے دعا
امریکہ شہر بالٹی مور More) (Balti میں یو۔ این۔ سی۔ ایل کے نام سے ایک تنظیم قائم تھی۔۴۸اس تنظیم نے ۶ اگست ۱۹۵۲ء کو دنیا بھر میں یوم امن منانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ایک کمیٹی تشکیل کی۔ کمیٹی کے ایگزیکٹو سیکرٹری جناب الفریڈ۔ ڈبلیو` پارکو نے کیلیفورنیا )امریکہ( سے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ کی خدمت میں درخاست کی کہ عالمی یوم امن میں احمدی بھی شریک ہوں اور اس روز یا اس سے پہلے آنے والے جمعہ میں قیام امن کے لئے دعا کریں۔
حضرت امیر المومنین نے اس تحریک کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ امن کی اپیل خواہ کسی طرف سے ہو بہرحال قابل تعریف ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ¶ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ دنیا میں امن کا دور دورہ ہو۔ پس اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ یہ تحریک کس کی طرف سے ہے ؟ ہم اس تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ تمام احمدی دوستوں کو چاہئے کہ ۲ اگست ۱۹۵۲ء بروز جمعہ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی موجودہ بے اطیمنانی اور بدامنی کو دور فرمائے اور لوگوں کو امن اور اطیمنان بخشے۔ آمین
اس سلسلہ میں حضور نے عالمی یوم امن کے لئے مندرجہ ذیل دعا بھی بھجوائی جو دراصل سورہ فاتحہ کا ترجمہ ہے:۔
>اے خدا ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ ایسا رستہ جس پر مختلف اقوام کے چنیدہ لوگ جنہوں نے تیری رضا مندی کو حاصل کر لیا تھا` چلے تھے۔ ہمارے ارادے پاکیزہ ہوں۔ ہماری نیتیں درست ہوں ہمارے خیالات ہر بدی سے پاک ہوں اور ہمارے عمل ہر قسم کی کجی سے منزہ ہوں۔ سچائی اور صداقت کے لئے ہم اپنی ساری خواہشات اور غبنیں قربان کردیں` ایسا انصاف جس میں رحم ملا ہوا ہو ہمارے حصہ میں ائے اور ہم تیرے ہی فضل سے دنیا میں سچا امن کرنے والے ہوجائیں جس طرح کہ تیرے برگزیدہ بندوں نے دنیا میں امن قائم کیا اور تو ہمیں ایسے تمام کاموں سے محفوظ رکھ جن کی وجہ سے تیری ناراضگی حاصل ہوتی ہے۔ اور تو ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم جوش عمل سے اندھے ہو کر ان فرائض کو بھول جائیں جو تیری طرف سے عائد ہوتے ہیں اور ان طریقوں سے بے راہ ہو جائیں جو تیری طرف لے جاتے ہیں۔<
وکالت تبشیرہ ربوہ نے بذریعہ الفضل )۱۲ احسان ۱۳۳۱ ہش( حضرت امیر المومنین کے مندرجہ بالا فرمان اور دعائیہ کلمات سے جماعت احمدیہ کو مطلع کردیا اور تحریک کی کہ ۲ اگست کو >اسلام اور امن عالم< کے موضوع پر خطبہ جمعہ دیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے مندرجہ بالا اور مرسلہ دعا سے امریکی دنیا کو بالٹی مور کے روزناہ ریکارڈ (Record) نے اور افریقی ممالک کو نائیجیریا کے اخبار >دی ٹروتھ< Truth) (The نے روشناس کرایا۔موخر الذکر اخبار نے اس کو اپنی جولائی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں روزنامہ ریکارڈ کے حوالہ صفحہ اول پر شائع کیا۔
۔O۔N۔U for Prayer Leadr's Muslim
‏Baltimore Record Daily the from culled article an is thFollowing by issued message the on comments and contains memberswhich the all If ۔Community Ahmadiyya the of Head emerpuS,ylgnidroacc act and heart to message this take to were O۔N۔U of۔time no in better the for changed be would world leadersthe spiritual Moslem outstanding world's the of nine-PointOne the to reference with action far-reaching taken thehas by sponsored loyalty, UN of Development for worldProgram its has UNCL The ۔League Citizenship Nations United۔city this in founded was and Baltimore in everyheadquarters in ۔N۔U the for "Prayers : is program the of 3 offeredPoint prayers whenever UN the throughout pihwors of "house۔Government member any for
‏prepared has Islam in movement Ahmadiyya the of Khalif Nations:The United the for prayer following the
‏of path the path, right the unto us Guide ! God pleasure"O THY attained who nations different of ones chosen Divestthose ! intentions our right set I pure resolve our Make !I weakness all from thoughts our purge and evil all of thoughts theour for wishes and desires our all sacrifice to us theEnable in peace true establish to us Grant ! Truth eht of actionsake all from us Preserve ! did ones chosen Thine as just theworld in forgetting from us Save I wrath The ۔incure Thee,which ۔from us on devolve which obligations acttion of "excitment۔Ameen ۔Thee to leads which path the losing from and
‏has Pakistan, Rabwah, in are headquarters whose Khalif theThe of encouragement the for statement a prepared ofalso ideal UNCL's the to reference with world, the of onchildren seen been never has which of like glorious the generation ""a۔before htear this
‏1) Page 8 ۔No 1 ۔Vol 1952 July, Nigeria, ۔Truth (The
حکومت پاکستان کے اعلان کا خیر مقدم
حکومت پاکستان نے ۱۴ اگست ۱۹۵۲ء کو ایک پریس نوٹ جاری کیا کہ حکومت پاکستان کو اکثر شکایات موصول ہوتی رہی ہیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے بعض حکام جو ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اپنی سرکاری حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے ماتحتوں اور ایسے آدمیوں میں اپنے فرقوں کی تبلیغ کرتے ہیں جن سی انہیں اپنی سرکاری حیثیت کی وجہ سے ملنے جلنے کا موقعہ ملتا رہتا ہے۔ حکومت اس صورت حال کو بہت تشویش کی نگاہوں سے دیکھتی ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مذموم اور ناپسندیدہ روش فوراً بند کی جائے اور اس قابل اعتراض طریقے سے کسی مذہبی فرقہ کے حق میں پروپیگنڈا کو ممنوع قرار دیا جائے۔ ۴۹
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان نے حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے حسب ذیل پیغام دیا:۔
>میں ایک مسلمان ہوں اور اس لحاظ سے میں اسلام کی قران میں دی گئی تعلیمات اور رسول کریم~صل۱~ کی حیات کی روشنی میں آزادی ضمیر میں ایک جذبات آدمی کی طرح یقین رکھتا ہوں۔ میرے نزدیک سرکاری دبائو اور اثر کا استعمال آزاد ضمیر میں مداخلت اور جبر و استبداد کے مترادف ہے` دوسرے طرف جیسا کہ اسلام نے بتایا ہے ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے اور یہ ایک ایسا اہم فرض ہے جو مسلمانوں نے اپنے زوال کے ایام میں افسوسناک حد تک بھلا دیا تھا اور اس کا اثر ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر پڑا۔
میرے ذاتی نظریات کوئی سربستہ راز نہیں` ہر وہ آدمی جو ذاتی طور پر مجھے یا میرے نام سے جانتا ہے کسی حد تک میرے نظریات سے آگاہ ہے۔ حال ہی میں بعض حلقوں کی طرف سے میرے یہ نظریات غلط رنگ میں اور مسخ کر کے پیش کئے گئے ہیں۔ میں جیسا کہ اوپر بیان کرچکا ہوں اپنے مذہبی عقائد کو کسی بھی دوسرے شخص پر سرکاری حیثیت یا اختیار استعمال کر کے ٹھونسنا اسلام کے اصول کے خلاف تصور کرتا ہوں مجھے جس فرقہ سے وابستہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس میں اس تصور کو پوری طرح اپنایا جاتا ہے۔ اور اگر اس فرقہ کا کوئی فرد ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا جائے تو مجھے اس کا انتہائی صدمہ ہوگا۔
یہ درست ہے کہ ہمارے نظریات اور عقائد کی اشاعت ہمارے محدود وسائل سے کہیں بڑھ کر کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ صحیح طرز فکر رکھنے والوں تک ہمارے نظریات کو ان کے اصل رنگ میں پیش کیا جائے اور حق اور فلاں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے۔ اس مطلب کے لئے دبائو یا جبر کا استعمال خود اصل مقصد کے منافی ہوگا کیونکہ جس کسی آدمی پر یہ دبائو استعمال کیا جائے گا اس کا ردعمل ہوگا کہ جس فکر کی دعوت دی جارہی ہے اس کا آزادانہ مطالعہ کرنے کا موقع نہیں۔ دیا جارہا اور اسے ایک ایسی بات ماننے پر مجبور کیا جارہا ہے جسے اس کا ضمیر تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
اس مسئلہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے )کہ( جس فرقہ کے ممبروں پر جبرو اختیار استعمال کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے خود ان کے عقائد و نظریات کو ان لوگوں کی طرف غلط طور پیش کیا جارہا ہے جو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں` ان حالات میں اس فرقہ کے ممبروں کے لئے اثر و رسوخ استعمال کرنا ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔
اس بارے میں حکومت کی طرف سے جو اعلان کیا گیا ہے میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ پاکستان کے ہر طبقے کے لوگ دلی طور پر اس کا خیر مقدم کریں گے اور ملک میں امن و سکون اور برداشت کا ماحول پیدا کرنے میں ممد ہوں گے۔
ایمان اور یقین ایسے مقصاد ہیں جنہیں مناسب ماحول پیدا کر کے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کسی شخص کو ایک ایسی بات تسلیم کرنے پر جسے اس کا ضمیر نہیں مانتا مجبور کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ کوئی آدمی جو اس قسم کا دبائو ڈالتا ہے وہ چاہے کوئی وزیر ہو` افسر ہو یا عام آدمی ہو مخلص مومن پیدا کرنے کے بجائے ریاکار پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔ )۱-پ۔پ( ۵۱۵۰
مساجد کو ذکر الٰہی سے معمور رکھنے کی تحریک
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اس سال جہاں احترام مساجد کے فقہی مسئلہ پر روشنی ڈالی وہاں مسجدوں کو ذکر الٰہی سے معمور رکھنے کی بھی تحریک فرمائی چنانچہ ۲۹ ظہور ۱۳۳۱ ہش کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:۔
>مساجد ذکر الٰہی کے لئے ہوتی ہیں اور انہیں اسی غرض کے لئے استعمال کرنا چاہئے` لیکن جب ہم اسلام کا اور خصوصاً قرون اولیٰ کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مساجد کو صرف ذکر الٰہی کی جگہ ہی نہیں بنایا بلکہ بعض دینوی امور کے تصفیہ کا مقام بھی بنایا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کی مجالس میں ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں کے فیصلے بھی مساجد میں ہوتے تھے` قضائیں بھی وہیں ہوتی تھیں` تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورت کے ہوتے ہیں مساجد میں کئے جاسکتے ہیں۔ ہاں مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہیں۔ مثلاً رسول~صل۱~ نے فرمایا ہے اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے تو وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے۔ اگر وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرے تو خدا تعالیٰ اس میں برکت نہ ڈالے۔
پس ایک طرف تو ساجد میں جنگی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں` تعلیم دی جاتی ہے` قضائیں ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرنا مسجد میں منع کیا گیا ہے` اس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد میں جو کام ہوں وہ قومی ہوں ذاتی نہیں۔ گویا مسجد اجتماعی جگہ ہے اور وہاں ایسے کام ہوسکتے ہیں جو اجتماعی اور قومی ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ جو کام وہاں ہوں وہ قومی فائدہ کے بھی ہوں اور نیکی کے بھی ہوں۔ گویا جو کام نیک ہے اور قومی فائدہ کا ہے اسے ذکر الٰہی کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ اس کی تصدیق رسول کریم~صل۱~ کے اس قول سے بھی ہوجاتی ہے کہ آپ~صل۱~ فرماتے ہیں جو شخص وضو کرکے مسجد میں آئے اور وہاں امام کے انتظار میں بیٹھے تو خدا کے نزدیک وہ ایسا ہی ہے کہ گویا وہ نماز پڑھ رہا ہے۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قومی کام کے لئے انتظار میں بیٹھنا نماز کا قائم مقام ہوتا ہے۔
پس مساجد خالی سبحان اللہ سبحان اللہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان میں قومی کام بھی کئے جاسکتے ہیں بشرطیکہ وہ کام امن` صلح اور نیکی کے ہوں۔ مثلاً اگر لوگ مسجد میں سیاسی جلسے کریں اور قانون شکنی کریں اور یہ کہہ دیں کہ مسجد خدا تعالیٰ کا گھر ہے ہمیں حکومت مسجد میں قانون شکنی کی وجہ سے نہ پکڑے تو ان کا ایسا کہنا غلط ہوگا۔ مساجد قانون شکنی اور ناجائز کاموں کے لئے نہیں بلکہ مساجد جائز قومی اجتماعوں کے لئے بنائی گئی ہیں۔ گویا مساجد میں ہر وہ کام جو اجتماعی حیثیت رکھتا ہو کیا جاسکتا ہے۔ مگر وہ کام جو قانون کے مطابق ہو` صلح کی غرض سے ہو` قیام امن کی غرض سے ہو۔ خدا تعالیٰ نے مساجد کو حکومت کے خلاف فساد کی جگہ بنانا ناجائز قرار دیا ہے اور نہ صرف ناجائز قرار دیا ہے بلکہ اس قسم کی مساجد کو گرا دینے کا حکم دیا ہے۔
پس ایک تو میں پھر اپنے اس مضمون کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دوست مساجد میں زیادہ سے زیادہ ذکر الٰہی کریں لیکن میں ذکر الٰہی کو محدود نہیں کرتا۔ مساجد میں قومی اور اجتماعی کام بھی کئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مساجد ہی ہیں جن میں یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ کوئی باہر سے آیا ہے۔ فرض کرو کوئی احمدی گوجرانوالہ` لائلپور یا ملتان سے یہاں آتا ہے۔ وہاں چونکہ آج کل شورش ہورہی ہے اس لئے قدرتاً ہر ایک احمدی کو یہ شوق ہوگا کہ اسے پتہ لگے کہ وہاں جماعت کا کیا حال ہے ؟ اور اس کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کیا کررہی ہے ؟ اب اگر وہ مسجد میں اس احمدی سے یہ باتیں نہیں پوچھتا تو اس کا اجتماعی علم نامکمل رہ جاتا ہے۔ اگرچہ بظاہر یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس سے دینوی باتیں پوچھ رہا ہے لیکن حقیقت میں وہ دینوی باتیں نہیں۔ اگر وہ اس قسم کی باتیں پوچھتا ہے تو اجتماعی اور قومی حالت سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور یہ ذکر الٰہی ہے۔ بظاہر تو یہ ہوگا کہ اس کے لڑکے کو کسی نے طمانچہ مارا ہے` یا فلاں لڑکے کو سکول سے نکالا گیا ہے` یا فلاں استانی کو سکول سے ہٹا دیا گیا ہے یا کنوئیں سے پانی بھرنے سے احمدیوں کو روک دیا گیا ہے` لیکن یہ سب باتیں دینی ہوں گی اور ذکر الٰہی کہلائیں گی۔ پس ایسے اہم امور کے متعلق مساجد میں باتیں کرنا جائز ہے اور دین کا ایک حصہ ہے۔ لیکن اگر کوئی اس قسم کی باتیں کرے کہ تم فلاں جگہ سودا لینے گئے تھے وہاں چاول کا کیا بھائو ہے؟ میں بھی چاول لینے وہاں جائوں گا؟ یا آج کل قربانی کے بکرے کا کیا بھائو ہے ؟ تو یہ قومی بات نہیں اس لئے مسجد میں ایسی بات کرنا ناجائز ہے۔ الا مشاء اللہ کسی حالت میں اگر وہ یہ پوچھتا ہے کہ فلاں جگہ سے تم نے چاول خریدنے ہیں کیا وہاں چاول سستے ہیں تا میں بھی چاول وہیں سے لائوں تو یہ ناجائز بات ہے۔ لیکن اگر کسی علاقہ میں قحط کی صورت ہے اور وہ یہ پوچھتا ہے کہ فلان جگہ غذائی حالت کیسی ہے۔ چاول کیا کیا بھائو ہے؟ دال کا کیا بھائو ہے ؟ گیہوں کا کیا بھائو ہے؟ تو یہ باتیں جائز ہوں گی کیونکہ ان کا قوم اور ملک سے تعلق ہے اور ان باتوں کے لئے ہی مساجد بنی ہیں۔
پس یہ فرق یاد رکھو کہ مساجد اصل میں ذکر الٰہی کے لئے بنی ہیں لیکن ذکر الٰہی کا قائم مقام وہ کام بھی ہیں جو قومی فائدہ کے ہوں خواہ وہ کھانے پینے کے متلعق ہوں یا قضاء کے متلعق ہوں` جھگڑے` فسادات کے متعلق ہوں` تعلیم کے متعلق ہوں یا کسی اور رنگ میں مسلمان قوم کی ترقی اور تنزل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کاموں کے متعلق مساجد میں باتیں کی جاسکتی ہیں خواہ بظاہر یہ باتیں دینوی معلوم ہوتی ہوں لیکن دراصل یہ قوم سے تلعق رکھتی ہیں اور دین ان سے ہی نتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ مساجد میں اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے` بحثیں کیا کرتے تھے اور اس قسم کے دوسرے معاملات طے کیا کرتے تھے پس مساجد میں اس کے کام جائز ہیں اس لئے کہ خدا تعالفی نے ان امور کو دین کا جزو بنایا ہے۔ ہمارے دین میں ذکر الٰہی اس کا نام نہیں کہ انسان اللہ ال¶ہ کرتا رہے بلکہ اگر کوئی بیوہ کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے` اگر کوئی یتیم کی پرورش کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے` اگر کوئی شخص قوم کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے` اگر کوئی شخص جھگڑوں کو دور کرتا ہے` مقدمے طے کرتا ہے` صلح کراتا ہے تو یہ بھی دین ہے۔
پس تمام وہ قومی کام جن سے قوم کو فائدہ پہنچے وہ قوم کے اخلاق اور اس کی دینوی حالت کو اونچا کریں ذکر الٰہی میں شامل ہیں اور ان کا مساجد میں کرنا جائز ہے۔ رسول کریم~صل۱~ اس قسم کے کام مساجد میں ہی کیا کرتے تھے۔ مثلاً اگر کوئی مہمان آجاتا تو آپﷺ~ صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرماتے فلاں مہمان آیا ہے تم میں سے کون اسے ساتھ لے جائے گا؟ تو ایک صحابیؓ اٹھتا اور عرض کرتا اسے میں ساتھ لے جاتا ہوں۔ یا زیادہ مہمان آتے تو کوئی کہتا میں ایک لے جاتا ہوں` میں دو لے جاتا ہوں` میں چار لے جاتا ہوں۔ بظاہر یہ روٹی کا سوال تھا لیکن یہ دین تھا اس لئے کہ اس سے ایک دینی ضرورت پوری ہوتی تھی۔ درحقیقت لوگوں نے دین کو محدود کردیا ہے اور اس کے معنے اس قدر کمزور کردیئے ہیں کہ کوئی چیز دین میں باقی نہیں رہی ورنہ دنیا کی سب چیزوں کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور ان سب چیزوں سے تعلق پیدا کرنا دین ہے۔ خدا تعالیٰ براہ راست کسی کو نہیں ملتا بلکہ خدا تعالیٰ یتیم کی پرورش کرنے سے ملتا ہے` بیوہ کی خدمت کرنے سے ملتا ہے` کافر کو تبلیغ کرنے سے ملتا ہے۔ مومن کو مصیبت سے نجات دلانے سے ملتا ہے۔ یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ملنے کے ذرائع ہیں یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نیچے اتر آٹا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روحانی بینائی اور معرفت کے مطابق انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ آگیا ہے لیکن اس کا ذریعہ بیوہ کی خدمت کرنا ہوتا ہے` یتیم کی پرورش کرنا ہوتا ہے یا دوسرے قومی کام کرنا ہوتا ہے اور یہی دین ہے۔ اگر تم مساجد میں ذاتی باتیں کرتے ہو مثلاً کہتے ہو تمہاری بیٹی کی شادی کے متلعق کیا بات ہے یا میری ترقی کا جھگڑا ہے افسر مانتے نہیں میں کوشش کررہا ہوں تو یہ باتیں کرنا مسجد میں جائز نہیں۔ سوائے امام کے کہ اس کا ذمہ قوم کی خدمت ہے اور نہ صرف ان باتوں کا کرنا مسجد میں جائز نہیں بلکہ رسول کریم~صل۱~ کی بدعا بھی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کام میں برکت نہ دے۔
اب اگر کسی شخص کو شوق ہے کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کی بدعا لے تو میں ایسے ہر شخص کو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر کسی کو یہ شوق ہے کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کی دعائیں لے تو وہ مسجد سے نکل کر ایسی باتیں کرے۔ پس مساجد کے اندر ذکر الٰہی کرو لیکن ذکر الٰہی کے وہ تنگ معنے نہیں جو ملاں ملنٹے کرتے ہیں۔ ذکر الٰہی ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جو انسان کی ملی` سیاسی` علمی اور قومی برتری اور ترقی کے لئے ہوں لیکن تمام وہ باتیں جو لڑائی دنگا یا قانون شکنی کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں خواہ ان کا نام ملی رکھ لو` سیاسی رکھ لو` قومی یا دینی رکھ لو مساجد میں ان کا کرنا ناجائز ہے۔< ۵۲
تحریک حج
حضرت مہدی موعودؑ کی اپنی جماعت کے لئے یہ واضح تعلیم ہے کہ:۔
>جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شکستہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے نا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جائو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔<۵۲
اس ضمن میں فریضہ حج کی نسبت خاص طور پر یہ حکم دیا کہ:۔
>جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔<۵۳
اس سال سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بھی نائب مہدی کی حیثیت سے فریضہ حج کی بجا آوری کے لئے پر زور تحریک کی چنانچہ خطبہ جمعہ یکم تبوک ۱۳۳۱ ہش کے دوران فرمایا:۔
)۱( >یہ عید اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اپنے بھائیوں کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی حج کرنے کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔ جہاں اپنے بعض بھائیوں کو حج نصیب ہونے کی خبر سن کر ہم خوش ہوتے ہیں وہاں ساتھ ہی ہمیں یہ خیال بھی کرنا چاہئے کہ ہم کیوں حج نہ کریں ؟ ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمیں بھی حج کا موقعہ دے مگر افسوس کہ حج کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی ہے بہت کم لوگ ہیں جو حج کے لئے جاتے ہیں۔<
)۲( >یہ عید اس لئے آتی ہے تاکہ ہماری دلوں کو بیدار کرے اور ہمیں ہمارا فرض یاد دلائے عید ہمیں یہ بتانے آتی ہے کہ حج کی عبادت تم پر بھی فرض ہے۔ جس طرح نماز ایک ضروری فریضہ ہے ` جس طرح زکٰوۃ ایک ضروری فریضہ ہے` جس طرح روزے ایک ضروری فریضہ ہیں اسی طرح حج بھی ایک ضروری فریضہ ہے لیکن افسوس کہ نہ غیر احمدیوں میں تو یہ لطیفہ ہوتا ہے۔ ان کے خطوط آتے ہیں کہ اگر حضرت مرزا صاحبؑ مسلمان تھے تو انہوں نے حج کیوں نہیں کیا ؟ پھر ان کے پہلے خلیفہ نے بھی حج نہیں کیا اور آپ نے بھی حج نہیں کیا حالانکہ حضرت خلیفہ المسیح اولؓ نے نہ صرف حج کیا تھا بلکہ دو سال کے قریب آپ مکہ مکرمہ میں رہے اور میں نے بھی حج کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود~ع`۱~ کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ آپ سفر کرتے اور پھر آپ کے لئے رستہ میں امن بھی نہیں تھا اس لئے آپ نے حج نہیں کیا لیکن آپؑ کی طرف سے ہم نے حج بدل کروا دیا تھا۔<
)۳( >اب اس عید سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دلوں میں حج کی عظمت پیدا کرو اور زیادہ سے زیادہ حج کے لئے جائو تاکہ حج کی غرض پوری ہو اور حج سے جو خدا تعالیٰ کا منشاء ہے وہ پورا ہو اور پھر جو لوگ حج کے لئے جائیں ان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس بات پر غور کریں کہ آج باوجود اتنی تعداد میں ہونے کے مسلمان آزاد کیوں نہیں ؟ مسلمان منظم کیوں نہیں ؟ وہ اسلام کو اس کی پہلی شان پر لے جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ وہ ان ذرائع پر غور کیوں نہیں کرتے جن سے اسلام کو پہلی شان حاصل ہو ؟<۵۴
آل پاکستان مسلم لیگ کا اجلاس ڈھاکہ
پنجاب میں مسئلہ اقلیت اٹھائے جانے کے بعد آل پاکستان مسلم لیگ کے اجلاس ڈھاکہ )منعقدہ اکتوبر ۱۹۵۲ء( میں اس ریزولیوشن کا نوٹس دیا گیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے لیکن یہاں بھی محب وطن اور بیدار مغذ مسلم لیگی راہنمائوں نے قائداعظم مرحوم کی طرح اس ریزولیوشن کے زیر بحث لانے کی اجازت تک دینے سے انکار کردیا۔ دراصل بنگال کے اکثر مسلمان لیڈر اور ممبر پہلے ہی اس عزم کا اظہار کرچکے تھے کہ ہم اس مطالبہ کی پر زور مخالفت کریں گے` بعض نے یہاں تک کہا کہ اسلام پر عمل کرنے والے اور اکناف عالم تک اس کی اشاعت کرنے والے تو احمدی ہی ہیں اگر ان کو کافر اور غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو دنیا میں مسلمان کو رہے گا؟ ۵۵
اس موقعہ پر مشرقی پاکستان کے مسلم پریس نے عمدہ نمونہ دکھایا چنانچہ ڈھاکہ کر کے روزنامہ >ملت< )مورخہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۵۲ء( نے اپنے ارادتی نوٹ میں لکھا کہ:۔
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کے لئے گزشتہ آل پاکستان مسلم لیگ کونسل میں ایک ریزولیوشن کا نوٹس دیا گیا تھا لیکن موجودہ حالات میں اس معاملہ کو نہ اٹھا کر مسلم لیگی زعما نے بہت دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ قطع نظر علماء کے فتویٰ بازیوں کے یہ امر ظاہر ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے اندر آپس کی تفرقہ اندازی اپنی ہی حکومت کو کمزور کرنے کا باعث ہوگی` قادیانی یا احمدی مسلمانوں نے ملک کی آزادی کے جہاد میں خاص حصہ لیا ہے اس لئے مسلمان قوم کی آئندہ تعمیری پروگرام کے سلسلہ میں اس جماعت کی قدر کم قرار نہیں دی جاسکتی۔ سوامی شردھانندجی کی شدھی تحریک کے مقابلہ میں اس جماعت نے >تحریک تنظیم< قائم کرکے مسلمانان برصغیر کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔
‏tav.13.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
مفتی مصر کے فتویٰ سے لیکر حضرت مصلح موعود کے پیغام تک
جذبات کی رو میں بیٹھ کر اگر آج جماعت احمدیہ کو اقلیت قرار دے دیا جائے تو آئندہ شیعہ حضرات کے خلاف بھی یہی آواز اٹھائی جاسکتی ہے` اس کے بعد آہستہ آہستہ شآفعی` حنبلی` مالک وغیرہ سب فرقوں کے بارہ میں ہی اقلیت قرار دیئے جانے کا سوال اٹھ سکتا ہے لٰہذا اس کے خطرناک نتائج اور مسلمانوں کے اندرونی خلفشار کا تصور کرتے ہوئے آج مسلمانوں کے اندر آپس میں اتحاد اور اتفاق کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ امر باعث خوشی ہے کہ موجودہ مسلم لیگی زعما نے اس سوال کے خطرناک نتائج کو بروقت بھانپ لیا ہے۔ )بنگلہ سے ترجمہ(
تبلیغ اسلام کا عالمی ادارہ تحریک جدید
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۵ ماہ فتح ۱۳۳۱ ہش کو اس بنیادی نکتہ کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ قیام تحریک جدید کا مقصد دنیا بھر میں تبلیغ اسلام ہے جو محض انفرادی فرض نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا اجتماعی فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا:۔
>تحریک جدید ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والا ادارہ ہے۔ جب تک قوم زندہ رہے گی یہ ادارہ قوم کے ساتھ وابستہ رہے گا اور جب افراد میں زندگی منتقل ہوجائے گی یعنی جماعت کے کچھ افراد مردہ ہوجائیں گے اور کچھ زندہ رہیں گے تو یہ ادارہ زندہ افراد کے ساتھ وابستہ ہوجائے گا۔
اسلام کی گزشتہ تاریخ میں جہاں مسلمانوں سے بعض بڑے بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہاں ایک اہم ترین غلطی ان سے یہ ہوئی کہ تبلیغ کو انفرادی فرض سمجھ لیا گیا بے شک مسلمانوں میں مبلغ رہے` گذشتہ صدیاں تو الگ رہیں قریب کے زمانہ تک بھی مسلمانوں میں مبلغ رہے بلکہ اس زمانہ تک رہے جس کے متلعق ہم کہتے ہیں کہ اس میں اسلام مٹ گیا اور مسلمانوں پر موت طاری ہوگئی` اس میں بھی خدا تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے تھے جو زندہ تھے اور تبلیغ اسلام کے فرض کو ادا کرنے میں خوشی` رغبت اور لذت محسوس کرتے تھے` پہلی صدی کو تو جانے دو جب ہر مسلمان ہی ایک مبلغ تھا` دوسری صدی کو بھی جانے دو` تیسری صدی کو بھی جانے دو` چوتھی پانچویں چھٹی اور ساتویں صدی کو بھی جانے دو جب تبلیغ کرنے والے اور اس کا انتظام کرنے والے بڑے اہم آدمی تھے` ان کی بعد کی صدیوں کو بھی جانے دو جب تبلیغ نہایت محدود دائرہ کے ساتھ وابستہ رہ گئی تھی لیکن پھر بھی لوگ دوسرے ملکوں میں جاتے تھے` میں تو تیرھویں صدی کے متعلق کہتا ہوں بلکہ چودھویں صدی کی ابتداء کے متعلق کہتا ہوں جب بظاہر مسلمانوں پر موت آگئی کہ اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے ایسے بندے موجود تھے جو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے مثلاً مغربی افریقہ ہے اس میں اسلام بہت قریب کے زمانہ میں پھیلا ہے یعنی اس ملک میں تبلیغ ۶۰ ۔ ۷۰ یا ۱۰۰ سال کے اندر ہوئی ہے بالعموم بربری` شامی اور سوڈانی لوگ وہاں گئے اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی جس کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ مسلمان ہوئے۔۵۸
پس انفرادی حیثیت سے مسلمانوں میں آخر تک تبلیغ ہوتی رہی ہے گو محدود ہوئی ہے لیکن اجتمای رنگ میں تبلیغ رسول کریم~صل۱~ کی وفات کے بعد ہی قریباً مفقود ہوگئی کیونکہ خلفاء ان جنگوں میں بھی جو عیسائیوں اور زرشتیوں کے خلاف لڑی گئیں اس قدر الجھ گئے کہ اس وقت جہاد اور تبلیغ دونون کو ایک سمجھ لیا گیا اور خلفاء کے بعد مسلمانوں پر جمود طاری ہوگیا۔ وہ دینوی شان و شوکت اور ترقیات کو اپنا منتہائے مقصود سمجھ بیٹھے اور تبلیغ کی اصل روح کو بھول گئے۔
پس انفرادی طور پر اسلام میں نہایت عظیم الشان لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کے فرض کو اچھی طرح ادا کیا۔ افغانستان میں مسلمان پھیل گئے۔ افریقہ میں وہ گئے اور وہاں تبلیغ کی۔ وہ چین` جاپان` انڈونیشیا اور ہندوستان میں آئے اور یہاں اسلام کی تبلیغ کی اور لاکھوں لوگ ان کے ذریعہ مسلمان ہوئے۔ غرض انہوں نے تبلیغ کی اور بڑی شان سے تبلیغ کی لیکن یہ انفرادیت تھی اجتماعیت نہیں تھی حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا ولتکن منکم امتہ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر۵۹ یعنی تم میں ہمیشہ ایک ایسی امت ہونی چاہئے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور نہیں نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔ اور امت کے معنے ایسی ہی جماعت کے ہیں جو اپنے اندر نظم رکھتی ہو۔ چونکہ امت اور امام ایک ہی مادے سے نکلے ہیں اس لئے درحقیقت امت وہی ہے جو اپنا مرکز رکھتی ہو` جب وہ مرکز سے نکل جائے گی ہم اسے امت نہیں کہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو امت محمدیہ کہتے ہیں۔ مسلمانوں میں چاہے کتنا اختلاف ہوجائے` چاہے ان کے کتنے فرقے بن جائیں امت رسول~صل۱~ ہی کی رہے گی اسی وجہ سے ہم باوجود حضرت مسح موعودؑ کو نبی کہنے کے اپنے آپ کو آپ )مسیح موعود۔ ناقل( کی امت نہیں کہتے۔ ہمارے بچوں تک سے پوچھو تو وہ کہیں گے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں` محمد رسول~صل۱~ کی امت ہوں` مسیح موعود کی جماعت میں سے ہوں۔ ہم عیسائیوں اور یہودیوں کو امت نہیں کہتے عیسائی اور یہودی حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ کے وقت میں امت تھے اب وہ امت نہیں رہے` اب وہ جماعت بھی نہیں رہے وہ ایک طائفہ ہیں` گر وہ ہیں` حزب ہیں امت نہیں کیونکہ کوئی امت صرف اس وقت تک امت کہلاتی ہے جبتک اس میں اتحاد ہو` امت اس وقت تک امت کہلاتی ہے جب تک وہ خاص مقاصد لے کر کھڑی ہوئی ہو۔ ام کے معنے خاص مقصد کے ساتھ چلنے کے بھی ہیں۔ اور امت وہی کہلاتی ہے جو کسی خاص مقصد کو لے کر کھڑی ہو اس میں نظم ہو وہ کسی مرکزی نقطہ کے گرد چکر کھا رہی ہو۔
ولتکن منکم امتہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو مقصد تبلیغ کو لے کر کھڑے ہوں` ان کا عمر بھر یہی کام ہو کہ وہ ایک نظام کے ماتحت رہیں` لیکن یہ بات رسول کریم~صل۱~ کے بعد نہیں رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپﷺ~ لوگوں کو اھر ادھر بھیج رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم فلاں جگہ پر جائو اور انہیں اسلام کی تعلیم دو` آپ~صل۱~ کے زمانہ میں ہمیں یہ نظر آٹا ہے کہ آپﷺ~ کے اردگرد لوگ بیٹھتے ہیں تاکہ وہ دین سیکیں` ہمیں نظر آتا ہے کہ وفود باہر جارہے ہیں تا وہ دوسرے لوگوں کو اسلام کی تعلیم سکھائیں اور باہر سے وفود آرہے ہیں تا مدینہ میں آکر وہ اسلام کی تعلیم حاصل کریں خلفاء کے وقت میں صحابہؓ جنگوں میں الجھ گئے اور اس طرح کی تبلیغ کے لئے وہ وقت نہ نکال سکے اور ان کے بعد لوگ سستی اور غفلت کی وجہ سے اس طرف سے ہٹ گئے اور انہوں نے اپنے مقصد کو بھلا دیا۔ چونکہ درمیان میں وقفہ پڑ گیا تھا اس لئے بعد میں آنے والے اپنے اس مقصد کو بھول گئے اور ولتکن منکم امتہ الخ پر عمل نہ ہوا۔
اب تبلیغ جیسے عظیم الشان کام کو جاری کرنے کے لئے سلسلہ احمدیہ نے تحریک جدید جاری کی ہے تا باہر سے لوگ بلوائے جائیں جو یہاں آکر دین سیکھیں اور ان میں سے ایسے لوگ تیار کئے جائیں جو باہر جا کر لوگوں کو دین سکھائیں یہی قرآن کہتا ہے کہ تم باہر کے لوگوں کو تحریک کرو کہ وہ تمہارے پاس آکر دین سیکھیں اور مرکز میں تم ایک ایسی جماعت تیار کرو جو باہر جائے اور لوگوں کو دین سکھائے تحریک جدید ان دونوں مقاصد کو پورا کرتی ہے۔ تیرہ سو سال کے عرصہ میں بعد از زمانہ نبوت صحابہؓ کے وقت میں مجبوراً اور ان کے بعد مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے ہمیں یہ چیز نظر نہیں آتی۔ آج صرف ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق )ملی ہے۶۰]4 ([rtf
یہ کتنا عظیم الشان کام ہے اس ایک کام کی وجہ سے تمہیں دوسروں پر فضیلت حاصل ہوجاتی ہے اور تمہاری مقابلہ میں کوئی اور ٹھہر نہیں سکتا۔<۶۱
گوجرانوالہ میں احمدیوں کا بائیکاٹ اور >الاعتصام<
۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کے آخر میں گوجرانوالہ میں احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی ایک مہم جاری کردی گئی جس کی اہلحدیث کے ترجمان >الاعتصام< نے سخت مذمت کی اور اس کے مدیر مسئول مولانا محمد حنیف صاحب ندوی نے >اقلیت کا مسئلہ اور مقاطعہ کی پالیسی< کے زیر عنوان حسبذیل اداریہ سپرد قلم کیا:۔
>چند ہفتوں سے گوجرانوالہ میں مزارئیوں کے مقاطعہ کے باقاعدہ مہم جاری ہے۔ پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ شائد یہ کوئی مقامی تحریک ہے` لیکن کتبوں سے جو اس سلسلہ میں دکانوں` ہوٹلوں اور دیواروں پر آویزاں کئے گئے ہیں یہ معلوم ہوا کہ یہ اسلامیان پاکستان کا متفقہ فیصلہ ہے۔
کتبوں پر اس ڈھنگ کی عبارتیں مرقوم ہیں >مرزائیوں کا بائیکاٹ کرو< مرزائیوں کے کھانے کے برتن الگ ہیں< مرزائیوں کا مقاطعہ اسلامیان پاکستان متحدہ فیصلہ ہے۔<
ہمارے نزدیک یہ تحریک قطعاً غلط` غیر ذمہ دارانہ اور مضر ہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے مجلس عمل نے اس نوعیت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا` حالانکہ مرزائیت کے خلاف یہی ایک نمائندہ جماعت ہے جسے کہنے سننے اور مستقل پالیسی وضع کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ مجلس احرار دوسری جماعت ہے اول روز سے جس کے مشن میں یب بات داخل ہے کہ مرزائیت نے جس جس فتنہ کو پیدا کیا ہے ان کی روک تھام کا اہتمام کرے` اس کا بھی کوئی ایسا فیصلہ ہماری نظر سے نہیں گذرا جس میں مقاطعہ کی تلقین کی گئی ہو۔ ذمہ دار اور صاحب بصیرت علماء سے بھی کوئی ایسا نہیں جس نے مرائیوں کے مقاطعہ کا فتویٰ دیا ہو۔
لٰہذا دو سوال یہاں قدرتاً ابھرتے ہیں اول یہ کہ جب یہ تحریک سوا گوجرانوالہ کے حلقہ کے اور کہیں نہیں پائی جاتی اور ملک کی کی کسی دینی و سیاسی جماعت نے اس اندازہ کا فیصلہ نہیں کیا تو اس تحریک کو چلانے والوں کو کیا حق ہے کہ اسے اسلامیان پاکستان کا متفقہ فیصلہ قرار دیں ؟
دوسر مجلس عمل نے اس لغویت کے خلاف کیوں کوئی نوٹس نہ لیا ؟ حالانکہ تحریک کی دیکھ بھا اور نگرانی اس کے فرائض میں داخل ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اس طرح کی تحریک آئندہ چل کر کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتی ہے؟ اور اس سے مجلس عمل کے راستے میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں؟
>الاعتصام< وہ پہلا پرچہ ہے جس نے اس موضوع پر پوری سنجیدگی سے قلم اٹھایا کہ مرزائیوں کو آئندہ دستور میں اقلیت سمجھا جائے` نیز مرزائیوں کو ازراہ اخلاص یہ مشورہ دیا کہ وہ اس معقول مطالبہ کو تسلیم کر لیں لیکن اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ مرزائیت کی مخالفت میں جو غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ قدم بھی اٹھایا جائے ہم اس کی تائید کریں گے۔
یاد رہے کہ قرآن نے ہمیں ہر حال میں متوازن رہنے کی تلقین کی ہے اور ہم سے بحیثیت مسلمان کے مطالبہ کیا ہے کہ دشمنی میں بھی حدود عدل و اعتدال سے متجاوز نہ ہوں۔ اس اصول کے پیش نظر ہمارے لئے یہ ناممکن ہے کہ اس نوع کی زیادتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور چپ رہیں۔ ہم اس طرز عمل کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہیں اور مجلس عمل سے درخواست کرتے ہیں کہ اس روش کے انسداد کے لئے وہ فوراً کوئی اقدام کرے ورنہ اگر یہ بدعت چل نکلی تو پورے پاکستان میں اس کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے۔ ان لوگوں کو جو مقاطعہ کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں خدارا اپنے مطالبہ کا تو احترام کرنا چاہئے اور عداوت و دشمنی میں اتنا غیر محتاط نہ ہونا چاہئے کہ نفس مطالبہ ہی لا یعنی ہو کر رہ جائے ہمیں کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے ہمارے اس مطالبے کو نقصان پہنچے کہ آئندہ آئین میں انہیں اقلیت ٹھہرایا جائے۔ ان لوگوں کو اس نتکہ پر غور کرنا چاہئے کہ اگر پاکستان میں انہیںکاروبار کی آزادی مہیا نہیں ہے بلکہ ہم ان پر اکتساب رزق کے دونوں کو اڑ سختی سے بند کردیتے ہیں تو یہ اقلیت کیونکر ہوئے ؟ انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مرزائی ایک اقلیت ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں ان کی جان محفوظ ہے اور کاروبار و ملازمت کے تمام دروازے ان پر کھلے ہیں۔ یہی نہیں اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ یہ اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آزادی کی ان سہ گونہ نعمتوں سے یہ محروم ہیں تو پھر یہ اقلیت ہرگز نہیں ہوسکتے۔ حریف و معاند گروہ ہوسکتے ہیں جس کو ہم نے بدرجہ مجبور پناہ دے رکھی ہے۔
مقاطعہ کے بظاہر دو مقصد ہوسکتے ہیں` ایک یہ کہ اس طرح کے غیر شائستہ اور جارحانہ طرز عمل سے انہیں مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا اقلیت ہونا مان لیں` دوسرے یہ کہ اپنے عقائد سے توبہ کر لیں۔۔۔ غور کیجئے گا تو دونوں صورتیں مہمل اور غیر دانشمند نظر آئیں گی۔
ہم جب مرزائیوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ہم سے الگ ایک قومیت ہیں تو یہ نہایت ہی سنجیدہ آور آئینی مطالبہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور نبوت سے` چاہے وہ جھوٹی ہو یا سچی ` مستقل بالذات گروہ معرض وجود میں آتا ہے اس لئے مرزائیوں کو چاہئے کہ اپنی اس حیثیت کو تسلیم کر لیں اور حکومت انہیں اقلیت کے تمام حقوق سے بہر مند کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کے اقلیت بن جانے سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ الٹا کچھ فوائد ہی حاصل ہوتے ہیں۔ تاہم اس مطالبہ پر ہمارا اصرار اس بناء پر ہے کہ مرزائیت کا مزاج اور حکومت کا دینی موقف اس کا متقاضی ہے۔۔۔ یہ مطالبہ چونکہ بالکل دینی اور آئینی ہے اس لئے اس کو منوانے کے لئے ہم کوئی ایسا طریق اختیار نہیں کریں گے جو مطالبہ کی معقولیت اور سنجیدگی کے منافی ہو۔
علاوہ ازیں اگر مرزائی پاکستان میں موجودہ حالات میں اپنے کو محفوظ نہ سمجھیں تو اقلیت کی صورت میں ان کو ان کی حفاظت کا یقین دلانا سخت احمقانہ۔۔۔ دوسرا سبب اس روش کو حق بجانب ٹھہرانے کا یہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح کی حرکات سے انہیں توبہ پر مجبور کیا جاسکے گا؟ لیکن کیا کوئی سمجھدار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ بائیکاٹ سے عقیدوں میں تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے ؟
ہم مجلس عمل کے ذمہ دار ارکان سے درخواست کریں گے کہ وہ اس بے ہودگی کو جس قدر جلد ہوسکے روکیں اور اپنے اعلانات اور طرز عمل سے ثابت کریں کہ ان کی جنگ کا رخ ان کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ جس غرض کے لئے کوشاں ہیں وہ سراسر آئینی اور سنجیدہ ہے۔<۶۲
حکام گوجرانوالہ سے احمدی وفد کی ملاقات
گوجرانوالہ کے مظلوم احمدیوں کے بائیکاٹ کی اطلاع سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کی خدمت میں پہنچی تو حضور نے مولوی نور الدین صاحب منیر۶۳ نائب ناظر دعوت و تبلیغ کو ضروری ہدایات دے کر گوجرانوالہ بھجوایا جہاں آپ نے قریباً چالیس احمدیوں سے بالمشافہ بات چیت کی اور حالات کا جائزہ لیا بعد ازاں ۳ ماہ فتح ۱۳۳۱ ہش۳ دسمبر ۱۹۵۲ء کو مقامی سربر آوردہ احمدیون کے ایک وفد کے ساتھ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملاقات کی اور اس ظالمانہ کارروائی کے سدباب کی طرف توجہ دلائی۔ اس وفد میں آپ کے علاوہ مولوی غلام مصطفیٰ صاحب نائب امیر گوجرانوالہ شیخ غلام قادر صاحبؓ تاجر اور سکھ لٹریچر کے سکالر گیانی عباد اللہ صاحب مبلغ سلسلہ۶۴ عالیہ احمدیہ بھی شامل تھے۔۶۵
حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے نام
۲۶۔۲۷۔۲۸۔ ماہ فتح ۱۳۳۱ ہش/دسمبر ۱۹۵۲ء کو تسکملایا میں جماعت احمدیہ انڈونیشیاء کی چوتھی سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی جس کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے درج ذیل پیغام ارسال فرمایا جو مکرم سید شاہ محمد صاحبرئیس التبلیغ انڈونیشیا نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا:۔
>بسم اللہ الرحمن الرحیم
برادران جماعت احمدیہ انڈونیشیا ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی سالانہ کنونشن عنقریب ہونے والی ہے اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں اس کے لئے پیغام لکھ کر بھجوائوں۔ اس وقت طبعیت کی خرابی کی وجہ سے میں زیادہ لمبا پیغام نہیں لکھوا سکتا مختصراً اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ میرے سال گزشتہ کے پیغام کے نتیجہ میں جماعت انڈونیشیاء نے دو ترقیاں تو یقیناً کی ہیں ایک تویہ کہ ان کا بحث شاندار طور پر ترقی کر گیا ہے ہمیں اس ترقی پر مغرور تو نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کام ہمارے سامنے بھی بڑا ہے اور اس کی نسبت رقم بہت تھوڑی ہے لیکن جو ترقی ہوئی ہے اس کی ہم ناشکری بھی نہیں کرسکتے اور اس سے ہم آنکھیں بھی بند نہیں کرسکتے۔ پس دل سے آپ کی اس قربانی پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جزاکم اللہ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کا بجٹ لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں اور کروڑوں اربوں تک پہنچے تاکہ تمام مشرقی ایشیاء میں آپ کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند ہو اور رسول کریم~صل۱~ کی حکومت ظاہر اور باطن پر قائم ہوجائے۔ اللہم آمین۔
دوسرا امر جس میں آپ لوگوں نے ترقی کی ہے وہ مرکز سے تعلقات ہے۔ اس سال کچھ نئے طالب علم بھی یہاں آئے ہیں اور بڑے خوشی کی بات یہ ہے کہ اب آپ میں سے بہت سے لوگوں نے میرے ساتھ خط و کتابت بھی شروع کی ہوئی ہے جو کہ پہلے نہیں ہوتی تھی۔ اس ذریعہ سے مجھے بھی آپ لوگ یاد آتے رہتے اور دعا کی بھی میرے دل میں تحریک ہوتی رہتی ہے اور یہ خوشی بھی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس دور دراز ملک میں بھی مجھے ایسے روحانی فرزند بخش چھوڑے ہیں جن کے دلوں میں میری محبت ہے اور جن کے خیالات بار بار میری طرف پھرتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی اس کنونشن کو مبارک کرے اور گزشتہ سال سے بھی زیادہ خدمت کی توفیق دے۔ یاد رہے کہ بغیر اچھے لٹریچر کے تبلیغ نہیں ہوسکتی اس لئے آپ لٹریچر کی طرف زیادہ توجہ کریں اور مختلف مضامین کے متلعق کتابین اور رسالے اپنی زبانمیں لکھ کر اپنے ملک میں شائع کریں۔ دوسرے اس امر کا بھی خلا رکھیں کہ سب سے زیادہ انڈونیشیا کی حفاظت اور اس کی ترقی کی ذمہ داری احمدیوں کے کندھوں پر ہے کیونکہ آپ دوسروں سے زیادہ ایمان کے مدعی ہیں اور رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ حب الوطن من الایمان۶۶ وطن کی محبت بھی ایمان کا ایک جزو ہے۔ پس اگر آپ میں ایمان زیادہ ہے تو آپ کی حب الوطنی بھی دوسروں سے زیادہ ہونی چاہئے لیکن حب الوطنی کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ انسان حب بنی نوع انسان سے محروم ہوجائے۔ حب الوطنی حب بنی نوع کا ایک حصہ ہے جیسے انسان اپنے ماں باپ سے محبت کرنے کے بعد اپنے بھائی بہن کی محبت سے آزاد نہیں ہوجاتا بلکہ ماں باپ کی محبت جتنی زیادہ ہو بھائی بہنوں کی محبت اسی نسبت سے زیادہ ہونی چاہئے` ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلق لکم ما فی الارض جمعیا )البقرہ ع( یعنی جو کچھ اس دنیا میں ہے سب ہم نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ اور اسی طرح زمین کے متعلق فرماتا ہے ولکم فی الارض مستقرو و متاع الی حین )البقرہ ع( پس حقیقتاً قرآن کریم نے ہمارا وطن ساری دنیا کو قرار دیا ہے۔ ہاں یہ بھی قران نے کہا ہے کہ سب سے پہلے اپنے قریب ہمسایوں کی طرف توجہ کرو۔ اس کی وجہ سے ہم اپنے ملک کو اپنا وطن قرار دیتے ہیں لیکن حقیقاً ساری دنیا مسلمان کا وطن ہے اور سارے بنی نوع انسان اس کے بھائی ہیں۔ پس اپنے ملک اور اہل ملک سے محبت کے یہ معنے نہیں کہ اپنے زیادہ وسی ملک اور اپنی زیادہ وسیع برادری کو انسان بھول جائے` مومن کو چاہئے کہ اپنی نظروں کو وسیع کرے اور ساری دنیا کی بہتری اور ترقی کی طرف توجہ کرے۔ آپ آج تھوڑے اور کمزور ہیں دنیا آپ کو اس وسیع کام کے نااہل سمجھتی ہے اور نہ اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے لیکن آنے والا دن یہ ذمہ داریاں آپ پر ہی ڈالنے والا ہے۔ پس اگر آپ آج ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لئے تیاری نہیں کریں گے اور اگر آپ آج اپنے خیالات کو وسیع نہیں کریں گے تو کل جب وہ وقت آئے گا آپ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ پس یہ نہ دیکھیں کہ آج آپ کے سپرد یہ کام نہیں بلکہ اس امر کو مدنظر رکھیں کہ آپ کے سپرد یہ کام ہونے والا ہے اور ہر کام کو ہاتھ میں لینے سے پہلے اس کے لئے پوری تیاری کرنی ضروری ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی وسیع ذمہ داریوں کی سمجھ عطا فرمائے اور اس کیلئے تیاری کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
)خاکسار مرزا محمود احمد(۶۷
اس روح پرور پیغام نے انڈونیشین احمدیوں پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری کردی اور کئی ایک مخلصین اشک بار ہوئے۔
پیغام امام کا انڈونیشین میں ترجمہ کیا گیا اور اس کی ہزار کاپیاں حضور کے عکسی دستخطوں کے ساتھ شائع کی گئیں۔ ۶۸
فصل سوم
سالانہ جلسہ قادیان اور حضرت مصلح موعودؓ کا روح پرور پیغام
ضروری کوائف
اس سال بھی قادیاناور ربوہ میں ابراہیمی طیور کا اجتماع ہوا۔ ان مبارک ایام کے لئے دونوں مراکز احمدیت میں ہسبدستور ۲۶۔۲۷۔۲۸۔ ماہ فتح/دسمبر کی تاریخین مقرر تھیں۔ اس دفعہ جلسہ سالانہ قادیان کے لئی دہلی سے رنگین پوسٹر چھپوائے گئے جو قادیان کے علاوہ گوداسپور` دھاریوال` بٹالہ اور امرتسر میں بھی آویزاں کئے گئے۔
جلسہ میں جن ہندوستانی احمدی جماعتوں نے شرکت فرمائی ان کے نام یہ ہیں:۔
دہلی` یوپی` سی پی` مدراس` مالا بار` حیدر آباد دکن` بمبئی ہبلی۶۹ بہار` اڑیسہ` پاکستان کے ۱۹۲ خوش نصیب زائرین کے قافلہ کو چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی معیت میں مبارک تقریب میں شرکت کا فخر حاصل ہوا۔ ۷۰
برصغیر پاک و ہند کے علاوہ شام اور مشرقی افریقہ کے بعض احمدی دوست بھی شامل جلسہ ہوئے علاوہ ازیں معزز طبقہ کے غیر مسلم اصحاب اور خواتین ۷۱ کی حاضری گزشتہ سالوں کی نسبت اس زیادہ رہی اور ہر اجلاس میں ان کی تعداد ایک ہزار سے بارہ سو کے لگ بھگ رہی۔
تقسیم ملک کے بعد یہ پہلا جلس تھا جس میں افتتاحی اجلاس سے اختتام تک لوائے احمدیت لہراتا رہا اور عشاق احمدیت والہانہ جذبہ سے سرشار ہو کر اس کی پاسبانی کا فرض ادا کرتے رہے۔
بیک وقت چار مخلصین اس خدم تپر متعین رہے۔ جلسہ میں پہلی بار صدر انجمن احمدیہ قادیان کا خرید کیا ہوا لائوڈ سپیکر استعمال کیا گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کا روح پرور پیغام
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس مرکزی جلسہ کے لئے ایک روح پرور پیغام عطا فرمایا تھا جو پاکستان قافلہ کے امیر چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایاجس کا متن درج ذیل ہے:۔27
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران جماعت احمدیہ ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
آج پانچ سال سے اوپر ہوگئے کہ قادیان کی جماعت کا اکثر حصہ ہجرت کر کے پاکستان آچکا ہے اور برصغیر ہندوستان کی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب بھی ہندوستان میں اتنی جماعت موجود ہے کہ اگر وہ صحیح طور پر خدمت کرے تو ایک اعلیٰ درجہ کی پنیری کا کام دے سکتی ہے اور میں آپ لوگوں کو آپ کے اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
آپ جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کی مالی مدد نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے ہم نے ہندوستان کو پاکستان کی انجمن کو مددینے سے بالکل آزاد کردیا ہے اور تمام ہندوستان جماعت کو یہ نصیحت کی ہے کہ وہ اپنا روپیہ صدر انجمن احمدیہ قادیان کو دیں اور اسی کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ کسی قسم کی بین الاقوامی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔ بہت سے لوگ شرارت سے آپ لوگوں کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے رہتے ہیں کہ گویا خلیفہ وقت کے پاکستان آجانے کی وجہ سے آپ لوگ بھی پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی غرض محض حکومت اور جماعت کے درمیان منافرت پیدا کرنا ہے حالانکہ میرے نزدیک ہندوستان کے ہر احمدی کو سوائے اس کے کہ اسے مجبور کر کے نکال دیا جائے ہندوستان میں ہی رہنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ ہماری جماعت کا وہ مرکز جسے بانی سلسلہ احمدیہ نے قائم کیا تھا ہندوستان میں ہی ہے ار یہ کتنی حماقت کی بات ہوگی کہ وہ قوم جو اپنے مبلغ امریکہ اور جرمن اور سپین اور ہالینڈ اور فرانس اور انگلینڈ کو مسلمان بنانے کے لئے بھجوا رہی ہے وہ ہندوستان کو خالی چھوڑ دے جو کہ کسی زمانہ میں اسلام کی شان و شوکت کا ایک بڑا بھاری نشان تھا۔ ہم تو اسے خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور حکومت ہند کے معاہدات میں دونوں طرف دونوں قوموں کو رہنے کی اجازت ہے اور اس طرح وہ مواد موجود ہے جو کسی وقت دونوں ملکوں میں صلح پیدا کرنے کا موجب ہوجائے گا۔
پس آپ لوگ اس قسم کے پراپیگنڈا سے بالکل متار نہ ہوں اور اپ کے دل غمگین نہ ہوں کیونکہ شریر لوگ ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں۔ آپ اسی طرح اپنے ملک کی وفاداری کریں جس طرح کہ ہم لوگ پاکستان کے وفدار ہیں۔ لیکن اس بات کو یاد رکھیں کہ ہندوستان کا یہ اعلان ہے کہ وہ دینوی حکومت ہے اور مذہبی حکومت نہیں ہے اور اس طرح اس نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی نہیں کریں گے جس کے معنے یہ ہیں کہ حکومت ہندوستان خدا کے سامنے اپنے آپ کو بری کرچکی ہے۔ اسی طرح مہذب دنیا کے سامنے بھی اپنے آپ کو بری کرچکی ہے۔ اگر اس کے اس اعلان کے بعد آپ لوگ تبلیغی میں سستی کریں یا آپ لوگ اشاعت میں سستی کریں تو یقیناً خدا کی نگاہ میں اور دنیا کی نگاہ میں مجرم ہوں گے حکومت ہندوستان مجرم نہیں ہوگی۔
ہندوستان میں اس وقت مسلمان جس کمزوری کی حالت میں سے گزر رہے ہیں وہ یقیناً ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا کرنے کا موجب ہورہی ہے۔ اسی طرح ہندو قوم بھی آزادی کے بعد سیاست میں اب اتنی رغبت نہیں رکھتی جتنی کہ پہلے رکھتی تھی۔ ان میں بھی ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو دین کی جستجو کرنے لگ گیا ہے اور صداقت کی تلاش اس کے دل میں پیدا ہوگئی ہے۔ پس ان مسلمانوں تک پہنچنا جن کے دل شکستہ ہیں اور خدا کے خوف سے معمور ہوچکے ہیں آپ کا فرض ہے۔ اسی طرح وہ غیر مسلم جن کے دل میں اب دین کی جستجو پیدا ہوگئی ہے اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کا کام ہم نے پورا کر لیا` ہمارا ملک آزاد ہوگیا` اب ہمیں خدا کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے ان کی طرف بھی آپ کا جانا ضروری ہے۔ دیکھو مسیح نے کہا تھا کہ میں نبی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں جو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں اور مسیح صلیب کے شدید طور پر تکلیف دہ واقعہ کے بعد جس طرح ہوا گرتا پڑتا ان گمشدہ بھیڑوں کی طرف گیا۔ قادیان میں جو انقلاب ہوا ہے وہ تمہارے لئے بھی ایک صلیب جیسا ہی واقعہ ہے` مگر اس صلیب پر سے صرف ایک شخص بچا تھا اور تم ہزاروں آدمی اس دوسری صلیب سے بچ گئے ہو۔
اگر تم بھی مسیح کی طرح یہ ارادہ کر لو کہ خدا کی گمشدہ بھیڑوں کو تم نے جمع کرنا ہے تو تم ایک عظیم الشان کام کرسکتے ہو۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہندوستان کی جماعتوں نے موقع کی نزاکت کو نہیں سمجھا` اور مجھے افسوس ہے کہ صدر انجمن احمدیہ قادیان نے بھی اب تک اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھا۔ وہ صرف ایک گائوں کی پنچائیت کی حیثیت اپنے آپ کو دیتے ہیں اور ایک ملک کا بوجھ اٹھانے والے اور ملک کی آزادی کا بیڑہ اٹھانے والے لیڈروں کی حیثیت اپنے آپ کو نہیں دیتے۔ ایک پیاسے کو پانی پلانا ثواب کا موجب ہے لیکن ایک گمراہ کو ہدایت دینا تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ نہ صدر انجمن احمدیہ قادیان نے نہ تم نے اس بارہ میں کوئی موثر قدم اٹھایا ہے۔
سب سے پہلی چیز تو یہ تھی کہ امن کے قیام کے بعد قادیان کے جلسہ میں ہزاروں ہزار احمدی آتا مگر آپ لوگ تو اب بھی اسی طرح آرہے ہیں جس طرح کہ خطرہ کے وقت میں آتے تھے` وہ وقت گذر چکا` ملک میں خدا کے فضل سے امن ہوگیا اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ سال میں کم سے کم ایک دفعہ تو قادیان آئین اور یہاں آکر ان امور پر غور کریں جو آپ لوگوں کی بہتری کے لئے ضروری ہیں اور جو آپ کی ترقی کا موجب ہوسکتے ہیں۔ پس جب آپ لوگ واپطس جائیں تو ہر احمدی کے کان میں یہ بات ڈالیں کہ وہ آئندہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیانہ چلنے کی کوشش کریں اور دوران سال میں بھی اسی طرح بلکہ اس س ے بھی زیادہ زور سے قادیان آتے رہیںجیسا کہ تقسیم سے پہلے آتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو اردو` انگریزی` ہندی` گورمکھی اور گجراتی پریس قائم کرنے چاہئیں ہندی تو ہندوستان کی حکومتی زبان ہوگئی ہے اور گورمکھی گویا پنجاب کی ایک رنگ میں حکومتی زبان ہے اور اردو ملک کے غیر سیاسی ملکی زبان ہے۔ انگریزی جاننے والے اب تک بھی اس کثرت سے اس ملک میں پائے جاتے ہیں کہ جن علاقوں میں کسی اور زبان سے تبلیغ نہیں کی جاسکتی ان میں انگریزی کام دیتی ہے لیکن اب تک اردو کا پریس بھی جاری نہیں ہوا` کجا یہ کہ اسے ترقی دے کر بڑھایا جائے۔ پھر مبلغین کا سوال ہے میں متواتر کئی سال سے صدر انجمن احمدیہ کو لکھ رہا ہوں مگر اب تک مبلغین پیدا کرنے کی طرف ہرگز پوری توجہ نہیں ہوئی۔ ہندوستان میں کم سے کم ہمارے دس بارہ علماء موجود ہیں میں نے کہا تھا کہ ہر عالم کے ساتھ دو دو لڑکے لگائو وہ چھ سات سال میں ان کو عالم بنا کر نکالے اس طرح دس بارہ سال میں تمہارے پاس سینکڑوں لماء ہوجائیں گے لیکن افسوس ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ خرچ نہیں۔ کیا صحابہؓ کے پاس خرچ ہوا کرتا تھا؟ کیا موت کے منہ میں آئی ہوئی قومیں بجٹوں کو دیکھا کرتی ہیں؟ کیا عظیم الشان ارادوں والے لوگ اپنی کوتاہ امنیوں کا کبھی خیال کیا کرتے ہیں ؟ اپنی سستیوں کو چھوڑو` غفلتوں کو ترک کرو` اپنی تنگ دامنیوں کو بھول جائو۔ خدا نے انسان کے دل کو بڑی وست دی ہے تم اس وسعت کو دیکھو جو خدا نے تمہارے دل میں پیدا کی ہے۔ تم اس کام کو دیکھو جو خدا نے تمہارے سامنے رکھا ہے۔ تم بنی نوع انسان کی ان تکلیفوں کو دیکھو جو روحانی طور پر ان کو پہنچ رہی ہیں۔ تم مظلوموں کی ان آوازوں کو سنو جو خدا کا رستہ دکھانے کے لئے کرب اور اضطراب کے ساتھ بلند کی جارہی ہیں اور تم اس بات کو دیکھو کہ تمہارے ان کاموں کو کرنے والا کوئی نہیں۔ اور خدا کے ان وعدوں کو دیکھو جو تمہارے لئے گئے ہیں۔ اوراپنے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرو۔ جلد سے جلد علماء پیدا کرو۔ جلد سے جلد تبلیغ کا کام اپنے ہاتھ میں لو۔ جلد سے جلد لٹریچر پیدا کرنے اور اس کو شائع کرنے کی کوشش کرو۔ اور تم میں سے ہر شخص اپنے عمل تبدیلی پیدا کرے۔ اپنے دل میں محبت الٰہی پیدا کرے اور اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ خدا تعالیٰ اس کی مدد کرے۔
کاش ! خدا تعالیٰ تمہارے دلوں میں ان باتوں کی عظمت اور اہمیت ڈال دے` اور کاش! اس جلسہ پر تم ایک نئی وجود بن کر جائو۔ ملک کو روحانی دعوت دینے والے` ملک کو روحانی ترقی بخشنے والے اور پھر ساری دنیا کے لئے مفید وجود ثابت ہونے والے بن کر جائو۔ خدا کے وعدوں کو ساتھ لے کر جائو۔ اور خدا کی مدد کو ساتھ لے کر جائو۔ اللھم آمین۔
مرزا محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی و امام جماعت احمدیہ ۔ ربوہ ۷۳
حضور مصلح موعودؓ کا مندرجہ بالا پیغام پورے جلسہ کی روح رواں تھا جس نے بھارتی جماعتوں میں اشاعت اسلام کی نئی روح پھونک دی۔
فاضل مقررین
علماء احمدیت کی تقاریر بھی ازدیاد ایمان کا باعث بنیں۔ اس مبارک جلسہ سے خطاب کرنے والوں مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل یا دگیر` گیانی واحد حسین صاحب` مولوی شریف احمد صاحب امینی` مولانا ابو العطا` صاحب جالندھری` مولوی محمد سلیم صاحب` گیانی عباد اللہ صاحب` حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` حضرت مولوی رحمت علی صاحب مجاہد انڈونیشیاء جیسے فاضل اور ممتاز مبلغین سلسلہ تھے۔
جلسہ کے صدر
صدارت جلسہ کے فرائض انجام دینے والے اصحاب کے نام یہ ہیں:۔
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب حیدر آباد دکن` حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل` سید بشارت احمد صاحبوکیل حیدر آباد` مولانا ابو العطاء صاحب` چوہدری اسد اللہ خاں صاحب )امیر قافلہ(
تاثرات قادیان
امیر قافلہ چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب نے قادیان سے مراجعت کے بعد لاہور میں ایک تقریر میں اس کامیاب جلسہ کے تاثرات بیان فرمائے۔
آپ نے درویشوں کے عملی نمونے ان کی تبلیغی جدوجہد اور اس کے خوشکن اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ غیر اسلامی ماحول میں درویشوں کی بستی کا موجود ہونا اور اپنے کردار سے اس ماحول کو متاثر کرنا صاف اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ آج اگر دنیا میں اسلام زندہ رہ سکتا ہے تو اس جماعت کی مجاہدانہ کوششوں کے ذریعہ ہی رہ سکتا ہے جسے خدا نے اس زمانہ کے مصلح حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کے ہاتھوں قائم کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مرکز سے جدائی پر ہمارے دل افسردہ ضرور ہیں لیکن اس میں بھی خدا تعالیٰ کی ایک حکمت کار فرما تھی۔ اس نے اپنی وراء الوریٰ حکمتوں کے تحت ایک وسیع علاقے کو اسلام کے روحانی ورثہ سے خالی کر کے اور وہاں درویشوں کے وجود میں ایک مختصر سی جماعت باقی رکھ کر تبلیغ کا میدان بے انتہا وسیع کردیا ہے۔ ہوسکتا تھا کہ اگر ہم مرکز میں ہی مقیم رہتے تو تبلیغ سے غافل ہوجاتے۔ خدا نے عارضی جدائی ڈال کر ہمیں بیدار کردیا اور ساتھ ہی ایسے حالات بھی پیدا کردیئے کہ ہم تبلیغ کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے چلے جائیں چنانچہ ہمارا ایمان ہے کہ غلبہ اسلام کے وہ وعدہ جو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح سے کئے تھے عنقریب پورے ہون گے اور تین سو سال نہیں گزریں گے کہ دنیا میں بجز اسلام کے اور کوئی مذہب قابل ذکر حالت میں باقی رنہ رہے گا دوسرے مذاہب والے ہون گے لیکن نہایت قلیل تعداد میں۔
چوہدری صاحب نے درویشوں کی قابل رشک زندگی اور ان کے جذبہ قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ درویشوں نے احباب کو بھی پیغام بھیجا ہے کہ آپ اپنی پنجگانہ نہ دعائوں میں ہمیں نہ بھولیں۔ ہمارے دل مسرت سے لبریز ہیں کہ خدمت دین کی توفیق ہمیں مل رہی ہے اور اس نے خدمت کا موقعہ عطا فرما کر ہمیں حصول رضا کے بہترین مواقع عطا کئے ہیں۔ ہم ہر طرح خوش ہیں البتہ آپکی دعائوں کے طالب ضرور ہیں۔ فی الحقیقت کسی درویش کے چہرے پر افسردگی نہ تھی وہ سب بشاش تھے اور اس نشہ میں سرشار کہ انہیں شعائر اللہ کی حفاظت کا موقعہ مل رہا ہے اور خدا اور اس کے رسول~صل۳~ کا نام بلند کرنے کی سعادت ان کے حصہ میں آرہی ہے۔
آپ نے درویشان قادیان کے ذکر و فکر اور علمی مشاغل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے درویش بھائی ہر آن دین کی خدمت میں مصروف ہیں اور ساتھ ساتھ علمی لحاظ سے ترقی کرنے کی فکر بھی انہیں دا منگیر ہے۔ چنانچہ جو چیزمیرے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہوئی وہ یہ تھی کہ ڈسکہ کا ایک نوجوان درویش پہلے علم سے بالکل کورا تھا اور اپنے پیشے کے اعتبار سے حصول علم کی طرف اس کا مائل ہونا ممکن نظر نہ آتا تھا لیکن درویشی کی حالت میں اسے لکھنے پڑھنے اور دین کا علم حاصل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی اس نے علم حاصل کیا اور اتنا حاصل کیا کہ اسے مبلغ بنا کر ہندوستان کے ایک علاقے میں بھیج دیا گیا` وہاں خدا نے اس کی تبلیغی کوششوں میں برکت دی اور اس نوجوان ان کے ذریعہ جو پہلے علم سے بالکل کورا تھا خدا نے سات خاندانوں کو قبول حق کی توفیق عطا فرمائی جن کے افراد کی تعداد ستر کے قریب بنتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کرتا ہے خدا تعالیٰ کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرتی کہ اسے ضائع ہونے دیا جائے خدا خود اس کا متکفل ہوتا ہے اور اس سے وہ کام لیتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
چوہدری صاحب نے غیر مسلمون کے ساتھ درویشوں کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب ابتدائی ایام میں ہندو اور سکھ تارکین وطن وہاں پہنچ کر آباد ہوئے تو انسانی ہمدردی کے طور پر درویشوں نے حسب توفیق ان کی امداد کی` انہیں کپڑے اور برتن وغیرہ مہیا کئے اس کا ان پر بہت گہرا اثر ہوا۔ چنانچہ ابتداً درویشوں کو بائیکاٹ وغیرہ کے باعث تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تو ایک غیر مسلم ضعیف خاتون نے درویشوں کے ساتھ نہایت اچھا سلوک روا رکھا اور دوسروں کو بھی درویشوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی ترغیب دلائی۔
مکرم چوہدری صاحب نے درویشوں کے ساتھ اس ضعیفہ کے مشفقانہ سلوک کے بعد نہایت پر اثر واقعات بیان کئے اور اس کے نتیجہ میں خود اس ضعیفہ پر بعض خدائی نوازشات کا بھی ذکر کیا جو سامعین کے لئے بہت ازدیاد ایمان کا موجب ہوئیں- آپ نے بتایا کہ وہ ضعیفہ درویشوں کے ساتھ بیٹوں کا سلوک کرتی ہے اور جب کسی درویش کی شادی ہوتی ہے تو وہ اس کی بیوی کو اپنی بہو سمجھ کر اسے ہر قسم کا آرام پہنچاتی ہے اور ساس بن کر چند دن تک اس کے گھر کا کام کاج خود کرتی ہے۔ ابتداء میں جب درویشوں نے بہشتی مقبرہ کے گرد کچی چار دیواری تعمیر کی تو اس نے اپنی زمین سے چار دیواری کے لئے نہایت خوشی سے مٹی مہیا کی حالانکہ بعض لوگ اسے منع بھی کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی رنگ میں اسے اس کا اجر عطا فرمایا۔
آپ نے یہ بھی بتایا کہ اس مرتبہ آپ کی درخواست پر حضور نے لاہور سے قافلے کی روانگی کے وقت ربوہ میں خصوصیت سے دعا فرمائی۔ چنانچہ حضور کی دعائوں ہی کا یہ اثر تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے لاہور سے قایان تک اور واپسی میں بھی اہل قافلہ کو کسی مشکل سے دو چار ہونا نہیں پڑا اور تمام سفر فبضلہ تعالیٰ نہایت خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔۷۴
اہل قافلہ قادیانہ )دسمبر ۱۹۵۲ء(
نوٹ:۔ مندرجہ ذیل فہرست قافلہ کی روانگی سے قبل کی ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ناظر خدمت دوریشاں کی طرف سے الفضل مورخہ ۹ و ۱۶ دسمبر ۱۹۵۲ء میں چھپی یہ حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کی گئی ہے:۔
۱۔
اللہ رکھی صاحبہ زوجہ فضل الرحمن صاحب درویش ربوہ
۲۔
امتہ الرحمن ریحانہ صاحبہ بنت چوہدری اللہ بخش صاحب۔ ربوہ
۳۔
امتہ السمیع صاحبہ زوجہ مرزا عبداللطیف صاحب ربوہ
۴۔
آمنہ بیگم صاحبہ بنت حکیم اللہ بخش صاحب مرحوم۔ ربوہ
۵۔
مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری ولد شیخ امام الدین صاحب مرحوم
۶۔
احمد دین صاحب ولد محمد عارف صاحب مظگمری
۷۔
اللہ بخش صاحب ولد فتح دین صاحب ڈسکہ کلاں
۸۔
اللہ بخش صاحب ولد میاں غلام رسول صاحب راولپنڈی
۹۔
امتہ الرحمٰن صاحبہ بنت حاکم خاں صاحب ربوہ
۱۰۔
احمد دین صاحب ولد صدر الدین صاحب ککروالی
۱۱۔
الٰہی بخش صاحب ولد جمال دین صاحب شاہدرہ
۱۲۔
اللہ رکھی صاحبہ زوجہ غلام قادر صاحب چک ۸۷۲ شیرکا
۱۳۔
اللہ رکھی صاحبہ والدہ مرزا محمود بیگ صاحب ربوہ
۱۴۔
چوہدری انوار الحق صاحب والد چوہدری عبدالحق صاحب چودھا مل بلڈگ لاہور۔
۱۵۔
ملک احسان اللہ صاحب مبلغ افریقہ اور ملک خدا بخش صاحب مرحوم۔ لاہور
‏]in [tag۱۶۔
امتہ القیوم بیگم صاحبہ بنت چوہدری ہدایت اللہ صاحباکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ
۱۷۔
امتہ الرحمن صاحبہ زوجہ منشی عطاء الرحمن صاحب۔ فتح جنگ ضلع کیمبلپور۔
۱۸۔
آمنہ بی بی صاحبہ بنت کرم داد صاحب۔ کرتو ضلع شیخوپورہ۔
۱۹۔
مرزا اعظم بیگ صاحب ولد مرزا رسول بیگ صاحب۔ ٹنڈو آدم )سندھ(
۲۰۔
آمنہ بی بی صاحبہ زوجہ قاضی عبدالعزیز صاحب مرحوم۔ ربوہ
۲۱۔
سید امجد علی صاحب علی شاہ صاحب مرحوم۔ سیالکوٹ
۲۲۔
احمد علی صاحبولد چوہدری جان محمد صاحبنصرت آباد اسٹیٹ )سندھ(
۲۳۔
چوہدری احمد اللہ خاں صاحب ولد چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم۔ لاہور
۲۴۔
اللہ دتہ صاحب ولد اللہ جو ایا صاحب سدو کے ضلع گجرات۔
۲۵۔
آمنہ بی بی صاحبہ زوجہ مرزا محمد زمان صاحب نوشہرہ ککے زئیاں ضلع سیالکوٹ۔
۲۶۔
اللہ دتہ صاحب ولد علی محمد صاحب بوت میکر برادر نسبتی محمد احمد صاحب فقیر سائیں ربوہ۔
۲۷۔
‏ind] ga[t ارشد علی صاحب ایڈووکیٹ سابق بٹالہ حال سیالکوٹ شہر۔
۲۸۔
پیر بشیر احمد صاحبولد پیر عبدالرشید صاحب ماڈل ٹائون لاہور۔
۲۹۔
مولوی برکت علی صاحب لائق سابق امیر جماعت احمدیہ لدھیانہ ولد میاں امام دین صاحب مرحوم جڑانوالہ
۳۰۔
بشیر احمد صاحب ولد میاں سلطان احمد صاحبڈوگری صغریاں ضلع سیالکوٹ
۳۱۔
بی بی اہلیہ عبدالرحیم صاحبسندھی درویش کرنڈی خیر پور میرس سندھ۔
۳۲۔
بیگم بی بی صاحبہ بنت احمد علی صاحب۔ کرنڈی خیر پور میرس سندھ۔
۳۳۔
بشیر بیگم صاحبہ بنت چوہدری اللہ دتہ صاحب چک نمبر ۸۴ بہاولپور
۳۴۔
بیگم بی بی صاحبہ زوجہ عزیز الدین صاحب کوٹ عبداللہ نبی سر روڈ سندھ۔
۳۵۔
سردار بشیر احمد صاحبولد حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب مرحوم۔ رسول گجرات۔
۳۶۔
بشریٰ اسد اللہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم۔ لاہور
۳۷۔
ثناء اللہ صاحب ولد عبدالحق نور صاحب کرنڈی خیر پور میرس سندھ۔
۳۸۔
جمال الدین صاحب ولد مولوی فضل دین صاحب مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ۔
۳۹۔
جنت بی بی صاحبہ اہلیہ محمد یوسف صاحب زیروی چک ۱۷۰ ضلع ملتان۔
۴۰۔
جان محمد ولد سردار محمد صاحب شرقپور خورد ضلع شیخوپورہ
۴۱۔
چراغ بی بی صاحب بنت فضل دین صاحب ربوہ
۴۲۔
حبیب اللہ صاحب ولد فتح دین صاحب کرنڈی خیر پور یرس سندھ۔
۴۳۔
حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا اعظم بیگ صاحب ٹنڈو آدم )سندھ(
۴۴۔
خورشید بیگم صاحبہ زوجہ بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار۔ ربوہ۔
۴۵۔
مولوی خلیل الرحمن صاحب ولد عبدالرحیم خاں صاحب۔ محلہ رام پور پشاور
۴۶۔
حامد اختر احمد صاحب ولد ڈاکٹر بشیر احمد صاحب درویش۔ وسوعہ ضلع لائلپور
۴۷۔
مستری دین محمد صاحب ولد امام الدین صاحب جہلم بڑا بازار۔
۴۸۔
رحمت بی بی صاحب اہلیہ فقیر محمد صاحب ربوہ۔
۴۹۔
ربیعہ خانم صاحب بنت قطب الدین صاحب مرحوم۔ احمد نگر
۵۰۔
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی مبلغ بلاد عربیہ ولد باب نور احمد صاحبؓ ۔ربوہ
۵۱۔
رحیم بخش صاحب ولد دین صاحب احمد نگر
۵۲۔
رسول بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مبارک علی صاحب۔ چک چہور نمبر۱۱۷ ضلع شیخوپور
ریشم بی بی صاحبہ بیوہ فتح دین صاحب مرحوم شیخ پور ضلع گجرات۔
۵۳۔
ریشم بی بی صاحبہ بیوہ فتح دین صاحب مرحوم شیخ پور ضلع گجرات۔
مولانا رحمت علی صاحبؓ مبلغ انڈونیشیا لالہ بابا محمد حسن صاحبؓ۔ ربوہ
۵۴۔
مولانا رحمت علی صاحبؓ مبلغ انڈونیشیا لالہ بابا محمد حسن صاحبؓ۔ ربوہ
۵۵۔
رابعہ بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ دین صاحب شاہدرہ۔
۵۶۔
رشید بیگم صاحبہ اہلیہ نبی احمد صاحب درویش دیہہ منیر خاں شاہانی خیرپور میرس
۵۷۔
رحیمن صاحبہ بنت چھجو صاحب معرفت نور محمد صاحب اہل مد۔ لاہور
۵۸۔
رفیقاحمد صاحببرادر اہلیہ شیخ عبدالحمید صاحب عاجز۔ لاہور
۵۹۔
رفیق احمد صاحبولد ملک محمد طفیل صاحب ٹمبر مرجنٹ لاہور۔
۶۰۔
رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ نواب خاں صاحب درویش۔ ربوہ
۶۱۔
رحمت بی بی صاحبہ بنت صلابت خاں صاحب چک ۹۹ شمالی سرگودھا
۶۲۔
زینب بی بی صاحبہ بنت میاں علی محمد صاحب مرحوم بھیک چند روڈ کوئٹہ۔
۶۳۔
زینب بی بی صاحبہ بنت عبدالحمید صاحب سید والا ضلع شیخوپورہ۔
۶۴۔
زینب بیگم صاحبہ بنت عبدالخالق صاحب جلیانوالہ۔ گوجرہ۔
۶۵۔
زینب بی بی صاحبہ بنت فضل کریم صاحب شادیوال گجرات۔
۶۶۔
زینب بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری جان محمد صاحب نصرت آباد سٹیٹ۔ سندھ
۶۷۔
بھابی زینب بی بی صاحب بنت احمد بخش صاحب۔ ربوہ
۶۸۔
سید محمد صاحب ولد چوہدری نواب دین صاحب۔ دھنی دیو چک ۳۳۲ لائلپور
۶۹۔
سلیم حسن صاحب الجابی )الشامی( ولد حسن بصری صاحب۔ ربوہ
۷۰۔
خلیفہ سراج الدین صاحب ولد شیخ قطب الدین صاحب۔ کلاس والا۔ سیالکوٹ
۷۱۔
سکینہ بی بی صاحبہ اہلیہ منشی یعقوب علی صاحب گھنو کے ججہ ضلع سیالکوٹ
‏in] g[ta۷۲۔
سردار بی بی صاحبہ بنت سردار خاں صاحب شادیوال ضلع گجرات
۷۳۔
سردار بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری نور احمد
۷۴۔
سلطان محمود انور صاحب ولد چوہدری محمد دین صاحب۔ ربوہ
۷۵۔
سعد بن ظریف صاحب ولد محمد علی صاحب وکیل۔ پرتاپ سکوئر۔ لاہور
۷۶۔
مسماۃ سادو صاحبہ بنگ عبدالکریم صاحب ربوہ
۷۷۔
سعید احمد صاحب پسر ٹھیکیدار بشیر احمد صاحب درویش۔ ربوہ
۷۸۔
سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ بھائی شیر محمد صاحب درویش۔ اوکاڑہ
۷۹۔
منشی سلطان عالم صاحب خسر محمد احمد صاحب گجراتی درویش۔ گوٹریالہ گجرات۔
۸۰۔
ملک شیر محمد صاحب ولد ملک کرم دین صاحب ۔ ربوہ
۸۱۔
چوہدری شاہ محمد صاحب ولد چوہدری حسن محمد صاحب دھار والی شیخوپورہ
۸۲۔
شمشیر علی صاحب ولد چوہدری فتح شیر صاحب۔ میانوالی
۸۳۔
شریف احمد صاحب ولد چوہدری فضل احمد صاحب۔ ربوہ۔
۸۴۔
شاہ محمد صاحبولد عبداللہ صاحب لدھو والی ورکاں شیخورہ
۸۵۔
چوہدری شبیر احمد صاحب بی۔ اے وکالت مال ۔ ربوہ
۸۶۔
صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عبداللہ صاحب درویش۔ گوجرہ
۸۷۔
صدیقہ بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی شریف احمد صاحب امینی۔ راولپنڈی
۸۸۔
مستری صلاح الدین صاحب ولد مستری نظام الدین صاحب چانگریاں ضلع سیالکوٹ۔
۸۹۔
طالعہ بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالحمید صاحب درویش۔ ربوہ
۹۰۔
عبداللطیف صاحب ولد نور محمد صاحب ربوہ۔
۹۱۔
عالم بی بی صاحبہ اہلیہ جلال دین صاحب درویش۔ ربوہ
۹۲۔
عطا بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی فیروز دین صاحب درویش۔ ربوہ
۹۳۔
خلیفہ عبدالرحیم صاحبؓ ولد حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونی سیالکوٹ
۹۴۔
عبدالرشید صاحب ولد مستری عبدالغفور صاحب درویش۔ ربوہ
۹۵۔
عبدالرشید صاحبولد اللہ بخش صاحب ریکارڈ کیپر سیالکوٹ
۹۶۔
عبدالسلام صاحب ولد سیٹھ فضل کریم صاحب مرحوم۔ ربوہ
۹۷۔
‏]dni [tag عصمت بیگم صاحبہ بنت مولوی عبدالقادر صاحب۔ ربوہ
۹۸۔
بعید اللوہ صاحب ولد چوہدری مہر دین صاحب بھواد چک شیخوپورہ
۹۹۔
گیانی عباداللہ صاحب ولد عبدالغفار صاحب گوجرانوالہ۔
۱۰۰۔
عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ حاجی محمد دین صاحب تہال ضلع گجرات
۱۰۱۔
عبدالرحمن صاحب ولد نور محمد صاحب چک نمبر ۳۶۶ ضلع ملتان۔
۱۰۲۔
عبدالمنان صاحبولد عبدالکریم صاحب نو مسلم۔ ربوہ
۱۰۳۔
عبدالغنی صاحب ولد چراغ دین صاحب چک ۶۶ ضلع منٹگمری۔
۱۰۴۔
عبدالرشید صاحب ارشد ولد عبدالرحمن صاحب دکاندار۔ ربوہ
۱۰۵۔
عبدالکریم صاحب ولد جیتا صاحب۔ ربوہ
۱۰۶۔
عطا اللہ صاحب ایم۔ اے ولد چوہدری مولا بخش صاحب احمد پور شرقیہ حال خانیوال
۱۰۷۔
مرزا عبدالعزیز صاحب ولد مرزا محمد عبداللہ صاحب۔ فتح پور گجرات
۱۰۸۔
مرزا عبدالرحیم صاحب ولد مرزا محمد عبداللہ صاحب۔ ربوہ
۱۰۹۔
عبدالرحمن صاحب ولد روشن دین صاحب آنبہ ضلع شیخوپورہ
۱۱۰۔
عبدالحی صاحب ولد بابو عبدالغفور صاحب لاہور بکس نمبر ۳۴۰
۱۱۱۔
عبدالرحیم صاحب برادر عبدالسلام صاحب درویش۔ درگانوالی سیالکوٹ
۱۱۲۔
عبدالحق صاحب داماد جلال الدین صاحب درویش۔ ربوہ
۱۱۳۔
عبدالحق صاحب رامہ رشتہ دار ڈاکٹر بشیر احمد صاحب درویش۔ کراچی
۱۱۴۔
عبدالرحمن صاحب پسر عطا محمد صاحب درویش چک نمبر ۲۹۵ گ- ب لائلپور
۱۱۵۔
عبدالغفار صاحب برادر عبدالستار صاحب درویش خانقاہ ڈوگراں۔
۱۱۶۔
قریشی عبدالرحمن صاحب سکھر )سندھ(
۱۱۷۔
عطا المنان صاحب قریشی ولد حافظ محمد امین صاحب مرحوم۔ کوئٹہ
۱۱۸۔
عبدالستار صاحب ولد بڈھا صاحب مڑھ بلوچاں۔ شیخوپورہ
۱۱۹۔
سیدعبدالحئی صاحب ولد سید عبدالمنان صاحب۔ ربوہ
۱۲۰۔
عبدالعزیز صاحب ولد جیون خان صاحب ترگڑی۔ گوجرانوالہ
۱۲۱۔
عبدالخالق صاحب مہتہ ولد بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی۔ راب لین کوئٹہ
۱۲۲۔
ڈاکٹر عبدالحق صاحب ڈینٹل سرجن لاہور
۱۲۳۔
غلام محمد صاحب ولد نتھو خاں صاحب چک نمبر ۹۹ شمالی۔ سرگودہا
۱۲۴۔
غلام سرور صاحب ولد میاں اللہ رکھا صاحب رحیم یار خاں۔ بہاولپور
۱۲۵۔
غلام بی بی اہلیہ سردار محمد صاحب بھواد چک نمبر ۱۸ شیخوپورہ
۱۲۶۔
غلام حیدر صاحب ولد مفل دین صاحب مانگا ضلع گجرات
۱۲۷۔
غلام رسول صاحب ولد سائیں دتہ صاحب سٹھیالی چک نمبر ۶۵ شیخوپورہ
‏]ni [tag۱۲۸۔
ماسٹر غلام محمد صاحب ولد مولانا داد صاحب شادیوال اچھرکا گجرات۔
۱۲۹۔
ماسٹر غلام محمد صاحب عبد ولد محمد مراد صاحب
۱۳۰۔
صوفی غلام محمد صاحب ولد جھنڈے خاں صاحب چہور مغلیاں چک نمبر ۱۱۷ شیخوپورہ
۱۳۱۔
غلام فاطمہ بی بی صاحبہبنت رحیم بخش صاحب خانقاہ ڈوگراں
۱۳۲۔
غلام محمد صاحب ولد محمد قاسم صاحب بھگو وال سیالکوٹ
۱۳۳۔
فقیر محمد صاحب ولد عیدا صاحب۔ ربوہ
۱۳۴۔
سید فضل محمد صاحب ولد سید شاہ نواز صاحب چک ۳۲۳ انڈی ضلع لائلپور
۱۳۵۔
فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد طفیل صاحب درویش۔ کوٹ مرزا جان۔ گوجرانوالہ
۱۳۶۔
مولوی فضل دین صاحب ولد کالو خاں صاحب مرحوم۔ کارخانہ بازار۔ لائلپور
۱۳۷۔
فتح بی بی صاحبہ اہلیہ الٰہی بخش صاحب کوٹ عبداللہ نبی سر روڈ۔ سندھ
۱۳۸۔
بابو فضل دین صاحب ولد میان فیروز الدین صاحب- ہائی کورٹ لاہور
۱۳۹۔
فضل احمد صاحب داماد محمد طفیل صاحب درویش دانہ زیدکا۔
۱۴۰۔
فضل بی بی صاحبہ زوجہ حسن دین صاحب درویش۔ ربوہ
۱۴۱۔
میاں کتھو صاحب ولد فتح دین صاحب ملہو کے ضلع سیالکوٹ
۱۴۲۔
کرامت اللہ صاحب برادر محمد دین صاحب درویش۔ کوہاٹ
۱۴۳۔
لال خاں صاحب ولد احمد خان صاحب کھاریاں۔
۱۴۴۔
مرزالطف الرحمن صاحب انور ولد مرزا برکت علی صاحب۔ ربوہ
۱۴۵۔
مہر دین صاحبولد رسول بخش صاحب ربوہ
۱۴۶۔
مہراں بی بی صاحبہ اہلیہ فضل دین صاحب درویش۔ ربوہ
۱۴۷۔
میاں محمد یوسف صاحب )سابق پرائیویٹ سیکرٹری( ولد میاں ہدایت اللہ صاحب لاہور۔
۱۴۸۔
صوفی محمد رفیع صاحب ولد صوفی محمد علی صاحب سکھر )سندھ(
۱۴۹۔
کبیر الدین صاحب صدیقی اور قمر الدین صاحب صدیقی۔احمد نگر
۱۵۰۔
کرم داد صاحب ولد جلال دین صاحب کرتو ضلع شیخوپورہ۔
۱۵۱۔
خواجہ محمد عبداللہ صاحب عرف عبدل ولد خواجہ گلام دین صاحب۔ ربوہ
۱۵۲۔
مختار احمد صاحب ہاشمی ولد شاہ دین صاحب مرحوم۔ ربوہ
۱۵۳۔
محمد شفیق صاحب قیصر ولد منشی محمد صادق صاحب مختار عام حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ ربوہ
۱۵۴۔
سید مسعود احمد صاحب ولد سید منظور احمد صاحب۔ احمد نگر
۱۵۵۔
قریشی محمد یوسف صاحب بریلوی ولد حافظ سخاوت حسین صاحب ترقی جہلم۔
۱۵۶۔
ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم امیر المجاہدین ملکانہ ولد نور محمد صاحب۔ جلیانوالہ لائلپور
۱۵۷۔
ماسٹر محمد یحییٰ صاحب ولد محمد عبداللہ صاحب سید والا شیخوپورہ
۱۵۸۔
محمد جمال صاحب ولد محمد اعظم صاحب ترگڑی ضلع گوجرانوالہ۔
۱۵۹۔
ملک محمد دین صاحب ولد ملک محمد جمال صاحب ترگڑی ضلع گوجرانوالہ
۱۶۰۔
شیخ محمد عمر صاحب ولد ڈی آر شیخ ربوہ
۱۶۱۔
محمد اسمعیل صاحب ولد محمد رمضان صاحب ربوہ۔
۱۶۲۔
منصف خاں صاحب ولد فتح محمد خاں صاحب چک ۱۶۵ ضلع منٹگمری۔
۱۶۳۔
بھائی محمود احمد صاحبولد حکیم پیر بخش صاحب سرگودھا۔
۱۶۴۔
مہتاب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر برکت اللہ صاحب۔ نئی آبادی گجرات
۱۶۵۔
محمد سلیمان صاحبولد محمد سلطان صاحب لاہور چھائونی
۱۶۶۔
محمد ابراہیم صاحبرشید ولد چوہدری محمد عبداللہ صاحب مرحوم۔ دھی دیو چک ۳۳۲ لائلپور
۱۶۷۔
منشی محمد اسمعیل صاحب معتبر ولد مولوی غلام قادر صاحب مرحوم۔ ربوہ
۱۶۸۔
محمد رمضان صاحب ولد محمد عبداللہ صاحب کھاریاں ضلع گجرات۔
۱۶۹۔
محمد شریف صاحب ولد فضل دین صاحب رتن باغ۔ لاہور
۱۷۰۔
کرامت اللہ صاحب ولد محمد عباد اللہ صاحب درویش۔ گوجن
۱۷۱۔
معراج سلطانہ صاحبہ اہلیہ بدر دین صاحب عامل۔ گنج مغلپورہ لاہور۔
۱۷۲۔
محمد بی بی صاحبہ بنت کھیوڑہ صاحب بدو ملہی ضلع سیالکوٹ۔
۱۷۳۔
مریم بی بی صاحبہ اہلیہ مستری محمد اسعمیل صاحب۔ ربوہ
۱۷۴۔
قاضی مبارک احمد صاحب ولد قاضی عبدالعزیز صاحب۔ ربوہ
۱۷۵۔
ڈاکٹر محمد حسن صاحب ولد سید محمد حسین شاہ صاحب۔ ننکانہ صاحب
۱۷۶۔
مریم بیگم صاحبہ بنت علیا صاحب چک نمبر ۲۹۵ ضلع لائلپور
۱۷۷۔
سیدہ ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد شریف صاحب سیالکوٹی۔ گولی روڈ۔ لاہور
۱۷۸۔
محمد شریف صاحب ننگلی ولد محمد بخش صاحب جھول چاہ موسیٰ والا۔ بہاولپور
۱۷۹۔
محمد اسحاق صاحب ولد حاجی اللہ بخش صاحب ربوہ
۱۸۰۔
مرزا مجید احمد صاحب ولد حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ربوہ
۱۸۱۔
میر محمود احمد صاحب ناصر ولد حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ ربوہ
۱۸۲۔
قریشی مقبول احمد صاحبمبلغ ولد محمد اسمعیل صاحبؓ معتبر۔ ربوہ
۱۸۳۔
محمد مالک صاحب ولد شکر الٰہی صاحب بن باجوہ ضلع سیالکوٹ
۱۸۴۔
مجید احمد صاحب ولد بھائی شیر محمد صاحب اوکاڑہ
۱۸۵۔
مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک عبدالوحید سلیم صاحب- گورنمنٹ کوارٹرز لاہور۔
۱۸۶۔
چوہدری محمد شریف صاحبولد نواب محمد دین صاحبؓ منٹگمری۔
۱۸۷۔
‏]dni [tag پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ولد خاں صاحب مولوی فرزند علی خاں صاحبؓ لاہور
۱۸۸۔
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے تعلیم الاسلام کالج لاہور۔
۱۸۹۔
محمد شفیع صاحب پسر فضل احمد صاحب درویش گھٹیالیاں
۱۹۰۔
میاں محمد مراد صاحبؓ والد ب؟شیر احمد صاحب درویش۔ حافظ آباد
۱۹۱۔
مرزا مسعود احمد صاحب برادر مرزا محمود احمد صاحب درویش۔ ربوہ
۱۹۲۔
محمد یوسف صاحب- مالو کے بھگت ضلع سیالکوٹ
۱۹۳۔
مولوی محمد اسمعیل صاحباسلم داماد مولوی فضل دین صاحب مبلغ حیدر آباد دکن۔
۱۹۴۔
مختار بیگم صاحبہ اہلیہ غلام ربانی صاحب درویش۔ دھارو والی شیخوپورہ
۱۹۵۔
مرزا منظور احمد صاحب ولد مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم۔ نسیم آباد اسٹیٹ۔ سندھ
۱۹۶۔
ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب بانگروی۔ ربوہ
۱۹۷۔
نظام الدین صاحب ٹھیکیدار ولد ڈھونڈا صاحب۔ ربوہ
۱۹۸۔
نذیر احمد صاحب ولد محمد اسمعیل صاحب گکھڑ ضلع گوجرانوالہ
۱۹۹۔
ناصر احمد صاحبولد ڈاکٹر برکت اللہ صاحب نئی آبادی گجرات
۲۰۰۔
ناصر احمد صاحب پسر سراج الدین صاحب موذن درویش۔ کوہاٹ۔
۲۰۱۔
چوہدری نور احمد صاحبولد چوہدری فتح علی صاحب۔ داتہ زید کا ضلع سیالکوٹ
۲۰۲۔
نواب بی بی صاحبہ والدہ دین محمد صاحب ننگلی بکووال ضلع لائل پور
۲۰۳۔
گیانی مرزا واحد حسین صاحبؓ ولد مرزا حسین بیگ صاحب۔ تلونڈی راہوالی ضلع گوجرانوالہ۔
۲۰۴۔
‏ind] [tag ہدایت بی بی صاحبہ زوجہ محمد احمد صاحب فقیر سائیں درویش ربوہ
۲۰۵۔
یوسف علی صاحب ولد چوہدری شیر علی خاں صاحب۔ مری روڈ۔ راولپنڈی۔
۶۔ فہرست افراد قافلہ قادیان ۱۹۵۰ء
۱۔
شیخ اللہ بخش صاحبؓ پشاور۔
۲۔
اللہ دتا صاحب چوہدری والا ضلع لائلپور۔
۳۔
منشی احمد دین صاحب چوکناں والی ضلع گجرات۔
۴۔
اللہ رکھا صاحب گھٹیالیاں
۵۔
امام دین صاحب مثالکی )شیخوپورہ(
۶۔
شیخ بشیر احمد صاحبؓ ایڈووکیٹ لاہور۔
۷۔
بشارت احمد صاحب بھٹی لاہور۔
۸۔
مولوی برکت علی صاحب سیالکوٹ
۹۔
حاجی باز خان صاحب۔ نورنگ )گجرات(
۱۰۔
سردار بشیر احمد صاحب رسول )گجرات(
۱۱۔
مولوی تاج دین صاحبؓ ربوہ۔
۱۲۔
ثناء اللہ صاحب۔ لاہور
۱۳۔
چوہدری حسن محمد صاحب۔ کوٹ رحمت خاں )شیخوپورہ(
۱۴۔][ مولوی خلیل الرحمن صاحب۔ پشاور
۱۵۔
رفیق احمد صاحب مظفر۔ کراچی۔
۱۶۔
شیخ خورشید احمد صاحب۔ لاہور
۱۷۔
چوہدری رستم علی صاحب ۔ محمود آباد )سندھ(
۱۸۔
سردار خان صاحب۔ چک ۱۴۱ بہاولپور
۱۹۔
سردار خان صاحب۔ موملنکی )گوجرانوالہ(
۲۰۔
ملک سردار خان صاحب۔ سیالکوٹ
۲۱۔
سلطان احمد صاحب ماجرا )گجرات(
۲۲۔
سید احمد صاحب۔ لاہور
۲۳۔
‏]ind [tag شاہ دین صاحب۔ ظفر اسٹیٹ )سندھ(
۲۴۔
صفی الرحمن صاحب۔ لاہور
۲۵۔
میاں عطاء اللہ صاحبؓ ایڈووکیٹ راولپنڈی
۲۶۔
مہتہ عبدالرزاق صاحب۔ کراچی
۲۷۔
عبدالمجید صاحب نیاز۔ ربوہ
۲۸۔
عزیز الدین صاحب۔ کرنڈی )خیر پور میرس(
۲۹۔
ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی میانی )سرگودھا(
۳۰۔
میاں عزیز الدین صاحب محمد آباد )سندھ(
۳۱۔
عنایت اللہ صاحب۔ شیخ پور )گجرات(
۳۲۔
عبدالرشید صاحب۔ گجرات
۳۳۔
مولوی عبدالسلام صاحبؓ عمر۔ لاکھا روڈ
)سندھ(
۳۴۔
عبدالرحیم صاحب عادل۔ لاہور
۳۵۔
عبدالعزیز صاحب بھائی پھیرو )لاہور(
۳۶۔
چوہدری عبداللہ خاں صاحبؓ کراچی
۳۷۔
چوہدری عنایت اللہ صاحب۔ لاہور
۳۸۔
عبدالرحمن صاحب۔ چوہڑکانہ )شیخوپورہ(
۳۹۔
عبدالعزیز صاحب۔ چک سکندر )گجرات(
۴۰۔
عبدالرحمن صاحب چک نمبر ۳۶۶ ملتان
۴۱۔
چوہدری عبدالستار صاحب۔ درگانوالی )سیالکوٹ(
۴۲۔
غلام قادر صاحب چک شیرکا )لائلپور(
۴۳۔
چوہدری غلام محمد صاحب چک ۹۹ سرگودھا
۴۴۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب۔ لاہور
۴۵۔
چوہدری غلام محمد صاحببقا پور )گوجرانوالہ(
۴۶۔
چوہدری غلام قادر صاحب چیمہ چک ۸۴ بہاولپور
۴۷۔
چوہدری غلام محمد صاحب ظفر اسٹیٹ )سندھ(][۴۸۔
مولوی غلام حسین صاحبؓ ایاز۔ ربوہ
۴۹۔
چوہدری غلام محمد صاحب )سندھ(
۵۰۔
فقیر محمد صاحب چک نمبر ۹۶ لائلپور
۵۱۔
فتح دین صاحب سمس آباد لاہور
۵۲۔
بابو قاسم دین صاحب سیالکوٹ شہر
۵۳۔
سیٹھ محمد ابراہیم صاحب۔ راولپنڈی
۵۴۔
مہاشہ محمد عمر صاحب~رض۱~۔ ربوہ
۵۵۔
سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ ربوہ
۵۶۔
چوہدری مظفر علی صاحب۔
۵۷۔
میراں بخش صاحب۔ سوک کلاں )گجرات(
۵۸۔
قریشی محمد کریم صاحب۔ راولپنڈی
۵۹۔
میاں محمد مراد صاحب۔ حافظ آباد
۶۰۔
ڈاکٹر محمد احمد صاحبؓ ابن خان میر صاحبؓ ٹل )کوہاٹ(
۶۱۔
حکیم محمد صدیق صاحب۔ لاہور
۶۲۔
محمد دین صاحب۔ نصیرہ )گجرات(
۶۳۔
ماسٹر محمد یحییٰ صاحب۔ سید والا )شیخوپورہ(
۶۴۔
شیخ منیر احمد صاحب۔ لاہور
۶۵۔
‏]ind [tag محمد دین صاحب- ککرالی )گجرات(
۶۶۔
محمد عبداللہ صاحب۔ چک نمبر ۱۰۱ لائلپور
۶۷۔
ملک محمد دین صاحب خادم۔ ربوہ
۶۸۔
میاں محمد دین صاحب۔ ڈسکہ
۶۹۔
محمد سلیمان صاحب چک ۲۹۵ لائلپور
۷۰۔
محمد عبداللہ صاحب۔ ربوہ
۷۱۔
چوہدری مہر دین صاحب۔ گوجرانوالہ
۷۲۔
محمد دین صاحب چک نمبر ۴۶ سرگودھا
۷۳۔
محمد شفیع صاحب۔ شیخ پور ضلع گجرات
۷۴۔][ میاں محمد رمضان صاحب۔ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ۔
۷۵۔
محمد عبداللہ صاحب کھاریاں )گجرات(
۷۶۔
چوہدری محمد شریف صاحب۔ کوٹ نیناں
)سیالکوٹ(
۷۷۔
محمد اسلم صاحب ۔ احمد نگر )جھنگ(
۷۸۔
ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحبؓ لاہور۔
۷۹۔
مولوفی محمد ابراہیم صاحبؓ ربوہ
۸۰۔
مبشر احمد صاحب راجیکی۔ پشاور
۸۱۔
چوہدری نذیر احمد صاحب آف بھنگوال ڈسکہ
۸۲۔
مستری نظام الدین صاحب چانگریاں )سیالکوٹ(
۸۳۔
چوہدری نور احمد صاحب چیمہ۔ دا تازید کا ضلع سیالکوٹ۔
۸۴۔
صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب۔ ربوہ
۸۵۔
مرزا نور احمد صاحب ۔ نسووالی )گجرات(
۸۶۔
مستری ناظر دین صاحب۔ احمد نگر ضلع جھنگ
۸۷۔
مولوی نور الحق صاحب انور۔ ربوہ
۸۸۔
مرزا واحد حسین صاحبؓ ربوہ
۸۹۔
مولوی عمر دین صاحب۔ شادیوال )گجرات(
مستورات
۱۔
اہلیہ سید محمد شریف صاحب۔ کراچی
۲۔
امتہ السمیع صاحبہ اہلیہ مرزا عبداللطیف صاحب درویش۔
۳۔
امتہ بی بی صاحب اہلیہ مہر دین صاحب فیروز والا )گوجرانوالہ(
۴۔
عصمت بیگم صاحبہ بیوہ شاہ دین صاحب موسے والا ضلع سیالکوٹ
۵۔
عائشہ بی بی صاحبہ زوجہ محمد صادق صاحب چک نمبر ۱۳۲ سرگودھا۔
۶۔
کرم بی بی صاحبہ زوجہ محمد اسمعیل صاحب ربوہ
‏in] gat[۷۔
مہتاب بی بی صاحب زوجہ محمد بخش صاحب ناصر آباد )سندھ(
۸۔
محمد بی بی صاحبہ والدہ عطا اللہ صاحب میانوالی )سیالکوٹ(
۹۔
مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب )گول بازار۔ ربوہ(
۱۰۔
مہراں بی بی صاحبہ زوجہ فضل دین صاحب درویش۔ ربوہ
۱۱۔
خانم بی بی صاحبہ زوجہ رحمت خاں صاہب چوکنانوالی )گجرات(
)مرتبہ مختار احمد صاحب ہاشمی انچارج دفتر )خدمت درویشاں ربوہ(
‏tav.13.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ سالانہ ربوہ کی ایمان افروز اور انقلاب انگیز تقاریر
فصل چہارم
جلسہ سالانہ ربوہ حضرت المصلح الموعودؓ کی ایمان افروز اور انقلاب انگیز تقاریر اور ان کا پاکستانی پریس میں تذکرہ
عین اس وقت جب قادیان کی مقدس سرزمین ہجوم خلق کا عاشقانہ اور فدائیانہ نظارہ پیش کررہی تھی ربوہ میں شمع احمدیت کے پچاس ہزار پروانے جمع تھے۔ یہ ایک منفرد اور مثالی اجتماع تھا جس میں پاکستان کے علاوہ جرمنی` امریکہ` شام` سوڈان` حبشہ`برما` چین` انڈونیشیا اور برٹس گیانا )جنوبی امریکہ( کے بعض مخلص احمدیوں نے بھی شرکت فرمائی اور اپنے مقدس امام کی زبان مبارک سے زندگی بخش کلمات سن کر اپنے ایمانوں کو تازہ اور اپنی روحوں کو زندہ کیا۔
افتتاحی خطاب
حضرت المصلح الموعودؓ نے اس جلسہ سے )جو حضرت امو المومنینؓ کے وصال کے بعد پہلا جلسہ سالانہ تھا( حسب دستور تین خطاب فرمائے۔ حضور نے اپنے افتتاحی خطاب میں جماعت کو اس نکتہ کی طرف بالخصوص توجہ دلائی کہ جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ نئی نئی اصلاحات ہوں اور نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کیا جائے۔
دوسری اصولی نصیحت یہ فرمائی کہ حفاظت کے لئے ظاہری تدابیر ایک ضروری چیز ہیں لیکن خلافت کو بادشاہت کا رنگ مت دو۔
اس دفعہ حفاظتی نقطہ نگاہ سے اسٹیج اور رپنڈال میں بیٹھنے والے سامعین جلسہ کے درمیان غیر معمولی فاصلہ ڈال دیا گیا تھا جس پر حضور نے اظہار خفگی کیا اور فرمایا:۔
>جلسہ گاہ کے متلعق خود میں نے اس نقشہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ مجھے پسند نہیں۔ یہ احتیاط سے گذر کر غیر اسلامی طریق کا جلسہ گاہ بن گیا ہے اور اسے میں پسند نہیں کرتا۔ اسلام ہمیں بے شک احتیاط کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خذوا حذرکم۷۵ لیکن موجودہ جلسہ گاہ کی جو شکل ہے یہ تو ایسی ہی ہے جیسے بادشاہوں اعلانوں کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو دور دور بٹھا دیا جاتا ہے اتنا لمبا فاصلہ میرے نزدیک ہرگز اس حفاظت کے لئے ضروری نہیں جس حفاظت کا خدا تعالفی ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ پہلوئوں کے متعلق میں نے کہا تھا کہ انہیں تنگ کرو اور یہاں لوگوں کو بیٹھنے کا موقع دو۔ اسی طرح سامنے والے حصہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ اسے بھی تنگ کرو جیسا کہ آپ لوگوں کو یاد ہوگا گزشتہ سال بھی بعض احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں لیکن اس وقت چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک حملہ جس کی آج کل زیادہ احتیاط کی جاتی ہے پستول کا حملہ ہوتا ہے اور پستول کا حملہ ایسی چیز ہے کہ ایسے ہنگامہ میں اگر کوئی شخص فائر کرنا چاہے اور اس کے پاس بیٹھنے والے ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ اس کے حملہ کو فوراً بے کار کرسکتے ہیں- پستول کا حملہ پچاس فٹ سے زیادہ فاصلے سے نہیں ہوسکتا۔ الا ماشاء اللہ لیکن ایسا تو کبھی کبھی ہوتا ہے اور عزرائیل لوگوں کی جانیں نکالنے کے لئے ہر روز آتا ہے پس جان نکالنا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں کہ اس کے لئے غیر معمولی احتیاط کی جائے۔ اب جلسہ میں بیٹھنے والے اتنے دور دور بیٹھے ہیں کہ ان کا اس قدر دور بیٹھنا طبعیت پر سخت گراں گذرتا ہے اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ باوجود میرے کہنے کے اصلاح نہیں کی گئی۔
پس میں منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اس جلسہ گاہ کی اصلاح نہ کی گئی میں کل تقریر نہیں کروں گا۔ اگلی صف آگے آنی چاہئے اور پہلوئوں میں بھی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہئے- اب تو ایسی شکل بنی ہوئی جیسے بادشاہ اعلان کرنے کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتیاط ضروری چیز ہے۔ حضرت عمرؓ۷۶ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے` حضرت عثمانؓ۷۷ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے` حضرت علیؓ10] p[۷۸ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے۔ مصر میں ایک دفعہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے کہ ان پر اچانک حملہ کردیا گیا` شاید انہوں نے پہرہ مقرر نہیں کیا تھا۔ جیسے آج کل کے مولوی ہمارے پہرہ پر اعتراض کرتے ہیں اسی طرح اس زمانہ میں لوگ اعتراض کرتے ہونگے۔ چونکہ نیا نیا ملک فتح ہوا تھا اس لئے انہوں نے اس خیال سے کہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ نماز کے وقت یہ پہرہ رکھتے ہیں اپنے لئے پہرہ مقرر نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن نے نماز کی حالت میں ہی کئی صفیں قتل کردیں اور پھر کہیں جا کر اگلی صفوں والوں کو پتہ لگا کہ دشمن حملہ کردیا ہے۔ بیسیوں صحابہؓ مارے گئے اور سینکڑوں دوسرے مسلمان شہید ہوئے۔ پس پہرہ ایک ضروری چیز ہے لیکن اس کی ایسی شکل بنا دینا کہ پہرہ ہی رہ جائے اور کام ختم ہوجائے یہ بھی ایک لغبات ہے۔ آخر ہر ایک نے مرنا ہے` پس ایسی احتیاط جو خلافت کو بادشاہات کا رنگ دے دے` یا تنظیم کو غیر معمولی شان و شوکت والی چیز` بنادے` یہ نہ تنظیم کہلا سکتی ہے اور نہ اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ کوئی پسندیدہ امر ہے۔ اصل حفاظت خدا تعالیٰ کرتا ہے بندے نہیں کرتے اور یہ چیز جو آج نظر آرہی ہے یہ احتیاط سے بالا ہوگئی ہے۔ لوگ اتنی دور بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ تو شاید مجھے دیکھ رہے ہیں لیکن میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے مجھے شاذو و نادر ہی کسی کی شکل نظر آرہی ہے۔ پس ان کو بھی قریب آنے کا موقعہ دینا چاہئے۔ باقی نگرانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ ہوشیاری سے کام لیں۔ بھلا ایسے احمقوں نے حفاظت کیا کرنی ہے جن کے سامنے ایک شخص رائفل لے کر آجاتا ہے` اسے اٹھاتا ہے` نشانہ باندھتا ہے اور فائر کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر نہ انہیں رائفل لاتے وقت وہ نظر آٹا ہے` نہ رائفل اٹھاتے وقت نظر آٹا ہے` نہ نشانہ باندھتے وقت نظر آٹا ہے` نہ اردگرد بیٹھنے والوں کو پتہ لگتا ہے کہ فلاں شخص رائفل چلانے لگا ہے` حالانکہ رائفل ایسی چیز ہے کہ ایک ہاتھ مارا جائے تو وہ دور جا پڑے اور اس کا نشانہ آسمان کی طرف چلا جائے۔ پس رائفل کا سوال نہیں سوال پستول کا ہے مگر اس میں بھی تب کامیابی ہوتی ہے جب کوئی پچاس ساٹھ فٹ سے نشانہ لگائے اور ایک منٹ تو نشانہ لگانے میں ہی صرف ہوجاتا ہے۔ اگر پاس کے لوگ ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ صرف ایک کہنی کی حرکت سے اس کے نشانہ کو ختم کرسکتے ہیں بلکہ کہنی تو الگ رہی سانس کی تیزی سے بھی نشانہ بگڑ جاتا ہے اگر کسی کو پتہ لگے کہ کوئی شخص پستول چلانے لگا ہے اور وہ ذڑا اپنی کہنی اسے مار دے تو اتنی معمولی سی بات سے ہی اس کا نشانہ خطا ہوجاتا ہے۔
پس یہ کھیل میں پسند نہیں کرتا اس کی فوراً اصلاح کی جائے جلسہ ے وقت میں تو اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی راتوں رات اس کی اصلاح ہوجانی چاہئے ورنہ کل میں تقریر کے لئے نہیں آئوں گا اور دوستوں کو خلافت کے لئے جو مکانات بنائے گئے ہیں ان میں ملاقات کا موقعہ دوں گا اور کہہ دوں گا کہ مجھ سے مصافحہ کر لو ار چلے جائو ایسے ماحول میں تقیر کرنے کے لئے میں نہیں آسکتا۔ ہماری جماعت ایک مخلصین کی جماعت ہے اور دور دور سے لوگ جلسہ سالانہ کے للئے آتے ہیں ان کو مجرم کے طور پر بٹھا دینا اور دڑبہ کے طور پر بند کردینا ایسی چیز ہے جسے میری غیرت برداشت نہیں کرتی۔ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں ان سے محبت کرتا ہوں پھر ہم میں اتنی دوری کیوں ہو ؟ دوسری طرف پہرہ کا انتظام بہت ناقص ہے پہلے بہت سے آدمی ہوا کرتے تھے مگر اس دفعہ اتنے آدمی نظر نہیں آتے جلسہ گاہ کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگر لوگوں کے لئے سٹیج سے پندرہ بیس فٹ پرے جگہ بنادی جائے تو غالباً یہ کافی ہوگا۔ بے شک نگرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شریر آدمی تو اندر نہیں آگیا۔ مگر یہ بھی نامناسب امر ہے کہ کسی ایک شیر کی وجہ سے سارے محبوں کو دور بٹھا دیا جائے۔ اسی طرح میں کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بے تحقیق رپورٹیں نہ کیا کریں درست رپورٹیں کیا کریں۔ بے سک ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ سلسلہ کا روپیہ ضائع ہ` مگر یہ بھی برداشت نہیں کرسکتے کہ مہمانوں کی ہتک ہو۔ اب میں جلسہ کا افتتاح کر کے جاتا ہوں اس کے بعد دوسری کارروائی شروع ہوگی۔< ۷۹][اس تقریر کا فوری اثر ہوا اور منتظمین جلسہ نے پنڈال کو اسٹیج تک وسیع کردیا۔
دوسرے دن کی پرمعارف تقریر
حضرت امیر المومنین نے اپنے مستقل طریق و دستور کے مطابق اس سال بھی مختلف اہم اور ضروری امور پر تفصیلی روشنی ڈالی مثلاً پاکستان کے بنیادی اصولوں کے متلعق سفارشات` حضرت امام المومنینؓ کی وفات` تعمیر ربوہ` فتنہ ۱۹۵۲ء` مسئلہ فلسطین` بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد اور جماعت کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت وغیرہ۔
۱۹۵۲ء کے فتنہ کا پس منظر
حضور نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ گزشتہ دو سال سے جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شدت اختیار کر لی تھی کیونکہ ملک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں ملک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ احمدیت کی مخالفت اور اسی طرح سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد درپردہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا۔ اسی ایجی ٹیشن کی ابتداء تو انہی عناصر نے کی جو ہمیشہ پاکستان کے اورمسلم لیگ کے مخالف رہے ہیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں ملتا تو آہستہ آہستہ ایسی مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جو بظاہر مسلم لیگ کے مخالف نہ تھے اور غیر جانبدار سمجھے جاتے تھے مگر اپنی اغراض کے ماتحت آگے آنا چاہتے تھے۔ چنانچہ مختلف گروہوں میں سے ایسے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس کا نام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ رکھ دیا گیا اور تحفظ ختم نبوت کے نام سے ایجی ٹیشن شروع کردی گئی حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بھلا محمد رسول~صل۱~ کو اپنی ختم نبوت کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی مدد کی کیا ضرورت ہے آپ~صل۱~ کی ختم نبوت کا محافظ تو خود اللہ تعالیٰ ہے اور ختم نبوت کا جو مفہوم جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہی مفہوم صحابہ کرامؓ اور امت کے بہت سے بزرگوں نے بیان کیا پھر یہ مفہوم جماعت احمدیہ نے آج پیش نہیں کیا بلکہ ساٹھ سال سے پیش کررہی ہے۔ پس آج کوئی بھی ایسی نئی بات اس مسئلہ کے متعلق پیدا نہ ہوئی تھی جسے اس ہنگامہ اورایجی ٹیشن کی وجہ قرار دیا جاسکے۔ بہرحال یہ ایجی ٹیشن اشتعال انگیزی اور جھوٹے پراپیگنڈا کے ساتھ بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ حکومت کے بعد ذمہ دار افراد بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہوگئے کیونکہ وہ اصل حالات سے ناواقف تھے۔
اثرات
جہاں اس فتنے نے ہماری جماعت کے لئے نئی نئی مشکلات پیدا کیں اور انفرادی طور پر بعض احمدیون کو نقصان بھی اٹھانا پڑا وہان اس کے بعض فوائد بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئے۔ چنانچہ اایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ملک کے جن ذمہ دار افراد کو جھوٹے الزامات کے ذریعہ جماعت احمدیہ سے بدظن کیا جارہا تھا ہمیں بھی انہیں سمجھانے اور اصل حقیقت واضح کرنے کا موقع ملا چنانچہ ان میں بعض نے بعد میں برملا کہا کہ ہم تو یہ سجھتے تھے احمدی اسلام کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں لیکن اب ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ یہ غلط ہے احمدی بھی رسول کریم~صل۱~ پر اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ جو اعقادی اختلاف ہے اسے صرف تفسیر اور تاویل کا اختلاف کہا جاسکتا ہے۔
دوسرا اثر اس فتنے کا یہ ہوا کہ کراچی میں جمات احمدیہ کے جلس میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے >اسلام زندہ مذہب ہے< پر تقریر کی۔ یہ مولوی بھلا یہ کب برداشت کرسکتے تھے کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا جائے۔ انہوں نے اسلام کو زندہ ثابت کرنے کو اپنے لئے ایک بہت بڑی اشتعال انگریزی قرار دیا اور ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی۔ کراچی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفیر بھی موجود ہوتے ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ حالات دیکھے تو ان پر یہ اثر ہوا اور اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اپنے اپنے ملک میں رپورٹیں بھیجیں کہ احمدی جماعت ایک فعال جماعت ہے اور مولویوں کا طبقہ محض اعتقادی اختلاف پر عوام کو مشتعل کررہا ہے وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہورہا ہے اور مذہبی تعصب کو ہوا دے کر اسے ایک تنگ نظر ملک بنانا چاہتا ہے۔ ان میں سے بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ترقی کرنے والا ملک ہے مگر اس ہنگامے کو دیکھ کر پاکستان کی ترقی کے متعلق ہمارے دل میں شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ گویا انہوں نے سمجھا کہ شاید یہی مولوی ملک کی آواز ہیں حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ لوگ پاکستان ا ایک چھوٹا سا جزو تو سمجھے جاسکتے ہیں مگر انہیں پاکستان کا دل قرار نہیں دیا جاسکتا پاکستان کا دل اور ہے۔ بے شک لوگ وقتی اشتعال کے ماتحت ان ے جھانسے میں آجاتے ہیں مگر ملک کی حقیقی آواز ہرگز وہ نہیں ہے جو یہ لوگ بلند کرتے ہیں۔ پس اس فتنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ غیر ممالک میں ہمیں متعارف ہونے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا` الحمدلل¶ہ
ایک اثر اس فتنہ کا یہ ہوا کہ بنگالی نمائندوں نے اصل حقیقت کو بھانپ لیا اور انہیں علم ہوگیا کہ اہل غرض افراد مذہب کی آڑ میں سیاسی چالیں چل رہے ہیں چنانچہ بنگال کے اخبارات میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب نے یہی لکھا کہ ہم اس گند کو جو مغربی پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے ہرگز بنگال میں نہیں آنے دیں گے۔
کراچی کے فساد کا ایک اور اثر یہ ہوا کہ ملک کے شریف اور سنجیدہ لیڈروں نے ان لوگوں کو سمجھانا شڑوع کیا جو کسی نہ کسی رنگ میں اس فتنہ سے متاثر ہورہے تھے اور انہیں اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا۔ پھر جب جماعت اسلامی نے جو حکومت کی کھلی مخالف ہے ہماری مخالفت میں آگے آنا شروع کیا تو سیاسی لیڈروں کی بھی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ کے مخالف دراصل اس آڑ میں حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں چنانچہ جلد ہی اس کا ثبوت مل گیا اور وہی لوگ جو شروع میں ہماری مخالفت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہمیں سیاست سے یا حکومت کی مخالفت سے کوئی واسطہ ہی نہیں انہوں نے برملا حکومت کو دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ اس موقعہ پر حضور نے اخبار >آزاد< میں متعدد ایسے حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حکومت کے ذمہ دار راہنمائوں کے نام لے لے کر کھلے طور پر یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبے نہ مانے تو ہم حکومت سے ٹکرائیں گے` بدامنی پیدا کریں گے اور جنرل نجیب کی طرح حکومت کا تختہ الٹا دیں گے۔ اس طرح ان حوالوں میں عوام کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ کسی لیڈر کا انتظار نہ کریں بلکہ خود آگے آکر ملک میں بدامنی پیدا کریں۔
حکومت پاکستان کا مخلصانہ رویہ
حکومت کے رویہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
ہمارے خلاف ان فسادات کے ایام میں حکومت نے اکثر مقامات پر دیانتداری سے کام کرنے ار حالات کو سدھارنے کی کوشش کی۔ اس نے جو اعلانات کئے وہ بھی درست تھے۔ گو عملاً بعض مقامات پر حکومت حالات پر قانو رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
صوبائی مسلم لیگ
صوبائی مسلم لیگ کا ذکر کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا:۔
مجھی خوشی ہے کہ مسلم لیگ کا رویہ بہت اچھا رہا۔ اس نے اپنے ہر اجلاس میں دلیری سے اصل حالات کا جائزہ لیا۔
پاکستان کے دوسرے صوبوں نے تو پنجاب بھی بہتر نمونہ دکھایا بالخصوص سرحد کے ۸۰ وزیراعلیٰ نے تو بڑی دلیری سے فتنے کو بڑھنے سے روکا اور اسے دبایا۔ اسی طرح سندھ میں بھی شرارتیں محدود ہی ہیں اور اب تو پنجاب میں بھی حالات بہتر ہورہے ہیں گو پوری طرح فتنہ دبا نہیں ہے۔
بعض افسروں کی غلطیاں
حضورؓ نے فرمایا:۔
جہاں میھے خوشی ہے کہ اکثر مقامات پر حکومت نے دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کی ہے وہاں مجھے افسوس ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق غلطیاں بھی کی ہیں۔ مثلاً حکومت نے ایک اعلان ۸۱ میں یہ الزام لگایا ہے )گونام نہیں لیا مگر اشآرہ ہماری طرف ہی تھا( کہ احمدی افسر اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو ملازمت میں بھرتی کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ذمہ دار افسر نے کہا کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے فائدہ اٹھا کر احمدیوں کو ناجائز الاٹمنٹ کرتے ہیں۔ جو شخص اپنے عہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز طور پر ایسے کام کرتا ہے اور اس طرح حق داروں کی حق تلفی کرتا ہے میرے نزدیک وہ نہ صرف حکومت کا مجرم ہے بلکہ قرآن کا بھی مجرم ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک فعل کا جرم ہونا کسی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ بغیر تحقیقات کے کسی پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام لگا دے؟ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ یہ الزام لگانے سے پیشتر اس شکایت کی تحقیقات کرتی اور یوں بغیر تحقیقات کے ایک قوم پر الزام لگا کر اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہوتی ؟ کیا حکومت کے لئے یہ کوئی مشکل امر تھا کہ وہ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کراتی اور ان کے ثبوت بہن پہنچاتی ؟ پھر اگر یہ الزام کسی احمدی افسر کے متعلق درست ثابت ہوتا تو بے شک اسے سزا دیتی کیونکہ وہ واقعی مجرم ہے` نہ صرف حکومت کا بلکہ اسلام کا بھی۔ لیکن اگر یہ الزام درست ثابت نہ ہو تو یقیناً یہ صریح بے انصافی ہے کہ ہم پر بغیر تحقیقات کے صرف اس لئے الزام لگا دیا جائے کہ ہم غریب ہیں اور کمزور ہیں۔
اسلامی حکومت کا فرض
اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک کے ہر فرد کی عزت کی حفاظت کرے۔ اسلامی حکومت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی عزت کی بھی حفاظت کرے اور اس پر کوئی جھوٹا الزام نہ آنے دے۔ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ گذشتہ پانچ سال کے عرصہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے دفتر میں کسی چوہڑے نے بھی بیعت کی ہے اور احمدیت قبول کی ہے ؟ اگر یہ نہیں ثابت کیا جاسکتا تو یقیناً ایسا الزما لگانا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پر ظلم نہیں ہے بلکہ اس قوم پر ظلم ہے جس کے وہ ایک فرد ہیں۔
پھر الزام لگانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لیا جاتا کہ کون کون سے احمدی افسر ایسے ہیں جو بھرتی کرنے کے قابل ہیں ؟ کوئی فینانشل کمشنر احمدی نہیں ہے` کوئی ڈپٹی کمشنر احمدی نہیں ہے` مہاجرین کو زمین تقسیم کرنے والا کوئی اعلیٰ افسر احمدی نہیں ہے` پھر یہ ناجائز الاٹمنٹ کرنے والا اور احمدیوں کو بھرتی کرنے والا ایسا احمدی افسر کون ہے؟
پھر یہ بھی تو سوچنے والی بات ہے کہ اگر احمدی افسر ناجائز الاٹمنٹیں کرتے تو سب سے پہلے وہ مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن مجھے تو انہوں نے کچھ نہ لے کردیا بلکہ میری جو زمین قادیان میں تھی اس کاغذات بھی ادھر ادھر ہی پھررہے ہیں گو احراری تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے دس ہزار مربعے ملے ہیں مگر مجھے دس ہزار مربعے چھوڑ دس مرتبان بھی نہیں ملے۔ یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ حکومت نے بغیر تحقیقات کے یہ الزام ہماری جماعت پر لگا دیا ہے اور انصاف کا طریق یہی ہے کہ حکومت اس کی پوری پوری تحقیقات کرے` اگر کسی احمدی افسر کے متعلق یہ الزام درست ثابت ہو تو پھر اس کی تردید کرے اور اعلان کرے یہ الزام غلط ہے۔
حقیقت پر پردہ ڈالنے کیوں احمدیوں پر الزام
حضورؓ نے فرمایا گو الزام تو ہم پر لگایا جاتا ہے کہ ہم احمدی افسر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے احمدیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے حقیقت یہ ہے کہ اس بارہ میں احمدیوں سے تعصب برتا جاتا ہے اور ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور اس طرح ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور اس حق تلفی پر پردہ ڈالنے کے لئے الٹا احمدیوں پر الزام لگایا جارہا ہے ہم حکومت کے سامنے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جب کہ مختلف محکموں میں احمدیوں کو ملازمت یا ترقی سے صرف اس لئے محروم کیا گیا کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ ان کی تعلیم` تجربہ` قابلیت اور گزشتہ ریکاڈ ان کے حق میں تھے لیکن ہم نے ان حق تلفیوں پر کبھی شور نہیں مچایا کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس کی حق تلفی اور تعصب کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم` قابلیت` محنت` دیانتداری اور اچھے اخلاق کے معیار کو اور بلند کر کے ان کا مقابلہ کریں نہ کہ شور مچائیں۔ اگر ہمارے نوجوان ہماری تعلیم پر عمل کریں گے تو اس قسم کی حق تلفی زیادہ عرصہ نہیں ہوسکتی اور نوکریاں اور ملازمتیں آپ ان کے پاس آئیں گی ۸۲
پاکستانی پریس کی فرض شناسی اور دیانتداری
حضورؓ نے فرمایا مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس فتنے کے دوران ہمارے ملک کے ذمہ دار پریس نے جو ملک کی رائے عامہ کی جان ہوتا ہے بڑی دلیری سے اپنے فرض کو ادا کیا ہے۔ سب سے پہلے >ڈان< نے بڑی جرات سے اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی` پھر بنگال کے پریس نے اس کی تائید کی۔ پنجاب میں >سول اینڈ ملٹری گزٹ< اور بعض دیگر اخبارات نے بھی اپنا فرض ادا کیا۔ اردو پریس کے ایک حصہ کا رویہ شروع میں ڈانواں ڈول تھا مگر بعد میں اس نے بھی دیانتداری کا ثبوت دیا مگر افسوس ہے کہ مسلم لیگی پریس کے ایک حصہ نے اس موقعہ پر بہت برا نمونہ دکھایا۔ بہرحال جس قوم کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ بہت جلد پراپیگنڈا سے متاثر ہوجاتی ہے اس قوم کے پریس کا پراپیگنڈا کے مواد کو چھوڑ دینا ایک بہت امید افزا بات ہے۔
بھارت کا مسلم پریس
دوسری خوشی مجھے یہ ہوئی کہ اس موقعہ پر ہندوستان کے مسلم پریس نے بھی اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی حتیٰ کہ وہ اخبارات جو پہلے ہمارے دشمن تھے انہوں نے بھی بڑے زور سے ہماری تائید کی۔ ان میں سے ایک نے تو لکھا کہ اس فتنہ کو دیکھ کر ہمارے سرندامت سے جھک جاتے ہیں اور ہم ہندوستان کے غیر مسلموں کے سامنے آنکھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ یہ ایک بہت نیک تبدیلی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے پھر ترقی کے مواقع پیدا کرے` انہیں ہر قسم کے ظلم سے بچائے` ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا سامان پیدا کرے اور ہندوستان میں اسلام کو پھر وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت حاصل ہو جو اسے پہلے وہاں حاصل تھی۔
منظم بائیکاٹ کی تحریک
فرمایا۔ اب اس فتنہ نے ایک اور پلٹا کھایا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے خلاف منظم بائیکاٹ کی تحریک شروع کی گئی ہے لیکن اس قسم کی چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو انشاء اللوہ بہت ہی جلد خود ہی ختم ہوجائیں گی۔
بے بنیاد الزامات کی مہم
اب آخری تدبیر کے طور پر ہمارے مخالفین نے سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزام لگانے کی مہم شروع کی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے جھوٹ بولنے میں جتنا کمال حاصل کر لیا ہے ہماری جماعت نے ابھی سچ بولنے میں اتنا کمال حاصل نہیں کیا۔ اگر سچ بولنے میں ہماری جماعت کمال حاصل کرلے تو یہ جھوٹا پراپیگنڈا ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔
حضور نے فرمایا )۱( مثلاً پہلا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ہم نے فرقا فورس کے ذریعے پاکستان کو سخت نقپان پہنچایا۔ مکمل فوجی وردیاں اور بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود وغیرہ حاصل کر کے ربوہ میں لے آئے۔ یہ الزام لگاتے ہوئے فوجی وردیوں اور گولہ بارود کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے اول تو وہی اس الزام کی تردید کے لئے کافی ہے کیونکہ بیان کردہ مقدار کبھی ایک بٹالین کو مل ہی نہیں سکتی دوسرے ہمارے پاس فوجی حکام کی باقاعدہ رسید موجود ہے کہ فرقان فورس نے جو ہتھیار راو وردیاں وغیرہ حاصل کیں وہ سب کی سب واپس دے دی گئیں اور کوئی چیز بھی ان کے پاس باقی نہیں رہی۔ ایسے الزام لگانے والوں کو علم ہی نہیں کہ فوج کا ایک خاص نظام ہوتا ہے اس میں ہر چیز کا ریکارڈ اور حساب ہوتا ہے۔ وہ کوئی احراریوں کا لیا ہوا چندہ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس آیا اسی کی جیب میں چلا گیا۔
)۲( حکومت کا جو ملازم کسی الزام میں ملوث ہو اسے احمدی مشہور کردیا جاتا ہے حالانکہ کردیا جاتا ہے حالانکہ اس کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
)۳( کہا جاتا ہے کہ احمدی غیر احمدی لڑکوں کو بھگا کر ربوہ لے آتے ہیں یہ الزام بھی صریحاً جھوٹ ہے چنانچہ حال ہی میں جب ایک اسی قسم کا الزام لگایا گیا تو پولیس نے اس کی تحقیقات کی اور اسے بالکل بے بنیاد پایا۔
)۴( احمدیت سے برگشتہ ہونے کی خبریں مشہور کردی جاتی ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں کے متعلق ایسی خبریں شائع کی گئیں ان میں سے اکثر کو تو میں اس وقت بھی اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ بھلا ظلم و تشدد اور جبر کے ساتھ بھی سچائی کسی کے دل سے نکلا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فتنے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ثابت قدم رہی ہے۔ چند ایک کمزور لوگوں نے اگر تشدد اور ظلم سے ڈرکر کمزوری دکھائی بھی تو بہت جلد اپنی حرکت پر وہ نادم ہوئے اور واپس آگئے۔ اور اس قسم کے کمزور لوگ تو ہر جماعت میں ہوتے ہی ہیں۔
)۵( کہا جاتا ہے کہ ہم نے چونکہ پرانی کتابوں میں سے ایسے حوالوں کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے جن میں رسول کریم~صل۱~ اور دیگر انبیاء کی ہتک کی گئی ہے لٰہذا ہم نے رسول کریم~صل۱~ کی توہین کی ہے۔ حالانکہ اگر ہم نے صرف ان حوالوں کا ذکر کیا اور وہ قابل ضبط ہے تو وہ کتابیں کیوں نہیں قابل ضبط سمجھی جاتیں جن میں یہ ہتک کی گئی ہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ وہ باتیں لکھنے والے وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں چوٹی کے عالم اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بھی یہ کتابیں مسلمانوں کے دینی مدارس اور خود پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں ؟ مگر کوئی انہیں ضبط کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ بے شک الفضل کا وہ پرچہ ضبط کر لو جس میں ان کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے بشرطیکہ ان کتابوں کو بھی ضبط کرو تاکہ رسول کریم~صل۱~ کی عزت قائم ہو۔
دعائوں کی خاص تحریک
حضور~صل۱~ نے اس فتنہ کے ازالہ کے لئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور کی دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی حضور نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ احباب ۱۹۵۳ء کے شروع میں سات روزے رکھیں اور خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ملک میں فتنہ پھیلانے والوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کو سمجھ دے یا سزا دے اور ہمیں ان کے مظالم پر صبر کرنے کی توفیق دے اور اپنے مقاصد میں کامیاب کرے۔ یہ سات روز سے جنوری سے شروع کئے جائیں اور ہر سوموار کو رکھے جائیں۔ جنوری میں یہ روزے ۵`۲`۱۹ اور ۲۶ تاریخ کو آئیں گے اور فروری میں ۲`۹`اور ۱۶ تاریخ کو۔
عالم اسلام کے مسائل
حضورؓ نے عالم اسلام کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
مختلف ممالک میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہورہی ہیں مثلاً ایران` مصر` انڈونیشیا` عراق اور اردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور الجھنیں پید ہورہی ہیں` ٹیونس اور مراکو کے مسلمان آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ممالک کے مسلمانوں کی مدد ہم دعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس کے متلعق ہمارے حکومت کو بھی ضرور کوئے عملی کارروائی کرنے چاہئے اور وہ ہے فلسطین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ۔
مسئلہ فلسطین
یہود مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور انہوں نے ایک ایسے ملک میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے جو ہمارے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے۔ ان کے ارادے یقیناً بہت خطرناک ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو ضروری مجموعہ طور پر کوئی عملی قدم اٹھانا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں اگر تمام اسلامی ملک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کردیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے ہم یہودیوں کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کا عملاً سدباب کرسکتے ہیں۔ اس مسئلہ کی اہمیت کے متعلق میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
مسئلہ کشمیر
اسی طرح کشمیر کے علاقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا میں نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ مسئلہ کس طرح حل ہوگا۔ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کی پوزیشن بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کر لے جس کا روپیہ گرا ہے اگر وہ محض صبر سے کام لیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی روپیہ ملنے کی امید نہ کرنی چاہئے۔ بہرحال دعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستہ پر اسے عمل کرنے کی بھی توفیق ملے کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہرگز محفوظ نہیں ہے یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح طریق اختیار کرے مگر وہ جو بھی راستہ تجویز کرے تمہیں اس پر عمل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہئے۔ ۸۳
تعلق باللہ کے موضوع پر ایمان افروز تقریر
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اپنی آخری تقریر میں جو >تعلق باللہ< کے موضوع پر تھی تصور اسلامی کے بہت سے باریک اور ضروری مسائل پر آسان اور دلنشین پیرایہ میں روشنی ڈالی اور مندرجہ ذیل دس ایسی ذرائع کی نشان دہی فرمائی جن سے انسان محبوبان الٰہی کے پاک گروہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرسکتا ہے:۔
‏body] )[tag۱( صفات الہیہ کا ورد )۲( صفات الہیہ پر تدبر )۳( خدمت خلق )۴( گناہ پر ندامت )۵( ضرورتدعا کا احساس )۶( تدبیر کامل اور توکل کامل )۷( انصاف پروری )۸( تقویٰ )۹( صفات الہیہ کی عکاسی )۱۰( محبت الٰہی کے لئے دعا۔
اس پرمعارف تقریر کے اختتام پر حضورؓ نے فرمایا:۔
سارے کاموں کا آخری انحصار دعا پر ہے پس انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارہ گاہ میں جھکے اور اس سے کہے کہ الٰہی تیرا وجود مخفی ہے میری عقل سخت ناقص اور ناتمام ہے مگر میرے دل کے مخفی گوشوں میں تیرے میں تیرے وصال کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے۔ میرا دل تجھ سے ملنے کے لئے بیتاب ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تیری محبت کو حاصل کروں مگر اے میرے رب !! میری کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک تیرے فضل میرے شامل حال نہ ہوں۔ پس تو اپنی محبت سے مجھے حصہ عطا فرما اور مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جو تیرے محبیں کے پاک گروہ میں شامل ہیں۔<۸۴
پریس میں ذکر
۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کے اس کامیاب جلسہ پر جن اخباروں نے تبصرہ شائع کیا ان میں >ہمارا کشمیر< )مظفر آباد( >تنظیم< )پشاور( اور >اقدام< )لاہور( خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اخبار >ہمارا کشمیر<
۱۔ اخبار >ہمارا کشمیر< نے ۱۰ فروری ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں صفحہ اول پر نہایت جلی عنوان کے ساتھ حسب ذیل خبر دی:۔
>حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے مسلمانان عالم کو متوجہ کیا کہ فلسطین میں یہود کااقتدار ہمارے مقدس ترین مقامات کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے<
کشمیر کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے بغیر پاکستان بالکل غیر محفوظ ہے
ربوہ۔ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر پچاس ہزار کے اجتماع کو خطابکرتے ہوئے جناب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے مسلمانان عالم کو متوجہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلامی ممالک کو فلسطین کے متعلق کوئی ٹھوس اور عملی قدم اٹھانا چاہئے۔ آپ نے عالم اسلام کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہئے فرمایا مختلف ممالک میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ مثلاً ایران` مصر` انڈونیشیا` عراق اور اردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور الجھنیں پیدا ہورہی ہیں۔ تیونس اور مراکو کے مسلمان آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ممالک کے مسلمانوں کی مدد ہم دعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس کے متعلق ہماری حکومت کو بھی ضروری کوئی عملی کارروائی کرنی چاہئے اوروہ ہے فلسین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ یہود مسلمان کے شدید دشمن ہیں اور انہوں نے ایک ایسے ملک میں حکومت قائم کر لی ہے جو ہمارے مقدس ترین مقامات یعنی مکعہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے۔ ان کے ارادے یقیناً بہت خطرناک ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو ضرور مجموعی طور پر کوئی عملی قدم اٹھانا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں اگر تمام اسلامی ملک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کردیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے ہم یہودیوں کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کا عملاً سدباب کرسکتے ہیں۔ اس مسئلہ کی اہمیت کے متعلق میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ اسی طرح کشمیر کے علاقہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا میں نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ مسئلہ کس طرح حل ہوگا ؟ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کو پوزیشن بلاکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کر لے۔ جس کا روپیہ گرا ہے` اگر وہ محض صبر سے کاملیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی بھی روپیہ ملنے کی امید نہیں کرنی چاہئے- بہرحال دعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستے پر اسے عمل کرنے کی توفیق بھی ملے کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہرگز محفوظ نہیں ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح راستہ اختیار کرے مگر وہ جو بھی راستہ تجویز کرے تمہیں اس پر عمل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں آپ نے اپنی جماعت کے افراد کو تلقین کی کہ وہ موجودہ مشکلات کے ازالہ کے لئے سات روز سے رکھیں اور خصوصیت سے رات کو اٹھ کر دعا کریں۔ )نامہ نگار<( ۸۵
اخبار >تنظیم< پشاور
۲- اخبار >تنظیم< پشاور )مورخہ ۸ جنوری ۱۹۵۳ء( نے >احمدیوں کا سالانہ جلسہ< کے زیر عنوان درج ذیل نوٹ لکھا:۔
>پاکستان کی جماعت احمدیہ کا ۲۶` ۲۷ اور ۲۸ دسمبر ۱۹۵۲ء کو بمقام ربوہ ضلع جھنگ سالانہ جلسہ کے لئے اجتماع رہا۔ مردوں کی حاضری پچاس ہزار سے زائد اور شامل جلسہ ہونے والی مستورات کا اندازہ پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود کے صرف اس اعلان پر کہ دسمبر کے آخری ایام میں سالانہ جلسہ ہے ستر اسی ہزار نفوس کا ایک مرکز پر اکٹھا ہوجانا ایک بہت بڑا معجزہ اور پاک و ہند کی تاریخ میں بہت بڑا اجتماع ہے خصوصاً اس لئے بھی کہ ایک عرصہ سے احمدیت کے خلاف ملک کے طول و عرض میں غم و غصہ اور ہیجان پھیلایا جارہا ہے کہ یہ کافروں کی جماعت ہے اور خارج از اسلام ٹولہ ہے۔ یہ تمام لوگ جو اس اجتماع میں شامل ہوئے سوائے دو تین ہزار تماشائیوں کے جن کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا وہ احمدیت کے متعلق کیا تاثرات لے کر آئے؟ باقی سارے لوگ یہ جانتے تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود نے وہاں دولت کے خزانے تقسیم نہیں کرنے بلکہ الٹا سلسلہ کے بعض شعبوں کے لئے امداد کی اپیل ہی کریں گے۔ اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ ملک کی اکثریت پر انہیں بے دین طاہر کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود ان ے امام نے بیعت کے وقت کہا تھا کہ خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے ایک فعال جماعت کا قیام مقصود ہے اور تمہیں دین کی خدمت کے لئے ہرقسم کی` جانی و مالی قربانی پیش کرنی پڑے گی۔ جب انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دین کی خدمت کے لئے اپنے امام کی ہر آواز پر لبیک کہیں گے` سفر کی صعوبتیں اور سینکڑوں روپیہ خرچ کر کے اپنے امام کا پیغام سننے کے لئے ربوہ پہنچے جہاں انہیں اپنے امام نے یہ درس دیا کہ تابعداری کرو خدا کی اس کے رسول محمد~صل۱~ کی اور تمام دنیاوی امور اور زندگی کے ہر شعبہ کے لئے قرآن کریم کو مشعل راہ بنائو قرآن پاک کو پڑھو اور اس پر عمل کرو۔ تقویٰ اختیار کرو اور تعلق باللہ قائم کرو۔ جوں جوں تم ال¶ہ تعالیٰ کے قریب ہوتے جائو گے تم میں تقویٰ بڑھتا جائے گا اور تم صحیح معنوں میں اللہ والے یعنی مومن بن جائو گے تمہاری دنیاوی مشکلات اور رکاوٹیں تمہارے راستہ سے دور ہوجائیں گی- انہیں ان کے امام نے کہا تمہیں یورپین ممالک کو اسلام کی آغوش میں لانا ہے۔ مبلغین ان حلقوں میں کام کررہے ہیں اور یورپ اسلام کی اہمیت سے آگاہ ہوچکا ہے۔ کام کی رفتار کو تیز کرنے اور ضروری لٹریچر فراہمی کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ دین کے لئے ہے۔ اور آپ کے لئے یہ کیا کم سعادت ہوگی کہ یورپ آپ کے ذریعہ مسلمان ہوجائے اور آپ دنیا میں خدمت دین اور اشاعت اسلام کرنے والی جماعت کہلائو۔ اور کہا جب تم خدا کے ہو اور خدا تمہارا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ اپنے دین کو بھی سنوارو۔ یہ تھا مرزا بشیر الدین محمود کا اپنی جماعت سے خطاب۔ یہ تھا قادیان اور ربوہ سے متعلق لوگوں کا کفر و شرک جو اجتماع میں دیکھنے اور سننے میں آیا۔ )نامہ نگار خصوصی<( ۸۶
>اقدام< لاہور
۳۔ ہفت روزہ >اقدام< لاہور کے ۵ جنوری ۱۹۵۳ء کے پرچہ میں >احمدیوں کا اجتماع< کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ چھپا:۔
>چنیوٹ سے چھ میل کے فاصلے پر چناب کے کنارے کالے کالے مہیب پہاڑوں کے درمیان صاف ستھرے مکانوں کی ایک نئی بستی آباد ہورہی ہے یہ بستی جماعت احمدیہ پاکستان کا مرکز ہے اور >ربوہ< کے نام سے مشہور ہے۔ ہر چند کہ بستی تعمیر کے ابتدائی مراحل میں سے گزررہی ہے پھر بھی اس درجہ اہمیت حاصل کرچکی ہے کہ اس کا اپنا ریلوے اسٹیشن` لاریوں کا اڈہ` پوسٹ آفس` پبلک کال آفس اور تار گھر بھی معرض وجود میں آچکا ہے۔ ہرسال دسمبر کے آخرمیں یہاں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے۔
پاکستان کے کونے کونے سے احمدی یہاں کھچے چلے آتے ہیں اور وہ چہل پہل ہوتی ہے کہ اس خاموش بستی کے ذرے ذرے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور کثرت اژدہام سے گرد و غبار کے بادل اٹھ اٹھ کر دور دراز سے گذرنے والے راہ گیروںکو اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہتے۔
اس مرتبہ جہاں ہزاروں احمدی عقیدۃ ربوہ میں آ جمع ہوئے تھے وہاں مجھ جیسا سیدھ سادا مسلمان بھی جابر اجمان ہوا۔ میرا خیال تھا کہ انتہائی شدید مخالفت کے باعث اب اس جماعت کے حوصلے پست ہوچکے ہوں گے اور اس مرتبہ جلسہ پر وہ رونق نہیں ہوگی جو ہمیشہ سننے میں آتی ہے لیکن مجمع دیکھ کر میری حیرت کی انتہا رہی۔ جب میں وہاں پہنچا تو جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد جلسہ کا افتتاح کرنے کے لئے جلسہ گاہ میں پہنچ چکے تھے اور اپنی تقریر کے ابتدائی فقرے زبان سے ادا فرما رہے تھے جلسہ گاہ ہر قسم کے شان و شکوہ سے بالکل عاری تھی۔ ایک معمولی سی حد بندی کے وسیع احاطے میں خوش پوش لوگ ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بیٹھنے کے لئے دریوں تک کا انتظام نہ تھا۔ مٹی پر مٹی ہی کے رنگ کی پرالی پھیلی ہوئی تھی جس پر مرزا صاحب کے ہزاروں مرید بے تکلف بیٹھے ہمہ تن گوش بنے جلسہ سن رہے تھے۔
البتہ اسٹیج پر جو جلسہ گاہ کی مناسبت سے اچھا خاصہ وسیع تھا دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ سٹیج اور پبلک کے درمیان آج کل کے >فیشن< کے مطابق کافی فاصلہ تھا جو غالباً حفاظت کے پیش نظر چھوڑا گیا تھا۔
مرزا صاحب نے آتے ہی کہا:۔
>یہ فاصلہ غیر ضروری طور پر زیادہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک حد تک حفاظت بھی ضروری ہے لیکن اصل محافظ خدا تعالفی ہے۔ حفاظت کے ظاہری سامانوں پطر اس درجہ بھروسہ کرنا خدائی حفاظت کے احساس پر گراں گزرتاہے اس لئے اس فاصلہ کو ختم کیا جائے- اور اگر دوسرے روز جلسہ شروع ہونے سے قبل اس فاصلہ کو پاٹا نہ گیا تو میں تقریر نہیں کروں گا<
پس پھر کیا تھا مریدان باصفا اس جرات مندانہ اعلان پر جھوم ہی تو اٹھے اور چاروں طرو سے >امیر المومنین زندہ باد< کے نعرے بلند ہونے لگے۔ وہ تو مرید تھے اس لئے ان کا جھومنا لازمی تھا لیکن مرزا صاحب نے کچھ اس دلیری سے یہ اعلان کیا کہ میں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مرزا صاحب تو دعا کے ساتھ جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلے گئے لیکن مجمع اپنی جگہ بیٹھا رہا مبلغین اسلام کی تقریریں سنتا اور سر دھنتا رہا۔
اس روز تو بازارکی چہل پہل اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر میں لائلپور واپس چلا آیا دوسرے روز مرزا صاحب کی تقریر سے قبل میں پھر وہاں جا پہنچا میں نے دیکھا کہ واقعی اسٹیج اور سامعین کا درمیان فاصلہ غائب تھا اور لوگ قریب قریب سٹیج سے لگ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ مرزا صاحب نے ساڑھے چار گھنٹے کی تقریر میں جماعتی تنظیم کے علاوہ ملکی اور عالمی سیاست کے ہر اہم مسئلہ پر روشنی ڈالی اور بالخصوص احمدیت کے سر پھرے مخالفین کی طرف سے جو اعتراضات کئے یا بقول مرزا صاحب جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں ان کے انہوں نے بخیے ادھیڑے کہ مجمع پر کیف کا عالم طاری ہوگیا اور سامعین کے چہروں پر ایسی بشاشت نظر آنے لگی کہ گویا مکالفتوں کے شور اور مشکلات کے پہاڑ اٹھانے ان کے لئے اب پہلے سے بھی زیادہ آسان ہوگئے ہیں پھر بھی اپنی طویل تقریر کو دلچسپ بنانے کے لئے مرزا صاحب نے ساتھ ساتھ نہایت یا موقعہ چٹ پٹے لطیفے بیان کئے کہ مجمع میں >اللہ اکبر< کے بلند نعروں کے علاوہ گاہے گاہے مسکراہٹ اور ہلکی ہنسی کی خوش آئند آوازیں گونجتی رہیں۔ اس تقریر کے بعد یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایثار و وفا کے یہ پتلے اب پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں اور یہ کہ ان میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے۔
میں جس قدر بھی مجمع کی کیفیت کا مطالعہ کرتا تھا اسی قدر میرا یہ احساس بڑھتا جارہا تھا کہ مولویوں کی مخالفت نے انہیں زیادہ راسخ العقیدہ بنادیا ہے۔ یہ اپنے ارادوں اور زیادہ پختہ ہوگئے ہیں اور ان کے حوصلے نہ صرف بڑھے ہیں بلکہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
یہ نظارہ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ہمارے یعنی علماء زبانی نعرے لگا کر اور کانفرنسیں منعقد کر کے اس قلیل سی جماعت کے لئے اور زیادہ متحد و منظم ہونے کے مواقع بہم پہنچارہے ہیں۔
میرے دل نے کہا۔ اے کاش ہمارے یہ علماء جذبات نعرے لگا نے اور کانفرنسوں سے ہمارا لہو گرمانے کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر اس جماعت کا مقابلہ کریں۔ لیکن ٹھوس بنیادوں پر مقابلہ خالہ جی کا گھر نہیں اس کے لئے منفی قسمکی جدوجہد کی بجائے خالص مثبت نوعیت کے عمل کی ضرورت ہے۔
یعنی جو کام احمدی لوگ سرانجام دے رہے ہیں اسے ہم اور ہمارے مولوی صاحبان سرانجام دے رہے ہوں۔ ان کا ایک مشن قائم ہے تو اس کے مقابلہ ¶میں ہمارے دس مشن ہونے چاہئیں جو ان کے تبلیغی کاروبار کو تہس نہس کر کے رکھ دیں لیکن اس کے لئے روپے سے زیادہ عزم و استقلال اور جذبہ قربانی کی ضرورت ہے اور وہ ہم میں مفقود ہے۔ چندے کی اپیلیں بہت ہیں اور کام کی سبیل کوئی نہیں۔ نعرے جتنے چاہو لگوا لو لیکن عمل کے نام پر میدان صاف ہے۔ اس قسم کے غلط جوش دکھانے میں ہر وقت شیر ہیں کہ جو احمدیوں کو زیادہ تقویت پہنچانے کا باعث ہو اور کھاد کا کام دے کر انہیں ترقی کے امکانات سے اور زیادہ ہمکنار کردے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون
کیا ہمارے لئے یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم تبلیغ و اشاعت کا ایک وسیع منصوبہ تیار کریں اور اسے جامہ عمل پہنا کر اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیں جس پر احمدیوں نے ہماری غفلت سے فائدہ اٹھا کر اپنا اجارہ قائم کر رکھا ہے۔
کیا کوئی اللہ کابندہ ہمیں اس بے کار قسم کے جوش سے نجات دلا کر عمل و کردار کے مثبت تقاضوں سے آگاہ کرنے کا بیڑا اٹھانے کے لئے تیار ہے ؟ اور اگر واقعی اس دل گردے اور قربانی و ایثار کے مجسمے ہم میں موجود ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ موجود نہ ہوں تو پھر حکمت اور موظہ حسنہ کے ذریعے مولیوں کی اندھی مخالفت اور لہو گرمانے کے موجودہ طریقے آج کل متمدون دنیا میں موثر ثابت نہیں ہوسکتے ہاں احمدیوں کے لئے مہمیز کا کام ضرور دے سکتے ہیں کہ وہ اور زیادہ متحد و منظم ہوجائیں۔ ۸۷
فصل پنجم
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۳۳۱ ہش۔۱۹۵۲ء کا سب سے اندوہناک حادثہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ام المومنین ؓ کا انتقال ہے۔ حضرت سیدہ کے علاوہ بھی متعدد عظیم المرتبت صحابہ اس سال جہان فانی سے رحلت فرما گئے جن میں سے بعض مبارک ہستیوں کا ذکر اس فصل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ چوہدری غلام قادری صاحبؓ متوطن سیالکوٹ:۔ )ولادت ۲۴۔۱۸۶۳/۱۲۸۰ ھ بیعت و زیارت ۱۹۰۲ء۔ وفات ۳۱ صلح ۱۳۳۱ ہش/۳۱ جنوری ۱۹۵۲ء(
حصرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ کے ماموں زاد بھائی اور حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹیؓ کے برادر اکبر تھے۔ اکتوبر ۱۹۰۵ء میں ہجرت قادیان کی اور مسجد مبارک کی چھت سے متصل کمرہ دارالمسیح رہنے لگے۔
اکتوبر ۱۹۰۵ء سے ۱۹۳۵ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مددگار کارکن رہے۔ نظام الوصیت ار تحریک جدید کے مجاہدوں میں سے تھے۔ باوجود غربت کے حتی الوسع حضرت مصلح موعودؓ کی ہر تحریک پر لبیک کہا۔ منارۃ المسیح ہال کے لئے سو روپیہ چندہ دیا۔ تحریک وقف جائیداد کی تعمیل میں اپنا مکان وقف کردیا اور اس کی قیمت بھی داخل خزانہ کردی- تحریک جدید کا چندہ ہمیشہ شروع سال میں ہی ادا کردیتے تھے۔ جوانی میں نماز کے بالکل تارک تھے مگر بیعت کے بعد آپ عابد شب بیدار بن گئے۔۸۸
۲۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ ریحان بوتالوی:۔ )ولادت ۲۰ مئی ۱۸۸۱ء بیعت ۱۴ فروری ۱۹۰۱ء وفات ۳ ماہ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/ مئی ۱۹۵۲ء(
آپ کے والد ماجد مولوی محمد دین صاحب بوتالہ ضلع گوجرانوالہ کے خطیب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلی معتقد تھے۔۸۹ ۱۸۹۶ء کے اوائل میں حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کے پاس تعطیل جمعہ کا میموریل۹۰ مع فارم بھجوایا جس کو انہون نے خطبہ جمعہ میں سنایا اور حضور کی اس خدمت اسلامی کی بہت تعریف کی۔
قبول احمدیت
جنوری ۱۹۰۱ء میں آپ نے حضرت مہدی موعودؑ کے خلاف ایک اشتہار سنا` مطالعہ سے معلوم ہا کہ کتباازالہ اوہام کی عبارتوں کا مفہوم بگاڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ابھی آپ تحقیق احمدیت کے اس ابتدائی مرحلہ ہی میں تھے کہ عوام نے مشہور کردیا کہ آپ احمدی ہوگئے ہیں۔ چند روز بعد ایک اہلحدیث عالم نے علماء زمانہ کامہروں سے مصدقہ فتویٰ سنا کر گائوں والوں سے آپ کا مقاطعہ کرادیا اور آپ بوتالہ سے بھیرہ تشریف لے آئے۔
بائیکاٹ کا مقصد تو آپ کو حق سے محروم رکھنا تھا مگر اللہ تعالفی نے آپ پر اسی کے دوران اپنی مہدی برحق کی صداقت ایک رویا میں کھول دی اور اپ نے ۹ فروری ۱۹۰۱ء کو بھیرہ سے بیعت کا خط لکھ دیا۔ اک ہفتہ بعد الحکم ۱۷ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۸ پر آپ کا نام مبالغین کی فہرست میں چھپ گیا۹۱ اور حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی قادیانی کے ہاتھ سے لکھا ہوا یہ خط بھی پہنچا کہ
>آپ کا بیع نامہ حضرت کی خدمت میں سنایا گیا۔ حضور نے بیعت کو منظور فرمایا ہے اور استغفار اور درود شریف کی مداومت کا ارشاد فرمایا ہے۔<
خدمات دینیہ
بھیرہ میں آپ نے بیعت کے پٹوار کا امتحان پاس کیا ۳۔ فروری ۱۹۰۲ء کو چا وہ حلقہ بھیرہ کے پٹواری بنے اور دوسرے مقامات کے علاوہ سوات میں بھی رہے اور پھر لمبے عرصہ تک سرگودھا میں تعینات کئے گئے اور ۲۹ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو اہلمد کی اسامی سے ریٹائرڈ ہوئے۔ دوران ملازمت آپ قول و عمل سے پیغام احمدیت پھیلانے میں سرگرم عمل رہے۔ جماعت احمدیہ سرگودھا کے مقامی نظام سے وابستہ ہو کر سالہسال تک خدمات سلسلہ بجالاتے رہے۔ تحریک جدید کے صف اول کے مجاہدین میں سے تھے۔ پنشن کے بعد مطالبہ تحریک جدید کے تحت اپنی زندگی وقف کی۔ وصیت کا نمبر ۱۹۲ تھا۔ سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر جمع کرنے اور خلفاء احمدیت اور بزرگان جماعت کی تحریرات محفوظ کرنے کا بہت شوق تھا اور ڈائری لکھنے کا التزام فرماتے تھے۔
آپ کے تین مخطوطات جو خوشنویسی کے نادر نمونے ہیں خلافت لائبریری میںمحفوظ ہیں اور حضرت حکم الملت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی~رح~ کی کتاب فوزا الکبیر اور فتح الخبیر اور >قصیدہ شاطیبہ< پر مشتمل ہیں اول الذکر دو قللمی نسخوں >فتح الخبیر< کی کتابت ۲۴ مارچ ۱۹۱۲ء کو شروع کی گئی اور ۹ اپریل ۱۹۱۲ء کو اختتام تک پہنچی۔ قلمی نسخہ آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ کے حکم پر تیار کیا تھا جیسا کہ اس کے درج ذیل الفاظ سے ظاہر ہے:۔
>الحمدلل¶ہ کہ رسالہ ہذا مسمی بہ فتح الخبیر حسب الارشاد فیض بنیاد حضرت سیدنا و مولانا و مرشد نا خلیفہ المسیح والمہدی حضرت حاجی حافظ مولوی نور الدین صاحب ادام اللہ فیوضہ وایدہ اللہ بنصرہ ازدست ذرہ بیمقدار خاکسار محمد عبداللہ عفاہ اللہ ساکن بوتالہ ضلع گوجرانوالہ بتایخ ۹ ماہ اپریل ۱۹۱۲ء با تمام رسید ~}~
ہر کہ خواند دعا طمع دارم
زانکہ من بندہ گنہگارم< 4] ft[s۹۲
کتاب >قصیدہ شاطیبہ< کا مخطوط بھی جو ۲۵۱ صفحات پر مشتمل تھا حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ کے ارشاد مبارک پر لکھا گیا چنانچہ اختتام پر لکھتے ہیں:۔
>الحمدلل¶ہ والشکرلل¶ہ کہ کتاب مستطاب المسمی بہ قصیدہ شاطیبہ حسب الارشاد فیض بنیاد سیدنا و مروشد نا وم مولانا خلیفہ المسیح حضرت مولوی نور الدین صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ وایدہ اللہ بنصرہ از دست خاکسار احقر عباد اللہ محمد عبداللوہ عفاہ اللہ متوطن موضع بوتالہ جھنڈا سنگھ ضلع گوجرانولاہ حال منشی نہر علاقہ سرگودھا امروز بتاریخ ۲۱ ماہ شعبان ۱۳۳۱ ہجری مطابق ۲۶ ماہ جولائی ۱۹۱۳ء عیسوی بمقام موضوع سلطان پور نون داخلی بھلوال ضلع شاہ پور باختتام رسید گر قبول افتد زہے عزو شرف۔
غرض نقشے ست کزما یاد ماند
کہ ہستی رانمے بینم بقائے
مگر صاحبدلے روزے برحمت
کند برحال ایں مسکین دعائے< ۹۳
وفات
آپ نے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ام المومنینؓ کی رحلت کے چند روز بعد وفات پائی۔ نماز جنازہ حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھائی اور قبر پر اجتماعی دعا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کرائی۔ آپ حضرت ام المومنین کے مزار مبارک کے قریب سپرد خاک کئے گئے۔ آپ پہلے صحابہ تھے جنہیں بیشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ۹۴
اولاد
۱۔ محترم امتہ الحمید بیگم صاحبہ )ولادت مارچ ۱۹۰۵ء* اہلیہ خان صاحبقاضی مہمد رشید صاحبؓ سابق وکیل المال تحریک جدید )خوش دامن مکرم ابو المنیر نور الحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین(
۲۔ مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب انور )ولادت ۳۱ مئی ۱۹۰۸ء( سابق انچارج تحریک جدید و پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح حال نائب ناظر بیت المال آمد۔ ربوہ۔
۳۔ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ )ولادت ۱۹۱۲ء( اہلیہ محترم ملانا ابو العطا صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ حال ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد۔ ربوہ۔
۴۔ مکرم حافظ قدر اللہ صاحب )تاریخ ولادت ۲۲ فروری ۱۹۱۷ء۹ مبلغ ہالینڈ و انڈونیشیاء۔
۵۔ مکرم عنایت اللہ صاحب سلیم۔ )ولادت ۲۵۔۲۶ اپریل ۱۹۲۰ء( ریٹائرڈ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اریگیشن سیکرٹریٹ لاہور۔
۳۔ حضرت سردار محمود یوسف صاحبؓ نو مسلم ایڈیٹر اخبار >نور< )ولادت انداًا ۱۸۸۹ء۔ تحریری بیعت ۱۹۰۵ء زیارت ۱۹۰۶ء۹۵۔ وفات ۵ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/مئی ۱۹۵۲ء۹۶(
قبول اسلام کا واقعہ
پیدائش نام سورن سنگھ اور وطن امرتسر تھا۔ کوئٹہ )بلوچستان( میں محکمہ بندوبست کے اہلکار تھے اور وہیں اسلام لائے اور دین کے شوق میں کشاں کشاں قادیان پہنچے۔ حضرت حکیم الامت حاجی الحرمین مولانا نور الدینؓ )خلیفہ اول( نے آپ کو حضرت مہدی موعودؑ کی خدمت میں پیس کیا` آپ نے اپنے مسلمان ہونے کے حالات عرض کئے اور گرنتھ صاحب وغیرہ سے کچھ اقوال اسلام کی تائید میں پڑھے جن کو حضورؑ نے دلچسپی سے سنا اور ارشاف فرمایا کہ ان کا لیکچر ہونا چاہئے- چنانچہ مسج اقصیٰ میں آپ کا پہلا پبلک لیکچر ہوا جو کامیاب رہا۔ آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول ملازم ہوئے۔
حضرت مہدی موعود کی دعائیں
اگلے سال سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے >چشمہ معرفت< تصنیف فرمائی اس کے لئے سکھ مذہب سے متلعق مواد آپ کو بھی فراہم کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضورؑ نے ایک گرامی نامہ میں تحریر فرمایا کہ میں آپ کے کام پر بہت خوش ہوا اور آپ کے لئے بہت دعائیں کیں۔ ۳
لٹریچر
خدا تعالیٰ کے فرستادہ اور مامور کی ان دعائوں کا ہی اثر تھا کہ آپ عمر بھر سکھوں اور آریوں کو محبت اور پیار سے دعوت اسلام دیتے رہے۔ نیز اخبار >نور< جیسی بلند پایہ ہفت روزہ کے علاوہ جسے آپ نے اکتوبر ۱۹۰۹ء میں جاری کیا اور جو تقسیم ہند تک باقاعدہ شائع ہوتا رہا آپ کے قلم سے قابل قدر علمی لٹریچر شائع ہوا جس میں سے قرآن مجید کے گورمکھی اور ہندی تراجم اور سوانح آنحضرت~صل۱~ )جیون پوتر( کے گورمکھی اور ہندی ایڈیشن کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔ آپ کی اس عظیم الشان اسلامی خدمت کے اعتراف میں اعلیٰ حضرت نظام حیدر آباد دکن` نواب صاحب بھوپال اور مہاراجہ صاحب پٹیالہ نے امداد دی۔ مہاراجہ صاحب پٹیالہ جب قادیان آئے تو ان کے دفتر میں جا کر ان سے ملاقات کی۔ ار بہت سے معزز ہندو اور سکھ دوستوں نے اپنے خطوط میں ان تصانیف پر مبارک باد دی اور بہت متاثر ہوئے۔ آپ کی مندرجہ ذیل کتابوں کو بھی خاصی شہرت حاصل ہوئی:۔
باوانانک کا مذہب` دھرم کی کسوٹی` آریہ دھرم کا فوٹو` مسلمانوں کے احسانات سکھوں پر` قدیم ہندوستان کی روحانی تعلیم` گرو کی بانی` سومنگلا ناول` سکھ مسلم اتحاد` باوانانک کی سوانح عمری` فتح مبین` سکھ اور مسلمان` آریہ مذہب کی حقیقت` برکات اسلام` آریہ دھرم کا پول` ست اپریشن` ردتنا سخ ۹۸
تقاریر ار مناظرے
آپ اسلام کے کامیاب مبلغ و مناظر تھے۔ ہندوستان کی متعدد اسلامی انجمنوں نے آپ کو اپنے جلسوں میں تقریر کے لئے خاص طور پر مدعو کیا۔ شمالی ہند میں مسلمانوں کی قدیم انجمن ۔۔ انجمن حمایت اسلام۔۔ کے پلیٹ فارم سے آپ کی کئی تقریریں ہوئیں اور پسند کی گئیں۔ ملک میں آپ کے کئی زبانی اور تحریری مناظرے ہندوئوں اور سکھوں سے ہوئے۔ اپنی شیریں زبانی سے مخالفین اسلام تک کے دلوں کو موہ لیتے تھے۔۹۹
غیر مسلموں کے تاثرات
باوجودیکہ آپ سکھوں سی مسلمان ہوئے اور تمام عمر سکھوں کو اسلام کی طرف بلاتے رہے سکھ حلقوں میں بھی آپ کو خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور سکھ و دانوں نے آپ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا۔ چنانچہ اخبار >آشا< )جالندھر( نے ۱۰ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>آپ نے قرآن شریف کا پنجاب میں ترجمہ کیا اور متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ اس سے بڑھ کر قابل تعریف کام انہوں نے سکھ مسلم اتحاد کے لئے کیا۔<
۲۔ سردار جنگ بہادر صاحب ایڈیٹر اخبار >شیر پنجاب< )دہلی مورخہ ۲۲ ۔ جون ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>وہ اپنے اخبارنور کے ہر پرچہمیں سکھوں سے انس اور محبت کرتے رہے اور انہیں سکھ حلقوں میں محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ احمدیت کے وہ ایک عظیم الشان مبلغ اور پیروکار تھے۔ آپ نے قرآن پنجابی اور ہندی میں ترجمہ کیا اور بہت قابل اور دوست نواز انسان تھے۔ ان کا انتقال جماعت احمدیہ اور ان کے دوستوں کے لئے ایک افسوسناک سانحہ ہے۔<
۳۔ سردار ردیل سنگھ صاحب گیانی ہیڈ ماسٹر پرائمری سکول موضع رتن گڑھ ضلع انبالہ نے سکھ لٹریچر کے ممتاز سکالر گیانی عباد اللہ صاحب کو اپنی چٹھی مورخہ ۱۴ مئی ۱۹۵۲ء میں تحریر کیا:۔
>سردار صاحب موصوف بہت بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ میں ان کا دیدار نہ کرسکا لیکن ان کے مضامین سے ان کی روح کا بخوبی پتہ چل جاتا تھا۔ سکھ مسلم ایکتا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ نہ صرف اخبار نویس وفات پا گیا ہے بلکہ سکھ مسلم ایکتا کا بڑا حامی اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے اور اس سے صحافت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
سردار صاحب موصوف اخبار نور کے متعدد پرچے ہندوستانی سکھوں میں مفت تقسیم کرتے تھے ان کا مقصد سکھ مسلم اتحاد تھا۔ انہوں نے اسلام کی خوبیاں شائع کر کے غیر مسلموں` خاص کر سکھوں میں اسلام کی بہت عزت بڑھائی ہے اس طرح انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ اور جہاں وہ اسلام کے بڑے خدمت گار تھے وہاں سکھ مسلم اتحاد کے بھی بڑے حامی تھے۔ قرآن شریف کا پنجاب ترجمہ کر کے انہوں نے قوم کی بڑی خدمت کی ہے۔<۱۰۰ )ترجمہ از گورمکھی(
۴۔ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ نو مسلم )سابق مہر سنگھ:(۔ )ولادت اندازاً ۱۸۷۲ء بیعت و زیارت دسمبر ۱۸۹۰ء وفات ۴ احسان ۱۳۳۱ ہش/جون ۱۹۵۲ء(
قبول اسلام
حضرت ماسٹر صاحبؓ بھی ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے کہ مجذوبانہ طور پر خدا کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔
دور تعلیم و ملازمت
مسلمان ہونے کے بعد آپ نے حضرت حکیم الامت حاجی الحرمین مولانا نور الدینؓ کی سرپرستی اور کفالت میں پہلے جموں پھر بھیرہ میں دسویں تک تعلیم پائی اور بی اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر قادیان دارالامان میں پاس کیا۔ ۱۳ جولائی ۱۹۰۰ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے اسٹاف میں بیس روپے مشاہرہ پر شامل ہوگئے اور ایک لمبے عرصہ تک ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ میں تعلیمی و تدریسی خدمات بجالانے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔
حضرت مہدی موعودؑ کے عہد مبارک کی خدمات
شرع ۱۹۰۱ء میں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مبشر اولاد کو تعلیم دینے کا موقعہ ملا۔ فرماتے ہیں:۔
>جب حضور فصیح و بلیغ عربی میں تفسیر قرآن علماء کے مقابلہ میں لکھ رہے تھے تو حضورؑ نے فرمایا کہ ان دنوں میں بچوں کو پڑھا کر ہمارے گھر میں ہی سوجایا کرو چنانچہ اس موسم سرما میں دار مقدس میں شب باش )ہونے( کا فخر رکھتا ہوں۔<
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ ۱۹۰۴ء کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-]>[میں آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے خود نہیں پڑھ سکتا تھا ماسٹر عبدالرحمن صاحب مجھے سناتے جاتے تھے اور میں سنتا تھا۔ اس بات کو سترہ سال کے قریب ہوگئے ہیں مگر اس وقت کے مجھے فقرے کے فقرے ابھی تک یاد ہیں۔<۱۰۱
۱۹۰۲ء و ۱۹۰۴ء کے دوران جب کہ حضرت مہدی موعودؑ دوران مقدمات گوداسپور میں قیام فرما رہے آپ کو الدار کی نگرانی اور پہرے کے انتظام کا شرف حاصل ہوا حضرت اقدسؑ نے انہیں دنوں آپ کو مندرجہ ذیل مکتوب تحریر فرمایا:۔
>بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی
محبی اخویم ماسٹر عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ` آپ کے سب خطوط پہنچے جزاکم اللہ خیراً مگر میرے نزدیک سب پہرہ چوکی بے فائدہ ہے جب تک مسجد کے اندر اور بیت الفکر کے اندر دو تین آدمی نہ سلائے جائیں۔ سو یہ کوشش کریں کیونکہ گھر کے لوگ سب باہر کے دالان میں رہتے ہیں اور دالان خالی رہتا ہے بہت تاکید ہے۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ<
حضرت ماسٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔
>میں حضرت مسیح موعود کی زریعت طیبہ کو نہ صرف اسکول میں بلکہ اندرون خانہ بھی تعلیم دیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ میں صبح کے وقت حضرت مرزا شریف احمد صاحبکو بیت الدعا میں کچھ پڑھا رہا تھا اور حضورؑ لوٹا لئے قضاء حاجت کے لئے بیت الدعا میں سے گزرے حضورؑ نے فرمایا کہ ان بچوں نے قوم کا سردار بنتا ہے ان کو بڑی محنت اور اخلاص سے پڑھیا کرو۔ میں نے عرض کی کہ میں تو اخلاص اور محبت سے تعلیم دیا کرتا ہوں حضور میرے لئے اور میری اولاد کے لئے بھی دعا کریں حضورؑ نے )پنجابی میں( فرمایا >جنی کہو انی ہی دعا کراں گا< یعنی جتنی کہو اتنی ہی دعا کروں گا۔<
‏tav.13.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ سالانہ ربوہ کی ایمان افروز اور انقلاب انگیز تقاریر
قلمی جہاد
حضرت ماسٹر صاحب کے قلمی جہاد کا آغاز حضرت سلطان القلم ہی کے عہد مبارک میں ہوا ۱۹۰۴ء میں آپ آشوب چشم سے بیمار ہوگئے۔ حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین صاحبؓ نے بینائی کے ضائع ہونے کا خطرہ ظاہر کیا تو آپ حضرت مہدی موعودؑ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے۔ حضورؑ نے فرمایا:۔
>مین نے کہا تھا کہ نو مسلم` سلسلہ کے متعلق کچھ لکھیں آپ نے کچھ لکھا کہ نہیں؟< عرض کیا میں نے ارادہ کیا ہوا ہے اور انشاء اللہ خوب لکھوں گا مگر اب آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اس وقت نہیں لکھ سکتا۔ فرمایا >نیت کرلو خدا توفیق دے گا اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ دعا کریں گے آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔< چنانچہ دو چار روز میں آنکھیں درست ہوگئیں اس کے بعد آپ نے ہزاروں صفحے مطالعہ کئے ار سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتابیں لکھیں مگر آپ کی آنکھیں دوبارہ دکھنے نہیں آئیں۔ آپ کے سوانح نگار ملک صلاح الدین صاحب نے اصحاب احمد جلد ہفتم میں آپ کی متعدد مختلف تصانیف اور پمفلٹوں کے نام لکھے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کے اشتہارات کے نمونے بھی درج کئے ہیں۔ اپ کی بعض مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں:۔
خالصہ دھرم کے گروئوں کی تاریخ و باوانانک کا مذہب` سکھ نو مسلم کا لیکچر۔ اسلام گرنتھ صاحب باوانانک کا چولہ۔ آنحضرتﷺ~ کا دس کروڑ ہندوئوں پر احسان۔ اخلاق محمد۔ حضرت مسیح موعود علمائے زمانہ )تین حصے(۔ ضرورت زمانہ۔ محمدﷺ~ میں مسلامن ہوگیا یا اختیار الاسلام )چار حصوں میں مع ضمیمہ(
موخر الذکر کتاب حضرت مولانا نور الدینؓ کی تحریک پر لکھی گئی اور آپ نے اس پر یہ تبصرہ فرمایا کہ۔
>میں اس کتاب کو بہت پسند کرتا ہوں۔<
حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی نے یہ رائے دی کہ:۔
>ماسٹر عبدالرحمن نے نہایت جانگدار حنت اور درد مندی سے کتاب لکھی ہے اور ہماری امیدوں سے کہیں بڑھ کر لکھی ہے اور فی الجملہ علی الجملہ بہتوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوگی` انشاء اللہ۔<۱۰۲
آپ کا جوش تبلیغ انتہاء تک پہنچا ہوا تھاجیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ ¶نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
>ماسٹر عبدالرحمن صاحب کارآمد کارکن ہیں۔ تبلیغ کا انہیںایسا جوش ہے کہ بعض لوگوں کی نظروں میں جنونکی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ ایسے آدمی سست لوگوںکو ہوشیار کرنے کے لئے بہت مفید کام کرتے ہیں۔< ۱۰۳
جزائر میں تبلیغ اسلام
۱۹۱۵ء میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اجازت ے جزیرہ پورٹ بلیئر میںایک سکول کی ہیڈ ماسٹری کے لئے تشریف لے گئے جہاں آپ اپنے تعلیمی فرائض کو نہایت محنت و خلوص سے سرانجام دینے کے ساتھ والہانہ طریق سے تبلیغ اسلام و احمدیت بھی کرتے رہے اور قریباً تیس نفوس پر مشتمل ایک جماعت پیدا کر لی۔ اسی دوران میں آپ حضرت خلیفہ ثانیؓ کے حکم سے بمبئی اور مدرس سے ہوتے ہوئے سیلون بھی تشریف لے گئے اور کولمبو` کانڈی جیسے اہم شہروں میں لیکچر دیئے اور لارڈبشپوں اور بدھوں کو چیلنج دیا اور مباحثہ کیا جس کا سیلونی پریس میں خوب چرچا ہوا۔
قید وبند
۱۹۳۷ء میں پمفلٹ >حضرت بابا نانک~رح~ کا دین دھرم< کی پاداش میں اپ پر مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا دی` ہتھکڑی پہنائی گئی تو آپ نے اس کو چوم لیا جیسا کہ حضرت مہدی موعودؑ فرماتے ہیں:۔
گر قضارا عاشقے گرد و اسیر
بوسدآں زنجیر راکز آشنا۱۰۴
یعنی اگر قضائے الٰہی سے عاشق قید ہوجاتا ہے تو وہ زنجیر کو چومتا ہے اس لئے کہ وہ دوست کی طرف سے ہے۔
حضرت ماسٹر صاحبؓ نے جیل جاتے وقت نوجوانان احمدیت کو یہ پیغام دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت بابانانک~رح~ کے مسلمان ہونے کی جس صداقت کا اظہار فرمایا ہے اسے وہدنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں۔ مجھے اس صداقت کے اظہار میں جو سزا بھی دی جائے اسے بخوشی قبول کرنے کو تیار ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایام اسیری کمال و صبر و استقامت سے گذارے۔
مہدی موعودؑ اور آپؑ کے صحابہ کی امتیازی خصوصیت
قرآن مجید آنحضرت~صل۱~ اور آپؑ کے صحابہؓ کی ایک بای خصوصیت حسب ذیل آیت میں بتائی گئی ہے:۔
قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرہ انا ومن اتبعنی )یوسف: ۱۰۸(
)ترجمہ( تو کہہ یہ میرا طریق ہے کہ میں اور میرے پیرو علی وجہ البصیرت الل¶ہ کی طرف بلاتے ہیں۔
منہاج نبوت کے اس قرآن اصول کے مطابق حضرت مہدی موعودؑ نے بھی فرمایا:۔
>ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کی پر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا۔ سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ ہمارا دل اس یقین سے ایسا پر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے۔ سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں۔<۱۰۵
اس سلسلہ میں اسد اللہ الغالب حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے انصار مہدی کی نسبت بالخصوص یہ پیشگوئی فرمائی:۔
للہ عزو جل بھا کنوز لیست من ذھب ولا فضتہ ولکن بھا رجال مومنون عرفوا اللہ حق معرفتہ وھم انصار المھدی علیہ السلام فی اخر الزمان۔< ۱۰۶
اللہ عزوجل کے ہاں سونا چاندی کے علاوہ اور بھی خزانے ہیں اور وہ مومن مرد ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عرفان حاصل ہے اور وہ مہدی آخر الزمان کے انصار ہوں گے۔
اس پیشگوئی کے عین مطابق حضرت مہدی موعودؑ نے صحابہ کو یہ تلقین فرمائی کہ:۔
>ہماری جماعت جس نے مجھے پہچانا ہے` کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات کو باسی نہ ہونے دیں اس سے قوت یقین پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ ان نشانات کو پوشیدہ نہ رکھے اور جس نے دیکھے ہیں وہ ان کو بتلادے جو غائب ہیں` تاکہ برائیوں سے بچیں اور خدا پر تازہ ایمان پیدا کریں اور ان نشانات کو عمدہ براہین سے سجا سجا کر پیش کریں۔<۱۰۷
صاحب کشف والہام بزرگ
حضرت اقدسؑ کے جن صحابہ کو اس حکم کی تعمیل کا زندگی بھر موقعہ میسر آیا ان میں حضرت ماسٹر عبدالرحمٰن صاحبؓ نو مسلم مہر سنگھ کا مقام بہت ممتاز ہے۔ آپ ۳۱۳ اصحاب کبار میں سے صاحب کشف والہام اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ بع نشانوں کے گواہ کی حیثیت سے آپ کا نام حضرت اقدسؑ نے اپنے قلم مبارک سے لکھا ہے۔ آپ کی زندگی قبولیت دعا کے نشانوں سے لبریز تھی جن کو آپ اپنوں ہی میں نہیں غیر مسلموں میں بھی بڑی تحدی سے پیش فرماتے تھے جیسا کہ اپنی کتاب >میں مسلمان ہوگیا< میں لکھتے ہیں کہ:۔
>میں اس بات کو بیان کرنے سے شرم نہیں کرتا بلکہ تحدیث بالنعتمہ کے طور پر اقرار کرتا ہوں کہ محض خدا کے فض و کرم سے بارہا مجھے الہام ہوا اور اس ذات پاک کی آواز سنائی دی جو زمین آسمان کا خالق ہے۔ میں اپنے کانوں سے اور روحانیقویٰ سے الہامات اور مکاشافات کو آزما چکا ہوں اس لئے مجھے الہام وغیرہ سے انکار کرنا ایسا ہے جیسا کہ اپنے تئیں آگ میں النا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر درحقیقت جبانسان اپنا آپ خدا کے لئے قربان کردے تو تعجب مت کرو کہ اس سے خدا کا مکالمہ اور مخاطبہ ہوتا ہے بلکہ تعجب اس میں ہے کہ اگر ایسی بھاری قربانی اور تبدیلی کے بعد بھی خدا کی آواز نہ سنائی دے اور عجیب کرشمہ قدرت اس سے ظہور پذیر نہ ہوں۔< ۱۰۸
سیدنا المصلح الموعودؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں آپ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:۔
>ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی یہ عادت ہوا کرتی تھی کہ ذرا کسی آریہ اور کسی مخالف سے بات ہوئی تو وہ حضرت مسیح موعودؑ کی نقل میں بڑی دلیری سے کہہ دیتے اگر تمہیں اسلام کی صداقت میں شبہ ہے تو آئو اور مجھ سے شرط کرلو۔ اگر پندرہ دن کے اندر اندر مجھے کوئی الہام ہوا اور وہ پورا ہوگیا تو تمہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور پھر اشتہار لکھ کر اس کی دکانپر لگادیتے۔ چنانچہ کئی دفعہ ان کا الہام پورا ہوجاتا اور پھر وہ آریہ ان سے چھپتا پھر تاکہ اب میرے پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں گے کہ مسلمان ہو جائو۔ تو اگر یہ نمونے قائم رہیں تو غیر مذاہب پر ہمیشہ کے لئے اسلام اور احمدیت کی فوقیت ثابت ہوسکتی ہے۔< ۱۰۹
مالی جہاد میں حصہ
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ علمی اور تبلیغی خدمات بجا لانے کے علاوہ جماعت کے مالی جہاد میں بھی برابر شریک رہے۔ چنانچہ آپ نے تعمیر منارۃ المسیح کے لئے چندہ دیا۔ آپ ابتدائی موصویوں اور تحریک جدید کے اولین مجاہدوں میں سے تھے۔ آپ نے دارالفضل میں واقع سولہ مرلے کا ایک قیمتی قطعہ زمین بھی مسجد کے لئے وقف کردیا تھا۔
ہجرت اور اہل و عیال کو وصیت
۱۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور بھلوال ضلع سرگودھا میں پناہ گزین ہوئے ۸ ماہ وفا ۱۳۲۹ ہش/جولائی ۱۹۵۰ء کو آپ نے اہل و عیال کے نام ایک وصیت تحریر فرمائی جو صرف دینی امور سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وصیت میں آپ نے تاکید فرمائی کہ اگر تم صحابہ کرام کی برکات سے حصہ لینا چاہتے ہو تو ہماری طرح کشتی نوح کا مطالعہ کیا کرو۔ میں اب بھی سال میں دو ایک مرتبہ اسے پڑھتا ہوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں ہم کشتی نوح پڑھ پڑھ کر بعض ہدایات کو خط کشیدہ کر لیتے تھے اور ہفتہ بعد دیکھتے کہ وہ نقص دور ہو یا خوبی ہم میں پیدا ہوئی یا نہیں۔ اسی طرح صحابہ کیا کرتے تھے اور میںخود تو اپنے بعض عیوب اور کوتاہیوں کو خط کشیدہ کر کے اصلاح کیا کرتا تھا اسی لئے گھر میں اس کتاب کا اور کبھی دوسری کتب حضرت اقدس کا درس دیتا تھا۔ ماہ اخاء ۱۳۲۹ ہش/اکتوبر ۱۹۵۰ء میں آپ نے اپنی اولاد کے لئے قیمتی نصائح تحریر فرمائیںجن میں بالخصوص ان ادعیہ رسولﷺ~ کا ذکر کیا جو اکثر آپ کے ورد زباں رہتی تھیں۔ ۱۱۰
اولاد
)پہلی بیوی محترمہ غلام فاطمہ صاحبہؓ بنت حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونیؓ سے(
۱- بشریٰ بیگم صاحبہ مرحومہ ۲۔ بشارت احمد مرحوم ۳۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب مجاہد اپنے سینیا حال لندن ۴۔ سردار بشیر احمد صاحب انجینئر سابق صدر اسلامیہ پارک لاہور حال ربوہ ۵۔ سردار بشارت احمد صاحب لندن ۶۔ ڈاکٹر سعیدہ اختر صاحبہ کراچی ۷۔ ڈاکٹر محمودہ بیگم صاحبہ کراچی ۸۔ شریف احمد مرحوم ۹۔ امتہ الحفیظ بیگم مرحومہ ۱۰۔ امتہ الرشید بیگم صاحبہ۔
)دوسری بیوی محترمہ فضل بی بی صاحبہ بنت چوہدری پیر محمد صاحب آف شاہ پور ضلع گورداسپور سے(
۱۱۔ نصرت جہاں بیگم صاحبہ۔
)تیسری بیوی محترمہ ممتاز مرجان بیگم صاحبہ آف ہزارہ سے(
۱۲۔ سردار منیر احمد صاحب مقیم لندن ۱۳۔ سردار حفاظت احمد صاحب مقیم لاہور ۱۴۔ سردار رفیق احمد صاحب مقیم لاہور ۱۵۔ امتہ الرفیق بیگم صاحبہ مقیم لاہور۔ ۱۱۱][۵۔ حضرت سید محمد اشرف صاحبؓ آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ قادیان:۔
)ولادت اندازاً ۱۸۷۷ء ۔ بیعت ۱۹۰۴ء زیارت ۱۹۰۳ء ۱۱۲ وفات ۵۔ وفا ۱۳۳۱ ہش ۱۱۳( حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی وفات پر خطبہ جمعہ
میں فرمایا:۔
>مرحوم موصی تھے اس لئے کراچی میں بطور امانت دفن کئے گئے۔ ان کی طبعیت تیز تھی اور قریباً سب احمدی انہیں جانتے ہیں وہ پرانے احمدی نہیں تھے لیکن اپنے اخلاق کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی اس رنگ میں گزاری کہ پرانے احمدی بن گئے جب یہ احمدی ہوئے تو ان میں اتنا جوش پیدا ہوگیا کہ ہر مجلس اور ہر کام میں حصہ لیتے تھ اس لئے لوگ انہیں پرانا احمدی سمجھنے لگے۔< ۱۱۴
اولاد
۱۔ سید محمد احمد شاہ صاحب ۲۔ سید محمد انور شاہ صاحب ۳۔ ممتاز بیگم صاحبہ ۴۔ آمنہ بیگم صاحبہ ۵۔ کلثوم آرا بیگم صاحبہ
۶۔ حضرت منشی کرم علی صاحبؓ کاتب:۔
)ولادت؟ بیعت و زیارت ۱۸۹۷ء وفات ۱۵ فتح ۱۳۳۱ ہش(
حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکملؓ آپ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:۔
>ایک وقت تھا کہ قادیان میں نہ کوئی پریس تھا نہ کاتب۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے مسودات طبع کرانے کے لئے امرتسر جانا پڑتا۔ بعض اوقات پاپیادہ ہی چل پڑتے۔ اس قسم کی دقتوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے آخر قادیان پریس دستی قائم ہوگیا۔ ابتداء میں حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ اور حضرت پیر منظور محمد صاحبان کتابت کی خدمات بجا لاتے۔ اور امرتسری ۱۱۵ کاتب بھی۔ اسی سلسلہ میں منشی کرم علی صاحب بھی آ پہنچے اور قادیان کے ہورہے۔ غیر احمدی کاتب اول تو آتے ہی نہ تھے پھر باوجود ڈبل اجرت اور کھانے وغیرہ کی امداد کے ٹھہرتے نہیں تھے۔ منشی کرم علی صاحب کا خط بہت شستہ تھا۔ ریویو آف ریلیجز اردو کی کتابت وہی کرتے تھے خط معکوس میں بھی ان کو قابل تعریف دسترس حاصل تھی جس سے سنگسازی کی مشکلات حل ہوگئیں۔ میں نے دیکھا کہ حقیقتہ الوحی چھپ رہی تھی۔ چھاپنے والے مرزا اسمعیل بیگؓ تھے جو حضورؑ کے بچپن کے خادم تھے۔ پروف حضورؑ نے جو ملاحظہ فرما کر واپس بھیجا تو قریباً آدھا صفحہ عبارت بڑھا دی۔ منشی صاحب نے بلا تکلف پتھر پر الٹا لکھا۔ چنانچہ جس خوبی سے یہ کام کیا گیا حقیقتہ الوحی طبع اول کے صفحات سے فنی واقفیت والے دیکھ کر داد دے سکتے ہیں۔ پھر حضورؑ کا منشاء تھا کہ چراغ الدین جمونی وغیرہ کی تحریروں کا عکس چھپے۔ لاہور سے فوٹو کرانے میں کئی دقتیں تھیں` جلدی بھی تھی۔ منشی صاحبؓ نے باریک کاغذ کاپی کے طور پر رنگ کرائے۔ اصل تحریر پر رکھ کر عکس لے لیا اور یوں بلا خرچ بہت جلد یہ کام بھی ہوگیا۔ ۱۱۶]ydob [tag منشی صاحب نے اپنے کئی شاگرد بھی تیار کئے۔ بالخصوص منشی محمدحسین صاحب کاتب بدر جو آخری دم تک بدر اور الفضل لکھتے رہے اور سنگسازی بھی کرتے رہے جب ریویو اردو کا چارج مجھے دیا تو منشی صاحبؓ کی نظر کمزور ہوچکی تھی اور ہاتھ مضبوط نہیں رہا تھا۔ اس لئے جب ان کو معلوم ہوا کہ میں کتابت کا کچھ اور انتظام کرنا چاہتا ہوں تو وہ بیرونی محلہ سے جہاں ایک معمولی سا مکان بنا لیا تھا دفتر میں آئے اور پاس بیٹھ کر مجھے کہا میری طرف دیکھئے اور میری گزارش سنئے۔ میں نے بچشم پر آب آپ سے یہ خواہش سن کر کہ ریویو کو میں نے ہی لکھنا شروع کیا تھا اب چند روز کی بات ہے۔ یہ شرف مجھ سے نہ لیا جائے انہیں تسلی دلائی کہ آپ ہی اسے لکھا کریں گے۔ چنانچہ وہی لکھتے رہے جب تک کہ لکھ سکے۔< ۱۱۷
۷۔ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ
)ولادت دسمبر ۱۹۰۰ وفات ۱۶ فتح ۱۳۳۱ ہش/ دسمبر ۱۹۵۲ء(
ابتدائی حالات
حضرت مہدیؑ کے جلیل القدر صحابی حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کے فرزند اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے بھائی تھے۔ آٹھ برس کی عمر میں قرآن عظیم حفظ کیا۔ بچپن ہی سے بہت سنجیدہ اور متین تھے۔ ۱۹۱۷ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کیا اور بی۔ اے کا امتحان اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کر کے ریلوے انجینئرنگ کی فنی تعلیم کے لئے انگسلتان تشریف لے گئے۔ پھر وطن آکر علی گڑھ سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور بی ٹی کرنے کے بعد آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ٹیچر مقرر کئے گئے۔
نیروبی میں جماعت خدمات
۱۹۲۹ء میں نیروبی کے محکمہ تعلیم نے آپ کی خدمات حاصل کر لیں اور آپ مشرقی افریقہ میں قریباً پندرہ سال تک رہے جہاں اپنے اور بیگانے سب آپ کا غایت درجہ عزت و احترام کرتے تھے۔ کئی افریقین مجالس کے رکن اور بعض کے صدر بنائے گئے۔ نیروبی میں ان دنوں میکملن (Mackmilon) لائبریری شہر کے وسط میں تھی میکمیلن نے کئے ہزار پائونڈ اس لائبریری پر خرچ کئے اور اسے ایک بورڈ کے سپرد کیا اور وصیت کی کہ یورپین کے علاوہ دوسروں کو اس سے استفادہ ممنوع ہو لیکن حضرت شاہ صاحبؓ واحد ایشیائی تھے جنہیں لائبریرین نے کسی درخواست اور مطالبہ کے بغیر اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے رکھی تھی۔۱۱۸
حضرت شاہ صاحبؓ کا نام مشڑقی افریقہ کی احمدیہ تاریخ میں ہمیشہ جلی حروف سے لکھا جائے گا۔ ۱۱۹
آپ نے سید معراج الدین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ نیروبی اور دیگر مخلصین جماعت کے تعاون سے چار سال کے اندر جماعتمیں زندگی کی ایسی روح پھونک دی کہ جماعت نیروبی نے مرکز سے درخواست کی کہ وہ اپنے خرچ پر چھ ماہ کے لئے مبلغ منگوانا چاہتی ہے اس پر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل ۱۱ نومبر ۱۹۳۴ء کو قادیان سے مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور اس ملک میں پہلے احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد رکھی۔۱۲۰
قیام مشن کے بعد بھی آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ درس قرآن ` پبلک تقاریر اور انفرادی تبلیغ میں ہمیشہ ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے اور تبلیغ فنڈ کا مقامی چندہ بھی باقاعدگی سے دیا کرتے تھے۔ ۱۲۱
آپ مشرقی افریقہ میں قریباً پندرہ سال تک قیا فرمارہے اور بالاخر ۱۱ ماہ اخاء ۱۳۲۳ ہش/ اکتوبر ۱۹۴۴ء کو قادیان تشریف لے آئے۔ ۱۲۲
حضرت مصلح موعودؓ کا مکتوب گرامی
)سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ ۲۵ نومبر ۱۹۲۲ء کو ریلوے انجینئرنگ کی ٹریننگ کے لئے قادیان سے بیرون ملک روانہ ہوئے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر انہیں اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل نصایح تحریر فرمائیں-:(
عزیزم مکرم
السلام علیکم:۔ اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو۔ چند باتوں و اگر یاد رکھیں تو انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔
۱۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرو وہ بہت بڑا کارساز ہے۔ ہم نے خود اس کی قدرت کو دیکھا ہے اور ساری دنیا کے انکار بھی اپنی آنکھوں دیکھی چیز کا انکار نہیں کرسکتے۔ دعا بھی سنتا سفری مشکلات ہوتی ہیں ایسے وقت بھی اس سے رجوع کریں اس سے زیادہ محبت کرنے والا کوئی نہیں رشتہ داروں عزیزوں محبوں سے بہت بڑھ کر وہ خبر گیری کرے گا۔
۲۔ نمازوں میں سستی نہ ہو ایک نماز رہ جائے تو پھر اس کی پوری کرنا نہایت مشکل ہے۔
۳۔ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ باہر ایک انسان دوسروں کے نظر کے نیچے ہوتا ہے لوگ آپ کو خاص نگہ سے دیکھیں گے اس لئے ایسے ہو کر رہیں کہ لوگوں کو نکتہ چینی کا موقع نہ ملے اور محسوس کریں کہ اس شخض نے ایک نمایاں نمونہ دکھایا ہے۔ یہ بے شک ایک ظاہر ہے مگر بہت سے ظاہر باطن کے لئے مددگار ہوتے ہیں۔
۴۔ اپنی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ رکھیں۔
۵۔ اگر جنگ وغیرہ کوئی حادثہ ہو تو سید ولی اللہ شاہ کی طرح اپنے والدین کو تکلیف کا کا سکا نہ بنائیں بلکہ فوراً ہالینڈ چلے جائیں یا کسی ایسی ملک میں جیسے سوئٹزر لینڈ جہاں کہیں جنگ نہ ہو تعلیم باقی انگلستان میں ہوسکتی ہے ایسے خطرناک مقامات پر رہنا طالب علم کا کام نہیں۔
۶۔ احمدیوں سے وہاں زیادہ میل جول رکھنا چاہئے خواہ ادنیٰ تعلیم کے ہوں یا ان کے مذاق مختلف ہوں جب تک عصبیت نہ ہو اور اپنوں اور دوسروں میں فرق نہ ہو وہ کامل اتحاد پیدا نہیں ہوتا جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔
۷۔ علم کے لئے قرآن پاک کی تلاوت اور حضرت صاحب کی کتب کی تلاوت نہایت مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ متصل کامیاب کرا کے لاوے اور پچھلوں کے لئے موجب خوشی بجاوے ہو آمینی۔ مرزا محموداحمد
محمد اسحاق امرتسری میں ان کا پتہ دفتر ڈاک سے لے لیں کچھ نہ کچھ مشورہ مل جاوے گا۔ ایک خط عبدالجبار کے نام سید ولی اللہ شاہ صاحب سے لے لیں
مرزا محمود احمد
تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ہیڈ ماسٹری
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ کے ارشاد پر آپ کو قادیان پہنچنے کے چند روز بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ہیڈ ماسٹری کے فرائض سونپے گئے۔ اس نئے عہدہ ے سنبھالنے کی اطلاع اخبار الفضل نے اپنے ۲۹`خاء ۱۳۲۳ ہش کے شمارہ میں صفحہ اول پر زیر عنوان >مدینتہ المسیح< شائع کی۔
یہ مرکزی ادارہ اپنی پہلی عالیشان عمارت سے منتقل ہونے کے بعد کسمپرسی کی حالت میں تھا لیکن آپ نے حسن تدبیر معاملہ فہمی اور محنت و استقلالی سے بہت جلد سکول کا ظاہری` اخلاقی اور تعلیمی نقشہ ہی بدل دیا اور عمدہ نتائج پیدا ہونے لگے۔
آپ نے ابتداء میں سکول کے نظام عمل میں متعدد اصلاحات کیں اور مندرجہ ذیل امور کی طرف خاص طور پر توجہ دی:۔
۱۔
اساتذہ اور طلبہ کا اردو زبان سے گفتگو کرنا ضروری قرار دیا۔
۲۔
ہر صبح اساتذہ اورطلباء کی اسمبلی میں تلاوت قرآن پاک کے بعد طلباء کو عربی دعائیں کہلوائی جاتی تھیں اور پھر مناسب ہدایات دی جاتی تھیں۔
۳۔
پریفیکٹ۱۲۳ سسٹم جاری کیا جس کے مطابق ہر کلاس کے نمائندوں کو سکول کے انتظام اور صفائی میں مدد دینے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔
۴۔
اساتذہ کرام سکول کھلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے باری باری تشریف لاتے اور صفائی اور دیگر امور کے نگرانی فرماتے تھے۔
۵۔
سیکنڈری حصہ کے طلباء کو چار ایوانوں (Nouses)میں تقسیم کیا گیا جن کے نام یہ تھے۔ حمزہ ہائوس` طارق ہائوس` خالد ہائوس` اسامہ ہائوس۔ ہر ایوان باری باری ایک ہفتہ کے لئے سکول کی صفائی کا نگران ہوتا تھا۔ اسی طریق کے ماتحت انٹر ہائوس ٹورنامنٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
۶۔
سکول میں حضرت مصلح موعودؓ کی نئی جاری فرمودہ تحریکات میں سے تراجم قرآن فنڈ اور وقف زندگی کو مقبول بنانے کی بہت جدوجہد کی گئی جس کے نتیجہ میں اس مالی جہاد کے لئے ایک معقول رقم جمع ہوئی اور بہت سے طلبہ نے اپنی زندگیاں خدمت اسلام کے لئے اپنے پیارے آقا کے حضور پیش کیں۔۱۲۴
۱۹۴۷ء میں ہندوستان فساتات کی لپیٹ میں آگیا اور سلسلہ احمدیہ کے دوسرے مرکزی تعلیمی اداروں کی طرح تعلیم الاسلام ہائی سکول کو بھی چنیوٹ ضلع جھنگ )پاکستان( میں از سر نو جاری کرنا پڑا۔ مارچ ۱۹۵۲ء میں اسے ربوہ میں منتقل کردیا گیا۔ سکول کی نشاۃ ثانیہ کے یہ ابتدائی پانچ سال بہت کٹھن اور صبر آزما تھے جس میں حضرت شاہ صاحب اور آپ کی زیر نگرانی سکول کے اساتذہ کو انتھک محنت اور جدوجہد کرنا پڑی۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے خلیفہ موعود کی دعائوں کے طفیل اسٹآف کی کوششوں میں یہاں تک برکت ڈالی کہ مئی ۱۹۵۲ء میں سکول کے ایک طالب علم منور احمد صاحب میٹرک کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول رہے۔ سعید احمد خاں صاحب رحمانی` برکات الٰہی صاحب اور عبدالغفور صاحب نے یونیورسٹی میں بالترتیب تیسری` چھٹی اور ساتویں پوزیشن حاصل کی۱۲۵
اس شاندار نتیجہ پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
>انگریزی تعلیمی اداروں میں سے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ پہلا ادارہ ہے جس نے ایک ایسا ریکارڈ قائم کردیا ہے جو گذشتہ پچاس سال سے جب سے سکول قائم ہوا ہے قائم نہ ہوچکا احمدی بچوں کا اول` سوم` ششم اور ہفتم آنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ہمارے بچے پروگرام کے مطابق تعلیم و تربیت حاصل کریں تو تعلیمی میدان میں بازی لے جاسکتے ہیں۔<۱۲۶
شاہ صاحب کے دور میں ملتان ڈویژن کے انسکٹر آف سکولز سکول میں تشریف لائے اور اس ادارہ کے بلند معیار علمی سے بہت متاثر ہوئے اور ریمارکس دئے کہ ہمارے نزدیک یہ سکول ایک مثالی سکول ہے جس میں بچوں کی صحیح اور اسلامی رنگ میں تربیت کی جاتی ہے اور اس کے اساتذہ بھی محنتی اور فرض شناس ہیں۔ ۱۲۷
تعلیم الاسلام ہائی سکول نے حضرت شاہ صاحب~رضی۱~ کے عہد میں تعلیمی رنگ میں ہی نہیں اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی بہت ترقی کی۔ سکول میں فوجی ٹریننگ اور طلبہ کی طبی امداد کے انتظامات ہوئے` ادبی اور علمی مجالس معرض وجود میں ائیں۔ بزرگان سلسلہ کی تقاریر کے علاوہ بیرونی ممالک سے آنے اور جانے والے مجاہدین احمدیت کے اعزاز میں تقاریب منعقد کی گئیں جن سے تحریک احمدیت کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا اور قوم کے نونہالوں کو ایک پاکیزہ اور خالص اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے کے مواقع میسر آئے۔
آپ کے دور ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ سر پر ٹوپی رکھنا اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا طلبہ کا قومی شعار بن گیا تھا۔ ۱۲۸
انتظامی اور تدریسی کارناموں پر ایک نظر
مکرم ماسٹر محمدؑ ابراہیم صاحب جمونی بی۔اے )حال مبلغ امریکہ( نے آپ کی وفات پر آپ کے آٹھ سالہ کامیاب تدریسی دور کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:۔
>محترم سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ نے اکتوبر ۱۹۴۴ء۱۲۹ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ایسے وقت میں چارج لیا جب کہ سکول کے سٹاف میں وہ یگانگت اور ہم آہنگی موجود نہ تھی جو ہمارے مرکزی سکول کا طرہ امتیاز ہونی چاہئے۔ تعلیمی حالت اگر ناگفتہ بہ نہیں تو معیار سے گری ہوئی ضرور تھی۔ اساتذہ کو آپس میں مربوط کرنا` ان کی صلاحیتوں کو خالصتاً سکول کے لئے مخصوص کرنا` سکول کی گرتی ہوئی تعلیمی حالت کو سنبھالنا` سلسلہ سے طلباء اور اساتذہکو کما حقہ` وابستہ رکھنا` قوم کا ایک مفید اور کارآمد وجود بنانا اور اغیار کی نظروں میں باوقار بنانا یہ وہ امور تھے جن کی تکمیل کے لئے محترم سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ کا تقرر عمل میں لایا گیا اور اس سلسلہ میں محیرالعقول کامیابی آپ کو حاصل ہوئی۔ اس سات سال کے مختصر عرصہ میں آپ نے سکول کو جس قدر بلندی اور کمال تک پہنچا دیا وہ آپ کی خدا داد قابلیت پر دال ہے۔ اسی پرانے سٹاف سے کام لے کر آپ نے سکول کو اس قدر اجاگر کیا کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا سکول پنجاب کے چوٹی کے سکولوں میں شمار ہوتا ہے بلکہ مقدار` فیصدی اور کیفیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو بہترین ثابت کرچکا ہے۔ پچانوے چھیانوے فیصدی نتیجہ دکھلانا اور یونیورسٹی میں پہلے سات طلباء میں سے چار طلباء پیدا کردینا آپ کی ہی اعلیٰ نگرانی اور خدا داد قابلیت کا نتیجہ ہے مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سکول میں کام کرتے ۲۳ سال ہوچکے ہیں۔ میرے سارے عرصہ ملازمت میں افسران تعلیم نے سکول کے متعلق ایسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا جس کا انہوں نے گزشتہ سال زبانی اپنی تقریروں میں تحریراً لاگ بک میں کیا اور یہ شاہ صاحبؓ کی مساعی اور دعائوں کا نتیجہ ہے۔<۱۳۰
>ہجرت کے بعد لاہور سے ہوتے ہوئے جب ہم چنیوٹ میں آئے تو اساتذہ اور طلباء کی مجموعی تعداد صرف ۳۴ تھی ادھر سے ادھر سے احمدی طلباء ملا کر ہم نے چینیوٹ میں سکول کو ۵۱ کی تعداد سے شڑوع کیا تھا جس میں اساتذہ بھی شامل تھے۔ ابتداء میں جس طرح خندہ پیشانی سے آپ نے بے سروسامانی اور مشکلات کا مقابلہ کیا اور احباب اور طلباء کی رہبری فرمائی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ چنیوٹ میں ہمارے قد جم گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سکول نے چنیوٹ کے پرانے سکولوں سے بھی زیادہ ناموری اور عزت حاصل کر لی اور اپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر غیر احمدی افسران اور معززین نے اپنے بچوں کو ہمارے سکول میں داخل کروا دیا اور یہ سلسلہ آج تک ربوہ میں بھی قائم ہے۔ غیروں میں مقبول ہوجانا اور ان پر اپنے اخلاق کا سکہ بٹھا دینا شاہ صاحبؓ کا ہی خاصہ تھا۔ انسان کی زندگی کے بعد تو اخلاق کا تقاضا ہے اور نبی کریم~صل۱~ کا ارشاد بھی ہے کہ ہم ہر انسان کو اچھا ہی سمجھیں اور صرف اس کی خوبیوں کا ہی تذکرہ کریں اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن شاہ صاحبؓ کا وجود ایسا تھا کہ اپنے اور غیر سبھی آپ کی زندگی میں آپ کے مداح تھے چنانچہ چنیوٹ کے غیر احمدی بھی جن کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور آپ کی زندگی میں ہی آپ سے نہایت تواضع اور محبت سے ملتے تھے۔ چنانچہ چوہدری عبدالرحیم صاحب کلرک۱۳۱ نے ذکر کیا کہ وہ ایک روز ایک کام کے سلسلہ میں چنیوٹ تحصیل میں گئے آپؓ کا ذکر خیر آیا تو وہاں کے خزانچی صاحب نے اپنے ایک غیر احمدی ساتھی سے کہا کہ یہ شاہ صاحب کی بات ہے۔ اس نے پوچھا کونسے شاہ صاحب ! ان صاحب نے تعجبسے کہا سید محمود اللہ شاہ صاحب ! آپ ان کو بھی نہیں جانتے وہ تو فرشتہ ہیں فرشتہ !! الغرض کوئی شخص خواہ جماعت اور سلسلہ کا کتنا ہی مخالف کیوں نہ ہو آپ کے اخلاق اور اخلاص کا معترف بلکہ مداح تھا اور سلسلہ کی اس طرح بلکہ بلاوسطہ تبلیغ جس خوبی اور احسن طور پر آپ کے وجود سے ہوئی اس کا اجر ہمیشہ آپ کو ملتا رہے گا۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ بہت خوش گفتار اور جہاندیدہ تھے۔ ہر مجلس پر چھا جاتے محکمہ تعلیم کے انسپکٹر اور دیگر افسران جن سے تعلیم والے عام طور پر مرعوب ہوتے ہیں وہ خود شاہ صاحب کی مجلس میں بجائے باتیں سنانے اور مجلس پر چھانے کے ان کی طرف توجہ کرتے اور ان سے باتیں سننے پر مجبور ہوتے۔ ایک دفعہ متحدہ پنجاب کے زمانہ میں صوبہ کے ہیڈ ماسٹروں کی لدھیانہ میں ایک کانفرنس ہوئی آپ بھی اس میں شامل ہوئے۔ محترم میاں عبدالحکیم صاحب ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول لاہور آپ کو طالب علمی کے زمانہ سے ہی جانتے تھے` باوجود غیر از جماعت ہونے )کے( آپ کو دیکھتے ہی صدارت کے لئے آپ کا نام تجویز کردیا اور دوسروں نے تائید کی۔ آپ کی اسی لیاقت اور ہر دلعزیز کا ہی نتیجہ تھا کہ اس ایسوسی ایشن کا اگلا اجلاس قادیان میں ہی منعقد ہوا اور صوبہ بھر کے ہیڈ ماسٹر اس میں شریک ہوئے اور سلسلہ کے مرکز اور اس کے عہدیداروں سے متعارف ہوئے۔ ۱۳۲
باوجود اس کے طبعیت میں اس قدر استعفیٰ اور بے نفسی تھی کہ کسی عہدہ یا اعزاز کو قطعاً قبول نہ کرتے جب تک کہ خود دعا کر کے آپ کو اس بات کا یقین نہ ہوجاتا کہ اس میںسلسلہ کی بہتری ہوگی۔<۱۳۳
اولاد
۱۔ سیدہ رقیہ بیگم صاحبہ مرحومہ۱۳۴ )زوجہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ سیال۔ ولادت ۱۹۱۵ء وفات ۲۱ مارچ ۱۹۴۳ء( ۳۔ سید دائود مظفر شاہ صاحب )داماد حضرت مصلح موعودؓ ولادت ۲۱ نومبر ۱۹۲۱ء( ۴۔ سید مشہود احمد شاہ صاحب )ولادت دسمبر ۱۹۴۳ء غالباً( ۵۔ لیڈی ڈاکٹر سیدہ مریم حنا صاحبہ )ولادت ۱۹۵۲ء غالباً( ۱۳۵
۱- محترمہ شہر بانو صاحبہ ہمشیر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید~رح~ )وفات ۲۵ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری۱۹۵۲ء بعمر ۹۸ سال( ۲۔ حضرت صاحبزادہ سید عبدالسلام صاحب فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید~رح~ )وفات ۲۶ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء بعمر ۸۵ سال( ۳۔ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر عنایت علی صاحب لدھیانوی )وفات ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء(
محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
>انہوں نے ۱۹۰۰ء میں بیعت کی لیکن درحقیقت ان کا تعلق احمدی سی بہت پرانا تھا۔ ان کے خاوند میر عنایت علی صاحب لدھیانویؓ ان چالیس آدمیوں میں سے تھے جنہوں نے لدھیانہ کے مقام پر حضرت مسیح موعودؑ کی پہلے دن بیعت کی۔ ان کی بیوی بھی درحقیقت اسی دن سے احمدیت سے تعلق رکھتی تھیں۔<
۴۔ میر مرید احمد صاحب تالپور سندھ:۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی وفات پر فرمایا:۔
>میر صاحب ریاست خیر پور کے شاہی خاندان میں سے تھے۔ طالب علمی کی حالت میں قادیان رہے اور شاید وہیں سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں ان کی شادی ہوئی۔ احمدی ہوجانے کی وجہ سے اپنے خاندان سے بہت تکالیف اٹھائیں۔ ریاست خیرپور میں فارسٹ آفیسر تھے۔ نواب صاحب خیرپور کی والدہ نے انہیں میرے پاس بھیجا کہ باپ کے بعد میرے بیٹے کا نواب ہونے کا حق ہے لیکن باپ بیٹے پر خفا ہے آپ دعا کریں کہ میرا بیٹا نواب ہوجائے۔ میں نے کہا اچھا میں دعا کروں گا لیکن وہی بیٹا جب نواب بنا تو اس نے انہیں ڈسمس کردیا۔ آپ موصی تھے اور نہایت مخلص احمدی تھے۔ ان کی اولاد بھی مخلص احمدی ہے۔< ۱۳۶
‏]body [tag
فصل ششم
۱۳۳۱ہش کے بعد متفرق مگر اہم واقعات
اب اس سال کے بعد متفرق مگر اہم واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں تقریب مسرت
حضرت مہدی موعودؑ فرماتے ہیں۔
غموں کا ایک دن اور چار شادی
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت المومنینؓ کی وفات کے سال میں بھی خوشیوں کے کئی دن دکھا کر اپنے پاک وعدہ کو پورا فرمایا مثلاً:۔
۱۔ ۷ ظہور ۱۳۳۱ ہش کو اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو چوتھا بیٹا اور ۱۸-۱۹ خاء کی درمیانی شب میں صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ کو پہلی بچی عطا فرمائی۔ بیٹے کا نام مظفر احمد اور بچی کا نام امتہ الصبور رکھا گیا۔ بچی کے کانوں میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اذان کہی اور شہد کی گھٹی دی۔
۲۔ ۱۶ اخاء ۱۳۳۱ ہش کو محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب )قادیان( کی تقریب شادی منعقد ہوئی۔ سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے انہیں ۲۷ اخاء کو والٹن کیمپ لاہور کے فضائی مستقر پر دعائوں سے رخصت کیا۔ اس موقعہ پر افراد خاندان مہدی موعودؑ اسٹآف تعلیم الاسلام ہائی سکول اور دیگر مقامی اصحاب بکثرت موجود تھے۔
دہلی کے ہوائی اڈاہ پر مرزا برکت علی صاحب آ ابادان مع اہلیہ استقبال کے لئے موجود تھے اور انہوں نے جماعت ہندوستان کی طرف سے پھولوں کے ہار ڈالے۔
۳۔ ۲۶ فتح ۱۳۳۱ ہش کو حضرت مصلح موعودؓ نے صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کا نکاح سیدہ امتہ السمیع صاحبہ )بنت حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ( سے اور سیدہ آنسہ )بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ( کا ¶نکاح قاضی محمود شوکت صاحب سے پڑھا۔۱۳۷
مسجد مبارک ربوہ درس
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر وسط ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء میں قرآن مجید` حدیث اور فقہ کا درس مسجد مبارک ربوہ میں جاری ہوا۔
یہ درس مکرم مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ )حال مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین( بوہ` مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد اور مکرم ملک سیف الرحمن صاحب فاضل باری باری بعد نماز عصر دیا کرتے تھے۔
‏]0 [stfقصر خلافت کی مستقل عمارت
اس سال قصر خلافت کی مستقل عمارت مسجد مبارک ربوہ کے عقب میں تعمیر ہوئی اور حضرت مصلح موعودؓ قریباً پونے تین برس تک ایک سادہ سے مکان میں فروکش رہنے کے بعد ۳۰ احسان ۱۳۳۱ ہش/جون ۱۹۵۲ء کو قصر خلافت کی نئی عمارت میں منتقل ہوگئے۔
پہلی رہائش گاہ سے روانگی کے وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ` حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ` حضرت مولوی محمد الدین صاحب` حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ اور دوسری بزرگان سلسلہ کے علاوہ تحریک جدید کے کارکنوں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی- حضور نے موٹر میں سوار ہونے سے قبل حاضرین سمیت دعا فرمائی۔ دعا ختم ہوتے ہی بزرگان سلسلہ اور دوسرے احباب ایک مختصر راستے سے بغرض استقبال قصر خلافت پہنچ گئے۔ چند منٹ بعد حضور بھی تشریف لے آئے اور دوبارہ دعا کرانے کے بعد قصر خلافت میں مبارک قدم رکھا عین اس وقت جب کہ حضورؓ اس نئی عمارت میں رونق افروز ہوئے باران رحمت کا بھی نزول ہوا۔۱۳۸
خلافت لائبریری کا قیام
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ کے حکم سے ماہ ہجرت ۱۳۳۲/ہش مئی ۱۹۵۳ء میں حضورؓ کی ذاتی لائبریری اور صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی مرکزی لائبریری یکجا کردی گئی اور اس کے انچارج مکرم مولوی محمد صدیق صاحب فاضل واقف زندگی مقرر کئے گئے۔
اس لائبریری کے لئے قصر خلافت کے ساتھ ایک پختہ عمارت تعمیر کی گئی تھی جس کا جنوبی حصہ مکمل ہونے پر اس میں سب سے پہلے حضرت اقدس کی ذاتی کتب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے لائی گئیں اور ان کو حضور کی اجازت سے بعض قواعد کے مطابق پبلک کے استفادہ کے لئے عام کردیا گیا۔ ازاں بعد ۱۳ ماہ فتح ۱۳۳۲ ہش/دسمبر ۱۹۵۳ء کو مرکزی لائبریری کا لٹریچر بھی پختہ عمارت کے شمالی کمرہ میں رکھ دیا گیا اور ایک ہزار سے زائد انگریزی کتابیں جو اب تک ٹرنکوں میں بند تھیں الماریوں میں ایک عمدہ ترتیب اور قرینہ سے لگادی گئیں۱۳۹ جس سے علماء سلسلہ اور دوسرے صاحب علم و قلم اصحاب کو مطالعہ کرنے اور تحقیق و تفہص جاری رکھنے کی بہت سہولت پیدا ہوگئی۔ اس طرح ربوہ میں اس عظیم الشان لائبریری کی داغ بیل پڑی جس کا تخیل حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے مشاورت ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کے دوران پیش فرمایا تھا۔
الفضل میں شذرات کا دلچسپ سلسلہ
غیروں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے اور الفضل کو پہلے سے زیادہ مفید بنانے کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی ہدایت پر شذرات کا ایک دلچسپ علمی سلسلہ شروع کیا گیا جو ۲۰ ظہور ۱۳۳۱ ہش/اگست ۱۹۵۲ء سے لے کر ۲۷ ماہ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش/فروری ۱۹۵۳ء تک جاری رہا۔
اس نئے کالم کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل تھی کہ حضور نہایت باقاعدگی اور التزام کے ساتھ اس پر نظرثانی فرماتے۔ حضور کے ملاحظہ کے بعد اس کا مسودہ روزانہ لاہور بھجوا دیا جاتا تھا جہاں سے ان دنوں اخبار الفضل کی طباعت و اشاعت ہوتی تھی۔ ۱۴۰`
اس تعلق میں حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۲ ظہور ۱۳۳۱ ہش کو ایک ضرور مکتوب رقم فرمایا جس سے اس کے پس منظر کا پتہ چلتا ہے۔ حضورؓ نے ایڈیٹر صاحب الفضل کو لکھا:۔
>آپ کو ہدایت کرچکی ہے کہ ایڈیٹوریل چھوٹا لکھا کریں اور موجودہ فتنوں کے متعلق اور قومی مسائل پر زیادہ لکھا کریں اور ایڈیٹوریل کے بعد مولوی دوست محمد صاحب کے لکھے ہوئے شذرات شائع کریں الفضل کے متلعق عام شکایت آرہی ہے کہ اس کا سٹینڈرڈ گررہا ہے سوائے اس ایڈیٹوریل کے بعد مولوی دوست صاحب کے کے لکھے ہوئے شذرات شائع کیا کریں خاتم النبین نمبر کے اس کی بے شک بہت تعریف آئی ہے۔ کثرت سے اعتراض ہوتے ہیں جن کے کوئی جواب نہیں دیئے جاتے اور اسی لئے ہم نے شذرات لکھوا نے شروع کئے ہیں۔ ۱۴۱
سالار مسلم لیگ ربوہ کو انعامی کپ
ماہ تبوک ۱۳۳۱ ہش/ستمبر ۱۹۵۲ء میں بمقام جھنگ مسلم لیگی رضا کاروں کی ریلی ہوئی جس میں سالار مسلم لیگ ربوہ خان شیر احمد خان صاحب ۱۴۲ اول آئے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے ان کو انعای کپ دیا۔ اس موقعہ کی تصویر اخبار >زمیندار< ۲۸ ستمبر ۱۹۵۲ء کے صفحہ اول پر شائع ہوئی۔
رسالہ خالد اجراء اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خصوصی پیغام
خدام الاحمدیہ مرکز پاکستان کی مجلس شوریٰ ۱۳۲۹ ہش/۱۹۵۰ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ مجلس کی طرف سے ساٹھ صفحے کا ایک
سہ ماہی رسالہ جاری کیا جائے- ان نوں مجلس کی مالی حالت اس کے گراں اخراجات کی متحمل نہ تھی اس لئے >الطارق< نام سے ۳۶ صفحات کے ایک ماہوار رسالہ کی تجویز ہوئی اور ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء سے اس کے ڈیکلریشن کی جدوجہد شروع کردی گئی۔ ابتدائی محکمانہ تحقیقات مکمل ہوئی تو عین آخری مرحلہ پر یہ اطلاع ملی کہ اسی نام کا ایک اور رسالہ بھی جاری ہے اور ضروری ہے کہ کوئی اور نام تجویز کیا جائے مجلس مرکزیہ نے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں نئے نام کے لئے درخواست کی۔ حضور نے فرمایا >خالد نام رکھ دیں< چنانچہ ۳۱ امان ۱۳۳۱ہش/مارچ ۱۹۵۲ء کو خالد کے ڈیکلریشن کی درخواست دی گئی۔
کئی ماہ کی یاد دہانیوں اور دفتری پیچیدگیوں اور محکمانہ کارروائیوں کے بعد ۶ ستمبر ۱۹۵۲ء کو ڈیکلریشن کی باضابطہ منظوری ہوئی اور ساتھ ہی ایک ہزار روپیہ کی ضمانت کا مطالبہ بھی ہوا جس کے داخل کرانے کی آخری تاریخ ۱۶ ستمبر تھی مجلس کے پاس اس قدر روپیہ نہیں تھا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ۱۷ ستمبر کو روپیہ کا انتظام ہوسکا لیکن جھنگ پہنچ کر معلوم ہوا کہ وقت پر ضمانت داخل نہ کرنے پر ڈیکلریشن منسوخ کردیا گیا ہے اس پر دوبارہ درخواست دی گئی اور بالاخر ۲ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ڈیکلریشن ملا اور زر ضمانت داخل کرادی گئی۔ اس طرح نہایت لمبی جدوجہد اور صبر آزما حالات میں سے گزرنے کے بعد اکتوبر ۱۹۵۲ء میں رسالہ >خالد< جاری ہوا۔۱۴۳
خالد کے پہلے دو پرچے مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ` مولوی خورشید احمد صاحب شاد پروفیسر جامعہ احمدیہ اور مولوی محمد شفیع صاحب اشرف کے زیر صدارت چھپے۔ اس کے بعد مولوی غلام باری صاحبسیف مدیر مقرر ہوئے۔ مینجر کی خدمت شروع ہی میں سید عبدالباسط صاحب نائب معتمد مرکزیہ ¶کے سپرد کی گئی۔
اداریہ کے علاوہ مشعل اراہ` جواہر پارے` روشن ستارے` ہمارے مساعی دنیا کے کناروں تک` کوائف ربوہ اور اطفال الاحمدیہ اس کے مستقل فیچر قرار پائے۔ اس ابتدائی دور میں پہلے سال رسالہ >خالد< کو جو قلمی معاونین میسر آئے ان میں ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ مفتی سلسلہ احمدیہ` مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری` جناب حسن محمد خاں صاحب عارف نائب وکیل` التبشیر` مولوی نور الحق صاحب انور فاضل )مبلغ امریکہ( بھی شامل تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کے اجراء پر حسب ذیل پیغام سپرد قلم فرمایا:۔ ~}~
بکوشید اسے جواناں تابہ دیں قوت شود پیدا
بہار و رونق اندر روضہ ملت شود پیدا۱۴۴
مجھے معلوی غلام باری صاحب سیف معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ نے اطلاع دی ہے کہ ان کی مجلس مرکزیہ کے زیر انتظام ایک ماہواری رسالہ >خالد< نامی جاری ہورہا ہے اور سیف صاحب نے جنہیں >خالد< کے نام کے ساتھ ایک اہم تاریخی جوڑ حاصل ہے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں بھی اس رسالہ کے پہلے نمبر کے لئے کوئی مختصر سا پیغام لکھ کر دوں جو جماعت کے نوجوانوں کی ہمتوں کو بڑھانے والا ہو اور ان میں کام کی روح پھونکنے والا ہو۔ سو مجھے اس پیغام کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب حضرت مسیح موعودؑ کا وہ فارسی شعر نظر آیا ہے جو میرے اس نوٹ کا عنوان ہے اور جس کا اردو زبان میں سلیس اور آزاد ترجمہ یہ ہے کہ اسے احمدیت کے نوجوانوں ! دین کے رستہ میں اپنی کوششوں` اپنی جدوجہد کو اس اخلاص اور اس ذق و شوق اور اس جذبہ قربانی کے ساتھ جاری رکھو کہ تمہاری اس مجاہدانہ مساعی کے نتیجہ میں دین کو غیر معمولی مضبوطی حاصل ہوجائے اور اسلام کا باغ و مرغزار پھر دوبارہ ایک نئی رونق و بہار کے ساتھ مخالفوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگے پس یہی وہ مقصد و منتہیٰ ہے جو ہمارے نوجوانوں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ فاروق ہوں یا خالد اور قلم ہو یا سیف۔ سب اپنے اپنے میدان میں اور اپنے اپنے وقت پر اسلام اور صداقت کے خادم ہیں۔ صرف مومن کی نیت پاک و صاف ہونی چاہئے اور اس کے قلب میں سیمابی ولولہ پھر اس کے آگے رستہ بالکل صاف ہے۔کتب اللہ الاغلبن انا و رسلی ۱۴۵ )لاحول ولاقوہ الا باللہ العظیم(
یہ وقت خاص خدمت کا ہے کیونکہ احرار کی مخالفت نے جماعت کے لئے تبلیغ کا راستہ اس طرح کھول دیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح کھلا تھا۔ بے شک مخالفت بہت سخت اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن یہی وہ وقت ہے جب کہ سعید روحیں خواب غفلت سے بیدار ہو کر تحقیق کی طرف مائل ہورہی ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کا یہ فرمان بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ پورا ہورہا ہے کہ الٰہی جماعتوں کے لئے مخالفت وہی کام دیا کرتی ہے جو ایک عمدہ کھیت کے لئے کھاد دیتی ہے۔
پس اے عزیزو اور بھائیوں !! زندگی کی ان قیمتی گھڑیوں کو غنیمت جانو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ ماحول کا یہ زریں موقعہ کب بدل جائے یا تمہاری اپنی زندگی کا یہ دور کب ختم ہوجائے؟ اسی لئے ہمارے آقا اور امام نے جہاں وہ شعر ارشاد فرمایا ہے جو اس نوٹ کے عنوان میں درج ہے وہاں دوسری جگہ یہ انتباہ بھی فرمایا ہے کہ ~}~
اسے بے خیر بخدمت فرقاں کمر بند
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند۱۴۶
اور اسی پر میں اپنا یہ مختصر پیغام ختم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کی جملہ نیک مساعی میں آپ کا حافظ و ناصر رہے- امین یا ارحم الرحمین۔
والسلام
خاکسار مرزا بشیر احمد۔ >ربوہ< ۱۴۷
خدمت پاکستان کی خصوصی تحریک
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے خدام الاحمدیہ کے بارھویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر نوجوانان احمدیت کو جہاں یہ قیمتی ہدایات دیں کہ مسابقت کی روح پیدا کرو` خدمت خلق کرو` ذکر الٰہی اور محاسبہ نفس کے لئے مراقبہ کی عادت ڈالو وہاں خدمت پاکستان کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:۔
>اپنے ملک کی سچی خدمت کرنے کی راہ میں اس امر کو کبھی روک نہ بنائو کہ ہماری مخالفت بہت ہوتی ہے۔ جب ہم یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر ہماری مخالفت کرنے والے ملک کے دشمن ہیں اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ملک کے حقیقی خیر خواہ اور وفادار ہیں تو خود اندازہ لگائو کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ہمیں ملک کی خدمت میں کمزور ہونا چاہئے یا پہلے سے بڑھ کر اس میں حصہ لینا چاہئے؟ جس چیز کے لئے سچی محبت اور ہمدردی ہوتی ہے اسے خطرے میں دیکھ کر تو قربانی کا جذبہ تیز ہوا کرتا ہے زمانہ کہ کم۔< ۱۴۸
تیونس اور مراکش کی تحریک آزادی کی حمایت اور دعا
تیونس اور مراکش کے جانباز مسلمان ایک عرصہ سے فرانس کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ موتمر اسلامی نے فیصلہ کیا کہ ۲۱ نومبر ۱۹۵۲ء کو دنیا بھر کے مسلمان یوم تیونس و مراکش منائیں۔
اس فیصلہ کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر جماعت احمدیہ نے بھی ان مظلوم اسلامی ممالک کے مطالبہ آزادی کی حمایت میں جلسے کئے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی بخشے ۱۴۹
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں ان ممالک کے حق میں پر زور آواز بلند کی جس تفصیل آپ کی خود نوشت سوانح >تحدیث نعمت< )طبع اول ۱۹۷۱ء( صفحہ ۵۶۹`۵۷۳ میں ملتی ہے۔ ۱۹۵۱ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مراکش اور تیونس کے مسئلے کو ایجنڈا میں شامل کرنے کا سوال پیش ہوا تو آپ ہی کی تقریر اس موقع پر سب سے نمایاں تھی۔ تقریر میں آپ نے امریکہ اور دیگر تمام ایسے ممالک کے طرز عمل کی مذمت کی جو ان مسائل کو شامل ایجنڈا کرنے کے خلاف تھے۔ آپ نے جب دوران اجلاس فرمایا کہ اگر ان مسائل پر غور کرنے سے انکار کیا گیا تو مراکش میں قتل و خون ہوگا اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی نمائندہ پر ہوگی تو امریکی مندوب کا رنگ زرد پڑ گیا۔ ۱۵۰
اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی دعائوں` چوہدری صاحب کی کوششوں اور اہل تیونس و مراکش کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا اور یہ دونوں ملک ۱۹۵۶ء میں آزاد ہوگئے۔ ۱۵۱
چودج درویش خاندانوں کی واپسی
قادیان کی مقامی احمدی ابادی ہر سال بڑھ رہی تھی۔ یوپی کے بعض خاندان بطور مہاجر آباد ہوچکے تھے۔ ان کے بعد وسط ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء میں بارہ درویش خاندان پاکستان سے واپس گئے۔ اس سال کے آخر میں چودہ خاندانوں کا اضافہ ہوا جو بذریعہ حسینی والا )ضلع فیروزپور( داخل ہندوستان ہوئے جس سے کل احمدی آبادی کی تعداد ۴۷۹ تک جا پہنچی۔ اس آبادی میں مرد ۲۷۰` خواتین ۸۶ اور بچے ۱۲۳ تھے۔ ۱۵۲
مبلغین اسلام کی آمد اور روانگی
اس سال مندرجہ ذیل مبلغین اسلام بیرونی دنیا تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے مرکزی احمدیت ربوہ سے روانہ ہوئے:۔
۱۔ مولانا شیخ مبارک احمد صاحبرئیس التبلیغ )۱۱` ماہ تبلیغ۔ مشرقی افریقہ
۲۔ مولوی عبدالرشید صاحب ارشد )۱۱` ماہ تبلیغ۔ انڈونیشیا(
۳۔ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی )۱۱` ماہ اخاء برائے نائیجیریا(
۴۔ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گرداسپوری )۱۸ ماہ اخاء برائے سیر الیون(
۵۔ مولوی عبد اللطیف صاحب پریمی )۱۸ ماہ اخاء برائے غانا(
۶۔ مولوی عبدالقدیر صاحب شاہد )۸۱ ماہ اخاء برائے غانا( ۱۵۳
علاوہ ازیں غیر ممالک یعنی بیرون پاکستان سے مولوی محمد عثمان صاحب صدیقی )۶ ماہ تبوک( صوفی محمد اسحاق صاحب مبلغ سیر الیون )۱۵ شہادت( مولوی امام الدین صاحب مبلغ انڈونیشیا اور مولوی بشارت احمد صاحب بشیر مبلغ مغربی افریقہ تبلیغ اسلام کا فریضہ کامیابی سے بجا لانے کے بعد واپس تشریف لائے۔
بیرونی احمدی جماعتوں میں مرکز سلسلہ میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی ایک نئی روچل نکلی تھی یہی وجہ تھی کہ ربوہ واپس آنیو الے اکثر مبلغین کے ہمراہ مختلف ملکوں کے بعد احمدی طلباء بھی تھے مثلاً علی امین صاحب )مغربی افریقہ( محی الدین صاحب )انڈونیشیا( عبدالوہاب بن آدم صاحب` بشیر بن صالح صاحب )مغربی افریقہ(۔ ان طلباء میں عبدالوہاب بن آدم خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو آٹھ سال تک مرکز احمدیت میں تعلیم دین حاصل کرتے رہے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر بحیثیت مبلغ ۲۱ اخاء ۱۳۵۱ ہش/۲۱۔ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو انگلستان پہنچے جہاں آپ ۴ فتح ۱۳۵۳ ہش/۴ دسمبر ۱۹۷۴ء تک تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیتے رہے اور ۵ فتح ۱۳۵۳ہش/۴ دسمبر ۱۹۷۴ء تک تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیتے رہے اور ۵ فتح ۱۳۵۳ ہش/۵ دسمبر ۱۹۷۴ء سے احمدیہ مسلم مشن غانا کے انچارج اور امیر کی حیثیت سے اشاعت اسلام و احمدیت کے جہاد میں سرگرم عمل ہیں۔ ۱۵۴
بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں
امریکہ -: اس سال امریکن مشن نے اشاعت لٹریچر کے ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ کا رقم فرمودہ ٹریکٹ کمیونزم اینڈ ڈیماکریسی کا چوتھا نمبر شائع کیا اور امریکہ کے صاحب اثر حلقہ میں اس کی بکثرت اشاعت کی گئی۔ امریکن سپریم کورٹ کے جج ڈگلس نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ خواہش ظاہر کی کہ آئندہ بھی انہیں لٹریچر کردیا جائے۔
‏body] gat[۲۔ امریکہ کے ممتاز اور بااثر اخبار پٹس برگ کوائر کے نمائندہ نے چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج مبلغ سے مفصل انٹرویو لیا اور اسے جلی عنوان کے ساتھ دو قسطوں میں شائع کیا۔ مضمون میں احمدیت کے بنیادی عقائد اور امریکہ میں حبشی قوم کے مسئلہ پر احمدیوں کا نقطہ نگاہ اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے جماعتی مساعی پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس مضمون کی اشاعت پر ملک کے مختلف اطراف سے بہت سے خطوط موصول ہوئے جن کے جواب میں مشن کی طرف سے سب کو لٹریچر بھجوایا گیا۔ ۳۔ اس سال ایک امریکن نو مسلم عبدالشکوریش زندگی وقف کر کے دینی تعلیم کے لئے ربوہ میں تشریف لائے۔ ۱۵۵
گولڈ کوسٹ:۔
اکرافو گائوں جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ )غانا( کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ مشہور بستی ہے جس کے چیف مہدی آپا نے اپنے اور دوسرے فینٹی بھائیوں کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں مبلغ بھجوانے کی درخواست کی جس پر حضور نے فروری ۱۹۲۱ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ کو اس تاریک براعظم میں نور اسلام پھیلانے کے لئے بھیجا اور کئی ہزار لوگ داخل احمدیت ہوئے۔ ۱۵۶
اکرافو کی قدیم مسجد کچی تھی جسے اس سال مقامی مخلص جماعت نے پانچ ہزار پونڈ کی لاگت سے ایک پختہ اور شاندار مسجد میں تبدیل کردیا جس کا افتتاح مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ انچارج نے ۷۔ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء کو کیا۔ اس تقریب پر تین ہزار سے زیادہ نفوس` جن میں چیفس اور پیرامونٹ چیفس بھی شامل تھے موعود تھے۔ صدارت کے فرائض ریاست کے پیرامونٹ چیف نے ادا کئے ساڑھے چار سو پونڈ چند جمع ہوا ۱۵۷
‏]sub [tag انڈونیشیا:۔
اس سال انڈونیشیاء کی احمدی جماعتوں میں بیداری کے نئے اثرات پیدا ہوئے جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے درج ذیل الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا:۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشیاء کی جماعتوں میں خاص بیداری پیدا ہورہی ہے۔ اس سال کے عام چندوں کا بجٹ ان کی طرف سے ایک لاکھ اسی ہزار کا آچکا ہے۔ اب انہوں نیتار دی ہے کہ اسی ہزار کے وعدے تحریک جدید کے ہوچکے ہیں اور ابھی سات جماعتوں کے وعدے باقی ہیں وہ بعد میں آئیں گے۔ گویا کل وعدے اس وقت تک دو لاکھ ساٹھ ہزار کے ہوچکے ہیں۔ امید ہے یہ رقم تین لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ جماعت ہائے پاکستان کے لئے یہ ایک سبق اور عبرت ہے۔ اتنی دور کی جماعگوں میں اتنا اخلاص پایا جاتا ہے جسے دیکھ کر پاکستان کے دوستوں کو اخلاص اور ترقی کرنی چاہئے۔ انڈونیشین جماعتوں کے علاوہ مغربی افریقہ کے تینوں ملکوں کے چندے سال میں پونے دو لاکھ کے قریب کے ہوئے ہیں اور مشرقی افریقہ کا چندہ قریباًا ایک لاکھ شلنگ سے زائد کا ہوتا ہے اور امریکہ کا چندہ قریباً ایک لاکھ روپیہ کا ہوجاتا ہے اور عرب ممالک کے چندے سے کم سے کم مبلغین کے اخراجات برداشت کرنے لگ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ احمدیت کے مبلغوں کے کاموں اور نتائج میں برکت دے۔ احباب تمام بیرونی جامعتوں اور وہاں کام کرنے والے مبلغوں کے لئے خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالفی ان نہتے سپاہیوں کی مدد کرے اور ان کے ہاتھ پر اسلام اور احمدیت کو فتح عظیم اور کامل بخشنے اور جلد سے جلد بخشے۔< ۱۵۸
انڈونیشیاء کے مخلص احمدیوں اور مبلغوں کی سال زیر نظر کی سرگرمیوں میں سے بعض کا ذکر مناسب ہوگا۔
۱۔ ایک احمدی وفد نے جن میں دیگر مقامی مخلص احمدیوں کے علاوہ مولوی عبدالواحد صاحب فاضل` میاں عبدالحی صاحب` حافظ قدرت اللہ صاحب بھی تھے سید شاہ محمد صاحب ئیس التبیغ انڈونیشیاء کی قیادت میں پریذیڈنٹ سکارنو سے ان کے محل میں ملاقات کی اور ان کو تفسیر القرآن انگریزی کی دوسری جلد کا روحانی تحفہ پیش کیا۔ ۲۔ مولوی محمد زہدی صاحب نے سرا بابا میں متعین ہونے کے بعد ایک کامیاب پریس کانفرنس کی جس میں ۱۵ نمائندگان شامل ہوئے جن میں سے بعض نے احمدیت پر عمدہ نوٹ شائع کئے۔ شرابایا میں آپ کے زیر اہتمام ایک تبلیغ جلسہ میں بھی منعقد ہوا۔ ۳۔ پہلی ششماہی میں قریب¶ا سو افراد احمدی ہوئے۔ ۴۔ مغربی جاوا کے شہر۔ لوگیر میں نئی احمدیہ مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔ ۵۔ ایک پاکستانی دوست ڈاکٹر عبدالغفور صاحب نے سرابایا میں ایک مکان جماعتی ضروریات کے لئے وقف کیا۱۵۹ ۶۔ >شریکت اسلام< انڈونیشیاء کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی ہے جس نے آزادی وطن کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس پارٹی کی چالیس سالہ سالگرہ میں سید شاہ محمد صاحب اور حافظ قدرت اللہ صاحب نے شرکت کی اور کئی معززین سے تبادلہ خیالات کیا۱۶۰۔ ۷۔۵۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو انڈونیشیاء نے آزاد فوج قائم کی تھی۔ اس یادگار قومی دن کی تقریب میں وزارت دفاع کے چیف آف دی سٹاف نی سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ اور نائب صدر جماعت احمدیہ انڈونیشیاء کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔۱۶۱۔۸۔ ماہ اکتوبر میں ہی میاں عبدالحی صاحب کو جزیرہ بالی کے ایک سابق راجہ سے ملاقات کرنے اور اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقعہ ملا۔ میاں صاحب نے انگریزی لٹریچر کی ایک نمائش میں حصہ لیا اور اسلامی لٹریچر رکھنے کے علاوہ >ہندوستان میں اردو اور انگریزی کی ترویج< پر تقریر کی۔ ۹۔ انڈونیشیاء مشن کا ایک اہم واقعہ جماعت احمدیہ انڈونیشیاء کی چوتھی کامیاب سالانہ کانفرنس ہے جو بمقام تسکملایا (TASIKMALAYA) بتاریخ۶۶۔۲۷۔۲۸ ماہ فتح منعقد ہوئی۔ ۱۶۲
شام مشن:۔
مفتی مصر کے رسوائے عالم فتویٰ کی حقیقت واضح کرنے کے لئے السید منیر الحصنی امیر جماعت احمدیہ دمشق نے اخبار >العلم< )۱۱۔ جون جون ۱۹۵۲ء( میں ایک نوٹ )یا نیز ۷ جولائی ۱۹۵۲ء کو ایک استفتاء سائیکلو سٹائل کر کے علمی حلقوں میں تقسیم کیا۔۱۶۳
فصل ہفتم
خطبات جمعہ میں روز رکھنے دین پھیلانے` دعا کرنے اور سچ بولنے کی تلقین پاکستان اور احمدیت کے خلاف شورش کا آغاز
حضرت مصلح موعودؓ کی طرف قیام امن کے لئے پر حکمت ہدایات
حضرت مصلح موعودؓ کی پریس کانفرنس اور پر شوکت پیغام۔
)خلافت ثانیہ کا چالیسواں سال ۱۳۳۲ ہش/۱۹۵۳ء(
۱۹۵۳ء )۱۳۳۲ ہش( کا سال جماعت احمدیہ کا سنگ میل Mark) dnna(L اس کی ترقی کا نشان ہے جس میں مہدی موعودؑ کی اس پیاری جماعت نے اپنی مظلومیت کا کمال نمونہ دکھایا اور اس کے صبرو استقامت دعا اور اخلاق کی بے پناہ قوت نے صحابہ نبوی~صل۱~ کے بابرکت دور کی یاد تازہ کردی۔
سات روزے رکھنے کی تحریک
اس سال کا آغاز چار اصلاحی تحریکات سے ہوا۔۱۔ سات روزوں کی تحریک ۔۲۔ اشاعت دین کی تحریک۔۳۔ دعا کی تحریک۔۴۔ سچ بولنے کی تحریک۔
حضرت مصلح موعودؓ نے سلاانہ جلسہ پر ارشاد فرمایا کہ احمدی ۱۳۳۲ ہش/۱۹۵۳ء کے شروع میں سات نفلی روزے رکھیں اور ہر روزہ سوموار کو رکھا جائے۔ حضور نے سال کے پہلے خطبہ میں اس کی یاد دہانی کرائی اور نصیحت فرمائی کہ:۔
>جو طاقتور ہیں` تندرست ہیں ان کے لئے سفر میں رمضان کے روزے جائز نہیں۔ نفلی روزے جائز ہیں کیونکہ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جب مسافر کے لئے فرض روزے منع ہوگئے تو بھی بعض صحابہؓ سفر اور لڑائیوں میں نفلی روزے رکھ لیتے تھے۔ ان ایام کو خصوصیت کے ساتھ دعائوں میں گذارو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔<۱۶۴
احمدیوں نے جو ہمیشہ فتنوں اور آزمائشوں کے ایام میں اس روحانی مجاہدہ کے خوشکن اثرات و نتائج کو آزماتے آرہے تھے اس تحریک پر بھی والہانہ لبیک کہا۔
اشاعت دین کی تحریک
دوسری تحریک اشاعت دین سے متعلق تھی جس کی طرف حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۳ صلح ۱۳۳۲ ہش کے خطبہ جمعہ میں بڑے موثر پیرایہ میں توجہ دلائی اور نصیحت فرمائی کہ ہمارے ایمان و اخلاص کا تقاضا ہے کہ تحریک جدید ہمیشہ جاری رہے۔ اس سلسلہ میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے جماعت احمدیہ کی امتیازن شان پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا:۔
>یاد رکھو کہ اس وقت اشاعت دین کا کام تم ہی کررہے ہو تمہارے سوا اور کوئی نہیں کررہا۔ دنیا میں صرف تم ہی ایک جماعت ہو جو خدا تعالیٰ کے دین کے جھنڈے کو اٹھائے ہوئے ہو۔ تمہیں شکوہ ہوگا کہ تمہیں وہ لوگ جنہیں خارج از اسلام کہا جاتا ہے۔ تمہیں وہ لوگ ہو جن کے خلاف مولوی اکٹھے ہو کر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ لیکن یہ شکوہ کی بات نہیں اس سے تو تمہارے کام کی عظمت اور شان اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایک شخص دین کی اس لئے خدمت کرتا ہے کہ اسے اس کا بدلہ ملے گا۔ ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا بدلہ نہیں ملتا اور ایک شخص دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے نہ صرف اس کا بدلہ نہیں ملتا بلکہ الٹا اسے جھاڑیں پڑتی ہیں۔ اسے برا بھلا کہا جاتا ہے۔ گالیاں دی جاتی ہیں۔ تم دیکھ لو ان تینوں میں سے کس کا درجہ بڑا ہوتا ہے ؟ آیا اس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے یا اس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ نہیں ملتا۔ یا اس شخص کا درجہ بڑا ہوتا ہے جو دین کی خدمت کرتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے اس کا بدلہ ہی نہیں ملتا بلکہ الٹا اسے جھاڑیں پڑتی ہیں۔ اسے گالیاں دی جاتی ہیں۔
صاف بات ہے کہ جو شخص ان حالات میں خدمت دین کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسے اس خدمت کا معاوضہ نہیں ملتا بلکہ اسے الٹا جھاڑیں پڑتی ہیں` اسے گالیاں دی جاتی ہیں اس )کا( درجہ ایمان اس شخص سے بلند ہے جو خدمت دین کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے یا خدمت کرتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ نہیں ملتا لیکن جھاڑیں بھی نہیں پڑتیں۔ درحقیقت محبت کامل کا معیار ہی یہی ہوتا ہے۔
اگر میں غلطی نہیں کرتا تو غالباً ابراہیم ادہمؓ۱۶۵ تھے جن سے دوزخ اور جنت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا مجھے جنت اور دوزخ سے کیا غرض ہے خدا تعالیٰ جہاں مجھے رکھنا پسند کرے گا میں رہوں گا۔ اگر وہ مجھے جنت میں رکھنا پسند کرے گا تو میں جنت کو پسند کروں گا اور اگر وہ مجھے دوزخ میں رکھنا پسند کرے گا تو میں دوزخ ہی کو پسند کروں گا۔
پس جو شخص قطع نظر کسی معاوضہ کے دین کی خدمت کرتا ہے بلکہ اسے معلوم ہے کہ اسے بجائے کسی معاوضہ کے الٹا جھاڑیں پڑیں گی اور اسے گالیاں کھانی پڑیں گی لیکن وہ پھر بھی خدمت سے باز نہیں آتا وہ یقین¶ا خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے کو جذب کرنے والا ہے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جب قیامت کے دن سب لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو انبیاء کے بعد سب سے مقدم وہ شخص ہوگا جس کو دین کی خدمت کا نہ صرف یہ کہ معاوضہ نہ ملا بلکہ اسے جھاڑیں پڑیں` اسے گالیاں کھانی پڑیں لیکن وہ خدمت سے پھر بھی باز نہ آیا۔ اگر روزہ رکھنے والوں کے متعلق رسول کریم~صل۱~ نے یہ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کہے گا کہ ان کا معاوضہ میں ہوں تو یقیناً وہ لوگ جنہوں نے دین کی خدمت کی اور اس حالت میں کی کہ نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی معاوضہ نہ ملا بلکہ انہیں جھاڑیں پڑیں` انہیں برا بھلا کہا گیا` انہیں گالیاں دی گئیں` انہیں واجب القتل قرار دیا گیا۔ انہیں اخراج عن الوطن کی دھمکیاں دی گئیں انہیں خدا تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا کہ اگر انسانوں کے پاس تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں تو تمہاری جگہ گود میں ہے۔ اور اگر انسانوں کے نزدیک تم واجب القتل قرار دیئے گئے تھے لیکن تم نے دین کی خدمت پھر بھی نہ چھوڑی تو تمہیں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا مجھ پر فرض ہے۔
پس تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے اس نعمت کے دروازے کھولے ہیں جس کے دروازے سینکڑوں سال سے دوسروں پر نہیں کھولے گئے۔ سینکڑوں سال گذر گئے اور دنیا اس نعمت سے محروم رہی۔ جب اسلام ترقی پر تھا اس وقت اسلام کی خدمت کرنے والوں کی تعریف کی جاتی تھی` ان کی قدر کی جاتی تھی` لیکن آج جب اسلام نہ صرف باطنی لحاظ سے بلکہ ظاہری لحاظ سے بھی گر چکا ہے وہ نہ غیر مسلموں کے نزدیک مقبول ہے نہ مسلمانوں کے نزدیک مقبول ہے خدا تعالیٰ اپنی قبولیت اور اپنا دست محبت تمہاری طرف بڑھاتا ہے وہ تمہیں اپنی محبت اور پیار کی بشارت دیتا ہے۔
پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے فرائض کو ادا کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رحمتیں اور برکتیں تمہیں ملنی ہیں تم انہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کر لو۔ ایسا زمانہ بہت کم آتا ہے اور مبارک ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایسے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہی لوگ نحوست سے دور اور خدا تعالیٰ کی جنت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے قران کریم میں یہ جو کہا ہے کہ اس دن جنت قریب کردی جائے گی اس کا بھی یہی مفوہم ہے کہ خدا تعالفی ایسی جماعت کھڑی کردے گا جو دین کی خدمت کرے گا اور نہ صرف یہ کہ اسے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا بلکہ اسے جھاڑیں پڑیں گی اسے گالیاں دی جائیں گی` دنیا اسے دھتکارے گی کہ وہ کیوں خدا تعالیٰ کی ہوگئی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے دینکی کیوں خدمت کررہی ہے اس لئے لازمی طور پر خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا۔
پس تم ان وقتوں کی قدر کرو اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر لو تا خدا تعالیٰ کے سامنے بھی تم سرخرو ہوجائو اور آئندہ نسلوں کے سامنے بھی تمہارا نام عزت سے لیا جائے۔<۱۶۶
دعائوں کی تحریک
۳۰ ماہ صلح ۱۳۳۲ ہش کو حضرت مصلح موعودؓ نے دعائوں کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
>جماعت آچکا سخت مشکلات میں سے گزررہی ہے دشمن مختلف طریق سے جماعت کو مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے مٹنا تو نہیں لیکن جو شخص اس کے بچانے کے لئے کوشش کرتا ہے یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں بڑا مقرب ہے۔ چونکہ ہم میں کوئی طاقت نہیں اس لئے ہمارے پاس یہی ذریعہ ہے کہ جس ہستی کو اس کی طاقت حاصل ہے ہم اس کے سامنے عرض کریں کہ حضور ! جماعت کو دشمن کی زد سے محفوظ رکھئے۔ گویا ہمارا کام صرف منہ سے کہنا ہے اور رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کی شفاعت حسنہ کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو بھی فائدہ سے محروم نہیں کرتا بلکہ اسے بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ تو جب ایک شخص کی شفاعت حسنہکرنے سے انسان فائدہسے محروم نہیں رہتا تو ایک جماعت کی شفاعت کرنے کے بعد وہ کیوں محروم رہے گا؟ ۱۶۷
پس دوستوں کو خدا تعالیٰ سے دعائیںکرنی چاہئیں کہ وہ جماعت کی حفاظت کرے۔ اسلام کی ترقی کے سامان بخشے` دشمن ناکام و نامراد ہوں ہم ان کی ناکامی اپنی آنکھوں سے دیکھیں تا ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے لذت حاصل کریں یہ بہت بڑی چیز ہے اس کے لئے دوست دعا کریں بار بار خدا تعالفی کے حضور جائیں` بار بار اس کے سامنے پیش ہوں اور اس سے دعا مانگیں۔ یہ ایسا کام نہیں جو دوبھر معلوم ہو یہ کام تو ایسا ہے جو جماعت کے ہر فرد کے لئے فائدہ مند ہے۔ اگر جماعت بچے گی تو اس کا ہر شخص بچے گا اگر جماعت ترقی کرے گی تو اس کا ہر فرد ترقی کرے گا۔ ہماری جماعت اگرچہ تعداد میں تھوڑی ہے مگر لیکن پھر بھی اس وجہ سے کہ جماعت منظم ہے ہر سال ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو اس جتھہ کی وجہ سے بہت سی مشکلات سے بچ جاتے ہیں اگر وہ اس جماعت سے باہر ہوتے تو ان مشکلات سے نہ بچتے۔ بے شک بعض ایسے افراد بھی ہیں جو اپنی بداخلاقیوں اور سستیوں کی وجہ سے نہیں بچتے لیکن جماعت کا ایک خاصہ حصہ ایسا ہے جو جماعت کی تائید کی وجہ سے بچ جاتا ہے اور بعض اوقات گرے ہوئے لوگ دوبارہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ابھی تو ہم تھوڑے ہیں لیکن پھر بھی جتھہ کی وجہ سے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن اگر جماعت بڑھ جائے اور اسے طاقت حاصل ہوجائے تو کمزوروں کو اس وقت سے کہیں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا اور وہ ظالموں کے ظلموں سے بچ جائیں گے۔ دینوی طور پر بھی اور دینی طور پر بھی۔
پس جماعت کے لئے دعا درحقیقت اپنے لئے دعا ہے۔ اگر کوئی شخص جماعت کی ترقی کے لئے دعا کرتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے لئے دعا کرتا ہے۔ وہ کسی پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنے فائدہ کا کام کرتا ہے۔<۱۶۸
سچائی اختیار کرنے کی تحریک
حضرت مصلح موعودؓ کی چوتھی تحریک یہ تھی کہ سچائی کو اختیار کرو کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں دوسری بہت سی نیکیوں کی بھی توفیق مل جائے گی۔ چنانچہ حضورؓ نے ۶ فروری ۱۹۵۳ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
>تم فیصلہ کر لو کہ ہم نے سچ بولنا ہے چاہے اس کے بدلہ میں ہم ذلیل ہوں` شرمندہ ہوں یا ہمیں کوئی اور نقصان اٹھانا پڑے پھر دیکھو تمہارے اخلاق کی کتنی جلدی درستی ہوجاتی ہے۔ پس میں ان مختصر الفاظ میں جماعت کو اس امر کی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سچائی کو اختیار کریں۔ بات مختصر ہے لیکن ہے بہت بڑی۔ کہنے کو تو یہ ایک منٹ میں کہی جاسکتی ہے لیکن نتیجہ اس کا صدیوں کی بھلائی اور قومی ترقی ہے۔<۱۶۹
کراچی کنونیشن اور ڈائریکٹ ایکشن کا فیصلہ
احراری تحریک کے ہمنوا لیڈروں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے اجلاس ڈھاکہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر حکومت پاکستان نے ۲۲ فروری ۱۹۵۳ء تک ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے تو >ختم نبوت کی باغی حکومت کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن کریں گے۔ ۱۷۰ اس سلسلہ میں راست اقدام کے مقتدر راہنمائوں کی بے شمار تقاریر کے چند مختصر نمونے سپرد قرطاس کئے جاتے ہیں۔
کفر اسلام کی جنگ
۱۔ جناب مولانا عبدالحامد صاحب بدایوانی صدر جمیتہ العلماء کراچی و سندھ و رکن کونسل آف ایکشن پر نظریہ رکھتے تے کہ >میں آئین ساز اسمبلی کو دین کے متعلق قوانین منظور کرنے کا اختیار نہیں دے سکتا۔<۱۷۱
مولانا صاحب نے ان دنوں اعلان کیا کہ:۔
>ہم دیانتداری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ اس محاذ پر ہماری لڑائی کفر اور اسلام کی لڑائی ہے۔< ۱۷۲
>محافظین< ختم نبوت کا بلند مقام
۲۔ جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری >امیر احرار نے ۲۲ جولائی ۱۹۵۲ء کے ایک جلسہ عام میں تقریر فرمائی کہ:۔
>میں تو رسول~صل۱~ کی ختم المرسلین پر ایمان رکھنے والے مسلمان کی گلی کے کتے کا بھی منہ چومنے کو تیار ہوں۔<۱۷۳
اسی طرح مرکزی حکومت کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا:۔
>تم ناموس مصطفیٰ کا تحفظ کرو میں تمہارے کتنے پالنے کو تیار ہوں تمہارے سور چرائوں گا۔<۱۷۴
پاکستان کی سربلندی کی لازمی شرط
۳۔ جناب مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی کنویز آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونیشن نے کراچی میں تقریر کے دوران کہا:۔
>جب تک مرزائیوں کو اقلیت قرار نہیں دیا جاتا پاکستان سربلند نہیں ہوسکتا۔< ۱۷۵
کشمیر دلانے کی ضمانت
۴۔ جناب مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی کی تقریر ۱۵ جنوری ۱۹۵۳ء بمقام لاہور:۔
>اگر ظفر اللہ کو آج وزارت خارجہ سے الگ کردیا جائے تو علمائے کرام کشمیر حاصل کرنے کی گارنٹی دیتے ہیں۔<۱۷۶
تکمیل پاکستان کی واحد صورت
‏]0 [rtf۵۔ جناب مولانا اختر علی خاں صاحب مدیر >زمیندار< نے شیخوپورہ کانفرنس )منعقدہ ۹ اکتوبر ۱۹۵۲ء( کو خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
>جب تک ہم مرزائیت صفحہ ہستی سے نہیں مٹادیں گے اس وقت تک پاکستان صحیح معنوں میں پاکستان نہیں بنے گا۔<۱۷۷
احمدیت ختم کرنے کا نسخہ
۵۔ جناب تاج الدین صاحب انصاری صدر مجلس احرار مرکزیہ نے ستمبر ۱۹۵۲ء کی گوجرانولاہ کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
>آج ظفر اللہ کو ہٹا دو اگر کل کو پچاس فیصد مرزائی مسلمان نہ ہوجائیں تو میری گردی مار دو۔ اگر مرزائیوں کو اقلیت قرار دے دو تو محمود ڈھونڈے گا کہ میرے باوا کی امت کہاں ہے؟< ۱۷۸
جماعت احمدیہ پر احسان
۶۔ جناب صاحبزادہ فیض الحسن صاحب گدی نشین آلو مہار شریف نے اکتوبر ۱۹۵۲ء میں تقریر کی کہ:۔
>مرزائیو ! ہمارا احسان مانو کہ ہم تمہیں اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کررہے ہیں ورنہ قرآن کی زبان سے پوچھا جائے تو وہ تو کہتا ہے کہ تمہیں انسانیت کے دائرہ سے ہی خارج کردیا جائے۔<
۱۷۹اقلیت رواداری کی طالب بن کے آئے گی
کہو کیا پھر اجازت ہوگی انکار رسالت کی
مٹائوگے تم اسے فتنے کو کیونکر ملک وملت سے
چلے گی کس طرح تحریک پھر ختم نبوت کی
محمدﷺ~ کی رسالت پر اگر ایمان رکھتے ہو
سیاست سے الگ رہ کر اصول دین سمجھائو
اگر ظلمت کا اندیشہ ہے تم کو بے خطر ہو کر
جہان آدمیت میں ضیاء قرآن کی پھیلائو
اگر تبلیغ دیں میں رنگ ہو اخلاص کا غالب
رہے >الحاد< کا کوئی نہ پاکستان میں طالب۱۸۰4] f[rt
‏tav.13.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ سالانہ ربوہ کی ایمان افروز اور انقلاب انگیز تقاریر
فرقوں کا >اجماع<
۷۔ جب مولوی اختر علی خاں صاحب ابن مولوی ظفر علی خاں نے نومبر ۱۹۵۲ء میں کہا کہ:۔
>مجلس عمل نے گزشتہ تیرہ سو سال کی تاریخ میں دوسری مرتبہاجماع امت کا موقعہ مہیا کیا ہے۔ آج مرزائے قادیان کی مخالفت میں امت کے ۷۲ فرقے متحد و متفق ہیں۔ حنفی اور وہابی` دیو بندی` بریلوی` شیعہ` سنی` اہلحدیث سب کے علماء تمام پیر اور تمام صوفی اس مطالبہ پر متفق و متحد ہیں کہ مرزائے کافر ہیں انہیں مسلمانوں سے ایک علیحدہ اقلیت قرار دو۔<۱۸۱
وزیراعظم پاکستان کے احمدی ہونے کا پراپیگنڈہ
۸۔ جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور ان کے رفقاء نے یہ پراپیگنڈا کیا کہ:۔
>خواجہ ناظم الدین مرزا محمود کے ہاتھ پر بیعت کر کے قادیانی ہوگئے ہیں اور ان کے قادیانیوں کے درمیان کوئی رشتے بھی ہوچکے ہیں؟<۱۸۲
مرکزی وزراء پر انتشار پھیلانے کا الزام
۹۔ >مجاہد ملت< جناب مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے بھرے جلسوں میں یہ الزام لگایا کہ:۔
>ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی ذمہ دری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو وزارتوں کی گدیوں پر فائز ہیں۔ آج ملک میں جو پریشانی پھیلی ہوئی ہے وہ صرف ان کرسی نشینوں کی بدولت ہے جو اسلام کا نام لے کر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں۔<]4 [stf۱۸۳
>ریاست در ریاست<
۱۰۔ جناب مولانا مرتضیٰ احمد خاں صاحب میکش نے ناصحانہ انداز میں کہا:۔
>میں ارباب اقتدار کو ایسی بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو پاکستان کے اندر پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے بنائی گئی ہے وہاں زمین دوز سرنگیں ہیں` وہاں بم تیار ہوتے ہیں` وہاں مضبوط قلعہ بنایا جارہا ہے وہ ریاست جہاں ایسی تیاریاں ہورہی ہیں وہ مرزائیوں کی ریاست ہے جس کا نام ربوہ ہے۔<۱۸۴
‏0] f[stحکومت کو دھمکی
۱۱۔ جناب مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی نے کہا:۔
>اگر حکومت نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو اس کا وہی حشر ہوگا جو مصر میں شاہ فاروق کا ہوا ہے۔<۱۸۵
حکومت پاکستان کے خلاف فرصیت جہاد کا فتویٰ
۲۱۔ پاکستان کے ممتاز علماء میں سے مولانا عارف اللہ صاحب` مولانا غلام اللہ خاں صاحب` مولانا عبدالحنان صاحب` مولانا محمد اسمعیل صاحب ذبیح` مولانا عبدالحکیم صاحب` مولانا محمد مسکین صاحب` مولانا محمد انیس صاحب` مولانا عبدالستار صاحب اور دیگر علماء وخطباء نے پوری شرح و بسط سے تقاریر کیں کہ >ہم مجلس عمل کے حکم کے منتظر ہیں ورنہ یہ قید و بند اور ہتھکڑیاں و بیڑیاں ہمارے لئے نئی نہیں ہیں یہ تو حق کی حمایت میں اسوہ یوسف و سنت سجاد کے درجہ میں ہیں اگر حکومت نے مرزائیت نوازی ترک نہ کی تو خدا کے نام پر قائم کیا ہوا پاک ملک کافرستان بن جائے گا اور ہم پر جہاد فرض ہوجائے گا۔< ۱۸۶
خوفناک ردعمل کا انتباہ
‏0] ftr[۱۳۔ اخبار >زمیندار< نے ۱۶ فروری ۱۹۵۳ء کو اداریہ میں لکھا:۔
>اگر الحاج خواجہ ناظم الدین نے اس قومی مطالبہ کو اب بھی تساہل و بے پروائی کی نگاہوں سے دیکھا تو ہمیں اندیشہ ہے کہ جو صورت حال رونما ہوگی اس پر قابو پانے میں حکومت کی اجتماعی قوت بھی کامیاب نہ ہوسکے گی۔<۱۸۷
احکام مملکت ماننے سے انکار
۱۴۔ جناب صاحبزادہ فیض الحسن صاحب آلو مہار شریف >رضاکاران مجلس عمل کے کمانڈر انچیف< نے ۲۳ فروری ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل بیان جاری کیا:۔
>آج خواجہ ناظم الدین باغیان محمد عربی کی حمایت کررہے ہیں۔ جو محمد عربی کا باغی ہم اس کے باغی ہیں اس کے احکام کی ہم قطعاً پابندی نہ کریں گے۔<۱۸۸
الٹی میٹم
۱۵۔ >خطیب پاکستان< جناب قاضی احسان احمد صاحب شجاع آبادی کی تقریر بہاول پور )دسمبر ۱۹۵۲ء:(۔
>ہمارے ذمہ داران حکومت ختم نبوت سے بے اعتنائی کر کے اپنے خلاف بغاوت پر مجبور نہ کریں۔<۱۸۹
‏sub] g[taمحمد عربی کے باغی حکمران
۱۶۔ >امیر شریعت احرار< جناب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے مسجد نور کراچی میں تقریر کی کہ:۔
>ایک مسلمان سلطنت اور مسلمان قوم کے حکمران وہی ہوسکتے ہیں جو مسلمان ہوں اور محمد عربی کے غلام محمد عربی کے باغ اور کافر ومرتد مسلمان قوم کے حکمران نہیں رہ سکتے۔<۱۹۰
جناب سید مظفر علی صاحب شمسی نے کہا:۔
>خواجہ ناظم الدین اور اس کی حکومت پر ہم یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ ہم محمد عربی صلعم کے باغیوں کو اس اسلامی ملک کی مسند وزارت پر قابض ہوتے برداشت نہیں کریں گے۔ کیا پاکستان اس لئی بنایا گیا تھا کہ یہاں محمد عربی صلعم کے دشمن اور ان کی توہین کرنے والے دندناتے پھریں ؟<۱۹۱
پاکستان کا سب سے بڑا باغی ہونا عبادت
۱۷۔ جناب حافظ قمر الدین صاحب سجادہ نشین سیال شریف نے ۱۳ نومبر ۱۹۵۲ء کو کہا:۔
>اب پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ ہم تاجدار مدینہ~صل۱~ کی زیادہ دیر توہین برداشت نہیں کرسکتے حکومت تاجدار مدینہ کی عزت و عظمت کی حفاظت کرے ورنہ میں اس مملکت کا سب سے بڑا باغی ہوں اور یہ بغاوت میرے ہاں کوئی جرم نہیں بلکہ میں اس بغاوت کو عبادت خیال کرتا ہوں۔< ۱۹۲
حکومت پاکستان کی حمایت حرام
۱۸۔ جناب مولانا سید ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر مجلس عمل پنجاب ۱۵ فروری ۱۹۵۳ء کو ایک جلسہ میں فرمایا:۔
>میں پولیس` فوج تمام سرکاری ملازموں` افسروں اور حکمرانوں کو یہ اطلاع دیتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جس کی خبر قرآن دے چکا ہے وہ دن قیامت کا ہے بہشت اور دوزخ میں سے ایک ٹھکانا منتخب کرنے کا ہے۔ اب تم خود سوچ لو کہ اگر تم نے ختم نبوت کی علمبرداروں پر گولیاں چلائیں تو تمہارا ٹھکانا کہاں ہوگا۔<
>میں اس فتویٰ کا اعلان کرتا ہوں کہ ایسی حکومت کی حمایت حرام ہے جو ختم نبوت کے محافظوں پر گولی چلائے۔<۱۹۳
خواجہ ناظم الدین کا گریبان پکڑلیں گے
۱۹۔ جناب ماسٹر تاج الدین صاحب انصاری صدر مرکزیہ مجلس احرار اسلام نے >ختم نبوت< کانفرس چنیوٹ )منعقدہ ۲۶ دسمبر ۱۹۵۲ء( کو دھمکی دی کہ:۔
>اب جو دستوریہ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں مرزائیوں کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ ہم نے حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دی ہے اگر ایک ماہ کے بعد بھی حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا تو پھر ہم خود ہاتھ پائوں ماریں گے اور جس طرح دونبے والا سہارا دینے والے کی ہر وہ پہلی خبر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے جو اس کے ہاتھ میں آتی ہے ہم بھی جہاں ہمارا ہاتھ پہنچے گا اسی چیز کو پکڑلیں گے خواہ وہ ناظم الدین کا گریبان ہو یا کسی اور کا۔<۱۹۴
‏sub] [tagنوٹس کی آخری میعاد قطعی ہے
۲۰۔ جناب مولانا سید ابو الحسنات محمد احمد صاحب قادری صدر مجلس عمل پنجاب نے ۲۰ فروری ۱۹۵۳ء کو واضح کیا۔
>بائیس فروری کے بعد حکومت پاکستان کو ایک دن کی بھی مہلت نہیں دی جائے گی۔<
>مجلس عمل کے نوٹس کی میعاد آخری ہے اور اس میں مزید توسیع قوم کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔<۱۹۵
مطالبات مظور کرائے بغیر باہر نہ آئیں گے
۲۱۔ جناب سید ابوالحسنات محمد احمد صاحب قادری صدر جمعیتہ علمائے پاکستان نے اس عزم کا اظہار کیا:۔
>اگر ہمیں گرفتار کر لیا گیا تو ہم الحمدلل¶ہ کہہ کر اپ کی جیلوں میں ڈیرے ڈالیں گے اور اس وقت تک باہر نہیں آئیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے ہم جب باہر آئیں گے تو چوہدری ظفر اللہ ہمیں وزارت گدی پر نظر نہیں آئیں گے۔<۱۹۶
ہر طاقت کو پاش پاش کردینے کا عزم
۲۲۔ جنابماسٹر تاج الدین صاحب انصاری صدر مجلس احرار نے موچی دروازہ کے ایک جلسہ میں کہا:۔
>مجلس عمل اپنا پروگرام مرتب کرچکی ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے آگے قدم بڑھانے سے روک نہیں سکتی اور ہمارا ایمان ہے کہ مرزائیوں کو شکست ہوگی اور جو طاقت بھی ہمارے اس پروگرام میں حائل ہوگی ہم اسے بھی ہٹا دیں گے۔<۱۹۷
پیشگوئیاں
۲۳۔ جناب مولانا اختر علی خاں صاحب مدیر >زمیندار< نے نومبر ۱۹۵۲ء میں جلسہ پنڈی بھٹیاں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
>میں اس پلیٹ فارم سے یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ قادیانیت بھی اسی طرح ختم ہوگی جس طرح انگریز یہاں سے گیا۔۱۹۸
ازاں بعد ۱۲ فروری ۱۹۵۳ء کو کہا:۔
۲۴۔ >میں اس ملک کے سڑھے سات کروڑ مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت تک یہ آواز پہنچانا چاہتا ہوں کہ اب اس ملک میں مسلمان رہیں گے یا مرزائی:۔۱۹۹
۲۵۔ جناب تاج الدین صاحب انصاری نے موچی دروازہ کے جلسہ )منعقدہ یکم فروری ۱۹۵۳ء( میں کہا:۔
>مجلس عمل اپنا پروگرام مرتب کرچکی ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے آگے قدم بڑھانے سے روک نہیں سکتی۔ میں کہتا ہوں کہ حکومت جس قدر عجلت کے ساتھ ہم پر ہاتھ ڈالے گی اسی عجلت کے ساتھ ہماری کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔<۲۰۰
۲۶۔ جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے >ختم نبوت کانفرنس< چنیوٹ )منعقدہ ۲۶۔ دسمبر ۱۹۵۲ء( کو خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
>مرزا محمود کو آگاہ رہنا چاہئے کہ اس کی بڑ کا ۵۲ء گزر گیا ہے لو اب ۵۳ء بخاری کا ہے اور میں اپنے مولا کریم کے فضل و کرم سے کہہ رہا ہوں کہ تم ہوشیار ہوجائو آخر فتح میری ہوگی۔< ۲۰۱body] g[ta
>قادیانی مسلم< فسادت کی دھمکی
۲۷۔ راست اقدام کے نامور لیڈروں دستوری سفارشات کے متعلق جنوری ۱۹۵۳ء میں ایک مفصل بیان دیا جس میں انہوں نے حکومت پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ زبردست انتباہ کیا:۔
>ان کو پچھلے دور کے بیرونی حکمرانوں کی طرح نہ ہونا چاہئے جنہوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو اس وقت تک محسوس کرنے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قدموں کے فسادات سے خون آلود نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں ا کی غلطی بڑی افسوسناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہان ایک قادیانی مسلم مسئلہ بھی موجود ہے۔<۲۰۲
بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے موچی دروازہ کے ایک جلسہ عام میں علماء کے اس بیان کی مکمل حمایت میں تقریر کی اور کہا:۔
>قوم کے متفقہ مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو بہت ممکن ہے یہ مسئلہ ہندو مسلم فسادات سے بھی نازک صورت اختیار کر جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ >مسلمان< اور >مرزائی< سوال پیدا ہونے اور اس سے رونما ہونے والے حالات سے پہلے ہی قوم کے مطالبات تسلیم کر لے< ۲۰۳
اخبار زمیندار )یکم فروری ۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۱( میں یہی بیان درج ذیل الفاظ میں شائع ہوا:۔
>اگر قوم کے متفقہ مطالبہ کو نظر انداز کیا گیا اور اس فرقہ کو علیحدہ اقلیت قرار دینے کا اعلان نہ کیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ اس ملک میں ہندو مسلم فسادات کی طرح قادیانی اور مسلم فسادات کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ یہ وہ نازک صورت حال ہوگی جسے شاید ہماری حکومت برداشت نہ کرسکے گی۔<۲۰۴
جماعت اسلامی کے رخ کردار پر ایک نظر
اس مرحلہ پر یہ بتانا ضروری ہے کہ احمدیوں کے خلاف ایجی ٹیشن کی بنیاد تو احراری علماء نے رکھی تھی جیسا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب بھی تسلیم کرتے تھے:۔
>اس ایجی ٹیشن کی ابتداء کرنے والے بلاشبہ احرار تھے۔<۴۰۵
مگر جب فسادات کیلئے ماحول سازگار ہوگیا تو جماعت اسلامی بھی پیش پیش نظر آنے لگی حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے شروع ۱۹۵۲ء میں دستور ساز اسمبلی پاکستان سے دستور کو خالص اسلامی بنانے کیلئے جن آٹھ مطالبات کی قطعی صراحت کا مطالبہ کیا تھا اور جس کیلئے اس نے ایک وسیع مہم چلا کر بہت سے مسلمانوں سے دستخط کرائے تھے ان میں جماعت احمدیہ کو اقلیت قرار دینے کا ذکر تک نہیں تھا۔ یہ مطالبہ دستخط کرانے کے بعد پراسرار طریق سے از خود شامل کیا گیا۲۰۶ جس پر راولپنڈی کے معززین وزعماء نے کھلا احتجاج کیا۔
اس غیر اسلامی اقدام کے نتیجہ میں جماعت اسلامی کی عملی پالیسی کے متعدد ایسے پہلو نمایاں ہوکر سامنے آگئے جو حد درجہ افسوسناک اور ناقابل فہم تھے۔ مثلاً:۔
اول۔ جماعت اسلامی نے سات برس قبل تحریک پاکستان کی مخالفت کا شرعی جواز ہی یہ پیش کیا تھا کہ اگرچہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت مطالبہ پاکستان پر متفق متحد رہے مگر حدیث نبویﷺ~ کے مطابق اکثریت باطل پر ہے۲۰۷ اور ۷۲ فرقوں میں سے صرف وہ فرقہ ناجی ہے جو اقلیت میں ہوگا۔ چنانچہ جماعت اسلامی کے ترجماہ رسالہ >ترجماہ القرآن< ستمبر` اکتوبر ۱۹۴۵ء نے لکھا:۔
>اسلام میں نہ اکثریت کا کسی بات پر متفق ہوجانا اس کے حق پر ہونے کی دلیل ہے` نہ اکثریت کا نام سواد اعظم ہے` نہ ہر بھیڑ جماعت کے حکم میں داخل ہے اور نہ کسی مقام کے مولویوں کی کسی جماعت کا کسی رائے کو اختیار کر لینا اجماع ہے۔ ان ساری غلط فہمیوں سے تعرض کرنے کا یہ موقع نہیں ہے البتہ مذکورہ بالا حدیث کا مطلب ہم بیان کئے دیتے ہیں۔
آپ نے ایک اور موقعہ پر تقریر کے دوران کہا >اگر اکثریت کا لحاظ ہے تو حضرت حسینؓ عنہ پر درود کیوں بھیجتے ہو یزید پر درود پڑھو۔< )فرمودات امیر شریعت< صفحہ ۶۵ مرتب جناب حکیم مختار احمد الحسینی صاحب مکتبہ تعمیر حیات چوک رنگ محل لاہور(
شاہ صاحب نے قیام پاکستان کے بعد یہ بھی کہا:۔ >کمیونسٹووں سے ہماری جنگ کیسی` اسلام اور اشتراکیت کا جھگڑا کیسا۔ میں تو پوچھتا ہوں کہ اسلام ہے کہاں جس سے کمیونزم کی جنگ ہوگی۔< )خطبات امیر شریعت( صفحہ مرتبہ جانباز مرزا طبع اول پنجاب پریس لاہور(
نیز کہا:۔
>کعبہ سے کراچی تک ہر جگہ قانون کفر ہی مسلط ہے۔< ~}~
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
>زکاف کعبہ تا کاف کراچی
سراسر کفر و کفر دون کفر<
>)حیات امیر شریعت< صفحہ ۵۲۵ صفحہ ۵۲۶ مرتبہ جانباز مرزا۔ ناشر مکتبہ تبصرہ ۴/۷ گلشن کالونی شادباغ لاہور(
مذکورہ بالا حدیث ترمذی میں ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:۔ >ان اللہ لایجمع امتی او قال امتہ محمد علی ضلالتہ وید اللہ علی الجماعتہ ومن شذ شذ فی النار< )اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یون فرمایا کہ محمد کی امت کو ضلالت پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں پڑا( اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امت پر کوئی ایسا دور نہیں آئے گا کہ یہ پوری امت گمراہی میں پڑ جائے گا۔ بلکہ اس میں ایک گروہ خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا ہو ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور وہی جماعت ہے اور اللہ کا ہاتھ اس جماعت پر ہے۔ اور جو اس جمات سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث نبویﷺ~ سے ہوتی ہے جو عبداللہ بن عمرؓ سے بایں الفاظ مروی ہے: >ان بنی اسرائیل تفرقت علی اثنتین وسبعین ملتہ و تفترق امتی علی ثلاث و سبعین ملتہ کاھم فی النار الاملتہ واحدہ قالو امن ھی یارسول اللہ؟ >قال ما انا علیہ و اصحابہ ! بنی اسرائیل ۷۲ فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں پڑ جائیں گے بجز ایک کے۔ لوگوں نے پوچھا یہ کون لوگ ہوں گے یارسول اللہﷺ~ ؟ آپﷺ~ نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریقہ پر ہوں گے۔
احمد اور ابو دائود کے یہاں پہلی روایت کسی قدر مختلف الفاظ میں ہے اور ان میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہی فرقہ جوآپ کے اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوگا۔ جماعت ہے اور اس کے اوپر اللہ کی رحمت کا ہاتھ ہے۔ عن معاویتہ ثنتان و سبعون فی النارد واحدہ فی الجنتہ وھی الجماعتہ )معاویہؓ سے روایت ہے کہ بہتر فرقے جہنم میں ہونگے ایک جنت میں ہوگا اور وہی جماعت ہے( اس سے معلوم ہوا کہ ایک زمانہ اس امت پر ایسا آئے گا کہ اس کے بڑے حصہ میں ضلالت کا اثر اسی طرح شرایت کر جائے گا جس طرح باولے کتے کے کاٹنے سے اس کا زہر آدمی کی رگ رگ میں سرایت کرجاتا ہے۔ صرف تھوڑے لوگ بچ رہیں گے جو آنحضرت~صل۱~ اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوں گے اور وہی لوگ جماعت کے حکم میں ہون گے۔ بعینہ اسی مضمون کی ایک حدیث اور بھی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:۔
لا تزال طائفتہ من امتی علی الحق میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور جو لوگ انہیں چھوڑیں گے ان کو کچھ ضرر نہ پہنچائیں گے۔
ان احادیث کی روشنی میں زیر بحث حدیث کا مطلب یہ نکلا کہ یہ پوری امت کبھی گمراہ نہ ہوگی بلکہ ایک جماعت خواہ وہ کتنی ہی مختصر ہو حق پر قائم رہے گی اور وہی جماعت ناجی ہے۔ اس کے اہ پر اللہ کا ہاتھ ہے بقیہ سب جہنم میں پڑیں گی۔ ان احادیث سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ یہ گروہ نہ کثرت میں ہوگا نہ اپنی کثرت کو اپنے برحق ہونے کی دلیل ٹھہرائے گا بلکہ اس امت کے ۷۳ فرقوں میں سے ایک ہوگا اور اس معمور دنیا میں اس کی حیثیت اجنبی اور بیگانہ لوگوں کی ہوگی جیسا کہ فرمایا ہے >بدء الاسلام غریبا وسیعود کما بدء فطوبی الغرباء ھم الذین یصلحون ما افسد الناس بعدی من شی )اسلام غربت میں شروع ہوا اور اسی غربت میں پھر مبتلا ہوگا۔ پس مبارکبار ہے ان >اجنبیوں< کیلئے جو دوسروں کے بگاڑے ہوئے دین کی اصلاح کریں گے۔
پس جو جماعت محض اپنی کثرت تعداد کی بناء پر اپنے آپ کو وہ جماعت قرار دے رہی ہے جس پر اللہ کا ہاتھ ہے اور جس سے علیحدہ ہونا جہنم میں داخل ہونے کے مترادف ہے اس کیلئے تو اس حدیث میں امید کی وکئی کرن نہیں۔ کیونکہ اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طریقہ پر بیان کردی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ آنحضرت~صل۱~ اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوگی`دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی۔۲۰۹۲۰۸
دوم۔ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ صرف پاکستان کے اقلیتی طبقوں کا مطالبہ تھا۔ چنانچہ مودودی صاحب نے اپنے رسالہ >قادیانی مسئلہ۲۱۰ میں بھی لکھا کہ:۔
>تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ابھی تک اس کی صحت ومعقولیت کی قائل نہیں ہوسکی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے سوا دوسرے علاقوں خصوصاً بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کا وزن نہیں محسوس کررہے ہیں۔< )صفحہ ۱۰`۱۱(
قبل ازیں انہوں نے ۲۲ فروری ۱۹۵۳ء کو ایک خط میں لکھا:۔
>پنجاب سمیت پورے ملک میں تعلیم یافتہ پبلک کو قادیانیوں کے بارے میں ہمارے مطالبے کی صحت پر اب تک مطمئن نہیں کیا جاسکا ہے۔ دوم یہ کہ عوام الناس بھی صرف پنجاب اور بہاولپور ہی میں اس مطالبے کی حمایت کے لئے تیار کئے جاسکے ہیں باقی دوسرے تمام صوبوں اور سب سے بڑھ کر بنگال کے عوام اس سے بالکل غیر متاثر ہیں۔< 10] [p۲۱۱
نیز لکھا:۔
>ہمارے نزدیک یہ سخت غلط اور غیر مدبرانہ کارروائی ہے۔ اس طرح کے اگر چند مظاہرے اور کر ڈالے گئے تو بعید نہیں کہ بنگال میں اس کا بالکل الٹا رد عمل پیدا ہوجائے اور ہم قادیانیوں کے مسئلے میں بنگال کی تائید حاصل کرنے سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ خو پنجاب میں بکثرت لوگ ان مظاہرات اور کر ڈالے گئے تو بعید نہیں کہ بنگال میں اس کا بالکل الٹا رد عمل پیدا ہوجائے اور ہم قادیانیوں کے مسئلے میں بنگال کی تائید حاصل کرنے سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ خود پنجاب میں بکثرت لوگ ان مظاہرات کے متعلق یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ دراصل دولتانہ صاحب کے اشارے سے مجلس عمل والوں نے کئے ہیں کیونکہ دولتانہ صاحب اس وقت خواجہ ناظم الدین پر دھونس جمانا چاہتے ہیں۔< ۲۱۲
یہ ایسی واضح حقیقت تھی کہ اس کی تائید میں جماعت اسلامی کے ایک راہنما جناب نصر اللہ خاں عزیز )مدیر >کوثر(< کو مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد یہ بیان دینا پڑا کہ:۔
>جب ہم قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے نکتے کا تزکرہ کرتے تو جواب ملتا یہ تو فرقہ بندی ہے فتنہ تکفیر ہے۔ مولوی تو اس سے پہلے اسی طرح ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے آئے ہیں قادیانی گمراہ سہی مگر ان کو کافر کہنے سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوگا۔ بعض کہتے وہ تو اسلام کی بڑی خدمت کررہے ہیں۔ قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی زبان میں انہوں نے کیا ہے اور ان کے مشن ممالک غیر میں اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں<- ۳۱۲
اس حقیقت کے باوجود حکومت کو اس غیر جمہوری مطالبہ کے سامنے سپر انداز ہونے کی دھمکی دینا عقل و فہم کے منافی تھا۔
سوم۔ بفرض محال اس مطالبہ کو ملک کے دونوں حصوں کے اکثر ۲۱۴باشندوں کی حمایت بھی حاصل ہوتی تب بھی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا فرض تھا کہ وہ عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے آنحضرت~صل۱~ کی سپریم کورٹ کے اس واضح آئینی و قانونی فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھتی جو مولانا مودودی صاحب نے ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو موچی دروازہ لاہور کے ایک جلسہ عام میں سنایا تھا اور جو انہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے۔
>اسلامی حکومت کا چوتھا اصول یہ ہے کہ اس میں لوگوں کو جان` مال اور عزت کے تحفظ کی جو ضمانت دی جائے گی وہ کسی شخص یا گروہ کی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور رسول کی طرف سے دی جائے گی اور قانون خدا وندی کے سوا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی شخص کے ان بنیادی حقوق پر ہاتھ نہ ڈالا جاسکے گا۔ اس دستوری قاعدے کو نبی~صل۱~ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:۔
>جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں۔ اس قبلہ کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کیلئے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے۔ پس تم اللہ کے دئے ہوئے ذمے میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو۔<
اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسلامی حکومت میں شہریوں کو بنیادی حقوق کی جو ضمانت دی جاتی ہے وہ دراصل خدا اور رسول کی طرف سے نیابتہ دی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی حکومت یہ ضمانت دینے کے بعد قانون الٰہی کے سوا کسی دوسرے طریقے پر شہریوں کے اس حق کو چھینے تو وہ دراصل خدا کے ساتھ دغا بازی کی مجرم ہے۔<۲۱۵
چہارم۔ جناب مودودی صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ احراری تحریک کا ختم نبوت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے جماعت اسلامی کی پوری مشینری اس کی حمایت میں لگادی خود لکھتے ہیں:۔
>اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہوگئیں۔ ایک یہ کہ احرار کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں بلکہ نام اور سہرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کیلئے جوئے کے دائو پر لگانا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رات کو بالا اتفاق ایک قرار طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساز باز کی ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور طریقوںسے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہوسکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہوسکتے۔۲۱۶
انہوں نے ایک تقریر میں یہ بھی بتایا کہ:۔
>میں صاف صاف کہتا ہوں کہ ختم نبوت کی تحریک اٹھوائی ہی اس غرض کے لئے گئی تھی کہ مطالبہ نظام اسلامی کو روکا جائے۔ اس موقع پر ختم نبوت کی تحریک کے لیڈروں کو بہتر سمجھایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ خدا کیلئے ایک مرتبہ دستور پاس ہوجانے دو اس کے بعد تم اس مسئلے کو اٹھا سکتے ہوں۔ خواجہ ناظم الدین کی رپورٹ تیار ہوچکی تھی۔ دستور پاس ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں تھی صرف اتنا کام باقی تھا کہ دستور ساز اسمبلی میں بنیادی اصولوں کی رپورٹ پیش ہو اور دستور پاس ہوجائے لیکن عین وقت پر ہنگامہ برپا کر دیا گیا اور بیوروکریسی اس طرح ملک کے سینے پر سوار ہوئی کہ آج تک اس سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکا ہے۔<۲۱۷
پنجم۔ جناب مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کے نزدیک ملک کے سب علمائے دین اور مسلمان سیاسی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ گم کردہ راہ اور پاکستان دراصل ناپاکستان بلکہ کافرانہ ریاست تھی۔ چنانچہ وہ برملا برسوں سے اس عقیدہ کا پرزور اعلان کررہے تھے کہ:۔
>خواہ مغربی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈروں ہوں یا علمائے دین و مفتیان شرع مبین دونوں قسم کے راہنما اپنے نظریے اور اپنی پالیسی کے لحاظ سے یکساں گم کردہ راہ ہیں۔<
>یہ ویسا ہی نا پاکستان ہوگا جیسا ملک کا وہ حصہ جہاں آپ کی اسکیم کے مطابق غیر مسلم حکومت کریں گے بلکہ خدا کی نگاہ میں یہ اس سے زیادہ ناپاک اس سے زیادہ مبغوض و ملون ہوگا۔<
>اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومتہوگی اس کا نام حکومت الٰہی رکھنا اس پاک نام کو ذلیل کرنا ہے۔<۲۱۸
اس نظریہ و مسلک کی موجودگی میں مودودی صاحب جیسے >مفکر اسلام< کا علماء سے گٹھ جوڑ کر کے پاکستان اسمبلی کے سامنے مطالبہ اقلیت پیش کرنا ان کی اصطلاح میں حاکمیت طاغوت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔
ششم۔ مولانا مودودی صاحب یہ حقیقت بھی برسوں سے ببانگ دہل پیش کرتے آرہے تھے کہ عہد حاضر ہیں صرف اسی شخصیت سے نظام اسلامی کی تشکیل ممکن ہے جو نبی کی نظر رکھتا ہو۔ چنانچہ آپ نے لکھا:۔
>علماء )الامشاء اللہ( خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوچکے تھے ان پر تو اسلاف کی اندھی اور جامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہوچکا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو ان کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتابیں نہ تھیں کہ زمانے کی قیود سے بالاتر ہوتیں- وہ ہر معاملہ میں ان انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت` اوقات اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کرسکتے جب کہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم و عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہوچکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پردے اٹھا کر ان تک پہنچ سکتی۔< ۲۱۹
جماعت اسلامی کا مقصد
مندرجہ بالا چھ امور کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچنا چنداں مشکل مقصد کے لئے شامل ہوئی اور وہ مقصد جس کا اعلان جماعت اسلامی کے رہنما ۱۹۵۰ء میں کرچکے تھے صرف یہ تھا کہ:۔
>جب صالحین کا گروہ منظم ہو` ان کے پاس طاقت موجود ہو۔ اہل ملک کی عظیم اکثریت ان کے ساتھ ہو یا کم از کم اس بات کا ظن غالب ہو کہ عملی جدوجہد شروع ہوتے ہی اکثریت ان کا ساتھ دے گی اور کسی بڑی تباہی اور خون ریزی کے بغیر مفسدین کے اقتدار کو مٹا کر صالحین کا اقتدار قائم کیا جاسکے گا اس صورت میں بلاشبہ صالحین کی جماعت کو نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ ان کے اوپر یہ شرعی فرض ہے کہ وہ اپنی طاقت منظم کر کے ملک کے اندر بزور شمشیر انقلاب پیدا کردیں اور حکومت پر قبضہ کر لیں۔۲۲۰
اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور( کا تبصرہ
‏]ttex [tagاخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< لاہور نے جناب مودودی صاحب کی موچی دروازے کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:۔
>گزشتہ جمعہ کو ایک پبلک جلسے میں مولانا ابو الاعلی مودودی نے لوگوں کو قادیانیوں کے خلاف تشدد استعمال کرنے پر علی الاعلان ابھارا ہے۔ تشدد کا یہ علی الاعلان پر چار اہل فہم حضرات کی نگاہ میں مولانا کی قدر و منزلت بڑھانے کا موجب نہیں بن سکتا۔ اس روز تقریر کرتے ہوئے مولانا نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار نہ دیا تو عین ممکن ہے کہ ملک میں اسی طرح قادیانی غیر قادیانی فسادات شروع ہوجائیں جس طرح پہلے ہندو مسلم فساد ہوا کرتے تھے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ ایک تحریک کا سربراہ جو آزاد خیالی اور روشن ضمیری کا مدعی ہو جیسا کہ جماعت اسلامی دعویٰ کرتی ہے اور وہ غیر ذمہ دارانہ باتیں زبان سے ادا کرنے میں احراریوں اور دوسرے علماء کو بھی مات کر دکھائے قادیانیوں کے خلاف نفرت و حقارت کا پرچار کرنے کے باوجود یہ لیڈر بظاہر اپنی طرف سے سامعین پر یہی اثر ڈالتے رہے ہیں کہ وہ اس تحریک کو پرامن ذرائع تک ہی محدود رکھیں گے اور تشدد کی جانب خفیف سے خفیف میلان کو بھی پنپنے نہ دیں گے لیکن مولانا مودودی نے حکومت کی مشکلات میں ایک اور اضافہ کرنے کی خاطر اور کچھ نہیں تو قادیانیوں کے خلاف ہی سامعین کو فساد برپا کرنے پر اکسانا شروع کردیا مولانا جب موصوف ایک گھٹیا سیاستدان کا کردار ادا کر کے اپنی خداد صلاحیتوں کو بٹہ لگا رہے ہیں۔ ان جیسے عالم سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک لاقانونیت سے بڑھ کر اور کوئی جرم نہیں۔ یہ جرم اپنی نوعیت کے اعتبار سے مملکت کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے۔ قرآن واضہ الفاظ میں ہدایت فرمایا ہے لاتفسدو فی الارض ]body [tagیعنی زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ مولانا نے تشدد کے علی الالان پرچار کے ذریعہ اس قرآنی ہدایت کا تمسخر اڑانے میں نہ صرف کوئی مضائقہ نہ سمجھا بلکہ ایک گو نہ خوشی محسوس کی۔ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانا قوم و ملک میں انتشار پھیلانے کے مترادف ہی۔ ملک کا کوئی سچا بہی خواہ ایسا خطرناک کھیل نہیں کھیل سکتا۔ اسلام ایک قوت ہے جس کا مقصد تخریب نہیں تعمیر ہے۔ وہ لوگوں کو باہم متحد بنانے اور انہیں ایک رشتہ میں منسلک کرنے آیا ہے۔ ہمارے علماء کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اختلافات مٹیں اور لوگوں میں اتنی فراخدلی پیدا ہو کہ وہ ٹھنڈے دل سے دوسروں کے نقطہ ہائے نظر بھی سن سکیں۔ اختلافی مسائل کے باوجود تمام فرقے سنی` شیعہ` اہلحدیث` اہل قرآن اہل سنت والجماعت وگیرہ سب یکساں طور پر اسلام سے وابستہ ہیں۔ قادیانی بھی اس بارے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی دوسروں کی طرح اظہر من الشمس ہے۔ باہمی اختلافات خواہ کچھ ہی ہوں یہ حقیقت کہ تمام فرقے اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں ہم سب کو متحد رکھنے کا موجب ہونی چاہئے-
اختلافات ہمیسہ رہیں گے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے رواداری سے کام لیں اور مختلف نقطہ ہائے نظر میں جو باتیں مشترک ہوں ان کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ خود اسلام کے متعلق مولانا مودودی کے اپنے نظریات دوسرے لوگوں کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا اعتقاد ہے کہ جو شخص اسلام سے ارتداد اختیار کرتا ہے اسے قتل کردینا چاہئے- ایسا اعتقاد رکھنا اس قرآنی آیت کی واضح نفی پر دلالت کرتا ہے ک لاکراہ فی الدین یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبرو دبائو جائز نہیں ہے۔ کیا قرآن مجید کی اس غلط توجیہہ کے پیش نظر یہ کہنا درست ہوگا کہ مولانا اور ان کی جماعت قرآن سے پھر گئی ہے لٰہذا اسے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے ؟ کبھی نہیں۔ ان کی بعض توجیہات کتنی ہی غلط کیوں نہ ہوں لیکن جب تک وہ قران کو حکم مانتے ہیں دنیا کی کوئی طاقت انہیں اسلام سے خارج نہیں کرسکتی۔ یہی اصول قادیانیوں کے حق میں ناطق ہونا چاہئے- جب تک کوئی شخص قرآن اور رسول مقبول~صل۱~ کی رسالت کا اقرار دی ہے وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اسے مسلمان قرار دیا جائے۔ اس سے اتر کر کوئی غلط توجیہہ کسی شخص کو خارج از اسلام کا سزا اور انہیں ٹھہرا سکتی۔ ہم علماء سے اپیل کریں گے کہ وہ سیاسی اغراض کی تکمیل کیلئے اسلام کو آلہ کار بنا کر خدارا اسے بدنام نہ کریں۔ بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ نے ملک میں ایک سو فیصدی اسلامی دستور کے نفاذ کی ضمانت دے دی ہے اور اس لحاظ سے علمائی اب تک رپورٹ میں کوئی نقص نہیں نکال سکتے ہیں اب اور کچھ نہیں تو وہ قادیانیت کا نعرہ ہی وہ آخری سہارا رہ گیا ہے کہ جس کی مدد سے وہ حکومت کی درگت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ طریق نہ وطن دوستی کے موافق ہے اور نہ اسلام کے مطابق۔ ملک کا کوئی سچا بہی خواہ قوم کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لائے گا کیونکہ اتحاد اور یکجہتی ہی پاکستان کے بقاء و استحکام کے اصل ضامن ہیں۔ علاوہ ازیں مذہب کے معاملات ہیں تشدد کی تعلیم دینا اسلام کے بھی سراسر منافی ہے۔ کیونکہ اسلام مذہبی اختلافات طے کرنے کیلئے ایک ہی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ دلائل و براہین کا ہتھیار ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قادیانیوں کو دلائل سے سمجھائیں کہ ختم نبوت کے متعلق ان کی پیش کردہ توجیہہہ درست نہیں ہے اور اس طرح انہیں اپنے مسلک پر لانے کی کوشش کریں۔۲۲۱]ydob [tag
ایک روسی مورخ کا نظریہ
سوویٹ روس کے ایک مورخ Polonskaya) Gordon۔R۔L Gamkovsky ۔V۔(Yu میں ۱۹۵۳ء کی شورش کے ضمن میں لکھتے ہیں:۔
مخالف بورژوا اور جاگیردار عناصر کے نزدیک احمدیون کی ترقی ان کے حقوق اور مراعات پر ایک خطرے کا رنگ رکھتی تھی چنانچہ ۱۹۵۲ء۔ ۱۹۵۳ء میں مذہبی بدعات کا قلع قمع کرنے کا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ قادیانی جماعت مسلمانوں کی حکومت` تجارت اور زراعت میں ایک آزادی پارٹی کی طرح ہر جگہ مخالفت کرتی تھی )قادیانی مسئلہ صفحہ ۱۷( اور حقیقت میں یہی وجہ تھی جو مودودی صاحب کیلئے سردردی کا موجب تھی۔
شہنشاہیت )سرمایہ داری( کے مابین حریفانہ سرگرمیان بھی احمدیہ جماعت کی مخالفت میں پیش پیش تھیں۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی پاکستان سی امریکہ کے قریبی تعلق کی حامی تھی اور اب وہ احمدیوں کے برطانیہ سے پرانے تعلقات کی شاکی تھی۔
احمدیوں کے خلا ایجی ٹیشن اونچے بورژوا کی اس بے چینی کا اظہار بھی تھا کہ یہ جماعت انگریزوں سے پرانے تعلقات کو نباہے چلی جاتی ہے۔ اور یہ وہ طبقہ تھا جو امریکہ کی طرف مائل تھا۔ امریکہ کی کوشش بھی یہ تھی کہ برطانیہ نواز حلقے کی جگہ ایسے لوگ برسراقتدار آجائیں جو اس کی طرف زیادہ مائل ہوں۔۲۲۲
)ترجمہ و تلخیص(
ارباب حل و عقد سے براہ راست رابطہ اور ملاقاتیں
جماعت اسلامی کے رخ کردار پر ضمناً روشنی ڈالنے کے بعد ہم بتاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ پاکستان کا مرکز` اس کی صوبائی شاخوں کے امراء اور دیگر ذمہ دار احمدی )جو حب الوطنی کے قابل تسخیر جذبہ سے سرشار تھے( شورش کے ابتدائی دنوں ہی سے افسران حکومت کو خطوں اور تاروں کے ذریعہ صورت حال سے باخبر رکھنا اپنا قومی اور ملی فرض سمجھتے تھے۔
اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے مرکزی نمائندوں نے چوٹی کے سرکاری افسروں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ چنانچہ ۱۷ جولائی ۱۹۵۲ء کو علمائے سلسلہ کے تبلیغی وفد کی وزیراعظم پاکستان سی ملاقات کا ذکر آچکا ہے اس کے بعد جماعت کے سربرآور وہ حضرات بزرگ` گورنر صاحب پنجاب )۲۳ اگست ۱۹۵۲ء و ۲۰۔۲۲ فروری ۱۹۵۳ء( چیف سیکرٹری صاحب پنجاب )۱۳ دسمبر ۱۹۵۲ء( ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب )۱۳ دسمبر ۱۹۵۲ء۔۳۱ جنوری و ۲ فروری ۱۹۵۳ء( اور وزیراعلیٰ صاحب پنجاب )۰۲۔۲۲ فروری ۱۹۵۳ء( سے بھی ملے۔
اس دور کے جماعتی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب کے افسران سے ملاقات کرنے والوں میں حضرت مولانا عبدالرحیم دردؓ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب جیسی ممتاز اور اہم شخصیات بھی تھیں۔
حقائق و واقعات سے باخبر ہونے کے باوجود پنجاب کی مسلم لیگی وزارت نے جس قسم کا سلوک احمدیوں س روا رکھا اس کا خلاصہ جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کے الفاظ میں یہ ہے کہ:۔
>احراریوں سے تو ایسا برتائو کیا گیا گویا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیا۔<۲۲۳
حالانکہ چیف سیکرٹری پنجاب جناب عبدالحمید صاحب تک بھی بخوبی جانتے تھے کہ:۔
>احرار اس نزاع میں جارحانہ انداز لئے ہوئے تھے اور احمدی صرف مدافعت کررہے تھے۔<۲۲۴
اور مطالبہ اقلیت کی نسبت تو ان کی دو ٹوک رائے یہ تھی کہ:۔
>جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اسے مسلمان ہی تصور کرنا چاہئے۔ اگر پاکستان کو ایک زندہ قوم رہنا ہے تو میری رائے میں مسئلہ کا یہی واحد حل ہے۔ اس رائے کو دوسرے لفظوں میں یوں پیش کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص کلمہ طیبہ پڑھے اسے مسلمان سمجھنا چاہئے۔ کلمہ گو افراد اور مسلمان ہونے کے مدعیوں کے درمیان خلیج حائل کرنا معاشرہ پر دشمنی پر مبنی اقدام ہے۔<۲۲۵
پنجاب مسلم لیگ وزارت کی سیاسی پالیسی
جناب چوہدری فضل الٰہی صاحب۲۲۶ اس دور کی مسلم لیگی وزارت پنجاب کی سیاسی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
۱۔ >قادیانیوں کے خلاف تین مطالبات کی منظوری کیلئے جو ایجی ٹیشن شروع کی گئی تھی اس کی اصلیت پر پردہ ڈالنے کیلئے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے ایک >آئینی ڈھونگ< رچایا تھا۔ حکومت پنجاب نے عدالت کو بتایا ۱۹۴۸ء میں پہلی بار جب یہ مطالبات پیش کئے گئے تھے اس وقت سے ہی صوبے میں احرار احمدی تنازعہ کو ہمیشہ امن و امان کا ایک مسئلہ سمجھا گیا تھا اور اسی نقطہ نظر سے اس مسئلہ سے نپٹا گیا تھا اور جولائی ۱۹۵۲ء تک اس مسئلہ کو امن عامہ کا ہی مسئلہ سمجھا جاتا رہا لیکن جولائی ۱۹۵۳ء تک میان ممتاز محمد خان دولتانہ نے اچانک ان مطالبات کی >آئینی نوعیت< >دریافت< کر لی۔
مغربی کے تعلیم یافتہ مسٹر دولتانہ جو >ترقی پسندانہ زرعی اصطلاحات< کے مصنف بھی ہیں ان کے احراریوں مذہبی رہنمائوں کے درمیان کوئی بات مشترک تو نہ تھی البتہ سابق وزیراعلیٰ )میاں دولتانہ( اس ایجی ٹیشن کو مرکز کے خلاف اپنے سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔<۲۲۷
۲۔ > اس دوران میں جو پالیسی اختیار کی گئی تھی وہ کمزور` الجھی ہوئی اوت تذبذب پر مبنی تھی حالانکہ کراچی کے فیصلوں نے گول مول بات کی کوئی گنجائش نہیں رکھی تھی اور لاقانونی کو سختی کے ساتھ روکنا تھا۔<
>میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو ۱۶ فروری ہی کو معلوم ہوگیا تھا کہ قادیانیوں کے خلاف مطالبات کے سلسلہ میں خواجہ ناظم الدین کا موقف کیا ہے` جب ویزراعظم نے مسٹر دولتانہ سے کہا تھا کہ وہ مطالبات کو منظور نہیں کرسکتے لیکن مسٹر دولتانہ کے ہاتھ میں دو پتے تھے اور وہ دو طرح کی باتیں کرتے تھے اور اب بھی انہوں نے کوئی قطعی موقف قائم نہیں کیا۔<
۳۔ >مطالبات اگر منظور کر لئے جائیں تو مسٹر دولتانہ اپنی حضور باغ کی تقریر کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے کہ انہیں ان کے مطالبات سے ہمدردی تھی اور اگر وہ مسترد کردیئے جائیں تو وہ اپنے دوسرے بیانوں کا حوالہ دے سکتے ہیں۔<۲۲۸
۴۔ >سابق وزیراعلیٰ نے ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائڈ کا پارٹ ادا کیا اور پنجاب میں حکومت کے حامی اخبارون نے نفرت کی تبلیغ کی مسٹر دولتانہ چاہتے تھے کہ مرکز قادیانیوں کے خلاف مطالبات کو رد کر دے تاکہ وہ تحریک والون کے غیض و غضب کا رخ مرکز کی طرف موڑ سکیں اور احرار سے اپنے تعلق کو اپنے سیاسی اغراض کیلئے استعمال کرسکیں۔ یہ دعویٰ حقائق پر مبنی ہے کہ خواجہ ناظم الدین جو اس وقت وزیراعظم تھے علماء سے ملاقاتیں کر کے کچھ اس قسم کا تاثر پیدا کررہے تھے کہ تحریک پر مہربان ہیں۔
جون ۱۹۵۲ء تک تحریک احرار تک محدود تھی اور یہ کہ ۱۳ جولائی سی ۱۰ اگست تک ختم نبوت تحریک کے سلسلہ میں کوئی جلسہ نہیں ہوا۔ یہ بتاتے ہوئے وکیل موصوف نے کہا کہ مسٹر دولتانہ نے ۲۶ جولائی کو ایک قرار داد منظور کرنے کیلئے صوبائی مسلم لیگ کا جلسہ بلایا۔ قرار داد کے پہلے حصہ میں ختم نبوت کے اصول سے گہرے لگائو کا اظہار کیا گیا اور صورت حال کا الزام قادیانیوں کو دیا گیا۔ دوسرے حصہ میں تحریک کو ایک راستے پر ڈالنے کی اس طرح کوشش کی گئی تھی کہ عام لوگوں سے اپیل کی گئی کہ صوبے میں امن اور قانون کو قائم رکھئے اور مرکز سے رجوع کیجئے کہ وہی اس مسئلہ کو طے کرسکتا ہے۔
متذکرہ بالا قرار داد نے کراچی کا رستہ دکھایا اور وفود خواجہ ناظام الدین سے ملنے روانہ ہونے لگے۔ جب علماء واپس آئے تو انہوں نے سابق وزیراعظم کے طرز عمل پر بے اطیمنانی کا اظہار کیا۔< ۲۲۹
جناب خواجہ ناظم صاحب )وزیراعظم پاکستان( اور جناب میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ )وزیراعلیٰ پنجاب( کی اس رسہ کشی کی حقیقی وجہ مشہور احراری لیڈر جناب مولوی مظہر علی صاحب اظہر کے الفاظ میں یہ تھی کہ:۔
>مسٹر دولتانہ چاہتے تھے کہ مرکزی کابینہ مین ان کے چنے ہوئے وزراء پنجاب کی نمائندگی کریں لیکن یہ بات خواجہ ناظم الدین کیلئے ناقابل قبول تھی۔ خواجہ ناظم الدین کو مسٹر دولتانہ سے شکایت تھی کیونکہ انہوں نے مساوی نمائندگی کے مسئلہ پر ان کی مخالفت کی تھی۔< ۲۳۰
جناب میاں ممتاز محمد خاں صاحب دولتانہ نے بھی اپنے ایک بیان میں یہ تسلیم کیا کہ:۔
>خواجہ ناظم الدین کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ آئینی ڈھانچہ کے سوال پر ہمارے درمیان اختلاف تھا۔ وہ سمجھتے کہ پیرٹی کے سوال پر بس میں ان کے فیصلہ کی راہ میں حائل ہورہا ہوں ۲۳۱نیز بتایا کہ:۔
>کراچی میں مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کے اجلاس میں میں نے وزیراعظم اور دوسرے اصحاب پر یہ واضح کردیا تھا کہ پنجاب کے عوام مساوات کے خلاف ہیں۔< ۲۳۲
)اس موقف نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں میں پنجاب کے خلاف جو زہر پھیلا دی ہوگی اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے(
خالص سیاسی تحریک
تحریک راست اقدام کا خالص سیاسی ہونا حکومت کے ذمہ دار افسروں پر روز روشن کی طرح واضح تھا چنانچہ میاں انور علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی آئی ڈی نے ایک بیان میں کہا:۔
>احرار پارٹی اپنی پرانی سیاسی پوزیشن حاصل کرنا چاہتی تھی اور احرار کا خیلا تھا کہ مطالبات پر زور دینے سے حکومت پریشان ہوگی اور احرار کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔<۲۳۳
>یہ مطالبات کہنے کو تو مذہب کے نام پر پیش کئے جارہے تھے لیکن بہت سی جماعتیں جانتی تھیں کہ یہ بنیادی طور پر سیاسی جھگڑے ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔ ان مطالبات کو چونکہ مذہبی رنگ دے کر پیش کیا جارہا تھا اس لئے سرکاری ملازموں کیلئے یہ ایک نازک و پیچیدہ مسئلہ بن گیا تھا کہ وہ کارروائی کریں تو اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ مطالبات کی مخالفت کررہے ہیں۔<۲۳۴
>تحریک ختم نبوت میں احرار پیش پیش تھے کیونکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شہرت بحال کرنا چاہتے تھے۔<۲۳۵
اس سلسلہ مین احرار نے جناب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ وزیراعلیٰ پنجاب سے ایک خفیہ سمجھوتہ کیا تھا جس کا سراغ ہمیں جناب` >غازی< سراج دین صاحب منیر کے ایک تحریری بیان سے ملتا ہے جو انہوں نے تحقیقاتی عدالت پنجاب میں دیا تھا۔۲۳۶ اس سمجھوتہ کی بعض تفصیلات محمد نور الحق قریشی ایم۔اے` ایل ایل بی ایڈووکیٹ ملتان کی کتاب >سوانح حیات خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آباد کے صفحہ ۳۶۵`۳۶۶`۳۶۷ میں بھی درج ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص معاہدہ کے تحت احراری لیڈروں نے انتخاب ۱۹۵۱ء کے دوران حلقہ بوریوالہ میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کے حق میں کنویسنگ کی اور میاں صاحب انتخاب جیت گئے جس سے احرار دولتانہ پیکٹ کی بنیادی پڑی۔ انہی حقائق کی بناء پر جناب حمید نظامی صاحب مدیر >نوائے وقت< نے قطعی طور پر یہ رائے قائم کی کہ احراری مطالابت ہرگز قبول نہیں کئے جانے چاہئے تھے اور یہ مطالبات بعض سیاسی لاطع آزمائوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے کئے تھے۔<۲۳۷
گٹھ جوڑ کے مقاصد ؟
یہ سیاسی طالع آزما کیا چاہتے تھے اور ان کے گٹھ جوڑ کے بنیادی مقاصد کیا تھے ؟ اس بارے میں مختلف آراء ہیں۔
ادارہ ثقافت اسلامیہ کے سربراہ جناب خلیفہ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب ایم ۔ اے` پی ایچ۔ ڈی کا بیان ہے کہ >پاکستان ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے ہیں میں ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے فتوٰ دیا کہ ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں۔ ایک اور فرقہ کی نسبت پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں۔ فرمایا کہ وہ سب واجب القتل ہیں۔ یہی عالم ان تیس بتیس علماء میں پیش پیش اور کرتا دھرتا تھے جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقے کو تسلیم کر لیا جائے سوا ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے۔ ہیں تو وہ بھی واجب القتل مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں` موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جہا فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شڑوع کیا ہے اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی۔< ۲۳۸
مسٹر عبدالرحیم شبلی بی کام سابق چیف ایڈیٹر روزنامہ >زمیندار< کا بیان ہے کہ:۔
>اس زمانے میں یہ خیال تھا کہ صوبہ میں گڑ بڑ ہوگی اور دفعہ ۹۲ الف کے تحت صوبائی اسمبلی توڑ دی جائے گی جس کے بعد نئے انتخابات کی ضرورت پڑے گی۔ ایسی ہنگامی صورت حال کیلئے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ میاںممتاز دولتانہ ختم نبوت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے۔<۲۳۹
حیرت انگیز انکشاف
لیکن جناب چوہدری فضل الٰہی صاحب نے پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ:۔
>مسٹر دولتانہ کی اس سیاست بازی کا مقصد صرف داخلی نہ تھا بلکہ بین الاقوامی سیاست سے بھی متعلق تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ خواجہ ناظ الدین کو اقتدار کی کرسی سے اتار پھینکیں` خود اپنی قیادت میں ایک مرکزی حکومت قائم کریں اور پاکستان کو ایک کمیونسٹ مملکت بنادیں۔< ۲۴۰
پنجاب سول سیکرٹریٹ کا خط مرکزی وزارت داخلہ کے نام
جوں جوں ۲۲ فروری ۱۹۵۳ء کی میعاد کے اختتام کا وقت قریب تر آتا گیا سول وار کی تیاریاں زیادہ زور شور سے ہونے لگیں۔ اس پرآشوب دور کی کیفیت پر پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور کا مندرجہ ذیل خط خوب روشنی ڈالتا ہے۔ یہ خط ۲۱ فروری ۱۹۵۳ء کو وزیراعلیٰ پنجاب کی منظوری سے سیکرٹری حکومت پاکستان وزارت داخلہ کراچی کو لکھا گیا تھا:۔
>نمبر BDSB۔2249
پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور
۲۱ فروری ۱۹۵۳ء
مکرمی احمد صاحب
ازراہ کرم غیاث الدین احمد کی ڈی او چٹھی نمبر BDSB۔1482 مورخہ ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۲ء بنام حمید الدین احمد جو احمدی احرار شورش کے موضوع پر لکھی گئی تھی بغرض حوالہ پیش نظر رکھ لیجئے۔
۲۔ کچھ وقت کیلئے شورش کی رفتار نرم پڑ گئی تھی لیکن حال ہی میں عوام کی دلچپسی کو تیز کرنے کی کوششیں خاصی شدت کے ساتھ دوبارہ جاری کردی گئی ہیں۔ صوبے بھر میں بے شمار کانفرنسیں اور جلسے منعقد کئے گئے ہیں اور آتش ریز تقریر کی گئی ہیں۔ ملائوں کی تائید و حمایت حاصل کر لی گئی ہے اور احمدیوں کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے۔ گوجرانوالہ میں مطبوعہ اشتہارات نشر کئے گئے جن میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ احمدیوں سے اچھوتوں کا سا سلوک کیا جائے اور کھانے پینے کی چیزوں کی دکانوں پر ان کے کیلئے علیحدہ برتن رکھے جائیں۔ کچھ مدت تک ضلع گوجرانوالہ میں اس امر پر بھی زور دیا گیا ہے کہ احمدیوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ صرف پولیس کی مداخلت ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ ایسے واقعات نہ ہونے پائے۔ احمدیوں نے جو اس نئی حرکت سے بہت زیادہ مضطرب ہوگئے تھے ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کو درخواست دی کہ انہین اپنا علیحدہ قبرستان میں ایک احمدی میت کی تدفین کے خلاف مزاحمت کی گئی۔ پولیس موقعہ پر پہنچ گئی جس سے صورت حال پر قابو پالیا گیا۔ احمدیوں کے مجلسی مقاطعہ کی تلقین کھلم کھلا کی جارہی ہے۔ منٹگمری میں ایک مقرر نے کہا کہ احمدیوں کی دکانوں پر پکٹنگ کیا جائے اور ان کی عوامی کنووں سے پانی بھرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ شورش کا لہجہ قطعی طور پر نہایت پست اور متبذل صورت اختیار کر گیا ہے۔ صوبے بھر میں رضا کاروں کی بھرتی کیلئے ایک مہم کا آگآز کردیا گیا ہے اور صاحبزادہ فیض الحسن پہلا ڈکٹیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ رضا کاروں سے ایک حلف نامے پر دستخط کرائے جاتے ہیں کہ اگر رسول پاک کی عزت کیلئے جان دینے کی ضرورت پڑے گی تو وہ اس میں دریغ نہ کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض رضا کاروں نے حلف نامہ اپنے خون سے لکھ کر پیش کیا ہے۔ لاہور میں کوئی ڈیڑھ سو اشخاص بھرتی ہوئے ہیں۔ صوبے کے دوسرے حصوں میں اب تک جو رضا کار بھرتی ہوئے ہیں ان کی تعداد کا اندازہ پانچ سو کے قریب کیا جاتا ہے۔ صوبے بھر میں پچاس ہزار رضاکاروں کو بھرتی کرنا مقصود ہے۔ ماسٹر تاج الدین انصاری )صدر آل پاکستان مجلس احرار( سید مظفر علی شمسی )سیکرٹری ادارہ تحفظ حقوق شیعہ( اور صاحبزادہ فیض الحسن کا رویہ خصوصاً جارحانہ ہورہا ہے۔
۳۔ آل پاکستان پارٹیز کنونشن جو گزشتہ ماہ جولائی میں احراریوں نے مرتب کی تھی اس کا ایک اجلاس ۱۶ جنوری سے ۱۸ جنوری تک کراچی میں منعقد ہوا جس میں حسب معمول مطالبات کی قرار دادیں منظور کی گئیں۔ اس کنونشن کے مندوب جب سے پنجاب واپس آئے ہیں ان کا طرز عمل پہلے کی نسبت زیادہ سرکشانہ ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کراچی میں علماء کی کانفرنس نے احمدیوں کو ایک اقلیت قرار دینے کی جو حمایت کی اس سے ان لوگوں کو بہت تقویت پہنچی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ وزیراعظم نے جن سے وہ ملاقات کرچکے ہیں ان کے مطالبات سے ہمدردی نہیں کی۔ لٰہذا انہوں نے صاحب موصوف کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ ۲۳ فرور کو راست اقدام کریں گے۔ وہ ظاہر کررہے ہیں کہ کراچی کے عوام ان کے حامی ہیں اور اگر تحریک شروع کی گئی تو وہ جوق در جوق اس کی حمایت کریں گے۔ وہ مرکزی حکومت کے ارکان پر الزام عائد کررہے ہیں کہ انہوں نے وعدے کئے لیکن ان کا ایفاء نہ کیا۔ کراچی سے مندوبین کی واپسی کے بعد اس شورش میں ایک نئے پہلو کا اضافہ ہوگیا ہے یعنی عزت ماب وزیراعظم پاکستان کے خلاف بدگوئی اور دشنام طرازی کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ شورش کے ابتدائی مرحلوں میں سر ظفر اللہ خاں کی موقوفی کا مطالبہ کیا جاتا تھا لیکن اب بعض مقررین یہ کہہ رہے ہیں کہ عزت ماب وزیراعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہئے۔
۴۔ کہا جاتا ہے کہ` ڈائریکٹ ایکشن` کراچی میں شروع کیا جائے گا اور اس کیلئے رضا کار پنجاب اور دوسرے صوبوں سے بھیجے جائیں گے` ڈائریکٹ ایکشن` احمدیوں کی دکانوں پریکٹنگ کی شکل اختیارکرے گا۔ یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت احکام جاری کئے گئے تو ان کی خلاف ورزی کی جائے گی۔ مطالبات حسب ذیل ہیں:۔
‏(i) سر ظفر اللہ خاں کو وزیر خارجہ کے عہدہ سے برطفف کیا جائے۔
‏(i) احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
‏(iii) جو احمدی حکومت کے گلیدی عہدوں پر قابض ہیں ان کو ان عہدوں سے موقوف کیا جائے۔
۵۔ اس شرش کو جماعت اسلامی` اہل سنت و الجماعت` اہل حدیث اور شیعوں کی حمایت حاصل ہے۔ پیر صاحب گولڑہ شریف )ضلع راولپنڈی( پیر صاحب سیال شریف )ضلع سرگودھا( پیر صاحب علی پور سیداں )ضلع سیالکوٹ( پیر شوکت حسین )سجادہ نشین پیر صاحب ملتان( اور بعض دیگر حضرات نے اس شورش کو برکت کی دعا دی ہے۔ سرمایہ جمع کیا جارہا ہے اور ایک روپے کے نوٹ چھاپ کر فروخت کئے جارہے ہیں۔ بازاری اور غنڈہ عناصر نے بھی شورش پسندوں کی تائید و حمایت اختیار کر لی ہے۔ آزاد پاکستان پارٹی کی شاخ بہاولپور نے شورش پسندوں کو ایک ہزار روپے کی رقم عطا کی ہے۔
۶۔ جب یہ معلوم ہوا کہ عز ماب وزیراعظم ۱۶ تاریخ کو لاہور آرہے ہیں تو ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا جس میں اعلان کیا گیا وزیراعظم کے درود کی تاریخ کو ہڑتال کی جائے اور مکانوں کی چھتوں پر کالی جھنڈیاں لگائی جائیں۔ مقررین نے احتیاطاً اس بات پر زور دیا کہ تشدد سے کام نہ لیا جائے لیکن عملاً وہ عوام کے احساسات کو مشتعل کرنے میں برابر مصروف رہے بعض مقررین نے اپنی تقریروں میں کہا کہ نافرمانی شروع ہونے کی حالت میں پولیس کے جن ملازموں کو گرفتاریاں کرنے کا حکم دیا جائے انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ روز قیامت انہیں ان افعال کیلئے جواب دہی کرنی پڑے گی جو ان کے فرائض مذہبی کے منافی ہوں گے ۱۶ تاریخ کی صبح کو سکولوں کے لڑکوں اور بازار کے لونڈوں کے دستے ادھر ادھر بھیج دیئے گئے اور دکانداروں کو دکانیں بند کرنے کی ہدایت کی گئی۔ بہت سے لوگ اپنی دکانیں کھلی رکنا چاہتے تھے لیکن ان کو دھمکایا گیا اور وہ غریب ان لڑکوں اور دوسرے لوگوں کے سامنے جو بازاروں میں چکر کاٹ رہے تھے عاجز آکر دکانیں بند کرنے پر مجبور ہوگئے چند سکول بھی بند کردیئے گئے۔ دو ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں تشدد اور خونریزی تک نوبت پہنچ گئی۔ ایک واقعہ دیال سنگھ کالج کے باہر اور دوسرا تعلیم الاسلام کالج )احمدیوں کی درسگاہ( میں رونما ہوا۔ جب ان کا کالجوں کے طلب نے ہڑتال کرنے سی انکار کیا تو طرفین کی طرف سے خشت باری ہوئی اور لوگ زخمی ہوئے۔ سر ظفر اللہ خاں کا ایک جنازہ بھی نکالا گیا اور متعدد چھوڑے چھوتے جلوس بازاروں میں چکر لگانے لگے پابند قانون شہری ان مظاہروں کو پسند نہ کرتے تھے لیکن محض اس خوف سے ناپسندیدگی کا اظہار نہ کرتے تھے کہ مباد ان کو بھی احمدی قرار دے دیا جائے۔
۷۔ کہا گیا ہے کہ کراچی میں` ڈائریکٹ ایکشن` شروع کرنے کیلئے آخری تاریخ ۲۳۔ مقرر کی گئی تھی۔ احراری لیڈروں نے عوام کے غیظ و غضب کو اس حد تک مشتعل کردیا ہے کہ اب ان کیلئے پیچھے ہٹنا بے حد مشکل ہے۔ وہ بڑی تیز و تند اور جنگجویانہ تقریریں کرتے رہے ہیں اور انہیں محض اپنی عزت سلامت رکھنے کی خاطر بھی ۲۳ تاریخ کو کوئی نہ کوئی ڈرامائی اقدام کرنا پڑے گا۔
۸۔ لاہور میں قریب قریب ہر شب کو جلسے ہورہے ہیں جن میں احمدیوں کے خلاف عوام کے احساسات کو مشتعل کرنے کیلئے تقریریں کی جاتی ہیں۔ ۱۶ تاریخ کو بعض دکانداروں کے منہ کالے کردیئے گئے کیونکہ انہوں نے دکانیں بند کرنے سے انکار کیا تھا۔ دیال سنگھ کالج کے قریب مظاہرین نے ایک موٹر کار کو بھی کسی قدر نقصان پہنچایا ۔ ۱۸ تاریخ کو نارتھ ویسٹرن ریلوے کی ورکشاپ میں ایک احمدی جو کئی روز سے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا تھا غصہ میں بھر گیا تھا اور اس نے ایک غیر احمدی کو لوہے کی ایک سلاخ مار کر بے ہوش کردیا۔ اس وقت سے یہ احمدی مفرور ہے اور اس کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہیں۔ لاہور میں ایک ڈپو ہولڈر نے ایک احمدی عورت کے ہاتھ گیہوں فروخت کرنے سے انکار کردیا اور آخر اس وقت مہربان ہوا جب عورت نے یہ وعدہ کر لیا کہ احمدیوں کے خلاف جو تحریک شروع کی جائے گی وہ اس میں شامل ہوگی۔ سنت نگر کے پرائمری سکول کے ایک طالب علم کو اس کے ہم جماعتوں نے گھیر لیا۔ اس کو تھپڑ مارے اور مرزائی کتا` کے نعرے لگائے۔
۹۔ یہ شورش صرف اسی صوبہ تک محدود نہیں۔ نہ وہ مطالبات جن پر بظاہر` یہ شورش مبنی ہے صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں داخل ہیں اس لئے حکومت کو اس صورت حالات کا مداوا کرنے میں سخت دقت محسوس ہورہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اگر مرکزی حکومت ان مطالبات کے متعلق ایک مضبوط پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کرے تو صوبائی حکومت کے ہاتھ کافی مضبوط ہوجائیں گے۔ وہ پالیسی کچھ بھی ہو لیکن اس کے اعلان کے بعد کسی کو اس بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہے گا کہ حکومت پاکستان کا ارادہ کیا ہے اور وہ کیا رویہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔ صوبائی حکومت محسوس کرتی ہے کہ وہ صوبے کے اندر اس پالیسی پر عمل درآمد کرنے کیلئے کافی طاقتور ہے۔
‏]da [tagآپ کا مخلص
)دستخط( ایچچ۔ اے۔ مجید
‏tav.13.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ سالانہ ربوہ کی ایمان افروز اور انقلاب انگیز تقاریر
انسپکٹر جنرل صاحب پولیس پنجاب کا مراسلہ بنام چیف سیکرٹری پنجاب
اسی دن مسٹر انور علی انسپکٹر جنرل پولیس نے چیف سیکرٹری صاحب پنجاب کو حسب ذیل یادداشت بھجوائی:۔
>حکومت غالباً اس تقریر کی روائداد پر مطلع ہونے کی خواہاں ہوگی جو مولوی محمد علی جالندھری نے ۱۵ فروری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے ایک جلسہ میں کی۔ ایک بات خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے کہ ایک دفعہ زور فصاحت میں اس مقرر نے اعتراف کیا کہ وہ اور ان کی جماعت کی تقسیم ملک کے مخالف تھے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جن وجوہ کی بناء پر وہ تقسیم کے خلاف تھے وہ لوگوں پر ظاہر ہونے چاہئیں۔ لیکن اگر اب تک انہیں ان کا شعور حاصل نہیں ہوا تو ایک یا دو سال کے اندر انہیں سب علوم ہوجائے گا۔ اس نے حکومت کی شدید مذمت کی۔ اور اس کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف وزیراعظم پاکستان تھے۔ اس جلسہ میں مقررین نے پنجاب اور صوبہ سرحد کے چیف منسٹروں کو بھی برا بھلا کہا۔ وزیراعظم پاکستان کو کھلم کھلا مرزائی کہا جارہا ہے۔ ایک اور جلسہ میں عطاء اللہ شاہ بخاری نے ان کو >بدھو الذین احمقون< کہا۔ ان تقریروں کی خصوصیت صرف تحقیر تھی۔
۲۔ جس زمانہ میں غذا کی کمی ہو` بیروزگاری عام ہو` کاروبار کی کساد بازاری ہو اور کشمیر کے متعلق عام خیال یہ ہو کہ اس کو ہم کھو چکے ہیں۔ جو شخص بدنظمی اور ابتری پھیلانے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دوست نہیں ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ احرار اور دیگر علماء جو ان کی پشت پناہی کررہے ہیں عوام کی توجہ کو ان سنگین مسائل کی طرف سے آج جو ملک کو درپیش ہیں منحرف کرنے میں خاص طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔ اس ابتری کی وجہ سے عوام کا وہ عزم کمزور ہوجائے گا جو ان مسائل کا مقابلہ اور ان کا مداوا کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے پاس اس امر کی شہادت موجود ہے کہ احرار نے آزاد پاکستان پارٹی کی شاخ بہاولپور سے روپیہ لیا۔ یہ لوگ پاکستان کی بیخ کنی کررہے ہیں۔ حکومت کو کمر ہمت باندھ کر اس خطرہ کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ حکومت پڑھے لکھے طبقے کی ہمدردی کھوچکی ہے۔ اور اب غیر ملکی لوگ بھی یہ ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت غالباً اس بحران کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی جو علماء نے پیدا کررکھا ہے۔` لندن ٹائمز` کے نمائندہ نے حکومت پنجاب کے ایک افسر سے یہ کہا کہ مرکزی حکومت کمزور ہے اور موجودہ مسائل کے موثر مداوا کی قوت نہیں رکھتی۔ رات لاہور کے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی صورت حال بے حد تشویش انگیز ہے اور ایک عام ہنگامہ عنقریب برپا ہونے والا ہے۔ حسین شہید سہروردی` ملک خضر حیات خان اور نواب محدوث برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر سے ملاقات کرچکے ہیں۔ ہم نے مرکزی حکومت کو صورت حالات کی نزاکت سے مطلع کردیا ہے۔ امید ہے کہ وہ کوئی مضبوط طرز عمل اختیار کرے گی۔< ۲۴۱
اخبار >نگہبان< کراچی کا وقت انتباہ
اخبار >نگہبان< کراچی )۲۵ فروری ۱۹۵۳ء( نے سول نافرمانی کی دھمکی دینے والوں کو انتباہ کیا کہ:۔
>مولویوں کا ڈائریکٹ ایکشن ملک اور قوم کیلئے خطرناک ہوگا۔ اگر ڈائریکٹ ایکشن سے بدامنی یا خونریزی ہوئی تو اس کے ذمہ دار صرف مولوی ہوں گے۔ حال میں آرام باغ میں چند مولویوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں حکومت پاکستان کو ڈائریکٹ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ مولویوں کے مطالبات یہ ہیں کہ )۱( چوہدری ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے علیحدہ کیا جائے )۲( قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے )۳( قادیانیوں کو پاکستانکے کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔
ان تمام مطالبات کے جواز میں انہوں نے ایک قرار داد میں کہا کہ اس جماعت نے اسلام کے عظیم ترین رکن جہاد کی روح کو ختم کرنے کی کوششیں کیں۔ پاکستان کے قیام کی بھی شدید مخالفتیں کیں اور پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ربوہ میں حکومت پاکستان کے بالمقابل ایک متوازی نظام قائم کیا جارہا ہے۔ ہم پہلے بھی ایک مرتبہ تحریر کرچکے ہیں کہ ہمیں قادیانیوں یا ان کے عقائد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور ہم پھر ایک بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نہ تو قادیانی ہیں اور نہ قادیانیوں کے عقائد سے ہمیں کوئی ہمدردی ہے لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہیں گے کہ چند مولوی جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ ختم ہونے والا ایک تنازعہ ہو کر رہ جائے گا اور ملت اسلامیہ مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے گی اور جس لئے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا ایک خواب ہو کر رہ جائے گا۔
آج قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جارہا ہے تو کل شیعوں کو اور پھر حنفیوں کو اقلیت قرار دینے کے مطالبے ہوسکتے ہیں اور یہ سلسلہ اگر چل نکلا تو ملت اسلامیہ سینکڑوں فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور ہر مولوی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنا شروع کرے گا۔ ہم ان مولویوں سے جو چاہتے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے پوچھتے ہیں کہ کیا تم قادیانیوں کو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے سے روک سکتے ہو ؟ یا تم ان کو قرآن شریف کی تلاوت` نماز` روزہ اور زکٰوۃ سے منع کرسکتے ہو ؟ یا تم ان کے قرآن شریف کی تلاوت` نماز` روزہ اور زکٰوۃ اور اسی قسم کے دوسرے ارکان کو ادا کرنے سے روکے ؟ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ احکامات کی ادائیگی کرنے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے اس لئے مولوی قادیانیوں کو کس طرح غیر مسلم کہہ سکتے ہیں ؟ اب رہا یہ سوال کہ حضور~صل۱~ کو یہ قادیانی آخری نبی مانتے بلکہ مرزا غلام احمد کو مسیح موعود مانتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کی روح کو کچل رہے ہیں تو جناب آپ مولوی کس مرض کی دوا ہیں ؟ آپ کیوں نہین یہ تبلیغ کرتے ہیں کہ حضور~صل۱~ آخری نبی تھے اور مسلمان پر جہاد فرض ہے اور ان گمراہوں کو کیوں صحیح راستہ پر چلنے کی تلقین نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیوں نے قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی لیکن ہم مولویوں سی پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ کیا انہوں نے پاکستان کی مخالفت نہیں کی تھی ؟ کیا انہوں نے قائداعظم اور دوسرے مخلص مسلمانوں لیڈروں کے خلاف فتوے نہیں دیئے تھے ؟ جب مولویوں کا دامن پاک نہیں ہے تو وہ کس منہ سے یہ ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دیتے ہیں۔ کیا وہ ڈائریکٹ ایکشن کے نتائج سے واقف ہیں۔ کیا مسٹر سہروردی کی سول نافرمانی اور مولویوں کا ڈائریکٹ ایکشن ایک ہی چیز کی دو شاخیں ہیں ؟ ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے سے پہلے جذبات مولوی اچھی طرح سوچ لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا یہ قدم کسی آنے والی تباہی کا پیش خیمہ ہو۔ اگر ڈائریکٹ ایکشن سے پاکستان میں خونریزی اور بدامنی پھیلی تو اس کی ساری ذمہ داری حکومت پاکستان پر نہیں بلکہ ان مولویوں پر عائد ہوگی۔ مولویوں کیلئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ سارے ملک میں دین حق کی تبلیغ کریں اور گمراہ مسلمانوں کو راہ راست پر لائیں۔ ان مولویوں پر مولانا حالی مرحوم کا یہ شعر صادق آرہا ہے۔ ~}~
رہے اہل قبلہ میں جنگ ایسی باہم
کہ دین خدا پر ہنسے سارا عالم< ۲۴۲
پاکستان کی مرکزی کابینہ کی نظر میں مطالبات اور ڈائریکٹ ایکشن
پاکستان کی مرکزی کابینہ ڈائریکٹ ایکشن کو کس نگاہ سے دیکھتی تھی؟ اور مطالبہ اقلیت سے متعلق اس کا انداز فکر کیا تھا؟
ان سوالات کا واصح جواب ہمیں ان بیانات کی روشنی میں تلاش کرنا چاہئے جو مرکزی حکومت کے تین وزراء کی طرف سے فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت میں دیئے گئے اور جن کا ملخص انہی کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:۔
میںنے علماء سے کہا تھا کہ ان کے مطالبات کو منظور کرنا بہت مشکل ہے اور آئین میں اگر اس کی گنجائش رکھ بھی دی گئی تو مسلمان کی صحیح تعریف پر اتفاق رائے مشکل ہوجائے گا۔ جب میں نے مسلمانوں کی تعریف کا ذکر کیا تھا تو میرے ذہن میں ایک ایسی تعریف تھی جس کے مطابق احمدیوں پر پابندی لگادی جائے لیکن مسلمانوں کے دوسرے طبقوں پر اس کا اطلاق نہ ہو ختم نبوت کے مسئلہ پر مجھے علماء سے پورا پورا اتفاق ہے لیکن علماء کے اس بیان سے مجھے اتفاق نہیں کہ اس معاملہ میں ناموس پیغمبر علیہ السلام شامل ہے۔ پچھلے تجربات خاص طور پر تقسیم ملک سے پہلے کے تجربات نے بتایا کہ سول نافرمانی کی تمام تحریکیں اس اعلان کے ساتھ شروع ہوئیں کہ یہ پرامن رہیں گی لیکن ان تمام تحریکوں کا خاتمہ تشدد پر ہوا اور یہی چیز پنجاب میں ہوئی۔ اس تحریک کے پس پردہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میری مراد صوبہ پنجاب کے ان لیڈروں سے تھی جن کے ہاتھ میں صوبائی حکومت کی باگ ڈور تھی مجھے برابر اطلاع مل رہی تھی کہ خود وزیراعلیٰ اور ان کے افسر خود تحریک کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔
میں نے اعلیٰ اختیارات والی سہ روزہ کانفرنس میں )جو ۱۳ فروری ۱۹۵۳ء کو شروع ہوئی اور جس میں گورنر مشرقی پاکستان کے سوا پاکستان کے باقی صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تھی( کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ احمدیوں کو اپنے عقیدے کے مطابق دوسروں کو اپنے مذہب میں شامل کرنا چاہئے لیکن اس وقت کروڑوں غیر مسلم دائرہ اسلام سے باہر ہیں ان کا فرض اس طرح ادا ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو احمدی بنانے کی بجائے غیر مسلوں کو مسلمان بنائیں۔ اس سلسلے میں سر ظفر اللہ خاں نے دو سوالات کئے تھے )۱( کیا احمدیوں کو نجی کانفرنسیں کرنے کی اجازت ہوگی )۲( اگر کوئی مسلمان احمدیوں کا لٹریچر مانگے اور اگر اس کیلئے لٹریچر فراہم کردیا جائے تو کیا اس مسلمان پر کوئی اعتراض ہوگا۔ میں نے پہلے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر احمدی کسی مسلمان کو مدعو نہ کریں اور وہ مسلمان ان کی مجلس میں شریک ہوجائے تو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ دوسرے سوال کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ اگر احمدی اپنا لٹریچر مسلمانوں میں خود تقسیم نہ کریں اور کوئی مسلمان ان کا لٹریچر مانگے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اسی قسم کے دو ایک اور سوالا تھے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ گورنر پنجاب امیر جماعت احمدیہ پنجاب کو سہولت دیں گے کہ وہ اپنی جماعت کونسل کو بلا کر ان سے اس سوال پر بحث کریں گے۔
عدالت نے پوچھا کیا یہ درست نہیں ہے کہ یہ تینوں مطالبات اس فیصلہ کا نتیجہ تھے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہئے۔
خواجہ ناظم الدین صاحب نے اصرار کیا کہ کفر کے فتوے کا مطلب لازماً یہ نہیں کہ ایک فرقہ کو غیر مسلم اقلیت سے بدل دیا جائے۔ خلفاء راشدین کے عین بعد سے موجودہ وقت تک متعدد افراد اور جماعتوں کے خلاف کفر کے فتوے دیئے جاتے رہے ہیں لیکن تاریخ اس بات کی کوئی شہادت نہیں دیتی کہ ایسی وقت کو کبھی مسلمان کی حیثیت سے شہری حقوق سے محروم کیا گیا ہو۔ ایک مسلمان کے شہری حقوق فتویٰ نہیں چھین سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان کو غیر مذہبی مملکت قرار دیا جاتا تب بھی یہ تینوں مطالبات اپنی جگہ قائم رہتے اور انہین منوانے کیلئے اسی طرح زور دیا جاتا جس طرح اب دیا گیا ہے۔
سوال کیا گیا آپ نے علماء کو کیوں نہین بتایا کہ آپ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کے حق میں نہیں تھے ؟
جواب۔ اس کا نتیجہ علماء سے کھلی ٹکر لینے کے مترادف ہوتا جس سے میں اجتناب کرنا چاہتا تھا۔ میں نے محسوس کیا اگر میں علماء کو قائل کرسکا تو تحریک خودبخود ختم ہوجائے گی کیونکہ صرف علماء ہی تحریک کو ہوا دے رہے تھے۔ جہاں تک میری اطلاع کا تعلق ہے شیعہ ایک فرقہ کی حیثیت سے اس الٹی میٹم کے خلاف تھے۔ خود ساختہ نمائندہ سید مظفر علی شمسی نجی حیثیت سے موجود تھے۔ اہلحدیث اور دیوبندی گروہوں کی نمائندگی تو صحیح تھی لیکن یہ دونوں گروپ ڈائریکٹ ایکشن کے خلاف تھے پنجاب کے وزیراعلیٰ کو چاہئے تھا کہ وہ چند سرغنوں کو منتخب کر کے ان کے خلاف کارروائی کرے۔ احمدیوں بالخصوص چوہدری ظفر اللہ خاں کے خلاف تحریک کو چلایا گیا۔ لاہور میں اور پنجاب کے بعض اضلاع میں چوہدری ظفر اللہ خان کو گدھے یا کتے کی صورت میں دکھایا گیا۔ احمدیون کو مسلمانوں کے قبرستان میں مردے دفن کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ان کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا اور ان کی دکانوں پر پہرے بٹھادیئے گئے۔ اگر علماء نے احمدیوں کو محض کافر یامرتد کہا ہوتا اور میں پنجاب کا وزیراعلیٰ ہوتا تو میں ان کو اس بناء پر سزا نہ دیتا لیکن اگر علماء ایسی باتیں کہتے جن سے احمدیوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تو میں ضرور کارروائی کرتا۔ اگر قابل اعتراض ذرائع اختیار نہ کئے جائیں تو ایک جمہوری ملک میں حکومت کے سامنے ہر مطالبہ پیش کیا جاسکتا ہے۔۲۴۵۲۴۴
جناب سردار عبدالرب نشتر صاحب مرکزی وزیر صنعت وحرفت:۔
میری رائے یہ تھی کہ احرار کی سرگرمیوں کا یہ سبب ہوسکتا ہے کہ تقسیم کے بعد اپنی پوزیشن سے محروم ہوجانے کے بعد وہ عوام میں
اپنی جگہ دوبارہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد احرار نے پاکستان کی وفاداری کا اعلان کردیا لیکن احرار کی گزشتہ تاریخ کے پیش نظر مسلم لیگ بدستور ان کے بارے میں محتاط رہی۔ میری یہ رائے تھی کہ مسلم لیگ اگر احرار کے خلاف پراپیگنڈا کرے اور پاکستان کے عوام کو احرار کا ماضی یاد دلادے تو احرار ہمیشہ کیلئے ذلیل ہوجائیں گے۔ احرار نے یقیناً پاکستان کے خلاف کام کیا تھا۔
سوال کیا گیا آپ نے کسی احمدی لیڈر یا احمدی مقرر کو بھی انتباہ کیا تھا؟
جواب۔ نہیں مجھے فرقہ احمدیہ سے کسی بدامنی کا خدشہ نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا فرق ہے۔ ریاست کی بنیاد اگر قرآن اور سنت پر ہوئی تو احمدیوں اور غیر مسلموں کو اپنے عقائد کی علانیہ طور پر تبلیغ کرنے کی اجازت ہوگی۔ بنیادی حقوق میں اس کے متعلق ایک دفعہ پہلے ہی موجود ہے+ پاکستان میں گیر مسلموں کی حیثیت ذمیوں کی نہیں بلکہ معہدوں کی ہوگی کیونکہ وہ لوگ مفتوح نہیں ہیں۔
ان تینوں مطالبات میں سے کوئی مطالبہ قرار داد مقاصد یا بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی سفارشات سے پیدا نہیں ہوتا۔
جس مکتب خیال کی میں پیروی کرتا ہوں وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کوئی مہدی یا مسیحا آئے گا۔
سوال۔ کوئی شخص اگر غلطی سے لیکن دیانتداری کے ساتھ کسی کا یہ دعویٰ تسلیم کرے کہ وہ مہدی یا مسیحا ہے تو آپ کے مکتب خیال کے مطابق وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا ؟
جواب۔ میں اس کے متعلق یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۲۴۶
جناب مشتاق احمد صاحب گورمانی وزیر داخلہ:۔
حکومت پاکستان سمجھتی ہے ہر چند کسی فرقے یا طبقے کے جائز حقوق پر کوئی ناروا پابندی عائد نہیں ہونی چاہئے اورمختلف نظریات کے حامیوں میں کوئی امتیاز بھی روا نہیں رکھنا چاہئے تاہم مذہبی فرقہ بندی سے پیدا ہونے والے تنازعات کو اس حد تک بڑھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جہاں امن و امان ہی خطرے میں پڑ جائے۔ اس کے علاوہ جنگجویانہ اور جارحانہ نوعیت کی مذہبی فرقہ بندی کے خلاف غیر جانبداری اور سختی سے قدم اٹھایا جائے۔ ۲۴۷
جناب چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب وزیر خارجہ:۔
جہاں تک اپنے عہدہ کے متعلق میرے رویہ کا تعلق ہے میں اسے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں جو خدا وند تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے۔ یہ چیز قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر نہیں میں اسے ایک امانت تصور کرتا ہوں اور ذمہ داری بھی جسے میں معمولی نہیں سمجھتا اور دوسری طرف یہ بالکل واضح ہے کہ وزیراعظم اپنے کسی ساتھی سے استعفار طلب کرسکتے ہیں۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی تو میں نے نہایت واضح لفظوں میں اس وقت وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو یہ بتایا تھا کہ اگر وہ بار سمجھیں تو میں علیحدہ ہونے کیلئے ہر وقت تیار ہوں۔ ۲۴۸
حکومت پاکستان کا اعلامیہ
حکومت پاکستان کی طرف سے فروری ۱۹۵۳ء کے آخر میں حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا گیا:۔
>ملک کے بعض حصوں میں جماعت احمدیہ کے متعلق جو فرقہ وار تحریک جاری ہے اس کے ارتقاء کی نمایں خصوصیات سے عوام بے خبر نہیں ہیں۔ اس تحریک کے علمبرداروں نے اب حکومت کو تحکمانہ چیلنج دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو وہ >ڈائریکٹ ایکشن< کریں گے۔ اس تحریک کا آغآز احرار نے کیا تھا اور اگرچہ بعد اس کی تائید بعض دوسرے عناصر نے بھی کی لیکن اسے چلانے والے اب بھی احرار ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے احرار مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے شدید ترین اور پیہم مخالف تھے اور انہوں نے ان جماعتوں سے تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا جو حصول پاکستان کیلئے کوشاں تھیں بلکہ بہت سے احرار لیڈر کانگرس میں شامل ہو کر یا ایسی جماعتوں سے مل کر کام کرتے رہے جو قائداعظم کی تحریک آزادی کی دشمن تھیں۔ احرار نے اپنی تخریب پسندانہ سرگرمیوں کو قیام پاکستان کے بعد ترک نہیں کیا بلکہ اس کا حتمی ثبوت موجود ہے کہ احرار نے اب تک پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا اور وہ ملک کے دشمنوں سے مل کر نہ صرف مسلمانوں میں افتراق و نفاق پھیلا رہے ہیں بلکہ پاکستان کے استحکام پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرنے کے درپے ہیں۔ احرار کی موجودہ ایجی ٹیشن کا مقصد بھی ایک مذہبی تحریک کے پردے میں ملت اسلامیہ کی وحدت و سالمیت کو پارہ پارہ کرنے اور پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے سوال کچھ نہیں ہے۔
اب تک یہ ایجی ٹیشن عام جلسوں میں اشتعال انگریز تقریروں اور بعض اخبارات میں تحریروں کے ذریعے سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں بعض مقامات پر امن شکنی اور لاقانونی کے واقعات بھی رونما ہوئے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک کے علمبرداروں نے پورے ملک میں فتنہ و فساد پھیلانے کا تہیہ کر لیا ہے تاکہ حکومت اور عوام کو اپنے تحکمانہ مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو وہ براہ راست قدم اٹھائیں گے۔
دنیا کی کوئی حکومت اپنی آپ کو >ڈائریکٹ ایکشن< کی دھمکی سے مرعوب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی لٰہذا حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ امن و امان کو بقرار رکھنے کیلئے اپنے تمام تر ذرائع استعمال کرے گی۔ حکومت تمام متعلقہ عناصر کو متنبہ کردینا چاہتی ہے کہ اگر اس تحریک کے علمبرداروں کے الٹی میٹم کے نتیجہ میں امن عامہ میں کوئی خلل واقع ہوا تو قانون یقیناً حرکت میں آئے گا اور جو لوگ قانون شکنی کے مرتکب ہوں گے ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
بایں ہمہ حکومت کو امید ہے کہ اس تحریک کے علمبردار ہوش مندی سے کام لیں گے اور وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے امن عامہ میں خلل پڑتا ہو یا ان تخریب پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو جو عوام کے اعتماد کو ایک ایسے وقت میں متزلزل کرنے کے درپے ہیں جب پاکستان کو بعض اہم ترین اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت عوام کے ہر طبقہ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ کسی غیر آئینی حرکت کو برداشت نہ کرے اور اس بات کا خیال رکھے کہ کوئی ایسی سرگرمی نہ دکھائی جائے جس سے پاکستان کی وحدت اور سالمیت کے خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔< ۲۴۹
اعلامیہ کی ضرورت و اہمیت بھارتی لیڈروں کے بیانات کی روشنی میں
حکومت پاکستان کے اس اعلامیہ کا تجزیہ اگر بھارتی لیڈروں کے بیانات کی روشنی میں کیا جائے تو اس کی ضرورت واہمیت
بالکل عیاں ہوجاتی ہے۔
اس سلسلہ مین چند مشہور ہندوستانی زعماء کے بعض ضروری اقتباسات بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ ۲۵۰
۱۔ ۱۹۴۵ء میں پنڈت نہرو نے ایک سینئر برطانوی افسر سے کہا تھا کہ ان کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ وہ جناح کو ان کا پاکستان دے دیں گے اور پھر بتدریج پاکستان کیلئے معاشی طور پر اور دیگر لحاظ سے بھی ایسے حالات پیدا کردیں گے جن میں پاکستان کا وجود ناممکن ہو کر رہ جائے گا۔ پھر ان )پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں( کو جھک کر ہمارے سامنے آنا ہوگا اور یہ درخواست کرنی ہوگی کہ ہمیں ہندوستان میں دوبارہ شامل ہونے کی اجازت عطا کی جائے۔<۲۵۱
۲۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے ۶ جون کے پلان کی توثیق کرتے ہوئے حسب ذیل قرار داد منظور کی تھی:۔
>جغرافیائی حالات نے` پہاڑوں نے اور سمندروں نے ہندوستان کو ویسا ہی بنایا ہے جیسا کہ وہ اس وقت ہے اور کوئی انسانی طاقت نہ تو اس صورت و ہئیت کو تبدیل کرسکتی ہے اور نہ ہی اس آخری صورت کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے آل انڈیا کانگریس کمیٹی اس بات پر پورا پورا یقین رکھتی ہے کہ جب موجودہ جذبات شدت میں کمی آجائے گی تو ہندوستان کا مسئلہ اسی حقیقی تناظر میں دیکھا جائے گا اور دو قوموں کے مصنوعی نظریے کو تمام لوگ ساقط اور ترک کردیں گے۔< ۲۵۲
۳۔ ہندو مہاسبھا کی مجلس عاملہ کی قرار داد کے الفاظ یہ تھے:۔
>ہندوستان ایک وحدت ہے اور ناقابل تقسیم وحدت ہندوستان میں اس وقت تک امن قائم ہی نہیں رہ سکتا جب تک کہ الگ ہونے والے علاقوں کو انڈین یونین میں واپس نہ لایا جائے اور انہیں ہندوستان کا لازمی حصہ نہ بنایا جائے۔< ۲۵۳
۴۔ ۲۸ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ۳ قیام پاکستان کے چھ ہفتے بعد فیلڈ مارشل اکنلک نے لندن میں اپنے افسران بالا کو ایک خفیہ پیغام میں لکھا:۔
>اس امر کی تصدیق میں میرے پاس شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کہ موجودہ انڈین کابینہ اپنی ہر ممکن کوشش اور طاقت کے ذریعے پاکستان کی مملکت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہونے سے روکنے کا مصمم ارادہ کرچکی ہے۔ میری اس رائے سے میرے تمام سینئر افسر بھی متفق ہیں بلکہ اس کی تائید ہر وہ ذمہ دار برٹش افسر کررہا ہے جو حالات سے ذرہ برابر بھی آگاہ ہے۔<۲۵۴
۵۔ ایک بھارتی مصنف ستیاورتا مداس ٹپیل لکھتا ہے:۔
>پاکستان کا قیام بھارت کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان نے بھارت کی جغرافیائی وحدت کو پاش پاش کردیا ہے اس مصنوعی تقسیم سے ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر زد پڑی ہے جس سے نہ صرف بھارت کمزور ہو کر رہ گیا ہے بلکہ اس کی آزادی کو بھی خطرہ لاحق ہے ایک تعمیری ڈپلومیسی کا تقضا یہ ہوگا کہ اس تقسیم کو ختم کیا جائے یہی ایک صورت ہے جس سے بھارت ایک عظیم طاقت کی حیثیت سے ابھر سکتا ہے۔< ۲۵۵
۶۔ ایک اور مقام پر یہی مصنف لکھتا ہے:۔
>ہمیں پاکستان کو بھی ختم کرنے کی ویسی ہی کوشش کرنی چاہئے جس طرح ہم نے پرتگال کا گوا سے قبضہ ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس قدر ہم گواکی آزادی کے خواہاں تھے اسی قدر ہمیں پاکستان کو بھی آزاد کرانے کی خواہش کرنی چاہئے۔<
بھارتی پریس اور ایجی ٹیشن
ان دنوں بھارتی پریس ایجی ٹیشن کی خبریں جس رنگ میں شائع کررہا تھا اس کا ایک نمونہ دہلی کے اخبار تیج سے ملتا ہے۔ اس اخبار نے اپنی ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت کے صفحہ اول پر جلی قلم سے جو نمایاں ترین خبر شائع کی وہ یہ تھی کہ:۔
>لاہور میں ڈائریکٹ ایکشن کرنے والوں نے متوازی حکومت قائم کر لی<-
بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاری
پاکستانی فوج کے ایک ریٹائر نائک میاں غلام نبی صاحب کا بیان ہے کہ:۔
>ہمارے ختم نبوت کے فسادات کے موقع پر ان )بھارت( کی افواج کی تیز نقل و حرکت اور باڈر سے ذرا ہٹ کر پوزیشن سیٹ کرنا )مشقوں کے بہانے( نیز فسادات کے مرکز لاہور اور گرد و نواح میں ان کی جاسوسی اور مخالفانہ پراپیگنڈے کی زبردست سرگرمیاں یہ کیا تھا حتیٰ کہ جب ختم نبوت کا جھگڑا ختم ہوا تو جاسوسوں کے چرچا کی وجہ سے شہر میں بھارتی جاسوسوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا )ان دنوں ہم نے بھی علاقہ بارڈر کے قصبہ ہڈیارہ دیگر دیہات اور کھیتوں سے متعدد جاسوس گرفتار کرائے( تو تقریباً چالیس ہمارے مقامی مسلمان صاحبان بھی بھارتی جاسوسوں کے دست راست بنے ہوئیپائے گئے جن میں )بڑے افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ( چند ہمارے امام مسجد مولوی صاحبان بھی تھے۔ مگر اس کیس کو مصلحتاً ڈراپ کردیا گیا۔ حاصل یہ کہ ہمارے اندرونی اور داخلی جھگڑے کے اس موقع پر بھی دشمن` جو ہر وقت تاک میں تھا حملے کیلئے تیار ہو کر امڈ آیا۔< ۲۵۶
‏0] fts[ایک امریکی سکالر کی رائے
امریکہ A)۔S۔(U ایک ممتاز ادیب اور سکالر مسٹر ڈانلڈ این ولبر Wilber) ۔N ۔(Donald نے ۱۹۵۳ء کی شورش پنجاب کی نسبت لکھا ہے:۔
‏SO BECAME MOSLEMS OTHER BY THEM AGAINST DIRECTED AGITATION 1953 IN ""BUT۔STATE NEW THE OF FOUNDATIONS VERY THE SMOOK IT THAT VIOLENT۲۵۷
دوسرے مسلمانوں کی طرف سے ان کے خلاف ۱۹۵۳ء میں جو شدید ایجی ٹیشن برپا کی گئی اس نے اس نوزائیدہ مملکت کی بنیادیں تک ہلادیں۔
مشرقی پاکستان پریس کی طرف سے راست اقدام کی مذمت اوراسکا پس منطر
مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کی تحریک پاکستان سے متعلق خدمات ہمیشہ آپ زر سے لکھی جائیں گی۔ یہ فخر و امتیاز اسی خطہ کو حاصل ہے کہ
اس کے ایک بہادر سپوت نواب سلیم اللہ خاں کی تحریک اور دعوت پر ۱۹۰۶ء میں بمقام ڈھاکہ آلہ انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ اور دوسرے مایہ ناز فرزند آنریبل مولوی فضل الحق وزیراعظم بنگال نے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجلاس لاہور میں قرار داد پاکستان پیش کی جس کے بعد بنگالی مسلمانوں نے پاکستان کو قائم کرنے کیلئے لاتعداد قربانیاں دیں اور باوجودیکہ احرار کے ہم خیال کانگرسی اور نیشلسٹ علماء نے بنگال میں بھی پاکستان کی زبردست مخالفت کی حتی کہ پاکستانی خیال کے مسلمانوں پر کفر و ارتداد اور فسخ نکاح تک کے فتوے بھی لگائے مگر انہوں نے ۱۹۴۵ء۔۱۹۴۶ء کے انتخابات میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے۔
اس زمانہ میں نیشلسٹ اور کانگرسی علماء کے ہاتھوں بنگالی مسلمانوں پر کیا بیتی ؟ اور پھر کس طرح یہ نام نہاد علماء اپنے سیاسی اور مذہبی حربوں میں ناکام ہوئے ؟ اس کی تفصیل میں رسالہ >طلوع اسلام< )کراچی( لکھتا ہے کہ:۔
>مولویوں کا بہت بڑا طبقہ پاکستان کا دشمن تھا اور قیام پاکستان کے راستے میں ہر قسم کے روڑے اٹکا رہا تھا۔ انہوں نے ہندو زمینداروں اور ہندو ساہوکاروں سے ساز باز کررکھا تھا اور کسی طرح سے بھی مشرقی بنگال کے عوام تک >پاکستان< کی آواز نہیں پہنچنے دیتے تھے۔ لیکن پاکتان کی تحریک میں کچھ اس قسم کی جاذبیت تھی کہ مولویوں کی سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود مشرقی بنگال کے عوام تک یہ تحریک پہنچ ہی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کے عوام کو انگریزوں اور ہندوئوں نے اس طرح دبا رکھا تھا کہ وہ ان کی مرضے کے خلاف ایک لفظ تک زبان سے نہیں نکال سکتے تھے۔ وہاں کے سیدھے سادھے عوام پر بیک وقت تین جگر سوز عذاب مسلط تھے۔ انگریز` ہندو اور مولوی جس طرح مظلوم بنی اسرائیل کے سر پر فرعون` قارون اور ہامان سوار تھے۔
عوام کا ایک طبقہ کسی نہ کسی طرح انگریزوں اور ہندوئوں کے شکنجہ سے تو نکل آیا لیکن وہ مولوی کے آہنی پنجوں سے چھٹکارا نہ پاسکا۔ یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تاسف انگیز بات یہ تھی کہ عوام اپنے عوام سب سے بڑے دشمن مولوی کو اپنا دوست سمجھ رہے تھے حالانکہ یہ اسی کی سازشوں کا نتیجہ تھا کہ وہ اس قدر بری حالت تک پہنچ گئے تھے۔ عوام کی سادہ دلی اور شدید مذہبی رجحانات کی وجہ سے نہ صرف مقامی مولوی عوام کولوٹ رہا تھا اور اپنی من مانی کارروائی کررہا تھا بلکہ ہندوستان کے تقریباً ہر گوشہ سے بڑا بڑا اجغادری مولوی اور پیر ہر سال مشرقی بنگال پہنچ جاتا اور تبلیغ دین کے نام سے اپنی اپنی جھولیاں بھر بھر کر واپس آیا کرتا تھا۔ مولویوں کی آمد و رفت اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ اس طرح جاری تھا کہ ۱۹۴۶ء کے الیکشن کا اعلان ہوگیا جو پاکستان کے نام پر لڑا جارہا تھا۔ الیکشن کے سلسلہ میں کلکتہ اور بھارت کے دوسرے مقامات کے بہت سے مسلم لیگی لیڈروں نے مشرقی بنگال کا دورہ کیا اور لوگوں پر پاکستان کی اہمیت واضح کرنی شروع کردی۔ مسلم لیگی لیڈروں کا اثر اور عوام کو پاکستان کی حمایت پر آمادہ دیکھ کر ہندوئوں نے اپنے اجیر مولویوں کو مسلم لیگی لیڈروں کا زور توڑنے کیلئے بھیجا >روح جعفر< کے ان تازہ پیکروں نے اپنی تقریروں میں مسلم لیگی لیڈروں پر کفر کے فتوے لگائے۔ پاکستان کی تحریک کو انگریزوں کا شگوفہ بتایا اور ہر ممکن کوشش کی کہ یہ تحریک مقبول عام نہ ہونے پائے لیکن جناح کے خلوص اور پاکستان کے نام میں کچھ ایسی جاذبیت تھی کہ ہندوئوں اور انگریزوں اور مولویوں کے علی الرغم مسلم عوام نے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے اور ۱۹۴۶ء کے مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں بنگال کے تمام کے تمام ممبر نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ ان کے حریفوں کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں۔
الیکشن کے نتائج کے اعلان کے بعد مولویوں کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ انہیں ایسا معلوم ہوا کہ عوام نے ان سے بغاوت کردی ہے۔ ان کو اپنی شکست سے بڑا دھچکا لگا۔ بنگال کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ عوام نے مولویوں کی خواہش بلکہ حکم کے خلاف مسلم لیگ کے نمائندوں کو کامیاب بنایا تھا۔ انہیں اپنی ناکامیابی کا بڑا قلق تھا۔ پھر ان مولویوں کیلئے سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ انہوں نے جن ہندو ساہوکاروں اور زمینداروں سے روپے لے کر عیش کئے تھے وہ ہندو بھی ان سے ناخوش تھے اور انہیں ناخوش ہونا بھی چاہئے تھا۔ چنانچہ انہوں نے ان مولویوں کو دھمکی دی کہ اب ہم تمہاری کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ تم نے ہمارے لاکھوں روپے مفت میں ضائع کردیئے۔ ان مولویوں نے ہندوئوں کو سمجھایا کہ اس الیکشن میں اتفاقی طور سے شکست ہوگئی ہے ورنہ عوام کے دلوں پر اب بھی ہمارا راج ہے۔ اگر تم ہماری رد کرو تو ہم قیام پاکستان کے روکنے کیلئے سارے مشرقی پاکستان کے عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیں گے۔ ہندوئوں کی تو یہ دلی خواہش تھی ہی کہ جس طرح بھی ہوسکے قیام پاکستان کو روکا جائے چنانچہ انہوں نے دوبارہ اپنی تجوریوں کے پٹ کھول دیئے اور ان مولویوں پر بیدریغ روپے خرچ کرنے شروع کردیئے۔ جب مولوی کو روپے کی طرف سے اطیمنان ہوگیا تو اس نے اب منظم طریقے سے مشرقی بنگال پر دھاوا بول دیا۔
سب سے پہلے مولویوں کا گروہ مشرقی بنگال کے ایک بہت بڑے ضلع نواکھالی پہنچا۔ پورے بنگال میں نواکھالی مولویوں کا گڑھ شمار ہوتا تھا )بنگال میں یہ عام طور پر مشہور ہے کہ نواکھالی کے ضلع میں مولویوں کی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ ہے(
یہاں ان مولویوں نے مقامی مولویوں کے تعاون سے ایک بہت بڑا جلسہ کیا اور متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا کہ مسلم لیگ میں شریک ہونے والے` مسلم لیگ کو ووٹ دینے والے اور مسلم لیگ کی تحریک پاکستان کا ساتھ دینے والے فاسق` فاجر` کافر اور منافق ہیں۔ ان مولویوں نے اسی فتویٰ پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں جن لوگوں نے مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دئے تھے وہ سب کے سب کافر ہیں اور دین سے خارج ہوچکے ہیں لٰہذا ان کی بیویاں ان پر حرام ہوچکی ہیں اگر وہ صدق دل سے توبہکر کے دوبارہ مسلمان نہ ہوجائیں تو ایسے میاں بیوی کے درمیاں علیحدگی کرادگی جائے۔
مولویوں کے اس جلسہ میں شرکت کرنے والوں کا بیان ہے کہ کئی آدمی جلسہ ہی میں مولویوں کے >دست حق پرست< پر توبہ کر کے دوبارہ سلمان ہوئے اور مولوی صاحب نے ان کی بیویوں سے دوبارہ ان کا نکاح پڑھایا۔ نواکھالی کے اس جلسہ کو مولوی نے اپنی کامیابیوں کا پیش خیمہ قرار دے کر بڑے پیمانہ پر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا۔
جمعیتہ علمائے ہند کے سربراہ مولوی حسین احمدی مدنی اور ان کے شاگردان رشید` مریدان حق پرست اور دیگر حواربین پورے مشرقی بنگال میں پھیل گئے۔ مدنی صاحب ہر سال رمضان کے مہینہ میں سلہٹ آ جایا کرتے تھے اور عید کے بعد دیو بند واپس جایا کرتے تھے۔ سلہٹ اور اس کے پاس مولوی صاحب کا کافی اثر تھا اسی لئے انہوں نے سلہٹ کو اپنا ہیڈ کواٹر قرار دے کر اپنے آدمیوں کو بنگال کے مختلف علاقوں میں بھیجنا شروع کیا۔ مولوی صاحب کی امداد کیلئے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہندوئوں نے ہوائی جہازوں اور ریلوں سے مولویوں کی کھیپ کی کھیپ بھیجنی شروع کی۔ مگر تحریک پاکستان کچھ اس قدر سخت جان تھی کہ ان مولویوں کی ایک نہ چلی اور آخر کار ۳ جون کو تقسیم ہند کے فیصلہ کا اعلان ہو ہی گیا۔ اب ہندوئوں کو مولویوں کی بالکل ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہوچکی تھیں لیکن تقسیم ہند کے اعلان کے چند دنوں بعد مولویوں کا فیصلہ پھر جاگا اور آسام کے ضلع سلہٹ اور تھانوں میں رائے شماری کا اعلان ہوا۔ ہندوئوں نے پھر مولویوں کی خدمات حاصل کیں اور مولوی حسین احمد مدنی کی سرکردگی میں ہزاروں مولویوں کو سلہٹ بھیجا تاکہ وہ مسلم اکثریت کے شہر سلہٹ اور اس کے آس پاس کے علاقہ کو پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان میں شامل کراسکیں۔ ان مولویوں نے اپنی جانیں لڑا دیں مگر انہیں اس مرتبہ بھی منہ کی کھانی پڑی اور مولوی حسین احمد مدنی معہ حواریوں کے اپنا سا منہ لے کر مشرقی بنگال سے تشریف لے گئے۔ سلہٹ میں ان حضرات کی عبرت ناک شکست سے ایک بات تو بہرحال ثابت ہوگئی کہ مشرقی بنگال سے مولویوں کا اثر ختم ہوچکا ہے سلہٹ ریفرنڈم میں مولویوں کی شکست اصل میں ان کے اقتدار کا آخری دن تھا۔ جب مولویوں کی مخالفتوں کے علی الرغم پاکستان بن ہی گیا تو وہ مولوی جنہوں نے ہر ہر قدم پر پاکستان کے قیام کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور جنہوں نے قیام پاکستان کے راستے میں ہر قسم کی روکاوٹیں کھڑی کی تھیں وہ پاکستان کے زبردست دوست بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے کیلئے یہ سوچا کہ اگر تمام مولوی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو اس طرح ایک متحدہ محاذ بن سکتا ہے۔< ۲۵۸
مشرقی پاکستان کے مظلوم مسلمانوں نے جو احرار کے ہم مشرب کانگرسی علماء کے فتاویٰ تکفیر کی شمشیر بے نیام سے پہلے ہی زخم رسیدہ تھے اسلام کے نام پر سول نافرمانی کی دھمکی دینے والے احراری علماء کی شدید مذمت کی ۲۵۹ اور مسلم پریس نے ان کے خلاف پر زور نوٹ لکھے۔
اخبار شنگھا
۱۔ چنانچہ اخبار شنگھا )ڈھاکہ( نے یکم مارچ ۱۹۵۳ء کو >مذہبی عصبیت< کے عنوان سے حسب ذیل شذرہ سپرد قلم کیا:۔
بعض عناصر نے جو قادیانی جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں چونکہ گزشتہ جمعہ کو کراچی میں ڈائریکٹ ایکشن کا اعلان کر کے فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی اس لئے حکومت پاکستان نے جمعہ کی صبح ہی گیارہ سرکردہ علماء کو گرفتار کر لیا۔ حکومت کے اس بروقت اقدام سے ان لوگوں کا منصوبہ پیوند خاک ہوگیا۔
قارئین جانتے ہیں کہ بعض فرقے کچھ عرصہ سے بے وجہ مذہبی منافرت پھیلاتے چلے آرہے ہیں حالانکہ محض اپنی سیاسی مفاد کی خاطر کسی کے مذہبی عقائد کے خلاف عوام کو مشتعل کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ مذہب کے نام پر اختلاف کے ہم قائل نہیں۔ اتحاد اور نظام ہی اسلام کا بنیادی اصول ہے` اور اسی اصول پر پاکستان قائم ہوا۔
جن لوگوں نے کراچی میں جمعہ کے دن اپنے سیاسی اغراض کیلئے فتنہ اٹھانے کی کوشش کی ان کی سیاست سے پورا ملک باخبر ہے کہ وہ پاکستان کے ہرگز خیرخواہ نہیں ہیں جیسا کہ سرکاری اعلامیہ سے بھی ظاہر ہے۔
پریس نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس فتنہ کے بانی مبانی احرار تھے گو بعد میں بعض اور فرقے بھی ان کی تائید میں شامل ہوگئے۔ احرار تقسیم ملک سے قبل قیام پاکستان کے مخالف اور کانگرس کے ساتھی تھے احرارب عوام کو مذہبی عقائد کی آڑ میں اشتعال دلاکر سیاسی طور پر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ہمارا ملک اس امر کو سمجھنے کیلئے دماغ رکھتا ہے۔
اس فرقہ نے ملکی بٹوارہ کے وقت جو گھنائو ناکردار ادا کیا ہے اس کو دیکھ کر کوئی بھی پاکستانیاس کی موجودہ سرگرمیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے عوام مذہبی عصبیت کی تنگ نظری پسند نہیں کرتے اور نہ وہ ملک کے کسی مسلم یا غیر مسلم طبقہ یا فرد کے جمہوری حقوق کو نظر انداز کرسکتے ہیں لٰہذا ملک کو احراری طائفہ کی سازش سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ قادیانیوں کے خلاف خواہ مخواہ اشتعال پیدا کرنا پاکستان کیلئے مفید نہیں ہے۔ )ترجمہ(
اخبار >آزاد<
‏]0 [rtf۲۔ اخبار >آزاد< )ڈھاکہ( نے >اتحاد اور مذہبی عصبیت< کے عنوان سے حسب ذیل اداریہ لکھا-:
۱۷۔ فروری بوقت صبح کراچی میں گیارہ مشہور مولویوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان گرفتار شدگان میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی بھی شامل ہیں۔
۱۶۔ فروری کو ایک جلسہ عام میں مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ورنہ ڈائریکٹ ایکشن تجویز کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان کے ایک پریس کمیونک میں ان گرفتار شدگان کے متعلق کہا گیا ہے کہ چند روز سے احمدیوں کے خلاف ایک تحریک چل رہی ہے تحریک کرنے والوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے دعویٰ کو حکومت تسلیم نہکرے گی تو ڈائریکٹ ایکشن عمل میں لایا جائے گا۔ قیام پاکستان سے قبل احراری جماعت جو مسلمانوں کی تحریک آزادی کے مخالف تھی` اسی ٹولہ نے اب یہ تحریک شروع کررکھی ہے احراری قائداعظم کے خلاف کانگریس کے ساتھ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ان لوگوں کو پاکستان پسند نہیں۔ اور وہ پاکستان کے دشمنوں کی سازش اور امداد سے قومی اتحاد کو درہم برہم اور پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پہلے یہ لوگ اشتعال انگیز تقاریر اور اخباروں کے ذریعہ مخالفانہ پراپیگنڈا کررہے تھے مگر اب وہ تخریبی کارروائی پر اتر آئے ہیں۔ کوئی حکومت ایسی دھمکیوں کے سامنے جھک نہیں سکتی۔
یہاں پاکستان کے اتحاد اور استحکام کے خلاف تخریبی کارروائی کرنے والے فرقوں کی کوئی کمی نہیں۔ احراری ٹولی آج بھی اسی طرح پاکستان کی مخالف ہے جس طرح وہ گزشتہ زمانہ میں مخالفت کررہی تھی۔ اب یہی فرقہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلانے کے درپے ہے اور چند ماہ سے احمدیوں کے خلاف منافرت پھیلا رہا ہے۔ اس فرقہ نے طرح طرح کی سازشیں کیں اور بالاخر خون خرابہ تک نوبت پہنچی۔ حکومت پاکستان اب سختی کے ساتھ اس تحریک کو دبانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس شورش کو بہت عرصہ قبل پوری قوت سے دبا دیا جانا چاہئے تھا لیکن حکومت نے تغافل برت کر اس کو تخریبی کارروائی کا موقع دے دیا ہے۔ اس فرقہ کو جو پاکستان کے اتحاد و استحکام کا دشمن ہے اور مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا وجود ہی ملک کیلئے ناقابل برداشت ہے اور اس کے ساتھ کسی طرح صلح نہیں ہوسکتی۔ افسوس !! حکومت پاکستان اس فرقہ کے معاملہ میں خوشامدانہ طرز عمل اختیار کرتی چلی آرہی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ حکومت اب اپنی گزشتہ پالیسی کو بدل دی گی اور اس کو اپنے فولادی ہاتھوں سے دبا دینے اور کیفر کردار تک پہنچانے میں ذرہ برابر تامل نہ کرے گی۔ اس صورت میں حکومت نے بھی جو قدم اٹھایا اسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔ )ترجمہ(۲۶۰
اخبار >انصاف<
۳۔ روزنامہ >انصاف< نے اپنی ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں >ناقابل برداشت< کے زیر عنوان لکھا:۔
احرار نے قادیانیوں کے خلاف کیوں سر اٹھایا ؟؟ کیا یہ مذہبی مفاد ہے یا کچھ اور؟ احرار تقسیم ملک سے قبل ہمیشہ سیاست سے وابستہ رہے اور مذہب سے ان کو چنداں دلچسپی نہ تھی۔ اور یہ تو مشہور بات ہے کہ ہندو کانگریس کے مسلم کش لائحہ عمل کو دیکر کر سب مسلمان زعماء یکے بعد دیگرے کانگریس سے علیحدہ ہوگئے اور مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو کر اپنے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرنے لگے ان دنوں احرار نے کانگریس کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کی ڈٹ کر مخالفت کی لیکن ان کی ساری کوششیں اکارت گئیں۔
پاکستان اس وقت مسلم لیگ کی قیادت میں تیزی کے ساتھ شاہراہ ترقی پر گامزن ہے خصوصاً چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاتھوں اسے نہ صرف شہرت نصیب ہوئی بلکہ بین الاقوامی برادری ہیں اسے ایک نمایاں مقام حاصل ہوچکا ہے۔ ایسے مرحلہ پر چوہدری صاحب کو وزارت خارجہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ حکومت کے خلاف بغاوت نہیں تو اور کیا ہے ؟
ہم ہر پاکستانی سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ وقت اختلاف کا ہے ؟ ایسے وقت میں جب کہ ہمارا وطن مختلف مسائل میں الجھا ہوا ہے دارالسلطنت کے امن اور سرکاری نظم و نسق کو درہم برہم کرنے کا معمولی خیال رکھنے والے ہر شخص کو ہم مشکوک سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیلا ہے کہ ایسے لوگ پاکستان اور اسلام دونوں کے دشمن ہیں ان کی یہ حرکت ہر گز برداشت نہیں کی جاسکتی انہیں پوری قوت سے دبا دینے کی ضرورت ہے ورنہ آنے والی نسلوں کی نظر میں ہم قصور وار ٹھہریں گے۔ )ترجمہ(
رات اقدام کی دھمکی اور بھارتی مسلمان
بنگالی مسلمانوں کی طرح ہندوستان کے متدین اور ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے مسلمانوں نے بھی علماء کے راست اقدام کے فیصلہ کو انتہائی نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا۔
چنانچہ بمبئی کے مسلمان اخبار >انقلاب< نے احراری احمدی کشمکش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:۔
>فتنہ عظیم<
>پاکستانی علماء کدھر جارہے ہیں<
>پاکستان میں احراریوں نے احمدیوں کے خلاف جو ہنگامہ کھڑا کردیا ہے اس کی ہر سلیم العقل انسان مذمت کرنے پر مجبور ہے۔ ہمیں قادیانیوں کے مذہبی تصورات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ختم نبوت کے باب میں ان کے عقائد کو ہم قطعاً غلط تصور کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم اس ہنگامہ کی ہر گز تائید نہیں کرسکتے جو کراچی اور لاہور میں برپا ہے اور جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ مملکت پاکستانکو شدید نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں منافرت باہمی پھیلانے کا بھی شدید اندیشہ ہے۔ آج کے حالات میں جب کہ دنیا کے گوشہ گوشہ سے اتحاد اسلامی کی صدائیں بلند ہورہی ہیں اور مسلمانوں کا صاحب شعور طبقہ فروعی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے اپنی متحدہ طاقت کے بل پر اسلامی نشاۃ ثانیہ کا خواہ دیکھ رہا ہے۔ اختلاف عقائد کی بنیاد پر ایک تحریک کا شروع کردیا جانا ایک ایسی مذموم اور تکلیف دہ حرکت ہے جسے سنجیدہ مسلمان برداشت نہیں کرسکتا۔ اور ہم انتہائی رنج و افسوس کے ساتھ ایک ایسی تحریک کی مذمت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جس کی قیادت کا فریضہ ممتاز علماء اسلام انجام دے رہے ہیں۔
جہاں تک ان مطالبات کا تعلق ہے جو احراریوں کی طرف سے پیش کئے جارہے ہیں ہم کسی حالت میں ان کی تائید نہیں کرسکتے۔ اگر مولوی صاحبان کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ جس فرقہ کو چاہیں ایک ذرا سا شور و شغب برپا کر کے غیر مسلم اقلیت قرار دلا دیں تو پاکستان میں اسلام کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ آج چند مولویوں کے مطالبہ پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جاسکتا ہے تو کل شیعوں` دیو بندیوں` شافعیوں` مالکیوں` حنفیوں` مقلدوں` غیر مقلدوں` بوہروں` آغا خانیوں اور دوسروں پر بھی یہی مصیبت طاری کی جاسکتی ہے۔ ہر فرقہ کے مولوی صاحبان دوسرے فرقہ کے لوگوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اور اگر حکومت ان سب کے مطالبات قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کردے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں سرے سے کوئی >مسلمان باقی نہیں رہے گا اور وہ ایسی غیر مسلم اقلیت کا ملک بن جائے گا جس پر یہ شعر سو فیصدی صادق آئے گا کہ ~}~
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
رہا احمدیون کا سرکاری ملازمتوں سے اخراج کا مسئلہ تو یہ بھی ایک قطعاً مہمل مطالبہ ہے۔ سرکاری مناصب کا تعلق اہلیت اور قابلیت سے ہوتا ہے مذہب سے نہیں۔ اگر کوئی قادیانی لائق ہے تو اسے ایک نالائق غیر احمدی کے مقابلہ میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا یقیناً زیادہ حق ہے۔ کسی شخص کو محض اختلاف عقائد کی بنیاد پر سرکاری ملازمت سے محروم کرنا قطعاً غلط اور احمقانہ بات ہے اور ہم کسی حالت میں اس کی تائید نہیں کرسکتے اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ آج جو مطالبہ قادیانیوں کے سلسلہ میں کیا جارہا ہے وہی کل دوسرے فرقوں کے متعلق نہیں کیا جانے لگے گا ؟ آج اگر ظفر اللہ خاں کو قادیانی ہونے کی بنیاد پر وزارت سے مستعفی کیا جاسکتا ہے تو کل مسٹر غلام محمد پیر وارث علی شاہ سے گہری عقیدت کے جرم میں اس کے عہدہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ وجود میں آسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا لامتناہی لسلہ ہے جس پر کوئی روک نہیں کی جاسکتی۔ اور اگر حکومت پاکستان آج اس احمقانہ مطالبہ کو مان لے تو کل ایسا وقت آسکتا ہے جب اسے سرکاری ملازمتوں کیلئے ایک شخص بھی نصیب نہ ہو اس لئے کہ بہرحال ہر مسلمان کسی نہ کسی فرقہ سے ضرور متعلق ہوگا اور بدقسمتی سے دوسرے فرقہ کے لوگوں کے نزدیک اس کا >کفر< اتنا گہرا اوراتنا شدید ضرور ہوگا کہ اسے وہ کسی حالت میں سرکاری ملازمت کا اہل نہیں قرار دے سکیں گے۔
جہاں تک احراری حضرات کا تعلق ہے ان کی پوری تاریخ ہنگامہ پسندی اور فتنہ انگیزی پر مشتمل رہی ہے انہوں نے کبھی کشمیر میں تحریک چلا کے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا اور کبھی اور ایجی ٹیشن کا قصہ کھڑا کر کے میوانی مسلمانوں کو مبتلائے مصائب کیا کبھی لکھنئو میں شیعہ و سنی جھگڑا کھڑا کیا تو کبھی مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں ملت اسلامیہ کو کھلا ہوا` نقصان پہنچایا۔ یہ قطعاً تخریبی ذہنیت رکھنے والے لوگ ہیں۔ جو صرف ہنگاموں اور فسادات کی فضا میں زندہ رہنے کے قائل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے یہلوگ خاموش تھے اس لئے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ان کے سابقہ کردار سے بخوبی واقف تھا اور وہ ان کو کسی حالت میں ابھرنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ عوام میں ان کی ساکھ گری ہوئی تھی اس لئے کہ ان لوگوں نے قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی۔ ایسی حالت میں ان کو مجبوراً پانچ سال تک خاموشی کی زندگی گذارنی پڑی لیکن ان کی خوش قسمتی کہ چند >مہاجرین مولوی صاحبان< جو یہ محسوس کرتے تھے کہ ان کو قیام پاکستان سے اتنا فائدہ نہیں پہنچا ہے جتنا کہ وہ خود کو تصور فرماتے تھے ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور ان کو اس کا موقع مل گیا کہ وہ احمدی اور غیر احمدی کا فتنہ کھڑا کر کے اس پردہ میں دوبارہ سیاست کے میدان میں آجائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ احراریوں نے یہ تحریک کسی دینی جذبہ کے ماتحت شروع نہیں کی ہے بلکہ وہ مذہب کے پردہ میں دوبارہ سیاسی عروج حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی اس خود غرضی اور مطلب پرستی کے متعلق ہمیں کچھ عرض نہیں کرنا ہے وہ ہمیشہ اس ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور آج بھی اپنی سابقہ روایات پر عمل کررہے ہیں ہمیں افسوس تو ان دوسرے علماء کرام پر ہے جو اس فتنہ میں شریک ہوگئے ہیں اور اس طرح نادانستہ طور پر نہ صرف اپنے وطن کو بلکہ درحقیقت اسلام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آج سارے اسلام کے علماء اس اجتہاد و تبدیلی کے شاکی ہیں جو مسلمانوں کے مغربی تعلیم یافتہ طبقہ میں عام ہوتی جارہی ہے لیکن وہ یہ بھولتے ہیں کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو مذہب سے دور کرنے میں مغربی تعلیم کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا کہ ان اجارہ داران دین و ملت کا ہاتھ ہے جو سند علم و فضل پر فائز نظر آتے ہیں۔ اگر آج کمیونسٹ بے دین نظر آٹا ہے تو اس میں مارکس کی مادہ پرستی کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا کہ زارینہ کے اس سازشی اور غلط کار پادری کا ہاتھ ہے جس نے مذہب کو حکومت کا کھونہ بنادیا تھا۔ ہمارے علماء کرام کی قدات پسندی کفر سازی` تنگ نظری اور شدید قسم کی متعصبانہ ورزش نے تعلیم یافتہ طبقہ کو نہ صرف یہ کہ علماء کی جانب سے بدظن کردیا ہے بلکہ ان میں مذہب کی جانب سے بھی بیزاری پیدا کردی ہے۔ پاسکتان کے علماء بھی بدقسمتی سے روایتی کٹھ ملائوں کا کردار انجام دے رہے ہیں اور اس طرح وہ احمدیوں کے مقابلہ میں خود اسلام کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں تعلیم یافتہ مسلمان جب اس قسم کی حرکتوں کو دیکھتے ہیں اور مذہب کے نام پر علماء کرام کی تنگ نظرانہ روش کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان میں مذہب کی جانب سے مایوسی پھیل جاتی ہے۔ پاکستان میں ابھی یہی ہوگا۔ آج نہیں تو کل تعلیم یافتہ طبقوں میں مولویوں کی اس روش کا ردعمل نہایت ہی شدت سے نمایاں ہوگا اور اس کے نتیجہ میں نہصرف یہ کہ علماء کرام کی عزت کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ اس دینی جذبہ کا بھی خاتمہ ہوجائے گا جو آج پاکستان میں موجود ہے۔
ترکی میں علماء کی اسی تنگ نظری نے جو نتائج پیدا کئے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ایران میں علماء کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے اور شام و مصر میں جو حالات پیدا ہوئے ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی علماء بھی اس غلط راہ پر چل رہے ہیں جس پر ترکی اور ایران کے علماء چلے تھے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے جلد ہی اپنی روش تبدیل نہیں کی تو انکو بھی انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جن سے ترکی اور ایران کے علماء کے وار دیکھتے ہوئے خاموش نہیں رہ سکتا اسے ایک نہ ایک دن علماء کے خلاف آواز بلند کرنا پڑے گی۔ اور ظاہر ہے کہ جب یہ طبقہ میدان میں آئے گا تو علماء کرام کے ساتھ ہی اسلام کو بھی اس حشر سے دوچار ہونا پڑے گا جس کا ایک ادنیٰ مظاہرہ ہم ترکی میں دیکھ چکے ہیں۔
سیاست میں تخربی مقاصد کیلئے مذہب کا استعمال حد درجہ نقصان دہ ہوا کرتا ہے۔ پاکستان میں آج مذہب کو تخریبی سیاست کا آلہ کار بنایا جارہا ہے۔ یہ چیز خود مذہب کیلئے انتہائی نقصان رساں ثابت ہوگی اس لئے کہ جب پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ یہ محسوس کرے گا کہ مذہب کا حد درجہ ناجائز استعمال ہورہا ہے اور مذہب کے نام پر ملک کی وحدت کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں تو وہ لازماً مذہب کے خلاف صف آرا ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں کم از کم یہ تو ضرور ہوگا کہ پاکستان کو ایک مثالی اسٹیٹ بنانے کا خواب ہمیشہ کیلئے شرمندہ تعبیر رہ جائے گا اور اسلامی اسٹیٹ کی جگہ ویسی ہی سیکیولر حکومت وجود میں آجائے گا جیسی کہ انتزاع خلافت اسلامی کے بعد ترکی میں وجود میں لائی گئی۔ اگر پاکستانی علماء اسے پسند نہیں کرتے کہ پاکستان کو غیر مذہبی ریاست بنادیا جائے اور وہ واقعی ایک مثالی اسلامی مملکت کے قیام کے خواہش مند ہیں تو ان کو اپنی موجودہ تنگ نظرانہ روش ترک کرنا پڑے گی۔ مذہب کے نام پر فتنہ آرائی کا راستہ چھوڑنا پڑے گا۔ احمدیوں کے نام پر فتنہ آرائی کر کے ممکن ہے کہ چند علماء کو کچھ عارضی شہرت حاصل ہوجائے لیکن یہ شہرت آگے چل کت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی علماء کو ان کی موجودہ روش کے باب میں ابھی سے متنبہ کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی موجودہ سیاست >ااسلام< مسلمانوں اور خود پاکستان کے حق میں سم قاتل سے کم نہیں۔ اور اگر انہوں نے اسے ترک نہ کیا تو آج وہ جو زہریلے بیج بورہے ہیں۔ ان کے کڑوے پھل کل خود انہیں کھانا پڑیں گے اور اس کا جو کچھ نتیجہ ہوسکتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔<۲۶۱
نمائندہ >المصور< )قاہرہ( کے تاثرات
قاہرہ کے مشہور اخبار >المصور< کی نامہ نگار خصوصی السیدہ` مینتہ السعید ایجی ٹیشن کے اس زمانہ میں مصر سے خاص طور پر پاکستان میں آئین اور کراچی اور راولپنڈی کے حالات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے۔ ان کے ذاتی تاثرات کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:۔
جب ہم نو گھنٹے کی لمبی مسافت کے بعد راولپنڈی پہنچے تو چونکہ وہان پر مصری صحافی وفد کی آمد کی خبر پہنچ چکی تھی اس لئے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ گاڑی پر پہنچ گئے تاکہ قادیانیت یا احمدی مذہب کے بارے میں ہمیں اپنی رائے سے مطلع کریں` ملک میں لاقانونیت کا آغاز اس طرح ہوا کہ پہلے پانچ آدمیوں کی ایک کمیٹی کراچی گئی جس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام احمدیون کو جن میں چوہدری ظفر اللہ خاں بھی شامل ہیں تمام حکومتی عہدوں سے علیحدہ کردیا جائے۔ نیز انہیں عیسائیوں` ہندوئوں اور پارسیوں کی طرح ایک علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ احمدیوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ وہ آنحضرت~صل۱~ کے خاتم النبین ہوئے کے منکر ہیں۔ اس کمیٹی نے حکومت کو چند دنوں کی مہلت دی جب حکومت پاکستان نے یہ مطالبات منظور نہ کئے اور مدت مقررہ گزر گئی تو ملک کے تمام اطراف میں سول نافرمانی کا اعلان کردیا گیا۔ مظاہرے ہوئے۔ دکانیں بند کی گئیں اور وسائل آمد و رفت میں تعطل پیدا ہوگیا چونکہ حکومت پاکستان فتنہ پرور اصحاب کی حرکات سے پوری طرح آگاہ تھی اس لئے اس نے اس فتنہ کیلئے لیڈروں کو گرفتار کر لیا اور اس طرح وقتی طور پر بغاوت کی آگ فرو ہوگئی۔
یہ واقعہ ہے کہ جب ہم دارلسلطنت پاکستان)کراچی( میں تھے تو اس تحریک کا آغاز ہوا اور ملک کے مختلف اطراف میں ہمارے ساتھ ساتھ یہ تحریک بھی چکر لگاتی رہی۔ اس تحریک پر مجھے بہت حیرت تھی کیونکہ قادیانی مذہب یا احمدیہ جماعت تو قریباً سو سال سے قائم ہے اور آج تک اس عقیدہ کے لوگ آزادی اور سلامتی سے بست رہے ہیں اور ان کی حیثیت مسلمانوں کے دوسرے فرقوں سنی` شیعہ اور وہابی وغیرہ ہم کی طرح ہے۔ مجھے حیرت تھی کہ خاص طور پر ان دنوں میں احمدیوں کے خلاف طبائع میں کیوں اشتعلا پیدا ہوگیا ہے ؟ نیز یہ کہ انہیں عہدوں سے معزول کئے جانے اور اقلیت غیر مسلمہ قرار دینے کے مطالبہ کا حقیقی راز کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں میں نے بہت جستجو کی اور بہت سی سیاسی اور اجتماعی جماعتوں کے لیڈروں سے بات چیت کی۔ آخر کار مجھ پر واضح ہوگیا کہ موجودہ ایجی ٹیشن خالص سیاسی تحریک ہے اور اس ایجی ٹیشن کے محرک دراصل پاکستان کے دوست نہیں ہیں اور ان کا حقیقی مقصد اس سے بہت مختلف ہے جیسا کہ ظاہر میں نطر آتا ہے اور حکومت کو اس کا پورا پورا علم ہے وہ بخوبی جانتی ہے کہ اندھیرے میں کون سے ہاتھ یہ تاریں ہلا رہے ہیں۔ اس لئے حکومت نے اس فتنہ کے ذمہ داروں پر سختی سے گرفت کرنے میں ذرا غفلت نہیں برتی۔
اس بارے میں میں نے پاکستان کے ایک بہت بڑے سیاستدان سے گفتگو کی جو اپنی آزادانہ رائے اور ذاتی اغراض سے بالا ہونے میں معروف ہے۔ اس نے یہ کہتے ہوئے کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے مجھی بتایا کہ >بے شک تم ایک ایسی چھوٹی سی مسلم جماعت )جس کی تعداد سات آٹھ لاکھ سے زیادہ نہیں( کے خلاف اس تحریک کو دیکھ کر دہشت زدہ ہوگی خصوصاً اس لئے کہ جب پاکستان میں لاکھوں کروڑون سنی` شیعہ ` آغا خانی اور وہابی موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف آراء رکھتا ہے تو یہ شورہ شر اور ہنگامہ صرف احمدیون کے خلاف ہی کیوں ہے ؟ اس لئے میں اس جگہ معاملہ کی پوری وضاحت کیلئے بتاتا ہوں کہ اس کیلئے قادیانیوں کی ان گذشتہ چند سالوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے جب قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کی تحریک شرع فرمائی تھی۔ اس وقت جماعت احمدیہ یہ جان و دل سے قائداعظم مرحوم کے دوش بدوش کھڑی ہوئی اور اس جہاد میں اس نے قائداعظم کی پوری پوری تائید کی اور وہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے تک ہر طرح ان کی مددگار رہی۔ اس زمانہ میں برعظیم ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک جماعت >احرار< کے نام سے موجود تھی وہ لوگ تقسیم ہند یعنی پاکستان بننے کے مخالف تھے۔ انہوں نے مسٹر جناح کا مقابلہ کیا اور ان کی دعوت کی پورے زور سے مخالفت کی لیکن جب ان کی مرضی کے خلاف پاکستان بن گیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ اگرچہ احرار کا لیڈر اب تک بھارت میں ہے تاہم ان کی اکثریت پاکستان میں آگئی۔ پاکستان بننے کے دن سے لے کر آج تک جماعت احمدیہ اور احراریوں میں شدید دشمنی ہے جو موجودہ فتنہ کے حقیقی محرک ہیں۔
)مضمون نگار کہتی ہیں کہ( میں نے دریافت کیا کہ اگر یہ بات ہے تو احرار نے اپنے مخالفوں سے اس سے پہلے کیوں معاملہ نہیں نپٹایا اور خاص طور پر اس وقت اپنے دیرینہ بع و کینہ کے نکالنے کیلئے سول نافرمانی کو کیوں ذریعہ بنایا؟ )اس لیڈر نے جواب دیا کہ( اس سوال کے جواب کے لئے بعض اور امور کا سلسلہ وار بیان کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کا قیام غیر متوقع طور پر ہوا ہے۔ ان حالات کا تقاضا تھا کہ ہم اپنی پوری کوشش سے اپنے وطن جدید کی ابتداء مضبوط حالات سے کرتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم نے ذمہ دارانہ عہدے دینے میں سمجھدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کی قابلیت پر دارومدار رکھا۔ اور چونکہ احمدی بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب تھے اس لئے ان کو بہت سے ذمہ داری کے منصب سپرد کئے گئے اور احراریوں کو ان عہدوں کے حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ ایک تو اس لئے کہ وہ تعلیم یافتہ نہ تھے اور دوسے اس لئے کہ وہ ماضے میں پاکستان بننے کی مخافت کرتے رہے تھے )ترجمہ(۲۶۲
‏tav.13.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
قیام امن کیلئے حضرت مصلح موعودؓ کی پرحکمت ہدایات چکے تھے کہ
احرار اور انکے ہمنوا علماء و زعماء کھلے لفظوں میں بار بار دھمکیاں دے چکے تھے کہ
>۲۲ فروری کے بعد ملک میں سول نافرمانی کے آغاز کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر عائد ہوگی۔<
>۲۲۔ فروری کے بعد صورت حال کی ذمہ داری ارباب حکومت پر ہوگی- سول نافرمانی ہو یا بغاوت پھیلے ان نتائج کی ذمہ داری خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ پر ہوگی۔<۲۶۳
اب چونکہ صوبہ پنجاب کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جارہی تھی اور پاکستان اور احمدیت کی مخالف قوتیں کھل کر سامنے آگئی تھیں۔ اس لئے سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۱۳۔ فروری ۱۹۵۳ء کو مسجد مبارک ربوہ میں ایک پر جلال خطبہ دیا جس میں حضرت مہدی موعودؑ کی مظلوم اور بے بس جماعت کو قیام امن کی احتیاطی اور حفاظتی تدابیر بتائیں اور پرحکمت اور ضروری ہدایات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔
>احرار اور ان کے ساتھیوں نے ۲۲ فروری کا آخری نوٹس دیا ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے بعد یہ لوگوں کو احمدیوں کے خلاف اکسائیں گے۔ خود مساجد کے حجرون میں گھس جائیں گے۔ اور عوام کو کہیں گے کہ جائو اور احمدیوں کو مار دو۔ بعد میں کہیں گے دیکھا ہم نے نہیں کہا تھا کہ اگر حکومت نے احمدیوں کو اقلیت قرار نہ دیا تو لوگ ان کو مار دیں گے۔ اگر واقعہ میں لوگوں نے احمدیوں کو مارنا تھا تو لوگ خود اس بات کا نوٹس حکومت کو دیتے ان مولویوں کو نوٹس دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ ان مولویوں کو کس طرح تہ لگ گیا کہ لوگ ۲۲ فروری کے بعد احمدیوں کو مار دیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک سازش ہے
اگلا جمعہ اس نوٹس کے لحاظ سے آخری جمعہ ہوگا اور اگلے اتوار کو ان کا نوٹس ختم ہوجائے گا۔ میری کوشش ہوگی کہ یہ خطبہ اتوار کے اخبار میں چھپ جائے۔ پس جب اور جہاں یہ خطبہ پہنچے جماعت فوراً اجلاس بلائے اور مشورہ کرے کہ ان کے لئے کیا کیا خطرات ممکن ہیں اور ان کے کیا کیا علاج انہوں نے تجویز کرنے ہیں۔ اور پھر جن جماعتوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے اور ان کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ مرکز میں آدمی بھجوا سکیں وہ مرکز میں آدمی بھجوائیں جو مقامی تجاویز لا کر نظارت امور عامہ سے اور نظارت دعوۃ و تبلیغ سے مشورہ کرے۔ ممکن ہے بعض مشورے ایسے ہوں جن کی اطلاع حکومت تک پہنچانی مقصود ہو یا لٹریچر کی اشاعت مقصود ہو تو اس کے متعلق نظارت امور عامہ اور دعوۃ تبلیغ ہی مفید مشورہ دے سکتے ہیں اور مقامی حالات کو لوکل جماعتیں ہی صحیح طور پر سمجھ سکتی ہیں اس لئے مرکز کا یہ ہدایت دینا کہ تم یو کرو بعض اوقات فضول سی بات ہوجاتی ہے۔ جماعتیں پہلے آپس میں مشورہ کریں اور اس بات پر غور کریں کہ انہیں کیا کیا خطرہ پیش آسکتا ہے اور پھر اس کا کیا علاج کیا جاسکتا ہے ؟ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ جن لوگوں سے خطرہ ہے انہیں وہاں کیا اہمیت حاصل ہے اور ان کی جرات اور دلیری کی کیا حالت ہے` ان کے اندر قربانی کا جذبہ کس حد تک پایا جاتا ہے۔ پھر آیا وہاں کے حکام دیانتدار ہیں ؟ اور وہ اس فتنہ کو دبانے کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔ پھر اگر حکام دیانتدار بھی ہوں اور وہ فتنہ کو دبانے پر آمادہ بھی ہوں تو بعض اوقات کچھ کمزوری باقی رہ جاتی ہے۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ حکام قتنہ کو دبانے پر آمادہ نہ ہوں تو اس صورت میں ایک اگر کوئی شورش ہوئی تو کیا جماعت طاقت رکھتی ہے کہ شورش کا مقابلہ کرے۔ پھر اس مقابلہ کے لئے انہوں نے کیا سکیم تیار کی ہے۔ یہ باتیں ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔
بہرحال تم یہ سمجھ لو کہ کسی احمدی نے اپنی جگہ کو نہیں چھوڑنا۔ تمہارا اپنے گائوں یا شہر میں اچانک مرنا یا لڑتے ہوئے مارے جانا تمہارے وہاں سے آجانے سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔ اگر کسی احمدی نے جگہ چھوڑی تو ہمیں اس سے کوئی ہمدردی نہیں ہوگی- مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے اتنی تعداد میں قتل ہونے کی وجہ ہی یہی تھی کہ انہوں نے اپنی جگہوں کو چھوڑ دیا۔ اگر وہ میری بات مان لیتے اور اپنی جگہوں کو نہ چھوڑتے تو اس قدر قتل و غارت نہ ہوتی بے شک بعد میں امن ہوجانیپر ہجرت کر لیتے۔ ہجرت ہم نے بھی کی لیکن چونکہ ہم نے قادیان کو فتنہ کے وقت چھوڑ انہیں اس لئے ہم امن ہونے پر خیریت سے یہاں آگئے۔
پس یاد رکھو کہ اگر آپ لوگوں نے اپنی جگہ چھوڑی تو ہمیں آپ سے کوئی ہمدردی نہیںہوگی- یہ نہیں کہ تم اپنی جگہ چھوڑ کر یہاں آجائو اور پھر دریافت کرو کہ اب ہم کیا کریں۔ اگر ایسا ہوا تو ہم یہی کہیں گے کہ جس شخص کے مشورہ پر تم نے یہ فعل کیا ہے اس سے اب بھی مشورہ لو ہم تو صرف ایک بات جانتے ہیں کہ مومن منظم ہوتا ہے وہ سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہوتا ہے۔ سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار کو کوئی توڑ نہیں سکتا اور اگر وہ ٹوٹتی ہے تو اکٹھی ٹوٹتی ہے۔ پس تم اپنی جگہ کو مت چھوڑو۔ آپس میں مشورہ کرو اور مرکز میں اپنی تجاویز پہنچائو۔ تم اندازہ لگائو کہ کس حد تک گورنمنٹ کے حکام تمہاری حفاظت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور اگر کوئی کمزوری باقی باقی رہ جاتی ہے تو سوچو کہ دشمن کے حملہ کی صورت میں جماعت کیا کرے گی۔ مثلاً کیا وہ محلہ میں ایک جگہ جمع ہوجائے گی یا کونسی صورت ہے جسے وہ اختیار کرے گی۔ پھر جو مشورے ہوں انہیں یہاں لے کر آئو۔ ڈاک کے ذریعہ اطلاع بھیجنا فضول اور لغو ہے ڈاک خانے ہماری ڈاک ضائع کردیتے ہیں۔ محکمہ ڈاک کے بعض ملازمین اتنے بے ایمان ہیں کہ وہ روٹیاں تو سرکاری کھاتے ہیں اور نوکر احرار کے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کی ڈاک پہنچ بھی گئی تو پھر غالباً مرکز کا مشورہ جماعت تک نہیں پہنچے گا۔ جماعتوں کے نمائندے خود آئیں اور ناظر صاحب امور عامہ اور ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ سے مشورہ کریں اور پھر اس مشورہ عمل کریں اور دعائیں کریں۔ یاد رکھو اگر تم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ احمدیت خدا تعالیٰ کی قائم کی ہوئی ہے۔
مودودی احراری اور ان کے ساتھی اگر احمدیت سے ٹکرائیں گے تو ان کا حال اس شخص کا سا ہوگا جو پہاڑ سے ٹکراتا ہے۔ اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم جھوٹے ہیں لیکن اگر ہم سچے ہیں تو یہی لوگ ہاریں گے۔ انشاء اللہ تعالی و باللہ التوفیق
میں مکرر احباب کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ فتنہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے تعلق رکھنے والوں کے لئے بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسا ہمارے لئے۔ اس لئے ان سے بھی جہاں جہاں وہ ہوں مشورہ کریں اور اپنی حفاظت کی سکیم میں ان کو بھی شامل کریں اور ان کی حفاظت بھی پورے اخلاص اور جذبہ سے کریں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔<۲۶۴
حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اہم بیان
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے فروری ۱۹۵۳ء کے آخر میں لاہور کے انگریزی اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< کے نمائندہ کو انٹرویو دیا جس کا متن یہ تھا:۔
سوال:۔ جماعت احمدیہ کے خلاف موجودہ ایجی ٹیشن کی سب سے بڑی وجہ یہ عام الزام ہے کہ احمدی حضرت محمد~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں سمجھتے۔ کیا اس الزام کی کوئی حقیقت ہے ؟
جواب:۔ یہ الزام قطعاً غلط ہے۔ ہم آنحضرت~صل۱~ کو قرآن کریم کے واضح ارشاد کے مطابق خاتم النبین مانتے ہیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ )علیہ السلام( نے بارہا خلیفہ اعلان کیا تھا کہ میں ختم نبوت کے عقیدہ پر حکم ایمان رکھتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؑ نے اعلان کیا تھا کہ جو کوئی اس عقیدہ پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔
سوال:۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ احمدی غیر احمدی مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ کیا یہ الزام مبنی برحقیقت ہے ؟
جواب:۔ جو کوئی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اسے مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہے۔ اسلام کی بناء آنحضرت~صل۱~ کے مبارک ہاتھوں سے رکھی گئی اور حضرت~صل۱~ کے ذریعہ ہی بنی نوع انسان کو قرآن حکیم کی صورت میں الہامی کتاب ملی اس لئے جو کوئی شخص حضور~صل۱~ کو آخری )آخر الانبیاء( سمجھتا ہے اور قرآن کریم کو بنی نوع اسنان کی ہدایت کے لئے آخری الہامی کتاب تسلیم کرتا ہے اسے مسلمان کہلانے کا حق ہے خواہ وہ قرآن کریم کی بعض تعلیمات پر عمل نہ کرتا ہو۔ نہ ہم نہ کوئی اور ایسے شخص کے متلق یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہے جس طرح ہندو اور عیسائی وغیرہ ہیں۔ بلاشبہ ایک سچا مسلمان بننے کے لئے اسلام کی تمام تعلیمات کا پابند ہونا ضروری ہے۔ جب تک کوئی شخص ایسا نہیں کرتا وہ محض نام کا مسلمان ہے اس سے ہماری پوزیشن واضح ہوجانی چاہئے۔ اگر لفظ کا مطلب ایسا شخص ہے جو ہندوئوں اور عیسائیوں کی طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو تو یقیناً یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین اس بارے میں ہمارے عقیدے کو غلط طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور جہاں تک اس امر کا تعلق ہے عوامی ذہن کو گمراہ کردیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے بلکہ میں تو اپنے پیروئوں سے یہی کہتا رہا ہوں کہ وہ ایسے القاب استعمال کرنے سے اجتناب کریں جن سے غیر احمدی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
سوال :۔ اس وضاحت کی روشنی میں آپ کی اپوزیشن مولانا مودودی امیر جماعت اسلامی کے تقریباً مشابہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانون کی دو قسمیں ہیں صالحین یعنی اصلی مسلمان اور دوسرے اسمی یا رسمی مسلمان۔ کیا میں آپ کی پوزیشن کو اس طرح سمجھنے میں درست ہوں ؟
جواب :۔ ہاں اگر مولانا مودودی کے یہی خیالات ہیں تو ہماری پوزیشن یہی ہے۔<۲۶۵
اس حقیقت افروز بیان کا خیر مقدم کرنے کی بجائے ایجی ٹیشن کی دھمکی دینے والے حلقوں نے اس پر تنقید کی۲۶۶ اور پاکستان کے ایک مسیحی لیڈر مسٹر ظفر اقبال نے تو علماء کی تائید میں یہاں تک لکھا:۔
>میں برادران ملت سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو زور شور سے جاری رکھیں۔ مرزائی اسلام` پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں ہم اس تحریک میں برادران لت کے ساتھ ہیں اور ہم دو قدم آگئے بڑھ کر ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دے کر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے۔<
اخبار >آزاد< )لاہور( نے اپنے ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کے شمارہ میں مسیحی لیڈر کا یہ تائیدی بیان بڑے طمطراق سے شائع کیا جس پر مسلمانوں کے سنجیدہ طبقہ میں سخت حیرت کا اظہار کیا گیا کیونکہ خاتم الانبیاء سید المرسلین محمد مصطفیٰ~صل۱~ کی ذات بابرکات سے متعلق عیسائی دنیا کا عقیدہ یہ ہے کہ
>ابراہیمی اسلام کا ختم المرسلین خدا وند یسوع مسیح ہے۔< ۲۶۷
الفضل کی جبری بندش
صوبہ پنجاب کی مسلم لیگی حکومت نے ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کو جماعت احمدیہ پاکستان کے واحد روزنامہ الفضل کی اشاعت ایک سال کے لئے جبراً بند کردی۔ اس ظالمانہ اقدام کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ بیرونی احمدی جماعتوں کا رابطہ اپنے مرکز سے معطل بلکہ مفلوج کر کے رکھ دیا جائے۔
صوبہ پنجاب بغاوت کے لپیٹ میں
الفضل کی جبری بندش کے بعد دیکھتے دیکھتے پورا صوبہ پنجاب بدامنی` تشدد` ہنگامہ آرائی اور بغاوت کا مرکز بن گیا اور احمدیوں اور مرکزی حکومت پاکستان کے خلاف سلگائی جانے والی آگ شہروں سے نکل کر دیہات تک میں پہنچ گئی۔
فتنہ و فساد کے ان ایام کا نظارہ حرت مصلح موعودؓ نے کئی ماہ پہلے ہی اپنے بعض دعائیہ اور القائی اشعار میں خوب کھینچ دیا تھا۔ حضور~صل۱~ کے یہ اشعار الفضل ۵ اگست ۱۹۵۲ء میں چھپ گئے تھے جب کہ ۱۹۵۳ء میں خونی انقلاب لانے کے خفیہ منصوبے کئے جارہے تھے۔ حضور نے فرمایا ~}~
دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے مرے پیارے
ہر آنکھ کے اندر سے نکلتے ہیں شرارے
یہ منہ ہیں کہ آہنگروں کی دھونکنیاں ہیں
دل سینوں میں ہیں یا کہ سپیروں کے پٹارے
ہے امن کا داروغہ بنایا جنہیں تو نے
خود کررہے ہیں فتنوں کو آنکھوں سے اشارے
اسلام کے شیدائی ہیں خونریز پہ مائل
ہاتھوں میں جو خنجر ہیں تو پہلو میں کنارے۲۶۸
سچ بیٹھا ہے اک کونہ میں سر اپنا جھکا کر
اور جھوٹ کے اڑتے ہیں فضائوں میں غبارے
ظلم و ستم وجور بڑھے جاتے ہیں حد سے
ان لوگوں کو اب تو ہی سنوارے تو سنوارے
طوفان کے بعد`اٹھتے چلے آتے ہیں طوفاں
لگنے میں نہیں آتی ہے مری کشتی کنارے
گر زندگی دینی ہے تو دے ہاتھ سے اپنے
کیا جینا ہے یہ جیتے ہیں غیروں کے سہارے
ختم نبوت کے مقدس نام پر مظاہرے
>ختم نبوت< کے مقدس نام پر اس دور میں کیسے کیسے تخریبی مظاہرے شروع ہوئے ؟؟ اس کا سرسری اندازہ لگانے کے لئے حکومت پنجاب کے مندرجہ ذیل دو اشتہارات کا مطالعہ کافی ہوگا:۔
۱۔ >اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے<
>پچھلے دنوں پنجاب کے مختلف مقامات پر اور بالخصوص لاہور میں تخریبی مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں شر پسند عناصر اور غیر ذمہ دار افراد نے اپنی قومی دولت کا نقصان پہنچیاا۔ اور امن و امان کو تہ و بالا کیا۔
*
ڈاک خانے جلائے گئے۔
*
اومنی بسیں اور لاریاں نذر آتش کی گئیں۔
*
امن پسند شہریوں کی زندگی تلخ بنادی گئی۔
*
سرکاری فرائض ادا کرنے والوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔
*
ریل کے ڈبوں میں گھس کر مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ ریل کی پٹڑی اکھاڑ دی گئی اور تار و ٹیلی فون کے سلسلے منقطع کرنے کی کوشش کی گئی۔ گاڑیوں کی آمدو رفت میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔
اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟
*
ملک کے وقار کو سخت دھکا لگا۔
*
ہم اغیار کی تضحیک کا نشانہ بنے۔
*
اغیار نے بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
*
خود ہمارے اندرونی مسائل سلجھنے کی بجائے اور مشکلات میں اضافہ<-
)استقلال پریس لاہور(
۲۔ >ناموس رسول<
>ایک مسلمان کی جان و مال اور آبرو دوسرے مسلمان کے لئے اتنی مقدس ہونی چاہئے جتنا یہ مہینہ` یہ دن اور یہ مقام ہے۔<
پیغمبر اسلامﷺ~ نے یہ فرمان ذی الحجہ کے مہینے حج کے دن عرفات کے میدان میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا۔
اور پھر اس پیغام کی اہمیت کے پیش نظر فرمایا:۔
>جو لوگ یہ بات سن رہے ہیں اسے دوسروں تک بھی پہنچادیں۔<
ذرا سوچئے
*
اس صریح فرمان نبویﷺ~ کے مقابلے میں ہمارا طرز عمل کیا ہے ؟
*
پچھلے دنوں پنجاب میں ناموس رسولﷺ~ مقدس نام پر کیا کچھ نہیں کیا گیا؟
فتنہ و فساد` خونریزی` آتش زنی` شرفاء کی توہین` عورتوں کی بے حرمتی` فحش کلامی` ہائے ہائے کے ناچ`۔
*
کیا یہ سب کچھ اسلام` خدا اور رسولﷺ~ کے ساتھ محبت کی دلیل تھی ؟
*
کیا ہمارا مذہب اور ہمارا تمدن جس کے فروغ کے لئے ہم نے پاکستان حاصل کیا ہمیں یہی کچھ سکھاتا ہے ؟
)مراد رقم(
گورنمنٹ پرنٹنگ پریس پنجاب(
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا پرشوکت پیغام جماعت احمدیہ کے نام
عین اس وقت جب کہ فتنہ و فساد کے شعلے پوری شدت سے بھڑک اٹھے اور باد بستوں کی نگاہ میں پنجاب بلکہ پاکستان بھر سے تحریک
احمدیت کا نام و نشان تک معدوم ہوجانا قطعی اور یقینی نظر آرہا تھا سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے خدا تعالفی کی تحریک خاص سے ۳ ۲۶۹ امان ۱۳۳۲ ہش )مارچ ۱۹۵۳ء( کو جماعت احمدیہ کے نام حسبذیل پر شوکت پیغام دیا۔ یہ پیغام اگلے روز ہفت روزہ >فاروق ۲۷۰ کے صفحہ اول پر جلی قلم سے شائع ہوا اور ملک بھر میں پہنچ گیا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
الفضل کو ایک سال کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے۔ پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگوں اس میں سب طاقت ہے ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں` انشاء اللہ فتحہماری ہے۔ کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا ؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑ آرہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے` وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھا لو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد ۵۳۔۳۔۲۷۱۳
حکومت پنجاب کا نوٹس
پنجاب مسلم لیگی حکومت جو ایجی ٹیشن کے معاملہ میں محض خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی حضرت مصلح موعودؓ کے اس پیغام پر سخت برہم ہوئی اور اس نے حضور کے نام نوٹس جاری کردیا۔ اس اہم واقعہ کی تفصیل حضور کے قلم سے درج کی جاتی ہے۔ فرمایا:۔
>میں نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد اور نصرت کو آرہا ہے۔ وہ چلا آرہا ہے وہ دوڑتا آرہا ہے۔ اس پر حکومت نے مجھے نوٹس دیا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ؟ اس سے دوسرے لوگوں کو اشتعال آتا ہے۔ ہاں نوٹس دینے والے افسر نے اتنی اصلاح کر لی کہ اس نے کہا تم احرار کے متعلق کوئی ذکر نہ کرو۔ اگر وہ مجھے حکم دیتے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مدد کو آرہا ہے یا یہ کہو کہ وہ مدد کو نہیں آتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ کرسکتی حکومت اعمال پر کنٹرول کرسکتی ہے عقائد پر نہیں۔< ۲۷۲
حضور نے ایک اور موقعہ پر اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:۔
>اس وقت بعض افسروں نے کہا کہ آپ اس فقرہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے میں نے ان کو جواب دیا کہ مجھے خدا آتا ہوا نظر آتا ہے تو کیا میں جھوٹ بولوں ؟ خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے سچے بندوں کی مدد کے لئے آیا کرتا ہے اور اب بھی آئے گا اور ہمیشہ ہی آتا رہے گا۔ اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہو تو خدا تعالفی کے دین کے خاتم تباہ ہوجائیں اور ان کے دل غم سے ٹوٹ جائیں۔ ۲۷۳
پیغام کے بعد
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے مندرجہ بالا ولولہ انگیز پیغام کے بعد جو الہامی رنگ رکھنا تھا شمع احمدیت کے پر دانوں نے کس طرح اسلام کے عالمگیر غلبہ کی مہم کو تیز تر کرنے کے لئے پوری بشاشت سے اپنے نفوس و اموال اور عزت و آبرو کی قربانیاں اپنے خدا کے حضور پیش کیں` کیسے خون اور آغ کے طوفانوں میں حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ پھر خدا کی رحمتوں اور برکتوں اور فضلوں کو اپنی آنکھوں سے اترتا دیکھا ؟؟ اس کی ایمان افروز تفصیلات بتو فیقہ تعالفی تاریخ احمدیت کی اگلی جلد میںآرہی ہیں۔
خلاصہ
تاہم یہاں خلاصت¶ہ اس قدر بتا دینا ضروری ہے کہ زمین ابتلائوں اور آسمانی نصرتوں کا یہ متوازی دوران روح پر ور تجلیات کا صرف ایک حصہ تھا جس کی کسی قدر جھلک جماعت احمدیہ ۱۹۳۴ء۔ ۱۹۳۵ء میں دیکھ چکی تھی اور جس کی خبر حضرت مہدی موعودؑ نے قبل از وقت ۱۸۹۴ء سے درج ذیل الفاظ میں دے رکھی تھی کہ:۔
>بجز خدا کے انجام کون بتلا سکتا ہے؟ اور بجز اس غیب دان کے آخری دنوں کی کس کو خبر ہے ؟ دشمن کہتا ہے کہ بہتر ہو کہ یہ شخص ذلت کے ساتھ ہلاک ہوجائے اور حاسد کی تمنا ہے کہ اس پر کوئی ایسا عذاب پڑے کہ اس کا کچھ بھ باقی نہ رہے لیکن یہ سب لوگ اندھے ہیں اور عنقریب ہے کہ ان کے بد خیالات اور بداراد دے انہیں پر پڑیں۔
اس میں شک نہیں کہ مفتی بہت جلد تباہ ہوجاتا ہے اور جو شخص کہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ نہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بری موت سے مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مر کر بھی زندہ ہوجایا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالفی کے فضل کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے اور سچائی کی روح ان کے اندر ہوتی ہے۔ اگر وہ آزمائش سے کچلے جائیں اور پیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروںطرف سے ان پر لعن طعن کی بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصوبے کرے تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے۔ کیوں نہیں ہوتے؟ اس سچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے۔ خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہوجائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں۔
ہر ایک جوہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اول صدمات کا تختہ مشق ہوتا ہے مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینہ تک اپنی قلبہ رانی کا تختہ مشق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین جو پتھر کی طرح سخت اور درشت معلوم ہوتی تھی سرمہ کی طرح پس جاتی ہے اور ہوا اس کو ادھر ادھر اڑاتی ہے اور پریشان کرتی رہتی ہے اور وہ بہت ہی خستہ` شکستہ اور کمزور معلوم ہوتی ہے اور ایک انجان سمجھتا ہے کہ کسان نے چنگی بھلی زمین کو خراب کردیا اور بیٹھنے اور لیٹنے کے لائق نہ رہی لیکن اس دانا کسان کا فعل عبث نہیں ہوتا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس زمین کا اعلیٰ جوہر بجز اس درجہ کے کوفت کے نمودار نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کسان اس زمین میں بہت عمدہ قسم کے دانے تخمریزی کے وقت بکھیر دیتا ہے اور وہ دانے خاک میں مل کراپنی شکل اور حالت میں قریب قریب مٹی کے ہوجاتے ہیں اور ان کا وہ رنگ و روب سب جاتا رہتا ہے لیکن وہ دانا کسان اس لئے ان کو مٹی میں نہیں پھینکتا کہ وہ اس کی نظر میں ذلیل ہیں۔ نہیں بلکہ دانے اس کی نظر میں نہایت ہی بیش قیمت ہیں بلکہ وہ اس لئے ان کو مٹی میں پھینکتا ہے کہ تا ایک ایک دانہ ہزار ہزار دانہ ہو کر نکلے اور وہ بڑھیں اور پھولیں اور ان میں برکت پیدا ہو اور خدا کے بندوں کو نفع پہنچے۔
پس اسی طرح وہ حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان ک اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہر یک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ہو کر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور تاب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے۔ یہی قدیم برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطہ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہو جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں۔ اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں۔ اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور *** کی جاتی ہے اور وہ ہر طرح سے ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں اور بدظنیاں بڑھ جاتی ہیں یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سچ ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کررہا ہے۔
پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔ اور اگر اس برگزیدہ پر بشریت کے تقاضا سے کچھ قبض طاری ہو تو خدا تعالیٰ اس کو ان الفاظ سے تسلی دیتا ہے کہ صبر کر جیسا کہ پہلوئوں نے صبر کیا اور فرماتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں` سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ پس وہ صبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ امر مقدر اپنے مدت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے تب غیرت الٰہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداد کو پاش پاش کردیتی ہے۔ سو اول نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے۔ اسی طرح خدا وند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہوگی اور ٹھٹھا ہوگا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن نصرت الٰہی تیرے شامل ہوگی اور خدا کے دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا۔ چنانچہ براہین احمدیہ میںبھی بہت سا حصہ الہامات کا انہی پیشگوئیوں کا بتلا رہا ہے اور مکاشفات بھی یہی بتلا رہے ہیں۔
چنانچہ ایک کشف میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں تب میں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے ؟ تو اس نے عربی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ جئت من حضرہ الوتر یعنی میں اس کی طرف سے آیا ہوں جو اکیلا ہے۔ تب میں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا اور میں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگر کیا تم بھی پر گئے؟ تو اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ تب میں اس حالت سے منتقل ہوگیا لیکن یہ امور درمیانی ہیں اور جو خاتمہ امر پر منعقد ہوچکا ہے وہ یہی ہے کہ بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزارہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کردوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی۔ اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا۔ اور یاد رہے کہ یہ الہامات اس واسطے نہیں لکھے گئے کہ ابھی کوئی ان کو قبول کر لے بلکہ اس واسطے کہ ہر یک چیز کے لئے ایک موسم اور وقت ہے پس ان الہامات کے ظہور کا وقت آئے گا تو اس وقت یہ تحریر مستعدلوں کے لئے زیادہ تر ایمان اور تسلی اور یقین کا موجب ہوگی۔ والسلام علی من اتبع الھدی۔۲۷۴
حواشی
۱۔
بحوالہ الفضل ۲۲ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/۲۲ فروری ۱۹۵۲ء
۲۔
اخبار >زمیندار< لاہور )۲۹ فروری ۱۹۵۲ء( میں یہ خبر شائع ہوتی:۔
قاہرہ ۲۷ فروری۔ سر محمد ظفر اللہ وزیر خارجہ پاکستان نے کل علی ماہر پاشا وزیراعظم مصر سے ملاقات کی۔ وزیراعظم مصر سے وزیر خارجہ پاکستان کی دوسری ملاقات تھی۔ سر ظفر اللہ خان حکومت مصر کے مہمان کی حیثیت سے قاہرہ میں مقیم ہیں۔ آپ خیر سگالی کے دورہ پر مصر آئے ہیں۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کے متبادل نمائندے محمد اسد نے الگ تیس ۳۰ منٹ تک وزیراعظم سے ملاقات کی۔ سر ظفر اللہ خاں نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل غازی عبدالرحمان عظام پاشا کے ساتھ لنچ کھایا اور بعد دوپہر آپ نے پاکستانیوں کے اجتماع میں شرکت کی۔ عربی کے بہترین مصنف شیخ محمد ابراہیم نے ایک دستی لکھا ہوا قرآن مجید سر ظفر اللہ خاں کو پیش کیا۔ سر ظفر اللہ خاں جمعرات کو قاہرہ سے بذریعہ طیارہ کراچی روانہ ہوجائیں گے۔ )ا۔پ۔پ( )صفحہ ۲(
۳۔
بحوالہ روزنامہ الفضل ۲۷ ۱۳۳۱ ہش/۲۷ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۴۔
>اس ضمن میں الاستاذ علی الخیاط آفندی کا سنسنی خیز انکشاف >تاریخ احمدیت< سابق جلد ۱۲ صفحہ ۳۹۳ تا ۳۹۸ میں
۵۔
الیو )یافا( ۲۱ شوال ۱۳۷۱ ھ بحوالہ البشریٰ محلہ ۱۸ صفحہ ۱۰۶ درج ہوچکا ہے۔
۶۔
مغربی پنجاب اخبار >زمیندار< ان دنوں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور فتنہ آرائی میں دوسرے مخالف اخبارات میں پیش پیش تھا۔ اس اخبار نے اپنی ۸۔ جولائی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں اس فتویٰ کو صفحہ اول پر چوکھٹہ کے ساتھ شائع کیا عنوان یہ تھا:۔
>مرزائی دائرہ اسلام سے خارج ہیں مفتی اعظم مصر السید محمد حسین المخلوف کا فتویٰ<
۷۔
یہ کتاب ۱۹۵۲ء میں ادارہ مجلہ >روز الیوسف< المصریہ نے چھپوائی تھی اور اس کا یہ اقتباس پہلی بار مولانا محمد شریف صاحب مجاہد بلاد عربیہ نے رسالہ >البشریٰ )حیفا( دسمبر ۱۹۵۲ء میں شائع فرمایا تھا
۸۔
اولم : اجتمع خلقہ وعقلہ )منجد(
۹۔
۱۹۷۵ء میں اس جلد کے پہلے ایڈیشن میں جب یہ اقتباس شائع ہوا تو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اس کی سختی سے تردید فرمائی اور کئی مجالس میں بتایا کہ یہ قصہ سراسر بے بنیاد ہے میری ایسی کوئی ملاقات شاہ فاروق سے نہیں ہوئی۔
۱۰۔
کتاب >فاروق ملکا< مطبوعہ مصر ۷۲` صفحہ ۷۳ بحوالہ رسالہ البشریٰ )حیفہ فلسطین( مجلد نمبر ۱۸ بابت دسمبر ۱۹۵۲ء
۱۱۔
>الصیادہ< ۵ اگست ۱۹۵۲ء
۱۲۔
البشریٰ دسمبر ۱۹۵۳ء مجلد ۱۳ صفحہ ۱۱۵` ۱۱۶
۱۳۔
المصری ۲۶ جون ۱۹۵۲ء بحوالہ البشریٰ مجلہ ۱۸۱۱ صفحہ ۱۱۸` ۱۱۹ حیفا فلسطین
۱۴۔
بحوالہ >البشریٰ< )حیفا فلسطین( المجلد ۱۸ صفحہ ۱۲۴
۱۵۔
بلمری ۲۷ جون ۱۹۵۲ء
۱۶۔
البلاغ ۲۶ جون ۱۹۵۲ء
۱۷۔
البلاغ ۲۶ جون ۱۹۶۲ء
۱۸۔
بحوالہ البشریٰ ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۲۷` صفحہ ۱۲۸
۱۹۔
)ترجمہ( بیرون المساء بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۱۰ وفا ۱۳۳۱ ہش مطابق ۱۰ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۲۰۔
)ترجمہ( اخبار >الیوم< عدد ۲۹۹ مورخہ ۲۸ جون ۱۹۵۳ء ¶بحوالہ روزنامہ >الفضل< لاہور ۱۰ جولائی ۱۹۵۲ء/۱۰ وفا ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۱
۲۱۔
اخبار >المصری< )۲۳ جون ۱۹۵۲ء(
۲۲۔
اخبار >المصری< ۲۸ جون ۱۹۵۲ء بحوالہ >البشریٰ< )حیفا( ذی الحجہ ۱۳۷۱ صفحہ ۱۲۰
۲۳۔
بحوالہ الفضل ۱۱ ظہور ۱۳۴۳ ہش ۴`۵ صفحہ
۲۴۔
المصور )اکتوبر ۱۹۵۲ء( بحوالہ البشریٰ )حیفا( شمارہ نومبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۶۵ ۱۶۶
۲۵۔
>منن الرحمن< تصنیف ۱۸۹۵ء
۲۶۔
۲۶ نوائے وقت )لاہور ۳۰ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ کالم ۵
۲۷۔
زمیندار )لاہور ۳ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ کالم ۱
۲۸۔
نوائے وقت )لاہور( ۳۱ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۲۹۔
زمیندار )لاہور( ۲ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۳۰۔
زمیندار )لاہور( ۲۶ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۳۱۔
نوائے وقت )لاہور ۳۱ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۳۲۔
اخبار >نوائے وقت< )لاہور( نے ۱۲ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں شاہ فاروق کی ملت فروشی اور بدعملی پر ایک خیال افروز مقالہ بھی شائع کیا جو لائق مطالعہ ہے۔
۳۳۔][ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۲۸ ` ۱۲۹ )تصنیف ۱۹۰۵ء(
۳۴۔
تحفہ غزنویہ )ترجمہ( میں ہر زمانہ میں فرعون صفت لوگوں کو ید بیضا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہوں مگر بدفطرت لوگ ان نشانوں کی طرف سے اندھے اور بہرے ہیں اور سینکڑوں نشان دیکھ کر بھی غافل رہے ہیں۔
۳۵۔
الحجرت ۴۹
۳۶۔
کرامات الصادقین ۵۳ )مطبوعہ ۹۸۹۳(
۳۷۔
انجام آتھم صفحہ ۲۶۸ )مطبوعہ جنوری ۱۸۹۷ء(
۳۸۔
فوفنویت` شورش اور نراج کو کہتے ہیں
۳۹۔
بخاری کتاب الجہاد۔ مسلم کتاب الجہاد۔ مسلم کتاب الامارۃ۔ ابو دائود کتاب الجہاد۔ نسائی باب البیعتہ
۴۰۔
آل عمران : ۵۶
۴۱۔
سورۃ التوبہ : ۳۳ الفتح : ۲۹` صفحگ : ۱۰
۴۲۔
تفسیر ابن جریر مطبوعہ مصر زیر آیت سورۃ صف۔ تفسیر حسینی مترجم فارسی ۸۸۴ زیر سورۃ صف مطبع کریمی بمبئی۔ تفسیر غرائب القرآن بر حاشیہ ابن جریر۔ بحار الانوار جلد ۱۳ صفحہ ۱۲ المقصود جلد ۲ ۱۳۳
۴۳۔
النحل : ۹۳ )ترجمہ( اس عورت کی مانند مت بنو جس نے اپنے کاتے ہوئے سوت کو اس کے مضبوط ہوجانے کے بعد کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا
۴۴۔
الفضل ۴ تبوک ۱۳۳۱/۴ ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲`۳
۴۵۔
بخاری کتاب الایمان جلد نمبر ۱ صفحہ ۱۰ مصری
۴۶۔
مشمولہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۲۲۵ ناشر الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ
۴۷۔
الناشر انجمن ترقی اسلام۔ ربوہ۔ پاکستان` حوالہ روزنامہ >الفضل< مورخہ ۳۰ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۶
۴۸۔
‏ Leagus Citizenshid Nations United The )متحدہ اقوام کی مجلس شہریت(
۴۹۔
آفاق ۱۷ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۵۰۔
اخبار >نوائے وقت< )لاہور ۱۷ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔۳
۵۱۔
جناب خواجہ ناظم الدین صاحب وزیراعظم پاکستان نے تحقیقاتی عدالت پنجاب میں بیان دیا:۔
>اس اعلامیہ نے وزیر خارجہ خلاف الزامات کو لازماً قبول نہیں کیا لیکن ان کے متعلق عام طور پر مشہور تھا کہ وہ احمدیوں کی اعانت کرتے اور دوسروں کو اپنے فرقہ میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں میں نے اس سلسلہ میں ٹھوس شکایات پیش کرنے کو کہا لیکن ایسی شکایات نہیں مل سکیں۔<
)روزنامہ >ملت< لاہور ۵ دسمبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۴(
۵۲۔
روزنامہ الفضل مورخہ ۱۱ تبوک ۱۳۳۱ ہش ۲۔۳
۵۳۔
کشتی نوح ۲۳`۲۴ )طبع اول(
۵۴۔
روزنامہ الفضل ۳ اخاء ۱۳۳۱ ہش مطابق ۳ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۴` صفحہ ۵
۵۵۔
روزنامہ الفضل ۷ شہادت ۱۳۴۲ ہش مطابق ۷ اپریل ۱۹۶۳ء
۵۶۔
صفحہ ۳ )مضمون مولوی محمد صاحب بی اے امیر جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان( جناب شیخ روشن صاحب تنویر مدیر الفضل نے اس مضمون کو ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے
دنیا میں آج حامل قرآن کون ہے
گر ہم نہیں تو اور مسلمان کون ہے؟
۵۷۔
روزنامہ الفضل ۲۹ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۸ )ترجمہ(
۵۸۔
ملاہظہ ہو >تاریخ اشاعت اسلام ۷`۵ ۔ صفحہ ۵۱۶ مولفہ مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحبؓ پانی پتی` ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور۔ طبع اول ۱۹۶۲ء۔ دعوت اسلام Islam> of <Preaming )سرتھامس آرنلڈ( زیر حالات >افریقہ میں اشاعت اسلام<
۵۹۔
آل عمران :۱۰۵
۶۰۔
یہ الفاظ مٹے ہوئے ہیں
۶۱۔
روزنامہ الفضل ۱۷ فتح ۱۳۳۱ ہش ۳`۴
۶۲۔
ہفت روزہ >الاعتصام< )گوجرانوالہ( ۲۶ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ نوٹ ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۶ء سے یہ اخبار لاہور سے نکلتا ہے۔
۶۳۔
آپ ان دنوں نائب وکیل التصنیف تحریک جدیدہ ربوہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں
۶۴۔
حال مینجر >الفضل< ربوہ
۶۵۔
مراسلہ مولوی نور الدین صاحب منیر بھنور سیدنا حضڑت مصلح موعودؓ )مورخہ ۳ ماہ فتح ۱۳۳۱ ہش(
۶۶۔
موضوعات کبیر ۳۵ از مولانا امام علی القاری طبع دوم مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۱۴ ھ/۱۸۹۶ء
۶۷۔
ہفت روزہ >فاروق< لاہور ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۱
۶۸۔
روزنامہ >الفضل< ۲۴ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۵ کالم ۴
۶۹۔
یہ مخلص جماعت ان دنوں نئی قائم ہوئی تھی۔
۷۰۔
قافلہ پاکستان کی تفصیل نامہ نگار الفضل کے قلم سے الفضل ۳`۷`۹ صلح ۱۳۳۲ ہش/جنوری ۱۹۵۳ء میں شائع شدہ ہے
۷۱۔
اس سال جلسہ خواتین حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ کے مکان سے متصل عبداللہ خاں صاحبؓ کے احاطہ میں ہوا۔
۷۲۔
تفصیلی روداد ہفت روزہ >بدر< )قادیان( ۷ صلح ۱۳۳۲ ہش/جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۹ ` ۱۰ و الفضل ۳ صلح ۱۳۳۲ ہش/جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ میں مندرج ہے
۷۳۔
ہفت روزہ >بدر< )قادیان( ۷ صلح ۱۳۳۲ ہش/جنوری۱۹۵۳ء صفحہ ۳` ۴
۷۴۔
روزنامہ >الفضل< لاہور ۱۱ صلح ۱۳۳۲ ہش/جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
۷۵۔
النساء : ۷۲
۷۶۔
شہادت ۲۳ ھ )۲۴۴ء(
۷۷۔
شہادت ۳۵ ھ )۶۵۶(
۷۸۔
شہادت ۴۰ ھ )۶۶۱ء(
۷۹۔
روزنامہ >الفضل< ۲۱ صلح ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۳`۴
۸۰۔
خان عبدالقیوم خان )موجودہ وزیر داخلہ پاکستان(
۸۱۔
۱۴ اگست ۱۹۵۲ء کا سرکاری اعلامیہ جس کا ذکر دوم میں ہے
۸۲۔
روزنامہ الفضل یکم صلح ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۲`۳
۸۳۔
روزنامہ >الفضل< لاہور مورخہ ۲ صلح ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۲
۸۴۔
>تعلق باللہ صفحہ ۱۲۳
۸۵۔
>ہمارا کشمیر< )مظفر آباد( ۱۰ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
۸۶۔
بحوالہ >الفضل< )لاہور( مورخہ ۱۷ صلح ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۸
۸۷۔
بحوالہ >الفضل< ۸ صلح ۱۳۳۲ ہش
۸۸۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۱۱۲ تا ۱۱۴ >اصحاب احمد< اول صفحہ ۲۰۴`۲۰۵ )از مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے قادیان` تالیف ۱۹۵۱ء`( >الفضل< ۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۷
۸۹۔
وفات ۱۷ مارچ ۱۸۹۶ء قبر بوتالہ کی خانقاہ کے احاطہ میں ہے
۹۰۔
تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۳۸۰` صفحہ ۳۱۸ میں اس میموریل کا ذکر آچکا ہے
۹۱۔
اس پرچہ میں آپ کا نام و پتہ یہ درج تھا >محمد عبداللہ صاحب خوشنویس بوتالہ سردار جھنڈا سنگھ گوجرانوالہ بھیرہ
۹۲۔
مخلوط صفحہ ۷۹
۹۳۔
مخلوط صفحہ ۲۵۱
۹۴۔
ملخصاً از >اصحاب احمد< جلد ہفتم صفحہ ۱۶۷ تا ۲۱۸ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے( سال طبع ۱۳۳۹ ہش/۱۹۶۰ء الفضل ۱۴ ہجرت ۱۳۳۱ ہش )خود نوشت حالات( الفضل ۶ ہجرت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶ )مضمون مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری(
۹۵۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد ۹ صفحہ ۱۹۷
۹۶۔
>الفضل< ۷ ہجرت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۲ کالم ۲
۹۷۔
>روایات صحابہ< جلد ۱۱ صفحہ ۱۹۷`۱۹۸
۹۸۔
ان کتابوں کے نام جناب میاں عبدالعظیم صاحب درویش و تاجر کتب قادیان کے رسالہ >واذا الصحف نشرت< میں بھی مذکور ہیں
۹۹۔
الفضل ۱۳ ہجرت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵ )مضمون قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکملؓ(
۱۰۰۔
الفضل ۱۳ ظہور ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶ )مضمون جناب گیانی عباد اللہ صاحب(
۱۰۱۔
الفضل ۳۰ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۹
۱۰۲۔
>میں مسلمان ہوگیا< حصہ سوم صفحہ ۱۴۸
۱۰۳۔
الفضل ۲۲۔ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۷
۱۰۴۔
کتاب البریہ )سرورق(
۱۰۵۔
کتاب البریہ صفحہ ۶۵ )تاریخ اشاعت جنوری ۱۸۹۸ء(
۱۰۶۔
>کفایتہ الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب< صفحہ ۴۹۱` ۴۹۲ )مولفہ الامام ابو عبداللہ محمد بن یوسف الشافعی مقتول ۲۵۸ ھ( ناشر المطبعتہ الحیدریہ النجف ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء
‏h1] ga[t۱۰۷۔
الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۰ء )بحوالہ املفوظات حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ ۱۱۳` الناشر الشرکتہ الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ` اشاعت نبوت ۱۳۳۹ ہش/نومبر ۱۹۶۰ء(
۱۰۸۔
>میں مسلمان ہوگیا< حصہ اول ۵۳
۱۰۹۔
الفضل ۲۲ احسان ۱۳۳۵ ہش/جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۴
۱۱۰۔
ملخص از >اصحاب احمد< جلد ہفتم صفحہ ۳ )مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے
۱۱۱۔
مکرم سردار بشیر احمد صاحب انجینئر کی ایک یادداشت سے ماخوذ
۱۱۲۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد ۹ صفحہ ۳۰۰ )شاہ صاحبؓ کی خد نوشت روایات(
۱۱۳۔
>لاہور لاہور احمدیت< ۳۳۳ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ سابق سوداگر مل۔ طبع اول ۲۰ فروری ۱۹۶۶ء وطن پرنٹنگ پریس لاہور
۱۱۴۔
الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۵
۱۱۵۔
منشی غلام محمد صاحبؓ امرتسری مراد ہیں
۱۱۶۔
حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سوانح عمری مرقاہ الیقین فی حیات نور الدین )مولفہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی( کی کتابت بھی آپ ہی نے کی تھی
۱۱۷۔
روزنامہ >الفضل< ۱۱ صلح ۱۳۳۲ ہش/ جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۵
۱۱۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان سال ۱۹۳۴ء۔۱۹۳۵ صفحہ ۶۷
۱۱۹۔
جناب محمد اکرم غور صاحب )مقیم لندن( جنہیں آپ کے تقدس اور بزرگی کے باعث احمدیت کی طرف توجہ ہوئی تحریر فرماتے ہیں >حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب جو صاحب ردیاد کشوف تھے میرے بیعت کرنے پر بہت خوش ہوئے اور میری دینی تربیت کی طرف خاص توجہ فرمائی۔
۱۲۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قایان سال ۱۹۳۴ء۔۱۹۳۵ء صفحہ ۵۱ )تفصیل تاریخ احمدیت جلد ہفتم ۲۵۴` پر آچکی ہے(
۱۲۱۔
رپورٹ ہائے سالانہ صدر انجمن احمدیہ )سال ۱۹۳۴ء۔۱۹۳۵ء( صفحہ ۵۸`۶۰`۷۳` صفحہ ۷۴۔ )سال ۱۹۳۵ء۔۱۹۳۶ء( صفحہ ۴۵۔ )سال ۱۹۳۶ء۔۱۹۳۷ء( صفحہ ۲۹ )سال ۱۹۳۷ء۔۱۹۳۸ء( صفحہ ۱۱۸`۱۱۹ )سال ۱۹۳۸ء۔۱۹۳۹ء( صفحہ ۱۰۹ )سال ۱۹۴۰ء۔۱۹۴۱ء( صفحہ ۳۴
۱۲۲۔
الفضل ۱۳ الفضل ۱۳۔ اخاء ۱۳۲۳ ہش صفحہ ۱
۱۲۳۔
‏ System Prefect
۱۲۴۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ سال ۱۹۴۴ء۔۱۹۴۵ء صفحہ ¶۶۵`۶۶
۱۲۵۔
الفضل ۱۷ ہجرت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۱۔۸` رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۵۱ء۔۱۹۵۲ء صفحہ ۴۳`۴۴
۱۲۶۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۵ ماہ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/مئی۱۹۵۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ایک ٹی پارٹی میں خطاب کیا مندرجہ بالا حضور نے اس تریب پر ارشاد فرمائے تھے )الفضل یکم احسان ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶
۱۲۷۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ سال ۱۹۵۱ء۔۱۹۵۲ء صفحہ ۴۳`۴۴
۱۲۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ سال ۱۹۵۱ء۔۱۹۵۲ء صفحہ ۴۴`۴۵][۱۲۹۔
یہاں سہواً نومبر ۱۹۴۵ء لکھا گیا تھا
۱۳۰۔
روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۲۴ فتح ۱۳۳۱ ہش/دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۵
۱۳۱۔
اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور دار الصدر شرقی ربوہ میں رہائش پذیر ہیں
۱۳۲۔
یہ پراونشل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن ۲۸ فروری تا ۲ مارچ ۱۹۴۵ء میں منعقد ہوئی تھی )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دہم صفحہ ۶۴۴`۶۴۶(
۱۳۳۔
الفضل ۲۵ فتح ۱۳۳۱ ہش/دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۵
۱۳۴۔
مدفون بہشتی مقبرہ قادیان )قطعہ نمبر ۱ حصہ نمبر ۲۰ قبر ۵
۱۳۵۔
مندرجہ بالا تاریخیں سید مسعود مبارک شاہ صاحب کی ایک یادداشت سے اخذ کی گئی ہیں
>موخر الذکر دونوں محترمہ فرخندہ شاہ بیگم صاحبہ )اہلیہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ( کے بطن سے ہیں۔
۱۳۶۔
الفضل ۲۹ صلح ` یکم امن `۶ ظہور ۸ اخاء ۱۳۳۱ ہش
۱۳۷۔
الفضل ۹ ظہور` ۲۴ اخاء ۲۶ اخاء ۲۸ اخاء ۱۳۳۱ ہش۔ اصحاب احمد جلد ششم ۱۹۲ الفضل ۱۸ صلح ۱۳۳۲ ہش۔ بدر ۲۸۔ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۱
۱۳۸۔
بدر )قادیان( ۷ ظہور ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۲
۱۳۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت سال ۱۹۵۲ء۔۱۹۵۳ء صفحہ ۳۱` ۳۳ و ایضاً ۱۹۵۳ء۔۱۹۵۴ء صفحہ ۱۰`۱۱
۱۴۰۔
مولوی مبارک احمد خان صاحب ایمن آباد مدیر >تریاق< و رفتار زمانہ< نے ان شذرات کا انتخاب ایک ٹریکٹ کی صورت میں بھی شائع کیا
۱۴۱۔
اصل چٹھی دفتر شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ میں محفوظ ہے
۱۴۲۔
آپ نے عمر کے آخری سال انگلستان میں بسر کئے اور وہیں انتقال کیا
۱۴۳۔
>خالد< اخاء ۱۳۳۱ ہش/اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ و ۳۱
۱۴۴۔
>آئینہ کمالات اسلام< سرورق ۲ مطبوعہ ۱۸۹۳ء
۱۴۵۔
المجادلہ رکوع ۳
۱۴۶۔
اشتہار اہل اسلام کی فریاد بحوالہ ورثمین فارسی ۳۸۳ ناشر محمد احمد اکیڈمی رام گلی نمبر ۳۔ لاہو
۱۴۷۔
منقول از ماہنامہ >خالد<و اخاء ۱۳۳۱ ہش/اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۵۔۶
۱۴۸۔
الفضل ۴ نبور ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۲
۱۴۹۔
الفضل ۳۱۔۲۲ ماہ نبوت ۱۳۳۱ ہش
۱۵۰۔
ملت )لاہور( ۲۲ جنوری ۱۹۵۴ء
۱۵۱۔
انسائیکلوپیڈیا آف برپٹینکا ایڈیشن ۱۹۷۲ء زیر لفظ Tunisia اور Morocco
۱۵۲۔
بدر )قادیان( ۲۱ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۱ ` مصباح )ربوہ( ماہ صلح ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۲۱
۱۵۳۔
محترم مبارک احمد صاحب حاتی جو ۱۱ اخاء/ اکتوبر کو روانہ ہوئے تھے کراچی میں موجود تھے کو موخر الذکر تینوں مجاہدین بھی پہنچ گئے پھر سب بذریعہ بحری جہاز عازم لندن ہوئے
۱۵۴۔
ریکارڈ وکالت مبشیر تحریک جدید ربوہ
۱۵۵۔
الفضل ۱۲۔۱۳ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش
۱۵۶۔
تفصیل تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۲۷۵`۲۷۶ میں گذر چکی ہے
۱۵۷۔
الفضل ۲۰ امان ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۱۵۸۔
الفضل ۱۱ شہادت ۱۳۳۱ ہش/اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۲
۱۵۹۔
الفضل یکم ظہور ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵ ۱۷ صلح ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۵
۱۶۰۔
الفضل ۲ نبوت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۴
۱۶۱۔
الفضل ۷ فتح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۱۶۲۔
تفصیل الفضل ۲۴ تا ۲۷ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش میں چھپ چکی ہے
۱۶۳۔
کٹنگ رجسٹر خلافت لائبریری ربوہ
۱۶۴۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۲ صلح ۱۳۳۲ ہش )مطبوعہ الفضل ۷ صلح ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۳(
۱۶۵۔
حضرت خواجہ فرید الدین عطاء~رح~ نے >تذکرہ الاولیاء< )باب ۴۳( میں یہ بات حضرت جنید بغدادی~رح~ کی طرف منسوب کی ہے
۱۶۶۔
روزنامہ الفضل لاہور ۳۰ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۳
۱۶۷۔
حدیث نبوی ہے اشفعوا توجروا< )بخاری ` مسلم ` ابو دائود ترمذی نسائی( سفارش کرو تمہیں اجر ملے گا۔ اللہ جلشانہ بھی فرماتا ہے من یشفع شفاعتہ حسنتہ یکن لہ نصیب منھا )النساء ۹۶( جو شخص اچھی سفارش کرے اس کے لئے اس میں سے ایک حصہ ہوگا
۱۶۸۔
روزنامہ الفضل ۸ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۴
۱۶۹۔
۱۶۹ الفضل ۱۴ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۲
۱۷۰۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب اردو صفحہ ۱۳۳` صفحہ ۱۳۹
۱۷۱۔
روزنامہ >آفاق< ۱۱ اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۶
۱۷۲۔
زمیندار ۱۷ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۱
۱۷۳۔
انجام )کراچی( ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۱۷۴۔
آزاد ۱۸ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۴
۱۷۵۔
زمیندار یکم اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم نمبر ۸
۱۷۶۔
زمیندار ۱۷ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶
۱۷۷۔
زمیندار ۱۱ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۲
۱۷۸۔
آزاد ۱۰ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۶ کالم ۴
۱۷۹۔
آزاد ۵ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۳
۱۸۰۔
آزاد ۱۸ جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۸۱۔
>زمیندار< ۵ نومبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ کالم ۶
۱۸۲۔
ہفت روزہ >حکومت< ۱۴ فروری ۱۹۵۳ء و >آزاد< ۳۰ جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۳
۱۸۳۔
>آزاد< ۷ ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۴
۱۸۴۔
>آزاد< ۱۳ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۴
۱۸۵۔
>زمیندار< یکم اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم نمبر ۸
۱۸۶۔
>دعوت< لاہور ۱۹ فروری ۱۹۵۳ء بحوالہ >الفضل< لاہور ۲۵ فروری ۱۹۵۳ء/۲۵ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش
۱۸۷۔
>زمیندار< ۱۶ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۳ )اداریہ(
۱۸۸۔
آزاد ۲۵ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۔۶
۱۸۹۔
آزاد ۷ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۵
۱۹۰۔
ہفت روزہ >حکومت< کراچی ۱۴ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم
۱۹۱۔
آزاد ۶ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم
۱۹۲۔
آزاد ۱۶ نومبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۴
۱۹۳۔
>آزاد< ۱۸ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۵ کالم ۲
۱۹۴۔
>آزاد< لاہور ۱۶ جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۳
۱۹۵۔
>آزاد< ۲۳ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
۱۹۶۔
زمیندار ۳ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم نمبر ۴
۱۹۷۔
آزد ۶ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۴
۱۹۸۔
زمیندار ۲۳ نومبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۱ کالم ۸
۱۹۹۔
زمیندار ۱۸ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم ۳
۲۰۰۔
زمیندار ۳ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۲
۲۰۱۔
آزاد ۱۶ جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم ۴
۲۰۲۔
اخبار >کوثر< ۲۵ جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۴ کالم
جناب مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے انہی دنوں کہا >کیا ہماری حکومت بھی مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے اور مسلمانوں کے دوسرے مطالبات اس وقت تسلیم کرے گی جب خون کی ندیاں بہ نکلیں گی۔< )آزاد ۱۸ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۳
۲۰۳۔
آزاد ۳۱ جنوری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۲
۲۰۴۔
زمیندار یکم فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶ کالم ۱
۲۰۵۔
روزنامہ آفاق )لاہور( ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۳ء ۱
۲۰۶۔
ملاحظہ ہو اشتہار >ہم مطالبہ کرتے ہیں< مطبوعہ مرکنٹائل پریس لاہور۔ شائع کردہ جماعت اسلامی پاکستان۔ >دستوری تجاویز >سرورق صفحہ ۴ از سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی طبع اول ۱۴ اگست ۱۹۵۲ء ناشر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی اچھرہ
۲۰۷۔
بالکل اسی نظریہ پر احرار نے مخالفت پاکستان کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ ایک بار سید عطا اللہ شاہ صاحب نے کہا >ہم سے کہا جاتا ہے کہ جدھر اکثریت ہو ادھر تم بھی چلو اور اکثریت کا ساتھ )دو( ہم اکثریت نہیں چاہتے ہمیشہ اقلیت حق پر ہوتی ہے ہم نام نہاد اکثریت کی تابعداری نہیں کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے۔< )اخبار زمزم ۳۰ اپریل ۱۹۳۹ء بحوالہ >سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری ۱۱۶ مولفہ خان حبیب الرحمان صاحب کابل >طبع اول جون ۱۹۴۰ء(
۲۰۸۔
رسالہ >ترجمان القرآن< ماہ ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۷۹` ۸۰
۲۰۹۔
جناب مولانا احمد علی صاحب امیر انجمن خدام الدین لاہور نے ایک بار خطبہ جمعہ کے دوران بتایا >اس حدیث شریف کا حاصل یہ نکلا کہ آپ کی امت کہلانے والوں میں ۷۲ فرقے ہوں گے اور فقط ایک فرقہ صحیح معنوں میں آپ کی امت کہلانے کا مستحق ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ کھری امت کمیاب ہوگی اور کھوٹی امت کی بہتات ہوگی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کھوٹی امت کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور کھری امت بہشت میں جائے گی نیز معلوم ہوا کہ کھری امت وہ ہے جو رسول~صل۱~ اور صہابہ کرام کے طریقہ پر ہو اور کھوٹی امت وہ ہے جو نام تو اسلام کالے اور مسلمان کہلائے مگر ان کا دین رسول اللہ والا نہ ہو بلکہ بعد کی ایجاد شدہ چیزیں ہوں۔<
>)آزاد< لاہور ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲(
۲۱۰۔
یہ رسالہ مودودی صاحب نے مارچ ۱۹۵۳ء میں عین اس وقت شائع کیا جب کہ علماء کی شعلہ افشانیوں نے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ جناب غلام احمد صاحب پرویز مدیر >طلوع اسلام< لکھتے ہیں >سب سے زیادہ اہمیت مودودی صاحب کے رسالہ قادیانی مسئلہ کو دی جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس رسالہ کے دلائل اس قدر پوچے ہیں کہ ان کا تجزیہ کیا جائے تو وہ خود احمدیوں کے حق میں چلے جاتے ہیں۔< >)مزاج شہاس رسول< صفحہ ۴۴۳ طبع اول ناشر ادارہ طلوع اسلام۔ کراچی(
امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی (Tufts%University) میں تاریخ کے پروفیسر مسٹر فری لینڈ ایبٹ Abbot) (Freeland نے مڈل ایسٹ جرنل کی سرمائی اشاعت ۱۹۵۷ء میں >قادیانی مسئلہ< پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا< اس پمفلٹ میں خواہ علمی لحاظ سے کیسے ہی عمدہ دلائل کیوں نہ دیئے گئے ہوں بہرحال ایک کشیدگی کی موجودگی میں اس کی اشاعت یقیناً کھچائو میں اضافہ کا باعث ہوئی۔ احمدی قبل ازیں ایک مدت سے جماعت اسلامی کی مخالفت میں بہت سرگرم رہے تھے عین ممکن ہے کہ مولانا مودودی اس مخالفت سے سرگرداں ہوچکے ہوں اور مولانا موصوف نے مسلم سوسائٹی سے ان لوگوں کے اخراج کا موقعہ غنیمت جان کر یہ پمفلٹ لکھا ہو اور انہیں اس بات کا خیال نہ آیا ہو کہ یہ پمفلٹ بھی کشیدگی میں اضافہ ہی کرے گا مولانا مودودی کو اس وقت معلوم ہونا چاہئے تھا کہ وہ درحقیقت ایک بہت بڑے آتش گیر بم سے کھیل رہے ہیں۔ ان کا یہ عدم احساس درحقیقت ایک زبردست غیر ذمہ داری کے مترادف ہے۔< )ترجمہ(
)بحوالہ رسالہ >چراغ راہ< تحریک اسلامی نمبر< ۳۶۸ تاریخ اشاعت نومبر ۱۹۶۳ء ناشر ادارہ چراغ راہ کراچی(
۲۱۱۔
یہ گرفتاریاں کیوں ؟ صفحہ ۲۹ ناظم شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان۔ اشاعت اول اپریل ۱۹۵۳ء مطبوعہ ناظر پرنٹنگ پریس اخبار بلڈنگ میکلوڈ روڈ کراچی
۲۱۲۔
ایضاً صفحہ ۲۸
۲۱۳۔
اخبار >کوثر< لاہور ۴ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۶
۲۱۴۔
یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مسلمانان ہندو پاکستان کی اکثریت کی نسبت مودودی صاحب کی حتمی رائے یہ تھی کہ >ایک قوم کے تمام افراد کو محض اس وجہ سے کہ وہ نسلاً مسلمان ہیں حقیقی معنی میں مسلمان فرض کر لینا اور یہ امید رکھنا کہ ان کے اجتماع سے جو کام بھی ہوگا اسلامی اصول پر ہی ہوگا پہلی اور بنیادی غلطی ہے۔ یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کی ۹۹۹ فی ہزار رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لئے مسلمان ہیں< )مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ۱۷۲` ۱۷۳ طبع ہفتم ۱۹۵۵ء ناشر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان اچھرہ لاہور( >قرآن میں جن کو اہل کتاب کہا گیا ہے وہ آخر نسل مسلمان ہی تو تھے< )ایضاً ۱۹۹( پھر عہد حاضر کے مسلمان فرقوں کی نسبت فرماتے ہیں >خدا کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بناء پر اہلحدیث` حنفی` دیوبندی بریلوی` شیعہ` سنی وغیرہ الگ الگ امتیں بن سکیں۔ یہ امتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ )خطبات طبع چہارم ۷۴ ناشر مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام جمالپور پٹھانکوٹ(
۲۱۵۔
>دستوری سفارشات پر تنقید اسلامی اور جمہوری نقطہ نظر سے< مصنفہ سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب صفحہ ۱۴` ۱۵ ناشر شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان
۲۱۶۔
روزنامہ >تسنیم< لاہور ۲ جولائی ۱۹۵۵ء )جماعت اسلامی کا آرگن(
۲۱۷۔
>جماعت اسلامی کے ۲۹ سال< ۶۱ )تقریر سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی مورخہ ۲۶ اگست ۱۹۷۰ء( شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان لاہور طبع اول ستمبر ۱۹۷۰ء
۲۱۸۔
>مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش< حصہ سوم ۱۲۶` ۱۷۶
۲۱۹۔
>تنقیحات< ۴۷` ۴۸ طبع اول ۱۹۲۹ء طبع ہفتم ۱۹۶۳ء اسلامک پبلیکیشنز لمٹیڈ۱۱۔ سی شاہ عالم مارکیٹ لاہور
۲۲۰۔
اسلامی ریاست نمبر ۲ صفحہ ۴۲ شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی ذیلدار پاک اچھرہ لاہور۔ طبع اول ۱۹۵۰ء
۲۲۱۔
روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ۲ فروری ۱۹۵۳ء بحوالہ روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۵ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۸
۲۲۲۔
صفحہ ۱۸۴ )ناشر Lahore House Publishing (Peopels
۲۲۳۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۴۲۲
۲۲۴۔
روزنامہ ملت لاہور ۹ جنوری ۱۹۵۴ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۲۵۔
روزنامہ >ملت< لاہور ۸ جنوری ۱۹۵۴ء صفحہ ۲
۲۲۶۔
پاکستان کے موجودہ صدر مملکت آپ زراعتی کالج لائلپور کے فارغ التحصیل ہیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم۔ اے ایل ایل بی کیا اور اپنے وطن مالوف گجرات )پنجاب( سے وکالت کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگی امیدوار کی حیثیت سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ممدوٹ وزارت کے زمانہ میں میاں محمد ممتاز خاں دولتانہ کے پارلیمنٹری سیکرٹری رہے۔ مئی ۱۹۴۸ء میں میاں صاحب ممدوٹ وزارت سے الگ ہوگئے تو آپ بھی مستعفی ہوگئے۔ پر تھوڑے عرصہ کے لئے ممدوٹ وزارت میں وزیر تعلیم رہے۔ ممدوٹ وزارت اور پنجاب اسمبلی برخاست کردی گئی تو آپ دوبارہ وکالت کرنے لگے۔ ایک یونٹ کے قیام کے بعد گجرات سے مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن چنے گئے۔ اکتوبر ۱۹۵۳ء میں پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب کئے گئے اور مغربی پاکستان اسمبلی کے سپیکر رہے۔ )اردو انسائیکلوپیڈیا ۱۱۴۹ ناشر فیروز سنز لاہور۔ طبع اول ۱۹۵۲ء(
>قائد عوام< جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عہد حکومت میں سپیکر پاکستان اسمبلی کے فرائض انجام دینے کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۷۳ء کو صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر ممتاز ہوئے ؟
۲۲۷۔
روزنامہ >آفاق< لاہور ۴ فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۵
۲۲۸۔
روزنامہ >ملت< لاہور ۵ فروری ۱۹۵۴ء صفحہ ۷
۲۲۹۔
روزنامہ >آفاق< لاہور ۴ فروری ۱۹۵۴ء صفحہ ۱
۲۳۰۔
روزنامہ >ملت< ۲۴ فروری ۱۹۵۴ء صفحہ ۳
۲۳۱۔
روزنامہ >آفاق<لاہور ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔۶
۲۳۲۔
روزنامہ >آفاق< ۲۳ جنوری ۱۹۵۴ء صفحہ ۵
۲۳۳۔
روزنامہ >ملت< لاہور ۱۵ دسمبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۷
۲۳۴۔
روزنامہ >ملت< لاہوف ۱۸ دسمبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
۲۳۵۔
روزنامہ >آفاق< لاہور ۳۰ اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
۲۳۶۔
روزنامہ >آفاق< لاہور ۲۸ اگست ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
۲۳۷۔
روزنامہ >ملت< لاہور ۲۵ دسمبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
۲۳۸۔
>اقبال اور ملا< صفحہ ۱۹ مصنفہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایم۔اے اے` پی ایچ ڈی۔ ناشر بزم اقبال نرسنگھ داس گارڈین کلب روڈ۔ لاہور
‏]h1 [tag۲۳۹۔
روزنامہ >ملت< ۴۔ اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱
۲۴۰۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب صفحہ ۳۰۴
۲۴۱۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۴۲ تا ۱۴۶ مطبوعہ انصاف پریس۔ لاہور
۲۴۲۔
ہفت روزہ نگہبان )کراچی( ۲۵۔ فروری ۱۹۵۳ء
۲۴۳۔
ممتاز محمد خاں دولتانہ سے تحقیقاتی عدالت میں دریافت کیا گیا کہ
>جو علماء اس وقت ایجی ٹیشن چلا رہے تھے۔ ان کے متعلق خواجہ ناظم الدین کی روش کیا تھی؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا ان کی طرف خواجہ ناظم الدین صاحب کا رویہ ہمدردانہ تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ملک کے سامنے آئین سازی کا مسئلہ درپیش تھا اور وہ برسراقتدار پارٹی کے )لیڈر( تھے اور آئین سازی کے دوران میں انہوں نے علماء کے نقطہ نگاہ کا بہت لحاظ کیا تھا۔ اور جہاں تک میں نے اندازہ لگایا خواجہ صاحبنے مذہبی رہنمائوں کے نقطہ نظر کو قبول بھی کر لیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ان کی پالیسی یہ تھی کہ آئین کے صرف مذہبی مسائل پر پوری توجہ دی جائے تاکہ اس طرح ملک میں عام مقبولیت حاصل کر لی جائے اور پھر اس کے ذریعہ غیر مذہبی نوعیت کے مسائل مساویانہ نمائندگی اور قومی زبان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد لی جائے۔< )اخبار ملت ۲۳ جنوری ۱۹۵۴ء صفحہ ۶(
۲۴۴۔
روزنامہ >ملت< ۲ تا ۶ دسمبر ۱۹۵۳ء
۲۴۵۔
تحقیقاتی عدالتی میں جماعت اسلامی کے وکیل چوہدری نذیر احمد صاحب نے بھی کہا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کو نہایت ناپاک اور گندے الفاظ میں علانیہ طور پر گالی دی جارہی تھی جس کی اجازت کسی متمدون ملک کی متمدن حکومت نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے ایک سینئر رکن کو گالیاں دینے کا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا لیکن اس انتہائی شرمناک اور حوصلہ فرسا اقدام پر ان کے رفقائے کابینہ یا ملک کے رہنمائوں نے اس کو ختم کرنے کے لئے ذرہ بھر بھی آواز نہیں اٹھائی۔
چوہدری نذیر احمد نے کہا۔ گندے دشنام آمیز اور زہریلے نعروں کے باوجود جب ملک کے صحیح الخیال لوگوں نے دیکھا کہ یہ مظاہرے سرکاری افسروں کی جانب سے کسی روک ٹوک یا پابندی کے بغیر جاری ہیں تو ان میں شکست خوردگی کی ذہنیت پیدا ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کی حرکتوں کی مذمت میں نام نہاد مجلس عمل کے کسی رہنما بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ )ملت ۷ فروری ۱۹۵۴ء صفحہ ۳(
۲۴۶۔
اخبار >ملت< لاہور ۲۷` ۲۹ نومبر ۱۹۵۳ء
۲۴۷۔
اخبار >ملت< لاہور ۶ دسمبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۷۰
۲۴۸۔
اخبار >ملت< )لاہور( ۲۲ جنوری ۱۹۵۴ء صفحہ ۷
۲۴۹۔
روزنامہ >زمیندار< لاہور یکم مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۳
۲۵۰۔
یہ سب اقتباسات جناب ممتاز احمد صاحب کی کتاب >مسئلہ کشمیر< سے لئے گئے ہیں۔ یہ کتاب المحراب سمن آباد لاہور نے شائع کی ہے اور دیباچہ بانی جماعت اسلامی جناب سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے لکھا ہے ؟
۲۵۱۔
>۔Phase Formative <Pakistan Saeed Bin Khalid (Vide 283)۔P 1960) (Karachi, بحوالہ مسئلہ کشمیر مولفہ ممتاز احمد صاحب )صفحہ ۲۵۶`۲۵۷(
۲۵۲۔
‏India> in Power of Transfer <The Menon,۔P۔V 384)Vide۔P ۔1957) (Calcutta,
۲۵۳۔
382 ۔P ۔Cit۔OP Menon,۔P۔V
۲۵۴۔
920۔P 1959), (London <Auchinleck> Connell, John
۲۵۵۔
‏of Policy Patel,<Foreign Ramdas aSatyavarat 91۔P (Bombay,1860) Criticism> and Enquiry India: بحوالہ >مسئلہ کشمیر< صفحہ ۳۵۹
۲۵۶۔
رسالہ >سیارہ ڈائجسٹ< مئی ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۳۷` ۱۳۸
۲۵۷۔
95۔P Culture its Society Its People Its <Pakistan> Haven) New Press (Nraf دسمبر ۱۹۶۳ء
۲۵۸۔
رسالہ >طلوع اسلام< کراچی ۲۶ مارچ ۱۹۵۵ء صفحہ ۱۱`۱۲
۲۵۹۔
یاد رہے احراری علماء ان دنوں صاف لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ >ہمیں صرف چودھری سر ظفر اللہ کو اس کی کرسی سے علیحدہ کرنا نہیں ہے خواجہ ناظم الدین کو بھی یہی عزت دینا ہے۔< )زمیندار ۳ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۶`۷ بیان ماسٹر تاجدین صاحبانصاری صدر مجلس احرار مرکزیہ(
۲۶۰۔
>آزاد< یکم مارچ ۱۹۵۳ء
۲۶۱۔
روزنامہ >انقلاب< بمبئی یکم مارچ ۱۹۵۳ء
۲۶۲۔
>المصور )قاہرہ( ۱۰ اپریل ۱۹۵۳ء بحوالہ< )ربوہ( فروری ` مارچ` اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۴۸۔۵۰ )متن و ترجمہ(
۲۶۳۔
>آزاد< )لاہور( ۶ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم نمبر ۴ صفحہ ۶ کالم ۵
۲۶۴۔
>الفضل< ۱۵ فروری ۱۹۵ء صفحہ ۳ تا ۵
۲۶۵۔
>الفضل< ۲۴ تبلیغ ۱۳۳۲ ہش صفحہ ۱
۲۶۶۔
۲۶۶ >زمیندار< ۲۶` ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۳
۲۶۷۔
الفرقان حصہ دوم مولفہ پادری غلام مسیح۔ پاسٹر انبالہ شہر چرچ ۱۹۰۵ء کتارا۔ خنجر
۲۶۸۔
اسی روز لاہور کے مندرجہ ذیل چھ ممتاز شیعہ زعماء نے احراری تحریک سے کھلے لفظوں میں لاتعلقی کا اعلان کیا:۔
۱۔ مولانا شبیر حسین صاحب بخاری سیکرٹری ادارہ تحفظ حقوق شیعہ۔۲۔ مولانا عبدالغفور صاحب جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ۔۳۔ مولانا محمد حسین صاحب مختار الفاضل و مولوفی فاضل۔۴۔ مولانا محمد باقی صاحب۔۵۔ جناب سید عابد حسین صاحب۔ ۶۔ جناب نوابزادہ اصغر علی خاں۔
ان اکابر نے ایک مشترکہ بیان میں فرمایا:۔
۲۶۹۔
>پاکستان مرزائی جماعت کے بارہ میں ہماری متفقہ اور مسلمہ رائے ہے کہ عقائد کے اختلاف کی بنا پر کسی جماعت یا فرقے کو اقلیت قرار دینا اور اس پر عرصہ حیات تنگ کرنے کامطالبہ کرنا صریحاً ناجائز اور ناانصافی پر مبنی ہے۔ ہم شیطان پاکستان کی جانب سے احراری مولویوں کی تحریک سے قطع تعلقی کا اعلانکرتے ہوئے اپیل کرتے ہیں کہ اس نبیﷺ~ کے نام کو جنگ اور بدامنی کا بہانہ نہ بنایئے جو دنیا میں امن و آشتی اور سلامتی کا پیغام لے کر آیا۔< )روزنامہ >آفاق< ۵ مارچ ۱۹۵۳ء نمبر ۹۰(
۲۷۰۔
الفضل کی بندش پر لاہور ہی سے ہفت روزہ >فاروق< مکرم مولوی محمد شفیع صاحب اشرف )حال مربی انڈونیشیا( کی ادارت میں جاری کیا گیا تھا۔ یہ اخبار بھی ۴ مارچ ۱۱۔ مارچ ۱۹۵۳ء کی دو اشاعتوں کے بعد بند کردینا پڑا۔
۲۷۱۔
ہفت روزہ >فاروق< ۴ مارچ ۱۹۵۳ء
۲۷۲۔
>الفضل< ۲۳ احسان ۱۳۳۳ ہش صفحہ ۴ کالم ۳`۴
۲۷۳۔
>الفضل< ۱۰ وفا ۱۳۳۵ ہش صفحہ ۴ کالم ۲`۳
۲۷۴۔
>انورار الاسلام< از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲ تا ۵۴ طبع اول مطبوعہ قادیان )ضیاء الاسلام پریس ربوہ(
‏t
 
Top