• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 14 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 14 ۔ یونی کوڈ

‏tav.14.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت کی مفصل رو داد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد 14
۱۹۵۳ء )۱۳۳۲ ہش( کے ایام ابتلاء میں پاکستانی احمدیوں کا مثالی نمونئہ صبر و رضا اور اس کی عظیم برکات اور تحقیقاتی عدالت کی مفصل رو داد
مئولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مقدمہ
فروری ۱۹۵۳ء کے آخر میں مغربی پاکستان خصوصاً اس کے صوبہ پنجاب میں فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے جس پر ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء کا نفاذ عمل میں آیا۔ بعد ازاں جسٹس حمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے فاضل ججان پر مشتمل تحقیقاتی عدالت نے اس شورش کے عوامل اور دیگر ضروری احوال و کوائف کی نہایت محنت و عرقیزی سے چھان بین کی اور اپنی مفصل رپورٹ میں فسادات کی تفصیلات پر روشنی ڈالی اور ان کے پیچھے کارفرما عناصر کو بے نقاب کیا۔
ان فسادات میں لاقانونیت` ہنگامہ آرائی اور بدامنی کے اثرات و نتائج تین واضح صورتوں میں بھر آئے۔
اول۔
اخلاق سوز مظاہرے۔
دوم۔
پاکستان کے خلاف بغاوت۔
سوم۔
جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد۔
اخلاق سوز مظاہرے
ان مظاہروں میں اخلاق اور انسانیت کی اقدار کو کس بے دردی سے پامال کیا گیا؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل بیانات سے بخوبی لگ سکتا ہے۔
۱۔
جناب نصر اللہ خاں صاحب عزیز مدیر تسنیم` جناب ممتاز احمد خاں صاحب مدیر آفاق جناب خلیل احمد صاحب مدیر مغربی پاکستان` جناب محمد حبیب اللہ صاحب اوج مدیر احسان` جناب محمد علی صاحب شمسی مدیر سفینہ نے متفقہ بیان دیا کہ:۔
>تحفظ ختم نبوت کے مقصد سے ہر مسلمان کو ہمدردی ہے۔ ختم نبوت مسلمان کے ایمان کا جز ہے لیکن اس مقدس مقصد کے نام پر بھنگڑے` سوانگ رچانا` مغلظ گالیاں نکالنا اور اخلاق سوز حرکتیں کرنا مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے~<ف۱~
۲۔
روزنامہ >آفاق< لاہور نے متعدد اداریوں میں اس اخلاف اسلام ذہنیت کی پرزور مذمت کی مثلاً لکھا:۔
نبی کے نام پر
>آج کل لاہور میں بعض بے فکرے نوجوان تحریک ختم نبوت کی آر میں اور نبی~صل۱~ کے نام پر جو حرکات کررہے ہیں` کیا کسی حق گو عالم` لیڈر` رہنما اور ذی اثر انسان میں ہمت ہے کہ ان کی روک تھام کے لئے میدان میں نکلے اور )ان نوجوانوں کو جن کا خون گرم ملت کے ہزار کام آسکتا ہے( اس لہو و لعب اور غیر شریفانہ انداز سے روکے` بعض نوجوانوں کا سوانگ بنانا` ڈنڈے بجانا` بھنگڑا پانا اور اچھل کود کرنا۔ کیا ان تمام حرکات کو کوئی صحیح العقیدہ مسلمان تحریک ختم نبوت یا سرور کائنات کے مقدس نام سے کسی طرح وابستہ کرسکتا ہے اور یہ سب کچھ ہو اسی نام پر رہا ہے` کیا یہ تمام حرکات بجائے خود توہین سرور کائنات کی ذیل میں نہیں آتیں؟ بینو او توجروا۔~ف۲~
۳۔
اسی اخبار میں اپنی ۲۳ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت صفحہ ۲ میں لکھا:۔
>کوئی شک نہیں کہ تحفظ ناموس رسولﷺ~ پر ہم دنیا کی پیاری سے پیاری چیز قربان کرنا ہی اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ لین ایثار و قربانی جیسی پاکیزہ اور قابل رشک چیزوں کے ساتھ ہی کسی طرح بھی ہڑبونگ` ہلڑ اور فساد کا پیوند نہیں لگا سکتے۔ نامور رسالت کا صحیح پاس اسی دل کو ہوسکتا ہے جو رسولﷺ~ کی شان رحمت کے حدود کو بھی سمجھتا ہو وہ رحمت جو عالمین کو محیط ہے جس کے دامن حیات آفریں میں طائف کے پتھر مارنے والے بھی ¶دعائے نیک کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور مکہ کے جانی دشمن بھی یہ پیام سنتے ہیں لاتثریب علیکم الیوم۔ ہڑبونگ` ہلڑ اور فساد کو رحمت اللعالمین نے کسی طرح کی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا۔۔۔۔۔ ختم نبوت کے مسئلے کا تعلق` ایمان و اعتقاد کی پاکیزگی` کبھی کسی اکراہ کی روا دار بھی نہیں چہ جائیکہ فتنہ و فساد اس سے وابستہ ہوجائے<
۴۔
اخبار >مغربی پاکستان< لاہور نے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کے اداریہ میں لکھا:۔
>خدا اور محمدﷺ~ کے نام کے ساتھ انتہائی غلیظ اور قابل نفرت گالیاں دی جاتی ہیں تشدد کے مظاہرے کئے جاتے ہیں` گاڑیاں روک لی جاتی ہیں اور ہر ہجوم کی طرف سے ہر طرح کی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ہم مسلمانان پنجاب سے گذارش کلریں گے کہ وہ مذہب کے معنے غلط نہ سمجھیں اور مذہب کو اس طرح نہ اچھالیں کہ آپ ختم ہوکر رہ جائیں۔ علماء نے آپ کو غلط بات بتائی ہے۔ خدا کے لئے ہر شخص مذہب کلا ٹھیکیدار نہیں ہوسکتا۔ مذہب ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص مسلمان نہیں تو کیا آپ کا اسلام یہ سبق دیتا ہے کہ آپ اسے زبردستی مسلمان بنائیں یا اسے اٹھا کر اپنے ملک سے باہر پھینک دیں۔ ذرا اپنے اعمال کا جائزہ لیجئے۔ کیا آپ مسلمان ہیں؟ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے صرف پچھلے چند دن کے اعمال ہی پر نظر ڈالیے۔ کیا یہ سچے مسلمان کے اعمال ہوسکتے ہیں؟ پھر مذہب کے نام پر یہ ہڑبونگ کیوں مچائی جارہی ہے؟ ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ احراریوں کی اس ہڑبونگ` اس راست اقدام` اس ختم نبوت کو اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا نام بدنام کیا جارہا ہے۔ اس کا تعلق ضرور کسی سیاسی اغراض سے ہے۔۔۔۔۔ احراری لیڈر ہوں یا دوسرے جو لوگ بھی مذہب کے نام پر آپ کو اشتعال دلاتے ہیں اور اس طرح آپ کے نازک جذبات سے کھیلتے ہیں تو وہ یقیناً پاکستان کے بدترین دشمن ہیں۔~<ف۳~
۵۔
راولپنڈی کے مشہور اخبار >تعمیر< کو اپنے اداریہ میں یہاں تک لکھنا پڑا کہ:۔
>سرور کائنات~صل۱~ کے علم کو بلند رکھنے کے لئے کون مسلمان ہے جو اپنا سب کچھ قربان کر دینے سے گریز کرے گا؟ لیکن اس مقدس علم کے نیچے فحش اور بازاری گالیاں سن کر رحمہ للعالمین کے نام پر لوٹ مار` توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کی وارداتیں اور ساری دنیا کے لئے امن و سلامتی کے پیغام لانے والے کے پرستار ہونے کے دعویداروں کی جانب سے تشدد اور بدامنی دیکھ کر کس مسلمان کا سر ندامت سے نہیں جھک جائے گا۔~<ف۴~
۶۔
حکومت پاکستان نے ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا:۔
>ملک کے بعض حصوں میں احمدیہ فرقہ کے متعلق جو فرقہ وارانہ تحریک چل رہی ہے اور بڑھ رہی ہے لوگوں کو اس کی خاص خاص باتوں کا اچھی طرح علم ہے۔ اس ایجی ٹیشن کے چلانے والوں نے اب حکومت کو یہ تحکمانہ چیلنج دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ ڈائریکٹ ایکشن شروع کردیں گے۔ یہ ایجی ٹیشن احراریوں نے شروع کیا تھا اور گو بعد میں بعض دوسرے عناصر نے بھی اس کی حمایت شروع کردی لیکن اب بھی احراری اس کی حمایت کررہے ہیں اور وہی اسے چلا رہے ہیں۔ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے احرار مسلسل اور سختی کے ساتھ مسلمانوں کی تحریک آزادی کی مخالفت کرتے رہے اور انہوں نے ان لیڈروں اور جماعتوں سے تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا جو حصول پاکستان کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ تقسیم سے قبل بہت سے احرار لیڈروں نے کانگرس اور ان جماعتوں کا ساتھ دیا اور ان سے گہرا تعاون کیا جو مسلمانوں کی جنگ آزادی میں قائداعظم مرحوم کے مقابلہ پر صف آرا تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی انتشار پسند سرگرمیوں کو ترک نہیں کیا۔ ہمارے پاس اس امر کی معتبر شہادتیں ہیں کہ احرار اب بھی پاکستان کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ احرار لیڈروں نے پاکستان کے دشمنوں کے اشاروں پر اور ان کی مدد سے مسلمانوں میں انتشار پھیلانے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی ہرامکانی کوشش کی ہے~<ف۵~
۶۔
وزیر دفاع جناب سکندر مرزا صاحب نے ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو خواجہ ناظم الدین وزیراعظم پاکستان کو خفیہ مکتوب لکھا کہ:۔
>آپ کے ذاتی دشمنوں نے جن میں ملا بھی شامل ہیں جو مسائل کھڑے کردیئے ہیں اگر سختی سے نہ دبائے گئے تو ملک کی پوری انتظامیہ کو تباہ کرکے رکھ دیں گے۔ کافی عرصے سے میں اپنی انٹیلی جینس کے آدمیوں کو کراچی میں جلسوں وغیرہ میں بھیج رہا ہوں جہاں آپ کو اور حکومت کو کھلے عام جو گالیاں دی جاتی ہیں وہ انتہائی اشتعال انگیز اور تیز و تند نویعت کی ہیں۔۔۔۔۔ کیا مذہب اسی کا نام ہے کہ سب سے بڑی اسلامی ریاست کی انتظامیہ کی بنیادوں کو تباہ کردیا جائے؟ قاہرہ میں سر ظفر اللہ خاں کا استقبال پورے احترام اور عزت کے ساتھ کیا گیا۔ وہ تمام عرب ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں جن کی نظر میں ان کی بہت عزت بھی ہے لیکن کراچی میں عام جلسوں میں انہیں گالیاں دی جارہی ہیں اور ان کی تصویر پر تھوکا جارہا ہے۔ گزشتہ رات ایک گدھے کے جسم کے ساتھ ملا کر ان کا کارٹون بنایا گیا ہے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا بھر کے دارلحکومتوں میں رپورٹ نہیں ہورہا ہوگا؟ پھر ایسی صورت میں بین الاقوامی طور پر پاکستان کی کیا پوزیشن باقی رہ جاتی ہے؟ اور کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس تمام خرافات کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔ خدا کے واسطے ایک جر¶ات مند لیڈر بنئے اور فیصلہ کن اقدام اٹھایئے۔ صرف ایک دفعہ آپ یہ کرکے دیکھئے بدمعاشوں کے علاوہ پوری قوم اپ کے گرد ہوگی اور پاکستان کا وقار پھر رفعتوں کو چھونے لگے گا ملک بچ جائے گا۔~<ف۶~
پاکستان کے خلاف بغاوت
یہ شورش ایک مقدس کی نعرہ کی آڑ میں بپا کی گئی تھی جو کھلی بغاوت پر منتج ہوئی جس نے ملک کے دانشوروں اور محب وطن طبقوں کی آنکھیں کھول دیں اور انہیں بر ملا تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ختم نبوت نہیں بلکہ ختم پاکستان کی تحریک ہے جو پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازش کا نتیجہ ہے` جیسا کہ مندرجہ ذیل بیانات ے عیاں ہے۔
۱۔
روزنامہ >مغربی پاکستان< نے >نوحہ غم< کے زیر عنوان ایک اداریہ میں لکھا:۔
>اب تو شاید عوام کو بھی اس امر کا احساس ہوچکا ہوگا کہ یہ >راست اقدام< مذہب کی محبت کی وجہ سے شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔۔۔۔۔ مذہب اور مذہب الام جس کی بلندی کے سامنے دنیا کی تمام بلندیاں پست ہیں یہ کبھی اجازت نہیں دیتا کہ اس قسم کی ہنگامہ آرائی کی جائے۔<
>دشمن ہماری اس حرکت پر خندہ زن ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے اور وہ اندی ہی اندر بہت شاداں و فرحاں بھی ہیں کہ اس ہنگامہ آرائی سے یقیناً پاکستان کمزور ہوجائے گا اور وہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ایک ہی ضرب میں ختم کردیں گے۔~<ف۷~
۲۔
وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے اپنی ۱۵ مارچ ۱۹۵۳ء کی نشری تقریر میں کہا:۔
>حفاظت ناموس رسول کے مقدس نعرے کی آڑ میں بعض شر پسند اور پاکستان دشمن عناصر نے ایسی وحشیانہ حرکات کیں جن سے اسلام کے نام کو دھبہ لگا اور پاکستان کے مفاد اور وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ ان عناصر نے ہماری پاک مسجدوں کو غلط سیاست کی کھلی سازش کا اکھاڑا بنانے تک سے دریغ نہ کیا۔ وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے الم نشرح دشمن تھے۔ امن پسند اور بھولے شہروں کی آنکھوں میں خاک ڈالنے میں کامیاب ہوگئے` ریل گاڑیوں کی پٹڑیاں اکھاڑ دی گئیں تاکہ خوراک کی نقل و حرکت مسدود ہوجائے۔ تار اور ٹیلیفون کے سلسلے کو منقطع کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیوپاریوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کو کام کے سلسلے کو منقطع کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیوپاریوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کو کام سے جبراً روکا گیا۔ دکانیں اور گھر لوٹے گئے۔ عورتوں کی بے عزتی ہوئی` قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ غرضیکہ ہر ممکن طریق سے بدامنی اور انتشار` دہشت اور ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی تاکہ صوبہ کی اقتصادی اور شہری زندگی ختم ہوجائے۔
آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ یہ تمام کاروائی ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی جبکہ ہمارا ملک خصوصاً صوبہ پنجاب ایک نازک اقتصادی دور سے گزر رہا تھا۔ ایک طرف قدرتی حوادث اور نہروں میں پانی کم ہونے کے باعث خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا دوسری طرف عالمگیر بحران نے تجارت کا بازار سرد کر رکھا تھا۔ اس مصیبت کے وقت پنجاب میں خلفشار پیدا ہوتا کوئی اتفاقی سانحہ نہ تھا۔ بلکہ ایک خوفناک سازش تھی۔ ہر آزاد قوم کا شیورہ ہے کہ مصیبت کے وقت اتافق اور اعتماد سے کام لے۔ ایسے موقع پر سراسیمگی اور خلفشار پھیلانا ملک کے دشمنوں کیسوا اور کسی کا کام نہیں ہوسکتا۔ ان دشمنوں ککے وجود سے آپ اور آپ کی حکومت بے خبر نہیں تھی۔ یہ لوگ پاکستان کے شروع سے مخالف تھے اور ہر مرحلے پر اس کی ترقی اور بہبودی کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔۔۔۔۔ ان کی کھلی بغاوت کا کم از کم ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ ملک کے دشمن بے نقاب ہوگئے اور قوم نے انہیں ان کے اصلی رنگ اور روپ میں دیکھ لیا ہے اب یہ خواہ کسی بھیس میں آئیں یا کسی لائحہ عمل کی آڑ لیں ان کا فریب نہ چل سکے گا لیکن افسوس ان لوگوں پر ہے جو لاعلمی اور نادانی کے باعث ان غداروں کی سازش کا شکار ہوگئے۔ جو ان کے دھوکے میں آکر اپنی قوم اور ملک کا اور خود اپنا مفاد بھول گئے اور ان کی شیطنت کا آلئہ کار بن گئے۔~<ف۸~
وزیر اعلیٰ صاحب نے اس کے بعد ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ء کو پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا:۔
>اس تحریک کے علمبرداروں نے نام نہاد راست اقدام جسے میں کھلی بغاوت کہتا ہوں شروع کرکے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔۔۔۔۔ تحریک کے پہلے تین چار دنوں میں کوئی خاص ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن بعد ازاں یہ تحریک پاکستان دشمن سیاسی عناصر اور شر پسند غنڈوں کے ہاتھوں میں چلی گئیiq]< ga~[tف۹~
۳۔
گورنر پنجاب جناب ابراہیم اسمٰعیل چندیگر نے ۲۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو ایک نشری تقریر کی جس میں اس ایچی ٹیشن کو >کھلی بغاوت< قرار دیتے ہوئے کہا:۔
>بدامنی کی یہ تحریک بظاہر ختم نبوت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی لیکن جو مطالبات اس تحریک کے نام پر پیش کئے گئے وہ سراسر سیاسی تھے۔ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے انہیں مذہبی رنگ دیا گیا۔۔۔۔۔ اس مسئلہ کو بدامنی اور قانون شکنی کی دلیل بناتا اور ڈائریکٹ ایکشن کی ابتدا کرنا ایک خطرناک سازش تھی جس کی بیشتر ذمہ داری جماعت احرار پر عائد ہوتی ہے۔ یہ وہ جامعت ہے جو شروع سے پاکستان کی دشمن رہی اور قیام پاکستان سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا حربہ ہو جو اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ کیا ہو۔۔۔۔۔ شر پسند عناصر نے نہ صرف صوبے کے امن و امان کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کی بلکہ قومی اور انفرادی نقصانات کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع کردیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہ سب کچھ ناموس رسولﷺ~ اور اسلام کے نام پر کیا جارہا تھا۔~<ف۱۰~
۴۔
جناب خواجہ ناظم الدین وزیراعظم پاکستان نے پاکستان پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
>جن لوگوں نے اس کی راہنمائی کی اور جو اکثریت میں تھے زیادہ تر احراری گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔۔۔ یہی لوگ اور ان کے نمائندے ہیں جنہوں نے قائداعظم کو )نعوذ باللہ( کافراعظم اور پاکستان اور >پلیدستان< کہا۔ جنہوں نے پاکستان کی شدید مخالفت کی اور قیام پاکستان کے بعد بھی سرحد پار کے ساتھ اپنے روابط قائم رکھے۔<
>انہوں نے غیر اسلامی چالیں اور عیاریاں اختیار کیں اسلام دانستہ دروغ بانی اور جھوٹ پراپیگنڈا کا ہرگز روا دار نہیں۔ اس جھوٹے پروپیگنڈے کے علاوہ جو ان لوگوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے خلاف کیا۔ انہوں نے تو یہ کہنے مںی تمال نہیں کیا کہ میں قادیانی ہوگیا ہوں اور میرے ایک بیٹے نے ایک قادیانی لڑکی سے شادی کی ہے حالانکہ انہیں خود معلوم تا کہ یہ باتیں قطعاً غلط ہیں میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جس حالت میں اسلام بہتان کی اجازت نہیں دیتا ایسی بہتان آمیز تحریک اسلامی کیونکر ہوسکتی ہے اور پھر ان حرکات کو بھی پیش نظر رکھیئے جو اس تحریک کے دوران کی گئیں۔ شہری دفاع کے مقاصد کے لئے لوگوں کو جو اسلحہ سپرد کئے گئے اور جو تربیت دی گئی وہ فوج اور پولیس کے خلاف استعمال کی گئی۔ ٹیلیفون کے تار کوٹ ڈالے گئے` سڑکیں توڑ دی گئیں۔ مواصلات کے سلسلے میں خلل ڈالا گیا۔ ڈاک خانے جلائے گئے۔ موٹر بسیں تباہ کردی گئیں` ریلوے ٹرینیں روکی گئیں۔ لوگوشیڈ میں انجن بیکار کردیئے گئے اور ایک کی پٹڑیاں اکھاڑ ڈالی گئیں۔~<ف۱۱~
اشتہار۔ ناشر محکمہ اشتہارات فلم و مطبوعات حکومت پاکستان کراچی ۱۹۵۳ء مطبوعہ ناظر پرنٹنگ پریس کراچی
۵۔
کراچی کے سات ممتاز علماء نے انہیں دنوں ایک متفقہ بیان میں تسلیم کیا کہ:۔
پنجاب میں جو ہولناک حوادث رونما ہوئے۔۔۔۔۔ وہ دشمنان پاکستان کی سوچی سمجھی ہوئی ایک سازش کے نتائج تھے جس کا مدعا یہ تھا کہ تباہ کاری اور دہشت انگیزی کو اس حد تک پہنچایا جائے کہ ملک بھر میں بغاوت اور لاقانونی اور غنڈے پن کی آگ بھڑک اٹھے جس میں یہ مملکت جل کر خاک سیاہ ہوجائے۔~<ف۱۲~
۶۔
اخبار >سفینہ< لاہور نے لکھا:۔
>احرار نے تحفظ ناموس رسولﷺ~ کے لئے یہ جھگڑا شروع نہیں کیا بلکہ ان کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی وحدت مںی بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر پہلے تو ان کے ملی شیراز کو درہم برہم کریں اور اس کے ساتھ پاکستان کو بھی ختم کریں۔~<ف۱۳~
۷۔
جناب حامد علی خاں )الحمراء۔ ۳۔ ماڈل ٹائون لاہور( نے ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کے ایک مکتوب میں اس بغاوت کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:۔
کانگرس کے احراری ایجنٹ پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے آج کل یکایک ختم نبوت کے علمبردار بن گئے ہیں۔ جب کشمیر گفتگو روع ہوتی ہے یہ لوگ جو متحدہ ہند مںی نہرو` گاندھی` پٹیل وغیرھم کے ابدی غلام بننے کی تحریک کے پشت پناہ تھے ظفر اللہ خاں کی قادیانیت کے خلاف اینٹوں` ڈنڈوں اور مغلظات کا جہاد شروع کردیتے ہیں جو کام تبلیغ سے ہونا چاہئے اسے فحش گالیوں سے انجام دینے کا خیال اسلام کے ان محافظوں کا عجیب و غریب کارنامہ ہے۔ کشمیر کے بعض علاقوں میں قادیانی عقیدے کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ احرار جو یکایک ان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں غالباً ہندوستان کی خفیہ خدمت ہے تاکہ جب پاکستان کے مولوی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے لیں تو ہندوستان دنیا بھر کو بتا سکے کہ کشمیر کے بیشتر حصوں میں اکثریت مسلمانوں کی نہیں۔ غیر مسلموں کی ہے۔ جنہیں پاکستان خود غیر مسلم کہتا ہے علاوہ ازیں اس تحریک کی کامیابی سے پاکستان تمام مغربی ممالک میں انتہاء درجے کا تنگ نظر متعصب ملک بھی قرار پائے گا۔ یہ بھی بھارت کی خدمت ہے تاکہ ہندوستان سے پاکستان کی علیحدگی خود جرم عظیم ثابت کی جاسکے۔<]01 ~[pف۱۴~
۸۔
مولوی محمد احسن شاہ صاحب صدر انجمن خدآم الصوفیہ راولپنڈی نے ایک ٹریکٹ میں لکھا:۔
>تاریخ اسلام کے اوراق اس امر کے شاہد ہیں کہ جب بھی مسلمان سلطنتوں پر زوال آیا` اور جب بھی اسلامی حکومتیں تباہی سے دو چار ہوئیں ان میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ تھا۔ بغداد اور اسپین کی مسلمان حکومتوں کا زوال اور سلطنت مغلیہ کی تباہی سب اپنوں ہی کی مرہون منت تھی۔ آج بھی پاکستان کی اسلامی مملکت کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو اپنوں سے۔ غیر کے مقابلہ میں آج بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہیں مگر خود اپنے ہی جب دشمنی پر اتر آئیں اور بغل میں چھری گھونپنے کی کوشش کریں تو ہر سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کا مقدس فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ان وطن کے دشمنوں کے اصلی چہروں پر سے پردہ اٹھائے اور پاکستانی عوام پر صاف اور کھلے طور پر عیاں کرے کہ ان لوگوں کی اصل حقیقت کیا ہے۔ جنہوں نے اپنے وطن دشمن اور گھنائونے چہروں کو تفت اور علمیت دینی کے نقابوں سے ڈھانپ رکھا ہے۔ اسی مقصد کے لئے ایک سچے مسلمان اور ایک وفادار پاکستانی شہری کی حیثیت سے میں اس فرض کو ادا کررہا ہوں۔ میں نے ان تقدس مابوں کے بھرم کھول دینے کی جر¶ات رندانہ کی ہے جو >اسلام خطرے میں ہے< کا نعرہ لگا کہ ملک کے امن و امان کو تہ و بالا کررہے ہیں اور دانستہ طور پر بیرونی دشمنوں کے آلئہ کار بن کر ان کے لئے رستہ ہموار کررہے ہیں۔
یہ نام نہاد رہبر اور تقدس ممماب جو کچھ اس سے پہلے کرتے رہے ہیں وہ سب پر ظاہر ہے۔ خراساں کے بعد عراق کا دروازہ تاتاریوں پر ان حضرات ہی نے تو کھولا تھا آخر غرناطہ قرطبہ` بغداد` قسطنطیہ` اصفہان اور دلی کی اینٹ سے ینٹ بجوانے میں اپنوں ہی کا تو ہاتھ تھا۔
تقسیم ملک سے پہلے جو تقدس ممماب پاکستان کی مخالفت کیا کرتے تھے وہ ایک عرصہ تک خاموش رہے اور اس وقت کا انتظار کرتے رہے جب کہ وہ کسی مذہبی نعرے کی آڑ لے کر مسلمانان پاکستان کو مشتعل کرکے اپنا سیاسی انتقام لے سکیں اور اس طرح پاکستان کی آزادی کو ختم کروا سکیں۔ موقع مل گیا اور عرصہ سے سوچی سمھی ہوئی سکیموں پر عمل درآمد کرنے کا وقت آگیا۔
اس ناپاک مقصد کے لئے ختم نبوت کے مقدس عقیدہ کو بہانا بنایا گیا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھا کر ختم نبوت کے نام پر ملک میں ایک تحریک سول نافرمانی کا آغاز کردیا گیا` لوگوں کو قانون شکنی پر ابھارا گیا` انہیں لوٹ مار اور غنڈہ گردی کی تلقین کی اور اس طرح جہاں پاکستان کے امن پسند شہریوں کے جان و مال کے لئے خطرہ پیدا کیا وہاں پر لگے ہاتھوں خود پاکستان کی داخلی و خارجی آزادی کو معرض خطر میں ڈال دیا۔۔۔۔ پنجاب کی حکومت اور راولپنڈی کے حکام نے ہمیشہ اور ہر حال میں اس تحریک کا احترام کیا۔ اس کا ثبوت اس بات سے مل سکتا ہے کہ صوبہ کے کسی شہر مںی بھی اس وقت تک دفعہ ۱۴۴ یا کرفیو کا نفاذ نہیں کیا گیا جب تک کہ انتشار پسند` وطن دشمن` غنڈہ عناصر اور اپنی سیاسی اغراض کے لئے اس تحریک کو آلہ کار بنانے والوں نے پرامن شہریوں کے شہر حقوق کے لئے ایک عظیم خطرہ پیدا نہیں کردیا` حکومت کی فراخ دلانہ پالیسی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تحریک ختم نبوت کی آڑ میں۔۔۔۔۔ لوٹ مار اور غنڈہ گردی کی گئی` قانون کا مضحکہ اڑایا گیا` جس طرح حکومت کے ملازمین پر قاتلانہ حملے کئے گئے` موٹر لاریوں اور مکانات کو آگ لگائی گئی اور حکومت کے نظم و نسق میں ایک منظم سازش ابتری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔<
>وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے قیام کو غلط سمجھتے تھے اور آج بھی اپنی روش پر قائم ہیں` جو آج بھی غیر ملکی طاقتوں کے آلئہ کار بن کر بے مثال قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی آزادی کو ختم کروانا چاہتے ہیں` جو ایک مذہبی تحریک کے پردے میں اپنی سیاست کی دوکان چمکانا چاہتے ہیں۔ جنہیں پاکستان سے زیادہ ہندوستان عزیز ہے۔ جو نازک حالات کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنا چاہتے ہیں۔ جو پرامن شہریوں کے جان و مال کے لئے ایک عظیم خطرہ ہیں اس موقع کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے تھے انہوں نے ایک مقدس مطالبہ کو سول نافرمانی کی شکل دے دی۔<
>ختم نبوت کی اس نام نہاد تحریک میں مندرجہ ذیل عناصر برسر پیکار ہیں:۔
۱۔
وہ سادہ لوح مسلمان جو >عقیدہ ختم نبوت< میں اندھا یقین رکھتے ہیں اور جن کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان مولویوں نے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے۔
۲۔
وہ لوگ جو اس تحریک کو اپنی سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
۳۔
وہ لوگ جو ملک میں بدامنی پھیلا کر لوگوں کو اپنی حکومت سے بدگمان کرنا چاہتے ہیں۔
۴۔
وہ لوگ جو اس تحریک کی آڑ میں اپنا سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں۔
۵۔
وہ لوگ جو اس بدامنی کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے مجھے ان سادہ لوح مسلمان سے کچھ کہنا ہے جن کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان لوگوں نے اپنا آلئہ کار بنا رکھا ہے۔
میرے بھائیو! >عقیدہ ختم نبوت< پر ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ ہماری حکومت کے تما اراکین اس بات پر متفق ہیں اور ان کا ایمان ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہ آیا ہے اور نہ آئے گا۔ مگر انصاف سے بتائیے` اپنے دلوں کو ٹٹولیئے اور کہئے کہ کیا ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ لوگ جو اس عقیدہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے؟ انہیں قتل کردیا جائے` اور انہیں نوکریاں سے نکال دیا جائے؟ اس ملک میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علاوہ دوسری قومیں بھی آباد ہیں ان میں ہندو` عیسائی` پارسی اور یہودی بھی ہیں یہ لوگ تو ہمارے پیارے نبیﷺ~ پر ایمان ہی نہیں رکھتے ختم نبوت تو ایک علیحدہ چیز ہے۔ یہ لوگ تو رسول کریمﷺ~ کو نبی ہی نہیں مانتے۔ کیا صرف اس لئے ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے` ان کے بچوں کو قتل کردیا جائے` انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے` اور انہیں نوکریوں سے برطرف کردیا جائے؟
اور کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے اور آپ کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھانے والے بزرگ کون ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آیئے میں آپ کو بتائوں کہ وہ کیا ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس تحریک کو اپی سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں> قوم ان کو دھتکار چکی ہے۔ قوم نے ان کو اعتماد کا اہل نہیں سمجھا اور قوم انہیں نااہل سمجھتی ہے۔ اس لئے یہ لوگ اب آپ کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر اس کھوئی ہوئی شہرت و عظمت کو بحال کرنا چاہتے ہیں جو یہ اپنی نااہلیوں اور نالئقیوں سے کھو چکے ہیں۔
ان کے بعد کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس تحریک کی آڑ لے کر ملک میں بدامنی پھیلا کر لوگوں کو اپنی حکومت سے بدگمان کرنا اور اپنی پارٹی کی حکومت کے لئے راستہ صاف کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ آئینی طور پر تو تمام عمر برسراقتدار نہیں آسکتے اور نہ ہی دنیا کے کسی ملک میں آئے ہیں اور اسی لئے تشدد کے حربے استعمال کرکے حکومت کا تختہ الٹنا چہتے ہیں۔ ان کا اصلی چہرہ شاید آپ کی نظر سے پوشیدہ ہو` مگر میں آپ کو نقاب الٹ کر ان کے درشن کرواتا ہوں۔ یہ ہیں اپ کے دشمن` آپ کے نظام کے دشمن` آپ کے ملک کے دشمن اور اسلام کے دشمن کمیونسٹ۔
یہ اگر خدا کو نہیں مانتے مگر وقت پڑنے پر مذہب کی آڑ لینے میں دریغ نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ خدا کے نہ ماننے والے کے دل میں ختم نبوت کے عقیدہ سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے مگر یقین جانیئے کہ جس مشتعل جلوس نے راولپنڈی شہر کے تھانے پر پتھر برسائے تھے اور جو ہجوم تھانے کو آگ لگانے کی غرض سے آیا تھا اس کی قیادت ایک کمیونسٹ نوجوان کررہا تھا۔
اس کے بعد آیئیاپنے ان دوست نما دشمنوں کی طرف جو اس تحریک کی آڑ میں اپنا سیاسی انتقام لینا چاہتے ہیں ان میں احراری حضرات قابل ذکر ہیں۔
>مجلس احرار کے بزرگوں نے جس طرح ہندوئوں کے سرمایہ کے بل بوتے پر مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کی مخالفت کی وہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ قیام پاکستان سے قبل بھی مجلس احرار کے لیڈر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے ختم نبوت کے نعرے کو استعمال کیا کرتے تھے۔ پاکستان کی مخالفت کے لئے بھی ان حضرات نے اسی نعرے کو استعمال کیا اور ایک جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کے مطالبہ کی مخالفت کی۔ اس مقصد کے لئے اس کے لیڈر غیر مسلموں اور مسلمانوں کے دشمنوں سے بھاری رقمیں رشوت کے طور پر وصول کیا کرتے تے مگر ان کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود پاکستان بن گیا۔ پاکسان کی تشکیل کے کافی عرصہ بعد تک تو یہ احراری حضرات خاموش رہے اور جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ ان کا ماضی بھول گئے ہیں تو پھر دوبارہ ختم نبوت کے سلسلہ کو آڑ بنا لیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو ساتھ ملا کر تحریک سول نافرمانی کا آغاز کردیا۔ یہ لوگ بڑے عرصے سے ایسے موقع ی تلاش میں تھے۔ یہ موقع مل گیا اور اپنا سیاسی انتقام لینے کے لئے ان بزرگوں نے ملک میں بدامنی شروع کرا دی۔ یہ جب بھی پاکستان کے دمن تھے اور آج بھی ہیں۔ یہ اس وقت بھی پاکستان کی مخالفت کا صلہ انعام کی صورت میں ہندوئوں سے وصول کیا کرتے تھے اور آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مجلس احرار نے دلی طور پر پاکستان کے قیام کو قبول نہیں کیا اور وہ اس حقیقت کو اس طرح ملک میں بدامنی پھیلا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ دشمن طاقتوں کو پاکستان کی آزادی ختم کرنے کا موقعہ مل جائے۔~<ف۱۵~
۹۔
پاکستان کے ایک ممتاز صحافی مسٹر زیڈ۔ اے سلہری نے واضح الفاظ میں یہ حقیقت پیش کی کہ:۔
>قادیان کے خلاف تحریک کی اصلیت کچھ بھی ہو` لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ اس تحریک نے حکومت کے خلاف ایک کھلی بغاوت کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس تحریک نے تمام پنجاب میں ہلچل پیدا کردی اور صوبے کا سارا انتظام متزلزل ہوکے رہ گیا جس کے ساتھ قتل و غارت گی اور بیہمانہ کاروائیوں کا بازار گرم ہوگیا اور جائیداد کا بھی زبردست نقصان ہوا۔~<ف۱۶~
جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد
شورش پسندوں نے جس زور اور شدت سے حکومت پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اسی درجہ طاقت و قوت کے ساتھ معصوم اور نہتے احمدی ان کے غیض و غصب اور تشدد کا نشانہ بنے۔ اس طرح پاکستان کے ازلی مخالفوں نے جماعت احمدیہ سے قیام پاکستان کے جہاد میں شرکت کا انتقام لینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس زمانہ میں جبکہ ظاہر بین نگاہیں سمجھ رہی تھیں کہ تحریک احمدیت کا نام و نشان تک صفحئہ ہستی سے مٹ جائے گا` جماعت کے اوالعزم امام حضرت مصلح موعود نے ۳ مارچ ۱۹۵۳ء کو جماعت احمدیہ کے نام پیغام دیا کہ:۔
>آپ بھی دعا کرتے رہے ہیں میں بھی دعا کرتا ہوں۔ انشاء اللہ فتح ہماری ہے کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے۔ وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں۔ مگر اس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔~<ف۱۷~
یہ پیغام خدا کے موعود و مقدس خلیفہ نے القائے ربانی کے تحت دیا تھا جس کے بعد خدا تعالیٰ کی تائیدات سماوی کے غیبی سامان پیدا ہوئے مگر جماعت احمدیہ بے شمار مصائب و مشکلات کے طوفانوں میں بھی گھر گئی تھی جس کے دوران خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستانی احمدیوں نے انتہائی مخالفت کے باوجود صبر و رضا اور ایثار و قربانی کا بے مثال نمونہ دکھلایا جو اس کا واضح ثبوت تھا کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور انہی قدموں پر چل رہی ہے جن پر خدائی جماعتیں ہمیشہ چلتی آئی ہیں اور ترقی کرتی رہی ہیں۔
سیدنا حضرت مسیح معوود علیہ الصلٰوٰہ والسلام فلسفہ ابتلاء پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
>ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کرکے ان کو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحئہ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے اور وفا دار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے۔ اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے ان کو سکھاوے۔ یہی سنت اللہ ہے۔ جو قدیم سے خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت دائودؑ کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسلﷺ~ کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تضریح کرتے ہیں اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پاسکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پالئے۔ ابتلاء نے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں۔ اور کیسے سچے وفا دار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزے ان پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے` اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیسے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ ان پر ذرا مہربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور ان کے ابتلائوں کا سلسلہ بہت طویل کھینچ گیا۔ ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا۔ غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں ان پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سست اور شکستہ دل نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار ان پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اسی قدر ان کی ہمت اور شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی۔ بال¶اخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہوگئے اور عزت اور حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے احباب کی طرح معدوم ہوگئے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے غرض انبیاء و اولیاء ابتلاء سے خالی نہیں ہوتے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں پر ابتلاء نازل ہوتے ہیں اور انہیں کی قوت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کرتی ہے عوام الناس جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کرسکتے ویسے اس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں بالخصوص ان محبوبان الٰہی کی آزمائش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑ جاتے ہیں گویا ڈوب ہی جاتے ہیں اور اتنا صبر نہیں کرسکتے کہ ان کے انجام سے منتظر رہیں۔ عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کردیوے۔ بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تاوہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اس کے برگ اور بار مںی برکت ہو۔ پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاہ کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء کا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے` جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں۔~<ف۱۸~
تاریخ احمدیت کی جلد ۱۴ میں ۱۹۵۳ء کے دور ابتلاء کا چار حصوں میں تذکرہ کیا جارہا ہے۔
پہے حصہ میں ان زہرہ گداز روح فرسا درد انگیز اور صبر آزما واقعات کی تفصیل درج ہے جو مظلمو احمدیوں کو مختلف صوبوں اضلاع اور مقامات میں پیش آئے
یہ تفصیل ایک تو ان مکتوبات سے اخذ کی گئی ہے جو اس زمانہ میں حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس یا مرکز میں موصول ہوئے` دوسرے ان چشم دید بیانات سے جو فسادات کے بعد سلسلہ احمدیہ کے محقق و فاضل جناب مہاشہ ملک فضل حسین صاحب~ف۱۹~ مرحوم نے حضور کی خصوصی ہدایت پر بڑی محنت اور عرقیزی سے جمع فرمائے تھے۔ علاوہ ازیں تحقیقاتی عدالت کی مطبوعہ رپورٹ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے
دوسرا حصہ سیدنا حضرت مصلح موعود کی حیرت انگیز محنت و ریاضت عدیم المثال رہنمائی پیغامات` مرکز سے اطلاعات کا انتظام اور خاندان حضرت مسیح موعود کے بے نظیر صبر و استقلال جیسے اہم امور پر مشتمل ہے۔
تیسرا حصہ تحقیقاتی عدالت میں وکلاء احمدیت کی شاندار نمائندگی اور حضرت مصلح موعود کے ایمان افروز بیان سے متعلق ہے
چوتھے حصہ میں اس جماعتی ابتلاء کی عظیم الشان برکات اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے نصرت خداوندی کے نشانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حصہ اول
پہلا باب
اضلاع راولپنڈی` گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی
احمدی جماعتوں کے واقعات
فصل اول
راولپنڈی شہر
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں راولپنڈی شہر کے متعلق لکھا ہے کہ:۔
>یہاں بھی فسادات کے آغاز سے پیشتر واقعات کی رفتار بالکل صوبے کے دوسرے قصبوں ہی کی مانند تھی۔۔۔۔۔ آل پارٹیز مسلم کنونشن کے بعد احراری دوسرے مذہبی فرقوں کے مبلغوں اور پیروئوں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مساجد احمدیوں کے خلاف پراپیغندا کا مرکزا بن گئیں اور جمعہ کے خطبات تو احمدی عقائد کی مذمت و مخالفت کے لئے وقف ہی کردیئے گئے۔~<ف۲۰~
پھر لکھا ہے:۔
>جب ۶ مارچ کو سیالکوٹ اور لاہور کے واقعات کے متعلق مبالغہ آمیز افواہیں پھیلیں اور یہ اطلاع موصول ہوئی کہ حکومت پنجاب نے مطالبات منظور کر لئے ہیں اور کراچی کو اس منظوری کی اطلاع دے دی ہے تو صورت حالات بے حد نازک ہوگئی۔ فوری نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے خیال کیا حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چنانچہ جلوس زیادہ جارحانہ ہوگئے ان کی تعداد بھی بڑھ گئی اور ان کو لاٹھی چارج سے منتشر کرنا پڑا۔
۶ مارچ کو لیاقت باغ میں ایک اور جلسہ منعقد ہوا۔ ایک ہجوم نے جلسے کے بعد منتشر ہوکر مری روڈ کا رخ کیا اور احمدیوں کی ایک مسجد اور ایک چھوٹی موٹر کار کو آگ لگا دی۔ اسی شام کو کچھ دیر بعد لوٹ مار اور آتش زنی کے مزید واقعات بھی رونما ہوئے۔ احمدیہ کمرشل کالج` نور آرٹ پریس اور پاک ریسٹوران شہر کے مختلف حصوں میں واقع تھے۔ لیکن لوگ زبردسی ان میں گھس گئے۔ اور انہوں نے مختلف اشیاء کو لوٹنے جلانے اور تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ایک غیر احمدی نوجوان نور آرٹ پریس میں ملازم تھا۔ اس کو احمدی سمجھ کر چھرا مارا گیا اور وہ اسی زخم کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔ جب صورت حالات سخت خطرناک ہوگئی تو ۷ مارچ کو فوج طلب کر لی گئی۔~<ف۲۱~
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں راولپنڈی کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ واقعات کا اجمالی تذکرہ ہے۔ ذیل میں اس کی کسی قدر تفصیل بعض چشم دید بیانات کی روشنی میں دی جاتی ہے۔
بیت احمدیہ راولپنڈی
قائد مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی چوہدری عبد الغنی رشدی~ف۲۲~صاحب بیت احمدیہ )واقع مری روڈ حال شاہراہ رضا شاہ پہلوی( کے سامنے ایک چھت پر کھڑے تھے آپ کے ایک بیان میں لیاقت باغ کے جلسہ کی انتہائی اشتعال انگیز تقریروں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:۔
>اتنے میں گولڑہ کا قافلہ جلسہ گاہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ عوام اس کی طرف بھاگے۔ اور پھر جلوس کی شکل میں یہ قافلہ مری روڈ کی طرف چلا۔ اس کی راہنمائی۔۔۔۔۔ کررہا تھا۔ یہ جلوس نہایت اشتعال انگیز نعرے لگا رہا تھا۔ جب یہ جلوس بیت انجمن احمدیہ )واقع مری روڈ۔ راولپنڈی۔ ناقل( کے قریب پہنچا تو وہاں آکر رک گیا اور نعرے لگانے شروع کردیئے۔ دو آدمیوں نے جلوس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر جلوس زیادہ مشتعل ہوگیا اتنے میں قرب و جوار کے مکانوں سے بیت احمدیہ پر سنگباری شروع ہوگئی اور جلوس نے بھی پتھروں کے ذریعہ بیت احمدیہ کے دروازے توڑنے شروع کئے۔ جب دروازہ ٹوٹ گیا تو کچھ لوگ اندر گھس گئے اور اندر سے اخبارات اٹھا لائے۔ کچھ لوگ اتنے میں باہر سے آکر اوپر گیلری میں چڑھ گئے اور اس عرصہ میں بیت کے سامنے ایک معزز غیر احمدی کی کار تھی۔ اس کو کسی شخص نے چلا کر موڑا کہ ایک لڑکے نے اینٹ ماری اور بہت سے لوگ اس پر پل پڑے اور کار کے شیشے توڑ دیئے۔ شیشے توڑنے والوں میں ایک سانولے رنگ کا داڑھی والا شخص بھی تھا۔ ہم نے جو کہ چھت پر یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک شخص کو تھانے اطلاع کرنے کے لئے بھیج دیا کیونکہ پولیس ابھی تک نہ آئی تھی اور جو دو چار سپاہی پہلے موجود تھے وہ بھی غائب ہوچکے تھے۔ ہجوم میں سے ایک لڑکے نے کار کا ڈھکنا اٹھا کر ماچس کی تیلیاں جلا کر آگ لگانے کی کوشش کی مگر جب آگ نہ لگ نہ سکی تو کار کو الٹا دیا گیا اور جو پٹرول نکلا اسے آگ لگا دی۔ اسی پٹرول کی مدد سے اور بیت کے اندر سے جو گھاس وغیرہ نکالا گیا تھا اس سے بیت کے دروازے کو آگ لگا دی۔ اسی عرصہ میں کافی لوگ بیت کے اندر گھس چکے تھے اور انہوں نے گیراج کی طرف کا دروازہ بھی توڑ دیا تھا۔ پھر میں اس کے بعد تھا نہ کی طرف گیا کیونکہ آگ کے شعلے بہت بلند ہوچکے تھے۔ راستہ میں چند لوگ بیت ک ابورڈا اٹھائے ہوئے آئے اور انہوں نے وہ چوہدری مولیٰ داد صاحب کے مکان کے قریب گندے نالہ میں پھینک دیا۔۔۔۔۔ جلوس تریباً پانچ بجے )بعد نماز عصر۔ ناقل( بیت کے سامنے پہنچا تھا اور آگ پانچ بج کر دس منٹ پر لگائی گئی۔ پہلا شخص پانچ بج کر پندرہ منٹ پر تھا نہ گیا۔ پھر میں اس کے دس منٹ بعد پہنچا۔ مگر پولیس اور فائر بریگیڈ پونے چھ بجے موقعہ پر پہنچے۔ جب آگ لگائی جارہی تھی تو اس وقت ایک شخص کی آواز جو کہ اوٹ میں تھا آرہی تھی کہ شاباش مجاہدو۔ لوٹو۔<
بیت احمدیہ مری روڈ راولپنڈی کے اندر اس وقت سید اعجاز احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ بھی تھے۔ آپ کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>قریب پانچ بجے شام جلسہ نعروں پر ختم کرکے جلوس کی شکل میں ہجوم مری روڈ پر چل پڑا اور انجمن احمدیہ واقع مری روڈ پر جو لیاقت باغ سے دس منٹ کے فاصلہ پر واقعہ ہے آکر رکا۔۔۔۔۔ اس وقت انجمن حمدیہ میں عاجزانہ اور عاجز کے علاوہ دس اور احمدی دوست موجود تھے۔~ف۲۳~
جن میں تین ضعیف العمر اور ایک سولہ سترہ سالہ لڑکا تھا جلوس کی انجمن کی طرف پیش قدمی کی اطلاع سن کر خاکسار نے انمجن احمدیہ سے باہر ایک احمدیہ کے مکان پر یہ اطلاع بھجوا دی کہ جلوس کا رخ انجمن کی طرف ہے اور انجمن میں موجود دوستوں سے غرض کیا کہ >تمام دروازے کھڑکیاں انجمن کی بند کردیں اور کوئی دوست جلوس کو دیکھنے کی بھی کوشش نہ کرے۔۔۔۔۔ جلوس انجمن کے سامنے آکر رکا اور نعرے بلند کرتا رہا۔ جلوس کے ایک ہجوم نے ہلہ بول دیا۔ عین اس وقت جبکہ عمارت کے دروازوں سے یہ سلوک جاری تھا انجمن کے ملحقہ مکانات کی طرف سے پتھرائو شروع ہوگیا۔۔۔۔۔ انجمن احمدیہ کی بیرونی عمارت کو آگ لگا دی گئی۔ چنانچہ آگ چشم زون میں لگ گئی۔ آگ کے دھوئیں اور تپش کی وجہ سے جب ہم نے دیکھا کہ حملہ آور سب کے سب عمارت سے باہر بھاگ گئے ہیں اور اب اندر رہنا خطرہ سے خالی نہیں تو احمدی احباب انجمن سے ملحقہ ایک مکان کی دیوار پر چڑھے۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ جو بزرگ معمر احمدی دوست تھے ان کو نوجوان سہارا دے کر دوسرے مکان میں لائے دوسرے مکان والوں نے تمام دروازے بند کر رکھے تھے مگر ہمارے کہنے سننے پر انہوں نے دروازہ کھول دیا اور ہمارے ساتھی دوسری طرف نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ باہر ہجوم کے کچھ نوجوان موجود تھے جنہوں نے ہمارے دو ایک آدمیوں کو پکڑا اور دھول دھپے مارے۔۔۔۔۔ یہ تمام کاروائی قریباً نصف گھنٹہ میں ہوئی۔<
اس آتشزدگی سے بیت کی عمارت کا جو نقصان ہوا وہ تریباً اٹھائیس سو روپیہ کا تھا اور اس کے اندر جو سامان ضائع یا لوٹا یا جلایا گیا )جیسے اخبار۔ کتابیں۔ دریاں۔ قناتیں چارپائیاں سائبان وغیرہ( اندازاً پندرہ سو روپیہ مالیت کا ہوگا۔
علاوہ ازیں اس کے ملحقہ مکان میں بعض اور احمدی بھی رہتے تھے ان کا جو سامان برباد ہوا وہ )۱۱۲۵( سوا گیارہ سو روپیہ کا تھا۔ اس طرح یہ سارا نقصان قریباً ساڑھے پانچ ہزار روپیہ کا ہوا
اس سلسلہ میں جناب ملک برکت اللہ خاں صاحب کا حلفیہ بیان حسب ذیل ہے۔
>میں برکت اللہ خاں ولد ملک نیاز محمد خاں۔ عارضی سکونت راولپنڈی حلفیہ طور پر بیان دیتا ہوں کہ:۔
۶ مارچ ۱۹۵۳ء بروز جمعہ پڑھنے کے لئے حسب معمول بیت احمدیہ واقع مری روڈ گیا۔ نماز پڑھے جانے کے بعد حسب معمول میں نماز عصر تک وہیں رہا۔ نماز عصر پڑھنے کے بعد ایک صاحب چوہدری یوسف علی صاحب کی دعوت چائے پر میں ان کے مکان پر جو کہ بیت احمدیہ کے بالمقابل کی گلی میں ہے چلا گیا۔ تقریباً ۵ بجے شام ایک بڑا ہجوم جس کی تعداد ۱۵۰۰ سے ۲۰۰۰ کے درمیان ہوگی لیاقت باغ کی طرف سے بیت احمدیہ کی طرف آیا پہلے کچھ حصہ سیدھا آگے گزر گیا لیکن پھر ایک شخص نے بیت احمدیہ کی منڈیر پر چڑھ کر ہاتھوں کے اشاروں سے ہجوم کو روکا۔ اور پھر بیت کے ملحقہ گلی کی جانب بھیجنا شروع کیا۔ چند لڑکے بیت کی بیرونی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ ہجوم کا اگلا اور فعال حصہ دیہاتی اور اجڈ قسم کے لوگوں کی اکثریت پر مشتمل تھا جو کہ باہر سے منگوائے گئے` معلوم ہوتے تھے۔ ہجوم عجب شور و غل کرتا ہوا آرہا تھا۔ اور اگلے حصہ میں لوگ بھانگڑا قسم کا ناچ کرتے ہوئے آرہے تھے۔
بیت احمدیہ کے دروازے سے بند تھے۔ ہجوم نے پتھر اور روڑے دروازوں پر مارنے شروع کردیئے۔ جس سے گلی سے ملحقہ دروازہ بالکل ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد دو نوجوانوں عمارت کے چھجے پر چڑھ گئے اور جو بورڈ آویزاں تھے ان کو اتار پھینکا۔ علاوہ ازیں عمارت کا بڑا دروازہ بھی ہجوم نے کھول لیا۔ ایک کاریت کے بالکل ساتھ کھڑی تھی۔ ہجوم نے اس پر پتھرائو کرنا شروع کردیا۔ ایک شخص نے جو کہ غالباً کار کے مالک کا ملازم ڈرائیور ہوگا کار کو سٹارٹ کرکے ہجوم کی زد سے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن ہجوم نے کار کے سامنے اور بازووں پر جمع ہوکر سڑک کے عین درمیان میں روک لیا اور کار پر تیز پھترائو کرنا شروع کردیا۔ ڈرائیور نے جان کو خطرہ میں دیکھ کر کوشش ترک کردی۔ ازاں بعد کچھ لوگوں نے بیت کے بڑے دروازے سے چٹائیاں نیز تین سائیکلیں نکال کر اور کار کو الٹا کر اس پر رکھ دیں اور کار کی گدیاں نکال کر کار کو الٹا کر اس پر رکھ دیں اور کار کی گدیاں نکال کر کار کو آغ لگا دی۔
ہوم کے آنے تک تین سپاہی باوردی بیت کے بالمقابل ۶۰ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے لیکن ان کے آجانے کے بعد وہ غائب ہوگئے۔ کار کو آگ لگانے کے بعد چند لوگوں نے اس دروازے اور کمرے کو آگ لگانی شروع کر دی جو ہجوم نے پتھرائو کرکے توڑا تھا۔ یہ آگ کار کی گدیوں اور اخبارات وغیرہ کے ذریعہ لگائی گئی۔ آن کی آن میں پورا کمرہ اور باہر کا چھجا شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ دوسرے بڑے دروازے سے کافی لوگ بیت کے اندر داخل ہوتے اور باہر نکلتے رہے۔ جس مکان کے چوبارہ میں کھڑا ہوا تھا اس کے تقریباً بالمقابل مکان کے چوبارے پر سے ایک چودہ پندرہ سال لڑکا ہجوم پر پتھر برساتا رہا۔ شائد ہجوم کو یہ باور کروا کر مزید مشتعل کرنے کے لئے کہ یہ پتھر احمدی مار رہے ہیں۔
نماز جمعہ کے بعد مجھے یہ بھی علم ہوا تھا کہ ایک P۔S۔D کو سول کپڑوں میں بیت کے ساتھ کی عمارت میں جو کہ D۔W۔P کا دفتر ہے بٹھایا گیا تھا لیکن نصف گھنٹہ تک نہ تو پولیس جائے واردات پر پہنچی اور نہ ہی فائر بریگیڈ کا انجن۔ اور ہجوم اپنی من مانی کرتا رہا حالانکہ دو نوجوانوں مسمی محمد فاضل اور محمود احمد )ابن چوہدری یوسف علی صاحب مذکور( نے علی الترتیب یکے بعد دیگرے پولیس سٹیشن پر جاکر بھی اطلاع دی۔ جو کہ جائے وقوعہ سے صرف دو یا تین منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اتنی دیر تک ہجوم کا ایک حصہ اس گلی میں بھی آگیا جس میں وہ مکان واقع تھا۔ جس میں میں موجود تھا۔ اور گلی کو دونوں طرف سے ہلاک کر لیا۔ ایک بوڑھا۔۔۔۔۔ ہجوم کو ہاتھوں کے اشارے سے بتلا رہا تھا کہ اس مکان میں رہنے والا احمدی ہے۔۔۔۔۔ بال¶اخر میں یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں مندرجہ بالا بیان اگر ضرورت ہو تو حاضر عدلت ہوکر حلفاًدینے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔<
‏ad] g[taفقط الراقم
برکت اللہ خان ولد ملک نیاز محمد خاں
پتہ:۔ معرفت میاں عطاء اللہ صاحب وکیل بی اے ایل ایل بی
کالج روڈ راولپنڈی شہر۔
مکان امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی
جلوس اسی دن رات کے ۹ بجے بابو اللہ بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی کے مکان پر بھی حملہ آور ہو۔ اس نے مکان کے دو دروازوں کو توڑ دیا۔ بیٹھک کا سامان میز کرسیاں پارچات اور قرآن شریف کے تین نسخے اور دیگر کتابیں جماعت احمدیہ کے مختلف شعبوں کے فائل وغیرہ بازار میں پھینک کر آگ لگا دی۔ اس طرح قریباً پانچ سو روپیہ کا نقصان پہنچایا۔ بلوائیوں نے بیٹھک سے آگے اندرون خانہ میں جانے کی بھی ازحد کوشش کی مگر خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ حملہ آور اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔
نور آرٹ پریس
فسادیوں نے اسی روز نور آرٹ پریس پر بھی حملہ کیا اور اس کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اس وحشیانہ یلغار سے اس پریس کے احمدی مالک )مولوی علی محمد صاحب اجمیری( کو بارہ ہزار روپیہ کا نقصان ہوا۔
پاک ریسٹورنٹ
‏]text [tagاسی روز ایک اور احمدی دوست عزیز احمد صاحب سیالکوٹی کے پاک ریسٹورنٹ واقعہ ٹرنک بازار پر بھی دھاوا بولا گیا۔ اور اسے بے دردی سے لوٹا گیا اور باقی ماندہ سامان کو توڑ پھوڑ کر بیکار بنا دیا گیا
اس حادثہ کے بعد عزیز احمد صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب راولپنڈی کی خدمت میں اس مضمون کی عرضداشت پیش کی کہ:۔
>میر ریسٹورٹن یعنی پاک ریسٹورنٹ واقعہ ٹرنک بازار راولپندی جو یہاں کے تمام ہوٹلوں سے امتیازی حیثیت رکھتا تھا اور جس سے دو بڑے مہاجر کنبوں کی شکم پری ہورہی تھی اور جس کی آمدنی سے گورنمنٹ پاکستان کے خزانہ میں ۲۹۶ روپیہ انکم ٹیکس اور مبلغ ۳۰۰ روپے سالانہ سیلز تیکس جاتا تھا مئورخہ ۴ مارچ کو بوقت شام مجلس احرار کے کارکنوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگیا ہے۔ ہوٹل کا تمام سامان مع سوڈا واٹر فیکٹری کے لوٹ لیا گیا ہے اور ہوٹل کے کمروں کو توڑ پھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ ایک عالی شان ریسٹونٹ جوشہر میں اپنی مثال آپ تھا کھنڈ رات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ الخ<
شافی کیمسٹ شاپ
راولپنڈی کے بوہڑ بازار میں ایک احمدی چوہدری محمد بشیر صاحب کی انگریزی ادویات کی بہت بڑی دوکان جو >شافی کیمسٹ شاپ< کے نام سے مشہور تھی بلوائیوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئی۔ چنانچہ چوہدری محمد بشیر صاحب کا بیان ہے کہ:۔
>رات کے ساڑے گیارہ بجے بازار کے چپڑاسی )چوکیدار( نے اطلاع دی کہ میری دوکان تالہ توڑ کر لوٹی جا چکی ہے۔ اس وقت ہر طرف ہنگامہ آرائی تھی۔ پولیس باہر پھر رہی تھی لیکن کسی کو منع نہیں کرتی تھی دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب میں دوکان پر آیا تو سہ چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ باہر جلی ہوئی اشیاء کی راکھ سڑک پر بکھری ہوئی ادویات جلا ہوا دوسرا سامان پڑا ہوا تھا۔ اس وقت پولیس کا پہرا بیٹھا ہوا تھا۔ دوکان کے اندر ٹوٹے ہوئے شیشے` گری ہوئی ادویات اور الماریاں ٹوٹی ہوئی حالت میں تھیں۔
‏Refrijrater خراب پڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ نقصان کا اندازہ ۳۴۰۰ کے قریب ہے جس کی تفصیل جماعت کو دے دی گئی تھی اور اس کی کاپیاں حکام بالا کو بھیج دی تھیں۔<
نیشنل میڈیکل ہال
بوہڑ بازار میں ہی انگریزی ادویات کی ایک اور دکان >نیشنل میڈیکل ہال< تھی جس کے مالک ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب~ف۲۴~ )پسر حضرت مولوی قطب الدین صاحب( تھے۔ یہ دوکان کس طرح حملہ آوروں کے ہاتھوں غارت ہوئی اس کی تفصیل ڈاکٹر صاحب موصوف کے الفاظ میں درج ذیل ہے۔
>میری دکان واقعہ بوہڑ بازار کو بروز اتوار دن کے قریباً بارہ بجے سے لے کر ۳ بجے تک تمام سامان۔ ادویہ کی الماریاں` فرنیچر` میزیں کرسیاں اور دکان کی ہر ایک چیز دکان سے باہر نکال کر آگ لگا دی اور محلہ کے اکثر لوگوں نے اس واقعہ کو دیکھا۔ میں خود دکان پر نہ تھا` کیونکہ حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا۔۔۔۔۔ میری دکان مکمل طور پر خالی کردی گئی ہے۔ ایک پیسہ کی چیز دکان میں نہیں رہی۔ بجلی کمپنی کا میٹر جو دکان میں تھا اور متعلقہ بجلی کی وائرنگ تمام کی تمام توڑ پھوڑ کر پھینک دیا گیا۔ دکان بالکل خالی ہے۔ نقصان کا اندازہ بارہ ہزار روپیہ ہے۔<
برلاس سائیکل ورکس
ایک اور احمدی دوست سردار محمد صاحب کی سائیکلوں کی دکان پر بلوائیوں نے حملہ کرکے اسے لوٹ لیا اور ان کو قریباً ڈیڑھ ہزار روپیہ کا نقصان پہنچایا۔
‏tav.14.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
پنجاب موٹر سٹور
راولپنڈی کا >پنجاب موٹر سٹور< بھی چونکہ ایک احمدی بشیر احمد صاحب کا ابن خواجہ غلام نبی صاحب آف ڈیرہ دون کی ملکیت تھا اس لئے یہ بھی شورش پسندوں کی چیرہ دستی و سفا کی نذر ہوگیا۔
صرافہ شاپ
‏]txte [tagشیخ حبیب اللہ صاحب کی دکان صرافہ بھی بلوائیوں کے ہتھے چڑھنے سے نہ رہ سکی۔ چنانچہ شیخ صاحب کے والد شیخ محمد عبد اللہ صاحب اورسیر نے لکھا:۔
>راولپنڈی میں میرے لڑکے حبیب اللہ کے پاس ایک دکان صرافہ بازار میں تھی جس میں میرا لڑکا صرافی کا کام کیا کرتا تھا۔ بھرے بازار میں صرف ایک مختصر سی دکان تو مخالفین کو پہلے ہی کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی مگر تحریک کے ایام میں ان کی مرادیں برآئیں۔ ۵ تاریخ کی رات تھی اور گیارہ بجے کا وقت )جیسا کہ مجھے میرے ایک غیر احمدی عزیز نے بتلایا ہے جو کہ ہماری دکان کے بالکل قریب رہائش رکھتا ہے( کہ مشتعل ہجوم چوک کی طرف سے اشتعال انگیز نعروں کے ساتھ آیا۔ آناً فاناً ایک دو تین۔ زبردست ہتھوڑوں کی چوٹوں کی آواز سنائی دی۔ میرے عزیز کو یقین ہوگیا کہ اب حبیب کی دکان گئی۔ دکان کا دروازہ۔۔۔۔۔ ہتھوڑے کی چوٹوں سے جلد ہی ٹوٹ گیا۔ اندر جاکر ہجوم نے شوکیس اور تصاویر کو تو بری طرح تباہ کیا` اور چاندی کا کچھ زیور جو شوکیس میں تھا اور دکان کی کچھ اشیاء جو کسی کے ہاتھ لگیں اٹھا کر لے گیا۔ چند منچلے آدمی سیف کو توڑنے میں لگ گئے۔ تو بعض کا خیال بغیر وقت ضائع کئے دکان کو نذر آتش کرنے کا ہوگیا۔ بازار کے چوکیدار نے اپنی بساط کے مطابق ان کو منع کرنے کی سعی کی مگر جب دیکھا کہ سیف کو توڑنے کے بعد یہ اپنے ارادہ سے باز کم ہی آئیں گے تو فوراً ایک پڑوسی دکاندار کو اس کے گھر پر اطلاع دی۔ وہ بھاگا بھاگا آیا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ >مرزائی< کو جلاتے جلاتے تم لوگ کئی مسلمانوں کو بھی جلائو گے۔ یہ آگ سارے بازار کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اسی اثناء میں بارڈر پولیس پہنچ گئی۔ پھر کیا تھا مذہبی دیوانے جدھر کسی کا سینگ سمایا بھاگ دوڑے۔
احمدیہ کمرشل کالج
احمدیہ کمرشل کالج کشمیری بازار راولپنڈی کے پروپرائٹر قاضی بشیر احمد~ف۲۵~ صاحب بھٹی تحریر فرماتے ہیں۔
>ہمارے مکان احمدیہ کمرشل کالج کی طرف وہ جلوس شام کے بعد پہنچ گیا )جو کشمیری بازار رتہ روڈ پر واقع ہے اور کوتوالی کے متصل اور جس کے ساتھ ہی احاطہ تحصیل میں اے۔ آر۔ پی کا ہیڈ آفس بھی تھا( ہم گھر کے سب افراد عورتیں بچے ابھی مغرب کی نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ وہ جلوس آپہنچا اور آتے ہی کالج کے دروازے اینٹ پتھر سے توڑنے شروع کردیئے جلوس آنے سے تھوڑا وقت پہلے ہی میں نے اپنے لڑکے حمید احمد کوتوالی بھیجا کہ جلدی سے چوہدری کرم داد صاحب سٹی انسپکٹر کو اطلاع کر دو کہ جلوس اس طرف آرہا ہے۔ وہ گیا لیکن باوجود اس کے تین چار بار بڑے اصرار اور تاکید سے غرض کرنے کے انہوں نے ایک سب انسپکٹر اور دو پولیس مین اس وقت بھیجے جب جلوس دروازے وغیرہ توڑ پھوڑ کر اندر داخل ہوچکا تھا اور )ٹائپ( مشینوں` بنچ کرسیوں اور میز وغیرہ کو توڑ کر مع ضروری ریکارڈ اور ٹائپ مشینوں کے پرزہ جات کے` قران مجید مترجم )مولانا( احمد رضا خان صاحب )بریلوی( مع تفسیر حاشیہ کی وہ کاپیاں سڑک پر نالی کے پاس رکھ کر آگ لگا دی تھی` جو ایک غیر احمدی عالم جناب اعجاز ولی صاحب نے برائے درستی کاپیاں مجھے دی تھیں جن میں سے کچھ کی تصحیح باقی تھی باقی مکمل ہوچکی تھیں۔
خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کا نشان اس وقت یہ ظاہر ہوا کہ جس کمرے کے تینوں دروازے توڑ کر جلوس والے اندر داخل ہوگئے تھے اس کے ساتھ والے کمرہ ہی میں ہم سب اپنے بال بچوں سمیت اکٹھے کھرے سب کچھ توڑ پھوڑ کی آوازیں سن رہے تھے اور درمیان میں صرف ایک دروازہ کو ایک ٹھوکر ہی مار دیتا تو دروازہ کھٹ سے کھل جاتا اور وہ اندر داخل ہو جاتے لیکن اس خدائے ذوالجلال والاکرام نے جو اپنے عاجز بندوں کی عاجزانہ پکار کو سننے اور قبول فرمانے والا ہے عین وقت پر گویا دوڑ کر ہماری مدد فرمائی اور ان بلوائیوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ کالج کے کمرے کے اندر دس منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکے اور جلدی نکلنے کی کوشش کی کہ اتنے میں مسلح پولیس بھی آگئی جس کا ذکر اوپر کرچکا ہوں اور انہوں نے ان کو اشارہ کرکے بٹھا دیا۔ جب ہمیں شام کے قریب پتہ لگا کہ بیت احمدیہ کو آگ لگا دی گئی ہے اور جلوس اب اس طرف آنے والا ہے تو میں نے اپنے بچوں )قاضی کبیر احمد۔ قاضی حمید احمدیہ سے کہا کہ ٹائپ مشینین کالج سے نکال کر اندر رکھ لیں۔ کیا پتہ وہ سچ مچ ہی نقصان کر دیں مگر دل میں ایک قسم کا اطمینان بھی تھا گو سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہم دیکھ رہے تھے۔ نیر احمد بوجہ سخت بیمار ہونے کے چلنے پھرنے یے بھی ان دنوں معذور تھا۔ پہلے ہم نے ضروری سامان اور ٹرنک وغیرہ اوپر کی منزل میں رکھ لئے مگر پھر خیال آیا کہ ساتھ ہی اور پیچھے بھی مخالفین کے مکانات ہیں۔ کہیں اوپر سے دشمن کو راستہ نہ دے دیں۔ پھر سارا سامان وغیرہ نیچے کمرے ہی میں کئے گئے اور قاضی نصیر احمد صاحب کو بڑی مشکل سے نیچے لے آئے لیکن جب جلوس آ ہی پہنچا تو پھر جلدی سے قاضی نصیر احمد کو اوپر بڑی مشخل سے پہنچایا اور سب عورتوں اور بچوں کو بھی >اس ہنگامہ میں بلوائیوں نے راولپنڈی کی بعض اور بھی احمدی دکانوں کو لوٹا مثلاً دہلی کریانہ ہائوس` احمدیہ کریانہ سٹور` کشمیر ہوٹل گنج مندی وغیرہ۔
ایک معزز غیر احمدی نوجوان کا درد ناک قتل
خواجہ غلام نبی صاحب~ف۲۶~ گلکار انور )آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر( کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>یوں تو کئی مہینوں سے روزانہ احرار کی طرف سے ہمارے محلہ میں احمدیوں کے خلاف جلسے ہوتے رہے اور جلوس ہمارے مکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہمارے خلاف >مرزائی مردہ باد< کے نعرے لگاتے تھے۔
۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو راولپنڈی میں مجلس احرار کے پروگرام کے ماتحت تمام شہر میں احمدیوں کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ بیت احمدیہ راولپنڈی کو آگ لگا دی گئی۔ اور اسی روز ہمارے مکان واقعہ موہن پورہ راولپنڈی پر دوبارہ حملہ کیا گیا۔ پہلی بار مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں کو آگل لگانے کی کوشش کی گئی جس پر محلہ میں ہمارے قریبی ہمسایوں نے یہ کہہ کر انہیں باز رھا کہ ان کا مکان جلنے کے ساتھ سارا محلہ جل جائے گا جس پر وہ چلے گئے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ہجوم آیا اور دروازے توڑنے لگا۔ اس کا ایک حصہ چھت کے راستہ اندر گھس کر لوٹنا اور مارنا چاہتا تھا جیسا کہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ ہمارے متعلق یہ سکیم طے پاگئی تھی کہ کچھ چھت پر سے آئیں گے اور کچھ دروازے توڑ کر اندر گھس آئیں گے اور نعوذ باللہ ہماری مستورات کو جبراً لے جائیں گے اور مجھے اور میرے بھیتجے ارشاد محمد اور بھائی غلام احمد کو قتل کرکے سامان کو لوٹیں گے اور بعد میں مکان کو آگ لگا دیں گے مگر خداوند کریم نے ہم پر اپنا فضل و کرم کیا کہ وہ اپنی سکیم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جس وقت ہجوم پر بورش کررہا تھا تو میری بیوی زیب النساء بیگم نے کمال جر¶ات اور بہادری اور بلند حوصلگی سے ان کو للکارا اور کہا کیا یہی اسلام ہے کہ تم لوگوں کو لوٹتے اور مارتے پھرتے ہو< انہوں نے پتھر پھینکنے شروع کئے۔ اس پر میری بیوی اور بھانجی مریم سلمہا نے ان پر پتھر اوپر سے پھینکے تاکہ وہ پسپا ہوجائیں۔ چنانچہ جب ہمارے چھت پر سے اینٹوں کی جوابی بوچھاڑ ہوئی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
اسی رات جبکہ ہم پر دوبار حملہ ہوچکا تھا میرے ایک غیر احمدی عزیز محمد مقبول صاحب جو نور آرٹ پریس کے مینجر تھے ہمارے متعلق اطلاع پاکر دریافت حال کے لئے آئے اور صرف دس بارہ منٹ ہمارے ہاں بیٹھے رہے اور پانی کا ایک گلاس بھی پیا اور جب باہر گئے تو ابھی تین چار فرلانگ بھی نہ گزرے تھے کہ ایک ٹولی نے انہیں مجھے سمجھ کر )کہ یہی گلکار ہے( چھرے مار مار کر شدید زخمی کردیا اور کپڑے بھی اتار لیے اور نقدی بھی ہتھیا لی۔ اس کے ایک روز بعد وہ میونسپل ہسپتال میں فوت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔ حالانکہ مرحوم نے ان کو بار بار کہا کہ وہ >مرزائی< نہیں ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔
افسوس کہ ہم میں سے کوئی بھی ان کو نہ دیکھ سکا۔ یہ بھی فیصلہ ہوچکا تھا کہ جمعہ کے روز وہ ہمارے معاملہ میں کامیاب نہ ہوسکے تو سینچر )ہفتہ( کو تیسری بار حملہ کرکے وہ ہمیں ختم کردیں گے لیکن ہم ساری رات عجز و انکسار کے ساتھ دعائوں میں لگے رہے۔ اللہ تعایٰ نے ایسا سامان کردیا کہ ہم وہاں سے بچ نکلے اور کرنل عطاء اللہ کے ہاں ملری کے ذریعہ پہنچائے گئے جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔ کرنل صاحب کے ہاں سوا مہینہ مقیم رہے۔<
فصل دوم
ضلع گوجرانوالہ
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:۔
>۲ مارچ کو دس بجے ڈپٹی کمشنر~ف۲۷~ کے کمرہ عدالت میں سرکاری اور غیرسرکاری آدمیوں کا ایک اجلاس ہوا۔ سٹی مسلم لیگ کا عہدیداروں نے اس اجلاس میں موقع پا کر لیگ کے اندر اپنے مخالفین کی مذمت کی۔ اور حکام ضلع کے ساتھ سرگرم تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ اس مرحلے پر لاہور جانے والی ٹرینوں کو ان ہجوموں نے روکنا شروع کیا جو لاہور جانے والے رضا کاروں کی مشایعت کے لئے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوجاتے تھے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پولیس کا ایک دستہ ساتھ لے کر ریلوے اسٹیشن پر گئے۔ اور انہوں نے پچاس رضا کاروں کے ایک دستے کو ٹرین سے اتار کر گرفتار کرلیا۔ اس پر ہجوم میں جوش پھیل گیا اور اس نے دو دفعہ ٹرین کو روکا۔ جب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ٹرین کو روانہ کردینے کی دوسری کوشش کی تو ان پر حملہ کیا گیا جس سے وہ اور چار پولیس مین زخمی ہوگئے۔ جن میں ایک سب انسپکٹر بھی تھا۔ اسی دن شام کو پانچ ہزار کے ایک جوش میں بھرے ہوئے ہجوم نے ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر سندھ ایکسپریس کو روک لیا۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس چھ پیادہ کانسٹیبلوں کو ساتھ لے کر اس مقام پر پہنچے لیکن ان اینٹوں اور پتھروں کی بوچھاڑ کی گئی چونکہ اس وقت اندھرا ہوچکا تھا اور اگر ہجوم منتشر نہ ہوتا تو تشدد پر اتر آیا۔ اور ٹرین کے مسافروں کی پریشانی کا باعث ہوتا۔ اس لئے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے تین پیادہ کانسٹیبلوں کو حکم دیا کہ بارہ رائونڈ ہوا میں چلائیں۔ اس سے ہجوم منتشر ہوگیا اور کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہوا۔ اس کے بعد معززین شہر کا ایک اجلاس ریلوے اسٹیشن پر طلب کیا گیا۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک اس غنڈے پن کی مذمت کر رہا تھا لیکن کسی قسم کی عملی امداد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ کہ مبادا وہ کافر یا مرزائی قرار دیا جائے۔
چونکہ مجلس عمل کے عہدیداروں نے مجلس عمل کی حمایت کا عہد کر رکھا تھا اس لئے مجلس عمل کے ڈکٹیٹر نے مسٹر منظور حسن ایم ایل اے سیکرٹری سٹی مسلم لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک دتے کی قیادت کرکے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کریں۔ لیگ کے صدر شیخ آفتاب احمد نے تجویز کی کہ شیخ منظور حسن کی قرضی اور بناوٹی گرفتاری کا انتظام کیا جائے تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ تحریک کو لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ اس پر اتفاق ہوگیا۔ شیخ منظور حسن گرفتار کئے گئے۔ اور انہیں پولیس کی ایک جیپ میں بٹھا کر ضلع کے ایک دور دست گوشے میں اتار دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ وہ چند روز تک گوجرانوالہ واپس نہ آئیں لیکن لوگ اس چال کو سمجھ گئے۔ اور دوسرے دن کوئی دو سو آدمی شیخ آفتاب احمد کے مکان پر پہنچے اور ان سے کہنا لگے کہ ایک جلوس میں شامل ہوں۔ وہ زبردستی ایک مکان سے باہر نکالے گئے اور ان کو ایک جلوس کے ساتھ چلنے پر مجبور کیا گیا۔ جو مسجد شیرانوالہ باغ کو جارہا تھا۔ اس وقت تک مسٹر منظور حسن گوجرانوالہ واپس آچکے تھے اور حکومت کے خلاف کئی تقریریں کیں۔ اور سات مسلم لیگ کونسلروں کو ساتھ لے کر ایک جلوس کی قیادت کی۔ یہ سب لوگ گرفتار کر لئے گئے۔
چیف منسٹر کا بیان مئورخہ ۶ مارچ لاہور کی ہدایات کے مطابق شہر بھر میں نشر کردیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع ملی کہ ۷ مارچ کو احمدیوں کے جال و مال پر حملوں کا خطرہ ہے۔ اس صورت حالات پر فوج سے گفتگو کی گئی۔ فوج نے تجویز کی کہ دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت عام جلسے اور جلوس ممنوع قرار دیئے جائیں۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی کمشنر نے اس تجویز کو قبول نہ کیا اور اس کی بجائے فیصلہ کیا کہ فوج اور پولیس کر شہر میں گشت کریں۔ اس کے بعد شہر میں لاقانونی کے کسی واقعہ کی اطلاع نہیں آئی۔ سوائے اس کے کہ ایک احمدی کی دکان لوٹنے کی کوشش کی گئی۔
۷ مارچ کو موضع نندپور میں شورش پسندوں کے ایک پرغیظ ہجوم نے ایک شخص محمد حسین کو یہ سمجھ کر قتل کر دیا کہ وہ احمدی ہے۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ متوفی کے ایک دشمن نے اس کو قتل کرانے کے لئے چال چلی تھی۔
۸ مارچ کو مقامی ایم ایل اے مسجد شیرانوالہ باغ میں طلب کئے گئے اور ان سے درخواست کی گئی کہ لاہور جاکر ہدایات لائیں۔ یہ ایم ایل اے چیف منسٹر صاحب سے ملے لیکن کوئی قطعی ہدایات نہ لائے۔
گوجرانوالہ میں فوج کی ایک کمپنی ۵ مارچ کو۔ دو بٹالین ۶ مارچ کو اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کنٹسیبلری کے دو ریز رد دستوں کو لے کر ۸ مارچ کو پہنچ گئے۔
جب فوج آئی تو ان نعروں سے ان کا خیر مقدم کیا گیا >پاکستان فوج نے سیالکوٹ میں گولی چلانے سے انکار کردیا۔ زندہ باد پاکستانی فوج زندہ باد< شورش پسند ہر جگہ یہ اعلان کررہے تھے کہ وہ کفر کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں۔ اور کئی مقامت پر ایسے پوسٹر لگائے گئے جن میں پولیس اور فوج سے اپیل کی گئی تھی کہ گولی نہ چلائیں۔ بلکہ جہاد میں شامل ہوجائیں۔
ضلع میں کوئی ایک درجن احمدیوں کو مجبور کردیا گیا کہ اپنے عقیدے سے توبہ کرلیں۔~<ف۲۸~
احمدیوں کے بیانات
۱۔ جناب میر محمد بخش صاحب~ف۲۹~ ایڈووکیٹ )امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ( تحریر فرماتے ہیں:۔
شہر گوجرانوالہ میں بھی ایسی کانفرنسیں جن کے نتیجہ میں محلہ وار اجلاس کئے گئے۔ جن میں پاس کیا گیا کہ احمدیوں کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جاوے اور ان کو اپنے مردے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنے دیئے جائیں۔۔۔۔۔ جس کے نتیجہ میں بازار میں دوکانوں پر دو قسم کے بورڈ احرار نہ لگوائے جن میں یہ تحریر ہوتا تھا کہ:۔
>مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو۔ مرزائیوں کے برتن علیحدہ ہیں< علاوہ اس کے بعض بعض احمدیوں کی دکانات کے بورڈ پر بھی احرار نے لکھوا دیا کہ یہ دکان مرزائی کی ہے اور ان کے سامنے پکٹنگ لگوائی گئی کہ کوئی غیر احمدی ان سے سودا نہ خریدے اور اگر کوئی خریدتا تو اسے واپس کردیا جاتا تھا۔
۲۲ فروری ۱۹۵۳ء کو مطالبات نہ مانے جانے کے بعد مجلس عمل کے راست اقدام شروع کرنے کے بعد >مجاہدین< جلوس بنا کر کچہری میں آتے اور تمام کچہریوں کے گرد چکر لگاتے۔ ختم نبوت زندہ باد۔ مرزائیت مردہ باد۔ حکومت مردہ باد کے نرے لگاتے اور جو گرفتار ہونے کے لئے آتے وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کردیتے۔ ایسے جلوس ۴ مارچ سے ۱۵ مارچ تک جاری رہے۔ جلوس میں باوجود باغیانہ اور اشتعال انگیز نعرے لگائے جانے کے مقامی حکام ایسے جلوسوں کو روکنے کی کوشش نہ کرتے۔ بال¶اخر ملٹری حکام نے آکر سول حکام کو ۱۵ مارچ کو توجہ دلائی کہ ایسے جلوس بن ہونے چاہئیں۔ تب جاکر مقامی حکام نے سختی سے ایسے جلوسوں کو بند کردیا۔
پہلے چند بچے کسی احمدی کے مکان کے سامنے آکر احمدیوں کو گندی گالیاں دیتے اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے۔ پھر ان سے بڑی عمر کے لڑکے آجاتے اور دروازوں پر پتھرائوں شروع کردیتے اور بال¶اخر معمر لوگ آتے اور مکانات کے دروازے وغیرہ توڑ کر مکینوں کو ڈانگوں اور چھروں وغیرہ سے ڈراتے ور کہتے کہ احمدیت سے تائب ہو جائو ورنہ قتل کردیئے جائو گے اور تمہاری مستورات اٹھالی جائیں گی۔ اگر کوئی ایسا کرنے سے انکار کرتا تو اس کے مکان کا سامان توڑ پھوڑ دیا جاتا اور لوٹ لیا جاتا اور بعض اوقات آگ لگا دی جاتی۔ عام طور پر حملہ آور ایک محلہ کے دوسرے محلہ میں جاکر حملہ کرتے۔ تاکہ پہچانے نہ جائیں اور محلہ والے پاس کھڑے ہوکر تماشا دیکھتے ماسوائے چند شرفاء کے جو حملہ آوروں کو منع کرتے لیکن حملہ آور ان کو بھی مار ڈالنے کی دھمکی دیتے جس کی وجہ سے وہ بھی خاموش ہوجاتے۔ حملہ کرنے سے پہلے افواہیں پھیلائی جاتیں کہ فلاں احمدی کے مکان پر فلاں وقت حملہ کیا جائے گا تاکہ خوف و ڈر کی وجہ سے وہ مکان چھوڑ جائے۔
پولیس چوکیوں پر اطلاع دینے پر پولیس والے جان بوجھ کر جائے واردات کی بجائے دوسرے محلہ میں چلے جاتے اور رپورٹ کردیتے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مقامی حکام بالا سمجھتے کہ احمدیوں کو شہر میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ پولیس کا چھوٹا عملہ حملہ آوروں کی پیٹھ ٹھونکتا۔ اور ان کو حملہ کے لئے اکساتا تھا۔<
۲۔ جناب شیخ نیاز احمد صاحب ریٹارڈ انسپکٹر پولیس شورش کے دنوں میں گوجرناوالہ میں اپنے آبائی مکان میں فروکش تھے اور فالج اور دیگر عوارض میں مبتلا ہونے کے باعث صاحب فراش تھے اور چلنے پھرنے سے معذور۔ انہی ایام میں آپ نے اپنے خط میں لکھا تھا:۔
>یہاں گوجرانوالہ میں لاقانونیت انتہائی صورت اختیار کرچی ہے۔ علی الاعلان غنڈے بلا روک ٹوک لوٹ مار کررہے ہیں اور ملا نے کوچہ بہ کوچہ کھلم کھلا تقریریں اشتعال انگیز کرتے ہیں جس میں وہ لوٹ اور ہر قسم کی سختی احمدیوں سے کرنے کی پر زور الفاظ میں تحریک کرتے ہیں۔ مقامی افسران بھی ان سے ملے ہوئے ہیں۔ سارے شہر میں کہیں بھی پولیس کا آدمی نظر نہ آئے گا۔ اور غنڈے بغیر کسی رکاوٹ کے من مانی سختیاں احمدیوںا پر کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ ہمارے مکان پر نہایت شدت سے حملے کئے گئے ہیں۔ غنڈے سینکڑوں کی تعداد میں ڈھول بجاتے ہوئے لاٹھیوں اور پتھروں سے مسلح۔ گندی گالیاں دیتے آتے ہیں اور آتے ہی دھاوا کرتے ہیں۔ دروازوں کو زور زور سے توڑتے ہیں۔ اینٹیں اور پتھر مار کر سخت تشویشناک حالت برپا ہوجاتی ہے میرے مکان کے روشندان۔ شیشے وغیرہ ٹوٹ گئے ہیں۔ مکان اینٹوں سے بھرا ہوا ہے۔<
۳۔ عبد الحمید صاحب تیلر ماسٹر کا تحریری بیان ہے:۔
>مورخہ ۶ مارچ بروز جمعہ صبح سے ہمارے گھر ٹولیاں آنی شروع ہوگئیں۔ ہم نے دروازہ بند کر لیا تھا۔ وہ بار آکر بدزبانی کرتے اور دروازہ کو اینٹیں اور لاٹھیاں مارتے تھے اور ساتھ ہی کہتے تھے۔ آج رات کو ان کا مکان بھی جلا دیں گے اور ان کی بے عزتی کریں گے اور یہ ٹولیاں ہر دس منٹ کے بعد چکر لگاتی تھیں اور دروازے پر آکر بدزبانی کرتے تھے ہمارا ایک غیر احمدی رشتہ دار ہمارے گھر آیا تو مجمع نے اس کو ہمارے گھر میں نہ آنے دیا اور وہ بیچارہ واپس چلا گیا۔ اس مجمع یا ٹولیوں میں ہمارے محلہ کا کوئی آدمی شامل نہ تھا۔ سب دوسرے محلوں سے آئے ہوئے تھے۔ محلہ والے گھروں سے باہر نکل کر تماشا ضرور دیکھ رہے تھے۔<
‏]body [tag۴۔ عبد اللطیف صاحب آف گوجرانوالہ نے بیان دیا کہ:۔
>کمترین کے مکان پر جب جلوس آیا تو ہم گھر پر مجوود تھے۔ اہل جلوس خشت باری کرکے چلے گئے۔ دوسرے روز جلوس پھر آیا مگر اس وقت ہم گھر میں موجود نہ تھے۔ صرف عوریں تھیں اور اندر سے تلا الگا ہوا تھا۔ جس وقت جلوس ہمارے گھر کے نزدیک آیا ان کے ہاتھوں میں لوہے کے سریا تھے۔ انہوں نے ہمارے گھر کا دروازہ توڑا۔ پھر بیٹھک کا توڑا۔ اس کے بعد میٹر توڑا۔ پھر بجلی کی تاریں کاٹ ڈالیں اور لوٹ مار شروع کردی۔ اس وقت جو حالت عورتوں کی تھی وہ خدا ہی جانتا ہے۔ میرے پاس کارخانہ میں ایک لڑکے نے آکر اطلاع دی کہ تمہارے گھر کا دروازہ توڑ دیا گیا ہے۔ میں وہیں سے سدیھا پولیس چوکی گھنٹہ گھر گیا اور وہاں اطلاع دی۔ چوہدری اسمٰعیل تھانیدار ملک صاحب سے ٹیلیفون کررہے تھے کہ اسلام آباد میں جو مرزائی تھے وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ باقی تھوڑی سے کسر ہے۔ جب ٹیلیفون کرچکے تو میں نے دروازہ کھولا اور ان سے عرض کیا کہ میرا دروازہ توڑ دیا گیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ شائد میرے بال بچہ کو مار نہ دیں۔ چلئے کچھ انتظار کریں۔ انہوں نے کہا میں کیا کرسکتا ہوں۔اتنے جلوس کے آگے میری کیا پیش جاتی ہے۔ تب میں نے کہا اگر کوئی قتل ہوگیا یا مارا گیا تو اس کے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ پھر سائیکل پر اپنے گھر آگیا۔ اس وقت جلوس والے دروازے وغیرہ توڑ پھوڑ کرکے جاچکے تھے۔<
۵۔ جناب مولیٰ بخش صاحب` محمد لطیف اور محمد حسین صاحب کا مشترکہ بیان:۔
>ہمارے مکانات واقع گلی مولوی سراج الدین ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔ فروری کے اوائل میں ہمارے کانوں میں یہ آوازیں پڑتی تھیں کہ ۲۶ فروری آرہی ہے جو کہ آپ کے لئے شدید اور سخت ہے۔ چنانچہ ۲۵ فروری کی رات کو قریباً ساڑھے نو بجے ایک سو سے زائد افراد پر مشتمل ایک ہجوم ہمارے مکانوں کے سامنے آکر بے پناہ شور کرنے لگ گیا اور ہمارے دروازوں اور کھڑکیوں پر اینٹیں اور پتھر برسانے لگا۔ ہم نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ ان حرکتوں سے باز آجائو آخر ہم نے آپ کا کیا بگاڑا ہے لیکن انہوں نے ہماری ایک نہ سنی بلکہ شرارت میں بڑھتے ہی گئے۔ کبھی جلوس کی شکل میں سامنے بازار چلے جاتے اور کبھی شور مچاتے مکانوں کے سامنے آجاتے اور دروازے اور کھڑکیاں بڑے زور سے کھٹکھٹانے لگتے۔ گندی اور فحش گالیاں دیتے۔ یہ حالت تقریباً پون گھنٹہ رہی۔ بعد میں محلہ میں بسنے والے شریف لوگوں نے بیچ میں پڑ کر ان کو ہم سے دور کیا اور کہا یہ طریق کار شریفانہ نہیں۔ ان کے مجبور کرنے پر ہجوم چلا گیا۔ متذکرہ بالا وقوعہ کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ہمارے دروازوں کو پیٹا جاتا رہا اور گندی اور فحش گالیاں دی جاتی رہیں۔ چنانچہ ایک رات ہمارے صدر دروازے پر آویزاں لیٹر بکس بالکل توڑ پھوڑ دیا اور ایڈریس کے بورڈ کو اتار لیا گیا سب سے آخر میں مارچ کی ۷ تاریخ کو رات کے قریباً پونے دس بجے ہمارے )مولیٰ بخش( مکان پر پٹرول چھڑک کر باہر سے آگ لگا دی گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مہربای سے ہمیں )محمد حسین( فوراً پتہ چل گیا اور آگ پر قابو پا لیا گیا۔ چونکہ یہ کام نہایت سرعت سے اور ہم سب نے مل کر کیا اس لئے کسی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہونے پایا۔ ثم الحمد اللہ۔ آگ کی خبر سامنے ایک ہمسایہ کے ذریعہ سارے محلہ میں پہنچ گئی اور محلہ کے سرکردہ اشخاص شیخ برکت علی۔ شیخ عاشق حسین اور میاں عبد الحمید صاحب نے تھانہ میں رپورٹ کردی۔ تھانہ سے بروقت ذمہ دار حکام تشریف لائے اور انہوں نے موقع پر آگ لگنے کی جگہ کو دیکھا۔ اور جائزہ لیا اور تسلیم کیا کہ آگ پٹرول سے لگائی گئی ہے۔ آگ لگانے والوں نے ہمارے مکانوں کے دروازوں کو باہر سے کنڈیاں لگا کر بند کردیا۔ تاہم جلد باہر نہ نکل سکیں۔ لیکن خوش قسمتی سے ایک دروازہ کی کنڈی کھلی رہ گئی۔ اس کے ذریعہ ہم جلد مکان سے نکل آئے۔ الخ۔<
۶۔ مکرم معراج دین صاحب پنساری کا بیان ہے:۔
>میری دکان پر آکر لوگ گالیاں دیتے۔ آس پاس کی دکانوں پر آدمی بٹھا کر ہماری دکان سے سودا نہ لینے کی تلقین کی جاتی۔ بکے ہوئے سودے واپس کرائے جاتے۔ باقاعدہ پکٹنگ کی جاتی۔ احمدیت سے تائب ہونے کی دھمکیاں دی گئیں۔ بصورت دیگر قتل کرنے` دکان لوٹنے اور آگ لگانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ بلکہ بعض دفعہ چھرے بھی دکھائے جاتے۔ میرا والد میرا سخت تھا۔ اور مجھے تکالیف پہنچانے میں اس نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی حتیٰ کہ میرے قتل کی بھی کوشش کی لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں ان تمام مصائب برداشت کرنے کی توفیق بخشی۔ اور ہم بفضل خدا احمدیت پر قائم رہے۔ الحمدلل¶ہ۔ مکان اور دکان پر خشت باری کی جاتی رہی۔ میری دکان کی کئی دن تک بند رہی اور ہم اپنے مکان میں محبوس رہے۔ بعض عورتوں نے ہمارے مکان پر آکر ہماری عورتوں کو احمدیت سے تائب ہونے کی تلقین کی مگر انہوں نے کہا کہ ہم ایسا کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ مرنا تو ایک ہی دفعہ ہے۔<
۷۔ مکرم میاں محمد الدین صاحب بوٹ میکر کا بیان ہے کہ:۔
>میری دکان دروازہ اٹھا کر سنگھ کے اندر احرایوں کے گڑھ میں واقع ہے۔ میری دکان پر اکثر احراری آتے رہتے۔ مجھے تبلیغ کرتے۔ میرے جوابات کا جواب نہ پاکر مجھے احمدیت سے تائب ہونے کو کہتے اور بس نہ چلتا تو میرا سودا خراب کرتے۔ دوسروں کو مجھ سے سودا خریدنے سے منع کرتے۔ جب پھر بھی میں ان کا کہنا نہ مانتا تب مارنے کی دھمکیاں دیتے۔ بعض اوقات چھرے دکھاتے اور کہتے یہ تیرے لئے ہی بنوا رکھے ہیں۔ جب میں نے اس کی بھی پرواہ نہ کی تب میری دکان کے تالوں پر پاخانہ لگا جاتے )اور کافی عرصہ تک روزانہ لگاتے رہے( جو بازر کا بھنگی بھی صاف نہ کرتا اور آخر کار میں خود ہی صاف کیا کرتا۔ پھر مجھے سخت مارتے بھی رہے حتیٰ کہ میرا منہ اور چھاتی کئی دن تک سوجی رہی اور بعض چوٹوں کا مجھ پر ابھی تک اثر ہے۔ میری بیوی ہر روز سہمی رہتی کہ نہ جانے آج میرے خودن کا کیا بنتا ہے۔ ایک دن میرے بچے مبشر احمد )جس کی عمر ۷`۸ سال کی تھی( کو اٹھا کر لے گئے اور کہنے لگے کہ احمدیت سے تائب ہوجائو ورنہ ہم اس کو مار ڈالیں گے۔ میرا بچہ میرے سامنے روتا رہا۔ لیکن میں نے صبر کیا اور احمدیت کو نہ چھوڑا۔ ان تمام واقعات کی حکومت کے ذمہ وار افسران کو اطلاع دی جاتی رہی لیکن افسران نے کچھ بھی نہ کیا۔ سوائے اس مشورہ کے کہ میں دکان چھوڑ جائوں لیکن میں نے دکان نہ چھوڑی۔ دوران تحریک میں ایک دن وہ میرے گھر گئے اور بتایا کہ تمہاری جماعت کے تمام بڑے بڑے افراد احمدیت کو چھوڑ چکے ہیں۔ تم بھی چوڑ دو لیکن میں نے ایسا نہ کیا بلکہ احرار کے دفتر میں چلا گیا اور ان سے بعض مسائل پر گفتگو کی لیکن ان پر کسی بات کا اثر نہ ہوا۔ میرے بچہ کو سکول میں مارا بھی گیا لیکن اس نے صبر کیا۔ غرضیکہ کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جو مجھے نہ دی گئی ہو۔ ایک دن میں ایک شدید دشمن سے ڈر گیا اور نماز ظہر میں سخت رویا کہ مولیٰ کریم اب میں کیا کروں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی شخص اس دن سے میرا دوست بلکہ میرا محافظ بن گیا۔ الحمدلل¶ہ کہ میں احمدیت پر قائم ہوں۔<
۸۔ مکریم شیخ صاحب دین کا بیان ہے کہ:۔
>سات اور آٹھ مارچ کی درمیانی رات کو قریباً دس بجے شب کے ۱۶` ۱۷ شریروں کا ایک ٹولہ جو کہ چھروں سے مسلح تھا نعرے لگاتے ہوئے ہمارے کارخانہ اور رہائشی مکان کی طرف سوچی سمجچی ہوئی کے ماتحت حملہ کرنے کی غرض سے آیا۔ ہمارے مکان سے تیس چالیس گز کے فاصلہ پر بعض شریف اہل محلہ جو بیدار تھے اور ایک طرح سے پہرہ دے رہے تھے انہیں روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رعب ڈالا اور وہ واپس چلے گئے۔ لیکن صبح ہونے پر اہل محلہ نے غالباً شریر لوگوں کے کہنے پر ہمیں یہ کہا کہ فضا بہت خراب ہے اور ہماری طاقت سے باہر ہوچکا ہے۔ اب آپ خود اپنی حفاظت کا انتظام کرلیں۔ یا شہر چھوڑ دیں۔ ہم نے کہا ہم جگہ نہیں چھوڑ سکتے۔ اللہ ہی ہماری حفاظت کرے گا۔ وہی ہافظ و ناصر ہے۔ چنانچہ اسی مولیٰ نے ہماری ہماری حفاظت فرمائی اور ہم جانی نقصان سے محفوظ رہے۔ البتہ مالی نقصان ضرور ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس تمام دوران شورش میں ہمارے پاس بیرون جات یا شہر سے کوئی بیوپاری ہمارے کارخانہ میں نہیں آیا کیونکہ خفیہ بھی اور ظاہراً بھی ہم پر پکٹنگ لگی رہی ہے۔ الخ<
۹۔ مکرم محمود احمد جان صاحب کا بیان ہے کہ:۔
>۵ مارچ ۱۹۵۳ء کی رات کو ہمارے کارخانہ ایم اے رشید اینڈ سنز کرشن نگر گوجرانوالہ میں لوگوں نے دو دفعہ آگ لگائی لیکن دونوں دفعہ ہی جلدی قابو پا لیا گیا۔ اندازاً نقصان تین چار سو روپیہ کا ہوا۔ اسی رات پولیس کو اطلاع دی گئی تھی۔ پولیس بعد میں چکر لگاتی رہی مگر اس کے بعد بھی دو تین دفعہ لوگ جلوس کی شکل میں ہمارے کارخانہ کے ارد گرد چکر لگاتے رہے اور گالیاں نکالتے رہے۔<
۱۰۔ محلہ اسلام آباد کے ایک احمدی کا بیان ہے:۔
۷۔ مارچ ۱۹۵۳ء کو ہم مع بچوں کے سارا دن گھر میں قیدیوں کی طرح گھرے ہوئے تھے اور ہمیں بعض غیر احمدی رشتہ دار ہمیں کھانے کی اشیاء مہیا کرتے رہتے تھے۔ قریباً تین یا چار بجے بعد دوپہر اندازاً پانچ سو غنڈوں کا ایک ہجوم جماعت احمدیہ کے خلاف گندے نعرے مارتا ہوا ہماری گلی میں داخل ہوا۔ ہمارے ہمسارے مرد عورت دروازوں کے آگے کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنے لگ گئے۔ اور ہجوم نے لاٹھیوں سے مسلح تھا ہماری کھڑکیاں اور دروازے توڑنے شروع کردیئے۔ شیشے کے ٹکڑے صحن میں پہنچ رہے تھے۔ ہم بیٹھک اور ڈیوڑھی کے دروازے کو اندر سے بند کرکے کوٹھے پر چڑھ گئے اور پچھلی طرف سے ہم نے اترنے کی کوشش کی مگر پچھلی طرف سے سب ہمسایوں نے کنڈیاں لگا رکھی تھیں۔ آخر چوتھے مکان پر سے میرا بیٹا اترا۔ میں نے اس کو کہا کہ پولیس چوکی گھنٹہ گھر میں جاکر رپورٹ کردے۔ ہمارے گھر کو لوٹ رہے ہیں۔ اور ہمیں مارنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں۔ میں خود اپنے ایک رشتہ دار کے گھر چلا گیا۔ میری بیٹی` بہو نے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر جاکر پناہ لی۔ ہجوم نے ڈیوڑھی کے دروازے کو بڑے زور سے لاٹھیوں کے ساتھ حملہ کیا جس سے ڈیوڑھی کے باہر کا دروازہ کھل گیا۔ ماب نے بیٹھک کا دروازہ بھی توڑ لیا اور تمام کھڑکیاں شیشے اور سمانا چکنا چور کردیا اور تمام سامان جو قریباً دو صد کا تھا برباد کردیا اور پھر مسمی وار و اور عمر حیات نے جس کو ہمارے ایک رشتہ دار نے ہماری حفاظت کے لئے بھیجا تھا۔ آکر ماب کو باہر نکالا۔
کوئی پولیس کا سپاہی ہماری مدد کو نہیں آیا۔ اس وقت گوجرانوالہ میں کوئی گورنمنٹ موجود نہ تھی۔ پولیس چوکیوں میں بیٹھی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔ حتیٰ کہ اس کے بعد بھی چار پانچ روز تک ایسا ہی حال رہا۔ پھر ملٹری کی آمد کی وجہ سے لوگوں کو ڈر محسوس ہوا۔ اور ہم نے آرام کا سانس لیا۔<
۱۱۔ ریل بازار کے ایک احمدی دکاندا کا بیان ہے:۔
>ہماری دکان ریل بازار میں واقع ہے۔ ۲` ۳ نومبر ۱۹۵۲ء کو مجلس عمل کی کانفرنس ہوئی۔ جس میں احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ اس فیصلہ کے ماتحت دکانوں پر اس مضمون کے بورڈ مولوی احراری نے لگوائے کہ >مرزائیوں کا بائیکاٹ کرو< اور ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔ اور بازار میں دکانداروں اور دلال وغیرہ نے اس تحریک میں مکمل حصہ لیا جو آج تک جاری ہے۔ جو گاہک سودا لیتے تھے انہیں منع کرتے تھے کہ سودا اس دکان سے نہ لو اور واپس کروا دیتے تھے۔ اور جو نہ واپس کرتے تھے ان کی ہتک کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک مولوی جو کہ احراری ہے ہماری دکان کے ساتھ بٹھا دیا تاکہ لوگوں کو اشتعال دلا سکے۔ اس کے بعد ۲۷ فروری ۱۹۵۳ء سے ہر روز ہماری دکان کے آگے سے جلوس نکلتا جو کہ دکان کے سامنے کھڑا ہوکر فحش گالیاں اور نعرے لگاتا لیکن کوئی آدمی بھی ہماری ندد نہ کرتا۔ ۳۰ مارچ کو جلوس کی شکل میں آتے اور شیشے وغیرہ توڑتے۔ چنانچہ ۵ کھڑکیوں اور تین روشندانوں کے شیشے دان توڑ دیئے اس کے علاوہ فحش گالیاں نکالتے اور پتھر وغیرہ مارتے۔ ہماری دکان کو کئی ماہ سے بہت نقصان ہورہا ہے۔ کوئی خرید و فروخت نہیں۔<
۱۲۔ ایک احمدی کلاتھ مرچنٹ کا بیان ہے:۔
>اوائل ۱۹۵۲ء سے ہی یار آشنا چلتے پھرتے بری نظر سے دیکھتے اور گالیاں دیتے ہوئے دکان پر آکر بھی گالیاں دینے لگے اور رعجب جماتے۔ ہرکہ دمہ بھی یہی سمجھنے لگا کہ احمدی ایک ذرہ سے بھی حقیر ہیں ایذا رسانی میں حدود سے تجاوز کرنے لگے حتیٰ کہ بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ غالباً چھ ماہ تک دکان سے کوئی مال فروخت نہ ہونے دیا گیا۔ میں تھوک بزازی کی دکان کرتا ہوں اور انکم ٹیکس گزار ہونے کے باوجود ادنیٰ ادنیٰ آدمی دکان پر پکٹنگ کرتے اور گندی گالیاں سامنے کھڑے ہوکر دیتے۔۔۔۔۔ ایک شخص سوئیاں بیچنے والا پٹھان مستقل پکٹنگ پر مقرر تھے۔۔۔۔۔ پٹھان سخت جوشیلا تھا۔ چاقو دکھایا کرتا تھا ملحقہ دکاندر اس کو شاباش کہتے اور اس کی حمایت کرتے۔ جب کوئی دکان سے مال خریدتا معاً ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا۔ پکتنگ والے مال واپس کرواتے اور بازار راہ گیروں سے بھر جاتا۔ تمام شہر میں ہر دکان پر >مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو< کے بورڈ آویزاں تھے۔ مخالفوں نے ہماری دکان کے دروازے پر مرزائی اور گندی گالیاں لکھیں۔ میرا ایک گھر دکان کے بالا خانہ میں تھا۔ فساد کے شدید آثار دیکھ کر )یعنی گھر میں اینٹیں پتھر پڑنے لگے۔ گھر والوں کو گالیاں دینے لگے وغیرہ وغیرہ( اس کو اپنے دوسرے گھر میں جو مالک پورہ میں تھا اکٹھا کردیا۔ اب عوام الناس اس گھر میں بھی پتھر روڑے مارنے لگے اور گالیاں دینے لگے۔ گھر سے چل کر آنا اور پھر دکان پر دن گزارنا اور پھر گھر واپس جانا یہ تینوں سخت مصیبتیں تھیں۔ راستہ بھر میں حملہ کا خوف` گندی گالیاں اور اینٹ پتھر کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ دکان پر بھی اینٹ پتھر پڑنے لگے تھے۔ گالیاں اور لوٹ مار کا خوف بھی۔ غرضیکہ وہ نہایت خوف اور تکلیف کا وقت تھا۔ رات کو حملہ کا خوف نیند اچاٹ۔ اسی دوران میں مارچ ۱۹۵۳ء آگیا۔ جلوس نکلنے شروع ہوگئے۔ جلوس دکان پر ٹھہرتے` ماتم کرتے` گالیاں دیتے` تکلیف انتہاء کو پہنچ گئی۔ ۵ مارچ کی صبح کو دکان پر آئے تو کسی نے کہا کہ دکان کے اندر بیٹھو۔ باہر نہ بیٹھو۔ حملہ ہوجائے گا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ آج تم پر حملہ ہوگا۔ ہم نے دیکھا تو احمدی دوستوں کی دکانیں بھی بند تھیں۔۔۔۔۔ گھر آگئے۔ دروازہ بند کیا اور محصور ہوکر رہ گئے۔ اسی شب محلہ میں جلسہص ہوا۔ غالباً مولوی۔۔۔۔ نے فرمایا کوئی مرزائی زندہ نہ رہے۔ بلکہ ان ک ابچہ بھی۔ اگلے دن صبح کو چھ سات سو افراد کا جتھہ میرے بھائی اور بہنوں کے گھروں پر جو ملحق تھے آیا اور کہا کہ ہم پہلے تم کو ختم کرتے ہیں۔ پھر مرزائی کو۔ وہ چونکہ غیر احمدی ہیں اور بہت سرمایہ دار۔ روتے ہوئے اور چیخیں مارتے ہوئے میرے گھر آگئے۔ اور کہا خدا کے لئے ہم کو بچائو اور گھر سے باہر نکل کر کہہ دو کہ میں مسلمان ہوں۔ مگر میری بڑی بیوی فاطمہ نے کہا کہ ہمارے ٹکڑے ہو جانے دو ہم ایسا نہیں کہیں گے۔ اس اثناء میں جتھہ اندر ہوگیا اور نعرے مارتے ہوئے مجھے مسجد میں لے گئے اور کلمہ طیب پڑھوایا۔ تمام مسجد بھری ہوئی تھی اور لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ مسلمان ہوگیا۔<
۱۳۔ ایک احمدی خوشنویس مکرم محمد یوسف صاحب کا بیان ہے:۔]>[۴ مارچ ۱۹۵۳ء کو ہم دونوں میاں بیوی احراریوں اور مودودیوں کی دھاندلی اور ادھم سے مرعوب ہوکر گکھڑ اپنے ہم زلف کے ہاں چلے گئے مگر وہاں بھی ہم سے وہی سلوک ہوا جس سے ڈر کر یہاں سے گئے تھے۔ آخر ۷ مارچ کو ایک بجے کے قریب میرا بھتیجا گیا اور کہا کہ تمہارا گھر لوٹا گیا ہے۔ ہم میاں بیوی تانکہ پر سوار ہوکر ڈھائی بجے کے قریب گوجوانوالہ اپنے گھر پہنے۔ مکان اور ٹرنکوں کے تالے سب ٹوٹے ہوئے دیکھے۔ ابھی ہم جائزہ ہی لے رہے تھے کہ کیا نقصان ہوا کہ ایک ہجوم ہاتھوں میں لکڑیاں اور سوٹیاں اور پتھر روڑوں سے مسلح دروازہ اور کھڑکیوں پر اپنا غصہ نکالنے لگا۔ ہم نے اندر سے دروازہ اور کھرکیاں بند کی ہوئی تھیں۔ اس ہجوم سے ایک کمبخت دوسرے مکان کو پھلانگ کر اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگیا۔ اور نیچے آکر ہمارا باہر کا دروازہ کھول دیا۔ ہجوم بدستور اینٹوں` پتھروں اور لکڑیوں اور سوٹوں سے مکان کو توڑنے میں مشغول تھا۔ کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ ناچار میں دروازے میں گیا اور کہا کہ اپ لوگوں کا اس طرح اودھم مچانا اور حملہ کرنے کا کیا منشا ہے؟ ہجوم بولا کہ ہم تم کو مسلمان بنانے آئے ہیں۔ میں بیٹھک سے قرآن کریم لے کر کھڑا ہوگیا۔ جو کچھ میں نے ہجوم سے کہا وہ آگے چل کر بیان کروں گا۔ اس پر ہجوم چلا اجتا ہے قریباً چار بجے میری بیوی پھر جائزہ لینے لگی۔ اور میں نماز عصر پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ باہر پھر شور و شغب اور نعروں کی گونج اور تڑاک پڑاک کی آواز آئی جو پتھروں` لکڑیوں اور اینٹوں سے مکان کو توڑنے سے پیدا ہورہی تھی۔ میں نے جاکر دروازہ کھول دیا اور ہجوم سے کہا کہ آئو اندر آئو اور جو کچھ رہ گیا ہے تم لوٹ لو۔ ہجوم سے گلی اٹی ہوئی تھی۔ مجھے کہنے لگے ہم نے تم کو مسلمان بنانا ہے۔ میں ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ چار نوجوانوں نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال کر دروازہ سے گلی میں اتار لیا اور کہا کہ مسجد میں لے جائیں گے۔ میرے مکان سے قریباً تین فرلانگ پر >زینت المساجد< ہے۔ اس میں لے گئے۔ راستہ میں مجھ سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے۔ میں نے کہا محمد یوسف۔ بس گلیوں اور بازاروں میں جلوس کا ہیرو بن گیا۔ محمد یوسف زندہ باد۔ چٹو وٹا ہائے ہائے۔ جلوس بڑھتا گیا حتیٰ کہ مسجد میں جاتے وقت قریباً ڈھائی ہزار کا مجمع بن گیا۔ مکانوں پر عورتیں اور مرد دیکھ رہے تھے۔ مسجد میں خوب رونق ہوگئی اور میں مسجد کے صحن میں بیٹھ گیا۔ جب منتظمین نے ہجوم کو بٹھادیا تب میں نے عرض کیا۔ مولوی صاحبان! آپ کے مبلغ مجھے کشاں کشاں جو یہاں لائے ہیں اب آپ اپنی کاروائی شروع کریں ~}~
عشق از پردہ عصمت بیرون آرد زلیخارا
پچاس ساٹھ مولوی کھڑے تھے اور خلقت بھی منتظر تھی کہ کب سنگباری کا حکم کون دیتا ہے؟ ہجوم ڈنڈوں سے مسلح۔ آنکھیں لال لال نکالے حکم کا منتظر تھا۔ لگے مولوی صاحب آواز سے دینے کہ بلائو مولوی صابر کو۔ بلائو مولوی فلاں کو کہ وہ اپنا کام کریں۔ ہر طرف سے آواز آئی کہ مطلوبہ مولوی یہاں نہیں ہیں۔ آخر ایک مولوی صاحب کو ہجوم نے آ کے کہا کہ مولوی صاحب آپ آگے آئیں۔ مولوی صاحب سر سے ننگے۔ آنکھ میں پھولا۔ داڑی لمبی مکر کرڑ برڑی۔ سر پر عمامہ ندارد۔ قرآن کریم لے کر میرے پاس بیٹھ گئے اور لگے قرآن کریم کی ورق گردانی کرنے۔ جب مطلب کی جگہ کی تلاش میں ذرا دیر ہوئی تو میں نے قرآن کریم مولوی صاحب سے لے لیا اور اٹھ کھڑا ہوا اور ہجوم کو مخاطب کرکے غرض کی کہ پہلے میری عرض سن لیں۔ اگر کوئی کسر رہ گئی۔ کوئی کمی رہ گئی تو آپ بعدازاں پوری کرلیں۔ میں نے قرآن کریم کو دائیں ہاتھ سے بند کیا۔ ]ksn [tag اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ پڑھا۔ اور کہا کہ قسم ہے مجھے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے۔ جس جگہ قرآن کریم اترا ہے اس کو کہتے ہیں ام القریٰ اور جس پر نازل ہوا اس کو کہتے ہیں ابو الانبیاء اور اس کتاب )قرآن کریم( کو کہتے ہیں ام الکتاب۔ میں رسول اکرم~صل۱~ کو خاتم الانبین مانتا ہوں اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر میرا ایمان ہے۔ اگر کسی مولوی صاحب کو میرے اسلام میں شک ہو تو وہ اپنے آپ کو جن شرائط کے ماتحت مسلمان سمجھتے ہیں تحریر کریں۔ میں اس پر دستخط کردوں گا۔ ہجوم پر ایک سناٹا چھا جاتا ہے۔ مولوی صاحبان ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں۔ میں نے پگڑی سر سے اتار دی اور کہا کہ پہلے احرار نے میرے مکان کو لوٹا۔ بعد ازاں ایک ہجوم نے میرے مکان کو توڑنے میں کوئی سر اٹھا نہ رکھی اس کو بھی یہی عرض کیا آپ کے یہ مبلغ جاتے ہیں اور مجھے لے آتے ہیں۔ اگر میرے قتل سے آپ صاحبان دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں تو بندہ حاضر ہے۔ یہ مسجد یہ شہادت زہے قسمت۔ ایک مولوی صاحب نے قرآن کریم ایک مسجد کی الماری میں رکھ دیا اور مجھے مسجد کے اندر کرکے دروازے تمام بند کردیئے۔ نماز عصر سے فارغ ہوکر جستہ جستہ آدمی دروازوں سے جھانک جھانک کر آنے شروع ہوئے۔ مختلف اعتراض کرتے رہے جو کچھ مجھے آیا جواب دیا۔ آخر میری رہائی کی تجاویز ہونے لگیں۔ چونکہ ہمارے امیر صاحب کا گھر نزدیک تھا خطرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے تجویز کی کہ انہیں وہاں پہنچا دیائے جائے خیر مجھے وہاں پہنچا دیا گیا اور امیر صاحب قبلہ کو ان الفاظ میں میرا محافظ بنایا کہ لو صاحب آپ اپنا بندہ سنبھالو۔<
۱۴۔ حضرت حکیم نظام جان صاحب قادیانی~ف۳۰~ کا خود نوشت بیان ہے کہ:۔
>ہمارا مکان اور دکان عین چوک گھنٹہ گھر میں واقع ہیں وہ گلی جس کے کونے پر یہ مکان دکان واقع ہیں شروع میں حکام ضلع نے احمدیوں کے لئے مخصوص کی تھی گو پانچ مکانوں سے زائد پر احمدی قابض نہ ہوسکے لیکن لوگوں میں یہ گلی مرزائیوں کی گلی ہی کے نام سے مشہور ہے اور ہماری دکان کا اشتہار چونکہ الفضل میں باقاعدہ شائع ہوتا رہتا ہے اس لئے ہم خاص طور پر شناسا تھے کہ >یہ مرزائی ہیں<۔
جن دنوں زمیندار اخبار میں ۲۲ فروری تک کی مہلت کا اعلان بڑے طمطراق سے شائع ہوا کرتا تھا ایک دیہاتی ٹائپ کا ملا ہماری دکان پر برابر بیٹھنے لگا۔ وہ الفضل پڑھتا اور سلسلہ پر اعتراضات کرنے کے علاوہ ہمیں آنے والے خطرناک طوفان سے بھی خوف دلا کر بتاتا کہ اب مرزائیت چند روز ہے۔ اب نہ یہ سلسلہ رہے گا نہ اس سلسلہ کے داعی۔ اب سب امت مسلمہ تمہارے خلاف اٹ کھری ہوئی ہے۔ اب تم لوگوں کا بچنا مشکل ہے بہتر ہے کہ تم مسلمان ہوجائو۔ ہم نے اسے کہا کہ ان باتوں سے تم ڈرا کر ہمیں احمدیت سے روکنا چاہتے ہو یہی باتیں ہمارے ایمان کو زیادہ کرنے والی ہیں۔ تم ۷۲ فرقوں نے اکٹھے ہوکر خود بخود ۷۳ ویں اور ناجی فرقہ کی نشان دہی کردی ہے ایک بن کر حملہ کرنے کا ارادہ کرکے فرعون اور جنگ احزاب کا نقشہ پیش کردیا ہے اور کسر کیا رہ گئی ہے۔ وہ ملا بہت کہا کرتا۔ ہم لوگ تمہیں قتل کردیں گے۔ مکان جلا دیں گے۔ اسباب لوٹ لیں گے بہتر ہے کہ تم مسلمان ہوجائو مگر ہم یہی کہتے رہے کہ وقت خود بخود نتائج ظاہر کردے گا اور بتا دے گا کہ حق پر کون اور ناراستی پر کون ہیں۔ خدا تعالیٰ کن کے ساتھ ہے اور کون خدا تعالیٰ کے دشمن ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم یہیں رہیں گے۔ مگر تم ایسے نہ رہو گے۔
لاہور سے آمدہ خبروں کی وجہ سے شہر میں کشیدگی اور اضطراب بڑھتا جاتا رہا۔ا ہمارے خلاف نفرت اور بغض کے مظاہرے تو ان بورڈوں سے ہوتے ہی تھے جو قریباً ہر دکان پر۔ اسلامیان پاکستان کا متفقہ مطالبہ۔ کے محرک تھے۔ مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرو۔ اور مرزائیوں کے برتن علیحدہ ہیں۔ لگائے گئے تھے۔ بعض ہوٹل والوں نے برتن بھی علیحدہ رکھ لئے تھے۔ ان بورڈوں سے خواہ مخواہ احمدیوں کے خلاف نفرت اور تعصب بڑھتا تھا اور مقرروں نے تقریروں میں یہ کہا ہوا تھا کہ مرزائی چہڑوں اور کتوں سے بھی بدتر ہیں۔ اب اس کا ردعمل برتوں کی علیحدگی اور سوشل بائیکاٹ کے بورڈوں کے سامنے آجانے سے کدورت کی شکل اختیار کر رہا تھا۔۔۔۔۔
جمعہ کی نماز کے وقت تک ایسی حالت ہوگئی تھی کہ مسجد میں جانا خالی از خطرہ نہ دکھائی دیتا تھا۔ جونہی ہم لوگوں پر ان کی نظر پڑتی وہ مرزائی مرزائی پکارتے۔ گالیاں نکالتے` گند بکتے آولزے کستے۔ کوئی گندی سے گندی گالی نہ رہی جو ہمیں دی نہ جاچکی۔ اور کوئی گندے سے گندے الفاظ نہ رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت نہ کہے گئے۔
مسجد میں نماز جمعہ کے لئے بہت کم احمدی جاسکے۔ ہمارا قیانہ صحیح نکلا جمعہ کے بعد جلوس نکلنے لگے۔ خطبوں میں خوب ابھارا گیا تھا۔ شہر بھر میں آگ پھیل گئی اور جلوس نکلنے لگے۔ ہماری دکان مکان سے ملحق ہے۔ جب جلوس آتے تو ہم دکان کو کھلا چھوڑ کر پیچھے مکان میں چلے جاتے مگر جمعہ کی نامز کے بعد جبکہ ملک محمد افضل صاحب ہماری دکان پر بیٹھے تھے۔ مسجد سے خطبہ سن کر آنے والے جلوس نے دکان کے سامنے کچھ اس طرح پرے جمالئے کہ ملک صاحب نے دکان بند کر لینے کا مشورہ دیا۔ وہ لوگ اب زیادہ بپھرتے اور گند پر اترتے آرہے تھے۔ ہم نے دکان بند کرلی۔ اور مکان میں محبوس ہوگئے۔
پولیس نے ٹرانسپورٹ کمپنی سے دو دو بسیں مانگی ہوئی تھیں جن پر گرفتر شدگان کو باہر لے جاکر چھوڑا جاتا تھا۔ مظاہرین نے دھمکا کر اور جلانے کی دھمکی دے کر وہ بسیں خود حاصل کرلیں۔ اور ان پر بیٹھ کر شہر میں نعرے لگاتے۔ شور مچاتے۔ گالیاں بکتے۔ جب اور جہاں جی چاہتا دندناتے پھرتے۔
اندر بیٹھے بیٹھے طبیعت تنگ آنے لگی۔ لوگوں کے بچے باہر ہنستے کھیلتے اور شور مچاتے پھرتے اور ہمارے بچے گھروں میں مقید۔ باہر نکلنے کا یارا نہیں۔ وہ حیران ہو ہو کر سوچتے یہ دو دن میں کیا ہوگیا کہ ہمارا نکنا ہی بند ہوگیا۔ ہم انہیں دلاسا دیتے کہ آج کل دنیا ہم پر تنگ ہورہی ہے۔ یہ کھیلنے اور ہنسنے کے نہیں۔ بلکہ رونے اور دعائیں کرنے کے دن ہیں۔ دعا کرو کہ ہم امتحان میں کامیاب اور ایمان میں ثابت قدم رہیں۔ خدا اس آزمائش کو جلد ٹال دے۔ دشمنوں کو ہدایت بخشے اور وہ صحیح انسان بن کر ہم سے پیش آویں۔ جب یہ مصیبت ٹل جائے گی پھر تم پہلے کی طرح ہنس کھیل سکو گے۔ باہر آجا سکو گے۔
ہفتہ کو بھی چھوٹی لڑک ریحانہ اسکول چلی گئی تھی۔ سکول میں لڑکیوں نے مل کر اسے خوب مارا۔ خوب مارا۔ خوب مارا۔ وہ کیوں؟ اس لئے کہ یہ مرزائی ہے۔ وہ بیچاری روتی اور مار کھاتی رہی۔ کسی کے دل میں رحم نہیں آیا کسی نے اسے نہیں چھڑایا۔ کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔ کیونکہ وہ >مرزائی تھی اور مرزائیوں< کو ہلاک بھ کردیا جائے تو کو مضائقہ نہیں۔
حکام بے بس تھے۔ انتظامیہ بے بس تھی۔ لوگوں میں حکومت اور احمدیت کے خلاف نفرت اور غصہ بڑھ رہا تھا۔ اشتعال پھیلا جا رہا تھا۔ مگر کوئی جلسے جلوسوں پر پابندی یا دفعہ نمبر ۱۴۴ کا نفاذ نہ تھا۔ غنڈے اور بچے آتے اور علی الاعلان دروازے توڑتے۔ پتھر برساتے اور گالیاں دیتے مگر کوئی پولیس نہ آتی۔
ہنگامہ پسند تو جلسوں ہی میں باقاعدہ یہ اعلان کررہے تھے کہ پولیس ہمارے ساتھ ہے۔ اور اس بات نے فسادی ہجوموں کو ہمست و جر¶ات دلادمی تھی۔ خوف حکومت ہی ختم ہوگی اتھا۔ پولیس عنقا ہوکر نہ جانے کہاں جا چھپی تھی۔
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو کرشنا نگر میں واقع ایک احمدی کے کارخانہ کو آگ لگائی گئی۔ اور اب اس سے شہ پاکر فسادی ہمارے مکان کے سامنے جمع ہوکر اس تجویز پر عمل کرنے کی تجویزیں کرتے۔ انہوں نے ہزار کوشش اور طریق سے ہمیں نیچے اتارنے کی کوشش تھی۔ ایسی ایسی گالیاں دی تھیں کہ ہم کسی طرح جواب دینے کو سامنے آئیں۔ مگر وہ ناکام رہے تے۔ اب آگ ہی ایک صورت رہ گئی تھی اس مکان سے ہمیں باہر نکالنے کی۔
ہم نے رات کو پولیس چوکی میں دن بھر کی رو داد کی رپورٹ دے کر انتظام کے لئے کہا تو جواب ملا کوئی فکر نہ کریں۔ ہم لوگ انتظام کرنے لگے ہیں۔ چوک میں پولیس کی ایک پکٹ قائم کردی جائے گی جو فسادیوں کو روکے گی۔ لیکن ہم سمجھتے تھے یہ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں ورنہ اس سیل عظیم میں پولیس سب سے پہلے بہہ گئی تھی۔
دن بھر اکا دکا محبوس احمدیوں کا دھمکا دھمکا کر احمدیت سے پھرانے کی کوشش کی گئی۔ مکان جلانے کی دھمکیاں۔ قتل کردینے کی دھمکیاں۔ سامان لوٹ لینے کی دھمکیاں۔ عزت و ناموس برباد کر دینے کی دھمکیاں۔ انسان دھمکیوں سے مرعوب اس وقت نہیں ہوتا جب وہ دنیاوی تعلقات کو یکسر نظر انداز کردے۔ بھول ہی جائے کہ نہ اس کا مکان ہے نہ سامان۔ نہ بیوی ہے نہ بیٹی۔ اور اگر سمجھے ہیں تو پھر یہ خیال نہ کرے کہ عزت و ناموس برباد کرنے اور مکان لوٹنے جلانے کی قوتیں اور قدرتیں انسان اور خود سر بھٹکے ہوئے فسادیوں کے ہاتھ میں ہیں۔
یہی ایک دھمکی نہیں تھی جو ارتداد کے لئے استعمال ہوئی بلکہ بعض جگہوں پر غلط طور پر مشہور کیا گیا کہ سب بڑے بڑے احمدی )نعوذ باللہ( ارتداد کرچکے ہیں۔ ان کے مقابل پر تمہاری پوزیشن ہی کیا ہے۔ تم بھی احمدیت سے الگ ہوجائو۔ مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ بمبئی کی ساس صاحبہ ہفتہ کو آئیں۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھلوایا اور کہنے لگیں میں آپ لوگوں کا پتہ کرنے آئی تھی۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ حکیم نظام جان نے بھی احمدیت سے توبہ کرلی ہے سو تم بھی کرلو۔۔۔۔۔ ہم نے احمدیت کی سچائی کا اور ثابت قدم رہنے کا یقین دلایا اور کہا کہ یہ لوگ تم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ان کے دھوکہ میں نہآنا۔
جس وقت پولیس چکی میں دن بھر کی کاروائی کی رپورٹ دینے کو بڑے لڑکے فضل الرحمن کو بھیا گیا تو اس وقت انچارج چوکی فون پر کسی سے بات کررہا تھا اور اطمینان کا اظہار کر رہا تھا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ دو تین احمدی اور >مسلمان< ہوگئے ہیں۔ یہ باتیں بتائی ہیں کہ مرکزی حکومت نہ بھی چاہتی تھی تو بھی پنجاب کے بعض حکام فسادیوں کے ساتھ تھے۔
کالج کے نونہالوں نے اتوار کو بھی چھتی لی اور اپنا فرض پورا کرنے ہمارے مکان تلے نعرے۔ گالیاں دینے اور پتھر چلانے لگے۔ نکلو باہر کہاں ہو تم۔ مرزائی کتے ہائے ہائے۔ مگر اس طرف ایک ہی چپ لگی تھی۔ گو ہم نے کچھ نہ کچھ جواب کا انتطام کیا ہوا تھا مگر شہر میں ایسے بھی غریب احمدی تھے جو ذرا سی حرکت سے ان ظالموں کا نشانہ ستم بن کر ختم ہوسکتے تھے۔
پہلے پہل فسادیوں کو خیال تھا کہ ہم لوگ مسلح ہیں مگر جب اتنے دن تک ہم نے کوئی جوابی قدم نہ اٹھایا تو انہیں حیرت ہونے لگی کہ ہم کیسے انسان ہیں کہ اس عظیم ہنگامے سے بھی متاثر نہیں ہوتے۔ آخر چند نوجوان جر¶ات کرکے دروازہ کھلوانے پر اتر ہی آئے۔ کہنے لگے ہم تمہیں مسلمان بنانے آئے ہیں۔ دروازہ کھولو۔۔۔۔۔ ہمارے ایک ہی جواب پر کہ تم سے زیادہ مسلمان ہیں وہ دروازہ زور زور سے کھٹکھٹاتے اور توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب ہم کسی صورت دروازہ کھولتے نظر نہ آئے تو انہوں نے ہماری بھینس جو گلی میں بندھی تھی کھولنے کا پروگرام بنایا۔ جب وہ بھینس کی طرف بڑھے تو میں نے بندوق نکال کر ان کا نشانہ سیدھا کیا۔ ہماری دکان کے سامنے بیٹھنے والا درزی جو اب تک محض نظارہ کر رہا تھا دوڑ کر ان کے پاس آیا اور حقیقت سے آگاہ کرکے بھاگ جانے کا مشورہ دیا۔ ہمارا تو ارادہ ہی نہیں تھا کہ گولی چلائی جائے کیونکہ یہ پھر نئے فساد کا پیش خیمہ اور مزید تباہی کا باعث بن سکتی تھی مگر اس سے یہ ہوا کہ ہماری خاموشی کا جو وہم غیر مسلح ہونے کا ان کے دل میں بیٹھ رہا تھا وہ دور ہوگیا اور پھر انہیں جر¶ات نہ ہوسکی کہ وہ آکر دروازہ توڑیں۔
اسی دن بابو عبد الکریم صاحب پوسٹماسٹر اور ملک محمد افضل صاح کے مکانوں کو لوٹ لیا گیا۔ اس کے بعد فوج کے آجانے سے حالت آہستہ آہستہ سدھرنے لگی۔ اسی دن مرکز سے ایک خط آیا کہ مضبوطی سے ایمان پر قائم رہیئے۔ مصیبتوں کے بادل عنقریب چھٹ جائیں گے۔۔۔۔۔ بدھ کو پہلے روز ہم نے دکان کھولی۔ وہی پہلے سے اہتمام کے ساتھ۔ یوں محسوس ہوا گویا نئی زندگی مل گئی۔ ہر گزرنے والا یوں نظریں اٹھا اٹھا دیکھتا گویا اسے ہماری زندگی پر یقین نہیں۔ جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ جیسے انہیں امید ہی نہیں تھی کہ یہ دکان جو ایک بار بند ہوگئی ہے پھر بھی کبھی کھلے گی۔
وہ ملا جو فسادات سے قبل ہی احمدیت کی تباہی کے خواب دیکھا کرتا تھا اس کی بیوی فوت ہوکر گھر ویران کر گئی۔ جس کی معرفت آیا کرتا تھا اس کی بیوی بھی فوت ہوگئی۔ اس کی ساری کمائی بیماری پر لگ گئی تھی۔ اب بچوں کا بوجھ آن پڑا۔ جس دکان پر بیٹھ کر سکیمیں سوچی جاتی تھیں وہ دکان اس سے چھن گئی مگر احمدیت کا سورج جب ان بادلوں کے چھٹ جانے کے بعد نظر آیا تو وہ پہلے سے زیادہ آب و تاب سے نکلا۔<
۱۵۔ مکرم محمد شفیع صاحب کھوکھر مالک >دہلی کلاتھ ہائوس< کا بیان ہے کہ:۔
>جب احرار شورش زوروں پر تھی اور ہر طرف سے مخالفت کا زور دن بدن بڑھتا گیا سب دکاندار اور رشتہ دار بلکہ شہر کا اکثر حصہ ہماری مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم دکان بند کرا دیں گے۔ ہماری دکان کے سامنے کھڑے ہوکر گاہکوں کو کہا کہ ان مرزائیوں سے سودا مت لو۔ بعض دفعہ کپڑا کٹوایا ہوا وپس کرا دینا۔ ہم خاموشی سے کاٹا ہوا کپڑا واپس کرلیتے۔ اور بعض احراری دکان کے سامنے کھڑے ہوکر فحش گالیاں دیتے مگر ہم نہایت صبر سے کام لیتے ہوئے دن گزار جاتے۔ الحمدلل¶ہ پھر بھی شام کو کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا کر ہی جاتے اسی طرح ہر روز جلوس نکلتے اور ہماری دکان کے سامنے خاص کر کھڑے ہوکر ناچتے کودتے اور گالیاں نکالتے۔ ایجی ٹیشن کے شروع ہونے سے قبل کئی دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہماری دکان لوٹی گئی ہے مگر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا کہ یا الٰہی آپ تقدیر کو ٹال بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دن ایک نہایت ہی مشتعل ہجوم ہماری بند دکان دیکھ کر تالے توڑنے لگا۔ مگر ہمارے سامنے حلوائی دکاندار جو ہمارے ہمدرد اور جوان بلکہ پہلوان ہیں وہ کھڑے ہوگئے کہ ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔ اس طرح وہ دکان بفضل خدا بچ گئی۔ ویسے بھی ہم کافی مال نکال کر ادھر ادھر کر چکے تھے۔ ایک روز ایک بڑا بھاری جلوس نکلا۔ اس روز بڑا خطرہ پیدا ہوگیا کہ آج یہ ضرور دکان پر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالیٰ نے جو ہر مشکل میں اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ اس موقعہ پر بھی اپنی رحمت کا نشان دکھایا اتفاق سے قریباً دس بارہ عورتیں برقعہ پوش راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ہماری دکان کے سامنے چبوترے پر ایک لائن کی شکل میں کھڑی ہوگئیں۔ اس طرح ان کا حوصلہ نہ پڑا اور جلوس نکل گیا۔ دن بدن خطرہ بڑھتا گیا اور ہم نے دکان پر آنا بند کر دیا اور گھر میں محبوس ہوگئے بلکہ مسجد میں جانا بھی بند ہوگیا۔ گھر پر پیغام جانے لگے احمدیت چھوڑ دو ورنہ خیر نہیں بلکہ رشتہ دار بھی دھمکانے لگے۔ ہاں ابھی دکان پر کاروبار کرتے ہی تھے کہ ایک روز زبردستی کہا گیا کہ تم اپنے بورڈ پر مرزائی کلاتھ ہائو لکھواء۔ خاکسار نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ جمعہ کے دن جب کہ چھتی ہوتی ہے انہوں نے سفید پینٹ بورڈ پر پھیر کر اس کے اوپر مرزائی کلاتھ ہائو لکھ دیا۔ خیر میں نے کہا کہ چلو دیکھو۔ اس طرح بھی خدا رزق دیتا ہے یا نہیں۔ بفضل خدا پھر بھی گاہک سودا لیتے ہی رہے۔ دوران فساد میں دو دفعہ ہماری چوری بھی ہوئی۔ وہ ایسے کہ ایک روز مولوی نما چند آدمی آئے۔ مجھے دھیان میں لگا کر سمر کا ایک ٹکڑا لے گئے جو قریباً۔ /۱۵۰ روپے کا تھا۔ ایک دو آدمی آئے اور کپڑا کٹوا کر جھگڑا کرکے چل دیئے۔ ایک تو کپڑا کٹوا کر چھوڑ گئے دوسرے ایک پاپلین کا تھان اٹھا کر لے گئے۔ اب ان کے پیچھے جانا یا ان کو پکڑنا ہمارے بس کی بات نہ تھی کیونکہ اگر پکڑتے تو جھگڑا شروع ہوجاتا۔ غرضیکہ ہر طرح کی تکلیف اٹھا کر بھی مخالفین کے لئے فساد کا کوئی موقعہ پیدا نہ ہونے دیا۔
ہم بارہ دن تک اپنے گھر پر محبوس رہے۔ آخر کے تین دن تو نہایت خطرناک حالت میں گزرے۔ آخری دی سے پہلی رات کو میری لڑکلی عزیزہ زہرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ نے خواب دیکھا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام زمین اور آسمان کے درمیان تشریف فرما ہیں۔ اور حضور پر نور کے بدن مبارک سے نور کی شعائیں نکل کر سارے آسمان اور زمین کو روشن کررہی ہیں اور بے شمار مخلوق کہہ رہی ہے کہ یہ مسیح موعود آگئے۔ اسی روز صبح کو عزیزہ زہرہ کا بڑا لڑکا جو آٹھ سال کی عمر کا ہے۔ کہنے لگا امی سانپ آئے۔ بین بجی اور بھاگ گئے اور سپاہی آگئے۔ اسی روز صبح میری طبیعت کی گھبراہٹ جو تھی وہ بالکل جاتی رہی۔ میں نے سب کو گھر میں کہا کہ فکر نہ کرو۔ کوئی نہ کوئی سامان حفاظت کا ضرور ہوجائے گا۔ بفضل خدا اسی دن شام کو چار بجے فوج آگئی۔ اور آتے ہی انہوں نے حفاظت کے سامان کردیئے۔<
‏tav.14.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
۱۶۔ مکرم جناب اقبال محمد خان صحب )سابق اسسٹنٹ میٹرولوجسٹ محکمہ موسمیات پاکستان( فرماتے ہیں:۔
>میں کراچی سے تبدیل ہوکر ۴ مارچ کی صبح کو آٹھ بجے لاہور آیا اور تقریباً پونے سات بجے شام اپنے مکان گوجرانوالہ پہنا۔ تو گھر میں سنا کہ احراری ہر روز شرارتیں شہر میں کررہے ہیں۔ چنانچہ وہ ہمارے مکان پر بھی گاہ بہ گاہ آتے اور شور و غوغا کرکے چلے جاتے۔ میرے گھر پر علاوہ میرے ذیل کے افراد تھے۔ میری لڑکی۔ میرے ایک لڑکے کی بیوی۔ میرا ایک لڑکا قریباً ۱۳` ۱۴ برس کا جو اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ میں ساتویں جماعت میں تعلیم پاتا تھا ایک پوتا اور دو پوتیاں یہ تینوں بچے چھ برس سے کم عمر کے تھے۔ میری گوجرانوالہ میں آمد کے بعد فسادی بچے جوان اور بوڑھے دن رات میں ایک سے تین مرتبہ روزانہ آتے اور گالی گلوچ بکتے۔ نازیبا فقرے دہراتے۔ چونکہ ہم اپنے مکان کو ہر وقت بند رکھتے تھے اور ضرورت کے وقت ہم باہر بھی جاتے تھے مگر مکان کو اندر سے کنڈی یا قفل سے بند رکھتے تھے۔ ہمارے محلہ میں شیخ غلام ربانی صاحب سیکرٹری ڈسٹرکٹ بورڈ گوجرانوالہ میرے مکان کے قریب ہی رہتے تھے اور ایک شخص مسمی جلال گوجر جو میرے مکان کے سامنے رہتا تھا یہ دونوں چھ اور سات مارچ ۱۹۵۳ء کو بوقت شب آئے اور بتایا کہ حالات سخت مخدوش ہیں اور فسادیوں کو آج تک دبایا جاتا رہا ہے مگر اب وہ ان کے اختیار سے باہر نکلتے جارہے ہیں۔ ڈر ہے کہ فسادی ان کے خلاف بھی نہ ہوجائیں۔ اس لئے انہوں نے مشورہ دیا کہ گھر چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جاویں ورنہ جانی نقصان ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ میں نے ۶ مارچ کو ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں اس بارے میں سوچوں گا اور ۷ مارچ کو میں نے پھر ان کی ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بس میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔ موت نے یا دن آنا ہی ہے۔ اگر ان لوگوں کے ہاتھوں میں میری اور میرے خاندان کی موت ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور ہے تو میں راضی بہ رضاء الٰہی ہوں۔ آپ اپنے آپ کو خطرہ میں ہماری وجہسے نہ ڈالیں۔ وہ لوگ مجھے بہت سمھاتے رہے۔ مگر آخر مایوس ہوکر چلے گئے۔ ہم لوگ دعائوں میں لگے رہے۔ ۸ مارچ کو قریباً دس بجے میرے گھر میں ایک نابینا اور اس کے ساتھ ایک بچہ بطور مہمان آگئے۔ ان کے آنے کے چند منٹ بعد میرا لڑکا سکول سے آگیا۔ اس نے بتایا کہ ماسٹر صاحب نے اسے فسادات کی وجہ سے چھٹی دے دی ہے اور راستے میں اس نے ایک احمدی کے گھر میں لوٹ کھسوٹ ہوتے دیکھی ہے۔ اور مجمع کہہ رہا ہے کہ وہ اب ہمارے گھر پر بھی دہاوا بولنے والے ہیں۔ میں نے اسی وقت مکان کے باہر کی طرف کھلنے والے تمام دروازے مقفل کر دیئے اور ریڈیو` کلاک جیسی چیزیں ہاتھوں ہاتھ ایک کوٹھری میں بند کرکے قفل لگا دیا ہمارے گھر میں ہر وقت پانی غسل خانہ کے سکاوے۔ حمام اور بالٹیوں وغیرہ میں بھرا رہتا تھا تاکہ اگر فسادی آگ لگائیں تو پانی کی مدد سے آگ بجھائی جاسکے۔ چارہ کرنے کا گنڈاسہ گھر میں تھا اور ایک چھری اور ایک ہاکی تھی۔ یہ تینوں ہم نے تیار رکھے ہوئے تھے کہ اگر فسادی دروازے کھڑکیاں توڑ کر گھر لوٹ مار کے لئے داخل ہوں گے تو ان سے مقابلہ کیا جاوے گا ایک مسہری کے بانس کے ایک سرے پر کپڑے لپیٹ کر اوپر سے تار لپیٹی ہوئی تھی۔ ایک ماچس اور تیل کی بوتل یہ تینوں چیزیں صحن میں تیار رکھی تھیں۔ تاکہ اگر فسادی چھت پر چڑھ کر صحن میں اترنے کی کوشش کریں تو نیچے سے ہی ان کا آگ کے ساتھ مقابلہ کیا جاوے۔ ابھی یہ سب چیزیں بمشکل مناسب جگہوں پر رکھی بھی نہ تھیں کہ کم و بیش تین چار سو آدمی شور کرتے ہوئے میرے مکان پر پہنچ گئے اور قریب¶ دو گھنٹہ تک دروازے۔ کھڑکیاں توڑ کر مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے اور نازیبا نعرے لگاتے رہے۔ پڑوسیوں کے مکانوں کے راستے ہمارے مکان کی چھت پر آنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنے مکانوں میں داخل ہونے سے منع کردیا۔ میرے مکان کی کھڑکیاں جو لب سڑک کھلتی تھیں اور کھڑکیوں کے دروازہ اور سوراخوں سے ہمیں دیکھتے تھے اور ہم سب لوگ خاموشی کے ساتھ دعائوں میں لگے ہوئے تھے بچے سہمے ہوئے تھے اور میرے ایک ہاتھ میں گنڈاسہ تھا اور میں کمرے میں ٹہل رہا تھا اور بچوں اور مستورات کو آہستہ آہستہ تلقین بھی کر رہا تھا کہ دل نہیں ہارنا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا۔ اگر فسادی مکان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تو ڈرنا نہیں۔ جر¶ات سے ان کا مقابلہ ہاکی چھری اور لاٹھی سے کرنا۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد کرے گا اور ان شریروں کو معلوم ہو جائے گا کہ مومن کس قدر دلیر ہوتا ہے۔ اس وقت ایک شخص کھڑکی کے سوراخ میں سے کھڑکی کے ساتھ آنکھ لگائے دیکھ رہ اتھا تو میرے لڑنے نے کہا کہ چرخے کا تکلا )جو بطور ہتھیار ہم نے تیار کر رکھا تھا( اس سوراخ میں ڈال کر اس کی آنکھ پوڑ دو۔ میں نے اسے جواب دیا کہ ہم حملہ نہیں کریں گے۔ البتہ دفاع جرم نہیں۔ جو مکان میں داخل ہوگا اس کو اس گنڈاسے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ ہاتھ پائوں گردن جو بھی اس کھڑکی کے راستے مکان کے اندر آوے گی تو اس کو گنڈاسہ انشاء اللہ تعالیٰ مکان کے اندر رکھے گا اور جسم کا باقی حصہ مکان سے باہر رکھے گا۔۔۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میری اور میرے خاندان کی مدد کرے گا۔ کھڑکی کے سوراخ میں سے تاکنے والے شخص نے میری بایتں سنیں۔ اور میرے ٹہلنا اور گنڈاسے کو جوش میں حرکت دینا دیکھا تو چلا چلا کر کہنے لگا >ارے بابا تاں ٹوکا )گنڈاسہ( لئے پھردا اے )ارے لوگو بڈھا مراد اقبال محمد خاں بعمر ۵۸ سال( تو گنڈاسہ لئے پھر رہا ہے۔ اس کے چند منٹ بعد ہی وہ لوگ یہ کہتے ہوئے منتشر ہوگئے کہ تم نے دروازے نہیں کھولے۔ وہ لوگ چار بجے سہ پہر کو پھر آویں گے ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد میرے مہمان گھرجاک )جو گوجرانوالہ شہر سے قریباً دو میل کے فاصلہ پر گائوں ہے( چلے گئے۔ اور میں امیر صاحب جماعت احمدیہ گوجرانوالہ کے مکان پر گیا اور ان کو مذکورہ بالا قصہ سنایا تب انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں ایس پی اور ڈی سی کو سارا ماجرا بتائوں۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ وہ خود ابھی ابھی ڈی سی کو مل کر آتے ہیں۔
چنانچہ میں ایس پی او ڈی سی کے پاس رپورٹ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ راستے میں میرے بڑے بھائی رہتے تھے۔ میں ان سے ملا۔ )وہ ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس اور ضلع گوجرانوالہ کے رضا کاروں کے کمانڈر بھی ہیں( ان کا داماد جو گوجرانوالہ کا ڈی آئی ایس تھا وہ بھی وہاں موجود تھے میرے بھائی نے مشورہ دیا کہ چار بجے جب مجمع مکان پر آوے تو تم ان سے کہہ دو کہ ہم احمدی نہیں ہیں۔ میں نے فوراً نہیں کہا کہ مرنا صرف ایک دفعہ ہے۔ یہ مجھ سے نہ ہوگا۔۔۔۔۔ میں اپنے گھر واپس آگیا اور میرا داماد جو گھرجاک میں رہتا ہے مذکورہ مہمانوں ے خبر سن کر میرے مکان پر آیا ہوا تھا اور میرے بال بچوں کو میرے بھائی کے گھر چلے جانے کو تیار کر رہا تھا۔۔۔۔۔ میرے بال بچے میری اجازت کے بغیر گھر چھوڑنے کو رضامند نہ تھے۔ میں نے گھر پہنچ کر بال بچوں کو اپنے داماد کے ہمراہ اپنے بھائی کے گھر روانہ کردیا۔ اور خود مکان میں تنہا نماز پڑھنے لگ گیا قریباً پانچ بجے شام موٹروں کی آواز میرے کان میں پڑی۔ تب میں نے مکان کی چھت پر چڑھ کر دیکھا کہ پولیس اور ملٹری اور محلہ کے لوگ جمع ہیں۔ ملٹری والوں نے میرے مکان کے ارد گرد پہرے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ لوگوں سے باتیں کررہے تھے کہ مکان اندر سے بند ہے اور مکان میں کوئی آواز بھی نہیں آتی۔ مجھے چھت پر دیکھ کر انسپکٹر پولیس نے مجھے نیچے آنے کو کہا اور مکان میں کوئی آواز بھی نہیں آتی۔ مجھے چھت پر دیکھ کر انسپکٹر پولیس نے مجھے نیچے آنے کو کہا۔ چنانچہ میں نیچے ایا۔ انہوں نے مجھ سے سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بتلایا کہ یہ صاحب فرسٹ کلاس مجسٹریٹ ہیں۔ وہ خود انسپکٹر پولیس ہیں اور ملٹری کے افسران وغیرہ سے بھی تعارف کرایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں گزیٹڈ آفیسر ہوں۔۔۔۔۔ غلام ربانی صاحب مذکور بھی دیگر محلوں والوں کے ہمراہ اس وقت موجود تھے۔ مجسٹریٹ صاحب نے فرمایا کہ اگر ذرا سا بھی کوئی واقعہ اس وقت کے بعد ہوا تو پولیس اسٹیشن میں اطلاع کردینا الخ۔<
مکرم میاں عبد الرحمن صاحب صابر~ف۳۱~ قائد خدام الاحمدیہ گوجرانوالہ کا بیان ہے کہ:۔
>مئورخہ ۷ مارچ بعد دوپہر میری بیوی اپنے ایک سالہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور میں دوسرے بچے کو سینے پر لٹا رہا تھا کہ بلوائیوں کا ایک ہجوم آیا جس نے آتے ہی ہمارے مکان کے دروازوں پر پتھر۔ ڈنڈے اور اینٹیں مارنی شروع کردیں۔ ہمارے ایک ہمسایہ نے انہیں کہا کہ وہ تو یہاں ہیں نہیں۔ لیکن انہوں نے اس کی بات نہ مانی۔ اور مانتے بھی کیے جبکہ ہم اندر سے نظر آرہے تھے۔ ہمارا ایک دروازہ مضبوط تھا اور ایک کمزور لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مضبوط دروازہ ہی ٹوٹ گیا اور اس وقت ہم نے سمجھا کہ بس ہم گئے۔ لیکن عین اسی وقت گوجرانوالہ کے ایک معزز غیر احمدی دوست قاضی محمد شریف صاحب شوق اور ان کے بھائی آگئے اور انہوں نے ہجوم کو بڑی حکمت عملی سے قابو میں کرلیا جس کی وجہ سے ہجوم مکان کے اندر نہ آسکا۔ اس طرح محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری جان و مال اور عزت و آبرو اور سب سے بڑھ کر قیمتی شے ہمارا ایمان بچا رہا۔ اس ہجوم کے روکے جانے کے بعد ایک مولوی صاحب میرے پاس آئے اور بزعم خویش مجھے مسلمان ہونے کو کہا۔ میں نے کہا مولوی صاحب! مسلمان تو میں پہلے سے ہوں۔ اس وقت میری بیوی زینب دوسرے کمرہ میں تھی گو اس کی جسمانی ساخت اور صحت کمزور ہے اور بظاہر اس کی طرف سے کمزوری دکھانے کا اندیشہ ہوسکتا تھا۔ لیکن اس وقت وہ بھوکی شیرنی کی طرح صحن کی طرف جھپٹی اور نہایت بارعب الفاظ میں کہا >خبردار ڈولیو نہ۔ مرنا اکو واری اے< )خبردار! ڈگمگایو مت۔ مرنا ایک ہی دفعہ ہے ناقل(
اس کے ان الفاظ سے میرے جسم میں ایک لہر سے دوڑ گئی۔ زاں بعد وہ مولوی صاحب اور ان کے ساتھی خاموشی سے چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بظاہر حالات ہماری حفاظت کے تمام ذرائع ختم ہوچکے تھے۔ مثلاً میرا حقیقی بھائی اس حملہ سے چند منٹ پہلے ہی باہر چلا گیا تھا۔ اور اس تمام واقعہ کے بعد گھر آیا۔ ایسے موقعہ پر ہمسایوں سے جو توقع ہوسکتی تھی وہ بھی رائیگاں گئی۔ جس دروازے پر بوجہ مضبوطی اعتماد تھا وہ بھی ٹوٹ گیا اور بظاہر ہماری حالت یہی تھی ~}~
حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تواب ہے
چنانچہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم ار ذرہ نوازی سے ہماری شب و روز کی التجائوں کو سنا اور ہماری بے کسی کے پیش نظر غیب سے ہماری مدد کی۔<
۱۸۔ مکرم نور محمد صاحب امینی بنگوی کا بیان ہے کہ:۔
>میں بنگہ ضلع جالندھر کا مہاجر ہوں۔۔۔۔ جن دنوں مخالفت اور فسادات کا زور شور ہوا تھا می نے چند یوم اپنے مکانوں کا دروازہ بند کرکے اندر ہی رات دن بسر کئے تھ۔ غیر احمدی لڑکے جوان اور بچے اکٹھے ہوکر میرے مکان کے پاس آکر گالیاں نکالتے اور دروازہ پر اینٹیں اور پتھر مارتے۔ میں اور میرے اہل و عیال صبر سے کام لے کر دعائوں میں میں مصروف رہتے تھے۔ ایک جبکہ مخالفت کا زور تھا اور خطرہ بڑھ گیا تھا میری بیوی کے دو حقیقی بھائی جو غیر احمدی ہیں اور احمدیت کے سخت مخالف اور دشمن ہیں اور میرے مکان کے قریب میں رہتے ہیں انہوں نے یرے پاس ایک لڑکا بھیجا۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ مجھے ان دونوں نے بھیجا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم اگر اب اپنی خیر چاہتے ہو اور جان بچانا چاہتے ہو تو احمدیت سے توبہ کرلو۔ میں نے یہ سن کر لڑکے سے کہا کہ تم ان کو جا کر کہہ دو کہ وہ مجھے یہ تحریر کردیں کہ توبہ کرنے سے مجھے موت نہیں آئے گی۔ جب بے ایمان ہوکر بھی موت آئے گی تو پھر بے ایمانی کی موت سے ایمانداری کی موت نہایت عمدہ اور حد درجہ بہتر ہے۔ یرا یہ جواب سن کر وہ لڑکا چلا گیا۔ اس کے بعد پھر میرے پاس کوئی نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے دعائوں کی برکت سے مجھے اور میرے اہل و عیال کو ہر طرح اپنی پناہ اور حفاظت میں رکھا۔<
۱۹۔ مکرم ماسٹر امجد علی صاحب صدر مدرس گونا چور کا بیان ہے کہ:۔
>۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو دو بجے کے قریب اپنے مکان پر پہنچا۔ اڑھائی بجے کے قریب ہمارے مکان پر سات آٹھ صد نوجوان کا ہجو جن کے ہاتھوں میں دو دو تین تین ہاتھ لمبے ڈنڈے تھے ہمارے مکان پر حملہ آور ہوئے۔ آتے ہی انہوں نے گالیاں نکالنی شروع کردیں۔ اور ڈنڈوں سے دروازہ اور کھڑکیاں توڑنی شروع کردیں۔ چنانچہ انہوں نے کھڑکیوں کے اوپر کے تمام چھجے اور ایک کھرکی توڑ ¶دی۔ اور پتھرائو سے کئی شیشے توڑ دیئے۔ کھڑکی کے توڑنے کے بعد ایک آدمی نے کھڑکی کے اندر ہاتھ بڑھا کر کھرکی کے سامنے کی چارپائی پر سے ایک بستر باہر کھینچ لیا۔ تمام مستورات اور بچے اوپر کی منزل پر کھڑے ان کی تمام کاروائی دیکھ رہے تھے۔ میری بیوی نے اوپر سے انہیں کہا کہ لو لوٹ مارا اگر تمہارا اسلام یہی ہے اور لوٹ مار کی اجازت دیتا ہے تو ٹھہرو میں نیچے آکر دروازہ کھول دیتی ہوں۔ تما مکان کو لوٹ لو۔ اس کے بعد کسی آدمی کے کہنے پر اس لڑکے نے بستر کھڑکی کے اندر پھینک دیا۔ اور ایسی فحش کلامی کرتے ہوئے جس کے اظہار کی اخلاق بھی اجازت نہیں دیتا۔ چلے گئے۔<
۲۰۔ مندرجہ بالا بیانات میں ضمناً بعض احمدی مستورات کے جذبہ ایمانی اور غیرت دینی کا کئی بار تذکرہ ہوچکا ہے۔ اب آخر میں دو اور احمدی خواتین کی ثابت قدمی۔ استقلال اور ایمانی پختگی کا قابل فخر واقعہ مبارک احمد صاحب ناصر سابق دیہاتی مبلغ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ کے الفاظ میں لکھا جاتا ہے:۔
>گوجرانوالہ کے محلہ گوبند گڑھ میں مستری امام دین صاحب کے گھر صرف ان کی دو بہوئیں تھیں۔ صادقہ بیگم صاحبہ اور خورشید بیگم صحبہ ان ہر دو کے بچے ان کے اپس ہی تھے جو کہ اول الذکر کے چاروں اور دوسری کے دو اور ساتھ ہی گھر میں ایک رشتہ دار نوجوان لڑکی سخت بیماری تھی۔ جب یہ شورش شروع ہوئی تو انہوں نے بازار سے نئی لوہے کی کنڈیاں منگوا کر دروازوں کو خود لگائیں۔ مکان کا کل قیمتی سامان گیلری میں بند کرکے اس کی سیڑھی توڑ ڈالی تاکہ کوئی آدمی گیلری پر نہ چڑھ سکے۔ اس طرح سامان کو محفوظ کرلیا۔
محلہ کے قریبی آدمی متواتر روزانہ ہر تین چار گھنٹہ کے بعد ان کے پاس آتے اور اپنی طرف سے محبت اور پیار سے یہ کہتے کہ تم صرف احمدیت سے انکار کردو۔ اس سے تمہاری بے عزتی بھی نہ ہوگی۔ اور نقصان بھی نہ ہوگا۔ لیکن ان ثابت قدم احمدی خواتین نے ہر دفعہ یہی جواب دیا کہ ہم مرجائیں گی لیکن احمدیت سے انکار ہرگز نہ کریں گی یہی سلسلہ متواتر کئی روز تک چلتا رہا۔ ازاں بعد محلہ کے گیر احمدیوں نے بھی کہا کہ تم ہمارے گھروں میں چلی چلو۔ ہم وہاں تمہاری اچھی طرح حفاظت کریں گے مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم اپنے گھر ہی میں رہیں گی۔ خواہ کچھ بھی ہو۔ اس طرح ان کی غیر احمدی رشتہ دار مستورات نے بھی احمدیت سے پھسلانے کی کئی مرتبہ کوشش کی اور کہتی رہیں کہ یہاں کئی گھرانوں نے احمدیت کو چھوڑ دیا ہے۔ تم تو اکیلی ہو۔ اپنے آپ کو بچا لو۔ لیکن ان کا یہی جواب رہا کہ ہم مریں گی بھی تو احمدیت کی راہ میں ہی مریں گی۔~<ف۳۲~
ضلع میں شورش کے دوسرے مراکز
رپورٹ تحقیقاتی عدالت میں لکھا ہے:۔
>ضلع میں شورش کے دوسرے مراکز حسب ذیل تھے:۔
۱۔
کاموکے:۔ یہاں احمدیوں اور حکومت کے خلاف مظاہرے اور جلوس مرتب کرنے والے لطیف احمد چشتی اور حافظ عبد الشکور تھے۔ جو سرمایہ ضبط کیا گیا اس کی مقدر دس ہزار سات سو بہتر روپے تھی۔
۲۔
وزیر آباد:۔یہاں تحریک کی تنظیم کرنے والے مولوی عبد الغفور ہزاروی اور کا مریڈ عبد الکریم تھے۔ یہاں ریل کی پٹڑی پر لکڑی کا ایک لٹھ رکھ کر ایک ٹرین رو کی گئی۔جو سرمایہ یہاں ضبط کیا گیا اس کی مقدار دو ہزار پانچ سو ساٹھ روپے تھی۔
۳۔
حافظ آباد:۔یہاں ابو الحسن محمد یحیٰ اور مولوی فضل الٰہی نے عوام کے جذبات کو بھڑکایا۔
۴۔
گکھڑ:۔یہاں ٹرینیں روکی گئیں۔۔۔۔۔
۵۔
نوشہرہ ورکاں:۔ ایک پرانا کانگریسی ڈاکٹر محمد اشرف یہاں گڑبڑ کا ذمہ دار تھا۔
۶۔
سوہدرہ:۔ یہاں مولوی عبد المجید اہل حدیث نے عامجلسوں کا اہتمام کیا~ف۳۳~
فصل سوم
ضلع سیالکوٹ
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ضلع سیالکوٹ کے اندر احمدی احراری نزاع کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈلنے کے بعد یکم مارچ ۱۹۵۳ء کی نسبت لکھا ہے:۔]>[۔۔۔۔ یکم مارچ ۱۹۵۳ء کو شہر نے کامل ہڑتال کی اور دس ہزار اشخاص کا ایک ہجوم ریلوے اشتیشن پر رضا کاروں کے اس پہلے دستے کو الودعا کہنے کے لئے جمع ہوا جو زیر سرکردگی مولوی محمد یوسف >ڈائریکٹ ایکشن< میں اپنی خدمت پیش کرنے کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔ اس ہجوم نے بزار میں گشت لگایا۔ احمدیوں کے خلاف نعرے لگائے اور حکومت بالخصوص وزیراعظم پاکستان کو گالیاں دیں۔~<ف۳۴~
صدر انجمن احمدیہ کے عدالتی بیان میں ہے:۔
>۱۳ اور ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کو مجلس عمل کے ممبروں کی گرفتاری کی وجہ سے حالات نے متشددانہ صورت اختیار کرلی اور حکام کو گولی چلانی پڑی اور فوج بلائی گئی۔ فوج کی آمد سے قبل دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس نکلتے رہے۔ اور پولیس کی انتہائی کوششوں کے باوجود شر پسند لوگ منتشر نہ ہوئے اور قاتلانہ ہتھیاروں کے ساتھ احمدیوں پر حملے جاری رہے۔ اور سات اشخاص کو جن میں خواتین بھی شامل تھیں شدید ضربات آئیں اور شہر میں دس احمدیوں کو خوفزادہ کرکے احمدیت سے منحرف کیا گیا۔
تھانہ پسرور میں دس احمدیوں کو خوفزدہ کرکے یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا گیا کہ انہوں نے احمدیت ترک کردی ہے۔ اس ۔۔۔۔۔ بارہ میں متعلقہ پویس اسٹیشن کے افسر کے پاس شکایت کی گئی لیکن اس نے دخل دینے سے انکار کردیا۔ اس قسم کے لاانتہاء واقعات ضلع کے دوسرے مقامت میں ظہور پذیر ہوئے۔
سیالکوٹ کے احمدیوں کے ایک وفد نے خواجہ محمد صفدر صاحب پریزیڈنٹ مسلم لیگ سے ملاقات کی اور انہیں اس مشتعل حالات سے مطلع کیا۔ خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ اگرچہ انصاف اور شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اور دوسرے مسلم لیگی بے خوف ہوکر احمدیوں کی مدد کریں مگر دولتانہ صاحب کے گزشتہ دورہ پر میں نے ان سے کہا تھا کہ حالات خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن وزیراعلیٰ نے مجھے یہ جواب دیا کہ خدشہ کی کوئی بات نہیں۔ مولویوں کے ہمارے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ صوبائی حکومت کے خلاف کوئی مصیبت کھڑی نہیں کریں گے۔<
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ۳ مارچ کے حالات کا ذکر بایں الفاظ میں کیا گیا ہے:۔
>دوپہر تک ہجوم بے انتہاء بڑھ گیا اور ٹریفک ڈیوٹی کے پولیس کانسٹیبلوں پر حملے کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے ایک جلوس کی صورت اختیار کرلی اور اس شخص کی نعش کو ساتھ لے کر جو دار الشہابیہ میں مارا گیا تھا گشت کرنے لگا۔ یہ ہجوم سٹی مسلم لیگ کے دفتر میں پہنچا اور اس کی لائبریری لوٹ لی۔ خواجہ محمد صفدر ایم اے صدر سٹی مسلم لیگ کو ان کے دفتر سے نکالا گیا۔ ان کا منہ کالا کیا گیا۔~ف۳۵~ اور ان کو بازاروں میں پھرایا گیا۔ آخر کرنل خوشی محمد نے ان کو چھڑایا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ۳ تاریخ کے ایک بجے بعد دوپہر سے لے کر ۴ تاریخ کے ایک بجے بعد دوپہر تک چوبیس گھنٹے کا کرفیو نافذ کردیا تھا۔ لیکن چونکہ پولیس اور فوج کی نفری کم تھی اس لئے یہ کرفیو عمل میں نہ لایا جاسکا اور کمشنر نے اس کے اوقات تبدیل کرکے دس بجے شب سے ساڑھے چار بجے صبح تک کردیئے۔ اسی شام کو ایک غیر احمدی دوست عبد الحی صاحب قریشی کو جنہوں نے ہجوم کو تشدد سے منع کیا تھا زدو کوب کیا گیا اور اس کا گھر لوت لیا گیا۔۔۔۔۔ تیسرے پہر ایک ہجوم نے ایک اے۔ ایس۔ آئی اور ایک کانسٹیبل پریورش کی۔ اے۔ ایس۔ آئی کا ریوالور اور کانسٹیبل کی بندوق چھین لی۔ دو احمدیوں کے چھرا گھونپ دیا گیا اور تین دوسرے احمدیوں کے مکانات ہجوم نے لوٹ لئے۔~<ف۳۶~
سیالکوٹ شہر کے واقعات
‏text] g[taان مستند رپورٹوں کی مزید تفصیل معلوم کرنے کے لئے سیالکوٹ شہر کے مخلص احمدیوں کے بعض بیانات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ مکرم مرزا محمد حیات صاحب )مہاجر قادیان( صدر حلقہ واٹر ورکس سیالکوٹ رقمطراز ہیں:۔
>میرے حلقہ واٹر ورکس میں چوہدری عبد الرشید صاحب` محمد لطیف خان صاحب حضرت خیفہ عبد الرحیم صاحب۔~ف۳۷~ چوہدری محمد لطیف صاحب` سیٹھی کرم الٰہی صاحب حکیم پیر احمد شاہ~ف۳۸~ صاحب اور مولوی برکت علی صاحب کے مکان پر باقاعدہ خشت باری جاری رہی۔ میرے اور چوہدری عبد الرشید صاحب کے مکان کے شیشے اکثر ٹوٹ گئے۔ سیٹھی کرم الٰہی صاحب کے باہر کی لکڑی کی سیڑھی جلا دی گئی۔ ہمارے مکانوں کے ارد گرد نوجوانوں کے جلوس آتے جاتے رہتے تھے۔ اور گندے نعرے بلند کرکے اپنی مائوں بہنوں کو اپنی بے حیاتی کا نمونہ دکھایا کرتے تھے۔<
>مورخہ ۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو میرا لڑکا مرزا محمد اصغر جس کی عمر قریباً گیارہ سال ہے جب اپنی گلی میں گیا تو اس کو چند نوجوانوں نے گھیر لیا اور ان میں سے ایک نے اس کا بازو پکڑا اور اسے چاقو مارنے لگا۔ تب میرے لڑکے نے آواز دی۔ ابا جی! مجھے چاقو مارنے لگا ہے۔ یہ آواز سن کر میں نے بھی زور سے آواز دی۔ فکر نہ کر۔ میں آرہا ہوں۔ جب میں نے بندوق اٹھائی تب اسے دیکھتے ہی وہ نوجوان میرے لڑکے کو چھوڑ کر بھاگ گئے<
۲۔ مکرم محمد احمد صاحب نظام فوٹو گرافر )محلہ اسلام پورہ( کا خود نوشت بیان ہے کہ:۔
>ہمارے بھائی صاحب محلہ اسلام آباد میں رہتے تھے۔ اور ہم محلہ اسلام پورہ میں رہتے ہیں۔ جب میں اپنے بھائی کے گھر آرہا تھا تو میں نے دیکھا راستہ میں ناصر پال کے مکان کے گرد بہت سے غنڈے` ڈنڈے` تلواریں اور کلہاڑیاں لئے ہوئے پھر رہے ہیں۔ جب میں ناصر پال کے مکان کے کونے پر پہنچا تو وہاں سے میں نے گلی میں جانا تھا۔ ان غنڈوں میں سے ایک لڑکا مجھے جانتا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا اور شور مچا دیا کہ وہ مرزائی جارہا ہے۔ وہ غنڈے جو ناصر پال کے مکان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے وہ سب میرے پیچھے بھاگے یہاں تک کہ انہوں نے مجھے میرے گھر کے پاس ہی جاکر گھیر لیا اور میرا سائیکل بھی انہوں نے چھین لیا۔ چھ سات لڑکے تھے جنہوں نے مجھے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مارا۔ چاقو کا بھی وار کیا مگر مجھے خدا تعالیٰ نے بچا لیا۔ چاقو میرے سینہ پر تھا کہ میں نے ایک ہاتھ سے چھڑا کر پاس ہی اپنے ایک غیر احمدی دوست کے گھر میں جا گھسا۔ خون سے میرے کپڑے لت پت تھے۔ اور میرا چہرہ پہچانا نہ جاتھا تھا۔ جس غیر احمدی کے گھر میں گھسا تھا وہ بھی مجھے دھکے دے کر باہر نکال رہے تھے یہاں تک کہ دروازہ اس زور سے بند کیا تھا کہ مشکل سے کھلتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور زور لگانے سے دروازہ کھل گیا اور میں اندر چلا گیا۔ دروازہ بند کرکے مکان کے ایک کونے میں بیٹھ گیا لیکن غنڈوں نے شور مچایا کہ مرزائی کو باہر نکال دو ورنہ مکان کو آگ لگا دی جائے گی۔ میں کمرے میں بھاگتا پھرتا تھا جس سے ان کے مکان کا فرس خون سے بھر گیا تھا۔ اسی دوران گلی میں کئی ایک رحم دل آدمی اور دوست جمع ہوگئے جنہوں نے مجھے اندر سے نکالا۔ جب میں باہر آگیا تب بھی غنڈے حملہ کرنے سے باز نہ آئے اور انہوں نے مجھ پر وار کئے۔ اس کے بعد مجھے کلمہ پڑھوایا۔۔۔۔۔ پھر وہ غنڈے چلے گئے اور شیخ مہر دین احمدی کے گھر جاکر انہیں بھی زخمی کیا۔<
۳۔ جناب ناصر احمدی صاحب پال تحریر فرماتے ہیں:۔
>۲ مارچ سے قبل کئی دنوں سے یہ شور بپا تھا کہ ہمارا مکان سب احمدیوں سے بڑا ہے اور یہ بہت کٹر قسم کے احمدی ہیں۔ انہیں اس دفعہ بالکل ہی صاف کردیا جائے گا۔ بہر کیف ہم نے بھی اپنے بچائو کی خاطر مناسب تیاری کرلی تھی۔ اور راشن وغیرہ بھی ایک ہفتہ کے لئے اندر ڈال لیا تھا۔ چنانچہ ۳ مارچ سے محلہ کے باہر گولی وغیرہ چلی اور ایک دو نعشیں اٹھائی گئیں تو لوگوں میں انتقام کی آگ اور بھڑکنے لگی اور ہمارے مکان کے گرد غنڈے قسم کے لوگ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے۔ بال¶اخر تقریباً ایک بجے کے قریب ایک بہت بڑا ہجوم آیا۔ جس نے ہمارے دروازوں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ مگر وہ ناکام رہا۔ لیکن جب وہ ہمارے تیسرے دروازے کے راستہ داخل ہونے میں کامیاب ہونے ہی والے تھے اور انہوں نے اسے توڑ ہی ڈالا تھا کہ ہم تینوں بھائیوں نے چھت پر چڑھ کر ان سے کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جائو ورنہ ہم اپنی حفاظت اور تمہارے حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں ہم رائفل اور بندوق بھی چھت پر لے آئے ہیں۔ اس پر ہجوم نے ہمارا رخ چھوڑ دیا۔<
یہ تو عوام کا حال تھا۔ اب ان کے خواص یا سرغنوں کی شجات و مردانگی کا حال بھی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں پڑھ لیجئے۔ ایک جگہ سیالکوٹ کے بلوائیوں کی ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:۔
>ایک آدمی چھرا گھماتا اور ناچتا ہوا باہر نکلا اور گولی کھانے کے لئے سینہ تان کے کھڑا ہو گیا لیکن میں نے اس کو بتایا کہ جب تک وہ فیتے کے دوسی طرف رہے گا اس کو گولی نہیں ماری جائے گی۔ لیکن جونہی اس نے فیتہ عبور کیا اسے گولی مار دی جائے گی۔ جب گولی چلنی شروع ہوئی تو مجھے وہ کہیں نظر نہ آیا۔ وہ کہیں ہجوم میں غائب ہوگیا تھا پہلی فائرنگ کے بعد ایک مولوی نے سامنے آکر فوج اور پولیس کو گالیاں دیں اور ان کو کافر کہا۔ میں نے بگلر سے کہا کہ بگل بجائے۔ چنانچہ جونہی اس مولوی نے بگل کی آواز سنی وہ ہجوم پر سے پھلانگتا ہوا پیچھے کی طرف بھاگ گیا۔~<ف۳۹~
۴۔ مکرم صفدر خاں صاحب محلہ بھابھڑیاں میں مقیم تھے` مظاہرین نے ان کو انہی کے مکان پا جا پکڑا۔ وہ بیچارے اپنی جان بچانے کے لئے ادھر ادھر دوڑے بھاگے مفسدین کی گرفت سے نہ نکل سکے۔ یہ ایک شخص کے چبوترے پر پناہ لینے کے لئے جا چڑھے لیکن اس نے بھی دھکا دے کر انہیں مظاہرین ہی کے حوالہ کردیا۔ جنہوں نے ان پر پے در پے تیز دھار والے آلے سے حملہ کرکے ان کو سخت مجروح کیا اور انہیں مردہ سمجھ کر چلے گئے۔ بعد میں انہیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں خدا تعالیٰ نے انہیں شفا عطا فرمائی۔ انہی کے متعلق ایک اور دوست کا بیان ہے کہ یہ مفسدین کے حملہ سے بچنے کے لئے اپنے ایک معتمد علیہ سید ہمسایہ کے ہاں گئے۔ اور اس سے پنجتن پاک کا واسطہ دے کر پناہ مانگی مگر اس نے بجائے پناہ دینے کے ان کی کلائی کو دانتوں سے کاٹ کھایا اور زخمی کرکے مفسدین کے حوالہ کردیا۔ خود صفدر خان صاحب نے لکھا ہے:۔
>میں جب ہسپتال گیا سوائے چند چیزوں کے باقی تمام سامان میرے مکان پر تین دن تک موجود تھا۔ اس کے بعد لوگ میرا سامان لوٹ کر لے گئے۔<
۵۔ جناب شیر محمد صاحب~ف۴۰~ عالی صدر بازار سیالکوٹ نے انہی دنوں اپنی ایک چھٹی میں لکھا:۔
>جیسا کہ حضور کی پہلی چٹھی میں ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے احمدیوں کی مدد کے لئے بارش کی طرح نازل ہورہے ہیں )یہ نظارہ( یہاں دوستوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ باوجود )صحیح( تنظیم نہ ہونے کے اللہ تعالیٰ کی نصرت کس طرح شامل حال رہی۔ جن دوستوں نے )دبائو میں آکر( ارتداد اختیار کیا وہ بھی اس تنظیم کے نہ ہونے کی وجہ سے تھا ورنہ عقائد ان کے اب بھی وہی ہیں الخ<
۶۔ محمد حسین صاحب کلاتھ مرچنٹ نے لکھا ہے کہ:۔
>مئورخہ ۴ مارچ کو قریباً ۱۱ بجے دن تھانہ صدر سیالکوٹ کے سامنے جب ہجوم بے قابو ہوگیا تو فوج نے گولی چلائی اور لوگ بھاگے۔ قریباً تین چار آدمیوں کا ایک ریلا جب ہماری گلی سے بھاگتا ہوا گزرا تو کسی شرارتی نے ان کو کہا کہ وہ سامنے مرزائی کا گھر ہے )اس محلہ میں صرف میں ہی احمدی رہتا ہوں( بس پھر کیا تھا سارا ہجوم میرے گھر پر پل پڑا۔ اور اینٹوں کی بوچھاڑ شروع کردی اور میرے مکان کی ڈیوڑھی کا دروازہ توڑنا شروع کردیا اور ساتھ ہی مکان کو آگ لگانے کی تیاری بھی شروع کردی۔ اس وقت میں اپنے بال بچوں سمیت دعا میں مشغول تھا۔ وہ چونکہ بڑا نازک وقت تھا اور میں یہ سمجھ چکا تھا کہ اب لوگ ڈیوڑھی توڑ کر مکان کے اندر گھس آئیں گے اور مار دیں گے۔ اس وقت میں نے اپنے بیوی بچوں کو صرف اور صرف یہ وصیت کی احمدیت یعنی حقیقی اسلام ایک نور ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ دنیا میں غالب آککر رہے گا۔ اور یہ کہ احمدیت مجھے ورثہ میں نہیں ملیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہ لوگ مجھے اب مار دیں گے اور اگر آپ پر یہ ظلم کریں جو یقیناً کریں گے تو کمزوری نہ دکھانا اگر تمہاری بوٹیاں بھی اڑا دیں تب بھی حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔ کی شان کے خلاف کوئی لفظ زبان پر نہ آنے پائے۔ اس پر سب نے لبیک کہا۔ ادھر میں گھبرایا ہوا یہ وصیت کررہا تھا۔ ادھر اللہ تبارک و تعالیٰ کے فشتے میری مدد کو پہنچ چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے اس مشتعل ہجوم کو بغیر کوئی نقصان پہنچانے کے واپس بھگا دیا تھا۔ میں حوصلہ کرکے ڈیوڑھی کی طرف گیا اور اندر سے کان لگا کر آواز سننے لگا۔ لیکن وہاں کوئی ہوتا تو آواز آتی۔ وہ لوگ تو بھاگ چکے تھے۔ دروازہ کھولا تو باہر اینٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اینٹیں مار مار کر ڈیوڑھی توڑنے کی کوشش کی۔ اندر کا ایک کنڈا کھل بھی گیا تھا لیکن تالہ جو کہ بہت مضبوط تھا نہ کھل سکا۔ باہر نکل کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ دروازہ بند کرکے اوپر آیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر وہ رات بڑی بے چینی سے گزری۔ ہمارے ہمسائے جو کہ سب کے سب غیر احمدی تھے ہماری زندگی سے مایوس ہوچکے تھے اور سمجھتے تھے کہ رات کو آگ آکر ہمیں مار ڈالیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے ہماری حفاظت فرمائی۔ اور ہم کو باعزت و سلامت رکھا۔ الحمدلل¶ہ۔<
۷۔ مکرم شیخ عبد الرحیم صاحب پراچہ~ف۴۱~ سیالکوٹ نے اپنی سرگزشت بایں الفاظ لکھ کردی:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء میں جبکہ احرار ایجی ٹیشن زوروں پر تھی خاکسار نے مع اہل و عیال )دو لڑکیاں ایک اہلیہ اور ایک میں( سیالکوٹ چوک پوربیاں گلی پنڈتاں کا مکان نمبر ۴۲۵/۸ جو کہ میرے نام آلاٹ ہے میں نے رہائش اختیار کی ہوئی تھی یکم مارچ سے ہی ہم پر اپنے پڑوس میں رہنے والے احراریوں کی طرف سے اینٹیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں مگر ہم ارد گرد رسی باندھ کر اوپر رضائیاں ڈالتے تھے تاکہ جو بھی پتھر آئے ان سے ٹکرا کر گر جائے اور اس کا زور ٹوٹ جائے۔ غالباً ۳ مارچ کو جبکہ گولی چل رہی تھی اور جلوس نکلا ہوا تھا ہمارے پڑوس میں ایک احراری مولوی رہتا تھا۔ اس کے ساتھ کئی اور آدمیوں نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہوکر مجھے بلایا اور کہا کہ ایک جلوس نکلا ہوا ہے جو پٹھان صفدر کو قتل کر آیا ہے اور وہ اب تمہاری طرف آرہا ہے۔ اس لئے ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اسی وقت بال بچوں کو لے کر یہاں سے نکل جائںی۔ بعد میں ہمیں نہ کہنا کہ خبر نہیں ہوئی۔ میں نے جواب دیا کہ ادھر جلوس نکلا ہوا ہے اور دوسری طرف گولی چل رہی ہے۔ ایسے حالات میں کسی طرف بھی جاے کے لئے تیار نہیں اور ہم گھر میں ہی مریں گے یا زندہ رہیں گے۔ بعد میں وہ کہنے لگے تم چلے جائو۔ عورتوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں عورتوں کو چھوڑ کر کسی طرف بھی نہیں جاسکتا۔ پہلے میں مروں گا۔ بعد میں میرے بال بچوں کی طرف کوئی دیکھے گا۔ اس پر وہ چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کی عورتیں آئیں اور انہوں نے کہا کہ اپنی جا بچانی فرص ہے۔ ہمارا مشورہ یہی ہے کہ آپ >مسلمان< ہوجائیں۔ میں نے جواب دیا کہ مسلمان تو ہم پہلے سے ہی ہیں۔ اپ کے کلمہ اور ہمارے کلمہ میں` آپ کے قرآن میں` آپ کی نماز میں اور ہماری نماز میں کیا فرق ہے؟ آپ ہر روز ہمیں دیکھتے ہیں پھر انہوں نے نیچے جاکر دوسرے پڑوسیوں کو بتایا کہ وہ تو کوئی بات بھی نہیں مانتا۔
نیچے سے سب پڑوسیوں نے مل کر ہمیں بلانا شروع کیا اور کہا کہ تم نیچے اترو۔ ورنہ نیچے سے آگ لگا دیں گے۔ میں نے اوپر سے جواب دیا میری تو تمہارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں اگر آپ لوگوں نے ہمیں قتل کرنا ہے تو اوپر آجائیں۔ اگر آگ لگانی ہے تو گلا دیں۔ ہمارا مکان جلے گا تو ساتھ ہی آپ کا بھی جلے گا۔۔۔۔۔ جو سقہ ہم کو پانی دیتا تھا اس کو بھی حملہ والوں نے پانی دینے سے روک دیا اور جو خاکروب ہمارے ہاں صفائی کرتی تھی اس کو بھی انہوں نے روک مگر وہ چونکہ عیسائی تھی اس نے ان کی پرواہ نہ کی اور برابر کام کرتی رہی۔ نیز فساد کے دنوں میں میریبڑی لڑکی میٹرک کا امتحان دے رہی تھی۔ امتحان کا سنٹر گورنمنٹ لیڈی اینڈرسن ہائی سکول میں تھا جو ہمارے گھر سے کافی فاصلہ پر تھا۔ ہر روز صبح کو میں اپنی لڑکی کو لے جاکر سنٹر میں چھوڑ آتا اور بعد میں پھر واپس لایا کرتا تھا۔ ایک دن جبکہ میں جارہا تھا ایک جلوس میرے پیچھے بڑی تیزی سے آیا۔ اور کسی نے کہا کہ یہ مرزائی جارہا ہے۔ اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے ہمت دی۔ میں وہیں کھڑا ہوگیا اور انہیں للکارا کہ ائو جس نے آنا ہے۔ مگر اس کے بعد پھر کسی کو جر¶ات نہ ہوئی کہ میری طرف بڑھے۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے نصرت بالرعب سے میری جان بچالی۔ الحمدللہ۔<
چوہدری عبد الرشید صاحب حلقہ واٹر ورکس کا بیان ہے کہ:۔
>ایک دن شام کے وقت میرے مکان کو جبکہ میں گھر پر ہی تھا غنڈوں نے گھیر لیا۔ اور آگ لگانے کی کوشش کی۔ اس وقت میں اور میرے تایا چوہدری محمد علی صاحب موجود تھے۔ ہمیں بے حد فکر ہوئی۔ اس وقت سوائے خدا تعالیٰ کے ہمارا اور کوئی مددگار نہ تھا مگر ہن نے اپنے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے مکان پر رہتے ہوئے ہی اپنی جان دینے کی ٹھان لی۔ مگر قربان جائوں اس عالم الغیب پر کہ اچانک ایک جیب کار اور ٹینک میں چند فوجی افسر اور مسلح گارڈ نے آکر ان تمام اشخاص کو گھیرے میں لے لیا۔ اس طرح ہماری جانیں اور مکان بیخر و بخوبی بچ گئے۔<
>ہمارے محلہ کی ایک قصائی عورت نے )جو ان دنوں نوجوانوں اور لڑکوں کو اکٹھا کرکے ہمارے مکان پر پتھرائو کرواتی رہتی تھی( ایک دن شام کے وقت باہر کے دروازوں کو بہت زور سے کھٹکھٹایا۔ چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کے لئے دروازہ کے کنڈے کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ اچانک میرے دل کو کسی غیبی طاقت نے روک دیا۔ چنانچہ میں نے دروازہ کھولنے کی بجائے دروازہ کے اوپر جو گیلری ہے اس میں جاکر کھڑکی کھول کر جب دیکھا تو دو لڑکے نوجوان چاقو کھولے اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ میں جونہی دروازہ کھولوں وہ مجھ پر بے دریغ وار کردیں۔ مگر الحمدلل¶ہ کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس موقع پر بھی بچا لیا۔<
>ایک روز عشاء کے وقت مجھے تایا صاحب نے کہا کہ آئو نماز باجماعت گھر میں ہی ادا کرلیں۔ ہم پہلے ہی دو تین روز )خطروں کی وجہ سے( بیت الذکر نہ جاسکتے تھے۔ پہلے تو میں تیار ہوگیا مگر اس کے معاً بعد میرے منہ سے نکلا کہ اپ اکیلے نماز پڑھ لیں مگر اس سے قبل گھر کے برتن بالٹی وغیرہ پانی سے بھر دیں۔ چنانچہ انہوں نے پانی بھر کر نماز پڑھنی شروع کردی اور میں نے مکان کی ایک کھڑکی کے ذریعہ مکان کی حفاظت کی خاطر باہر دیکھنا شروع کیا ہی تھا کہ اسے میں لوگوں نے آکر مکان کی ایک بیٹھک کو پٹرول وغیرہ سے آگ لگا دی۔ چنانچہ اسی وقت میں نے اور تایا صاحب نے بھرے ہوئے پانی سے آگ پر فوری طور پر قابو پالیا۔<
ضلع سیالکوٹ کے دوسرے مقام کے واقعات
جو کچھ سیالکوٹ شہر میں ہوا وہی کچھ ضلع سیالکوٹ میں بھی ہوا کیونکہ شہر سیالکوٹ کی طرح ضلع سیالکوٹ کے لئے بھی الگ مجلس عمل بنائی گئی تھی اور احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا تھا جیسا کہ تحقیقاتی عدالت کی رورٹ میں لکھا ہے:۔
‏]qi >[tagمجلس عمل پنجاب کی ہدایت کے مطابق اس ضلع میں ایک مجلس عمل مرتب کی گئی۔ اس مجلس عمل نے رضا کاروں کی بھرتی اور سرمائے کی فراہمی کا کام شروع کردیا۔ صاحبزادہ فیض الحسن ضلع میں جلسوں کا ایک سلسلہ جاری کرکے شدید پراپیگنڈا کرنے میں مصروف رہے۔~<ف۴۲~
اسی شدید پراپیگنڈے کا یہ فوری اثر ہوا کہ ضلع سیالکوٹ کے وہ دیہات اور قصبات جہاں احمدی مسلمان اور غیر احمدی مسلمان باہمی شیر و شکر ہوکر بس رہے تھے ان میں کسی قسم کا عناد اور عداوت نہ تھی مگر جب اہرار کا پراپیگنڈا شدت اختیار کرگیا تو ضلع بھر میں جابجا فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی مگر صرف ان قصبات میں جہاں احمدی توڑی تھے۔ جن دیہات اور قصبات میں کوئی احمدی نہ تھا یا جن میں ان کی اچھی خاصی آبادی تھی ان تمام مقامات میں ہر طرح امن و امان رہا اور کسی قسم کا بھی کوئی فتنہ کھڑا نہ ہوا۔
پسرور
سب سے پہلے ہم ضلع سیالکوٹ کے مشہور قبصبہ پسرور کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ مقما ہے جہاں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد دولتانہ خود گئے اور مجمع عام میں تحریک کی برملا حمایت کی جس سے اس تحریک کے داعیوں اور حامیوں کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی۔ عدالتی رپورٹ میں بھی لکھا ہے کہ:۔
>۲۰ جولائی ۱۹۵۲ء کو پسرور کے مقام پر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کنونشن میں چیف منسٹر صاحب نے ایک تقریر کی۔ جس میں انہوں نے اعلان یا کہ وہ تحریک ختم نبوت کی پوری حمایت کرتے ہیں بشرطیکہ قانون و انتظام کو کوئی خطرہ درپیش نہ ہو۔~<ف۴۳~
اس تقریر کے بعد پسرور میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ الامان الحفیظ!
اس قصبہ میں گنتی کے چند احمدی رہتے تھے ان غربیوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ان کی مخالفت اس زور اور شدت سے ہوئی اور ایسا منظم بائیکاٹ کیا گیا کہ ان کی زندگی خطرے میں جاپڑیں اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہورہا تھا کہ احمدی کسی طرح تنگ آکر اپنے عقائد کو خیر باد کہہ کر ان کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ اور ان کے ہم خیال و ہم عقیدہ بن جائیں۔
بعض شورش پسند لیڈر ضلع سیالکوٹ میں جابجا اس قسم کی تقریریں کرتے ہوئے برملا یہ کہہ چکے تھے کہ:۔
>اگر مرزائی اسلام قبول نہیں کریں گے تو ہم اس مقصد کے حصول کے لئے انتہائی کوشش کریں گے اور ایسی صورت میں یہ لوگ زمینوں` کارخانوں اور بنگلوں کی الائمنٹیس کھو بیٹھیں گے بلکہ ربورہ بھی ان کے قبضہ سے نکل جائے گا۔~<ف۴۴~
پسرور کے احمدیوں کے ماحول کا اندازہ لگانے کے لئے ہائی سکول پسرور کے ایک احمدی ٹیچر کی ایک چٹھی کا مختصر سا اقتباس کافی ہے۔ یہ چٹھی انہوں نے اپنے ایک عزیز کے ہاتھ ربوہ بھجوائی تھی کیونکہ اس وقت جس قسم کی مخالفت احمدیوں کی ہورہی تھی انہیں اندیشہ تھا کہ مبادا ان کے خطوط ڈاکخانہ کے متعصب عملہ کے ہاتھوں تلف ہوجائیں۔ آپ نے لکھا:۔
>خلاصہ سابقہ خطوط کا یہ ہے کہ میں آج اپنے ۹ چھوٹے بڑے بچوں سمیت تیرہ روز سے گھر میں بند ہوں۔۔۔۔۔ بروز جمعہ ۳ بجے سے لے کر ۷ بجے شام تک سینکڑوں آدمیوں عورتوں اور بچوں کے جلوس نے میرے گھر کے سامنے ماتم کیا اور وہ فحش بکا کہ چوڑھے چمار بھی شرمائیں۔ اس کا بھی اثر نہ دیکھ کر اب میرا مکمل بائیکاٹ ہے۔ کھانا پینا` دوا` خاکروب تک کی بندش ہے۔ اب دو دفعہ کوشش کی گئی ہے کہ ناگہانی حملہ کرکے قتل کردیں مگر شام سے صبح تک کی چوکسی کو مولیٰ نے حفاظت کا ذریعہ بنا دیا۔ شہر میں مجسٹریٹ اور ایس پی موجود ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں ایک آدھ بار ان کا آدمی آتا ہے۔ اور پوچھ جاتا ہے کوئی تکلیف تو نہیں؟ کل بعض اشیاء بھی خرید کر دے گئے۔ ان کی ہمدردی صرف اس حد تک ہے۔ مگر عملاً شہر پر غنڈوں کی حکومت ہے۔ جلوس آزادانہ پھرتا ہے۔ پولیس یا ملٹری چوکی میں بیٹ کر >اپنی< حفاظت کرتی ہے۔
ڈسکہ
محترم محمد ابراہیم صاحب~ف۴۵~ عابد نائب امیر حلقہ امارت ڈسکہ نے انہی دنوں بذریعہ چٹھی ڈسکہ کے کوائف مرکز میں بھجوائے تھے جن میں لکھا:۔
>ہمارے ضلع میں شورش انتہائی زوروں پر ہے۔ گائوں سے بھی لوگ جتھوں کی صورت میں آتے نہیں بلکہ لائے جاتے ہیں۔ گائوں والے مایوس ہوکر واپس جاتے ہیں کیونکہ آئو بھگت اور خاطر تواضع نہیں کی جاتی۔ ڈسکہ میں ہڑتالیں بھی ہوتی ہیں اور جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔رات گئے تک نعرے لگائے جاتے ہیں۔ عورتیں جلوس کے ساتھ پیٹتی جاتی ہیں اور فحش گالیاں نکالتی ہیں۔ لڑکوں کے غول کے غول گلی کوچوں میں پھرتے ہیں اور بیہد گندے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ احمدیوں کے گھروں کے سامنے سیاپا کیا جاتا ہے۔ عورتیں احمدی مردوں پر آوازیں کستی ہیں اور مردوں کو چھیڑتی ہیں تاکہ کوئی فساد کی صورت پیدا ہوسکے۔۔۔۔۔ ناچتے کودتے اور شور مچاتے ہیں۔ احمدی حضرات پر عورتیں بچے اور مرد اینٹیں اور پتھر پھینکتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ چوہدری نزیر احمد کی کوٹھی پر بھی پتھر پھینکے گئے ہیں۔ ہماری جماعت سے چند دوستوں نے کمزوری کدھا کر ان میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ باقی دوست ڈٹے ہوئے ہیں اور کامل صبر کا نمونہ دکھا رہے ہیں۔ احمدی دوستوں کے پاس ان کے غیر احمدی رشتہ داروں کے وفود بار بار جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدی اب زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے ہمارے ساتھ مل جائو۔ اس کے علوہ طرح طرح کے دنیاوی لالچ بھی دیتے ہیں۔ لڑکیوں کا لالچ` روپیہ کا لالچ` ممبریوں کا لالچ۔ میرے پاس جو وفود آئے انہوں نے مجھے کمیٹی کی ممبری کی آفر بھی کی اور خرچ کرنے کا وعدہ بھی کرتے تھے۔ الغرض بار بار اس طرح تنگ کیا جارہا ہے۔ بعض اوقات ایک احمدی کو پندرہ سولہ آدمی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور مسجد میں جاکر کہتے ہیں کہ مسلمان ہوجائو۔< احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا ہے حتیٰ کہ بھینگوں کو بھی غلاظت اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ ہماری بیت احمدیہ پر بھی قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ مقامی حکام نے کسی قدر ضرور تعاون سے کام لیا ہے۔ جو بڑا شخص جلوس میں شامل نہیں ہوتا اس کو زبردستی اٹھا کر لایا جاتا ہے۔ اور شامل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ خوف اور ہراس بہت پھیلایا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ احمدی کیمپوں میں جمع کئے جارہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ربوہ جل رہا ہے اور لاکھوں پٹھان ربوہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں حکومت ابھی اعلان کرنے والی ہے وغیرہ وغیرہ جھوٹ سے ازحد کام لیا جارہا ہے۔ ایک احمدی کو ملتے ہیں اور اسے کہتے ہیں فلاں احمدی >مسلمان< ہوگیا ہے۔ تم بھی ہوجائو۔< الخ
جناب عزیز اللہ صاحب گرد اور قانون گو نے بیان دیا:۔
>شورش )احرار( کا دور نہایت ہی تکلیف دہ تھا۔ میرا` دیوتی پر ڈسکہ سے گوجرانوالہ جاتے ہی بسوں کے اڈوں پر بائیکاٹ کیا جاتا۔ مجبوراً سائیکل پر سفر آمد و رفت کرنا پڑتا۔ راستہ میں جلوس نعرے لگاتے ہوئے ملتے سخت نفرت کی نگاہ سے ہم لوگ دیکھے جاتے تھے۔ بلکہ نقصان جان پہنچانے کے درپے بھی ہوتے۔۔۔۔۔ گوجرانوالہ میں ہمارے لئے اچھوتوں کی طرح علیحدہ برتن ہوٹلوں میں رکھے گئے۔۔۔۔۔ ڈسکہ میں ہمارا کئی ہفتہ تک مکمل بائیکاٹ کیا گیا سبزی ترکاری اور دیگر اشیائے خوردنی ہمیں قطعاً خریدنے کی بندش تھی۔ عورتیں سیاپے کرتیں۔ پتھر گھروں میں مارے جاتے۔ احمدیت کے خلاف گندی سے گندی گالیاں دی جاتیں۔ ہمارے گھروں میں کوئی عورت یا بچہ داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ سخت نگرانی رکھی جاتی تھی۔ قسمت کی ماری ایک مہاجر لڑکی جو کہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی اور اکثر ساگ وغیرہ قیمتاً دے جایا کرتی تھی۔ بوجہ غربت اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ پالا کرتی تھی۔ اتفاق سے شورش کے دوران میں ہمارے گھر میں سگ لے آئی۔ جب ساگ دے کر گلی میں واپس گئی تو محلہ والوں میں وہ جو تحریک کے علمبردار تھے انہوں نے اس غریب کا منہ کالا کیا اور گھر گھر یہ کہتے ہوئے پھرایا کہ دوبارہ تو ان کافر مرزائیوں کے ہاں نہیں جائو گی؟ الخ
موضع دھیدو والی
میاں عبد الرحمان صاحب ولد امام دین صاحب قادیانی نے ڈسکہ سے لکھا کہ:۔
>موضع دھیدو والی میں یہاں شیر محمد صاحب موچی جو احمدی ہیں ان کو دس دن سے اندر بند کر رکھا ہوا ہے ان کے پاس نہ آتا ہے نہ دانہ۔ وہ چپ اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈسکہ میں میں بھی اور میرے بال بچے بھی پانچ دن بھوکے رہے۔ اس کے بعد دو سیر آٹا ملا ہے جسے ہم نے کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا۔<
بمبانوالہ
جناب حمید احمد صاحب دیہاتی مبلغ نے مرکز کو اطلاع دی کہ:۔
>ڈسکہ کے قریب موضع بمبانوالہ کی رپورٹ آئی ہے کہ وہاں آج عورتوں نے جلوس نکالا اور احمدی عورتوں کو مارا لیکن احمدی عورتوں نے کمال بہادری سے کہا کہ خواہ جہان سے مار دو مگر احمدیت سے نہیں ہٹیں گی۔<
اہمد مسعود نصر اللہ خاں صاحب نے ڈسکہ سے لکھا کہ:۔
>رات چوہدری محمد عبد اللہ صاحب بمبانوالہ سے آئے ہیں انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے اور ان کے گھر کے سامنے دس بارہ آدمی لاٹھیوں اور کلہاڑیوں وغیرہ سے مسلح بیٹھے رہے۔ عبد اللہ خان صاحب اور ان کا لڑکا موقع پاکر ڈسکہ آگئے۔< الخ
ملیانوالہ
جناب فضل الٰہی صاحب ریٹائرڈ پوسٹماسٹر صاحب~ف۴۶~ تحریر فرماتے ہیں:۔
>میں موضع گورداسپور میں موضع بنی پور کا مہاجر ہوں اور آج کل موضع ملیانوالہ متصل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ رہائش رکھتا ہوں~ف۴۷~ گزشتہ بدامنی کے ایمان میں ہمارے ارد گرد تو بہت کچھ گڑبڑ تھی مگر ہمارے گائوں ملیانوالہ میں مئورخہ ۵۳۔ ۳۔ ۸ تک بالکل امن تھا مئورخہ ۵۳۔ ۳۔ ۹۔ کو اچانک معلوم ہوا کہ باہر کا ایک جتھہ احمدیوں کے گھروں پر ہمارے گائوں پر حملہ آور ہورہا ہے چونکہ ہمیں حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایات مل چکی تھیں کہ گھر نہ چھوڑے جائیں ہم دروازے بند کر کے بیٹھ گئے جتھہ آیا جو عموماً موضع بمبانوالہ کے گائوں کے اوباش لوگوں پر مشتمل تھا۔ اس جتھہ کی راہنمائی وہاں کا مولوی۔۔۔۔۔ کررہا تھا اور دیگر مولوی اس کی اقتدا میں تھے ہمارے گائوں کے اشرار بھی ساتھ شامل ہوگئے اور خاص کر میرے گھر کے سامنے انہوں نے خوب سیاپا کیا۔ مغلظ اور گند سے بھری ہوئی گالیاں ہمارے امام کو دی گئیں اور ہماری بہو بیٹیوں کے نام لے لے کر گند اچھالا گیا ۵۳۔ ۳۔ ۱۰ کو ہمیں معلوم ہوا کہ گائوں کا نمبردار۔۔۔۔۔ جو سابقہ گائوں گہوکلا تھانہ کاہنوں واں ضلع گورداسپور کا رہنے ولا ہے۔ اور اس طرف ایک کافی عرصہ نمبر ۱۰ میں رہا اور اس کا عموماً کام عورتیں اغوا کرنا تھا اور یہاں احمدیوں کا جانی دشمن تھا۔ ارد گرد بدمعاشوں کو ہمارے گھروں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے رہا تھا۔ گائوں میں بھی اس نے خوب طور پر خفیہ ہدایات جاری کیں کہ جب باہر کا جتھہ احمدیوں پر حملہ آور ہو تو سارا گائوں ان کا ساتھ دے اور وہ یہ کام ڈسکہ کے تحصیلدار۔۔۔۔۔ اور تھانہ دار۔۔۔۔ کی ہدایات کے حوالہ سے ترتیب دے رہا تھا۔ مقامی تحصیلدار اور تھانہ دار کی امداد ان لوگوں کو ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر اس کا ثبوت کچھ تو اس دن پولیس کی آمد کے بعد کچھ میری گرفتاری کے بعد جیل میں ملا۔ ۳/۱۰ کو ارد گرد کے دیہات بمبانوالہ۔ جنڈو ساہی۔ کوٹ جنڈو گوجرہ کے جتھے ہم پر حملہ آور ہوئے اور ہمارے گائوں نے ان کی پوری امداد کی عین اسی وقت ڈسکہ سے ۶ سپاہی خاں عبدا لعزیز خان ASI کی قیادت میں آگئے اور مجھے تسلی دی کہ آ فکر نہ کریں ہم سب کچھ ٹھیک کرلیں گے مگر میری موجودگی میں ہی اس جتھہ کے چند سپاہیوں نے گائوں کے لوگوں کو بھڑکایا اور احمدیوں کے خلاف ہر ممکن اقدام کیلئے کہا دوسری طرف مجھے کہا گیا کہ ہمارے لئے فوراً کھانا تیار کرائو مگر کھانا ہمارا اپنا سپاہی تیار کرے گا۔ چنانچہ مجھ سے دو مرغ آدھ سیر گھی ۔/۵ روپیہ کرایہ ٹانگا طلب کیا جو میں نے اسی وقت مہیا کردیا آٹا۔۔۔۔۔ نمبردار نے اپنے گھر سے دیا۔ یہ کھانا غلام علی لوہار کی دکان میں تیار ہوا۔ دوری طرف اے ایس آئی صاحب نے گائوں کے باہر جاکر اتنے بڑے ہجوم کو اکیلے ہی روکنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا اے ایس آئی کے باہر جاکر اتنے بڑے ہجوم کو اکیلے ہی روکنے کی کوشس کی مگر وہ ناکام رہا اے ایس آئی سائیکل پر فوراً گائوں کی طرف اپنی گارد کی طرف بھاگا اور سپاہیوں کو فوراً میرے گھر کے سامنے کھڑا کردیا۔ اے ایس آئی صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ مجمع قریباً ۳۰۰۰ کا تھا جس میں ۵۰۰ آدمی مختلف آواز سے مسلح تھے اور میرے گھر کو نیست و نابود کرنے کو آئے تھے۔ سب احمدی میری بیتھک میں ممع تھے جن میں ۲ احمدی اپنی جانیں بچا کر جنڈو ساہی سے آکر میرے پاس پناہ گزیں تھے۔ پولیس کی موجودگی میں ہجوم نے میرے گھر کے دروازے توڑنے کی کوشش کی مگر پولیس کی مداخلت سے وہ کامیاب نہ ہوئے یہ سب ہجوم نہر کے کنارے چلا گیا مگر دوبارہ پلٹا کہ میرے گھر کو کم از کم آگ ہی لگا دی جاوے مگر اے ایس آئی صاحب نے پولیس کو رائفلیں سیدھی کرنے کا حکم دیا تو ہجوم خوفزدہ ہوکر منتشر ہوگیا۔ اے ایس آئی عبد العزیز کا رویہ بہت اچھا اور نیک نیتی پر تھا۔ اگرچہ اس کے بعض کانسٹیبل شرارتیوں کے ساتھ تھے۔ شام کے وقت پولیس چلی گئی ۳/۱۱ کو صبح ہی ایک سپاہی آیا کہ رائو صاحب آپ کو بلاتے ہیں مگر امیر جمات ڈسکہ کو ساتھ لے کر آنا۔ اس دن بھی ہمیں اطلع آچکی تھی کہ آج ۸ گائوں کے فسادی میرے گھر پر حملہ آور ہورہے ہیں اور یہ سب لوگ میرے گھر کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ اسی۔۔۔۔۔ نمبردار۔۔۔۔۔ تحصیلدار اور۔۔۔۔۔ تھانیدار کا ہے میں گھر کو جس میں چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں تھیں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر اے ایس آئی صاحب کا حکم تھا۔ گھر کو اللہ کے سپرد کرکے میں امیر صاحب کو ساتھ لے کر رائو صاحب کے پاس گیا۔ مگر مجھے دیکھتے ہی رائو صاحب نے کہا کہ چوہدری نذیر احمد صاحب اس کو منع کر لو یہ علاقہ میں اشتعال پھیلا رہا ہے اور کل جب جتھہ گزر گیا تو اس نے کہا کہ کتے آئے تھے اور بھونک کر چلے گئے۔ میں نے کہا کہ رائو صاحب میں تو گھر بار کی مصائب میں مبتلاء تھا مجھے یہ الفاظ کہاں سوجھتے ہیں۔ میں نے یہ الفاظ ہرگز نہیں کہے مگر رائو صاحب کا پارہ Hihgest ڈگری پر تھا اے ایس آئی صاحب نے مجھے بعض ناملائم الفاظ بھی کہے۔ جب ان کی طبیعت میں کچھ سکون ہوا تو کہا کہ کل اگر میں پولیس نہ بھیجتا تو تم سب قتل ہوجاتے میں نے تم کو قتل سے بچا دیا ہے اور آج پھر بہت سے دیہات تم پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ چنانچہ اسی وقت پھر اے ایس آئی عبد العزیز صاحب کو حکم دیا کہ کل ۶ کانسٹیبل تھے آج ۸ لے کر جائو۔ ۶ رائفلوں والے اور ۲ ہتھکڑیاں والے اور مجھے کہا کہ تم شام سے پہلے گائوں میں نہ جانا۔ چنانچہ ان کی ہدایت کے ماتحت میں ڈسکہ میں ہی ٹھہر گیا اور پولیس گائوں میں چلی گئی۔ میری غیر حاضری میں پولیس نے پھر احمدیوں سے ۲ مرغ آدھ سیر گھی۔ اور ۔/۵ روپیہ کرایہ طلب کیا۔۔۔۔۔ احمدیوں نے معذوری ظاہر کی سپاہیوں نے احمدیوں کو ڈانٹا کہ اب تم قتل بھی ہوجائو گے تو ہم تمہاری امداد نہیں کریں گے اور آئندہ بھی تمہاری امداد کو تمہارے گائوں میں نہیں آئیں گئے۔ گائوں کے نمبردار۔۔۔۔ نے باہر کے حملہ آوروں کو فوراً اطلاع دی کہ پولیس آگء ہے۔ چنانچہ وہ لوگ ہمارے گائوں پر حملہ آور ہونے کی بجائے میترانوالی کی طرف چلے گئے۔ اے ایس آئی عبد العزیز صاحب نے اس دن بھی بڑی شرافت کا مظاہرہ کیا۔ گائوں کے لوگوں اور نمبردار کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کی کہ خبردار اگر تم نے احمدیوں کو کوئی گزند پہنچایا۔ میں جب ڈسکہ سے آیا تو پولیس جاچکی تھی اور نمبردار گائوں کے لوگوں کو اکٹھا کررہا تھا۔ چنانچہ عصر کے وقت سے لے کر عشاء کے وقت تک میرے گھر کے سامنے سیاپا اور بدمعاشی ہوتی رہی اس ہجوم کا سرغنہ وہی نمبردار۔۔۔۔۔ اور اس کا لڑکا۔۔۔۔۔ تھے اس دن ہم اپنی نمازیں بھی ادا نہ کرسکے۔ رات مجھے اطلاع ملی کہ نمبردار مذکور مجھے قتل کرانے کی سازش کررہا ہے۔ حتیٰ کہ قاتل بھی مقرر کردیا گیا ہے۔ اور راستہ ہماری چھتوں پر سے ہوکر ہمارے صحن میں کودنے کا بنایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں بندوق لے کر ساری رات دروازے بند کرکے بیٹھا رہا ۱۲ مارچ کو پھر نمبردار نے گائوں کے لوگوں کو تحصیلدار اور تھانیدار کا حکم سنا سنا کر گھروں سے نکالا۔ باہر کے دیہات کو بھی پیغام بھیجا مگر اس سے باہر سے شام تک سخت گندے الفاط استعمال کرتے اور بھنگڑا ڈالتے رہے۔ اس دن مجھے اطلاع ملی کہ میں باہر پاخانہ کو بھی نہ نکلوں ورنہ مجھے لوہاروں کی دکانوں کے سامنے قتل کردیا جاوے گا۔ چونکہ نمبردار کی دشمنی میرے ساتھ حد سے زیادہ تھی کیونکہ پنچائت کے انتخاب میں وہ میرے مقابلہ میں ہار چکا تھا۔ اور باوجود کئی سفارشوں کے بھی کامیاب نہیں ہوا تھا اس لئے نمبردار کی دشمنی صرف میرے ہی گھر تک محدود تھی۔ میں ۹ مارچ سے ۱۵ مارچ تک گھر کے دروازے بند کرکے بیٹھا مصائب کو برداشت کرتا رہا ۱۷ مارچ کو صبح ہی پولیس کانسٹیبل آیا کہ۔۔۔۔ تھانیدار تم کو بلاتے ہیں میں خوفزادہ تو تھا ہی ڈرتا ہوا گیا۔۔۔۔۔ کہہ رہے تھے لوگوں پر غلے چلاتے ہو غلے۔ اب معلوم ہوجائے گا غلے کس طرح چلائے جاتے ہیں تم بڑے آدمی ہو۔ بہت بڑے اب سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔۔۔۔۔ مجھے ۲ بجے کے قریب تحصیلدار۔۔۔۔۔ کے پیش کیا گیا تحصیلدار صاحب نے کہا کہ ڈی سی صاحب نے تمہاری بندوق ضبط کرلی ہے۔ بندوق کہاں ہے میں نے جواب دیا کہ گھر پر ہے۔ کہا کہ فوراً ایک رقعہ اپنے لڑکے کے نام تحریر کرو کہ وہ ہمارے کانسٹیبل کو بندوق معہ کارتوس دے دے۔۔۔۔ میرے رقعہ لکھ دینے پر کانسٹیبل بندوق معہ کارتوس لے آیا۔ عشاء کی نماز تک میں تھا نہ میں رہا۔ کل ۱۸ مارچ کو ۹ بجے صبح تھانہ میں حاضر ہوجائو۔ ۱۸ مارچ کو میں وقت مقررہ پر تھانہ حاضر ہوگیا۔ قریباً ڈھائی بجے بعد دوپہر ایک کانسٹیبل کے ہمراہ مجھے سیالکوٹ بھیج دیا گیا کہ تم کو ایس پی کے پیش کرنا ہے قلعہ پر لے جاکر ڈی سی کے حکم کے ماتحت مجھے گرفتار کر لیا گیا ۱۹ مارچ کو میرا چالان ۲۲/۲۱ کے ماتحت کردیا گیا اور مجھے جیل میں بھیج دیا گیا۔ جیل میں ایک نئی دنیا دیکھی۔ گھبراہٹ بہت زیادہ تھی۔ مجھ پر غوندگی کا اثر زیادہ تھا اور ۳۶ گھنٹہ میں ۲ تولہ پیشاب آتا تھا۔ جیل میں ہی اسی تحریک کے گرفتار کئی قسم کے لوگ تھے۔ مولوی لوگ کہتے تھے کہ غنڈوں نے ہماری تحریک کو ناکام بنا دیا اور غنڈے کہتے تھے مولویوں نے ہمیں دھوکہ دے کر گرفتار بلا کردیا۔ دونوں فریقوں کی کشمکش بہت زیادہ تھی عام لوگ کہتے تھے کہ مولویوں نے حکومت سے بہت بڑی رقم کھا لی ہے اور ہم کو بلا میں پھنسا دیا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ مولویوں نے چندہ اکٹھا کرنے کی جو رسید بکیں چھپوائی تھیں وہ ۔/۱ ۔/۵ ۔/۱۰ ۔/۵۰ کی تھیں اور جب کسی سے چندہ وصول کیا جاتا تو اس کی رسید دے کر اپنے سامنے ہی چاک کروا دی جاتی تھی کہ پولیس کے ابو نہ آجاوے۔ ۔۔۔۔۔اس طرح حاجی۔۔۔۔۔ سیالکوٹ والا نے ۲۴ ہزار روپیہ ہضم کیا اور اس طرح جو رقم جس نے حاصل کی وہی ہضم کرگیا۔ جیل میں مولوی عبد الحی اور مولوی عبدا لتواب ڈسکلہ والے دو رت ایک ہی چکی کوٹھڑی میں میرے ہمراہ رہے انہوں نے وہاں میرے ساتھ ذکر کیا کہ ۔۔۔۔۔تحصیلدار اور
‏tav.14.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھانہ دار روزانہ شام کو ہمیں بلاتے اور ٹی پیسٹری کھلاتے۔ دن بھر کی کار گزری سنتے اور اگلے دن کی ہدایات دیتے تھے اور یہ سب تحریک ڈسکہ میں ان ہی دو صاحبوں ہدیات کے ماتحت چلتی رہی مگر حیرانی ہے کہ ہماری گرفتاری کے وقت ہر دو افسروں نے ہمیں منہ بھی نہ دکھایا اور اندر سے ہی کہلا بھیجا کہ ان کو سیالکوٹ لے جائو۔ حالانکہ ساری پولیس اور ساری تحصیل ہمارے ساتھ تھی مگر اس وقت کسی نے امداد نہ کی وغیرہ وغیرہ۔ عام لوگ کہتے تھے کہ مولویوں نے زہر ہلا ہل شربت صندل بنا کر ہمیں پلا دیا اور حکومت کے خلاف ہمیں بھڑکایا۔ رقمیں خود کھا گئے اور اب یہی مولوی خود معافیاں مانگ کر باہر جارہے ہیں اور ہم بلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈسکہ والا مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونڈہ والا عام نوجوانوں کو تلقین کرتے کہ خبردار معافی ہرگز نہ مانگنا ورنہ قومی غدار کہلائو گے اور جب یہ مولوی علیحدہ بیٹھتے تو میرے سامنے ہی کہتے کہ بھائی فوراً معافی مانگ کر باہر چلیں چنانچہ موقع آنے پر سب مولویوں نے معافی مانگ کر رہائی حاصل کرلی۔ جب میں جیل میں ۱۹ مارچ کو گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ ۳ مارچ سے ۱۱ مارچ تک جتنے لوگ گرفتار ہوئے ان کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے غازی اور مجادہ قرار دے کر ہر قسم کی سہلوت مہیا کی ہر بوڑھے کو ۲/۱ سیر دودھ اور ایک ٹکیہ مکھن روزانہ ہر نوجوان کو ۴/۱ سیر دودھ اور ہر کشتی لڑنے والے کو ۲/۱ سیر دودھ اور ایک تکیہ مکھن روزانہ ہر نوجوان کو ۴/۱ سیر دودھ اور ہر کشتی لڑنے والے کو ۲/۱ سیر دودھ اور ایک ٹکیہ مکھن اور تیل مالش کے لئے مہیا کیا۔ جاتے ہی پہلے دن زردہ اور پلائو سے ان کی تواضع کیا۔ اگلے دن حلوہ کھلایا اور ان کو کہا کہ پھانسی کی کوٹھڑیوں کی طرف اور اخلاقی قیدیوں کے ورکشاب کی طرف نہ جانا باقی سب جیل تمہاری ہے۔ مزے سے رہو اور اگر کسی کو تکلیف ہو تو فوراً مجھے کہو۔ سالن کو تیل کے بگھار کی جگہ مکھن کا بگھار لگتا تھا۔ ان سہولتوں کے ہوتے ہوئے ان لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ظالمانہ سلکو کیا اس کو گندی گالیاں نکالنی شروع کیں حتیٰ کہ ۱۲ مارچ سے ۱۴ مارچ تک جیل میں خوب ہنگامہ رہا۔ گرفتاران نے جیل کے کمبل جلا دیئے۔ برتن توڑ دیئے۔ پھولوں والے پودے برباد کردیئے۔ جیل کے دروازے توڑ دیئے جس پر ایس پی اور دی سی معہ دستہ پویس آئی اور ان لوگوں کو قابو کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میر محمد الدین صاحب لیفٹیننٹ کرنل آئے جن کے آنے پر جیل کا انتظام نہایت اعلیٰ ہوگیا۔ جیل میں ہم چار احمدی تھے۔ شیخ عبد الرحمن صاحب وکیل` محمد رفیق جراح` مستری ابراہیم اور خاکسار۔ جیل کے ملازم یعنی نمبردار اور سپاہی دوسرے لوگوں کے بہکانے پر ہم پر سختی کا سلوک کرتے اور ۱۵ دن تک ہم چاروں احمدیوں کو سنگین کوٹھڑیوں میں اکیلے اکیلے بند رکھا گیا اور سخت واچ کی جاتی کہ ہم احمدی کسی دوسرے احمدی سے بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔ میر صاحب کے آنے پر ہم احمدیوں کو اکٹھا ایک کوٹھڑی میں کردیا گیا۔ ہم چکی نمبر ۳ میں کوٹھڑی نمبر ۱۵ میں بند تھے کہ انہی دنوں راولپنڈی سے قریباً ۱۴۰ سیاسی قیدی تبدیل ہوکر آئے۔ ان کا سرغنہ ایک مولوی۔۔۔۔۔ غالباً راجہ بازار راولپنڈی کا تھا یہ مولوی فاضل اور شاید منشی فاضل بھی تھا۔ ایک دن جبکہ یہ سب لوگ اکٹھے کھڑے باتیں کر رہے تھے اور ان کو معلوم نہیں تھا کہ کوئی احمدی بھی اس تحریک میں گرفتار ہوکر جیل میں آسکتا ہے۔۔۔۔۔ کہہ رہا تھا کہ اب تو ملٹری بھی ہمارے ساتھ تھی مگر ہم سے کچھ نہ ہوسکا۔ چنانچہ جب ہمارا جتھہ گرفتار کے لئے نکلا تو فوی سپاہیوں کی طرف سے ہمیں پیغام ملا کہ جب فوج کا دستہ تم کو روکنے کے لئے آگے بڑھے تو تم نے ہم پر حملہ کر دینا اور رائفلوں پر ہاتھ ڈال دینا۔ ہم رائفلیں چھوڑ کر بھاگ جاویں گے اور پھر تم نے رائفلوں کو جس طرح چاہو استعمال کرلینا۔ اس بات کی تصدیق راولپنڈی کے دوسرے لوگوں سے بھی ہوئی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ افسوس ہمارے آدمیوں نے کچھ نہ کیا۔ ایک رات ایک ملنگ کو جو قاتل تھا ہماری کوٹھڑی میں بند کردیا۔ وہ ۳` ۴ دن ہمارے ساتھ رہا۔ ایک دن ایک مولوی نے کہا کہ ملنگا تم نے آدمی قتل کرکے خدا کا گناہ کیا تو اس نے کہا کہ علی کا دشمن کافر تھا میں نے مار دیا۔ اس مولوی نے کہا کہ اگر تم کو کوئی مرزائی مل جاوے تو پھر کہنے لگا کہ مرزائی کو تو چن چن کر مارنا چاہئے اسی مولوی نے کہا کہ تم تو ۳` ۴ دن سے مرزائیوں میں رہتے اور سوتے ہو۔ کہنے لگا کہ نہیں یہ تو مسلمین ہیں۔ نمازیں پڑھتے۔ تہجد پڑھتے ہر وقت عبادت کرتے ہیں۔ یہ کس طرح مرزائی ہوسکتے ہیں یہ تو بڑے پکے مسلمین ہیں۔ اب مجھے پورا مہینہ جیل میں ہوگیا کئی لوگ ضمانت پر جیل سے جاچکے تھے مگر مجھے معلوم ہوا کہ ڈسکہ کا تھانیدار میرے ساتھ خاص دشمنی کی وجہ سے ریمانڈ پر ریمانڈ لیتا جارہا ہے اور چالان عدالت میں پیش نہیں کرتا یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ عرصہ جیل میں اسی طرح رہ جائوں چنانچہ بصد مشکل ۲۰ مارچ کو میری ضمانت ہوئی اگرچہ اس وقت بھی ایس آئی میرا ریمانڈ لے چکا تھا باہر آکر مجھے معلوم ہوا کہ مجھ پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں بڑا الزام یہ تھا کہ میں رسول پاکﷺ~ کو گالیاں نکالتا ہوں اور رسول پاکﷺ~ کی ہر وقت توہین کرتا ہوں۔ لوگوں کو اشتعال دلاتا ہوں وغیرہ ۔ میرے خلاف چوٹی کے گواہ وہی نمبردار۔۔۔۔۔ تھا اور باقی گائوں کے سات کمی تھے یعنی دو جلاہ۔ دو ترکھان۔ ایک موچی۔ ایک ملاں اور ایک دھوبی۔ حالانکہ گائوں میں گوجر۔ راجپوت۔ آرائیں اعوان اور چیمہ زمیندار قومیں آباد تھیں۔ چونکہ گائوں کے کمی اس نمبردار سے سخت خائف تھے اس لئر وہی گواہ اس کے کہنے پر گواہی کے لئے تیار ہوئے اور وہ بھی میرے رہا ہونے پر کہہ رہے تھے کہ نمبردار نے ہمیں گرفتار کرا دینے کی دھمکی دی ہے اور رائو نے بھی ڈرایا اور دھمکایا ہے ورنہ ہم ہرگز گواہی دینا نہیں چاہتے۔ چنانچہ میرے خلاف صرف دو گواہ ایک نمبردار اور دوسرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلاہ گزرے اور دونوں کے بیانات متضاد سے متضاد تر ہیں اور عدالت نے حکومت کی نئی پالیسی کے ماتحت مجھ سے ایک تحریر لی اور رہا کردیا اب بھی سلما گائوں اس نمبردار کے خلاف ہے مگر نمبردار بدستور میرے خلاف اپنی کاروائیوں میں لگا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونڈہ کا ایک مولوی جو میونسپل کمشنر بھی تھا ہماری ساتھی والی کوٹھڑی میں بند تھا اس نے بتایا کہ تھانہ پھلوارہ کا تھانیدار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے بالمقابل سٹیج بناکر احمدیوں اور حکومت کے خلاف تقریریں کرتا تھا اور اب وہی تھانیدار عدالت میں میرے خلاف گواہیاں دلوا رہا ہے اگر میں قید ہوگیا تو تھانیدار مذکور کو بھی ساتھ ہی لوں گا اور میں ۵۰ گواہ تھانیدار کے خلاف گزاروں گا کہ یہ بھی حکومت کے خلاف اور احمدیوں کے خلاف مجھ سے کئی گنا زیادہ تقریریں کرتا تھا۔ اس طرح شکر گڑھ کا ایک مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو یک چسم تھا کہنے لگا کہ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے دو احمدیوں کی جان بچائی اور مقامی تھانیدار نہیں چاہتا تھا کہ میں احمدیوں کی امداد کروں اور اس کے عوض میرا اس نے چالان کردیا۔ جیل میں سیالکوٹ کے مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھے ان کے ہمنشیں ہمیں بتاتے کہ مولویوں نے قریباً ۸۰۰۰۰ روپیہ دولتانہ صاحب سے لیا ہے۔ اور یہ روپیہ چیدہ چیدہ مولوی کھا گئے ہیں کاندھلوی صاحب نے کہا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہ سب سیاست کی خاطر کیا جارہا ہے تو میں ہرگز اس تحریک میں حصہ نہ لیتا۔ جیل میں یہ عام مشہور تھا کہ دولتانہ صاحب نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے پانی کی طرح روپیہ بہایا ہے۔ بہت سے مولوی ہمارے ساتھ جب بھی گفتگو کرتے تو یہی کہتے کہ بھائی احمدیوں کے ساتھ ہمیں کوئی پرخاش نہیں ہم تو صرف گورنمنٹ کے ساتھ ٹکر لینا چاہتے تھے اور ادس میں بھی دولتانہ صاحب نے ہمیں دھوکہ دیا۔ کبھی وہ احمدیوں کے حق میں بیان دیتا رہا اور کبھی ہمارے حق میں بیان دیتا رہا اور حقیقاً وہ سیاست میں خود غرضی کے گھوڑے پر سوار اپنا کوئی کام نکالنا چاہتا تھا۔ کوئی کہتا اس نے روئی میں سے بہت سا روپیہ نکالا اور مولویوں میں تقسیم کیا۔ کوئی کہتا حکومت کے محاصل میں سے ایک رقم حال کی اور دو لاکھ اپنی گرہ سے خرچ کیا اور لوگوں میں تقسیم کیا۔ احمدیوں کو صرف نشانہ بنایا گیا اصل غرض اس کی سنٹرل حکومت کے ساتھ ٹکر تھی۔ غرضیکہ کئی قسم کی باتیں جیل میں سنتے تھے۔ راولپنڈی والے کسی ایک خفیہ سازش کا نام لیتے تھے جو ہم باوجود کوشش کے معلوم نہ کرسکتے کہ وہ کیا سازش تھی۔ کیونکہ وہ لوگ معلوم کرچکے تھے کہ ہم تین چار وہاں احمدی موجود ہیں ہم میں سے کسی کو دیکھ کر وہ خاموش ہوجاتے تھے۔ اور یہ الفاظ تو ہر وقت ہر سیاسی قیدی کی زبان پر ہوتے تھے کہ حکومت ہمارے ساتھ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہماری تحریک کامیاب نہ ہو۔ بلکہ متفقہ طور پر وہاں کے لوگوں کی یہ صدا ہوتی تھی کہ اگر یہ تحریک فیل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ جس دن یہ اعلان ہوا کہ خواجہ صاحب کی وزارت مستفعی ہوگئی ہے تو سب معاندین نے خوشی منائی کہ یہ چال صرف ظفر اللہ خاں کو وزارت سے علیحدہ کرنے کی چلی گئی ہے۔ پولیس کی نسبت تو ہر شخص جیل کا کہتا تھا کہ پولیس مکمل طور پر ہمارے ساتھ ہے۔
ہمارے گائوں ملیانوالا کے ارد گرد سب دیہات میں گرفتاریاں ہوئیں مگر ملیانوالہ میں کوئی گرفتاری سوائے میرے نہیں ہوئی کیونکہ یہاں ایک احمدی کو پھانسنے کے لئے نمبردار اور تھانیدار کی سازش تھی۔ حالانکہ جتنی شرارت بدمعاشوں نے ملیانوالا میں کی کسی دیگر گائوں میں شاید ہی ہوئی ہو۔ ہمارے گھروں پر پتھر برسائے گئے اور پھر مشہور کردیا جاتا کہ احمدی عورتیں جلوس پر پتھر برساتی ہیں۔ ہم میں سے چھ کس کو زبردستی تشدد کرکے احمدیت سے منحرف کیا گیا اور زبردستی ان کے ہاتھوں میں جھنڈا دیا گیا۔ اور یہی حال ہمارے ارد گرد کے دیہات میں ہوا۔ جو احمدیت سے انکار نہیں کرتا تھا اس کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور گھر بار کو آگ لگانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں اور ۳/۳ سے ۳/۵ تک نہ کوئی قانون تھا اور نہ کوئی حکومت۔ تحصیلدار اور تھانیدار کے چپڑاسی اور سپاہی نمبرداروں کو بلا کر لے جاتے تھے اور پھر ہدایات حاصل کر کے جتھے نکالتے تھے۔ بلکہ نمبرداروں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ جلوس نکالیں۔ تھانیدار نے میرے روبرو لوگوں کو کہا کہ ہمیں جلوس کو روکنے کا حکم نہیں ورنہ ایک دن میں جتھے روک دیئے جاویں۔ سنا گی اکہ دولتان کی طرف سے خاص آدمی ہدیات لے کر افسران کے پاس آتے تھے اور گوجرانوالہ کا ڈی سی تو خود جلوس کے ہمراہ ہوکر نعرے لگاتا تھا۔ اگرچہ لوگ اس کو بھی گالیاں نکالتے تھے۔
خاکسر فضل الٰہی از ملیانوالہ
متص ڈسکہ ضلع سیالکوٹ<
ڈہگری پریاں
‏]txet [tag
مکرم بشیر احمد صاحب ولد سلطان احمد صاحب درویش نے لکھا کہ:۔
>بندہ ایک ایسے گائوں میں آباد ہے کہ جو دو اڑھائی سو مسلم جاٹوں کی آبادی پر مشتمل ہے گائوں کے معتبر آدمی گرفتار ہونے کی وجہ سے باقی لوگ سخت جوش میں ہیں اور دن بدن زیادہ تکلیف کا موجب بن رہے ہیں۔ یہاں ہماری زمین وغیرہ کوئی نہیں۔ معمولی سی دکان پر گزارہ ہے لیکن اب بیس دن سے دکان بالکل بند ہے۔ پانی بالکل بند ہے۔ دور سے لانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔ ان حالات میں جبکہ ہماری طرف سے ناکہ بندی ہے ایک منٹی بھی یہاں گزارنا مشکل ہے۔۔۔۔۔۔ باہر اندر جانا سخت خطرہ کا موجب ہے۔ رات دن اپنے گھر پر ہی بیٹھ کر وقت گزار رہے ہیں۔< الخ
اسی گائوں کے ایک اور احمدی محمد منیر صاحب نے لکھا:۔
>اس گائوں میں ہم صرف دو گھر تھے۔ ان )مخالف( لوگوں نے ۴ مارچ سے ہمارا پانی بند کردیا ہے یہاں تک کہ ایک غیر مسلم کے کنویں سے بھی پانی نہیں لینے دیتے تھے اور اگر ہم پیاس کی شدت کی وجہ سے پانی لینے جاتے تھے تو ہمیں گالیاں دی جاتیں۔ ڈرایا دھمکایا جاتا جس کی وجہ سے ہمیں واپس گھر خالی لوٹنا پڑتا۔ جب ہم گھر آتے تو بچوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ وہ پیاس کی شدت کی وجہ سے رو رہے ہوتے۔ ۴ تاریخ کو ہمیں بالکل اندر بند کردیا گیا۔ ہمارے قتل اور لوٹنے کے منصوبے بنائے گئے جس کی وجہ سے ہمیں ازحد پریشان ہونا پڑا۔ ہمارے پاس سوائے دعا کے کوئی ہتیھار نہ تھا جس کو ہم استعمال کرتے۔ اگر کبھی پاس کی جماعت کوشش بھی کرتی تو سخت )محاصرہ( کے باعث وہ )کوئی چیز( نہ پہنچا سکتے تھے۔ ۶ مارچ بروز جمعہ گائوں کے شریر لوگوں کی ایک پارٹی جو ۱۵ افراد پر مشتمل تھی ہمارے دروازہ پر آئی۔ اور ہمیں مجبور کیا گیا کہ ہمارے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرو۔ ورنہ ہم قتل کردیں گے۔ اور پھر پکڑ کر گھسیٹنا شروع کردیا لیکن پھر بھی ہماری طرف سے نکار کیا گیا۔ آخرکار وہ لاچار ہوکر چکے گئے۔ زیادہ خطرہ ہوجانے کے باعث ہم نے تھانہ پھلورہ میں اطلاع دی کہ ہمیں ناجائز )طور پر( تنگ کیا جارہا ہے۔ تھانیدار صاحب مع تین سپاہیوں کے گائوں میں آئے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا بلکہ مخالفت کی آگ کو اور بھڑکایا گیا اور تھانیدار صاحب کی موجودگی میں انہوں نے جلوس نکالا۔ جلوس میں انہوں نے جو گند اچھالا اور حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے متعلق جو نازیبا الفاظ استعمال کئے میری زبان زیب نہیں دیتی کہ میں ان کو قلم بند کروں۔ مگر پھر بھی بغرض اطلاع اتنا لکھ دینا مناسب سمجتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی مصنوعی لاش بنا کر سخت بے حرمتی کی گئی جس کو دیکھ اور سن کر حضور اقدس کے ماننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اسی وقت سجدہ میں گر کر دعا کی گئی کہ اے خدا تو ان لوگوں کو ہدایت دے<۔ الخ
موضع ترسکہ
موضع ترسکہ تحیل ڈسکہ کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ غلام غوث صاحب نے مئورخہ ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ:۔
>ہمارے علاقہ میں شورش بہت زیادہ ہے۔ گائوں گائوں میں جلوس نکالے جاتے ہیں احمدیوں کے گھروں کے آگے بکواس کرتے اور نعرے لگاتے ہیں۔ کل ۱۰ مارچ کو ہمارے گائوں میں بھی مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکن ہوانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے جلوس نکالا۔ چار احدیوں نے کمزوری دکھائی مگر ان کی بیویوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو طلاق دے دو۔ ہم احمدیت نہیں چھوڑیں گی۔ آج کچھ سکون ہے مگر ہمارا پانی گائوں والوں نے روک رکھا ہے۔ باہر کے کنووں سے لاتے ہیں۔< الخ
پھر ۱۲ مارچ کے خط میں تحریر کیا:۔
>مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکن ہوانہ تھانہ ڈسکہ و مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکن وہیر کے نے ہمارا پانی بند کردیا۔ اب ہم بڑی مشکل سے باہر کے کنووں سے پانی لاتے ہیں۔ ہماری عورتوں کو ڈر کی وجہ سے قضائے حاجت جانے کی بھی سخت تکلیف ہے اور ۱۰ مارچ کو مولوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے آکر جلوس نکالا۔ گلیوں اور احمدیوں کے گھروں کے )سامنے( نعرے لگاتے اور پیٹتے رہے جس سے ہمارے چھوٹے بچے ر کے مارے سہمے رہے۔ آگے اب ہر وقت دن رات سخت گھبراہٹ ہے۔ چاروں طرف سے یہی آوازیں آتی ہیں کہ )احمدیوں کے( گھروں کو لوٹیں گے اور آدمیوں کو شہید کردیں گے۔<
موضع ویرووالہ
جماعت احمدیہ ویرووالہ کے سیکرٹری مال محمد ابراہیم صاحب نے اطلاع دی کہ:۔
>ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اہمدیت چھوڑ دیں۔ جب ہم نے یہ قبول نہ کیا تب یہ لوگ جامکے چیمہ اور آلو مہار سے احرار کا جلوس لے آئے۔۔۔۔۔ اور کہنے لگے کہ تم احمدیت کو خیرباد کہہ دو ورنہ سارا گائوں مل کر تمہارا خاتمہ کردے گا۔ ہم نے کہا کہ اگر ہمارے بچہ بچہ کو آپ لوگ شہید کردیں گے تو ہم پھر بھی یہ بات کہنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا۔ اچھا کل ہم تم کو مار دیں گے۔< الخ~ف۴۸~
سمبڑیال
جناب خواجہ محمد امین صاحبنے سمبڑیال سے لکھا کہ:۔
>بعض مہاجر احمدی مستورات نے بعض مردوں سے زیادہ دلیری دکھائی ہے۔ مختاراں زوجہ محمد الدین سکینہ شکار ماچھیاں حال سمبڑیال اور حسن بی|بی بیوہ صابر خاں مرحومہ ہمارے گھر پر آئیں۔ ان کو صحابہؓ و صحابیاتؓ کی مثالیں دے کر سمجھایا گیا تو اس قدر دلیر ہوگئیں کہ بالکل مرنے کو تیار ہوگئیں۔< الخ
منڈیکے بریاں۔ دہہ۔ نین کے تورولے ترسکہ
گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ سے مکرم سید نذیر حسین صاحب~ف۴۹~ نے لکھا:۔
>آج تک جو خبریں ہم تک پہنچی ہیں جو ہماری تحقیق میں درست ہیں عرض خدمت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موضع منڈیکے بیریاں جو چونڈہ کے قریب ہے وہاں چوہدری محمد ابراہیم صاحب احمدی کو جو صرف ایک ہی گھر احمدیوں کا ہے۔ لوگوں نے جمع ہوکر قتل کی دھمکی دی۔ اس نے کہا مجھے صرف چند منٹ اجازت دے دو۔ پھر قتل کرلینا۔ اس کے چاہ پر ایک چھوٹی سی بیت الذکر ہے۔ اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز گزاری۔ بعد میں ان کو کہا کہ آئو اپنا کام کرلو۔ وہ کہنے لگے بیت الذکر سے باہر آئو۔ اس نے کہا کہ میں بیت الذکر سے باہر نہیں آئوں گا۔ تکرار کے بعد انہوں نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو۔ اس کا بائیکاٹ کردو۔ اس کے اپنے چاہ سے بھی اور دیگر چاہ وغیرہ سے پانی روک دیا۔ پھر اس نے موضع کھرپہ سے جہاں چوہدری محمد حسین صاحب احمدی ہیں پانی منگوانا شروع کیا۔ آخر پندرہ تاریخ کو پولیس نے آکر پوری طرح اس کی امداد کی۔<
>موضع دہہ جہاں صرف ایک ہی احمدی تھا اس کو بہت تنگ کیا گیا لیکن وہ بھی خدا کے فضل سے بالکل قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اب وہاں کی حالت درست ہے۔<
>موضع نین کے تورولے میں بھی ایک احمدی عبد الحق تھا۔ اس نے بہت مردانگی دکھائی۔ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اب وہاں بھی حالات درست ہیں۔ دشمن عنصر نے معافی مانگی۔<
>موضع ترسکہ متصل بھا گورایہ میں احمدیوں کو بہت تکلیف دی گئی اور مولویوں نے ان کو جبراً احمدیت سے پھرانا چاہا۔ انہوں نے بھی بزدگی سے کام لیا۔ ان کے ساتھ چند ساعت کے لئے مل گئے اور مولویوں نے کہا کہ اب تمہارا نکاح دوبارہ کیا جائے گا۔ جب وہ گھروں پر نکاح کے واسطے گئے تو احمدی مستورات کو دروازوں پر پایا۔ مستورات نے بڑی دلیری سے کہا باہر کھڑے رہو۔ اندر مت آئو۔ مولوی لوگوں نے کہا کہ تمہارے آدمی مسلمان ہوگئے ہیں۔ اب تمہارے نکاح دوبارہ کریں گے۔ ہم اور کچھ نہیں کہتے۔ ان نیک بیبیوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ مرتد ہوگئے ہیں اور ہمارا نکاح ان سے نہیں ہوسکتا۔ مولوی اب ان کو لے جاکر کسی اور جگہ نکاح کریں۔ ہم کو تو اگر ٹکڑے بھی کردیں تو بھی ہم خدا کے فضل سے احمدی ہی رہیں گی۔ اس وقت ان کی بہادری کو دیکھ کر وہ احمدی مرد بھی دلیر ہوگئے۔ اور مولوی لوگوں کو جواب دے دیا اب حالات بہتر ہیں۔<
چونڈہ
چونڈہ سے چوہدری فیروز الدین صاحب انسپکٹر تحریک جدید نے رپورٹ بھیجی کہ:۔
>موضع چونڈہ تھانہ پھلوہ کے حالات حسب ذیل ہیں۔ گائوں ہذا میں پچھلے دنوں بڑے زور شور سے پراپیگنڈا ہوتا رہا لیکن اب مردوں کے علاوہ مستورات کے ذریعہ بھی جتھہ جلوس کی شکل میں احمدیوں کے مکانات کے پاس آکر بیہودہ بکواس کی جارہی ہے۔ سب کے دروازے دھکے دے کر توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تمام افراد جماعت کو اکا دکا مل کر ہراساں کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جماعت منظم ہے لیکن غلط افواہوں کی وجہ سے جو کہ منادی کے ذریعہ کہہ رہے ہیں کہ ربوہ پر نزدیک کے دیہات والوں کا حملہ ہوگیا ہے اور مرزائی >مسلمان< ہورہے ہیں۔ یہ پراپیگنڈا سن کر بعض احمدی ہراساں ہیں ایک احمدی مسمیٰ مولیٰ بخش جٹ تلونڈی جھنگلاں والے کے مکان پر پتھر پھینکے گئے اور اس کے گھر کی چر دیواری میں ایک کنویں سے اس کو پانی بھرنا بند کردیا ہے۔ اور پانی نکالنے والی بھونی اتر کر لے گئے ہیں۔<
>ایک موچی محمد شریف کی جھگی کو آگ لگا کر جلایا گیا ہے جو کہ گائوں سے باہر کی بیری کے درختوں کے پاس تھی۔ پچاس ساٹھ آدمیوں کے جتھے سے چند آدمیوں نے مل کر اس کو جھنجھوڑا اور وہ بیچارہ اپنی جان بچا کر گھر آگیا۔ تھانہ والے کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے ایک تھانیدار اور تین چار سپاہی اس جگہ متعین ہیں۔ جس جگہ ٹھہرے ہیں وہاں سے باہر نکل کر دیکھتے ہی نہیں۔<
شہزادہ
قریشی عبد الرحمن صاحب~ف۵۰~ کی طرف سے مرکز میں )موضع شہزادہ کی نسبت( مندرجہ ذیل اطلاع موصول ہوئی کہ:۔
>اس گائوں میں صرف تین احمدیوں کے گھر ہیں۔ باقی سارا گائوں مخالف اور ایذا دہ پر کمربستہ ہے۔ ایک مکان والے کی بیوی غیر احمدی تھی۔ وہ بچوں کو لے کر سسرال چلی گئی لیکن اس کا مرد ثابت قدم رہا۔ ایک گھر والوں کا پانی بند کردیا ہے اور دوسرے ماسٹر صاحب کی عدم موجودگی میں ان کے گھر پر حملہ کردیا اور مستورات کو گھر سے نکل جانے کی دھمکی دی۔ لیکن ان کی مستورات نے حضور کے ارشاد کے مطابق یہ جواب دے دیا کہ >ہم اپنے پیارے آقا کے حکم کے ماتحت یہیں رہں گی۔ نکلیں گی نہیں۔ خواہ ہمیں قتل کردو۔ اور ان تینوں گھر والوں کا بازار سے سودا سلف لینا بالکل بند کردیا گیا ہے۔ اور ہر قسم کی ضروریات زندگی سے محروم کردیا گیا ہے۔ اسی طرح تنگ کرنے کے دورے ذرائع بھی سب اختیار کئے گئے ہیں۔<
کھیوہ باجوہ
محمد منیر صاحب امیر جماعت احمدیہ کھیوہ باجوہ نے لکھا کہ:۔
>دن بدن زیادہ خطرے کی افواہیں پھیلتی گئیں پسرور بھی میرے ہی حلقہ امارت میں تھا۔ اور وہاں مخالفین کا بہت زور تھا۔ ان دنوں تھانیدار نے بھی جواب دے دیا لیکن جب ملتری نے انتظام ہاتھ می لے لیا تو خطرہ کم ہونا شروع ہوگیا ورنہ پہلے یہی تھا کہ آج کلا سوالہ میں جلوس جائے گا اور پھر وہاں سے کھویہ بھی جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص فضل رہا کہ صرف اور صرف پسرور تک ہی فتنہ و فساد محدود رہا۔ بعض افراد کلا سوالہ سے نکلے اور ہمارے گائوں میں آگئے اور جماعت چوہڑ منڈہ میں چند غنڈوں نے ہمارے پریذیڈنٹ دین محمد کو قتل کردینے کی دھمکیاں دیں۔ اس نے میرے پاس رپورٹ کی تو میں پسرور تھانہ میں گیا۔ تھانیدار صاحب نے میرے ساتھ تین ملٹری کے سپاہی اور ایک حوالدار کردیا۔ چوہڑ منڈہ تھانہ سے تقریباً آٹھ میل ہے۔ وہاں حوالدار نے ان سے باز پرس کی تب انہوں نے انکار کردیا کہ ہم نے کوئی بات نہیں کی۔ حوالدار نے ان سے وعدہ لیا کہ اگر اس کے بعد کوئی شکایت ان کی طرف سے ہمیں پہنچی تو تم ذمہ دار ہوگے اور صرف تمہیں ہی گرفتار کرکے لے جایا جائے گا۔ اس کے بعد بالکل امن ہے۔ اور کلا سوالہ سے جو دوست نکلے علاقہ مجسٹریٹ نے خود آکر کلا سوالہ کے لوگوں سے کہا کہ ان کو خود جاکر واپس لائو ورنہ اگر کوئی ان کا نقصان ہوا تو تم ہی ذمہ دار ہوگئے۔ تب کلاسولہ والے خود آکر ان کو تانگہ میں بٹھا کرلے گئے باقی تمام علاقہ میں خیریت ہے۔ خطرہ تو ہمیں بھی بہت ہوچکا تھا لیکن کسی نے بعد میں کوئی مظاہرے نہیں کئے۔<
کلا سوالہ
عبد الغنی صاحب عبد قائد مجلس خدام الاحمدیہ کلا سوالہ نے لکھا کہ:۔
کلا سوالہ پسرور سے چار میل کے فاصلہ پر ہے اور احرار اور مخالفین تحصیل پسرور کا مرکز ہے۔ بروز جمعہ پسرور میں نماز جمعہ کے موقعہ پر یہ اعلان ہوا کہ کل ۷ مارچ کو پسرور سے ایک جلوس جو کئی دیہات میں سے ہوتا ہوا اور احمدیوں کو مسلمان یا ختم کرتا ہوا کلا سوالہ پہنچے گا۔ شام کو ۶ بجے پولیس کی طرف سے زبانی مجھے یہ اطلاع ملی کہ جلوس کل کلا سوالہ آرہا ہے اور پولیسی اس کا انتظام نہیں کرسکتی۔ آپ خود کوئی انتظام کرلیں۔ یہ خبر سن کر بفضلہ تعالیٰ ہم ہر طرح سے مطمئن تھے اور ہمارے دلوں میں کسی قسم کی گھبراہٹ نہ تھی۔ ہم نے اپنے لئے مناسب انتظام ہر طرح سے کرلیا۔ اس کے بعد ایک چٹھی پسرور سے جماعت احرار کی جانب سے کلا سوالہ کے دیگر معززین کے نام آئی کہ ہمارا جلوس پہنچ رہا ہے۔ اگر آپ نے ہمارے جلوس میں شمولیت نہ کی تو تمہاری جان و مال بھی خطرہ میں ہوگا۔ کلا سوالہ میں دو جماعتیں ہیں۔ اہلحدیث اور حفنی جماعت حنفی جماعت کا چونکہ زور ہے اور چٹھی بھی ہنفی جماعت کے آدمیوں کو ہی ملی تھی۔ حنفی جماعت یہاں کی بہت امن پسند ہے۔ وہ دوست اس چھٹی کو لے کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کل یہ جلوس آرہا ہے۔ کوئی مناسب تجویز کی جائے تاکہ جلوس خیرت سے گزر جائے اور شود و شر بھی نہ ہو میں نے کہا کہ آپ کے خیال میں کیا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تم اپنی جماعت کو سنبھال لو۔ وہ کسی قسم کی جلوس میں مداخلت نہ کریں۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ جلوس پرامن طور پر گزر جائے۔ چنانچہ خاکسار نے جماعت کی مستورات اور بچوں کو دو جگہوں میں محفوظ کرکے مردوں کو دو مناسب جگہوں پر۔۔۔۔۔ بٹھا دیا۔
اس دن اکثر نظریں ہماری طرف اس حسرت سے اٹھ رہی تھیں کہ آج دو بجے تک یہ )احمدی( لوگ تو ختم ہوجائیں گے اور ان کے مال اسباب پر ہم قابض ہوں گے۔ اکثر لوگ ہمارے مال مویشی دیکھ دیکھ کر پسند بھی کررہے تھے کہ آج دو بجے کے بعد یہ سب کچھ ہمارا ہوجائے گا۔ لوگوں کی زبانی سنا کہ یہ احمدی لوگ خوش کیوں نظر آتے ہیں مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ان کی زندگی صرف دو بجے تک ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے چہرے اور ہمرے دل سوئے چند نام کے احمدیوں کے بہت شگفتہ اور دلیر تھے۔ بندہ نے اپنی جماعت کو صبر اور برداشت کی بہت تلقین کی اور حضور کے ارشادات جو صبر کے متعلق تھے پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ہر طرح امن کو قائم رکھنا ہے اور خدام کی قصبہ کے باہر ڈیوٹی لگا دی ایک خادم کو پسرور میں مقرر کردیا کہ وہ بار بار یہ اطلاع دے کہ جلوس کس تعداد میں ہے اور کیا کرتا آرہا ہے۔ کچھ خدام کو قریب کی جماعتوں کو اطلاع دینے کے لئے بھی مقرر کردیا۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ لوگ تو جلوس کی آمد کی گھڑیاں گن رہے تھے۔ بارہ بجے` ایک بجے` دو بجے مگر جلوس نہ آیا۔ آیا تو کون آیا؟ ایک وفد! وہ بھی اس لئے کہ وہ رات والا رقعہ واپس لے جائے جس می یہ لکھا ہوا تھا کہ تمہارے مال جان خطرہ میں ہیں۔ مگر رقعہ ان کو نہ ملا۔ سارا دن بالکل بخیرت گزر گیا۔ اور پانچ بجے شام فوج کے بہت سے سپاہی` علاقہ مجسٹریٹ صاحب اور سپیشل پولیس نے آکر لوگوں کو بہت ڈانٹا مگر ہم نے کلا سوالہ کے شریف غیر احمدیوں کی سفارش کردی کہ یہ لوگ بہت امن پسند ہیں<
داتہ زیدکا
چوہدری بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ داتہ زیدکا نے لکھا کہ:۔
>اللہ تعالیٰ کے فصل سے ہمارے حلقہ میں بالکل امن و امان ہے۔ البتہ غلط افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ افواہیں جو پھیلائی جاتی ہیں )باہر غیر احمدیوں کے دیہات میں( وہ یہ ہیں کہ احمدیوں نے غیر احمدیوں کو مارپیٹ رہے ہیں۔ بالخصوص میں مویشی چھوڑ کر ان کے کھیتوں کو برباد کردیا ہے۔ اور غیر احمدیوں کو مار پیٹ رہے ہیں۔ بالخصوص یہ خبریں میرے حلقہ امارت کے متعلق )جہاں احمدیوں کی کافی آبادی ہے۔ ناقل( پھیلائی جاتی ہیں۔ تاکہ باہر کے دیہات مشتعل ہوکر ہمارے خلاف جتھہ بندی کرکے امن عامہ کو برباد کردیں۔<
حواشی
~ف۱~
‏]h1 ~[tagف۲~
روز نامہ آفاق ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۳ کالم نمبر ۳
~ف۳~
روزنامہ >مغربی پاکستان< لاہور ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۴~
روزنامہ تعمیر ۱۱ مارچ ۱۹۸۳ء صفحہ ۳
~ف۵~
روزنامہ جنگ کراچی ۱۹۵۳ء
~ف۶~
معیار ۱ تا ۸ مئی ۱۹۷۶ء صفحہ ۴۴` ۴۵
~ف۷~
روزنامہ >مغربی پاکستان< لاہور مئورخہ ۷ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱
~ف۸~
پمفلٹ >پنجاب میں امن و امان قائم رکھے< صفحہ ۱ تا ۳ ناشر محکمہ تعلقات عامہ پنجاب مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۹~
>اخبار نوائے وقت< لاہور ۲۲ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۴
~ف۱۰~
اخبار نوائے وقت ۲۳ مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۱۱~
تقریر خواجہ ناظم الدین صاحب وزیراعظم
~ف۱۲~
روزنامہ >جنگ< کراچی ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء
~ف۱۳~
اخبار سفینہ لاہور ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
~ف۱۴~
ماہنامہ >چراغ راہ< کراچی فروری ۱۹۵۴ء صفحہ ۴۸ مدیر نعیم صدیقی صاحب
~ف۱۵~
اعلان حق صفحہ ۳ تا ۱۲ مطبوعہ تعمیر پرنٹنگ پریس راولپنڈی
~ف۱۶~
اداریہ ٹائمز آف کراچی )۹ دسمبر ۱۹۵۴ء(۔ اس اداریہ کا مکمل اردو ترجمہ رسالہ >ترجمان القرآن< لاہور جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۲ تا ۹ میں شائع شدہ ہے۔
~ف۱۷~
ہفت روزہ >فاروق< لاہور۔ ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۱۸~
سبز اشتہار صفحہ ۱۱` ۱۴ مطبوعہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ریاض ہند پریس امرتسر
~ف۱۹~
وفات ۱۸ ستمبر ۱۹۷۵ء
~ف۲۰~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۵۔ ۱۸۴ )مقرر کردہ زیر پنجاب ایکٹ ۲ ۱۹۵۲ء( برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء اردو۔ مطبوعہ انصاف پریس لاہور۔
~ف۲۱~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ ۱۸۵
~ف۲۲~
ولادت ۱۹۲۰ء وفات ۲۳ نومبر ۱۹۷۶ء
~ف۲۳~
مولانا رشید احمد صاحب چغتائی سابق مبلغ بلاد عربیہ ۲۰۔ چوہدری غلام قادر صاحب آف ربوہ۔ ۳۔ چوہدری سردار خان صاحب ساکن ٹہری تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی۔ ۴۔ چوہدری ریاض احمد صاحب ساکن پنجگرائیں ضلع سیالکوٹ ۵۔ حکیم آل احمد صاحب ترکستانی۔ ۶۔ مایو غلام حیدر صاحب پنشر ریلوے گارڈ۔ ۷۔ میاں عبد السمیع صاحب بدوملہی۔ وغیرہ
‏h1] gat~[ف۲۴~
وفات ۱۸ مئی
~ف۲۵~
~ف۲۶~
~ف۲۷~
ضلع گوجرانوالہ )ناقل(
~ف۲۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۸۱۔ ۱۸۳
~ف۲۹~
وفات ۱۴ فروری ۱۹۷۷ء
~ف۳۰~
ولادت:۱۸۸۹ء وفات:۱۳ مئی ۱۹۷۲ء
~ف۳۱~
~ف۳۲~
ریکارڈ مرتبہ ملک فضل حسین صاحب۔
~ف۳۳~
تحقیقاتی رپورٹ صفحہ ۱۸۴
~ف۳۴~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ ۱۷۵
‏]1h ~[tagف۳۵~
صدر انجمن احمدیہ کے عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ >صدر سٹی مسلم لیگ کے ساتھ یہ توہین آمیر برتائو اس لئے کیا گیا کہ بلوائیوں کے نزدیک خواجہ صاحب نے ڈپٹی کمشنر کو سختی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔<
~ف۳۶~
رپورٹ ۱۷۷۔ ۱۷۸ صفحہ
~ف۳۷~
ولادت ۱۸۹۳ء وفات ۹ نموبر ۱۹۶۲ء
~ف۳۸~
ولادت ۱۸۹۳ء وفات ۱۹ اپریل ۱۹۷۵ء
~ف۳۹~
بیان لیفٹینٹ کرنل خوشی محمد صاحب )رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ ۱۷۸(
~ف۴۰~
وفات ۱۸ دسمبر ۱۹۶۳ء
~ف۴۱~
وفات ۱۸ جنوری ۱۹۸۹ء
~ف۴۲~
رپورٹ صفحہ ۱۷۵
~ف۴۳~
رپورٹ صفحہ ۱۷۴
~ف۴۴~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۳۶۲
~ف۴۵~
وفات ۲۷ جنوری ۱۹۸۱ء
~ف۴۶~
برادر اکبر چوہدری عبد الواحد صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد ربوہ
~ف۴۷~
بعد میں ربوہ مقیم ہوگئے تھے۔ )وفات( ۳۱ دسمبر ۱۹۷۶ء
~ف۴۸~
اس کارڈ پر ۹ مارچ ۱۹۵۳ء کی مہر ثبت ہے۔
~ف۴۹~
‏h2] [tagوفات ۲۸ جولائی ۱۹۵۵ء
~ف۵۰~
شہید سکھر۔ وفات یکم مئی ۱۹۸۴ء
دوسرا باب
اضلاع شیخو پورہ` لائلپور )فیصل اباد( اور
جھنگ کی احمدی جماعتوں کے واقعات
فصل اول
ضلع شیخوپورہ
۱۹۵۳ء کے ہنگاموں میں ضلع شیخوپورہ کے احمدیوں کو بھی مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا اس دور کو احمدیوں نے کس طرح گزارا` اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ زیل تفصیل سے ہوسکتا ہے۔
شیخوپورہ شہر
یہ شہر دو ہفتے تک بدامنی اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا رہا۔ احمدیوں کا شدید بائیکاٹ کیا گیا۔ ملک محمد ظریف صاحب کو چھرا گھونپا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو بچالیا۔ دس ہزار افراد نے شیخ گلزار احمد صاحب پٹواری کے مکان کا محاصرہ کیا اور پھر انہیں احمدیت سے توبہ کرنے کے لئے مجبور کیا گیا مگر انہںو نے صاف کہہ دیا کہ میں >تائب< ہونے کی بجائے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا۔ مخالفین کو جب مایوسی ہوئی تو انہیں حیلوں` بہانوں سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں سے وہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو دو ہزار روپے کی ضمانت پر رہا ہوئے۔
قاضی بشیر احمد صاحب معتمد مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کو ارتداد پر مجبور کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ شام تک قتل کر دیئے جائو گے اور تمہارا مکان اور دکان جلا دی جائے گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بدزبانی بھی کی اس پر ان کی والدہ جوش میں آگئیں اور کہا کہ میرے گھر کی اللہ تعالیٰ خود حفاظت کرے گا۔ ہمارا ذرا سا بھی نقصان نہ ہوگا خواہ تم کتنا ہی زور لگا لو۔ نصف گھنٹہ کے بعد شہر کے بعض بدقماش لوگوں نے مکان کو نرغے میں لے لیا اور برہنہ ہو کر ناچنے اور گالیاں دینے لگے۔ اگلے دن بھی ۲۰۰ کے قریب آدمی مکان کے سامنے آکر نعرے لگانے اور کہنے لگے کہ احمدیت سے توبہ کرلو ورنہ آج تمہارا خاتمہ کردیا جائے گا۔ بعض نے مکان کے صدر دروازہ کے بیچ میں کانے اور مٹی کا تیل لا کر رکھ دیا اس پر قاضی بشیر احمد صاحب نے مکان کی پچھلی جانب پہلے اپنی والدہ صاحبہ اور ہمشیرہ صاحبہ کو اتار کر حکیم ظفر الدین احمدی صاحب ولد حکیم عبد الجلیل صاحب بھیروی کے گھر بھیج دیا اور پھر مکان کو تالا لگا کر خود بھی حکیم صاحب کے گھر یہ کہتے ہوئے چل دیئے کہ >اگر میرا گھر مسیحؑ کو سچا ماننے کی خاطر جلایا جا رہا ہے تو بے شک خوشی سے جلائو اور اگر ایک احمدی کی حیثیت سے مجھے یہ دکھ دے رہے ہو تو مجھے یہ دکھ اور تکلیف بادشاہی سے افضل ہیں۔< خدا تعالیٰ نے ان الفاظ سے مخالفین پر ایک رعب اور ہیبت طاری کردی اور وہ کوئی نقصان نہ کرسکے۔
شاہ کوٹ
یہاں ایک احمدی دوست کا مکان لوٹا گیا۔
سٹھیالی
چک نمبر ۱۲۹ گرمولا اور جید چک میں بعض احمدیوں کی فصلیں تباہ کردی گئیں۔
سانگلہ ہل
میں ہر روز جلوس نکلتے اور مظاہرے ہوتے تھے اور احمدیوں کی دکانوں پر پکٹنگ لگائی گئی۔ اور مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔ چک چہور ۱۱۷ کے وہ احمدی جو سانگلہ ہل میں کاروبار کرتے تھے۔ دو تین روز تک شہر نہ جاسکے۔ ۸ مارچ کو جب سانگلہ ہل میں پہلی بار بازار گئے تو جلوس والے >خون کا بدلہ خون سے لیں گے< کے نعرے لگا رہے تھے۔
سانگلہ ہل کے قریبی دیہات میں بھی شورش کے اثرت ظاہر ہوئے مثلاً کوٹ رحمت خان اور موضع کوتلی چک ۱۱۷ میں جلوس نکلے اور گالیاں دی گئیں۔ ان دنوں سانگلہ ہل کے قریب وجوار کے بعض احمدی چہور مغلیاں ۱۱۷ میں آگئے جن کو اس گائوں کے احمدیوں نے اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے ان کے دیہات میں دوبارہ بسایا۔ چک چہور ۱۱۷ پر بھی حملہ کرنے کا مشورہ کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو محفوظ رکھا۔
ہمراجنپور چک نمبر ۴۰ میں احمدیوں کے صرف دو گھر تے جو محصور ہوکر رہ گئے شر پسند عناصر غول کے غول ان کے گھروں کے ارد گرد جمع ہوجاتے اور جو منہ میں آتا بکتے چلے جاتے تھے۔
واربرٹن میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب اسٹیشن ماسٹر واربرٹن کاہزروں روپے کا سامان جو ان کی عمر بھر کا اندوختہ تھا` نہایت بے دردی سے لوٹ لیا گیا۔
منڈی مریدک۔ اس جگہ بھی احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور وہ ئی روز تک اپنے گھروں میں بند رہے البتہ وہ نمازوں میں ایک دوسرے سے ملتے اور صبر و شکر کا عہد کرتے نیز حضور کے روح پرور پیغامات پڑھتے۔ شیخ محمد بشیر صاحب آزاد سابق امیر جماعت منڈی مریدکے نے اہل قصبہ کی فلاح و بہوبد کے لئے بہت سی خدمات انجام دی تھیں اور عوام پر ان کا گہرا اثر تھا۔ مگر انہیں بھی نہ صرف اپنے مکانوں میں محصور ہونے پر مجبور کردیا گیا بلکہ ایک رات اپنے ایک نمائندے کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا گیا ہ لوگ آگ لگانا چاہتے ہیں` وہ احمدیت سے علیحدگی اختیار کرکے >مسلمان< ہوجائیں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ حملہ ہونے کی صورت میں ہم لڑتے ہوئے مارے جائیں گے یہ موقعہ خدا کبھی کبھی دیتا ہے۔ ہمیں تو صرف بھوکا پیاسا رکھا جارہا ہے۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کو ایسی ایسی روح فرسا تکالیف دی گئیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ پھر کیا دوبارہ ایمان لانے تک کی زندگی کا کچھ پتہ ہے؟ مرنا تو ایک دن ہے لہذا بجائے بے ایمان ہوکر مرنے کے` ایمان واری سے کیوں نہ مرا جائے؟ شیخ صاحب اور ان کے اہل خانہ کی یہ رات خاص طور پر دعائیں کرتے اور شہادت کے لئے تیاری میں گزری۔
احمدیوں کا یہ بائیکاٹ مسلسل کئی دن تک جاری رہا۔ بال¶اخر معززین منڈی نے فیصلہ کیا کہ احمدیوں کو سودا کھانے پینے کا دے دیا جائے ورنہ ہم یزیز ثابت ہوں گے۔
گوجر ڈاکخانہ چوہڑکانہ کے احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ گھروں پر سنگباری کی گئی اور احمدیوں سے بات کرنے والے کے لئے پچاس روپے جرمانہ مقرر کردیا گیا۔
سید والا میں بھی احمدیوں کا سخت بائیکاٹ ہوا۔ جو لوگ احمدیوں کی دکانوں سے سودا لیتے ان کا منہ کالا کردیتے۔ احمدیوں کو ختم کرنے کے برملا نعرے لگائے گئے۔ سب احمدی اپنے اپنے گھروں کے کواڑ بند کرکے بیٹھے رہے۔
گرمولا نزد ڈھاباں میں تین چار احمدی رہتے تھے جن میں سے ایک احمدی کو دھمکی دی گئی کہ بیعت چھوڑ دو ورنہ قتل کردیں گے اور لوٹ لیں گے مگر اس احمدی نے جواب دیا کہ مجھے بیشک قتل کر دو میں بیعت نہیں چھوڑ سکتا۔
بہوڑو چک ۱۸ میں سٹھیالی کے احمدیوں کو گالیاں دی گئیں۔
ننکانہ صاحب۔ جلسوں جلوسوں میں انتہائی بدزبانی کا مظاہرہ کیا گیا احمدیوں کو تنگ کرنے کے لئے نئی سے نئی راہیں اختیار کی گئیں ایک دن یہ منادی کرائی گئی کہ >مرزائی استانی نے ہماری لڑکی کو مار مار کر اس کی ہڈیاں توڑ دی ہیں< حالانکہ اس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں تھی لیکن اس کی آڑ میں ایک احمدی استانی کو معطل کردیا گیا اور دوسری احمدی استانیاں گھروں میں محبوس ہوکر رہ گئیں۔ کیونکہ جب وہ باہر جاتیں تو اوباش ان کا پیچھا کرتے اور تالیاں بجاتے تھے۔ مقامی پولیس سب کچھ دیکھتی مگر کاموش تماشائی بنی رہتی۔
رات کے وقت ایک جلسہ عام میں امیر جماعت ننکانہ صاحب محمد شفیع صاحب کی نسبت یہ بہتان تراشی کی گئی کہ ربوہ سے ایک جیب آکر اس کو اسلح دے گئی ہے ابھی تلاشی لی جاوے۔ چنانچہ پولیس نے رات کو احمدیوں کے مکانوں کا گھیرائو کر لیا مگر کچھ برآمد نہ ہوا۔ ننکانہ صاحب ان دنوں افواہوں کا مرکز ہوا تھا۔
ایک دنافواہ پھیلائی گئی کہ جڑانوالہ کے امیر جماعت ڈاکٹر محمد انور صاحب کو چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ واربرٹن کے احمدی اسٹیشن ماسٹر قتل کر دیئے گئے ایک لاکھ کا جتھہ ربوہ کی طرف جارہا ہے ننکانہ کے احمدی ربوہ چلے گئے ہیں۔ جو باقی ہیں وہ تھانہ میں کیمب لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
‏]81 [pآنبہ` بلڑکے اور کرم پورہ میں جہاں جہاں اکے دکے احمدی آباد تھے وہاں وہاں فتنہ نے انتہائی صورت اختیار کرلی مگر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے غیر معمولی نصرت کے سامان کرکے حفاظت فرمائی مثلاً ایک جگہ جب نرغے میں پھنسے ہوئے احمدی نے یہ کہہ دیا کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرلو۔ احمدیت مجھ سے نہیں چھوٹتی۔ تو وہاں فوراً پولیس پہنچ گئی۔ حالانکہ یہ جگہ تھانہ سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ہوگی۔ دوسری جگہ جب اشرار برے ارادے سے نکل ائے تو کچھ غیر احمدی شرفاء مسلح ہوکر حفاظت کے لئے پہنچ گئے اور تمام رات اس احمدی کے گھر کا پہرہ دیا۔
سریانوالہ
جناب فضل دین صاحب اس گائوں میں اکیلے احمدی تھے۔ ۷ مارچ کو ۱۲ بجے دوپہر ایک مشتعل ہجوم نے ان کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ اور قتل و غارت کی دھمکیںا دے کر احمدیت سے منحرف کرنا چاہا۔ مگر انہوں نے بڑی جر¶ات مندی سے کہا قتل کرنا چاہتے ہو تو قتل کر لو گھر لوٹنا چاہتے ہو تو لوٹ لو` میں احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر ایک غیر احمدی معزز دوست نے بلوائیوں کو لعن طعن کی اور کہا کہ اس اکیلے احمدی پر دبائو ڈال رہے ہو پہلے قرب و جوار کے احمدیوں کو برگشتہ کر لو پھر اس کو بھی اہلسنت کرلینا۔ اس دوران میں سورج غروب ہوگیا اور گائوں والوں نے ان کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کرکے اعلان کردیا کہ ہم صبحہ کو اس کا خاتمہ کردیں گے یہ کہہ کر شریر چلے گئے اور فضل دین صاحب ساری رات دعائوں میں مصروف رہے صبح ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ گائوں سے نکل جائو۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنا مکان چوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا جس طرح مرضی ہوکرو۔ اسی اثناء میں واربرٹن سے دو سپاہی پہنچ گئے اور انہوں نے اعلان کروا دیا کہ کوئی شخص اس احمدی کو تکلیف نہ دے اس طرح خدا نے اپنے اس مظلوم بندے کی حفاظت کا خود سامان کردیا۔
چک چوہڑ شاہ تحصیل ننکانہ میں احمدیوں کا محاصرہ کیا گیا۔
بھینی شرق پور کے احمدیوں کے خلاف مخالفین نے شرق پور میں سخت اشتعال پھیلانے کی کوشش کی۔ ڈھامکے میں مکرم چوہدری عطاء ربی صاحب احمدی کو لوٹنے کے لئے منصوبہ بنایا گیا۔ مگر موضع ملک پور کے معزز غیر احمدی نمبردار چوہدری شاہ محمد صاحب ان کو اپنے گائوں میں لے گئے۔ ترڈے والی میں سید اصغر حسین صاحب کو ان کے غیر احمدی بھائی نے پناہ دی۔ سکنہ مہلن وال میں شیخ محمد انور صاحب کے گھر پر حملہ کیا گیا مگر ان کے غیر احمدی بھانجے نے بیچ میں ہوکر اس حملہ کو ناکام بنا دیا۔ نانوں ڈگر ٹھٹھہ تاجریاں اور شاہ مسکین میں بھی حملہ کی سکیمیں بنائی گئیں۔ مگر بحمد اللہ خیریت رہی۔ بلکہ عین شورش کے ایام میں نانو ڈوگر میں دو سعید روحیں داخل احمدیت ہوئیں۔
سید والہ
میاں عبد السلام صاحب احمدی زرگر حال جرمنی کا بیان ہے۔
۱۹۵۳ء کی شورش کے ایام میں خاکسار سید والہ ضلع شیخو پورہ میں مقیم تھا۔ اور خدام الاحمدیہ سید والہ کا قائد مجلس تھا۔ شروع شروع میں جب ہمارے خلاف تحریک شروع ہوئی تو دیواروں پر پوسٹروں کے ذریعے ہمارے خلاف مطالبات لکھے گئے۔ >مرزائیت کو اقلیت قرار دو<۔ ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے ہٹائو<۔ کلیدی آسامیوں سے ان کو ہٹائو وغیرہ وغیرہ۔
اس کے ساتھ ہی منبروں پر ہمارے خلاف وعظوں کے ذریعہ بھڑکانا شروع کیا گیا۔ تقریباً روزانہ ہی ہمارے خلاف زہر اگلتے اور منافرت پھیلاتے رہے۔ مخالفین میں ایک نوجوان خلیل احمد بی اے بی ٹی بھی تھے جو خوب لوگوں کو بھڑکاتے اور کہتے کہ یہ ہاتھ ناموس ختم نبوت کے لئے لوہے کے کڑے پہنیں گے` یہ عورتوں کی طرح چوڑیاں پہننے والے نہیں۔ ان ختم نبوت کے منکروں کو پاکستان سے ختم کرکے رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر سامعین خوب نعرے لگاتے اور جوش و خروش بڑھتا گیا آخرکار ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا گیا اور پانی بند` سودا سلف بند۔ بونا بند تھا مگر کئی ایسے معزز اور شریف غیر احمدی دوست بھی تھے جو خفیہ طور پر ہمیں سودا سلف گھر پہنچا جاتے تھے۔ بائیکاٹ اور منافرت روز بروز زور پکڑتی گئی اور >مرزائیوں< کے مال کو لوٹنا اور مارنا کار ثواب قرار دیا گیا تو ان حالات کو دیکھ کر خاکسار اور خاکسار کا بھائی غلام اللہ اسلام مرحوم دونوں نے ربوہ آکر اپنی نقدی خزانہ صدر نجمن احمدیہ میں جمع کرا دی اور لوگوں کا جو زیور سونے چاند کا بنا ہوا تھا اور سونا بھی ربوہ میں عزیزم ضیاء الدین احمد صاحب ولد میاں روشن الدین صاحب کی پیٹی میں رکھ دیا اور خود دونوں بھائی اسی دن واپس سید والہ کے لئے چل پڑے۔ صبح پہلی بس پر ہم سید والہ پہنچ گئے۔ اور ساتھ ہی مشہور ہوگیا کہ عبد السلام اور غلام اللہ ٹیکسی پر ربوہ سے اسلحہ لے آئے ہیں۔ اور ہمارے سید والہ پہنچنے کے دو دن بعد متعصب لوگوں اور ہماری برادی نے یہ بات پھیلا دی کہ جس طرح ہندوئوں کو ملٹری یہاں سے لے گئی تھی اسی طرح ان مرزائیوں کو یہاں سے لے جائے گی۔ اور جو کچھ تم نے ان سے لینا ہے فوری طور پر وصول کرلو۔ اسی طرح لوگ باہر سے بھی اور شہر کے اندر سے بھی جن لوگوں نے ہمیں زیورات دیئے ہوئے تھے مانگنے شروع کردیئے۔ اس پر ہم نے اپنے والد میاں غلام محمد صاحب مقامی پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کو ربوہ روانہ کیا کہ آپ وہاں جاکر زیورات اور چند ہزار روپے جو ہم نے دیئے تھے لے آئیں۔ والد صاحب ربوہ پہنچے اور رات ربوہ گزاری اور صبح مال نکلوا کر واپس سید والہ جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ جب جڑانوالہ پہنچے سارا شہر بند تھا۔ لائیلپور بھی ہڑتال تھی۔ اور جلوس نکل رہے تھے۔ اور ہمارے اور حکومت پاکستان کے خلاف نعرے بازی ہو رہی تھی جو جلوس جڑانوالہ پھر رہا تھا اس کی راہنمائی ایک احراری غلام رسول صاحب کر رہے تھے۔ والد صاحب نے منہ پر اپنی پگڑی سے ٹھاٹھہ باندھ لیا اور ہاتھ میں بیگ تھا۔ مال اور رقم نقد واسکٹ میں تھی اور اڈا پر ایک ٹیکسی میں آکر بیٹھ گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور باگ علی نامی تھا۔ جس نے جلوس کو جاکر بتلا دیا کہ میری ٹیکسی میں >مرزائی< بیٹھا ہے۔ تب سارا جلوس ادہ کی طرف امڈ آیا۔ جب جلوس ٹیکسی کے پاس پہنچا تو پہلی نظر غلام رسول صاحب کی والد صاحب پر پڑی۔ خدا تعالیٰ ے اس کے دل کو بدل دیا اور اس نے والد صاحب کو دیکھتے ہی کہا کہ واہ میاں صاحب آپ اس آگ میں کیوں آگئے؟ پھر جلوس سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ چھوڑو یار یہ تو میرا چچا ہے` مرزائی نہیں۔ اس طرح جلوس کو لے گیا۔ اور جلوس کو دوسرے بازار روانہ کرکے والد صاحب کو ساتھ لیا اور ریلوے کی پل سے گزار کر پیدل راستے سے سید والہ کی سڑک پر روانہ کیا اور اس طرح خدا تعالیٰ نے والد صاحب کو اس کے ذریعہ بال بال بچا لیا۔ جو لوگ زویر لینے کے لئے خود ہمارے گھر آئے تھے ہم نے ان کا مال واپس دینا شروع کردیا۔ بازار بند ہوتا اور شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ بائیکاٹ مکمل تھا اور باہر سے جو لوگ ہمیں لوٹنے کے لئے جتھوں کی صورت میں آت۔ وہ باہر سے ہی لوٹ جاتے ہم لوگ تو کرفیو کی وجہ اور سخت مخالفت کی وجہ سے گھر میں رہتے تھے مگر مخالفوں نے خود ہی یہ افواہ پھیلا دی کہ عبد السلام محاذ کشمیر میں فوجی ٹریننگ لے کر آیا ہے اور قادیان میں بھی دو تین ماہ ٹریننگ لے کر آیا تھا۔ اس لئے نہ سمجھو کہ یہ اندر ڈر کے مارے خاموش بیٹھے ہیں۔ وہ تو اندر بم بنا رہے ہیں۔ تم ان کے گھر حملہ کرنے یا لوٹنے کی کوشش نہ کرنا۔ ورنہ وہ تمہارے سارے جتھہ کو تباہ کردے گا۔ اس طرح دشمن میں خوف وہ ہراس پھیل گیا۔ اور خدا تعالیٰ نے ان کے حملوں سے ہمیں محفوط رکھا۔ فالحمدلل¶ہ۔ پھر خدا تعالیٰ کا فضل یہ بھی ہوا کہ ہمارے خدام اور انصار بہت ہی مستعد ہوگئے۔ اور جو کہنے اور سمجھانے پر بھی بیت الذکر میں نہ جاتے تھے وہ اتنے مستعد ہوئے کہ جب حضور کی طرف سے سرکلر چٹھیاں آتیں تو اشارہ کرتے ہی سب افراد جماعت منٹوں میں بیت الذکر میں نماز کے وقت آجاتے۔ اور بہت گریہ و زاری سے دعائیں کرتے۔ بائیکاٹ اور نعرے بازی اور کرفیو بدستور تھا۔ کہ اچانک خبر سنی کہ مارشل لاء ملک میں لگ گیا ہے۔ حالات پر سکون ہوئے تو جو لوگ ہمارے مارنے اور لوٹنے کے درپے تھے وہ پہلے تو کچھ دنوں تک ہمارے ساتھ ندامت کے مارے منہ نیچے کرکے ہماری دکانوں سے گزر جاتے مگر پھر آہستہ آہستہ بولنا اور سلام دعا شروع کردی۔ خدا کی شان! خلیل احمد صاحب بی اے۔ بی تی گریجوایٹ جو لوگوں کو بھڑکاتے تے قیام امن کے بعد ربوہ پہنچے اور ربوہ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے چوتھی صف میں بیٹھے تھے کہ اچانک ان پر میری نظر پڑگئی۔ میں نے ان کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہا۔ نماز جمعہ کے بعد میں ان کے پاس گیا اور وہ میرے گلے لگ گئے اور معانقہ کیا۔ میں نے کہا کہ آپ کو کدھر! کہنے لگے کہ میں نے حق پالیا ہے۔ احمدیت سچی ہے۔ میں نے اپنے دل سے عہد کیا تھا کہ اگر احمدی اس حملہ سے بچ گئے تو میں ایمان لے آئوں گا۔ لہذا میں آج سے احمدی ہوں۔ اور بیعت کرنا آیا ہوں۔ چنانچہ وہ بیعت کرکے گئے۔ اور پھر اپنے والدین کو تبلیغ کی۔ اور وہ بھی احمدی ہوگئے۔ اس کے بھائی بھی۔ یعنی وہ چار پانچ افراد گھر کے احمدی ہوگئے۔ اس طرح ان کی تبلیغ سے اور بھی کئی سعید روحیں داخل جماعت احمدیہ ہوگئیں~ف۱~
فصل دوم
ضلع لائلپور )فیصل آباد(
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:۔
>جنوری ۱۹۵۳ء تک اس ضلع میں بھی احراری احمدی نزاع کی کیفیت دوسرے اضلاع ہی کی مانند تھی۔ یکم دسمبر کو یوم میلاد النبی کے موقعہ پر احراریوں نے ایسے جھنڈے بلند کئے جن پر یہ دو مطالبات لکھے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرر دیا جائے اور چوہدری ظفر اللہ کان کابینہ سے برطرف کئے جائیں۔ اس کے بعد یہ معمول ہوگیا کہ قبل نماز اور بعد نماز کی تقریروں میں یہی مطالبات دہرائے جانے لگے۔ تقریریں نہ صرف احمدیوں ے بلکہ حکومت کے بھی خلاف تھیں۔۔۔۔ اس دوران میں رضا کار برابر بھرتی کئے جات رہے جو قران پر حلف اٹھاتے اور اپنے خون سے ڈائریکٹ ایکسن کے عہدنامے پر دستخط کرتے تھے۔۔۔۔۔ اس تحریک کو بہت سے مسلم لیگیوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔ حقیقت میں لیگ کے بہت سے کونسلر جماعت احرار سے تعلق رکھتے تھے اور اس تحریک کی حمایت میں عوام پر اثر ڈال رہے تھے۔۔۔۔۔ یہ خبر موصول ہوئی کہ لاہور میں مارشل لاء اعلان کردیا گیا ہے۔ شام کو چیف منسٹر کا یہ اعلان پہنچا کہ حکومت پنجاب نے شورش پسندوں کے مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے۔ ان کو حکومت پنجاب کی رائے کے ساتھ مرکز میں بھیج دیا ہے۔ اور صوبے کا ایک وزیر ان مطالبات کو کابینہ کے سامنے بوجہ احسن پیش کرنے کی غرض سے کراچی جارہا ہے۔
شورش پسندوں نے اس اعلان سے یہ سمجھ لیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی مہم تیز کردی اور اس کے بعد مسلم لیگی ایم۔ ایل۔ اے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کرنے لگے۔۔۔۔ اس دوران میں کسی احمدی کے جان و مال کو نقصان نہیں پہنچا۔ نہ شہر میں نہ صنعتی رقبے میں کسی جائیداد کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ پرائیویٹ طور پر گولی چلانے کے صرف دو واقعات ہوئے۔ دونوں میں اہمدیوں نے غلط فہمی کے ماتحت گولی چلا دی تھی۔ اور دونوں موقعوں پر بعض بچے زخمی ہوئے~<ف۲~
عدالتی بیان صدر انجمن احمدیہ میں ہے کہ:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء میں اس خوف سے کہ راست اقدام کے نتیجہ میں سخت شورش برپا کی جائے گی مقامی احمدیوں کا ایک وفد راجہ جہاں داد خان صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں حاضر ہوا اور ا سغرض سے صحیح حالات ان سے بیان کئے ¶کہ احمدیوں کو پناہ دی جائے اور ان کی حفاظت کی جائے۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے وفد کی شکایات کی طرف مطلقاً توجہ نہ دی۔ وفد مایوس لوٹا۔ ۲۲ فروری کو راست اقدام کا نفاذ کیا جانا تھا۔ اس تاریخ کے بعد احمدیوں کی دکانوں اور مکانوں کی فہرستیں پولیس نے طلب کیں` جو مہیا کی گئیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان فہرستوں کا استعمال شورش پسندوں نے احمدیوں کی دوکانوں کا سراغ لگانے کے لئے کیا۔ جامع بیت الذکر لائلپور شورش پسندوں کا مرکز تھی جہاں احمدیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے خفیہ منصوبے تیار کئے جاتے تھے۔ سہر میں جلوس چکر لگاتے پھرتے تھے اور >مرزائی کتا ہائے ہائے< کے نعرے لگاتے پھرتے تھے۔ مسٹر ابن حسن صاحب ڈپٹی کمشنر کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی کہ شورش پسندوں کرفیو اور دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور مسجد میں اپنے پروگران ترتیب دیتے ہوئے جلسہ کے انتظام کررہے ہیں۔ اس پر انہیں ان شورش پسندوں کو جو مسجد میں جمع تھے منتشر کرنے کے لئے قانونی اقدامات کرنے پڑے۔ ایک احمدی ایڈووکیٹ مسٹر محمود احمدی کے سامنے راجہ جہاں داد پسرنٹندنٹ پولیس نے یہ تجویز پیش کی کہ احمدیوں کے لئے شہر سے باہر ایک رفیوجی کیمپ کھول دیا جائے اور یقین دلایا کہ۔۔۔۔۔ احمدی وہاں محفوظ رہیں گے۔ لیکن یہ تجویز احمدیوں نے منظور نہ کی اور اپنے مکانوں کو نہ چھوڑا۔
شہر میں مکمل لاقانونیت تھی جبکہ شورش پسند ہزاروں کی تعدد میں جلوس کی شکل میں گھومتے پھرتے تھے۔ سرکاری عمارتوں پر خشت باری کرتے تھے۔ اور احمدیوں کی دکانیں اور مکان لوٹتے تھے۔ ایک بہت بڑا ور تند ہجوم سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہار پہنا کر جیل کی طرف لے گیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب اس کے ساتھ جانے پر مجبور ہوگئے۔ پولیس کہیں دکھائی نہ دیتی تھی اور اگر احمدی اس کے پاس پہنچ بھی جاتے تھے تو وہ احمدیوں کی مدد کرنے سے انکار کردیتی تھی۔
کرفیو کے اوقات کے دوران میں غلام محمد احمدی کا مکان لوٹا گیا اور اسے زبردستی مسجد میں لے جایا گیا جہاں اسے مجبور کیا گیا کہ وہ احمدیت سے >ارتداد< اختیار کرے۔<
لائلپور )فیصل آباد( شہر کے واقعات
۱۔ میاں فضل دین صاحب دکاندار )گلی نمبر ۳ کارخانہ بازار( کا بیان ہے:۔
>۴ مارچ کو قریباً ۲` ۳ صد کا جتھہ میرے مکان پر حملہ کے لئے پہنچا۔ دیوڑھی کا دروازہ بلوائیوں نے توڑ دیا اور مکان کے اندر گھس گئے اور جو کچھ گھر میں تھا لوٹ کر لے گئے۔ میں مع مستورات چھت پر چلا گیا اور سیڑھیوں کا دروازہ بند کرلیا۔ تقریباً نصف گھنٹہ کی لوٹ کے بعد جتھہ واپس چلا گیا۔ پولیس میں رپورٹ کی گئی مگر کوئی آدمی پولیس کی طرف سے موقعہ دیکھنے کے لئے بھی نہ پہنچا۔<
مزید فرماتے ہیں:۔
>موجودہ فسادات کے دنوں میں ۷ مارچ کو میں باہر گیا ہوا تھا چار بجے شام جلوس ہمارے مکان پر آیا۔ چند افراد نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میری والدہ گھر تھیں۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔ چار پانچ افراد مکان کے اندر داخل ہوگئے اور میری بندوق` کیمرہ` ٹارچ کپڑے وغیرہ اٹھا کر لے گئے پولیس میں رپورٹ کی گئی۔ پولیس نے تفتیش کی تو بندوق ایک شخص محبوب نامی برادر ملک چیف گلاس ہائوس کے پاس سے نکلی۔ بندوق ابھی تک پولیس کے قبضہ میں ہے۔ محبوب مذکور جماعت اسلامی کا ممبر ہے۔<
۲۔ والدہ صاحبہ ٹھیکیدار فتح دین~ف۳~ صاحب نے بیان دیا کہ:۔
>مئورخہ ۷ مارچ کو میں اور میرا لڑکا جس کی عمر ۲۷ سال کی تھی گھر میں تھے حملہ آوروں نے )جن کی تعداد ۵۰۰ کے قریب تھی( حملہ کیا یہ وقت تین بجے شام کا تھا۔ میرے گھر میں ایک شارٹ کن کمرہ میں سامنے لٹک رہی تھی۔ حملہ آوروں نے اٹھا لی اور کہا کہ تم لوگ یہاں سے نکل جائو ورنہ مار دیا جائے گا۔ کارکانہ بازار میں )ہمارے نزدیک( ایک احمدی چوہدری فضل الدین کا گھر تھا۔ ہم اس مکان میں اکٹھے ہوگئے میرے گھر کا سب سامان لوٹ لیا گیا۔ میرے لڑکے نے تھانہ میں فون کیا تو دو سپاہی آئے جبکہ سامان لوٹا جا چکا تھا۔ کچھ آدمی وہاں تھے۔ پولیس نے ان کو کچھ نہیں کہا۔ مجھے یہ کہا کہ جائو اپنے گھر میں۔ کوئی فکر نہ کرو۔
حملہ آور مجھے کہتے تھے کہ ہم تمہیں مار دیں گے اور جب تیرے لڑکے تجھے اٹھانے آئیں گے تو ان کو بھی مار دیں گے۔ تب میں نے وہاں سے آجانا ہی مناسب سمجھا۔ پولیس نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔<
‏tav.14.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
۳۔ عبد الحمید صاحب منی ولد کریم بخش صاحب ساکن گلی نمبر ۵ محلہ پرتاپ نگر لائل پور لکھتے ہیں کہ:۔
>میں نے عرصہ تین سال سے پرانی غلہ منڈی میں سائیں محمد بشیر احمد کمیسن ایجنٹ کی دکان پر بطور مینم کام کرتا تھا۔ مارچ ۱۹۵۳ء میں احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی مہم جاری ہوئی۔ احراری لیڈر میر غلام نبی۔ حکیم غلام محمد۔ چوہدری عبد الحمید آرھتیاں نے سائیں محمد بشیر احمد کو مجبور کیا کہ مجھے ملازمت سے >مرزائی< ہونے کی وجہ سے علیحدہ کردے۔ سو ۴ مارچ کو مجھے علیحدہ کر دیا اور اس وت سے بیکار ہوں۔ مجھے اب تک ملازم نہیں ہونے دیتے۔<
۴۔ چوہدری غلام جیلانی صاحب نے )جو ان ایام میں گلی نمبر ۲ محلہ سنت پورہ لائل پور میں قیام پذیر تھے~(ف۴~ تحریر فرمایا:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء کے پہلے ہفتہ میں دوبارہ منظم طور پر غنڈہ گردی شروع کی گئی۔ یکم مارچ ۱۹۵۳ء کو قریباً پانچ صد افراد کا ہجوم میرے مکان پر حملہ آور ہوا۔ انہوں نے اینٹیں برسائیں اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونا چاہا مگر کوٹھے سے میرے رائفل دکھانے پر وہ باز رہے پولیس کو اطلاع دی گئی مگر چوہدری سردار علی اے ایس آئی انچارج چوکی جھنگ بازار نے صاف جواب دیا کہ میں آپ کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ آپ ربوہ چلے جائیں۔ ہر روز کئی کئی دفعہ جلوس آئے اور مکان کے آگے نعرے لگاتے اور گالیاں نکالتے مگر ہم اپنے مکان کے کواڑ بند کرکے ہفتہ بھر مقیدر ہے۔ ہمارا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ اس لئے کھانے پینے کی اشیاء بھی میسر نہیں آتی تھیں۔ میری لڑکی شمیم شوکت جو کہ سٹی مسلم گرلز ہائی سکول میں پڑھتی ہے۔ اس کو دینیات کی استانی نے محض احمدی ہونے کی وجہ سے پیٹا اور دوسری لڑکیوں کو بھی احمدی لڑکیوں کو پیٹنے کی تلقین کی۔ ۲۰ اپریل ۱۹۵۳ء کو پولیس نے میرے مکان کی بلا وجہ تلاسی لی لیکن کوئی چیز قابل مواخذہ قبضہ میں نے لے سکی۔ الخ<
۵۔ میاں محمد اسماعیل صاحب اپنے تحریری بیان میں ۲۱ جولائی ۱۹۵۲ء کو فسادیوں کے حملہ اور غارت گری کا واقعہ بتانے کے بعد لکھتے ہیں:۔
>جب احرار نے ۱۹۵۳ء میں نئے سرے سے منظم ہوکر احمدیت کے خلاف تحریک جاری کی اور ۲۸ فروری سے جلسے جلوس شروع ہوگئے۔ تب ۶ مارچ کی شام کو میرے مکان محلہ لکڑ مندی لائلپور پر ہزاروں احراریوں نے حملہ کردیا۔ ہم اس وقت مکان میں ۶ مرد اور ۴ عورتیں تھیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔ محمد اسماعیل ۲۔ بشیر احمد ۳۔ ضمیر احمد ۴۔ شریف احمد ۵۔ صدیق احمد ۶۔ مبارک احمد )پسران خود( ۷۔ رحمت بی بی اہلیہ خود ۸ بشیراں بیگ اہلیہ بشیر احمد ۹۔ صفیہ بیگم بنت خود ۱۰۔ بشیر فاخرہ بنت بشیر احمد
سات بجے شام سے ۹ بجے رات تک ہمارا بلوائیوں سے مقابلہ ہوتا رہا۔۔۔۔۔ )مگر جب ہماری اینتیں ختم ہونے کو تھیں عین اس وقت( ۹ بجے رات کے پولیس آگئی اور اس نے آکر ہجوم کو منتشر کردیا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر طرح محفوظ رکھا<
۶۔ جناب فصل عمر صاحب ولد عبد اللہ صاحب کا بیان ہے:۔
>میں ماہ مارچ میں حشمت اللہ ڈپو ہولڈر کے پاس اس کے ڈپو واقعہ گٹوشالہ میں ملازم تھا۔ مورخہ ۸ مارچ قریب ساڑے سات بجے صبح میں نے ڈپو کی طرف پانچ صد آدمیوں کا جلوس آتے دیکھا۔ جلوس کو میں نے دیکھ کر ڈپو کی دکان کو تالا لگا دیا۔ اور پڑوس میں غیر احمدیوں کے پاس پناہ لی۔ نعمت خاں نے میری مدد کے لئے مجھے ایک کمرہ میں بند کرکے اسے تالا لگا دیا۔ جتھہ ڈپو میں میری تلاش میں پہنچا تو اس کو کسی نے بتا دیا کہ میں کمرہ میں بند ہوں۔ بلوائیوں نے تالا کو توڑ دیا اور مجھے گھسیٹ کر باہر نکالا اور زد و کوب کرنا شروع کردیا۔ مگر عین اس وقت ملٹری کا ٹرک اس طرف آگیا جس کو دیکھ کر وہ بھاگ گئے۔<
۷۔ مولوی فضل الدین صاحب بنگوی~ف۵~ دکاندار کارخانہ بازار شہر لائلپور ایک حلفیہ بیان میں لکھتے ہیں:۔
‏iq] g>[ta۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو مخالفین احمدیت احرار وغیرہ نے جلوس نکالا جس میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف نہایت ہی فحش گالیاں اور نعرے لگا رہے تھے اور سہر لائل پور میں ہڑتا کروا دی گئی تھی۔
اس جلوس نے کارخانہ بازار میں احقر فضل الدین بنگوی نمک فروش کی دکان کو فحش نعرے لگاتے ہوئے دن دہاڑے لوٹ لیا۔ اور ۱۹۵۱ء کی طرح نمک کا ڈھیر جو کہ ۳۰` ۴۰ من کے قریب تھا اور دکان کا سب سامان ترازو اور بٹے اور بوریاں اور ٹاٹ سب اٹھا کر لے گئے اور بوجہ ہڑتال کے میں دکان پر نہیں آیا۔ بلکہ اپنے گھر پر ہی رہا تھا تاکہ جلوس والوں کو فتنہ فساد کا موقعہ نہ ملے مگر باوجود اس کے پھر بھی شر پسند دکان سے سب مال اور سامان وغیرہ کو لوٹ کر لے گئے۔
پھر اس کارخانہ بازار سے گزر کر جلوس ریلوے اسٹیشن لائلپور کی طرف روانہ ہوا اور ان کے راستہ میں احقر کا مکان تھا جس پر انہوں نے خشت باری کی۔ اس دوران میں ہمارے ہمسایہ مکرمی محمد الدین صاحب بٹ نے بندہ کو اور میرے بال بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دے کر ہماری پوری پوری حفاظت کی اور جلوس میں اپنے واقف کاروں کو جو شامل تھے *** ملامت کرکے پیچھے ہٹا دیا۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرہ۔
پھر یہ جلوس آگے ریلوے لائن پر جاکر اسٹیشن کے قریب نہایت ہی اشتعال انگیز نعرے لگانے لگا جس پر پولیس نے ان کو منتشر ہونے کو کہا مگر جلوس منتشر نہ ہوا۔ جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کی۔ پھر بھی جلوس منتشر نہ ہوا۔ آخر شام چار بجے کے قریب پولیس نے گولی چلائی۔
۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو باوجود کرفیو کے شرپسندوں نے شام کو جلوس نکالا۔ افسران نے ان کو روکا مگر وہ باز نہ آئے جس پر چنیوٹ بازار میں گولی چلا کر ان کو منتشر کیا گیا۔~<ف۶~
۷۔ مولانا محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی~ف۷~ مربی ضلع لائلپور کی ذاتی دائری میں لکھا ہے:۔
۴ مارچ ۱۹۵۳ء
درس دیا۔ آج دن بھر ہڑتال رہی جس کے متعلق رات مفسدین نے اعلان کرایا دن بھر غنڈوں اور ہلڑ بازوں کے ہجوم گندے اور مشتعل نعرے لگاتے ہوئے گھومتے رہے۔
۵ مارچ ۱۹۵۳ء
درس دیا۔ شہر کی حالت آج بھی خراب رہی۔ گو ہڑتال نہیں تھی لیکن لوگوں میں اشتعال شدید پایا جاتا تھا۔ جگہ جگہ لوگوں کی ٹولیاں فسادات کے متعلق باتیں کرتی پائی گئیں کہ احمدیوں کی لوٹ لینا مار دینا بالکل جائز ہے
۶ مارچ ۱۹۵۳ء
آج احمدی احباب کو مشورہ دیا گیا کہ چونکہ فسادیوں کے ارادے بہت گندے اور امن شکن ہیں اس لئے احمدی احباب اپنے اپنے گھروں کی حفاظت کریں۔ اور نماز جمعہ بھی گھر پر ہی ادا کریں۔ بیت الذکر~ف۸~ میں صرف چند آدمی جمعہ کے لئے آئے۔ باقی اپنے گھروں کی حفاظت کرتے رہے۔ عصر کی نماز کے بعد قریباً چار ہزار آدمیوں کا ہجوم ہماری بیت الذکر پر حملہ آور ہوا۔ ۲۵ منٹ تک انہوں نے ہماری بیت الذکر کو گھیرے رکھا۔ خشت باری کی۔ آگ لگانے کے مشورے کئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے۔ حملہ کے وقت خاکسار کے ہمراہ علی محمد خادم بیت الذکر` بھائی غلام محمد جلد ساز۔ مستری محمد صدیق اور شیخ عبد المجید بیت الذکر میں تھے۔
۷ مارچ ۱۹۵۳ء
آج ربوہ کی طرف سے آنے والی چناب ایکسپریس کو فسادیوں کے ہجوم نے طارق آباد کے قریب روک لیا۔ شور کوٹ کی طرف سے آنے والی گاڑی کو بھی سگنل سے باہر روک لیا گیا۔ جب ہجوم کوٹ مار` ریل کی پٹریوں کو جلانے اور اکھاڑنے میں مصروف ہوگیا تو پولیس کو مجبور ہوکر گولی چلانا پری جس کے بعد شہری کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ اور خطرہ بڑھ گیا۔ چھ بجے شام سے کرفیو لگا دیا گیا لیکن لوگوں نے کرفیو کا مذاق اڑایا۔
۸ مارچ ۱۹۵۳ء
کل فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں پر جو گولی پولیس کو تنگ آکر چلانی پڑی اور اس میں جو تین آدمی ہلاک ہوئے وہ چونکہ احراریوں کے عظیم الشان >شہداء< تھے اس لئے بہت بڑے جلوس کے ہمراہ ان کا جنازہ اٹھایا گیا اور خوب مظاہرہ کیا گیا تاکہ فضا زیادہ سے زیادہ خراب ہو اور ملک کا امن بالکل برباد ہوجائے۔
آج شام جب کرفیو لگایا تو ساتھ اعلان کردیا گیا کہ اگر کسی نے قانون کی ہتک کی تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ فسادیوں کے ایک ہجوم نے کرفیو توڑا جس پر ملٹری کو گولی چلانا پڑی۔
۹ مارچ ۱۹۵۳ء
کرفیو آرڈر ۳ بجے بعد دوپہر تک لگایا گیا تھا لیکن سمندری روڈ پر فسادیوں کے اجتماع اور ملٹری فائرنگ کی وجہ سے کرفیو کل صبح پانچ بجے تک بڑھا دیا گیا۔
۱۰ مارچ ۱۹۵۳ء
لائلپور کے دی سی کے تدبر اور نیک نیتی سے قیام امن کی کوششوں سے احرار کا فتنہ دب گیا۔ کرفیو آرڈر نے فسادیوں کے حوصلے توڑ دیئے۔
مضافات لائلپور کے واقعات
تحقیقاتی عدالت )فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء( کی رپورٹ میں ضلع لائلپور کے متعلق لکھا ہے:۔
>ضلع کے جن دوسرے قصبوں پر شورش کا اثر ہوا وہ یہ تھے` چک جھمرہ` جڑانوالہ` ڈچکوٹ سمندی` تاندلیانوالہ` گوجرہ` ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کمالیہ وغیرہ۔ لیکن ان مقامات پر قوت کے استعمال کی ہرگز ضرورت نہیں پری اور احمدیوں کے جان و مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔~<ف۹~
لیکن عدالتی بیان صدر انجمن احمدیہ میں لکھا ہے کہ:۔
>لائلپور کے مضافات اور دوسرے چکوں میں احمدیوں پر آلات قتل سے حملے کئے جاتے تھے جس کے نتیجہ میں بارہ احمدیوں کو شدید ضربات پہنچیں اور بہت سے احمدیوں کا پولیس نے خلاف قانون چالان کیا۔<
ضلع لائلپور کے متعلق رپورٹ اور عدالتی بیان دونوں میں بہت ہی اختصار سے کام لیا گیا ہے حالانکہ شہر لائلپور کی طرح ضلع لائلپور کے قصبات و دیہات میں بھی احمدیوں کے خلاف انتہائی دلازار ہنگامے کھڑے کئے گئے جیسا کہ مندرجہ زیل بیانات سے عیاں ہوگا:۔
چک جھمرہ
۱۔ بیان جناب محمد یوسف صاحب بی اے بی ٹی:۔
میں ڈی۔ بی ہائی سکول چک جھمرہ کا سیکنڈ ماسٹر ہوں اس قصبہ میں تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں مقامی مجلس احرار نے نہایت اشتعال انگیزی سے کام لیا۔ کوئی مہینہ بھر سے احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ تھا۔ نہ انہیں بازار سے سودا ملتا تھا نہ وہ کسی جگہ آزادانہ آجاسکتے تھے۔ دن بھر جلوس نکلتے جن میں جماعت احمدیہ کے بزرگوں کو فحش ترین گالیاں دی جاتیں اور احمدی گھروں کے سامے ان کی بہو بیٹیوں کے نام لے لے کر گندے نعرے لگائے جاتے۔ مئورخہ ۷ مارچ بروز ہفتہ یہ اشتعال انگیزی انتہا تک پہنچ گئی۔ تقریباً ساڑھے چار بجے بعد دوپہر اچانک شہر میں ہلڑ مچ گیا۔ لوگ ادھر سے ادھر دوڑنے بھاگنے لگے۔ شور میں صاف آوازیں آرہی تھیں کہ >مجلس عمل< نے فیصلہ دے دیا ہے کہ مرزائیوں کو لوٹ لو۔ مار دو۔ ان کے مکان جلا دو۔
میرے مکان کے سامنے ایک مخالف رہتے ہیں۔ یہ مشتعل ہجوم کو اور زیادہ اشتعال دلانے کے لئے میرے مکان کی طرف اشارہ کرکے پکارنے لگے۔ >اے مسلمانو! تم ان مجاہدوں کی اولاد ہو جو فولادی قلعے توڑ دیتے تھے۔ کیا تم سے یہ معمولی کھڑکیاں دروازے نہیں ٹوٹتے۔<
ہجوم میں کچھ اس قدر جوش و خروش تھا کہ بس یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک لمحہ میں ہی یہ لوگ دروازے توڑ کر اوپر آنا چاہتے ہیں اور ہم سب کو تہ تیغ کر ڈالیں گے۔ میرے بیوی بچے بے اختیار ہوکر چیخ پکار کرنے لگے۔ اس مکان کی نچلی منزل میں ایک مہاجر کنبہ رہتا ہے۔ یہ گریہ و زاری دیکھ کر ان کی ایک عورت نے میری بیوی سے اصرار کیا کہ ہم سب سے نیچے چلیں تاکہ وہ ہمیں اپنے مکان کی پچلھی کوٹھڑی میں مقفل کردے اس طرح شاید بچائو کی کوئی صورت پیدا ہوجائے مگر سامنے کی ایک اور ہمسائی نے اسے دیکھ لیا اور وہ پکاری کہ تو انہیں کب تک چھپائے گی۔ لوگ تو ابھی پہنچ رہے ہیں۔ چنانچہ ہم نے نیچے جانے سے انکار کردیا۔ اس اثناء میں شام کا دھندلکا ہوگیا اور ہم ایک ایک کرکے مکان کھلا چھوڑ کر نکل گئے اور ای لمبے راستے سے کھیتوں میں سے ہوتے ہوتے موضع بھگوان سنگھ والا میں جہاں کہ ایک احمدی زمیندار خاندان بستا ہے گرتے پڑتے پہنچ گئے۔ دوسرے روز دو اور احمدی خاندان اسی صورت حالات میں وہاں پناہ گزین ہوئے۔ ۴/۳ روز بعد قدرے امن ہون یپر ہم واپس اپنے گھروں میں آگئے۔ بائیکاٹ پھر بھی جاری رہا اور جلوس نکلتے رہے مگر جوش و خروش کافی مدھم پڑ چکا تھا۔ مقامی چوکی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل سید محد یوسف شاہ اور ایک اور کانسٹیبل منسی سدے خاں گاہ گاہ جماعت احمدیہ کے افراد کی خبر گیری کرتے رہے۔ ۳ اپریل بروز جمعہ اچانک پولیس افسران میرے مکان پر آئے اور تمام مکان کی تلاشی لے لی مگر کسی قسم کا قابل اعتراض لٹریچر برآمد نہ ہوا۔<
۲۔ بیان جناب مولوی عبد النی صاحب عربک ٹیچر ڈی۔ بی۔ ہائی سکول چک جھمرہ:۔
>میرا مکان جو کہ ریلوے لائن کے بالکل سامنے ہے اور سرکاری گندم کے گودامکے باکل متصل ہے میرے پڑوس میں دو آدمی رہتے ہیں۔ یہ دونوں احراری ہیں۔ اور انہوں نے لوگوں کو احمدیت کے خلاف سخت اشتعال دلایا۔ ایک کا لڑکا چاقو میرے بچوں کو دکھاتا تھا اور بچوں کو دھمکی دیتا تھا کہ تمہارا پیٹ چاقو سے پھاڑ دوں گا۔ کئی دفعہ اس نے میرے بچوں کو زدوکوب کیا۔ ہمارے مکان پر جلوس والے چار پانچ مرتبہ آئے۔ صرف ایک دفعہ پولیس کے دو پساہی ساتھ تھے ورنہ پولیس جلوس کے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔ میرے مکان کے سامنے جلوس والے گندی گالیاں نکالتے اور دروازے کھرکیاں توڑنے کی کوشش کرتے لیکن ہم دروازے اور کھڑکیوں کو اندر سے مضبوطی کے ساتھ دھکیل کر کھڑے رہتے۔ ایک مرتبہ انہںو نے دروازے کی چق توڑ پھور ڈالی۔ کھرکی کھول لی اور میری بیوی اور بیٹی کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ۔۔۔۔۔ ہم مرزائیوں کی بیٹیاں نکال کر لے جائیں گے اور مکانوں کو آگ لگا دیں گے۔
۸ مارچ بروز اتوار دوپہر کے وقت میرے مکان پر قریباً پچاس آدمیوں نے حملہ کرکے سخت گالیاں دیں اور ہم کو قتل کر دینے کی دھمکیاں دیں۔ دو گھنٹے بعد میرے بیوی بچے محبوب الٰہی کے مکان پر چلے گئے اور ان کے بچوں کے ساتھ ایک نزدیکی موضع میں ایک احمدی کے گھر پہنچ گئے۔ جب جھمرہ سٹیشن پر ملٹری آگئی تب واپس اپنے گھروں میں آگئے اور ہم کو دیکھ کر پھر لوگوں نے ہمیں مغلظ گالیاں دیں لیکن ہم نے صبر کیا۔<
۳۔ بیان سیدنا عبد اللہ شاہ صاحب جنرل مرچنٹ:۔
>دکان لے لٹ جانے کے خوف سے مجھے اکثر ایام میں اسے بند ہی رکھنا پڑتا تھا۔ ۴ مارچ کو حالات نہایت شدت اختیار کرگئے۔ ریلوے سٹیشن چک جھمرہ پر مشتعل لوگوں نے کئی مسافر گاڑیاں روک رکھی تھیں۔ اور اس قدر شور و غوغا برپا تھا کہ کان پری آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ۷ مارچ کو حالات اور بگڑ گئے اور کوئی چار بجے شام کے قریب تو اچانک یہ نعرے لگنے لگے۔
>مجلس عمل نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ مرزائیوں کے مکان جلا دو۔ مرزائیوں کو لوٹ لو۔ مار دو۔<
حر لحظہ مکان پر حملہ کا خوف تھا۔ باہر راستے رکے ہوئے تھے کسی طرف جان بچا کر نکل جانا ناممکن نظر آتا تھا۔ مجبوراً خدا کا نام لے کر بیوی سمیت مکان میں دبکا بیٹھا رہا۔ کچھ رات گزرنے پر ایک ہمدرد ہمسائے نے آکر اطلاع دی کہ آپ فوراً مکان سے نکل جائیں سخت خطرہ ہے۔ چنانچہ میں اپنے بیوی بچوں اور ضعیف والد صاحب کو ساتھ لئے رات کی تاریکی میں مکان سے نکل گیا اور ہم چھپتے چھپاتے راتوں رات ۷/۱ میل فالہ طے کرکے نہایت خسرحالی میں موضع ستھوئی والہ میں پہنچ گئے۔ جہاں میرے ایک رشتہ دار رہتے ہیں۔ دوسرے دن اطلاع ملی کہ واقعی ہمارے مکان سے نکل جانے کے بعد حملہ آور آئے اور دروازہ توڑنے کی کوشش کی۔ چکیں جلا ڈالیں۔ ایک ہمسایہ کے گھر کے راستے سے اوپر کوٹھے پر چڑھ گئے۔ مگر ہمیں موجود نہ پاکر غیظ و غضب کی حالت میں واپس لوٹے۔ ہم ستھوئی والہ میں تقریباً ۶` ۷ دن پناہ گزین رہے۔ حالت قدرے درست ہونے پر واپس اپنے گھر آئے۔ ابھی تک اس بائیکاٹ اور اشتعال انگیزی کا میرے کاروبار پر بہت بڑا اثر ہے۔۔۔۔ مورخہ ۳ اپریل کو اچانک میرے مکان کی مکمل تلاشی ہوئی مگر پولیس کو کوئی قابل اعتراض چیز نہ ملی۔<
چک نمبر ۲۶۱/ ج۔ ب تحصیل لائلپور
۴۔ بیان چوہدری عبد الرحمن صاحب:۔
>میں چک نمبر ۲۶۱ کا باشندہ ہوں۔ اس چک میں تین گھر احمدیوں کے ہیں۔ مورخہ ۴ مارچ بوقت چار بجے شام میرے گائوں کے تین چار صد آدمیوں نے جلوس بنایا اور میرے گھر آئے۔ جلوس میں شامل آدمیوں نے میرے گھر کی کچی دیوار گرا دی۔ تور گرا دیا۔ چبوترا اکھیڑ دیا۔ گالیاں نکالیں۔ گھر میں پتھر پھینکے۔ میری دو لڑکیوں کو مارا۔ دوسرے دو احمدیوں کے گھروں پر بھی گئے۔ مگر ان کے گھر میں داخل نہ ہوئے۔ باہر سے ہی پتھر مارتے رہے۔ ڈچکوٹ تھانہ میں رپورٹ کی۔ تھانیدار نے گائوں کے دس سرکدہ آدمیوں کو بلایا۔ سمجھایا اور اس طرح امن ہوگیا۔<
چک نمبر ۱۹۴ B۔R تحصیل جڑانوالہ
۵۔ بیان حکیم رحیم بخش صاحب:۔
>میرے چک میں قریباً تیس گھر احمدیوں کے ہیں اور ان احمدیوں کی برادری کے قریباً ساٹھ گھر ہیں۔ مارچ کے پہلے ہفتہ میں تین مولوی کار میں دیہات کا دورہ کررہے تھے۔ کار میں لائوڈ سپیکر تھا۔ یہ کار مولویوں سمیت ہمارے چک میں قریباً دو بجے دوپہر آئی۔ ان مولویوں نے نہایت اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ لوگوں کو کہا کہ وہ احمدیوں کو ماریں اور لوٹیں مگر برادری کے نیک اثر کی وجہ سے گائوں میں شرارت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔<
قریباً ۴` ۵ مارچ کو ہمارے گائوں کے قریباً دس احمدی طلبا لکڑیانوالہ ڈی۔ بی مڈل سکول میں گئے تو سکول کے طالب علموں نے ان کو مارا۔ پولیس کو رپورٹ دی ہیڈ ماسٹر نے ہم سے کہا کہ لڑکوں کو سکول نہ بھیجا کریں۔ حالات قابو سے باہر ہیں۔ مورخہ ۳ اپریل کو بغیر کسی وجہ کے میرے گھر کی تلاشی لی لیکن پولیس کوئی چیز قابل مئواخذہ و اعتراض قبضہ میں نہ لے سکی۔<
ڈچکوٹ
۶۔ بیان جناب محمد عبد اللہ صاحب:۔
>میں منڈی ڈچکوٹ میں دکان آرہت کرتا ہوں۔ دکان مذکورہ میں میرا حصہ دار غیر احمدی مسمی غلام مرتضیٰ تھا۔ غیر احمدیوں نے میرے حصہ دار کو مجبور کرکے جبراً مجھے دکان سے علیحدہ کروا دیا۔ اور بائیکاٹ کردیا۔ اب میں نے اسی سہر میں دوسری جگہ دکان حاصل کرلی ہے لیکن میرا مکمل بائیکاٹ ہے اور کسی گاہک کو میرے پاس نہیں انے دیا جاتا۔ مورخہ ۵ مارچ کو میرے گائوں چک نمبر ۱۳۲ میں جلوس نکالا گیا اور میرے گھر پر حملہ کے لئے آئے مگر بعض لوگوں اور پروسیوں کے روکنے سے وہ شرارت سے باز رہے۔<
سمندری
۷۔ چوہدری محمد نواز صاحب آرھتی نے انہی دنوں بتایا کہ:۔
میں احمدی ہوں جو کہ بمقام سمندری آرہت کرتا ہوں۔ مارچ ۱۹۵۳ء کو شورش میں میرا پورا پورا بائیکاٹ کیا گیا اور۔۔۔۔۔ تقریباً چار ہزار روپیہ جو کہ میرا غیر احمدی اصحاب کے زمہ واجب الوصول تھا میرے خلاف پراپیگنڈا کرکے روپیہ ضبط اور خرو برو کروا دیا گیا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ کسی غیر احمدی دوست کو اب تک بھی میری دکان پر آنے نہیں دیا جاتا۔ اس ناجائز فعل سے مجھے سخت نقصان ہوا ہے۔<
جڑانوالہ
۸۔ جماعت احمدیہ جڑانوالہ کو ایام فسادات میں کن صبر آزما حالات سے دوچار ہونا پڑا؟ اس کا کسی قدر نقشہ جڑانوالہ کے تین احمدیوں کے بیانات سے سامنے آسکتا ہے:۔
‏body] [tag۹۔ شیخ عبد الرحیم صاحب صاحب صراف جڑانوالہ نے بیان دیا کہ مجھے جو فسادات گزشتہ میں تکالیف پہنچیں` بعض یہ ہیں:۔
سب سے پہلے میرا بائیکاٹ کردیا گیا جو اب تک جاری ہے۔ ایک شخص۔۔۔۔۔ جس کی دکان بزازی ریل بازار میں ہے اس نے میرے ۔/۸۸ روپے دینے تھے۔ اس کی طرف میں نے اپنے بھائی کو قرض وصول کرنے کے لئے بھیجا مگر اس نے کہا اگر مجھ سے روپے مانگے تو میں آپ کا پیٹ پھاڑ دوں گا۔ اس طرح میرا پانچ سو روپیہ مختلف اشکاص نے نہیں دیا۔ ایک دفعہ میں نے ٹال سے ایندھن منگوایا اور ایندھن گھر میں رکھوا لیا۔ ٹال والا زبردستی ۱۵ افراد کے ساتھ آکر گھر سے ایندھن اٹھوا کر لے گیا۔ اس طرح میں ایک دفعہ گوشت لین یکے لئے گیا تو انہوں نے گوشت دینے سے انکار کردیا اور ایک شخص احراری دکان پر بیٹھا بتاتا تھا کہ یہ شخص مرزائی ہے اس کو گوشت نہ دو۔ اگر دیا تو جوتوں سے مرمت ہوگی۔ اسی طرح ایک دن سبزی لینے گیا تو سبزی والے نے انکار کردیا۔ کچہری بازار میں میری دکان ہے اور یہاں پر اکثر صرافوں کی دکانیں ہیں۔ اس لئے برادری کی طرف سے میرا ابھی تک مکمل بائیکاٹ ہے اگر کوئی باہر سے گاہک دکان پر آجائے تو اس کو یہ کہہ کر دکان سے لے جاتے ہیں کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ مسلمان ہوکر مرزائی کی دکان پر جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک بیوپاری جس کا نام عبد المجید زرگر گجرانوالہ کا ہے وہ تمام صرافوں کی دکانوں کو چاندی کا مال تیار کرکے سپلائی کرتا ہے۔ میری برادری نے اس کو آرڈر دیا ہے کہ تم نے عبد الرحیم کو مال دیا تو ہم آپ سے قطع تعلق ہوجائیں گے۔۔۔۔۔ اس وقت میری دکان کی حالت یہ ہے اور کاروبار پر اتنا اثر پڑتا ہے کہ کوئی ڈرتا دکان پر قدم نہیں رکھتا۔ میرے پاس جو کچھ نقدی وغیرہ تھی اسی کو کھا رہا ہوں۔ گڑ بڑ کے دوران میں میرے گھر کے سامنے سے جلوس گزرتے رہے اور گھر کے سامنے ٹھہر کر بہت گالیاں دیتے۔ گڑبڑ کے بعد میرے گھر کی تلاشی لی گئی مگر کوئی چیز قابل اعتراض برآمد نہ ہوئی۔<
۱۰۔ ایک بیوہ احمدی خاتون محترمہ سردار بیگم صاحبہ نے اپنی دردناک آپ بیتی مندرجہ ذیل الفاظ میں لکھوائی:۔
>میرے خاوند چوہدری دوست محمد خان صاحب ایم۔ اے علی گڑھ( بی ٹی گولڈ میڈلسٹ جڑانوالہ گورنمنٹ ہائی سکول میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر تھے۔ عرصہ چار سال کا ہوگیا ہے۔ وہ وفات پا چکے ہیں۔ میں ہوشیار پور کے ایک معزز گھرانہ سے تعلق رکھتی ہوں اور اب میں جڑانوالہ میں مقیم ہوں۔ میرے پاس چھوٹا لڑکا جس کی عمر آٹھ نو سال کی ہے رہتا ہے۔ اور پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ جس دن سے احمدیوں کے خلف مولویوں نے اعلان کردیا کہ ان کو مارا پیتا جائے اور ان کو دکھ دینا اور مارنا کار ثواب ہے اس دن سے میرے بچے کو اسکول میں دوسرے بچے دکھ دیتے تھے۔ جس وقت اس کو اکیلا دیکھتے تو اسے چڑاتے۔ ایک دن میرے بیٹے کو خوب پیٹا گیا اور اور اسے کہا گیا کہ جب تک تم چوہدری ظفر اللہ خاں اور بانئی سلسلہ احمدیہ کو گالیاں نہیں نکالو گے ہم تمہیں مارنا بند نہیں کریں گے۔ آخر ان لڑکوں نے میرے بچے کو اس وقت چھوڑا جب میرے بچے نے چوہدری ظفر اللہ کو غدار کہہ دیا اور بری مشکلوں سے چوٹ کر روتا روتا گھر آیا۔ ایک دن بڑے بڑے لڑکے اس کی جوتی اٹھا کر لے گئے۔ جلوس نکلنے کی وجہ سے سب دکانیں بند تھیں۔ اسی لئے اور جوتی خریدی بھی نہ جاسکی اور نہ ہی میرے پاس کوئی آدمی جوتا لا کر دینے والا موجود تھا۔
ایک رات کچھ لڑکے میرے مکان میں داخل ہوئے۔ پھولوں کے گملے اور چند برتن اٹھا کر لے گئے۔ ان کے علاوہ اور بھی نقصانات ہوئے۔
ہر روز کئی کئی جلوس نکالے جاتے اور ہمارے گھر کے سامنے آکر خوب مظاہرہ کرتے اور خوب ناچتے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور ہم احمدیوں کا سیاپا کیا جاتا۔ ایک لڑکے کا منہ کالا کرکے اس کو چارپائی پر لٹا کر اسے اٹھاتے پھرتے اور کہتے کہ یہ ظفر اللہ کا جنازہ ہے۔ ایک آدمی کو جوتوں کا ہار پہنا کر جلوس کے آگے نچایا جاتا اور اسے گالیاں دی جاتیں کہ یہ مرزا غلام احمد ہے اور ہمارے گھر کے چاروں طرف گھومتے۔ گندی گالیاں دی جاتیں جو لکھی بھی نہیں جاسکتیں۔ میں اور میرا چھوٹا بچہ دروازے بند کرکے اندر بیٹھے رہتے۔ پھر مکان پر پتھرائو کیا جاتا۔ بہت زور سے پتھر ہمارے مکانوں اور کھڑکیوں پر آکر لگتے۔ ہمارے روشندانوں کے شیسے سب توڑ دیئے گئے جن کی اب تک مرمت نہیں کروائی جاسکتی۔
ایک عورت جو میرے گھر میں کام کرتی تھی اسے روپوں کا لالچ دے کر ہمارے گھر میں کام کرنے سے روک دیا گیا۔ ہم احمدیوں سے بائیکاٹ کیا گیا اور سودا سلف دینے سے دوکانداروں کو منع کردیا گیا۔ ایک دن میرا بچہ سبزی لینے گیا۔ دکاندار نے اسے سبزی دے کر پیسے لئے اور بعدازاں سبزی چھین لی۔ اور بچہ روتا روتا گھر آگیا۔ ہمارے پاس آٹا ختم ہوگیا تھا اور آٹا پسایا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اس لئے ہم دو دن بغیر آئے کے رہے۔
دودھ والی سے کہا گیا کہ ان کو دودھ نہ دیا کرے مگر وہ وفادار نکلی اور خفیہ طور پر دودھ دے جاتی۔ بھنگن کو بھی بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم چائے پی کر اندر خاموشی سے بیٹھے رہتے۔ ایک ہماری گھر کی طرف آ کے کچھ اشارے کرتے رہے مگر واللہہاعلم کیا وجہ ہوئی منتشر ہوکر چلے گئے۔ شاید پولیس والے گشت پر آتے نظر آئے ہوں۔ ہماری کھڑکیوں کو جالی لگی ہوتی تیںھ۔ یہ سب کچھ ہمیں نظر آتا تھا۔ مجھے ساری ساری رات جاگنا پڑتا جس کی وجہ سے میری صحت خراب ہوگئی اور ابھی تک مکمل درست نہیں ہوئی۔ نوکرانی کے ہٹانے جانے سے سارا کام خود کرنا پڑتا۔ دھوبی کے پاس ہمارے کپڑے گئے ہوئے تھے۔ اس نے کپڑے دینے سے انکار کردیا۔
ایک دن پولیس نے ہمارے مکان پر چھاپہ مارا اور تلاشی لی۔ صرف میں اور میرا چھوٹا بچہ اس وقت گھر پر تھے۔ لوگ ہمارے گھر کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ پولیس نے مجھے یہ موقع نہ دیا کہ میں کسی عزیز کو بلا لیتی۔ جس طرح ڈاکوئوں کے گھر میں داخل ہوتے ہیں )اسی طرح ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ ناقل( بچہ کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس وقت مجھ پر بہت خوف طاری ہوا۔ پولیس نے گھر کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ¶گھر میں سے کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہ نکلی۔ جس وقت پولیس نے چھاپہ مارا اس وقت عصر کا وقت تھا میں نماز پڑھنے لگی تھی۔ انہوں نے کہا ہمارے ساتھ ہوکر گھر کی تلاسی دلائو۔ میں نے کہا پہلے مجھے عصر کی نماز پڑھ لینے دو سپاہیوں نے مجھے ایسا کرنے سے روکا لیکن تھانیدار نے کہا بی بی پڑھ لو۔ ایک دن مجھے ہمسایوں میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ آپ بہنوں جیسی ہیں اس لئے آپ کے لئے بہتر ہے کہ آپ مکان چھوڑ کر کہیں چلے جائیں یا احمدیت سے انکار کردیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی یہاں خیر نہیں۔ پبلک کے تمہارے متعلق بہت برے ارادے ہیں۔ میں نے کہا میں نہ مکان چھوڑ کر جاسکتی ہوں اور نہ احمدیت سے انکار کرسکتی ہوں لیکن میرے دل میں خوف ضرور تھا کہ کہیں ان لوگوں کو میرے جواب سے طیش نہ آجائے۔
یہ ہیں مشکلات جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک لمبا عرصہ تک حبس اور خوف و ہراس کی حالت میں رہے۔<
۱۱۔ جناب محمد حسین صاحب سیکرٹری امور عامہ جڑانوالہ اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں کہ:۔
>ان دنوں عبد الرشید ولد عبد الرحمن مہاجر طالب علم کو دو دفعہ پیٹا گیا۔ ایک دفعہ بازار میں بعض دکانداروں نے پیٹا۔ جب وہ اپنے کام سے وہاں سے گزر رہا تھا اور دوسری دفعہ جب وہ سکول میں تعلیم کے لئے گیا اس کا سر پھٹ گیا۔
افتخار احمد طالب علم کو جس کی عمر قریباً آٹھ سال ہے سکول میں لڑکوں نے مار مار کر مجبور کیا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو گالیاں دو اور چوہدری ظفر اللہ خاں کو غدار کہو۔ اسے اس وقت تک پیٹتے رہے جب تک اس نے مجبور ہوکر چوہدری ظفر اللہ خان کو غدار نہ کہا۔ نہ ماسٹر ے شکایت سنی اور نہ کسی لرکے نے اسے بچایا۔ بچہ کئی دن تک سکول نہ گیا۔
گل سکول میں احمدی لڑکیوں کو روانہ گالیاں دی جاتی رہیں یہاں تک کہ سید عنائت علی شاہ زیروی کی لڑکی امتحان میں سے اٹھ کر گھر چلے آنے پر مجبور ہوگئی۔ اور آئندہ تعلیم سے محروم ہوگئی۔ میاں محمد شریف صاحب اور چوہدری سردار احمد صاحب کی لڑکیوں کو بھی سکول چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ استانی کو جب شکایت کی گئی تو اس نے )الٹا( ہماری لڑکیوں کو ڈانٹا اور کہا تم کو جتنا پیٹا جائے تھوڑا ہے۔ تم نے ہزاروں مسلمانوں کو گولیوں سے مروایا ہے۔ ڈاکٹر محمد انور صاحب امیر جماعت احمدیہ جڑانوالہ کی چھوٹی بچی جو بازار سے کچھ سودا لانے کے لئے جا رہی تھی کسی نے اسے دھکا دیا اور پانچ روپیہ کا نوٹ اس سے چھین لیا۔~<ف۱۰~
اسی طرح ڈاکٹر صاحب کے بچے محمد اکرم عمر ۶ سال کو بازار میں لڑکوں نے پیٹا۔ نیز میاں عبد الرحیم صاحب صراف کے بچے کو بازار سے گزرتے وقت پیٹا۔<
چک نمبر ۱۱۹ گ / ب
۱۱۔ میاں فضل دین صاحب قوم جٹ پیسہ زمیندار نے باقرار صالح مندرجہ ذیل بیان دیا کہ:۔
>ہمارے گائوں چک نمبر ۱۱۹ گ / ب میں عرصہ دو سال سے زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے خلاف ہر قسم کی شرارت کی جارہی ہے۔ مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۵۲ء کو ایک مخالف نے بلا کر ہماری بے عزتی کی اور ڈرایا کہ احمدیت سے توبہ کرو ورنہ تم سب قتل کردیئے جائو گے ہم اپنے عقائد پر ڈٹے رہے جس پر اولاً ہمارے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرلئے۔ ہمارا حقہ پانی بند کردیا گیا۔ کنویں سے پانی لینے سے روک دیا گیا۔ فرداً فرداً سب احمدیوں کو زدوکوب کرنا شرو کردیا۔ موجودہ شورش میں تمام گائوں کے گائوں نے قرآن کریم اپنی لڑکیوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ ہم لڑکیوں سے برا کریں اگر ہم ایک ایک مرزائی قتل نہ کریں۔ یہ واقعہ ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کا ہے ایک شخص نے ہمیں کہا کہ تم نے ہمارے مولوی پکڑوائے ہیں۔ اب ہم سے بھلا ایک گھر مرزائیوں کا ختم نہ ہوسکے گا۔ چنانچہ سب لوگ جلوس کی شکل میں ہمارے گھر کے سامنے اکٹھے ہوگئے اور نہایت فحش قسم کی گالیاں دینی شروع کردیں۔ ہم اندر سے دروازے بند کرکے بیٹھے رہے۔ بعد میں ان میں سے ایک نے کہا کہ ایک مرزائی نے تھانہ میں جاکر رپورٹ لکھوا دی ہے۔ یہ سن کر سب جلوس منتشر ہوگیا۔ اس طرح ہم بچ گئے۔ پھر ہم رات کو ۸ بجے بچ بچا کر تھانہ جڑانوالہ میں پہنچے۔ انچارج صاحب وہاں گئے اور پچیس آدمیوں کے انگوٹھے اس تحریر پر لگوائے کہ وہ آئندہ شورش نہ کریں گے۔ اس سے پندرہ روز پہلے خاکسار فضل الدین کو بلا کر جوتے لگائے گئے۔ نذیر احمد کو اس قدر زدوکوب کیا گیا کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ محمد شریف احمدی کے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا گیا مگر خدا کے فضل سے جان سے سب بچ گئے۔<
چک نمبر ۵۶۔ ۵۷
۱۲۔ میاں عاشق محمد خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۵۶۔ ۵۷ نے بیان کردیا کہ:۔
>چک ۵۶۔ ۵۷ گ۔ ب تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور کی جماعت احمدیہ کے خلاف یکم مارچ تا ۵ مارچ مختلف قسم کے مشورے اور خفیہ اجلاس ہوتے رہے۔ فیصلہ ہوا کہ جو کچھ جمعہ کے خطبہ میں امام مسجد کہے گا اس پر عمل ہوگا۔ جمعہ کے خطبہ میں مولوی۔۔۔۔۔ نے کہا کہ مجاہد اسلام لاہور وغیرہ شہروں میں اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھا رہے ہیں لیکن تم ہو اپنے گھروں میں خواب غفلت میں سو رہے ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس فرقئہ مرزائیہ کے ہر فرد کو موت کے گھاٹ اتار دو۔ کفن سر پر باندھو۔ اگر مارے گئے تو شہید ورنہ غازی۔ ثواب آخرت کے علاوہ اس دنیا کی لوٹ سے حصہ پائوں۔ مرزائیوں کی عورتیں تم پر بلا نکاح حلال ہیں۔ اب ہماری ٹکر حکومت اور مرزائی دونوں سے ہے۔ انشاء الل¶ہ ہم ان کو مٹا کے چھوڑیں گے۔۔۔۔۔ بعد نماز جمعہ ایک خوفناک جلوس نکالا گیا جس میں ۸/۷ صد نفوس شامل ہوئے کافی تعداد کے پاس مہلک ہتھیار تھے۔ احمدیوں کے بزرگوں کو دل کھول کر گالی گلوچ کیا گیا اور ہر احمدی کے بند دروازے )کیونکہ احمدیوں نے خوف سے دروازے بند کر لئے تھے( کے سامنے پکارا گیا کہ تمہیں ایک دو دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ اپنے غلط عقیدہ کو بدل دو۔ ورنہ تمہارے گھر بار لوٹ لئے جائںی گے۔ تمہاری عورتوں کی بے عزتی کی جائے گی اور تمہیں قتل کردیا جائے گا اور کہا کہ تمہاری عورتوں کی تقسیم اب ہی کرلی ہے۔۔۔۔۔ افراد جماعت کو پابند مسکن کردیا اور باہر کی دنیا سے ان کا سلسلہ پیغام رسانی توڑ دیا گیا۔ ہر قسم کی تنگی دی گئی۔ ۹ مارچ کو پروگرام پر عمل پیرا ہونے کے لئے بعد دوپہر جلوس نکالا گیا۔ جلوس نہایت خوفناک صورت اختیار کئے ہوئے تھا۔ ان کے ارادے نہایت برے تھے لیکن قدرتاً تمام گائوں میں افواہ پھیل گئی کہ عاشق محمد خان احمدی چک نمبر ۵۶ نے تھانہ میں اطلاع کی ہوء ہے اور پولیس آرہی ہے۔ اس افواہ نے دشمنوں کے منصوبہ کو عملی رنگ اختیار نہ کرنے دیا اور جلوس کو خود ہی پولیس کے خوف سے منتشر کردیا۔۔۔۔۔ اور فیصلہ کیا گیا کہ آج کا دن پولیس کا اتنظار کرلو اور احمدیوں کے قتل` لوٹ مار اور عورتوں کی بے عزتی کو کل پر چھوڑ دو۔ اے ایس آئی چک ۵۵ گ / ب ۱۰ بجے قبل دوپہر پہنچ گئے اور نمبردار )وغیرہ( سے وعدہ لیا کہ ہم ہر قیمت پر گائوں میں امن قائم رکھیں گے۔
افسوس باوجود بحالی امن کا اقرار کرنے کے پھر بھی اس جماعت پر یلغار کی گئی جیسا کہ اسی چک کے متعلق محمد حسین خان سیکرٹری امور عامہ جڑانوالہ نے تحریری شہادت دی کہ:۔
>چک نمبر ۵۵۔ ۵۶ میں احمدیوں کو گھیر لیا گیا۔ تقریباً ساری جماعت کو قتل کرنے کی دھمکی سے مجبور کرکے دستخط لے لئے کہ وہ احمدیت سے باز آتے ہیں۔ ماسٹر عاشق محمد صاحب اور سید عنایت علی شاہ صاحب کو بہت پریشان کیا۔ مکان میں بند رکھا۔ قتل کرنے کو تیار ہوگئے۔ ان کی طرف سے جڑانوالہ میں اطلاع آجانے پر ہم نے پولیس بھجوا دی۔ پولیس نے حالات پر قابو پا لیا۔<
چک نمبر ۳۶ تھانہ ستھیانہ
۱۳۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور کا بیان ہے:۔
>چک نمبر ۳۶ ستھیانہ میں چند احمدی گھر ہیں۔ مولویوں نے وہاں جا کر تقریریں کیں۔ احمدیوں پر حملہ ہوا۔ بارہ احمدی سخت زخمی ہوئے۔ ٹکوے` بلم` کلہاڑے ان پر استعمال ہوئے۔ چار کی حالت ایسی تھی کہ قریب الموت تھے۔ ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو یہ واقعہ ہو۔ ۲۹ مارچ کو راقم مع ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر رشید احمدی صاحب ایمولینس کار لے کر پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے چار آدمیوں کی حالت انتہائی مخدوش پاکر انہیں شہر دلائل پور کے ہسپتال میں منتقل کردیا۔ ۳۵ غیر احمدی زیر دفعہ ۱۴۹ / ۳۰۷ زیر چالان ہیں لیکن دوسرے تیسرے روز بعد احمدی مجروحین اور ان کے لواحقین کا بھی اسی دفعہ میں چالان کردیا گیا۔ دونوں مقدے عدالت میں ہیں۔ اس لئے ان کے متعلق کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی۔
۱۵۔ حمید احمد صاحب ساکن چک نمبر ۳۶ گ / ب تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور نے لکھا کہ:۔
>میرے چک میں احمدیوں کے ۶` ۷ گھر ہیں۔ ہمارے گائوں کے مولویوں نے بہت اشتعال پیدا کیا اور گائوں میں ماہ مارچ ۱۹۵۳ء میں قریباً ہر روز جلسہ کیا اور احمدیہ جماعت کے خلاف بہت گند اچھالا۔ سخت بدزبانی کرتے۔ اسی اشتعال پھیلانے کی وجہ سے پولیس نے سرکردہ چار مولویوں کو گرفتار کرلیا اور اس طرح چک میں امن برقررا رکھنے میں پولیس کامیاب ہوئی۔ یہ چاروں مولوی چند دن کے بعد رہا ہوکر واپس گائوں میں آگئے اور باقاعدہ تنظیم کے ساتھ حملہ کی تیر شروع کردی۔ ہم احمدیوں کا گائوں کے لوگوں سے بائیکاٹ کروایا۔ جلوس صبح شام نکالتے` نہایت فحش ناقابل برداشت اور انتہائی شر انگیز اور اشتعال انگیز گالیاں نکالتے رہے۔ اور گھروں میں پتھر پھینکتے رہے اور پولیس نے ہماری رپورٹ پر دو سپاہی چک میں تقریباً دس یوم رکھے۔ اور اس طرح ان دنوں ہم ان کے خطرناک ارادوں سے محفوظ رہے۔ مورخہ ۲۸ مارچ کو رہا شدہ مولویوں نے پروگرام کے مطابے ہمارے آدمیوں پر حملہ کیا۔ جبکہ وہ خراس پر آٹا پیسنے گئے اور اس طرح ۱۶ آدمیوں کو برچھوں` کلہاڑیوں اور ڈانگوں سے زخمی کیا۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی اور )ان کے ۳۵ آدمیوں کا چالان کیا۔ دو تین یوم بعد ہمارے خلاف بھی لڑائی کا جعلی پرچہ کرا دیا گیا۔ اور ہمارے آدمیوں کا چالان کردیا۔ تین ماہ تک ہماری ضمانتیں نہ ہوئیں اور گھر پر کوئی کام کرنے والا نہ رہا۔ وقوعہ کے ڈال ماہ بعد ہمارے ایک احمدی محمد یعقوب کے گائوں والوں نے نقب زنی کی واردات کرا دی۔ الخ<
جلیانوالہ متصل گوجرہ
ماسٹر محمد شفیع صاحب~ف۱۱~ اسلم نے جلیانوالہ متصل گوجرہ کا مندرجہ ذیل واقعہ انہی دنوں حضرت مصلہ موعود کی خدمت میں لکھا کہ:۔
>ہمارے گائوں جلیانوالہ میں گو اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی تھی مگر بظاہر امن تھا کہ ۶ مارچ کو گوجرے میں حالات زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے دس بارہ مستورات ہمارے ہاں چلی آئیں تاکہ غنڈہ عناصر سے محفوظ رہ سکیں اس پر ہمارے گائوں میں ای آگ لگ گئی اور سرکردہ لوگ ہمیں کہنے لگے کہ تم نے ان عورتوں کو پناہ کیوں دی ہے چنانچہ سارے گائوں میں مخالفت بھڑک اٹھی۔۔۔۔۔ مستورات کے یہاں آنے میں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ ایک عورت اپنا ایک ٹرنک ساتھ لے آئی جو کسی قدر لمبا تھا اور قدرے وزنی بھی۔ گائوں کے لوگوں نے سمجھا کہ اس میں اسلحہ ہے اور یہ مرزائیوں نے ہمارے لئے شہر سے مستورات کے بہانے منگوایا ہے اس وہم سے وہ لوگ اپنے مزموم ارادوں سے باز رہے۔<
جناب ملک فضل حسین صاحب کی تحقیق کے مطابق ضلع لائلپور میں
>اس قسم کی مار دہاڑ اور جبر و تشدد وہیں ہوا جہاں کہ احمدی اقلیت میں تھے۔ کمزور و لاچار تھے۔ برعکس اس کے جس جگہ بھی احمدی اکثریت میں تھے۔ یا ان کی اچھی خاصی آبادی تھی یا جہاں تھوڑے ہوتے ہوئے بھی ان کے دلوں میں جر¶ات و مردانگی کا مادہ کافی موجود تھا۔ وہاں کسی قسم کا فتنہ و فساد اور ہنگامہ آرائی نہ ہوسکی۔ بطور مثال سمندری سے تین میل دور چک نمبر ۴۷۹ کا ذکر کافی ہوگا۔ اس گائوں میں احمدی بمشکل دس پندرہ ہوں گے۔ جب احرار نے ان کو جلوس کے ذریعہ تنگ اور پریشان کرنا چاہا تو بقول چوہدری عبد المجید خان صاحب >انہوں نے جلوس کے سامنے نکل کر کہا کہ روز روز کا جھگڑا آج ہی ختم کر لو۔ لڑ کر دیکھ لیتے ہیں۔ ان کے اس چیلنج نے دشمن کو بے حوصلہ کردیا۔ اور پھر وہاں نہ جلوس نکلا اور نہ گڑ بڑ ہوئی۔<
فصل سوم
ضلع جھنگ
جھنگ مگھیانہ میں شورش کے دوران اصل خطرے کے ایام ۶` ۷ مارچ کے تھے جن میں فتنہ و فساد انتہائی عروج پر تھا۔ اور اندیشہ تھا کہ جانی و مالی نقصان احمدیوں کا ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریروں کا رخ دوسری طرف پلٹ گیا احمدی محفوظ رہے البتہ ان کے خلاف بائیکاٹ اور پکٹنگ کی تحریک بہت شدید تھی ان دنوں احمدیوں کی بیس کے قریب دکانیں سہر میں تھیں۔ جو ان کو بند رکھنا پڑیں۔ ان کی اور کھماچوں~ف۱۲~ کے احمدی مہاجرین کی کئی ایک چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں بند رہیں کیونکہ مزدوروں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اور احمدیوں سے لین دین کرنے والے شخص کے لئے یکصد روپیہ جرمانہ مقرر کیا گیا۔ میاں بشیر احمد صاحب )نائب امیر جماعت( احمدیہ مگھیانہ۔ ایجنٹ سٹینڈرڈ ویکم آئل کمپنی جھنگ( کی دکانیں ان ایام میں کھلی رہیں مگر سوائے پٹرول پمپ کے کوئی کاروبار نہ ہوا کیونکہ پکتنک جاری تھی اور پٹرول بھی پنجاب ٹرانسپورٹ کے سوا کسی نے نہیں لیا۔ ان کی دکان اور پمب کے سامنے ہی روزانہ جلوس آکر اکھاڑا لگاتا اور وہیں سے منتشر ہوجاتا۔ بال¶اخر مقامی حکام کے تعاون سے پکٹنگ ناکام ہوگئی۔ اور احمدیوں کا کاروبار پھر سے چل نکلا۔
اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ بھنگیوں اور حجاموں کو احمدیوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ احمدی احباب نے ان تمام حرکتوں کا صبر و استقلال سے مقابلہ کیا۔~ف۱۳~
شور کوٹ ان ایام میں بدامنی سے محفوظ رہا ور جلوس پر امن رہے اور ان میں کسی قسم کا کوئی نازیبا نعرہ نہیں لگایا گیا جو مقامی حکام کے تعاون اور ہسن انتظام کا نتیجہ تھا۔ ایک شخص نے ازراہ شرارت حکیم محمد زاہد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کے خلاف تحصیلدار صاحب کی عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے ہماری عورتوں کو گالیںا دی ہیں مگر یہ واقعہ سراسر فرضی تھا چنانچہ وہ بری کردیئے گئے۔~ف۱۴~
بستی وریام گڑھ مہاراجہ` پیر عبد الرحمان بس سٹینڈ اور تھانہ بھوانہ کی احمدی جماعتوں میں بھی خیریت رہی۔~ف۱۵~ ربوہ۔ احمد نگر اور چنیوٹ اور اس کے ماحول پر کیا بیتی؟ اس کی کسی قدر تفصیل اب بیان کی جاتی ہے۔
ربوہ اور اس کا ماحول پر فتن ایام میں
جہاں صوبہ پنجاب کی بہت سی احمدی جماعتوں کو مارچ ۱۹۵۳ء کے فتنئہ محشر اور ہنگامئہ قیامت سے دوچار ہونا پڑا` وہاں ربوہ اور اس کا ماحول بھی بائیکاٹ محاصرہ اور قتل و غارت کی دھمکیوں کے تکلیف وہ ابتلاء میں گزرا۔ یہ ایام بہت صبر آزما تھے اور کئی تلخ یادیں چھوڑ گئے۔ اس دور کے احوال و کوائف تاریخ وار درج کئے جاتے ہیں:۔
۳ مارچ
۳ مارچ ۱۹۵۳ء کو صبح چھ بجے مولانا محمد محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی مربئی سلسلہ احمدیہ نے لائلپور سے یہ تحریری اطلاع بھجوائی کہ:۔
>حالات نہایت مخدوش ہیں۔ ہر احمدی گھر ر ہر لحظہ حملہ متوقع ہے کل چناب ایکسپریس ۳۰۔ ۳۵ منٹ تک چنویٹ میں روکے رکھی اور ہر دبہ میں احمدیوں کی تلاشی لی گئی تاکہ انہیں باہر نکل کر مار دیا جائے۔ چنیوٹ پولیس یا فوج کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ گاری جب لائلپور پہنچی تو سگنل سے باہر روک لی گئی اور تین گھنٹہ تک روکے رکھی بال¶اکر گولی چلانا پری۔<
۴ مارچ
۴ مارچ اس دن چنیوٹ گورنمنٹ گرلز سکول کی معصوم احمدی بچیوں کو جوتیوں سے پیٹا گیا۔ رات کو لڑکوں کا جلوس شہر میں گشت کرتا اور ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔
۵ مارچ
۵ مارچ۔ صبح کو لائلپور جانے والی چناب ایکسپریس جب ربوہ ٹھہری تو انجن پھولوں سے سجا ہوا تھا اور سواریوں کے ہاتھ میں مطبوعہ اور دستی اشتہارات تھے جن پر >بناوٹی نبی مردہ باد< >مرزائیوں کو اقلیت قرار دو< >ظفر اللہ کو اتار دو< >مجاہد بنو< کے الفاظ درج تھے گاڑی میں نعرے بھی لگائے گئے۔ جن سے ملک میں ابھرنے والے فتنہ کے نئے رجحانات کی نشان دہی ہوتی تھی۔
مرکز میں لاہور اور سیالکوٹ سے بعض احمدیوں کی شہادت کی اطلاعیں پہنچیں جس پر شام کو وزیر اعظم پاکستان` پنجاب کے چیف سیکرٹری` ہوم سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو تار دیئے گئے جن میں لاہور اور سیالکوٹ کے احمدیوں کی تشویشناک صورت حال سے مطلع کیا گیا تھا۔ ایک تار حفاظت ربوہ کے انتظامات کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ کو بھی دیا گیا۔
انسپکٹر صاحبو پولیس اور ایس۔ ڈی۔ ایم صاحب چنیوٹ نے بعض احمدیوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے بچوں کا سر دست ہنگامی حالات میں ربوہ کے سکول میں آنا اور جانا بند کردیں۔ خطرہ ہے کہ کوئی نقصان نہ ہوجائے۔
آج بھی چنیوٹ میں جلوس نکلا جس میں دو تین ہزار مرد اور سو کے قریب عورتیں بھی شامل تھیں چنیوٹ گرلز سکول کی احمدی بچیوں کی فہرست بنائی گئی اور استانیوں نے مشورہ کیا کہ ان کو غنڈوں کے حوالہ کیا جائے گا۔
۶ مارچ
۶ مارچ۔ جناب شیخ محمد حسین صاحب~ف۱۶~ پنشنر سیکرٹری مال و قائم مقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ نے سب انسپکٹر صاحب پولیس تھانہ صدر چنیوٹ اور پریزیڈنٹ صاحب میونسپل کمیٹی چنیوٹ کو تحریری درخواست دی کہ۔
>جماعت احمدیہ کی بیس پچس لڑکیاں ایم بی گرلز مڈل سکول محلہ گڑھا میں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور اب امتحان سالانہ قریب آگیا ہے۔ گرلز سکول میں استانیو کی موجودگی میں حنفی مسلمان لڑکیاں` احمدی۔۔۔۔۔ لڑکیوں کو ہر قسم کی طعن تشنیع اور گلی گلوچ کا مظاہرہ کرکے سخت تنگ کرتی ہیں اور دہشت بھی پیدا کرتی ہیں کہ ہم مرزائیوں کو مار ڈالںی گے یہ کریں گے وہ کریں گے۔ لہذا مئودبانہ گزارش ہے کہ فوری طور پر ہماری بچیوں کی حفاظت کا انتظام فرمایا جائے اور دوسری لڑکیوں کو ایسی شینع حرکات کرنے سے روکنے کا انتظام فرمایا جائے مگر اس درخواست پر کوئی کاروائی نہ کی گئی۔اسی روز جماعت احمدیہ چنیوٹ کے ایک وفد نے انچارج صاحب تھانہ چنیوٹ کو یہ عرض داشت بھی پیش کی کہ آج جمعہ کی نماز سب احمدی اپنی بیت الذکر میں ادا کریں گے۔ خبریں آرہی ہیں کہ مشتعل نوجوانوں کو شرارت کے لئے اکسانے کے علاوہ چاقو` چھرے وغیرہ سے مسلح کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس لئے احمدی حلقوں اور احمدیہ بیت الذکر کی حفاظت کا بندوبست کرکے ممنون فرمائیں۔ انچارج صاحب نے احمدی وفد سے وعدہ کیا کہ میں ابھی دو تین سپاحی احمدیہ بیت الذکر کے لئے بھیجتا ہوں مگر موقعہ پر نہ صرف ایک سپاہی بھی نہیں بھیجا گیا بلکہ پولیس نے احمدی حلقوں کا گشت کرنا بند کردیا۔
نماز جمعہ کے بعد شیخ محمد حسین صاحب اور چوہدری جمال الدین صاحب~ف۱۷~ ۔M۔D۔A سے ملے انہوں نے دوران گفتگو کہا >آپ اطمینان سے اپنے گھروں کو بند کرکے بیٹھے رہیں اگر میں نے پولیس کو لگایا تو اشتعال زیادہ ہوگا میں نے شہر کے بڑے بڑے لوگوں کو تنبیہ کردی ہے کہ احمدیوں کو کچھ نہ کا جائے اور نہ نقصان کیا جاوے اگر کسی احمدی کا نقصان ہوا تو ایک نہیں ہزار گولی چلائوں گا۔ آپ گھروں میں بیٹھیں جوس اور بازار میں نہ جائیں۔<
اس ملاقات کے چند منٹ بعد دس پندرہ ہزار کا ایک جلوس M۔D۔A کے پاس پہنچا اس میں احمدیوں کو شدید گالیاں دی جارہی تھیں اور اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔
کانڈیوال میں صرف ایک گھر احمدی کا تھا جسے لوٹنے کی کوشش کی گئی۔
اسی روز قریباً ۱ بجے دوپہر کیپٹن چوہدری محمد حسین صاحب چیمہ~ف۱۸~ )مقیم وار النصر ربوہ( چنیوٹ سے بذریعہ لاری ربوہ آرہے تھے کہ ایک شخص نے جولاری میں بیٹھا ہوا تھا دریا عبور کرتے ہی کہا کہ ۸ تاریخ کو ربوہ پر حملہ ہوگا اس حملہ میں فرنٹیئر کے پٹھان بھی شامل ہوں گے۔<
۷ مارچ
۷ مارچ۔ ربوہ کے اسٹیشن ماسٹر بابو بشیر احمد صاحب سے صبح کو بذریعہ تار کسی نے پوچھا کہ >سنا ہے مرزا بشیر الدین کو لاہور میں گولی مار دی گئی ہے< اسٹیشن ماسٹر صاحب نے تردید کی تو پھر اس نے کسی اور سٹیشن سے رابطہ قائم کیا اسے جواب ملا کہ بات درست ہے مگر بشیر احمد جھوٹ بولتا ہے بابو صاحب نے یہ بات بھی سنی۔
پولیس افسر صاحب چنیوٹ نے بعض احمدیوں سے کہا >اب ہمیں بہت خطرہ ہوگیا ہے اس لئے آپ اپنی حفاظت خود کریں۔< چنیوٹ کے ایک احمدی عطاء اللہ خاں صاحب نے اطلاع دی کہ >انچارج تھانہ اے ڈی ایم وغیرہ وغیرہ عاجز آچکے ہیں تمام احمدیوں کے گھر خدا کے بھروسہ پر ہیں۔<
قبل ازیں لالیاں کے حالات کنٹرول میں تھے مگر چنیوٹ کے ۱۵` ۱۶ افراد نے لالیاں میں بھی یکایک اشتعال کی فضا پیدا کردی۔ چنانچہ ۷ مارچ کی صبح یہاں ڈھائی ہزار کے ایک ہجوم نے چناب ایکسپریس کو روک لیا اور انجن پر چڑھ کر مختلف قسم کے نعرے لگائے گئے۔ مولوی عبد الحق صاحب بدوملہی کے بیان کے مطابق یہ نعرے تھے۔ >ہندوستان زندہ باد۔ پاکستان مردہ باد< پولیس سب کچھ دیکھنے کے باوجود بے بس ہوکر کھڑی رہی۔
۸ مارچ
۸ مارچ۔ ربوہ کے جنوب مشرقی جانب ایک گائوں چھنیاں ہے جس کے معزز غیر احمدیوں نے ان ایام میں بہت اچھا نمونہ دکھایا۔ اور نہ صرف اہل ربوہ کو اس گائوں سے باقاعدگی کے ساتھ دودھ پہنچتا رہا بلکہ ربوہ کے بعض احمدی دکاندار وہاں روزانہ جاتے اور دودھ لاتے رہے۔ ۸ مارچ کو ایک سیاہی نے انہیں یہ کہہ کر بائیکاٹ پر اکسانا چاہا کہ ربوہ میں خطرہ ہے۔ دودھ وغیرہ کوئی چیز وہاں لے کر نہ جائو لیکن چھنی کے شرفاء قطعاً بائیکاٹ پر آمادہ نہ ہوئے۔
محلہ دار الیمن ربوہکے بعض احمدی احباب اپنی مستورات اندرون شہر چھوڑ گئے تھے۔ ۸ مارچ کو یہ دوست اپنی خواتین بحفاظت واپس اپنے محلہ میں لے آئے۔ سوائے ایک کے جن کی نسبت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس )جنرل پریذیڈنت( نے حضور کی خدمت میں اگلے روز اطلاع دی کہ >آج انہوں نے تحریر لکھ دی ہے کہ وہ آج مستورات کو واپس لے جائیں گے۔ پریذیڈنٹ محلہ کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ ان ی واپسی پر رپورٹ کریں۔<
لالیاں سے ڈاکٹر فضل حق صاحب صدر جماعت احمدیہ نے اطلاع دی کہ
>آج صبح سے لوگ جمع ہونے شروع ہوئے اس وقت جلوس نکل رہا ہے اور نعرے لگ رہے ہیں پبلک میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ شرفاء پرامن رہنے کی تلقین کررہے ہیں لیکن مفسدہ پرداز باز نہیں آرہے۔۔۔۔۔ جماعت کے حوصلے خدا کے فضل و کرم سے بلند ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے ہمیں معلوم نہیں کہ ان کے کیا ارادے ہیں ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔<
حضرت مصلع موعود نے اس رپورٹ پر اپنے دست مبارک سے لکھا >جزاکم اللہ احسن الجزاء۔<
۹ مارچ
۹ مارچ۔ مرکز کی طرف ے چھ کارکنان گوجرانوالہ` لائلپور` لاہور` سیالکوٹ` چیوٹ اور سرگودہا ک ومفصل ہدایات دے کر روانہ کئے گئے۔
شام کو نظارت امور عامہ میں حسب ذیل رپورٹ موصول ہوئی کہ:۔
>ربوہ کا سب سے پہلے بائیکاٹ کوٹ امیر شاہ~ف۱۹~ کے آدمیوں نے کیا پہلے پہلے دودھ بند کیا پھر دوسری اشیاء۔ صرف چارہ بعض ہمارے دوست لے آتے تھے آج شام کو جب ہمارے ربوہ کے دوستر یعنی غلام حسین غڈے والے کے آدمی چارہ لینے کے لئے گئے تو گائوں کے آدمیوں نے انہیں چارہ کاٹنے سے منع کردیا اور کہا کہ۔۔۔۔۔ شاہ کا آدمی رجوعہ سے آیا ہے کہ ربوہ والوں کا پورا پورا بائیکاٹ کردیا )گیا( ہے اس لئے چارہ وغیرہ نہیں مل سکتا۔<
مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ ان دنوں احمد نگر کے پریذیڈنٹ تھے۔ آپ نے فسادات کے دوران نہ صرف احمد نگر اور اس کے قریب و جوار میں آباد احمدیوں کو چوکس` مستعد اور بیدار رکھا بلکہ مرکز کو احمد نگر اور اس کے ماحول لالیاں` کوٹ قاضی۔ مل سپرا یکوکے۔ کوٹ امیر شاہ وغیرہ کی رپورٹ بھجواتے رہے۔ ۹ مارچ سے آپ نے حضرت سیدنا المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت اقدس میں براہ راست روزانہ دو وقت اطلاعات پہنچانے کا انتظام بھی کردیا۔
اس روز حضور کی خدمت بابرکت میں آپ کی حسب ذیل پہلی رپورٹ موصول ہوئی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدکم اللہ نبصرہ
السلام علیکم ورحمہ اللہ وربکاتہ
احمد نگر میں جماعت کے افراد کو اپنی حفاظت اور مستعدی کے لئے کہا گیا ہے خدام الاحمدیہ کے ماتحت نوجوانوں کی تنظیم کی جاچکی ہے۔ بہت سے انصار بھی اس تنظیم سے ملحق ہیں` مضبوط آدمی یہاں پر ۸۰ ہیں۔ کل تعداد مردوں کی ۱۵۰ کے قریب ہے۔
مقامی غیر احمدی صاحبان کے چار پانچ لیڈر ہیں۔ دو یہاں کے پیروں میں سے ہیں۔ ایک سربراہ نمبردار~ف۲۰~ ہیں اور یاک برانچ پوسٹماسٹر ہیں۔~ف۲۱~ وہ مسلم لیگ کے بھی ممبر ہیں۔ تین دن قبل ہمارا ایک اجتماع ہوا تھا۔ جس میں ان لوگوں نے اقرر کیا تھا کہ ہم ہر حالت میں جماعت احمدیہ کے ساتھ ہیں اور کسی صورت میں فساد میں حصہ نہ لیں گے اور نہ کسی کو حصہ لینے دیں گے۔ ہم نے بھی اپنی طرف یپورے طور پر ان کی حفاظت کا یقین دلایا تھا۔
کل صبح ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارے بعض لوگ ڈر کی وجہ سے احمد نگر سے باہر جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سب لوگوں کوجمع کریں میں انہیں ہر طرح تسلی دلاتا ہوں۔ وہ ب پیر خادم حسین صاحب کے مکان پر جمع ہوئے۔ جماعت کی طرف سے چھ سات آدمی ہم وہاں گئے اور باہمی سمجھوتہ ہوا کہ احمد نگر میں ہم سب مل کر ہر قیمت پر امن قائم رکھیں گے۔ اس سے انہیں بھی اطمینان ہوگیا۔ انہوں نے چار ممبر اپنی طرف سے مقرر کئے۔ اور چار ہمارے مقرر ہوئے جن کا کام )امن قائم کرنا ہوگا۔ غیر احمدیوں نے اس کمیٹی کے صدر کے لئے مجھے ہی منتخب کیا ہے۔ ہماری طرف سے اس کمیٹی میں چوہدری غلام حیدر~ف۲۲~ صاحب` قریشی محمد نذیر صاحب~ف۲۳`~ چوہدری علی شیر صاحب اور مولوی ظفر محمد صاحب~ف۲۴~ اور خاکسار مقرر ہوئے ہیں۔
جماعتی مقامی انتظامات میں عام تنظیم اور خدام کی اعلیٰ نگرانی قائد احمد نگر مولوی عبد المنان صاحب~ف۲۵~ قادر آبادی کے سپرد ہے۔ اور مولوی شریف احمد صاحب خالد گجراتی دفاعی انتظامات کے نگران ہیں۔۔۔۔۔
کل شام سے پانچ سپاہی پھر احمد نگر میں آگئے ہیں انہیں اپنی نگرانی میں ایک کمرہ میں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام جماعت کا زیر انتظام کیا جارہا ہے۔ آج غیر احمدی حلقوں میں ایک افواہ ہے کہ میانوالی کے پھانوں کا تین ہزار کا ایک جتھہ پیدل آرہا ہے اور وہ جتھہ سرگودہا پہنچ چکا ہے۔
ایک غیر احمدی نے خبر دی ہے کہ مہر محمد محسن صاحب~ف۲۵~ نے اس تحریک میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے۔ اس وقت چنیوٹ سے دو تین آدمی گائوں کے لوگوں میں پراپیگنڈا کررہے ہیں اور جھٹی خبروں سے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کا پورا پتہکرکے انشاء اللہ اطلاع دی جائے گی۔
آج سے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ انشاء اللہ حضور کی اقدس میں روزانہ دو وقت احمد نگر کی رپورٹ براہ راست بھی بھیجی جایا کرے گی انشاء اللہ
یہاں پر مردوں` عورتوں اور بچوں سب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا حوصلہ اور ہمت ہے۔ حضور کے اعلانات روزانہ بیت الذکر میں سنائے جاتے ہیں۔
خاکسار خادم ناچیز ابو العطاء جالندھر ۱۲ بجے دن ۵۳۔ ۳۔ ۹
‏tav.14.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
اسی روز چنیوٹ سے جمال الدین صاحب کی یہ رپورٹ پہنچی کہ:۔
>موضع کوٹ خدایا جو چنیوٹ سے تین میل پر ہے وہاں صرف ایک دو گھر احمدی ہیں اور انہیں کل سے سخت پریسان کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ایک درخواست انچارج تھانہ چنیوٹ کے نام ارسال کی ہے مگر وہ فوری توجہ اور ضروری امداد کے مستحق اور خطرہ میں ہیں۔<
راہ گزارتے احمدیوں پر آوازے کسے جاتے ہیں` گالیاں دی جارہی ہیں اور مختلف افواہیں گرم ہیں۔ لوٹ مار اور قتل و غارت آگ کی دھمکیاں دی جارہی ہیں عملی طور پر چنیوٹ میں کوئی نقصان احمدیوں کا نہیں ہوا۔<
لالیاں کے احمدی اس روز شدید خطرے سے دوچار ہوگئے کیونکہ مخالفین نے بیت الذکر میں جمع ہو کر احمدیوں کے مکانوں کو جلانے اور لوٹنے کا جو منصوبہ باندھا تھا اس کا آغاز کردیا گیا چنانچہ ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس منصوبہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھا۔
>ہماری` دعائوں سے خاص طور پر امداد فرمائیں۔ مقامی دوستوں کے رشتہ دار اکٹھے ہوکر ان کے پاس جاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں تم قتل کئے جائو گے ورنہ تم ہمارے ساتھ مل جائو انہیں دن رات ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ مہاجروں کو بھی دھمکی دے رہے ہیں ہم ساری رات جاگتے رہتے ہیں کاروبار بند پڑے ہیں مگر ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہے انشاء اللہ ہم اللہ تعالیٰ کے رستہ میں ہر قربانی کے لئے تیار ہیں آپ ہماری پشت نہیں دیکھیں گے۔ بہر کیف آج ان کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں اللہ تعالیٰ فتنہ پردازوں کے ارادوں میں ان کو ناکام کرے ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قربانی کا موقع دیا ہے حضور دعائوں میں یاد رکھیں میں آج اپنا چندہ مبلغ پچاس روپیہ بھی سیکرٹری مال شیخ مہر یار صاحب کے ذریعہ بھیج رہا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور بھی اس لحاظ )سے( سرخرو ہوجائوں میر سے ذمہ کوئی بقایا نہ ہو۔ برادرم منیر احمد صاحب ولد میاں احمد دین صاحب زرگر بھی اخلاص سے کام کر رہے ہیں۔<
۱۰ مارچ
۱۰ مارچ۔ چنیوٹ` رجوعہ` چھتی اور کھچی وغیرہ مقامات سے اطلاعات کی فراہمی چوہدری صلاح الدین احمد صاحب~ف۲۶~ سابق ناظم جانیداد کے سپرد تھی جو اپنی رپورٹیں ان دنوں باقاعدہ ناظر اعلیٰ صاحب کو اس کی نقل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور بھجواتے تھے۔ چوہدری صاحب موصوف نے رپورٹ دی کہ:۔
>آج ملک احمد خاں صاحب کو چھٹیاں دے کر رجوع بھیجا گیا۔۔۔۔۔ سید غلام محمد شاہ سابق ایم ایل اے ابن سید سردار حسین شاہ و مہر شاہ سے ملاقات ہوئی۔ میری چٹھی پڑھ کر ان ہر دو نے اس اممر سے انکار کیا کہ انہوں نے لوگوں کو دودھ وغیرہ لے جانے سے روکا ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی قسم کے بائیکاٹ کی ترغیب دلائی ہے۔ سید غلام محمد شاہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ شاید ان کے والد صاحبنے مزارعان وغیرہ کو اس ضمن میں کچھ کہا تھا نیز اس نے کہا کہ >آپ بھی ہم سے ناراض ہیں اور چنیوٹ والوں نے بھی کل ہمارا جنازہ نکالنا ہے۔ اس وجہ سے کہ ہم گرفتار نہیں ہوئے۔<
>بھتہ جات سے چار پتھیرے جو چنیوٹ کے ہیں وہاں بھجوائے گئے۔ انہوں نے وہاں اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ اگر ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو کوئی خطرہ ہے تو کیا ہم وہاں سے چلے جائیں ان کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ ربوہ پر کون حملہ کرسکتا ہے اور کس کی طاقت ہے۔ پتھیروں نے کہا کہ پھر بھی اپنے ذمہ دار آدمیوں سے پوچھ لو ہم بھی بیچ میں یونہی نہ مارے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے شرارتی عناصر سے پوچھا جنہوں نے جواب دیا کہ ربوہ پر حملہ کیسے ہوسکتا ہے چنیوٹ والے تو سب بزدل ہیں اور ربوہ کی طرف کوئی منہ نہیں کرتا۔<
>جس قدر اطلاعات حاصل ہوئی ہیں ان سے میرا تاثر یہ ہے کہ ۱۱ مارچ ۱۹۵۴ء والی بات یعنی حملہ کی صورت بہت مشکل ہے ویسے دیہات میں زہر پھیلانے کی کوشش جاری ہے۔
چنیوٹ سے آمدہ )صبح سات بجے( کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ:۔
>سنا ہے کہ رجوعہ سے آنے والے لوگوں نے شہر کے کارکنوں سے مل کر یہ پروگرام بنایا ہے کہ احمدیوں کو مجبور کرکے کیمپ کی صورت میں تبدیل کرا دیا جائے اور شہر سے نکلوا دیا جائے<
>باہر سے بلائے گئے رضا کاروں اور عوام کے ذریعہ سے فساد` لوٹ مار وغیرہ کرانے کا پروگرام بن رہا ہے اور علانیہ کہا جارہا ہے کہ پولیس کا جبکہ پہرہ شہر پر نہیں ہے۔ رائیفلوں والے اب جاچکے ہیں اب کس کا ڈر ہے اور کب تل انتظار کرو گے۔<
احمدیوں کو کیمپ میں رکھے کی تجویز انتہائی شر انگیز تھی جس کا فوری نوٹس حضرت مصلح موعود نے لیا اور ارشاد فرمایا` فوراً اس کے متعلق ڈی سی کو لکھا جائے اور تار دی جائے۔< چنانچہ دفتر امور عامہ کی طرف سے اس کی تعمیل کی گئی۔
میاں فرز علی صاحب ملازم تعلیم الاسلام ہائی سکول نے تحریری بیان دیا کہ وہ صبح بجے چنیوٹ کی منڈی میں گئے تے۔ تین چار آدمیوں نے انہیں زدو کوب کیا اور پکڑ منڈی سے باہر نکال دیا۔
اسی روز ساڑھے آٹھ بجے شام ربوہ میں ایک سہہ رکنی اصلاحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے سیکرٹری مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ مقرر ہوئے۔ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ربوہ کے داخلی انتظام کے سلسلہ میں متعدد اصلاحی فیصلے کئے گئے اور قرار پایا کہ )۱( اجلاس کے لئے آئندہ کورم دو ممبران کا ہوگا )۲( بعد نماز عصر کمیٹی کا بشرط ضرورت اجلاس ہوگا )۳( سرسری بیان لے کر فیصلہ کردیا جائے گا۔ )۴( اجلاس بیت مبارک میں ہوا کرے گا۔
۱۱ مارچ
۱۱ مارچ۔ پچھلے چند دنوں سے ربوہ پر حملہ ہونے کی افواہیں زور شور سے پھیل چکی تھیں اس لئے اس روز مولانا ابو العطاء صاحب نے احمد نگر سے خاص طور پر لالیاں` کوٹ قاضی` مل سپرا یکوکے اور کوٹ امیر ساہ وغیرہ دیہات میں بعض احمدی و غیراحمدی معزز دوستوں کو خبر رسانی کے لئے بھیجا۔ احمد نگر کے مقامی غیر احمدیوں سے معلوم ہوا کہ ابھی تک انہیں کوئی پختہ اطلاع نہں البتہ عورتوں کے ذریعے یہ افواہ پہنچی کہ گیارہ مارچ کو ربوہ پر حملہ ہوگا۔ اس متوقع خطرہ کے پیش نظر سیدنا حضرت مصلح موعود نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مشورہ کے لئے طلب فرمایا چنانچہ حضور نے قائم مام ناظر امور عامہ کے ایک مراسلہ پر اپنے قلم مبارک سے لکھا >میاں بشیر احمد صاحب` مولوی ابو العطاء` شاہ صاحب مجھ سے جلد ملیں تا ڈیفنس کے بارے میں غور کر لیا جائے۔<
اطلاع ملی کہ ایک باوردی شخص جو اپنے آپ کو گورنمنٹ کا آدمی ظاہر کرتا ہے اور گھوڑا سوار ہے۔ ربوہ سے ۶/۵ میل کے فاصلہ پر موضع ڈاور کی طرف پھر رہا ہے اور لوگوں کو ربوہ کی طرف دودھ لانے سے روک رہا ہے اس نے یہ افواہ بھی پھیلائی ہے کہ ربوہ والوں نے دودھ پہنانے والی خواتین میں سے ایک کو بری طرح ہلاک کردیا ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہ تھی۔
‏]20 [p۱۲ مارچ
۱۲ مارچ۔ پتہ چلا کہ موضع کچھی اور ملحقہ دیہات کے لوگوں پر ربوہ کا معاشی بائیکاٹ کرنے کے لئے سخت دبائو ڈالا جارہا ہے مگر اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوسکی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض دیہات میں یہ مشہور کیا جارہا ہے کہ ربوہ میں گندم اور مکی کی گاڑیاں آگئی ہیں نیز دودھ گھی وغیرہ بھی بذریعہ ریل بہتات کے ساتھ پہنچ رہا ہے اس لئے بائیکاٹ کرنے والے صرف اپنا نقصان کررہے ہیں۔
چنیوٹ سے چوہدری جمال الدین احمد صاحب نے مفصل رپورٹ بھجوائی کہ یہاں آج احمدیوں کے خلاف مکمل اقتصادی بائیکاٹ شروع ہوگیا ہے۔ اس دن دکانوں پر بورڈ لگایا گیا کہ >مرزائی اصحاب سے سودا مانگ کر شرمندہ نہ ہوں< بازار میں والنیٹرز گھومنے سے لگے جو دکانداروں کو احمدیوں کے پاس سودا فروخت کرنے سے منع کرتے تھے اور ۵۰ روپے جرمانہ کی دھمکی دیتے یا دکان لوٹ لینے کی۔ احمدی دکانداروں کو سودا اور پھل دینے سے منع کردیا گیا۔ ایک احمدی بابا فض الٰہی صاحب آٹا پسوانے کے لئے گئے تو مشین والوں نے انکار کردیا۔
فضا یکدم زیادہ خراب ہوگئی۔ اشتعال بڑھ گیا۔ بعض احمدی دکانوں پر پتھرائو کیا گیا کھلم کھلا تشدد یعنی احمدیوں کو قتل کرنے یا مرتد کرنے کے لئے دھمکیاں دی جانے لگیں۔ اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کرنے کے ارادے ظاہر کئے جانے لگے اور شہر مکمل طور پر انارکی کی لپیٹ میں آگیا جس کا اثر ارد گرد کے دیہات میں بھی پوری سرعت سے پھیل گیا۔
سیکرٹری صاحب امور عامہ جماعت احمدیہ چنیوٹ نے بھی اس دن جو ابتر اور تشویشناک حالات مرکز میں ارسال کئے ان کے آخر میں لکھا کہ >ایسے حالات میں جماعت بے بس ہے چند روز میں بھوک کا شکار ہونا شروع ہوجائیں گے نیز اپنے گھروں میں ہر وقت اندر ہی خطرناک حالات کی بناء پر رہتے ہیں مجبوری کے وقت بازار میں جاتے ہیں ہماری حالت قابل رہم ہونے والی ہے خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جلد مدد کے لئے پہنچے۔
حضرت مصلح موعود نے اس رپورٹ پر اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا:۔
>احمدی ہوکر کیا آپ سمجھتے تھے کہ آپ کے گلے میں ہار پہنائیں گے کیا محمد رسول اللہ~صل۱~ کے گلے میں ہار پڑے تھے<؟
۱۳ مارچ
۱۳ مارچ۔ چنیوٹ میں بعد نماز جمعہ جلوس نکالا جس میں شامل ہونے والوں کی تعدد قریباً ۳ ہزار تھی۔ ملٹری کے سپاہی اڈے سے گزرے تو ان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔
شیخ محمد حسین صاحب قائم مقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ نے سب انسپکٹر صاحب کو جماعت کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں مجبور ہوں میری پشت پر کوئی نہیں۔ سپاہی جواب دے چکے ہیں فورس طلب کی تھی وہ مل نہیں رہی ایک دوسرے تھانیدار صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنے آدمیوں کو ربوہ کیوں نہیں بھیج دیتے؟
ساڑھے چار بجے شام کی رپورٹ موصول ہوئی کہ >غیر احمدی مستورات اپنے تعلق ولے گھروں کو ازراہ ہمدردی آگاہ کررہی ہیں کہ آج حملہ ہوگا اور رات کو آگ وغیرہ لگے گی۔
آج لالیاں میں باہر سے آنے والے ایک مولوی صاحب نے خطبہ جمعہ میں یہ کہہ کر اشتال دلایا کہ فلاں جگہ اتنے مسلمان سارے گئے اور فلاں جگہ اتنے۔ تم یہاں کیا کررہے ہو کم از کم مرزائیوں سے بائیکاٹ ہی کر دو پھر لوگوں سے اقرار لیا اور ہاتھ اٹھوائے۔ لالیاں کے مقامی خطیب نے کہا کہ لوگ ہاتھ اٹھاتے ہیں عمل نہیں کرتے اس پر ایک مہاجر نے کہا کہ جو عمل نہ کرے اس کو سزا دی جائے یاد رہے ایک رپورٹ کے مطابق انہی دنوں اہل چنیوٹ نے لالیاں والوں کو مہندی اور چوڑیاں بھجوائیں۔
پولیس کے بعض سپاہی احد نگر میں متعین تھے جو فراغت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور رسالے پڑھتے رہتے تھے ان میں سے بعض نے روز یہ اظہار کیا کہ ہم پر وفات مسیح کا مسئلہ تو بالکل کھل گیا ہے اور حضرت مرزا صاحب کا مبلغ اسلام ہونا بھی ہمیں مسلم ہے مگر مسئلہ نبوت ابھی تک واضح نہیں ہوا۔
احمد نگر کے احمدیوں نے گناہی حالات کی وجہ سے اس روز جمعہ بھی گھروں میں ہی ادا کیا اور حضرت مصلح موعود کا تازہ خطبئہ ربوہ کا خلاصہ احباب تک پہنچا دیا گیا۔
۱۴ مارچ
۱۴ مارچ۔ جامعہ محمدیہ شریف10] p~[ف۲۷~ )ضلع جھنگ( کے طلبہ نے ربوہ اور احمد نگر کے مضافات میں درہ کرکے لوگوں کو احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کی تلقین کی۔ بعض جگہ انہوں نے یہ بھی کہا وزیراعلیٰ پنجاب )میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ( ہمارے ساتھ ہیں۔
چنیوٹ میں جلوس نکالا گیا نیز احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے پر زور دیا گیا اور دکانداروں سے کہا گیا کہ جو >مرزائیوں< کو سودا دیتا پکڑا گیا اس کا منہ کالا کردیا جائے گا۔
برجی اور دیگر دیہات میں یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ جو شخص ربوہ جاتا ہے قتل کردیا جاتا ہے۔ جو بالکل سفید جھوٹ تھا۔
معلوم ہوا کہ میانوالی سے جس جتھہ کے چنیوٹ پہنچنے کی خبریں آرہی تھیں اسے سرگودھا سے ہی واپس کردیا گیا ہے نیز جتھہ کے بعض لوگوں کو گرفتار کرکے شاہ پور میں چھوڑ دیا گیا ہے۔
۱۵ مارچ
۱۵ مارچ۔ ماحول ربوہ کی بعض اطلاعات سے معلوم ہوا کہ عوام میں احراری ایجیٹیشن کے خلاف نفرت کی ایک رو پیدا ہورہی ہے اور یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ احرار نے یہ قدم اٹھا کر برا کام کیا ہے۔
۱۶ مارچ
۱۶ مارچ۔ اس دن ربوہ کے ایک احمدی دودھ فروش بعص دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ربوہ کے قریبی گائںو )ستی والا( سے دودھ لئے آرہے تھے۔ کہ ۵` ۶ آدمیوں نے ان پر حملہ کرکے دودھ کا برتن چھین لیا۔ اور پھر پورے گائوں کو اکٹھا کرلیا ہجوم میں کوئی کہتا ان کو قتل کردو۔ کوئی کہتا ان کو گڑھا کھود کر دفن کردو۔ ایک شخص جو اپنے آپ کو سپاہی ظاہر کرتا تھا کہنے لگا کہ اگر انہیں یہاں قتل کردیا جائے تو حکومت ذمہ دار نہ ہوگی۔ بہت دیر تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ آخر بڑی مشکل سے یہ لوگ ربوہ پہنچے مولوی عبد العزیز صاحب بھامڑی محتسب ربوہ نے اس واقعہ کی اطلاع حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچاتے ہوئے لکھا:۔
>اس دفعہ کی اطلاع انچارج تھانہ لالیاں کو کررہا ہوں کہ وہ انسداد فرمائیں یہاں C۔P گارد کو توجہ دلائی جائے تو وہ پرواہ نہیں کرتی کہ یہ کام تھانہ والوں کا ہے کوٹ امیر شاہ کے ایک شخص۔۔۔۔۔ نے آکر کہا تھا کہ مجھے روکتے اور دودھ گراتے ہیں۔ C۔P کے سپاہی نے کہا یہاں آکر کیوں بتاتے ہو چنانچہ دوسرے روز۔۔۔۔ )اس( کا منہ کالا کرکے اسے کوٹ امیر شاہ میں مارا گیا۔ کسی مشتبہ آدمی کو بھی C۔P اسے احمد نگر گارد کے پاس بھیجنا پڑتا ہے۔<
لالیاں سے تحریری اطلاع پہنچی کہ ایک شخص نے جو ایک مقامی بااثر شخصیت کا کار دار تھا ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ کے بیٹے عطاء الحق سے کہا کہ
>ہوش کرو۔ چند دن اور گھوم پھر لو قتل کر دیئے جائو گئے۔<
ان ہر دو ناخوشگوار واقعات کے علاوہ مضافات ربوہ میں عام طور پر یہ دن سکون و امن سے گزرا۔
۱۷ مارچ
۱۷ مارچ۔ اس روز ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لالیاں کا خطہ حضور کی خدمت میں موصول ہوا جس میں یہ خوشخبری لکھی تھی >اب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھل گئے۔ بالکل سکون ہے ہڑتال بھی ختم ہوگئی ہے۔
احمد نگر میں مقیم تین سپاہی بعص ایسے دیہات میں گئے جہاں ابھی تک ربوہ کی طرف دودھ لانے میں روکاوٹیں کھری کی جارہی تھیں۔ بائیکاٹ کی پشت پناہی کرنے والوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ مزاحمت نہ ہوگی۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں ربوہ کے معاشرتی مہاصرہ کے باقی ماندہ اثرات بھی ختم ہوگئے اور دودھ بلا روک ٹوک آنے لگا۔ فالحمد اللہ علی ذالک۔ بایں ہمہ ملک کے مختلف مقامات پر یہ خبریں بدستور پھیلائی جاتی رہیں۔ کہ ربوہ میں ایک لاکھ جتھہ جارہا ہے بلکہ کمال ڈیرہ سندھ میں یہ خبر گشت کررہی تھی کہ ربوہ پر حملہ بھی ہوچکا ہے۔
۱۸ مارچ
۱۸ مارچ۔ پتہ چلا کہ ضلع سیالکوٹ وغیرہ میں یہ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ معاذ اللہ ربوہ کو جلا دیا گیا ہے اور سب احمدی قتل کردیئے گئے ہیں۔ اس پراپیگنڈا کا علم ماسٹر حمید احمد صاحب~ف۲۸~ سنیاسی مقیم ربوہ کے ایک غیر احمدی رشتہ دار کے ذریعہ ہوا جو اس دن دوپہر کے قریب ان کی خیریت دریافت کرنے کو ربوہ پہنچے تے۔
۲۰ مارچ
۲۰ مارچ۔ نماز جمعہ کے بعد چنیوٹ میں جلوس نکالا گیا جس میں گوجرانوالہ` سیالکوٹ اور جڑانوالہ کے رضا کار بھی شامل تھے۔ جلوس میں یرملایہ دھمکی دی گئی کہ حکومت اس وقت ہمارے مطالبات منظور کرے گی جب احمدیوں کے گھر جلائے جائیں گے۔
۲۱ مارچ
۲۱ مارچ۔ چنیوٹ کے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم تیز تر کردی گئی احمدیوں کی دکانیں کھلی تھیں مگر گاہکوں کو وہاں سے سودا خریدنے نہ دیا جاتا ایک احمد ٹرنک ساز نواب الدین صاحب نے بتایا کہ گاہوں کو یہ کہہ کر روکا جاتا ہے کہ یہ مرزائی کی دکان ہے اس سے سودا نہ خریدیں۔ ایک احمدی کسی غیر احمدی دکاندار سے سودا خریدنے گئے اس نے سودا دے دیا مگر دوسروں نے اسے روک دیا وہ احمدی گھر چلے گئے تھوڑی دیر بعد یہ دکاندار گھی وغیرہ خود احمدی کو دینے جا رہا تھا کہ لوگوں نے اسے زبردستی منع کردیا۔
۲۱۔ ۲۲ مارچ کی درمیانی شب کو چنیوٹ میں ڈھول بجا کر جلوس نکالا گیا جس میں احمدیت` حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور وزیراعظم پاکستان کے خلاف گند اچھالا گیا اور گندے نعرے لگائے گئے۔

۲۳ مارچ
۲۳ مارچ۔ چنیوٹ سے رپورٹ ملی کہ >سوشل بائیکاٹ تاحال جاری ہے مندی کے سب آڑہتیوں کی کمیٹی نے منڈی سے احمدیوں کو سودا دینے کے خلاف آڑہتیوں سے وعدے لے رکھے ہیں۔ لہذا منڈی سے احمدیوں نہ گندم نہ سبزی دی جاتی ہے ویسے دالیں اور سبزی وغیرہ بچوں کے ذریعہ شرفاء سے لے لی جاتی ہے۔ غنڈوں کے ڈر سے شرفاء بھی احمدیوں کے بڑے آدمیوں کو سودا نہیں دیتے چپکے سے کہہ دیتے ہیں کہ کسی بچہ کو بھیج دینا۔
حوالہ جات
~ف۱~
)تلخیص( مراسلہ غیر مطبوعہ
~ف۲~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۶۸ تا صفحہ ۱۸۹
~ف۳~
ان دنوں آپ گلی نمبر ۴ بازار منٹگمری لائل پور میں رہتے تھے
~ف۴~
بعدازاں ربوہ میں مقیم ہوگئے تھے اور یہیں وفات پائی وفات ۵ مارچ ۱۹۷۶ء
~ف۵~
ولادت ۲۰ جون ۱۹۰۰ء وفات ۸ اگست ۱۹۸۹ء
~ف۶~
اخبار >اعلان< )لائلپور( مئورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۵۱ء نے صفحہ ۲ پر لکھا کہ >کارخانہ بازار میں جو فضل الدین مرزائی نمک فروش کا اڈہ ہے ہم اس کی تبلیغ برداشت نہیں کرسکتے۔ لہذا ہم پولیس کو مطلع کرتے ہیں کہ وہ کل صبح نو بجے سے پہلے پہلے کارخانہ بازار سے مرزائیت کے نمک فروشی کے اڈے کو اٹھا دیں ورنہ ہم خود انتظام کریں گے۔<
یہ انتظام کس طرح کیا گیا >اس کا ذکر تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججوں نے بایں الفاظ کیا:۔
>لائلپور میں >یوم )تشکر( ۲۰ اپریل ۱۹۵۱ء کو منایا گیا جہاں ایک بہت بڑے جلسے میں غلام نبی جانباز نے ایک احمدی دکاندار فضل دین کو دھمکی دی کہ تمہارا حشر برا ہوگا۔ چنانچہ ۷ مئی کو دن دہاڑے اس کا دکاندار پر اس کی دکان کے اندر ہی حملہ کیا گیا< )رپورٹ صفحہ ۲۹
~ف۷~
وفات ۱۴ اگست ۱۹۸۳ء
~ف۸~
اصل ڈائری میں جو شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے >بیت الذکر کی بجائے مسجد کا لفظ ہے )ناقل(
~ف۹~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۸۹ )اردو(
~ف۱۰~
ڈاکٹر صاحب موصوف نے محترم ملک فضل حسین صاحب کو بتلایا کہ کسی شخص نے میری بچی کو دھکا دیا اور پانچ روپے کا نوٹ چھین کر کہنے لگا کہ مرزائیوں کا سب کچھ چھین لینا جائز ہے اور اپنی راہ چلتا بنا۔ کسی نے اسے نہ ٹوکا۔ وہ بچی روتی ہوئی گھر آئی اور یہ واقعہ سنایا۔
~ف۱۱~
وفات
~ف۱۲~
بنگہ ضلع جالندھر کے نواح میں ایک گائوں
~ف۱۳~
ملحض مکتوب چوہدری عبد الغنی صاحب امیر جماعت احمدیہ مگھیانہ بحضور حضرت مصلح موعود )۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء مکتوب میاں بشیر احمد صاحب جھنگ مگھیانہ بحضور حضرت المصلح الموعود )۱۶ مارچ ۱۹۵۳ء( رپورٹ مولوی عبد الرحیم صاحب عارف مربی جھنگ مگھیانہ بنام حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب )۶ مارچ ۱۹۵۳ء(
~ف۱۴~
مکتوب بحضور حضرت مصلح موعود مرسلہ حکیم عبد الرحمان صاحب شمس سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ شور کورٹ )مورخہ ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء(
~ف۱۵~
کارڈ مولوی عبد الرحیم صاحب عارف بنام حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ )۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء(
~ف۱۶~
وفات جون ۱۹۷۶ء
~ف۱۷~
وفات ۱۸ مئی ۱۹۸۷ء
~ف۱۸~
حال لنڈن
~ف۱۹~
ایک گائوں جو کہ ربوہ سے متصل شمالی جانب واقع ہے۔
~ف۲۰~
عیسیٰ صاحب
~ف۲۱~
رحمت علی صاحب
~ف۲۲~
سپرٹنڈنٹ جامعہ احمدیہ وفات )۲۴ مئی ۱۹۸۱ء(
~ف۲۳~
استاد جامعہ احمدیہ وفات ۲ جنوری ۱۹۷۰ء
~ف۲۴~
استاد جامعہ احمدیہ )وفات ۲۹ اپریل ۱۹۸۲ء
~ف۲۵~
مربئی سلسلہ احمدیہ )وفات( ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۸ء صفحہ ۴ >مہر محمد حسن< ایم ایل اے لالیاں۔
~ف۲۶~
وفات ۲۴ فروری ۱۹۸۷ء
~ف۲۷~
دریائے چناب کے دوسرے کنارے چنیوٹ جھنگ سڑک پر ایک سنی درگاہ۔ مہتم و بانی مولوی محمد ذاکر صاحب۔ تاریخ بنیاد ۱۸ محرم الحرام ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۴ مئی
~ف۲۸~
۱۹۳۳ء
وفات ۹ مئی ۱۹۸۹ء
‏tav.14.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
ساہیوال` لاہور کی احمدی جماعتوں کے واقعات
۳۔ شیخ عبد الحمید صاحب نے انہیں دنوں مزنگ سے ایک پوسٹ کارڈ میں سحب ذیل روداد لکھی کہ:۔
>جمعہ کے روز بعداز دوپہر ہمارے مکان پر بھی حملہ ہوگیا۔ بمشکل جانیں بچا کر اور ملٹری کا انتظام ہوجانے پر رات کے وقت شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر بچوں کو لے کر پہنچے۔ میرے پاس اس مکان میں میرا اپنا راشن ڈپو بھی تھا۔ وہ ڈپو اور مکان کا تمام کارآمد سامان لوٹ لیا گیا۔ باقی سامان کو برلپ سڑک رکھ کر جلا دیا گیا۔ اسی لوٹ کے باعث ہمارے پس اوڑھنے کے لئے ایک چادر تک بھی باقی نہیں رہی۔ مکان کے در و دیوار تک کو بھی جہاں تک حملہ آوروں سے ممکن ہوسکا نقصان پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ اب اس مکان میں رہنا ناممکن ہوگا۔<
شیخ صاحب کے مکان کے بالکل قریب ہی مزنگ کی پولیس چوکی ہے۔ مگر باوجود اس یک غنڈوں نے چھاپہ مار کر ایک بے کس اکیلے اور لاچار احمدی کا گھر بار تباہ و برباد کرکے ہی چھوڑا اور انہیں مالی طور پر گیارہ ساڑھے گیارہ ہزار روپیہ کا نقصان پہنچا گئے۔ اور وہ پولیس جو فساد سے قبل انہیں ہر طرح تسلی و تشفی دیتی رہی تھی وقت پڑنے پر ان کے کام نہ آسکی۔
۴۔ جماعت حلقہ گنج )مغلپورہ( لاہور کے صدر صاحب نے ایک تحریری بیان میں فسادات لاہور کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھا:۔
>مذکورہ بالا حالات نے ہمارے حلقہ کی فضاء کو بھی کماحقئہ متاثر کیا۔ یہاں یک لوگ بھی احمدیوں کے خلاف ہوگئے۔ سب سے پہلا واقعہ باغبانپورہ میں ماسٹر منظور احمد صاحچب کی شہادت کا رونما ہوا۔ جو اخبارات میں آچکا ہے۔ اس سے اگلے روز احمدیوں کے گھروں پر شریروں اور بدمعاشوں نے جلوس کی شکل میں آ آکر ہمارے خلاف نعرے لگائے۔ پتھر پھینکے اور گالیاں دینی شروع کردیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔ ہماری جماعت نے متعدد بار تھانہ مغلپورہ میں جاکر حالات کی نزاکت کی اطلاع دی اور مدد طلب کی مگر تھانہ والوں نے صاف الفاظ میں جاکر اپنی معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ سب خالف ہیں۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعہ کی صبح کو ہمارے حلقہ راج گڑھ کے ایک نہایت مخلص دوست` محمد شفیع صاحب جب بیت الذکر سے صبح کی نماز ادا کرکے گھر جارہے تھے راستہ میں روز روشن میں چاقوئوں سے شہید کردیئے گئے۔۔۔۔۔ ساہوواڑی میں ایک احمدی دوست محمد عظیم تھے شریر لوگوں نے ان کے مکان پر جاکر ان کو ڈرایا۔ دھمکایا اور ان سے زبردستی احمدیت سے توبہ کرائی۔ وہاں کے مولوی صاحب نے ان کا دوبارہ نکاح پڑھ کر چھوہارے بھی تقسیم کئے۔۔۔۔۔ گلی نمبر۱ مکان نمبر۲ رام گڑھ میں احمدیوں کا کا ایک اکیلا مکان تھا۔ اس پر حملہ کیا گیا دروازے توڑ دیئے گئے اور چاقوئوں اور چھروں سے مسلح ہوکر غنڈے قتل اور لوٹ کے ارادہ سے اندر داخل ہوگئے )مگر( محلہ کے بعض معززین نے بمشکل ان کو نکالا اور پھر تھانہ میں مدد کے لئے اطلاع کی۔ )چونکہ( اس وقت مارش لاء لگ چکا تھا۔ اس لئے فوج کے کہنے پر پولیس کی گارد وہاں جاکر ان کو بحفاظت مغلپورہ لائی۔ جمعہ کے روز احمدیوں کی حالت نہایت خطرہ میں تھی۔ وہ سمٹ سمٹا کر محصور ہوگئے تھے متواتر کئی راتوں سے وہ جاگ رہے تھے اور غنڈے باہر دروازے توڑ رہے تھے پتھر مار رہے تھے۔ گالیاں دیتے اور اس فکر میں تھے کہ جس طرح ہوسکے احمدیوں کو ختم کیا جائے۔ احمدی ایک دوسرے کی خیر و عافیت بھی نہیں معلوم کرسکتے۔ باوجود اس کے کہ ڈیڑھ بجے مارشل لاء لگ گیا تھا پھر بھی محلہ کے اندرونی حصوں کو خطرہ بدستور تھا۔ جمعہ اور ہفتہ کی )درمیانی( شب کو جماعت گنج کے پریزیڈنٹ میاں عبد الحکیم صاحب کی والدہ )جو کہ غیر احمدی تھیں( کو شہید کیا گیا اور ان کا روپیہ اور مال اسباب لوٹ لیا گیا۔ ان کے نقصان کا اندازہ نقدی مع دیگر سامان مبلغ بارہ ہزار روپیہ ہے۔ بابو عبد الکریم صاحب حلقہ گنج مغلپورہ کے مکان کو اسی رات پہلے لوٹا گیا اور پھر لوٹنے کے بعد آگ لگائی گئی۔ ان کے نقصان کا اندازہ ۔/ ۳۷۰۶ روپیہ ہے۔ احمدیوں کے مکانوں کا پتہ محلہ کے بعض شریروں نے باہر سے آنے والے بدمعاشوں کو بتایا۔۔۔۔۔ مستری محمد اسماعیل صاحب اور عبد الرزاق صاحب جو کہ ریلوے کوارٹر مغلپورہ میں رہتے ہیں ان کے کوارٹروں پر حملہ کیا گیا اور ان کو لوٹا گیا۔ عبد الرزاق صاحب کمپونڈر ریلوے کا اندازہ نقصان ۳۴۸ روپے تھے ان کے بڑے بھائی کو شریروں نے محض اس لئے مارا کہ وہ ان کے بال بچوں کو محفوظ جگہ لے جانے کے لئے آیا تھا۔ حالانکہ وہ خود غیر احمدی تھا مستری محمد اسمٰعیل صاحب ملازم ریلوے کا سامان لوٹ لیا گیا اور ان کی بھینس بھی کھول کر لے گئے تھے۔ بھینس تو بعد میں پولیس نے برآمد کرا دی۔ مگر دیگر نقصان جس کا اندازہ ۱۵۰۰ روپے ہے وہ نہیں پورا کیا گیا۔< الخ
رام گلی
۵۔ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ:۔
>میرا مکان برانڈ رتھ روڈ رام گلی نمبر ۳ میں واقع ہے۔ جس کے چار دروازے رام گلی نمبر ۴ میں کھلتے ہیں یہاں یہ مکان >رہنمائے تعلیم بلڈنگ< کے نام سے مشہور ہے میرے نام مکان کا نچلا حصہ الاٹ ہے۔ اوپر کے حصوں میں تین غیراحمدی ہمسائے آباد ہیں۔
۱۔ فسادت سے بہت پہلے ایک صاحب میرے پاس آئے۔ اور کہنے لگے۔ >میں اسی محلہ میں رہتا ہوں۔ اور آپ سے یہ کہنے آیا ہوں۔ کہ جب موقع آیا۔ تو ہم لوگ سب سے پہلے آپ کے مکان کو آکر آگ لگائیں گے۔ آپ ہوشیار ہیں۔<
میں نے ان سے کہا >کیا آپ کا اسلام یہی کہتا ہے کہ جو اپنا مخالف ہوا اسے پھونک دو< فرمانے لگے >جی ہاں ہمارا اسلام یہی کہتا ہے< میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ >بہتر ہے اس وقت تو آپ تشریف لے جائیں۔ جب موقع ہوگا تو آپ تشریف لے آئیں۔ اور مکان کو آگ لگادیں< میں فسادات کے موقع پر ان کا منتظر رہا۔ مگر اس وقت یا اس کے بعد آج تک ان کو نہیں دیکھا۔ صورت آشنا ہوں۔ نام نہیں جانتا۔
۲۔ فسادات سے پہلے متعدد مرتبہ نہایت گندے اور فحش اشتہارات ہاتھ سے لکھے ہوئے میرے ذاتی لیٹر بکس پر اور میری گلی کے کھمبوں پر چسپاں کئے گئے۔ جو محلے کے شریف اصحاب نے اتار کر پھاڑ دیئے۔
۳۔ فسادات سے دو چار دن پہلے ایک صاحب میرے آئے اور کہنے لگے۔ >امیر صاحب جماعت احمدیہ لاہور کا حکم ہے کہ آپ اپنے گھر کے تمام افراد کے نام اور عمر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ دیں۔ تاکہ وہ نام پولیس میں دے کر حفاظت کی تدابیر کی جائیں۔< میں نے ان سے کہا کہ >امیر صاحب کا تحریری حکم لے آیئے۔ میں ان کا خط پہچانتا ہوں۔ پھر آپ کو لکھ دوں گا۔< مگر وہ پھر نہیں آئے۔
۴۔ فسادات کے دنوں میں لوگوں کی ٹولیاں کم تردن میں اور بیشتر راتوں کو آتیں۔ اور کتنی کتنی دیر تک میرے مکان کے سامنے کھڑے ہوکر نہایت اشتعال انگیز نعرے لگاتیں۔ اور چلی جاتیں یہ سلسلہ رات کے ایک اور دو بجے تک جاری رہتا۔ ہم لوگ کواڑ مضبوطی سے بند کئے اندر گھر میں بیٹھے رہتے۔ اور سب کچھ سنتے رہتے۔
۵۔ فسادات کے ایام میں اس امر کی برابر خبریں ملتی رہیں کہ لوگ ارادہ کررہے ہیں۔ کہ رات کو پٹرول ڈال کر تمہارے مکان کو آگ لگا دیں اور بوتلیں لئے پھر رہے ہیں۔
۶۔ آخر ۶ مارچ کو وہ لوگ آگئے۔ اور مکان کو پھونک دینا چہاا۔ مگر مشکل یہ آپری کہ مکان کی اوپر کی منزلوں میں دوسرے غیر احمدی حضرات رہتے تھے۔ اور نیچے کی منزل کو آگ لگاتے سے اوپر تک تمام مکان جلتا تھا۔ اس لئے وہ لوگ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اور مجبوراً چھوڑ کر چلے گئے۔ اوپر کی منزل میں جو غیر احمدی رہتے ہیں۔ انہوں نے فسادیوں سے یہ بھی کہا۔ >تم تم آگ لگا کر چل دو گے۔ مگر میں سرکاری ملازم ہوں جب بعد میں سرکار مجھ سے جواب طلب کرے گی۔ کہ تم نے کیوں نہ روکا۔ تو میں کیا جواب دوں گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ کہ میں مارا جائوں گا پھر میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ ان کے گھر میں سوائے قران شریف اور دینی کتابوں کے کچھ نہیں۔ تم قران شریف کے نسخوں کو کس طرح جلا سکتے ہو؟ جو قران شریف ان کے پاس ہیں ان میں سے ایک قران انہوں نے مجھے بھی پڑھنے کے لئے دیا تھا۔ اور وہ میرے پاس ہے۔< اس پر انہوں نے کہا۔ کہ اچھا وہ قرآن شریف ہمیں لاکر دکھائو۔ میں نے ان صاحب کو چند دن پہلے تفسیر کبیر کی پہلی جلد پڑھنے کے لئے دی تھی۔ وہ انہوں نے لاکر بلوائیوں کو دے دی کہ لو دیکھ اس پر بلوائی تفسیر کبیر اپنے ساتھ لے گئے۔ اور مکان کو چھوڑ گئے۔ بعد کے ایام میں ایک شخص ان میں سے آیا اور بڑی خاموشی کے ساتھ وہ تفسیر کبیر ان کو واپس کرگیا۔ جو انہوں نے مجھے دے دی۔ فسادات کے ان تمام ایام میں محلہ اور گلی والوں کا برتائو میرے ساتھ بالعموم نہایت شریفانہ رہا۔ جو کچھ شورش مچائی۔ وہ عام طور پر باہر کے لوگوں نے مچائی۔
میں نے ان تمام واقعات میں سے کسی واقعہ کی رپورٹ پولیس میں نہیں کی۔ نہ کبھی پولیس کو اپنی امداد کے لئے بلایا۔ الحمدلل¶ہ میرا کوئی نقصان ان فسادات کے ایام میں نہیں ہوا۔
خاکسار
)شیخ( محمد اسماعایل پانی پتی
مکان نمبر ۱۸ رام گلی نمبر ۳ لاہور
۴ جولائی ۱۹۵۳ء
۷۔ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری اپنی کتاب تجلی قدرت میں لکھتے ہیں:۔
>۱۹۵۳ء میں جب میں ناصر آباد )سندھ( میں کام کررہا تھا اس وقت ساری مذہبی پارٹیاں ہمارے خلاف ہوگئیں اور پھر حکومت بھی خلاف ہوگئی۔ اس وقت برخوردار مسعود احمد بھی لاہور میں کام کرتا تھا۔ اکبری منڈی میں دکان تھی آسٹریلیا بلڈن میں ایک سو ستر روپیہ پر نچلا حصہ کرایہ پر تھا۔ اس مکان کے مالک آسٹریلین بلڈنگ والے خاندان کے ممبر تھے۔ میں چونکہ اس وقت سندھ میں تھا اور کہتا تھا کہ ابا جان! آج ہم مہاجر بن گئے۔ اس وقت دکان کا قرضہ دو لاکھ کے قریب بازار کے ذمہ تھا اور گودام میں جو مکان کے ساتھ تھا ستر ہزار کا مال پڑا ہوا تھا۔ اس نے کہا آج ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔ آج مہاجر ہوگئے۔
اس خواب کے ذریعہ مجھے پریسانی ہوگئی۔ میں نے صدقہ بھی دیا اور دعا بھی کی اور مسعود احمد کو خط لکھا کہ تمہارے گھر میں کوئی بچہ پیدا ہونے کی تو امید نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں میں نے اس غرض سے دریافت کیا تھا کہ اگر پیدا ہونے والی لڑکی ہو تو چونکہ لرکی جہیز میں کچھ لے جتی ہے۔ میں نے سمجھا کہ یہ خواب اس طرح بھی پورا ہوسکتا ہے۔ جب اس نے مجھے یہ جواب دے دیا۔ ادھر خطرات بڑھ رہے تھے۔ میں نے دعائیں شروع کر رکھی تھیں۔ چنانچہ مارکیٹ میں جو دکان تھی خطرہ پیدا ہوا کہ لوٹ لی جاوے گی تو مسعود احمد صاحب اپنے گھاتہ جات کو گھر لے آئے اور دکان بند کردی۔ ان کا دکان پر آنا جانا بھی بند ہوگیا۔
دکان کو بند ہوئے ابھی دو تین روز ہوئے تھے کہ شریروں نے دکان کے تالے توڑ کر جلا دی اور سمجھا کہ بازار میں جو حساب کتاب تھے وہ کاپیاں حساب کی بھی جل گئی ہوں گی۔ اور وہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ مکان پر یہ حالت ہوگئی کہ جرنیلی سڑک سے فٹ پاتھ کے قریب کوچے میں دروازہ تھا۔ دن میں دو دو تین تین دفعہ ہزار ہزار آدمی سڑک پر پہنچ کر گالیاں دیتے تھے لیکن کوچے کا دروازہ نہیں توڑتے تھے اور آپس میں کہتے تھے کہ اندر صرف دو آدمی ہیں اور ان کے پاس اسلحہ ہے۔ جتنے کارتوس ہوں گے اتنے تو یہ مار سکتے ہیں نکلنے کے بعد پھر ان کو قابو کیسا جاسکتا ہے۔
جب یہ حالت ہوگئی تو مسعود احمد نے اپنی بیوی سے یہ بات کہی مالک مکان کی بیوی سے یہ بات جاکر کہو کہ ہمارا ستر ہزار کا مال آپ کے مکان میں پڑا ہے ہم یہ سب سامان آپ کے سپرد کرتے ہیں۔ براہ مہربانی اپنی موٹر میں پولیس لائن تک پہنچا دیں۔ ان کی بیوی نے اپنے خاوند سے جاکر دریافت کیا انہوں نے جواب دیا کہ جماعت کے سب لوگوں کے لئے تاریخ مقرر ہے۔ اس دن یہ سب قتل ہوجاویں گے۔۔۔۔ میں اپنی بیس ہزار کی موٹر کیسے تڑوا لوں۔
یہ جواب سن کر جب وہ واپس آئی اور مسعود احمد کو بتایا تو مسعود احمد خود مالک مکان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ ساری جماعت کے لوگ قتل ہوجائیں گے یہ بالکل غلط بات ہے۔ خدانخواستہ چند آدمی شہید ہوجائیں تو ہوجائیں۔ باقی آپ کا یہ خیال غلط ہے۔ اگر آپ مہربانی کرتے تو ہم یہ سب سامان آپ کے پاس چھوڑ کر چلے جاتے مگر انہوں نے بھی حامی نہ بھری یہ واپس اپنے مکان میں آگئے۔
ایک رات گزری تھی کہ صبح کو قریشی محمد اقبال صاحب لائن افسر موٹر لے کر وہاں پہنچے اور ان کی موٹر کے آگے پیچھے دو مشین گنوں والی موٹریں تھیں اور انہوں نے آکر کہا کہ فوراً جلدی جلدی چلے آئو۔ مکان کو اسی طرح رہنے دو۔ کوئی سامان زویر کچھ نہیں لیا۔ صرف چار جوڑے کپڑوں کے رکھے اور وہاں سے چلے گئے۔ اور پولیس لائن جاکر مجھے خط لکھ دیا کہ آج ہمارے پاس صرف چار جوڑے کپڑوں کے رہ گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ سے ان کو پولیس لائن میں گئے ابھی دو دن ہی ہوئے تھے کہ مارشل لاء لگ گیا اور فوج نے حکومت سنبھال لی۔ خطرہ کے دور ہوتے ہی مسعود احمد صاحب واپس اپنے گھر چلے گئے تو سارا سامان بدستور پڑا تھا۔ چار پانچ روز کے بعد جب بزار میں امن ہوگیا تو ہم نے دکان کھولی۔ جن جن لوگوں کے پاس روپیہ تھا ان سے مطالبہ کیا تو انہوں نییہی کہا کہ ہمیں بہی کھاتہ دکھائو۔ ان کو کہہ دیا گیا کہ آئو دیکھ لو۔ بہ کھاتہ دیکھ کر لوگ حیران تھے کہ دکان تو ساری جلا دی گئی تھی یہ بہی کھاتہ کہاں پڑا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے دکان بھی بچا دی مکان بھی اور جان بھی محفوظ رکھ لیا۔ اس واقعہ کا اثر مالک مکان پر ایسا ہوا کہ انہوں نے سلسلہ کی کتابیں دیکھنی شروع کردی اور اپنے خاندان کے لوگوں کو احمدیوں سے ملا کرتے تھے۔~ف۱۴~
۷۔ حضرت ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل صاحب~ف۱۵~ شاہ جہانپوری کیمسٹ و ڈرگسٹ اندروں موچی دروازہ لکھتے ہیں کہ:۔
‏iq] >[tagمیری دکان ۶ مارچ کو لوٹی گئی اور بری طرح صفائی کی گئی یہاں تک کہ دوائیاں لوٹنے اور توڑنے کے بعد میز` کرسی تمام سامان دکان کا ضائع کیا اور گھروں کو لے گئے دکان کا فرش اور دیواریں ضائع ہونے سے خراب ہوگئیں اور چھوٹی الماریاں اٹھا کر لے گئے اور بڑی الماری کے شیشے توڑ گئے۔ یہ نہایت سفاکی اور بربریت کا نمونہ پیش کیا گیا۔ ان دنوں بعض سائیکل سوار گزرتے تو وہ ساتھیوں سے کہتے کہ یہ دکان مرزائی کی ہے نوٹ کر لو۔ وغیرہ وغیرہ۔ افسوس کا مقام ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا دن کے اڑھائی بجے تھے اور پولیس اسٹیشن میری دکان سے قریباً ۵۰ گز کے فاصلہ پر واقعہ ہے۔ باوجود پولیس کو علم ہونے کے ٹس سے مس نہ ہوئی اور اپنے فرض منصبی کو بھلا دیا۔ جب میں نے متعدد بار پولیس والوں سے پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمارے افسران کی طرف سے ہم کو یہی حکم ہے کہ نہ وردی پہنیں اور نہ ہی ہاتھ اٹھائیں۔ اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ان پولیس والوں کی بے پرواہی سے ہم غریب لٹ گئے۔<
آپ نے جو نقصان کی تفصیل سرکاری حکام کے سامنے پیش کی وہ قریباً اڑھے تیس ہزار روپیہ کی تھی۔ بوائیوں نے تو آپ کو جان سے مار ڈالنے کا بھی ¶تہیہ کرلیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان موذیوں سے بچایا۔
بھاٹی گیٹ
۸۔ حضرت میاں معراج دین صاحب پہلوان~ف۱۶~ بھاٹی گیٹ لاہور کا بیان ہے کہ۔
>۶ مارچ ۱۹۵۳ء۔۔۔۔۔ قتل غارت کرنے اور لوٹ مار اور آتشزدگی کرنے کا آخری دن تھا۔ ۶ مارچ کی صبح کو سب دوستوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیئے تو یہ بات قرار پائی کہ دپٹی کمشنر صاحب کی خدمت میں جاکر یہ کہیں کہ حالت بہت خراب ہوچکے ہیں آپ کوئی انتظام کریں لوگوں کے ارادے ہمارے متعلق بہت خطرناک ہیں۔ اگر کوئی روک تھام نہ کی گئی تو نتیجہ اس کا تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ چنانچہ وفد کے چار دوست کچہری کی طرف روانہ ہوگئے اور بعد میں لحظ بلحظ ہجوم بڑھتا گیا اور حالات درندگی۔ وحشت اور دیوانگی لئے ہوئے خراب سے خراب تر ہوگئے۔ اور ادھر یہ ہوا کہ ہمارے نوجوانوں کے بعض شریف اور ہمدرد دوست اپنے اپنے گھروں میں ان کو بچوں اور عورتوں سمیت لے گئے۔ محلہ پڑنگاں میں صرف ہم چار افراد رہ گئے۔ )معراج دین خاکسار۔ حکیم سراج دین صاحب اور ان کا لڑکا مبارک احمد طالب علم ٹی آئی کالج اور ایک لڑکا ناصر احمد طالب علم ٹی آئی کالج۔( مذکورہ بالا حالات کے پیش نظر ہمیں بھی گھر میں دروازے بند کرکے بیٹھنا پڑا۔
نو بجے کے قریب ہمارے ایک عزیز غیر احمدی نے ہمیں آکر یہ خبر دی کہ اونچی مسجد کے قریب ایک سائیکل سوار نوجوان کو قتل کردیا گیا ہے۔ ہمیں یہ سن کر ایک دھکا سا لگا کہ مبارک احمد کی سائیکل لے کر نوجوان عبد الستار ابھی ابھی کالج کی طرف گیا تھا۔ کہیں وہی غریب نہ ہو۔ پھر ہم نے اسی عزیز مذکور سے کہا کہ اچھی طرح دیکھ کر آئوں کہ مقتول کون ہے؟ وہ گئے اور آکر کہا کہ مستری نذر محمد صاح کا لڑکا جمال احمد ہے جسے قتل کردیا گیا ہے۔ یہ سن کر ہمیں سخت صدمہ ہوا۔ مگر ہم جبور کچھ نہیں کرسکتے تھے کچھ نہیں کرسکتے تھے چاروں طرف درندگی پھیلی ہوئی تھی۔ انا للہ وانا الیہ رجعون پڑھ کے وہیں بیٹھ رہے اس کے بعد فرداً فرداً محلہ کے بعض آدمی آتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم بے بس ہیں کچھ نہیں کرسکتے کوئی کہتا کہ ہم کار لے آتے ہیں اور تمہیں کسی محفوظ جگہ پہنچا آتے ہیں۔ کوئی کہے کہ آپ اپنے مکان کے ساتھ والے مکان پر اوپر سے کود کر چلے جائیں اور پھر فلاں گلی میں چلے جائیں اور پھر فلاں مکان میں چلیں جائیں تو آپ محفوظ ہوجائیں گے۔ اور ہم مشتعل فسادیوں سے کہہ دیں گے کہ وہ تو یہاں نہیں ہیں کہیں جاچکے ہیں وغیرہ وغیرہ مضحکہ خیز تجویزیں بتاتے رہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم یہ تماشہ دکھانا نہیں چاہتے کہ بھاگتے اور چھپتے پھریں اس وقت کون ہے جس کی نظر ہم پر لگی ہوئی ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر یہیں رہیں گے وہی ہماری مدد کرے گا۔ اور ہمارے پاک امام حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہی ارشاد ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر رہو اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرتے رہو وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔ آپ لوگوں کی اس ہمدردی کا بہت بہت شکریہ۔ پھر ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرکے ہم نے پڑھیں اور دعائیں کرتے رہے۔
ڈیڑھ یا دو بجے دن کے مارشل لاء لگ چکا تھا مگر اندرون شہر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔ بدستور اسی طرح شور و غوغا اور ٹولوں کے ٹولے جلوسوں کی شکل میں پھر رہے تھے۔<
۹۔ مستری نذر محمد صاحب )محلہ پڑنگاں اندرون بھاٹی دروازہ( نے اپنے جواں سال اور نہایت پیارے احمدی بچے کی شہادت کا درد ناک واقعہ بتاتے ہوئے لکھا۔
>۶ مارچ کی صبح کو نو بجے حکیم سراج الدین صاحب نے مجھے بلایا۔ میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تین چار آدمی ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس جاکر کہیں کہ وہ ہم کو پولیس دیں۔ ہم کو بہت خطرہ ہے ان دوستوں کے کہنے پر میں نے بچوں کو ۵ مارچ کو جمعرات کے دن ڈبی بازار اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے ہاں بھیج دیا ہوا تھا۔ گھر میں میں اور میرا لڑکا جمال احمد ہی تھے۔ ۶ مارچ کی صبح کو ہمیں لوگ آکر کہنے لگے کہ تم کو قتل کردیا جائے گا۔ تم اب یہاں سے چلے جائو۔ ہم نے کہا ہم نہیں جائیں گے۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے لڑکے کو کہا کہ تم داتا گنج کے پاس میرے ایک دوست غیر احمدی امام بخش کا گھر ہے۔ وہاں چلے جائوں کیونکہ میں کچہری چلا ہوں۔ شائد تمہیں اکیلا پاکر کوئی نقصان پہنچائیں۔ ہم کچہری گئے۔ مگر وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب نہ ملے کیونکہ وہ آئے ہی نہ تھے۔ پھر میں ڈاکٹر رفیق صاحب جو کہ ڈینٹل سرجن ہیں ان یک مکان میں آیا تو وہاں ہمارے محلہ کے احمدی مولوی عبد الرحیم صاحب کمپائونڈر اور میاں محمد اقبال صاحب زرگر موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد مولوی عبد الرحیم صاحب کا لڑکا وہاں آیا۔ اس نے کہا کہ جمال احمد شہید کردیا گیا ہے۔ اور اس کی لاش بھی اٹھا کر لے گئے ہیں۔۔۔۔۔ میں اپنی دکان )آرہ مشین( پر گیا تو وہاں کے غیر احمدی ہمسائے کہنے لگے تم یہاں سے چلے جائو۔ فسادی تمہیں دو تین دفعہ دیکھ گئے ہیں۔ وہ تمہیں قتل کردیں گے۔ ہم تمہاری دکان کی حفاظت کریں گے۔ مگر جب جمعہ کے وقت حفاظت کرنے والے چلے گئے تو بلوائیوں نے پیچھے سے آکر آگ لگا دی۔ جس سے ہماری )عمارتی لکڑی کی( دکان مشینری۔ لکڑی۔ درخت وغیرہ سب جل کر راکھ ہوگئے۔۔۔۔۔ جب مارشل لاء کی وجہ سے کچھ امن ہوگیا تو ہم گھر آئے دیکھا ہمارے گھر کا سارے کا سارا سامان لٹ چکا تھا حتیٰ کہ کپڑے کا ایک ٹکڑا تک نہ بچا تھا۔ جمال احمد کے قتل کی رپورٹ محمد صادق نے دے دی جس کا اوپر ذکر آیا ہے۔ گھر کی )لوٹ کی( رپورٹ میں نے جاکر میاں محمد شفیع صاحب کو دی۔ جو کہ ہمارے علاقہ کے تھانیدار تھے اور بھاٹی گیٹ کی پولیس چوکی کے انچارج تھے الخ۔<
ہترم نذر محمد صاحب ایک اور بیان میں تحریر فرماتے ہیں:۔
>میرا لڑکا۔۔۔۔۔ جمال احمد نہایت خوبصورت شریف طبع اور نیک صالح تھا یہ تعلیم الاسلام کالج فسٹ ائیر میں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ جس دن انہوں نے شہید کیا اس دن نماز جمال احمد نے بہت لمبی پڑھی میں نے اس سے پوچھاکہ جمال احمد تم نے نماز بت لمبی پڑھی ہے تو وہ خاموش ہوگیا۔<
حالات لاہور پر ایک طائرانہ نظر
تفصیلی بیانات قلمبند ہوچکے اب جماعت حمدیہ لاہور کی مالی اور جانی قربانیوں کا جائزہ لینے کے لئے ۳ تا ۶ مارچ ۱۹۵۳ء تک کے حالات لاہور پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے۔ یہ جائزہ مندرجہ ذیل علاقوں پر مشتمل ہے:۔
راوی روڈ۔ رتن چند روڈ۔ بھاٹی گیٹ۔ چوک مسجد وزیر خاں۔ گمٹی بازار۔ بیرونی دہلی دروازہ موجن لال روڈ۔ نئی انار کلی۔ پرانی انار کلی۔ نیلا گنبد۔ میو ہسپتال۔ خواجہ دل محمد روڈ۔ فلیمنگ روڈ۔ ریلوے روڈ۔ نسبت روڈ قلعہ گوجر سنگھ۔ میکلیگن روڈ۔ میکلوڈ روڈ۔ میس روڈ۔ ٹمپل روڈ۔ مزنگ روڈ۔ عزیز روڈ۔ مصری شاہ۔ کاچھو پورہ۔ سلطان پورہ۔ محلہ وسن پورہ۔ گنج مغلپورہ۔ باغبانپورہ۔ نئی آبادی دھرمپورہ۔
راوی روڈ
۶ مارچ کو ملک برکت علی صاحب کی ٹمبر کی دکان اور مکان نذر آتش کردیا گیا۔ تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح ملک محمد طفیل اینڈ سنز ٹمبر مرچنٹ کا قیمتی سامان بھی جل کر راکھ ہوگیا۔
رتن چند روڈ
بلوائیوں نے ۶ مارچ کو محمد یونس کی نمبر کی دکان جلا دی۔
بھاٹی گیٹ
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے اس حلقہ کے احمدیوں کو بھی بلوائیوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہونا پڑا علاوہ ازیں ۶ مارچ کوایک نہایت مخلص احمدی نوجوان جمال احمد صاحب طالب علم تعلیم الاسلام کالج شہید کردیئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔
چوک مسجد وزیر خان
۶ مارچ ۱۹۵۳ء بروز جمعہ قریباً ۱۱ بجے دن بلوائیوں نے مسعود احمد صا اور محبوب عالم اینڈ سنز کے مکان کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی۔ اسی طرح نیلا گنبد میں دکان >محبوب عالم اینڈ سنز< کا سامان لوٹ کر لے گئے اور عمارت کو نذر آتش کردیا۔
گمٹی بازار
یہاں حافظ رحمت الٰہی صاحب کی دکان تھی جو لوٹی اور جلائی گئی۔
بیرون دہلی دروازہ
۶ مارچ کو ایک غضبناک ہجوم نے جو ایک سو افراد پر مشتمل تھا۔ احمدیہ بیت الذکر دہلی دروازہ پر حملہ کیا اور سلسلہ احمدیہ کے مشہور مبلغ مولانا ابو البشارت عبد الغفور صاحب بلوائیوں میں گھر گئے۔
عبد القدیر صاحب ہارون )ولد ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی( کو قریباً سو افراد خاندان سمیت ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کی صبح کو عوام کے بے پناہ جوش و خروش کی بناء پر ۳/۶۸ ماڈل ٹائوں میں منتقل ہونا پڑا اور اسی رات کا مکان نذر آتش کردیا گیا۔
موہن لال روڈ
ہدایت اللہ صاحب کارکن انشاء پریس موہن لال روڈ لاہور کا مکان لوٹ لیا گیا اور چارپائیاں اور بستر جلا دیئے گئے۔ بعد ازاں ایک مولوی صاحب نے تمام محلہ میں یہ فتویٰ دے دیا کہ یہ لوگ واجب القتل ہیں اور ان کا سامان لوٹنا اور جلانا جائز ہے
نئی انار کلی
۶ مارچ کو ایچ نیاز احمد صاحب کی کپڑے کی مشہور فرم >الفردوس< بی / ۸۵( فساد کی نذر ہوگئی اور اس کا نہایت قیمتی سامان` کپڑے اور فرنیچر لوٹ لیا گیا۔
پرانی انار کلی
اس حلقہ کے معزز اور شریف غیر احمدی ہمسایوں نے محبت اور روا داری کا بہت عمدہ نمونہ دکھایا جس کی وجہ سے افراد جماعت ہر قسم کے جانی اور مالی نقصان سے محفوظ رہے` تاہم انہیں ہراساں اور پریشان کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی اور جلوسوں میں نہایت گندے نعرے لگائے جاتے تھے۔ اس حلقہ میں مندرجہ ذیل احمدی رہائش پذیر تھے۔
شیخ عبد اللطیف صاحب` شیخ عبد الرشید صاحب` شیخ عبدا لرحیم صاحب )۱۶ بھگوان سٹریٹ( چوہدری اکبر علی صاحب )۱۶ نابھہ روڈ( منور احمد صاحب )۵۲ مدنی چند سٹریٹ(۔ میاں شریف احمد صاحب )۳ لاج روڈ(۔ محمد یونس صاحب )۱۸ چرچ روڈ(۔ چوہدری عبد الغنی صاحب )۱۲ پام سٹریٹ( ڈاکٹر اعجاز احمدی صاحب )کپور تھلہ ہائوس(
مقدم الذکر چار احمدیوں کے سوا باقی سب کو دو تین روز کے لئے اپنے مکانات چھوڑ کر جانا پڑا۔ بلوائیوں نے ان کے مکانات پر نشان دہی کی اور ان کو لوٹنا اور آگ لگانا چاہا مگر ہمسایوں کی مخالفت کے باعث وہ اس منصوبے میں ناکام رہے۔ ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو چوہدری اکبر علی صاحب کے مکان کو نذر آتش کرنے کی دھمکی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکان میرا نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا ہے اس کا بعد محلے میں سے بعض لوگوں نے آپ کو احمدیت سے توبہ کرنے کی نصیحت< کی مگر آپ نے انکار کیا تو انہوں نے دو چار دن کے لئے مکان چھوڑنے کو کہا ان کے بیٹے منور علی~ف۱۸~ صاحب کو پیٹا گیا بلکہ احمد آوروں نے ان پر چاقو سے وار کرنے کی بھی کوشش کی۔ چوہدری اکبر علی صاحب نے انہیں للکارا اور وہ بھاگ گئے۔
نیلا گنبد
۶ مارچ کی تاریخ نیلا گنبد اور خواجہ دل محمد روڈ کے احمدیوں کے لئے قیامت سے کم نہیں تھی چنانچہ اس روز حکیم عبد الرحیم صاحب کی دکان پر ایک احمدی مرزا کریم بیگ صاح ولد جواہر بیگ صاحب کو شہید کرنے اور ان کی نعش جلا دینے کے بعد حکیم صاحب کا مکان و دکان لوٹ کی گئی۔
نور علی خاں صاحب )ولد حکیم یوسف علی خان صاحب( کا دواخانہ >مفرح حیات< )قائم شدہ ۱۹۳۰ء( تباہ کردیا گیا مکان و دکان ڈاکٹر نور محمد صاحب` قاضی محمد صادق صاحب ٹوپی والا کی دکان مستری موسیٰ اینڈ سنز کی دکان اور رہائشی مکان سب نہایت بے دردی سے جلائے اور لوٹ لئے گئے۔ محمد احمد صاحب کا سب سامان لوٹ لیا گیا اور ان کی کار نذر آتش کردی گئی۔ یہ جمعہ کے روز ۱۱ بجے صبح کا واقعہ ہے۔
میو ہسپتال
حملہ آوروں نے ۶ مارچ کو عبد العزیز صاحب کا >پاک ریز ایکس ریز کلینک< لوٹا اور عمارت کو آگ لگا دی۔
گوالمنڈی ریلوے روڈ
چوہدری عبد اللطیف صاحب )ولد حاجی عبد الکریم صاحب( کا گودام چوک برف خانہ کے چھ کمروں میں تھا جسے بلوائیوں نے ۶ مارچ لوٹا اور جلا دیا۔
اسی طرح عبد الرشید صاحب کے مکان کا قیمتی سامان حملہ آوروں کے ہاتھوں لٹ گیا۔
نسبت روڈ
۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو بلوائیوں نے سمیع اللہ بھٹی صاحب کی دکان >شفا میڈیکو< ۶۹۔ نسبت روڈ لاہور )چوک میو ہسپتال( کو پہلے جی بھر کے لوٹا اور پھر نذر آتش کردیا۔
قلعہ گوجر سنگھ
‏]text [tagڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب کے بھائی اور ہمشیرہ کا مکان لوٹا اور سامان جلایا گیا۔ محمود الٰہی صاحب سیلز انسپکٹر ریلوے )سعید رام پارک عبد الکریم روڈ( کے مکان میں لوٹ مار اور آتشزدگی کی واردات ہوئی۔
میکلیگن روڈ
۶ مارچ کو ہجوم نے عبد الکریم خان صاحب بی اے کے گھر کا سامان جلا دیا۔
میکلوڈ روڈ
اکبر علی صاحب کی دکان کارنر سٹور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء کو بلوائیوں نے جلا کر خاکستر کرڈالی۔
۱۹ میسن روڈ]0 [rtf
۶ مارچ ۴ بجے شام دو سو سے زائد بلوائی چاند بیگم صاحبہ کے مکان میں ڈیڑھ گھنٹہ تک لوٹ مار کرتے رہے اور تمام قیمتی سامان ہتھیا لے گئے اور دروازے اور کھڑکیاں توڑ ڈالیں۔
۶۵۔ ٹمپل روڈ
شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کی کوٹھی کے علوہ اس حلقہ کے دوسرے احمدی بھی حملہ آوروں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے۔ مثلاً عبد الحمید صاحب ناظم دفتر جماعت احمدیہ کے مکان پر بلوائیوں نے شدید حملہ کیا اور مکان کا تمام سامان لوٹ لیا اور فرنیچر وغیرہ مع قیتمی کتب کے جن میں قران مجید کے چند نسخے بھی تھے بر لب سڑک جلا دیا گیا ان کا راشن ڈپو بھی لوٹ لیا گیا۔
مزنگ روڈ
۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو بلوائیوں نے کوٹھی نمبر ۶۴ کی بالائی منزل پر حملہ کیا اور مسعود احمد خان صاحب )کلرک پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور( محمود احمد خان صاحب ایم اے )ایکسائز انسپکٹر سنٹرل ایکسائز( مسعود ابراہیم صاحبہ ایم۔ اے بی ٹی )سیکنڈ ہیڈ مسٹرس گورنمنٹ ہائی سکول فار گرلز فیروز پور روڈ( کا قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے۔
عزیز روڈ مصری شاہ
حکیم محمد الدین صاحب کا >محمد دواخانہ< لوٹ لیا گیا۔
کاچھو پورہ چاہ میراں روڈ
۳ مارچ کو مستری اللہ بخش صاحب دکاندار سائیکل مرمت کو ان کے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں نے مجبور کیا کہ وہ وقتی طور پر احمدیت چھوڑ دیں مگر انہوں نے جواب دیا >میری لڑکیاں اور بچے میری آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لے جائو اور انہیں کی طرف سے چیرنا شروع کر دو اور سارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو تب بھی احمدیت چھوڑنے کو کبھی تیار نہیں ہوسکتا۔<
مورخہ ۵ مارچ کو مستری صاحب مع ماسٹر غلام نبی صاحب مصری شاہ کے تھانہ میں گئے اور کہا کہ ہماری حفاظت کے لئے کیا انتظام کرسکتے ہیں۔ جواب ملا کہ ہم تمہاری کوئی حفاظت نہیں کرسکتے ہمیں تھانہ سے باہر نکلنے کی بھی اجازرت نہیں تم یہاں سے آدھ گھنٹہ کے اندر اندر نکل جائو ورنہ قتل کر دیئے جائو گے اس کے بعد یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی مدد سے نکلے بہت ے لوگ ہاتوں میں چھرے لے کر ان کے قتل کے لئے بیٹھے تھے۔ فتنہ پردازوں نے ان کے مکان کو آگ لگا دی جو مستری صاحب کے غیر احمدی والدین نے بجھا دی۔
سلطان پورہ
شیخ فیروز دین صاحب اور عبد الحمید صاحب کا کارخانہ کا نقصان کیا گیا۔
محلہ وسن پورہ
اس محلہ میں صوفی عطاء اللہ صاحب کا مکان` جو گلی ۱۶ عمر دین روڈ پر واقعہ تھا` غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔
گنج مغلپورہ
حلقہ گنج مغلپورہ مارچ ۱۹۵۳ء میں >کربلا< کا منظر پیش کررہا تھا۔ جہاں کئی احمدیوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑآ۔ سب سے پہلا واقعہ ماسٹر منظور احمد صاحب کی شہادت کا رونما ہوا۔ اس کے اگلے روز احمدیوں کے گھروں پر پتھر پھینکنے اور گالیاں دینا شروں کی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی اپنے گھروں میں بند ہوگئے۔ ۶ مارچ کی صبح کو قلعہ راج گڑھ کے ایک نہایت مخلص احمدی مکرم محمد شفیع صاحب بیت الذکر مغل پورہ سے نماز فجر ادا کرکے گھر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ انہیں سفاکانہ طور پر چاقوئوں سے شہید کردیا گیا۔ احمدی متواتر کئی راتوں سے جاگ رہے تھے۔ اس روز ان کی حالت نہیات خطرہ میں تھی۔ وہ سمٹ سمٹا کر تین چار جگہ میں محصور ہوگئے۔ شریر اور فتنہ پرداز ان کے دروازے توڑتے` پتھر مارتے اور گالیاں دیتے تھے۔ اور اس فکر میں تھے کہ جس طرح ہوسکے احمدیوں کو ختم کیا جائے۔ احمدیوں کے لئے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنا بھی ناممکن ہوگیا۔ بلکہ ڈیڑھ بجے کے قریب مارشل لاء لگ جانے کے باوجود محلہ کے اندرونی حصوں کو بدستور خطرہ لاحق تھا۔
بابو عبد الکریم صاحب کا مکان لوٹا گیا اور پھر اسے آگ لگا دی گئی۔ مستری محمد اسماعیل صاحب )عبد الرزاق صاحب کمپونڈر کے ریلوے کوارٹر پر بھی حملہ کرکے اس کو لوٹا گیا۔ عبد الرزاق صاحب کے غیر احمدی بڑے بھائی کو محض اس لئے مارا پیٹا گیا کہ وہ ان کے بال بچوں کو محفوظ جگہ پہنچانے آئے تھے۔ مستری محمد اسماعیل صاحب ریلوے کا سامان لوٹ لیا گیا اور دو بھینسیں کھول کرلے گئے۔ ایک طالب علم عبد الرشید صاحب ولد ماسٹر چراغ دین صاحب نبی پورہ میں رہتے تھے۔ وہ اپنی بھاوج اور اس کے بچوں کو محفوظ جگہ پہنچانے کے لئے گھر جا رہے تھے کہ راستہ پر اسی نوے آدمیوں کے ایک ہجوم نے حملہ کرکے اتنا زدو کوب کیا کہ وہ بے چارے گر گئے۔ قریب تھا ان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا جاتا کہ کسی نے ان لوگوں سے کہہ دیا کہ ملٹری آگئی اس پر وہ لوگ بھاگ گئے اور اس معصوم بچے کی جان بچ گئی۔
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب میں میاں عبد الحکیم صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گنج مغلپورہ کی )غیر احمدی( والدہ صاحبہ قتل کر دی گئیں اور روپیہ پیسہ اور مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔
باغبان پورہ
مکرم ماسٹر منظور احمد صاحب کی دردناک شہادت کے بعد یہاں فسادات زور پکڑ گئے اور تھانے والوں نے کہا کہ عوام بھپرے ہوئے ہیں۔ ہم کچھ مدد نہیں کرسکتے اس پر بعض دوست اپنے گھروں میں رہے اور بعض دوستوں نے اور جگہ پناہ لی۔
مستری محمد اسماعیل صاحب۔ ماسٹر منظور احمد صاحب شہید۔ فضل دین صاحب۔ خدا بخش صاحب
دھرم پورہ
اس حلقہ میں احمدیوں کے مالی نقصان کی تفصیل یہ ہے کہ محمد یٰسین صاحب فیروز پوری اپنا مکان بند کرکے دوسری جگہ چلے گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد ان کے مکان میں ریشمی پارچات` نقدی اور کچھ برتن اور راشن چوری کر لیا گیا۔
محمد رفیق صاحب کفش ساز کی دکان لوٹی گئی اور کچھ سامان باہر نکال کر نذر آتش کردیا گیا۔ بابو غلام محمد صاحب ریٹائرڈ کلرک آرڈیننس ڈپو کی دکان میں موجود ایف اے۔ بی اے کی کورس کی تمام کتابیں تلف کردی اور اکثر گم کردی گئیں۔ اور پرچون کی دکان کی مختلف اشیاء لوٹ لی گئیں۔ شام سندر گلی نمبر ۲ میں محمد یاسین خاں صحب اکیلے احمدی تھے جنہیں فسادات کے دوران اپنا مکان مقفل کرکے اپنے بھائی کے گھر جانا پڑا۔ لوگوں نے ان کی چھت پر سے ہوکر اندرونی تالا توڑا۔ اور سامان نکال کر لے گئے۔
شیخ محمد علی صاحب انبالوی کے ایک خط سے پتہ چلتا ہے کہ:۔
>لاہور میں ایک احمدی حالدار عبد الغفور صاحب ولد الٰہی بخش )ساکن موضع اول خیر کوٹ شہاب دین شاہدہ( ڈیوٹی کے دوران ۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو شہید کر دیئے گئے۔ اس شہید کے چھوٹے بھائی عبد الحمید صاحب قادیان میں درویش تھے۔<
شاہدہ کے واقعات
لاہور کے نواحی علاقوں میں سے ایک مشہور قصبہ شاہدرہ ہے۔ وہاں کے نہایت ہی کمزور۔ بے بس۔ اور لاچار احمدیوں کے ساتھ جس قسم کا تشددانہ سلوک ہوا۔ اس کے لئے انہی مجبور اور مظلوم لوگوں میں سے دو اصحاب کی مندرجہ ذیل چھٹیاں پڑھ لینا کافی ہوگا۔
ماسٹر غلام محمد صاحب ٹیچر ہائی سکول شاہدہ نے لکھا کہ:۔
>۶ مارچ کو ہمیں صبح سے ہی خبریں آنی شروع ہوگئی تھیں کہ جمعہ کے بعد ¶شاہدرہ کے احمدیوں کو قتل کر دیا جائے گا اور ان کی عورتوں کی بے حرمتی کرکے قتل کر دیا جائے گا۔ اور اس مطلب کے لئے لاہور سے بھی مولویوں کا جتھہ آئے گا۔ ابھی جمعہ کا وقت نہیں ہوا تھا کہ بازار سے شور اٹھا کہ جتھہ آگیا ہے۔ میں اس وقت پویس چوکی کی طرف جا رہا تھا اور ہسپتال کے موڑ پر تھا۔ چنانچہ شور سن کر واپس آگیا۔ بال بچوں کو اطلاع دی جتھہ آیا ہے۔ نعرے لگ رہے تھے۔ ظفر اللہ مردہ باد۔ ناظم الدین مردہ باد۔ ایک مصنوئی جنازہ چارپائی پر اٹھایا ہوا تھا اور ہائے ہائے کررہے تھے۔ میرے مکان کے دروازے کو اس قدر زور زور سے دھکے دیئے کہ اس کے قبضے اکھڑ گئے اور دروازہ پر پتھر اور اینٹیں زور زور سے چلائی گئیں فحش گالیاں دے رہے تھے۔ اس قدر گالیاں اور اس سے پیشتر ایسی مکروہ گالیاں میرے کانوں نے نہ سنی تھیں میری حویلی کی دیواروں کی اینٹیں اکھاڑ کر کافی دیوار گرا دی۔ دو دفعہ جلوس آیا اور مکروہ حرکتیں کرتا رہا اور کہتا رہا کہ جمعہ کے بعد تم کو قتل کردیا جائے گا ورنہ مرزا کو چوڑ دو اور مسلمان ہوجائو۔ یہ جلوس لمبے لمبے چھروں اور کلہاڑوں سے مسلح تھا۔۔۔۔۔ خیر جلوس چلا گیا۔ جلوس کے بعد میں پولیس چکی میں دوڑ گیا۔ اس وقت چوکی میں صرف دو سپاہی اور ایک حوالدار تھے۔ میں نے حوالدار کو کہا کہ جمعہ کے بعد ہمیں قتل کر دیا جائے گا آپ کوئی انتظام کریں۔ اس نے کہا میں کچھ نہیں کرسکتا میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ اپنے گھر جاویں اور اپنا خود انتظام کریں۔ اس کے بعد میں اپنے پریذیڈنٹ صاحب کے پاس ان کے مطلب میں گیا۔ اس وقت ان کے پاس بعض لوگ بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب تم قتل کئے جائو گے۔ صرف بچنے کی صورت یہی ہے کہ مسلمان ہو جائو یا کہیں چھپ جائو۔ لیکن جہاں چھپو گے ان کی بھی خیر نہیں۔ یہ باتیں سن کر میں گھر آگیا۔ اور گھر والوں کو بتایا کہ مرنے کے لئے تیار ہو جائو۔ ڈاکٹر بخاری نے مجھے اس سے پیشتر کہا تھا کہ خطرہ کی صورت میں میرے گھر آجائو۔ چنانچہ ہم نے ان کی ہمشیرہ کے کہنے پر ان کے گھر چلے گئے اور اپنا گھر خالی چھوڑ دیا۔<
۲۔ حکیم مختار احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ شاہدہ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا:۔
>مورخہ ۶ مارچ کو جماعت احمدیہ شاہدرہ پر دشمنوں نے اچانک حملہ کیا اور تمام احدیوں کے گھروں کو گھیر لیا۔۔۔۔۔ قریباً دس بارہ ہزار کا مسلح جلوس نکلا جو بندوقوں` چھروں برچھیوں اور آگ لگانے کے سامان سے مسلح تھا۔ تمام رستے انہوں نے بند کر دیئے تھے اور پولیس مقامی ان کی ہمنوا تھی۔ کوئی چارہ نہ دیکھتے ہوئے میرے غیر احمدی چند دوستوں نے مجھے کہا کہ اس وقت بچائو کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم باہر جاکر لوگوں کو کہتے ہیں کہ حکیم مختار احمد ہمارا ہم خیال ہوگیا ہے جب ہم حالات بہتر دیکھیں۔ تو پھر تم کو باہر بلا لیں گے تم باہر آجانا۔ چنانچہ آدھ گھنٹہ کے بعد مجھے باہر بلایا گیا۔ میرے مکان سے باہر آتے ہی ان لوگوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ )حکیم مختار احمد زندہ باد( اس آواز نے تمام شہر میں سکون پیدا کر دیا اور لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ پھر مجھے ایک جامع مسجد میں لے گئے میرے رفقاء نے وہاں بھی خود ہی شور مچا دیا کہ حکیم مرزائی نہیں رہا۔ ھر مجھے کہا گیا کہ جمعہ کا خطبہ پڑھو۔ چنانچہ میں نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا۔ اس میں میں نے یہ کہا کہ میں رسول کریم صلعم کو خاتم النبین مانتا ہوں اور کلمہ پڑھ کر کہا اسی کلمہ کا قائل ہوں۔ اس کے علاوہ احمدیت کے خلاف یا حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف کوئی بات نہیں کہی اور نہ کسی نے کہلوائی کیونکہ میرے ساتھیوں نے جو مجھے بچانا چاہتے تھے میرے ایک ایک فقرہ پر نعرے لگائے تاکہ شور پڑا رہے اور کسی اور طرف کسی کا دھیان نہ ہو۔ پھر ہم لوگ مسجد سے باہر آگئے اور لوگ دوسرے احمدیوں کو پکڑ کر لاتے رہے اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے اپ کو منظور ہے وہ بھی حقیقت کو سمجھ گئے تھے۔ سب نے یہی کہا کہ ہاں ہم کو منظور ہے۔ اس پر لوگ نعرے لگاتے رہے۔۔۔۔۔ اس کے بعد جب ملٹری کا انتظام ہوگیا تو تمام جماعت اپنی پہلی سطح پر آگئی ہے۔ ہماری دونوں بیوت الذکر پر مخالفین نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہ بھی ان سے واپس لے لی گئی ہیں۔ دوسرے جمعہ کی نماز میں نے پڑھائی تھی۔ سب احمدیوں اور غیر احمدیوں نے میری اقتدار میں نماز پڑھی تھی~<ف۱۹~
کوٹ رادھا کشن
جناب محمد فقیر اللہ خان صاحب )ریٹائرڈ( ڈپٹی انسپکٹر سکولز نے تحقیقاتی عدالت میں حسب ذیل درخواست پیش کی کہ:۔
>یہاں احمدیوں کے صرف تین گھر ہیں۔ کئی دنوں سے ہم سن رہے تھے کہ ہر یاک و قتل کردیا جائے گا۔ مخالفت کی ہوا اس قدر مسموم ہوچکی تھی کہ لوگ بری نظر سے ہمیں دیکھنے لگے۔ پہلے جلے ہوئے۔ احراری لیکچراروں نے احمدی جماعت اور ہمار بزرگوں کے خلاف جس قدر ہو سکا گندہ دہنی سے کام لیا اور >زمیندار< کی روزانہ اشاعت نے ہمارے خلاف بہت زہر اگلا۔ جلوس جو بڑی شان سے نکالے جات تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہماری زندگیاں امن میں نہیں ہیں۔۔۔۔۔ مخبر نے ہمیں خبر دی کہ یہاں سے نکل جائو ورنہ خیر نہیں۔ چنانچہ میں مع اہل و عیال ۸ مارچ کو لاہور جانے کے خیال سے اسٹیشن کوٹ رادھا کشن کے پلیٹ فارم پر جا پہنچا۔ جلوس نکل رہا تھا۔ اس کے سینکڑوں افراد پلیٹ فارم کا جنگلا پھاند کر میری طرف لپکے۔ مرزائی` مرزائی پکارتے ہوئے مجھے نرغہ میں لے لیا۔ میں پلیٹ فارم کے ایک طرف ٹہل رہا تھا۔ میں نے اپنا رخ اسٹیشن ماسٹر صاحب کے کمرہ کی طرف کر لیا۔ اگر عملہ اسٹیشن تعاون نہ کرتا تو میں یقیناً سخت خطرہ میں تھا۔ خبر پاتے ہی پولیس کے کچھ سپاہی بھی آگئے لیکن وہ ہجوم کے پیچھے ہی رہے۔ دراصل پولیس خود خائف تھی۔ ملٹری کے کارندے پہنچ چکے تھے۔ گاڑی کے آنے کی خبر پاتے ہی کہ ملٹری کا دستہ اس کے ساتھ لاہور پہنچے۔ اور بڑے اطمینان کے ساتھ لاہور میں پھرنے اور رہنے لگے۔ مارشل لاء اپنا قبضہ جما چکا تھا۔ اگر مارشل لاء نافذ نہ ہوتا تو یقیناً احمدیوں کے گھرانے بری طرح ذبح کئے جاتے۔ ان کے مکانا نذر آتش ہوتے۔ میں نے لاہور پہنچ کر اپنی سرگزشت تحریر کرکے سپرنٹنڈنٹ صاحب کی خدمت میں بیجی۔ دوسری درخواست واپس آکر یہاں سے بھیجی۔ مہربای فرما کر میری دونوں درخواستیں دتر پولیس سے برآمد کرا کر ملاحظہ فرمائیں۔ پولیس نے کیا کاروائی کتنے عرصہ کے بعد کی پولیس بالکل بے کار ہوچکی تھی۔ عوام الناس سے ڈرتی تھی۔<
فسادات پنجاب اور حکومت کی پالیسی
صوبہ پنجاب کی چند احمدی جماعوں کے دردناک اور زہرہ گداز واقعات بیان ہوچکے ہیں اب آخر میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس دور میں پنجاب کی دولتانہ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ باوجودیکہ فتنہ و فساد جنگل کی آگ کی طرح پورے صوبہ کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھے وہ اپنی سیاسی مصلحت کی بناء پر حالات کو چھپاتی تھی اور قیام امن کے لئے یہ پراپیگنڈا کررہی تھی کہ صوبہ میں امن و امان ہے اور شورش کچل دیا گیا ہے چنانچہ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۳ ماہ وفا ۱۳۳۲ بش بمطابق ۳ جولائی ۱۹۵۳ء کو ناصر آباد سندھ میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔
>ان دنوں گورنمنٹ کی پالیسی یہ تھی کہ حالات کو چھپایا جائے اور دبایا جائے اور لوگوں پر یہ ظاہر کیا جائے کہ ہر طرح امن ہے اور اس میں وہ معذور تھی کیونکہ پولٹیکل اصول کے مطابق یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اگر فتنہ و فساد کے خبریں پھیلیں تو لوگوں میں اور بھی جوش پھیل جاتا ہے پس گورنمنٹ کے اکثر حکام کی یہ کاروائی کسی بدنیتی پر مبنی نہیں تھی بلکہ مصلحت اس بات کا تقاضا کرتی تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باہر کی جماعتیں مرکز اور پنجاب کے حالات سے ناواقف رہیں یہاں تک کہ جب حکومت نے دیکھا کہ خطوں کے ذریعہ ناظر دعوٰہ و تبلیغ باہر کی جماعتوں کو اپنے حالات سے اطلاع دیتے ہیں تو انہوں نے ان خطوط کو بھی کسی قانونی عذر کے ماتحت روک دیا۔۔۔۔۔ ان دنوں پنجاب کے اکثر اضلاع کے احمدیوں کی حالت ایسی ہی تھی جیسے لومڑ کا شکار کرنے کے لئے شکاری کتے اس کے پیچھے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں۔ اور لومٹر اپنی جان بچانے کے لئے کبھی ادھر بھاگتا ہے اور کبھی ادھر بھاگتا ہے ان ایام میں لاریاں کھڑی کر کرکے احمدیوں کو نکالا جاتا اور انہیں پیٹا جاتا۔ اسی طرح زنجیریں کھینچ کر گاڑیاں کو روک لیا جاتا اور پھر تلاشی لی جاتی کہ گاڑی میں کوئی احمدی تو نہیں اور اگر کوئی نظر آتا تو اسے مارا پیٹا جاتا۔ اسی طرح ہزاروں ہزار کے جتھے بن کر دیہات میں نکل جاتے اور گائوں کے دس دس پندرہ پندرہ احمدیوں پر حملہ کردیتے یا اگر ایک گھر ہی کسی احمدی کا ہوتا تو اسی گھر پر حملہ کر دیتے` مال و اسباب لوٹ لیتے۔ احمدیوں کا مارتے پیٹتے اور بعض شہروں میں احدیوں کے گھروں کو آگ بھی لگائی گئی بیسیوں پر احمدیوں کے لئے پانی روک دیا گیا اور وہ تین تین چار چار دن تک ایسی حالت میں رہے کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ تک بھی نہیں مل سکا۔ اسی طرح بعض جگہ ہفتہ ہفتہ دو دو ہفتے وہ بازار سے سودا ابھی نہیں خرید سکے۔ بیرونی جاعتیں ان حالات سے ناواقف تھیں۔ وہ گورنمنٹ کے اعلانوں کو سن کر کہ ہر طرح امن ہے اور خیریت ہے خوش ہوجاتی تھیں۔ حالانکہ جس وقت خیریت کے اعلان ہوتے تھے وہی سب سے زیادہ احمدیوں کے لئے خطرے کا وقت ہوتا تھا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے حکومت کے اکثر افسروں کی نیت نیک تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ملک میں یہ خبریں پھیلیں کہ لوگ احمدیوں پر سختی کررہے ہیں تو دوسرے جگہوں کے لوگ بھی ان پر سختی کرنے لگ جائیں گے اس لئے امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ متواتر یہ اعلان کئے جائیں کہ جگہ امن ہے تاکہ شر دب جائے اور لوگ سمجھ جائیں کہ جب سب جگہ امن ہے تو ہمیں فساد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پس ہم ان میں سے اکثر کی نیت پر شبہ نہیں کرتے۔ ہمیں سیاسیات کا علم ہے اور ہم نے تاریخ کا بھی مطالعہ کیا ہوا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تمام حکومتیں ایسا ہی کرتی ہیں کیونکہ علم النفس کے ماتحت لوگوں کے جوش اسی وقت ٹھنڈے ہوتے ہیں جب انہیں معلوم ہوا کہ سب جگہ امن ہے اگر انہیں پتہ لگے کہ بعض مقامات پر امن نہیں تو وہ خود بھی امن سے نہیں بیٹھتے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کوئی شورش نہ ی تو لوگ ہمیں طعنہ دیں گے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا اسی وجہ سے حکومتوں کا عام دستور یہی ہے کہ ابتداء میں جو خبریں نکل جائیں سو نکل جائیں۔ بعد میں وہ یہ پروپیگنڈا شروع کردیتی ہیں کہ سب جگہ ان قائم ہوگیا ہے تاکہ ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہوں کی خبریں سن کر بیٹھ جائیں اور فتنہ و فساد کو ترک کردیں بہرحال ان حالات میں سے دو اڑھائی ماہ کے قریب ہماری جماعت گزیر۔ با اوقات ہمیں بیرونی جماعتوں کی طرف سے چھٹیاں پہنچتی تھیں کہ الحمدلل¶ہ پنجاب میں امن قائم ہوگیا ہے اور جماعت کے خلاف شورش دب گئی ہے۔ مگر اسی وقت ہمیں پنجاب کی مختلف اطراف سے یہ اطلاعات پہنچ رہی ہوتی تھیں کہ فلاں کا گھر لوٹ لیا گیا ہے۔ فلاں جگہ عورتوں اور بچوں پر جملے کئے جارہے ہیں اور انہیں بچا بچا کر محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے۔ فلاں کا گھر جلا دیا گیا ہے مگر باہر کی جماعتوں کی طرف سے مبارکباد اور خوشی کے خطوط پہنچ رہے ہوتے تھے۔ کہ الحمدلل¶ہ گورنمنٹ کے العانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ہر طرح خیریت ہے۔ پس آپ لوگ اس مصیبت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جس میں سے پنجاب کے لوگوں کو گزرنا پا۔ کیونکہ سندھ` سرحد اور بنگال میں ان فسادات کا ہزارواں حصہ بھی ظاہر نہیں ہوا جو پنجاب میں ظاہر ہوئے۔ اس وجہ سے یہاں کے لوگ امن میں رہے اور خیریت سے رہے لیکن باوجود اس کے کہ ان فسادات نے پنجاب میں انتہائی نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ وہ تغیرات جو گورنمنٹ میں پیدا ہوئے ان کی وجہ سے بھی اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ حکام کا ایک حصہ ایسا تھا جو دیانت دار تھا اور اپنے فرائض کو ادا کرنا چاہتا تھا۔ یہ فتنہ آخروب گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فتنہ کی روح ابھی باقی ہے اور اللٰہی ہی بہتر جانتا ہے کہ اگر آئندہ فتنہ اٹھے تو وہ شاید پنجاب کی بجائے سندھ میں پیدا ہو یا بنگال میں پیدا ہو یا ممکن ہے پنجاب میں ہی پیدا ہو کیونکہ ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ اس دفعہ جو فتنہ اٹھا ہے یہ خالص مذہبی نہیں تھا بلکہ سیاسی تھا۔ ہمارے ملک میں حکومت لیگ کی ہے اور لیگ کی حکومت جب سے پاکستان بنا ہے برابر چلتی چلی جارہی ہے اور بظاہر آثار ایسے نظر آتے ہیں کہ ایک لمبے عرصہ تک مسلم لیگی کی حکومت ہی قائم رہے گی لیکن بدقسمتی سے لیگ کے کارکنوں کا ایک حصہ جس نے پاکستا بننے کے وقت بڑی قربنای کی تھی۔ اپنے دوسرے ساتھیوں سے اختلاف ہو جانے کی وجہ سے لیگ سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوگیا مگر چونکہ اس وقت نیا نیا پاکستان بنا تھا ملک کا بیشتر حصہ یہ چاہتا تھا کہ ہمارے ملک میں زیادہ پارٹیاں نہ بنیں اور نظم و نسق ایک ہی ہاتھ میں رہے چاننچہ باوجود اس کے کہ یہ جدا ہونے والے مشہور آدمی تھے اور انہیں خیال تھا کہ اکثریت ان کا ساتھ دے گی۔ لوگوں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی قربانیاں بری تھیں وہ ملک کے خیر خواہ بھی تھے۔ انہیں لوگوں میں رسوخ بھی حاصل تھا۔ اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم لیگ سے الگ ہوگئے تو لیگ کا اکثر حصہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائے گا لیکن لوگوں کے دلوں میں جو یہ احساس پیدا ہوچکا تھا کہ زمانہ نازک ہے ہمیں اس نازک زمانہ میں اپنے اندر تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہئے یہ اتنا مضبوط ثابت ہوا کہ وہ لیگ سے باہر نکل کر ایک عضو بے کار بن کر رہ گئے اور اکریت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سیاسیات کے ذریعہ لیگ کو شکست نہیں دے سکے بوجہ اس کے کہ مسلمانوں میں اتحاد کا جذبہ موجود ہے اور وہ اپنی حکومت کے قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ اب ہمیں کوئی اور تدبیر اختیار کرنی چاہئے اور ایسے رستہ سے حکومت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جس میں عوام کی تائید ہمارے ساتھ شامل ہو۔ چنانچہ اس غرض کے لئے انہوں کے علماء کو چنا تاکہ لوگوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ حکومت اور لیگ کی مخالفت ہے بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ یہ مخالفت صرف مذہب اور لامذہبی کی ہے اور اس غفلت اور جہالت میں وہ اپنے اصل مئوقف کو چھوڑ دیں اور ایسے مواقع پیدا کردیں جو بعد میں ان لوگوں کے لئے حکومت سنبھالنے کے موجب بن جائیں۔~<ف۲۰~
حوالہ جات
~ف۱~
رپورٹ صفحہ ۱۹۰
~ف۲~
تحقیقاتی رپورٹ صفحہ ۱۹۰ و صفحہ ۱۹۱
‏h1] gat~[ف۳~
اصل رپورٹ میں بیت الذکر کی جائے مسجد کا لفظ ہے )ناقل(
~ف۴~
حضرت مسیح موعودؑ کے رفقاء میں سے تھے ولادت ۱۸۸۵ء بیعت ۱۸۹۷ء وفات یکم اپریل ۱۹۶۶ء
~ف۵~
جمال احمد صاحب )ابن مستری محمد صاحب( شہید کی عمر ۱۷ سال ۵ دن تھی اپ کو پہلے لاہور میں امانتاً دن کیا گیا پھر سیدنا حضرت مصلح موعود کی جازت سے ۵ نومبر ۱۹۵۴ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کئے گئے )لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۵۶۴ مئولفہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب )اشاعت فروری ۱۹۶۶ء(
~ف۶~
آپ نہایت مخلص احمدی تھے
~ف۷~
رپورٹ تحقیقاتی عدلت صفحہ ۱۷۱
643 ۔Pg II Vol Encyclopaedia Collier's مطبوعہ امریکہ وہ برطانیہ ۱۹۶۷ء
~ف۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۳۱۳
~ف۹~
جہاں شیخ بشیر احمد صاحب مقیم تھے
~ف۱۰~
حضرت ام دائود صالحہ خاتون صاحبہ بیگم حضرت سید محمد اسحٰق صاحب وفات ۸ ستمبر ۱۹۵۳ء
~ف۱۱~
ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور مراد ہیں
~ف۱۲~
مراد صاحبزادی امہ القیوم بیگم صاحبہ
~ف۱۳~
سختی سے رد کرنا
~ف۱۴~
>تجلی قدرت< صفحہ ۱۷۴ تا صفحہ ۱۷۷ )طبع اول`( مئولفہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری
~ف۱۵~
ولادت ۱۸۹ء بیعت ۱۹۰۴ء وفات یکم دسمبر ۱۹۷۰ء
~ف۱۶~
ولادت ۱۸۸۰ء وفات ۲۲ مارچ ۱۹۶۵ء
~ف۱۷~
اسی حلقہ میں عبدالرحیم صاحب ڈسپنسر کا مکان بھی تھا جو ۶ مارچ کو لوٹ لیا گیا
~ف۱۸~
میاں منور علی صاحب اب انگلستان میں قیام پذیر ہیں اور سلسلہ کی خدمت بجا لارہے ہیں۔
~ف۱۹~
خط جناب حکیم مختار احمد صاحب شاہدرہ ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء بحضور سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی مصلح الموعود
~ف۲۰~
)خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرمودہ ۳ جولائی ۱۹۵۳ء بمقام ناصر آباد سندھ بحوالہ روزنامہ >المصلح< کراچی ۱۴ جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۲`۳(
‏tav.14.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
مشرقی پاکستان کی احمدی جماعتوں کے واقعات
چوتھا باب
ریاست بہاولپور` صوبہ سرحد` صوبہ سندھ
اور
مشرقی پاکستان~ف۱~ کی احمدی جماعتوں کے واقعات
حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ پانچ ایمان افروز واقعات
فصل اول
‏]daeh [tagریاست بہاولپور
اگرچہ ریاست بہاولپور میں حکومت نے قائم رکھنے کی کوشش کی مگر شہری آبادیوں اور ان مقامات پر جہاں احمدی اکے دکے تھے نچلے درجہ کے حکام کی جانبداری اور بزدلی کے باعث شور و سربلند رہا اور فضا بہت مسموم رہی۔
صادق آباد
یہاں منڈی میں چوہدری محمد شریف صاحب` چوہدری محمد امین صاحب کمیشن ایجنٹ کی واحد احمدی دکان تھی جس کو مشتعل ہجوم نے زبردستی بند کرا دیا اور پولیس بالکل خاموش رہی۔
ہارون آباد اور ملحقہ چکوک
شہر ہارون آباد اور اس کے ملحقہ چکوک نمبر r۔۴ / ۵۵` چک نمبر ۷۹ نہر ہاکڑا۔ چک نمبر r۔۴ / ۷۶` چک نمبر ۱۵۲ ہاکڑا۔ چک نمبر r۔۴ / ۵۳ چک نمبر r۔۷ / ۱۶۰ چک نمبر r۔۶ / ۹۳ اور چک نمبر r۔۳/۱۲ کے احمدیوں کو تکالیف پہنچائی گئیں اور چک نمبر r۔۳ / ۱۲ کے احمدیوں پر حملہ بھی کیا گیا۔
چک نمبر L۔۲ / ۱۵۲ میں شر پسندوں نے اشتعال انگیز نعرے لگائے اور بعض احمدیوں کو پکڑ کے دھمکی دی گئی کہ یا تو مسلمان ہو جائو ورنہ ہم تم کو مار ڈالیں گے۔ ایک احمدی پیر محمد صاحب نے کمال جر¶ات ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہ کہ >بے شک تم مجھے مار ڈالو لیکن احمدیت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے میں احمدیت کو جان سے عزیز سمجھتا ہوں اور احمدیت کو نہیں چھوڑوں گا۔< اس پر ایک شخص نے کہا کہ اچھا اس کو کل تک مہلت دی جائے لیکن وہ لوگ پھر واپس نہ ائے۔
بہاولنگر شہر و ضلع
ریاست کے ادر مخالفت کا زیادہ تر زور ان دنوں ضلع بہاولنگر میں تھا جہاں احمدی زمینداروں کی فصلیں فروخت ہونا بند ہوگئیں اور ان کی دکانوں پر پکٹنگ بٹھا دی گئی جس سے جماعت کو ہزاروں روپے ماہوار کا نقصان ہوا۔ بہاولنگر میں تین چار احمدی گھر تھے جن میں امیر ضلع بہاولنگر شیخ اقبال الدین صاحب بھی سامل تھے۔ جن کے مکان پر پتھرائو ہوا اور آپ کئی دن گھر میں محصور اور بیرونی حالات سے بے خبر رہے۔
فصل دوم
صوبہ سرحد
ان دنوں صوبہ سرحد میں مسلم لیگی حکومت تھی اور اس کے وزیراعلیٰ خان عبد القیوم کاں تھے جنہوں نے اپنی حب الوطنی` فرض شناسی اور حسن تدبیر و انتظام کی بہت اعلیٰ اور قابل تعریف مثال قائم کی انہوں نے امن و امان کے قیام کے لئے نہ صرف سرحد اسمبلی میں بلکہ مانسہرہ` ایبٹ آباد` بالا کوٹ وغیرہ مقامات پر نہایت زور دا اور مئوثر تقریریں کیں چانچہ سید عبدالرحیم ساہ صاحب نے پھگلہ ضلع مانسہرہ سے ۲۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا کہ:۔
اسی طرح پیر محمد زمان شاہ صاحب نے مانسہرہ سے ۱۵ مارچ ۱۹۵۳ء کے مکتوب میں حضور کو اطلاع کہ >۱۴ مارچ وزیراعلیٰ کی تقریر مانسہرہ میں ہوئی یہ تقریر بڑے جوش سے اور رعب و دبدبہ سے کی گئی۔ نہایت معقول تقریری تھی۔ دلائل سے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ یہ تحریک سیاسی تحریک ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ سب مسلمان رسول خدا کو خاتنم النبین یقین کرتے ہیں۔ پنجاب کا بتایا کہ یہ شرارت پنجاب سے شروع ہوئی ہے اور اب پنجاب میں گولی چل رہی ہے۔ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے ایسا نہ ہو کہ یہاں بھی گورنمنٹ کو سخت کاروائی کرنی پڑے۔ دو دن پہلے بھی تم پر گولی چلنی تھی مگر حکام نے تم سے مہربای کی اس تقریر کا اثر لوگوں پر اچھا معلوم ہوتا تا۔<
وزیراعلیٰ سرحد خان عبدالقیوم خاں صاحب نے تقریریں ہی نہیں کیں بلکہ اپنی کامیاب حکمت عملی اور مضبوط اقدامات کے ساتھ صوبہ بھر میں بدامنی اور شورش اور فساد کو کچل کے رکھ دیا اور خدا کے فضل و کرم سے صوبح سرحد کے اضلاع پساور` کیمیل پور` اٹک` مردان` ہزارہ` کوہاٹ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خاں کی احمدی جماعتیں اس شور و شر میں جانی و مالی نقصانات سے بالکل محفوظ رہیں اور پشاور` اچینی پایاں` بازیدخیل` شیخ محمدی` چارسدہ` مردان` ایبٹ آباد` مانسہرہ` پھگلہ` ٹل` کوہاٹ اور بنوں کی جماعتوں کے احوال و کوائف خاص طور پر مرکز پہنچے۔
فصل سوم
صوبہ سندھ
صوبہ سرحد کی طرح سندھ حکومت نے بھی امن برقرار رکھا اور فرض شناسی کا ثبوت دیا۔ سندھی پریس نے احراری ایجی ٹیشن کی پرزور مذمت کی۔ سندھ کے مشہور لیڈر پیر پگاڑہ صاحب نے اس سلسلہ میں ایک پرزور بیان دیا:۔
‏Pir Movement, Ahmedi Anti the to reactions his to as asked theWhen of sections such also as Jamaat own his that declared haveSahib to ought him to listen to inclined were as community separateSindhi and divide to intended movement any with do to Jamaatnothing his that say to happy saw He ۔other the from Pakistani one۔movement disuptive that from aloof self it Kept man, a to refugeehad some that regrtted however, He, ۔community a as sindhis theAlso set to trying were Habitat their Sind made had who "Sind"Maulanas do" to allowed be not would "They this but fir on andIndus Pakistan to strength of source a becone "Must He: machinerymaintained Government the If ۔Affairs nantion's the run who thoxe ownto my on shall society the Maulanas, mischievous witj deal incannot ytilibisrespon whole the myself upon take to prepared am I cannot,part We ۔so do to me allows Government the only if behalf, ofthis handful a allow freedom, and security our of interests the "Iin ۔country whole the to fire set to moagers ۔mischief and fanatics
‏Observer Sind The ۔1
‏1953 19, March
1 ۔No ۔C 1 ۔Mo ۔P
یعنی پیر صاحب سے دریافت کیا گیا کہ اینتی احمدیہ تحریک کے متعلق آپ کا ردعمل کیا ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میری اپنی جماعت اور سندھی فرقہ کے وہ لوگ جو ان کی باتوں کو سننے کے حق میں ہیں ان سب کا ایک ایسی تحریک سے جو ایک پاکستانی کو دوسرے پاکستانیوں سے جدا کرتی ہے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بیان کرنے میں خوشی محسوس ہورہی ہے کہ میری ساری جماعت )مسلم لیگ( اس فساد انگیز تحریک سے بالکل الگ تھلگ رہی ہے۔ اسی طرح تمام سندھی بھی اس سے الگ رہے ہیں مگر انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ پناہ گزین مولانا` جنہوں نے سندھ کو اپنا وطن بنا رکھا ہے وہ دریائے سندھ کو آگ لگانا چاہتے ہیں مگر ان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اصرار سے کہا کہ سندھ کو پاکستان کے لئے طاقت دینے کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ اور یہ ان لوگوں کے لئے طاقت بخش ثابت ہوگا جو قوم کی باگ ڈور کو سنبھالتے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کی مشینری شرارت پسند علماء کو قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ تو معاشرہ ان کو قابو کرے گا۔ میرا اپنا تو یہ حال ہے کہ میں اس معاملے میں ساری ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار ہوں بشرطیکہ گورنمنٹ پاکستان بھی مجھے یہ ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دے دے۔ ہم اپنی حفاطت اور آزادی کے تحفظ کی خاطر چند ایک سر پھرے مذہبی دیوانوں کو اور مفسدانہ طبع لوگوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ سارے ملک کو آگ لگا دیں۔~ف۲~
پیر پگاڑو صاحب کا یہ بیان سندھ کے سب اخباروں میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں جناب علی احمد صاحب بروہی ایڈیٹر >منشور< اور جنرل سیکرٹری انجمن مدیران جرائد سکھر نے >ختم نبوت یا ختم پاکستان< کے عنوان سے ایک پوسٹر شائع کیا جس میں لکھا کہ:۔
>ختم نبوت ہر مسلمان کا ایمان ہے اور جو لوگ اس حقیقت کو نہیں مانتے ان کو سمجھانا اور دلیل دے کر قائل کرنا چاہئے۔ لیکن بعض حضرات تبلیغ کرنے کی بجائے اشتعال انگیز تقریریں کررہے ہیں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ان کو قانون توڑنے اور گرفتار ہونے پر ابھار رہے ہیں۔ چنانچہ پنجاب میں لوٹ مار کرنے ڈاک خانے جلانے قومی دولت تباہ کرنے اور بدامنی پھیلانے کے بڑے دردناک واقعات ہوئے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن۔۔۔۔۔ ختم نبوت کی تحریک کی آڑ میں پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دشمنوں کے جال میں نہ ائیے ان کی یہ سازش ناکام بنائیے۔<
خدا کے فضل و کرم سے صوبہ سندھ کے احمدی ۱۹۵۳ء کے المناک ابتلاء میں بہت حد تک محفوظ رہے البتہ مندرجہ ذیل چند مقامات پر بعض احمدیوں کو وقتی تکالیف کا سامان کرنا پڑا۔
۱۔
میر پور خاص ضلع تھرپارکر میں بعض شریر ایم۔ این۔ سنڈیکیٹ کی رہائش گاہ کے گرد جمع ہوئے اور فتنہ کھڑا کرنا چاہا۔ مگر ڈپتی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایک معزز غیراحدی فقیر محد صاحب منگریو کی مداخلت پر یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
۲۔
میرپور خاص سے پانچ چھ میل پر ڈیرہ غاز خان کے ایک احمدی اللہ بخش صاحب اور ان کے والد پر حملہ کیا گیا اور ان کو لاٹھیاں ماری گئیں حملہ آوروں نے کہا کہ یہاں سے بھاگ جائو۔
۳۔
نوکوٹ ضلع تھرپارکر میں ایک احمدی نوجوان کو پیٹا گیا۔ ایک سندھی احمدی نصرت آباد میں کام کرتے تھے جن کی نسبت جھوٹی رپورٹ کی گئی کہ اس نے ڈاک پر چھاپہ مارا ہے حالانکہ وہ نوکوٹ میں موجود ہی نہ تھا۔
۴۔
سکھر میں بعض پنجاب علماء نے شورش پیدا کرنے کے لئے قدم رکھا مگر جلدی بھگ گئے۔
۵۔
مکرم علی محمد نجم صاحب نمائندہ جماعت آبا و اسٹیٹ ضلع تھرپارکر سندھ نے ۱۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے ملاقات کی اور پھر مرکز کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ایک بااثر زمیندار یہ اشتعال انگیز باتیں کررہا ہے کہ احمدیوں کو قتل کرکے ان کی زمینو پر قبضہ کر لو ان لوگوں کی لالچی نظریں جماعت احمدیہ کنری کی فیکٹری اور زمینوں پر ہیں۔
۶۔
پتھورو ضلع تھرپارکر میں ایک ہی احمدی تھے۔ لوگوں نے ان پر سختی کی اور امداد کے لئے مجبور کیا مگر انہوں نے سختی برداشت کی مگر ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔
۷۔
چک نمبر ۱۷۰ ضلع تھرپارکر میں فتنہ کے ان ایام میں >انی مھین من اراداھانتک۔< کا نشان ظاہر ہوا۔ ڈگری کے قریب ایک سکول کا عربی ٹیچر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان اقدس میں انتہائی بے باکی سے گالیاں دیتا اور ایک احمدی طالب علم جمیل )ابن حکیم نور محمد صاحب ٹنڈو غلام علی ضلع بدین( کو زدوکوب کرتا تھا۔ احمدی طالب علم نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرکے صبر کیا۔ چند دن کے بعد وہ تیچر ایک شرمناک اخلاقی جرم میں پکڑا گیا اور جوتوں سے اس کی پٹائی کی گئی۔
۸۔
کنری ضلع تھرپارکتر سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک احمدی جو اکیلے گائوں میں رہتے تھے۔ کنری آنے کے لئے گھر سے نکلے۔ تو چند غیر احمدی ان کا رستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یا احمدیت کو ترک کردو یا ہم تمہیں ختم کردیں گے۔ احمدی دوست نے انہیں جواب دیا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے اگر ہمیں اس لئے مارنا چاہتے ہو کہ ہم کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور نماز` روزہ` حج زکٰوٰہ پر عامل ہیں تو بے شک مار لو۔ اس بات کا ایسا فوری اثر ہوا کہ انہوں نے رستہ چھوڑ دیا۔
۹۔
دارالعلوم ٹنڈوالہ یار ضلع حیدر آباد سندھ کے دیو بندی علماء نے ان دنوں احمدیوں کے خلاف نہ صرف اشتعال انگیز تقریریں کیں بلکہ جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ چوہدری عنایت الرحمن صاحب )زمیندار انجینئرنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی( کو قتل کرنے کے وعظ کئے۔ ایک دوست امجد علی خان صاحب کو جو تین ماہ قبل احمدی ہوئے تھے۔ قتل کی دھمکی دی گئی مگر انہوں نے دلیری سے جواب دیا کہ حق کے لئے جان چلی جائے تو پروا نہیں۔
۱۰۔
گوٹھ مولیٰ بخش )ڈاکخانہ ویہ ماہ کھنڈ ضلع نواب شاہ( کے احمدیوں پر حلہ کی افواہ پھیلائی گئی مگر خدا کے فضل سے امن رہا۔
۱۱۔
کمال ڈیرہ ضلع نواب شاہ کے علاقہ میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ربوہ پر بھی حملہ ہوا ہے۔ تحصیل کنڈیارہ میں دو مخالف پارٹیوں نے احمدیوں کے خلاف شرارت کا ارادہ کیا مگر تحصیلدار صاحب نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔
فصل چہارم
مشرقی پاکستان )حال بنگلہ دیش(
فسادات پنجاب کے دوران مشرقی پاکستان میں امن و امان رہا۔ مولانا سید اعجاز احمد صاحب فاصل مبلغ مشرقی پاکستان نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو بذریعہ مکتوب اطلاع دی کہ مشرقی پاکستان کے انگریزی اور بنگلہ پریس نے احرار ایجی ٹیشن کی پرزور مذمت کی البتہ عوامی لیگ کے آرگن >اتفاق< نے اغماض برتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا بھی اس فتنہ میں ہاتھ ہے۔ مولانا نے یہ بھی عرض کیا کہ:۔
>اخبار الفضل کے بند ہوجانے کی وجہ سے مرکز سلسلہ اور جماعت کے صحیح حالات سے ہم لوگ بالکل بے خبر ہورہے ہیں۔ براہ کرم حضور مرکز سلسلہ اور جماعت کے تازہ کوائف و حالات سے ہم لوگوں کو باخبر رکھنے کا کوئی موزوں انتظام فرمئیں۔<
اس پر حضور کے ارشاد پر مرکز کی طرف سے اطلاعات بھجوانے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا۔ ان پر فتن ایام میں مشرقی پاکستان کے احمدیوں نے پریس اور ملک کے دوسرے حلقوں کو ضروری لٹریچر پہنچا دیا اور انفرادری و اجتماعی دعائیں کیں اور روزے رکھے۔ جیا کہ جناب احسان اللہ شکوار صاحب سیکرٹری تعلیم و تبلیغ انجمن احمدیہ مشرقی پاکستان کے ۹ مارچ ۱۹۵۳ء کے مکتوب کے درج ذیل الفاظ سے معلوم ہوتا ہے:۔
>بفضلہ تعالیٰ مشرقی پاکستان کے تمام اخبارات ہماری تائید میں ہیں۔ اخبارات کے اداریہ کو ترجمہ کرکے حضور کی خدمت میں ارسال کیا جارہا ہے۔ ہم حالات کے موافق کام کررہے ہیں۔ تمام اخباری دفتر میں )۱( قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ~ف۳~ ۲۰( جناب اصغر بھٹی کے مضمون۔ )۳( پاکستان کس راہ پر۔< ان سب کا بنگلہ میں ترجمہ دیا گیا ہے۔ اور ڈھاکہ نرائن گنج شہر میں اور باہر بھی بذریعہ جہاز` ریل` لانچرز ڈاک کی ترسیل جاری ہے۔ نرائن گنج میں دو روزے رکھے گئے اور اجتماعی دعا بھی جاری ہے۔ مشرقی پاکستان کی تمام جماعتوں کو بھی روزے رکھنے اور اجتماعی دعا کرنے کے لئے تاکید کی گئی۔<
اخبارات کے بعض شذرات
۱۔ اخبار >ڈھاکہ< نے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو اپنے اداریہ میں احرار کے فتنہ کے ¶خلاف حسب ذیل شذرہ لکھا:۔
قادیانی اور احرار
)ترجمہ( موجودہ بین الاقوامی حالات پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کو تنگ دائرہ میں محدود کرنے کے لئے فضا میں مکدر کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ اس لئے وہ غیر رسمی طور پر پاکستان کے خلاف ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی عوام کو متحد اور متفق رہنا ہی پاکستان کی حفاظت کا باعث ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایک نئی حکومت ہے۔ اس کی مضبوطی اور ترقی لازمی ہے۔ لیکن اب تک ممکن نہ ہوسکا۔ اس لئے ہم سب کو متفق ہوکر اس کی مضبوطی اور ترقی لازمی ہے۔ لیکن اب تک ممکن نہ ہوسکا۔ اس لئے ہم سب کو متفق ہوکر اس کی مضبوطی اور استحکام کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان حالات میں احمدیوں کے خلاف احراری فتنہ حکومت اور اسلام کے سب سے بڑے مفاد کے لئے ضر ہے۔ خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ ۱۶ فروری کو احرار ایک عام جلسہ میں جمع ہوئے اور وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خاں کو وزارت سے برطرف کئے جانے کی اور قادیانی فرقہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی آواز اٹھائی۔ اور ڈائریکٹ ایکشن عمل میں لانے کے عزم کئے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بطور چیلنج کے یہ اعلان کیا گیا۔
حکومت نے اس قسم کے فتنہ برپا کرنے والے گیا رہ مولویوں کو گرفتار کر لیا۔ اور ان گرفتاریوں کی وجہ سے احراریوں میں غیظ و غضب پھیل گیا۔ اور چھوٹ چھوٹی جماعتوں میں جلوس نکالے گئے اب تک حکومت نے ایک ہزار احراریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ احراریوں اور احمدیوں کے روزنامہ کی اشاعت بند کردی گئی ہے۔ حالات قابو میں کر لئے گئے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ہمارا کسی کسی جگہ احمدیوں کے ساتھ اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اصولوں میں ان کے ساتھ ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ ہستی باری تعالیٰ پر ایمان ہی احمدیوں یا قادیانیوں کا اصل اصول ہے۔۔۔۔۔ احرار کی ماضی کی تاریخ ہر پاکستانی کو یاد ہے انہوں نے پاکستانی تحریک کے خلاف جو کاروائی کی اس بناء پر ہم موجودہ حرکات کو پاکستان کے استحکام کے خلاف دشمنوں کی تائید سمجھتے ہیں۔
اب احرایوں کو چاہئے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اقرار کریں اور اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ اسلام اور حکومت کے خلاف ان کی یہ بغاوت پاکستانی معاف نہیں کریں گے۔
)۲(۔ مشہور اخبار >آزاد< )بنگالی( کی اشاعت مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء میں حسب ذیل اداریہ شائع ہوا۔
حسرت ناک انجام
میاں ممتاز دولتانہ نے ۱۰ مارچ کے ایک بیان میں کہا ہے کہ احمدیوں کے خلاف تحریک کے بہانے پر فساد برپا کرنے والے باغیوں نے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دینے کی سازش کی تھی اور یکدم مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈال کر پاکستان کے امن اور یک جہتی پر حملہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ تاہم مرکزی اور صوبائی حکومت حسب ضرورت کاروائی کے لئے مستعد ہیں۔ ملکی آئین اور نظم و نسق برقرار رکھنا نیز ہر ایک کی جان و مال کی حفاظت حکومت کا اولین فرض ہے۔
دولتانہ کے مذکورہ بیانات کے ساتھ اطلاعات پسند عناصر کے کسی فرد کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن چند ماہ سے ملک کی مختلف جگہوں میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس پر ہر پاکستانی کو فکر لاحق ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہں کہ گزشتہ سال کے گیارہ فروری کے واقعہ اور کراچی اور پنجاب کے موجودہ ہنگامے کے وقت دیکھا گیا کہ سول گورنمنٹ نے مجبور ہوکر امن عامہ کی حفاظت اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی خاطر ملٹری کو بلایا۔ اور اسے معاملہ سونپ دیا۔ دولتانہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ شروع شروع میں انہوں نے ہنگامہ برپا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشس کی۔ فقط اسی کوشش میں ہی وہ ناکام نہیں ہوئے بلکہ ملکی آئین اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں بھی سخت ناکام ہوئے۔ بال¶اخر ملٹری کو بلا کر اس کے ہاتھ میں معاملہ سونپ دیا۔ ہر بار ملکی آئین کی حفاظت کے لئے فوج کو بلانا اور مارشل لاء جاری کرنا کوئی قابل تعریف بات نہیں۔ امن و امان اور ملکی یکجہتی برباد کرنے والوں کو کھلی چھٹی دینے سے عام زندگی میں امن پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اب حکام اور سول کو اس معاملہ میں غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔
اتنے دن تو صرف طلباء پر ہی قانون شکنی کا الزام تھا۔ اب تو نام نہاد علماء بھی اسی کی تقلید کررہے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حکم نے بھی اپنی لیاقت کا ثبوت دیا۔ اخباری جرنلسٹ کے ایک گروہ کی کاروائی قابل تعریف نہیں بلکہ انہوں نے تو ملکی یکجہتی برباد کرنے میں مدد دی۔ سیاسی چال بازوں کا نام لینا بھی ضروری ہے۔ یہ سب مل کر ایک *** چکر بن گیا۔ اور اس میں پھنس کر عوام کی زندگی اور ملک کی بہبودی برباد ہونے لگی تھی۔ نازیبا حرکت اور قانون شکنی و کسی طبقہ کی تائید حاصل نہیں لیکن جس فعل سے امن و امان اور ملکی نظم و نسق کی بربادی کا خطرہ ہو اسی قسم کی تحریک کو ابتداء ہی میں سختی سے دبا دینا حکومت کے لئے ضروری ہے نام نہاد علماء کے فتنہ سے ملک کا امن و امان اور مفاد خطرہ میں پر جائیں گے۔ دولتانہ کو پہلے ہی اسے بھانپ لینا چاہئے تھا۔ لیکن الٹا انہوں نے ان کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ کی کوشش کی۔ یہ ان کی کمزوری اور ناعاقبت اندیشی کی علامت ہے۔ ماضی سے بے نیاز ہوکر عہد جدید کی واقفیت کا گھمنڈ جس کو لاحق ہے۔ اس کے ساتھ جس طرح مفاہمت نہیں ہوسکتی اسی طرح عہد حاضر سے ناواقف قدامت پسندوں کے ساتھ بھی کسی طرح سمجھوتہ نہیں ہوسکت۔ کیا دولتانہ کو یہ بات نہیں سوجھی۔ کہ جمہوریت کے نام پر کسی کے ساتھ نار و اسلوک یا کسی پر کوئی تعلیم زبردستی ٹھونس دینا جیسا کہ جمہوری اصول کے خلاف ہے اسی طرح مذبی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنا اور ملکی یکجہتی کو توڑنا بھی جمہوریت کے خلاف ہے۔ کوئی بھی اس کی تائید نہیں کرسکتا۔ متفرق فرقوں میں جو جنگ کی آوازیں کسی جارہی ہیں کیا واقعی یہ نمونہ کی لڑائی ہے یا سیاسی ہیر پھیر۔ مختلف گروہوں میں جو نمازی خیالات نمودار ہورہے ہیں وہ ملک کے لئے مستقبل میں خطرہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم سب کسی توجہ ادھر مبذول کراتے ہیں۔ حسرت ناک انجام سے ملک کو بچانا` تعلیم یافتہ طبقہ` حقیقی علماء اور حکومت کے کارندوں کا فرض ہے۔ ہم سب کی خدمت میں اس کے لئے غور و فکر کی گزار ش کرتے ہیں۔ )ترجمہ(
فصل پنجم
حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ بعض واقعات
اب آخر میں ۱۹۵۳ء کے بعض ایسے ایمان افروز واقعات درج کئے جاتے ہیں جن کا تذکرہ سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا جو حضور کی زندگی میں ہی سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں محفوظ ہوگئے۔
پہلا واقعہ
فرمایا احمدی جماعت سیاسی جماعت کبھی نہیں ہوئی۔ وہ ساری دنیا میں صرف مذہبی کام کرتی ہے۔ زیادہ تر احمدی پاکستان میں رہتے ہیں۔ مگر یہاں بھی کبھی اس نے کسی سیاسی پارٹی سے تعلقات قائم نہیں کئے۔ انہیں صرف اپنے اصول کے مطابق حکومت سے تعاون کرنا تا ہے اس موقع پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ۱۹۵۳ء میں جبکہ سارے پنجاب میں فساد تھا حکومت کے پاس رپورٹیں کی جاتی تھیں کہ احمدیوں نے اپنا بچائوں کے لئے بڑا سامان رکھا ہوا ہے۔~ف۴~ اس لئے گورنمنٹ کی طرف سے کبھی کبھی سی آئی ڈی کے افسر ربوہ آجاتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک سی آئی ڈی کا افسر آیا ایک پٹھان لڑکے کو اس نے دیکھا کہ وہ بیوقوف سا ہے اور اس کی تعلیم اچھی نہیں ہے۔ اس لئے اس نے خیال کیا کہ اس نوجوان سے بات معلوم ہوجائے گی چنانچہ اس نے اسے کہ تم مجھے وہ جگہ دکھائو جہاں تم نے لڑائی کا سامان رکھا ہوا ہے۔ اس لڑکے نے کہا تم میرے ساتھ آجائو چانچہ اس لڑکے نے اس سی آئی ڈی افسر کو ساتھ لیا اور ایک مسجد میں لے گیا۔ وہاں قرآن کریم کا درس ہورہا تھا۔ اس لڑکے نے کہا یہ ہماری لڑائی کی تیاری ہے۔ اس افسر نے کہا یہ کیا تیاری ہے۔ میں نے تو پوچھا کہ وہ جگہ دکھائوں جہاں تمہارے ہتھیار پڑے ہوئے ہیں۔ وہ لڑکا اسے پھر ایک اور مسجد میں لے گیا۔ وہاں بھی قران کریم کا درس ہورہا تھا۔ اس افسر نے کہا تم نے پھر غلطی کی ہے۔ تم مجھے وہ جگہ بتائو جہاں تم نے مقابلہ کے لئے سامان جمع کیا ہوا ہے۔ تم لوگ کمزور ہو اس لئے تم نے مقابلہ کے لئے ضروری تیاری کی ہوگی۔ وہ لڑکا کہنے لگا اچھا آئو میں تمہیں اور جگہ دکھائوں۔ جہاں ہمارا فوجی سامان پڑا ہے۔ وہ افسر خوش ہوگیا اور اس کے ساتھ ہولیا۔ چنانچہ وہ پھر اسے ایک اور مسجد میں لے گیا۔ وہاں بھی قرآن کریم کا درس ہورہا تھا۔ وہ آخر کہنے لگا تم مجھے پھر ایسی جگہ لے آئے ہو جہاں قران کریم کا درس ہورہا ہے اس لڑکے نے کہا ہمیں تو یہی فوجی سامان دیا جاتا ہے اور یہ میں نے تمہیں دکھا دیا ہے اس لڑکے نے کہا ہمیں تو یہی فوجی سامان دیا جاتا ہے اور میں نے تمہیں دکھا دیا ہے۔ باقی رہا ظاہری سامان۔ سو ہمیں تو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ سر جھکائو اور مار کھائو۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور اپنے سر پر چپت مار کر سر جھکا لیا اور کہا ہمیں تو بس یہی سکھایا جاتا ہے کہ مخالف کے آگے اپنا سر جھکا دو وہ افسر کہنے لگا اس طرح تو لوگ تمہیں مار دیں گے۔ وہ پٹھان لڑکا کہنے لگا پھر کیا ہوگا ہمیں شہادت نصیب ہوگی اور کیا ہوگا۔ اس پر وہ افسر مایوس ہوکر چلا گیا۔ وہ افسر سمجھتا ہوگا کہ شاید لڑکا بہت بیوقوف ہے لیکن تھا وہ بڑا عقلمند۔ دین کے لئے مارا جانا عزت کی بات ہوتی ہے۔ ذلت نہیں ہوتی۔ قران کے ذریعہ مقابلہ کرنا ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ تلوار اور بندوق قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جس کے ساتھ قرآن ہے اس کے ساتھ سب کچھ ہے۔ اور جس کے ساتھ قرآن نہیں ساری کے توپ خانے` ہوائی جہاز اور گولہ بارود بھی اس کے پاس موجود ہوں تو اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ جس کے پاس قران کریم ہے اور جس کیپاس خدا ہے اسے دنیا کے کسی توپ خانے ہوائی جہاز` بندوقوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیوی توپ خانے` بندوقیں اور تلواریں خدا تعالیٰ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔~<ف۵~
دوسرا واقعہ
>۱۹۵۲ء میں جب فسادات ہوئے تو بعض احمدی دوسرے احمدیوں کی خبر لینے کے لئے پچاس پچاس میل تک خطرہ کے علاقہ میں سے گزر کر گئے اور انہوں نے احمدیوں کی مدد کی۔ ایک عورت ہمارے پاس سیالکوٹ کے علاقہ سے آئی۔ اور اس نے بتایا کہ ہمارے گائوں میں دو تین احمدی ہیں جن کو لوگ باہر نکلنے نہیں دیتے اور اگر نکلیں تو ان کو مارتے ہیں۔ آخر میں نے سوچا کہ میں خود ان کے حالات سے آپ کو اطلاع دوں۔ چنانچہ میں پیدل چل کر سیالکوٹ پہنچی اور پھر سیالکوٹ سے ربوہ آئی۔ اس پر میں نے اسی وقت ایک قافہ تیار کیا جس میں کچھ ربوہ کے دوست تھے اور کچھ باہر کے اور میں نے انہیں کہا کہ جائو اور ان دوستوں کی خبر لو۔ اسی طرح سیالکوٹ کی جماعت سے بھی کہو کہ وہ ان کا خیال رکھے۔~<ف۶~
تیسرا واقعہ
>لاہور میں ہی ایک گھر پر غیر احمدی حملہ کرنے آگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اس مکان کو جلا دینا اور احمدیوں کو مار ڈالنا ہے۔ اس پر ایک غیر احمدی عورت اس مکان کی دہلیز کے آگے لیٹ گئی اور کہنے لگی پہلے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرلو۔ پھر بیشک آگے بڑھ کر احمدیوں کو مار لینا ورنہ جب تک میں زندہ ہوں میں تمہیں آگے نہیں بڑھنے دوں گی اس طرح ایک دوست نے سنایا کہ ان کے گھر پر حملہ ہوا اور مخالفین کا بہت بڑا ہجوم ان کے مکان کی طرف آیا۔ وہ اس وقت برآمدہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں وہ کیا دیکھتے ہیں کہ جب حملہ کرنے والے قریب آئے تو ایک نوجوان جو ان کے آگے آگے تھا گالیاں دیتے ہوئے مکان کی طرف بڑھا اور کہنے لگا ان مرزائیوں کو مار دو مگر جس وقت وہ لوگ مکان کے پاس پہنچے تھے تو وہ نوجوان سب کو مڑنے کے لئے کہہ دیتا اور اس کے مڑ جانے کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی مڑ جاتے تھے۔ آخر کچھ دیر کے بعد وہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اتنے میں ان کے دوسرے پھاٹک کی طرف سے ایک مستری داخل ہوا جو ان کے ماتحت کام کرتا تھا اور جسے انہوں نے ہی ملازم کروایا تھا۔ تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ ان لوگوں کے آگے آگے کون نوجوان تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ پہلے وہ گالیاں دیتے ہوئے آگے بڑھتا مگر پھر وہ اور اس کا ساتھی دونوں مر جاتے اور ان کے مڑ جانے کی وجہ سے باقی ہجوم بھی مڑ جاتا۔ وہ کہنے لگا یہ دونوں میرے بیٹے تھے۔ میں نے انہیں بلا کر کہا تھا کہ مجھے پتہ ہے کہ کل ان کے مکان پر حملہ ہونا ہے مگر انہوں نے مجھ پر یہ احسان کیا ہوا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی ملازم کروایا ہے۔ اور تمہیں بھی۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم اس احسان کا بدلہ اتارو۔ یہ لڑکے ہوشیار تھے۔ انہوں نے پتہ لگا لیا کہ کس وقت حملہ ہونا ہے اور خود ان میں شامل ہوکر آگے آگے ہوگئے اور کہنے لگے چلو ہم بتائیں کہ تم نے کس گھر پر حملہ کرنا ہے۔ مگر جب وہ گالیاں دیتے ہوئے قریب آتے تو کہتے مرزائی کے گھر میں کیا رکھا ہے۔ چلوم ہم تمہیں اور گھر بتاتے ہیں جن کے سفی روپوں سے بھرے پڑے ہیں اور جہاں بڑا سامان ہے۔ اور اس طرح وہ ان کو واپس لے گئے اور آپ کا گھر بچ گیا۔~<ف۷~
چوتھا واقعہ
گوجرانوالہ کے ایک احمدی کا یہ واقعہ حضور نے کئی بار بیان فرمایا:۔
>ایک پرانے احمدی تھے جو ستر پچھتر سال کی عمر کے تھے۔ ان کے پاس بھی گائوں کے لوگ پہنچے اور کہنے لگے کہ چلو اور مسجد میں چل کر توبہ کرو۔ اس نے کہا ہم تو ہر روز توبہ کرتے ہیں۔ آج مجھ سے نئی توبہ کونسی کروانے لگے ہو۔ وہ کہنے لگا میں اپنے سارے گناہوں سے تمہارے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ لوگ خوش خوش واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنے مولوی سے جاکر کہا کہ ہم تو اس سے توبہ کروا آئے ہیں۔ اس نے کہا کس طرح وہ کہنے لگے اس نے سب کے سامنے کہہ دیا ہے کہ میں اپنے سارے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگا اس قسم کی توبہ تو وہ تم سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ اگر اس نے واقعہ میں احمدیت سے توبہ کرلی ہے تو پھر اسے مسجد میں لائو اور میرے پیچھے نماز پڑھائو۔ چنانچہ وہ پھر اس کے پاس گئے۔ وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگا کہ اب پھر تم کیوں آگئے ہو۔ انہوں نے کہا ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مسجد میں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں یقین ہو کہ اپ نے احمدیت سے توبہ کرلی ہے۔ وہ کہنے لگا میں نے تو اس لئے توبہ کی تھی کہ مرزا صحب کہتے تھے نمازیں پڑھو` روے رکھو` زکٰوٰہ دو` حج کرو` جھوٹ نہ بولو` شراب نہ پیئو` جوا نہ کھیلو` کچنیاں نہ نچوائو۔ اب تم نے جب توبہ کروائی تو میں خوش ہوگیا کہ چلو نمازیں بھی چھوٹیں` روزے بھی گئے` زکٰوٰہ بھی معاف ہوئی۔ حج بھی گیا۔ اب دن رات شراب پئیں گے۔ جوا کھیلیں گے۔ کنچنیوں کے ناچ دیکھیں گے مگر تم تو پھر نمازیں پڑھانے کے لئے آگئے ہو۔ اگر نمازیں ہی پڑھانی تھیں تو یہ نمازیں تو مرزا صاحب بھی پڑھایا کرتے تھے پھر توبہ کرنے کا فائدہ کیا ہوا۔ وہ شرمندہ ہوکر اپنے مولوی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ سارا واقعہ اسے سنایا۔ وہ کہنے لگا میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس نے ضرور کوئی چلااکی کی ہے ورنہ اگر اس نے توبہ کی ہوتی تو یہاں آکر ہمارے پیچھے نماز کیوں نہ پڑھتا۔ اس شخص کے بیٹے کے دل میں ایمان زیادہ تھا۔ اسے جب اپنے باپ کا یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے اپنے باپ کو کہا کہ تم نے اتنی کمزوری بھی کیوں دکھائی۔ کئی بیٹے مخلص ہوتے ہیں اور ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور کئی اں باپ مخلص ہوتے ہیں اور بیٹے کمزور ہوتے ہیں لیکن بہرحال اصل خوبی یہی ہے کہ قوم کو ہزاروں بلکہ لاکھوں سالوں تک توکل اور یمان کی زندگی نصیب ہو اور اس کے افراد خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑے رکھیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے جدا ہونا انہیں گوارا نہ ہو۔~<ف۸~
پانچواں واقعہ
فرمایا:۔
>گزشتہ شورش میں بعض جگہ ہماری جماعت کی مستورات نے ایسی بہادری دکھائی کہ جب شرارتی عنصر نے انہیں پکرا اور احمدیت سے منحرف کرنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ تم ہمیں مار دو ہمیں اس کی پرواہ نہیں بلکہ اگر تم ہمارے جسم کے ستر ستر ٹکڑے ٹکڑے کر دو تب بھی ہمیں خوشی ہے کیونکہ ہمارے ستر ٹکڑے ہی خدا تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔~<ف۹~
حواشی
~ف۱~
۱۹۷۰ء سے اس خطہ میں بنگلہ دیش کے نام سے مستقل حکومت قائم ہوچکی ہے
~ف۲~
اخبار Observer Sind The کراچی ۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۳~
مئولفہ مولانا جلال الدین صاحب سم سابق مبلغ بلاد عربیہ و انگلستان
~ف۴~
اس ضمن میں امیر شریعت احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی تقاریر کے بعض اقتباس ملاحظہ ہوں۔ )۱( >میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ربوہ کی خود مختار ریاست پر چھاپہ مارئیے اسی ہزار ایکٹر رقبے کے ایک ایک مربع فٹ میں ایک ایک مربع فٹ میں ہزاروں فتنے مدفون ہیں` ہزاروں سازشیں ہیں۔ خطرناک منصوبے ہیں۔ ملت اسلامیہ کی تخریب کے سامان ہیں۔۔۔۔۔ حکومت اب بھی رتوں رات چھاپے مارے تو اسے بہت کچھ مل سکتا ہے< )تقریر لاہور مئی ۱۹۵۰ء(
)۲( >قادیانی نبی کے امتیوں نے ربوہ میں ایک متوازی حکومت قائم کررکھی ہے اور ان کے اس نظام کے تحت ربوہ میں اسلحہ تیار ہورہا ہے۔ زمین دوز قلعے تعمیر ہورہے ہیں۔۔۔۔۔ دریائے چناب کے کنارے ربوہ کو ایک قلعہ بند شہر بنایا جارہا ہے پاکستان کی آزاد حکومت میں اس متوازی حکومت کا قیام ناقابل برداشت ہے< )تقریر لاہور۔ اگست ۱۹۵۲ء( )خطبات امیر شریعت صفحہ ۵۲۔ صفحہ ۱۰۹( مرتبہ مرزا غلام نبی صاحب جانباز ناشر مکتبہ نبصرہ بیرون دہلی گیٹ لاہور طبع اول(
~ف۵~
روزنامہ الفضل ۳ شہادت ہشہ ۱۳۳۸ ۳ اپریل ۱۹۵۹ء صفحہ ۴ کالم ۴۔۴
~ف۶~
الفضل ۲۸ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۲ ایضاً ۳ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۴
~ف۷~
>الفضل< ۲۸ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۲۔ ۳
~ف۸~
روزنامہ الفضل ۳ اخاء ہشہ ۱۳۰۲۷ مطابق ۳ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۴ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۱ ایضاً خالد جنوری ۱۹۵۵ء مشعل راہ طبع دوم صفحہ ۸۱۰ صفحہ ۸۱۱۔ ناشر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ۔
~ف۹~
>المصلح< ۲۸ وفاہشہ ۱۳۳۲ ۲۸ جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۴
‏tav.14.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
حصہ دوم
سیدنا حضرت مصلح موعود
اور خاندان مہدی موعودؑ
اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
پہلا باب
حضرت مصلح موعود کی اولوالعزمی
جناب الٰہی کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیا تھا کہ مصلح موعود >اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا~<ف۱~
یہ عظیم الشان خبر ۱۹۵۳ء کے انتہائی تلخ` پرفتن اور تشویش انگیز دور میں بھی اس شان سے پوری ہوئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حضور اپنی عمر کے چونسٹھویں سال میں داخل ہوچکے تھے اور ان دنوں کمزور بھی تھے اور بیماری بھی بایں ہمہ آپ کو مسلسل چھ ماہ کے قریب رات کے دو دو تین تین بجے تک کام کرنا پڑا کوئی رات ہی ایسی آئی ہوگی جب آپ چند گھنٹے سو سکے ہوں ورنہ اکثر رات جاگتے جاگتے کٹ جاتی تھی۔]01 ~[pف۲~حضور کی یہ عدیم النظیر اولوالعزمی اور بے مثال جفا کشی آئندہ نسلوں کے لئے قیامت تک مشعل راہ کا کام دے گی۔
حضرت مصلح موعود کے روح پرور پیغامات
ان پرفتن ایام میں جبکہ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دیتی تھی حضرت مصلح موعود کا مقدس وجود ایک عظیم الشان نور تھا جس کی برکت سے جماعت )کے نیک دل بزرگوں( نے اپنے قلوب و اذہان پر فرشتوں کے نزول کو دیکھا اور انتہائی خطرات کے باوجود سکینت` اطمینان اور بشاشت ایمان کے انوار سے معمور رہی۔
‏]ydbo [tagسیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنی دعائوں اور تدابیر کو انتہاء تک پہنچانے کے علوہ جماعت احمدیہ کو پے در پے اپنے روح پرور پیغامات سے نوازا۔ ان پیغامات نے پژمردہ دلوں میں زندگی کی برقیلہر دوڑا دی۔ ان تاریخی پیغامات کا آغاز ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء کو اور اختتام ۲۷ مارچ ۱۹۵۳ء کو ہوا۔ یہ پیغامات جو اس دور کی تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہے زیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔
پہلا پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبد المسیح الموعود
برادران جماعت احمدیہ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ نے سنا ہوگا کہ حکومت پاکستان نے مجبور ہوکر احرار ورکرز کو کراچی میں گرفتار کر لیا ہے۔ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی گرفتاریاں شروع ہیں۔ چونکہ اس ایجی تیشن کا موجب احرار کی طرف سے جماعت احمدیہ کو ظاہر کیا جارہا تھا۔ اس لئے ممکن ہے کہ بعض کمزور طبع احمدی ان خبروں کو سن کر مجالس یا ریلوے سفروں میں یا لاری کے سفروں میں یا تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے ایسی لاف زنی کریں جس میں کہ ان واقعات پر خوشی کا اظہار ہو۔ اور بعض طبائع میں اس کے خلاف غم و غصہ پیدا ہو۔ اس لئے میں تمام احباب کو ان کے اخلاقی اور مذہبی فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے دن جب آتے ہیں تو مومن خوشی اور لاف و گزاف سے کام نہیں لیتے بلکہ دعائوں اور استغفار سے کام لیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے گند بھی صاف کرے اور ان کے مخالفوں کو بھی سمجھ دے کہ آخر وہ ان کے بھائی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام کا ایک الہام~ف۳~ ہے کہ ~}~
>اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
کاخر کندد دعویٰ حب پیمبرم<
یعنی اے دل تو ان مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال رکھا کہ جو تیرے مخالف ہیں کیونکہ آخر وہ بھی میرے آقا اور پیغمبر محمد رسول~صل۱~ کی محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
ہم میں خواہ کتنے ہی اختلاف ہوں ہم اس امر کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ سب مسلمان کہلانے والے ہمارے آقا کی امت سے ہیں۔ اور امت خواہ کتنی بھی گنہگار ہو ان کی تکلیف کا رنج صاحب امت کو ضرور ہوتا ہے۔ جس طرح اولاد خواہ کتنی ہی غلطی کرے ان کی تکلیف کا اثر والدین پر ہوتا ہے پس ہمیں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے جو غلط فہمیوں میں مبتلا ہوکر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ ان کو ایسے راستہ پر چلنے کی توفیق دے کہ وہ خود بھی عذابوں سے بچیں۔ اور حکومت کے لئے بھی پریشانی کا موجب نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی اور حکومت بخشی ہے۔ ہماری کوشس ہونی چاہئے کہ حکومت کو ضعف نہ پہنچے۔ اور خدا تعالیٰ سے دا کرنی چاہئے کہ ہمیں اور دوسرے پاکستانی مسلمانوں کو وہ ایسے اعمال کی توفیق دے کہ جس سے پاکستان مضبوط ہو۔ اور غیروں میں ہماری عزت بڑے۔ اور ہم عالم اسلام کی تقویت اور اتحاد کا موجب بن جائیں۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد۔ خلیفہ المسیح الثانی
ربوہ ۲۸ فروری ۱۹۵۳ء
دوسرا پیغام
>اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم<
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الفضل کو ایک سال کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے۔ پس دعائیں کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ اس میں سب طاقت ہے۔ ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ بھی کرتے رہیں۔ میں بھی دعا کرتا ہوں۔ انشاء اللہ فتح ہماری ہے۔ کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے۔ وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں۔ مگر اس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو۔ اور نیکی اختیار کرو سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد ۵۳۔ ۳۔ ۳~ف۴~
ایک ضمنی نوٹ
مولانا محمد شفیع صاحب اشرف~ف۵~ سابق مدیر فاروق و مبلغ انڈونیشیا کا بیان ہے کہ:۔
>۲۷ فروری ۱۹۵۳ء کو حکومت پنجاب کے ایک حکم کے مطابق روزنامہ >الفضل< جو اس وقت لاہور سے شائع ہوتا تھا ایک سال کے لئے جبراً بند کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اتفاق سے لاہور ہی میں ہمارے ایک اور دوست کے پاس ایک ہفت روزہ اخبار >فاروق< کے نام کاڈیکلریشن تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ >الفضل< کی بندش سے جو فوری طور پر خلاد پیدا ہوگیا ہے اسے پورا کرنے کے لئے فی الحال >فاروق< سے فائدہ اٹھا لیا جائے۔ ان دنوں یہ عاجز نیا نیا شاہد کا امتحان پاس کرکے جامعہ احمدیہ سے فارغ ہوا تھا۔ اور وکالت تبشیر تحریک جدید میں رپورٹ کرچکا تھا۔ جہاں میری تقرری اس وقت سیرا لیون کے لئے ہوچکی تھی۔
۶ مارچ کی شام کو اچانک حضرت سید زین العابدین ولی اللہ صاحب~ف۶~ جو اس وقت ناظر دعوٰہ و تبلیغ تھے کے دستخطوں سے مجھے یہ ارشاد موصول ہوا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تمہیں >فاروق< کا ایڈیٹر مقرر فرمایا ہے۔ تم کل فوراً لاہور جاکر کام شروع کر دو اور جانے سے پہلے حضور اقدس سے مل کر جائو۔
اس ہدایت کی تعمیل میں اگلی صبح ۹ بجے خاکسار قصر خلافت حاضر ہوا۔ حضور کی خدمت میں اپنے حاضر ہونے کی اطلاع بھجوائی۔ دفتر کی طرف سے اوپر جانے والی سیڑہیوں میں میں کھڑا تھا کہ حضور نفس فنیس فوراً ہی تشریف لائے۔ دروازہ خود کھولا۔ حصور اس وقت ننگے سر تھے۔ ململ کا سفید کھلا کرتہ اور شلوار پہنے ہوئے` ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ خاکسار نے سلام عرض کیا اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا۔ حضور نے فرمایا فضل بند ہوگیا ہے۔ اب فاروق جاری ہورہا ہے تم ابھی لاہور جاکر فرواً کام شروع کر دو اور میرا یہ پیغام جاتے ہی صفحہ اول پر شائع کر دو۔ بعد میں تمہیں اور ہدایات ملتی رہیں گی۔ یہ فرماتے ہی وہ کاغذ جس پر حضور کا اپنے قلم سے لکھا ہوا پیغام تھا مجھے عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک دفعہ اسے حضور کے سامنے ہی پڑھ لوں۔ تاکہ حضور کی تحریری پڑھنے میں اگر مجھے کوئی مشکل ہو تو وہ دور ہوجائے اور اخبار میں شائع کرتے وقت کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں اسی وقت خاکسار نے حضور اقدس کو ایک گونہ اطمینان ہوا اور مجھے لاہور جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اور فرمایا کہ میں اپنے کام کی رپورٹ جلد جلد حضور کی خدمت میں بھجتا ہوں۔ چنانچہ اسی وقت خاکسار لاہور کے لئے روانہ ہوگیا۔ اور وہ پیغام جس میں یہ ذکر تھا کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑتا ہوا آرہا ہے >فاروق< کے پہلے شمارہ کے صفحہ اول پر جلی قلم سے شائع کردیا گیا۔ >فاروق< کے اس پہلے پرچہ پر تاریخ اشاعت ۴ مارچ درج ہے۔ ویسے یہ شائع ۲ مارچ ہی کو ہوا تھا۔ اس کے بعد ابھی تین دن بھی نہ گزرے تھے کہ لاہور میں مارشل لاء لگ گیا۔ اور فی الحقیقت اس وقت یہی معلوم ہوتا تھا کہ خدا اپنے مظلوم اور بے گناہ بندوں کی حفاظت کے لئے دوڑ کر آگیا ہے۔ تین دن قبل حضور کے اس پیغام کی اشاعت اور اس کے بعد معاً بعد کے حالات ہر احمدی کے ایمان و استقامت کو بڑھانے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی پر توکل اور یقین اور خدائی نصرت و تائید کا ایک نہایت عظیم الشان منہ بولتا نشان تھے۔۔۔۔۔ اگرچہ ہفت روزہ >فاروق< کی زندگی اس وقت کے حالات کی وجہ سے بہت مختصر ثابت ہوئی لیکن اس کی پہلی اشاعت میں ہی حضور کے اس تاریخی پیغام نے اس سلسلہ کی تاریخ میں زندہ جاوید بنا دیا ہے۔~<ف۷~
تیسرا پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میری طبیعت ابھی خراب ہے۔ مگر کھانسی کو کل آرام رہا۔ ضعف زیادہ رہا۔ درس القرآن بعد از عصر حسب قاعدہ دیا گیا۔ جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعات ملی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ لاہور سیالکوٹ` لائلپور کے شہروں اور سیالکوٹ کے بعض دیہات میں شورش زیادہ رہی۔ ملتان میں بھی افواہیں پھیلیں` لیکن خیریت رہی۔ اکثر جگہ افسران کا انتظام اچھا رہا۔ بعض جگہ انہوں نے بزدلی دکھائی۔ کراچی میں امن رہا۔ سندھ میں افسران نے جلد جلد دورے کرکے معاملات کو سنبھالے رکھا۔ صوبہ سرحد کے افسران و حکام نے خوب مستعدی سے فتنہ کا مقابلہ کیا۔ بلوچستان میں اصل بلوچیوں نے پرامن طریق اختیار کیا۔ صرف وہاں کے پنجاب عنصر میں ہی تحفظ ختم نبوت کے نام پر سیاسی اغراض کے حصول کا جوش پایا جاتا ہے۔ بنگال بالکل پرامن ہے۔ اخبارات اور سیاسی پارٹیاں حتیٰ کہ بااثر علماء تک اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں۔ فالحمدلل¶ہ وجزاہم اللہ۔
اخبار فاروق مل گیا ہوگا۔ ہم روزانہ اخبار کی فکر میں ہیں۔ آپ لوگ صبر سے کام لیں۔ دعائوں میں لگے رہیں۔ فتنہ کی جگہوں سے بچیں۔ ایک دوسرے کی خبر لیتے رہیں۔ مرکز سے تعلق بڑھانے چاہئیں۔ افسروں سے تعاون کریں۔ اور خدا تعالیٰ پر پورا توکل کریں کہ وہ جو آخر تک صبر سے کام لے گا اور ایمان پر قائم رہے گا` وہی دائمی جنت کا وارث ہوگا اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے گا۔ خوش قسمت ہو تم کہ جنت تمہارے قریب کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے تمہارے لئے کھولے گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے لئے اتر رہے ہیں اور اس کی نصرت بارش کی طرح برس رہی ہے جس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتا ہے اور جو اندھا ہے اسے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ تم اپنی آنکھیں کھولو` اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھو۔ تم سے پہلے لوگ تم سے بہت زیادہ مصیبتوں کا شکار ہوئے مگر انہوں نے اف تک نہ کی اور ہمت ے آگے بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی گود میں انہوں نے جگہ پائی۔ تمہارے لئے بھی وہی برکتیں موجود ہیں۔ صرف آگے بڑھنے اور اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔
میں نے آج رات ایک خواب دیکھا جو اسی بارہ میں معلوم ہوتا ہے میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفئہ اول بیٹھے ہں اور ان کے سامنے ان کے لڑکے میاں عبد السلام بیٹھے ہیں۔ یہ موجود عمر اور اسی طرح کی داڑھی ہے مگر زیادہ تراشی ہوئی۔ بجائے حضرت خلیفئہ اول کی طرف منہ کرنے کے پہلو بدل کر بیٹھے ہیں اور حضرت خلیفئہ اول ان پر خفا ہورہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایسی بے ہودہ نظمیں سنا کر دماغ پریشان کردیا ہے۔ میں نے بیٹھ کر دیکھا تو عزیزم عبد السلام کی پیٹھ کے پیچھے دو کاغذ پڑے ہیں میں نے ایک کو اٹھا کر دیکھا تو اس پر کئی شعر لکھے ہیں۔ ایک مصرعہ ہے >آہستہ آہستہ آخر یہ کرسچین گھر پر آیا )یا پہنچا<( میں اسے پڑھ کر ہنس پڑا اور میں نے حضرت خلیفئہ اول سے کہا کہ یہ میاں عبد السلام کی تقریر تو نہیں وہ آپ کو مومن جی کے شعر سنا کر خوش کررہے تھے۔ پھر میں نے کہا کہ مومن جی )اصل نام خدا بخش پٹیالہ کے رہنے والے بوجہ سادہ طبیعت کے لوگ مومن جی کہتے ہیں مگر جاگتی دنیا میں انہوں نے شاید کبھی شعر نہیں کہا یا میں نے نہیں سنا( کچھ ایسے پڑھے لکھے تو ہیں نہیں جوش میں آتے ہیں تو شعر کہنے لگ جاتے ہیں جن کا نہ وزن ہوتا ہے۔ نہ مضمون۔ یہ لڑکے ان کے شعروں پر مذاق اڑاتے ہیں۔ اسی وجہ سے میاں عبد السلام نے آپ کو یہ شعر سنا دیئے تھے۔ یہ بات سن کر حضرت خلیفئہ اول بھی ہنسنے لگ گئے اور سمجھ گئے کہ میاں عبد السلام کا یہ فعل ان کو خوش کرنے کے لئے تھا۔ پھر پوچھنے لگے آخر اس مصرعہ کا مطلب کیا ہوا۔ میں نے کہا کہ انہوں نے کہیں سنا ہوگا کہ مسیح کو کرائسٹ کہتے ہیں وزن کی تو خیر انہیں ضرورت ہی نہیں۔ ذرا شعر کو انگریزی سے آراستہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کو کرائسٹ کہنا چاہا مگر چونکہ کرائسٹ نہیں آتا تھا کرسچین لکھ دیا اور مطلب یہ ہے کہ مسیح آہستہ آہستہ اپنے مقام پر پہنچ گیا۔ اس پر آپ اور ہنسے۔ اس کے بعد یکدم حضرت خلیفئہ اول غائب ہوگئے اور ان کی جگہ حضرت )اماں جان( آگئیں اور آپ نے کہا کہ میاں! تم نے یہ کیا لکھا ہے کہ تم سپاہی تو نہیں ہو مگر ہم تم کو سپاہیوں کی گجہ کھڑا کریں گے< میں نے کہا یہ میں نے مومن جی کی نسبت کہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن میں گھوڑے پر سوار تھا کہ گھوڑے نے یکدم منہ زوری اختاری کی اور قریب تھا کہ مجھے لے کر بھاگ جاتا اتنے میں آگے بڑھ کر مومن جی نے اس کی باگ منہ کے پاس سے پکڑ لی۔ اس پر گھوڑا اور بدکا۔ اس نے زور سے چھلانگ لگائی مگر مومن جی ساتھ ہی اچھلے اور باگ نہ چھوڑی۔ گھوڑی نے اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا کر ان کو کچلنا چاہا۔ اس پر میں نے زور سے کہا کہ چھوڑ دو گھوڑے کو چھوڑ دو ورنہ مرجائو گے لیکن انہوں نے مضبوطی سے گھوڑ کو پکڑے رکھا۔ چھوڑا نہیں۔ آخر تھوڑی دیر شرارت کرکے گھوڑا ٹھیک ہوگیا تب میں نے کہا کہ >مومن جی تم سپاہی تو نہیں ہو مگر ہم تم کو سپاہی کی جگہ کھڑا کریں گے< پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اس رئویا میں مومن جی کے لفظ سے خاص شخص مراد نہیں بلکہ سادہ لوح مومن مراد ہے۔ جس طرح رسول کریم~صل۱~ نے وحیہ کلبی کی صورت میں جبریل کو دیکھا تھا۔ اسی طرح جماعت )نیک لوگوں( مومن جی کی صورت میں دکھائی گئی ہے اور مطلب یہ ہے کہ مومن ایک طرف تو اتنا سادہ لوح ہوتا ہے کہ جوش ایمانی میں یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اس کے شعر میں وزن ہے یا نہیں اپنے دل کے جوش کے اظہار کے لئے بے پرواہ ہوکر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ لوگ اس پر ہنستے ہیں مگر اس کی سنجیدگی میں فرق نہیں آتا وہ خدا کی باتیں پہنچاتا جاتا ہے۔ دوسری طرف نرم اور سادہ اور کمزور ہونے کے باوجود اسلام اور اس کے نظام کی قیمت اس کے دل میں اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان کے خوف سے بے پرواہ ہوکر خدمت دین میں لگ جاتا ہے اور مصائب سے ڈرتا نہیں۔ مشکلات سے گھبراتا نہںی حتیٰ کہ اپنے لوگ بھی سمجنھے لگ جاتے ہیں کہ اب وہ مارا جائے گا۔ کچلا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ اس کے اخلاص کو ضائع ہونے نہیں دیتا۔ فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہں اور وہ آفتوں سے اسے بچاتے ہیں اور خودسری کی روہ کو توڑنے میں وہ کمایاب ہوجاتا ہے تب آسمانی گروہ کو کہنا پڑتا ہے کہ تم سپاہی تو نہیں ہو مگر تم کو سپاہیوں کی جگہ کھڑا کریں گے۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
)امام جماعت احمدیہ(
اس بلیٹن کے ساتھ جناب نظر صاحب دعوت و تبلیغ نے مندرجہ ذیل ہدایت دی:۔
>یہ بلیٹن جس کے پاس پہنچے وہ آگے دوسروں تک پہنچائے اور پہنچاتا چلا جائے تاکہ جماعت کی گھبراہٹ دور ہو اور وہ حالات سے واقف رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔
اطلاع ملی ہے کہ سیالکوٹ میں دو احمدی شہید کردیئے گئے ہیں۔~<ف۸~
زین العابدین۔ ولی اللہ
ناظر دعوت و تبلیغ ۵۳/ ۳۲ /۳ / ۵
چوتھا پیغام
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
افسوس کے ساتھ اطلاع دیتا ہوں کہ الفضل کے بند ہوجانے اور ریلوں اور لاریوں کی روک کی وجہ سے تین دن سے نہ آپ کو ہماری خبر ہے اور نہ ہمیں آپ کی۔ لاہور` سیالکوٹ اور راولپنڈی میں بعض احمدی شہید کئے گئے ہیں اور بعض کی دکانوں کو لوٹا گیا اور جلایا گیا۔ افسوس ہے کہ بلیٹن بھی آپ کو ارسال نہیں کیا جاسکا۔
ناظر امور عامہ لاہور الفضل کے لئے کوشش کرنے گئے تھے۔ مگر جاکر اپنے گھر بیٹھ گئے کیونکہ الفضل کے فون سے اطلاع ملی ہے کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ الفضل کے لئے کیا کررہے ہیں۔
ریلوں اور لاریوں میں احمدیوں پر حملے کئے جارہے ہیں لیکن اصل خطرناک بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ اپنے اصل مقاصد کی طرف آرہے ہیں۔ سرکاری عمارتوں اور سرکاری مال پر حملہ کیا جارہا ہے سرگودہا اور جھنگ کے بعض مقامات پر ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ سکھیکھی~ف۹~ پر ایک ٹرین پر چڑھے ہوئے افراد نے پاکستانی فوج مردہ باد کے نعرے لگائے اس سے ملک دشمنی اور غداری کی روح کا صاف پتہ چلتا ہے۔
مگر اس حالت میں بھی بعض جگہوں سے خطوط مل رہے ہیں۔ پھر نہ معلوم جماعت کیوں خاموش ہے اور خطوں کے ذریعے سے اطلاع نہیں دیتی؟۔
خدائی جماعتوں پر یہ دن آیا کرتے ہیں پس گبھرانے کی بات نہیں۔ اپنے لئے اور اپنے ملک اور حکومت کے لئے دعا کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد )امام جماعت احمدیہ(
۸ مارچ ۱۹۵۳ء
جس جس کو یہ خط ملے۔ تحریراً و تقریراً تمام جماعتوں میں پھیلائے۔
پانچواں پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حالات پہلے سے درستی پر آرہے ہیں۔ ساٹھ فیصدی جگہوں سے خبریں یہی آرہی ہیں کہ ہالات درست ہورہے ہیں۔ ۲۵ فیصدی کے قریب خبریں یہ ہیں کہ فسادات ابھی اپنے دستور پر قائم ہیں اور پندرہ فیصدی جگہوں سے یہ خبریں ہیں کہ فساد یا تو نیا پیدا ہورہا ہے یا بڑھ رہا ہے۔ بہرحال ان ساری خبروں کا نتیجہ یہ ہے کہ نصف سے زیادہ فساد دب چکا ہے اور خدا کے فضل سے امید ہے کہ ہفتہ عشرہ تک یہ فساد دب جائے گا۔ قریب میں گندم پیدا ہونے والی ہے اور زمیندار مجبور ہوگا کہ وہ گندم کی کٹائی کرے اس طرح کپاس ک کاشت کا وقت بھی قریب آرہا ہے غالباً ان دنوں میں مولوی زمینداروں کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا کام چھوڑے اور اگر وہ زمیندار کو مجبور کرے گا تو اگلی دور فصلیں اس قدر تباہ ہوجائیں گی کہ پنجابی کو نہ پہننے کو کپڑا ملے گا۔ نہ کھانے کو روٹی ملے گی اور اس تباہی کی زمہ داری کل طور پر مولویوں اور مودودیوں پر ہوگی۔ گو یہ فتنہ پرداز لوگ غصے سے اس وقت اندھے ہورہے ہیں۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اتنی جر¶ات کرنی ان کے لئے مشکل ہوگی۔ کیونکہ تین چار مہینے کے بعد اس کے نتائج نکلنے پر پبلک اس قدر مخالفت ہوجائے گی کہ وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل ہی نہ رہیں گے۔ پس ہمت اور استقلال سے کام لو۔ اصل چیز جر¶ات اور ایمان ہے۔ ہمارے مخالفوں میں سے احمدیوں کو مارنے والوں کو بھی یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر میں نے مارا تو پھانسی چڑھوں گا یا اگر مقامی حکام مجھے نہیں پکڑیں گے تو ملک کی تباہی کو دیکھتے ہوئے مرکز دخل دے گا اور میں گولیوں کا شکار بنوں گا پس مارنے والے کے دل میں مرنے والے سے کم ڈر نہیں بلکہ اسے موت کے علاوہ کبھی کبھی خدائی سزا کا بھی خیال آسکتا ہے۔ پس ہمت اور بہادری سے کام لو اور اپنی عاقبت و بگاڑو نہیں۔
خدا تعالیٰ نے غیر معمولی ثواب کے مواقع آپ کے لئے بہم پہنچائے ہیں۔ اس موقعہ کو بزدلی اور کمزوری سے جو شخص ضائع کرتا ہے۔ وہ بہت بدبخت آدمی ہے۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا تاکہ اس کی سیاہی سے دنیا و اغدار نہ ہوتی۔
اب مودودی آگے آرہے ہیں~ف۱۰~ ان پر نگاہ رکھو اور ان کے تمام حالات سے دفتر کو آگاہ رکھو ان کے لیڈروں کے ناموں سے اطلاع دو ان کے تقریر کرنے والوں سے مطلع کرو اور ان کی تقاریر کا خلاصہ ہمارے پاس بھجوائو۔ وہ پولیس اور افواج کو ہمارے خلاف مسموم کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کی بھی نگرانی رکھو۔~<ف۱۱~
چھٹا پیغام
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نعحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
احباب جماعت کو معلوم ہے کہ اس وقت جماعت پر ایک نازل موقعہ آیا ہوا ہے۔ گورنمنٹ اپنی طرف سے کوشش کررہی ہے کہ فتنہ کو دور کرے۔ درحقیقت یہ گورنمنٹ کا ہی کام ہے لیکن بعض دفعہ بعض کمزور طبائع ایسی باتیں بھی کر بیٹھا کرتی ہیں کہ گورنمنٹ کی تدابیر کو بطور طعن مخالفوں کے سامنے کردیتی ہیں یا اور قسم کی باتیں کردیتی ہیں جو بعض جوشیلی طبیعتوں کے لئے اشتعال کا موجب ہو جایا کرتی ہیں اور فساد پھر پیدا ہوجاتا ہے اور حکومت کے لئے مشکل پیدا ہوجاتی ہے پس میں دوستوں کو ان کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے موقعہ پر قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق صبر اور دعا سے کام لیں اور کچھ کہنا ہے تو اپنے خدا سے کہیں۔ لوگوں کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کریں کہ جس سے اشتعال پیدا ہو اور فساد کی صورت پیدا ہوکر حکومت کے لئے مشکلات کا موجب ہو۔
والسلام
خاکسار۔ مرزا محمود احمد۔ خلفیہ المسیح
حواشی
~ف۱~
اشتہار حضرت مسیح موعود ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء
~ف۲~
الفضل ۹ فروی ۱۹۵۵ء صفحہ ۵
~ف۳~
یہاں >الہام< کا لفظ سہواً لکھا گیا ہے۔ دراصل یہ شعر حضور علیہ السلام کا رقم فرمودہ ہے جو حضور کی کتاب >ازالئہ اوہام< میں درج ہے۔ )صفحہ ۱۶۴ طبع اول(
~ف۴~
ہفت روزہ >فاروق لاہور< جلد ۱ نمبر ۱ مئورخہ ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ اول
~ف۵~
وفات ۲۹ مارچ ۱۹۸۹ء
~ف۶~
وفات ۱۶ مئی ۱۹۶۷ء
~ف۷~
غیر مطبوعہ )ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت(
~ف۸~
یہ اطلاع حافظ ثابت ہوئی )مرتب(
~ف۹~
نقل مطابق اصل
~ف۱۰~
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ >ان گرفتاریوں کا پس منظر< ناشر اے قادرصاحب مطبوعہ کلیم پیرس کراچی ۱۹۵۳ء
‏]h1 ~[tagف۱۱~
بلیٹن ۲ ۱۹۵۳ء بحوالہ >بدر< ۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
دوسرا باب
جماعتوں کی صورتحال سے باخبر رہنے کا انتظام
حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اس دور میں کمال حکمت عملی سے ایسا نظام قائم فرما رکھا تھا کہ پاکستانی جماعتوں کے بدلتے ہوئے حالات بلکہ بعض اوقات کی ان کی خبرئیات و تفصیلات تک آپ تک پہنچ جاتی تھیں۔ ایک طرف مرکزی اداروں میں سے خصوصاً امور عامہ کے کارکن نظارت دعوت و تبلیغ کے مبلغین کرام` نظارت بیت المال کے انسپکٹر صاحبان ان دنوں سرتاپا جدوجہد بنے رہے۔ دوسری طرف مقامی جماعتوں کے امراء صدور اور دیگر ذمہ دار عہدیداران نے حتی الامکان اپنے پیارے آقا اور مرکز سلسلہ کو اپنے کوائف سے آگاہ رکھا جیسا کہ مفصل ذکر آچکا ہے۔
ربوہ کے بعد جس مقام پر ان ایام میں خاندان مہدی موعود کے اکثر قابل احترام بزرگ اور وجود قیام پذیر تھے وہ لاہور کا رتن باغ تھا جو جماعت لاہور سے متعلق اطلاعات کا اہم ترین مرکز تھا۔
مرکز سے سائیکلو سٹائل خطوط کا خاص انتظام
‏text] ga[tسیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے مشہور پیغام مورخہ ۳ مارچ ۱۹۵۳ء میں الفضل کی بندش کا ذکر کرنے کے بعد وعدہ فرمایا تھا کہ:۔
>ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔~<ف۱~
حضرت اقدس نے اس وعدہ کی تکمیل کے لئے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ۳ مارچ ہی کو اپنی نگرانی میں دفتر اطلاعات کا قیام فرمایا اور اس کا انچارج راقم الہروف )دوست محمد شاہد( کو مقرر کیا۔ یہ دفتر احاطئہ قصر خلافت میں قائم کیا گیا۔ ۲۰ مارچ کو اس کا نام حضور نے بدل دیا اور اسے دفتر ریکارڈ سے موسوم فرمایا۔ اس نئے دفتر کے حسب ذیل فرائض تھے:۔
۱۔
ایجی ٹیشن سے متعلق اندرون ملک سے آنے والی ڈاک کا ریکارڈ رکھنا۔
۲۔
تازہ اطلاعات کا خلاصہ تیار کرکے حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں پیش کرنا۔
۳۔
حکام وقت کو حالات سے باخبر رکھنے اور مشرقی پاکستان کی احمدی جماعتوں کو مرکزی کوائف سے مطلع کرنے کے لئے الگ الگ اطلاعات کا انتخاب کرنا اور پھر بالترتیب حضرت مولانا عبدالرحیم~ف۲~ صاحب درد ناظر امور عامہ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس~ف۳~ ناظر تالیف وت تصنیف کو بھجوانا۔
۴۔
احمدی جماعتوں کو مرکزی اور جماعتی اطلاعات سے باخبر رکھنے کی خاطر ضروری معلومات مرتب کرنا۔
موخر الذکر معلومات سیدنا حضرت مصلح موعود نہایت احتیاط اور باقاعدگی سے ملاحظہ فرماتے اور حضور کی منظور کے بعد ان کو نظارت دعوت و تبلیغ میں بھجوا دیا جاتا تھا جہاں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ان کو اپنی نگرانی میں سائیکلو سٹائل کراتے اور پھر اولین فرصت میں بیرونی جماعتوں میں بھجوا دیتے تھے۔
جناب محمد یوسف صاحب سابق کارکن نظارت دعوت و تبلیغ حال آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کا بیان ہے کہ:۔
>جماعتوں سے رابطہ کے لئے خطوط بھیجنے کا ہی ذریعہ باقی رہ گیا چنانچہ خطوط کے ذریعے احباب جماعت سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ان خطوط کی چھپائی اور ترسیل کا کام میرے ذمہ ہوا۔ میں ان دنوں صیغہ نشر و اشاعت میں تھا مجھے ایک دفتری~ف۴2]~ [rtf اور ایک مددگار کارکن ملا ہوا تھا۔ خط کا مضمون مغرب کے قریب مل جاتا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر ہم لوگ دفتر پہنچ جاتے۔ میں موصولہ مضمون کو سٹینسل پر لکھتا اور پھر خود سائیکلو سٹائل مشین پر اسے چھاپتا تھا یہ مشین پرانی طرز کی تھی )جو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے عاریتاً حاصل کی تھی( اس لئے چھپائی پر بہت وقت صرف ہوتا تھا۔
جماعتوں کے کچھ پتے چھپے ہوئے موجود تھے کچھ ہاتھ سے لکھے جاتے یہ سب کچھ تیار کرکے لفافے ڈاک کے ذریعہ بھیجنے کے لئے کبھی نماز فجر تک کبھی اس سے پہلے تیار کر لیتے۔ اگر کبھی کا جلدی ختم ہوجاتا تو نماز فجر سے قبل کچھ آرام کرلیتے صبح پھر دفتر کے وقت حاضر ہوکر پورا وقت دفتر کے کام میں مصروف رہتے۔
چونکہ قریباً ساری رات ہی جاگنا پڑتا تھا اس لئے بھوک بھی لگ جاتی تھی اس کے لئے ہم نے یہ انتظام کیا کہ چائے یا قہوہ جو بھی میسر آئے گھر سے لے آتے اور جب بھوک محسوس ہوتی تو اسے گرم کرکے پیتے` کھانے پینے کی چیزیں بوجہ فسادات ربوہ نہیں آرہی تھیں چائے یا قہوہ کے ساتھ کبھی چنے ابلے ہوئے اور کبھی یہ میسر نہ آتے تو خالی چائے یا قہوہ پی کر گزارا کر لیتے تھے۔<
‏]ydob [tagان خطوط میں جماعتی خبروں کے علاوہ مرکزی اداروں کے اعلانات اور بعض دیگر اہم رپورٹیں بھی شامل کی جاتی تھیں۔ حضرت مصلح موعود کی واضح ہدایت یہ تھی کہ اس میں کوئی ہراس پھیلانے والی خبر نہیں ہونی چاہئے۔ حضور نے اس پر سختی سے کاربند رکھنے کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ کو خاص طور پر اس امر کی تاکید فرما رکھی تھی۔
یہ خطوط اپنی افادیت کے اعتبار سے مرکزی خبرنامہ کی حیثیت رکھتے تھے جن سے سب پاکستانی جماعتوں کا رابطہ اپنے مرکز سے قائم رہا اور یہ جہاں جہاں بھی پہنچے جماعتوں میں استقلال اور بشاشت اور صبر کی نئی روح پیدا ہوگئی۔
یہ انتظام ۳۰ مارچ ۱۹۵۳ء تک یعنی کراچی سے روزنامہ >المصلح< کے شرح ہونے تک جاری رہا اور ساتھ ہی دفتر اطلاعات بھی ختم کردیا گیا۔
ذیل میں بعض بلیٹن معہ ضروری ہدایات کے درج کئے جاتے ہیں:۔
>اطلاعات<
)بلیٹن ۴ جماعت کے لئے(
برادران! السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
>ربوہ ۱۰ مارچ۔ حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ نبصرہ العزیز ی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ نزلہ نسبتاً آرام ہے۔ مگر گلے میں درد ہے۔ اور سر درد کی تکلیف ہے۔ احباب کرام دعا فرما دیں۔
حضور انور نے آج اور کل ڈیرہ اسماعیل خاں` لاہور` شیخو پورہ` ضلع لائل پور` ڈھاکہ` گجرات اور راولپنڈی کے متعدد احباب کو شرف ملاقات بخشا۔
سیالکوٹ کے متعلق بعض احمدیوں کے جانی نقصان کی خبریں مشہور ہوگئی تھیں۔ لیکن چوہدری نذیر~ف۵~ احمد صاحب کا تار موصول ہوا ہے کہ تمام احباب خیریت سے ہیں۔ فالحمدلل¶ہ۔
کراچی کے مسٹر شریح الدین )نگران ایڈہاک کمیٹی( سیکرٹری سٹوڈنٹس فیڈریشن` اخبار سند آبزور` ڈان ایوننگ سٹار سب نے موجودہ ہنگامہ کی مذمت کی ہے۔ نیز مشرقی پاکستان سے بھی خبر ملی ہے کہ وہاں کا انگریزی و بنگلہ پریس پنجاب ایجی ٹیشن کے خلاف آواز بلند کررہا ہے۔
کراچی جماعت نے >المصلح< کا روزانہ ڈیکلریشن حاصل کر لیا ہے۔ نیز ایک برقی پریس بھی وہاں خریدنے کے انتظامات کے جارہے ہیں۔
ربوہ میں ڈاک تار اور فون کا انتطام حسب دستور باقاعدہ موجود ہے۔ گاڑیاں قریباً وقت پر آا رہی ہیں اور آج سے ربوہ اور سرگودہا کے درمیان بسوں کی ایک سپیشل سروس بھی شروع ہورہی ہے۔
بعض شر پسند عناصر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ اور ربوہ کے متعلق مختلف قسم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ان مکروہ ہتھکنڈوں کے استعمال کی غرض جماعت کو پریشان کرنا ہے۔ ان عناصر کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدیوں کو پریشان کرنے کا یہ طریق نہ اب تک کامیاب ہوا ہے۔ ور نہ انشاء اللہ کبھی آئندہ کامیاب ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں۔ مرکز احمدیت میں ہر طرح خیریت ہے۔ احباب جاعت اپنے اپنے حالات کے معتلق ڈاک کے ذریعہ باقاعدگی سے اطلاع دیتے رہیں۔ انشاء اللہ مرکز پوری زمہ داری سے اس سلسلہ میں اپنے فرائض کی سرانجام دہی کرے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کا ہر دم حامی و ناصر ہو۔ اور مسرتوں کی لازوال دولت سے مالا مال فرما دے۔
)دستخط( زین العابدین ولی اللہ
۵۳/ ۳۲۔ ۳۔ ۱۱ ایڈیشنل ناظر اعلیٰ<
اطلاعات۔ ربوہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ نبصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >نقرس کی تکلیف شروع ہے۔ پائوں میں جو زخم تھا۔ وہ ابھی باقی ہے احباب صحت کاملہ کے لئے دعا فرماویں۔ آج حضور انور نے سیالکوٹ` گوجرانوالہ` شیخوپورہ کے اضلاع شہر پشاور اور ریاست بہاولپور کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا۔
آج اور کل مرکز میں کوٹ رحمت خاں` پریم کوٹ` مانگٹ اونچے` لائلپور` گجرات` ڈسکہ` میانوالی` ملتان` مگھیانہ اور دوسرے مقامات سے جماعتوں کی خیریت کے متعلق اطلاعات موصول ہوئیں۔ ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے اکثر جماعتیں موجودہ حالات میں بڑے صبر و استقلال سے کام لے رہی ہیں۔ اور خدا کے فضل سے سراسیمگی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لاہور لائلپور اور رالوپنڈی کی جماعتوں نے مصائب کے طوفانوں میں ہمت و استقلال کا نہایت عمدہ نمونہ دکھایا ہے۔
راولپنڈی میں بعض سرکاری افسروں نے ہمارے احمدی ملازمین کو یہ >پیشکش< کی کہ وہ ان کی حفاظت کے لئے ایک محفوظ کیمپ قائم کرا دیتے ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں اپنے اپنے گھروں میں مرجانا منظور کرسکتے ہیں۔ مگر کیمپ میں جانا منظور نہیں کرسکتے۔
ایک جماعت نے لکھا >یہاں کی جماعت میں خدا کے فضل سے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لیکن ہمیں ہر وقت مرکز کا خیال ہے۔< پچھلے دنوں ایک جگہ سے کسی دوست نے لکھا۔ کہ یہاں شرارت بڑھ رہی ہے۔ اس پر حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ تعالیٰ نبصرہ العزیز نے یہ جواب رقم فرمایا:۔
>ان شرارتوں کو پکڑنے والا آسمان پر زندہ خدا موجود ہے<
زندہ خدا کس طرح شرارتوں کو پکڑتا ہے۔ اور انسانی تدبیریں خدائی تقدیروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ اس کا نظارہ پہلے ہم نے ہزاروں مرتبہ کیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی ہمیں کوئی فکر امنگیر ہوسکتا ہے۔ نہیں اور ہرگز نہیں۔
احباب ربوہ کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش کرتے ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ شر پسندوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آپ ہمیں اپنی خیریت کے متعلق جلدی جلدی اطلاع دیا کریں۔ کیونکہ تاخیر سے تشویش ہوتی ہے۔
)دستخط( زین العابدین ولی اللہ
ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ۔ خدا کرے کہ آپ اور دیگر جملہ برادران احمدیت بخیر و عافیت ہوں۔
سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ حضور کے پائوں میں تکلیف کچھ زیادہ ہے مگر کھانسی مں کمی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آقا کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے اور ہزاروں برکتوں اور کامرانیوں کے ساتھ لمبی عمر عطا فرماوے آج اور کل حضور پر نور نے خانیوال` لائلپور` سرگودہا` لالہ موسیٰ` چک پنیار` کراچی` محمد آباد اسٹیٹ سندھ اور جہلم کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا۔
مربی دین حق مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے گولڈ کوسٹ )افریقہ( سے یہ خوشکن اطلاع دی ہے کہ کماسی میں جماعت احمدیہ کے بیرون پاکستان میں سب سے پہلے کالج کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید خبر دی ہے کہ اس تقریب پر علاقہ کے بڑے بڑے رئوسا کے علاوہ شنانٹی کے بادشاہ بھی شامل ہوئے۔ سنگ بنیاد کی تقریب کا آغاز کلام پاک کی تلاوت سے کیا گیا۔
وکیل المال ثانی تحریک جدید تحریر فرماتے ہیں کہ ۳۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو سیدنا حضرت۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں سو فیصدی چندہ ادا کرنے والے مخلصین جماعت کی پہلی فہرست بغرض دعا پیش کی جائے گی۔ آپ تما احباب جماعت کو اس کی اطلاع دے دیں اور پرزور تحریک فرما دیں کہ احباب اپنے وعدوں کو حتی الوسیع جلد تر ادا فرمائیں۔
ہم میں سے کسے معلوم نہیں کہ تحریک جدید کے ذریعہ دنیا کے تمام بیرونی ممالک میں تبلیغ دین حق کا وسیع کام ہورہا ہے۔ )بیوت الذکر۔ ناقل( تعمیر ہورہی ہیں اور رسول خدا~صل۱~ کی عزت و ناموس کے قیام کے لئے دنیا کی مختلف زبانوں میں لٹریچر شائع کیا جارہا ہے پس ہر فرد جماعت کا اولین فرض ہے کہ وہ اس مقدس کام کو جاری رکھنے اور اس کو وسیع کرنے میں ہر ممکن کوشش سے کام لیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔
مشکلات ضرور ہیں مگر ان مشکلات پر قابو پانے کا بھی یہی طریق ہے کہ ہم خدا کے دین کی اشاعت کریں اس طرح خدا عرش سے ہماری حفاظت کرے گا اور ہمیں اپنی برکتوں سے نوازے گا۔
براہ کرم تمام احباب جماعت تک یہ مکتوب بھی پہنچا دیں اور احباب ربوہ کا ہدیہ سلام بھی۔ خدا آپ سب کے ساتھ ہو اور خدمت دین اور خدمت رقوم کی توفیق بخشے آمین۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ ربوہ
۳۲/ ۵۳۔ ۳۔ ۱۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت اقدس۔۔۔۔۔ ایدہ اللہ نبصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ مظہر ہے کہ کھانسی کو آرام ہے۔ ٹانگ کی درد میں اضافہ~ف۶~ ہے اور پائوں کی درد میں بھی قدرے تخفیف مے اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔ آج حضور نے سیالکوٹ` گوجرانوالہ` چکوال اور لاہور کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا اور اوکاڑہ` سکھر` گوگیرہ` کنری` کوٹ رحی یار خاں` پندی گھیپ` لیاقت پور اور دوسری جماعتوں کا متعدد خطوط حضور کی خدمت میں موصول ہوئے۔
الحمدلل¶ہ کہ بحیثیت مجموعی حالات پہلے سے بہتر ہورہے ہیں۔ ہمارے محبوب وطن اور محبوب جماعت پر منڈلانے والے بادل اب آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں اور خدا کے فضل سے مطلع صاف ہورہا ہے۔ لیکن ابھی حالات پوری طرح تسلی بخش نہیں۔ احباب کو ہوشیار رہنا چاہئے اور دعائیں جاری رکھنی چاہئیں۔
لاہور کی ایک معزز غیراحمدی خاتون نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے بذریعہ مکتوب یہ استفسار کیا ہے کہ آپ نے ۱۹۱۷ء میں اپنی ایک تقریر میں جو یہ فرمایا تھا کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور۔ ان کا خدا اور ہے اور ہمارا او۔ ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔< اس عبارت کا کیا مقصد ہے؟
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے قلم مبارک سے آج اس کا مندرجہ ذیل جواب رقم فرمایا ہے:۔
>یہ تقریر ایسی ہی ہے جیسے کہ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا کہ جو سورٰہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی حالانکہ ساے حنفی سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے۔ بعض دفعہ زور دینے کے لئے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں اور مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ لوگ مغز کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ یہی مراد اس تقریر کی ہے یعنی عام طور پر مسلمان نماز جلد جلد پڑھتے ہیں حج کو غریب جاتے ہیں۔ جن پر حج فرض ہے وہ نہیں جاتے۔ پس مراد یہ نہیں کہ مسائل الگ الگ ہیں بلکہ نماز` حج` زکٰوٰہ ہماری اور دوسروں کی ایک ہے۔ میری تقریر کا منشاء اس بات پر زور دینا ہے کہ ان لوگوں میں اسلام کی شرائط پوری کرنے کی طرف سے سستی ہے تم شرائط کو پورا کرو۔<
براہ کرم اپنی اور جملہ احباب کی خیریت سے اطلاع دیں اور مندرجہ بالا مکتوب ان تک پہنچا کر شکست کا موقعہ بخشیں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی بے انتہا رحمتوں کے دروازے کھولے اور مشکلات و مصائب کے راستے ہمیشہ کے لئے بند کردے۔ آمین
والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ۔ ربوہ ۳۲/ ۵۳۔ ۳۔ ۱۹
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبد المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >پائوں کا زخم مند مل ہورہا ہے اور دوسرے عوارض میں بھی افاقہ ہے۔< فالحمدلل¶ہ علی ذالک
آج حضور پر نور نے نہایت ہی لطیف پیرایہ میں دوستوں کو دعا اور انابت الی اللہ کی طرف توجہ دلائی اور ارشاد فرمایا کہ ہمارا فض ہے کہ ہم خوشی غمی` رنج و راحت اور عسر یسر میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کیا کریں اور ہر حال میں اسی سے مدد و نصرت کے طلب گار ہوں کیونکہ وہی ہمارا سہارا ہے۔
حضور نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا کہ دنیا میں جب کبھی کسی شخص کو کوئی تکلیف یا خوشی پہنچتی ہے تو وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کی طرف دوڑتا ہے اور فطرتاً چاہتا ہے کہ وہ انہیں بھی اپنے رنج اور راحت میں شریک کرے۔ اسی فطری جذبہ کے ماتحت شادی بیاہ پر تمام رشتہ دار اکٹھے ہوجاتے ہیں اور موت کے مواقع پر بھی برادریوں کا اجتماع ہوتا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ جذبہ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ کو باہر کھیلتے ہوئے اگر شیشے کا چمکتا ہوا ٹکڑا بھی مل جاتا ہے تو وہ خوشی میں دوڑ کر فرواً ماں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اماں مجھے یہ ٹکڑا ملا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بچے کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچاتا ہے تو اس صورت میں بھی وہ اپنی ماں کی طرف بھاگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری ماں مجھے بچائے گی۔
یہ مثال بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا کہ جس طر بچہ مصیبت اور خوشی کے وقت اپنی ماں کی طرف بھاگتا ہے۔ اسی طرح ایک سچا مومن بھی اپنی تکلیف اور خوشی کی گھڑیوں میں اپنے مالک حقیقی اور اپنے قار مطلق خدا کی طرف بھاگتا اور اس کے آستانہ پر اپنا سر رکھ دیتا ہے۔
اسی لئے ہمارا آقا سیدنا حضرت رسول مقبول~صل۱~ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر تکلیف اور مصیبت کے وقت انا للہ وانا الیہ رجعون پڑھیں جس کے یہ معنی ہیں کہ ہماری مصیبت کو دور کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں اس لئے ہم اس کی طرف جاتے اور اسی سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ اسی طرح حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تمہیں کوئی خوشی اور راحت پہنچے تو الحمدلل¶ہ کہو جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خدا یہ انعام تیری ہی وجہ سے ہمیں عطا ہوا ہے اور تو ہی ہماری شکر گزاری کا حقیقی حقدار ہے۔ مگر فرمایا کہ جس طرح فاتر العقل بچے خوشی اور غمی میں اپنی ماں کی طرف نہیں دوڑتے اسی طرح فاتر العقل انسان بھی دعا اور عبادت سے غافل رہتے ہیں لیکن وہ لوگ جو عقل و دانش کے مالک ہوتے ہیں ان کے لبوں پر خوشی کے وقت بھی خدا کا ذکر ہوتا ہے اور مصیبت کے وقت بھی اسی کی یاد ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔ براہ کریم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور کوشش کریں کہ احباب جماعت پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ ان ایام میں تہجد کا بھی التزام کریں اور اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ ذکر الٰہی اور دعائوں کے لئے وقف رکھیں۔
خدا تعالیٰ ہمیں بے شمار رحمتیں اور برکتیں دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ اے کاش ہم اس کے وفا دار ثابت ہوں اور اس کے دامن سے لپٹ کر ان برکتوں کے طالب ہوں جو ہمیشہ صادقوں کے لئے مقدر ہیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ ربوہ ۳۲/ ۵۴ ۳۔ ۲۰
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبد المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >عام طبیعت اچھی ہے پائوں میں درد ہے< اللہ تعالیٰ حضور کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔
احباب یہ خبر سن کر بے حد خوشی محسوس کریں گے کہ درس قرآن کی وہ پاک محفل جس سے جماعت کئی دنوں سے محروم تھی کل ہفتہ سے پھر شروع ہوگئی ہے چنانچہ کل حضور نے سورٰہ مریم ع کی بعض آیات کی لطیف تفسیر بیان فرمائی اور بائبل کے مقابل قرآن مجید کے نظریات کی صداقت کو تاریخ اور عقل کی روشنی میں ثابت کر دکھایا کہ مسیح کی پیدائش جیسا کہ بائبل میں آیا ہے دسمبر میں نہیں ہوئی بلکہ ایسے موسم میں ہوئی جب کھجوریں پکتی ہیں۔
نیروبی )افریقہ( سے مبلغ احمدیت جناب شیخ مبارک احمد صاحب نے بذریعہ مکتوب احباب جماعت کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ قرآن کریم کے سوا حیلی ترجمہ کے آخر مسودات پریس کے سپرد کر دیئے گئے ہیں اور خدا کے فضل سے امید ہے کہ ماہ ڈیڑھ ماہ تک قرآن کریم کا ترجمہ چھپ کر تیار ہوجائے گا۔ احباب دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ جناب شیخ صاحب موصوف کی اس دینی خدمت کو قبول فرماوے اور قرآن کی روشن تعلیمات کی بدولت افریقہ کا تاریک براعطم جگمگا اٹھے۔
شیخ صاحب موصوف نے اپنے مکتوب میں نیروبی کے مشہور روزنامہ ڈیلی کرانیکل کے تراشے بھی ارسال کئے ہیں جن میں پنجاب کی موجودہ ایجی ٹیشن کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ اس ایجی ٹیشن کی وجہ سے افریقہ کے غیر مسلم عناصر پر یہ اثر ہے کہ پاکستان کے عوام میں مذہبی آزادی نہیں ہے اور جبر و اکراہ سے کام لیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں باہمی اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ انہیں مضبوطی سے دبانے کی ضرورت ہے۔
یہ لوگ کی بدقسمتی ہے کہ چند فتنہ پرداز لوگوں کی وجہ سے ہمارا محبوب وطن بدنام ہوگیا ہے یقیناً یہ چند لوگوں کا ذاتی فعل ہے اس سے پاکستانی حکومت پر الزام لگانا ظلم ہوگا۔
سرحد کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان صاحب نے حالیہ سرحد اسمبلی کے اجلاس میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ صوبہ کے امن کو ہر قیمت پر برقرار رکھیں گے۔ وزیراعلیٰ نے مسلم لیگی ممبروں سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں جاکر لوگوں کو سمجھائیں کہ مذہب کی آڑ میں خلاف اسلام حرکات کا ارتکاب کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں۔
آج کی ڈاک میں احباب جماعت نے گزشتہ ہنگامہ کے سلسلہ میں کئی ایمان افروز واقعات کی اطلاع دی ہے جن کو پڑھ کر خدا تعالیٰ کی نصرت کا زندہ یقین حاصل ہوتا ہے۔ مثلا ضلع شیخو پورہ کے احمدی دوست لکھتے ہیں کہ ایک جگہ چند تنہا اور بے ک احمدیوں پر بے حد سختی کی گئی اور ان کو محاصرہ میں لے لیا گیا۔ ایک احمدی نے کہا کہ اپ لوگ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ گزریں احمدیت تو مجھ سے نہیں چھوٹ سکتی۔ احمدی دوست یہ الفاظ کہنے ہی پائے تھے کہ وہاں پولیس پہنچ گئی حالانکہ یہ جگہ تھانہ سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ہے۔
بعض دوسرے مقامات پر احمدیوں کو بچانے کے لئے غیراحمدی شرفا حفاظت کے لئے آگئے اور شر پسند عناصر کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا چنانچہ ایک احمدی خاتون نے لکھا ہے کہ وہ اپنے مکان پر اپنے بچوں سمیت رہتی تھیں کہ تین دفعہ مکان پر حملہ کرنے کی تیاری کی گئی مگر انہیں خدا نے بتایا کہ وہ محفوظ رہیں گی چنانچہ جب آخری بار جلوس آیا تو محلہ کے شریف لوگ از خود اس خیال سے مقابلہ کے لئے آگے آگئے کہ ایک عورت سے نکلوا دینا ایک مسلمان کی شرافت سے بعید یہ۔
اسی طرح ایک احمدی دکاندار جمعہ پڑھنے کے لئے گئے ہوئے تھے کہ اس اثناء میں ہجوم نے دکان پر دھاوا بول دیا مگر ساتھ ہی بعض شریف غیراحمدی دکاندار تھے انہوں نے ہجوم کا مقابلہ کیا اور اس طرح سے اسے ناکامی اٹھانی پڑی۔
بعض مقامات پر محض عزم و استقلال کے اطہار سے مخدوش فضا بدل گئی مثلاً شیخوپورہ کے ایک گائوں میں بعض لوگوں نے احمدیوں کو قتل کی دھمکی دی مگر انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ذبح کردیں ہمارے بچوں کو تہ تیغ کردیں مگر ہم صداقت کو نہیں چھوڑیں گے اس پر یہ لوگ اپنے ارادوں کو تکمیل سے دستکش ہوگئے۔
غرضیکہ اسی ہنگامہ کے دوران میں خدا تعالیٰ نے بعض جگہوں پر غیر معمولی اسباب نصرت پیدا کرکے اپنے بندوں کی اپنے ہاتھ سے مدد فرمائی جس کے لئے ہم اس کا جس قدر بھی شکریہ ادا کریں بہت کم ہے۔
ضلع سرگودہا کے ایک احمدی دوست اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ مودودیوں اور بعض دوسرے مخالفین جماعتوں میں کچھ ایسے نوجوان پھیلا رہے ہیں جو شرارت کی غرض سے جھوٹے طور پر احمدیت کی طرف منسوب ہوجاتے ہیں۔
براہ کرم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور اپنے علاقہ کی خیریت سے جلد جلد اطلاع دیتے رہیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ ربوہ ۳۲/ ۵۳ ۳۔ ۲۲
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >انگوٹھے کا زخم ابھی ہے۔ مگر طبیعت نسبتاً اچھی ہے۔< خدا تعالیٰ ہمارے مقدس آقا کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے اور حافظ و ناصر ہو۔
پنجاب کے گزشتہ ہنگامہ میں جماعت کی بعض احمدی مستورات نے ہمت و استقلال کا جو قابل رشک نمونہ دکھایا ہے ناممکن ہے کہ احمدیت کی تاریخ میں انہںی فراموش کیا جاسکے۔ اس سلسلہ میں آج کی ڈاک سے گوجرانوالہ اور شہزادہ ضلع سیالکوٹ سے دو اور واقعات کی اطلاع ملی ہے۔ ان دو واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دو جگہ پر احمدی مستورات اکیلی تھیں کہ بہت بڑا ہجوم حملہ آور ہوگیا اور اس نے قتل و غارت کی دھمکی دی مگر اندر سے صرف ایک ہی آواز آئی اور وہ یہ کہ ہم اپنے آقا کے حکم کے ماتحت گھر میں رہیں گے احمدیت کو نہیں چوڑیں گے خواہ ہمیں قتل کردیا جائے یا ہمارا سامان لوٹ لیا جائے۔ اس آواز میں کچھ ایسا اثر تھا کہ ہجوم کا رخ پلٹ گیا اور شر پسند لوگ واپس چلے گئے۔
لاہور کے ایک احمدی دوست جنہیں حالیہ فسادات میں دکان کے جل جانے کی وجہ سے تقریباً بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہوا ہے سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اخلاص و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ >جو مال ہمارا گیا ہے ہم خوش ہیں کہ احمدیت کے نام پر گیا ہے۔ ان تمام واقعات سے جو ہماری آنکھوں نے دیکھے ہمارا ایمان اور بھی مضبوط ہوا۔ حضور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ ایمان کی حالت میں موت نصیب کرے۔< آمین
بیرونی جماعتوں سے آمدہ خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک بہت سی جگہوں پر افواہیں پھیلانے کی باقاعدہ مہم جاری ہے مثلاً سیالکوٹ کے ایک حصہ میں یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ ربوہ کو جلا دیا گیا ہے اور جو احمدی وہاں تھے انہیں یا تو زندہ جلا دیا گیا یا قتل کردیا ہے اسی ضلع کے بعض دوسرے مقامات پر یہ چرچا کیا جارہا ہے کہ ۵ لاکھ پٹھان ربوہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ تعجب ہے کہ اگر نعوذ باللہ ربوہ واقعی جل چکا ہے تو > ۵ لاکھ پٹھانوں< کویہاں حملہ کے لئے آنے کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ دوستوں کو جھوٹی افواہوں کی طرف سے بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔
سیکرٹری صاحب مجلس مشاورت کی طرف سے جماعتوں کو یہ اطلاع بھجوائی جارہی ہے کہ قواعد کے لحاظ سے جماعتوں کو پہلے جتنی تعداد میں نمائندے بھجوانے کا حق تھا اس دفعہ انہیں اس سے نصف تعداد میں نمائندے بھجوانے چاہئیں۔ نیز یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر وقتی حالات کے ماتحت امیر یا صدر کو اپنی جگہ چوڑنا مناسب نہ ہو تو وہ اپنی جگہ کوئی دوسرا ذمہ دار نمائندہ مشاورت کے لئے بھجوا سکتے ہیں۔
ضلع سرگودہا کے ایک احمدی دوست کی اطلاع کے مطابق مودودی ہماری جماعتوں میں بعض ایسے نوجوان پھیلا رہے ہیں جو فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے احمدیت قبول کرلیتے ہیں اور درپردہ مخالف ہوتے ہیں۔ امید ہے دوست اس قسم کے منصوبوں سے ہوشیار رہیں گے۔
براہ کرم یہ مکتوب تمام احباب جماعت تک پہنچا دیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ۔ ربوہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >پائوں کے زخم میں ابھی کچھ تکلیف ہے اور کھانسی بھی ہے۔< اللہ تعالیٰ ہمارے آقا کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔ آچ حضور پر نور نے ضلع شیخوپورہ` جھنگ اور سرگودہا کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا اور باوجود علالت طبع کے عصر کے بعد قرآن کا درس بھی دیا۔][صوفی محمد رفیع صاحب سکھر سے اطلاع دیتے ہیں کہ سندھ کے مشہور لیڈر پیر پگاڑو نے اپنے ایک بیان میں حالیہ ایجی ٹیشین کی پرزور مذمت کی ہے۔ پیر پگاڑو کا یہ اعلان سندھ کے کئی اخبارات نے شائع کیا ہے۔
دوستوں کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے ۴۷ سال قبل اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:۔
>یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکیں گی اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت سے پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازہ ان پر کھولے جائیں گے۔<
)الوصیت صفحہ ۸` ۹ طبع اول دسمبر ۱۹۰۵ء(
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ روح پرور کلام احباب جماعت تک پہنچا دیں اور انہیں صبر و استقامت سے کام لینے اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین کریں اور دوستوں کو تحریک کریں کہ وہ ان ایام میں قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعہ کی طرف خاص توجہ دیں اور دعائوں پر بہت زور دیا جائے اور جو دوست روزہ کی توفیق رکھتے ہوں وہ روزہ بھی رکھیں کیونکہ روزہ کی حالت میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
والسلام
ناظر دعوت و تبلیغ۔ ربوہ ۳۲/ ۵۳ /۳ / ۲۵
‏tav.14.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ >نقرس کا دورہ پھر شروع ہوگیا ہے۔ دائیں پائوں کا انگوٹھا متورم ہوگیا ہے اور حرکت مشکل ہو گئی ہے۔< اللہ تعالیٰ حضور انور کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔
احباب یہ سن کر خوشی محسوس کریں گے کہ مولوی احمد شاہ صاحب نائیجریا میں پانچ سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے کے بعد ۶ اپریل کو بذریعہ بحری جہاز کراچی پہنچ رہے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف کے ساتھ جرمنی کے ایک نومسلم دوست عمر ہوفر صاحب بھی تشریف لارہے ہیں۔ عمر ہوفر صاحب ربوہ میں قرآن مجید اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کریں گے اور پھر اپنے ملک کو نور اسلام سے منور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں کو خیریت سے یہاں پہنچائے۔
سیر الیون کے مبلغ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلی بچی~ف۷~تولد ہوتی ہے۔ دوست دعا فرمائیں کہ نومولدہ دین کی خادمہ بنے اور والدین کے لئے قرٰہ العین ثابت ہو۔
جرمنی سے اطلاع ملی ہے کہ جرمنی کے مبلغ چوہدری عبداللطیف صاحب نے نیورمبرگ کے ایک ہال میں اسلامی تعلیمات کے موضوع پر کامیاب لیچکر دیا۔ صداقت کے فرائض جرمنی کے ڈاکٹر ویزر نے سرانجام دیئے۔ چوہدری صاحب موصوف کی کوششوں سے ایک جرمن لیڈی کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی بھی اطلاع موصول ہوئی ہے۔
سیون سے آمدہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مبلغ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب منیر نہایت تندہی سے تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں سیلون گورنمنٹ کے محکمہ خوراک کے ایک رکن محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ ممبر` ریلوے کلرک` پوسٹ آفس کے ملازمین اور ایک اساتذہ سے بھی ملاقات کی اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کے مقاصد اور مساعی میں برکت دے۔
مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے جاکرتا )انڈونیشیا( سے اطلاع دی ہے کہ انڈونیشیا کی جماعتیں پاکستان سے متعلقہ خبروں کے باعث کئی دنوں سے دعائوں پر خاص زور دے رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔ لاہور سے شیخ بشیر احمد صاحب اور ان کے رفقاء اور محمد عبد اللہ ایم۔ ایس سی اور ان کے رفقاء کے متعلق خبر موصول ہوئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے بری ہوگئے ہیں اور خیریت سے ہیں۔ فالحمدلل¶ہ علی ذالک۔
براہ کرم یہ مکتوب احباب جماعت تک پہنچا دیں۔ والسلام
ناظر دعوٰہ و تبلیغ۔ ربوہ ۳۲/ ۵۳ ۳۔ ۲۶
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام علی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا وامامنا حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی صحت کے متعلق آج شام کی رپورٹ یہ ہے کہ >نقرس کی درد کا خاصہ شدید دورہ ہوا ہے اور حضور چل پھر نہیں سکتے۔< اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب آقا کو ہر تکلیف سے محفوظ رکھے اور صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
مکرم شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئیٹرز لینڈ نے سوئٹرز لینڈ سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں چند استفسارات بغرض جواب تحریر کئے ہیں۔ شیخ صاحب موصوف کے پیش کردہ استفسارات اور حضور انور کے لطیف جوابات آپ کے اضافہ علم کی خاطر درج ذیل ہیں۔
۱۔ سوال۔ اگر شراب کا استعمال ہر صورت اور ہر مقدار میں برا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس کی حرمت اسلام سے پہلے کسی نبی کے ذریعہ نہ ہوئی اور اگر پہلے جائز تھی تو کیا بائبل کی رو سے انبیاء بھی اس کا استعمال کرتے تھے؟
جواب۔ >کیا ہر زمانہ میں ایک سی ضرورت ہوتی ہے اس طرح تو دنیا کی تمام حکومتوں کے قوانین رد کرنے ہوں گے۔<
۲۔ سوال۔ قرآن کریم میں جانوروں کے خون کی حرمت کا ذکر ہے۔ کیا یہ حرمت صرف اس وجہ سے ہے کہ خون کا استعمال بطور خوراک کے صحت کے لئے مضر ہے؟
جواب۔ >کسی نے صحت کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا اثر روحانیت پر پڑتا ہے۔ کبھی مردار خور اور خون کھانے ولا اروحانیت کے مقام تک نہیں پہنچا۔<
۳۔ سوال۔ بعض عیسائیوں کر ہر سال ایسٹر کے دنوں میں مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کی یاد میں عین ان مقامات پر زخم پھوٹتے ہیں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم مبارک پر کیل ٹھونکے گئے تے۔ بعض لوگ ایسے واقعات کو اپنے مذہب کی صداقت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کی توضیح فرمائی جائے۔
جواب۔ >محض دھوکہ ہے اس قسم کے قصے قبروں کے مجاوروں نے بھی بنا رکھے ہیں ان کو کیوں نہیں مانتے؟<
۴۔ سوال۔ نمازوں کے اوقات میں مغربی ممالک میں مسلمانوں کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب تک موجودہ صنعتی نظام رائج ہے کام کے دوران میں نماز کی چھٹی کا ملنا ممکن ہے۔ اس مشکل کا حل کیا ہو؟
جواب۔ >کون سا کام بغیر مشکلات کے ہوتا ہے جہاں ناقابل تلافی مشکل ہو وہاں جمع کا مسئلہ موجود ہے پھر مشکل ہے۔<
ربوہ میں الحمدلل¶ہ خیریت ہے اور عموماً جماعتوں کی طرف سے بھی خیریت کی اطلاع آرہی ہے۔ گو مودودی اصحاب مختلف رنگوں میں فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ دوستوں کو ہوشیار اور محتاط رہنے اور دعائوں کی تلقین کرتے رہیں۔ والسلام
شیخ عبد القادر مولوی فاضل~ف۸~
ربوہ ۳۲۵۳ ۳۔ ۲۸
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
برادرم! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سیدنا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق آج شام کی رپورٹ یہ ہے کہ >پائوں میں درد ابھی باقی ہے<۔ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کو صحت کاملہ و عاجلہ بخشے۔
آج حضور پر نور نے لاہور` بقا پور` دوالمیال` لالہ موسیٰ` سرگودہا` وزیرآباد اور لائلپور کے بعض خدام کو شرف ملاقات بخشا۔
ضلع لائلپور کے ایک دوست ایک مکتوب میں مقامی جماعت کے کوائف کے متعلق لکھتے ہیں کہ:۔
>کہیں کہیں یہ افواہ بھی پھیلائی جاتی ہے کہ فلاں فلاں آدمی احمدیت سے تائب ہوگیا ہے۔ ایسی دو تین اطلاعیں ہمارے پاس آئیں۔ ہم نے آدمی بھیج کر پتہ کیا تو ان افواہوں میں ذرہ بھی صداقت نظر نہ آئی بلکہ اپنے دوستوں کو پہلے سے زیادہ احمدیت پر پابد پایا۔<
یہی دوست مقامی جماعت کی اپنی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
>نمازوں میں حاضری کافی ہوتی ہے۔ دعائیں بہت کی جاتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے پر زور دیا ہے تا لوگ ہمارے اخلاق کی وجہ سے خود بخود ہماری طرف کھچے چلے آئیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ کی کتب سے اخلاق کے بارہ میں اقتباسات پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور آنحضرت~صل۱~ کے حسن خلق اور حسن معاملات کا تذکرہ کرکے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے سو الحمدلل¶ہ کہ جماعت اخلاق میں ترقی کررہی ہے اور اپنی حالت میں بہتری پیدا ہورہی ہے۔ جس کا غیر از جماعت لوگوں پر بہت اچھا اثر ہے۔<
یہی دوست آخر میں لکھتے ہیں:۔
>ہم نے ان ابتلائوں کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے واضح نشانات بلکہ خود زندہ خدا کو دیکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صداقت پر زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔<
مرکز سلسلہ میں خدا کے فضل و کرم سے ہر طرح خیر و عافیت ہے۔ آپ یہ مکتوب اپنے حلقہ احباب تک پہنچاویں اور دعائوں کی تلقین کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ ہر دم آپ کا حامی و ناصر ہو۔ والسلام
خاکسار احمد خان نسیم
مجلس قیام امن۔ احمد نگر
۵۳/ ۳۲ ۳ / ۲۹
>دفتر اطلاعات< سے متعلق بعض مراسلات
دفتر اطلاعات سے متعلق سیدنا حضرت مصلح موعود` حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کے مراسلات درج زیل کئے جاتے ہیں۔
>دفتر اطلاعات
۱۔ کل بھی کچھ خط بھجوائے تھے ان کے متعلق ہدایت ہے کہ پڑھ کر پھر متعلقہ دفاتر میں بھجوانے ہیں کیونکہ جواب انہوں نے بھجوانے ہیں نیز کوئی ہراس پھیلانے والی خبر نہ بھجوائی جائے۔<
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
منسلکہ بلیٹن تو ایسا ریکارڈ ہے جس میں سے عندالضرورت حکام صوبائی )ہوم سیکرٹری۔ آئی جی( اور مرکزی حکام )رائم منسٹر) وزیر داخلہ اور وزیراعظم اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب( کو حضور کی ہدایت کے ماتحت چٹھی لکھتے وقت اس سے ضروری اقتباس حاصل کرنا ہے۔ یہ جماعتوں کے لئے مقصود نہیں۔ بلکہ اس سے ضرورت کے مطابق معلومات اخذ کرنی ہیں اور اسی غرض کے لئے اس کی آٹھ نو کاپیاں کروائی گئی ہیں۔ مولوی دوست محمد صاحب یہ حضور کو دکھا چکے ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے۔
اس تعلق میں اختلاف اس بات پر ہے کہ حکام سے خط و کتابت نظارت امور عامہ کرے گی نہ کہ کوئی اور نظارت۔
چوہدری اعجاز نصر اللہ صاحب کو بلا کر ان سے تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور یہی صورت مناسب ہے کہ ایسی اطلاعات دفتر میں بطور ریکارڈ رہیں گی۔ عند الضرورت حکام کے ساتھ خط و کتابت کرتے وقت مناسب اقتباس وہ لے لیں گے۔ اس تعلق میں دریافت طلب یہ امر ہے کہ آیا یہ اطلاعات کا ریکارڈ مولوی دوست محمد صاحب کے پاس رہے گا یا نظارت امور عامہ کے پاس۔ اعجاز صاحب کا خیال ہے کہ یہ ریکارڈ مولوی دوست محمد صاحب کے پاس رہے۔ اور وہ عند الضرورت ان سے لے لیں گے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حکام کو ساتھ کے ساتھ مظالم کے متعلق اطلاعات دی جانی بھی ضروت ہیں اندریں صورت نظارت امور عامہ کی طرف سے بذریعہ چٹھی حکام کو ساتھ لکھا جانا چاہئے۔
والسلام
خاکسار
)دستخط حضرت سید( زین العابدین ولی اللہ )شاہ صاحب(
۵۳/ ۳۲ ۔ ۳۔ ۱۲ ایڈیشنل ناظر اعلیٰ<
۳۔ ۱۶/۱۲۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب فاضل
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
آج تقسیم کار کے متعلق حضرت صاحب نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ امور متعلقہ بنگال )یعنی جن امور کا بنگال پر اثر پڑتا ہو۔ وہ خطوط میں سے نقل کرکے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو بھجوایا جایا کریں اور وہ امور جن کا ملک کے نظم و نسق پر اور مرکزی حکومت پر اثر پڑتا ہے اور ان کے ساتھ تعلق ہے وہ خطوط میں سے نقل کرکے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ کو بھجوائے جایا کریں اور اس کے علوہ عام امور جو جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور انہیں ہوشیار کرنے یا ان کی ہمت افزائی وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ نقل کرکے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو بھجوائے جائیں تاکہ یہ ہرسہ اصحاب اپنے اپنے دائرہ میں مناسب کاروائی کر سکیں اور ریکارڈ بھی رکھ سکیں۔
والسلام
خاکسار )دستخط( مرزا بشیر احمد ناظر اعلیٰ<][۵۳۔ ۳۔ ۱۶
۴۔ ۳۔ ۱۶/ ۱۲۳
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
آئندہ ابتدائی خطوط مرتب کرنے میں جہاں اس بات کو نوٹ کیا جائے کہ فلاں جگہ افسروں کا رویہ اچھا نہیں رہا وہاں لازماً اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ اگر کسی جگہ افسروں کا رویہ اچھا رہا ہو تو اس کا بھی ذکر کیا جائے تاکہ دونوں پہلو آجائیں یعنی نقص کا پہلو اصلاحی غرض سے اور تعریف کا پہلو ہمت افزائی اور شکر گزاری کے لحاظ سے۔ آئندہ اس ہدایت کو ضرور مدنظر رکھیں۔
والسلام
)دستخط( مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۳۔ ۱۶ ناظر اعلیٰ<
۵۔ ۳۔۲۱/ ۹۲۲۷ D/P
>بسم اللہ الرحمن الرحیم<
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آئندہ سےآپ کے دفتر کا نام دفتر >ریکارڈ< ہوگا دفتر اطلاعات نہیں ہوگا۔
خاکسار عبد الرحمن انور پرائیویٹ سیکرٹری
۵۳۔ ۳۔ ۲۰ حضرت خلیفہ المسیح الثانی
۶۔ ۵۳۔ ۳۔ ۲۱ / ۴۰۲۰۱۔ ۱
مکرم مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جہاں خان صاحب کے ایک خط کا اقتباس جس کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا ہے >روزانہ خطوط میں یہ مضمون جائے۔< نقل کرکے آپ کی خدمت میں ارسال ہے۔
والسلام
)دستخط( مرزا بشیر احمد
ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ
۵۳۔ ۳۔ ۲۱
۷۔
نقل اقتباس خط جہان خان صاحب
پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک نمبر ۹ شمالی ضلع سرگودہا
>مندی بھلوال چک نمبر ۹ شمالی سے ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے وہاں تین چار دکاندر مودودی جماعت کے ہیں ان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو باقاعدہ چندہ وغیرہ دیتے ہیں مگر یہ لوگ منافق طرز کے ہیں ہم اور باتیں بھی معلوم کرنے کی کوشش کریں گے دوسرے مجھے خود چٹھی لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ دشمن نے کچھ ایسے نوجوان پھیلا رکھے ہیں جو باہر جماعتوں کے حالات معلوم کریں اور وہ جھوٹے احمدی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو تین دن ہوئے۔ یہاں ایک نوجوان ہمارے پاس آیا اور بیٹھ کر کچھ دیر کے بعد کہنے لگا کہ میں نے احمدی ہونا ہے مجھے احمدی بنا دو اور خط لکھ دو کہ حضرت صاحب بیعت کرلیں یا حضرت صاحب کے پاس خط دے کر مجھے بھیج دو۔ ہم نے سمجھ لیا کہ دشمن کا آدمی ہے پھر اچھی طرح معلوم کرنے سے پورا شک ہوگیا کہ یہ آدمی خراب ہے اس لئے جناب کی آگاہی کے لئے کھا جاتا ہے کہ ایسے نئے احمدیوں سے باخبر رہیں۔ دوسرے لاہور والی جماعت اس شورش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ پرسوں ہی مجھے ایک ٹریکٹر عراق بغداد سے آیا ہے جس کا عنوان ہے میاں بشیرالدین محمود احمد کے نام کھلی چٹھی۔ جس میں ساری جماعت کو فتنہ محمودی قرار دیا ہے اس ٹریکٹ کے چھپنے کی کوئی تاریخ نہیں ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹریکٹ اسی موقعہ کے لئے انہوں نے چھپوا کر رکا تھا۔ جو باہر ملکوں سے جماعت کے نام بھیج رہے ہیں۔<
۸۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
مولوی دوست محمد صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
موجودہ ہنگامی ڈاک کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے دریافت کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ یہ حضور کی ابتداء ہدایت تھی لیکن جبکہ اب حضور چٹھی پر جس کا نام لکھیں پہلے ان کو چٹھی جایا کرے پھر وہ خود اس چٹھی کو دفتر ریکارڈ میں بھیج دیا کرے گا۔ چنانچہ فرمایا وہ خود بھی ان چٹھیوں کو جن پر ان کا نام ہوتا ہے بعد ملاحظہ دفتر ریکارڈ میں بھیج دیتے ہیں اطلاعاً عرض ہے۔
خاکسار
عبد الرحمن انور
۵۳۔ ۳۔ ۲۸<
۹۔ >ہوالناصر
مکرمی مولوی دوست محمد صاحب دفتر ریکارڈ
السلام علیکم
)۱( صرف آپ کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ لاہور سے خبر ملی ہے۔ کل رات مودودی صاحب مع اپنے بیس تیس ساتھیوں کے گرفتار ہوگئے ہیں۔
)۲( نیز کراچی سے اطلاع ملی ہے کہ المصلح کے چھپنے کا انتظام ہوگیا ہے انشاء اللہ پرسوں سے نکلنا شرعو ہوجائے گا۔
)۳( پرسوں شام کو ریڈیو نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ حکومت پنجاب نے حضرت صاحب کو سیفتی ایکٹ کے ماتحت ہدایت کی ہے کہ موجودہ ایجی ٹیشن کے متعلق کچھ نہ لکھا جائے اور نہ کوئی تقریر کی جائے۔
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۳۔ ۲۹<
۱۰۔
>ہوالناصر مکرمی مولوی دوست محمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
روزانہ خط بہت احتیاط سے تیار ہونا چاہئے اس میں ایک تو لازماً حضرت صاحب اور ربوہ کی خیریت درج ہو اور خاص خاص بیرونی خبریں درج ہوں مگر کوئی بات ایسی نہ ہو جو تشویش پیدا کرنے والی ہو یا حکام کی نظر میں قابل اعتراض سمجھی جائے۔ اس معاملہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہر شک والی بات چھوڑ دیں۔
ویسے اپنے طور پر ریکارڈ ساری اطلاعات کا دفتر میں رہنا چاہئے۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۳۔ ۲۹
حواشی
~ف۱~
فاروق ۴ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۲~
وفات ۷ دسمبر ۱۹۵۵ء
~ف۳~
وفات ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۶ء
~ف۴~
محمد لطیف صاحب خال کارکن جائیداد
~ف۵~
وفات ۲۱ دسمبر ۱۹۳۶ء
~ف۶~
)نقل مطابق اصل(۔ اصل لفظ افاقہ ہے سہو کتابت کی وجہ سے اضافہ لکھا گیا ہے۔ مرتب
~ف۷~
نام عائشہ الٰہی صاحبہ )بیگم مولوی مقصود احمد صاحب سابق مبلغ تنزانیہ حال نظارت اشاعت ربوہ(
~ف۸~
وفات ۱۸ نومبر ۱۹۶۶ء
تیسرا باب
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ کا نوٹس
۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے حسب ذیل نوٹس جاری کیا:۔
53۔3۔12 Dated 104 ۔No
‏Esquire, Mansoor۔M۔G From
‏S,۔C۔P
‏Jhang, Magistrate, District۔Addl
۔Chiniot at Camp
‏To
‏Secretary The
‏Masih, Khalifatul the To
۔Rabwah
‏Sir,
‏the all gnitageled after that you inform to bonour the have beenI have I me, to Magistrate District a of powers excerciseessential will you that Jang Magistrate, District the by outdirected to Rabwah from telegrams of despatch the over control statefull and infer, comment, not do which India, including Action"stations "Direct the to regard in adversely, conditions the۔province this in movement
‏and inferences comments, such that apreciate will you hope I۔country the of peace to detrimental are you by deussi statements
‏possession my in have I that mention to me for needless is toIt you ask now I facts the corroborating evidence documentry۔over control full exvercise
‏etc etc have I
‏Sir,
‏servant, obedient most Your
‏S, ۔C ۔P Mansoor ۔M ۔G ۔Sd/
‏Magistrate, District ۔Addl
۔Chiniot at Jhang
ترجمہ:۔
نمبر ۱۰۴ مئورخہ ۵۳۔ ۳۔ ۱۲
منجانب جی۔ ایم منصور پی۔ سی۔ ایس
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ۔ چنیوٹ کیمپ۔
بخدمت سیکرٹری صاحب
خلیفہ المسیح ربوہ
جناب عالی!
میں آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے تمام خصوصی اختیارات مجھے تغویض ہوجانے کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے مجھے ہدایت دی ہے کہ آپ کے یہ گوش گزار کردوں کہ وہ تمام تار جو ربوہ سے بیرونی سٹیشنوں بشمول انڈیا کو ارسال کئے جائں ان میں اس صوبہ میں جاری >راست اقدام< کی تحریک کے سلسلہ میں کوئی تبصرہ نہ ہو` کوئی نتیجہ نہ اخذ کیا گیا ہو۔ اور حالات پر کوئی مخالفانہ بیان نہ ہو۔ ایسے تاروں کی ترسیل پر آپ مکمل کنٹرل قائم کریں گے۔
مجھے امید ہے کہ آپ کو اس امر کا احساس ہوگا کہ ایسے تبصرے` نتائج یا بیانات کا ذکر اگر آپ کی طرف سے ہوگا تو ملک کے امن کے لئے مضر ثابت ہوگا مجھے اس امر کے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں کہ میرے پاس ایسی تحریری شہادت موجود ہے جس سے وہ امور ثابت ہوجاتے ہیں جن پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کے بارے میں میں آپ کو اب ہدایت دے رہا ہوں۔
میں ہوں نہایت تابعدار
آپ کا خادم
دستخط۔ جی۔ ایم۔ منصور پی۔ سی۔ ایس
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ )چنیوٹ(
جواب]0 [rtfحضرت مصلح موعود کی ہدایت پر نظارت امور عامہ نے اس نوٹس کا حسب ذیل جواب دیا:۔
‏From
‏Amma, Umoor Nazir
۔Rabwah Pakistan, Community Ahmadiyya
۔1953 March, 12th Dated 196 ۔No
‏To
‏Esq, Mansoor, ۔M ۔G
۔S۔C۔P
‏Jhang, Magistrate District Additional
۔Chiniot at Camp
‏Sir,
‏have I ۔received been just has 53۔3۔12 dated 104 ۔No letter Your۔follows: as same the to reply to Honour the
‏and situation present eht of gravity the appreciate fully do authoritiesWe the with cooperation full of policy the following ourare facilitate to However, order, In ۔poer our in lies it as far andas nature the know me let kindly to your ask would I ۔beencooperration has objection which to telegrams of telegram the of contents۔senders the of names the as well as taken
‏also are we whether clear it make not does letter your ofFurther, state the regarding information telegraphic any send to ournot of members the gnicfa dangers the and prevailing Deputyaffairs the to Punjab the in places different at Government,comunity Punjab the of Secretaries concerned, theCommissioners of officials the or Punjab, Police of General inspector￿instruction your under come also telegrams such Do ۔Government Central
‏mentioned above two the about know us let Kindly very will you hope besI our of you Assuring ۔convenience earliest your at questions۔operation۔co
‏be to honour the have I
‏Sir,
۔servant tneobedi most Your
‏Khan) Nasrullah (Ijaz
‏Amma Umoor Nazir
۔Rabwah
منجانب ناظر امور عامہ
جماعت احمدیہ پاکستان ربوہ
نمبر ۱۹۶۔ مئورخہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء
بخدمت جناب جی۔ ایم۔ منصور صاحب پی۔ سی۔ ایس
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ۔ چنیوٹ کیمپ۔
جناب عالی!
آپ کا مراسلہ نمبر ۱۰۴ مورخہ ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء ابھی ملا۔ اس کا جواب درج ذیل )سطور میں( ملاحظہ فرمائیے۔
موجودہ صورتحال کی نزاکت کا ہمیں پوری طرح احساس ہے اور جہاں تک ہمارے اختیار میں ہے ہم حکومت سے مکمل تعاون کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ تاہم اس تعاون کوسہل بنانے کی غرض سے میں جناب سے درخواست کروں گا کہ جس تار یا تاروں کو قابل اعتراض سمجھا گیا ہے ان کی نوعیت اور مواد سے مجھے مطلع کیا جائے۔ نیز تار بھیجنے والوں کے اسماء سے بھی اطلاع دی جائے۔
علاوہ ازیں آپ کے مراسلہ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا جو حالات اب پیدا ہوگئے ہیں اور جو خطرات ہماری جماعت کے افراد کو مختلف مقامات پر درپیش ہیں ان کے بارے میں متعلقہ ڈپٹی کمشنروں` پنجاب گورنمنٹ کے سیکرٹریوں` انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب یا مرکزی حکومت کے عہدہ داروں کو تار کے ذریعہ اطلاعات دینے کی بھی مما ہے؟ کیا ایسے تاروں پر بھی آپ کی ہدایات حاوی ہیں؟
مجھے امید ہے کہ آپ مہربانی فرما کر مندرجہ بالا دونوں وضاحت طلب امور کے بارے میں جلد از جلد مطلع فرمائیں گے۔ آخر میں پھر ہم آپ کو اپنے بہترین تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔
میں ہوں
جناب کا ادنیٰ خادم )اعجاز نصر اللہ خاں(
ناظر امور عامہ ربوہ
جناب گورنر صاحب پنجاب کا نوٹس
ابھی اس مراسلہ پر چند دن ہی گزرے تھے کہ صوبہ کی مرکزی مشینری بھی حرکت میں آگئی اور ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب نے جناب گورنر صاحب پنجاب کی طرف سے ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود کے نام پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ ۱۹۴۹ء کی دفعہ نمبر ۵ کے تحت ایک نوٹس جاری کردیا جو حضرت مصلح موعود کے اس پیغام کی بناء پر دیا گیا تھا جو >فاروق< لاہور ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کے صفحہ )ایک( پر شائع ہوا اور جس میں بشارت دی گئی تھی کہ خدا میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے۔ یہ نوٹس حسب ذیل الفاط میں تھا۔
‏BDSB - 5306
‏view a with that satisfied is Punjab the of ronrevoG the of,Whereas Head the Ahmad, Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza preventing publicto the to prejudicial manner a in acting from sect, directAhmadiyya' to necessary is it order, public of maintenance the and anysafely making from abstain to Ahmad Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza said thethe to relating report or statement any publishing or anyspeech or agitation Ahmadiyya۔anti the or controversy Ahmadiyya۔betweenAhrar enmity or hatred of feeling promote to likely classes;matter various
‏of (d) esualc conferred powers the of exercise in therefore, 1949,Now, Act, safety Public Punjab the of 5 section of (1) section۔aforesaidsub the direct to pleased is punjab the of Governor speechthe any making from abstain to Ahmad Mahmud Din۔ud۔Bashir theMirza to relating report the or statement any publishing oror agitation Ahmadiyya۔anty the or controversy Ahmadiyya۔betweenAhrar enmity or hatred of feelings promote to likely matter any۔classes dirrerent
‏Punjab the of Governor the of reord By
‏Ahmad, Din Ghiasud ۔S (Sd)
‏Punjab Govt, to Secretary Home
‏1953 March, 18th Dated
نمبر ۵۳۰۶۔ بی ڈی ایس بی
ہر گاہ کہ گورنر پنجاب کو یہ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد سربراہ فرقہ احمدیہ کو ایسے طرز عمل سے روکا جائے جو عوامی حاظت کے خلاف ہو اور امن عامہ میں خلل انداز ہونے کا موجب ہو اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہر کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد موصوف کو ہدایت کی جائے کہ وہ احرار۔ احمدی تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی ٹیشن یا اور کسی امر کے بارے میں جس سے مختلف طبقات کے مابین منافرت یا دشمنی کے جذبات کے ابھرنے کا امکان ہو تقریر کرنے یا بیان یا رپورٹ شائع کرنے سے احتراز کریں۔
لہذا پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ مجریہ ۱۹۴۹ء کی دفعہ ۵ کی زیلی دفعہ اجز )د( کے تفویض کردہ اختیارات کے مطابق گورنر پنجاب متذکرہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کویہ حکم دیتے ہیں کہ وہ احرار ۔ احمدی تنازعہ یا جماعت احمیہ کے خلاف ایجی ٹیشن یا اور کسی امر کے بارے میں جس سے مختلف طبقات کے درمیان منافرت یا دشمنی کے جذبات ابھرنے کا امکان ہو کوئی تقریر کرنے یا بیان دینے یا رپورٹ شائع کرنے سے احتراز کریں۔
بحکم گورنر پنجاب
)دستخط( ایس۔ غیات الدین احمد۔
ہوم سیکرٹری گورنر پنجاب
مئورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۵۳ء
حضرت مصلح موعود کا پرشوکت جواب
حکومت پنجاب کی خصوصی ہدایت پر ۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس جھنگ ربوہ پہنچے اور گورنر پنجاب کا یہ نوٹس حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بغرض تعمیل پیش کیا حضور نے نوٹس تو لیا مگر ساتھ ہی نہایت پر جلال انداز میں ارشاد فرمایا:۔
>آپ اس وقت اکیلے مجھ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی خطرہ محسوس کئے بغیر میرے پاس پہنچ گئے ہیں اسی لئے کہ آپ کو یقین ہے کہ گورنمنٹ آپ کی پشت پر ہے پھر اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ گورنمنٹ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت آپ کی مدد کرے گی۔ تو کیا میں جو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں مجھے یقین نہیں ہونا چاہئے کہ خدا میری مدد کرے گا۔ بے شک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔~<ف۱~]2 [rtf
ہزایکسی لینی گورنر صاحب کو جوابی مراسلہ
حضرت مصلح موعود نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس ضلع جھنگ کے واپس جانے کے بعد عزت ممماب گورنر صاحب کو اپنے مبارک دستخط سے حسب ذیل جوابی مراسلہ بھی بھیجا۔
‏Form
‏Ahmad, Mahmud ۔B۔M
‏Community, Ahmadiyya the of Head
۔Jhang Dist, Rabwah,
۔1953 March, 20th Dated
‏To
‏Excellency His
‏Punjab the of Governer The
۔erohaL
‏Excellency, Your
‏served Jhang ۔P ۔S ۔D the March, 19th Thursday of afternoon the YourOn under Punjab Secretary Home the by signed notice a me Subon of (d) Clause 1949 Act safety the under order ofExcellency's reson the understand not do I Though ۔5 Section of (1) ofSection Maududi Maulvi like aggressors when specially notice literaturethis distributing vigorously more even are Islami۔i۔takenJamaat actions all that declaring and Community Ahmadiyya the tsniaandag cruel and unjust are lawlessness suppress to Government the takenby been has action no still and fail them make will they spreadthat being are rumours further, And ۔know I as far as them thatagainst or burnt been having Rabwah or murder my about either day theevery in anxiety great cause which over all recanted have Ahmadies۔Ahmadies the of minds
‏cause the is misunderstanding some that think I circumstances the asIn not, or misunderstanding any is there whether But ۔notice this fothe of Government the of orders the obey to us on enjoines toIslam me ordered has who God to honour my of matter the obey will I day۔Government the obey
‏vindicate and you to truth the reveal may He that God to pray I۔times difficult these in Pakistan help and honour my
‏be, to honour the have I
‏Sir
‏obedient most Your
‏servant,
‏Din۔ud۔Bashir (Mirza
‏Ahmad) Mahmud
‏Ahmadiyya the of Head
۔community
از ایم۔ بی۔ محمود احمد
امام جماعت احمدیہ ربوہ )ضلع جھنگ(
مئورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ء
بخدمت جناب عزت ممماب گورنر صاحب پنجاب۔ لاہور
جناب عالی
جمعرات مورخہ ۱۹ مارچ کو بعد دوپہر ڈی۔ ایس۔ پی جھنگ نے ایک حکم نامہ سے مجھے اطلاع دی ہے جس پر آں عزت ممماب کے حکم کے تحت ہوم سیکرٹری پنجاب کے دستخط تھے اور جو سیفٹی ایکٹ مجریہ ۱۹۴۹ء کی دفعہ ۵ کی ذیلی دفعہ اجز )د( کے تحت جاری کیا گیا تھا۔
مجھے اس )نوٹس( حکم نامہ کے جاری کئے جانے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی بالخصوص جب کہ جماعت اسلامی کے مولوی مودودی صاحب جیسے جارح افراد پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر تقسیم کرنے میں مصروف ہیں اور اس امر کا برملا اعلان کررہے ہیں کہ حکومت نے لاقانونیت کو دبانے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں وہ تمام کے تمام غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہیں اور یہ کہ انہوں نے ان کو ناکام کردینے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ تاہم جہاں تک میرا علم ہے ان کے خلاف کوئی اکروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں روزانہ اس امر کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ مجھے قتل کردیا گیا ہے یا ربوہ کو جلا دیا گیا ہے یا یہ کہ ہر جگہ کے احمدی اپنے عقائد سے دستبردار ہوگئے ہیں اور ان افواہوں سے احمدیوں کو بے حد فکر لاحق ہورہا ہے۔
ان امور کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوٹش کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے لیکن اس قطع نظر کہ یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا نہیں چونکہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ حکومت وقت کے احکام کی تعمیل کی جائے میں اپنے علم اور سمجھ کے مطابق ہر طرح ان کے احکام کی تعمیل کروں گا اور اپنی عزت کا معاملہ خدا پر چھوڑتا ہوں جس نے مجھے حکومت کے احکامات کی تعمیل کا ارشاد فرمایا ہے۔
میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ پر حق کھول دے` میری عزت کی لاج رکھے اور ان پریشان کن حالات میں پاکستان کی مدد فرمائے۔ میں ہوں جناب کا تابعدار )مرزا بشیر الدین محمود احمد( امام جماعت احمدیہ
اخبارات میں ذکر
اس نوٹس کی خبر پنجاب پریس نے بڑے طمطراق سے شائع کی۔ چنانچہ اخبار نوائے وقت )لاہور( نے لکھا:۔
مرزا بشیر الدین محمود کے نام حکم
لاہور ۲۷ مارچ۔ ایک سرکاری اعلان مظہر ہے کہ حخومت پنجاب نے تحریک قادیان کے امیر مرزا بشیر الدین محمود کو حکم دیا ہے کہ وہ احرار اور قادیانیوں کے اختلاف یا قادیانیوں کے خلاف تحریک کے بارے میں کسی قسم کا بیان` تقریر یا اطلاع یا کوئی ایسا مواد شائع نہ کریں جس سے مختلف طبقوں میں نفرت یا دشمنی کے جذبات پیدا ہونے کے اندیشہ ہو۔ یہ حکم پنجاب سیفٹی ایکٹ کی دفعہ ۵ کے ماتحت دیا گیا ہے۔~ف۲~
ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب کو اطلاع
ہوم سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب جناب غیاث الدین احمد صاحب نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جھنگ کو ہدایت کی تھی کہ وہ جناب گورنر صاحب پنجاب کا نوٹس پہنچانے کے علاوہ )حضرت( امام جماعت احمدیہ سے یہ بھی کہیں کہ آپ تمام احمدیوں کو حکم دیں ک وہ احراری تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف شورش کے بارے میں نہ لکھیں نہ کہیں۔
سیدنا حضرت مصلع موعود نے اس ضمن میں ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب کے نام حسب ذیل چٹھی لکھی۔
‏From
‏Ahmad, Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza
‏Community, Ahmadiyya the of Head
۔Jhang Dist, Rabwah,
‏1953 March, 20th Dated
‏To
‏Punjab, of secretary Home
۔Lahore
‏Sir, Dear
‏convey to him instructed you that Jhang ۔P ۔S ۔D the by told was sayI not should the that Ahmadies all instuct should I that me controversyto Ahmadiyya۔Ahrar about report or statement any publish Excellenceor His as that him told have I ۔agitation Ahmadiyya۔Anti aboutor anything publishing or saying from refrain to me ordered cannothas I etc hatred of feelings promote to likely are which somethingmatters contain may write I whatever that possible is It ۔that do
‏objectionable be may opinion, my in objectionable not though which,۔Government the of opinion the in
‏issue to me asked Jhang ۔C ۔D back weeks three about that know atYou But ۔it did I and peaceful remain to community the to orders۔not am I now which agent free a was I time that
‏be, to honour the have I
‏Ahmad) Mahmud Din۔ud۔Bashir (Sd)(Mirza
منجانب مرزا بشیر الدین محمود احمد
امام جماعت احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ
مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۳ء
بخدمت جناب ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب۔ لاہور
جناب من! ڈی ایس پی صاحب جھنگ نے مجھے بتلایا ہے کہ آپ نے انہیں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ مجھے اس امر سے مطلع کریں کہ میں تمام احمدیوں کو حکم دوں کہ وہ احرار۔ احمدی تنازع یا جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی تیشن کے بارے میں نہ تو کوئی بات کہیں اور نہ کوئی بیان یا رپورٹ شائع کریں۔ میں ے انہیں جواب دیا ہے کہ چونکہ ممماب گورنر صاحب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں کوئی ایسی بات نہ کہوں نہ شائع کروں جس سے اشتعال پیدا ہونے کا امکان ہے اس لئے میں اس حکم کی تعمیل سے معذور ہوں۔ کیونکہ اس امر کا امکان ہے کہ جو کچھ میں لکھوں وہ اگرچہ میری دانست میں قابل اعتراض نہ ہو لیکن حکومت کی نگاہ میں وہ قابل اعتراض ٹھہرے۔
آپ جانتے ہیں کہ قریباً تین ہفتہ قبل ڈی۔ سی۔ جھنگ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنی جماعت کے افراد کو پر امن رہنے کی ہدایت جاری کروں اور میں نے ایسی ہدایت جاری کردی تھی۔ اس وقت ایسی ہدایت جاری کرنے پر مجھ پر کوئی پابندی نہ تھی لیکن اب مجھ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
خاکسار
دستخط )مرزا بشیر الدین محمود احمد(
خدائی نشان کا ظہور
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۱۹ مارچ ۱۹۵۳ء کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جھنگ کو قوت یقین سے لبریز جن الفظ میں قبل ازوقت خبر دے دی تھی۔ وہ چند دنوں کے اندر اندر ایسے حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئی کہ ایک عالم انگشت بدنداں رہ گیا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت کے حکم سے مسٹر آئی آئی چندریگر کو جو اس وقت گورنر پنجاب تھے برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ میاں امین الدین صاحب گورنر پنجاب مقرر ہوئے جنہوں نے یکم مئی ۱۹۵۳ء کو یہ ظالمانہ نوٹس واپس لے لیا۔ اس درست اور مبنی پر انصاف اقدام پر جماعت احمدیہ کی طرف سے گورنر صاحب پنجاب اور حکومت پاکستان کو مبارکباد دی گئی اور اس حقیقت پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ
جو خدا کے ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار
خطبہ جمعہ میں نوٹس پر عارفانہ تبصرہ
حضرت مصلح موعود نے اگلے سال سال ۴ احسان ۱۳۳۳ ہش ۴ جون ۱۹۵۴ء کے خطبہ جمعہ کے دوران چندریگر صاحب کے نوٹس پر عارفانہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
>انسان کے ساتھ جو والدین کا تعلق ہے وہی تعلق حکومت کا ہے۔ اگر حکومت کہتی ہے کہ تم فلاں جگہ کھڑے ہوجائو تو ہم اس کے حکم کی اطاعت کریں گے اور اس جگہ کھڑے ہوجائیں گے اگر وہ کہتی ہے فلاں کام کرو تو ہم کردیں گے۔ لیکن اگر وہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق فلاں بات مت کہو تو ہم اس کی اطاعت نہیں کریں گے یہاں حکومت کے قوانین ختم ہوجاتے ہیں اس کے بعد وہ بے شک ڈنڈا چلائے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے تم اس کی اطاعت نہ کرو تم وہی کہو جو میں کہتا ہوں مثلاً اگر تم کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ قادر ہے تو بے شک حکومت یہ قانون بنا دے کہ تم خدا تعالیٰ کو قادر نہ کہو کیونکہ ایسا کہنے سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو قادر تسلیم نہیں کرتے پھر بھی خدا تعالیٰ کا حکم یہی ہوگا کہ تم اسے قادر کہتے رہو۔
گزشتہ سال میں نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد اور نصرت کو آرہا ہے وہ چلا آرہا ہے وہ دوڑتا آرہا ہے۔ اس پر حکومت نے مجھے نوٹس دیا کہ تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس سے دوسرے لوگوں کو اشتعال آیا ہے۔ ہاں نوٹس دینے والے افسر نے اتنی اصلاح کرلی کہ اس نے کہا تم احرار کے متعلق کوئی ذکر نہ کرو۔ اگر وہ مجھے یہ حکم دیتے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مدد کو آرہا ہے یا یہ کہو کہ وہ مدد کو نہیں آتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجے اس بات کو تسلیم کرلینے پر آمادہ نہ کرسکتی۔ اس لئے کہ وہ اس طرح کا حکم دے کر قران کریم پر حکومت کرنا چاہتے اور یہ ایسا حکم تھا جس کا ماننا جائز نہ ہوتا۔ اگر کوئی حکومت یہ کہے کہ تم خدا تعالیٰ کواک نہ سمجھو تو ہم کہیں گے عقائد کے بارے میں تمہاری حکومت نہیں چلتی۔ تمہاری حکومت ایسے اموت میں چلے گی جو دنیوی ہوں۔ مثلاً کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ تم لوگوں کو خوب مارو تو حکومت اس پر ایکشن لے سکتی ہے لیکن اس لحاظ سے نہیں کہ وہ ایسا عقیدہ کیوں رکھتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس عقیدہ کو عملی جامعہ پہنا رہا ہے حکومت اعمال پر کنٹرول کرسکتی ہے عقائد پر نہیں۔ قرآن کریم میں بہت زیادہ زور ماں باپ کی اطاعت پر دیا گیا ہے لیکن جب عقیدہ کے بارے میں ان کی بات بھی نہ ماننے کا ہکم ہے تو اور کسی کی بات کیوں مانی جائے۔ پس جو چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہیں انہیں پورا کرو۔ جب انسان ایسے امور میں دخل دے جن میں اسے دخل نہیں دینا چاہئے تو اس کی اطاعت مت کرو لیکن اگر کوئی حکومت یا فرد اپنے غرور مسیت تک تو مومن خدا تعالیٰ کے پاس چلا جاتا ہے اور مسجد کسی ملاں کو بچاتے یا نہ بچائے خدا تعالیٰ اپنے مومن بندہ کو ضرور بچا لیتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہایت واضع ہے۔ پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ یہ یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اسے بچائے گا چاہے کوئی اسے پھانسی پر ہی چڑھا دے وہ پھانسی پر بھی یہ یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ اسے بچائے گا۔ جب تک کوئی شخص اس قسم کا یقین نہیں رکھتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ہے~<ف۳~
حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب کی غیرایمانی کا ایک واقعہ0] [rtf
احراری ایجی ٹیشن کے دوران چوہدری ظہور احمد صاحب~ف۴~ آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ اور ملک محمد عبد اللہ صاحب~ف۵~ مولوی فاضل کارکن نظارت تالیف و تصنیف کو کوئی بار مرکز سلسلہ کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے کراچی میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان~ف۶~ صاحب وزیر خارجہ پاکستان سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ بلکہ ملک صاحب موصوف تو محض اسی >جرم< کی پاداش میں ڈیڑھ ماہ تک جھنگ اور لاہور میں قید بھی رہے۔2] fts~[ف۷~
محترم ملک صاحب کا بیان ہے کہ:۔
>ایک بار میں جب چوہدری صاحب خدمت میں حاضر ہوا تو حالات بہت نازک تھے اور یہ خبر گرم تھی کہ ربوہ سے تمام چیدہ چیدہ افراد گرفتار کر لئے جائں گے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا نام سرفہرست ہے )گو ایسا واقعہ ہوا نہیں تھا(
جناب چوہدری صاحب کو کہیں سے اطلاع مل گئی تھی۔ اس ملاقات میں جب پیغامات وغیرہ ختم ہوگئے اور میں واپس آنے لگا تو چوہدری صاحب نے مجھے دوبارہ بٹھا لیا۔ اور فرمایا کہ مجھے ایسی خبر ملی ہے۔ بعض اوقات صوبائی حکومت ازخود ایسا سخت قدم اٹھا لیتی ہے اور مرکزی حکومت کو بعد میں اطلاع ملتی ہے آپ میری طرف سے حضور کی خدمت میں یہ گزارش کردیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ ہوگیا تو میں ایک منٹ کے لئے بھی اپنے عہدہ پر نہیں رہوں گا اور مستعفی ہوکر ربوہ آجائوں گا۔ چوہدری صاحب کی آواز اس وقت بہت گلوگیر تھی۔ خود میری کیفیت بھی چوہدری صاحب کے اس بے پایاں اخلاص کی وجہ سے بے حد متاثر تھی۔ نیز چوہدری صاحب نے فرمایا کہ حضرت اقدس کا خیال ہے کہ میں ربوہ کی گرمی میں نہیں رہ سکوں گا۔ یہ سب باتیں عام حالات کی ہیں۔ خاص حالات میں انسان ہر طرح کی قربانی کرلیتا ہے۔ میں نے جناب چوہدری صاحب کا یہ پیغام ربوہ آتے ہی حضور کی خدمت میں دے دیا۔~ف۸~
قصر خلافت کی تلاشی
یکم اپریل ۱۹۵۳ء کا واقعہ ہے کہ جناب ابرار احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس ضلع جھنگ مع دی ایس جھنگ بھاری گارد کے ساتھ قصر خلافت میں آگئے۔ چونکہ حضرت مصلح موعود کی عظیم شخصیت ان دنوں احرار کے ہم نو افسروں کی تنقید کا اصل مرکز بنی ہوئی تھی اور آپ کا وجود مقدس مخالفین احمدیت اور دشمنان پاکستان کی نگاہ میں خارکی طرح کھٹک رہا تھا اس لئے ضلع کے ایک ذمہ دار پولیس افسر کی مع گارد آمد سے عام طور یہ سمجھا گیا کہ حکومت حضرت مصلح موعود کو گرفتار کرنا چاہتی ہے مگر جیسا کہ بعد میں پتہ چلا پولیس افسر صاحب گرفتاری کے لئے نہیں۔ بلکہ قصر خلافت کی تلاشی کے لئے بھجوائے گئے تھے۔
چنانچہ مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی( کا چشم دید بیان ہے کہ:۔
>۱۹۵۳ء میں جب ۔P۔S۔D صاحب ربوہ قصر خلافت میں آئے اور پولیس کی گارد بھی آئی تھی خطرہ تھا کہ کہیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو گرفتار کرنے کا منصوبہ نہ ہو۔ انہوں نے حضور سے ملاقات کا کہا۔ حضور نے احتیاًط حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بھی ساتھ ہی بلانے کا فرایا۔ جب ۔P ۔S ۔D صاحب کو جو لدھیانہ کے شہزادہ فیملی سے تعلق رکھتے تے۔ اوپر بلانا تھا تو اس سے پہلے حضور نے مجھے یاد فرمایا میں اس وقت پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ میں سیڑھیوں سے چڑھ کر مشرقی برآمدہ میں اوپر گیا جہاں حضور بیٹھ کر ملاقات فرمایا کرتے تھے حضور سامنے کے کمرہ سے جو حضور کا بیڈ روم تھا۔ مجھے اسی کمرہ میں لے گئے۔ پھر کمرہ سے نکل کر غربی لمبے برآمدہ میں ساتھ لے گئے اور مجھے فرمایا کہ تم کو صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ خطرہ ہے کہ یہ لوگ مجھے گرفتار کرنے نہ آئے ہوں۔ اس لئے تم اپنی ذمہ داری کو سمجھنا کہ تم میرے پرائیویٹ سیکرٹری ہو۔ اور صرف اس قدر فرما کر حضور مجھے واپس شرتی جانب کے برآمدہ میں لے آئے اور فرمایا۔ ۔P ۔S ۔D صاحب کو بلا لو۔ چناچنہ ۔P ۔S ۔D صاحب آئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی ہمراہ تھے۔ وہ اندر گئے تو میں سیڑھیوں میں آگیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا گیا۔ حضور نے مشرقی برآمدہ میں ان سے ملاقات کی۔ تھوڑا عرصہ کی خاموشی کے بعد جب کچھ خوش گفتاری اور ہنسنے کی آوازیں میرے کاموں میں آئیں تو میرے دل کو کسی حد تک تسلی ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت صاحب کے مکان کی تلاشی لینے آئے تھے ۔P۔S۔D صاحب تکلف برتتے تھے کہ وہ تو مجبوراً حکومت کے احکام کی تعمیل میں آگئے ہیں ورنہ تلاشی کی ضرورت نہیں۔ لیکن حضور نے ان کو مجبور کیا اگر تلاشی لئے بغیر دیں گے کہ آپ نے تلاشی لی ہے تو حضور نے فرمایا میں حکومت کو اطلاع دے دوں گا کہ انہوں نے فرضی رپورٹ کی ہے تلاشی نہیں لی چنانچہ انہوں نے اپنے ہمراہی انسپکٹر کو کہا کہ وہ تلاشی لے چنانچہ اس نے تلاسی لی تاکہ ان کی رپورٹ درست ہو۔~<ف۹~
خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۱۵ اگست ۱۹۵۸ء کے خطبہ جمعہ میں اس احم واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
>انہی ایام میں جب کہ ابھی فتنہ کے آثار باقی تھے۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ ڈی۔ ایس۔ پی کو ساتھ لے کر میرے مکان کی تلاشی کے لئے آئے چونکہ سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈی۔ ایس۔ پی سے گورنر پنجاب کے نوٹس والا واقعہ سن چکے تھے۔ اور وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے چند دنوں کے اندر اندر میری بات کو پورا کردیا۔ اور مسٹر چندریگر کو پنجاب سے رخصت کردیا گیا۔ اور پھر اس سے پہلے میری طرف سے یہ بھی شائع ہوچکا تھا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا ہے اس لئے وہ اتنے متاثر تھے کہ مجھے کہنے لگے ہمیں حکم تو یہ ہے کہ عورتوں والے حصہ کی بھی تلاشی لی جائے مگر مجھے کسی تلاشی کی ضرورت نہیں میں گورنمنٹ کو لکھ دوں گا کہ میں نے تلاشی لے لی ہے۔ میں نے کہا اگر آپ ایسا لکھیں گے تو میں اخبار میں اعلان کردوں گا یہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کوئی تلاسی نہیں لی۔ آپ اندر چلیں اور ایک ایک چیز کو دیکھیں تاکہ آپ کے دل میں کوئی شبہ نہ رہے چنانچہ وہ اندر گئے اور انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کہا کہ وہ کاغذات کو دیکھ لیں۔~<ف۱۰~
لاہور کے اخبار >نوائے وقت< )۴ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱( اور بعض دیگر مشہور اخبارات میں اس خانہ تلاشی کی خبریں بڑے جلی عنونوں سے شائع ہوئیں۔
مخلص احمدیوں کی تلاشیاں اور گرفتاریاں
یکم اپریل ۱۹۵۳ء کو قصر خلافت کی تلاشی کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے مرکزی دفاتر کی تلاشی لی گئی اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ گو گرفتار کرکے ضمانت پر رہا کردیا گیا نیز پریس ایمرجنسی پاورز ایکٹ کی دفعہ ۱۸ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ حکومت پنجاب نے اس سلسلہ میں حسب ذیل اعلان جاری کیا:۔
>ربوہ میں احمدیہ فرقہ کے ناظم دعوت تبلیغ سید زین العابدین کے خلاف پریس ایمرجنسی پاورز ایکٹ کی دفعہ ۱۸ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اس سے پہلے پولیس نے سید زین العابدین احمدیہ فرقہ کے امیر مرزا بشیر الدین حمود اور نائب ناظم دعوت تبلیغ مسٹر عبد المجید کے دفتر اور مکان کی تلاشی لی اور کئی دستاویزات پر جن میں بعض ناجائز خبرنامے بھی شامل ہیں قبضہ کرلیا سید زین العابدین کو گرفتار کرکے بعد میں ضمانت پر رہا کردیا گیا~<ف۱۱~
اس واقعہ کا ذکر جناب ابرار ااحمد صاحب )سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ( نے اپنی سوانح میں بھی کیا ہے چنانچہ >ربوہ< کے زیر عنوان لکھا ہے۔
>۳۰ مارچ کو میں شہزادہ حبیب احمد ڈی ایس پی کے ہمراہ ربوہ گیا جہاں میاں زین العابدین ولی اللہ ناظم دعوت تبلیغ کی گرفتاری صوبائی حکم کے تحت عمل میں لائی گئی۔ اگلے روز میں نے باری گارد کے تاون سے ربوہ میں جماعت احمدیہ کے تمام دفاتر کی تلاشی لی کیونکہ پریس ایمرجنسی پاورز ایکٹ ۱۹۳۱ء کے تحت تھانہ لاریاں )لالیا۔ ناقل( مقدمہ ۳۴ مورخہ ۳۰ مارچ ۱۹۵۳ء درج ہوا تھا۔ چند بولیٹن قبضہ میں لئے آئندہ تفتیش کے سلسلہ میں مرزا بشیرالدین محمود صاحب امیر جماعت احمدیہ سے ۲۴ اپریل ۱۹۵۳ء کو ہمراہ ڈی ایس پی ملنے گیا۔ اس تحریک میں جہاں صوبائی حکومت ٹوٹی مرکزی حکومت بھی ۱۲ اپریل ۱۹۵۳ء کو ختم ہوگئی۔ مسٹر محمد علی بوگرا ملک کے نئے وزیراعظم مقرر ہوئے اس مرحلہ پر تحریک بھی سرد پڑگئی تھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔~<ف۱۲~
یکم اپریل کو ربوہ کے علاوہ لاہور کے بعض احمدیوں کی بھی تلاشی لی گئی۔
چنانچہ لاہور میں جناب ثاقب صاحب زیروی مدیر لاہور کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔ مارشل لاء والوں کا اصل ارادہ تو جناب ثاقب صاحب کو گرفتار کرنے کا تھا مگر وہ باجوود انتہائی کوشش کے کامیاب نہ ہوسکے اور ان کی بجائے ان کے بھائی محترم محمد بشیر صاحب زیروی کو ٹرک میں بٹھا کر میڈیکل ہوسٹل نیلا گنبد کے کیمپ میں لے گئے۔ اس روز لاہور سے مندرجہ ذیل احمدیوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
مرزا مظفر احمدصاحب )ابن حضرت مرزا قدرت اللہ صاحب( محمد صالحع صاحب۔ ملکج برکت علی صاحب۔ محمد یحییٰ صاحب )نیلا گنبد( شیخ فضل حق صاحب۔ حکیم سراج دین صاحب~ف۱۳~
چند روز بعد )۴ اپریل کو( راولپنڈی کے ایک مخلص احمدی رشید احمد صاحب بٹ کے مکان کی تلاشی لی گئی اور ایک دیسی پستول اور کارتوس برآمد کرکے مقدمہ رجسٹر کرلیا گیا ہے۔~ف۱۴~
‏po] ga[t
حواشی
~ف۱~
خطبہ فرمودہ ۱۵ اگست ۱۹۵۸ء مطبوعہ الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۲
~ف۲~
نوائے وقت ۲۹ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۳~
خطبہ جمعہ فرمودہ ۴ احسان ۱۳۳۳ء ہش۔ الفضل ۲۴ احسان ۱۳۳۳ء ہش ۲۳ جون ۱۹۵۴ء
~ف۴~
سابق ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔ وفات ۲۴ جون ۱۹۸۲ء
~ف۶۔ ۵~
ریٹائرڈ لیکچرار تعلیم الاسلام کالج آپ کے خود نوشت حالات اسیری شامل ضمیمہ ہیں
~ف۷~
وفات ۱۱ ستمبر ۱۹۸۵ء
~ف۸~
غیر مطبوعہ مکتوب جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب ربوہ )مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء(
~ف۹~
خطہ مطبوعہ خط مولوی عبد الرحمن صاحب انور
~ف۱۰~
خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرمودہ ۱۹۵۸ء بحالہ روز نامہ >الفضل< ۵ ستمبر ۱۹۵۸ء۔
~ف۱۱~
>نوائے وقت< لاہور ۴ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ کالم ۴۔ ۵
~ف۱۲~
نقوش زندگی صفحہ ۱۴۱۔ صفحہ ۱۴۲ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور- حیدرآباد۔ کراچی۔
‏]1h ~[tagف۱۳~
اخبار نوائے وقت لاہور ۳ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۱۴~
نوائے وقت لاہور ۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۔ وفات حکیم سراج الدین صاحب ۱۲ دسمبر ۱۹۷۰(
چوتھا باب
حضرت مرزا شریف احمد اور حضرت مرزا ناصراحمد صاحب کی گرفتاری` قید بامشقت اور جرمانہ
یکم اپریل ۱۹۵۳ء کو پیش آنے والے واقعات میں المناک ترین واقعہ` جس نے دنیا بھر کے احمدیوں کو تڑپا دیا یہ تھا کہ رتن باغ
لاہور سے حضرت مسیح موعودؑ کے لخت جگر حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مصلح موعود کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلی الاسلام کالج لاہور گرفتار کے لئے گئے~ف۱~ اور فوجی عدالت نے انہیں مارشل لاء ضوابط ۱۳ کے تحت بالترتیب ایک سال قید بامشقت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ اور پانچ سال قید بامشقت اور پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی۔~ف۲~ اور قریباً دو ماہ کے بعد ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء کو رہا کئے گئے۔~ف۳~
صبر و تحمل اور توکل کے حیرت انگیز نمونے
جناب بشارت احمد صاحب جوئیہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کا بیان ہے کہ:۔
>میں یہاں اپنے ہم پیشہ دو افسروں کا ذکر کروں گا۔ نام مصلحتاً نہیں لے رہا مگر واقعات بالکل درست ہیں اور عین ان کے بیان کے مطابق ہیں۔ ایک لیفٹینٹ )جواب بریگیڈیر ہیں( نے بتایا کہ ۱۹۵۳ء میں ان کے وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو جو اس وقت لاہور میں پرنسپل تعلیم الاسلام کالج تھے رتن باغ کی عمارت سے گرفتار کرنے کے لئے وارنٹ دیئے گئے۔ یہ افسر وقت مقررہ پر رتن باغ گئے تو انہوں نے مکان کی دوسری منزل کے لئے ایک کمرہ سے پردوں سے نکلتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر کچھ تعجب کا اظہار کیا گھنٹی بجائی۔ ایک خادم پانچ منٹ کے اندر اندر نیچے اترا۔ جب حضرت مرزا صاحب کے متعلق معلوم کیا کہ کیا کررہے ہیں تو جواب ملا کہ >نماز پڑھ رہے ہیں۔< یہ صاحب بہت حیران ہوئے پھر سنبھلے بہت جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب حضور کو وارنٹ گرفتاری دکھائے تو حضور نے فرمایا اگر اجازت ہو تو میں اٹیچی کیس لے لوں پھر گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور ساتھ چل پڑے۔ اس افسر کو دو ایک روز کے بعد ایک بڑے عالم دین~ف۴~ کی گرفتاری کے وارنٹ ملے وقت گرفتاری تقریباً پہلے ولا۔ ان کے گھر پہنچے گھنٹی اور دروازے کھٹکھٹاتے رہے مگر کافی دیر تک کوئی جواب نہ ملا کافی وقت کے بعد ایک نوکر آنکھیں ملتا ہوا آیا۔ جب مولانا کے متعلق معلوم کیا تو جواب ملا سو رہے ہیں۔ کافی تگ و دو کے بعد مولانا سے ملاقات ہوئی۔ جب وارنٹ گرفتاری دکھائے تو اسلامی اور عربی اصطلاحات میں کوسنے لگے بڑی بحچ مباحثہ کے بعد جب ان مولانا کو گاڑی میں لے چلے تو یہ لیفٹینٹنٹ دل ہی دل میں سوچے رہے کہ ایک >کافر< تو تہجد پڑھ رہا تھا اور توکل کا اعلیٰ نمونہ خاموشی سے پیش کرتا میں دوسری طرف بزغم خود یہ عالم دین` تحمل` توکل اور بردباری سے قطعاً عاری۔
دوسرے واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جب اس گرفتاری سے متعلقہ حضور رحمتہ اللہ کے مقدمہ کا فیصلہ ہوچکا تھا اور آپ کو سزا سنائی گئی۔ یہ واقعہ سنانے والے ایک کیپٹن صاحب تھے جو اس بلوچ رجمنٹ سے ہی تعلق رکھتے تھے جس میں خاکسار بھی تعینات تھا وہ ایک روز میرے گھر تشریف لائے ۱۹۶۶ء کی بات ہے۔ باتوں باتوں میں انہیں میرے احمدی ہونے کا علم ہوا۔ یہ کیپٹن صاحب پوچھنے لگے کہ آج کل آپ کے خلیفہ کون ہیں جب میں نے حضرت مرزا صاحب کا نام لیا تو یکدم سکتے میں آگئے کہنے لگے میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اپ کی جماعت واقعی خدائی سایہ کے نیچے اور روحانی ہاتھں میں ہے پھر انہوں نے یہ واقعہ بتایا۔ ان کی ڈیوٹی ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء میں تھی ان کے فرائض میں ایک کام یہ تھا کہ جن لوگوں کے مقدمات کے فیصلے مکمل ہوتے تو کسی افسر کو مقرر کرتے کہ جیل میں جاکر اسے سزا سنا آئیں جن افسروں کو یہ کام دیا جاتا وہ اپنے عجیب و غریب مشاہدات بیان کرتے کہ ایک صاحب جن کو سزا سنائی گئی۔ غیظ و غضب میں آگئے ایک اور صاحب سکتے میں آگئے۔ بلکہ شدید مایوس ہو گئے۔ بعض اپنی بے گناہی اور معصومیت کا واسطہ دینے لگتے وغیرہ وغیرہ۔
میرے پلٹن وال اس کیپٹن کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر موقعہ ملا تو وہ بھی کسی کو سزا سنائیں اور دیکھیں کہ کس قسم کے تاثر کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک )بعد دوپہر( ایک فائل ان کو ملی جس میں ایک قیدی کے خلاف فیصلہ درج تھا اور کوئی افسر فوری طور پر موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور خود جیل پہنچ گئے۔ فائل سے نام پڑھا۔ یہ نام گرامی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ کا تھا۔ یہ کیپٹن ان سے بالکل واقف نہ تھے علیک سلیک کے بعد چرج شیٹ اور سزا انگریزی میں پڑھ کر سنائی ان کیپٹن صاحب کے دماغ میں تھا کہ دیکھیں ان صاحب کا ردعمل دیگر لوگوں کی نسبت کیسا ہوگا جب یہ کیپٹن صاحب ساری کاروائی انگریزی میں سنا چکے تو حضرت مرزا صاحب نے جانے کی اجازت چاہی` نہ تعجب نہ حیرانگی` نہ گھبراہٹ نہ کوئی تاثر` نہ فکر` نہ غم` کیپٹن صاحب تو کسی عجیب و غریب رد عمل کے منتظر تھے۔ فوراً بولے آپ شاید انگریزی نہ سمجھے ہوں میں اردو می پڑھ کر سنتا ہوں۔ اس پر اس کوہ وقار اور متوکل انسان نے فرمایا >کیپٹن صاحب آپ کی مہرمانی میں آکسفورڈ کا گریجویٹ ہوں<۔ تو الٹا ان کیپٹن صاحب پر کپکپی کا عالم طاری ہوگیا۔ سزا اور جرمانہ بہت شدید تھے گو جرم صرف ایک خاندانی زیبائشی خنجر کو گھر میں رکھنے کا تھا۔~<ف۵~
‏tav.14.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
عکس
بھارتی پریس کے تبصرے
اس غیر دانشمندانہ اقدام کا نہایت افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں پاکستان کی بیرونی دنیا میں سخت بدنامی ہوئی جو پاکستا کے ہر محب وطن احمدی کے لئے مزید قلبی و ذہنی اذیت کا موجب بنی۔
‏]ydob [tag۱۔ اخبار >ریاست< دہلی نے >احمدی جماعت کا کارخانہ اسلحہ سازی< کے زیر عنوان لکھا:۔
>پچھلے دنوں اخبارات میں ایک اطلاع شائع ہوئی تھی کہ احمدی جماعت کے لاہور کے ہیڈ کوارٹر کی مارشل لاء کے حکام نے تلاشی لی اور وہاں سے اسلحہ سازی کا کارخانہ اور تیار شدہ اسلحہ ملا۔ جس کے جرم میں احمدی جماعت کے پیشوا کے صاحبزادے اور بھائی کو مارشل لاء کے ماتحت پانچ اور ایک برس قید اور پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزائیں ہوئیں۔ اس سلسلہ میں لاہور کے ایک دوست نے اصل حالات بھیجے ہیں جو یہ ہیں۔
احمدی جماعت کے موجودہ پیشوا کے بڑے لڑکے مرزا ناصر احمد آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایم اے ہیں۔ اور آپ لاہور کے ٹی۔ آئی۔ کالج کے پرنسپل تھے اور آپ کی شادی موجودہ نواب مالیر کوٹلہ کے چچا کی صاحبزادی سے ہوئی اور جب شادی ہوئی تو آپ کے خسر نے آپ کو زیورات اور تحائف کے ساتھ ایک خنجر بھی دیا جس کا دستہ سنہری تھا اور جو مالیر کوٹلہ کے شاہی خاندان کی نادر اشیاء میں سے تھا۔ قانون کے مطابق ہندوستان کے ہر والئے ریاست اور اس کے خاندان کے لوگ ایکٹ اسلحہ سے مستثنیٰ ہیں اور اس لحاظ سے مرزا ناصر احمد کی بیوی بھی نواب مالیر کوٹلہ کی قریبی عزیزہ ہونے کے باعث قانوناً ایکٹ اسلحہ سے مستثنیٰ ہیں۔ مگر لاہور کے مارشل لاء کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ جب تلاسی ہوئی تو یہ خنجر )جس کی پوزیشن ایکٹ اسلحہ کے مطابق بھی آلو` ساگ یا گوشت کاٹنے والی ایک چھری سے زیادہ نہ ہونی چاہئے تھی( بیگم مرزا ناصر احمد کے زیورات میں پڑا تھا جس کو فوجی حکام نے حاصل کرکے مرزا ناصر احمدی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور آپ کو پانچ سال قید سخت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانے کی سزا دی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ گریجویٹ اور لاکھوں احمدیوں کے پیشوا کا بیٹا آج لاہور کے سنٹرل جیل میں بطور قیدی کے اب بان بٹ رہا ہے۔
یہ کیفیت تو مرزا ناصر احمد اور آپ کے مقدمہ اور سزا کے متعلق ہے۔ اب دوسرا واقعہ سنیئے۔ مرزا شریف احمد احمدی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد کے صاحبزادے اور احمدی جماعت کے موجود پیشوا کے حقیقی بھائی ہیں۔ یہ بزرگ جن کی عمر باسٹھ برس کی ہے لاہور میں بندوق سازی کے ایک کارخانہ کے مالک ہیں اور یہ کارخانہ پاکستان گورنمنٹ سے لائسنس حاصل کرکے جاری کیا گیا۔ چنانچہ اس فرم کو ایک فوج افسر نے نمونہ کے طور پر ایک کرچ دی۔ کیونکہ پاکستان گورنمنٹ اس نمونہ کی کرچیں تیار کرانا چاہتی تھی۔ اور اس کرچ کے متعلق جو خط و کتاب محکمہ فوج سے ہوئی وہ مرزا شریف احمد کے پاس موجود ہے۔ جسے عدالت میں داخل کیا گیا مگر مرزا شریف احمد کو اس کرچ کے ناجائز رکھنے کے جرم میں ایک سال قید سخت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانے کی سزا دی گئی۔
مارشل لاء کی فوجی عدالت کا ایسے مقدمات میں پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دینا تو خیر قابل درگزر ہے کیونکہ پاکستان اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہے اور اس طریقہ سے روپیہ حاصل کرکے یہ ملک اپنے فوجی اخراجات کسی نہ کسی حد تک پورے کرسکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اوپر کے دو مقدمات کو اگر کسی انصاف پسند عدالت یا غیر جانبدار ملک کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان گورنمنٹ کی کیا پوزیشن ہو۔ اور کیا دنیا کا کوئی معقولیت پسند شخص اس شرمناک دور استبداد کو برداشت کرسکتا ہے اور کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی پاگل پن میں پاکستان کے عوام کے علاوہ وہاں کے حکام بھی مبتلا ہیں جو چھری رکھنے کے جرم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو پانچ پانچ برس قید سخت کی سزا دے رہے ہیں۔
اوپر کی سزائوں کے متعلق ہم نے غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد ہماری رائے ہے کہ یہ سزائیں احمدی جماعت کی بنیادوں کو زیادہ مضبوط کرنے کا باعث ہوں گی اور احمدیوں کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان بے گناہوں کو قربانی کا موقعہ نصیب ہوا اور ایسی قربانیاں یقیناً احمدیت میں ایک دوامی زندگی پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہیں~<ف۶~
۲۔ اخبار >ہندو< نے بعنوان >پاکستان نے گھٹنے ٹیک دیئے< حسب ذیل نوٹ پسرد قلم لکھا کہ:۔
>پاکستان میں مذہبی تنگدلی نے ان احمدیوں کے خلاف طوفان کھڑا کردیا جو پاکستان بنانے میں سب سے آگے تھے۔ اس مذہبی جنون نے بھیانک شکل اختیار کرلی اور پچھمی پنجاب سے بڑی بھیانگ خبریں آرہی ہیں لیکن ایسا نظر آتا ہے کہپاکستنا سرکاری کو بھی اس جنون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ چنانچہ پہلی اپریل کو مارشل لاء افسروں نے لاہور میں احمدیوں کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارا اور احمدیوں کے خلیفہ کے بھائی شریف احمد اور بیٹے ناصر احمد کو گرفتار کرلیا۔ چار اور احمدی لیڈر مظفر احمد۔ محمد صالح` محمد بشیر اور محمد یحییٰ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ احمدیوں کے خلیفہ کے بیٹے کے گھر کی تلاشی لینے پر ایک خنجر نکلا ہے۔ وہ لاہور کے تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل تھے۔ خنجر رکھنے کے جرم میں انہیں پانچ برس قید اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ یا جرمانہ ادا نہ کرسکنے پر مزید سات سال قید کی سزا دی گئی۔
احمدیوں کے اتنے بڑے لیڈر کو ذرا سے جرم کے لئے اتنی کڑی سزا دے کر غالباً پاکستان سرکار مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو انصاف پسند ثابت کرنا چاہتی ہے لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے مذہبی جنوں کے سامنے پاکستان سرکار کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں۔ احمدیوں کی حالت عجیب ہے۔ ایک تو ہو لوٹ مار۔ قتل اور تباہی کا شکار بنے۔ دوسرے اب سرکاری بھی ذرا ذرا سے بہانے ڈھونڈھ کر انہیں اپنی سخت گیری کا شکار بنانے لگی ہے۔~<ف۷~
قید و بند میں رضا بالقضا کا ایمان افروز مظاہرہ
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )خلیفہ المسیح الثالث( نے بیان فرمایا کہ:۔
>جب ہمیں ۱۹۵۳ء میں ظالمانہ طریق پر پکڑ کر لے گئے تھے تو ہمارے پہننے کے لئے کھدر کے موٹے کپڑے لے آئے کہ تمہیں سی کلاس دینی ہے دل میں سوچا کہ خدا کے لئے یہ کھدر کیا کانٹوں کے کپڑے دیں تو وہ بھی پہن لیں گے۔ مگر لطف یہ کہ پتہ نہیں وہ کپڑے کس سے اور کہاں سے لائے گئے تھے۔ چنانچہ ہم نے وہ کپڑے پہنے تو زور سے سانس لینے پر ان کے دھاگے ٹوٹ گئے اور سلائی کھل گئی یوں لگتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی گڑیوں کو پہنانے والے کپرے ہیں ہم نے کہا ہم راضی برضائے الٰہی ہیں۔~<ف۸~
پہلی چشم دید شہادت
اس سلسلہ میں دو اور اہم چشم دید شہادتیں درج کی جاتی ہیں۔ پہلی اور تفیصلی شہادت مکرم محمد بشیر صاحب زیروی کی ہے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
جس دن میری گرفتاری ہوئی اسی دن حضور انور اور حضرت میاں شریف احمد صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی۔ جس کے بعد چند دن ہم نے اکٹھے سنٹرل جیل میں گزارے اور بفضلہ تعالیٰ ان پرآشوب دنوں کا ایک ایک لمحہ )جو آپ کے ساتھ گزرا( میرے لئے ہمیشہ ہی از دیاد ایمان کا باعث ہوا آج کی صحبت میں انہی یادوں کا دہرانا مقصود ہے۔۔۔۔۔
جس دن جماعت کے بعد اکابر کے گھروں کی تلاشیاں اور گرفتاریاں ہوئیں۔ اسی دن بھائی جان )ثابق صاحب زیرو( کے گھر اور دفتر کی بھی تلاشی ہوئی۔ ان میں اس عاجز کے علوہ حضور پر نور اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب بھی تھے۔ جب ہمیں میڈیکل ہوسٹل کے نیلا گنبد کے بڑے گیٹ پر کھلے کیمپت سے لے کر جیل بھیجنے کے لئے اکٹھا کیا گیا تو وہاں اس عاجز کی ملاقات حضرت میاں صاحبان سے ہوئی۔ دیکھتے ہی زمین پیروں تلے سے نکل گئی اور ذہن پر بوجز اور بڑھ گیا اور اپنا سارا دکھ بھول کر سارا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا کہ حکام کی یہ کتنی بڑی جسارت ہے۔ لیکن جلد ہی دل نے یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا۔ کہ ان کا آنا ہم سب کے لئے بابرکت ثابت ہوگا کیونکہ ہم بھی اب اس زمرے میں شامل ہوں گے جن کے لئے الل¶ہ تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل ہوں گے۔ نیز اگر جیل میں ایک ہی جگہ ہوئے تو آپ کی مقبول دعائوں سے حصہ پائیں گے اور ان کے طفیل اس مصیبت سے جلد چھٹکارا حاصل ہوگا۔ رفتہ رفتہ یہ احساس پختہ ہوگیا کہ آپ کی گرفتاری ہماری رستگاری کا باعث بنے گی لیکن اس کے باوجود بے چینی تھی کہ ہر لمحہ بڑھ رہی تھی۔ وہاں سے ہمیں ایک ٹرک میں بٹھا کر جیل کی طرف لے گئے۔ حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے ٹرک میں بیٹھے ہی بلند آواز میں قرآنی دعا لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین کا ورد شروع کردیا۔ جس سے دلوں میں سکینت و اطمینان کی لہر دوڑنا شروع ہوگئی۔ عمر کے لحاظ سے حضرت میاں شریف احمد صاحب ہم سب میں بڑے تھے اور صحت کے لحاظ سے بھی کمزور مگر حوصلہ کے اعتبار سے ازحد مطبوط و مستحکم کہ جب ہمارے چہروں کو پریشان یا ہمیں اضطراب سے دعائیں کرتے دیکھتے تو فوراً ہماری دلی گھبراہٹ کو بھانپ جاتے اور حضرت میاں ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب سے فرماتے یہ بچے تو مجھے دل چھوڑتے معلوم ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ چنانچہ حضرت میاں صاحب ہمیں اپنے مخصوص انداز میں ہر آنے والے کے لئے تیار کرتے رہتے۔ مجھے ان کی یہ ادا کبھی نہیں بھولے گی کہ جب ہم میں سے ایک نوجوان نے اپنے بیان میں کسی قدر جھوٹے ملایا تو حضرت میاں شریف احمد صاحب بیتاب ہوگئے۔ اس کے بعد آپ بار بار فرماتے >بیٹا ہم خدا کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ یہ ہمارے ایمانوں کی آزمائش ہے۔ اگر ہم آزمائش میں پورے نہ اترے تو ہم جیسا بدنصیب کوئی نہ ہوگا۔ اور اگر اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے اگر ہم نے جھوٹ بولا تو اس کی نصرت سے محروم ہوجائیں گے خواہ کتنی بڑی سزا مل جائے مگر سچ کا دامن کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا۔ اللہہ اللہ کیسی صداقت شعار تھیں یہ ہستیاں کہ جہان بڑے بڑے جبہ پوش اور دیندار سمجھے جانے والے لوگ بڑے بڑے جھوٹ گھڑتے ہیں اور حیلوں بہانوں کا ایک طومار ماندھ کر اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں بھی یہ ہمیں ہر حالت میں اور ہر قیمت پر سچ بولنے کی تلقین فرماتی تھیں۔ آپ نے ہمیں اس تکرار سے اس بات کی تلقین کی کہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے آپ کو اس معاملہ میں کچھ وہم سا ہوگیا ہے۔ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ حضرت میاں صاحب! آپ میری طرف سے بالکل مطمئن رہیں کیونکہ میرا کیس ہی ایسا ہے کہ بغیر سچ بولے میر اگزارا ہی نہیں اور دوسرے مجھے جھوٹ بولنا آتا ہی نہیں۔ آپ اطمینان رکھیں میں انشاء اللہ ہر حال میں سچ ہی بولوں گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تو اسی لمحہ میں ہمارے ساتھ ہوگئی تھی جب مارشل لاء حکام کے ذہن میں خیال بھی گزرا ہوگا کہ اب گرفتاریوں میں توازن قائم رکھنے کے لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی پکڑا جائے۔ بلکہ یہ جسارت بھی کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ہاتھ ڈالا جائے ہمارے گھر سے مارشل لاء والے دراصل بھائی جان )ثاقب زیروی( کو گرفتار کرنے کے لئے آئے تھے مگر قدرت نے مجھ سے ایک ایسی غلطی کروائی جس سے ا کی ساری توجہ میری طرف منتقل ہوگئی اور مجھے گرفتار کر لیا گیا اور باوجود ارادے اور پروگرام کے بھائی جان )ثابق زیروی( پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس کے بعد مجھے ٹرک میں بٹھا کر میڈیکل ہوسٹل نیلا گنبد کے کیمپ میں لایا گیا وہاں ایک اور احمدی نوجوان مکرم محمد یحییٰ صاحب )جو غالباً حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ والے( کے خاندان سے تھے۔ سے ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں نے مل کر ظہر کی نماز باجماعت ادا کی اور خو گریہ و زاری سے دعا کی توفیق ملی۔ جس سے ذہنی بوجھ قدرے ہلکا ہوا۔
عصر کے بعد ہمیں باہر لایا گیا۔ تو ان دو مقدس ہستیوں کی زیارت ہوئی تو انہیں دیکھ کر دلوں کو ایک گو نہ تسلی ہوئی کہ ہم اکیلے نہیں ہیں ہمارے رستگار بھی ہمارے ساتھ ہی ہیں۔ جیل کے سامنے گاڑی سے اترتے ہی میرے شہر کے ایک دوست میرے سامنے تھے جن کے ذریعہ بھائی جان کو فوری طور پر یہ اطلاع مل گئی۔ کہ ہم کہاں ہیں اور کرفیوں کے باوجود انہوں نے فوراً ہی وہ اطلاع حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کو پہنچا دی جیل میں ہمیں ایسی کوٹھڑیوں میں بند کیا گیا جن کے سامنے والی کوٹھڑیوں میں ایسے پابجولاں قیدی بند تھے جن کو عدالتوں کی طرف سے >سزائے موت< سنائی جاچکی تھی اور اب وہ اپنی اپیلوں کے فیصلوں کے انتظار میں تھے۔ لہذا وہ ساری رات وقفہ وقفہ سے مختلف قسم کے دعائیہ نعروں میں گزارتے اور اس طرح ہمیں بھی دعا کی طرف متوجہ کرتے رہتے۔
پہلی رات نہایت ہی کرب میں گزری صبح ہوئی ہمیں ان کوٹھڑیوں سے باہر نکالا گیا۔ ہم ضروری حاجات سے فارغ ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوئے۔ اور باہر اپنے کمبل بچھا کر بیٹھ گئے حضرت میاں ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے میری اداسی دیکھ کر فرمایا سورٰہ ملک یاد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور یاد ہے فرمایا سنائو چنانچہ اس عاجز نے سنائی۔ پھر فرمایا کوئی خواب آئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور آئی ہے۔ >فرمایا سنائو< چنانچہ میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے دیکھا ہے۔
>کہ ہمارے لئے ایک ریلوے لائن تیار ہوئی ہے جس کے بائیں پہلو سے ایک چھوٹی سی لائن تیار ہوئی ہے جیسے کہ ٹرالی وغیرہ کے لئے ہوتی ہے وہ صرف میرے لئے ہے۔ اس کے آگے جو مین لائن ہے۔ اس کے ساتھ کچھ لوگ پگلھا ہوا مزید لوہا دائیں جانب چمٹا رہے ہیں۔<
یہ سنتے ہی آپ نے فرمایا کہ آپ تو انٹیروگیشن (Interogation) میں رہا ہوجائیں گے مگر اس سے آگے آپ خاموش ہوگئے۔ اس طرح جیسے کہ کچھ حصہ تعبیر کا ان کے ذہن میں اپنے متعلق ہو جس کو آپ بیان نہیں فرمانا چاہتے۔ یہ محسوس کرکے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کے لئے بھی تو اس میں رہائی کی خوشخبری ہے کیونکہ ریلوے لائن منزل مقصود کی طرف لے جاتی ہے اور ہماری منزل اس وقت >رہائی< ہی ہے۔ فرمایا درست ہے مگر آپ نے پھر بھی آگے تعبیر بیان نہیں فرمائی۔ اصل میں میرے ذہن سے خواب میں لائن کے ساتھ جو مزید لوہا لگایا جارہا تھا اس کی تعبیر اوجھل تھی۔ جو سزا کی طرف اشارہ تھا۔ یعنی باقیوں کو سزا تو ہوگی مگر وہ بھی جلد رہا ہوجائیں گے اور پوری سزا نہیں گزاریں گے۔ اتنے میں ناشتے کا وقت ہوگیا چنانچہ جیل سے ہمارا ناشتہ آگیا جو کالے ابلے ہوئے چنوں )بالوں سے بھی زیادہ سیاہ( کا تھا۔ میں نے ان چنوں کی طرف کچھ ترچھی سی نگاہوں سے دیکھا کہ کیا اب ہمیں یہ کھانے ہوں گے۔ حضرت میاں صاحب فوراً میرے چہرے کے تاثرات ہی سے میرے دل کی کیفیت اور میرا تردد بھانپ گئے اور فوراً ان کو چادر پر ہاتھ سے بکھیرنے کے بعد انہیں خود مزے لے لے کر کھانا شروع کردیا۔ آپ کھاتے بھی جاتے تھے۔ اور فرماتے بھی جاتے تھے۔ >بشیر صاحب! دیکھئے یہ تو بے حد لذیذ ہیں۔ اللہ اللہ! آپ نے ہمیں کس کس طرح تکلیف کے ان دنوں کو حوصلہ اور بشاشت سے گزارنے کے بعد آداب سکھائے ان کا ہاتھ دسترخوان کی طرف بڑھ جانے کے بعد بھلا کس کی مجال تھی جو نہ کھائے چنانچہ میں نے بھی کھانا شروع کردیا۔ اپنے اس عمل سے گویا آپ نے بڑے لطیف انفاز میں مجھے یہ بات ذہن نشین کرا دی کہ ہم جیل میں ہیں اور پھر مارشل لاء کی جیل میں۔ گھر پ نہیں ہیں۔ اس لئے ہمیں بشاشت کے ساتھ حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانا چاہئے غالباً اسی دن کو دوپہر سے حضرت اقدس کے گھر سے کھانا شروع ہوگیا۔ جو اس قدر ہوتا تھا۔ کہ ہم سب سیر ہو کر کھا لیتے تھے۔ تو پھر بھی بچ جاتا تھا )گویا کہ جیل میں بھی ہم لوگ حضرت مسیح موعودؑ کے لنگ سے ہی کھاتے تھے(۔
یہاں بھی ہماری دلجوئی مدنظر رہی کھانا آتا تو آپ سارا کھانا میرے سپرد فرما دیتے اور فرماتے >ساقی صاحب< اسے تقسیم کریں اور خود میرے گھر سے آیا ہوا کھانا لے بیٹھتے کہ میں تو یہ کھائوں گا` جو نہایت ہی سادہ سا ہوتا تھا اور جس میں بعض اوقات صرف ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے ہوتے میرے اصرار کے باوجود میرا وہ سادہ سا کھانا حضور خود تناول فرماتے ہیں اور رتن باغ سے آیا ہوا کھانا ہم کھاتے )الحمدلل¶ہ چنوں کے اس ناشتے کے بعد جیل سے ہم نے کچھ نہیں کھایا۔(
ممکن ہے کہ قارئین کے لئے یہ باتیں معمولی ہوں مگر مجھ ناچیز و حساس کے لئے جیل میں یہ اتنی بڑی تھی کہ میرے قلب و روح اس پر آج بھی اس روح پر فتوح کی عظمتوں کو دھراتے رہتے ہیں۔ یہ وقت تھا جب ہر شخص رب نفسی رب نفسی! کے عالم میں تھا۔ مگر حضور پر نور ہمارے لئے شفقتوں کا پہاڑ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ حضور کے درجات میں بیش بہا اضافہ فرمائے اور اعلیٰ علین میں اپنے قرب میں جگہ دے اور کروٹ کروٹ راحتیں نصیب کرے۔
حضور پر نور اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب جب تک ہمارے پاس رہے ایک لمحہ کے لئے بھی ہمیں اداس اور غمگین نہیں ہونے دیا اور ہمی واقعات سنا سنا کر ہمارے حوصلے بلند فرماتے رہے گویا جیل میں بھی ہر روز مجلس علم و عرفان جمتی رہی۔
ایک دن مجھے پریشان سا دیکھ کر نہایت ہ بے تکلفی سے فرمانے لگے بشیر! >تمہیں پانچ سال قید ہوگی< یہ سن کر میں نے بھی اسی بے تکلفی سے عرض کیا کہ میاں صاحب! آپ خدا کے فضل سے خود بھی بزرگ ہیں پھر بزرگوں کی اولاد بھی ہیں۔ میرے حق میں اس پاکیزہ منہ سے تو کلمہ خیر ارشاد فرمائیں فرمانے لگے میرا مطلب ہے Worst" "Think
جیل میں میں نے آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی پریشان نہیں پایا۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا۔ کہ جیل میں اس مرد بحران کی صحت روز بروز بہتر ہورہی ہے۔
میں نے ایک دن عرض کیا کہ چونکہ میری گرفتاری اچانک اور بالکل غیر متوقع تھی اور میرے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ کبھی میں بھی گرفتار ہوجائوں گا اس لئے پہلے پہل میں بہت پریشان ہوگیا۔ اور میری بھوک پیاس ختم ہوگئی۔ لہذا ناشتہ بھی نہ کر پایا۔ مارشل لاء حکام نے گو کھانا دیا بھی مگر ماسوائے کپ چائے کے میں کچھ نہ کھا سکا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا۔ >جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں نے پہلے نہایت ہی اطمینان سے غسل کیا پھر سیر ہوکر ناشتہ کیا کیونکہ ایسے وقتوں میں مجھے خوب بھوک لگتی ہے۔ اس کے بعد کپڑے تبدیل کئے نیز فرمایا خدا کے فضل سے میرے جوہر بحران میں کھلتے ہیں۔ اور میری اندرونی طاقتیں نمایاں ہونا شروع ہوجاتی ہیں ہر وقت خوش رہتے اور ہمیں خوش رکھنے کی کوشش فرماتے اور ہمارے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرتے رہتے کہ یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس میں کامیابی کے بعد ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بے شمار بارشیں ہوں گی۔ لہذا ہمیں استقلال کے ساتھ اور دعائوں کے ساتھ ان لمحات کو مسکراتے ہوئے گزارنا چاہئے۔ اللہ اللہ کیا ہی پاکیزہ اور پیارا دل تھا۔ جو ہر وقت سلسلہ پر ہر طرح قربان ہونے کے لئے مستعدد رہتا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ حضور پر نور جیل میں دعائیں نہیں کرتے تھے۔ دعائیں کرتے تھے۔ دعائیں تو وہ ہر سانس کرتے تھے مگر اس طرح کہ ان کی کسی حرکت سے یہ ظاہر نہ ہو کہ ان پر کسی قسم کی گھبراہٹ ہے دراصل آپ کے اپنے رب سے راز و نیاز تنہائی میں ہوتے تھے۔ میں نے بھی اسی غلط فہمی میں ایک دن آپ کو کرب سے دعا کی طرف راغب کرنے کے لئے عرض کیا >حضور اگر اجازت دیں تو یہ عاجز آپ کو دبائے فرمایا ہاں ہاں چنانچہ میں نے دبانا شروع کیا پھر میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ سنائوں بھی فرمایا ضرور سنائیں چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دعائیہ اشعار جو مجھے یاد تھے سنانے شروع کئے۔ میں اشعار سناتا رہا۔ اور حضور بڑے انہماک سے سنتے رہے اور ان کا اثر اپنے دل و دماغ پر لیتے رہے اور ساتھ ساتھ دعائیں بھی فرماتے رہے۔ )یاد رہے اس وقت ہمارے سوا ہمارے پاس اور کوئی نہ تھا( جب میں اشعار پڑھتے پڑھتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر پر پہنچا۔ ~}~
میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں
میری فریادوں کو سن میں ہوگیا زار و نزار
تو آپ کی کیفیت کچھ اور ہی ہوگئی اور میں چپکے سے باہر چلا گیا اور حضور دیر تک اپنے رب سے راز و نیاز فرماتے رہے اور یہی میرا مقصد تھا۔ اور انہی دعائوں ہی کے طفیل ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن گئے۔
جمعہ کے دن تھا اس دن میری انٹیروگیشن (Interogation) تھی اور حضرت میاں صاحبان کی ٹرایل تھی۔ اس عاجز کی پردہ پوشی کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان فرمایا کہ اسی کار میں جس میں آپ کو سنٹرل جیل سے بوسٹل جیل میں لایا گیا۔ اس عاجز کو بھی لایا گیا۔ راستے میں حضور ہدایات دیتے رہے۔ کہ کسی سے بھی فضول باتیں نہیں کرنی بلکہ کوشش کریں کہ کسی سے کوئی بات ہی نہ ہو۔ نیز استغفار پر زور دیں۔ گویا اپنے سے زیادہ میری فکر تھی۔
بوسٹل جیل پہنچے تو بھائی جان )ثاقب زیروی( پہلے ہی پہنچ چکے تھے دن رات کی دوڑ و دھوب نے ان کی صحت پر بھی بہت برا اثر ڈالا تھا۔ ویسے >لاہور~<ف۹body]~ gat[ کی بندش کے باعث بھی کچھ کبیدہ خاطر تھے مگر خدا کے فضل سے حوصلہ بہت بلند تھا اور اپنے رب کے فضلوں پر یقین محکم چنانچہ دیر تک میرا بھی حوصلہ بڑھاتے رہے اور فرمایا بالکل فکر نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب ٹھیک ہوگا۔ نیز نصیحت کی کہ اگر کوئی سوال کرے تو Orthodox ہوکر اس کا جواب نہ دینا۔ ممکن ہے کوئی ماہر نفسیات آج تم پر سوال کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تھوری دیر کے بعد ایک تھانیدار صاحب میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی اپ کیوں گرفتار ہوئے؟ میں نے عرض کیا کہ بس گرفتار کرلیا گیا۔ اور کیوں ہوئے یہ تو آپ لوگ بہتر سمجھتے ہیں۔ کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے پاس ایک تحریر تھی جسے تم نے پھاڑ کر کھا لیا۔ چونکہ اس میں جھوٹ کی ملاوٹ تھی میں نے فوراً اسے اصل واقعہ بیان کرکے عرض کیا کہ یہ اصل بات ہے مگر باقی آپ نے اپنی طرف سے ملایا ہے۔ آپ لوگ کیوں اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر لوگوں کو سزائیں دلواتے ہیں۔ اگر مجھے سزا ہوگئی تو آپ کو کیا ملے گا؟ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ کہنے لگے اگر آپ سے زیادرتی ہوئی ہے تو وہ مارشل لاء کی طرف سے ہے۔ پولیس کی طرف سے نہیں چاننچہ بعد میں معلوم ہوا کہ میری رہائی میں ان کی رپورٹ کا بھی دخل تھا۔
>بریگیڈیر مرزا< انٹیروگیشن (Interogation) پر مامور تھے وہ نہایت شریف انسان تھے۔ انہوں نے مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد مشورے کے طور پر کہا کہ اگر آپ کا ٹرائل ہو تو وہاں یہ کہنا کہ میں نے یہ مضمون ایک اور مضمون لکھنے کے لئے نقل کیا تھا )غالباً وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میں واقعات سے ہٹ کر بھی کچھ کہہ سکتا ہوں کہ نہیں( میں نے یہ عرض کیا کہ نہیں جناب! یہ بات واقعات کے خلاف ہے۔ اصل بات اتنی ہی ہے۔ جو میں نے آپ سے پہلے عرض کردی ہے کہ میں نے یہ مضمون اس لئے نقل کیا تھا کہ میرا ارادہ تھا کہ اسے >الفضل< کو بعینہ بھیج دوں گا کیونکہ اسی قسم کی ایک قسط پہلے بھی >الفضل< میں شائع ہوچکی تھی۔ مگر میں نے اسے نقل تو کرلیا مگر الفضل کو بھیج نہ سکا اور اسی طرح پچھلے چھ ماہ سے میرے پاس پڑا تھا۔ بار بار انہوں نے مختلف پیرائوں میں چکر دے کر اصل واقعہ کے خلاف مجھ سے کہلوانے کی کوشش کی مگر میں نے وہی کہا جو اصل بات تھی اور سچ کا دامن نہ چھوڑا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بریگیڈیر صاحب نے نہ صرف اس عاجز کی سفارش کردی بلکہ اس انسپکٹر پولیس کو جو مجھے گرفتار کرکے لایا تھا بھائی جان کے سامنے ہی بہت سخت سست کہا بلکہ بہت بے عزتی کی۔ میرے اس کیس کی تفصیلات تو اور بھی ہیں مگر یہاں چونکہ مقصود اپنے کیس کی تفصیلات بیان کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد حضرت میاں صاحبان کی زندگی کے ان پہلوئوں کے ذکر خیر سے روحوں کو سیراب کرنا ہے۔ جن کو میں نے جیل میں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور جن کا میں عینی شاہد ہوں اس لئے میں اپنے کیس کی مزید تفصیلات یہیں چھوڑتا ہوں۔
اس عاجز کو حضرت میاں صاحبان کی معیت میں بہتر گھنٹے سے زیادہ ہی رہنے کا موقع ملا اور میں نے آپ کو بہت قریب سے خوب خوب ہی دیکھا ہر لمحہ اور ہر آن ان کی رفاقت ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث بنی رہی۔ اور آج تک میرے دل و دماغ کپر کالنقش فی الحجر ہے اس کے بعد آپ بی (B) کلاس میں چلے گئے۔ جس سے ہم خوش تو تھے کیونکہ آپ کا سی (C) کلاس میں ہونا ویسے بھی آپ کے مقام و منصب کے منافی تھا۔ لیکن ہم آپ کی رفاقت حسنہ سے محروم ہوگئے۔ جس کے باعث ہم ملول بھی تھے۔ مگر اب ہمارے حوصلے اتنے بلند تھے کہ ہمارے لئے جو کچھ بھی ہونے والا تھا ہم اس کے لئے انشراح صدر سے پوری طرح تیار تھے۔
یہ بات کسے نہیں معلوم کہ جب کسی پر کیس بن جائے تو خواہ پیر ہو یا فقیر سیاست دان ہو یا عالم دین کوئی کاروباری انسان ہو یا ملازم وکیل صاحبان ان کو جیے جیسے بیان پرھاتے اور سکھاتے ہیں۔ ساتھ کے ساتھ ویسی ہی تبدیلیاں ان کے بیانوں میں ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کی غرض تو صرف سزا سے بچنا ہوتا ہے۔ خواہ اس سے بچنے کے لئے کتنا ہی جھوٹ بولنا پڑے۔ مگر ہمارے کیس تو مارشل لاء کے کیس تھے۔ اور پھر ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء کے۔ جس میں سزا ایسی دی جاتی تھی کہ سننے والوں کے سن کر ہی دل ہل جتے تھے۔ ایسے وقت میں ہمیں ان دونوں بزرگوں کی طرف سے ہمیشہ یہ تلقین کی جاتی کہ صرف سچ ہی بولنا ہے۔ خواہ کتنی بھی سزا کیوں نہ ہوجائے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ بندوں ہی کا شیوہ ہوتا ہے۔ جن کی نگاہوں میں اپنے رب کی رضا کے حصول کے سوا کوئی شے نہ ہو۔ یہ خدا کا فل ہے کہ آپ کے ارشادات کے مطابق اس عاجز کو سچ ہی بولنے کی توفیق ملی۔ اور جھوٹ بولنے والوں کا منہ سیاہ ہوا۔
یہ عاجز تین دن کے بعد ہی رہا ہوگیا اور حضرت میاں صاحبان کو سزائیں سنا دی گئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دن خواب میں ظاہر فرما دیا تھا۔ عین اسی کے مطابق یہ عاجز تو انٹیروگیشن )(Interogation میں رہائی پاگیا اور حضرت میاں صاحبان چند ماہ بعد رہا ہوگئے۔
میں نے ان تین دنوں میں ان پاک وجودوں سے یہ سیکھا کہ کس طرح استقلال کے ساتھ مصائب کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور پھر یہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حق کی حمایت کرتا ہے یہ دن جماعت کے ہر ایک فرد کے لئے بے حد آزمائش کے دن تھے ہر دل بے چین اور ہر آنکھ خدا کے حضور گریاں تھی` مگر مومن کس طرح ان آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ اس کا صحیہ نمونہ ان دو پاک وجودوں میں ہم نے پایا۔ ان دونوں وجودوں نے ایسے ایسے طریقوں سے سچ کی تلقین فرمائی کہ ہمیں سچ مچ ایک مضبوط اور مستحکم چٹان بنا دیا۔~<ف۱۰~
دوسری شہادت
مکرم ملک عبدالرب صاحب )ابن حضرت ملک غلام نبی صاحب~(ف۱۱~ ساکن دارالرحمت غربی ربوہ کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>۱۹۵۳ء میں جبکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب )خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ( اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو قید کیا گیا۔ میں اس وقت مچھ جیل )بلوچستان( میں تھا۔ ازاں بعد مجھے سنٹرل جیل لاہور میں منتقلکیا گیا۔ چند دنوں کے بعد مجھے راشن کا منشی بنا دیا گیا۔ میرے ہمراہ دو غیراحمدی تھے جن کی ڈیوتی جیل میں مولانا ختر علی خاں صاحب کے ساتھ تھی۔ انہوں نے ایک روز مجھے بتایا کہ حضرت صاحب )حضرت خلیفہ المسیح الثانی۔۔۔۔۔( کے بیٹے اور بھاء بھی یہاں قید ہیں تو میں دوڑتا ہوا حضور کی کوٹھری کی طرف گیا چونکہ میں منشتی تھا اس لئے مجھے آنے جانے میں کوئی روک نہ تھی۔
مچھ جیل میں میں چاہتا تھا کہ مجھے لاہور جیل منتقل نہ کیا جائے مگر یہ خدائی تصرف تھا کہ مجھے ان دنوں لاہور سنٹرل جیل میں لے جایا گیا جبکہ حضور اور میاں شریف احمد صاحب بھی وہاں تھے۔ اس طرح خدا نے حضور سے ذاتی تعلق کا ایک موقعہ پیدا کردیا۔
آپ کا کمرہ بہت چھوٹا سا تھا۔ میں روزانہ ملاقات کے لئے جاتا۔ اپنے کام سے فارغ ہوکر میں حضور کے پاس جاکر بیٹھا رہتا۔ حضور اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے چہرے پر کرب` گھبراہٹ یا بے چینی کا کسی کا تاثر میں نے ہیں دیکھا۔ ہر وقت حضور کا چہرہ ہشاش بشاش رہتا تھا۔ حضور زیادہ تر اپنے کمرہ میں ہی رہتے یا کبھی کبھار کوٹھری سے باہر چھوٹے سے صحن میں ہوتے۔
کئی مرتبہ جب حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو دبانا چاہا۔ میاں صاحب حضور کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ >میری بجائے میاں کو دبائو< اس وقت تو ا ساشارہ کا مطلب پتہ نہ چلا مگر ۱۲ سال بعد جبکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مسند خلافت پر متمکن ہوئے` حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی خدا داد بصیرت کا پتہ چلا۔ چنانچہ اس طرح قریباً روزانہ ہی حضور کو دبانے کا موقعہ ملتا۔ حضوت اکثر اپنے راشن کا کچھ حصہ جو بسکٹ اور گھی وغیرہ پر مشتمل ہوتا خاکسار کو مرحمت فرما دیتے۔
حضور کی رہائی کے چند دن بعد ہم بھی رہا کردیئے گئے۔ حضور اس وقت رتن باغ میں تھے حضور کو اطلاع ہوئی تو حضور فوراً تشریف لے آئے۔ حضور کے ہاتھوں پر راکھ تھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ حضور خود برتن دھوتے دھوتے تشریف لے آئے۔ حضور نے خود ہی پانی وغیرہ بنا کر ہمیں پلایا کیونکہ حضرت بیگم صاحبہ ہسپتال میں بیمار تھیں۔
جیل کے دنوں کی رفاقت کی وجہ سے حضور نے قبل از خلافت اور بعداز خلافت جس شفقت اور محبت کا سلوک مجھ سے فرمایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مجھے اتنا پیار یمیرے والدین نے بھی شاید نہ دیا ہو۔
چنانچہ جب بھی حضور سے ملا تو حضور نے اپنے رفقاء سے میرا تعارف >جیل کے ساتھی< کے نام سے کروایا۔ جب حضور سے ملنا ہوتا اکثر بغیر نام لکھوائے حضور سے ملا اور جونہی حضور کو میری آمد کی اطلاع ہوئی حضور نے فوراً مجھے شرف ملاقات بخشا۔
اسی طرح حضور نے ۱۹۶۶ء میں میری شادی کے موقعہ پر میری برات میں بھی شکرت فرمائی اور از راہ شفقت دعوت ولیمہ میں بھی شرکت فرمائی۔
یہ اسی خاص تعلق اور شفقت کا بھی نتیجہ تھا کہ جب میری دوسری بچی پیدا ہوئی اور میں نے نام رکھوانے کے لئے حاضر ہوا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ دوسری بھی بچی پیدا ہوئی ہے۔ اب لڑکے کے لئے دعا کریں؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور چنانچہ حضور نے دعا فرمائی اور ۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اللہ کے فضل اور حضور کی خاص دعائوں کے نتیجہ می بچہ پیدا ہوا جس کا نام حضور نے ازراہ کرم >ملک عبدالقیوم< رکھا۔
حضور کی عنایات اور محبت کا کہاں تک ذکر کروں کہ
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
والسلام
ملک عبدالرب ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء
ملک محمد عبداللہ صاحب کی نظر بندی
ملک محمد عبداللہ صاحب مولوی فاضل ان دنوں نظارت تالیف و تصنیف کے مصنف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ حضرت مصلح موعود نے صوبہ پنجاب کے حالات کی اطلاع حضرت چوہدری محمدظفر اللہ خان صاحب تک پہنچانے کا کام آپ کے سپرد فرمایا ہوا تھا کہ اسی دوران آپ کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ آپ ڈیڑھ ماہ تک پہلے پندرہ دک جھنگ میں اور بعدازاں لاہور میں نظر بند رکھے گئے۔
چنانچہ ملک صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں۔
محترم مکرم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا قیام کراچی میں تھا۔ پنجاب میں جو حالات جماعت کے خلاف پیدا کئے جارہے تھے اور جو کار روائیاں کی جاتی تھیں ان کی اطلاع جناب چوہدری صاحب کراچی دینے کے لئے خاکسار کو تجویز کیا گیا۔ چنانچہ مارچ کی ۸` ۹ تاریخ کو حضرت مصلح موعدو نے شام کے وقت اس عاجز کو قصر خلافت میں بلایا۔ وہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ صبح تم نے کراچی جانا ہے اور کچھ ضروری خطوط وہاں پہچنانے ہیں۔ اس کے لئے ایک بڑی جیبوں والی صدری تیار کروائیں اور صبح چناب ایکسپریس سے پہلے یہاں پر آجائیں۔ چنانچہ میں نے رات ہی کو ایک صدری تیار کروا لی اور صبح حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کاغذات صدری کی بڑی جیب میں ڈالے اور پہلی مرتبہ حضور نے خود اپنے دست مبارک سے اس جیب پر بکسوآ10] ~[pف۱۲~ لگا کر اسے بند کیا اور دعا کے بعد اس عاجز کو رخصت کیا۔
میں نے وقفہ وقفہ کے بعد چار دفعہ کراچی کا سفر کیا۔ وقفہ صرف دو تین دن کا ہوتا تھا۔ کراچی سے دوسرے دن ہی واپسی ہوجاتی تھی جب میں تیسری دفعہ کراچی جانے لگا تو حضور مصلح موعود نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ پنجاب پولیس آپ کا تعاقب کررہی ہے۔ اس لئے دو آدمیوں کو میرے ساتھ سفر میں ملتان چھائونی تک کردیا۔ ایک چوہدری فیروز دین صاحب جو اب انسپکٹر تحریک جدید ہیں اور دوسرے چوہدری نصیر احمد صاحب۔ یہ بھی اس وقت تحریک جدید کے کارکن تھے۔ دو آدمیوں کے ساتھ کرنے کے متعلق حضور نے فرمایا کہ اگر راستہ میں کسی جگہ گرفتاری ہوجائے تو ایک آدمی میرے پیچھے جائے گا کہ پولیس اپ کو کہاں لے جاتی ہے اور دوسرا آدمی واپس آکر مرکز میں اطلاع دے گا۔
اس کے بعد جب میں چوتھے سفر سے کراچی سے واپس آیا ان ایام میں میری رہائش کوارٹرز صدر انجمن احمدیہ میں تھی۔ میں مغرب کی نماز بیت مبارک میں ادا کرکے آرہا تھا کہ ایک شخص نے بتلایا کہ آپ کے کوارٹر پر چار سپاہی اور ایک پولیس آفیسر کھڑے ہیں۔ یہ وسط اپریل کی بات ہے۔ صحیح تاریخ اب یاد نہیں رہی۔ پولیس آفیسر کا نام شیر ابرار احمد تھا۔ انہوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کی نظر بندی کے احکام ہیں۔ رات کوارٹر ہی میں قیام کیا اور صبح یہ مجھے لاہور لے گئے شیخ صاحب بہت شریف پولیس افسر تھے۔ سفر کے دوران میری ضرورت کا بہت خیال رکھتے ہے۔ لاہور میں ایک بہترین ہوٹل میں کھانا کھلایا۔ لاہور میں سیکرٹریٹ میں وہ مجھے برآمدہ میں چھوڑ کر خود اپنے بڑے افسر ہوم سیکرٹری سے ملنے گئے۔ میں دروازہ کے قریب ہی کھڑا تھا۔ ایک افسر نے انہیں کہا کہ آپ نظر بند کو بغیر کسی نگرانی کے ہی چھوڑ آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں ان کا ذمہ دار ہوں۔ یہ بہت شریف لوگ اور قانون کے پابند ہیں۔ اور یہ نظر بند ہیں` قیدی تو نہیں ہیں۔
ہوم سیکرٹری صاحب نے مجھے بی کلاس دینے کا فیصلہ کیا اور لاہور سے مجھے جھنگ میں لایا گیا۔ پندرہ دن میں جھنگ میں رہا۔ تھانے ہی میں ایک کوٹھری میں مجھے رکھا گیا۔ صبح شام صحن میں پھرنے کی اجازت تھی۔ کھانے کا انتظام جماعت جھنگ نے کیا۔ اس کے بعد جھنگ سے مجھے لاہور لے جایا گیا اور وہاں پانچ دن میں سنٹرل جیل میں رہا۔ یہاں ایک ہندو نظر بند تھے۔ بخشی صاحب انہیں کہتے تھے۔ بڑے زندہ دل اور ادب نواز آدمی تھے۔ جیل کے حکام ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ بڑے اچھے خاندان سے ہیں اور پنڈت نہرو تک کے پیغام ان کے لئے آتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اسی جیل کے ایک حصہ میں حرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب تھے۔۔۔۔۔ جیل میں ہمارا رابطہ کھانا لانے والے قیدیوں کے ذریعہ قائم تھا لیکن پانچ دن کے بعد مجھے یہاں سے بوسٹل جیل میں تبدیل کردیا گیا۔ بوسٹل جیل میں بچوں کا ایک سکول ہے اس سے ملحق دو کمرے پختہ بنے ہوئے تھے جن کے آگے برآمدہ اور ایک وسیع صحن تھا۔ یہاں مجھے اکیلے رکھا گیا۔ سکول کے احاطہ کی طرف ایک بڑا آہنی گیٹ تھا۔۔۔۔۔ یہ حصہ اور کمرے جن میں میں فروکش تھا۔ معلوم ہو اکہ یہ خان عبدالغفار سرحدی گاندھی کے لئے بنایا گیا تھا۔ وہ یہاں پر نظر بند تھے اور تھوڑا عرصہ ہوا کہ انہیں یہاں سے تبدیل کیا گیا ہے۔
بوسٹل جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ان دنوں شیخ نذیر احمد صاحب تھے جو ایک نوجوان آدمی تھے۔ بڑے خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کے مالکے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے روز عصر کے بعد تشریف لاتے اور کافی دیر باتیں کرتے رہتے۔ بار بار دریافت کرتے کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتلائیں۔ میں نے انہیں ایک دن کہا کہ تکلیف یہ ہے کہ میں یہاں سارا دن بیکار رہتا ہوں۔ مجھے کوئی کام دے دیں۔ اس پر میں نے کہا کہ مجھے کچھ کتابیں ہی منگوا دیں اور کوئی ایک اخبار۔ چنانچہ اس بات کا انہوں نے دو ایک دن میں ہی انتظام کر دیا۔ جزاہم اللہ تعالیٰ۔
بوسٹل جیل میں کھانے کا انتظام معقول تھا۔ میری بی کلاس تھی۔ دونوں وقت کھانے میں گوشت ہوتا تھا۔ اور ناغہ کے دن انڈے ہوتے تھے۔ ایک وقت چپاتی کے ساتھ چاول بھی ہوتے تھے۔ عصر کے وقت روزانہ دودھ اور کھانڈ مہیا کرتے اور ہفتہ میں دو تین بار موسم کا پھل بھی دیتے تھے۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد رمضان کے ایام میں مجھے رہا کردیا گیا۔
اس عرصہ میں حضرت مصلح موعود کی شفقت اور احسان ناقابل فراموش ہے۔ میرے متعلق آپ کا دفتر امور عامہ والوں کو بار بار ارشاد ہوتا کہ اس کا خیال رکھا جائے۔ اور میری بیوی بچوں کے متعلق الگ تاکید کی جاتی۔ میری اہلیہ صاحبہ گھر سے بہت کم باہر نکلتی ہیں۔ میری نظر بندی کے دوران حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضور مصلح موعود کے ہاں جاتی تو وہ انہیں بڑی تسلی اور تشفی فرماتے۔ اسی طرح حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب روزانہ کورٹر پر تشریف لاکر خیریت اور ضروریات کے متعلق پوچھتے۔ ربوہ میں جب شام کے وقت پولیس میرے مکان پر آتی تو حضرت اقدس کو بھی فوراً اطلاع ہوئی کہ مجھے نظر بند کر لیا گیا ہے۔ مگر قاضی عبدالرحمن صاحب سیکرٹری بہشتی مقبرہ نے ہضور کا یہ پیغام مجھے دیا کہ پریشانی اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں اور آپ کے بیوی بچوں کا ہر طرح خیال رکھا جائے گا۔ میں اس وقت پولیس کے ہمراہ کوارٹر کے سامنے سڑک پر کھڑا تھا۔ میں نے مکرم قاضی صاحب سے کاغذ کا ٹکڑا اور پنسل لی اور کاغذ پر حدیث شریف کے یہ الفاظ لکھ دیئے کہ >فزت ورب الکعبہ~<ف۱۳~ اور قاضی صاحب سے درخواست کی کہ میرا یہ پیغام حضور تک پہنچا دیں۔ جب میں نظر بندی سے رہا ہوکر ربوہ آیا تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ کے >فزت ورب الکعبہ< کے الفاظ خوب تھے اور حضور نے اسے بڑا پسند فرمایا۔
اسی زمانہ کا ذکر ہے کہ حضرت مولوی محمد دین صاحب انجمن احمدیہ )جو اس وت آپ ناظر تعلیم تھے( جو میرے ساتھ بڑی ہی شفقت اور مہربانی کا برتائو رکھتے ہیں۔ اور آپ کا مکان میرے مکان کے قریب ہی تھا۔ آپ نے مجھے بتلایا کہ جن دنوں تم نظر بند تھے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی لاہور میں نظر بند تھے۔ ایک دن امور عامہ کا کوئی کارکن صاحبزادہ صاحب سے لاہور میں ملاقات کرکے آئے۔ اور وہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں آئے۔ میں بھی حضور کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کارکن نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خیریت اور حالات کی اطلاع دی تو حضور نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے۔ وہ ملک عبد اللہ غریب کے متعلق بھی پتہ کریں کہ ان کا کیا حال ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ غریب کا لفظ مجھے خاص طور پر یاد ہے۔ اللہ اللہ! کس قدر مہربان اور شفیق آقا ہے کہ اپنے فرزند کی خیریت کی خبر کے ساتھ ایک ادنیٰ خادم کا کس قدر خیال ہے کہ اس کی خبر گیری کی تاکید کی جاتی ہے۔
نظر بندی سے رہا ہوکر جب میں ربوہ آیا تو مغرب کی نماز کے بعد حضور نے بیت المبارک میں جب مجھے دیکھا تو شرف مصافحہ بخشا اور میری خیر و عافیت کے متعلق دریافت فرماتے رہے۔ بعدازاں چند دن کے بعد مجھے قصر خلافت میں بلا کر شرف ملاقات بخشا اور نظر بندی کے تفصیلی کوائف سنے میں نے عرض کیا کہ نظر بندی کے دوران لاہور میں صرف ایک دفعہ ایک آفسر میرے اس آئے تھے۔ انہوں نے چند منٹ میرے ساتھ باتیں کیں۔ اور دریافت کیا کہ آپ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کراچی ملنے جاتے تھے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ جناب چوہدری صاحب سے میری واقفیت ایک لمبے عرصہ سے ہے۔ اور ملکی تقسیم سے پہلے قادیان میں ان کی سکنی اراضی کا نگران اور فروخت کنندہ رہا ہوں اور قادیان میں جب بھی چوہدری صاحب تشریف لاتے یں ان سے متعدد بار ملاقات کرتا۔ اب کراچی میں بھی۔ میں جب جاتا ہوں تو اگر موقعہ ملے تو ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس کے بعد کوئی بات نہیں ہوئی۔~ف۱۴~
حضرت مصلح موعود کے ایک خطبہ جمعہ کی ضبطی
۶ اپریل ۱۹۵۳ء کو حکومت پنجاب نے حضرت مصلح موعود کا ایک خطبہ جمعہ~ف۱۵~ ضبط کرلیا۔ یہ خطبہ مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوٹی زور و نویس نے مرتب کیا تھا اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اسے نور آرٹ پریس راولپنڈی میں چھپوانے کے لئے بھجوایا تھا۔ مگر ۱۹ مارچ کے نوٹس کے پیش نظر ایک خصوصی تار کے ذریعہ اس کی چپوائی اور اشاعت رکوا دی گئی تھی۔ پریس میں یہ خبر دی گئی کہ گویا یہ خطبہ نور آرٹ پریس راولپنڈی سے چھپ کر شائع ہوچکا تھا حالانکہ یہ بالکل خلاف واقعہ بات تھی۔ یہ تفصیلات ہمیں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے درج ذیل مراسلہ سے بھی ملتی ہیں جو آپ نے ۷ اپریل ۱۹۵۳ء کو انسپکٹر جنرل صاحب پولیس پنجاب کے نام لکھا
‏From
‏Shah, Ullah Wali Abedin Zainul Syed
‏Tabigh,۔o۔Dawat Nazir
۔Rabwah Commuinty Ahmadiyya
‏1953 April 7th Dated
‏To
‏Punjab Police of general inspector The
۔Lahore
‏Sir,
‏ page6, on Gazette Military and liCiv the of issue today's <In Juma Khutba the that notification Government the read have I printed was Community Ahmadiyya the of Head the by delivered been has same the that and Rawalpindi Press Art Noor the at the have I connection this In ۔Government the by proscibed send indeed did I that fact the notice your to bring to honour before but Rawalpindi at printing for Khutba said۔afore the the publication its before and completed was printing its the under notice a received Community ayyidamAh the of head of result a As ۔Punjab Governor the from Act Safety Punjab printing aforesard the stop to directed immediately was I that the to telegram express an sent I wherecupon publication and and printing the stop to Rawalpindi Press Art Noor Manager received Manager said the ۔Khutba said the of publication ۔completed was it before printing stopped and time in telegram my Manager the after only Press Art Noor the reached Police The never thus was Khutba the ۔telegram said the received had away taken were it of copies printed۔part the and published >۔police the by
‏ the that regrettable extremely is it circeumstanees the Under notification said the in stated fully and rightly been not have facts members and Head the before humiliated myself finding am I and said the of printing the allowed I that showing community our of ۔instructions timely and clear of spite in Khutaba
‏bed to honour the have I
۔Sir
۔servant obedient most Your
)۔(Sd/
‏Shah) hallU Wali Abedin Zainul (syed
۔Rabwah Tabligh ۔o۔Dawat Nazir
از سید زین العابدین ولی اللہ شاہ۔ ناظر دعوت و تبلیغ
جماعت احمدیہ ربوہ مورخہ ۷ اپریل ۱۹۵۳ء
بخدمت انسپکٹر جنرل صاحب پولیس۔ پنجاب۔ لاہور
جناب عالی
سول ملٹری گزٹ کی آج کی اشاعت کے صفحہ ۶ پر میں نے گورنمنٹ کا یہ اعلامیہ پڑھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ نے جو خطہ دیا وہ نور آرٹ پریس راولپنڈی میں شائع ہوا اور گورنمنٹ نے اسے بحق سرکار ضبط کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں میں جناب کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ صمیں نے متذکرہ بالا خطبہ چھپوانے کے لئے راولپنڈی ضرور بھجوایا تھا لیکن اس کی چھپوائی مکمل ہونے اور اس کی اشاعت سے قبل جماعت احمدیہ کے سربراہ کو گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت ایک نوٹس موصول ہوا۔ چنانچہ مجھے فوراً ہدایت دی گئی کہ میں متذکرہ صدر خطبہ کی چھپوائی اور اشاعت کو فی الفور روک دوں۔ بناء بریں میں نے نور آرٹ پریس راولپنڈی کے مینجر کو ایکسپریس تار کے ذریعہ ہدایت کی کہ متذکرہ خطبہ کی چھپوائی اور اشآعت فوراً روک دیا۔ پولیس` نور آرٹ پریس میں اس تار کے ملنے کے بعد پہنچی جو مینجر کو دیا گیا تھا۔ اس طرح مذکورہ خطبہ کی اشاعت ہوئی ہی نہیں اور جزوی طور پر جتنا حصہ چھپ چکا تھا اس کی مطبوعہ کاپیاں پولیس لے گئی۔
ان حالات میں یہ امر نہایت درجہ قابل افسوس ہے کہ مذکورہ حکمنامہ میں واقعات کو صحیح اور مکمل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اور مجھے امام جماعت احمدیہ اور اپنی جماعت کے ممبران کے سامنے اس وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑی کہ میں نے واضح اور بروقت ہدایات مل جانے کے باوجود متذکرہ خطبہ کی چھپوائی کیوں ہونے دی۔
میں ہوں جناب کا ادنیٰ خادم
دستخط )حضرت( سید زین العابدین
ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ ربوہ
حواشی
~ف۱~
نوائے وقت لاہور ۳ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ نمبر ۱
~ف۲~
نوائے وقت لاہور ۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ ۹ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ
~ف۳~
المصلح کراچی ۲۹ مئی ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۴~
جناب سد ابو الاعلفی مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی جنہیں ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو گرفتار کیا گیا تا )ناقل(
~ف۵~
الفضل ۵ اکتوبر ۱۹۸۳ء صفحہ ۴ یہ اشعار شعبہ تاریخ کو محترمہ بشری طیبہ صاحبہ اہلیہ صہاب صدیق یوسف صاحب آف جدہ کے ذریعہ سے موصول
~ف۶~
اخبار >ریاست< دہلی مئورخہ ۲۷ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ کالم نمبر ۱
~ف۷~
>ہندو< )جالندھر اور نئی دہلی( ۱۲ اپریل ۱۹۵۳ء
~ف۸~
الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ نمبر ۳
~ف۹~
>ہفت روزہ لاہور<
~ف۱۰~
خالد ربوہ >سید ناصر نمبر< صفحہ ۴۵ تا صفحہ ۲۵۱
~ف۱۱~
تاریخ وفات یکم جنوری ۱۹۸۰ء
~ف۱۲~
‏Pin Safty
~ف۱۳~
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ یہ تاریخی کلمات صحابی رسولﷺ~ حضرت حرامؓ بن ملحان نے اس وقت کہے تھے جبکہ آپ کو غزوہ احد کے ایک بدبخت کافر نے نیزہ مارا اور آپ کے جسم مبارک سے خون مبارک سے خون کا فوارہ چھوٹ گیا اور آپ شہید ہوگئے۔ )صحیح بخاری مصری ج ۲ ص ۲۰ )حالات غزوہ احد(
~ف۱۴~
)غیر مطبوعہ مکتوب جناب ملک محمد عبداللہ صاحب ریٹائرڈ لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربوہ مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء سابق قائد مال مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ(
~ف۱۵~
بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود نے یہ خطبہ جمعہ ۶ یا ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء کو ارشاد فرمایا تھا
پانچواں باب
۱۹۷۳ء کے شہدائے احمدیت` ایسٹرن راہ مولا اور مرکز کو کوائف بھجوانے والے حضرات
شہدائے احمدیت )۱۹۵۳ء(
۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران مندرجہ ذیل عشاق احمدیت نے جام شہادت نوش کیا۔
۱۔
مکرم ماسٹر منظور احمد صاحب مدرس باغبانپورہ لاہور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء
۲۔
مکرم محمد شفیع صاحب برما والے مغلپورہ۔ لاہور۔ ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
۳۔
مکرم جمال احمد صاحب طالب علم تعلیم الاسلام کالج بھاٹی گیٹ لاہور ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
۴۔
مکرم مرزا کریم بیگ صاحب فلیمنگ روڈ۔ لاہور ۶ مارچ ۱۹۵۳ء
۵۔
مکرم حوالدار عبدالغفور صاحب ولد الٰہی بخش صاحب لاہور ۸ مارچ ۱۹۵۳ء
۶۔
لاہور کے ایک علاقہ میں ایک احمدی عطار ۸ مارچ ۱۹۵۳ء ۱۹۵۳ء۔ نام معلوم نہیں۔
)ان کے علاوہ مولوی عبدالحکیم صاحب صدر جماعت احمدیہ گنج مغلپورہ کی بوڑھی والدہ جو غیراحمدی تھیں نہایت بے رحمی سے قتل کردی گئیں(
اسیران راہ مولیٰ )۱۹۵۳ء(
ان ایام کرب و بلا کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:۔
لاہور
۱۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب )خلف الرشید حضرت مسیح موعودؑ(
۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج لاہور
۳۔
‏ind] ga[tمرزا مظفر احمد صاحب )ابن مرزا قدرت اللہ صاحب(
۴۔
محمد بشیر صاحب زیروی۔
۵۔
محمد صالح صاحب۔
۶۔
محمد یحییٰ صاحب۔
۷۔
ملک برکت علی صاحب۔
۸۔
حکیم سراج دین صاحب۔
ربوہ
۹۔ ملک عبدالزب صاحب
۱۰۔
جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب فاضل کارکن نظارت تصنیف و اشاعت ربوہ
ضلع سیالکوٹ
۱۱۔ چوہدری فضل الٰہی صاحب ملیانوالہ نزد ڈسکہ
۱۲۔
شیخ عبدالرحمن صاحب وکیل۔
۱۳۔
محمد رفیق صاحب جراح۔
۱۴۔
مستری ابراہیم صاحب۔
مقامی جماعتوںکے کوائف بھجوانے والے احباب
ذیل میں مغربی پاکستان کے ان مخلصین کی ایک فہرست دی جاتی ہے جنہوں نے ۱۹۵۳ء کے پرآشوب زمانہ میں مرکز احمدیت کو مقامی احمدیوں کے حلات و کوائف سے باخبر رکھا اور جن کی رپورٹیں سیدنا حضرت مصلح ومعود یا سلسلہ احمدیہ کے مرکزی اداروں کو موصول ہوئیں۔
‏sub] g[taضلع راولپنڈی
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۔ بابو اللہ بخش صاحب جماعت احمدیہ راولپنڈی۔
۲۔
جناب میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی۔
۳۔
قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی کشمیری بازار راولپنڈی۔
۴۔
چوہدری بشیر احمد صاحب پسر چوہدری فقیر صاحب مرحوم راولپنڈی۔
۵۔
پیر انور الدین صاحب راوپنڈی
۶۔
محمد عالم صاحب ڈھوک رتہ راولپنڈی شہر۔
۷۔
خواجہ غلام نبی صاحب گلکار راولپنڈی۔
‏in] ga[t۸۔
سید اعجاز احمد شاہ صاحب مقیم راولپنڈی انسپکٹر بیت المال راولپنڈی )حقہ صوبہ سرحد۔ و اضلاع جہلم` راولپنڈی` کیمل پور` میانوالی(
۹۔
غلام احمد صاحب پریذیڈنٹ چنگا بنگیال تحصیل گوجر خان
ضلع گوجرانوالہ
۱۔ میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ ضلع گوجرانوالہ۔
۲۔
میاں غلام احمد صاحب` میاں نصیر احمد صاح سوداگران چرم وزیر آباد
۳۔
شیخ نیاز محمد صاحب پنشنر انسپکٹر پولیس گوجرانوالہ۔
‏]ni [tag۴۔
محمد علی صاحب مانگٹ اونچے~ف۱۶~
۵۔
شریف صاحب کشمیری گلی گوردوارہ گوجرانوالہ۔
۶۔
میاں جھنڈا خاں صاحب پریذیڈنٹ پھلوکی براستہ قلعہ دیدار سنگھ۔
۷۔
بشیر احمد صاحب سیکرٹری مال " " " ~"ف۱۷~
۸۔
مبارک احمد صاحب ناصر سابق دیہاتی مبلغ ترگڑی
۹۔
محمد الدین صاحب قائد خدام الاحمدیہ و سیکرٹری دعوٰہ و تبلیغ ترگڑی۔
‏]ni [tag۱۰۔
غلام رسول صاحب دیہاتی مبلغ مدرسہ چٹھہ ڈاکخانہ کوٹ ہرا ضلع گوجرانوالہ۔
۱۱۔
ضیاء الدین صاحب پریذیڈنٹ حافظ آباد
۱۲۔
مولوی محمد حسین صاحب عربی ٹیچر گلی شیر سنگھ آبادی حاکم رائے گوجرانوالہ۔
۱۳۔
چوہدری ظفر علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گکھڑ۔
۱۴۔
چوہدری محمد حسین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بھڑی شاہ۔
۱۵۔
محمد عبداللہ صاحب باجوہ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کامونکی۔
۱۶۔
نصراللہ خاں صاحب سیکرٹری مال انجمن احمدیہ تولیکی۔
۱۷۔
چوہدری محمد شریف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ فیروزوالہ
۱۸۔
چوہدری فضل احمد صاحب باجوہ کوٹ عنایت خاں تھانہ صدر وزیرآباد
ضلع سیالکوٹ
۱۔ خادم علی صاحب نائب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کلاس والا تحصیل پسرور
۲۔
ماسٹر مولیٰ داد صاحب پریذیڈنٹ شہزادہ ڈاکخانہ خاص براستہ چونڈہ
۳۔
غلام فرید صاحب پریذیڈنٹ چک دھار والی۔
۴۔
عنایت اللہ صاحب امیر جماعت بہاولپور ضلع سیالکوٹ
۵۔
میاں محمد ابراہیم صاحب عابد نائب امیر حلقہ امارت ڈسکہ
۶۔
ملک سراج الدین صاحب سمیڑیال
۷۔
خواجہ محمد امین صاحب
۸۔
سید نذیر حسین صاحب گھٹیالیاں۔
۹۔
ڈاکٹر شیر محمد عالی صاحب صدر بازا سیالکوٹ چھائونی
۱۰۔
عبدالحمید بٹ صاحب سیکرٹری مال نارووال۔
۱۱۔
غلام رسول صاحب پریذیڈنٹ موضع سلدیاں تھانہ نارووال
۱۲۔
میر محمد ابراہیم صاحب پنشنر پریذیڈنٹ و سیکرٹری مال جماعت احمدیہ پسرور
۱۳۔
بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ
۱۴۔
محمد ابراہیم صاحب سیکرٹری مال ویرد والہ
۱۵۔
حکیم اللہ دتہ صاحب امیر جماعت احمدیہ درگانوالی
۱۶۔
سرور محمد خاں صاحب
۱۷۔
عبدالحمید صاحب بٹ سیکرٹری مال جماعت احمدیہ نارووال
۱۸۔
مسعود نصر اللہ خاں صاحب سیکرٹری امور عامہ ڈسکہ۔
۱۹۔
چوہدری دین محمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت چوڑ منڈا
۲۰۔
ماسٹر محمد شریف صاحب میانوالی خانانوالی۔
۲۱۔
عنایت اللہ خاں صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دھرگ
۲۲۔
عبدالغفور صاحب ظفر وال۔
۲۳۔
محمد نصیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کھیوہ باجوہ
۲۴۔
مرزا غلام نبی صاحب پورن نگر سیالکوٹ۔
۲۵۔
حکیم مرزا محمد حیات صاحب سیکرٹری وصایا و صدر حلقہ واٹر ورکس سیالکوٹ۔
۲۶۔
محمد منیر صاحب ڈوگریاں ہریاں ڈاکخانہ خاص تحصیل پسرور
۲۷۔
بشیر احمد صاحب " " "
۲۸۔
چوہدری غلام غوث صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ترسہ تحصیل ڈسکہ
۲۹۔
خورشید عالم صاحب عزیز پور ڈگری
۳۰۔
عبدالغنی صاحب عبد قائد ملس خدام الاحمدیہ کلاسوالہ
۳۱۔
فیروز الدین صاحب امرتسری انسپکٹر تحریک جدید ۔مقیم سیالکوٹ(
۳۲۔
قریشی نورالحسن صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ کوٹلی ہر نرائن ڈاک خانہ پیرو چک
‏tav.14.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
ضلع شیخو پورہ
۱۔
چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع شیخو پورہ
۲۔
غلام اللہ صاحب اسلم سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ سید والا
۳۔
چوہدری منظور حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ سانلگہ ہل چہور چک ۱۱۷
۴۔
محمد نذیر صاحب بچیکی۔
۵۔
قاضی عبد الحمید صاحب احمدی سیکرٹری مال کوٹ رحمت خاں
۶۔
محمد اسماعیل صاحب چہور چک ۴۵
۷۔
محمد شفیع صاحب ننکانہ صاحب۔
۸۔
شیخ محمد علی صاحب انبالوی مندی چوہڑکانہ
۹۔
شیخ محمد عبداللہ صاحب واربرٹن
۱۰۔
احمد دین صاحب پٹیالہ دوست محمد
۱۱۔
شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی رائس ڈیلر منڈی مریدکے
۱۲۔
غلام سرور صاحب قائد خدام لااحمدیہ چک ۷۹ پھاہے والی
۱۳۔
عمر دین صاحب امیر جماعت احمدیہ کوجر ڈاکخانہ چوہڑکانہ
۱۴۔
سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمدیہ واربرٹن
۱۵۔
محمد صادق صاحب چک ۱۷ بہوڑو۔
۱۶۔
فضل حسین انسپکٹر تحریک جدید مقیم سید والا
۱۷۔
شیخ گلزار احمد صاحب پٹواری شیخو پورہ
۱۸۔
مولوی مہر الدین صاحب مبلغ دعوت و تبلیغ بھینی شرقپور
۱۹۔
قاضی بشیر احمد صاحب جنرل سیکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ شیخوپورہ
۲۰۔
فضل الدین صاحب احمدی دکاندار موضع سریانوالہ۔
ضلع لائلپور~ف۳~
۱۔
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور~ف۴~
۲۔
مولانا محمد اسماعیل صاحب دیالگڑی مبلغ جماعت احمدیہ لائلپور~ف۵~
۳۔
اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر ڈی بی ہائی سکول ٹوبہ ٹیک سنگھ
۴۔
محمد حسین صاحب چک نمبر ۱۰/۶۶۹ گ ب ڈاککانہ خاص تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ
۵۔
عبدالعزیز صاحب آرہتی پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گوجرہ
۶۔
غلام حسین صاحب پریذیڈنٹ کرتار پور چک نمبر b۔/r ۲۷۵
۷۔
حکیم غوث محمد صاحب سیکرٹری مال کرتار پور چک نمبر b۔/r ۲۷۵
۸۔
حکیم رحیم بخش صاحب مبلغ لاٹھیانوالہ نمبر ۱۹۲
۹۔
منشی خدا بخش صاحب چک نمبر ج۔ب/ ۳۶۷ جلیانوالہ
۱۰۔
نعمت اللہ صاحب پٹواری مال چک نمبر ۲۴۳ گ/ ب براستہ ماموں کانجن
۱۱۔
علی احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر ۶۴۴
۱۲۔
محمد جعفر صاحب مدرس بگھرال ساکن ڈھومپال
۱۳۔
نعمت خاں صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج چک۔ ۲۳ رکھ برانچ
۱۴۔
محمد دین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۵۶۴ تحصیل جڑانوالہ
۱۵۔
عنایت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ بہاولپور
۱۶۔
خواجہ محمد احمد صاحب مسلم شراکت جڑانوالہ
۱۷۔
عبدالمجید خاں صاحب سمندری
۱۸۔
شیخ محمد یوسف صاحب بیت فضل لائلپور
۱۹۔
منشی بشیر احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک ۹۶ گ/ ب
۲۰۔
غلام رسول صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ چک ۲۰۹ تحصیل سمندری
۲۱۔
محمد مشتاق صاحب چک نمبر ۱۱۷ گ/ ب براستہ تاندلیانوالہ
۲۲۔
عبدالرحمن صاحب چک ۵۰ ج / ب سٹھیالہ ضلع لائلپور
۲۳۔
حاکم علی صاحب پریذیڈنٹ چک ۵۵/ ۵۶ گ/ ب تحصیل جڑانوالہ
۲۴۔
فتح محمد صاحب سندھ ویجی ٹیبل آئل لمیٹڈ گوجرہ
۲۵۔
محمد شریف صاحب جڑانوالہ
۲۶۔
ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلام جلیانوالہ ڈاکخانہ گوجرہ
۲۷۔
محمد مشتاق صاحب چک نمبر ۱۱۷ گ/ ب رام سنگھ والی براستہ تاندلیانوالہ
۲۸۔
نجات احمد صاحب پریذیڈنٹ گوالہ
۲۹۔
بشیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک ۱۹۵ جنڈانوالہ
۳۰۔
ڈاکٹر محمد انور صاحب پریذیڈنٹ جڑانوالہ
۳۱۔
غلام محمد صاحب چک ۴۳۸ گ ب۔ برتھ ڈاکخانہ تاندلیانوالہ
۳۲۔
چوہدری سردار خاں صاحب پریذیڈنٹ کتھو والی چک ۳۱۲ ج/ ب
۳۳۔
عبدالحئی صاحب آئرن مرچنت منڈی بازار تاندلیانوالہ منڈی
۳۴۔
مولوی بشیر احمد صاحب زاہد۔ لال دین صاحب سردار احمد صاحب )چک نمبر b۔/r ۶۹ گھسیٹ پورہ(
۳۵۔
انور احمد صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ چک نمبر b۔/r ۶۱ ضلع فیصل آباد
۳۶۔
محمد یعقوب صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ چپ نمبر ۱۲۱ ج/ ب گوکھووال۔
۳۷۔
بشیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک ۱۹۵۔ رکھ جنڈا والا
۳۸۔
عبدالرحمن صاحب پریذیڈنٹ چک ۴۶۹ تحصیل سمندری
۳۹۔
عبدالغنی صاحب صراف منڈی پیر محل
۴۰۔
محمد حسین خاں صاحب سیکرٹری امور عامہ جڑانوالہ
۴۱۔
رشید احمد صاحب ساہی سیکرٹری جماعت احمدیہ قادر آباد چک نمبر ج۔ب/ ۳۵۴ براستہ گوجرہ
۴۲۔
غلام محمد صاحب چک ۴۳۸
۴۳۔
نور محمد صاحب پریذیڈنٹ چک شیرکا۔
۴۴۔
عبدالحمید صاحب پریذیڈنٹ جماعت دنجواں
۴۵۔
نذیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر ۶۱
ضلع جھنگ
۱۔
شیخ محمد حسین صاحب پنشنر قائم مقام امیر جماعت احمدیہ چنیوٹ
۲۔
جمال الدین احمد صاحب چنیوٹ
۳۔
عطاء اللہ خان صاحب "
۴۔
عبدالکریم صاحب سیکرٹری امور عامہ چنیوٹ
۵۔
چوہدری عبدالغنی صاحب امیر جماعت احمدیہ جھنگ
۶۔
میاں محمد بشیر احمد صاحب ایجنٹ اسٹینڈرڈ آئل کمپنی جھنگ
۷۔
سراج الدین صاحب فضل سٹریٹ مگھیانہ
۸۔
مولوی عبدالرحیم صاحب عارف مگھیانہ
۹۔
عبدالرحمن صاحب محلہ گوہر شاہ جھنگ مگھیانہ
۱۰۔
ڈاکٹر فضل حق صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لالیاں
۱۱۔
مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ احمد نگر
۱۲۔
ماسٹر غلام حیدر صاحب سپرنٹنڈنٹ مدرسہ احمدیہ احمد نگر
۱۳۔
مولوی ظفر محمد صاحب استاذ مدرسہ احمدیہ "
۱۴۔
حکیم عبد الرحمان صاحب شمس سیکرٹری جماعت احمدیہ شور کوٹ شہر
ضلع لاہور
۱۔
شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور
۲۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب لاہور
ریاست بہاولپور
۱۔
چوہدری خورشید احمد صاحب لیاقت پور امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع رحیم یار خاں
۲۔
‏ind] ga[tشیخ اقبال الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ بہاولنگر
۳۔
رحمت علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چک نمبر /p ۶۵ ضلع رحیم یار خاں
۴۔
عزیز محمد خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ دفتر چیف انجینئر بہاولپور
۵۔
چوہدری فرزند علی صاحب صادق نائب امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع رحیم یار خاں۔ کوٹ فرزند علی ضلع رحیم یار خاں
۶۔
منیر احمد صاحب سیکرٹری مال چک نمبر r۔ ۴/ ۵۵ منڈی ہارون آباد ضلع بہاولنگر
۷۔
غلام قادر صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ چک نمبر ۴۔۷ ۱۶۰ ڈاکخانہ فقیر والی ضلع بہاولنگر
۸۔
محمد عبداللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کوٹ فرزند علی ضلع رحیم یار خاں
صوبہ سندھ
۱۔
حضرت صوفی محمد رفیع صاحب )ریٹائرڈ( ڈی ایس پی سکھر
۲۔
مولانا غلام حسین صاحب ایاز سابق مجاہد احمدیت سنگاپور مبلغ سلسلہ کنری
۳۔
قریشی عبدالرحمن احب ٹیچر ریلوے ہائی سکول سکھر
۴۔
فضل الرحمن صاحب ٹیچر ریلوے ہائی سکول سکھر
۵۔
فضل الدین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ناصر آباد اسٹیٹ
۶۔
شیخ احمد دین صاحب پراونشنل سیکرٹری تبلیغ سندھ کنری
۷۔
ملک عنایت اللہ صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت بدین
۸۔
ملک بشیر احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ جیکب آباد سندھ
۹۔
چوہدری عنایت الرحمن صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ٹنڈوالہ یار
۱۰۔
سلطان احمد صاحب سیکرٹری مال جماعت گوٹھ مولا بخش ضلع نواب شاہ سندھ
‏in] [tag۱۱۔
محمد عثمان صاحب جیمس آباد
۱۲۔
حضرت حکیم محمد موھیل صاحب کمال ڈیرہ سندھ
صوبہ سرحد
۱۔
حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان امیر جماعت احمدیہ سرحد
۲۔
شہاب الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ مردان
۳۔
غلام سرور خاں صاحب بالا کوٹ ہزارہ
۴۔
مولوی عبدالکریم صاحب پشاور
۵۔
سید عبدالرحیم شاہ صاحب پھگلہ تحصیل مانسہرہ
۶۔
‏]ind [tagمحمد احمد خاں صاحب ولد خان میر صاحب افغان تل ضلع کوہاٹ
۷۔
پیر محمد زمان شاہ صاحب مانسہرہ۔
۸۔
ریٹائرڈ صوبیدار سلیم اللہ صاحب )سلیم برادرز( نوشہرہ
۹۔
عبداللطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ داتہ )ہزارہ(
۱۰۔
محمد علی صاحب درانی وکیل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ چار سدہ
حوالہ جات
~ف۱~
آپ ۹ مارچ ۱۹۵۳ء کو موضع مانگٹ سے بذریعہ سائیکل ربوہ آئے تا مرکز کے حالات کا پتہ کریں اور مقامی جماعت کے کوائف مرکز تک پہنچائیں۔
~ف۲~
اس جماعت کی طرف سے ۱۲ مارچ ۱۹۵۳ء کو عطاء الرحمن صاحب آف اودھو وال بطور نمائندہ ربوہ پہنچے اور حالات سے مطلع کیا۔
~ف۳~
~ف۴~
~ف۵~
حال فیصل آباد
چھٹا باب
مجلس مشاورت ہشہ ۱۳۳۲ء مطابق ۱۹۵۳ء
مجلس مشاورت ہشہ ۱۳۳۲ء مطابق ۱۹۵۳ء کے لئے ۳۔ ۴۔ ۵ شہادت اپریل کی تاریخیں مقرر تھیں مگر سیدنا حضرت مصلح موعود کے نام گورنر صاحب پنجاب کے نوٹس )مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۵۳ء( کے باعث ملتوی کردی گئی~ف۱~ لیکن جب حخومت پنجاب نے یہ نوٹس واپس لے لیا تو حضور نے فیصلہ فرمایا کہ ۱۶ مئی کو شوریٰ کا صرف ایک روزہ اجلاس منعقد ہو۔ اس ضمن میں حضور نے ۶ مئی ۱۹۵۳ء کو حسب ذیل اعلان جاری فرمایا:۔
مجلس شوریٰ ۱۹۵۳ء کے متعلق ضروری اعلان
تمام جماعت ہائے احمدیہ پاکستان و ممالک غیر کو اطلاع دی جاتی ہے کہ چونکہ گورنمنٹ نے سیفٹی ایکٹ کا نوٹس جو میرے نام جاری کیا تھا واپس لے لای ہے۔ اس لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ ۱۹۵۳ء ایکٹ کا نوٹس جو میرے نام جاری کیا تھا واپس لے لیا ہے۔ یہ شوریٰ بہت مختصر ہوگی اور اس میں )اول( بجٹ پر غور کیا جائے گا )دوم( اس امر پر غور کیا جائے گا کہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطبائع سے اشتال کو دور کرنے اور پاکستان کے مختلف فرقوں می ہم آہنگی پیدا کرنے کی غرض سے احمدیہ جماعت کے تبلیغی پروگرام میں اگر ضروری سمجھا جائے تو مناسب تبدیلی کی جائے اور ایسے طریق اختیار کئے جائیں جو جامعت احمدیہ کی طرف سے قیام امن میں امداد دینے کے لئے مناسب اقدام ہوں اور اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داریوں میں بھی کسی قسم کا خلل نہ آئے )سوم( کوئی ایسا امر جو صدر انجمن احمدیہ یا تحریک جدید میرے مشورہ کے بعد مجلس میں پیش کرنا چاہیں۔
تمام احباب کو یاد رکھنا چاہئے کہ چونکہ نمبر ۲ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر گفتگو کرتے وقت جماعت کے مختلف نمائندوں کو ایسے امور کے متعلق بھی گفتگو کرنی پڑے گی جن کے متعلق پبلک میں گفتگو کرنا نامناسب ہوگا یا شاید بعض لوگ ایسے اہم مسئلہ کے متعلق عام مجلس میں رائے دینے سے بھی ہچکچائیں۔ اس لئے یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ اس شوریٰ میں سوائے نمائندوں کے اور کسی شخص کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لئے شوریٰ کے دن کوئی غیر نمائندہ دوست باہر سے تشریف نہ لائیں کیونکہ انہیں شوریٰ کے لئے زائرین کا ٹکٹ نہیں مل سکے گا۔
مناسب تو یہ تھا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شوریٰ پنجاب سے باہر منعقد کی جائے۔ لیکن چونکہ گرمی کدم زیادہ ہوگئی ہے اور میری صحت کمزوری ہورہی ہے باہر کسی جگہ فوراً رہائش اور جلسہ گاہ کا انتظام بھی مشکل ہوگا اس لئے مجبوراً ربوہ میں ہی اس شوریٰ کے انعقاد کا فیصلہ کرتا ہوں۔
سیکرٹری شوریٰ کی طرف سے الگ نوٹس سب جماعتوں کو جلد بھجوا دیا جائے گا۔
خاکسار مرزا محمود احمد )خلیفہ المسیح(
ربوہ ۶ مئی ۱۹۵۳ء~ف۲~
یہ مجلس مشاورت حسب پروگرام ۱۶ ماہ ہجرت / مئی کو ربوہ میں منعقد ہوئی جس میں حضور نے بجٹ پر مشورہ طلب کرنے کے علاوہ ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات پر روشنی ڈالی۔ اس مشاورت کی روداد طبع نہیں ہوئی۔ نہ اس کا کوئی ریکارڈ ہے البتہ اس موقعہ کے لئے حضرت مصلح موعود کا ایک رقم فرمودہ نوٹ جو حضور نے کچی پنسل سے تحریر فرمایا تھا محفوظ شکل میں موجود ہے۔ جس سے کسی قدر اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس اہم مجلس میں حضور نے کیا کیا ارشاد فرمایا۔
مولوی عبدالرحمن صاحب انور )سیکرٹری مجلس مشاورت( کو یہ نوٹ مشاورت کے اختتام پر اس میز سے ملا تھا جو اس وقت حضرت مصلح موعود کے سامنے رکھا تھا۔
مشاورت ۱۹۵۳ء کیلئے حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ نوٹ
>ہمارے آدمیوں کی گرفتاریاں کیمپ بنانے کی کوشش
تبلیغ کا ارادہ ظاہر کرنے پر گرفتاری
رسالہ چھاپنے کے لئے جانے پر گرفتاری
میرا نوٹس
حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی ضبطی تلاشیوں میں مانگٹ اوچے کا واقعہ
ایک جگہ احمدیوں پر حملہ۔ بہت سے زخمی ہوئے مگر احمدیوں کو ساتھ پکڑا گیا۔~ف۳~
منافقت
۱۔ رپورٹ پولیس اور فوج کو
۲۔ میاں شریف احمد صاحب کے خلاف سازش
۳۔ منافق گروہ ربوہ میں
اس کے مقابل اخلاص کا اظحار۔ چندہ کی طرف توجہ
عورتوں کا اخلاص
مبلغین میں سے مولوی محمد اسماعیل صاحب کا اچھا نمونہ ان سے اتر کر مولوی عبدالغفور صاحب ایک احمدی کے حالات پوچھنے پر ایک فوجی افسر کے
دوسری قسم کے میں اصلاح اور سلسلہ اور ملک کے فائدہ کے لئے مشورہ دوں گا ڈر کر نہیں اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈروں گا اور احمدیت کی عظمت اور سچائی کے ثبوت کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا۔<
سیدنا حضرت مصلح موعود کا اہم بیان
اس مجلس مشاورت کا ایک خوشنما اور شیریں پھل ایک اہم بیان کی شکل میں ظاہر ہوا جو اس مجلس کی درخواست پر حضرت مصلح موعود نے جاری فرمایا اور جس کا مکمل متن یہ ہے:۔
‏head1] g[taہمارے عقائد
ہم اس دنیا کا بادشاہ قادر مطلق لافانی اور لاثانی اللہ تعالیٰ کو سمجھتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ صرف اسلام اللہ تعالیٰ کا سچا دین ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب ہے اور اس میں فرشتوں` آسمانی صحیفوں` بعثت انبیاء` بعث بعدالموت اور تقدیر خیر و شر کا جس طرح ذکر آیا ہے۔ وہ سب حق اور درست ہے۔ اور ہم اس پر کامل ایمان رکھتے ہیں ہم محمد~صل۱~ کو تمام نبیوں کا سردار سمجھتے ہیں اور خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ پر نازل شدہ شریعت بنی نوع انسان کے لئے آخری شریعت ہے۔ جسے کوئی انسان تو بدل ہی نہیں سکتا بلکہ خود خداوند کریم نے بھی اسے تبدیل نہ کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ شریعت محمدی کا کوئی حکم قیامت تک منسوخ نہیں ہوگا اور اس کا ہر حکم جملہ شرائط کے ساتھ اور جملہ شرائط کے مطابق قیامت تک قابل عمل رہے گا۔
قرآن کریم کے بعد ہم رسول اللہ~صل۱~ کی سنت متواترہ اور احادیث صحیحہ کی پابدی اپنے اوپر لازمی اور ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اس سے ذرا بھی انحراف کو گناہ سمجھتے ہیں۔ ہم رسول اللہ~صل۱~ کے صحابہ کرام و اہل بیت اظہار کو تعیلمات قرآنی اور اخلاق محمدی کے مطابق ایک اعلیٰ اسوہ سمجھتے ہیں۔ جو شخص ان کے طریق سے منحرف ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے منحرف ہوتا ہے۔
ہم وہی نماز پڑھتے ہیں۔ اور وہی روزے رکھتے ہیں۔ اور وہی زکٰوٰہ ادا کرتے ہیں۔ وہی حج ادا کرتے ہیں۔ اور اسی قبلہ کو تمام مسلمانوں کا مرکز و مامن سمجھتے ہیں۔ جو قرآن مجید سنت رسول و احادیث نبوی اور اقوال صحابہ سے ثابت ہے۔ ہم خود بھی امت محمدیہ میں شامل ہیں۔ اور سلسلہ احمدیہ کے بانی بھی اس امت میں شامل تھے وہ بھی رسول اللہ~صل۱~ کا کلمہ پڑھتے تھے۔ اور ہم احمدی بھی رسول اللہ~صل۱~ کے سوا کسی کا کلمہ نہیں پڑھتے۔ جو شخص ایسا نہ کرے ہمارے عقیدہ میں قرآنی تعلیم کے خلاف عمل کرنے والا اور اسلام سے انکار کرنے والا ہے۔
ہم ہر کلمہ کو امت محمدیہ کا جزو سمجھتے ہیں۔ ہم ہر اس شخص کو امت محمدیہ کا فرد اور جزو قرار دیتے ہیں جو کلمہ طیبہ پڑھتا ہو اور کعبہ مکرمہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا ہے۔ ہم تمام بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خدمت کو خصوصاً تمام مسلمانوں کی ہمدردی اور خدمت کو خواہ وہ کسی ملک میں رہتے ہوں۔ یا کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہم اس پر ہمیشہ عمل کرتے آئے ہیں۔ اور ہمیشہ عمل کرتے رہیں گے۔ ہماری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ سب انسانوں سے عموماً اور تمام مسلمانوں سے خصوصاً خوشگوار اور رودارانہ تعلقات رکھیں۔ اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ہم آئندہ بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اور ہر قسم کے فتنے سے بچیں گے اور کوشش کریں گے کہ ہماری کسی غلطی کی وجہ سے طبائع میں اشتعال پیدا نہ ہو۔
جماعت احمدیہ سیاسی جماعت نہیں ہے۔
ہم سیاسی جماعت نہیں اور من حیث الجماعت سیاست سے بچے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔ کہ من حیث الجماعت وہ ہمیں ان امور سے بچائے رکھے۔ تاکہ اس دور میں جبکہ عام طور پر دنیا دین کو چھوڑ رہی ہے۔ ہمیں اسلام کی خدمت کی توفیق ملتی رہے۔ اور غیر مسلم اقوام کی طرف لانے کا کام ہم سے سرانجام پاتا رہے۔
حکومت اور ملک کو مضبوط کرنا ہمارا اصول ہے
جماعت احمدیہ کا اصول ہے کہ حکومت اور ملک کو مضبطو کیا جائے۔ اور مسلمانوں کے فرقوں میں مودت اور یگانگت پیدا کی جائے۔ قرارداد مقاصد متعلقہ دستور اساسی پاکستان یا تفصیلات دستور اساسی پاکستان میں جو اساسی اصول منظور ہوچکے ہیں یا ہوں ان کو نظر انداز کئے بغیر ہم سمجھتے ہیں کہ ان دنوں ملک میں جس قسم کی تشویش و شورش پیدا کردی گئی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائے جو طبیعتوں میں سکون پیدا کرنے اور اشتعال ٹھنڈا کرنے میں ممد ہو۔
تحریر و تقریر میں انتہائی نرمی اختیار کی جائے
پس ہم جماعت ہائے احمدیہ افراد جماعت سے درخواست کرتے ہیں۔ کہ وہ )۱( جماعتی جلسوں کو )بیت الذکر~(ف۴~ یا اپنے ہاں یا کرایہ پر لئے ہوئے ہال یا اپنے پرائیویٹ احاطوں یا کرایہ پر لئے ہوئے احاطوں تک محدود رکھیں۔ تاکسی قسم کے اشتعال کا موقعہ پیدا نہ ہو۔ )۲( جہاں پبلک جلسوں کی ضرورت پیش آجائے )اور اگر حکام کی طرف سے اجازت کی ضرورت ہو اور جازت مل جائے( تو ایسے جلسوں میں متنازعہ عقائد کو زیر بحث نہ لایا جائے اور کسی ایسے طریق کو روانہ رکھا جائے۔ جس کے نتیجہ میں فتنہ اور اشتعال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ بلکہ تمام مواقع پر تقریر و تحریر میں انتہائی نرمی اور شفقت اختیار کی جائے۔ اور اعلیٰ اخلاص شرافت` مروت رواداری اور محبت کے طریق کو مدنظر رکھتے ہوئے خیالات کا اظہار کیا جائے۔
۲۔ اس عرصہ میں پاکستان کے اندر مباحثہ اور مناظرہ کے طریق کو بالکل بند کردیا جائے جماعتہائے احمدیہ اور افراد جماعت اس امر کی پوری احتیار کریں۔ کہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے ساتھ متنازعہ عقائد پر مباحثہ اور مناظرہ نہ کیا جائے۔ تبدیلی عقیدہ کی غرض سے جماعت کی طرف سے کوئی اقدام نہ کیا جائے اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ جماعت کی طرف سے اخبارات رسائل اور کتب میں احمدیہ عقائد کی تشریح اور توضیح پر کوئی روک ہوگی یا اعتراضات کا مناسب جواب نہ دیا جائے گا۔ لیکن کوئی غیر احمدی کی خریداری یا مطالعہ پر مجبور نہیں۔ اور نہ یہ مراد ہے۔ کہ شخصی گفتگو میں سوال کے جواب میں عقائد کی وضاحت سے پرہیز کیا جائے۔
سرکاری ملازم حکومت کی حدایات کی پوری پابندی کریں
‏tav.14.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
خاندان مہدی موعودؑ اور مرکز سلسلہ کے اہم واقعات
سرکاری آفیسروں اور ملازمین پر خصوصیت سے ان ہدایات کی پابندی لازم ہے۔ جو حکومت کی طرف سے ان کے متعلق جاری ہوں۔ اور جن امور میں ان پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کی جائے ان کی تعمیل میں سرمو فرق نہ آنا چاہئے۔ ایمان اور دیانت کا یہی تقاضا ہے۔ کہ جب کوئی شخص حکومت کی ملازمت اختیار کرتا ہے۔ تو ملازمت کا قبول کرنا ہی اس کی طرف سے عہد ہوتا ہے۔ کہ وہ اپنے فرائض کو سرگرمی اخلاص اور دیانت کے ساتھ ادا کرتا رہے گا اور حکومت کی جاری شدہ تمام ہدایات کی پوری پابندی کرے گا۔ اس عہد کی خلاف ورزی اسے حکومت کی طرف سے بھی قابل مواخذہ بناتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے روبرو بھی وہ جوابدہ ہوتا ہے اور اپنے ایمان اور تعلق باللہ کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کا اور امت محمدیہ کا حافظ و ناصر ہو۔ اور ہمیں اس راستہ پر قائم رکھے۔ جو اس کی رضا کا رستہ ہے آمین~ف۵~]ybod [tag
ریڈیو پاکستان کراچی کا نشریہ
۱۶ جون ۱۹۵۳ء کو ریڈیو پاکستان کراچی نے یہ خبر نشر کی کہ >حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے ایک اعلان میں جماعت احمدیہ کے افراد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے عام مجلسوں میں اعتقادی اختلافات کو زیر بحث نہ لائیں آپ نے فرمایا جماعت احمدیہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے جماعت کے ان افراد کے متعلق جو سرکاری ملازم ہیں آپ نے فرمایا کہ حکومت وقتاً فوقتاً جو ہدایات جاری کرتی رہتی ہے وہ ان سب پر عمل کریں۔~<ف۶text]~ ga[t
پاکستانی پریس میں بیان کی اشاعت
یہ مکمل بیان ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان )ا ب پ( کے ذریعہ >المصلح< )کراچی( کے علاوہ >ملت< لاہور )۱۸ جون ۱۹۵۳ء میں بھی شائع ہوا اور ملک میں اس کی خاصی شہرت ہوئی۔ حتیٰ کہ پنجاب کے بعض مشہور اخبارات نے بھی اس کا خیرمقدم کیا۔
)۱( روزنامہ >آفاق< لاہور مئورخہ ۲۱ جون ۱۹۵۳ء نے >قادیانیوں کے امام کا بیان< کے زیر عنوان حسب ذیل ادریہ سپرد قلم کیا۔
>قادیانیوں کے امام مرزا بشیر الدین محمود صاحب کا ایک بیان اخبارات میں آیا ہے۔ اس بیان میں مرزا صاحب نے نہایت شرح صدر کے ساتھ ان تمام شکوک و اعتراضات کو رفع کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ جو عام طور پر ان کی جماعت کے متعلق کئے جاتے ہیں اور دو جنہوں نے گزشتہ ایام میں ایک نہایت خطرناک صورت اختیار کرلی تھی۔ مرزا صاح کا ارشاد ہے کہ وہ
۱۔
رسول اللہ~صل۱~ کو خاتم النبین اور آپ کی شریعت کو آخری مانتے ہیں۔
۲۔
وہی اعتقاد رکھتے ہیں جو توحید` نبوت اور قیامت کے متعلق عام مسلمانوں کا ہے۔
۳۔
وہ۔ وہی اعمال بجا لاتے ہیں جو دوسرے مسلمان بجا لاتے ہیں۔
۴۔
وہ مسلمانوں کے خصوصاً اور عام انسانوں کے عموماً ہمدرد اور بہی خواہ ہیں۔
۵۔
وہ کلمہ گواہل قبلہ کو امت محمدیہ کا فرد اور جزو سمجھتے ہیں۔
یہ پنگانہ نکات اپنی جگہ بہت خوب ہیں اور انہیں پڑھ کر اکثر مسلمان ایک سے زائد بار سوچیں گے کہ اگر ان لوگوں کے عقائد یہی ہیں تو قدر مشترک بہت زیادہ ہے۔
لیکن مرزا صاحب اگر ان نکات کے ساتھ ہی ایک نکتہ کی وضاحت اور بھی فرما دیتے تو اختلافات کی وہ خلیج جو عام مسلمانوں اور ان کی جماعت کے درمیان دیر سے حائل ہے اور پچھے دنوں بہت وسیع ہوگئی تھی` بڑی حد تک پٹ سکتی تھی اور وہ نکتہ یہ ہے کہ جو مسلمانوں مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتے` ان کا مقام و منصب قادیانیوں کے نزدیک کیا ہے؟ قادیانی حضرات ان سے دین و دنیا کے معاملات میں ایسا تعاون کرسکتے ہیں جو باوجود فروعی اختلافات رکھنے کے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں نظر آتا ہے` اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر امام جماعت احمدیہ کا بیان بڑی حد تک موثر ہوجاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ خاتم النبین کے معنوی تصور میں قادیانی حضرات کونسی تاویل کرتے ہیں اس کا جواب مولانا عبدالماجد نے یہ دیا تھا کہ تاویل خواہ کیسی ہی رکیل ہو` کذب و انکار کے مترادف نہیں ہوتی۔ ہمیں معلوم نہیں کہ عامہ المسلمین کے نزدیک مولانا دریا بادی کا ارشاد کس حد تک قابل قبول ہے؟ لیکن مرزا غلام احمد کے نہ ماننے والے کے متعلق قادیانیوں کا نقطئہ نظر معلوم ہوجائے تو اختلاف کی حدیں بری حد تک سمٹ سکتی ہیں ورنہ اس بیان سے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ جس مقصد کے لئے یہ شائع کیا گیا ہے اسے بوجہ احسن پورا کرسکے گا بیننوا وتوجروا2] f~[stف۷~
۲۔ میاں محمد شفیع صاحب نے اخبار >آثار< )لاہور( ۲۰ جون ۱۹۵۳ میں لکھا:۔
>۶۳ سالہ۔ ذہین و فطین مرزا بشیرالدین محمود احمد نے مسلمانوں کے متعلق اپنی جماعت کے مئولف کی` ایک بیان میں وضاحت کی ہے۔ انہوں نے بانی سلسلہ اور جماعت کے مذہبیعقائد کی بھی اس بیان میں توضیح کی ہے۔
)کیا اچھا ہوتا کہ لاہور کے اخبارات میں اس بیان کا مفصل متن چھاپ دیتے تاکہ عوام اور خواص اسے پڑھ کر خود کوئی رائے قائم کرسکتے(
پاکستان کے مذہبی طبقوں کا اس بیان کے متعلق کیا ردعمل ہوگا؟ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میرے نزدیک اس بیان کا اہم ترین حصہ وہ ہے جس میں مرزا صاحب نے اپنی جماعت کے ارکان کو تلقین کی ہے کہ وہ تبدیلی عقیدہ کی غرض سے کوئی اقدام نہ کریں اور کہ وہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے ساتھ متنازعہ عقائد پر مباحثہ اور مناظرہ نہ کریں اور یہ کہ رسول اکرم~صل۱~ کو وہ خاتم النبین تسلیم کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان پر خدا کے جو احکام نازل ہوئے وہ آخری تھے~<ف۸~
۳۔ اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< نے لکھا:۔
‏]16 Gesture[p Welcome
‏a and beliefs Ahmadiyya the about statement detailed a issuing theIn controversies, religious all stop to community his to hasdirective Ahmad Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza movement, Ahmadiyya the of theHead of easing the towards contribution helpful most a made۔agitatoin Ahmadiyya ۔anti recent the of result a as created thebitterness by out chalked way the from breadth hair's an by even hisDeviation to according is, leader, Ahmadiyya the says Sunnah, and narbyQu upon looked are "Kalima" the recite who those All ۔sin a Holycreed, the of "Ummat" the of part and to belonging as community dispelhis to way long a go should declarations These ۔AhmadiesProphet the between differences are there That ۔misunderstandings۔true perfectly is points religius certain on Ulema orthodox the ptjerand among differences greater even great, equally are there beBut would there differences, those to in probing start we If sects,۔confusion of Babel a to reduced be dluow Pakistan and them to end ifno objective highest the is mind, our to "Milat", the of StateSolidarity nationat a weaken and solidarity national sacrifice To ۔ofIslam interpretation other no be should There ۔"Kufr" greatest the is۔mind our in clear quite are we ۔that And ۔Pakistan in "Kunfr" and AhmadiyyaIslam the that doubt We ۔teachings Qurainc the of essence the accordingis ۔who Ulema the pacify all at will clarifications Chief's۔Heaven in even about quarrel to something need would ۔Iqbal otthought for food find should opinion public of sections sensible differences,But our despite united, stand to learn we Unless ۔it punlgein can publing wire outside And ۔people free a as doomed are passionswe sectrian up working by configation, a into Pakistan۔sects two any between
1953) ۔6 ۔18 Lahore ۔Gazette" Military & ("Civil
خوش کن اقدام
)ترجمہ( جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے جماعت کے عقائد سے متعلق ایک مفصل بیان جاری کرکے مذہبی مناقشات کو دور کرنے اور حالیہ اینٹی احمدیہ تحریک کے ذریعہ پیدا کی گئی تلخی کو رفع کرنے کے لئے ایک نہایت مفید اقدام کیا ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے کہا ہے کہ قرآن مجید اور سنت کے طریق کار ے ذرہ بھر انحراف ان کے نزدیک گناہ ہے تمام کلمہ گو آپ کے اور آپ کی جماعت کے نزدیک مسلمان ہیں اور آنحضرت~صل۱~ کی امت میں شامل اور اس کا حصہ ہیں آپ کا یہ اعلان غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے ایک بہت ہی دور رس قدم ہے۔ یہ درست ہے کہ احمدیوں اور قدامات پسند علماء کے مابین بعض مذہبی امور میں اختلاف ہے تاہم دیگر فرقوں کے درمیان اس سے بھی بڑھ کر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم ان اختلافات کی چھان بین کرنے لگیں تو ان کی کوئی انتہاء نہ ہوگی اور پاکستان انتشار کا ملغوبہ بن کر رہ جائے گا۔
ہمارے خیال میں ملت کی یکجہتی اسلام کا سب سے بڑا مطمح نظر ہے اس قومی یک جہتی کو کھونا اور ملک کو کمزور کرنا سب سے بڑا کفر ہے۔ پاکستان میں اسلام اور کفر کی اس کے سوا کوئی توجیہہ نہیں ہونی چاہئے اور ہم اس بات کے کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہی قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ ہمیں شبہ ہے کہ احمدیہ جماعت کے سربراہ کی یہ تصریح ان علماء کرام کو تسلی دے سکے گی؟ جو علامہ اقبال کے نظریہ کے مطابق جنت میں بھی کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہوں گے جو جھگڑے کا باعث ہو۔ تاہم عوام کے اندر دانشور طبقہ کے لئے اس میں یقیناً لمحہ فکریہ کی گنجائش ہے۔
جب تک ہم اپنے تمام اختلافات کے باوجود متحد نہیں ہوجاتے` ایک آزاد قوم کے حیثیت سے ہمارا مستقبل مخدوش ہوجائے گا بیرونی دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی دو فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ اشتعال پھیلا کر پاکستان کو ایک نہ بھجنے والی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔
بعض دوسری شخصیات کے تاثرات
پاکستان کے ایک معروف اہل قلم جناب ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے لکھا:۔
جماعت احمدیہ کے موجودہ امام جناب میاں محمود احمد صاحب غیر معمولی فہم و فراست اور علم و تدبر کے مالک ہیں۔ نزاکت وقت کو محسوس کرتے ہوئے آج سے ایک ہفتہ پہلے )جون ۱۹۵۳ء کے آخر میں( آپ نے ایک طویل بیان اخبارات کے حوالے کیا جس میں اعلان فرمایا:۔
اول:۔ کہ ہم مسلمان ہیں۔ دیگر مسلمان سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارا رسول ایک` کتاب ایک` قبلہ ایک` تمدن ایک` روایات ایک اور سب کچھ ایک۔
یہ ایک نہایت مبارک اقدام ہے۔ اللہ کرے کہ احمدی و غیر احمدی کے مصنوعی اختلافات ختم ہوجائیں اور ہم سب مل کر پاکستان کے استحکام اور قرآنی اقدار کے احیاء کے لئے کام کریں۔
گزشتہ ستر برس میں احمدی کو غیر احمدی سے جدا کرنے کے لئے کئی ہزار صفحات سپرد قلم ہوئے اور انہیں ملانے کے لئے شاید ایک لفظ بھی کسی زبان سے نہ نکلا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے جنازے اور نمازیں ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں۔ رشتے کٹ گئے اور کفر و اسلام کے پہاڑ درمیان میں حائل ہوگئے۔ جناب مرزا میاں محمود احمد صاحب کا یہ بیان اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مصالحت کی طرف یہ پہلا جر¶ات مندانہ قدم ہے۔~<ف۹~
۱۹۵۳ء کی احراری تحریک کے سرگرم لیڈر اور اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خاں صاحب نے تحقیقاتی عدالت میں بیان دیا کہ:۔
>احمدیوں نے۔۔۔۔۔ اپنے تحریری بیان میں جو اعلانات کئے ہیں اور جنہیں مئی ۱۹۵۳ء میں جس طرح شائع کیا گیا۔ ان سے تنازعہ ختم ہوجاتا ہے اور احمدیوں کو اب دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر احمدیوں کے خلاف تحریک دبارہ شروع ہو تو میں اس میں یقیناً شامل نہیں ہوں گا۔~<ف۱۰~
حوالہ جات
~ف۱~
>المصلح< کراچی ۲ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۲~
المصلح ۹ ہجرت ہشہ ۱۳۳۳۲ء )۹ مئی ۱۹۵۳ء( صفحہ ۲
~ف۳~
۳۷ گ۔ب متصل ستیانہ بنگلہ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور کے احمدی مراد ہیں )بروایت مولانا محمد اسماعیل صاحب دیالگڑی( سابق مبلغ لالپور )فیصل آباد(
~ف۴~
متن میں مسجد کا لفظ ہے )ناقل(
~ف۵~
روزنامہ المصلح کراچی مورخہ ۱۸ اہسان ہشہ ۱۳۳۳۲ء ۱۸ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۳۔ ۸ الفضل ۲ احسان ہشہ ۱۳۳۳۵ء` ۱۹۵۶ صفحہ ۳
~ف۶~
روزنامہ المصلح )کراچی( ۱۷ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۱
~ف۷~
آفاق ۲۱ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۳
~ف۸~
>آثار< لاہور ۲۰ جون ۱۹۵۳ء صفحہ ۳ >لاہور کی ڈائری< )اخبار کے مینجنگ ایڈیٹر مولوی اختر علی خاں(
~ف۹~
حرف محرمانہ مئولفہ ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق صفحہ ۱۴` ۱۵ سن اشاعت ۱۹۵۴ء بہ اہتمام شیخ نیاز حمد پرنٹر و پبلشر علی پرنٹنگ پریس ہسپتال روڈ لاہور۔]~[ف۱۰~
اخبار ملت )لاہور( ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ کالم ۴
‏tav.14.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
حصہ سوم
تحقیقاتی عدالت میں
وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
اور
حضرت مصلح موعود کا
بصیرت افروز بیان اور اس کے اثرات
پہلا باب
فسادات پنجاب کی تحقیقات کیلئے عدالت کا قیام][گورنر پنجاب جناب میاں امین الدین صاحب نے ۱۹ جون ۱۹۵۳ء کو ایک آرڈیننس جاری کیا۔ جس کے تحت فسادات پنجاب کی تحقیقات کے لئے ایک عدالت قائم کیا۔ اور چیف جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم۔ آر کیانی کو اس کا ممبر مقرر کیا گیا۔ اور ہدایت کی گئی کہ وہ مندرجہ ذیل امور کی چھان بین کریں:۔
۱۔
وہ کیا کوائف تھے جن کی وجہ سے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء کا اعلان کرنا پرا۔
۲۔
فسادات کی ذمہ داری کس پر ہے؟
۳۔
صوبے کے سول حکام نے فسادات کے حفظ ماتقدم یا تدارک کے لئے جو تدابیر اختیار کیں` آیا وہ کافی تھیں یا ناکافی؟
عدالت نے اپنے دائرہ تحقیقات میں شروع میں ہی غیر معمولی وسعت پیدا کرلی اور حکومت پنجاب` صوبہ مسلم لیگ` مجلس احرار` مجلس عمل اور جماعت اسلامی کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کو بھی کاروابی عدالت میں فریق بنا لیا۔ اور ہدایت کی کہ وہ تحققیات کے دائر شرائط کے متعلق تحریری بیانات داخل کریں جن میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
تحقیقاتی عدالت نے دوران تحقیقات متعلقہ اداروں سے مندرجہ ذیل دس سوالات کے جوابات بھی طلب کئے۔
۱۔
ظہور مسیح و مہدی کا ذکر قرآن مجید اور احادیث میں۔
۲۔
کیا مسیح جن کا آئندہ ظہور تسلیم کیا گیا ہے وہی عیسیٰ بن مریم ہوں گے یا کوئی اور؟
۳۔
)الف( کیا مسیح اور مہدی کا درجہ نبی کا ہوگا؟ )ب( انہیں وحی و الہام بھی ہوگا؟
۴۔
کیا ان میں سے ایک یا دونوں قرآن یا سنت کے کسی قانون کو منسوخ کریں گے؟
۵۔
پیغمبر کو کس طریق پر وحی آئی تھی۔ اور کیا حضرت جبرائیل مرئی صورت میں آنحضرت~صل۱~ کے سامنے آتے تھے؟
۶۔
آل مسلم پارٹیز کنونشن نے خاتم الانبیاء کی جو تشریح اور وضاحت کی ہے کیا وہ مسلم عقیدہ کا ہمیشہ جزو رہی ہے؟
۷۔
قرآن اور سنت کے وہ حوالے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی سیاسی اور مذہبی نظام میں غیر مسلموں کو ایک غیر ملکی عنصر کے طور پر قرار دیا گیا ہے۔اور اگر ایسا ہے تو جس حد تک ان کو الگ رکھا گیا ہے اس کی تائید میں تاریکی حوالے پیش کئے جائیں۔ اسی طرح اس پر روشنی ڈالی جائے کہ کیا غیر مسلموں کو پبلک میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت تھی یا نہیں؟ اور کس حد تک ایک قوم یا فرد کے گناہ دوسری قوم یا فرد پر ڈالے جاسکتے ہیں؟
۸۔
ڈائریکٹ ایکش کا جواز
۹۔
احمدیوں کی مطبوعات جو عامہ المسلمین کے مذہبی جذبات و احسانات کی توہین کرتی ہیں۔
۱۰۔
دیگر مسلمانوں کی مطبوعات جن سے احمدیوں کے عقائد کی توہین ہوتی ہے۔
ان دس سوالات کے علاوہ جو تمام متعلقہ جماعتوں سے کئے گئے تحقیقاتی عدالت نے بالخصوص صدر انجمن احمدیہ کو ضابطہ کی کاروائی کے آغاز ہی میں حسب ذیل سات سوالات کے تحریری جوابات داخل کرنے کی ہدایت کی:۔
سوال نمبر۱:۔ جو مسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نبی بمعنیٰ ملہم اور مامورین اللہ نہیں مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں؟
سوال نمبر۲:۔ کیا ایسے شخص کافر ہیں؟
سوال نمبر۳:۔ ایسے کافر ہونے کے دنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں؟
سوال نمبر۴:۔ کیا مرزا صاحب کو رسول کریم~صل۱~ کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا ہے۔
سوال نمبر۵:۔ )ا( کیا احمدیہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہ ایسے اشخاص کا جنازہ جو مرزا صاحب پر یقین نہیں رکھتے Infructious ہے۔
)ب( کیا احمدیہ عقائد میں ایسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود ہے؟
سوال نمبر۶:۔ )ا( کیا احمدی اور غیراحمدی میں شادی جائز ہے؟
)ب( کیا احمدی عقیدہ میں ایسی شادی کے خلاف ممانعت کا کوئی حکم موجود ہے؟
سوال نمبر۷:۔ احمدیہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی Siginficance کیا ہے؟
تحقیقاتی عدالت کی طرف سے درج ذیل مزید دس سوالات کے جوابات صدر انجمن احمدیہ ربوہ کو داخل کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ سوالات دوسرے فریقوں کے تحریری بیانات کی روشنی میں مرتب کئے گئے تھے:۔
۱۔
انہوں نے اسلام میں امتیوں پر وحی اور نزول جبرائیل کے وجود کو تسلیم کیا ہے حالانکہ نہ غیر نبی پر وحی نازل ہوسکتی ہے نہ بعد رسول کریم~صل۱~ کے جبرائیل نازل ہوسکتا ہے۔ ایسے عقیدے والا رسول کریم صلعم کی ہتک کرتا ہے۔
۲۔
انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کی ہے
۳۔
انہوں نے مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور مسیح ناصری کی وفات کا اعلان کرکے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے۔
۴۔
انہوں نے ایک نئی امت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج ازاسلام کہا ہے اس لئے مسلمانوں کو اشتعال آتا ہے۔
۵۔
انہوں نے اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکا ہے ان کا جنازہ پڑھنے سے روکا ہے اور ان کو لڑکیاں دینے سے روکا ہے۔
۶۔
انہوں نے ایک غیرمسلم حکومت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے اور اس کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔
۷۔
انہوں نے مسلمان حکومتوں اور مسلمان تحریکوں سے کبھی ہمدردی نہیں کی۔
۸۔
‏ind] ga[tانہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوص سخت گالیاں دی ہیں۔
۹۔
انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوششیں کیں مثلاً ربوہ بنایا۔
۱۰۔
احمدی پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں۔
نازک مرحلہ
یہ مرحلہ کئی اعتبار سے فسادات کے ایام سے بھی بڑھ کر نازک` بلکہ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں جماعت احمدیہ کے لئے >موت اور زندگی کا سوال~<ف۱~ تھا۔ جب کے دو پہلو ابتداء ہی میں تشویش پیدا کررہے تھے:۔
اول:۔ تحقیقاتی عدالت کے اعلان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس تحقیقات کا مقصد اس سے زیادہ سمجھتی ہے جتنا کہ حکومت کے ابتدائی اعلان سے ظاہر ہوتا تھا اور اس نوعیت کی تحقیقات میں یہ زبردست خطرہ تھا کہ بعض لوگ حقائق کو بگاڑ کر اس انکوائری کو مذہبی اختلافات اچھالنے کا موجب ہی نہ بنادیں۔ خصوصاً جبکہ یہ دونوں فاضل جج صاحبان اپنے مسلک کے اعتبار سے احمدیت سے اختلاف رکھتے تھے۔
دوم:۔ عوام میں علماء نے ایک خاص منصوبے کے تحت جماعت احمدیہ کے خلاف بغض و عناد کا زہر بھر دیا تھا۔ اور مارشل لاء میں ماخوذ علماء اور زعماء کی نظر بندی کو احمدیت کے خلاف نفرت اور اشتعال پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا اور تمام جماعتیں اس روح کے ساتھ مجتمع ہوگئیں کہ تحقیقاتی عدالت میں احمدیوں کو فسادات کا ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں غیرمسلم افلیت قرار دلوا دیا جائے۔ چنانچہ جناب سید یزدانی جالندھری کا بیان ہے کہ:۔
>مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں احمدیوں کے خلاف فرقہ وار فساد ہوا۔۔۔۔۔ احمدو کے خلاف فرقہ ور فساد تو مارشل لاء نے چند لمحوں میں ختم کردیا۔ جہاں تک آئندہ کا تعلق تھا مستقبل قریب میں کوئی نیا فرقہ وار فساد کرا سکنا ان کو ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس لئے کچھ منفی طبع مولوی بہت پریسنا تھے۔ اور اسی قسم کے نئے امکانات پیدا کرنے کی سوچ رہے تھے کہ اتنے میں خبر آئی کہ حکومت نے احمدیوں کے خلاف برپا شدہ فسادات کی تحقیقات کے لئے ہائی کورٹ کے دو حج >منیر انکوائری کمیٹی< کے نام سے مقرر کردیئے ہیں جن کے سامنے ہر مکتب فکر کے مولویوں کو اپنا نقطئہ نگاہ پیش کرنے کی عام اجازت ہوگی۔ اس سے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ اب احمدیوں کو دائرہ اسلام سے آئینی طور پر خارج قرار دلانے کا موقعہ ہاتھ آگیا ہے۔ کچھ مولویوں نے خود اپنے درمیان شدید اختلاف عقائد رکھتے ہوئے اس منفی کام کے لئے منظم ہونا قبول کرلیا اور وقت آنے پر اس کمیٹی کے روبرو پیش ہونے لگے۔
مولانا محمد علم الدین سالک بری سختی سے حنفی عقائد کے پابند تھے اور عقائداً احمدیوں سے شدید اختالف رکھتے تھے اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔ ایک دن ایک مولوی صحب جو اتفاق سے دیو بندی بھی تھے۔ مولانا کے پاس تشریف لے گئے اور درخواست کی کہ انکوائری کمیٹی کے ہاتھوں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلانے کے لئے وہ اس کمیٹی کے روبرو خود پیش ہوں اور اپنے دوسرے رفقاء علماء کو بھی ایسا کرنے کے لئے کہیں بعد میں مولانا نے جو کچھ بتایا اس کے مطابق ان مولوی صاحب اور مولانا کے درمیان حسب ذیل گفتگو ہوئی۔
مولانا علم الدین سالک مرحم۔ >میں آپ کے ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ لیکن آپ یہ فرمائیں کہ آپ کی اور میری کوشش سے اگر احمدی خارج از اسلام قرار دے دیئے جائیں تو کیا تمام عالم اسلام کی تطہیر ہوجائے گی اس کے بعد کوئی کافر عنصر مسلمانوں میں باقی تو نہیں رہ جائے گا۔ غیر ممالک میں احمدی تبلیغی مشنوں کے بدلے کیا انتظام ہوگا۔
مولوی صاحب۔ نہیں۔ یہ تو ہماری ابتداء ہے انشاء اللہ رفتہ رفتہ ہم سب کافر عناصر کو مسلمانوں سے خارج کرا لیں گے۔ پہلے احمدیوں سے نپٹ لیں۔ دوسروں کی پھر سوچیں گے۔
مولانا علم الدین سلاک مرحوم۔ شیعوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ ان کو مسلمانوں میں شامل رہنے دیں گے؟
مولوی صاحب۔ ہم سمجھتے ہی کہ احمدی لوگ ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ مگر وہ بانی جماعت احمدیہ کو امتی نبی اور تابع شریعت محمدی بتا کر اپنے حق میں کچھ منطقی صورت پیدا کرلیتے ہیں۔ شیعہ فرقہ >امام< کو نبی سے بڑا مانتا ہے۔ اور وہ امام کی آمد کا منتظر ہے اس سے حصور سرور کائنات کی دوہری توہین ہوتی ہے۔ یعنی اس کے عقیدہ کے مطابق امام ضرور آئے گا اور امام نبی سے بڑا ہوگا۔ چنانچہ حضرت نعمت اللہ شاہ~ف۲~ ولی نے محض اس بناء پر صرف شیعہ فرقہ کو منکر ختم نبوت قرار دے کر کافر گردانا ہے۔ شیعوں کے بعد اہل حدیث کا نمبر آتا ہے یہ فرقہ حضور سرور کائنات کے مقام کو گھٹاتا اور قبروں کی عزت سے منع کرتا ہے۔ ان قبروں میں حضور سرور کائناتﷺ~ اور صحابہ اجمعین کے روضے بھی آتے ہیں۔ پھر اس فرقہ کو کس طرح مسلمان شمار کیا جاسکتا ہے؟ پس مسلمانوں کی مکمل تطہیر اس وقت ہوگی جب احمدی` شیعہ` اہلحدیث تینوں فرقہ غیر اسلام اقلیتیں بنا دی جائیں گی۔ لیکن اس کام کی ابتداء احمدیوں سے ہونی چاہئے<
مولانا علم الدین سالک فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کی گفتگو جب اس مقما پر پہنچی تو مجھے خیال آیا کہ دیو بندی فرقہ نے بڑے بڑے جید علماء پیدا کئے جنہوں نے اسلام کی عظمت کو چار چاند لگائے اور اب بھی اس کے ایسے علماء موجود ہیں یہ مولوی صاحب خود بھی دیو بندی ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ ایک دوسرے دیو بندی مولوی صاحب سے ان کی شدید دشمنی ہے اس لئے میں نیمولوی صاحب سے کہا:۔
>غالباً آپ نے مسلمانوں کے تمام عقائد پر غور نہیں کیا ورنہ شائد آپ بریلوی فرقہ کو بھی غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں ہوتے۔ خیر اس بات کو چھوڑیئے۔ آپ یہ فرمائیں کہ فلاں )دیو بندی( مولوی صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان کو مسلمانوں کے زمرہ میں رہنے دیا جائے۔<
اس پر مولوی صاحب بہت جزنر ہوئے اور فرمایا:۔
>اس مولوی میں ایمان کا یکسر فقدان ہے۔ اس سے بھی نپٹ لیں گے مگر سب کے بعد بات اس وقت احمدیوں کی ہورہی ہے۔ آپ ان کے خلاف گواہی دیجئے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دلا کر مسلمانوں کی تطہیر کا آغاز کرا دیجئے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے گا۔<
مولانا علم الدین سلاک فرمانے لگے میں نے مولوی صاحب کی گفتگو سے دو نتیجے اخد کئے۔
۱۔
عقائد کی بناء پر مسلمانوں کے کسی فرقہ کو بھی ائینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو تخریب اسلام کی یہ ابتداء ہوگی۔ آئندہ مختلف موقعوں پر کوئی اسلامی فرقہ اس قسم کی انتقامی کاروئی سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ جس سے عالم اسلام انتشار کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔
۲۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلا وار احمدیوں پر ہے۔ اس لئے احمدی فرق دوسرے فرقوں الخصوص شیعہ اور اہل حدیث کے درمیان ایک بفر سٹیٹ State) (Buffer کی حیثیت رکھتا ہے۔ احمدی مغلوب ہوگئے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ تو اس کے بعد دوسرے دو فرقوں کی شامت آنا ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے مولوی صاحب سے معذرت کر دی کہ میں گواہ کے طور پر پیش نہیں ہوسکتا۔ اس منفی کام میں مجھے علیحدہ ہی رہنے دیجئے۔~<ف۳~
بالکل اسی قسم کا ایک واقعہ جناب ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایم۔ اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی۔ نے اپنے رسالہ >اقبال اور ملا< میں درج کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
>پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے ہیں میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے فتویٰ دیا کہ ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں۔ ایک اور فرقے کی نسبت پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں فرمایا کہ وہ سب واجب التل ہیں۔ یہی عالم ان تیس بتیس علماء میں پیش پیش اور کرتا دہرتا تھے۔ جنہوں نے اپنے اسلامی مجوزہ دستور میں یہ لازمی قرار دیا کہ ہر اسلامی فرقے کو تسلیم کر لیا جائے سوائے ایک کے جس کو اسلام سے خارج سمجھا جائے۔ ہیں تو وہ بھی واجب القتل` مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جھاد فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شروع کیا ہے اس میں کامیبی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی۔~<ف۴~
لاہور میں ذیلی دفتر کا قیام
صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے معاملہ کی نزاکت و اہمیت کے پیش نظر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی )واقع ٹمپل روڈ لاہور( کے اندر ایک دفتر قائم کردیا۔ ان دنوں قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ تھے اور حضرت مصلح موعود نے تحقیقاتی عدالت کے سے متعلقہ امور کی نگرانی آپ ہی کے سپرد فرما رکھی تھی۔ آپ نے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ کی معیت میں اپنے اہم فرائض کو ساتھ آٹھ ماہ تک جس بصیرت` خوش اسلوبی اور جانفشانی سے ادا کیا اس کا اندازہ صرف وہی مخلصین جماعت لگا سکتے ہیں جنہیں اس زمانے میں آپ کے ماتحت کام کرنے کا موقعہ نصیب ہوا۔ علاوہ ازیں اس دور کے ریکارڈ میں آپ کے قلم مبارک سے جو ہدایات اور ارشادات اور خط و کتابت موجود ہے اس سے قطعی طور پر پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حضرت المصلح الموعود کے احکام کی بجا آوری میں جزئیات اور تفصیلات تک کو بھی ملہوظ رکھا ہے بلاشبہ یہ ایک عظیم معرکہ تھا جس میں آپ کی عظیم اشان خدمات ہمیشہ زریں الفاظ سے لکھی جائیں گی۔
جناب منظور احمد صاحب~ف۵~ قریشی کا تحریری بیان ہے کہ:۔
>جماعت احمدیہ نے جن دنوں اپنا کیس تحقیقاتی عدالت کے روبرو پیش کیا میں اس زمانہ میں چوک نسبت روڈ لاوہر پر بطور ٹائپسٹ کام کرتا تھا۔ ہماری جماعت نے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور کی کوٹھی واقع ۱۳۔ ٹمپل روڈ لاہور میں اپنا دفتر قائم کیا ہوا تھا۔ جماعت کو بعض ٹائپسٹ کی ضرورت پیش آئی تو لاہور سے مجھے اور ایک اور صاحب خلیل احمد قریشی )پنجاب سیکرٹریٹ( کو اور ربوہ سے حس محمد خاں صاحب عارف کو بلوایا گیا۔
ہم روزانہ صبح کوٹھی پر پہنچ جاتے تھے۔ ہمیں مسودہ دیا جاتا تھا اور ہم اسے ٹائپ کرتے جاتے تھے اورپھر اصلاح کرکے دوبارہ ٹائپ کرایا جاتا تھا۔ ٹائپ شدہ مسودہ پر حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات وغیرہ نظر ثانی فرماتے اور تصحیح و ترمیم اور اضافہ کے بعد اسے دوبارہ ٹائپ کیا جاتا تھا۔ یہ کام رات گئے تک ہوتا رہتا تھا۔ تقریباً دس رو زتک یا زیادہ ہم صبح سے شام تک کام کرتے رہتے تھے۔
ہم تینوں نے تمام ٹائپ کا کام ہاتھ میں لے لیا۔ مسودے بنتے رہے اور ٹائپ ہوتے رہے۔ مگر جو بیان صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے دائر ہونا تھا وہ میرے حوالے کیا گیا اور میں نے اسے بہت ہی احتیاط سے ٹائپ کیا اور وہی داخ عدالت کیا گیا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لاہور نے میری بہت تعریف کی اور میرے کام کو بہت پسند فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے یہ سعادت عطا کی اور مجھے ان بزرگوں کی دعائوں میں شامل کیا۔
محترم شیخ صاحب نے مجھ سے کئی مرتبہ ٹائپ کا معاوضہ لینے کے لئے اصرار فرمایا لیکن میں نے قطعی انکار کردیا کہ یہ سلسلہ کا مبارک کام تھا اور اس کے ثواب میں حصہ دار ہونا میرے نزدیک ایک عظیم سعادت تھی۔~<ف۶~
حصرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
‏sub1] [tagسیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آج شیخ بشیر احمد صاحب کا خط لاہور سے آیا ہے کہ کام کی سہولت کے لئے مختلف شعبوں کے انچارج نامزد ہوجانے چاہئیں تا ذمہ داری کا زیادہ احساس ہو اور باہم تعاون بھی رہے۔
انتظام تو پہلے سے موجدو ہے لیکن اگر حضور پسند فرماویں تو کا زیادہ تعین کے ساتھ مندرجہ ذیل تنظیم جاری کردی جائے؟
۱۔
مرکزی دفتر کا انچارج ناطر اعلیٰ بمعیت ناظر امور خارجہ
)ارشادات حضرت مصلح موعود >درست ہے(<
۲۔
مقدمہ کی قانونی پیروی کے انچارج شیخ بشیر احمد صاحب بمعیت چوہدری اسد اللہ خان صاحب جو شیخ صاحب کی غیر حاضری میں انچارج بھی ہوں گے۔ عمومی نائب خادم~ف۷~ صاحب ہوں گے۔ >درست ہے بشرطیکہ میری سکیم میں رخنہ نہ پڑے۔<
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
۳۔
دینی اور علمی حوالہ جات و تبصرہ جات کے انچارج شمس صاحب~ف۸~ بمعیت مولوی ابو العطاء صاحب و مولوی صدیق صاحب۔ خادم صاحب بھی حسب ضرورت امداد کریں گے۔
‏left] gat>)[درست ہے< ارشاد حضرت المصلح الموعود(
۴۔
دفتر کے انچارج چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب۔ نقول کے حصول کا کام بھی انہی کے سپرد ہوگا۔
>)دست ہے< ارشاد حضرت مصلح موعودؑ(
۵۔
تمام کام حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ کی ہدایات کے ماتحت اور حضور کے استصواب کے ساتھ کیا جائے گا۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۱۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
شیخ بشیر احمد صاحب کے ایک سابقہ خط کی بناء پر تنظیم اور تقسی کار کے متعلق حضور کی ہدایات کی روشنی میں اک نوٹ تیار کرکے جملہ کارکنان کی خدمت میں بھجوایا گیا ہے۔ اس پر شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے تازہ خط مئورخہ ۲۳ اگست ۱۹۵۳ء میں دو امور کے متعلق مزید وضاحت چاہی ہے تاکام میں مزید سہولت پیدا ہونے کا رستہ کھلے۔
۱۔ پہلی بات شیخ صاحب یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ وہ مقدمہ کی قانونی پیروی کے انچارج ہیں اور انہوں نے عدالت میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیروی کرنی ہوتی ہے اس لئے اس امر کی صراحت ہونی چاہئے کہا گر کسی امر میں قانونی تکمیل کی غرض سے شیخ صاحب کوئی بات شمس صاحب یا چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب سے کہیں تو وہ اس کی تعمیل کریں تاکام میں روک اور تعویق نہ پیدا ہو۔
میرے خیال میں یہ درست ہے اس کی صراحت کردینی چاہئے باقی رہا دینی امور کی حفاظت کا سوال سودہ ذیل کے حصہ میں آجاتی ہے۔
۲۔ دوسری وضاحت یہ چاہتے ہیں کہ شیخ صاحب کی قانونی قیادت کے متعلق جو حضور کا یہ نوٹ ہے کہ:۔
>درست ہے بشرطیکہ میری سکیم میں رخنہ نہ پڑے۔<
اس سے کیا مراد ہے تاشیخ صاحب پوری پابندی اختیار کرسکیں سو اس کے متلق بھی بات واضح ہے کہ حضور کی طرف سے اس وقت تک جو ہدایات جاری ہوچکی ہیں یا آئندہ ہوں وہی حضور کی سکیم ہے مثلاً:۔
)الف( عدالت کے سامنے کے جواب میں جو کچھ حضور کی منظور کے بعد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس کی روح اور مقصد کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔
)ب( جماعت اور خلافت کے وقار کے خلاف کوئی بات نہ کہی جائے۔
)ج( اگر فریق مخالف کی طرف سے کوئی مزعومہ تضاد حضور اور حضرت مسیح موعودؑ کے بیانات میں پیش کیا جائے یا حضور کی اپنی تحریروں اور اعلانوں میں کوئی مزعومہ تضاد پیش کیا جائے تو ایسے تضاد کو تسلیم نہ کیا جائے اور بہرحال ایسے امر کا جواب حضور سے پوچھ کردیا جائے۔
)د( دینی اور مذہبی امور اور حوالہ جات کو پی شکرتے ہوئے چوہدری اسد اللہ خان صاحب کو آگے کردیا جائے یا وہ نہ ہوں تو خادم صاحب اور شمس صاحب کے مشورہ سے کام کیا جائے۔
وغیرہ وغیرہ مطابق ہدایت بالا کہ کوئی بات حضور کی کسی جاری شدہ ہدایات کے خلاف نہ ہو۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۲۹
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
>مرے نزدیک تو ٹھیک جواب ہے۔<
شیخ صاحب` چوہدری اسد اللہ خان صاحب` درد صاحب` خادم صاحب` شمس صاحب اور چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب کے نام ہدایت جاری کی گئی۔
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۳۰
جماعت احمدیہ کا لائحہ عمل
تحقیقاتی عدالت کے طریق کار کی روشنی میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ابتداء ہی میں ایک مفصل لائحہ عمل مرتب کر لیا تھا جو حسب ذیل الفاظ میں تھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
‏]head1 [tagتحقیقاتی کمیشن برائے گزشتہ فسادات کے متعلق جماعت احمدیہ کا لائحہ عمل
جون و جولائی ۱۹۵۳ء
حکومت پنجاب نے جو تحقیقاتی کمیشن گزشتہ فسادات کے بارے میں تحقیق کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ اور کمیشن نے اپنے کام کے متعلق جو طریق کار تجویز کرکے شائع کیا ہے۔ اس کے ماتحت کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ کی صحیح پوزیشن واضح کرنے اور جماعت کی مظلومیت کو آشکار کرنے کے لئے مندرجہ ذیل لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔
۱۔ پنجاب کے جن اضلاع میں فسادات کا زور رہا ہے اور جماعت کے افراد کے خلاف عملی اقدامات کرکے جانوں یا مالوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ )یعنی لاہور` فائل` سیالکوٹ` گوجرانوالہ راولپنڈی` ملتان اور منٹگمری( ان کے امراء کو پہلے بھی لکھا جاچکا ہے اور مزید تاکید سے لکھا جائے کہ وہ اپنے علاقہ میں فسادات کے وجبات )قریب و بعید( اور فسادات کی نوعیت اور فسادات کے دوران میں جماعت احمدیہ کے جانی اور مالی نقصانات وغیرہ وغیرہ کے بارے میں مکمل اور تفصیلی رپورٹ کریں۔ یہ رپورٹ ۱۰ جولائی ۱۹۵۳ء تک ضرور مرکز میں پہنچ جائے۔ اس رپورٹ میں مخالفوں کی کاروایوں اور ریشہ روانیوں اور اشتعال انگیزیوں اور ان کے نتائج کو اچھی طرح بے نقاب کیا جائے۔ اور نیز بتایا جائے کہ کون کون لوگ اس فتنہ میں پیش پیش رہے ہیں۔
۲۔ خاص آدمی مقرر کر کے مخالفوں کے اخبارات اور رسائل وغیرہ سے ایسی تحریریں معہ ضروری حوالہ جات جمع کی جائیں جن میں جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز پراپیگنڈا کیا گی اہو۔ اور افراد جماعت کے خلاف عوام الناس کو ابھارا اور اکسایا گیا ہو۔ ایسے حوالہ جات خصوصیت سے ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء سے تعلق رکھنے والے جمع کئے جائیں تا مخالفوں کی اشتعال انگیزی بالکل عریاں ہوجائے نیز حضرت امام جماعت کو جو دھمکی آمیز خطوط آتے رہے ہیں اور ان میں سے بعض کی رپورٹ حکومت کو بھجوائی جاتی رہی ہے اس کا ریکارڈ جمع کیا جائے۔
۳۔ صیغہ نظارت امور عامہ و خارجہ ربوہ اپنے ریکارڈ سے مدد لینے کے علاوہ اوپر کی ہر دو قسم کے مواد سے مدد لے کر کمشن کے اعلان کے مطابق دو قسم کی مفصل رپورٹیں تیار کرے جن میں سے اکی رپورٹ میں فسادات کے موحیات اور محرکات اور بواعث )قریب و بعید( کی مکمل تشریح اور تعین درج کی جائے۔ اور جماعت کی مظلومیت کو آشکارا کیا جائے اور بتایا جائے کہ ختم نبوت وغیرہ کے مقدس عقیدہ کو )جس پر جماعت احمدیہ دل و جان سے ایمان لاتی ہے( محض اکی بہانہ بنایا گیا ہے۔ ورنہ مخالفین کی اصل غرض جماعت احمدیہ کے خلاف عوام الناس کو اکسا کر اپنے مخصوص مفاد حاصل کرنا اور جماعت کو نقصان پہنچانا تھی۔ حالانکہ جماعت احمدیہ ختم نبوت کے عقیدہ پر پورا پورا ایمان لاتی ہے۔ اور ساٹھ ستر سال اپنے عقائد کی معقول تشریح پیش کرتی چلی آئی ہے۔ یہ بھی اشارہ کردیا جائے کہ مجلس احرار کی اصل غرض پاکستان کو کمزور کرنا اور ہندوستان کے لئے رستہ صاف کرنا تھی دوسری رپورٹ میں گزشتہ فسادات میں جماعت کے جانی و مالی نقصانات کی تفصیل صحیح صحیح صورت میں پیش کی جائے یہ دو رپورٹیں ۱۰ جولائی ۱۹۵۳ء تک مکمل ہوکر ان پر بحث ہوجانی چاہئے۔ اس لئے یہ کام بلا توقف شروع کردینا چاہئے۔
۴۔ نظارت امور عامہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش ہونے کے لئے ایک قابل وکیل مقرر کرے۔ )چوہدری اسد اللہ خان صاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب یا کوئی اور( جو مکمل تیاری کے بعد جماعت کی طرف سے مقرر تواریخ پر پیش ہو۔ اس وکیل کی مدد کیلئے دو جونیئر وکیل )چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب اور شیخ نور احمد صاحب( بطور سو لیسٹر مقرر کئے جائیں۔ جو تمام ضرور ریکارڈ اور شہادات ¶کا مطالعہ کرکے وکیل کی بحث کے لئے مواد تیار کرے۔ حسب ضرورت ملک عبدالرحمن صاحب خادم سے بھی مدد لی جائے۔
۵۔ جماعت کی طرف سے چند سمجھ دار اہل الرائے اور باحیثیت اصحاب کو بطور گواہ تیار کیا جائے جو کمیشن کے سامنے پیش ہوکر فسادات کے موجبات اور تفصیلات اور جماعت کے نقصانات وغیرہ کے بارے میں شہادت دیں۔ اس گواہی کے لئے ناظر صاحب امور عامہ )درد صاحب( میاں ناصر احمد صاحب۔ شیخ نور احمد صاحب` چوہدری اسد اللہ خان صاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب )یعنی ان دونوں میں سے جو بطور وکیل مقرر ہو اس کے علاوہ دوسرا( چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ سیالکوٹ` شیخ محمد احمد صاحب لائلپور` میر محمد بخش صاحب گوجرانوالہ` میاں عطاء اللہ صاحب پنڈی` چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری )برائے اوکاڑہ( اور ملتان کا کوئی نمائندہ۔ مثلاً عبدالرحمن صاحب کلاتھ مرچنٹ یا میاں عبدالرحیم صاحب پراچہ اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم` درد صاحب اور خادم صاحب عمومی گاہ ہوں گے اور باقی اپنے اپنے علاقہ کے مخصوص گواہ ہوں گے۔ ان کی طرف سے بروقت درخواست بھجوا دینی چاہئے۔ اسی طرح اگر کوئی باحیثیت شریف غیراحمدی گواہ مختلف علاقوں سے تیار کئے جاسکیں تو اس کے لئے ضروری کوشش کی جائے۔ ایسے لوگوں کی جماعت کے حق میں گواہی بہت مفید ہوسکتی ہے۔ ایسے احباب اپنی شہادت براء راست پیش کریں۔
۶۔وکلاء اور گواہ صاحبان تیاری میں مندرجہ ذیل امور کو خصوصیرت سے مدنظر رکھیں۔
)الف( فسادات کا پس منظر کیا تھا اور وہ کونسی وجوہات تھیں جنہوں نے بال¶اخر فساد کی صورت پیدا کردی )پریس` خطبات` خیفہ ریشہ دوانیوں وغیرہ سب کو مدنظر رکھا جائے۔
)ب( فسادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا۔ جس سے منظم اور سوچی سمجھی ہوئی سکیم پر روشنی پڑتی ہو۔
)ج( کون کون سے لوگ فسادات میں پیش پیش تھے اور ان کا طریق کار کیا تھا۔
)د( فسادات کے ساتھ احرار اور مودودیوں کا خاص تعلق کیا رہا ہے۔
)ھ( علاقہ میں احمدیوں کا جانی اور مالی نقصان کیا ہوا ہے ۱۹۵۲ء` ۱۹۵۳ء ہر دو کے متعلق تفصیل تیار ہونی چاہئے۔
)و( علاقہ کے کن کن احمدیوں کو جبر اور تشدد سے احمدیت سے منحرف کیا گیا۔
)ز( فسادات کے دوران میں علاقہ کے سرکاری حکام کا رویہ کیا رہا۔
)ح( علاقہ کے شریف غیراحمدی احباب کا شریفانہ رویہ کیا رہا۔
)ط( آئندہ کے متعلق امکانی خطرات اور ان کے انسداد کے لئے کیا تجاویز مناسب ہیں۔
۷۔ چونکہ کمشن نے پندرہ جولائی تک رپورٹیں اور گواہوں کے نام مانگے ہیں اس لئے رپورٹیں ۱۰ جولائی تک تیار ہوجانی چائیں اور گواہوں کی طرف سے درخواست چلی جانی چاہئے تا اس کے بعد ایک دو دن میں وکلاء اور دیگر واقف کاروں سے مشورہ کرکے بروقت داخل کرائی جاسکے۔ وکلاء اور گواہوں کو بلا توقف تیاری کی ہدایت بھجوا کر )ایک اطلاع پہلے بھی جاچکی ہے( کام پر لگا دیا جائے۔ اور ان کے کام کی مسلسل نگرانی رکھی جائے تاکسی قسم کی غفلت نہ ہو۔
۸۔ معاوضہ پر کام کرنے والوں کے ساتھ ان کے معاوضہ کا ابھی سے فیصلہ کرلینا چاہئے تابعد میں کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو مثلاً وکیل )چوہدری اس اللہ خان صاحب یا شیخ بشیر احمد صاحب( اور جونئیر وکیل )شیخ نور احمد صاحب( کے معاوضہ کا فیصلہ کیا جاوے اور حضرت صاحب یا انجمن سے بروقت منظور حاصل کرلی جائے۔
۹۔ جملہ کاروائی کے ساتھ ساتھ حضرت صاحب کی خدمت میں رپورٹ بھجوائی جاتی رہے۔
۱۰۔ یہ لائحہ عمل صرف سرسری ہے۔ جو مجمل صورت میں تیار کیا گیا ہے۔ دفتر مرکزی اور وکلاء اور گواہان اور امراء صاحبان کا یہ فرض ہوگا کہ کمشن کی ٹرمز آف ریفرنس دیکھ کر اور پھر کمشن کے تجویز کردہ طریق کار کا مطالعہ کرکے جو مزید کاروائی ضروری ہو وہ بروقت سرانجام دے کر عند اللہ ماجور ہوں تا دنیا پر جماعت احمدیہ کی بریت اور مظلومیت ثابت ہو اور مکالفین کے مظالم آشکارا ہوجائیں۔
بحث کے خطوط کا مختصر خاکہ
صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے اس مسئلہ پر بھی گہرا غور و فکر کیا کہ وکلاء احمدیت کی طرف سے بحث کی لائن کیا ہونی چاہئے؟ اس سلسلہ میں جو مختصر خاکہ تیار کیا گیا وہ درج ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
عدالتی کمشن کے لئے بحث کی لائن کا مختصر خاکہ
۱۔
اسلام اور احمدیت کی باہمی نسبت کیا ہے؟ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ اسلام ہی کے احیاء اور تجدید کا دوسرا نام ہے۔
۲۔
بانی سلسلہ احمدیہ کا منصب اور جماعت کے عقائد )مسیح اور مہدی کا عقیدہ( بانی سلسلہ کی بعثت قران اور حدیث کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی ہے۔
‏in] gat[۳۔
بانی سلسلہ احمدیہ نے کب دعویٰ کیا؟ جماعت احمدیہ کے آغاز کی تاریخ اور مولویوں کی مخالفت کی ابتداء اور ناگوار فتویٰ بازی۔
۴۔
امت محمدیہﷺ~ میں وحی اور الہام کا سلسلہ
۵۔
نزول جبرئیل اور وحی کی اقسام
۶۔
بانی سلسلہ احمدیہ کا ظلی اور امتی نبوت کا دعویٰ اور عقیدہ ختم نبوت کی تشریح
۷۔
سابق علماء اسلام کی طرف سے ختم نبوت کی تشریح۔ ہر زمانہ سے مثالیں پیش کی جائیں۔
۸۔
مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ کی بنیاد بغاوت اور تشریعی نبوت کا دعویٰ تھی نہ کہ کچھ اور۔
۹۔
کفر و اسلام غیر احمدیوں کی حقیقت۔ اسلام اور کفر کی دو تعریفیں ہیں۔ اک ظاہری اور ایک حقیقی۔
۱۰۔
کفر کے فتویٰ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی۔
۱۱۔
خدا کے نزدیک آخرت میں قابل مواخذہ ہونے کا اصول محض عقیدہ کا غلط ہونا نہیں بلکہ صاحب عقیدہ پر اتمام حجت اور عقیدہ میں دیانتداری ہے۔
۱۲۔
اقتداء نماز کا مسئلہ۔ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتدائی ہونی نماز میں بہرحال زیادہ متقی امام کو ترجیح دی جاتی ہے۔
۱۳۔
جنازہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی۔
۱۴۔
احمدیوں کے جنازوں کے ساتھ غیر احمدیوں کا اخلاق سوز سلوک۔
۱۵۔
رشتہ ناطہ کا مسئلہ اور اس میں بھی غیر احمدیوں کی طرف سے ابتداء ہوئی رشتہ میں خیالات اور عقائد کی ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے۔
۱۶۔
جہاد کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ جماعت احمدیہ کے نزدیک کوئی اسلامی حکم منسوخ نہیں اور نہ قیامت تک ہوسکتا ہے۱۷۔
سخت کلامی کے الزام کی تردید اور تشریح اور اس بارے میں خود بانی سلسلہ احمدیہ کا اعلان۔
۱۸۔
حضرت مسیحؑ ناصری اور امام حسینؑ کی ہتک کا غلط الزام اور اس کی تشریح۔
۱۹۔
آنحضرت صلعم پر فضیلت کا مفتریانہ الزام۔ آپ کے مقابل پر بانی سلسلہ احمدیہ کا مقام خادم اور شاگرد کا تھا۔
۲۰۔
ملک میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کا باطل الزام اور اس کی تردید۔
۲۱۔
کوئٹہ کا خطبہ اور ملازمتوں پر قبضہ کرنے کا غلط الزام اور اس کی تشریح۔
۲۲۔
حکومت برطانیہ کے ساتھ ساز باز کا اتہام اور برطانیہ کی وفاداری کی تشریح اور اس بارے میں جماعت کا اصولی نظریہ۔
۲۳۔
پاکستان بننے کی مخالفت کا الزام۔ جماعت نے ہر حال میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔
۲۴۔
متوازی حکومت قائم کرنے کا الزام۔ جماعتی تنظیم سے غلط استدلال۔
۲۵۔
ربوہ کا مرکز علیحدہ قائم کرنے کا سوال۔ مرکز کا قیام جماعتی تنظیم کا حصہ ہے مگر پھر بھی ربوہ کی رہائش مقررہ شرائط کے ماتحت دوسروں کے لئے بھی کھلی ہے۔
۲۶۔
قتل مرتد کا مسئلہ۔ مرتد کے لفظ کی تشریح۔
۲۷۔
جماعت احمدیہ کا حق شہریت اور شہریت کا اسلامی نظریہ۔
۲۸۔
ہر جماعت کو اپنے عقائد اور خیالات کی تبلیغ کا حق ہے۔ تبلیغ کے متعلق جماعت احمدیہ کا پرامن نظریہ۔ خیالات کا پرامن تبادلہ ملک کی ذہنی اور علمی اور عملی ترقی کے لئے مفید ہے۔ )اختلاف امی رحمہ(۔
۲۹۔
جماعت احمدیہ کی شاندار اسلامی خدمات )اندرون ملک میں اور بیرون ملک میں(۔
۳۰۔
جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کے متعلق غیر از جماعت لوگوں کے تریفی اعلانات۔
۳۱۔
جماعت احمدیہ کی مخالف پارٹیاں اور ان کی ہم آہنگی۔
۳۲۔
جماعت اسلامی کے نظریات اور امن شکن کاروائیاں۔
۳۳۔
احرار اور مجلس عمل کے نظریات اور امن شکن کاروائیاں۔
۳۴۔
راست اقدام کے نظریہ کی حقیقت اور اسلام کی رو سے اس کا عدم جواز۔
۳۵۔
گزشتہ فسادات میں جماعت اسلامی اور احرار اور مجلس عمل کی ذمہ داری۔
۳۶۔
فسادات کا بروقت انسداد نہ کرنے کے متعلق حکومت کی ذمہ داری )اور صوبہ کی حکومت کی خاص ذمہ داری۔(
۳۷۔
فسادات ایک منظم اور سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ہوئے۔
۳۸۔
فسادات کا بھیانک نقشہ اور اگر خدانخواستہ یہ فسادات کامیاب ہوتے۔ تو ان کے نتائج ملک کے لئے تباہ کن ہوتے۔
۳۹۔
اگر حکومت وقت پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتی تو رسول انتظام کے ماتحت بھی فسادات کا انسداد کرسکتی تھی مگر حالات پیش آمدہ میں مارشل لاء کا نفاذ ناگریز ہوگیا۔
۴۰۔
اس قسم کے فسادات کا بیرونی دنیا پر انتہائی طور پر ناگوار اثر۔
حضرت مصلح موعود کی ہدایات
حضرت اقدس المصلح الموعود نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنے خطوط میں قدم قدم پر بیش بہا اور قیمتی ہدایات سے نوازا۔ مثلاً ۱۳ اگست ۱۹۵۳ء کو تحریر فرمایا۔
۵۳۔ ۳۔ ۱۳
عزیزم!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
>یہ موقعہ ایسا ہے کہ ایک ایسا ہی شخص جماعت کی نمائندگی کرسکتا ہے جس کا دل گداز اور ایمان سے پر ہو بغیر ایمان کی زیادتی اور عقیدت کی فراوانی کے کوئی شخص اس فرض کو اس وقت ادا نہیں کرسکتا۔ کمیشن کی کاروائی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود اور ان کے خلفاء کے رویہ اور نیتوں کے متعلق حملے کئے جائیں گے۔۔۔۔۔ اس وقت تو وہ شخص کھڑا ہونا چاہئے جس کا دل سلسلہ کی غیرت سے بھرپور ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کی ہتک کی باتوں کو دیکھ کر پائوں سے سر تک شعلہ اٹھتا ہوا محسوس کرے بات کرتے وقت اس کی آواز میں لرزش اور آنکھوں میں چمک اور پانی ہو یہ وہ شخص ہے جو اس وقت کا حق ادا کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ ہم حق پر ہیں خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ہم کسی سے ڈرتے نہیں نہ کسی انجام سے خوف کرتے ہیں لیکن بات کو صحیح طور پر پیش کرنا ہمارے ذمہ ہے اور خدا تعالیٰ کے آگے ہمیں جواب دنیا پڑے گا۔<
حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب
اس سلسلہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود کا درج ذیل مکتوب خاص اہمیت رکھتا ہے یہ مکتوب حضور نے اپنے حرم حضرت سیدہ ام متین صاحبہ مد ظلہا العالی کو املاء کرایا تھا۔ جو سندھ سے ۷ جولائی ۱۹۵۳ء کو موصول ہوا۔
السلام علیکم ورحمہ اللہ
نذیر علی صاحب آئے۔ تین خط انہوں نے دیئے سوال پہلے پڑھ چکا تھا۔ کورٹ کے ڈیکلریشن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس انکوائری کا مقصد اس سے زیادہ سمجھتے ہیں جتنا کہ گورنمنٹ کے اعلان سے معلوم ہوتا تھا اور اس انکوائری میں خطرہ ہے کہ بعض لوگ بات کو بگاڑ کر اس انکوائری کو مذہبی اختلاف اچھالنے کا موجب نہ بنائیں۔ حجز دونوں ہوشیار ہیں لیکن بعض دفعہ وکلاء ہوشیاء ججوں کو بھی ادھر سے ادھر سے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ہماری طرف سے یہ مواد پوری طرح مہیا ہونا چاہئے کہ دو تین سال سے یہ کاروائی ہورہی تھی مگر حکومت نے کچھ نہیں کیا کوئٹہ کا قتل سب سے پہلے ہوا۔ جلسہ خلیفہ المسیح کے گھر کے سامنے کیا گیا اس میں تقریریں یہ کی گئیں کہ مرزا صاحب نے تو ایسے دعوے نہیں کئے تھے مگر ان کے لڑکے نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں کیونکہ وفات یافتہ کے متعلق لوگوں کے جوش کام نہیں آسکتے لیکن زندوں کے متعلق آسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود جو کسی مریض کو دیکھ کر آرہا تھا اور جس نے ہجوم دیکھ کر اپنی کار کھڑی کرلی تھی مشتعل ہجوم نے پہچان کر ہزاروں آدمیوں کے جلسے سے صرف چند گز کے فاصلہ پر لے جاکر مار دیا۔ لیکن باوجود اس کے کہ واقعہ جلسہ گاہ کے قریب ہوا ہزاروں آدمیوں کے پاس ہوا پھر مجرم نہیں پکڑے گئے۔ پھر اوکاڑہ میں ایک احمدی کو مار دیا گیا یہ بھی مولویوں کے اکسانے پر ہوا خود مجرم نے اقرار کیا کہ مولویوں نے کہا تھا کہ ان لوگوں کو ختم کرنا ثواب کاکام ہے۔ اس کے بعد راولپنڈی میں واقعہ ہوا۔ دن دھاڑے ایک احمدی کو جاتے ہوئے پبلک سیرگاہ پر مار دیا گیا اور وہاں بھی وہی وجہ احمدیوں کے اشتعال دلانے کی تھی یہ چر قتل چار سال میں ہوئے اور ایک نوعیت کے ہوئے لیکن جو انگیخت کرنے والے تھے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ ان کی امداد کی گئی۔ چنانچہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد دو سال ہوئے غیاث الدین صاحب کو جو اسوقت گورنر کے سیکرٹری تھے ان کو ملے تو انہوں نے بتایا کہ آپ لوگ قربان علی خان صاحب انسپکٹر جنرل پولیس سے بھی ملیں انہوں نے بڑے زور سے گورنمنٹ میں رپورٹ کی ہے کہ جب تک منبع کو نہیں پکڑا جائے گا۔ یہ فسادات دور نہیں ہوں گے۔ احمدی کم ہیں اگر عوام الناس نے مولیوں کے جوش دلانے پر ایک ایک احمدی کو مارا اور خود پھانسی بھی چڑھ گیا تو نتیجہ کیا نکلے گا نہ انصاف قائم ہوگا نہ امن۔ جو لوگ اکسا رہے ہیں ان کو پکڑنا چاہئے چنانچہ ان کی تحریک پر احمدیہ جماعت کا ایک وفد قربان علی خان صاحب سے بھی ملا اور انہوں نے اسی کے خیالات کا اظہار کیا )اس وفد میں غالباً شیخ بشیر احمد صاحب اور درد صاحب شامل تھے۔ وہ تفصیلات بتا سکتے ہیں( اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو غیاث صاحب کا نام چھوڑا جاسکتا ہے۔ کیونکہ شاید ان پر الزام آئے کہ گورنمنٹ سیکرٹ آوٹ کئے ہیں لیکن باوجود ان تمام کوششوں کے نتیجہ کچھ نہ نکلا اور گورنمنٹ نے کوئی ایکشن نہ لیا اور جب چیف سیکرٹری سے ہمارے وفد ملے تو انہوں نے کہا کہ وہ قانون لائو جس کے ماتحت ہم اڈیٹروں یا لیڈروں کے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں جب کہا گیا کہ قانون کے ذمہ دار تو آپ ہیں تو انہوں نے کہا کہ کوئی عام قانون نہیں جس کے ماتحت ہم ان لوگوں پر ہاتھ ڈال سکیں اور خاص قانونوں کو ہم استعمال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے اشتعال بڑھے گا۔ جب ۱۹۵۲ء کے وسط میں ۱۴۴ دفعہ لگائی گئی تو مختلف مقامات کے وفد جب حکومت کے افسروں سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ہم کو ایک طرف یہ اختیارات دیئے گئے ہیں دوسری طرف ہم کو مئوثر قدم اٹھانے سے روکا گی اہے اور یہ بھی کہا گی اہے کہ سیفٹی ایکٹ کو استعمال نہیں کرنا جو ۱۴۴ دفعہ توڑے اگر مناسب ہو تو اس کے خلاف قدم اٹھانا ہے۔ چند دنوں کے بعد ہی اس ہدایت کو واپس لے لیا گیا اور دولتانہ صاحب نیاعلان کیا کہ ہم نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی جو قدم اٹھایا ہے ضلع کے افسروں نے اپنی ذمہ داری سے اٹھایا ہے۔ )یہ تقریر چھپی ہوئی ہے تلاش کریں( چنانچہ فوراً سب لوگ چھوڑ دیئے گئے اور شورش پھر تیزی ہونی شروع ہوگئی جب افسران ضلع کو پھر توجہ دلائی گئی تو بعض افسران نے تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کوئی شور وغیرہ نہیں ہے۔ آپ کو وہم ہے۔ ضلع گوجرانوالہ کے P۔S نے صاف لفظوں میں ہمارے وفد سے کہا کہ شورش ہے لیکن ہم کچھ کرنے کو تیار نمہیں ہم نے جب امن قائم کرنا چاہا تو ہم کو پبلک کی نظروں میں ذلیل کردیا اور علی الاعلان حکومت نے پردے پردے میں ہمیں condemnd کیا اب جو کچھ کہنا ہے جاکر پنجاب حکومت سے کہو ہم کچھ کرنے کوتیار نہیں اور آخر میں یہاں تک کہا کہ بے شک جاکر میر انام لے دو کہ میں نے یہ بات کہی ہے۔ بعض افسروں نے یہاں تک کہا ہمیں پولیس کے محکمہ سے ہدایت آئی ہے کہ گورنمنٹ نے پولیس کو بدنام کیا ہے آئندہ ایسے مواقع سے پولیس کو الگ رکھو۔ اس سپرنٹنڈنٹ کی ملاقات کے بعد ہمارا وفد پھر چیف سیکرٹری سے ملا اور ان کو بتایا کہ پولیس کی یہ روایت ہے اور ڈپٹی کمشنر احرار کے ساتھ تعلق رکھنا ہے وہ دو دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اور جب ہمارا وفد جاتا ہے تو اس کو ملنے سے انکار کردیتا ہے۔ چیف سیکرٹری نے یہی کہا کہ ہماری اطلاعات یہی ہیں کہ فساد کوئی نہیں ہوگا اپ کو یونہی وہم ہورہا ہے اور ہم ڈپٹی کمشنر سے کہہ دیں گے کہ وہ آپ کے وفد سے بھی ملا کرے اور حرار سے اس طرح کے بے تکلفانہ تعلقات نہ رکھا کرے بلکہ ہم سارے اضلاع میں ایسی ہدایات بھجوا دیں گے لیکن بعد میں گوجرانوالہ سے بھی معلوم ہوا کہ نہ وہاں کوئی ہدایت دی گئی اور نہ دپٹی کمشنر کو۔ بلکہ الجھایا گیا اور نہ اور کسی ضلع میں ہدایت دی گئی ہے۔ چنانچ اس ضلع میں شدید فساد ہوا اور لوگوں کو مجبور کرکے احدمیت سے پھر جانے کا اعلان کروایا گیا گو اب وہ سب واپس آچکے ہیں سوائے ایک کے جو معافی مانگ رہا ہے مگر ابھی تک جماعت نے اسے معاف نہیں کیا۔ سپرنٹنڈنت پولیس گوجرانوالہ نے جو کچھ کہا تھا اس کے مطابق عمل کیا تمام فسادات کے دوران میں کسی قسم کا کوئی علاج نہیں کیا کسی احمدی کی حفاظت نہیں کی اور گویا پولیس کو تمام اعتراضات سے بالا رکھا۔ لائلپور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ایک رپورٹ کے موقعہ پر جماعت احمدیہ کے وفد اور ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں کہا احمدی غلط کہہ رہے ہیں کوئی فساد نہیں ہورہا۔ یہ بالکل خلاف واقعہ باتیں کہہ رہے ہیں جب جماعت احمدیہ کے وفد نے زور دیا کہ فلاں جگہ پر فساد ہورہا ہے اور احمدیوں کی دکان لوٹی جارہی ہے تو پسرنٹنڈنٹ پولیس نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر ان کی بات ٹھیک ہے تو میری داڑھی منڈا دیجئے اور مجھے ذلیل کروایئے۔ اس کے بعد جب اسی موقعہ پر ہماری جماعت کے آدمی اور وہ سپرنٹنڈنٹ جمع ہوئے اور اسے دکھایا گیا کہ یہ دکان دیکھو ٹوتی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی ہے کیا اب تم تیار ہو کہ اپنی داری منڈوائو اور ذلیل ہو تو ہنس کر چلا گیا۔ تمام اضلاع میں پولیس فسادوں سے پہلے احمدیوں کی لسٹیں مانگیں کہ ہمیں تمہاری حفاظت کا حکم آیا ہے بعض لوگ جو امام جماعت احمدیہ سے مشورہ لینے کے لئے گئے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ہرگز لسٹیں نہ دینا یہ دشمنوں تک پہنچ جائیں گی چنانچہ ایسی جگہوں پر احمدی بالعموم لوٹے جانے سے بچ گئے لیکن جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے افسروں نے سادہ لوحی سے لسٹیں دے دیں وہاں گیر معروف احمدیوں تک کے مکان لوٹے گئے اور لاہور کے ایک غیر احمدی نے ہمیں بتایا کہ اس نے وہی لسٹ جو جماعت احمدیہ نے پولیس کو دی تھی فسادیوں کے ہساتھ میں دیکھی۔ اگر کورٹ اس نام کو ظاہر نہ کرے اور پوچھنا ہو تو مخفی پوچھے تو ہم اس کا نام بھی بتا سکتے ہیں اگر اسے خطرہ نہ ہو تو ممکنہے کہ وہ صحیح گواہی دے دے )مولوی عبدالغفور صاحب سے اس شخص کے نام کا پتہ لیا جاسکتا ہے لنڈے بازار اور کشمیری بازار کے قریب کا رہنے والا ہے غیر احمدی ہے لیکن چندہ دیتا ہے اس کی دکان بھی احمدیت کے الزام کے نیچے لوٹنے لگے تھے۔( یہ رپورٹ سندھ آنے سے چند دن پہلے مجھے ملی تھی۔
سیالکوٹ میں فسادات شروع ہونے سے پہلے ہماری جماعت کا وفد مسلم لیگ کے پریذیڈنٹ خواجہ محمد صفدر صاحب سے ملا اور کہا کہ ہماری جماعت ہمیشہ لیگ کی مدد کرتی رہی ہے اب یہ نازک وقت ہم پر آیا ہے کیا ہماری جماعت یہ سمجھے کہ اس وقت لیگ بھی وفاداری دکھائے گی اور ہماری مدد کرے گی یا وہ دشمنوں سے مل کر ہم پر حملہ کرے گی انہوں نے کہا انصاف کا تو یہی تقاضا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں لیکن دولتانہ صاحب آرہے ہیں میں ان سے مل کر آپ کی بات کا جواب دوں گا۔ دولتانہ صاحب کے جانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ دولتانہ صاحب بات ٹلا گئے ہیں اور کہا کہ جب تک مرکزی ہماری اس بات میں راہ نمائی نہ کرے ہم کچھ نہیں کرسکتے Order Laws صوبوں سے متعلق ہیں )اسی سلسلہ میں دولتانہ صاحب سے جو وفد ملا تھا اس کی باتیں بھی نوٹ کی جائیں( راولپنڈی میں جو قتل ہوا۔ قاتل نے شروع میں یہ بیان دیا کہ مولویوں نے جو تقریریں کی تھیں اس کے نتیجہ میں میں نے مارا ہے لیکن پولیس نے اس بیان کو حذف کردیا اور اس کو ذاتی جھگڑے کی شکل دینی چاہی ایک دوسرا پولیس افسر بیان کے وقت چوکی پر موجدو تھا افسران بالا کو توجہ دلانے پر اس کا بیان لیا گیا اور اس نے سچی بات بتا دی مگر پھر بھی یہ بیان شامل نہ کیا گی اجب سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مل کر اس طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ آپ کے فائدے کے لئے ہم نے اس بیان کو حذف کردیا اس سے شور پڑے گا اور آپ کے خلاف ایجی ٹیشن بڑھے گی۔ ہاں ہم نے انسپکٹر جنرل صاحب پولیس کو اپنی رپورٹ میں یہ بات لکھ دی ہے۔ اوکاڑہ میں ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پویس نے اور لائلپور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس نے عوام سے گلے میں ہار ڈلوائے اور وہی نعرے لگائے جو پبلک لگاتی تھی۔ اسی طرح بعض اور لوگوں کے متعلق بھی رپورٹیں ملی ہیں۔ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں چوہدری مسعود اہمد جو وہاں کی ایک نہایت ہی معزز فیملی کا ممبر ہے انہی فسادات کے سلسلہ میں تھانیدار نے اس کو بلا کر ذلیل کیا اور باوجود اس کے گھر پر مظاہرہ ہونے کے اس کی کسی قسم کی مدد نہ کی اسی طرح بعض ایسے احمدیوں کو پکڑوایا اور دھمکیاں دیں جو اپنی جگہ پر اکیلے وکیلے تھے اور کسی قسم کا زور ان کا نہیں تھا۔ جب مرکز احمدیہ کی طرف سے آئی جی پولیس میاں انور علی صاحب کو اس کے متعلق شکایت کی گئی تو صرف یہ کاروائی ہوئی کہ ایک احمدی فوجی افسر جو ڈسکہ سے گزرتے ہوئے چوہدری مسعود احمد صاحب سے ملا تھا اور اس نے اسے تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی بات نہیں یہ دن گزر جائیں گے۔ اس کے خلاف پولیس نے فوج میں رپورٹ کی۔ اور لوگوں سے تاریں بھی دلوائیں کہ اس فوجی افسر نے بڑا اشتعال دلایا ہے اور بڑا اسلحہ بھی مسعود کو دیا ہے چنانچہ وہ فوجی افسر اپنے عہدہ سے معطل کیا گیا اور اس کے خلاف انکوائری کی گئی۔ تب ہم نے سمجھ لیا کہ آئی۔ جی کو کسی قسم کی شکایت کرنا نقصان دہ ہے اس کا نتیجہ نیک نہیں نکل سکتا۔ آئی جی صاحب کے پاس سپرنٹنڈنٹ گوجرانوالہ کی بھی شکایت کی گئی تھی اور اس کا نتیجہ بھی یہی نکلا تھا کہ اس کے بعد سختی بڑھ گئی تھی۔ جماعت مودودی نے >قادیانی مسئلہ< کے نام سے ایک کتاب شائع کی جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے اور کئی لاکھ شائع ہوچکی ہے۔ لیکن حکومت پنجاب نے فوراً ہی امام جماعت احمدیہ کو نوٹس دے دیا کہ ایسے مسائل کے متعلق وہ کوئی تحریر نہیں شائع کرسکتے اور ان کی غرض یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے خلاف زہر پھیلتا رہے اور وہ کوئی جواب نہ دے سکے جب حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ آخر یہ نوٹس کس بناء پر ملا ہے تو چیف سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ الفضل میں ان کا ایک مضمون چھپا ہے جس میں ان کا یہ فقرہ درج ہے کہ گھبرائو نہیں فتح آخر ہماری ہوگی چونکہ ایسے مضامین سے ملک کا امن بالکل برباد ہوسکتا ہے۔ اس لئے ان کو نوٹش دیا گیا۔ عدالت اس جواب سے سمجھ سکتی ہے کہ دراصل نوٹس کا یہ موجب نہیں تھا۔ بلکہ اس کا موجب کچھ اور ہی تھا ربوہ سے لوگوں کی اطلاع کے لئے احمدویوں کے اطمینان کے لئے بذریعہ خطوط اطلاعات بھجوائی جاتی تھیں کہ وہ صبر سے کام لیں اور دعائوں سے کام لیں حکومت نے اس بناء پر ناظر دعوت تبلیغ اور امام جماعت احمدیہ کی تلاشی لی اور بعد میں امام جاعت احمدیہ سے اس بات کا جواب طلب کیا کہ فلاں فلاں خط سائیکلو سٹائل پر کیوں شائع ہوا یہ چار مضمون تھے۔ لطف یہ ہے کہ ان میں سے دو خود گورنمنٹ کی درخواست پر شائع کئے گئے تھے ایک ہوم سیکرٹری اور ڈپٹی کمشنر کی درخواست پر ایک ہوم سیکرٹری اور چیف سکرٹری کی درخاست پر۔ ایک دعہ تھانیدار اس کی تحقیقات کے لئے آیا اور دوسری دفعہ ڈی۔ ایس۔ پی اس کی تحقیقات کے لئے آیا۔ امام جماعت احمدیہ نے جب توجہ دلائی کہ ڈپٹی کمشنر خود میرے پاس یہ درخواست لے کر آیا تھا کہ یہ اعلان شائع کرو۔ ہوم سیکرٹری کی یہ خواہش ہے پھر یہ شاعء میں نے نہیں کیا۔ محکمہ نے کیا ہے پھر اس کے بارے میں مجھ سے کیوں پوچھا جاتا ہے اور جو دوسرا اعلان شائع ہوا ہے اس کے متعلق ڈی۔ ایس۔ پی صاحب سے کہا کہ اس کے شائع کرنے کے متعلق آپ نے آکے مجھے ہوم سیکرٹری کا پیغام پہنچایا تھا لیکن میں نے یہ جواب دیا تھا کہ میں گورنمنٹ کی تحریر کے بغیر ایسا شائع کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ سفیٹی ایکٹ کا نوٹس دیتے ہی مجھ سے یہ درخاست کرنا بتاتا ہے کہ مجھ کو سیفٹی ایکٹ میں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس کے بعد مشورہ کے نتیجہ میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ ہوم سیکرٹری سے ملے اور انہوں نے کہا ہم نے ایسی کوئی چٹھی نہیں بھجوائی۔ شاید چیف سیکرٹری نے بھجوائی ہو پھر انہوں نے درد صاحب کو چیف سیکرٹری سے ملوایا اور چیف سیکرٹری نے کہا کہ ہاں میں نے ایسی ایک چٹھی بھجوائی ہے ایسا علان کرنے میں کیا حرج ہے۔ درد صاحب نے کہا کہ اس میں یہی حرج ہے کہ امام جماعت احمدیہ کو جن باتوں کے ذکر کرنے سے آپ نے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت منع کیای ہے انہی کے متعلق آپ ان سے اعلان کروانا چاہتے ہیں پس آپ تحریر دے دیں تو میں ان سے علان کروانے کی کوشش کروں گا۔ چیف سیکرٹری نے کہا اچھا پھر مسودہ بناکر بھجوا دیں میں اس کی تصدیق کروں گا اس تصدیق شدہ مسودہ کو شائع کرنے کے خلاف اب یہ کاروائی کی جارہی ہے اور باوجود اس کے کی جارہی ہے کہ تھانیدار کو لکھ کر یہ دے دیا گیا کہ یہ اعلان گورنمنٹ کی کواہش پر اور چیف سیکرٹری کے حکم سے کیا گیا ہے۔ کیا یاں انور علی صاح الہور میں چیف سیکرٹری صاحب سے نہیں پوچھ سکتے تھے۔ جو یہاں جھنگ میں ڈی۔ ایس۔ پی سے تحقیقات کروا رہے ہیں۔ اس پر ڈی۔ ایس۔ پی صاحب نے کہا کہ ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ جو کچھ افسروں نے لکھ بھیجا ہے اس کی تعمیل ہم نے کرنی ہے اس پر امام جماعت احمدیہ نے ان کو کہا کہ یاد رکھیں ایک بالا حکومت بھی آسمان پر ہے وہ ان ظلموں کا بدلہ لے گی۔
ملک عبداللہ صاحب کا واقعہ بھی لکھیں کہ ایک ایسے اشتہار کی بناء پر جس کو روک دیا گیا تھا ان کو سیفٹی ایکٹ کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا پھر وہ واقعہ بھی لائیں کہ زمیندار کے بدلہ میں آثار کی اجازت دے دی گئی لیکن >الفضل< کی اجازت نہ دی گئی پھر میاں شریف احمد صاحب اور ناصر احمد صاحب کا واقعہ بھی لائیں پھر ان Accidents کو بھی لائیں جو ان دنوں میں ظہور پذیر ہوئے۔ ربوہ کے ارد گرد مکمل بائیکاٹ کیا گیا ایک ہفتہ تک نہ دودھ ملا نہ ترکاری ملی اور نہ اور ضروریات زندگی جو ارد گرد سے ملتی تھیں ملیں۔ بچوں` بوڑھوں اور بیماروں نے سخت تکلیف سے یہ دن گزارے۔ بعض غیر احمدی ملازموں یا تعلق داروں سے بہت تھوڑی مقدار میں چیزیں مہیا ہوسکیں جو % ۵ کو بھی کافی نہ تھیں۔ کئی دن تک کئی جگہ پر احمدیوں کو پانی میسر نہ آسکا۔ نلکوں سے ان کو روک دیا گیا۔ بعض جگہ پر ہفتہ ہفتہ دو ہفتہ تک کھانے پینے کی چیزیں لوگوں کو نہ ملتی تھیں ریل میں اگر کوئی احمدی مل جاتا تو اس قتل کی دھمکیاں دی جاتیں ریل سے پھینک دینے کی دھمکیاں دی جاتیں )مولوی اسماعیل دیالگڑھی کا واقعہ اور بہت سے واقعات( ان واقعات کو پوری طرح ان واقعات سے جمع کریں جو مولوی دوست محمد صاحب کے پاس تھے۔ یہ احتیاط سے کام کرنے چاہیں ہمارے لئے موت اور زندگی کا سوال ہے۔<
‏tav.14.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
تحقیقاتی عدالت سے متعلق ضروری خط و کتابت
مندرجہ ذیل گشتی مراسلہ بصیغہ رجسٹری حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ نے ۲ جولائی ۱۹۵۳ء کو مندرجہ ذیل احباب کے نام ارسال کیا اس مراسلہ کا متن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم کا رہن منت تھا۔
‏in] [tag۱۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )پرنسپل تعلیم الاسلام کالج لاہور(
۲۔
شیخ نور احمد صاحب )لاہور(
۳۔
شیخ محمد احمد صاحب )لائلپور~(ف۹~ امیر جماعت احمدیہ لائلپور~ف۱۰~
۴۔
چوہدری انور حسین صاحب )شیخو پورہ( امیر جماعت احمدیہ شیخوپورہ
۵۔
میر محمد بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ
۶۔
چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ )سیالکوٹ( ایڈووکیٹ سیالکوٹ
۷۔
میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی
۸۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم ایڈووکیٹ گجرات
۹۔
چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ )منٹگمری~(ف۱۱~
۱۰۔
چوہدری محمد حسین صاحب جماعت احمدیہ ملتان
۵۳۔ ۷۔ ۲/ ربوہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمد ونصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی محترمی!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آپ کو معلوم ہے کہ حکومت پنجاب نے صوبہ کے گزشتہ فسادات کی تحقیق کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا ہے جس کے ممبر جسٹس محمد منیر اور مسٹر جسٹس کیانی امیر مقرر ہوئے ہیں اور حکومت نے اس تحقیق میں جماعت احمدیہ اور مجلس احرار جماعت اسلامی اور صوبائی مسلم لیگ کو بھی پارٹی بنایا اور شہادت کے لئے بلایا ہے۔ سو اس تعلق میں آپ کو بھی جماعت کی طرف سے شہادت کے لئے منتخب کیا گیا۔ پس آپ مہربانی کرکے اس بارے میں مکمل تیاری کرلیں۔ تاآخری فیصلہ ہونے پر آپ کو پیش کیا جاسکے۔
منجملہ دیگر متعلقہ امور کے ذیل کے امور کے متعلق خاص طور پر تیاری ہونی چاہئے۔
۱۔
فسادات کا پس منظر کیا تھا۔ اور وہ کون سی وجوہات تھیں۔ جنہوں نے بال¶اخر فساد کی صورت پیدا کردی )پریس۔ خطبات اور خفیہ ریشہ دوانیاں وغیرہ سب کو مدنظر رکھا جائے(
۲۔
فسادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی۔ اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا۔ )جس سے منظم اور سوچی سمجھی سکیم پر روشنی پڑے(
۳۔
آپ کے علاقہ میں احمدیوں کا جانی اور مالی نقصان کیا ہوا ۱۹۵۲ء` ۱۹۵۳ء )ہر دو نقصانات کو شامل کیا جائے اور حتی اولسیع پوری تفصیل دی جائے( نیز مارشل لاء نے جن لوگوں کو نقصانات کا معاوضہ دیا ہے اس کی تشریح کی جائے کہ کتنوں میں سے کتنے احمدی تھے اور ان کے نقصان کے مقابلہ میں یہ معاوضہ کیا حیثیت رکھتا ہے۔
۴۔
کون کون سے لوگ فسادات میں آگے تھے۔
۵۔
علاقہ کے سرکاری حکام کا کیا رویہ رہا۔
۶۔
فہرست ان لوگوں کی جنہیں فسادات میں تشدد کرکے جماعت احمدیہ سے منحرف کرایا گیا۔
۷۔
فسادات کے ساتھ مودودیوں کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق۔
ان امور کے متعلق معین اور مفصل تیاری ہونی چاہئے تاآپ کمیشن کے سامنے پختہ صورت میں شہادت دے سکیں اور ہر قسم کی جرح کے لئے تیار ہیں۔
ناظر امور عامہ۔ ربوہ
حسب ذیل چٹھی متعلقہ ہدایات تحقیقاتی کمیشن بھی انہیں دنوں نظارت امور عامہ کی طرف سے لکھی گئی اور مندرجہ ذیل امراء جماعت کو دستی پہنچائی گئی۔
۱۔
چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت شیخو پورہ۔
۲۔
شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت لائل پور حال )فیصل آباد(
۳۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم " " گجرات
۴۔
میر محمد بخش صاحب امیر جماعت گوجرانوالہ۔
۵۔
بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ۔
۶۔
مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی پنجاب سرگودہا۔
۷۔
میاں اللہ بخش صاحب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی۔
۸۔
چوہدری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان۔
۵۳۔ ۷۔ ۲
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت امیر صاحب!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آپ کو اخبارات سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ حکومت پنجاب نے گزشتہ فسادات کے متعلق ایک تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا ہے جس کے ممبر جسٹس منیر اور جسٹس کیانی ہوں گے اس تحقیق میں جماعت احمدیہ اور مجلس احرار جماعت اسلامی~ف۱۲~ اور صوبائی مسلم لیگ کو بھی ایک پارٹی بنایا گیا ہے پس ضروری ہے کہ اس تحقیق کے پیش نظر بہت جلد پوری پوری تیاری کی جائے۔ تیاری میں ذیل کے امور مدنظر رہنے چاہئیں۔
۱۔
آپ کے علاقہ میں فسادات کا پس منظر کیا تھا؟ اور وہ کون سے وجوہات تھیں جنہوں نے بال¶اخر فساد کی صورت پیدا کردی )پریس اور خطبات اور خفیہ ریشہ دوانیاں وغیرہ سب کو مدنظر رکھا جائے( نیز احتیاطاً فتویٰ کفر وغیرہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے پہل ثابت کرنے کے لئے فتاوی جمع کئے جائیں۔
۲۔
فسادات کی نوعیت اور تفصیل کیا تھی اور فسادیوں کا طریق کار کیا تھا۔ جس سے منظم اور سوچی سمجھی ہوئی سکیم پر روشنی پرے۔
۳۔
کون لوگ فسادات میں آگے آگے تھے۔
۴۔
آپ کے علاقہ میں جماعت کا جانی اور مالی نقصان کیا کیا ہوا )۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء ہر دو کے نقصانات کو شامل کیا جائے اور حتی الوسیع پوری تفصیل دی جائے( نیز مارشل لاء والوں کے منظور کردہ معاوضہ پر روشنی ڈالی جائے کہ کل افراد میں کتنے احمدی تھے اور یہ معاوضہ اصل نقصان کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟
۵۔
علاقہ کے سرکاری حکام کا رویہ کیا رہا؟
۶۔
فہرست ان احمدیوں کی جن پر تشدد کرکے جماعت سے منحرف کرایا گیا۔
۷۔
اگر علاقہ میں کوئی غیر احمدی معزز ہمارے حق میں شہادت کے لئے تیار ہوسکیں تو انہیں تیار کیا جائے اس کا بہت اچھا اثر ہوسکتا ہے۔
۸۔
فسادات میں مودودیوں کا براہ راست یا بالواسطہ جو تعلق ثابت ہو اس کے متعلق تیاری کی جائے ان امور کے متعلق معین اور مفصل ہونی چاہئے تاکمیشن کے سامنے پیش کی جاسکے۔ یہ رپورٹ خاص آدمی کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ جولائی تک ہمارے پاس پہنچ جائے۔
)ناظم امور عامہ ربوہ(
ہدایات حضرت مصلح موعود )مورخہ ۵ جولائی ۱۹۵۳ء
فرمایا:۔
۱۔
وکلاء شیخ صاحب تو ہوں گے ہی۔ دو تین آدمی لگنے چاہئیں تاکہ اگر ایک کسی معذوی کی وجہ سے کام نہ کرسکے تو دوسرے صاحب ساتھ ہوں۔ گجرات کے ظہورالدین بہت اچھے ہیں جیسا کہ شیخ صاحب نے نوٹ کیا ہے۔ خصوصاً وقار کے لحاظ سے۔ جو نیئر وکیل Paid ہونا چاہئے )یونہی (Commentry سے کام کرنے والا نہ ہو اور اتنے بھی جمع نہ ہوں کہ کام نہ ہوسکے۔
۲۔
خادم صاحب بطور گواہ اچھے رہیں گے۔ میاں عطاء الل¶ہ صاحب شاید موزوں نہ ہوں چوہدری انور حسین صاحب کا غالباً زیادہ اثر نہ ہوگا۔ شیخ محمد احمد صاحب خواہ کام نہ کریں ان کا مشورہ بہت اچھا ہے۔
۳۔
۴کورٹ کو خواہ وسیع اختیار دیا گیا ہے اور قانون شہادت کی پابندی لازمی نہیں لیکن ہماری طرف سے اس معاملہ میں احتیاط ہونا لازم ہے۔ تاایسا نہ ہو کہ ہارا کیس Weak ہوجائے یعنی سنی سنائی بات پر واقعہ کا انحصار نہ رکھا جائے۔ گواہ ایسا ہونا چاہئے جو اپنے آپ دیکھی بات یا بیتی بیان کرسکے ہاں جہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہو کہ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے تو عمومی رنگ میں یہ کہا جاسکتا ہے مگر بہتر اور محتاط طریق یہی ہے کہ معین اور مخصوص شہادت ہو۔
۴۔
احرار کا ذکر کرتے ہوئے عناد یا طعنہ زنی یا جارحان طریق نہ اختیار کیا جاوے وقار کے ساتھ بے شک جذبات اور افسوس میں ڈوبی ہوئی بات ہو لین بتایا یہ جاوے کہ احرار نے یہ کہا یا کیا۔
۵۔
دوسرا فریق بے شک یہ کوشش کرے گا کہ ہر قسم کی باتیں زیر تنقیح آئیں لیکن ہماری طرف سے واقعاتی رنگ غالب ہونا چاہئے۔
۶۔
حکومت کے افسران کے متعلق یہ یاد رہنا چاہئے کہ حتی الواسیع کسی کا نام نہ آئے سوائے اس کے کہ جرح میں پوچھا جاوے تو بتانا پڑے اس میں دشمنی اور عناد کی بات نہ کی جاوے اگر کچھ کہنا ہی ہو تو مختلف افسروں کا رویہ بیان کرکے اس طرف توجہ دلائی جاوے کہ فلاں افسر کا رویہ مختلف تھا۔ خواہ مخواہ تعریف بھی نہ ہو۔ افسروں کو جو خط کھے گئے وہ بے شک پیش کی جائیں۔
۷۔
ہماری طرف سے مقدمہ ایسے رنگ میں پیش کیا جاوے کہ عدالت مجبور ہوکہ فریق مخالف کے متعلق سخت Remarks کرے اگر خود بھڑاس نکال لی جاوے تو عدالت اپنے آپ کو کسی حد تک سبکدوش سمجھتی ہے۔
۸۔
‏ Statemen مختصر ہو لمبی نہ ہو۔
۹۔
‏ Presention ہمارا بہت Careful ہونا چاہئے۔ ان کی اشتعال انگیزی کو نمایاں کیا جائے۔ حوالہ جات و اقتباسات کے ساتھ۔
۱۰۔
غیر احمدی چونکہ پوری طرح ہمارے نقطہ نظر کو سمجھ نہیں سکتا اس لئے ہمارے اپنے آدمی کو پیش ہونا چاہئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی~ف۱۳~
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
‏in] gat[۱۔
کیا آپ نے قائد صاحب خدام کو کچھ والنٹیر لینے کے لئے لکھ دیا ہے یا ابھی نہیں لکھا ہے تو کیا جواب آیا ہے؟
۲۔
ارشاد صاحب کلرک ہیں` چپڑاسی نہیں ان سے بھی لکھنے پڑھنے کا کام لینا چاہئے۔
۳۔
مہاشہ صاحب اور مولوی عبدالغفور صاحب اور مسعود صاحب ہر قسم کے حالے نکال کر آپ کو دے سکتے ہیں ان کی ڈیوٹی لگادیں۔
۴۔
نوٹ وغیرہ جو شیخ صاحب طلب فرمائیں آپ اور شیخ نور احمد صاحب تیار فرمائیں۔ اگر کسی اور آدمی کی ضرورت ہو اطلاع دیں تا اس کا بھی انتظام کردیا جائے۔
۵۔
دوست محمد صاحب اپنے کاغذات لے کر آچ ربوہ سے یہاں پہنچ جائیں گے۔ تعجب ہے آج عدالت میں گئے ہی نہیں میرے نزدیک وہاں جانا نہایت ضروری ہے۔
خاکسار
۵۳۔ ۷۔ ۹ عبدالرحیم درد
جواب وصول پایا بوقت چار بجے شام۔
خاکسار مرزا سمیع احمد ظفر
۵۳۔ ۷۔ ۹
ارشاد مبارک حضرت مصلح موعود بنام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
عزیزم مکرم~ف۱۴~
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
نوٹ مع ہدایات واپس ارسال ہے ان کو دیکھ لیں اور بہت احتیاط کے ساتھ کام کریں۔ معاملہ نہایت نازک اور اہم ہے میرے نزدیک چوہدری صاحب کی بہت سی باتیں وزنی ہیں۔ قانونی اور تجربانی نقطہ نگاہ سے ہم ان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہم اپنی بات بھی نہیں چھوڑ سکتے مگر ہم کورٹ سے یہ بھی امید نہیں کرسکتے کہ وہ برسراقتدار حکومت کے خلاف واضح الفاظ میں کوئی رائے ظاہر کرے۔ پس ہمیں پختہ اور ثابت شدہ حقائق احرار اور مودودیوں کے خلاف پیش کرنے چاہئیں اور جو واقعات چیف سیکرٹری۔ ہوم سیکرٹری یا آئی جی سے گزرے ہیں ان کو بیان کردینا چاہئے۔ گورنمنٹ کا براہ راست نام سے نہیں لینا چاہئے نتیجہ واضح آپ ہی ہوجاتا ہے۔ خواجہ ناظم الدین صاحب کا خط پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مفید ہے۔
میں چوہدری صاحب سے اس بات میں متفق ہوں کہ میاں عطاء اللہ کو بطور وکیل یا گواہ پیش کرنا مفید نہیں ہوگا۔ وہ بہت ذکی الحس ہیں اور بعض دفعہ انسان ان کی افسردگی کو دور کرنے کے لئے اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کر بیٹھتا ہے۔
)دستخط حضرت صاحب(
موصولہ لاہور ۵۳۔ ۷۔ ۱۵
‏]2bus [tagحضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خطوط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
۱۔
درد صاحب اور شمس صاحب تو اس وقت لاہور روانہ ہورہے ہیں لیکن تجویز ہے کہ مولوی صدیق صاحب بھی ضروری کتابیں لے کر شمس صاحب کی امداد اور وقت پر حوالہ جات کی تلاش کے لئے چند دن کے واسطے لاہور چلے جائیں اس کے لئے حضور کی اجاز کی ضرورت ہے۔
۲۔
احمدی علماء کی شہادت کا معاملہ وکلاء پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اگر پسند کریں اور ضرورت ہو تو شمس صاحب اور خادم صاحب کو پیش کردیں۔ ویسے شہادت والے امور تحریری بیان کریں تو پیش کرہی دیئے گئے ہیں۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۲
فرمایا مولوی صدیق صاحب چلے جائیں۔
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
ھوالناصر
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضور کر ارشاد کے ماتحت شیخ بشیر احمد صاحب کو ان کی فیس کے متعلق پوچھا گیا تھا۔ ان کا جواب لف ہذا ہے بعد ملاحظہ واپس ارسال فرمایا جاوے۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۹۔ ۱۹
‏2301 Phone
‏Road Temple ۔13
‏Ahmad Bashir ۔Sh
53 ۔9 ۔13 Lahore
‏Court federal Adocate Senior
‏Court High Adovcate and

مراسلہ شیخ بشیر احمد صاحب
محترمی حضرت میاں صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
مکرمت نامہ ملا۔ عبدالغفار صاحب میری موجودگی میں کوہ مری واپس نہیں آئے اور نہ ہی آپ کا کوئی ملفوف بصیغہ رجسٹری مجھے ارسال کیا ہے۔
میں نے جہاں تک میرا حافظہ میری راہنمائی کرتا ہے کسی فرد سے بھی بالواسطہ یا بلاوسطہ معاوضہ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی میرے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا ہے اس لئے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی ستاری غیر معمولی حالات میں میرا ساتھ دیتی جا رہی ہے اور اپنے فضل اور احسان سے مجھے برابر رزق دیتی جارہی ہے اگرچہ قطعاً میں اس کا مستحق نہیں دعا فرمائیں مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جو اس کی ناراضگی کا موجب ہو اور مجھے ایسے اعمال کی توفیق ملتی جائے جو اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتی رہیں میرے گناہ معاف فرمائے اور انجام بخیر ہو۔
امید ہے کہ میرا پہلا خط آپ کو مل چکا ہوگا۔ میرے ساتھ کوئی ایسا عمل نہیں کہ اگر اردو میں خط لکھوں تو نقل ہی کرا سکوں اس لئے انگریزی میں لکھ دیتا ہوں۔ اگرچہ کئی مرتبہ ندامت کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اردو خط کا جواب انگریزی میں بھجوا رہا ہوں۔ آپ کی کریمانہ طبیعت ہے امید کرتا ہوں کہ بار خاطر نہ ہوگا۔
خاکسار شیخ بشیر احمد عفی عنہ
مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
ھوالناصر
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
کل کے نوائے وقت میں مولوی مودودی کے اس بیان کی نقل چھپی ہے۔ جو مودودی صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں دیا ہے۔ شاید اور اخباروں میں بھی چھپے۔ چونکہ مودودی کو ملمع سازی کا فن آتا ہے۔ اور تحریر عموماً واضح اور متعلقہ امور پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے بعض دوست جو جلدی میں یکطرفہ رائے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ گھبرا جاتے ہیں۔۔۔۔ اس کا ازالہ ہونا چاہئے سو اس صورت میں اس بات پر غور ہونا چاہئے کہ کیا اس کے جواب میں اپنا جواب چھاپ دیا جائے۔ ہمارا جواب دو ٹکڑوں میں ہے۔ ایک حوالوں کے انکار و اقرار کی صورت میں اور دوسرا مفصل تبصرہ تیار کردہ شمس صاحب۔ ہر دو جوابوں کو حضور دیکھ کر منظور فرما چکے ہیں۔
والسلام
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۱۰۔ ۱۲
حضور نے ارشاد فرمایا >اطلاع ہوئی جزاہم اللہ<
ارشاد حضرت مصلح موعود بقلم سیدہ ام متین صاحبہ
میں متواتر کہہ چکا ہوں۔ کہ آپ وکیلوں سے اس بارے میں پوچھئے کہ چھپوایا جائے یا نہیں اگر ان کے نزدیک چھپوانے میں حرج نہ ہو۔ تو عدالت کے سامنے یہ معاملہ پیش کردیں کہ اب دوسرے لوگ چھاپ رہے ہیں تو ہم بھی چھاپنے پر مجبور ہیں۔<
مکتوب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
ھوالناصر
سیدنا!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کل لاہور کے وکلاء دوست کہہ گئے تھے کہ اب جواب میں ہماری طرف سے بھی جوابات کی اشاعت ہونی چاہئے خصوصاً مودودی صاحب کے بیان کا جواب۔
آج محترمی مرزا عبدالحق صاحب کے ساتھ بات ہوئی تو انہوں نے اس کی پرزور تائید کی کہ اب پبلک میں جواب کا انتظار ہے۔ خصوصاً انہوں نے کہا کہ ساتھ سوالوں والا مفصل جواب المصلح بھی شائع ہوجانا چاہئے۔
سو اگر حضور اجازت دیں تو کیا سات سوالوں والا جواب المصلح میں اشاعت کے لئے بھجوا دیا جائے۔ یہ جواب حضور کا دیکھا ہوا بلکہ تیار کیا ہوا ہے۔ البتہ جنازہ والے سوال میں اس نوٹ کے دینے کی ضرورت ہوگی کہ امام احمدی ہونا چاہئے۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۳۔ ۱۰۔ ۱۷
‏body] gat[چھپوا دیا جائے آخر امام کا جھگڑا اس وقت پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے فتویٰ تو دیا ہی نہیں گیا۔ آئندہ غور کرنے کا لکھا ہے۔ اس کے لئے امام کا کیا سوال ہے۔
بعض دیگر اہم خطوط
تحقیقاتی عدالت کے سلسلہ میں بعض دیگر اہم خطوط درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت محترم مکرم حضرت میاں صاحب!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔ اس وقت حسب ذیل عملہ یہاں کام کررہا ہے۔
۱۔
مکرم درد صاحب
۲۔
مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس
۳۔
مولوی محمد صدیق صاحب
۴۔
مرزا عبدالسمیع صاحب کلرک
۵۔
سید دائود احمد صاحب کلرک
۶۔
چوہدری نورالدین صاحب کلرک
۷۔
عابد حسین صاحب ٹائپسٹ
۸۔
سلیم اللہ مددگار کارکن لائبریری
۹۔
باورچی
۱۰۔
ڈرائیور۔ جو آج واپس چلا گیا۔
۱۱۔
مولوی عبدالغفور صاحب لاہور
۱۲۔
مولوی محمد اشرف صاحب۔ لاہور
۱۳۔
ان کے علاوہ دو تین اور احباب مثلاً ایک مزید ٹائپسٹ اور دوسرے کارکن ہوتے ہیں
۱۴۔
باہر سے جب وکلاء آجاویں تو مزید خرچ ہوتا ہے۔
۱۵۔
خاکسار۔ غلام مرتضیٰ لاہور۔ ۵۳۔ ۱۱۔ ۴
۲۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تاریخ/ ربوہ ۔۔۔۔۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ
بخدمت مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضور ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضور کارا وہ کل دوپہر کو لاہور کے لئے روانہ ہونے کا ہے۔ آپ اور ملک غلام فرید صاحب اور مرزا مبارک احمد صاحب بھی لاہور جائیں گے۔ نیز فرمایا کہ غالباً مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مقامی امیر اس عرصہ میں تجویز کرنا ہوگا۔
خاکسار عبدالرحمن انور۔ پرائیویٹ سیکرٹری
۵۴۔ ۱۔ ۱۱ حضرت خلیفہ المسیح الثانی
۳۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
۱۔
خاص خاص دوستوں کو دعا کی تحریک کردی ہے۔
۲۔
مگر کئی دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اپنے طور پر شہادت کے موقع پر لاہور جائیں تو اس میں کوئی روک تو نہیں سو اس بارے میں ہدیات فرمائی جائے۔
۳۔
میری ذاتی رائے یہ کہ کمرہ عدالت کے اندر جانے کا تو سوال ہی نہیں بلکہ باہر کے احاطہ میں بھی غالباً پولیس لوگوں کے ہجوم کو روکے گی اور ویسے بھی اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے کسی قسم کا Demonstration وغیرہ نہیں ہونا چاہئے اور تعداد کی غیر معمولی کثرت بھی ایک رنگ کا مظاہرہ ہی ہوتا ہے۔ غالباً عدالت بھی اسے پسند نہیں کرے گی اور اس سے بالمقابل مظاہرہ کی بھی بجیاد قائم ہوتی ہے۔
۴۔
البتہ حضور کر ارشاد سے جامعہ مبشرین کے طلبہ اور اساتذہ جارہے ہیں اور باقی انتظام حسب ضرورت لاہور کے دوستوں کے ذریعہ ہوجائے گا جس کے لئے عزیز میاں مبارک احمد انتظام کررہے ہیں۔
۵۔
میں نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کو علی الحسب ۔/۵۰۰ RS دے دیا ہے اور اس قدر رقم زائد بھی لے جارہا ہوں جو ملک غلام فرید صاحب کے سپرد کردی ہے۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۱۔ ۱۲
۴۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
درد صاحب نے کہا تھا کہ اطلاع کردی جائے کہ
۱۔
گواہی بیٹھ کر ہوتی ہے جس کے لئے چیف جج فوراً گواہ کو کہہ دیتے ہیں کہ بیٹھئے۔
۲۔
ہر سوال خواہ جج کی طرف سے ہو یا کسی وکیل کی طرف سے اس کا جواب جج کی طرف مخاطب ہوکر دیا جاتا ہے گو سوال سننے کے وقت سوال کرنے والے وکیل کی طرف منہ کر لیا جاتا ہے۔
۳۔
ہر سوال اور جواب پر جج صاحب خود سوال و جواب ملا کراتے ہیں اور اس کے لئے ہر سوال اور ہر جواب کے بعد خفیف سا وقفہ ہوتا ہے۔
۴۔
شیخ صاحب کہتے ہیں کہ گواہ اپنے پاس ضروری نوٹ رکھ سکتا ہے۔
۵۔
شیخ صاحب خود جج صاحبان سے کہہ دیں گے کہ چونکہ سب حوالہ جات یاد نہیں ہوتے اس لئے وہ حسب ضرورت بعد میں پیش کردیئے جائیں گے۔
۶۔
میاں مبارک احمد رستہ دیکھنے اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب سے مقامی دوستوں میں سے کس کس کو رکھ لیا جائے۔
۷۔
محمد اقبال صاحب سب انسپکٹر نے بھی اپنی ڈیوٹی ہائی کورٹ میں لگوا لی ہے۔
خاکسار مرزا بشر احمد
۵۴۔ ۱۔ ۱۳
>پانچ آدمی اگر ہوں تو آپ` ملک صاحب` ناصر احمد` مولوی ابو العطاء اور اندر پہرہ کے لئے مبارک احمد یا ظہیر مگر سمجھا دیا جائے صرف آنکھ سے کام لیں کورٹ کا ادب مدنظر رکھیں۔<
)ارشاد حضرت مصلح موعود(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
۵۔ تاریخ/ ربوہ ۔۔۔۔۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
نمبر
بخدمت مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضور جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد لاہور روانہ ہورہے ہیں۔ آپ اور دیگر علماء کرام ساتھ ہوں گے یعنی مولوی ابو العطاء صاحب` مولوی سیف الرحمن صاحب` مولوی محمد یعقوب صاحب` ملک غلام فرید صاحب اور مولوی نذیر احمد علی صاحب کو کراچ تار بھجوائی جارہی ہے کہ وہ جمعہ کی شام تک لاہور پہنچ جائیں۔
نیز حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر باورچی کا اپنا انتظام کرلیا جاوے تو لوگوں کی دلجمعی کا موجب ہوگا اور کھانا بھی اچھا مل سکے گا۔
نیز فرمایا جامعہ المبشرین کے طلبہ کی اس دفعہ ضرورت نہ ہوگی۔
خاکسار عبد الرحمن انور
۵۴۔ ۱۔ ۲۷
۶۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تاریخ/ ربوہ ۔۔۔۔۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ
نمبر
بخدمت مکرم محترم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ملک غلام فرید صاحب اور مولوی نذیر احمد علی صاحب کو اطلاع بذریعہ تار دے دی جاوے کہ وہ جمعہ کے دن لاہور پہنچ جائیں۔ حضور بھی اس تاریخ لاہور پہنچ رہے ہیں۔
خاکسار
عبدالرحمن انور
۵۴۔ ۱۔ ۲۷
پرائیویٹ سیکرٹری
حضرت خلیفہ المسیح الثانی
تار دی گئی۔ مرزا بشیر احمد صاحب
۷۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت اقدس حضرت میاں صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ
مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب بحث کررہے ہیں اور نہایت اطمینان سے کررہے ہیں اور حضور کے فرمودہ نوٹ کے متعلق حوالہ جات پیش کررہے )ہیں(
والسلام
خاکسار۔ غلام مرتضیٰ
‏pm ۱۵۔ ۲ at ۵۳۔~ف۱۵~ ۲۔ ۳
۸۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت اقدس حضرت میاں صاحب
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
آج مئورخہ ۲۴ فروری ۱۹۵۴ء بوقت دس بجے صبح مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنی بحث ختم کی۔ اس کے بعد مسٹر یعقوب علی صاحب نے جواب دیا اور اس کے بعد چوہدری محمد حسین چیمہ وکیل انجمن احمدیہ اشاعت اسلام نے۔۔۔۔۔ اپنا کیس پیش کیا۔ چیف صاحب نے فرمایا کہ لنچ کے بعد مذہبی حصہ کی بحث شروع ہوگی۔ عدالت سوالات کرے گی اور ہر فریق کو اس کے جوابات دینے ہوں گے۔ چنانچہ آج بعد دوپہر مولانا مرتضیٰ احمد میکش نے مجلس عمل کی طرف سے~ف۱۶~ شروع کیا۔ چیف صاحب نے بھی فرمایا کہ یہ مذہبی حصہ بحث کا ہفتہ تک یعنی ۲۷ فروری ۱۹۵۴ء تک ختم ہوجائے گا۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے آج Aggressive تبلیغ کے متعلق بحث کی اور بلوچستان والے خطبہ جمعہ کی وضاحت بھی کی۔ دوران بحث میں کیانی صاحب نے فرمایا کہ تبلیغ کرنا ذپ مذہبی فرض سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے ہاں یہ فیصلہ ہمارا کام ہے کہ آیا ایک خاص تحریر Aggressive تبلیغ ہے یا نہیں۔ شیخ صاحب کی بحث کے دوران میں کیانی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ ایک دوست کی حیثیت سے میرے پاس آکر تبلیغ کرتے ہیں تو میکش صاحب کو س پر معترض نہیں ہونا چاہئے۔ چیف صاحب نے بھی ان کی تائید کی بہرحال شیخ صاحب نے نہایت مئوثر طریق پر بحث کی۔
میکش صاحب نے آج بعد دوپہر مذہبی حصہ پر حوالہ جات پیش کئے۔ کل سوال نمبر ۷ اور Religion Politics سوال پر بحث ہوگی۔ بظاہر نظر آتا ہے کہ کل بارہ بجے تک میکش صاحب اور مولوی مظہر علی اظہر اپنی بحث ختم کرلیں گے اور بعد دوپہر ہماری باری شروع ہوجائے گی۔
آج ٹیلیفون پر آپ کو اطلاع دینے کی کوشش کی لیکن Connection نہ مل سکا۔
والسلام` خاکسار
غلام مرتضی از لاہور
۵۴۔ ۲۔ ۲۴
نوٹ منجانب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب۔
>فوری بحضور سیدنا مرسل ہو آخری فقرہ میں شاید جلدی آنے کا اشارہ ہے گو شاید جاتے جاتے بحث ختم ہوجائے۔ چوہدری صاحب بھی کل صبح یہاں آرہے ہیں۔
خاکسار مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
بوقت صبح
)جواب منجانب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب(
>حضور نے فرمایا ہے کہ لاہور فون کرکے معلوم کیا جائے کہ کیا اب بھی ہمارے وہاں انے کی ضرورت رہ گئی ہے۔<
خاکسار
عبدالرحمن
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
۹۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
لاہور میں شیخ بشیر احمد صاحب کے نمبر پر فون کیا جائے کہ چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب کا خط آیا ہے کہ بحث جلدی جلدی ختم ہورہی ہے اور غالباً ہماری بحث کی باری آج بعد دوپہر آجائے گی اس پر حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اب کیا ہمارے وہاں آنے کی ضرورت رہ گئی ہے نیز کہہ دیا جائے کہ غالباً اگر آج دوپہر کو ہماری بحث شروع ہو تو موجودہ رفتار کے لحاظ سے آج شام تک یا ک دوپہر تک ختم بھی ہوجائے گی۔
ارجنٹ فون کیا جائے اور فون پر درد صاحب یا شیخ صاحب یا خادم صاحب یا چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب کو بلایا جائے اور ان کا جواب نوٹ کرلیا جائے۔ ایک وقت میں صرف دو آدمیوں کا نام دیا جاسکتا ہے اگر گھر پر نہ ملیں تو بار روم ہائی کورٹ کے نمبر پر بلا لیا جائے وہ چیف جج کے کمرے میں ہوں گے۔
‏]da [tagخاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
۱۰۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا!
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
خط والا آدمی لاہور پہنچ گیا ہے اور اس پر لاہور سے شیخ بشیر احمد صاحب نے حسب ذیل فون کیا ہے:۔
>خادم صاحب نے دوپہر سے بعد بھی ختم نبوت پر بحث کی اور بعض آیات اور حوالہ جات پیش کئے اور ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی انشاء اللہ ہماری بحث ہفتہ تک تو یقینی جاری رہے گی اور اس کے آگے بھی جاری رہنے کی امید ہے۔ خادم صاحب نے اچھی بحث کی ہے بہتر یہی ہے کہ حضور تشریف لے ہی آویں۔ ججوں نے کہا ہے کہ ختم نبوت کے موضوع کو بہت اہمیت دی گئی ہے اس لئے ہم اس موضوع پر مفصل بحث سننا چاہتے ہیں۔ حضور کے خط میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا امکان نہیں ہے حضور تشریف لے آئیں۔
نیز کہا مولوی ابو العطاء صاحب سے کتاب تحقیق الجہاد لیتے آئیں۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
۵۴۔ ۲۔ ۲۵
تحقیقاتی عدالت کی ابتدائی کاروائی
روزنامہ >آفاق< لاہور کی ۶ اگست ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں لکھا ہے:۔
>پنجاب صمیں رد قادیانیت کی تحریک کے سلسلہ میں حالیہ فسادات کی تحقیقات کرنے والا کمیشن ختم نبوت کے متعلق عقائد کا اختلاف معلوم کرنے کے لئے قادیانی فرقہ اور مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے سترہ ممتاز علماء کے بیانات کمیشن کے لاہور کے اجلاس میں بند کمرہ میں قلمبند کرے گا۔ تحقیقات عدالت نے سات سوالوں پر مشتمل ایک سوال نامہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے نام جاری کی اہے۔ اور انہیں ہدایت کی گئی ہے۔ کہ وہ جماعت ¶احمدیہ کے عقائد کے حوالہ سے اور فرقہ احمدیہ کے سربراہ سے مشورہ کے بعد سترہ اگست تک ان سوالات کے جواب پیش کریں۔ تحقیقاتی عدالت نے آج کے اجلاس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو حکم دیا ہے۔ کہ مارشل لاء کے دوران میں خاص فوجی عدالتوں نے مولانا اختر علی خاں مولانا ابو العلیٰ مودودی مولانا عبدالستار نیازی اور مسٹر احمد سعید کرمانی کے خلاف مقدمات میں جو احکامات اور فیصلے صادر کئے تھے۔ ان کی مصدقہ نقول عدالت میں پیش کی جائیں۔ تحقیقاتی عدالت نے جو چیف جسٹس مسٹر محمد منیر اور مسٹر جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل ہے مسٹر عبدالرزیز خاں ایڈووکیٹ جنرل کو مزید حکم دی اہے کہ رد قادیانیت کی تحریک اور حالیہ فسادات کے معلق اگر پنجاب کے محکمہ تعلقات عامہ میں کوئی فائل رکھی گئی ہو۔ تو وہ بھی عدالت مںی پیش کی جائے۔
عدالت نے صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی جانت سے مسٹر بشیرا حمد اور جماعت اسلامی کی جان سے مسٹر صفدر حسن صدیقی کو اجازت دے دی ہے۔ کہ وہ مطلوبہ دستاویزات کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
جن سترہ علماء کے بیانات قلمبند کئے جائیں گے ان کے نام یہ ہیں۔ مولانا ابو العلیٰ مودودی اسیر جماعت اسلامی۔ مولانا عطا اللہ شاہ بخاری مجلس احرار۔ مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیت علمائے پاکستان۔ مولانا دائود غزنوی اہل حدیث۔ مولانا محمد ذاکر تنظیم اہل سنت والجماعت۔ مولانا نور الحسن شاہ بخاری۔ مولانا حافظ کفایت حسین ادارہ تحفظ حقوق شیعہ۔ پیر قمر الدین جمعیت الشائخ۔ مسٹر قیصر مصطفیٰ اسلام لیگ۔ مولانا محمد ادریس جامعہ اشرفیہ۔ مولانا احمدی علی صدر جمعیہ علمائے اسلام مغربی پاکستان۔ مولانا سید سلیمان ندوی۔ مولانا عبدالماجد بدایوانی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی کراچی۔ مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ سوالنامہ عدالت نے اس لئے جاری کیا ہے۔ کہ وہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے علمائے کے عقائد میں ہامی اختلاف معلوم کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ عدالت اپنے آپ کو اس متنازعہ مذہبی مسئلہ پر فیصلہ صادر کرنے کا اہل نہیں سمجھتی۔ لیکن چونکہ حالیہ فسادات اس مسئلہ پر قادیانیوں اور مسلمانوں کے باہمی عقائد میں اختلاف ہی کا نتیجہ تھے۔ اس لئے عدالت نے ضروری سمجھا کہ اس کے متعلق مختلف فرقوں کے درمیان عقائد کا اختلاف معلوم کیا جائے۔
تحقیقاتی عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو مزید حکم دیا ہے کہ مولانا اختر علی خان` مولانا مودودی` مولانا عبدالستار نیازی` اور مسٹر ابو عید کرمانی کے بیانات کی نقول بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔
عدالت نے مولانا عبدالستار نیازی کی یہ درخواست بھی منظور کرلی ہے۔ کہ انہیں اپنا بیان پیش کرنے کے لئے ۱۷ اگست تک کی مہلت دی جائے۔ فریقین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیانات مری میں تحقیقاتی عدالت کے دفتر میں یا لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر میں پیش کریں۔
عدالت نے فریقین سے مزید درخواست کی کہ وہ ۱۷ اگست سے پہلے اپنے گواہوں کی فہرست اور ایسے لوگوں ر جرح کے متعلق درخاستیں پیش کردیں۔ جو عدالت کی کاروائی سے تعلق نہیں رکھتے۔ عدالت کی ہدایت کے مطابق گواہوں کی فہرست میں ہر گاوہ کے متعلق اس کی گواہی کا منشا بیان کیا جائے۔~<ف۱۷~
حضرت مصلح موعود کا ایک اور مکتوب
مندرجہ ذیل خط سیدنا حضرت مصلح موعود نے ۷ اگست ۱۹۵۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام سندھ سے تحریر فرمایا:۔
۵۳۔ ۸۔ ۷
عزیزم
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
کل ڈاک اور سول]10 ~[pف۱۸~ میں یہ حیرت ناک خبر ملی کہ کمیشن نے مولویوں والے سوالات~ف۱۸~ احمدیوں سے کئے ہیں۔ آج تار تو دے دی گئی ہے مگر نہ معلوم تار کے راستے خراب ہیں پہنچے گی یا نہیں۔ اب آدمی کے ہاتھ یہ خط بھجوایا جارہا ہے۔ مرے نزدیک فوراً کمیشن کے سامنے یہ درخواست دے دینی چاہئے۔
۱۔ علماء سے یہ سوال کیا جائے۔ کیا جماعت کے بانی اور جماعت احمدیہ پر کفر۔ ارتداد۔ زندیقیت۔ الحاد۔ بے ایمانی۔ خباثت۔ شرارت۔ شیطان کے چیلے ہونے ابو جہل کی نسل سے ہونے۔ ان کے نکاحوں کے ٹوٹنے۔ ان کی اولاد ولد الزنا ہونے ان کے مسجدوں میں داخل ہونے سے مسجد کے پلید ہوجانے۔ ان کے مقبروں میں دفن ہونے کے جائز نہ ہونے اور اگر دفن ہوجائیں تو مردے نکال کر باہر پھینک دینے کے فتوے علماء نے ۱۸۹۱ء اور اس کے بعد دیئے ہیں یا نہیں اور اگر احمدیوں نے ان کے ان فتووں کا کوئی جواب دیا ہے و کیا پورے دس سلا ان فتوں کے سننے کے بعد نہیں دیا۔ )اگر علماء کو ان کار ہوتو ہمیں یہ فتوے پیش کرنے کی اجازت دی جائے(
۲۔ کیا مسلمانوں کے ہر فرقہ کے دوسرے فرقہ کے خلاف کفر۔ الحاد۔ زندقہ۔ ارتداد وغیرہ کے فتوے موجود نہیں ہیں۔ )اگر علماء کو انکار ہو تو ہم کو یہ فتوے پیش کرنے کی اجازت دی جائے(
۳۔ کیا خوارج جن کی عمان میں بھی حکومت تھی اور زنجبار میں بھی حکومت ہے اور جن کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہیں اور جن کے ہم مذہب افراد کراچی میں بھی موجود ہیں۔ کیا ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے اور جہنمی ہوتا ہے اور یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کبائر کے مجرم تھے اور اس وجہ سے ان کے آباء نے حضرت عثمانؓ کو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن ہونے سے روک دیا تھا۔ آخر کئی دن کے بعد رات کے وقت مقبرہ کے کونے میں ان کو دفن کیا گیا۔ کیا ان لوگوں کے خلاف اور ان کی حکومتوں کے خلاف علماء نے فتوے دیئے اور ان کی حکومتوں سے قطع تعلق کرنے کا مشورہ دیا اور ان کے خلاف ہنگامے کئے گئے )اگر ان واقعات سے علماء کو انکار ہو تو ہم اسلامی لٹریچر پیش کرنے کو تیار ہیں(
۴۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ بہاء اللہ نے قران کے منسوخ ہونے کا اعلان کیا۔ کیا رسول کریم~صل۱~ کی شریعت کے ختم ہوجانے کا اعلان کیا اور اپنے خدا کے مظہر ہونے کا اعلان کیا اور بہاء اللہ کی قبر کو سجدہ کرنے کو ان کے نائب عبد البہاء نے جائز کہا ہے۔ بہاء اللہ کے اتباع سینکڑوں کی تعداد میں کراچی میں موجود ہیں اور سینکڑوں کی تعداد مںی پاکستان کے دوسرے حصوں میں موجود ہںی کیا ان لوگوں کے خلاف علماء نے فتوے دیئے۔ کوئی ہنگامہ برپا کیا۔ اور ایجی ٹیشن کئے اور کب کئے )اگر جو عقائد ہم نے بہائیوں کی طرف منسوب کئے ہیں اس بیان کی صحت سے علماء کو انکار ہو تو ہم لٹریچر پیش کرنے کو تیار ہیں۔(
۵۔ شیعہ مذہب کی رو ے حضرت ابوبکرؓ` حضرت عمرؓ` حضرت عثمانؓ` تینوں فاسق تھے۔ صحابہ کی اکثریت فاسق تھی۔ رسول کریم~صل۱~ کی بیویواں بھی قابل اعتراض تھیں۔ کیا علماء نے ایسے عقیدے رکھنے والوں کے خلاف کوئی احتجاج کیا یا ان عقائد کو برداشت کے قابل سمجھ لیا اگر سیعہ عقائد کے متعلق ہمارا یہ بیان غلط ہے تو ہم شیعہ لٹریچر سے اس کے حوالے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
ہم یہ بھی لکھ دینا چاہتے ہیں کہ شیعوں کا ایک گروہ جو اقلیت میں ہے۔ ان عقائد سے پاک ہے۔
۶۔ کیا علماء کو یہ معلوم ہے کہ نہیں ہے کہ شیعہ مذہب کے عقیدہ مںی رجعت کا ایک عقیدہ ہے جس کی رو سے امام مہدی کے زمانہ میں تمام انبیاء دوبارہ ظاہر ہوں گے اور ان کی اطاعت کریں گے اور تمام صحابہؓ کو زندہ کیا جائے گا اور ان کو کوڑے لگوائے جائیں گے۔ کیا علماء کے نزدیک یہ عقیدہ اشتعال دلانے والا نہیں۔ اگر ہے تو اس کے خلاف انہوں نے کیا احتجاج کیا اور کیا ہنگامے کئے۔
۷۔ کیا علما کے نزدیک مسیح ناصر زندہ ہیں اور دوبارہ دنیا پر آئیں گے اور کیا وہ اس وقت نبی ہوں گے یا نہیں ہوں گے اور ان کے منکر مومن ہوں گے۔ کافر ہوں گے اگر کافر کہلائیں گے تو کیا ان کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ خیزی جائز ہوگی۔ اور کیا اس عقیدہ میں رسول اللہ~صل۱~ کی ہتک ہے یا نہیں اور رسول اللہ~صل۱~ پر ایمان لانے والوں کے دل دکھتے ہیں یا نہیں۔
ہم ان سوالات سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ احمدیوں کے متعلق اگر کوئی بات ہے تو وہ پرانی بات ہے نئی پیدا نہیں ہوتی تیس سال سے کوئی ایسا لٹریچر شائع نہیں ہوا جس سے قیاس بعید کرکے بھی ایسے الفاظ نکالے جاسکیں۔
دوسرے احمدیہ جماعت کی طرف سے کوئی ایسا لفظ جس کو کھینچ تان کر بھی اشتعال انگیز کہا جاسکے اس وقت تک استعمال نہیں کیا گیا۔ جب تک ۱۰ سال تک متواتر خلاف اخلاق` خلاف شریعت` خلاف انسانیت الفاظ احمدیوں کے خلاف استعمال نہیں کئے گئے۔
۸۔ یہ کہ اس کے مشابہ صورتیں مسلمانوں کے ہر فرقہ میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن علماء نے اس پر کوئی ہنگامہ خیزی ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کے خلاف شورش محض سیاسی تھی اور محض ظفر اللہ خاں کے وزیر ہونے کی وجہ سے تھی اور سیاسی اغراض کے ماتحت سیاسی لوگوں نے شروع کروائی تھی۔
۹۔ یہ کہ ایسے لٹریچر کے متعلق شور کرنا جو کبھی بھی مسلمانوں میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ صرف احمدیہ جماعت کے دو فرقوں کے اختلاف کے متعلق پرائیویٹ طور پر شائع کیا گیا اور جس میں استعمال ہونے والے الفاظ ان اصطلاحات کے مطابق نہیں تھے جو کہ مسلمانوں میں رائج ہیں بلکہ ان اصطلاحاات کے مطابق تھے جو کہ صرف احمدیوں کے نزدیک مسلمہ تھیں اس لٹریچر کے غلط معنے کرنے اور ان اصطلاحات کے وہ معنے کرنے جو کہ اس وقت عام مسلمانوں میں رائج تھے مگر احمدی ان معنوں کے خلاف تھے صاف بتاتا ہے کہ اشٹعال کی وجہ موجود نہیں تھی بلکہ اشتعال پیدا کیا گیا اور عوام الناس کو بھڑکایا گیا۔ اگر اشتعال حقیقی ہوتا تو وہ عوام الناس میں پہلے ہوتا مگر یہ اشتعال تو کئی سال جلسے کر کرکے شہر بہ شہر پھر پھر کے مولویوں نے پیدا کیا اور غلط باتیں منسوب کرکے پیدا کیا۔
حوالہ جات
~ف۱~
مکتوب حضرت مصلح موعود بنام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب موصولہ ۷ جولائی ۱۹۵۳ء
~ف۲~
یہ سہو ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی چاہئے ملاحظہ ہو آپ کی کتاب تفہیمات الٰہیہ جلد ۲ صفحہ ۲۹۴ اکیڈیمی شاہ ولی اللہ حیدر آباد ۱۹۶۷ء
~ف۳~
رسالہ >انقلاب نو<۔ لاہور۔ جلد نمبر ۴ شمارہ نمبر ۸/۷ صفحہ نمبر ۳۳ یکم اپریل تا ۳۱ اپریل ۱۹۷۴ء
~ف۴~
>اقبال اور ملا< طبع ہفتم صفحہ ۱۸۔ ۱۹ ناشر بزم اقبال` نرسنگھ داس گارڈن` کلب روڈ` لاہور۔
~ف۵~
)والد ماجد ڈاکٹر قریشی لطیف احمد صاحب ہارٹ سپیشلسٹ فضل عمر ہسپتال( ولادت ۱۵ جولائی ۱۹۱۳ء۔ مولد ریاست الور۔ تعلیم اجمیر شریف میں حاصل کی۔ پھر فوج میں ملازم ہوگئے قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے ۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۶ مارچ ۱۹۸۷ء تک لاہور میں ٹائپ کا کام کیا۔ آپ کے ادارہ کا نام ٹائپ کارنر تھا۔ آپ مولانا عبد المالک خاں صاحب مربی سلسلہ کے سمنبدھی تھے۔ آخر عمر آپ اپنے صاحبزاد ڈاکٹر قریشی لطیف ¶احمد صاحب کی کوٹھی ۵۳/۱۸ دارالعلوم وسطی ربوہ میں قیام پذیر رہے ۷ جنوری ۱۹۹۵ء کو وفات پائی۔
~ف۶~
تحریری بیان مئورخہ ۳ جولائی ۱۹۹۰ء
~ف۷~
خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی )ناقل(
~ف۸~
صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی سالانہ رپورٹ ۵۴۔ ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۱ میں لکھا ہے۔
>فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی کاروائی کے سلسلہ میں ۱۹۴۷ء سے قبل کے اخبارات و رسائل قادیان سے منگوائے گئے اور ان میں سے سفید مطلب حوالہ جات عدالت میں پیش کرنے کے لئے مہیا کئے گئے۔
نیز تحقیقاتی عدالت کی کاروائی کے سلسلہ میں علماء سلسلہ و طلباء جامعہ المبشرین ربوہ طلباء جامعہ احمدیہ احمد نگر کثرت سے تلاش حوالہ جات کی غرض سے لائبریری میں آتے رہے جنہی مطلوبہ لٹریچر بہم پہنچایا جاتا رہا۔ اس سلسلہ میں لائبریری کا تمام عملہ کئی کئی گھنٹے دن کو اور رات کو بھی زائد وقت دیتا رہا اور لائبریری کھلی رکھی جاتی رہی عدالتی کاروائی کے سلسلہ میں مولوی محمد صدیق صاحب انچارج لائبریری اور ایک مددگار کارکن لائبریری )سلیم اللہ صاحب( بہت ہی ضروری کتب لے کر اکتوبر ۱۹۵۳ء سے ۱۱ مارچ ۱۹۵۴ء تک پانچ ماہ لاہور میں رہے اور وہاں دن رات کام میں مصروف رہے۔ اس عرصہ میں دن اور رات کے کسی حصہ میں جب بھی ضرورت پڑی۔ ربوہ سے لائبریری کے کارکنان لاہور کتب بھجواتے رہے۔<
~ف۹~
~ف۱۰~
حال فیصل آباد
~ف۱۱~
حال ساہیوال
~ف۱۲~
سہواً اسلامی کی بجائے اسلام لکھا ہے
~ف۱۳~
مکتوب بنام چوہدری غلام مرتضی صاحب وکیل۔
~ف۱۴~
~ف۱۵~
سہواً ۵۳ء لکھا گیا ہے اصل میں ۱۹۵۴ء
~ف۱۶~
یہاں کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے ناقل۔
~ف۱۷~
آفاق لاہور ۶اگست ۱۹۵۳ء صفحہ ۱ کالم ۴۔ ۶
~ف۱۸~
روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور
~ف۱۹~
یہ سات سوالات تھے جن کے جوابات حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمائے تھے جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے۔
دوسرا باب
حضرت مصلح موعود نے صرف ہدایات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے قلم مبارک سے تین نہایت اہم دستاویزات تحریر فرمائیں جو تحریری بیانات کی شکل میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے داخل عدالت کی گئی تھیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے:۔
تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات
یہ جوابات ایڈووکیٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے ذریعہ ۲۹ اگست ۱۹۵۳ء کو عدالت میں داخل کئے گئے اور بعدازاں ان کو پہلے اخبار >المصلح< کراچی مورخہ ۱۱ نومبر ۱۹۵۳ء میں نذر اشاعت کیا گیا۔ اور پھر دارالتجلید اردو بازار لاہور نے مندرجہ بالا عنوان ہی سے رسالہ کی شکل میں اس کو بہت کثرت سے شائع کیا۔
اس نہایت ہم دستاویز کا متن درج ذیل ہے۔
ذیل میں ان سات سوالات کا جواب درج کیا جاتا ہے جو حکومت پنجاب کے مقرر کردہ تحقیقاتی کمیشن نے گزشتہ فسادات کی تحقیق کے تعلق میں صدر انجمن احمدیہ ربوہ سے کئے تھے اور صدر انجمن احمدیہ نے ان سوالوں کا جواب تیار کرا کے اپنے وکیل کے ذریعہ عدالت میں داخل کیا:۔
سوالنمبر۱:جو مسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نبی بمعنی ملہم اور مامور من اللہ نہیں مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں؟
جواب>:مسلم< اور >مومن< قرآن مجید کے محاورات کو دیکھتے ہوئے دو الگ الگ معنے رکھتے ہیں۔ >مسلم< نام امت محمدیہ کے افراد کا ہے اور >ایمان< دراصل اس روحانی اور قلبی کیفیت کا نام ہے جس کو کوئی دوسرا جان نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ ہی اس سے واقف ہوتا ہے۔
جہاں تک لفظ >مسلم< کا تعلق ہے قران کریم کی آیت ھو سمکم المسلمین )سورہ حج ع ۱۰( کے مطابق امت محمدیہ کا ہر فرد مسلم کہلانے کا مستحق ہے۔ اس تعریف کی تاکید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے کہ >من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلم الذی ذمہ اللہ وذمہ رسولہ )بخاری بحوالہ مشکٰوٰہ کتاب الایمان صفحہ ۱۲ مطبع اصح المطابع( یعنی جو شخص بھی ہمارے قبلہ )یعنی کعبہ( کی طرف منہ کرکے مسلمانوں کی سی نماز پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کو خدا اور اس کے رسول کی حفاظت حاصل ہے۔
باقی رہا >مومن< سو کسی کو مومن قرار دینا درحقیقت صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ عام اصطلاح میں >مسلم< اور >مومن< ایک معنوں میں استعمال ہوجاتے ہیں لیکن درحقیقت >مومن< خاص ہے اور >مسلم< عام۔ پس ہر مومن >مسلم< ضرور ہوا لیکن ہر مسلم کا >مومن< ہونا ضروری نہیں۔
مندرجہ بالا تشریح کے مطابق جو شخص رسول کریم~صل۱~ کو مانتا ہے اور آپ کی >امت< میں سے ہونے کا اقرار کرتا ہے وہ اپنے کسی عقیدہ یا عمل کی دانستہ یا نادانستہ غلطی کی وجہ سے اس نام سے محروم نہیں ہوسکتا۔ ظر ہے کہ اس تشریح کے مطابق اور قران کریم کی آیت >ھو سمکم المسلمین< کے تحت کسی شخص کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے کی وجہ سے غیر مسلم نہیں کہا جاسکتا۔
ممکن ہے ہماری بعض سابقہ تحریرات سے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اس کے متعلق ہم کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہماری ان بعض سابقہ تحریرات میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں وہ ہماری مخصوص ہیں۔ عام محاورہ کو جو مسلمانوں میں رائج ہے استعمال نہیں کیا گیا۔ کیونکہ ہم نے اس مسئلہ پر یہ کتابیں غیر احمدیوں کو مخاطب کرکے شائع نہیں کیں بلکہ ہماری یہ تحریرات جماعت کے ایک حصہ کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہیں اس لئے ان تحریرات میں ان اصطلاحات کو مدنظر رکھنا ضروری نہیں تھا جو دوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں۔
ہمارے اس عقیدہ کی تائید کی کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے والا مسلمان >مسلمان< ہی کہلائے گا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو اپ کا الہام
>مسلماں را مسلماں باز کردند<
)حقیقہ الوحی صفحہ ۱۰۷ مطبوعہ ۱۹۰۷ء(
یعی آپ کی بعثت کی غرض مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنانا ہے ایک دوسرے الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت بانئی سلسلہ احمدیہ کو یہ دعا سکھلائی ہے:۔
>رب اصلح امہ محمد<
)تحفہ بغداد صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۳۱۱ھ
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تمام کتابوں میں ان تمام مسلمانوں کو جو آپ کی جماعت میں داخل نہیں >مسلمان< کہہ کر ہی خطاب کیا ہے کیونکہ وہ اسلام کی عمومی تعریف کے مطابق کلمہ طیبہ پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں۔~ف۱~ اسی طرح موجودہ امام جماعت احمدیہ بھی ان کو مسلمان کے لفظ سے خطاب کرتے ہیں۔
)مثلاً ملاحظہ ہو الفضل ۱۹ مئی ۱۹۴۷ء والفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۴۷ء وغیرہ(
ہاں آنحضرت صلعم نے بھی فرمایا ہے >یاتی علی الناس زمان لا یبقی من الاسلام الا اسمہ< )مشکٰوٰہ کتاب العلم( یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ یہ حدیث اسی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے چنانچہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی بھی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو جو ان کی جماعت میں شامل نہیں ہیں صرف رسمی اور اسمی مسلمان قرار دیتے ہیں چنانچہ وہ مسلمانوں کی دو قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے ایک قسم کے مسلمان وہ خدا اور رسول کا اقرار کرکے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کلی زندگی کا محض ایک جزو اور اک شعبہ ہی بنا کر رکھیں اس مخصوص جزو اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو۔ لیکن فی الواقعہ ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں۔ ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہوجائیں۔۔۔۔۔ یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چاہے قانونی حیثیت سے دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہو۔<
)رسالہ موسومہ روداد جماعت اسلامیحصہ سوم صفحہ ۷۸ تا ۸۰(
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
‏iq] g>[taیہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ ان کا اخلاقی نقطئہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے۔<
)مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم بار ششم صفحہ ۱۰۵` ۱۰۶(
اسی طرح موجودہ دور کے مسلمانوں کے متعلق اہلحدیث کا خیال بھی ملاحظہ فرمایا جاوے۔ نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالوی اپنی کتاب اقتراب الساعہ کے صفحہ ۱۲ پر تحریر فرماتے ہیں۔
>اب اسلام کا صرف نام۔ قرآن کا فقط نقش باقی رہ گی اہے۔ مسجدیں ظاہر مںی تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں۔ علماء اس امت کے بدتران کے ہیں جو نیچے آسمان کے ہیں۔ انہی میں سے فتنے نکلتے ہیں انہی کے اندر پھر کرجاتے ہیں۔<
)اقتراب الساعہ صفحہ ۱۲(
پھر جناب علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے موجودہ مسلمانوں کے متعلق اپنا خیال ان اشعار میں بیان فرمایا ہے کہ:۔
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو؟
)بانگ درا ایڈیشن دواز دہم صفحہ ۲۲۶ جواب شکوہ(
پھر صرف نام کے طور پر اسلام کے باقی رہنے کے متعلق مولانا خالی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمایا جاوے ~}~
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کارہ گیا نام باقی
)مسدس حالی مطبوعہ تاج کمپنی صفحہ ۲۶(
پھر سید عطاء اللہ صاحب بخاری کمیونزم اور اسلام کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے متعلق حسب ذیل بیان دیتے ہیں:۔
>مقابلہ تو تب ہو کہ اسلام کہیں موجود بھی ہو۔ ہمارا اسلام؟ ہم نے اسلام کے نام پر جو کچھ اختیار کر رکھا ہے وہ تو صریح کفر ہے۔ ہمارے دل دین کی محبت سے عاری۔ ہماری آنکھں بصیرت سے ناآشنا اور کان سچی بات سننے سے گریزاں ~}~
بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہمارا اسلام؟
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
‏tav.14.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
یہ اسلام جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام یہ جو نبی نے سکھایا تھا؟ کیا ہماری رفتار` گفتار کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا ہے۔۔۔۔۔ یہ روزے یہ نمازیں جو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیں ان کے پڑھنے میں ہم کتنا وقت صرف کررہے ہیں؟ جو مصلے پر کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سنتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا سن رہے ہیں اور باقی ۲۳ گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں؟ میں کہتا ہوں گورنری سے گداگری تک مجھے ایک بات ہی بتلائو جو کہ قرآن اور اسلام کے مطابق ہوتی ہے؟ ہمارا تو سارا نظام کفر ہے۔ قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے۔ قرآن صرف عویذ کے لئے قسم کھانے کے لئے ہے۔<
)تقریر سید عطاء اللہ شاہ بخاری آزاد ۹ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۱` ۲(
مندرجہ بالا حوالہ جات سے کفر و اسلام کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک اور اس کے مقابلہ پر موجودہ زمانے کے دوسرے مسلمانوں فرقوں کا طریق واضح اور عیاں ہے۔
سوالنمبر۲:کیا ایے شخص کافر ہیں؟
جواب>:کافر< کے معنے عربی زبان میں نہ ماننے والے کے ہیں۔ پس جو شخص کسی چیز کو نہیں مانتا اس کے لئے عربی زبان میں >کافر< کا لفظ ہی استعمال ہوگا۔ پس ایسے شخص کو جب تک وہ یہ کہتا ہے کہ میں فلاں چیز کو نہیں مانتا اس کو اس چیز کا کافر ہی سمجھا جائے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آئمہ اہل بیت کا انکار کرنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں:۔
>من عرفنا کان مومنا۔ من انکرنا کان کافرا۔ من لم یعرفنا ولم ینکرنا کان ضالا۔<
)الصافی شرح الاصول الکافی باب فرض الطاعہ الائمہ کتاب الحجہ جزو ۳ صفحہ ۶۱ مطبوعہ نولکشور(
یعنی جس نے ہم آئمہ اہل بیت کو شناخت کرلیا وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے اور جو ہمیں نہ مانتا ہے اور نہ انکار کرتا ہے وہ ضال ہے۔
اس ارشاد سے حضرت امام صاحب کی یہ مراد نہیں ہوسکتی کہ ایسا شخص امت محمدیہ سے خارج ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے یہی مراد ہوسکتی ہے کہ آئمہ اہل بیت کے درجہ کا منکر ہے ہمارے نزدیک آنحضرت~صل۱~ کے بعد کسی مامور من اللہ کے انکار کے ہرگز یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم~صل۱~ کے منکر ہوکر امت محمدیہ سے خارج ہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں کے معاشرہ سے خارج کردیئے گئے ہیں۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:۔
اول:ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت~صل۱~ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔
دوم:دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔
)حقیقہ الوحی صفحہ ۱۷۹ مطبوعہ ۱۹۰۷ء(
یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس قسم کے فتووں میں بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ یا آپ کی جماعت کی طرف سے ابتداء نہیں ہوئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غیر احمدی علماء نے اپنے فتووں میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو آپ کے ابتدائے دعویٰ ۹۱۔ ۱۸۹۰ء سے ہی نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ مرتد` زندیق` ملحد` ابلیں` دجال` کذاب وغیرہ الفاظ بھی استعمال کئے اور اس قسم کے اور بہت ے گندے ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا۔ اس قسم کے فقرے لکھے گئے اور کتابیں چھاپی گئیں اشتہارات اور پفلٹوں کے ذریعہ سے ان فتووں کو لوگوں میں پھیلا دیا گی اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی پر اس طرح پہلے حملہ کرتا ہے وہ پھر اس قسم کے جواب کا مستحق بھی ہوجاتا ہے اور اس صورت میں اسے اپنے اپ کو ملامت کرنی چاہئے دوسرے کو الزام دینے کا اسے کوئی حق نہیں رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں:۔
)ا( ایما رجل قال لاخید کافر فقد باء بھا احدھما۔
)ترمذی کتاب الایمان صفحہ ۱۰۶(
)ب( nsk] gat[ اذا کفر احدکم اخاہ فقد باء بھا احدھما
)صحیح مسلم بحوالہ کنورز الحقائق للمنادی مطبوعہ مصریہ حاشیہ جامع الصگیر جلد ۱ صفحہ ۱۶(
یعنی جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان میں سے ایک ضرور کافر ہوگا اگر وہ شخص جسے کافر کہا گیا ہے کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہوگا۔
)ج( مااکفر رجل رجلا قط الاباء بھا احدھما۔
)ابن حبان فی صحیحہ بحوالہ جامع الصگیر مصنفہ حضرت امام سیوطی مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحہ ۱۴۳(
یعنی دو )مسلمان آدمیوں میں سے ایک آدمی اگر دوسرے کو کافر قرار دے تو لازمی ہے کہ ان میں سے ایک ضرور کافر ہوجائے گا۔
غرضیکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے اس قسم کے فتووں میں کبھی ابتداء نہیں ہوئی چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:۔
>پھر اس جھوٹ کو تو دکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمانوں اور کلمہ گویوں کو کافر ٹھہرایا حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہوگئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گناہ ہوگیا کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا؟ اگر کوئی ایسا کاغذ یا کوئی اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتویٰ کفر سے پہلے سائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے تو وہ پیش کریں۔ ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹہھرا میں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگائیں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر دلآزار ہے ہر یاک عقلمندر سمجھ سکتا ہے اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہوگئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کفر الٹ کر اس پر پڑتا ہے۔ تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب انہی کے قرار کے ہم ان کو کافر کہتے۔<
)حقیقہ الوحی مطبوعہ ۱۹۰۷ء ۱۲۰۔ ۱۲۱(
پھر اس بات کے ثبوت میں کہ فتویٰ کفر کی ابتداء علماء کی طرف سے ہوئی نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ذیل کے چند فتوے بطور مثال درج ہیں۔
)ا( مولوی عبدالحق صاحب غزنوی جو مولانا دائود غزنوی صاحب کے غم بزرگوار تھے( نے لکھا ہے کہ:۔
>اس میں شک نہیں کہ مرزا قادیانی کافر ہے چھپا مرتد ہے گمراہ ہے گمراہ کنندہ` ملحد ہے۔ دجال ہے وسوسہ ڈالنے والا۔ وسوہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا<
)فتویٰ علماء ہندو پنجاب اشاعہ السنہ جلد ۱۰۷۱۳ صفحہ ۱۰۴ مطبوعہ ۱۸۹۰ء(
اس قسم کا فتویٰ پنجاب و ہند کے قریباً دو صد مولویوں سے لے کر شائع کیا گیا۔
)ب( اس فتوے سے بھی کئی سال پہلے علماء لدھیانہ نے ۱۸۸۴ء میں تکفیر کا مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کیا۔ جس کا ذکر قاصے فضل احمد صاحب کورٹ انسپکٹر لدھیانہ نے اپنی کتاب کلمہ فضل رحمانی )مطبوعہ دہلی پنچ پریس لاہور ۱۳۱۴ھ صفحہ ۱۴۸( میں کیا ہے۔
باہمی تکفر کے بارے میں علماء کے چند فتوے درج ذیل ہیں:۔
>من انکر امامہ ابی بکر الصدیق فھو کافر وکذلک من انکر خلافہ عمر۔<
)فتاوی عالمگیر یہ جلد ۲ صفحہ ۲۸۳ مطبع مجید کانپور(
یعنی جو شخص حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امامت اور حضرت امامؓ کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے بے علم و بے عمل مسلمان کو جس کا علم و عمل کافر جیسا ہو اور وہ اپنے آ کو مسلمان کہتا ہو کافر ہی قررا دیا یہ اور اس کا حشر بھی اکفروں والا بتایا ہے یعنی اس کو نجات سے محروم اور قابل مواخذہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
>ہر شخص جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہے جس کا نام مسلمان کا سا ہے جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان درحقیقت وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو اور پھر جان بوجھ کر اس کو مانتا ہو ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصل فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے اس لئے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان<
)خطبات مودودی صفحہ ۶(
اسی طرح دوسرے مسلمان فرقوں کے علامء ایک دوسرے کو کافر اور جہنمی کہتے ہیں شیعہ اثنا عشر ی کے متعلق علماء اہلسنت والجماعت اور علماء دیوبند متفقہ طور پر مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کرتے ہیں:۔
>شیعہ اثنا عشریہ قطعاً خارج از اسلام ہیں۔ شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کے ذبیحہ حرام۔ ان کا چندہ مسجد میں دینا ناروا ہے۔ ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں۔<
)فتویٰ شائع کردہ مولوی عبدالشکور صاحب مدیر النجم لکھنئو(
)نوٹ:(۔ اس فتویٰ میں دیگر علماء کے علاوہ دیوبند کی تصدیق بھی شامل ہے جس کی شہادت مولانا محمد شفیع صاحب مفتی دیوبند سے لی جاسکتی ہے۔
مندرجہ بالا فتویٰ کی عبارت سے خالص مذہبی اختلافات ہی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ شیعہ فرقہ کے خلاف شدید غیظ و غضب کا اظہار پایا جاتا ہے علاوہ ازیں اہلسنت والجماعت کے مسلمہ گزشتہ بزرگان و اولیائے نے بھی حضرات شیعہ کے بارے میں فتویٰ کفر دی اہے حالہ جات ذیل ملاحظہ ہوں۔
)ا( حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمہ اللہ علیہ کا فتویٰ کفر برخلاف اصحاب شیعہ اثنا عشریہ۔
)مکتوبات امام ربانی جلد نمبر ۱ صفحہ ۷۱ مکتوب پنجاہ چہارم(
)ب( حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ کا فتویٰ )غنیہ الطالبین مع زبدٰہ السالکین صفحہ ۱۵۷ و تحفہ دستگیر یہ اردو ترجمہ( غنیہ الطالبین شائع کردہ ملک سراج دین اینڈ سنز لاہور یا چہارم مطبوعہ پنجاب پریس صفحہ ۱۲۰` ۱۴۱ باب بعنوان محمد مصطفیٰﷺ~ کی امانت کی فضیلت اور بزرگی(
اسی طرح اہلسنت والجماعت کے بریلوی فرقہ کے علماء مندرجہ ذیل فتویٰ علمائے دیوبند کے خلاف صادر کرچکے ہیں۔
)ا( حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور علماء حرمین شریفین کے دستخطوں سے یہ فتویٰ شائع ہوا ہے۔
>وبا بحملہ ھولاء الطوائف کلھم کفار مرتدون خارجون عن الاسلام باجماع المسلمین۔<
)حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین مع سلیس ترجمہ اردو مسمی بنام تاریخ بین احکام و تصدیقات اعلام ۱۳۲۵ مطبع اہل سنت والجماعہ بریلی ۱۳۲۶ھ بار اول صفحہ ۲۴ مصنفہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی(
یعنی یہ سب گروہ )یعنی گنگوھیہ` تھانویہ` دیوبندیہ وغیرہ مسلمانوں کے اجماع کی رو سے کفار مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اس کتاب کے ٹائیٹل بیچ پر لکھا ہے۔
>جس )رسالہ ہذا( میں مسلمانوں کو آفتاب کی طرح روسن کو دکھایا کہ طائفہ قادیانیہ` گنگوھیہ` تھانویہ نانو تو یہ و دیوبند یہ وامثالہم نے خدا اور رسولﷺ~ کی شان کو کیا کچھ گھٹایا علمائے حرمین شریفین نے باجماع امت ان سب کو زندیق و مرتد فرمایا ان کو مولوی درکنار مسلمان جاننے یا ان کے پاس بیٹھنے ان سے بات کرنے زہر و حرما و تباہ کن اسلام بتلایا۔
)ب( پھر اسی کتاب میں مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیوبند` مولوی اشرف علی صاحب تھانوی مولوی محمودالحسن صاحب و دیگر دیوبندی خیال کے علماء کی نسبت یہ فتویٰ درج ہے کہ:۔
>یہ قطعاً مرتد اور کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایس اکہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے۔۔۔۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے انہیں نماز نہ پرھنے دیں۔۔۔۔۔ جو ان کو کافر نہ کہے گا وہ خود کافر ہوجائے گا اور اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہوجائے گی اور جو اولاد ہوگی از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی۔<
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب آف بریلی کا شائع کردہ ہے جو فرقہ حنفیہ بریلویہ کے بانی اور مولانا ابو الحسنات صاحب صدر جمعیہ العلماء پاکستان و صدر مجلس عمل نیز ان کے والد مولوی دیدار علی صاحب کے پیر و مرشد تھے اس فتویٰ کے بارے میں مولانا ابو الحسنات صاحب ے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کے پیر و مرشد کے اس فتویٰ کے بعد کہ دیو بندی بالاجماع کافر ہیں انہیں کیا شبہ ہے؟ آیا یہ کہ ان کے پیر نے غلطی کی تھی یا یہ کہ اجماع کوئی دلیل نہیں ہوتا؟
)ج( >دہابیہ دیوبند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتفی کہ حضرت سید الاولین والاخرین~صل۱~ کی اور خاص ذات باری تعالیٰ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر سخت` سخت` سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محتزز مجتنب رہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ہی ان کی شادی و غمی میں شری ہوں نہ اپنے ہاں ان وک آنے دیں یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں مریں تو گاڑنے توپنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دیں۔ )ملاحظح ہو تین سو علماء اہلسنت والجماعت کا متفقہ فتویٰ مطبوعہ حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر ۶۳ ہیو روڈ لکھنئو(
اسی پر بس نہیں بلکہ علماء کرام و مفتیان اہلسنت والجماعت نے اہلحدیث مسلمانوں کے متعلق بھی اسی قسم کا فتویٰ دیا ہے کہ:۔
>بدعت کفر والے شقی ان کے کفر پر آگاہی لازم ہے اسلام کے نام کو پردہ بناتے ہیں۔ مرتد ہیں باجماع امت اسلام سے خارج ہیں جو ان کے اقوال کے متعقد ہوگا کافر و گمراہ ہوگا کچھ شک نہیں کہ یہ خارجی ہیں اور ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔۔۔۔۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ان کے جنازہ کی نماز پڑھنا ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا اور تمام معاملات میں ان کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتد کا۔< )فتویٰ علماء کرام مشتہرہ در اشتہار شیخ مہر محمد قادری باغ مولوی انوار لکھنئو ۳ شوال ۱۳۵۴ھ جس پر ستتر علماء کے دستخط ہیں جن میں مولوی سید احمد ناظم انجمن حزب الاحناف )برادر حقیقی مولوی ابو الحسنات صاحب( مولانا ابو الحسنات` سید محمد احمد خطیب مسجد وزیر خاں مولوی عبدالقادر بدایونی اور پیر جماعت علی شاہ صاحب مجددی محدث علی پور بھی شامل ہیں۔
سوالنمبر۳:ایسے کافر ہونے کے دنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں؟
جواب:اسلامی شریعت کی رو سے ایسے کافر کی کوئی دنیوی سزا مقرر نہیں وہ اسلامی حکومت میں ویسے ہی حقوق رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ عام معاشرہ کے معاملہ میں بھی وہ وہی حقوق رکھتا ہے رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہیں۔ ہاں خالص اسلامی حکومت میں وہ حکومت کا ہیڈ نہیں ہوسکتا۔ باقی رہ اخروی نتائج۔ سو ان نتائج کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے بالکل ممکن ہے کہ کسی حکومت کی وجہ سے ایک مسلمان کہلانے والے انسنا کو تو خدا تعالیٰ سزا دے دے اور کافر کہلانے والے انسان کو اللہ تعالیٰ بخش دے۔ اگر >کافر< کے لئے یقینی طور پر دائمی جہنمی ہونا لازمی ہے تو پھر کسی کو کافر قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔
سوالنمبر۴:کیا مرزا صاحب کو رسول کریم~صل۱~ کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا تھا؟
جواب:ہمارے نزدیک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بہرحال رسول کریم~صل۱~ کے خادم تھے رسول کریم~صل۱~ کی اصل وحی قرآن مجید ہے قرآن کریم کی وحی کے متعلق ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حفاظت کے خاص سامان کئے جاتے ہیں ہمارے نزدیک حضرت محمد~صل۱~ سے پہلے جو نبی گزرے ہیں ان کی وحی بھی اس رنگ کی فہیں ہوتی تھی اور حضرت بانی جماعت احمدیہ تو رسول کریم~صل۱~ کے خادم تھے آپ کی وحی بھی قرآن کریم کے تابع تھی بہرحال وہ ذرائع جو اللہ تعالیٰ اس وحی کے بھیجنے کے لئے استعمال کرتا تھا وہ ان ذرائع سے نیچے ہوں گے جو قرآن کریم کے لئے استعمال کئے جاتے تھے لیکن یہ محض ایک عقلی بات ہے واقعاتی بات نہیں جس کے متعلق ہم شہادت دے سکیں بعض قرآنی آیات اور رسول کریم~صل۱~ کے درجہ پر قیاس کر کے یہ جواب دے رہے ہیں حقیقت کو پوری طرح معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں البتہ ہم ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر وہے الٰہی ہوتی تھی اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وحی الٰہی نہ صرف ماموروں بلکہ غیر ماموروں کو بھی ہوتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولدہ کی طرف وحی نازل ہوے کا ذکر آیا ہے )ملاحظہ ہو سورہ قﷺ رکوع ۱ پارہ ۲۰( اور حضرت مریم علیہ السلام کے متعلق بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ ان کے پاس خدا تعالیٰ کا کلام لے کر آئے
)سورہ آل عمران و مریم ۳ ۲(
پس وحی اور فرشتوں کا اترنا مامور من اللہ کے علاوہ غیر ماموروں کے لئے بھی ثابت ہے ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے والے اور اس کی بنیاد قائم کرنے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ~}~
ومبدم روح القدس اندر عینے می ومد
من نمے گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم
)دیوان حضرت خواجہ معین الدین اجمیری(
یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ مسلمانوں کی اصطلاح میں >روح القدس< حضرت جبرئیل کا نام ہے
)ملاحظہ ہو لغت کی مستند ترین کتاب مفردات القرآن مصنفہ امام راغب زیر لفظ روح صفحہ ۲۰۵ مطبع یمنیہ مصر و تفسیر روح المعانی جلد اول صفحہ ۲۶۰` صفحہ ۲۶۱ مطبوعہ مصر اور تفسیر صافی جلد اول پارہ اول صفحہ ۴۳( )نیز تفسیر کبیر مصنفہ حرت امام رازی جلد نمبر ۲ صفحہ ۴۵۸ و جلد ۳ صفحہ ۶۹۱ مطبوعہ مصر و تفسیر مدارک النزیل النفی جلد نمبر ۱ صفہہ ۹۶ مطبوعہ مصر(
ان کے علاوہ اسلام میں سینکڑوں اولیاء اللہ مثلاً سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ اور حضرت سید احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ و غیر ہم علیٰ قدر مراتب ملہم من اللہ تھے۔
وحی تین طریقوں سے ہوتی ہے ان کا ذکر قرآن کریم کی آیت ماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا اومن ورا حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشا
)سورٰہ شوریٰ ع ۵ پارہ ۲۵(
میں بیان ہوا ہے۔ آنحضرت~صل۱~ اور تمام انبیاء و اولیاء پر انہی طریقوں سے وہی نالز ہوتی ہے البتہ آنحضرت~صل۱~ کی وحی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی میں ایک فرق تو یہ ہے کہ آنحضرت~صل۱~ پر وحی شریعت جدیدہ والی نالز ہوتی تھی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی غیر تشریعی اور ظلی ہے یعنی یہ نعمت آپ کو آنحصرت~صل۱~ کی پیروی اور آپ کے فیض سیملی ہے ماسوا اس کے دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قرآنی وحی کے ماننے کے لئے بانی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق کی ضرورت نہیں بلکہ اگر قرآن مجید حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق نہ کرتا ہو تو ہم ہرگز ان پر ایمان نہ التے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی وحی اور آنحضرت~صل۱~ کی وحی میں بلحاظ مرتبہ فرق کیا ہے آپ فرماتے ہیں:۔
>سنو! خدا کی *** ان پر جو دعویٰ کریں کہ وہ قرآن کی مثل لا سکتے ہیں قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مچل کوئی انس و جن نہیں لا سکتا اور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کرسکتا بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی نہیں اگرچہ رحمان کی طرف سے اس کے بعد کوئی اور وحی بھی ہو اس لئے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی جیسا کہ خاتم الانبیاء~صل۱~ پر ہوئی ہے ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی نہ پیچھے ہوگی۔<
)اردو ترجمہ از عربی عبارت الہدیٰ والتبصرہ لن یری ۳۲(
سوالنمبر۵: )ا( کیا احمدیہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہہ ایسے اشخاص کا جنازہ جو مرزا صاحب پر یقین نہیں رکھتے Infructuous ہے؟
)ب( کیا احمدیہ عقائد میں ایسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود ہے؟
جواب: )۱( احمدیہ کریڈ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہیں مانتا اس کے حق میں نماز جنازہ ~"Infructuous"ف۲~ ہے۔
)ب( دوسری شق کا جواب یہ ہے کہ گو اس وقت تک جماعتی فیصلہ یہی رہا ہے کہ غیر از جماعت لوگوں کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے لیکن اب اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر اپنے قلم سے لکھی ہوئی ملی ہے جس کا حوالہ ای مرتبہ ۱۹۱۷ء میں دیا گیا تھا اور ہضرت امام جماعت احمدیہ نے اس کے متعلق اسی وقت اعلان فرما دیا تھا کہ اصل تحریر کے ملنے پر اس کے متعلق غور کیا جائے گا لیکن وہ اصل خط اس وقت نہ مل سکا۔ اب ایک صاحب2] ¶~[stfف۳~ نے اطلاع دی ہے کہ ان کے والد مرحوم کے کاغذات میں سے اصل خط مل گی اہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مکفر یا مکذب نہ ہو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے۔
لیکن باوجود جنازے کے بارے میں جماعت کے سابق طریقہ کے گیر احمدی مرحومین کے لئے دعائیں کرنے میں جماعت نے کبھی اجتناب نہیں کیا چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ اور کابرین جماعت احمدیہ نے بعض وفات یافتہ اصحاب کے لئے دعا کی ہے چاننچہ جی معین الدین سیکرٹری حکومت پاکستان کے والد صاحب )جواحمدی نہ تھے( کی وفات پر حضرت امام جماعت احمدیہ ان کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور ان سے میاں معین الدین کے ماموں صاحب نے >فاتحہ< کے لئے کہا تو آپ نے فرمایا کہ فاتحہ میں تو دعا مانگنے والا اپنے لئے دعا کرتا ہے یہ موقعہ تو وفات یافتہ کے لئے دعا کرنے کا ہوتا ہے اس پر متوفیٰ نے رشتہ داروں سے مل کر متوفی کے لے دعا فرمائی اسی طرح سر عبدالقادر مرحوم کی وفات پر جب حضرت امام جماعت احمدیہ تعزیت کے واسطے ان کی کوٹھی پر تشریف لے گئے تو ان کے حق میں بھی دعا فرمائی۔
اس جگہ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ممانعت جنازہ کے بارے میں بھی سبقت ہمارے مخالفین نے ہی کی چنانچہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتویٰ ۱۸۹۰ء میں بایں الفاظ اشاعہ السنہ میں شائع ہو چکا ہے:۔
>اب مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجال کذاب سے احتراز کریں اور نہ ان کے پیچھے اقتداء کرں اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔
)رسالہ اشاعت السنہ نمبر ۵ جلد نمبر ۱۳ مطبوعہ ۱۸۹۰ء(
اسی طرح ۱۹۰۱ء میں مولانا عبدالاحد صاحب خانپورہ لکھتے ہیں:۔
>جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے جمعہ و جماعات سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہوکر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً روک دیئے گئے تو نہایت تنگ ہوکر مرزائے قادیان سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو! میں لوگوں سے لح کرتا ہوں اگر صلح ہوگئی تو مسجد بنانے کی حاجت نہیں اور نیز اور بہت سے ذلتیں اٹھائیں معاملہ و برتائو مسلمان سے بند ہوگیا عورتیں منکوہہ و مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھن گئیں مردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے۔<
)اظہار مخاوعہ مسلیمہ قادیانی بجواب اشتہار مصالحت پولوس ثانی صفحہ ۲ مئولفہ مولوی عبدالاحد خانپورہ مطبوعہ مطبع چودھویں صدی راولپنڈی ۱۹۰۱ء(
اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ احمدیوں نے مسجد نہیں چھوڑیں بلکہ ان کو مسجدوں سے نکالا گیا احمدیوں نے نکاح سے نہیں روکا بلکہ ان کے نکاح توڑے گئے احمدیوں نے جنازہ سے نہیں روکا بلکہ ان کو جنازہ سے باز رکھا گیا لیکن باوجود اس کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے آخری کوشش یہی کی باقی مسلمانوں سے صلح ہوجائے لیکن جب باوجود ان تمام کوششوں کے ناکامی ہوئی تو جیسا کہ مولوی عبدالاہد صاحب کی مندرجہ بالا عبارت میں اقرار کیا گیا ہے تب بامر مجبوری فتنے سے بچنے کے لئے رسول کریم~صل۱~ کے مطابق جوابی کاروائی کرنی پڑی-
پھر ہم اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دیگر فرقوں نے بھی اکی دوسرے فرقہ والوں کے جنازہ کی حرمت و امتناع کے فتوے دیئے ہیں چنانچہ علمائے اہلسنت والجماعت وعلمائے دیوبند نے شیعہ فرقہ والوں کے جنازہ کو نہ صرف حرام اور ناجائز قرار دیا ہے بلکہ ان کو اپنے جنازہ میں شریک ہونے کی بھی ممانعت کی ہے چنانچہ مولانا عبدالشکور صاحب مدیز النجم کا فتویٰ ملاحظہ ہو۔ آپ لکھتے ہیں:۔
>ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سنیوںں کے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سنیوں کے جنازہ میں شریک ہوکر یہ دعا کرنی چاہئے کہ یاللہ! اس قبر کو آگ سے بھر دے اس پر عذاب نازل کر۔<
)ملاحظہ ہو رسالہ موسومہ بہ علمائے کرام کا فتوفی درباب ارتداد شعیہ اثنا عشریہ صفحہ ۴(
‏body] )[tagب( نیز مولانا ریاض الدین صاحب مفتی دارلاعلوم دیوبند لکھتے ہیں:۔
>شادی غمی جنازہ کی شرکت ہرگز نہ کی جائے ایسے عقیدہ کے شیعہ کافر ہی نہیں بلکہ اکفر ہیں۔<
)فتویٰ علمائے کرام صفحہ ۴(
)ج( اس کے بالمقابل شیعہ صاحبان کے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے شیعہ صاحبان کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر کسی غیر شیعہ کی نماز جنازہ میں شامل ہونا پڑ جائے تو متوفیٰ کے لئے مندرجہ ذیل دعا کرے۔
>قال ان کان جاحدا للحق فقل اللھم املا جوفہ نارا وقبر فارا وسلط علیہ الحیات والعقارب وذالک قالہ ابو جعفر علیہ السلام لامرہ سوء من بنی امیہ صلی علیھا۔<
ملا حصہ و شیعہ حضرات کی مستند ترین کتاب فروع الکانی کتاب الجنائز جلد ۱ صفحہ ۱۰۰ باب الصلٰوٰہ علی الناصب مصنفہ حضرت محمد یعقوب کلینی مطبوعہ نولکشور(
اے اللہ! اس کا پیٹ آگ سے بھر دے اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط کر یہی وہ دعا ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے بنوامیہ کی ایک غیر شعہ عورت کے بارے میں کی تھی۔
سوالنمبر۶: )ا( کیا احمدی اور غیر احمدی میں شادی جائز ہے؟
)ب( کیا احمدی عقیدہ میں ایسی شادی کے خلاف ممانعت کا کوئی حکم موجود ہے؟
جواب:کسی احمدی مرد کی غیر احمدی لڑکلی سے شادی کی کوئی ممانعت نہیں البتہ احمدی لڑکی کے غیر احمدی مرد سے نکاح کو ضرور روکا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے اگر کسی احمدی لڑکی اور غیر احمدی مرد کا نکاح ہوجائے تو اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاتا اور اولاد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
اس تعلق میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری طرف سے ممانعت کی ابتداء نہیں ہوئی بلکہ اس میں بھی غیر احمدی علماء نے ہی سبقت کی اور اس میں شدت اختیار کی۔
)ا( چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمد عبداللہ صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب مشہور مضتیان لدھیانہ نے یہ فتویٰ دیا:۔
>خلاصہ مطلب ہماری تحریرات قدیمہ و جدیدہ کا یہی ہے کہ جو شخص )یعنی مرزا غلام احمد( مرتد ہے اور اہل اسلام کو ایسے شخص سے ارتباط رکھنا حرام ہے ایسے ہی جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں اور ان کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرے۔<
)ملاحظہ ہو رسالہ اشاعہ السنہ جلد ۱۳ صفحہ ۵ مطبوعہ ۱۸۹۵ء(
)ب( جب عقیدت فرقہ قادیانی بسبب کفر و الحاد و زندقہ وارتداد ہوا تو بمجر داس عقیدت مندی ان کی بیویاں ان کے نکاحوں سے باہر ہوگئیں اور جب تک وہ توبہ نصوح نہ کریں تب تک ان کی اولادیں سب ّ*** ہوں گی۔
)مہر صداقت المعوف باحکام شریعت صفحہ ۱۰ مطبوعہ ۱۳۳۵ ہجری(
علاوہ ازیں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کلہ دراصل غیر احمدیوں سے ممانعت نکاح کی بنا احمدیت سے بعض اور عداوت رکھنے والوں کے اثر سے لڑکیوں کو بچانا تھا کیونکہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ وہ احمدی لڑکیاں جو غیر احمدیوں میں بیاہی جاتی ہیں ان کو احمدیوں سے ملنے نہیں دیا جاتا احمدی تحریکوں میں چندے دینے سے روکا جاتا ہے اور بعض گھرانے تو اتنے جاہل ہوتے ہیں کہ لڑکی پر اس وجہ سے سختی کرتے ہیں کہ وہ نماز کیوں پڑھتی ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ اس طرح ہم پر جادو کرتی ہے حقیقتاً نکاح کا مسئلہ ایک سوشل قسم کا مسئلہ ہے ایسے مسائل میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکلی کو کہاں آرام رہے گا اور کہاں اسے مذہبی امور میں ضمیر کی آزادی ہوگی اور اس پر ناجائز دبائو تو نہیں ڈالا جائے گا جس سے اس کے عقائد دینیہ خطرے میں پڑجائیں لیکن باوجود مخالفت کے اگر کوئی احمدی اپنی لڑکی کا نکاح غیر احمدی مرد سے کردے تو اسکے نکاح کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا۔
پھر یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ رشتہ ناطہ کے مسئلہ میں بھی ہماری جماعت اپنے طرز عمل میں منفرد نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقے اور جماعتیں بھی اس طرز عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو آپس میں ایسی شدت اختیار کرچکے ہیں وہ دوسرے کے آدمی سے ازدواجی تعلق کو >حرام< اور اولاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں چاننچہ اہلسنت والجماعت شیعہ اثنا عشریہ سے مناکحت کو حرام قرار دیا ہے:۔
)ا( علماء دیوبند اور علماء اہلحدیث کا فتویٰ ملاحظہ ہو:۔
>سنی لڑکلی شیعہ کے گھر پہنتے ہی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر مجبور ہوجاتی ہے کہ شیعہ ہوجائے یہ خرابی علاوہ اس ارتکاب حرام کے ہے جو ناجائز نکاح کے سبب ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لہذا شیعوں نے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز انکار ذبیحہ حرام۔ ان کا چندہ مسجد میں لینا ناروا ہے ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں۔<
)ملاحظہ ہو علماء کرام کا فتویٰ اور باب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ شائع کردہ مولانا محمد عبدالشکور صاحب مدیر النجم صفحہ ۱` ۳(
)ب( نیز بریلوی فرقہ جس کے ساتھ مولانا ابو الحسنات صاحب صدر مجلس عمل کا تعلق ہے کے نزدیک بھی شیعہ سے مناکحت >زنا< سے مترادف ہے چنانچہ رد الرفضہ >میں لکھا ہے< بالجملہ ان افضیوں بترائیوں کے باب میں کم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار۔ مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خاص زنا ہے اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں ہی کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا۔ محض >زنا< ہوگا اور اولاد >ولد الزنا< ہوگی۔
)روالرفضہ >تصنیف< حضت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی مطبوعہ ۱۳۲۰ء صفحہ ۱۶(
ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ اس فتویٰ میں حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بانی فرقہ بریلویہ کا ہے شیعہ حضرات کو نہ صرف کافر قرار دیا گیا ہے بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بھر بدتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید کی رو سے کتابیہ عورت کے ساتھ مسلم مرد کا نکاح جائز ہے لیکن حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کے نزدیک شیعہ عورت ک ساتھ سنی مرد کا نکاح قطعاً حرام اور
)ج( اسی طرح اہل شیعہ کے نزدیک اہلست والجماعت سے مناکحت ناجائز ہے چنانچہ حضرات شیعہ کی حدیث کی نہایت مستند کتاب الفروع الکافی میں لکھا ہے:۔
عن الفضل بن یسار قال قلت لابی عبداللہ علیہ السلام ان لا اتی اختا عارفہ علی راینا ولیس علی راینا بالبصرہ الا قلیل فازوجھا من لا یری راینا قال لا۔
)الفروغ الکافی من جامع الکافی جلد ۲ کتاب النکاح صفحہ ۱۴۲ مطبوعہ نولکشور(
یعنی فضل بن یسار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام ابو عبداللہ سے عرض کیاکہ میری اہلیہ کی ایک بہن ہے جو ہماری ہم خیال ہے لیکن بصرہ میں جہاں ہم رہتے ہیں شیعہ لوگ بہت تھوڑے ہیں یا میں اس کا کسی غیر شیعہ سے بیاہ کردوں؟ حضرت امام نے فرمایا >نہیں<
)د( اسی طرح >امیر جماعت اسلامی< کے نزدیک ایسے لوگوں کے لئے ان کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں جو اپنی لڑکی یا لڑکے کی شادی کرتے وقت دین کا خیال نہ رکھیں۔
)روئیداد جماعت اسلامی حصہ سوم صفحہ ۱۰۳(
سوالنمبر۷:احمدیہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی Significance کیا ہے؟
جواب:ہمارے امام کے عہدے کا اصل نام >امام جماعت احمدیہ< اور >خلیفہ المسیح< ہے لیکن بعض لوگ انہیں >امیر المومنین< بھی لکھتے ہیں اور ایسا ہی ہے جیسا کہ مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی کہلاتے ہیں یا سید عطاء اللہ شاہ بخاری >امیر شریعت< کہلاتے ہیں غالباً مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے یہ مراد نہیں لی ہوگی کہ باقی لوگ اسلامی جماعت سے باہر ہیں یا کافر ہیں۔ نہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ماننے والوں نے یہ مراد لی ہوگی کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری شریعت پر حاکم ہیں اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہی شریعت ہوتی ہے۔
جب کوئی احمدی امام جماعت احمدیہ کے لئے >امیر المومنین< کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد یہی ہوتی ہے کہ آپ ان لوگوں کے جو بانی سلسلہ احمدیہ کو مانتے ہیں >امیر< ہیں لوگ اپنی عقیدت میں اپنے لیڈروں کے کئی نام رکھ لیتے ہیں بعض تو کلی طور پر غلط ہوتے ہیں بعض جزوی طور پر صحیح ہوتے ہیں بعض کلی طور پر صحیح ہوتے ہیں اور کوئی معقول آدمی ان باتوں کے پیچھے نہیں پڑتا جب تک کہ ایسی بات کو ایمان کا جزو قرار دیگر اس کے لئے دلائل اور براہین نہ پیش کئے جائیں سابق مسلمانوں نے بھی بعض آئمہ کو >امیر المومنین< کے الفاظ سے یاد کیا ہے چنانچہ مولانا محمد ذکریہ شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور اپنی کتاب )موسومہ مقدمہ او جز السالک شرح موطا امام مالک کے صفحہ ۱۴ مطبوعہ یحیویہ سہارنپور ۱۳۴۸ء میں امام قطان اور یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>مالک امیر المومنین فی الحدیث< یعنی امام مالک فن حدیث میں >امیر المومنین< ہیں۔
اسی طرح حضرت سفیان ثوری کے متعلق حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی امام شعبہ اور امام ابن علقمہ اور امما ابن معین اور بہت سے علماء کی سند پر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں
>سفیان امیر المومنین فی الحدیث< یعنی حضرت سفیان ثوی فن حدیث میں امیر المومنین ہیں۔<
)تہذی التہذیب مطبوعہ دائرہ المعارف حیدر آباد دکن جلد نمبر ۴ صفہح ۱۱۳(
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سابق امیر مولانا محمد علی صاحب مرحوم کو بھی ان کے بعض اتباع >امیر المومنین< لکھتے ہیں۔ پروفیسر الیاس برفی صاحب نے اپنی کتاب >قادیانی مذہبی< مطبوعہ اشرف پرنٹنگ پریس لاہور بار ششم صفحہ ۳ تمہید اول میں موجودہ نظام صاحب دکن کو >امیر المومنین< لکھا ہے
مزیدبرآں بعض لوگ اس قسم کے نام رکھ لیتے ہیں جیسے >ابو الاعلیٰ< حالانکہ >الاعلیٰ< اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔
ایڈووکیٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ
‏Lahore Murree/
‏Sadr the of Adovocate
‏1953 August 29th Dated
۔rabwah Ahmadiyya Anjuman
تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کا جواب
اس نہایت اہم بیان میں مندرجہ ذیل تین سوالوں کے جواب حضرت مصلح موعود نے سپرد قلم فرمائے:۔
۱۔
وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔
۲۔
صوبجاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لئے اختیار کئے آیا وہ کافی تھے یا نہیں؟
۳۔
صوبجاتی حکومت نے جب یہ فساد ظاہر ہوگئے تو ان کے دبانے کے لئے جو تجاویز اختیار کیں آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں؟
یہ تحریری بیان غیر مطبوعہ ہے اور بجنہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔~ف۴~
اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
‏]ybod [tagسوالات:۔
۱۔
وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔
۲۔
صوبہ جاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لئے اختیار کئے۔ آیا وہ کافی تھے۔ یا نہیں۔
۳۔
صوبہ جاتی حکومت نے جب یہ فساد ظاہر ہوگئے۔ تو ان کے دبانے کے لئے جو تجاویز اختیار کیں۔ آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں۔
جوابات:۔
مارشل لاء کے جاری کرنے کی ضرورت جن امور کی وجہ سے پیش آئی وہ وہ واقعات تھے۔ جو فروری کے آخری ہفتہ اور مارچ کے ابتدائی ہفتہ میں لاہور میں ظاہر ہوئے اور جنہیں صوبجاتی حکومت مئوثر طور پر دبا نہ سکی۔ اگر یہ واقعات ظاہر نہ ہوتے۔ یا اگر صوبجاتی حکومت ان کو دبانے میں کامیاب ہوجاتی تو مارشل لاء کے جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس سوال کا جواب دینے میں کچھ نہ کچھ ذکر حکومت کا بھی آجاتا ہے کیونکہ ایسے بڑے پیمانہ پر فسادات جن کو پولیس نہ دبا سکے اور انتظامی عملہ ناکام ہوجائے دو ہی وجہ سے پیدا ہوا کرتے ہیں یا توصیغہ خبررسانی کی شدید غفلت اور ناقابلیت کی وجہ سے یا عملہ انتظام کی عدم توجہ کی وجہ سے۔ کیونکہ ایسے موقعہ پر جب کہ سول اور پولیس ناکام ہوجائے اور فوج کو دخل دینا پڑے۔ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آبادی کی ایک کثیر تعداد اس میں شامل تھی یا آبادی کی ایک معقول تعداد ایسی منظم صورت میں فساد پر آمادہ تھی کہ فساد کی وسعت کی وجہ سے عام قنون کے ذریعہ سے اسے دبایا نہیں جاسکتا تھا۔ اور یہ دونوں حالتیں یکدم نہیں پیدا ہوسکتیں۔ ایک لمبے عرصہ کی تیری کے بعد پیدا ہوسکتی ہیں۔ اور ایک لمبے عرصہ کی تنظیم کے بعد یا ایک لمبے عرصہ کی تنظیم کے بعد یا ایک لمبے عرصہ کے اشتعال کے بعد ہی رونما ہوسکتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں بھی سول معاملات میں فوج کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جب تک کہ معاملہ ہاتھوں سے نہیں نکل جاتا اور یہ ہمیشہ ہی عرصہ دراز تک نفرت کے جذبات کے سلگتے رہنے اور ایک عرصہ تک مخفی تنظیم کے بعد ہی ہوتا ہے۔
تیسری صورت وہ ہوا کرتی ہے۔ جبکہ کوئی ظالم شخص اپنے اشتعال سے مجبور ہوکر بلا ضرورت فوج کو استعمال کرتا ہے تاریخ میں اس کی بھی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن موجودہ مارشل لاء اس تیسری قسم میں شامل نہیں اس لئے لاء اینڈ آرڈر کہ ذمہ دار پنجاب حکومت تھی اور پنجاب حکومت نے ۵ اور ۶ )مارچ( کو یہ محسوس کرلیا تھا۔ کہ اب ہم امن کو اپنے ذرائع سے قائم نہیں رکھ سکتے اور مرکز کو دخل دینے کی ضرورت ہے پس چونکہ اس فیصلہ کی بنیاد صوبائی حکومت کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی یا فوجی افسروں نے فوری اشتعال کے ماتحت ایک کام کرلیا۔ حالانکہ اس کی صرورت نہیں تھی۔ پس لازماً یہی ماننا پڑے گا۔ کہ وہ حالات جو فروری کے آکری یا مرچ کے شروع میں ظاہر ہوئے۔ ایک لمبی انگیخت کے نتیجہ میں تھے اور ایک باضابطہ تنظیم کے ماتحت تے جس کی وجہ سے باوجود اس کے کہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس موجود تھی۔ سینکڑوں کی تعداد میں انتطامی افسر موجود تھے۔ پھر بھی وہ لاہور کے فسادات کو روکنے کے قابل نہیں ہوئے۔
یہ بھی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ کہ جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے۔ لاہور میں فسادات میں مصہ لینے والے صرف لاہور کے باشندے نہیں تھے۔ بلکہ زیدہ تر حملے کرنے والے لوگ وہ تھے۔ جو کہ باہر سے منگوائے گئے تھے۔ پس اس بات کو دیکھ کر لاہور کے مارشل لاء کے جاری کرنے کے موجبات کو صرف لاہور تک محدود نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ پنجاب کے دوسرے علاقوں پر بھی ¶نظر ڈالنی پڑے گی اگر بیرونجات سے سنکڑوں کی تعداد میں جتھے نہ آتے تو پولیس کے لئے انتظام مشکل نہ ہوتا۔ پولیس کا انتظام زیادہ تر اس بات پر مبنی ہوتا ہے کہ وہ لوکل آدمیوں کی طبیعتوں اور ان کے چال چلن کو جانتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ کس محلہ میں کون کون لوگ سے اس قسم کی سرارت کرسکتے ہیں اور پھیلا سکتے ہیں۔ پس وہ ان کو گرفتار کرلیتی ہے اور اس طرح شورش کی جڑ کو کچل دیتی ہے لیکن گزشتہ فسادات میں پارٹیشن کے زمانہ کے فسادات سے سبق سیکھتے ہوئے ان فسادات کو بانیوں نے جہاں جہاں بھی فساد ہوا۔ وہاں باہر سے آدمی لا کر جمع کر دیئے تھے۔ تاکہ پولیس ان سے معاملہ کرتے وقت صحیح اندازہ نہ کرسکے اور مقامی شورش پسند لوگ جن کو وہ جانتی ہے ان کی گرفتاری سے شورش کو دبا ن سکے۔ پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی جہاں جہاں شورش کی گئی۔ اسی رنگ میں کام کیا گیا۔ کہ جس گائوں میں شورس کرنی ہوتی تھی۔ وہاں ارد گرد کے گائوں سے آدمی لائے جاتے تھے اور مقامی گائوں والے بظاہر خاموش بیٹھے رہتے تھے۔ پس جو کچھ لاہور میں ہوا۔ وہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر اضلاع میں اس کی بنیاد نہ رکھی جاتی۔ اور اگر حکومت اس فتنہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے تمام اضلاع میں تعاون پیدا کردیتی تو یہ فسادات یا تو رونما نہ ہوتے یا ظاہر ہوتے ہی دبا دیئے جاتے۔
ہم اس بات میں نہیں پڑنا چاہتے۔ کہ زید یا بکر کس پر ان فسادات کی زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں۔ کہ نہ اس طرح ہمارے مقتول واپس لائے جاسکتے ہیں۔ نہ ہمارے جلائے ہوئے مکان بنائے جاسکتے ہیں نہ ہمارے لوٹے ہوئے مال ہم کو واپس دیئے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے۔ کہ فساد کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جن کا فساد میں فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ فساد میں شامل ہیں تو وہ اس فائدہ سے محروم ہوجاتے ہیں دوسرے وہ لوگ فساد کروانا چاہتے ہیں اور فساد کروانے کی عزت خود حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ ان کا نام آگے آئے اور لوگوں کو معلوم ہو۔ کہ وہ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کا کوئی براہ راست دخل ان فسادات میں تھا تو گورنمنٹ پہلے گروہ میں آجاتی ہے۔ اگر کسی وقت بھی یہ ظاہر ہوجاتا۔ کہ وہ ان فسادات کو انگیخت کررہی ہے تو جس غرض سے وہ ان فسادات میں حصہ لے سکتی تھی۔ وہ اس غرض سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجاتی تھی۔ اس لئے لازماً اگر حکومت بحیثیت حکومت یا اس کے کچھ افسران فسادات میں حصہ لینا چاہتے تھے تو وہ یقیناً اسے مخفی رکھتے تھے اور جو بات مخفی رکھی جاتی ہے اس کا پتہ لگانا آسان نہں ہوتا فسادات کے دنوں میں ہماری جماعت کو مختلف قسم کی رپورٹیں ملتی تھیں کبھی ایک افسر کے متعلق۔ کبھی دوسرے افسر کے متعلق۔ کبھی صوبجاتی حکومت کے متعلق کبھی مرکزی حکومت کے متلق۔ کبھی ہمیں یہ خیال یدا ہواتا تھا۔ کہ فلاں افسر یا صوبجاتی حکومت اس کی ذمہ دار ہے کبھی ایک دوسری رپورٹ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے تھے۔ کہ کوئی دوسرا افسر اور مرکزی حکومت اس کی ذہ دار ہے کبھی ایک دوسری رپورٹ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے تھے۔ کہ کوئی دوسرا افسر اور مرکزی حکومت اس کی ذمہ دار ہے )چونکہ ہمارے آدمی حکومت کے ذمہ دار عہدوں پر فائز نہیں تھے۔ اس لئے( ہمیں حقیقت حال کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے ہماری جماعت کا طریقہ یہی تھا۔ کہ ہر قسم کے افسروں سے تعاون کرنا اور بعض دفعہ یہ خیال کرتے ہوئیبھی کہ وہ ان فسادات میں حصہ لیتے ہیں ان کے پاس اپنی شکایت لے جانا۔ اور اگر کسی کے منہ سے کوئی بات )انصاف~(ف۵~ کی نکل جائے تو اس کی تعریف کردینا۔ تاکہ شائد اسی تعریف کے ذریعہ سے آئندہ اس کے شر سے نجات مل جائے ہماری مثال تو اس جانور کی سی تھی۔ جس کے پیچھے چاروں طرف سے شکاری کتے لگ جاتے ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے اپنی جان بجانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ہم معین صورت میں کسی شخص پر الزام نہیں لگا سکتے۔ مارشل لاء سے پہلے بھی ہم پر سختیاں کی گئیں اور ہمارے لئے یہ نتجہ نکالنا بالکل ممکن تھا۔ کہ اس کا اصل موجب کون شخص تھا ہاں ہم شہادتوں کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ صوبجاتی حکومت میں قطعی طور پر بے عملی پائی جاتی تھی۔
ہمیں یہ سن کر نہایت ہی تعجب ہوا ہے۔ کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ کا صرف یہی خیال تھا کہ )اول( ان کو اس امر کے متعلق وہی کاروائی کرنی چاہئے جس کے متعلق ان کے ماتحت رپورٹ کریں۔
)ب( جب کوئی معاملہ زیر بحث آئے تو ان کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ اپنے افسروں کے ساتھ تبادلہ خیا کے بعد درست یا غلط کوئی حکم دے دیں۔ ان کے نزدیک س بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ وہ حکم نافذ بھی ہوا ہے یا نہیں۔
)ج( ان کے نزدیک انصاف کا تقاضا اس سے پورا ہوجاتا تھا کہ اگر ظالم اور مظلوم دونوں کو ایک کشتی میں سوار کردیا جائے اور اس طرح دنیا پر ظاہر کیا جائے کہ وہ سب قسم کے لوگوں کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں اور یہی کیفیت ہم کو لاہور کے انتظامیہ حکام میں نظر آتی ہے اور یہیں فساد سب سے زیادہ ہوا ہے گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لاہور میں جو ذمہ دار افسر تھا۔ اس کے نزدیک بھی اوپر کے ہی اصول قابل عمل تھے اور انہی پر وہ عمل کرتا رہا ہے۔ شاید جرمنی کے مشہور چانسلر پرنس بسمارک کا یہ قول ہے کہ >افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ دیکھتے رہیں کہ ان کا ماتہت عملہ قواعد اور حکام کی پابندی کرتا ہے۔ >مگر ان شہادتوں کے پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ ایک فیصلہ کریں اور پھر کبھی نہ دیکھیں کہ اس پر عمل ہوا ہے یا اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ اس انتظار میں رہیں کہ ان کے ماتحت افسر کوئی کاروائی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ کاروائی کرنا چاہیں۔ تو پھر مناسب طور پر وہ اس کاروائی کو بستہ میں لپیٹ دینے کی کوشش کریں اور اگر وہ کوئی کاروائی کرنا چاہیں۔ تو پھر مناسب طور پر وہ اس کاروائی کو بستہ میں لپیٹ دینے کی کوشس کریں اور اگر وہ کوئی کاروائی نہ کروانا چاہیں تو وہ اس انتظار میں رہیں کہ کبھہ وہ عمل کی طرف متوجہ ہوں گے یا نہیں۔ جہاں تک ہماری عقل کام دیتی ہے دنیا کی ادنیٰ سے ادنیٰ حکومت بھی ان اصول کے ماتحت نہیں چل سکتی۔ پس ہمارے نزدیک حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی اور عدم تنظیم ان فسادات کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اصل ذمہ داری ان لوگوں پر آتی ہے جو کہ اپنے ارادوں کو ظاہر کرتے تھے لوگوں کو فساد کے لئے اکساتے تھے اور اس بارہ میں تنظیم کررہے تھے۔ یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص ایسے الفاظ نہیں بولتا تھا۔ جن سے وہ قانون کی زد میں آئے درست نہیں۔ کیونکہ اول تو اخباروں کے کٹنگز اور تقریروں کے حوالوں~ف۶~ سے معلوم ہوت اہے کہ ایسے الفاظ بولے جاتے تھے۔ دوسرے ایسے مواقع پر یہ نہیں دیکھا جاتا۔ کہ الفاظ کیا بولے جاتے تھے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس ماحول میں وہ بولے جاتے تھے اور کیا ذہنیت وہ لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے تھے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک خاص ذہنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص سکیم کے ماتحت جو فتنہ و فساد کو پیدا کرنے میں محد ہوسکتی ہے۔ کچھ الفاظ بولے جاتے تھے جن میں رائج الوقت قانون سے بچنے کی بھی کوشش کی جاتی تھی تو یقیناً الفاظ خواہ کچھ ہی ہوں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ فساد کے لئے لوگوں تو تیار کیا گیا اور متواتر تیار کیا گیا اور پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ عین فساد کے دنوں میں جلسوں کی حد سے نکل کر ایک مقررہ تنظیم کے ماتحت سارا فساد آگیا تو ماننا پڑتا ہے کہ جو لوگ جلسوں میں محتاط الفاظ استعمال کرتے بھی تھے اپنی خلوت میں دوسرے کام کرتے تھے۔ اگر ایسا نہیں تھا تو اچانک شورش ایک انتطام کے ماتحت کس طرح آگئی اور اس کو باقاعدہ لیڈر کہاں سے مل گئے آخر وہ کیا بات تھی کہ جلسوں میں تو محض لوگوں کو ختم نبوت کی اہمیت بتائی جاتی تھی لیکن فسادات کے شروع ہوتے ہی جتھے لاہور کی طرف بڑھنے شروع ہوئے۔ ایک شخص نے آکر مسجد وزیر خان میں راہنمائی اور راہبری سنبھال لی۔ اور لوگ اس کا حکم ماننے لگ گئے اور دوسروں نے دوسرے علاقوں میں باگ ڈور سنبھال لی۔ جس دن شورش کرنی ہوتی تھی مختلف طرف سے جتھے نکلتے تھے لیکن شورش ایک یا دو مقامت پر کی جاتی تھی جب گرفتاریاں ہوتی تھیں تو شورش پسند لیڈر وہاں سے بھاگتے تھے اور ان کو پناہ دینے کے لئے پہلے سے جگہیں موجود ہوتی تھیں۔ حکومت کو بیکار بنانکیے لئے ریلوں اور لاریوں پر خصوصیت کے ساتھ حملے کئے جاتے تھے۔ تمام بڑے شہروں میں گائوں کی طرف سے جتھے آتے تھے جیسے لائلپور میں گوجرہ اور سمندری وغیرہ سے اور سرگودہا میں میانوالہ اور سیکسر کے علاقوں سے اور لاہور میں راولپنڈی` لائلپور اور دوسرے شہروں میں گویا لاہور میں تو لائلپور` راولپنڈی` سرگودہا اور ملتان کے شہروں کو استعمال کیا جارہا تھا اور لائلپور` سرگودہا` راولپنڈی ملتان وغیرہ میں ارد گرد کے دیہات کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ کیا ی بات بغیر کسی تنظیم کے ہوسکتی تھی اور کیا یہ تنظیم بغیر کسی منظم کے ہوسکتی تھی۔ پس یہ حالات صاف بتاتے ہیں کہ تقریروں میں کچھ اور کہا جاتا تھا گو جوش کی حالت میں وہ بھی اصل حقیقت کی غمازی کر جاتی تھیں لیکن پرائیویٹ طور پر اور رنگ میں تیاری کی جارہی تھی۔
س فسادات کی اصل ذمہ دار جماعت اسلامی۔ جماعت احرار اور مجلس عمل تھی۔ ان کے کارکنوں نے متواتر لوگوں میں یہ جوش پیدا کیا کہ احمدی اسلام کو تباہ کررہے ہیں۔ پاکستان کے غدار ہیں۔ غیر حکومتوں کے ایجنٹ ہیں گویا وہ دو ہی چیزیں جو پاکستان مسلمانوں کو پیاری ہوسکتی ہیں۔ یعنی اسلام اور پاکستان دونوں کی عزت اور یاک دونوں کی ذات احمدیوں سے خطرہ میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تقریروں کے نتیجہ میں عوام الناس میں اتنا اشتعال پیدا ہوجانا ضروری تھا کہ وہ اپنی دونوں پیاری چیزوں کے بچانے کے لئے اس دشمن کو مٹا دیتے۔ جس کے ہاتھوں سے ان دونوں چیزوں کو خطرہ بتایا جاتا تھا ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ انڈر گرائونڈ طور پر کچھ ایسے لوگ بھی مقرر کئے جاتے جو اس طوفان کو ایک خاص انتظام کے ماتحت اور ایک خاص لائن پر چلا دیتے۔ جب طبائع میں اشتعال پیدا ہوجائے تو وہ لیڈر کی اطاعت کے لئے پوری طرح آمادہ ہوجاتے ہیں اس طرح تنظیم کے لئے رستہ کھول دی اگیا تھا ان لوگوں کو یہ اتفاقی سہولت میسر آگئی کہ پنجاب کے صوبہ کی حکومت دانسہ یا نادانستہ ایسے طریق عمل کو اختیار کرنے لگی جو دنیا کی کسی مہذب حکومت میں بھی استعمال نہیں کیا جاتا اور جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں اس دوران میں بدقسمتی سے پاکستان کی مرکزی حکومت میں ایک ایسا وزیراعظم آگیا جو مذہبی جوش رکھتا تھا اور علماء کا حد سے زیادہ احترام اس کے دل میں تھا اور انتہاء درجہ کا سادہ اور طبیعت کا شریف تھا اتفاقی طور پر کچھ علماء اس کے پاس پہنچے اور اس کے ادب اور احترام کو دیکھ کر انہوں نے محسوس کیا کہ کامیابی کا ایک اور راستہ بھی ان کے سامنے کھل سکتا ہے۔ ہمیں ان فسادات کے دنوں میں جو کچھ معلومات حاصل ہوئیں یا ہوسکتی تھیں۔ خواہ مخالفوں کے کیمپ سے یا اپنے وفود سے۔ جو کہ پاکستان کے وزیراعظم سے ملے یہی معلوم ہوسکا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم سادہ اور شریف آدمی تھے ہمیں کبھی بھی ان کے متعلق یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ شرارت یا فساد کے لئے کوئی کام کرتے تھے مگر علماء کا ادب اور احترام اور ان کی سادگی اور دوسری طرف علماء کا فساد پر آمادہ ہو جان ان کو دھکیل کر ایسے مقام پر لے گیا۔ جبکہ وہ نادانستہ طور پر اس فساد کو آگ دینے والے بن گئے۔ پاکستان میں اس وزیراعظم کے آنے سے پہلے علمائے کے دل میں یہ طمع نہیں پیدا ہوا کہ آئندہ حکومت ان سے ڈر کر ان کی پالیسیاں چلائے گی لیکن اس وزیراعظم کے زمانہ میں یہ طمع علماء کے دل میں پیدا ہوگیا۔ مولانا مودودی~ف۷~ جوکہ پہلے کانگریسی تھے پھر ہندو نواز تھے اور پاکستان بننے کے وقت پاکستان کے مخالف تھے۔ آخری دن تک ان کی پاکستان میں آنے کی تجویز نہیں تھی وہ پاکستان کے مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے۔ ان کی جماعت کی بنیاد سرے سے ہی سیاسی ہے اور ان کا نظریہ یہی ہے کہ جس طرح ہو حکومت پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے سمجھے ہوئے اسلامی نطام کو چلا جائے ان کے اس نظریہ کی وجہ سے دوسری پارٹیوں سے مایوس شدہ سیاسی آدمی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی جو جلد سے جلد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے ذریعہ سے ہم کو بھی رسوخ حاصل ہوجائے گا۔ اور چونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بعد میں اسلامی نظام قائم کیا جائے گا اس لئے مذہب کی طرف مائل ہونے والے لوگ بھی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کا انجمن اخوان المسلمین کے ساتھ متعلق بھی ظاہر کرتا ہے کہ درحقیقت ان کا مطلوب بھی سیاست ہے ان کا طریق عمل بھی بالکل اسی رنگ کا ہے۔ مثلاً اسی کمیشن کے سامنے مولانا مودودی صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ فساد تو مذہبی تھا اور ان کی جماعت~ف۸~ اسلامی یہ کہتی ہے کہ اس فساد کے موجبات سیاسی تھے۔ یہ اختلاف دیانتداری کے ساتھ نہیں ہوسکتا اگر تو جماعت اسلامی پہلے ہوئی اور مولانا مودودی بعد میں آکر اس کے پریذیڈنٹ بن جاتے۔ تب بنائی ہے اور اب بھی گو انہیں ایکس امیر (Examir) کہا جاتا ہے لیکن جیلخانہ میں بھی انہی سے مشورے کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کو >مزاج شناس رسول< کا درجہ دیا جاتا ہے )بیان امین احسن اصلاحی( اگر اتنا اہم اختلاف پیدا ہوگیا تھا تو یہ تعاون باہمی کیسے جاری ہے جماعت اخوان المسلمین نے بھی مصر میں یہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے جنرل نجیب کے برسراقتدار آنے پر انہوں نے اعلان کردیا کہ ان کی جماعت مذہبی ہے لیکن ایک حصہ اسے سیاسی قرار دیتا رہا اور اب ساری جماعت ہی سیاسیات میں الجھ کر مصر کی قائم شدہ حکومت جس کے ذریعہ سے اس کے لئے آزادی کا حصول ممکن ہوگیا ہے۔ اس کے خلاف کھڑی ہوگئی اور جماعت اسلامی کے صدر صاحب جنرل نجیب کو تار دیتے ہیں کہ جو الزام تم اخوان المسلمین پر لگاتے ہو وہ غلط ہے۔ عجیب بات ہے کہ مصر کی حکومت مصر کے بعض لوگوں پر ایک الزام لگاتی ہے اور واقعات کی بناء پر الزام لگاتی ہے میں پاکستان کی جماعت اسلامی بغیر اس کے کہ ان لوگوں سے واقف ہو بغیر اس کے کہ کام سے واقف ہو` صدر مصر کو تار دیتی ہے کہ تمہاری غلطی ہے یہ لوگ ایسے نہیں ہیں یہ صاف بتاتا ہے کہ دونوں تحریکیں سیاسی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا بازو ہیں۔ مذہب کا صرف نام رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے جب تحریک فسادات نے زور پکڑا اور جماعت اسلامی نے یہ محسوس کیا کہ اس ذریعہ سے وہ حکومت کے کچھ لوگوں کی نظر میں بھی پسندیدہ ہوجائیں گے اور عوام الناس میں بھی ان کو قبولیت حاصل کرنے کا موقع میسر آجائے گا۔ تو وہ اس تحریک میں شامل ہوگئے۔
‏tav.14.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
ہمیں تعجب ہے کہ مسٹر انور علی صاحب آئی جی پولیس` مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے متعلق تو یہ کہتے ہیں کہ لائلپور کی تقریر~ف۹~ میں ان کا یہ کہنا کہ اس اس رنگ میں فساد ظاہر ہوں گے یہ بتاتا ہے کہ دو ان فسادات کی سکیم میں شامل تھے۔ لیکن مولانا مودودی صاحب کی لاہور کی تقریر جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے یہ باتیں نہ مانیں~ف۱۰~ تو جس رنگ میں پارٹیشن کے وقت فسادات ہوئے تھے اسی رنگ میں فسادات ہوں گے اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق مجھے یہ شبہ نہیں تھا کہ وہ کوئی سیاسی کام گورنمنٹ کے خلاف کرتے ہیں تعجب ہے ایک ہی قسم کی تقریریں دو شخص کرتے ہں اور ایک سے اور نتیجہ نکالا جاتا ہے اور دوسری سے اور۔ حالانکہ مولانا مودودی نے جس قسم کے فسادات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ فسادات تفصیلاً اسی رنگ میں پیش آئے۔ یا تو وہ الہام کے مدعی ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا بتایا ہے تب ہم اس امر کی تحقیقات کرتے مگر وہ توالہام کے منکر ہیں۔ آخر انہیں کیونکر پتہ لگا تھا۔ کہ اسی رنگ میں فسادات ہوں گے جس رنگ میں پارٹیشن کے زمانہ میں فسادات ہوئے تھے۔ فسادات کے مختلف پیٹرن (Pettern) ہوتے ہیں اور ہر وقت اور ہر ملک میں ایک قسم کے فسادات ظاہر نہیں ہوتے۔ گزشتہ پارٹیشن کے زمانہ میں فساد کا ایک معین طریق تھا جو ہندوئوں اور سکھوں نے مقرر کیا تھا۔ مغربی پنجاب میں بھی فسادات ہوئے مگر وہ اس رنگ میں نہیں ہوئے ان کا رنگ بالکل اور تھا۔ مگر جو فسادات پچھلے دنوں میں ہوئے ان کا پیٹرن وہی تھا جو کہ مشرقی پنجاب میں استعمال کیا گیا تھا اور اس کی طرف مولانا مودودی صاحب نے اشارہ کیا تھا۔
غرض ی ایک حقیقت ہے کہ باوجود ۵۰ء` ۵۱ اور ۵۲ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے متواتر پروٹسٹ کرنے کے حکومت نے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔ اس نے روم کے بادشاہ نیرو کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ
‏fiddle his withe plays Nero burns Rome
آخر وجہ کی اہے کہ جبکہ جماعت احمدیہ متواتر فسادات کے پیدا ہونے کے امکان کی طرف حکومت کو توجہ دلاتی رہی۔ حکومت انہیں یہ طفل تسلیاں دیتی رہی کہ فسادات کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ کہ جب کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے گا۔ ہم اسے پکڑ لیں گے لیکن جب فساد کی صریح انگیخت بعض لوگ کرتے تھے۔ تو کبھی لوکل افسروں کی توجہ دلانے پر یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ یہ آدمی اہم~ف۱۱~ نہیں حالانکہ فسادات کے لئے ملکی اہمیت نہیں دیکھی جاتی علاقائی اہمیت دیکھی جاتی ہے اور کبھی یہ کہہ دیا جاتا کہ اگر اس وقت کسی کو پکڑا گیا تو شورش بڑھ جائے گی۔ حالانکہ شورش کے بڑھنے کا خطرہ تو زمانہ کی لمبائی کے ساتھ لمبا ہوتا ہے اس وقت خاموش رہنے کے یہ معنی تھے کہ شورش بڑھنے کو اور موقعہ دیا جائے حالانکہ شہادتوں سے صاف ثابت ہے کہ مرکزی حکومت سے دو ٹوک فیصلہ چاہنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اور کبھی یہ کہہ دیا جاتا کہ چونکہ مرکزی حکومت نے ابھی تک اصل مسئلہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اس لئے ہمارا دخل دینا مناسب نہیں کبھی انسپکٹر جنرل پولیس توجہ دلاتا تو خاموشی اختیار کی جاتی۔ اور سمجھ لیا جاتا کہ ہم ایک دفعہ فیصلہ کرچکے ہیں۔ اب مزید اظہار رائے کی ضرورت نہیں کبھی مقامی حکام یا پولیس اگر بعض لوگوں کو پکڑ لیتی تو ہماری حکومت ان کے اس لئے رہا کرنے کا آرڈر دے دیتی کہ وہ لوگ اب پچھلے کام پر پشیمان ہیں۔ حالانکہ گزشتہ تاریخ احرار کی اس کے خلاف تھی جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے اور مستقبل نے بھی اس خیال کو غلط ثابت کردیا۔ یںہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان لوگوں نے اصلاح کی شہادتیں اور لٹریچر کے خلاف ہے۔~ف۱۲~ گویا ایک لاکھ یا دو لاکھ پاکستانیوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ اس کے لئے حکومت کو کسی قدم کے اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ آخر اگر کسی نے ملک میں کوئی غیر آئینی تقریر نہی کی تھی اگر تمام لیدر لوگوں کو امن سے رہنے اور احمدیوں کی جان کی حفاظت کرنے کا وعدہ کررہے تھے اور حکومت کو ان کے وعدوں پر اعتبار تھا تو یہ کس طرح ہوا کہ احمدی قتل کئے گئے۔ اور ان کی جائیدادیں تباہ~ف۱۳~ کردی گئیں۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ اور کئی جگہ پر انہیں مجبور کرکے ان سے احمدیت ترک کروائی گئی۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کوئی احمدی اپنے عقیدہ کو ترک نہیں کرسکتا۔ دنیا میں ہمیشہ سے ہی لوگ اپنے عقائد چھوڑتے آئے ہیں اگر کوئی احمدی بھی اپنا عقیدہ چھور دے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن وجہ کیا ہے کہ احدیت کو ترک کرنے کا خیال ان دنوں میں پیدا ہونا شروع ہوا۔ جن دنوں میں چاروں طرف سے احمدیت کے خلاف قتل اور غارت کا بازار گرم تھا ہم مثال کے طور پر راولپنڈی` سیالکوٹ` اوکاڑہ` ملتان` گوجرانوالہ` شاہدرہ` لاہور اور لائلپور کے واقعات کو پیش کرتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ انہی فسادات کے ایام میں جماعت اسلامی جو امن و امان کے قیام کی واحد ٹھیکیدار اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اس کے سیکرٹری نے مندرجہ ذیل خط امام جماعت احمدیہ کو لکھا۔
امیر جماعت اسلامی
تاریخ ۹ مارچ ۱۹۵۳ء/ شمارہ نمبر ۱۰۳۹
مکرمی۔
السلام علی من اتبع علی الھدی
مندرجہ ذیل حضرات نے قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام قبول کیا ہے انہوں نے تحریری طور پر دفتر ہذا کو اطلاع دی ہے۔ کہ ان پر کوئی دبائو نہیں ڈالا گیا۔ اور نہ ہی کسی در اور خوف سے انہوں نے توبہ کی ہے بلکہ برضا و رغبت اور پوری طرح سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے۔
)۱(
فضل الرحمن صاحب سپروائزر
‏O ۔H ۔G][مکان نمبر ۵۴۳/ ۶
کالج روڈ راولپنڈی
)۲(
چوہدری احمد علی خان
"
"
"
)۳(
حفظ الرحمن صاحب
"
"
"
)۴(
عطاء الرحمن صاحب
"
"
"
)۵(
سمیع الرحمن صاحب
"
"
"
)۶(
مطیع الرحمن صاحب
"
"
"
‏1] gat)[۷(
ساجدہ خانم بنت فضل الرحمن صاحب
"
"
"
)۸(
ممتاز بیگم زوجہ فضل الرحمن صاحب
"
"
"
)۹(
سردار بیگم زوجہ احمد علی خان صاحب
"
"
"
)۱۰(
غیاث بیگم بنت احمد علی خان صاحب
"
"
"
)دستخط( صدیق الحسن گیلانی فتیم حلقہ راولپنڈی
اس خط ے ظاہر ہے کہ عین ان فسادات کے ایام میں یہ امر ان آدمیوں~ف۱۴~ پر ظاہر ہوا۔ کہ احمدی عقائد غلط ہیں اور جماعت اسلامی کے عقائد درست ہیں اور جماعت اسلامی کے راولپنڈی کے سیکرٹری صاحب نے غیر معمولی طور پر یہ ضرورت بھی محسوس کی کہ امام جماعت احمدیہ کو اطلاع دیں۔ کہ بغیر جبر و اکرا کے ایام میں اس قدر آدمی جماعت احمدیہ سے بیزار ہوکر اسلامی جماعت کے سیکرٹری کے پاس توبہ کا اظہار کرتے ہیں اس خط سے خوب واضح ہے کہ جبر و اکراہ بالکل استعمال نہیں کیا گیا اور جبر و اکراہ کے ساتھ اسلامی جماعت کا کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔ اتفاقی طور پر جبر و اکراہ کے دنوں میں بغیر جبر و اکراہ کے بارے آدمیوں پر راتوں رات احمدیت کی غلط ثابت ہوگئی۔ اور بغیر اس کے کہ جماعت اسلامی کا کوئی بھی ان فسادات سے تعلق ہو۔ وہ لوگ دوڑ کر جماعت اسلامی کے سیکرٹری کے پاس پہنچے اور ان کو ایک تحریر دے دی۔
جماعت احمدیہ کے اوپر صرف یہ الزام ہے کہ بعض موقعوں پر اس نے حملوں کا جواب کیوں دیا۔ حالانکہ جواب دینا تو انسان کو اپنی جان بچانے کے لئے ضروری ہوتا ہے اگر جواب نہ دیں تو لوگوں پر حقیقت روشن کس طرح ہو۔ مثلاً اسی کمیشن کے سامنے مولانا مرتضیٰ صاحب میکش نے امام جماعت احمدیہ سے سوال کیا۔ کہ ہم تو آپ کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ آپ کافر ہیں۔ آپ ہمیں کس لئے کافر کہتے ہیں۔ ان کی غرض یہ تھی کہ احمدی چونکہ دوسروں کو کافر کہتے ہیں اس لئے لوگوں کے دلوں میں اشتعال آتا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ کفر کی ایک ایسی تشریح پیش کی گئی جس پر وہ اعتراض نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے ان کو اپنا سوال اس رنگ میں ڈھالنا پڑا۔ کہ ہم کو تو آپ کافر سمجھ کر کافر کہتے ہیں۔ آپ ہمیں کافر کیوں کہتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک علماء احرار مجلس عمل و جماعت اسلامی بیشک احمدیوں کو کافر سمجھیں اور کہیں اس سے فساد کا کوئی احتمال نہیں۔ لیکن اگر احمدی جماعت جوابی طور پر بھی انہیں کافر کہے۔ تو اس سے فساد کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے۔
ان فسادات کے سیاسی ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف سراسر جھوٹ بولا جاتا تھا۔ اگر جماعت احمدیہ کے عقائد غلط تھے۔ تو ان کو بیان کرنا کافی تھا۔ جھوٹ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ مثلاً متواتر یہ کہا جاتا تھا۔ کہ احمدی آنحضرت~صل۱~ کو خاتم النبین نہیں مانتے۔~ف۱۵~ حالانکہ یہ سراسر افتراء تھا۔ احمدی رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبین کہا گی اہے۔ اور احمدی قرآن کریم کو مانتے تھے۔ مانتے ہیں اور قیامت تک مانتے رہیں گے۔ اور بیعت میں بھی ختم نبوت کا اقرار لیا جاتا ہے۔ اس جھوٹ کے بنانے کی وجہ یہی تھی کہ علماء جانتے تھے کہ اس کے بغیر لوگوں کو غصہ نہیں دلایا جاسکتا۔ اسی طرح لوگوں کے سامنے یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی گیر احمدی کو کافر کہتے ہیں اور یہ بھی کبھی بھی نہیں کہا جاتا تھا کہ ہم نے دس سال تک ان کو کافر کہا ہے۔~ف۱۶~ اس کے بعد انہوں نے ہمیں کافر کہنا شروع کیا ہے اور نہ کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ کفر کے جو معنی ہم کرتے ہیں۔ احمدی وہ معنے نہیں کرتے۔ احمدی فلاں معنے کرتے ہیں )جو حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبہ مطبوعہ الفضل مئی~ف۱۷~ ۱۹۳۵ء میں بیا کئے گئے ہیں( جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ مذہب کا دفاع مقصود نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر ایک فتنہ پیدا کرنا مقصود تھا ورنہ کیا خدا جھوٹ کا محتاج ہوتا ہے کیا خدا دھوکہ بازی کا محتاج ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی جماعت مسلمانوں کی سیاست سے کٹ گئی ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے جنازے نہیں پڑھتی اور یہ کبھی بھی نہیں کہا گیا کہ ہم نے احمدیوں کو سیاست سے کاٹ دیا ہے کیونکہ ہم نے ان کے جنازے پڑھنے سے لوگوں کو روک دیا ہے اگر وہ ان باتوں کو ظاہر کرتے تو لوگوں کو یہ معلوم ہوجاتا کہ علماء کا مقام یہ ہے کہ کثیر التعداد جماعت جو چاہے کرے اسے جائز ہے اور قلیل التعداد جماعت کو صحیح طور پر اپنے دفاع کرنے کی بھی اجازت نہیں اور عقل مند لوگ سمجھ جاتے کہ یہ مذہبی جھگڑا نہیں۔ سیاسی جھگڑا ہے ہم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس فتنہ کو دور کرنے کا آسان ذریعہ یہ ہے کہ وہ علماء کو بھی مجبور کرے اور ہمیں بھی مجبور کرے کہ جو فتویٰ ان کے ہمارے بارے میں ہیں وہ بھی اکٹھے کردیئے جائیں اور جو فتویٰ ہمارے ان کے بارے میں ہیں وہ بھی اکٹھے کردیئے اور ان کی وہ شائع شدہ تشریحات بھی شامل کی جائں جو دونوں فریق آج سے پہلے کرچکے ہیں اور پھر ان فتووں کو جماعت احرار` مجلس عمل` جماعت اسلامی اور جماعت احمدیہ کے خرچ پر شائع کیا جائے اور آئندہ یہ فیصلہ کردیا جائے کہ سوائے اس مجموعی کتاب کے ان فتووں کے مضمون کے متعلق اور کوئی بات کسی کو کہنے یا لکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہم خود اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ہم اس کتاب آدھا خرچ دینے کے لئے تیار ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ مولوی صاحبان جو جماعت احرار` جماعت اسلامی اور جماعت عمل کے نمائندے ہیں کبھی اس بات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
غرض کلی طور پر ان فسادات کی ذمہ داری جماعت اسلامی` مجلس احرار اور مجلس عمل پر ہے جماعت احرار نے ابتداء کی مجلس عمل نے اس کو عالمگیر بنانے کی کوشش کی اور جماعت اسلامی لوٹ کی امید میں آگے آگے چلنے لگ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی ایام کی سستی اور غفلت نے حکومت کو ایک ایسے مقام پر کھڑا کردیا۔ کہ اگر وہ چاہتی بھی تو ان فسادات سے بچ نہیں سکتی تھی۔ پہلے انہوں نے غفلت برتی پھر انہوں نے اس فساد کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی اور آخر میں انہوں نے سمجھا کہ اگر علماء کو کچھ بھی کہا گیا تو عوام لیگ وغیرہ مسلم لیگ کو کچل دیں گی اور طاقت ور ہوجائیں گی۔ یہ علماء قائداعظم کے زمانہ میں بھی موجود تھے۔ مگر انہوں نے ان کو منہ نہیں لگایا۔ بار بار عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اپنی تقریروں میں بیان کرتے رہے ہیں۔ کہ میں نے اپنی داڑھی قائداعظم کے بوٹ پر ملی مگر پھر بھی ان کا دل نہ پسجا۔~ف۱۸~ وہی عطاء اللہ شاہ بخاری اب بھی تھے اور وہی قائداعظم والی حکومت اب بھی تھی۔ صرف قائداعظم فوت ہوگئے تھے۔ اور ان کے نمائندے کام کر رہے تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ مرد دلیر نہ ڈرا۔ اور یہ علماء اس کے ڈر کے مارے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے رہے۔ لیکن اس کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہی یہ اسی شخص کے کام کو تباہ کرنے کے لئے آگے نکل آئے۔ جس کے بوٹ پر یہ ڈاڑھیاں رگڑا کرتے تھے۔ درحقیقت یہ جو کچھ کیا گیا۔ ہمارے نزدیک تو دانستہ تھا۔ لیکن اگر کوئی ہمارے ساتھ اتفاق نہ کرے تو اسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ نادانسہ طور پر ہندو کے ہاتھ کو مضبوط کرنے کے لئے کیا گیا اس کا ثبوت تیج~ف۱۹~ کا حوالہ ہے۔ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت غیر احمدی بھی احمدیت کی تائید کرنے لگے تھے اور اس کا علاج کرنے کے لئے ہندوئوں کو پکارا گیا تھا اس کے معاً بعد جماعت احرار پیدا ہوئی اور پھر چند سال میں جماعت اسلامی تیج کے مضمون اس کے وقت اور ان دونوں جماعتوں کے ظہور کے وقت اور ان کے طریق عمل سے ظاہر ہے کہ یہ ہندوئوں کا خود کاشتہ پودا ہے۔
نیز جس رنگ میں یہ کوشس پاکستان بننے کے بعد کی گئی اس سے بھی ظاہر ہے کہ متعصب ہندوئوں کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ایسا کیا گیا کیونکہ تمام فساد کی جڑ یہ اصل ہے کہ ایک مینارٹی کو کیا حق ہے ہ وہ ایک میجارٹی کے مقابلہ میں اپنی رائے ظاہر کرے۔ )آفاق کی مثال~(ف۲۰~ اور اسلام کو ایسی بھیانک صورت میں پیش کیا گیا کہ کوئی منصف مزاج آدمی اس کی معقولیت کا قائل نہیں ہوسکتا۔ اور ہندوستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کا مسلمان ہمارے خلاف ہوگا۔ کیونکہ ہندو پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اسلامی عقیدہ کے مطابق وہ اس کا وفادار نہیں ہوسکتا اور اسے اس الزام کو دور کرنے کے لئے ضرورت سے بھی زیادہ وفاداری کا اظہار کرنے پڑے گا۔ ورنہ وہ تباہ ہوجائے گا۔ ادھر پاکستان کا ہندو ان خیالات کے سننے کے بعد جو ایک اسلامی حکومت کے متلق ان علماء نے ظاہر کئے ہیں۔ پاکستان کی وفاداری کے جذبات اپنے اندر پیدا نہیں کرسکے گا۔ درحقیقت پاکستان کو مضبوط کرنے والی اور پاکستان کے ہندو کو سچا پاکستانی بنانے والی اور ہندوستا کے مسلمان کو خونریزی سے بچانے والی اور بزدل بنانے سے مہفوظ رکھنے والی پالیسی وہی ہے جو کہ اسلام کی اس تشریح سے ثابت ہوتی ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور جس کو قائداعظم بھی اپنی زندگی میں بیان کرتے رہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں کسی اقلیت یا غیر اقلیت کو کوئی خوف نہیں بلکہ تمام قوموں کے لئے یکساں آزادی اور یکساں کاروبار کے مواقع نصیب ہیں اور غیر اسلامی حکومت میں رہنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت سے تعاون اور اس کی فرمانبرداری کریں۔
مودودی صاحب اپنے بیان میں یہ لکھتے ہیں کہ احمدیوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے حالانکہ انہوں نے اس کا کوئی ثبوت بہم نہیں پہنچایا۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع ~ف۲۱~ جو شخص سنی سنائی بات کو پیش کردیتا ہے۔ اس کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی ثبوت کلافی ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے سو فیصد غلط ہے۔ لیکن اگر صحیح بھی ہو تو ملازمتیں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ سے ملتی ہیں اور پبلک سروس کمیشن میں آج تک ایک بھی احمدی ممبر نہیں ہوا۔ نہ صوبجاتی پبلک سروس کمیشن میں اور نہ مرکزی پبلک سروس کمیشن میں۔ اگر اسلام ساری قوموں کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیتا ہے تو جبکہ پاکستانی حکومت امتحانوں اور انٹرویو کے ذریعہ سے ملازم رکھتی ہے۔ تو فرض کرو۔ اگر کسی محکمہ میں احمدی اپنی تعداد سے دس یا پندرہ یا بیس فیصدی یا پچاس فیصدی زائد بھی ہوجاتے ہیں تو ی اعتراض کی کونسی بات ہے۔ خود پاکستان کی گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے اور اس قانون کے بنائے ہوئے رستہ سے اگر احمدی طلبہ سینما اور تماشوں اور تاش اور شطرنج سے اجتناب کرتے ہوئے محنت اور کوشش سے آگے نکل جاتے ہیں تو اس کو پولیٹیکل سٹنٹ بنانے اور شور مچانے کی کیا وجہ ہے؟ اور جھوٹ بول کر ایک کو سوبتا دینا صاف بتاتا ہے۔ کہ مذہب اس کا باعث نہیں۔ سیاست اس کا باعث ہے کیونکہ خدا کو جھوٹ کی ضرورت نہیں۔][پھر مولانا مودودی صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تجارت پر احمدی قابض ہوچکے ہیں زراعت پر احمدی قابض ہوچکے ہیں۔ صنعت و حرفت پر احمدی قابض ہوچکے ہیں یہ بات بھی سراسر جھوٹ ہے۔ ایک مذہبی جماعت کا لیڈر ہوتے ہوئے` اس قدر جھوٹ سے کام لینا ہماری عقل سے باہر ہے۔ لاہور ہمارے صوبہ کا مرکز ہے۔ اگر پولیس کو حکم دیا جائے۔ کہ بازاروں میں سے دکانوں کی اعداد شماری کرے اور دیکھے کہ ان میں سے احمدی کتنے ہیں تو کورٹ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس جماعت اسلامی کے لیڈر نے شرمناک غیر اسلامی حرکت کی ہے۔
)مندرجہ بالا قیمتی مضمون کی روشنی میں صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے اپنا بیان انگریزی میں ترجمہ کرا کر تحقیقاتی عدالت میں داخل کرایا۔(
مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ
تحقیقاتی عدالت نے صدر انجمن احمدیہ سے علاوہ سات سوالوں کے جواب کے دس اور سوالات کے جوابات طلب کئے جن کا تفصیلی ذکر اوپر آچکلا ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود نے ان دس سوالات کے جوابات بھی نہایت شرح و بسط سے رقم فرمائے جو داخل عدالت کئے جانے کے بعد عنوان بالا سے >الشرکہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ< نے کتابی شکل میں بھی شائع کردیئے۔ یہ جوابات بڑی تقطیع کے ۲۰۸ صفحات پر محیط ہیں۔ جن میں نہ صرف اسلام کے بنیادی نظریہ متعلق مسئلہ نبوت پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف اہم اعتراضات کی حقیقت بھی پوری شان کے ساتھ نمایاں کی گئی ہے بطور نمونہ سوالنمبر ۷ اور ۱۰ کے جوابات کے حضور کے الفاظ مبارک میں ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں۔
سوال نمبر ۷ متعلق اعتراض عدم ہمدردی مسلمانان
ہفتم۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلمان حکومتوں اور مسلمان تحریکوں سے کبھی ہمدردی نہیں کی۔ افسوس ہے کہ جماعت اسلامی۔ مجلس عمل اور اہرار نے اس معاملہ میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ ہمارے زمانے کی بڑی بڑی مشہور اسلامی حکومتیں ترکی` عرب` مصر` ایران` افغانستان اور انڈونیشیا ہیں۔ بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں صرف ترکی کی حکومت تھی جو مسلمانوں کے سامنے آئی تھی۔ ایران تو بالکل نظر انداز تھا اور افغانستان ایک رنگ میں انگریزوں کے ماتحت حکومت تھی۔ بانی سلسلہ احمدیہ کے سامنے کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں ترکی اور یورپ کی بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑنا پڑا ہو سوائے اس جنگ کے جو کہ یونان کے ساتھ ہوئی تھی۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے ترکی حکومت کی تائید
اور بانی سلسلہ احمدیہ نے اس معاملہ میں ترکی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ آپ کے بعد دوسری جنگ ترکی اور اٹلی کے درمیان ہوئی جس میں جماعت احمدیہ نے لڑکی سے ہمدردی ظاہر کی اور اٹلی کے خلاف جذبات کا اظہار کیا۔
تیسری جنگ ترکی اور اتحادی قوموں کے ساتھ ہوئی جس میں ترکی اپنی اغراض کے لئے نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ جرمن کی تائید کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ لازماً اتحادی قوموں نے اپنی اپنی حکومتوں کی مدد کی۔ وہ وقت کسی ہمدردی کے اطہار کا تھا ہی نہیں۔ تمام مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ترکی کی شکست کے بعد تحریک خلافت پیدا ہوئی۔ لیکن اپنے ہاتھوں سے ترکی کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد خلافت کا شر مچانا` یہ تو کوئی پسندیدہ طریق نہیں تھا مگر اس وقت بھی موجودہ امام جماعت احمدیہ نے ترکی کی تائید میں دو ٹرکیٹ لکھے جن میں سے ایک کا نام >ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض< ہے اور دوسرے کا نام >معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ< ہے۔
عربوں کی امداد
پھر جب عربوں کے ساتھ یورپین لوگوں نے معاہدہ کیا تو اس پر بھی امام جماعت احمدیہ نے سختی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ عربوں کے ساتھ انگریزں نے ظلم کیا ہے اور ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے )یہ مضامین الفضل مورکح ۹ جون و ۲۰ جون ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئے ہیں(
انڈونیشیا کی آزادی
پھر انڈونیشیا کی آزادی کا سوال پیدا ہوا تو اس میں بھی احمدی جماعت نے انڈونیشیا کی آزادی کی پوری طرح تائید کی اور انڈونیشیا کی زمین اسی طرح احمدی محبان وطن کے خون سے رنگین ہے جس طرح کہ غیر احمدی محبان وطن کے خون سے۔ اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انڈونیشین ایمبسیڈر )سفیر( نے اپنی حکومت کی طرف سے گزشہ فسادات کے موقعہ پر حکومت پاکستان کے فارن منسٹر کے خلاف شورش پیدا ہونے پر انڈونیشین حکومت کی ناپسندیدگی کو ظاہر کیا۔ یہ انڈونیشین ایمبسیڈر احمدی نہیں تھا اور اب تک وہی ایمبسیڈر ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ مجلس عمل کے نمائندہ شمسی صاحب نے اس کو )اپنی ناجائز اغراض پوری کرنے کے لئے( احمدی قرار دی اہے۔ حالانکہ جس شخص کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ احمدی ہے وہ کبھی بھی ایمبسیڈر نہیں ہوا۔ وہ موجودہ فسادات سے پہلے اور موجودہ ایمبسیڈر سے پہلے انچارج کی حیثیت میں پاکستان میں رہا ہے اور ان فسادات سے پہلے بدل کر عراق میں بطور منسٹر کے چلا گیا تھا مگر یہ بتانے کے لئے کہ گویا بیرونی دنیا میں ان مظالم پر کوئی نفرت نہیں پیدا ہوئی تھی اگر کسی نے دلچسپی بھی لی تھی تو وہ صرف ایک احمدی تھا یہ جھوٹ بولا گیا کہ انڈونیشین ایمبسیڈر فساد کے وقت میں احمدی تھا۔ فسادات کے وقت میں جو ایمبسیڈر تھا وہ آج بھی ہے اور وہ نہ اس وقت احمدی تھا اور نہ اس وقت تک ہے۔
شدھی کا مقابلہ
ہندوستان میں جب ملکانہ میں آریوں نے لوگوں کو شدھ کرنا شروع یا تو اس وقت احمدی ہی تھے جو مقابلہ کرنے کے لئے آگے بڑھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اس معاملہ کے دوران میں ہم احمدیت کی تبلیغ نہیں کریں گے )الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۳ء والفضل ۲۶ اپریل ۱۹۲۳ء( چنانچہ بیس ہزار کے قریب آدمیوں کو وہ واپس لائے اور وہ آج تک بھی حنفی ہیں` احمدی نہیں اور اس وقت ملکانہ لیڈروں نے ہمارے اس کام کا اقرار کیا اور اس کی پبلک میں گواہی دی )دیکھو الفضل ۹ اپریل ۱۹۲۳ء والفضل ۱۶ اپریل ۱۹۲۳ء چوہدری نذیر احمد صاحب(
سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ اور ورتمان کی شرارت کا جواب
۱۹۲۷ء میں جب لاہور میں مسجد سے نکلتے ہوئے چند مسلمانوں پر سکھوں نے بلاوجہ حملہ کردیا تو اس وقت بھی احمدی ہی اس مقابلہ کے لئے آگے آئے۔ )الفضل ۱۳ مئی ۱۹۲۷ء اور >ورتمان< کی شرارت کا جواب بھی احمدیوں نے ہی دیا )الفضل ۱۰ جون ۱۹۲۷ء( کی چنانچہ ان ہی کو کوششوں کے نتیجہ میں ۵۳ الف کا قانون بنا۔ ورتمان کے ایڈیٹر کو سزا ملی اور یہ وہی زمانہ ہے جبکہ احرار معرض وجود میں آرہے تھے مگر ابھی انہوں نے اپنا نام احرار اختیار نہیں کیا تھا۔
‏sub] [tagبہار اور کلکتہ کے فسادات
پھر جب بمعبی` بہار اور کلکتہ کے فسادات ہوئے تو اس وقت مسلمانوں کی تائید میں امام جماعت احمدیہ نے انگریزی میں ٹریکٹ لکھ کر انگلستان میں شائع کیا اور انگلستان کے کئی اخبارات نے ان سے متاثر ہوکر مسلمانوں کی تائید میں نوٹ لکھے۔
بہار کے فسادات
جب بہار کے فسادات ہوئے اور بہت سے مسلمان مارے گئے تو قائداعظم کی چندہ کی تحریک کا سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے خیر مقدم کیا اور یہ پیش کیا کہ وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ چندہ دیں گے چنانچہ انہوں نے چندہ دیا اور نہ صرف قائداعظم کے فنڈ میں چندہ دیا بلکہ خود وہاں وفد بھیجے جو مسلمانوں کو ان کی جگہوں میں بسئایں اور ان کے حقوق ان کو دلائیں )الفضل مورخہ ۴ مئی ۱۹۴۷ء(
کشمیر کمیٹی
جب کشمیریوں پر ظلم ہوا تو اس وقت بھی آگے آنے والی جماعت` جماعت احمدیہ ہی تھی۔ خود علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی کا صدر امام جماعت احمدیہ کو بنوایا دو سال تک احمدی وکیل مفت کشمیر کے مقدمے لڑتے رہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک جتنے مقدے ان دنوں میں مسلمانوں پر کئے گئے اور جتنی گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں ان میں سے پچانوے فیصدی مقدمے احمدیوں نے لڑے اور گرفتار شدگان کی تعداد میں سے اسی فیصدی کو رہا کرا لیا حالانکہ احمدی وکیلوں کی تعداد غیر احمدی وکیلوں کے مقابلہ میں شاید ایک فیصدی ہوگی۔ )الفضل ۲۵ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ والفضل ۱۲ جولائی ۱۹۳۲ء والفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۲ء الفضل ۲۳ اگست ۱۹۳۲ء والفضل ۸ ستمبر ۱۹۳۲ء والفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱(
بونڈری کمیشن
بونڈری کمیشن کے موقعہ پر قائداعظم کی نظر بونڈری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لئے صرف چوہدری ظفر اللہ خاں پر پڑی۔ اور جب لیگ نے دیکھا کہ کانگرس شرارت کرکے سکھوں اور بعض اور قوموں کو آگے لارہی ہے` یہ بتانے کے لے کہ ساری قومیں مسلمانوں کے خلاف ہیں تو لیگ کے کہنے پر جماعت احمدیہ نے بھی اپنا وفد بونڈری کمیشن کے سامنے پیش یکا۔ اور ا سبات کا اظہار کیا کہ جماعت احمدیہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ اور وہ تقاض کرتی ہے ک وہ ضلع جس میں ان کا سنٹر ہے وہپاکستان میں جائے۔ ضلع گورداسپور کی ساری آبادی میں مسلمانوں ساڑھے اکیاون فیصدی تھے اگر احمدی کافر قرر دے کے اس میں سے نکال دیئے جاتے جیسا کہ احراریوں کا تقاضا تھا تو ضلع گورداسپور کی کل مسلمان آبادی چھیالیس فیصدی رہ جاتی تھی اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے لیگ نے چاہا کہ احمدی وفد پیش ہو۔ اور اس ضرورت کے ماتحت احمدی وفد پیش ہوا اور اس نے صفائی سے کہہ دیا کہ ہم مسلمانوں کا حصہ ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ بونڈری کمیشن کے سمانے پیش ہونے کی صرف لیگ یا کانگریس کو اجازت تھی اور دوسری جماعت انہی کی اجازت سے پیش ہوسکتی تھی۔
‏]0 [stfکشمیر کی جنگ میں حصہ
جب پارٹیشن ہوئی اور کشمیر میں لڑائی شروع ہوئی تو احمدی جماعت ہی تھی جو کہ منظم طور پر اس جنگ میں شرکت کے لئے گئی۔ اور انہوں نے تین سال تک برابر اس محاذ کو سنبھالے رکھا جو کہ کشمیر کا سخت ترین محاذ تھا یہاں تک کہ فوجی حکام کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس لڑائی کے لمبے عرصے میں احمدی فوج نے ایک انچ زمین بھی دشمن کے ہاتھ میں نہیں جانے دی۔ )دیکھو اعلان کمانڈر انچیف افواج پاکستان از الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء(
اس وقت مولانا مودودی یہ اعلان کررہے تھے کہ کشمیر کا جہاد ناجائز ہے۔
)ترجمان القرآن جون ۱۹۴۸ء صفحہ ۱۱۹(
ہم ان کے فتویٰ سے متفق ہیں کہ یہ مذہبی جہاد نہ تھا مگر رسول کریم~صل۱~ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لئے لڑتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے پس یہ جنگ اسلام کی تعلیم کے مطابق منع نہ تھی بلکہ پسندیدہ تھی اور یہ اہراری علماء احمدیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش کررہے تھے اور احمدی فوج کی بدنامی کے لئے پورا زور لگا رہے تھے۔
تقسیم پنجاب کے وقت مسلمانوں سے تعاون]0 [rtf
پھر گزشتہ تقسیم پنجاب کے فسادات کے موقعہ پر جماعت احمدیہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جو تعاون کیا ہے اس کے متعلق ہم مندرجہ ذیل شہادتں اپنے حال کے مخالفین کی ہی پیش کرتے ہیں۔ اخبار >زمیندار< ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے اداریہ میں لکھتا ہے:۔
>اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابل شکریہ طریقہ پر ادا کی۔<
۲۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کا اخبار زمیندار لکھتا ہے:۔
>قادیان میں ایک لاکھ پناہ گزین موجود ہیں۔<
۱۹ اکتبور ۱۹۴۷ء کے اخبار زمیندار نے لکھا:۔
>کل صبح ہندوستانی فوج کے ایک بڑے افسر نے معہ تین برگیڈئیر کے قادیان کا دورہ کیا۔ اس پارٹی کا متفقہ بیان ہے کہ قادیان کے تمام حصے صحرا کا منظر پیش کررہے ہیں` ہر جگہ ہوکا عالم یہ البتہ تین علاقے ایسے ہیں جہاں ایسے مسلمان دکھائے دیئے جو کفار کے مقابلہ میں اپنی جانیں قربان کرنے کا عزم صحیحم کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہے۔۔۔۔۔ پناہ گزینوں کی حالت بہت ابتر ہے مقامی ملٹری نے انہیں خوراک دینے سے انکار کردیا ہے اور احمدی انجمن سے کہا ہے کہ وہ ان مصیبت زدوں کی خوراک کا انتظام کرے۔ چنانچہ انجمن اپنا راشن کم کر کے ان پناہ گزینوں کو خوراک دے رہی ہے۔<
)زمیندار ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۷ء(
مولانا محمد علی جوہر کی تصدیق
اس سوال کے جواب کے آخر میں ہم جماعت احمدیہ کے معنی مولانا محمد علی جوہر مرحوم کی رائے بیان کردینا ضرور سمجھتے ہیں۔ مولانا محمد علی ایسے بڑے لیڈر تھے کہ قائداعظم اور مولانا محمد علی کے مقابلہ میں اور کوئی سیاسی لیڈر نہیں ٹھہر سکتا۔ اور اسلام کی اتنی غیرت رکھتے تھے کہ دشمن بھی ان کی اس خوبی کو تسلیم کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے اخبار >ہمدرد< دہلی مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء میں لکھا:۔
>ناشکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کردی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت تک اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف سملمانوں کی تنظیم و تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعطم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمت اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعائوں کے خوگر ہیں` مشعل راہ ثابت ہوگا۔<
)اخبار >ہمدرد< دہلی مورخہ ۲۴ ستمبر ۱۹۲۷ء(
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کے نزدیک نہ صرف جماعت احمدیہ کلی طور پر مسلمانوں کی بہبودی میں لگی ہوئی تھی اور مسلمانوں کی تنظیم اور جماعت کی ترقی کے لئے کوشش کررہی تھی بلکہ ان کے نزدیک مسلمان علمء کے لئے ضروری تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کے کاموں میں اس کی تردید نہیں بلکہ تائید کریں اور تائید ہی نہیں اس کے نقش قدم پر چلیں۔~<ف۲۲~
سوال نمبر ۱۰ معلق مخالف پاکستان
دہم:۔ یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ پاکستنا کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چائیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں۔
امام اور سیاست
اس کا جواب یہ ہے کہ امام کو ماننا تو رسول کریم~صل۱~ کا حکم ہے رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ جو شخص امام کی بیعت میں نہ ہو وہ اپنی زندگی رائیگان کردیت اہے )کنز العمال جلد ۱ صفحہ ۲۶( اور امام کا ہونا بڑی اچھی بات ہے اس کے بغیر تو کوئی انتطام ہو ہی نہیں سکتا جو لوگ امام کو سیاست کا حق دیتے ہیں` ان پر تو یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت بناتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے امام کو سیاست کا حق نہیں دیتے` ان پر یہ اعتراض کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت بناتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا تو اعتقاد یہ ہے کہ جس حکومت کے تحت میں رہو اس حکومت کی اطاعت کرو۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انگریز کے وقت میں تو اس امر پر زور دیا جاتا اور بڑے شد و مد سے یہ پراپیگنڈا کیا جاتا کہ احمدی اسلام کے غدار ہیں کیونکہ انگریز کی اطاعت کرتے ہیں اور پاکستان میں آکر اس کے بالکل برخلاف یہ کہا جارہا ہے کہ احمدی پاکستان کے خلاف متوازی حکومت بنا رہے ہیں۔ ایک ہی تعلیم دو جگہ پر دو مختلف نتیجے کس طرح پیدا کرسکتی ہے؟ احمدی تعلیم کی رو سے تو صرف احمدی جماعت ہی نہیں بلکہ احمدی جماعت کا امام بھی پاکستان کی حکومت کے تابع ہیں۔ اور ان کا فرص ہے کہ پاکستان کی حکومت کے تابع رہیں باقی رہا یہ بے وقوفی کا سوال کہ اگر کسی وقت امام حکومت کے خلاف حکم دے تو پھر احمدی کیا کریں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس شخص کو امام تسلیم کرتے ہیں جو سب سے زیادہ شریعت کی پابندی کرنے والا اور دوسروں کو پابند بنانے والا ہو پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف حکم دے کل اگر کوئی کہے کہ اگر تمہارا مذہب چوری اور ڈاکہ ڈالنے کا حکم دے تو تم کیا کرو گے؟ تو ہم اس کو بھی یہی جواب دیں گے کہ ہمارا مذہب چوری اور ڈاکہ کا حکم دے ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اس کی روح کے خلاف ہے۔ اگر یہ اعتراض پڑتا ہے تو مودودی صاحب پر البتہ پڑتا ہے جو امیر بھی ہیں اور سیاست بھی ان کے مقاصد میں داخل ہے ان کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف ہوئے تو ان کی جماعت کیا کرے گی۔~<ف۲۳~
رسالہ >قادیانی مسئلہ< کا جواب
مولانا سید ابو الاعیٰ صاحب مودودی نے عین فسادات پنجاب کے دوران اپنے مضمون >قادیانی مسئلہ< کو پہلے ترجمان القرآن میں اور پھر مستقل رسالہ کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کیا تھا۔ تحقیقاتی عدالت میں یہ رسالہ بھی زیر بحث آیا اور مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے کسی کی بنیاد پر تحریری و تقریری بیانات دالت میں دیئے۔ ویسے بھی ملک کے ایک طبقے پر اس ے ایسا گہرا اثر ڈالا کہ احمدی کے خلاف نفرت و حقارت کی علیج وسیع تر ہوگئی لہذا حضرت مصلح موعود نے اس کے جواب میں بھی انہیں دنوں قلم اٹھایا اور رسالہ >قادیانی مسئلہ< کے تمام ضروری اعتراضات کے مسکت و مدال جوابت دیئے اور مسئلہ ختم نبوت` مسئلہ کفر و اسلام` مسئلہ جنازہ` مسئلہ جہاد` اور دیگر اہم مذہبی یا سیاسی مسائل پر نہایت جامع انداز میں روشنی ڈالی۔
حضور کا منشاء مبارک چونکہ محض حقائق کو پیش کرنا تھا اس لئے مولانا مودودی کے اعتراضات کی حقیقت نمایاں کرنے کے بعد نہایت درد اور اندوہ میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ امت مسلمہ کے مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں زیادہ سے زیادہ اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تاعیسائی حکومتیں مسلمان ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکیں نیز مسلمانوں سے درد مندانہ اپیل کی کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی بجائے اپنے مذہبی لیڈروں میں تقویٰ اور خشیت اللہ پیدا کرکے ان کو عدل و انصاف اور رواداری کا سبق سکھائیں کہ اسلام کی خدمت کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
چنانچہ حضور نے >آخری خطاب< کے زیر عنوان تحریر فرمایا:۔
آخری خطاب
مولانا مودودی صاحب نے قادیانی مسئلہ لکھ کر ملک میں خطرناک تفرقہ اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک مولناا موددی صاحب کے اپنے مفاد کا سوال ہے اس کے مطابق تو یہ کوشش بالکل جائز اور درست ہے کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں صاف لکھ چکے ہیں کہ صالح جماعت کا یہ فرص ہے کہ ہر ذریعہ سے حکومت پر قبض کرنے کی کوشش کرے کیونکہ حکومت پر قبضہ کئے بغیر کوئی پروگرام ملک میں جاری نہیں ہوسکتا۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کے مفاد اور امت مسلمہ کے مفاد کا سوال ہے۔ یقیناً یہ کوشش نہایت ناپسندیدہ اور خلاف عقل ہے مسلمان جن خطرناک حالات میں سے گزر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اس وقت ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ متحد کرنے اور مسلمانوں کی سیاسی ضرورتوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ بغیر اتحاد کے اس وقت مسلمان سیاسی دنیا میں سر نہیں اٹھا سکتا۔ اس وقت بیسیوں ایسے علاقے موجود ہیں جن کی آبادی مسلمان ہے۔ جو سیاسی طور پر آزاد ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ آزاد نہیں۔ وہ غیر مسلموں کے قبضہ میں ہیں اور بیسیوں ایسے ممالک اور علاقے موجود ہیں جہاں کے مسلمان موجودہ حالات میں علیحدہ سیاسی وجود بننے کے قابل نہیں ہیں۔ لیکن انہیں ایسی آزادی بھی حاصل نہیں جو کسی مک کے اچھے شہر کو حاصل ہوکستی ہے اور ہونی چاہئے بلکہ ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں معزز شہریوں کی حیثیت حاصل نہیں ہے اور جو علاقے مسلمانوں کے آزاد ہیں انہوں نے بھی ابھی پوری طاقت حاصل نہیں کی بلکہ وہ تیسرے درجہ کی طاقتیں کہلا سکتے ہیں۔ دنیا کی زبردست طاقتوں کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمان ساری دنیا پر حاکم تھا جب مسلمان پر ظلم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مسلمان پر ظلم کرنے کے نتیجہ میں ساری دنیا میں شور پڑ جاتا تھا۔ لیکن آج عیسائی پر ظلم کرنے سے تو ساری دنیا میں شور پڑ سکتا ہے۔ مسلمان پر ظلم کرنے سے ساری دنیا میں شور نہیں پڑ سکتا۔ عیسائی کسی ملک میں بھی رہتا ہو اگر اس پر ظلم کا جائے تو عیسائی حکومتیں اس میں دخل دینا اپنا سیاسی حق قرار دیتی ہیں۔ لیکن اگر کسی مسلمان پر غیر مسلم حکومت ظلم کرتی ہے اور مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ غیر ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا جاسکتا۔ گویا عیسائیت کی طاقت کی وجہ سے عیسائیوں کے لئے اور سیاسی اصول کارفرما ہیں لیکن مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے سیاسی دنیا ان کے لئے اور اصول تجویز کرتی ہے۔ ایسے زمانہ میں مسلمانوں کا متفق اور متحد ہونا نہایت ضروری ہے اور چھوٹی اور بڑی جماعت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ الیکش میں ممبر کو اپنے جیتنے کی سچی خواہش ہوتی ہے اور وہ ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کے پاس بھی جاتا ہے اور اس کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلمان حکومتوں کا معاملہ الیکش جیتنے کی خواہش سے کم نہیں۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم کو اس معاملہ میں چھوٹی جماعتوں کی ضرورت نہیں وہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو اسلامی حکومتوں کے طاقتور بنانے کی اتنی بھی خواہش نہیں جتنی ایک الیکشن لڑنے والے کو اپنے جیتنے کی خواہش ہوتی ہے۔ پس وہ سچی خیر خواہی کا نہ مفہوم سمجھتا ہے اور نہ اس کو مسلمانوں سے سچی خیر خواہی ہے۔ پس مودودی صاحب نے >قادیانی مسئلہ< لکھ کر قادیانی جماعت کا بھانڈا نہیں پھوڑا۔ اپنی اسلامی محبت کا بھانڈا پھوڑا ہے اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا پردہ فاش کیا ہے۔ کاش وہ اسلام کی گزشہ ہزار سال کی تاریخ دیکھتے اور انہیں یہ معلوم ہوتا کہ کس طرح مسلمان کو پھوڑ پھاڑ کر اسلام تباہ کیا گیا۔ اور پھاڑنے کے یہ معنے نہیں تھے کہ ان میں اختلاف عقیدہ علماء و فقہاء کی دیدہ ریزیوں کا نتیجہ تھا۔ پھاڑنے کے معنے یہ تھے کہ اختلاف عقیدہ کی بناء پر بعض جماعتوں کو الگ کرکے اسلام کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ تاریک موجود ہے۔ ہر آدمی اس کی ورق گردانی کرکے اس نتیجہ کی صحت کو سمجھ سکتا ہے پس حقیقت یہ ہے کہ قادیانی مسئلہ کا حل اس طرح نہیں کیا جاسکتا جو مولانا مودودی صاحب نے تجویز کیا ہے۔ یعنی پہلے تو احمدیوں کو اسلام سے خارج کرکے ایک علیحدہ اقلیت قرار دیا جائے اور پھر وہ سلسلہ شروع ہوجائے جو اک ہزار سال سے اسلام میں چلا آیا ہے یعنی پھر آغا خانیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے پھر بوہڑوں کو اسلام سے خارج کیا جائے۔ پھر شیعوں کو اسلام سے خارج کیا جائے۔ پھر اہلحدیث کو اسلام سے خارج کیا جائے۔ پھر دیو بندیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے اور پھر مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت قائم کی جائے مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقیناً نہیں بنے گی۔ لیکن پھر ایک دفعہ دنیا میں وہی تباہی کا دور شروع ہوجائے گا۔ جو گزشہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں میں جری رہا اور وہ طاقت جو پچھلے پچیس سال میں مسلمانوں نے حاصل کی ہے بالکل جاتی رہے گی۔ اور مسلمان پھر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگ جائیں گے اور جماعت اسلامی کے پیرو اپنے دل میں خوش ہوں گے کہ ہماری حکومت قائم ہورہی ہے لیکن ایسا تو نہ ہوگا۔ ہاں اسلامی حکومتیں کمزور ہوکر پھر ایک تر لقمہ کی صورت میں۔ یا تو روس کے حلق میں جا پڑیں گی یا مغربی حکوتوں کے گلے میں جا پڑیں گے۔ خدا اسلام کے بدخواہوں کا منہ کالا کرے اور اسلام کو اس روز بد کے دیکھنے سے محفوظ رکھے۔
مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بجائے صحیح طریقہ ملک میں امن قائم کرنے کا یہ ہے کہ:۔
۱۔ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے مختلف فرقے` خواہ اپنے اپنے مخصوص نظریات کے ماتحت دوسرے فرقوں کے متعلق مذہبی لحاظ سے کچھ ہی خیال رکھتے ہوں یعنی خواہ انہیں سچا مسلمان سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں مسلمانوں کے ملی اتحاد کی خاطر اور اسلام کو فرقہ وارانہ انتشار سے بچانے کی غرض سے ان سب کو کلمہ طیبہ کی ظاہری حد بندی کے ماتحت بلا استثناء مسلمان تسلیم کیا جائے اور اس میں شیعہ` سنی` اہلحدیث` اہل قرآن اہل ظاہر` اہل باطن` حنفی` مالکی` جنسلی` شافعی` احمدی اور غیر احمدی میں کوئی فرق نہ کیا جائے۔
۲۔ اگر اس ایک ہی طریق کو استعمال نہیں کرنا۔ جس کے بغیر مسلمانوں کو ترقی حاصل نہیں ہوسکتی۔ تو پھر احمدیوں کو اقلیت قرر دینے سے کچھ نہیں بنتا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن ہورہا ہے اور اسلام کی خیر خواہی دلوں میں نہیں ہے۔ صرف اپنے فرقوں کی خیر خواہی دلوں میں ہے۔ اس لئے یہ اپریشن صرف احمدیت پر ختم نہیں ہوجائے گا احمدیت پر تجربہ کر لینے والا ڈاکٹر بعد میں دوسرے فرقوں پر اس نسخہ کو آزمائے گا۔ پس ایک ہی دفعہ یہ فیصلہ کردینا چاہئے کہ اس اسلامی حکومت نے فلاں فرقہ کے لوگ رہ سکتے ہیں۔ دوسروں کے لئے گنجائش نہیں۔ تکہ باقی سب فرقے ابھی سے اپنے مستقبل کے متعلق غور کر لیں اور دنیا کو بھی معلوم ہوجائے کہ علماء پاکستان کس قسم کی حکومت یہاں قائم کرنا چاہتے ہیں۔
۳۔ اور اگر یہ نہیں کرنا اور واقعہ میں یہ ایک خطرناک بات ہے تو پھر ہم تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کریں گے کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی بجائے مولوی صاحبان کے دل میں تقویٰ اور خشیت اللہ کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اور ان کو یہ سبق سکھائیں کہ عدل اور انصاف اور رواداری کا طریق سب سے بہتر طریق ہے اور اسلام کی خدمت کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جب ان کے استاد علماء کی حالت خراب ہوگئی تو شاگرد ہی استاد کی کرسی پر بیٹھیں اور اپنے سابق اساتذہ کو ان کے فرائض کی طف توجہ دلائیں۔ کہ اسلام مزید ضعف اور تباہی سے بچ جائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہاتھ پکڑلے اور ان کی مدد اسی طرہ کرے جس طرح ابتدائی تین سو سال میں اس نے مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ الھم امین۔~<ف۲۴~
اگرچہ >قادیانی مسئلہ کا جواب< نومبر ۱۹۵۳ء تک لکھا جا چکا تھا لیکن اس کی اشاعت ملک حالات اور دیگر مصالح کی وجہ سے ملتوی کردی گئی اور بعدازاں اسے پنجاب کی بجائے کراچی سے شائع کیا گیا۔ یہ جواب انجمن احمدیہ کراچی کی طرف سے چھپوایا گیا اور >دار التجلید نمبر ۱۴ ملکانی ممل فرئر روڈ پوسٹ بکس نمبر ۷۲۱۵ کراچی< نے شائع کیا۔
حوالہ جات
~ف۱~
ملاحظہ ہو رسالہ پیغام صلح صنفہ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱` ۱۷` ۱۸ مطبوعہ ۱۹۳۶ء بار دوم
~ف۲~
~ف۳~
~ف۴~
اس تحریری بیان کا اصل مسودہ حضرت مصلح موعود نے ۲۸ جنوری ۱۹۵۴ء کو لکھوایا تھا مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم سابق انچارج شعبہ زود نویسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا اور حضرت مصلح موعود کے قلم مبارک سے اصلاح شدہ ہے۔
~ف۵~
مسودہ پر دھبہ کی وجہ سے پڑھا نہیں گیا اس لئے اندازاً لکھا گیا ہے
~ف۶~
حضرت مصلح موعود نے یہاں مسودہ کے حاشیہ تصحیح کے دوران لکھا >بعض حوالہ جات<
~ف۷~
حضرت مصلح موعود نے یہاں حاشیہ میں ہدایت دی کہ >مناسب حوالہ جات<
~ف۸~
حضرت مصلح موعود نے یہاں حاشیہ میں تحریر فرمایا >حوالہ<
~ف۹۔ ۱۰~
حضرت مصلح موعود کے قلم سے یہاں حاشیںہ میں لفظ >حوالہ< لکھا ہے
~ف۱۱~
یہاں حضور نے اس فقرہ کا اپنے قلم سے اضافہ فرمایا >حوالہ سیالکوٹ کا واقعہ<
~ف۱۲~
یہاں حضور نے حاشیہ پر اپنے قلم سے لکھا >حوالہ جات<
~ف۱۳~
یہاں حضور نے حاشیہ پر اپنے قلم سے لکھا >حوالہ جات<
~ف۱۴~
حاشیہ میں یہاں حضور نے بوقت نظر ثانی >تعداد< کا لفظ لکھا
~ف۱۵۔ ۱۶~
یہاں حضور نے حاشیہ پر لکھا >حوالہ<
~ف۱۷~
یکم مئی )ناقل(
~ف۱۸~
آزادی ۱۴ نومبر ۱۹۴۹ء جلد ۷ نمبر ۵۳
~ف۱۹~
تیج ۲۵ جولائی ۱۹۲۷ء مفصل حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو تاثرات قادیان صفحہ ۲۲۱ سے ۲۳۳ از ملک فضل حسین صاحب مرحوم
~ف۲۰~
یہاں حاشیہ پر حضور نے لکھا >جماعت اسلامی اور احرار وغیرہ کا طرز عمل<
~ف۲۱~
الجامع الصغیر للسیوطی حرف الکاف
~ف۲۲~
>مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ< از افاضات حضرت امام جماعت احمدیہ الناشر الشرکہ الاسلامیہ لمیٹڈ صفحہ ۱۷۸ تا صفحہ ۱۸۴
~ف۲۳~
مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ )اسلامی آئیدیالوجی( الناشر الشرکہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ صفحہ ۳۰۷` ۳۰۸
~ف۲۴~
مولانا مودودی کے رسالہ قادیانی مسئلہ کا جواب صفحہ ۱۲۰ تا ۱۲۶ طبع اول ناشر >دارالتجلیہ< کراچی
تیسرا باب
حضرت مصلح موعود کا عدالتی بیان
سیدنا حضرت المصلح الموعود امام جماعت احمدیہ کو تحقیقاتی عدالت نے بطور گواہ بلایا اور ۱۳۔ ۱۴۔ ۱۵ جنوری ۱۹۵۴ء کو لاہور ہائی کورٹ میں حضور کی شہادت قلمبند کی گئی۔ پہلے خود فاضل جج صاحبان نے مختلف سوالات پوچھے اور اس کے بعد چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت اسلامی اور مولانا مرتضیٰ احمد خان صاحب میکش نمائندہ مجلس عمل نے جرح کی۔ جرح کے دوران عدالت عالیہ نے بھی بعض سوالات کئے۔ آخر میں عدالت کی اجازت سے چوہدری نذر احمد صاحب نے چند مزید سوالات پوچھے۔ اس بیان کے دوسرے روز حضور کی طرف سے دو تحریری وضاہتیں بھی داخل عدالت کی گئیں۔ یہ پر معارف بیان جو تین دن جاری رہا۔ عدالت عالیہ نے انگریزی زبان میں املاء کرایا جس کا اردو ترجمہ >سندھ ساگر اکادمی کراچی نمبر ۳< نے >سعید آرٹ پریس حیدر آباد )سندھ< سے چھپوا کر شائع کیا۔ یہ رسالہ >احمدیہ کتابستان< کی مندرجہ ذیل شاخوں سے مل سکتا تھا:۔ رسالہ روڈ۔ حیدر آباد )سندھ(۔ )۲(۔ ۲۶ سنت نگر۔ لاہور )پنجاب۔ )۳( میگزین لائن۔ صدر کراچی۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود کے اس معرکہ الاراء عدالتی بیان کا اردو ترجمہ صیغہ نشر و اشاعت ربوہ نے انہیں دنوں ٹریکٹ کی شکل میں شائع کردیا تھا۔ جس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے:۔
تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان
بجواب سوالات عدالت بتاریخ ۱۳ جنوری ۱۹۵۴ء
سوال:۔ کیا وہ تحریری بیان جو ۲۲ جولائی ۱۹۵۳ء کو صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اس عدالت میں پیش کیا گیا اور جس کی تصدیق مرزا عزیز احمد نے کی اور جس پر مسٹر بشیر احمد۔ مسٹر اسد اللہ اخاں اور مسٹر غلام مرتضیٰ کے دستخط ہیں۔ وہ صحیح طور پر آپ کی جماعت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔ ایسی امکانی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے جو سہواً رہ گئی ہو۔
سوال:۔تحقیقاتی عدالت نے آپ کی انجمن سے کچھ سوالات پوچھے تھے جن کا جواب اگز بٹ نمبر ۳۲۳ کی صورت میں موجود ہے۔ کیا یہ جواب بھی صحیح طور پر آپ کی جماعت نے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔ یہ جواب مجھے دکھایا گیا تھا اور یہ میری جماعت کے نظریات کی صحیح طور پر ترجمانی کرتا ہے۔ لیکن اس دستاویز کے بارے میں بھی کسی امکانی سہو نظر کے متعلق وہی رعایت ملحفوظ رکھی جانی چاہئے۔
سوال:۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے بیان کے جواب میں بھی اس عدالت کے سامنے ایک بیان دستاویز ۳۲۳ پیش کیا گیا تھا۔ کیا آپ نے اس بیان کو دیکھ لیا تھا۔؟
جواب:۔ یہ بیان مجھ سے مشورہ لینے کے بعد تیار کیا گیا تھا اور غالباً میں نے اس کو پڑھا بھی تھا۔ اس کے متعلق بھی وہی رعایت مدنظر رکھتے ہوئے جن کا میں نے دوسری دو دستاویزات کے متعلق ذکر کیا ہے یہ سمجھا جانا چاہئے کہ یہ اس جماعت کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے جس کا میں امیر ہوں۔
سوال:۔ رسول کون ہوتا ہے؟
جواب:۔ رسول اسے کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مقصد کے لئے انسانوں کی راہنمائی کی غرض سے مامور کیا ہو۔
سوال:۔ کیا نبی اور رسول میں کوئی فرق ہے؟
جواب:۔صفات کے لحاظ سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔ وہی شخص اس لحاظ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لاتا ہے رسول کہلائے گا۔ لیکن ان لوگوں کے لحاظ سے جن کی طرف وہ خدائی پیغام لاتا ہے۔ وہ نبی کہلائے گا۔ اس طرح وہی ایک شخص رسول بھی ہوگا اور نبی بھی۔
سوال:۔ آپ کے نزدیک آدم سے لے کر اب تک کتنے رسول یا نبی گزرے ہیں؟
جواب:۔ غالباً اس بارے میں کوئی بات قطعی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ احادیث میں ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان ہوئی ہے۔
سوال:۔ کیا آدمؑ` نوحؑ` ابراہیمؑ` موسیٰؑ` اور عیسیٰؑ` رسول تھے۔؟
جواب:۔آدمؑ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کو بعض لوگ صرف نبی یقین کرتے ہیں اور رسول نہیں سمجھتے۔ مگر میرے نزدیک یہ سب رسول بھی تھے اور نبی بھی
سوال:۔ ولی کس کو کہتے ہیں؟
جواب:۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے
سوال:۔ اور محدث کون ہوتا ہے؟
جواب:۔ وہ جس سے اللہ کلام کرتا ہے۔
سوال:۔ اور مجدد کس کو کہتے ہیں؟
جواب:۔ وہ جو اصلاح اور تجدید کرتا ہے۔ محدث ہی کا دوسرا نام مجدد ہے۔
سوال:۔ کیا ولی` محدث` یا مجدد کو وحی ہوسکتی ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ ان پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے؟
جواب:۔ وحی کے معنی اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو وحی پانے والے پر مختلف طریق سے نالز ہوسکتا ہے۔ وحی کے نازل ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس پر وحی نازل ہوتی ہے اس کے سامنے ایک فرشتہ ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ جس شخص پر وحی نازل ہوتی ہے وہ بعض الفاظ سنا ہے لیکن کلام کرنے والے کو نہیں دیکھتا جی کا تیسرا طریق من وراء حجاب ہے )پردے کے پیچھے سے( یعنی رئویا کے ذریعہ سے۔
سوال:۔ کیا فرشتوں کے سردار حضرت جبریل کسی ولی` محدث یا مجدد پر وحی لاسکتے ہیں؟
جواب:۔ جی ہاں۔ بلکہ متذکرہ بالا اشخاص کے علاوہ دیگر افراد پر بھی۔
سوال:۔ایک ولی` محدث یا مجدد پر نازل ہونے والی وحی کا کیا موضوع ہوسکتا ہے؟
جواب:۔ جس پر وحی نازل ہوتی ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار یا آئندہ آنے والے واقعات کی خبر یا کسی پہلی نازل شدہ کتاب کے متن کے وضاحت۔
سوال:۔ کیا ہمارے نبی کریمﷺ~ پر صرف جبریل کے ذریعہ ہی وحی نازل ہوتی تھی؟
جواب:۔ یہ درست نہیں ہے۔ کہ آنحضرت~صل۱~ پر ہر وحی حضرت جبریل ہی لاتے تھے ہاں یہ درست ہے کہ وحی خواہ ایک نبی یا ولی یا محدث یا مجدد پر نازل ہو وہ حضرت جبریلؑ کی نگرانی میں نازل ہوتی ہے
سوال:۔ وحی اور الہام میں کیا فرق ہے؟
جواب:۔ کوئی فرق نہیں۔
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب پر جبریل وحی لاتے تھے؟
جواب:۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ہر وحی حضرت جبریل کی نگرانی میں نازل ہوتی ہے۔ حضرت مرزا صاحب کے ایک الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبریل ایک دفعہ ان پر نظر آنے والی صورت میں ظاہر ہوئے تھے۔
سوال:۔ کیا مرزا صاحب اصطلاحی (Dagmatie) معنوں میں نبی تھے؟
جواب:۔میں نبی کی کوئی اصطلاحی (Dagmatie) تعریف نہیں جانتا۔ میں اس شخص کو نبی سمجھتا ہوں جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی کہا ہو۔
سوال:۔ کیا اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو نبی کہا ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ مرزا صاحب نے پہلی مرتبہ کب کہا کہ وہ نبی ہیں؟ مہربای فرما کر اس کی تاریخ بتلائیے اور اس بارے میں ان کی کسی تحریر کا حوالہ دیجئے۔
جواب:۔جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے ۱۸۹۱ء میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
سوال:۔ کیا ایک نبی کے ظہور سے ایک نئی امت پیدا ہوتی ہے۔
جواب:۔ جی نہیں۔
سوال:۔ کیا اس کے آنے سے ایک نئی جماعت پیدا ہوتی ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔کیا ایک نئے نبی پر ایمان لانا دوسرے لوگوں کے متعلق اس کے ماننے والوں کے رویہ پر اثر انداز نہیں ہوتا؟
جواب:۔ اگر تو آنے والا نبی صاحب شریعت ہے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے لیکن اگر وہ نئی شریعت نہیں لاتا تو دوسروں کے متعلق اس کے ماننے والوں کے رویہ کا انحصار اس سلوک پر ہوگا۔ جو دوسرے لوگ ان کے ساتھ کرتے ہیں۔
‏tav.14.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
سوال:۔ کیا دوسرے مفہوم کے لحاظ سے احمدی ایک جداگانہ کلاس نہیں ہیں؟
جواب:۔ ہم کوئی نئی امت نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہیں۔
سوال:۔ کیا ایک احمدی کی اولین وفاداری اپنی مملکت کے ساتھی ہوتی ہے یا کہ اپنی جماعت کے امیر کے ساتھ؟
جواب:۔ یہ بات ہمارے عقیدہ کا حصہ ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہوں اس کی حکومت کی اطاعت کریں۔
سوال:۔ کیا ۱۸۹۱ء سے پہلے مرزا غلام احمد صاحب نے بار بار نہیں کہا تھا۔ کہ وہ نبی نہیں ہیں۔ اور یہ کہ ان کی وحی وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت ہے؟
جواب:۔انہوں نے ۱۹۰۰ء میں لکھا تھا کہ اس وقت تک ان کا یہ خیال تھا کہ ایک شخص صرف اس صورت میں ہی نبی ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انہیں بتلایا کہ نبی ہونے کے لئے شریعت کا لانا ضروری شرط نہیں اور یہ کہ ایک شخص نئی شریعت لانے کے بگیر بھی نبی ہوسکتا ہے۔
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب معصوم تھے؟
جواب:۔ اگر تو لفظ معصوم کے معنے یہ ہیں کہ نبی کبھی بھی کوئی غلطی نہیں کرکستا۔ تو ان معنوں کے لحاظ سے کوئی فرد بشر بھی معصوم نہیں حتیٰ کہ ہمارے نبی کریم~صل۱~ بھی ان معنوں کے لحاظ سے معصوم نہ تھے۔ جب معصوم کا لفظ نبیکے متعلق بولا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس شریعت کے کسی حکم کی جس کا وہ پابند ہو خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ دوسروں لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے گناہ کا خواہ وہ کبیرہ ہو یا صغیرہ مرتکب نہیں ہوسکتا بلکہ وہ مکروہات کا بھی مرتکب نہیں ہوسکتا۔ کئی نبی ایسے گزرے ہیں جو کوئی شریعت نہیں لائے تھے۔ وہ امور شریعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں ان کے بارے میں نبی اچھے اجتہاد میں غلطی کرسکتا ہے مثلاً دو فریق مقدمہ کے درمیان تنازعہ کے بارے میں اس سے غلط فیصلہ کا صادر ہونا ناممکن نہیں ہے۔
سوال:۔ آپ اس سوال کا جواب کس رنگ میں دے سکتے ہیں کہ آیا مرزا غلام احمد صاحب کسی مفہوم کے مطابق معصوم تھے؟
جواب:۔ وہ ان معنوں میں معصوم تھے کہ وہ کوئی صغیرہ یا کبیر گناہ نہیں کرسکتے تھے۔
سوال:۔ کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح مرزا صاحب بھی روز حساب اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہوں گے؟
جواب:۔ قیاس یہی ہے کہ انہیں اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا پڑے گا۔ ہمارے نبی کریمﷺ~ نے کہا ہے کہ آپﷺ~ میں کثیر التعداد ایسے لوگ ہیں جو نبی نہیں ہیں مگر وہ یوم الحساب کو حساب سے مستثنیٰ ہوں گے۔
سوال:۔موت کے بعد انبیاء پر کیا گزرتی ہے؟ کیا وہ دوسرے انسانوں کی طرح یوم الحساب تک قبروں میں رہتے ہیں یا کہ سیدھے فردوس یا اعراف میں چلے جاتے ہیں؟
جواب:۔ میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ انبیاء موت کے بعد سیدھے فردوس یا اعراف میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ درست ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قریب تر ایک خاص مقام پر پہنچائے جاتے ہیں چونکہ مرزا غلام احمد صاحب نبی تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی عام احمدیوں کی طرح نہیں بلکہ خاص سلوک کیا ہوگا۔
سوال:۔ کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو منکر و نکیر قبر میں اس کے پاس آتے ہیں؟
جواب:۔ منکر اور نکیر دو فرشتے ہیں۔ لیکن میرا یہ عقیدہ نہیں کہ وہ قبر میں مردوں سے سوالات کرنے کے لئے جسمانی صورت میں ظاہر ہوں گے۔
سوال:۔ منکر و نکیر قبر میں کیوں آتے ہیں؟
جواب:۔ مرنے والے کو اس کے گزشتہ اعمال کی خبر دینے کے لئے۔
سوال:۔ کیا آپے کے خیال میں منکر و نکیر مرزا غلام احمد صاحب کی قبر میں بھی آئے تھے؟
جواب:۔ میرے پاس اس بات کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔
سوال:۔ کیا وہ نور جو خدا تعالیٰ نے آدم کو معاف کرنے کے بعد اس میں داخل کیا تھا مرزا صاحب کو بھی ورثہ میں ملا ہے؟
جواب:۔ مجھے کسی ایسی تھیوری کا علم نہیں۔ قرآن کریم یا کسی صحیح حدیث میں کسی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں
سوال:۔کیا قرآن کریم میں مسیح یا مہدی کے متعلق کوئی واضح پیشگوئی موجود ہے؟
جواب:۔ ان ایک ذکر قرآن کریم میں نام لے کر موجود نہیں۔
سوال:۔ کیا احادیث مسیح اور مہدی کے ظہور پر متفق ہیں؟
جواب:۔ ایسی کوئی حدیث موجود نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کوئی مسیح ظاہر نہیں ہوگا۔ جہاں تک مہدی کا تعلق ہے بعض حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اور مسیح ایک ہی ہیں۔
سوال:۔ کیا تمام مسلمان متفقہ طور پر ان احادیث کو مانتے ہیں؟
جواب:۔ جی نہیں
سوال:۔ کیا ان احادیث سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسیح اور مہدی دو علیحدہ علیحدہ شخص ہوں گے؟
جواب:۔ ہاں! بعض احادیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے۔
سوال:۔ ان احادیث کے مطابق جن میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی کی گئی ہے دجال کے قتل اور یاجوج و ماجوج کی تباہی کے کتنا عرصہ بعد اسرافیل اپنا پہلا صور پھونکے گا؟
جواب:۔ میں ان احادیث کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
سوال:۔ کیا آپ ان احادیث کو مانتے ہیں جن میں دجال اور یاجوج و ماجوج کا ذکر ہے؟
جواب:۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے مجھے ان احادیث کی پڑتال کرنا ہوگی۔ دجال یاجوج و ماجوج کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
سوال:۔ کیا مسیح یا مہدی کو نبی کا رتبہ حاصل ہوگا؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ کیا وہ دنیوی بادشاہ ہوں گے؟
جواب:۔ میرے نزدیک نہیں۔
سوال:۔ کیا اس مفہوم کی کوئی حدیث ہے کہ مسیح جہاد یا جزیہ کے متعلق قانون منسوخ کردے گا؟
جواب:۔ ایک حدیث >جزیہ< کے متعلق ہے اور دوسری >حرب< کے متعلق۔ اہم جزیہ کے تعلق حدیث کے ترجیح دیتے ہیں اور دوسری کو اس کی وضاحت سمجھتے ہیں ہم نہیں سمجھتے کہ جو الفاظ یعنی یضع حدیث میں استعمال ہوئے ہیں ان کے معنے منسوخ کرنے کے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس لفظ کے معنے التوا کے ہیں۔
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ کیا مسیح یا مہدی کے ظہور پر ایمان لانا مسلمانوں کے عقیدہ کا ضروری جزو ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ دعویٰ درست ہے تو اسے ماننا اس پر فرض ہوجاتا ہے۔
سوال:۔ کیا دین اسلام ایک سیاسی مذہبی نظام ہے؟
جواب:۔ یہ ایک مذہبی نظام ہے مگر اس میں کچھ سیاسی احکام بھی ہیں جو اس مذہبی نظام کا حصہ ہیں اور جن کا ماننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسرے احکام کی۔
سوال:۔ اس نظام میں کفار کی حیثیت کیا ہے؟
جواب:۔ کفار کو وہی حیثیت حاصل ہوگی جو مسلمانوں کو۔
سوال:۔ کافر کسے کہتے ہیں؟
جواب:۔ کافر اور مومن اور مسلم نسبتی الفاظ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ معلق ہیں ان کا کوئی جداگانہ معین مفہوم نہیں۔ قرآن کریم میں کافر کا لفظ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں بھی استعمال ہوا ہے اور طاغوت کے تعلق میں بھی اس طرح مومن کا لفظ طاغوت کے تعلق میں بھی استعمال ہوا ہے۔
سوال:۔ کیا اسلامی نظام میں کفار یعنی غیر مسلموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون سازی اور قانون کے نفاذ میں حصہ لیں اور کیا وہ اعلیٰ انتظامی ذمہ داری کے عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں؟
جواب:۔ میرے نزدیک قرآن نے جس حکومت کو خالص اسلامی حکومت کہا ہے اس کا قیام موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔ اسلامی حکومت کی اس تعریف کے مطابق یہ ضروری ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوں مگر موجودہ حالات میں یہ صورت بالکل ناقابل عمل ہے۔
سوال:۔ کیا کبھی اسلامی حکومت قائم رہی بھی ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔ خلفائے راشدین کی اسلامی جمہوریت کے زمانہ میں۔
سوال:۔ اس جمہوریہ میں کفار کی کیا حیثیت تھی؟ کیا وہ قانون سازی اور نفاذ قانون میں حصہ لے سکتے تھے اور کیا وہ انتظامیہ کی اعلیٰ ذمہ دریوں کے عہدوں پر متمکن ہوسکتے تھے؟
جواب:۔ یہ سوال اس وقت پیدا نہیں ہوا تھا کیونکہ اسلامی جمہوریہ کے دور میں مسلمانوں اور کفار میں مسلسل جنگ جاری رہی۔ اور جو کفار مفتوع ہوجاتے تھے اسلامی مملکت میں انہیں وحی حقوق حاصل ہوجاتے تھے جو مسلمانوں کو حاصل ہوتے تھے۔ ان دنوں میں آج کل جیسی منتخب شدہ اسمبلیاں موجود نہ تھیں۔
سوال:۔ کیا آنحضرت~صل۱~ کے وقت میں عدلیہ علیحدہ ہوتی تھی؟
جواب:۔ ان دنوں سب سے بری عدلیہ خود آنحضرت~صل۱~ تھے۔
سوال:۔ کیا اسلامی طرز کی حکومت میں ایک کافر کو حق حاصل ہے کہ وہ کھلے طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرے؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ اسلامی مملکت میں اگر کوئی مسلمان مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے بعد دیانتداری کے ساتھ اسلام کو ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلیتا ہے مثلاً عیسائی یا دہریہ ہوجاتا ہے۔ تو کیا وہ اس مملکت کی رعایا کے حقوق سے محروم ہوجاتا ہے؟
جواب:۔ میرے نزدیک تو ایسا نہیں۔ میں اسلام میں دوسرے ایسے فرقے پائے جاتے ہیں جو ایسے شخص کو موت کی سزا دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
سوال:۔ اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر واجبی غور کرنے کے بعد دیانتداری سے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ آپ کا دعویٰ غلط تھا۔ تو کیا پھر بھی وہ مسلمان رہے گا؟
جواب:۔ جی ہاں۔ عام اصطلاح میں وہ پھر بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔
سوال:۔ کیا آپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سزا دے گا جو غلط مذہبی خیالات یا عقائد رکھتے ہوں؟ لیکن دیانتداری سے ایسا کرتے ہوں؟
جواب:۔ میرے نزدیک سزاء جزاء کا اصول دیانتداری اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ نہ کہ عقیدہ کی صداقت پر۔
سوال:۔ کیا اسلامی حکومت کا یہ مذہبی فرض ہے کہ وہ تمام مسلمانوں سے قرآن اور سنت کے تمام احکام کی جن میں حقوق اللہ کے متعلق قوانین بھی شامل ہیں پابندی کرائے؟
جواب:۔ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ گناہ کی ذمہ داری انفرادی ہے اور اکی شخص صرف ان ہی گناہوں کا ذمہ دار ہوتا ہے جن کا وہ خود مرتکب ہوتا ہے۔ اس لئے اگر اسلامی مملکت میں کوئی شخص قرآن و سنت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا وہ خود ہی جواب دہ ہے۔
بجواب سوالات عدالت بتاریخ ۱۴ جنوری
سوال:۔ کل اپ نے کہا تھا کہ گناہ کی ذمہ داری انفرادی ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ میں ایک مسلم حکومت کا شہری ہوں اور میں ایک دوسرے شخص کو قرآن و سنت کی کوئی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ کیا میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ میں اسے اس خلاف ورزی سے روکوں۔ مذہبی فرض کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں اسے ایسا کرنے سے نہ روکوں تو میں خود بھی گنہگار ہوں گا؟
جواب:۔ آپ کا فرض صرف اس شخص کو نصیحت کرنا ہے۔
سوال:۔ اگر میں صاحب امر ہوں تو کیا پھر بھی یہی صورت ہوگی؟
جواب:۔ پھر بھی آپ کا یہ مذہبی فرض نہیں کہ آپ اس شخص کو ایسا کرنے سے جبراً روکیں۔
سوال:۔ اگر میں صاحب امر ہوں تو کیا میرا یہ فرض ہوگا کہ میں ایسا دنیاوی قانون بنائوں جو اس قسم کی خلاف ورزیوں کو قابل سزا قرار دے؟
جواب:۔ جی نہیں۔ ایسا کرنا آپ کا مذہبی فرض نہیں ہوگا۔ لیکلن ایسا قانون بنانے کا آپ کو اختیار حاصل ہوگا۔
سوال:۔ کیا ایک سچے نبی کا انکار کفر نہیں؟
جواب:۔ہاں یہ کفر ہے۔ لیکن کفر دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ جس سے کوئی شخص ملت سے خارج ہوجاتا ہے دوسرا وہ جس سے وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا۔ کلمہ طیبہ کا انکار پہلی قسم کا کفر ہے۔ دوسری قسم کا کفر اس سے کم درجے کی بدعقیدگیوں سے پیدا ہوتا ہے۔
سوال:۔ کیا ایسا شخص جو ایسے نبی کو نہیں مانتا جو رسول کریم~صل۱~ کے بعد آیا ہو اگلے جہان میں سزا کا مستوجب ہوگا؟
جواب:۔ ہم ایسے شخص کو گنہگار تو سمجھتے ہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سزا دے گا یا نہیں۔ اس کا فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے۔
سوال:۔ کیا آپ خاتم النبین میں خاتم کو >ت< کی فتح سے پڑھتے ہیں یا کسرہ سے؟
جواب:۔ دونوں درست ہیں۔
سوال:۔ اس اصطلاح کے صحیح معنے کیا ہیں؟
جواب:۔ اگر اسے >ت< کی زبر سے پڑھا جائے تو اس کا کیا مطلب ہوگا کہ ہمارے نبی کریم~صل۱~ دوسرے نبیوں کی زینت ہیں جس طرح انگوٹھی انسان کے لئے زینت ہوتی ہے۔ اگر اسے کسرہ سے پڑھا جائے تو لغت کہتی ہے کہ اس صورت میں بھی اس کا یہی مفہوم ہوگا مگر اس سے وہ شخص بھی مراد ہوگا جو کسی چیز کو اختتام تک پہنچاوے۔ اس مفہوم کے مطابق اس کا یہ مطلب ہوگا کہ خاتم النبین آخری نبی ہیں مگر اس صورت میں لفظ النبین سے مراد وہ نبی ہوں گے جن کے ساتھ شریعت نازل ہو یعنی تشریعی نبی۔
سوال:۔ مرزا غلام احمد صاحب کن معنوں میں نبی تھے؟
جواب:۔ میں اس کا جواب پہلے دے چکا ہوں کہ وہ اس لئے نبی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں ان کا نام نبی رکھا ہے۔
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی درجہ کا کوئی اور شخص آئندہ آسکتا ہے؟
جواب:۔ اس کا امکان ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا اللہ تعالیٰ آئندہ ایسے اشخاص مبعوث کرے گا یانہیں۔
سوال:۔ کیا عورت نبی ہوسکتی ہے؟
جواب:۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نبی نہیں ہوسکتی۔
سوال:۔ کیا آپ کی جماعت میں کسی عورت نے اس منصب پر ہونے کا دعویٰ کیا؟
جواب:۔ میرے علم کے مطابق نہیں۔
سوال:۔ کیا جہنم ابدی ہے؟
جواب:۔ نہیں۔
سوال:۔ کیا جہنم کوئی جانور ہے یا متحرک شئے یا کوئی مقررہ مقام؟
جواب:۔ جہنم صرف ایک روح سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے۔
سوال:۔ امام غزالی نے جہنم کو ایک جانور سے تشبیہ دی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب:۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔
سوال:۔ اسلام کے بعض نکتہ چین کہتے کہ اسلام جیسا کہ ایک معمولی علام دین اسے سمجھتا ہے ذہنی غلامی کو دائمی شکل دیتا ہے کیونکہ وہ دیانتداری سے مخالف کرنے والوں کو چاہے وہ کتنے ہی دیانتدار ہوں ہمیشہ کے لئے جہنمی قرار دیتا ہے
جواب:۔ میری رائے میں اسلام ہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو جہنم کو ابدی نہیں سمجھتا۔
سوال:۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت ان لوگوں تک بھی وسیع ہوگی جو مسلمان نہیں ہیں؟
جواب:۔ یقیناً۔
سوال:۔ کیا قوم کا موجودہ نظریہ کہ ایک ریاست کے مختلف مذہب کے ماننے والے شہریوں کو مساوی سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں اسلام میں پایا جاتا ہے؟
جواب:۔ یقیناً۔
سوال:۔ ایک غیر مسلم حکومت میں ایک مسلمان کا اس صورت میں کیا فرض ہے اگر یہ حکومت کوئی ایسا قانون بنائے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو؟
جواب:۔ اگر حکومت قانون بناتے وقت وہ اختیارات استعمال کرے جو وہ بحیثیت حکومت استعمال کرسکتی ہے تو مسلمانوں کو اس قانون کی تعمیل کرنی چاہئے۔ لیکن اگر یہ قانون پر سنل ہو مثلاً اگر یہ قانون مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکے تو چونکہ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس لئے مسلمانوں کو ایسا ملک چھوڑ دینا چاہئے۔ لیکن اگر سوال معمولی نوعیت کا ہو مثلاً وراثت۔ شادی وغیرہ کا معملہ ہو تو مسلمان کو اس قانون کو تسلیم کرلینا چاہئے۔
سوال:۔ کیا ایک مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفادار ہوسکتا ہے؟
جواب:۔ یقیناً۔
سوال:۔ اگر وہ ایک غیر مسلم حکومت کی فوج میں ہو اور اسے ایک مسلم حکومت کے ساتھ لڑنے کے لئے کہا جائے تو اس صورت میں اس کا کیا فرض ہوگا؟
جواب:۔ یہ اس کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ آیا مسلم مملکت حق پر ہے یا نہیں۔ اگر وہ سمجھے کہ مسلم حکومت حق پر ہے تب اس کا فرض ہے کہ وہ استعفاء دے دے۔ یا جیسا کہ بعض دوسرے ممالک میں دستور ہے۔ یہ اعلان کردے کہ ایسی جنگ میں شمولیت میر ضمیر کے خلاف ہے۔
سوال:۔ کیا آپ کا یہ ایمان ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب بھی انہی معنوں میں شفیع ہوں گے جیسا کہ آنحضرت~صل۱~ کو شفیع سمجھا جاتا ہے؟
جواب:۔ جی نہیں۔
چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کی جرح کے جواب میں
سوال:۔ آپ کی جماعت میں الفضل کو کیا حیثیت حاصل ہے؟ اور آپ کا اس سے کیا تعلق ہے؟
جواب:۔ یہ صحیح ہے کہ اس اخبار کو میں نے جاری کیا تھا لین میں نے دو تین سال بعد اپنا تعلق اس سے منقطع کر لیا تھا۔ غالباً ایسا میں نے ۱۹۱۵ء یا ۱۹۱۶ء میں کیا تھا یہ اب صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی ملکیت ہے۔
سوال:۔ کیا ۱۶۔ ۱۹۱۵ء کے بعد آپ کے اختیار میں یہ بات تھی کہ آپ اس کی اشاعت کو روک دیں؟
جواب:۔ جی ہاں۔ اس اعتبار سے کہ جماعت میری وفادار ہے اور اگر میں انہیں کہوں کہ وہ اس پرچہ کو نہ خریدیں تو اس کی اشاعت خود بخود بند ہوجائے گی۔
عدالت کاسوال:۔ کیا آپ انجمن کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اس کی اشاعت کو بند کردے؟
جواب:۔ میں انجمن کو بھی مشورہ دے سکتا ہوں جو اس کی مالک ہے کہ وہ اس کی اشاعت کو روک دے۔
وکیل کے سوال:۔ کیا آپ مومن اور مسلم کی اس تعریف سے اتفاق رکھتے ہیں جو صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے عدالت کے ایک سوال کے جواب میں دی تھی؟
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا آپ اپریل ۱۹۱۱ء میں تشحیذ الاذہان کے ایڈیٹر تھے؟
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا آپ نے جن خیالات کا آج یا کل اظہار کیا ہے ان خیالات سے کسی رنگ میں مختلف ہیں جو آپ نے اپریل ۱۹۱۱ء میں تشحیذ الاذھان کے دیباچہ میں ظاہر کئے تھے؟
جواب:۔ نہیں۔
سوال:۔ کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ ۳۵ پر ظاہر کیا تھا۔ یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہسنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج۔
جواب:۔ یہ بات خود اس بان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتا ہوں۔ پس جب میں >کافر< کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے ہی وضاحت کرچکا ہوں۔ یعنی وہ جو ملت سے خارج نہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظر یہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ ۲۴۰ پر کیا گی اہے۔ جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں ایک دو دن الایمان اور دوسرے فوق الایمان دو دن الایمان ہیں وہ مسلمان شامل ہیں جن کے سالام کا درجہ ایمان سے کم ہے۔ فوق الایمان ]ydbo [tag میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہوتے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں۔ اس لئے جب میں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فوق الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں۔ مشکٰوٰہ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول~صل۱~ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کرتا اور اس کی حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔
سوال:۔ موجودہ ایجی ٹیشن کے شروع ہونے سے پہلے کیا آپ ان مسلمانوں کو جو مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہتے رہے؟
جواب:۔ ہاں ہیں یہ کہتا رہا ہوں اور ساتھ ہی میں >کافر< اور >خارج از دائرہ اسلام< کی اصطلاحوں کے اس مفہوم کی بھی وضاحت کرتا رہا ہوں جس میں یہ اصطلاحیں استعمال کی گئیں۔
سوال:۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ موجودہ ایجی ٹیشن شروع ہونے سے قبل آپ اپنی جماعت کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ وہ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھیں اور غیر احمدیوں سے اپنی لڑکیوں کی شادی نہ کریں؟
جواب:۔ میں یہ سب کچھ غیر احمدی علماء کے اسی قسم کے فتووں کے جواب میں کہتا رہا ہوں بلکہ میں ان کسے کم کہا ہے۔ کیونکہ جزاء سیتہ سیتہ مثلہا۔
سوال:۔ آپ نے اب اپنی شہادت میں کہا ہے کہ جو شخص نیک نیتی کے ساتھ مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتا۔ وہ پھر بھی مسلمان رہتا ہے۔ کیا شروع کا یہی نظریہ رہا ہے؟
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان اختلافات بنیادی ہیں؟
جواب:۔ اگر لفظ بنیادی کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے رسول کریم~صل۱~ نے اس لفظ کا لیا ہے تب یہ اختلافات بنیادی نہیں ہیں۔
سوال:۔ اگر لفظ >بنیادی< عام معنوں میں لیا جائے تو پھر؟
جواب:۔ عام معنوں میں اس کا مطلب >اہم< ہے۔ لیکن اس مفہوم کے لحاظ سے بھی اختلافات بنیادی نہیں ہیں بلکہ فروعی ہیں۔
عدالت کا سوال:۔ احمدیوں کی تعداد پاکستان میں کتنی ہے؟
جواب:۔ دو اور تین لاکھ کے درمیان۔
وکیل کے سوال:۔ کیا کتاب تحفہ گولڑویہ جو ستمبر ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی تھی مرزا غلام احمد صاحب کی تصنیف ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ کیا آپ کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ جس عقیدہ کا ذیل کے پیرا میں زکر ہے وہ عامہ المسلمین کا عقیدہ ہے:۔
>جیسا کہ مومن کے لئے دوسرے احکام الٰہی پر ایمان لانا فرض ہے۔ ایسا ہی اس بات پر ایمان فرض ہے کہ آنحضرت~صل۱~ کے دو بعث ہیں محمدی جو جلالی رنگ میں ہے۔ دوسرا بعث احمدی جو کہ جمالی رنگ میں ہے۔<
جواب:۔عامہ المسلمین کے نزدیک اس کا اطلاق صرف رسول کریم~صل۱~ پر ہوتا ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کا اطلاق اصلی طور پر تو آنحضرت~صل۱~ پر ہوتا ہے۔ لیکن ظلی طور پر مرزا غلام احمد صاحب پر بھی ہوتا ہے۔
سوال:۔ ازراہ کرم ۲۱ اگست ۱۹۱۷ء کے الفضل کے صفحہ نمبر ۷ کے کالم نمبر ۱ کو ملاحظہ فرمائیے جہاں آپ نے اپنی جماعت اور غیراحمدیوں میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:۔
>ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور۔ ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔< کیا یہ صحیح ہے؟
جواب:۔ اس وقت جب یہ عبارت شائع ہوئی تھی میرا کوئی ڈائری نویس نہیں تھا اس لئے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو صحیح طور پر رپورٹ کیا گیا ہے یا نہیں۔ تاہم اس کا مجازی رنگ میں مطلب لینا چاہئے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم زیادہ خلوص سے عمل کرتے ہیں۔
سوال:۔ کیا آپ نے انور خلافت کے صفحہ ۹۳ پر کہا ہے کہ:۔
>اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے۔ لیکن اگر کسی غیر احمدی چھوٹا بچہ مرجائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح موعود کا مکفر نہیں۔ میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوئوں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا۔<
جواب:۔ ہاں۔ لیکن یہ بات میں نے اس لئے کہی تھی کہ غیر احمدی علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ احمدیوں کے بچوں کو بھی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ احمدی عورتوں اور بچوں کی نعشیں قبروں سے اکھاڑ کر باہر پھینکی گئیں۔ چونکہ ان کا فتویٰ اب تک قائم ہے اس لئے میرا فتوی بھی قائم ہے۔ البتہ اب ہمیں بانی سلسلہ کا ایک فتویٰ ملا ہے جس کے مطابق ممکن ہے کہ غور و خوض کے بعد پہلے فتویٰ میں ترمیم کردی جائے+
سوال:۔ کیا یہ صحیح ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب نے حقیقہ الوحی کے صفحہ ۱۶۳ پر لکھا ہے کہ:۔
>علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا۔ وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔<
جواب:۔ ہاں یہ الفاظ اپنے عام معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔
سوال:۔ ۱۹۴۴ء میں قیام پاکستان کے متعلق آپ کا طرز عمل کیا تھا؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ۱۱ جون ۱۹۴۴ء کو آپ نے ملفوظات میں کہا تھا کہ:۔
>پاکستان اور آزاد حکومت کا مطالبہ ہندوستان کی غلامی کو مضبوط کرنے والی زنجیریں ہیں۔<
جواب:۔ ہاں۔ لیکن میں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ میرے اور مولانا مودودی سمیت کئی سرکردہ مسلمانوں کی یہ رائے تھی کہ قیام پاکستان کا مطالبہ ¶ہندوستان کی آزادی کو مشکل بنا دے گا۔ ان دنوں پاکستان کے قیام کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ انگریز ایسی ملکت کے قیام کے خلاف تھے۔
سوال:۔ کیا جیسا کہ الفضل مورخہ ۵ اگست ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا تھا آپ نے یہ کہا تھا کہ:۔
)الف( >اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہندو مسلم سوال اٹھ جائے اور ساری قومیں شیر و شکر ہو کر رہیں تاکہ ملک کے حصے بخرے نہ ہوں۔ بیشک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اس کے نتائج بھی بہت شاندار ہیں۔<
)ب( >ممکن ہے عارضی طور پر افتراق ہو اور کچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جدا جدا رہیں مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دور ہوجائے۔<
)ج( >بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیر و شکر ہوکر رہیں۔<
جواب:۔ الفضل مورخہ ۵ اپریل ۱۹۷۴ء میں میری تقریر صحیح طور پر رپورٹ نہیں ہوئی۔ صحیح رپورٹ ۱۲ اپریل ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی ہے۔
سوال:۔ کیا آپ کی جماعت میں کوئی ملا بھی ہے؟
جواب:۔ >ملا< کا لفظ >مولوی< کا مترادف ہے۔ اور یہ لفظ تحقیر کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ ملا علی قاری۔ ملا شور بازار اور ملا باقر جو تمام معروف شخصیتیں ہیں ملا کہلاتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔
سوال:۔ کیا آپ نے سندھ سے واپسی پر کوئی پریس انٹرویو دیا تھا جو ۱۲ اپریل ۱۹۴۷ء کے الفضل میں شائع ہوا۔ اور جس میں آپ سے ایک اخباری نمائندہ نے ایک سوال کیا اور آپ نے اس کا جواب دیا؟
سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان عملاً ممکن ہے؟
جس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اس سوال کو دیکھا جائے تو پاکستان ممکن ہے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ملک کے حصے بخرے کرنے کی ضرورت نہیں۔
جواب:۔ یہ صحیح ہے کہ ایک اخباری نمائندے نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا مذوکرہ بالا الفاظ اس کا ایک اقتباس ہے جو کچھ اس میں کہا گیا وہ تقسیم کے سوال پر میری ذاتی رائے تھی۔
سوال:۔ کیا آپ نے ۱۴ مئی ۱۹۴۷ء کو نماز مغرب کے بعد اپنی مجلس علم و عرفان میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے جو ۱۶ مئی ۱۹۴۷ء کے الفضل میں شائع ہوئے؟
>میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے لیکن اگر قوموں کی غیر معمولی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی ہونا پڑے تو یہ اور بات ہے۔ بسا اوقات عضو مائوف کو ڈاکٹر کاٹ دینے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ خوشی سے نہیں ہوتا بلکہ مجبوری اور معذوری کے عالم میں اور صرف اسی وقت جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اور اگر پھر یہ معلوم ہوجائے کہ مائوف عضو کی جگہ نیا لگ سکتا ہے۔ تو کون سا جاہل انسان اس کے لئے کوشش نہیں کرے گا۔ اسی طرح ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضا مند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے۔ اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ یہ کسی نہ کسی طرح جلد تر متحد ہوجائے۔<
جواب:۔ نہیں میں نے باکل انہی الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جو کچھ میں نے کہا اسے بہت حد تک غلط طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جس شخ نے میری تقریر کی رپورٹ مرتب کی۔ یعنی منیر احمد۔ وہ کبھی میرا ڈائری نویس نہیں رہا۔ اس بارے میں میرے صحیح خیالات الفضل مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئے تھے جو مندرجہ ذیل ہیں:۔
>ان حالات کے پیش نظر ان )مسلمانوں( کا حق ہے کہ مطالبہ کریں۔ اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اس میں اس کا نقصان ہو مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے۔۔۔۔۔ بے شک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں۔ اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے۔ لیکن میں ہندوئوں سے پوچھتا ہوں۔ کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سکھ دیا تھا۔ تم لوگوں نے ہمیں کب آرام پہنچایا تھا۔ اور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی۔<؟
سوال:۔ کیا آپ نے جو کچھ ۱۶ مئی کے الفضل میں شائع ہوا اس کی تردید کی؟
جواب:۔ جو کچھ اس میں بیان ہوا تھا۔ ۲۱ مئی ۱۹۴۷ء کے الفضل میں عملاً اس کی تردید کردی گئی تھی۔
سوال:۔ الفضل پر شائع شدہ الفاظ ۱۴ ہجرت کا کیا مطلب ہے؟
جواب:۔ اس سے ۱۴ مئی مراد ہے۔
عدالت کا سوال:۔ آپ اس مہینے کو ہجرت کیوں کہتے ہیں؟
جواب:۔ کیونکہ تاریخ بتلاتی ہے کہ رسول کریمﷺ~ کی ہجرت ماہ مئی میں ہوئی تھی۔
سوال:۔ کیا آپ سن ہجری استعمال کرتے ہیں یا کہ عیسوی کیلنڈر؟
جواب:۔ ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ شمسی مہینوں کو رسول کریم~صل۱~ کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات کے اعتبار سے مختلف نام دیئے ہیں۔
سوال:۔ کیا آپ نے جیسا کہ ۱۲ نومبر ۱۹۴۶ء کے الفضل میں درج ہے اپنے آپ کو اقلیت قرار دیا جانے کا مطالبہ کیا تھا؟
جواب:۔ نہیں اصل واقعات یہ ہیں کہ جب ۱۹۴۶ء میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو حکومت نے مختلف فرقہ وارانہ پارٹیوں سے استفسارات کئے۔ اور تمام مسلمانوں کو ایک جماعت قرار دیا۔ اس پر بعض مسلم لیگیوں کی طرف سے ہمیں کہا گیا کہ یہ انگریز کی ایک چال ہے جس نے اس طرح غیر مسلم جماعتوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔ اور مسلمانوں کو صرف ایک پارٹی ہی تصور کیا ہے اس پر ہم نے گورنمنٹ سے احتجاج کیا کہ کیوں احمدیوں سے بھی ایک پارٹی کی حیثیت میں استفسار نہیں کیا گیا۔ حکومت نے جواب دیا کہ ہم ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک مذہبی جماعت ہیں۔
سوال:۔ کیا مارچ ۱۹۱۹ء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ایک اجلاس میں آپ نے وہ بیان دی اتھا جس کا ذکر رسالہ >عرفان الٰہی< کے صفحہ ۹۳ پر >انتقام لینے کا زمانہ< کے زیر عنوان کیا گیا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ:۔
>اب زمانہ بدل گیا ہے۔ دیکھو پہلے جو مسیح آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑھایا۔ مگر اب مسیح اس لئے آیا تھا اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارے۔<؟
جواب:۔ ہاں۔ مگر اقتباس والے اس فقرے کی تشریح کتاب کے صفحہ ۱۰۱` ۱۰۲ پر کی گئی ہے۔ جہاں میں نے کہا ہے کہ:۔
>لیکن کیا ہمیں اس کا کچھ جواب نہیں دینا چاہئے اور اس خون کا بدلہ نہیں لینا چاہئے۔ لیکن اسی طریق سے جو حضرت مسیح موعود نے ہمیں بتا دیا ہے اور جو یہ ہے۔ کہ کابل کی سرزمین سے اگر احمدیت کا ایک پودا کاٹا گیا ہے تو اب خدا تعالیٰ اس کی بجائے ہزاروں پودے وہاں لگائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے قتل کا بدلہ یہ نہیں رکھا گیا کہ ہم ان کے قاتلوں کو قتل کریں اور ان کے خون بہائیں۔ کیونکہ قتل کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہمیں خدا نے پرامن ذرائع سے کام کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے نہ کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے۔ پس ہمارا انتقام یہ ہے کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے دلوں میں احمدیت کا بیج بوئیں اور انہیں احمدی بنائیں۔ اور جس چیز کو وہ مٹانا چاہتے ہیں۔ اس کو ہم قائم کردیں۔۔۔۔۔ مگر اب ہمارا یہ کام ہے کہ ان کے خون کا بدلہ لیں۔ اور ان کے قتل جس چیز کو مٹانا چاہتے ہیں اسے قائم کردیں۔ اور چونکہ خدا کی برگزیدہ جماعتوں میں شامل ہونے والے اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں مکہ اپنے دشنوں پر احسان کرتے ہیں۔ اس لئے ہمارا بھی یہ کام نہیں ہے کہ سید عبداللطیف صاحب کے قتل کرنے والوں کو دنیا سے مٹا دیں اور قتل کردیں بلکہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لئے قائم کر دیں اور ابدی زندگی کے مالک بنادیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ انہیں احمد بنائیں۔<
عدالت کا سوال:۔ اس سیاق و سباق میں >احمدیت< سے کیا مراد ہے؟
جواب:۔ احمدیت سے مراد اسلام کی وہ تشریح ہے جو احمدیہ جماعت کے بانی نے کی۔
وکیل کے سوال:۔ کیا آپ نے الفضل کے ۱۵ جولائی ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں ایک مقالہ افتتاحیہ جو >خونی ملا کے آخری دن< کے عنوان سے شائع ہوا دیکھا ہے جس میں مندرجہ ذیل الفاظ آتے ہیں:۔
>ہاں آخری وقت آن پہنچا ہے ان تمام علماء حق کے خون کا بدلہ لینے کا جن کو شروع سے یہ خونی ملا قتل کرواتے آئے ہیں۔ ان سب کے خون کا بدلہ لیا جائے گا )۱( عطاء اللہ شاہ بخاری سے )۲( ملا بدایوانی سے )۳( ملا احتشام الحق سے )۴( ملا محمد شفیع سے )۵( ملا مودودی )پانچویں سوار( سے۔<
جواب:۔ ہاں۔ اس تحریر کے متعلق منٹگمری کے ایک آدمی کی طرف سے ایک شکیات میرے پاس پہنچی تھی اور میں نے اس کے متعلق متعلقہ ناظر سے جواب طلبی کی تھی اس نے مجھے بتلایا تھا کہ اس نے ایڈیٹر کو ہدایت کردی ہے کہ وہ اس کی تردید کرے۔
سوال:۔ کیا وہ تردید آپ کے علم میں آئی؟
جواب:۔ نہیں۔ لیکن ابھی ابھی مجھے ۷ اگست ۱۹۵۲ء کے الفضل کا ایک آرٹیکل جس کا عنوان >ایک غلطی کا ازالہ< ہے دکھایا گیا ہے جس میں مذکورہ بالا تحریر کی تشریح کردی گئی تھی۔
عدالت کا سوال:۔ اس ادارتی مقالہ میں جن مولویوں کو ملا کہا گیا ہے کیا انہوں نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ احمدی مرتد اور واجب القتل ہیں؟
جواب:۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے یہ رائے ظاہر کی تھی۔
وکیل کے سوال:۔ کیا آپ نے جون ۱۹۱۹ء کے تشحیذ الاذہان کے صفحہ نمبر ۳۸ پر مندرجہ ذیل عبارت کہی تھی؟
>خلیفہ ہو تو جو پہلا ہو اس کی بیعت ہو۔ جو بعد میں دوسرا پہلے کے مقابل پر کھڑا ہوجاے جیسے لاہور میں ہے۔ تو اسے قتل کردو۔ مگر یہ قتل کا حکم تب ہے کہ جب سلطنت اپنی ہو۔ اس حکومت میں ایسا نہیں کرسکتے۔<
جواب:۔ جی نہیں! ڈائری نویس نو آموز تھا۔ میں نے جو کچھ کہا اسے اس نے غلط طور پر پیش کیا۔ درحقیقت جو کچھ میں نے کہا تھا۔ میں نے اس کی توضیح اس وقت کردی تھی جب احمدیوں کی لاہور پارٹی نے حکومت سے شکایت کی تھی اور حکومت نے مجھ سے اس کی وضاحت چاہی تھی۔
سوال:۔ کیا آپ کی جماعت خالص مذہبی جماعت ہے یا کہ سیاسی تھی؟
جواب:۔ اصل میں تو یہ مذہبی جماعت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا دماغ عطا کیا ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ بیکار نہیں رہ سکتا۔
سوال:۔ کیا آپ نے کوئٹہ میں اپنے خطبہ جمعہ میں وہ تقریر )اگز بٹ دی۔ ای ۳۲۴( کی تھی۔ جو الفضل کے ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ آپ نے جب اپنی تقریر میں ذیل کے الفاظ کہے تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟
>یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری Base مضبوط نہ ہو۔ پہلے Base مضبوط موتو تبلیغ ہوسکتی ہے۔<
جواب:۔ یہ الفاظ اپنی تشریح آپ کرتے ہیں۔
سوال:۔ اور آپ نے جب یہ کہا تھا کہ بلوچستان کو احمدی بنایا جائے تاکہ ہم کم از کم ایک صوبہ کو تو اپنا کہہ سکیں تو اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟
جواب:۔ میرے ایسا کہنے کے دو سبب تھے )۱( موجودہ نواب قلات کے دادا احمدی تھے اور )۲( بلوچستان ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔
سوال:۔ کیا آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے جو الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۸ء )دستاویز ڈی۔ ای ۲۱( میں شائع ہوئے ہیں؟
>میں یہ جانتا ہوں کہ اب یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا۔ یہ ہمارا ہی شکار ہو گا۔ دنیا کی ساری قومیں مل کر بھی ہم سے یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں۔<
جواب:۔ جی ہاں۔ لیکن اس عبارت کو اس کے لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔ یہاں مستقبل کا ذکر ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ چونکہ اس صوبہ میں ایک احمدی فوجی افسر قتل ہوا ہے اس لئے یہ صوبہ لازماً احمدی ہوکر رہے گا۔
سوال:۔ کیا ربوہ ایک خالص احمدی نوآبادی ہے؟
جواب:۔ یہ زمین صدر انجمن احمدیہ نے خریدی تھی اور اسی کی ملکیت ہے۔ انجمن کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے متعلق جو چاہے انتظام کرے۔ لیکن بعض غیر احمدیوں نے بھی زمین خریدنے کے لئے درخواست دی تھی۔ اس پر انجمن نے کہا اسے اچھے ہمسائیوں کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں۔
سوال:۔ کیا کسی غیر احمدی نے زمین خریدی؟
جواب:۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک غیر احمدی نے زمین خریدی ہے۔ لیکن مجھے اس کا کوئی ذاتی علم نہیں۔
سوال:۔ فسادات کے دوران میں آپ کہا تھے؟
جواب:۔ ربوہ میں۔
سوال:۔ کیا جو واقعات لاہور میں پیش آئے۔ ایسے کوئی واقعات ربوہ میں بھی ہوئے؟
جواب:۔ نہیں۔
سوال:۔ کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ بات متواتر کہتے رہے ہیں کہ ان کا اصل وطن قادیان ہے؟ اور بال¶اخر انہوں نے وہاں ہی جانا ہے؟
جواب:۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے وطن کو واپس حاصل کرے۔
سوال:۔ کیا ہندوستان میں بھی احمدیہ جماعت ہے؟
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ برطانوی حکومت کے متعلق احمدیہ جماعت کے بانی کا کیا رویہ تھا؟
جواب:۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق انسان جس مک میں رہے ان شرائط کے ماتحت جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس کی حکومت کا وفادار رہنا چاہئے۔
سوال:۔ کیا یہ امر واقعہ ہے کہ بغداد پر انگریزوں کے قبضہ ہونے پر قادیان میں کوشیاں منائی گئیں؟
جواب:۔ یہ قطعاً غلط ہے۔
سوال:۔ کیا آپ کے نظریہ کے مطابق قائم شدہ اسلامی سلطنت میں کوئی غیر احمدی اس مملکت کا رئیس نہیں ہوسکتا ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔ پاکستان` مصر وغیرہ جیسی حکومت میں ہوسکتا ہے۔
سوال:۔ فرض کیجئے کہ پاکستان ایک مذہبی مملکت نہیں۔ تو کیا آپ کے نزدیک ایک غیر مسلم یہاں رئیس مملکت ہوسکتا ہے؟
جواب:۔ یہ تو قانون ساز اسمبلی کی اکثریت ہی فیصلہ کرسکلتی ہے کہ رئیس مملکت مسلمانوں جو یا غیر مسلم۔][سوال:۔ کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کا معاشرہ دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہونا چاہئے؟
جواب:۔ جی نہیں۔
سوال:۔ کیا آپ نے اپنی جماعت کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان میں سرکاری عہدوں پر قبضہ کرلیں؟
جواب:۔ جی نہیں۔
سوال:۔ کیا جنگی لحاظ سے ربوہ کے جائے وقوع کو کوئی خاص اہمیت حاصل ہے؟
جواب:۔ جی ہاں۔ حکومت پاکستان کے ہاتھوں میں یہ ایک جنگی اہمیت والا مقام ہوگا۔
سوال:۔ کیا آپ نے جیسا کہ الفضل مئورخہ ۹ نومبر ۱۹۴۸ء صفحہ نمبر ۲ پر چھپا ہے ربوہ میں ایک پریس کانفرنس میں یہ بیان دیا تھا کہ:۔
>گویہ زمین موجودہ حالت میں واقعی مہنگی ہے اور اس میں کوئی جاذبیت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اسے ایک نہایت شاندار شہر کی صورت میں تبدیل کرنے کا تہیہ کرچکے جو دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان میں محفوظ ترین مقام ہوگا۔<
جواب:۔ میں پانچ سال کے عرصہ کے بعد بتا نہیں سکتا کہ کانفرنس میں میرے اصل الفاظ کیا تھے۔
عدالت کا سوال:۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ربوہ کو جنگی لحاظ سے کوئی اہمیت حاصل ہے؟
جواب:۔ ربوہ کے درمیان سے موٹر سڑک اور ریل دونوں گزرتی ہیں۔ اس لئے اسے حکومت پاکستان کے خلاف جنگی اہمیت رکھنے والا مقام خیال نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لہاظ سے اسے ہمارے لئے خاص اہمیت ضرور حاصل ہے۔ کیونکہ چنیوٹ کی طرف سے جو دریا کے دوسری جانب واقعہ ہے اس پر حملہ نہیں ہوسکتا۔
مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش
نمائندہ مجلس عمل کی جرح کے جواب میں
سوال:۔ مسیلمہ بن الحبیب کے دعویٰ کے متعلق آپ کا خیال ہے؟
جواب:۔ اس کا دعویٰ جھوٹا تھا۔
سوال:۔ کیا وہ کلمہ پڑھتا تھا؟
جواب:۔ نہیں۔
سوال:۔ کیا وہ مسلمان تھا؟
جواب:۔ نہیں۔
سوال:۔ حقیقتہ الوحی کے صفحہ نمبر ۱۲۴ پر لکھا ہوا ہے کہ:۔
>پھر ماسوائے اس کے کیا کسی مرتد کے ارتداد سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سلسلہ جس میں سے یہ مرتد خارج ہوا حق نہیں ہے۔ کیا ہمارے مخالف علماء کو خبر نہیں کہ کئی بدبخت حضرت موسیٰ کے زمانہ میں ان سے مرتد ہوگئے پھر کئی لوگ حضرت عیسیٰ سے مرتد ہوئے۔ اور پھر کئی بدبخت اور بدقسمت ہمارے نبی صلعم کے عہد میں آپﷺ~ سے مرتد ہوگئے۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب بھی مرتدین میں سے ایک تھا۔< کیا آپ کی رائے میں مسیلمہ مرتد تھا؟
جواب:۔ ہاں جب میں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں تھا اس سے میری مراد یہ تھی کہ دعویٰ نبوت کے بعد وہ مسلمان نہیں رہا تھا۔
سوال:۔ کیا آپ نے اسود عنسی` سجاح نبیہ کاذبہ` طلیحہ اسدی کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے؟
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا ان تمام اشخاص نے جن میں ایک عورت بھی تھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے ان کے خلاف جنگ کے اعلان کیا؟
جواب:۔ نہیں۔ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان اشخاص نے جن میں سے ہر ایک نے دعویٰ نبوت کیا مسلمانوں پر حملے کئے جس پر مسلمانوں نے اس کے جواب میں ان کو شکست دی۔
سوال:۔ کیا حسب ذیل اشخاص نے وقتاً فوقتاً نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟
۱۔
حارث دمشقی ۶۸۵۔ ۱۷۰۵ء نے خلیفہ عبدالمالک کے زمانہ
۲۔
مغیرہ بن سعید الاجلی ۷۲۴۔ ۷۴۱ء
۳۔
ابو منصور الاجلی ۷۲۴۔ ۷۴۱
۴۔
اسحاق الاخراس المغربی ۷۵۰۔ ۷۵۴ء
۵۔
ابو عیسیٰ اسحاق صفہافی ۷۵۴۔ ۷۷۵ء
۶۔
علی محمد خارجی ۰۸۶۹ء
۷۔
حامین من اللہ ماعکاسی
۸۔
محمود واحد گیلانی ۱۵۲۸۔ ۱۵۸۶ء
۹۔
محمد علی باب ۱۸۵۰ء
جواب:۔ محمد علی باب کے سوا دوسرے لوگوں کے متعلق وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا محمع دلی باب نے اپنے آپ کو نبی نہیں کہا تھا بلکہ مہدی موعود کہا تھا۔
سوال:۔ آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا فرق بیان فرما دیا۔ مہربانی کرکے ظلی نبی اور بروزی نبی کی بھی تعریف کردیجئے۔
جواب:۔ ان اصطلاحات سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جس کے متعلق ان اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے وہ خود بعض مخصوص صفات نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ صفات اس میں منعکس رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب نے تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟
جواب:۔ نہیں۔
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب نے اربعین حصہ چہارم کے صفہہ ۸۳` ۸۴ میں یہ نہیں لکھا کہ:۔
>ماسوائے اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند اوامر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں اوامر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویخفظوا فروحھم ذلک ازکی لھم۔ یہ الہام براہین احمدیہ میں درج ہے۔ اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ اور اس پر تئیس برس کی مدت بھی گزر گئی۔ اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی۔ اور اگر کہو کہ شریت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان ھذا لفی الصحف الاولی۔ صحف ابراھیم وموسی۔ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے۔ اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہو۔ تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔ غرض یہ سب خیالات فضول اور کوتاہ اندیشیاں ہیں ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت~صل۱~ خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو۔ جھوٹی گاہی نہ دوزنا نہ کرو۔ خون نہ کرو اور ظاہر ہے کہ ایسا کرنا شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے۔ پھر وہ دلیل تمہاری کیسی گائو خورد ہوگئی۔ کہ اگر کوئی شریعت لاوے اور مفتری ہو تو تئیس برس تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ چونکہ میری تعلیم میں امی بھی اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کام ہے جیسا کہ ایک الہام کی عبارت ہے واضع الفلک باعیننا ودحینا۔ ان الذین یبا یعونک انما یبایعو اللہ یداللہ فوق ایدھم۔ یعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔
اب دیکھو خدا نے میری وحی اور تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے مدار نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے اور جس کے کان ہوں وہ سنے۔<
جواب:۔ ہاں۔ لیکن انہوں نے ایک بعد کی کتاب میں اس کی تشریح کی ہے )گواہ نے ایک کتاب سے پڑھ کر سنایا(
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب نے ان لوگوں کو مرتد کہا ہے جو احمدی بننے کے بعد اپنے عقیدے سے پھر گئے؟
جواب:۔ مرتد کا مطلب صرف یہ ہے۔ کہ ایسا شخص جو واپس لوٹ جائے۔ مولانا مودودی صاحب نے بھی یہ اصطلاح استعمال کی ہے۔
سوال:۔ کیا آپ مرزا غلام احمد صاحب کو ان مامورین میں شمار کرتے ہیں جن کا ماننا مسلمان کہلانے کے لئے ضروری ہے؟
جواب:۔ میں اس سوال کا جواب پہلے دے چکا ہوں۔ کوئی شخص جو مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان نہیں لاتا دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سوال:۔ آنحضرت~صل۱~ کے بعد کتنے سچے نبی گزرے ہیں؟
جواب:۔ میں کسی کو نہیں جانتا مگر اس اعتبار سے کہ ہمارے رسول کریمﷺ~ کی حدیث کے مطابق آپ کی امت کے علماء تک میں آپ کی عظمت اور شان کا انعکاس ہوتا ہے سینکڑوں اور ہزاروں ہوچکے ہوں گے۔
سوال:۔ کیا آپ اس حدیث کو سچا تسلیم کرتے ہیں؟
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ کیا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب ہمارے رسول کریمﷺ~ کے سوا سب انبیاء سے افضل تھے؟
جواب:۔ ہم ان کے متعلق صرف حضرت مسیح ناصر سے افضل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
مولانا میکش کی جرح بتاریخ ۵۴۔ ۱۔ ۱۵
‏body] gat[سوال:۔ یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم )مسیح ناصری( قیامت سے پہلے پھر دوبارہ ظاہر ہوں گے۔ اس کے متعلق آپ کا عقیدہ کیا ہے؟
جواب:۔ یہ بات غلط ہے کہ یہ مسلمانوں کا متفقہ عیقدہ ہے۔ مسلمانوں کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری طبعی موت سے وفات پاگئے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسفی بن مریم خود دوبارہ مبعوث نہیں ہوں گے۔ بلکہ ایک دوسرا سخص جو ان سے مشابہت رکھتا ہوگا اور ان کی صفات کا حامل ہوگا آئے گا۔
عدالت کا سوال:۔ کیا حضرت عیسیٰ کے زمانے میں یہودی کسی مسیح کے منتظر تھے؟
جواب:۔ جی ہاں۔ وہ ایک مسیح کی آمد کے منتظر تھے۔ مگر اس سے پہلے الیاس نے آنا تھا جس نے آسمان سے اسی خاکی جسم کے ساتھ نازل ہونا تھا۔
سوال:۔ کیا حضرت عیسیٰ ہی یہ مسیح تھے؟
جواب:۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق وہی مسیح تھے لیکن یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق نہیں۔
سوال:۔ کیا حضرت عیسیٰ ناصر نے کبھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا؟
جواب:۔ جی ہاں۔
سوال:۔ یہودیوں نے خدا کو اک تاجر کی شکل میں پیش کیا تھا اور یہ کہہ کر اس کے واحد اجارہ دار بن گئے تھے کہ خدا نے ابراہیم سے عہد کیا تھا کہ وہ کنعان کی زمین دوبارہ نہیں دے گا۔ اسی طرہ پولوس کے ماننے والے عیسائیوں نے خدا پر اپنا پہلا حق رہن جتایا۔ اور اس حق رہن کی وجہ گال گوتھا کی پہاڑی پر حضرت مسیح کا پھانسی پانا قرار دی۔ اب مولانا مرتضی حمد میکش اور ان کے ساتھ دوسرے علماء دین دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا پر پہلا حق رہن ان کا ہے۔ اور اس رہن کی قیمت یہ قرار دی گئی ہے کہ ذہنی غلامی اختیار کر لی جائے۔ کیا آپ بھی مرزا غلامی احمد صاحب کی نبوت پر ایمان لانے کی وجہ سے خدا پر کسی مخصوص اور علیحدہ حق رہن کا دعویٰ رکھتے ہیں؟
جواب:۔ ہم نہ تو کسی ایسے حق رہن کو مانتے ہیں اور نہ اس کے دعویدار ہیں۔
مولانا میکش کے سوال:۔ آپ نے کل فرمایا تھا۔ کہ مرزا غلام احمد صاحب نے صرف عیسیٰ بن مریم پر اپنے آپ کو فضیلت دی ہے۔ مگر ۴` ۶ اپریل ۱۹۱۵ء کے الفضل )دستاویز ڈی۔ ای ۳۲۵( میں مرزا صاحب کی ۱۷ اپریل ۱۹۰۲ء کی ڈائری سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے:۔
>کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں۔ وہ سب حضرت رسول کریمﷺ~ میں ان سے بڑھ کر موجود تھے۔ اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریمﷺ~ سے ظلی طور پر ہم کو عطا کئے گئے۔ اور اس لئے ہمارا نام آدم` ابراہیم` موسیٰ` نوح` دائود` یوسف` سلیمان` یحییٰ` عیسیٰ وغیرہ ہے۔ چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیمؑ ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بت خانہ تھا اور لوگ بت پرست تھے۔ اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے۔۔۔۔۔۔<
کیا اس عبارت سے ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ آپ ان تمام انبیاء سے جن کا اس عبارت میں ذکر ہے افضل ہیں؟
جواب:۔ ان دنوں مرزا صاحب کوئی باقاعدہ ڈائری نہ رکھتے تھے۔ یہ اقتباس تو کسی رپورٹر کا لکھا ہوا ہے۔ لیکن یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ رپورٹ صحیح ہے۔ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا۔ کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو دوسرے انبیاء پر فضیلت دی ہے۔ اس کا مطلب تو صرف ان صفات کو گنواتا ہے جو مرزا صاحب اور دوسرے انبیاء میں مشترک تھیں۔
سوال:۔ عام مسلمان تو احمدیوں کا اس لئے جنازہ نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اپ بتائیے کہ احمدی جو غیر احمدیوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہے۔ جس کا آپ قبل ازیں اطہار کرچکے ہیں۔ کہ آپ نے جوابی کاروائی کے طور پر یہ طریق اختیار کیا ہے؟
جواب:۔ بڑا سبب تو جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں یہ ہے کہ ہم غیر احمدیوں کا جنازہ اس لئے نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے دعویٰ کے دس سال بعد تک نہ صرف مرزا غلام احمد صاحب نے احمدیوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ غیر احمدیوں کے جنازے پڑھیں۔ بلکہ خود بھی ایسی نماز جنازہ میں شریک ہوتے رہے۔ اور دوسرا سبب جو اصل میں پہلے سبب کا حصہ ہی ہے یہ ہے۔ کہ ایک متفقہ اور مسلمہ حدیچ کے مطابق جو شخص دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہوجاتا ہے۔
سوال:۔ کیا غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرنے پر بھی آپ کے سابقہ جواب کا اطلاق ہوتا ہے؟
جواب:۔ ہاں۔
سوال:۔ ازراہ کرم القول الفضل کے صفحہ ۴۵ کو ملاحظہ فرمائیے جس میں حسب ذیل عبارت ہے
>اس کے بعد خدا تعالیٰ کا حکم آیا۔ جس کے بعد نماز غیروں کے پیچھے حرام کی گئی۔ اور اب صرف منع نہ تھی بلکہ حرام تھی اور حقیقی حرمت صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔<
کیا اس عبارت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ احمدیوں کو غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت کی وجہ کچھ اور ہے؟
جواب:۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس وجہ سے احمدیوں کو غیر احمدیوں کے پچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا اس کی بعد میں وحی کے ذریعہ میں بھی تصدیق کردی گئی۔
سوال:۔ آپ نے انوار خلافت کے صفحہ نمبر ۹۰ پر اس ممانعت کی ایک مختلف وجہ بیان کی ہے۔ متعلقہ عبارت یہ ہے۔
>ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ یہ دین کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں۔<
جواب:۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کفر کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو ایک شخص کو ملت سے خارج نہیں کرتی۔ ہمارے نبی کریمﷺ~ نے فرمایا ہے کہ ہمیں ایسے شخص کو اپنا امام بنانا چاہئے جو دوسروں سے زیادہ نیک اور صالح ہو۔ ایک نبی کے انکار سے انسان کی نیکی کمزور ہوجاتی ہے۔
سوال:۔ آپ ننے فرمایا ہے کہ کفر اور اسلام اضافتی الفاظ ہیں۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ الفاظ کفر۔ کافر۔ کافروں۔ کافرین)۔ کفار۔ الکفرٰہ قرآن کریم میں ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی ایسے اشخاص کے متعلق جو امت سے باہر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟
جواب:۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ لفظ قرآن کریم میں ایک ہی معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ کل میں نے قرآن کریم سے ہی اس کی ایک مثال پیش کی تھی۔
سوال:۔ ازراہ کرم ذکر الٰہی کے صفحہ نمبر ۲۲ کو دیکھئے جس میں حسب ذیل عبارت آتی ہے:۔
>میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں دو گروہ ہیں۔ ایک مومن` دوسرے کافر` پس جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے والے ہیں وہ مومن ہیں۔ اور جو ایمان نہیں لائے خواہ ان کے نہ لانے کی کوئی وجہ ہو وہ کافر ہیں۔<
کیا یہاں لفظ >کافر< مومن کے مقابل پر استعمال نہیں ہوا؟
جواب:۔ اس عبارت میں مومن سے مراد وہ شخص ہے جو مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لاتا ہے۔ اور کافر سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کا انکار کرتا ہے۔
عدالت کا سوال:۔ تو کیا مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانا جزو ایمان ہے؟
جواب:۔ جی نہیں۔ یہاں پر لفظ مومن صرف مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانے کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گی اہے نہ کہ اسلام کے بنیادی عقیدوں پر ایمان لانے کے مفہوم میں۔
سوال:۔ کیا جب >کفر< کے لفظ کے اتعمال سے غلط فہمی اور تلخی پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ تو یہ بہتر نہیں ہوگا کہ یا تو اس کے استعمال کو قطعی طور پر ترک کردیا جائے یا اس کے استعمال میں بہت احتیاط برتی جائے؟
جواب:۔ ہم ۱۹۲۲ء سے اس سے اجتناب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مولانا میکش کے سوال:۔ کیا آپ نے اپنی جماعت کے متعلق کبھی امت کا لفظ استعمال کیا ہے؟
جواب:۔ میرا عیقدہ ہے کہ احمدی علیحدہ امت نہیں ہیں۔ اور اگر کہیں امت کا لفظ احمدیوں کے متعلق استعمال ہوا ہے تو بے توجہی سے ہوا ہوگا اور اس سے اصل مراد جماعت ہے۔
سوال:۔ ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء کا الفضل دیکھئے۔ اس میں حسب ذیل عبارت ہے:۔
>اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا وہ کسی اور امت کے سپرد نہیں کیا۔ پہلے انبیاء میں سے کوئی نبی ایک لاکھ کی طرف آیا۔ کوئی نبی دو لاکھ کی طرف آیا اور کوئی دس لاکھ کی طرف آیا۔ رسول کریم~صل۱~ کی قوم سوا لاکھ تھی یا ہوسکتا ہے کہ عرب کی آبادی آپ کے زمانہ میں دو تین لاکھ ہو۔ بس یہی آپ کے پہلے مخاطب تھے۔ لیکن ہمارے چھٹتے ہی چالیس کروڑ مخاطب ہیں۔<
یہاں کن معنوں میں آپ نے لفظ >امت< استعمال کیا ہے؟
جواب:۔ یہاں میں نے لفظ امت >آنحضرت~صل۱<~ کے لئے استعمال کیا ہے۔
‏tav.14.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں وکلائے احمدیت کی کامیاب نمائندگی
سوال:۔ کیا آپ انگریزوں کے اس لئے ممنون احسان نہیں ہیں کہ ان کے عہد حکومت میں آپ کے مخصوص عقائد پھولے پھلے۔ اور کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ ان کے شکر گزار نہ رہیں؟
جواب:۔ شکر گزاری ایک اخلاقی فرض ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم نے کے احسان مند ہیں اور یہ اس منصفانہ سلوک کی وجہ سے ہے جو انہوں نے ہر ایک کے ساتھ کیا۔ جن میں ہم بھی شامل ہیں۔
سوال:۔ کیا مرزا غلام احمد صاحب نے انگریزوں کو ممنون کرنے کے لئے بلا و اسلامیہ میں اشاعت کی غرض سے جہاد کے خلاف اتنی کتبیں نہیں لکھیں جن سے کم و بیش پچاس الماریاں بھر جائیں؟
جواب:۔ مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا اس غرض سے لکھا کہ اس سے ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو مسلمانوں کے خلاف دوسرے مذاہب میں پائی جاتی تھیں۔ یہ تصانیف کئی موضوعات و مضامین پر مشتمل ہیں۔ جن کے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں۔ ضمناً ان میں مسئلہ جہاد بھی شامل تھا لیکن اس مخصوص مسئلہ پر انہوں نے صرف چند صفحات پر مشتمل ایک رسالہ لکھا تھا۔
سوال:۔ کیا مندرجہ ذیل شعر میں مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے آپ کو آنحضرت~صل۱~ پر فضیلت نہیں دی؟
~}~ لہ خسف القمر المنیر وان لی
غسا القمران المشرقان آتنکر
یعنی رسول اکریمﷺ~ کے لئے صرف چاند کو گرہن لگا۔ لیکن میرے لئے سورج اور چاند دونوں گہنا گئے۔ الخ
جواب:۔ اس شعر میں صرف اس حدیث کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی کے وقت ماہ رمضان میں چاند اور سورج دونوں کو گرہن لگے گا۔
سوال:۔ کیا آپ نے کبھی عام مسلمانوں کو ابوجہل کہا اور اپنی جماعت کو اقلیت قرار دیا؟
جواب:۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ میں عام مسلمانوں کو ابو جہل کی پارٹی قرار دیتا ہوں۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہماری جماعت تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے۔
سوال:۔ پاکستان میں کتنے احمدی کلیدی اسامیوں پر فائز ہیں؟
جواب:۔ میرے نزدیک تو چوہدری ظفر اللہ خاں کے علاوہ کوئی احمدی ایسی اسامی پر فائز نہیں جسے کلیدی کہا جاسکے۔
سوال:۔ فضائیہ` بحریہ` بری فوج میں افسروں کی تعداد کیا ہے؟
جواب:۔ بری فوج میں ڈیڑھ یا ۲ فی صدی ہوں گے۔ ہوائی فوج میں کوئی پانچ فی صدی اور بحری فوج میں ۱۰/۱ فی صدی۔
سوال:۔ کیا مسٹر لال شاہ بخاری احمدی ہیں؟
جواب:۔ جی نہیں۔
سوال:۔ کیا جنرل حیاء الدین احمدی ہیں؟
جواب:۔ وہ کبھی احمدی تھے۔ لیکن میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی احمدی ہیں یا نہیں۔
سوال:۔ کیا مسٹر غلام احمد پرنسپل گورنمنٹ کالج۔ راولپنڈی احمدی ہیں؟
جواب:۔ جی نہیں۔
سوال:۔ کیا پاکستان میں موجودہ انڈونیشین سفیر کے پیشرو احمدی تھے؟
جواب:۔ وہ احمدیوں کی قادیانی جماعت سے تو یقیناً تعلق نہ رکھتے تھے۔ مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ لاہوری جماعت سے تعلق رکھتے تھے یا نہیں۔ بہرحال ۱۹۵۳ء میں انڈونیشین سفیر یقیناً احمدی نہ تھے۔
مولانا میکش کے سوال:۔ کیا آپ نے اپنے خطبہ میں وہ الفاظ کہے جن کی رپورٹ الفاظ مورخہ ۳ جنوری ۱۹۵۳ء )دستاویز ڈی۔ ای ۳۲۶( میں شائع ہوئی ہے؟
جواب:۔ میں رپورٹ کے الفاظ کے متعلق تو وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ رپورٹ بہت حد تک ان الفاظ کے مفہوم کی آئینہ دار ہے جو می نے کہے۔ میں نے یہ سب کچھ آفاق مورخہ ۶ دسمبر ۱۹۵۱ء کے ایک مقالہ کے جواب میں کہا تھا۔
سوال:۔ اس رپورٹ میں آپ یا آپ کے کسی جانشین کے پاکستان کے فاتح ہونے کی طرف اشارہ ہے؟
جواب:۔ آپ رپورٹ کو غلط طور پر پیش کررہے ہیں۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں۔
عدالت کا نوٹ:۔ اس یقین دلانے کے باوجود کہ مرزا غلام احمد صاحب یا گواہ کی کہی ہوئی کوئی بات یا جماعت احمدیہ کے شائع کردہ لٹریچر کو عدالت ایک مستقل شہادت کی صورت میں تسلیم کرے گی اس وقت تک جو بھی سوالات کئے گئے ہیں وہ تریباً سب کے سب ایسی ہی تحریروں سے متعلق ہیں۔ یہ محض تضیع اوقات ہے۔ اور ہم اس بارے میں مزید سولات کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔
مسٹر نزیر احمد خاں صاحب ایڈووکیٹ کے
مزید سوالات عدالت کی اجازت سے
سوال:۔ سول ملٹری گزٹ کے ۲۳ فروری ۱۹۵۳ء کے پرچہ میں آپ کا ایک بیان شائع ہوا تھا کیا خواجہ نذیر احمد ایڈووکیٹ اس بیان کے شائع ہونے سے قبل یا بعد آپ سے ملے تھے؟
جواب:۔ ہاں۔ وہ اس بیان کی اشاعت سے ایک یا دو دن قبل مجھ سے ملے تھے۔
سوال:۔ کیا خواجہ نذیر احمد نے دوبارہ کسی وقت مارچ کے مہینہ میں آپ سے ملاقات کی؟
جواب:۔ ہاں۔ وہ دوبارہ بھی مجھ سے ملے تھے۔ لیکن مجھے تاریخ یاد نہیں۔ وہ پہلی ملاقات کے ایک یا دو ماہ بعد ملے ہوں گے۔
سوال:۔ کیا انہوں نے آپ کو خواجہ ناظام الدین کا کوئی پیغام دیا تھا؟
جواب:۔ نہیں۔ انہوں نے خواجہ ناظام الدین کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے صرف یہ کہا تھا۔ کہ کراچی میں ان کی گفتگو بعض اہم شخصیتوں سے ہوئی ہے۔ میرا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ گورنر جنرل سے ملے تھے۔
سوال:۔ کیا انہوں نے مولانا مودودی کا نام لیا تھا؟
جواب:۔ نہیں۔
تحریری درخواست جو منجانب
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ
عدالت میں داخل کی گئی
جناب عالی!
مظہر کے بیان روبرو عدالت مورخہ ۱۴ جنوری ۱۹۵۴ء میں چند جوابات چونکہ ایسے اصطلاح الفاط پر مشتمل تھے جو عام استعمال میں نہیں آتے۔ اس لئے ان کا ترجمہ شاید پورے طور پر مظہر کے مفہوم کا حامل نہ ہو۔ یا بصورت دیگر فریقین غلط تعبیر کی کوشش نہ کرسکیں۔ یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مظہر اپنے اصلی الفاظ کو دہرا دے اور اپنا منشاء واضح کردے۔
اس لئے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل جوابات بعد تصدیق صحت شامل مثل فرمائے جاویں۔ سوال بر صفحہ ۱۳ یہ ہے۔
سوال:۔ اگر لفظ بنیادی عام معنی میں استعمال ہو تو پھر؟
جواب:۔ عام مفہوم کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی >اہم< کے ہیں۔ لیکن اس مفہوم کی رو سے بھی یہ اختلافات حقیقتاً >بنیادی< نہیں۔ اور انہیں فروعی کہا جاسکتا ہے۔
سوال برصفحہ ۳۲` ۳۳ یہ ہے:۔
سوال:۔ آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا فرق بیان کرچیا ہے۔ اب کیا آپ مہربانی کرکے ظلی اور بروزی نبی کی تشریح فرمائیں گے؟
جواب:۔ ان اصطلاحات کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس کی نسبت یہ اصطلاحات استعمال کی جائیں وہ بعض مخصوص صفات کا براہ راست حامل نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے متبوع سے روحانی ورثہ پاتے ہوئے انعکاسی رنگ میں یہ صفات حاصل کرتا ہے۔
سوال برصفحہ ۳۱ یہ ہے۔
سوال:۔ کیا آپ کے خیال میں مسیلمہ کذاب مرتد تھا؟
جواب:۔ ہاں۔ جب میں نے یہ کہا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ تو اس سے میری مراد یہی ہے کہ وہ تشریعی نبوت کے دعوے کے بعد مسلمان نہیں رہا تھا۔
دوسری تحریری درخواست مئورخہ ۱۴ جنوری ۱۹۵۴ء
جو منجانب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ عدالت میں داخل کی گئی
جناب عالی!
میں نے کل جو بیان عصمت انبیاء کے متعلق دیا تھا۔ میرے دل میں شک تھا کہ شاید میں پوری طرح اپنے مانی الضمیر کو واضح نہی کرسکا۔ عدالت کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے وکلاء سے مشورہ کرنے پر انہوں نے بھی اس رائے کا اظہار کیا۔ اس لئے میں آج اس سوال کے متعلق اپنا اور جماعت احمدیہ کا عقیدہ بیان کرکے درخواست کرتا ہوں کہ میرے بیان میں کل کے درج شدہ الفاظ کی جگہ ان الفاظ کو درج کیا جائے۔
>بانی سلسلہ احمدیہ< نے متواتر اور شدت سے اپنی جماعت کو یہ تعلیم دی ہے کہ تمام انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔ اور صغیرہ اور کبیرہ کسی قسم کا گناہ بھی ان سے سر زد نہیں ہوتا۔ اور رسول کریم~صل۱~ بوجہ سردار انبیاء ہونے کے سب نبیوں سے زیادہ معصوم تھے۔ اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے آخر انسان تک کوئی شخص آپ کی معصومیت کے مقام کے قریب بھی نہیں پہنچا نہ پہنچ سکے گا۔ قران کریم نے آپ کی معصومیت کے مقام کی یہ ارفع شان بتائی ہے کہ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے لا یمسہ الا المطھرون body] g[ta )پاک لوگوں کے سوا اس کتاب کے مضامین تک کوئی نہیں پہنچ سکتا( یعنی قران کریم کے سمجھنے کے لئے بھی اک درجہ معصومیت کی ضرورت ہے۔ پس کیا شان ہوگی اس ذات والا کی جس کے دل پر ایسی عظیم القدر کتاب نازل ہوئی۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث ہی اسی لئے فرمایا تھا کہ آپ اپنے اپنے ساتھ ملنے والوں کو پاک کریں۔ چنانچہ فرماتا ہے ویزکیھم )اور یہ رسول اپنے مخاطبوں کو پاک کرے گا( اور آپ کے اہل بیت و آل مطہرہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم ان کی طرف برائی منسوب کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک ثابت کریں گے۔ اور ان کی پاکیزگی کو ظاہر کریں گے۔ اور وہ دو حدیثیں بخاری اور مسلم کی جو میں نے بیان کی تھیں )جن میں سے ایک میں رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ کہ انتم اعلم بامور دنیاکم یعنی تم لوگ اپنے دنیوی امور کو بہتر سمجھ سکتے ہو۔ اور دوسری میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص مجھے دھوکہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کروالے تو اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر دوسرے کا حق لینا چاہے گا تو وہ آگ کھائے گا( وہ اس بات کے اظہار کے لئے بیان کی گئی تھیں کہ جو غیر مسلم مصنفین اس قسم کی حدیثوں سے اپ کی معصومیت کے خلاف استدلال کرتے ہیں وہ حق پر نہیں۔ ان احادیث میں آپ نے صرف اپنی بشریت کا اظہار کیا ہے ان سے آپ کی معصومیت کے خلاف استدلال کرنا درست نہیں اور جس شخص کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی )جب تو نے پھینکا تو تو نے نہیں پھینکا بلکہ خود خدا ہی نے پھینکا( اس کا اپنی بشریت کا اعلیٰ الاعلان اقرار اس کے درجہ کے بلند ہونے اور اس کے اخلاق کے بے عیب ہونے پر دلالت کرتا ہے کسی عیب یا نقص پر دلالت نہیں کرتا۔< تمت )بحوالہ >تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان از صفحہ ۲ تا ۴۸ ناشر:۔ سندھ ساگر اکادمی۔ کراچی نمبر ۳ )پرنٹر سعید آرٹ پریس حیدر آباد(
پرمٹ نمبر ۳۳۳ اگست ۱۹۵۳ء
غیر از جماعت معززین کے شاندار تاثرات
سیدنا حضرت مصلح موعود کے اس بصیرت افروز بیان کا بپلک میں بہت چرچا ہوا۔ اور بہت سے غیر از جماعت معززین نے بھی اس پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا جس کا ذکر ہمیں اس دور کے خطوط سے ملتا ہے جو ان دنوں بعض مخلصین جماعت نے حضرت اقدس مصلح موعود کی خدمت میں لکھے۔ اور جو یہ ہیں:۔
۱۔ جناب چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ کرشن بھون` لیاقت علی روڈ` لائلپور~ف۱~ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۸ جنوری ۱۹۵۴ء میں لکھا:۔
>میرے پیارے آقا! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضور کا بیان چھپنے کے بعد آج ہی ہم لوگوں کو ملے ہیں۔ ہر وکیل جو ملتا ہے تعریف کرتا ہے بے حد تعریف اور اپنے اپنے رنگ میں۔ کوئی اپنی خفت مٹانے کے لئے اپنے وکیلوں کو کوستا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان کا چوتی کا وکیل ایسی جرح کے لئے چاہیے تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ ایسا مولوی تلاش کرنا ھا جس کو دینی و دنیوی علوم پر عبور ہوتا۔ کوئی مظہر علی اظہر اور میکش کو کوستا ہے اور نالائق بیان کرتا ہے اور بعض یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ واقعی ایسا بیان ذہانت کا شاہکار ہے۔ میر قیوم نے کہا کہ خیالات سے کوئی متفق ہو یا نہ ہو مگر بیان کو پڑھ کر یہ احساس شدید ہوتا ہے کہ بیان نہایت ~Straghtف۲~ ہے اور پوری دیانت و امانت سے اپنی رائے کا اظہار ہے۔ کوئی بات چھپائی نہیں کہنے لگا >مرزا صاحب کا عدالت میں آنا پاکستان کے تمام علماء کو کھلا چیلنج تھا کہ آئو مجھ پر جس طرح کا چاہو سوال کر لو۔ ان مولویوں کی زبردست شکست ہے کہ کچھ بھی اپنے مطلب کی بات پوچھ نہ سکے< ایک نے کہا >یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ مرزا صاحب پاکستان میں واحد عالم ہیں۔ بیان میں تناقض قطعاً نہیں۔< ایک نے کہا >میں تو حیرنا ہوں کہ مرزا صاحب نے ایک دو سوال میں ہی جرح کرنے والے کو ~<Dirarm>ف۳~ کردیا۔< ایک نے کہا >واقعی مرزا صاحب نے کسی کو چلنے نہیں دیا< ایک بے باک وکیل نے کہا کہ >مرزا صاحب کے بیان سے تو اب بھی متفق نہیں مگر یہ تسلیم کر گیا ہوں کہ ایسا ذہین اور دیانتدار آدمی کوئی اور نہیں< ایک نے کہا >میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب کے عقیدے اور ہیں مگر جواب ایسے صحیح انداز میں دیئے ہیں کہ کسی کے پلے کچھ نہیں پڑا۔< لوگ حیران ہیں کہ اس قدر اختصار` اس قدر مختصر جواب` اور ایسے مشکل اور حیران کن مسائل کے متعلق۔ ایک کہنے لگا کہ >یہ بیان تو مذہبی Terminalogy کی ڈکشنری ہے۔< انگریزوں کی تعریف کے متعلق سوال کا جواب تو بے حد سراہا جاتا ہے۔< کہتے ہیں >لو بھائی یہاں سے بھی بچ گئے۔< اس سوال کو توپ کا درجہ دیتے تھے۔ باقی جنازہ۔ نماز کے متعلق سوالوں کے جواب )پر( کچھ تنقیح نہیں کرتے۔ ہر جواب کو لاجواب سمجھتے ہیں اور ملائوں کو گالیاں دیتے ہیں کہ اگر کچھ قرآن` حدیث اور کتب میں ان عقائد کے خلاف تھا تو کیوں نہ اس وقت مرزا صاحب کے پیش کیا۔ بڑی مجلس جمی ہوئی تھی۔ ایک وکیل نے کہا۔ >بات سچی یہ ہے کہ مرزائیوں کے عقائد بڑے Ratianal ~ف۵~ ہیں۔ انہوں نے مذہب کو Ratialise کردیا ہے اب ہم وہاں کیا پیش کرتے کہ عیسیٰ آسمان سے زندہ اترنا ہے۔ اس سائس کے زمانہ میں کون مانے گا؟ گلے اپنے مولویوں اور وکیلوں پر درست نہیں۔ مرزائیوں کے عقائد عقل اور دلیل پر مبنی ہیں۔< ایک ہنس کر کہنے لگا >مجھے تو ڈر ہے کہ منیر بھی مرزائی نہ ہوجاوے۔<
حضور میں نے یہ اس لئے لکھا کہ بیان کا اخبارات میں انے سے قبل بے حد ~Suspenseف۶~ تھی۔ لوگ سبھی اخبار کو چھینتے تھے کہ آج بیان آیا ہوگا۔ انگریزی کی اخبارات گائوں گائوں میں گئی ہیں حضور کا بیان پڑھنے کے لئے۔ اور لوگ ہم کو اپنے خیال کے مطابق ڈراتے تھے۔ اب پتہ چلے گا۔ اب پول کھلیں گے۔ اب حقیقت واضح ہوگی۔ اللہ نے ہماری مدد کی اور فتح مبین دی۔ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اپنی انکھوں سے معزجہ پر معجزہ دیکھ رہے ہیں کس قدر روح پرور اور ایمان افروز یہ زمانہ ہے اپنے میں تو کوئی ایسی خوبی نہیں۔ بزرگوں کی نیکی اور ایمان کی وجہ سے یہ دولت ہم کو ملی۔ خدا اس کی قدر و قیمت اور اہمیت )کا( صحیح احساس پید اکرے اور ہمارا عمل درست ہو۔<
۲۔ جناب چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری~ف۷~ و امیر جماعت احمدیہ منٹگمری نے اپنے مئورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۵۴ء میں لکھا:۔
>تحقیقاتی کمیشن کے روبرو حضور کے بیان کی جو رونیداد اخبارات میں چھپی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ حضور کی شہادت ایسے رنگ میں ہوئی کہ مخالفین کے تمام اعتراضات خود بخود صاف ہوگئے ہیں۔ مجلس عمل والوں نے ہی حضور کو شہادت کے لئے بلوایا تھا اور ان کی اور مودودیوں کی تمام کی تمام تدابیر خاک میں مل گئیں۔ انہوں نے جو اعتراضات کی توپیں گاڑی ہوئی تھیں سب ساکت ہوگئیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان اور اس کا نشان ہے۔<
۳۔ جناب گیانی عباد اللہ صاحب~ف۸~ ۲۱ جنوری ۱۹۵۴ء کو لکھا:۔
>خاکسار دو چار دن سے لاہور آیا ہوا ہے۔ یہاں مجھے مختلف خیالات کے متعدد لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ آج کل یہاں پر جہاں بھی دو چار پڑھے لکھے لوگ جمع ہوں۔ حضور کے بیان کا تذکرہ ہوتا ہے۔ جن دنوں وہ بیان اخباروں میں چھپے ہیں اخبار ہاتھوں ہاتھ بکتے رہے۔ بلکہ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگوں نے تو خبار زیادہ قیمت پر بھی خریدے ہیں۔ پڑھا لکھا طبقعہ جن میں بعض کمیونسٹ بھی شامل ہیں یہ کہہ رہا ہے کہ اگر تو اسلام کی یہی تعلیم ہے جو حضور نے بیان کی ہے تو پھر یہ اسلام ایسا ہے جو مستقبل میں قابل قبول ہوگا۔ مولوی کا اسلام تو بہت گھنائونا ہے۔ اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ مجھے جن مسائل سے متعلق لوگوں سے گفتگو کرنے کا موقعہ ملا ہے ان میں سے ایک تو کفر و اسلام ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو کفر و اسلام کی حضور کی یہ تشریح کہ یہ نسبتی چیزیں ہیں بہت پسند آئی ہے۔۔۔۔۔ الغرض جہاں تک حضور کے بیان کے پڑھے لکھے لوگوں پر اثر ہے وہ بہت ہی شاندار ہے۔ اور اکثر لوگ حضور کے بیان کردہ مسائل پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔<
۴۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ ضلع لائل پور]01 ~[pف۹~ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۵۴ء میں حضرت المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں لکھا:۔
>حضور کے بیان کا اثر تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت گہر اہوا ہے۔ اتنا گہرا کہ اندازہ بھی مشکل سے ہو سکتا ہے۔ ایک سب جج جو بیان کے وقت عدالت میں مجود تھا۔ اس کا قول ہے کہ اگر ایمان مضبوط نہ ہو تو احمدی ہونے کو اس وقت جی چاہتا تھا۔ اس بیان سے بہت سی غلط فہمیاں احرار کی پھیلائی ہوئی دور ہوچکی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی کہ حضور کو بیان کے لئے طب کیا گیا۔ بہت سے پچیدہ مسائل کے حل ہونے کا لوگ اعتراف کرتے ہیں۔ غرضیکہ تائید الٰہی اور نصرت بالرعب کا سماں ہے والحمد للہ علی ذالک۔ اپنی اخلاقی اور قانونی شکست کا بھی لوگ ذکر کرتے ہیں۔<
۵۔ محترم شیخ صاحب نے اس کے بعد اپنے مکتوب مورخہ ۲۸ جنوری ۱۹۵۴ء میں مزید لکھا:۔
>عاجز نے پہلے جو عریضہ حضور کے بیان کے متعلق لوگوں کے تاثرات کے بارے میں لکھا تھا وہ لائلپور سے متعلق تھانہ کو صرف لاہور کے بارے میں۔
)۱( واقعہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں نے مجھ سے ازخود کئی بار ذکر کیا ہے۔ یہاں بھی اور مقامات~ف۱۰~ میں بھی۔ کہ حضور کا بیان واضح` صاف صاف` اور صداقت پر مبنی ہے۔ اور ہر لفظ قانون کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ جبکہ مولویوں کی بے مائیگی اور جہالت ظاہر ہوچکی ہے۔
)۲( کل ہی کا واقعہ ہے کہ ایک وکیل نے جو مولویوں کے خاندان سے ہے اور دینی واقفیت رکھنے والا ہے۔ خود بخود مجھے کہا۔ کہ اس بیان کے بعد پڑھے لکھے لوگوں کو تو ضرور احمدی ہوجانا چاہئے۔ مولویوں کے پاس اخرافات کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اظہار رائے اس نے از خود کیا۔ اسی طرح اور بہت سے لوگوں سے ذکر آیا۔
)۳( نبی کریم~صل۱~ کی معصومیت کے بارے میں حضور کے بیان سے ملا طبع لوگوں نے )نے( غلط فہمی پھیلانی چاہی تھی۔ لا یکادون یفقھون حدیثا۔ کے مطابق۔ لیکن معاً بعد درخواست جو دی گئی ہے۔ اس کا بہت عمدہ اثر نکلا ہے۔
)۴( بعض لوگوں کو یہ بھی خیال پایا گیا کہ یہ ملا ایک دفعہ پھر شور مچائیں گے۔ ابھی دبے ہوئے اور مجبور ہیں۔ واللہ اعلم۔
)۵( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب >ختم نبوت کی حقیقت< بھی بہت اچھا اثر پیدا کررہی ہے۔ یہاں پر ہم نے ۔/۱۵۰ )روپے کی~(ف۱۱2]~ ftr[ کتب تقسیم کی تھیں۔
)۶( ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی چھوٹی کتب عہدہ طور پر طبع کروا کے مفت یا برائے نام اس وقت پھیلائی جاویں۔ کاغذ کی گرافی ایک مانع اس وقت ہے۔ یہ ضرور ہے کہ لوگ مسائل کی ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ کتابیں دیکھتا چاہتے ہیں۔ ایک بڑے زمیندار نے مجھ سے کہا کہ ہمیں کتابیں دو۔ ایسا نہ کہ ہم غفلت میں اپنی عاقبت خراب کر بیٹھیں۔<
۶۔ جناب عبدالجلیل صاحب عشرت )برادر مولانا عبد المجید صاحب سالک سابق ایڈیٹر روزنامہ >انقلاب< لاہور( نے مئورخہ ۲۶ جنوری ۱۹۵۴ء کو ڈھاکہ سے ہضور کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا:۔
>حضور نے جو بیان تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دیا ہے۔ اس کو یہاں کے اخبار News> <Morning نے شائع کیا ہے۔ حالانکہ اس اخبار نے پہلے کوئی بیان جو کمیٹی کے سامنے دیا گیا ھا۔ شائع نہیں یا۔ ماشاء اللہ حضور کا بیان نہایت ایمان افزا۔ جر¶ات مندانہ۔ عالمانہ ہے اور الٰہی تائید اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ مکرمی چوہدری صاحب کا بیان بھی اس اخبار نے شائع کیا ہے۔ وہ بھی بہت عمدہ ہے اللہ تعالیٰ اس تحقیقات کے نتائج جماعت احمدیہ کے لئے بے شمار برکات و حسنات کا موجب بنائے آمین۔<
۷۔ جناب مسعود احمد خاں صاحب دہلوی اسٹنٹ ایڈیٹر روزنامہ >المصلح< کراچی~ف۱۲~ نے مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۵۴ء کو درج ذیل مکتوب حضور کی خدمت اقدس میں لکھا جس میں کراچی کے حلقوں میں عدالتی بیان کی نسبت جو تاثرات ابھر رہے تھے ان کا تذکرہ کیا:۔
)۱( آج کل یہاں حضور کے عدالتی بیان کا بہت چرچا ہے خصوصاً اردو کے اخبارات صبح ہی صبح سب فروخت ہوجاتے ہیں اور دوپہر کے بعد کسی قیمت پر بھی نہیں ملتے۔ ان دنوں یہاں لاہور کے اردو روزنامہ >ملت< کی مانگ بہت بڑھی گئی ہے۔
صبح نو بجے کے قریب یہ یہاں پہنچتا ہے اور پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے۔ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ >ملت< میں جو بیان چھپ رہا ہے وہ زیادہ صحیح اور مستند ہے۔ کل جب ایک ایک سال پر >ملت< کا پرچہ مانگا گیا تو دکاندار نے بتایا کہ پرچہ آتے ہی بک جاتا ہے بعد میں لوگ ایک ایک روپیہ دینے کو تیار ہوجاتے ہیں پھر بھی انہیں پرچہ نہیں ملتا۔
)۲( میں دفتر میں سے وقت نکال کر کل اور اج اخبار نویسوں سے ملنے پریس روم گیا تھا۔ اخبار نویسوں میں یہاں عام خیال یہی ہے کہ بیان بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا ہے اور مذہبی عقائد کے لحاظ سے بہت ~rationalف۱۳~ ہے۔ میں نے جن اخبار نویسوں سے بات کی انہوں نے کہا کہ عدالت میں پیش کردہ تحریری بیانوں کی وجہ سے غلط یا صہیح عام طور پر یہ تاچر پھیل گیا تھا کہ گویا حالات سے ڈر کر احمدیوں نے عقائد میں تبدیلی کرلی ہے لیکن عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے زبانی بیان کے بعد یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہئے کہ عقائد میں تبدیلی کی گئی ہے۔ زبانی یان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ تحریرات کو جو غلط معنی پہنائے جاتے تھے ان کی تردید کرکے انہیں درست رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
عدالتی کاروائی کے دوران حضرت مصلح موعود کے سفر ہائے لاہور
سیدنا حضرت مصلح موعود نے عدالتی کاروائی کے دوران پانچ بار لاہور کا سفر اختیار فرمایا جس میں سے ایک سفر تو وہ تھا جو حضور نے اپنے عدالتی بیان کے لئے کیا۔ اور جو ۱۲ تا ۱۷ جنوری ۱۹۵۴ء میں ہوا۔ دیگر سفر مندرجہ ذیل ایام میں تھے:۔
۱۔ ۲۰ نومبر تا ۲۶ نومبر ۱۹۵۳ء
۲۔ ۲۹ جنوری تا ۴ فروی ۱۹۵۴ء
۳۔ ۱۵ فروری تا ۲۳ فروری ۱۹۵۴ء
۴۔ ۲۶ فروری تا یکممارچ ۱۹۵۴ء~ف۱۴~
یہ جملہ سفر حضور نے محض اس لئے اختیار فرمائے کہ وکلائے احمدیت اور علماء سلسلہ کو ضروری ہدایات سے نوازیں اور ہر ضروری مرحلے پر براہ راست راہنمائی اور نگرانی فرماتے رہیں۔ جس سے حضور کی کاروائی سے متعلق ذاتی دلچسپی ظاہر ہے۔
حوالہ جات
~ف۱~
حال فیصل آباد
~ف۲~
صاف صاف اور دیانتدارانہ
~ف۳~
غیر مسلح
‏h1] ga~[tف۴~
اصطلاحات
~ف۵~
عقل سے ہم آہنگ
~ف۶~
انتظار کی پریشانی
~ف۷~
حال ساہیوال
~ف۸~
سکھ مذہب کے محقق` سابق مینجر روزنامہ >الفضل< ربوہ۔ گیانی صاحب موصوف ان دنوں مکان نمبر ۴۵۳ نزد اڈہ قلعہ میہاں منگھ گوجرانوالہ میں بطور مبلغ مقیم تھے۔
~ف۹~
حال فیصل آباد
~ف۱۰~
اس جگہ اصل خط میں >مقامات< لکھا ہے جو سہو قلم ہی ہوسکتا ہے۔
~ف۱۱~
یہ لفظ اصل مکتوب میں نہیں ہیں۔ بغرض وضاحت اضافہ کئے گئے ہیں )ناقل(
~ف۱۲~
بعدازاں مدیر روزنامہ >الفضل< ربوہ
~ف۱۳~
معقول
~ف۱۴~
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ بابت سال ۵۴۔ ۱۹۵۳ء صفحہ ۸
‏tav.14.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت میں صدر انجمن احمدیہ کا تبصرے
چوتھا باب
تحقیقاتی عدالت میں صدر انجمن احمدیہ سے داخل کردہ تبصرے
تحقیقاتی عدالت میں صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے تحریری بیان پر تبصرہ۔~ف۱~تحقیقاتی عدالت کے دس۱۰ سوالات کے جوابات اور مولانا مودودی صاحب کے جوابات پر تبصرہ` نیز مجلس احرار کے تحریری بیان پر تبصرہ بھی شامل ریکارڈ کیا گیا۔~ف۲~یہ ہر سہ۳ تبصرے مولانا جلال الدین صاحب شمس نے تحریر فرمائے تھے۔ جن کو بعد میں >الشرکہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ< نے شائع کر دیا۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بیان پر تبصرہ ایسا شاندار اور مدلل و مسکت تھا کہ غیر احمدی حلقوں میں بھی اس کو بہت پسند کیا گیا۔ جس کے ثبوت میں بطور نمونہ ایک خط درج ذیل کیا جاتا ہے جو سید محمد احمد صاحب جیلانی نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لاہور سے ۲۴/ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو لکھا تھا۔
مکرمی و محترمی جناب میاں صاحب
السلام علیکم و رحمہ اللہ
بعد ادائے آداب کے عرض ہے کہ ویسے تو میں بہت عرصہ سے آپ کی جماعت سے واقف ہوں لیکن عملی کوئی وابستگی نہیں ہے گو میرا خیال ہمیشہ آپ کی جماعت کے لوگوں کے متعلق اچھا ہی رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان کو اچھا ہی پایا ہے لیکن یہ راز مری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہے اور نہ ہی میں نے پورے طور سے سمجھنے کی کوشش کی ایک سرسری خیال میں تھا کہ یہ لوگ اچھے ہیں۔
پچھلے فسادات میں جو کچھ پنجاب میں ہوا اس سے میں خوب واقف ہوں اور غالباً پنجاب کے ہر طبقہ کو اس کا علم ہے جو کچھ بھی ہو اس کے متعلق ذکر کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ہونے میں خداتعالیٰ کا کچھ راز ہے اور اس راز کا افشا ہونا بھی ضروری تھا جو اس رنگ میں ہوا۔ اس کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ ہر طبقہ کے ذی علم اور ذی عقل بمع علمائے کرام دنیا کے سامنے اپنی اپنی قابلیت کے ساتھ نمایاں ہونے لگے اور بعض تو اس حد تک نمایاں ہوئے کہ ان کا اندرونی بھانڈا پھوٹ گیا۔ میں تحقیقاتی کمیشن کی تمام رپورٹوں کا بغور مطالعہ کر رہا ہوں اور اس کے ایک ایک لفظ کو پڑھتا ہوں ایک خاص قسم کی دلچسپی سی پیدا ہوگئی ہے۔ روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھ کر دوسرے دن کے لئے پھر بے تاب ہو جاتا ہوں اس دوران میں مجھ پر ہر ایک کی پوزیشن اپنی عقل کے بموجب واضح ہوگئی اور میں نے تعصب کو بالائے طاق رکھ کر یہ ضرور سمجھ لیا ہے کہ حق پر کون ہے۔ یہ میرے لئے ایک عجوبہ بات ہوئی ہے اگر تحقیقاتی کمیشن نہ ہوتا تو شاید میری معلومات میں اتنا اضافہ نہ ہوتا اور نہ ہی میں بہت سی باتوں کو سمجھ سکتا تھا۔
میں نے مولانا مودودی صاحب کا بیان اخباروں میں پڑھا جو کہ انہوں نے عدالت میں داخل کیا ہے اور اس کے پڑھنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مین اس سے متاثر ہوا ہوں لیکن کچھ دن کے وقفہ کے بعد اخبار ملت میں میری نظر سے وہ تبصرہ بھی گزرا جو کہ احمدیہ جماعت کی طرف سے عدالت میں داخل ہوا ہے۔ ابھی اس سلسلہ کی قسطیں باقی ہیں۔ مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ اس کے سامنے ماند ہے اور اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ہے میں نے جو تبصرہ پڑھا ہے اس میں دلائل اور براہین سے باتیں کی گئی ہیں نہ کہ یوں ہی۔ اس تبصرے کے پڑھنے کے بعد میرے مطالعہ میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ بہت سے شکوک رفع ہوئے اور اب میں کم از کم اس مقام پر نہ رہا۔ جس پر میں تحقیقات سے پہلے تھا۔ اس کے علاوہ میں نے آپ کے عقیدہ کے متعلق سوالات کے جوابات بھی غور سے پڑھے ہیں جن سے مرے بہت سے شکوک رفع ہوئے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں اور انصاف کا بھی یہ ہی تقاضا ہے کہ جس طرح سے اسلامی جماعت کے لوگ مولانا مودودی صاحب کے بیان کو پمفلٹ کی شکل میں تقسیم کر رہے ہیں اس طرح مری خواہش بھی یہ ہے کہ آپ کی جماعت کی طرف سے تبصرے کو پمفلٹ کی شکل میں تقسیم کیا جاوے۔ میرا اس لکھنے کا منشاء صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگ راستی اور امن کی طرف آجائیں اوران کو کم از کم یہ پتہ چل جائے کہ جس جماعت کے خلاف یہ ہنگامہ برپا ہوا تھا وہ کم از کم امن اور صلح پسند ہے اور اس کے عقائد کم از کم` کم از کم اتنے اشتعال انگیزی سے بھرے ہوئے نہیں ہیں جتنا ان کو سمجھا جا رہا ہے مجھے امید ہے کہ آپ ضرور اس سلسلہ میں بہتر سے بہتر جدوجہد فرمائیں گے اور جس طرح مرا دل و دماغ صاف ہوگیا۔
میں سمجھتا ہوں جو لوگ کہ فطرت صحیحہ کے مالک ہیں وہ بھی حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے۔ میں ایک غیر احمد ہونے کی حیثیت سے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں اور آپ کے عقیدے کے مطابق میں آپ سے دعا کے لئے جر¶ات کر رہا ہوں کہ اللہ تالیٰ کے نزدیک اگر آپ کی جماعت کا قدم سچائی پر ہے تو وہ مجھ پر بھی آشکار کر دے۔ فقط۔ والسلام۔ طالب دعا
)سید محمد احمد جیلانی۔ سابقہ انسپکٹر سنٹرل ایکسائز و لینڈ کسٹم مکان نمبر۵ گلی نمبر۱۰ نہرو پارک۔ سنت نگر۔ لاہور(
کتاب >تحقیقاتی عدالت کے دس سوالوں کا جواب اور مولانا مودودی کے جوابات پر تبصرہ< کے مندرجات کا اندازہ کرنے کے لئے بطور چند عنوانات ملاحظہ ہوں:
ظہور مسیحؑ و مہدیؑ کا ذکر قرآن اور حدیث میں` ظہور مہدیؑ کے متعلق احادیث` وفات مسیحؑ توف کے معنے` اجماع کی حقیقت` مسلہ بروز` قائد امت کون ہوگا؟ دجال کے خانہ کعبہ کے طواف سے مراد` مسیح موعودؑ کے نبی ہونے کا ثبوت` آنحضرت~صل۱~ کو خاتم النبیین ماننا کیوں ضروری ہے؟ تفسیر >خاتم النبیین<۔ خاتم النبیین< اور احادیث` قران مجید کی رو سے ڈائریکٹ ایکشن ناجائز ہے` احادیث کی رو سے بھی ڈائریکٹ` ایکشن جائز نہیں۔
ان سطور سے واضح ہے کہ تحقیقاتی عدالت کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کتنا شاندار اضافہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں کتنا شاندار اضافہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے متعدد کتابیں اور رسائل فسادات پنجاب کے زمانہ تک اشاعت پذیر ہو چکے تھے مگر تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے نتیجہ میں چند ماہ کے اندر اندر جس قدر گیر معمولی محنت اور تحقیق و تفحص کے ساتھ بنیادی اور اہم مضامین پر مشتمل مبسوط لٹریچر مرتب اور شائع کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تفسیر قرآن او دیباچہ )انگریزی( کا فاضل جج صاحبان کو تحفہ
حضرت صاحبزادہ` مرزا بشیر احمد صاحب نے ۲۱ فتح ۱۳۳۲ ہش ۲۱/ دسمبر ۱۹۵۳ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت بابرت میں حسب ذیل مکتوب لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
سیدنا!
السلالم علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
شیخ بشیر احمد صاحب کی تجویز ہے کہ جماعت کی خدمات دینی کا اثر پیدا کرنے کے لئے تفسیر قرآن مجید انگریزی کی دو جلدیں اور دیباچہ قرآن مجید انگریزی مطبوعہ امریکہ کے دو نسخے جج صاحبان کو تحفہ پیش کر دئیے جائیں اور ترجمہ قرآن مجید بزبان سواحیلی اور ترجمہ بزبان ڈچ دکھا دیا جائے۔
سو حضور اس کی اجازت فرماویں۔ نیز ڈچ ترجمہ جو حضور کے پاس ہے وہ چند دن کے لئے عنایت فرماویں۔
خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۳/۱۲/۱۲
سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے یہ الفاظ لکھے۔
>مناسب ہوگا` مرے دل میں خود بھی یہ خیال آیا تھا<۔
چنانچہ حضرت امام ہمام کی اجازت سے جماعت احمدیہ کی طرف سے تفسیر قرآن اور دیباچہ قرآن )انگریزی( کا روحانی تحفہ فاضل جج صاحبان کو پیش کر دیا گیا اور سواحیلی اور ڈچ تراجم قرآن دکھا دئیے گئے۔
جناب مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر >المنبر< نے اس اہم واقعہ کا ذکر نہایت اثر انگیز الفاظ میں کیا ہے لکھتے ہیں:
)الف( >پہلا ضابطئہ قیام و ارتقاء یہ ہے و اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض۔ ہر وہ چیز جو انسانیت کے لئے نفع رساں ہو اسے زمین پر قیام و بقاء عطا ہوتا ہے۔۔۔۔
قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدوجہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں۔ تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن اور سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں<۔
>غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلامی تبلیغ کا کام صرف اسی اصول >نفع رسانی< کی وجہ سے قادیانیت کے بقا اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے۔ ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ سے قادیانیوں کی ساکھ قائم ہے۔ ایک عبرت انگیز واقعہ خود ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا۔ ۱۹۵۴ء میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ مین علما ور اسلامی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں قادیانی عین انہی دنوں ڈچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمئہ قرآن کو مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت میں یہ تراجم پیش کئے گویا وہ بزبان حال و قال یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامیہ جماعت جو اس وقت جبکہ ہمیں آپ لوگ >کافر< قرار دینے کے لئے پر تول رہے ہیں` ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن ان کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں<۔~ف۳~
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا اہم بیان
تحقیقاتی عدالت میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا بیان ۱۹۔ جنوری ۱۹۵۴ء کو ہوا جس سے ملک میں جماعت احمدیہ اور آپ کی ذات کی نسبت پھیلائی ہوئی متعدد غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔ اور نہایت برجستہ` پرحکمت اور قانونی زبان میں پہلی بار عدالت اور عوام کے سامنے بعض بنیادی ملکی اور دینی مسائل صحیح صورت میں سامنے آئے۔ ذیل میں حضرت چوہدری صاحب کے اس فاضلانہ بیان کے ضروری حصے اخبار >ملت< سے درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ >لاہور۔ ۱۹۔ جنوری پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خاں نے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں کہا ہے کہ قادیانیوں کے خلاف پوری تحریک کے دوران میں میں نے اس وقت کے وزیراعظم سے یہ بات مکمل طور پر واضح کر دی تھی کہ میں ایک لمحہ کا نوٹس ملنے پر بھی استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہوں۔ مجلس احرار کی جانب سے جرح کے دوران میں چوہدری ظفر اللہ خاں نے کہا کہ میں نے یہ پیشکش اس لئے کی تھی کہ اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اگر یہ سمجھیں کہ میں ایک بوجھ ہوں یا کسی اور وجہ سے مجھے مستعفی ہو جانا اور حکومت کو چھوڑ دینا چاہئے تو میں ایک لمحے کے نوٹس پر بھی علیحدہ ہونے کے لئے تیار تھا۔
چوہدری ظفر اللہ خان کو جماعت اسلامی نے گواہی کے لئے نامزد کیا تھا انہوں نے کہا کہ متعدد لوگوں نے تحریک کے زمانے میں مجھے یہ رائے دی تھی کہ مجھے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ملک کے باہر سے یہ تجویز نہیں موصول ہوئی تھی کہ میں چلا آئوں۔۔۔۔ چودھری محمد ظفر اللہ خاں سے سب سے پہلے جماعت اسلامی کی جانب سے چودھری نذیر احمد خان نے سوالات کئے۔
انہوں نے سوال کیا کہ وہ پاکستانی کابینہ کے علم میں یہ سوال لائے ہیں کہ پاکستان میں ان کے فرقے سے کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے اور اس سوال کا جواب اگر اثبات میں ہے تو یہ بتلائیے کہ آپ یہ بات کابینہ کے علم میں کب لائے تھے؟
چودھری ظفر اللہ خان نے جواب دیا کہ جس وقت تحریک جاری تھی ممکن ہے میں نے اس سوال کے بعض پہلوئوں کا کابینہ میں ذکر کیا ہو۔ لیکن میں نے کابینہ سے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ اس پر ایک معینہ معاملہ کی حیثیت سے بحث کرے۔
سوال:کیا اپ کابینہ کے کسی اجلاس میں مرحوم لیاقت علی خاں کے علم میں یہ بات لائے تھے کہ آپ کے فرقے سے جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے اس کے خلاف آپ کو بعض شکایتیں ہیں؟
جواب:مجھے کوئی بات قطعی طور پر یاد نہیں ہے۔
سوال:خواجہ ناظم الدین نے کہا ہے کہ ایسا مرحوم قائد ملت کے زمانے میں ہوا تھا کہ آپ کابینہ کے علم میں یہ بات لائے تھے کہ تین احمدیوں کو قتل کر دیا گیا ہے کیا یہ درست ہے؟
جواب:مجھے یاد ہے کہ کسی معاملے کے سلسلے میں میں نے اس معاملہ کا زکر موجودہ گورنر جنرل سے کیا تھا جو اس زمانے میں وزیر مالیات تھے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت ہم ملک سے باہر تھے۔ اپنی واپسی پر انہوں نے اس معاملہ کا ذکر اس وقت کے وزیراعظم سے کیا تھا اور ممکن ہے کہ اس کے پیش نظر کوئی تحقیقات کی گئی ہو۔
سوال:کیا آپ کے علم میں پاکستانی کابینہ نے ۷ یا ۸/اگست ۱۹۵۳ء کو یا اس کے لگ بھگ تحریک پر بحث کی تھی؟
جواب:میں اگر کراچی میں ہوتا اور مجھے کابینہ کے اجلاس کی اطلاع نہ دی تو کابینہ کا کوئی باقاعدہ اجلاس نہیں ہو سکتا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ بعض مواقع پر خواجہ ناظم الدین نے اپنے بعض رفقاء کو تحریک کے سلسلہ میں مشورے کے لئے بلایا تھا۔ ان مواقع پر مجھے نہیں بلایا گیا۔۔۔۔
سوال:جہانگیر پارک میں یہ تقریر کرنے سے پہلے کیا اپ نے خواجہ ناظم الدین سے کوئی گفتگو کی تھی؟
جواب:خواجہ صاحب نے مج سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ متعدد لوگوں نے اس جلسے میں میری شرکت پر اعتراض کیا تھا۔
سوال:کیا انہوں نے آپ کی متوقع تقریر کے متعلق کچھ کہا تھا؟
جواب:انہوں نے تجویز کیا تھا کہ میں اگر جلسے )میں( تقریر نہ کروں تو بہتر ہوگا۔
سوال:آپ نے کیا کہا؟
جواب:میں نے کہا کہ اب میرا تقریر نہ کرنا میرے لئے الجھن کا باعث ہوگا کیونکہ مقرر کی حیثیت سے میرے نام کا پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے لیکن میں اگر اس پوزیشن میں نہ ہوتا تو ضرور ان کی تجویز منظور کرلیتا اور وہاں نہ جاتا۔ عدالت کے ایک سوال پر گواہ نے کہا کہ وہ ایک جلسہ عام تھا۔ مسٹر نذیر احمد کے سوالات دوبارہ شروع ہونے پر انہوں نے کہا کہ یہ پہلا جلسہ عام نہیں تھا جو ان کے فرقے نے کیا تھا۔ ربوہ اور دوسرے مقامات پر متعدد عام جلسے ہوئے تھے۔۔۔۔
سوال:خواجہ ناظم الدین نے عدالت میں اپنی گواہی میں حسب ذیل الفاظ کہے ہیں:
>مجھے قطعی طور پر یاد ہے کہ ان سے ایک تبادلئہ خیال کے دوران میں چوہدری ظفر اللہ خان نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ان کے عقیدے کے مطابق میں کافر ہوں لیکن سیاسی معاشرتی اور دوسرے مقاصد کے پیش نظر وہ مجھے مسلمان سمجھ سکتے ہیں<۔
کیا آپ نے یہ کہا تھا؟
جواب:عقیدے سے متعلق پوزیشن کی تشریح سے ممکن ہے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہو۔
عدالت نے گواہ سے کہا کہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جیکب آباد کی ایک مسجد کے خطیب مولوی محمد اسحاق سے اگست ۱۹۴۹ء میں ایک گفتگو کے دوران مین انہوں )گواہ( نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں )گواہ کو( ایک کافر حکومت کا ایک مسلمان ملازم یا ایک مسلمان حکومت کا ایک کافر ملازم سمجھا جا سکتا ہے یہ دریافت کرنے پر کہ یہ بیان کیا درست ہے؟
چوہدری ظفر اللہ خاں نے کہا کہ مجھے اس پر بہت زیادہ شک ہے۔۔۔۔
سوال:کیا خواجہ نذیر احمد نے آپ سے مارچ ۱۹۵۳ء میں ملاقات کی تھی؟
جواب:ممکن ہے انہوں نے ملاقات کی ہو۔
سوال:کیا تینوں مطالبات کے متعلق فرقے کے امیر کی پوزیشن کی تشریح کے سلسلہ میں آپ دونوں میں گفتگو ہوئی تھی؟
جواب:انہون نے مجھ سے کہا تھا کہ بعض تشریحات کے متعلق فرقے کے امیر سے ملاقات کی تھی یا ان کا ملاقات کرنے کا ارادہ تھا۔
گواہ نے کہا کہ انہوں نے بعض تشریحات تجویز کی تھیں اور میری رائے دریافت کی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی رائے ظاہر نہیں کر سکتا اس لئے انہیں اس معاملہ پر فرقے کے امیر سے گفتگو کرنی چاہئے۔
سوال:فرقے کے سلسلے میں آپ کی پوزیشن کیا ہے؟ خواجہ نذیر احمد آپ سے ملنے کیوں گئے تھے؟
جواب:میں ایک معمولی رکن ہوں اور فرقے میں میری کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ خواجہ نذیر احمد اس معاملہ میں مجھ سے مشورہ کرنے کیوں آئے تھے؟
سوال:کیا انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ امیر جماعت اگر عام مسلمانوں کو آئندہ کافر نہ کہیں تو ممکن ہے مزید تبادلئہ خیال کے لئے بنیاد پیدا ہو جائے۔
جواب:مجھے یہ یاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ وہ اور ان کے ایک رفیق پہلے ہی ربوہ جا چکے تھے اور امیر جماعت سے ملاقات کر چکے تھے اور انہوں نے اس موضوع پر ایک بیان جاری کر دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے مجھ سے یہ تجویز پیش نہیں کی تھیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ امیر جماعت نے جو بیان جاری کیا تھا اس سے پہلو کے متعلق پوزیشن واضح ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
سوال:یہ کہا گیا ہے کہ لاہور جلد اور بار بار آکر اور اپنے فرقہ کو اس کے رویہ کے متعلق مشورہ دے کر اپ نے اس تحقیقات سے متعلق معاملات میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب:میں تحقیقات کے زیادہ تر حصے مین ملک کے باہر رہا ہوں۔ ملک سے باہر جانے سے قبل میرے لاہور آنے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ تحقیقاتی عدالت کے متعلق فرقے کو کیا رویہ اختیار کرنا اور کیا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے نہ اس کا مقصد اپنے فرقے کے اراکین کو مشورہ دینا تھا۔
سوال:کیا مذہبی امور میں آپ کو عام طور پر اپنے فرقے کے امیر سے اتفاق ہے؟
جواب:جی ہاں۔ ان امور پر جن کا سختی کے ساتھ عقیدے سے تعلق ہے۔
سوال:امیر جماعت کی کیا پوزیشن ہے؟
جواب:عقائد کے متعلق وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ فرقے کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔
سوال:کیا یہ حقیقت ہے کہ آپ نے قائداعظم کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی؟
جواب:میں اصل نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا لیکن میں جنازے کے جلوس کے ساتھ تھا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نماز جنازہ مرحوم مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی جن کے خیال کے مطابق میں کافر اور مرتد تھا۔ اور مجھے سزائے موت دے دینی چاہئے تھی۔
سوال:اس زمین کو حاصل کرنے کے لئے جس پر ربوہ واقع ہے کیا آپ کو کسی شکل میں ذریعہ بنایا گیا تھا یا آپ نے فرقے کی کوئی مدد کی تھی؟
جواب:میرا خیال ہے کہ اراضی کے حصول کی اصل گفت و شنید میں کسی موقع پر میں نے کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ اراضی کے حصول کے بعد بعض دشواریاں پیدا ہوگئی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کے متعلق مسٹر دولتانہ اور مسٹر دستی سے بھی بات کی تھی۔
سوال:کیا آپ تقسیم سے پہلے مسلم لیگ کے رکن تھے؟
جواب:۱۹۴۱ء میں فیڈرل کورٹ کا جج بننے سے پہلے میں مسلم لیگ کا رکن تھا مگر مرکزی کابینہ کی رکنیت کے دوران میں میں نے مسلم لیگ کی کارروائیوں میں سرگرمی سے حصہ نہیں لیا تھا۔
سوال:۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کی ہدایات کے مطابق کیا آپ نے اپنا خطاب واپس کیا تھا؟
جواب:مجھے اس طرح کی کسی ہدایت کا کوئی علم نہیں ہے لیکن میں نے تقسیم کے بعد عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا خطاب استعمال نہیں کیا ہے۔
سوال:ایک شکایت یہ ہے کہ سرکاری دفاتر میں خواہ وہ آپ کی اپنی وزارت کے ہوں یا کسی دوسرے محکمے کے آپ اپنے فرقے کے اراکین کو ترجیح دیتے رہے ہیں؟
جواب:جہاں تک میری اپنی وزارت کا تعلق ہے پوزیشن یہ ہے کہ فارن سروس کے لئے میں خود کوئی تقرر نہیں کرتا۔ فارن سروس کے لئے تمام تقرریاں پبلک سروس کمیشن کی سفارش پر کی جاتی ہیں اس لئے میرے علم کے مطابق فارن سروس کے اسی یا سو افراد میں سے احمدیہ فرقے کے صرف ۴ ارکان ہیں۔ ان میں سے ایک پہلے ہی سے وزارت میں تھا اور میرے خیال میں وہ بھارت سے~ف۴~آپٹ~ف۵~ کر کے آیا تھا۔ وہ تقسیم سے پہلے ہی سے سرکاری ملازم تھا۔ میرے وزیر خارجہ ہونے سے پہلے وہ وزارت میں تھا۔ ان مین سے ایک تقسیم سے پہلے ہونے والے مقابلے کے امتحان کے ذریعہ منتخب ہوا تھا۔ وہ بعد میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن اپنے انتخاب کے ووقت وہ دونوں سرکاری ملازم تھے۔ تقسیم کے بعد ملازم ہونے والے تین افراد میں سے دو کے متعلق مجھے ان کی ملازمت کے بعد تک یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ احمدی ہیں۔
صرف ان دو اسامیوں پر مجھے خود کسی آدمی کو مقرر کرنے کا اختیار ہے۔ یعنی میرا پرائیویٹ سیکرٹری اور میرا پرسنل اسسٹنٹ اور ان دونوں اسامیوں میں سے ایک پر کبھی کوئی احمدی مامور نہیں ہوا۔ وزارت میں یا دوسرے ملکوں کی منٹیریل~ف۶~ اسامیوں کے لئے بھرتی سے مجھے کوئی تعلق نہیں ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے ممالک غیر میں ہمارے مشن کی منٹیریل اسامیوں پر صرف تین احمدی ہیں ان مین سے کسی ایک کی بھرتی سے مجھے کوئی مطلب نہیں تھا۔ ان میں سے دو تقسیم سے پہلے منٹیریل اسامیوں پر ملازم تھے اور میرا خیال ہے کہ تیسرے کو ملک کے باہر ہی بھرتی کیا گیا تھا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے اس کے سرکاری ملازم ہونے کے کافی دیر بعد تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ احمدی ہیں۔
جہاں تک دوسری تمام وزارتوں میں سرکاری ملازمتوں پر افسروں کے گریڈ کی بھرتی کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ یہ بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور میں نے کسی شخص کی ملازمت کے لئے خواہ وہ احمدی ہو یا غیر احمدی براہ راست یا بالواسطہ طور پر پبلک سروس کمیشن کے کسی رکن پر اثر ڈالنے کی کوشس نہیں کی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے مرکز یا صوبوں میں تقسیم سے قبل یا اس کے بعد پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین یا اس کا رکن احمدی نہیں ہوا۔
سوال:کیا وزارت صنعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل چوہدری بشیر احمد اور محکمہ خوراک کے جائنٹ سیکرٹری شیخ اعجاز احمد آپ کے دوست اور احمدی ہیں؟
جواب:جی ہاں! وہ میرے دوست اور احمدی ہیں۔ شیخ اعجاز احمد صاحب اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔
سوال:کیا اپ نے انہیں پہلے سرکاری ملازمت دلائی تھی؟
جواب:جی نہیں۔~ف۷~][۲۔ >فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں وزیر خارجہ پاکستان چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے مارشل لاء کے ایام میں مرزا ناصر احمد )صاحب( اور مرزا شریف احمد )صاحب( کی سزایابی کے اسباب کے متعلق عدالت کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے علم ہے ان پر یہ الزام تھے۔
مرزا ناصر احمد )صاحب( نے مارشل لاء کے ایک حکم پر عمل نہ کیا تھا اور اپنے اسلحہ کا اعلان نہ کیا تھا چونکہ ان کے پاس باقاعدہ اجازت نامہ موجود تھا لیکن ان کے مکان کی تلاشی لی گئی اور ان کی بیگم کے صندوق سے ایک مرصع خنجر برآمد کرلیا گیا۔ جو کہ ایک خاندانی نشانی کے طور پر موجود تھا کیونکہ ان کی بیوی کے والد کا تعلق مالیر کوٹلہ خوانین سے تھا۔ وہ نواب سر ذوالفقار علی مرحوم کے بڑے بھائی تھے اور نواب آف مالیر کوٹلہ سے ان کی قریبی رشتہ داری تھی۔ یہ خنجر شادی پر باپ نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اس بناء پر ان کی بیوی نے دوسرے جواہرات کے ساتھ یہ مرصع خنجر بھی اپنے صندوق میں رکھ چھوڑا تھا۔ مرزا ناصر احمد ایم اے )اوکسن( پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کو ۵ سالقید بامشقت اور دس ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی گئی۔ مرزا شریف احمد کی سزا کا پس منظر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ انہوں نے اپنے اسلحہ کی اطلاع دے دی تھی اور اس کا پرمٹ حاصل کر لیا تھا۔ ان کے مکان کی تلاش لی گئی و پریشر ان مینوفیکچرنگ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے۔ کمپنی کے پاس مینوفیکچرنگ کے لئے لائسنس موجود تھا۔ اس رجسٹرڈ مپنی کا دفتر ان کے مکان کے ایک کمرے میں تھا۔ پچھلے سال فوجی حکام کی طرف سے سنگینوں کا نمونہ پیش کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ انہوں نے حکم کی تعمیلکی لیکن بعدازاں یہ نمونہ اس رپورٹ کے ہمراہ واپس کر دیا گیا کہ جس قسم کی خصوصیات درکار تھیں یہ اس کے مطابق نہیں۔ اس رپورٹ میں نمونہ کی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا اور یہ نمونہ کے ساتھ منسلک تھی چنانچہ اس حالت میں المار سے جو کمپنی کے رجسٹرڈ دفتر میں موجود تھی یہ نمونہ برآمد کرلیا گیا اس نمونہ کی بناء پر مرزا شریف احمد کو ایک سال قید بامشقت اور دس ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی گئی۔۔۔۔۔ مجلس احرار کی طرف سے مسٹر مظہر علی اظہر نے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا انہوں نے احمدی ہال کراچی میں )دستاویز ڈی۔ ای۔ ۱۱۹( تقریر کی تھی۔
چوہدری ظفر اللہ خان نے جواب دیا میں نے کئی موقعوں پر جمعہ کا خطبہ دیا ہے بعض اوقات میں نے اپنی جماعت کے اجتماعات کو بھی خطاب کیا ہے۔ یہ رپورٹ امکانی طور پر صحیح نہیں کیونکہ اس میں دو ایک واقعات کو جن کا میں نے ذکر کیا غلط رنگ میں پیش کیا گیا اور جہاں تک اپنے عہدہ کے متعلق میرے رویہ کا تعلق ہے میں اسے ایک بہت بڑا اعزاز سمھجتا ہوں جو خداوند تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے یہ چیز قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر نہیں میں اسے ایک امانت تصور کرتا ہوں اور ذمہ داری بھی۔ جسے مین معمول نہیں سمجھتا اور دوسری طرف یہ بالکل واضح ہے کہ وزیراعظم اپنے کسی ساتھی سے استعفیٰ طلب کر سکتے ہیں جب یہ تحریک شروع ہوئی تو میں نے نہایت واضح لفظوں مین اس وقت )کے( وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو یہ بتایا تھا کہا گر وہ بار سمجھیں تو میں علیحدہ ہونے کے لئے ہر وقت تیار ہوں جہاں تک اس رپورٹ کا تعلق ہے اتنا حصہ بالکل صحیح ہے اور میری پوزیشن کو واضح کرتا ہے<۔~ف۸~
>مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش نے مجلس عمل کی طرف سے جرح کی۔
سوال:۱۹۴۷ء میں جب آپ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے جنیوا گئے تھے کہا جاتا ہے کہ عرب ڈیلی گیٹوں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ اپنے قیام میں چند دن کی توسیع کر دیں تو آپ نے انہیں کیا جواب دیا تھا؟
جواب:اس سوال کا اصطلاحی جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اسمبلی کا کوئی اجلاس ۱۹۴۷ء میں جنیوا مین منعقد نہ ہوا تھا۔ اجلاس نیویارک سے باہر منعقد ہوا تھا لیک سکس اور فلشنگ میڈوز ہیں۔ اس سوال میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اجلاس میں پیش ہوا۔ اس پر خوب بحث ہوئی اور کمیٹیوں میں اس پر آراء شماری بھی ہوئی۔ ان مین سے ایک سب کمیٹی کا میں صدر تھا۔ اجلاس کے خاتمہ پر عرب ریاستوں کے نمائندوں کو معلوم ہوا کہ میں اجلاس کے خاتمہ سے پہلے واپس جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں اجلاس کے خاتمہ تک وہاں رہوں میں اس وقت نواب بھوپال کا آئینی مشیر تھا۔ پاکستان کی حکومت کا میں رکن نہ تھا۔ درحقیقت بہت سا کام ختم ہو چکا تھا۔ پاکستانی ڈیلی گیشن کے دو ممبروں کو خود میں نے واپس پاکستان جانے کی اجازت دے دی تھی اگر میں اس وقت آجاتا تو بھی ہمارے ڈیلی گیشن کے دو تین ارکان وہاں تھے جو اس قسم کی رسمی کارروائی کی نمائندگی کر سکتے تھے جب میں وہاں تھا۔
مشرقی پنجاب میں ہولناک قسم کے فسادات شروع ہوئے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم توڑے گئے۔ قادیان کئی سال سے میرا گھر تھا۔ اس پر بھی حملہ کیا گیا۔ میرا گھر لوٹ لیا گیا۔ میری عدم موجودگی میں میری ایک ہی بہن کا انتقال ہوگیا۔ مجھ سے چھوٹا بھائی تپ دق کا شکار ہو رہا تھا۔ یہ سب باتیں تھیں جن کی بناء پر مجھے جلد آنا تھا۔
جب سے میں نواب بھوپال کا ملازم ہوا تھا میں نے اپنے وقت کا کافی حصہ پاکستان کے مفاد کے لئے وقف کیا۔ پہلے سرحدی کمیشن میں کام کیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی اسمبلی میں میں پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا۔ بھوپال میں میں نے بہت کم وقت صرف کیا۔
جب عرب ڈیلی گیٹوں نے مجھ سے یہ کہا کہ میں کچھ دیر اور قیام کروں تو میں نے نواب بھوپال اور قادیان کی صورت حالات پر پوری روشنی ڈالی۔ انہوں نے یہ تجویز کی کہ وہ نواب بھوپال اور صدر انجمن احمدیہ سے درخواست کریں۔ وہ مجھے وہاں رہنے کی ہدایت کریں چنانچہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر انہوں نے ان دو اصحاب سے اجازت حاصل کرلی تو کیا میں ٹھہروں گا؟ میں نے کہا میں غور کروں گا چنانچہ انہوں نے نواب بھوپال اور صدر انجمن احمدیہ کو تار ارسال کئے۔ ان دونوں نے یہ ہدایت کی کہ میں جلسہ کے اختتام تک وہاں رہوں چنانچہ میں وہاں رہا۔ جب میں واپس پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا بھائی موت کے دروازے پر ہے میں کچھ کر سکا تو اتنا کہ اس کا ہاتھ دبا کر اسے ہمیشہ کے لئے الوداع کہی۔۔۔۔۔ میرے نزدیک سوال یہ ہے کہ میں نے نواب بھوپال اور صدر انجمن امدیہ کی بجائے کیوں نہ پاکستان گورمنٹ سے مشورہ لینے کے لئے کہا اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا میں پہلے کہہ چکا ہوں میں نواب بھوپال کا ملازم تھا اور میری سرکاری ڈیوٹی وہاں لگائی گئی تھی۔ میرا خاندانی مفاد قادیان میں تھا اور اسے شدید نقصان پہنچا۔۔۔۔۔۔۔
سوال:کیا آپ نے عرب ڈیلی گیٹوں کو کہا تھا کہ جب وہ صدر انجمن احمدیہ کو تار دیں تو لفظ >امیر المومنین< لکھیں؟
جواب:جی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں نے گفتگو کے دوران میں اپنے طور پر یہ الفاظ استعمال کئے ہوں۔
سوال:کیا آپ انہیں بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں واقعی ایک >امیر المومنین<؟
جواب:جی نہیں۔
سوال:۱۹۵۱ء میں جب آپ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے امریکہ گئے تھے تو کیا آپ نے احمدیہ جماعت کی شائع کردہ تفسیر قرآن مجید کا ایک نسخہ صدر ٹرومین کو پیش کی تھی۔
جواب:میں ان دنوں واشنگٹن میں تھا۔ جب صدر ٹرومین نے قوم کے نام ایک پیام دیا تھا۔ اس کے دوسرے دن ٹرومین سے میری مالقات ہونے والی تھی چنانچہ اس مالقات میں`میں نے ان کی تقریر پر کچھ تبصرہ کیا اور ایک دو اصول کے بارے میں جن کی انہوں نے وکالت کی تھی میں نے کہا کہ اس سلسلے میں قرآن مجید کی کچھ آیتیں یاد آگئی ہیں میں نے انگریزی میں انہیں دو آیتیں سنا بھی دیں۔ صدر ٹرومین نے کہا کہ انہیں اس سے بڑی دلچسپی ہے اور وہ قرآن مجید میں یہ آیتیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے دوسرے دن قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کی ایک جلد انہیں بھجوا دی۔ یہ جلد جو جماعت )احمدیہ( کی شائع کردہ تھی میں نے واشنگٹن ہی سے حاصل کی تھی۔
سوال:روزنامہ >زمیندار< میں جو چٹھیاں شائع ہوئی ہیں ان پر اپنے پتہ میں آپ نے اپنے نام کے ساتھ >سر< کے خطاب کا استعمال کیا ہے؟
جواب:ڈاک کی تقسیم میں سہولت کے لئے ایسا کیا گیا تھا۔
سوال:کیا سردار عبدالرب نشتر نے کابینہ کے ایک اجلاس میں جو اگست ۱۹۵۲ء میں منعقد ہوا اور جس کی صدارت آپ نے کی۔ آپ کو یہ کہا تھا کہ آپ کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کے متعلق مذہبی تبلیغ کی شکایات موصول ہو رہی ہیں؟
جواب:جب میں کابینہ کے اجلاس میں پہنچا تو ایک سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ خواجہ ناظم الدین علیل ہیں اور وہ اجلاس میں شرکت نہ کر سکیں گے۔ انہوں نے مجھے ایک مشورہ دیا اور کہا خواجہ صاحب چاہتے ہیں کہ اسے کابینہ کے اجلاس میں مسودہ پیش کر کے منظور کرایا جائے میں نے اسے پڑھا اس میں صرف ایک فرقہ کا ذکر تھا اور وہ احمدی فرقہ تھا۔ یہ اس لحاظ سے غیر منصفانہ تھا کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس پر سردار عبدالرب نشتر نے فرمایا کہ اعلان میں یہ درج نہیں لیکن اس قسم کی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ میں نے اس پر جواب دیا کہ جہاں تک شکایت کا تعلق ہے یہ صرف ایک فرقہ کے خلاف ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر کسی اور فرقہ کے متعلق اس قسم کی شکایت ہو تو ہم اس میں ترمیم کرتے ہیں۔ میں نے اس پر انہیں کہا کہ جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت ہے جس کے متعلق حکومت کی پالیسی واضح ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم اس جماعت کارکن بنے گا وہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تو صرف پیش لفظ ہے ورنہ اعلان کا جو ہدایتی حصہ ہے وہ سب فرقوں کے متعلق ہے۔۔۔۔۔
سوال:اپ کو بائونڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے کس نے مقرر کیا تھا؟
جواب:مجھے قائداعظم نے بھوپال سے بلایا تھا اور کہا تھا کہ میں بائونڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کروں۔
سوال:کیا آپ نے بائونڈری کمیشن کے سامنے اپنے دلائل میں یہ کہا تھا کہ احمدی مسلمانوں سے الگ ایک فرقہ ہیں؟
جواب:جی نہیں جہاں تک مجھے یاد ہے بائونڈری کمیشن سے خطاب کے دوران میں اگر میں نے قادیان` احمدیہ تحریک یا احمدیہ فرقے کے متعلق کوئی ذکر کیا ہو تو وہ اس دلیل کو وزنی بنانے کے لئے تھا کہ ضلع گورداسپور کو مغربی پنجاب کا ایک حصہ ہونا چاہئے اور اسے پاکستان میں ہی ہونا ¶چاہئے۔
سوال:جہانگیر پارک میں آپ کی تقریر کے لئے >زندہ مذہب< کا موضوع کس نے منتخب کیا؟
جواب:میں نے خود۔
سوال:آپ نے یہ موضوع کیوں چنا؟
جواب:میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو دوسرے مذاہب سے نمایاں کرنے والی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں بنیادی تعلیمات کو تازہ رکھنے کے ذرائع اور قرآن سے اس قسم کے فلسفے کو جس کی ضرورت وقتاً فوقتاً ہو پیش کرتا ہے کسی اور مذہب میں یہ خصوصیت نہیں دوسرے مذاہب تو صرف انسانی تاریخ کی وقتی ضرورت کے لئے تھے۔
سوال:مولانا میکش نے اپنی جرح مین اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سامنے آپ عربوں کا مقدمہ پیس کرنا نہیں چاہتے تھے کیا پاکستان کے نمائندے کی یثیت سے آپ نے اقوام متحدہ مین اب تک کبھی ایسے معاملات میں کوئی دلچسپی لی ہے۔ جو دنیائے اسلام کے لئے کوئی اہمیت رکھتے ہوں؟
جواب:جس دن سے پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا ہے میں جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کی قیادت کرتا آ رہا ہوں۔ جب کبھی وہاں مسلمانوں کے عام مفاد کا مسئلہ آیا ہے مثلاً مسئلہ فلسطین۔ مسئلہ لیبیا۔ اربڑیا۔ سمالی لینڈ۔ مراکش اور تیونس ان تمام مسائل میں میں نے ذاتی دلچسپی لی اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی طرف سے ان ممالک کے مقدمات کی پیروی کو نہ صرف ان ممالک نے بلکہ دیگر تمام مسلم ممالک نے بھی سراہا ور اس کی تعریف بھی کی۔
سوال:سان فرانسسکو میں آپ نے جو تقریر کی تھی وہ آپ کو یاد ہے؟
جواب:جی ہاں۔
سوال:کیا آپ نے اس تقریر میں اسلام کے متعلق کچھ کہا تھا؟ اگر کچھ کہا تھا تو کیا اس تقریر میں ایک فرقہ واری رجحان کی جھلک نہ تھی؟
جواب:جاپانی معاہدے کا ایک پہلو جو ان ممالک میں بھی بحث و تمحیص کا موضوع بن گیا تھا۔ جو اس معاہدے کے حق میں تھے` وہ یہ تھا کہ جاپان سے بہت فیاضانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ایک یہ رجحان تھا کہ انسانی تاریخ میں ایک مفتوح دشمن سے امریکہ کے فیاضانہ سلوک انسانی تاریخ کا ایک بے مثال واقعہ قرار دیا جائے۔ اس پر میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ایک مفتوح دشمن کے ساتھ ایک فیاضانہ معاہدے کی سب سے درخشاں مثال وہ حسن سلوک ہے جو پیغمبر اسلام نے مفتوح قریش کے ساتھ معاہدہ مکہ کے موقع پر کیا تھا۔ میری اس تقریر کا نہ صرف ان مدبروں پر جو وہاں جمع تھے بلکہ سارے امریکہ پر گہرا اثر ہوا۔ کیونکہ یہ تقریر سارے امریکہ پر نہ صرف نشر کی جا رہی تھ بلکہ ٹیلی ویژن پر اس کارروائی کا منظر بھی دکھایا جا رہا تھا۔ اس صدا کی ایک بازگشت جو مجھ تک پہنچی اور جس کا احداث نعمت کے طور پر میں ذکر کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب اس معاملے پر آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی تو اپوزیشن پارٹی نے اس معاہدے پر دکھای ہوئی فیاضی کی طرف حکومت کو متوجہ کیا۔ جس کے جواب میں برسراقتدار پارٹی کے ایک رکن نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس موقعہ پر انہیں اس سپرٹ پر عمل کرنا چاہئے۔ جس پر پیغمبر اسلام نے فتح مکہ کے موقعہ پر عمل کیا تھ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ حوالہ میری تقریر ہی سے دیا گیا تھا۔
۱۹۵۱ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس پیرس میں میں نے جو تقریر کی تھی اس پر جماعت اسلامی کی نکتہ چینی کا میں جواب دینا چاہتا ہوں جس میں میں نے ایک برطانوی نو آبادی میں ایک احمدی کے ساتھ بدسلوکی کا شکوہ کیا تھا۔ میں نے مسلمانوں کے اس مفاد کا کوئی ذکر نہیں کیا جس میں مسلمانوں کے مفادات مغربی ممالک کے خلاف تھے۔ میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ میری اس تقریر کا زیادہ تر حصہ نو آبادیاتی نظام کے دونوں سیاسی اور اقتصادی پہلوئوں کی مذمت سے متعلق تھا۔ وہ مذمت بہت پرزور تھی اور اسے بڑے جوش سے ظاہر کیا گیا تھا اس مذمت کے سلسلے میں نو آبادیاتی نظام کی دفتریت کے تکبر کی مثال دیتے ہوئے میں نے ایک برطانوی نو آبادی میں ایک پاکستانی کے ساتھ بدسلوکی کی مثال دی۔
میں حلفیہ تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں اس وقت اپنے حافظے کو تازہ نہیں کر سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اس مین اس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ کہ وہ شخص احمدی تھا۔ بہرحال اس واقع کا ذکر صرف نو آبادیاتی نظام کی برائیوں کے اظہار کے لئے کیا گیا تھا<۔
>اسی اجلاس کے دوران میں مراکش اور تیونس کے مسئلے کو ایجنڈا میں شامل کرنے کا سوال پیش ہوا۔ اس موقع پر میری ہی تقریر سب سے نمایاں تھی جس میں میں نے امریکہ اور دیگر ان ممالک کے طرز عمل کی مذمت کی تھی جو ان مسائل کو ایجنڈا میں شامل کرنے کے خلاف تھے۔
مجھے خاص طور پر یہ بات بھی یاد ہے کہ میں نے جب سے یہ کہا کہ اگر ان مسائل پر غور کرنے سے انکار کیا گیا تو مراکش میں قتل و خون ہوگا۔ اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی مندوب پر ہوگی جس نے مجھ سے پہلے تقریر کی تھی۔ جس شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی تھی اس کے باعث امریکی مندوب کا رنگ زرد پڑ گیا تھا۔ ان حالات میں یہ کہنا بڑی نا انصافی کی بات ہے کہ میں نے ای احمدی کی وکالت کی جس کے ساتھ بدسلوکی ہوئی تھی مگر عام مسلمانوں کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی<۔
وکلائے احمدیت کے زوردار بیانات
سیدنا حضرت المصلح الموعود کے ایمان افروز عدالتی بیان کے بعد جس سے کمرئہ عدالت ہی میں نہیں پریس میں بھی احمدیت کا ملک گیر چرچا ہوا` علمی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت وکلائے احمدیت کے زوردار بیانات کو حاصل ہے۔
اس معزز عدالت میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے نمائندگی کی سعادت جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ )سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور( اور خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی پلیڈر امیر جماعت احمدیہ گجرات کو نصیب ہوئی۔
جناب شیخ بشیر احمد صاحب نے ۲۲/۲۳/۲۴ فروری ۱۹۵۴ء کو مفصل بیان دیا جس میں اخبار >ملت< لاہور کے نامہ نگار کے مطابق( آپ نے نہایت واشگاف الفاظ میں اپنے اس دعویٰ کے دلائل پیش کئے کہ یہ ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے کہ فسادات احرار نے کرائے تھے۔ نیز یہ کہ مطالبات مقصد کی دیانتداری پر مبنی نہیں تھے اور پاکستان کو ختم کرنے کے لئے مذہب کو آلہ کار بنایا گیا تھا اور جماعت اسلامی نے ایسا طریق کار اختیار کیا کہ اس کے اراکین اس بات کے قائل ہو جائیں کہ حکومت کا تختہ الٹ دینا ان کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مولانا مودودی اور ان کے پیرو پوری طرح سے محسوس کرتے تھے کہ تحریک جس نے۔۔۔۔۔۔۔ حکومت کی تساہلی اور بے عملی کی وجہ سے شدت اختیار کرلی تھی ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گی۔ اور ملک میں وسیع پیمانے پر ایسے ہولناک فسادات ہوں گے جو تقسیم سے پہلے کے ہندو مسلم فسادات سے بھی زیادہ سنگین ہوں گے۔ انہوں نے دولتانہ حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ نے تحریک کے خطرناک رخ کے امکانات کی طرف حکومت کی توجہ وقتاً فوقتاً مبذول کرائی۔ لیکن پہلے سے منصوبہ تیار کر کے چلائی جانے اور مذہب کے نام پر اٹھائی جانے والی تحریک کے محرکین کے خلاف کوئی مئوثر اقدام نہ کیا یا۔ نہ اشتعال انگیز پراپیگنڈے کے روکنے کے لئے کوئی کارروائی کی گئی۔ اور تحریک کے خطرناک مضمراتسے واقف ہونے کے باوجود شورش کو بڑھ جانے کا موقع دیا گیا۔ اور سزا پانے والے لیڈروں کی رہائی اور دفعہ ۱۴۴ ہٹا لینے کے باعث صورت حال بد سے بدتر ہوگئی۔ انہوں نے کہا مجھے نیک نیتی کے ساتھ یقین ہے کہ عام لوگ دلائل کے ساتھ قائل کئے جا سکتے تھے اور انہیں ان افسوسناک واقعات کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا جن کا منتہیٰ لاہور میں مارشل لاء کا نفاذ تھا۔ دراصل عوام کے مذہبی شعور کے محافظ ہونے کے دعویداروں نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے اس تحریک کو ہوا دی جس کی وجہ سے جان و مال کا نقصان ہوا پس احمدیوں پر الزام لگانا دراصل اپنے احساس گناہ کو معقول بنانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ آپ نے فرمایا احمدی جماعت کے ہر رکن کی تن من دھن سے یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنے مذہبی نظریات پر لے آئے۔ احمدی سچے اسلام کو پیش کرتے ہیں اور قرآن مجید نے ہر مومن کو حکم دیا ہے کہ وہ اس حق و صداقت کا مشعل بردار بن جائے جس کی تبلیغ حضرت رسول عربی~صل۱~ نے فرمائی اور جسے آنحضرتﷺ~ ہی نے دنیا میں پھیلایا تھا۔ اس مقصد کا حصول روحانی فتح کے سوا کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کا اصل مقصد عیسائیوں کو مشرف بہ اسلام کرنا ہے۔~ف۹~
تحریک احمدیت کے علم کلام کی حقانیت ثابت کرنے اور اعتراضات کے جوابات کی حقیقت واضح کرنے کا فریضہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم کے سپرد تھا جسے انہوں نے نہایت عمدگی اور پرشوکت اور پر اثر رنگ میں ادا کیا۔ >خالد احمدیت< کا بیان اپنے اندر اس درجہ گہری تحقیق اور غیر معمولی تفحص کا رنگ لئے ہوئے تھا کہ فاضل جج صاحبان ان کی قابلیت اور لیاقت پر عش عش کر اٹھے اور اپنی رپورٹ میں آپ کا نام لے کر آپ کا شکریہ ادا کیا بلکہ آپ کی نسبت لکھا کہ آپ نے >کتب قدیمہ کی تلاش و تجسس میں بڑے محنت کی ہے<۔~ف۱۰~خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس آپ کی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
>تحقیقاتی عدالت کے سلسلہ میں بھی انہوں نے ہمارے ساتھ چھ سات ماہ کام کیا۔ روزانہ گجرات سے لاہور آیا کئے اور آخری بحث میں بھی حصہ لیا۔ بحث کے لئے تحقیقاتی عدالت نے دوسروں کی نسبت سے ہمیں تھوڑا وقت دیا تھا۔ لیکن خادم صاحب مرحوم نے تھوڑے سے وقت میں نہایت قابلیت کے ساتھ دوسری پارٹیوں کے اعتراضات کے ایسے دندان شکن جواب دئیے کہ تحقیقاتی عدالت کے جج صاحبان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ تحقیقاتی عدالت کے صدر نے اس امر کا اظہار کیا کہ خادم صاحب نے بہت اچھی بحث کی ہے۔ تحقیقاتی عدالت کی مطبوعہ رپورٹ میں زیر عنوان >اسلامی اصطلاحات کا استعمال< ان کا ذکر کیا ہے<۔~ف۱۱~
جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء امیر جماعت احمدیہ لاہور جنہوں نے خود بھی اس طویل تحقیقات کے دوران میں اول سے آخر تک جماعت احمدیہ کے مقدمہ کی پیروی کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کر دیں اور جن کی بیش بہا امداد و اعانت کا اعتراف فاضل جج صاحبان نے اپنی مطبوعہ رپورٹ~ف۱۲~ میں بھی کیا۔ آپ اپنی چشم دید شہادت کی بناء پر تحریر فرماتے ہیں:
>اپنا نقطئہ نظر پیش کرنے میں مکرم ملک صاحب مرحوم نہایت نڈر تھے اور ان کی زبان اور نطق میں اللہ تعالیٰ نے بے اندازہ برکت رکھی تھی۔ فسادات پنجاب )۱۹۵۳ء( کے تحقیقاتی کمیشن کے روبرو دینی حصہ کو پیش کرنے میں جس بے لوث اور جر¶ات مندانہ انداز میں آپ نے جماعت احمدیہ کی وکالت کی وہ فاضل ججان سے بھی خراج عقیدت حاصل کر گئی جس کا انہوں نے اپنی رپورٹ میں نہایت زوردار الفاظ میں ذکر کیا یہ۔ جتنی دیر ملک صاحب تقریر کرتے رہے تمام سامعین گویا مسحور ہی رہے<۔~ف۱۳~
اسی طرح جناب ثاقب صاحب زیروی مدیر ہفت روزہ >لاہور< نے خادم۔ >مجاہد احمدیت< کے زیر عنوان ایک مضمون میں لکھا:
>ایک متعصب غیر احمدی نے بھری بزم میں کہا تھا کہ >اسلام پر اعتراض کا جواب دے کر خادم کا چہرہ یوں کھل اٹھتا ہے جیسے گلاب کا پھول<۔
۔۔۔۔ پھر یاد آئے اینٹی احمدیہ فسادات کی انکوائری کے وہ دن جب اس شیر کی دھاڑ سن کر مخالف سر نیو ڈھائے بیٹھے تھے اور شہباز احمدیت بات بات پر ان کے فرسودہ دلائل کے تانے بانے کو توڑ مروڑ کر پرے پھینک رہا تھا۔ ماحول دم بخود تھا اور جج صاحبان اس کے علم کی وسعتوں پر حیران تھے<۔~ف۱۴~
ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کے بیان کا ایک مجمل سا خلاصہ اخبار >ملت< لاہور نے اپنی ۲۸/ فروری اور یکم مارچ ۱۹۵۴ء کی اشاعتوں میں سپرد قلم کیا جو حسب ذیل ہے:
۱۔ >مولانا میکش کے بعد صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے اپنے دلائل دینا شروع کئے۔ اور خدا کی قسم کھاتے ہوئے کہا کہ ان کا فرقہ اور اس کے بانی یہ یقین رکھتے ہیں کہ محمد عربی سے برابری کرنے کا دعویٰ کرنے والا کوئی بھی آدمی کافر ہے۔
احمدیوں کا عقیدہ
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ احمدی مرزا غلام احمد کو اور اپنے آپ کو آنحضرتﷺ~ کا جو خاتم النبیین ہیں غلام سمجھتے ہیں انہوں نے کہا احمدی ختم نبوت کے عقیدے میں یقین رکھتے ہیں اگرچہ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اس کی ترجمانی مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔
ربوہ کے وکیل نے عدالت کے سامنے اس امر کا اظہار کیا کہ فسادات کی وجہ سے مذہب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس سے انکار نہیں ہے کہ احمدیوں اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں عقیدہ کے اختلافات موجود ہیں انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا حقیقت کا ثبوت یہی ہے کہ احمدی ایک الگ فرقہ بتاتے ہیں۔
مسٹر خادم نے کہا یہ حقیقت کہ بعض لوگ عقیدہ کے معاملہ میں احمدیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے اور قتل کرنے کا جواز مہیا نہیں کرتی انہوں نے کہا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ نہ ہی کوئی مذہب یا ضمیر اس کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے یہ تھیوری پیش کی کہ جب تک بعض دلچسپی رکھنے والے۔۔۔۔۔۔ مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے مذہبی اختلافات کو استعمال نہ کریں اس وقت تک خطہ میں امن و امان کو نقصان نہیں پہنچ سکتا اور فسادات نہیں ہو سکتے۔
مسٹر خادم نے کہا کہ گزشتہ ستر برس میں ہندوستان اور پاکستان میں کسی غیر احمدی کی طرف سے کسی ایک احمدی کو نہیں مارا گیا۔ یا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان کوئی جھگڑا اور تنازعہ نہیں ہوا جبکہ دوسرے فرقوں میں جو اب احمدیوں کی مخالفت میں متحد ہیں کئی بار فساد ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت اس لئے اور بھی زیادہ واضح ہوتی ہے اور اس کی طرف زیادہ نظر جاتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ عدالت کے سامنے شکایات میں اشتعال انگیز تحریری چیزیں پیش کی گئی ہیں وہ دسیوں برس پرانی ہیں۔
وکیل نے کہا یہ بات انسانی فہم سے بالا ہے کہ فروری اور مارچ ۱۹۵۳ء کو یکایک تمام دوسرے فرقوں پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ احمدیوں کا پراپیگنڈا اور تبلیغ اور خود احمدی اس قدر اشتعال انگیزی کر رہے ہیں کہ ان کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مسٹر خادم نے کہا کہ یہ خیال صحیح ہے کہ اسلامی تصورات کے مطابق مملکت پاکستان کے قیام نے تمام نظریہ بدل ڈالا ہے اور یہ کہ تقسیم کے بعد مسلمانوں کے دوسرے فرقے دوسرے معاملات میں اس قدر مصروف تھے کہ وہ اس مسئلے پر جسے احمدیہ فتنہ کہا اجتا ہے زیادہ توجہ صرف نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا تقسیم کے فوراً بعد جب حکومت اور عوام کے سر پر مسئلہ کشمیر اور مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل کا بوجھ پڑا ہوا تھا اس وقت شیعوں اور سنیوں میں کم از کم چار بار فسادات ہوئے۔
وکیل نے کہا کہ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ خیال نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد حقائق پر ہے کہ احمدی اور دوسرے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امن سے نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے یہ خیال پیش کیا کہ حالیہ ہنگاموں کی وجوہات کچھ اور ہی ہوں گی۔
مسٹر خادم نے کہا کہ شروع میں جب احرار کو اپنی طاقت کے متعلق شک تھا وہ یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ ان کو اور احمدیوں کو اپنے اپنے جلسے کرنے کی اجازت دی جائے لیکن جونہی ان کو کافی امداد حاصل ہوگئی۔ انہوں نے اپنا مئوقف تبدیل کرلیا۔
انہوں نے کہا جہاں تک ختم نبوت کے عقیدہ کا تعلق ہے احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف صرف اس عقیدہ کی تشریح کے سلسلے میں ہے۔
وکیل نے کہا:عقیدے کے سلسلے میں احمدیوں کا نقطئہ نظر دوسرے مسلمانوں کے لئے نیا نہیں۔ اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے مسلمان عالموں کی بہت سی تحریریں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان تحریروں کے متعلق چاہے کچھ بھی کہا جائے بہرحال یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ان کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھا جاتا رہا۔ اور یہ کہ برسوں سے ان کے خیالات کو برداشت کیا جاتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا احمدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک امتی نبی بن جائے گا جبکہ دوسرے فرقوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک نبی کا دوبارہ ظہور ہوگا جو امتی ہوگا۔ ابھی انہوں نے اپنے دلائل ختم نہیں کئے تھے کہ عدالت کا اجلاس ختم ہوگیا۔~۱۵~]ybod [tag
۲۔ >لاہور ۲۶/ فروری۔ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے آج یہاں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت مین کہا کہ متعدد مسلمان علماء نے ماضی میں ختم نبوت کی وہی تشریح کی تھی جو احمدیوں نے پیش کی ہے۔
اپنے دعویٰ کے ثبوت میں انہوں نے رسول اکرم~صل۱~ کے عہد سے دور حال تک علماء کی تحریروں کا حوالہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ جن علماء نے یہ رائے ظاہر کی تھی وہ احمدی نہیں ان کی رائے کے اظہار پر انہیں کافر نہیں قرار دیا گیا۔
مسٹر خادم نے کہا کہ مسیلمہ پر حملہ اس لئے نہیں کیا گیا تھا کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک اسلامی ریاست میں اس نے دوسری باتوں کے علاوہ ۴۰ ہزار افراد کی ایک فوج تیار کی تھی اور کئی مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ جن لوگوں نے ختم نبوت کی مختلف تشریح پیش کی ان کے پاس اس کے اسباب موجود تھے اور قرآن مجید مین ایسی آیتیں موجود ہیں جو ایسی تشریح کی بنیاد بن سکتی ہیں<۔~ف۱۶~
>لاہور۔ ۲۷/فروری۔ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے آج یہاں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں اس الزام کی تردید کی کہ مرزا غلام احمد صاحب نے قرآن` اسلام اور رسول کریم~صل۱~ کے فرمان کے خلاف جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔
مسٹر خادم کے دلائل کے بعد فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کارروائی ختم ہوگئی۔
انہوں نے کہا یہ خیال کرنا بالکل غلط ہوگا کہ میرے فرقے نے یہ پوزشن فسادات کے بعد اختیار کی ہے۔ اس سلسلہ میں میرا فرقہ عام مسلمانوں کے ساتھ مکمل اتفاق رکھتا ہے کہ کسی کو قرآن مجید اور رسول کریم~صل۱~ کا کوئی فرمان منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
مسٹر خادم نے کہا کہ احمدیہ فرقہ گذشتہ تیس چالیس برس سے اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن واضح کر رہا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب اور انکے پیروکار اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت خود اختیاری کے لئے جنگ کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جماعت کے خلاف پروپیگنڈا جاری رہا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل نے کہا کہ جہاد کے تصور کو بڑی کثرت سے غلط طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور اس کا مطلب یہ لیا جاتا رہا ہے کہ مسلمان مذہبی اختلافات کو جہاد شروع کرنے اور ان لوگوں کو ہلاک کرنے کے لئے جو مسلمانوں کے عقائد سے اتفاقاً متفق نہیں ہیں کافی وجہ سمجھتے ہیں۔
>نزول مسیحؑ< کے عقیدے کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر خادم نے کہا کہ قرآن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ )علیہ السلام( ابن مریم ایک طبعی موت مرے تھے اور یہودیوں کے عقیدے کے برعکس ان کی موت صلیب پر واقع نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہودی مانتے ہیں کہ عیسیٰ )علیہ السلام( ابن مریم کی موت صلیب پر واقع ہوئی کیونکہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر خدا کا قہر نازل ہوا تھا۔ اور وہ صلیب پر ایک ذلت آمیز موت مرے۔ انہوں نے کہا کہ یہودی نظریہ بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن مجید اور حدیث نبوی میں نبی کے دوبارہ ظہور کی طرف اشارہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا فرقہ مانتا ہے کہ ایک امتی نبی بن جائے گا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل نے کہا کہ احمدیوں کے خلاف یہ الزام ہے کہ انہوں نے )بعض اسلامی( اصطلاحیں استعمال کر کے اسلام کی پیروڈی کی ہے۔~ف۱۷~بالکل غلط ہے یہ اصطلاحات بعض مسلمان اولیاء کے لئے استعمال کی جاتی رہیں ہیں۔ لیکن عام مسلمانوں نے اسے کبھی اشتعال انگیز خیال نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران میں عام مسلمانوں کا سلوک بہت شاندار رہا۔ اور انہوں نے جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنے احمدی ہمسایوں کی مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ جماعت کے خلاف جھوٹے اور معاندانہ پراپیگنڈے کے ذریعے یہ فسادات معدودے چند لوگوں نے کرائے۔ احمدیوں کے خلاف دوسرے )الزامات میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے اس کے برعکس مسلمانوں کے بعض فرقے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے رہے ہیں۔
مسٹر خادم نے کہا کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی نے جن کا موقف یہ تھا کہ احمدیوں کے بارے میں مطالبات پر تمام علماء متفق تھے۔ احمدیوں کے نظرئیے کی نقل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فرق صرف یہ تھا کہ جماعت اسلامی تشدد کے ذریعے سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں یقین رکھتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کو اتنا عزیز تھا کہ وہ اس کی تشریح کے اختلاف تک برداشت نہیں کر سکتے تھے تو اس سلسلہ میں گزشتہ کئی صدیوں سے بعض مشہور مسلمان علماء کا اختلاف کیوں برداشت کیا جاتا رہا تھا؟
وکیل نے کہا کہ مسلمانوں کا ہر فرقہ کسی نہ کسی اصول پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے لیکن انہیں اقلیت قرار دینا کبھی خیال نہیں کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ گزشتہ ستر برس سے احمدیوں کو بھی مسلمانوں کا ایک فرق سمجھا جاتا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی تعجب خیز ہے کہ یکدم یہ کہا جانے لگا کہ احمدیوں کو بالکل ہی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل نے یہ بتانے کے لئے کہ مرزا غلام احمد صاحب کو وفات پر انہیں شاندار خراج تحسین پیش کیا گیا` بعض مسلم اخبارات پڑھ کر سنائے<۔~ف۱۸~
‏]bus [tagتحقیقاتی عدالت میں بعض دوسرے بیانات
تحقیقاتی عدالت میں جن اصحاب نے بیانات دئیے ان میں صوبائی و مرکزی حکام` سرکاری و غیر سرکاری وکلاء صحافی` علماء سیاسی لیڈر اور عوام غرضیکہ ملک کے ہر طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بیانات کا ایک حصہ جہاں عدالت اور ملک کے سامنے بہت سی نئی معلومات و اکتشافات کا موجب بنا وہاں بعض بیانات سے کئی اہم اور دلچسپ امور بھی منظرعام پر آئے۔ مثلاً:
۱۔ حکومت پنجاب کے وکیل جناب چوہدری فضل الٰہی صاحب~ف۱۹2]~ f[rt نے اشارٰہ بتایا کہ:
>مسٹر دولتانہ کی اس سیاست بازی کا مقصد صرف داخلی نہ تھا بلکہ بین الاقوامی سیاسیات سے بھی متعلق تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ خواجہ ناظم الدین کو اقتدار کی کرسی سے اتار پھینکیں خود اپنی قیادت میں ایک مرکزی حکومت قائم کریں اور پاکستان کو ایک کمیونسٹ مملکت بنادیں<۔~ف۲۰~
۲۔ اخبار >زمیندار، لاہور کے ایڈیٹر مولانا اختر علی صاحب کا بیان
>انہوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ مسلم پارٹیز کنونشن کا اجلاس مجلس احرار نے طلب کیا تھا۔ اور کنویننگ کمیٹی میں بھی احرار کی غالب اکثریت تھی۔ مولانا نے یہ بھی بیان کیا کہ تحریک ختم نبوت میں احرار پیش پیش تھے کیونکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شہرت بحال کرنا چاہتے تھے<۔~ف۲۱~
س:
کیا آپ کے دعویٰ اسلام سے یہ بات مطابقت رکھتی ہے کہ پروپیگنڈا کی خاطر موقع بہ موقع جھوٹ بولا جائے؟
ج:
ہر سیاست دان جھوٹ بولتا ہے۔
س:
کیا آپ نے یہ جھوٹ سیاست دان کی حیثیت سے بولا تھا یا ایک مسلمان کی حیثیت سے؟
ج:
ایک مسلمان کے نزدیک مذہب اور سیاست دو مختلف چیز نہیں ہیں۔ بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔
س:
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ایک مسلمان سیاست دان جھوٹ بولے تو وہ مسلمان کی حیثیت سے جھوٹ بولتا ہے؟
ج:
جب آپ سیاستدانوں کو جھوٹ بولنے کا حق دیتے ہیں تو علماء کو اس حق سے محروم کیوں رکھتے ہیں؟~<ف۲۲~
۳۔ جماعت اسلامی کے سابق لیڈر مولانا امین احسن اصلاحی کا بیان
>انہوں نے مسلمانوں کو دو زمروں میں تقسیم کیا۔ سیاسی مسلمان اور حقیقی مسلمان۔ اس کے بعد انہوں نے ان دس عناصر کی تفصیل بیان کی جو کسی کو سیاسی مسلمان بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ اور کہا کہ وہ اگر ان تمام شرائط کو پورا کرے تو وہ اسلامی ریاست کے تمام شہری حقوق کا مستحق ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا عقیدہ خدا کی وحدانیت پر ہو۔ رسول اللہﷺ~ کو خاتم النبیین مانتا ہو اور وہ زندگی کے تمام مسائل کے متعلق ان کے حکم کو آخری سمجھتا ہو۔ یہ اصول مانتا ہو کہ ہر خیر اور ہر شر کو خدا پیدا کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ قیامت پر )ہو( اور قرآن کو خدا کا آخری صحیفہ سمجھتا ہو۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہئے۔ زکٰوٰہ ادا کرنی چاہئے۔ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھنی چاہئے۔ اسلامی معاشرے کے تمام قواعد ظاہرہ پر عمل کرنا اور روزہ رکھنا چاہئے۔
گواہ نے کہا کہ مذکورہ بالا شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری نہ کی جائے تو متعلقہ شخص سیاسی مسلمان نہیں رہ جاتا۔
بعد میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی شخص ان دس اصولوں پر عقیدہ رکھتا )ہو( تو یہ اس کے مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے قطع نظر اس حقیقت کے کہ وہ ان پر عمل کرتا ہے یا نہیں<۔~ف۲۳~
>حکومت پنجاب کی طرف کی طرف سے مسٹر فضل الٰہی کی جرح کے جواب میں گواہ نے کہا کہ جون اور جولائی کے مہینے میں تحریک کے سلسلے میں کچھ بدنظمیاں ہوئی تھیں۔ لیکن جماعت کو اس پر بہت زیادہ تشویش ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ خیال کیا گیا تھا کہ ایک دفعہ عوام اگر دھمکی یا تشدد سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئے تو اس ملک میں پھر کوئی چیز پرامن طریقے پر کرنی ناممکن ہو جائے گی۔ یہ بھی محسوس کیا گیا کہ یہاں تشدد پر اترنے کا رجحان موجود ہے۔ ہم نے مجلس عمل میں اس لئے شمولیت کی تھی کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ چونکہ مجلس میں شورش پسند عنصر موجود ہے۔ اور ہماری جماعت کے لئے یہ ضروری تھا کہ اس عنصر کو تشدد کے ذرائع استعمال کرنے سے باز رکھا جائے<۔~ف۲۴~
۴۔ چیف ایڈیٹر >زمیندار< مسٹر اے آر شبلی
شبلی صاحب نے یہ چشم دید واقعہ بیان کیا: >احرار اور میاں ممتاز محمد خاں کے درمیان ایک >شریفانہ< معاہدہ کرنے کے سوال پر میری موجودگی میں بحث کی گئی تھی۔ احرار کی طرف سے صاحبزادہ فیض الحسن اور سید عطاء اللہ اللہ شاہ بخاری اور دوسری طرف سے مولانا اختر علی خاں نے باتیں کی تھیں۔ سمجھوتہ یہ ہوا تھا کہ احرار احمدیوں کے خلاف تحریک جاری رکھیں گے۔ اور مسٹر دولتانہ صوبے میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ اس کے بدلے میں احرار کو انتخابات اور دوسرے معاملات میں مسٹر دولتانہ کی حمایت کرنی تھی۔ یہ معاہدہ غالباً جولائی ۱۹۵۲ء میں مسٹر دولتانہ کی مری سے واپسی کے بعد ہوا تھا<۔~ف۲۵~
۵۔ جناب حمدی نظامی صاحب مدیر روزنامہ نوائے وقت لاہور کا بیان
ملک کے نامور صحافی جناب حمید نظامی صاحب کے بیان کا ایک حصہ:
سوال: کیا آپ مطالبات کے حق میں تھے؟
جواب: جی نہیں۔ ہرگز نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ان مطالبات کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔
مسٹر حمید نظامی نے کہا میرا جواب وہی ہے جو میں نے مسٹر غیاث الدین احمد ہوم سیکرٹری اور خان قربانی علی خان انسپکٹر جنرل پولیس کو دیا تھا کہ اگر میں نے صاف اور واضح لفظوں میں ان مطالبات کے خلاف لکھا ہوتا تو مجھے کسی تحفظ کی توقع نہ تھی۔ اور میرا دفتر محکمہ تعلقات عامہ کے اشارہ پر جلا کر راکھ کر دیا ہوتا۔ جو اس تحریک کو ہوا دے رہا تھا۔
سوال: اگر آپ نے ان مطالبات کی مخالفت کی ہوتی تو کیا آپ کے اخبار کی اشاعت کم نہ ہوتی؟
جواب: میں نے کبھی اخبار کی فروخت کو اپنی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔
سوال: کیا آپ کو کسی ذاتی نقصان کا خدشہ تھا؟
جواب: جی ہاں مجھے کئی خط ملے جن میں مجھے قتل کی دھمکی دی گئی تھی۔
سوال: کیا آپ نے اس دھمکی کا کسی سے ذکر کیا۔ مثال کے طور پر وزیراعظم۔ مسٹر گورمانی اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے؟
جواب: جی ہاں میں نے اس کا ذکر مسٹر گورمانی اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے کیا۔
سوال: اپ ان مطالبات کے خلاف کیوں تھے؟
جواب: میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ مطالبات بعض سیاسی طالع آزمائوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کئے تھے۔
سوال: کیا آپ مطالبات سے متفق ہیں؟
جواب: اب کوئی مطالبہ ہی نہیں۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں اقلیت قرار دیا جائے؟
جواب: اب کوئی مطالبہ ہی نہیں۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ احدی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں اقلیت قرار دیا جائے؟
جواب: ہرگز نہیں۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ وزیر خارجہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کو کلیدی ملازمتوں سے علیحدہ کر دیا جائے؟
جواب: ایسی تجویز تو ہندو شہریوں کے متعلق بھی پیش نہیں کرنی چاہئے<۔~ف۲۶~
‏tav.14.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب کا بیان
مسٹر غیاث الدین احمد صاحب ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب نے کہا:
>اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ قادیانیوں کے خلاف تحریک کے مبلغ و محرک احرار تھے۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ عوام کے مذہبی جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے اس سیاسی غرض سے کام لے رہے تھے تاکہ وہ سیاسی طور پر دوبارہ زندہ ہوجائیں۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ختم رسالت پر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ لیکن احرار تحریک پھیلانا اور یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ تحریک صرف انہیں کی تخلیق نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان اس کے پیچھے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں انہوں نے اس موضوع کو اپنی واحد سیاسی اجارہ داری بنا رکھا تھا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ وہ سیاسی طور پر مٹ جائیں گے تو انہوں نے اس مسئلہ کو عوام کی دلچسپی کا سوال بنا دیا۔ گواہ کے بیان کے مطابق ان کا خیال یہ تھا کہ اگر مطالبات منظور کر لئے گئے تو وہ اپنی ذاتی فتح کا دعویٰ کریں کیونکہ وہ اس مسئلہ کے بانی تھے لیکن کوئی نقصان پہنچا تو ہر شخص اس میں شرک ہوگا<۔~ف۲۷~
پانچواں باب
تحقیقاتی عدالت کی کارروائی یکم جولائی ۱۹۵۳ء سے شروع ہو کر ۲۸ فروری ۱۹۵۴ء تک جاری رہی۔ کل ۱۱۷ اجلاس ہوئے۔ جن میں ۹۲ اجلاس شہادتوں کی سماعت اور اندراج کے لئے مخصوص رہے۔ شہادت ۲۳۔ جنوری ۱۹۵۴ء کو ختم ہوئی اور اس مقدمے پر بحث کا آغاز یکم فروری کو اور اختتام ۲۸/ فروری ۱۹۵۴ء کو ہوا۔ اس تحقیقات کا ریکارڈ تحریری بیانات ۳۶۰۰ صفحات اور شہادت اور بحث کے دوران میں کثیر التعداد چٹھیاں بھی وصول ہوئیں جو کئی کئی صفحوں پر لکھی ہوئی تھیں۔ اور چند کی ضخامت تو سو صفحے سے بھی زیادہ تھی۔ عدالت نے ایک ایک چٹھی کو نہایت احتیاط سے پڑھا~ف۲۸~ اور پانچ ہفتوں مین اپنے نتائج فکر مرتب کئے اور رپورٹ قلمبند کی جو انگریزی میں ۲۱/ اپریل ۱۹۵۴ء کو شائع کر دی گئی۔ یہ رپورٹ بڑی تقطیع کے ۲۸۷ صفحات اور تقریباً ایک لاکھ الفاظ پر مشتمل تھی۔ بعد مین اس کا اردو ایڈیشن بھی شائع کیا گیا۔
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اور جماعت احمدیہ کی بریت و مظلومیت
اگرہ حالات سراسر ناموافق تھے اور ماحول انتہائی مخالف تھا مگر خداتعالیٰ کے فضل و کرم اور حضرت مصلح موعود کے تحریری و تقریری بیانات کے نتیجہ میں معزز عدالت کے سامنے صداقت بہت حد تک آشکار ہوگئی۔ حق کا بول بالا ہوا۔ جماعت احمدیہ کی بریت اور مظلومیت ثابت ہوئی اور اس کے مخالفین کے مظالم اور خفیہ منصوبے پوری طرح بے نقاب ہوگئے۔ اور ہوئے بھی حکومت پنجاب کے ذریعے جس نے سرکاری سطح پر آٹھ ماہ تک فسادات پنجاب کی تحقیقات پر لاکھوں روپیہ اپنے بجٹ سے صرف کیا اور پھر فاضل جج صاحبان کی مستند رپورٹ کے اردو اور انگریزی ایڈیشن زرکثیر سے چھپوا کر ملک بھر میں شائع کئے۔
یہ رپورٹ درحقیقت ۱۹۵۳ء کے فسادات کی مفصل تاریخ ہے۔ جس پر اس دور کے پاکستانی پریس نے فاضل ججوں کو زبردست خراج تحسین ادا کیا۔ ملک کے صحافیوں اور دانشوروں نے بالاتفاق اس کو ایک تاریخی دستاویز تسلیم کیا۔~ف۲۹~
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ جماعت احمدیہ کی مظلومیت اور اس کے خلاف الزامات کی بریت سے پر ہے مثلاً فاضل ججوں نے احمدیوں کے خلاف صوبائی حکومت کے افسوس ناک طرز عمل کا نقشہ کھینچتے ہوئے اپنی رائے حسب ذیل الفاظ میں دی:
>احراریوں سے تو ایسا برتائو کیا گیا گویا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیا۔ احراریوں کا رویہ اس بچے کا سا تھا جس کو اس کا باپ کسی اجنبی کو پیٹنے پر سزا کی دھمکی دیتا ہے اور وہ بچہ یہ جان کر کہ اسے سزا نہ دی جائے گی اجنبی کو پھر پیٹنے لگتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ دوسرے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے باپ محض پریشان ہو کر بیٹے کو مارتا ہے لیکن نرمی سے تاکہ اسے چوٹ نہ لگے<۔~ف۳۰~
ایک افواہ اور اس کی تردید
فاضل ججوں نے ان چالوں کا بھی ذکر کیا ہے جو شورش پسندوں نے حکام کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے اختیار کر رکھی تھی مثلاً ایک یہ حال بیان کی کہ:
>یہ افواہ پھیلائی گئی کہ احمدی موٹر کاروں میں سوار ہوکر اندھا دھند لوگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں<۔
فاضل جج اس افواہ سے متعلق لکھتے ہیں:
>یہ بیان کہ بعض احمدی فوجی وردیاں پہنے ایک جیپ میں سوار ہو کر لوگوں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ہمارے سامنے موضوع ثبوت بنایا گیا اور اس کی تائید میں متعدد گواہ پیش کئے گئے۔ اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک پراسرار گاڑی میں بعض نامعلوم آدمی اس دن شہر میں گھومتے رہے لیکن ہمارے سامنے اس امر کی کوئی شہادت نہیں کہ اس گاڑی میں احمدی سوار تھے یا وہ گاڑی کسی احمدی کی ملکیت تھی<۔~ف۳۱~
جماعت احمدیہ کے امام اور دوسرے بزرگوں کو احراری لیڈروں نے فحش اور اخلاق سوز گالیاں دیں۔ اس کا ذکر فاضل جج صاحبان نے درج ذیل الفاظ میں کیا ہے:
>ایک اردو اخبار مزدور ملتان سے شائع ہوتا ہے جس کا ایڈیٹر سید ابو ذر بخاری ہے جو مشہور احراری لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیٹا ہے۔ اس اخبار کی غالب توجہ صرف احمدیوں کے خلاف تحریک پر مرتکز رہی ہے۔ اس نے اپنی اشاعت مئورخہ ۱۳/ جون ۱۹۵۲ء میں ایک مضمون شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کے امام کے متعلق عربی خط میں ایک ایسی پست اور بازاری بات لکھی کہ ہماری شائستگی ہمیں اس کی تصریح کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر یہ الفاظ احمدی جماعت کے کسی فرد کے سامنے کہے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کسی کی کھوپڑی توڑ دی جاتی تو ہمیں اس پر ذرا بھی تعجب نہ ہوتا۔ جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ پرلے درجے کے مکروہ اور مبتذل ذوق کا ثبوت ہیں۔ اور ان مین اس مقدس زبان کی نہایت گستاخانہ تضحیک کی گئی ہے جو قرآن مجید اور نبی کریم~صل۱~ کی زبان ہے<۔~ف۳۲~
اس زمانہ میں >آزاد< احراریوں کا ترجمان تھا۔ فاضل جج صاحبان اس اخبار کی شرمناک اشتعال انگیزیوں کا ذکر کر کے لکھتے ہیں:
>آزاد< احراریوں کا اخبار ہے جس کے ایڈیٹر ماسٹر تاج الدین انصاری ہیں۔ اس اخبار نے اپنے آغاز ہی سے اپنے کالموں میں احمدیوں اور ان کے عقائد اور ان کے لیڈروں کے خلاف نہایت بازاری` ناشائستہ اور زہریلی مہم جاری کر رکھی تھی۔ چونکہ حکومت پنجاب نے اس کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے کوئی قدم نہ اٹھایا تھا اس لئے مرکزی حکومت نے اپنی چٹھی نمبری 1۔Poll ۵۱/۱/۴۴ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۵۲ء میں اس اخبار کے بعض مضامین کے تراشے منسلک کر کے ان کی طرف حکومت پنجاب کی توجہ مبذول کرائی۔۔۔۔ لیکن اس اخبار کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی اور حکومت پنجاب نے اپنی چٹھی ڈی۔ او نمبری ۵۲ PR ۷۸۸ مورخہ ۳۰/ اگست ۱۹۵۲ء میں مرکزی حکومت کو صرف یہ اطلاع دے دی کہ اخبار مذکور کو شدید تنبیہہ کر دی گئی ہے<۔~ف۳۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت کا ایک اہم انکشاف
فاضل جج صاحبان نے اپنی رپورٹ میں گوجرانوالہ کے حالات بیان کرتے ہوئے یہ اہم انکشاف کیا کہ جولائی ۱۹۵۲ء کی ایک کانفرنس میں ایک مقرر نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے قتل پر اکسایا اور احمدی کو قتل کرنا موجب رضائے الٰہی قرار دیا۔ رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں:
>جولائی ۱۹۵۲ء میں ایک اور کانفرنس ہوئی جس میں صاحبزادہ فیض الحسن نے یہ اعلان کیا کہ کس احمدی کو قتل کرنا رضائے الٰہی کا موجب ہے جب کانفرنس ختم ہوئی تو مولانا اختر علی خان کے اعزاز مین ایک دعوت چائے دی گئی جس مین ڈپٹی کمشنر اور مسلم لیگی لیڈر بھی شامل ہوئے بعد میں احمدیوں نے ڈپٹی کمشنر سے شکایت کی کہ اس کانفرنس میں ایک مقرر نے حاضرین کو امام جماعت احمدیہ کے قتل پر اکسایا تھا<۔~ف۳۴~
یہ اشتعال انگیزیاں جو معلوم نہیں شورش کے ایام میں کس کس شکل میں اور کس کس مقام پر کی گئیں پنجاب کی مسلم لیگ حکومت نے ان کو ذرہ برابر کوئی حیثیت نہ دی` بببالاخر رنگ لائیں اور ۱۰/ مارچ ۱۹۵۴ء کو یعنی تحقیاتی عدالت میں بیان کے صرف دو ماہ کے اندر حضرت مصلح موعود پر ایک بدبخت نے بیت مبارک ربوہ میں نماز عصر کے بعد چاقو سے حملہ کر دیا۔ اس دردناک حادثہ کی تفصیل تاریخ احمدیت کی ۱۵ ویں جلد میں آ رہی ہے۔
مارسل لاء پر منتج ہونے والے کوائف
وہ کوائف کیا تھے جو ۶/ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء کے نفاذ کا موجب ہوئے؟؟ فاضل جج صاحبان نے اس ضمن میں لکھا:
>یہ امر تمام جماعتوں کے نزدیک مسلم ہے کہ ۶/ مارچ کو جو کوائف موجود تھے ان میں حالات کو فوج کے حوالے اور سول اقتدار کو فوج کے ماتحت کر دینا بالکل ناگزیر ہو چکا تھا۔ سول کے حکام جو عام حالات میں قانون و انتظام کے قیام کے ذمہ دار ہوتے ہیں کاملاً بے بس ہو چکے تھے اور ان میں ۶/ مارچ کو پیدا ہونے والی صورت حالات کا مقابلہ کرنے کی کوئی خواہش اور اہلیت باقی نہ رہی تھی۔ نظم حکومت کی مشینری بالکل بگڑ چکی تھی اور کوئی شخص مجرموں کو گرفتار کر کے یا ارتکاب جرم کو روک کر قانون کو نافذالعمل کرنے کی ذمہ داری لینے پر آمادہ یا خواہاں نہ تھا۔ انسانوں کے بڑے بڑے مجمعوں نے جو معمولی حالات میں معقول اور سنجیدہ شہریوں پر مشتمل تھے ایسے سرکش اور جنوں زدہ ہجوموں کی شکل اختیار کرلی تھی جن کا واحد جذبہ یہ تھا کہ قانون کی نافرمانی کریں اور حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کردیں۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے کے ادنیٰ اور ذلیل عناصر موجودہ بدنظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح لوگوں قتل کر رہے تھے۔ ان کی املاک کو لوٹ رہے تھے اور قیمتی جائیداد کو نذر آتش کر رہے تھے محض اس لئے کہ یہ ایک دلچسپ تماشا تھا۔ یا کسی خیالی دشمن سے بدلہ لیا جا رہا تھا۔ پوری مشینری جو معاشرے کو زندہ رکھتی ہے پرزہ پرزہ ہو چکی تھی۔ اور مجنون انسانوں کو دوبارہ ہوش میں لانے اور بے بس شہریوں کی حفاظت کرنے کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ سخت سے سخت تدابیر اختیار کی جائیں گویا مارشل لاء کے نفاذ کی براہ راست ذمہ دار فسادات تھے<۔~ف۳۵~
صوبائی حکومت اور سیاسی لیڈروں کا طرز عمل
اس کھلی بغاوت کے دوران صوبائی حکومت اور لاہور کے سیاسی لیڈروں کا طرزعمل کیا تھا؟ اس پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ حسب ذیل روشنی ڈالتی ہے:
>۵/ مارچ کی سہ پہر کو گورنمنٹ ہائوس میں شہریوں کا جو اجلاس ہوا اس میں کوئی لیڈر کوئی سیاسی آدمی اور کوئی شہری اس پر آمادہ نہ ہوا کہ شہریوں سے عقل و ہوش اختیار کرنے کی اپیل پر دستخط کرے۔ سب خوفزدہ تھے کہ ایسا کرنے سے وہ عوام میں نامقبول ہو جائیں گے۔ بلوائی ہجوم نے کوتوالی کا محاصرہ کر رکھا تھا اور ۵/ مارچ کی شام کو وزراء و حکام کے اجلاس مین جو فیصلے کئے گئے ان کا مطلب پولیس نے یہ سمجھا کہ گولی چلانا بالکل بند کر دیا جائے۔ لہذا بلوائی ہجوم نے کوتوالی کا محاصرہ جاری رکھا۔ اور ۶/ مارچ کی صبح کو حکومت کی مشینری میں پورے سقوط کے آثار نظر آنے لگے۔ یہاں تک کہ حکومت نے طوائف الملوکی کے آگے کھلم کھلا ہتھیار ڈال دینے کا اعلان کر دیا۔ اس دن صبح کو چیف منسٹر کا >بیان< محض >میکیاولیت< کا ایک نمونہ تھا۔ لیکن یہ چال کامیاب نہ ہو سکی۔ صورت حالات بالکل قابو سے باہر ہوگئی اور شہریوں نے محسوس کیا کہ ان کے جان و مال کو سخت خطرہ درپیش ہے الخ<۔~ف۳۶~
>سہ پہر کے جلسہ میں گورنر اور چیف منسٹر کے ایماء پر انسپکٹر جنرل پولیس نے صورت حالات کی مفصل کیفیت بیان کی۔ ان کے بعد دو اور مقررین یعنی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مسٹر احمد سعید کرمانی ایم ایل اے نے تقریریں کیں۔ مولانا نے صورت حالات کو حکومت اور عوام کے درمیان خانہ جنگی سے تعبیر کیا اور بتایا کہ جب تک حکومت عوام کے مطالبات کے متعلق غور کرنے پر آمادگی ظاہر کرے گی میں کسی اپیل میں شریک نہیں ہو سکتا<۔~ف۳۷~
انہی کے متعلق ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ:
>جماعت اسلامی کے لیڈر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے حکومت ان کی سرتوڑ کوششوں میں جو وہ ۵/ مارچ کو فسادات کے روکنے کے لئے کر رہی تھی کسی قسم کا تعاون پیش نہ کیا۔۔۔۔ اس کے برعکس مولانا نے سرکشانہ رویہ اختیار کیا تمام واقعات کا الزام حکومت پر عائد کیا اور فسادی عناصر کو >تشدد کا شکار< کہہ کر ان سے عام ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ گورنمنٹ ہائوس میں انہوں نے جو رویہ اختیار اس کے متعلق جو شہادت پیش ہوئی ہے اس سے ہم یہی اثر قبول کر سکتے ہیں کہ وہ پورے نظام حکومت کے انہدام کی توقع کر رہے تھے اور حکومت کی متوقع پریشانی پر بغلیں بجا رہے تھے<۔~۳۸~
>اس نے ان فسادات کو فرو کرنے کے لئے جو نہایت سرعت سے نہایت تشویش انگیز صورت اختیار کر رہے تھے قوت کا استعمال کیا۔ سید فردوس شاہ کو ۴ کی شام کو ایک غضب ناک ہجوم نے مسجد وزیر خاں کے اندر یا باہر قتل کر دیا۔ یہ بعد میں ہونے والے واقعات کا محض اک پیش خیمہ تھا لیکن اس حادثے کے بعد بھی جماعت اسلامی نے نہ اظہار تاسف کیا نہ اس وحشیانہ قتل کی مذمت میں ایک لفظ کہا بلکہ اس کے برعکس اس جماعت کے بانی نے آگ اور خون کے اس ہولناک ہنگامے کے درمیان >قادیانی مسئلہ< کا بم پھینک دیا<۔~ف۳۹~
فسادات کی ذمہ داری
تحقیقاتی عدالت کے بنیادی فرائض میں یہ شامل تھا کہ وہ تحقیق و تفتیش کے بعد رائے قائم کرے کہ فسادات کی ذمہ داری کس جماعت یا فرد پر عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے فاضل جج صاحبان نے اگرچہ بعض واقعات کی طرف اشارہ کر کے یہ لکھا کہ:
>ان کے خلاف عام شورش کا موقع خود انہیں کے طرزعمل نے بہم پہنچایا<۔iq] ¶~[tagف۴۰~
مگربایں ہمہ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ فیصلہ دیا:
>احمدی براہ راست فسادات کے لئے ذمہ دار نہ تھے کیونکہ فسادات حکومت کے اس اقدام کا نتیجہ تھے جو حکومت نے اس پروگرام کے خلاف کیا تھا جو ڈائریکٹ ایکشن کی قرارداد کے ماتحت آل مسلم پارٹیز کنونشن نے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا<۔~ف۴۱~
اس کے مقابل فاضل ججوں نے اپنی تحقیقات کی بناء پر مندرجہ ذیل جماعتوں یا اداروں کو فسادات پنجاب کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا:
)۱( مجلس اہرار )۲( جماعت اسلامی )۳( آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن کراچی )۴( آل مسلم پارٹیز کنونشن لاہور )۵( تعلیمات اسلامی بورڈ کراچی کے ممبر )۶( صوبائی مسلم لیگ )۷( مرکزی حکومت )۸( محکمئہ اسلامیات )۹( اخبارات
مطالبات کا بچہ
فاضل جج صاحبان نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا:
>خواجہ ناظم الدین نے اپنی شہادت میں ایک نہایت موزوں تشبیہہ استعمال کی ہے۔ اور شکایت کی ہے کہ مسٹر دولتانہ چاہتے تھے کہ میں >ننھے کو لئے رہوں< اگر مطالبات کو ایک ننھے بچے سے تشبیہہ دی جائے۔ تو ذمہ داری کے پورے موضوع کو ایک فقرے میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً احرار نے ایک بچہ جنا جسے انہوں نے متبنیٰ بنانے کے لئے علماء کی خدمت میں پیش کیا۔ علماء نے اس کا باپ بننا منظور کرلیا۔ لیکن مسٹر دولتانہ نے سمجھ لیا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر پنجاب میں شرارت کرے گا لہذا انہوں نے اس کو ایک نہر میں بہا دیا۔ جو میر نور احمد کی مدد سے کھو دی گئی تھی۔ اور جس کو پانی اخباروں نے اور خود سٹر دولتانہ نے مہیا کیا تھا۔ جب یہ بچہ حضرت موسیٰ کی طرح بہتا ہوا خواجہ ناظم الدین تک پہنچا تو انہوں نے دیکھا۔ کہ بچہ خوبصورت تو ہے۔ لیکن اس کے چہرے پر ایک چین جبین اور ایک غیر معلوم سی ناگواری نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کو گود میں لینے سے انکار کیا۔ اور پرے پھینک دیا۔ اس پر بچے نے ایڑیاں رگڑنا اور شور مچانا شروع کر دیا۔ اس شور نے اس کی پیدائش کے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور خواجہ ناظم الدین اور مسٹر دولتانہ دونوں کو موقوف کرا دیا۔ یہ بچہ ابھی زندہ ہے اور راہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی آئے اور اسے اٹھا کر گود میں لے لے۔ اس مملکت خداداد پاکستان مین سیاسی ڈاکوئوں۔ طالع آزمائوں اور گمنام اور بے حیثیت آدمیوں۔ غرض سب کے لئے کوئی نہ کوئی روزگار موجود ہے۔ ہمارے سامنے صرف دو ایسے آدمی ہیں` جنہوں نے اس قسم کا روزگار قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ یعنی سردار بہادر خاں وزیر مواصلات اور مسٹر حمید نظامی ایڈیٹر >نوائے وقت< انہوں نے اس بچے کو اور اس کے تمام نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا<۔~ف۴۲~
رپورٹ کے اختتامی الفاظ
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ مندرجہ زیل فقرات پر ختم ہوتی ہے ہمارا خیال ہے کہ یہ مطالبات بغیر کسی مذہبی احتیاط کے بغیر امن عامہ کو خطرے میں ڈالے اور بغیر حسیات عامہ کو صدمہ پہنچائے مسترد کئے جا سکتے تھے۔ لیکن ہمارے نزدیک قانون و انتظام کی صورت حالات کے مقاصد کے لئے ان کا جواب دینا بالکل ضروری نہ تھا۔ وہ صورت حالات تو ایک سادہ کم امتناعی کے نفاذ ہی سے بہت بہتر ہوگئی تھی )گو وہ حکم بہت ناکافی تھا( لیکن جب جولائی ۱۹۵۲ء کے بعد احرار اور علماء کے ہر قول و فعل کی طرف سے کامل بے پروائی کا رویہ اختیار کرلیا گیا` تو وہ صورت حالات پھر بگڑتی چلی گئی۔ بلکہ اس کے برعکس چیف منسٹر کی ان تقریروں کی وجہ سے یہ بگاڑ اور بھی زیادہ ہوگیا۔ جن میں انہوں نے علی الاعلان یہ خیال ظاہر کیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔
اخبارات نے یقیناً ڈائریکٹر تعلقات عامہ کی حوصلہ افزائی سے شورش کی آگ کو ہوا دی اور ہم ڈاکٹر قریشی کے اس خیال سے متفق ہیں کہ مسٹر دولتانہ ہرگز اس امر سے بے خبر نہ ہو سکتے تھے۔ کہ اخبارات کیا کر رہے ہیں۔ اردو کے چار اخباروں کو ان کے ہزاروں پرچوں کے عوض بڑی بڑی رقمیں دی گئیں اور وہ پرچے بھی شاید خریدے نہ گئے۔ اور یہ سب کچھ ایک پرانی پالیسی کی تعمیل میں کیا گیا۔ کہ حکومت کی حمایت کرنے والے اخباروں کی سرپرستی کی جائے اور اگرچہ یہی اخبارات سب سے زیادہ شورش انگیزی کر رہے تھے۔ لیکن جولائی ۱۹۵۲ء میں ان کے معاہدوں کی تجدید کر دی گئی اور مسٹر دولتانہ کو اس کا علم تھا دو لاکھ روپے کی رقم جو اسمبلی نے ناخواندہ بالغوں کی تعلیم کے لئے منظور کی تھی۔ مسٹر دولتانہ کے احکام کے ماتحت ان چار اخباروں کی خریداری کیلئے منتقل کر لی گئی۔ اور کہا گیا کہ اس سکیم کو خفیہ رکھا جائے۔ ڈائریکٹر نے نہایت خیرہ چشمی سے ہمارے سامنے بیان کیا کہ یہ سکیم خواندگی کو ترقی دینے کے لئے نہیں بلکہ خاص قسم کے اخباروں کی امداد کے لئے وضع کی گئی تھی۔ >زمیندار< باوجود اس امر کے کہ وہ جولائی ۱۹۵۲ء کے بعد بھی جب ڈاکٹر قریشی نے مسٹر دولتانہ سے شکایت کی تھی` برابر نفرت کی تلقین و اشاعت کرتا رہا۔ گویا مامور من اللہ سمجھا جاتا رہا اور اس کے خلاف اقدام اس وقت تک ملتوی ہوتا رہا۔ جب آخر اس التواء کی کوئی گنجائش نہ رہی۔ کیونکہ مرکز نے سخت شکایت کی تھی۔ احراریوں کے آرگن >آزاد< کی طرف مرکز نے بار بار صوبائی حکومت کو توجہ دلائی اور صوبائی حکومت نے ہر دفعہ محض تنبیہہ پر اکتفا کیا۔
مجلس عمل کے چیلنج کو دونوں میں سے کسی حکومت نے بھی سنجیدگی سے قابل توجہ نہ سمجھا۔ خواجہ ناظم الدین آخری لمحے تک اسی امید میں رہے کہ غیب سے کوئی اچھا سامان ہو جائے گا۔ اور صوبائی حکومت مطمئن رہی کہ شورش کا آغاز کراچی میں ہوگا۔
آخرکار جب الٹی میٹم رد کر دیا گیا۔ تو پوری صورت حالات کو بالکل تھیٹر کے ایک پرامن تماشے کی طرح سمجھا گیا۔ جس مین مطمئن سامعین کی دلچسپی کے لئے سٹیج پر جلوس نکالے اور نعرے لگائے جا رہے ہوں۔ لاہور مین جلوس قریب قریب روزانہ نکلتے ہیں۔ اور کوئی شخص ان کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ جرگے بہت ہو رہے تھے۔اور کارروائی بالکل مفقود تھی` پولیس بھی موجود تھی اور فوج بھی موجود تھی۔ اور جیسا کہ آفیسر نے کہا ہر شخص صورت حالات کے متعلق گہرے غور و خوض میں مصروف تھا اور ہر شخص کو معلوم تھا۔ کہ کیا کرنا چاہئے۔ ہر شخص محسوس کر رہا تھا۔ کہ فوج خاصا کام انجام دے سکتی تھی۔ لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھا: کہ ایسا کیوں نہ ہوا<۔
>بعض کہتے ہیں کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ دوسرے کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ لوگ یونہی قیاسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔ تو کہہ دے کہ میرا خدا بہتر جانتا ہے )کہف(
ہمیں یقین واثق ہے کہ اگر احرار کے مسئلے کو سیاسی مصالح سے الگ ہوکر محض قانون و انتظام کا مسئلہ قرار دیا جاتا تو صرف ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس ان کے تدارک کے لئے کافی تھے۔ چنانچہ وہ طاقت جسے انسانی ضمیر کہتے ہیں۔ ہمیں یہ سوال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کہ آیا ہمارے سیاسی ارتقاء کے موجودہ مرحلے پر قانون و انتظام کا مسئلہ اس جمہوری >ہم بستر< سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جسے وزارتی حکومت کہتے ہیں۔ اور جس کے سینے پر ہر وقت کا بوس سوار رہتا ہے۔ لیکن اگر جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ قانون و انتظام کو سیاسی اغراض کے ماتحت کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہی علیم و خبیر ہے کہ کیا ہوگا اور یہاں ہم رپورٹ کو ختم کرتے ہیں<۔~ف۴۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اور احراری الزامات کا جائزہ
احرار لیڈر ملک میں جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لئے جو الزامات جماعت احمدیہ پر مسلسل عائد کر رہے تھے۔ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ان کا جائزہ بھی لیا گیا۔ مثلاً رپورٹ میں لکھا ہے:
>احراری مقررین کئی دفعہ اپنی تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ مرزا محمود احمد اور چوہدری ظفر اللہ خاں کی غداری ہی کی وجہ سے ضلع گورداسپور بھارت میں شامل ہوگیا اور پاکستان کو نہ مل سکا<۔~ف۴۴~
فاضل ججوں نے اس الزام کو سراسر جھوٹا قرار دیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا:
>احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ بونڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفراللہ خاں نے جنہیں قائداعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خاں نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی۔
یہ حقیقت بائونڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلے سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے<۔~ف۴۵~
۱۹۵۳ء کی ساری شورش >تحفظ ختم نبوت< کے نام پر اٹھائی گئی تھی۔ فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں جماعت احمدیہ کا ذکر کر کے لکھا:
>ہمارے سامنے جو مئوقف اختیار کیا گیا ہے وہ واضح طور پر یہ ہے کہ مرزا غلام احمد اپنے آپ کو محض اس لئے نبی کہتے تھے کہ ان کو ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے نبی کر کے مخاطب کیا تھا۔ وہ کوئی نیا قانون یا ضابطہ نہیں لائے۔ انہوں نے اصلی اور پرانی شریعت میں نہ کوئی تنسیخ کی ہے نہ اضافہ کیا ہے۔ اور مرزا صاحب کی وحی پر ایمان نہ لانے سے کوئی شخص خارج از اسلام قرار نہین دیا جا سکتا<۔~ف۴۶~
فاضل ججوں نے مسئلئہ وفات و حیات مسیحؑ کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ درج کیا ہے کہ:
>مسیحؑ صلیب پر نہیں` بلکہ عام حالات میں طبعی موت مرے تھے۔ ان کے خصائل رکھنے والا ایک اور آدمی موعود تھا۔ چنانچہ وہ مرزا غلام احمد کی شخصیت میں ظہور کر چکا ہے۔ وہ نامور علماء و ائمہ کی کئی تحریرات اپنے اس عقیدہ کی تائید میں پیش کرتے ہیں کہ روز قیامت سے پیشتر جو مسیح موعود ظاہر ہونے والا تھا خود مسیح نہیں بلکہ مثیل مسیح ہوگا<۔~ف۴۷~
مدت سے یہ مکروہ پراپیگنڈا بھی کیا جا رہا تھا کہ معاذ اللہ احمدی جہاد اسلامی کے منکر ہیں۔ اور یہ کہ بانئی جماعت احمدیہ نے اس جہاد کو جو قران و حدیث سے ثابت ہے اور اسلام کی روح رواں ہے منسوخ کر دیا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے اس بارے میں بالوضاحت لکھا کہ:
>جہاں تک عقیدہ جھاد کا تعلق ہے احمدیوں کا خیال یہ ہے کہ جس جہاد کو جھاد بالسیف کہتے ہیں وہ صرف اپنے دفاع میں جائز ہے اور مرزا غلام احمد )صاحب( نے اس مسئلہ پر اپنا خیال پیش کرتے ہوئے محض ایک عقیدہ مرتب کرلیا ہے جو قرآن مجید ہی کی متعدد آیات پر مبنی اور براہ راست اسی سے ماخوذ ہے )فاضل ججوں نے وہ آیات بھی اس سے قبل نقل کر دیں۔ ناقل( اور مرزا صاحب قرآن مجید کے کسی قاعدے یا کسی ہدایت کو منسوخ و موقوف کرنے کے مدعی نہیں ہیں<۔~ف۴۸~
غیر احمدی علماء نے عدالت میں جہاد کے متعلق حضرت بانئی جماعت احمدیہ کے بعض اقوال و اقتباسات پیش کئے تھے۔ فاضل ججوں نے ان کا ذکر کر کے لکھا:
>احمدیوں کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جو الفاظ و تصریحات استعمال کی گئی ہیں ان میں تنسیخ کا مفہوم نہیں بلکہ قرآن مجید کے ایک عقیدے کی تعبیر و توجیہہ ہے جو صدیوں سے غلط فہمی کا شکار بنا رہا ہے اور بہرکیف ان الفاظ کی تعبیر دوسرے لوگ کچھ بھی کریں احمدیوں نے اس کا مطلب ہمیشہ یہی سمجھا ہے کہ ان میں کوئی نیا عقیدہ رائج نہیں کیا گیا۔ بلکہ اسی اصلی اور ابتدائی عقیدے کا اعادہ ہے جو قرآن مجید میں موجود ہے اور مرزا غلام احمد )صاحب( نے صرف پرانے عقیدے کی پاکیزگی کو میل کچیل سے پاک کر دیا۔ جماعت احمدیہ نے اس سلسلہ میں >یضع الحرب< کی حدیث بھی پیش کی ہے اور کہا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی تحریرات میں کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا۔ بلکہ اس حدیث کے مطابق صرف قتال کو معطل کر دیا ہے۔ یہ نکتہ بے حد اہم ہے<۔~ف۴۹~
جماعت احمدیہ اپنے قیام کے آغاز ہی سے یہ عقیدہ پیش کرتی آ رہی ہے کہ اسلام آزادئی فکر کا علمبردار ہے اور اس میں محض ارتداد کی سزا ہرگز قتل نہیں۔ عدالت میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کے رسالہ >الشہاب< کو بڑی اہمیت دی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے۔ فاضل ججوں نے جماعت احمدیہ کے نظریہ کی پرزور تائید کرتے ہوئے لکھا:
>ارتداد کے لئے سزائے موت بہت دور رس متعلقات کی حامل ہے۔ اور اس سے اسلام مذہبی جنونیوں کا دین ظاہر ہوتا ہے جس میں حریت فکر مستوجب سزا ہے۔ قرآن تو بار بار عقل و فکر پر زور دیتا ہے۔ رواداری کی تلقین کرتا ہے اور مذہبی امور میں جبر و اکراہ کے خلاف تعلیم دیتا ہے لیکن ارتداد کے متعلق جو عقیدہ اس کتابچے میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ آزادئی فکر کی جڑ پر ضرب لگا رہا ہے۔ کیونکہ اس میں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ جو شخص پیدائشی مسلمان ہو یا خود اسلام قبول کر چکا ہو وہ اگر اس خیال سے مذہب کے موضوع پر فکر کرے کہ جو مذہب اسے پسند آئے اس کو اختیار کرے تو وہ سزائے موت کا مستوجب ہوگا۔ اس اعتبار سے اسلام کامل ذہنی فالج کا پیکر بن جاتا ہے۔ اور اگر اس کتابچہ کا یہ بیان صحیح ہے کہ عرب کے وسیع رقبے بارہا انسانی خون سے رنگین ہوئے تھے تو اس سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ عین اس زمانے میں بھی جب اسلام عظمت و شوکت کے نقطئہ عروج پر تھا اور پورا عرب اس کے زیرنگیں تھا اس ملک میں بے شمار ایسے لوگ موجود تھے جو اس مذہب سے منحرف ہوگئے تھے اور انہوں نے اس کے نظام کے ماتحت رہنے پر موت کو ترجیح دی تھی<۔~ف۵۰~
وزیر داخلہ کا جنہوں نے حکومت پنجاب کو اس کتابچہ کی ضبطی کا مشورہ دیا تھا اور جو خود بھی دینی امور میں خاص مہارت رکھتے ہیں ذکر کر کے فاضل جج لکھتے ہیں کہ:
‏iq] gat[انہوںنے >ضرور یہ سوچا ہوگا کہ اس کتابچے کے مصنف نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ اس نظیر پر مبنی ہے جو عہد نامہ عتیق کے فقرات ۲۶`۲۸ میں مذکور ہے اور جس کے متعلق قرآن کی دوسری سورٰہ کی چونویں۵۴ آیت میں جزوی سا اشارہ کیا گیا ہے۔ اس نتیجے کا اطلاق اسلام سے ارتداد پر نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ قرآن مجید میں ارتداد پر سزائے موت کی کوئی واضح آیت موجود نہین اس لئے کتابچے کے مصنف کی رائے بالکل غلط ہے بلکہ اس کے برعکس ایک تو سورئہ کافرون کی چھ۶ مختصر آیات میں اور دوسری سورٰہ کی آیت لا اکراہکی تہہ میں جو مفہوم ہے اس سے وہ نظریہ بالکل غلط ثابت ہوتا ہے جو >الشھاب< میں قائم کیا گیا ہے<۔
نیز لکھا:
>سورئہ کافرون صرف تیس۳۰ الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کی کوئی آیت چھ۶ الفاظ سے زیادہ کی نہیں۔ اس سورت میں وہ بنیادی خصوصیت واضح کی گئی ہے جو کردار انسانی میں ابتدائے آفرینش سے موجود ہے۔ اور >لا اکراہ< والی آیت مین جس کا متعلقہ صرف نو الفاظ پر مشتمل ہے ذہن انسانی کی ذمہ واری کا قاعدہ ایسی صحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بہتر صحت ممکن نہیں۔ یہ دونوں متن جو الہام الٰہی کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں` انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے اس اصول کی بنیاد و اساس ہیں جس کو معاشرئہ انسانی نے صدیوں کی جنگ و پیکار اور نفرت و خونریزی کے بعد اختیار کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ یہ انسان کے اہم ترین بنیادی حقوق میں سے ہے لیکن ہمارے علماء و محققین اسلام کو جنگجوئی سے کبھی الگ نہیں کریں گے<۔~ف۵۱~
اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کے حقوق اور علماء
مخالف علماء چونکہ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دے کر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو وزارت خارجہ سے اور دوسرے احمدیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے اس لئے فاضل عدالت کے سامنے یہ اہم نکتہ بھی زیر غور آیا کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کیا حیثیت حاصل ہوگی؟ آیا انہیں وہی حقوق شہریت حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو ہوں گے؟ اور انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق ہوگا یا نہیں؟ فاضل جج لکھتے ہیں:
اگر ہم اسلامی دستور نافذ کریں گے تو پاکستان میں غیر مسلموں کا مئوقف کیا ہوگا؟ ممتاز علماء کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کی اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کی حیثیت ذمیوں کی سی ہوگی اور وہ پاکستان کے پورے شہری نہ ہوں گے کیونکہ ان کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ وضع قوانین میں ان کی کوئی آواز نہ ہوگی۔ قانون کے نفاذ میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور انہیں سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہ ہوگا<۔~ف۵۲~
فاضل جج مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی کی شہادت سے متعلقہ فقرات درج کر کے لکھتے ہیں:
>پس اس عالم دین کی شہادت کی رو سے پاکستان کے غیر مسلم نہ تو شہری ہوں گے نہ انہیں ذمیوں یا معاہدوں کی حیثیت حاصل ہوگی<۔~ف۵۳~
امیر شریعت احرار جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفادار ہو۔ اسی طرح چار کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی مملکت کے وفادار شہری ہوں<۔~ف۵۴~
اس بیان پر فاضل جج لکھتے ہیں:
>یہ جواب اس نظرئیے کے بالکل مطابق ہے جو ہمارے سامنے پرزور طریق پر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اگر پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دستور کی بنیاد مذہب پر رکھے تو یہی حق ان ملکوںکو بھی دینا ہوگا۔ جن میں مسلمان کافی بڑی اقلیتوں پر مشتمل ہیں یا جو کسی ایسے ملک میں غالب اکثریت رکھتے ہیں جن میں حاکمیت کسی غیر مسلم قوم کو حاصل ہے<۔~ف۵۵~
پس جب پاکستان کی اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کا یہ مئوقف ہوگا تو ردعمل کے طور پر اس کے بعض نتائج ان مسلمانوں پر ضرور اثر انداز ہون گے جو غیر مسلم مملکتوں میں آباد ہیں۔ اس لئے عدالت نے علماء سے یہ سوال کیا کہ اگر پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ شہریت کے معاملات میں مسلموں سے مختلف سلوک کیا جائے۔ تو کیا علماء کو اس امر پر اعتراض ہوگا؟
مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیتہ العلماء پاکستان نے نے یہ جواب دیا کہ ہندوئوں کو جو ہندوستان میں اکثریت رکھتے ہیں۔ ہندو دھرم کے ماتحت مملکت قائم کرنے کا حق ہے اور اگر اس نظام حکومت میں منوشاستر کے ماتحت مسلمانوں سے ملیچھوں یا شودروں کا سا سلوک کریں تو ان پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
اسی طرح مولانا مودودی صاحب نے کہا:
>یقیناً مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیا جائے اور انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعاً نہ دئیے جائیں<۔~ف۵۶~
۲۔ میاں طفیل محمد قیم جمات اسلامی کے متعلق رپورٹ کہتی ہے کہ:
>اس گواہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے۔ کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے ملک کی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو آسامیاں پیش بھی کرے۔ تو ان کا فرض ہوگا کہ ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیں<۔~ف۵۷~
۳۔ غازی سراج الدین صاحب منیر نے جب یہ جواب دیا کہ ہمسایہ ملک اپنے سیاسی نظام کو اپنے مذہب پر مبنی قرار دے سکتا ہے۔ تو عدالت نے اس سے سوال کیا۔
سوال:کیا آپ ان کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں۔ کہ وہ تمام مسلمانان ہند کو شودر اور ملیچھ قرار دے دیں اور انہیں کسی قسم کا شہری حق نہ دیں۔
جواب:ہم انتہائی کوشش کریں گے۔ کہ ایسی حرکت سے پہلے ہی ان کی سیاسی حاکمیت ختم کر دی جائے۔ ہم ہندوستان کے مقابلے میں بہت طاقتور ہیں۔ ہم ضرور اتنے مضبوط ہوں گے کہ ہندوستان کو ایسا کرنے سے روک دیں<۔
جب غازی صاحب نے عدالت کے سوال پر یہ جواب دیا کہ تبلیغ اسلامی مذہبی فرائض میں سے ہے اور مسلمانان ہند کا بھی فرض ہے کہ علی الاعلان اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔ اور ان کو اس کا حق حاصل ہونا چاہئے تو عدالت نے سوال کیا۔
سوال>:اگر ہندوستانی مملکت مذہبی بنیاد پر قائم کر دی جائے اور وہ اپنے مسلم باشندوں کو تبلیغ مذہب کے حق سے محروم کر دے تو کیا ہوگا؟
جواب:اگر ہندوستان کوئی ایسا قانون وضع کرے گا تو چونکہ میں تحریک توسیع پر ایمان رکھتا ہوں۔ اس لئے ہندوستان پر حملہ کر کے اس کو فتح کرلوں گا۔ اس پر عدالت نے یہ ریمارک لکھا ہے:
>گویا مذہبی وجوہ کی بناء پر امتیازی سلوک کی باہم مساوات کا یہ جواب ہے<۔ پھر فاضل ججوں نے اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی ہے۔
>ہمارے سامنے جس نظرئیے کی حمایت کی گئی ہے۔ اس کو اگر ہندوستان کے مسلمان اختایر کرلیں تو وہ مملکت کے سرکاری عہدوں سے کاملاً محروم ہو جائیں گے اور صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ان کا یہی حشر ہوگا جہاں غیر مسلم حکومتیں قائم ہیں۔ مسلمان ہر جگہ دائمی طور پر مشتبہ ہو جائیں گے۔ اور فوج میں بھرتی نہ کئے جائیں گے۔ کیونکہ اس نظریہ کے مطابق کسی مسلم ملک اور کسی غیر مسلم ملک کے درمیان جنگ ہونے کی صورت میں غیر مسلم ملک کے مسلم سپاہیوں کے لئے کوئی چارہ نہیں کہ یا تو مسلم ملک کا ساتھ دیں یا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں<۔~ف۵۸~
فاضل ججوں کو نہایت افسوس سے ان کے دائرہ نگاہ کی تنگی کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھنا پڑا:
>علماء نے ہم سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ )اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے آنسو بہانا تو ایک طرف رہا آنکھ تک نہیں جھپکی کہ جب تک ہمارے خاص نمونے کا اسلام یہاں رائج ہے۔ ہم کو اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کا کیا حشر ہوگا صرف ایک مثال سن لیجئے۔
>امیر شریعت نے کہا >باقی ۶۴ کروڑ )یہ عدد ان کا اپنا ہے( کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا چاہئے۔۔۔۔ لہذا جن لوگوں کو صرف یہیں کی کھیتیوں کی نہیں بلکہ چین اور پیرو کی فصلوں کی دیکھ بھال کرنی ہے ان کے لئے اشد ضروری ہے کہ تمام اطراف کے مفادات کا خیال رکھیں<۔~ف۵۹~]qi [tag
پھر فاضل ججوں نے اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
>آج مسلمان یاد ماضی کا لبادہ اوڑھے۔ صدیوں کا بھاری بوجھ اپنی پشت پر لادے` مایوس و مبہوت ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور فیصلہ نہیں کر سکتا کہ دونوں مین سے کسی موڑ کا رخ کرے۔ دین کی وہ تازگی اور سادگی جس نے ایک زمانے میں اس کے ذہن کو عزم مصمم اور اس کے عضلات کو لچک عطا کی تھی آج اس کو حاصل نہیں ہے اس کے پاس نہ فتوحات کرنے کے وسائل ہیں نہ اہلیت ہے اور نہ ایسے ممالک ہی موجود ہیں جن کو فتح کیا جا سکے مسلمان بالکل نہیں سمجھتا کہ جو قومیں آج اس کے خلاف صف آراء ہیں۔ وہ ان قوتوں سے بالکل مختلف ہیں جن سے اس کو ابتدائے اسلام میں جنگ کرنی پڑی تھی اور اس کے اپنے آباء و اجداد ہی کی راہ نمائی سے ذہن انسانی نے ایسے کارنامے انجام دئیے ہیں جن کے سمجھنے سے وہ قاصر ہے۔۔۔۔ صرف ایک ہی چیز ہے جو اسلام کو ایک عالمگیر تصور کی حیثیت سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور مسلمان کو جو آج ضد و قدامت کا پیکر بنا ہوا ہے۔ دنیائے حال اور دنیائے مستقبل کا شہری بنا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی نئی تاول و تشکیل دلیرانہ کی جائے جو زندہ حقائق کو مردہ تصورات سے الگ کر دے۔۔۔۔۔ اگر ہم جہاں ریتی کی ضرورت ہے وہاں ہتھوڑا استعمال کرنا چاہیں گے اور اسلام سے ان عقدوں کے حل کرنے کی توقع رکھیں گے جن کو حل کرنا اس کا کبھی مقصود نہ تھا مایوسی نامرادی اور دل شکستگی برابر ہمارے شامل حال رہے گی۔ وہ مقدس دین جس کا نام اسلام ہے برابر زندہ رہے گا۔ خواہ ہمارے لیڈر اس کو نافذ کرنے کے لئے موجود نہ بھی ہوں۔ دین اسلام فرد میں۔ اس کی روح اور اس کے نقطئہ نگاہ مین اور مہد سے لحد تک خدا اور بندوں کے ساتھ تعلقات میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور ہمارے ارباب سیاست کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اگر احکام الٰہی ایک انسان کو مسلمان نہیں رکھ سکتے۔ تو ان کے قوانین یہ کام انجام نہیں دے سکتے<۔~ف۶۰~
>مسلم< کی تعریف اور تحقیقاتی عدالت
اب ہم >تحقیقاتی عدالت< کی رپورٹ اس حصہ کی طرف آتے ہیں جو ہمارے نزدیک آئینی و مذہبی اعتبار سے سب سے اہم ہے۔ اور وہ یہ کہ اسلامی ریاست میں مسلم کی تعریف کیا ہے؟ فاضل جج لکھتے ہیں:
>جمہوریہ اسلامی کے دوران میں رئیس مملکت یعنی خلیفہ ایک ایسے نظام انتخاب کے ماتحت منتخب کیا جاتا تھا جو زمانئہ حاضر کے انتخاب سے قطعاً مختلف تھا۔ اور اس کی بنیاد نابالغوں کے حق رائے دہی پر اور نہ عمومی نمائندگی کی کسی اور ہیئت پر تھی۔ اس کی جو بیعت کی جاتی تھی جسے حلف اطاعت کہنا چاہئے اسے ایک مقدس معاہدہ کی حیثیت حاصل تھی اور جب وہ اجماع الامت یعنی لوگوں کے اتفاق آراء سے منتخب ہو جاتا تھا تو جائز حکومت کے تمام شعبوں کا سرچشمہ بن جاتا تھا۔ اس کے بعد اس کو اور صرف اس کو حکومت کرنے کا حق ہوتا تھا وہ اپنے بعض اختیارات اپنے نائبوں کو تفویض کر سکتا تھا۔ اور اپنے گرد ایسے اشخاص کے ایک گروہ کو جمع کر لیتا تھا جو علم و تقویٰ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس گروہ کو مجلس شوریٰ یا اہل الحل والعقد کہتے تھے۔ اس نظام کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ کفار ان وجوہ کے ماتحت جو واضح تھے اور جن کے بیان کی حاجت نہیں اس مجلس میں دخل حاصل نہیں کر سکتے تھے اور خلیفہ اپنے اختیارات کا حامل ہوتا تھا اور زمانہ حاضر کی کسی جمہوری مملکت کے صدر کی طرح ایک بے اختیار فرد نہ تھا جس کا فرض صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپنے وزیراعظم اور کابینہ کے فیصلوں پر دستخط کر دے۔ وہ غیر مسلموں کو اہم عہدوں پر مقرر نہ کر سکتا تھا نہ قانون کی تعبیر یا تنفیذ میں ان کو کوئی جگہ دے سکتا تھا۔ اور وضع قوانین کا کام ان کے سپرد کرنا تو قانونی اعتبار سے بالکل ہی ناممکن تھا۔ جب صورت حال یہ ہے تو مملکت کو لازماً کوئی ایسا انتظام کرنا ہوگا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق معین ہو سکے اور اس کے نتائج پر عمل درامد کیا جا سکے لہذا یہ مسئلہ بنیادی طور پر اہم ہے کہ فلاں شخص مسلم ہے یا غیر مسلم؟<۔~ف۶۱~
فاضل جج صاحبان نے اس پس منظر میں علماء سے کیا کیا سوالات کئے علماء نے ان کے کیا جواب دئیے اور فاضل جج ان کے افکار و نظریات کو سن کر کس نتیجے پر پہنچے؟ اس کی تفصیل ہمیں مطبوعہ رپورٹ کے درج ذیل الفاظ میں ملتی ہے:
>ہم نے اکثر ممتاز علماء سے یہ سوال کیا کہ وہ >مسلم< کی تعریف کریں۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن میں نہ صرف اس فیصلے کی وجوہ بالکل روشن ہوں گی بلکہ وہ >مسلم< کی تعریف بھی قطعی طور پر کر سکیں گے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں شخص یا جمات دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ تو اس سے لازم آتا ہے۔ کہ دعویٰ کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ >مسلم< کس کو کہتے ہیں؟ تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ بالکل اطمینان بخش نہیں نکلا۔ اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں میں اس قدر ژولیدگی موجود ہے۔ تو آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے۔ کہ زیادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیا حال ہوگا۔ ذیل میں ہم مسلم کی تعریف ہر عالم کے اپنے الفاظ میں درج کرتے ہیں۔ اس تعریف کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہر گواہ کو واضح طور پر سمجھا دیا گیا تھا۔ کہ آپ وہ قلیل سے قلیل شرائط بیان کیجئے جن کی تکمیل سے کسی شخص کو مسلم کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اور یہ تعریف اس اصول پر مبنی ہونی چاہئے جس کے مطابق گرائمر میں کسی اصطلاح کی تعریف کی جاتی ہے۔ نتیجہ ملاحطہ ہو۔
مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صدر جمعیت العلمائے پاکستان
سوال:مسلم کی تعریف کیا ہے؟
جواب:اول وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو۔ دوم وہ پیغمبر اسلام کو اور تمام انبیاء سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو۔ اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام صلعم انبیاء میں آخری نبی ہیں )کاتم النبیین( چہارم اس کا ایمان ہو کہ قرآن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام پیغمبر اسلام صلعم پر نازل کیا۔ پنجم وہ پیغمبر اسلام صلعم کی ہدایات کے واجب الاطاعت ہونے پر ایمان رکھتا ہو۔ ششم۔ وہ قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔
سوال:کیا تارک الصلٰوٰہ مسلم ہوتا ہے؟
جواب:جی ہاں۔ لیکن منکر صلٰوٰہ مسلم نہیں ہو سکتا۔
مولانا حمد علی صدر جمعیتہ العلماء اسلام مغربی پاکستان۔
سوال:ازراہ کرم مسلم کی تعریف کیجئے۔
جواب:وہ شخص مسلم ہے۔ جو ۱( قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔ اور )۲( رسول اللہ صلعم کے ارشادات پر ایمان رکھتا ہو۔ ہر شخص جو ان دو شرطوں کو پورا کرتا ہے۔ مسلم کہلانے کا حقدار ہے۔ اور اس کے لئے اس سے زیادہ عقیدے اور اس سے زیادہ عمل کی ضرورت نہیں<۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی امیر جماعت اسلامی۔
سوال:ازراہ کرم مسلم کی تعریف کیجئے؟
جواب:وہ شخص مسلم ہے جو )۱( توحید پر )۲( تمام انبیاء پر )۳( تمام الہامی کتابوں پر )۴( ملائکہ پر )۵( یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔
سوال: کیا ان باتوں کے محص زبانی اقرار سے کسی شخص کو مسلم کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اور آیا ایک مسلم مملکت میں اس سے وہ سلوک کیا جائے گا جو مسلمان سے کیا جاتا ہے۔
جواب: جی ہاں۔
سوال: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہوں تو کیا کسی شخص کو اس کے عقیدے کے وجود پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے؟
جواب: >جو پانچ شرائط میں نے بیان کی ہیں وہ بنیادی ہیں۔ جو شخص ان شرائط مین سے کسی شرط میں تبدیلی کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا<۔
غازی سراج الدین منیر:
سوال: ازراہ کرم مسلم کی تعریف کیجئے؟
جواب: میں ہر اس شخص کو مسلمان سمجھتا ہوں۔ جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے اور رسول پاک صلعم کے نقش قدم پر چل کر زندگی بسر کرتا ہے<۔
مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد۔ لاہور
سوال: ازراہ کرم مسلمان کی تعریف کیجئے؟
جواب: لفظ مسلمان فارسی کا لفظ ہے۔ مسلم کے لئے فارسی میں جو لفظ مسلمان بولا جاتا ہے اس مین اور لفظ مومن میں فرق ہے۔ میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں لفظ مومن کی مکمل تعریف کروں۔ کیونکہ اس امر کی وضاحت کے لئے بے شمار صفحات درکار ہیں۔ کہ مومن کیا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے۔ وہ مسلم ہے۔ اس کو توحید الٰہی` رسالت انبیاء اور یوم قیامت پر ایمان رکھنا چاہئے جو شخص اذان یا قربانی پر ایمان نہیں رکھتا۔ وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس طرح بیشمار دیگر امور بھی ہیں جو ہمارے نبی کریمﷺ~ سے ہم کو تواتر کے ساتھ پہنچے ہیں۔ مسلم ہونے کے لئے ان سب امور پر ایمان لانا ضروری ہے۔ میرے لئے یہ قریب قریب ناممکن ہے۔ کہ ان تمام امور کی مکمل فہرست پیش کروں<۔
حافظ کفایت حسین۔ ادارہ تحفظ حقوق شیعہ:
سوال: مسلمان کون ہے؟
جواب: جو شخص )۱( توحید ۲۰( نبوت اور )۳( قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ مسلمان کہلانے کا حقدار ہے۔ یہ تین بنیادی عقائد ہیں۔ جن کا اقرار کرنے والا مسلمان کہلا سکتا ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے معاملے میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ ان تین عقیدوں پر ایمان رکھنے کے علاوہ بعض اور امور ہیں۔ جن کو ضروریات دین` کہتے ہیں۔ مسلمان کہلانے کا حقدار بننے کے لئے ان کی تکمیل ضروری ہے۔ ان ضروریات کے تعین اور شمار کے لئے مجھے دو دن چاہئیں۔ لیکن مثال کے طور پر میں یہ بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ کہ احترام کلام اللہ۔ وجوب نماز۔ وجوب روزہ۔ وجوب حج مع الشرائط اور دوسرے بے شمار امور ضروریات دین میں شامل ہیں<۔
مولانا عبدالحامد بدایونی۔ صدر جمعیت العلمائے پاکستان۔
سوال: آپ کے نزدیک مسلمان کون ہے؟
جواب: جو شخص ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہے وہ مومن ہے اور ہر مومن مسلمان کہلانے کا حقدار ہے۔
سوال: ضروریات دین کون کون سی ہیں؟
جواب: جو شخص پنج ارکان اسلام پر اور ہمارے رسول پاک صلعم پر ایمان رکھتا ہے وہ ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
سوال: آیا ان پنج ارکان اسلام کے علاوہ دوسرے اعمال کا بھی اس امر سے کوئی تعلق ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہے۔ یا دائرہ اسلام سے خارج ہے؟ )نوٹ:گواہ کو سمجھا دیا گیا تھا کہ دوسرے اعمال سے وہ ضوابط اخلاقی مراد ہیں جو زمانہ حاضر کے معاشرے میں صحیح سمجھے جاتے ہیں(۔
جواب: یقیناً تعلق ہے۔
سوال: پھر آپ ایسے شخص کو مسلمان نہیں کہیں گے جو ارکان خمسہ اور رسالت پیغمبر اسلام پر تو ایمان رکھتا ہے لیکن دوسرے لوگوں کی چیزیں چرا لیتا ہے` جو مال اس کے سپرد کیا جائے اس کو غبن کر لیتا ہے اپنے ہمسائے کی بیوی کے متعلق نیت بد رکھتا ہے۔ اور اپنے محسن سے انتہائی ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے؟
جواب: ایسا شخص اگر ان عقیدوں پر ایمان رکھتا ہے۔ جو ابھی بیان کئے گئے ہیں۔ تو ان تمام اعمال کے باوجود وہ مسلمان ہوگا<۔
مولانا محمد علی کاندھلوی دارالشہابیہ۔ سیالکوٹ۔
سوال: ازراہ کرم مسلمان کی تعریف کیجئے؟
جواب: جو شخص نبی کریم صلعم کے احکام کی تعمیل میں تمام ضروریات دین کو بجا لاتا ہے وہ مسلمان ہے۔
سوال: کیا آپ ضروریات دین کی تعریف کر سکتے ہیں؟
جواب: ضروریات دین ہر مسلمان کو معلوم ہیں خواہ دینی علم نہ رکھتا ہو۔
سوال: کیا آپ ضروریات دین کو شمار کر سکتے ہیں؟
جواب: وہ اتنی بے شمار ہیں کہ ان کا ذکر بے حد دشوار ہے` میں ان ضروریات کو شمار نہیں کر سکتا بعض ضروریات دین کا ذکر کیا جا سکتا ہے مثلاً صوم و صلٰوٰہ وغیرہ<۔
مولانا امین احسن اصلاحی:
سوال: مسلمان کون ہے؟
جواب: مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک سیاسی مسلمان` دوسرے حقیقی مسلمان۔ سیاسی مسلمان کہالنے کی غرض سے ایک شخص کے لئے ضروری ہے کہ )۱( توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو۔ )۲( ہمارے رسول پاک کو خاتم النبیین مانتا ہو۔ یعنی اپنی زندگی کے متعلق تمام معاملات میں ان کو آخری سند تسلیم کرتا ہو۔ )۳( ایمان رکھتا ہو کہ ہر خیروشر اللہ کی طرف سے ہے۔ )۴( روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔ )۵( قرآن مجید کو آخری الہام الٰہی یقین کرتا ہو۔ )۶( مکہ معظمہ کا حج کرتا ہو۔ )۷( زکٰوٰہ ادا کرتا ہو۔ )۸( مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتا ہو۔ )۹( اسلامی معاشرے کے ظاہری قواعد کی تعمیل کرتا ہو۔ )۱۰( روزہ رکھتا ہو۔ جو شخص ان تمام شرائط کو پورا کرتا ہو۔ وہ ایک اسلامی مملکت کے پورے شہری کے حقوق کا مستحق ہے۔ جو شخض ان تمام شرائط کو پورا کرتا ہو۔ وہ ایک اسلامی مملکت کے پورے شہری ہے حقوق کا مستحق ہے۔ اگر وہ ان میں سے کوئی شرط پوری نہ کرے گا۔ تو وہ سیاسی مسلمان نہ ہوگا۔ )پھرکہا( اگر کوئی شخص ان دس امور پر ایمان کا محض اقرار ہی کرتا ہو۔ گو ان پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ تو یہ اس کے مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔ حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کے تمام احکام پر عین اس طرح ایمان رکھتا ہو۔ اور عمل کرتا ہو جس طرح وہ احکام و ہدایات پر عائد کئے گئے ہیں۔
سوال: کیا آپ یہ کہیں گے کہ صرف حقیقی مسلمان ہی >مرد صالح< ہے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: اگر ہم آپ کے ارشاد سے یہ سمجھیں کہ آپ کے نزدیک سیاسی مسلمان کہلانے کے لئے صرف عقیدہ کافی ہے۔ اور حقیقی مسلمان بننے کے لئے عقیدے کے علاوہ عمل بھی ضروری ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک ہم نے آپ کا مفہوم صحیح طور سے سمجھا ہے؟
جواب: جی نہیں آپ میرا مطلب صحیح طور پر نہیں سمجھے۔ سیاسی میدان کے معاملہ میں بھی عمل ضروری ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان عقائد کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ جو ایک سیاسی مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔ تو وہ سیاسی مسلمانوں کے دائرے سے خارج ہو جائے گا۔
سوال: اگر کوئی سیاسی مسلمان ان باتوں پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ جن کو آپ نے ضروری بتایا ہے تو کیا آپ اس شخص کو >بے دین< کہیں گے؟
جواب: جی نہیں میں اسے محض >بے عمل< کہوں گا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے جو تحریری بیان پیش کیا گیا۔ اس میں مسلم کی تعریف یہ کی گئی کہ مسلم وہ شخص ہے جو رسول پاک صلعم کی امت سے تعلق رکھتا ہے۔ اور کلمہ طیبہ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے۔
ان متعدد تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں۔ پیش نظر رکھ کر کہا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟
بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی طرف سے >مسلم< کی کوئی تعریف کردیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے۔ اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں۔ تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔ اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کرلیں۔ تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے<۔
>اسلامی مملکت میں ارتداد کی سزا موت ہے اس پر علماء عملاً متفق الرائے ہیں )ملاحظہ ہو مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیت العلمائے پاکستان پنجاب۔ مولانا احمد علی صدر جمعیت العلماء اسلام مغربی پاکستان۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی بانی و سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان` مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ لاہور و رکن جمعیہ العلماء پاکستان۔ مولانا دائود غزنوی صدر جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان مولانا عبدالحکیم قاسمی جمعیت العلماء اسلام پنجاب۔ اور مسٹر ابراہیم علی چشتی کی شہادتیں(
اس عقیدے کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خاں نے اگر اپنے موجودہ مذہبی عقائد ورثے میں حاصل نہیں کئے بلکہ وہ خود اپنی رضا مندی سے احمدی ہوئے تھے۔ تو ان کو ہلاک کر دینا چاہئے۔ اور اگر مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری یا رضا احمد خاں بریلوی یا ان بے شمار علماء میں سے کوئی صاحب جو )فتویٰ )۱۴ DE ۔(Ex کے خوبصورت درخت کے ہر پتے پر مرقوم دکھائے گئے ہیں( ایسی اسلامی مملکت کے رئیس بن جائیں۔ تو یہی انجام دیوبندیوں اور وہابیوں کا ہوگا۔ جن میں مولانا محمد شفیع دیوبندی ممبر بورڈ تعلیمات اسلامی ملحقہ دستور ساز اسمبلی پاکستان اور مولانا دائود غزنوی بھی شامل ہیں۔ اور اگر مولانا محمد شفیع دیوبندی رئیس مملکت مقرر ہو جائیں تو وہ ان لوگوں کو جنہوں نے دیوبندیوں کو کافر قرار دیا ہے۔ دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے اور اگر وہ لوگ مرتد کی تعریف میں آئیں گے یعنی انہوں نے اپنے مذہبی عقائد ورثہ میں حاصل نہ کئے ہوں گے` بلکہ خود اپنا عقیدہ بدل لیا ہوگا۔ تو مفتی صاحب ان کو موت کی سزا دے دیں گے۔
جب دیوبندیوں کا ایک فتویٰ 13) DE۔(EE جس میں اثنا عشری شیعوں کو کافر و مرتد قرار دیا گیا ہے۔ عدالت میں پیش ہوا تو کہا گیا کہ یہ اصل نہیں۔ بلکہ مصنوعی ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع نے اس امر کے متعلق دیوبند سے استفسار کیا تو اس دارالعلوم کے دفتر سے اس فتویٰ کی ایک نقل موصول ہو گئی۔ جس پر دارالعلوم کے تمام اساتذہ کے دستخط ثبت تھے۔ اور ان میں مفتی محمد شفیع صاحب کے دستخط بھی شامل تھے۔ اس فتوے میں لکھا ہے۔ کہ جو لوگ حضرت صدیق اکبرؓ کی صاجیت پر ایمان نہیں رکھتے۔ جو لوگ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے قاذف ہیں اور جو لوگ قرآن میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں وہ کافر ہیں۔
اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے۔ کہ شیعہ سنی۔ دیوبندی۔ اہل حدیث اور بریلوی لوگوں میں سے کوئی بھی مسلم نہیں اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کافر سمجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدے کو بدل کر دوسرا اختیار کرے گا اس کو اسلامی مملکت میں لازماً موت کی سزا دی جائے گی اور جب یہ حقیقت مدنظر رکھی جائے کہ ہمارے سامنے مسلم کی تعریف کے معاملے میں کوئی دو عالم بھی متفق الرائے نہیں۔ اگر علماء کی پیش کی ہوئی تعریفوں میں سے ہر تعریف کو معتبر سمجھا جائے۔ پھر انہیں تحلیل و تحویل کے قاعدے کے ماتحت لایا جائے اور نمونے کے طور پر الزام کی وہ شکل اختیار کی جائے جو گلیلیو کے خلاف انکویزیشن کے فیصلے میں اختیار کی گئی تھی تو ان وجوہ کی تعداد بے شمار ہو جائے گی جن کی بناء پر کسی شخص کا ارتداد ثابت کیا جا سکے<۔~ف۶۲~]body [tagعلماء کے تبصرے اور ان کا جواب
>تحقیقاتی عدالت< کی رپورٹ نے احمدیت اور پاکستان کے مخالف مذہبی لیڈروں کی کارروائیوں کو جس طرح طشت ازبام کیا اس نے ان کے حامیوں میں صف ماتم بچھا دی اور ان کی طرف سے محاسبہ اور تبصرہ کے نام سے دو کتابیں~ف۶۳~ شائع کیں جن میں نام نہاد علماء کی شکست اور بے آبروئی پر پردہ ڈالنے اور مظلوم احمدیوں کو ملزم گرداننے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے >تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر< کے نام سے اپریل ۱۹۵۵ء میں ایک مبسوط کتاب شائع کی جس میں نہ صرف فرمایا کہ ہر معاملہ میں تحقیقاتی عدالت کی رائے بلاکم و کاست درج کر دی جائے بلکہ مئولفین تبصرہ کی مغالطہ انگیزیوں کا پردہ چاک کر دیا جائے۔
حواشی
~ف۱~
یہ تبصرہ پہلے روزنامہ >المصلح< کراچی )۲/دسمبر ۱۹۵۳ء/۲ فتح ۱۳۳۲ ہش کی ایک خاص اشاعت مین چھپا۔
~ف۲~
>رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ بابت سال ۵۴۔۱۹۵۳ء صفحہ ۳۳
~ف۳~
ہفت روزہ >المنبر< لاہور )فیصل آباد( ۲/مارچ ۱۹۵۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔۲ )گورنر جنرل پاکستان کی خدمت میں دلپذیری ترجمہ کا ایک نسخہ جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے ۲۷/جنوری ۱۹۵۴ء کو پیش کیا تھا وفد کی قیادت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے کی )المصلح کراچی ۳۰/جنوری ۱۹۵۴ء ~ف۱(~
~ف۴~
سہواً >نے< لکھا ہے۔
~ف۵~
‏OPT )اختیار۔ انتخاب۔ پسند(
~ف۶~
‏Ministerial وزارتی۔
~ف۷~
اخبار روزنامہ >ملت< لاہور مئورخہ ۲۱/جنوری ۱۹۵۴ء ص۱`۵
~ف۸~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲۲/جنوری ۱۹۵۴ء ~ف۲~
~ف۹~
روزنامہ >ملت< لاہور مورخہ ۲۲/جنوری ۱۹۵۴ء ~ف۷~
~ف۱۰~
اخبار >ملت< لاہور ۲۴``۲۵`۲۶/فروری ۱۹۵۴ء
~ف۱۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< اردو صفحہ ۷`۲۱
~ف۱۲~
روزنامہ >الفضل< ربوہ ۵/صلح/جنوری ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء ہش ~ف۸~
~ف۱۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو ~ف۷~
~ف۱۴~
روزنامہ >الفضل< ربوہ ۵/امان/مارچ ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء ~ف۳~
~ف۱۵~
روزنامہ >الفضل< ۳۰/صلح/جنوری ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء ~ف۳~
~ف۱۶~
روزنامہ >ملت< لاہور مئورخہ ۲۸/فروری ۱۹۵۴ء
~ف۱۷~
ایضاً ~ف۵~
~ف۱۸~
‏Parody مضحکہ خیز نقل
~ف۱۹~
روزنامہ >ملت< لاہور مورخہ یکم مارچ ۱۹۵۴ء ~ف۹~
~ف۲۰~
سابق صدر مملکت پاکستان
~ف۲۱~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو ص ۳۰۴
~ف۲۲~
آفاق ۳۰/اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱
~ف۲۳~
ایضاً` کالم نمبر ۴
~ف۲۴~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲/نومبر ۱۹۵۳ء ~ف۱~
~ف۲۵~
>ملت< ۶/نومبر ۱۹۵۳ء ~ف۷~ کالم ۵
~ف۲۶~
>ملت< ۱۳/نومبر ۱۹۵۳ء ~ف۵~ کالم ۳
~ف۲۷~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲۵/دسمبر ۱۹۵۳ء ~ف۶~ کالم ۵
~ف۲۸~
روزنامہ >ملت< لاہور ۹ جنوری ۱۹۸۴ء ~ف۱~
~ف۲۹~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ نمبر ۲
~ف۳۰~
>نوائے وقت< لاہور )۲۴۔۲۵/اپریل ۱۹۵۴ء( >ملت< لاہور )۲۵۔۲۹/اپریل ۱۹۵۴ء( رسالہ >لاہور< لاہور )۲۶ اپریل ۱۹۵۴ء( زمیندار سدھار ملتان۔ )۴/مئی ۱۹۵۴ء( رسالہ >اقدام< لاہور )۹/مئی ۱۹۵۴ء( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب Munir> Mohammed Justice <Chief ص۲۲۷ تا ص۳۳۵
~ف۳۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< اردو ص۴۲۲
~ف۳۲~
>تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ< ص۱۵۹
~ف۳۳~
>تحقیقاتی عدالت< ص ۸۷`۸۸
~ف۳۴~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۸۷
~ف۳۵~
‏h2] ga[tرپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۸۰ )اردو(
~ف۳۶~
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اردو ص۱۹۲`۱۹۳
~ف۳۷~
رپورٹ ص۲۵۳ رپورٹ ص۱۶۳
~ف۳۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۷۱
~ف۳۹~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۷۱
~ف۴۰~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۸۱
~ف۴۱~
ایضاً ص۲۷۹
~ف۴۲~
تحقیقاتی عدالت کی رپورت ص۳۰۷
~ف۴۳~
تحقیقاتی رپورٹ ص۴۲۴ تا ۴۲۵۔
‏]1h ~[tagف۴۴~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۱۲۵۔۱۲۶
~ف۴۵~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۲۰۹
~ف۴۶~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۹۹
~ف۴۷~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۲۰۲
~ف۴۸~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص ۲۰۵
~ف۴۹~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ نمبر ۲۰۶
~ف۵۰~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۲۳۷
~ف۵۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۲۳۷`۲۳۸
~ف۵۲~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۲۲۹
~ف۵۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۳۱
~ف۵۴~
ایضاً ص ۲۴۵
~ف۵۵~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۴۵
~ف۵۶~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۴۵
~ف۵۷~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۴۶
~ف۵۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۴۶`۲۴۷
~ف۵۹~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۳۲۳
~ف۶۰~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۵۰`۲۵۱
~ف۶۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۲۳۱
~ف۶۲~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت )اردو( ص۲۳۱ تا ۲۳۷
~ف۶۳~
)ا( >تبصرہ< از نعیم صدیقی صاحب و سعید احمد ملک صاحب )ناشر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان( )۲( >محاسبہ< از مولانا مرتضیٰ احمد صاحب میکش۔
‏tav.14.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
چھٹا باب
نام نہاد >علمائے دین< کے افسوسناک بیانات کا شدید ردعمل
خدا کی قدرت` وہ علماء جو تحقیقاتی عدالت کی کارروائی میں اس جوش خروش کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ وہ احمدیوں کو تحقیقاتی کمیشن سے غیر مسلم اقلیت تسلیم کر اکے چھوڑیں گے عدالت میں مسلم کی تعریف کرنے سے قاصر رہے۔ جس کا پاکستان اور بیرونی ممالک میں شدید ردعمل رونما ہوا۔ جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس ردعمل کا اندازہ کرنے کے لئے صرف چند تاثرات کا مطالعہ کافی ہوگا:
۱۔ علماء اور فتنئہ تکفیر
جمعیہ العلمائے ہند کے ایک متوسل خصوصی کے قلم سے
حضرت مدیر >صدق جدید< دامت برکاتہم
پاکستان کو تو چھوڑئیے اینٹی احمدیہ تحریک نے علماء کرام کو اپنوں اور غیروں کی نظروں میں اس قدر ذلیل اور رسوا کیا ہے کہ مجموعی حیثیت سے اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ حق یہ ہے کہ پاکستان کے علماء نے اپنی گردنیں خود اپنے ہاتھوں سے کاٹی ہیں۔ اور اپنے وقار پر خود ہی خاک اڑائی ہے` لطف یہ ہے کہ اس حادثہ کا اعتراف دوسرے لوگ تو کرلیں گے خود علماء کرام ہرگز نہ کریں گے۔ حق کا ناحق سودا ان کے سر پر ہمیشہ سوار رہا ہے انہوں نے اپنی غلطیوں سے سلطنتیں تباہ کر ڈالی ہیں۔۔۔۔۔ ان کی تکفیر بازی ان کی اور مسلمانوں کی قبر کھود چکی ہے۔۔۔۔ لاہور میں جو تحقیقاتی کمیشن علماء کرام سے شہادتیں لے رہا ہے اس نے نہ صرف علماء کے وقار ہی کو بلکہ علم و فضل کو بھی بے نقاب کر ڈالا ہے۔ شہادت دینے گئے تھے اس بات کی کہ قادیانی کافر ہیں اور بتا یہ آئے کہ خیریت سے وہ خود بھی دوسروں کی نظروں میں کافر ہی قرار پائے ہیں۔ اور وہ تکفیر بازی کی مشق آپس ہی میں ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ مثلاً مولانا محمد علی کاندھلوی نے شہادت لیتے ہوئے بعض سوالات کے جواب میں فرمایا کہ:
>ابتدائے اسلام ہی سے علماء ایک دوسرے کو کافر کہتے آئے ہیں۔ مسلمانوں نے جبر و قدر کے مسئلہ پر ایک دوسرے کو کافر لکھا ہے۔ معتزلہ اور اہل قرآن دونوں کافر ہیں علماء نے امام ابن تیمیہ اور عبدالوھاب کو بھی کافر قرار دیا ہے۔ علماء نے دیوبندی علماء کی بھی تکفیر کی ہے<۔ )نوائے وقت ۲۳`۲۴/اکتوبر ۱۹۵۳ء(
سبحان اللہ سرکاری کمیشن کو باور کرایا جا رہا ہے کہ خود مکفر علماء بھی کفر سے نہیں بچے اور انہوں نے تکفیر کے تیروں سے کسی بڑے چھوٹے کو نہیں چھوڑا عدالت تو یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ جو علماء قادیانیوں کو بڑھ چڑھ کر کافر کہہ رہے ہیں وہ خود بھی مسلمان ہیں یا نہیں؟ خوش قسمتی سے علماء کرام نے عدالت کی یہ خواہش بھی پوری کی۔ اور باتوں ہی باتوں میں اگل گئے کہ خیریت سے وہ بھی دوسرے کی نظروں میں کافر ہی رہے۔ اور دوسرے ان کی نظروں میں خارج از ملت۔ خیر۱ یہ تو علماء کا بھولاپن تھا۔ کہ آپس کی باتیں ججوں کے سامنے کہہ بیٹھے اور یوں قادیانیوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔ افسوسناک چیز تو یہ ہے کہ علماء نے ایک دوسرے کے خلاف باتیں کہیں اور ایک نے دوسرے کے نظریہ` فیصلہ اور فتویٰ کو جھٹلایا اور مسٹروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دیا۔۔۔۔۔
محترم! لل¶ہ علماء کو تکفیر بازی سے روکئے۔ ورنہ اس گروہ کا انجام بخیر نظر نہیں آتا۔ کچھ امید تھی کہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اپنا >مسلک اعتدال< تکفیر کے میدان سے الگ رکھیں گے۔ اور اس بارہ میں علماء کی کچھ ایسی صلاح کر جائیں گے کہ یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ مگر افسوس ہے کہ اینٹی قادیانی تحریک مین وہ ایسے گرے کہ ان کی ریفارمیشن کا سارا بھرم کھل گیا۔ اگر رو میں روا باشد ہی ان کا مسلک تھا تو انہیں مسلمانوں پر الفاظ کا جادو تو نہ چلانا چاہئے تھا۔ یہیں آکر اقرار کرنا پڑنا ہے کہ قدرت نے مدیر >صدق جدید< کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے انہوں نے تکفیر بازی کے اس دور مین جس دور رس نگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے فتنہ تکفیر پر ضرب لگائی ہے اس پر ہم تو کیا شاید کوئی آنے والا مجدد ہی داد دے سکے گا۔ مدیر >صدق جدید< یہ جر¶ات تو اپنے مرشد رحمہ اللہ علیہ کے سامنے بھی ماند نہ پڑسکی۔ اس لئے تو موصوف سے درخواست ہے کہ اس فتنہ سے سختی کے ساتھ باز پرس کریں۔ اور مسلمان فرقوں کو اس امتحان سے ہمیشہ کے لئے نجات دلاویں۔ تاکہ ایک طرف علماء کا وقار قائم رہے دوسری طرف خدا` رسول` کتاب اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے اور کلمئہ شہادت کے شریک زبردستی اسلام سے باہر نہ کئے جا سکیں۔ مدیر صدق کے بعد کوئی نظر نہیں اتا جو اس میدان میں اپنی جر¶ات کا ثبوت دے سکے۔ اگر موصوف نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے کوئی مستقل منصوبہ نہیں بنایا تو قدرت کی باتیں تو دوسری ہیں علماء کو اس کا احساس دلانے والا بھی ڈھونڈے سے نہ مل سکے گا۔
>صدق جدید< لکھنئو ۸/ جنوری ۱۹۵۲ء
بحوالہ رسالہ الفرقان ربوہ جنوری ۱۹۵۴ء ص۳`۴
۲۔ اخبار >ٹائمز< (Times) کراچی نے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر حسب ذیل نوٹ سپرد اشاعت کیا:
‏Karachi of Times The
‏1954 April, 30th
‏ every on finger its put unerringly has Inquiry of Court <The moral and factual the indicating from Apart ۔spot weak dna persons of conduct the in involved responsibility the examine to necessary it felt has Court the organisations, ۔irresistible appeal Ahrar the made that foundations psychological searching to it before appeared who Ulmera subjectedthe Court the was Maulvi every Almost ۔matters doctrinal on questions necessary beliefs of minimum irreducible the state to asked ۔other the from differed reply each Almost ۔Muslim a one make to notice wanted even Jamaat-i-Islami of representative The replies s'amUl the of divergence The ۔question the answer to of fundamentals very the to relates it since regrettable is doctrinal irreconcilable their of spite in that But ۔Faith the against front united a forge to able were Ulema the differences and aims characteristic the to attention pointed calls Ahmadis ۔possible this made that themselves Ahmadis the of activities status the and <apostasy>, <Jehad> of subjects the on replies The plainest the of light the in stadies be to have ۔Muslims۔non of lanoiconstitut the on bearing their for and injunctions Quranic ۔State Pakistani the of responsibilities
‏ legislation, sovereignty, of of concepts the of elucidation The the invitationto stimulating a constitute ,۔etc interpretation the of part This ۔thought political Islamic of reconstruction ۔interest ephemeral or local than more much of Inquiryis of Court if Islam> of re-orientation <bold a for pleaded has Court The and incongruities> <archaic of rid be to is Faith sublime this to has dnim Muslim The ۔Idea> <world a as vitality its regain to ۔environment modern the with relationship proper into brought be can that ignorance of forces the against immunised be to is it if ۔religion of name holy the in it sway
‏ have not could community the of foundations mental weak The the that fact the by than painfully more demonstrated been conception very the opposed stubbornly had who people very new the up build to right the Pakistan State Islamic the of imposing in successful were dna patterns Islamic on State ۔destruction and bloodshed causing and people the upon
‏ the direct naturally Inquirywill of Court the of report The evidence The ۔directions various in people the of thoughts holding individuals, many implicates Court the by exxamined ۔charges serious in life of walks different in places important disturbances; the provoked who those exposed has Inquiry The administration, the demoralised who those them: plotted who those poinsoned and lawlessness, of forces eth before abdicated ask naturally will country The ۔life public corrupted and ۔matter the of end the be will exposure colossal this whether not is State God-given this if for called is action Determined and adventurers brigands, <political for haven a remain to not is report incisive and elaborate <This ۔non-entities ۔lost labour
‏by Munir> Muhammed Justice <Chief
‏Research 221-222۔p Chaudhri Hussain Nazir
۔1973 March ۔Lahore Pakistan, of Society
‏body] [tagتحقیقاتی عدالت نے کسی غلطی کے بغیر اپنی انگلی ہر ایک کمزور جگہ پر رکھی ہے۔ ایک طرف تو جج صاحبان نے واقعاتی اور اخلاقی ذمہ داری جو افراد اور تنظیموں پر عائد ہوتی تھی۔ اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تو دوسری طرف عدالت نے ضروری سمجھا ہے۔ کہ ان نفسیاتی محرکات کا تجزیہ کرے۔ جس نے احرار کی اپیل کو ناقابل مزاحمت بنا دیا تھا۔
عدالت نے ان علماء پر جو اس کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں کڑی جرح کی۔ قریباًہر ایک مولوی صاحب سے دریافت کیا گیا کہ وہ ناقابل تخفیف فقرات اور اقل تریںالفاظ میں اپنے وہ عقائد بیان کرے جو ایک شخص کو مسلمان بنانے کے لئے کافی ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کے جتنے بھی جواب دئیے گئے ان میں سے قریباً ہر ایک جواب دوسرے جوابوں سے مختلف تھا۔ جماعت اسلامی کے نمائندے نے تو یہ کہا۔ کہ مجھے اس سوال کا جواب دینے کے لئے قبل از وقت نوٹس دیا جانا چاہئے تھا علماء کے ان جوابوں کا اختلاف قابل افسوس ہے۔ کیونکہ یہ سوال ہمارے مذہب کی اصل بنیاد سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن باوجود اپنے ناقابل اتفاق فرقہ وارانہ اختلافات کے علماء اس قابل ہوگئے تھے کہ وہ احمدیوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بروئے کار لاسکیں۔ اور یہ بات ہماری گہری توجہ کو اس طرف مبذول کراتی ہے۔ کہ احمدیوں کے خصوصی عزائم اور مشاغل خود محل اعتراض تھے۔ جنہوں نے یہ صورت حال پیدا کی۔
مسئلہ جہاد۔ ارتداد اور اسلام میں ایک غیر مسلم کا درجہ وغیرہ اس قسم کے سوالات کے جوابات کو قرآن شریف کے سادہ ترین احکامات کی روشنی میں مطالعہ کرنا ہوگا۔ اور نیز یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ کہ پاکستانی مملکت کی آئینی ذمہ داریوں پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔
حکومت` قانون سازی` ترجمانی وغیرہ کے تصورات اور ان کی تشریح و توضیح ایک سیاسی مکتب فکر کی دوبارہ تعمیر کے لئے کافی خوش کن دعوت ثابت ہوگی۔
تحقیقاتی عدالت کا یہ حصہ مقامی یا قلیل العمر دلچسپی کا موجب نہیں ہے۔ عدالت نے زور دیا ہے کہ اسلام کی جر¶ات مندانہ تجدید کی جائے تاکہ ہم اس باجمال مذہب کو تمام فرسودہ اور بے معنی لغویات سے پاک کرسیں۔ اور اس کی قوت حیات کو ایک عالمگیر مثالی تخیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔
اگر تو ہم نے اس مذب کو جہالت کی تمام طاقتوں کے حملہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ جو اس کو مذہب کے مقدس نام پر متاثر کر سکتی ہیں تو ضروری ہے کہ دل مسلم کو جدید ماحول کے ساتھ ایک مناسب رشتہ میں منسلک کیا جائے۔ اسلامی برادری کی کمزور دماغی بنیادیں اس سے زیادہ واضح اور دردناک طور سے ظاہر نہیں کی جا سکتی تھیں جیسا کہ اس امر واقعہ سے ظاہر ہے` کہ وہی لوگ جنہوں نے اسلامی ریاست کے تصور و قیام کی اس شدومد سے مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اس ریاست کے وجود میں آنے کے فوراً بعد اپنا یہ حق جتایا کہ ہم لوگ اس ریاست کو اسلامی نمونے پر قائم کریں گے اور پھر وہ لوگوں کو مرعوب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور خون ریزی کی اور تباہی پیدا کی۔
اس تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ قدرتی طور پر لوگوں کے خیالات کو مختلف سمتوں میں جانے کی ہدایت کرے گی۔ عدالت نے جس شہادت کو قلمبند کیا ہے۔ اس میں بہت سے افراد ملوث ہیں جو کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ممتاز جگہوں پر فائز ہیں۔ یہ رپورٹ ان لوگوں پر بڑے خطرناک الزام عائد کرتی ہے۔
اس انکوائری نے ان لوگوں کو بے نقاب کیا ہے جنہوں نے فسادات کو ہوا دی۔ ان کو بھی جنہوں نے سازشیں کیں۔ وہ لوگ بھی جنہوں نے انتظامیہ کو بے اثر کیا۔ اور لاقانونی طاقتوں کے آگے سر نگوں ہوئے۔ اور پبلک زندگی کو مسموم اور خراب کیا۔ قدرتی طور پر ملک سوال کرے گا۔ کہ کیا اتنا بڑا عظیم الشان انکشاف یہیں تک محدود رہے گا۔ )یا اس پر کوئی کارروائی ہوگی( ایک پرعزم کارروائی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اس خداداد سلطنت کو سیاسی مجرموں` ڈاکوئوں اور مہم انگیزوں اور ناکارہ لوگوں کی پشت پناہ نہیں بنانا ہے یہ مفصل اور کاٹ کرنے والی رپورٹ وقت ضائع کرنے والی چیز نہیں ہے۔
۴۔ اخبار الاعتصام لاہور ۷/اکتوبر ۱۹۵۵ء نے لکھا:
>ہم آج مسلمانوں کے سامنے ایک معمہ برائے حل پیش کرتے ہیں۔ جس کے حل پر کوئی فیس نہیں اور صحیح حل پر انعام ہم تو کیا دیں گے۔ خود صحیح حل بصورت >حیات طیبہ< انشاء اللہ دے گا۔ اچھا تو لیجئے۔
ختم نبوت ایجی ٹیشن کی تحقیقاتی کمیٹی کے صدر مسٹر جسٹس منیر نے سنا ہے۔ کہ اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے۔ کیا جتنے علماء اس تحقیقات میں شہادت دینے تشریف لائے۔ ہر ایک سے یہ سوال کیا گیا۔ کہ >مسلمان کی تعریف کیا ہے<؟ اس کے جواب میں دو علماء بھی متفق نہ پائے گئے۔ حتی کہ مولوی امین احسن اصلاحی صاحب بھی مسلمان کی تعریف میں اپنے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب سے متفق نہ نکلے۔ مشاہدات یہ بتا رہے ہیں۔ کہ مسلمان جھوٹ بولے` دھوکہ کرے` فریب کرے` قتل کرے` چوری کرے` شراب پئے` زنا کرے` غیبت کرے` بہتان اٹھائے` عیب لگائے` اغواء کرے` غداری کرے` نماز نہ پرھے` روزے نہ رکھے` زکٰوٰہ نہ دے` غیر اللہ کو سجدے کرے غرض یہ کہ جو جی چاہے۔ کرتا پھرے۔ >نہ ایمان بگڑے نہ اسلام جائے<۔
قرآن کریم میں اوامر ہیں` نواہی ہیں` حلال ہیں` حرام ہیں` رسول اللہ~صل۱~ کی اطاعت اور اتباع کے فران ہیں۔ اخوت اسلامی کے لوازم ہیں` حقوق اور فرائض ہیں۔ مگر ان پر عمل کس کا ہے؟ یہ اتنی ضخیم کتاب ہدایت کیوں نازل ہوئی؟ جناب رسول اللہ~صل۱~ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اتنی تکالیف اور اتنے مصائب کیوں اٹھائے؟ جس مذہب کے ماننے والے مندرجہ بالا تمام امور کے ارتکاب پر بھی جنت کے مستحق رہیں۔ اس کی مخالفت کی ضرورت کیا تھی؟
آج مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا معمہ یہ ہے۔ کہ >اسلام۔۔۔ کیا ہے؟ اور >مسلمان<۔۔۔۔ کی صحیح تعریف کیا ہے؟ بینوا۔ توجرو<!۔~ف۱~
۵۔ مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی مدیر >صدق جدید< نے >خارجیت< کی >جارحیت< کے زیر عنوان لکھا:
>انٹی احمدیہ بلووں کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دو سوالوں کے دو جواب:
)۱( کیا آپ ہندوئوں کا جن کی بھارت میں اکثریت ہے۔ یہ حق تسلیم کریں گے کہ وہ اپنے ملک کو ہندو دھارمک کی ریاست بنائیں؟
جواب- جی ہاں۔ کیا اس طرز حکومت میں منوسمرتی کے مطابق مسلمانوں سے ملیچھوں یا شودروں کا سا سلوک ہونے پر آپ کو کچھ اعتراض تو نہیں ہوگا۔۔۔ جواب جی نہیں۔
)۲( اگر پاکستان میں اس قسم کی اسلامی حکومت قائم ہو جائے تو کیا آپ ہندوئوں کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنا آئین اپنے مزہب کی بنیاد پر بنائیں۔ جواب۔ یقیناً بھارت میں اس قسم کی حکومت مسلمانوں سے شودروں اور ملیچھوں کا سا سلوک بھی کرے اور ان پر منو کے قوانین نافذ کرکے انہیں حقوق سہرتی سے محروم اور حکومت میں حصہ لینے کے نااہل قرار دے ڈالے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
یہ دونو جوابات آپ کو یقین آئے گا کہ کن کی زبان سے عطا ہوئے ہیں۔ پہلا جواب صدر جمعیہ العلماء پاکستان ابوالحسنات مولانا محمد احمد قادری رضوی )بریلو( کا ہے اور دوسرا بانی امیر جماعت اسلامی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا۔ انا للہ ثم انا للہ ع
نائو یہ کس نے ڈبوئی؟ خضر نے
مسلمانان ہند کا بڑے سے بڑا دشمن بھی کیا اس سے بڑھ کر کوئی جواب دے سکتا تھا۔ فریاد بجز مالک حقیقی اور کس سے کیجئے:
کس شقاوت کے ساتھ ۴ کروڑ کلمہ گوئوں کو سیاسی موت کا حکم سنایا جا رہا ہے۔ اور ان میں سے ایک جمعیہ العلماء پاکستان کے صدر ہیں۔ اور دوسرے جماعت اسلامی کے بانی و امیر!۔ اور مولانا مودودی کا یہ پہلا کرم مسلمانان ہند پر نہیں۔ کئی سال ہوئے ایک اور فتویٰ بھی تو کچھ اسی قسم کا دے چکے ہیں۔ کہ ہندی مسلمانوں کے ساتھ رشتئہ ازدواج جائز نہیں!
وہی ہندوستان جس میں صرف رسمی اور نسلی مسلمان ہی نہیں۔ ہزار ہا ہزار >صالحین< یعنی جماعت اسلامی کے ارکان میں آباد ہیں!۔ جارحیت کی اس حد تک تو شاید خارجیت بھی اپنے دور اول میں نہیں پہنچی تھی )صدق جدید ۲۸/ مئی ۱۹۵۴ء~(ف۲~
۶۔ جماعت اسلامی کے راہنما مولانا سیدابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے ۱۱/ جون ۱۹۵۵ء کو شیخوپورہ میں ایک سپاسنامے کے جواب میں کہا کہ:
>فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں کھلم کھلا علماء کو خوار کرنے کا سامان ہو رہا تھا اور جب تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ شائع ہوئی تو ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ اس میں علماء کی کیا گت بنائی گئی اور رپورٹ کی اشاعت پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔~ف۳~
۷۔ بھارت کے ایک سنی عالم کا مندرجہ ذیل مقالہ لکھنئو کے رسالہ >صدق جدید< میں ۶ اور ۲۰/ دسمبر ۱۹۵۷ء کی اشاعتوں میں اشاعت پذیر ہوا:
>مسلمان کی تعریف<
ایک غیرجانبدار ہندی مبصر کے قلم سے(
>یاد ہوگا کہ مغربی پاکستان میں جو ایجی ٹیشن قادیانیوں کے خلاف ہوا۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ مارشل لاء لگا۔ علماء جیل میں ڈالے گئے۔ ایک تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی جس میں بہت سے علماء )اہل حدیث۔ دیوبندی۔ بریلوی۔ شیعہ( نے شہادتیں دیں۔ عدالت نے سب سے پوچھا کہ اسلام کی رو سے >مسلم< کی تعریف کیا ہے۔ عمر بھر درس و تدریس اور فتویٰ دینے والے علماء اس سوال پر بہت چکرائے مشکل سے جواب دے سکے اور متضاد جوابات دے کر خود ایک دوسرے کی تکذیب کر بیٹھے۔ کوئی ضروریات دین کی حد تک گیا ہے جو شخص ضروریات دین کو مانے وہ مسلمان ہے مگر دین کیا ہیں؟ ان کی فہرست کوئی عالم پیش نہ کر سکا۔ چند علماء نے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا کہ عدالت نے اس سوال پر غور کرنے کی مہلت نہیں دی۔ گویا ساری عمر مسلمان کی تعریف سے بے نیاز اور غافل رہے اور غفلت میں لاکھں بندگان خدا کو کافر بنا ڈالا۔ حال ہی میں سنی شیعہ جھگڑے چلے جن میں جانوں کا اتلاف ہوا۔ نہ معلوم آئندہ کیا ہو۔ ہم ذیل میں لفظ >مسلم< کے سلسلہ میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اس سے پاکستان کے علماء کوئی فائدہ اٹھا سکیں اور انہیں لفظ مسلم کی تعریف کیلئے کچھ مواد مل جائے۔
لاہور کے معاصر آزاد نے سوال اٹھایا ہے کہ جب صدر مملکت کے لئے مسلمان ہنا شرط ہے تو لفظ مسلمان کی آئینی تعریف بھی قانون میں شامل ہونی چاہئے۔ اور جبکہ رائے دہندوں کو مسلمان اور نا مسلمان کے خانوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔۔۔۔ مسلمان کی تعریف اور بھی ضروری ہوگئی ہے۔ ورنہ رائے دہندوں کی تقسیم بالکل بیکار ہو جائے گی اور فلاں فرقہ کو بھی مسلمانوں میں شامل کرلیا جائے گا۔
)روزنامہ آزاد ۱۸/ نومبر ۱۹۵۷ء(
بیشک لفظ >مسلمان< کی تعریف ضرور شائع ہونی چاہئے۔ مگر اس کی تعریف علماء کرام ہی فرمائیں گے تو ہوگی۔ اس کے صرف دو طریقے ہو سکتے ہیں اول یہ کہ جس فرقہ کو اسلام سے خارج کرنا یا اسے کافر قرار دینا ہو اسے پہلے سے زہن میں محفوظ رکھیں اور پھر >مسلمان< کی کوئی ایسی تعریف نکالیں جس میں صرف وہی فرقے داخل ہو سکیں جن کو تعریف کرنے والے داخل کرنا چاہیں۔ مگر یہ طریقہ اختیار کرنے سے علماء کو بڑا تکلف کرنا ہوگا۔ پہلے سے مسلمان کی تعریف کئے بغیر یہ فیصلہ کرلینا کہ فلاں فرقہ اسلام سے خارج ہے اور پھر اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتاب و سنت کے ساتھ زور آزمائی کرنا بڑی محنت اور اور ساتھ ہی بڑی بددیانتی چاہتا ہے۔ اگر ہر فرقہ نے دوسرے فرقہ کو اسلام سے نکالنے کے لئے لفظ مسلمان کی کوئی من مانی تعریف کی تو کسی ایک تعریف پر بھی اتفاق نہ ہو سکے گا اور نتیجہ میں کوئی فرقہ بھی مسلمان ثابت نہ ہوگا۔ لیجئے میدان صاف اور لفظ مسلمان کی تعریف معلق۔ روز روز کے جھگڑوں سے نجات اور مسلمان درگور و مسلمانی درکتاب۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کے الفاظ میں پہلے سے فیصلہ کئے بغیر ایمانداری سے مسلمان کی تعریف تلاش کرلی جائے۔ نہ تو ذہن میں یہ ہو کہ فلاں فرقہ کو ضرور مسلمان ثابت کرنا ہے۔ نہ یہ کہ فلاں فرقہ کو اسلام سے نکالنا ہے۔ کتاب اللہ اور اقوال پیغمبرﷺ~ سے انہی کے الفاظ میں مسلمان کی تعریف اخذ کرلی جائے۔ اور اس بات کی کوئی پروا نہ کی جائے کہ اس کی رو سے کون مسلمان اور کون کافر قرار پاتا ہے۔ جو فرقہ بھی اس تعریف میں آتا ہو اسے آنے دو اور جو اس سے نکلتا ہو اسے نکل جانے دو نہ تو کسی کو زبردستی داخل کرو اور نہ زبردستی نکالو۔ اگر کوئی تعریف سب کو اسلام کی آغوش میں لیتی ہے تو تم بھی اسے گلے لگائو اور اسے دھکے دینے کی کوشش نہ کرو۔
)۲(
کتاب و سنت میں لفظ مسلم کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ علمائے کرام نے کتاب و سنت کا گہرا مطالعہ اور اس کا منشاء معلوم کر کے ایک عقیدہ مقرر کیا ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اس عقیدے کو سچے دل سے مانتا ہے وہ مسلمان ہے خواہ اس کا تعلق کسی فرقہ سے ہو۔ وہ عقیدہ یہ ہے۔
>میں اللہ پر` اس کے فرشتوں پر` اس کی کتابوں پر` اس کے رسولوں پر` آخرت کے دن پر اور اس بات پر کہ خیر و شر کا وہی مالک ہے اور اس پر کہ مرنے کے بعد جینا برحق ہے ایمان لاتا ہوں<۔
اگر یہی عقیدہ ایک مسلم کی کسوٹی ہے تو ہر فرقہ سے پوچھو کہ وہ اس عقیدہ کی تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر ایمان رکھتا ہے تو اسے مسلمان سمجھو` اور تفصیلات کو علام الغیوب کے حوالے کرو۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ پھر ایسے فرقیہ کو اسلام سے خارج کر دے اور اس عقیدے کو بے نتیجہ اور بے اثر بنائے۔
اگر اس استدلالی اور استنباطی عقیدہ سے کام نہیں چل سکتا۔ تو پھر کتاب اللہ سے کتاب اللہ کے الفاظ میں پوچھو اور قرآن کریم سے لفظ مسلم کی تعریف نکالو۔ قرآن ہر زمانہ میں بولنے والی کتاب ہے۔ ناممکن ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ہمیں لفظ مسلم کی تعریف سے آگاہ نہ کرے اور ہمیں مسلمان کی تریف نہ بتائے۔ ہم نے جب اس مقصد کے لئے قرآن حکیم سے پوچا تو اس نے بتایا~:ف۴~
انما المومنون الذین ازا ذکر اللہ وجلت قلوبھم و اذا تلیت علیھم ایاتہ زادتھم ایمانا و علی ربھم یتوکلون الذین یقیمون الصلوہ و مما رزقنھم ینفقون اولئک ھم المومنون حقا
)سورٰہ انفال ع۱(
مومن وہ ہیں کہ ذکر الٰہی کے وقت ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور جب آیات تلاوت کی اجتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ اور وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور خدا کے بخشے ہوئے رزق کو خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں سچے ایمان والے۔ )قرآن پ۹ ع۱۵(
۲۔
‏]ksn [tagفاتم یستجیبوا لکم فاعلموا انما انزل بعلم اللہ و ان لا الہ الا ھو فھل انتم مسلمون )ھود ع۲(
اگر وہ تمہاری بات کا جواب نہد ے سکیں تو سمجھ لو کہ یہ قرآن خدا کے علم کے مطابق اترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس کیا تم مسلمان ہو۔ )قرآن پ۱۲ ع۲(
۳۔
و اذا وہیت الی الحوا این ان امنوا بی وبرسولی قالوا امنا و اشھد باننا مسلمون )المائدہ ع۱۵(
اور ہم نے حواریوں کو وحی کی کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں۔ انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ )قرآن پ۷ ع۵(
۴۔
قل انما یوحی الی انما الھکم الہ واحد فھل انتم مسلمون )الانبیاء ع۷(
کہہ دو کہ مجھ کو تو یہی حکم ملا ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے۔ پس کیا تم اسلام قبول کرتے ہو۔ )قرآن پ۱۷ ع۷(
۵۔
فان تابوا و اقاموا الصلوہ واتوا الزکوہ فاخوانکم فی الدین )توبہ ع۲(
اگر وہ تائب ہو کر نماز قائم کریں اور زکٰوٰہ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ )قرآن پ۱۰ ع۸(
۶۔
فامنوا باللہ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ و کلماتہ واتبعوہ لعلکم تھتدون ۰اعراف ع۲۰(
پس تم اللہ اور اس کے نبی امی کی رسالت پر ایمان لائو جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان لایا ہے۔ اور تم اس کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پائو۔ )قرآن پ۹ ع۱۰(
اب خواہ آپ کسی ایک آیت سے لفظ >مسلم< اور مومن کی تعریف اخذ کریں یا تمام آیات کو ملا کر کوئی نتیجہ نکالیں` خلاصہ یہی ہے کہ جو شخص خدا کی توحید اور صاحب قرآن کی رسالت کا قائل ہے نماز قائم کرتا اور زکٰوٰہ ادا کرتا ہے وہ مسلمان ہے` سچا مومن ہے` مسلمان کا بھائی ہے۔ ہدایت یافتہ ہے اور حوار تو خدا اور اس کے رسولﷺ~ پر ایمان لا کر لوگوں کو گواہ بناتے ہیں کہ باننا مسلمون۔
)۳(
قرآن کے بعد صاحب قرآن کی طرف آئیے اور دیکھئے کہ حضور~صل۱~ نے کس کو مسلم قرار دیا ہے:
)۱( حضرت جبرائیلؑ نے پوچھا ایمان کیا ہے؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر` اللہ کے فرشتوں پر` اس کی ملاقات پر` اس کے رسولوں پر` دوسری ¶زندگی پر یقین کرو۔ فرشتے نے پوچھا اور اسلام؟ فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نماز قائم کرو` زکٰوٰہ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔ )بخاری کتاب الایمان(
۱۔
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی شہادت کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ~)صل۱(~ اللہ کے رسول ہیں۔ نماز کا قیام۔ زکٰوٰہ کی ادائیگی۔ بیت اللہ کا حج۔ رمضان کے روزے۔ )بخاری کتاب الایمان(
۳۔
جس شخص نے ہماری نماز پڑھی اور ہماری قبلہ کو مانا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے۔ )مشکٰوٰہ(
مسلم کی تعریف میں خدا نے جو کچھ بتایا ہے کیا صاحب قرآن~صل۱~ نے کوئی دوسری راہ اختیار کی؟ ایمان کی تعریف میں اور مسلم کی تعریف میں اسلام کی بنیادیں کیا ہیں؟ اس کا اجمال قرآن میں اور تفصیل صاحب قرآن کے فرمان میں ہے۔ پس جو شخص` جو فرقہ` ایمان و اسلام کی ان تمام باتوں کو مانتا ہے۔ وہ سچا مسلمان اور پکا ایماندار ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ کچھ اپنی طرف سے بڑھا کر کسی کو اسلام سے خارج کرے اور کتاب اللہ اور ارشادات رسولﷺ~ سے تجاوز کر کے صرف اپنے اسلام کا ڈھنڈورا پیٹے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آیات اور احادیث مسلم کی تعریف میں کارآمد نہیں ہو سکتیں۔ کچھ اور آیات اور احادیث ہیں جو لفظ مسلم کی تعریف میں قول فیصل کا حکم رکھتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ آیات اور احادیث پیش کرو اور ان میں اپنی طرف سے کچھ نہ ملائو۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام سے اس فرقہ کو خارج کرو جسے کتاب اللہ اور اقوال رسول اللہﷺ~ خارج کریں اور ان فرقوں کو مسلمان سمجھو جن کو خدا اور رسولﷺ~ خارج کریں اور ان فرقوں کو مسلمان سمجھو جن کو خدا اور رسولﷺ~ مسلمان قرار دیں۔ ایک حرف کی کمی بیشی نہ کرو۔ الفاظ اور ان کا صحیح مفہوم جوں کا توں رہنے دو۔ اور پھر دیکھو کہ اسلام میں کون داخل ہوتا اور اس سے کون خارج ہوتا ہے۔
اس موقعہ پر علامہ سد سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ کا یہ قول بی یاد رکھنے کے قابل ہے:
>بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صاحب کو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا تھا۔ وہ احمق سی کوئی حبشیہ آنحضرت~صل۱~ کی خدمت میں لے آئے اور دریافت کیا کہ کیا یہ مسلمان ہے؟ آپ نے اس سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے؟ اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی آپ نے ان صاحب سے فرمایا لے جائو یہ مسلمان ہے۔ اللہ اکبر! اسلام کی حقیقت پر کتنے پردے پڑ گئے ہیں آپ اسلام کے لئے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دینا کافی سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک آج کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ نسفی کے بندھے ہوئے عقائد پر حرفاًحرفاًآمنت نہ کہتا جائے<۔ )رسالہ اہلسنت والجماعت ~ف۲۴(~
)۴(
اسلام اور ایمان کے مقابلہ میں کفر اور انکار ہے۔ جو مسلمان نہیں وہ نا مسلمان ہے اور یہ معلوم ہو چکا ہے کہ مسلمان کون ہے اور اس کے لئے کن باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ پس جس شخص کو ان باتوں سے انکار ہے وہ نا مسلمان ہے۔ یہ بات اتنی واضح ہے جس پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ تاہم وضاحت کے لئے یہ کہنا شاید نامناسب نہ ہوگا کہ کفر کی بنیاد انکار و تکذیب ہے التاویل فزع القبول )تاول قبول و تسلیم ہی کی ایک شکل ہے(
امام غزالی~رح~ فرماتے ہیں:
اما الوصیہ فان تکف لسانک عن تکفیر اھل القلہ ما امکنک ما داموا قائلین لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ غیر منافقین لھا و المنافقہ تجویزھم الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعذر او بغیر عذر فان التکفیر فیہ خطر و السکوت لا خطر فیہ۔
)التفرقہ بین الاسلام والزندقہ ~ف۵۶(~
ترجمہ۔ میری نصیحت یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اہل قبلہ کی تکفیر سے اپنی زبان کو روکو جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل رہیں اور اس کے خلاف نہ کریں اور خلاف یہ کہ حضور صلعم کو کسی عذر یا بغیر عذر کے کاذب قرار دیں۔ کیونکہ کسی کو کافر کہنے میں بڑے خطرات ہیں اور سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
چونکہ امام صاحب نے مسئلہ تکفیر کی گہری ریسرچ کی ہے اور کتاب التفرقہ اسی موضوع پر لکھی ہے۔ اس لئے انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ مسلمانوں کے فرقے جب ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں تو اس کے لئے انکار و تکذیب ہی کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ مگر جب تک قائل خود انکار نہ کردے اور اپنی طرف سے تکذیب کا یقین نہ دلائے۔ اسے مکذب و مکفر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امام صاحب فرماتے ہیں:
>ہر فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا ہے۔ اور اس پر رسولﷺ~ کی تکذیب کی تہمت دھرتا ہے۔ حنبلی اشعری کو کافر لکھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے خدا کے لئے اوپر کی جہت اور عرش پر بیٹھنے کی تکذیب کی ہے اور اشعری حنبلی کو اس لئے کافر کہتا ہے کہ وہ خدا کی تشبیہہ کا قائل ہے۔ حالانکہ رسولﷺ~ نے تو لیس کمثلہ کہا ہے۔ اس لئے وہ رسول کی تکذیب کرتا ہے اور اشعری معتزلی کو اس بناء پر کافر بتاتا ہے کہ اس نے خدا کے دیدار ہونے اور خدا میں علم و قدرت اور دیگر صفات کے قائم بالذات ہونے سے انکار کرنے میں رسولﷺ~ کی تکذیب کی ہے<۔ اور معتزلی اس خیال سے اشعری کو کافر بتاتا ہے کہ صفات کو عین ذات نہ ماننا تکثیر فی الذات ہے۔ اور توحید باری کی تکذیب رسولﷺ~ اللہ کی تکذیب ہے<۔ )التفرقہ بین الاسلام والزندقہ ~ف۲۳(~
یہ سطور اہل پاکستان کے ان علماء کے لئے لکھی گئی ہیں جو حکومت سے لفظ مسلم کی تعریف کرانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ وہ تعریف سے پہلے بعض فرقوں کو خارج از اسلام قرار دینے کے لئے بے چین ہیں اور تعریف بھی ایسی من مانی کرانا چاہتے ہیں کہ جن کو وہ مسلمان کہنا نہیں چاہتے وہ مسلمان ثابت نہ ہوں۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے یہ سطور پیش کی جا رہی ہیں۔
>ناظرین یقین فرمالیں کہ مضمون نگار صاحب نہ >قادیانی< ہیں نہ >رافضی< نہ >وہابی< نہ >بدعتی< نہ >پرویزی< نہ >چکڑالوی< نہ >خارجی< نہ >مودودی<۔ بلکہ ٹھیٹھ اہل سنت ہیں۔
جمعیہ العلماء سے تعلق رکھنے والے ہیں<۔
۸۔ چیف جسٹس قدیر الدین صاحب نے لکھا:
>اسلام کسی ایک دین کا نام ہے یا طرح طرح کے بہت سے دین اور بہت سی شریعتوں کو ملا کر ان کا نام اسلام رکھ دیا گیا ہے؟
یہ سوال ان سب لوگوں کے لئے اہم ہے۔ جو اپنے آپ کو سچے دل سے مسلمان بھی کہتے یں۔ اور اسلام سے محبت بھی رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک میں یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا کہ مسلمان کن عقائد کے رکھنے والوں کو کہتے ہیں چنانچہ ہمارے دستور میں مسلمان کی تعریف (Defination) شامل نہیں ہو سکی۔ اس لئے شق نمبر ۲۶۰ کے جز نمبر ۳ میں غیر مسلم کی تعریف شامل کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ سوال کہ مسلمان کس کو کہتے ہیں؟ کھل کر ۱۹۵۳ء میں اس وقت سامنے آیا۔ جب قادیانیوں کے خلاف پنجاب میں فسادات ہوئے اور ایک تحقیقی عدالت مقرر کی گئی کہ ان فسادات کے اسباب کی تفتیش کرے۔ اس عدالت کے صدر جناب محمد منیر تھے جو اس وقت چیف جسٹس تھے اور ایک رکن کیانی صاحب مرحوم تھے۔ جو اس وقت پنجاب ہائی کورٹ کے جج تھے۔
اس عدالت نے ملک کے تقریباً تمام فرقوں کے سرکردہ علماء کو بطور گواہ کے بلایا` جو فرقے اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ چنانچہ وہ سب پیش ہوئے اور سب سے یہ سوال کیا گیا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ ہر ایک کا جواب منیر رپورٹ میں درج ہے۔
ان جوابات کو غور سے دیکھا جائے۔ تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی یہ کہہ کر مطمئن نہیں ہوا کہ اللہ کو ایک ماننا اور محمدﷺ~ کو اس کا سچا پیغمبر ماننا ایک مسلمان کا عقیدہ ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ اور شرائط شامل کی گئیں وجہ یہ تھی کہ اگر وہ شرائط نہ لگاتے تو پھر فرقوں میں جو اختلاف ہے اس کی بنیاد قائم نہ ہو سکتی۔ ہر فرقے کے عالم نے ان عقائد کا ذکر کسی نہ کسی طرح سے مسلمان کی تعریف میں کرنا ضروری سمجھا۔ جن کو وہ اپنے فرقے کی خصوصیت سمجھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان کی تریف میں فرقوں کی تعریفیں شامل ہوتی رہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلام فرقوں کا ایک مجموعہ نظر آنے لگا اور خالص اسلام کی تعریف مسلمان کی تعریف کے ساتھ الجھ کر رہ گئی<۔
روزنامہ >جنگ< کراچی ۱۶/ مئی ۱۹۷۶ء بحوالہ ہفت روزہ لاہور
جلد نمبر ۲۵ شمارہ نمبر ۲۲`۳۱/ مئی ۱۹۷۶ء صفحہ نمبر ۵
ایک اہلحدیث عالم دین کا نعرئہ حق
۸۔ پنجاب کے مشہور اہلحدیث خاندان کے چشم و چراغ مولانا غلام محی الدین لکھوی نے )گوہڑ نمبر ۸ متصل پتوکی ضلع لاہور میں( ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
>ہر وہ شخص جو پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے مسلمان ہے خواہ وہ کوئی بھی عقیدہ رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔ تحقیقاتی عدالت مین کسی عالم دین کو مسلمان کی تعریف کرنا نہیں آئی۔ حالانکہ حدیث کی رو سے مسلمان وہ جو حدیث من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا و اکل ذبیحتنا پر عامل ہے<۔
اخبار >الاعتصام< لکھتا ہے کہ:
>اس موقع پر انہوں نے تمام علماء کو جاہل قرار دیا ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ قادیانیوں کے بارہ میں جناب کا کیا خیال ہے؟ جبکہ وہ اس حدیث پر بھی عامل ہیں؟ مولانا نے فوراً جواب دیا کہ وہ مسلمان ہیں<۔~ف۵~
برصغیر کے ممتاز ادیب اور سکالر کی رائے
۹۔ میاں محمد طفیل ایڈیٹر رسالہ نقوش و سیکرٹری جنرل پاکستان رائٹرز گلڈ نے لکھا:]>[مجھے یا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان کہیں جبکہ آج تک یہی پتہ نہ چلا ہو کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے۔ ۱۹۵۳ء میں احمدی ایجی ٹیشن کے خلاف جو انکوائری کمیٹی بیٹھی تھی اس نے تمام علماء سے سوال کیا تھا کہ پہلے یہ بتائیے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے وہاں مختلف عقائد کے علماء جمع تھے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئے اس لئے کہ مسلمانوں میں بھی تو کئی عقیدوں کے لوگ ہیں جیسے شیعی` خارجی` معتزلی` وہابی` احمدی` بہائی` نیچری وغیرہ۔ ہمارا مولوی تو دوسرے عقیدے والے کو پھت سے کافر کہہ دیتا ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم مولویوں کی نظر میں مسلمان نہیں ہیں اس لئے کہ جو خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان رکھتا ہے وہ کافر کیسے ہو جاتا ہے<۔~ف۶~
غیر مسلم دنیا میں اسلام اور پاکستان کی بدنامی
تحقیقاتی عدالت میں علماء کے طرزعمل` تنگ نظری` تعصب اور علمی کم مائیگی کے مظاہرہ نے جہاں برصغیر کے مسلمان حلقوں میں ان کے خلاف سخت نفرت و حقارت کے جذبات پیدا کئے وہاں اس کا یہ افسوسناک نتیجہ بھی برآمد ہوا کہ غیر مسلم دنیا میں بھی اسلام اور پاکستان کی سخت بدنامی ہوئی۔ اس حقیقت میں صرف چند تحریرات کا ذکر کافی ہوگا۔
۱۔ مشہور مستشرق پروفیسر ولفرڈ کانٹ ویل سمتھ
‏Smith) Cantwell (Wilfred
نے لکھا:
‏ was world, the subsequently and Inquiry, of Court <The no divines Muslim of spectacle sorry the with presented who and Muslim, a definitionof the on agreed whom of two should disagreed who all that unanimous practically were yet ۔death> to put be
‏ Cantwell Wiflred by History Modern in Islam
1957۔Smith
۔233 page, USA, Jersey, New Princeton, Press, University Princeton
تحقیقاتی عدالت اور بعد میں دنیا کے سامنے یہ افسوسناک نظارہ پیش کیا گیا کہ کوئی سے دو علماء بھی مسلمان کی تعریف پر آپس میں متفق نہ ہو سکے اور اس کے باوجود وہ سب اس بات پر عملی طور پر متفق تھے اور یک آواز تھے کہ جو شخص بھی ان کے نکتہ نگاہ سے اختلاف کرے اسے قتل کر دیا جائے۔
۲۔ مسٹر ایم اے کرانڈکر Karandikar)۔A۔(M نے لکھا:
‏ Council a into itself converted on later committee The turn ugly an took on later agitation The ۔Action of appointment and law martial of imposition the in resulting and Munir۔M Justice by headed enquiry of commission a of Munir the as famous is report Their ۔Kayani۔R۔M Justice <In Report: the in summarised is controversy The ۔Report fundamental a is there Islam in or state Islamic am non-Muslim and Muslim of rights the between distinction mentioned be once at ma which distinction one and subjects the htwi associated be cannot Muslims۔non the that is Therefore, ۔sphere higher the in administration of business not could they Kafirs, but Muslims not were Ahmadis the if a as and state the in offices high the of any occupy required demands the of two proposition the from deduction Ahmadis other and khan Zufrulla Choudhary of dismissal the the and State, the in positions key occupying were who non-Muslim a as Ahmadis of declaration the required third ۔minority
‏ that claimed ulama different evidence, their giving While voice no have would non-Muslims the state, Islamic the in no ۔law the administer to right no laws, of making the in in employed be to right no office, public hold to right the involving post any or ministry judiciary, army, the question the with confronted When ۔confidence of reposing same the in treated be should Muslims the whether to as categorically ulama other and Moududi ۔India in manner were Muslims the if objection no had the that stated the was This ۔India in shudras and mlechhas as treated forthright however, were, They ۔practice in theory Qurban understood they (as Mussalman true a that admit to enough non-Muslim any of citizen faithful a be not could term) the Islamic the that stated Ansari Tajuddin Maulana ۔government ۔minute a for India in remain them let not would ideology the of Qari, Ahmad Muhammad Sayyid Hasnat Abdul Maulana between war a of event the in that stated Pakistan I۔U۔J bound duty were Muslims Indian the Pakistan, dna India Maulana by corroborated was view This ۔Pakistan with side to an in enquirythat the during stated ulama Some ۔Moududi human of photographing painting, portrait State Islamic acting dancing, music, cards, of playing ۔sculpture beings, be to have will performance dramatic and cinema all and or policeman a that stated hasnat Abdul Maulana ۔banned command disobeyany to right the have would soldier a decide to free was soldier the or policeman the from to contrary was command particular a whether himself Pakistan between war a during only was It ۔not or religion not was soldier the that country non-Muslim another and he eventuality, an such in himself: for decide to free Maulana ۔ulama the of fatwa the on depend haveto would that considered others some and Badayuni Hanif Abdul college Medical the in bodies dead of dissection the ۔Islam to antithetical was postmortem for or
‏ differed materially shades different the of ulama The Report The ۔Muslim a define to asked when other each from several the view in <Keeping position: curious the summarizes except comment any make we need ulama, the by given definitions If ۔fundamental this on agreed are divines learned two no that done has divines learned each as definition own our attempt we we others, all by given that from differs definition that and the adopt we if And ۔Islam of fold the of out go unanimously Muslims remain we ۔ulama the of one any by given definition the to according Kafirs but alim that of weiv the to according ۔else one every of definition
‏ Modernity, to Transition India's in Islam
۔285۔pp:284 Karandikar, ۔A۔M by
‏ Mahr Society, Darakhshan 25/216 Publishers Eastern
7۔KARACHI
اس )احراری( کمیٹی نے بعد میں جب اپنے آپ کو راست اقدام کرنے والی کمیٹی میں بدل دیا تو ایجی ٹیشن نے ایک انتہائی بدنما رخ اختیار کرلیا۔ تحقیقاتی کمیشن جسٹس منیر اور جسٹس ایم آر کیانی کی سرکردگی میں مقرر کیا گیا۔ ان کی رپورٹ منیر رپورٹ کے نام سے مشہور ہے اس قضیہ کو اس رپورٹ میں مختصراً یوں بیان کیا گیا ہے۔
>ایک اسلامی ریاست میں یا یوں کہئے کہ اسلام میں مسلمانا ور غیر مسلمان رعایا کے حقوق میں ایک بنیادی امتیاز ہے۔ جسے فوراً بیان کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ غیر مسلمان کو ریاست کے اعلیٰ انتظامی امور میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اگر احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ کافر ہیں۔ تو وہ کسی بھ اعلیٰ ریاستی منصب پر فائز نہیں رہ سکتے۔ اور مطالبہ کی شرط نمبر۲ سے بطور استنباط یہ دو مطالبے کئے گئے۔ کہ چوہدری ظفر اللہ خان کو برطرف کیا جائے۔ اور دوسرے احمدی جو ریاست کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ انہیں برخواست کیا جائے۔ اور تیسرا مطالبہ یہ تا کہ احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
اپنی شہادت کے دوران مختلف علماء نے یہ دعویٰ کیا۔ کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی قانون سازی میں کوئی آواز نہ ہوگی۔ اور وہ قانون کی تنفیذ میں کوئی اختیار نہ رکھیں گے۔ اور کسی پبلک عہدہ پر مقرر نہ کئے جا سکیں گے۔ فوج` عدالت` وزارت میں یا کسی ایسی اسامی پر جہاں اعتماد کا سوال ہو ملازم نہیں رکھے جائیں گے۔ اور جب ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا۔ کہ آیا مسلمانوں سے بھی ہندوستان میں ایسا ہی سلوک کیا جائے۔ تو مودودی اور دوسرے علماء نے بے لاگ جواب دیا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اگر ہندوستان میں مسلمانوں سے ملیچھوں یا شودروں والا سلوک کیا جائے۔
یہ قرآنی نظرئیے کی عملی شکل تھی۔ انہوں نے اس بات میں بھی نہای بے باکی سے اعتراف کیا۔ کہ ایک سچا مسلمان )جیسا کہ ان کے خیال میں ایک سچا مسلمان ہونا اہئے( کسی دوسری غیر مسلم ریاست کا وفادار شہری بن کر نہیں رہ سکتا۔ مولانا تاج الدین انصاری نے بیان کیا۔ کہ اسلامی نظرئیے کے تحت تو وہ ایک منٹ کے لئے بھی ہندوستان میں قیام نہیں کر سکتے۔ جمعیت العلماء پاکستان کے مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادر نے بیان کیا۔ کہ پاک و ہند کے درمیان جنگ کی صورت میں مسلمانان ہند کا لازمی فرض ہوگا۔ کہ وہ پاکستان کی حمایت کریں۔ اس بیان پر مولانا مودودی نے صاد فرمایا۔ تحقیقات کے دوران بعض علماء نے بیان کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں مصوری۔ انسانوں کی فوٹو اتارنا۔ مجسمہ سازی۔ تاش کھیلنا۔ موسیقی۔ رقص۔ ایکٹنگ اور ہر طرح کے سینما اور ڈرامائی کردار پر حکم امتناعی لگانا ہوگا۔ مولانا ابوالحسنات نے بیان کیا۔ کہ ایک پولیس مین یا فوجی ملازم کو اپنے مذہب کی بناء پر اختیار ہوگا۔ کہ وہ اپنے اعلیٰ افسران کے کسی بھی حکم کو ماننے سے انکار کر دے انہوں نے مزید یہ فرمایا۔ کہ ایک فوجی یا پولیس مین اس بات میں آزادہوگا کہ وہ خود فیصلہ کرے۔ کہ آیا اس کے افسر کا کوئی خاص حکم شرع )محمدی( کے مخالف ہے یا نہیں۔ سوائے اس کے کہ پاکستان کی کسی غیر مسلم ملک سے جنگ کی صورت میں کسی فوجی ملازم کو یہ اختیار نہ ہوگا۔ کہ وہ ازخود فیصلہ کرے بلکہ ایسی صورت میں اس کو چاہئے کہ وہ علماء )اسلام( کے فتویٰ پر انحصار کرے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی اور کچھ دوسرے علماء کے خیال میں مردوں کی چیڑ پھاڑ جو میڈیکل کالجوں میں ہوتی ہے یا پوسٹ مارٹم وغیرہ خلاف اسلام ہیں۔ جب علماء سے یہ کہا گیا کہ مسلمان کی تعریف بیان کریں۔ تو اس میں بھی مختلف خیالات کے علماء کا اپس میں مادی اختلاف تھا۔ رپورٹ اس کیفیت کو اختصاراً یوں بیان کرتی ہے۔
>ان بہت سی تعریفوں کے پیش نظر جو کہ علماء نے پیش کی ہیں۔ کیا ہمیں کسی تبصرے کی ضرورت ہے سوائے اس کے کہ کوئی بھی دو مقدس عالم اس بنیادی اصول پر متفق نہ تھے۔ اگر ہم خود اسلام کی تعریف پیش کرنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ ہر فاضل عالم دین نے کی ہے اور ہماری تعریف ان سے مختلف موجود دوسروں کے کی ہے تو ہم متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج اور اگر ہم کسی ایک عالم کی بتائی ہوئی تعریف کو قبول کرلیں۔ تو ہم صرف اس ایک عالم کی تعریف کے مطابق ہی مسلمان رہتے ہیں۔ لیکن باقی تمام علماء کی تعریفوں کے مطابق ہم کافر بن جاتے ہیں<۔
۳۔ ایک روسی مئولف ملایا زنکن (Tayazinkin) نے اخبار میں لکھا کہ:
‏Guarian Manchester The
‏1955 January 8th
‏ Chief present The ￿Constitution Islamic an is what But has Munir, Justice۔Mr ۔truCo Federal the of Justice Lahore the on report his in problem the considered massaered where Ahmdis the where 1953 of disturbances State Islamic the then is <What ۔orthodoxy of name the in He >￿tinks nobody and much so talks everybody which of corollaries and implications definition, the discuss to on goes the that fact the by handicapped somewhat though Islam, of gave who Scholars and Mullahs pundits, Moslem of scores man a makes what over even agree not could evidence ۔Islamic> State a ealon let Mussalman,
216۔p Munir Muhammad Justice Chief
۔Chaudhri Hussain Nazir by
‏ Lahore, Pakistan, of Society Research Publisher:
1973 ۔March ۔Edition First
اسلامی آئین کیا ہے؟ فیڈرل کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس۔ مسٹر جسٹس منیر نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس مسئلہ پر غور کیا ہے۔ جو انہوں نے ۱۹۵۳ء میں لاہور کے فسادات کے بارے میں لکھی ہے۔ )ان فسادات میں( احمدیوں کا قدامت پسندی کے نام پر قتل عام کیا گیا تھا۔ اس نے دریافت کیا ہے >آخر وہ اسلامی ریاست کیا ہے جس کے بارے میں ہر شخص اتنی باتیں کرتا ہے۔ اور کوئی سوچتا نہیں<۔ پھر وہ آگے چل کر اسلام کی تعریف اس کے مبادی۔ اور اس کے بدیہی نتائج پر بحث کرتا ہے۔ اگرچہ وہ اس امر سے کسی قدر مشکل میں پڑگیا ہے کہ بیسوں مسلم پنڈت ملا اور عالم لوگ جنہوں نے )اس کی عدالت میں( گواہیاں دی تھیں۔ وہ لوگ صرف اس بات پر آپس میں اتفاق نہ کر سکے۔ کہ ایک شخص کو مسلمان بنانے کے لئے کن باتوں کی ضرورت ہے۔ چہ جائیکے وہ یہ بیان کر سکتے کہ اسلامی ریاست کیا ہونی ہے۔
۴۔ ایک اور روسی مفکر مسٹر ایم ٹی سٹیپنینٹس Stepanynts) T۔(M نے علماء کے متشددانہ نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
‏ theorising, to themselves confined not have ulama The their of fourteen to over gone have have time from and Jamaat-i-Islami and Ahrar leading the including organisations, Playing ۔sect Ahmadiya the against campaign a launched parties, real the (whereas faith of questions on differences their up bourgeois different between struggle political the in lay reason for demands: following the raised ulama the groups), landlord and foreign of post the from removed be to Khan Zafrullah Chaudhury all for sect; the in membership his of grounds the on minister ۔offices government their from dismissed be to Ahmadis
‏ sympathetic a with meet not did ulama the by taken stand The undemocratic as denounced was It ۔circles official in reception blamed be not could which Islam; of spirit the to contradictory and stained are history Muhammadan of pages <the that fact the for cruel many of blood the ~withف۸~۔>snpersecutio
علماء نے اپنے آپ کو نظریات قائم کرنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ وقتاً فوقتاً عملی اقدام بھی کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۹۵۳ء میں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جبکہ ان کی چودہ تنظیموں بشمولیت احرار اور جماعت اسلامی نے جو اس ایجی ٹیشن میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھیں فرقہ احمدیہ کے خلاف ایک زبردست مہم کا آغاز کیا۔ اگرچہ حقیقی اختلاف اس سیاسی کشمکش میں مضمر تھا جو شہری متوسط طبقہ اور جاگیردار طبقے میں جاری تھی مگر اس موقع پر علماء نے مذہبی مسائل پر اختلافات کو ہوا دی اور مندرجہ ذیل مطالبات پیش کر دئیے۔
ایک یہ کہ احمدیوں کو ایک غیر مسلم فرقہ قرار دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس فرقے کا ایک رکن ہونے کی بناء پر چوہدری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹا دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ تمام احمدیوں کو سرکاری عہدوں سے برطرف کیا جائے۔
علماء کے اس مئوقف کو سرکاری حلقوں میں پذیرائی حاصل نہ ہوئی بلکہ اس کو غیر جمہوری اور روح اسلام کے متضاد سمجھتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی۔ ویسے اس کی وجہ سے علماء کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ اس قسم کی بعض ظالمانہ ایذا رسانیوں کے خون سے داغ دار ہے۔
حواشی
~ف۱~
ہفت روزہ >الاعتصام< لاہور ۷/ اکتوبر ۱۹۵۵ء ص۵ کالم۱
~ف۲~
صدق جدید ۲۸/ مئی ۱۹۵۴ء بحوالہ الفرقان ربوہ جولائی ۱۹۵۴ء ص۴۸
~ف۳~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲۱/ جون ۱۹۵۵ء ص۱
~ف۴~
مقالہ میں صرف ترجمہ آیات درج ہے آیات کا متن مقالہ کی افادیت میں اضافہ کے لئے بڑھایا گیا ہے۔
~ف۵~
مکتوب محمد یوسف ناظم جمعیہ اہلحدیث گوہڑ نمبر۸ متصل پتوکی ضلع لاہور ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۲۶/ نومبر ۱۹۵۴ء ص۵ کالم ۱
~ف۶~
)آپ ص۳۰`۳۱ دوسرا ایڈیشن مصنف محمد طفیل۔ ایڈیٹر >نقوش< سیکرٹری جنرل پاکستان رائٹرز گلڈ
~ف۷~
بحوالہ کتاب >چیف جسٹس محمد منیر مرتبہ ناظر حسین` چوہدری شائع کردہ سوسائٹی آف پاکستان پنجاب یونیورسٹی لاہور` ص۲۱۶ طبع اول ۱۹۷۴ء
~ف۸~
۔Stepanynts T۔M by 99۔p:98 ۔Philosophy PAKISTAN ~ف۸~ ۔Sciences of Academy R۔S۔S۔U by: Published
۔Philosophy of Institute
‏tav.14.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
حصہ چہارم

۱۹۵۳ء کے جماعتی ابتلاء کی عظیم الشان برکات
پہلا باب
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے >الوصیت< میں مستقبل میں رونما ہونے والے تغیرات اور جماعتی ابتلائوں اور ان کے نتائج کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ:
>یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔۔۔۔۔ وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے ائیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے<۔~ف۱~
اس پیشگوئی کے مطابق اللہ عالیٰ نے ۱۹۵۳ء کے جماعتی ابتلاء میں جن برکات سے اپنی پاک جماعت کو نوازا ان میں سے بعض کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔
اس باب میں چار۴ مزید برکات کا ذرا تفصیل اور شرح و بسط سے ذکر کیا جاتا ہے۔
اوم:نشانات الٰہیہ کا ظہور۔
دوم:جماعت احمدیہ کی ترقی و استحکام۔
سوم:جماعت احمدیہ کی عالمی شہرت میں اضافہ۔
چہارم:جماعت احمدیہ کی بے مثال اخلاقی قوت اور بلند کیریکٹر کا اظہار
نشانات الٰہیہ کا ظہور
اول:سیدنا حضرت مہدئی معہود مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام نے ۳/ جنوری ۱۸۹۷ء کو حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کو لکھا:
>خداتعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام مجھے ہوا ہے انی مع الافواج اتیک بغتہ< ترجمہ:یعنی میں فوجوں کے ساتھ ناگاہ تیرے پاس آنے والا ہوں یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے<۔~ف۲~
اس کے بعد یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئی بار نازل ہوا۔ ۲۸/ اپریل ۱۹۰۵ء کو جب اس کا نزوال ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ الہام اس کی خبر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین )خلیفہ المسیح الثانی( کو بھی دی گئی۔ چنانچہ بدر ۲۷/ اپریل ۱۹۰۵ء میں لکھا ہے۔
اسی شب صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے خواب دیکھا تھا کہ حضرت کو انی مع الافواج اتیک بغتہ< ]qi [tagالہام ہوا صبح اٹھ کر ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ بے شک یہ الام ہوا ہے<۔~ف۳~
اس تصرف الٰہی میں واضح حکمت یہی تھی کہ اس نوع کا ایک عظیم الشان نشان حضرت مصلح موعود کے دور خلافت میں مقدر تھا۔ چنانچہ جب اس کے ظہور کا وقت آن پہنچا تو حضور نے یہ پرشوکت پیشگوئی فرمائی کہ >خدا مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے< اس پیشگوئی کے تیسرے روز ۶/ مارچ ۱۹۵۳ء کو مارشل لاء نافذ ہوگیا اور فوجیں لاہور میں داخل ہوگئیں۔
چھ مارچ کو جمعہ تھا۔ ادھر دن طلوع ہوا ادھر خدا کی مظلوم جماعت کو مٹا دینے کے منصوبے ہونے لگے۔ اس وقت کشتئی احمدیت خطرناک گرداب میں ہچکولے کھا رہی تھی اور اس کا بچ نکلنا کسی معجزہ کے بغیر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ ایسے نازک وقت میں الہام >انی مع الافواج اتیک بغتہ< اور حضرت مصلح موعود کی پیشگوئی کے عین مطابق خداتعالیٰ کی آسمانی تائید و نصرت کا یکایک نزول ہوا اور ٹھیک بارہ بجے کے قریب لاہور میں مارسل لاء نافذ کر دیا گیا اور پاکستان کی بہادر اور محب وطن فوج چند گھنٹے کے اندر اندر امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بصورت دیگر پاکستان اور جماعت احمدیہ کا جو حشر ہوتا اس کا تصور کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ناظم مارشل لاء میجر جنرل اعظم نے سچ کہا تھا کہ:
>۶/ مارچ کو فوج نے اور ڈیڑھ گھنٹہ انتظام نہ سنبھالا ہوتا تو وہاں مکمل تباہی` لوٹ مار قتل و غارت اور زنابالجبر کا دور دورہ ہوتا اور کسی کی عزت اور وقار محفوظ نہ تھا<۔~ف۴~
یہ مارشل لاء ۱۵/ مئی ۱۹۵۳ء کو صبح ۳ بجے اٹھایا گیا۔ ناظم مارشل لاء میجر جنرل اعظم نے ۱۴/ مئی کو اپنی نشری تقریر میں کہا:
>اہل پنجاب اور خاص کر اہل لاہور کو ان حالات کا اچھی طرح علم ہے جن میں فوج کو شہری حکام کی مدد کے لئے آنا پڑا۔ جبکہ ہر طرف بدامنی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ریلوں کی پٹریاں اکھاڑے جانے` ٹیلیفون اور ٹیلی گراف کے تار کاٹے جانے اور عام ٹریفک میں مداخل کئے جانے کی خبریں برابر آ رہی تھیں۔ لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا۔ غرض کہ ۶/مارچ کی اس صبح کو لاہور میں کسی بھی شہری کی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ چند خود غرض انسانوں نے اپنے مفاد کے لئے جھوٹی باتوں سے کام لے کر اور مذہب کی آڑ لیتے ہوئے نادان عوام کے جذبات کو پاگل پن کی حد تک ابھار دیا تھا۔ انہون نے اپنی تحریک کو بظاہر مذہب کا رنگ اس لئے دیا تھا کہ ناواقف لوگ ان کے جال میں پھنس سکیں۔ اب اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہا کہ ان کی یہ تحریک سارے ملک کے خلاف ایک مکمل سازش تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں بدامنی پھیلانے کے بعد حکومت کو بالکل بیکار کر دیا جائے۔ یہ کام صرف ملک کے دشمنوں کا ہی ہو سکتا ہے<۔~ف۵~
تحریک پاکستان کے ایک عظیم رہنما جناب حمید نظامی نے اپنے اخبار نوائے وقت میں >فوج کا شکریہ< کے زیر عنوان لکھا:
>یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ۶/ مارچ ۱۹۵۳ء( کو لاہور شہر میں سول نظم و نسق پوری طرح تباہ ہو چکا تھا اور اگر چند گھنٹے اور مارشل لاء نافذ نہ کیا جاتا تو پاکستان کے اس قدیم ترین تاریخی شہر میں بلاامتیاز عقیدہ کسی شہری کے جان و مال کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر لاہور کے حالات کو بہ وق )بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ آخری وقت پر( سنبھال نہ لیا جاتا تو لاقانونیت کی آگ سارے صوبہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ اس اعتبار سے فوج نے صرف لاہور کو ہی نہیں سارے صوبہ کو بچا لیا ہے۔ ہم پاکستانی فوج کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں<۔~ف۶~
دوم:حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام کو ۱۸۹۲ء میں الہام ہوا کہ >انی مھین من اراد اھانتک~<ف۷~
جناب مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر المنبر لائل پور )فیصل آباد( تحریر فرماتے ہیں:
>قادیانیوں کے ہاں یہ بات عقیدے کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ جو گروہ اور شخص مرزا غلام احمد کی نبوت کو چیلنج کرتا ہے یا قادیانی جماعت کی مخالفت کے درپے ہوتا ہے وہ انجام کار ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ اس پر مرزا غلام احمد صاحب کا یہ الہام ہر قادیانی کے ورد زبان ہے۔
انی مھین من اراد اھاتنک میں ہر اس شخص کو ذلیل کروں گا۔ جو تیری تذلیل کے درپے ہوگا۔۔۔۔۔<
اس کے بعد لکھا:
>قادیانی جماعت ان تمام مخالفتوں کے علی الرغم بڑھتی چلی گئی اور آج مخالفت کے جتنے طوفان اس کے خلاف اٹھے ان کی لہریں تو آہستہ آہستہ ابھرتی رہیں لیکن یہ گروہ پھیلتا چلا گیا۔۔۔۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کام کا جواب نعروں سے` مسلسل جدوجہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے علمی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف پھبتیوں` بے ہودہ جلوسوں اور ناکارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں ہنگامہ خیزی کا نتیجہ وہی برآمد ہوگا۔ جو لوگ اس طرز پر مثبت کام نہیں کر سکتے وہ قادیانی تحریک کے صحیح حامی و مددگار ہیں وہ اس نہج پر جتنا کام کریں گے اس سے یہ تحریک تقویت حاصل کرے گی<۔~ف۸~
۱۹۵۳ء کی اینٹی احمدیہ تحریک میں شورش پسند علماء کی باطنی کیفیت جس طرح ملک ہر طبقہ کے سامنے آشکارا ہوئی اور ان کے اخلاق و ایمان کا سارا بھرم کھل گیا۔ وہ بھی اس الہام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت تھا چنانچہ جامعہ رشیدیہ منٹگمری )ساہیوال( کے صدر تحریر فرماتے ہیں:
>ختم نبوت کے زمانہ مین تمام علماء کا کھرا کھوٹ قوم نے دیکھ لیا ہوا ہے<۔~ف۹~
اس اجمال کی تفصیل تو بہت طویل ہے بطور نمونہ صرف چند واقعات کا ذکر کافی ہوگا۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایم اے چوہدری کی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ:
>۱۹۵۳ء میں جب قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی تو میں لاہور میں تھا۔۔۔۔ ایک واقعہ یاد ہے یونیورسٹی کے سامنے بدمعاش ننگے ناچے۔ تحریک کا ابھی آغاز تھا اس لئے تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے انہوں نے اچھل اچھل کر ختم نبوت کے نعرے لگائے اور لڑکیوں کے سامنے ننگے ناچے۔ سچی بات ہے مجھے بہت برا لگا اور بڑی غیرت آئی کہ نام لیں پاک رسولﷺ~ کا اور یوں ننگے ناچیں چنانچہ میں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور ان کی خوب گوشمالی کی اس پر میرے خلاف افواہ پھیلا دی گئی کہ یہ قادیانی ہے چنانچہ ایک روز آدھی رات کو کسی منچلے نے جنگلے سے آکر میرے خیمہ کو آگ لگا دی۔۔۔۔ تحریک کے دوران عام لوگوں کا جوش دیدنی تھا ناموس محمدﷺ~ پر کٹ مرنے کا ایسا بے پناہ جذبہ تھا کہ تمام تر سختیوں کے باوجود کسی مرحلے پر اس میں کوئی کمی نہ آئی لیکن افسوس کہ ان کے لیڈر بودے نکلے اور انہیں ناکامی و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تحریک کے دوران سیاست دانوں اور علماء ضرات کا ایک عجیب اور افسوسناک رخ دیکھنے مین آیا وہی لوگ جو بڑھ چڑھا کر گرما گرم تقرریں کرتے اور نعرے لگاتے تھے کہ جو بھی ہو کسی کو گولی نہیں لگے گی لیکن حقیقتاً جب گولی چلی تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے راہ فرار اختیار کی۔ دکانیں بند تھیں` انہوں نے دکانوں کے تھڑوں کے آگے لگے تختوں کے نیچے سے اور نالیوں مین سے گزر کر اپنی جان بچائی۔ چند جذباتی نوجوان سینے تان کر سامنے آئے لیکن یہ بھاگ نکلے مارسل لاء لگا تو لیڈر غائب ہی ہوگئے جیسے ان کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو بہت سے چھپ گئے یا ادھر ادھر بھاگ گئے۔۔۔۔ ایک اور لیڈر کا بتائوں جو آج بھی حیات ہیں اور بڑے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جب مارشل لاء لگا تو وہ مسجد وزیرخاں میں تھے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے اور ان کی تلاش ہونے لگی انہوں نے ڈاڑھی منڈوا دی اور چھپ گئے لیکن جلد ہی پکڑے گئے<۔~ف۱۰~
اس متن میں اخبار >نوائے وقت< ۲۵/ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ نمبر ۱ پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی تھی:
>پنجاب اسمبلی کے ایک رکن مولانا عبدالستار نیازی آج قصور میں گرفتار کرلئے گئے۔
>پولیس قدیانیوں کے خلاف حالیہ ایجی ٹیشن کے سلسلہ میں مولانا نیازی کی تلاش میں تھی انہوں نے اس غرض سے کہ انہیں کوئی پہچان نہ سکے ڈاڑھی اور مونچھیں صاف کرا دی تھیں۔
یاد رہے کہ پنجاب کے حالیہ واقعات سے مولانا نیازی کو گہرا تعلق ہے وہ اپنے حامیوں کو بے سہارا چھوڑ کر مسجد وزیر خاں سے بھاگ گئے تھے۔ اس کے بعد وہ ادھر ادھر پھرتے رہے اور آج گرفتار کر لئے گئے۔ گرفتار کے وقت وہ ایک مکان میں سو رہے تھے<۔
پھر جو >قائدین< جیل خانوں میں گئے انہوں نے وہاں جس طرزعمل یا اخلاق کا مظاہرہ کیا اس سے ان کے عقیدت مندوں کو سخت ٹھیس پہنچی چنانچہ >ابن انشاء< اپنے ایک مقالہ میں رقم طراز ہیں:
‏iq] gat>[ہمارے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ جب میں جیل میں تھا تو بہت سے لوگ ختم نبوت کی تحریک کے سلسلہ میں جیل میں آگئے۔ ان میں کچھ بڑے ناموں والے مولوی بھی تھے۔ میں ان دنوں قرآن اور عربی زبان پڑھا کرتا تھا ایک روز ایک آیت کے معنوں میں اٹکا تو ایک لیڈر مولوی سے پوچھا کہ مولانا ذرا رہنمائی فرمائیے بہت دیر تک بیٹھے قرآن شریف کے اس صفحہ کو تکتے رہے آخر کہنے لگے >میاں سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں ہے کہ کسی اور سے پوچھو< تبھی تو منیر کمیشن کے سامنے اکثر کی بھد ہوئی۔ ان لیڈروں کے علاوہ جو کارکن اس تحریک کے سلسلے میں آئے تھے بہت مخلص اور نیک تھے۔ ان میں سے ایک خدا کا بندہ جو لاہور کا پہلوان ہے ایک روز ان دوست کے پاس آیا اور بولا شاہ جی میرے جی میں آتی ہے کہ ان لیڈروں کو چھرا مار دوں۔ میں نے کہا ارے یہ کیا کہہ رہے ہو؟ بولا یہاں پاس آکر ان کی حقیقت معلوم ہوئی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اور جلد رہائی کے لئے یا اونچی کلاس کے لئے لڑتے ہیں کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ہم لوگوں کا حال احوال ہی پوچھ لیں کہ میاں تم لوگوں کو کھانے کو ٹھیک ملتا ہے<۔~ف۱۱~
پاکستان کے صحافی مجیب الرحمن صاحب شامی نے رسالہ ہفت روزہ >زندگی< میں ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن میں حصہ لینے والے راولپنڈی کے ایک >عالم دین< اور >شیخ القرآن< کے ایک مکتوب کا عکس شائع کیا جو وزیراعظم فیروز خان نون اور آئی جی سے رہائی کی سفارش کے لئے تھا۔ شامی صاحب نے اس خط پر یہ تبصرہ کیا کہ:
>یہ مولانا صاحب تحریک ختم نبوت کے زمانے میں قید ہوئے اور قید کے دوران۔۔۔۔ یہ خط تحریر کیا۔ اس خط کو پڑھئیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آج کل منبر رسول پر بیٹھنے والے بعض حضرات کے دل دین کی محبت سے کس قدر خالی ہیں اور انہیں اپنے کاروبار کا کتنا خوف لاحقہے۔ منبر پر کھڑے ہوکر ختم نبوت کے لئے جان دینے کے دعویٰ دار جیل میں پہنچے تو سارا دعویٰ علم و فضل دھرے کا دھرا رہ گیا<۔~ف۱۲~
جیل خانوں میں ان لوگوں پر کیا بیتی؟ اس سلسلہ میں جامعہ اشرفیہ کے صدر مدرس جناب مولوی محمد ادریس صاحب کاندھلوی نے تحقیقاتی عدالت میں یہ بیان دیا کہ:
>ڈپٹی کمشنر مسلح پولیس کی گارد کے معیت میں جیل ائے۔ اس وقت علماء اور دوسرے ممتاز اصحاب بیرکوں میں نظر بند تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے انہیں بیرکوں سے باہر نکالا اور انہیں پانچ پانچ کے گروپ میں کوٹھڑیوں میں بند کر دیا۔۔۔۔۔ ان کوٹھڑیوں میں علماء اور دوسرے ممتاز اصحاب کو بری طرح پیٹا گیا<۔~ف۱۳~
شورش کاشمیری صاحب مدیر >چٹان< لاہور لکھتے ہیں:
>انگریزوں کے زمانہ میں لاہور کا شاہی قلعہ سیاسی اسیروں کے خلاف استعمال ہوتا تھا۔ اس تحریک میں بھی کئی علماء کو گرفتارکر کے قلعہ میں لے جایا گیا وہاں۔۔۔۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس۔۔۔۔۔ نے ان علماء کے خلاف اس قسم کی واہیات زبان استعمال کی کہ ایک شریف آدمی تخلیہ میں بھی اس کا تصور نہیں کرسکتا الخ~<ف۱۴~
ایجی ٹیشن کے اصلمحرک اور بانی مبانی احراری زعماء تھے۔ جناب نعیم صدیقی صاحب نے ان کے رخ کردار پر روشنی ڈالتیہوئے لکھا:
>بدقسمتی سے اس مسئلے کو گزشتہ کئی سال سے ایسے عناصر لے کر چل رہے تھے جو ایک طرف اپنے سیاسی کردار کے لحاظ سے تعلیم یافتہ حلقوں میں کبھی وقار نہیں پا سکے۔ پھر ان کی ذہنی سطح ایسی تھی کہ وہ اس مسئلہ کی توضیح کے لئے ٹھوس اور~ف۱۵~استدلال ¶کرنے میں ناکام رہے۔ مزید برآں مصیبت یہ تھی کہ ان کی زبان اور ان کے انداز بیان بسا اوقات رکاکت اور ابتدال` تمسخر اور استہزا کے حد کو چھو جانے کی وجہ سے کبھی اپیل نہیں کر سکا۔ یہ عناصر اس کو صحیح حل تک پہنچانے کے لئے اس سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔ لیکن اس سے مسئلہ کی اہمیت` نزاکت اور سنجیدگی کی نفی نہیں ہو جاتی۔ ایک کیس کو پیش کرنے میں ایک وکیل اگر ناکام رہا ہے۔ تو ضروری نہیں خود کیس ہی کو بے جان اور بے وزن سمجھا جانے لگے۔
مزید مشکل یہ کہ یہ عناصر مسئلہ کے حل کے لئے عوام کو تربیت دے دے کر اور منظم کر کر کے کوی منصوبہ بند دستوری جدوجہد کرنے کی صلاحیتوں سے خالی تھے۔ اور ان کا طریقہ صرف اندھا جوش و خروش پھیلا دیتا رہا ہے۔ چنانچہ ۱۹۵۱ء سے برابر آتشیں تقارر کے ذریعہ عوام کو جذباتی تحریک دلا رہے تھے۔ اس خطرے کو دیکھ کر ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ عوام کے جذبات کو دستوری جدوجہد کی رودگاہ میں سنبھالا جا سکے لیکن ہماری اصلاحی کوششوں کے علی الرغم طوفان پھوٹ پڑا۔ اور اس کی لہریں اس طرح امڈپڑیں کہ خود اس طوفان کے بپا کرنے والوں کے قابو سے بھی باہر ہوگئیں۔ جوشیلی تقریروں میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ سب کچھ یہاں بھی پیش آیا۔ ایک تو یہ کہ جب عوام جذبات کی لہروں میں بہنے لگے تو ان کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا۔ وہ رہنمائی کے لئے ادھر ادھر دیکھتے تھے لیکن رہنمائی کے لئے کوئی نظم سرے سے تھا ہی نہیں۔ تحریک کیمجاہدین جو ہار پہنے نعرے لگاتے جیل جانے کے لئے بے چین نظر آتے تھے وہ جیل پہنچنے کے فورا ہی بعد گھبرا گھبرا کر دریافت کرنے لگتے کہ اب راہ نجات کیا ہے اور پھر راہ نجات صرف معافی ناموں کے بل پر کھلتی نظر آتی تو جو کچھ کوئی لکھواتا لکھ کر پیش کر دیتے۔ ایک طرف گولیاں کھانے کے لئے شجاعت کا اظہار تھا تو دوسری طرف رخساروں سے ڈھلکتے ہوئے آنسو تھے اور لبوں سے اٹھنے والی آہیں تھیں۔ جلوسوں میں ناموس رسول کے پروانے جس شان سے آگے بڑھتے تھے اس کا سارا بھرمجیل کے اندر جاکر کھل جاتا۔ جب ان کے سیرت و کردار کے گوشے بے نقاب ہونے لگتے۔ >ابتداء عشق< کے مرحلوں میں دنیا کی دنیا ساتھ ہوتی۔ لیکن جب فوجی عدالتوں کی طرف سے سینکڑوں افراد کولمبی لمبی سزائے قید دے دی گئی تو آگے کے ان مشکل مقامات میں ان کا اور ان کے بیوی بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ یہاں پہنچ کر نوبت یہ آجاتی کہ جن >ہستیوں< کے لئے زندہ باد کے نعرے لگاتے لگاتے گلے سوکھ جاتے` ان کے لئے موٹی موٹی گالیاں گونجتی سنائی دیتیں۔ تحریک` اسلام کے ایک بنیادی عقیدے کے تحفظ کے لئے اٹھائی گئی تھی۔ مگر اس کے دوران میں آتشزنی اور لوٹ مار کا وہ ہنگامہ ابل پڑا کہ جس پر جتنا افسوس بھی کیا جائے کم ہے۔ شہر شہر میں بیش بہا رقمیں چندہ کے طور پر جمع کی گئی تھیں لیکن رسید پرچے اور حساب کتاب کا سلسلہ ہی سرے سے نہ تھا۔ چنانچہ جسکے ہاتھ جو کچھ آگیا غائب ہوگیا۔ آج نہ کوئی حساب مانگنے والا ہے نہ بتانے والا۔
ان واقعات نے تحریک کو بدنام کیا۔ مقصد کو بدنام کیا۔ دین کو بدنام کیا۔ ان واقعات نے پاکستان کے دینی عناصر کی قوت گھٹائی ہے اور ملحد عناصر کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ بلکہ بیچ میں تو خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ خود اسلامی دستور کے لئے جو جدوجہد نہایت اہم مراحل میں داخل ہوچکی ہے اسے بھی سخت نقصان پہنچے گا<۔~ف۱۶~
ممتاز سنی عالم دین مولانا غلام مہر علی صاحب گولڑوی نے اپنی کتاب >دیوبندی مذہب< میں احراری علماء اور ان کے ادعائے تحفظ ختم نبوت پر زبردست تنقید کی چنانچہ لکھا:
ایک مجلس عمل بنی۔ صدر مولانا ابوالحسنات مرحوم اور صدر رضاکاران حضرت قبلہ صاحبزادہ صاحب اور سیکرٹری مجلس عمل دائود غزنوی منتخب ہوئے۔ دیوبندی چندہ خوری کے لئے ازخود منتخب ہوگئے حضور خاتم النبیین~صل۱~ کی ختم نبوت کے تحفظ اور مطالبات مذکورہ سے تمام فرقوں کے علماء کو اتفاق تھا۔ مگر ایجی ٹیشن یعنی سول نافرمانی کر کے جیلوں میں جانے کے مسئلہ میں دیوبندی اور سنی اور غیر مقلد ہر فرقہ کے اکثر علماء کو اس کے شرعی جواز میں اختلاف تھا اور وہ کافر کی بیخ کنی کے لئے اپنے آپ کو محبوس کرانے کو ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ کا مصداق قرار دیتے تھے۔ جیسا کہ افاضات الیومیہ میں مولوی اشرف علی تھانوی بھی اسے حرام قرار دے چکے تھے۔ اس لئے رضاکار تحریک میں امید سے بہت کم لوگ شریک ہوئے مگر مارچ ۱۹۵۳ء کو تحریک شروع ہوگئی سب سے اول رئیس اہل سنتہ حضرت مولانا صاحبزادہ رضاکار لے کر کراچی روانہ ہوئے۔ اور گرفتار کر لئے گئے۔ بعدہ اکثر شہروں سے رضاکار مظاہرے کرتے اور روانہ ہوتے رہے اور راستوں میں گرفتار کر لئے جاتے رہے۔ پھر یکے بعد دیگرے مولانا ابوالحسنات مولوی عطاء اللہ شاہ` مولوی محمد علی جالندھری کو گرفتار کر کے بعمہ صاحب زادہ صاحب مدظلہ سب کو سکھر جیل میں محبوس کر دیا گیا۔ قاضی احسان احمد شجاع آبادی گرفتاری سے بچنے کے لئے پہلے شجاع آباد سے بھاگ کر کہیں روپوش ہوگئے۔ مبینہ طور پر سب سے پہلے مولوی محمد علی جالندھری جیل میں بدل گئے اور حکومت سے عرض معروض کر کے پیرول پر بالفاظ دیگر تحریک سے معافی ہو کر جیل سے نکل گئے` تحریک کمزور پڑگئی` نئے رضاکاروں کا سلسلہ بند ہوگیا اور محبوس رضا کاروں نے حکومت سے مایوس ہوکر مختلف ذرائع سے جیلوں سے باہر آنا شروع کر دیا مگر رضاکاروں کے اس انفرادی تقدم و تاخر سے مطالبات کی قائمی پر کوئی اثر نہ پڑا۔ اور عوام کی نظریں مرکز کے قائدین پر مرکوز و حوصلے پختہ اور مولانا ابوالحسنات مرحوم و صاحب زادہ صاحب ابھی سکھر جیل میں عزم صمیم لئے مطالبات پر قائم تھے کہ دیوبندی مولویوں عطاء اللہ شاہ بخاری محمد علی جالندھری دائود غزنوی نے ۱۰ مئی ۱۹۵۳ء مطابق ۲۵/ شعبان ۱۳۷۲ھ کو تحریک سے مکمل استعفا کا اعلان کر کے تمام تحریک اور مطالبات کا خاتمہ کر دیا۔ ان کا یہ عجیب و غریب اور بے سروپا بیان جنگ کراچی میں شائع ہوا۔ مولوی دائود کے بیان کے چند الفاظ یہ ہیں۔
ہم سب بشمول عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا محمد جالندھری اس بات پر متفق ہیں کہ مرکز اور صوبہ میں وزارتی تبدیلی کے بعد ہم کو ہر قسم کی سول نافرمانی بند کر دینی چاہئے۔
)روزنامہ جنگ کراچی ۱۰/ مئی ۱۹۵۳ء(
دیوبندی مولویوں کا یہ بیان فہمیدہ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آیا` اور اس سے ان کے کسی مخفی دنیاوی پروگرام کے خدشات پیدا ہوگئے۔ کیونکہ مطالبات مذکورہ واجبی اور دائمی تھے` صرف وزارت کی تبدیلی پر مقصد برآری کا اظہار اور مطالبات سے دست برداری بعید از فہم تھی۔ کیا تحریک سے مقصد وزارت کی تبدیلی تھی اور بس۔۔۔۔۔ حکومت نے تو مرزائیوں کو کافر قرار نہ دیا۔ البتہ دیوبندیوں نے الٹا تحریک ختم نبوت کے رضاکاروں کو کافر ضرور بنا دیا۔ چنانچہ مئورخہ ۲۳/ اکتوبر ۱۹۶۲۲ء مطابق ۲۲ جمادی الاول ۱۳۸۲ھ کو دیوبندیوں کی مسجد مدینہ چک ۱۴ منڈی چشتیاں شریف کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے انہیں مولوی محمد علی صاحب نے ایک جاہل نابکار کے اشارے پر یا اجرت وعظ کے اضافہ کے لالچ میں یہ الفاظ کہہ ڈالے کہ جن لوگوں نے تحریک میں معافیاں مانگی تھیں وہ مسلمان نہیں رہتے` ان کے پیچھے نماز نہ جائز ہے۔ الخ
مولوی صاحب کو شاید یہ الفاظ کہتے خیال نہیں آیا کہ وہ خود بھی اور ان کی ساری برادری اس کفر کی زد میں آگئی` کہ وہ خود پیرول )معافی( پر جیل سے نکلے اور اکثر دیوبندی بھی مختلف طریقوں سے قبل از میعاد سزا یا فیصلہ تحریک جیلوں سے بھاگے۔ چنانچہ مولوی صاحب کے اس معاندانہ فتوے کے بعد بعض لوگوں نے دیوبندی فرقہ کے معتمد مفتیوں سے جو فتوے طلب کئے اور انہوں نے اصل جواب دے کر جالندھری صاحب اور دیوبندیوں کی مکاری کا بھانڈا پھوڑا وہ مختصراً بالفاظ ملاحظہ ہو۔
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ہمارے چک کے امام مسجد صاحب جو کہ عالم فاضل ہیں وہ تحریک خلاف مرزائیت ۱۹۵۳ء میں رضاکاروں کے ساتھ جیل میں گئے تھے۔ پھر وہ کافی مانگ کر باہر آگئے تھے )الیٰ قولہ( دریافت طلب یہ امر ہے کہ جن لوگوں نے معافیاں مانگی تھیں وہ مسلمان رہے یا نہیں` اور ان کی امامت نماز شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ )مختصراً(
الجواب: ۲۸/۴۲۷ نمبر ۱ امام موصوف کی اقتداء میں نماز درست ہے )بندہ عبدالستار عفی عنہ نائب مفتی خیر المدارس ملتان نمبر۲ اس تحریک کے اختتام پر کافی حضرات نے معافی مانگ کر رہائی حاصل کی۔ لہذا اس وجہ سے ان پر ملامت نہیں کی جا سکتی۔ فقط والجواب صحیح۔
)مہر مدرسہ خیر المدارس ملتان(
عبداللہ عفااللہ عنہ مفتی خیر المدارس ملتان۔ ۸۲۔۶۔۱۵
سوال):مذکور(
الجواب:اگر امام مذکور میں اور کوئی خلاف شرع باتیں نہ ہوں تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہے۔ فقط والسلام۔ بندہ احمد عفااللہ عنہ نائب مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان۔
)مہر مدرسہ(
ان دونوں فتوئوں کو پڑھ لیجئے اور مولوی عبداللہ صاحب کے الفاظ کافی حضرات بھی بغور پڑھ لیجئے۔ یہ کافی حضرات کون تھے ظاہر ہے کہ یہ اسی حضرت فرقہ کے ہی تھے` ہم ان کی طویل فہرست یہاں دینا فضول سمجھتے ہیں کیونکہ وقت گزرگیا` اور دفن شدہ مردے اکھیڑنا بے فائدہ کام ہے اور پھر یہ ذاتیات پر اتر آنے کا معاملہ ویسے بھی اخلاقیات سے باہر ہے یہ تو دیوبندیوں کا ہی شیوہ ہے کہ جب وہ علمائے اہل سنت پر کوئی اعتقادی گرفت نہیں کر سکتے تو ذاتیات کو موضوع بحث بنا کر اپنی امت کو خوش کیا کرتے ہیں۔ عرض صرف یہ کرنا تھا کہ مسلمان کو کافر کہنا خود کفر ہے اب مولوی محمد علی صاحبا ور ان کے مفتی آپس میں نپٹ لیں کہ ان میں کون مسلمان ہے اور کون نہیں اور انہیں سنیوں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے اپنے گھر کی پڑتال بھی کرلینا چاہئے۔ ~}~
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیک ذرا بند قبا دیکھ<
دیوبندیوں کی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اغراض و مقاصد
حصول مربعہ جات زمین ۔۔۔۔۔ آڑھت کی دکانیں
دیوبندی کہتے ہیں کہ ہم ہی تحفظ ختم نبوت کے ٹھیکیدار ہیں واقعی سنی بریلویوں نے اس کو پیٹ پرستی کا کاروبار بنا کر ختم نبوت کے روپیہ سے کاروبار کبھی نہیں چلایا البتہ سنی علماء کی مخلصانہ تبلیغی سرگرمیاں محتاج تعارف نہیں۔۔۔۔ دور نہ جائیے تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں ہی عطاء اللہ شاہ بخاری و محمد علی جالندھری اہلسنت کے مقتدر علماء حضرات مجاہد اعظم مولانا ابوالحسنات رحمتہ اللہ علیہ خطیب مسجد وزیر خاں لاہور صدر مجلس عمل اور شیر بیشہ خطابت حضرت مولانا صاحبزادہ فیض الحسن شاہ مدظلہ کی جوتیاں چاٹا کرتے تھے اور انہیں کے نام پر دیوبندی دو لاکھ روپیہ لوگوں سے بٹور کر ثواب دارین سے مشرف ہوئے تھے۔۔۔۔۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کی اسلامی خدمات
دیوبندیوں کے ہر کام میں زر اندوزی کا ہی مقصد درپیش ہوتا ہے چنانچہ ختم نبوت کا صدر مشہور قصہ خوانی مولوی محمد علی جالندھری جس نے دو تین کاروباری حصہ دار مبلغ بھی اپنے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں لاکھوں روپیہ نبی کے ناموس کے نام پر جمع کر کے زمین کے مربعے اور آڑھت کی دکانوں سے مشرف ہو کر نعیم دارین و اجر جمیل سے ثواب عظیم حاصل فرما چکے ہیں چنانچہ دیوبندی فرقیہ کے مرشداعظم جناب منشی عبدالکریم شورش کشمیری اپنے رسالہ چٹان میں اپنے ہی مرید و مخلص مولوی محمد علی جالندھری کے متعلق لکھتا ہے:
>وہ )مولوی محمد علی جالندھری( ہمارے لئے اب بھی اسی طرح محترم ہے جس طرح پہلے تھے۔ لیکن ایک چیز ہے مولانا محمد علی کی ذات دوسری چیز ہے مجلس تحفظ ختم نبوت تیسری چیز ہے اس مجلس کے نام پر جمع کردہ روپیہ الخ )اس کے چند سطور بعد پر شورش صاحب لکھتے ہیں( مولانا محمد علی جالندھری بہرحال اس مجلس اور اس روپیہ کے امین بنے ہوئے ہیں اب اگر وہ اس مجلس کو اپنی ذات تک محدود کرلیں اور جس مقصد کے لئے یہ روپیہ جمع ہوا ہے یا ہو رہا ہے اس مقصد پر صرف نہ ہو بلکہ اس کے برعکس ان کے مشاہرہ میں صرف ہو یا اس سے اراضی خرید لی جائے یا ا سے آڑھت کی جائے اور جس عظیم مقصد کا روپیہ ہے وہ عظیم مقصد روزبروز مجروح ہو رہے تو ہمارے کرم فرما ہی ہمیں بتائیں کہ اصلاح احوال اور احتساب جماعت کا کون سا طریقہ ان کے نزدیک مستحسن و مزوں ہے۔ مقصد روپیہ جمع کرنا۔ تنخواہیں بانٹنا اور آڑھت چلانا ہے یا تحفظ ختم نبوت الخ
)ہفت روزہ رسالہ چٹان لاہور اشاعت ۲۳/ مارچ۱۹۶۶ء(
ناظرین غور فرمائیں کہ یہ سب رونا ان کے گھر سے رویا جا رہا ہے اور اس سے واضح ہے کہ تحفظ ختم نبوت کا دیوبندی مقصد کیا ہے اور روپیہ ان کے تقویٰ کا کس طرح دیوالہ نکال رہا ہے۔
ختم نبوت کے نام پر دو لاکھ روپیہ کی بندر بانٹ
حکومت سے مرزائیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لئے مارچ ۱۹۵۳ء میں عظیم عالم اہلسنت حضرت مولانا ابوالحسنات سید محمد شاہ صاحب خطیب جامع مسجد وزیر خاں لاہور کی صدارت میں ایک تحریک چلی دیوبندی مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری و محمد علی جالندھری نے بھی تحریک میں شمولیت حصال کر کے اسی تحریک کے نام پر ملک کے مختلف شہروں سے دو لاکھ روپیہ جمع کرلیا کہ یہ روپیہ رضاکاروں اور تحریک کے ضروری مصارف پر خرچ کیا جائے گا حکومت پاکستان اس تحریک کے خلاف تھی اس لئے اس نے اس تحریک کے مشہور افراد حضرت مولانا ابوالحسنات مرحوم و حضرت مولانا صاحبزادہ فیض الحسن شاہ صاحب مدظلہ اور مولوی عطاء اللہ شاہ` محمد علی کو گرفتار کر کے سکھر جیل بھیج دیا مبینہ طور پر مولوی عطاء اللہ شاہ گرفتاری کے وقت یہ دو لاکھ روپیہ اپنے بیٹے کے سپرد کر گئے کہ اس ثواب دارین کی پوری نگرانی کرنا تمہاری پشتوں کے لئے کافی ہوگا مگر جب جیل میں محمد علی جالندھری کو پتہ چلا کہ اس روپیہ پر عطاء اللہ شاہ بخاری وحدہ لاشریک قابض ہو رہا ہے تو جالندھری صاحب کا ہارٹ فیل ہونے لگا بخاری صاحب سے کہنے لگے کہ تحریک کو گرم کرنے کے لئے میرا جیل سے باہر جانا ضروری ہے بخاری صاحب بھی معاملہ سمجھ گئے کہ یہ جر¶ات محض اس روپیہ سے پیٹ گرم کرنے کے لئے کی جا رہی ہے انہوں نے بہتیرا سمجھایا مگر جالندھری صاحب بببالاخر )پیرول( ضمانت و معافی پر جیل سے نکل آئے عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے اپنے فرزند ارجمند کو پیغام بھیجا کہ محمد علی روپیہ پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے باہر آ چکا ہے۔ خبردار ہو جائو ممد علی روپیہ پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے سکھر جل سے معافی لے کر آ رہا ہے۔ بخاری کا بیٹا یہ جانکاہ خبر سن کر روپیہ لے کر مظفرگڑھ بھاگ گیا ادھر جالندھر صاحب کو دست پر دست آئے جا رہے تھے کہ تحریک ختم ہوگئی اور بخاری صاحب نے آئندہ خطرات سے بچنے کے لئے جالندھری کو برابر کا حصہ دے کر باہمی بندربانٹ کر کے یہ تمام روپیہ ہضم کر گئے۔ صدر مجلس عمل مولانا ابوالحسنات نے بار بار اس روپیہ کا حساب مانگا۔ چنانچہ جمعیہ العلمائے پاکستان کے داعی رسالہ >سواداعظم< مجریہ ۷ نومبر مطابق ۸ جمادی الاخر ۱۳۸۲ھ` ۱۹۶۲ء میں دہرایا گیا۔ مگر دیوبندیوں کو ایسا سانپ سونگھ گیا۔ آج تک صدائے بازگشت نہ اٹھی اور بقول شورش کشمیری زمینیں اور آڑھت کی دکانیں بنالی گئیں<۔~ف۱۷~
سوم:حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام ۲۹/ جولائی ۱۸۹۷ء کو مومنوں پر ابتلاء آنے اور آسمانی فوجوں سے ان کی نصرت کئے جانے کی خوشخبری دی گئی پھر بعد اس کے الہام ہوا >مخالفوں میں پھوٹ<۔~ف۱۸~
یہ پیشگوئی بھی اس زمانہ میں کمال وضاحت اور صفائی سے پوری ہوئی۔
۱۹۵۳ء کی شورش میں مجلس احرار اور جماعت اسلامی دونوں ہی سب سے نمایاں اور پیش پیش تھیں اور انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ لیکن ایجی ٹیشن بری طرح ناکام ہوگئی اور لیڈر گرفتار کر لئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد جب یہ اصحاب رہا ہوئے تو باہم برسرپیکار ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف قلمی اور لسانی جنگ کا وسیع محاذ کھول دیا۔
چنانچہ مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی امیر و بانی جماعت اسلامی نے احراریوں کی >تحریک ختم نبوت< کی نسبت اپنی رائے یہ دی کہ:
>اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہوگئیں۔ ایک یہ کہ احرار کے سانے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے۔ بلکہ نام اور سہرے کا ہے۔ اور یہ لوگ مسلمانوں کی جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے دائوں پر لگا دینا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرارداد طے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر سازباز کیا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں جو بہرحال کنونشن کی مقرر کردہ سبجیکٹس کمیٹی کا مرتب کیا ہوا نہیں ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیا جائے اس میں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں` اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے<۔~ف۱۹~
جماعت اسلامی کے ہفت روزہ ترجمان >امنیر< نے )جس کے ایڈیٹر حکیم ملوی عبدالرحیم صاحب اشرف تھے( یہ لکھا:
>رہے احراری تو ہم سب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس بدنصیب گروہ نے تحفظ ختم نبوت کے نعرہ کو اپنے سیاسی کردارکی طرح بکائو مال بنا رکھا ہے۔ ان لوگوں کی اکثریت کو نہ خدا کا خوف ہے نہ خلق کی شرم نہ یہ پیغمبر کی نگاہ خشمگیں سے ڈرتے ہیں اور نہ انہیں جلال کبریائی سے کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ ان پاسبان ختم نبوت نے لائل پور کی اسی گرائونڈ میں لپک لپک کر یہ جملے کہے ہیں ۔الحاج ناظم الدین! تم نے حاجی کہلا کر اورنمازی بن کر اسلام اور ختم نبوت کا بیڑا غرق کیا ہے تم سے ہزار بار وہ بے دین` بے نماز اور غیر حاجی دولتانہ اچھا جس نے اپنی وزارت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کا ساتھ دیا ہے<۔ اور آج یہی گروہ ہے جو دولتانہ کو ختم نبوت کا غدار کہتے نہیں تھکتا۔۔۔۔۔ اور پھر احراری وہی حضرات ہیں جنہوں نے مارشل لاء کے دوران مخلص نوجوان مسلمانوں کو کرفیو اور دفعہ ۱۴۴ کی ¶مخالفت پر اکسا کر مسجدوں سے سر پر کفن بندھوا کر باہر نکالا اور ان کی لاشوں کو فوج کی گولیوں سے تڑپتا دیکھ کر یہ کہا کہ:
>جس تحریک کو خون سے نہ سینچا جائے وہ تحریک کبھی >عوامی تحریک< بن ہی نہیں سکتی< لیکن جب ان >علمبرداران حریت< کو چند ہفتے کے لئے جیلوں میں )جہاں:نہیں >بی کلاس< میں تین چھٹانک گوشت ایک چھٹانگ گھی ۶ چھٹانک دودھ چھ چھٹانک آٹا اور تیسرے دن فروٹ کھانے کے لئے ملتے تھے( رہنا پڑا تو ان کی اکثریت نے سینکڑوں مرتبہ زبانی اور دسیوں دفعہ تحریری طور پر لکھ دیا کہ >ہم کبھی بھی حکومت کے خلاف نہ تھے نہ ہم نے سول نافرمانی کو آج تک جائز سمجھا ہے اور نہ آئندہ کبھی بھی اسے جائز سمجھیں گے نیز کہ ہم حکومت کے سچے وفادار ہیں اور ہم عہد کرتے ہیں کہ کسی تحریک میں کبھی حصہ نہیں لیں گے<۔
آج یہ غازی ہیں >جو ختم نبوت کا نعرہ< لگا کر پھر میدان سیاست میں آنا چاہتے ہیں<۔~ف۲۰~
تحفظ ختم نبوت ہو یا مجلس احرار۔ ان دونوں کے نام سے آج تک قادیانیت کے خلاف جو کچھ کیا گیا ہے اس نے قادیانی مسئلے کو الجھایا ہے۔ ان حضرات کے اختیار کردہ طرزعمل نے راہ حق سے بھٹکنے والے قادیانیوں کو اپنے عقائد میں پختگی کا مواد فراہم کیا ہے اور جو لوگ مذبذب تھے انہیں بدعقیدگی کی جانب مزید دھکیلا ہے۔
استہزا` اشتعال انگیزی` یاوہ گوئی` بے سروپا تفاظی` اس مقدس نام کے ذریعہ مالی غبن لادینی سیاست کیدائو پھیر` خلوص سے محروم اظہار جذبات` مثبت اخلاق فاضلہ سے تہی کردار ناخداترسی سے بھرپور مخالفت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی ایک اہم محرومی یہ ہے کہ >مجلس احرار< اور >تحفظ ختم نبوت< کے نام سے جو کچھ کیا گیا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ انہی عنوانات کی تفصیل ہے<۔~ف۲۱~
>تحفظ ختم نبوت< کے فنڈ اور اس کے فنڈ سے حاصل کئے گئے باتنخواہ >مبلغین< کو جماعت اسلامی کے خلاف تقاریر کی ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا جس کی زمام کار مولوی لال حسین ایسے >محتاط< اور >شیریں مقال< مناطر کے ہاتوں میں سونپی گئی۔ اور یہ کام بھی انہی کے سپرد کیا گیا کہ وہ ہر شہر میں سیاسی کارکنوں کی میٹنگیں بلائیں اور ان میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف نفرت و حقارت پھیلانے کا کام کریں۔ ان مجالس میں مسلم لیگ` آزاد پاکستان پارٹی جناح عوامی لیگ کے کارکنوں کو بلایا جاتا اور اہل حدیث` دیوبندی اور بریلوی حضرات کو دعوت دی جاتی۔ انہیں یکجا کر کے مذہبی اور سیاسی اختلافات کے علاوہ یہ بات عام طور پر کہی جاتی رہی کہ جماعت اسلامی کا کردار اس کے قائد ابوالاعلیٰ مودودی کے اس طرز عمل سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مودودی صاحب صبح مجلس عمل کے اجلاسوں میں شریک ہوتے اور رات کو ناظم الدین سے ملاقاتیں کرتے۔ اور آخری مرتبہ مودودی صاحب نے تحریک تحفظ ختم نبوت سے یہ عظیم غداری کی کہ ناظم الدین سے یہ جاکر کہا کہ جماعت اسلامی تحریک سے الگ ہے۔ آپ جو چاہیں ان لوگوں سے سلوک کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اسی مشورہ پر ۲۶/ فروری کو مجلس عمل کے رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد نوبت مارشل لاء تک پہنچی جس میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اگر مودودی صاحب تحریک سے غداری نہ کرتے تو نہ کوئی نوجوان قتل ہوتا الخ<۔~ف۲۲~
اسی اخبار نے سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی ایک تقریر پر حسب ذیل نوٹ دیا کہ:
>شاہ صاحب نے کہا کہ حضور خاتم النبیینﷺ~ نے میرے نام پیغام دیا ہے کہ میں ختم نبوت کے مسئلہ کو کامیابی سے چلائوں۔۔۔۔۔ شاہ صاحب کی جانب منسوب کردہ الفاظ اگر صحیح ہیں یا انہوں نے اس مفہوم کو بیان کیا ہے کہ حضور سرور کائناتﷺ~ روحی و نفسی فداہ~صل۱~ نے انہیں منتخب فرمایا کہ وہ ختم نبوت کی حفاظت کریں اور اب شاہ صاحب اسی ارشاد رسالت کی تعمیل کے لئے شہر شہر گھوم پھر رہے ہیں تو ہم دکھ بھرے دل سے کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے حضور اقدس کی شان میں )نادانستہ( ایسی گستاخی کی ہے جس سے وہ جتنی جلدی توبہ کرلیں ان کے لئے بہتر ہے۔
شاہ صاحب کی اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سید العرب والعجم~صل۱~ شاہ صاحب کی ان تقریروں کو جو تحفظ ختم نبوت کے نام پر آج تک کرتے رہے اور اب کر رہے ہیں منظوری و پسندیدگی حاصل ہے اور اسی وجہ سے انہیں دربار رسالت سے یہ امتیاز عطا ہوا ہے کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے انہیں اس عظیم کام کے لئے منتخب فرمایا گیا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر مولانا سید عطاء شاہ صاحب کی یہ تقریریں~ف۲۳~جو وہ قادیانیت کے خلاف کر رہے ہیں )جن میں سے آیاتکی تلاوت اور ان کے بعض مطالب کی تبلیغ کا حصہ جو فی الحقیقت ان کی تقریروں کا ۱۰۰۰۰/۱ ہوگا مستثنیٰ کر لیا جائے( اگر انہیں دربار رسالتکی پسندیدگی حاصل ہے تو ہم اس اسلام کو جو کتاب و سنتمیں پیش کیا گیا ہے اور جس میں ذہن` قلب` زبان اور اعضاء کو مسئولیت سے ڈرایا گیا ہے خیرباد کہنے کو تیار ہیں۔
ہمارے نزدیک شاہ صاحب نے نہایت غلط سہارا لیا ہے اور مسلمانوں میں جو عقیدت رحمہ اللعالمین بابی ھو و امی~صل۱~ کے ساتھ موجود ہے اس سے نہایت غلط قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اور پھر اس میں جب ہم مزید دکھتے ہیں کہ وہ اس خواب سے مراد یہ لیتے ہیں کہ >تحفظ ختم نبوت< کے نام پر جو نظم )؟( انہوں نے قائم کر رکھا ہے حضور خاتم النبیین روحی و نفسی فداہ اس نظم کی تائید فرما رہے ہیں تو ہماری روح لرز جاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ نظم اور اس کے تحت متعین کردہ مبلغین کا کام اور اس کے نام پر حاصل کئے گئے صدقات` زکٰواتیں۔ اور چندے اس بری طرح صرف ہونے کے باوجود انہیں پیغمبر امین کی پسندیدگی حاصل ہے تو ناگزیر ہے کہ ان تمام احادیث رسالت ممماب کو خیرباد کہہ دیا جائے جن میں آپ نے مسلمانوں کے مال کے احترام کی اہمیت بیان فرمائی ہے اور جن میں اموال المسلمین میں خیانت کو حرام اور موجب سزا بتلایا گیا ہے<۔2] f~[stف۲۳~
دوسری طرف احرار رہنمائوں نے جماعت اسلامی کے امیر و بانی پر >تحریک ختم نبوت< سے غداری اور منافقت کے الزامات لگائے چنانچہ تاجدین صاحب انصاری نے بیان دیا کہ:
>۱۸/جنوری سے لیکر ۲۶/ فروری تک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب تحریک کا بغور مطالعہ کرتے رہے۔ وہ یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ اگر حکومت مسلمانوں کے مطالبات آخری وقت بھی تسلیم کرلیتی ہے تو جماعت اسلامی تحریک میں موجود ہے۔ کراچی میں مولانا سلطان احمد نائب امیر جماعت اسلامی یعنی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب قادیانی مسئلہ لکھ کر تحریک میں شمولیت کا دستاویزی ثبوت لئے کھڑے ہیں۔ حتی کہ مارشل لاء کے نفاذ سے ایک روز پہلے گورنمنٹ ہائوس میں بیچ کی دیوار پر کھڑے گورنمنٹ کو اس امید پر آنکھیں دکھا رہے ہیں کہ شاید مسلمانون کے متفقہ مطالبات دو ایک روز تک مانے جانے والے ہیں۔۔۔۔۔ مگر جب مارشل لاء کا اعلان ہونے لگا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی دیوار کے اس پار کر دئیے گئے اور فرمانے لگے کہ میرا اس تحریک سے کیا واسطہ؟ یہ تو چند خودغرض` بے ایمان اور غداروں کی تحریک ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دیوار سے کودتے وقت مولانا کا دامن کسی کیل میں پھنس کر چاک ہوگیا جسے وہ دو سال تک جیل میں بیٹھ کر رفو کرتے رہے۔ آگیسے پھٹا ہوا دامن چیرہ دستیوں کی اب بھی غمازی کرتا ہے اور مولانا ہیں کہ اپنی صفائی میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اورکہے چلے جا رہے ہیں کہ میں پاکباز ہوں۔ میری جماعت صالحین کی جماعت ہے باقی سب چور ہیں` غدار ہیں` خودغرض ہیں<۔
پھر مولانا مودودی کو مخاطب کر کے لکھا:
>حضور والا! کنونشن میں شرکت کے بعد ہی مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آپ جو اسلام اسلام پکار کر اسلامی دستور کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ آپ کیا ہیں؟ آپ کی اصل خواہش کیا ہے؟ پبلک نے آپ کو تحریک ختم نبوت میں اچھی طرح جان پہچان لیا ہے۔ اب آپ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ پبلک آپ سے کیا کچھ دریافت کرتی ہے۔ آپ تو بڑے آدمی ہیں۔ اپنی صفائی میں آپ نے کوئی معقول دلیل پیش نہیں فرمائی۔ کسی جیب تراش نے پکڑے جانے کے بعد کبھی یہ صفائی پیش نہیں کی کہ مستغیث نے مجھے قریب ہی کیوں آنے دیا تھا۔ بہرحال آپ دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ جتنا زور لگائیے گا۔ اسی قدر زیادہ دھنستے چلے جائیے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ اپنی غلطی یا تحریک ختم نبوت سے غداری کا اقرار کرنے سے رہے بحث کے لئے آپ کے پاس وہ سب سامان موجود ہے جس سے آپ کافی عرصہ بحث جاری رکھ سکتے ہیں مگر ہمیں اس بحث سے مطلب؟
جہاں تک پبلک کی معلومات کا تعلق ہے ہم نے پبلک سے یہی کہتے سنا ہے کہ آپ نے تحریک ختم نبوت سے غداری کی ہے اس وقت آپ اور آپ کی جماعت منافقت سے کام لے رہے تھے اور اب آپ صاف مکر رہے ہیں~<ف۲۴~
خود سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے کہا کہ:
>اس تحریک میں جو کچھ ہوا میں ذمہ دارہوں غلط ہوا یا صحیح ذمہ داری میرے سر ہے ارے میں مودودی نہیں ہوں۔ بددیانت نہیں ہوں۔۔۔۔۔ آج وہ کہتے ہیں میں تحریک میں شامل نہیں تھا میں کہتا ہوں شامل تھا اور اگر مودودی شامل نہیں ھا تو میں ان سے حلفیہ بیان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر اعلان کر دیں۔۔۔۔ یہ ہے دیانت ہزاروں شہید ہوئے۔ سوئوں کے سہاگ لٹے` کئی یتیم ہوئے` کئی اجڑ گئے۔۔۔۔۔ ہزاروں کو مروا کر کہوں میں شامل نہیں تھا کیا یہی دین ہے۔۔۔۔۔ ارے تم سے تو کافر گلیلو ہی اچھا تھا جس نے زہر کا پیالہ پی لیا<۔]2 ~[stfف۲۵~
اس پر بس نہیں شاہ جی نے لائلپور کی ایک کانفرنس میں جناب سیدابوالاعلیٰ صاحب مودودی کو غدار` دروغ گو اور مستحق سزا مجرم گرداننے کے بعد ان کو مباہلے کا کھلا چیلنج بھی دے دیا۔~ف۲۶~
جماعت اسلامی کو احرار اور ان کے ہم نوا علماء ہندو پاک نے کافر و ملحد بلکہ دجال تک قرار دے دیا اس طرح تکفیر کے جس حربہ کو جناب مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے نہایت بے دردی سے جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کیا تھا اس کا رخ پوری قوت و شدت سے ان کی طرف ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فتوئوں کے انبار لگ گئے۔
اس بیرونی یلغار کے علاوہ جماعت اسلامی کی صفوں میں زبردست انتشار پیدا ہوگیا اور کئی عمائدین مثلاً مولانا امین احسن صاحب اصلاحی )معتمد امیر جماعت اسلامی( ملک سعید صاحب )ایڈیٹر تسنیم و امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب( عبدالغفار صاحب اور مولانا عبدالرحیم اشرف مدیر >المنبر< نے علیحدگی اختیار کرلی۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے سولہ سالہ تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر لکھا:
>جماعت اسلامی کے متعلق تو ہماری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے لئے اس ملک میں اس سے زیادہ مضر جماعت کوئی نہیں۔ متحدہ محاذ کی اسلام دشمن جماعتیں اسلام کی مخالفت بے دلیل کریں گی اور جماعت اسلامی کے امیر صاحب اور ان کے اتباع ان کے لئے اپنی نرالی فقاہت سے شرعی دلیلیں ایجاد کریں گے<۔
>دین اور عقل دونوں سے بعید تر جماعت اس ملک میں اگر کوئی ہے تو جماعت اسلامی ہے یہ جماعت اب صحیح فکر اور صحیح عمل کی توفیق سے محروم ہو چکی ہے اس کی ہر بات الٹی ہوتی ہے اور جو قدم بھی یہ اٹاتی ہے اس سے اپنی بے راہ روی اور ضلالت کا ثبوت مہیا کرتی ہے<۔~ف۲۷~
سعید ملک صاحب ایڈیٹر تسنیم نے اپنے بیان میں کہا:
>جماعتی لٹریچر میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ اسلامی تحریک کو چلانے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ مخاطب آبادی میں اسلام کے اصولوں کا شعور اور ان پر چلنے کا شدید داعیہ پیدا کر دیا جائے تا آنکہ ایک مرحلے پر پہنچ کر وہ آبادی فطری طور پر اسلام کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے اپنالے۔ یہ بات کھل کر کہہ دی گئی تھی کہ یہ کام محض سیاسی ہنگاموں سے ہوگا اور نہ صرف انتخابات کے ذریعے حصول اقتدار کی کوششوں سے۔ لیکن ابھی قوم میں اسلامی اصولوں کا ابتدائی تصور بھی پیدا نہ ہوا تھا اور اس نے اسلامی اصول اخلاق اور سیاست کو اختیار کرنے پر معمولی سی آمادگی کا اظہار بھی نہ کیا تھا کہ آپ نے بنیادی کام سے صرف نظر کر کے تحریک کو پوری طرح سیاسی ہنگامہ آرائیوں میں الجھا دیا حتیٰ کہ اسلامی نظام کی حیثیت ہمارے ہاں محض ایک نعرے کی رہ گئی<۔~ف۲۸~
حکیم عبدالرحیم صاحب اشرف نے جماعت اسلامی سے خروج کے بعد پے در پے تنقیدی مضامین لکھے جن میں واضح الفاظ میں بتایا کہ >مولانا مودودی صاحب نے ¶اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں< سے جس اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تھا وہ اب ایک ایسے اسلام کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس کی روح تعلق باللہ` اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید` ایمان بالغیب اللہ تعالیٰ کی عبادات میں انہماک` تقویٰ کی حقیقت کو پانے کے اساسات پر مبنی نہیں بلکہ اس کی حقیقی روح اسلام کے سیاسی نظام کو قائم کرنا ہے اور جماعت کے اندر اصل قیمت صرف اس چیز کی ہے کہ پروپیگنڈے` نشرواشاعت مخالفین کی سرکوبی` اخبارات میں نمایاں ہونے` دوسرے سے گٹھ جوڑ کرنے کی صلاحیت کی مقدار کس قدر پائی جاتی ہے؟۔۔۔۔۔ رہا طریق کار اور وسائل تو وہ چونکہ مقصود بالذات نہیں ہیں اس لئے ان میں اگر کچھ اجزاء باطل` جھوٹ` فریب` فساد انگیزی اور اسلام کی عام تعلیمات کی رو سے ناجائز کردہ باتوں کے شامل ہو جائیں تو انہیں بوقت ضرورت اختیار کیا جا سکتا ہے بالفاظ دیگر جماعتجس فلسفہ میکاولی کے استیصال کے لئے اٹھی تھی۔ یہی اس کا محور فکر و عمل بن رہے ہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں جو جماعت کے قائدین کا مئوقف یہ سمجھتا ہوں کہ وہ ان تمام باتوں کے جواز کے لئے قرآن اور حدیث سے استدلال کریں اور اپنی ہر غلطی کو اسوئہ رسالت سے سند جواز عطا کریں<۔~ف۲۹~
جماعت اسلامی کے ایک سابق رکن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے احراری تحریک میں مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کی شرکت کو بے اصولے پن اور عوام پرستی کا شاہکار قرار دیتے ہوئے لکھا:
>اس داستان کا المناک ترین باب< مسئلہ قادیانیت میں جماعت اسلامی کا طرز عمل ہے۔ اس کے دوران جماعت اور اس کے قائدین نے جس طرح اپنے اصولوں کی بجائے عوام کے چشم و ابرو کے اشاروں پر حرکت کی ہے اسے دیکھ کر انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ۔۔۔۔ اتنی قلیل مدت میں ایک جماعت کا مزاج اس درجہ بھی بدل سکتا ہے؟۔۔۔۔ مسئلہ کوئی آج کی پیداوار نہیں تھا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ اپنے تاسیس کے دن سے لے کر ۱۹۵۲ء تک پورے گیارہ بارہ سال جماعت اسلامی نے بحیثیت جماعت یا اس کے اکابرین نے بحیثیت افراد اس پر کوئی علمی اقدام کرنا تو کجا زبان سے ایک حرف تک نہ نکالا بلکہ ایک اصولی اسلامی جماعت کی حیثیت سے اپنے دور اول میں اس نے ایسی باتیں کیں کہ جن سے قادیانیوں کی تکفیر کی براہ راست نہ سہی بالواسطہ ضرور ہمت شکنی ہوتی ہے؟
)ملاحظہ ہو تکفیر بغیر اتمام حجت سے متعلق جماعت کا نقطئہ نظر ص۵۴(
لیکن جب ۱۹۵۲ء میں زعمائے احرار نے اسے واقعی ایک مسئلہ بنا لیا اور عوام کے جذبات کو مشتعل کرلیا تو اب جب کہ اصول پرستیاور مردانگی کا تقاضا یہ تھا کہ۔۔۔۔۔ لوگوں کو بتایا جاتا کہ تم خواہ مخواہ مشتعل کئے جا رہے ہو۔ نہ یہ مسئلہ اتنی اہمیت رکھتا ہے اور نہ اس کے حل کی صورت وہ ہے کہ جو اختیار کی جا رہی ہے۔۔۔۔۔ اور اگر عوام اسے رد کرتے تو کم از کم >انی بری< کہہ کر الگ ہو جاتا۔ جماعت اسلامی نے اپنی اصول پسندی اور اصول پرستی کو ذبح کر کے >حق گوئی< سے جی کراتے اور >روباہی< کا ثبوت دیتے ہوئے جو طرزعمل اختیار کیا وہ >بے اصولے پن< اور >عوام خوفی کی عملی تصویر ہے چنانچہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ہشت نکاتی مطالبے میں نویں نکتے کی حیثیت سے کرلیا گیا اور مجلس عمل کے ساتھ تعاون شروع کر دیا گیا اور ان لوگوں کی قیادت قبول کرلی گئی کہ جن کے پاس بیٹھتے ہوئے بھی بقول >یکے از بزرگان جامعت< جماعت کے زعماء کو >گھن آتی تھی<۔ اور جن کے حقیقی ارادوں اور عزائم پر سے بعد میں مولانا مودودی نے >بیان حقیقت< میں پردے اٹھائے!۔۔۔۔۔ صرف یہی نہیں کہ عوام کے >تقویٰ کی وجہ سے جماعت نے اس معاملہ میں حصہ لینا شروع کر دیا بلکہ ان کی بارگاہ میں >احسان< کا درجہ حاصل کرنے کی سعی شروع ہوگئی اور >قادیانی مسئلہ< تصنیف ہوا جس میں >عوام کے مطالبات کی وجوہات اور ان کے دلائل کو مولانا مودودی صاحب پرزور انداز میں پیش کیا۔ اس کتاب کے آخری پیرے میں یہ >عوام پرستی< جس طرح چھلکی پڑتی ہے وہ قابل دید ہے۔۔۔۔۔
جذبئہ عوام پرستی کی انتہاء ہے کہ ان خامیوں اور خرابیوں کو بھی خوشنما الفاظ کے پردے میں چھپا کر >پیٹھ< ٹھونکی جا رہی ہے کہ تم سے کچھ غلطیاں تو ضرور سرزد ہو رہیہیں لیکن گھبرائو نہیں! اس میں تمہارا قصور تھوڑا ہی ہے!۔
اس کے بعد جب >احرار< کے ساتھ مزید چلنا ناممکن ہوگیا اور مجلس عمل سے علیحدگی ناگزیر ہوگئی تو بھی اس احتیاط کے ساتھ علیحدگی کا اعلان کیا گیا کہ عوام اسی بھرے میں رہیں کہ >ہم نے اپنے حصے کا کام اپنے ذمے لے لیا ہے<! آخر عوام کی ناراضی مول لینا کوئی آسان کام نہ تھا۔
پھر جب معاملہ تحقیقاتی عدالت میں آیا تو اس وقت مولانا مودودی صاحب نے حالات کو بگاڑنے کی ذمہ داری میں حکومت اور قادیانیوں کے ساتھ ساتھ >احرار< کو بھی شریک کیا! یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تینوں برابر کے ذمہ دار تھے تو آج سے قبل آپ ساری ذمہ داری حکومت اور قادیانیوں پر کیوں ڈالتے رہے؟ کچھ تو آپ نے احرار کے بارے میں بھی فرمایا ہوتا! اور جماعت اسلامی کو من حیث الجماعت تو اس >قول ثقیل< کے کہہ گذرنے کی پھر بھی ہمت نہ ہوئی۔ جماعت نے اپنے بیان میں ساری ذمہ داری صرف حکومت اور قادیانیوں ہی پر ڈالی۔
تحقیقاتی عدالت میں مولانا اور جماعت نے اپنے آپ کو ان سارے معاملات میں بالکل بری الذمہ ٹھہرانے کی کوشش کی اور اس کے لئے سارا زور اس استدلال پر صرف کیا کہ ہم نے مجلس عمل سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ لیکن میں اس معاملے میں تحقیقاتی عدالت کے اس فیصلے کو بالکل صحیح سمجھتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔ جماعت اسلامی ذمہ داری میں احرار کے ساتھ برابر کی شریک ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ اس کے بعد جب تک مقدمات چلتے رہے اور عوام کے جذبات میں اس مسئلہ پر حرارت باقی رہی جماعت کے رسائل و اخبارات اس مسئلہ پر مسلسل لکھتے رہے جب فضا ٹھنڈی ہوگئی جماعت نے بھی مسئلہ کا نام لینا بند کر دیا اور آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہوا ہی نہیں تھا!
>یہ پوری داستان بے اصولے پن اور عوام پرستی کا شاہکار نہیں تو اور کیا ہے؟~<ف۳۰~
مجلس احرار اور جماعت اسلامی کی جنگ زرگر زورشور سے جاری تھی کہ دوسرے مکاتیب فکر کے علماء بھی میدان تکفیر و تفسیق میں اتر پڑے اور کفرسازی کی مہم یکایک زور پکڑ گئی جس پر مولانا حکیم عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر >المنبر< نے حسب ذیل حقیقت افروز نوٹ سپرد قلم فرمایا:
>ختم نبوت کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ امت محمدیہ بنیان مرصوص کی حیثیت سے قائم علی الحق رہتی۔ اس کے جملہ مکاتیب فکر اور تمام فرقوں کے مابین دین کی اساسات پر اس نوع کا اتحاد ہوتا جس نوع کا اتحاد ایک صحیح الذہن امت میں ہونا ناگزیر تھا لیکن غور کیجئے کیا ایسا ہوا؟ بلاشبہ ہم نے متعدد مراحل پر اتحاد امت کے تصور کو پیس کیا اور سب سے زیادہ قادیانیوں کے خلاف مناظرہ کے سٹیج سے ڈائریکٹ ایکشن کے ویرانے تک ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام فرقے >یکجان< ہیں لیکن کیا حقیقتاً ایسا تھا۔ کیا حالات کی شدید سے شدید تر نامساعدت کے باوجود ہماری تلوار تکفیر نیام میں داخل ہوئی؟ کیا ہولناک سے ہولناک تر واقعات نے ہمارے فتاویٰ کی جنگ کو ٹھنڈا کیا۔ کیا کسی مرحلہ پر بھی >ہمارا فرقہ حق پر ہے اور باقی تمام جہنم کا ایندھن ہیں< کے نعرہ سے کان مانوس ہوئے؟ اگر ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو بتائیے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ محمد~صل۱~ کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی امت کے اگر تمام فرقے >کافر< ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی کہنا ہے تو لامحالہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس کفر اور جہنم سے نکال کر اسلام اور جنت کا یقین دلا سکے<۔~ف۳۱~
چہارم:خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ۱۹۰۵ء میں اپنے الہام سے یہ خبر دی کہ:
>جو شخص تیری طرف تیر چلائے گا میں اسی تیر سے اس کا کام تمام کروں گا<۔~ف۳۲~
۱۹۵۳ء میں یہ الہام جس عبرتناک رنگ میں ظہور پذیر ہو اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے بخوبی لگ سکتا ہے۔
۱۔ ہفت روزہ >آثار< لاہور )۲۴ تا ۳۰ جون ۱۹۷۴ء( نے لکھا:
>۱۹۵۳ء میں ختم نبوت کے نام پر جو سیاسی کھیل کھیلا گیا اس کی ہولناک یادیں ابھی قومی ذہن سے محو نہیں ہوئیں۔ جن سیاسی لیڈروں اور شرعی جیب کتروں نے ختم نبوت کے عقیدے کو سیاسی یا مالی منفعت کا ذریعہ بنایا ان کا وجود صفحئہ ہستی سے اس طرح مٹا کہ آج کوئی ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں۔ ان میں سے جو لوگ ابھی زندہ ہیں وہ بس زندگی کی سانسیں پوری کر رہے ہیں ان کا نہ کوئی حال ہے نہ مستقبل۔ ان کے سیاسی اقتدار پر فائز رہنے کے تمام خواب چکناچور ہوگئے۔ ان کے مذہبی شیوخ بننے کے تمام امکانات معدوم ہوگئے۔ ختم نبوت کا عقیدہ بیچ کر انہوں نے جو ڈھیروں روپیہ اپنی تھیلیوں میں داخل کیا تھا اس نے ان کے گھروں کو جہنم کے انگاروں سے بھر دیا ہے اب یہ لوگ خود اپنے جنازے اٹھائے پھرتے ہیں لیکن ایسا کوئی قبرستان نہیں ملتا جہاں وہ اپنی لاشوں کو دفن کر سکیں<۔
۲۔ رسالہ >آثار< نے اس تمہید کے بعد نمونت¶ہ بعض نمایاں شخصیات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اس دور کے وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں ممتاز صاحب دولتانہ کی نسبت لکھا:
>ختم نبوت کی تحریک کو سیاسی مقاصد کے لئے ایکسپلائٹ کرنے والوں کے سرخیل تھے انہوں نے بعض اخبارات اور شرعی جیب کتروں کو صوبائی حکومت کے خزانے سے جس کے وہ سربراہ تھے لاکھوں روپے اس مقصد کے لئے دئیے کہ وہ عقیدے کے نام پر ملک میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائیں جب یہ آگ بھڑکی تو خودمختار دولتانہ جل بجھے ان کا شاندار سیاسی مستقبل برباد ہوگیا وہ آج بھی زندہ رہیں مگر اس حال میں کہ جسے ایوان شہی کے اندر ہونا چاہئے تھا آج وہ اس کے دروازے پر پیٹی باندھے کھڑا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے ان کا انجام کیا ہوگا؟~<ف۳۳~
۳۔ ہفت روزہ >آثار< )۲۴ تا ۳۰ جون ۱۹۷۴ء ص ۸( مولانا ختر علی خاں صاحب )خلف مولانا ظفر علی صاحب( ایڈیٹر زمیندار کی نسبت لکھا:
>مرحوم روزنامہ زمیندار کے مالک تھے انہوں نے ختم نبوت کے نام پر حکومت سے بھی لاکھوں روپے لئے اور عوام سے بھی ڈھیروں روپے چندہ وصول کیا۔ انہوں نے چندہ اکٹھاکرنے کے لئے ختم نبوت کے نام پر ایک ایک روپے کے نوٹ چھاپ لئے تھے۔ جنہیں لوگوں کو دے کر ان سے اصلی نوٹ بطور چندہ لئے جاتے تھے۔ جس زمانہ میں انہوں نے ختم نبوت کے عقیدے کو روپیہ کمانے کا ذریعہ بنایا وہ میکلوڈ روڈ پر ایک عالیشان بلڈنگ کے مالک تھے ان کے پاس دو تین کاریں بھی تھیں۔ اور زمیندار بھی اچھا خاصا چل رہا تھا مگر جونہی انہوں نے ختم نبوت کے نام پر روپیہ خوردبرد کیا بہت ہی تھوڑے عرصہ کے اندر نہ ان کی بلڈنگ رہی` نہ اخبار رہا اور نہ وہ خود رہے ان کی بلڈنگ پک کر ایک ہوٹل بن گئی۔ زمیندار صفحئہ ہستی سے یوں محو ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ اور مولانا اختر علی گمنامی کی حالت میں اس طرح مرے کہ کرم آباد میں ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے بھی بیس تیس آدمی میسر نہ آئے<۔
۴۔ ہفت روزہ >چٹان< لاہور نے ۱۳/ جولائی ۱۹۶۴ء )ص۵( کی اشاعت میں اخبار >زمیندار< کی نیلام شدہ بلڈنگ کا فوٹو شائع کیا اور اس کے نیچے ایک عبرت انگیز نوٹ لکھا جو یہ ہے:
>یہ کبھی روزنامہ زمیندار کا دفتر تھا<۔
>یہاں وہ شخص رہتا تھا جس نے ربع صدی تک برطانوی سامراج کو للکارا۔ ہماری آزادی کے لئے گیارہ سال قید فرنگ میں رہا۔ لاکھوں روپے ضبط کرائے۔ جس کا ضبط شدہ پریس آج بھی بورسٹل جیل کے سرکاری پریس میں موجود ہے اور جہاں اس کا پوتا مسعود علی خان ورکس مینجر کی حیثیت سے ملازم ہے۔ یہ بلڈنگ اسی ظفر علی خاں کی ہے۔ ظفر علی خاں جس نے پنجاب یک سیاسی ویرانوں کو رنگ و روغن بخشا جس نے ہمیں حریت آشنا کیا۔ جس نے بتکدوں میں آذان دی۔ لیکن جب آزادی کا آفتاب طلوع ہوا تو وہ صرف >وود چراغ محفل< تھا۔ قلم کی آبرو صنعت کاروں کو منتقل ہوگئی۔ اخبارات عظیم الشان عمارتوں کے استحصال خانوں میں بازار کی جنس ہوگئے اور یہ عمارت جو قومی یادگار ہونی چاہئے تھی قرض میں نیلام ہوگئی۔ اب ستم ظریفی حالات نے اس کو زمیندار ہوٹل مین بدل ڈالا ہے جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔ جی ہاں انہی کمروں میں بیٹھ کر ظفر علی خاں نے بارگاہ رسالت ممماب میں ہدیہ ہائے عقیدت پیش کئے تھے اب ان کے در و دیوار دیدہ ہائے عبرت سے رجل رشید کا انتظار کر رہے ہیں<۔
>۔۔۔ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت احرار نے اس ایجی ٹیشن مین سب سے نمایاں حصہ لیا ان کے جوش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے متعدد بار اور متعدد مقامات پر خواجہ ناظم الدین صاحب اور ملک غلام محمد صاحب مرحوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
>اگر تم۔۔۔۔۔ عقیدئہ ختم نبوت کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھالو )یعنی احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو۔ ناقل( تو میں اپنی اس سفید ریش سے تمہارے پائوں صاف کروں گا<۔~ف۳۴~
زندگی کے آخری ایام میں شاہ جی کے عقیدتمندوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا وہ ایک عبرت انگیز داستان ہے جس کا پتہ ان کے مذکورہ انٹرویو سے ملتا ہے جو انہوں نے اپنی وفات سے قریباً ڈیڑھ برس قبل روزنامہ >امروز< ملتان کے سٹاف رپورٹر کو دیا۔ سٹاف رپورٹر نے سوا کیا >ان دنوں جب کہ آپ اس قدر بیمار ہیں اور پبلک لائن سے بھی ریٹائر ہوچکے ہیں کبھی دیرینہ رفقاء میں سے کوئی ملنے آیا<
آپ جواب میں مسکرا دیئے اور فرمایا:۔
>جب تک یہ کتیا )زبان( بھونکتی تھی۔ سارا برصغیر ہند و پاک ارادت مند تھا۔ اس نے بھونکنا چھوڑ دیا ہے تو کسی کو پتہ ہی نہیں رہا کہ میں کہا ہوں۔<]10 ~[pف۳۵~
۶۔ مجلس احرار جو ۱۹۵۳ء کی تحریک میں نفس ناطقہ اور رواں تھی اپنوں کی نگاہ میں بھی لاشہ بے جان بن کے رہ گئی۔ چنانچہ احرار کے سابق جنرل سیکرٹری شورش کاشمیری صاحب کو لکھنا پڑا کہ:۔
>واقعہ یہ ہے کہ مجلس احرار بہ لحاظ جماعت تاریخ کے حالے ہوچکی ہے اب اس کا ذہنی وجود تو بعض روایتوں اور حکایتوں کی وجہ سے ملک کے عوامی دماغوں میں موجود ہے لیکن )۱( نہ اس کی کوئی تنظیم ہے۔ )۲( نہ اس کا کوئی مربوط شیرازہ ہے )۳( نہ اس فضا میں اڑنے کے لئے اس کے بال و پر ہیں۔<
>ہماری ایمانداری سے رائے ہے کہ اب احرار کا زمانہ بیت چکا ہے اور مرحوم ماضی میں زندگی بسر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔~<ف۳۶~
حوالہ جات
~ف۱~
رسالہ >الوصیت< طبع سوم ص۱۰ مطبوعہ ۹/جولائی ۱۹۰۸ء
~ف۲~
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اول ص۷ مکتوب ۱۳ )مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب( ناشر دفتر الحکم دسمبر ۱۹۱۸ء طبع اول۔
~ف۳~
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر )الزلزال ص۴۴۷`۴۴۸ از حضرت مصلح موعود مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ۲۵/دسمبر ۱۹۴۶ء
~ف۴~
>ملت< ۲۱/دسمبر ۱۹۵۳ء ص۱ )اس پرچہ میں مارشل لاء کے نفاذ کی تاریخ ۴/مارچ چھپی تھی جو غلط ہے(
~ف۵~
نوائے وقت ۱۶/مئی ۱۹۵۳ء ص۱`
~ف۶~
نوائے وقت لاہور ۱۷/مئی ۱۹۵۳ء ص۳
~ف۷~
آئینہ کمالات اسلام ص۱۱ طبع اول
~ف۸~
المنیر ۱۰/اگست ۱۹۵۵ء ص۱۰۔۴۔۱۱
~ف۹~
رسالہ تعلیم القرآن )راولپنڈی( جولائی اگست ۱۹۶۰ء ص۱۲`۱۳ بحوالہ رسالہ >الفرقان< ربوہ اگست ۱۹۶۰ء ص۳۲
~ف۱۰~
نوائے وقت جمعہ میگزین یکم تا ۷/فروری ۱۹۸۵ء ص۴
~ف۱۱~
جنگ کراچی ۱۰/نومبر ۱۹۶۷ء بحوالہ >الفرقان< ربوہ فروری ۱۹۶۸ء ص۴۶
~ف۱۲~
رسالہ >زندگی< لاہور- ۲۷/جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۲۹`۳۰
~ف۱۳~
اخبار نوائے وقت لاہور ۲۴/اکتوبر ۱۹۵۳ء ص۲ کالم ۳
~ف۱۴~
سید عطاء اللہ شاہ بخاری ص۲۴۶ طبع دوم نومبر ۱۹۷۳ء ناشر مکتبہ چٹان ۸۸ میکلوڈ روڈ لاہور )نوٹ( اس اقتباس کے اگلے فقرے عمداً چھوڑ دئیے گئے ہیں کیونکہ تاریخ احمدیت کے پاکیزہ اوراق اسے نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتے(
~ف۱۵~
نقل مطابق اصل
~ف۱۶~
>چراغ راہ< کراچی مارچ ۱۹۵۴ء ص۱۸`۱۹~(ف۱۷~
>دیوبندی مذہب< صفحہ ۴۴۴ تا ۴۵۱ ناشر کتب خانہ مہریہ مہر منزل منڈی چشتیاں شریف ضلع بہاولنگر ۱۳۷۵/۱۹۵۶ء
~ف۱۸~
>تریاق القلوب< صفحہ ۹۱ طبع اول مطبوعہ قادیان تذکرہ طبع چہارم ص۳۰۸` ۱۹۷۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ۔
~ف۱۹~
ہفت روزہ المنبر ۱۰/جولائی ۱۹۵۵ء
~ف۲۰~
>نوائے وقت< )لاہور( نے حسب ذیل ادارتی نوٹ سپرد قلم کیا۔
>آج ۲۷`۲۸ ماہ بعد اس انکشاف سے تو اک عام آدمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ آپ کے سامنے بھی سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں نام اور سہرے کا تھا اور آپ اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیل رہے تھے اور آپ نے بھی مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کیلئے دائو پر لگا دیا<۔
>دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ جو پوری ملت اسلامیہ کی انقلابی قیادت کے دعویدار اور امارت کے مدعی ہیں کیا آپ ایسے ہی ڈھلمل یقین آدمی ہیں کہ خود اپنے قول کے ماطبق آپ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ >۔۔۔ لیکن چند ہی منٹ بعد دوسرا خیال میرے زہن میں آیا۔۔۔۔ اور اپ نے اپنی رائے بدل دی اور اپ کنوینشن سے چمٹے رہے اور اب پورے سوا دو سال بعد آپ کو یہ خیال آیا کہ آپ کو مسلمانوں کو اس خطرہ سے خبردار کر دینا چاہئے۔ خود وہی فرمائیے۔ کہ ایسے ڈھلمل یقین اور مذبذب کیریکٹر کے لیڈر کے متعلق اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ وہ آئندہ کسی ایسے ہی کرائسس کے وقت قوم کی کشتی کو عین منجدھار میں نہ جا ڈبوئے گا<۔ )نوائے وقت ۶/جولائی ۱۹۵۵ء ص۳`۴(
~ف۲۱~
المنیر لائل پور۔ ۶/جولائی ۱۹۵۶ء ص۲ کالم ۲`۳
~ف۲۲~
المنیر لائل پور۔ ۶/جولائی ۱۹۵۶ء ص۷ کالم ۲
~ف۲۳~
المنیر ۱۷/جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۹۔ >ان تقریروں کا ایک نمونہ قاضی محمد اسلم صاحب سیف فاضل عربی کے الفاظ میں درج زیل کیا جاتا ہے موصوف شاہ جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں<۔ آپ نے متعدد بار متعدد مقامات پر اپنی تقریروں میں خواجہ ناظم الدین اور ملک غلام محمد مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا اے خواجہ صاحب اور اے ملک صاحبا گر تم میری یہ معمولی سی درخواست مان کر یعنی عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائو تو میں اپنی اس سفید ریش سے تمہارے پائوں صاف کروں گا<۔ )رسالہ تنظیم اہلحدیث لاہور ۲۹/ستمبر ۱۹۶۱ء ص۸(
~ف۲۴~
ہفت روزہ المنیر ۹/مارچ ۱۹۵۶ء ص۴ کالم ۱`۲
~ف۲۵~
>بیان صادق< ص۳۴`۳۵ از تاج الدین صاحب انصاری لدھیانوی ناشر مکتبہ مجلس احرار اسلام پاکستان کاشانہ معاویہ نمبر۷۳۲ کوٹ تغلق شاہ ملتان شہر طبع ثانی محرم ۱۳۸۸ھ اپریل ۱۹۶۹ء مطبع مکتبہ جدید پریس لاہور
~ف۲۶~
>خطبات امیر شریعت< ص۱۲۸`۱۲۹ مرتبہ مرزا غلام نبی صاحب جانباز ناشر مکتبہ تبصرہ بیرون دہلی گیٹ لاہور۔
~ف۲۷~
المنیر لائلپور ۱۷/جولائی ۱۹۵۵ء ص۹
~ف۲۸~
>انتخابی کالج کے لئے لمحہ فکریہ< )از مولانا امین احسن اصلاحی ص۴`۷`۸ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور۔
~ف۲۹~
روزنامہ تسنیم لاہور ۶/جنوری ۱۹۵۷ء ص۴ کالم نمبر۲
~ف۳۰~
المنیر ۴/اکتوبر ۱۹۵۸ء ص۶`۷
~ف۳۱~
>تحریک جماعت اسلامی >از ڈاکٹر اسرار احمد ایم اے ایم بی بی ایس شائع کردہ دارالاشاعت الاسلامیہ کرشن نگر لاہور ص۱۸۸ تا ۱۹۳ طبع اول محرم الحرام ۱۳۸۶ھ اپریل ۱۹۶۶ء۔
~ف۳۲~
المنیر ۹/مارچ ۱۹۵۶ء ص۵
~ف۳۳~
المنیر ۹/مارچ ۱۹۵۶ء ص۵۔
~ف۳۴~
براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷۸ طبع اول۔
~ف۳۵~
ہفت روزہ آثار ۲۴ تا ۳۰ جون ۱۹۷۴ء صفحہ ۸
~ف۳۶~
صفحہ ۵۴۶ طبع اول نومبر ۱۹۶۲ء مکتبہ تبصرہ ۴/۷ گلشن کالونی شاد باغ لاہور۔
~ف۳۷~
ہفت روزہ >تنظیم اہلحدیث< لاہور ص۸ کالم ۳
~ف۳۸~
امروز )ملتان ۱۵/اکتوبر ۱۹۶۱ء بحوالہ >حیات امیر شریعت< ص۵۴۶ مئولفہ جناب غلام نبی صاحب جانباز طبع اول نومبر ۱۹۶۲ء ناشر مکتبہ تبصرہ ۴/۷ گلشن کالونی شاد باغ لاہور۔
~ف۳۹~
اخبار >چٹان< لاہور ۲۵/مارچ ۱۹۶۳ء ص۸
‏tav.14.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
جماعت احمدیہ کسی ترقی اور استحکام
دوسرا باب
جماعت احمدیہ کی ترقی اور استحکام
۱۹۵۳ء کے فسادات تو اس لئے رونما ہوئے تھے تاجماعت احمدیہ کو صفحہ روزگار سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے مگر عملاً یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ نے صبر و رضا کا بہترین نمونہ پیش کرکے نہ صرف خدا کے کئی نشان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیر قربانیوں کو نوازتے ہوئے تائید و نصرت کے ایسے سامان پیدا کئے کہ قائم شدہ جماعتیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئیں اور بعض نئی جماعتوں کا قیام بھی عمل میں آیا خصوصاً ربوہ کے ماحول میں چک منگلہ کے مشہور پیر مور الدین صاحب کے خلیفہ مجاز الحاج حافظ مولانا عزیز الرحمن صاحب منگلا جیسے عالم ربانی نے حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر لی~ف۱~ اور پھر ان کے ذریعہ ہزاروں مرید حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور اس علاقہ میں یدخلون فی دین اللہ افواجا کا روح پر در نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیا حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام کے زمانہ میں یہ علاقہ جس میں ہمارا مرکز ہے اس میں کوئی احمدی نہیں تھا۔ آپ کی وفات کے قریب عرصہ میں یہاں صرف ایک احمدی تھا لیکن اب ضلع جھنگ میں ہزاروں احمدی موجود ہیں۔ ۱۹۵۳ء میں جبکہ ہم ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے اس علاقہ کے صرف پانچ چھ احمدی تھے۔ لیکن دو تین ہزار احمدی ہوچکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے والے ایسے آسودہ لوگ ہیں کہ حیرت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ے کس طرح ان مال داروں کو احمدیت کی طرف ہدایت دے دی۔ ملاقات کے وقت ہر شخص جو اس علاقہ کا آتا ہے اس سے دریافت کیا جائے کہ تمہاری کتنی زمین ہے تو وہ کہتا کہ دس مربعے یا بیس مربعے یا چالیس مربعے اور اس وقت مربعے کی قیمت ۵۰` ۶۰ ہزار روپیہ ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے پاس آٹھ مربعے سے کم زمین ہوتی ہے۔ اگر ٹوٹل کیا جائے تو میرے خیال میں یہاں ایک ہزار مربع جماعت کا ہوگیا ہے گویا پانچ کروڑ کی جائیداد صرف اس ضلع میں پیدا ہوگئی ہے۔ اور یہ انقلاب ایک تھوڑے سے عرصہ میں ہوا ہے۔ صرف تین سال کی بات ہے کہ جب یہ انقلاب ہوا۔ اب دیکھ لو یہ معجزہ ہے یا نہیں۔ پہلے اس عالقہ میں جس میں احمدی ہیں ایک پیر منور الدین صاحب تھے وہ قادیان بھی گئیتھے۔ واپس آکر انہوں نے اپنے مریدوں کو کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب کی بات سچی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقیناً وفات پاگئے ہیں مگر جب ان کے مرید جماعت میں داخل ہونے لگے تو انہیں ہماری جماعت سے بغض پیدا ہوگیا۔ کیونکہ ہماری وجہ سے ان کی آمدن کم ہوگئی۔ کجا تو ان کی یہ حالت تھی کہ علاقہ میں ان کی بڑی عزت اور قدر کی جاتی تھی اور کجا یہ کہ جب ان کے تمام مرید احمدی ہوگئے تو انہیں رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ آخر ایک دوست صالح محمد صاحب نے انہیں اپنے بنگلہ میں ٹھہرایا اور پھر وہ اپنے وطن واپس چلے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ احمدیت کی تائید میں ہمیشہ نشانات دکھلاتا چلا آیا ہے۔~<ف۲~
۱۹۵۳ء کے بعد جماعت احمدیہ کو جو حیرت انگیز ترقیات پاکستان اور بیرون ممالک میں ہوئی اس کا واضح اقرار غیر ازجماعت کے ممتاز ادیبوں` عالموں بلکہ جماعت اسلامی اور احراری حلقوں کی طرف سے کیا گیا۔ بطور ثبوت چند تاثرات و آراء درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ شیخ محمد اکرام صاحب ایم اے مئورخ پاکستان نے >موج کوثر< میں لکھا:۔
>عام مسلمانوں نے جس انداز سے قادیانیوں کی مخالفت کی ہے اس سے اس جماعت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا فائدہ۔ قران نے مسلمانوں بلکہ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان فوقیت پانے کے طریقہ یہ بتایا تھا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں اور اللہ انہیں جزا دے گا۔ انسانی زندگی کا یہ اٹل قانون دور حاضر کے بعض مناظرین نے پوری طرح نہیں سمجھا۔ عیب جوئی` مخالفت اور تشدد سے دوسرے فرقوں اور جماعتوں کی ترقی بند نہیں ہوسکتی جو فرد اپنی جماعت کی ترقی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیک کاموں میں دوسروں سے بڑھ جائے۔ ہمارے بزرگوں نے عام مسلمانوں کو نظم و نسق` مذہبی جوش اور تبلیغ اسلام میں مرزائیوں پر فوقیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھائی بلکہ بیشتر فتووں اور عام مخالفت سے فتنہ قادیان کا سدباب کرنا چاہا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ بے جا سختی کی جائے تو اس میں ایثار اور قربانی کی خواہش بڑھ جاتی ہے چاننچہ جب کبھی عام مسلمانوں نے قادیانیوں کی مخالفت میں معمولی اخلاق` اسلامی تہذیب اور رواداری کو ترک کیا ہے تو ان کی مخالفت سے قادیانیوں کو فائدہ ہی پہنچا ہے۔ ان کی جماعت میں ایثار اور قربانی کی طاقت بڑھ گئی اور ان کے عقائد اور بھی مستحکم ہوگئے ہیں۔~ف۳~
۲۔ ایڈیٹر صاحب >اخبار صداقت< گوجرہ نے اعتراف کیا:۔
>احرار کی تحریک ناکامیوں سے پر ہے۔ دور جانے کی کیا ضرورت` ختم نبوت کا تحفظ آپ کے سامنے ہے ~}~
تو کار زمیں رانکو ساختی
کہ باآسماں نیز بر داختی
ربوہ موجود۔ اس کے کالج اور سکول موجود۔ پریس` اخبار اور مبلغ موجود۔۔۔۔ ان کا عقیدہ اجرائے نبوت موجود۔۔۔۔۔ حق کو متانے والے آپ کون؟~ف۴~
۳۔ مولانا عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر >النبر< نے اپنے اخبار میں متعدد بار جماعت احمدیہ روز افزوں ترقی اور استحکام کا برملا اظہار فرمایا چنانچہ لکھا:۔
المنبر ۲۳ فروری ۱۹۵۴ء
>ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا۔ لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی۔ مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقویٰ` تعلق باللہ دیانت` خلوص` علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے۔ سید نذیر حسین صاحب دہلوی` مولانا انور شاہ صاحب دیو بندی` مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری` مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی` مولانا عبدالجبار غزنوی` مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رحمھم اللہ وغفرلہم کے بارے ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر و رسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے۔۔۔۔۔ لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر )نور اللہ مرقدھم وبرمضاجعہم( کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے۔ تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پائوں جمائے بلکہ جہان ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں )گزشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کے دو سائنسدان ربوہ وارد ہوئے( اور دوسری جانب ۱۹۵۳ء کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس ۵۷۔ ۱۹۵۶ء کا بجٹ لاکھ روپیہ کا ہو۔<
>۱۹۵۳ء کے وسیع ترین فسادات کے بعد جن لوگوں کو یہ وہم لاحق ہوگیا ہے کہ قادیانیت ختم ہوگئی یا اس کی ترقی رک گئی۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں میں بلکہ )بعض اطلاعات کی بناء پر( مغربی پاکستان اسمبلی میں قادیانی ممبر منتخب ہوگئے۔10] ~[pف۵~
ہفت روزہ المنبر ۲ مارچ ۱۹۵۶ء
)ب( >قادیانیوں نے گزشتہ پچاس سال میں اندرون اور بیرون ملک اپنی قومی زندگی کو قائم رکھنے اور قادیانی تحریک کو عام کرنے کے لئے سلسلہ میں جو جدوجہد کی ہے اس کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ انہوں نے اس کے لئے ایثار و قربانی سے کام لیا ہے۔ ملک میں ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نئے مذہب کی خاطر اپنی برادریوں سے علیحدگی اختیار کی۔ دنیوی نقصانات برداشت کئے اور جان و مال کی قربانیاں پیش کیں۔<
>ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادیانی عوام میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اس سراب کو حقیقت سمجھ کر اس کے لئے جان و مال اور دنیوی وسائل و علائق کی قربانی پیش کرتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل میں سزائے موت کو لبیک کا۔ بیرون ملک دور دراز علاقوں میں غربت و افلاس کی زندگی اختیار کی۔<
>تقسیم ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی جس کے سرکاری خزانہ میں اپنے معتقدین کے لاکھوں روپے جمع تھے اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہوکر آئی تو قادیانیوں کا یہ سرمایاں جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا اور اس سے ہزاروں قادیانی بغیر کسی کاوش کے ازسرنو بحال ہوگئے۔ پھر یہ موضوع بھی مستحق توجہ ہے کہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس کے ۳۱۳ افراد تقسیم کے بعد سے آج تک قادیان میں موجود ہیں اور وہاں اپنے مشن کے لئے کوشاں بھی ہیں اور منظم بھی۔۔۔۔۔ قادیانی تنظیم کا تیسرا پہلو وہ تبلیغی نظام ہے جس نے اس جماعت کو بین الاقوامی جماعت بنا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ بھارت` کشمیر انڈونیشیا۔ اسرائیل۔ جرمنی۔ ہالینڈ۔ سوئٹرز لینڈ۔ امریکہ۔ برطانیہ۔ دمشق۔ نائیجیریا۔ افریقی علاقے اور پاکستان کی تمام قادیانی جماعتیں مرزا محمود احمد صاحب کو اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کرتی ہیں اور ان کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں >صدر انجمن احمدیہ ربوہ< اور >صدر انجمن احمدیہ قادیان< کے نام وقف کر رکھی ہیں۔~<ف۶~
المنیر ۶ جولائی ۱۹۵۶ء
)ج( >اس وقت جو کوشش تحفظ ختم نبوت کے نام سے قادیانیت کے خلاف جاری ہے فطع نظر اس سے کہ اس کوشش کا اصل محرک خلوص` خدا کے دین کی حفاظت کا جذبہ ہے یا حقیقی وجہ معاسی اور منفی ذہن کے رجحانات کا مظاہرہ ہے ہماری رائے میں یہ کوشش نہ صرف یہ کہ اس مسئلہ کے حل کرنے کے لئے مفید نہیں ہے بلکہ علی وجہ البصیرت کامل یقین و اذعان کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ جدوجہد قادیانی شجرہ کے بار آور ہونے کے لئے مفید کھاد کی حیثیت رکھتی ہے۔~<ف۷~
۱۹۵۳ء کے بعد احمدیت کی ترقی
>۱۹۵۳ء کے بعد` جو غلطیاں` ہم سے سرزد ہوئیں` ان میں ایک فاش غلطی یہ تھی کہ ہم میں سے بہت سے حضرات نے اس غیر واقعاتی تاثر کو خوب خوب عام کیا کہ ۵۳ء کی تحریک سے قادیانیت ختم یا کم از کم بے اثر ہوچکی ہے` درآنحالیکہ۔۔۔۔ قادیانی
ملک کی بیشتر کلیدی آسامیوں پر چھاتے چلے گئے۔
ہر قابل ذکر اور اہم محکمے میں` ان کے ممتاز افراد گھسے اور انہوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں قادیانی کارکنوں کی ٹیمیں جمع کرلیں۔
صدر ہائوس اور وزارت عظمیٰ کے ایوان ہی میں نہیں` ان بڑے عہدہ داروں کے نجی عملے تک میں قادیانیوں کو موثر قوت بننے کا موقعہ میسر آیا۔
ملک کی معیشت پر قادیانیوں کو فیصلہ کن پوزیشن حاصل ہوئی اور اس سے فائدہ اٹھا کر انوں نے اپنی جماعت کے بیشمار افراد کو مالا مال کردیا۔
ملک کے اہم ترین مناصب پر فائز ہونے کے بعد` قادیانیوں نے بیرون ملکوں` بالخصوص بری طاقتوں سے اپنے روابط مستحکم کئے اور بیشتر ممالک میں انہوں نے انتہائی منظم طریقے پر یہ پروپگیندہ کیا کہ پاکستان کی حکومت` قادیانی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔
سر ظفر اللہ سے ایم۔ ایم۔ احمد اور عبدالسلام تک` بڑے قادیانیوں نے وزارت خارجہ اور دنیا بھر کے پاکستانی سفارت خانوں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔۔۔۔ ان سفارت خانوں کے ذریعہ` دنیا کے بیشتر ممالک ہیں۔
سرکاری وسائل و اثر و رسوخ کو قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت کے لئے بے محابا استعمال کیا گیا۔
قادیانی اکابر نے ملک کے تمام مناصب کو اپنے عقائد کی تبلیغ` اپنے سیاسی مشن کی تکمیل اور مسلمانوں کے خلاف یہود اور دوسرے سامراجی عناصر کی سازشوں کی تکمیل کے لئے استعمال کیا۔
ایک اہم ترمقصد قادیانیوں کے سامنے یہ تھا کہ سفارتی مناصب کو` تمام ملکوں سے براہ راست روابط کا ذریعہ بنایا جائے اور انہیں اس میں اس حد تک کامیابی ہوئی کہ وہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پاکستان کے نمائندوں کی حیثیت سے معروف ہوئے` بلکہ وہ پاکستان کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اسلام کی نمائندگی و ترجمانی کے منصب پر فائز بھی سمجھے جانے لگے اور ان کے عمل اور پروپیگنڈے سے یہ تاثر عام ہوگیا ک اس وقت دنیا میں صرف قادیانی ہی تبلیغ و اشاعت اسلام کا علم تھامے ہوئے ہیں۔
اندرون ملک قادیانیت کا فروغ!
اندرون ملک` قادیانیوں کو اس حد تک فروغ حاصل ہوا کہ:۔
تقسیم ملک کے کچھ عرصہ بعد تک ان کا جو مرکزی بجٹ ایک ڈیڑھ لاکھ کا تھا` اب وہ اڑھائی کروڑ تک جا پہنچا اور انہوں نے اس سال کے آغاز میں` اپنی ۷۵ سالہ جوبلی منانے کے لئے ۱۰ کروڑ کی رقم کے وعدے اپنے خلیفے کے حضور پیش کئے۔
فوج میں ان کا اثر اس حد تک بڑھا کہ یہ خطرہ ہر ہوش مند کو محسوس ہونے لگا کہ اگر اب یہاں خدانخواستہ کوئی فوجی انقلاب آتا ہے تو کہیں` وہ >قادیانی حکومت< کی صورت میں نہ ہو۔<
قادیانیوں نے مسلم معاشرے میں اس حد تک نفوذ حاصل کیا کہ علمائے دین کے متفقہ فتویٰ اور متعدد عدالوں کے قطعی فیصلوں کے برعکس` ہزاروں مسلم خاندانوں نے قادیانیوں سے رشتے ناطے کے روابط قائم کئے اور ایک اہم تعداد ہمارے اہل سیاست اور اصحاب مال و جاہ کی ایسی اس ملک میں موجود ہے` جو نیم قادیانی یا کم از کم قادیانیوں کے خلاف ہر قسم کے جذبہ مغائرت سے تہی دامن ہے اور وہ یہ بات ان کے لئے اچنبھے کی ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور ان سے معاشرتی تعلقات شرعاً ممنوع ہیں۔
‏body] [tagقادیانیوں کی یہ ترقی` اگرچہ مسلمانوں کی دین سے دوری کے باعث تھی مگر اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ قادیانی ایک گرمجوش جماعت کی حیثیت سے مسلسل اور پیہم مصروف تبلیغ و اشاعت تھے اور اس امت کے افراد نے فی الواقعہ` اپنے باطل مقصد سے لگن` اس کیلئے محنت اور ایثار سے بھی کام لیا اور اس۔۔۔۔۔ گروہ کے بیشتر افراد۔۔۔۔۔ اپنے مشن میں >مخلص< تھے` اور یہی اخلاص انہیں ہر وقت عمل کے تسلسل پر مجبور کرتا رہا۔<
۴۔ ایک احراری لیڈر مولوی عبید اللہ صدر مجلس احرار اسلام پاکستان لائلپور نے جماعت احمدیہ کے اتحاد` تنظیم اور ایثار کو خراج تحشین ادا کرتے ہوئے لکھا:۔
>مجلس احرار کے علاوہ بعض دیگر دینی جماعتوں نے بھی مسئلہ ختم نبوت کی تبلیغ اور تعلیم میں سرگرم حصہ لیا ہے اور لے رہی ہیں مگر ہم عملاً دیکھ رہے ہیں۔ کہ مسلمان ختم نبوت کے مسئلہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے بھی قران و سنت کو نظر انداز کرکے کمیونزم اور سوشلزم کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ اکابرین مختلف حیلوں بہانوں سے سوشلز میں ملک کی فلاح اور نجات بیان کررہے ہیں۔ اس طرح عملاً مسئلہ ختم نبوت کی نفی کی جارہی ہے۔ اور یہ حادثہ اس لئے رونما ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کہ مسئلہ ختم نبوت کے اکابرین کی تقریروں اور عمل کے درمیان ایک طویل مسافت ہے۔ تضاد ہے۔ ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ حضور علیہ الصلٰوٰہ والسلام کا ارشاد ہے۔ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اتحاد اور تنظیم کو مستحکم کرو مگر ہم صوبائی` لسانی اور نسلی بتوں کی پرستش کرکے ایک دوسرے کے دشمن ہورہے ہیں۔ باہمی اعتماد نہ ہو تو باہمی اخوت کس طرح ہوسکتی ہے۔ مسئلہ ختم نبوت کی ضروت مرزا غلام احمد قادیانی کی تنظیم اور نظریات کے پیش نظر ہوئی مسئلہ ختم نبوت میں زیادہ تر جماعت احمدیہ ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ مگر جماعت احمدیہ نے جس طرح خود کو منظم اور مستحکم کررکھا ہے ان کے مقابلہ میں مجلس احرار یا کوئی اور جماعت اس قدر منظم اور متحد نہیں۔ جماعت احمدیہ سیاسقی اقتصادی معاشرتی اور عسکری لحاظ سے طاقت ور جماعت ہے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر اس کی تنظیم کا ایک مضبوط نظام قائم ہے۔ اس جماعت کا ہر فرد اپنے عقیدہ اور عمل میں راسخ ہے۔ فنڈز کے لئے اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ایک نظام کے تحت از خد ان کے فنڈز میں روپیہ جمع ہوتا ہے۔ ایک منصوبہ کے تحت خرچ کیا جاتا ہے۔ جماعت کے پسمنادہ افراد کی ہر طرح امداد اور اعانت کی جاتی ہے۔
مقابلت¶ہ مجلس احرار اور دیگر دینی جماعتیں ہمیشہ فنڈ نہ ہونے کا شکوہ کرتی ہیں۔ اور فنڈز کی کمی کے باعث وہ کماحقہ خدمات سرانجام نہیں دے سکتیں۔ جماعت احمدیہ میں اتحاد۔ تنظیم اور ایک دوسرے کے لئے ایثار کا جذبہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تنظیم اتحاد اور ایثار میں کوئی شے بھی نہیں۔ دوسرے معنوں میں خلوص اور عمل کا فقدان ہے۔
اس وقت پاکستان کا ہر فرد یہ محسوس کررہا ہے۔ کہ جماعت احمدیہ ایک زبردست طاقت بن چکی ہے۔ اس کی وجہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر معلوم کرسکتے ہیں۔ مسئلہ ختم نبوت کے منکر خاموشی سے اپنی صفوں کو منظم کرتے رہے۔ اور ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے اپنی صفوں میں انتشار پیدا کرتے رہے۔~<ف۸~
حوالہ جات
~ف۱~
تاریخ وفات ۲۹ جون ۱۹۸۷ء
~ف۲~
الازھار لذوات الخمار صفحہ ۲۰۱ حصہ دوم طبع دوم )مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ( ناشر۔ دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ربوہ
~ف۳~
>موج کوثر< صفحہ ۱۹۳ء مئولفہ جناب شیخ محمد اکرام ایم اے۔ ناشر فیروز سنز )لاہور۔ پشاور۔ کراچی طبع دوم ۱۹۵۸ء(
~ف۴~
>صداقت گوجرہ ۲۰ جون ۱۹۵۸ء بحوالہ رسالہ الفرقان ربوہ اگست ۱۹۵۸ء صفحہ ۲
~ف۵~
المنبر ۲۳ فروری ۱۹۵۶ء صفحہ ۱۰
~ف۶~
ہفت روزہ المنبر ۲ مارچ ۱۹۵۶ء صفحہ نمبر ۱۰
~ف۷~
المنبر ۶ جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۱
~ف۸~
پمفلٹ >مجلس احرار کی تبلیگی سرگرمیاں اور اس کا اجمالی خاکہ< صفحہ مرتب۔ محمد طاہر لدھیانوی۔ محمد عالم منہاس لدھیانوی۔ شائع کردہ۔ محمد اشرف ناظم مجلس احرار` اسلام گوجرانوالہ ۶ ستمبر ۱۹۷۲ء
تیسرا باب
جماعت احمدیہ کی عالمی شہرت و عظمت میں اضافہ
۱۹۵۳ء کے دور ابتلاء کی تیسری عظیم الشان برکت یہ تھی کہ بیرونی ممالک میں اس کی شہرت وقار اور عظمت میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ عالمی پریس نے جماعت احمدیہ کے حق میں کھلے بندوں آواز بلند کی اور اس کی مظلومیت کے چرچے دنیا کے ہر گوشے میں ہونے لگے۔][اس سلسلے میں بعض بیرونی ممالک کے اخبارات کے تاثرات اور ان کے قارئین کی آراء کا نمونتاً ذکر کیا جاتا ہے۔
ہندوستان کا مسلم پریس
۱۔ اخبار >حقیقت< لکھنو نے اپنی ۳` ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل اداریہ تحریر کیا
ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کر چراغ سے۔
تقریباً چھ سات ماہ کے سکون اور خاموشی کے بعد ایک بار پھر پاکتان کے ناعاقبت اندیش مولویوں اور کٹھ ملائوں نے وہی شر انگیز ایجی ٹیشن پھر شروع کردیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی شیرازبندی کو پاش پاش کردینا ہے۔ ان مولویوں` ملائوں اور خود ساختہ مولانائوں کا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے اور سر ظفر اللہ کان کو وزارت خارجہ کے عہدہ سے ہتا دیا جائے ان احمقوں کے نزدیک پاکستان گورنمنٹ کے اس اعلان کردینے سے کہ احمدی غیر مسلم ہیں ساری دنیا ان کا گیر مسلم ہونا تسلیم کرے گی۔ لاکوں افراد کی ایک کلمہ گو جماعت کو جو خدا کی وحدانیت` رسول کی رسالت اور شریعت اسلامیہ کی خود ان مولویوں اور مولانائوں سے کہیں زیادہ سختی کے ساتھ پابند ہو 0] [rtf بیک گردش قلم خارج از اسلام قرار دے دینا ایسی افسوس ناک بلکہ شرم ناک جسارت ہے جس کی اسلام کی ۱۳۰۰ سال کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی۔ غور کیجئے کہ ایک شخص جو خدا اور رسسول کا کلمہ پرھتا ہے اسلامی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کہتا ہے کسی کو کیا حق حاصل ہے کہاس کو محض اس بناء پر خارج ازاسلام قرار دے دے کہ ختم نبوت کے بارے میں اس کا عقیدہ عام مسلمانوں کے عقیدہ سے کچھ مختلف ہے۔ کراچی اور لاہور میں جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایا ہے وہ پاکسستان کے دوست نہیں ہیں بلکہ نہایت خطرناک دشمن ہیں۔ ہمارے خیال میں راولپنڈی کی سازش سے کم مضرت رساں اور خطرناک یہ شورش نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس قسم کی فتنہ انگیز تحریکوں کو قطعی کچل دے ورنہ اگر مولویوں اور کٹھ ملائوں کی رسی ڈھیلی کردی گئی تو یہ فتنہ احمدیوں کے بعد دوسرے اسلامی فرقوں کو بھی سمیٹ لے گا۔ یقین کیجئے کہ ملاوں کو اگر اس ایجی ٹیشن میں حکومت کی کمزوری یا نرمی کی وجہ سے کچھ بھی کامیابی ہوئی تو پھر اس فرقہ وار تعصب کے سیلاب سے دوسرے مسلم فرقوں کا محفوظ رہنا بھی محال ہوگا اور پھر اس کا انجام پاکستان کے لئے جس قدر تباہی~ف۱~ اور مہلک ہوگا اس کا انداز سمجھدار شخص ہی کرسکتا ہے۔
کراچی اور لاہور کی تازہ خبروں ے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس خطرناک فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں چنانچہ کراچی اور لاہور میں اب تک کم و بیش ڈیڑھ ہزار گرفتاریاں ہوچکی ہیں اور لاہور کے کئی روزانہ اردو اخبارات کی اشاعت ایک ایک سال تک روک دی گئی۔ مولانا اختر علی خان ایڈیتر >زمیندار< اور اس تحریک کے دوسرے کئی سرغنہ گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ حکومت پوری مستعدی اور سکتی کے ساتھ اس فتنہ انگیز تحریک کو کچل دینے کا قطعی فیصلہ کرچکی ہے۔ جیسا کہ لاہور اور کراچی کے تاز سرکاری بیانات میں اعلان کردیا گیا ہے یقیناً پاکستان گورنمنٹ کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ دگر نہ اگر اس موقع پر اگر ذرا بھی کمزوری کا اظہار کیا تو شورش پسندوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ اور پھر تو پاکستان کا زیادہ عرصہ تک سلامت رہنا قطعی ناممکن ہوجائے گا۔~<ف۲~
اسی اخبار نے ۵ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں بعنوان >قادیانی اور پاکستان< مندرجہ ذیل اداریہ لکھا:۔
>قادیانیوں یا احمدیوں کے خلاف پاکستان کے ایک طبقے میں جو شورش گزشتہ کئی سلا سے برپا کررکھی گئی ہے وہ روز بروز )زور( پکڑتی جارہی ہے۔ ابتداء اس میدان میں صرف احرری ہی پیش پیش نظر آرہے تھے اور اب تو جمیعت العلامء پاکستان` نیوز پیرس ایڈیٹرس کانفرنس شریک ہوگئے ہیں اور یہ مطالبہ ان کی طرف سے انتہائی شد و مد کے ساتھ شروع کردیا گیا ہے کہ ظفر اللہ کان وزیر خارجہ پاکستان کو وزارت سے ہٹا دیا جائے۔ قادیانیوں کو سرکاری طور پر ایک اقلیت والی قوم قرار دیا جائے۔ یہ ایجی ٹیشن اس مرتبہ ان کل جماعتوں کے اشتراک عمل سے اس زور شور کے ساتھ اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس سلسلہ میں روزانہ ہر ہر مقام پر متعدد گرفتاریاں ہورہی ہیں اور گرفتار شدگان کی مجموعی تعداد ہزاروں سے تجاوز ہوچکی ہے۔ راست اقدام کے لئے جو مجلس عمل مقرر کی گئی تھی اس کے کل اراکین گرفتار ہوچکے ہیں لیکن یہ شورش گھٹنے کا نام نہیں لیتی۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان پاکستانی افراد کی اس ذہنیت کی کیا تاویل کی جائے کہ جس سے ان کے طرز عمل کا کسی پہلو سے کوئی جواز نکل سکے۔
سوچنے کی بات ہے کہ مسلمانوں میں ایک دو نہیں بہتر فرقے ہیں۔ اگر ہر ہر فرقہ کے خلاف اسی قسم کا ایجی ٹیشن برپا کردیا جائے تو اس سے مسلمانوں کی عصبیت و مرکزیت مجروح ہوگی یا نہیں؟ اور اگر ہر فرقہ دائرہ اسلام سے یونہی خارج قرار دے دیا گیا تو پھر اسلام کے لوا برادروں کی تعداد کتنی کم ہوجائے گی؟
مانا کہ ان کے عقائد عام اسلامی عقائد سے کسی قدر مختلف ہیں۔ مانا کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مسیح موعودؑ مانتے ہیں لیکن جب تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت` خاتم النبین کی رسالت اور آپ کے خاتم النبین ہونے پر ان کا ایمان و ایقان ہے اس وقت تک دائرہ اسلام سے انہیں کوئی خارج نہیں کرکستا اور یوں حرف گیری پر اگر کوئی آئے تو ہر ہر فرقہ کے عقیدے کے بارے میں وہ ایک نہیں ۲۱ باتیں نکال سکتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان کی جمعیت العلماء بشمول اس کے صدر مولانا عبدالحامد صاحب قادری بدایونی کے سب کے سب احراریوں کی اس جماعت کے ہمنوا اور ہمخیال ہوگئے ہیں کہ جس کا منسا ہی مسلمانوں کی مرکزیت کو توڑنا اور اس کی عصبیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ جس زمانہ میں ہندوستان میں مسلم لیگ کا دور شباب تھا اور اس کے لیڈران کانگرس سے مطالبہ پاکستان کے سلسلہ میں الجھے ہوئے تھے یہی جماعت احرار مسلم لیگ کا ساتھ دینے کی بجائے اس کے مخالف کیمپ میں تھی اور ہر طریقے سے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو روندنے اور پامال کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ یہی عطاء اللہ شاہ بخاری کہ جو آج اس تحریک کے ہیرو بنے ہوئے ہیں اپنی سوقیانہ تقریروں اور اپنی دریدہ دہنیوں سے مسلم لیگی لیڈران کی ٹوپیاں اچھالنے میں لگے ہوئے تھے۔ اور اب تشکیل پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی گرم بازای کے قیام اور اپنی قدیمی نفرت و عداوت کی آگ کو بجھانے کے لئے وہاں ایک ایسی شرمناک فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس کو کسی طریقے پر جائز و حق بجانب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان کی نومولود سلطنت کو یونہی کیا کم افکار لاحق ہیں کہ جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن پر ان کی زندگی اور موت کا سوال اٹکا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں اسی قسم کا کوئی ایجی ٹیشن وہاں شروع کرنا اس کے ساتھ کسی پہلو سے دوستی کا مترادف نہیں ہوسکتا۔ حکومت پاکستان اس وقت تک اس معاملے میں جس مضبوط اور استقلال کے ساتھ اپنی پالیسی پر قائم ہے وہ بہت زیادہ مسرت بخش ہے اور اسے یقیناً اس معاملہ میں ایک انچ بھی اپنی پالیسی سے نہ ہٹنا چاہیئے۔~<ف۳~
۲۔ اخبار >خلافت بمبئی< )مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء( نے اپنے اداریہ میں لکھا:۔
>احمدی تحریک کی مخالفت میں پاکستان میں جس قسم کے مجنونانہ جوش و خروش کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ اس کو کوئی ذی ہوش اور ذی فہم مسلمان پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ عقائد کا اختلاف ایک )الگ( شے ہے۔ لیکن عقائد کے اختلاف میں اتنی شدت اور بحرانی کا مظاہرہ کسی قوم کے توازن دماگی کے صحیح ہونے کی علامت نہیں۔ پاکستان میں احمدی تحریک نئی نہیں ہے۔ تقریباً پچاس برس یا اس سے بھی زیادہ زمانے سے ہندوستان میں احمدی عقائد کے لوگ زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ اپنے خیالات اور عقائد کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی دور میں ان کے خلاف اتنی شدت کے ساتھ عوامی مخالفت ظہور میں نہیں آئی۔ جتنی کہ پچھلے چند ہفتوں سے پاکستان میں ظاہر ہورہی ہے۔ کسی مذہبی جذبے میں اگر سیاسی اغراض اور اختلافات بھی شامل ہوجائیں تو وہ نہایت امن سوز اور خطرناک شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پاکستان میں احمدی تحریک کے خلاف عوام کے جوش و خروش کے جو مظاہرہ ہورہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ محض مذہبی عقائد کے اختلاف تک محدود نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی پشت پر سیاسی اغراض اور جماعتی اختلافات بھی کام کررہے ہیں۔ اگر اسی قسم کے مظاہرے اسی طرح ہوتے رہے۔ اور عوام کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی آزادی دی جاتی رہی۔ تو کسی منظم حکومت کا قیام ہی دشوار نظر آتا ہے۔
افسوس ہے کہ اس وقت جبکہ پاکستان کو سینکڑوں خارجی اور داخلی مشکلات سے سابقہ ہے۔ ملک کے تحفظ اور استحکام اور ترقی اور بہبودی کے بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اتنے وسیع پیمانے پر اندرونی خلفشار برپا ہے۔ اس وقت تو پاکستان کی پوری اجتماعی قوت ترقی اور تعمیر کے کاموں میں صرف ہونی چاہئے تھی۔ بجائے اس کے ہوکیا رہا ہے؟ ہر طرف مذہبی جنون کے مظاہرے` ہنگامے` گرفتاریاں` قتل` خونریزی` حکومت امن قائم رکھنے کے لئے اور احمدی فرقہ کے افراد کے جان و مال کے تحفظ کے لئے جو کچھ کررہی ہے۔ وہ اس کا فرض ہے۔ اس کو اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔ ہر مہذب حکومت ان حالات میں ہی کرے گی۔ لیکن ملک میں جب کوئی مذہبی تحریک حد اعتدال سے متجاوز ہوجاتی ہے اور اس کو سختی سے دبانے کے لئے حکومت کی طرف سے سخت تدابیر اختیار کی جاتی ہیں تو ان کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ عوام کے جذبات کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ حکومت پاکستان کا موجودہ ہیجان اور بحران کا مقابلہ بڑی ہوش مندی اور اعتدال کار کے ساتھ کرنا چاہئے۔ صرف طاقت کے استعمال ہی سے یہ بحران دور نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس کی بھی ہے۔ کہ تمام حالات اور واقعات کا تجزیہ کیا جائے اور ان اسباب کی صحیح چھان بین کی جائے جو موجود مذہبی منافرت کے باعث ہوئے۔ ان شکایات کی تحقیق بھی بے لاگ طور پر کی جائے۔ جو پاکستان کے احمدی فرقہ کے حکام اور آفیسران کی زیادتیوں کے متلق ہیں۔ جوشیلے عوام کو پرامن طور پر سمجھایا جائے کہ اسلام جس کے وہ نام لیوا ہیں۔ وسیع رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ قران پاک میں صرف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ لاکراہ فی الدین دین کے معاملہ میں کوئی خبر نہیں۔ ہر فرد کو یہ آزادی اسلام نے دی ہے۔ کہ وہ نجات کے جس راستہ کو بہتر سمجھتا ہے۔ اپنے لئے اختیار کرے۔ سلام کی پوری تریک رواداری سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے ایک ایسے ملک میں جہاں ایک بڑی اسلامی اکثریت موجود ہے۔ ایک کمزور اور اقلیت کے فرقے پر ایسے وحشیانہ مظالم کا ہونا ایک ایسا فعل ہے جس پر جتنا بھی اظہار نفرت کیا جائے کم ہے۔ ہمیں احمدی عقائد کے حسن و قبح کے متعلق اس شذرے میں رائے زنی نہیں کرنی ہے۔ نہ ہمیں اس پر بحث کرنا ہے۔ کہ احمدی فرقہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا نہیں۔ ہم جس حقیقت پر زور دینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ احمدی عقائد رکھنے ولے حضرات کو یہ پورا حق ہے کہ وہ آزادی اور بے فکری کے ساتھ رہ کر پاکستان میں محفوظ زندگی گزاریں۔ اور کوئی قوت اور جماعت خواہ وہ ملک کی سب سے بڑی اکثریت ہی کیوں نہ ہو یہ حق نہیں رکھتی۔ کہ وہ اس آزادی کو ان سے چھین سکیں۔ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے۔ کہ جو مختلف خبریں ان ہنگاموں کے متعلق پاکستان سے آرہی ہیں۔ کہاں تک صحیح ہیں؟ لیکن جس حد تک بھی صحیح ہیں۔ وہ کچھ کم افسوسناک نہیں۔ عوام کے جذبات جب بے قابو ہوجاتے ہیں۔ جنون کی خوفناک حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ خدا کرے کہ پاکستان کے جنون زدہ عوام کو ہوش آئے۔ اور پاکستان سے جلد ان فتنوں کا سدباب ہوجائے۔ جو پاکستان کی سالمیت کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔~<ف۴~
۳۔ روزنامہ >اقدام< حیدرآباد نے مورخہ ۲۴ جوادی الثانی ۱۳۲۱ھ ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو مندرجہ ذیل افتتاحیہ تحریر کیا ہے۔
>اسلام اس مقدس تحریک کا نام ہے جو وسعت نظر` فراخ دلی` انسانیت دوستی اور جمہوریت نوازی میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اسلام کے اصولوں کی نگہبانی کا دعویٰ کرتی ہے۔ اسلام کو سرخرو بلند کرنے کی آرزو مند ہے۔ اور اسلامی قوانین و احکامات کی روشنی میں اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کے اعلانوں سے اپنی زبانیں خشک کرتی رہی ہے۔ قائداعطم علیہ الرحمہ سے لے کر شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خاں تک کی یہ تمنا تھی۔ کہ پاکستان ایک ایسی اسلامی مملکت بن جائے جس کے فرماں روائوں کی زندگی میں خلفائے راشدین کی زندگی کی جھلک پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہو۔ اور جس کے مسلمان شہری اس ریگ زار عرب کے مسلمانوں کا نمونہ بن جائیں۔ جنہوں نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ساری دنیا میں امن و چین` شرافت و نیکی` وسعت نظر اور انسانیت و شرافت کی نعمتیں بکھیر دی تھیں۔ قائداعظم یا نواب زادہ کی زندگی تک تو یہ تمنا پوری نہیں ہوئی۔ اور ان دونوں اکابرین کے بعد اگر کچھ ہوا تو پاکستان میں یہ ہوا۔ کہ پاکستانی حکمرانوں کے ایک طبقے اور پاکستانی مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد نے ان جاہل عربوں کی نقل اتارنی شروع کردی جو اسلام سے پہلے آزادی` تنگ نظری اور خون خرابے کو اپنے قبیلوں کا وقار بنائے ہوئے تھے اور عقائد کے نام پر کٹ مرنا دوسروں کے عقائد کو متاثر کرنا` انسان کی فکر و نظر کی آزادی پر پہرے بٹھانا جن کا شعار ہوچکا تھا۔ پاکستان ایک اسلامی طرز کی جمہوریت کے قیام کے لئے بے تاب ہے۔ اور ایک ایسی جمہوریت کی نمائندگی کا دعویدار ہے۔ جس میں ہر فرد کو مساوات ہر خیال کو آزادی اور ہر عقیدہ کو بے خطرہ ماحول میں پروان چڑھنے کا موقعہ حاصل رہے۔
لیکن لاہور سے لے کراچی تک کے حالیہ ہنگامے کیا اس دعوے کی تکذیب نہیں کرتے۔ کیا یہ ثابت نہیں کررہے ہیں۔ کہ ہنگامہ آرائی کے ماہرین اسلام سے دور اور بہت دور ہوچکے ہیں۔ اور ایسی حرکتیں ان سے سرزد ہورہی ہیں۔ جو خود اسلام کی روح کو مضطرب کئے بغیر نہیں رہ سکتیں احمدی ہو یا مہدوی` شیعہ ہو یا سنی حنفی ہو یا حنبلی ہر ایک کو اس کی آزادی حاصل ہے۔ کہ وہ اپنے انداز میں سوچے اور اپنی پسند کو دوسروں کی پسند پر ترجیح دے۔ اگر کچھ لوگ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ ان کی صوابدید ہے۔ اور یہ ان کا اپنا اعتقاد ہے۔ پاکستان کے وہ علماء دین اور مفتیان شرع متین جو احمدی و غیر احمدی کے عنوان پر قتل و غارت گری کو ہوا دے رہے ہیں۔
ہمیں جواب دیں۔ کہ دوسروں کے عقائد میں مداخت کرنا۔ دوسروں کی صوابدید پر پہرے بٹھانا اور دوسروں کے انداز فکر کو متاثر کرنا کہاں کی مسلمانی ہے۔ یہ اسلام کا کون سا اول یہ ہے۔ اور یہ رسول کریم کی کس تعلیم کی تعمیل میں ہورہا ہے۔
ہمیں معلوم ہے نبی کریمﷺ~ نے دل آزاری کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے۔ اور دوسروں کے عقائد کی تضحیک سے شدت کے ساتھ روکا ہے اس انداز کریسی و نیک نفسی کے خلاف جانے والے غور کریں۔ کہ وہ خود کہاں تک سچے مسلمان اور نبی کریمﷺ~ کے حقیقی پرور اور شیدائی ہیں۔ اعتقاد کا معاملہ دنیاوی نہیں` دینی اور صد فیصدی دینی معاملہ ہے۔ اور اس معاملہ میں حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کی جسارت انسان نہیں کرسکتا۔ یہ صرف خدائے قدوس ہی کرے گا۔ اگر کوئی غلط راستے پر چل رہا ہے۔ اور غلط روی پر مصر ہے۔ تو وہ خدا کے حضور میں خود جواب دہ ہے۔ نبی کریمﷺ~ نے بھی کبھی کسی کے ساتھ سختی نہیں کی۔ اور نہ ہی اسلام کی طرف گم کردہ راہوں کو بلایا ہے۔ اور جب خود بانی اسلام نے جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا۔ تو اسلام کے نام لیوائوں کو تشدد اور زبردستی کا پروانہ کس طرح دیا جاسکتا ہے۔ ہمیں حیرت تو اس بات پر ہے۔ کہ احمدی و غیر احمدی کے اس فتنہ کو ہوا دینے والوں میں ان علمائے دین کے نام بھی نظر آرہے ہیں۔ جو >اسلام کی حقیقی سپرٹ< پید کرنے کیلئے تحریکیں چلا رہے ہیں۔ جو >طاغوتی نظام معاشرت< کے خلاف جنگ کے بہت بڑے رہنما مانے جاتے ہیں۔ اور جو ہر چیز کو >اسلام< اور قران کی روشنی میں رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اور جو اپنے مخصوص گروہ کے ساتھ اس امر کی دھواں دھار کوشش کررہے ہیں۔ کہ پاکستان کا دستور اسلامی دستور ہو۔ اور ڑان اور فرمودات محمدی کی روشنی میں اس کی ترتیب عمل میں آئے ہمیں حیرت اس سے ہورہی ہے۔ کہ یہ سب ہنگامہ آرائی قطعی اسلامی سپرٹ کے خلاف ہے اور فرمودات محمدی کا سایہ تک اس پر نہیں پڑ سکتا۔ ان حالات کی موجودگی میں کیا ہمارا یہ خیال ٹھیک نہیں ہے کہ یہ ساری فتنہ سامانی ہوس اقتدار کی آسودگی کے لئے ہورہی ہے۔ شخصی منافرت اور کشمکش برتری نے اس فتنہ کو اپنا سہارا بنا لیا ہے۔؟
اس امر کے امکانات بھی موجود ہیں کہ پاکستان کے دسمن پاکستان سے اپنی استحصالی آرزئوں کو وابستہ رکھنے والوں نے چند ملائوں کو اپنا آلہ کار بناکر اور چند حکمرانوں کو مقامات بلند کے جھانسے دے کر پاکستان کے نظم و ضبط کو درہم برہم کرنے کے لئے یہ کھیل شروع کر رکھا ہے۔ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو پاکستان کے ہوش مند شہریوں` فرض شناس حکمرانوں اور خود آگاہ و مخلص رہنمائوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کی پرزور مذمت کریں اور اس غیر اسلامی ہنگامہ آرائی کو سختی کے ساتھ کچلنے اور دبانے کی کوشش کریں اور اتاترک کی طرح ان ملائوں کو عبرتناک سزائیں دیں جو س شرفتن کے خالق ہیں اور اسلام کے نام پر اسلام کی روح کو مسخ کررہے ہیں۔~<ف۵~
۴۔ اخبار >رہبر< )کانپور( نے اپنی ۱۴ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل مقالہ شائع کیا۔
>سیاسی ہنگامہ برپا کررکھا ہے وہ سارے پاکستان کو اپنی لبیٹ میں لے چکا ہے لیکن جہاں تک اخباری اطلاعات کا تعلق ہے یہ آگ پنجابی حدود )میں( جس تیزی سے لگی ہوئی ہے وہ کسی اور صوبے میں نہیں ہے۔ اس کی وجہ ایک تو صوبائی تعصب ہے۔ دوسری پنجابی مسلمانوں کی قدیم توہم پرستی ہے۔ پنجابی` پاکستان مرکزی سے کبھی مطمئن نہیں ہوا۔ اس کے بس میں ہوتا تو اس قسم کے ہنگامے اس سے بہت پہلے کرکے مرکزی حکومت میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔<
>ہنگامہ خواہ کم ہو یا زیادہ پاکستان میں جس طرح شروع ہوا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ اور اس سے بڑھ کر رونے کی بات یہ ہے کہ احراریوں کے اس سیاسی جال میں علماء کرام پھنس گئے ہیں اور جو مسئلہ آئینی جدوجہد سے حل ہوسکتا تھا اس کے لئے غیر آئینی راستہ اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ احمدیوں کو کس قانون کی کس دفعہ کی رو سے اقلیت قرار دیئے جاتے اور کس جرم کی پاداش میں وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ اب اگر کہا جائے کہ پاکستان اسلامی )غیر احمدی( ریاست ہے تو سب سے بڑی رکاوٹ تو یہی ہے کہ پاکستان کا دستور مملکت ہی نہیں ہے۔ جس کی کسی دفعہ سے اسلامی مملکت کا ہونا ثابت ہو۔ سمجھداری کی بات یہ تھی کہ پہلے قانون بنانے پر زور دیا جاتا اور اسلامی شرعی قوانین نافذ کروائے جاتے اور نفاذ میں یہ سوال بھی اٹھتا تو غور کے قابل بنتا۔ علماء نے ایسا نہیں کیا۔ اور سیاسی مکر و فریب کے شکار ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج علماء سو کی افسوسناک سیاست سے ملت اسلامیہ تنک آچکی ہے۔ وہ س الحاد و بے دینی کے شاکی ہیں۔ جو مسلمانوں کے مغربی تعلیم یافتہ میں عام ہوتی جارہی ہے۔ طلیکن وہ یہ بھولتے ہیں۔ کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو مذہب سے دور کرنے میں مغربی تعلیم کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا کہ ان اجارہ داران دین و ملت کا ہاتھ ہے۔ جو اپنے دنیاوی اغراض کی تکمیل کے لئے علماء کی مسند پر بیٹھ گئے ہیں۔ اگر آج کمیونسٹ بے دین نظر آتا ہے تو اس میں مارکس کی مادہ پرستی کا اتنا ہاتھ نہیں ہے۔ جتنا کہ زارینہ کے اس سازشی اور غلط کار پادری کا ہاتھ ہے۔ جس نے مذہب کو حکومت کا کھلونا بنا دیا تھا۔ ہمارے نمائشی مولویوں کی قدامت پسندی۔ کفر سازی۔ تنگ نظری اور شدید قسم کی متعصبانہ روش نے تعلیم یافتہ طبقہ کو کٹھ ملائوں و علماء محتاطین ہی ے نہیں بلکہ ان میں مذہب کی جانب سے بھی بیزاری پیدا کردی ہے۔ پاکستان کے علماء بھی روائتی کٹھ ملائوں کی بدولت ایک غلط کردار پیش کررہے ہیں` اس طرح وہ احمدیوں کے مقابلہ میں خود اسلام کو نقصان پہنچانے کے باعث بن رہے ہیں تعلیم یافتہ مسلمان جب اس قسم کی حرکتوں کو دیکھتے ہیں۔ اور مذہب کے نام پر علماء کرام کی تنگ نظرانہ روش کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ تو اس میں نفس مذہب کی جانب سے مایوسی پھیل جاتی ہے۔ اور کٹھ ملائوں کی سیاسی چال کی بدولت علماء کرام کی عزت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ترکی میں علماء کی تنگ نظری نے جو نتائج پیدا کئے۔ وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ایران میں جو حشر ہوا۔ وہ ہمارے سامنے ہے۔ اور شام و مصر میں جو حالات پیدا ہوئے۔ ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی علماء بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ جسے پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ ملک کی سالمیت پر کوئی وار دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔ ظاہر ہے کہ جب یہ طبقہ میدان میں آئے گا۔ تو علماء کرام کے ساتھ ہی اسلام کو بھی حشر سے دو چار ہونا پڑے گا۔ جس کا ایک ادنیٰ مظاہرہ ہم ترکی میں دیکھ چکے ہیں۔ سیاست میں تخریبی مقاصد کے لئے مذہب کا استدلال حدرجہ نقصان دہ ہوا کرتا ہے۔ پاکستان میں آج مذہب کو تخریبی سیاست کا آلئہ کار بنایا جارہا ہے۔ یہ چیز مذہب کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اور آج نہیں تو کل پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کے خلاف صف آراء ہوجائے گا۔ جس کے نتیجہ میں کم از کم یہ تو ضرور ہوجائے گا۔ کہ پاکستان کو ایک اسلامی اور مثالی اسٹیٹ بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ اسلامی سٹیٹ کی جگہ دیسی ہی سیکولر حکومت وجود میں آجائے گی۔ جیسی کہ تنزل خلافت اسلامی کے بعد ترکی میں وجود میں لائی گئی۔ اگر پاکستانی علماء اسے پسند نہیں کرتے کہ پاکستان غیر مذہبی ریاست بنادی جائے۔ اور وہ واقعی ایک مثالی مذہبی سٹیٹ کے قیام کے خواہشمند ہیں تو ان کو اپنی موجودہ تنگ نظری ترک کرنا پڑے گی۔ مذہب کے نام پر فتنہ آرائی کا راستہ چھوڑنا پڑے گا۔ پیر پرستوں صوبائی متعصبین کو تختہ مشق نہیں بنایا جائے گا۔~<ف۶~
۵۔ رسالہ >معارف< )اعظم گڑھ( نے لکھا:۔
مغربی پاکستان میں قادیانیوں کی مخالفت جو شکل اختیار کرگئی ہے وہ بھی مذہب` قانون اور اخلاق کسی حیثیت سے بھی صحیح نہیں ہے۔ قادیانیوں کی شرعی حیثیت سے بحث نہیں مگر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ اس وقت کیا جاسکتا تھا جب پاکستان میں اسلامی دستور نافذ ہو چکا ہوتا۔ مگر ابھی تک تو وہاں ۱۹۳۵ء~ف۷~ کا ایکٹ ہی چل رہا ہے جس کی نگاہ میں سب فرقے برابر ہیں اور اس کی رو سے اس قسم کا مطالبہ ہی کرنا صحیح نہیں۔ اور اگر اسلامی دستور بھی نافذ ہوتا تو وہ بھی اس فتنہ و فساد کی اجازت نہیں دے سکتا تھا جو مذہب کے نام پر برپا کیا گیا۔ کوئی ایسی تحریک جس سے ملک کا امن و امان خطرہ میں پڑ جائے اور لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت اٹھ جائے مذہب کی خدمت نہیں بلکہ اس کو بدنام کرنا ہے۔ پنجاب میں اسلام کے نام پر جو جرائم کئے گئے ہیں ان کی اجازت اس کا کو سا قانون دیتا ہے اور اس سے اس کی کیا خدمت ہوئی اور اس کے بعد فوج کے ہاتھوں جو زیادتیاں ہوئیں اس کی ذمہ داری بھی اس تحریک کے رہنمائوں کے سر ہے۔ اگر اسلام کی خدمت اسی طرح ہوتی رہی تو ملک ہی باقی نہ رہ جائے گا۔ اسلامی قانون کہاں نافذ کیا جائے گا حصول اقتدار کے لئے مذہب کو وسیلہ بنانا خود بڑا مذہبی جرم ہے۔ مذہب کے نام پر جو کچھ کیا گیا ہے اس کی اجازت تو لامذہبی بھی نہیں دے سکتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اسلام کے اصل محافظ و پاسبان علماء ہیں مگر ان کو اس زمانہ کے ارباب سیاست سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان کا آلہ کار نہ بننے چاہئیں۔ پنجاب میں جو کچھ ہوا اس میں مذہب سے زیادہ سیاست کو دخل ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ ساری شورش مذہب کے نام پر کی گئی۔ جس کی ذمہ داری سے علماء بھی بری نہیں~ف۸~
۶۔ گجراتی ہفت روزہ >وطن< )بمبئی( کے ایڈیٹر مکرم جناب سیف صاحب پالمپوری نے ۱۰ مئی ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کے بارے میں بعض سوالات کے جواب میں لکھا:۔
>وطن< ہر کلمہ گو انسان کو مسلمان مانتا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول~صل۱~ کا کلمہ پڑتا ہو۔ >وطن< کے خیال میں وہ پکا مسلمان ہے خواہ وہ مسلمان قادیانی ہو خواہ وہابی خواہ شیعہ اور خواہ سنی ہو۔ اس قسم کا سوال پوچھ کر فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کو ظاہر کرنا ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ >وطن< ان جھگڑوں کو نہیں مانتا۔ یہ کام تو ان لوگوں کا ہے جو اسلام کے دشمن ہیں فتنہ پرداز ہیں۔ >وطن< ایسی فتنہ پردازی )کے( سخت مخالف ہے اور اسے بہت بری نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستان میں قادیانی مذہب والے بڑے عہدوں پر ہیں۔ اس کے متعلق وطن کے پاس کوئی جواب نہیں۔ کیونکہ >وطن< ایسی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کو مانتا ہی نہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ پاکستان میں قادیانی مذہب کا زور شور سے پرچار ہورہا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ قادیانی مذہب کا تو پرچار نہیں ہورہا مگر قادیانیوں کے خلاف کچھ عرصہ پہلے کافی پرچار رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بار بار طوفان اٹھا۔ ملائوں نے اپنا نام تو اونچا کیا مگر اسلام کو شرمندی کیا۔ اب اگر ملا ذرا بھی شرم و حیا رکھتا ہے تو اس کے بعد وہ اب کبھی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی میں دلچسپی نہ لے۔ پاکستان میں فرقہ بندی سے زیادہ >ملاں بندی< ہو گئی ہے۔ ایک ہے >شراب بندی< جو صرف ایک انسان یا ایک خاندان کو خراب کرتی ہے مگر >ملاں بندی< اور ان کی فتنہ پردازی تو ساری قوم کو غرق کررہی ہے۔ اور اب ساری قوم اور سارے ملک کو تباہ و برباد کرسکتی ہے۔~<ف۹~
۷۔ روزنامہ >حلال نو< نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء میں >قادیانی اور پاکستان< کے عنوان سے درج ذیل اداریہ سپرد اشاعت کیا:۔
>پاکستان میں جو واقعات رونما ہورہے ہیں۔ ان کا کوئی براہ راست تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں ہے۔ اسلام ان بھیانک جرائم سے بری ہے اور اللہ اور اس کے رسول ان حرکات کے مخالف ہیں قادیانیوں کے عقائد اگر گمراہی پر مبنی ہیں۔ اور اگر وہ اسلام کے پردہ میں کفر پھیلا رہے ہیں تو مسلمانوں کے لئے تبلیغ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ قادیانیوں کے ایک ایک جلسہ کے مقابلہ میں دس دس جلسے کرسکتے ہیں۔ ایک ایک قادیانی رسالہ کے مقابلہ میں دس دس رسائل شائع کرسکتے ہیں۔ اور ان کو ایک تفسیر کے مقابلہ میں دس دس تفسیریں کھ سکتے ہیں۔ اسلام نے اصلاح کے لئے تبلیغ کا طریق کار مقرر کیا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا کہ جو تمہارے نقطئہ نظر سے اتفاق نہ کریں ان کے گھر جلائو ان کو پکڑ پکڑ کے ذبح کر ڈالو اور ان کی عورتوں پر بھی دست درازی شروع کر دو۔ رسول اللہ~صل۱~ اور ان کے خفاء راشدین جب فوجوں کو دفاعی جہاد کے لئے بھیجتے تھے تو یہ نصیحت ضرور کرتے تھے۔ کہ عورتوں` بچوں اور بوڑھوں پر دست درازی نہ کرنا۔۔۔۔۔ اس امر کا ہر امکان موجود ہے۔ کہ قادیانیوں سے نپٹ کر بوہروں اور اسمٰعیلی فوجوں پر مذہب کے نام سے ہاتھ صاف کیا جائے گا۔ پھر اہل حدیث پر نزلہ گرے گا۔ پھر شیعوں پر مصیبت آئے گی۔ اور پھر بریلوی ایک دوسرے کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے >جہاد< فرمائیں گے۔ اور اس کے بعد ان کا نمبر آئے گا۔ جو تقدیر کے قائل نہیں۔ یا جو اللہ کے عرش پر ہونے کے خاص معنی لیتے ہیں۔ پھر زمین کو گول کہنے والوں کی گردن ماری جائے گی۔ غرض کہ یہ مار کاٹ کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ پاکستان کے طول و عر میں صرف شیطان باقی رہ جائے گا جو انا ولا غیر کا نعرہ لگائے گا۔ خود مولوی آپس میں کٹ مریں گے۔ اور ہر ایک مرتے وقت یہ ہی تصور کرتا جائے گا۔ کہ بس ادھر روح نے جسم خاکی سے پرواز کی اور ادھر باغ جنت کے دروازہ پر رضوان نے استقبال کیا۔ پھر کیا ہے ہزاروں حسین و جمیل حوریں ہوگی۔ اور عیش و عشرت کی وہ رنگ رلیاں جن کا ایک حقیر نمونہ واجد علی شاہ کی زندگی میں پایا جاتا تھا۔
خوب سمجھ لو کہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے۔ یہ مولویانہ ذہن کا کرشمہ ہے۔ اور دوسرے ملوں میں بھی اسلام کے چہرہ پر یہ مولوی ہی کی کوتسار مل رہے ہیں۔ آج ساری دنیا میں غیر مسلم ان واقعات سے ایک ہی نتیجہ نکال رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ اسلام اور تعصب مترادف ہیں۔ اور یہ کہ قرآن و قتل کے درمیان ایسا گہرا رشتہ ہے کہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب اسلام کے روحانی لیڈروں کا یہ حال۔ تو بابو رائو پٹیل یا دوسرے ایسے مخالوں کی شکایت کیوں کیجئے< ~}~
آپ کہتے ہیں کہ غیروں نے کیا تم کو تباہ
بندہ پر در کہیں اپنوں ہی کا یہ کام نہ ہو~ف۱۰~
)از علی بہادر خاں(
مصری پریس
مصر کے مشہور صحافے جناب عبد القادر حمزہ نے >پاکستان میں مذہب< کے عنوان سے اخبار البلاغ میں ایک خصوص مقالہ سپرد اشاعت کیا جس کا خلاصہ اخبار مدینہ بجنور )۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء( میں حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا:۔
>قاہرہ ۲۳ مارچ اخبار البلاغ کے پروپرائٹر عبدالقادر حمزہ پچھلے دنوں مصری اخبار نویسوں کے وفد کے رکن کی حیثیت سے پاکستان گئے تھے۔ آپ نے اپنے اخبار کے صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے علماء اور دوسرے لوگ عوام کے کورانہ عقائد سے بے جا استفادہ کررہے ہیں۔
آج کل پاکستان اسی *** میں مبتلا ہے جس میں مصر مبتلا رہ چکا ہے۔ یعنی کچھ لوگ )علماء( سیاسی اثر بڑھانے کے لئے مذہب سے بیجا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ایسے معاملات )سیاسیات( میں دخل دینے کی کوشش کررہے ہیں جو ان سے تعلق نہیں رکھتے۔ محض اس دعویٰ کی بناء پر کہ ہم علماء ہیں دوسرے لوگ بھی عوام کے مذہب احساسات سے بیجا فائدہ اٹھاے کی کوشش میں مصروف ہیں ان لوگوں پر دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی نسبت مذہب کا اثر زیادہ غالب ہے انہوں نے کہا کہ پاکستانی مسلمان قران پڑھتا ہے۔ اور وہ اس کی بعض سورتوں کو از بر کر لیتا ہے۔ لیکن وہ نہ قران کے معانی و مطالب کو سمجھتا ہے اور نہ اسلام کے متعلق کسی دوسری کتاب کو۔ نہ عربی زبان جانتا ہے اس لئے خواندہ ہونے کے باوجود ناخواندہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا صحیح )ہے( کہ عام پاکستانی محض مذہبی طور پر مسلمان ہیں اور ان سے مذہب کے نام پر یا اس کے متعلق جو کچھ کہہ دیا جاتا ہے اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دورہ میں جو فرقہ وارانہ گڑ بڑ دیکھی اس کا بڑا سبب یہی تھا کہ مسلمان اسلام کی صحیح سپرٹ سے ناشنا ہیں۔ میرا مقصد نہ احمدیوں کی صفائی پیش کرنا ہے اور نہ ان کے مخالفوں پر نکتہ چینی کرنا۔ اگر ایسی صورت میں کہ اختلافی بحث` بلوے اور آتش زنی کی شکل اختیار کرلے اور بے گناہ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جانے لگے تو افسوس ہوتا ہے۔ اگر پاکستانی مسلمان زیادہ ہوجائیں اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بڑھ جائے تو ایسے قابل اعتراض اعمال کا رونما ہونا ناممکن ہوجائے گا۔ ضرورت ہے کہ جہاں جدید علوم و فنون حاصل کئے جائے وہاں قران کے معانی و مفہوم سے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے۔~<ف۱۱~
امریکی پریس
امریکہ کے اخبار Dealer" Plain ۔ "Celveland نے اپنی ۷ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں ڈبلیو۔ جی~ف۱۲~ ڈلڈائن Dildine)۔G۔(W کا حسب ذیل نوٹ دیا:۔
۔1953 17, March Tuesday, Dealer, Plain Cleveland
۔Pakistan in Agitation Religious Spur Reds
‏ Dildin ۔G ۔W By
‏ Pakistan, in rioting bloody weeks's two las The ۔16 March ۔Karachi communists that level bighest appers religion, of enam the in all bigoted and reactionary most the of direction tactical assuming are ۔groups religious
‏ Western progressive the to distress acute causing is trend This it since destinies nation's this guarded have who Muslims minded ۔1957 in India from partition by created was
‏ Communism against bulwark a considered long Pakistan, in Today administration, progressive and population pious its of because to beginning is action and penetration Communist of pattern the Iran in developed tath to resemblance ominous and striking bear ۔years three past the during (Persia)
‏ organisations student of use made have Reds the Countries both In create to been has aim the both in And ۔groups religious fanatic and especially and sections geographical between disunity and distrust ۔leaders government among
‏ its has Kashani, Ahatullah by led Islam, ۔e۔Fidayan murderous Iran's the and group ("true") Ahrar the are They ۔counterparts Pakistan ۔organtsation Islamic means simply which ,imIsla۔i۔Jamaat
‏tav.14.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
‏RIOTS STARTS AHRAR
‏ has which action mob the off touched has which Ahrar the is It Pakistan in law Martial of imposition first, the about brought Lahore, in only applied been far thus has laow Martial ۔history of province pobulous most Punjab, growing wheat, the of capital killings, mob of seires a following imposed was It ۔Pakistan West of disruption and arson shops, and offices post of looting ۔communications
‏ separated was Pakistan ۔priests Moslem ۔mullahs by led is Ahrar inhahabitants its of faith Moslem the of basis the on India from vioce greater a sought long have mullahs the and immigrants, and western the resented have They ۔government of direction in the of leaders government of liberalism religious and orientataion ۔party League Moslem dominant
‏ the upon seized ehav they government, the beat to stick a As called also, Ahmadis, The ۔countroversy Ahmedi standing long because Moslems orthodox by heretics considered are Qadianis, ۔prophet true a as years, 40 dead founder, their proclaim they ۔prophets the of last the was Muhammad believe Moslems Orthodox
‏ non- a be to Qadianis the declare government the the demands Ahrar They ۔lists electoral separate upon them placing minority, Moslem foreign khan, Zafrullah Sir of government from removal demand also
‏ Ahrar ۔area world the in spokesman chief Pakistan's and minister of infiltration Qadiani sponsored has Zafrullah that charges۔posts government
‏ few a but numbering Pakistan, in group small a are Qadianis The are they minorities, religious other like But, ۔thousand hundred newspapers, owning wealthy, and business in successful knit, closlely fortunate, less the among provoked thus jealousy To ۔business and lands the of resentment added is stress, economic of times in especially actively an are sects, Moslem among alone almost Qadianis theat fact propagate to means possible every using group, missionary proselyting missionaries Qadiani converts, for search their In ۔faith their of cities large most including world, the of part every to gone have ۔States United the
‏ large inflame to used bed can which issue an is agitation Qadiani The some peaceful, some demonstrations, and population, the of masses cities large the all in days, few last the in occurred have bloody, ۔natsiPak East in Qadianis few are There ۔Pakistan West of
‏ Ahrar the of interpretations varying wildly of full is capital This is America that contention socialist the being the of one busines, ground the on Zafrullah Sir against campaign the backing secretly۔influence British of carrier supposed a is minister foregn the
‏ most have communtsts the that agreed is however, here, opinion Most smearing from also and Zafrullah of removal the from gain to with group progressive pushing, a is sect eth ۔Qadianis the between drawn is paralled strong a and connections international۔Russia in jews the of crackdown and here Qadianis of persecution
‏ who member staff dealer plain former a is aricle this of Author back now is He ۔1951 and 1950 in Asia from paper this for wrote other and Week News for coresspondent special as area that in۔publications
‏head1] tagکلیو لینڈ پلین ڈیلر ۱۷ مارچ ۱۹۵۳ء
کمیونسٹ پاکستان میں مذہبی ایجی ٹیشن کو ہوا دے رہے ہیں
)ڈبلیو۔ جی۔ ڈلڈائن(
کراچی ۱۶ مارچ- گزشتہ دو ہفتوں کی خونریز ہنگامہ انگیزی جو پاکستان مںی سراسر مذہب کے نام پر کی گئی` وہ اعلیٰ ترین سطح کے سرکاری افسران کی اس رائے کی تصدیق معلوم ہوتی ہے کہ کمیونسٹ ہمارے ملک کے مذہبی گروہوں کے نہایت متعصب اور رجعت پسند عناصر کی شاطرانہ رہنمائی کررہے ہیں اور یہ رخ ان مغرب زدہ ترقی پسند مسلم لیڈروں کو بہت پریشان کررہا ہے جنہوں نے کہ اس ملک کی قسمتوں کی قیادت اس دن سے کی ہے جب سے یہ انڈیا سے بذریعہ تقسیم الگ ہوا تھا۔ آج کل پاکستان مںی جس کو لمبے عرصہ سے اس کی عبادت گزار آبادی اور ترقی پسند حکومت کی وجہ سے کمیونزم کے خلاف ایک قلعہ سمجھا گیا تھا کمیونسٹ دخل اندازی اور کمیونسٹ اثر پذیری` اس صورت حال سے ایک نفرت انگیز اور نمایاں مماثلت اختیار کرتی جارہی ہے جو ایران میں گزشتہ تین سالوں مںی انہوں نے پیدا کی تھی۔
دونوں ممالک میں کمیونسٹوں نے طلباء کی تنظیموں اور بعض دیوانے مذہبی گرہوں کو استعمال کیا۔ دونوں ملکوں مںی ان کا مقصد یہ رہا ہے کہ بے اعتمادی پیدا کریں اور جغرافیائی گروہوں خصوصاً گورنمنٹ کے لیڈروں کے درمیان ناچاقی پیدا کریں-
ایران کے قاتلانہ فدایان اسلام جن کے لیڈر آیت اللہ کا شافی ہیں پاکستان مںی اپنے مماثل عناصر رکھتے ہیں وہ گروہ احرر ۰سچے( اور جماعت اسلامی ہیں )جس کا مطلب سادہ طور پر اسلامی تنظیم ہے(
احرار فسادات کو شروع کرتے ہیں
یہ احرار ہی تو ہیں جنہوں نے عوامی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں تاریخ پاکستان کا پہلا مارشل لاء نافذ ہوا۔ مگر تاحال یہ مارشال لاء صرف لاہور مںی جاری ہوا ہے جو گندم اگانے والے پنجاب کا دار السطنت اور مغربی پاکستان کا سب سے زیادہ گنجان آباد صوبہ ہے۔ یہ مارشل لاء عام سلسلئہ قتل و غارت` لوٹ مار` ڈاک خانوں اور دکانوں کی لوٹ کھسوٹ آتش زنی اور مواصلات کے درہم برہم ہونے پر لگایا گیا۔ احرار کے لیڈر ملا یعنی دینی پیشوا ہیں۔ پاکستان کو انڈیا سے اس لئے الگ کیا گیا کہ اس کے باشندے اور مہاجرین ایک جداگانہ مذہب یعنی اسلام کے پیروکار تھے۔ اور ملا لوگ لمبے عرصہ سے گورنمنٹ کی انتظامہ میں دخیل ہونے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے غالب مسلم لیگ کی گورنمنٹ کے لیڈورں کی مغرب نواز طرز حکومت اور مذہبی رواداری کی ہمیشہ سے مخالفت کی ہے جو ہر دلعزیز مسلم لیگ پارٹی کے لیڈروں نے شروع سے اپنائی ہے گورنمنٹ کو شکست دینے کے لئے بطور ایک چھڑی کے انہوں نے لمبے عرصہ سے قائم چلے آتے مسئلہ احمدی نزاع کا کھڑا کر لیا ہے۔ احمدی جن کو قادیانی بھی کہا جاتا ہے ان کو قدامت پسند مسلمانوں کے منہ سے مرتد کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا بانی جس کو فوت ہوئے ۴۰ برس بیت چکے ہیں >ایک سچا نبی ہے<۔ قدامت پسند مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت محمد~صل۱~ آخری نبی تھے احرار کا مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے۔ اور ¶ان کو جداگانہ انتخابی فہرست پر ڈال دے ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ سر محمد ظفر اللہ خان جو کہ وزیر خارجہ پاکستان اور اس ملک کے سب سے بڑے نمائندہ یا وکیل دنیا کے اکھاڑہ میں ہیں احرار نے الزام لگایا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ نے قادیانیوں کو سرکاری ملازمتیں دلانے کی سرپرستی کی ہے۔
قادیانی پاکستان مںی ایک مختصر گروہ ہیں جن کی تعدد چند لاکھ ہوگی مگر دوسری مذہبی اقلیتوں کی طرح وہ باہم گہرے طور پر متحد ہیں۔ وہ کاروبار میں کامیاب اور متمول ہیں۔ اخباروں` زمینوں اور تجارت کے مالک ہیں۔ اس لئے کم خوش قسمت لوگوں کے اند ان کی رقابت پیدا ہوئی خصوصاً آج کل جبکہ معاشی دبائو کا سامنا ہے پھر اس امر کا مزید غصبہ بھی ہے کہ قادیانی صرف اکیلے ہی تمام مسلمانوں کے فرقوں مںی سے ایک مستعد تبلیغی گروپ اور دوسروں کا مذہب تبدیل کروانے کا شغف رکھتے ہیں اور یہ لوگ ہر ممکن ذریعہ سے اپنے مذہ کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ نیا مذہب تبدیل کرنے والوں کی تلاش میں قادیانی مبلغ بشمول امریکہ کے بڑے بڑے شہروں کے دنیا کے ہر حصہ مںی پہنچے ہوئے ہیں۔ قادیانی ایجی ٹیشن ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو استعمال کرکے پاکستانی آبادی کے ایک کثیر حصے کو بھڑکایا جاسکتا ہے اور گزشتہ چد ایام میں مظاہرے )کچھ بامن اور کچھ خونریز( مغربی پاکستان کے تمام شہروں میں ہوئے ہیں۔ مگر مشرقی پاکستان میں بہت کم احمدی ہیں۔ )لاہور کا( دارالحکومت احراری مشغلہ کی درجہ بدرجہ مختلف کی جانے والی توجیہات سے پر ہے جن مںی سے ایک نہایت ہی پراسرار توجہیہ وہ سوشلسٹ دعویٰ ہے جو امریکہ اس بناء پر کہ سر محمد ظفر اللہ خان خفیہ طور برطانوی اثر ور رسوخ کے حامل شخص ہیں پوشیدہ طور پر ان کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ تاہم اکثر آراء اس بات پر متفق ہیں۔ کہ کمیونسٹوں کو )چوہدری( ظفر اللہ کے ہٹانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی قادیانیوں کو داغدار کرنے سے ان کو کچھ فائدہ ہوگا۔
یہ فرقہ جدوجہد کرنے والا۔ ترقی پسند گروہ ہے۔ جو بین الاقوامی تعلقات رکھتا ہے۔ اور قادیانیوں کی اس ملک مںی ایذاء دی اور روس مںی یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے درمیان قومی مشابہت بتائی جاتی ہے۔
عالم لٹریچر مںی احمدیت کا ذکر
۱۹۵۳ء مںی جماعت احمدیہ کو اس درجہ نمایاں حیثیت حاصل ہوگئی کہ مشرقی و مغربی دنیا کے مفکرین مورخین اور اہل قلم شخصیتوں نے اس دور کے حوالہ سے تحریک احمدیت کا خصوصی ذکر کیا اور یہ ایک ایسی غیر معمولی بات تھی کہ اگر احمدی لاکھوں روپے بھی خرچ کرتے تو حاصل نہ ہوسکتی۔ اس ضمن میں چند تحریرات کا ذکر کافی ہوگا۔
۱۔ بھارت کے ممتاز کشمیری مئورخ جناب پریم ناتھ براز نے اپنی کتاب )کشمیر مںی جدوجہد آزادی( Kashmir" in freedom for "Struggle
میں احراری تحریک کا ذکر بایں الفاظ کیا۔
‏ the published was Committee Principles Basic the of report the When jubilant felt Pakistan of Muslims bigoted other and neddir-noigreli politics of crest on reaction installed having in success their at the of non-Muslims deprived having for also and country their in ۔State the in office highest the to elected get to right fundamental campaign a started mullahs by headed ractionaries the emboldened Thus therefore and non-Muslim as declared be also should Ahmadis the that ۔mullahs orthodox the of demand old an is that ۔Pakistan in minority a this deserve to committed have Ahmadis the that sin the is What Quran, the in htfai have and Muslims themselves call The ￿punishmen its has age every that hold they Only ۔prophet the and Sunnah the last the was Mohammad that tenet the in believe not do and prophets what say to me for not is It ۔mankind for deputed had God that prophet two no be can there But ۔belief this about wrong is what and right is what in belive to right the has one every state democratic a in that and mullahs triumphant the for But ۔proper and true thinks opinionshe the In ۔trouble up kick to hguoen was it followers violent their and momentum agained agitation anti-Ahmadia an 1953 of beginning ۔weeks within proportions gigantie assumed
‏ Principles Basie the framing while Mullahism before yielded Having Governmnet Din Nazimud- the for difficult became it Reort Committees's and vicious dangerous, this suppress, less much discountenance, to leaders League responsible some Indeed, ۔agitation anti-democratic the supporting vhhemently by fanaticism of flames the fanned only not did who one any and Prophet> last the is <Mohammed that principle one even Not ۔Muslim a be to claim not could view this to subscribe that publicly announce to courage the had party ruling the of member disagree to Muslim, a including everyone, of right birth the was it were "Politicians ۔Muslims the in sacred however belief any withe in Police of Inspector-General ۔Ali Anwar stated fire", with playing religious arousing "by Inquiry, of Court the before Punjab West including parties, political All ,noPopulati fanatical a of feelings the of out capital political make to tried League, Mulsim the (Public) the that say to strength the had politician No ۔situation placed all they hand other the on unreasonable; were demands this in Politicians ۔wave agitatinal an of crest the on themelves that wonder no is It "۔low too weapon any consider not do country carnage, What ۔form ciolent and virulent most a took agitation the of name the in wrought was destruction what and holocaussts, what and krad those during Punjab the in especially Pakistan west in Islam rendered were Ahmadis of Hundreds ۔April and March of days terrible Muslim small this for terror of reign a was There ۔homeless Punjab the in elsewhere and Lahore in happened "What ۔Community Ghulam confessed shame", in down heads our hang us make should ۔Pakistan of General governor ۔Mohammaed
‏ the with deal to failed administration civil the when Ultimately the over hand to obliged was Government Nazim-ud-Din disturbances ۔ycnormal restore to it on law martial impose and army the to area
‏ Communal Hindu other and Mahasabha Sangh, Jan of followers the as Just the for constituion secular a of adoption by that thing parties ۔India in Muslims the on conferred been has boon great a country becoming by that Pakistan in belief spread wide a is there Similarly putting be would Muslims Pakistani outlook their in non-communal an is Thet ۔obligation great under compatriots Hindu their of interests the in primarily is msiSecular ۔attitude unwarranted ۔most the it from benefits community majorty the and people all The ۔times modern in flourich cannot democracy secularism Without all of first minorties religious the harm might secularism of absence diffirent other, the after one before, long take not will it but bigotry and fanaticism to prey fall also majority the of sections a as lesson that laerned now have Pakistanis Many ۔country the in Government Pakistan the had ۔experience bitter recent of result idamhanti-A the before yielding of mistake fatal the committed sections other of exclusion demanded have would fanatics agitation counted be would fanatics but non last at till Islam, of fold the from ۔annihilation and ruin to path sure the be would That ۔Muslims as of idea the as long So ۔yet vanished wholly not has danger The possibility the abandoned totally not is State religiouds a building of lovers for is It ۔remain will head evil its raising fanaticism of ۔it about warned fully be to ycarcodem
‏ are Consitution Pakistan the of principles basic the as far so This ￿sphere other in progress any made country the Has ۔concerned
‏Kashmir, in Freedom for Struggle
602-604, ۔pp Bazaz Nath Prem by
۔1954 Delhi, Company, Publishing Kashmir
جب بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی تو پاکستان کے مذہب پرست اور دوسرے متعصب مسلمان اس امر پر بڑے خوش تھے کہ انہیں اپنے ملک کی سیاسیات کے سر پر درخت پسندی ٹھونسنے میں بری کامیابی ہوئی ہے اور اس امر پر بھی کہ انہوں نے اس طرح غیر مسلموں کو ان کے اس بنیادی حق سے کہ وہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے کے لئے منتخب ہوسکتے ہیں محروم کردیا ہے۔ اس طرح جر¶ات پاکر ان رجعت پسندوں نے جن کی راہنمائی ملائوں کے ہاتھ مںی تھی ایک یہ تحریک چلائی کہ احمدیوں کو بھی غیر مسلم قرار دے دیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی ایک اقلیت قرار پائیں یہ تحریک چلائی کہ احمدیوں کو بھی غیر مسلم قرار دے دیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی ایک اقلیت قرار پائیں یہ تلقید پسند ملائوں کا ایک پرانا مطالبہ ہے۔ احمدیوں نے بھلا کون سا قصور کیا ہے کہ انہیں اس سزا کا مستوجب قرار دیا جائے؟ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں` قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں` سنت اور رسول )کریم~صل۱(~ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا صرف یہ اعتقاد ہے کہ ہر زمانہ مںی نبی ہوسکتا ہے اور وہ اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ محمد ~)صل۱(~ آخری نبی ہیں جو خدا تعالیٰ نے بندوں کی راہنمائی کے لئے مبعوث کئے۔ یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں اس امر پر بحث کروں کہ یہ اعتقاد کس حد تک درست یا غلط ہے لیکن اس بارے مںی دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ ایک جمہوری ریاست مںی ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو حق اور درست سمجھتا ہے
اس پر اعتقاد رکھے۔ لیکن کامیابی کے نشہ مںی مخمور ملائوں اور ان کے تشدد پسند ساتھیوں کے لئے یہ بات فتنہ پیدا کرنے کے لئے کافی تھی۔ ۱۹۵۳ء کے آغاز مںی احمدیوں کے خلاف جو ایجی ٹیشن شروع کی گئی اس نے زور پکڑنا شروع کردیا اور چند ہفتوں مںی ہی وہ بڑی بھیانک صورت اختیار کر گئی۔
بنیادی حقوق کی کمیٹی کی رپورٹ مرتب کرتے وقت چونکہ ملائوں کے اثر کو قبول کر لیا گیا تھا اس لئے ناظم الدین کی حکومت کے لئے اس خطرناک نفرت انگیز اور خلاف جمہوری ایجی ٹیشن کو دبانا تو الگ رہا اس کی مذمت کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض ذمہ دار لیگی لیڈروں نے تعصب کی اس آگ کو اس اصول کی بشدت تائید کرکے ہوا دی کہ محمد ~)صل۱(~ آخری نبی ہیں اور کوئی شخص جو اس نظر کی تائید نہیں کرتا وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ حکمران پارٹی کے کسی ایک ممبر کو بھی یہ جر¶ات نہ ہوئی کہ وہ کھلم کھلا یہ اعلان کرے کہ بشمول ایک مسلمان کے ہر شخص کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ کسی بھی اعتقاد سے اختلاف کرے خواہ وہ مسلمانوں کی نگاہ مںی کس قدر ہی مقدس کیوں نہ ہو۔ تحقیقاتی عدالت کے سامنے مسٹر انور علی انسپکٹر جنرل پولیس مغربی پاکستان نے یہ بیان دیا کہ >سیاستدان آگ کا کھیل کھل رہے تھے جبکہ وہ متعصب عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کررہے تھے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے اور ان مںی مسلم لیگ بھی شامل ہے اس امر کی کوشش کی اس صورت حال سے سیاسی رنگ میں فائدہ اٹھائیں کسی سیاستدان مںی یہ جر¶ات نہ تھی کہ وہ کہتا کہ عوامی مطالبات غیر معقول ہیں۔ اس کے برعکس سب نے اپنے آپ کو اس ہیجان خیز تحریک کی چوٹی پر بطور رہنما کے رکھنا پسند کیا۔ اس ملک کے سیاستدان کسی بھی حربہ کے استعمال کو )ناجائز( ناپسندیدہ نہیں سمجھتے۔< بناء برین یہ امر قابل استعجاب نہیں کہ اس تحریک نے بڑی ہلاکت آفرین اور شدید شکل اختیار کرلی۔ مارچ اپریل کے ان تاریک اور ہولناک ایام میں مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب مںی اسلام کے نام پر بے حساب کشت و خون آگ سے اتلاف جان ہوا تباہی اور بربادی روا رکھی گئی۔ سینکڑوں احمدیوں کو لوٹا گیا۔ ان کے درجنوں دیہات کو نذر آتش کا گیا` مردوں اور عورتوں کو زندہ جلایا گیا اور ہزاروں کو بے خانماں کردیا گیا۔ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کے لئے خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی گئی۔ )مسٹر( غلام محمد گورنر جنرل پاکستان کو یہ تسلیم کرنا پرا کہ >جو کچھ لاہور میں اور پنجاب کے دوسرے مقامات پر ہوا وہ ہمارے سروں کو ندامت سے جھکا دینے کے لئے کافی ہے< بال¶اخر جب سوال انتظامیہ ان فسادات کو دبانے میں ناکام ہوگئی تو ناظم الدین حکومت اس امر پر مجبور ہوگئی کہ اس علاقہ کا نظم و نسق فوج کے حوالے کردے اور اس مںی مارشل لاء لگا دیا جائے تاکہ حالات معمول پر آسکیں-
جس طرح جن سنگھ` مہاسبھا کے پیروکار اور دوسری ہندو فرقہ وارانہ پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ملک کے لئے لا دینی طرز حکومت اختیار کرلینے سے ہندوستان کے مسلمانوں پر ایک بہت بڑا احسان کیا گیا ہے اسی طرح پاکستان مںی بھی وسیع طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے مسلمانوں اپنے نقطئہ نظر میں غیر فرقہ وارانہ ہوجائیں تو وہ اپنے ہندو ہموطنوں پر بڑا احسان کریں گے یہ نقطئہ نظر قطعی عام طور پر غلط ہے۔ لادینی نظام بنیادی طور پر سب لوگوں کے لئے یکساں مفید ہے اور اکثریتی فرقہ کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ موجود دور مںی جمہوریت` لادینیت کے بغیر پنپ نہیں سکتی ملک میں لادینیت کی غیر موجودگی سے بے شک ابتداء مںی مذہبی اقلیتوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے لیکن بہت جلد اکثیرتی طبقہ کے مختلف فرقے بھی یکے بعد دیگرے تعصب اور مذہبی جنون کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے پاکستانیوں نے بھی تازہ تلخ تجربہ کے بعد یہ سبق اب سیکھ لیا ہے۔ اگر حکومت پاکستان احمدیوں کے خلاف چلائی گئی تحریک کے سامنے جھک جانے کی خطرناک غلطی کربیٹھی تو مذہبی مجنونوں نے مطالبہ کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کو بھی اسلام کے دائرہ سے خارج کیا جائے۔ یہاں تک کہ صرف ایسے جنونی ہی مسلمان سمجھے جاتے اور باقی سب خارج ہوجاتے۔ یہ تباہی اور بربادی کا یقینی راستہ ہوتا۔ یہ خطرہ ابھی تک پوری طرح ٹلا نہیں ہے۔ جب تک کہ مذہبی ریاست قائم کرنے کا تصور مکمل طور پر ترک نہ کردیا جائے گا۔ اس وقت تک تعصب کو اپنا پر فتن سر اٹھانے کا امکان باقی رہے گا۔ یہ سب آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے لیکن کیا اس ملک نے دوسرے شعبوں مںی بھی کوئی ترقی کی ہے؟
۲۔ مسٹر ڈائلڈ و لبر Wilber) (Donald نے اپنی کتاب پاکستان (Pakistan) مںی جماعت احمدیہ کی نسبت لکھا:۔
‏ towards hositilty the however, Qadianis, the of case the in Even closely and strong a has It ۔aspects not did Movement Ahmadiyya the members its msaisuhten corporate high With ۔organisation knit strictly They ۔community the of service the to themselves devote that morality ascetic an have polygamy; encourage pudah, enforce their from alms collect indulgence; worldly all of disapproces for jobs find rate; literach high very have poor; their for rich and schools, courts, mosques, own their run and members; their 1947 In ۔taxes heavy impose they which for institutions, welfare which area the to native group Moslem educated best the were they llfi to upon drawn were they result, a As ۔Pakistan West became the of departments other and ministry foreign the in posts many ۔government new
‏ government members their all find Ahmadiyya that belief widespread The only care and students, university their all to scholarships give jobs, strong the Yet ۔exaggeration an certainly is Ahmadiyyas other about it and aloofness external involve did group the of chohesion internal antagonism the about brought that exclusiveness social this was that Hindu-Muslim of hight the of rest the and themselves between to in it fan could Ahrars, the group, semipolitical a 1946 after mentioned differences doctrinal the on attention focusing by violence ۔above
۔Haven New press HRAF Wilber, ۔N Donald by 96-97 ۔p "Pakistan"
>بہرحال قادیانیوں کے معاملے مںی بھی دیکھا گیا ہے کہ احمدیہ تحریک سے جو عداوت پائی جاتی ہے وہ بنیادی طور پر اس کے دینی عقائد کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کے بعض معاشرتی پہلوئوں کی وجہ سے تھی- احمدیہ تنظیم بڑی مضبوط اور مربوط ہے اس کے ممبران اس بلند مقصد کی خاطر پورے جوش سے اپنی جماعت کے لئے وقف ہیں۔ وہ سختی سے پردہ کے پابند ہیں۔ کثرت ازدواج کے حامی ہیں زاہدانہ اخلاقیات کے حامل ہیں اور دنیوی آسائشوں سے لطف اندوز ہوکر رہ جانے کو پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنے امراء سے چندہ لے کر اپنے غرباء پر خرچ کردیتے ہیں ان میں خواندگی کی شرح بہت اونچی ہے وہ اپنے ممبران کے لئے روزگار فراہم کرتے اور اپنی مساجد` عدالتیں` سکول اور رفاہی ادارے خود چلاتے ہیں جس کے لئے وہ اپنے ممبران پر بھاری ٹیکس لگاتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء مںی وہ اس علقہ مںی جو بعد میں مغربی پاکستان کہلایا۔ سب سے بہتر تعلیم یافتہ اسلامی گروہ سمجھے جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ وزارت خارجہ میں کئی اسامیوں پر تعینات کئے گئے اور نئی گورنمنٹ پاکستان کے کئی دوسرے محکموں میں بھی ان کی خدمت سے فائدہ اٹھایا گیا۔
یہ ایک عام خیال ہے کہ احمدی لوگ اپنے تمام ممبران کے لئے سرکاری ملازمتیں ڈھونڈ کر ان کو دلواتے ہیں اور اپنے تمام یونیورسٹی طلباء کو وظائف دیتے اور صرف احمدی احباب کی ہی غور پر داخت کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک بہت مبالغہ آمیز خیال ہے۔
تاہم اس گروہ کا اندرونی طور پر مضبوط اتصال بیرونی لحاظ سے ان کے یکاد تنہا رہ جانے کا موجب بن گیا- چنانچہ معاشرتی لحاظ سے ان کا الگ تھلگ رہ جانا ان کے اور باقی مسلمانوں کے درمیان دشمنی کو بروئے کار لایا۔ ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کی انتہائی تباہ کاریوں کے دوران گویہ دشمنی تھوڑی دیر کے لئے دب گئی تھی۔ لیکن ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد یہ معاشرتی عناد اتنا بڑھ گیا کہ ایک نیم سیاسی گروہ یعنی احرار نے اس عناد کو باآسانی ہوا دیکر عام دنگا فساد میں بدل دیا اور عوام کی توجہ کو عقائد کے محولا بالا اختلافات پر مرتکز کردیا۔
۳۔ برطانوی مئولف مسٹر ایان سٹیفنز Stephens) (Ian نے اپنی کتاب )پاکستان( Pakistan میں لکھا:۔
‏ 1953, March in Lahore in days for raged rioting anti-Ahmadi Serous complex this part, In ۔law martial of imposition necessitating Ahmadis the of disapproval with do to really little had episode countroversy the from wind side- political a was and doctrnes, flavour, Islamic and shape, federal the over Karach in blowing then a are however Ahmadis ۔۔۔۔۔۔Consitition new proposed s'natsikPa of the of much and proselytising; in active lot, vigoruous missionaries, Christian which propaganda religious Muslim contemporary outside against struggling themselves find succesfully, very not ۔derivation Ahmadi of is instance for Africa, in Asia
۔Stephens lan by Pakistan
۔1963 59, ۔P Limited Benn Ernest London:
مارچ ۱۹۵۳ء میں شدید اینٹی احمدیہ فسادات لاہور میں کئی روز تک بڑھتے چلے گئے جو مارشل لاء پر منتج ہوئے۔ یہ پچیدہ صورت حال محض احمدیوں کے عقائد کے ساتھ ناراضی کی بناء پر ہرگز نہ تھی بلکہ دراصل یہ ایک ایک طرفہ سیاسی روی تھی اس بحث کے متعلق جو کراچی مںی چل رہی تھی کہ دفاعی نظام کی شکل کیا ہو۔ اس کو اسلامی رنگ میں کیسے سمویا جائے اور پاکستان کے مجوزہ نئے آئین کی نوعیت کیا ہونی چاہئے۔۔۔۔۔۔
احمدی ایک مستعد گروہ ہیں جو تبلیغ میں ماہر ہیں۔ اور موجودہ زمانے میں متدین مسلمانوں کا اکثر و بیشتر پراپیگنڈا جس کا مقابلہ عیسائی مبلغین کو ایشیا کے باہر مثلاً افریقہ وغیرہ میں در پیش ہے احمدیہ فرقہ ہی کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
حرف آخر0] f[rt
بال¶اخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ۱۹۵۳ء کے بھاری ابتلاء کی ایک عظیم الشان برکت یہ بھی تھی کہ اس کے نتیجہ مںی احمدیوں کی بے مثال اخلاقی قوت اور بلند کیریکٹر کا سکہ اپنوں اور بیگانوں پر بیٹھ گیا۔
۱۹۵۳ء کے فسادات کے موقعہ پر سمندری )ضلع فیصل آباد( سے دو مولوی صاحبان بھاگ کر کوئٹہ پہنچے اور کئی لوگوں کے پاس پناہ کے لئے گئے کیونکہ مارشل لاء کی طرف سے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تھے۔ مگر کسی نے ان کو پناہ نہ دی۔ آخر وہ ایک احمدی ٹیچر ماسٹر عبدالحلیم صاحب کے پاس آئے۔ انہوں نے انہیں اپنے مکان پر ٹھہرایا اور خوب خاطر و مدارات کی۔ مولوی صاحبان نے احمدیت کے خلاف بھی باتیں کیں۔ ماسٹر صاحب نے پناہ دی ہے جبکہ باقی مسلمان علماء اور امراء ہمیں پناہ دینے سے ڈر گئے۔ لوگوں نے ان مولویوں کو بتایا کہ ماسٹر صاحب تو قادیانی ہیں۔ مولوی صاحب بہت شرمسار تھے۔ اور رات کے کھانے پر ماسٹر صاحب سے چھینتے ہوئے کہا کہ ہم نے بڑی زیادتی کی ہے مگر آپ نے نہایت اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیا۔ اگلے روز انہوں نے مسجد میں اعلان کیا کہ اس شہر میں فلاں ماسٹر صاحب حقیقی مسلمان ہیں۔ اس پر عوام ان کے مخالف ہوگئے ہنگامہ کے خطرہ کے پیش نظر انہیں قید کردیا گیا۔ پھر ماسٹر صاحب نے انہیں چھڑایا۔ اور وہ مولوی صاحبان آزاد علاقہ کی طرف چلے گئے۔~ف۱۳~
دہلی کے غیر مسلم صحافے سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے انہی دنوں اپنے اخبار >ریاست< میں جماعت احمدیہ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا:۔
>آج احمدیوں کے خلاف پنجاب میں بالکل وہی کچھ ہورہا ہے جو ۱۹۴۷ء مںی وہاں سکھوں اور ہندوئوں کے خلاف ہوا تھا۔ جو لوگ احمدیوں کے مذہبی کیریکٹر اور ان کے بلند شعار سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر دنیا کے تمام احمدی ہلاک ہوجائیں` ان کی تمام جائیداد لوٹ لی جائے۔ صرف ایک احمدی زندہ بچ جائے اور اس احمدی سے یہ کہا جائے کہ اگر تم بھی اپنا مذہبی شعار تبدیل نہ کرو گے تو تمہارا بھی۔ یہی حشر ہوگا تو یقیناً زندہ رہنے والا یہ واحد احمدی بھی اپنے شعار کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ مرنا اور تباہ ہونا قبول کرے گا~<ف۱۴~
حوالہ جات
~ف۱~
نقل مطابق اصل >)تباہ کن< ہونا چاہئے(
~ف۲~
بحوالہ بدر قادیان ۱۴/مارچ ۱۹۵۳ء ص۹
~ف۳~
بحوالہ ہفت روزہ بدر )قادیان( ۱۴/مارچ ۱۹۵۳ء ص۹
~ف۴~
بحوالہ بدر قادیان ۲۱/مارچ ۱۹۵۳ء ص۶
~ف۵~
بحوالہ ہفت روز بدر )قادیان( ۷/اپریل ۱۹۵۳ء ص۶
~ف۶~
بحوالہ بدر قادیان ۲۱/مارچ ۱۹۵۳ء ص۷
~ف۷~
یہاں سہواً ۱۹۵۳ء لکھا تھا۔
~ف۸~
رسالہ معارف اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۴۳`۲۴۴ بحوالہ بدر ۷/جولائی ۱۹۵۳ء ص۷
~ف۹~
ترجمہ از اخبار وطن گجراتی ۱۰/مئی ۱۹۵۳ء ص۷ بحوالہ اخبار >بدر< قادیان ۲۱/مئی ۱۹۵۳ء ص۷
~ف۱۰~
بحوالہ بدر ۲۸/مارچ ۱۹۵۳ء ص۴
~ف۱۱~
بحوالہ بدر قادیان ۷/اپریل ۱۹۵۳ء ص۶
~ف۱۲~
مسٹر ڈالڈائن ایشیا کے رسالہ >پلین ڈیلر< کے سٹاف ممبر تھے جو ۱۹۵۰ء۔۱۹۵۱ء میں شائع ہوتا رہا۔ اس کے بعد وہ اس علاقہ میں نیوزویک اور دوسرے رسالوں کے نامہ نگار خصوصی کے فرائض انجام دینے لگے۔
~ف۱۳~
ماہنامہ >الفرقان< ربوہ ستمبر ۱۹۷۱ء ص۴۸
~ف۱۴~
اخبار >ریاست< دہلی ۱۶/مارچ ۱۹۵۳ء ص۳
 
Top