• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 6 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 6 ۔ یونی کوڈ

‏tav.5.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال

حصہ اول
۱۹۲۸ء تا ۱۹۳۱ء
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب )فصل اول(
جلسہ ہائے سیرت النبی کی تجویز و انعقاد
سے لے کر تقریر >فضائل القرآن< تک
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
)جنوری ۱۹۲۸ء تا دسمبر ۱۹۲۸ء بمطابق رجب ۱۳۴۶ھ تا رجب ۱۳۴۷ھ(
خلافت ثانیہ کا نیا دور
الحمد لل¶ہ کہ ہم کو اس جلد سے خلافت ثانیہ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کی توفیق عطا ہوئی ہے یہ نیا دور ۱۹۲۸ء سے شروع ہوتا ہے جس میں ایک طرف تحفظ ناموس رسول کی وہ تحریک خاص جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۷ء سے جاری کر رکھی تھی۔ >سیرت النبیﷺ<~ کے عالمگیر جلسوں کی صورت میں نقطہ عروج تک پہنچ گئی اور دوسری طرف جماعت احمدیہ نے ہندوستان کے سیاسی حقوق سے متعلق برطانوی حکومت کے مقرر کردہ۔۔ سائمن کمیشن سے تعاون کر کے مسلمانان ہند کے قومی و سیاسی مطالبات کی تکمیل کے لئے ایک نئے رنگ کی آئینی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان بیرونی تحریکات میں راہ نمائی کا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کی اندرونی اصلاح و تربیت کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول فرمائی۔ چنانچہ آپ نے ۱۹۲۸ء ہی میں احمدیوں میں قرآن مجید کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے ۱۹۱۷ء اور ۱۹۲۲ء کے درسوں کی طرح مسلسل ایک ماہ تک قادیان میں درس قرآن دیا یہ وہی معرکتہ الاراء درس تھا جو بعد کو تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا اور جس نے دنیائے تفسیر میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا۔
مسلمانان عالم خصوصاً مسلمانان ہند اس زمانے میں بڑے نازک دور میں سے گذر رہے تھے۔ اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی قیادت ہی اس رنگ میں فرما رہے تھے کہ پوری جماعت مسلمانوں کے عمومی مفاد کے لئے زندہ اور متحرک مرکز بن جائے اس غرض کے لئے آپ نے ۱۹۲۷ء میں ۲۵ لاکھ کا ایک ریزرو فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی۔۲تا سلسلہ کے عام بجٹ پر بوجھ ڈالے بغیر ہی دیگر مسلمانوں کی ترقی و بہبود کا فرض بخوبی ادا ہوتا رہے اور اخراجات کی کمی کے باعث مفید اور اہم تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی رفتار سست نہ ہو جائے۔ چنانچہ اس سال یعنی ۱۹۲۸ء میں حضور نے جماعت احمدیہ کے سامنے جو سالانہ پروگرام رکھا اس میں تیسرے نمبر پر ریزرو فنڈ کو بھی شامل فرمایا۔
ان خصوصیات کے علاوہ ۱۹۲۸ء کو کئی اور پہلوئوں سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ مثلاً اسی سال جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب )خلف اکبر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام( نے قبول احمدیت کا اعلان کیا۔ قادیان میں ریل آئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلم سے نہرو رپورٹ پر تبصرہ شائع ہوا۔ اور >فضائل القرآن< کے موضوع پر سالانہ جلسہ میں تقاریر کا ایمان افروز سلسلہ جاری کیا گیا۔
۱۹۲۸ء کے واقعات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد اب ہم اس سال کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالتے ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اخلاق عالیہ کاایک یادگار واقعہ
تاریخ اسلام خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم کی اسلامی مساوات کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی سلسلہ خلافت کے ایک ممتاز اور مبارک فرد ہیں اس لئے آپ کی سیرت مقدسہ بھی عہد اول کی یاد تازہ کر دیتی ہے اور آپ کی ذات میں ان مقدس بزرگوں کے اخلاق محمدی کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
۲۷ / جنوری ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کے ہاں دعوت ولیمہ تھی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کے بہت سے معززین مدعو تھے۔ جس کمرے میں بیٹھنے کا انتظام تھا وہاں لکڑی کے دو تخت بچھے تھے جن پر حضور کے لئے نشست گاہ بنائی گئی تھی۔ اور چونکہ وہ کافی لمبے چوڑے تھے اس لئے حضور کے ساتھ اور بھی کئی اصحاب بیٹھ سکتے تھے۔ باقی کمرہ میں دیگر اصحاب کے بیٹھنے کے لئے فرش پر ہی انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن حضور جب کمرہ میں تشریف لائے اور اس جگہ رونق افروز ہونے کی درخواست کی گئی تو حضور نے اس وجہ سے کہ وہ جگہ کمرے کے دوسرے فرش سے کسی قدر اونچی ہے وہاں بیٹھنا گوارا نہ کیا اور فرمایا کہ اور دوست نیچے بیٹھیں تو میں اوپر کیسے بیٹھ سکتا ہوں اور آپ نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اور دوست وہاں بیٹھ جائیں مگر کسی خادم کو یہ جرات نہ ہوئی کہ ایسی حالت میں جبکہ اس کا پیارا آقا نیچے فرش پر بیٹھا ہے اونچے حصہ پر جا بیٹھے۔ لیکن جب یہ کمرہ بھر گیا اور جگہ تنگ ہوگئی اور بارش کی وجہ سے کوئی اور انتظام بھی ممکن نہ ہو سکا تو اس جگہ چھوٹے بچے بٹھا دئیے گئے اس پر حضور نے ازراہ مزاح فرمایا ان بچوں کی نگرانی کے لئے چند بڑے بھی ان کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ چونکہ بچوں کو اس جگہ بٹھا دینے کے باوجود جگہ کی قلت دور نہیں ہوئی تھی اس لئے بعض اور اصحاب نے بھی وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا۔۳
سائمن کمیشن کی آمد اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات
>تاریخ احمدیت< کی جلد پنجم میں سرسری طور پر یہ ذکر کیا جا چکا ہے۴کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کو مزید سیاسی حقوق دینے اور دوسرے اہم ملکی مسائل کا جائزہ لینے کے لئے ۱۹۲۷ء کے آخر میں ایک کمیشن بھجوانے کا اعلان کیا تھا جس کے پریذیڈنٹ انگلستان کے بیرسٹر سرجان سائمن مقرر کئے گئے۔ کمیشن کے فرائض میں یہ داخل تھا کہ وہ ہندوستان آکر مرکزی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں اور کونسل آف سٹیٹ کے نمائندوں اور حکومت کے افسروں سے مشورے کرنے کے علاوہ مختلف ہندوستانی جماعتوں کے خیالات بھی دریافت کرے اور مختلف شہادتوں کو قلمبند کر کے اور متعلقہ امور کی تحقیقات کر کے دو سال تک اپنی رپورٹ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دے تا آئندہ دستور اساسی کی تیاری میں اس سے مدد مل سکے۔
کمیشن کا اعلان ہوتے ہی آل انڈیا نیشنل کانگریس نے اس بناء پر کہ کمیشن میں کوئی ہندوستانی ممبر شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا۔ ۵اور مسلمانوں کے بعض قوم پرور اور ذہین لیڈر اور صف اول کے سیاستدان جیسے جناب محمد علی جناح` سر عبدالرحیم اور مولانا محمد علی جوہر بھی اس فیصلہ کی تائید میں ہوگئے۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اس نازک ترین موقعہ پر مسلمانوں کی قیادت کے لئے پھر میدان عمل میں آئے اور آپ نے مسلمانوں کو بتایا کہ کمیشن کا بائیکاٹ ہندوئوں کی ایک خطرناک چال ہے انہوں نے انگریزوں سے تعلقات قائم کر کے انہیں اپنے مطالبات کی معقولیت منوانے کی مہم سالہا سال سے جاری کر رکھی ہے۔ اور انگلستان کے با اثر لیڈروں سے ان کے گہرے تعلقات ہیں اس کے مقابل مسلمانوں میں بہت ہی کم انگریز لیڈروں کے روشناس ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انگریز ہندوستان کے مطالبات وہی سمجھتے ہیں جو ہندوئوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اب ہندو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اپنے مطالبات پیش کرنے کا جو موقعہ پیدا ہوا ہے وہ بھی ان کے بائیکاٹ میں شامل ہو کر ضائع کر دین۔ ان حالات میں مسلمانوں کا بھی کمیشن کے بائیکاٹ میں شریک ہونا مسلم مفاد کے سراسر خلاف اور سخت ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوگا۔۶ لہذا آپ نے تمام مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اس اہم موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حقوق کو بالوضاحت کمیشن کے سامنے پیش کریں اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل اہم مسائل کی تیاری کا مشورہ دیا۔
اول : انگریزوں کے نزدیک اقلیتوں کی حفاظت کا سوال چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہاں پارٹیوں کی بنیاد سیاسی خیالات پر ہے جو بدلتے رہتے ہیں مگر ہندوستان کی پارٹیوں کی بنیاد مذہب ہے جو بہت کم بدلتا ہے پس انگلستان اور ہندوستان کے فرق کو سمجھا کر کمیشن کے پرانے تعصب کو جسے ہندوئوں کے بیانات نے اور بھی بڑھا دیا ہے۔ دور کرنا چاہیئے اور اقلیتوں کے تحفظ حقوق کے متعلق اپنے مطالبات اور دلائل کا ذخیرہ جمع کرلینا چاہیئے۔
دوم : اس وقت تک ہندوئوں کو مسلمانوں پر غلبہ ادنیٰ اقوام کی وجہ سے ہے ہندو لوگ چوہڑوں وغیرہ کو حق تو کوئی نہیں دیتے لیکن انہیں ہندو قرار دے کر ان کے بدلہ میں خود اپنے لئے سیاسی حقوق لے لیتے ہیں مسلمانوں کا فرض ہے کہ انہیں ابھاریں ان کی تنظیم میں مدد دیں اور کمیشن کے سامنے ان کے معاملہ کو پیش کرنے میں مدد دیں۔
سوم : ہندوستان کے مخصوص حالات میں مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کی سخت ضرورت ہے پس اس امر پر زور دینا چاہیئے کہ اس حق کو ہندوستان کے اساسی قانون میں داخل کیا جائے اور جب تک مسلمان قوم بہ حیثیت قوم راضی نہ ہو اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔۷
چہارم : پنجاب اور بنگال اور جو آئندہ مسلم اکثریت کے صوبے بنیں ان میں مسلمانوں کو اس قدر حقوق دئیے جائیں کہ ان کی کثرت قلت میں نہ بدل جائے اس وقت بنگال کے چھپن فیصدی مسلمانوں کو چالیس فیصدی حق ملا ہوا ہے اور پنجاب کے پچپن فیصدی کو قریباً پینتالیس فیصدی` اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان کسی صوبے کو بھی اپنا نہیں کہہ سکتے اور آزاد ترقی کے لئے کوئی بھی راستہ کھلا نہیں۔
پنجم : صوبہ سرحد میں اصلاحی طریق حکومت کے لئے کوشش ہونی چاہیئے۔ اور سندھ کے متعلق یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ بمبئی سے الگ ایک مستقل صوبہ قرار دیا جائے۔
ششم : body] g[taاس امر کو اساسی قانون میں داخل کرنا چاہیئے کہ کوئی دوسری قوم آزادی کے کسی مرتبہ پر بھی کسی ایسے امر کو جو کسی دوسری قوم کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتا ہو محدود نہیں کر سکے گی۔ خواہ براہ راست مذہبی اصلاح کے نام سے خواہ تمدنی اور اقتصادی اصلاح کے نام سے
ہفتم : تبلیغ ہر وقت اور ہر زمانہ میں قیود سے آزاد رہے گی۔
ہشتم : زبان کا سوال کسی قوم کی ترقی کے لئے اہم سوال ہوتا ہے پس یہ فیصلہ ہونا چاہیئے۔ کہ مسلمانوں کو اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی پوری اجازت ہوگی۔ اور جن صوبوں میں اردو رائج ہے ان میں اردو زبان قانونی زبان کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی۔۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ نقطہ نگاہ رسالہ >مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت< کی صورت میں اردو اور انگریزی زبان میں شائع فرما دیا اور اسے وسیع پیمانہ پر پھیلا کر ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس تنظیم و کثرت کے ساتھ پہنچا دیا کہ مسلمانوں کا کثیر طبقہ جو کانگریس کی تحریک مقاطعہ سے متفق ہو چکا تھا کمیشن سے تعاون کو ضروری سمجھنے لگا۔۹اور گو جناب محمد علی جناح بدستور بائیکاٹ کی پالیسی پر دیانتداری سے ڈٹے رہے۔ مگر مسلم لیگ میں شامل مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سر شفیع کی قیادت میں اپنی الگ تنظیم قائم کر کے کمیشن سے تعاون کا فیصلہ کرلیا۔ اس نئی لیگ کے صدر سر شفیع صاحب بنے اور سیکرٹری ڈاکٹر سر محمد اقبال۔ ۱۰جنہوں نے کمیشن کے بائیکاٹ کی پر زور مخالفت کی۔۱۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس بروقت رہنمائی ہی کا نتیجہ تھا کہ ۳ / فروری ۱۹۲۸ء کو سائمن کمیشن ساحل بمبئی پر وارد ہوا تو کانگریس کے احتجاجی مظاہروں اور اس کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے عموماً اس کمیشن سے تعاون ہی کو ترجیح دی چنانچہ کلکتہ` دہلی اور بمبئی میں مسلمانوں کی اکثریت ہڑتالیوں سے الگ رہی۔ شمالی ہندوستان میں جہاں مسلم اکثریت کو بائیکاٹ میں شامل کرنے کے لئے کانگریسی خیال کے علماء مثلاً مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر >زمیندار< بہت زور لگا رہے تھے<۔۱۲ >انقلاب< جیسا اخبار پشت پناہی کرنے لگا تھا10] [p۱۳اور مولانا محمد علی صاحب جوہر` ابوالکلام صاحب آزاد` ڈاکٹر انصاری صاحب اور لالہ لاجپت رائے جیسے لیڈر صوبہ کا دورہ کر رہے تھے اور بڑی جوشیلی تقریروں سے لوگوں کو بائیکاٹ پر اکسا رہے تھے۔ مگر یہاں بھی کانگریسی پروگرام ناکام رہا۔ اور دارالسلطنت لاہور میں تو اسے عبرتناک ناکامی ہوئی چنانچہ ہندو اخبار >ملاپ< لاہور )۵ / فروری ۱۹۲۸ء( نے اقرار کیا کہ >صرف چند دکانیں بند تھیں جو انگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہیں<۔۱۴اور ممکن ہے یہ چند دکانین بھی دکانداروں کی کسی مصروفیت یا بیماری کی وجہ سے ہی بند ہوں۔ اخبار >ملاپ< نے اس ناکامی کی وجہ یہ بتائی کہ لوگوں کو اپنے لیڈروں پر اعتماد نہیں رہا۔ چنانچہ اس کے الفاظ یہ تھے >لاہور کے ہندو بھی اور مسلمان بھی ایسے لیڈروں سے بہت بیزار ہو چکے ہیں<۔۱۵
جناب عبدالمجید صاحب۔ سالک نے سائمن کمیشن کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ >بائیکاٹ ہوا بھی اور نہ بھی ہوا جن لوگوں کو اس کمیشن کے سامنے شہادتیں دینی تھیں۔ وہ دے بھی آئے اور سنا ہے کہ خود کانگریس نے بھی نہرو رپورٹ کی ایک کاپی خفیہ طور پر کمیشن کو بھیج دی تھی۔ تا کہ مبادا کمیشن کانگریس کے نقطہ نگاہ سے بے خبر رہے<۔۱۶
پنجاب کونسل کے ممبروں نے بھی کمیشن سے تعاون کیا اور کمیشن سے تعاون کے لئے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی۔ کمیٹی کے مسلمان ممبروں میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے۔ جنہوں نے حسب سابق قومی اور ملی مطالبات کو کمیشن تک پہنچانے اور شہادتوں پر جرح کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔ چنانچہ لاہور کے انگریزی اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۵ / نومبر ۱۹۲۸ء( نے لکھا۔ >ہمارا سیاسی نمائندہ جو سائمن کمیشن کے ساتھ ہے ہندوستانی ممبروں کی مختلف النوع شخصیتوں سے بہت ہی متاثر ہوا ہے سر شنکرن نائروجاہت اور علیحدگی پسند ہیں سر سکندر حیات خان صاحب خوش گفتار اور اپنی طرف مائل کر لینے والے ہیں۔ مسٹر راجہ اچھوت اقوام کے نمائندے ہیں۔ مسٹر ارون رابرٹس ہوشیار اور چوکس ہیں سر ذوالفقار علی خاں صاحب فاضل ہیں اور دل نشین طرز میں گفتگو کرنے والے ہیں شہادت دینے والوں پر جرح کرنے کے باب میں ایک نمایاں شخصیت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ہے آپ داڑھی رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کوئی دور ازکار بات نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ مطلب کی بات کہتے ہیں اور اس لحاظ سے آپ سر آرتھر فروم سے مشابہ ہیں یعنی آپ کی آواز پر شوکت ہے اور نہایت بر جستہ تقریر کرنے والے ہیں<۔۱۷
اگرچہ پنجاب کونسل کی پہلی سائمن کمیٹی میں ہندوئوں کی ہوشیاری اور بعض مسلمانوں کی خود غرضی کے باعث مسلمانوں کو جو صوبہ میں پچپن فی صدی تھے تیس فیصدی سے بھی کم نمائندگی ملی۱۸جس کے خلاف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی احتجاجاً آواز بلند فرمائی۔ تاہم کمیٹی کی اکثریت نے )جو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب` کپتان سردار حیات خان۔ رائے صاحب چوہدری چھوٹو رام اور مسٹر رابرٹس پر مشتمل تھی( آئندہ اصلاحات سے متعلق اس نے سفارش کی کہ کونسل کے تمام ممبر منتخب شدہ ہوں جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب قائم رہیں۔ اور تمام صوبے اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہوں۔ ۱۹وغیرہ وغیرہ۔
کمیشن کے سامنے دو دفعہ جماعت احمدیہ کا وفد بھی پیش ہوا۔ ایک بار گورداسپور میں دوسری بار لاہور میں۔ گورداسپور کے وفد میں ضلع کے بعض معزز ممبروں کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے۔۲۰لاہور کے وفد میں پنجاب کے مختلف حصوں سے ۱۶ نمائندے شامل ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔ سردار امیر احمد خان صاحب تمندار کوٹ قیصرانی۔ جنرل اوصاف علی خان صاحب مالیر کوٹلہ- کپتان غلام محمد صاحب دوالمیال۔ لیفٹینٹ تاج محمد خان صاحب اسماعیلیہ )مردان( چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر ممبر لیجسلیٹو کونسل پنجاب` قاضی محمد شفیق صاحب ایم۔ اے ایل ایل بی۔ چار سدہ۔ چوہدری سلطان احمد صاحب ذیلدار گجرات۔ چوہدری غلام حسین صاحب سفید پوش لائل پور` حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ناظر اعلیٰ` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے` حضرت مفتی محمد صادق صاحب۔۲۱
اس وفد نے احمدی نقطہ خیال سے سیاسی امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اور تمام ممبران کمیشن کو سلسلہ کی کتابیں دی گئیں اور سیاسی امور سے قبل سلسلہ کے حالات اختصاراً سنائے۔ صدر کمیشن نے کہا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کی اہمیت کے قائل ہیں اور رائے دہی اور تعاون کے شکر گزار۔ وفد نے اپنا میموریل ۵ لاکھ دستخطوں کے ساتھ پیش کیا۔۲۲
مسلمانوں کو صحیح طریق عمل اختیار کرنے کی دعوت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کی کامیابی کے ذرائع پر غور و فکر فرماتے رہتے تھے۔ اسی ضمن میں حضور نے ۱۰ فروری ۱۹۲۸ء کو ایک خطبہ جمعہ دیا جس میں بتایا کہ دوسرے مسلمان قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر ان کے اعلیٰ نتائج نہیں نکلتے اس کے مقابل جماعت احمدیہ میں نصرت اور تائید الٰہی کا عجیب نظارہ نظر آتا ہے جس کی صرف یہی وجہ ہے کہ صحیح راستہ اختیار کئے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی۔۲۳
اس خطبہ پر اخبار >تنظیم< )۲۸ / فروری ۱۹۲۸ء نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا<۔ صاحبو! مرزا صاحب کی تقریر کا ایک ایک لفظ صحیح ہے اگر مجھ سے پوچھو تو میں عرض کروں گا کہ اس وقت مسلمانوں میں نیک نیت مجاہد` ایثار پیشہ کار گذار اور مقاصد کو سمجھنے والے تو ہزاروں موجود ہیں مگر >طریق کار< مرتب کرنے والے بہت کم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جس قدر عمل و خدمت اور ایثار و قربانی کر رہے ہیں اسی قدر اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کی ہے اور ہماری انجمنیں اور اخبار جس قدر تیز دوڑ رہے ہیں اسی قدر قوم اپنے نصب العین سے دور جا رہی ہے اس لئے کہ راستہ صحیح نہیں۔ احمدیہ جماعت نے ہم سے بہت پیچھے اپنا سفر شروع کیا ہے۔ لیکن آج ہم اس جماعت کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے دنیا کے ہر گوشہ میں اس جماعت کے نام اور کام کی دھوم ہے ہم بھی کام کے مدعی ہیں لیکن اے غافل مسلمانو! سوچو کہ ہم نے عملی طور پر کیا کیا؟<۔۲۴
حافظ روشن علی صاحب کی تبلیغ حق
فروری ۱۹۲۸ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحب )حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب کے فرزند رشید( )پروفیسر( حبیب اللہ خان صاحب کی برات کے ساتھ میرٹھ تشریف لے گئے۔ اس سفر کے لئے حضرت خان صاحب ہی نے تحریک فرمائی تھی آپ کا منشا یہ تھا کہ اس موقعہ پر جناب محمد علی صاحب جوہر شریک ہوں گے حضرت حافظ صاحب کے ذریعہ ان کو تبلیغ کا موقعہ مل سکے گا۔ اعلائے کلمہ حق کی خاطر حضرت حافظ صاحب نے یہ بات منظور فرمائی تھی اور آپ کا یہ سفر بہت بابرکت ثابت ہوا۔ جناب محمد علی صاحب جوہر آپ کے تبحر علمی سے بہت متاثر ہوئے۔ نیز دوسرے افراد خاندان نے سلسلہ احمدیہ کی عظمت کا اقرار کیا۔۲۵
مرکزی اور بیرونی درسگاہیں
۱۹۲۸ء میں نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے تحت مندرجہ ذیل مرکزی درسگاہیں قائم تھیں۔ مدرسہ احمدیہ قادیان۔ مبلغین کلاس قادیان` تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ مدرسہ البنات قادیان۔ مدرسہ خواتین قادیان متفرق کلاس قادیان۔ درزی خانہ قادیان۔ احمدیہ ہوسٹل لاہور۔۲۶]4 [rtf
ان آٹھ باقاعدہ درسگاہوں کے علاوہ جن کے اخراجات کی ذمہ داری صدر انجمن احمدیہ قادیان پر تھی۔ بعض درسگاہیں مقامی جماعتوں نے اپنے طور پر بھی جاری کر رکھی تھیں۔ ان میں دو احمدیہ مڈل سکول تھے ایک گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں اور دوسرا کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں۔۲۷گھٹیالیاں کا سکول مقامی جماعت نے اخراجات کی مشکلات کے باعث ان دنوں ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع سیالکوٹ کے سپرد کر دیا تھا۔ اور کاٹھ گڑھ کا سکول چوہدری عبدالسلام خان صاحب کی محنت` توجہ اور مساعی سے مالی تنگی کے باوجود بھی کامیابی سے چل رہا تھا۔
اس کے علاوہ سیکھواں` دنجواں` فیض اللہ چک )ضلع گورداسپور( کتھووالی` بھدرک )کشمیر( اجمیر )ہوشیارپور( سہارنپور وغیرہ میں مردانہ پرائمری سکول اور سیکھواں` کاٹھ گڑھ` علی پور` بنگہ اور سیالکوٹ میں زنانہ مدارس قائم تھے۔
موخر الذکر سکول کا قیام لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ اور بابو روشن دین صاحب ۲۸)سیکرٹری تعلیم و تربیت( کا خصوصاً اور میر عبدالسلام صاحب` بابو قاسم الدین صاحب اور مستری نظام الدین صاحب کی مساعی کا عمومی نتیجہ تھا۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ سیالکوٹ شہر انگریزی عہد اقتدار کے زمانہ میں پادریوں کا بھاری مرکز رہا ہے جہاں عیسائیوں نے مسلمان بچوں اور بچیوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے شروع ہی سے کئی سکول کھول رکھے تھے۔ جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے مسلمان بچیوں کو ان کے اثر سے بچانے کے لئے آنریری استانیوں کی خدمات حاصل کر کے ایک گرلز سکول کی بنیاد رکھی۔ یہ سکول ابتداء ایک عارضی عمارت میں کھولا گیا۔ مگر لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ کی کوشش اور جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے تعاون سے احمدیہ مسجد کبوتراں والی کے شمالی جانب مدرسہ کی مستقل عمارت تعمیر کی گئی جو شہر بھر میں مسلمانوں کی پہلی درسگاہ تھی۔ ۱۹ / فروری ۱۹۲۸ء کو اس درسگاہ کا افتتاح نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے نمائندہ خصوصی حضرت الحاج مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ )سابق مبلغ انگلستان و افریقہ( نے فرمایا۔۲۹
یہ درسگاہ ترقی کر کے ہائی سکول تک پہنچ گئی اور اب بابو قاسم الدین صاحب )امیر جماعت احمدیہ ضلع سیالکوٹ( کی نگرانی میں چل رہی ہے۔ سیالکوٹ کی مسلمان بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے میں اس کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ایک مکتوب پردہ سے متعلق
ایک صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۲۳ / فروری ۱۹۲۸ء کو پردہ سے متعلق بذریعہ خط استفسار کیا جس میں حضور نے ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح اسلامی پردہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ معتدل مسلک پیش فرمایا کہ :
>پردے کا قرآن کریم نے ایک اصل بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت کے لئے پردہ ضروری ہے الا ما ظھر منھا۳۰)یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو( آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں تو دو ہیں یعنی قد اور جسم لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا دقت کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔۔ چنانچہ اسی حکم کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے اگر منہ پر کوئی جلدی بیماری ہے تو طبیب منہ بھی دیکھے گا۔ اگر اندرونی بیماری ہے تو زبان دیکھے گا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک جنگ میں ہم پانی پلاتی تھیں۔ اور ہماری پنڈلیاں ننگی ہو جاتی تھیں۔ اس وقت پنڈلیوں کا ننگا ہونا قرآن کریم کے خلاف نہ تھا بلکہ اس قرآنی حکم کے مطابق تھا۔ جنگی ضرورت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ عورتیں کام کرتیں۔۔۔۔۔۔۔ اسی اصل کے ماتحت اگر کسی گھرانے کے شغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں پر یا میدانوں میں کام کرنا پڑے۔ تو ان کے لئے آنکھوں اور ان کے اردگرد کا علاقہ کھلا ہونا نہایت ضروری ہوگا۔ پس الا ما ظھر منھا کے تحت ماتھے سے لے کر منہ تک کا حصہ کھولنا ان کے لئے بالکل جائز ہوگا اور پردہ کے حکم کے مطابق بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کر سکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریات مصیبت کے لئے کھولنا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ مصیبت جائز ہو اس کا کھولنا پردے کے حکم میں شامل ہی ہے۔ لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اس کا منہ اس کے پردے میں شامل ہے<۔۳۱
معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مختلف حلقوں میں اسلامی پردہ کا سوال زیادہ زور کے ساتھ اٹھا ہوا تھا چنانچہ انہی دنوں شیخ عبدالغفور صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ نے )۲۹ / جون ۱۹۲۸ء کو( اور جناب مشرف حسین صاحب ایم۔ اے دہلوی انسپکٹر ڈاکخانہ جات نے )۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو( حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر خاص طور پر اسلامی پردہ کی نسبت آپ کی رائے دریافت کی۔ جس پر حضور کو پردہ کی مزید تشریح و توضیع کرنا پڑی۔۳۲
گھروں میں درس جاری کرنے کی تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر جماعت کے دوستوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ قرآن مجید حدیث شریف اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور جہاں روزانہ درس نہ ہو سکے۔ وہاں ہفتہ میں دو بار یا کم از کم ہفتہ میں ایک ہی بار درس کا انتظام کر دیا جائے جس پر اس سال بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہوگئے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حضور کے ارشاد پر وسط مارچ ۱۹۲۸ء میں ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے عہدیداران جماعت کو مزید توجہ دلائی کہ جہاں جہاں ابھی تک سلسلہ درس شروع نہیں ہوا اس کی طرف فوراً توجہ دیں۔ نیز گھروں میں بھی درس جاری کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :
>ہمارے احباب کو چاہیئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں۔ اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے۔ اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے۔ اس درس کے موقعہ پر گھر کے سب لوگ مرد` عورتیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے۔ اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جائیں۔ تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید و بابرکت ہو سکتا ہے<۔۳۳
احمدیت کا حال اور مستقبل
۶ / اپریل ۱۹۲۸ء کو جمعہ تھا اس روز احباب مجلس مشاورت کے سلسلہ میں کثرت سے قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد نور کے متصل بڑ کے درخت کے نیچے ایک ولولہ انگیز خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ :
ہم بڑ کے درخت کے نیچے یہ مشورے کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ دنیا کس طرح فتح کی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں آج جو سرگوشیاں ہو رہی ہیں ان کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ ساری دنیا پر احمدیت کا جھنڈا لہرائے گا۔ لیکن آج کے منظر کی تصویر اگر لے لی جائے اور اسے کوئی آج سے چھ سات سو سال بعد شائع کرے تو اس وقت کے لوگ انکار کریں گے کہ یہ ہمارے بڑوں کی حالت کی تصویر ہے وہ کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کہ وہ ایسے کمزور تھے۔ اس پر یقین کرنے کے لئے ایک تیز قوت واہمہ کی ضرورت ہوگی۔ مگر میں جماعت سے کہتا ہوں ان وعدوں کا مستحق بننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اور اس کے لئے دعائوں پر بہت زور دینا چاہیئے۔ معاملات میں صفائی رکھنی چاہیئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھنا چاہیئے۔ آپس میں محبت اور اتحاد کا سلوک کرنا چاہیئے<۔۳۴
تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو آغاز خلافت ہی سے احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی و بہبود کا خیال رہا ہے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر حضور نے نمائندگان جماعت کے سامنے تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :۳۵
>میرے نزدیک عورتوں کی تعلیم ایسا اہم سوال ہے کہ کم از کم میں تو اس پر غور کرتے وقت حیران رہ جاتا ہوں ایک طرف اس بات کی اہمیت اتنی بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ دنیا میں جو تغیرات ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوں گے جن کی قرآن سے خبر معلوم ہوتی ہے ان کی وجہ سے وہ خیال مٹ رہا ہے جو عورت کے متعلق تھا کہ عورت شغل کے طور پر پیدا کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کا میدان عمل مرد کے میدان سے بالکل علیحدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ایک طرف عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کا میدان عمل جداگانہ ہے یہ ایسے امور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے دوسروں کا نقال نہیں بنایا۔ بلکہ دنیا کے لئے راہ نما بنایا ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دنیا کی راہ نمائی کریں نہ یہ کہ دوسروں کی نقل کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں عورتوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے ہمیں ہر قدم پر سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہیئے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہیئے کرنا چاہیئے اور ضرور کرنا چاہیئے مگر غور اور فکر سے کام لینا چاہیئے۔ اب تک ہماری طرف سے سستی ہوئی ہے ہمیں اب سے بہت پہلے غور کرنا چاہیئے تھا۔ اور اس کے لئے پروگرام تیار کرنا چاہیئے تھا گو وہ پروگرام مکمل نہ ہوتا اور مکمل تو یکلخت قرآن شریف بھی نہیں ہوگیا تھا پس یکلخت تو قدم اوپر نہیں جا سکتا مگر قدم رکھنا ضرور چاہیئے تھا۔ میں اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیئے۔ کہ عورتوں کو تعلیم کیسی دینی چاہیئے مختلف زبانیں سکھانا تو ضروری بات ہے باقی امور میں ضروری نہیں کہ عورتوں کو اس رستے پر لے جائیں جس پر دوسرے لوگ لے جا رہے ہیں اعلیٰ تعلیم وہی نہیں جو یورپ دے رہا ہے مسلمانوں میں بھی اعلیٰ تعلیم تھی مسلمان عورتیں بھی پڑھتی پڑھاتی تھیں<۔
>عورتوں کی تعلیم کا جس قدر جلد سے جلد مکمل انتظام کیا جائے گا۔ اتنا ہی مفید ہوگا۔ مسلمانوں نے اس بات کو مدنظر نہیں رکھا اور بہت نقصان اٹھا رہے ہیں عورتوں کی تعلیم کئی لحاظ سے فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے بڑا نقصان اٹھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے شملہ میں محسوس کیا کہ ہندوئوں کے اثر اور رسوخ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انگریز عورتوں سے ہندو عورتوں کا تعلق ہے مگر مسلمان عورتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک زنانہ دعوت میں میری ایک بیوی شامل ہوئیں میں نے ان سے مسلمان عورتوں کے حالات پوچھے وہ یہی کہتیں کہ ہر بات میں مسلمان عورتیں پیچھے ہی رہتی تھیں اور کسی کام میں دخل نہ دیتی تھیں۔ میری بیوی انگریزی میں گفتگو نہ کر سکتی تھیں ایک انگریز عورت نے ان سے گفتگو کرنے کی خواہش بھی کی مگر وہ نہ کر سکیں غرض مسلمانوں کا سوشل اثر اسی لئے بہت کم ہے کہ مسلمان عورتیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ان کے تعلقات بڑے سرکاری عہدیداران کی بیویوں سے نہیں ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت میں عورتوں کا دخل نہیں ہے بہت بڑا دخل ہے اور جن عورتوں کا آپس میں تعلق ہو ان کے مردوں کا خودبخود ہو جاتا ہے اس طرح مسلمانوں کو بہت سا سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے جس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ پھر تبلیغ کے لحاظ سے بھی عورتوں کی تعلیم نہایت ضروری ہے ہندو اور عیسائی عورتیں تعلیم میں بہت بڑھ رہی ہیں ہماری عورتیں تعلیم حاصل کر کے نہ صرف ان کے حملوں سے بچ سکتی ہیں بلکہ ان کو تبلیغ بھی کر سکتی ہیں<۔۳۶
پہلے تحقیقاتی کمیشن کا تقرر
یکم جنوری ۱۹۱۹ء میں نظارتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اگرچہ نظارتیں اپنے ماتحت دفاتر کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہی تھیں لیکن )خلیفہ وقت کے علاوہ( خود نظارتوں کے کام کی نگرنی کرنے والا کوئی ادارہ نہ تھا۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپریل ۱۹۲۸ء میں پہلی بار ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا۔ جو چوہدری نعمت اللہ خان صاحب سب جج دہلی۔ پیر اکبر علی صاحب وکیل فیروزپور اور چوہدری غلام حسین صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کرنال پر مشتمل تھا۔ اور اس کے ذمہ یہ کام کیا کہ وہ سارے دفاتر کا معائنہ کر کے رپورٹ کرے کہ >دفاتر کا عملہ کم ہے اور کام زیادہ ہے یا عملہ زیادہ اور کام کم ہے نظارتوں کے فرائض پورے طور پر ادا ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور ارشاد فرمایا کہ >یہ دوست معائنہ کرنے کے لئے اپنی فرصت اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے خود تاریخ مقرر کرلیں۔ اور اس کی اطلاع نظارتوں کو دے دیں۔ چوہدری نعمت اللہ خان صاحب کو اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جاتا ہے وہ مناسب موقع پر دوسروں کو جمع کرلیں لیکن جب کسی دفتر کا معائنہ کرنا ہو تو اسے لکھ دیں۔ تا کہ وہ تیاری کرے<۔۳۷
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک کے مطابق اس کمیشن کو جنوری ۱۹۲۹ء کے آخر میں ایک ہفتہ معائنہ کر کے رپورٹ پیش کر دینا چاہیئے تھا مگر کمیشن نے اس پر کوئی کارروائی نہ کی۔ لہذا حضور نے ۱۹۲۹ء میں دوبارہ کمیشن مقرر فرمایا۔ اور پہلے ممبران ہی کو اس کا رکن تجویز فرمایا۔ تا وہ اپنی کوتاہی کا کفارہ کر سکیں۔ اور اسے معائنہ کے لئے پانچ اہم ہدایات دیں۔
۱۔
کمیشن تحقیقات کرے کہ ناظر اپنے مقررہ فرائض منظور شدہ رقم میں پوری طرح ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
۲۔
کیا نظارتیں ان قواعد کی جو پاس کرتی ہیں اور ان ہدایتوں کی جو انہیں دی جاتی ہیں پابندی کرتی اور کراتی ہیں یا نہیں؟
۳۔
کیا نظارتیں مجلس شوریٰ کے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا نہیں؟
۴۔
انجمن کے کارکن اپنے اختیارات ایسے طور پر تو استعمال نہیں کرتے کہ لوگوں کے حقوق ضائع ہوں؟
۵۔
کوئی صیغہ اخراجات کے بارے میں اسراف سے تو کام نہیں لے رہا۔۳۸`۳۹
چنانچہ ارکان کمیشن نے اس کام میں کافی وقت صرف کیا وہ دو بار محض اسی غرض کے لئے قادیان آئے جہاں انہوں نے لمبی لمبی شہادتیں لیں جو ہزار صفحات سے بھی متجاوز تھیں اور بالاخر بہت چھان بین اور بڑے غور و فکر کے بعد ایک مفصل اور ضخیم رپورٹ لکھی جس میں ۲۷ سفارشات پیش کیں۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس رپورٹ کی بعض اغلاط۴۰اور نقائص کے باوجود مشاورت ۱۹۳۰ء کے سامنے کمیٹی کی محنت و کاوش پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
>جو کام انہوں نے کیا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پہلی دفعہ یہ کام کیا گیا ہے جس کے لئے انہوں نے پوری محنت کی ہے کافی وقت صرف کیا ہے اور ایک لمبی رپورٹ مرتب کی ہے جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں اور دوسروں کے لئے نمونہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض کمیشن نے بہت قابل تعریف اور مفید کام کیا ہے اور کسی ممبر کی غلطی سے اس کام پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا۔ کمیشن کا کام باعث خوشی ہے اور میں اس پر خوشی اور امتنان کا اظہار کرتا ہوں<۔۴۱
اس کے ساتھ ہی حضور نے صاف لفظوں میں یہ وضاحت فرما دی :
>یہ۔۔۔۔۔۔ کمیشن ۔۔۔۔۔۔ مجلس شوریٰ کا قائم مقام نہیں ہے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے اور خود کمیشن کے بعض ممبروں کو بھی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے کمیشن کو مجلس شوریٰ کا قائمقام سمجھا ہے۔ حالانکہ مجلس شوریٰ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی وہ میرے بلانے پر آتی اور آکر مشورہ دیتی ہے اور ہمیشہ خلیفہ کے بلانے پر آئے گی اور اسے مشورہ دے گی۔ ورنہ وہ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی۔ کہ مشورہ دے۔ اور کمیشن خلیفہ نے مقرر کیا ہے تا کہ وہ اس کام کا معائنہ کرے جو کارکن کر رہے ہیں۔ اور جس کی نگرانی خلیفہ کا کام ہے خلیفہ چونکہ اس قدر فرصت نہیں رکھتا کہ خود تمام کاموں کی نگرانی کر سکے اس لئے اس نے اپنی تسلی کے لئے کمیشن مقرر کیا تا کہ وہ دیکھے کہ کارکنوں کے سپرد جو کام ہے اسے وہ کس طرح کر رہے ہیں؟<۔ ۴۲
سیٹھ علی محمد صاحب کی کامیابی سے متعلق آسمانی بشارت
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کا بیان ہے کہ >حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے مطابق میں نے اپنے لڑکے علی محمد صاحب کو آئی۔ سی۔ ایس S)۔C۔(I کے لئے لندن روانہ کیا۔ وہاں ان کو پہلے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کرنی ضروری تھی۔ مگر ایم۔ اے میں اس قدر دیر ہوگئی کہ آئی۔ سی۔ ایس کے لئے موقعہ نہ رہا۔ ایم۔ اے کے سات مضامین میں سے چھ تو انہوں نے پاس کرلئے مگر آخری مضمون Law) )(Constitutinalقوانین آئین سازی( اور History) )(Consitutuionalتاریخ آئین سازی( میں متواتر فیل ہوتے گئے اس لئے وہ نا امید ہوکر واپس چلے آنا چاہتے تھے ان کو سات سال کا عرصہ ہوتا تھا اس لئے میں نے حضرت امیر المومنین سے ان کو واپس بلا لینے کی اجازت چاہی مگر حضور نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ان کا نام پاس ہونے والوں کی فہرست میں دیکھا ہے اس لئے انشاء اللہ وہ یقیناً پاس ہوکر آئیں گے۔ اس لئے میں نے ان کو یہ کیفیت لکھی اور پھر کوشش کرنے کو کہا۔ انہوں نے پھر ایک بار کوشش کی مگر پھر بھی فیل ہوگئے یہ پریشان حالی میں تھے کہ اب آئندہ کیا کیا جائے۔ ان کے استاد کو جب معلوم ہوا کہ پھر فیل ہوگئے تو اس نے تحقیق کی۔ معلوم نہیں خدا تعالیٰ کا وہاں کیا کرشمہ ہوا کہ ایک دو روز میں ان کو )ایڈنبرا( یونیورسٹی کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے فیل ہونے کی خبر غلط تھی آپ پاس ہوگئے ہیں۔ یہ بہت خوش ہوئے اور سمجھ گئے یہ محض خدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کا خواب پورا کرنے کے لئے ان پر فضل کیا ہے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حج کا موقعہ تھا اس لئے واپس ہوتے ہوئے حج کر کے الحاج علی محمد ایم۔ اے بن کر ہم کو آملے۔ الحمد لل¶ہ ثم الحمدلل¶ہ۔< ۴۳
امتحان میں کامیابی کا یہ ایمان افروز واقعہ اوائل ۱۹۲۸ء کا ہے۔۴۴
جمات کوحفاظت اسلام کیلئے اورزیادہ چوکس ہوجانے کاارشاد
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی اسلام کی مشکلات کا غم ستائے جا رہا تھا اور ان نازک ایام میں جماعت کو بیدار اور ہوشیار کرنے کی ہر لمحہ فکر رہتی تھی اگرچہ ۱۹۲۷ء میں جماعت کو اپنی ذمہ داری کا زبردست احساس پیدا ہو چکا تھا تاہم حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر نمائندگان مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنے فرائض منصبی کی طرف خاص توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>اس وقت اسلام ایسی مشکلات میں گھرا ہوا ہے کہ ہم ان مشکلات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اور جب جزوی طور پر اندازہ کرتے ہیں تو اس کا ایسا اثر دماغ پر پڑتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو جنون ہو جائے اس حالت میں صرف اس بات سے آرام حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کہتا ہے کہ ان مشکلات کا انجام برا نہیں ہوگا۔ اور تم کامیاب ہو جائو گے۔۔۔۔۔۔۔ سوائے اس کے کوئی سہارا نہیں نہ ہمارے پاس مال ہے نہ تربیت ہے نہ تعداد کے لحاظ سے دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب یہ حالت ہے تو سوچ لو کہ کس قدر خشیت اور ڈرنے کا مقام ہے اور پھر کس قدر کوشش کتنے ایثار اور کیسے توکل کی ضرورت ہے<۔
>صرف ہندوستان میں اسلام کے متعلق اگر کسی کو جوش اور تڑپ کا دعویٰ ہے تو وہ ہماری جماعت ہے ایسی خطرناک حالت میں اگر ہماری جماعت کی سی کمزور جماعت بھی پوری توجہ اسلام کی حفاظت کے لئے نہ کرے تو بتائو پھر اسلام کی حفاظت کا اور کیا ذریعہ ہے اس میں شبہ نہیں کہ ہدایت خدا تعالیٰ ہی پھیلاتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہدایت پھیلانے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں آیا کرتے انسان ہی یہ کام کیا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بدر کی جنگ کے موقعہ پر رسول کریم~صل۱~ نے یہ دعا کی تھی کہ مسلمان مٹھی بھر ہیں اگر یہ تباہ ہوگئے تو پھر اسلام کا کیا بنے گا پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری کوئی طاقت نہیں ہے مگر خدا تعالیٰ انسانوں سے ہی اپنے دین کی اشاعت کراتا ہے اگر ہم بھی توجہ نہ کریں تو پھر اسلام کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہوگا جہاں کوئی اور بھی کام کرنے والا ہو وہاں کوئی سستی بھی کر سکتا ہے لیکن جہاں ایک ہی کام کرنے والا ہو اس کی سستی کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا اس وقت یہ موقعہ نہیں ہے کہ مختلف جماعتیں اسلام کا کام کر رہی ہیں اسلام کی ترقی کا انحصار صرف احمدیہ جماعت پر ہے اور حالات نازک سے نازک تر ہوتے جا رہے ہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے >آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے<۔ ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ مصائب اور آفات آپ کی جماعت کو تباہ نہ کریں گے مگر اس کے ایک اور معنی بھی ہیں۔ آگ کا لفظ مختلف معنی رکھتا ہے آگ مصائب کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور محبت کے معنوں میں بھی۔ پس اس الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کیمصائب ہمارا کچھ نہیں بگار سکتے۔ آگ ہمارا کام کر رہی ہے یعنی عشق الٰہی کی آگ ہماری کمزوریوں کو جلا رہی ہے اور جب دلوں میں عشق الٰہی کی آگ جل جاتی ہے۔ تو پھر اس کی علامات مونہوں سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں پس ہماری جماعت کے ہر فرد کے دل میں محبت الٰہی کا ایسا شعلہ ہوکہ مونہہ سے بھی نکلتا ہو اور ہر احمدی اس آگ کو اس طرح بھڑکائے کہ اس کا چہرہ دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں کہ یہ اسلام کا سچا عاشق ہے جو اسلام کے لئے جان بھی دے دے گا۔ مگر قدم پیچھے نہ ہٹائے گا۔
میں نے دیکھا ہے کہ پچھلی مجلس مشاورت سے احباب نے ہر رنگ میں ترقی کی ہے اور مالی اور دوسری مشکلات کے متعلق کسی قدر تسلی ہوئی ہے اور اس وجہ سے چند راتیں میں نے بھی آرام سے بسر کی ہیں۔ مگر اتنی ترقی کافی نہیں ہے ہمیں اپنے تمام کاموں میں استقلال دکھانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔پس میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اب بھی بیدار ہوں اورپچھلی دفعہ جو عہد کیا گیا تھا اسے پھر یاد دلاتا ہوں۔۴۵جو دوست پچھلے سال نہ آئے تھے وہ آج سے عہد کریں کہ واپس جاکر ان لوگوں کا اخلاص بڑھائیں گے جن میں اخلاص ہے۔ اور جن میں نہیں ان میں پیدا کریں گے اسلام کی محبت پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کرنے میں لگ جائیں اور قرآن کریم کی روشنی جو مٹ رہی ہے اسے قائم کریں میں نے بتایا ہے دوستوں میں پہلے کی نسبت بہت تغیر ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں۔ اور دیکھیں ہر روز ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں پس میں دوستوں سے ایک بات تو یہ کہتا ہوں کہ ہر روز قدم آگے بڑھائیں۔ اخلاص و محبت بڑھائیں اور دوسرے بھائیوں میں بھی پیدا کریں<۔۴۶
حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب گوہر کا جوش دینی و حرارت ایمانی
رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی دختر کے نکاح کی تقریب مئی ۱۹۲۸ء کے دوسرے ہفتہ میں ہوئی جس میں شمولیت کے لئے مولانا جوہر کے
برادر اکبر حضرت خان ذوالفقار علی خاں ایک ہفتہ کی رخصت لے کر قادیان سے دہلی تشریف لے گئے<۔۴۷
دہلی میں آپ کو تبلیغ اسلام کا ایک موقعہ ملا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے اس درجہ جوش دینی اور حرارت ایمانی کا ثبوت دیا کہ مشہور مسلم لیڈر جناب عبدالماجد صاحب دریا آبادی مدیر >صدق< لکھنئو نے آپ کی وفات پر >صدق جدید< میں لکھا۔ کہ >مئی ۱۹۲۸ء کا ذکر ہے کہ مولانا محمد علی کی منجھلی صاحبزادی کا عقد دہلی میں تھا۔ اس تقریب میں یہ بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک روز دوپہر کی تنہائی میں دو معزز مہمانوں نے مسائل اسلامی پر کچھ طنز و تمسخر شروع کیا )دونوں بیرسٹر تھے( اور لا مذہب نہیں بلکہ اچھے خاصے مسلمان اور ایک صاحب ماشاء اللہ ابھی موجود ہیں( مخاطب >سچ< )سابق صدق( کا ایڈیٹر تھا لیکن قبل اس کے کہ وہ کچھ بھی بول سکے ایک اور صاحب نے جو اس وسیع کمرے کے کسی گوشے میں لیٹے ہوئے تھے کڑک کر ایک ایک اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا اور وہ جوابات اتنے کافی بلکہ شافی نکلے کہ مخاطب اصلی کو بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ یہ نصرت اسلام میں تقریر کر ڈالنے والے بھی ذوالفقار علی خان تھے اس جوش دینی و حرارت ایمانی رکھنے والے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نرمی اور رافت ہی کا معاملہ فرمائیں اور اس کی لغزشوں کو سرے سے درگذر فرمائیں<۔ )صدق جدید لکھنئو(۴۸
جامعہ احمدیہ )عربی کالج( کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو شروع خلافت سے یہ خیال تھا کہ جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی ضروریات کے لئے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دے کر اسے ایک عربی کالج تک پہنچانا ضروری ہے اس مقصد کی تکمیل کے لئے حضور نے ۱۹۱۹ء میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت میر محمد اسحاق صاحب` حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت مولوی محمد دین صاحب` ماسٹر نواب دین صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس نے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کی۔۴۹
کمیٹی کی رپورٹ
اس اہم کمیٹی اور اس کی سکیم کا ذکر صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ ۲۰۔۱۹۱۹ء میں ان الفاظ میں آتا ہے کہ امسال مدرسہ احمدیہ میں بہت بڑا تغیر واقع ہوا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے جماعت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان ضروریات کو سوائے مدرسہ احمدیہ کے اور کوئی انسٹی ٹیوشن پورا نہیں کر سکتی اس کی طرف خاص توجہ فرمائی اور اس مدرسہ کی موجودہ حالت کو ترقی دینے اور اس کو جماعت کے لئے ایک نہایت کارآمد وجود بنانے کے لئے اس کی پہلی سکیم پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی )آگے ممبران کمیٹی کے نام دینے کے بعد لکھا ہے۔ ناقل( اور اس کمیٹی کو حکم دیا کہ وہ اس کی سکیم پر پورا غور کرے اور اس میں مناسب تغیر و تبدل کر کے اس کو ایسی لائنوں پر چلائے جن پر چل کر مدرسہ ایسے طالب علم نکال سکے جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام بیرونی ممالک ولایت وغیرہ میں بھی تبلیغ کر سکیں اور تعلیم مدرسہ تک ہی محدود نہ رکھی جائے۔ بلکہ اس کے ساتھ ایک کالج بھی کھول دیا جائے چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق اس کمیٹی نے کامل دو ماہ غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کرکے حضور کی خدمت میں پیش کردی اور حضور نے اس میں مناسب اصلاح کر کے اسے جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اور وہ سکیم اس سال مدرسہ احمدیہ میں جاری کر دی گئی۔ لیکن چونکہ اس سکیم اور پرانی سکیم میں بہت فرق تھا۔ اگر یہ سارے مدرسہ میں جاری کر دی جاتی تو پہلے طالب علموں کی تعلیم میں بہت نقص وارد ہونے کااندیشہ تھا۔ اس لئے فی الحال یہ صرف پہلی تین جماعتوں میں رائج کی گئی۔ اور گویا اب مدرسہ میں دو سکیمیں کام کر رہی ہیں۔ پہلی تین جماتیں نئی سکیم کے مطابق تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور آخری چار جماعتیں پرانی سکیم کے مطابق اور اس کے علاوہ ایک جماعت مدرسہ احمدیہ کے ساتھ اور بھی ہے جو مولوی فاضل کلاس کہلاتی ہے اس کا کورس یونیورسٹی کے کورس کے مطابق ہے۔۵۰
جامعہ احمدیہ کے انتظام کا فیصلہ
حضور نے اس سکیم کے مطابق ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ مدرسہ کو کالج تک ترقی دینے کے لئے عملی اقدام کرے۔۵۱چنانچہ کئی مراحل طے ہونے کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے ۱۵ / اپریل ۱۹۲۸ء کو جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک مستقل ادارہ کے قیام کا فیصلہ کر دیا جس کے مطابق مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس اس عربی کالج کی پہلی دو جماعتیں قرار دے دی گئی۔ اور جماعت مبلغین )جس کے واحد انچارج یا پروفیسر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب ہی تھے(۔۵۲دو جماعتوں میں تقسیم کر کے جامعہ کے ساتھ ملحق کر دی گئی اس طرح ابتداء میں جامعہ احمدیہ کی چار جماعتیں کھولی گئیں درجہ اولیٰ و درجہ ثانیہ )مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس(۵۳اور درجہ ثالثہ ورابعہ )جماعت مبلغین(
نئی درسگاہ کی عمارت کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے احاطہ کی وہ کوٹھی مخصوص کی گئی۔ جو گیسٹ ہائوس کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ اور جس میں خلافت ثانیہ کے اوائل تک جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے )سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ قادیان( قیام رکھتے تھے۔۵۴جامعہ احمدیہ کے بورڈر طلباء کا انتظام کسی موزوں عمارت کے نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہی میں رہا۔
جامعہ احمدیہ کی جماعتوں کے لئے مدرسہ احمدیہ کا وہ سامان جو اس وقت تک عملاً مدرسہ کی مولوی فاضل کلاس کے استعمال میں تھا۔ جامعہ احمدیہ میں منتقل کر دیا گیا اور دیگر ضروری ابتدائی سامان کے لئے مبلغ ایک سو روپیہ کی منظوری دی گئی۔ اور سائر کا باقی بجٹ حصہ رسدی مدرسہ اور جامعہ میں تقسیم کر کے جامعہ احمدیہ کو اس کا دسواں حصہ )دہاکے کی کسر چھوڑ کر( بطور پیشگی حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔
جامعہ احمدیہ کے اساتذہ
اس سلسلہ میں سب سے اہم مسئلہ جامعہ احمدیہ کے سٹاف کا تھا۔ سو اس کے پہلے پرنسپل حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور پروفیسر حضرت حافظ روشن علی صاحب` حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب مقرر کئے گئے۔۵۵
جامعہ احمدیہ کے ان اولین قدیم ترین پروفیسروں کے بعد ۱۹۴۷ء یعنی تقسیم ہند تک مندرجہ ذیل اساتذہ وقتاً فوقتاً اس دینی درسگاہ میں تعلیمی فرائض بجا لاتے رہے۔۵۶مولوی ارجمند خان صاحب۔۵۷مولوی محمد یار صاحب عارف۔ حافظ مبارک احمد صاحب۔۵۸حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی۔۵۹سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان۔ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری۔ صاحبزادہ مولوی سید ابوالحسن صاحب قدسی )خلف الصدق حضرت صاحبزادہ مولوی سید عبداللطیف صاحب شہیدؓ( مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد۔ مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب فاضل سنسکرت۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے۔ مرزا احمد شفیع صاحب مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری۔ ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی ٹی۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری۔ مولوی عبدالمنان صاحب عمر۔ مولوی ظفر محمد صاحب مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب )جون ۱۹۴۷ء(۔4] ft[s۶۰
جامعہ احمدیہ کا افتتاح اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قیمتی نصائح
اساتذہ کرام کی فہرست دیتے ہوئے ہم ۱۹۴۷ء کے آخر تک پہنچ گئے تھے اب پھر ضروری ابتدائی حالات کی طرف آتے ہیں۔ جامعہ احمدیہ کی داغ بیل پڑنے کے بعد جب اس نئی درسگاہ کے ابتدائی انتظامات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰ / مئی ۱۹۲۸ء کو اس کا افتتاح فرمایا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب پر جو تقریر فرمائی وہ الفضل ۱۴۔ اگست ۱۹۲۸ء میں شائع ہوچکی ہے۔ حضور نے تقریر میں اس نئے ادارہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تاکہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جوولتکن منکم امہ یدعون الی الخیر الخ کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں۔ بے شک اس مدرسہ سے نکلنے والے بعض نوکریاں بھی کرتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص ایک ہی کام کا اہل نہیں ہوتا۔ انگریزوں میں سے بہت سے لوگ قانون پڑھتے ہیں مگر لاء کالج سے نکل کر سارے کے سارے بیرسٹری کا کام نہیں کرتے بلکہ کئی ایک اور کاروبار کرتے ہیں تو اس مدرسہ سے پڑھ کر نکلنے والے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ملازمتیں کرتے ہیں۔ مگر یہ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے نوکریاں کریں بلکہ اصل مقصد یہی ہے کہ مبلغ بنیں اب یہ دوسری کڑی ہے کہ ہم اس مدرسہ کو کالج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج ایسا ہونا چاہیئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جائیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی بعض کو جرمنی بعض کو سنسکرت بعض کو فارسی بعض کو روسی بعض کو سپینش وغیرہ زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیئے۔ کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے بظاہر یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں۔ مگر ہم اس قسم کی خوابوں کا پورا ہونا اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو ظاہری باتوں کے پورے ہونے پر جس قدر اعتماد ہوتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں ان خوابوں کے پورے ہونے پر یقین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو ہم اس کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ کے ساتھ بھی مبلغین کی کلاس تھی مگر ¶اس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز اپنی زمین میں ہی ترقی کرتی ہے جس طرح بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے ترقی نہیں کرتے اسی طرح کوئی نئی تجویز دیرینہ انتظام کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے جامعہ کے لئے ضروری تھا کہ اسے علیحدہ کیا جائے۔ اس سے متعلق میں نے ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو لکھا تھا کہ کالج کی کلاسوں کو علیحدہ کیا جائے۔ اور اسے موقعہ دیا جائے کہ اپنے ماحول کے مطابق ترقی کرے۔ آج وہ خیال پورا ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیاد ترقی کرکے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی<۔
نیز طلباء جامعہ کو ان کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ :
>وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی اینٹوں پر ہی بہت کچھ انحصار ہوتا ہے ایک شاعر نے کہا تھا۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مے رود دیوار کج
اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی۔ جتنی اونچی دیوار کرتے جائیں اتنی ہی زیادہ ٹیڑھی ہوگی گو کالج میں داخل ہونے والے طالب علم ہیں اور نظام کے لحاظ سے ان کی ہستی ماتحت ہستی ہے۔ لیکن نتائج کے لحاظ سے اس جامعہ کی کامیابی یا ناکامی میں ان کا بہت بڑا دخل ہے یہ تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے کام ترقی کرتے جائیں گے۔ مگر ان طلباء کا ان میں بڑا دخل ہوگا۔ اس لئے انہیں چاہیئے کہ اپنے جوش اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں سے ایسی بنیاد رکھیں کہ آئندہ جو عمارت تعمیر ہو اس کی دیواریں سیدھی ہوں ان میں کجی نہ ہو ان کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی غایت ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا اعلاء ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کا یہی موٹو ہونا چاہیئے۔ کہ و التکن منکم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون۶۱اور وما کان المئومنون لینفروا کافہ فلو لا نفر من کل فرقہ منھم طائفہ لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون ۶۲میرے نزدیک ان آیتوں کو لکھ کر کالج میں لٹکا دینا چاہیئے۔ تاکہ طالب علموں کی توجہ ان کی طرف رہے اور انہیں معلوم رہے کہ ان کا مقصد اور مدعا کیا ہے۔۶۳`۶۴
جامعہ احمدیہ کا دور اول
جامعہ احمدیہ کا ابتدائی دور کئی قسم کی مشکلات میں سے گذرا۔ پہلے سال کے شروع میں ہی جامعہ احمدیہ کے اولین استاد اور جماعت مبلغین کے شفیق استاد حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب تشویشناک طور پر بیمار ہوگئے اور پھر اچانک ۲۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو آپ پر فالج کا حملہ ہوا۔۶۵ اور بالاخر آپ ۲۳ / جون ۱۹۲۹ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۶۶]4 [rtfحضرت حافظ صاحبؓ کے انتقال سے نہ صرف جماعت احمدیہ اپنے ایک جلیل القدر و عظیم المرتبت عالم بے بدل فاضل اجل سے محروم ہوگئی بلکہ جامعہ احمدیہ کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحبؓ کی لمبی بیماری نے بھی تعلیم پر ناگوار اثر ڈالا۔۶۷اسی طرح شروع شروع میں متعدد دقتوں اور دشواریوں سے دو چار ہونا پڑا۔ طلباء جامعہ احمدیہ کی عمارت بھی ناقص تھی۔ اور اس کا علیحدہ ہوسٹل نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بعض طلباء مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں رہتے تھے اور بعض ہائی سکول کے بورڈنگ میں اور بعض نے اپنے قیام کا پرائیویٹ انتظام کر رکھا تھا۔
جامعہ احمدیہ کے ابتدائی کوائف` اس کے اساتذہ اور افتتاح کا عمومی تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم اس درسگاہ کے بعض دوسرے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں-
۱۹۲۹ء میں جامعہ احمدیہ کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہوا۔۱۹۳۰۶۸ء میں جامعہ کے طلباء کی ورزش کے لئے گرائونڈ کا انتظام ہوا۔۶۹اپریل ۱۹۳۰ء میں ایک سہ ماہی رسالہ >جامعہ احمدیہ< جاری ہوا۔ جامعہ احمدیہ کے پاس اپنی کوئی لائبریری نہ تھی اور طلباء کو مرکزی لائبریری میں جو اندرون شہر واقع تھی۔ جانا پڑتا تھا۔ ۳۱۔۱۹۳۰ء میں بعض کتب منگوانے کا انتظام شروع ہوا۔۷۰چنانچہ ۱۹۴۷ء تک جامعہ احمدیہ کی ایک اچھی خاصی لائبریری تیار ہوگئی تھی۔ ۱۹۳۲ء میں قادیان علوم شرقیہ کے امتحان کا سنٹر منظور ہوا۔ اسی سال جامعہ کے اندرونی انتظام کو باقاعدہ بنانے کے لئے اس کے سٹاف کی ایک کونسل بنائی گئی جس کے صدر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سیکرٹری حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب مقرر ہوئے اور چہار شنبہ کو ہفتہ وار اجلاس منعقد ہونا قرار پایا۔۷۱
نومبر ۱۹۳۲ء میں جامعہ احمدیہ کے ایک وفد نے جو انتیس افراد پر مشتمل تھا مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں ہندوستان کے متعدد شہروں کا ایک کامیاب تبلیغی و تفریحی دورہ کیا۔۷۲
اسی زمانہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک ارشاد کی روشنی میں یہ قاعدہ بنا دیا گیا کہ جامعہ احمدیہ میں صرف وہی طلباء داخل کئے جائیں گے جو مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل ہوں گے ان کے سوا کوئی طالب علم جامعہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ البتہ جہاں تک جامعہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس کا تعلق ہے صدر انجمن احمدیہ کی خاص اجازت سے استثنائی طور پر مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کے علاوہ دوسرے بھی داخل ہو سکیں گے۔ مگر ضروری ہوگا کہ انجمن اپنے فیصلہ میں استثناء کی وجوہ بیان کر کے منظوری دے اور مبلغین کلاس میں بہر صورت کوئی دوسرا طالب علم داخل نہیں ہو سکے گا-۷۳اس قاعدے سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے دوسرے احمدی طلباء کو جامعہ میں داخلہ کی صورت میسر آگئی بلکہ کئی غیر احمدی طلباء بھی استفادہ کرتے رہے اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔
‏tav.5.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
طلباء جامعہ احمدیہ پر تعلیمی و اخلاقی لحاظ سے بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی دقت یہ تھی کہ ان کے لئے کوئی الگ ہوسٹل نہیں تھا۔ آخر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دو سالہ توجہ سے ۱۹۳۴ء میں یہ پیچیدہ معاملہ بھی حل ہوگیا اور بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے جنوبی جانب ایک عمارت میں جہاں پہلے پرائمری کے طلباء تعلیم پاتے تھے جامعہ احمدیہ کا دارالاقامہ )ہوسٹل( قائم ہوا۔ اور ۲۰ / نومبر ۱۹۳۴ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کا افتتاح فرمایا- اس تقریب پر حضور نے فرمایا :
>جامعہ کی کامیابی کے لئے اس کا قیام ضروری ہے تا صحیح اخلاق اور دینی خدمت کے لئے جوش پیدا ہو اور نوجوان ایمان و ایقان میں اور قربانی و ایثار کی روح میں دوسروں سے بڑھ کر ہوں ان کی نمازیں اور دعائیں دوسروں کی نمازوں اور دعائوں سے فرق رکھتی ہوں۔ ایسے برگزیدہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود علم سکھلاتا ہے نئے نئے جواب سکھاتا ہے<۔ الخ۷۴`۷۵
جب مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب بنارس وغیرہ سے سنسکرت کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تو مئی ۱۹۳۹ء سے جامعہ احمدیہ میں سنسکرت کلاس بھی کھول دی گئی جو دسمبر ۱۹۴۴ء تک جاری رہی۔ اس کے بعد پروفیسر ناصر الدین نظارت تالیف و تصنیف میں منتقل ہوگئے۔۷۶
دور اول میں تعلیم پانے والے علماء
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اپریل ۱۹۳۹ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے اور آپ کی قیادت میں جامعہ احمدیہ نے ایک مثالی درسگاہ کی حیثیت سے بہت ترقی کی اور مسلمہ طور پر بڑا عروج پایا۔ اور آپ کے زمانہ میں اس چشمہ علم و حکمت سے متعدد فاضل و محقق` واعظ و مبلغ` صحافی و مصنف اور مناظر ومقرر پیدا ہوئے۔
جامعہ احمدیہ میں دور اول کے تعلیم پانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے بعض ممتاز نام درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ نام فارغ التحصیل ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف داخلہ کی ترتیب سے درج کئے گئے ہیں لہذا یہ خیال کرنا ہرگز صحیح نہیں ہوگا کہ ان حضرات نے مولوی فاضل یا مبلغین کلاس بھی اسی ترتیب سے پاس کی ہوگی۔ )تواریخ ولادت جامعہ احمدیہ کے ریکارڈ سے ماخوذ ہیں(
۱۹۲۷ء۷۷
مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی )تاریخ ولادت ۷ / دسمبر ۱۹۰۲ء(
مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر )تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۰۸ء(
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )تاریخ ولادت یکم نومبر ۱۹۰۹ء(۷۸
مولوی ظفر محمد صاحب )تاریخ ولادت ۹ / اپریل ۱۹۰۸ء(
مولوی غلام حسین صاحب ایاز )تاریخ ولادت یکم مئی ۱۹۰۵ء(
قریشی محمد نذیر صاحب )تاریخ ولادت یکم جولائی ۱۹۱۰ء(
مولوی احمد خاں صاحب نسیم )تاریخ ولادت ۱۸ / مئی ۱۹۰۸ء(
مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۱۳ / اکتوبر ۱۹۰۸ء(
مولوی احمد نور الدین صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۶ / مئی ۱۹۰۶ء(
مولوی ولیداد خان صاحب شہید افغانستان )تاریخ ولادت ۱۷ / مئی ۱۹۰۴ء(
مولوی زین العابدین ذینی دہلان سماٹری )تاریخ ولادت ۱۴ / جون ۱۹۰۵ء(
مولوی محمد صادق صاحب چغتائی )تاریخ ولادت ۴ / اپریل ۱۹۰۹ء(
۱۹۲۸ء
مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب۷۹)تاریخ ولادت ۱۵ / جون ۱۹۱۱ء(
مولوی نذیر احمد صاحب مبشر )تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۰۹ء(
شیخ مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۱۱ء(
مہاشہ محمد عمر صاحب )تاریخ ولادت ۱۷ / نومبر ۱۹۰۴ء(
مولوی عبدالواحد صاحب ناسنور کشمیر )تاریخ ولادت (
مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی )تاریخ ولادت ۲۷ / مئی ۱۹۰۸ء(
مولوی چراغ الدین صاحب )تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۱۹۰۶ء(
۱۹۲۹ء
مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری )تاریخ ولادت ۱۳ / مئی ۱۹۱۳ء(
شیخ محبوب عالم صاحب خالد )تاریخ ولادت ۱۳ / اپریل ۱۹۰۹ء(
شیخ عبدالقادر صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۰۹ء(
ملک صلاح الدین صاحب )تاریخ ولادت ۲۰ / مارچ ۱۹۱۵ء(۸۰
مولوی محمد سلیم صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / دسمبر ۱۹۱۰ء(
چوہدری محمد شریف صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۳ء(
۱۹۳۰
شیخ عبدالواحد صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۱۳ء(
مولوی محمد احمد صاحب جلیل )تاریخ ولادت ۵ / جولائی ۱۹۱۱ء(
مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۶ / ستمبر ۱۹۰۸ء(
مولوی عبدالرحیم صاحب عارف )تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۰۸ء(
‏v1] g[ta۱۹۳۱ء
مولوی امام الدین صاحب )تاریخ ولادت ۹ / جون ۱۹۱۲ء(
مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری )تاریخ ولادت ۸ / اپریل ۱۹۱۴ء(
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت ۹ / مئی ۱۹۱۴ء(
مولوی محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی )تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۱۳ء(
مولوی عبدالخالق صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / فروری ۱۹۱۰ء(
مولوی رمضان علی صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / اگست ۱۹۱۳ء(۸۱
مولوی عبدالمالک خان صاحب ۲۵ / نومبر ۱۹۱۱ء(۸۲
۱۹۳۲ء
سید احمد علی صاحب )تاریخ ولادت ۹ / دسمبر ۱۹۱۱ء(
قریشی محمد افضل صاحب )تاریخ ولادت ۵ / اکتوبر ۱۹۱۴ء(
۱۹۳۳ء
چوہدری محمد صدیق صاحب )تاریخ ولادت ۵ / مارچ ۱۹۱۶ء(
مولوی روشن دین صاحب )تاریخ ولادت ۷ / اپریل ۱۹۱۳ء(
حافظ محمد رمضان صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۱۰ء(
۱۹۳۴ء
مولوی غلام احمد صاحب فرخ )تاریخ ولادت ۱۲ / اپریل ۱۹۱۶ء(
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری )تاریخ ولادت ۱۲ / اکتوبر ۹۱۵ء(
۱۹۳۵ء
مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر )تاریخ ولادت ۵ / فروری ۱۹۱۳ء(
۱۹۳۶ء
مولوی شریف احمد صاحب امینی )تاریخ ولادت ۱۹ / نومبر ۱۹۱۷ء(۸۳
مولوی )ابوالمنیر( نور الحق صاحب )تاریخ ولادت ۱۷ / دسمبر ۱۹۱۸ء(
مرزا منور احمد صاحب شہید امریکہ )تاریخ ولادت ۲۰ / اپریل ۱۹۱۹ء(
مولوی صدر الدین صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / جون ۱۹۱۷ء(
مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل )تاریخ ولادت ۲۵ / جولائی ۱۹۱۴ء(
سید اعجاز احمد صاحب بنگالی )تاریخ ولادت قریباً ۱۹۱۶ء(
۱۹۳۷ء
حافظ قدرت اللہ صاحب )تاریخ ولادت ۲۲ / فروری ۱۹۱۷ء(
مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری )تاریخ ولادت ۱۴ / اگست ۱۹۲۰ء(
عبدالغفار صاحب ڈار )تاریخ ولادت مارچ ۱۹۱۶ء(
مولوی محمد احمد صاحب ثاقب )تاریخ ولادت ۱۵ / مئی ۱۹۱۸ء(
۱۹۳۸ء
مولوی نور الحق صاحب انور )تاریخ ولادت دسمبر ۱۹۲۰ء(
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی )تاریخ ولادت ۲۷ / جولائی ۱۹۱۹ء(
شیخ نور احمد صاحب منیر )تاریخ ولادت ۸ / اکتوبر ۱۹۱۹ء(۸۴
جامعہ احمدیہ کا دور ثانی
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے بعد مئی ۱۹۳۹ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے پرنسپل مقرر ہوئے اور جامعہ کا دوسرا دور شروع ہوا۔ آپ کے زمانہ میں بھی امتحان مولوی فاضل کے نتائج بہت اچھے رہے مگر لوگوں کے اس عام رجحان کی وجہ سے کہ دینی تعلیم پر دنیاوی تعلیم کو فوقیت حاصل ہے مبلغین کلاس میں داخل ہونے والے طلباء کی تعداد میں کمی آگئی۔ آپ کے دور میں جامعہ کے اندرونی نظام میں بعض اصلاحات بھی ہوئیں مثلاً تقریروں کی مشق کے لئے ایک مجلس طلباء بنائی گئی۔ لائبریری جامعہ احمدیہ کی کتابیں از سر نو مرتب کر کے دو حصوں میں تقسیم کی گئیں۔ ایک حصہ میں نصاب کی کتابیں اور دوسرے میں کتب سلسلہ کے لئے دوسرا علمی اور ادبی لٹریچر رکھا گیا۔ اس کے علاوہ دارالاقامہ میں بھی ایک لائبریری قائم ہوئی۔۸۵
دور ثانی میں تعلیم پانے والے علماء
آپ کے زمانہ میں جن علماء و مبلغین نے اکتساب علم کیا ان میں سے بعض قابل ذکر یہ ہیں :
۱۹۴۰ء
مولوی غلام باری صاحب سیف )تاریخ ولادت یکم اکتوبر ۱۹۲۰ء(
مولوی جلال الدین صاحب قمر )تاریخ ولادت ۵ / مئی ۱۹۲۳ء(
شیخ نصیر الدین احمد صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء(
حافظ بشیر الدین صاحب )تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۱۹۲۲ء(
مولوی محمد منور صاحب )تاریخ ولادت ۱۳ / فروری ۱۹۲۳ء(
۱۹۴۱ء
ملک مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت ۱۹۲۲ء(
مولوی خورشید احمد صاحب شاد ۸۶)تاریخ ولادت ۲۴ / ستمبر ۱۹۲۰ء(
مولوی محمد عثمان صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / جون ۱۹۲۲ء(
مولوی بشارت احمد صاحب امروہوی )تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۱۷ء(
۱۹۴۲ء
مولوی بشارت احمد صاحب بشیر )تاریخ ولادت ۱۰ / جون ۱۹۲۳ء(
۱۹۴۳ء
مولوی محمد زہدی صاحب )تاریخ ولادت ۷ / نومبر ۱۹۱۸ء(
صوفی محمد اسحاق صاحب )تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۲۳ء(
جامعہ احمدیہ کے دور ثالث کا آغاز
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مئی ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور ۲۴ مئی ۱۹۴۴ء کو مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری نے جامعہ احمدیہ کا چارج سنبھال لیا۔۸۷اس طرح جامعہ احمدیہ کی زندگی کے تیسرے دور کا آغاز ہوا۔
اوائل ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی جامعہ احمدیہ کی طرف خاص توجہ فرمائی اور جماعت کو وقف زندگی کی تحریک کی۔ جس پر کئی مخلص نوجوانوں نے لبیک کہا۔ اور میٹرک پاس طلباء کے لئے جامعہ احمدیہ میں ایک سپیشل کلاس جاری کی گئی۔ اس کے علاوہ دوسرے طلباء میں بھی اضافہ ہوا۔ اور جامعہ احمدیہ میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہوئی۔ جامعہ احمدیہ اور اس کا ہوسٹل محلہ دارالانوار کے نئے گیسٹ ہائوس میں منتقل کر دیا گیا۔ اور طلباء کو رہائش کی سہولتیں میسر آئیں۔ یہ ادارہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا کہ تقسیم ہند کا سانحہ پیش آگیا۔ اور اس کے اساتذہ و طلباء ۱۰ نومبر ۱۹۴۷ء کو کانوائے کے ذریعہ قادیان سے لاہور آگئے۔۸۸جہاں نئی صورت حال کے پیش نظر مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کا مخلوط ادارہ جاری ہوا۔ جس کے پرنسپل بھی آپ ہی مقرر ہوئے۔ اور یکم جولائی ۱۹۵۳ء تک اس ادارہ کو کامیابی سے چلانے کے بعد پرنسپل کی حیثیت سے جامعتہ المبشرین میں منتقل ہوگئے۔
جامعہ احمدیہ کے دور ثالث اور اس سے نکلنے والے علماء و مبلغین کا مفصل تزکرہ تو انشاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا۔ مگر یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ اس دور کے تعلیم پانے والوں میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب` سید مسعود احمد صاحب اور سید محمود احمد صاحب ناصر بھی شامل ہیں۔
سفر لاہور
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جون ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور تشریف لے گئے۔ آپ کے حرم ثالث حضرت سارہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری` صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ عبدالسلام صاحب )ابن حضرت خلیفہ اولؓ( ادیب فاضل وغیرہ کا امتحان دے رہے تھے اور یہ سفر اسی سلسلہ میں تھا۔۸۹
)فصل دوم(
>سیرت النبیﷺ<~ کے بابرکت جلسوں کا انعقاد
مجالس سیرت النبیﷺ~ کی تجویز اور اس کا پس منظر
۱۹۲۸ء کا نہایت مہتم بالشان اور تاریخ عالم میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھوں سیرت النبی کے جلسوں کی بنیاد ہے جس نے برصغیر ہند و پاک کی ¶مذہبی تاریخ پر خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ اور جو اب ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس اہم تحریک کی تجویز حضور کے دل میں ۱۹۲۷ء کے آخر میں اس وقت القا فرمائی- جبکہ ہندوئوں کی طرف سے کتاب >رنگیلا رسول< اور رسالہ >ورتمان< میں آنحضرت~صل۱~ کی شان مبارک کے خلاف گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ حضور نے اس مرحلہ پر آنحضرت~صل۱~ کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لئے ملکی سطح پر جو کامیاب مہم شروع فرمائی۔ اس کی تفصیل پچھلی جلد میں گذر چکی ہے۔ یہ مہم اسلامی دفاع کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ جس نے نہ صرف مخالفین اسلام کی چیرہ دستیوں کا سدباب کرنے میں مضبوط دیوار کا کام دیا۔ بلکہ نبی کریم~صل۱~ کے نام لیوائوں کو عشق رسول کے عظیم الشان جذبہ سے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر دیا۔ مگر حضور کے مضطرب اور درد آشنا دل نے اسی پر قناعت کرنا گوارا نہ کیا۔ اور آپ سب وشتم کی گرم بازاری کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی کے حالات اور آپﷺ~ کے عالمگیر احسانات کے تذکروں سے ہر ملک کا گوشہ گوشہ گونج نہیں اٹھے گا۔ اس وقت تک مخالفین اسلام کی قلعہ محمدی پر موجودہ یورش بدستور جاری رہے گی۔ اور دراصل یہی خیال تھا۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے >سیرت النبیﷺ<~ کے جلسوں کی تجویز فرمائی۔ چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں :
>لوگوں کو آپ پر )یعنی آنحضرت رسول کریم~صل۱~ پر ناقل( حملہ کرنے کی جرات اسی لئے ہوتی ہے۔ کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں۔ یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے۔ جو یہ ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپﷺ~ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے۔ اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم~صل۱~ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے۔ اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے۔ تا کہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں<۔۹۰
نیز فرمایا :
>آنحضرت~صل۱~ ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے کہ ع
آفتاب آمد دلیل آفتاب
سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو اسے کہا جائے گا۔ دیکھ لو سورج چڑھا ہوا ہے۔ تو کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریم~صل۱~ کی ذات ستودہ صفات انہی وجودوں میں سے ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ اس وقت تک جو انسان پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریم~صل۱~ سے نیچے ہیں اور آپﷺ~ سب پر فوقیت رکھتے ہیں ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہو سکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول کریم~صل۱~ کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں ایسے حملوں کے اندفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں۔ جب وہ آپﷺ~ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے<۔ ۹۱
وسیع سکیم
اس اہم قومی و ملی مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک وسیع پروگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل تھے :
اول :ہر سال آنحضرت~صل۱~ کی مقدس سوانح میں سے بعض اہم پہلوئوں کو منتخب کر کے ان پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے۔ ۱۹۲۸ء کے پہلے >سیرت النبیﷺ<~ کے جلسے کے لئے آپ نے تین عنوانات تجویز فرمائے۔ )۱( رسول کریم~صل۱~ کی بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں۔ )۲( رسول کریم~صل۱~ کی پاکیزہ زندگی )۳( رسول کریم~صل۱~ کے دنیا پر احسانات۔
دوم :ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر ایسے ایک ہزار فدائیوں کا مطالبہ کیا۔ جو لیکچر دینے کے لئے آگے آئیں تا انہیں مضامین کی تیاری کے لئے ہدایات دی جا سکیں اور وہ لیکچروں کے لئے تیار کئے جا سکیں۔ جلسوں کے اثرات سے قطع نظر صرف یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام تھا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے ہزار لیکچرار تیار کر دئیے جائیں۔
سوم :سیرت النبیﷺ~ پر تقریر کرنے کے لئے آپ نے مسلمان ہونے کی شرط اڑا دی اور فرمایا رسول کریم~صل۱~ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ توفیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں۔ جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا۔ مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں ان کی زبانی رسول کریم~صل۱~ کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہوگا۔ پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور ان کی اس خدمت کی قدر کی جائے گی۔۹۲
چہارم :غیر مسلموں کو سیرت رسولﷺ~ کے موضوع سے وابستگی کا شوق پیدا کرنے کے لئے یہ اعلان کیا گیا کہ جو غیر مسلم اصحاب ان جلسوں میں تقریریں کرنے کی تیاری کریں گے اور اپنے مضامین ارسال کریں گے ان میں سے اول` دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب سو` پچاس اور پچیس روپے کے نقد انعامات بھی دئیے جائیں گے۔۹۳
پنجم :حضور کے سامنے چونکہ >میلاد النبیﷺ<~ کے معروف رسمی اور بے اثر اور محدود جلسوں کے مخصوص اغراض کی بجائے >سیرت النبیﷺ<~ کے خالص علمی اور ہمہ گیر جلسوں کا تصور تھا اس لئے آپ نے ان کے انعقاد کے لئے ۱۲ / ربیع الاول کے دن کی بجائے )جو عموماً ولادت نبوی کی تاریخ تسلیم کی جاتی ہے( دوسرے دنوں کو زیادہ مناسب قرار دیا۔۹۴چنانچہ ۱۹۲۸ء میں آپ نے یکم محرم ۱۳۴۷ھ بمطابق ۲۰/ جون کو یوم سیرت منانے کا اعلان کیا۔ جسے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی باسانی شمولیت کے پیش نظر ۱۷ / جون میں تبدیل کر دیا۔۹۵`۹۶
حضور نے اس عظیم الشان پروگرام کے شایان شان جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو تیاری کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور اس بارے میں کئی اہم مشورے دئیے مثلاً اصل جلسوں کی اہمیت بتانے کے لئے مختلف موقعوں پر مختلف محلوں میں جلسے کریں` جلسہ کی صدارت کے لئے با رسوخ اور سربرآوردہ لوگ منتخب کئے جائیں جلسہ گاہ کا ابھی سے مناسب انتظام کرلیں۔ اسی طرح جلسہ کے لئے منادی اور اعلان کے متعلق ابھی سے تیاری شروع کر دیں۔ اور یہ ذمہ اٹھائیں کہ وہ اپنے ماحول میں دو دو تین تین گائوں میں جلسے منعقد کرائیں گے۔۹۷
لیکچراروں کی فراہمی کا مسئلہ
اس ضمن میں مشکل ترین کام یہ تھا کہ ملک کے عرض و طول میں تقریر کرنے والے ایک ہزار لیکچرار مہیا اور تیار کئے جائیں۔ شروع شروع میں یہ کام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے سپرد فرمایا مگر ۱۴ / مارچ ۱۹۲۸ء کو اس کی نگرانی صیغہ ترقی اسلام کے سیکرٹری چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کے سپرد فرما دی۔۹۸
حضرت چوہدری صاحب نے ملکانہ تحریک کی طرح اس معاملہ میں بھی انتہائی مستعدی فرض شناسی اور فدائیت کا ثبوت دیا اور زبردست سعی و جدوجہد سے ہزار سے زیادہ یعنی چودہ سو انیس لیکچرار فراہم ہوگئے یہ لیکچرار وہ تھے۔ جن کے نام رجسٹر میں درج تھے ورنہ ۱۷ / جون کے مقررین تعداد میں اس سے بھی بہت زیادہ۔ یہاں زیادہ مناسب ہوگا۔ کہ چوہدری صاحب کے قلم سے ان مخلصانہ مساعی کا نقشہ پیش کر دیا جائے- فرماتے ہیں :
>۱۴ / مارچ کو میں نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے کر مبلغین میں سے ایک صاحب کو اس کام کے لئے فارغ کر دیا۔ جس کے ساتھ عملہ دفتر دعوۃ و تبلیغ بھی بطور معاون کام کرتا رہا۔ لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اسلامی انجمنوں` اسلامیہ سکولوں` ائمہ مساجد علماء و سجادہ نشینان` ممبران ترقی اسلام ایڈیٹران اخبارات` ممبران لیجسلیٹو کونسلز واسمبلی اور ہندو معززین و تھیوسافیکل سوسائٹیوں سے خط و کتابت کی گئی اور اس کے علاوہ متعدد اسلامی اخبارات میں پے در پے تحریکات شائع کرنے کے ساتھ صوبجات بنگال` مدراس اور بمبئی کی انگریزی اخبارات میں لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اجرت پر اشتہارات دئیے گئے۔ ہندوستان کے علاوہ ممالک خارجہ انگلینڈ` نائجیریا` گولڈ کوسٹ` نیروبی و دیگر حﷺ افریقہ اور شام` ماریشس` ایران` سماٹرا` آسٹریلیا میں بھی مبلغین اور بعض دیگر احباب کو بھی خطوط لکھے گئے۔ ۱۷ / جون کے جلسہ سے چند دن قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا رقم فرمودہ ایک پوسٹر ۱۵ ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ہندوستان کے تمام حصوں میں بھیجا گیا جس میں مسلمانوں کو ہر جگہ ۱۷ / جون کے دن جلسہ کرنے کی تحریک کی گئی۔ ہمارا مطالبہ تمام ہندوستان سے ایک ہزار لیکچرار مہیا کرنے کا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶/ جون کو ممالک خارجہ اور ہندوستان کے لیکچراروں کی تعداد درج رجسٹر ۱۴۱۹ تھی۔ گویا مطالبہ سے ۴۱۹ زیادہ لیکچرار تھے۔ اور پھر خصوصیت اس میں یہ تھی کہ مختلف علاقوں سے ہمیں ۲۵ غیر مسلم لیکچرار اصحاب کے نام ملے۔ اگرچہ ۱۷ / جون کے دن غیر مسلم لیکچراروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی جو بروقت مقامی طور پر جلسوں میں بخوشی حصہ لینے کے لئے تیار ہوگئے۔ غرض لیکچراروں کے حصول میں ہمیں امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی<۔۹۹
لیکچراروں کی رہنمائی کے لئے مفصل نوٹوں کی طباعت اور الفضل کے >خاتم النبیین نمبر< کی اشاعت
جہاں تک لیکچراروں کو مواد فراہم کرنے کا تعلق تھا اس کے لئے حضرت چوہدری صاحب نے یہ انتظام فرمایا۔ کہ مجوزہ مضامین کے متعلق مفصل نوٹ تیار کرائے اور وہ )پانچ ہزار کی تعداد میں(
طبع کرا کے لیکچراروں کو بھجوا دئیے۔۱۰۰جس سے ان کو بہت مدد ملی۔ علاوہ بریں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ادارہ >۔الفضل< نے پانچ روز قبل ۱۲ / جون ۱۹۲۸ء کو ۷۲ صفحات پر مشتمل نہایت شاندار ۔خاتم النبیین نمبر< شائع کیا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے ممتاز بزرگان احمدیت و علماء سلسلہ۱۰۱اور احمدی مستورات۱۰۲کے علاوہ بعض مشہور غیر احمدی زعماء۱۰۳اور غیر مسلم اصحاب۱۰۴کے نہایت بلند پایہ مضامین تھے۔ آنحضرت~صل۱~ کی شان اقدس میں متعدد نعتیں۱۰۵ بھی شامل اشاعت تھیں جن میں سے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کا >سلام بحضور سید الانام< اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی نظم بعنوان >پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار< کو اپنوں اور بیگانوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ >خاتم النبیین نمبر< سات ہزار چھاپا گیا۔ جو چند روز میں ختم ہوگیا اور دوستوں کے اشتیاق پر دوبارہ شائع کیا گیا-۱۰۶
تحریک سے متعلق عجیب وغریب غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش
یہ تحریک تمام اقوام عالم کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے نہایت مفید و بابرکت تحریک تھی۔ لیکن تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں شروع ہی سے اس کی مخالفت میں آواز اٹھائی گئی اور اس کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کئے گئے مثلاً بعض نے کہا یہ تحریک حکومت کے منشاء کے تحت اور حکومت سے تعاون کرنے کی تلقین کے لئے کی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان جلسوں میں چندہ جمع کیا جائے گا۔ بعض نے کہا کہ احمدی اس طرح اپنے عقائد کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور یہ تحریک خود غرضی پر مبنی ہے۔۱۰۷ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ مذہبی معاملہ میں غیر مسلم کیوں شریک کئے گئے۔
مخالفت کرنے والی جماعتوں میں سے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور` خلافت کمیٹی اور مسلم اخبارات میں سے اخبار >پیغام صلح< اور اخبار >زمیندار< نے تحریک کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خلافت کمیٹی کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے تو آخر ملک اور عام پبلک کا رجحان اس تحریک کی طرف دیکھ کر اس سے عدم تعاون کی پالیسی ترک کر دی )سوائے چند جگہوں کے( لیکن احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر۱۰۸اور اخبار >پیغام صلح< و >زمیندار< نے آخر دم تک مخالفت جاری رکھی۔ حتیٰ کہ ۱۷ / جون سے پہلے اور عین اس دن اکثر مقامات پر اس قسم کی تحریریں چھپوا کر شائع کیں جن کا نہایت برا اثر پڑ سکتا تھا۔
سیرت النبی کے کامیاب جلسوں کا روح پرور نظارہ
لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس عظیم الشان مہم کے پیچھے کام کر رہی تھی اس لئے یہ تمام کوششیں اکارت گئیں اور ہندوستان کے عرض و طول میں ۱۷ / جون کو نہایت تزک و احتشام سے یوم سیرت النبی منایا گیا۔ اور نہایت شاندار جلسے منعقد کئے گئے۔ اور ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانون نے سیرت رسولﷺ~ پر اپنے دلی جذبات عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کیں۔ چنانچہ متعدد مقامی احمدیوں نے لیکچر دئیے مرکز سے قریباً پچاس کے قریب لیکچرار ملک کے مختلف جلسوں میں شامل ہوئے۔ بعض ممتاز احمدی مقررین کے نام یہ ہیں : حضرت میر محمد اسحاق صاحب` مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری۔۱۰۹مولوی محمد یار صاحب عارف` چوہدری ظفر اللہ خان صاحب` حضرت حافظ روشن علی صاحب` شیخ محمود احمد صاحب عرفانی` قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم۔حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر۔ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق۱۱۰` پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے اسلامیہ کالج کلکتہ۔ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور۔ حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر >فاروق< قادیان۔ مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور` مولوی محمد صادق صاحب۔ مولوی کرم داد صاحب دو المیال۔ مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل۔ مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی- قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری` حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری۔ مولوی ابوالبشارت عبدالغفور صاحب مولوی فاضل۔ ڈاکٹر شفیع احمد ایڈیٹر اخبار >زلزلہ< دہلی۔۱۱۱حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی۔ مولوی ظہور حسین صاحب۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم۔ مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر۔ قریشی محمد حنیف صاحب اڑیسہ۔
دوسرے مسلمانوں میں سے تقریر کرنے والوں یا نظم پڑھنے والوں یا صدارت کرنے والوں میں کئی نمایاں شخصیتیں شامل تھیں۔ مثلاً ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری` مولوی مرزا احمد علی صاحب امرت سری` مولوی عبدالمجید صاحب قرشی اسسٹنٹ ایڈیٹر >تنظیم< امرت سر۔ مولوی صبغتہ اللہ صاحب فرنگی محلی لکھنئو۔ شاہ سلیمان صاحب پھلواری۔ شمس العلماء سید سبط حسن صاحب۔ سید حبیب صاحب مدیر >سیاست< لاہور۔ مولوی محمد بخش صاحب مسلم بی۔ اے لاہور۔ سید معین الدین صاحب صدر الصدور امور مذہبی سرکار آصفیہ حیدر آباد دکن۔ شیخ عبدالقادر صاحب ایم۔ اے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی۔ نواب ذوالقدر جنگ بہادر ہوم سیکرٹری ریاست حیدر آباد دکن۔ خان بہادر مخدوم سید صدر الدین صاحب ملتان۔ نواب سر عمر حیات خاں صاحب ٹوانہ۔ نواب صدر یار جنگ ناظم امور مذہبیہ ریاست حیدر آباد۔ خواجہ سجاد حسین صاحب بی۔ اے )خلف شمس العلماء مولوی الطاف حسین صاحب حالی( مسٹر محمود سہروردی صاحب ممبر کونسل آف اسٹیٹ دہلی۔
مسلمانوں کے علاوہ ہندو` سکھ` عیسائی` جینی اصحاب نے بھی آنحضرت~صل۱~ کی پاکیزہ سیرت` بیش بہا قربانیوں اور عدیم النظیر احسانات کا ذکر کیا۔۱۱۲ اور نہ صرف ان جلسوں میں بخوشی شامل ہوئے بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے ان کے انعقاد میں بڑی مدد بھی دی۔۱۱۳جلسہ گاہ کے لئے اپنے مکانات دئیے` ضروری سامان مہیا کیا` سامعین کی شربت وغیرہ سے خدمت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے بڑے معزز اور مشہور لیڈروں نے جلسوں میں شامل ہو کر تقریریں کیں چنانچہ لاہور کے جلسہ میں لالہ بہاری لال صاحب انند ایم اے پروفیسر دیال سنگھ کالج اور لالہ امر ناتھ صاحب چوپڑہ بی۔ اے ایل ایل۔ بی نے دہلی کے جلسہ میں رائے بہادر لالہ پارس داس آنریری مجسٹریٹ اور لالہ گردھاری لال صاحب نے انبالہ میں مشہور کانگریسی لیڈر لالہ دنی چند صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی نے تقاریر کیں مسٹر ایس کے بھٹہ چارجی نے سیدپور )بنگال( کے جلسہ کی اور مشہور لیڈر مسٹر ایس جے ہر دیال ناگ نے چاند پور کے جلسوں کی صدارت کی۔ بابو بنکا چندر سین صاحب بابو مکیتار سینا بھوش صاحب` بابو للت موہن صاحبان برہمن بڑیہ کے جلسہ میں شریک ہوئے۔ بنگال کے معزز لیڈر سر پی سی رائے صاحب کلکتہ کے جلسہ کے صدر تھے۔۱۱۴اور ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مانرو )یامورنیو( صاحب اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر` بنگال کے لیڈر بابو بپن چندر پال صاحب۔۱۱۵مشہور بنگالی مقرر مسز نیرا بھردبھا چکراورتی صاحب نے کلکتہ کے جلسہ میں بہت دلچسپ تقریریں کیں۔ رنگپور کے جلسہ میں بدہن رانجھن لاہری ایم۔ اے۔ بی ایل صاحب )مشہور اور بنگالی لیکچرار( نے ایک فصیح تقریر کی۔ مدراس میں وہاں کے مشہور اخبار جسٹس کے قابل ایڈیٹر صاحب نے جلسہ کی صدارت کی اور نہایت پر زور تقریر کی۔ بانکی پور میں مسٹر پی کے سین صاحب بیرسٹر سابق جج ہائیکورٹ پٹنہ اور بابو بلدیو سہائے صاحب ممبر لیجسلیٹو کونسل نے تقریریں کیں۔ بھاگلپور میں مشہور ہندو لیڈر بابو اننت پرشاد صاحب وکیل نے جلسہ کی صدارت کی۔ امرائوتی میں آنریبل سرجی ایس کھپارڈے صاحب ممبر کونسل آف سٹیٹ کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا۔ بنگلور میں مسٹر کے سیمپت گری رائو صاحب ایم۔ اے نے تقریر کی۔ حیدر آباد دکن کے جلسہ کے لئے راجہ سر کرشن پرشاد صاحب نے نعتیں بھیجیں` بہائونگر کاٹھیا واڑ کے جلسہ میں جناب کیپل رائے صاحب بی۔ اے بی ٹی نے تقریر کی جو کاٹھیا واڑ میں ایک ممتاز علمی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں غیر مسلم معززین اور غیر مسلم تعلیم یافتہ خواتین بھی جلسوں میں شریک ہوئیں۔ اور دنیا کے سب سے بڑے محسن سب سے بڑے پاکباز اور سب سے بڑے ہمدرد کے متعلق اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا۔ یہ ایسا روح پرور نظارہ تھا جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اور جس کی یاد دیکھنے والوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔۱۱۶
ہندوستان کے علاوہ سماٹرا` آسٹریلیا` سیلون` ماریشس` ایران` عراق` عرب` دمشق )شام( حیفا )فلسطین( گولڈ کوسٹ )غانا( نائجیریا` جنجہ` ممباسہ )مشرقی افریقہ( اور لندن میں بھی سیرت النبیﷺ~ کے جلسے ہوئے۔۱۱۷اس طرح خدا کے فضل سے عالمگیر پلیٹ فارم سے آنحضرت~صل۱~ کی شان میں محبت و عقیدت کے ترانے گائے گئے اور سپین کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی اس پیشگوئی کا ایک پہلو کہ آنحضرتﷺ~ کے مقام محمود کا ظہور حضرت امام مہدی کے ذریعہ سے ہوگا۔۱۱۸امام مہدی کے خلیفہ برحق کے زمانہ میں )جس کا نام خدائے ذوالعرش نے محمود رکھا تھا( پوری ہوگئیو لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا۔
جلسوں کی کامیابی پر تبصرے
مجالس سیرت النبیﷺ~ کی کامیابی ایسے شاندار رنگ میں ہوئی کہ بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے اور اخباروں نے اس پر بڑے عمدہ تبصرے شائع کئے۔ اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو مبارکباد دی مثلاً :
اخبار مشرق
۱۔ اخبار مشرق گورکھپور )۲۱ / جون ۱۹۲۸ء( نے لکھا :
>ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس لئے کہ اس تاریخ میں اعلیٰ حضرت آقائے دو جہاں سردار کون و مکان محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ذکر خیر کسی نہ کسی پیرایہ میں مسلمانوں کے ہر فرقہ نے کیا۔ اور ہر شہر میں یہ کوشش کی گئی کہ اول درجے پر ہمارا شہر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن اصحاب نے اس موقعہ پر تفرقہ و فتنہ پردازی کے لئے پوسٹر لکھے اور تقریریں لکھ کر ہمارے پاس بھیجیں وہ بہت احمق ہیں جو ہمارے عقیدے سے واقف نہیں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ body] g[taپر ایمان رکھے وہ ناجی ہے بہرحال ۱۷ / جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمدیہ جناب مرزا محمود احمد کو مبارکباد دیتے ہیں اگر شیعہ و سنی اور احمدی اسی طرح سال بھر میں دو وچار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی قوت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کر سکتی<۔۱۱۹
اخبار >مخبر< )اودھ(
۲۔ >مخبر< اودھ نے >انسان اعظم حضرت رسول اکرم~صل۱~ کی سیرت پر شاندار لیکچر< اور >ہندوستان میں جلسے< کے دوہرے عنوان سے ایک مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں لکھا :
>دور حاضرہ کے مسلمانوں میں جماعت احمدیہ ایک پرجوش جماعت ہے جس کے زبردست لیکچروں کی آواز یورپ سے امریکہ تک گونج رہی ہے اور یہ ہر موقع پر معترضین اسلام کی تسلی کرنے کو آمادہ رہی ہے اس طبقہ نے بحث و مباحثہ کے ضمن میں بہترین خدمات انجام دئیے ہیں اور علم کلام میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان سے کسی انصاف پسند کو انکار نہیں۔ کچھ دنوں سے غیر اقوام کے مقررین اور جرائد و رسائل نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ حضرت نبی کریم~صل۱~ کے متعلق اپنے جلسوں میں ایسے حالات بیان کرتے ہیں جن کا مستند تواریخ میں پتہ نہیں اور اپنے اخبارات میں ان غلط روایات پر الٹی سیدھی رائے زنی کرتے ہیں جن سے سیرت نبویﷺ~ کا لٹریچر نا آشنا ہے جماعت احمدیہ نے اس بات کا بیڑہ اٹھایا کہ ۱۷ / جون کو ہندوستان کے ہر حصہ میں مسلمانوں کے عام جلسے کئے جائیں۔ جن میں آنحضرتﷺ~ کی سیرت مبارک پر شاندار لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں نہ صرف ہر فرقہ اسلامیہ کے ممتاز افراد شریک ہوں بلکہ غیر مذاہب کے اشخاص کو بھی دعوت دی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۷ / جون کو ہندوستان کے مشہور مقامات پر جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام شاندار جلسے ہوئے کلکتہ کے جلسہ میں اینگلو انڈین طبقہ کے معزز ممبر ڈاکٹر مورینو صاحب نے شریک ہو کر اس کے اغراض پر شادمانی کا اظہار کیا۔ بابو بپن چندر پال نے بھی اپنی تقریر میں اس کے مقاصد کو بہترین قرار دیا اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کامیاب بنانے میں کوشاں ہوں گے۔ لاہور میں سر عبدالقادر صاحب کے زیر صدارت جلسہ ہوا جس میں پروفیسر بہاری لال اور لالہ امر ناتھ صاحب ایڈووکیٹ نے آنحضرتﷺ~ کی خوبیاں بیان کیں۔ اگر برادران وطن اسی طرح اسلامی جلسوں میں پیغمبر اسلام کے کمالات اور پاک زندگی کی فضیلت ظاہر کرتے رہے تو جملہ مذاہب میں یگانگت پیدا ہو جائے گی<۔۱۲۰
اخبار >سلطان< کلکتہ
۳۔ کلکتہ کے ایک بنگالی اخبار >سلطان< )۲۱ / جون نے لکھا :
>جماعت احمدیہ نے ۱۷ / جون کو رسول کریم~صل۱~ کی سیرت بیان کرنے کے لئے ہندوستان بھر میں جلسے منعقد کئے ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ تقریباً سب جگہ کامیاب جلسے ہوئے اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس نواح میں احمدیوں کو ایسی عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے کہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے۔ اور لوگوں کے دلوں میں جگہ حاصل کر رہی ہے ہم خود بھی ان کی طاقت کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں<۔۱۲۱
اخبار >کشمیری< لاہور
۴۔ اخبار >کشمیری< لاہور )۲۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے >۱۷ / جون کی شام< کے عنون سے یہ تبصرہ شائع کیا :
>مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت احمدیہ قادیان کے خلیفتہ المسیح کی یہ تجویز کہ ۱۷ / جون کو آنحضرت~صل۱~ کی پاک سیرت پر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لیکچر اور وعظ کئے جائیں باوجود اختلافات عقائد کے نہ صرف مسلمانوں میں مقبول ہوئی بلکہ بے تعصب امن پسند صلح جو غیر مسلم اصحاب نے ۱۷ / جون کے جلسوں میں عملی طور پر حصہ لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ ۱۷ / جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر بہ یک وقت و بہ یک ساعت ہمارے برگزیدہ رسول کی حیات اقدس ان کی عظمت ان کے احسانات و اخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم پر ہندو مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات و فسادات کا فوراً انسداد ہو جائے۔
۱۷ / جون کی شام صاحبان بصیرت و بصارت کے لئے اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھر تھی ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کر کے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور کامل انسان ثابت کر رہے تھے۔ بلکہ بعض ہندو لیکچرار تو بعض منہ پھٹ معترضین کے اعتراضات کا جواب بھی بدلائل قاطع دے رہے تھے۔
آریہ صاحبان عام طور پر نفاق و فساد کے بانی بتائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہی گروہ آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی پر اعتراض کیا کرتا ہے۔ لیکن ۱۷ / جون کی شام کو پانی پت` انبالہ اور بعض اور مقامات میں چند ایک آریہ اصحاب نے ہی حضورﷺ~ کی پاک زندگی کے مقدس مقاصد پر دل نشین تقریریں کر کے بتا دیا۔ کہ اس فرقہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسسرے مذاہب کے بزرگوں کا ادب و احترام اور ان کی تعلیمات کے فوائد کا اعتراف کر کے اپنی بے تعصبی اور امن پسندی کا ثبوت دے سکتے ہیں-
۱۷ / جون کی مبارک شام کو جن مقامات پر ہندو اور سکھ اصحاب نے ہمارے رسول پاک~صل۱~ کی شان میں نعتیں پڑھیں یا جلسوں کی صدارت کی یا اہل جلسہ کے لئے شربت کی سبیلیں لگائیں یا اپنی تقریروں میں آنحضرت~صل۱~ کو ان کی پاکیزہ تعلیم اور ان کے اعلیٰ اخلاق و فضائل کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا محسن ظاہر کیا۔ ان میں مقامات ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مردان` پانی پت` بہائونگر` مونگیر` حیدر آباد دکن` لاہور` امرت سر` دہلی` کبیر والا )ملتان( قلعہ شب قدر )سرحد( میانی` ڈیرہ دون` بانکی پور۔ سہسرام` گورداسپور` کھاریاں` امرائوتی` دھرگ )سیالکوٹ( دھرم کوٹ بگہ<۔۱۲۲
>اردو اخبار< ناگپور
۵۔ >اردو اخبار< ناگپور )۵ / جولائی ۱۹۲۸ء( نے >جمات احمدیہ کی قابل قدر خدمات< کی سرخی دے کر مندرجہ ذیل نوٹ لکھا :
>جماعت احمدیہ ایک عرصہ سے جس سرگرم سے اسلامی خدمات بجا لا رہی ہے وہ اپنے زریں کارناموں کی بدولت محتاج بیان نہیں ہے یورپ کے اکثر ممالک میں جس عمدگی کے ساتھ اس نے تبلیغی خدمات انجام دیں اور دے رہی ہے سچ یہ ہے کہ یہ اسی کا کام ہے پچھلے دنوں جبکہ یکایک شدھی کا ایک طوفان عظیم امنڈ آیا تھا۔ اور جس نے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ گائوں کے گائوں مسلمانوں کو متاثر بنا کر مرتد کرلیا تھا۔ یہی ایک جماعت تھی جس نے سب سے پہلے سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کیا اور وہ کچھ خدمات انجام دیں اور کامیابی حاصل کی کہ دشمنان اسلام انگشت بدنداں رہ گئے۔ اور ان کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہوگئے۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ واقع ہے کہ جس ایثار و انہماک سے یہ مختصر سی جماعت اسلام کی خدمت انجام دے رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے اور بلاشبہ اس کے یہ تمام کارنامے تاریخی صفحات پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں پچھلے دنوں اس کی یہ تحریک کہ حضور سرور کائنات~صل۱~ کی سیرت پر ۱۷ / جون کو ہندوستان کے ہر مقام پر عام مجمع میں جس میں مسلم وغیرمسلم دونوں شامل ہوں تقریریں کی جائیں اور جس کے لئے اس نے صرف تحریک ہی پیش نہیں کی بلکہ صدہا روپے بھی خرچ کرکے مقررین کے لئے ہزارہا کی تعداد میں لیکچرز طبع کراکر مفت تقسیم کئے۔ اور جس کا اثر یہ ہوا کہ 17۔ جون کو مسلم اور غیر مسلم دونوں جماعتوں نے شاندار جلسے کر کے سیرت نبویﷺ~ پر کمال حسن و خوبی سے اظہار خیالات کئے ہمارا تو خیال ہے کہ اگر اس تحریک پر آئندہ بھی برابر عمل کیا گیا تو یقیناً وہ ناپاک حملے جو آج برابر غیر مسلم اقوام ذات فخر موجودات پر کرتی رہتی ہیں ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے۔ اور وہ ناگوار واقعات جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اس مبارک تحریک کی بدولت نیست و نابود ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس شاندار کامیابی پر حضرت امام جماعت احمدیہ مدظلہ کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اور یقین دلاتے ہیں کہ آپ کی اس مبارک تحریک نے مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک مرکز پر کھڑا کر کے اتحاد کا عجیب و غریب سبق دیا ہے<۔۱۲۳
اخبار >پیشوا< دہلی
۶۔ اخبار >پیشوا< دہلی )۸ / جولائی ۱۹۲۸ء( نے ۱۷ / جون کے جلسوں کی کامیابی پر خوشی اور اس کے مخالفین پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :
>۱۷ / جون کو قادیانی جمات کے زیر اہتمام تمام ہندوستان میں فخر کائنات کی سیرت پر ہندوستان کے ہر خیال اور ہر طبقہ کے باشندوں نے لیکچر دئیے اور خوشی کا مقام ہے کہ مسلمان اخبارات۱۲۴نے سوائے زمیندار اور الجمعیت اور الانصار کے متفقہ طور سے ان جلسوں کی کامیابی میں حصہ لیا۔ مگر افسوس کہ علماء دیوبند نے ذکر رسول کی مخالفت اس لئے کی کہ ان کو قادیانی عقائد سے اختلاف ہے<۔۱۲۵
>حالانکہ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ جناب مولانا کفایت اللہ صاحب سے )جو دیوبندی علماء میں بہت سمجھدار عالم مانے جاتے ہیں( جب ایک قادیانی بھائی نے دہلی کے جلسہ کی صدارت کے لئے درخواست کی اور مولانا نے انکار کیا تو انہی قادیانی بھائی نے عرض کیا کہ جناب ہم کو کافر سمجھ کر جلسہ کی صدارت اس طرح قبول کیجئے۔ کہ اپنے معتقدات کے خلاف کسی کو بولنے کی اجازت نہ دیجئے۔ کیا اس جلسہ میں جو ذکر رسالت پناہ کے لئے کوئی غیر مسلم کرے شریک نہ ہوں گے؟ اس معقول درخواست کا جواب مفتی صاحب نے یہ دیا کہ میں آپ سے بحث نہیں کرنی چاہتا۔ اور نہ میں آپ کے جلسہ میں کسی حال میں شریک ہوں گا<۔ ۱۲۶
>مجھے بے حد افسوس ہے کہ زمانہ نے ابھی علماء کی آنکھین نہیں کھولیں اور ان کی تنگ نظری کی ذہنیت ابھی تبدیل نہیں ہوئی۔ قادیانی عقائد کا جہاں تک تعلق ہے میں ان کے ایک ایک حرف سے اختلاف رکھتا ہوں مگر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان سناتن دھرم` جین دھرم بدھ دھرم اور خدا معلوم کیا کیا مت کے پیروئوں کو ہندو سنگٹھن کی تحریک میں جو خالص آریہ سماجی تحریک ہے مدغم دیکھ کر اپنے بھولے ہوئے سبق اتحاد بین المسلمیں کو یاد کرنے کے لئے واعتصموا بحبل اللہ اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑیں۔ اور جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دشمنوں کو ناخوش اور دوستوں کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ عزت کی زندگی بسر کرنے کے لئے متحد ہو جائیں میرا خیال ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان معتقدات کی جزئیات سے آزاد ہوکر اتحاد اسلام کے لئے تیار ہیں مگر ملت اسلام کی اس زبردست تنظیم میں خودپرست اور غرض مند ملا اسلام کی آڑ لے کر حارج ہوتے ہیں جن کو اسلامی تعلیم سے ذرہ برابر واسطہ نہیں اس لئے ضرورت ہے کہ غرض مند ملائوں سے مسلمانوں کو بچایا جائے<۔۱۲۷
جلسوں کے عظیم الشان فوائد
سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں نے ملک کے عرض و طول میں ایک اتحاد و اتفاق اور محبت و آشتی کی ایک نئی روح پھونک دی اور اس سے ملک کو کئی فوائد حاصل ہوئے۔ چنانچہ
پہلا فائدہ : یہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف گوشوں کے ہزار ہا افراد نے وہ لٹریچر پڑھا جو آنحضرت~صل۱~ کے مقدس حالات پر شائع کیا گیا تھا۔
دوسرا فائدہ : یہ ہوا کہ ممتاز غیر مسلموں نے جن میں ہندو سکھ عیسائی سب شامل تھے آنحضرت~صل۱~ کی خوبیوں کا علی الاعلان اقرار کیا۔ اور آپﷺ~ کو محسن اعظم تسلیم کیا۔
تیسرا فائدہ : یہ ہوا کہ بعض ہندو لیڈروں نے آنحضرت~صل۱~ کی صرف تعریف و توصیف ہی نہیں کی۔ بلکہ ان پر آپﷺ~ کے حالات سن کر اتنا اثر ہوا۔ کہ انہوں نے کہا ہم آپ کو نہ صرف خدا کا پیارا سمجھتے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اعلیٰ انسان یقین کرتے ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے مگر دوسرے مذہبی راہنمائوں کی زندگی کا کوئی پتہ نہیں لگتا۔
چوتھا فائدہ : یہ ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو ایک مشترک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقعہ مل گیا اور ہر فرقہ کے لوگوں نے نہایت اخلاص اور جوش سے متحدہ طور پر ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ خصوصاً شیعہ اصحاب نے ہر جگہ اور ہر مقام پر جس طرح اتحاد عمل کا ثبوت دیا۔ وہ نہایت ہی قابل تعریف تھا۔ اہلسنت و الجماعت مسلمانوں نے بھی حتی الامکان پوری امداد دی اہلحدیث نے بھی ان کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ سنی علماء میں سے فرنگی محل لکھنئو کے علماء خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ اگرچہ بعض مقامات پر بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مخالفت بھی ہوئی۔ لیکن اکثر مسلمانوں نے بہت شاندار خدمات سر انجام دیں۔ اور بعض جگہ تو ان کی مساعی اس قدر بڑھی ہوئی تھیں۔ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں انہوں نے احمدیوں سے بھی زیادہ کام کیا۔ مثلاً امرت سر` لکھنئو` مدراس` پٹنہ وغیرہ مقامات میں دوسرے فرقوں کے مسلمانوں نے جلسوں کو کامیاب بنانے میں نہایت قابل تعریف کام کیا۔ اور دہلی لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں بھی بڑی امداد دی۔
پانچواں فائدہ : یہ ہوا کہ پبلک پر یہ بات کھل گئی کہ ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ بانی اسلام کے خلاف ناپاک لٹریچر کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور بانی اسلام کو دنیا کا بہت بڑا مصلح تسلیم کرتا ہے۔
چھٹا فائدہ : یہ ہوا کہ بعض مقامات کے لوگوں نے لیکچروں کو اتنا مفید اور موثر پایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ پندرہ روزہ یا ماہوار یا سہ ماہی یا ششماہی ایسے جلسے ہوا کریں۔ ایک جگہ ایک مسلمان رئیس نے کہا کہ آج تک ہم مسلمانوں کا ایمان رسول اللہ~صل۱~ کی نسبت ورثہ کا تھا اب آپﷺ~ کے حالات زندگی سن کر ایمان کامل حاصل ہوا۔ بعض غیر مسلم اصحاب نے بھی کہا کہ >ہمیں علم نہ تھا کہ بانی اسلام میں ایسے کمالات ہیں اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بے نظیر انسان تھے<۔
ساتواں فائدہ : ان جلسوں کا یہ ہوا کہ اس سے ملکی اتحاد پر نہایت خوشگوار اثر پڑا۔ اور یہ ایسی واضح حقیقت تھی کہ بعض مشہور مسلم و غیر مسلم لیڈروں نے اس کا اقرار کیا۔ چنانچہ سر شیخ عبدالقادر صاحب نے لاہور کے جلسہ کی صدارتی تقریر میں حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حاضرین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔ >یہ مبارک تحریک نہایت مفید ہے جس سے ہندوستان کی مختلف اقوام میں رواداری پیدا ہو کر باہمی دوستانہ تعلقات پیدا ہوں گے اور ملک میں امن و اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے<۔ کلکتہ میں سر پی سی رائے صاحب نے بحیثیت صدر تقریر کرتے ہوئے کہا >ایسے جلسے جیسا کہ یہ جلسہ ہے ہندوستان کی مختلف اقوام میں محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں<۔ اسی طرح اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر ڈاکٹر ایچ بی مانروا صاحب نے کہا۔ >میں نے باوجود اپنی بے حد مصروفیتوں کے اس جلسہ میں آنا ضروری سمجھا کیونکہ اس قسم کے جلسے ہی اس اہم سوال کو جو اس وقت ہندوستان کے سامنے ہے )یعنی ملک کی مختلف اقوام میں اتحاد( صحیح طور پر حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور اسلام میں متحد کرنے کی طاقت ایک تاریخی بات ہے غرضکہ ہندو مسلم اور عیسائی لیڈروں نے تسلیم کیا کہ اقوام ہند میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے جلسے نہایت مفید ہیں۔۱۲۸
سیرت النبیﷺ~ کے شاندار جلسوں کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوسرے امور کو جن کا ذکر ابھی تک اجمالی صورت میں آیا ہے مزید وضاحت کے ساتھ کر دیا جائے۔
قادیان میں جلسہ سیرت النبیﷺ~
جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان کا جلسہ اپنے اندر مرکزی شان رکھتا تھا۔ جس میں احمدی اصحاب کے علاوہ غیر احمدی مسلمان` ہندو` سکھ اور عیسائی لوگ بڑی کثرت سے شامل ہوئے جلسہ گاہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سامنے کھلے میدان میں شامیانے نصب کر کے بنائی گئی۔ جس میں دلاویز قطعات آویزاں تھے اور جسے اچھی طرح سجایا گیا تھا عورتوں کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں جلسہ کا علیحدہ انتظام تھا۔ جو حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی صدارت میں بڑی کامیابی سے ہوا۔ شائع شدہ پروگرام کے مطابق صبح ایک جلوس مرتب کیا گیا جو قریباً دس پارٹیوں پر مشتمل تھا۔ غیر احمدی مسلمانوں کی الگ پارٹیاں تھیں اور ایک پارٹی جاوی اور سماٹری طلبہ کی تھی جو حضرت مسیح موعودؑ کا عربی نعتیہ کلام پڑھ رہی تھی باقی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اردو نظمیں اور ہندو شعراء کی نعتیں پڑھ رہی تھیں۔ یہ شاندار جلوس ۷ بجے کے قریب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میدان سے روانہ ہوا۔ اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گذر کر دارالعلوم کی سڑک پر سے ہوتا ہوا ہندو بازار میں آیا۔ اور چوک سے غربی جانب مڑ کر اور دوسرے بازار سے ہوتا ہوا احمدیہ بازار میں پہنچا جلوس کی پارٹیاں نعتیہ اشعار اور درود خوش الحانی اور بلند آواز سے پڑھ رہی تھیں اس جلوس کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے زیر نگرانی مقامی سیکرٹری تبلیغ ملک فضل حسین صاحب مہاجر کے سپرد تھا۔ ۱۲۹اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے افراد اور بزرگ اس میں شامل تھے۔ جلوس محلہ دارالفضل والی سڑک کے راستہ جلسہ گاہ میں پہنچ کر ختم ہوگیا۔
جلسہ گاہ میں سب سے پہلے بچوں کا اجلاس ہوا جس کا صدر بھی ایک چھوٹا لڑکا مقرر ہوا۔ اور جس میں پریذیڈنٹ کے علاوہ بیس طلباء نے آنحضرت~صل۱~ کے وہ احسانات بیان کئے جو براہ راست بچوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض بچوں کی تقریروں سے خوش ہو کر حکیم محمد عمر صاحب نے نقد انعامات دئیے ایک بچہ نے جسے دو روپے انعام ملا تھا انعام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ روپے ترقی اسلام کی مد میں دے دئیے۔ اس پر اسے ایک روپیہ اور انعام دیا گیا مگر اس نے وہ بھی اشاعت اسلام میں دے دیا۔
بچوں کے اجلاس کے بعد چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کی صدارت میں جامعہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے بڑے طلباء کی تقریریں ہوئیں۔ اور اجلاس کھانے اور نماز کے لئے برخاست ہوا۔
نماز ظہر کے بعد پھر اجلاس ہوا۔ جس میں جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے ایک ایک طالب علم کی تقریروں کے بعد مشاعرہ ہوا۔ اور مقامی شعراء کی سات نظموں کے علاوہ ہندو شعراء کی دو نعتیں بھی خوش الحانی سے پڑھی گئیں مشاعرہ کے اختتام پر پہلے ڈاکٹر گور بخش سنگھ صاحب ممبر سمال ٹائون کمیٹی قادیان نے آنحضرت~صل۱~ کی سیرت پر روشنی ڈالی اور پھر چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے حضورﷺ~ کی سیرت مقدسہ کی خصوصیات بیان کیں اور اجلاس نماز عصر کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر
ساڑھے پانچ بجے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی پر معارف تقریر >دنیا کا محسن< کے عنوان سے شروع ہوئی۔ اس تقریر میں حضور نے آنحضرت~صل۱~ کی پاکیزہ سیرت` بیش بہا احسانات اور عدیم المثال قربانیوں کا نہایت ہی مدلل پاکیزہ اور اچھوتے طرز میں ذکر فرمایا۔ اور دلائل و واقعات کی بناء پر ان اعتراضوں کا بھی اصولی رنگ میں جواب دیا۔ جو حضور کی مقدس زندگی پر کئے جاتے ہیں- یہ تقریر آٹھ بجے ختم ہوئی۔ اور حضور نے دعا کے بعد جلسہ کا اختتام فرمایا۔ ۱۳۰حضور کا یہ لیکچر بہت مقبول ہوا اور اس کا پہلا ایڈیشن جو پانچ ہزار ۱۳۱کی تعداد میں شائع کیا گیا بہت جلد ختم ہوگیا اور اسے دوبارہ چھپوانا پڑا۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے نے اس لیکچر کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو ریویو آف ریلیجنز )انگریزی( میں بھی شائع ہوگیا۔۱۳۲
‏]0 [stfانعامات لینے والے غیر مسلم
اوپر ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اعلان کیا گیا تھا کہ جو غیر مسلم سیرت النبیﷺ~ پر مضمون بھیجیں گے ان میں سے درجہ اول و دوم و سوم کو انعامات تقسیم کئے جائیں گے۔ اس وعدہ کے مطابق درجہ اول کا انعام رائے بہادر لالہ پارس داس صاحب آنریری مجسٹریٹ دہلی کو درجہ دوم کا انعام بھائی گیانی کرتا سنگھ صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات کو اور درجہ سوم کا انعام لالہ بھگت رام صاحب جیودیا پرچارک چھائونی فیروز پور نے حاصل کیا۔۱۳۳دراصل انعام کا اعلان کرتے ہوئے یہ خیال کیا گیا تھا کہ غریب طبقہ کے لوگ اس تحریک میں حصہ لیں گے اس لئے انعام کی رقم بھی مقرر کر دی تھی مگر خدا کے فضل سے اس تحریک میں دس۱۳۴بڑے بڑے معزز لوگوں نے حصہ لیا اور سب سے اول انعام جسے ملا وہ آنریری مجسٹریٹ اور بہت معزز آدمی تھے اس لئے اس رقم کو تحفہ کی صورت میں بدلنا پڑا۔
آنحضرتﷺ~ کے خاتم النبیین ہونے پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا حلفیہ بیان 0] ft[r
مسلم اخبارات نے سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں کے مخالفین پر سخت تنقید کی تھی۔ مگر یہ اصحاب اپنی روش کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے اور
انہوں نے اپنے تئیں حق بجانب ثابت کرنے کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کے خلاف اپنا یہ الزام پھر دہرایا کہ دراصل آپ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ لہذا ان کا یوم خاتم النبین منانا دنیاکو دھوکہ دینا ہے۔۱۳۵اس افسوسناک غلط فہمی کے پھیلانے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳ / اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں آنحضرت~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے پر مندرجہ ذیل حلفیہ بیان شائع فرمایا۔
>میں رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبیینﷺ~ یقین کرتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کو میں صحیح سمجھتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ اس میں کسی قسم کا تغیر ناممکن ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو منسوخ قرار دیں یا اس کی تعلیم کو منسوخ قرار دیں میں انہیں کافر سمجھتا ہوں میرے نزدیک رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیین ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرا یہی عقیدہ ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ موت تک اس عقیدہ پر قائم رہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خدام کے زمرہ میں کھڑا کرے گا اور میں اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی غلیظ سے غلیظ قسم کھاتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اگر میں دل میں یا ظاہر میں رسول کریم~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں اور لوگوں کو دکھانے کے لئے اور انہیں دھوکہ دینے کے لئے ختم نبوت پر ایمان ظاہر کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی *** مجھ پر اور میری اولاد پر ہو اور اللہ تعالیٰ اس کام کو جو میں نے شروع کیا ہوا ہے تباہ و برباد کر دے۔ میں یہ اعلان آج نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ میں نے اس عقیدہ کا اعلان کیا ہے اور سب سے بڑا ثبوت اس کا یہ ہے کہ میں بیعت کے وقت ہر مبائع سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبیین یقین کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب۱۳۶یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نبی مانتا ہوں اس لئے ثابت ہوا کہ میں رسول کریم~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا نبی ہرگز نہیں مانتا کہ ان کے آنے سے رسول کریم~صل۱~ کی نبوت ختم ہوگئی ہو۔ اور آپ کی شریعت منسوخ ہوگئی ہو بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے اور ہر ایک جس نے میری کتب کو پڑھا ہے یا میرے عقیدہ کے متعلق مجھ سے زبانی گفتگو کی ہے جانتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو رسول کریم~صل۱~ کا ایک امتی مانتا ہوں اور آپ کو رسول کریم~صل۱~ کی شریعت اور آپﷺ~ کے احکامات کے ایسا ہی ماتحت مانتا ہوں جیسا کہ اپنے آپ کو یا کسی اور مسلمان کو بلکہ میرا یہ یقین ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم~صل۱~ کے احکامات کے جس قدر تابع اور فرمانبردار تھے اس کا ہزارواں حصہ اطاعت بھی دوسرے لوگوں میں نہیں ہے اور آپ کی نبوت ظلی اور تابع نبوت تھی۔ جو آپ کو امتی ہونے سے ہرگز باہر نہیں نکالتی تھی۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ ملا تھا وہ رسول کریم~صل۱~ کے ذریعہ اور آپ کے فیض سے ملا تھا۔ پس باوجود اس عقیدہ کے میری نسبت یہ کہنا کہ میں چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں اس لئے گو منہ سے کہوں کہ رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیین ہیں میں جھوٹا اور دھوکہ باز ہوں۔ خود ایک دھوکہ ہے۔۱۳۷body] ga[t
حضور نے اپنے اس مضمون کے آخر میں لکھا :
>حق یہ ہے کہ گو ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کی نسبت یہ کہہ دے کہ اس کا عقیدہ حقیقت ختم نبوت کے منافی ہے لیکن جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ بھی ایسا ہے کہ وہ ختم نبوت کا ایسے رنگ میں منکر ہے کہ اس کا حق ہی نہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مل کر
‏tav.5.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
رسول کریم~صل۱~ کی عظمت کے قیام کے لئے کوشش کر سکے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔۱۳۸
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا یہ عقیدہ تھا کہ غیر احمدی اصحاب ختم نبوت کے منکر ہیں۔ اور یہ کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ >دعوۃ عمل< میں لکھا تھا۔
>قرآن شریف تو نبوت کو آنحضرت~صل۱~ پر ختم کرتا ہے مگر مسلمانوں نے اس اصولی عقیدہ کے بالمقابل یہ خیال کر لیا کہ ابھی آنحضرت~صل۱~ کے بعد حضرت عیسیٰؑ جو نبی ہیں۔ وہ آئیں گے اور یہ بھی نہ سوچا کہ جب نبوت کا کام تکمیل کو پہنچ چکا اور اسی لئے نبوت ختم ہو چکی تو اب آنحضرت~صل۱~ کے بعد کوئی نبی کس طرح آ سکتا ہے خواہ پرانا ہو یا نیا۔ نبی جب آئے گا نبوت کے کام کے لئے آئے گا۔ اور جب نبوت کا کام ختم ہوگیا تو نبی بھی نہیں آ سکتا پرانے اور نئے سے کچھ فرق نہیں پڑتا<۔
پھر لکھا :
>مسلمانوں نے عقیدہ بنالیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت~صل۱~ سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اس امت کے معلم بنیں گے اور یوں آنحضرت~صل۱~ کی شاگردی سے یہ امت نکل جائے گی۔ >)دعوت عمل< صفحہ ۱۲۔۱۳ شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ اقتباس درج کرنے کے بعد مندرجہ بالا مضمون میں تحریر فرمایا :
>اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اول مولوی صاحب کے نزدیک عام مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ کے مقابل پر ہے یعنی متضاد اور مخالف ہے دوم مولوی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ کہ کوئی پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نیا نبی آئے گا دونوں میں کچھ فرق نہیں یہ دونوں عقیدے عملاً۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم نبوت کے عقیدہ کو رد کرنے والے ہیں سوم مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کے رو سے امت محمدیہ امت محمدیہ نہ رہے گی۔ یعنی رسول کریم~صل۱~ کی نبوت ختم ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ غضب نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو مولوی صاحب کے نزدیک تمام مسلمان ختم نبوت کے منکر تھے۔ اور ان کے عقائد امت محمدیہ کو آنحضرتﷺ~ کی امت سے نکال رہے تھے لیکن ۱۷ / جون کے جلسہ کی تحریک کا ہونا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ سب مسلمان تو ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مبائع احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں<۔۱۳۹
۱۹۲۹ء کے ایک اشتہار کا نمونہ
دنیا کا محسن
>کسی اہل بصیرت مسلمان سے پوشیدہ نہیں کہ فی زمانہ کچھ ہماری غفلتوں اور علمی و عملی کمزوریوں کے باعث اور کچھ مخالف کے خلاف واقعہ طرز عمل کے ماتحت امام المتقین سید المعصومین حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کی پاک سیرت نہ صرف دوسرے اہل مذہب بلکہ خود مسلمانوں کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہو چکی ہے۔ اس لئے اشد ضرورت اس بات کی ہے۔ کہ حضور سرور عالمﷺ~ کی سیرت صحیحہ سے دنیا جہان والوں کو آگاہ کیا جاوے۔ تاکہ وہ حقیقت کو پاکر اتباع ظن کے گناہ اور اس کے زہر سے محفوظ ہو جاویں۔
اسی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ مبارک تحریک کی تھی۔ کہ ایک ہی تاریخ مقررہ پر ہندوستان کے گوشے گوشے میں جلسے منعقد کر کے آنحضرتﷺ~ کی پاکیزہ زندگی حضورﷺ~ کے دنیا پر احسانات اور آپﷺ~ کی قربانیاں قرآن کریم اور صحیح تاریخ سے بیان کی جائیں۔ چنانچہ یہ تحریک بڑی حد تک کامیاب اور مفید ثابت ہوئی۔
توکل کرتے ہوئے امسال یہ ایک مزید تجویز کی گئی ہے۔ کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ممالک غیر یورپ۔ امریکہ۔ افریقہ وغیرہ وغیرہ میں بھی ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو ایسے جلسے منعقد کئے جائیں اسی دن تمام دنیا میں مختلف زبانوں میں آنحضرتﷺ~ کی پاک سیرت پر لیکچر ہوں۔
پس اسی اصول پر انتظام کیا گیا ہے۔ کہ جہلم میں ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو بوقت پانچ بجے شام بمقام حویلی گہاٹ ایک جلسہ زیر صدارت جناب میجر نواب ملک طالب مہدی خان صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر منعقد ہوگا۔ جس میں مسلم۔ اور غیر مسلم اصحاب دو مضامین یعنی
)۱( >رسول کریمﷺ~ کا غیر مذاہب سے معاملہ بلحاظ تعلیم و تعامل<۔
)۲( توحید باری تعالیٰ کے متعلق رسول کریمﷺ~ کی تعلیم<
پر لیکچر دیں گے۔ امید ہے کہ رواداری اور وسیع النظری سے کام لے کر ہر علمی مذاق کا شائق طبقہ جلسہ میں شامل ہو کر اپنی بہتری اور بہبود کے ذرائع پر غور کرے گا۔
ان جلسوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ لیکچروں اور خوش آئند تقریروں کے ذریعہ لاکھوں ان پڑھ یا غفلت اور سستی کی وجہ سے خود مطالعہ سے معذور مسلمان اس دن تھوڑا سا وقت صرف کر کے رسول کریمﷺ~ کی ذات والا صفات کے متعلق کافی واقفیت حاصل کرلیں گے۔ اور ضمناً غیر مسلم صاحبان پر جب آنحضرتﷺ~ کے صحیح حالات واضح ہوں گے تو سلیم الفطرت اور شریف الطبع اصحاب اپنے ایسے ہم مذہبوں کو جو تعصب سے اندھے ہو رہے ہیں گالیاں دینے سے روکیں گے۔ اسی طرح بعض مفسد جو رسول کریمﷺ~ کی شان میں خلاف واقعہ اور گندے مضامین لکھ لکھ کر آئے دن ملک کا امن برباد کر رہے ہیں۔ اپنے کئے پر پشیمان ہو کر آئندہ کے لئے اصلاح پا جائیں گے۔ اور ہندو مسلم اتحاد کے راستہ سے جس کے بغیر ملک کی ترقی سراسر محال ہے۔ ایک بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی۔
المشتہرین
>مولوی< محمد اکرم خان بیرسٹر ایٹ لاء و گورنمنٹ ایڈووکیٹ جہلم
>مستری عبدالرحمن میونسپل کمشنروپریذیڈنٹ اہلحدیث جہلم<
>چوہدری< ذکاء اللہ خان ایم اے۔ ایل ایل۔ بی پلیڈر جہلم
>شیخ عمر بخش متولی مسجد خانساماں جہلم
>پنڈت< عبدالقادر بی۔ اے آرنرز بیرسٹر ایٹ لاء جہلم
>شیخ محمد حسین میونسپل کمشنر جہلم
>چوہدری فیروز الدین بی۔ اے ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>حکیم جمشید علی خان پریذیڈنٹ انجمن امامیہ جہلم
>شیخ محمد شفیع بی اے ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>ڈاکٹر نذر محمد میڈیکل پریکٹیشنر و پریذیڈنٹ خلافت کمیٹی جہلم
شیخ بشیر علی بی۔ اے` ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>حافظ نور محمد میونسپل کمشنر و پریذیڈنٹ اہل السنت والجماعت جہلم
فصل سوم
سفر ڈلہوزی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پہلی بار امیر مقامی مقرر ہونا
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی بحالی صحت کے لئے عموماً ہر سال کسی صحت افزا مقام کی طرف تشریف لے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس
سال بھی حضور ۲۱ / جون ۱۹۲۸ء کو ڈلہوزی تشریف لے گئے اور حضور نے اپنے بعد پہلی بار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی مقرر فرمایا۔۱۴۰ اس موقعہ پر حضرت میاں صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ >میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں<۔ مگر حضور نے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور یہ بار آپ ہی کو اٹھانا پڑا۔
اپنے زمانہ امارت میں آپ کو بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہوئیں کہ فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے اسے منسوخ کیا جائے یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں یہ حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ ایسا معاملہ تھا جس میں صرف ناظر متعلقہ یا مجلس یا خلیفہ وقت ہی حکم صادر فرما سکتے تھے۔
اس قسم کی باتوں سے آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابھی تک جماعت کو مقامی امیر کی پوزیشن کا صحیح علم نہیں ہے لہذا آپ نے ایک مفصل اعلان شائع کیا جس میں احباب کی اس غلط فہمی کا ازالہ کر کے پوری وضاحت فرمائی کہ مقامی امیر اگرچہ اپنے حلقہ میں حضرت امام کا قائم مقام ہوتا ہے۔ مگر اس کی پوزیشن ایسی ہے` جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے۔ گو مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہرحال وہ ایک مقامی امیر ہے جو ناظران سلسلہ ہی کے ماتحت ہوتا ہے اس کا حلقہ امارت صرف مرکزی جماعت تک ہے دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہوتا۔۱۴۱
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۱۹۲۸ء کے بعد بھی کئی بار امیر مقامی مقرر ہوئے اور آپ نے نہ صرف اپنے زمانہ امارت میں بلکہ پوری زندگی میں ہمیشہ اطاعت امام کا ایک بے مثال نمونہ دکھایا۔ چنانچہ آپ کے سوانح نگار محترم شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تالیف >حایت بشیر< کے تیسرے باب میں آپ کی مقدس زندگی کے متعدد واقعات درج کئے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ شہادت ملتی ہے۔ کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو وابستگی خلافت اور اطاعت امام کے لحاظ سے جو بلند مقام خلافت اولیٰ میں حاصل تھا وہ خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور متابعت کے رنگ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو نصیب ہوا۔۱۴۲اس سلسلہ میں مکرم مرزا مظفر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل بیان خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں :
>ابا جانؓ< حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بے حد محبت کرتے تھے۔ اور حضور کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے نئے روحانی رشتہ کے ہمیشہ تابع رکھا دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ پیش کرتے تھے۔ میں نے اس کی جھلکیاں بہت قریب سے گھریلو ماحول میں دیکھی ہیں آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا رنگ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو عمر بھر اس تعلق کو کمال وفاداری سے نبھایا اور اس کیفیت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور کا سلوک بھی اباجان سے بہت شفقت کا تھا اور ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے اور اہم معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے۔ ضروری تحریرات خصوصاً جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں ان کے مسودات اباجان کو بھی دکھاتے تھے۔ اور اس کے علاوہ اہم فیصلہ جات اور سکیم پر عمل درآمد کا کام اکثر اباجان کے سپرد کرتے تھے۔ اور اس بات پر مطمئن ہوتے تھے کہ یہ کام حسب منشاء اور خوش اسلوبی سے ہو جائے گا<۔۱۴۳
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی اطاعت امام سے متعلق ایک مختصر نوٹ دینے کے بعد اب ہم سفر ڈلہوزی کی طرف آتے ہیں۔ یہ سفر جو بظاہر آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے حسب معمول گوناگوں مصروفیات میں گزرا۔ اوسطاً ڈیڑھ دو سو خطوط کا روزانہ پڑھنا اور اس کا جواب لکھوانا۔۱۴۴سلسلہ کے انتظامات و معاملات کی نسبت ہدایات جاری کرنا` خطبات جمعہ` علمی تحقیق ۱۴۵کا کام غرضکہ جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ زمانہ علمی سرگرمیوں کا زمانہ تھا۔ اس سلسلہ میں بعض اہم واقعات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔
۳۰ / جون ۱۹۲۸ء کو حضور نے پہلی دفعہ ۴۵ کے قریب عربی اشعار کہے۔ ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا کے نام ایک چٹھی لکھوائی جس میں اخبار کے ایک دلازار فقرہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے معذرت شائع کرنے اور آئندہ ازواج النبی~صل۱~ کی نسبت احتیاط سے قلم اٹھانے کی تاکید فرمائی۔۱۴۶
۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک انگریز مسٹر مروین نے حضور سے ملاقات کی۔ مسٹر مروین نے پوچھا کہ کیا لندن مسجد میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی داخل ہو سکتے ہیں حضور نے فرمایا۔ یہ اعلان تو ہم نے افتتاح مسجد کے موقعہ ہی پر کر دیا تھا کہ مسجد کا دروازہ سبھی کے لئے کھلا ہے اس ضمن میں حضور نے تاریخ اسلام کا یہ مشہور واقعہ بھی بیان فرمایا کہ کس طرح آنحصرت~صل۱~ نے ۹ھ میں نجران۱۴۷کے ساٹھ عیسائیوں کو مسجد نبویﷺ~ میں اتارا۔ ان سے گفتگو فرمائی اور ان کو مسجد ہی میں عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ چنانچہ ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی۔۱۴۸`۱۴۹
۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو شیخ محمد صاحب وکیل گورداسپور ملاقات کے لئے آئے۔ جن سے تحصیل شکرگڑھ کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت اور اچھوت اقوام میں تبلیغ سے متعلق گفتگو ہوئی ان رکاوٹوں کا ذکر کیا جو کچھ عرصہ ہوا احمدی مبلغوں کو اس علاقہ کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کرتے وقت خود مسلمانوں کی طرف سے پیش آئی تھیں۔
اسی روز مشرف حسین صاحب ایم۔ اے دہلوی انسپکٹر ڈاک خانہ جات سے دہلی کے شاہی خاندانوں کی تباہی اور پرانے اہل علم گھرانوں کی نسبت بہت گفتگو ہوئی۔ اس صمن میں حضور نے اسلامی پردہ کی وضاحت بھی فرمائی۔۱۱۱۵۰ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسٹر اے۔ اے لین رابرٹس ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع گورداسپور اور مسٹر انڈرسن سشن جج صاحب گورداسپور کو اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی اور ایک گھنٹہ کے قریب سلسلہ احمدیہ کے معاملات سے متعلق انگریزی میں گفتگو فرمائی۔
۱۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو جنرل کک صاحب افسر افواج کے اعزاز میں سردار مکھن سنگھ صاحب رئیس نے ایک پارٹی سٹفل ہوٹل میں دی۔ جس میں معززین شہر کے ساتھ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی )مع حضرت مفتی محمد صادق صاحب و شیخ یوسف علی صاحب( بھی مدعو تھے۔ اس پارٹی میں کئی ایک ہندوستانی شرفاء اور انگریز حکام سے سلسلہ احمدیہ اور دیگر امور پر گفتگو ہوتی رہی۔
پارٹی کے بعد میاں حق نواز صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور اور ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب۱۵۱ممبر یو۔ پی کونسل حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ ان اصحاب نے احمدیہ مشن لندن کی تبلیغی مساعی کی بہت تعریف کی اور پھر سیاسیات ہند کی نسبت حضور سے گفتگو کی۔ اسی روز سردار ہر چند سنگھ صاحب جے جی رئیس و جاگیردار ریاست پٹیالہ بھی حضور کی ملاقات کے لئے آئے۔
۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک سکھ سردار ٹکہفتح جنگ صاحب آف سدھووال آئے۔ اور بہت دیر تک حضور سے گفتگو کرتے رہے انہون نے پوچھا۔ آپ تو ہر سال خوب سفر کرتے ہوں گے۔ حضور نے فرمایا۔ ہماری جماعت کا انتظام دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ ہر کام کے صیغے مقرر ہیں۔ دفتری کاموں سے متعلق کارکن مجھ سے مشورہ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ دیر تک مرکز سے باہر رہنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح بیرونی جماعتیں نہ صرف جماعتی کاموں سے متعلق بلکہ اپنے پرائیویٹ معاملات کے متعلق بھی مشورے لیتی ہیں ڈیڑھ دو سو کے قریب روزانہ خطوط آتے ہیں ان حالات میں بمشکل دو ایک ماہ تبدیلی آب و ہوا کے لئے باہر رہ سکتا ہوں۔ باہر سے بھی ضروری کاموں کے متعلق ہدایات دیتا رہتا ہوں اور ضروری کاغذات یہاں بھی آتے ہیں۔ ٹکہ صاحب نے حضور سے مختلف نوعیت کے مذہبی و سیاسی سوالات کئے۔ مثلاً احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہے؟ ہندو مسلمانوں میں اتحاد کیونکر ہو سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حضور نے ان کے مفصل جوابات دئیے۔ اسی روز نماز عصر کے بعد سردار حبیب اللہ صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کو چائے کی دعوت پر بلایا گیا تھا۔ حضور نے مسلم اتہاد کی نسبت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا جب تک مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد اس بات پر رکھی جائے گی کہ ان سے )جبراً( کچھ باتیں چھڑائی جائیں اور سب کو ایک جیسے عقائد پر جمع کیا جائے اس وقت تک اتحاد نہ ہوگا۔ اتحاد کی واحد صورت یہ ہے کہ رواداری سے کام لیا جائے۔ کسی کے مذہبی عقائد سے تعرض نہ کیا جائے اور مشترکہ مسائل میں مل کر کام کیا جائے۔۱۵۲
۱۵ / جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو ابو سعید صاحب احمدی ریڈر سشن جج گورداسپور نے حضور کے اعزاز میں حضور ہی کے جائے قیام پر چائے کی دعوت دی۔ دعوت میں ۲۰۔۲۵ کے قریب معززین شامل تھے۔ جن سے حضور نے پردہ` ترکوں کا اسلام سے تعلق` شاہ کابل کا سفر یورپ اور دیگر ممالک میں تبلیغ اسلام وغیرہ مسائل پر گفتگو فرمائی۔ ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کو چوہدری سر شہاب الدین صاحب پریذیڈنٹ لیجسلیٹو کونسل پنجاب نے حضور کو مع رفقاء اپنی کوٹھی میں دعوت دی جس میں بعض اور معززین بھی مدعو تھے۔ حضور چوہدری شہاب الدین صاحب` شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے مسلمانوں کی موجودہ حالت اور اس کی اصلاح کے متعلق گفتگو فرماتے رہے۔۱۵۳
۱۸ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک کشمیری پیر حضور سے ملنے کے لئے تشریف لائے جو پہاڑی ریاستوں میں مسلمانوں کی افسوسناک حالت اور ریاستوں کے مظالم کا زکر کرتے رہے اور عرض کیا کہ اسلام کو اس زمانہ میں سب سے زیادہ نقصان خود علماء پہنچا رہے ہیں۔ آپ ہی کی جماعت ہے جو اس وقت مسلمانوں کو بچا سکتی ہے۔ آپ ضرور ان علاقوں کے مسلمانوں کے لئے بھی کوئی انتظام فرمائیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا۔ >ہم مسلمانوں کی ہر طرح امداد کرنے کے لئے تیار ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں میں اگر کوئی مبلغ بھیجا جائے۔ تو حکام اسے نکال دیتے ہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا۔ ہم نے اپنا ایک مبلغ ایک علاقہ میں بھیجا۔ اسے ایک بڑے ریاستی افسر نے کہا تم یہاں سے چلے جائو مبلغ نے مجھے لکھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ میں نے جواب دیا آپ تحریری حکم مانگیں اور جب تک تحریری طور پر نکلنے کے لئے نہ کہا جائے نہ نکلیں جب یہ بات اس مبلغ نے اس حاکم سے کہی تو اس نے کہا جس غرض سے تم تحریر مانگتے ہو وہ ہم بھی جانتے ہیں تحریر کوئی نہیں دی جا سکتی۔ اگر تم نہ نکلو گے تو کسی اور الزام میں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ ایسی حالت میں اس مبلغ کو واپس آجانا پڑا۔ ان علاقوں کے مسلمانوں کی اصلاح کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ وہاں کے ہوشیار اور ذہین طلباء کو تعلیم دی جائے اور پھر وہ اپنے علاقہ میں مسلمانون کی اصلاح کریں۔ وہ چونکہ اسی جگہ کے باشندے ہوں گے ان کو حکام نہیں نکال سکیں گے۔ اگر آپ ایسے لڑکے بھجوائیں تو ہم ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیں گے۔
۱۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی طرف سے میاں فیملی باغبانپورہ کے ان اصحاب کو جو ڈلہوزی میں تھے چائے کی دعوت دی جس میں میاں شاہنواز صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ممبر اسمبلی میاں بشیر احمد صاحب بی اے بیرسٹر ایٹ لاء میاں رفیع احمد صاحب خلف سر میاں محمد شفیع صاحب اور میاں افتخار احمد صاحب شریک ہوئے۔ جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات ہندوستان کی ادنیٰ اقوام میں تبلیغ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی جس میں سب اصحاب نے بہت دلچسپی لی۔۱۵۴
۲۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو افواج علاقہ جالندھر چھائونی کے کمانڈنگ افسر صاحب بریگیڈیر جنرل ٹوس صاحب نے حضور کی ملاقات کی اور دو گھنٹہ تک مختلف امور پر حضور سے گفتگو کرتے رہے۔ اور سلسلہ کے حالات` حضور کے سفر شام` مصر اور یورپ کے حالات سنتے رہے حضور کی وسیع معلومات اور صائب رائے کا اثر کمانڈنگ آفیسر صاحب کے چہرہ سے اثنائے گفتگو میں نمایاں ہو رہا تھا۔ اسی دن شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے حضور نے اسلامی ممالک کے حالات اور بعض دوسرے امور کے متعلق گفتگو فرمائی۔
۲۳ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حرم محترمہ نے مختلف اقوام و مذاہب کی خواتین کو چائے کی دعوت دی۔ ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء کو مسٹر کارنیلیس اسسٹنٹ کمشنر گورداسپور حضور کی ملاقات کے لئے آئے۔۲۹۱۵۵ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور نے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے کو انگلستان روانہ کرنے سے قبل لمبی دعا کے بعد رخصت کیا اور احباب دور تک انہیں الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ گئے۔ حضور ۵ / اگست ۱۹۲۸ء کو واپس قادیان تشریف لائے۔۱۵۶
جہاد بالقرآن کی اہم تحریک
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جولائی ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں مسلمانان عالم کو اس طرف توجہ دلائی کہ ان کی ترقی و سربلندی کا اصل راز قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے میں مضمر ہے چنانچہ حضور نے ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>ہر مسلمان کو چاہیئے کہ قرآن کریم کو پڑھے۔ اگر عربی نہ جانتا ہو تو اردو ترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے عربی جاننے والوں پر قرآن کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں مگر یہ مشہور بات ہے کہ جو ساری چیز نہ حاصل کر سکے اسے تھوڑی نہیں چھوڑ دینی چاہیئے۔ کیا ایک شخص جو جنگل میں بھوکا پڑا ہو اسے ایک روٹی ملے تو اسے اس لئے چھوڑ دینی چاہیئے کہ اس سے اس کی ساری بھوک دور نہ ہوگی۔ پس جتنا کوئی پڑھ سکتا ہو پڑھ لے۔ اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو محلہ میں جو قرآن جانتا ہو اس سے پڑھ لینا چاہیئے۔ جب ایک شخص بار بار قرآن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قرآن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جائے گا۔ پس مسلمانوں کی ترقی کا راز قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے کامیاب نہ ہوں گے۔ کہا جاتا ہے دوسری قومیں جو قرآن کو نہیں مانتیں وہ ترقی کر رہی ہیں پھر مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے۔ بے شک عیسائی اور ہندو اور دوسری قومیں ترقی کر سکتی ہیں لیکن مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہرگز نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی اس بات پر ذرا بھی غور کرے تو اسے اس کی وجہ معلوم ہو سکتی ہے اگر یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ دنیا کو ہدایت دینے کے لئے قائم رہے گی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والے بھی اس کو چھوڑ کر ترقی کر سکیں تو پھر کوئی قرآن کو نہ مانے گا پس قرآن کی طرف مسلمانوں کو توجہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ترقی کا انحصار قرآن کریم ہو<۔۱۵۷
چندہ خاص کی دوسری تحریک
جماعت احمدیہ کے لئے یہ زمانہ مالی لحاظ سے بڑی تنگی کا زمانہ تھا۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بار بار مالی مطالبات پر زور دینا پڑتا تھا چنانچہ ۱۹۲۷ء میں حضور نے چندہ خاص کی تحریک فرمائی جس پر مخلصین جماعت کو خدا تعالیٰ نے ایسی توفیق بخشی کہ نہ صرف پچھلا بہت سا قرضہ اتر گیا بلکہ اگلے سال کا بجٹ پورا کرنے کے لئے بھی خاصی رقم جمع ہوگئی لیکن سلسلہ احمدیہ کا خزانہ چونکہ ابھی خطرہ سے پوری طرح باہر نہیں تھا۔ اور جماعت کے لئے ضروری تھا کہ جب تک یہ نازک صورت حال ختم نہ ہو جائے معمولی چندوں کے علاوہ چندہ خاص بھی دیا کریں تا معمولی چندوں کی کمی اس سے پوری ہو جائے۔ اور سلسلہ کے کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔
چنانچہ حضور نے اس ضرورت کے پیش نظر صدر انجمن احمدیہ کے نئے مالی سال کے شروع ہونے پر احباب جماعت کے نام چندہ خاص کی دوسری تحریک فرمائی۔ یہ اپیل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کے اخبار الفضل میں شائع ہوئی اور اس کا عنوان تھا۔ >اے عباد اللہ میری طرف آئو<۔ چنانچہ حضور نے اعلان فرمایا کہ :
>اس سال بھی حسب معمول تمام دوست اپنی آمد میں سے ایک معین رقم چندہ خاص میں ادا کریں۔ اور چاہیئے کہ وہ رقم ستمبر کے آخر تک پوری کی پوری وصول ہو جائے۔ اور یہ بھی کوشش رہے کہ اس کا اثر چندہ عام پر ہرگز نہ پڑے۔ بلکہ چندہ عام پچھلے سال سے بھی زیادہ ہو۔ کیونکہ مومن کا قدم ہر سال آگے ہی آگے پڑتا ہے اور وہ ایک جگہ پر ٹھہرنا پسند نہیں کرتا<۔
اپنے اعلان کے آخر میں حضور نے جماعت کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>اے میرے پیارے دوستو! میں کس طرح آپ لوگوں کو یقین دلائوں کہ خدا تعالیٰ دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والا ہے۔ پس پہلے سے تیار ہو جائو تا موقعہ ہاتھ سے کھو نہ بیٹھو۔ یاد رکھو۔ کہ خدا تعالیٰ کے کام اچانک ہوا کرتے ہیں اور جس طرح اس کے عذاب یکدم آتے ہیں اس کے فضل بھی یکدم آتے ہیں۔ پس بیدار ہو جائو اور آنکھیں کھول کر اس کے افعال کی طرف نگاہ رکھو کہ اس کا غیب غیر معمولی امور کو پوشیدہ کئے ہوئے ہے جو ظاہر ہو کر رہیں گے اور دنیا ان کو چھپانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گی آپ لوگ اس کے فضل کے وارث ہوکر رہیں گے خواہ دنیا اسے پسند کرے یا نہ کرے<۔
پھر فرمایا :
>میں اس امر کی طرف بھی آپ کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں۔ کہ اس سال بعض اضلاع میں گیہوں کی فصل خراب ہوگئی ہے اور اس کا اثر چندوں پر پڑنا بعید نہیں۔ پس چاہیئے کہ احباب اس امر کا بھی خیال رکھیں اور اس کو پورا کرنے کی بھی کوشش کریں۔ اور ان اضلاع کے دوستوں کو بھی جہاں نقصان ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ لا تخش عن ذی العرش افلاسا۔ خدا تعالیٰ سے کمی کا خوف نہ کرو اور اس کے دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبرائو کہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ آپ کو آئندہ موسم میں دے دے گا۔ اور آپ کی ترقی کے بیسیوں سامان پیدا کر دے گا<۔۱۵۸
خلیفتہ وقت کے اس ارشاد پر مخلصین نے لبیک کہا اور کئی جماعتوں نے اپنے وعدے پورے کر دئیے<۔۱۵۹
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ایک اصولی ارشاد مخالف اخبارات سے متعلق
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلم اتحاد کو ترقی دینے کے لئے قبل ازیں یہ تحریک فرما رکھی تھی کہ مسلمان متحدہ مسائل میں
مل کر کام کریں۔ اور مسلم پریس ایسی باتوں کی اشاعت سے احتراز کرے جو باہمی منافرت کا موجب ہوں اور اسی وجہ سے احمدیہ پریس نے ایک عرصہ سے مسلمان اخبارات کے خلاف لکھنا ترک کر دیا تھا۔ مگر افسوس حضور کی ذات اور احمدیوں کے خلاف >زمیندار< وغیرہ اخبارات نے اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہ کی اور سراسر بے بنیاد پراپیگنڈا جاری رکھا۔ اس لئے ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ )چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے( نے ۱۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ حضور اجازت مرحمت فرمائیں کہ ایسے الزامات اور جگر سوز تحریروں کا معقولیت کے ساتھ جواب دیا جائے۔
اس درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ
>میں آپ سے متفق ہوں کہ ہماری خاموشی سے سلسلہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور باوجود بار بار توجہ دلانے کے کہ ہم صرف اسلام کی خاطر خاموش ہیں انہوں نے نصیحت حاصل نہیں کی۔ اور محض ذاتی بغض پر اسلام کے فوائد کو قربان کر دیا ہے۔ اب یہ ذاتی عداوت ایسا رنگ اختیار کر رہی ہے کہ اس کا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اور وہ تحریک اتحاد جسے میں نے بصد کوشش جاری کیا تھا اس سے متاثر ہونے کے خطرہ میں ہے پس اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس امر کی اجازت دیتا ہوں اور بادل نخواستہ دیتا ہوں کہ صاحبان جرائد اور مصنفین سلسلہ کو اجازت دی جائے کہ وہ ایسے اعتراضات کے جواب دے دیا کریں جن کا اسلام یا سلسلہ کے کاموں پر بد اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔ لیکن سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا کریں۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکے ذاتیات کی بحثوں میں نہ پڑا کریں۔ کہ ان بحثوں میں پڑنے سے فساد کے بند ہو جانے کا احتمال بہت کمزور ہو جاتا ہے<۔۱۶۰
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا اہم فرمان
>پیغام صلح< نے ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا- >ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں صلح کریں یا جنگ کریں ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطرناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ہر حال میں جنگ کریں گے<۔۱۶۱
حضور نے اس پر ۱۸ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک مفصل مضمون سپرد قلم فرمایا۔ جس میں احباب جماعت کو ہوشیار کرتے ہوئے لکھا :
>حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ پیغام صلح نہیں وہ پیغام جنگ ہے اور آج کھلے لفظوں میں پیغام صلح نے ہمیں پیغام جنگ دیا ہے اور صرف اس بات پر چڑ کر کہ کیوں ہم نے رسول کریم~صل۱~ کی حفاظت کے لئے اور آپ کے خلاف گالیوں کا سدباب کرنے کے لئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے۔ میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور چونکہ اس اعلان جنگ کا موجب ہمارے عقائد نہیں کیونکہ انہی عقائد کے معتقد خود مولوی محمد علی صاحب بھی رہے ہیں اور سب فرقہ ہائے اسلام ان کے معتقد ہیں بلکہ ہماری خدمات اسلام ہیں اس لئے میں اس چیلنج کو خوشی سے منظور کرتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دماغوں پر اس اعلان جنگ کو لکھ لیں۔ >پیغام< ہم سے آخری دم تک جنگ کرنے کا اعلان کرتا ہے اب ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جنگ کی دفاع کے لئے تیار ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہ لوگ دنیا میں قائم رکھے جائیں گے تاکہ آپ لوگ ہمیشہ ہوشیار رہیں۔ لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ آپ لوگ اس کے فضل سے ان پر غالب رہیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے گا۔ پس خدا تعالیٰ کے لئے نہ کہ اپنے نفسوں کے لئے ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جائو۔ جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں اور اس بغض اور کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کرو جس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی ہے اور اس فتنہ اور لڑائی کا سدباب کرو جس کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے اور کوشش کرو۔ کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے۔ جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچائو مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کرو کہ ان میں انصاف پسند روحیں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آ شامل ہوں تاکہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جا سکے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو<۔]10 [p۱۶۲
شرفاء سے دردمندانہ اپیل
جہاں تک غیر مبایعین کے ذاتی حملوں کا تعلق تھا۔ حضور نے نہایت درد بھرے الفاظ میں شریف و متین طبقوں سے اپیل کی۔ کہ وہ اس جنگ میں فریقین کے طرز عمل اور رویے کا فرق ملحوظ رکھیں۔ اور اس پر گواہ رہیں۔ چنانچہ حضور نے لکھا :
>میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف لوگ جو ہمارے لٹریچر کو اخباری یا علمی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھتے ہیں اس امر پر گواہی دیں گے کہ بلاوجہ اور متواتر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے۔ میرے خلاف اتہامات لگائے گئے ہیں اور مجھ پر حملے کئے گئے ہیں آج میری زندگی میں شاید معاصرت کی وجہ سے لوگ اس فرق کو اس قدر محسوس نہ کریں۔ اور شاید گواہی دینا غیر ضروری سمجھیں یا اس کے بیان کرنے سے ہچکچائیں لیکن دنیا کا کوئی شخص بھی خالد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں۔ نہ معلوم چند دن کو نہ معلوم چند ماہ کو نہ معلوم چند سال کو جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جائوں گا۔ جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے۔ جب سخت سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہوگا۔ ماضی پر نگاہ ڈالے گا۔ جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا۔ حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اور اگر اپنی زندگی میں مجھے اس شہادت کے سننے کا موقعہ میسر نہ آیا تو میرے مرنے کے بعد بھی یہ گواہی میرے لئے کم لذیذ نہ ہوگی یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابل قدر انعام ہوگا۔ جو اس صورت میں مجھے ملے گا پس میں بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے حملہ کا جواب سختی سے دوں بجائے اس کے کہ گالی کے بدلہ میں گالی دوں تمام ان شریف الطبع لوگوں کی شرافت اور انسانیت سے اپیل کرتا ہوں جو اس جنگ سے آگاہ ہیں کہ وہ اس اختلاف کے گواہ رہیں وہ اس فرق کو مدنظر رکھیں اور اگر سب دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو بھی ان لوگوں کی نیک ظنی جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ایک غیر متعصب دل ان کے سینہ میں ہو ان بہترین انعاموں میں ہوگا۔ جن کی کوئی شخص امید کر سکتا ہے۔10] [p۱۶۳
ہائی کورٹ کا انتظام
مسلمان ان دنوں ہندوئوں کے فرقہ وارانہ تعصب کا ہر جگہ شکار ہو رہے تھے۔ حتیٰ کہ پنجاب ہائی کورٹ کے انتظامیہ میں بھی ان کے حقوق پامال ہونے لگے۔ جس پر ابتداء اخبار >مسلم آئوٹ لک< نے پھر اخبار >زمیندار< نے احتجاج کیا۔ اور گو ان اخبارات نے جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ~ کے سلسلہ میں عدم تعاون کا مظاہرہ کیا تھا مگر چونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے تحفظ حقوق کا تھا۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس کے حق میں آواز بلند کی۔ اور لکھا : >ہم مسلمانوں کی جس طرح مناسب سمجھیں گے حفاظت کریں گے اور انشاء اللہ کسی کی مخالفت کے خیال سے اس میں کوتاہی نہیں کریں گے اور نہ یہ دیکھیں گے کہ ایک مفید تحریک کرنے والا ہمارا دشمن ہے بلکہ اگر کوئی مفید تحریک ہوگی تو خواہ وہ >زمیندار< ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ جس نے ہماری مخالفت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ تب بھی ہم اس کی تائید سے اور پرزور تائید سے انشاء اللہ دریغ نہیں کریں گے اور اس بات سے نہیں شرمائیں گے کہ اس تحریک کا سہرا >زمیندار< کے سربندھتا ہے۔۱۶۴4] [rtf
فصل چہارم
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا درس القرآن
۸ / اگست تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام
قرآنی علوم و معارف اور اسرار و نکات کی اشاعت کے لحاظ سے ۸ / اگست ۱۹۲۸ء تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام ہمیشہ یادگار رہیں گے کیونکہ ان میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ میں سورئہ یونس سے سورئہ کہف تک پانچ پاروں کا روح پرور درس دیا۔]4 [stf۱۶۵
حضور کی غیر معمولی محنت و کاوش
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو ناسازئی طبع کے باوجود بہت محنت و مشقت کرنا پڑی۔ درس القرآن کو علمی اور تحقیقی پہلو سے مکمل کرنے کے لئے حضور گرمی کے تکلیف دہ موسم میں رات کے بارہ بارہ بجے تک کتب کا مطالعہ کر کے نوٹ تیار کرنے میں مصروف رہتے اور پھر دن میں سلسلہ کے اہم اور ضروری معاملات کی سر انجام دہی کے علاوہ روزانہ چار پانچ گھنٹہ تک سینکڑوں کے اجتماع میں بلند آواز سے درس دیتے۔ ۱۶۶text] g[taجس قدر وقت میسر آ سکا اسے کلام اللہ پر غور کرنے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں صرف فرماتے۔۱۶۷
حضور کے اس عظیم مجاہدہ کا ذکر کرنے کے بعد جو آپ نے محض اشاعت علوم قرآن کی خاطر اختیار فرمایا۔ اب ہم درس القرآن کے دوسرے اہم کوائف بیان کرتے ہیں۔
دوستوں کا قادیان میں اجتماع
یہ درس چونکہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس لئے احباب جماعت کو متعدد بار تحریک کی گئی۱۶۸ کہ اس موقعہ سے نہ صرف خود پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے بلکہ دوسرے اہل علم مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی لانے کی کوشش کریں۔۱۶۹چنانچہ ۷ / اگست ۱۹۲۸ء تک بہت سے دوست مرکز احمدیت قادیان میں جمع ہوگئے۔ درس کے پہلے ہفتہ میں بیرونی احباب کی تعداد قریباً ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی۔ ان احباب کی اکثریت گرایجوایٹ وکلاء` کالجوں کے طلباء اور حکومت کے معزز عہدیداروں اور رئوساء پر مشتمل تھی۔۱۷۰ اور ان کے قیام کا انتظام مدرسہ احمدیہ میں کیا گیا تھا۔
پروگرام کے مطابق ۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو مسجد اقصیٰ میں نماز ظہر کے بعد درس کا آغاز ہوا۔۱۷۱
درس نوٹ کرنے والے علماء اور زودنویس
درس محفوظ کرنے کے لئے حضور نے پہلے دن سے سلسلہ کے جید علماء اور زود نویسوں کی ایک جماعت متعین فرما دی تھی جو مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھی۱۷۲حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاہب` مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ۔ مولوی ارجمند خان صاحب` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی` مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی` ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب` مولوی محمد یار صاحب عارف` مولوی عبدالرحمن صاحب مصری` مولوی ظفر الاسلام صاحب` سردار مصباح الدین صاحب` مولوی علی محمد صاحب اجمیری` شیخ چراغ الدین صاحب۱۷۳
مسجلین کا تقرر
ان کے علاوہ سامعین میں سے )جن کی تعداد بعض اوقات پانچ سو سے بھی زیادہ ہو جاتی تھی۱۷۴اور جن میں مقامی احباب بھی شامل تھے( ۸۱ کے قریب اصحاب کا نام ایک رجسٹر میں درج کرلیا گیا اور ان کا نام مسجلین رکھا جنہیں حضور کے قریب جگہ دی جاتی تھی۔ اور ان کی روزانہ درس سے قبل حاضری ہوتی تھی اور ۱۲ / اگست سے تو ان کا امتحان بھی لیا جانے لگا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درس شروع کرنے سے پیشتر سوالات لکھوا دیتے اور پھر جواب لکھنے کے بعد پرچے لے لیتے۔ اور دوسرے دن نتیجے کا اعلان فرما دیتے پہلے امتحان میں بابو محمد امیر صاحب امیر جماعت کوئٹہ اول` صوفی صالح محمد صاحب قصور دوم اور مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیان سوم رہے۔ اس کے بعد نتائج میں پانچ درجوں تک کا اعلان ہوتا تھا جب مسجلین کی تعداد ایک سو سات تک پہنچ گئی تو مسجد میں ان کی نشستیں مقرر کر دی گئین۔ تا ان کو بیٹھنے میں آسانی ہو۔۱۷۵ درس القرآن کے عام اوقات اڑھائی بجے سے پانچ بجے تک اور پھر نماز عصر کے بعد ۶ بجے سے ۷ بجے تک مقرر تھے۔ لیکن عام طور پر اس سے زیادہ وقت صرف کیا جاتا۔۱۷۶
درس القرآن سننے والوں سے خطاب
۳۱ / اگست ۱۹۲۸ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں درس القرآن سننے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی کہ :
>درس جب انہوں نے تکلیف اٹھا کر سنا ہے تو اس سے فائدہ بھی اٹھائیں اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم کو دنیا تک پہنچائیں۔ قرآن دنیا میں غلافوں میں رکھنے یا جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے نہیں آیا۔ بلکہ اس لئے آیا ہے کہ منبروں پر سنایا جائے۔ مناروں پر اس کی منادی کی جائے اور بازاروں میں اس کا وعظ کیا جائے۔ وہ اس لئے آیا ہے کہ پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ خدا تعالیٰ نے اس کا نام پانی رکھا ہے اور پانی جب پہاڑوں پر گرتا ہے تو ان میں بھی غاریں پیدا کر دیتا ہے وہ نرم چیز ہے مگر گرتے گرتے سخت سے سخت پتھروں پر بھی نشان بنا دیتا ہے۔ اور اگر جسمانی پانی اس قدر اثر رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا نازل کیا ہوا روحانی پانی دلوں پر اثر نہ کرے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بار بار سنایا جائے اور اپنے عمل سے نیک نمونہ پیش کیا جائے<۔۱۷۷
۳ / ستمبر سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجوزہ درس بروقت ختم کرنے کے لئے صبح آٹھ بجے سے قریباً ساڑھے گیارہ بجے تک اور پھر ظہر کے بعد عصر تک دینا شروع فرما دیا۔۱۷۸
دار مسیح موعودؑ میں دعوت طعام
۶ / ستمبر کو حضور نے درس میں شامل ہونے والے اصحاب کو دار مسیح موعود علیہ السلام میں دعوت طعام دی جس میں بہت سے مقامی اصحاب کو بھی شمولیت کا فخر بخشا۔ اخبار الفضل نے اس دعوت پر یہ نوٹ لکھا۔ >اس دعوت کی قدر و قیمت وہی اصحاب جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کے سوکھے ٹکڑے بطور تبرک لے جاتے ہیں اور اپنے عزیزوں میں بطور تحفہ تقسیم کرتے ہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دعوت دینے والے ہوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے نونہال دعوت کھلانے والوں میں ہوں اور دار مسیح موعود میں بیٹھ کر دعوت کھانے کا موقعہ نصیب ہو۔ اس سے بڑھ کر ایک احمدی کے لئے کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے مبارک ہو ان اصحاب کو جنہیں یہ موقعہ میسر آیا اور خوش قسمت ہیں وہ انسان جنہیں روحانی مائدہ کے ساتھ اس دعوت میں بھی شریک ہونے کا فخر حاصل ہوا<۔۱۷۹
الوداعی تقریر اور خطبہ جمعہ
‏text] ga[tچونکہ کئی اصحاب کو بعض مجبوریوں کے باعث واپس جانا ضروری تھا اس لئے حضور نے اگلے روز ۷ / ستمبر کو گیارہ بجے تک درس دینے کے بعد جانے والے اصحاب کے لئے ایک مختصر سی الوداعی تقریر فرمائی۔ جس میں تبلیغ اسلام کرنے` قرآن مجید کے حقائق و معارف پھیلانے اور قلمی جہاد کرنے کی نصیحت کرنے کے بعد حاضرین سمیت نہایت خشوع خضوع سے لمبی دعا فرمائی دوران دعا گریہ و بکا سے مسجد میں گونج پیدا ہوگئی۔ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۱۸۰
اسی روز آپ نے خطبہ جمعہ میں بیرونی احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر جاکر جماعتوں کو سنبھالنے اور چست بنانے کی کوشش کریں۔ اور ان میں زندگی کی روح پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کا معیار آگے والے کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ دنیا دار قربانی کرتے وقت پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور شکریہ کے وقت آگے کی طرف پھر ارشاد فرمایا کہ >آپ لوگوں نے قرآن کریم کا جو حصہ پڑھا ہے۔ اسے ضبط کریں۔ اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور دوسروں سے عمل کرانے کی کوشش کریں تاکہ جو مشکلات دین پر آ رہی ہیں وہ دور ہوں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دین کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کے دین کو نقصان نہ پہنچے<۔۱۸۱
درس کا فوٹو
جمعہ و عصر کے بعد پھر درس ہوا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں پورے مجمع کا فوٹو لیا گیا۔۸۱۸۲ / ستمبر درس القرآن کا آخری دن تھا اس روز صبح سے درس شروع ہوا جو دو بجے دوپہر تک مسلسل جاری رہا۔
دوبارہ اجتماعی دعا صدقہ اور تقسیم انعامات
درس کے خاتمہ پر حضور نے دوبارہ اجتماعی دعا کرائی اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کی طرف سے حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس موقعہ پر حضور نے فرمایا۔ کہ چونکہ رسول کریم~صل۱~ کے متعلق آتا ہے کہ حضور علیہ السلام رمضان کے دنوں میں جبکہ قرآن نازل ہوتا تھا بہت صدقہ دیا کرتے تھے اس لئے میں بھی اس موقعہ پر اپنی طرف سے دس روپے بطور صدقہ دیتا ہوں اور بھی جن دوستوں کو توفیق ہو قادیان کے غرباء کے لئے صدقہ دیں اس پر قریباً دو سو روپے اس وقت جمع ہوگئے۔
آخر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے درس کے سب امتحانات میں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے۔ اول انعام حافظ عبدالسلام صاحب شملوی۱۸۳نے دوسرا صالح محمد صاحب قصور نے۔ تیسرا نذیر احمد صاحب متعلم بی۔ ایس سی نے اور چوتھا فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر نے اور پانچواں شیخ عبدالقادر صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ )حال مربی سلسلہ احمدیہ( نے حاصل کیا۔ تقسیم انعامات کے بعد یہ مقدس و مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
عورتوں کی عزت کے قیام کے لئے خطبہ جمعہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ دیا۔ جس میں جماعت کو ہدایت فرمائی کہ عورتوں کی عزت کی حفاظت کرو۔ خواہ تمہارے دشمنوں کی عورتیں ہیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>عورت کی عزت کی حفاظت خواہ وہ دشمن کی ہو۔ انسانیت کا ادنیٰ فرض ہے۔ اور بہادر آدمی کا کام ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کی عورت کی عزت کی حفاظت کے لئے خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اگر اسے جان بھی دینی پڑے تو قطعاً دریغ نہ کرے پس تم بہادر بنو اور عورت کی عزت کی حفاظت کرو۔ عورت کی عزت کو خدا نے قائم کیا ہے اور شعائر اللہ میں سے ہے<۔۱۸۴
دارالتبلیغ لنڈن کے لئے خواتین احمدیت کی مزید قربانی
مسجد لنڈن کی تعمیر کے بعد انگلستان میں تبلیغ اسلام کا کام روز بروز بڑھ رہا تھا چنانچہ مبلغ انگلستان خان صاحب فرزند علی صاحب کی طرف سے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں یہ درخواست پہنچی کہ کام زیادہ ہے اور عملہ بڑھانے کی ضرورت ہے اس کی تائید حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بھی ولایت کے دوران قیام میں کی تھی۔ اس لئے حضور نے فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک مبلغ کا وہاں اضافہ کر دیا جائے اور بجائے ہندوستان سے کوئی نیا مبلغ بھیجنے کے خود انگلستان کے کسی نو مسلم کو اس کام پر مقرر کیا جائے۔ صدر انجمن کے بجٹ میں چونکہ اس کی گنجائش نہیں تھی اور احمدی خواتین کو بھی تبلیغی کاموں میں مناسب حصہ لینا چاہیئے۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ مسجد انہی کے چندوں سے بنی ہے۔ لہذا حضور نے خواتین احمدیت کو تحریک فرمائی کہ وہ مشن کا زائد خرچ اٹھائیں اور جو کچھ دیں اپنے پاس سے دیں نہ کہ ¶مردوں کی جیب سے لے کر۔۱۸۵
چنانچہ احمدی مستورات نے حسب سابق حضور کے اس مطالبہ پر پورے اخلاص سے لبیک کہا۔ اور قادیان۔۱۸۶امرت سر` لدھیانہ` کراچی`۱۸۷گوجرانوالہ` سنتو کداس`۱۸۸سیالکوٹ` کیمبل پور` لاہور` فیروزپور` لالہ موسیٰ`۱۸۹گھٹیالیاں` میلسی` ملتان`۱۹۰میرٹھ` دہلی`۱۹۱نوشہرہ چھائونی` ایبٹ آباد` فیض اللہ چک ضلع گورداسپور`۱۹۲ضلع محبوب نگر` ڈیرہ غازی خاں` جہلم` بھیرہ` چکوال` کتھو والی چک ۳۱۲`۱۹۳کوہاٹ اور راولپنڈی۱۹۴ وغیرہ مقامات کی مستورات نے اس مالی قربانی میں نہایت اخلاص سے حصہ لیا۔ بیرونی ممالک میں سے ماریشس کی احمدی عورتوں نے بھی چندہ دے کر اپنے اخلاص کا ثبوت دیا۔ ۱۹۵
فصل پنجم
‏]1daeh >[tagنہرو رپورٹ، پر مفصل تبصرہ
اور اس کے خلاف زبردست احتجاج
>نہرو کمیٹی< کا قیام اور مسلم حقوق کی پامالی
سائمن کمیشن کی تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلہ پر تھی۔ کہ مسٹر بروکن ہیڈ )وزیر ہند( نے ایک بیان دیا کہ ہندوستانی اس درجہ منقسم` مختلف اور ایک دوسرے سے بیزار ہیں کہ وہ ایک متحدہ دستور اساسی بھی نہیں بنا سکتے۔ اور کہا کہ اگر وہ حکومت کے مقرر کردہ کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو خود ہی ہندوستان کے لئے ایک مناسب دستور کا خاکہ تیار کر کے دکھادیں۔4] ft[s۱۹۶
کانگریس نے جو شروع سے سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھی۔ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ۱۹ / مئی ۱۹۲۸ء کو آل پارٹیز کانفرنس کا ایک اجلاس بمبئی میں منعقد کیا۔ جس میں ہندوستان کا دستور اساسی تشکیل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اصحاب کی ایک سب کمیٹی مقرر کی۔ )۱( پنڈت موتی لال نہرو )۲( مسٹر سبھاش چندر بوس )نمائندہ کانگریس( )۳( مسٹر اینی )۴( مسٹر جیاکار )نمائندہ ہندو مہاسبھا )۵( سرتیج بہادر سپرو نمائندہ لیبرل فیڈریشن )۶( مسٹر پردھان )غیر برہمنوں کے نمائندہ( )۷( سر علی امام )۸( مسٹر شعیب قریشی )نمائندہ مسلمانان ہند( )۹( سردار منگل سنگھ )سکھ لیگ کے نمائندہ( )۱۰( مسٹر جوشی )مزدوروں کی طرف سے(
بالفاظ دیگر دس ممبروں میں سے صرف دو مسلمان مسلم نقطہ نگاہ کے اظہار کے لئے نامزد ہوئے جن میں سے سر علی امام بوجہ بیماری صرف ایک اجلاس میں شریک ہو سکے۔ اور گو جناب شعیب قریشی نے شرکت جاری رکھی۔۱۹۷لیکن اسی اثناء میں انہیں یہ معلوم کر کے بہت مایوسی ہوئی کہ ایک ایسا دستور وضع کیا جا رہا ہے جس میں ہندو اکثریت کو سب کچھ مل جائے گا۔ اور مسلم اقلیت بالکل محروم رہ جائے گی حتیٰ کہ مسلم لیگ کے وہ مطالبات جنہیں کانگریس منظور کر چکی تھی۔ پنڈت موتی لال نہرو نے رد کر دئیے اور کمیٹی نے خود کانگریس کی طے شدہ پالیسی پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔ یہ رنگ دیکھ کر جناب شعیب قریشی صاحب الگ ہوکر بیٹھ رہے اور انہوں نے رپورٹ پر دستخط تک نہیں کئے۔۱۹۸`۱۹۹پنڈت موتی لال صاحب نہرو نے` ان کی جگہ چوہدری خلیق الزماں صاحب اور تصدق احمد خان صاحب شردانی لے لیئے۔۲۰۰یہ تھی نہرو رپورٹ جو آل پارٹیز کانفرنس لکھنئو میں پاس کی گئی اور جسے کانگریس کی طرف سے ۱۲ / اگست ۱۹۲۸ء کو سارے ہندوستان کے نمائندہ دستور کی حیثیت سے شائع کیا گیا۔
حق یہ ہے کہ نہرو رپورٹ صرف اور صرف ہندوئوں کی نیابت کرتی تھی۔ چند آدمی اپنی مرضی سے ایک جگہ جمع ہوگئے جن میں کئی لوگ ایسے تھے۔ کہ جنہوں نے اپنے تئیں خود ہی لیڈر قرار دے لیا تھا نہ مسلمان سیاسی جماعتوں کی نمائندگی اس میں ہوئی نہ مختلف صوبوں کی نمائندگی۔ حالانکہ جن مسائل میں اختلاف زیادہ بھیانک صورت میں نمایاں ہوتا تھا وہ صوبائی مسائل تھے نہ کہ آل انڈیا مسائل۔۲۰۱4] f[rt پھر جہاں تک مسلم مطالبات کا تعلق تھا وہ تقریباً نظر انداز کر دئیے گئے۔ اور جو باقی رکھے گئے ان پر ایسے پیرایہ بیان میں بحث کی گئی جو نہایت حوصلہ شکن تھا۔ اور صاف طور پر بیان کیا گیا کہ مطالبات فرقہ وارانہ ہیں اور مفاہمت ممکن نہیں۔ نیز بنگال و پنجاب کی مسلم اکثریت کو بھی خطرہ میں ڈال دیا اور محمد امین زبیری مارہروی کے الفاظ میں >رپورٹ دراصل اس خطرہ کی گھنٹی تھی کہ ہندوستان میں دوہری حکومت قائم ہو۔ جس میں فوجی اور خارجی اختیار انگریزوں کے ہاتھ میں رہے اور ملکی و انتظامی اختیارات ہندو اکثریت کے ہاتھ میں آجائیں تا برطانوی سنگینوں سے مسلمانوں کو غلام بنا لیا جائے اور بقول مولانا محمد علی جوہر کہ >جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں منادی کی جاتی تھی تو مناد پکارتا تھا کہ خلقت خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی بہادر کا لیکن نہرو رپورٹ کا ملخص یہ ہے کہ خلقت خدا کی ملک وائسرائے یا پارلیمنٹ کا اور حکم مہاسبھا کا<۔۲۰۲
کانگریس نواز حلقوں کی طرف سے نہرو رپورٹ کی تائید
ہندوئوں کو تو اس رپورٹ کا حامی ہونا چاہیئے تھا لیکن حیرت یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی ایک خاصہ با رسوخ طبقہ اس کی بے سوچے تائید میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اور مولوی ابوالکلام صاحب آزاد اس کے سرخیل تھے جنہوں نے شروع ہی سے مسلمانوں کو یہ دلاسا دینے کی کوشش کی تھی کہ ہندو اکثریت کا خطرہ محض >شیطانی وسوسہ< ہے۔۲۰۳انہیں مسلم تھا کہ >ہندوئوں کا جماعتی وصف تنگ دلی اور کوتاہ دستی ہے۔ وہ چیز جسے دل کا کھلا ہونا اور طبیعت کی فیاضی کہتے ہیں ہمارے ہندو بھائیوں میں پیدا نہ ہو سکی<۔۲۰۴باین ہمہ وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ بے اعتمادی کا مظاہرہ کر کے >چند نشستوں< اور >نام نہاد ضمانتوں< کو جو >گناہ بے لذت< سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور جنہیں ہندو >خاص رعایت سے< تعبیر کر سکتے ہیں چھوڑ دینا چاہئے۔۲۰۵اور ان کا کہنا تھا کہ >یہ باتیں خاص رعایت نہ تھیں اگر دوسری جماعت میں فیاضی اور کشادہ دلی کی اسپرٹ موجود ہوتی مگر جب موجود نہیں ہے اور ہمارے تحفظ کے لئے یہ باتیں کوئی قیمت بھی نہیں رکھتیں تو پھر یقیناً ہماری خودداری اور غیرت کا تقاضا یہی ہونا چاہیئے کہ اس قسم کے مطالبوں سے خود ہی دستبردار ہو جائیں اور اپنے مستقبل کا دامن غیرت اپنے تنگ دل بھائیوں کے منت کرم داشتن سے آلودہ نہ ہونے دیں<۔۲۰۶
یہی نہیں ان کا نعرہ ہمیشہ یہ رہا کہ >اگر ایسے مسلمان دماغ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی گزری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے یہ بھی کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہو جائیں بہتر ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سرزمین میں ایسے خیالات اگ نہیں سکتے۔۲۰۷
دراصل مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے اس مسلک کے پیچھے صرف ایک جذبہ سب سے نمایاں کارفرما تھا یعنی گاندھی جی کی اطاعت۔ چنانچہ انہوں نے کہا۔ >ہماری کامیابیوں کا دارومدار تین چیزوں پر ہے اتحاد۔ ڈسپلن (Discipline) اور مہاتما گاندھی کی راہنمائی پر اعتماد۔ یہی ایک راہنمائی ہے جس نے ہماری تحریک کا شاندار ماصی تیار کیا۔ اور صرف اس سے ہم ایک فتح مند مستقبل کی توقع کر سکتے ہیں۔۲۰۸
مولوی ابوالکلام صاحب آزاد )جن کی پشت پر کانگریس اور ہندوئوں کی طاقت و ثروت تھی( کے ہمنوائوں کی کثیر تعداد نہرو رپورٹ کی سرگرم موید تھی جو ہندوستان میں ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے حتی کہ پنجاب میں بھی جو مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کی وجہ سے فرقہ وارانہ مسائل کا بنگال سے بڑھ کر آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ خلافت کمیٹی کے سابق ارکان )مثلاً چودھری افضل حق صاحب`سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانولی وغیرہ( جنہوں نے دسمبر ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی۔۲۰۹نہرو رپورٹ کی حمایت کر رہے تھے۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب کی نسبت )جنہیں اس مجلس کے دماغ کی حیثیت حاصل تھی۔۲۱۰ اور جنہیں بعد کو قائد و مفکر اور مصلح و مجدد کے نام سے بھی پکارا گیا۲۱۱ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ ۱۹۲۸ء میں نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس سکیم کی حمایت کی قصر برطانیہ کے وہ ستون جنہوں نے چند سنہری سکوں کی جھلک کی خاطر ضمیر فروشی کر رکھی تھی آپ کے خلاف ہوگئے۔۲۱۲ ان حضرت کا اس بارے میں غلو و تشدد جس انتہا تک پہنچ گیا اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ عبارت سے ہو سکتا ہے کہ وہ رپورٹ پر تنقید کرنے والوں کو برطانوی ایجنٹ تک قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ خود چوہدری افضل حق صاحب نے اپنی کتاب >تاریخ احرار< میں محتاط الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ احرار نے نہرو رپورٹ کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لئے زبردست جدوجہد کی اور اس کے لئے قربانیاں دیں۔۲۱۳
احرار پنجاب کے دوش بدوش مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر >زمیندار< لاہور بھی رپورٹ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ اور ان کا اخبار اس کی حمایت میں وقف تھا۔۲۱۴ بلکہ انہوں نے آگے چل کر مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنئو میں ایک ریزولیوشن بھی پیش کیا جس میں اس کے اصول کو پسند کرتے ہوئے اس کے مرتب کرنے والوں کی محنت و کاوش کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ اور جزئیات کو طے کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنانے کی رائے دی گئی تھی۔ ۲۱۵مذہبی لیڈروں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری اور ان کے متعدد رفقاء بھی حق میں تھے۔۲۱۶
‏0] fts[نہرو رپورٹ کے مخالف مسلمانوں کا طبقہ
ان تفصیلات سے ظاہر ہے کہ ہندوستان خصوصاً پنجاب میں خود مسلمانوں کا ایک حصہ نہرو رپورٹ کی حمایت میں وقف اور اس کی تبلیغ کر رہا تھا۔ اس کے مقابل بلاشبہ کئی دردمند دل رکھنے والے مسلمانوں کو جن میں سر محمد شفیع` مولانا محمد علی جوہر` سر محمد اقبال جیسے مسلمان لیڈر بھی شامل تھے۔ اس رپورٹ سے سخت اختلاف تھا مگر وہ اپنے اختلاف کے ساتھ ایسے وزنی اور واقعاتی دلائل نہ پیش کرتے تھے۔ جو دوسرے مسلمانوں کو رپورٹ کی مضرتوں سے آگاہ کر کے اس کی کھلی مخالفت پر آمادہ کر دیں اور نہ یہ حضرات کسی منظم رنگ میں نہرو رپورٹ میں بے نقاب کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے بلکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال تو مایوس ہوکر پنجاب کونسل میں اس نظریہ کا اظہار کر چکے تھے کہ >ہندوستان میں حکومت کے لائق نہ مسلمان ہیں نہ ہندو اور یہ کہ میں ہندو مسلم افسران کی بجائے انگریز افسروں کا خیر مقدم کروں گا<۔۲۱۷`۲۱۸
ان حالات میں مسلمانان ہند کو ایک ایسے قائد و راہ نما کی ضرورت تھی جو میدان عمل میں آئے اور نہ صرف نہرو رپورٹ کا علمی و عملی رنگ میں تجزیہ کر کے انہیں اس کی مخالفت میں مضبوط چٹان پر کھڑا کر دے۔ تا وہ اکثریت کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہ کر اپنی قومی زندگی کو محفوظ کر سکیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے مدلل مسکت تبصرہ
جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۸ / اگست ۱۹۲۸ء سے ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء تک درس القرآن میں مصروف تھے۔ اس کے بعد چند دن گذشتہ ماہ کے جمع شدہ کام کے نکالنے میں لگے جب فارغ ہوئے تو نہرو رپورٹ کی تلاش کی۔ لیکن تلاش کے باوجود اس کی کوئی کاپی میسر نہ آئی اور آخری اطلاع لاہور سے یہی پہنچی کہ تیسرا ایڈیشن چھپنے پر ہی یہ کتاب دستیاب ہو سکے گی چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی۔ آپ کو اس کا بہت افسوس ہوا۔ اسی اثناء میں آپ کے اہل و عیال شملہ سے واپس آئے تو آپ انہیں لینے کے لئے امرت سر تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو اسٹیشن کے بک سٹال سے اس کے دو نسخے مل گئے اس طرح ۲۱ / ستمبر کو یہ رپورٹ فراہم ہوئی اور اسی وقت سے آپ نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اور چونکہ پہلے ہی دیر ہو چکی تھی اس لئے آپ نے الفضل کے ذریعہ اس کے متعلق اپنی رائے کا باقساط اظہار شروع کردیا۔۲۱۹جو >نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح< کے عنوان سے ۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء تک سات قسطوں میں مکمل ہوا۔
تبصرہ کے مضامین پر طائرانہ نظر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تبصرہ کے آغاز میں رپورٹ کی اندرونی شہادتوں سے ثابت کرنے کے بعد کہ نہرو کمیٹی کسی صورت میں بھی ہندوستان کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی۔ سب سے پہلے مسلمانوں کے اصولی مطالبات پر روشنی ڈالی جو یہ تھے۔
۱۔
‏ind] ga[tحکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبوں کو اندرونی طور پر کامل خود مختاری حاصل ہو۔
۲۔
نیابت سے متعلق یہ اصل تسلیم کیا جائے کہ جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے اسے اپنے حق سے زیادہ ممبریاں دی جائیں لیکن جن میں اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں ان کی اصلی تعداد کے مطابق ہی حق نیابت حاصل ہو۔
۳۔
جب تک ہندوئوں اور مسلمانوں میں باہمی اعتماد قائم نہ ہو جائے اس وقت تک سب صوبوں میں اور کم سے کم پنجاب اور بنگال میں جداگانہ طریق انتخاب جاری رہے۔
۴۔
صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی اختیارات تفویض کئے جائیں۔
۵۔
کسی صوبہ میں بھی اکثریت کو اقلیت کی زبان یا اس کے طرز تحریر میں مداخلت کا حق حاصل نہ ہو۔
۶۔
حکومت مذہب یا مذہب کی تبلیغ میں دخل دینے کی مجاز نہ ہو۔
۷۔
)حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے( ساتواں مطالبہ یہ بھی پیش ہو رہا تھا کہ ان حقوق کو قانون اساسی میں داخل کیا جائے اور قانون اساسی اس وقت تک نہ بدلا جا سکے جب تک کہ منتخب شدہ ممبروں میں سے ۳/۲ اس کے بدلنے کی رائے نہ دیں۔ اور تین دفعہ کی متواتر منتخب شدہ مجالس آئینی پے در پے ۳/۲ رائے سے اس کے بدلنے کا فیصلہ کریں اور قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو وہ اس وقت تک تبدیل نہ کیا جائے جب تک اس شرط کے ساتھ کہ اس قوم کے ۳/۲ ممبر اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اور جب تک تین متواتر طور پر منتخب شدہ کونسلوں میں وہ اس تبدیلی کے حق میں ووٹ نہ دیں اسے پاس نہ سمجھا جائے۔۲۲۰4] ft[r
اکثر و بیشتر یہ ان مطالبات کا خلاصہ تھا جو عموماً شفیع لیگ کی طرف سے پیش کئے گئے۔ اس کے مقابل کلکتہ لیگ کے مطالبات تھے جس کے بانی` صدر اور روح رواں جناب محمد علی جناح تھا۔ مگر اول تو انہیں خود اقرار تھا۔ کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی اکثریت ان کی تائید میں نہیں تھی۔۲۲۱دوسرے شفیعلیگ سے ان کا اصولی اختلاف اس مرحلے پر بنیادی حیثیت سے دو ایک امور پر تھا۔ جن کی وضاحت حضور نے فرمائی اور اس کے بعد مسلمانوں کا ایک ایک مطالبہ بیان کر کے نہرو رپورٹ کی روشنی میں ثابت کیا کہ اس نے مسلم مطالبات کو پورا کرنا تو رہا ایک طرف ان کے موجودہ حاصل شدہ حقوق بھی غصب کرنے کی کوشش کی ہے اتحادی طریق حکومت System) (Federal کی بجائے اس نے ایک قسم کی وحدانی طرز حکومت System) (Unitaryکی تجویز کی۔ اقلیتوں کی نسبت اس نے فیصلہ دیا کہ انہیں کسی جگہ زائد حق نہ دیا جائے۔ جداگانہ انتخاب کا مطالبہ اس نے پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ صوبہ سرحد کے لئے نیابتی حکومت قبول کرلی۔ مگر بلوچستان کو مشتبہ چھوڑ دیا اور سندھ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے غیر معقولی شرطیں لگا دیں۔ زبان کا معاملہ نظر انداز کر دیا۔ مذہبی اور اقتصادی دست اندازی سے روکنے کے مطالبہ کی اہمیت و وسعت لفظوں کے ہیر پھیر میں دبا دی گئی۔ اسی طرح جہاں تک اقلیتوں کی حفاظت کی دفعات کا ایسے رنگ میں قانون اساسی میں شامل کرنے کا تعلق تھا۔ کہ ان کا بدلنا آسان کام نہ ہو۔ اسے بھی نہرو کمیٹی نے نظر انداز کر دیا۔
مسلمانوں کو بروقت انتباہ
مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو رپورٹ پر تفصیلی نظر ڈالتے ہوئے آپ نے پہلے مسلمانوں کو خاص حفاظت کی ضرورت کے سات اہم وجوہ بیان فرمائے۔ اور پھر مسلمانوں کے ہر مطالبہ کی معقولیت روز روشن کی طرح ثابت کر دکھائی اور مسلمانوں کو بروقت انتباہ کیا کہ وہ یہ خیال چھوڑ دیں کہ اب جو کچھ بھی فیصلہ ہو جائے بعد میں اگر اس میں نقص معلوم ہوگا تو اسے بدل دیا جائے گا کیونکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے آج انہیں اپنے مطالبات کا منوانا زیادہ آسان ہے لیکن سوراج کے ملنے کے بعد ان کا منوانا بالکل ناممکن ہوگا اس وقت مرکزی حکومت پر ہندو اکثریت چھائی ہوئی ہوگی اس لئے مسلمان اسمبلیوں میں بھی حق نہ حاصل کر سکیں گے۔ پھر مسلمان اقلیت کے قوت و طاقت سے اپنے حقوق بزور منوانے کا امکان نہیں ہے اور نہ بیرونی طاقتوں اور ملکوں پر انحصار کرنا صحیح ہو سکتا ہے لہذا ملک میں اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی
‏tav.5.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
واحد صورت یہی ہے کہ ہندوستان کو خود و مختار حکومت ملنے سے پہلے مسلم اقلیت اپنے حقوق منوالے چنانچہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے شدید اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا۔
>میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو اب جبکہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں۔ اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کرلیا جائے۔ اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہوگی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے-<۲۲۲
مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی
تبصرہ کے آخر میں حضور نے مسلمانوں کے سامنے طریق عمل رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرمائیں :
اول :مسلمان اپنے مطالبات میں بعض اہم باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً رائے دہندگی میں عورتوں کا حق` خارجی معاملات` احترام جمعتہ المبارک` اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور` ہائیکورٹوں کے ججوں کا تقرر` صوبوں کی طرف سے تقرر` ریاستوں کا سوال خلاصہ یہ کہ انہیں نہرو کمیٹی پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو جس پر ہر خیال کے مسلمانوں کو اظہار خیال کا موقعہ دیا جائے اور اصولی غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں کو دور اور اس کی کمیوں میں اضافہ کر کے ایک مکمل قانون اساسی پیش کرے۔
دوم :نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ ہم نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں۔
سوم :جمہور مسلمانوں کو نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گائوں میں اس کے لئے جلسے منعقد ہوں اس تحریک کی کامیابی کے لئے جمہور کا پشت پر ہونا ضروری ہے۔
چہارم :انگلستان کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا اسے معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے۔
حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ >میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں<۔۲۲۳
تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت
‏]txet [tagحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ بے نظیر تبصرہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< کے نام سے معاً بعد کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور کلکتہ اور دہلی میں )جو ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے اور جہاں کانگریس` مسلم لیگ` مجلس خلافت اور دوسری جماعتوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے( اس کی خاص طور پر اشاعت کی گئی۔ حضور کی اس بروقت رہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا۔ اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کہا کہ >اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی<۔ کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی۔ اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کر کے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۲۲۴
ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا۔ >میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں۔ کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ براہ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بھی بڑھا دیا۔ اور میں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاست دان بھی سمجھنے لگا ہوں<۔۲۲۵
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں اور انگلستان کے اہل الرائے طبقہ تک مسلم نقطہ نگاہ پہنچانے کے لئے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر کے بھیجا گیا۔ ۲۲۶
مسلمانان ہندکی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند سے ملی و قومی مفاد کی خاطر پورے نظام جماعت کو مصروف عمل کرنے کا جو وعدہ فرمایا۔ وہ آپ نے پورا کر دیا۔ چنانچہ حضور نے ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں دوسرے لوگوں سے مل کر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنائیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے بد اثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگوں` مقامی حکومت` حکومت ہند` سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور حکومت کو آگاہ کر دیا جائے کہ نہرو رپورٹ میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے۔ جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ نیز فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے۔ اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایسا زبردست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا۔ اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لاکر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک و صاف ہو<۔۲۲۷
چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مسلمانوں کو بیدار کر دیا اور ملک کے چپہ چپہ میں احتجاجی جلسے کئے۔۲۲۸اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جدوجہد نے انہیں ۱۹۲۷ء میں تحریک تحفظ ناموس رسول میں متحد و منسلک کر دیا تھا۔
بالاخر گاندھی جی جیسے کانگریسی راہنما کو اجلاس منعقدہ الہ آباد میں نہایت صاف گوئی سے اقرار کرنا پڑا کہ >ہم یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کہ نہرو رپورٹ کو ردی کے کاغذ کے برابر بھی وقعت نہیں دی گئی<۔۲۲۹
ایک اہم مکتوب
ہندوئوں کی سازش جماعت احمدیہ کے خلاف
احمدی وکیل فضل کریم صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ :
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حضور کو قبل اس کے ہندوئوں کی مخالفت اور بعض کے متعلق کافی علم ہے۔ مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوئوں نے Organizedہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں۔ خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجود ہندو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے آگ لگا دی ہے۔ اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبردست روک ہیں اس لئے ہم انہیں Crushکر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوئوں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتایا کہ معمولی سا آدمی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جا رہی ہے۔
میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبردست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی اور روز افزوں ترقی سے گھبرا رہی ہے فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا۔ خادم کو دعائوں میں یاد فرمائیں۔
خاکسار فضل کریم
بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا دورہ
بنگال اگرچہ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا مگر پورے بنگال پر ہندو سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے اور وہی زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھے اس
نازک صورت حال کے پیش نظر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )سابق مبلغ جرمنی و انگلستان( کو بنگال میں بھجوایا اور ارشاد فرمایا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف بنگالی مسلمانوں میں تحریک پیدا کر دیں۔
ملک صاحب نے کلکتہ` چاٹگام` اکھوڑہ` برہمن بڑیہ` بوگرہ` رنگپورہ` جلپاگوری` کاکورہ` مالدہ` جمشیدپور وغیرہ مشہور مقامات کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر زور دار لیکچر دئیے۔ چنانچہ اکھوڑہ میں >حالات حاضرہ اور ان کا علاج< کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی جو بہت پسند کی گئی بوگرہ میں آپ نے مقامی اخبارات کے لئے نہرو رپورٹ کے متعلق مضامین لکھے۔ جن کو مقامی پریس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا۔ رنگپورہ میں آپ نے ایک مقامی رئیس کی صدارت میں نہرو رپورٹ پر لیکچر دیا۔ جلسہ میں قراردادیں پاس ہوئیں جو کلکتہ کے مشہور اخبارات فارورڈ اور انگلش میں میں بھی شائع ہوگئیں۔ علاوہ ازیں فری پریس کو بھی تار دیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ میٹنگ بہت کامیاب ہوئی۔ یہاں آپ نے بعض رئوساء سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں۔ اور مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی پستی کے متعلق تبادلہ خیالات کیا۔ جلپاگوری میں بھی نہرو رپورٹ پر آپ کا لیکچر ہوا۔ یہ مقام چونکہ کمشنری کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لئے تعلیم یافتہ اصحاب بڑی کثرت سے شامل اجلاس ہوئے خان بہادر ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب صدر جلسہ تھے۔ یہاں بھی ریزولیوشن پاس کر کے اخبارات کو بھیجے گئے لوگوں پر آپ کی تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا۔۲۳۰
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا خود نوشت بیان ہے کہ :
>میں اکتوبر ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بنگال کے دورہ پر گیا۔ چلتے وقت حضور نے خصوصیت سے مجھے فرمایا کہ آپ نے صرف سیاسی تقریریں کرنی ہیں۔ مذہبی تقریروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں برہمن بڑیہ` کلکتہ` ٹاٹانگر` رنگپور` جلپاگوری` بوگرہ وغیرہ میں نہرو رپورٹ کے خلاف حضور کے تحریر کردہ دلائل کو اپنی زبان میں پیش کیا۔ میرے وہ لیکچر بہت ہی مقبول ہوئے۔ وہ میرے کیا لیکچر تھے زبان میری تھی دلائل حضور کے تھے میں اب ان لوگوں کے نام تو نہیں جانتا۔ کہ یہ ۳۷ سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن بوگرہ میں کئی خان بہادروں نے مجھے کہا کہ ہمارے تو وہم میں بھی یہ دلائل نہ آئے تھے۔ اور ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا کیسے مقابلہ کریں۔ آپ نے یہ دلائل کہاں سے سیکھے۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی وہ حیران تھے کہ ایک نوجوان ہندوستان کے اہم ترین سیاسی مسئلہ پر اس قابلیت سے کیسے اظہار کر رہا ہے اور کس قابلیت سے اس نے نہرو رپورٹ کے بخیے ادھیڑ دئیے ہیں جس کے مقابلہ میں ہم عاجز تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ دلائل تو احمدیہ جماعت کے امام کے دئیے ہوئے ہیں میں تو ان کا ایک خادم ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جلپاگوری میں میری مولوی تمیز الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور غالباً وہاں انہوں نے ہی میرے لیکچر کا انتظام کیا۔ مجھے ابھی تک ان کی مشترکہ انتخاب کے خلاف اور ہندوئوں کے خلاف شدید غضب کا احساس ہے جس شدت سے میں نے مشترکہ انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ انتخاب کی تائید کی اس سے کہیں زیادہ اس بارے میں مولوی تمیز الدین صاحب متشدد تھے۔ انہوں نے میرے سامنے ہندوئوں کو گالیاں بھی دیں۔ اور کہا کہ یہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں مجھے اس وقت سے یہ احساس ہے کہ مولوی صاحب ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف چالوں کو خوب جانتے تھے۔ اور ان کے سخت دشمن تھے اور ہندوئوں کی نظر میں بھی وہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ ٹاٹانگر میں میں نے ایک بڑے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اجتماع میں جس میں ہندوئوں کی بہت زیادہ کثرت تھی اسلام کے صلح کل مذہب ہونے پر تقریر کی۔ اس تقریر کے صدر بہار کے ایک بہت بڑے کانگریسی لیڈر تھے جن کا نام اس وقت پورا تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن ان کے نام کا ایک حصہ کنٹھ تھا۔ میری اس تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور مسٹر کنٹھ نے تو بڑے تعجب اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اسلام اس محبت صلح اور آشتی کے پیغام کو لے کر دنیا میں آیا ہے۔ سب بڑے بڑے شہروں میں میں نے تقریریں کیں اور میری ان تقاریر کی رپورٹیں کلکتہ کے اخبارات انگلش مین Man) (Englishاور سٹیٹسمین (Statesman) میں چھپتی رہیں۔ سٹیٹسمین (Statesman)ان دنوں کلکتہ سے نکلتا تھا۔ میں ان رپورٹوں کی نقول حضرت صاحب کو بھجواتا رہا۔ جب میں واپس قادیان پہنچا تو حضرت صاحب میرے اس دورہ سے بہت خوش تھے۔ جب میں نے اپنی رپورٹ عرض کرنی چاہی تو آپ نے بہت خوشی سے فرمایا۔ کہ ہمیں آپ کی تقریروں کی سب رپورٹیں پہنچ چکی ہیں<۔۲۳۱
الغرض یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور مسلمانان بنگال بھی نہرو رپورٹ کی نقصان دہ سکیم سے واقف ہوکر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
آل مسلم کانفرنس پٹنہ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید
نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے مولانا محمد علی صاحب جوہر کی زیر صدارت پہلی آل مسلم کانفرنس پٹنہ میں منعقد ہوئی کانفرنس میں اگرچہ
نمائندگان کی ایک بڑی تعداد کسی صورت میں بھی مخلوط انتخاب کو منظور کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ لیکن کثرت آراء کی تائید سے مخلوط انتخاب کو شرائط کے ماتحت منظور کرلینے کی قرارداد پاس کی گئی۔ آل مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات تسلیم کرنے کے لئے جو آٹھ مطالبات پیش کئے ان کا بڑا حصہ انہی امور پر مشتمل تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں درج فرمائے تھے۔
۱۔
چنانچہ حضور نے پہلا مطالبہ یہ فرمایا کہ >حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں<۔ ۲۳۲آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا۔ >صوبہ جاتی حکومتیں تمام اندرونی معاملات میں آزاد ہوں<۔
۲۔
دوسرا مطالبہ حضور کا یہ تھا کہ >جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں۔ لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے۔ کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دئیے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی<۔۲۳۳کانفرنس نے اس سلسلہ میں یہ تجویز منظور کی۔ >بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لئے مرکزی اور صوبہ جاتی دونوں مجالس قانون ساز میں ۲۵ فیصدی نیابت مخصوص کی جائے اور اسی طرح دوسرے صوبہ جات کی مسلم اور غیر مسلم اقلیت کو بھی جس کا تناسب آبادی ۱۵ فیصدی سے زیادہ نہ ہو تناسب آبادی سے زیادہ نشستیں دی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اکثریت اقلیت میں منتقل نہ ہو جائے<۔
۳۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسرا مطالبہ یہ پیش فرمایا تھا کہ >چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے<۔ چنانچہ آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ >مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کم از کم ۳/۱ نشستیں دی جائیں<۔
۴۔
چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ >صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے<۔ اس بارہ میں کانفرنس کا فیصلہ یہ تھا۔ >سندھ کو حقیقی معنوں میں علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں مکمل اصلاحات نافذ کی جائیں<۔
۵۔
پانچواں مطالبہ یہ تھا کہ >قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اسے پاس نہ سمجھا جائے<۔
آل مسلم کانفرنس نے اس بارے میں یہ قرارداد پاس کی کہ >اگر کسی قوم کے ۴/۳ ارکان اپنی قوم کے مفاد کے منافی سمجھ کر کسی مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا مسودہ قانون` ¶یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد مجلس وضع قوانین میں پیش نہ ہو سکے نہ اس پر بحث کی جائے اور نہ یہ منظوری حاصل کر سکے۔
اس مختصر سے تقابل سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو مطالبات ضروری سمجھے اور جنہیں اچھی طرح واضح فرمایا ان کی اہمیت کو آل مسلم کانفرنس پٹنہ نے بھی تسلیم کیا۔ اور اسی طرح ان مطالبات کو ان مسلمانوں کی تائید حاصل ہوگئی جو اپنے قومی حقوق کی ہر حال میں حفاظت کرنا ضروری سمجھتے اور ہندو سیاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا اپنی قومی موت کے مترادف یقین کرتے اور مسلمانوں کو فروخت کرنا قومی غداری قرار دیتے تھے۔۲۳۴`۲۳۵
آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نہرو رپورٹ پر تبصرہ نے مسلمانان ہند میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک زبردست جنبش پیدا کر دی۔ مگر افسوس کانگریسی علماء ہندوئوں کا آلئہ کار ہونے کی وجہ سے اور مخلص مسلم لیگی زعماء اپنی خوش فہمی کے باعث ابھی تک اس کی پورے زور سے حمایت کئے جا رہے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے مورخ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :
>دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ قومی اجتماعات کا مرکز قرار پایا- کانگریس مسلم لیگ مجلس خلافت سب کے سالانہ اجلاس یہیں ہو رہے تھے انہی اجلاسوں میں نہرو رپورٹ کے رد و قبول کا مسئلہ طے ہونا تھا۔ اب مسٹر جناح بھی واپس آ چکے تھے وہ دیکھ رہے تھے اس رپورٹ نے ان کے چودہ نکات کا قتل عام کر دیا ہے۔ پھر بھی وہ نہرو رپورٹ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لئے مولانا محمد علی کا نام مولانا شوکت علی نے مسلم لیگ کونسل میں پیش کیا لیکن جناح نے راجہ صاحب محمود آباد سر علی محمد خاں کے نام کی حمایت کی اس لئے نہیں کہ وہ محمد علی کے مخالف تھے۔ اور علی محمد کے دوست تھے۔ اس لئے کہ محمد علی نہرو رپورٹ کے علانیہ مخالف تھے اور علی محمد نہرو رپورٹ کے علانیہ حامی تھے جناح نہرو رپورٹ کے مخالف کو لیگ کے اجلاس کا صدر نہیں بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا حامی مسلم لیگ کی صدارت کرے اور رپورٹ پر آخری غور و فکر کے لئے کانگریس کی طرف سے جو کنوینشن منعقد ہونے والی ہے اس میں دوستانہ اور مخلصانہ طور پر چند معمولی ترمیمات منظور کرا کے مسلمانوں کو نہرو رپورٹ منطور کرلینے پر آمادہ کرے تاکہ حکومت برطانیہ کے سامنے ہندوستان اپنا متحدہ مطالبہ پیش کر سکے۔ متحدہ مطالبہ` متحدہ محاذ` متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہون نے چودہ نکات سے بھی دست برداری اختیار کرلی۔ اب وہ صرف چند مطالبات کانگریس سے منطور کرانا چاہتے تھے اور اس کے بعد پوری قوت کے ساتھ نہرو رپورٹ کی تبلیغ و حمایت کے لئے وقف ہو جانا چاہتے تھے<۔۲۳۶
‏sub] ga[tکلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں کی پیہم چیخ پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت موتی لال نہرو صدر کانگریس نے اعلان کر دیا۔ کہ ایک نیشنل کنوینشن بلائی جائے گی۔ چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو کلکتہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس نہرو رپورٹ پر غور کرنے` ترمیمیں پیش کرنے اور آخری فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ چنانچہ اجلاس میں آزاد خیال معتدل` کانگریسی` سوراجی` ترک موالات کے علمبردار اور حامی موالات غرضکہ ہر خیال میں مسلک کے لوگ شامل ہوئے۔ خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند نے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مولانا محمد علی جوہر کو نامزد کیا۔ اور وہ اس میں شرکت کے لئے آئے۔۲۳۷مسلم لیگ کی طرف ے جناب محمد علی صاحب جناح )۲۲ نامور مسلم لیگی نمائندوں سمیت( تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( اور مسٹر دولت احمد خان صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< کلکتہ نے شمولیت فرمائی۔۲۳۸
کنوینشن میں مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اور غالباً سب سے پہلے یہ نکتہ زیر بحث آیا۔ کہ کانگریس ہندوستان کے لئے درجہ نو آبادیات چاہتی ہے یا کامل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔۲۳۹
مولانا محمد علی صاحب جوہر نے درجہ نو آبادیات کے مطالبہ کی مخالفت میں تقریر شروع کی۔ اس دوران میں ان کے منہ سے یہ بھی نکل گیا۔ کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں ہیں بلکہ بزدل ہیں۔ اس لفظ کا منہ سے نکلنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیٹھ جائو ہم نہیں سننا چاہتے۔ >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< کے مولف جناب محمد مرزا صاحب دہلوی اس واقعہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں۔ >اس بحث کے دوران میں کانگریس کے ہندو ممبروں کی ذہنیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے مولانا محمد علی مرحوم کو بد دل کر دیا تھا- اور وہ کنوینشن کے اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ یہ ذہنیت کیا تھی۔ عقیدہ رکھا جائے آزادی کامل کا۔ لیکن اگر حکومت کی طرف سے ڈومینین اسٹیٹس کا ابتدائی درجہ بھی مل جائے تو اسے قبول کرلیا جائے۔۲۴۰
مولانا محمد علی صاحب جوہر کا یہ موقف کہاں تک درست تھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد مرزا دہلوی لکھتے ہیں۔ >کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ قبول کرلینے کے بعد بھی حکومت سے نہرو رپورٹ کے ذریعہ جس طرز حکومت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی جو تاویل صاحب رپورٹ نے کانگریس کے اجلاس میں پیش کی تھی وہ یہ تھی کہ عقیدہ تو بے شک ہمارا آزادی کامل ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ابتدائی سیڑھیاں بھی ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے اور نہرو رپورٹ ان ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے اس تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ تو قبول کرلیا ہے لیکن ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور فی الحقیقت اس وقت کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت صحیح رائے تھی لیکن بعض انتہا پسند اور جوشیلے افراد جن میں ہندو کم اور مسلمان زیادہ تھے کانگریس کے ساتھ محض اس لئے ہوگئے تھے کہ آزادی کامل اس کا مطمح نظر ہے اور اس کی سیاسی جدوجہد کا مفہوم صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح ملک سے بدیشی حکومت کو نکال باہر کرے حالانکہ بدیشی حکومت کو فی الفور ہندوستان سے باہر کر دینے کا اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب تک ہندوستانی حکومت کے ہر شعبہ کو چلانے اور بیرونی حملوں سے ملک کی مدافعت کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اور یہ قابلیت ان میں سیاسی بصیرت اور متواتر تجربوں ہی سے آ سکتی تھی۔ اور اس قسم کا موقع انہیں اس وقت مل سکتا تھا جب ہندوستان کی ساری قومیں اس پر متحد ہو جائیں<۔۲۴۱
یہ ضمنی بحث ختم کر کے ہم پہلے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب جوہر درجہ نو آبادیات سے متعلق ابتدائی بحث ہی میں کنوینشن سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ جس پر بعد کو بڑی شد و مد سے تنقید کی گئی۔ کہ انہیں کنوینشن میں اپنے مطالبات پیش ضرور کرنے چاہئے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت بڑی امید تھی کہ مطالبات منظور ہو جاتے اور یہ اختلاف و افتراق وہیں ختم ہو جاتا۔ مگر چونکہ انہوں نے دوبارہ شرکت نہیں کی اس لئے اختلاف کی خلیج اور زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ ان کے سیرت نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اس اعتراض کا خاص طور پر ذکر کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ >بادی النظر میں یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن بہ تامل خفیف یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد علی نے جو کچھ کیا وہی اچھا تھا ڈومینین اسٹیٹس میں ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی خوشگوار امید قائم کرنے میں مدد دیتا۔ اس کے علاوہ اختلافات کے آغاز سے اس وقت تک ہندو زعماء کا جو بے نیازانہ طرز عمل ہوگیا تھا۔ وہ بھی ایک خوددار اور شریف آدمی کو >طواف کوئے ملامت< کی اجازت نہیں دے سکتا تھا<۔۲۴۲
کنوینشن سے بائیکاٹ کی یہ دونوں وجوہ کس درجہ معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ کر ہم کنوینشن کی بقیہ روداد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے چلے جانے کے بعد مسلم لیگی لیڈر مسٹر محمد علی صاحب جناح نے حالات کی نزاکت` ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت آزادی و حریت کی قدر و قیمت اور مسلم مطالبات کی معقولیت پر ایک شستہ اور منجھی ہوئی تقریر کی اور اپیل کی کہ محبت و اخوت کے جذبات کے ساتھ ان تجاویز پر غور کیجئے اور انہیں منظور کر کے اختلافات کا خاتمہ کر دیجئے کہ اس وقت قوم کی ضروریات کا تقاضا یہی ہے۔۲۴۳
مسٹر جناح کی تقریر پر نہرو کمیٹی کے ممبر سر تیج بہادر سپرو نے کہا۔ >ہم یہاں صرف ایک تمنا لے کر آئے ہیں کہ جس طرح ہو آپس میں سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کا تناسب ۲۷ فیصدی ہے اور مسٹر جناح ۳۳ فیصدی مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نہ جناب صدر کا غیر وفادار ہوں نہ نہرو رپورٹ کا لیکن میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس مرحلہ پر ہمیں مفاہمت سے اعراض نہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنی ہر دلعزیزی کو خطرہ میں ڈال کر بھی یہ کہوں گا کہ ہر قیمت پر ہمیں سمجھوتہ کر لینا چاہئے۔ یہی اس کانفرنس کا مقصد ہے<۔۲۴۴
سر سپرو کی مدلل تقریر نے حاضرین پر ایک حد تک اثر کیا لیکن مشہور مہا سبھائی لیڈر مسٹر جیکر نے کھڑے ہو کر یہ طلسم توڑ دیا۔ انہوں نے کہا :
>ہمارے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد` ڈاکٹر انصاری` سر علی امام` راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر کچلو جیسے محب وطن موجود ہیں۔ یہ سب حضرات نہرو رپورٹ سے بالکلیہ متفق ہیں خود مسلم لیگ کے بہت سے ممبر نہرو رپورٹ کے حامی ہیں اب اگر مسٹر جناح کسی کی نمائندگی کرتے ہیں تو صرف چند لوگوں کی۔ یہ بھی یاد رکھئے مسٹر جناح کا مطالبہ مسلم قوم کا مطالبہ نہیں ہے ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی سرشفیع کے ساتھ ہے جو مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں ایک دوسرا طبقہ مسلمانوں کا مسٹر فضل ابراہیم رحمت اللہ کے ساتھ ہے جو دہلی میں ایک مسلم کانفرنس )زیر صدارت آغا خاں( کر رہے ہیں۔ مسٹر جناح کا مطالبہ نہ مسلم قوم کا مطالبہ ہے نہ مسلم اکثریت کا<۔۲۴۵
اس تقریر کے بعد ووٹ لئے گئے تو کنوینشن نے مسٹر جیکر کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا اور مسلم لیگ کے مطالبات جو پہلے ہی مختصر سے تھے رد کر دئیے گئے۔ مسٹر چھاگلہ )جج ہائیکورٹ بمبئی۔ مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن( نے اس واقعہ شکست کی نسبت ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ایسوشی ایٹڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا :
>کنوینشن کے اجلاس کے سامنے لیگ کی نمائندگی اس لئے کی گئی تھی کہ مسلمان چند ضروری ترمیمات کے بعد نہرو رپورٹ کو منظور کر سکیں گے۔ میں نہایت افسوس کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ کنوینشن کو مسلم مطالبات پر نہایت فراخ دلی سے غور کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے وہ ہندو مہاسبھا کے زیر اثر اور اس کی دھمکی میں آکر یہ صورت اختیار کرتا۔ میں یہ امر ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نمائندوں کی اکثریت کنوینشن کے اجلاس میں شریک ہوئی تھی۔ اور جنہوں نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پیش کیا تھا۔ نہرو رپورٹ کے حامیوں میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ملت کے ساتھ جنگ کی بلکہ اپنی جماعت )مسلم لیگ( محض نہرو رپورٹ کی تائید کرنے کے سلسلہ میں برائی حاصل کی۔ اگر کنوینشن ان ۳۳ منتخب نمائندوں کے ساتھ کسی امر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے کسی مسلمان سے بھی فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ اگر ان ۳۳ نمائندوں کو فرقہ پرست سمجھ کر ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا تو سمجھ لو کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلم قوم پرور موجود نہیں<۔۲۴۶
اس صورت حال کے بعد مسٹر محمد علی جناح کانگریس اور اس کے لیڈروں سے بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور آخر مسلم لیگ نے بھی ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو روشن تھیٹر دہلی میں مسٹر جناح کی زیر صدارت یہ فیصلہ کیا کہ >چونکہ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا مسلم لیگ بھی نہرو رپورٹ منظور کرنے سے قاصر ہے<۔۲۴۷
کلکتہ کنوینشن میں جہاں مسلم لیگی نمائندے نہرو رپورٹ کے حامی کی صورت میں آئے وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ نمائندہ جماعت احمدیہ( نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم نہرو رپورٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے لیکچر دئیے گئے` مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہئے پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو۔ یا رد کر دی جائے لیکن سب کے خیالات کو سن لینا ضروری ہے۔
نہرو رپورٹ میں ترمیم کے لئے احمدی نمائندہ نے دس ریزولیوشن پیش کئے جن کو ایجنڈا میں شائع کیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر پیش ہوئے اور ان کے موافق و مخالف تقریریں بھی ہوئیں لیکن جس کنوینشن میں مسلم لیگی مطالبات کو کانگریسی ذہنیت کے سامنے شکست اٹھانا پڑی وہاں احمدی نمائندے کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے۔ تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کنوینشن 1] [lrmکے سب حلقوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب واضح ہوگئے۔۲۴۸
آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ
کانگریس کی منعقدہ کنوینشن میں مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر مسلمانوں کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
یہ کانفرنس جو سر آغا خاں کی صدارت میں شروع ہوئی مسلمانان ہند کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں کونسلوں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے علاوہ مسلم لیگ` خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند کے نمائندے اور سربرآوردہ ارکان بھی شامل تھے۔۲۴۹سر شفیع کے الفاظ میں یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی پوری نمائندہ تھی۔۲۵۰اور برصغیر پاک و ہند کے صحافی جناب عبدالمجید صاحب سالک کا جو اس کانفرنس میں موجود تھے بیان ہے کہ :
>میں اس کانفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بے نظیر سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کی جس قدر زیادہ نمائندگی اس کانفرنس میں مہیا ہوئی اتنی اور کسی اجتماع میں دکھائی نہیں دی یہاں تک کہ اس کانفرنس میں بیس قادیانی ممبر بھی شامل کر لئے گئے تھے تاکہ اس جماعت کو بھی نقصان نیابت کی شکایت نہ ہو<۔۲۵۱
جیسا کہ سالک صاحب نے اشارہ کیا ہے متعدد احمدی مختلف صوبوں سے منتخب ہو کر کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ مثلاً بنگال سے جناب حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ` بہار سے جناب حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` پنجاب سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی سے بابو اعجاز حسین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دہلی اور مرکز کی طرف سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب۔
کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع نے ایک پر جوش تقریر کے ساتھ کانفرنس کا اصل ریزولیوشن پیش کیا جو اکثر و بیشتر ان خطوط پر مرتب کیا گیا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں تجویز فرمائے تھے۔
اس قرارداد کی تائید میں مسٹر اے۔ کے غزنوی` مولوی شفیع دائودی` ڈاکٹر سر محمد اقبال` مسٹر شرف الدین سی۔ پی` حافظ ہدایت حسین کانپور` مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی دہلی۔ مسٹر عبدالعزیز پشاوری` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` دائود صالح بھائی` حاجی عبداللہ ہارون` مولوی عبدالماجد بدایونی` مولوی کفایت اللہ` مولوی آزاد سبحانی اور مولانا محمد علی صاحب جوہر نے بالترتیب تقریریں کیں اور یہ قرارداد پر زور تائید سے منظور ہوئی۔۲۵۲
یہی وہ اہم قرارداد تھی جس پر آئندہ چل کر مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات تجویز کئے۔ چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب >ذکر اقبال< میں لکھتے ہیں :
>اس کانفرنس میں مسلمانوں کے تمام سیاسی مطالبات کے متعلق ایک قرار داد منظور ہوئی جس کا چرچا ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہوا اور بعد میں مسٹر محمد علی جناح نے بھی اپنے چودہ نکات اسی قرارداد کے اصول پر مرتب کئے<۔۲۵۳
اسی طرح محمد مرزا دہلوی مسلم لیگ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
>مسلم کانفرنس کے اس اجلاس کے بعد مارچ ۱۹۲۹ء میں مسلمانوں کے مطالبات کو منظم صورت میں حکومت اور کانگریس کے آگے پیش کرنے کے لئے دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اجلاس میں جناب محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ پر نہایت سخت تنقید کی اور اسے مسلم تجاویز دہلی کے مقابلہ میں ہندو تجاویز سے تعبیر کیا۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بڑی تفصیل اور جامعیت سے روشنی ڈالی اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلم انفرادیت کے تحفظ کے لئے ایک طویل تجویز میں وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جو آج تک مسلمانوں کے قومی مطالبات سمجھے جاتے ہیں<۔۲۵۴
اس کانفرنس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی دو تقریریں ہوئیں ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں۔ آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ کس طرح نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سلسلہ میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تبصرہ رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا۔ جس میں رپورٹ کی خامیوں پر مدلل بحث تھی۔ آپ نے مولانا شوکت علی کے ایک ریزولیوشن کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔ مسلمانوں کو خصوصیت سے علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے۔ مسئلہ گائوکشی کے ذکر پر آپ نے بتایا۔ کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوئوں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی سی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بدزبانی سے باز آجائیں۔ کانفرنس کے تمام ممبروں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اس موقعہ پر اکثر مسلم زعماء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بروقت سیاسی رہنمائی` جماعت احمدیہ کی زبردست تنظیم اور اس کے عظیم الشان کارناموں کے مداح پائے گئے۔۲۵۵
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس کے ملک گیر اثر و نفوذ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے >اب سارا مسلم پریس` تمام مسلم ادارات اور جماعتیں ان مطالبات کی حمایت کر رہی تھیں۔ جو دہلی مسلم کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے۔ تمام مخالف جماعتیں دب گئی تھیں اور حقیقت میں اس قرارداد کا مخالف کوئی بھی نہ تھا خود کانگرسی مسلمان بھی اس کی کامیابی کے خواہاں تھے گوڈر کے مارے زبان سے اقرار نہ کرتے ہوں<۔4] fts[۲۵۶
فصل ششم
قادیان کی ترقی کا نیا دور اور ریل کی آمد
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کی دوسری جلد کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خدا سے حکم پاکر دعویٰ ماموریت فرمایا تھا۔ قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گائوں تھا اس وقت قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی۔ اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑی تھی۔ قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا۔ جو قادیان سے ۱۲ میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی۔۲۵۷ جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکے میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔
چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا۔ آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں۔ بیل گاڑی` ریڑھو` گڈا` اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ۔ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں` پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے۔ یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا۔ ¶وہ نہار لینے چلا جایا کرتا۔ اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا۔ سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیق کے کلام میں فرما دی ہے۔ اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی۔ چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڈوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی۔ یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی روز جوتے جانے پر ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے۔ )کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر۔ حضرت مولانا انوار حسین خاں رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی جو سابقون الاولون میں سے تھے۔ یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے۔ اور دوسرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے۔ یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو۔ سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ۔ ۲۵۸بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی۔ سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر!! یکہ بان مجبور ہوکر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا۔
قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے۔ برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گائوں کے اردگرد کی ڈھابیں` کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کرتیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گائوں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا۔۲۵۹
یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ۔ ۲۶۰پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں حضور نے رئویا میں دیکھا کہ >میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے<۔۲۶۱
قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے۔ کئی صحابہ نے اسے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا تھا حتیٰ کہ انہیں حضور نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی۔ چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور` شاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں۔۲۶۲
ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لئے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لئے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحالیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا۔۲۶۳اور جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور کتاب >سلسلہ احمدیہ< میں تحریر فرمایا ہے ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی۔۲۶۴لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے۔ ۲۶۵مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا ۱۹۳۰ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی۔۲۶۶مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھا۔ کہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لئے ریلوے بورڈ نے ۱۹۲۷ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع ۱۹۲۸ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پٹڑی کی بٹالہ سے بوٹاری تک ۴۲ میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہوگا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے۔۲۶۷چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہوگیا۔ اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالاخر ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پٹڑی قادیان کی حد میں پہنچ گئی۔ اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لئے جاتے رہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا۔ ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد مرد عورتیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہوگیا۔ ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا۔۲۶۸
اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا۔۲۶۹جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا۔ قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے۔۲۷۰اور اسٹیشن کا نام >قادیان مغلاں< تجویز کیا گیا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی۲۷۱بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ بھی دی گئی۔ اور جو اراضی اس کے لئے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی۔
ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لئے تیار ہوئی۔ منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام )والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ( کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی۔ تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پرتکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں کی گئی۔ سروے کا عملہ بھی شامل تھا۔ اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے۔ اس موقعہ پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہوگئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو۔۲۷۲
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد` قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہوکر گذرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گذارے جانے کے لئے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کرلیا اور اس کی روک تھام کے لئے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبردست مہم شروع کرا دی یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا۔ اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں : غالباً ۱۹۲۸ء کی ابتداء یا ۱۹۲۷ء کے آکر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سر سے بیاس تک ملائی جائے اس پر حضور نے فوراً مولوی عبدالمغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا` حکام سے رابطہ کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کئے گئے۔ میں اور منشی امام الدین صاحب۲۷۳)والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ( ان دونوں بزرگوں کے لئے بطور معاون تجویز ہوئے۔ ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبند پور پہنچے۔ مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی۔ کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے۔ ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم قیمت کی ہیں۔ چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی۔ اور سروے شروع ہوگیا۔ ریلوے نے اس ٹکڑہ پر ریلوے لائن بچھانے کے لئے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہوشیار نوجوان تھا۔ سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوورسیر تھے۔ میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوورسیر معراج دین صاحب کو بتائوں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے۔ چنانچہ جب سروے لائن نہر تتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عنصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہوگا۔ بظاہر حالات شمالی جانب خرچ قریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا۔ مگر ریلوے اوورسیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے ) جس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا۔ جس سے بچائو کے لئے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے۔ مولف( بنابریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گذاری جائے۔ چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی۔ بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پہلے سے تجویز فرما چکے تھے۔۲۷۴
المختصر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا۔ اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔nsk] [tagفالحمد للہ علی ذلک۔
مسلم حکومتوں کو انتباہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں مسلمان حکومتوں کو ان کی دین سے بے اعتنائی پر انتباہ کیا اور بتایا کہ ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے تو ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں بعد انہوں نے آہستہ آہستہ مذہب اور حکومت کے تعلق کو توڑنا شروع کیا۔ پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی الفاظ میں لکھنا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ کہ جس آسانی سے وہ پہلے قرآن شریف پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے۔ اور اسلام سے تعلق کم ہوتا جائے گا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں اب یہ مرض دوسرے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں ہیٹ اور انگریزی لباس پہننے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنا رہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہوگا۔ اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کرلئے جائیں۔ نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے۔ حالانکہ ان کے آباء کا سارا لٹریچر اسی زبان میں ہے قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹا دیا گیا۔ تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ :
>میں نے پہلے امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں۔ مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں سمجھا کہ شاید یہ وباء ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کردوں اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں۔ کہ یہ راستے ترقی کے نہیں۔ ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کہیں اسلام نظر نہیں آتا۔ میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہرحال سنت اسلام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے مخالفین ہنس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اس کے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں<۔۲۷۵
امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مع خدام سفر
ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی ریل گاڑی روانہ ہونی تھی۔ اس لئے قادیان
سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے- نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ۳ بجے بعد دوپہر امرت سر تشریف لے آئے۔ تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں۔ جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لئے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا۔
حضور کے امرت سر اسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہوگیا کیونکہ قادیان کے دوستوں کے علاوہ گوجرانوالہ` لاہور` امرت سر اور بعض در دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا۔
گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت پڑھائیں اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر حضور گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے۔ یہ کہہ کر حضور نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاح سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور موثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقعہ پر تقسیم کر دیا۔ ۲۷۶جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔۲۷۷
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس۲۷۸نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنالی تھی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
الا ان روح اللہ قریب۔ الا ان نصر اللہ قریب۔ یاتون من کل فج عمیق۔ یاتیک من کل فج عمیق )۲( و اذا العشار عطلت و اذا النفوس زوجت )۳( دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ )۴( اھلا و سھلا و مرحبا )۵( خوش آمدید )۶( غلام احمد کی جے۔
)۷( یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الٰہ ہے
گاڑی نے اپنے مقررہ وقت ۳ بج کر ۴۲ منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا۔ گاڑی دیکھنے کے لئے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا۔ اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے نعرے راستہ کے ہر
‏tav.5.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
واحد صورت یہی ہے کہ ہندوستان کو خود و مختار حکومت ملنے سے پہلے مسلم اقلیت اپنے حقوق منوالے چنانچہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے شدید اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا۔
>میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو اب جبکہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں۔ اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کرلیا جائے۔ اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہوگی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے-<۲۲۲
مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی
تبصرہ کے آخر میں حضور نے مسلمانوں کے سامنے طریق عمل رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرمائیں :
اول :مسلمان اپنے مطالبات میں بعض اہم باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً رائے دہندگی میں عورتوں کا حق` خارجی معاملات` احترام جمعتہ المبارک` اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور` ہائیکورٹوں کے ججوں کا تقرر` صوبوں کی طرف سے تقرر` ریاستوں کا سوال خلاصہ یہ کہ انہیں نہرو کمیٹی پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو جس پر ہر خیال کے مسلمانوں کو اظہار خیال کا موقعہ دیا جائے اور اصولی غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں کو دور اور اس کی کمیوں میں اضافہ کر کے ایک مکمل قانون اساسی پیش کرے۔
دوم :نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ ہم نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں۔
سوم :جمہور مسلمانوں کو نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گائوں میں اس کے لئے جلسے منعقد ہوں اس تحریک کی کامیابی کے لئے جمہور کا پشت پر ہونا ضروری ہے۔
چہارم :انگلستان کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا اسے معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے۔
حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ >میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں<۔۲۲۳
تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت
‏]txet [tagحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ بے نظیر تبصرہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< کے نام سے معاً بعد کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور کلکتہ اور دہلی میں )جو ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے اور جہاں کانگریس` مسلم لیگ` مجلس خلافت اور دوسری جماعتوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے( اس کی خاص طور پر اشاعت کی گئی۔ حضور کی اس بروقت رہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا۔ اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کہا کہ >اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی<۔ کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی۔ اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کر کے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۲۲۴
ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا۔ >میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں۔ کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ براہ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بھی بڑھا دیا۔ اور میں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاست دان بھی سمجھنے لگا ہوں<۔۲۲۵
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں اور انگلستان کے اہل الرائے طبقہ تک مسلم نقطہ نگاہ پہنچانے کے لئے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر کے بھیجا گیا۔ ۲۲۶
مسلمانان ہندکی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند سے ملی و قومی مفاد کی خاطر پورے نظام جماعت کو مصروف عمل کرنے کا جو وعدہ فرمایا۔ وہ آپ نے پورا کر دیا۔ چنانچہ حضور نے ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں دوسرے لوگوں سے مل کر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنائیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے بد اثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگوں` مقامی حکومت` حکومت ہند` سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور حکومت کو آگاہ کر دیا جائے کہ نہرو رپورٹ میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے۔ جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ نیز فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے۔ اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایسا زبردست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا۔ اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لاکر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک و صاف ہو<۔۲۲۷
چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مسلمانوں کو بیدار کر دیا اور ملک کے چپہ چپہ میں احتجاجی جلسے کئے۔۲۲۸اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جدوجہد نے انہیں ۱۹۲۷ء میں تحریک تحفظ ناموس رسول میں متحد و منسلک کر دیا تھا۔
بالاخر گاندھی جی جیسے کانگریسی راہنما کو اجلاس منعقدہ الہ آباد میں نہایت صاف گوئی سے اقرار کرنا پڑا کہ >ہم یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کہ نہرو رپورٹ کو ردی کے کاغذ کے برابر بھی وقعت نہیں دی گئی<۔۲۲۹
ایک اہم مکتوب
ہندوئوں کی سازش جماعت احمدیہ کے خلاف
احمدی وکیل فضل کریم صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ :
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حضور کو قبل اس کے ہندوئوں کی مخالفت اور بعض کے متعلق کافی علم ہے۔ مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوئوں نے Organizedہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں۔ خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجود ہندو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے آگ لگا دی ہے۔ اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبردست روک ہیں اس لئے ہم انہیں Crushکر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوئوں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتایا کہ معمولی سا آدمی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جا رہی ہے۔
میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبردست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی اور روز افزوں ترقی سے گھبرا رہی ہے فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا۔ خادم کو دعائوں میں یاد فرمائیں۔
خاکسار فضل کریم
بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا دورہ
بنگال اگرچہ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا مگر پورے بنگال پر ہندو سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے اور وہی زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھے اس
نازک صورت حال کے پیش نظر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )سابق مبلغ جرمنی و انگلستان( کو بنگال میں بھجوایا اور ارشاد فرمایا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف بنگالی مسلمانوں میں تحریک پیدا کر دیں۔
ملک صاحب نے کلکتہ` چاٹگام` اکھوڑہ` برہمن بڑیہ` بوگرہ` رنگپورہ` جلپاگوری` کاکورہ` مالدہ` جمشیدپور وغیرہ مشہور مقامات کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر زور دار لیکچر دئیے۔ چنانچہ اکھوڑہ میں >حالات حاضرہ اور ان کا علاج< کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی جو بہت پسند کی گئی بوگرہ میں آپ نے مقامی اخبارات کے لئے نہرو رپورٹ کے متعلق مضامین لکھے۔ جن کو مقامی پریس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا۔ رنگپورہ میں آپ نے ایک مقامی رئیس کی صدارت میں نہرو رپورٹ پر لیکچر دیا۔ جلسہ میں قراردادیں پاس ہوئیں جو کلکتہ کے مشہور اخبارات فارورڈ اور انگلش میں میں بھی شائع ہوگئیں۔ علاوہ ازیں فری پریس کو بھی تار دیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ میٹنگ بہت کامیاب ہوئی۔ یہاں آپ نے بعض رئوساء سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں۔ اور مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی پستی کے متعلق تبادلہ خیالات کیا۔ جلپاگوری میں بھی نہرو رپورٹ پر آپ کا لیکچر ہوا۔ یہ مقام چونکہ کمشنری کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لئے تعلیم یافتہ اصحاب بڑی کثرت سے شامل اجلاس ہوئے خان بہادر ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب صدر جلسہ تھے۔ یہاں بھی ریزولیوشن پاس کر کے اخبارات کو بھیجے گئے لوگوں پر آپ کی تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا۔۲۳۰
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا خود نوشت بیان ہے کہ :
>میں اکتوبر ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بنگال کے دورہ پر گیا۔ چلتے وقت حضور نے خصوصیت سے مجھے فرمایا کہ آپ نے صرف سیاسی تقریریں کرنی ہیں۔ مذہبی تقریروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں برہمن بڑیہ` کلکتہ` ٹاٹانگر` رنگپور` جلپاگوری` بوگرہ وغیرہ میں نہرو رپورٹ کے خلاف حضور کے تحریر کردہ دلائل کو اپنی زبان میں پیش کیا۔ میرے وہ لیکچر بہت ہی مقبول ہوئے۔ وہ میرے کیا لیکچر تھے زبان میری تھی دلائل حضور کے تھے میں اب ان لوگوں کے نام تو نہیں جانتا۔ کہ یہ ۳۷ سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن بوگرہ میں کئی خان بہادروں نے مجھے کہا کہ ہمارے تو وہم میں بھی یہ دلائل نہ آئے تھے۔ اور ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا کیسے مقابلہ کریں۔ آپ نے یہ دلائل کہاں سے سیکھے۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی وہ حیران تھے کہ ایک نوجوان ہندوستان کے اہم ترین سیاسی مسئلہ پر اس قابلیت سے کیسے اظہار کر رہا ہے اور کس قابلیت سے اس نے نہرو رپورٹ کے بخیے ادھیڑ دئیے ہیں جس کے مقابلہ میں ہم عاجز تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ دلائل تو احمدیہ جماعت کے امام کے دئیے ہوئے ہیں میں تو ان کا ایک خادم ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جلپاگوری میں میری مولوی تمیز الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور غالباً وہاں انہوں نے ہی میرے لیکچر کا انتظام کیا۔ مجھے ابھی تک ان کی مشترکہ انتخاب کے خلاف اور ہندوئوں کے خلاف شدید غضب کا احساس ہے جس شدت سے میں نے مشترکہ انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ انتخاب کی تائید کی اس سے کہیں زیادہ اس بارے میں مولوی تمیز الدین صاحب متشدد تھے۔ انہوں نے میرے سامنے ہندوئوں کو گالیاں بھی دیں۔ اور کہا کہ یہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں مجھے اس وقت سے یہ احساس ہے کہ مولوی صاحب ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف چالوں کو خوب جانتے تھے۔ اور ان کے سخت دشمن تھے اور ہندوئوں کی نظر میں بھی وہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ ٹاٹانگر میں میں نے ایک بڑے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اجتماع میں جس میں ہندوئوں کی بہت زیادہ کثرت تھی اسلام کے صلح کل مذہب ہونے پر تقریر کی۔ اس تقریر کے صدر بہار کے ایک بہت بڑے کانگریسی لیڈر تھے جن کا نام اس وقت پورا تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن ان کے نام کا ایک حصہ کنٹھ تھا۔ میری اس تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور مسٹر کنٹھ نے تو بڑے تعجب اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اسلام اس محبت صلح اور آشتی کے پیغام کو لے کر دنیا میں آیا ہے۔ سب بڑے بڑے شہروں میں میں نے تقریریں کیں اور میری ان تقاریر کی رپورٹیں کلکتہ کے اخبارات انگلش مین Man) (Englishاور سٹیٹسمین (Statesman) میں چھپتی رہیں۔ سٹیٹسمین (Statesman)ان دنوں کلکتہ سے نکلتا تھا۔ میں ان رپورٹوں کی نقول حضرت صاحب کو بھجواتا رہا۔ جب میں واپس قادیان پہنچا تو حضرت صاحب میرے اس دورہ سے بہت خوش تھے۔ جب میں نے اپنی رپورٹ عرض کرنی چاہی تو آپ نے بہت خوشی سے فرمایا۔ کہ ہمیں آپ کی تقریروں کی سب رپورٹیں پہنچ چکی ہیں<۔۲۳۱
الغرض یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور مسلمانان بنگال بھی نہرو رپورٹ کی نقصان دہ سکیم سے واقف ہوکر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
آل مسلم کانفرنس پٹنہ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید
نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے مولانا محمد علی صاحب جوہر کی زیر صدارت پہلی آل مسلم کانفرنس پٹنہ میں منعقد ہوئی کانفرنس میں اگرچہ
نمائندگان کی ایک بڑی تعداد کسی صورت میں بھی مخلوط انتخاب کو منظور کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ لیکن کثرت آراء کی تائید سے مخلوط انتخاب کو شرائط کے ماتحت منظور کرلینے کی قرارداد پاس کی گئی۔ آل مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات تسلیم کرنے کے لئے جو آٹھ مطالبات پیش کئے ان کا بڑا حصہ انہی امور پر مشتمل تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں درج فرمائے تھے۔
۱۔
چنانچہ حضور نے پہلا مطالبہ یہ فرمایا کہ >حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں<۔ ۲۳۲آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا۔ >صوبہ جاتی حکومتیں تمام اندرونی معاملات میں آزاد ہوں<۔
۲۔
دوسرا مطالبہ حضور کا یہ تھا کہ >جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں۔ لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے۔ کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دئیے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی<۔۲۳۳کانفرنس نے اس سلسلہ میں یہ تجویز منظور کی۔ >بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لئے مرکزی اور صوبہ جاتی دونوں مجالس قانون ساز میں ۲۵ فیصدی نیابت مخصوص کی جائے اور اسی طرح دوسرے صوبہ جات کی مسلم اور غیر مسلم اقلیت کو بھی جس کا تناسب آبادی ۱۵ فیصدی سے زیادہ نہ ہو تناسب آبادی سے زیادہ نشستیں دی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اکثریت اقلیت میں منتقل نہ ہو جائے<۔
۳۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسرا مطالبہ یہ پیش فرمایا تھا کہ >چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے<۔ چنانچہ آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ >مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کم از کم ۳/۱ نشستیں دی جائیں<۔
۴۔
چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ >صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے<۔ اس بارہ میں کانفرنس کا فیصلہ یہ تھا۔ >سندھ کو حقیقی معنوں میں علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں مکمل اصلاحات نافذ کی جائیں<۔
۵۔
پانچواں مطالبہ یہ تھا کہ >قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اسے پاس نہ سمجھا جائے<۔
آل مسلم کانفرنس نے اس بارے میں یہ قرارداد پاس کی کہ >اگر کسی قوم کے ۴/۳ ارکان اپنی قوم کے مفاد کے منافی سمجھ کر کسی مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا مسودہ قانون` ¶یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد مجلس وضع قوانین میں پیش نہ ہو سکے نہ اس پر بحث کی جائے اور نہ یہ منظوری حاصل کر سکے۔
اس مختصر سے تقابل سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو مطالبات ضروری سمجھے اور جنہیں اچھی طرح واضح فرمایا ان کی اہمیت کو آل مسلم کانفرنس پٹنہ نے بھی تسلیم کیا۔ اور اسی طرح ان مطالبات کو ان مسلمانوں کی تائید حاصل ہوگئی جو اپنے قومی حقوق کی ہر حال میں حفاظت کرنا ضروری سمجھتے اور ہندو سیاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا اپنی قومی موت کے مترادف یقین کرتے اور مسلمانوں کو فروخت کرنا قومی غداری قرار دیتے تھے۔۲۳۴`۲۳۵
آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نہرو رپورٹ پر تبصرہ نے مسلمانان ہند میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک زبردست جنبش پیدا کر دی۔ مگر افسوس کانگریسی علماء ہندوئوں کا آلئہ کار ہونے کی وجہ سے اور مخلص مسلم لیگی زعماء اپنی خوش فہمی کے باعث ابھی تک اس کی پورے زور سے حمایت کئے جا رہے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے مورخ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :
>دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ قومی اجتماعات کا مرکز قرار پایا- کانگریس مسلم لیگ مجلس خلافت سب کے سالانہ اجلاس یہیں ہو رہے تھے انہی اجلاسوں میں نہرو رپورٹ کے رد و قبول کا مسئلہ طے ہونا تھا۔ اب مسٹر جناح بھی واپس آ چکے تھے وہ دیکھ رہے تھے اس رپورٹ نے ان کے چودہ نکات کا قتل عام کر دیا ہے۔ پھر بھی وہ نہرو رپورٹ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لئے مولانا محمد علی کا نام مولانا شوکت علی نے مسلم لیگ کونسل میں پیش کیا لیکن جناح نے راجہ صاحب محمود آباد سر علی محمد خاں کے نام کی حمایت کی اس لئے نہیں کہ وہ محمد علی کے مخالف تھے۔ اور علی محمد کے دوست تھے۔ اس لئے کہ محمد علی نہرو رپورٹ کے علانیہ مخالف تھے اور علی محمد نہرو رپورٹ کے علانیہ حامی تھے جناح نہرو رپورٹ کے مخالف کو لیگ کے اجلاس کا صدر نہیں بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا حامی مسلم لیگ کی صدارت کرے اور رپورٹ پر آخری غور و فکر کے لئے کانگریس کی طرف سے جو کنوینشن منعقد ہونے والی ہے اس میں دوستانہ اور مخلصانہ طور پر چند معمولی ترمیمات منظور کرا کے مسلمانوں کو نہرو رپورٹ منطور کرلینے پر آمادہ کرے تاکہ حکومت برطانیہ کے سامنے ہندوستان اپنا متحدہ مطالبہ پیش کر سکے۔ متحدہ مطالبہ` متحدہ محاذ` متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہون نے چودہ نکات سے بھی دست برداری اختیار کرلی۔ اب وہ صرف چند مطالبات کانگریس سے منطور کرانا چاہتے تھے اور اس کے بعد پوری قوت کے ساتھ نہرو رپورٹ کی تبلیغ و حمایت کے لئے وقف ہو جانا چاہتے تھے<۔۲۳۶
‏sub] ga[tکلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں کی پیہم چیخ پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت موتی لال نہرو صدر کانگریس نے اعلان کر دیا۔ کہ ایک نیشنل کنوینشن بلائی جائے گی۔ چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو کلکتہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس نہرو رپورٹ پر غور کرنے` ترمیمیں پیش کرنے اور آخری فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ چنانچہ اجلاس میں آزاد خیال معتدل` کانگریسی` سوراجی` ترک موالات کے علمبردار اور حامی موالات غرضکہ ہر خیال میں مسلک کے لوگ شامل ہوئے۔ خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند نے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مولانا محمد علی جوہر کو نامزد کیا۔ اور وہ اس میں شرکت کے لئے آئے۔۲۳۷مسلم لیگ کی طرف ے جناب محمد علی صاحب جناح )۲۲ نامور مسلم لیگی نمائندوں سمیت( تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( اور مسٹر دولت احمد خان صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< کلکتہ نے شمولیت فرمائی۔۲۳۸
کنوینشن میں مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اور غالباً سب سے پہلے یہ نکتہ زیر بحث آیا۔ کہ کانگریس ہندوستان کے لئے درجہ نو آبادیات چاہتی ہے یا کامل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔۲۳۹
مولانا محمد علی صاحب جوہر نے درجہ نو آبادیات کے مطالبہ کی مخالفت میں تقریر شروع کی۔ اس دوران میں ان کے منہ سے یہ بھی نکل گیا۔ کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں ہیں بلکہ بزدل ہیں۔ اس لفظ کا منہ سے نکلنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیٹھ جائو ہم نہیں سننا چاہتے۔ >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< کے مولف جناب محمد مرزا صاحب دہلوی اس واقعہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں۔ >اس بحث کے دوران میں کانگریس کے ہندو ممبروں کی ذہنیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے مولانا محمد علی مرحوم کو بد دل کر دیا تھا- اور وہ کنوینشن کے اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ یہ ذہنیت کیا تھی۔ عقیدہ رکھا جائے آزادی کامل کا۔ لیکن اگر حکومت کی طرف سے ڈومینین اسٹیٹس کا ابتدائی درجہ بھی مل جائے تو اسے قبول کرلیا جائے۔۲۴۰
مولانا محمد علی صاحب جوہر کا یہ موقف کہاں تک درست تھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد مرزا دہلوی لکھتے ہیں۔ >کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ قبول کرلینے کے بعد بھی حکومت سے نہرو رپورٹ کے ذریعہ جس طرز حکومت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی جو تاویل صاحب رپورٹ نے کانگریس کے اجلاس میں پیش کی تھی وہ یہ تھی کہ عقیدہ تو بے شک ہمارا آزادی کامل ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ابتدائی سیڑھیاں بھی ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے اور نہرو رپورٹ ان ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے اس تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ تو قبول کرلیا ہے لیکن ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور فی الحقیقت اس وقت کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت صحیح رائے تھی لیکن بعض انتہا پسند اور جوشیلے افراد جن میں ہندو کم اور مسلمان زیادہ تھے کانگریس کے ساتھ محض اس لئے ہوگئے تھے کہ آزادی کامل اس کا مطمح نظر ہے اور اس کی سیاسی جدوجہد کا مفہوم صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح ملک سے بدیشی حکومت کو نکال باہر کرے حالانکہ بدیشی حکومت کو فی الفور ہندوستان سے باہر کر دینے کا اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب تک ہندوستانی حکومت کے ہر شعبہ کو چلانے اور بیرونی حملوں سے ملک کی مدافعت کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اور یہ قابلیت ان میں سیاسی بصیرت اور متواتر تجربوں ہی سے آ سکتی تھی۔ اور اس قسم کا موقع انہیں اس وقت مل سکتا تھا جب ہندوستان کی ساری قومیں اس پر متحد ہو جائیں<۔۲۴۱
یہ ضمنی بحث ختم کر کے ہم پہلے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب جوہر درجہ نو آبادیات سے متعلق ابتدائی بحث ہی میں کنوینشن سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ جس پر بعد کو بڑی شد و مد سے تنقید کی گئی۔ کہ انہیں کنوینشن میں اپنے مطالبات پیش ضرور کرنے چاہئے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت بڑی امید تھی کہ مطالبات منظور ہو جاتے اور یہ اختلاف و افتراق وہیں ختم ہو جاتا۔ مگر چونکہ انہوں نے دوبارہ شرکت نہیں کی اس لئے اختلاف کی خلیج اور زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ ان کے سیرت نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اس اعتراض کا خاص طور پر ذکر کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ >بادی النظر میں یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن بہ تامل خفیف یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد علی نے جو کچھ کیا وہی اچھا تھا ڈومینین اسٹیٹس میں ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی خوشگوار امید قائم کرنے میں مدد دیتا۔ اس کے علاوہ اختلافات کے آغاز سے اس وقت تک ہندو زعماء کا جو بے نیازانہ طرز عمل ہوگیا تھا۔ وہ بھی ایک خوددار اور شریف آدمی کو >طواف کوئے ملامت< کی اجازت نہیں دے سکتا تھا<۔۲۴۲
کنوینشن سے بائیکاٹ کی یہ دونوں وجوہ کس درجہ معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ کر ہم کنوینشن کی بقیہ روداد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے چلے جانے کے بعد مسلم لیگی لیڈر مسٹر محمد علی صاحب جناح نے حالات کی نزاکت` ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت آزادی و حریت کی قدر و قیمت اور مسلم مطالبات کی معقولیت پر ایک شستہ اور منجھی ہوئی تقریر کی اور اپیل کی کہ محبت و اخوت کے جذبات کے ساتھ ان تجاویز پر غور کیجئے اور انہیں منظور کر کے اختلافات کا خاتمہ کر دیجئے کہ اس وقت قوم کی ضروریات کا تقاضا یہی ہے۔۲۴۳
مسٹر جناح کی تقریر پر نہرو کمیٹی کے ممبر سر تیج بہادر سپرو نے کہا۔ >ہم یہاں صرف ایک تمنا لے کر آئے ہیں کہ جس طرح ہو آپس میں سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کا تناسب ۲۷ فیصدی ہے اور مسٹر جناح ۳۳ فیصدی مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نہ جناب صدر کا غیر وفادار ہوں نہ نہرو رپورٹ کا لیکن میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس مرحلہ پر ہمیں مفاہمت سے اعراض نہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنی ہر دلعزیزی کو خطرہ میں ڈال کر بھی یہ کہوں گا کہ ہر قیمت پر ہمیں سمجھوتہ کر لینا چاہئے۔ یہی اس کانفرنس کا مقصد ہے<۔۲۴۴
سر سپرو کی مدلل تقریر نے حاضرین پر ایک حد تک اثر کیا لیکن مشہور مہا سبھائی لیڈر مسٹر جیکر نے کھڑے ہو کر یہ طلسم توڑ دیا۔ انہوں نے کہا :
>ہمارے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد` ڈاکٹر انصاری` سر علی امام` راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر کچلو جیسے محب وطن موجود ہیں۔ یہ سب حضرات نہرو رپورٹ سے بالکلیہ متفق ہیں خود مسلم لیگ کے بہت سے ممبر نہرو رپورٹ کے حامی ہیں اب اگر مسٹر جناح کسی کی نمائندگی کرتے ہیں تو صرف چند لوگوں کی۔ یہ بھی یاد رکھئے مسٹر جناح کا مطالبہ مسلم قوم کا مطالبہ نہیں ہے ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی سرشفیع کے ساتھ ہے جو مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں ایک دوسرا طبقہ مسلمانوں کا مسٹر فضل ابراہیم رحمت اللہ کے ساتھ ہے جو دہلی میں ایک مسلم کانفرنس )زیر صدارت آغا خاں( کر رہے ہیں۔ مسٹر جناح کا مطالبہ نہ مسلم قوم کا مطالبہ ہے نہ مسلم اکثریت کا<۔۲۴۵
اس تقریر کے بعد ووٹ لئے گئے تو کنوینشن نے مسٹر جیکر کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا اور مسلم لیگ کے مطالبات جو پہلے ہی مختصر سے تھے رد کر دئیے گئے۔ مسٹر چھاگلہ )جج ہائیکورٹ بمبئی۔ مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن( نے اس واقعہ شکست کی نسبت ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ایسوشی ایٹڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا :
>کنوینشن کے اجلاس کے سامنے لیگ کی نمائندگی اس لئے کی گئی تھی کہ مسلمان چند ضروری ترمیمات کے بعد نہرو رپورٹ کو منظور کر سکیں گے۔ میں نہایت افسوس کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ کنوینشن کو مسلم مطالبات پر نہایت فراخ دلی سے غور کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے وہ ہندو مہاسبھا کے زیر اثر اور اس کی دھمکی میں آکر یہ صورت اختیار کرتا۔ میں یہ امر ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نمائندوں کی اکثریت کنوینشن کے اجلاس میں شریک ہوئی تھی۔ اور جنہوں نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پیش کیا تھا۔ نہرو رپورٹ کے حامیوں میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ملت کے ساتھ جنگ کی بلکہ اپنی جماعت )مسلم لیگ( محض نہرو رپورٹ کی تائید کرنے کے سلسلہ میں برائی حاصل کی۔ اگر کنوینشن ان ۳۳ منتخب نمائندوں کے ساتھ کسی امر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے کسی مسلمان سے بھی فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ اگر ان ۳۳ نمائندوں کو فرقہ پرست سمجھ کر ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا تو سمجھ لو کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلم قوم پرور موجود نہیں<۔۲۴۶
اس صورت حال کے بعد مسٹر محمد علی جناح کانگریس اور اس کے لیڈروں سے بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور آخر مسلم لیگ نے بھی ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو روشن تھیٹر دہلی میں مسٹر جناح کی زیر صدارت یہ فیصلہ کیا کہ >چونکہ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا مسلم لیگ بھی نہرو رپورٹ منظور کرنے سے قاصر ہے<۔۲۴۷
کلکتہ کنوینشن میں جہاں مسلم لیگی نمائندے نہرو رپورٹ کے حامی کی صورت میں آئے وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ نمائندہ جماعت احمدیہ( نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم نہرو رپورٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے لیکچر دئیے گئے` مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہئے پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو۔ یا رد کر دی جائے لیکن سب کے خیالات کو سن لینا ضروری ہے۔
نہرو رپورٹ میں ترمیم کے لئے احمدی نمائندہ نے دس ریزولیوشن پیش کئے جن کو ایجنڈا میں شائع کیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر پیش ہوئے اور ان کے موافق و مخالف تقریریں بھی ہوئیں لیکن جس کنوینشن میں مسلم لیگی مطالبات کو کانگریسی ذہنیت کے سامنے شکست اٹھانا پڑی وہاں احمدی نمائندے کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے۔ تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کنوینشن 1] [lrmکے سب حلقوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب واضح ہوگئے۔۲۴۸
آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ
کانگریس کی منعقدہ کنوینشن میں مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر مسلمانوں کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
یہ کانفرنس جو سر آغا خاں کی صدارت میں شروع ہوئی مسلمانان ہند کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں کونسلوں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے علاوہ مسلم لیگ` خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند کے نمائندے اور سربرآوردہ ارکان بھی شامل تھے۔۲۴۹سر شفیع کے الفاظ میں یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی پوری نمائندہ تھی۔۲۵۰اور برصغیر پاک و ہند کے صحافی جناب عبدالمجید صاحب سالک کا جو اس کانفرنس میں موجود تھے بیان ہے کہ :
>میں اس کانفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بے نظیر سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کی جس قدر زیادہ نمائندگی اس کانفرنس میں مہیا ہوئی اتنی اور کسی اجتماع میں دکھائی نہیں دی یہاں تک کہ اس کانفرنس میں بیس قادیانی ممبر بھی شامل کر لئے گئے تھے تاکہ اس جماعت کو بھی نقصان نیابت کی شکایت نہ ہو<۔۲۵۱
جیسا کہ سالک صاحب نے اشارہ کیا ہے متعدد احمدی مختلف صوبوں سے منتخب ہو کر کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ مثلاً بنگال سے جناب حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ` بہار سے جناب حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` پنجاب سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی سے بابو اعجاز حسین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دہلی اور مرکز کی طرف سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب۔
کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع نے ایک پر جوش تقریر کے ساتھ کانفرنس کا اصل ریزولیوشن پیش کیا جو اکثر و بیشتر ان خطوط پر مرتب کیا گیا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں تجویز فرمائے تھے۔
اس قرارداد کی تائید میں مسٹر اے۔ کے غزنوی` مولوی شفیع دائودی` ڈاکٹر سر محمد اقبال` مسٹر شرف الدین سی۔ پی` حافظ ہدایت حسین کانپور` مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی دہلی۔ مسٹر عبدالعزیز پشاوری` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` دائود صالح بھائی` حاجی عبداللہ ہارون` مولوی عبدالماجد بدایونی` مولوی کفایت اللہ` مولوی آزاد سبحانی اور مولانا محمد علی صاحب جوہر نے بالترتیب تقریریں کیں اور یہ قرارداد پر زور تائید سے منظور ہوئی۔۲۵۲
یہی وہ اہم قرارداد تھی جس پر آئندہ چل کر مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات تجویز کئے۔ چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب >ذکر اقبال< میں لکھتے ہیں :
>اس کانفرنس میں مسلمانوں کے تمام سیاسی مطالبات کے متعلق ایک قرار داد منظور ہوئی جس کا چرچا ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہوا اور بعد میں مسٹر محمد علی جناح نے بھی اپنے چودہ نکات اسی قرارداد کے اصول پر مرتب کئے<۔۲۵۳
اسی طرح محمد مرزا دہلوی مسلم لیگ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
>مسلم کانفرنس کے اس اجلاس کے بعد مارچ ۱۹۲۹ء میں مسلمانوں کے مطالبات کو منظم صورت میں حکومت اور کانگریس کے آگے پیش کرنے کے لئے دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اجلاس میں جناب محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ پر نہایت سخت تنقید کی اور اسے مسلم تجاویز دہلی کے مقابلہ میں ہندو تجاویز سے تعبیر کیا۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بڑی تفصیل اور جامعیت سے روشنی ڈالی اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلم انفرادیت کے تحفظ کے لئے ایک طویل تجویز میں وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جو آج تک مسلمانوں کے قومی مطالبات سمجھے جاتے ہیں<۔۲۵۴
اس کانفرنس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی دو تقریریں ہوئیں ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں۔ آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ کس طرح نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سلسلہ میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تبصرہ رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا۔ جس میں رپورٹ کی خامیوں پر مدلل بحث تھی۔ آپ نے مولانا شوکت علی کے ایک ریزولیوشن کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔ مسلمانوں کو خصوصیت سے علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے۔ مسئلہ گائوکشی کے ذکر پر آپ نے بتایا۔ کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوئوں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی سی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بدزبانی سے باز آجائیں۔ کانفرنس کے تمام ممبروں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اس موقعہ پر اکثر مسلم زعماء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بروقت سیاسی رہنمائی` جماعت احمدیہ کی زبردست تنظیم اور اس کے عظیم الشان کارناموں کے مداح پائے گئے۔۲۵۵
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس کے ملک گیر اثر و نفوذ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے >اب سارا مسلم پریس` تمام مسلم ادارات اور جماعتیں ان مطالبات کی حمایت کر رہی تھیں۔ جو دہلی مسلم کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے۔ تمام مخالف جماعتیں دب گئی تھیں اور حقیقت میں اس قرارداد کا مخالف کوئی بھی نہ تھا خود کانگرسی مسلمان بھی اس کی کامیابی کے خواہاں تھے گوڈر کے مارے زبان سے اقرار نہ کرتے ہوں<۔4] fts[۲۵۶
فصل ششم
قادیان کی ترقی کا نیا دور اور ریل کی آمد
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کی دوسری جلد کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خدا سے حکم پاکر دعویٰ ماموریت فرمایا تھا۔ قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گائوں تھا اس وقت قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی۔ اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑی تھی۔ قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا۔ جو قادیان سے ۱۲ میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی۔۲۵۷ جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکے میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔
چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا۔ آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں۔ بیل گاڑی` ریڑھو` گڈا` اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ۔ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں` پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے۔ یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا۔ ¶وہ نہار لینے چلا جایا کرتا۔ اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا۔ سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیق کے کلام میں فرما دی ہے۔ اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی۔ چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڈوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی۔ یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی روز جوتے جانے پر ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے۔ )کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر۔ حضرت مولانا انوار حسین خاں رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی جو سابقون الاولون میں سے تھے۔ یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے۔ اور دوسرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے۔ یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو۔ سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ۔ ۲۵۸بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی۔ سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر!! یکہ بان مجبور ہوکر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا۔
قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے۔ برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گائوں کے اردگرد کی ڈھابیں` کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کرتیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گائوں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا۔۲۵۹
یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ۔ ۲۶۰پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں حضور نے رئویا میں دیکھا کہ >میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے<۔۲۶۱
قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے۔ کئی صحابہ نے اسے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا تھا حتیٰ کہ انہیں حضور نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی۔ چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور` شاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں۔۲۶۲
ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لئے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لئے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحالیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا۔۲۶۳اور جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور کتاب >سلسلہ احمدیہ< میں تحریر فرمایا ہے ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی۔۲۶۴لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے۔ ۲۶۵مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا ۱۹۳۰ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی۔۲۶۶مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھا۔ کہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لئے ریلوے بورڈ نے ۱۹۲۷ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع ۱۹۲۸ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پٹڑی کی بٹالہ سے بوٹاری تک ۴۲ میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہوگا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے۔۲۶۷چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہوگیا۔ اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالاخر ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پٹڑی قادیان کی حد میں پہنچ گئی۔ اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لئے جاتے رہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا۔ ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد مرد عورتیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہوگیا۔ ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا۔۲۶۸
اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا۔۲۶۹جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا۔ قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے۔۲۷۰اور اسٹیشن کا نام >قادیان مغلاں< تجویز کیا گیا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی۲۷۱بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ بھی دی گئی۔ اور جو اراضی اس کے لئے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی۔
ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لئے تیار ہوئی۔ منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام )والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ( کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی۔ تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پرتکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں کی گئی۔ سروے کا عملہ بھی شامل تھا۔ اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے۔ اس موقعہ پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہوگئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو۔۲۷۲
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد` قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہوکر گذرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گذارے جانے کے لئے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کرلیا اور اس کی روک تھام کے لئے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبردست مہم شروع کرا دی یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا۔ اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں : غالباً ۱۹۲۸ء کی ابتداء یا ۱۹۲۷ء کے آکر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سر سے بیاس تک ملائی جائے اس پر حضور نے فوراً مولوی عبدالمغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا` حکام سے رابطہ کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کئے گئے۔ میں اور منشی امام الدین صاحب۲۷۳)والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ( ان دونوں بزرگوں کے لئے بطور معاون تجویز ہوئے۔ ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبند پور پہنچے۔ مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی۔ کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے۔ ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم قیمت کی ہیں۔ چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی۔ اور سروے شروع ہوگیا۔ ریلوے نے اس ٹکڑہ پر ریلوے لائن بچھانے کے لئے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہوشیار نوجوان تھا۔ سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوورسیر تھے۔ میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوورسیر معراج دین صاحب کو بتائوں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے۔ چنانچہ جب سروے لائن نہر تتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عنصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہوگا۔ بظاہر حالات شمالی جانب خرچ قریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا۔ مگر ریلوے اوورسیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے ) جس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا۔ جس سے بچائو کے لئے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے۔ مولف( بنابریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گذاری جائے۔ چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی۔ بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پہلے سے تجویز فرما چکے تھے۔۲۷۴
المختصر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا۔ اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔nsk] [tagفالحمد للہ علی ذلک۔
مسلم حکومتوں کو انتباہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں مسلمان حکومتوں کو ان کی دین سے بے اعتنائی پر انتباہ کیا اور بتایا کہ ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے تو ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں بعد انہوں نے آہستہ آہستہ مذہب اور حکومت کے تعلق کو توڑنا شروع کیا۔ پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی الفاظ میں لکھنا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ کہ جس آسانی سے وہ پہلے قرآن شریف پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے۔ اور اسلام سے تعلق کم ہوتا جائے گا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں اب یہ مرض دوسرے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں ہیٹ اور انگریزی لباس پہننے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنا رہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہوگا۔ اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کرلئے جائیں۔ نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے۔ حالانکہ ان کے آباء کا سارا لٹریچر اسی زبان میں ہے قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹا دیا گیا۔ تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ :
>میں نے پہلے امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں۔ مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں سمجھا کہ شاید یہ وباء ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کردوں اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں۔ کہ یہ راستے ترقی کے نہیں۔ ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کہیں اسلام نظر نہیں آتا۔ میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہرحال سنت اسلام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے مخالفین ہنس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اس کے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں<۔۲۷۵
امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مع خدام سفر
ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی ریل گاڑی روانہ ہونی تھی۔ اس لئے قادیان
سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے- نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ۳ بجے بعد دوپہر امرت سر تشریف لے آئے۔ تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں۔ جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لئے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا۔
حضور کے امرت سر اسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہوگیا کیونکہ قادیان کے دوستوں کے علاوہ گوجرانوالہ` لاہور` امرت سر اور بعض در دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا۔
گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت پڑھائیں اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر حضور گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے۔ یہ کہہ کر حضور نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاح سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور موثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقعہ پر تقسیم کر دیا۔ ۲۷۶جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔۲۷۷
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس۲۷۸نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنالی تھی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
الا ان روح اللہ قریب۔ الا ان نصر اللہ قریب۔ یاتون من کل فج عمیق۔ یاتیک من کل فج عمیق )۲( و اذا العشار عطلت و اذا النفوس زوجت )۳( دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ )۴( اھلا و سھلا و مرحبا )۵( خوش آمدید )۶( غلام احمد کی جے۔
)۷( یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الٰہ ہے
گاڑی نے اپنے مقررہ وقت ۳ بج کر ۴۲ منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا۔ گاڑی دیکھنے کے لئے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا۔ اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے نعرے راستہ کے ہر
‏tav.5.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
گائوں اور اسٹیشن پر بلند ہوتے آئے اگرچہ گاڑی امرتسر ہی سے بالکل پر ہوگئی تھی اور ہر ایک درجہ میں بہت کثرت سے آدمی بیٹھے تھے۔ لیکن بٹالہ اسٹیشن پر تو ایسا اژدحام ہوگیا تھا کہ بہت لوگ گاڑی میں بیٹھ نہ سکے اور بہت سے بمشکل پائدانوں پر کھڑے ہو سکے۔ کچھ قادیان سے پہلے اسٹیشن وڈالہ گرنتھیاں پر بھی جہاں اردگرد کے بہت سے احمدی مرد و عورتیں جمع تھیں چند ہی اصحاب بدقت بیٹھ سکے۔ آخر گاڑی اپنے وقت پر ۶ بجے شام کو قادیان کے پلیٹ فارم پر پہنچی یہاں بھی قرب و جوار کے بہت سے دوستوں کا ہجوم تھا سٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے خوب آراستہ تھا۔ فضا بہت دیر تک اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے پرجوش نعروں سے خوب گونجتی رہی۔ کچھ عجیب ہی شان نظر آ رہی تھی۔ گذشتہ سال انہی ایام میں کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اس مقام پر اتنی رونق اور ایسی چہل پہل ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قلیل ہی عرصہ میں ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ بالکل نیا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ فالحمد للہ علی ذالک۔
اس سفر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضور کے اہل بیت کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے کئی نونہال بھی اس گاڑی میں تشریف لائے تھے۔ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب` حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب` حضرت عرفانی کبیر شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم` حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر >فاروق< حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور کئی اور مقامی بزرگوں کو بھی اس گاڑی میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔۲۷۹`۲۸۰
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت
اس سال کے اہم واقعات میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت ہے۔ جیسا کہ متعدد واقعات و شواہد سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے۔۲۸۱4] ft[rحضرت صاحبزادہ صاحب کو دراصل شروع ہی سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی اور آپ حضرت اقدس علیہ السلام کو بے مثال عاشق رسول اللہ~صل۱~ سمجھتے اور آپ کے دعاوی کو برحق تسلیم کرتے تھے۔ اور آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کر چکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تامل تھا اور اس بات کا علم حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بھی تھا۔ اور حضور ہمیشہ ان کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ جون ۱۹۲۴ء میں حضور نے ان کے فرزند مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا تو ایجاب و قبول کے بعد ارشاد فرمایا :
>ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام لائے ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے میں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے۔ آمین<۔۲۸۲
الحمد لل¶ہ خدا کے خلیفہ برحق کی دعا درگاہ عالی میں مقبول ہوئی اور آخر اکتوبر ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بیان الفضل میں شائع کرایا۔
>تمام احباب کی اطلاع کے لئے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے سب دعوئوں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہوگا۔ جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق پورا غور نہیں کر سکا۔ جن کے بارے میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا۔ مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں جب مجھے اللہ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل پر غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا۔ کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں۔ پس سر دست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے سوال کے متعلق بھی اپنے پاس سے ہدایت فرمائے اور وہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو- آمین-
)خان بہادر( مرزا سلطان احمد )خلف اکبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام( ۲۸۳
اس اعلان کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ >الصلح خیر< نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا :
>میری عقیدت حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہون کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے والد صاہب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا مسلمان الموسوم مسیح موعود علیہ السلام سمجھتا ہوں۔ اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں۔ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نور الدین صاحب یا میاں محمود احمد صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی۔ اس کا جواب یہ ہے میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی تھے۔ اور میں اب صدق دل سے یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی۔ باوجود ان کی ناراضگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا۔ جس کو میرے احمدی اور غیر احمدی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً ۳۰ سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہوگی اور بایں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یا ان کے دعاوی کا منکر ہوں۔ جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھا یا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امر پر شاہد کرنا۔ پس میں اب تک اپنے والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے میں اعلان اور اظہار کو بیعت یقین کرتا ہوں<۔۲۸۴`۲۸۵قبول احمدیت کا اعلان کر دینے کے بعد بعت خلافت کا جو نازک ترین مرحلہ باقی تھا وہ بفضلہ تعالیٰ ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۰ء کو بخیر و خوبی طے ہوا۔ جیسا کہ آگے بالتفصیل ذکر آئے گا۔
سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء
سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء ۲۶ / دسمبر سے شروع ہو کر ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو بخیر و خوبی ختم ہوا۔ ریل کے جاری ہونے کی وجہ سے اس سال مہمانوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت غیر معمولی اضافہ ہوا۔ مہمانوں کی ایک خاصی تعداد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں ۱۹ / دسمبر کو جبکہ پہلی گاڑی قادیان پہنچی مرکز میں آگئے اور ۲۳ / دسمبر کے بعد قادیان آنے والوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ محکمہ ریلوے کو معمول کے مطابق گاڑیوں کے علاوہ ایک اسپیشل ٹرین روزانہ چلانا پڑی جو ۲۸ / دسمبر تک جاری رہی۔
اس دفعہ نہ صرف بہت سی عورتیں بچے اور بہت سے ضعیف اور کمزور لوگ شامل جلسہ ہوئے جو پہلے نہ آ سکے تھے۔ بلکہ بہت سے غیر مبائع` غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب بھی دور دراز مقامات سے تشریف لائے۔ ضعیف العمر لوگوں میں سے چنگا بنگیال ضلع جہلم کی ایک خاتون بھی تھیں جن کی عمر سو سال سے زیادہ تھی۔ اور جو اپنی وضع کی اتنی پابند تھیں کہ انہوں نے اپنے گھر کے سوا کبھی کسی دوسری جگہ رات بسر نہیں کی تھی اور پہلی بار ہی ریل گاڑی دیکھی تھی۔ جس میں وہ قادیان آئی تھیں۔ پنجاب کے تمام اضلاع اور ہندوستان کے مختلف حصوں کے علاوہ مالابار` کابل اور ماریشس سے بھی کچھ احباب تشریف لائے تھے۔ غیر احمدی اصحاب جن میں بڑے بڑے سرکاری عہدیدار مجسٹریٹ` وکلاء` بیرسٹرز` رئوساء علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر شامل تھے۔ بڑی کثیر تعداد میں آئے۔ مثلاً شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی کے فرزند ارجمند خواجہ سجاد حسین صاحب بی۔ اے اور خان بہادر چوہدری )نواب( محمد دین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر`غیر مسلموں میں بنارس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مکھ راج قابل ذکر تھے۔۲۸۶
جلسہ کے منتظم اعلیٰ اور ناظر ضیافت حضرت میر محمد اسحاق صاحب تھے۔ آپ کے زیر انتظام اندرون قصبہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور بیرون قصبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب انچارج تھے۔ اور حسب معمول ہر اہم صیغہ کے علیحدہ علیحدہ انچارج اور ان کے مددگار مقرر تھے۔ جلسہ پر قریباً تین سو مردوں نے بیعت کی۔ بیعت ہونے والی مستورات کی تعداد مزید برآں تھی۔۲۸۷
>فضائل القرآن< پر سلسلہ تقاریر کا آغاز
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ابتداء خلافت سے یہ دستور رہا ہے کہ حضور سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہمیشہ ایک خالص علمی موضوع پر تقریر فرمایا کرتے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۲۸ء کے جلسہ پر حضور نے >فضائل القرآن< کے عنوان پر ایک اہم سلسلہ تقاریر کا آغاز فرمایا۔ جو )۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۵ء کو مستثنیٰ کر کے( ۱۹۳۶ء کے جلسہ تک جاری رہا۔ حضور کا منشاء مبارک دراصل یہ تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت سے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں جو تین سو دلائل لکھنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ اگرچہ حضور ہی کی دوسری تصنیفات میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ مگر وہ ظاہری طور پر بھی پورا کر دیا جائے۔۲۸۸مگر مشیت ایزدی کے مطابق صرف چھ لیکچر ہو سکے۔4] f[st۲۸۹
>فضائل القرآن< کے لیکچروں کے اس بیش بہا مجموعہ میں جو ۴۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ حضور نے قرآن مجید کے دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں پر فضیلت کے متعدد دلائل دئیے ہیں اور قرآن مجید کے بہت سے مشکل مقامات کو نہایت خوبی و نفاست سے حل کیا ہے۔ اور مستشرقین کے اعتراضات کا ایسے موثر رنگ میں جواب دیا ہے کہ انسان عش عش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس سلسلہ کی چھٹی تقریر حضور کے ایک ایسے چیلنج پر ختم ہوتی ہے جس کو قبول کرنے کی جرات آج تک کسی غیر مسلم مفکر کو نہیں ہوئی۔ یہ چیلنج ان الفاظ میں تھا:
>قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کردوں تو وہ بے شک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کردوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں<۔۲۹۰
۱۹۲۸ء میں رحلت پانے والے بزرگ
سلسلہ احمدیہ کے قدیم بزرگ اب بڑی تیزی سے رخصت ہوتے جا رہے تھے۔ چنانچہ اس سال مندرجہ ذیل بزرگوں کا انتقال ہوا۔
)۱( حضرت صوفی مولا بخش صاحب )تاریخ وفات ۱۴ / فروری ۱۹۲۸ء(۲۹۱)۲( حضرت شہزادہ عبدالمجید خان صاحب لدھیانوی مبلغ ایران )تاریخ وفات ۲۲ / فروری ۱۹۲۸ء(۲۹۲)۳( حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرت سر )تاریخ وفات ۸ / جون ۱۹۲۸ء(۲۹۳)۴( حضرت میاں سراج الدین صاحب )تاریخ وفات ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء(۲۹۴)۵( حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ امرت سری )تاریخ وفات ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء(۲۹۵ )۶( حضرت حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی )تاریخ وفات ۲۸ / اکتوبر ۱۹۲۸ء(۲۹۶
ان صحابہ کے علاوہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے ماموں حضرت سیٹھ الہ دین بھائی ابراہیم صاحب سکندر آباد دکن بھی )پچاس سال کی عمر میں( بتاریخ ۲۰ / فروری ۱۹۲۸ء وفات پاگئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ >احمدیہ جماعتیں ان کا جنازہ پڑھیں اور دعاء مغفرت کریں<۔۲۹۷`۲۹۸
بیرون ملک بھی بعض ممتاز احمدیوں کا انتقال ہوا۔ مثلاً نائجیریا میں سلسلہ احمدیہ کے ایک قدیم فدائی امام محمد بیضا ڈوبری چیف امام شہر لیگوس قریباً ستر برس کی عمر میں وفات پاگئے۔۲۹۹آپ ۶ / جون ۱۹۲۱ء کو اپنے چالیس ساتھیوں سمیت مولانا عبدالرحیم صاہب نیر کے ذریعہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیعت کے بعد ان پر بہت ابتلاء آئے گالیاں دی گئیں مقدمات کئے گئے مگر ان کے استقلال میں ذرا فرق نہ آیا۔۳۰۰
فصل ہفتم
۱۹۲۸ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاں )۱۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو( مرزا طاہر احمد صاحب۳۰۱اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں )۱۷ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو( امتہ الباری صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۳۰۲
امتحان میں نمایاں کامیابی
حضرت سارہ بیگم صاحبہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ادیب کا امتحان پاس کیا۔ آپ صوبہ بھر کی خواتین میں اول آئیں اور یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔۳۰۳text] g[taاس کامیابی میں موصوفہ کی محنت اور کوشش کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تعلیم خواتین میں دلچسپی کا بھی دخل تھا۔ حضور کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے انتظام کو زیادہ بہتر بنانے کی جو تجاویز تھیں ان کو کامیاب بنانے کے لئے حضور کی نظر انتخاب حضرت امتہ الحئی صاحبہ کے بعد حضرت سارہ بیگم صاحبہ پر ہی تھی۔ آپ کے علاوہ حضرت ام دائود صالحہ بی صاحبہ )اہلیہ محترمہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب( پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی میں اول رہیں۔۳۰۴
امتحان کتب مسیح موعودؑ میں انعام
مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے ملک عزیز احمد صاحب راولپنڈی کو امتحان کتب حضرت مسیح موعودؑ میں اول آنے پر >حقیقتہ الوحی< بطور انعام مرحمت فرمائی۔۳۰۵
تحریک وقف زندگی
سلسلہ کی تبلیغی جدوجہد کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لئے حضور نے دسمبر ۱۹۱۷ء۳۰۶میں پہلی بار وقف زندگی کی تحریک فرمائی تھی۔ اور اس سال آپ نے ۴ / مئی ۱۹۲۸ء کو جماعت کے نوجوانوں سے دوسری بار وقف زندگی کا مطالبہ فرمایا۔۳۰۷جس پر مدرسہ احمدیہ کے بیس سے زیادہ طالب علموں نے لبیک کہا۔۳۰۸
حج بیت اللہ کی طرف جماعت احمدیہ کی خاص توجہ
اس زمانہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کی توجہ فریضہ حج کی طرف بڑھ گئی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں پچاس ساٹھ کے قریب احمدی حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔۳۰۹اور ۱۹۲۸ء میں بھی یہ رجحان ترقی پذیر رہا۔۳۱۰
کتابوں کی اشاعت کے متعلق اہم فیصلہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی منظوری سے مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ قادیان نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سلسلہ کی طرف سے کوئی کتاب ٹریکٹ یا رسالہ وغیرہ نظارت تالیف و تصنیف کی منظوری کے بغیر نہ چھپ سکتی ہے نہ شائع ہو سکتی ہے۔ ۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو اس فیصلہ کا الفضل میں باضابطہ اعلان کر دیا گیا۳۱۱مسودات کی نگرانی کا کام شروع شروع میں زیادہ تر مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر کرتے تھے جو ان دنوں نظارت تالیف و تصنیف کی مرکزی لائبریری کے نگران اور نظارت امور عامہ کے قانونی مشیر تھے۔۳۱۲
اخبار >لائٹ< کا مقدمہ اور اس کی پیروی
مولوی محمد یعقوب خاں صاحب ایڈیٹر اخبار >لائٹ< لاہور نے اخبار الفضل کے ایڈیٹر )خواجہ غلام نبی صاحب( اور پرنٹر )حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی( پر ازالہ حیثیت کا مقدمہ دائر کیا۔۳۱۳اس مقدمہ کی پیروی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خاص توجہ فرمائی۔ مولوی فضل الدین صاحب وکیل اس کے انتظام اور ضروری تیاری میں مصروف رہے۔۳۱۴
دستکاری کی نمائش اور انعام
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی زیر نگرانی ۱۹۲۷ء سے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر دستکاری کی نمائش کا انتظام جاری تھا جس میں اصل لاگت لجنات کو واپس کر دی جاتی تھی اور منافع اشاعت اسلام میں جمع کر دیا جاتا تھا۔ دستکاری کے کام کو زیادہ کامیاب بنانے کے لئے ۱۹۲۸ء میں ایک انعامی تمغے کا اعلان کیا گیا۔ جو اہلیہ صاحبہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کو ملا۔۳۱۵
خطبات نکاح
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ ذیل اصحاب کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے پر معارف خطبات نکاح ارشاد فرمائے :
)۱( چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے )مورخہ ۲ / جنوری ۱۹۲۸ء(۳۱۶)۲( صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے مبلغ ماریشس )مورخہ ۱۴ / مارچ ۱۹۲۸ء(۳۱۷4] f)[rt۳( صاحبزادہ عبدالسلام صاحب عمر خلف سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ )مورخہ ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء(۳۱۸
سیدنا حضرت فضل عمر کو اللہ تعالیٰ نے وہ علوم و معارف عطا فرمائے کہ ایک بار حضور نے فرمایا۔
>میں نے دیکھا ہے جب میں خطبہ نکاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں نئے سے نیا نکتہ سوجھا ہے اگر کوئی غور کرنے والا ہو تو یہی معجزہ اسلام کی سچائی کے لئے زبردست ثبوت ہے تین آیتیں رسول کریم~صل۱~ نے تجویز فرمائیں۔ اور ان تینوں آیتوں کی تفسیر ختم نہین ہو سکتی<۔۳۱۹ملک فضل حسین صاحب نے حضور کے خطبات النکاح کی دو جلدیں عرصہ ہوا شائع کر دی ہیں جن کو دیکھ کر اس علمی نشان کا پتہ چلتا ہے جن کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ولادت سے قبل ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔
بیرونی مشنوں کے بعض واقعات
نائیجیریا ۔ لیگوس میں مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی شاندار عمارت مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء کو یورپین اور افریقن آبادی کے بہترین نمائندوں کی موجودگی میں بڑی شان کے ساتھ ہوا۔ تقریر کرنے والوں میں مسٹر گرائر ایم۔ اے ڈائریکٹر محکمہ تعلیم اور مسٹر ہنری کار ایم۔ اے۔ بی۔ سی۔ ایل ریذیڈنٹ لیگوس تھے ان کے علاوہ یورپین مسیحی مشنری اور مدارس کے پرنسپل بھی موجود تھے۔ تمام مقررین نے نہایت عزت کے الفاظ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور مبلغ سلسلہ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کا ذکر کیا۔ مسٹر ہنری کار نے لیگوس میں اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ باقاعدہ طور پر تعلیم کے لئے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ جب تک کہ احمدی جماعت نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کے زیر ہدایت اپنا مدرسہ لیگوس میں نہیں کھولا۔۳۲۰
گولڈ کوسٹ ۔ اپریل ۱۹۲۸ء میں گولڈ کوسٹ مشن کے شہر کالی میں حکیم فضل الرحمن صاحب اور غیر احمدی علماء میں مناظرہ ہوا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو نمایاں فتح دی۔ اس مناظرہ کی خصوصیت یہ تھی کہ حکومت کے اعلیٰ افسر حتیٰ کہ پراونشل کمشنر بھی اس میں موجود تھے۔۳۲۱
مشرقی افریقہ ۔ ملک محمد حسین صاحب بیرسٹر و ممبر میونسپل کونسل نیروبی کی کونسل سے مسجد احمدیہ نیروبی کی تعمیر کے لئے میونسپل کارپوریشن کی طرف سے تین چار ایکڑ کا ایک با موقعہ قطعہ مفت ملا- جس پر جماعت احمدیہ نیروبی نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دی۔ ملک احمد حسین صاحب چیئرمین مسجد کمیٹی عبدالحکیم صاحب جان سیکرٹری سیٹھ محمد عثمان یعقوب صاحب` ڈاکٹر عمر دین صاحب سید معراج دین صاحب۔۳۲۲
سماٹرا ۔ جماعت احمدیہ پاڈانگ سماٹرا نے مارچ ۱۹۲۸ء سے تبلیغی ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو مفت تقسیم ہوتے تھے اور تاپاتوان میں بھی بھیجے جاتے تھے۔۳۲۳
شام و فلسطین ۔ شامی علماء و مشائخ کا ایک وفد شام کی فرانسیسی حکومت کے رئیس الوزراء شیخ تاج الدین صاحب کے پاس پہنچا کہ احمدی مبلغ کو دمشق سے نکال دینا چاہئے۔ چنانچہ فرانسیسی حکومت نے بتاریخ ۹ / مارچ ۱۹۲۸ء علامہ جلال الدین صاحب شمس کو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر شام سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ جس پر آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں تار بھیجا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ حضور نے جواباً ارشاد فرمایا۔ کہ حیفا چلے جائیں۔ اس ارشاد عالی کی تعمیل میں آپ نے بتاریخ ۱۵ / مارچ ۱۹۲۸ء السید منیر الحصنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائم مقام بنایا اور ۱۷ / مارچ کو حیفا تشریف لے گئے۔ اور فلسطین مشن کی بنیاد رکھی۔۳۲۴مولانا شمس صاحب ۳ / جون ۱۹۲۸ء کو فلسطین کی وادی السیاح میں تشریف لے گئے۔ اتفاقاً شیخ محمد المغربی الطرابلسی سے ملاقات ہوگئی معلوم ہوا کہ یہ بزرگ در پردہ ۲۳ سال سے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر چکے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد آپ اپنے شاگردوں سمیت علانیہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔۳۲۵
آسٹریلیا ۔ آسٹریلیا میں ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی شامل ہوئے۔ صوفی محمد حسن موسیٰ خاں صاحب آنریری مبلغ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعاوی اور سلسلہ کے حالات سنائے جس کا خدا کے فضل سے اچھا اثر ہوا۔ یہ جلسہ احمدیت کے لئے آسٹریلیا میں آئندہ جلسوں کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا تھا۔۳۲۶
مبلغین احمدیت کی ممالک غیر کو روانگی اور واپسی
۱۔ خان صاحب فرزند علی خاں صاحب )۲۲۔ اپریل ۱۹۲۸ء کو(۳۲۷اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز )۳/ اگست ۱۹۲۸ء کو(۳۲۸انگلستان میں اور صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی )۲۱ مئی ۱۹۲۸ء(۳۲۹کو امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے۔
۲۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد انگلستان میں کئی سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دینے کے بعد بالترتیب ۸ / جولائی ۱۹۲۸ء اور ۲۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو واپس تشریف لے آئے۔۳۳۰ان مبلغین نے واپسی پر سمرنا` قسطنطنیہ` دمشق` بغداد میں بھی پیغام حق پہنچایا۔۳۳۱حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درد صاحب کے استقبال کے لئے دوسرے احباب قادیان کے ساتھ پا پیادہ شہر سے قریباً اڑھائی تین میل باہر بٹالہ کی سڑک کے موڑ پر تشریف لے گئے۔ اور معانقہ کیا۔۳۳۲
‏]bus [tagمصنفین سلسلہ کی نئی مطبوعات
سیرت مسیح موعودؑ حصہ سوم۳۳۳)از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی( رسالہ >درود شریف< )از حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری( >نور ہدایت )از سید عبدالمجید صاحب منصوری( >احسانات مسیح موعود< )لیکچر مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری( >اصل طبی بیاض حصہ اول )حکیم الامت حضرت مولانا حافظ حکیم نور الدین خلیفتہ المسیح الاول کی طبی بیاض جسے زیادہ عام فہم اور مفید بنانے کے لئے حضرت مولانا حکیم عبید اللہ صاحب بسمل کی خدمات حاصل کی گئیں اور جسے صاحبزادہ عبدالسلام صاحب عمر نے شائع کیا۔۳۳۴>بخار دل< )حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کی عارفانہ نظموں کا مجموعہ جو شیخ محمد اسماعیل صاحب مینجر حالی بک ڈپو پانی پت نے شائع کیا(
>برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول<۳۳۵)از ملک فضل حسین صاحب( >نیر صداقت<۳۳۶)از ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ( >قول سدید< )ختم نبوت سے متعلق ایک رسالہ جو ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب پی۔ ایچ۔ ڈی۔ محقق دہلوی نے شائع کیا۔ اور جس کی خریداری کی خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سفارش فرمائی-۳۳۷
اندرون ملک کے مشہور مباحثے
مباحثہ گجرات ۔ )یہ مباحثہ مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کا پادری عبدالحق صاحب سے چار دن تک ہوتا رہا تھا۔ موضوع بحث یہ تھے۔ باطل مذہب` کلام الٰہی` تحریف بائبل- مسیحؑ کی آمد ثانی(۳۳۸text] [tag
مباحثہ رائے کوٹ ۔ )مابین مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و پادری عبدالحق صاحب(۳۳۹
مباحثہ دینا نگر ۔ )ضلع گورداسپور( )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل و پنڈت دھرم بھکشو(۳۴۰
مباحثہ دہلی ۔ یہ مباحثہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے آریہ سماج کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آریہ مناظر پنڈت جگدمبا پرشاد لکھنوی سے نجات کے موضوع پر کیا۔۳۴۱
‏20] p[مباحثہ گھرینڈا متصل بھڈیار ضلع امرت سر۔ اس مباحثہ کے مناظر مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل اور امرت سر کے ایک غیر احمدی عالم صاحب تھے۔۳۴۲
مباحثہ شیخوپورہ ۔ )مولوی محمد یار صاحب عارف اور اہلحدیث مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی کے درمیان(۳۴۳
مباحثہ ڈچکوٹ ضلع لائلپور ۔ )مابین حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اور ستیہ دیو اپدیشک آریہ پرتی ندھا سبھا(۳۴۴body] [tag
مباحثہ ہریال تحصیل شکر گڑھ ۔ یہ مباحثہ دو مضمونوں پر تھا پہلا مضمون >کیا وید الہامی کتاب ہے< اور دوسرا مضمون >کیا قرآن مجید الہامی کتاب ہے<۔ تھا پہلے مضمون میں مہاشہ محمد عمر صاحب اور دوسرے میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم مناطر تھے۔ آریہ سماج کی طرف سے پنڈت ستیہ دیو آریہ سماجی پیش ہوئے۔ ۳۴۵
مباحثہ مومیونوال ضلع جالندھر ۔ مولوی محمد یار صاحب عارف نے ختم نبوت کے موضوع پر مباحثہ کیا۔۳۴۶
‏20] [pمباحثہ پاک پٹن ۔ )احمدی مناظر غلام احمد خاں ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاک پٹن اور غیر احمدی مناظر حکیم عبدالعزیز صاحب تھے اور مسئلہ زیر بحث حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام(۳۴۷
مباحثہ لائل پور ۔ )مابین مولانا ابو العطاء صاحب فاضل و پنڈت کالی چرن صاحب و مہاشہ چرنجی لال صاحب پریم(۳۴۸
مباحثہ امرال ضلع سیالکوٹ۔)مابین مولوی ظہور حسین صاحب و مولوی محمد شفیع صاحب موضوع بحث وفات مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ تھے(۔۳۴۹
مباحثہ امرت سر ۔ اس مباحثہ کے دو موضوع تھے۔ >کیا وید ایشور کا گیان ہے<۔ دوسرا >کیا قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے<۔ پہلے میں مولوی مہاشہ محمد عمر صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو مناظر تھے۔ دوسرے میں مولوی علی محمد صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو صاحب۔۳۵۰
مباحثہ ماڑی بچیاں ضلع گورداسپور ۔ )مولانا ابو العطاء صاحب فاضل اور مولوی محمد امین صاحب واعظ کے درمیان ہوا۔ موضوع بحث یہ تھا۔ >کیا حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰؑ کو یوسف نجار کا بیٹا قرار دیا ہے(۔۳۵۱
مباحثہ گوجرانوالہ ۔ )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل اور مولوی نور حسین صاحب اہلحدیث گرجاکھی زیر صدارت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ(۳۵۲
مباحثہ پٹھانکوٹ ۔ اس مباحثہ کا موضوع صداقت مسیح موعودؑ تھا جو ۲۴ ۔ ۲۵ نومبر ۱۹۲۸ء کو چار اجلاسوں میں تھا۔ پہلے اجلاس میں مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں مناظر تھے۔ دوسرے اجلاس میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور حافظ محمد شفیع صاحب تیسرے اور چوتھے اجلاس میں بھی مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مناظر رہے۔ مگر غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری پھر مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں پیش ہوئے تھے۔۳۵۳
مباحثہ گجرات ۔ )ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور آریہ سماجی مناظر پنڈت کالی چرن صاحب کے درمیان۔۳۵۴
‏2] mrl[حواشی )پہلا باب(
۱۔
اس سلسلہ میں ابتدائی تعارف کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۵ ۔ ۶۲۶
۲۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۳۰
۳۔
الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱۔۲
۴۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۵ ۔ ۶۲۶
۵۔
اسی بناء پر سیاسی لیڈروں نے یہاں تک کہا کہ کمیشن میں کسی ہندوستانی کو شامل نہ کر کے ہندوستانیوں کی ہتک کی گئی ہے حالانکہ جب کمیشن صرف برطانوی حکومت کی پارلیمنٹ کے ممبروں پر مشتمل تھا تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے ارکان کا نام اس سے الگ کر کے اپنے ارکان کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔
۶۔
پنجاب کے کانگریسی لیڈر لالہ لاجپت رائے نے مرکزی اسمبلی میں ان دنوں بائیکاٹ کی تائید میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کی جس سے ہندو قوم کی سیاست کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے ایک طرف تو کہا کہ >ہندوستان کے مسائل اتنے وسیع اور پیچیدہ ہیں کہ اگر دیوتا لوگ بھی سورگ )بہشت( سے اتر کر یہاں آئیں تو وہ انہیں سمجھ نہیں سکیں گے۔<۔ دوسری طرف کہا >اگر انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو میرے خیال میں موجودہ قانون سے زیادہ انارکی و فساد۔ خرابی پیدا نہیں ہوگی<۔ تیسری طرف کہا >میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا سوال ایسا نہیں کہ جس کا فیصلہ ایک کمیشن کر سکتا ہے بلکہ اس کا فیصلہ گفتگوئے مصالحت اور سمجھوتہ سے ہو سکتا ہے<۔ )اہلحدیث ۲۴ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳( اس رویہ کا اس کے سوا کیا مقصد ہو سکتا تھا کہ انگریز اس ملک کی باگ ڈور ہندو اکثریت کو دے کر رخصت ہو جائین۔ اور اگر وہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کانگریس سے مصالحت اور سمجھوتہ کر کے حل کر سکتے ہیں اسے کمیشن کے ذریعہ ہندوستان کی تمام جماعتوں اور افراد سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔
۷۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ نے متحدہ ہندوستان میں ہمیشہ ہی مخلوط انتخاب کی مخالفت کی ہے۔ اور جداگانہ انتخاب کو مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ بمبئی کے اخبار >خلافت< نے اسے ایک کارنامہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ >قادیانیوں کو خواہ کافر کہا جائے خواہ مرتد اور سچی بات یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ان سے اصولی اختلافات بھی ہیں لیکن ان کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہئے کہ ان عام اور مشہور اختلافات کے باوجود انہوں نے یہ کبھی نہیں کیا کہ تخصیص نشست چاہی ہو یا مشترک انتخاب کا مطالبہ کیاہو- حالانکہ اگر وہ چاہتے تو اپنے سرکاری اثر و نفوذ کے سبب ایسا کر سکتے تھے۔ ان کا یہ کارنامہ تاریخ اپنے اندر محفوظ رکھے گی۔ اور انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کرے گی<۔ )اہلحدیث ۲۹ / جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۵(
۸۔
>مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت< الفضل ۱۶ / دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۸۔
۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء میں صیغہ ترقی اسلام کی رپورٹ میں اس کی تفصیلات بایں الفاظ ملتی ہیں >مجھے اس ٹریکٹ کا ذکر خاص طور پر کر دینا چاہئے جو سائمن کمیشن کے ورود ہندوستان سے قبل مسلمانان ہند کے مفاد کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے لکھا۔ اور صیغہ ترقی اسلام نے پندرہ ہزار کی تعداد میں اردو میں ہندوستان کے تمام حصوں میں بکثرت شائع کیا۔ اور علاوہ ازیں دو ہزار کی تعداد میں یہی مضمون چھپوا کر وائسرائے` تمام صوبوں کے گورنروں چیف کمشنروں` اور ڈپٹی کمشنروں کے علاوہ افسران پولیس` اعلیٰ عہدیداران میڈیکل ڈیپارٹمنٹ` انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ وغیرہ غرض حکومت کے ہر طبقہ کے اعلیٰ افسروں کے نام بھیجا گیا۔ اسی رسالہ کا اثر تھا کہ سائمن کمیشن کے ورود ہندوستان پر مسلمانان ہند نے ہڑتال نہ کی<۔ )صفحہ ۲۱۲ ۔ ۲۱۳(
۱۰۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۱۸ )از محمد مرزا دہلوی(
۱۱۔
>ذکر اقبال< صفحہ ۱۳۷ )از عبدالمجید سالک(
۱۲۔
مولوی ظفر علی خان صاحب سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کرنے کے خیال میں جس قدر متشدد اور غالی ہوگئے تھے اس کا اندازہ آپ کی ایک تقریر سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے ایک تبلیغی کانفرنس میں کی۔ اخبار تیج )دہلی( کا نامہ نگار لکھتا ہے۔ >آپ تقریر کر رہے تھے جس میں آپ نے سائمن کمیشن کے مقاطعہ کا دو مرتبہ تذکرہ کیا۔ اور دونوں مرتبہ صدر نے آپ کو ٹوکا آپ سے کہا گیا کہ تبلیغی کانفرنس کا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اس پر مولانا نے طنزاً کہا کہ ایک غلام ملک میں کوئی تبلیغ نہیں ہو سکتی ہے صاحب صدر نے دوسری مرتبہ مداخلت کی تو مولانا نے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ پنڈال کو خالی کر دیں<۔ اخبار >انقلاب< نے اس رپورٹ پر لکھا >اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے تسلط کے بعد سے اب تک تبلیغ کی جتنی انجمنیں بنیں اور انہوں نے جو کام کیا وہ از سر تا پا غلط تھا۔ مولانا محی الدین احمد قصوری اور مولانا محمد عبداللہ صاحب کی جمعیت دعوۃ و تبلیغ عبث ہے مولانا محمد علی صاحب ایم۔ اے کینٹ تاجر چرم بمبئی نے اپنی کمائی میں سے جو ستر اسی ہزار روپیہ اس کام پر صرف کیا وہ بالکل لاحاصل ضائع ہوا۔ میر غلام بھیک صاحب نیرنگ گذشتہ چار پانچ سال سے جو محنت و مشقت برداشت کرتے رہے اور کر رہے ہیں وہ بیکار تھی اسی لئے کہ یہ سب کچھ ایک غلام ملک میں ہوا۔ پھر قادیانی احمدیوں کی انجمن لاہوری احمدیوں کی انجمن دوسری صدہا تبلیغی انجمنیں خواجہ کمال الدین ووکنگ مشن غرض تمام ادارے اور نظام فضول تھے۔ فضول ہیں اور انہیں جلد سے جلد بند کر دینا چاہئے<۔ )انقلاب ۲۶ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۳(
۱۳۔
عبدالمجید سالک >سرگزشت< میں لکھتے ہیں۔ اس مقاطعہ کو موثر بنانے کے لئے کانگریس کی پوری مشینری حرکت میں آگئی۔ انقلاب کا رویہ یہ تھا کہ سائمن کمیشن سے مقاطعہ بالکل مناسب ہے<۔ )صفحہ ۲۴۷(
۱۴۔
بحوالہ الفضل ۱۰ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۱ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۳-۴(
۱۵۔
ایضاً
۱۶۔
>سرگزشت< صفحہ ۲۴۹ ۔
۱۷۔
بحوالہ الفضل ۹ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس حق تلفی پر الفضل ۲۹ / مئی ۱۹۲۸ء میں ایک اہم مضمون بھی سپرد قلم فرمایا تھا۔ اور مسلمانوں کو اس کے تدارک کے لئے قیمتی مشورے دئیے تھے جسے اخبار انقلاب نے بھی ۲ / جون ۱۹۲۸ء کو شائع کیا۔ حضور نے تجویز پیش فرمائی تھی کہ اس صورت حال پر غور کرنے کے لئے مختلف الخیال لوگوں کا ایک جلسہ کیا جائے جس میں کونسل اور مقتدر اسلامی اخبارات کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ اخبار انقلاب )۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے لکھا۔ >مرزا صاحب کو چاہئے کہ وہ خود اپنے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھا کر ایسا جلسہ جلد سے جلد منعقد کرنے کی سعی فرمائیں<۔
۱۹۔
الفضل ۲۹ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۳
۲۰۔
الفضل ۲۰ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۲۱۔
الفضل ۲۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۲۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۹۹
‏]1h [tag۲۳۔
الفضل ۱۷ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔۶
۲۴۔
اخبار >تنظیم< )امرت سر( ۲۸ / فروری ۱۹۲۸ء بحوالہ الفضل ۸ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۸
۲۵۔
>فرقان< دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۵ )مضمون مولوی عبدالمالک خان صاحب مربی سلسلہ احمدیہ مقیم کراچی(
۲۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۲۹
۲۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۵۳
۲۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۵۳ ۔ ۲۵۴
۲۹۔
الفضل ۶ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۳۰۔
سورۃ نور ع ۴ ۔ آیت ۳۱
۳۱۔
اخبار >مصباح< )قادیان( یکم اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵۔۱۶
۳۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۔۵ و >الفضل< ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۳۳۔
الفضل ۱۶ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۳۴۔
الفضل ۱۷ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۳۵۔
دراصل اس مشاورت کے سامنے مرکز میں زنانہ ہوسٹل کے قیام کی تجویز زیر غور تھی۔ حضور نے اس تجویز کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مندرجہ بالا تحریک فرمائی بعض نمائندوں کی رائے تھی کہ حضرت ام المومنینؓ کی طرف سے زنانہ ہوسٹل کے چندہ کی اپیل ہو اور عورتیں چندہ دیں۔ مگر حضور نے اسے سختی سے رد کردیا۔ اور فرمایا۔ >یہ اپیل میری طرف سے ہو اور مرد چندہ دیں اگر یہ چندہ عورتوں پر رکھا گیا تو یہ بات آئندہ ہماری ترقی میں حائل ہو جائے گی اور ہمارے گھروں کا امن برباد کر دے گی۔ اور یہ احساس پیدا ہوگا کہ مرد عورتوں کے لئے کچھ نہیں کر رہے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں اس قسم کا احساس اپنی جماعت کی عورتوں میں پیدا کرنا پسند نہیں کرتا۔ ہم خود اپنے چندہ سے عورتوں کی تعلیم کا انتظام کریں گے اور اس کے لئے ایک پیسہ بھی عورتوں سے نہ مانگیں گے<۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۶۱(
۳۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۹ تا ۶۰
۳۷۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۹
۳۸۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵۳ تا ۱۵۵
۳۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۸ ۔ ۶۹
۴۰۔
مثلاً کمیشن نے ہر کاغذ نمبر دے کر شامل مسل نہیں کیا۔ بعض کارکنوں کے خلاف اس نے ایک رائے قائم کی۔ مگر ان کو جواب دہی کا موقعہ نہیں دیا وغیرہ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱۔۱۲( کمیشن کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی اٹھارہویں سفارش میں نادانستہ طور پر ایک ایسی تجویز پیش کی جس پر براہ راست منصب خلافت پر زد پڑتی تھی۔ اور اس کے ادب و احترام کے سراسر منافی تھی اس سفارش کی تفصیل اور اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مفصل فیصلہ ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گا۔
۴۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۹۔۱۲
۴۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲۔۱۳
۴۳۔
>بشارات رحمانیہ< )مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل( حصہ اول صفحہ ۲۰۲ ۔ ۲۰۳
۴۴۔
الفضل ۱۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم۳
۴۵۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۵۶۸ ۔ ۵۶۹ پر تبلیغ اسلام سے متعلق اس عہد کا ذکر آ چکا ہے۔
۴۶۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳۸ ۔ ۱۴۳
۴۷۔
الفضل ۸ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و ۱۵ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۴۸۔
روزنامہ >ملت< لاہور مورخہ ۱۹ / مارچ ۱۹۵۴ء بحوالہ الفضل ۲ / اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۵ کالم ۱۔۲
۴۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۲۰۔۱۹۱۹ء صفحہ ۵۹
۵۰۔
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۲۰۔۱۹۱۹ء صفحہ ۵۹ ۔ ۶۰
۵۱۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء
۵۲۔
چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ و گیمبیاکا بیان ہے کہ مبلغین کلاس کا مدرسہ احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اس کلاس کی پڑھائی حضرت حافظ صاحب کے مکان میں بھی اور مسجد اقصیٰ میں بھی ہوا کرتی تھی کوئی میز کرسی وغیرہ نہ ہوا کرتا تھا<۔
۵۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء میں لکھا ہے >ساتویں جماعت سے اوپر یعنی مولوی فاضل کی دونوں جماعتیں جو پہلے مدرسہ کے ساتھ ہوا کرتی تھیں اب کالج میں منتقل کر دی گئی ہیں۔۔۔۔۔۔ ۴۲ لڑکے کالج کی طرف منتقل ہوئے ہیں )صفحہ ۲۱۰(
۵۴۔
بعض اصحاب کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب بھی اس میں رہتے رہے ہیں۔
۵۵۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۸ء جامعہ احمدیہ کے یہ اولین اساتذہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور تاریخ احمدیت میں ان بزرگوں کا کئی بار تذکرہ آ چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ یہاں مختصراً یہ بتانا مناسب ہوگا۔ )۱( ضیغم احمدیت حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب ۱۰ / ستمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے۔ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور اپریل ۔ مئی ۱۹۰۱ء میں مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے یکم مئی ۱۹۰۱ء سے سلسلہ کی باقاعدہ ملازمت اختیار کی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول اور پھر مدرسہ احمدیہ میں لمبے عرصہ تک عظیم الشان تعلیمی و تربیتی خدمات بجا لانے کے بعد جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بنے )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >اصحاب احمد< جلد ۵ ہر سہ حﷺ مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان دارالامان۔
)۲( عبدالکریم ثانی حضرت حافظ روشن علی صاحب کے سوانح تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۱۶۸ و ۱۶۹ میں مندرج ہیں جامعہ احمدیہ میں منتقل ہونے سے قبل آپ جماعت مبلغین کے نگران تھے۔
)۳( حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری ۱۳ / اپریل ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے اور ۲۸ / جنوری ۱۹۰۹ء سے مستقل طور پر دیار حبیب میں آگئے۔ یہاں حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ آپ تفسیر` حدیث` فقہ` منطق` فلسفہ` صرف و نحو اور ادب عربی کے نہایت بلند پایہ عالم تھے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب و ملفوظات کے تو گویا حافظ تھے۔
)۴( حضرت میر محمد اسحاق صاحب )خلف الصدق حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ( ۸ / ستمبر ۱۸۹۰ء کو بمقام لدھیانہ پیدا ہوئے غالباً ۱۸۹۴ء کے بعد سے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اور >الدار< میں قیام کا شرف حاصل ہوا۔ بچپن سے ۱۸ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعودؑ کے روز و شب کے حالات مشاہدہ کئے اور آخر دم تک قریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ رہے کئی سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل کیا۔ آخری بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کے پاس رہے حضور علیہ السلام نے متعدد مرتبہ آپ سے لوگوں کے خطوط کے جوابات لکھوائے۔ اور حقیقتہ الوحی کا مسودہ بھی۔ حضور نے اپنی کتابوں میں بیسیوں دفعہ آپ کا ذکر فرمایا۔ بہت سے نشانوں کے عینی گواہ اور مورد بھی تھے۔ بے قاعدہ اور باقاعدہ طور پر حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب` مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل سے عربی علوم پڑھے ۱۹۱۰ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ۱۹۱۲ء میں صدر انجمن کی ملازمت میں آئے۔ جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھے۔ )رسالہ جامعہ احمدیہ سالنامہ صفحہ ۷۴( جامعہ میں آپ اپنے مفوضہ نصاب پڑھانے کے علاوہ ہمیشہ طلباء میں خاص اہتمام سسے تقریر کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ اور مہمان خانہ میں تقریر کراتے اور بیرونی مقامات میں جلسوں اور مناظروں میں لے جاتے جس سے ان میں تقریر کی غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی تھی۔
‏]h1 [tag۵۶۔
یاد رہے کہ اس جلد میں جامعہ احمدیہ سے متعلق حالات تقسیم ہند ۱۹۴۷ء تک لکھے گئے ہیں بعد کے واقعات پاکستانی دور کی تاریخ میں آئیں گے۔
۵۷۔
۱۸۹۴ء میں مہمند قبیلہ کے ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم پشاور کی بعض درسگاہوں میں پائی دریں اثناء صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب احمدی ساکن بازید خیل ضلع پشاور کے حلقہ درس میں آپ کو شمولیت کا موقعہ ملا۔ اور آپ اسی اثر کے ماتحت مارچ ۱۹۱۰ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اولؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی ۱۹۱۷ء میں آپ نے مدرسہ احمدیہ سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جون ۱۹۱۸ء میں مدرسہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے ۱۹۲۹ء میں ترقی پاکر جامعہ احمدیہ میں منتقل ہوئے اور تعلیمی و تربیتی فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹۴۹ء میں بطور پروفیسر تعلیم الاسلام کالج میں منتقل ہوئے )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >جامعہ احمدیہ< سالنامہ نمبر صفحہ ۷۴ و اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۴۹ تا ۵۵۔
۵۸۔
کھیوا تحصیل چکوال ضلع جہلم آپ کی جائے پیدائش ہے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولوی عبدالرحمن صاحب اور جناب مولوی محمد خلیل الرحمن صاحب بھیروی اور مولوی فضل الٰہی صاحب سے پائی پھر چند سال مدرسہ احمدیہ میں دینیات کا علم حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب سے حاصل کیا۔ معقولات سے متعلق علامہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب سے شرف تلمذ حاصل کیا ۱۹۲۷ء میں بمقام شملہ قرآن مجید حفظ کیا اور حافظ و قاری محمد یوسف صاحب سہارنپوری کو سنایا۔
۵۹۔
یہ حضرت خلیفہ اولؓ کے قابل شاگردوں میں سے ہیں >تسہیل العربیہ< )کا عربی اردو حصہ( اور ترجمہ >مفردات امام راغب< آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں
۶۰۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کچھ عرصہ تک طب کی تعلیم دیتے رہے حافظ فتح محمد صاحب قاری جامعہ احمدیہ قادیان کے آخری دور میں معلم تجوید رہے اور سید احمد صاحب فزیکل انسٹرکٹر۔
۶۱۔
قرآن مجید سورۃ آل عمران آیت ۱۰۵
۶۲۔
قرآن مجید سورۃ التوبتہ آیت ۱۲۲
۶۳۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ - ۷
۶۴۔
حضور ایدہ اللہ نے اس سال ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے اعزاز میں دی گئی ایک پارٹی میں دوبارہ جامعہ احمدیہ میں تشریف لائے۔ اور طلباء جامعہ احمدیہ کو پرزور تلقین فرمائی کہ وہ مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھیں اس سے نہ صرف ان کی علمی ترقی ہوگی اور جامعہ احمدیہ کو تقویت پہنچے گی بلکہ جماعت احمدیہ کی شہرت دوبالا ہو جائے گی )ملخصا از الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ تا ۷(
۶۵۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰
۶۶۔
الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ اس حادثہ کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔
۶۷۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۳
۶۸۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۳
۶۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۱۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۱ء صفحہ ۴۶
۷۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۱۔۱۹۳۰ء صفحہ ۲۶۔ اس لائبریری کے ۱۹۴۷ء تک وقتاً فوقتاً کئی پروفیسر نگران رہے مثلاً حافظ مبارک احمد صاحب۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد۔ لائبریری میں ۱۹۴۷ء تک گاہے گاہے جو اخبارات و رسائل منگوائے گئے ان کی فہرست حسب ذیل ہے۔ انقلاب )لاہور( پیغام صلح )لاہور( ام القریٰ )مکہ مکرمہ( ماہنامہ ادبی دنیا )لاہور( عالمگیر۔ ریویو آف ریلیجنز اردو انگریزی )قادیان( معارف )اعظم گڑھ( میگزین تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ نیرنگ خیال )لاہور( الضیاء نہر ہائی عربی۔ اہلحدیث )امرت سر( احسان )لاہور( پرتاپ )لاہور( ہمایوں )لاہور( الاستقلال عربی )ارجنٹائن( روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ )لاہور( اخبار ریاست )دہلی( فرقان )قادیان(
۷۱۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۱ء صفحہ ۴۴۔۴۶
۷۲۔
الفضل ۱۳ / دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ تفصیل ۱۹۳۲ء کے حالات میں آئے گی۔
۷۳۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔۱۹۳۲ء صفحہ ۳۴
۷۴۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۳۴ء
۷۵۔
۱۹۴۷ء تک مندرجہ ذیل اصحاب مختلف اوقات میں ہوسٹل جامعہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ رہے۔ سردار مصباح الدین صاحب۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد صاحبزادہ مولوی ابوالحسن صاحب قدسی۔ مولوی ارجمند خان صاحب۔
۷۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۵۔۱۹۴۴ء صفحہ ۳۵ ۔ اسی کلاس سے مولوی بشیر احمد صاحب )حال مبلغ و امیر کلکتہ( نے سنسکرت کا نصاب پاس کیا۔
۷۷۔
گو جامعہ احمدیہ کا افتتاح مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا مگر جیسا کہ جامعہ احمدیہ کے قدیم ریکارڈ )رجسٹر داخل خارج طلبہ( سے ثابت ہے طلبہ کا داخلہ ۱۹ / نومبر ۱۹۲۷ء سے شروع کر دیا گیا تھا تا نئے تعلیمی سال یکم مئی ۱۹۲۸ء سے باقاعدہ جامعہ احمدیہ کا اجراء ہو سکے۔
۷۸۔
صحیح تاریخ ولادت ۱۶ / نومبر ۱۹۰۹ء
۷۹۔
مولوی فاضل کے امتحان میں اول آئے تھے۔
۸۰۔
صحیح تاریخ ولادت ۱۱ جنوری ۱۹۱۳ء
۸۱۔
۱۹۳۳ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔
۸۲۔
آپ پہلی بار ۱۹۲۹ء میں داخل جامعہ ہوئے مگر دو سال کے لئے چلے گئے۔ اور دوبارہ داخلہ ۱۹۳۱ء میں لیا۔
۸۳۔
امتحان مولوی فاضل میں دوم آئے۔
۸۴۔
جامعہ احمدیہ کے قدیم ریکارڈ سے ماخوذ۔ مفصل فہرست شاگردان حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم میں موجود ہے۔ البتہ اس میں ملک غلام فرید صاحب کا نام سہواً لکھا گیا ہے۔
۸۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۴۰۔۱۹۳۹ء صفحہ ۱۲۱۔۱۲۲ و رپورٹ سالانہ ۴۳۔۱۹۴۲ء صفحہ ۲۰ و رپورٹ سالانہ ۴۵۔۱۹۴۴ء صفحہ ۳۶۔
۸۶۔
پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی فاضل میں اول رہے۔
۸۷۔
مولانا ابوالعطاء صاحب کے پرنسپل بننے سے چند ماہ قبل خان صاحب مولوی ارجمند خان صاحب قائم مقام پرنسپل کے فرائض انجام دیتے رہے۔
۸۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۸۔۱۹۴۷ء صفحہ ۱۵
۸۹۔
>فاروق< ۶ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و فاروق ۱۳ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۹۰۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲ )تقریر سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء(
۹۱۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷ / اپریل ۱۹۲۸ء(
۹۲۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲
۹۳۔
الفضل ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۹۴۔
یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہ منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر >پیسہ اخبار< لاہور نے اپنی کتاب >اسلامی سائیکلوپیڈیا< میں ۱۲ / ربیع الاول کی مجالس میلاد النبی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا۔ >مرزا غلام احمد قادیانی جو مسیح موعود ہونے کے مدعی تھے ان کے پیرو اس روز خاص جلسہ کیا کرتے ہیں جس سے ان کا مدعا اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ آج کے دن نبی~صل۱~ نے وفات پائی ہے۔ مگر نبوت نے وفات نہیں پائی نبی ہمیشہ آتے رہیں گے چنانچہ ایک نبی مرزا صاحب بھی آ چکے ہیں<۔ )حصہ اول صفحہ ۱۳۱(
۹۵۔
تعجب کی بات یہ تھی کہ پہلی تاریخ بدلنے کا سوال اہلسنت و الجماعت کے بعض اصحاب میں پیدا ہوا حالانکہ اس دن لیکچر دینے والوں میں کئی شیعہ حضرات نے بھی نام لکھوایا تھا اور جلسہ کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی تھی اور گو کسی شیعہ کو شہیدان کربلا کے دردناک حالات کے ساتھ سیرت رسولﷺ~ پر روشنی ڈالنے سے اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر حضور نے محض اس وجہ سے کہ محرم کے دنوں میں فسادات رونما ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور حکومت امن و امان کی بحالی کے لئے بعض جگہ جلسوں کی ممانعت کر دیتی ہے۔ ۱۷ / جون کا دن جلسوں کے لئے مقر فرما دیا۔ )الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶(
۹۶۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء۔
۹۷۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸
۹۸۔
‏]h2 [tagرپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۵
۹۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۵
۱۰۰۔
الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۷
۱۰۱۔
مثلاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت میر محمد اسماعیل صاحب` حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب۔ حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب` حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی۔ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب۔ مولوی عبدالحمید صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ دہلی شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر۔ حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب سابق سردار جگت سنگھ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل۔ قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری۔ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر >الفضل<۔
‏tav.5.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
۱۰۲۔
مثلاً فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک کرم الٰہی صاحب ضلع دار۔ مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ایڈیٹر الفضل۔ سکنیتہ النساء بیگم صاحبہ قادیان۔ نسیم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کیمبل پور۔ عزیزہ رضیہ صاحبہ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب۔ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر گوہر الدین صاحب مانڈلے برما۔ امتہ الحق صاحبہ بنت حضرت حافظ روشن علی صاحب۔
۱۰۳۔
مثلاً حکیم برہم صاحب ایڈیٹر اخبار >مشرق< گورکھپور۔ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی ایڈیٹر >منادی<۔
۱۰۴۔
لالہ دنی چند صاحب ایڈووکیٹ انبالہ۔
۱۰۵۔
بعض نعت لکھنے والے حضرت منشی قاسم علی صاحب رامپوری۔ مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ۔ حضرت خان صاحب مولوی ذوالفقار علی خان صاحب۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر بی۔اے۔ ایل ایل بی وکیل کپورتھلوی۔
‏h1] ga[t۱۰۶۔
اخبار >مشرق< )گورکھپور( نے اس نمبر پر یہ ریویو کیا کہ >اس میں حضرت رسول کریم~صل۱~ کے سوانح حیات و واقعات نبوت پر بہت کثرت سے مختلف اوضاع و انواع کے مضامین ہیں اور ہر مضمون پڑھنے کے قابل ہے ایک خصوصیت اس نمبر میں یہ ہے کہ ہندو اصحاب نے بھی اپنے خیالات عالیہ کا اظہار فرمایا ہے جو سب سے بہتر چیز ہندوستان میں بین الاقوامی اتحاد پیدا کرنے کی ہے دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے اپنے پیغمبر کے حالات پر بہت کچھ لکھا ہے<۔ )۲۱ / جون ۱۹۲۸ء )بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء( صفحہ ۳ کالم۳(
۱۰۷۔
یہ تینوں باتیں غلط تھیں اور واقعات نے ان کا غلط ہونا ثابت کر دیا )۱( مولوی ابوالکلام صاحب آزاد ڈاکٹر کچلو صاحب۔ ڈاکٹر مختار صاحب انصاری اور سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے کانگریسی لیڈر یا تو بعض جلسوں کے پریذیڈنٹ ہوئے یا اس کے داعی بنے جس سے ظاہر ہے۔ کہ حکومت کے ساتھ اس تحریک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ )۲( ان جلسوں پر جماعت احمدیہ کا پندرہ ہزار کے قریب روپیہ صرف ہوا۔ لیکن جماعت نے کسی ایک پیسہ کا بھی چندہ نہ مانگا البتہ لکھنئو اور کئی دوسرے مقامات میں مسلمانوں نے خود جلسہ کے انعقاد کے لئے رقوم بھیجیں جو انہیں کے انتظام کے ماتحت اس کام پر خرچ ہوئیں )۳( سارے ہندوستان میں منعقد ہونے والے جلسوں میں سے صرف ایک تقریر کے متعلق کہا گیا کہ اس میں احمدیت کی تبلیغ کی گئی مگر وہ تقریر بھی ہندوئوں کے خلاف تھی۔ پھر ان جلسوں میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری` حیدر آباد دکن کے صدر الصدور مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شروانی` علماء فرنگی محل اور جناب ابوالکلام صاحب آزاد کا کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں ایسے جلسوں میں احمدیت کے مخصوص عقائد کی تبلیغ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ )الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔۶ کالم۲۔۳(
۱۰۸۔
چنانچہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے خود اقرار کیا کہ >ان جلسوں میں میاں صاحب کے ساتھ ہم نے اشتراک عمل نہیں کیا<۔ )پیغام صلح یکم ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( اس کے مقابل ان کا گذشتہ طرز عمل یہ تھا کہ انہوں نے ایک عرصہ قبل کانگریس کے لیڈر مسٹر گاندھی کی قیادت میں چلائی ہوئی تحریک خلافت کے ساتھ وابستگی ضروری خیال کی چنانچہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے موجودہ امیر جناب مولوی صدر الدین صاحب کا بیان ہے کہ >میں نے انگریزی راج کے خلاف ہندوستان میں اور خود انگلستان میں متعدد لیکچر دئیے تھے اور سالہا سال تک کانگریس اور تحریک خلافت سے تعاون کرتے ہوئے کھدر پوش بنا رہا<۔ )کامیاب زندگی کا تصور صفحہ ۱۱۲ مولف پروفیسر انورول شائع کردہ مکتبہ جدید لاہور سن طبع اول مارچ ۱۹۶۴ء۔
افسوس ان حضرات کو سیرت النبی~صل۱~ کی عالمگیر تحریک بھی جماعت احمدیہ قادیان سے اتحاد عمل پر آمادہ نہ کر سکی۔ اور بعض غیر مبایعین نے بیان کیا کہ ہمیں انجمن نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے اور دو چار مقامات کے سوا بحیثیت قوم فریق لاہور نے اس کا بائیکاٹ ہی کیا۔ جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کے بانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی تھے اور یہ آواز قادیان سے بلند ہوئی تھی۔ مگر چونکہ غیر مسلموں کو اسلام تک لانے کی موثر ترین صورت یہی تھی جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تجویز فرمائی تھی اس لئے بالاخر ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ کسی موقعہ پر یہ آواز بلند کر دینے سے کہ فلاں شخص نے رسول اللہ~صل۱~ کی شان میں گستاخی کر کے ہمارا دل دکھایا ہے حقیقتاً کوئی اصلاہ نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات اپنے غیظ و غضب کے اظہار سے بڑھ کر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ان گستاخیوں کا سدباب کرنا ہے اگر اس ملک میں اشاعت اسلام کے لئے کوئی عملی راستہ کھولنا ہے تو اس کے لئے سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ~ کے صحیح حالات کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے<۔ )پیغام صلح ضمیمہ ۳۰ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم۳(
۱۰۹۔
اخبار مخبر اودھ نے جلسہ لکھنئو کے موقعہ پر آپ کی تقریر کے بارے میں لکھا۔ >پھر مولوی اللہ دتہ صاحب احمدی پلیٹ فارم پر تشریف لائے آپ نے موثر طریقہ سے حضور کی زندگی کا شاندار پہلو دکھایا پرانے خیالات کے بزرگ اور ینگ پارٹی کے نوجوان مسلمان آپ کی تقریر سے نہایت خوش ہوئے۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ آنحضرت~صل۱~ دنیا کے لئے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اور خدا کی رحمت تھے اہل مجلس کی استدعا پر آپ کو مزی وقت دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔ جس روز مولوی اللہ دتہ صاحب لکھنئو سے قادیان تشریف لے جا رہے تھے تو احمدیوں کے علاوہ دیگر فرقوں کے مسلمان بھی اسٹیشن پر موجود تھے جنہوں نے رخصت کے وقت آپ سے مصافحہ کیا< )مخبر اودھ ۲۶ / جون ۱۹۲۸ء بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم۳(
۱۱۰۔
‏h2] gat[کلکتہ کے اخبار >دی انگلشن مین< )۱۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے اور >دی امرت بازار پترکا< )۱۹ / جون( نے جلسہ سیرت النبیﷺ~ کلکتہ کی رپورٹ شائع کی جس میں آپ کی تقریر کا بھی ذکر کیا۔ )ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۱(
۱۱۱۔
آپ نے ۱۷ / جون کا جلسہ ریل گاڑی میں کیا۔ جس کی دلچسپ تفصیل آپ کے الفاظ میں یہ ہے کہ >۱۷ / جون ۱۹۲۸ء کو میں کراچی میں تھا۔ اس دن وہاں کے اس جلسہ میں شریک ہونے کو دل چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر مجبوری تھی ٹھہرنا مشکل تھا آخر ۳ بجے کی گاڑی میں سوار ہوگیا اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر حضرت رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیینﷺ~ کی سیرت پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ جب دوسرا اسٹیشن آیا تو اس کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میں جا پہنچا اور وہاں لیکچر کر دیا۔ غرضیکہ اسی طرح بفضلہ تعالیٰ سات گاڑیوں میں پہنچ کر ۱۷ / جون کو ۳ بجے سے ۱۲ بجے تک میں نے لیکچر دئیے جن کو ہندو` مسلمان` سکھ` عیسائی غرضکہ ہر طبقہ نے پسند کیا۔ )الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم۱(
۱۱۲۔
ملک فضل حسین صاحب نے جو >بک ڈپو تالیف و اشاعت< کے مینجر کے فرائص سر انجام دے رہے تھے غیر مسلم اصحاب کی بعض تقاریر >دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں< کے نام سے دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دیں۔
۱۱۳۔
جنوبی ہندوستان میں ایک تھیوسافیکل سوسائٹی کے ذریعہ اسی کے حلقہ اثر کے اندر ۳۰ کے قریب جلسے ہوئے )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۶(
۱۱۴۔
آپ نے تحریک کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا مین مسٹر سی آر داس کی برسی کے جلسہ کا بھی صدر تھا مگر وہاں اتنی حاضری نہ تھی۔ جتنی یہاں ہے۔
۱۱۵۔
آپ نے کہا کہ میں بہت ضروری کام چھوڑ کر آیا ہوں۔ کیونکہ اس میں شمولیت سب سے ضروری تھی آئندہ بھی اگر ایسے جلسے منعقد ہوں گے تو خواہ کتنا ہی کام مجھے درپیش ہوگا میں اس پر ایسے جلسہ میں شمولیت کو مقدم کروں گا۔ )الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴(
۱۱۶۔
الفضل ۲۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴۔ تفصیل رپورٹوں کے لئے ملاحظہ ہو۔ الفضل ۲۲ / جون` ۲۶ / جون ` ۳/ جولائی ` ۶ / جولائی` ۱۰ / جولائی` ۱۷۔۲۴ جولائی ۱۹۲۸ء۔
۱۱۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۶
۱۱۸۔
ملاحظہ ہو تفسیر حضرت محی الدین ابن عربی سورہ بنی اسرائیل ]nsk1 )[tagزیر آیت عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا(
۱۱۹۔
بحوالہ الفضل ۲۹ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۶
۱۲۰۔
بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۱۔
بحوالہ الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲
۱۲۲۔
بحوالہ الفضل ۱۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱
۱۲۳۔
بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۴۔
مثلاً اخبار ہمدم )لکھنئو( وکیل )امرت سر( مشرق )گورکھپور( کشمیری گزٹ )لاہور( >حقیقت`< خادم المومنین< >منادی< )دہلی( >اردو اخبار< )ناگپور( >پیشوا< اور >حق< ` >مخبر< )اودھ( >توحید< )کراچی( اس کے علاوہ جزوی طور پر غیر مسلم اخبارات نے بھی جلسہ کی رپورٹیں شائع کیں۔ مثلاً اخبار >دی انگلش مین< )کلکتہ( >دی امرت بازار پترکا< )کلکتہ( >انقلاب< )لاہور( >سیاست< )لاہور( >تنظیم< )امرت سر(۔ مقدم الذکر دو اخبارات نے تو جلسوں کے انعقاد سے قبل اس کی افادیت و اہمیت پر زور دار نوٹ لکھئے۔ )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۹(
۱۲۵۔
روزنامہ >حقیقت< لکھنئو )۲۴ / جون ۱۹۲۸ء( نے علماء کی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ >جو لوگ اتفاق کی چلتی ہوئی گاڑی میں روڑا اٹکانا چاہتے ہیں انہیں ان کی رائے مبارک رہے خادمان ملک و ملت کو ان کی آواز پر کان نہیں دھرنا چاہئے<۔ )بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵(
۱۲۶۔
مولوی کفایت اللہ صاحب کے اس عدم تعاون بلکہ صریح بائیکاٹ کے باوجود جلسہ دہلی بہت کامیاب ہوا۔ چنانچہ اخبار >منادی< دہلی )۲۳ ۔ جون ۱۹۲۸ء( نے لکھا کہ >سوا نو بجے رات کو پریڈ کے میدان میں سیرت رسول کی نسبت جلسہ ہوا۔ دس ہزار کا مجمع تھا۔ ہندو مسلمان کی نہایت عمدہ تقریریں ہوئیں جلسہ بہت کامیاب ہوا۔ بارہ بجے تک رہا۔ آج تک دہلی میں کوئی مشترکہ جلسہ ایسی کامیابی سے نہ ہوا ہوگا<۔ )بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۱۲۷۔
بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۸۔
مضمون چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے۔ مطبوعہ الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۔۵ سے ماخوذ مع تلخیص۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۲ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴ ۔ مقامی جماعت میں سے ملک صاحب کے ساتھ گہرا تعاون کرنے والے حضرات۔ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل` منشی محی الدین صاحب ملتان )سابق مختار عام( چوہدری برکت علی صاحب` ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی ٹی۔ چوہدری ظہور احمد صاحب مولوی عطا محمد صاحب اور مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سکائوٹس )الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۱۳۰۔
الفضل ۲۲ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۳۱۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ اگست ستمبر ۱۹۲۸ء۔
۱۳۲۔
ملاحظہ ہو >ریویو آف ریلیجنز< انگریزی جولائی تا اکتوبر ۱۹۳۲ء۔ ملک صاحب کے قلم سے حضور کے لیکچر >اسلام میں اختلافات کا آغاز< کا انگریزی ترجمہ بھی ریویو آف ریلیجنز میں شائع شدہ ہے۔
۱۳۳۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۷۔۲۰۸
۱۳۴۔
دوسرے غیر مسلم مضمون نگاروں کے نام یہ تھے سردار جوند سنگھ صاحب سعد اللہ پور ضلع گجرات پنڈت مہر چند صاحب لدھیانہ` لالہ دنی چند صاہب کپور آنریری پرچارک شادی بیوگان سرہند۔ پنڈت گیانیندر دیو شرما صاحب شاستری گورکھپور` لالہ سرداری لعل صاہب ودوان حجرہ شاہ مقیم منٹگمری۔ سردار جسونت سنگھ دریا رام ضلع ہوشیارپور بابو اتنت پرشاد صاحب بی۔ اے` ایل ایل بی` وکیل وریٹس بھاگلپور۔ یہ مضامین ملک فضل حسین صاحب منیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے >دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں< کے نام سے عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دی تھیں۔ ملک صاحب موصوف کی خدمات کا کئی مقام پر ذکر آئے گا لہذا ضمناً یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک صاحب نے بکڈپو تالیف و اشاعت صدر انجمن احمدیہ کے مینجر ہونے کی حیثیت سے اس قومی ادارہ کو سالہا سال تک نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ اور آپ کے زمانہ اہتمام میں سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی خوب اشاعت ہوئی ہے۔
۱۳۵۔
پیغام صلح ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ )مضمون مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(
۱۳۶۔
مولوی محمد علی صاحب۔ ناقل
۱۳۷۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم۱
۱۳۸۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۷
۱۳۹۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۱۴۰۔
الفضل ۲۶ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۴۱۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ کالم ۱۔۲
۱۴۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب >حیات بشیر< طبع اول صفحہ ۲۷۲۔۲۸۳ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسلہ احمدیہ( کتاب >نبیوں کا چاند< طبع اول صفحہ ۶۶۔۷۳ )مولفہ فضل الرحمن صاحب نعیم( شائع کردہ اتالیق منزل ربوہ۔
۱۴۳۔
الفضل ۲۰ / نومبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۔۵
۱۴۴۔
الفضل ۲۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۲ ۔ الفضل ۱۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۱
۱۴۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں مولوی غلام احمد صاہب بدوملہوی )حال مبلغ گیمبیا( ایک ماہ تک حوالہ جات وغیرہ نکالنے کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر رہے۔
۱۴۶۔
ٹائمز آف انڈیا نے ۲۴ / جون ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں آنحضرت~صل۱~ کے حرم پاک کا ذکر نہایت گرے ہوئے الفاظ میں کیا تھا۔ جس پر حضور نے چٹھی لکھی اور اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ایس جیسن کو تحریری معذرت کرنا پڑی حضرت اقدس کی چٹھی اور اس معذرت نامہ کا متن الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ پر شائع شدہ ہے۔
۱۴۷۔
نجران مکہ معظمہ سے یمن کی طرف سات منزل پر ایک وسیع علاقہ کا نام ہے جہاں عیسائیوں کا ایک عظیم الشان کلیسا تھا جس کو وہ کعبہ کہتے تھے اور حرم کعبہ کا جواب سمجھتے تھے۔ تفصیلات معجم البلدان اور فتح الباری میں موجود ہیں۔ )بحوالہ سیرت النبی~صل۱~ حصہ اول جلد دوم صفحہ ۳۷۔۳۸۔ از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی مرحوم(
۱۴۸۔
زاد المعاد ابن قیم~رح~ )بحوالہ سیرت النبیﷺ~ حصہ اول جلد دوم صفحہ ۳۸۔ از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی مرحوم(
۱۴۹۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶
۱۵۰۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۱۔۲
۱۵۱۔
ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے مشہور لیڈر تھے جو ۱۹۲۷ء میں آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ مسلم حقوق و مطالبات کی نمائندگی کے لئے انگلستان گئے تھے۔
۱۵۲۔
الفضل ۲۱ /جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ تا۷
۱۵۳۔
الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲
۱۵۴۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ کالم ۱۔۲
۱۵۵۔
الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۵۶۔
الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱ ۔ حضور قبل ازیں قریباً دو ہفتہ تک ڈلہوزی میں قیام پذیر ہونے کے بعد ۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کو قادیان بھی تشریف لے گئے اور ۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو واپس ڈلہوزی آگئے )الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۵۷۔
الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳
۱۵۸۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۵۹۔
جن جماعتوں نے چندہ خاص کے وعدے پورے کر دئیے ان کے نام رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۹۳ پر شائع شدہ ہیں۔
۱۶۰۔
الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۱۶۱۔
اخبار >پیغام صلح< لاہور ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۲
۱۶۲۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۱۔۲
۱۶۳۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۶۴۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲
۱۶۵۔
یہ درس حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر ثانی ترمیم و اصلاح اور بہت سے اضافوں کے بعد ۱۹۴۰ء میں تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا جس کی تفصیل اگلی جلد میں آ رہی ہے۔
۱۶۶۔
اس وقت تک ابھی مائیکروفون کا استعمال قادیان میں شروع نہیں ہوا تھا۔
۱۶۷۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۱۶۸۔
اس بارے میں پہلا اعلان الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء میں اور دوسرا الفضل ۲۲ / مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا۔ اس کے بعد ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء سے ۷ / اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں۔
۱۶۹۔
الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء تا ۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۰۔
مثلاً حافظ عبدالسلام صاحب شملہ` مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے ایل ایل بی گورداسپور` چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل لائلپور۔ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری۔ صالح محمد صاحب قصور` نذیر احمد صاحب متعلم بی ایس سی بابو عبدالحمید صاحب شملہ` قریشی رشید احمد صاحب بی۔ ایس سی۔ میرٹھ ۔ بابو فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر کیمل پور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجرات۔ سید محمد اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر نور محل` بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ` ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس۔
۱۷۱۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۲۔
مولوی ارجمند خان صاحب کی روایت ہے کہ >ایک دفعہ میں نے اختتام درس پر حضرت مولانا )سید محمد سرور شاہ صاحب۔ ناقل( سے عرض کیا آپ لکھنے کی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں۔ آپ کو قرآن مجید کے علوم سے واقفیت اور پورا عبور حاصل ہے آپ نے جواباً فرمایا ایک تو میں حضرت صاحب کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں دوسرے یہ کہ اگرچہ میں حضور کو خلافت سے قبل پڑھاتا رہا ہوں لیکن منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ پر معارف اور حقائق قرآنیہ کا ایسا دروازہ کھولا ہے کہ میرا فہم ان علوم سے قاصر ہے اور میں حضور کا شاگرد ہوں استاد نہیں<۔ )اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۵۴ طبع اول(
‏h1] ga[t۱۷۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸۔ >اصحاب احمد< جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۵۴ )مرتبہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان( تاریخ اشاعت ستمبر ۱۹۶۴ء ناشر احمدیہ بکڈپور ربوہ طبع اول۔
۱۷۴۔
دو اڑھائی سو مستورات بھی پردہ میں بیٹھ کر استفادہ کرتی تھیں )الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱(
۱۷۵۔
الفضل ۱۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔۲
۱۷۶۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۷۷۔
الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۳
‏h1] ga[t۱۷۸۔
الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۹۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱
۱۸۰۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم۱۔۲
۱۸۱۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳
۱۸۲۔
افسوس یہ تاریخی فوٹو اب قریباً ناپید ہے اور باوجود تلاش کے >شعبہ تاریخ احمدیت< ربوہ کو اب تک دستیاب نہیں ہو سکا۔ الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ میں مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور )حال امیر صوبائی مغربی پاکستان( کے قلم سے >درس کے اجتماع کا فوٹو< کے عنوان سے اس فوٹو کا یوں ذکر ملتا ہے کہ >جن دوستوں نے درس کے موقعہ پر فوٹو کی قیمت ادا کی تھی ان کی خدمت میں اطلاعاً عرض ہے کہ وہ اپنی کاپی مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل مدرسہ احمدیہ قادیان سے محصول ڈاک بھیج کر منگوا سکتے ہیں<۔
۱۸۳۔
ولادت ستمبر ۱۸۹۲ء بیعت ۱۹۱۲ء۔ ۱۹۳۲ سے ۱۹۴۲ء تک جماعت احمدیہ نئی دہلی و شملہ کے امیر رہے اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک نئی دہلی کی جماعت احمدیہ کے امیر اور مشترکہ جماعت دہلی و نئی دہلی کے نائب امیر کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں پنشن پانے کے بعد زندگی وقف کی اور سالہا سال تک تحریک جدید میں وکیل الدیوان اور وکیل اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے اور ان دنوں وکیل المال ثانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
۱۸۴۔
الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۲
۱۸۵۔
الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳ و صفحہ ۷۔۸
۱۸۶۔
الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳ و صفحہ ۷۔۸
۱۸۷۔
الفضل ۱۶۔۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۸۔
الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۹۔
‏h2] ga[tالفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۰۔
الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۹۱۔
الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۲۔
الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۳۔
الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۱۹۴۔
الفضل ۲۹ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲
۱۹۵۔
الفضل ۱۶ / جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷
۱۹۶۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴<۔ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹
۱۹۷۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۲۔۴ )از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ(
۱۹۸۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴۔
۱۹۹۔
مرزا محمد دہلوی کی کتاب >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۰۔۱۲۱ سے اس کی مزید تفصیلات کا پتہ چلتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ >سوال ہوا کہ اس رپورٹ ساز کمیٹی کے مسلم اراکین آخر کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس رپورٹ پر کیوں دستخط کر دئیے اس وقت یہ عقدہ کھلا کہ اس کمیٹی کے دو مسلم ارکان میں سے ایک شعیب قریشی نے >مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حمایت کرتے ہوئے نہایت قابلیت` معقولیت اور جرات کے ساتھ پنڈت موتی لال نہرو کی تجاویز سے اختلاف کیا تھا لیکن جب پندت جی نے ان کو نہ مانا تو وہ پھر کمیٹی کے کسی جلسہ میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ اور فوراً الٰہ آباد سے بمبئی واپس چلے گئے انہوں نے کمیٹی سے اختلاف کرتے ہوئے ایک بیان بھی لکھا تھا لیکن پنڈت موتی لال نہرو نے وہ اختلافی بیان رپورٹ کے ساتھ شائع نہیں کیا اور مولانا کفایت اللہ صاحب اس سے بھی زیادہ صفائی کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسٹر شعیب قریشی نے ان سے کہا تھا کہ انہوں نے )یعنی شعیب قریشی نے( نہرو رپورٹ پر اپنے دستخط نہیں کئے ہیں لیکن اس کے متعلق انہوں نے اپنے لبوں پر اس لئے مہر سکوت قائم رکھی کہ ایسا نہ کرنے سے رپورٹ کی اہمیت ختم ہو جاتی تھی۔ اور سر علی امام کے متعلق جو اس رپورٹ ساز کمیٹی کے دوسرے مسلم ممبر تھے۔ مولانا کفایت اللہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رپورٹ پر دستخط تو کر دئیے تھے لیکن اسے پڑھا نہ تھا۔ چنانچہ لکھنئو میں جب یہ رپورٹ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں پیش ہوئی تو سر علی امام نے اس کی حمایت میں جو تقریر کی اس کا بڑا حصہ ان تجاویز سے مختلف تھا جو مسلمانوں کے متعلق نہرو رپورٹ میں شائع کی گئی تھیں<۔ )دی کیس آف دی مسلم صفحہ ۴(
۲۰۰۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴ ۔ ۱۷۵۔
۲۰۱۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۵ ۔ )از سیدناحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ(
۲۰۲۔
>سیاست ملیہ< صفحہ ۲۲۶ )محمد امین زبیری مارہروی( مطبوعہ عزیزی پریس آگرہ مارچ ۱۹۴۱ء صفر ۱۳۶۰ھ
۲۰۳۔
>تحریک آزادی< )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۸ ناشر انور عارف مالک مطبع ماحول کراچی طبع دوم نومبر ۱۹۵۹ء آپ نے ایک مقام پر مسئلہ اقلیت کی نسبت یہ بھی لکھا ہے۔ >میں ایک لمحہ کے لئے یہ باور نہیں کر سکتا کہ ہندوستان کے مستقبل کے نقشے میں ان اندیشوں کے لئے کوئی جگہ نکل سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان اندیشوں کا صرف ایک ہی علاج ہے ہمیں دریا میں بے خوف و خطر کود جانا چاہیئے۔ جوں ہی ہم نے ایسا کیا ہم معلوم کرلیں گے کہ ہمارے تمام اندیشے بے بنیاد تھے<۔ >)خطبات ابو الکلام آزاد< طبع اول صفحہ ۳۱۴(
۲۰۴۔
ایضاً صفحہ ۱۱۱۔
۲۰۵۔
ایضاً صفحہ ۱۱۰ و صفحہ ۱۱۲
۲۰۶۔
تحریک آزادی )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۱۲۔۱۱۳
۲۰۷۔
>خطبات ابو الکلام آزاد< صفحہ ۳۱۹ ناشر ایم ثناء اللہ خاں اینڈ سنز ۲۶ ریلوے روڈ لاہور
۲۰۸۔
ایضاً صفحہ ۳۱۹ ۔ ۳۲۰(
۲۰۹۔
>تاریخ احرار< )از چوہدری افضل حق( صفحہ ۹ طبع اول۔ >سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری< )از جناب شورش کاشمیری( صفحہ ۸۵ طبع اول
۲۱۰۔
مجلس احرار اسلام کا آرگن >آزاد< ۳۱ / جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۹
۲۱۱۔
ایضاً ۱۰ ` ۱۲
۲۱۲۔
ایضاً صفحہ ۱۰
۲۱۳۔
>تاریخ احرار< صفحہ ۲۷ )از چوہدری افضل حق صاحب( ناشر زمزم بک ایجنسی بیرون موری دروازہ لاہور۔
۲۱۴۔
اہلحدیث ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳
۲۱۵۔
روزنامہ >ہمدم< لکھنئو ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء
۲۱۶۔
ملاحطہ ہو >اہلحدیث< )امرت سر( ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔۳ و >اہلحدیث< امرت سر ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳
۲۱۷۔
>تحریک آزادی< )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۱۳ و >سیرت محمد علی< صفحہ ۴۱۶
۲۱۸۔
تصدق احمد صاحب شروانی ممبر مجلس وضع آئین و قوانین ہند نے انہی دنوں اخبار زمیندار )۲۹ / ستمبر ۱۹۲۸ء( میں لکھا تھا۔ >نہرو رپورٹ کے شائع ہونے اور آل پارٹیز کانفرنس لکھنئو میں اس کے منظور ہو جانے کے بعد بھی اخبارات میں اس کے متعلق مخالف اور موافق متعدد مضامین شائع ہو رہے ہیں جہاں تک میری نظر سے اردو اخبارات گذرے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی اخبار میں میں نے کوئی تنقید یا تبصرہ اس رپورٹ کے متعلق نہیں دیکھا۔ اجمالی طور پر اس رپورٹ کی موافقت یا مخالفت کی گئی ہے<۔ )بحوالہ الفضل ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم۲(
۲۱۹۔
کتاب >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ<
۲۲۰۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۱۰۔۱۴
۲۲۱۔
چنانچہ مسٹر جناح نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا >ہمیں )کلکتہ لیگ کے بانیوں کو( اس کمرہ میں اکثریت حاصل ہے۔ لیکن کیا ہمیں ملک میں بھی اکثریت حاصل ہوگی؟ )اس پر لوگوں نے کہا۔ ہاں( مسٹر جناح نے کہا کہ میرے لئے اس سے زیادہ کوئی امر خوشکن نہ ہوگا۔ مگر انصاف یہ چاہتا ہے کہ میں اقرار کروں کہ مجھے اس پر اطمینان حاصل نہیں ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت ہماری تائید میں ہے<۔ )سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲/ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۳( بحوالہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ صفحہ ۱۶
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے لئے ایک تہائی نیابت ملنے کی شرط پر مخلوط انتخاب کے حامی ہوگئے تھے۔ لیکن سر شفیع اور ان کے رفقاء نے مسٹر جناح کی اس پالیسی سے اختلاف کیا اور لیگ دو حصوں میں بٹ گئی ایک کے صدر مسٹر جناح اور سیکرٹری ڈاکٹر کچلو اور دوسری کے صدر سر شفیع اور سیکرٹری سر محمد اقبال قرار پائے< >)ذکر اقبال< صفحہ ۱۳۹( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کا تعاون اس مرحلہ پر شفیع لیگ کو حاصل تھا۔
۲۲۲۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۳۵۔۳۶
۲۲۳۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ<صفحہ ۱۱۶
۲۲۴۔
الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۔ رورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۵۷
۲۲۵۔
الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۸
۲۲۶۔
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۱۔۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰۸
۲۲۷۔
الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۔۹
۲۲۸۔
بطور ثبوت ملاحظہ ہو الفضل ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷` ۶ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰` ۹ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و صفحہ ۶` ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲` ۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و صفحہ ۱۰` ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰` ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷` ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲`۸ ` ۱۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۲۲۹۔
سیاست ۳۱ / جولائی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۹ / اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶
۲۳۰۔
الفضل ۱۴ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲۔۳ ۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱۔۱۲ و الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ ۔ الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸
۲۳۱۔
اقتباس از مکتوب ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )دفتر تفسیر القرآن انگریزی ٹمپل روڈ لاہور(
۲۳۲۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ طبع اول صفحہ ۱۰
۲۳۳۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< طبع اول صفحہ ۱۲
۲۳۴۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۴
۲۳۵۔
جناب عبدالمجید صاحب سالک اور محمد مرزا دہلوی کے نظریہ کے مطابق جناب محمد علی جناح نے چودہ نکات مسلم کنوینشن دہلی کے انعقاد کے بعد پیش کئے جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے۔
۲۳۶۔
حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۷۵ ۔ ۱۷۶
۲۳۷۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۲۵ )از رئیس احمد جعفری( طبع دوم ۱۹۵۰ء
۲۳۸۔
الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ ۔ مسلم لیگی وفد میں شامل دوسرے ممبران میں سے بعض کے نام راجہ صاحب محمود آباد صدر اجلاس` ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو۔ مسٹر چاگلا۔ ڈاکٹر سید محمود صاحب` مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار۔ نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب۔ چوہدری خلیق الزمان صاحب۔ مسٹر عبداللہ صاحب بریلوی )حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۷(
۲۳۹۔
سیرت محمد علی صفحہ ۵۲۵
۲۴۰۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۷ ۔ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری اپنی کتاب >سیرت محمد علی< میں لکھتے ہیں۔ >ان )یعنی مولانا محمد علی جوہر ۔ ناقل( کی تقریر کے بعد دوسرے بزرگوں نے اسی موضوع پر تقریر کی اور ان کے نظریہ کی مخالفت اور درجہ مستعمرات کی حمایت کی مباحثہ ابھی اسی موضوع پر جاری ہی تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت آگیا اور محمد علی مغرب کی نماز پڑھنے باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نماز پڑھ کر واپس آ رہے تھے لیکن ابھی ڈائس تک پہنچے تھے کہ کسی نے ان سے کہہ دیا درجہ مستعمرات تو پاس ہوگیا اور اس پر مباحثہ بھی ختم ہوگیا۔ سنتے ہی محمد علی نا انا لل¶ہ پڑھا اور الٹے پائوں واپس آگئے پھر انہوں نے کنوینشن میں شرکت نہیں کی اگرچہ زور بہت ڈالا گیا<۔ )صفحہ ۵۲۷(
۲۴۱۔
مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۸
۲۴۲۔
‏h2] gat>[سیرت محمد علی< طبع دوم ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۲۸۔۵۲۹ )از رئیس احمد جعفری( کتاب منزل لاہور۔
۲۴۳۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۲۹۔۵۳۰
۲۴۴۔
>حیات محمد علی جناح< طبع اول صفحہ ۱۷۹۔۱۸۰
۲۴۵۔
حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۸۱
۲۴۶۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۳۰۔۵۳۱
۲۴۷۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۸۳
۲۴۸۔
تفصیل کے لئے ملاحطہ ہو الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰
۲۴۹۔
کانفرنس میں شریک ہونے والے بعض اصحاب کے نام : سر آغا خاں` مولانا محمد علی جوہر` سر ابراہیم رحمت اللہ سر شفیع` سر محمد اقبال` سر ذوالفقار علی خاں` مسٹر اے کے غزنوی` مسٹر شرف الدین` مولوی شفیع دائودی` سیٹھ عبداللہ ہارون` نواب محمد اسماعیل خان` نواب محمد یوسف` مولوی محمد یعقوب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی` مسٹر محمود سہروردی` سید رضا علی` صاحبزادہ سلطان احمد` ڈاکٹر ضیاء الدین` دائود صالح بھائی` عبدالماجد بدایونی` حسرت موہانی` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` خان بہادر ہدایت حسین` مولوی آزاد سبحانی مولوی کفایت اللہ` مولوی محمد عرفان` ڈاکٹر ذاکر حسین خاں` عبدالمجید سالک` غلام رسول مہر۔ )الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء و سرگزشت )از عبدالمجید صاحب سالک( صفحہ ۲۵۷
۲۵۰۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۳۵۔۵۳۶
۲۵۱۔
>سرگزشت< )از عبدالمجید سالک( طبع اول صفحہ ۲۵۷
۲۵۲۔
الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ و الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳
۲۵۳۔
>ذکر اقبال< صفحہ ۱۴۳
۲۵۴۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۲۔۱۲۳
۲۵۵۔
الفضل ۱۱ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۲۵۶۔
>سرگزشت< )از عبدالمجید سالک( صفحہ ۲۶۰
۲۵۷۔
>سلسلہ احمدیہ< صفحہ ۳۹۸۔۳۹۹ )مولفہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۲۵۸۔
خطوط وحدانی کا حصہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے اپنے قلم سے اضافہ فرمایا ہے )المولف(
۲۵۹۔
>مرکز احمدیت قادیان< صفحہ ۴۹ ۔ ۵۱ )مولفہ شیخ محمود احمد عرفانی مرحوم مجاہد بلاد عربیہ(
۲۶۰۔
الحکم ۲۰ / اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۲۔۱۳ )بحوالہ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۳۳۔۴۳۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہاں تک دکھایا گیا کہ قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پہنچ جائے گی )الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۶۔ کالم۳ و تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۷۹( مگر اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی اطلاع دی گئی کہ اس قادیان کی اس پر رونق اور وسیع آبادی سے قبل قادیان کو ابتلائوں کے ایک سلسلہ میں سے گذرنا پڑے گا۔ مثلاً آپ کو دکھایا گیا قادیان آنے کا راستہ حضور پر بند ہے )تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۶۳( الدار کے اردگرد ایک دیوار کھینچی جا رہی ہے جو فصیل شہر کے رنگ میں ہے )ایضاً صفحہ ۴۴۰۔۴۴۳( قادیان کے راہ میں سخت اندھیرا ہے مگر آپ ایک غیبی ہاتھ کی مدد سے کشمیری محلہ سے ہوتے ہوئے پہنچ گئے ہیں )ایضاً ۸۳۳۔۸۳۴( اس سلسلہ میں حضور کو یہ الہام بھی ہوا کہ ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد یعنی وہ قادر خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا۔ )تریاق القلوب صفحہ ۹۱۔ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۳۱۳(
۲۶۱۔
الحکم ۱۷ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲ ۔ بحوالہ تذکرہ صفحہ ۵۳۴
۲۶۲۔
تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۸۰۔۷۸۱۔۸۰۹
۲۶۳۔
‏h2] gat[الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۶۴۔
>سلسلہ احمدیہ< )صفحہ ۳۹۹( طبع اول۔
۲۶۵۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ قبل ازیں آخر ۱۹۱۴ء میں گورداسپور سے بوٹاری تک لائن بچھانے کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی اور حکومت نے اس کی پیمائش کی ابتدائی منظوری بھی دے دی تھی۔ اور گویہ قطعی بات نہ تھی کہ یہ لائن قادیان سے ہوکر گذرے مگر درمیانی حصہ میں اہم ترین مقام قادیان ہی تھا اس لئے قرین قیاس یہی تھا کہ یہ قادیان کے راستہ سے بوٹاری تک پہنچے گی۔ لیکن یہ تجویز ابتدائی مرحلہ پر ہی ملتوی ہوگئی اور تیرہ سال تک معرض التواء میں پڑ گئی اس بات کا علم بابو قریشی محمد عثمان احمدی ہیڈ ڈرافٹسمین دفتر چیف انجینئر نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور کے ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے ۸ / نومبر ۱۹۱۴ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نام لکھا تھا۔ اور جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں محفوظ ہے بابو صاحب نے اس خط میں لکھا۔ >نئی لائنوں کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ منظوری گورنمنٹ کی تعمیر کے لئے نہیں بلکہ پیمائش کرنے کے لئے ہے چنانچہ اس کی پیمائش عنقریب شروع ہونے والی ہے پھر یہ خیال ہوا کہ جب گورنمنٹ نے لائنوں کی لمبائی وغیرہ دی ہے تو پیمائش ابتدائی کے نقشے دفتر میں ہوں گے۔ مگر ابتدائی پیمائش ہی نہیں ہوئی صرف سرسری (Rangl) لمبائی نقشہ سے ناپ لی گئی ہے اور اس کی منظوری دے دی گئی۔ گورداسپور ڈسٹرکٹ کا نقشہ (map) دیکھنے سے معلوم ہوا کہ قادیان اس لائن پر آتا ہے جو گورداسپور سے بوٹاری تک منظور ہوئی جس کی لمبائی قریباً ۳۷ میل ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ لائن گورداسپور سے سیدھی بوٹاری جاوے تو قادیان قریباً ساڑھے تین میل رہ جاتا ہے۔ اگر قادیان ہی ہو کر جاوے تو مطلب حاصل ہے زیادہ قرینہ قوی اس بات کا ہے کہ لائن قادیان ہو کر گزرے کیونکہ اس کے گردونواح میں قادیان سب سے بڑی جگہ ہے اور لائن منظور شدہ کی لمبائی Miles) (37 ہی اس وقت درست آتی ہے جبکہ لائن قادیان ہوکر گذرے<۔ اگر اس تجویز کے مطابق لائن بچھائی جاتی تو اس کا سرسری نقشہ حسب ذیل ہوتا :

۲۶۶۔
الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۶۷۔
الفضل ۱۷ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۲
۲۶۸۔
الفضل ۱۶۔۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔۲
۲۶۹۔
الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۲۷۰۔
الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۲۷۱۔
الفضل ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ایضاً رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۵۰
۲۷۲۔
مکتوب شیخ محمد دین صاحب محررہ ۲۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ )بنام مولف کتاب(
۲۷۳۔
>اصحاب احمد< جلد اول صفحہ ۱۰۴ میں لکھا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے منشی صاحب~رضی۱~ کو حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب کا نائب فرمایا اور منشی صاحب کئی ماہ تک سارا سارا دن پیدل سفر کر کے تندہی سے کام کرتے رہے۔
۲۷۴۔
ماخوذ از مکتوب جناب شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام ۲۰ / جولائی و ۲۷ / جولائی ۱۹۶۵ء
۲۷۵۔
الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۲۷۶۔
اس کا مکمل متن الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸ میں چھپا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قادیان میں گاڑی آنے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہمرکاب سفر کرنے کی نسبت ایک مبشر خواب بھی دیکھا تھا جس کا ذکر آپ نے اس ٹریکٹ میں بھی کر دیا ہے۔
۲۷۷۔
ایضاً صفحہ ۷
۲۷۸۔
مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس کی تنظیم ان دنوں بہت مستعد اور سرگرم عمل تھی۔ اس تنظیم کا ایک کارنامہ یاد رہے گا۔ اور وہ یہ کہ جب ۲۷ / دسمبر کے جلسہ میں بہت سے لوگوں کو پنڈال کی کوتاہی کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اظہار ناراضگی فرمایا۔ جس پر مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس دوسرے احباب کے ساتھ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت کی نگرانی میں رات کے گیارہ بجے سے لے کر فجر کی نماز سے کچھ پہلے تک نہایت محنت` غیر معمولی تدبر اور پوری تندہی سے بغیر ایک منٹ کے وقفہ اور آرام کے شہتیریاں اٹھانے اور اینٹیں اور گارا بہم پہنچانے کا کام کرتے رہے اور جلسہ کی جگہ کافی وسیع ہوگئی اور اس کے احاطہ میں تین ہزار کے قریب زیادہ نشستوں کی گنجائش پیدا ہوگئی۔ کام کرنے والوں میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی شامل تھے۔ غرض یہ کام اس خاموشی اور عمدگی سے انجام پایا کہ دوسرے روز دوسری تقریر کے وقت حضور نے اس کام پر اظہار خوشنودی فرمایا۔ اور سکائوٹس اور دوسرے لوگوں کو اپنے دست مبارک سے بطور یادگار تمغے عنایت فرمائے۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۷۵۔۱۷۶ و الفضل ۳ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( قادیان کے رسالہ >جامعہ احمدیہ< کے سالنامہ )صفحہ ۴۳( پر ان سکائوٹس کی تصویر شائع شدہ ہے۔
۲۷۹۔
الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء
۲۸۰۔
اس پہلی گاڑی کے گارڈ کا نام بابو ولی محمد صاحب اور ڈرائیور کا نام بابو عمر دین صاحب تھا گاڑی امرت سر سے بٹالہ تک ۲۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بٹالہ تا قادیان ۱۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آئی جس میں پانچ بوگیاں تین سنگل گاڑیاں اور دو بریک وان تھیں۔ انجن Class T۔S اور ۷۰۹ نمبر کا تھا۔ اس پہلی گاڑی کو جو امرت سر سے قادیان جانی تھی دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کے لئے دور ترین فاصلہ سے جو پہلے ٹکٹ خریدے گئے وہ مکرم شیخ احمد اللہ صاحب ہیڈ کلرک کنٹونمنٹ بورڈ نوشہرہ اور ان کی ہمشیرزادی زبیدہ خاتون صاحبہ کے نوشہرہ چھائونی سے قادیان تک کے تھے یہ گاڑی رات کو ۲/۱ ۶ بجے امرت سر چلی گئی جس میں بٹالہ` امرت سر اور لاہور کے بہت سے اصحاب واپس ہوگئے۔ ریل کے افتتاح پر احمدیان مالابار اور احمدیہ ایسوسی ایشن میمو )برما( نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حضور مبارکباد کے تار ارسال کئے اور اپنی عدم شمولیت پر اظہار افسوس کیا۔
۲۸۱۔
>تاریخ احمدیت< جلد سوم )صفحہ ۵۵۷۔۵۵۸۔۵۸۰( اور تاریخ احمدیت جلد چہارم )صفحہ ۲۱۴۔۲۱۵( پر اس حقیقت کی تائید میں متعدد شواہد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملاحظہ ہو حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کا مضمون مطبوعہ الفضل ۲۵ / ستمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۵(
۲۸۲۔
الفضل ۶ / جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ کالم ۲
۲۸۳۔
الفضل ۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۲
۲۸۴۔
ٹریکٹ >الصلح خیر< صفحہ ۲۔۳
۲۸۵۔
تفصیل ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گی۔
۲۸۶۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۸۷۔
الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔۲۔۱۱۔۱۲
۲۸۸۔
>فضائل القرآن< طبع اول صفحہ ۱۳۴۔۱۳۵
۲۸۹۔
اس سلسلہ کے پانچ ابتدائی لیکچر خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم ایڈیٹر >الفضل< نے قلمبند کئے اور آخری تقریر مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم نے لکھی۔ ان سب تقریروں کا مجموعہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ نے >فضائل القرآن< ہی کے نام سے دسمبر ۱۹۶۳ء میں شائع کر دیا ہے۔
۲۹۰۔
>فضائل القرآن< طبع اول صفحہ ۴۳۹
۲۹۱۔
الفضل ۲ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے حقیقی چچا تھے آپ نے ۱۸۹۱ء میں تحریری اور فروری ۱۸۹۲ء میں دستی بیعت کی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اہل بیت سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور خلافت سے وابستگی تو ان کے ایمان کا جزو تھا۔ )الفضل ۱۳ / مارچ ۱۹۲۸ء(
۲۹۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۴۴۰ ۔ ۴۴۲( ۳۱۳ کی فہرست میں آپ کا نام ۴۷ نمبر پر لکھا ہے۔
۲۹۳۔
بعمر ۸۹ سال )ریکارڈ بہشتی مقبرہ قادیان( ۳۱۳ ۔ اصحاب میں ان کا نام ۵۹ نمبر پر درج ہے۔
۲۹۴۔
حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ رئیس لاہور کے چھوٹے بھائی اور حضرت میاں محمد شریف صاحب ای۔ اے۔ سی کے والد۔ سلسلہ احمدیہ کے آغاز ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام میں شریک ہوئے اور نہایت اخلاص سے زندگی بسر کی )الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( و )الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۱(
۲۹۵۔
ولادت ۱۸۴۸ء سن بیعت ۱۸۹۸ء۔ شروع عہد خلافت ثانیہ سے معتمد صدر انجمن احمدیہ تھے۔ ۱۹۲۱ء میں جب امراء کا نظام قائم ہوا تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جماعت امرتسر کا امیر مقرر فرمایا۔ )الفضل ۳۰ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۶-۷(
۲۹۶۔
غلام حسین صاحب لدھیانوی کا بیان ہے کہ میں نے حافظ صاحب سے دریافت کیا کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں کس طرح داخل ہوئے۔ آپ نے فرمایا۔ جب حضور )پہلی بار( لدھیانہ تشریف لائے تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ لدھیانہ تشریف لائے ہیں اور خواب ہی میں اس محلہ اور مکان کا پتہ بھی دیا گیا میں تلاش میں نکلا تو بعینہ حضرت صاحب کی زیارت ہوئی۔ اور میں حضور کی مجلس میں حاصر ہوتا رہا۔ اس کے بعد بیعت اولیٰ کے موقعہ پر حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب کے مکان پر جاکر بیعت کرلی۔ بیعت کنندگان کی فہرست میں آپ کا اس وقت چودھواں نمبر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام حصہ اول طبع اول کے صفحہ ۸۱۷ پر آپ کا ذکر خیر ان الفاظ میں کیا ہے۔ >حافظ صاحب جوان صالح بڑے محب اور مخلص اور اول درجہ کا اعتقاد رکھنے والے ہیں ہمیشہ اپنے مال سے خدمت کرتے رہتے ہیں جزاہم اللہ خیر الجزا<۔ ۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست میں آپ کا نام ۱۷۸ نمبر پر مرقوم ہے۔ )الفضل ۱۱ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲(
۲۹۷۔
الفضل ۲۴ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔ ان کے مفصل حالات حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے قلم سے الفضل ۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۔۹ پر شائع شدہ ہیں۔
۲۹۸۔
خواتین میں سے اہلیہ حضرت مولوی صوفی حافظ غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس ۱۶ / جنوری ۱۹۲۸ء کو اور محمودہ بیگم صاحبہ )اہلیہ مولوی عبدالسلام صاحب عمر( ۲۶ / مئی ۱۹۲۸ء کو اور آخر مئی ۱۹۲۸ء میں اہلیہ صاحبہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو والدہ محترمہ خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کا انتقال ہوا )الفضل ۲۰ / جنوری ۱۹۲۸ء و ۲۹ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔
۲۹۹۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۳۰۰۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۳۰۱۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۰۲۔
‏h2] gat[الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۰۳۔
الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۰۴۔
الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۳۰۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۶
۳۰۶۔
ملاحظہ ہو >تاریخ احمدیت< جلد پنجم صفحہ ۲۲۸
۳۰۷۔
الفضل ۱۵ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸
۳۰۸۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۲
۳۰۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۶۵
۳۱۰۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۲۱
۳۱۱۔
الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱
۳۱۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۱۹ء صفحہ ۲۶۹
۳۱۳۔
یہ دعویٰ الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے ایک مضمون بعنوان >احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا کچا چٹھا< پر کیا گیا۔
۳۱۴۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۳۳۔ پیغام صلح ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔ الفضل ۲۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۱۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۲۷
۳۱۶۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ صفحہ ۲
۳۱۷۔
الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۳۱۸۔
الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔۱۰
۳۱۹۔
الفضل ۱۷ / جنوری ۱۹۲۱ء
۳۲۰۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۸
۳۲۱۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۲
۳۲۲۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۸ کالم ۲۔۳
۳۲۳۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۶
۳۲۴۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۳ و >تاریخ احمدیت< جلد پنجم صفحہ ۴۹۹
۳۲۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۷
۳۲۶۔
الفضل ۲۵ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۳۲۷۔
الفضل ۲۷۔ اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۲۸۔
الفضل ۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۲۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۴۔
۳۳۰۔
الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۳۱۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۲
۳۳۲۔
الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۳۳۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء پر اس کی نسبت ارشاد فرمایا۔ کہ >ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ خرید کر اپنے پاس رکھے< الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۳(
۳۳۴۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔
۳۳۵۔
اس کتاب کے چار حصے شائع ہوئے پہلا دوسرا ۱۹۲۸ء میں اور تیسرا چوتھا ۱۹۲۹ء میں۔
۳۳۶۔
میر مدثر شاہ صاحب غیر مبائع مبلغ کے ٹریکٹ >تناقضات مابین اقوال حضرت صاحب و میاں صاحب< کا جواب۔
‏h1] [tag۳۳۷۔
الفضل ۲۴ / دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۳
۳۳۸۔
الفضل ۲۰ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ )تاریخ مباحثہ ۲۶ تا ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء(
۳۳۹۔
الفضل ۲۷ / اپریل ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۱۸ / مارچ ۱۹۲۸ء(
۳۴۰۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۲۹ / جولائی ۱۹۲۸ء(
۳۴۱۔
الفضل ۲ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ )تاریخ مناظرہ ۱۳/ فروری ۱۹۲۸ء(
۳۴۲۔
الفضل ۱۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ پر اس مناظرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولوی صاحب نے ہر سوال کا جواب قرآن سے دیا جسے سن کر لوگ عش عش کر اٹھے )تاریخ مناظرہ مارچ ۱۹۲۸ء(
۳۴۳۔
یہ مباحثہ ۶۔۷۔۸ / اپریل ۱۹۲۸ء تین روز جاری رہا۔ احمدی مناظر نے اپنے دلائل اس خوبی اور عمدگی سے بیان کئے کہ غیر احمدی بلکہ غیر مسلم تک نے خراج تحسین ادا کیا )الفض ۲۲ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۳۴۴۔
مناظرہ کا موضوع >نیوگ< تھا آریہ مناظر نے علی الاعلان تسلیم کیا۔ کہ نیوگ آریوں کا دھرم نہیں۔ ایک ہندو اس موقعہ پر اسلام لایا۔ )فاروق ۱۳ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱(
۳۴۵۔
فاروق ۲۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱۔ یہ مباحثہ ۱۳ / اگست ۱۹۲۸ء کو ہوا۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم ابھی سترہ منٹ تقریر کرنے پائے تھے کہ آریوں نے آپ کی ٹھوس اور مدلل تقریر کی تاب نہ لا کر ہنگامہ اٹھا دیا اس لئے پولیس نے مداخلت کر کے مناظرہ بند کرا دیا اور آریہ سماجی اسے غنیمت سمجھتے ہوئے میدان سے اٹھ کر چل دئیے۔
۳۴۶۔
الفضل ۱۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ )تاریخ مناظرہ ۲۲ / جولائی ۱۹۲۸ء(
۳۴۷۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ کالم ۳ )تاریخ مباحثہ ۲۱ / اکتوبر ۱۹۲۸ء(
۳۴۸۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ آریہ سماج لائل پور نے جماعت احمدیہ سے ۲۹ / اکتوبر لغایت ۳ / نومبر ۱۹۲۸ء چھ مختلف مضامین پر مباحثہ طے کیا تھا۔ مگر آریہ مناظر ۳۰ / اکتوبر کو پہنچے اس روز مسئلہ تناسخ پر مباحثہ ہوا۔ قریباً ایک گھنٹہ باقی تھا۔ کہ آریہ سماج کے مناظر کا گلابند ہوگیا۔ صاحب صدر لالہ بھگت رام صاحب ساہنی کی درخواست پر بقیہ وقت ایک گھنٹہ ۳۱ / اکتوبر پر ملتوی کر دیا گیا۔ دوسرے دن آریہ سماج کے دوسرے مناظر میدان میں آئے۔ جنہوں نے بمشکل تمام ایک گھنٹہ پورا کیا۔ اور تناسخ کی بجائے قرآن مجید پر اعتراضات شروع کر دئیے۔ جن کے مسکت جواب دئیے گئے۔ اس کے بعد آریہ سماج کو کسی اور موضوع پر مباحثہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔
۳۴۹۔
الفضل ۶ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱ )تاریخ مباحثہ ۲۳۔۲۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء
۳۵۰۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء ۔ تاریخ مباحثہ ۳۱ / اکتوبر و یکم نومبر ۱۹۲۸ء بمقام مندر آریہ سماج لوہگڈھ(
۳۵۱۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۷ / نومبر ۱۹۲۸ء(
۳۵۲۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ )تاریخ مناظرہ ۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء مقام مناظرہ باغ مہاں سنگھ(
۳۵۳۔
اس مناظرہ میں صدارت کے فرائض مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے ایل ایل بی نے انجام دئیے۔ اور انجمن نظام المسلمین نے ہر ممکن طریقہ سے مباحثہ کا انتظام کیا۔ دونوں دن غیر احمدی مناظر بطور معترض پیش ہوئے مگر خدا کے فضل سے دونوں روز احمدیت کو کھلا غلبہ حاصل ہوا۔ اور بفضلہ تعالیٰ حاضرین پر احمدی دلائل کا سکہ بیٹھ گیا۔ فالحمد للہ )الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸(
۳۵۴۔
‏]2h [tagتاریخ مباحثہ ۳۰ / دسمبر ۱۹۲۸ء۔ مضمون مباحثہ >عالمگیر مذہب< تھا۔ شروع میں آریہ سماجی مناظر نے ایک گھنٹہ تک تقریر کی کہ آئندہ دنیا کا مذہب آریہ دھرم ہوگا۔ خادم صاحب نے آریہ سماجی مناظر کی تقریر کے ۱۵ منٹ میں ایسے مسکت اور مدلل جواب دئیے کہ پنڈت صاحب اصل مبحث کو چھوڑ کر قرآن مجید پر اعتراضات کرنے لگے۔ خادم صاحب نے ان کا بھی اچھی طرح تجزیہ کر دینے کے بعد اپنے مطالبات کے جواب کا مطالبہ کیا۔ مگر وہ آخر وقت تک ان کا جواب نہ دے سکے۔ حتیٰ کہ ایک معزز ہندو وکیل پنڈت صاحب کی تقریر کے دوران بول اٹھے کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ مگر پنڈت صاحب جواب لاتے کہاں سے۔ )الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲(
‏tav.5.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل اول(
انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور راہنمائی سے لے کر
مسلمانان ہند کے تحفظ حقوق کی نئی مہم تک
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
)جنوری ۱۹۲۹ء تا دسمبر ۱۹۲۹ء بمطابق رجب ۱۳۴۷ھ تا رجب ۱۳۴۸ھ تک(
سفر لاہور
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر لاہور تشریف لے گئے۱`۲۔ اور اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب کے ہاں قیام فرمایا۔ اگلے روز )۱۳/ جنوری کو( حضور نے احمدیہ ہوسٹل میں مختلف کالجوں کے احمدی اور غیر احمدی طلباء کے علاوہ بعض دوسرے اصحاب کو بھی شرف ملاقات بخشا۳۔
۱۴/ جنوری کو آپ نے گورنر صاحب پنجاب )سرجیفری ڈی مانٹ مورنسی( سے ملاقات کی]4 [stf۴ اس کے بعد مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ میں تشریف لے گئے اور ایک پر معارف تقریر فرمائی جس میں آیت لا یمسہ الا المطھرون کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم کے اعلیٰ معارف اور نکات انہیں لوگوں پر کھولے جاتے ہیں جنہیں روحانیت حاصل ہو اور جو خدا تعالیٰ کے مقرب ہوں اور یہ قرآن کریم کے کلام الہیٰ ہونے کا ایک ثبوت ہے۔
اسی سلسلہ میں حضور نے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا جو علم دیا وہ کسی اور کو حاصل نہ تھا۔ حالانکہ اور لوگ ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑھ کر تھے اسی طرح مجھے بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایسے معارف سمجھائے ہیں کہ خواہ کوئی ظاہری علوم میں کتنا بڑھا ہوا ہو اگر قرآن کریم کے حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرے گا تو ناکام رہے گا۵۔ یہ تقریر تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔
۱۵/ جنوری کو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضور کے اعزاز میں سٹفل ہوٹل میں چائے کی دعوت دی جس میں سر شیخ عبدالقادر صاحب` خلیفہ شجاع الدین صاحب` سید محسن شاہ صاحب` مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری` شیخ نیاز علی صاحب کے علاوہ اور بھی کئی اصحاب شامل ہوئے اور مسائل حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی اس کے بعد حضور چوہدری صاحب کی کوٹھی میں تشریف لے گئے اور احمدی اور غیر احمدی دوستوں نے ملاقاتیں کیں۔
۱۶/ جنوری کو سر شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنی کوٹھی پر حضور اور حضور کے رفقاء کو چائے کی دعوت دی۔ اس سے فارغ ہو کر حضور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں تشریف لے گئے اور بہت سے اصحاب کو شرف ملاقات بخشا۔ ۱۷/ جنوری کو حضور نے بعض سربرآوردہ مسلمانوں سے ملاقات کی اور معاملات حاضرہ پر گفتگو فرماتے رہے۔
۱۸/ جنوری کی صبح کو حضور بذریعہ موٹر لاہور سے بٹالہ آئے اور بٹالہ سے ٹرین پر سوار ہو کر جمعہ سے قبل قادیان پہنچے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۶۔
انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور رہنمائی
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۲۸ء کے آخر میں مسلم ممالک خصوصاً ترکی اور افغانستان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ دین سے بے اعتنائی چھوڑ دیں اور غیر اسلامی رجحانات کا دروازہ بند کر دیں کہ یہ راستے ترقی کے نہیں ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
شاہ افغانستان امیر اللہ خان نے جو سیاحت یورپ کے دوران مغربی تہذیب و تمدن پر بے حد فریفتہ ہو گئے تھے۔ کابل واپس پہنچتے ہی مغربیت کی ترویج و اشاعت کے لئے احکام نافذ کر دیئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۳/ جنوری ۱۹۲۹ء کو افغانوں نے ایک معمولی انسان حبیب اللہ )عرف بچہ سقہ( کی سرکردگی میں مسلح بغاوت کر دی۔ امیر امان اللہ خان نے قندھار کو مرکز بنا کر کابل پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی لیکن قبائلی سرداروں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور وہ افغانستان سے بھاگ کر ہندوستان کی راہ سے اٹلی چلے گئے۔
ابھی امیر امان اللہ خاں اپنے ملک میں ہی تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں افغانستان کی شورش پر مفصل تبصرہ کیا اور اپنے موقف کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعلان فرمایا۔
>آئندہ کے متعلق ہمارا مسلک یہی ہے کہ ہمیں کسی خاص شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو بھی حکومت کسی ملک میں قائم ہو اس کی اطاعت فرض اور اس سے بغاوت گناہ ہے ہم نے عام فائدہ اسلام کا دیکھنا ہے۔ میرے نزدیک سیاسی لحاظ سے اسلام کو )حقیقی اسلام کو نہیں کیونکہ وہ تو خود اپنی ذات سے قائم ہے۔ اسے اپنے قیام کے لئے کسی ایسے سہارے کی ضرورت نہیں( ہاں سیاسی لحاظ سے اسلام کو ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں زبردست آزاد اور مضبوط حکومتیں ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ باوجود اس کے کہ شریف حسین کے زمانہ میں ہم اس کی حکومت کو جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا جائز قرار دیتے تھے لیکن جب سلطان ابن سعود نے پوری طرح وہاں اپنا تسلط جما لیا اور اس کی حکومت قائم ہو گئی تو اب ہم اس کو جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کو ناجائز قرار دیتے ہیں اب اگر شریف بھی اس پر حملہ کرے گا۔ تو ہمیں برا لگے گا۔ اس لئے ہم بچہ سقہ کو بھی برا سمجھتے ہیں کہ اس نے ایک آزاد اسلامی حکومت کو ضعف پہنچایا۔ جب تک وہ خود وہاں حکومت قائم نہ کر لے ہم اسے برا ہی کہیں گے۔ اب وہاں خواہ کوئی بادشاہ ہو جائے امان اللہ خاں ہو یا عنایت اللہ خاں نادر خاں ہو۔ یا علی احمد جان یا بچہ سقہ جو بھی وہاں ایسی حکومت قائم کر لے گا۔ جو سارے افغانستان پر حاوی ہو گی۔ بالکل آزاد ہو گی` کسی دوسری سلطنت کے ماتحت نہ ہو گی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشش کرے گی` اس کے ہم ایسے ہی خیر خواہ ہوں گے جیسے ان اسلامی حکومتوں کے ہیں جو اپنے ممالک میں مسلمانوں کی ترقی کی کوشش کر رہی ہیں۔ پس ہمارے آئندہ کے متعلق احساسات یہ ہیں کہ وہاں ایسی حکومت قائم ہو جو بالکل آزاد ہو۔ وہ نہ انگریزوں کے ماتحت ہو نہ روسیوں کے نہ کسی اور کے ہم اسے بھی پسند نہیں کرتے کہ افغانستان ایک دفعہ کامل آزادی حاصل کرنے کے بعد تھوڑا بہت ہی انگریزوں کے ماتحت ہو ہم اسے اس طرح دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ آزاد ہو۔ مضبوط ہو ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو اور نہ کسی کے ماتحت یا زیر اثر ہو۔ اگر وہاں ایسی حکومت قائم ہو جائے تو حکمران خواہ کوئی ہو ایسی حکومت اسلام کے لئے مفید ہو گی ۔۔۔۔۔۔ ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے معاملات میں کسی قسم کا دخل دیا جائے اور ہم امید رکھتے ہیں گورنمنٹ اس بات کی احتیاط کرے گی کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں ہرگز مداخلت نہ کی جائے اور جیسے وہ پہلے آزاد تھا ویسے ہی اب بھی رہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو صرف اس بات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور انجمنوں کو بالاتفاق پورے زور کے ساتھ یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے فسادات کے نتیجہ میں کوئی غیر قوم خواہ وہ انگریز ہی ہوں اس ملک پر کسی قسم کا تصرف کرے افغانستان اسی طرح آزاد ہونا چاہئے جیسے پہلے تھا ۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو جو پہلے ہی کمزور ہے مزید نقصان نہ پہنچے۷۔
مذاہب کانفرنس کلکتہ
۲۷۔ ۲۸/ جنوری ۱۹۲۹ء کو برہمو سماج کے زیر انتظام کلکتہ یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں مذاہب کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں مولوی دولت احمد خاں بی۔ ایل ایڈیٹر رسالہ >احمدی< نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قائم مقام کی حیثیت میں مضمون پڑھا اور مولوی عبدالقادر صاحب ایم۔ اے مولوی فاضل احمدی پروفیسر اسلامیہ کالج کلکتہ نے بتایا کہ دنیا میں اسلامی اصولوں کی تعلیم و ترویج بین الاقوامی طور پر ہمدردانہ جذبات پیدا کرنے کا موجب ہو گی کیونکہ آنحضرت~صل۱~ نے غیر مشتبہ الفاظ میں اخوت انسانی کی تعلیم دی ہے۸۔
طلبہ میں تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ
لڑکوں اور لڑکیوں میں عملی ذوق و شوق برھانے کے لئے ۲۸/ جنوری ۱۹۲۹ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں قادیان کے مرکزی اداروں کا تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے انعامات تقسیم فرمائے۹ اور تقریر بھی فرمائی جس کے شروع میں فرمایا کہ >جلسہ تقسیم اسناد میرے نزدیک ایک ایسا فنکشن )تقریب( ہے جو سکول کی زندگی کو زیادہ دلچسپ بنانے میں بہت مفید ہو سکتا ہے اور ہم صرف ایک ضرورت کو آج پورا نہیں کر رہے۔ بلکہ اس ضرورت کو اس کے وقت سے بہت پیچھے پورا کر رہے ہیں<۔
اس کے بعد حضور نے ہدایت فرمائی کہ >میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ انعاموں کو ہمیشہ طالب علم کے سامنے رکھنے کا انتظام ہونا چاہیئے جب تک انعامات ایک لمبے سلسلے کے ساتھ واستہ نہ کر دیئے جائیں وہ ایسے دلچسپ اور مفید نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک ضروری بات ہے جسے پورا کرنا ہمارے منتظمین کا فرض ہونا چاہیئے۔ ٹورنا منٹ کے انعاموں کے متعلق بھی ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ وہ سارا سال ورزش کا شوق دلانے میں ممد ثابت ہو سکیں اور علوم کے انعامات کے متعلق بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے اگر زمانہ امتحان میں پڑھائی کا شوق پیدا کیا جائے تو یہ اتنا مفید نہیں ہو سکتا جتنا سارا سال محنت کرنے کا ہو گا<۱۰۔
یہ مرکز احمدیت میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا۔
گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس
۳۱/ جنوری ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے نمائندگان جماعت احمدیہ نے گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا۔ جس میں جماعت کی تاریخ اس کی علمی و دینی خدمات اور تعلیمی ترقی پر روشنی ڈالنے کے بعد مسلمانوں کے چھ متفقہ مطالبات پیش کئے۱۱ اور افغانستان کے سیاسی تغیرات کی نسبت یہ درخواست کی کہ مرکزی حکومت پر زور دیا جائے کہ نہ صرف یہ کہ افغانستان کے متعلق عدم مداخلت کی پالیسی برقرار رکھی جائے بلکہ جہاں تک ہوسکے اسے کامل آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے میں مدد دی جائے۱۲۔
ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب نے اس ایڈریس کے جواب میں جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز علمی ترقی کو سراہا اور یقین دلایا کہ آپ کی جماعت کے خیالات پر احتیاط و توجہ کے ساتھ غور کیا جائے گا۔ افغانستان کے اندرونی خلفشار کی نسبت اس بات کا اظہار کیا کہ گورنمنٹ کی پالیسی انتہا درجہ غیر جانبدارانہ ہے اور رہی ہے اور ہمیں مخلصانہ امید ہے کہ اس ملک کے طول و عرض میں پھر سے امن کا دور دورہ ہو جائے اور ہندوستان کے شمال مغرب میں اس کا ہمسایہ ملک ایک دفعہ پھر ایک مضبوط اور ایک متحدہ ملک بن جائے۱۳۔
مسلم خبر رساں ایجنسی کے قیام کی تحریک
>الفضل< نے ۱۹/ فروری ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ وہ جلد سے جلد کوئی اپنی خبر رساں ایجنسی قائم کریں اور اس کی ہر طرح حوصلہ افزائی کریں کہ قوموں کی زندگی کے لئے یہ نہایت ضروری چیز ہے۱۴۔
اشاعت لٹریچر سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہم ارشادات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۲/ مارچ ۱۹۲۹ء کو ارشاد فرمایا کہ >یہ زمانہ نشر و اشاعت کا ہے جس ذریعہ سے ہم آج اسلام کی مدد کر
سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ صحف و کتب کی اشاعت پر خاص زور دیں اگر ہر جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی ایجنسیاں قائم ہو جائیں تو یقیناً بہت فائدہ ہو سکتا ہے<۱۵4] [rtf۔
نیز ہدایت فرمائی کہ >عام طور پر ہماری کتابیں گراں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان کی اشاعت نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ایک طرف تو میں نظارت۱۶ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کتابوں کی قیمتوں پر نظر ثانی کرے اور قیمتیں اس حدپر لے کر آئے کہ ان انجمنوں کو جو ایجنسیاں لیں کافی معاوضہ بھی دیا جا سکے اور نقصان بھی نہ ہو اور دوسری طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی اس بارے میں فرض شناسی کا ثبوت دیں<۔
اس کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات کی توسیع کی طرف بھی خاص توجہ دلائی۱۷۔
دہلی میں انجمن احمدیہ کا سالانہ جلسہ
انجمن احمدیہ دہلی کا آٹھواں سالانہ جلسہ ۲۳ تا ۲۶/ مارچ ۱۹۲۹ء منعقد ہوا۔ جس میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ` حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے` حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر` مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری وغیرہ علمائے سلسلہ نے تقریریں کیں۔ اور بابو اعجاز حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ دہلی` چوہدری نعمت خاں صاحب سینئر جج دہلی` مولوی اکبر علی صاحب انسپکٹر آف ورکس ریلوے` خان صاحب برکت علی صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ` مولوی حاجی حکیم امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی` کرنل اوصاف علی خان صاحب سی آئی ای سابق کمانڈر انچیف نابھہ اسٹیٹ` مولوی محمد شفیع صاحب دائودی ممبر لیجسلیٹو اسمبلی دہلی اور خواجہ حسن نظامی صاحب نے مختلف اجلاسوں میں صدارت فرمائی۔ اس جلسہ میں خواجہ صاحب نے رائے بہادر لالہ پارس داس رئیس دہلی کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے سیرت النبیﷺ~ کے مضمون۱۸ بطور انعام ایک طلائی تمغہ اور گھڑی پیش کی۱۹۔
جناح لیگ اورشفیع لیگ کے الحاق کی کوشش اور کامیابی
سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کے مسئلہ پر مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ حضرت خلیفتہ السمیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جناب محمد علی صاحب جناح کی سیاسی خدمات کی بہت قدر و منزلت تھی۔ اس لئے آپ دل سے چاہتے تھے کہ سر شفیع اور جناح میں مفاہمت ہو جائے۔
چنانچہ حضور نے ڈاکٹر سر محمد اقبال )سیکرٹری شفیع لیگ( اور جناب محمد علی جناح دونوں کو خطوط لکھے۔ جن کا ذکر ان ہر دو اصحاب نے بعض مجالس میں بھی کیا اور مصالحت کی امید پیدا ہو گئی شروع مارچ ۱۹۲۹ء کو سفر محمد شفیع اور جناب محمد علی صاحب جناح۲۰ کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( بھی موجود تھے۔ دونوں لیڈر گفت و شنید کے بعد باہمی اتحاد پر آمادہ ہو گئے اور ۲۸۔ ۲۹۔ ۳۰/ مارچ کا اجلاس مسلم لیگ دہلی میں قرار پایا۔ اس اجلاس کے دعوتی خطوط۲۱4] ft[r حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی بھیجے گئے کہ آپ بھی تشریف لائیں۔ مسلمانوں کے درمیان مصالحت کے لئے سعی فرمائیں۔ حضور خود تو مجلس مشاورت کی وجہ سے تشریف نہ لے جا سکے اس لئے حضور نے اپنی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو دہلی بھیجا علاوہ ازیں بہار سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری بھی آگئے۔ حضرت مفتی صاحب مصالحت میں کامیابی کے بہت پرامید تھے۲۲۔ اور انہوں نے اس کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ مگر سر محمد شفیع تو بیماری کی وجہ سے نہ آسکے اور ان کے رفقاء لیت و لعل میں رہے جناح صاحب نے ہر طرح کوشش کی کہ شفیع لیگ کے تمام اصحاب لیگ میں شامل کر لئے جائیں۔ مگر لیگ کے ممبروں نے ان کی سخت مخالفت کی اور مسٹر جناح کی کوئی اپیل قبول نہ کی۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے تین ریزولیوشن پیش ہوئے ایک مسودہ جناح صاحب کا تیار کیا ہوا تھا۔ جس میں نہرو رپورٹ رد کر دی گئی تھی یہ ریزولیوشن راجہ عضنفر علی صاحب نے پیش کیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس کی تائید کی۔ دوسرا اور تیسرا مسودہ غازی عبدالرحمن صاحب نے اور شیردانی صاحب نے پیش کیا۔ موخر الذکر واپس لے لیا گیا دونوں مسودے سبجیکٹ کمیٹی میں پاس ہو کر کھلے اجلاس میں پیش ہونے والے تھے کہ ڈاکٹر عالم صاحب کی صدارت پر زبردست ہنگامہ بپا ہو گیا۔ اس اثناء میں مسٹر جناح بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے کارروائی بند کرا دی اور مسلم لیگ کا اجلاس کوئی ریزولیوشن پاس ہوئے بغیر ملتوی ہو گیا۲۳۔ لیکن حضرت مفتی صاحب نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں۲۴۔ جو بالاخر بارآور ہوئیں۔
چنانچہ ۲۸/ فروری ۱۹۳۰ء کو مسٹر جناح کی زیر صدارت مسلم لیگ کونسل کاا اہم اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔ لیگ کی دونوں شاخوں کے پچاس سے زیادہ اصحاب شریک اجلاس تھے۔ سر شفیع بھی موجود تھے اور تالیوں کی گونج میں اعلان کیا گیا کہ لیگ کی دونوں شاخوں کو ملا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد مسٹر جناح اور سر شفیع ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۲۵۔ اور دونوں مسلم لیگیں ایک ہو گئیں۔
نظارت امور خارجہ قادیان کی مطبوعہ رپورٹ ۳۰۔ ۱۹۲۹ء میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ >دہلی کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اس سال آخری جلسہ میں ہر دو مسلم پارٹیوں کی مصالحت ہوئی جو مدت بعد عمل میں آئی اور اس مصالحت کے کرانے میں ہماری طرف سے بہت کوشش ہوتی رہی فالحمدلل¶ہ امید ہے کہ اب انشاء اللہ سب مسلمان مل کر اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے سربکف ہو سکیں گے<۲۶۔
سلسلہ احمدیہ کے ترجمان اخبار >الفضل< نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا۔
>یہ نہایت افسوسناک بات تھی کہ مسلمانوں کی واحد سیاسی انجمن مسلم لیگ میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ صورت دردمندان قوم کے لئے بے حد تکلیف دہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دونوں کو متحد دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ حال میں مسلم لیگ کے اجلاس کا ایجنڈا جب ہمیں بغرض اشاعت موصول ہوا تو ہم نے اسے شائع کرتے ہوئے ذمہ دار ارکان کو متحد ہونے کی ضرورت بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ سب سے اول اتحاد پیدا کرنا چاہئے اور پھر مل کر اسلامی حقوق کی حفاظت میں لگ جانا چاہئے<۔ )الفضل ۴/ فروری( اب ہمیں یہ معلوم ہو کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری یہ خواہش بر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب لیگ کا فرض ہے کہ پوری طرح مسلم حقوق کی حفاظت میں لگ جائے اور پوری کوشش و جدوجہد سے مسلم لیگ کو اس مقام پر لے آئے کہ وہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا حق ادا کر سکے۔ مسلم لیگ نے بہت وقت غفلت اور اندرونی کشمکش میں کھو دیا ہے اسے نہ صرف گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرنی چاہئے بلکہ آئندہ پوری تندہی سے کام کرنا چاہئے<۲۷`۲۸۔
راجپال کا قتل اور اسمبلی میں بم کا واقعہ
ایسے وقت میں جبکہ ملک میں کانگریس کی سیاسی تحریک زوروں پر تھی اپریل ۱۹۲۹ء کے شروع میں دو نہایت اہم واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ملکی فضا پر بہت ناگوار اثر ڈالا۔
پہلا واقعہ کتاب >رنگیلا رسول< کے دریدہ دہن اور بدباطن مصنف >راجپال< کا قتل تھا۔ جو پچیس چھبیس سال کے ایک پرجوش مسلمان نوجوان علم الدین کے ہاتھوں ۶/ اپریل کو لاہور میں ہوا۲۹۔ مسلمان علماء نے جن میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی شامل تھے۔ اس قتل پر اظہار بیزاری کیا اور کہا کہ راجپال کا قتل شرع اسلام کی رو سے ناجائز ہے اور ملک کی سیاسی حالت کے لئے سخت مضر ہے اور اگر کسی مسلمان نے ایسا کیا ہے تو اس فعل کا وہ خود ذمہ دار ہے لیکن آریہ اخباروں نے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ >حالات بتلا رہے ہیں کہ ملک میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک یہ سازش پھیلی ہوئی ہے<۳۰`۳۱۔ ایک آریہ مقرر نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یہ قلمی جنگ ہے جو شخص حجت اور دلائل سے گزر کر اس قسم کی باتوں پر اتر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مذہب میں تحریر و دلائل کی طاقت نہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اسلام کا اس قدر دیوالہ نکل چکا ہے<۳۲۔ دوسرا واقعہ ۸/ اپریل کو نئی دہلی میں ہوا۔ جبکہ لیجسلیٹو اسمبلی کے کونسل چیمبر میں جب سپیکر )صدر اسمبلی( رولنگ دینے کے لئے کھڑا ہوا تو گیلری سے سرکاری بنچوں پر دو بم پھینکے گئے۳۳۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء کے خطبہ جمعہ میں ان ہر دو واقعات کے پس پردہ اسباب و عوامل پر قرآن نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ۔
>قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے راستہ جو روکیں ہوتی ہیں۔ ان کے متعلق ایک گر بتایا ہے اور وہ گر یہ ہے کہ ناکام رہنے والے لوگوں کی ناکامی کا سببnsk] gat[ یحبون العاجلہ و یذرون ورآئھم یوما ثقیلا ہوتا ہے۔ وہ نہایت ہی محدود نگاہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں قریب ترین نتائج ان کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں اور حقیقی اور اصلی غیر متبدل اور دائمی اثرات و نتائج ان کے پیش نظر نہیں ہوتے دنیا میں جس قدر لڑائیاں` فسادات اور جھگڑا پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کے اسباب پر غور کیا جائے تو ننانوے فیصدی ایسے نکلیں گے جن کا سبب فریقین میں سے کسی نہ کسی کا یا دونوں کا بغیر کافی غور و فکر کے جلدی سے کسی نتیجہ پر پہنچ جانا اور ایک عاجل نتیجہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہو گا اگر انسان اپنے جوشوں کو دبائے رکھے اور اگر وہ یہ دیکھے کہ میرے اعمال کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ تو بہت سی لڑائیاں دور ہو جائیں بہت سے جھگڑے بند ہو جائیں اور بہت سے فسادات مٹ جائیں میں دیکھتا ہوں ہندوستان میں اس وقت متواتر کئی سال سے فساد شروع ہے قوموں میں اختلاف ہے مذہب میں تفرقہ ہے حکومت اور رعایا میں کشمکش جاری ہے ان سب کی وجہ یحبون العاجلہ و یذرون ورآئھم یوما ثقیلا ہی ہے عاجل نتیجہ کو لوگ پسند کر رہے ہیں اور ایک بھاری آنے والے دن کو نظر انداز کر رہے ہیں<۔
قیام امن کے اس سنہری اصول کی روشنی میں حضور نے حکومت اور رعایا دونوں کو قصور وار ٹھہرایا حکومت کو بتایا کہ۔
>حکام گورنمنٹ ابھی تک اسی پرانے اثر کے ماتحت ہیں جبکہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی وہ ابھی اسی خیال میں ہیں کہ ہمیں خدائی قدرت حاصل ہے جس چیز کو ہم درست سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے درست سمجھا جائے بلکہ واقعہ میں وہ درست ہی ہے اور جسے ہم غلط سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے غلط سمجھا جائے بلکہ فی الواقعہ وہ غلط ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بسا اوقات ان کا لہجہ ایسا ہتک آمیز ہوتا ہے کہ ایک آزاد خیال انسان کے دل میں اس کی قومی عزت کا جوش ابال مارتا ہے اور وہ فوراً مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستانیوں میں اس وقت ایک رو پیدا ہو رہی ہے۔ اور ہندوستانی برابری کے مدعی ہیں۔ وہ قوم کے اعزاز اور وقار کو محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم بھیڑ بکریاں نہیں کہ ریوڑ کی طرح جدھر چاہے ہانک دیا جائے ہم بچے نہیں کہ ہماری نگرانی کی جائے وہ اپنے ملک میں ملکی علوم ملکی تہذیب اور ملکی تمدن کو جاری کرنا چاہتے ہیں پس ان حالات میں اگر انگلستان ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے تو اس کے افسروں کو اپنے رویہ میں تبدیلی کرنی پڑے گی کوئی ملک خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو جب اس میں آزادی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ تو وہ یقیناً آزادی حاصل کرکے رہتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال ایسی نہیں ملتی کی کوئی چھوٹے سے چھوٹا ملک جس کی آبادی خواہ چند ہزار ہی ہو ہمیشہ کے لئے کسی کا غلام رہا ہو۔ پھر یہ ہندوستان کے ۳۳ کروڑ انسان کہاں ہمیشہ کے لئے غلامی میں رہ سکتے ہیں<۔
ہندوستان کے سیاسی لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
>دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں ملک کی آزادی کا جوش ہے۔ میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں اور آزادی و حریت کا جوش جو میرے اندر ہے میں سمجھتا ہوں اگر احمدیت اسے اپنے رنگ میں نہ ڈھال دیتی۔ تو میں بھی ملک کی آزادی کے لئے کام کرنے والے انہی لوگوں میں سے ہوتا لیکن خدا کے دین نے ہمیں بتا دیا کہ عاجلہ کو مدنظر نہیں رکھنا چاہئے میں ان لوگوں کی کوششوں کو پسند کرتا ہوں مگر بعض دفعہ وہ ایسا رنگ اختیار کر لیتی ہیں کہ انگریزوں کو نقصان پہنچانے کے خیال میں وہ اپنی قوم کے اخلاق اور اس روح کو جو حکومت کے لئے ضروری ہوتی ہے تباہ کر دیتی ہے ایسے بہت خطرناک ہوتے ہیں گورنمنٹ کی خوشامد کرنے والا بے شک غدار ہو سکتا ہے لیکن اس کی عداری اس کے اپنے نفس کے لئے ہوتی ہے۔ جو شخص کسی عہدہ یا دنیاوی مطلب کے حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کی خوشامد کرتا ہے وہ بے شک غدار ہے لیکن جو شخص ملک کے اخلاق کو برباد کرتا اور بگاڑتا ہے وہ اس سے بڑھ کر غدار ہے پہلے شخص کی غداری کا اثر اس کی اپنی ذات پر ہوتا ہے لیکن دوسرے کی غداری تمام قوم کے لئے تباہی کا موجب ہوتی ہے<۔
قتل راجپال کے سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ۔
>وہ عاجل باتوں کی طرف نہ جائیں مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ چاند پر تھوکنے سے اپنے ہی منہ پر آکر تھوک پڑتا ہے۔ مخالف خواہ کتنی ہی کوشش کریں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نور کو گردوغبار سے نہیں چھپا سکتے اس نور کی شعاعیں دور دور پھیل رہی ہیں تم یہ مت خیال کرو کہ کسی کے چھپانے سے یہ چھپ سکے گا۔ ایک دنیا اس کی معتقد ہو رہی ہے پادریوں کی بڑی بڑی سوسائٹیوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ اسلام سے ہے کیونکہ اسلام کی سوشل تعلیم کی خوبیوں کے مقابلہ میں اور کوئی مذہب نہیں ٹھہر سکتا۔ اسلام کا تمدن یورپ کو کھائے چلا جا رہا ہے اور بڑے بڑے متعصب اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسلام کو گالی دینے سے اسلام کی ہتک ہو گی وہ اگر عیسائی ہے تو عیسائی مذہب کا دشمن ہے اگر سکھ ہے تو سکھ مذہب کا دشمن ہے اور اگر ہندو ہے تو ہندو دھرم کا دشمن۔ ہتک تو دراصل گالی دینے والے کی ہوتی ہے جسے گالی دی جائے اس کی کیا ہتک ہو گی۔ ہتک تو اخلاق کی بناء پر ہوتی ہے اگر کوئی شخص مجھے گالیاں دیتا ہے تو وہ اپنی بداخلاقی کا اظہار کرتا ہے۔ اور اس طرح خود اپنی ہتک کرتا ہے۔ میں گالیاں سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں تو اپنے بلند اخلاق کا اظہار کرتا ہوں جو میری عزت ہے۔ وہ مذہبی لیڈر جنہوں نے قوموں کی ترقی کے لئے کام کیا خواہ کسی بڑے طبقہ میں یا ایک بہت ہی محدود طبقہ میں کیا ہو وہ قابل عزت ہیں اور انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی عزت کی جائے جو قوم ایسا نہ کرنے والوں کی مدد کرتی ہے وہ خود اپنی تباہی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ وہ بھی مجرم ہیں۔ اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔ میرے نزدیک تو اگر یہی شخص قاتل ہے تو اس کا سب سے بڑا خیر خواہ وہی ہو سکتا ہے جو اس کے پاس جائے اور اسے سمجھائے کہ دنیاوی سزا تو تمہیں اب ملے گی ہی لیکن قبل اس کے کہ وہ ملے تمہیں چاہئے کہ خدا سے صلح کر لو اس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اسے بتایا جائے تم سے غلطی ہوئی ہم تمہارے جرم کو تو کم نہیں کر سکتے لیکن بوجہ اس کے کہ تم ہمارے بھائی ہو تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ توبہ کرو۔ گرویہ و زاری کرو۔ خدا کے حضور گڑگڑائو۔ یہ احساس ہے جو اگر اس کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا کی سزا سے بچ سکتا ہے اور اصل سزا وہی ہے<۔
حضور نے حکومت` عوام اور مسلمانوں کو قیمتی مشورے دینے کے علاوہ ہندو اور مسلمان دونوں سے اپیل کی کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کا احترام کریں کہ یہی طریق قیام امن کا موجب ہو سکتا ہے۳۴۔
‏tav.5.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل دوم(
جلسہ سیرت النبیﷺ~ اور الفضل کا >خاتم النبیینﷺ~ نمبر<
۲/ جون ۱۹۲۹ء پچھلے سال کی طرح اندرون اور بیرون ملک میں جماعت احمدیہ کے زیر انتظام وسیع پیمانے پر سیرت النبیﷺ~ کے جلسے منعقد ہوئے۔ جو شان و شوکت میں آپ ہی اپنی نظیر تھے اس سال آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی کے مندرجہ ذیل پہلوئوں پر بالخصوص روشنی ڈالی گئی۔
۱۔
رسول کریم~صل۱~ کا غیر مذاہب سے معاملہ بلحاظ تعلیم اور تعامل۔
۲۔
توحید باری تعالیٰ پر رسول کریم~صل۱~ کی تعلیم اور زور۳۵
پچھلے سال کے جلسوں نے مسلمانوں میں اس کی عظمت و اہمیت کا سکہ بٹھا دیا تھا اس لئے اس دفعہ اسلامی پریس نے اس تقریب کے آنے سے کئی روز پہلے ہی اس کو کامیاب بنانے کی مہم شروع کر دی۔ چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے اخبار >منادی< )۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء( میں لکھا۔
>ربیع الاول کے جشن خالص مذہبی تقریب کی صورت میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری جون کے جلسے اس طرز کے ہوں گے جن میں عیسائی اور ہندو وغیرہ وغیرہ بھی شریک ہو سکیں اور سیرت پاک رسول مقبول~صل۱~ کو سن کر اپنے ان خیالات کی اصلاح کر سکیں جو غلط پراپیگنڈا نے غیر مسلمین کے دلوں میں جما دیئے ہیں۔ لہذا میرے تمام رفیقوں اور مریدوں کو ان جلسوں کی تیاری و تعمیل میں پوری جدوجہد کرنی چاہئے<۳۶۔
اخبار >محسن< ملتان )۲۳/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>یہ امر قابل صدر ہزار ستائش ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے امام صاحب نے اس مبارک تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے ہر مذہب و ملت کے پیروئوں کو مدعو کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر بین نظریں اس کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتیں۔ لیکن اگر بنظر امعان دیکھا جائے تو اس کی تہہ میں ایک بہت بڑا اسلامی تبلیغی راز مضمر ہے<۳۷۔
اخبار >پیغام عمل< فیروزپور )۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>ہم مسلمانوں کو خصوصاً و دیگر انصاف پسند اصحاب کی خدمت میں عموماً نہایت ادب و نیاز سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ فی الواقعہ ان ہر دو قوموں )مسلم و ہندو۔ ناقل( کے مابین صلح و آشتی چاہتے ہیں نیز دنیا کے ہادیان دین کی عزت و احترام کو اپنا فرض اولین یقین کرتے ہیں تو آئو حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس مبارک تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اس کو ہر ممکن سے ممکن طریق سے کامیاب بنانے کی سعی کریں<۳۸۔
اخبار >مسلم راجپوت< نے ۱۵/ مئی ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں لکھا۔
>عہد حاضرہ میں ترقی اسلام کا یہ سب سے بڑا گر ہے کہ حضور سرور عالم کے اقوال و اعمال کو صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ہماری رائے میں اہل قادیان کی یہ تحریک نہایت مبارک اور ہر اعتبار سے لائق تائید ہے اور تمام ان مسلمانوں کو جو حقیقت میں دین الفطرت کے چمن کو سرسبز اور شاداب دیکھنا چاہتے ہیں نہ صرف ان جلسوں کی تائید کرنی چاہئے بلکہ ان میں عملی حصہ لینا چاہئے۔
کوئی شخص ایسے جلسوں کی جس میں پیغمبر اسلام ~)صل۱(~ کی پاک زندگی کے حالات بیان کئے جائیں مخالفت کرے اور اس پر حمایت و تائید اسلام کا دم بھرے یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو اس نیک تحریک کی مخالفت کو بھی اپنا ایمان سمجھتی ہے۔ اس جماعت کو سب سے بڑے دو اعتراض ہیں۔ )۱( حضرات قادیان اس میں اپنے مخصوص فرقہ وارانہ خیالات کی اشاعت کرتے ہیں اور )۲( وہ اپنے اغراض کی اشاعت کے لئے دوسرے مسلمانوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں لیکن گزشتہ سال کے جلسوں پر اس قسم کی کوئی بات دیکھنے میں نہیں آئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہر دو الزامات غلط ہیں اور محض ایک مفید کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ ان خواہ مخواہ کے مخالفین کی باتوں پر کان نہ دھریں<۳۹4] [rtf۔
اخبار >مشرق< گورکھپور )۹/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>مسلمانوں میں احمدی جماعت جس خلوص کے ساتھ قومی خدمات انجام دے رہی ہے دوسری جماعتیں اس خلوص کے ساتھ یہ خدمات انجام نہیں دیتیں۔ ہم کو اس کا اعتراف ہے یہ احمدی وہی لوگ ہیں جن کو کمزور سمجھ کر دوسرے مسلمان اپنی قوت کے زور پر سنگسار کراتے ہیں افسوس معلوم نہیں لا اکراہ فی الدین کے عامل اس قسم کے جبر و تشدد اور عقیدہ پرستی کہاں سے سیکھ کر آئے ہیں اس ہی احمدی جماعت کے مخلص ممبروں نے پچھلے سال میں اپنی محنت اور خلوص سے آنحضرت~صل۱~ کے مقدس حالات جو غیر مسلموں میں تاریکی کے اندر پڑے ہیں خود غیر مسلموں سے پلیٹ فارموں پر بلا کر ظاہر کرائے ہیں اس ہی جماعت کے اراکین کی جدوجہد سے امسال پھر ۲/ جون ۱۹۲۹ء کو حضور کے حالات ملک کے گوشتہ گوشتہ میں بیان کئے جائیں گے۴۰۔
اخبار >ہمت< لکھنئو )۳/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>جناب امام جماعت احمدیہ کی یہ مبارک تجویز بے حد مقبول ہو رہی ہے کہ مختلف اور مخصوص مقامات پر اس طرح کے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علماء اور لیکچرار بالاتفاق سیرت نبویﷺ~ پر اظہار خیالات فرمائیں اور ان جلسوں میں دوسرے فرقوں کے افراد کو بھی شرکت کی دعوت اور ان کی نشست وغیرہ کا انتظام کیا جائے جماعت احمدیہ کی سنجیدہ اور ٹھوس تبلیغی سرگرمیاں ہر حیثیت سے مستحق مبارکباد ہیں اور ہمارے نزدیک مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس نہایت مفید اور اہم تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پوری سعی سے کام لیں<۴۱۔
حکیم مولوی امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی نے کہا۔
>۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نازک وقت میں جبکہ ہندوستان میں چاروں طرف آگ لگی ہوئی تھی حضرت امام جماعت احمدیہ نے ان پاک جلسوں کی بنیاد رکھ کر ہم پر بڑا احسان کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہامی تحریک تھی<۴۲۔
اسلامی پریس نے امسال بھی ان جلسوں پر مفصل تبصرہ کیا اور ان کی افادیت کا اقرار کیا۔ چنانچہ >انقلاب< )لاہور( >کشمیری گزٹ< )لاہور( >مدینہ< )بجنور( >تعمیر< )فیض آباد( >محسن< )ملتان( >سیاست< )لاہور( >صحیفہ< )حیدر آباد دکن( >حقیقت`< >ہمدم`< )ہمت( )لکھنئو( اور بنگال کے متعدد انگریزی` اردو` بنگالی اخبارات کے علاوہ بیرونی ممالک میں >ڈیلی نیوز< شکاگو اور افریقہ کے متعدد اخبارات نے اپنے اپنے رنگ میں اس تحریک کی پرزور تائید کی اور بعض نے جلسوں کی روئیدادیں بھی شائع کیں۴۳۔
اس کے مقابل سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں کی سب سے زیادہ مخالفت اخبار >زمیندار< کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں کی طرف سے کی گئی جس کی وجہ سے ملتان` فیض آباد` انبالہ` لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی۔ غیر جانبدار اسلامی پریس مثلاً اخبار >تعمیر< فیض آباد )۴/ جون ۱۹۲۹ء( اخبار >محسن< ملتان )۶/ جون ۱۹۲۹ء( اور اخبار >سیاست< لاہور )۸/ جون ۱۹۲۹ء( نے اس پر زبردست تنقید کی چنانچہ موخر الذکر اخبار نے خصوصاً پشاور کے مخالفین کے متعلق لکھا۔
>سب سے زیادہ اندوہناک مداخلت پشاور میں رونما ہوئی۔ پشاور لاہور سے بہت دور ہے اور وہاں کے نوجوان اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ گدائے لم یزل۴۴ کی مخالفت و موافقت کبھی بھی فی سبیل اللہ نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کی شریرانہ تحریروں سے متاثر ہو کر جلسہ میں گدھے چھوڑ دیئے اور اس طرح پشاور کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا نہیں نہیں صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہادی و رہنما )فداہ ابی( کی یاد کے جلسے کو برباد کرکے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کر دیا اور مخالفین کو یہ کہنے کا موقعہ دیا کہ مسلمان سچے دل سے رسول اللہ~صل۱~ کی قدر نہیں کرتے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس شرارت کے ذمہ دار چند جاہل لونڈے ہوں گے ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم انہیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے<۴۵۔
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی >الفضل< نے ۳۱/ مئی ۱۹۲۹ء کو شاندار خاتم النبیینﷺ~ نمبر شائع کیا۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ جماعت احمدیہ کے مشہور اور جید علماء و فضلا )اور احمدی خواتین( نے مضمون لکھے۔ غیر احمدی مضمون نگاروں میں سے مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ لیجسلیٹو اسمبلی دہلی` سید حبیب صاحب ایڈیٹر روزنامہ >سیاست< لاہور` ملا رموزی صاحب` خواجہ حسن نظامی صاحب دہلی اور غیر مسلم مضمون نگاروں میں سے لالہ رام چند صاحب منچندہ بی۔ اے۔ ایل ایل بی وکیل لاہور` پنڈت ٹھاکر دت صاحب شرما` موجدامرت دھارا` لالہ جگن ناتھ صاحب بی اے۔ ایل ایل بی وکیل کبیر والہ )ضلع ملتان( پروفیسر ایچ۔ سی۔ کمار صاحب بی۔ اے اور پادری غلام مسیح صاحب لاہور خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ اس نمبر کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ احمدی غیر احمدی اور غیر مسلم شعراء نے اپنے نعتیہ کلام اس کے لئے بھیجا تھا۔ مثلاً حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری` ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` حضرت میر محمد اسمعیل صاحب` حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب` جناب حکیم سید علی صاحب آشفتہ لکھنوی` لسان الملک ریاض خیر آبادی` لسان الہند مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی` منشی لچھمن نرائن صاحب سنہا بی۔ اے` لسان القوم صفی لکھنوی` اعتبار الملک حکیم مولوی ضمیر حسن خان صاحب دل شاہ جہانپوری۔
الفضل کے اس خصوصی نمبر پر غیر مسلم اور مسلم دونوں حلقوں نے عمدہ آراء کا اظہار کیا۔
۱۔
چنانچہ لالہ رام چند صاحب منچندہ بی اے۔ ایل ایل بی۔ ایڈووکیٹ لاہور نے لکھا۔
>میں نے اہل قلم کے قیمتی مضامین کو جو تمام کے تمام حضرت رسول اللہ کی پاک ذات اور سوانح عمری کے متعلق ہے نہایت ہی مسرت اور دلچسپی سے پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔ اگر استقلال کے ساتھ اس کو جاری رکھا گیا تو آج سے تیس سال بعد کئی ہندو گھرانوں میں پیغمبر صاحب کی برسی منائی جائے گی۔ اور جو کام مسلم بادشاہ ہندوئوں سے نہیں کرا سکے وہ آپ کرا سکیں گے` ملک میں امن ہو گا` خوشحالی ہو گی` ترقی اور آزادی ہو گی اور ہندو مسلم باوجود اختلافات کے بھائیوں کی طرح رہیں گے<۴۶۔
۲۔
اخبار >کشمیری< لاہور )۱۴/ جون ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>الفضل کے خاتم النبیین نمبر کی کئی دنوں سے دھوم تھی آخر ۳۱/ مئی کو یہ نمبر دیدہ زیب جاذب توجہ شکل اور صوری و معنوی خوبیوں کے ساتھ شائع ہو گیا<۔ الخ4] ft[s۴۷۔
۳۔
اخبار >سیاست< )۱۶/ جون ۱۹۲۹ء( لاہور نے لکھا۔
>یہ نمبر ہماری نظر سے گزارا ہے اس میں ملک کے بہترین انشاء پردازوں کے قلم سے اسوہ حسنہ رسول پاک کے متعلق مضامین موجود ہیں۔ ہر مضمون اس قابل ہے کہ موتیوں سے تولا جائے<۴۸۔
۴۔
اخبار >منادی< )دہلی( )۲۱/ جون ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>اس سال بھی اخبار الفضل کا خاتم النبیین نمبر نہایت قابلیت اور عرقریزی سے مرتب کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ جس کا مطالعہ سے گو ناگوں معلومات کے حصول کے علاوہ ایمان بھی تازہ ہوتا ہے ہمارے نزدیک اس اخبار کا یہ نمبر اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس کا مطالعہ کرے<۴۹۔
ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان میں
جون ۱۹۲۹ء کے شروع میں ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان تشریف لائے۔ ان کی آمد پر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی گرائونڈ میں ایک مجلس مشاعرہ منعقد ہوئی جس میں دوسرے اصحاب کے علاوہ ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری نے جو ابھی نوجوان ہی تھے اور >شاہنامہ اسلام< کی اشاعت کے لئے کوشاں تھے۔ >شاہنامہ اسلام< کے بعض حصے اپنی مخصوص طرز میں پڑھ کر سنائے اس مجلس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی شمولیت فرمائی۵۰۔
حفیظ صاحب نے >شاہنامہ اسلام< کی اشاعت سے پہلے اس کے بعض حصے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی دکھائے تھے اور حضور کے ارشاد پر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے اس کی سو کاپیاں پیشگی قیمت پر خریدی تھیں۵۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر کشمیر
۱۹۲۹ء کا نہایت اہم اور قابل ذکر واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا سفر کشمیر ہے جو ۵/ جون ۱۹۲۹ء۵۲ سے شروع ہو کر ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء۵۳ کو ختم ہوا۔ حضور کے اہل بیت و صاحبزادگان کے علاوہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلالپوری` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور مولوی قمر الدین صاحب بھی رفیق سفر تھے۔ آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی سری نگر تشریف لے گئے10] [p۵۴۔ سری نگر میں حضور نے ہائوس بوٹ میں قیام فرمایا۔
اس سفر کی )جو کشمیر کا اس وقت تک آخری سفر ہے( نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے دوران قیام میں ریاست کشمیر و جموں کی جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی تقریروں اور خطبوں میں ایمان کے ساتھ عمل صالح اختیار کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور مختلف طریقوں اور پیرایوں سے ان کو اخلاقی` ذہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی انقلاب انگیز دعوت دی اور خصوصاً کشمیری احمدیوں کو ان کی تنظیمی اور تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا۔
اس سلسلہ میں حضور کے خطبات و تقاریر کے بعض اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ >یہاں کی جماعت تنظیم کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ اگر وہ منظم جماعت کی صورت میں ہو اور تبلیغی کوششوں میں لگ جائے تو ریاست میں اچھا اثر پڑے۔ اس علاقہ میں جماعتیں تو موجود ہیں اور اچھی جماعتیں ہیں مگر چونکہ ان کی کوئی تنظیم نہیں اس لئے علاقہ پر اثر نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ترقی کر سکتے ہیں<۔ )فرمودہ ۲۷/ جون ۱۹۲۹ء( )بمقام سرینگر۵۵(۲۔ >صحیح طریق یہ ہے کہ انسان ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جس قدر کسی کی طاقت ہو۔ اس قدر کرے اس سے وہ اپنی حالت میں ایک پورا درخت ہو جائے گا جو کم و بیش دوسروں کے لئے فائدہ کا موجب ہو گا اس کے اندر حسن سلوک کی عادت احسان کرنے کا مادہ ہو` لوگوں کی مدد کرنے اور بھلائی کرنے کی عادت ہو الغرض تمام قسم کی نیکیاں کم و بیش اس کے اندر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ تب ہی اس کے اندر سرسبز درخت والی خوبصورتی پیدا ہو گی<۵۶۔ )فرمودہ ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۳۔ >جو باتیں مسلمانوں نے چھوڑ دی ہیں جب تک وہ دوبارہ ان میں پائی نہ جائیں کبھی اور کسی حال میں ترقی نہیں کر سکتے۔ محنت کی عادت ڈالیں` دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں` خدمت خلق کو اپنا فرض سمجھیں تب وہ ترقی کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام چونکہ اچھی چیز تھی اس وقت تک اس ملک میں اسلام کی خوبیوں کا نقش موجود ہے۔ گو مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے مٹا دیئے گئے یہاں کشمیر میں بھی یہی مرض پایا جاتا ہے اس لئے میں نے اپنے خطبے اس طرز کے بیان کرنے شروع کئے ہیں کہ مسلمانوں میں عمل نہ کرنے کی وجہ سے جو پستی ہے اس میں تبدیلی پیدا ہو۔ کیونکہ مسلمان اپنی مدد آپ نہ کریں گے محنت نہ کریں گے دیانتداری سے کام نہ کریں گے اپنے آپ کو مفید نہ بنائیں گے تب تک ترقی نہ ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو چاہئے خدا تعالیٰ کی امداد کے طالب ہوں۔ دوسروں پر توکل نہ کریں بلکہ خود عمل کریں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں سے ہوں<۵۷۔ )فرمودہ ۵/ جولائی ۱۹۳۰ء بمقام سرینگر(
۴۔ >بعض قربانیاں ایسی کرنی پڑتی ہیں جن کا نفع فوری طور پر نظر نہیں آتا مگر اس کے پس پردہ بہت عظیم الشان فوائد ہوتے ہیں انبیاء کے حقیقی متبعین بھی قربانیاں کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ بلحاظ ایمان کے پتھر کی چٹان کی طرح ثابت ہوں ۔۔۔۔۔۔ ماموروں کا کام نئی زندگی پیدا کرنا ہوتا ہے انبیاء کی جماعتوں کے ہر فرد کو سمجھنا چاہئے کہ میرے ہی ذریعہ دنیا کی نجات ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس قسم کے چالیس مومنوں کی خواہش رکھتے تھے کہ اگر ہماری جماعت میں پیدا ہو جائیں تو پھر تمام دنیا کا فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے<۵۸۔ )فرمودہ ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۵۔ >ان اصول کے ذریعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش فرمائے ہیں قرآن اور حدیث کے مطالب حل کرنا ایک کھلی بات ہوگئی ہے اور ہمارے دوستوں کے لئے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث پر تدبر کریں اور خصوصاً نوجوانوں کو بہت زیادہ توجہ کرنی چاہئے کیونکہ ہر ایک قوم نواجونوں کی کوشش سے ترقی کرتی ہے<۔ )فرمودہ ۲/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام آڑو کشمیر۵۹(
۶۔ اھدنا الصراط المستقیم میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اے خدا ہمیں کام کے مسلمان بنا ہم نام کے مسلمان نہ ہوں کیونکہ نام کی کچھ حقیقت نہیں اصل چیز کام ہے<۶۰۔ )فرمودہ ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۷۔ >پاک لوگوں کا دل خدا تعالیٰ کی محبت اور الفت میں اس قدر گداز ہوتا ہے کہ گویا اس کے مقابلہ میں جس نے کچھ کیا ہی نہیں ہوتا۔ یہی وہ درجہ ہے جس کے لئے ہر ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اسی کے لئے رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو گیا اور اگر وہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ہوگیا۔ الا وھی القلب۔ سنو وہ دل ہے پس اصل چیز انسان کے دل کی پاکیزگی ہے<۶۱۔ )فرمودہ ۹/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام پہلگام(
ان سات مختصر اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کشمیر اور دوسرے مسلمانوں کو بیدار کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ ریاست کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہو جائے۔
سفر کشمیر کے دوسرے قابل ذکر واقعات
اس خصوصی مہم کے علاوہ سفر کشمیر کے کئی اور قابل ذکر واقعات بھی ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہے۔ مثلاً
عیادت خواجہ کمال الدین صاحب: حضور ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ساتھ لے کر خواجہ کمال الدین صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے جو نشاط باغ کے آگے سرینگر سے ۵۰۰ فٹ کی بلندی پر خیمہ میں رہائش پذیر تھے۔ حضور ایک گھنٹہ تک خواجہ صاحب کے پاس تشریف فرما رہے۶۲۔
حضور اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ >اسلامی سنت کو پورا کرنے کے لئے اور اس وجہ سے کہ میں چھوٹا تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا خواجہ صاحب نے تین چار دن مجھے حساب پڑھایا تھا اور اس طرح وہ میرے استاد ہیں میں ان کی عیادت کے لئے گیا تھا۔ موقع کے لحاظ سے ان کی بیماری کے متعلق باتیں ہوتی رہیں<۶۳۔
یاڑی پورہ کے جلسہ میں شرکت: ۱۵/ اگست ۱۹۲۹ء کو جماعت احمدیہ یاڑی پورہ کا جلسہ منعقد ہوا جس میں حضور معہ مولانا محمد اسمعیل صاحب ہلالپوری` مولوی قمر الدین صاحب۶۴` مولوی عبدالرحیم صاحب درد بذریعہ موٹر تشریف لے گئے۔ احباب جماعت نے حضور کا شاندار استقبال کیا جلسہ گاہ میں جو مسجد احمدیہ کے صحن میں بنائی گئی تھی۔ خوب آراستہ کی گئی تھی۔ نماز ظہر و عصر پڑھانے کے بعد حضور نے ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے کئے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے۔ تقریر میں صحابہ کرام کی مثالیں پیش کرکے احمدی احباب کو خدمت اسلام تبلیغ احمدیت اور بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی۶۵۔ اور آخر میں ارشاد فرمایا۔
>میں جماعت کے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں خواہ کوئی تاجر ہو یا واعظ` زمیندار ہو یا گورنمنٹ کا ملازم خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کو سب سے اول اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور لوگوں کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ جو کوئی دیکھے پکار اٹھے خدا رسیدہ لوگ ایسے ہوتے ہیں اگر ایسی حالت ہو جائے تو پھر دیکھ لو احمدیت کی ترقی کے لئے کس طرح رستہ کھل جاتا ہے<۶۶۔
یاڑی پورہ میں قریباً چونسٹھ افراد نے بیعت کی۔
جموں میں تقریر: سرینگر سے واپسی پر حضور نے ایک روز جموں میں قیام فرمایا۔ جہاں ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو آپ نے ایک اہم تبلیغی تقریر فرمائی جس میں طالبان حق کو بڑے پرجوش الفاظ میں توجہ دلائی کہ وہ سچے مذہب اور سچی جماعت کی تلاش میں خدا تعالیٰ سے بذریعہ دعا رہنمائی طلب کریں۶۷۔
‏tav.5.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل سوم(
حضرت حافظ روشن علی صاحب >عبدالکریم ثانی< کی وفات
علامہ حضرت حافظ روشن علیؓ کی وفات
۱۹۲۹ء کا روح فرسا واقعہ حضرت حافظ روشن علیؓ جیسے مثالی عالم ربانی کی وفات ہے جو ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کی شام کو واقع ہوئی۶۸۔ حضرت میر محمد اسحاقؓ کے الفاظ میں >حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور حضرت نور الدینؓ اعظم کو چھوڑ کر سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ کی وفات کے بعد کوئی حادثہ حافظ صاحب مرحوم کے حادثہ جیسا نہیں ہوا۶۹۔
جماعت احمدیہ نے یہ عظیم صدمہ کتنی شدت سے محسوس کیا اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضرت حافظ صاحب کی یاد میں کئی ماہ تک مضامین شائع ہوتے رہے۷۰۔ سلسلہ کے بزرگوں اور شاعروں۷۱ نے عربی اردو اور فارسی میں دردناک مرثیے کہے اور آپ کے شاگردوں اور مرکزی اداروں اور بیرونی جماعتوں کی طرف سے تعزیتی قراردادیں پاس کی گئیں۔ حتیٰ کی سلسلہ کے مشہور مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار >اہلحدیث< میں لکھا۔
>حافظ روشن علی قادیانی جماعت میں ایک قابل آدمی تھے۔ قطع نظر اختلاف رائے کے ہم کہتے ہیں کہ موصوف خوش قرات خوش گو تھے۔ مناظرے میں متین اور غیر دلازار تھے۔ مرزا صاحب کے راسخ مرید تھے۔ ہمیں ان کی وفات میں ان کے متعلقین سے ہمدردی ہے<۷۲۔
اخبار >پیغام صلح< لاہور نے لکھا۔
>حافظ روشن علی صاحب ایک متشدد محمودی تھے۔ محمودیت کی حمایت میں انہوں نے ہمیشہ غالیانہ سپرٹ کا اظہار کیا۔ تاہم ان میں بعض خوبیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے ان کی موت باعث افسوس ہے حافظ صاحب حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے نہایت ذہین` خوش بیان` خوش الحان اور عالم آدمی تھے۔ نہ صرف علوم اسلامیہ پر کافی عبور تھا بلکہ غیر مذاہب سے بھی خاصی واقفیت رکھتے تھے اور آریہ سماج کے ساتھ کئی مناظرے انہوں نے کئے<۷۳۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت حافظ صاحب کی وفات کے وقت چونکہ سرینگر میں مقیم تھے۔ اس لئے امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب نے حضور کو بذریعہ تار اطلاع دی۔ جس پر حضور نے تعزیت کا مندرجہ ذیل تار ارسال فرمایا۔
>۲۴/ جون محمود آباد۔ سرینگر
مولوی شیر علی صاحب کا تار حافظ روشن علی صاحب کی وفات کے متعلق ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں تاکہ اس قابل قدر دوست اور زبردست حامی اسلام کی نماز جنازہ خود پڑھا سکوں۔ حافظ صاحب مولوی عبدالکریم صاحب ثانی تھے۷۴۔ اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے۔ انہوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت سرانجام دی ہے اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے انشاء اللہ ان کا کام کبھی نہیں بھولے گا۔ ان کی وفات ہمارے سلسلہ اور اسلام کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے لیکن ہمیشہ ایسے ہی صدمے ہوتے ہیں جنہیں اگر صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب بن جاتے ہیں ہم سب فانی ہیں لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو موت و حیات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ غیر معلوم اسباب کے ذریعہ اپنے کام کی تائید کرے گا۔ چونکہ ہماری جماعت ہمارے پیارے اور معزز بھائی کی خدمات کی بہت ممنون ہے اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ تمام دنیا بھر کی احمدیہ جماعتیں آپ کا جنازہ پڑھیں۔ یہ آخری خدمت ہے جو ہم اپنے مرحوم بھائی کی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بدلہ ان بیش قیمت خدمات کے مقابلہ میں جو انہوں نے اسلام کے لئے کیں کیا حقیقت رکھتا ہے۔
میں احباب کے ساتھ سرینگر میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ اگر لاش کے متغیر ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو التوائے تدفین کی ہدایت دے کر میں اس آخری فرض کو ادا کرنے کے لئے خود قادیان آتا اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ہم سے رخصت ہو گئے ہیں اور ان پر بھی جو زندہ ہیں اپنی رحمتیں نازل فرمائے<۷۵۔
چنانچہ یہ تار پہنچنے کے بعد قادیان میں ۲۴/ جون کو ۱۱ بجے کے قریب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی سے جہاں ایام علالت میں آپ مقیم ¶تھے آپ کا جنازہ اٹھایا گیا۔ جنازہ کے ہمراہ ایک انبوہ کثیر تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور یہ مقدس اور خدانما وجود مقبرہ بہشتی میں دفن کر دیا گیا۷۶۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سرینگر میں نماز جنازہ پڑھائی اور دوسرے مقامات کی احمدی جماعتوں نے حضور کے حکم کے مطابق اپنی اپنی جگہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
حضرت امیر المومنین نے ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۹ء سالانہ جلسہ کے موقعہ پر حافظ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا۔
>میں سمجھتا ہوں میں ایک نہایت وفادار دوست کی نیک یاد کے ساتھ بے انصافی کروں گا اگر اس موقعہ پر حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر اظہار رنج و افسوس نہ کروں۔ حافظ صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے۔ میں نے ان کے اندر وہ روح دیکھی۔ جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خواہش تھی۔ ان میں تبلیغ کے متعلق ایسا جوش تھا کہ وہ کچھ کہلوانے کے محتاج نہ تھے۔ بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں کام بھی اچھا کرتے ہیں مگر اس امر کے محتاج ہوتے ہیں کہ دوسرے انہیں کہیں کہ یہ کام کرو تو وہ کریں۔ حافظ صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا وہ سمجھتے تھے گو خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ مگر ہر مومن کا فرض ہے کہ ہر کام کی نگہداشت کرے اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ایسا ہی ذمہ دار سمجھتے تھے جیسا اگر کوئی مسلمان بالکل اکیلا رہ جائے اور )وہ اپنے آپ کو ذمہ دار( سمجھے یہ ان میں ایک نہایت ہی قابل قدر خوبی تھی اور اس کا انکار ناشکری ہو گا یہ خوبی پیدا کئے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی کہ ہر شخص محسوس کرے کہ سب کام مجھے کرنا ہے۔ اور تمام کاموں کا میں ذمہ دار ہوں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہا گر مجھے چالیس مومن میسر آجائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں۔ یعنی ان میں سے ہر ایک محسوس کرے کہ مجھ پر ہی جماعت کی ساری ذمہ داری ہے اور میرا فرض ہے کہ ساری دنیا کو فتح کروں<۷۷۔
حضرت حافظ صاحب کے جانشین
حضرت حافظ روشن علی صاحب کی وفات سے جماعت کے تبلیغی کاموں میں جو خلا پیدا ہو گیا اس کا پر ہونا بہت مشکل نظر آتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعض نامور شاگردوں کو جنہیں آپ نے مرض الموت میں وصیت فرمائی تھی کہ >میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں<۷۸ اس خلا کے پر کرنے کے لئے آگے بڑھا دیا اور انہوں نے تبلیغ و اشاعت دین کے میدان میں ایسی ایسی خدمات سر انجام دیں کہ وہ حضرت حافظ روشن علی ثانی بن گئے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
>کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پا گئے تو ۔۔۔۔۔۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں<۷۹۔
حضرت حافظ روشن علیؓ کی وفات کے بعد افتاء کی اکثر و بیشتر ذمہ داری۸۰ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب کے کندھوں پر آپڑی جسے آپ عمر بھر کمال خوبی و خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۸۱۔ حضرت مولانا کا طریق تھا کہ آپ جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو بھی استفتاء کا جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے اور ساتھ ہی کتابوں کی بھی رہنمائی فرماتے اور پھر اس پر نظر ثانی کرکے بھجواتے اس طرح آپ کی رہنمائی اور نگرانی میں آپ کے شاگردوں کو بھی فقہی مسائل میں دسترس حاصل ہو جاتی۸۲۔
>جواب مباہلہ<
اخبار >مباہلہ<۸۳ دسمبر ۱۹۲۸ء سے نہایت ناپاک اور شرمناک پراپیگنڈا کر رہا تھا۔ جس کے تحقیقی اور مدلل جواب کے لئے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری سیکرٹری انجمن انصار خلافت لاہور نے >جواب مباہلہ< کے نام سے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا۔ اس سلسلہ میں پہلا ٹریکٹ ۳۰/ جون ۱۹۲۹ء کو لاہور سے شائع ہوا۔
مولوی ابوالعطاء صاحب نے اس سلسلہ کے شروع کرنے سے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجازت بھی چاہی اور ضروری ہدایات کی بھی درخواست کی۔ حضور نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نہایت پرزور اور بصیرت افروز جواب تحریر فرمایا جو پہلے ٹریکٹ میں بھی شائع کر دیا گیا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ط
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مکرمی۔ السلام علیکم۔ بے شک اس کام کو شروع کریں اللہ تعالیٰ نے آپ کا مددگار اور ناصر ہو۔ میں تو خود ان امور کا جواب دینا شرعاً اور بعض رئویا کی بنا پر مناسب نہیں سمجھتا لیکن ایک ادنیٰ تدبر سے انسان ان لوگوں کے مفتریانہ بیانات کی حقیقت کو پا سکتا ہے۔ میرا جواب تو میرا رب ہے میں اسی کو اپنا گواہ بناتا ہوں وہ سب کھلی اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور اسی کا فیصلہ درست اور راست ہے وہ اس امر پر گواہ ہے کہ اخبار مباہلہ والوں نے سر تا پا جھوٹ بلکہ افترا سے کام لیا ہے اور انشاء اللہ وہ گواہ رہے گا۔ میں اسی کے فضل کا امیدوار اور اسی کی نصرت کا طالب ہوں رب انی مغلوب فانتصر میں ان لوگوں کے بیانات پر جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں سوائے اس کے یہ کہوں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی *** سے ڈرنا چاہئے کہ سر تا پا کذب و بہتان سے کام لے رہے ہیں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اگر میرا رب مجھ سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ خود میرا محافظ ہو گا اور اگر وہی مجھ سے کام نہیں لینا چاہتا تو لوگوں کی تعریفیں میرا کچھ نہیں بنا سکتیں۔ باقی رہیں ہدایات۔ سو میرے نزدیک ہر ایک عقلمند انسان جو شریعت کے امور سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو ان لوگوں کے غلط طریق سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ ہاں ایک سوال ہے جس کا شائد آپ جواب نہ دے سکیں اور وہ یہ ہے کہ بعض نادان اور شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ مباہلہ نہ کرنا اس سبب سے نہیں کہ مباہلہ کو میں جائز نہیں سمجھتا بلکہ اس سبب سے ہے کہ میں مباہلہ کرنا نہیں چاہتا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مباہلہ بھی ہر شخص سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے بھی شرائط ہیں مگر اس قسم کے امور کے لئے کہ جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق مذکور ہیں مباہلہ چھوڑ کر قسم بھی جائز نہیں اور ہرگز درست نہیں کہ کسی شخص )الزام دہندہ( کو ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کی اجازت دی جائے یا مطالبہ پر مباہلہ کو منظور کر لیا جائے مجھے یہ کامل یقین ہے اور ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ ایسے امور کے متعلق مباہلہ کا مطالبہ کرنا یا ایسے مطالبہ کو منظور کرنا ہرگز درست نہیں بلکہ شریعت کی ہتک ہے اور میں ہر مذہبی جماعت کے لیڈروں یا مقتدر اصحاب سے جو اس امر کا انکار کریں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اگر مولوی محمد علی صاحب یا ان کے ساتھ جو مباہلہ کی اشاعت میں یا اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت میں خاص حصہ لے رہے ہیں۔ مجھ سے متفق نہیں بلکہ ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کا یہ یقین ہے کہ جو شخص ایسے مطالبہ کو منظور نہیں کرتا وہ گویا اپنے جرم کا ثبوت دیتا ہے تو ان کو چاہئے کہ اس امر پر مجھ سے مباہلہ کر لیں۔ پھر اللہ تعالیٰ حق و باطل میں خود فرق کر دے گا۔
خاکسار مرزا محمود احمد4] [stf۸۴ ۲۹/۶ ۱۵
اس باطل شکن چیلنج کو قبول کرنے اور میدان مباہلہ میں آنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔
مذبح قادیان کے انہدام کا واقعہ
قادیان کے احمدی اور دوسرے مسلمان اپنی ضروریات کے لئے عید اور دوسرے موقعوں پر گائے ذبح کیا کرتے تھے لیکن جب حکومت نے یہاں سمال ٹائون کمیٹی قائم کی تو اس عمل کو ایک باضابطہ شکل میں لانے کے لئے کمیٹی کی معرفت مذبح کی درخواست دی گئی۔ جو ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور نے منظور کر لی اور کمیٹی نے بھینی متصل قادیان میں منظور شدہ جگہ پر مذبح تعمیر کیا اور جولائی میں اس کے کھلنے کی اجازت ملی اور جونہی اس میں باقاعدہ کام شروع ہوا۔ قادیان کے فتنہ پرداز ہندوئوں اور سکھوں نے اردگرد کے سادہ مزاج اور دیہاتی سکھوں کو بھڑکانا شروع کیا اور ۷/ اگست ۱۹۲۹ء کو کئی سو سکھوں کے شوریدہ سر ہجوم کے ذریعہ پولیس کی موجودگی میں پندرہ منت کے اندر اندر مذبح مسمار کرا دیا۸۵۔ اور پھر سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف آلہ کار بنانے کے بعد ڈپٹی کمشنر کے فیصلہ کے بعد۸۶ کمشنر صاحب کے پاس اپیل دائر کر دی اور اس فتنہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے مرعوب ہو کر مذبح کا لائسنس منسوخ کر دیا۔
اس واقعہ نے سارے ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی زبردست لہر دوڑا دی۔ اور مسلم پریس نے ایسا متحدہ احتجاج کیا جس کی نظیر نہیں ملتی چنانچہ >انقلاب< )لاہور( >مدینہ< )بجنور( >پیغام صلح< )لاہور( >منادی< )دہلی( >الجمعیتہ< )دہلی( >دور جدید< )لاہور( >تازیانہ< )لاہور( >مسلم آئوٹ لک< )لاہور( >وکیل< )امرتسر( >مونس< )اٹاوہ( >اہلحدیث< )امرتسر( >زمیندار< )لاہور( >الامان< )دہلی( >شہاب< )راولپنڈی( >حقیقت< )لکھنئو( >ہمت< )لکھنئو( نے مذبح کی تائید و حمایت میں پرزور اداریے لکھے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ )امرتسر و گورداسپور( >مجلس خلافت پنجاب< نے ریزولیوشن پاس کئے۔
جس زمانہ میں مذبح سے متعلق یہ فتنہ برپا کیا گیا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سری نگر میں تشریف فرما تھے اور حضور معاملہ کے آغاز ہی سے اس میں غیر معمولی دلچسپی لیتے اور ہدایات دیتے رہے تھے اور سری نگر سے واپسی کے بعد تو آپ نے ایک طرف تو ملی و قومی حق کے حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ میں زبردست جوش و خروش پیدا کر دیا اور دوسری طرف ۹/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو مسئلہ ذبیحہ گائے سے متعلق ہندو` سکھ اور مسلم لیڈروں کے نام مفصل مکتوب لکھا۔ جو الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا۔ جس کے جواب میں سردار جوگندر سنگھ صاحب` سردار تارا سنگھ صاحب` بھائی پرمانند صاحب دیانند کالج جالندھر اور بعض مسلمان لیڈروں کے خطوط موصول ہوئے۔ چونکہ کمشنر صاحب لاہور کی عدالت میں مذبح قادیان سے متعلق اپیل کی سماعت ہونے والی تھی اس لئے سب سے بڑی ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کا کیس صحیح صورت میں رکھا جائے۔ یہ اہم کام چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے سپرد ہوا۔ جنہوں نے ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو چوٹی کے ہندو وکلاء کے دلائل کی زبردست تردید کرتے ہوئے مذبح کی ضرورت واضح کی۔ ہندو وکلاء آپ کی بحث کے سامنے کوئی ایسی معقول دلیل نہ پیش کر سکے جسے مسلمانوں کو اپنے مذہبی اور اقتصادی حق سے محروم کر دینے کے لئے وجہ جواز قرار دیا جا سکے۸۷`۸۸۔
آخر ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو کمشنر صاحب نے )باوجود یہ کہ ان کا رویہ قبل ازیں غیر مصنفانہ اور دلازار نظر آتا تھا( ہندوئوں کی اپیل خارج کر دی اور فیصلہ کیا کہ حکم امتناعی اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور ذبیحہ گائے کے لائسنس کی تجدید کریں۸۹۔
پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ
پنجاب کے سائمن کمیشن کمیٹی میں مسلمانوں کو اپنی غفلت اور بے حسی کی وجہ سے اپنے تناسب کے لحاظ سے بہت کم نمائندگی ملی۔ مزید براں الجھن یہ پیدا ہو گئی کہ کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے تعاون کے پیش نظر یہ تجویز قبول کر لی کہ پنجاب کونسل میں کل ایک سو پینسٹھ ممبر ہوں جن میں سے ۸۳ ممبر مسلمان ہوں` باقی ہندو سکھ اور مسیحی وغیرہ چونکہ اس تجویز کے نتیجہ میں مسلمانوں کے پچپن فیصدی کی اکثریت اکاون فیصدی میں بدل جاتی تھی اور مسلمانان پنجاب کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچتا تھا اس لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رائے کے خلاف الفضل )۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء( میں آواز اٹھائی اور ان ممبروں کی چار اصولی غلط فہمیوں کی نشاندہی فرمائی۔ جن کا ردعمل موجودہ تجویز کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ اور پھران کے ازالہ کی تین صورتیں تحریر فرمائیں۹۰۔
حضور کا یہ مضمون اخبار >سیاست< اور >دور جدید< میں شائع ہوا تو ضلع میانوالی کے ایک غیر احمدی محمد حیات خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس پنشنر نے ۸/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو حضور کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>بخدمت مکرم و معظم بندہ جناب والا شان حضرت خلیفہ صاحب قادیان بعد السلام علیکم و آداب و تسلیمات گزارش ہے کہ جناب کا مضمون ۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھ کر جس اعلیٰ قابلیت و باریکی سے آپ نے نقائص اور ان کے علاج بتائے ہیں ان کی داد دینی پڑتی ہے۔ اگر چند اخبارات نے بھی ہوشیاری سے نقائص و علاج لکھے ہیں مگر حضور کی باریکی کو نہیں پہنچ سکے ۔۔۔۔۔۔۔ دیگر جس مسلمان نے بھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس مضمون کو پڑھا ہے میری تائید کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی جزائے خیر دے الخ<
مسلمانان فلسطین پر یہودی یورش کے خلاف احتجاج
برطانوی حکومت نے جن عرب ملکوں کو پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کے اقتدار سے آزاد کرانے کا تحریر معاہدہ کیا تھا ان میں فلسطین بھی شامل تھا لیکن اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کی ایجنسی سے یہ خفیہ وعدہ کر لیا تھا کہ جنگ کے بعد یہودیوں کے لئے فلسطین ایک قومی گھر بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ عربوں سے کئے ہوئے وعدے سے تو پس پشت ڈال دیئے گئے اور یہودیوں کی آباد کرنے کی مہم بڑے زور شور سے شروع کر دی۔ اور یہودیوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے مسلمانان فلسطین کو نشانہ ظلم و ستم بنانا شروع کر دیا۔
ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب کی صدارت میں ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ایک غیر معمولی جلسہ ہوا۔ جس میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی قرارداد پیش کرکے ایک مفصل تقریر فرمائی اور اپنے چشم دید حالات و واقعات کا ذکر کرکے بتایا کہ یہود کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے لئے بہت خطرناک چال چلی جا رہی ہے۔ ان کے علاوہ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< شیخ محمود احمد صاحب عرفانی` سید محمود اللہ شاہ صاحب اور چودھری ظہور احمد صاحب نے حفاظت حقوق مسلمانان فلسطین کی طرف حکومت کو توجہ دلانے اور یہود کو مظالم سے باز رکھے جانے کے لئے ریزولیوشن پیش کئے جو اتفاق رائے سے پاس ہوئے۹۱۔
شاردابل اور حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ
اجمیر کے مسٹر ہربلاس شاردا نے اسمبلی میں تجویز پیش کی کہ ہندوئوں میں کم سن بچوں کی شادی کی عادت پائی جاتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما` اخلاق و عادات اور صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے لہذا ایک قانون نافذ کیا جائے جس سے اس رسم کا انسداد ہو سکے۔ یہ تجویز شاردابل کے نام سے موسوم ہوئی اور اسے وائسرائے ہند کی منظوری سے پورے ہندوستان پر نافذ کر دیا گیا۹۲۔
امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس قانون سے متعلق حکومت ہند کو ایک مفصل بیان ارسال فرمایا جس میں بتایا کہ بچپن کی شادی پر قانوناً پابندی عائد کرنا درست نہیں تعلیم اور وعظ کے ذریعہ اس کی روک تھام کرنی چاہئے۔ قانون بنا دینے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ صحیح طریق یہ ہے کہ بچوں کو بالغ ہونے پر فسخ نکاح کا حق دیا جائے اس حق سے تمام نقائص دور ہو سکتے ہیں بلاشبہ فسخ نکاح کے معاملہ میں دوسرے مذاہب کا اسلامی تعلیم سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ عقل و فہم سے بالا امر ہے کہ مسلمانوں کو کیوں ایسے تمدنی حالات میں دوسرے مذاہب کے تابع کیا جائے جن میں ہماری شریعت نے ہمارے لئے معقول صورت پیدا کر دی ہے لیکن ان کے ہاں کوئی علاج نہیں۔ شرعاً ایسے قانون کی ہماری نزدیک ممانعت نہیں بشرطیکہ اس کا فیصلہ مسلمانوں کی رائے پر ہو۹۳۔
انہی دنوں حضور سے سوال کیا گیا کہ یہ مداخلت فی الدین ہے؟ حضور نے فرمایا۔ نہیں۔ ہمارے نزدیک مداخلت فی الدین وہ ہے جس پر جہاد کرنا فرض ہو جائے اسے ہم تمدنیات میں مداخلت سمجھتے ہیں اور اسی بناء پر اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ کسی قوم کو دوسروں کے تمدن میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ تمدنی طور پر جن باتوں کی اسلام نے اجازت دی ہے ان سے روکنے کا حق کسی کو نہیں۔ ہاں اگر مسلمان آپس میں فیصلہ کرکے ایسا کر لیتے تو اس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ یہ عارضی انتظام ہے جو ایک جائز بات میں عیب پیدا ہونے کی وجہ سے اسے روکنے کے لئے کیا گیا ہے لیکن دوسروں کا اس سے روکنا مستقل طور پر ہے اور رسول کریم~صل۱~ پر حملہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا<۹۴۔
سفر لاہور
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ درد شکم کے علاج کی غرض سے ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو لاہور تشریف لے گئے۹۵۔ اور کرنل باٹ صاحب سے طبی مشورہ لینے کے علاوہ نماز جمعہ پڑھانے اور احمدیہ انٹر کالجئیٹ ایسوسی ایشن کی ایک دعوت میں تقریر فرمانے کے بعد ۴/ نومبر کی شام کو قادیان واپس تشریف لے آئے۹۶۔
اس سفر کی نسبت حضور کا تاثر یہ تھا کہ۔
>مسلمانوں کا ارادہ سیاسیات کے متعلق کچھ کرنے کا معلوم نہیں ہوتا۔ اب کے لاہور جا کر میں نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ کہیں زندگی دکھائی نہیں دیتی۔ مردنی چھائی ہوئی ہے ہاں اتنا ہے کہ انہیں اپنی اس حالت کا احساس ضرور ہے۔ ایک معزز مسلمان نے کہا۔ اب تو کوئی انسان پیدا ہی ہو گا تو مسلمان بچ سکیں گے۔ میں نے کہا۔ پیدا تو ہوا تھا مگر مسلمانوں نے پہچانا نہیں<۹۷۔
‏tav.5.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل چہارم(
سلطنت برطانیہ کے آثار زوال
اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۱۸۹۱ء۹۸ میں جبکہ برطانوی سلطنت کا آفتاب بڑی آب و تاب سے چمک رہا تھا الہام ہوا ~}~
‏poet] gat[سلطنت برطانیہ تا ہشت سال
بعد ازاں ضعف و فساد و اختلال
چنانچہ ۲۲/ جنوری ۱۹۰۱ء کو ملک وکٹوریہ انتقال کر گئیں ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم ہوئی جس نے اتحادیوں کی طاقت پر بڑی ضرب لگائی۔ ۱۹۱۸ء میں انگریز ہندوستان کو سیاسی حقوق دینے کے اعلان پر مجبور ہو گئے۔ ۱۹۲۸ء میں ہندوستان کو مزید اختیارات دینے کے لئے انگلستان سے مشن آیا اور >سلطنت برطانیہ تا ہشت سال< کی صداقت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔
یہ حقیقت بین الاقوامی حیثیت سے بھی اب ایسی واضح نظر آرہی تھی کہ سر ونسٹن چرچل جیسے برطانوی مفکر نے انہی دنوں >کیا برطانوی سلطنت کا خاتمہ قریب ہے<۔ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں کھلا اقرار کیا کہ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ موجودہ صدی سلطنت برطانیہ کے لئے فائدہ بخش نظر نہیں آتی۔ سلطنت کو گزشتہ صدی سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے انیسویں صدی میں اس کو دوسری حکومتوں پر جو تفوق حاصل تھا وہ کم ہو رہا ہے۔ برطانیہ کو اپنی بحری طاقت پر ناز تھا۔ لیکن ہوائی قوت اس کے لئے مہلک ثابت ہوئی ہے اور بے نظیر بحری قوت کے گھمنڈ کا خاتمہ ہو گیا ہے مالی لحاظ سے جو فوقیت انگلستان کو حاصل تھا وہ بھی ختم ہو گئی۔ اس سے قبل جو قومیں اور ملک ہمارے مطیع و فرمانبردار تھے ان میں اب بیداری پیدا ہو چکی ہے اور حکومت خود اختیاری حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک وہ ہے جو گورنمنٹ کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اس تحریک کے پیرو ہر ایسے رکن کو جو انسانوں کے اس وسیع سمندر میں انتظام و انصرام کے لئے جاتا ہے۔ ناقابل التفات سمجھتے ہیں۔ )تلخیص و ترجمہ۹۹(
میاں علم دین صاحب کی لاش اورحکومت کوغیر دانشمندانہ رویہ
حکومت نے دشمن اسلام راجپال کے قاتل علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی کی سزا دی۱۰۰۔ مگر ان کی لاش مسلمانوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اس غیر دانشمندانہ رویہ پر سخت تنقید کی اور فرمایا۔ اس سے فساد بڑھے گا۔ جب ایک شخص مر گیا اور قانون کی حد ختم ہو گئی۔ تو اس سے آگے قدم بڑھانا فتنہ پیدا کرنا ہے یہ بہت ہی نامعقول حرکت ہے جو حکومت سے سرزد ہوئی یہ تو خواہ مخواہ مسلمانوں کو چڑانے والی بات ہے پھر اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنے دیا گیا۔ حالانکہ یہ ہر مسلمان کا مذہبی حق ہے جس سے محروم کرنا بہت بیہودہ بات ہے۱۰۱۔
آخر حکومت کو مسلمانوں کے سامنے جھکنا پڑا اور لاش مسلمانوں کے حوالہ کر دی گئی۔ لاہور میں اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ حضور کو اطلاع ملی کہ جنازہ میں مسلمانوں کا بڑا ہجوم تھا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ >یہ ایک مظاہرہ کی اچھی صورت تھی اس کا یہ اثر ہو گا کہ آئندہ کسی شخص کو ایسی امن شکن حرکات کی کم جرات ہو گی جیسے راجپال نے کی تھی۔ ملکی ترقی کے لئے اتحاد نہایت ضروری ہے اور اتحاد ترقی نہیں کر سکتا جب تک فتنہ انگیز حرکات کا انسداد نہ ہو<۱۰۲۔ اور فرمایا >اتنے بڑے مجمع کا ایسی حالت میں مسلمانوں نے بہت اچھا انتظام کیا اور کوئی ناگوار واقعہ رونما نہ ہوا۔ ایسے انتظامات سے قوم کی اچھی ٹریننگ ہو سکتی ہے<۱۰۳۔
سالانہ جلسہ کے لئے چندہ کی تحریک
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء۱۰۴text] gat[ کے خطبہ جمعہ میں پوری جماعت کو اور پھر مکتوب۱۰۵ کے ذریعہ اس کے کارکنوں کو سالانہ جلسہ کے چندے کی فوری وصولی کے لئے تحریک فرمائی۔ یہ تحریک نہایت ہی تنگ وقت میں شائع ہوئی لیکن جماعت نے حیرت انگیز جوش سے اس کا استقبال کیا۔ بعض جماعتوں اور احباب نے مقررہ چندہ سے ڈیوڑھا دوگنا بلکہ اس سے بھی زیادہ چندہ بھیج دیا۔ جس پر حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۱۰۶۔
دیوانہ وار تبلیغ کرنے کا ارشاد
۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت سے بذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کہ دیوانہ وار تبلیغ احمدیت میں لگ جائو ورنہ آئندہ نسلیں بھی کمزور ہو جائیں گی۱۰۷۔
مبلغین کو خاص ہدایت
حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا دائرہ وسیع تر کرنے کے لئے ۴/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہدایت فرمائی کہ مبلغین خاص طور پر ان مقامات میں بھجوائے جائیں۔ جہاں ابھی تک کوئی جماعت قائم نہیں ہوئی چنانچہ فرمایا۔
>ہماری تبلیغ میں ایک روک ہے عام طور پر ہمارے مبلغین انہی مقامات پر جاتے ہیں جہاں پہلے ہی جماعتیں موجود ہیں میں نے سوچا ہے ہر مبلغ کے لئے ایسے مقامات کے دورے لازمی کر دیئے جائیں جہاں پہلے کوئی احمدی نہیں۔ تا نئی جماعتیں قائم ہوں جس جگہ پہلے ہی کچھ احمدی ہوتے ہیں وہاں پھر جماعت ترقی نہیں کرتی۔ کیونکہ لوگوں میں ضد پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر مبلغین کو نئے مقامات پر بھیجا جائے تو ہر ایک کے لئے ماہ ڈیڑھ ماہ میں پانچ سات نئے آدمی جماعت میں داخل کرنا کچھ مشکل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح پہلی جماعتوں میں بھی از سر نو جوش پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ جب ان کے قرب و جوار میں نئی جماعتیں قائم ہو جائیں تو وہ بھی زیادہ جوش اور سرگرمی سے کام کریں گے<۱۰۸۔
پادری کریمر ڈچ مشنری قادیان میں
ہالینڈ کے ایک مشنری پادری ڈاکٹر کریمر ہالینڈ سے جاوا جاتے ہوئے ۱۵/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آئے حضور سے ملاقات کی اور سلسلہ کے مدارس اور دفاتر دیکھتے۱۰۹۔ اور شام کو واپس چلے گئے ڈاکٹر کریمر جماعت کی تنظیم اور جذبہ تبلیغ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے >مسلم ورلڈ< )اپریل ۱۹۳۱ء( میں اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کئے۔
جماعت احمدیہ مسلمانوں میں ایسی ہی جماعت ہے۔ جیسی کہ ہندوئوں میں آریہ سماجی۔ ان دونوں جماعتوں کا عیسائیت کے ساتھ خاص تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ہندوستان میں توسیع عیسائیت کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں پر عام طور پر مایوسی کا عالم طاری ہے برخلاف اس کے جماعت احمدیہ میں نئی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ جماعت قابل توجہ ہے۔ یہ لوگ اپنی تمام توجہ اور طاقت تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں اور سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان جس حکومت کے ماتحت ہو اس سے وفادار رہے۔ اور وہ صرف اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ کونسی حکومت کے ماتحت ان کو تبلیغ اسلام کے مواقع اور سہولتیں حاصل ہیں۔ اور وہ اسلام کو ایک مذہبی گروہ یا سیاسی نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ اس کو محض صداقت اور خالص حق سمجھ کر تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں اس لحاظ سے یہ جماعت فی زمانہ مسلمانوں کی نہایت عجیب جماعت ہے اور مسلمانوں میں صرف یہی ایک جماعت ہے جس کا واحد مقصد صرف تبلیغ اسلام ہے۔ اگرچہ ان کی طرز تبلیغ میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے تاہم ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اور اسلام کے لئے سچی محبت کو دیکھ کر بے تحاشا صد آفرین نکلتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب ایک زبردست شخصیت کے آدمی تھے۔ وہ فریق جو ان کو نبی مانتا ہے اس کا مرکز قادیان ہے۔ میں جب قادیان گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں لوگ اسلام کے لئے جوش اور اسلام کی آئندہ کامیابی کی امیدوں سے سرشار ہیں اپنے آپ کو وہ غریبانہ طور پر پیغام پہنچانے والے نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کو اس بات پر ناز ہے کہ وہ دنیا میں سچائی کا اعلان کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اور وہ اسلام کی محبت میں اس قدر اندھے اور مجنون ہو رہے ہیں کہ جس قدر انسانی قلب کے لئے ممکن ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ لوگ دیگر مذاہب کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں )؟( لیکن وہ اس بات کے تکرار سے بھی کبھی نہیں تھکتے کہ اسلام بنی نوع انسان کی مساوات` امن و امان اور مذہبی آزادی کا سبق دیتا ہے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس بات میں یہ لوگ سچے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی تمام طاقت اس بات کے پیش کرنے پر خرچ ہو رہی ہے۔ کہ اسلام اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ تمدن کی تعلیم دیتا ہے۔ اس جماعت کا اثر اس کے اعداد و شمار سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ مذہب میں ان کا طرز استدلال بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے احمدیوں کا علم کلام عقلاً ماننا پڑتا ہے<۱۱۰۔
چھپن فیصدی کمیٹی کا وفد قادیان میں
پنجاب میں مسلم آبادی چھپن فیصدی تھی اس مناسب سے ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء کو جناب عبدالمجید صاحب سالک مدیر انقلاب کی تحریک پر دفتر >انقلاب< لاہور میں >چھپن فیصدی کمیٹی< کے نام سے پروفیسر سید عبدالقادر صاحب کی صدارت میں ایک انجمن قائم ہوئی۔ جس کا مقصد مسلمانان پنجاب کے سیاسی حقوق کی حفاظت تھا۔ ملک لال دین صاحب قیصر اور مولوی عبدالمجید صاحب قرشی کمیٹی کے نمایاں ممبر تھے۱۱۱۔ کمیٹی کے ساتھ ہی >چھپن فیصدی کور< کی بھی بنیاد ڈالی گئی۔
اس کمیٹی کا ایک وفد جو مولوی عبدالمجید صاہب قرشی اور مولوی محمد شریف صاحب پر مشتمل تھا۔ ۱۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آیا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملا۔ حضور نے بتایا کہ ہم تو ۱۹۱۷ء سے برابر مسلمانان پنجاب و بنگال کے متعلق یہ معاملہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم آپ کی ہر قسم کی مدد کریں گے۔ آپ اپنے خیالات ہماری جماعت کے سامنے پیش کریں اور یہاں قادیان ہی سے یہ کام شروع کر دیں اور اس کے ساتھ بعض اہم اور قیمتی ہدایات بھی دیں۔
حضور سے اجازت حاصل ہونے پر مولوی ذوالفقار علی خان صاحب کی زیر صدارت قادیان میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا جس میں سب سے پہلے خان صاحب نے ۵۶ فیصدی سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کی مساعی جمیلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کی ہندوستان میں آمد کے وقت سے اس کے لئے ہم آواز بلند کر رہے ہیں اور اب سائمن کمیشن کے سامنے بھی اس حق پر زور دیا ہے پس چونکہ یہ معاملہ ہمیشہ ہماری ہی طرف سے اٹھتا رہا ہے اس لئے ہم دل و جان سے اس کے حامی ہیں اور ہر جائز امداد کے لئے تیار ہیں۔
خان صاحب کے بعد قرشی صاحب نے نہایت موثر پیرایہ میں کمیٹی کا نقطہ نگاہ واضح کیا اور اس جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ اس تقریر کے بعد لوکل انجمن احمدیہ قادیان کے پریذیڈنٹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پرجوش تقریر کرکے یہ ریزولیوشن پیش کیا۔ جو باتفاق رائے پاس ہوا۔
>لوکل جماعت احمدیہ قادیان پنجاب میں مسلمانوں کو چھپن فیصدی حقوق کے ملنے کی حامی ہے۔ کیونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان ہمیشہ سے یہ مطالبہ مسلمانان پنجاب کے لئے پیش کرتے رہے ہیں۔ بحیثیت ایک مستقل منظم جماعت کے یہ جماعت اپنے امام کی ہدایات کے ماتحت ۵۶ فیصدی کمیٹی کی ہر قسم کی جائز امداد کرے گی۔ اور ہر وقت تعاون کے لئے تیار رہے گی<۱۱۲۔
کانگریس کااجلاس لاہور اورمجلس احراراسلام کی بنیاد
کانگریس نے >نہرو رپورٹ< کے تسلیم کئے جانے کی نسبت اجلاس کلکتہ )دسمبر ۱۹۲۸ء( میں حکومت کو ایک سال کا جو نوٹس دے رکھا تھا اس کی معیاد دسمبر ۱۹۲۹ء تک تھی اس دوران میں کانگریس سول نافرمانی کی خفیہ اور علانیہ تیاریاں کرتی اور مسلمانوں اور حکومت دونوں کو دھمکیاں دیتی رہی۔ اور بالاخر مہلت ختم ہوتے اس نے ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۹ء کے اجلاس لاہور میں اعلان کر دیا۔ کہ چونکہ >نہرو رپورٹ< منظور نہیں ہوئی اس لئے اب سول نافرمانی کا پروگرام عمل میں لایا جائے۔ اور اب ہم درجہ نو آبادیات پر بھی قناعت نہیں کریں گے۔ آزادی کامل حاصل کریں گے۔ یہ اعلان پنڈت جواہر لال نہرو کی صدارت میں گاندھی جی نے کیا۔
اس موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی چٹھی بعنوان Hindu to Appeal <An Leaders> )ہندوئوں کے نام اپیل( تقسیم کی گئی جس میں حضور نے انہیں مسلم حقوق کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔ >مسلمانوں کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر آئندہ مصائب کا اطمینان اور محفوظ ہونے کے احساس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں ہر اکثریت کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرے بلکہ انہیں ہر طرح مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ مسلمان حب وطن اور اس کے استخلاص میں جدوجہد کے لحاظ سے برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں۔ لیکن اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ ملک کے آئندہ نظام میں اپنی پوزیشن کے متعلق طبعاً مشوش ہیں الخ<۱۱۳۔
اس اپیل پر کانگریس کے لیڈروں نے بالکل التفات نہ کی اور مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کرکے >آزادی کامل< کی قرار داد پاس کر دی جس کے معنے اور کچھ نہیں تھے کہ وہ بدیشی حکومت کو مسلمان سے تصفیہ حقوق کے بغیر ہی ملک سے نکال باہر کرنا چاہتی تھی حالانکہ اس مقصد کے حصول سے پہلے ہندوستانی قوموں کی سیاسی انفرادیت کی محافظت کی ضمانت ضروری تھی اس لئے کہ آزادی کامل تک پہنچنے کے لئے راہ میں جو منزلیں آتی تھیں وہ سب آئینی تھیں۔ لہذا ان آئینی منزلوں تک کا راستہ بالکل آئینی حیثیت سے طے ہونا چاہئے تھا اور ابتداء ہی میں ان مختلف اقوام کو جو اس راہ پر گامزن ہونے والی تھیں آئینی حیثیت سے یہ اطمینان مل جانا چاہئے تھا کہ اس راہ کی آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے ہر قوم کی انفرادیت اور اس کا سیاسی مفاد ہر طرح محفوظ رہے۔ مگر یہ ضمانت ابھی تک ہندوستانی اقلیتوں کو نہیں ملی تھی۔ بلکہ ابتدائی آئینی منزل )نہرو رپورٹ( میں بھی مختلف قوموں کو جو ہم سفر تھیں بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا جس کے باعث ملک میں شدید بے چینی اور انتشار پیدا ہوا۔ اور ساری جدوجہد آزادی ایک مخصوص )ہندو( قوم کی کشمکش اقتدار بن کر رہ گئی۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شروع سے یہ آواز اٹھاتے آرہے تھے کہ آزادی کامل سے پہلے ہندو اکثریت سے جو آل انڈیا نیشنل کانگریس پر قابض ہے حقوق کے تصفیہ کی اشد ضرورت ہے ورنہ حکومت حاصل ہو جانے کے بعد سب کچھ اکثریت کے ہاتھ میں چلا جائے گا۱۱۴۔ یہ آواز ابتداء میں بہت کمزور تھی مگر نہرو رپورٹ کے بعد ملک کے گوشہ گوشہ سے اس زور کے ساتھ بلند ہوئی کہ مسلمانوں کی اکثریت نے >آزادی کامل< کے لفظ کے پیچھے پوشیدہ خطرے کو محسوس کر لیا اور اس بظاہر دلکش و دلفریب مگر حقیقت میں مہلک اور خطرناک نعرہ میں کانگریس کی تائید کرنے سے صاف انکار کر دیا۱۱۵۔
مسلمانوں کے سواد اعظم کے مقابل بعض انتہا پسند اور جوشیلے مسلمان جو کانگریس کی مہا سبھائی ذہنیت کا متعدد بار تجربہ کرنے کے باوجود کانگریس سے چمٹے ہوئے تھے اور >نیشنلسٹ< اور >خدائی خدمت گار< کہلاتے تھے یا >جمعیتہ العلماء ہند< سے منسلک تھے >آزادی کامل< کی قرارداد پر کانگریس کے اور بھی پرجوش حامی بن گئے۔ ان جماعتوں کے علاوہ جو کانگریس کے دوش بدوش مسلمانوں میں کام کر رہی تھیں >آزادی کامل< کی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے اور اس کی تحریک کو مسلمانوں تک پھیلانے کے لئے دسمبر ۱۹۲۹ء میں یعنی کانگریس کے اجلاس لاہور ہی کے دنوں میں لاہور ہی میں مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد پڑی۔ جس کے لیڈر اگرچہ شروع ہی سے ہر معاملہ میں کانگریس کی پرزور حمایت کرتے آرہے تھے مگر اب ایک نئے نام اور نئے پلیٹ فارم سے اپنی پہلی سرگرمیوں کو تیز تر کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب لکھتے ہیں۔ >مجلس احرار کا سب سے پہلا جلسہ ۲۹/ دسمبر ۱۹۲۹ء کانگریس کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہوا۔ جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری۱۱۶ نے میری صدارت میں تقریر کی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہرا دل ثابت ہوں۔ آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصہ میں آئے۔ اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد سول نافرمانی کا آغاز ہوا۔ اور کانگریس کے جھنڈے تلے سب نے مل کر قربانیاں پیش کیں<۱۱۶۔
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے ایک سوانح نگار لکھتے ہیں۔ > دسمبر ۱۹۲۹ء میں کانگریس نے مکمل آزادی کا ریزولیوشن پاس کیا اور اپریل ۱۹۳۰ء میں نمکین ستیہ گرہ کا آغاز کر دیا۔ احرار ذہناً کانگریس کے ساتھ تھے انہوں نے اپنی تنظیم کو ادھورا چھوڑا اور کانگریس میں شریک ہو کر سول نافرمانی میں حصہ لینے لگے]10 [p۱۱۷۔
اس کی تفصیل میں شاہ جی کے ایک اور سوانح نویس نے لکھا ہے کہ۔
>انڈین نیشنل کانگریس نے ۱۹۲۹ء کے اجلاس میں بمقام لاہور جب آزادی کامل کی قرار داد منظور کی تو اس کی تائید و اشاعت میں آپ نے نہایت انہماک اور سرگرمی سے حصہ لیا اور جب مہاتما گاندھی کی قیادت میں آزادی کا بگل بجایا گیا اور نمکین سول نافرمانی کا ملک میں آغاز ہوا تو آپ پیش پیش رہے اور تمام ہندوستان میں کانگریس کے پروگرام کی اشاعت کے لئے طوفانی دورے کئے۱۱۸۔
ایک احراری لیڈر جناب مظہر علی صاحب اظہر کا بیان ہے کہ۔
>مجلس احرار کے قیام کے وقت کانگریس سے کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ ہمارے بہترین کارکن ۱۹۳۰ء کی سول نافرمانی کی تحریک میں قید کاٹ چکے تھے۔ جن میں سے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی` چوہدری افضل حق صاحب اور شیخ حسام الدین صاحب کے نام بیان کر دینا مناسب ہے اس کے علاوہ ہمارے رضا کاروں نے تحریک سول نافرمانی میں حصہ لیا<۱۱۹۔
مجلس احرار کے صدر جناب سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا اپنے متعلق واضح طور پر اعلان تھا کہ >سر سے پائوں تک سیاسی آدمی ہوں<۱۲۰۔ لہذا مجلس احرار۱۲۱ بنیادی حیثیت سے خالص ایک سیاسی جماعت تھی جس کا اصولی و بنیادی مقصد وحید مسلمانوں کو اپنے جوش خطابت سے کانگریس کی پالیسی پر گامزن اور اس کی تحریک پر کاربند کرنا تھا اور کانگریس کے چوٹی کے لیڈر ان دنوں جماعت احمدیہ کو تمام اسلامی جماعتوں میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے تھے۔ اور اس کی زبردست تنظیم اور فدائیت کا بے نظیر جذبہ ان کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر سید محمود جنرل سیکرٹری آل انڈیا نیشنل کانگریس اپریل ۱۹۳۰ء میں قادیان آئے۔ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو جب یورپ کے سفر سے )دسمبر ۱۹۲۷ء( میں واپس آئے تو انہوں نے اسٹیش پر اتر کر جو باتیں سب سے پہلے کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے اس سفر یورپ سے یہ سبق حاصل کیا ہے۔ کہ اگر انگریزی حکومت کو ہم کمزور کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس سے پہلے احمدیہ جماعت کو کمزور کیا جائے۱۲۲body] gat[۔
چنانچہ مجلس احرار اسلام نے اس نقطہ کو بھی اپنی تحریک کا جزو لاینفک بنا لیا اور جس طرح انہوں نے اس سے پہلے >نہرو رپورٹ< کے مخالفین کو قصر برطانیہ۱۲۳ کے ستون مشہور کر رکھا تھا اور آئندہ چل کر مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کو انگریزی ایجنٹ اور دام فرنگ کے نام سے موسوم کیا۱۲۴۔ جماعت احمدیہ کو >برطانوی ایجنٹ< قرار دے کر اس عظیم الشان اسلامی تنظیم کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔ جو کانگریسی ذہن کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب >تاریخ احرار< میں صاف لکھتے ہیں >کانگرسی مسلمانوں کا ذہن بے حد متشکک اور متشدد ہے ۱۹۳۵ء سے پہلے تو لوگوں کو سی۔ آئی۔ ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا۔ کانگریسی مسلمان اپنے دعویٰ اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بدعقل اور دوسروں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۱۲۵۔ مجلس احرارکا ترجمان اخبار >آزاد< )لاہور( اسی بناء پر لکھتا ہے۔
>جب حجتہ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کاشمیری` حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہ ھم رحمہم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ داشتہ >نبوت< کو موت کے گھاٹ نہ اتار سکے تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رخ بدلا۔ نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹک کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے<۱۲۶۔
اس اہم ترین سیاسی مقصد کے علاوہ )جو دراصل کانگریس کے پروگرام کی تکمیل کے لئے از حد ضروری تھی( تحریک احمدیت کی مخالفت میں بعض اور عوامل بھی کار فرما تھے۔ مثلاً نہر رپورٹ کی اندھا دھند تائید کی وجہ سے اس گروہ کے وقار اور عظمت کو سخت ٹھیس پہنچی تھی۱۲۷۔ جس کے ازالہ اور دوبارہ مسلمانوں میں نفوذ و مقبولیت کے لئے احمدیت کی مخالفت ایک کارگر ہتھیار تھا۔ جو غیر احمدی علماء اپنی شہرت و عزت کی دکان چمکانے کے لئے ابتدا سے استعمال کرتے آرہے تھے۔
جماعت احمدیہ سے مخالفت کی ایک اہم وجہ مولوی ظفر علی خاں کے اخبار >زمیندار< کے نزدیک مسلمانوں سے >مالی منفعت< کا حصول تھا۱۲۸۔ چنانچہ اس نے لکھا۔ >بتدریج یہ حقیقت زمانے نے مولانا حبیب الرحمن اور چودھری افضل حق پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح کر دی کہ کیا خدمت دین کے اعتبار سے اور کیا مالی منفعت کے لحاظ سے قادیانیت کی مخالفت موثر ترین ہے<۔ یہ نظریہ اس لحاظ سے خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری >امیر شریعت< احرار کو مسلم تھا کہ رداحمدیت کے فن میں مولوی صاحب موصوف ان کے قائد ہیں چنانچہ ان کا بیان ہے کہ >میری صدارت میرے دوستوں کا عطیہ ہے ورنہ اس منصب کے حقدار مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار ہیں۔ جنہوں نے روز اول سے مرزائیت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہے وہ اس فن میں ہمارے استاد ہیں<۱۲۹۔
اس مقام پر مجلس احرار کی صرف ابتدائی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنا مقصود تھا جس سے الحمدلل¶ہ ہم فارغ ہو چکے ہیں۔ البتہ ہم آگے جانے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مجلس کے سیاسی نظریات اور اس کے سیاسی مزاج کی نسبت اس کے قائدین اور مخالفین دونوں کی بعض آراء و مقتبسات بطور نمونہ درج کر دیں تا ان واقعات و حوادث کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے جو آئندہ مجلس احرار کی سیاسی پالیسی اور انتہاء پسندانہ روش کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف رونما ہوئے اور جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کی سیاسی و مذہبی فضا پر خطرناک اثر ڈالا۔
امیر شریعت احرار کی رائے
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے آزادی ہند سے متعلق اپنا مثبت نظریہ بتاتے ہوئے فرمایا۔
>ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ غیر ملکی طاقت سے گلو خلاصی حاصل ہو اس ملک سے انگریز نکلیں یا نکالے جائیں تب دیکھا جائے گا کہ آزادی کے خطوط کیا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس مہم میں سئور بھی میری مدد کریں گے تو میں ان کا منہ چوم لوں گا<۱۳۰۔
‏sub] gat[جنرل سیکرٹری مجلس احرار کا بیان
احرار کے ایک سابق جنرل سیکرٹری لکھتے ہیں۔
>احرار پنجاب کے ادنیٰ متوسط طبقے کے شہریوں کی ایک ایسی تحریک تھے۔ جس میں جوش و جذبہ وافر تھا۔ وہ لیگ کے ہمہ گیر سیاسی ذہن کے مقابلہ میں ایک مذہبی جماعت تھے اور کانگریس کی ہمہ گیر تنظیم کے مقابلہ میں ایک محدود سیاسی ذہن ۔۔۔۔۔۔ خود داخلی طور پر متضاد الخیال تھے۔ لیکن اینٹی برٹش ذہن کی مشترکہ چھاپ نے انہیں ایک کر رکھا تھا۔ جن طاقتوں کے خلاف صف آراء تھے ان کی مختلف الاصل جارحیت کے خلاف مذہبی زبان میں سیاسی اثر پیدا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اکابر احرار میں سے بیشتر کانگریس اور جمعیتہ العلماء کے ذہن کی سفارت کرتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی سے ایک گونہ عقیدت رکھتے اور ان کی ذات کے لئے نبردآزما ہوتے تھے گویا سیاست و مذہب کے میدان میں انہیں اپنے ثانوی ہونے کا اقرار تھا ۔۔۔۔۔۔ احرار کسی تخلیقی فکر کے مظہر نہ تھے مگر ایجی ٹیشن اور پراپیگنڈا کے فن میں بے مثال تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ احرار میں قربانی` احتجاج` حوصلہ اور خطابت کا جوہر وافر تھا۔ لیکن فکر نظر کسوٹی اور قیادت کا تناسب مقابلتاً کمتر تھا<۱۳۱۔
مجلس احرار کے اخبار >آزاد< کی رائے
>یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطبوں میں جذباتیت پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی۱۳۲ کا عنصر عالب ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ ذرا حقیقت پسند` سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں اور کوئی تعمیری و اصلاحی کام کر لیں تو ہمارا ذمہ۔ یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے صرف جذبات سے کام نکالتے ہیں اسی طرح اشتعال انگیزی بھی ہماری تحریکوں` جماعتوں اور قائدوں کی جان ہے۔ آپ بڑے بڑے دیندار` بااخلاق اور سنجیدہ اور متین پہاڑوں کو کھودیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا۔ الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم لیتا ہے اور کوئی زیادہ ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اس لئے وہ رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں<۱۳۳4] f[rt۔
امریکہ کے ایک مشہور مصنف کی رائے
امریکہ کے ایک نامور مصنف مسٹر جان گنتھر لکھتے ہیں۔ >احرار پنجاب میں بایاں بازو ہیں اور وہ کانگریس کے ساتھ ہیں وہ عجیب مجموعہ اضداد ہیں ایک طرف وہ مذہبی اعتبار سے فرقہ پسند فدائی ہیں اور دوسری طرف سیاسی انتہا پسند<۱۳۴۔
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے علاوہ )جن کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے( ۱۹۲۹ء میں کئی اور جلیل القدر صحابہ کا انتقال ہوا جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت مولوی محمد صاحب مزنگ لاہور )تاریخ وفات ۲/ جنوری ۱۹۲۹ء(
۲۔
حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب۱۳۵ )تاریخ وفات ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء(
۳۔
حضرت شہامت خاں صاحب نادون ضلع کانگڑہ )والد ماجد ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب(
۴۔
حضرت بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ )تاریخ وفات ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء۱۳۶(
۵۔
شاہ جہاں بی بی اہلیہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ )تاریخ وفات یکم نومبر ۱۹۲۹ء۱۳۷(
۶۔
صوفی بابا شیر محمد صاحب آف بنگہ ضلع جالندھر۱۳۸۔
‏tav.5.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل پنجم(
متفرق و اھم واقعات
خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں ترقی
)۱( حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم رابع سارہ بیگم صاحبہ کے ہاں ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء کو صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۱۳۹۔
)۲( حضرت نواب محمد علی خاں کے ہاں ۱۲/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم پیدا ہوئیں۱۴۰۔
مدیر >مشرق< کی وفات
حکیم برہم صاحب ایڈیٹر >مشرق< گورکھپور ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء کو وفات پا گئے۱۴۱۔ آپ مسلمانوں کی فلاح کے لئے کوشش کرنے والوں میں ایک ممتاز و بااصول اخبار نویس تھے اور اس لئے جماعت احمدیہ کے دینی اور مذہبی خدمات کا کھلے الفاظ میں اقرار کرکے دلی بشاشت سے اسے سراہنے ہی پر بس نہ کرتے بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کے کاموں کی قدر و منزلت پیدا کرنے کے لئے پرزور مضامین بھی شائع فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں جو آخری پرچہ >مشرق< تیار کیا اور جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اس میں بھی مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔
>ہندوستان میں صداقت اور اسلامی سپرٹ صرف اس لئے باقی ہے کہ یہاں روحانی پیشوائوں کے تصرفات باطنی اپنا کام برابر کر رہے ہیں اور کچھ عالم بھی اس شان کے ہیں جو عبدالدراہم نہیں ہیں اور سچ پوچھو تو اس وقت یہ کام جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے حلقہ بگوش اسی طرح انجام دے ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمان انجام دیا کرتے تھے<۱۴۲۔
حیدر آباد میں انجمن ترقی اسلام کی بنیاد
یکم فروری ۱۹۲۹ء سے انجمن ترقی اسلام حیدر آباد )دکن( کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ انجمن کی انتظامیہ کے ایک ممبر مولوی عبدالرحیم صاحب نیر بھی تھے جو ۱۹۲۸ء سے جنوبی ہند میں بحیثیت مبلغ بڑے شوق و جوش سے مصروف کار تھے اور انجمن ترقی اسلام کا نمایاں کام ریاست کی اچھوت اقوام میں مدارس کا قیام اور ان میں تبلیغ اسلام کرنا تھا۔ چنانچہ موضع بوئے پلی۔ دینا چڑ اور محبوب نگر میں مدرسے قائم ہو گئے جن میں ایک سو سے زائد طالب علم تعلیم پاتے تھے۔ ان مدرسوں کے اخراجات انجمن ترقی اسلام کے مقامی ریزرو فنڈ سے ادا کئے جاتے تھے۱۴۳۔
مقدمہ شاہ جہانپور کا فیصلہ
مقدمہ احمدیہ مسجد شاہ جہانپور کی اپیل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں دائر تھی۔ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی نے پیروی کی۔ بالاخر مقدمہ ججی شاہ جہان پور سے احمدیوں کے حق میں فیصل ہوا تھا۱۴۴۔
احمدی خواتین کی عربی امتحان میں کامیابی
اس سال جماعت احمدیہ کی سات خواتین نے >مولوی< کا عربی امتحان پاس کیا۔ جن میں سے محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب یونیورسٹی میں خواتین میں اول اور حضرت سارہ بیگم صاحبہ سوم رہیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ اتنی احمدی مستورات اس امتحان میں پاس ہوئیں۱۴۵۔][ایک احمدی پر قاتلانہ حملہ
ستمبر ۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے کہ جماعت احمدیہ پشاور کے ایک مخلص احمدی میاں محمد یوسف صاحب پر قصہ خوانی بازار میں ایک شخص نے پشاور میں چاقو سے محض اس لئے قاتلانہ حملہ کر دیا کہ اس کا بھائی ان کے ذریعہ سے داخل سلسلہ احمدیہ ہو چکا تھا۔ اور کسی موقع پر میاں محمد یوسف صاحب نے اسے بھی قبول احمدیت کی دعوت دی تھی۱۴۶۔ مجرم اسی وقت گرفتار کر لیا گیا اور عدالت نے دو سال قید بامشقت کی سزا دی۱۴۷4] ft[r۔
بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات
ماریشس: حافظ جمال احمد صاحب نے آریہ سماجیوں کے خلاف مسلمانوں کے مشترکہ جلسوں میں کامیاب تقریرں کیں اور وہاں کے مسلمان سیٹھوں نے اقرار کیا کہ اسلام کی فتح احمدیوں کے ہاتھ پر ہوئی ہے۱۴۸۔
سماٹرا: یکم رمضان کو پاڈانگ میں مسئلہ معراج پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے مناظرہ ہوا۔ مشتعل ہجوم نے مناظرہ کے دوسرے دن مولوی رحمت علی صاحب اور حاجی محمود صاحب کو گالیاں دیں اور احمدیہ مشن ہائوس پر پتھر پھینکے۔ دو گھنٹے تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ جسے دیکھ کر اسی جگہ دو احباب داخل سلسلہ احمدیہ ہو گئے۱۴۹۔
پیننگ )سٹریٹ سیٹلمنٹ:( میں ۳۔ ۴/ جولائی ۱۹۲۹ء کو علی الترتیب وفات مسیح اور ختم نبوت پر کامیاب مباحثات ہوئے پہلا مباحثہ احمد نور الدین صاحب نے اور دوسرا ذینی دحلان صاحب نے کیا۱۵۰۔
نائیجیریا )مغربی افریقہ( حکیم فضل الرحمن صاحب نے ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء کو مسجد ایکرافول کا سنگ بنیاد رکھا۔ حکیم صاحب اس سے پیشتر افریقہ کی کئی احمدی مساجد کا افتتاح کر چکے تھے۔ مگر یہ پہلی مسجد تھی جس کی بنیاد آپ کے ہاتھوں رکھی گئی۱۵۱۔
مبلغین احمدیت کی روانگی اور واپسی
)۱( مولوی نذیر احمد علی صاحب ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء کو سیرالیون مغربی افریقہ میں فریضہ تبلیغ بجالانے کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ پہلے مبلغ تھے جو قادیان سے ریل گاڑی میں روانہ ہوئے۱۵۲۔
‏]body )[tag۲( مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا۔ ابوبکر صاحب بگنڈا اور ادریس داتو صاحب سماٹری کو ساتھ لے کر ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو پہلی بار قادیان تشریف لائے۱۵۳۔
نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل کتب سلسلہ شائع ہوئیں۔ )۱( >مکتوبات احمدیہ< جلد پنجم نمبر ۳ یعنی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مکتوبات بنام چوہدری رستم علی صاحبؓ مرتبہ )حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی(
)۲( >تحفتہ النصاریٰ< حصہ اول )مولفہ چوہدری غلام احمد صاحب امیر جماعت پاکپٹن(
اندرون ملک کے بعض مشہور مباحثے
)۱( مباحثہ گجرات: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب و آریہ مناظر( یہ مباحثہ ۱۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کی شام کو آریہ سماج کے مندر میں ہوا موضوع بحث مسئلہ تناسخ تھا۔ مولانا ابوالعطاء صاحب نے آریہ مناظر سے مطالبہ کیا کہ وہ ثابت کریں کہ انسان ہونے سے پہلے وہ کن کن جونوں کے چکر میں مقید رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ تھوڑی مدت کے گناہوں کی سزا آریوں کی مسلمہ کتب کے مطابق عرصہ دراز تک کیوں دی جائے گی۔ مولانا صاحب کے مطالبہ کا کوئی معقول جواب آریہ مناظر نہ دے سکا تو آریوں نے جناب مولانا کے خلاف بولنے کے لئے اہل قرآن کے ایک مولوی صاحب کو کھڑا کر دیا۔ آریہ سماج کو توجہ دلائی گئی کہ اگر یہ صاحب اسلام کے نمائندے ہیں تو آریہ مناظر سے بحث کریں۔ اگر نہیں تو آریوں کی طرف سے کھڑے ہوں آخر جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ شاہ جی آریوں کی امداد کے لئے تشریف لائے ہیں تو انہوں نے ان کو مقام مباحثہ سے باہر نکال دیا۔ جب سیکرٹری آریہ سماج نے دیکھا۱۵۴۔ کہ اب مناظرہ کرنا ہی پڑے گا تو ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی کوشش شروع کر دی اور پھر لیمپ بجھا دیا اور مناظرہ ختم ہو گیا۔
)۲(
مباحثہ میمو )برما( )مابین سید عبداللطیف صاحب احمدی آف رنگون اور مولوی غلام علی شاہ صاحب آف مانڈلے( یہ مناظرہ ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کو جامع مسجد میں چھ گھنٹہ تک جاری رہا۔ قریباً ایک ہزار افراد اس میں شامل ہوئے احمدی مناظر نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ اور ختم نبوت پر آیات قرآنی سے اپنے دعوے کے دلائل پیش کرکے چیلنج کیا کہ مولوی صاحب انہیں توڑیں مگر غیر احمدی مولوی صاحب جو قریباً ایک درجن علماء کی معیت میں آئے ہوئے تھے آخر تک کسی دلیل کو توڑ نہ سکے۱۵۵۔
)۳(
مباحثہ گجرات: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و پنڈت ست دیو صاحب آریہ سماجی مناظر( تاریخ مناظرہ ۲۴/ مارچ ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع بحث یہ تھا کہ >وید کامل الہامی کتاب ہے یا قرآن شریف<؟ مولانا ابوالعطاء صاحب نے آریہ مناظر کے رد میں ستیارتھ پرکاش سے اہم حوالہ جات پیش کئے اور قرآن شریف کے الہامی ہونے کے بارے میں تو ایسی لاجواب دلکش تقریر فرمائی کہ سامعین عالم وجد میں تھے۱۵۶۔
)۴(
مباحثہ دینانگر ضلع گورداسپور: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و پنڈت رام چند صاحب دہلوی( تاریخ مباحثہ ۲۶/ جولائی ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >نماز اور سندھیا< تھا۔ آریہ مناظرہ کو ایسا زچ ہونا پڑا کہ آریوں پر مردنی سی چھا گئی۱۵۷۔
)۵(
مباحثہ ڈنڈوت: تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی محمد احسن صاحب( تاریخ مناظرہ ۹/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >صداقت حضرت مسیحموعودؑ تھا۱۵۸۔
)۶(
مباحثہ چھنمبی : تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سید لال شاہ صاحب( تاریخ مناظرہ ۱۲/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >صداقت مسیح موعودؑ< اور >حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام<۔ ملک صاحب نے دوران مناظرہ میں اپنے استنباط کی تائید میں بار بار انعامی چیلنج دیئے مگر غیر احمدی مناظر صاحب کو ان کے قبول کرنے کی جرات نہ ہو سکی۱۵۹۔
)۷(
مباحثہ موضع میانوالی ضلع سیالکوٹ: )مابین مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و مولوی عبدالرحیم شاہ صاحب( تاریخ مباحثہ ۲۲/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع مباحثہ >حیات و وفات حضرت مسیحؑ< و >صداقت حضرت مسیح موعودؑ<۔ غیر احمدی مناظر صاحب لا جواب ہو کر سخت کلامی پر اتر آئے۔ جس پر غیر احمدیوں کے صدر نے بھی اظہار افسوس کیا۱۶۰۔
)۸(
مباحثہ مریind]: [tag )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب غیر مبائع( تاریخ مباحثہ ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع مباحثہ >امکان نبوت از روئے قرآن و حدیث <!! اس مناظرے میں ڈاکٹر صاحب نے ایسی روش اختیار کی جس کی وجہ سے غیر احمدی حضرات کو جو جلسہ میں موجود تھے۔ یہ یقین ہو گیا کہ آپ احمدیت سے دست بردار ہو گئے ہیں انہوں نے پر شوق و جوش ڈاکٹر صاحب سے معانقہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ آپ جمعہ کی نماز ہمارے ساتھ ہی ادا کریں اس موقعہ پر تو آپ نے کچھ ایسا ہی انداز ظاہر کیا تھا کہ گویا آپ رضامند ہیں مگر بعد کو انکار کر دیا۔ اس موضوع کے بعد دعویٰ نبوت از روئے تحریرات مسیح موعود پر مباحثہ کا فیصلہ ہو چکا تھا بلکہ شرائط بھی طے ہو چکی تھیں لیکن غیر مبایعین نے ڈاکٹر صاحب کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ نے مناظرہ کیا تو ہم آپ سے الگ ہو جائیں گے۱۶۱۔
)۹(
مباحثہ ترگڑی: )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سراج دین صاحب( یہ مباحثہ ۹/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ہوا۔ موضوع بحث حیات و وفات مسیحؑ تھا۱۶۲۔])[۱۰(
مباحثہ سرینگر: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و میر مدثر شاہ صاحب غیر مبائع( یہ مباحثہ ۱۲۔ ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو منعقد ہوا۔ موضوع >امت محمدیہ میں نبوت< تھا۱۶۳۔
)۱۱(
مباحثہ رنگون: )مابین سید محمد لطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ رنگون و سید علی شاہ صاحب( تاریخ مباحثہ ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء اور موضوع بحث >وفات مسیح و صداقت مسیح موعود< تھا۔ احمدی مناظر نے غیر احمدی مناظر کو بار بار قرآن و حدیث پیش کرکے جواب کا مطالبہ کیا۔ مگر وہ اٹھ کر روانہ ہو گئے۱۶۴۔
)۱۲(
مباحثہ انچولی ضلع میرٹھ: )مابین مولانا ظہور حسین صاحب و مولوی محمد منظور صاحب سنبلی مراد آبادی و مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و مولوی عبدالشکور صاحب لکھنوی( احمدی مناظرین نے اس مناظرے میں دیو بندی علماء سے سولہ مطالبات کئے جن کا کوئی جواب نہ دیا گیا نواب مہربان علی صاحب سپیشل مجسٹریٹ اور دیگر رئوساء نے اسٹیج پر اس کا کھلا اقرار کیا۱۶۵4] f[rt۔
)۱۳(
مباحثہ لالہ موسیٰ۱۶۶: )ضلع گجرات( مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مناظر اہلحدیث حافظ فضل الرحمن صاحب۔ تاریخ مباحثہ ۳/ اکتوبر ۱۹۲۹ء۔ موضوع نمبر ۱ بحث حیات و وفات مسیح ناصری نمبر ۲ صداقت مسیح موعودؑ۔ غیر احمدی مناظر دوسری بحث میں اختتام مناظرہ سے ایک گھنٹہ قبل ہی میدان مناظرہ سے اٹھ کر چل دیئے۔
)۱۴(
مباحثہ چک نمبر ۵۶۵: ضلع لائلپور )مابین ابوالعطاء صاحب و علماء اہل سنت( یہ مناظرہ وسط اکتوبر ۱۹۲۹ء میں صداقت مسیح موعود اور ختم نبوت کے موضوع پر ہوا۔ غیر احمدیوں نے ۳۰ کے قریب حنفی و اہلحدیث علماء جمع کر رکھے تھے۔ مناظرہ ہونے پر یہ بہت بے دل ہوگئے۔ حتیٰ کہ آپس میں الجھ پڑے کہ فلاں بات کیوں پیش نہ کی۔ میں ہوتا تو یہ پیش کرتا۱۶۷۔
)۱۵(
مباحثہ موضع کالشیما: ضلع بنگال )احمدی مناظر مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی( یہ مباحثہ آخر اکتوبر ۱۹۲۹ء میں ہوا۔ موضوع بحث بقائے نبوت اور صداقت مسیح موعود تھا۔ اطراف و جوانب کے ہزاروں آدمی کارروائی دیکھنے کے لئے شامل ہوئے تھے۱۶۸۔
خان بہادر نواب محمد دین صاحب کی بیعت
خان بہادر چوہدری نواب محمد دین صاحب باجوہ ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر۱۶۹ تلونڈی عنایت ضلع سیالکوٹ کے ایک نامور رئیس تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ محترمہ بہشت بی بی صاحبہ اور آپ کے برادر اکبر چوہدری محمد حسین صاحب اور آپ کے فرزند ارجمند چوہدری محمد شریف صاحب )ایڈووکیٹ منٹگمری( تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صحابیت کا شرف پا چکے تھے لیکن باوجود یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانے ہی سے حضور کی گہری عقیدت حاصل تھی۱۷۰۔ تاہم آپ ابھی تک بیعت سے مشرف نہیں ہوئے تھے۔ آخر اس سال یعنی ۱۹۲۹ء۱۷۱ میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو گئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کی بیعت کا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
‏body] >[tagمجھے یاد ہے جب انہوں نے بیعت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری بیعت ابھی مخفی رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں۔ اس لئے اگر میری بیعت ظاہر نہ ہو تو ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چند دنوں کے لئے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا اور کہا اور تو میں کوئی خدمت نہیں کر سکتا لیکن یہ تو کر سکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلا لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ثواب مل جائے گا۔ میں دعوت پر چلا گیا انہوں نے بڑے بڑے آدمی بلائے ہوئے تھے۔ میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب دوں کہ وہ کھڑے ہوئے اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا بڑی خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہاں تشریف لائے ہیں جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو تین منٹ کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں ایک شخص آیا اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں۔ اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ جب وہ تقریر کرکے بیٹھ گئے تو میں نے کہا۔ دیکھئے نواب صاحب میں نے تو ظاہر نہیں کیا کہ آپ احمدی ہیں آپ نے تو خود ہی ظاہر کر دیا ہے وہ کہنے لگے مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے کہا میں پہلے ہی سمجھتا تھا کہ سچی احمدیت چھپی نہیں رہتی آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہو کر رہے گی<۱۷۲۔
‏tav.5.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
حواشی حصہ اول )دوسرا باب(
۱۔
الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۲۔
رستہ میں ایک جگہ موٹر خراب ہو گئی وہاں قریب ہی کرکٹ کی کھیل ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی خواہش پر حضور کھیل کے میدان میں چلے گئے۔ وہاں ہندوستان کے ایک مشہور مسلم لیڈر آگئے اور حضور کو دیکھ کر حیرانی سے کہنے لگے کہ آپ بھی یہاں آگئے۔ حضور نے فرمایا۔ یہاں آنے میں کیا حرج ہے۔ کہنے لگے یہاں کھیل ہو رہی ہے آپ نے جواب دیا۔ میں خود ٹورنا منٹ کراتا ہوں اور کھیلنے بھی جاتا ہوں۔ پہلے فٹ بال بھی کھیلا کرتا تھا مگر اب صحت اسے برداشت نہیں کرتی۔ انہیں یہ باتیں سن کر بہت تعجب ہوا۔ گویا پڑھے لکھے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال ہے کہ دین اور ورزش ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء(
۳۔
الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۔
آپ آخر ۱۹۲۸ء میں آئے تھے اور یکم دسمبر ۱۹۲۸ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور نے ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا تھا۔ یہ گورنر صاحب جماعت احمدیہ کی تعلیمی ترقی سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے غالباً اسی ملاقات کے دوران میں یا کسی اور موقعہ پر کہا۔
>ایک ایسی جماعت نے جو مقابلتاً قلیل ہے اور جس کے مالی محدود ذرائع ہیں تعلیمی اعتبار سے نمایاں ترقی کی ہے اور یہ امر بذات خود تمام ملت اسلامیہ کے لئے من حیث الجماعت ایک تعجب انگیز نمونہ ہے جن اصحاب نے اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کی اور جنہوں نے اس کی تائید اور معاونت کی میرے پاس ان کی تحسین کے لئے کافی کلمات نہیں ہیں<۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۸(
۵۔
مفصل تقریر الفضل ۵/ فروری ۱۹۲۵ء میں چھپ چکی ہے۔
۶۔
الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۷۔
الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۸۔
۸۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۹۔
خواتین اور طالبات کے لئے پردے کا انتظام تھا۔ جو انعامات دیئے گئے ان میں سے تقریر اور مضمون نگاری کے انعام حاصل کرنے والے طلبائے جامعہ و مدرسہ کے نام یہ ہیں۔ )جامعہ احمدیہ( مولوی محمد صادق صاحب` عبدالمنان صاحب عمر )مدرسہ احمدیہ( مولوی محمد سلیم صاحب۔ شیخ عبدالقادر صاحب۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۷(
۱۰۔
الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۳ و صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۔
یعنی )۱( ہندوستان میں فیڈرل طرز کی حکومت ہو جس میں صوبوں کو مکمل خود اختیاری حاصل ہو۔ )۲( جداگانہ انتخاب کو اس وقت تک قائم رکھا جائے جب تک کہ سیاسی میدان سے فرقہ وارانہ جذبات معدوم نہ ہو جائیں۔ )۳( اسی دوران میں مختلف اقوام کے لئے تناسب آبادی کے لحاظ سے صوبجاتی مجالس قانون ساز میں نشستیں مخصوص کر دی جائیں۔ اقلیتوں کو بے شک کچھ زائد مراعات دی جائیں لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسا کرنے سے کوئی کثرت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ )۴( سندھ کو مستقل صوبہ بنا دیا جائے۔ )۵( صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصطلاحات نافذ کر دی جائیں۔ )۶( تمام مذاہب کے لئے کامل آزادی کا اصول تسلیم کیا جائے اور یہ بات سابقہ تمام باتوں کے ساتھ ملکی دستور میں داخل سمجھی جائے۔
‏]h1 [tag۱۲۔
الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۱۳۔
الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۱۴۔
الفضل ۱۹/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۱۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۷۔
۱۶۔
تالیف و تصنیف۔
۱۷۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۸۔
جس کا ذکر قبل ازیں ۱۹۲۸ء کے حالات میں گزر چکا ہے۔
۱۹۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۔
۲۰۔
مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ہمدرد ۵/ مارچ ۱۹۲۹ء میں ملاقات کا ذکر کیا تھا۔ )مولانا محمد علی بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز( صفحہ ۴۳۶ شائع کردہ سندھ ساگر اکاومی لاہور طبع اول جنوری ۱۹۶۲ء۔
۲۱۔
مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۹۔
۲۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۸۔ چنانچہ انہوں نے ۲۶/ مارچ ۱۹۲۹ء کو لکھا۔ مسلمانوں کے مشہور لیڈروں کے درمیان جو باہمی اختلافات اور نزاع پیدا ہو گیا تھا اس کے دور کرنے کے واسطے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ الل¶ہ تعالیٰ بنصرہ نے جو سعی فرمائی تھی وہ بھی بفضلہ تعالیٰ بار آور ہو رہی ہے چنانچہ جس وقت یہ رپورٹ مجلس مشاورت میں پیش ہو گی اس وقت راقم الحروف دہلی میں مسلمانوں کے دو بڑے لیڈروں مسٹر جناح اور سر شفیع اور ان کے رفقاء کی باہمی مصالحت میں انشاء اللہ کامیابی دیکھ رہا ہو گا۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۸(
۲۳۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۔
۲۴۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۲۔
۲۵۔
الفضل ۷/ مارچ ۱۹۳۰ء۔
۲۶۔
‏h2] ga[t رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۵۷۔
۲۷۔
الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۸۔
عبدالمجید صاحب سالک نے مسلم لیگ کے الحاق کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی سر گزشت میں لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کی مصلحت کو خوب جانتے تھے اور انہوں نے ہندوئوں کے سامنے اتمام حجت کر دیا اور پھر غصے میں بمبئی چلے گئے۔ پھر خیال آیا ہو گا کہ دو لیگوں کا قائم رہنا خالص حماقت ہے خصوصاً جبکہ آل پارٹیز کانفرنس ملک بھر میں گونج اور گرج رہی ہے اور مسلم لیگ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ )صفحہ ۲۶۰۔ ۲۶۱(
۲۹۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲۔
۳۰۔
اخبار تیج )دہلی( ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر ۱۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۴۔ ۱۵۔
۳۱۔
بعض شریف اور غیر متعصب ہندوئوں نے اس موقعہ پر یہ بھی اقرار کیا کہ >اگرچہ بعض ہندو جرائد قتل راجپال کی آڑ میں مذہب اسلام اور اس کے بانی حضرت محمد صاحب کی ذات بابرکات کے خلاف نہایت کمینے الزامات تراشنے میں مصروف ہیں لیکن مسلمان لیڈروں کی صاف دلی ملاحظہ ہو کہ وہ ان ناقابل برداشت حملوں کو سنتے ہوئے بھی قتل راجپال میں ان کے ساتھ نہایت خلوص دلی سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان بھائیوں کا اس صاف دلی اور اظہار ہمدردی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ >اخبار رشی امرتسر ۱۸/ اپریل ۱۹۲۹ء( بحوالہ الفضل ۳۰/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۳۲۔
تیج )دہلی( ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر صفحہ ۱۵ کالم ۳۔
۳۳۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲۔
۳۴۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ تا ۸۔
۳۵۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔
۳۶۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۳۷۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۳۸۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۳۹۔
الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۴۰۔
مشرق ۹/ مئی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۴۱۔
اخبار ہمت لکھنئو ۳/ مئی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔
۴۲۔
‏]2h [tag الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۴۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۰۰۔
۴۴۔
مراد مولوی ظفر علی خاں صاحب ہیں۔ ناقل۔
۴۵۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۴۶۔
بحوالہ الفضل ۱۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۷۔
بحوالہ الفضل ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۴۸۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۹۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۵۰۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۱۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۵۲۔
الفضل ۱۸۔ ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۳۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۵۴۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۵۵۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔
۵۶۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۵۷۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۵۸۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۵۹۔
الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۶۰۔
الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۶۱۔
الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۶۲۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔
۶۳۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۶۴۔
یاد رہے کہ سفر کشمیر کے اکثر و بیشتر خطبات آپ نے اور بعض ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب و محمد افضل صاحب نے مرتب کرکے الفضل کو بھجوائے جو شائع شدہ ہیں۔
۶۵۔
الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۶۶۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۶۷۔
الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۔
۶۸۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۶۹۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۷۰۔
خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل` حضرت میر محمد اسحاق صاحب` مولانا ابوالعطاء صاحب` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کے مضامین الفضل میں شائع شدہ ہیں۔
۷۱۔
مرثیہ کہنے والوں میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت خان صاحب` ذوالفقار علی صاحب` حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` نواب خان صاحب` ثاقب میرزا خانی` ملک عبدالرحمن صاحب خادم` مولانا جلال الدین صاحب شمس` مولوی غلام احمد صاحب اختر اوچ شریف` مولوی عبداللہ صاحب مالا باری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
۷۲۔
اخبار اہلحدیث ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔
۷۳۔
اخبار پیغام صلح ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء۔
۷۴۔
حضور نے اس ایک فقرہ میں حضرت حافظ صاحبؓ کی پوری زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ چنانچہ جب ہم حضرت مولوی عبدالکریمؓ اور آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو دونوں بزرگوں میں متعدد مماثلتیں اور مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں اپنے زمانے میں صف اول کے علماء میں شمار ہوتے تھے۔ دونوں خوش الحان واعظ مقرر تھے۔ دونوں کی علمی و دینی خدمات کا سلسلہ آخر دم تک جاری رہا۔ دونوں سنتالیس سال کی عمر میں اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔
۷۵۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء۔
۷۶۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۷۷۔
الفضل ۷/ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۳ کالم ۱` ۲۔
۷۸۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء۔
۷۹۔
الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۰ء۔
۸۰۔
یاد رہے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جنوری ۱۹۱۹ء میں جب نظارتوں کا قیام فرمایا تو اعلان فرمایا کہ میں نے جماعت کی ضروریات افتاء کو مدنظر رکھ کر مکرمی مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب` مکرمی مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب کو مقرر کیا ہے۔ )الفضل ۴/ جون ۱۹۱۹ء صفحہ ۱ کالم ۳(
۸۱۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے جنہوں نے اصحاب احمد کی تین جلدوں میں آپ کی مفصل سوانح لکھی ہے بطور نمونہ آپ کے پچپن فتاوی بھی شائع کئے ہیں جن سے حضرت مولانا کی تبحر علمی` باریک نظری اور دینی بصیرت کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔
۸۲۔
اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم میں اس کا کئی مقامات پر ذکر آتا ہے نیز رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء کے صفحہ ۳۱ پر لکھا ہے۔ مفتی صاحب سلسلہ ان طلباء سے فتویٰ کا کام بھی لے کر مشق کرواتے رہتے ہیں۔
۸۳۔
اخبار مباہلہ جاری کرنے والے کون تھے؟ اس کا تذکرہ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۱ تا ۶۲۵ میں گزر چکا ہے۔
۸۴۔
اخبار جواب مباہلہ نمبر ۱ صفحہ ۲۔
۸۵۔
الفضل ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ و الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۶۔
اخبار ملاپ )۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء( نے لکھا کہ سکھوں سے پوچھا گیا کہ تمہیں بوچڑ خانہ پر اعتراض تو نہیں تو انہوں نے بھی کہا کہ نہیں پس ڈپٹی کمشنر صاحب نے سمجھا کہ فیصلہ ہو گیا۔ اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک مذبح کا تعلق ہے سکھ مذبح کے خلاف نہیں تھے۔ اس کے بعد انہیں پہلے اقرار پر قائم نہ رہنے دینے میں کسی اور فریق کا ہاتھ تھا اور یہ فریق ہندوئوں کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔ چنانچہ سکھوں کے مشہور اخبار اکالی )امرتسر( نے تو صاف لکھا کہ گائے کی مذہبی عظمت کا سوال خالص ہندو سوال ہے اور سکھ جہاں جھٹکہ پر کسی قسم کی بندش برداشت نہیں کر سکتے وہاں دوسروں کو بھی کوئی خوراک کھانے سے نہیں روکنا چاہئے۔ اسی طرح سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے اخبار ریاست )۲۴/ اگست ۱۹۲۹ء( میں لکھا۔ جہاں تک کسی جانور کے مارنے کا سوال ہے ایڈیٹر ریاست کے ذاتی خیال کے مطابق گائے اور بکری یہاں تک کہ گائے اور ایک مکھی میں بھی کوئی فرق نہیں۔ گائے سے متعلق سکھ قوم کی یہ رائے ہندوئوں سے پوشیدہ نہیں تھی۔ جیسا کہ اخبار گورو گھنٹال )۳۱/ اگست ۱۹۲۹ء( نے اقرار کیا کہ سکھوں میں اب کچھ عرصہ سے بعض من چلے لوگ ایسے بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ گائے کی عظمت کے قائل نہیں رہے بلکہ وہ سور اور گائے میں بھی کوئی تمیز کرنے کے لئے تیار نہیں۔ )بحوالہ الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۔ ۴(
۸۷۔
یاد رہے کمشنر صاحب کی عدالت میں مذبح کے خلاف قادیان کے ہندوئوں کی اپیل پیش ہوئی تھی کوئی سکھ ان کے ساتھ شامل نہ تھا۔
۸۸۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ و الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۹۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ یاد رہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس فیصلہ کے بعد مذبح کی اجازت ملتوی کر دی تھی۔ مگر گوشت کی دکان موجود رہی۔ اور آخر ۱۵/ جون ۱۹۳۱ء کو محلہ دارالعلوم میں نئے ¶تعمیر شدہ مذبح کا افتتاح ہوا۔ )الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱(
۹۰۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۵۔
۹۱۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۹۲۔
شاردابل کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو۔ زمیندار ۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۹۳۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۴۔
ایضاً صفحہ ۶ کالم ۳۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۹۵۔
الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
‏h1] gat[۹۶۔
الفضل ۸/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ مفصل تحریر کے لئے ملاحظہ ہو۔ الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۸ تا ۱۳۔
۹۷۔
الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۹۸۔
تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحہ ۲۰۴۔
۹۹۔
پارس لاہور ۲۴/ نومبر ۱۹۲۹ء۔ بحوالہ الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۲۹ء۔
۱۰۰۔
دفتر پرائیوٹ سیکرٹری ربوہ کے قدیم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ علم دین کے والد صاحب نے ۷/ جولائی ۱۹۲۹ء کو حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ علم دین قتل راجپال میں گرفتار ہے اور عدالت سیشن سے پھانسی کا حکم ہو چکا ہے اپیل کی تاریخ ۱۵ ماہ حال مقرر ہے۔ حضور اس کے لئے دعا فرمائیں۔
۱۰۱۔
الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔
۱۰۲۔
الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۱۰۳۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔
۱۰۴۔
شائع شدہ الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔ ۹۔
۱۰۵۔
الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۲۹ء۔
۱۰۶۔
الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۰۷۔
الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۰۸۔
الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۱۰۹۔
الفضل ۲۰/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۰۔
مسلم ورلڈ اپریل ۱۹۳۱ء بحوالہ تاثرات قادیان )مولفہ ملک فضل حسین صاحب( صفحہ ۱۹۸ تا ۲۰۱۔
۱۱۱۔
سرگزشت صفحہ ۲۶۲ و الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۴۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۸۔ ۹۔ اخبار انقلاب )۲۰/ دسمبر ۱۹۲۹ء( نے بھی اس وفد کی خبر شائع کر دی تھی۔
۱۱۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۵۸۔ )الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۸(
۱۱۴۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی بنیادی پالیسی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ کانگریس حکومت یا عوام میں سے جو فریق جس پہلو کے اعتبار سے صحیح قدم اٹھاتا آپ اس کی تائید فرماتے مثلاً حضور سے انہیں دنوں عرض کیا گیا کہ شاید کانگریس کے اجلاس لاہور کی وجہ سے حکومت کرسمس کی چھٹیاں منسوخ کر دے اس پر آپ نے فرمایا اگر یہ درست ہے تو روکنے کا طریق بہت بزدلانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ چاہئے تو یہ تھا کہ گورنر صاحب خود کانگریس کے جلسہ میں جاتے اور کہتے سنائو جو کچھ سنانا چاہتے ہو ایسی دلیری کا بھی مخالفین پر خاص اثر ہوتا ہے۔ )الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲(
۱۱۵۔
یاد رہے کانگریسی پراپیگنڈا کی وجہ سے دوسرے مسلم ممالک اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ مسلمانان ہند غلامی کے زمانہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب سرگزشت میں لکھتے ہیں۔
>چونکہ ۔۔۔۔۔۔۔ کانگریس اپنے اجلاس لاہور میں کامل آزادی کی قرارداد منظور کر چکی تھی اس لئے ہمارے بعض بے خبر ہمسایہ ملکوں میں یہ غلط فہمی پھیل گئی تھی کہ بس اب ہندوستان سے انگریزوں کا بوریا بسترا بندھنے والا ہے افغانستان` ایران` ترکی اور مصر کے بعض حلقے اس امر پر بے حد تاسف کا اظہار کر رہے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان اس آزادی کی تحریک میں شامل نہیں ہوتے اور انگریز کے اقتدار کو نادانستہ زیادہ استوار کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک پر انگریز کی گرفت نرم ہونے میں نہیں آتی اخباروں اور عوامی جماعتوں ہی تک یہ معاملہ محدود رہتا تو ایسی اہم بات نہ تھی لیکن جب نحاس پاشا اور مصطفیٰ کمال بھی مسلمانان ہند کو متہم کرکے انہیں تحریک آزادی میں حصہ لینے کی تلقین کرتے تھے تو جی جل جاتا تھا کہ ان لوگوں کو حقیقی حالات کا کچھ علم نہیں محض گھر بیٹھے ہی سات کروڑ مسلمانوں کی ایک عظیم جمعیت کو انگریز پرست سمجھ رہے ہیں<۔ )سرگزشت از عبدالمجید صاحب۔ سالک صفحہ ۲۷۷۔ ۲۷۸(
۱۱۶۔
آپ ۱۸۹۲ء میں بمقام پٹنہ پیدا ہوئے ۱۲ برس کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ اپنے وطن ناگڑیاں ضلع گجرات )پنجاب( آئے کچھ عرصہ تک امرتسر کی جامع مسجد خیر دین کے مدرسہ عربیہ میں تعلیم پائی۔ ۲۲۔ ۱۹۲۱ء کی تحریک خلافت کے موقعہ پر جب اس مسجد کے آپ خطیب تھے اپنی پرجوش خطابت سے مسلمانوں کو ترک موالات اور ہجرت پر آمادہ کیا جس سے متاثر ہو کر جہاں ہزاروں مسلمان قید ہوئے تحریک خلافت کے ایام میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر نے ان کو مشورہ دیا کہ جو قدرت تم کو اپنی زبان پر ہے وہ خداداد ہے اور خدا کی ایک بڑی نعمت ہے مگر ایک بڑی خطرناک نعمت ہے اور تمہاری مسئلولیت بہت بڑھ گئی ہے جب تک تم اسے حق کی راہ میں استعمال کرو گے فلاح دارین حاصل کرو گے لیکن اگر کبھی یہ باطل کی راہ میں استعمال کی گئی تو ہزاروں بندگان خدا کو بھی گمراہ کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ )سوانح سید عطاء اللہ بخاری۔ از الرحمن خان کابلی(
۱۱۷۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری۔ از جناب آغاز شورش کاشمیری مدیر چٹان لاہور طبع اول صفحہ ۸۴۔ ۸۵۔
۱۱۸۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۲۵۔ مولفہ حبیب الرحمن خان کابلی جون ۱۹۴۰ء بار اول۔ پبلشر ہندوستانی کتب خانہ ۶۳ ریلوے روڈ لاہور۔
۱۱۹۔
خطبات احرار صفحہ ۱۴۵۔
۱۲۰۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۹۱ )از خان کابلی(
۱۲۱۔
کہتے ہیں کہ مجلس احرار کے ساتھ اسلام کا لفظ مولوی ظفر علی خاں کی تجویز پر شامل ہوا تھا۔ چنانچہ اخبار زمیندار ۸/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب )مفکر احرار( سے اس میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ مجلس احرار کی تشکیل کے وقت احرار کے ساتھ اسلام لکھنا آپ پسند نہ کرتے تھے محض مولانا ظفر علی خاں کے ارشاد پر احرار اسلام نام دیا گیا<۔
‏h1] gat[۱۲۲۔
خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ )الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۵ء(
۱۲۳۔
اخبار آزاد لاہور۔ چوہدری افضل حق نمبر۔
۱۲۴۔
خطبات احرار مرتبہ جناب شورش کاشمیری صفحہ ۲۰۔ ۳۴۔ ۴۲۔
۱۲۵۔
تاریخ احرار صفحہ ۶۱ ناشر زمزم بک ایجنسی بیرون موری دروازہ لاہور۔
۱۲۶۔
اخبار آزاد لاہور ۳۰/ اپریل ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۷ کالم ۱۔ ۲۔
۱۲۷۔
اس حقیقت کی مزید وضاحت و تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احرار صفحہ ۱۷۔ خطبات احرار صفحہ ۷۷ و ۱۱۵۔
۱۲۸۔
زمیندار ۱۲/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۲۹۔
خطبہ صدارت برموقعہ تبلیغی کانفرنس قادیان )مدینہ بجنور یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ کالم ۲(
۱۳۰۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۲۹۔ ۳۰ )از شورش کاشمیری(
۱۳۱۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری۔ صفحہ ۱۰۷۔ ۱۰۹۔
۱۳۲۔
مدیر رسالہ چٹان لاہور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی نسبت لکھتے ہیں۔ جن چیزوں سے نفور ہوں ان سے تمسخر بھی روا رکھتے ہیں ان کے ہاں اس تمسخر یا پھکڑ کی زد سب سے زیادہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی ذریات پر پڑتی ہے۔ )سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۹۴(
۱۳۳۔
روزنامہ آزاد لاہور۔ احرار نمبر ۲۷/ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۱۷ و ۱۸۔
۱۳۴۔
رشید نیاز صاحب نے اپنی کتاب تاریخ سیالکوٹ جان گنتھر کے یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ یہ ہیں وہ الفاظ جو ایشیاء کے ایک شہرہ آفاق مصنف مسٹر جان گنتھر کی زبان سے مجلس احرار اسلام کے بارے میں جاری ہوئے ہیں اس نے احرار کو مجموعہ اضداد کہہ کر جو طنز کا نشتر مارا ہے وہ مسٹر گنتھر کے لئے تو ایک تنقید کا سہارا ہے۔ مگر سرفروشان احرار کے لئے باعث شرف و مباہات ایک رنجدہ چیز یہ بھی ہے کہ اس تحریک کو جتنے مخلص کارکن ملے ہیں۔ اس کے لیڈر بہ تخصیص چند اتنے ہی موقع پرست ثابت ہوئے۔ )صفحہ ۲۴۲ مطبوعہ ۱۹۵۸ء ناشر مکتبہ نیاز سٹریٹ ڈاکٹر فیروز الدین سیالکوٹ(
۱۳۵۔
پنجابی کے بہت مشہور شاعر جنہوں نے دو رسالے ایک پنجابی میں اور دوسرا اردو میں حضرت مسیح موعودؑ کی تائید میں لکھے تھے ایک سو چار سال کی عمر میں فوت ہوئے آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے قادیان جانے سے معذور ہوچکے تھے اور نماز عید کے سوا سب نمازیں بستر پر ہی ادا کر سکتے تھے حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مولوی غلام حسین صاحب لاہوری اور ان کی نسبت فرمایا تھا کہ انہیں ہمارے خرچ پر قادیان لایا جائے انہیں وصیت کرنے کی ضرورت نہیں مگر افسوس ان کی وفات اچانک ہوئی اور نعش کو قادیان لے جانے کا بندوبست نہ کیا جا سکا۔ )الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۱۳۶۔
الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کو حضرت مولوی محمد صاحب` حضرت شہامت خاں صاحب اور حضرت بابو روشن دین صاحب کا اکٹھا جنازہ پڑھایا اور حضرت مسیح موعودؑ کے ان پرانے اور اولین صحابہ کے اخلاص و فدائیت کا ذکر نہایت تعریفی کلمات میں فرمایا۔ )الفضل ۲۹/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱(
۱۳۷۔
مرحومہ نہایت مخلص اور پرجوش احمدی تھیں جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ کی شہادت کا واقعہ ہوا تو انہوں نے نہایت صبر و استقلال کا نمونہ دکھایا اور اس کے بعد اپنی چھوٹی بڑی سب اولاد کو احمدیت کی تعلیم دینے اور اس صداقت پر پختہ کرنے میں منہمک ہو گئیں۔ اپنے اثاثہ کے ۳/۱ حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی ۱۹۲۶ء سے جبکہ یہ خاندان خوست سے سرحد میں آیا ہر سال سالانہ جلسہ پر تشریف لاتی تھیں۔ )الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء(
۱۳۸۔
مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اپ کے حالات زندگی میں لکھتے ہیں۔
میاں شیر محمد صاحب نے حق سمجھ لیا اور سمجھ کر قبول کر لیا یہی وہ گھڑی تھی جس نے شیر محمد یکہ بان کو ابدال بنا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد میاں شیر محمد کی حالت میں یہ تبدیلی ہوئی کہ وہ یکہ بان مبلغ ہو گیا جب وہ اپنی سواریوں کو لے کر چلتا تو اس کا کام یہ ہوتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشخبری سناتا اور خدا تعالیٰ نے اس پر تبلیغ کے ایسے اسرار کھول دیئے کہ وہ اپنے مطلب کو نہایت سریع الفہم طریق پر مدلل کرکے پیش کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معجزہ تھا ~}~
برکسے چوں مہربانی مے کنی
از زمینی آسمانی مے کنی
۔۔۔۔۔۔ ان کی زندگی میں جب یہ انقلاب ہوا تو ان کے ساتھ مختلف قسم کی آزمائشوں اور ابتلائوں کا دور شروع ہو گیا۔ پے در پے گھوڑے خریدے اور مر گئے اور کئی قسم کے نقصان ہوئے یہاں تک کہ بعض اوقات عرصہ حیات تنگ ہو گیا مگر اس شیر نے ان مصائب میں اپنے مولیٰ سے صدق اور اخلاص کے رشتہ کو آگے بڑھایا۔ )الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۴(
۱۳۹۔
الفضل ۱۶/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۴۰۔
الفضل ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۔ آپ مرزا مبشر احمد صاحب )ابن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب( کے عقد میں آئیں۔
۱۴۱۔
آپ حضرت سید مختار احمد صاحب مختار شاہ جہانپوری کی طرح امیر مینائی کے شاگرد تھے۔ امیر مینائی کے تلامذہ کی یہ خصوصیت ہمیشہ یادگار رہے گی کہ ان میں سے کسی نے تحریک احمدیت کی مخالفت نہیں کی۔
۱۴۲۔
اخبار مشرق ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ بحوالہ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۴۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۹۴۔ ۱۹۶۔
۱۴۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۵۱۔
۱۴۵۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ۲۔
۱۴۶۔
الفضل ۲۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۵۔
‏]h1 [tag۱۴۷۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ حملہ آور کا نام محمد اکبر آفریدی تھا جس نے قید سے رہائی کے بعد بیعت کر لی تھی۔
۱۴۸۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۱۴۹۔
الفضل ۲۶/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۸۔
۱۵۰۔
الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۹۔
۱۵۱۔
الفضل ۱۴/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۔
۱۵۲۔
الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۵۳۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۵۴۔
الفضل ۱۵/ فروری ۱۹۲۹ء۔
۱۵۵۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۳۔
۱۵۶۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۱۵۷۔
الفضل ۳۰/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱ و ۲/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۔
۱۵۸۔
الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۱۵۹۔
الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۱۶۰۔
الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۱۶۱۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۸ و الفضل ۱۵/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۶۲۔
الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۱۶۳۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۸۔ ۹
۱۶۴۔
الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۱۶۵۔
الفضل ۵/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹۔
۱۶۶۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۳ کالم ۲۔
۱۶۷۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۱۶۸۔
الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۳۔][۱۶۹۔
تاریخ ولادت ۱۸۷۲ء تاریخ وفات ۵/ جولائی ۱۹۴۹ء۔ بیعت کے بعد گو آپ کی پوری زندگی سلسلہ کی خاطر سرفروشانہ خدمات میں گزری مگر آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ جدید مرکز احمدیت ربوہ کا قیام ہے۔ جیسا کہ دور پاکستان کی تاریخ احمدیت میں بڑی شرح و بسط سے ذکر آرہا ہے و باللہ التوفیق۔
۱۷۰۔
اس کا تفصیلی ذکر حضرت نواب محمد دین صاحب کے ایک مضمون مطبوعہ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۱ میں بھی موجود ہے۔
۱۷۱۔
کتاب ربوہ )از ملک کپٹن خادم حسین صاحب(صفحہ ۳۲۵۔ طبع اول ۱۹۶۲ء ربوہ۔
۱۷۲۔
الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۴۹ء۔
‏tav.5.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سترھواں سال
تیسرا باب )فصل اول(
>ندائے ایمان< کے سلسلہ اشتہارات سے لے کر کتاب >ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل< کی اشاعت اور گول میز کانفرنس کے انعقاد تک
خلافت ثانیہ کا سترھواں سال
)جنوری ۱۹۳۰ء تا دسمبر ۱۹۳۰ء بمطابق رجب ۱۳۴۸ھ تا شعبان ۱۳۴۹ھ(][
نظام جماعت سے متعلق ایک اصولی ہدایت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰے نے ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء کو نظام جماعت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ خلیفہ سے ہر ایک احمدی کو براہ راست تعلق ہے مگر ساتھ ہی فرمایا:۔
>یاد رکھنا چاہئے ہر ایک احمدی ہر ایک بات جو مجھ تک پہنچانا چاہے پہنچاسکتا ہے سوائے اس بات کے جو دفتری لحاظ سے اس کی ذات کے متعلق ہو مثلاً اگر کوئی یہ لکھئے کہ میری ترقی روک دی گئی ہے یا مجھے فلاح حق نہیں دیا تیا تو اس قسم کی باتوں پر میں اس وقت تک غور نہ کروں گا جب تک متعلقہ دفتر کے ذریعہ کاغذ نہ آئے لیکن اگر کوئی اس قسم کی بات ہو )خدانخواستہ( کہ دفتر میں فلاں خیانت کرتا ہے یا قومی کام کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس قسم کی شکایت کو میں سنوں گا کیونکہ قوم کے ہر ایک فرد کا خواہ وہ کلرک ہو یا چپڑاسی فرض ہے کہ قومی حقوق کی حفاظت کرے۔۔۔۔ جب تک خلافت قائم ہے ہر ایک احمدی کا براہ راست خلیفہ کے ساتھ تعلق ہے مگر دیکھو بعض معاملات میں اللہ تعالیٰ نے بھی حد بندی کردی ہے مثلاً انسانوں کے آپس کے معاملات کے متعلق ہر ایک انسان کا خدا تعالٰے سے براہ راست تعلق ہے لیکن معاملات میں براہ راست کوئی حکم جاری نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔ مگر پھر یہ بھی کہتا ہے کہ میرے اور میرے بندہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں حتیٰ کہ رسول بھی واسطہ نہیں` خلفاء بھی دنیا میں خدا تعالٰے کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے اور ان کے ماننے والوں کے درمیان بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا سوائے محکمانہ امور کے جو کسی کی ذات سے تعلق رکھتے ہوں۔ ۱
>ندائے ایمان< کے تبلیغی اشتہارات کا اجراء
اس سال حضور نے تبلیغ احمدیت پر زور دینے کے لئے جہاں ہر احمدی کو اپنے پایہ کا ایک نیا احمدی بنانے کی دوبارہ تحریک فرمائی وہاں اہل ملک تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے اپنے قلم سے > ندائے ایمان< کے نام سے اشتہارات کا ایک نہایت مفید سلسلہ شروع فرمایا۔ جس کا پہلا نمبر آپ نے ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء کو لکھا جو صیغہ دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے پوسٹر اور پمفلٹ کی صورت میں تین بار چھپوا کر چھیاسٹھ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ ۲
اس پہلے نمبر میں حضور نے مسلمانان عالم کو حضرت مسیح موعود ؑ کے ظہور کی نہایت موثر پیرائے میں خبر دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ حق کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور خدا کیآوزا سے بے پرواہی نہیں برتنی چاہئے کیونکہ کیا معلوم ہے کہ موت کب آجائے گی اور ہمارے اعمال کے زمانہ کو ختم کردے گی۔۔۔۔۔ آخر کونسی دلیل ہے جس کے آپ منتظر ہیں اور کونسا نشان ہے جس کی آپ کو جستجو ہے مسیح موعود کے متعلق جو کام بتایا گیا تھا وہ آپ کے ہاتھوں سے پورا ہو رہا ہے۔ اور اسلام ایک نئی زندگی پارہا ہے پس جلدی کریں اور مسیح موعود کو قبول کرکے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں۔ لیکن اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابھی تک اس معاملہ پر غور ہی نہیں کیا تو بھی میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد تحقیق کی طرف متوجہ ہوں۔ اور مندرجہ ذیل طریقوں میں سے ایک کو اختیار کریں۔ )۱( جو سوالات آپ کے نزدیک حل طلب ہوں انہیں اپنے قریب کے احمدیوں کے سامنے پیش کرکے حل کرائیں۔ )۲( اگر آپ کے پاس کوئی احمدی جماعت نہ ہو تو مجھے ان سوالات سے اطلاع دیں۔ )۳( اپنے علاقہ میں جلسہ کرکے احمدی مبلغ منگوا کر خود بھی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے دلائل سنیں۔ اور دوسروں کو بھی اس کا موقعہ دیں اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے نور کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ۳
اس پہلے اشتہار نے جو پوسٹر کی صورت میں ۴ ملک بھر میں چسپاں کیا گیا تھا ہر جگہ ایک زبردست حرکت پیدا کردی ۔ >ندائے ایمان< کے تین مزید اشتہار بھی حضور کے قلم سے کچھ کچھ وقفے کے ساتھ شائع ہوئے۔ چوتھا اشتہار اکتوبر ۱۹۳۳ء ۵ میں چھپا تھا۔
مبلغین احمدیت کو نصائح
۲۹ جنوری ۱۹۳۰ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء نے حکیم فضل الرحمان صاحب کے اعزاز میں افریقہ سے واپسی پر چائے کی دعوت دی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ >دین کے لئے قربانی کرنے کا خیال ہمیشہ یاد رکھنے والا خیال ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب کے لئے جو قربانی کی جائے وہ اپنا بدلہ خداتعالیٰ سے لاتی ہے تم اپنے اندر روحانیت پیدا کرو آگے اس کے نتائج تمہیں خود حاصل ہوجائیں گے۔ روحانی درجے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں بعض انسانوں کو خداتعالیٰ اس قابل سمجھتا ہے کہ دنیا میں ان کی قبولیت ہو۔ ایسے لوگوں کی قبولیت پھیلا دیتا ہے چنانچہ رسول کریم ~صل۱~ فرماتے ہیں فیوضع لہ القبول فی الارض دوسرا درجہ یہ ہے خداتعالیٰ اپنے بندوں میں قبولیت نہیں پھیلاتا مگر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے ایسا انسان ولایت الٰہی کے اثرات محسوس کرنے لگ جاتا ہے اس طرح بھی وہ سمجھتا ہے ناکام نہیں رہا کیونکہ وہ خدا کے فضل اور نوازش اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھ لیتا ہے۔
پس دین کی خدمت کرنا اور قربانی کے لئے تیار رہنا بہت بڑی بات ہے مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ خدمت اور قربانی خدا کے لئے ہو بندوں کے لئے نہ ہو۔ اور جب خدا کے لئے ہوگی تو انسان کی نگاہ روحانیت پر ہوگی اور وہ کامیاب ہوجائے گا لیکن جو دنیا پر نظر رکھتا ہے اس کی نگاہ مادیات پر ہوتی ہے اس پر خدا کے فیوض نازل نہیں ہوتے اور نہ وہ دنیا کے لئے مفید ہوتا ہے<۔ ۶
اسی روز طلباء جامعہ احمدیہ نے بھی مکرم حکیم صاحب کے اعزاز میں دعوت دی۔ اس موقعہ پر حضور نے مبلغوں کو دوسری اہم نصیحت یہ فرمائی کہ:۔
>مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر انسانیت پیدا کرے یعنی دوسروں سے مل کر کام کرنے کی اس میں اہلیت ہو` اتحاد اور تعاون سے کام کر سکے دوسری چیز ۔۔۔۔ انانیت ہے اسی کا دوسرا نام توحید ہے انسان میں ایک تو انسانیت رکھی گئی ہے۔ یعنی دوسرے انسانوں سے تعلق پیدا کرنا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا۔ دوسرے انانیت ہے یعنی یہ سمجھنا کہ میرے اور میرے رب کے درمیان اور کوئی واسطہ نہیں۔ میرا اپنے رب کے ساتھ براہ راست تعلق ہے<۔ ۷
کپورتھلہ میں ایک مسجد کی تعمیر
مہاراجہ جگجیت سنگھ صاحب والئی کپورتھلہ اسلامی ملکوں میں بہت سفر کرچکے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے مراکش میں قطبیہ مسجد دیکھی تو اس کا خالص عربی طرز انہیں پسند آیا اور وہیں انہوں نے ارادہ کرلیا کہ کپورتھلہ میں ایسی ہی مسجد تعمیر کرائوں گا۔ چنانچہ انہوں نے واپس آکر مذہبی روا داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک شاندار مسجد کپورتھلہ میں تعمیر کرائی جو قطبیہ کا ہوبہو چربہ تھی اور جو پیرس کے ایک مشہور انجینئر کے مجوزہ نقشہ کے مطابق ساڑھے تین سال میں تعمیر ہوئی۔ ۸
۱۴ مارچ ۱۹۳۰ء کو مہاراجہ صاحب نے اس کا افتتاح کیا۔ اس تقریب پر ہزاروں نفوس شامل ہوئے مختلف والیان ریاست اور ہندوستان کے مذہبی اور سیاسی لیڈر بھی مدعو تھے۔ ۹ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے نے افتتاح کے وقت محراب مسجد کے پاس کھڑے ہوکر تقریر کی جس میں مہاراجہ صاحب کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ میں حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان کے نمائندہ کی حیثیت سے مہاراجہ صاحب بہادر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی مسلمان رعایا کے لئے یہ عظیم الشان مسجد اپنے دارالخکومت میں تعمیر کرائی ہے غالباً یہ ایشیا بھر میں اپنی قسم کی پہلی ہی مثال ہے مہاراجہ صاحب نے جس فیاضی دریا دلی اور وسعت قلبی کا ثبوت اس خدا کے گھر بنانے سے دیا ہے وہ آج کل کے تعلیم یافتہ لوگوں اور مہذت حکومتوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہمارے بعض وطنی بھائی ہمارا اپنی مساجد میں بھی اذان دینا پسند نہیں کرتے مہاراجہ صاحب کا عین اپنے گھر میں اذانیں دلوانا اور نمازیں پڑھوانا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ مہاراجہ صاحب اپنے ملک کے نہایت ہی خیر خواہ اور سچے لیڈروں میں سے ہیں۔ اور حضرت باوا نانک علیہ الرحمتہ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ اگر ہندوستان میں ایک مذہب والے دوسرے مذہب کے متبعین کے ساتھ ایسی ہی فراخدلی اور فراخ حوصلگی سے پیش آئیں۔ تو وہ دن دور نہیں کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ سارے جہان میں حقیقی امن کی راہ نکل آئے۔ اسلام کی پاک تعلیم کے مطابق کوئی شخص ایک نیکی کرے تو خدا اس کو دس نیکیوں کا اجر دیتا ہے مگر مہاراجہ صاحب نے تو صدقہ جاریہ کے طور پر ہمیشہ کے لئے یہ نہایت ہی خوبصورت اور عالی شان عمارت تعمیر کرادی ہے<۔ ۱۰
مولانا ابوالعطاء صاحب کا سفر مانگرول اورحضرت مصلح موعود کے خطوط
مولانا ابوالعطاء صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ >مارچ۱۹۳۰ء کا واقعہ ہے کہ حیدر آباد دکن میں آریوں سے مناظرہ مقرر ہوا۔ جب میں
حضورؓ سے اجازت لینے اور درخواست دعا کرنے کے لئے حاضر ہوا تو فرمایا کہ والئی مانگرول سے ہماری رشتہ داری بھی ہے اور وہ گزشتہ دنوں بیمار رہے ہیں آپ واپسی پر براستہ بمبئی مانگرول سے ہوتے آئیں میرا سلام بھی پہنچادیں اور ان کی خیریت بھی پوچھ آئیں۔ حیدر آباد پہنچنے پر مجھے حضور کا مندرجہ ذیل گرامی نامہ موصول ہوا:۔
عزیز مکرم مولوی اللہ دتا صاحب
السلام علیکم۔ نواب صاحب کو آج خط لکھ دیا ہے لیکچر کرانے کے لئے بھی اشارۃ لکھ دیا ہے ایک نقل آپ کو بھجوا رہا ہوں۔
قیام حیدر آباد میں سیٹھ احمد بھائی صاحب کی طرف خاص خیال رکھیں۔ بہت مخلص ہیں لیکن دنیا کی طرف زیادہ رجحان ہے اور اس وجہ سے نقطہ نگاہ اور ہے ہمارے آدمی ملتے رہیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص سلسلہ اور محبت خلافت میں ترقی دے۔
نواب صاحب اگر امراء کے طریق پر چلتے وقت کوئی رقم کرایہ وغیرہ کے نام سے دیں تو ان کے سیکرٹری کی معرفت اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھ دیں کہ میں تو اپنے امام کی طرف سے سلام پہنچانے اور مزاج پرسی کے لئے آگیا تھا مگر چونکہ ہدیہ واپس کرنا بھی درست نہیں میں خدمت اسلام کے لئے یہ رقم جمع کرادوں گا تاکہ نواب صاحب کی خوشی بھی پوری ہوجائے اور ان کے لئے موجب ثواب بھی ہو۔
یہ میں نے احتیاطاً لکھ دیا ہے کیونکہ عام طور پر امراء کے ذہن میں علماء کے سوالی ہونے کا خیال جما ہوا ہے۔ پس بحیلئہ لطیف احمدی جماعت کے علماء کے متعلق ایسا خیال ان کے دل سے نکالنا ضروری ہے گو ممکن ہے یہ موقع ہی پیش نہ آئے۔ والسلام خاکسار۔
مرزا محمود
راستہ میں اگر بمبئی میں سیٹھ اسمٰعیل آدم صاحب سے بھی ملتے آئیں تو اچھا ہو وہ آپ کے مضمونوں سے خاص طور پر ناراض ہیں۔ آپ کو غالی سمجھتے ہیں مگر ہیں بڑے مخلص اور مجھے ان سے شدید محبت ہے شاید اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کردے۔
مرزا محمود احمد<
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا خط میں جناب نواب صاحب کے نام والے خط کی جس نقل کا ذکر ہے جو مجھے بھجوائی گئی تھی وہ حسب ذیل تھی:۔
نقل خط بنام نواب صاحب منگرول
مکرمی و معظمی جناب نواب صاحب منگرول کان اللہ معکم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! عزیزم مولوی اللہ دتہ صاحب ہمارے نوجوان صاحب علم وعرفان علماء میں سے ہیں۔ ریاست حیدر آباد بعض دینی اجتماعوں کے لئے جارہے ہیں جناب کے محبانہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے انہیں ہدایت کی تھی کہ واپسی پر میری طرف سے خیریت طلبی اور مزاج پرسی کرتے آئیں۔ بعد میں خیال آیا کہ شاید ان دنوں آپ ریاست میں تشریف نہ رکھتے ہوں یا ان کا آنا کسی اور سبب سے قرین مصلحت نہ ہو اس لئے یہ چند حروف تحریر ہیں کہ اگر ایسا ہو تو آپ اپنے کسی سیکرٹری کو ہدایت فرمائیں کہ وہ مولوی صاحب موصوف کو معرفت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب الہ دین بلڈنگس سکندر آباد دکن اطلاع کردیں۔ کہ اس وقت ان کا آنا قرین مصلحت نہ ہوگا۔ اگر بالعکس ان کے آنے میں کوئی روک نہ ہو تو اس لحاظ سے کہ یہ نوجوان علوم اسلامیہ میں حصہ وافر رکھتے ہیں۔ اگر ان سے وعظ و نصیحت کی کوئی خدمت جناب کی ریاست میں ہوجائے تو ان کا قلیل قیام ان کے لئے موجب حصول ثواب بھی ہوجائے گا۔ ورنہ اصل غرض تو میری جانب سے السلام علیکم پہنچانا اور مزاج پرسی ہی ہے۔ غالباً عزیز مذکور خود بھی خط لکھیں گے۔ والسلام ۔ مرزا محمود احمد
معزز قارئین ! اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورؓ کی دعائوں کی برکت سے یہ سفر بہت کامیاب رہا۔ میں نے حضور کی سب ہدایات کی حرف بحرف تعمیل کی تھی۔ آپ ذرا ان خطوط میں اس محبت اور پیار کے انداز کو تو دیکھیں جو ہمارے امام رضی اللہ عنہ کو اپنے خدام سے تھا۔ اپنی جماعت کے افراد سے تھا۔ ان دنوں حضرت سیٹھ اسمٰعیل آدم صاحب غیر مبائعین میں شامل تھے حضور ؓ کی توجہات کا نتیجہ تھا کہ آپ نے بیعت کرکے سلسلہ کی عظیم خدمات کی توفیق پائی۔< )الفرقان ربوہ فضل عمر نمبر ۱۹۶۶ء(
رسالہ جامعہ احمدیہ کا اجراء اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا نصیحت آمیز مضمون
اکثر کالج اپنا رسالہ شائع کرتے ہیں جو ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسی طریق کے مطابق جامعہ احمدیہ کی طرف سے
حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ کی زیر نگرانی اپریل ۱۹۳۰ء سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا گیا۔ رسالہ اردو عربی مضامین پر مشتمل تھا ابتداء حصہ اردو کے مدیر مولوی چراغ دین صاحب فاضل ۔ حصہ عربی کے مولوی محمد صادق صاحب فاضل چغتائی ۱۱ اور مینجر مولوی عبدالرحمان صاحب انور )بوتالوی( مقرر ہوئے۔
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس رسالہ کے پہلے نمبر کے لئے مندرجہ ذیل مضمون تحری فرمایا:۔
>ہر ایک کالج میں آجکل رواج ہے کہ اس کے طلباء اپنے تعلقات کو کالج سے مضبوط کرنے کے لئے ایک رسالہ جاری کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے نہ صرف اپنے لئے ایک میدان کار نکالتے ہیں بلکہ اس کے ذریعہ سے کالج کے پرانے طلباء کا تعلق بھی کالج سے قائم رہتا ہے کیونکہ وہ اس میں مضمون لکھتے رہتے ہیں اور کالج کے حالات سے آگاہ رہتے ہیں پس اسی لحاظ سے اس رسالہ کا اجرا یقیناً کالج کے لئے انشاء اللہ مفید ثابت ہوگا۔ لیکن آپ لوگوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ صرف رسالہ کے اجراء سے کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ محنت کرنے اور علم کو بڑھاتے رہنے کی آپ لوگ کوشش نہ کریں۔ خالی مضمون ہر ایک شخص لکھ سکتا ہے لیکن اس کوشش میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں کہ ایسا مضمون لکھیں جو دوسروں کے لئے زیادتی علم کا موجب ہو۔ حالانکہ اصل مضمون وہی ہے جو اپنے اندر کوئی نئی بات رکھتا ہو پس میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ آپ اپنے رسالہ میں ہمیشہ کوشش کرکے مضمون لکھیں اور ان امور کو مدنظر رکھیں۔
۱۔
ایسے مضمونوں کو منتخب کریں جو واقعہ میں مفید ہوں اور صرف ذہنی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔
۲۔
ہمیشہ اس امر کو مدنظر رکھیں کہ مضمون کی طبعی ترتیب قائم رکھی جائے تاکہ پڑھنے والے کے اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔
۳۔
ہمیشہ مضمون میں ایسے مفید پہلو پیدا کرنے کی کوشش کریں جو اس سے پہلے زیر بحث نہ آنے ہوں۔
۴۔
ہمیشہ ایسے امور پر بحث کریں جن سے ذہن میں وسعت پیدا ہو اور تنگ ظرفی اور کج بحثی پیدا کرنے والے نہ ہوں۔
۵۔
ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ تقویٰ کا دامن نہ چھوٹے۔ اپنے خیال کو ثابت کرنے کے لئے کبھی جھوٹے استدلال کو کام نہ لادیں۔
۶۔
اگر کسی امر میں اپنی غلطی معلوم ہو تو اس کے اقرار کرنے سے دریغ نہ ہو۔
۷۔
جن لوگوں کو آپ سے پہلے علم پر غور کرنے کا موقعہ ملا ہو ان کے غور فکر کے نتائج کو مناسب درجہ دیں لیکن:۔
۸۔
یہ یاد رہے کہ انسانی علم کی ترقی کبھی مسدود نہیں ہوسکتی مگر ساتھ ہی یہ امر بھی ہے کہ:۔
۹۔
علم کے جس مقام پر اب دنیا ہے وہ پہلوں کی قربانی کا ہی نتیجہ ہے اگر وہ نہ ہوتے تو ہم بھی اس مقام پر کھڑے نہ ہوتے پس ان کی غلطیاں ہی ہماری اصابت رائے کا موجب ہیں<۔ ۱۲
رسالہ جامعہ احمدیہ نے اپنے محققانہ مضامین کی وجہ سے بہت جلد اپنا مقام پیدا کر لیا۔ اور جماعت نے طلباء جامعہ احمدیہ کے ٹھوس اور مدلل مضامین کو سراہا۔ ۱۳ دسمبر ۱۹۳۰ء میں یعنی پہلے ہی سال اس کا ایک ضخیم سالنامہ شائع ہوا جو معیاری مضامین اور عمدہ تصاویر کا مرقع تھا۔ افسوس یہ رسالہ اقتصادی مشکلات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا۔ اور دسمبر ۱۹۳۲ء میں بند کردیا گیا۔
تعلیم الاسلام ہائی سکول میگزین کااجراء اورحضور کاپیغام
اس سال تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف سے بھی ایک سہ ماہی اردو و انگریزی میگزین جاری ہوا جس کے مدیر اعلیٰ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بی۔ اے تھے افسوس رسالہ جامعہ احمدیہ کی طرح یہ بھی جلد ہی بند کردیا گیا۔ اس رسالہ کے اجراء پر بھی حضور نے ایک روح پرور پیغام تحریر فرمایا جو میگزین کے پہلے شمارہ میں سرورق کے صفحہ ۲ پر شائع ہوا۔ اس اہم پیغام کا متن حسب ذیل تھا:۔
>مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ایک سابق طالب علم ہونے کی حیثیت سے دہری خوشی ہے کہ سکول کے طلباء ایک رسالہ اپنے اندر کام کا جوش پیدا کرنے ک لئے نکالنے لگے ہیں۔ میرے نزدیک یہ رسالہ مفید ہوسکتا ہے اگر طالب علم اس کا پورا بوجھ خود اٹھائیں اور اسے ایسے ایک سکول میگزین سے زیادہ حیثیت نہ دیں۔ میں جب چھوٹا تھا تو ہم نے ایک رسالہ تشحیذ الاذہان نکالا تھا۔ اور صرف ہم سات طالب علم اس رسالہ کو شائع کرتے تھے اور کسی سے مدد طلب نہیں کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رسالہ اپنوں کے علاوہ غیروں میں بھی مقبول تھا۔
میں امید کرتا ہوں کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے موجودہ طالب علم بھی اس رویے سے کام کریں گے اور اس رسالہ کو اپنے اندر تعلیم الاسلام کی روح پیدا کرنے کا ذریعہ بنائیں گے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے سکول کا نام نہایت شاندار ہے اور اس نام کے اندر ہی ان کا نام پوشیدہ ہے۔ تعلیم الاسلام کو سیکھنا اور اسے دنیا میں پھیلانا یہ ان کا واحد مقصد ہونا چاہئے۔ اسلام اس وقت بالکل لاوارث ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے وارث بنو وہ اس وقت پامال ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے حامل بنو۔ وہ اس وقت بے یار ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے کہ تم اس کے یار بنو وہ اس وقت بے وطن ہے خدا تعالیٰ نے تم کو چنا ہے۔ تمہارے دل اور تمہارے گھر اس کا وطن بنیں تم زبانوں سے کئی دفعہ کہہ چکے ہو کہ ایسا ہی ہوگا مگر وقت ہے کہ ہمارے عمل بھی اس کا ثبوت دیں کوئی سپاہی بغیر مشق کے میدان جنگ میں کام نہیں دے سکتا۔ نیک نیت اچھی چیز ہے مگر خالی نیک نیت خواہ کتنی ہی پختہ کیوں نہ ہو بغیر عملی قابلیت کے چنداں فائدہ نہیں دیتی۔ پس زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو۔ اور اس کی تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرو۔ تاکہ یہ امر تمہاری عادت میں داخل ہوجائے۔ اور آپ ہی آپ ایسے اعمال ظاہر ہوتے چلے جائیں جو تعلیم السلام کے ظاہر کرنے والے ہوں اور آپ ہی آپ وہ کلمات نکلنے شروع ہوجائیں۔ جو تعلیم الاسلام کی گونج پیدا کرنے والے ہوں۔ اور آپ ہی آپ وہ ملفوظات قلم پرآنے لگیں جو تعلیم الاسلام کا رنگ رکھتے ہوں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور اگر سچے دل سے کوشش کرو گے تو انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا<۔ والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد ۱۴
ایک ڈچ قنصل قادیان میں
۵ اپریل ۱۹۳۰ء کو مسٹر انڈر یاسا ڈچ قنصل قادیان آئے۔ ۱۵ واپسی پر انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا۔ میں نے قادیان میں نیکی کے سوا اور کچھ نہیں پایا۔ سفر ہندوستان سے جو بہت سے اثرات میرے دل پر ہوئے ہیں ان میں سے خاص اثرات قادیان کے ہیں جنہوں نے میرے دل میں خاص جگہ حاصل کی ہے سب سے اول آپ لوگوں کی مہمان نوازی ہے جس سے میں مسرور ہوا۔ اور میں آپ کا ممنون ہوں گا۔ اگر آپ میرا شکریہ اپنے سب احباب کو پہنچا دیں۔ خاص بات جو مجھ پر اثر کرنے والی ہوئی وہ ایک طبعی ایمان اور سچی برادری ہے جو للہی محبت سے پیدا ہوکر قادیان کو رسولوں کی سی ایک فضا بخش رہی ہے۔ جو عیسائی حلقوں میں شاذونادر ہے۔ ۱۶text] ga[t )ترجمہ از ڈچ زبان(
فتنہ اخبار >مباہلہ< اور حادثہ بٹالہ
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے اخبار >مباہلہ< کے ذریعہ سے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جو نہایت ہی اشتعال انگیز اور حد درجہ دلآزار پراپیگنڈا شروع کیا جارہا تھا جو مارچ اپریل ۱۹۳۰ء میں تشویشناک صورت اختیار کر گیا۔
چنانچہ مباہلہ والوں نے ۲۸ مارچ ۱۹۳۰ء کو عین اس وقت جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے مسجد اقصیٰ کی محراب کے پاس فساد برپا کرنے کا ارادہ کیا۔ اس موقعہ پر بعض جوشیلے مقتدی مسجد کی کھڑکیوں سے پھاند کر وہاں پہنچ گئے تا ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بعض دوستوں کو قسمیں دے کر بھیجا کہ تمہیں بالکل ہاتھ نہیں اٹھانا ہوگا اور صرف اپنے دوستوں کو پکڑ کر لانا ہوگا۔ یہ واقعہ ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں ہوا لیکن پولیس نے جو کارروائی کی وہ یہ تھی کہ )حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی عبدالرحمان صاحب فاضل وغیرہ( احمدی معززین کی ہزار ہزار روپیہ کی ضمانتیں طلب کیں۔ ۱۷ اس واقعہ کے چند روز بعد انہوں نے جاہل عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یہ چال چلی کہ ۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو اپنے اخبار مباہلہ کے تمام فائل ` متعلقہ کاغذات ` نیز گھر اور دفتر کا تمام سامان محفوظ کرکے مکان کی ایک کوٹھڑی کو جہاں اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا آگ لگا دی جس سے چند لکڑیاں جھلس گئیں۔ مگر جماعت احمدیہ کے مخالف اخبارات وغیرہ میں یہ جھوٹی خبریں شائع کیں کہ ہمارا مکان نذر آتش کر دیا گیا ہے اور سارا سامان جلا دیا گیا ہے۔ ۱۸ قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے تحت احمدی بے مثال صبر وتحمل کا نمونہ بنے ہوئے تھے۔ اس لئے ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ مرکز احمدیت میں بیٹھ کر ان کے لئے مزید شرارت پھیلانے کا موقعہ نہیں ہے۔ بٹالہ میں اپنی شرارتوں کا اڈہ بنالیا۔ اور مشہور کردیا کہ احمدیوں نے انہیں قادیان سے نکال دیا ہے بٹالہ میں ان کی تحریک پر انجمن شباب المسلمین کے عہدیداروں اور والنٹیئروں نے ۹۔ اپریل ۱۹۳۰ء کو ایک جلوس مرتب کیا جو محض اشتعال دلانے کے لئے اس محلہ سے گزرا جہاں پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ بٹالہ )شیخ عبدالرشید صاحب مالک کارخانہ عبدالرشید اینڈ سنز( کا مکان تھا۔ جلوس نے مکان کے سامنے فحش گالیاں دیں اور حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے افراد خاندان مسیح موعود کے متعلق ناروا کلمات استعمال کئے اور جب انہیں منع کیا گیا تو جلوس کے بعض افراد دروازے توڑ کر جبراً ان کے رہائشی مکان میں گھس گئے اور اندر جاکر انہیں اور ان کے لڑکے کو زرد کوب کیا اور سامان توڑ دیا۔ ۱۹
بٹالہ میں ان کی قماش کے لوگوں نے ان کی بڑی آئوبھگت کی ان کے جلوس نکالے ان کے لئے چندہ جمع کیا مگر چند دن کے بعد ہی یہ لوگ اپنا نیا میدان تلاش کرنے کے لئے امرت سرآگئے اور احمدیوں کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ ۲۰
۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء کی رات کو ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے حالات کو بد سے بدتر بنادیا کہا جاتا ہے کہ نوشہرہ کے ایک احمدی نوجوان قاضی محمد علی صاحب گورداسپور ۲۱ سے بٹالہ کی طرف ایک لاری میں آرہے تھے بدقسمتی سے اسی میں >مباہلہ< والے مستری اور ان کے مدد گار ایک کافی تعداد میں موجود تھے۔ راستہ میں قاضی صاحب کی مباہلہ والوں سے گفتگو ہوتی رہی جس میں زیادہ تر زور انہوں نے اس بات پر دیا کہ مخالفت کی وجہ سے شرافت وانسانیت کو خیرباد نہیں کہنا چاہئے اورجھوٹے الزامات لگا کر احمدیوں کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے مگر مباہلہ والوں نے اخبار مباہلہ کا ایک پرچہ نکال کر نہایت گندے اور اشتعال انگیز فقرات سنانے شروع کردیئے اور تصادم شروع ہوگیا۔ فریق مخالف نے قاضی صاحب پر حملہ کرنے کے لئے چاقو نکال لیا یہ دیکھ کر قاضی محمد علی صاحب کو بھی چاقو نکالنا پڑا۔ یہ دیکھ کر لاری میں بیٹھنے والے لوگ قاضی صاحب پر پل پڑے اور بے تحاشا مارنا شروع کردیا۔ ایسی حالت میں انہوں نے اپنے بچائو کی پوری کوشش کی لیکن انہیں بہت سے آدمیوں نے اس قدر مارا کہ بیہوش کردیا اور انہیں معلوم نہ ہوا کہ کیا ہوا اور جب ہوش آیا تو دیکھا کہ ایک شخص )جو بعد کو مرگیا( زخمی پڑا ہے اور وہ خود دوسروں کے پنجے میں گرفتار ہیں اس کے بعد پولیس نے آکر انہیں گرفتار کرلیا۔ ۲۲ اور ان پر قتل عمد کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کی قانونی امداد میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا۔ مگر ابتدائی عدالت نے ان کو پھانسی کا فیصلہ دیا۔ اس پر ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی مگر سزا بحال رہی۔ ۲۳
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے روزوں کی تحریک اور اس کا نتیجہ
جماعت احمدیہ علیٰ وجہ البصیرت اپنے خلیفہ و امام کا جو مقام و منصب سمجھتی ہے اور اسے جس طرح اپنے ایمان کا جزو قرار دیتی ہے اس لحاظ
سے یہ سوال خارج از بحث تھا کہ فتنہ پردوزوں کے خلاف کسی دنیوی عدالت میں چارہ جوئی کی جائے البتہ سلسلہ کے دوسرے ارکان کے تحفظ کے لئے عدالتوں کی طرف رجوع ہوسکتا تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی نقطہ نگاہ سے ۱۹۳۰ء کی مجلس مشاورت میں جماعت کے نمائندوں سے مشورہ طلب فرمایا۔ چنانچہ عدالتوں کے طریق کار سے پوری طرح واقفیت رکھنے والے معززین اور تجربہ کار اصحاب کی آرا سننے کے بعد اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شان اور وقار کے احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے نمائندوں کی کثرت نے رائے دی کہ ہمیں سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ان پر کوئی بھروسہ ہے۔ چنانچہ حضور نے بھی فیصلہ فرمایا کہ ہم انسانی عدالتوں کی بجائے خدائے قدوس کی بارگاہ میں اپنا استغاثہ پیش کریں۔ اور ارشاد فرمایا کہ رسول کریم~صل۱~ کی عادت تھی کہ ہفتہ میں دو روز پیر اور جمعرات کے دن روزے رکھا کرتے تھے۔ ہماری جماعت کے وہ احباب جن کے دل میں اس فتنہ نے درد پیدا کیا ہے اور جو اس کا انسداد چاہتے ہیں۔ اگر روزے رکھ سکیں تو ۲۸ اپریل ۱۹۳۰ء سے تین دن تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعائوں میں خاص طور پر مشغول رہیں کہ خدا تعالٰے یہ فتنہ دور کردے۔ اور ہم پر اپنا خاص فضل اور نصرت نازل کرے اور جو دوست یہ مجاہدہ مکمل کرنا چاہیں وہ چالیس روز تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں ¶روزے رکھیں اور دعاکریں۔ ۲۴
چنانچہ جماعت کے دوستوں نے حضور کی تحریک پر روزے رکھے اور تضرع سے دعائیں کیں آخر خدائی عدالت نے اپنے بندوں کے حق میں ڈگری دے دی یعنی ایسا سامان پیدا کردیا کہ فتنہ پردازوں کے دلوں میں حکومت کی مخالفت کا جوش پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے وہ سب پکڑے گئے باقی وہ رہ گئے جو بالکل کم حیثیت اور ذلیل لوگ تھے۔ اصل وہی تھے جن کی شہ پر انہیں شرارت کی جرات ہوتی تھی اور وہ گرفتار ہوگئے ان کے علاوہ وہ اخبار جو جماعت کے خلاف گند اچھالتے تھے۔ یا تو بند ہوگئے۔ یا پریس آرڈی نینس کے خوف کی وجہ سے اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوئے۔ ۲۵
منصب خلافت سے متعلق پرشوکت اعلان
پچھلے سالوں میں حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نبصرہ العزیز نے جو کمیشن دفاتر کے جائزہ کے سلسلہ میں مقرر فرمایا تھا اس نے مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں یہ تجویز رکھی کہ انجمن معتمدین خلیفہ وقت کی ماتحتی میں سلسلہ کی تمام جائداد کی نگران اور مالک مقرر ہوئی ہے اس واسطے وہ صحیح معنوں میں جماعت کے نمائندہ ہونی چاہئے ناظر صاحبان جو جماعت کے ملازمین میں سے ہیں۔ کسی طرح بھی جماعت کے نمائندے نہیں کہلاسکتے۔ ہمارے خیال میں انجمن معتمدین کے ممبران جماعت کے اتخاب سے مقرر ہونے چاہئیں۔ ۲۶
یہ پوری تجویز چونکہ منصب خلافت کی حقیقت کے بالکل خلاف ۲۷ اور اس پر تبر رکھنے کے مترادف تھی اس لئے حضور نے اس پر زبردست تنقید کی اور نہایت پرجلال اور پر شوکت الفاظ میں اعلان فرمایا:۔
>اللہ تعالیٰ ہمارا گواہ ہے ہم ایسے لوگوں سے تعاون کرکے کام نہیں کرسکتے۔ ہم نے اس قسم کے خیالات رکھنے والے ان لوگوں سے اختلاف کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صحبت میں رہے آپ کے پاس بیٹھے آپ کی باتیں سنیں ہم اپنے جسم کے ٹکڑے الگ کردینا پسند کرلیتے۔ لیکن ان کی علیحدگی پسند نہ کرتے مگر ہم نے انہیں چھوڑ دیا اور اس لئے چھوڑ دیا کہ خلافت جو برکت اور نعمت کے طور پر خدا تعالیٰ نے نازل کی وہ اس کے خلاف ہوگئے اور اسے مٹانا چاہتے تھے۔ خلافت خدا تعالیٰ کی ایک برکت ہے اور یہ اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جماعت اس کے قابل رہتی ہے لیکن جب جماعت اس کی اہل نہیں رہتی تو یہ مٹ جاتی ہے ہماری جماعت بھی جب تک اس کے قابل رہے گی۔ اس میں یہ برکت قائم رہے گی اگر کسی کے دل میں ہ خیال ہو کہ مجلس شوریٰ جماعت کی نمائندہ ہے اور اس کی نمائندہ مجلس معتمدین ہوتو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم یہ خیال سننے کے لے بھی تیار نہیں ہوسکتے۔ اور ہم اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن خلافت کو نقصان پہنچنے دینے کے لئے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے میں صاف صاف کہہ رہا ہوں ایسے لوگ ہم سے جس قدر جلد ہوسکے الگ ہوجائیں اور اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو منافق ہیں اور دھوکہ دے کر رہتے ہیں اگر سارے کے سارے بھی الگ ہوجائیں اور میں اکیلا ہی رہ جائوں تو میں سمجھوں گا کہ میں خدا تعالیٰ کی اس تعلیم کا نمائندہ ہوں جو اس نے دی ہے مگر یہ پسندنہ کروں گا کہ خلافت میں اصولی اختلافات رکھ کر پھر کوئی ہم میں شامل رہے یہ اصولی مسئلہ ہے کہ اور اس میں اختلاف کرکے کوئی ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا<۔
اس موقعہ پر ہر طرف سے پر زور آوازیں آئیں کہ سب حضور کے ساتھ متفق ہیں۔ ۲۸
خود حفاظتی کی تلقین
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اندر جو بہادرانہ سپرٹ کام کر رہی تھی وہ حضور پوری جماعت میں سرگرم عمل دیکھنے کے متمنی تھے چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کے موقعہ پر احباب کو یہ اہم مشورہ دیا کہ:۔
>جو سامان بہادری اور جرات پیدا کرنے والے میسر آسکتے ہیں وہ ضرور مہیا کئے جائیں جن احباب کو بندوق رکھنے کی اجازت مل سکے وہ بندوق رکھیں جہاں جہاں تلوار رکھنے کی اجازت ہے وہاں تلوار رکھی جائے اور جہاں یہ اجازت نہ ہو وہاں سونٹا رکھا جائے ۔۔۔۔ قرآن کریم میں آتا ہے خذوا حذر کم ہتھیار اپنے پاس رکھو دیکھو سکھ ہتھیار رکھنے کے لئے کس قدر اصرار کرتے ہیں اور ہم جنہیں ہمارا مذہب حکم دیتا ہے کہ ہتھیار رکھو ہم کیوں نہ رکھیں مجھے حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ گھر سے باہر نکلنے کے وقت لاٹھی رکھا کرو۔ مذہب میں بھی یہی پسندیدہ بات ہے اس قسم کی سب چیزیں چستی چالاکی اور بہادری پردلالت کرتی ہیں ان کی طرف ہمارے دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے۔۲۹
یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہے کہ احمدیوں میں جو آجتک سونٹا ہاتھ میں رکھنے کا کچھ عمل ہے وہ اسی تحریک کا نتیجہ ہے جو قرآن کریم کی ہدایت کے عین مطابق ہے۔
احمدیہ یونیورسٹی کی داغ بیل
مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے نے مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء کے موقعہ پرپہلی بار یہ تحریک کی کہ ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے اور ہمارے مدارس بھی ۲۵ سال سے قائم ہیں مگر ابھی تک ہم نے یونیورسٹی کی شکل پورے طور پر اختیار نہیں کی۔ حالانکہ ایک بڑھتی ہوئی قوم کی ترقی کو صحیح لائنوں پر چلانے کے لئے ایک مستقل اور مکمل یونیورسٹی کا قائم ہونا ضروری ہے۔ ہمارے زمانے کے حالات اس سرعت سے بدل رہے ہیں کہ میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے۔ کہ ہم احمدیہ یونیورسٹی کی شکل کو ایک چھوٹے پیمانے پر قواعد وضوابط کے ساتھ قائم کرکے محفوظ کردیں۔ ۳۰
اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک مفصل سکیم بھی پیش کی جس پر حضرت خلیفہ المسیح نے ایک سب کمیٹی مقرر فرمائی جس کے ممبر حسب ذیل تھے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ` حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب` حضرت میر محمد اسحاق صاحب` قاضی محمد اسلم صاحب` چوہدری اسد اللہ خان صاحب۔ منشی برکت علی صاحب۔ لائق لدھیانوی ملک غلام رسول صاحب شوق۔ چوہدری فضل احمد صاحب۔ مولوی محمد دین صاحب مرزا عبدالحق صاحب۔ چوہدری غلام حسین صاحب۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل۔ شیخ عبدالرحمان صاحب مصری۔
اس کمیٹی نے اس سکیم کو ضرورت سے زیادہ مفصل اور پیش از وقت قرار دیا۔ اور اس کی بجائے ایک مختصر مجلس تعلیم )تعلیمی بورڈ( کی تجویز پیش کی جس کے سپرد جماعت کی اعلیٰ نگرانی کا کام کیا جاسکے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ ۱۹۳۲ء کی مجلس مشاورت میں پیش ہوئی لیکن اس کی تائید میں صرف سات نمائندگان تھے۔ کثرت رائے اس تجویز کے خلاف تھی۔ حضرت خلیفتہ المسیح نے نمائندگان جماعت سے رائے لینے کے بعد چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب کی یہ تجویز منظور فرمائی کہ نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے ایک نئی رپورٹ تیار کی جائے جس میں دوسری یونیورسٹیوں کے انتظام کے پیش نظر احمدیہ یونیورسٹی کا ڈھانچہ ہو۔ چنانچہ نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔اے نے ایک ڈھانچہ تیار کیا جس پر مارچ ۱۹۳۳ء میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ` سید زین العابدین ولی اللہہ شاہ صاحب` ملک غلام رسول صاحب شوق اور قاضی پروفیسر محمد اسلم صاحب پر مشتمل ایک اور کمیٹی کا تقرر عمل میں لایا گیا جس نے ۱۹۳۸ء میں اپنی سفارشات پیش کیں۔ ان سفارشات پر مزید غور کرنے کے لئے حضور نے مندرجہ ذیل ممبران پر مشتمل اک اور کمیشن مقرر فرمایا چوہدری ابوالہاشم خاں صاحبصدر ۔ ناظر صاحب تعلیم و تربیت سیکرٹری۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب۔ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔ ملک غلام رسول صاحب شوق۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب۔
اس کمیشن کی رپورٹ سب کمیٹی )شوریٰ( کی سفارشات کے ساتھ ۱۹۴۰ء کی مجلس مشاورت میں پیش ہوئی تو حضور نے مشاورت کی بحث سننے کے بعد فرمایا:۔
>یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم ایک ایسے بورڈ کے قیام پر غور کریں جس کا کام امتحانات کی نگرانی تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھنا اور نصاب مقرر کرنا اور نصاب کے لئے اگر کسی موضوع پر کوئی موزوں کتاب موجود نہ ہو تو وہ لکھوانا ہوتا یہ ٹیکنیکل کام ناظر کے ہاتھ سے نکل کر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے جو تعلیمی لحاظ سے زیادہ ماہر ہوں<۔
>کثرت رائے تعلیمی بورڈ کے حق میں تھی اور حضور نے بھی فیصلہ فرمایا کہ صدر انجمن احمدیہ جلد سے جلد ایک ایسے بورڈ کے قیام کے متعلق تفصیلی قواعد بناکر میرے سامنے پیش کرے سلسلہ کے سب امتحانات بھی اسی کے سپرد ہوں<۔
چنانچہ اس ہدایت کے مطابق حضور کی خدمت میں تفصیلی قواعد پیش کئے گئے اور بالاخر آپ کی منظوری سے ۱۹۴۲ء میں اس تعلیمی بورڈ کا قیام عمل میں آیا جس کا نام مجلس تعلیم رکھا گیا۔۳۱ اس طرح احمدیہ یونیورسٹی کے ابتدائی نظام کی داغ بیل مجلس تعلیم کی صورت میں قائم کردی گئی۔
)فصل دوم(
ملکی شورش میں کانگریس اور حکومت کے رویہ پر تنقید اور صحیح طریق عمل کی راہنمائی
آل انڈیا نیشنل کانگرس نے دسمبر ۱۹۲۹ء میں کامل آزادی کا نعرہ بلند کرنے کے بعد ۲۶ جنوری ۱۹۳۰ء کو یوم آزادی منایا اور ۶ اپریل ۱۹۳۰ء سے گاندھی جی کی قیادت میں قانون نمک
سازی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں سول نافرمانی کا آغاز کردیا اور کلکتہ سے لیکر پشاور تک بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے گاندھی جی اور کانگریس نے پے در پے کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو اس شورش میں شامل کرنے پر آمادہ کرلیں۔ اور گو مجلس احرار اور جمعیتہ العلماء کی مختصر سی جماعتیں کانگریس کے دوش بدوش شریک کار تھیں۔ ۳۲ لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مساعی کے نتیجہ میں مسلمان من حیث القوم اس تحریک سے الگ ہی رہے اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ پہلے ہمارے ساتھ تصفیہ حقوق کرکے ہمیں مطمئن کردو اس کے بعد ہم ہر تحریک میں شامل ہونے کو تیار ہوں گے۔
چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح نے ۲ مئی ۱۹۳۰ء کو خطبہ جمعہ کے ذریعہ اس سیاسی شورش پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس کی تحریک آزادی سے اصولی اور کلی ہمدردی کا اظہار کرنے کے باوجود کانگریس اور گورنمنٹ دونوں کے غلط رویہ پر بے لاگ تنقید کی اور مسلمانوں کے لئے عموماً اور جماعت احمدیہ کے لئے خصوصاً صحیح طریق عمل پیش کیا۔ چنانچہ حضور نے کانگریس کی نسبت اس رائے کا اظہار فریایا کہ:۔
>کانگریس اپنی ذات میں ہمارے لئے کسی تکلیف اور رنج کا موجب نہیں وہ چند ایسے افراد کا مجموعہ ہے جو اپنے بیان کے مطابق ملک کی آزادی اور بہتری کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور کوئی عقلمند` کوئی شریف کوئی باحیا اور کوئی انسان کہلانے کا مستحق انسان ایسے لوگوں کو بے قدری اور بے التفاقی کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔ جو اپنے آپ کو اس لئے مصیبت میں ڈالے ہوئیہوں کہ اپنے ملک اور اہل ملک کو آرام اور آسائش پہنچائیں اس لئے جس حد تک ان کے اپنے بیان اور ان کے اصول کا تعلق ہے ہمیں ان کے ساتھ کلی ہمدردی ہے اور جس مقصد اور مدعا کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔ ان کے حصول کی خواہش میں ہم کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اور حریت جس طرح گاندھی جی پنڈت موتی لال نہرو` پنڈت جواہر لال نہرو` مسٹر سین` مسٹر آئنگر` ڈاکٹر ستیہ پال وغیرہ کو مطلوب ہے اسی طرح ہمیں بھی مطلوب ہے اور ہندوستان ویسا ہی ہمارا ملک ہے جیسا ان لوگوں کا ہے اور اپنے وطن کی محبت اورآزادی کا خیال اسی طرح ہمارے سینوں میں بھی موجزن ہے جس طرح ان کے سینوں میں ہے<۔
حکومت وقت سے متعلق یہ نکتہ پیش فرمایا:۔
>لیکن دوسری طرف ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارا ملک ہندوستان انگریز کے ماتحت ہے ۔۔۔۔ وہ سترھویں صدی سے ہندوستان میں آئے اور انیسویں صدی سے بلکہ اٹھارھویں صدی سے ہی انہیں حکومت میں حصہ مل گیا۔ اور اب وہ سارے ہندوستان پر قابض ہیں پس اس سے ہم انکار نہیں کرسکتے کہ قانون کے مطابق ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم ہے۔ اور کوئی دوسری حکومت جو انگریزوں کے منشاء اور سمجھوتہ کے بغیر قائم ہو وہ قانونی حکومت نہیں کہلاسکتی<۔
>ان حالات میں ایک طرف تو ہم کانگریس کی نیت پر حملہ کرنے اور اس کے مقصد کو برا کہنے کے لئے تیار نہیں اور دوسری طرف انگریزوں کا حکومت کا حق چلاآتا ہے اس کا انکار کرنے کے لئے تیار نہیں ۔۔۔۔۔ ان دونوں باتوں کے درمیان رستہ تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے پل صراط تیار کرنا اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن صحیح راستہ یہی ہے اور یہی خدا کے منشاء کے ماتحت ہے لیکن افسوس ہے کہ اس وقت یہ صحیح راستہ اختیار نہیں کیا جارہا۔ ایک طرف کانگریس کے لوگ ایک صحیح مقصد کے لئے ایسی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں جو نہ آج مفید ہوسکتی ہیں نہ کل۔ آزادی اچھی چیز ہے مگر وہ آزادی حاصل کرنے کا طریق جو ہمیشہ کے لئے غلام بنائے کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ کانگریس والے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایسا ہی طریق اختیار کئے ہوئے ہیں جو ہندوستان کو ہمیشہ کے لئے غلام بنادے گا اور وہ طریق قانون شکنی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے مقابلہ میں ہم یہ نہیں کہتے کہ گورنمنٹ غلطی سے بری ہے اس کا رویہ بھی اتنا اچھا نہیں جتنا ہونا چاہئے تھا اسے سمجھنا چاہئے تھا کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں یہاں کے نہیں اس لئے ملک میں یہ خیال پیدا ہونا لازمی ہے کہ ملکی معاملات کے حل کرنے میں ہماری رائے بھی سنی جائے مگر اس کی کوئی پروہ نہیں کی جاتی انگلستان میں اگر کوئی فساد ہوتو اس کے انسداد کے لئے حکومت لوگوں سے مشورہ کرتی اور ان کی کمیٹیاں بناتی ہے اور پھر طریق عمل تجویز کرتی ہے حالانکہ ملک ان کا اپنا ہوتا ہے حکومت ان کی اپنی ہوتی ہے مگر یہاں باہر کے آئے ہوئے غیروں پر حکومت کرنے والے اتنے فسادات کی موجودگی میں ملک سے پوچھتے تک نہیں کہ کیا کیا جائے۔ غرض ایک طرف اگر کانگریس غلط طریق اختیار کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف گورنمنٹ بھی غلطی کر رہی ہے اور مسلمانوں کے لئے بہت مشکل پیدا ہوگئی ہے مسلمان قانون شکنی نہ کریں اور نمک سازی بھی نہ کریں مگر یہ بھی تو نہیں ہوسکتا کہ وہ ملک کی حریت اور آزادی کے لئے کچھ نہ کریں لیکن اگر وہ اس کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ تو کانگریس کے حامی اور مددگار سمجھے جاتے ہیں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو ملک کے دشمن قرار پاتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس مشکل کا ازالہ بھی گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے مگر افسوس ہے کہ گورنمنٹ نے اس کے متعلق کچھ نہیں کیا۔ اس وقت چاہئے تھا کہ گورنمنٹ مسلمانوں کو یقین دلاتی کہ ہم تمہارے جائز حقوق تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں یا کم از کم اس بات کا اقرار کرتی کہ کانگریس سے مسلمانوں کا علیحدہ رہنا اس لئے نہیں کہ وہ نکمے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں اور قانون کے اندر رہ کر ملک کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں<۔
اس ضمن میں مسلمانوں کے سامنے بہترین صورت یہ رکھی کہ:۔
>وہ قانون شکنی کا مقابلہ کریں۔ اور ادھر گورنمنٹ سے اپنے مطالبات پورے کرانے پر قانون کے اندر رہ کر زور دیں اور ثابت کردیں کہ ہم ایسے ہی ملک کی آزادی کے خواہاں ہیں جیسے ہندو اور اس بات کو جاری رکھیں جب تک اپنے حقوق حاصل نہ کرلیں<۔
خطبہ کے آخر میں حضور نے جماعت احمدیہ کے لئے اعلان فرمایا کہ:۔
> ہر جگہ اور ہر علاقہ کی جماعتیں قانون شکنی کا مقابلہ کریں۔ اور اس طرح گورنمنٹ کو امن قائم کرنے میں مدد دیں مگر اس کے ساتھ ہی صاف طور پر کھول کر کہدیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک غلام رہے ہم اپنے اور مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے اور انہیں حاصل کریں گے۔ ۳۳
حضور کا یہ خطبہ اردو اور بنگالی میں ٹریکٹ کی صورت میں بکثرت شائع کیا گیا۔ ۳۴ اس کے علاوہ حکومت ہند پر زور دیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے مطالبات پورا کرنے کا اعلان کرے اسی سلسلہ میں ۴ جون ۱۹۳۰ء کو پنجاب کے مسلمان زمینداروں کا ایک وفد سر نواب ملک خدا بخش صاحب کی صدارت میں وائسرائے ہندلارڈارون سے بھی ملا جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب شامل ہوئے وائسرائے نے وفد کو یقین دلایا کہ مسلمانان پنجاب کو اس بات کا خوف نہ کرنا چاہئے کہ ان کے جائز مطالبات منظور ہوئے بغیر رہ جائیں گے۔ ۳۵
اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے ملک کے طول و عرض میں بحالی امن کے لئے جلسے منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ جو شاندار عملی جدوجہد کی وہ ایک بے مثال کارنامہ ہے ملک کے جس گوشہ میں کہیں اکا دکا احمدی بھی موجود تھا وہ بڑے سے بڑے خطرات کے مقابلہ کے لئے ڈٹ کر میدان میں آگیا احمدیوں نے نہ صرف شورش پسندوں کی ہمنوائی گوارا نہ کی بلکہ وہ اپنی مسلسل کوشش اور قربانی سے مسلمانوں کو من حیث الجماعت اس تباہ کن تحریک سے علیٰحدہ رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساری جماعت میں صرف ایک مثال منٹگمری کی تھی جہاں ایک احمدی نے کمزوری دکھائی اور حضور کی خدمت میں خط لکھا۔ کہ یہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے کانگریسی تحریک کی علی الاعلان مخالفت کی تو لوگ ناراض ہوجائیں گے۔ حضور نے ۳۰ مئی ۱۹۳۰ء کو خطبہ جمعہ میں اس خط کا ذکر کرتے ہوئے سخت خفگی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فریایا:۔
>مجھے یہ خط پڑھ کر سخت حیرت ہوئی کیونکہ میں نہیں سمجھ سکتا مومن بزدل بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔ کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے جبر وتشدد اور ظلم ہورہا ہو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے عملی صورت اختیار کررہے ہوں اور ہم اس وجہ سے چپ چاپ بیٹھے رہیں کہ لوگ ناراض ہو جائیں گے لوگ ہمارے دوست کس دن ہوئے تھے اور پھر ہم نے کب لوگوں کی پوجا کی کہ یہ خیال کریں آج وہ ہمارے دوست ہیں۔۔۔۔۔ احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے کام میں سستی کرکے مقامی ہندو مسلمانوں کی مخالفت سے بچ بھی گئے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور دکھ پیدا کردے گا۔ تاوہ غافل نہ ہوجائیں۔ مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا اس لئے ایسے خیالات دل میں نہ لانے چاہئیں۔ اس تحریک سے مسلمانوں کا صریح نقصان ہورہا ہے اور اگر اسی طرح ہوتا رہا تو دن دور نہیں جب ان کی وہی حالت ہوگی جو سپین میں ہوئی۔۔۔ یاد رکھو ہر وہ پتھر جو خداتعالیٰ کی بات منوانے اور مسلمانوں کی ہمدردی کرنے کی وجہ سے پڑتا ہے وہ پتھر نہیں پھول ہے ایسے پتھر مبارکبادی کے پھول ہیں جو خداتعالیٰ پھینکتا ہے اس لئے ان سے ڈرنا نہیں بلکہ خوش ہونا چاہئے کہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کو عزت دیتا ہے۔۔۔۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں محض مسلمانوں کے فائدے کے لئے کرتے ہیں اگر وہ آج اس بات کو نہیں سمجھتے تو آئندہ نسلیں یقیناً یہ کہنے پر مجبور ہوں گی کہ ایسے نازک موقعہ پر احمدیوں نے ان کی حفاظت کی پوری پوری کوشش کی<۔ ۳۶
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کامکتوب وائسرائے ہندکے نام
سول نافرمانی کے نتیجہ میں حکومت کی طرف سے گرفتاریاں شروع ہوگئیں جس پر ملکی فضا بالکل بدل گئی اور شورش شہروں سے نکل کر دیہات تک پھیل گئی۔
اس اہم مرحلہ پر حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲ مئی ۱۹۳۰ء کو وائسرائے ہند کے نام ایک مفصل خط لکھا جس میں ان کے سامنے قیام امن کی غرض سے سات اہم تجاویز پیش کیں:۔
۱۔ ملک کی تمام امن واعتدال پسند جماعتوں کے نمائندوں کی کانفرنس بلاکر مشورہ لیا جائے کہ کونسا طریق ہے جس سے قانون کا احترام بھی قائم رہے اور ہندوستانیوں کو تشدد کی بھی شکایت نہ ہو۔
۲۔ تمام گورنروں کی کانفرنس منعقد کی جائے اور سب ہندوستان کے لئے ایک متفقہ طریق عمل تجویز کیا جائے۔
۳۔ پریس پر پابندیاں لگانا ایک حد تک ضروری ہے لیکن اس قدر ضمانتوں کا طلب کرنا اردو پریس کے لئے ناقابل برداشت ہے اور شورش کو بڑھادے گا پس اول صرف تنبیہہ ہونی چاہئے دوسری بار معمولی ضمانت طلب کی جائیتیسری بار زرضمانت زیادہ کر دیا جائے۔
۴۔ حکومت کو اعلان کرنا چاہئے کہ موجودہ گرفتاریاں تحریک آزادی کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ اس کے لئے بہتر فضا پیدا کرنے کی غرض سے ہیں ورنہ ہندوستان کو بہر حال درجہ نو آبادیات دیا جائے گا۔
۵۔ مسلمان موجودہ شورش میں من حیث القوم الگ ہیں۔ مگر ہنگامہ پشاور ۳۷ میں حکومت سے سخت غلطی ہوئی اور مقامی حکام نے ضبط نفس سے کام نہیں لیا حکومت کو اس ازالہ کرنا چاہئے اس ضمن میں اس قسم کا اعلان بہت مفید ہوگا۔ کہ صوبہ سرحد کو بھی دوسرے صوبوں کے ساتھ ساتھ ملکی اصلاحات دے دی جائیں گی۔
۶۔ مسلمانوں کو شبہ ہے کہ حکومت فیصلہ کرتے وقت ان کے حقوق ہندوئوں کے شور کی وجہ سے تلف کردے گی اس کا ازالہ ہونا چاہئے۔
۷۔ شاردا ایکٹ کے بارے میں بھی حکومت نے سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے میں خودبچپن کی شادیوں کا مخالف ہوں لیکن اس کے باوجود ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ایک کثیر التعداد جماعت سوشل اصلاح کے نام سے قلیل التعداد جماعتوں کے ذاتی معلاملات میں دخل دے۔
وائسرائے ہند کے پرائویٹ سیکرٹری مسٹر کننگھم کی طرف سے اس خط کا مفصل جواب موصول ہوا جس کا ملخص یہ تھا کہ:۔
۱۔ انگلستان سے واپسی کے بعد ہزایکسی لینسی نے مختلف جماعتوں کے مشہور نمائندوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھا ہے اور انہیں یقین ہے کہ گورنروں نے بھی رکھا ہوگا اس لئے فی الحال باقاعدہ کسی کانفرنس کی ضرورت نہیں۔
۲۔ اس سے زیادہ بے بنیاد خیال اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ کہ حکومت آزادی ملک کے جائز جذبات کو دبانا چاہتی ہے۔
۳۔ اخباروں کو کئی موقعوں پر ضمانت طلب کرنے سے پہلے دوستانہ انتباہ کیا گیا ہے اور اس کا اثر بھی بہت اچھا ہوا ہے۔
۴۔ واقعہ پشاور کی تحقیق کے لئے ہائیکورٹ کے دو ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دیگئی ہے۔
۵۔ شاردا ایکٹ کے متعلق آپ کی رائے ہزایکسی لینسی نے خاص دلچسپی سے پڑھی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک مذہبی ہماعت کے امام کی طرف سے اس بارے میں جو خیالات ظاہر کئے گئے ہیں۔ وہ خاص طور توجہ کے مستحق ہیں چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا نے حال ہی میں لوکل حکومتوں سے شارداایکٹ وغیرہ کے بارہ میں مشورہ طلب کیا ہے۔
۶۔ حفاظت حقوق کی نسبت مسلمانوں کی بدگمانی دور کرنے کے لئے ہزایکسی لینسی اپنے اثر کو کام میں لائیں گے۔ ہز میجسٹی کی حکومت ہمیشہ اس امر پر زور دیتی رہی ہے کہ گول میز کانفرنس میں تمام قوموں اور خاص ذمہ داری رکھنے والی جماعتوں کی نمائندگی کا ضرور خیال رکھا جائے گا۔ ۳۸
جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلم پریس کی حفاظت کیلئے پیشکش
پنجاب کانگریس کمیٹی نے اخبارات بند کردینے کا نوٹس دیا تھا۔ اور بند نہ کرنے کی صورت میں پکٹنگ لگانے کی دھمکی دی تھی جس سے کانگریس کی غرض یہ تھی کہ مسلمان اخبارات کا جو کانگریسی شورش کے خطرات سے آگاہ کررہے تھے گلاگھونٹ دیا جائے اور اس طرح مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی مفاد کو سخت نقصان پہنچایا جائے اس نازک مرحلہ پر جماعت احمدیہ نے لاہور کے مسلم اخبارات >انقلاب و سیاست< کو کانگریس کے تشدد سے بچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں۔ چنانچہ ناظر صاحب امور خارجہ قادیان نے اخبار انقلاب و سیاست کو حسب ذیل تار دیا۔
>جماعت احمدیہ کو یہ سن کر افسوس ہوا کہ کانگریس کے رضاکار آپ کے دفتر پر پہرا بٹھانے کی دھمکی دے رہے ہیں چونکہ یہ امر پابند قانون شہریوں کا مقصد مشترک ہے اس لئے جماعت احمدیہ قادیان حسب ضرورت اپنے آدمیوں کو لاہور بھیجنے کے لئے بالکل تیار ے تاکہ وہ کانگریس کے جارحانہ اقدام کے مقابلے میں اخبارات کی حفاظت کریں<۔
یہ تار انقلاب نے اپنے ۲۹ مئی ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں احمدی بھی انقلاب کی حفاظت کے لئے تیار ہیں۔ کے عنوان سے نمایاں طور پر شائع کرتے ہوئے لکھا:۔
>ہم جماعت احمدیہ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں ہمیں یقین ہے کہ ان کی طرح ہر مسلمان اپنے اس خادم جریدے کی حفاظت کے لئے کمربستہ ہے جب تک ملت اسلامیہ انقلاب کی پشت پناہ ہے انقلاب کو کفر کی طاقتیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں<۔ )صفحہ۱(
اخبار >سیاست< کے ایڈیٹر جناب سید حبیب صاحب کی طرف سے اس تار کے جواب میں حسب ذیل چھٹی موصول ہوئی:۔
>جناب من! میں دلی شکریہ کے ساتھ آپ کے مکتوب نمبر ۴۵۹/۲۶ C محررہ ۲۷ مئی ۱۹۳۰ء اور تارجس کا آپ نے اس مکتوب میں حوالہ دیا ہے رسید پیش کرتا ہوں اور آپ کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ اس موقعہ پر آپ نے جس برادرانہ ہمدردی اور سچی اسلامی سپرٹ کا اظہار کیا ہے اس نے مجھ پر اور میرے متعلقین پر ایک دیرپا اثر قائم کیا ہے میں آپ کی معرفت آپ کی جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور انہیں اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ میں اس پیشکش کے لئے بے حد ممنون ہوں اب خطرہ گذر گیا ہے اور کانگریس نے میرے دفتر پر پکٹنگ کرنے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ تاہم اگر کبھی ضرورت پیش آئی تو میں آپ کی مخلصانہ پیشکش سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہ کروں گا آپ کا حبیب<۔ ۳۹
سیاسیات میں دخل دینے کی وجہ
جماعت احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے جس کا اصل مقصد اور مدعا تبلیغ اسلام ہے اس لئے اس کا براہ راست سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں لیکن جب ملک میں کوئی وبا آتی ہے تو وہ سب کو لپیٹ لیتی ہے جب آگ لگتی ہے تو دوست دشمن کے گھر کی کوئی تمیز روا نہیں رکھتی۔
اسی طرح وہ سیاسی تغیرات جو اس زمانہ میں پیدا ہو رہے تھے اور وہ ہیجان جو عوامی ذہن میں پایا جاتا تھا جماعت احمدیہ پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور اگر جماعت احمدیہ خود متاثر نہ بھی ہوتی تب بھی دوسرے لوگ انہیں خاموش نہیں بیٹھنے دیتے تھے سیاسی حلقے پہلے یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ جماعت ملکی معاملات میں دلچسپی نہیں لیتی لیکن جب حضرت خلیفتہ المسیح کی قیادت میں جماعت نے صحیح طریق عمل کا اظہار کیا تو یہ کہا جانے لگا کہ تم کانگریس کی تحریک کے خلاف کیوں رائے رکھتے ہو۔ حضور نے ۳۰ مئی ۱۹۳۰ء کو جماعت احمدیہ کی یہ نازک پوزیشن ملک کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا:۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم سیاسیات میں کیوں دخل دیتے ہیں ان کے لئے میرے تین جواب ہیں اول یہ کہ ہم اپنا کام کررہے تھے تم نے ستایا دق کیا اور بار بار اعتراض کئے کہ تم کیوں خاموش ہو اس لئے ہم مجبور ہوگئے کہ اپنی صحیح رائے کا اظہار کر دیں دوسرے یہ کہ ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کے ہر حصہ اور بیرونی ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور ان میں سے کئی ایک ایسے دوست ہیں جنھیں سالہا سال قادیان آنے کا اتفاق نہیں ہوتا اس لئے ضروری ہے کہ ان کی رہنمائی کے لئے ہم اپنے نیز بیرونی پریس کے ذریعہ بھی ملکی امور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں اور انہیں مناسب ہدایات دیں تیسرے یہ کہ ہم مبلغ ہیں اور ہمارا پیشہ یہی ہے کہ جو بات حق سمجھیں اسے دنیا میں پھیلائیں جس طرح کوئی شخص کسی ڈاکٹر کو نہیں کہہ سکتا کہ تم لوگوں کا علاج کیوں کرتے ہو کیونکہ اس کا کام ہی یہ ہے اسی طرح کوئی شخص حق کے اظہار کی وجہ سے ہم پر بھی اعتراض نہیں کرسکتا کیونکہ یہ ہمارا پیشہ ہے اس لئے جسے ہم مفید سمجھیں فرض منصبی کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچادیں۔
اگر ہماری باتیں غلط ہیں تو پھر ہمارے مخالفین کے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں کیوں کہ ان باتوں کو سن کر لوگ خود ہی رد کردیں گے لیکن اس حق سے ہمیں محروم نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح وہ اپنے خیالات کی اشاعت کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی کریں آزادی وطن حاصل کرنے والے آزادی کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا یہ امر آزادی کے منافی نہیں ہوگا۔ کہ وہ ہم سے محض اس وجہ سے جھگڑیں کہ ہماری رائے ان کے خلاف ہے انہیں تو چاہئے کہ اعلان عام کردیں کہ جو شخص ان کے خیالات کے خلاف رائے رکھتا ہو وہ آئے اور اسے پیش کرکے اس کی معقولیت ثابت کرے ۔۔۔۔۔ ہم ایسے جلسوں کا انتظام کرتے ہیں اور مخالف رائے رکھنے والے اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں ہم نے تو کئی بار اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ ہماری رائے کو غلط سمجھتے ہیں وہ آئیں اور ہمارے سٹیج پر کھڑے ہوکر تقریریں کریں یہ نہیں کہ ہر ایرے غیرے کے لئے بلکہ اگر معقول اور بارسوخ لیڈر آئیں تو ہم ان کی تقریر کے لئے جماعت کو اکٹھا بھی کرسکتے ہیں اور میں خود بھی ان کے خیالات سنوں گا اور اگر انکی بات معقول ہوگی تو ہمیں اس کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ اور اگر وہ ہمارے خیالات کو معقول سمجھیں تو ان کا بھی فرض ہے کہ آزادی کے ساتھ ہماری اتباع کرنے لگ جائیں۔ ۴۰ مگر افسوس کانگریس کے ذمہ دار لیڈروں کو اس معقول تجویز کے قبول کرنے کی توفیق نہ مل سکی۔
‏tav.5.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سترھواں سال
فصل سوم
حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی نسبت اخبار >ٹریبیون< کی ایک مفتریانہ خبر اور اس کا ردعمل
جون ۱۹۳۰ء کا پہلا ہفتہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک درد انگیز امتحان اوراابتلاء کا ہفتہ تھا احمدیوں نے کانگریس کی سیاسی شورش کے خلاف قیام امن کی جو مخلصانہ جدوجہد جاری
رکھی تھی اس پر کانگریسی حلقے نعل در آتش ہو رہے تھے۔ ۴۱ اور انہوں نے مختلف مقامات کے احمدیوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں اس سلسلہ میں سب سے خطرناک حربہ یہ استعمال کیا گیا کہ جماعت احمدیہ سے انتقام لینے اور اس کی توجہ منتشر کرنے کے لئے ہندو اخبار >ٹریبیون< کے کسی نامہ نگار نے امرت سر سے بذریعہ فون حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اچانک وفات کی بے بنیاد خبر بھیجی جو >ٹریبیون< لاہور نے ۳ جون ۱۹۳۰ء کو شائع کر دی اور اس پر ایک شذرہ لکھ دیا۔ ۴۲
اس سراسر جھوٹی اطلاع نے حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے متعلق جماعت احمدیہ کے لئے اس قدر رنج والم اور غم واندوہ پیدا کردیا جس کا اندازہ امکان سے باہر ہے اس خبر کا شائع ہونا تھا کہ بجلی کی طرح یہ آن کی آن میں ملک کے ایک سے دوسرے سرے تک پہنچ گئی اور جس احمدی تک بھی پہنچی اس پر ایک قیامت ڈھاگئی بہت سے احمدی احباب کا بیان ہے کہ ٹریبیون کی خبرکان میں پڑتے ہی دماغ معطل ہوگیا ہاتھ پائوں پھول گئے۔ گویائی کی طاقت سلب ہوگئی اور گھر کے لوگوں کو بتانا مشکل ہوگیا۔ اور جب بتایا گیا تو گھروں میں کہرام مچ گیا مرد عورت بوڑھے جوان جلد سے جلد قادیان جاپہنچنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ ۴۳ چنانچہ جہاں جہاں سے تردید کی اطلاع پہنچنے سے پہلے کوئی گاڑی چلتی تھی وہاں کے احباب فوراً روانہ ہوگئے اور جہاں روانگی میں دیر تھی یا جلدی پہنچنا مشکل تھا وہاں سے واپسی تاروں کا تانتا بندھا گیا۔
شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ نے یہ اطلاع سنی تو جماعت کوئٹہ کی طرف سے تار دینے کے لئے تار گھر گئے اور ساری رات بیٹھے روتے رہے جب دوسرے روز ۴ بجے حضور کی خیریت کا جواب ملا تب گھر گئے۔ ۴۴
ڈاکٹر محمد شفیع صاحب ۴۵ ویٹرنری اسسٹنٹ جڑانوالہ میں تھے ٹریبیون کی خبر پڑھ کر ان کی جو حالت ہوئی اس کی نسبت وہ خود ہی لکھتے ہیں۔ ٹریبیون کی غلط خبر نے مجھے قریب مرگ کردیا۔ اگر اسی روز شام کو ٹریبیون میں تردید کا تار نہ پڑھتا اور برادرم ڈاکٹر محمد احسان صاحب ۴۶ قادیان سے ۱۰ بجے شب کو نہ آجاتے۔ تو میرا زندہ رہنا مشکل تھا کیونکہ جس وقت سے میں نے یہ خبر پڑھی تھی رو رو کر میری حالت دگرگوں ہورہی تھی۔ دل ڈوبتا جاتا اور جسم بے حس ہوتا جاتا تھا۔ ۴۷
ملک )راجہ (علی محمد صاحب افسر مال نے انہیں دنوں مظفر گڑھ سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۴۸ جس سے کسی قدر اندازہ ہوجائے گا کہ ٹریبیون کی خبر سن کر احمدیوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی وہ لکھتے ہیں۔
>کل شام کو عزیزی چوہدری عبداللہ خاں صاحب و ڈاکٹر محمد دین صاحب اخبار ٹریبیون کا پرچہ میری اطلاع کے لئے لائے وہ خود روتے ہوئے میرے پاس پہنچے خبر پڑھ کر دل بے قرار ہوگیا۔ اٹھ کر میں نے اندر اپنی اہلیہ کو خبر دی جو سخت گھبراگئی چند ساعت تو ہم سب بیٹھے زار زار روتے رہے دل میں غم و ملال کے بادل اٹھ کر آتے تھے۔ اور قوت واہمہ قادیان لے جاتی تھی۔ اور تصور قادیان کی حالت و غم و مصیبت کی ایسی تصویر کھنچتا تھا جس کی وجہ سے آنکھیں پھٹ جاتی تھیں۔ اور کلیجہ منہ کو آتا تھا تمام رات میں نہیں سویا۔ اور روتے ہوئے گذری میری اہلیہ کی حالت نہایت مضطربانہ تھی اور ¶کبھی کبھی جب اس کے منہ سے یہ صداغم والم کے گہرے جذبات سے آلودہ نکلتی کہ حضرت صاحب نے ہزاروں نکاح کے خطبے پڑھے ہونگے لیکن کیا اب ان کی لڑکی کا خطبہ کوئی اور پڑھے گا۔ تو دل غم کے تلاطم خیز سمندر میں تیرتا دکھائی دیتاتھا۔ اور جب قوت واہمہ میری توجہ کو جماعت کی موجودہ اور اندرونی بیرونی شورش کی طرف کھینچتی تھے تو پھر دل سے یہی صدا نکلتی تھی کہ یہ زلزلہ جو ہماری جماعت پر آیا ہے بے نظیر ہوگا۔ اور اس کی مثال کسی گذشتہ جماعت کے حالات میں نہیں ملیگی دل غم سے پر ہوکر آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ کبھی کبھی دل میں یہ خیال گذرتا تھا کہ شاید یہ خبر جھوٹ ہولیکن اس پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اتنی بڑی شخصیت کے متعلق >ٹریبیون< اخبار میں جھوٹی خبر نکلنے کا کم امکان ہوسکتا ہے تاہم اس خیال کے تابع میں نے اپنے رب کے حضور میں درخواست کی کہ اے میرے مولیٰ اگر یہ خبر غلط ہوتو میں ایک رات سالم عبادت کروں گا۔ اور بالکل نہیں سوئوں گا چنانچہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی کرنے کا ارادہ ہے۔
غرضیکہ گزشتہ رات ہمارے لئے قیامت کا نمونہ تھی میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک ایسی غم والی رات نہیں پائی< ۴۹
ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب افریقی ۔ >ٹریبیون< اخبار پڑھتے ہی ماہی بے آب کی طرح تلملا اٹھے اس صدمہ سے دل کو ضعف ہوگیا تار دینے ہی کو تھے کہ جماعت احمدیہ گجرات کے امیر سے خوشخبری ملی کہ حضور بخریت ہیں۔ بارگاہ ایزدی میں شکر کیا لیکن اس دن کے ضعف کا اثر تین دن تک رہا۔ ۵۰ خود قادیان میں یہ حالت تھی کہ جس کے کان میں یہ منحوس خبر پڑتی وہ حضرت امیر المومنین کی خیرو عافیت کا پورا پورا علم اور یقین رکھنے کے باوجود حضور کی زیارت کے لئے بے تاب ہوجاتا ۵۱ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ:۔
>میں حسب معمول اپنے دفتر کے برآمدہ میں بیٹھا تھا کہ مکرمی مولوی فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر )قادیان( گھبرائے ہوئے بھاگے چلے آتے ہیں۔ میں محسوس کرتا تھا کہ گھبراہٹ میں ان کا قدم باوجود کوشش کے پوری تیزی سے نہیں اٹھ رہا۔ مجھ سے ابھی وہ فاصلے پر تھے کہ میں نے پوچھا خیر تو ہے انہوں نے کہا حضرت صاحب کی طبعیت کیسی ہے میں نے جواب دیا اچھی ہے مگر میرے کہنے سے ان کی تسلی نہیں ہوئی وہ بھاگے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ لاہور میں کسی بدمعاش نے جھوٹی خبر اڑادی ہے میں اندازہ کرتا تھا کہ ان کے منہ سے موت کا لفظ نہیں نکلتا۔ میں نے کہا کہ کیوں تم نے اسٹیشن پر ہی اس کی تردید نہ کردی۔ انہوں نے کچھ جواب نہ دیا اور بھاگتے چلے گئے میں نے اس نظارہ کو دیکھا اور تعجب کیا کہ یہ قادیان میں موجود تھے اور ان کو علم تھا پھر انہوں نے اس خبر کی تردید کے لئے شہر آنے کی کیوں ضرورت سمجھی مگر معاً میں نے محسوس کیا کہ یہ محبت کا ایک کرشمہ ہے۔ ۵۲
قادیان ہی کا واقعہ ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہل بیت کے پاس سے ایک احمدی خاتون اٹھ کر گئی ہی تھیں کہ ان کے بیٹے نے جو لاہور سے اسی وقت آئے تھے یہ سنایا کہ وہاں ایسی خبر مشہور ہے وہ خاتون یہ سنتے ہی فوراً واپس آئیں جب حضور کی صحت سے متعلق دریافت کرلیا تو انہیں تسلی ہوئی۔ ۵۳
قادیان میں جب بیرونی جماعتوں کے اس طرح پریشانی وافسوس میں مبتلا ہونے کا علم ہوا تو اس کے ازالہ کے لئے جو کچھ کیا جاسکتا تھا اس کے لئے تمام دفاتر مصروف ہوگئے اور جماعتوں کو ہر ممکن ذریعہ تاروں وغیرہ سے حضور کی بخیریت ہونے کی اطلاع جلد سے جلد پہنچانے کے انتظامات کئے گئے اس موقعہ پر الفضل کا ایک غیر معمولی نمبر بھی شائع کیا گیا۔ اسٹیشن ماسٹر صاحب اور سب پوسٹ ماسٹر صاحب قادیان اور ان کے عملے نے بھی پورا پورا تعاون کیا اور ہر طرف اطلاعات بھجوانے کی کوشش کی لیکن ان تمام ذرائع کو بروئے کار لانے کے باوجود کئی مقامات کے احمدی جنھیں بروقت اطلاع نہ پہنچائی جاسکی یا کسی اور جگہ سے بھی علم نہ ہوسکا وہ فوراً قادیان کے لئے روانہ ہوگئے اور ۳ جون کی صبح کی گاڑی سے گوجرانوالہ` نواں شہر ضلع جالندھر` لائلپور` چوہڑکانہ` اوکاڑہ` منٹگمری وغیرہ مقامات سے احمدی قادیان پہنچ گئے۔ ۵۴
جو احباب یہ افواہ سن کر گھروں سے دیوانہ وار چل دیئے تھے ان کا بیان ہے کہ شدت غم والم میں از خود رفتہ ہوجانے کی وجہ سے انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ ان کے ساتھ گاڑی میں کون لوگ بیٹھے ہیں اور وہ کس کس اسٹیشن سے گذر رہے ہیں وفور غم واندوہ کی وجہ سے آنسو بھی نہ نکلتے تھے بس ایک بیہوشی کا سا عالم تھا اور خود فراموشی کا ایک دریا تھا جس میں بہتے چلے جارہے تھے جب راستہ میں کسی نے اس خبر کے غلط ہونے کا ذکر کیا تو بے اختیار خوشی کے آنسو نکل آئے لیکن پھر خوشی اور مسرت کا یہ عالم تھا کہ اس کا برداشت کرنا مشکل ہوگیا جس طرح غم و اندوہ کا کوئی اندزہ نہ تھا اسی طرح اب خوشی کی بھی کوئی حد نہ رہی تھی۔ ۵۵
لیکن باوجودیکہ انہیں رستہ ہی میں حضرت امیرالمومنین کی خیریت کا علم ہوچکا تھا اور وہ اسے صحیح بھی سمجھ گئے تھے تاہم صبر نہیں کرسکتے تھے تاوقتیکہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ میں جو راستہ پر بیٹھتا ہوں ان آنے والوں کو دیکھتا تھا کہ وہ محبت اور اخلاص کے پیکر ہیں انہیں دوران سفر میں اس خبر کا افتراء ہونا معلوم ہوچکاتھا۔ مگر ان کی بے قراری ہر آن بڑھ رہی تھی۔ اور یہ صرف اعجاز محبت تھا یہ دوست اپنی اس بیقراری میں قصر خلافت کی طرف بھاگے جارہے تھے میں نے دیکھا بعض ان میں ایسے بھی تھے جنہوں نے اس سفر میں نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ ان طبعی تقاضوں پر بھی محبت کا غلبہ تھا۔ جب تک قصر خلافت میں جاکر انہوں نے اپنے امام کو دیکھ نہ لیا۔ اور مصافحہ اور معانقہ کی سعادت حاصل نہ کرلی ان کے دل بے قرار کو قرار نہ آیا۔ ۵۶
خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ >باہر سے آنے والوں کی حالت یہ تھی کہ باوجودیکہ اس کی تردید ہوچکی تھی مگر وہ یہی کہتے تھے جب تک ہم خود دیکھ نہ لیں ہمیں چین نہیں آئے گا۔ مجھے اس دن سر درد کا دورہ تھا مگر آنے والے دوستوں سے ملنا پڑتا تھا<۔ ۵۷
حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی حالت آنے والے دوستوں سے ایک الگ رنگ رکھتی تھی آپ کو اس خبر کا کوئی خیال نہ تھا جو تکلیف تھی وہ یہ تھی کہ اس خبر نے جماعت کو تکلیف دی آپ ان کے مالی نقصان ان کے ذہنی اور روحانی تکلیف کو اس طرح محسوس کرتے تھے کہ گویا آپ ہی پر وارد ہو رہی ہے۔ ۵۸
>ٹریبیون< کی خبر نے پوری جماعت کو مجسم گریہ وزاری بنادیا مگر اس سے کئی سبق بھی حاصل ہوئے مثلاً
اول یہ ثابت ہوگیا کہ دشمنان احمدیت جماعت احمدیہ کے خلاف ایسے جھوٹ سے بھی پرہیز نہیں کرتے جس کا بہت جلد ظاہر ہوجانا یقینی ہوتا ہے۔
دوم جماعت احمدیہ کے ہر فرد نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے محبت و عقیدت کا ایسا بے نظیر اور عدیم المثال نمونہ پیش کیا جس کی مثال عظیم الشان نبیوں کی جماعتوں کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتی۔
سوم مخالفوں کے اس پراپیگنڈا کی قلعی کھل گئی کہ معاذاللہ جماعت احمدیہ کو مباہلہ والوں کے بہتانات کی وجہ سے اپنے امام سے اخلاص نہیں رہا۔
چہارم۔ دوسرے لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی جو عزت و عظمت تھی اس کا بھی اظہار ہوا۔ چنانچہ غیر از جماعت مسلمانوں کا معتدبہ حصہ جماعت احمدیہ کے ساتھ غم میں ایسا شریک ہوا کہ گویا خود ان کے گھروں میں کوئی مصیبت آگئی ہے ایک مسلمان پرنسپل کھانا نہ کھا سکے بعض غیر احمدی عورتیں اور بچے بھی یہ خبر سن کر رونے لگے۔ ۵۹ شملہ میں جب یہ منحوس اطلاع پہنچی تو غیر احمدیوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے قدم قدم پر ہمدردی کا اظہار کیا۔ سید محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ آف لاہور نے کہا کہ مسلمانوں کو اس وقت راہ راست پر چلانے والا ایک ہی شخص تھا وہ بھی چلا گیا تو باقی کیا رہا۔ سر عبدلقادر صاحب کو اس خبر سے گہرا صدمہ پہنچا اور خیریت کی خبر ملنے پر بے انتہاء خوشی ہوئی ۶۰body] ga[t جسوکی ضلع گجرات کے شیعہ اصحاب نے مولوی حکیم سید فضل حسین صاحب شیعہ مبلغ آف کوٹلہ سیداں احمد آباد ضلع جہلم کی صدارت میں >ٹریبیون< کے ناپاک پراپیگنڈا کی مذمت کاریزولیوشن پاس کیا۔ ۶۱
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے انگریزی اخبار لائٹ (Light) نے اپنے یکم جون ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں سیاہ حاشیہ کے ساتھ مرزا بشیرالدین محمود احمد مرحوم< کے نام سے ایک نوٹ شائع کیا جس کا ترجمہ یہ تھا کہ> ہم گہرے رنج اور افسوس کے ساتھ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلسلہ احمدیہ کے قادیانی حصہ کے امام کی وفات کی خبر درج کرتے ہیںجو حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں آپ سے بعض عقائد میں اختلافات تھے لیکن اس سے ہم اس مشہور و معروف ہستی کی ان خوبیوں سے جو قدرت نے انہیں فیاضی سے عطا کی تھیں آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ اپنے عقائد کے لئے آپ کا جوش اور سرگرمی بحیثیت لیڈر آپ کی پختہ کاری اور ہنر مندی ماہر تنظیم اور سب سے بڑ کر آپ کی ذاتی مقناطیسی کشش جس کی وجہ سے آپ کے متبعین کو آپ سے حیرت انگیز عقیدت تھی ایسی صفات ہیں جنہیں وہ لوگ بھی جنہوں نے کبھی آپ کو دیکھا بھی نہیں تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے اس حقیقت سے یہ حادثہ اور بھی غمناک ہوجاتا ہے کہ آپ ابھی نوجوان یعنی صرف چالیس سال کی عمر کے تھے ہم آپ کی جماعت نیز آپ کے غمزدہ خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔۶۲
پنجم ایک اور سبق اس خبر سے جماعت کو یہ حاصل ہوا کہ اسے اپنے خبر رسانی کے انتظام کو مضبوط کرنے کا خیال پیدا ہوا چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توجہ دلائی کہ:۔
دفاتر ایسا انتظام کریں کہ جماعتیں مختلف حلقوں میں تقسیم ہوجائیں اور ارد گرد کی جماعتیں ضرورت کے موقع پر وہاں سے اطلاع حاصل کریں۔ مثلاً لاہور` دہلی` راولپنڈی` پشاور` جالندھر ` ملتان وغیرہ مقامات پر یہاں سے اطلاع دیدی جائے اور ہر جماعت اپنے قریبی مرکز سے معلوم کرلے اگر ہمارا خبررسانی کا انتظام ایسا ہوتا تو تین جون کو ہی ہر جگہ اطلاع مل جاتی لیکن اب تو یہ ہوا کہ بعض لوگوں کو واپسی تار دیئے۔ ۴۸۔ ۴۸ گھنٹے ہوگئے لیکن کوئی جواب نہ ملا کیونکہ تار والے آہستہ آہستہ اور باری باری کام کر رہے تھے ادھر دوستوں کو اس قدر پریشانی تھی کہ کئی ایک کے دل گھٹنے شروع ہوگئے اور بعض کو تو باوجودیکہ اطمینان ہوچکا تھا کہ یہ خبر غلط ہے مگر انہیں دھڑکے کی بیماری ہوگئی اگر ایسا انتظام ہوتا کہ انہیں وقت پر اطلاع مل سکتی تو ان کی صحت پرایسا ناگوار اثر نہ پڑتا پس دفاتر کو چاہئے ایسا انتظام کریں کہ تمام جماعتوں کو فوراً اطلاع پہنچائی جاسکے<۔ ۶۳
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر جماعت کو یہ اہم وصیت فرمائی کہ:۔
>جہاں خداتعالیٰ نے اس جماعت کو اخلاص کے اظہار کا موقعہ دیا وہاں یہ بھی بتادیا کہ انسان آخر انسان ہی ہے خواہ وہ کوئی ہو اور ایک نہ ایک دن اسے اپنے مخلصین سے جدا ہونا پڑتا ہے اس بات کا احساس بھی خدا تعالٰے نے جماعت کو کرادیا اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ خلیفہ سے جماعت کو جو تعلق ہے وہ جماعت ہی کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہے اور جو بھی خلیفہ ہو اس سے تعلق ضروری ہے یادرکھو اسلام اور احمدیت کی امانت کی حفاظت سب سے مقدم ہے اور جماعت کو تیار رہنا چاہئے کہ جب بھی خلفاء کی وفات ہوجماعت اس شخص پر جو سب سے بہترین خدمت دین کر سکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے الہام پانے کے بعد متفق ہوجائے گی انتخاب خلافت سے بڑی آزمائش مسلمانوں کے لئے اور کوئی نہیں یہ ایسی ہے جیسے باریک دھار پر چلنا ذرا سا قدم لڑکھڑانے سے انسان دوزخ میں جاگرتا ہے غرض انتخاب خلافت سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہے جماعت کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری پہچاننی چاہئے<۔ ۶۴
کانگریسی لیڈر مسز نائیڈو کی رہائی کے لئے اپیل
ہندوستان کی مشہور کانگریسی لیڈر مسز نائیڈو سول نافرمانی کے جرم میں نو ماہ کے لئے جیل میں ڈال دی گئی تھیں جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۵ جون ۱۹۳۰ء کو وائسرائے ہند )لارڈ ارون( کے نام ایک مفصل خط لکھا جس میں مسز نائیڈو کی رہائی کے لئے پرزور اپیل کرتے ہوئے تحریر کیا کہ:۔
>قانون شکنی کے ارادہ کو تو میں کسی صورت میں بھی جائز نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن میرے خیال میں سیاسی جدوجہد کی بناء پر عورت کے لئے جیل خانہ کا مقام تجویز کرنا بھی ایک ایسا طریق ہے جو صرف انتہائی صورت میں اختیار کیا جانا چاہئے اور خصوصاً مسز نائیڈو جیسی عورت کے لئے جو ملک کے نہایت ممتاز اور روشن ضمیر لیڈروں میں سے ہونے کے علاوہ ایک مشہور شاعرہ بھی ہیں پس میں ۔۔۔۔۔۔ اپیل کرتا ہوں کہ آپ مسز نائیڈو کی آزادی کا اعلان کرکے اس امر کا ایک مزید ثبوت دیں کہ برطانیہ عورت کی عزت کرتا ہے ۔۔۔۔۔ میں اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ عورتوں کے ذریعہ سے قانون شکنی کی مہم سر کرانے کی خواہش ایک بزدلانہ خواہش ہے اور اگر ایسے موقع پر گورنمنٹ کو قانون کے احترام کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے تو اس کی آئینی ذمہ داریگورنمنٹ پر عائد نہیں ہوسکتی لیکن باوجود اس کے میرے نزدیک عورت کا شرف ایک ایسا امر ہے کہ اگر کانگریس والے اس کا خیال نہ بھی رکھیں تو بھی گورنمنٹ کو حتی الوسع اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ ۶۵
حضور نے وائسرائے ہند سے رہائی کی اپیل کرنے کے علاوہ کانگریس کے ارباب حل و عقد سے بھی خط و کتابت کی اور زور دیا کہ انہیں ملکی آزادی کی جدوجہد کے اس حصے میں عورتوں کی شرکت کو بالکل روک دینا چاہئے جس کا لازمی نتیجہ جیل خانہ ہے کیونکہ اس طرح خود کانگریس پر بھی بزدلی کا اعتراض آتا ہے۔ ۶۶
نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر تبصرہ
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے قلم سے نہرو رپورٹ پر تبصرہ شائع ہونے کے بعد نہرو کمیٹی نے اس کا ایک تتمہ شائع کیا جس میںاپنی پہلی پیش کردہ تجاویز میں بعض اصلاحیں کیں حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کے ان حصوں پر جو مسلم قوم سے تعلق رکھتے تھے ایک مختصر مگر جامع تبصرہ کیا۔ جو الفضل ۱۱ مئی ۱۹۳۰ء )صفحہ۳۔۴( میں شائع ہوا۔
اس تبصرہ میں حضور نے تعلیم ` اجارہ زمیں ` حکومت کی زبان ` صوبجاتی حکومتوں پر مرکزی حکومت کی بالادستی` صوبائی گورنروں کے تقرر` نئے صوبوں کی تجویز` قانون سازی` فرقہ وارانہ انتخاب وغیرہ امور کی نسبت نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر زبردست تنقید فرمائی اور حکومت برطانیہ کو صاف اور واضح لفظوں میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
>ان کی قوم بے شک اس وقت ہندوستان کی حاکم ہے لیکن وہ اس کی مالک نہیں ہے وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ہندوئوں کا غلام بنادینے کا کوئی حق نہیں رکھتے وہ قوم جو غلامی کو مٹانے کے لئے اس قدر دعویدار ہے وہ آئندہ نسلوں کی نظر سے ہمیشہ کے لئے گرجائے گی۔ اگر وہ اس آزادی کے زمانے میں آٹھ کروڑ مسلمانوں کو قلم کی ایک جنبش سے ایک ایسی قوم کا غلام بنانے کا فیصلہ کردے گی جس نے اپنے غلاموں کے ساتھ دنیا کی تمام اقوام سے بدتر سلوک کیا ہے ہر ایک قوم کے غلام تھوڑے یا زیادہ عرصہ میں آزاد ہوگئے ہیں لیکن ہندوئوں کے غلام ہزاروں سال کے گزرنے کے بعد آج بھی اچھوت اقوام کے نام سے ہندوئوں کے ظالمانہ دستور غلامی پر شہادت دے رہے ہیں انگلستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت وہ ہندوستان کو آزادی دینے پر آمادہ ہوگا اسی وقت سے مسلمان آزاد ہوں گے اور ان کا یہ حق ہوگا کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ یا تو ان کے حقوق کی نگرانی کی جائے یا وہ اپنی آزاد ہستی کے برقرار رکھنے کے لئے مجبور ہوں گے کہ ہر ایک ایسے نئے نظام سے وابستہ ہونے سے انکار کردیں۔ جو ان کی آزادی کو کچل دینے والا ہو اور اپنے لئے خود کوئی ایسا نظام قائم کریں۔ جس کے ماتحت وہ اپنی آزادی اور حریت قائم رکھ سکیں۔ ۶۷
آزادی ہند کے بعد مسلمانوں کے مستقل اور آزاد نظام کے قیام کا یہی وہ عظیم الشان تخیل تھا جس پر چند ہفتے بعد آل پارٹیز کانفرنس نے اپنے سیاسی مطالبہ کی بنیاد رکھی۔ ۶۸ اور جسے ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اسی سال دسمبر ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 4] [stf۶۹ منعقدہ )الہ آباد( میں ذرا وضاحت سے پیش فرمایا اور اس کے مطابق ۱۹۴۰ء میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی۔
فصل چہارم
سفر شملہ اور آل مسلم پارٹیز کانفرس میں شرکت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز وسط ۱۹۳۰ء میں شملہ تشریف لے گئے اس سفر کو )جو ۲ جولائی ۱۹۳۰ء کو شروع ہوکر ۳ اگست ۱۹۳۰ء کو ختم ہوا(۷۰ مسلمانان ہند کی سیاسی جدوجہد میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ دراصل شملہ میں مقیم مسلم زعماء نے اس کے لئے خاص طور پر تحریک کی تھی چنانچہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے ۲۵ جون ۱۹۳۰ء کو مندرجہ ذیل مکتوب حضور کی خدمت میں لکھا تھا:۔
>سیدنا و امامنا۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ` والانامہ شرف صدور لایا۔ سائمن کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ حضور نے ملاحظہ فرمالیا ہوگا۔ اکثر پہلوئوں سے مایوس کن ہے۔ سردار حیات خاں ب|۷۰ اور دیگر احباب شملہ کی خواہش تھی کہ حضور ۴۔۵ )جولائی ۱۹۳۰ء ناقل( کی کانفرنس میں ضرور شملہ شمولیت فرمائیں تا اس موقع پر مسلمانوں کی صحیح نمائندگی ہوسکے۔
آل مسلم پارٹیز کانفرنس نے کن امور پر غور کیا اور حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر کس طرح سیاسی راہنمائی فرمائی؟ اس پر لاہور کے ہفت روزہ اخبار >خاور< )۲۱ جولائی ۱۹۳۰ء( کا مندرجہ ذیل اداریہ کافی روشنی ڈالتا ہے۔
>ماہ حال کے اوائل میں آل انڈیا مسلم کانفرنس شملہ میں منعقد ہوئی۔ پنجاب۔ بمبئی۔ مدراس۔ بنگال۔ یو۔پی ۔ سی پی اور دہلی سے نمائندگان آئے ہوئے تھے۔ مولانا شوکت علی صاحب صدر جلسہ تھے تین دن تک ان حضرات نے سائمن رپورٹ` نہرو رپورٹ اور رائونڈ ٹیبل کانفرنس پر بحث و تمحیص کی۔ آخر جس قدر قرار دادیں پاس ہوئیں وہ تقریباً وہی تھیں جو جنوری ۱۹۲۹ء کو دہلی میں پاس ہوئی تھیں۔ مجملاً ان قرار دادوں کی کیفیت یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں نے فیڈرل نظام حکومت کی حمایت کرتے ہوئے مرکزی قانون ساز جماعت میں ساڑھے تینتیس فیصد نشستوں کا مطالبہ کیا۔ گورنروں کے وسیع اختیارات کی مذمت کی بنگال اور پنجاب میں اپنی اکثریت کا مطالبہ کیا۔ سندھ کی علیحدگی `سرحد اور بلوچستان کو صوبجاتی آزادی اور سائمن کمیشن نے محکمہ فوج کے لئے جو سفارشات کی تھیں ان کی مخالفت کی۔ ہماری رائے میں جن سیاسی حالات میں سے ہم گذر رہے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اسی قسم کے مطالبات یا سیاسی خیالات کا اظہار کرتے ۔ مگر برٹش پارلیمنٹ بلاشبہ آج کانگریس کے سوا دوسری کسی جماعت کو تسلیم نہیں کرتی اس لئے مسلمان اگر یہ چاہتے ہیں کہ برٹش مدبرین کے سامنے ان کی وہی پوزیشن ہو جو آج کانگریسی رہنمائوں کو حاصل ہے تو وہ انہی حکمت عملیوں پر کاربند ہوں جن پر کانگریس راہنما عمل پیرا ہیں یعنی پراپیگنڈا کے لئے پریس کا زور قلم اور پلیٹ فارم کی آواز خریدنے کا انتظام کرنا چاہئے۔
شملہ کے مقام پر جس قدر مسلم نمائندگان جمع تھے ان میں بعض صوبوں کے وزراء اکثر خطاب یافتگان` تعلقہ داران` رئوسا` صاحب جاہ اور حکومت نواز حضرات ہی شامل تھے چنانچہ لانگ وڈ ہوٹل اور ڈیویکو ہال روم سے نکلتے ہوئے سنا گیا کہ اس مسلم کانفرنس کو بیرونی دنیا میں آل انڈیا ٹوڈیز کانفرنس کہا جاتا ہے۔ بایں ہمہ یہ کہنا بالکل حق بجانب ہوگا کہ اس کانفرنس میں جتنے حضرات نے حصہ لیا تھا۔ وہ ہندوستان کے ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے پوری پوری اسلامی حکومت قائم کرانے پر تلے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان کا یہ جذبہ اتنا مضبوط اور الم نشرح تھا کہ ایک دن وہ ضرور ہندو ابنائے وطن اور اپنے اجنبی حکمرانوں کو اس بات پر مجبور کرنے کے لئے بھی آمادہ ہوجائیں گے کہ انہیں بنگال پنجاب` شمال مغربی سرحدی صوبہ` سندھ اور بلوچستان کی حکومت دیدی جائے گو ابھی تک وہ برادرانہ محبت اور صلح جویانہ حکمت عمل پر کاربند ہیں۔ مگر ایک دن ضرور ایسا آنے والا ہے کہ مسلم سیاستدان ہر قسم کے ذرائع کو استعمال کرنے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے اگر کسی بات نے ہمارے دل پرشملہ کانفرنس کے متعلق اثر کیا۔ تو وہ یہی چیز تھی آج جس طرح سے کانگریسی سیاستدان حکومت خوداختیاری کے لئے تن من اور دھن سے لگے ہوئے ہیں اسی طرح یقیناً مسلم خطاب یافتگان` تعلقہ داران رئوسا` حکومتی عہدیداران اور حکومت نواز بھی اپنے سیاسی حقوق کی بازگشت کے لئے کمر بستہ ہوجائیں گے۔
حضرت میرزا بشیر الدین محمود صاحب ایک روحانی پیشوا سمجھے جاتے ہیں۔ مگر راقم الحروف نے شملہ کانفرنس کے موقعہ پر آپ کو سیاسیات حاضرہ سے پورا واقف راستباز اور صاف گو بزرگ پایا۔ بالخصوص جس وقت دوسرے دن کی نشست میں گول میز کانفرنس کی شرکت کا سوال پیش ہوا۔ تو راجہ غضنفر علی خان صاحب اور دو ایک دوسرے حضرات نے اس سوال کو قبل از وقت بیان کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ اس سے ہندوستان کو وہ قومیں جو اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کے اس اشتیاق تعاون کو حقارت سے دیکھیں گی۔ اور اسلامی وقار کو دھبہ لگے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ چند دن صبر سے کام لیا جائے۔ ملک فیروز خاں صاحب نون اور کئی ایک دوسرے حضرات نے اس دلیل کو توڑنے اور ریزولیشن کے حق بجانب یا برمحل ہونے پر زور دیا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کی دلائل معترضین کو مطمئن نہ کرسکیں اور اس کی وجہ غالباً یہی تھی کہ وہ سب حضرات اس ریزولیوشن کی برجستگی اور اس کے اعماق تفلسف کو ظاہر کرنے سے گریز کرتے تھے اور الفاظ کے پیچ وتاب میں مطالب کو پنہاں رکھنے کی کوشش کرتے تھے مگر حضرت مرزا محمود صاحب نے ریزولیوشن کے حق میں چند منٹ کے لئے جو تقریر کی وہ ممدوح کی انتہائی راستبازی اور راستگوئی کی دلیل تھی چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اس وقت مسلمان سائمن رپورٹ اور نہرو رپورٹ سے اس قدر دل برداشتہ اور کبیدہ خاطر ہوچکے ہیں کہ وہ گول میز کانفرنس کے نتائج کا انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اس لئے بہت ممکن ہے کہ کوئی عنصر جمہور اسلام کے جذبات کو فوراً سول نافرمانی کی طرف دھکیل دے اس لئے مسلم اکابر کافرض ہے کہ وہ قوم کو گول میز کانفرنس کی شرکت کے مرحلہ تک صبر کی تلقین کریں تاکہ وہ سول نافرمانی کے میدان میں نہ کود پڑیں<۔
فی الحقیقت یہ ایک راز تھا جسے دوسرے بزرگ الفاظ کی چادر میں لپیٹ رہے تھے مگر مرزا صاحب نے اس راز کا نقاب الٹ کر عریاں کردیا۔ راقم الحروف کو اس سے قبل مرزا صاحب کے خیالات کو صفحہ قرطاس پر تو دیکھنے کا ضرور موقعہ ملا تھا۔ مگر بالمواجہ گفتگو سننے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ میرے دل پر اس کیفیت نے بہت اثر کیااور میں نے اسی وقت مہر صاحب اور قیصر صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ بہر کیف اس کانفرنس کی قراردادیں جن جذبات کے ماتحت پاس ہوئیں اور جذبات ہر طرح قابل احترام تھے<۔ ۷۱
کانفرنس کے صدر مولوی شوکت علی خان صاحب نے اپنے تاثرات انقلاب ۱۶ جولائی ۱۹۳۰ء میں شائع کرائے تھے۔ جن کا ایک ضروری اقتباس درج ذیل ہے:۔
>حاضرین جلسہ میں اسمبلی اور کونسلوں کے بہت سے ارکان تھے۔ علاوہ ملک فیروز خاں نون کے نوابزادہ محمد یوسف صاحب صوبہ متحدہ کے وزیر بھی موجود تھے مولوی محمد یعقوب ڈپٹی پریذیڈنٹ بھی شریک تھے۔ سوراج پارٹی ` نئی انڈی پنڈنٹ پارٹی اور نئی بے نام پارٹی کے ارکان بھی موجود تھے۔ کونسل اور اسمبلی کے اکثر سابق ارکان بھی تھے آئندہ کونسلوں اور اسمبلی کے بہت سے امیدوار بھی تھے زمینداروں اور امیروں کا طبقہ خاص طور پر موجود تھا۔ جس قدر تجربہ کار اصحاب موجود تھے۔ ان کا متفقہ فیصلہ یہ تھا کہ مباحثہ کا معیار بہت اونچا تھا۔ اور تائید ہو یا ترمیم یا مخالفت تمام مقررین نے وقت کی اہمیت کا اندازہ کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جلسے بہت پرلطف رہے اور آپس میں بہت لوگوں کی نئی دوستیاں قائم ہوگئی ہیں۔
خدا کے فضل وکرم سے اتنی نئی بات ۷۲ اور نمایاں طور پر دکھائی دی کہ حاضرین میں سے ہرشخص کے دل میں یہ تمنا تھی کہ وہ خود اور باقی تمام مسلمان بھی باتوں کو چھوڑ کر موجودہ سستی کاہلی اور بے ہمتی کو چھوڑ کر جلد تر اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔ اور تمام قوم کو بیدار کرکے چند ماہ کے اندر اس قدر کام کر دکھائیں کہ جو کمی مقابلتاً ہم میں پیدا ہوئی تھی وہ دور ہوجائے۔ اور مسلمان اپنی شایان شان حیثیت سے ملک کی حکومت میں حصہ لیں۔ میں سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو بشارت دیتا ہوں کہ ہماری قومی زندگی نے اپنا رنگ بدلا ہے اور آنے والے دو تین مہینوں میں ہندوستان دیکھ لے گا کہ کس سرعت کے ساتھ وہ اپنی تنظیم کرتے ہیں۔ اور اپنے گھر کو سنبھالتے ہیں۔ جنگ اور ہنگامہ آرائی کے لئے ان کو کھڑا کرنا بہت آسان کام ہے۔ مہاتماگاندھی نے جو کام دس برس میں کیا مسلمان اس سے دگنا کام دس مہینے میں کردیں گے مگر ٹھنڈے تعمیری کاموں میں ذرا دل کم لگتا ہے اس لئے بہت دنوں کی سستی اور کاہلی کے بعد اس نے کروٹ بدلی ہے اب مسلمان آمادہ عمل ہیں۔ ایک منٹ کے اندر ایک چھوٹی سی کمیٹی بنائی گئی کہ وہ تخمینہ کرے معمولی مصارف کے لئے کس قدر روپے کی فوری ضرورت ہے مشکل سے پانچ منٹ صرف کئے گئے ہوں گے کہ مصارف کا اندازہ کرکے پچاس ہزار کی رقم مقرر کردی گئی۔
میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب امام جماعت احمدیہ کا خاص طور پر تذکرہ کروں کہ علاوہ مفید مشوروں اور امداد کے اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے دوہزار روپے کا وعدہ فرمایا۔ اور سات سو روپے اسی وقت مولانا شفیع دائودی سیکرٹری آل انڈیا مسلم کانفرنس کے خالی خزانے میں داخل کئے۔< ۷۳
قادیان میں درس وتدریس سے متعلق ایک اعلان
چونکہ قادیان سلسلہ احمدیہ کا مرکز ہے اس لئے وعظ و تدریس سے متعلق یہاں بہت کچھ اختیاط کی ضرورت تھی۔ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں یہ اعلان کرایا تھا کہ مساجد وغیرہ میں عام مرکزی مقامات پر کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر وعظ نہ کرے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک سے یہ طریق چلا آتا تھا کہ قادیان میں کوئی عام درس بغیر اجازت نہیں ہوتا تھا۔
اسی طریق کے مطابق حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۴ جولائی ۱۹۳۰ء کو اعلان فرمایا کہ کوئی شخص اجتماعی جگہوں جیسے مساجد` مدارس` دفاتر` اور مہمانخانہ وغیرہ میں پبلک درس نہ دے۔ کیونکہ ایسی جگہوں پر جو درس دیا جائے یا وعظ کیا جائے سلسلہ پر اسکی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ایسی ذمہ داری اجازت کی شرط لگانے کے بغیر نہیں اٹھائی جاسکتی۔ ۷۴
مسلمان ریاستوں کی اصلاح و ترقی کا خیال
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ابتدا ہی سے مسلمان ریاستوں کی ترقی و بہبود کا خیال رہا ہے چنانچہ اس سال ریاست رامپور نے حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ناظراعلیٰ کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت خلیفہ المیسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی ضرورت کے باوجود انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ ۷۵ اور ۱۰ اگست ۱۹۳۰ء کو ان کی الوداعی دعوت میں فرمایا:۔
>مسلمان ریاستوں کی ہستی یادگار ہے اس اسلامی شان و شوکت کی جو ہندوستان میں قائم تھی اور یاد گار ہے اس زمانہ کی جب مسلمانوں کو خدانے ہندوستان کی حکومت دی تھی اسی طرح ہر ہندو ریاست یادگار ہے مسلمانوں کی غلط پالیسی اختیار کرنے کی ہر مسلمان ریاست کی ہستی یاد دلاتی ہے کہ تمہیں خدا نے اس ملک کی حکومت دی تھی اور یہ بھی قابل قدر چیز ہے مگر افسوس کہ یہ آثار بھی مٹ رہے ہیں۔ گو اسلامی ریاستیں اسلامی شان وشوکت کی قائم مقام نہیں مگر اسلامی حکومت کی یاد گار ضرور ہیں اور مسلمانوں کو بتاتی ہیں کہ یہ ملک تمہارا اور تمہاے باپ دادوں کا تھا اور اس کے جو نشان ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ ہمارے اندر زندگی اور تازگی پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں پس میں جہاں تک سمجھتا ہوں اسلامی ریاستوں کے مٹنے سے وہ تعلقات جو مسلمانوں کو زمانہ ماضی سے ہیں کمزور ہوجائیں گے اس لئے مجھے ہمیشہ اسلامی ریاستوں کی اصلاح اور ترقی کا خیال رہتا ہے اور اگر کسی ریاست میں کسی احمدی کے جانے کا موقع ہو تو خیال آتا ہے شاید اسی کے ذریعہ اس ریاست کی حفاظت کا کوئی سامان پیدا ہوجائے۔ یا شاید یہی اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔ اسی وجہ سے باوجود اس کے کہ میں ریاست کی ملازمت کو زیادہ اچھا نہیں سمجھتا۔ خیال آتا ہے کہ احمدی وہاں جائیں اور کام کریں شاید خداتعالیٰ ان کے ذریعہ ان ریاستوں کی اصلاح کردے۔ اور والیان ریاست جن کے دل اس درد سے خالی ہیں جو قومی درد ہوتا ہے وہ بھی درد محسوس کرنے لگیں۔ اور شاید انہیں خیال آئے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس کی پوری طرح حفاظت کریں اس لئے نہیں کہ اپنے نفسوں پر خرچ کریں یا اپنے بال بچوں پر خرچ کریں۔ بلکہ اس لئے کہ اسلام کے لئے مفید ثابت ہو مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کے کام آئے ان کی بہتری اور بھلائی کا ذریعہ بنے اس لئے میں نے خان صاحب کو جانے کی اجازت دی ہے<۔ ۷۶
ڈھاکہ اور ضلع حصار کے مسلمانوں پر مظالم اور احمدیوں کو عملی امداد کی ہدایت
حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۲۷ء کے فسادات لاہور کو دیکھ کر مسلمانوں کو تحریک اتحاد کی دعوت دی تھی جس کا مسلمانوں پر گہرا
اثر ہوا تھا مگر اس کے بعد بعض لوگوں نے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی اور بالاخر اس تحریک کو بہت ضعف پہنچا۔ ۱۹۳۰ء کے وسط میں ڈھاکہ اور حصار کے مسلمان ہندوئوں کے تختہ مشق بنائے جانے لگے تو اس تحریک کی پھر ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ حضور نے ۸ اگست ۱۹۳۰ء کو احمدیوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ اس طرح عملی طور پر مسلمانوں کے مصائب میں ان کے شریک ہوں کہ وہ محسوس کریں کہ یہ مصیبت احمدیوں پر آئی ہے اس طرح ان کا نمونہ دیکھ کر دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے بھائیوں کے لئے غیرت اور بیداری پیدا ہوجائے اور وہ بھی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔۷۷
ڈھاکہ کے مسلمانوں کی امداد کے لئے لفٹنٹ خواجہ حبیب اللہ صاحب نواب ڈھاکہ کی صدارت میں ایک مسلم ریلیف کمیٹی قائم ہوئی جسے حضور نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور دوسو روپیہ مظلوموں کی امداد کے لئے ارسال فرمایا۔ ۷۸
شعار اسلامی کی پابندی کا تاکیدی ارشاد
۳ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شعار اسلامی )داڑھی( کی پابندی کی طرف پرزور توجہ دلائی چنانچہ فرمایا:۔ >احباب کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو شعائر اسلامی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عادی بنائیں کیا یہ کوئی کم فائدہ ہے کہ ساری دنیا ایک طرف جارہی ہے اور ہم کہتے ہیں ہم اس طرف چلیں گے جس طرف محمد رسول اللہ ~صل۱~ لے جانا چاہتے ہیں اس سے دنیا پر کتنا رعب پڑے گا دنیا رنگا رنگ کی دلچسپیوں اور ترغیبات سے اپنی طرف کھینچ رہی ہو مگر ہم میں سے ہر ایک یہی کہے کہ میں )اس( راستہ پر جائوں گا جو محمد رسول اللہ ~صل۱~ کا تجویز کردہ ہے تو لازماً دنیا کہے گی کہ محمد رسول اللہ ~صل۱~ کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس کے متبعین اس کے گرویدہ اور جانثار ہیں۔ لیکن جو شخص فائدے گن کر مانتا ہے وہ دراصل مانتا نہیں مانتا وہی ہے جو ایک دفعہ یہ سمجھ کر کہ میں جس کی اطاعت اختیار کر رہا ہوں وہ خدا تعالٰے کی طرف سے ہے آئندہ کے لئے عہد کرلیتا ہے کہ جو نیک بات یہ کہے گا اسے مانوں گا اور اطاعت کی اس روح کو مدنظر رکھتے ہوئے سوائے ان صورتوں کے کہ گورنمنٹ کے کسی حکم یا نیم حکم سے داڑھی پر کوئی پابندی عائد ہوجائے سب کو داڑھی رکھنی چاہئے ۔۔۔۔۔ مگر یہ ایسی ہی صورت ہے جیسے بیماری کی حالت میں شراب کا استعمال جائز ہے۔ اس لئے اس حالت والے چھوڑ کر باقی سب دوستوں کو داڑھی رکھنی چاہئے اور اپنے بچوں کی بھی نگرانی کرنی چاہئے کہ وہ شعائر اسلامی کی پابندی کرنے والے ہوں اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کا خرچ بند کردیا جائے اسے کوئی صحیح الدماغ انسان جبر نہیں کہہ سکتا۔۔۔ اس کا نام جبر نہیں بلکہ نظام کی پابندی ہے اور نظام کی پابندی جبر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر بہت بڑے بڑے فوائد ہیں اور اس کے بغیر دنیا میں گذارہ ہی نہیں ہوسکتا<۔ ۷۹
سیرت النبیﷺ~ کے جلسے
اس سال پھر ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو جماعت احمدیہ کے زیر انتظام اندرون و بیرون ملک میں جلسہ ہائے سیرت النبی ~)صل۱(~ کے پرشوکت جلسے منعقد ہوئے۔ اس روز حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان میں ایک نہایت پر معارف تقریر فرمائی جس میں عرفان الٰہی اور محبت باللہ کے اس عالی مرتبہ پر روشنی ڈالی جس پر رسول کریم ~صل۱~ دنیا کو قائم فریانا چاہتے تھے۔ ۸۰
حسب دستور اس سال بھی الفضل کا خاتم النبین نمبر شائع ہوا جس میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور سلسلہ کے دوسرے بزرگوں کے مضامین کے علاوہ مولوی عبدالمجید صاحب سالک مدیر انقلاب سراج الحسن صاحب سراج لکھنوی حکیم سید علی صاحب آشفتہ منشی لچھمن نرائن صاحب سنہاکی نعتیں بھی شامل اشاعت تھیں اس نمبر کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ اس میں بیرونی ممالک کے احمدیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ اور سالٹ پانڈ مغربی افریقہ کے مسٹر جمال جانسن کا مضمون اور فلسطین کے مصباح الدین العابودی کی عربی نظم شائع ہوئی۔
سائمن کمیشن رپورٹ پرتبصرہ اورہندوستان کے سیاسی مسئلہ کاحل
لارڈ ارون وائسرائے ہند رخصت پر ولایت گئے وہاں سے واپس آکر انہوں نے ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو اعلان کیا کہ ہندوستان کی منزل مقصود درجہ نوآبادیات ہے اور حکومت سیاسی ارتقاء کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے کے لئے ایک گول میز کانفرنس بھی منعقد کرنے کو تیار ہے اس کے سات ماہ بعد ۱۲ مئی ۱۹۳۰ء کو انہوں نے گول میز کانفرنس کی تاریخ انعقاد کا بھی اعلان کیا کہ یہ کانفرنس ۲۰ نومبر ۱۹۳۰ء کے قریب منعقد کئے جانے کی تجویز ہے اور ہندوستانی نمائندوں کو لندن میں جمع کرنے کے انتظامات بڑی سرگرمی سے عمل میں لائے جارہے ہیں اور جہاں کانگریس نے اقلیتوں کے مسائل کلیت¶ہ نظرانداز کردیئے وہاں وائسرائے نے کانفرنس کے زیرغور مسائل میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہی قرار دیا اور کہا:۔
>ہندوستان کا ارتقاء حقیقی مسائل کے حل پر منحصر ہے جن میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اقلیتوں کی آئندہ پوزیشن کیا ہوگی جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کوئی ایسا تصفیہ اطمینان بخش خیال نہیں کیا جاسکتا جو ان اہم اقلیتوں کے نزدیک مقبول نہ ہو جنھیں آئندہ دستور کے ماتحت زندگی بسر کرنی ہے اور جوان میں حفاظت و سلامتی کا احساس پیدا کر دے<۔
گول میز کانفرنس کے موقع پر مسائل اقلیت کے سلسلہ میں سائمن کمیشن کی رپورٹ کا زیر غور آنا ناگزیر تھا۔ چنانچہ وائسرائے ہند یہ کہہ چکے تھے کہ یہ اہم سرکاری حیثیت اور پر معنی قدرو قیمت کی دستاویز ہے اور اس وقت ہندوستان کی سیاسی حالت کے مسئلہ کا ایک ایسا تعمیری حل ہے جس سے بہتر ہمارے پاس اور کوئی حل موجود نہیں۔ بنابریں حضور نے گول میز کانفرنس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مدلل و مفصل اور جامع ومانع تبصرہ لکھا اور اس کا انگریز ایڈیشن شائع کراکے بذریعہ ہوائی جہاز عین اس وقت انگلستان میں پہنچادیا جبکہ گول میز کانفرنس کی کارروائی کا آغاز ہونے والا تھا۔
اس کتاب کی تیاری میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے دن رات ایک کرکے نہایت محنت اور عرق زیری سے کام کیا اور انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ کتاب بروقت تیار ہوگئی۔ اور گول میز کانفرنس کے ممبروں کے علاوہ وزیراعظم انگلستان ` وزیر ہند اور دیگر عمائد و ارکان سلطنت برطانیہ تک پہنچ گئی اور اس کے بعد ہندوستان میں بھی اعلیٰ حکام اور اسمبلی اور کونسل کے اکثر ممبروں اور ملک کے چوٹی کے سیاسی لیڈروں کو بھجوائی گئی اور بکثرت تقسیم کی گئی۔ ۸۱
یہ تبصرہ جس میں مسلمانوں کے حقوق و مطالبات کی معقولیت پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔ اور ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا نہایت معقول اور تسلی بخش حل پیش کیا گیا تھا۔ اس سے رائونڈ ٹیبل کے مسلمان نمائندوں کو بہت تقویت پہنچی اور اس کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے پہلی بار متفقہ طور پر اپنے مطالبات کامیابی اور خوبی کے ساتھ پیش کئے اور انگلستان کے اہل الرائے لوگوں پر اس کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ وہ لوگ جو چند روز پہلے اس عظیم الشان ملک کو ہندوئوں کے ہاتھ میں دینے کو تیار بیٹھے تھے ۔ اس غلطی سے متنبہ ہوگئے اور مسلمانوں کی ہندوستانی خصوصی حیثیت کے قائل ہوکر ان کے مطالبات کی معقولیت کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ۸۲
یہ تبصرہ انگلستان اور ہندوستان دونوں حلقوں میں بہت مقبول ہوا نہایت درجہ دلچسپی اور توجہ سے پڑھا گیا اور مدبروں سیاستدانوں اور صحافیوں نے اس پر بڑے شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا۔ چنانچہ بطور نمونہ چند آراء درج ذیل کی جاتی ہیں:۔
۱۔ لارڈ میسٹن سابق گورنر یو۔پی:۔ میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی نہایت دلچسپ تصنیف ارسال فرمائی ہے میں نے قبل ازیں بھی ان کی چند تصنیفات دلچسپی سے پڑھی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا پڑھنا میرے لئے خوشی اور فائدے کا موجب ہوگا۔
۲۔ لیفٹیننٹ کمانڈر کینور دی ممبر پارلیمنٹ۔ کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال فرمانے پر آپ کا بہت بہت ممنون ہوں میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے<۔
۳۔ سر میلکم ہیلی گورنر صوبہ یو۔پی و سابق گورنر پنجاب۔ >میرے پیارے مولوی صاحب )امام مسجد لندن( اس کتاب کے لئے جو آپ نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے میرے نام بھیجی ہے میں آپ کا بہت ممنون ہوں میں جماعت احمدیہ کے حالات سے خوب واقف ہوں اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لیکر وہ ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرے لئے مفید ہوگی اور میں اسے نہایت دلچھپی کے ساتھ پڑھوں گا<۔
۴۔ مسٹر ڈبلیو ۔ پی۔ بارٹن۔ میں جناب کا امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں یہ ایک نہایت دلچسپ تصنیف ہے میرے دل میں اس بات کی بڑی وقعت ہے کہ مجھے اس کے مطالعہ کا موقع ملا ہے<۔
۵۔ مسٹر آر ۔ ای ہالینڈ )انڈیا آفس(۔ جناب کے کتاب ارسال فرمانے کا بہت بہت شکریہ میں نے اسے بہت دلچسپ پایا ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے<۔
۶۔ سر ہون اوملر ۔ > اس چھوٹی سی کتاب کے ارسال کے لئے جس میں مسئلہ ہند کے حل کے لئے امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں۔ میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے میں ان تفصیلات کے متعلق کچھ عرض نہ کروں گا جن کے متعلق اختلاف رائے ایک لازمی امر ہے لیکن میں اس اخلاص ` معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ ہزہولی نس )امام جماعت احمدیہ( نے اپنی جماعت کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اور میں ہزہولی نس )حضرت اقدس۔ ناقل( کی ۔۔۔ بلند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں<۔
۷۔ لارڈ کریوسابق وزیر ہند۔ >لارڈ کریو مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کے لئے امام مسجد لندن کے بہت ممنون ہیں انہوں نے یہ کتاب دلچسپی سے پڑھی ہے<۔
۸۔ سرای گیٹ ۔ >میں کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال کرنے پر نہایت شکر گزار ہوں اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں<۔
۹۔ سر گریہم بوور۔ > میں مسئلہ ہند پر آپ کی ارسال کردہ کتاب کے لئے آپ کا بہت ممنون ہوں اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھوں گا گول میز کے مندوبین نے ابتداء تو بہت اچھی کی ہے یوں تو میرا خیال ہے کہ فیڈرل سسٹم کو سبھی پسند کرتے ہیں لیکن تفاصیل کے متعلق دقتیں ہیں مثلاً ہندوستان کی فوجی اقوام اکثر مسلمان ہیں۔ اور ہندی افواج میں اعلیٰ ترین رجمنٹیں مسلمانوں کی ہیں تو کیا یہ تجویز ہے کہ انگریز افسروں کی بجائے ہندی افسر مقرر کر دیئے جائیں؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نظام چل نہ سکے گا یہی میری رائے پولیس کے متعلق ہے فوج اور پولیس کا سوال ظاہراً تو بہت آسان ہے لیکن عملاً اتنا آسان نہیں میں یہ کتاب سر جیمز ۔ آر۔ انز۔ سابق چیف جسٹس جنوبی افریقہ کو بھیجوں گا اور اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار کیپ ٹائمز کے ایڈیٹر کو اس کا دیباچہ شائع کرنے پر آمادہ کریں۔
جنوبی افریقہ میں یہودیوں کا بڑا اثر ہے اور ریاستہائے متحدہ کے یہودیوں کے علاوہ دوسرے درجہ پر صیہون فنڈ میں چندہ دینے والے یہیں کے یہودی ہیں۔ یہی صیہونی تحریک انہیں مسلمانوں کا دشمن بنائے ہوئے ہے یورپین لوگ خاص کر انگریز مسلمانوں کے حق میں ہیں اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ اخبار کیپ ٹائمز ہز ہولی نس کی اس تصنیف کا دیباچہ شائع کرے<۔
۱۰۔ سرجان کر۔ >کتاب ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل کی ایک جلد ارسال فرمانے کے لئے میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ اور میں اسے بہت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں<۔
۱۱۔ لارڈ ڈارلنگ۔ >لارڈ ڈارلنگ امام مسجد لنڈن کی طرف سے مسئلہ ہند کے متعلق کتاب پاکر بہت شکر گزار ہیں انہیں یقین ہے کہ اس کتاب سے انہیں بہت سی کار آمد معلومات اور تنقید ملے گی<۔
۱۲۔ سرجیمز واکر۔ >مجھے ایک جلد ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل مصنفہ جناب امام جماعت احمدیہ ملی ہے میں اس کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں۔ میں نے اس کے بعض جستہ جستہ مقامات دیکھے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ تصنیف قابل دید ہوگی<۔
۱۳۔ میجر آر۔ ای۔ فشر سی۔بی۔ ای۔ >آپ نے ازراہ کرم مجھے مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب ارسال فرمائی اس کا شکریہ مجھ پر واجب ہے میں اسے بڑی دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں مجھے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جوتجارب حاصل ہوئے ہیں ان کی بناء پر آپ کے مقاصد سے ہمدردی ہے۔
بطور ممبر انڈین ایپائر سوسائٹی کے میں یقیناً ہمیشہ اس بات کا حامی رہوں گا کہ اسلام کے متعلق جو برطانیہ کی ذمہ داری ہے وہ ہماری قوم کے اعلیٰ ترین اخلاقی فرائض میں سے ہے۔
میں نے اپنی زندگی کے بہت سے سال مسلمانوں میں رہ کر گزارے ہیں وہ رواداری اور مہمان نوازی اور سخاوت جو مسلمان دوسری موحد اقوام سے برتتے ہیں اسلام کے اعلیٰ معیار تعلیم کی شاہد ہے۔ ہر دو مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت میں ایک مجانست ہے اسلامی عیسائیت کی روایات کو قدر اور عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے دونوں مذاہب میں ایک مضبوط اتحاد پیدا ہوجانا چاہئے اگرچہ میں خود عیسائی ہوں لیکن پھر بھی میں اسلامی روح کو جس نے ترقی اور تہذیب کے پھیلانے میں بڑی مدد دی ہے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتا ہوں<۔
۱۴۔ آنریبل پیٹرسن۔ سی۔ایس۔ آئی۔سی۔آئی ۔ای:۔ >کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال کا بہت بہت شکریہ مجھے ابھی تک اس کے ختم کرنے کی فرصت نہیں ملی امید ہے کہ چند دنوں میں ختم کرلوں گا لیکن جس قدر میں نے پڑھا ہے اس سے ضرور اس قدر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تصنیف موجودہ گتھی کے سلجھانے کے لئے ایک دلچسپ اور قابل قدر کوشش ہے مسلمانوں کا نقطہ نظر اس میں بہت وضاحت سے پیش کیا گیا ہے امید ہے کہ میں آپ سے جلد ملوں گا<۔
۱۵۔ لارڈ ہیلشم:۔ >میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے وہ کتاب ارسال کی جس میں سائمن رپورٹ کے متعلق مسلمانوں کی رائے درج ہے میں اس بات کی اہمت کو خوب سمجھتا ہوں کہ سائمن رپورٹ کو خالی الذہن ہوکر پڑھنا بہت ضروری ہے اور اسے ناحق ہدف ملامت بنانا یا غیر معقول مطالبات پیش کرنا درست نہیں اس لئے مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اس کے متعلق ہندوستان کے ایک ذمہ دار طبقہ کی رائے پڑھنے کا موقع ملا ہے<۔
۱۶۔ لارڈ سڈنہم:۔ میں اس بات کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مہربانی فرماکر مجھے جماعت احمدیہ کے خیالات سے جوہز ہولی نس نے بڑی خوبی سے بیان فرمائے ہیں آگاہ ہونے کا موقع دیا ہے میں نے دیکھا کہ ہزہولی نس اس خیال سے متفق ہیں کہ ہندوستان ابھی درجہ نوآبادیات کے لائق نہیں۔ اور یہ کہ بہت سے دوسرے مبصرین کی طرح ہزہولی نس بھی اس خیال کے ہیں کہ انگریزی Democracy کے نمونہ پر ہندوستان کی حکومت ہونی چاہئے مگر شاید انہیں یہ پتہ نہیں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا پریذیڈنٹ اپنے وزراء خود چنتا ہے اور یہ وزراء اس کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں تاہم ملک کی کانگریس کے سامنے فیڈرل نظام پر عمل درآمد کرنے میں بعض خاص دقتیں ہیں اضلاع متحدہ امریکہ کو چار سال کی جنگ اور دس لاکھ آدمیوں کی جانوں کی قربانی کے بعد یہ درجہ ملا تھا۔ فی الحال جیسا کہ سائمن کمیشن کی رائے ہے ہندوستان فیڈرل حکومت کے قابل نہیں ہوا۔ کبھی ہندوستان کے سے حالات میں کسی ملک میں فیڈرل حکومت قائم نہیں ہوئی۔ فیڈریشنیں قدرتی طور پر خودبخود بن جایا کرتی ہیں جب لوگ ان کے لئے تیار ہوں۔
ہندوستان کو جو بہت کافی حد تک حکومت خوداختیاری دی جاچکی ہے اس پر جو کچھ بغیر کسی کے خطرہ کے متزاد کیا جاسکے اس میں دریغ نہیں ہونا چاہئے لیکن میرے خیال میں سب سے اہم معاملہ پبلک کی بہبود کا ہے<۔
برطانیہ کا مشہور ترین اخبار ٹائمز آف لنڈن مورخہ ۲۰ نومبر ۱۹۳۰ء کے نمبر میں فیڈرل آئیڈیل کے عنوان کے ماتحت ایک نوٹ کے دوران میں لکھتا ہے کہ:۔
>ہندوستان کے مسئلہ کے متعلق ایک اور ممتاز تصنیف )مرزا بشیر الدین محمود احمد( خلیفتہ المسیح امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے<۔
۱۷۔ ایل۔ ایم۔ایمرسی۔ مشہور ممبر کنزروٹیو پارٹی:۔ > میں نے یہ کتاب بڑیدلچسپی سے پڑھی ہے اور میں اس روح کو جس کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے اور نیز اس محققانہ قابلیت کو جس کے ساتھ ان سیاسی مسائل کو حل کیا گیا ہے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں<۔
انگلستان کے سیاستدانوں کی آراء درج کرنے کے بعد ہندوستان کے مسلم زعماء اور اسلامی پریس کے تبصرے درج کئے جاتے ہیں:۔
۱۔ سرمرزا محمد اسماعیل بیگ صاحب دیوان ریاست میسور۔ > سر مرزا آپ کی کتاب پاکر بہت ممنون ہیں اور اسے بہت دلچسپی سے پڑھیں گے علی الخصوص اس وجہ سے کہ وہ آپ کی جماعت کے امام سے ذاتی واقفیت رکھتے ہیں<۔ آپ کا صادق آئی۔ایم۔ایس۔ سیکرٹری۔
۲۔ جناب اے۔ایچ غزنوی آف بنگال:۔ >کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کے لئے مسٹر اے۔ایچ غزنوی مولوی فرزند علی صاحب کے بہت ممنون ہیں انہوں نے اس کتاب کو بہت دلچسپ پایا ہے<۔
۳۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب آف علی گڑھ:۔ >میں نے جناب کی کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی میں آپ سے درخوست کرتا ہوں کہ اس کی یورپ میں بہت اشاعت فرمائیں ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کو ایک ایک نقل ضرور بھیج دی جائے اور انگلستان کے ہر مدیر اخبار کو بھی ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا جائے اس کتاب کی ہندوستان کی نسبت انگلستان میں زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے جناب نے اسلام کی ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے<۔
۴۔ سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون صاحب ایم۔ایل۔اے کراچی:۔ >میری رائے میں سیاست کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< بہترین تصانیف میں سے ہے<۔
۵۔ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال لاہور۔ تبصرہ کے چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے نہایت عمدہ اور جامع ہے<۔
۶۔ اخبار انقلاب لاہور )مورخہ ۱۶ نومبر ۱۹۳۰ء( جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا<۔
۷۔ اخبار سیاست لاہور )مورخہ ۲ دسمبر ۱۹۳۰ء( >مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیرالدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت دافادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاست میں اپنی جماعتوں کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتدا کرکے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کرکے رہتا ہے آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نقطہ نگاہ پیش کرنے میں مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے استدلال سے مملو کتابیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے زیر بحث کتاب سائمن رپورٹ پر آپ کی تنقید ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے۔ جس کے مطالعہ سے آپ کی وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے آپ طرز بیان سلیس اور قائل کردینے والا ہوتا ہے آپ کی زبان بہت شستہ ہے<۔
۸۔ ایڈیٹر صاحب اخبار >ہمت< لکھنو )مورخہ ۵ دسمبر ۱۹۳۰ء:(۔ ہمارے خیال میں اس قدر ضخیم کتاب کا اتنی قلیل مدت میں اردو میں لکھا جانا انگریزی میں ترجمہ ہوکر طبع ہونا۔ اغلاط کی درستی ` پروف کی صحت اور اس سے متعلق سینکڑوں دقتوں کے باوجود تکمیل پانا۔ اور فضائی ڈاک پر لندن روانہ کیا جانا۔ اس کا بین ثبوت ہے مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنے فرائض سمجھ کر وقت پر انجام دیتی ہے اور نہایت مستعدی اور تندہی کے ساتھ ۔
غرضیکہ کتاب مذکورہ ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مزین اور دیکھنے کے قابل ہے<۔ ۸۳
کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< پر مزید تبصرے
۱۰ نومبر ۱۹۳۰ء
۔LAHORE ROAD TEMPLE KUSHR, DIL
مکرمی جناب تقدس ماب مرزا صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ آج ہی ملا اور اس کے ساتھ آپ کی انگریزی کتاب جس میں ہندوستان کی سیاسی مشکلات کا حل آپ نے لکھا ہے میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے قیمتی خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔ میں کتاب کو شوق سے پڑھوں گا۔ اور شوق سے کسی وقت تبادلہ خیالات کے موقع کا منتظر رہوں گا۔ آپ نے واقعی بڑی ہمت کی ہے اس تھوڑے وقت میں اس اہتمام کے ساتھ کتاب لکھ کر اور ترجمہ کراکے ممبران گول میز کانفرنس اور دیگر اکابر انگلستان کے پاس اپنی رائے پہنچادی ہے۔
مجھے بھی شملہ پر آپ سے نہ مل سکنے کا افسوس رہا۔ خدا نے چاہا تو اب لاہور میں ملاقات ہوگی آپ سرما میں ایک آدھ مرتبہ تو تشریف لایا کرتے ہیں۔ جب تشریف لائیں تو مجھے بھی اطلاع ہوجائے تاکہ کہیں مل بیٹھنے کا بندوبست کی جائے۔
واسلام
راقم عبدالقادر
نحمدہ ونصلی ! پانی پت ۔ فیض منزل
۶ شوال ۱۳۴۱ھ۔ چٹھی نمبر ۱۵۸۱
حضرت مرزا صاحب قبلہ سلام علیک
مزاج عالی!
جناب نے >سیاسی مسئلہ کا حل< تصنیف فرماکر مسلمانوں ۔ ہندوستان حکومت پر جو احسان اور خدمت انجام دی ہے اس پر جناب کی ذات شریف مستحق مبارک باد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جناب نے اپنے اعلیٰ منصب کا وہ فرض جو آپ پر عائد ہوتا تھا بدرجہا اولیٰ طریق پر ادا فرمایا۔ >الحمد لل¶ہ علیٰ ذالک< میں آخر میں پھر ایک مرتبہ ہدیء تبریک پیش کرنے کا فخر حاصل کرتا ہوں
فقط والسلام
ابو عامر اقبال احمد انصاری
‏tav.5.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سترھواں سال
فصل پنجم
حضرت مصلح موعود~رح~ کے حضور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا ایک مکتوب
‏LAHORE TOWN MODEL
~بسم۴~
۳۰/۸/۳۰
سیدنا و امامنا
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
محبت نامہ حضور کا ملا۔ عزیز بشیر احمد آج سیالکوٹ چلا گیا ہے یکم ستمبر سے کام سیکھنے کے لئے اس کی تعیناتی وہاں ہوئی ہے۔ حضور کا والا نامہ اور میاں عبدالمنان صاحب کا خط وہیں بھیج دیئے گئے ہیں۔ کراچی والے مقدمہ کے متعلق ابھی پورا وثوق نہیں ہے کہ خاکسار کو وہاں جانا ہوگا۔ اگر جانا ہوا تو یہاں عبداللہ خاں صاحب جو مدد طلب کریں گے انشاء اللہ دریغ نہیں کروں گا۔ پہلے تو ۹ ستمبر تاریخ سماعت مقدمہ مقرر تھی۔ لیکن پرسوں کی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے تاریخ ملتوی ہوجائے۔ بہر صورت جو بھی فیصلہ ہوگا اس کی اطلاع خدمت اقدس میں کردوں گا۔ انشاء اللہ۔
آج گورنر صاحب کی چٹھی آئی ہے کہ وائسرائے صاحب تمہیں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے نامزد کرنا چاہتے ہیں لیکن آخری فیصلہ کرنے سے پہلے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا تم جاسکو گے یا نہیں۔ چٹھی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے۔ پتہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے چھٹی کے شروع میں Confidential and Personal کے الفاظ ہیں۔ جواب طلب کیا ہے میں نے لکھ دیا ہے کہ میں جانے کے لئے تیار ہوں اور ہر ممکن کوشش کروں گا کہ جو مسائل زیر غور آئیں ان کا کوئی تسلی بخش حل ہوسکے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آخری فیصلہ نہ ہو وہ نہیں چاہتے کہ نمائندگان کے ناموں کی اشاعت ہو۔ حضور دعا فرمائیں کہ اگر خاکسار کے ذمہ یہ خدمت ڈالی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کے مطابق عمل کرنے کی بصارت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
حضور کا غلام
خاکسار ظفر اللہ خان
گول میز کانفرنس اور محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سنہری خدمات
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سائمن کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ فرماتے ہوئے مسلمانان ہند کے جن مطالبات و
حقوق پر علمی و سیاسی نقطہ نظر سے سیر حاصل روشنی ڈالی تھی۔ وہ گول میز کانفرنس ۸۴ میں اکثر و بیشتر مسلم زعماء کی بحث کا مرکز رہے۔ اور انہوں نے اپنی اپنی اہلیت کے مطابق برطانوی نمائندوں کے سامنے ان کی ضرورت واہمیت واضح کی مگر اس کی بہترین اور شاندار وکالت کا حق چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ادا کیا جو ویمبلے کانفرنس کی طرح اس کانفرنس میں بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان بن گئے۔
کانفرنس میں کونسے پیچیدہ مسائل درپیش تھے کس طرح ان پر غور وبحث کے لئے کارروائی ہوئی ار چوہدری صاحب نے اس میں کیا کیا کام کیا اس کا محض سرسری سا اندازہ کرنے کے لئے ذیل میں چوہدری صاحب موصوف کے بعض ان خطوط کے بعض اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔ جو کانفرنس کے سلسلہ میں آپ وقتاً فوقتاً اپنے آقا ومرشد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھتے تھے یہ خطوط مسلمانان ہند کی سیاسی جدوجہد کی مستند ترین دستاویز ہیں۔
مکتوب از لاہور ۳۰ اگست ۱۹۳۰ء
‏]9 ~[pبسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آج گورنر صاحب کی چٹھی آئی ہے کہ وائسرائے صاحب تمہیں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آخری فیصلہ کرنے سے پہلے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا تم جاسکو گے یا نہیں۔۔۔ میں نے لکھ دیا ہے کہ میں جانے کے لئے تیار ہوں۔۔۔۔۔ حضور دعا فرمائیں کہ اگر خاکسار کے ذمہ یہ خدمت ڈالی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور مسلمانوں کی بہتری کے مطابق عمل کرنے کی بصارت اور توفیق عطا فرمائیں۔ والسلام۔
حضور کا غلام ظفر اللہ خاں
مکتوب از لنڈن ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ >گول میز کانفرنس کا افتتاح ملک معظم نے کیا تقریریں وغیرہ کل ہی ہندوستان میں بھی شائع ہوجائیں گی یہ کارروائی تو محض نمائشی تھی اصل اجلاس ۱۷ سے شروع ہونگے البتہ ۱۶ نمائندگان کی ایک ضابطہ کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کے اجلاس آج سے شروع ہوں گئے ہیں تاکہ کانفرنس کا پروگرام تیار کیا جائے ان ۱۶ میں سے ۳ برطانوی نمائندے ہیں ۵ ریاستوں کے ۸ برطانوی ہند کے ان ۸ میں سے ۲ مسلمان ایک یورپین ایک سکھ ۴ ہندو جن کے نام یہ ہیں۔ سپرو۔ جے کار۔ شاستری ۸۵۔ بھوپندرناتھ متر۔ سکھ سردار اجل سنگھ۔ یورپین سرہیوبرٹ کار۔ مسلمان شفیع اور جناح۔ ان کے نام بھی آج کی کارروائی میں شائع ہوجائیں گے Society> Empire <Royal۔۔۔۔ کی طرف سے ایک تبصرہ سائمن کمیشن کی رپورٹ پر شائع ہوا ہے جس میں سے قابل تذکرہ یہ بات ہے کہ ان کی سفارش ہے کہ قریباً تمام ملک کو اس طرح پر ووٹ دے دیئے جائیں کہ ۲۰۔ ۲۰ کے حلقے قائم ہوجائیں۔ اور یہ ۲۰ ایک ووٹر انتخاب کریں اس صورت میں ہر قوم کی تعداد آراء کے لحاظ سے آبادی کے مطابق ہوسکتی ہے یہ بھی سفارش ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو انفرادی طور پر بھی رائے دہندگی کا حق دیا جائے ان کی رپورٹ صوبجات میں سرکاری وزیر کے مخالف ہے۔ ۸۶
مکتوب از لنڈن ۱۹ نومبر ۱۹۳۰ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کانفرنس کے جنرل اجلاس ہورہے ہیں ان کی رپورٹیں اخباروں میں چھپ ۸۷text] gat[ رہی ہوں گی حضور کے ملاحظہ سے گذری ہوں گی مسلمان ممبران اپنے مطالبات پر متحد ہیں` ہندوئوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا۔ سمجھوتے کی افواہیں اخباروں میں باکلک غلط تھیں۔ گفتگو ہوتی رہی ہے۔ وہ اپنی جگہ پختہ ہیں ہم اپنی جگہ کانفرنس میں یہ سوالات کمیٹیوں میں پیش ہوں گے اور یہ کمیٹیاں سوائے پہلی کمیٹی کے جو عام ڈھانچہ دستور آئین کا تیار کرے گی آئندہ ہفتہ کے آخر میں غالباً بنائی جائیں گی۔
مسلمانوں کے مطالبات وہی ہیں جو حضور کی کتاب میں درج ہیں اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ بنیادی حقوق دستور آئین میں درج ہونے چاہئیں اور اگر ان کی خلاف ورزی کی گئی تو عدالت کو دست اندازی کا اختیاری ہونا چاہئے۔۔۔۔۔ والسلام حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خان
مکتوب از لنڈن ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ لبرل ہندوئوں اور مسلمان نمائندگان کے قائم مقاموں کے درمیان پھر سمجھوتہ کے لئے گفتگو جاری ہے گفتگو کی بناء جداگانہ حلقہ ہائے نیابت پر ہے کیونکہ مسلمانوں نے مشترکہ انتخابات کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار کر دیا ہے چھ صوبجات کا جھگڑا بھی نہیں کیونکہ وہاں صورت یہ ہے کہ موجودہ حق نیابت اور جداگانہ انتخابات قائم ہیں صرف پنجاب اور بنگال کا جھگڑا ہے بنگال میں تو مسلمانوں کو تمام کونسل کی کثرت ملنی ناممکن ہے کیونکہ یورپینوں کا حق نیابت غالباً گیارہ فیصد تسلیم کیا جائیگا باقی ۸۹ فیصدی میں سے ۵۱ مسلمانوں کو کسی صورت میں نہیں مل سکتا کیونکہ اس طرح ہندوئوں کی نیابت ان کی آبادی کی نسبت سے بھی کم ہوجاتی ہے موجودہ کونسل میں تمام ممبران میں سے ۲۵ فیصدی مسلمان ہیں پنجاب میں زیادہ سے زیادہ ۵۱ فیصدی تسلیم ہوسکے گا کیونکہ زیادہ رخ اس طرف ہے کہ حکومت ہند کی سفارش اس معاملے میں تسلیم کرلی جائے اور ان کی ایک سفارش یہ ہے کہ پنجاب میں ۴۹ فیصدی کے قریب مسلمانوں کو جداگانہ نیابت سے مل جائے اور کوئی دو فیصدی کے قریب مشترک نشستوں میں سے ۔ مثلاً تمنداروں کی نشست اور بڑے زمینداروں کی نشستوں میں سے آئندہ آبادی کی نسبت بڑھنے کا اصول تسلیم کرانا مشکل ہے کیونکہ برلس ۸۸ یہ اصول پیش کرتے ہیں کہ فہرست رائے دہندگان میں مسلمانوں کا تناسب آبادی کے مطابق کردینا چاہئے اور اگر وہاں تناسب ٹھیک ہوجائے تو جس قدر آبادی میں تناسب بڑھے گا۔ فہرست رائے دہندگان میں بھی بڑھ جائے گا اور اس صورت میں بڑھتی نسبت کے ساتھ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مشترکہ انتخاب کی طرف آئیں نہ کہ اور زیادہ علیحدہ انتخابات پر قائم ہونے چاہئیں۔ اور ان کی کثرت بھی بڑھتی جائے۔
باقی مسلمان مطالبات کو وہ تسلیم کرتے ہیں مذہبی امور کے متعلق حفاظتی اصول نہایت وسیع الفاظ میں ہے فیڈرل سسٹم کو بھی ابھی تک تو تسلیم کیا جارہے ہے دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے اگر آپس میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا۔ تو قدامت پسند اور لبرل گروہوں کے انگریز نمائندگان تو غالباً مسلم مطالبات کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں گے لیکن لیبر والے اگر مخالفت نہیں کریں گے تو ان کی طبیعت مخالفت کی طرف ضرور مائل ہوگی۔
سکھوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر پنجاب میں مسلمانوں کی کثرت قانوناً کردی گئی تو خانہ جنگی ہوجائے گی۔ گو اس تقریر کا اثر سکھوں کے لئے مفید نہیں ہوگا۔ اقلیتوں کی کمیٹی کا ایک اجلاس پرسوں ہوا تھا۔ آئندہ اجلاس ۳۱ کو ہوگا۔ اگر کوئی سمجھوتہ ممکن ہوا تو اس دن تک ہوچکا ہوگا۔ ممکن ہے کہ کانفرنس کے اجلاس وسط جنوری یا تیسرے ہفتہ میں ختم ہوسکیں۔ اس صورت میں خاکسار وسط فروری کے قریب انشاء اللہ واپس پہنچ سکے گا۔ والسلام حضور کا غلام۔ خاکسار ظفر اللہ خان<۔
مکتوب از لنڈن ۲ جنوری ۱۹۳۱ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ فرنٹیر کمیٹی نے کل رپورٹ کردی ہے کہ صوبہ سرحدی کی کونسل میں ۶۵ فیصدی منتخب شدہ ممبر اور ۳۵ فیصدی نامزد شدہ ہوں نامزد شدہ میں سے ۲۰ فیصدی سے زائد سرکاری ممبر نہ ہوں۔ بعض محکمہ جات جو دیگر صوبجات میں صوبجاتی ہوں گے اس صوبہ میں مرکزی ہوں گے دو وزراء دونوں غیر سرکاری جن میں سے ایک ضرور منتخب شدہ ہو۔ گورنر حکومت کا ذمہ دار اور وزارت میں شامل ہوگا۔ گویا ڈھانچہ مل گیا ہے گو گورنر کے اختیارات کچھ زائد ہوں گے مسودہ رپورٹ میں یہ تھا کہ ہندوئوں سکھوں کی تعداد سے دگنی نیابت ملے گی ڈاکٹر مونجے لگا کہنے کہ مسلمانوں کو فلاں میں اتنا ملا ہوا ہے فلاں میں اتنا۔ مسلمانوں نے درمیان میں ہی کہہ دیا کہ اچھا تعداد سے تین گنا لے لو اس کا بہت اچھا اثر ہوا۔
اقلیتوں کی کمیٹی میں لبرل ہندوئوں کی طرف سے مختلف باتیں پیش کی گئی ہیں۔ یہاں تک بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر تم جداگانہ نیابت ترک نہیں کر سکتے تو پھر ہم تمہیں مجبور نہیں کرتے لیکن تعداد کے لحاظ سے نہ لبرل ۵۱ فیصدی سے آگے بڑھیں گے نہ انگزیز کیونکہ سکھوں کو بھی وہ زائد دینا چاہتے ہیں۔ آئندہ اجلاس ۶ جنوری کو ہوگا۔ کل اور پرسوں سر محمد شفیع نے خوب اچھی طرح مسلم مطالبات کو پیش کیا۔ ۶ کو شاید مجھے بھی کچھ کہنے کا موقعہ ملے آجکل میں پانچ کمیٹیوں میں کام کر رہا ہوں کل صبح ساڑھے دس بچے سے لیکر شام ساڑھے گیارہ بجے تک متواتر کمیٹیوں کے اجلاسوں میں بیٹھنا پڑا اور تمام نمائندگان کانفرنس میں سے صرف میں ایک تھا جوہر اس کمیٹی میں شامل تھا جس کا اجلاس کل ہوا آجکل کام بہت تیزی سے ہورہا ہے کیونکہ وقت بہت تنگ ہے میں انشاء اللہ ۲۳ یا ۳۰ جنوری )غالباً ۳۰( کو مارسیلز سے جہاز پر سوار ہوں گا اور ۸ یا ۱۵ )غالباً( ۱۵ فروری کی شام کو بفضل اللہ لاہور پہنچ سکوں گا۔
خان صاحب ۸۹ اب تو خوب کام کر رہے ہیں کچھ دلچسپی بھی پیدا ہوگئی ہے اور کام کی تفاصیل کے ساتھ واقفیت بھی اس سے ان کا حوصلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ والسلام ۔ حضور کا غلام خاکسار ظفراللہ خاں<۔
مکتوب از لنڈن ۲۵ ستمبر ۱۹۳۱ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۱۸ ستمبر جمعہ کے دن خاکسار کو وزیر ہند نے انڈیا آفس میں گفتگو کرنے کے لئے بلایا تھا۔ علاوہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق عام گفتگو کے آخر میں خاکسار نے کشمیر کے معاملات پر بھی انہیں توجہ دلائی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ خود بھی توجہ کریں گے اور وائسرائے کو بھی توجہ دلائیں گے۔ اس امر کی طرف اور اس کے اغلب نتائج کی طرف بھی توجہ دلائی ۔ کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی ۹۰text] ga[t کی طرف سے نواب سر ذوالفقار علی خاں اور سر محمد اقبال جیسے صاحبان کو تو جانے کی اجازت نہ دی گئی اور احرار کے جتھے کو کسی نے نہ روکا۔
اس کے بعد اطلاع ملی کہ عارضی صلح ۹۱ ہوگئی ہے اور آج خبر چھپی ہے کہ وسیع پیمانے پر فسادات ہوئے ہیں جن میں سرکاری افسران اور پولیس وغیرہ کے ۹۰۔ ۹۵ آدمی زخمی ہوئے ہیں۔ اور اگر ان کے ۹۰۔ ۹۵ زخمی ہوئے تو رعایا کا خون بہت بے دردی سے بہایا گیا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں سوالات وغیرہ کے متعلق خان صاحب ۹۲]ydob [tag نے حضور کی خدمت میں لکھ دیا ہوگا اور خاکسار کی دوسری اور چوتھی تقریروں کی نقول بھی بھیج دی ہوں گی ۔۔۔۔۔ والسلام حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خاں<۔
مکتوب از لنڈن ۱۷ نومبر ۱۹۳۲ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ >آج کانفرنس کا ابتدائی اجلاس ہے باقاعدہ اجلاس ۲۱ )نومبر۔ ناقل( سے شروع ہوں گے۔ وزیر ہند اور وزراعظم سے مل چکا ہوں مئوخرالذکر سے تو رسمی ملاقات تھی وزیر ہند سے مفصل اور بلا تکلف گفتگو ہوئی۔ سندھ کی علیحدگی کے متعلق وہ پوری امید دلاتے ہیں مرکزی مجلس میں مسلم نمائندگی پر بھی بحث ہوئی۔ برطانوی ہند کے حصہ میں سے تیسرا حصہ تو وہ تسلیم کرتے ہیں لیکن ریاستوں کو زائد نیابت دینے سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اس کا حل ابھی تجویز نہیں ہوسکا ۔۔۔۔۔ والسلام ۔ حضور کا غلام خاکسار ظفراللہ خاں<۔
مکتوب از لنڈن ۲۶ مئی ۱۹۳۳ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پرسوں خاکسار ۔۔۔۔ وزیر نوآبادیات سے ملا تھا فلسطین کے معاملات پر گفتگو تھی ۔ میاں سر فضل حسین صاحب نے لکھا تھا کہ چونکہ ہندوستان میں اس معاملہ پر شور ہورہا ہے اس لئے کوشش کی جائے کہ اول حکومت کی پالیسی عربوں سے ہمدردی کی ہو اور د وسرے حکومت ہند کو اطلاع دی جائے کہ فلسطین میں کیا کیا جارہا ہے وزیر صاحب کے ساتھ بہت سے پہلوئوں پر گفتگو ہوئی اور گفتگو کے درمیان میں مجھے خیال ہوا کہ واپسی پر میں فلسطین سے ہوتا جائوں گفتگو کے آخر میں فلسطین کے ہائی کمشنر سے بھی ملاقات ہوگئی جو آجکل انگلستان آئے ہوتے تھے اگر حضور پسند فرمائیں تو خاکسار واپسی پر قسطنطنیہ ` یروشلم وغیرہ سے ہوتا آئے اس صورت میں حضور ہدایات بھی ارسال فرمادیں۔ کہ ان ممالک میں خاکسارکن امور کی طرف توجہ کرے خصوصیت سے فلسطین میں ہائی کمشنر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مناسب سہولتیں بہم پہنچا دیں گے تاکہ میں دیکھ لوں کہ حکومت کی کیا پالیسی ہے اور اسے کس طرح چلایا جارہا ہے۔
۲ جون کے بعد کمیٹی ۹۳ کا اجلاس ۱۳ جون کو ہوگا ۔۔۔۔ فی الحال کمیٹی میں صرف تمہیدی بحث ہورہی ہے میں نے مسلمانوں کی طرف سے قریباً تمام ایسے مسائل کا ذکر کردیا ہے جس کی زدان پر پڑتی ہے تفصیلی بحث میں پھر ان پر زور دیا جائے گا انشاء اللہ درخواست ہے کہ حضور خاکسار کو اپنی دعائوں میں یاد فرماے رہیں۔ ہزہائی نس آغا خاں` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں اور مسٹر غزنوی تینوں نے مجوزہ ہندومسلم سکھ معاہدہ کے خلاف اپنی رائے میاں سر فضل حسین صاحب کو میری معرفت بھجوادی ہے۔ والسلام ۔ حضور کا غلام خاکسار ظفر اللہ خاں<۔
مکتوب از لنڈن ۲۷ جولائی ۱۹۳۴ء
~بسم۱~ سیدنا وامامنا! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ سیاسی اور آئینی امور کے متعلق تو انہی قیاسات کی مزید تائید ہوئی ہے جن کا ذکر خدمت اقدس میں پیشتر کر چکا ہوں سندھ کی علیٰحدگی کے خلاف یہاں مخالفین نے ایک مرکز قائم کر رکھا ہے جس کی طرف متواتر سرگرمی سے کوشش جاری ہے۔ ۔۔۔۔۔ لیکن معلوم ہوا کہ کمیٹی اس سے متاثر نہیں ہوئی میں اس امر پر زور دے رہا ہوں کہ سندھ کی علیٰحدگی دیگر صوبجات میں نئے نظام کے اجراء کے ساتھ ہی عمل میں آجائے ۔۔۔۔۔۔<
چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کو مسلمانان ہند کی طرف سے خراج تحسین
گول میز کانفرنس اور اسکی تجاویز پر غور کرنے والی پارلیمنٹری کمیٹی کی رپورٹ ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی جسے ۱۹۳۵ء میں برطانوی پارلیمنٹ
کے دونوں ایوانوں نے پاس کر دیا۔ اور اس کا نام گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ رکھا گیا۔ جو ہندوستان میں یکم اپریل ۱۹۳۷ء سے نافذ بھی ہوگیا۔
ہندوستان کے اس جدید آئین اساسی میں مسلمانوں کے کم و بیش تمام مطالبات منظور کرلئے گئے جداگانہ انتخاب بدستور قائم رہا۔ صوبہ سرحد میں مکمل اصلاحات رائج کردی گئیں۔ سندھ کو بمبئی سے علیٰحدہ کرکے ایک جداگانہ صوبے کی حیثیت دے دی گئی پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت )اگرچہ بے حد قلیل( قائم ہوگئی البتہ بنگال سے متعلق مسلم مطالبہ تسلیم نہ کیا جاسکا۔ اور مسلمانوں کی آئینی اکثریت قائم نہ ہوئی۔ البتہ کانگریس کا زور وہاں بھی توڑ دیا گیا۔ اس کے علاوہ گورنروں کو اس قسم کی ہدایات جاری کردی گئیں۔ کہ صوبائی وزارتوں میں مسلمانوں کو ایک تہائی حصہ ضرور ملنا چاہئے۔ ۹۴ اور ان کامیابیوں کا سہرا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی توجہ کے طفیل چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے سر تھا۔ جنہوں نے کامیاب وکالت کو خیر باد کہہ کر چار سال تک اپنی لگاتار کوششیں ملک کی آئین سازی کے نقشہ میں مسلم حقوق کا رنگ بھرنے کے لئے وقف کئے رکھیں۔
اسلامی ہند کی سیاسی تاریخ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اسلامی حقوق کی پاسبانی و ترجمانی کا فریضہ جس خوش اسلوبی سے ادا کیا اس پر ہندی مسلمانوں نے کھلے دل سے خراج تحسین ادا کیا۔ اور سیاسی معاملات میں آپ کی بلندی فکرو اصابت رائے کا سکہ بڑے بڑے مدبران سیاست کے قلوب پر بیٹھ گیا۔ اور مسلمانوں نے مدلل و پرزور تقریروں پیچیدہ دلائیخل مسائل میں برمحل راہنمائی سے امت مسلمہ کی شاندار خدمات کا اقرار کیا اور جب آپ لندن سے واپس آئے تو آپ کا شاندار استقبال کیا گیا ]10 [p۹۵ اور ۱۹۳۴ء میں آپ آنریبل سر میاں فضل حسین صاحب کی جگہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے بلا مقابلہ ممبر منتخب کر لئے گئے چوہدری صاحب کی خدمات سے متعلق کثیر شہادتوں میں سے صرف چند آراء کا پیش کرنا کافی ہوگا۔
۱۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے اخبار منادی ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں آپ کی لفظی تصویر پیش کرتے ہوئے لکھا:۔
>دراز قد` مضبوط اور بھاری جسم` عمر چالیس سے زیادہ` گندمی رنگ ` چوڑاچکلا چہرہ فراخ چشم` فراخ عقل` فراخ علم اور فراخ عمل ` قوم مسلمان ` عقیدہ قادیانی۔ چپ رہتے ہیں اور بولتے ہیں تو کانٹے میں تول کر اور بہت احتیاط کے ساتھ پورا تول کر بولتے ہیں۔ سیاسی عقل ہندوستان کے ہر مسلمان سے زیادہ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم ` وزیر ہند اور وائسرائے اور سب سیاسی انگریز ان کی قابلیت کے مداح ہیں اور ہندو لیڈر بھی بادل ناخواستہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ شخص ہمارا حریف تو ہے مگر بڑا ہی دانشمند حریف ہے اور بڑا ہی کارگر حریف ہے گول میز کانفرنس میں ہر ہندو اور مسلمان اور ہر انگریز نے چوہدری ظفر اللہ خاں کی لیاقت کو مانا اور کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو فضول اور بے کار بات زبان سے نہیں نکالتا۔ اور نئے زمانے کے پالیٹکس پیچیدہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ چوہدری ظفر اللہ ہے۔ میاں سر فضل حسین قادیانی نہیں ہیں۔ مگر وہ اس قادیانی کو اپنا سیاسی فرزند اور سپوت بیٹا تصور کرتے ہیں۔ ظفر اللہ ہر انسانی عیب سے پاک اور بے لوث ہے<۔ ۹۶
۲۔
اخبار دور جدید لاہور )۱۶ اکتوبر ۱۹۳۳ء( نے لکھا ہے:۔
>ہم آپ کی ان حالیہ مصروفیتوں اور خدمات اسلامی کو معرض بحث میں لانا چاہتے ہیں جن کے لئے آپ کو بہت بڑے ایثار سے کام لینا پڑا ہے۔ آج چار سال سے آپ اس پریکٹس پا لات مار کر جس کیآمدنی اوسطاً پانچ چھ ہزار ہے محض ملت اسلامی کی خدمات انجام دینے کی خاطر انگلستان میں بڑی تندہی کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن کو نہ صرف پنجاب کے بلکہ تمام ہندوستان کے مقتدر اور چوٹی کے رہنمائوں نے تسلیم کیا ہے حتیٰ کہ اہل انگلستان ان کا لوہا مانے ہوئے ہیں<۔
۳۔
اخبار >انقلاب< لاہور ۱۳ جولائی ۱۹۴۱ء لکھتا ہے:۔
>سرسیموئل ہوروزیر ہند نے اپنی ایک تقریر میں اعلان کیا تھا کہ گول میز کانفرنسوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں حل کرنے کے لئے قیمتی اور نتیجہ خیز خدمات سر محمد ظفر اللہ خاں نے سرانجام دیں<۔
۴۔
اخبار >شہباز< لاہور )۶ جولائی ۱۹۴۱ء( نے لکھا:۔
>۱۹۳۰ء میں ہندوستانی اصلاحات کے سلسلے میں لندن میں گول میز کانفرنس کے اجلاس شروع ہوئے۔ سر محمد ظفر اللہ خاں تینوں گول میز کانفرنسوں اور ہندوستانی اصلاحات سے متعلق دونوں ایوانوں کی مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی کے مندوب تھے ان کانفرنسوں اور کمیٹی میں آپ نے جو شاندار خدمات سرانجام دیں ان سے ہندوستان میں اور ہندوستان سے دلچسپی رکھنے والے برطانی حلقوں میں آپ کی شہرت میں بہت اضافہ ہوگیا۔ مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی کے چیئرمین لارڈ لنلتھگو تھے۔ اس کمیٹی میں سر محمد ظفر اللہ خاں نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے انہیں بے حد مقبولیت ہوئی اور انہوں نے برطانیہ کے صف اول کے بعض ممتاز مدبرین مثلاً لارڈ سینکے۔ آرچ بشپ آف کنٹربری سرآسٹن چیمبرلین۔ اور مارکوئیس آف سالسبری کے رشتہ دوستی سے منسلک کر دیا سر محمد ظفر اللہ خاں نے انگلستان کے ہوشیار ترین مباحث اور سیاستدان مسٹر چرچل پر زبردست جرح کی۔ مسٹر چرچل کمیٹی کے سامنے شہادت دے کر فارغ ہوئے تو سر محمد ظفراللہ خاں سے ازراہ مزاح کہنے لگے آپ نے کمیٹی کے سامنے مجھے دو گھنٹے بہت بری طرح رگیدا ہے باایں ہمہ جب سلطنت برطانیہ بلکہ تمام مہذب دینا کو شدید ترین خطرہ لاحق ہونے کے پیش نظر تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا پڑا تو ان دونوں کے باہم بہترین دوست بن جانے میں سر محمد ظفر اللہ خاں کی جرح حائل نہ ہوسکی۔
مشترکہ منتخب کمیٹی میں اہم خدمات سر انجام دینے کی وجہ سے لارڈ لنلتھگو )چیئرمین کمیٹی و وائسرائے ہند ۔ ناقل( ۔۔۔۔ کو آپ کا کام بنظر تعمق دیکھنے کا موقعہ مل گیا۔ سر ماوس گوائر ۔۔۔۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے اصل تشکیل دہندہ میں سر محمد ظفراللہ خاں کو کئی مواقع ان سے مل کر کام کے میسر آئے<۔ ۹۷
۵۔
جناب سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار >سیاست< لاہور )۹ اکتوبر ۱۹۳۴ء( نے لکھا:۔
>چوہدری صاحب بارہا مسلمانوں کی طرف سے پنجاب کونسل میں نمائندہ بن کر آئے ایک دفعہ ان کو یہ اعزازبلا مقابلہ نصیب ہوا۔ کونسل کے اندر مسلمانوں کے عام مفاد کی نمائندگی کرتے رہے۔ سائمن کمیشن میں انہوں نے مسلم نمائندہ کی حیثیت سے کام کیا سر فضل حسین کی جگہ عارضی طور پر )وزیر( مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس میں مسلم نمائندہ کی حیثیت سے لئے گئے ۔۔۔۔۔۔ چودھری صاحب نے جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی خدمت کی وہاں ہمیشہ مفاد ملت کا خیال رکھا کسی موقع پر ان کے کسی بدترین دشمن کو بھی یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ انہوں نے قادیانیت کو مفاد اسلام پر ترجیح دی انہوں نے لندن میں اپنا اور مسلمانوں کا نام روشن کیا۔ سرآغا خاں اور دوسرے مسلمان ان کی قابلیت محنت` جانفشانی اور مفاد اسلام کے لئے ان کی عرق ریزی کے مداح رہے<۔ ۹۸
۶۔
اخبار >مسلم آواز< کراچی جون ۱۹۵۲ء لکھتا ہے:۔
>سر ظفر اللہ خاں کے متعلق قائداعظم )محمد علی جناح ۔ ناقل( اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ظفر اللہ خاں کا دماغ خداوندکریم کا زبردست انعام ہے<۔ ۹۹
۷۔
ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی ڈاکٹر اقبال صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
>ڈاکٹر صاحب ایک سیاسی مفکر تھے۔ عملی سیاستدان نہ تھے ایک عملی سیاستدان کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کو دو مختلف موقعوں پر کام کرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ پہلا موقع اس وقت پیش آیا جب وہ ۱۹۲۷ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے اور دوسرا موقع وہ تھا۔ جب انہیں ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن جانا پڑا ۔۔۔۔ گول میز کانفرنس سے تو وہ اس قدر برگشتہ خاطر ہوئے تھے کہ استعفٰے دے کر واپس چلے آئے۔ پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں کامیاب ترین آدمی سر فضل حسین تھے۔ اور گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سب سے زیادہ کامیاب آغا خاں اور چوہدری ظفر اللہ خاں ثابت ہوئے<۔ ۱۰۰
۸۔
مقتدر مسلم اصحاب کی آراء کے بعد اب ایک ہندو نامہ نگار کا نظریہ بھی ملاحظہ ہو۔ اخبار >تیج< دہلی کے نامہ نگار نے لنڈن سے لکھا:۔
>مسلم ڈیلی گیٹوں میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے خاص شہرت حاصلکرلی ہے حالانکہ وہ ہمیشہ فرقہ پرستی کا راگ گاتے رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی قابلیت کے باعث سر محمد شفیع` مسٹر جناح اور ڈاکٹر شفاعت احمد خاں پر سبقت لے گئے ہیں<۔ ۱۰۱
فصل ششم
ایک جرمن سیاح قادیان میں
ایک جرمن سیاح مسٹر فریڈرک جو چین ZTINMEHFRIEDRICHWAGERC ولداخ کے راستہ سے ہندوستان آیا تھا ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء کو وارد قادیان ہوا اور قریباً دو ماہ تک مقیم رہا۔ مسٹر فریڈرک قادیان کے ماحول سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنے تاثرات ریو یو آف ریلیجنز )انگریزی( میں شائع کرائے جن کا خلاصہ درج ذیل کی جاتا ہے ۱۰۲ سیاح مذکور نے لکھا:۔
قادیان میں قیام:۔ میرا ارادہ چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن قادیان میں ٹھہرنے کا تھا لیکن باوجودیکہ جب میں یہاں آیا تو میری ظاہر حالت بالکل معمولی تھی اور لمبے سفر کی وجہ سے بالکل خستہ ہورہا تھا۔ یہاں بڑیگرم جوشی کے ساتھ میرا خیر مقدم کیا گیا جو بہترین قیامگاہ اس وقت میسر تھی وہ میرے لئے تجویز کی گئی۔ اور جلدی ہی مجھے کم از کم ایک ہفتہ ٹھہرنے کی دوستانہ دعوت دی گئی اس وجہ سے مجھے اپنا پروگرام منسوخ کرکے یہاں ایک ہفتہ ٹھہر نا پڑا۔ بعد میں متواتر اصرار پر مجھے اپنا قیام اس قدر لمبا کرنا پڑا۔ کہ میں یہاں قریباً سات ہفتہ ٹھہرا۔ اس طرح مجھے جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ دیکھنے کا بھی موقع مل گیا۔ جس میں ملک کے ہر حصہ سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس جلسہ سے متعلق میں نہایت اعلیٰ رائے رکھتا ہو۔
عیسائی محققین اور قادیان:۔ یقیناً بہت سے عیسائی ایسے ہیں جو اسلام سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے دو ہی طریق ہیں ایک تو یہ کہ کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ اسلامی ممالک میں رہائش اختیار کی جائے کتابوں سے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو اسلام سے متعلق غلط خیالات پیش کرتی ہیں جماعت احمدیہ کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی غلط بیانیوں کی تصحیح کی ہے اور اسلام سے متعلق صحیح اور مستند معلومات کا ذخیرہ فراہم کردیا ہے جو لوگ اسلامی ممالک میں نہیں جاسکتے۔ انہیں چاہئے کہ جماعت احمدیہ کا مہیا کردہ لٹریچر پڑھیں اسلامی ممالک میں جانے والوں کے لئے ایک بڑی دقت یہ ہے کہ انہیں اس ملک کی زبان سیکھنی پڑتی ہے لیکن ہر ایک نہیں کرسکتا۔ اب یہ دقت رفع ہوگئی ہے ایسے جویان حق اگر قادیان جائیں تو انہیں وہاں متعدد ایسے لوگ ملیں گے جو نہایت فصیح انگریزی جانتے ہیں۔ اور کئی ایک ایسے مشنزی وہاں ہیں جو یورپ کے مختلف ممالک اور امریکہ سے واپس آئے ہوئے ہیں اور عیسائی ممالک کے حالات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ قادیان میں جانے والے ہر شخص کو وہاں کئی لوگ ایسے ملیں گے جن سے وہ باآسانی تبادلہ خیالات کرسکتا ہے۔
قادیان کی فضاء:۔ قادیان کی فضاء مادی دنیا سے بالکل مختلف اور خالص روحانی ہے یہاں مذہبی خیالات کا چرچا رہتا ہے یہاں رہنے سے انسان کے اندر ایسی طاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں مادیات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکتا ہے یہ روح اور جسم دونوں کے لئے امن اور تازگی و آسودگی کا مرکز ہے جائے وقوع بھی ایسی ہے جو مادی لحاظ سے بہت اچھی ہے یہاں شاید ایک آدھ ہی موٹر کار نظر آئے گی ریلوے سٹیشن بھی فاصلہ پر ہے موجودہ زمانے کی ایجادیں یہاں کی زندگی کو پریشان نہیں کرتیں۔ قادیان مختلف ممالک کے لوگوں کا مرکز ہے اور اس لئے یہاں مختلف خیالات اور علوم سے تعلق رکھنے والے لوگ جمع ہیں۔ جو شخص یہاں کوشش کرے کچھ حاصل کرنا چاہے وہ اطمینان قلب سے حاصل کرسکتا ہے۔ اور ایسا جوں جوں تلاش کرے گا۔ اسے یہاں کبھی نہ ختم ہونے والے نئے نئے خزانے حاصل ہوتے جائیں گے۔
قادیان سے کیا حاصل ہوا:۔ یہاں میں نے ہر قسم کی گفتگو کی۔ اور مختلف کتب کا مطالعہ کی جن میں ٹیچنگس آف اسلام کا اثر میرے قلب پر بہت گہرا ہے اس طرح اسلام کے متعلق میرے علم میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ اور قرآن پاک و رسول کریم ~صل۱~ سے متعلق جو غلط فہمیاں یورپین تصنیفات کے مطالعہ سے پیدا ہوگئی تھیں۔ وہ رفع ہوگئیں۔ اسلام کی سادگی مجھ پر زیادہ سے زیادہ واضح ہوگئی۔ میری دلی خواہش ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اسلام میں کتنی اعلیٰ خوبیاں ہیں۔ تاعیسائی ممالک آہستہ آہستہ انہیں قبول کرسکیں۔ اسلامی تعلیم اس قدر سادہ ہے کہ معمولی سمجھ کا آدمی بھی اسے نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے عیسائیت اسلام سے بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے اسلام اور عیسائیت دونوں ایک دوسرے سے بہت کچھ لے سکتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے کے قریب ہوسکتے ہیں یہ فضول بات ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کے تاریک پہلو ہی زیر نظر رکھیں ہمیں چاہئے کہ خوبیوں کو بھی دیکھیں بلکہ انہیں قبول کریں۔ اس طرح توحید کے متعلق ہمارا عقیدہ کامل ہوسکتا ہے اور خدائے واحد وقادر مطلق پر ایمان بڑھ سکتا ہے مجھے یقین ہے کہ احمدیت کے مقدس بانی کو خداتعالیٰ کی طرف سے الہامات ہوتے تھے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے جس کے کئی ایک مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مختلف مذاہب میں جو اختلاف ہے وہ کم ہوجائے۔
رواداری:۔ مجھے یہ دیکھ کر بے انتہاء مسرت ہوئی کہ قادیان میں غیر مذاہب والوں سے بہت اچھا سلوک کیا جاتا ہے حضرت خلیفہ المسیح امام جماعت احمدیہ نے اپنی بے انتہاء مصروفیتوں کے باوجود مجھے کئی بار باریابی کا موقع عطا فرمایا۔ اور ایک دفعہ فرمایا۔ احمدیوں کو دیگر مذاہب کے لوگوں سے متعلق رواداری کی بھی تلقین کی جاتی ہے مجھے یقین ہے کہ جماعت احمدیہ کا دیگر مذاہب کے ساتھ حسن سلوک پرانے مذہبی تعصبات کو نیست ونابود کرنے میں بہت ممد ہوگا۔ اور مجھے اس تصور سے بے انتہا مسرت ہوتی ہے کہ اس سے آخرکار مختلف مذہب میں اختلافات کم ہوجائیں گے۔ میں قادیان میں ایک عیسائی کی طرح رہا۔ اور کبھی اسے چھپایانہیں ۔ لیکن باوجود اس کے مجھ سے بہترین سلوک کیا گیا۔
قادیان جانیوالوں کو مشورہ:۔ جس شخص کو قادیان جانے کا اتفاق ہو میں اسے مشورہ دوں گا کہ وہ وہاں کچھ عرصہ ٹھہرے کیونکہ کچھ عرصہ ٹھہرنے پر ہی قادیان کی حقیقی سپرٹ انسان پر ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے۔ لیکن جو شخص ایک آدھ دن ٹھہرکر چلا جائے اسے وہاں کوئی دلچسپی نظر نہ آئے گی قادیان` دہلی` آگرہ کی طرح شاندار عمارات کا مجموعہ نہیں لیکن ایک ایسی جگہ ہے جس کے روحانی خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یہاں ہر دن جو گذرارا جائے انسان کی روحانیت میں اضافہ کرتا ہے اور بہت ہی کم لوگ ایسے ہوں گے جو قادیان سے خالی ہاتھ واپس گئے ہوں لیکن وہاں سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کی قیمت کا اندازہ سکوں میں نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بہت ہی زیادہ قیمتی بلکہ انمول چیز ہے۔ میں نے ایشیاء میں ایک لمبا سفر کیا ہے۔ اور بہت مقامات دیکھے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں دوبارہ دیکھنے کی خواہش نہیں۔ بعض ایسے ہیں جنھیں پھر دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور ایسے مقامات میں قادیان کا نمبر سب سے اول ہے اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ قادیان نے مجھے کیا کچھ دیا ہے۔ اور یہ ایک وزیٹر )زائر( کو دے سکتی ہے آخر میں میں ان تمام احباب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی مہربانی سے قادیان کا قیام میری زندگی کا ایک یادگار اور ناقابل فراموش واقعہ بن گیا ہے۔ اگست ۱۹۳۱ء کے ریویو میں مسٹر عبداللہ آرسکاٹ نے قادیان کے متعلق اپنے تاثرات شائع کرائے ہیں جن کے حرف حرف سے مجھے اتفاق ہے فرق اتنا ہے کہ انہوں نے ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ رائے قائم کی ہے اور میں عیسائی ہونے کی حالت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ ۱۰۳
احمدیت کا ذکر انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں
مغربی دنیا میں انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کو جدید علوم اور سائنسی ترقی کا ایک معیاری نقطہ سمجھا جاتا ہے۔ ۱۷۷۱ء میں یہ پہلی بار ایڈنبرا )سکاٹ لینڈ( سے تین جلدوں میں شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن تقریباً پانچ برس کے بعد چھپا جو دس )۱۰( جلدوں پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد اس کے نئے سے نئے ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ نکلنے لگے ۲۹۔۱۹۳۰ء میں اس کا چودھواں ایڈیشن بیک وقت لندن اور نیویارک سے منظر عام پر آیا۔ جس میں جدید ترین نشوونما (<RECENTDEVELPMENTS>) کے ذیلی عنوان کے تحت احمدیت کا ذکر کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جبکہ اس سلسلہ تالیف کے ذریعہ دنیا کو سلسلہ احمدیہ سے روشناس کرانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی یہ مضمون نامور متشرق پروفیسر سرتھاس واکر آرنلڈ ARNALD) WALKER THOMES (SIR کے قلم سے نکلا جو نو برس تک سرسید کے زمانہ میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں پروفیسر کے منصب پر فائز رہے اور یہیں مشہور عالم کتاب دعوت اسلام Islam>) Of Preaching (<The text] gat[لکھی جسے مسلم دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سرتھامس آرنلڈ کا انتقال ۹۔ جون ۱۹۳۰ء کو ہوا۔ ذیل میں ان کے احمدیت سے متعلق نوٹ کا متن اور اردو ترجمہ دیا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ رسالہ >ریویو آف ریلیجنز< اردو قادیان نے اگست ۱۹۳۳ء کے شمارہ میں ایک مختصر تعارفی نوٹ کے ساتھ سپرد اشاعت کیا تھا:۔
‏DEVELOPMENTS RECENT
‏ important most the times modern In ),۔v۔(q Wahhabis the of those beem have developments sectarian was movements these of last The ۔Ahmadiyya the and )۔v۔(q Babis the in preach to began 1879, in who Ahmad, Ghulam Mirza by started He ۔India Punjab, the of province the in Qadian of village the promised the also but Mahdi the only not be to claimed be to held generally personages Messiah the Muslim ordinary in distinct Islamic into introduced he modification Another ۔ology commonly the Jesus; of death the to reference had doctrine by taken was Jesus that maintains belief accepted his in crucified was phantom a while heaven, into alive doG actually was Jesus that declared he this to opposition in place; still while cross the from down taken was but crucified, his of healed was disciples, his by alive into way his made afterwards and wounds in still being tomb his died, finally he where Kashmir, ۔Srinagar of city the in existence second the of expectation any for ground the removed thus Having was himself he that explained he earth, to haven from Jesus of coming incarnation an being as not Messiah, the of doctrine the dereject he (for Jesus of having as but Transmigration), just generation this for Jesus being ۔Jesus of likeness the in come the in came he because Elijah, was Baptist the John as۔Elijah of power and spirit
‏ spirit the in come had he that proff In the adduced Ahmad Ghulam Mirza Jesus, of power and character own his of likeness of that to personality and spirit, of gentlencess his Jesus, the and miracles his teaching, his of character peaceful the the of need the to teaching his of sappropriatenes doctrine the expounded he claim, pacific this with harmony In ۔age war meaning as interpreted (usually Jihad of after striving a as unbelievers) against few a and ۔1908 in died Ahmad Ghulam Mirza ۔righteousness parties, two into split followers his death his after years ۔Lahore in other the and Qadian in headquarters its having one community the of sections these Both the enlisting in succeeded are who men, sacrificing۔self devoted, of services and controversialists ,stsidpropagan as active unceasingly extensive an control They ۔pamphleteers Africa, West India, in only not activity, missionary are efforts their (where Java and Mauritius their persuading towards directed mainly sect), Ahmadiyya the join to co-religionists have missionaries Their ۔London and Chicago Berlin, in also but have and converts European winning to efforts special devoted their In ۔success of measure considerable a devoted of presentation a such give they literature attract to detalcalcu consider they as Islam modern on education an received have who persons and Muslims,۔non attract, only not thus and lines, Christain by Islam on made attacks the rebut the to back win but controversialists,۔influences rationalist or agnostic under come have who Muslims faith
30)۔(1929 Edition 14th Britannica Encyclopaedia 712(The ۔711 ۔P 12 ۔Vol
>دور جدید میں سب سے اہم فرقہ وارانہ نشو وارتقاء وہابیوں` وہابیوں اور احمدیوں کا ہے موخر الذکر تحریک کے بانی مرزا غلام احمد ہیں جنہوں نے ۱۸۷۹ء میں قادیان کی بستی سے جو صوبہ پنجاب ہندوستان میں واقع ہے۔ دعوت وارشاد کا سلسلہ شروع کیا۔
آپﷺ~ کا دعویٰ نہ صرف مہدی موعودؑ کا تھا بلکہ آپ مسیح موعودؑ ہونے کے بھی مدعی تھی۔ حالانکہ یہ دو شخصیتیں اسلام کے رواجی علم کلام میں بالعموم جداگانہ اور مختلف قرار دی گئی ہیں` ایک اور اصلاح جو آپ نے اسلامیوں کے عقائد کی وہ یسوع مسیح کی وفات سے متعلق ہے۔ مسلمانوں کا عام اعتقاد یہ ہے کہ مسیحؑ زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے اور ان کی جگہ ان کا ایک شبیہ صلیب پر لٹکایا گیا۔ اس کے برعکس آپ نے یہ بتلایا کہ فی الحقیقت مسیحؑ ہی صلیب پر چڑھائے گئے لیکن ابھی زندہ ہی تھے کہ ان کے پیروان نے انہیں صلیب سے اتار لیا` رفتہ رفتہ` ان کے زخم مندمل ہوگئے` پھر انہوں نے کشمیر کا رخ کیا جہاں انجام کار وہ فوت ہوگئے اور ان کا مزار ابھی تک شہر سری نگر کشمیر میں موجود ہے` اس طریق سے آپ نے آسمان سے یسوع مسیح کی آمد ثانی کی امید کو منقطع کرتے ہوئے یہ بتلایا کہ آپ خود ہی وہ مسیحؑ ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہ مسیحؑ آپ میں حلول کر آیا تھا کیونکہ آپ مسئلہ تناسخ کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ آپ یسوع مسیح کے مثیل بنکر آئے اور آپؑ موجودہ نسل کے لئے بالکل اسی طرح یسوع مسیح تھے جس طرح ایلیا کی جگہ پر یوحنا تھا` کیونکہ وہ یوحنا کی خوبو اور قویٰ لیکر ظاہر ہوا تھا۔
اس امر کے ثبوت میں کہ آپ یسوع مسیح کی خوبو اور قویٰ لیکر مبعوث ہوئے آپ نے انے خلق کی حلیمی` اپنی تعلیمات کی امن پسندانہ روش اور حاضر الوقت ضروریات سے مناسبت اور اپنے معجزات کے ذریعہ یسوع مسیح سے اپنی شخصیت اور کیریکٹر کی مماثلت کو ثابت کیا۔ مسئلہ جہاد کی جسے عام طور پر کفار سے جنگ کے معانی میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اپنے امن پسندانہ دعویٰ کی مطابقت میں آپ نے یہ تشریح کی کہ سب سے بڑھ کر` اس سے مراد زہد واتقا کی جدوجہد ہے۔
مرزا غلام احمد کا انتقال ۱۹۰۸ء میں ہوا۔ اور آپؑ کی وفات سے چند ہی برس بعد آپ کے متبعین دو گروہوں میں منقسم ہوگئے` جن میں سے ایک کا صدر مقام قادیان ہے اور دوسرے کا لاہور۔ اس سلسلہ کے ہر دو فریق ایسے مخلص اور ایثار پیشہ افراد کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہیں جو غیر مختتم طور پر بحیثیت مبلغ مناظر اور ناشر کے پوری مستعدی سے سرگرم عمل ہیں` وہ دعوت وتبلیغ کی ایک ایسی وسیع جدوجہد پر ضبط قائم کئے وہئے ہیں جو نہ صرف ہندوستان مغربی افریقہ` مریشس اور جاوا )جہاں ان کی مساعی زیادہ تر اپنے ہم مذہبوں کو سلسلہ احمدیہ میں داخل کرنے میں صرف ہورہی ہیں( بلکہ برلن` شکاگو اور لنڈن تک بھی پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں ان کے مبلغین نے خاص مساعی یوروپین لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرتے ہیں صرف کی ہیں` اور اس معاملہ میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لٹریچر میں اسلام کو اسی طریق سے پیش کیا ہے جو ان کے نزدیک ایسے لوگوں کو بھی اپنی طرف جذب کرسکے گا۔ جنہوں نے جدید انداز پر تعلیم حاصل کی ہے۔ اور اس طرح نہ صرف یہ کہ غیر مسلموں کو ان کی طرف کشش ہوگی اور اسلام کے عیسائی مخالفین کے حملوں کا رد ہوسکے گا بلکہ ان مسلمانوں کو بھی واپس اسلام میں لایا جاسکے گا جو دہریت یا طبیعت کے اثرات سے متاثر ہوچکے ہیں<۔
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب جنہوں نے ۱۹۲۹ء میں اعلان احمدیت کیا تھا اس سال دسمبر ۱۹۳۰ء میں اپنی آخری بیماری کے دوران جبکہ آپ صاحب فراش ہوچکے تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی حضرت امیر المومنین میرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ الودود کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ اور اس طرح سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مصلح موعود سے متعلق یہ عظیم الشان پیشگوئی کہ وہ تین کو چار کرنیوالا ہوگا غیر معمولی حالات اور فوق العادت رنگ میں پوری ہوگئی۔ فالحمد اللہ۔
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اس وقعہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ >میں جناب مرزا سلطان احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا تھا اور کبھی کبھی سلسلہ احمدیہ کا ذکر بھی ہوجاتا تھا آخر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ دن بھی لے آیا کہ مرزا صاحب موصوف کے اہل بیت کی طرف سے خاکسار کو بلایا گیا۔ تا حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرکے حضور کو یہاں لے آئوں۔ تاحضور بیعت لے لیں۔ میں نے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت مبارک میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے ہاں تشریف لے چلنے اور ان سے بیعت لے لینے کے لئے عرض کیا۔ حضور اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ مرزا سلطان احمد صاحب کی چارپائی کے قریب کرسی پر بیٹھ گئے۔ تو میں نے دیکھا۔ کہ دونوں بھائیوں پر خاموشی طاری ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں کے دل شرم وحیاسے لبریز ہیں۔ آخر کچھ توقف کے بعد خاکسار نے مرزا صاحب موصوف کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ جب آپ بیعت کی خواہش ظاہر فرماچکے ہیں تو اپنا ہاتھ بڑھائیں اور بیعت کرلیں چنانچہ انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور بیعت شروع ہوگئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح دھیمی آواز سے بیعت کے الفاظ فرماتے اور مرزا سلطان احمد صاحب ان کو دہراتے جاتے تھے جس وقت یہ الفاظ فرمائے گئے کہ آج میں محمود کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرکے احمدی جماعت میں داخل ہوتا ہوں۔ تو میرے قلب کی عجیب کیفیت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ کہ ایک چھوٹے بھائی کو جو بڑے بھائی سے عمر میں بہت چھوٹا ہے بلکہ اس کی اولاد کے برابر ہے۔ خداتعالیٰ نے وہ مرتبہ دیا ہے کہ وہ آج اپنے بڑے بھائی سے یہ الفاظ کہلوا رہا ہے کہ آج میں محمود کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں پھر اس کے بعد یہ الفاظ بھی دہرائے گئے۔ کہ آئندہ بھی ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا شرک نہیں کروں گا۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ اور جو نیک کام آپ بتائیں گے ان میں آپ کی فرمانبرداری کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعووں پر ایمان رکھوں گا۔
بیعت کے تمام الفاظ ختم ہوجانے پر حسب معمول حضور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور دیگر حاضرین نے بھی ہاتھ اٹھاکر دعا میں شمولیت کی۔ ۱۰۴
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے لانبقی لک من المخزیات ذکرا۱۰۵ یعنی ہم تمہارے متعلق ایسی تمام باتوں کو جو شرمندگی یا رسوائی کا موجب ہوسکیں مٹادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو بیعت خلافت کی توفیق دے کر اپنا یہ وعدہ غیر معمولی رنگ میں پورا فریادیا۔ چنانچہ سیدنا حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعلق جو اعتراض کئے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ کے رشتہ دار آپ کا انکار کرتے ہیں اور پھر خصوصیت سے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپ کا ایک لڑکا آپ کی بیعت میں شامل نہیں یہ اعتراض اس کثرت سے کیا جاتا تھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں سلسلہ کا درد تھا وہ اس کی تکلیف محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ میں دوسروں کا تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنی نسبت میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ میں کہہ سکتا ہوں بغیر ذرہ بھر مبالغہ کے بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوئوں سے تر ہوگئی اس وجہ سے نہیں کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا بلکہ اس وجہ سے کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا بیٹا اور اس وجہ سے بھی کہ یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر پڑتا تھا میں نے ہزاروں دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعاکی اور آخر اللہ تعالیٰ نے اس کا نتیجہ یہ دکھایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ہماری دوسری والدہ سے بڑے بھائی تھے۔اور جن کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے لئے اب احمدیت میں داخل ہونا ناممکن ہے احمدی ہوگئے ان کا احمدی ہونا ناممکن اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے زمانہ میں بیعت نہ کی ہو۔ اور پھر ایسے شخص کے زمانہ میں بھی بیعت نہ کی ہو جس کا ادب اور احترام اس کے دل میں موجود ہو اس کے متعلق یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا لیکن کتنا زبردست اور کتنی عظیم الشان طاقتوں اور قدرتوں والا وہ خدا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے مدتوں پہلے فرمادیا تھا ولانبقی لک من المخزیات ذکرا یعنی ہم تیرے اوپر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا نشان بھی نہیں رہنے دیں گے بلکہ سب کو مٹادیں گے۔ ۱۰۶
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
‏text] [tag۱۔ حکیم چراغ علی صاحب ۱۰۷ )تاریخ وفات ۱۹ اپریل ۱۹۳۰ء(
۲۔
مولوی عبدالصمد صاحب انصاری مہاجر پٹیالوی۔ ۱۰۸
۳۔
حضرت مولوی قاضی سید امیر حسین صاحب ۱۰۹ )تاریخ وفات ۲۴ اگست ۱۹۳۰ء(
۴۔
ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسری ۱۱۰ )تاریخ وفات ۲۷ ستمبر ۱۹۳۰ء(
۵۔
میاں جیون بٹ صاحب امرت سری ۱۱۱ )تاریخ وفات ۱۸ ستمبر ۱۹۳۰ء(
۶۔
حضرت مولوی حافظ سید علی میاں صاحب۱۱۲ شاہجہانپوری )تاریخ وفات ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۰ء(
۷۔
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس ۱۱۳ حاجی پورہ ریاست کپورتھلہ )تاریخ وفات یکم دسمبر ۱۹۳۰ء(
فصل ہفتم
۱۹۳۰ء کے متفرق واہم واقعات
خاندان مسیح موعود میں ترقی
‏]text [tag۱۷ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حرم اول کے ہاں مرزا اظہر احمد صاحب پیدا ہوئے۔ ۱۱۴ ۲۰ فروری ۱۹۳۰ء کو صاحبزادہ حضرت مرزابشیر احمد صاحب کی نواسی صبیحہ بیگم صاحبہ۱۱۵ پیدا ہوئیں )جو بعد کو مرزا انور احمد صاحب کے عقد میں آئیں(
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں ۲۰ دسمبر ۱۹۳۰ء کو ایک فرزند کی ولادت ہوئی۔ ۱۱۶
شوکت علی خان صاحب قادیان میں
مشہور مسلم لیڈر مولانا شوکت علی خان صاحب ۳ جنوری ۱۹۳۰ء کو قادیان تشریف لائے۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی۔۱۱۷ اس سلسلہ میں اخبار آفتاب )بمبئی( نے ۲۴ فروری ۱۹۳۰ء کو ایک اخبار کے حوالہ سے مندرجہ ذیل خبر شائع کی۔ >مولانا شوکت علی پچھلے دنوں قادیان تشریف لے گئے اور مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان کے ہاں فردکش ہوئے۔ خلوت میں آپ نے خلیفہ صاحب سے دست بستہ عرض کی کہ میں آپ کی دعائوں کا محتاج ہوں فی الحال میں آپ کی تبلیغ علی الاعلان نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس طور پر مسلمان مجھ سے ایک دم بد ظن ہوجائیں گے انشاء اللہ موقعہ ملنے پر ہر ممکن طریق سے احمدیت )قادیانیت( کی اشاعت کروں گا< اس خبر سے اندزاہ لگ سکتا ہے کہ مخالفین احمدیت ان دنوں کس طرح غلط بیانیوں سے کام لے رہے تھے یہ خبر >زمیندار< نے بھی شائع کی تھی جس کی تردید ۲۵ فروری ۱۹۳۰ء کے >زمیندار< میں خود مولانا شوکت علی صاحب نے شائع کر دی تھی۔
امتہ الحی لائبریری کا اجراء
>امتہ الحی لائبریری< فروری ۱۹۳۰ء میں قائم ہوئی گول کمرہ میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ ۱۱۸
حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کا دوسرا نکاح
حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲ فروری ۱۹۳۰ء کو مسجد اقصیٰ میں بعد نماز عصر مرزا عزیز احمد صاحب خلف اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا دوسرا نکاح سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ )بنت حضرت مولانا میر محمد اسحٰق صاحب( سے پڑھا۔ اور نہایت لطیف خطبہ نکاح ارشاد فرمایا۔ ۱۱۹
‏sub] g[taریزرو فنڈ میں نمایاں حصہ
حضرت خلیفہ المیسح الثانی کی طرف سے >ریزروفنڈ< کی جو اہم تحریک جاری تھی اس کے قیام میں جن اصحاب نے سب سے زیادہ حصہ لیا ان میں سرفہرست محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تھے چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء میں فرمایا:۔
>دراصل لوگوں نے اس فنڈ کے جمع کرنے میں بہت کم توجہ کی ہے۔ اگر پانچ پانچ روپے بھی دوست ماہوار جمع کرنے کی کوشش کرتے تو بہت کچھ جمع کرسکتے تھے بعض نے تو کہا تھا کہ وہ لاکھ لاکھ جمع کرسکتے ہیں مگر نہ معلوم انہوں نے کیوں نہ کیا۔ اگر دوست اس طرف توجہ کریں تو ۲۵ لاکھ کا جمع ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں اور اس سے بہت کافی آمدنی ہوسکتی ہے اس وقت تک ریزرو فنڈ کا زیادہ حصہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جمع کیا ہے اور انہوں نے ایک معقول رقم جمع کی ہے بڑی رقموں کے لحاظ سے چوہدری صاحب کی رقم بہت بڑی رقم ہے۔ ۱۲۰
انگلستان مشن کا احتجاج
انگلستان کے ایک مقتدر رسالہ نے جنوری ۱۹۳۰ء کے ایشوع میں آنحضرت ~صل۱~ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ذکر نہایت ناشائستہ الفاظ میں کیا تھا۔ خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب نے اس کا علم ہونے پر ایک طرف ایڈیٹر کو اور دوسری طرف وزیر ہند کو توجہ دلائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیٹر رسالہ کو معافی مانگنا پڑی اور حکومت ہند نے اس رسالہ کا داخلہ ملک میں ممنوع قرار دے دیا۔ ۱۲۱
مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی اور واپسی
)۱( حکیم فضل الرحمان صاحب مبلغ افریقہ ۲۷ جنوری ۱۹۳۰ء کو واپس قادیان تشریف لائے۔ ۱۲۲4] f[rt
)۲( مولوی رحمت علی صاحب )دوسری بار( اور مولوی محمدصادق صاحب )پہلی بار( تبلیغ اسلام کی غرض سے ۶ نومبر ۱۹۳۰ء کو قادیان سے روانہ ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ انہیں الوداع کہنے کئے لئے خود ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے اور دعائوں کے ساتھ ان مجاہدوں کو رخصت کیا۔۱۲۳
قاہرہ سے اخبار >اسلامی دنیا< کا اجراء
اس سال جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے قاہرہ میں آنریری مبلغ کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اسلامی دنیا کے نام سے ایک اخبار جاری کیا مسلمانوں کا باہمی تعارف اور انہیں ان کے مصائب ملی سے آگاہ کرکے اتحاد کی دعوت اس اخبار کی پالیسی تھی۔ اس کے دو ایڈیشن نکلتے تھے ایک اردو میں دوسرا عربی میں۔ ۱۲۴ یہ اخبار مصور تھا اور اردو دنیا میں اسلامی دنیا کی خبریں نہایت شرح وبسط سے شائع ہوتی تھیں۔ افسوس ہے کہ بعض ناگزیر مجبوریوں نے یہ اخبار زیادہ عرصہ تک جاری نہرہنے دیا۔ اور اس کی اشاعت بند ہوگئی اور جناب عرفانی صاحب قاہرہ سے قادیان آگئے۔][احمدی مشن ایک حیدر آبادی سیاح کی نظر میں
میرزا سلیم بیگ صاحب سیاح بلاد اسلامیہ حیدر آباد دکن اس زمانہ میں سیاحت کررہے تھے میرزا صاحب کو مصر اور دوسرے احمدی مشنوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں دوسری مرتبہ ۱۹۳۰ء میں قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا اور یہ میری خوش نصیبی تھی کہ عرفانی صاحب موجود تھے۔ اور ان کا مشن نہایت کامیابی سے اپنے کام میں لگا ہواتھا۔۔۔ اور مجھے مشن کی کارگزاری پر مشن کے رسوخ پر مبلغ کے خلوص پر غور کرنے کا بہت زیادہ موقع ملا۔ میں ان تاثرات کو لئے ہوئے فلسطین` شام` استنبول اور برلن وغیرہ گیا جہاں مجھے جماعت احمدیہ کی تنظیم اورکوششوں کا ثبوت ملتا گیا مجھے حقیقتاً نہایت صدق دل سے اس کا اعتراف ہے کہ میں نے ہر جگہ جماعت احمدیہ کے مبلغوں کی کوششوں کے نقوش دیکھے ہر جگہ اسلامی روایات کے ساتھ تنظیم دیکھی ہر جگہ اس جماعت میں خلوص اور نیک نیتی پائی جماعت احمدیہ میں سب سے بڑی خوبی اتحاد عمل اور امام جماعت احمدیہ کے احکام کی پابندی ہے اس کے اراکین کہیں اور کسی حال میں شعار اسلام اور احکام اسلام کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اور نہ اپنی اصل غرض سے اور فرض سے انجان ہوتے ہیں۔ تقریروں تحریروں یا ملاقاتوں میں ان کا نقطہ نظر موجود ہوتا ہے۔ اور وہ اشارۃ کنایتہ اپنا کام کئے جاتے ہیں محنت برداشت کرتے ہیں غیر مانوس اور غیر مشرب لوگوں میں رسوخ پیدا کرکے اپنے فرائض کی تکمیل کرتے ہیں ۔ ۱۲۵
سیٹھ ابوبکر صاحب سماٹری کی طرف سے الوداعی تقریب
سیٹھ ابوبکر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ سماٹرا جو ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا کے ہمراہ آئے ۱۱ جنوری ۱۹۳۰ء کو سماٹرا روانہ ہوئے اور ۳۰ جنوری ۱۹۳۰ء کو پاڈانگ پہنچتے روانگی سے ایک دن قبل انہوں نے قصر خلافت میں ایک سو اصحاب کو چائے کی دعوت دی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح نے بھی شرکت فرمائی۔ سیٹھ صاحب نے ملائی زبان میں تقریر کی قادیان اور خلافت کے روحانی برکات اور احمدیوں کی اخوت اسلامی کا ذکر کرتے ہوئے ان پر بار بار رقت طاری ہوجاتی اور آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔۱۲۶ سیٹھ صاحب کی تقریر کے بعد مولوی رحمت علی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا۔ پھر حضرت امیرالمومنین نے بھی خطاب فرمایا اور بتایا کہ سیٹھ صاحب نے گو اجنبی زبان میں تقریر کی مگر ان کی حالت اس قدر مئوثر تھی کہ بے اختیار دل کھنچا جاتا تھا چنانچہ فرمایا:۔
>گو مولوی رحمت علی صاحب نے ان کی تقریر کا ترجمہ کر دیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں اس ترجمہ سے بہت زیادہ قیمتی تھی وہ آواز وہ لہجہ اور وہ تاثر جو ابوبکر صاحب کے چہرہ سے ظاہر ہورہا تھا اور جو یادگار کے طور پر قائم رہیں گے اور ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے ایمان میں ان کی وجہ سے اسی طرح زیادتی ہوئی ہے جس طرح ان کے ایمان میں قادیان آنے کی وجہ سے ہوئی ہے<۔ 10] [p۱۲۷
آخر میں فرمایا:۔
>میں اپنے کل جانے والے بھائی کے لئے دعا کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہماری خواہش کوشش اور دعا ان کے ساتھ ہوگی<۔
اس کے بعد سارے مجمع نے حضور ایدہ اللہ تعالٰے کے ساتھ دعا کی اور یہ مبارک تقریب ختم ہوئی۔ ۱۲۸
اندرون ملک کے مشہور مباحثات
)۱( مباحثہ گجرات ۱۲۹ )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم و پنڈت شانتی سروپ سابق محمد علی( تاریخ مناظرہ ۳ جنوری ۱۹۳۰ء پنڈت صاحب نے اس موضوع پر کہ میں نے اسلام کیوں چھوڑا<۔ ایک لیکچر دیا تھا اس کے بعد یہ مباحثہ ہوا۔ جس میں ان کے ایسے تمام مائیہ ناز اعتراضات کے جوابات دیئے گئے جن کی بناء پر انہوں نے اسلام کو چھوڑ دینا ظاہر کیا تھا مگر وہ آخر بحث تک کسی ایک جواب کو بھی رد نہ کرسکے۔
۲۔ مباحثہ میرٹھ ۱۳۰ )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب و آریہ سماجی پنڈت صاحب( تاریخ مناظرہ ۸۔۹ فروری ۱۹۳۰ء اور موضوع تناسخ تھا۔
۳۔ مباحثہ حیدرآباد دکن:۔ )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب و پنڈت دھرم بھکشو صاحب آریہ سماجی( تاریخ مناظرہ ۲۰۔۲۱۔۲۲ مارچ ۱۹۳۰ء موضوع بحث >عالمگیر مذہب< اور تناسخ۔ ۱۳۱
۴۔ مباحثہ مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ )مابین حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی و مولوی فضل علی صاحب لکھنوی و مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و مولوی فضل علی صاحب لکھنوی( تاریخ مناظرہ ۸ تا ۱۱ جولائی ۱۹۳۰ء موضوع بحث ختم نبوت اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام ایک حنفی عالم مولوی سردار محمد صاحب نے اس مباحثہ سے متاثر ہوکر کہدیا کہ اگر آج پانچ سو روپیہ کاانعام مقرر ہوتا تو احمدی مناظروں کا حق تھا کہ ان کو دیا جاتا۔ ۱۳۲
۵۔ مباحثہ کریم پور ضلع جالندھر۔ )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ومولوی اسد اللہ صاحب سہارنپوری(تاریخ مناظرہ ۲۵۔۲۶ مئی ۱۹۳۰ء موضوع بحث صداقت حضرت مسیح موعود و حیات و وفات مسیح۔ اس مباحثہ میں بفضلہ تعالیٰ حق کو ایسی نمایاں فتح ہوئی کہ آٹھ اشخاص اس سے متاثر ہوکر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ ۱۳۳
۶۔ مباحثہ جتوئی ضلع مظفر گڑھ )جماعت احمدیہ کے مناظر مولانا ابوالعطاء صاحب و مولانا ابو البشارت عبدالغفور صاحب اور غیر احمدی مناظر مولوی سلطان محمود صاحب و مولوی غلام رسول صاحب المعروف محدث( تاریخ مناظرہ ۱۱ تا ۱۳ جولائی ۱۹۳۰ء۔ موضوع بحث حیات ووفات مسیح علیہ السلام حضرت مرزا صاحب ختم نبوت صداقت مسیح موعود۔ ۱۳۴
۷۔ مباحثہ گلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ )احمدی مناظر مولوی محمد یار صاحب عارف اور غیر احمدی مناظر مولوی احمد دین صاحب گکھڑوی` مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی اور حافظ حبیب اللہ صاحب امرت سری( تاریخ مباحثہ ۲۱ جولائی ۱۹۳۰ء۔ یہ مناظرہ حیات ووفات مسیح اور صداقت مسیح موعود کے موضوع پر ہوا۔ اس میں احمدیوں کی طرف سے مناظرہ تو آخر تک مکرمی مولوی محمد یار صاحب عارف ہی رہے۔ مگر غیر احمدیوں کو یکے بعد دیگرے تین مناظر بدلنے پر مجبور ہونا پڑا مگر اس پر بھی انہیں ایسی شکست فاش نصیب ہوئی کہ غیر احمدی علماء کو وقت ختم ہونے سے پیشتر ہی اپنی میز کرسیاں اور کتابیں اٹھواکر میدان بحث سے چل دینا ہی مناسب معلوم ہوا۔ ۱۳۵
۸۔ مباحثہ کوٹ باجوہ تحصیل نارووال ضع سیالکوٹ )احمدی مناظر مولوی محمد یار صاحب عارف اور غیر احمدیوں کی طرف سے کئی علماء نے مناظرہ میں حصہ لیا( تاریخ مناظرہ ۲۱ جولائی ۱۹۳۰ء موضوع بحث حیات ووفات مسیح و صداقت مسیح موعود۔ ۱۳۶
۹۔ مباحثہ نارووال ضلع سیالکوٹ )احمدی مناظر مولوی عبداللہ صاحب امام مسجد احمدیہ نارووال و مولوی خیر دین صاحب سیکرٹری تبلیغ نارووال۔ غیر احمدی مناظر مولوی غلام رسول صاحب و مولوی عبدالرحیم صاحب مناظر اہلحدیث( تاریخ مناظرہ ۵۔۷۔۸ ستمبر ۱۹۳۰ء موضوع بحث حیات ووفات مسیح و صداقت مسیح موعود۔ ۱۳۷]body [tag
۱۰۔ مباحثہ بھڈیار ضلع امرت سر ۱۳۸ )احمدی مناظر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی و مولوی محمد یار صاحب عارف( تاریخ مناظرہ ۱۳۔۱۴ ستمبر ۱۹۳۰ء موضوع بحث۔ حیات ووفات مسیح صداقت مسیح موعود۔
۱۱۔ مباحثہ چندر کے مگولے ضلع سیالکوٹ )مابین مولوی محمد یار صاحب عارف و مولوی عصمت اللہ صاحب غیر مبائع( تاریخ مناظرہ ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ء تھی اور موضوع بحث مسئلہ نبوت۔ ۱۳۹
۱۲۔ مباحثہ بٹالہ )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب و مولوی ثناء الل¶ہ صاحب امرتسری( ۱۵ نومبر ۱۹۳۰ء کو یہ مناظرہ ہوا۔ ۱۴۰
۱۳۔ مباحثہ لائل پور )احمدی مناظر مولوی محمد یار صاحب عارف و مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری غیر احمدی مناظر مولوی مسعود صاحب و مولوی محمد شفیع صاحب سنکھتروی( تاریخ مناظرہ ۱۹۔۲۰ نومبر ۱۹۳۰ء موضوع بحث ختم نبوت کی حقیقت اور صداقت مسیح موعود ۔ ۱۴۱
۱۴۔ مباحثہ کوٹ کپورہ فرید کوٹ )مابین مولوی محمد یار صاحب عارف و مولوی عبدالرحمن فرید کوٹی( تاریخ مناظرہ ۱۰ دسمبر ۱۹۳۰ء۔ موضوع ختم نبوت و حیات و وفات مسیح۔ ۱۴۲
۱۵۔ مباحثہ آڑہ ضلع گجرات )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم و مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑوی( تاریخ مناظرہ ۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء و یکم جنوری ۱۹۳۱ء موضوع بحث صداقت مسیح موعود وحیات و وفات مسیح۱۴۳
۱۶۔ مباحثہ کرولیاں ضلع گورداسپور۔ )احمدی مناظر مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری۔ مولوی محمد یار صاحب عارف۔ مولوی ابوالبشارت عبدالغفور صاحب۔ غیر احمدی مناظر مولوی نور حسین گرجا کھی۔ مولوی محمد امین صاحب وعبدالرحیم صاحب( تاریخ مناظرہ ۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء و یکم جنوری ۱۹۳۱ء مضامین مناظرہ >ختم نبوت< صداقت مسیح موعود و حیات و وفات مسیح۔۱۴۴
۱۹۳۰ء کی دو اہم تصانیف
۱۹۳۰ء کے واقعات کو ختم کرنے سے پہلے اس دور کی دو اہم کتابوں کا تفصیلی ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جن میں سے ایک مسلمانان ہند کی سیاسی خدمت کا شاہکار ہے اور دوسرا تبلیغ احمدیت کا۔ پہلی کتاب کا نام ہندوراج کے منصوبے اور دوسری کا نام ہے تفہیمات ربانیہ۔
۱۔ ہندو راج کے منصوبے۔ یہ کتاب مکرم ملک فضل حسین صاحب کی نادر تالیف ہے جسے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز نے نہایت درجہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور شاندار رائے لکھی )ملاحظہ ہو الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۲( نیز جماعت احمدیہ بلکہ دوسرے مسلمان لیڈروں نے اس کی اشاعت میں دل کھول کر حصہ لیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک نہایت قلیل وقت میں اس کے آٹھ دس ایڈیشن چھپکر ملک کے گوشے گوشے میں پھیلادیئے گئے کتاب کی افادیت کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نظام حیدر آباد دکن نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کرایا اور Raj> Hindu of <Plansکے نام سے بڑی سج دھج کے ساتھ اسے شائع کیا اورتیسری گول میز کانفرنس پر تین سو نسخے لنڈن بھجوائے گئے۔ جو حکومت برطانیہ کے ارکان` پارلیمنٹ کے مقتدر افراد اور سربرآوردہ انگریزوں تک پنہچادیئے گئے۔ انگریزی کے علاوہ وہ سندھی اور گجراتی زبان میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے حضرت مرزا شریف احمد صاحب` حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی` حضرت میر محمد اسحاق صاحب حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ عبدالمجیدصاحب سالک ایڈیٹر انقلاب۔ سید شمس الحسن صاحب اسسٹنٹ سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ دہلی اور محترمہ بیگم شاہ نواز نے بھی اس پر نہایت عمدہ ریویو لکھے جو الفضل ۲۳ اگست ۱۹۳۰ء اور یکم فروری ۱۹۵۲ء میں شائع ہوچکے ہیں اس سلسلہ میں مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کی یہ رائے نہایت صائب اور حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانان ہند کو بیدار کرنے اور مطالبہ پاکستان میں جان ڈالنے میںمہاشہ فضل حسین کی کتاب ہندوراج کے منصوبے کا بھی کافی دخل ہے یقیناً قیام پاکستان کی تاریخ لکھنے والا کوئی مورخ اس کتاب کو نظر اندار نہیں کرسکتا۔
۲۔ تفہیمات ربانیہ )منشی محمد یعقوب صاحب نائب تحصیلدار ریاست پٹیالہ کی کتاب عشرہ کاملہ اور تحقیق لاثانی کا مفصل و مدلل جواب مولانا ابوالعطا صاحب جالندھری کے قلم سے( اس کتب کا پہلا ایڈیشن دسمبر ۱۹۳۰ء میں مینجر بک ڈپو تالیف واشاعت قادیان نے اور دوسرا ایڈیشن نئے اور مفید اضافوں کے ساتھ دسمبر ۱۹۶۴ء میں مکتبہ الفرقان ربوہ نے شائع کیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کے طبع اول پر سالانہ جلسہ ۱۹۳۰ء میں فرمایا۔
>اس کا نام میں نے ہی تفہیمات ربانیہ رکھا ہے )طباعت سے پہلے( اس کا ایک حصہ میں نے پڑھا ہے جو بہت اچھا تھا۔ اس کتاب کے لئے کئی سال سے مطالبہ ہورہا تھا۔ کئی دوستوں نے بتایا کہ عشرہ کاملہ میں ایسا مواد ہے کہ جس کا جواب ضروری ہے اب خدا کے فضل سے اس کے جواب میں اعلیٰ لٹریچر تیار ہوا ہے۔ دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت کرنی چاہئے<۔ ۱۴۵
‏tav.5.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سترھواں سال
حواشی )تیسرا باب(
۱۔
الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۔۸
۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ۲۰۱۔۲۰۲
۳۔
الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲ کالم ۱
۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۰۱۔ ۲۰۲
۵۔
الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ بعض لوگوں نے اس سلسلہ اشتہارات کی مقبولیت کو دیکھ کر ندائے ایمان ہی نام سے جوابی اشتہار لکھے مگر ان حرکات سے اصل اشتہارات کا اثر زائل نہیں ہوسکتا تھا۔
۶۔
الفضل ۱۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔۳
۷۔
الفضل ۷ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱
۸۔
>سرگزشت< صفحہ ۲۶۸۔
۹۔
مثلاً نواب صاحب بہاولپور نواب صاحب پالن پور سر محمد شفیع صاحب عبدالمجید صاحب سالک۔ خواجہ حسن نظامی صاحب۔
۱۰۔
الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۔۲
۱۱۔
اکتوبر ۱۹۳۰ء سے رسالہ مولوی ظفر محمد صاحب فاضل کی ادارت میں اور مارچ ۱۹۳۱ء سے سید یوسف شاہ صاحب کاشمیری کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا آخری پرچہ میں جو دسمبر ۱۹۳۲ء میں چھپا مولوی محمد سلیم صاحب ایڈیٹر تھے۔
۱۲۔
رسالہ جامعہ احمدیہ سالنامہ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱
۱۳۔
رسالہ جامعہ احمدیہ سالنامہ دسمبر ۱۹۳۰ء
۱۴۔
تعلیم الاسلام میگزین جلد ۱ نمبر۱ سرورق صفحہ۲
۱۵۔
الفضل ۸ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۶۔
الفضل ۹ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۲۔۳
۱۷۔
الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۸ کالم ۱
۱۸۔
الفضل ۸ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ کالم ۲۔۳ الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳
۱۹۔
الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۲
۲۰۔
الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۲
۲۱۔
دیندار متقی اور جوش رکھنے والے نوجوان تھے زرعی زمین کے علاوہ لنگی کلاہ کی دکان بھی تھی سلیم اللہ صاحب صوبیدار میجر پینشنر نوشہرہ کے بیان کے مطابق ایوب شاہ صاحب مردان کی تحریک پر قاضی صاحب کے ماموں اور وہ داخل احمدیت ہوئے۔ قاضی صاحب کی بیوی عرصہ ہوا فوت ہوچکی ہیں ان کا ایک لڑکا بابوفضل علی اور نواسہ فیروز شاہ موجود ہے۔
۲۲۔
الفضل ۴ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۲۳۔
الفضل ۱۹ مئی ۱۹۳۱ء مزید تفصیل ۱۹۳۱ء کے واقعات میں آرہی ہے۔
۲۴۔
الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳۔۴
۲۵۔
الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۵ کالم ۳ )خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی(
۲۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۴۶
۲۷۔
اس تجویز سے تین نتائج نکلتے تھے۔ )۱( معتمدین کے سلسلہ کی تمام جائداد کے نگران ہیں گو خلیفہ کے ماتحت ہیں )۲( خلیفہ کا ناظر صاحبان کو مجلس معتمدین کے ممبر مقرر کرنا درست نہیں۔ )۳( مجلس معتمدین کا انتخاب خلیفہ کی طرف سے نہیں جماعت کے انتخاب سے ہونا چاہے ظاہر ہے کہ یہ تینوں نتیجے نظریہ خلافت کے بھی منافی تھے۔ اور دنیاوی حکومتوں کے دستور اساسی کے بھی خلاف تھے کوئی پارلیمنٹ وزراء مقرر نہیں کرتی۔ مگر کمیشن کی رائے تھے کہ مجلس شوریٰ مجلس معتمدین مقرر کرے )ایضاً صفحہ ۴۶(
۲۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۴۷
۲۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲۸۔۱۲۹
۳۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۳۵۔۲۳۶
۳۱۔
>مجلس تعلیم< کے ابتدائی ارکان ` ضروری قواعد اور اہم کوائف کی تفصیل انشاء اللہ ۱۹۴۲ء کے حصہ تاریخ میں آئیگی۔ مندرجہ بالا حالات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب >مجلس تعلیم< )شائع کردہ مجلس تعلیم قادیان۔ دسمبر ۱۹۴۵ء(
۳۲۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< میں لکھا ہے ۱۹۳۰ء میں جب کانگریس نے اپنے سول نافرمانی کے پروگرام کا جائزہ لینا شروع کیا تو مسلمانوں کی قدیم سیاسی جماعتوں میں سے ایک بھی اس کے ساتھ نہ ہوئی اور نہ مسلمان من حیث القوم اس تحریک میں شامل ہوئے البتہ احرار اور جمعتہ العلماء کی مختصر جماعتیں گاندھی ارون سمجھوتے تک کانگریس کے ساتھ رہیں<۔ )صفحہ ۱۳۵(
۳۳۔
الفضل ۹ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱ تا ۱۴ ہفت روزہ >ملت< کرا|چی )۳۰ جون ۱۹۳۰ء( نے اس خطبہ کا قریباً پورا متن شائع کیا۔ اس خطبہ کے بعد بھی حضور نے کانگریس اور اس کی تحریک پر کئی خطبے ارشاد فرمائے جنہوں نے سول نافرمانی کی آگ بجھانے میں بہت مدد دی۔
۳۴۔
الفضل ۲۷ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۲۔۳۔ الفضل ۳ جون ۱۹۳۰ء صفحہ۲ کالم ۱
۳۵۔
الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷
۳۶۔
الفضل ۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰
۳۷۔
۲۳ اپریل ۱۹۳۰ء کو کانگریس کے دو سرحدی لیڈروں )عبدالغفار خاں وغیرہ( کی گرفتاری پر شہر کے حالات قابو سے باہر ہوگئے فوج بلائی گئی جس نے ہجوم پر رائفلوں اور مشین گنوں سے فائر کئے اس حادثہ میں بیس افراد ہلاک ہوگئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح کے مندرجہ بالا مکتوب میں اسی درد ناک واقعہ کی طرف اشارہ ہے مگر افسوس ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی جیسے مورخ حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس احتجاج سے آسنا نہیں چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب >اقبال کے آخری دو سال< میں لکھا ہے عین اس وقت جب صوبہ سرحد کے باشندوں کے خون سے پشاور کی سرزمین لالہ زار بن رہی تھی ہندوستان بھر میں کوئی اسلامی جماعت کوئی اسلامی انجمن کوئی اسلامی ادارہ ایسا نہیں تھا جو صدائے احتجاج بلند کرتا۔ اور حکومت سے پوچھتا کہ یہ کس جرم کی پاداش میں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ ختم ہوچکی تھی ابنائے زماں کی ناقدری کے ہاتھوں جناح وطن میں رہنے کے باوجود غریب الوطن کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا محمد علی مرض الموت میں مبتلا اپنی زندگی کا آخری سال پورا کر رہا تھا۔ )صفحہ ۲۴۴(
۳۸۔
الفضل ۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۴۔۵
۳۹۔
الفضل ۳ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱ کالم ۳
۴۰۔
الفضل ۷ جون ۱۹۳۰ء اس خطبہ میں حضور نے کانگریس کے پروگرام پر زبردست ناقدانہ روشنی ڈالتے ہوئے ثابت کردکھایا کہ اس تحریک سے سراسر نقصان ہی نقصان ہے مسلمانوں کو بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور ملک کو بھی نہیں )ایضاً صفحہ ۹ کالم ۳(
۴۱۔
الفضل ۴۔ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۔۲۔ یہ اخبار تقسیم ملک کے بعد انبالہ منتقل ہوچکا ہے۔
۴۲۔
جیسا کہ ۱۹۲۹ء کے حالات میں ذکر آچکا ہے کانگریس پہلے ہی اپنی تحریک کے خلاف مسلمانان ہند میں اپنا سب سے بڑا حریف جماعت احمدیہ کو سمجھتی تھی کیونکہ یہی واحد فعال جماعت تھی جو مسلمانوں کے حقوق کے لئے سینہ سپر تھی چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ ڈاکٹر سید محمود صاحب )کانگریس کے سیکرٹری۔ ناقل( ۔۔۔ نے میرے سامنے کہا کہ میں آپ کے سیاسی خیالات سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن مذہبی لحاظ سے آپ کی اسلامی خدمات کا قائل ہوں ہمارے درد صاحب جب گاندھی جی سے ملنے گئے تو اس وقت بھی گاندھی جی کے سامنے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی کام کرنے والی جماعت ہے تو وہ احمدیہ جماعت ہی ہے جس پر خود گاندھی جی نے کہا کہ میں اس امر کا خوب جانتا ہوں< )الفضل ۲۷ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۸ کالم ۱(
۴۳۔
الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء
‏h1] g[ta۴۴۔
الفضل یکم اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۵
۴۵۔
حال پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ۔ )وفات ۲۔ جنوری ۱۹۹۳ء(
۴۶۔
حال سیکرٹری اصلاح وارشاد سیالکوٹ۔
۴۷۔
الفضل ۱۹ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۳
۴۸۔
مفصل مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۴۹۔
الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۵۰۔
الفضل ۱۲ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ ۹ کالم ۱۔۲
۵۱۔
الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ کالم ۱۔۲
۵۲۔
الفضل ۱۵ جون ۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم۱۔۲
۵۳۔
الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ۶
۵۴۔
الفضل ۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ کالم ۲۔۳
۵۵۔
الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ کالم ۲۔۳
۵۶۔
الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳
۵۷۔
الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۲
۵۸۔
الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳
۵۹۔
الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۲۔۱
‏h1] ga[t۶۰۔
الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱
۶۱۔
الفضل ۱۹ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۳
۶۲۔
بحوالہ الفضل ۷ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱
۶۳۔
الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳
۶۴۔
الفضل ۱۳ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۳۔۴
۶۵۔
الفضل ۱۰ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۳
۶۶۔
ایضاً صفحہ ۳ کالم ۳
۶۷۔
الفضل ۱۱ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ کالم ۳
۶۸۔
تفصیل اگلی فصل کے آغاز میں آرہی ہے۔
‏]1h [tag۶۹۔
یہاں یہ ظاہر کردینا ضروری ہے کہ ۱۹۳۰ء کے الہ آباد اجلاس کے لئے علامہ اقبال کے صدر مقرر کئے جانے کا فیصلہ مسلم لیگ کے جس اجلاس میں کیا گیا اس کے صدر حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے۔)الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۳۰ء(
۷۰۔
الفضل ۵ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ حضور کے ہمرہ حضرت ام المومنین ` حضور کے دو حرم` پرائیویٹ سیکرٹری مع عملہ ناظر امور خارجہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد مع عملہ` حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بھی تشریف لے گئے اور مقامی امیر حضرت مولوی شیر علی صاحب مقرر فرمائے گئے۔
۷۰)ب(
سر سکندر حیات خان صاحب مراد ہوں گے۔ )مولف(
۷۱۔
ہفت روزہ >خاور< لاہور ۲۱ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۳
۷۲۔
نقل مطابق اصل
۷۳۔
بحوالہ الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۹ کالم ۱
۷۴۔
الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۔۲
۷۵۔
اس سلسلہ میں حضور کا اعلان الفضل ۲۱ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ پر مندرج ہے۔
۷۶۔
الفضل ۱۹ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۵۔۶
‏h1] g[ta۷۷۔
الفضل ۱۴ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ ۶۔۷
۷۸۔
الفضل ۱۶ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ ۳ کالم ۱ اور صفحہ ۸
۷۹۔
الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۲۔۳
۸۰۔
مفصل تقریر الفضل ۸ نومبر ۱۹۳۰ء و ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ء میں چھپ چکی ہے۔
۸۱۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۱۔۱۹۳۲ء صفحہ۳۔۴
۸۲۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۰۔۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰۸۔۱۰۹
۸۳۔
یہ سب آراء سیاسی مسئلہ کا حل کے اردو ایڈیشن میں چھپ چکی ہیں۔
۸۴۔
یہ کانفرنس لندن میں تین بار منعقد ہوئی )۱( نومبر ۱۹۳۰ء تا جنوری ۱۹۳۱ء )۲( ستمبر ۱۹۳۱ء تا دسمبر ۱۹۳۱ء (۳) نومبر ۱۹۳۲ء تا دسمبر ۱۹۳۲ء۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تینوں کانفرنسوں میں شامل ہوئے مگر جناب محمد علی جناح نے پہلی اور دوسری کانفرنس میں شمولیت فرمائی اور پھر دل برداشتہ ہوکر لنڈن میں ہی مقیم ہوگئے چنانچہ ان کا بیان ہے میں حیران ہوں کہ میری ملی خود داری اور وقار کو کیا ہوگیا تھا کانگریس سے صلح و مفاہمت کی بھیک مانگا کرتا تھا میں نے اس مسئلہ کے حل کے لئے اتنی مسلسل اور غیر منقطع مساعی کیں کہ ایک انگریز اخبار نے لکھا >مسٹر جناح ہندو مسلم اتحاد کے مسئلہ سے کبھی نہیں تھکتے لیکن گول میز کانفرنس کے زمانہ مں مجھے اپنی زندگی میں سب سے بڑا صدمہ پہنچا۔۔۔۔ اب میں مایوس ہوچکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانواں ڈول ہو رہے تھے۔۔۔ مجھے اب محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ نہ ہندوذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی پیدا کرسکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں آخر میں نے لندن میں ہی بودوباش کا فیصلہ کرلیا<۔ )حیات محمد علی جناح< طبع دوم صفحہ ۲۰۰۔ ۲۰۱ از جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری( کانفرنس میں ان کی کیا پوزیشن تھی اس پر خود جناب محمد علی صاحب جناح مندرجہ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں >میں اس کانفرنس میں بالکل یکہ و تنہا تھا میں نے مسلمانوں کو ناراض کیا کیونکہ وہ مجھے مخلوط انتخاب کا حامی سمجھتے تھے۔ ہندو مجھ سے الگ ناراض تھے کیونکہ میں چودہ نکات کا موجد تھا۔ میں نے والیان ریاست کو بھی ناراض کیا۔۔۔ برطانوی پارلیمنٹ بھی مجھ سے ناراض تھی ۔۔۔۔ نتیجہ ہوا کہ دو ہفتے بھی گذرنے نہ پائے تھے کہ کانفرنس کے مندوبین کے ہجوم میں میرا ایک بھی حامی اور مدد گار نہ رہا<۔ )اقبال کے آخری سال< صفحہ ۲۶۲۔۲۶۳۔ از ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی(
لارڈ ٹمپل وڈ جو اس زمانے میں وزیر ہند تھے اپنی کتاب Years> Troubled <Nine کے صفحہ ۵۲ پر گول میز کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں جناح بھی چونکہ آغاخاں اور چوہدری ظفر اللہ خاں کے ساتھ بیٹھتے تھے اسلئے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنے وفد کی راہنمائی کریں گے یہ صحیح ہے کہ انہوں نے وقتاً فوقتاً بحث میں نمایاں حصہ لیا لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ان کے تغیر پذیر ذہن کی حرکات سمجھنے سے معذور تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی شخص کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کیا وہ ایک آل انڈیا فیڈریشن کے حامی تھے اس کا تیقن کے ساتھ جواب دینا ہمارے لئے ممکن نہ تھا ۔۔۔ کیا وہ مرکز میں ردوبدل کئے بغیر صوبائی خودمختاری کے حامی تھے بعض اوقات ان کی باتوں سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ صوبائی خودمختاری سے آگے نہیں جانا چاہتے تھے۔۔۔۔ ان کی یہی تغیر پذیر ذہنی کیفیت تھی جو ان کے ساتھ تعاون کرنے میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کررہی تھی۔ اور جس کی وجہ سے وہ اپنے مسلمان رفقاء کی صاف اور صحیح راہنمائی سے معذور تھے<۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب )جن کی نامزدگی میں جماعت احمدیہ کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔ )رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۱ء و ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۹۔۱۱۰( اگرچہ کانفرنس میں شامل ہوئے اور اقلیتوں کے مسائل کی کمیٹی میں بطور ممبر سرگرم عمل رہے مگر ایک موقع پر جبکہ مسلم وفد کے سرگروہ نے کہا کہ صوبائی خوداختیاری کے ساتھ ہی مرکز میں وفاق قائم کردیا جائے تو وہ مسلم وفد سے علیٰحدہ ہوگئے )ذکر اقبال صفحہ ۱۵۸( آپ لنڈن میں قیام کے دوران میں احمدیہ مسجد لنڈن کی ایک تقریب میں بھی شامل ہوئے۔ جہاں نو مسلم انگریزوں کی زبان سے قرآن مجید سن کر خوش ہوئے۔ اور خصوصاً ایک انگریز نوجوان مسٹر عبدالرحمن ہارڈی کے حسن قرات اور صحت تلفظ سے بے حد محظوظ ہوئے ایک چھ سات سال کی انگریز بچی نے سورہ فاتحہ سنائی جس پر ڈاکٹر صاحب نے اسے ایک پونڈ انعام بھی دیا۔ اور امام مسجد لنڈن مولوی فرزند علی صاحب کا شکریہ ادا کیا جن کی توجہ سے یہ موقع میسر آیا تھا۔ جناب غلام رسول صاحب مہر نے اس واقعہ کی تفصیل لنڈن سے ایک مکتوب میں بھجوائی تھی جو >انقلاب< )۲۹ اکتوبر ۱۹۳۱ء( میں شائع شدہ ہے )الفضل یکم نومبر ۱۹۳۱ء میں اس کی نقل بھی چھپ گئی تھی( جناب مہر صاحب کا مکتوب ان الفاظ پر ختم ہوتا تھا۔ >مولانا فرزند علی نہایت خوش اخلاق اور نیک طبع بزرگ ہیں فرائض امامت و تبلیغ کی بجا آوری کے علاوہ مسلمانوں کے جماعتی سیاسی کاموں میں بھی کافی وقت صرف کرتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے یہاں کے اونچے طبقے میں بہت گہرا اثرورسوخ پیدا کرلیا ہے< ان سطور سے یہ اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے کہ لندن کا احمدیہ مشن ان دنوں مسلمانوں کی سیاسی خدمات میں کسی درجہ دلچسپی لے رہا تھا۔
۸۵۔
سری نواس شاستری مراد ہیں۔
۸۶۔
۱۵ نومبر ۱۹۳۰ء کو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے برادر اصغر چوہدری اسد اللہ خانصاحب نے )جو ان دنوں اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن میں مقیم تھے( حضور کی خدمت میں یہ خط لکھا >کل گول میز کانفرنس کا پہلا اجلاس ہواتھا پبلک کو اندر جانیکی اجازت نہیں تھی نہ ہی پریس کو ساڑھے دس بجے سے لیکر ایک بجے تک اجلاس ہوا آج پھر برادرم مکرم گئے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو اسلام کی فتح کا ایک ذریعہ بنادے<۔
۸۷۔
ہندوستان کے جن اخباروں میں گول میز کانفرنس کی اطلاعات شائع ہوئیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے خاص اہتمام سے اسے اپنے دو ذاتی کٹنگ رجسٹروں میں محفوظ کرالیا تھا جو اب تک خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہیں۔
۸۸۔
صحیح لفظ پڑھا نہیں گیا )مئولف(
۸۹۔
خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مبلغ لندن کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے مسلمانوں کے سیاسی مفادات کی غرض سے انتھک کوشش کی چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا> خان صاحب منشی فرزند علی صاحب نے پہلے تو اتنی گھبراہٹ ظاہر کی کہ میں نے یہ سمجھا شاید ساری محنت برباد ہوجائے لیکن جب کام شروع ہوا تو انہوں نے اتنی کوشش اور سرگرمی سے کام کیا کہ اس کا بہت بڑا اثر ہوا۔ حتیٰ کہ ولایت کے اخبارات میں کئی تصاویر چھپیں جن میں خانصاحب کو نمائندہ گول میز کانفرنس لکھا گیا۔ بلکہ ایک ہوائی جہازکی تصویر میں انہی کو نمائندہ قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر جگہ اور ہر سوسائٹی میں مسلمانوں کی تائید اور حمایت کے لئے وہ پہنچتے تھے اور کوشش کرتے رہے< )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱۱(
جناب شفیع دائودی صاحب نے ۱۰ جنوری ۱۹۳۱ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں خان صاحب کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا۔ >حضرت مرزا صاحب مدظلہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ میری قسمت میں ہجوم کار اتنا لکھا ہوا ہے کہ معمولی اخلاقی رسمیات کی انجام دہی سے قاصر رہ جاتا ہوں بارہا میں نے ہندوستان پہنچ کر کوشش کی کہ ایک بار اور جناب کی مہربانیوں کا دلی شکریہ ادا کروں مگر بالکل ہی موقع نہ ملا مجھے فرزندعلی خاں صاحب کی بندہ نوازی کبھی بھولنے کی نہیں انہوں نے اخوت اسلام کا سچا نمونہ میرے ساتھ لندن میں پیش کیا اور میں سمجھتا ہوں یہ ان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے ہر ایک کے ساتھ ان کا برتائو ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ ماشاء اللہ خوب آدمی ہیں بہت ہی مخلص آدمی ہیں خدا وند تعالٰے انہیں ہمیشہ خوش وخرم رکھے<۔
۹۰۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا تذکرہ کے حصہ دوم میں بڑی تفصیل سے آرہا ہے یہ حصہ تحریک آزادی کشمیر سے مخصوص ہے۔
۹۱۔
یعنی کشمیری زعماء اور ڈوگرہ حکومت میں)مئولف(
۹۲۔
خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب )مئولف(
۹۳۔
یہاں یہ وضاحت کرناضروی ہے کہ مارچ ۱۹۳۳ء میں تینوں کانفرنسوں کی متفقہ تجاویز ایک قرطاس ابیض کی صورت میں شائع کردی گئی تھی۔ اس کے بعد اپریل ۱۹۳۳ء میں لارڈ لنلتھو کی صدارت میں ایک متحدہ پارلیمنٹری کمیٹی مقرر ہوئی جس میں ہندوستانی نمائندے بھی شامل ہوئے اس کمیٹی نے ۱۹۳۴ء میں اپنی رپورٹ پیش کردی اس پارلیمنٹری کمیٹی کا ذکر چوہدری صاحب نے اپنے خط میں فرمایا ہے۔
۹۴۔
اقبال کے آخری دوسال صفحہ ۲۶۵۔ ان کامیابیوں کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندو اکثریت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا نیشنل کانگرس فرقہ وارانہ مسائل کو کوئی اہمیت دینے کی بجائے اس محض بیکار چیز سمجھ رہی تھی اس کے نزدیک اصل مسئلہ صرف اور صرف یہ تھا کہ ملک کی باگ ڈور ہندوستان کی اکثریت کے ہاتھ میں دے دی جائے چنانچہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو نے کتاب >میری زندگی< میں کانگرس کی اس مستقل پالیسی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
>پہلی گول میز کانفرنس ختم ہورہی تھی اور اس کے فیصلوں کی بڑی دھوم دھام تھی۔ ہمیں اس پر ہنسی آتی تھی اور شاید اس ہنسی میں کسی قدر حقارت بھی شامل تھی۔ یہ ساری تقریریں اور بحثیں بالکل بیکار اور حقیقت سے خالی تھیں ۔۔۔۔۔۔ ایک مسئلہ جب ورکنگ کمیٹی کے سامنے پیش تھا فرقہ وارانہ مسئلہ تھا یہ وہی پرانا قصہ تھا جو نئے نئے بھیس بدل کر آتا تھا ۔۔۔۔۔ گاندھی جی کا خیال تھا کہ اگر کانفرنس برطانوی حکومت کے اشارے سے پہلے فرقہ وارانہ مسئلے میں الجھے گی تو اصل سیاسی اور معاشی مسائل پر خاطر خواہ غور نہیں کیا جاسکے گا۔۔۔۔۔ گاندھی جی لندن کی )دوسری( گول میز کانفرنس میں کانگرس کے تنہا نمائندہ کی حیثیت سے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔ ہم گول میز کانفرنس میں کچھ اس لئے تو شریک نہیں ہورہے تھے کہ جاکر دستور ملکی کی ضمنی تفصیلات سے متعلق وہ بحثیں چھیڑیں جو کبھی ختم ہی ہونے میں نہ آئیں اس وقت ان تفصیلات میں ہمیں ذرا دلچسپی نہ تھی]2h [tag اور ان پر تو غور اس وقت ہوسکتا تھا جبکہ برطانوی حکومت سے بنیادی معاملات پر کوئی سمجھوتہ ہوجاتا اصلی سوال تو یہ تھا کہ جمہوری ہند کو کتنی طاقت منقتل کرنی ہے تفصیلات کو طے کرنے اور انہیں قلمبند کرنے کا کام تو کوئی بھی قانون دان بعد کو کرسکتا تھا ان بنیادی امور میں کانگرس کا مسلک صاف اور سیدھا تھا اور اس میں بحث اور دلیل کی زیادہ گنجائش نہ تھی<۔
۹۵۔
الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۳۳ء
۹۶۔
بحوالہ الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳
۹۷۔
بحوالہ >اصلاح< سرینگر ۲۴ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۴
۹۸۔
بحوالہ الفضل ۹ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۵
۹۹۔
بحوالہ الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۱۰۰۔
اقبال کے آخری دوسال< صفحہ ۱۴۔۱۵
۱۰۱۔
بحوالہ الفضل ۷ فروری ۱۹۵۲ء
۱۰۲۔
الفضل ۹ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۶
۱۰۳۔
ترجمہ از ریویو آف ریلیجنز انگریزی )قادیان(مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۵۸ تا ۱۶۲
۱۰۴۔
الفضل ۱۱ دسمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۳۔ ملخصاً۔
۱۰۵۔
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷۰ حاشیہ
۱۰۶۔
الفضل ۱۱ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۱۔۲
۱۰۷۔
ولادت جون ۱۸۶۰ء تاریخ بیعت جون ۱۹۰۵ء مارچ ۱۹۱۹ء میں ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے ۔ ۱۹۲۳ء میں فتنہ ارتداد کے انسداد کے تبلیغی جہاد میں شامل ہوئے اور کوسمہ ضلع میں پوری خدمات بجا لاتے رہے ۱۹ اپریل ۱۹۳۰ء کو انتقال کیا اور مزار حضرت مولوی عبدالکریم کے قریب دفن کئے گئے۔ )الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۸۔۹
۱۰۸۔
الفضل ۱۹ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۔ نہایت مخلص اور صوفی منش درویش انسان تھے ہندی زبان پر عبور تھا اور ہندو کتب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور اسلام کی صداقت کابیان آپ کے رگ وریشہ میں داخل تھا اس باب میں کتاب >شری نش کلنک درشن یا ظہور کلگی اوتار< آپ کی یادگار ہے اس کے علاوہ اعلان الصحیح فی رد تکفیرالمسیح کی غیر مطبوعہ تصنیف بھی! آنریری طور پر پوری عمر تبلیغ اسلام واحمدیت میں گذاری۔
۱۰۹۔
الفضل ۲۶ اگست ۱۹۳۰ء سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مشہور عالم اور محدث تھے آپ نے ۱۸۹۳ء میں مباحثہ آتھم کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی اور جماعت احمدیہ امرت سر کی پہلی انجمن فوقانیہ کے پہلے صدر مقرر ہوئے بیعت کے بعد مخالفت کی وجہ سے مدرستہ المسلمین امرتسر سے سلسلہ ملازمت جب منقطع ہوگیا تو قادیان ہجرت کرکے تشریف لے آئے اور ایک نہایت ہی قلیل مشاہرہ پر پہلے مدرسہ تعلیم الاسلام میں پھر مدرسہ احمدیہ میں پڑھانے لگے۔ اور پنشن یاب ہونے کے بعد بھی آخر دم تک درس تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور بخاری مسلم کا سبق مختلف طلباء کو دیتے رہے۔ آپ بھیرہ کے رہنے والے اورحضرت خلیفہ اول کے داماد تھے۔ قریباً اسی سال کی عمر میں وصال ہوا۔ قوی نہایت اعلیٰ۔ قد لمبا۔ شکل نہایت وجیہ اور بارعب` طبیعت جلالی تھی مگر حق معلوم ہونے پر فوراً غصہ ٹھنڈا ہوجاتا تھا اپنے فرائض کی ادائیگی میں وقت کے نہایت پانبد تھے مجلس معتمدین کے بھی کئی سال ممبر رہے آپ کو علم حدیث میں بالخصوص یدطولیٰ حاصل تھا قرآن مجید کے علوم سے بھی خاص شغف تھا آپ کی طبیعت مجتہدانہ تھی اور قرآن و حدیث کے کئی مقامات میں منفردانہ رائے رکھتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے آزاد خیالی اور حریت رائے کا ایک خاص جوہر عطا کیا تھا۔ قاضی صاحب حضرت خلیفہ ثانی کے استاد تھے مگر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ زبردست ارادت رکھتے تھے حضور کے ہاتھ پر بیعت کرکے ہر معاملہ میں پوری اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت دیا۔ اور فتنہ انکار خلافت کے خلاف مردانہ وار کھڑے رہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح کو بھی آپ سے بہت محبت تھی حضور جب شملہ سے واپس آئے تو الدار میں جانے سے پہلے قاضی صاحب کی عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کی پائنتی بیٹھ گئے اور اٹھ کر بیٹھنے کی خواہش پر خود حضرت نے ان کو سہارا دے کر اٹھایا۔ )الفضل ۲۸ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ ۹ کالم ۲۔۳۔ الفضل ۲ ستمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۔۹][۱۱۰۔
امرت سر کے احمدیوں میں سب سے پہلے نوجوان جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ابتلاء کے ابتدائی ایام میں قبول کیا۔ امرت سر کی احمدیہ مسجد انہی کی کوشش سے جماعت کو ملی۔ امرت سر میں ان کا مکان آنے جانے والے احمدیوں کے لئے ایک کھلا مہمان خانہ تھا۔ )الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۶۔۷ و ۲۰ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۔۸(
۱۱۱۔
۱۸۹۵ء کے قریب حضرت مسیح موعود کی بیعت سے مشرف ہوئے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے خسر تھے۔ اور جماعت احمدیہ امرت سر کے بزرگوں میں احمدیت کا مضبوط قلعہ تفصیل کے لئے دیکھیں اصحاب احمد جلد ۵ حصہ اول صفحہ ۷۳۔ ۷۶ و اصحاب احمد جلد ۵ حصہ دوم صفحہ ۲۱ تا ۲۴۔
۱۱۲۔
والد ماجد حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری اور سید محمد ہاشم صاحب بخاری )مجاہد افریقہ کے نانا۔ اپنے تبحر علم` وسعت نظر اور محیرالعقول قوت حافظہ کے لحاظ سے ایک نمونہ قدرت الٰہی تھے اسی برس کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ حضرت مسیح موعود کے ان قدیم صحابہ میں سے تھے جن کو ۱۸۹۳ء سے قبل شرف قبول حاصل ہوا )الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۰ء والفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۷ نومبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ >حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ۔۔۔۔ اپنے علاقہ میں تو وہ سلسلہ کا ایک ستون ہیں بہت سے احباب ان سے واقف ہونگے اور قادیان میں بعض نے ان کی نظمیں بھی سنی ہونگی۔۔۔ اپنے علاقہ کے لئے وہ اور ان کے والد سلسلہ کے لئے بہت بابرکت وجود ہیں< )الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۱(
۱۱۳۔
حضرت مسیح موعود کے قدیم ۳۱۳ مخلصین میں سے تھے بہت سے مقدمات اور مباحثات میں حضرت مسیح موعود کے ساتھ رہے )الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۱۱۴۔
الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ کالم۱
۱۱۵۔
الفضل ۲۵ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱
۱۱۶۔
الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۲ )مرزا فاروق احمد صاحب جو تقریباً اڑھائی سال کی عمر میں فوت ہوئے(
۱۱۷۔
الفضل ۷ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۱۸۔
الفضل ۱۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱
۱۱۹۔
الفضل ۷ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۔ مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۷ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۸ تا ۱۱
۱۲۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۵ مطبوعہ ۱۶ دسمبر ۱۹۳۰ء
۱۲۱۔
الفضل ۷ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۱۲۲۔
الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱
۱۲۳۔
الفضل ۸ نومبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱
۱۲۴۔
الفضل یکم اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۹۔۱۰۔ اخبار انقلاب لاہور وغیرہ نے اس کے اجرا کا خیر مقدم کیا۔
۱۲۵۔
مرکز احمدیت قادیان< صفحہ ۴۶۱۔۴۶۲ )از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی(
۱۲۶۔
الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۳۔۴ پر ان کی مفصل تقریر چھپ چکی ہے۔
۱۲۷۔
الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۳
۱۲۸۔
ایضاً صفحہ ۱۱ کالم ۲
۱۲۹۔
الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ۱۳ کالم ۲۔۳
۱۳۰۔
الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۲
۱۳۱۔
الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۲ و الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۸ کالم ۳
۱۳۲۔
الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم۱
۱۳۳۔
الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۰ء صفحہ ۶ کالم ۳
۱۳۴۔
الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۹
۱۳۵۔
الفضل ۷ اگست ۱۹۳۰ء صفحہ۲۔
۱۳۶۔
الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۳
۱۳۷۔
الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم ۳
۱۳۸۔
الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۱۳۹۔
الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۔۸
۱۴۰۔
الفضل ۱۸نومبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱
۱۴۱۔
الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷۔۸
۱۴۲۔
الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۸ کالم ۳
۱۴۳۔
الفضل ۶ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ کولوتارڑوی صاحب ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے داماد تھے۔
۱۴۴۔
الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۳(
۱۴۵۔
الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۳(
‏tav.5.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال
چوتھا باب )فصل اول(
مجلس انصار اللہ کے احیاء سے لے کر مسلم لیگ کے اجلاس دہلی )دسمبر ۱۹۳۱ء( میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خطبہ صدارت تک
خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال
)جنوری ۱۹۳۱ء تا دسمبر ۱۹۳۱ء بمطابق شعبان ۱۳۴۹ھ تا شعبان ۱۳۵۰ھ(
ہم ۱۹۲۸ء کے واقعات قلمبند کرتے ہوئے اب ۱۹۳۱ء کے اس اہم سال میں آپہنچے ہیں جس میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا۔ اور حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صدارت میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی جیسے فعال اور ملک گیر ادارہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس کے تحت جماعت احمدیہ کا ہر فرد کشمیر کے مسلم لیڈروں اور دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش آزادی کشمیر کے لئے سربکف ہو کر میدان عمل میں آگیا۔
کشمیر کی تحریک آزادی میں جماعت احمدیہ کی سنہری خدمات بہت تفصیل طلب ہیں اور ان کی اہمیت و عظمت کا تقاضا ہے کہ وہ یک جائی طور پر پوری شرح و بسط سے زیب قرطاس کی جائیں۔ تا یہ بھی معلوم ہو سکے کہ مصلح موعود سے متعلق یہ پیشگوئی کہ >وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔۱ کس شان سے پوری ہوئی۔ لہذا اس جلد کا حصہ دوم اس اہم تحریک کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے اور یہاں صرف اس قدر اشارہ پر اکتفا کرتے ہوئے ۱۹۳۱ء کے دوسرے حالات و واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔
>انصار اللہ< کا احیاء اور اس کی تبلیغی خدمات
‏0] ft[rفروری ۱۹۳۱ء میں >انصار اللہ< کا احیاء ہوا اور اس کا مقصد یہ قرار پایا۔ کہ ہر جماعت سے ایسے مخلصوں کو جو تبلیغ کے لئے اپنے اوقات مرکزی لائحہ عمل کے مطابق وقف کریں دوسرے لوگوں سے ممتاز حیثیت دی جائے۔ انصار اللہ میں داخل ہونے والے احمدیوں سے یہ عہد لیا جاتا تھا کہ وہ نظارت دعوۃ و تبلیغ یا مقامی سیکرٹری تبلیغ کے ماتحت اپنے ایام وقف تبلیغ سلسلہ کے لئے اس حلقہ میں گزاریں گے۔ جو ان کے لئے مقرر کیا جائے گا اور اپنی علمی استعداد بڑھانے کے لئے ان مضامین کی تیاری کریں گے جو لائحہ عمل میں تجویز کئے گئے ہیں۔۲
یہ تبلیغی تنظیم جو نظارت دعوۃ وتبلیغ کی دست و بازو ثابت ہوئی اور ملک کے طول و عرض میں اس نے نمایاں خدمات انجام دیں۔۳ اس کی ترقی میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔ انصار اللہ کی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز قادیان کے قرب و جوار میں بیٹ کے علاقہ سے کیا گیا۔ جہاں ۲۸/ مارچ ۱۹۳۱ء کو بتیس افراد پر مشتمل پہلا وفد پہنچا اس نے سولہ حلقوں میں تقسیم ہو کر ایک سو پندرہ بستیوں میں پیغام احمدیت پھیلانے کی بنیاد رکھ دی۔ سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا تھا کہ قادیان کا ہر بالغ احمدی )معذوروں کے سوا( سال میں پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرے جو نظارت دعوۃ تبلیغ کے زیر انتظام بیرونی مقامات میں بھیجا جائے گا۔ انصار اللہ کے اس پہلے وفد کے تمام افراد قادیان ہی کے رہنے والے اور حضور کی تحریک پر روح اخلاص کا نمونہ دکھانے والوں میں سابقون الاولون تھے۔۴
اس کے بعد ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء کو دوسرا وفد )کہ وہ بھی( بتیس ہی افراد پر مشتمل تھا۔ اسی علاقہ میں روانہ ہوا۔۵ چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ کا بیان ہے کہ >حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اس تبلیغی مہم بیٹ کے انچارج مقرر کئے گئے تھے آپ کا ہیڈ کوارٹر >بھینی میلواں< تھا۔ میں بھی جولائی کے اس وفد میں شامل تھا جس نے اس علاقہ میں کام کیا<۔ قادیان سے باہر جس تنظیم انصار اللہ نے سب سے پہلے اپنے حلقہ تبلیغ میں کام شروع کرنے کی اطلاع دی۔ وہ بنگہ ضلع جالندھر کی تنظیم انصار اللہ تھی۔۶
یہ تھی مختصر سی داغ بیل اس تنظیم کی جو بعد کو جماعت احمدیہ کی ایک مستقل تحریک بنی اور جو آج عظیم الشان خدمات بجا لا رہی ہے۔۷
قومی نقائص کی اصلاح کے لئے جدوجہد
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۷/ فروری ۱۹۳۱ء کو ایک سلسلہ خطبات شروع فرمایا۔ جس میں حضور نے جماعت احمدیہ کو بعض ان قومی امور کی طرف توجہ دلائی جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بنے۔ مثلاً حضور نے بتایا کہ جب تک مسلمان یہ یقین رکھتے رہے کہ قرآن مجید وسیع و غیر محدود مطالب رکھتا ہے ان کی علمی ترقی جاری رہی مگر جس وقت ان میں یہ خیال پیدا ہوا۔ کہ قرآنی معارف میں ترقی نہیں ہو سکتی اور اب اس سے نئے نئے علوم نہیں نکالے جا سکتے ان کا دماغ معطل و مفلوج ہو کے رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مادی ترقیات کے دروازے بھی بند ہونے لگے۔ چنانچہ ساتویں صدی ہجری تک مسلمانوں میں ایجاد کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ طب` کیمیا` ہیئت` ہندسہ` الجبرا انجینرنگ کے ماہر تھے۔ مگر اسی صدی میں جب یہ خیال غالب آگیا کہ اب قرآن سے نئے معارف نکالنا گناہ ہے دنیوی اختراعات کا سلسلہ بھی رک گیا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ہمیشہ غور کرتے رہیں کہ کیا ہم میں بھی تو یہ نقص پیدا نہیں ہو گیا۔ اور اگر ہو گیا ہے تو اس کا ازالہ کی کوشش کریں۔ ورنہ جس نقص نے دوسرے مسلمانوں کو مصیبت میں ڈال دیا وہ ہمارے لئے بھی مشکلات کا موجب بن سکتا ہے۔۸
حضرت خلیفتہ المسیح کیلئے پہرے کامستقل اورباقاعدہ انتظام
خلافت اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان نعمت اور بیش بہا امانت ہے۔ جس کی حفاظت نظام اسلامی کی حفاظت ہے۔ اور اس سعادت میں حصہ لینے والے اور خلیفہ وقت کا پہرہ دینے والے بڑے اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے سب سے پہلے پہرہ دینے والے عبدالاحد خاں صاحب۹ افغان ہیں جو ۱۹۱۸ء میں حضور کا انفلوانزا کی شکایت پیدا ہونے کے دنوں میں پہرے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اسی زمانہ کے قریب قریب خان میر صاحب افغان اور نیک محمد خان صاحب غزنوی بھی گاہے گاہے یہ خدمت انجام دینے لگے۔ مگر یہ کام رضاکارانہ حیثیت میں ہوتا تھا۔ دسمبر ۱۹۲۷ء میں بہت سے دوستوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور پر حملہ کیا گیا ہے۔ جس پر ۱۵/ ستمبر ۱۹۲۷ء کو صدر انجمن احمدیہ نے >خادم خاص< کے نام سے دو نئی اسامیاں منظور کیں اور فیصلہ کیا گیا کہ ان کا تقرر پرائیویٹ سیکرٹری )حضرت امیر المومنین( کے مشورہ سے ناظر امور عامہ کریں گے۔۱۰ مگر غالباً یہ انتظام سالانہ جلسہ کے لئے کیا گیا تھا۔ حضور کی حفاظت اور قصر خلافت کی حفاظت کا باقاعدہ انتظام شروع ۱۹۳۱ء میں ہوا۔ اس سلسلہ میں پہلے محافظ خان میر صاحب۱۱ افغان متوطن علاقہ ویسور مقرر ہوئے۔ اگرچہ آپ صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی نگرانی میں ۱۲/ جنوری ۱۹۳۱ء سے آنریری طور پر کام کر رہے تھے مگر دفتری حیثیت سے مارچ ۱۹۳۱ء میں ان کا تقرر ہوا۔ خان میر صاحب ۱۹۳۱ء سے ۱۱/ دسمبر ۱۹۴۷ء تک اس خدمت پر فائز رہے شروع میں تو آپ اکیلے پہرہ دار تھے مگر کچھ مدت کے بعد بعض اور اصحاب آپ کے ساتھ اس نازک ذمہ داری میں شامل ہو گئے۔ ۱۹۴۸ء میں پہرہ داروں کی نگرانی کے لئے >افسر حفاظت< کا تقرر عمل میں آیا۔ اور پہلے افسر حفاظت جناب سید احمد صاحب مولوی فاضل )ابن حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب( مقرر ہوئے۔ جو ماہ جون ۱۹۵۱ء تک یہ خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کے بعد یہ کام بالترتیب مندرجہ ذیل اصحاب کے سپرد ہوتا رہا۔
۱۔
چوہدری اقبال احمد صاحب )حال چک ۹۸ شمالی سرگودھا( )۲/ جون ۱۹۵۱ء سے جون ۱۹۵۴ء تک(
۲۔
کپٹن محمد حسین صاحب چیمہ )حال سیکرٹری مال لنڈن( )جون ۱۹۵۴ء سے جون ۱۹۵۷ء تک(
۳۔
جناب کپٹن شیر ولی صاحب )حال موضع در جمال ڈاکخانہ کریالہ ضلع جہلم( )۱۱/ جون ۱۹۵۷ء سے ۲۵/ اکتوبر ۱۹۵۷ء تک(
۴۔
صوبیدار عبدالغفور صاحب نائب افسر )اکتوبر ۱۹۵۷ء سے ۲۲/ اکتوبر ۱۹۵۸ء تک(
۵۔
چوہدری عبدالسلام صاحب باڈی گارڈ قائم مقام افسر )۲۲/ اکتوبر ۱۹۵۸ء سے ۸/ دسمبر ۱۹۵۸ء تک(
۶۔
صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی ۱۲ )۹/ دسمبر ۱۹۵۸ء سے آج تک۔(۱۳
پہرے کے انتظام کو زیادہ مستحکم بنانے کے خیال سے ۱۹۵۶ء میں نظارت حفاظت کا قیام ظہور میں آیا اور پہلے ناظر جناب مرزا دائود احمد صاحب لفٹنٹ کرنل ریٹائرڈ مقرر ہوئے۔ مگر ۱۹۵۷ء کے شروع میں یہ نظارت ختم کر دی گئی۔ اور حسب دستور سابق افسر حفاظت ہی پہرے کی نگرانی کا فرض انجام دینے لگے۔
اس مستقل اور باقاعدہ انتظام کے علاوہ سالانہ جلسہ اور جمعہ اور دوسرے ہنگامی حالات میں ۱۹۲۷ء سے حضور کے زمانہ صحت تک بہت سے مخلصین آنریری طور پر حفاظت کی خدمت انجام دیتے رہے ہیں مثلاً سردار کرم داد صاحب رسالدار۔ لفٹنٹ سردار نذر حسین صاحب۔ چوہدری اسد اللہ خان صاحب )حال امیر جماعت احمدیہ لاہور( چوہدری محمد صدیق صاحب فاضل )حال انچارج خلافت لائبریری( مرزا محمد حیات صاحب )رفیق حیات سیالکوٹ( مولوی عبدالکریم صاحب )ابن حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحبؓ ہلال پوری( خواجہ محمد امین صاحب۔ ملک محمد رفیق صاحب۔ بابو شمس الدین صاحب )حال امیر جماعت احمدیہ پشاور( جمعدار شیر احمد خان صاحب )حال لنڈن(
جماعت احمدیہ کی ادبی خدمات
دہلی کے مشہور ولی مرتاض حضرت خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ )۱۷۱۹ء۔ ۱۷۸۵ء( نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ >اے اردو گھبرانا نہیں۔ تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے خوب پھلے پھولے گی۔ تو پروان چڑھے گی ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آکر آرام کریں گے۔ بادشاہی قانون اور حکیموں کی طبابت تجھ میں آجائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی<۔۱۴
یہ عظیم الشان پیشگوئی خدا کے فضل و کرم سے تحریک احمدیت کے ذریعہ سے پوری ہوئی اور ہو رہی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فقید المثال اردو لٹریچر اور دنیا بھر میں اس کی اشاعت کرنے والی جماعت پیدا کر دی ہے۔ اور ساری دنیا میں جہاں جہاں احمدی مشن یا احمدی مسلمان موجود ہیں وہاں اردو سیکھی اور سکھلائی جا رہی ہے الغرض اردو کی ترقی و سربلندی کی اساس عالمگیر سطح پر قائم کی جا چکی ہے۔ اور خصوصاً حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس اساس کو بلند سے بلند تر کرنے میں اپنے زمانہ خلافت میں سنہری خدمات انجام دی ہیں اور آپ کے قلم سے نکلی ہوئی کثیر التعداد تصانیف و تحریرات اس پر شاہد ہیں۔
اس ضمن میں آپ نے اس سال )۳۱۔ ۱۹۳۰ء( میں اردو کی سرپرستی کی طرف خاص طور پر توجہ فرمائی۔ مذہبی اور سیاسی میدان میں آپ کی قابلیت کا سکہ پہلے ہی بیٹھ چکا تھا۔ اب ادبی حلقوں میں بھی آپ کی دھوم مچ گئی۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ آنریبل جسٹس سر عبدالقادر صاحب کی نگرانی اور شمس العلماء احسان اللہ خان صاحب تا جور نجیب آبادی )۱۸۹۴ء۔ ۱۹۵۱ء( کی ادارت میں لاہور سے >ادبی دنیا< کے نام سے ماہوار اردو کا ایک بلند پایہ رسالہ شائع ہوتا تھا۱۵۔ جو اپنے معاصرین میں ممتاز مقام رکھتا تھا۔ اس رسالہ )مارچ ۱۹۳۰ء( میں پروفیسر بھوپال سنگھ صاحب ایم۔ اے سینئر پروفیسر انگلش )دیال سنگھ کالج لاہور( کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا >حالی کی تنقید نگاری< حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یہ مضمون بہت دلچسپی سے پڑھا اور آپ کو تحریک ہوئی کہ >شعر< سے متعلق اپنے خیالات سپرد قلم کرکے بھجوائیں۔ چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں۔ >ایک پروفیسر اور پھر انگریزی زبان کے پروفیسر کے قلم سے اردو علم ادب کی ایک شاخ کے متعلق مضمون کیسا بھلا معلوم ہوتا ہے میں نے اس مضمون کو نہایت شوق سے دیکھا اس مضمون کے مطالعے کے دوران میں تو سن خیال میں کہیں سے کہیں چلا گیا تااینکہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو گئی کہ میں شعر کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کروں<۔
رسالہ >ادبی دنیا< میں پہلا مضمون
اس آرزو کی تکمیل کے لئے آپ نے >ابن الفارس< کے نام سے ادارہ ادبی دنیا کو ایک مضمون بھجوایا جو مئی ۱۹۳۰ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں جو اپنی نوعیت کا اچھوتا مضمون تھا۔ حضور نے مغربی زبان اور عربی مشتقات کی روشنی میں شعر کی تعریف بیان فرمائی اور اس کی کیفیت و ماہیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اعتدال کے ایک نئے زاویہ کی نشان دہی فرمائی۔ چنانچہ آپ نے لکھا۔ >شعر کا بھی ایک جسم ہے اور ایک روح موجودہ دور کے مغربی علماء میں سے اکثر اس کے جسم ہی سے تعریف کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قدیم اور زمانہ وسطی کے ادیب اپنی تعریف شعر کی روح سے خاص کر دیتے تھے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ جو کچھ کہتے ہیں درست کہتے ہیں مگر سچائی کے زیادہ قریب ہونے کے لئے ہمیں ان دونوں تعریفوں کو ملا لینا چاہئے۔ مغربی شعراء میں سے ورڈس ورتھ۱۶ کا یہ خیال ہے کہ شعر نام ہے ان جذبات کا جن کی یاد سکون کے وقت میں پھر تازہ کی جاتی ہے۔ یا یہ کہ شعر ان جذبات کو جو ہم محسوس کرتے ہیں تمثیل کے ذریعہ سے بیرونی دنیا تک پہنچانے کا نام ہے میتھیو آرنلڈ۱۷ کا نظریہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے جس کا یہ خیال ہے کہ شعر حیات کی تنقید کا نام ہے۔ مگر مشہور جرمن فلاسفر ہیگل۱۸ کے نزدیک صرف وزن ہی وہ پہلی اور آخری چیز ہے جس کا شعر میں پایا جانا ضروری ہے۔ عمدہ تشبیہات` طرفہ خیالات` اعلیٰ افکار اچھے اور برے شعر میں فرق کرتے ہیں تو مدد دے سکتے ہیں لیکن وہ شعر کو شعر نہیں بناتے ۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ کہوں گا کہ ورڈس ورتھ نے ہیگل سے اختلاف نہیں کیا نہ ہیگل نے ورڈس ورتھ سے صرف اتنا ہوا ہے کہ ایک استاد الفاظ نے شعر کا فلسفہ بیان کر دیا ہے اور ایک فلاسفر نے اس کا لفظی صورت سے بحث کر لی ہے<۔
‏]body [tagاس کے بعد آپ عربی زبان سے شعر کے معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>مغربی زبان کے مشتقات کی رو سے اس فن پر جو روشنی پڑتی ہے وہ کافی نہیں اور ابتدائی انسان کی جرات کے اظہار سے زیادہ اس سے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ لیکن میرے نزدیک عربی زبان جو نہایت ہی مکمل زبان ہے- اور اشتقاق کبیر بلکہ اکبر کی مدعی ہے اس کے مقرر کردہ نام سے ہمیں اس فن کی حقیقت کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہو جاتی ہیں عربی زبان میں کلام منظوم کو شعر کہتے ہیں اور شعر کے معنے پہچاننے کے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اشتقاق صغیر پر جو ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اندرونی اور چمٹی ہوئی چیز کے معنے پائے جاتے ہیں۔ اور ساتھ چمٹی ہوئی چیز انسان کے لئے اس کے اندرونی جذبات ہیں جو بیرونی اثرات سے متحرک ہو کر جوش میں آجاتے ہیں۔ پس شعر کے معنی اشتقاق صغیر کی روشنی میں یہ ہوں گے کہ ایسی بات کو بیان کرنے والا کلام جو ہمارے دل میں موجود ہے اور جو ہمارے بعض جذبات کو اس طرح ابھارتا ہے کہ ہم الفاظ سے جدا ہو کر معانی کی تمام جزئیات سے پوری طرح واقف ہو جاتے ہیں معانی کو محسوس کرتے ہیں گویا وہ ایک مضراب ہے جو ہمارے سازوں میں لرزش پیدا کر دیتی ہے<۔۱۹
ادبی دنیا کے مدیر جناب تاجور نجیب آبادی نے اس مضمون پر اسی شمارہ میں دو نوٹ لکھے۔
)۱( >ملک کے ایک مشہور مذہبی رہنما جن کی روحانی عظمت کا سکہ ان کے لاکھوں مریدوں ہی نہیں بلکہ امتیوں کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے اور جو اپنی مسند خلافت سے احکام الہیٰ کی تبلیغ اور مذہبی تلقین ہی کو اپنا منصب خیال فرماتے ہیں۔ ادبی دنیا ان کی مقدس مصروفیتوں میں بھی خلل انداز ہوئے بغیر نہ رہا۔ اس نمبر میں >ابن الفارس< کے نام سے جو بلند و گراں مایہ مضمون شائع ہو رہا ہے۔ انہی کے خامہ تقدس چکاں کی تراوش ہے<۔۲۰
)۲( >مندرجہ بالا مضمون ایک ایسی شخصیت کے دل و دماغ کی تراوش ہے جو فی الحقیقت لاکھوں انسانوں کے قلوب پر حکمران ہے۔ ادبی دنیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا۔ کہ ایسے حضرات اپنے رشحات کرم سے اس کی آبیاری کرتے ہیں۔ فاضل مضمون نگار نے ہمیں >ابن الفارس< کے لطیف و نازک نقاب اٹھانے کی اجازت نہیں دی مگر ہم علامہ اقبال کے ہم نوا ہو کر کہہ سکتے ہیں ~}~
پرتو حسن تومے افتد بروں مانند رنگ
صورت مے پردہ از دیوار نیا ساختی<۲۱
رسالہ >ادبی دنیا< میں دوسرا مضمون
حضور نے اگلے سال ۱۹۳۱ء میں >اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں<۔ کے اہم موضوع پر ایک اور قیمتی مضمون تحریر فرمایا۔ جو >ادبی دنیا< مارچ ۱۹۳۱ء )صفحہ ۱۸۶ تا ۱۸۸( میں آپ کا فوٹو دے کر شائع کیا گیا۔ ذیل میں اس اہم مضمون کا مکمل متن درج کیا جاتا ہے۔ حضور نے تحریر فرمایا۔
>اردو زبان کی بڑی دقتوں میں سے ایک یہ دقت ہے کہ اس کی لغت کتابی صورت میں پوری طرح مدون نہیں ہے اور نہ اس کے قواعد پورے طور پر محصور ہیں اور نہ مختلف علمی مضامین کے ادا کرنے کے لئے اصطلاحیں مقرر ہیں مولوی فتح محمد صاحب جالندھری نے قواعد کے بارے میں اچھی خدمت کی ہے اور مولانا شبلی اور مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے کام کو جلا دینے میں حصہ لیا ہے۔ لغت کا کام مولوی نذیر احمد دہلوی نے کیا ہے اور اصطلاحات کے لئے ہم عثمانیہ یونیورسٹی کے ممنون ہیں۔ انجمن ترقی اردو انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے لیکن کام اس قدر ہے کہ کسی ایک شخص یا ایک انجمن یا ایک ادارہ سے ہونا ناممکن ہے۔ اردو کے بہی خواہوں نے جو میرے نزدیک بعض مشکلات کو جو اردو زبان سے مخصوص ہیں نظر انداز کر دیا ہے۔ مثلاً
)۱( وہ سب زبانون میں عمر میں چھوٹی ہے۔
)۲( حقیقی شاہی گود میں پلنے کا اسے کبھی موقع نہیں ملا۔ جو زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔
)۳( اصل میں تو تین لیکن کم سے کم دو مائیں اس کی ضرور ہیں اور مصیبت یہ ہے کہ دونوں سگی ہیں ہر ایک اپنی تربیت کا رنگ اس پر چڑھانا چاہتی ہے اور جب ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہو سکا تو دونوں اپنا غصہ اس معصوم پر نکالتی ہیں۔ میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت جھگڑا یہ نہیں کہ اہل سنسکرت اردو کو اپنا بنانے کو تیار نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ اسے صرف اپنا ہی بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور عربی فارسی والوں کے سایہ سے اس نونہال کو دور رکھنا چاہتے ہیں اور یہی حال ان کا بھی ہے۔
)۴( ہمارا علمی طبقہ غیر زبانوں میں سوچ کا عادی ہو گیا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس کی تحقیق و تفتیش سے اردو نفع نہیں اٹھا سکتی۔
)۵( ٹائپ نہ ہونے کے سبب آنکھوں کو اس کے حروف سے وہ موانست نہیں پیدا ہوتی۔ جو ٹائپ پر چھپنے والی زبانوں کے حروف سے ہو جاتی ہے۔ اور اس وجہ سے لوگوں میں شوق تعلیم سرعت سے ترقی نہیں کر سکا۔ اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر نہیں ہو سکی انسان بارہ تیرہ قسم کی ٹائپوں کا عادی تو ہو سکتا ہے لیکن ہزاروں قسم کا نہیں۔ اور اردو زبان کے جتنے کاتب ہیں گویا اتنے ہی ٹائپ ہیں۔ جس کی وجہ سے طبیعتوں پر ایک غیر محسوس بوجھ پڑتا ہے اور تعلیم کا ذوق کم ہو جاتا ہے۔
ان مشکلات کی وجہ سے اردو کی ترقی کے رستہ میں دوسری زبانون کی نسبت زیادہ مشکلات حائل ہیں۔ مگر میرے نزدیک وہ ایسی نہیں کہ دور نہ کی جا سکیں۔ اب تک نقص یہی رہا ہے کہ مرض کی تشخیص نہیں کی گئی۔ اور اس کی وجہ سے لازماً علاج بھی صحیح نہیں ہوا اگر اردو عمر میں اپنی بہنوں سے چھوٹی تھی تو اس کے لئے اس قسم کی غذا کا بھی انتظام ہونا چاہئے تھا اور اگر وہ شاہی گود سے محروم تھی۔ تو کیوں نہ اسے جمہوریت کی گود میں ڈال دیا گیا۔ جس کی حفاظت شاہی حفاظت سے کسی صورت میں کم نہیں کہ اصل بادشاہت تو اسی کی ہے۔ اگر اس کی تربیت کے متعلق اختلاف تھا تو بجائے یہ صورت حالات پیدا کرنے کے کہ جس کا بس چلا وہ اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہی کیوں نہ کیا گیا جو حضرت محمد ~)صل۱(~ نے اس وقت کیا تھا جب خانہ کعبہ کی تعمیر جدید کے موقع پر حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھنے کے سوال پر مختلف قریش خاندان میں جھگڑا پیدا ہوا تھا۔ اور انہوں نے ایک چادر بچھا دی اور اس پر حجر اسود اپنے ہاتھ سے رکھ کر سب قوموں کے سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کے کونے پکڑ لیں۔ اور اس طرح سب کے سب اس کے اٹھانے میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ اسی طرح اگر اردو و سنسکرت اور عربی کی مشترک تربیت میں دے دی جاتی تو یہ جھگڑا ختم ہو سکتا تھا۔ ٹائپ کا سوال مختلف قسم کا سوال ہے لیکن اگر مذکورہ بالا باتوں کی طرف توجہ ہوتی۔ تو بہت سے لوگ اسے حل کرنے کی طرف بھی مائل ہو جاتے۔ اور الحمدلل¶ہ کہ اس وقت حیدر آباد میں بہت سے ارباب بصیرت اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔
میری ان معروضات کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی ترقی کے لئے ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ بجائے ایک محدود جماعت کی دلچسپی کا مرکز بننے کے جمہور کو اس سے دلچسپی پیدا ہو۔ خالص علمی رسائل صرف منتخب اشخاص کی توجہ منعطف کرا سکتے ہیں اور زبانیں چند آدمیوں سے نہیں بنتیں خواہ وہ بہت اونچے پایہ کے کیوں نہ ہوں۔ قاعدہ یہ ہے کہ زبان عوام الناس بناتے ہیں۔ اور اصطلاحیں علماء۔ اردو بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ پس اگر ہم اردو کی ترقی کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ تو اس کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہمارے ادبی رسالوں میں اس کے علمی پہلوئوں پر بحثیں ہوں۔ تاکہ صرف پیش آنے والی مشکلات کے علاج ہی کا سامان نہ ہو۔ بلکہ عوام الناس بھی ان تحقیقات سے واقف ہوتے جائیں اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی اردو و رسائل کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اگر ان رسائل میں چند صفحات مستقل طور پر اس بات کے لئے وقف ہو جائیں کہ ان میں اردو زبان کی لغت یا قواعد یا اصطلاحوں وغیرہ پر بحثیں ہوا کریں تو یقیناً تھوڑے عرصہ میں وہ کام ہو سکتا ہے جو بڑی بڑی انجمنیں نہیں کر سکتیں۔ اور بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ جو نئی نئی اختراعیں ہوں گی یا الفاظ کے استعمال یا قواعد زبان کے متعلق جو پہلو زیادہ وزنی معلوم ہو گا عام لوگ بھی اس کو قبول کریں گے کیونکہ دلچسپ اردو رسائل میں چھپنے کی وجہ سے وہ سب مضامین ان کی نظروں سے بھی گزرتے رہیں گے۔ ہاں یہ مدنظر رہے کہ مضمون ایسے رنگ میں ہو کہ سب لوگ اسے سمجھ سکیں۔ اس قسم کے مضامین کی اشاعت کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ¶ہمارے ہندو بھائی بھی ان بحثوں میں حصہ لے سکیں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ بغیر ان کی مدد کے ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اردو میں بہت سے لفظ سنسکرت اور ہندی بھاشا کے ہیں اور ان کی اصلاح یا ان میں ترقی بغیر ہندوئوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی۔ ان کی شمولیت کے بغیر یا تو وہ حصہ زبان کا نامکمل رہ جائے گا۔ یا اسے بالکل ترک کرکے اس کی جگہ عربی الفاظ اور اصطلاحیں داخل کرنی پڑیں گی۔ اور یہ دونوں باتیں سخت مضر ہیں اردو کی ترقی کے راستہ میں روک پیدا کرنے والی ہوں گی۔
اس تمہید کے بعد میں ایڈیٹر صاحب ادبی دنیا اور دوسرے ادبی رسائل سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان باتوں میں مجھ سے متفق ہوں تو اپنے رسائل میں ایک مستقل باب اس غرض کے لئے کھول دیں۔ لیکن انہیں ان مشکلات کا بھی اندازہ کر لینا چاہئے جو اس کام میں پیش آئیں گی۔ مثلاً یہ کہ جو سوالات اٹھائے جائیں گے انہیں حل کون کرے گا بالکل ممکن ہے کہ جواب دینے والے ایسے لوگ ہوں جن کا کلام مستند نہ ہو یا جن کے جواب تسلی بخش نہ ہوں یا کوئی شخص جواب کی طرف توجہ ہی نہ کرے۔ اگر صرف رسالہ کے ادارہ نے جواب دیئے تو پھر اول تو اصل مطلب فوت ہو جائے گا دوم ممکن ہے کہ اس سے وہ اثر پیدا نہ ہو سکے۔ جو اصل مقصود ہے۔ لہذا اس مشکل اور اس قسم کی دوسری مشکلات کے حل کے لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ جو رسالہ اس تحریک پر عمل کرنا چاہے اس میں ایک ادبی کلب قائم کر دی جائے ادارہ کی طرف سے متعدد بار تحریک کرکے رسالہ کے خریداروں کے نام ظاہر کریں۔ جو خریدار مستند ادیب ہیں ان سے اصرار کرکے اپنا نام پیش کرنے کے لئے کہا جائے ایسے تمام خریداروں کے نام ایک رجسٹر میں جمع کر لئے جائیں۔ اور انہیں ادبی کلب کا ممبر سمجھا جائے۔ چونکہ بالکل ممکن ہے کہ بہت سے ادیب اور علماء جن کی امداد کی ضرورت سمجھی جائے۔ رسالہ کے خریدار نہ ہوں۔ اس لئے ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کی جائے اور رسالہ کے مستطیع خریداروں کی امداد سے ان کے نام رسالہ مفت ارسال کیا جائے اور ان کا نام اعزازی ممبر کے طور پر کلب کے رجسٹر میں درج کر لیا جائے۔
تمام ممبروں سے امید کی جائے کہ جب کبھی کوئی سوال )۱( اردو لغت کے متعلق)۲( نحوی قواعد کے متعلق )۳( بعض علمی خیالات کے ادا کرنے میں زبان کی دقتوں کے متعلق )۴( محاورات کے متعلق )۵( تذکیر و تانیث )۶( جمع کے قواعد کے متعلق )۷( پرانی اصطلاحات کی تشریح یا نئی اصطلاحات کی ضرورت کے متعلق پیدا ہو تو بجائے خود حل کرکے خود ہی اس سے لطف حاصل کرنے کے وہ اس سوال کو رسالہ کے ادبی کلب کے حصول کے لئے کرائیں۔ خواہ اپنا حل بھی ساتھ ہی لکھ دیں یا خالی سوال ہی لکھ دیں ان سے یہ بھی امید کی جائے کہ جب کوئی ایسا سوال سامنے ہو تو وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کیا کریں۔
ملک کو اردو علم ادب کے لحاظ سے چند حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے مثلاً )۱( دہلی اور اس کے مضافات )۲( لکھنئو اور اس کے مضافات )۳( پنجاب )۴( رامپور اور اس کے مضافات )۵( بھوپال اور اس کے مضافات )۶( آگرہ اور اس کے مضافات )۷( اعظم گڑھ اور الہ آباد اور اس کے مضافات )۸( بہار )۹( حیدر آباد۔
اس طرح علمی لحاظ سے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
)۱( اسلامی یعنی عربی اور فارسی اثر۔
)۲( ہندو یعنی سنسکرت اور ہندی بھاشا اثر۔
جب سوالات رسالہ کے دفتر میں آئیں تو ادارہ انہیں مختلف حصوں میں تقسیم کر دے مثلاً جو سوال کسی لفظ کے استعمال اس کی شکل اور اس کی تذکیر و تانیث کے متعلق ہوں انہیں ایک جگہ جمع کرکے شائع کرے اور ان کے متعلق مذکورہ بالا حلقوں کے احباب سے درخواست کرے کہ وہ نہ صرف اپنی علمی تحقیق بتائیں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ ان کے علاقہ میں وہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں اگر ہوتا ہے تو کس شکل میں اور کن کن معنوں میں اس طرح دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک تو اس امر کا اندازہ ہو جائے تاکہ اس خاص لفظ یا محاورہ کے متعلق اردو بولنے والوں کی اکثریت کس طرف جارہی ہے اور اس سے اردو کی ترقی کی رو کا اندازہ ہو سکے گا۔ دوسرے علمی تحقیق بھی ہو جائے گی اور پڑھنے والوں کی طبائع فیصلہ کر سکیں گی کہ اس بارہ میں اردو کے حق میں کون سی بات مفید ہے آیا تحقیق کی پیروی کرنی چاہئے یا غلط الفاظ کی تصدیق کہ یہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ اس طرح جس لفظ کے متعلق بحث ہو اگر سنسکرت یا ہندی بھاشا اس کا ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اور اگر عربی فارسی ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اس پر روشنی ڈالنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اس طرح اور بہت سی تقسیمیں کی جا سکتی ہیں۔ جو اس کلب کو زیادہ دلچسپ بنانے کا باعث ہو سکتی ہیں کلب کا کام فیصلہ کرنا ہو بلکہ ہر پہلو کو روشنی میں لانا ہو۔
اس طرح جدید اصطلاحات کی ضرورتوں کو کلب کے صفحات میں شائع کیا جائے اور بحث کی طرح اس طریق پر نہ ڈالی جائے کہ خالص عربی یا خالص سنسکرت اصطلاحات لے لی جائیں بلکہ تحریک یہ کی جائے کہ وہ خیال جس کے ادا کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے۔ اس کے متعلق کلب کے ممبر پہلے یہ بحث کریں کہ اس خیال کا کسی اردو لفظ سے تعلق ہے۔ پھر یہ دیکھا جائے کہ وہ لفظ کس زبان کا ہے۔ اور آیا اس لفظ سے جدید اصطلاح کا بنانا آسان ہو گا۔ اگر عام رائے اس کی تائید میں ہو تو پھر اس زبان کے ماہروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کریں کیونکہ جس زبان کا لفظ ہو اس کے ماہر اس کے صحیح مشتقات پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
ممکن ہے یہ خیال کیا جائے کہ اردو و رسائل کے ادارے تو پہلے بوجھوں تلے دبے پڑے ہیں وہ اتنی پیچیدہ سکیم پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں لیکن اول تو یہ سکیم عمل میں اس قدر پیچیدہ اور توجہ طلب نہ ہو گی۔ جس قدر کاغذ پر نظر آتی ہے۔ دوم اس قسم کے کلب جیسا کہ یورپ کا تجربہ ہے۔ ہمیشہ رسائل و اخبارات کی دلچسپی اور خریداری بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں اس لئے جو رسالہ اس کام کو شروع کرے گا وہ میرے نزدیک مالی پہلو سے فائدہ میں رہے گا۔ تیسرے یہ بھی ضروری ہے کہ فوراً اس ساری سکیم پر عمل کیا جائے ہو سکتا ہے کہ کلب جاری کرکے صفحات مقرر کئے بغیر اور اس طرح مضامین تقسیم کئے بغیر جس طرح میں نے بیان کیا ہے کام شروع کر دیا جائے پھر جوں جوں ادارہ اور کلب کے ممبروں کو مشق ہوتی جائے کام کو اصول کے ماتحت لایا جائے۔ تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے اور بس۔
ادبی دنیا کے لئے اور اگر کوئی اور رسالہ اس تحریک پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ضرورت ہو تو میں اس بحث کو واضح کرنے کے لئے اور اس تحریک سے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بشرط فرصت اور مضامین بھی لکھ سکتا ہوں<۔ )صفحہ ۱۸۶۔ ۱۸۸(
جناب تاجور نے حضور کے مضمون کے ساتھ ایک ادارتی نوٹ دیا۔ جس میں آپ کی اردو نوازی اور ادبی خدمات کو زبردست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا۔
>حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی توجہات بیکراں کا میں سپاس گزار ہوں کہ وہ ادبی دنیا کی مشکلات میں ہماری عملی امداد فرماتے ہیں میں نے ان کی جناب میں امداد کی نہ کوئی درخواست کی تھی۔ نہ مجھے احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے اور نہ ادبی دنیا کوئی مذہبی پرچہ ہے۔ مگر حضرت مرزا صاحب اپنی عزیز مصروفیتوں میں سے علم و ادب اور علم و ادب کے خدمتگزاروں پر توجہ فرمائی کہ لئے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ ملکی زبان و ادب سے جناب موصوف کا یہ اعتناان علماء کے لئے قابل توجہ ہے۔ جو اردو و ادب کی خدمت کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں<۔۲۲
اگلے نمبر میں مزید لکھا۔
>پچھلے نمبر میں حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان کی توجہ بیکراں کا حال آپ نے پڑھ لیا ہو گا۔ امام جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کے خلف الرشید اور ان کے خلیفہ ہیں۔ مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف اردو ادب کا ایک ذخیرہ بیکراں ہیں الولد سر لابیہ کے مطابق ان کے نامور فرزند کے دل میں بھی اردو زبان کے لئے ایک لگن اور اردو کے خدمت گزاروں سے ایک لگائو موجود ہے<۔۲۳
اس مضمون میں حضور نے ادبی رسالوں کے سامنے ایک سکیم بھی رکھی تھی۔ جسے ادبی حلقوں میں پسند کیا گیا۔ چنانچہ سید عبدالقدوس صاحب ہاشمی ندوی ایم۔ اے مدیر رسالہ >قدیم< )گیاجنوبی ہند( نے ۹/ اپریل ۱۹۲۱ء کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ میں نے رسالہ >ادبی دنیا< میں شائع شدہ آپ کی سکیم کئی بار پڑھی اور مجھے یہ بہت پسند آئی ہے میں جناب کی سکیم بروئے کار لانا چاہتا ہوں۔ اور میں انشاء اللہ ابتدائی دقتیں بھی برداشت کر لوں گا۔ میں حضور کا بہت شکر گزار ہوں گا اگر اس بارے میں گرانقدر مشورہ سے سرفراز فرمایا جائے۔
مسلمانان کانپور پر ہولناک مظالم
۲۵/ مارچ ۱۹۳۱ء کو ہندوئوں نے کانپور میں فرقہ وارانہ فساد کرکے مسلمانان کانپور پر ہولناک مظالم ڈھائے نہ بوڑھوں کے قتل سے رکے نہ بچوں کے قتل سے جھجکے۔ عورتوں کی چھاتیاں کاٹ ڈالیں۔ مکانات جلا دیئے دکانیں لوٹ لیں۔ اور مساجد منہدم کر دیں۔ سفاکی او بے رحمی کی انتہا یہ تھی کہ ہندوئوں نے مسلمانوں کی تباہی` بربادی` ہلاکت اور خوں ریزی پر مسرت و شادمانی کا اظہار کیا۔ چنانچہ لاہور کے ہندو اخبار >کیسری< نے لکھا۔ >اس وقت تک عام طور پر اس قسم کے فسادات میں یہ ہوتا تھا کہ ہندو پٹتے اور مسلمان لوٹتے تھے۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔ ہمیں اس امر سے تسلی ہے کہ اب ہندو مار نہیں کھاتے<۔۲۴
اخبار >الفضل< نے جو مظلوم کی حمایت کے لئے وقف تھا۔ مسلمانوں پر ان خطرناک مظالم اور ذمہ دار حکام کی مجرمانہ غفلت کے خلاف زبردست آواز بلند کی۔۲۵ کان پور کے مصیبت زدہ مسلمانوں کی امداد کے لئے ایک مسلم ریلیف کمیٹی قائم ہوئی جسے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے دو سو روپے کا عطیہ ارسال فرمایا۔ جس کی رسید خان بہادر حافظ ہدایت حسین صاحب بار ایٹ لاء پریذیڈنٹ ریلیف کمیٹی کانپور نے بھجوائی۔۲۶
انگریزی حکومت کی غفلت شعاری اور حضور کا اعلان
حکومتیں ہمیشہ زبردست کا ساتھ دیا کرتی ہیں۔ ان دنوں انگریزی حکومت یہی مظاہرہ کر رہی تھی۔ مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا ہوتے تو گواہی دینے والے مسلمان ہی مقدمات میں پھانس لئے جاتے تھے۔ حضرت اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے مسلمان بادشاہوں اور بزرگوں پر برابر حملے ہوتے رہتے۔ حتیٰ کہ امتحان کے پرچوں میں بھی مسلم بادشاہوں کو گالیاں دی جاتیں مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوتی۔
۱۹۳۱ء میں حکومت کی اس دو رخی پالیسی کا جماعت احمدیہ کو خاص طور پر نشانہ بننا پڑا۔ بنگال میں ایک بدباطن نے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت مسیح موعودؑ کو شرمناک گالیاں دی گئیں۔ مگر حکومت نے اس پر کوئی نوٹس نہ لیا۔ اس کے مقابل ہماری طرف سے لیکھو نام لکھ دینے پر حکومت کی مشینری حرکت میں آگئی۔ بحالیکہ جب پنڈت لیکھرام کا نام ہی لیکھو۲۷ ہو تو اسے لیکھو نہ لکھا جائے تو اور کیا لکھا جاتا۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اس غیر دانشمندانہ و نامنصفانہ اقدام پر ۲۷/ مارچ ۱۹۳۱ء کو احتجاج کرتے ہوئے فرمایا۔
>ہم ہرگز ایسے نوٹسوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ گورنمنٹ اگر کوئی قانون بنائے گی کہ لیکھو کو لیکھو نہ کہا جائے تو خدا تعالیٰ ہمارے لئے کوئی اور راہ نکال دے گا جس سے ہم آریوں کی دکھتی رگ پکڑ سکیں گے۔ کیونکہ اسلام کوئی حکم ایسا نہیں دیتا۔ جس سے مشکلات میں اضافہ ہو جائے۔ اگر اس نے قانون کی پابندی کا حکم دیا ہے تو ایسے راستے بھی بتا دیئے ہیں۔ کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی غیرت کا ثبوت دے سکیں<۔۲۸
اس کے ساتھ ہی آپ نے مصنفین سلسلہ کو اجازت دی کہ وہ اخلاق و قانون کے اندر رہتے ہوئے آریوں کی بدزبانیوں کا جواب دیں۔ ہاں قانون کی پابندی کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ قید سے ڈریں اگر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اور اظہار صداقت کے >جرم< میں انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے تو انہیں بخوشی چلے جانا چاہئے۔ کیونکہ مومن بزدل نہیں ہوتا۔۲۹
‏tav.5.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال
چوتھا باب )فصل دوم(
تحفہ لارڈ ارون
لارڈارون ۱۹۲۶ء میں ہندوستان میں وائسرائے ہو کر آئے اور ۱۹۳۱ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ لارڈ ارون نہایت خوش خلق` نیک دل اور مذہبی آدمی تھے۔ جنہوں نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اعلیٰ اخلاقی نمونہ پیش کیا۔
‏]ybod [tagلارڈارون جب ہندوستان سے رخصت ہونے لگے۔ تو دوسروں نے تو ان کو مادی تحفے و تحائف پیش کئے مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک کتاب >تحفہ لارڈارون< کے نام سے )۲۷/ مارچ سے ۳۱/ مارچ ۱۹۳۱ء تک( پانچ روز میں تصنیف فرمائی۳۰ اور جو احمدیہ وفد۳۱ نے ۸/ اپریل ۱۹۳۱ء کو وائسرائیگل لاج )دہلی( میں وائسرائے ہند لاڑڈارون کو نہایت خوبصورت سنہری کا سکیٹ اور خوشنما طشتری میں بطور تحفہ پیش کی۔
>تحفہ لارڈ ارون< تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں حضور نے لارڈ ارون کو ان کے طریق عمل پر مبارکباد دینے اور ان کے جذبہ مذہبی کی تعریف کرنے کے بعد توجہ دلائی ہے کہ حکومت برطانیہ سے دانستہ یا نادانستہ ہندوستانی مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان کی حکومت انگریزی حکومت کے قیام سے طبعاً تباہ ہوگئی ہے۔ اور نہ صرف کرناٹک` بنگال` اودھ` میسور` جھجر اور سندھ جیسی اسلامی ریاستیں مٹ گئی ہیں بلکہ مسلمانوں کا تمدن اور فوقیت بھی انگریزی حکومت کے نتیجہ میں تباہ ہو گئی حالانکہ غالب گمان تھا کہ اگر انگلستان کا قدم درمیان میں نہ آتا تو چند سال میں ایک نئی زبردست اسلامی حکومت اسی طرح ہندوستان میں قائم ہو جاتی جس طرح مغلوں سے پہلے بار بار ہو چکی تھی۔ لہذا اب جبکہ ہندوستان کی عنان حکومت ہندوستانیوں کے سپرد کی جانے والی ہے۔ انگلستان کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اس تغیر کے نتیجہ میں مسلمان اور زیادہ تباہ نہ ہو جائیں۔ بلکہ انہیں علمی` تمدنی اور مذہبی ترقی کرنے کا موقع حاصل رہے نہ یہ کہ جب وہ ہندوستان کو آزادی دے تو ہندوئوں کو اپنی پہلی حالت سے سینکڑوں گنا طاقتور اور مسلمانوں کو سینکڑوں گنا کمزور کرکے جائے۔ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کو ہمیشہ انگریزوں سے یہ جائز شکایت رہے گی کہ انہوں نے ہندوستان میں آکر یا فائدہ کیا یا ہندوئوں کا اس کے برعکس مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ان کی طاقت کو توڑ کر ہمیشہ کے لئے انہیں کمزور کر دیا۔ پس میں اور تمام جماعت احمدیہ بلکہ ہر مسلمان آپ سے امید کرتا ہے کہ آپ انگلستان جا کر اپنے دوستوں کو خصوصاً برطانوی پبلک کو عموماً اسلامی نقطہ نگاہ سے واقف کریں گے۔ اور انگلستان کو اس خطرناک غلطی میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھیں گے۔ احمدی جماعت یہ امر کبھی برداشت نہیں کرے گی کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے رحم پر چھوڑ دیا جائے اور اسلام کو آزادانہ طور پر پرامن طریق سے ترقی کرنے کے ذرائع سے محروم کر دیا جائے۔
دوسرے اور تیسرے باب میں حضور نے لارڈارون کو اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی نسبت گزشتہ نوشتے بتائے اور پھر جماعت احمدیہ کے بائیس بنیادی عقائد بیان کرنے کے بعد خاتمہ میں بتایا کہ >بے شک یہ سلسلہ اس وقت کمزور ہے لیکن سب الہیٰ سلسلے شروع میں کمزور ہوتے ہیں` شام فلسطین اور روم کے شہروں میں پھرنے والے حواریوں کو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کسی وقت دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیں گے۔ وہی حال ہمارے سلسلہ کا ہے اس کی بنیادیں خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں اور دنیا کی روکیں اس کی شان کو کمزور نہیں بلکہ دوبالا کرتی ہیں کیونکہ غیر معمولی مشکلات پر غالب آنا اور غیر معمولی کمزوری کے باوجود ترقی کرنا الہیٰ مدد اور الہیٰ نصرت کا نشان ہوتا ہے اور بصیرت رکھنے والوں کے ایمان کی زیادتی کا موجب<۔۳۲۔
لارڈ ارون نے اس قیمتی تحفہ پر بہت خوشی کا اظہار کرنے اور اس کا زبانی شکریہ ادا کرنے کے علاوہ حضور کے نام ایک تحریری شکریہ بھی ارسال کیا جو تحفہ لارڈارون اردو ایڈیشن کے آخر میں طبع شدہ ہے۔
‏]bus [tagاتحاد المسلمین کے لئے تحریک
سیاسی تغیرات ملکی اپنے ساتھ مذہبی خطرات بھی لارہے تھے۔ وہ مسلمان جو پہلے ہی اقتصادی طور پر ہندوئوں کے دست نگر اور ذہنی طور پر ان کے زیر اثر تھے۔ اور تعلیمی اور دینوی ترقیات سے محروم چلے آرہے تھے۔ اور ان کا تبلیغی مستقبل بھی تاریک نظر آرہا تھا۔ چنانچہ گاندھی جی کا اخبار سٹیٹسمین میں ایک انٹرویو شائع ہوا۔ کہ سوارج )ملکی حکومت( مل جانے کے بعد اگر غیر ملکی مشنری ہندوستانیوں کے عام فائدہ کے لئے روپیہ خرچ کرنا چاہیں گے تو اس کی تو انہیں اجازت ہو گی لیکن اگر وہ تبلیغ کریں گے تو میں انہیں ہندوستان سے نکلنے پر مجبور کروں گا۔ جس کے معنے اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ سوارج میں مذہبی تبلیغ بند ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ ہندوئوں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات برابر ہو رہے تھے۔ پہلے بنارس میں فساد ہوا۔ پھر آگرہ اور میرزا پور میں اور پھر کانپور میں مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس نازک موقع پر مارچ ۱۹۳۱ء مسلمانوں کو پھر اتحاد کی پرزور تلقین فرمائی اور نصیحت کی کہ اگر مسلمان ہندوستان میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ تو انہیں یہ سمجھوتہ کرنا چاہئے کہ اگر دیگر قوموں کی طرف سے کسی اسلامی فرقہ پر ظلم ہو تو خواہ اندرونی طور پر اس سے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو اس موقع پر متفق ہو جائیں گے۳۳۔
تحریک اتحاد کے تعلق میں جماعت احمدیہ کی کوششیں کہاں تک بارآور ہوئیں اس کا اندازہ ایک ہندو اخبار کے حسب ذیل الفاظ سے لگ سکتا ہے۔ اخبار >آریہ ویر< لاہور )۹/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۶( نے لکھا۔
>رشی دیانند اور منشی اندرمن کے زبردست اعتراضات کی تاب نہ لا کر مرزا غلام احمد قادیانی نے احمدیہ تحریک کو جاری کیا۔ احمدیہ تحریک کا زیادہ تر حلقہ کار مسلمانوں کے درمیان رہا ۔۔۔۔۔۔۔ اس جماعت کے کام نے مسلمانوں کے اندر حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس تحریک نے مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج مسلمان ایک طاقت ہیں` مسلمان قرآن کے گرد جمع ہو گئے<۔۳۴
مسلمانوں کے لئے نازک وقت اور جماعت احمدیہ کو نصیحت
خدا تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت احمدیہ کو ایک ایسا مقام حاصل ہو چکا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نگاہیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اسی کی طرف اٹھتی تھیں اور وہ جماعت کی سیاسی رہنمائی اور قیادت کا اقرار کھلے لفظوں میں کرنے لگے تھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء )منعقدہ ۲۔ ۳۔ ۴/ اپریل( کے موقع پر جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ۔
>اب ایسے تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کی تدبیر نہ کی تو ہندوستان میں مسلمان اسی طرح تباہ ہو جائیں گے جس طرح سپین میں ہوئے تھے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ اگر مسلمان ہوشیاری سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت کام کریں تو یہ ملک جس میں ۳۳ کروڑ دیوتائوں کی پرستش کی جاتی ہے خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے۔
اس سلسلہ میں حضور نے جماعت کو اس کی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو گی۔ اور ضرور قائم ہو گی مگر یہ ضروری نہیں کہ اسلام کی ترقی ہمارے ہاتھوں ہو۔ اگر ہم اس کے اہل ثابت ہوئے تو ہمارے ہاتھوں ہو گی ورنہ خدا تعالیٰ کوئی اور قوم کھڑی کر دے گا<۔۳۵
صنعت و حرفت کی طرف توجہ
ہندوستان میں تجارت قریباً تمام کی تمام ہندوئوں کے ہاتھ میں تھی جو مسلمان اس طرف توجہ کرتے تھے۔ وہ اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے کہ درمیان کے سارے راستے ہندوئوں کے قبضہ میں تھے۔ جب ملک میں سودیشی تحریک پیدا ہوئی تو مسلمانوں کو بھی صنعت کا خیال آیا۔ لیکن بڑھئی` جلاہے` معمار` لوہار جو پہلے زیادہ تر مسلمان ہوتے تھے۔ وہ گرے ہوئے برتائو کی وجہ سے اپنے اپنے پیشہ کو حقیر سمجھ کر چھوڑ چکے اور اس کی جگہ دوسرا کام اختیار کر چکے تھے۔ اس لئے سودیشی تحریک سے بھی زیادہ تر فائدہ ہندوئوں ہی نے حاصل کیا۔ اور وہ تجارت کے قریباً تمام شعبوں پر قابض ہو گئے۔ حتیٰ کہ ذبیحہ گائو کے سوال پر آئے دن جابجا فسادات برپا کرنے کے باوجود چمڑے کی تجارت کے بھی مالک بن بیٹھے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال مشاورت ۱۹۳۱ء کے موقع پر دوسرے مسلمانوں کو عموماً اور اپنی جماعت کو خصوصاً اس نازک صورت حال کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ جماعتی ترقی کے لئے صنعت و حرفت اور تجارت ضروری چیزیں ہیں۔ اور اگر مسلمانوں نے جلد ہی ادھر توجہ نہ کی تو ان پر ترقی کے راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔
حضور نے اس سلسلہ میں ایک صنعتی تحریک جاری کرنے کا قصد فرمایا اور اس کی سکیم بنانے کے لئے چند تجربہ کار اصحاب پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جن کے اسماء درج ذیل ہیں۔
)۱( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب )پریذیڈنٹ( )۲( حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال )۳( سیٹھ فاضل بھائی صاحب سکندر آباد دکن )۴( مرزا محمد اشرف صاحب )محاسب صدر انجمن احمدیہ( )۵( محمد فاضل صاحب راولپنڈی )۶( مولوی محمد عبداللہ صاحب )بوتالوی( )۷( شیخ عبدالرحمن صاحب مصری۳۶۔
صنعتی تحریک کی سکیم کے مطابق قادیان میں پہلا کارخانہ >ہوزری فیکٹری< کے نام سے کھولا گیا جو ۱۹۲۳ء سے ۱۹۴۷ء تک بڑی کامیابی سے چلتا رہا۳۷۔
ناظروں کے دوروں سے متعلق حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایت
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء کے موقع پر ایک طرف تو ناظروں کو یہ ہدایت کی کہ وہ دورے کرکے جماعتوں کی رہنمائی کریں اور دوسری طرف جماعتوں سے ارشاد فرمایا کہ۔
>میں امید کرتا ہوں آئندہ جماعتیں ناظروں کے دورہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گی اور ان کا احترام کرکے ثابت کر دیں گی۔ کہ ہم دینی خدمت کرنے والوں کو پورا پورا احترام کرنے والے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ میں جسے کسی کام کے لئے مقرر کرتا ہوں۔ اس کی اطاعت کرنے والا میری اطاعت کرتا ہے اور اس کی نافرمانی کرنے والا میری نافرمانی کرتا ہے اسی طرح رسول کریم~صل۱~ نے آرگنائزیشن کو مذہب کا حصہ بنا دیا اور کام کرنے والوں کی اطاعت اور احترام نظام کی جان ہے<۔۳۸
نمائندگان مشاورت کو زریں نصیحت
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۵/ اپریل ۱۹۳۱ء کو جو اس مجلس مشاورت کا تیسرا دن تھا۔ اس کے آخری اجلاس میں نمائندگان مشاورت کو نصیحت فرمائی کہ ہمارے ساے کام روحانیت پر مبنی ہیں۔ جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد یہ محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے کام قومی ملکی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی ہیں اور ان کا سرانجام دینا عبادت ہے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی<۔۳۹
‏0] f[stخواتین میں بہادری پیدا کرنے کی تحریک
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۰/ اپریل ۱۹۳۱ء کو خواتین میں تحریک جرات و بہادری پیدا کرنے کے سلسلہ میں فرمایا۔
>ابتدائی ایام میں مسلمان عورتوں نے بڑا کام کیا۔ مگر اسی وجہ سے کہ انہیں جنگوں میں شامل ہونے کا موقعہ دیا گیا۔ رسول کریم~صل۱~ ہمیشہ انہیں جنگوں میں شامل رکھتے تھے لڑائی کے فنون سکھاتے تھے۔ اور مشق کراتے تھے۔ مگر اب مسلمانوں نے یہ باتیں چھوڑ دیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارا فرض ہے کہ انہیں دلیر بنائیں اور اگر لڑائی میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اندر اتنی جرات تو پیدا کر دیں کہ اگر ہم میں سے کوئی اسلام کے لئے جان دینے کے لئے جائے تو انہیں بجائے صدمہ کے اس خیال سے خوشی ہو کہ اس ثواب میں ہم بھی شریک ہیں<۔۴۰`۴۱
سفر منصوری
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹/ اپریل ۱۹۳۱ء کو مع حرم سوم حضرت ام رفیع صاحبہ اور اپنی دختر ناصرہ بیگم صاحبہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے منصوری تشریف لے گئے۔ حضور کے ہمراہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے` ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور شیخ یوسف علی صاحب پرائیوٹ سیکرٹری بھی تھے۔۴۲
حضور نے ۲۴/ اپریل کو جماعت احمدیہ منصوری کو اس کی تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ پہاڑوں کو انبیاء اور علماء کے ساتھ نسبت ہے اس باطنی نسبت کے ساتھ اب پہاڑوں کو الہیٰ سلسلوں کے ساتھ ایک نسبت ظاہری بھی ہو گئی ہے۔ اب اگر ایسے مختلف پہاڑی مقامات پر ہماری جماعتیں مضبوط ہو جائیں تو پھر ہم سارے ملک میں تبلیغ کرسکتے ہیں۴۳
۲۶/ اپریل ۱۹۳۱ء کو حضور نے منصوری کے ٹائون ہال میں >ہندو مسلم اتحاد< کے موضوع پر ایک اہم لیکچر دیا۔ جس کے آخر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ۔
>میں تفصیلی طور پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو مسلمانوں کی صلح ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ صلح نہیں ہو سکتی۔ اور ہمیں اگر آپس میں لڑنا ہی پڑے تو بھی انسانیت کو بالائے طاق نہیں رکھنا چاہئے۔ لڑائی کے وقت اس قسم کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں کہ ہم انسانیت کو ہی بھول جائیں عورتوں اور چھوٹے بچوں کو ہلاک کریں۔ چھوٹے بچوں پر تو جنگلی جانور بھی رحم کھاتے ہیں۔ بہادری سے لڑیں اس سے صلح ہو جانے کی امید قائم رہتی ہے نہ کہ بزدلی سے کام لیں کہ یہ انسانیت کے خلاف ہے<۴۴
حضور نے یکم مئی ۱۹۳۱ء کو اسلامیہ سکول میں خان بہادر ظل حسین صاحب آنریری مجسٹریٹ کی زیر صدارت دوسرا لیکچر دیا۔ جس میں ہندو مسلم تعلقات اور ان کی اصلاح کی ضرورت پر قریباً دو گھنٹہ تک معلومات افزا روشنی ڈالی۔ جسے تمام طبقوں نے عام طور پر پسند کیا بلکہ حاضرین میں سے بعض کی رائے تھی کہ یہ اپنی قسم کی پہلی تقریر ہے جس کی تعریف میں تمام مختلف الخیالات لوگ رطب اللسان ہیں۔
۳۰/ اپریل ۱۹۳۱ء کو حضور منصوری سے روانہ ہو کر ڈیرہ دون۴۵ میں مقیم ہوئے پھر دہلی۴۶ تشریف لے گئے جہاں حضور کی خدمت میں جماعت دہلی نے ایڈریس پیش کیا۔ حضور نے جماعت دہلی کی تعریف کی اور فرمایا کہ یہ جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جو حتی الوسع ان تمام ذرائع کو استعمال کرتی ہیں جن سے وہ کوشش کرتی ہیں کہ جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھے۔۴۷ قیام دہلی کے دوران حضور نے نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر دعا کی۔۴۸
مولوی برکت علی صاحب لائق سابق امیر جماعت لدھیانہ کی روایت کے مطابق اس سفر میں حضور مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک قدیم صحابی حضرت صوفی میر عنایت علی صاحب کو بیعت اولیٰ کی معینہ جگہ کی نسبت اختلاف تھا۔ ان کے نزدیک بیعت اولیٰ موجودہ معینہ جگہ کے بالمقابل جنوبی کوٹھڑی میں ہوئی تھی۔ لیکن دوسرے بیعت کنندگان کی رائے میں معینہ جگہ ہی اصل جگہ تھی۔ اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے حضور نے واپسی پر لدھیانہ میں قیام فرمایا۔ اور بیعت اولیٰ کی جگہ کی تعیین فرمائی جس کی تصدیق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ نے بھی کی۔ )جو پہلے روز کے بیعت کرنے والوں میں شامل تھے( اس طرح حضرت امیرالمومنین کے ہاتھوں صحیح مقام سے متعلق اختلاف کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ ہو گیا۔۴۹
حضور لدھیانہ سے روانہ ہو کر ۱۴/ مئی ۱۹۳۱ء کو دارالامان قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۵۰
اس سفر میں آپ کو اکثر اوقات رات کے تین تین بجے تک مختلف دینی اور ملکی سرگرمیوں میں مصروف رہنا پڑا۔
اس سفر میں خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی مدیر >منادی< نے بھی آپ سے ملاقات اور حالات حاضرہ پر گفتگو کی۔ محترم خواجہ صاحب نے اسی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اخبار >منادی< میں لکھا۔
>جماعت احمدیہ کے امام جناب میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ملا تو واحدی صاحب بھی ساتھ تھے ان کی عمر بیالیس سال کی ہے جب پہلے ملاقات ہوئی تھی تو ان کی ڈاڑھی نہیں نکلی تھی اور یہ اپنے والد کے ساتھ درگاہ )حضرت نظام الدین اولیاء۔ ناقل( میں آئے تھے۔ اب لمبی ڈاڑھی ہے اور کچھ بال بھی سفید ہو گئے ہیں۔مجھ سے بارہ سال چھوٹے ہیں۔ آنکھیں غلافی ہیں ہنس کر یعنی خندہ پیشانی سے بات کرتے ہیں۔ بات چیت سے معلوم ہوا بہت بھولے اور بہت سیدھے سادھے مسلمان ہیں۔ موجودہ زمانہ کی چالاکی و ہوشیاری نہیں معلوم ہوتی۔ بلکہ بعض باتوں سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک معصوم بچہ گفتگو کر رہا ہے۔ مجھ پر اس سادگی کا بہت اچھا اثر ہوا اور میرے دل میں ان کی عزت پیدا ہوئی۔ گفتگو موجودہ حالات پر تھی۔ وہ جداگانہ انتخاب کے حامی ہیں دلائل میں کوئی گہرائی نہ تھی<۔۵۱`۵۲
یہ تو خواجہ صاحب کا وہ تاثر تھا۔ جس کا ذکر انہوں نے ۱۹۳۱ء کی سرسری ملاقات کے بعد لکھا تھا اس کے بعد جلد ہی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور حضور کی صدارت میں ان کو تحریک آزادی کشمیر میں خدمات بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی تو انہیں حضور کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور وہ اپنے گزشتہ نظریہ کو بدلنے پر مجبور ہو گئے چنانچہ انہوں نے ۱۹۳۳ء میں حضور کی قلمی تصویر کھینچتے ہوئے لکھا۔
>میرزا محمود احمد درازقد` درازریش` گندمی رنگ` بڑی بڑی آنکھیں` عمر چالیس سے زیادہ ذات مغل` پیشہ امامت اور مسیح موعود کی خلافت اور تقریر و تحریر کے ذریعہ قادیانی جماعت کی پیشوائی۔ پنجاب کے قصبہ قادیان میں رہتے ہیں۔ ان کے والد نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ امام مہدی ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی ہیں اور شری کرشن بھی ہیں۔ اب یہ اپنے والد کے قائم مقام اور خلیفے ہیں آواز بلند اور مضبوط ہے۔ عقل دور اندیش اور ہمہ گیر ہے۔ کئی بیویوں کے شوہر اور کئی بچوں کے باپ اور کثیر تعداد انسانوں کے رہنما ہیں۔ اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں۔ انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کئے ساتھ کام کرکے اپنی مغلئی جواں مردی کو ثابت کر دیا اور یہ بھی کہ مغل ذات کارفرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں<۔۵۳
صدر انجمن احمدیہ کے قواعد و ضوابط کی تشکیل
صدر انجمن احمدیہ کے قواعد و ضوابط جمع کرنے کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت علامہ میر محمد اسحاق صاحب اور حضرت مرزا محمد شفیع صاحب آڈیٹر )صدر انجمن احمدیہ( پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی۔ جس نے مئی ۱۹۳۱ء میں مفصل قواعد و ضوابط مرتب کر دیئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مجموعہ کے شائع کرنے کی منظوری ۱۴/ مئی ۱۹۳۶ء کو عطا فرمائی اور جنوری ۱۹۳۸ء میں یہ شائع کر دیا گیا۔ صدر انجمن احمدیہ کے قواعد اساسی laws) (By کا یہ پہلا ایڈیشن ۲۸۰ صفحات پر مشتمل تھا۔ اس پر آخری نظر ثانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی اور جناب سید محمد اسمعیل صاحب سپرنٹنڈنٹ دفاتر نے اس کی ترقیات و اضافہ جات کے شامل کرنے میں مدد دی۔۵۴
جماعت احمدیہ کے ہرفرد کوبیدار وہوشیار ہونے کاارشاد
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۰/ مئی ۱۹۳۱ء کو ارشاد فرمایا کہ ہر احمدی کو اپنے ماحول میں بیدار ہو جانا چاہئے اور اندرونی و بیرونی دشمنوں پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے۔ اور خصوصاً منافقین کو بے نقاب کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ اس ضمن میں یہ بھی ارشاد فرمایا۔
>میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو جماعت سے علیحدہ کر دینے سے سلسلہ کو کبھی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ تم اگر ایک کو نکالو تو خدا اس کے بدلے ہزار آدمی سلسلہ میں داخل کرے گا۔ آخر سلسلہ کی اشاعت کی ذمہ داری تو مجھ پر ہے۔ میں کیوں نہیں ڈرتا۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر میں ایک شخص کو بھی جماعت سے نکالوں تو خدا اس کے بدلے سینکڑوں آدمی مجھے دے گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ مستریوں کو جماعت سے نکالنے کے بعد جماعت نے اتنی جلدی ترقی کی ہے کہ پچھلے سالوں میں ایسی ترقی نہیں ہوئی<۔
منافق کی آپ نے واضح علامت یہ بیان فرمائی کہ۔
>جس وقت کوئی شخص نظام سلسلہ کی تحقیر کرے اور علانیہ اعتراض کرے اور جب کہا جائے کہ ذمہ دار افسروں تک یہ بات پہنچائو تو وہ کہے کہ مجھے ڈر آتا ہے تو فوراً سمجھ جائو کہ وہ منافق ہے<۔۵۵
پہلا برٹش احمدی قادیان میں
مسٹر عبداللہ سکاٹ پہلے برطانوی احمدی اور انگریز نو مسلم تھے جو ۹/ مئی ۱۹۳۱ء کو قادیان تشریف لائے اور قریباً دو ماہ تک مرکز احمدیت کی برکات سے مستفید ہوئے۔ اس دوران آپ کو حضرت خلیفہ ثانی کی ملاقات کا موقعہ بھی ملا۔ واپسی پر آپ نے قادیان سے متعلق اپنے تاثرات ایک مفصل مضمون میں قلمبند کئے جن میں قادیان کی مساجد` اس کے اداروں اور پاکیزہ اور روحانی فضا کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا کہ قرآن شریف میں جنت کی جو تفصیل لکھی ہے کہ وہاں نہ غم ہو گا` نہ ڈر` نہ جھگڑے` ہر شخص ایک دوسرے سے السلام علیکم کہہ کر ملاقی ہوگا۔ یہی بات میں نے قادیان میں بچشم خود مشاہدہ کی ہے۵۶۔
چوتھا باب )فصل سوم(
قاضی محمد علی صاحب نوشہروی کا وصال
قاضی محمد علی صاحب بٹالہ کے واقعہ قتل میں ماخوذ تھے۔ آپ کی اپیل ۹ اور ۱۲/ جنوری ۱۹۳۱ء کو ہائیکورٹ لاہور میں جسٹس ایڈیسن اور جسٹس کولڈ سٹریم کے بینچ میں پیش ہوئی۔ اپیلانٹ کی طرف سے شیخ دین محمد صاحب ایم اے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ ممبر پنجاب کونسل اور شیخ بشیر احمد صاحب بی ے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ گوجرانوالہ )حال ٹمپل روڈ لاہور( نے پیروی کی- بنچ نے سشن جج کا فیصلہ موت بحال رکھا اور اپیل نامنظور کر دی۔۵۷
ہائیکورٹ کے فیصلہ کے بعد حکومت پنجاب اور حکومت ہند سے رحم کی اپیل کی گئی مگر گورنر صاحب پنجاب اور وائسرائے ھند دونوں نے یہ اپیل رد کر دی۔ جس پر پریوی کونسل کی طرف رجوع کیا گیا۔
پریوی کونسل میں اپیل دائر تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے قاضی محمد علی صاحب کو اپنے قلم سے ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء کو مندرجہ ذیل نصیحت آمیز خط تحریر فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرم قاضی صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد گورنمنٹ پنجاب اور حکومت ہند کے پاس رحم کی اپیل کی گئی اور گورنر صاحب اور وائسرائے دونوں نے اس اپیل کو رد کر دیا اور اس کی بڑی وجہ جہاں تک میں سمجھا ہوں اس وقت کے سیاسی حالات ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اس مقدمہ میں دخل دیں تو ان لوگوں کے بارے میں بھی دخل دینا پڑتا ہے۔ جو سیاسی شورش میں پھانسی کی سزا پا چکے ہیں۔
اب صرف ایک ہی راہ باقی تھی اور وہ پریوی کونسل میں اپیل تھی۔ سو اپیل اب دائر ہے اور اس ماہ میں اس کی پیشی ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس لئے میں پیشتر اس کے اس اپیل کا فیصلہ ہو آپ کو بعض امور کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں۔
)۱( جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ میرا یہ یقین ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہمارے طریق کے خلاف ہے اس لئے جس حد تک بھی آپ سے غلطی ہوئی ہے اس کے متعلق آپ کو توبہ اور استغفار سے کام لینا چاہئے اللہ تعالیٰ نے جب ایک قانون بنایا ہے تو یقیناً اس نے ہمارے لئے ایسے راہ بھی بنائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنی مشکلات کا حل سوچ سکیں۔
)۲( خواہ آپ سے غلطی ہی ہوئی لیکن چونکہ آپ نے جو کچھ کیا ہے جہاں تک مجھے علم ہے محض دین کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل سے کام لیں۔ تو وہ نہ صرف یہ کہ آپ سے عفو کا معاملہ کرے گا بلکہ آپ کو اپنے اخلاص کا بھی اعلیٰ بدلہ دے گا۔
)۳( غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آپ سے رحم کا معاملہ کرے گا۔ اور آپ کے بچائو کی کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن اس کی مشیت پر کسی کو حکومت نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو برات کی خوابیں آئی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی برات اور رنگ میں ہوتی ہے۔ اس کی طرف سے یہ بھی ایک برات ہے کہ غلطی کی سزا اس دنیا میں دے کر انسان کو پاک کرکے اپنے فضل کا وارث کر دے۔ پس چونکہ خوابیں تغیر طلب ہوتی ہے ان کے ظاہری معنوں پر اس قدر زور نہیں دینا چاہئے۔ اور اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر ان کی تعبیر کوئی اور ہے تو پھر بھی بندہ اللہ تعالیٰ کی قضائو قدر پر راضی رہے۔
کوئی انسان دنیا میں نہیں جو موت سے بچا ہوا ہو اور ایسا بھی کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ وہ ضرور لمبی عمر پائے گا بڑے بڑے مضبوط آدمی جوان مر جاتے ہیں اور کمزور آدمی بڑھاپے کو پہنچتے ہیں۔ پس کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک خاص قسم کی موت سے بچ بھی جائے تو کل ہی دوسری قسم کی موت اسے پکڑ نہ لے گی۔ پس کیوں نہ بندہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی ہو تاکہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف پہنچی ہو اگلے جہان میں تو اس کا بدلہ تو مل جائے۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اس وقت کہ ابھی اپیل پیش ہونے والی ہے آپ کو توجہ دلائوں کہ اگر خدانخواستہ یہ آخری کوشش بھی ناکام رہے تو آپ کو صبر اور رضاء بقضاء کا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے کہ جو ایک مومن کی شایان شان ہو۔
ابھی پچھلے دنوں بھگت وغیرہ کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے رحم کی اپیل کرنے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک کے لئے یہ کام کیا ہے ہم کسی رحم کے طالب نہیں اور پھر بغیر گھبراہٹ کے اظہار کے یہ لوگ پھانسی پر چڑھ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو نہ خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے۔ اور نہ مابعد الموت انہیں کسی زندگی یا کسی نیک بدلہ کا یقین تھا۔ صرف قومی خدمت ان کے مدنظر تھی اور بس۔ ان لوگوں کا یہ حال ہے تو اس شخص کا کیا حال ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہو اور ایک نئی اور اعلیٰ زندگی کا امیدوار ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی تعلیم کے مطابق مجبور ہے کہ آپ کے فعل کو غلطی پر محمول کرے۔ لیکن ساتھ ہی جماعت اس امر کو بھی محسوس کر رہی ہے کہ آپ نے غیرت اور دینی جوش کا ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ اگر اس فعل کے بدلہ میں آپ کو سزائے پھانسی مل جائے تو یقیناً جماعت اس امر کو محسوس کرے گی کہ آپ نے اپنی غلطی کا بدلہ اپنی جان سے دے دیا اور آپ کا اخلاص باقی رہ گیا۔ جسے وہ ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن اگر آپ سے کسی قسم کا خوف ظاہر ہو یا گھبراہٹ ظاہر ہو تو یقیناً جماعت کے لئے یہ ایک صدمہ کی بات ہو گی۔ اور آپ کے پہلے فعل کو وہ کسی دینی غیرت کا نتیجہ نہیں بلکہ عارضی جوش کا نتیجہ خیال کرے گی۔ پس آج اس وقت کا معاملہ نہ صرف یہ کہ آپ کے اپنے وقار پر اثر انداز ہو گا بلکہ جماعت کے وقار پر بھی۔ جس کے لئے کابل کے شہدا نے ایک اعلیٰ معیار قائم کر دیا ہے۔ پس جہاں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پیالے کو آپ سے ٹلا دے اور آپ بھی دعا کریں کہ ایسا ہی ہو وہاں ہر ایک احمدی یہ امید کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی مشیت ہماری خواہشات کے خلاف ہو تو آپ کا رویہ اس قدر بہادرانہ اس قدر دلیرانہ اس قدر مومنانہ ہو گا کہ آئندہ نسلیں آپ کے نام کو یاد رکھیں۔ اور آپ کی غلطی کو بھلاتے ہوئے آپ کے اخلاص کی یاد کو تازہ رکھیں اور ان کے دل اس یقین سے پر ہو جائیں کہ ایک احمدی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر خوش ہے اور اسے دنیا کی کوئی تکلیف مرعوب نہیں کر سکی۔
خاکسار )دستخط مرزا محمود احمد(
قادیان ۳۱/ ۴/ ۹ خلیفتہ المسیح
آخر پریوی کونسل نے بھی فیصلہ بحال رکھا اور قاضی محمد علی صاحب کو خدا کی طرف سے آخری بلاوا آپہنچا۔ خدا کی مشیت ازلی پوری ہوئی اور آپ ۱۶/ مئی ۱۹۳۱ء کو گورداسپور جیل میں بوقت ۶ بجے صبح تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے فانا للہ و انا الیہ راجعون۔
قاضی صاحب کی نعش گورداسپور سے قادیان پہنچائی گئی اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں پانچ ہزار کے مجمع سمیت نماز جنازہ ادا کی پھر دوستوں نے آپ کا چہرہ دیکھا اور فوٹو لیا گیا اور آپ بہشتی مقبرہ کی مقدس خاک میں دفن کر دیئے گئے۔۵۸
قاضی صاحب بڑے حق پرست` متقی اور خداترس انسان تھے۔۵۹ وکیلوں اور قانون دانوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیان کو قانونی رنگ میں ڈھال لیں۔ تو وہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے سزا سے بچ سکتے ہیں۔ مگر انہوں نے معمولی سا اختلاف بھی گوارا نہ کیا۔ پھانسی قبول کر لی۔ مگر سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ کی حق پرستی کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں۔
>عدالت کے فیصلہ کے ہم پابند نہیں اس نے اپنا کام کیا اور اپنی رائے کے مطابق انہیں پھانسی دے دی اس پر اس کا کام ختم ہو گیا۔ مگر ہم اس کے فیصلہ کو صحیح ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ اس نے اپنے نقطہ نگاہ پر بنیاد رکھی وہ ان کی سچائی سے اس طرح واقف نہ تھی جس طرح ہم واقف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کی صداقت کو دیکھا ہے متواتر ایسے واقعات ہوئے کہ انہیں جھوٹ بولنے کے لئے ورغلایا گیا۔ مگر انہوں نے ایک لمحہ کے لئے صداقت کو نہ چھوڑا اور میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ وہ شخص جھوٹا نہ تھا اور پانچ نہیں اگر پانچ ہزار گواہ بھی اس کے خلاف شہادت دیں تو ہم انہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عدالت نے اگرچہ دیانتداری سے فیصلہ کیا مگر غلط کیا۔ واقعہ یہی ہے کہ قاضی صاحب نے قتل نہیں کیا۔ ایک آدمی ضرور مرا۔ مگر معلوم نہیں کس کے ہاتھ سے ۔۔۔۔۔۔ پس ہم جب قاضی صاحب کی تعریف کرتے ہیں تو اس ¶وجہ سے نہیں کہ انہوں نے ایک آدمی کو مار دیا بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے سچائی کو اختیار کیا۔ آخر دم تک اس پر قائم رہے اور بالاخر جان دے دی۔ مگر صداقت کو نہ چھوڑا اور یہ وہ روح ہے جو ہم چاہتے ہیں ہر احمدی کے اندر پیدا ہو۔ اسی وجہ سے میں ان کے جنازہ میں شامل ہوا<۔۶۰
قرآن مجیدکی طباعت میں غیرمسلموں کے دخل پرانتقاد واحتجاج
ہندوستانی مسلمانوں کی غفلت اور عدم توجیہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ایک غیر مسلموں نے قرآن مجید کی طبع و اشاعت کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چونکہ ان کا مقصد محض روپیہ کمانا تھا۔ اس لئے ان کی طباعت میں خطرناک غلطیاں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً لاہور کے ایک کتب فروش سنت سنگھ نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کیا۔ جس میں دوسری عام غلطیوں کے علاوہ قرآن مجید کی آیت میں حضرت آدم کے لئے جہاں خلیفہ کا لفظ آتا ہے۔ وہاں خبیث کا لفظ لکھ دیا۔
اس دلازار حرکت کے خلاف اخبار الفضل نے )۳۰/ مئی ۱۹۳۱ء( کو شدید صدائے احتجاج بلند کی۔ اور کہا کہ غیر مسلموں کو قرآن مجید کی طباعت اور فروخت سے فوراً روک دینا چاہئے۔ مسلمانوں کو کسی غیر مسلم کا چھپا ہوا قرآن مجید نہیں خریدنا چاہئے اور مسلمان تاجران کتب کو قرآن مجید کی طباعت و اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔۶۱
چوتھا باب )فصل چہارم(
جماعت احمدیہ کا چہل سالہ دور
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر اکتوبر نومبر ۱۸۹۰ء میں مقام مسیحیت کا انکشاف ہوا۔ جس کا اعلان حضور نے شروع ۱۸۹۱ء میں >فتح اسلام< میں فرمایا۔ اس لحاظ سے ۱۹۳۱ء کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی عمر چالیس سال تک پہنچ گئی اور بلوغت تامہ کا پہلا درجہ جماعت کو حاصل ہوا۔ یہ چالیس سالہ دور اس شان سے گزرا کہ اس کی ہر دہائی میں احمدیت کو فتح نصیب ہوئی۔ پہلے دس سال میں مسیحیت و مجددیت کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا رخ پلٹا گیا۔ دوسرے دس سال میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کی تشریح و توضیع کا سامان فرمایا۔ تیسرے دس سال میں نظام خلافت کو تقویت حاصل ہوئی۔ اور چوتھے دس سال میں بیرونی ممالک میں بکثرت احمدیہ مشن قائم ہوئے۔ اور سلسلہ کی عالمگیر ترقی کی بنیادیں رکھ دی گئیں۔
حضرت امیر المومنین نے خدا تعالیٰ کی اس غیر معمولی تائید و نصرت پر جذبات تشکر ظاہر کرنے کے لئے ۵/ جون ۱۹۳۱ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ پڑھا اور ارشاد فرمایا کہ۔
>یہ ایک قسم کی جوبلی ہے کیونکہ پچاس سال کی عمر کا پاجانا بڑی خوشی کی بات ہوا کرتی ہے۔ مگر پہلی بلوغت چالیس سالہ ہے اور ہمیں سب سے پہلے اس بلوغت کے آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ باوجود دشمنوں کی کوششوں کے ہماری جماعت چالیس سال کی عمر تک پہنچ گئی۔ اور میں سمجھتا ہوں ہمیں خاص طور پر اس تقریب پر خوشی منانی چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر بندہ اس کی نعمت پر خوشی محسوس نہیں کرتا۔ تو وہ نعمت اس سے چھین لی جاتی ہے اور اگر خوشی محسوس کرے۔ اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرے تو زیادہ زور سے اللہ تعالیٰ کے فیضان نازل ہوتے ہیں پس میرا خیال ہے ہم کو اس سال چالیس سالہ جوبلی منانی چاہئے<۔
اس چہل سالہ جوبلی کی بہترین صورت آپ نے یہ بیان فرمائی کہ۔
>سب سے بڑی جوبلی یہ ہے کہ ہم سال حال تبلیغ کے لئے مخصوص کر دیں اور اتنے جوش اور زور کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہو جائیں کہ ہر جماعت اپنے آپ کو کم از کم دگنی کرے یہ جوبلی ایسی ہو گی جو آئندہ نسلوں میں بطور یادگار رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے اپنی یادگاروں کے قیام کے لئے اینٹوں` پتھروں اور چونے کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ وہ دنیا میں روحانیت قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہی ان کی بہترین یادگار ہوتی ہے کہ اس مقصد کو پورا کر دیا جائے جس کے لئے وہ دنیا میں مبعوث ہوئے<۔۶۲
اور فرمایا۔
>اس جوبلی کی یادگار کا اس کو بھی حصہ ہی قرار دے لو کہ تمام بالغ احمدی خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کوشش تو یہ کریں کہ ہمیشہ تہجد پڑھیں لیکن اگر ہمیشہ اس پر عمل نہیں کر سکتے تو جمعہ کی رات مخصوص کر لیں اور سب اللہ تعالیٰ کے حضور متفقہ طور پر دعائیں مانگیں<۔۶۳
حضور نے ۱۲/ جون ۱۹۳۱ء کو جمعہ کی رات میں التزام سے تہجد پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار فرمایا کہ اگر جماعت یہ نیکی بطور یادگار پیدا کرے تو عرش الہیٰ ہل جائے گا اور >دہریت کی رو جو اس وقت دنیا میں جاری ہے رک جائے گی اور بے دینی و الحاد کو شکست ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول شروع ہو جائے گا<۔10] [p۶۴
انجمن شباب المسلمین بٹالہ کا جلسہ
بٹالہ کی انجمن شباب المسلمین نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک محاذ قائم کر رکھا تھا۔ جون ۱۹۳۱ء کو اس کے پلیٹ فارم پر جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے ایک روایت کے مطابق یہاں تک کہہ ڈالا کہ احمدیوں کے مقابل پر ہمیں کسی کوشش کی ضرورت نہیں سیاسی طور پر مسلمان کانگریس کی مدد کریں۔ احمدی ہمیشہ ہی خوشامدی چلے آئے ہیں۔ چنانچہ ان کا امیر بھی خوشامدی ہی تھا جس دن ہمیں حکومت ملی اور میں وزیراعظم ہو گیا یہ لوگ میرے بوٹ چاٹا کریں گے۔ گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ان کے پیچھے چلنا چاہئے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلائی میرزا صاحب نے آکر دنیا کو کون سی آزادی دلائی تھی انہوں نے تو آکر غلام بنا دیا۔ جب سوارج مل گیا۔ تو یہ لوگ گاندھی جی کی سرداری تسلیم کریں گے اور اب تو گائے پر لڑتے ہیں۔ پھر گائے کا پیشاب پیا کریں گے۔۶۵
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹/ جون ۱۹۳۱ء کے خطبہ جمعہ میں اس بیان کا ذکر کرکے اس پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مقابل میں گاندھی وغیرہ کی کچھ بھی حقیقت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام خدا کی طرف سے مامور ہو کر آئے پس جو بھی آپ کے مقابل پر اٹھے گا۔ خواہ وہ گاندھی ہو یا کوئی اور۔ اللہ تعالیٰ اسے یوں کچل ڈالے گا جس طرح ایک جوں مار دی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے انگریزوں کو ہرا دیا۔ اول تو یہ بات ہی غلط ہے لیکن پھر بھی اگر گاندھی جی انگریز کیا ساری دنیا کو بھی ہرا دیں۔ تب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مقابل میں اس کی کچھ حیثیت نہیں کیونکہ گاندھی جی کی فتوحات لوگوں کو خوش کر کرکے ہوئیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دنیا کو ناراض کرکے جیتا یہاں تک کہ دنیا کا ایک متعدبہ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں آگرا اور ابھی کیا ہے دنیا دیکھے گی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ہاتھ پر کس طرح مخلوق اکٹھی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاندھی جی اور ان کی تحریکیں ہستی ہی کیا رکھتی ہیں۔ اس خدا کے جرنیل کے مقابل میں جو دنیا کا نجات دہندہ بن کر آیا۔ پھر گاندھی جی تو اسلامی تعلیم پر بھی اعتراض کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پس ایسے شخص کی تعریف کرنا دراصل رسول کریم~صل۱~ کی علانیہ ہتک کرنا ہے<۔۶۶
زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل
لائل پور میں ۲۰۔ ۲۱/ جون ۱۹۳۱ء کو ایک زمیندارہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک اہم مضمون محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے پڑھا۶۷۔ جو بعد کو >زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل< کے نام سے رسالہ کی صورت میں بھی شائع کر دیا گیا۔
اس مضمون میں حضور نے زمینداروں کی مشکلات کے عارضی و مستقل اسباب و علل اور پھر ان کے علاج پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی اور زمینداروں کی تباہی کا سب سے بڑا موجب سودی قرض کو قرار دیتے ہوئے اس سے نجات پانے کے لئے ایک بہترین سکیم پیش کی اور وعدہ فرمایا کہ >میں اور احمدی جماعت کے تمام افراد اپنی طاقت کے مطابق ہر اس جائز کوشش میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ جو آپ زمینداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کریں<۔۶۸body] gat[
بعض اکالیوں نے یہ چاہا کہ یہ مضمون ہی نہ سنایا جائے کیونکہ ان کو یہ خیال تھا کہ اس میں سلسلہ کی کچھ نہ کچھ تبلیغ ضرور ہو گی۔ لیکن جب مضمون پڑھا گیا۔ تو اکالیوں نے عصمت اللہ خان صاحب وکیل احمدی سے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ مضمون بہت اچھا تھا۔ ہم نے اسے روکنے میں سخت غلطی کی اسی طرح شہر کے دوسرے لوگوں نے بھی جو کانفرنس میں موجود تھے اس مضمون کو بہت پسند کیا۔۶۹
امام جماعت احمدیہ کی مذہبی نصیحت
حیدر آباد دکن کے >صحیفہ روزانہ< نے اپنی ۲۵/ جون ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں حضرت مصلح موعود کا حسب ذیل بیان شائع کیا۔
>میں تمام مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کے لئے یہ وقت بہت نازک ہے چاروں طرف سے تاریک بادل امڈے آرہے ہیں زمانہ مسلمانوں کو ایک زخم دینے کو تیار ہے ایک دفعہ پھر وہ بنیادیں جن پر انہیں عظیم الشان اعتماد تھا ہل رہی ہیں اور وہ عمود جن پر ان کے تمام نظام کی چھتیں رکھی گئی تھیں متزلزل ہو رہی ہیں ان کی عقل و دانش کے امتحان کا وقت پھر آرہا ہے زمانہ پھر دیکھنا چاہتا ہے کہ پچھلی مصیبتوں سے انہوں نے کیا حاصل کیا ہے اور پچھلے تجربوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے اور یہ وقت ہے کہ بیدار ہوں اور ہوشیار ہوں زور دار تحریروں اور لچھے دار تقریروں کی سحر کاریوں سے متاثر ہونے کی بجائے ان آنکھوں سے کام لیں جو خدا نے انہیں دی ہیں۔ اور ان کانوں سے کام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے اور اس دل و دماغ سے کام لیں جو ان کے رب نے انہیں بخشا ہے اور اس بات کے لئے کھڑے ہو جائیں کہ وہ ذلت کی چادر جو ان کو پہنائی جاتی ہے وہ اسے ہرگز نہیں پہنیں گے خدا نے مسلمانوں کو معزز بنایا تھا مگر انہوں نے خود اپنے لئے ذلت خریدی لیکن اب ان کو چاہئے کہ وہ ذلت کے جامہ کو اتار پھینکیں اور اپنی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد کو اختیار کریں اور گالی کا جواب محبت سے اور سختی کا جواب نرمی سے دیں تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ وہ اپنے نفوس پر اعتماد رکھتے ہیں اور مضبوط چٹانوں کی طرح ہیں جو ہر حالت میں اپنی جگہ پر رہتی ہیں نہ کہ چھوٹے کنکروں کی طرح جو تھوڑی سی ہوا پر اودھم مچاتے ہیں۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔ مرزا محمود احمد فقط۔
خاندان حضرت مسیح موعود میں ایک مبارک تقریب][اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب تک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سات صاحبزادے۷۰ اور صاحبزادیاں۷۱ قرآن کریم ختم کر چکی تھیں بلکہ محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تو بفضلہ تعالیٰ حافظ قرآن مجید بھی ہو چکے تھے۔ خدا تعالیٰ کے اس احسان عظیم کا شکر ادا کرنے کے لئے ۲۹/ جون ۱۹۳۱ء بروز دو شنبہ مبارک دو شنبہ عصر کے وقت حضور کے حرم اول کے مکان میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں مقامی خواتین کے علاوہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا` صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ` حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور سیدہ امتہ السلام بیگم صاحبہ )بنت حضرت صاحبزاد مرزا بشیر احمد صاحب( اور حرم محترم سیدنا امیر المومنین شامل ہوئے۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک تقریب سے متعلق ایک نظم ارشاد فرمائی تھی جس میں اپنے تمام بچوں کے نام لے لے کر )جن میں حضور نے سیدہ امتہ السلام بیگم صاحبہ کو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کی یادگار ہونے کی وجہ سے شامل فرما لیا( اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کا شکر بجا لاتے ہوئے دعائیں کی گئیں اور جو نظم اس موقعہ پر پڑھی گئی اس کے چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔~}~
بڑھیں اور ساتھ دنیا کو بڑھائیں
پڑھیں اور ایک عالم کو پڑھائیں
الہیٰ دور ہوں ان کی بلائیں
پڑیں دشمن پہ ہی اس کی جفائیں
الٰہی تیز ہوں ان کی نگاہیں
نظر آئیں سب ہی تقویٰ کی راہیں
ہوں بحر معرفت کے یہ شناور
سماء علم کے ہوں مہر انور
یہ قصر احمدی کے پاسباں ہوں
یہ ہر میداں کے یارب پہلواں ہوں
ثریا سے یہ پھر ایمان لائیں
یہ پھر واپس ترا قرآن لائیں
آخر میں حضرت ام المومنین اور حرم محترم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سب بچوں کو سامنے بٹھا کر خواتین کے تمام مجمع سمیت دعائیں مانگیں اور تمام خواتین میں شیرینی تقسیم کی گئی۔۷۲
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اسی سال کی عمر میں ۲/ جولائی ۱۹۳۱ء کو بوقت صبح انتقال فرما گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اسی روز پونے پانچ بجے کے قریب آپ کا جنازہ اٹھایا گیا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے مجمع سمیت باغ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور آپ مرزا حضرت مسیح موعودؑ کے احاطہ میں شرقی جانب دفن کئے گئے۔
محترم حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نہایت متواضع اور وسیع الاخلاق انسان تھے۔ خدمت خلق کے جذبہ سے آپ کا دل معمور تھا۔ قوت تحریر اور زور قلم آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ورثہ میں پایا تھا۔ پورے ملک ہند کے موقر و بلند پایہ رسائل و اخبارات آپ کے فلسفیانہ اخلاقی و علمی مضامین نہایت قدر و منزلت سے فخریہ شائع کرتے تھے۔۷۳ اس کے علاوہ آپ ۴۷ کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف بھی تھے۔۷۴
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال ادب اردو کے لئے بہت بڑا نقصان تھا۔ جو ادبی حلقوں میں بہت محسوس کیا گیا۔ مثلاً >ادبی دنیا< کے ایڈیٹر اور شمس العلماء احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی )۱۸۹۴۔ ۱۹۵۱ء( نے اپنے رسالہ میں آپ کی تصویر دے کر یہ نوٹ شائع کیا کہ۔
>دنیائے ادب اس ماہ اردو کے نامور بلند نظر اور فاضل ادیب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی محروم ہوگئی۔ آپ نہایت قابل انشاء پرداز تھے۔ اردو کا کوئی حصہ ان کی رشحات قلم سے محروم نہ رہا ہو گا۔ قانون و عدالت کی اہم مصروفیتوں کے باوجود بھی مضامین لکھنے کے لئے وقت نکال لیتے تھے۔ بہت جلد مضمون لکھتے تھے۔ عدالت میں ذرا سی فرصت ملی تو وہیں ایک مضمون لکھ کر کسی رسالہ کی فرمائش پوری کر دی۔ اردو زبان کے بہت سے مضمون نگاروں نے ان کی طرز انشاء کو سامنے رکھکر لکھنا سیکھا افسوس کہ ایسا ہمہ گیر و ہمہ رس انشاء پرداز موت کے ہاتھوں نے ہم سے چھین لیا۔
مرزا صاحب مرحوم سیلف میڈ )خودساز( لوگوں میں سے تھے۔ آپ نے پٹواری کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور ڈپٹی کمشنر تک ترقی کی۔ آپ مرزا غلام احمد صاحب )مسیح موعود( کے فرزند تھے۔ اپنے محترم باپ کی زندگی میں ان کی >نبوت بروزی< پر ایمان نہیں لائے۔ ان کی وفات کے بعد اور اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے چھوٹے بھائی حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اردو میں بیش قیمت لٹریچر آپ نے اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔ علم اخلاق پر آپ کی کتابیں اردو زبان کی قابل قدر تصانیف میں سے ہیں<۔۷۵
انجمن حمایت اسلام لاہور کے ترجمان >حمایت اسلام< ۹/ جولائی ۱۹۳۱ء نے لکھا۔
>یہ خبر گہرے حزن و ملال کے ساتھ سنی جائے گی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے صاحبزادے خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب جو پراونشل سول سروس کے ایک ہردلعزیز اور نیک نام افسر تھے۔ اس جہان فانی سے رحلت کر گئے۔ خان بہادر صاحب مرحوم نے علم و ادب پر جو احسانات کئے ہیں وہ کبھی آسانی سے فراموش نہیں کئے جا سکتے ان کے شغف علمی کا اس امر سے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ملازمت کی انتہائی مصروفیتوں کے باوجود گراں بہا مضامین کے سلسلے میں پیہم جگر کاری کرتے رہے۔ ہمیں مرحوم کے عزیزوں اور دوستوں سے اس حادثہ میں دلی ہمدردی ہے۔ باری تعالیٰ مرحوم کو فردوس کی نعمتیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے<۔۷۶
حضرت مرزا سلطان احمدؓ کی شکل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے مشابہت پائی جاتی تھی اور کوئی نظم پڑھتے وقت گنگنانے کی آواز تو حضور علیہ السلام کی طرز سے بہت ہی ملتی تھی۔ آپ سے ملنے والے آپ سے مل کر روئے مبارک حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مشابہت پاکر روحانی مسرت حاصل کیا کرتے تھے۔
چنانچہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ۴/ جولائی ۱۹۳۱ء کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں جو عریضہ تعزیت ارسال کیا۔ اس میں لکھا۔
>آج الفضل میں جناب میرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کی خبر پڑھی انا للہ و انا الیہ راجعون مجھے جب کبھی مرحوم کی بیماری کے آخری ایام میں مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا تو مرحوم کو دیکھ کر یہ مصرعہ میری زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا۔ ع >دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے<۔
آخری عمر میں مرحوم کا چہرہ بہت حد تک حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے چہرہ مبارک سے مشابہ نظر آیا کرتا تھا۔ اور رنگ بھی بہت صاف ہو گیا تھا۔ آخر ان کی صفائی باطن کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں سلسلہ میں داخل ہونے اور پھر حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی فالحمدللہ علی ذالک۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کی آغوش میں جگہ دے اور جنت میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا روحانی قرب نصیب کرے<۔۷۷body] ¶[tag
اردو کا ایک بھلایا ہوا اہل قلم
>سیاست جدید< )کانپور( حال میں ہی لکھتا ہے۔ >۔۔۔۔۔۔ اس بیسویں صدی کے شروع کے بیس سالوں میں اردو کے کسی بھی قابل ذکر رسالہ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اس کے مضمون نگاروں میں ایک نام مرزا سلطان احمد کا ضرور نظر آئے گا۔ عمومی۔ علمی و فلسفیانہ موضوعوں پر قلم اٹھاتے تھے ان کے مضامین عام اور عوامی سطح سے بلند اور سنجیدہ مذاق والوں کے کام کے ہوتے تھے۔ رسالہ الناظر مشہور زمانہ کانپور ۔۔۔۔۔۔۔ ادیب الہآباد۔ مخزن لاہور۔ پنجاب لاہور وغیرہ میں ان کی گلکاریاں نظر آتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اردو والوں نے انہیں بالکل ہی بھلا دیا۔ ان کے قلم سے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں نکلی تھیں جن کی میزان چالیس درجن سے کم نہ ہو گی۔ کسی کتاب کو ان کے خصوصی طرز تحریر کے باعث قبولیت عام نصیب نہ ہوئی۔ اور اب جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد اس سرزمین میں اردو کی خدمت ہو رہی ہے اور بہت پرانے مصنفوں اور مولفوں کی کتابیں جو گمنام اور مثل گمنام کے ہو چکی تھیں وہاں بڑے آب و تاب سے چھاپی جارہی ہیں۔ ان کے ذخیرہ تصانیف کی طرف سے کسی کو بھی تاحال توجہ کی توفیق نہیں ہوئی۔۷۸
جناب فقیر سید وحید الدین صاحب کا قابل قدر نوٹ
جناب فقیر سید وحید الدین صاحب لکھتے ہیں۔
>مرزا سلطان احمد
میرے بزرگوں سے ان کے دوستانہ مراسم اور قریبی روابط تھے۔ اس زمانے میں ہوٹل موجود ہی نہ تھے۔ نہ آج کی طرح عالی شان ہوٹل تعمیر کرنے یا ان میں قیام کرنے کا تصور تھا۔ مہمان آتے اور اپنے قریبی اقارب و احباب کے پاس ٹھہرتے۔ عام لوگوں کے لئے سرائیں تھیں۔ دوست دوستوں کے یہاں آتے اور بلا تکلف قیام کرتے۔ مہمان نوازی شرافت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ مہمان سے لوگ اکتاتے نہ تھے` بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ مہمان کا آنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا باعث ہوتا ہے اور مہمان غیب سے اپنا رزق خود لے کرآتا ہے۔ میزبانی اور مہمانی کی وجہ سے آپس کے تعلقات کی بھی تجدید ہوتی رہتی۔
مرزا صاحب اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ادھر میرے اکثر بزرگ بھی مختلف سرکاری محکموں سے وابستہ رہے۔ انگریز نے کچھ ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ خوشحال گھرانوں کے لوگ بھی جب تک کسی سرکاری عہدے اور دفتری منصب پر فائز نہ ہوتے` زیادہ باوقار نہ سمجھے جاتے تھے۔ سرکاری ملازمت نشان عزت تھی۔ مرزا صاحب اردو` فارسی اور عربی زبانوں پر بڑا عبور رکھتے تھے` مگر انگریزی نہیں جانتے تھے۔
سرکاری ملازمت میں انہوں نے اپنے فرائض بڑی محنت` ذہانت اور دیانت داری سے انجام دیئے۔ جس جگہ بھی رہے` نیک نام رہے۔ بالا دست افسر بھی خوش ماتحت عملہ اور اہل معاملہ عوام بھی مطمئن۔ وہ اپنی ان خوبیوں کے سہارے ترقی کرتے کرتے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ جو اس زمانے میں ایک ہندوستانی کی معراج تھی۔ سادہ لباس` سادہ طبیعت` انکسار اور مروت ان کے مزاج کا خاصہ تھا۔ ان کی ذات کے جوہر اس وقت پوری طرح نمایاں ہو کر سامنے آئے` جب وہ ریاست بہاول پور کے وزیر بنا کر بھیجے گئے۔ کوٹھی میں داخل ہوتے ہی ملازمین سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
>سلطان احمد اس ٹھاٹھ باٹھ اور سازو سامان کا عادی نہیں ہے<۔
چنانچہ ان کے کہنے سے تمام اعلیٰ قسم کا فرنیچر اور ساز و سامان اکٹھا کرکے ایک کمرے میں مقفل کر دیا گیا۔ انہوں نے رہنے کے لئے صرف ایک کمرہ منتخب کیا۔ نمائش اور دکھاوا تو انہیں آتا ہی نہیں تھا۔ لباس اور رہائش کی طرح کھانا بھی سادہ کھاتے۔
جب ملازمت سے ان کے سبکدوش )ریٹائر( ہونے کا وقت آیا تو انہی دنوں پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد حکومت کے خلاف ترک موالات )نان کوآپریشن( کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ پہلے لاہور اور پھر گوجرانوالہ ان ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا۔ مرزا سلطان احمد گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہاں سب سے زیادہ ہنگامے ہوئے۔ عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ لیڈروں کی ہدایات کے برخلاف انہوں نے آئینی حدود کو توڑ دیا۔ بعض سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور ریلوے اسٹیشن کو پورے کا پورا جلا دیا۔ ایک جم غفیر ہاتھوں میں بانس` لاٹھیاں اور اینٹ پتھر لئے ہوئے ضلع کچہری کی طرف بڑھا۔ مرزا سلطان احمد ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ اگر اپنے تدبر اور خوش بیانی سے کام نہ لیتے تو یہ مشتعل لوگ نہ جانے کیا کرکے دم لیتے۔ مرزا صاحب نے اس پرجوش ہجوم کے سامنے ایسی سلجھی ہوئی تقریر کی کہ نفرت و غصہ کی یہ آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ وہی جلوس مرزا سلطان احمد کی سرکردگی میں شہر کو واپس ہوا اور جن کی زبانوں پر >انگریز مردہ باد< کے نعرے تھے وہ اب >مرزا سلطان احمد زندہ باد< کے جیکارے لگانے لگے۔
ترک موالات کے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے تو گورنر پنجاب نے ایک ملاقات میں مرزا سلطان احمد سے کہا کہ آپ گوجرانوالہ کا انتظام ٹھیک طور پر نہ کر سکے۔ مرزا صاہب اس کے جواب میں بولے کہ لاہور میں تو >یور ایکسی لینسی< بہ نفس نفیس موجود تھے۔ پھر بھی یہاں کے ہنگاموں کو نہ روک سکے۔ آپ یہاں روکتے تو یہ ہنگامے وہاں نہ پہنچتے۔ مرزا صاحب کے اس جرات مندانہ معقول جواب پر لاٹ صاحب خفیف ہو کر رہ گئے۔
انگریز حکومت نے جب پنجاب میں مارشل لاء نافذ کیا تو وہ بڑی سختی اور شدید آزمائش کا زمانہ تھا۔ امرتسر` لاہور` گوجرانوالہ اور حافظ آباد کے باشندوں پر سب سے زیادہ سختی کی گئی۔ میں اس زمانے میں نویں جماعت میں پڑھتا ¶تھا۔ بڑے تشدد اور جبر و استبداد کا دور تھا۔ برطانوی ملوکیت چنگیزیت پر اتر آئی تھی۔ ہر روز ایک سے ایک سخت حکم نافذ ہوتا۔ شہری آزادی برطانوی سامراج کے شکنجے میں کسی جارہی تھی حکم دیا گیا کہ شہر کی تمام موٹر کاریں ہیڈ کوارٹر میں جمع کرا دی جائیں۔ اس وقت لاہور میں مشکل سے پچاس ساٹھ کاریں ہوں گی۔ پھر حکم ہوا کہ موٹر سائیکلیں بھی ہیڈکوارٹر پہنچا دی جائیں۔ اس کی بھی لوگوں کو جبراً قہراً تعمیل کرتے ہی بنی` مگر جو روستم کا یہ سلسلہ اس حد پر بھی نہ رک سکا ایک اور فرمان صادر ہوا جس کی تعمیل میں سائیکلیں تک سرکاری تحویل میں دے دینی پڑیں۔ حکم یہ تھا کہ سائیکلیں پمپ اور لیمپ سمیت جمع کرائی جائیں۔ جن بیچاروں کے پاس لیمپ اور پمپ نہ تھے انہوں نے بازار سے مول لے کر سرکاری حکم کی تعمیل کی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مارشل لاء کی تلوار ہر کسی کے سر پر لٹک رہی ہے۔ راقم الحروف کے پاس بھی ایک سائیکل تھی۔ جو کئی سال کی رفاقت کے سبب مجھے بہت عزیز تھی۔ میں اسے مع ساز و سامان دل پر جبر کرکے ایمپائر )لاہور میں صرف یہی ایک سینما ہال تھا جس میں انگریزی کی خاموش فلمیں دکھائی جاتی تھیں( کے مرکز میں داخل کر آیا۔ حکم حاکم` مرگ مفاجات!
والد مرحوم اس زمانے میں حافظ آباد میں تعینات تھے جو فسادات اور ہنگاموں کے اعتبار سے کافی متاثر علاقہ تھا اور انگریز کی خاص توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر نے ان سے دریافت کیا >آپ کے خیال میں مارشل لاء کو کتنی مدت تک قائم رکھنا چاہئے<؟
والد مرحوم نے دست بستہ عرض کیا >صاحب! بہت ہو چکا ہے۔ اب بس کرو<۔ ان کے اس فقرے میں نہ جانے کتنے مظلوموں کی فریاد و فغاں شامل تھی۔ ڈپٹی کمشنر اس فقرے کو سن کر ایک دم سنجیدہ (SERIOUS) body] gat[ہو کر خاموش ہو گیا۔ اس کی اس خاموشی کا راز اس وقت کھلا جب ایک ہفتے کے اندر اندر والد صاحب کا تبادلہ دوسرے علاقے میں کر دیا گیا۔ اس واقعے سے اندازہ ہو کہ ہر سچی بات کچھ نہ کچھ قربانی چاہتی ہے۔
جوانی کی کوتاہ نظری کے سبب میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کیا کہ والد صاحب کو ڈپٹی کمشنر سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس طرح خواہ مخواہ انگریز بالا دست افسر کی ناراضی مول لی۔ لیکن آج میں اپنی اس خام خیالی پر ندامت محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اس نہج و انداز پر کیوں سوچا؟ کیونکہ انہوں نے تو یہ کہہ کر اگلے جہان میں حاکم مطلق اور منصف حقیقی کے سامنے سرخرو ہونے کا ایک سبب پیدا کیا اور یہ مشورہ دیتے ہوئے ذاتی مفاد اور وقتی مصلحتوں کے لئے سچائی اور ایمان کا دامن نہیں چھوڑا۔
یہاں انگریز کے اس کردار کو سراہنا بھی ضروری ہے کہ اس اختلاف رائے کے باوجود ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلے ہی کو کافی تنبیہ سمجھا گیا۔ اس سے زیادہ اور کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
مارشل لاء جب ختم ہوا تو انگریز سرکار نے اس >لا قانونی دور< کے واقعات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جس کے صدر لارڈ ہنٹر قرار پائے۔ عوام کی طرف سے ممتاز قومی نمائندے گواہ کی حیثیت سے ہنٹر کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ مرزا سلطان احمد صاحب نے جس صاف گوئی` بے باکی اور اخلاقی جرات کے ساتھ اس کمیٹی کے روبرو گواہی دی اور واقعات کا تجزیہ کیا وہ >ہنٹر کمیٹی< کی رپورٹ میں زریں ورق کی صورت میں محفوظ رہے گا۔
مرزا سلطان احمد پر فالج کا حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔ علاج معالجے کے لئے انہیں لاہور لایا گیا۔ راقم الحروف کے ایک بزرگ سید اصغر علی شاہ کے ہاں ان کا قیام رہا۔ یہ مکان ہمارے مکان سے ملحق تھا۔ میں اکثر مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ اپنے خطوں کے جوابات وہ مجھ سے لکھواتے۔ میرے لئے بڑی مشکل کا سامنا تھا۔ مرزا صاحب بیمار ہونے کے باوجود روانی کے ساتھ خط کی عبارت فرفر بولتے اور میں اپنی بدخطی چھپانے کے لئے آہستہ لکھتا۔ میری سست نگاری` ان کی زودگوئی کا ساتھ کہاں دے سکتی تھی۔ جب میں خط لکھ چکتا تو مرزا صاحب اسے پڑھتے اور میں ان کے تیوروں سے بھانپ لیتا کہ میری تحریر سے وہ مطمئن نہیں ہیں بلکہ کچھ دل گرفتہ ہی ہیں۔ میں دل ہی دل میں شرمندہ ہوتا۔ مجھے ان کا ایک جملہ جو انہوں نے اپنے دوست کے خط میں مجھ سے لکھوایا تھا آج تک یاد ہے۔
>یہ خط وہ شخص کسی اور سے لکھوانے کا محتاج ہے جو جب بھی قلم اٹھاتا تھا تو صفحے کے صفحے بے تکان لکھتا چلا جاتا اور پھر بھی اس کا قلم رکنے کا نام نہ لیتا<۔
اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے۔ چند دن کے لئے طبیعت بحال بھی ہوئی تو وہ موت کا سنبھالا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ بڑے صاحب کردار بزرگ تھے<۔
>)انجمن< صفحہ ۱۲۵ تا ۱۳۲ از فقیر سید وحید الدین صاحب
پرنٹر و پبلشر لائن آرٹ پریس۔ کراچی( طبع اول ۱۹۶۶ء۔
امیر >اہلحدیث< کا مباہلہ کے لئے چیلنج اور فرار
‏]txte [tagگھڑیالہ ضلع لاہور میں ایک شخص سید محمد شریف تھے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ پنجاب کے اہلحدیث کا ایک حصہ ان کے ساتھ ہے۔ سید صاحب نے وسط ۱۹۳۱ء میں حضرت خلیفتہ المسیح کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور خود ہی تاریخ مباہلہ ۱۲/ جولائی ۱۹۳۱ء اور مقام مباہلہ عیدگاہ امرتسر مقرر کر دی اور کہا کہ نتیجہ مباہلہ خارق عادت ہو نہ کہ انسانی ہاتھوں سے حضور نے یہ چیلنج پہنچتے ہی ۶/ جولائی ۱۹۳۱ء کو نہ صرف مباہلہ کی تجویز بلکہ مباہلہ کے خارق عادت اثر کی شرط بھی منظور فرمالی مگر مقام و تاریخ مباہلہ اور دوسری تفصیلات طے کرنے کے لئے یہ تجویز پیش کی کہ فریقین کے دو دو نمائندے ہوں جو تین اور مسلمہ فریقین آدمیوں کی موجودگی میں مقام و تاریخ مباہلہ کا فیصلہ کریں تا فریقین میں سے کسی کو بلاوجہ تکلیف نہ ہو۔ اس سلسلہ میں حضور نے اپنی طرف سے مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی حضور نے قرآن مجید اور سنت رسول اللہ~صل۱~ کے عین مطابق یہ ضروری قرار دیا کہ مباہلہ سے پہلے فریقین ایک دوسرے پر اتمام حجت کے لئے تقریر کریں دوسرے یہ کہ صرف آپ اور سید محمد شریف صاحب ہی مباہلہ نہ کریں بلکہ اپنے متبعین میں سے کم از کم پانچ پانچ سو افراد شامل کریں<۔۷۹
اس اعلان کے ساتھ حضور نے اپنی جماعت سے مطالبہ کیا کہ خواہ سید محمد شریف صاحب پانچ سو افراد ہی ساتھ لائیں۔ ہماری طرف سے ایک ہزار احمدی مباہلہ میں پیش ہوں گے۔ اس لئے ہماری جماعت کے وہ دوست جو یقین` وثوق اور اپنے مشاہدہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لاچکے ہیں۔ ایک دن کے استخارہ کے بعد اپنا نام پیش کریں۔ تا ایک ہزار کی فہرست فریق ثانی کے پاس بھجوائی جاسکے۔۸۰
حضرت خلیفتہ المسیح کا خیال تھا کہ یہ چیلنج سنجیدگی پر مبنی ہے اور آپ کو امید بندھ گئی تھی کہ فریقین میں بالاخر مباہلہ ہو گا۔ مگر ادھر آپ تو جماعت کے ایک ہزار احمدی کے میدان میں لانے کے لئے تیار ہو گئے ادھر سید صاحب نے اس سے گریز اختیار کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ پہلے ہی مرحلہ پر اس پر اڑ گئے کہ نہ کسی اتمام حجت کی ضرورت ہے نہ ہزار یا پانچ سو افراد کی اور نہ یہ شرائط قرآن و حدیث کے مطابق ہیں۔
حضور نے اس کے جواب میں ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء کو مفصل طور پر ان کے سامنے قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنا موقف ثابت کر دکھایا۔ اور للکارا کہ وہ اس بحث کو ختم کرتے ہوئے مباہلہ مسنونہ کے لئے تیار ہو جائیں تاکہ میرے نمائندے ان کے نمائندوں سے مل کر مباہلہ کی تاریخ اور مقام کا تصفیہ کر لیں۔۸۱ احمدی بڑی بے تابی سے مباہلہ کے انعقاد کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن سید صاحب اپنے بلند بانگ دعاوی کے باوجود اپنی ہٹ پر قائم رہے اور اپنے موقف کو درست قرار دینے کے لئے ایک اشتہار دیا۔ مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دیں اور تیسری بار ان کو پھر دعوت دی کہ >ایسے اعلیٰ موقع کو ہاتھ سے نہ دیں اور اپنے مریدوں کو اس ثواب کے موقع سے محروم نہ کریں۔ آخر ہماری جماعت کے لوگ بھی تو شوق سے اس مباہلہ میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں میں نہیں سمجھتا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے انہیں فاذھب انت و ربک فقاتلا اناھھنا قاعدون۔ کہہ کر ان سے الگ ہو جائیں<۔۸۲
مگر >امیر جماعت اہلحدیث< پر ان غیرت دلانے والے الفاظ کا بھی کچھ اثر نہ ہوا اور آخر دم تک انہیں اپنی جماعت کو لے کر میدان مباہلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی۔
حضرت مسیح موعودؑ کی طرز تحریر اختیار کرنے کی تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۰/ جولائی ۱۹۳۱ء کو جماعت کے مصنفوں` اخبار نویسوں اور مضمون نگاروں کو یہ اہم تحریک فرمائی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرز تحریر اپنائیں تا ہمارے جماعتی لٹریچر ہی میں اس کا نقش قائم نہ ہو بلکہ دنیا کے ادب کا رنگ ہی اس میں ڈھل جائے۔
چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وجود سے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی برکت آپ کا طرز تحریر بھی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کئے ہیں یا کسی وقت بھی جمع ہوئے ان سے آپ کا ایک خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بھی بالکل جداگانہ ہے اور اس کے اندر اس قسم کی روانی زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجود سادہ الفاظ کے` باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن سے عام طور پر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کلام مبالغہ` جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جارہی ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ انتہا درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہو گی۔ اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنائیں<۔
نیز فرمایا۔
>پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہو جائے۔ پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمہ ہے آپ کے دلائل کو قائم رکھنا ہمارے ذمہ ہے آپ کی قوت قدسیہ اور قوت اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے وہاں آپ کے طرز تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمہ ہے<۔
اس ضمن میں حضور نے اپنا تجربہ یہ بتایا کہ۔
>میں نے ہمیشہ یہ قاعدہ رکھا ہے۔ خصوصاً شروع میں جب مضمون لکھا کرتا تھا۔ پہلا مضمون جو میں نے تشحیذ میں لکھا وہ لکھنے سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریروں کو پڑھاتا اس رنگ میں لکھ سکوں۔ اور آپ کی وفات کے بعد جو کتاب میں نے لکھی اس سے پہلے آپ کی تحریروں کو پڑھا۔ اور میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے میری تحریر میں ایسی برکت پیدا ہوئی کہ ادیبوں سے بھی میرا مقابلہ ہوا۔ اور اپنی قوت ادبیہ کے باوجود انہیں نیچا دیکھنا پڑا<۔۸۳
‏tav.5.19
‏tav.5.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا اٹھارہواں سال
چوتھا باب )فصل پنجم(
دارالتبلیغ سیلون کا قیام
سیلون یا لنکا (CEYLON) کی سر زمین کو دنیا کی قدیم مذہبی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ >قﷺ الانبیاء< وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام جنت )ارضی( سے نکلنے کے بعد ہندوستان کے مشہور جنوبی جزیرہ لنکا ہی میں اقامت پذیر ہو گئے۔ لنکا میں ایک پہاڑ کی چوٹی کا نام PEAK s ADAM, یعنی آدم کی چوٹی ہے۔ جہاں سیلونی ہر سال عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ سبحتہ المرجان میں جناب سید غلام علی واسطی آزاد بلگرامی نے اس طرح کی کئی روایات جمع کی ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہاں حضرت آدم اپنے ساتھ حجر اسود بھی لائے تھے۔ ان بیانات کی واقعاتی حیثیت خواہ کیسی ہی مخدوش و سقیم کیوں نہ ہو۔ مگر مورخین اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ عرب اور ہندوستان کے درمیان از منہ قدیم سے جو تجارتی تعلقات قائم تھے اور جو دونوں علاقوں بلکہ تمام دنیا کی تاریخ پر اثر انداز ہوئے۔ لنکا کے ساحلی علاقہ نے اس میں ایک مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جب عرب نور اسلام کی روشنی سے منور ہوا تو مسلمان ملاحوں اور تاجروں نے اپنے پیشروئوں کا کام برقرار رکھا۔ اور اپنی کشتیاں اور جہاز لے کر عرب سے لنکا اور ہندوستان کے ساحل پر آنے لگے۸۴۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ مبارک ہی میں لٹریچر کے ذریعہ سے لنکا پہنچا۔ نیک اور سعید طبع لوگ اس سے متاثر ہوئے یہاں تک کہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے ماریشس تشریف لے جاتے ہوئے ۱۴/ مارچ ۱۹۱۵ء کو سیلون میں پہنچے اور آپ نے یہاں تین مہینے قیام فرمایا۔اور اس مختصر سی مدت میں ایک مخلص اور فعال جماعت پیدا کر لی۔۸۵
حضرت صوفی صاحب کے ماریشس جانے کے کچھ مدت بعد مولوی ابراہیم صاحب مالاباری مقامی مبلغ مقرر کئے گئے۔ مقامی جماعت نے ۱۹۱۶ء میں ایک رسالہ Massage )پیغام( اور انگریزی میں اور ایک رسالہ تھودن (Thoothan) تامل زبان میں جاری کیا۔ جو تبلیغ کا بہترین ذریعہ تھے۔ قیام جماعت کے سولہ سال بعد ستمبر ۱۹۳۱ء میں کولمبو میں باقاعدہ دارالتبلیغ قائم کیا گیا جس کے پہلے مرکزی مبلغ مولوی عبداللہ صاحب مالا باری مقرر ہوئے۔ آپ کے تقرر سے کچھ عرصہ قبل سیلون کے مذکورہ بالا دونوں رسالوں کی اشاعت میں وقفہ پڑ گیا تھا۔ یکم اپریل ۱۹۳۲ء۸۶سے )تھودن( کا دوبارہ اجراء ہوا۔ جس کی طباعت و اشاعت میں جناب عبدالمجید صاحب کی جدوجہد کا نمایاں دخل تھا۔ عبدالمجید صاحب اوائل عمر ہی میں احمدیہ پریس میں کمپوزیٹر کی خدمات انجام دیتے آرہے تھے۔ ان کا اخلاص و شوق ان کے علم میں خاطر خواہ اضافہ کا موجب بن گیا۔ اور اب وہی اس رسالہ کے ایڈیٹر اور پبلشر ہیں اور اشاعت اسلام کے لئے ان کی قربانی` جوش اور ولولہ قابل رشک ہے۔
دارالتبلیغ سیلون کے اولین مبلغ مولوی عبداللہ صاحب مالا باری نے )جو مالا بار مشن کے بھی انچارج تھے جہاں آپ کے ذریعہ سینکڑوں افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے( پہلے ہی سال کولمبو (Colombo) پانہ ڈرا (Panadra) اور نیگومبو]9 [p (Negombo) میں زبانی گفتگو کے علاوہ مضامین اور ہفتہ وار لیکچروں کے ذریعہ احمدیت کی منادی کی اور نیگومبو میں پہلی احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی۔۸۷ اس وقت سیلون یا لنکا ہندوستان کا ایک حصہ تھا۔ فروری ۱۹۴۸ء میں انگریزوں نے اس ملک کو آزاد کیا۔
ان ابتدائی سرگرمیوں کے بعد آپ نے اس جزیرہ میں تبلیغ کو مزید وسعت دی۔ جب بھی آپ مالا بار سے سیلون پہنچتے تو کولمبو کے علاوہ پانہ دورا` نیگومبو` کیمپولا` مٹوروٹا` پوسولاوا۔۸۸مقامات کے بارہا دورے کرتے تھے اور تحریر و تقریر اور پرائیویٹ ملاقاتوں سے اشاعت حق میں مصروف رہتے تھے اور خطبات` انفرادی نصائح اور درس و تدریس کے ذریعہ سے تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی بجا لاتے رہے۔۸۹
محترم مولوی عبداللہ صاحب مالاباری پہلے نظارت دعوت و تبلیغ کے ماتحت پھر ۱۹۴۵ء سے وکالت تبشیر تحریک جدید کے زیر نگرانی فریضہ تبلیغ بجا لاتے رہے۔ اور مالا بار سے موقعہ ملنے پر ہر سال دو سال بعد چند ماہ سیلون میں گزارتے۔ اس ملک کی آزادی کے بعد ۸/ اگست ۱۹۵۱ء کو صرف اس مشن کے لئے تحریک جدید نے مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کو مبلغ بنا کر بھیجا۔ آپ نے مارچ ۱۹۵۸ء تک تبلیغ حق کی اور آپ کے عہد میں بھی جماعت سیلون نے ہر لحاظ سے ترقی کی اور لنکا کی حکومت اور عوام دونوں میں احمدیت کا چرچا عام ہونے لگا۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب کی واپسی سے قبل اس مشن کا چارج لینے کے لئے مولوی عبدالرحمن صاحب شاہد سیلونی۹۰ ۱۲/ جولائی ۱۹۵۷ء کو ربوہ سے روانہ کئے گئے جو ۱۲/ دسمبر ۱۹۶۱ء تک سیلون مشن کے انچارج رہے ۱۹۶۲ء سے مقامی جماعت ہی یہ مشن چلا رہی ہے۔
سیلون مشن کا مرکز کولمبو ہے جہاں احمدیہ دارالتبلیغ میں فضل عمر لائبریری اور اخبار >دی میسیج< Message) (The کے شعبے قائم ہیں ۱۹۵۷ء میں جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ایک سہ منزلہ عمارت بھی خرید لی گئی جس کے صحن میں مسجد بنانے کی تجویز ہے۔
نیگومبو میں اس مشن کی دوسری شاخ ہے جہاں وسیع باغ میں احمدیہ مسجد` بچوں کا سکول اور لائبریری ہے پالمنی میں تیسری شاخ ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے۔ سیلون میں جماعت کا دیرینہ اخبار دی میسیج ہے جو ایک مدت تک بند رہنے کے بعد ۱۹۵۳ء میں دوبارہ انگریزی اور تامل میں جاری کیا گیا ۱۹۵۶ء میں اس کا تیسرا ایڈیشن سیلون کی سرکاری زبان سنہیلیز (Sinhaleese) میں بھی چھپنے لگا۔ اور اب یہ واحد اسلامی اخبار ہے جو بیک وقت ملک میں بولی یا سمجھی جانے والی تین زبانوں )انگریزی تامل اور سنہیلیز( میں شائع ہو رہا ہے۔ اور علمی طبقہ میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ سیلون۔ لنکا کے علاوہ جنوبی ہند` ملائیشیا اور برما میں بھی اس کے ذریعہ سے پیغام حق پہنچ رہا ہے۔
احمدیہ مشن سیلون نے چند سال میں ہزاروں روپے کا لٹریچر جنوبی ہند کی مختلف زبانوں میں تیار کر لیا ہے جو سیلون کے علاوہ جنوبی ہند` ملایا اور بورنیو وغیرہ بھی بھیجا جاتا ہے۔ مطبوعات کی بنیاد مکرم مولوی محمد اسمٰعیل صاحب منیر نے رکھی اور اس کی مالی امداد سیلون کے مخلص احمدی جناب ڈاکٹر سلیمان صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ نے قبول کی۔ مشن کی طرف سے اب تک >اسلامی اصول کی فلاسفی<۔ >لیکچر لاہور<۔ >نظام نو<۔ >ہمارا رسول<۔ >تحفہ شہزادہ ویلز<۔ >احادیث النبیﷺ<~۔ >قرآن مجید کی دو سورتیں<۔ >صداقت مسیح موعود<۔ >وفات عیسیٰ< اور >اجرائے نبوت< وغیرہ رسائل و کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں ٹریکٹ بھی >اسلامی قاعدہ< )سنہیلیز( اور >اسلام کا خلاصہ< )تامل و انگریزی( بھی ادارہ کی مطبوعات میں سے ہیں۔
اس مشن نے سرکاری زبان سنہیلیز میں پہلی بار اسلامی لٹریچر شائع کرکے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی ایک خواب پوری کر دی جو حضور نے درج ذیل الفاظ میں قبل از وقت شائع فرما دی تھی۔
>میں نے رئویا میں دیکھا کہ کوئی تحریر میرے سامنے پیش کی گئی ہے۔ اور اس میں یہ ذکر ہے کہ ہمارے سلسلہ کا لٹریچر سنہالیز زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے۔ میں خواب میں کہتا ہوں کہ سنگھا لیز زبان تو ہے یہ سنہالیز کیوں لکھا ہے پھر میں سوچتا ہوں کہ سنہالیز زبان کون سی ہے تو میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ شاید یہ ملائی زبان کی کوئی قسم ہے اس کے بعد آنکھ کھل گئی<۔۹۱
اس عظیم الشان رئویا کی اشاعت کے پانچ برس بعد ۱۹۵۷ء میں سنہیلیز زبان میں >اسلامی اصول کی فلاسفی< شائع ہونے پر احمدیہ مشن ہائوس میں ایک پبلک تقریب منعقد ہوئی جس میں >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے ترجمہ کی اشاعت کا اعلان سیلون کے وزیر ڈاک خانہ جات و براڈ کاسٹ نے کیا اور سیلون کے ہر روزنامے نے اس تقریب کا اس کی تصاویر دے کر نمایاں ذکر کیا۔ اور مشن کے اس کارنامے کو قومی خدمت قرار دے کر خوب سراہا۔ وزیراعظم سیلون جناب بندرانائیکا Naika) Bandra D۔R۔W۔(S نے اپنے پیغام میں کہا۔ بدھسٹ اور سنہیلیز ہونے کے لحاظ سے میں اس کتاب >اسلامی اصول کی فلاسفی< MAYA) DHAR (ISLAM کے لئے مختصر پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کرتا ہوں۔ تاریخ سیلون کے اہم دور میں سنہیلیز میں اسلامی کتب کی اشاعت باعث اطمینان ہے اس کے ذریعہ سے ایک دوسرے سے تعلقات بڑھیں گے۔ یہ کتاب جو عام فہم زبان میں تیار کی گئی ہے۔ یقیناً سنہیلیز زبان میں اسلامی لٹریچر کی ضرورت پوری کرنے والی ہو گی۔
>اسلامی اصول کی فلاسفی< کے مترجم مسٹر پی۔ ایچ ویدیگے کا بیان ہے کہ جب میں ترجمہ کر رہا تھا تو کئی غیر مسلموں نے میری سخت مخالفت کی۔ مگر میں نے اس قومی و دینی خدمت کی تکمیل ضروری خیال کی۔ اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس سے عقیدت ہو گئی۔ اسی وجہ سے اس کا ترجمہ بہت کم وقت میں مکمل ہو گیا۔ سیلون ریڈیو سے بھی کئی روز مسلسل جماعت احمدیہ سیلون کی اس عظیم الشان خدمت کا تذکرہ کیا جاتا رہا۔۹۲
اخبار اور لٹریچر کی اشاعت کے علاوہ ملکی اخبارات ریڈیو اور مبلغین کے مسلسل دوروں کی وجہ سے سیلون کے ہر شہر اور ہر گائوں میں اسلام اور احمدیت کا پیغام بہت اچھی طرح پہنچ گیا ہے اور پندرہ اہم پبلک لائبریریوں میں جماعت احمدیہ کا لٹریچر بھی موجود ہے۔
۱۹۵۲ء سے یہ مشن خود اپنا کفیل ہو چکا ہے اور سیلون کی جماعت دینی خدمتوں اور قربانیوں کے علاوہ سلسلہ کے تبلیغی و تربیتی کاموں میں بھی اسی طرح دل سوزی و سرگرمی اور جوش و خروش سے حصہ لینے والی ہے۔ جس طرح دسرے ملکوں کی جماعتیں۔
دفاترصدر انجمن احمدیہ کیلئے جدیدعمارت اوراس کاافتتاح
صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر غیر مناسب و بے ترتیب عمارتوں میں ایک دوسرے سے جدا اور منتشر حالت میں تھے جس کی وجہ سے سلسلہ کا خرچ بھی زیادہ ہو رہا تھا۔ اور قربت و سہولت بھی حاصل نہیں تھی۔ لہذا ستمبر ۱۹۳۱ء کے قریب مسجد اقصیٰ کے شرقی جانب پنڈت شنکرداس صاحب کا پختہ مکان تھا جو خرید لیا گیا۔ اس مکان کا سلسلہ احمدیہ کے قبضہ میں آجانا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک خاص فضل اور اس کے نشانوں میں سے ایک اہم نشان تھا۔ جب پنڈت شنکرداس صاحب نے یہ عمارت تعمیر کی تو مسجد اور دار مسیح سے قرب کی وجہ سے احمدی آبادی بہت مشوش ہوئی مگر جب حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے اس کا ذکر ہوا۔ تو حضور نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ارشاد فرمایا۔ یہ کوئی فکر کی بات نہیں۔ شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا۔ اس وقت یہ گھر نہایت آباد اور ترقی کی حالت میں تھا۔ مگر اس کے بعد اس مکان کے مکینوں کو پے در پے ایسے صدمات پہنچے کہ یہ اجڑ گیا۔ اور خدائی قدرت نمائی کا آخری کرشمہ یہ ہوا کہ یہی عمارت حضرت مسیح موعودؑ کے شاہی کیمپ کا ایک حصہ بن گئی اور اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے شاہی فوج کے سپاہی دنیا کی روحانی فتح حاصل کرنے کے لئے دخل ہو گئے۔۹۳
اس مکان کی اوپر کی منزل تک نہ تولپائی تھی نہ سفیدی اور نہ فرش لگے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں بالائی منزل میں دو برآمدے اور دو کمرے ابھی تعمیر کئے جانے تھے لہذا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب افسر صاحب پراویڈنٹ فنڈ اور افسر صاحب تعمیر پر مشتمل ایک سب کمیٹی بنائی گئی۔ جس کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ عمارت کا اس رنگ میں نقشہ بنائے کہ زیادہ سے زیادہ دفاتر کی گنجائش نکل آئے۔۹۴
سب کمیٹی کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق جب اس مکان کی عمارت میں مناسب کمی بیشی اور مرمت ہو چکی تو اپریل ۱۹۳۲ء میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفاتر کی اس جدید عمارت کا افتتاح فرمایا۔۹۵
سیرت النبیﷺ~ کے جلسے
حسب معمول سیرت النبیﷺ~ کے شاندار جلسے اس سال بھی منعقد ہوئے۔۹۶ لاہور کے جلسہ میں جو ۸/ نومبر ۱۹۳۱ء کو ہوا۔ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی تشریف فرما ہوئے۔ بریڈ لاء ہال میں لالہ رام چند صاحب منچندہ اور مولوی محمد بخش صاحب مسلم بی۔ اے کی تقریر کے بعد حضور نے ۲/۱ ۲ گھنٹہ تک ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی۔ تقریر میں قرآن کریم کی آیت لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین روف الرحیم )التوبہ( کی نہایت ہی لطیف تفسیر کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں آنحضرت~صل۱~ کی پانچ ایسی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جن میں آپ منفرد ہیں۔۹۷
اس تاریخ کو گزشتہ روایات کے مطابق الفضل کا خاتم النبیینﷺ~ نمبر بھی شائع کیا گیا جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ` حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور دوسرے بزرگان سلسلہ اور علمائے سلسلہ کے علاوہ حضرت سارہ بیگم صاحبہ` محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ` امتہ السلام بیگم صاحبہ اور دوسری احمدی خواتین کے مضامین بھی شائع ہوئے۔ غیر از جماعت اصحاب میں سے مولوی خیر صاحب سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر اخبار >مشرق< )گورکھپور( نے مضمون لکھا اور سید علی نقوی صاحب صفی لکھنوی۔ ابوالمعظم نواب سراج الدین احمد خان صاحب سائل دہلوی۔ سید محمد کاظم علی صاحب شائق رئیس اعظم گورکھپور اور مفتی ضیاء الدین صاحب پونچھ کی نعتیں شائع ہوئیں۔ یہ نمبر باتصویر تھا یعنی اس کا سرورق احمدیہ مسجد فضل لندن کی تصویر سے مزین !!
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ایک اہم مکتوب
)مورخہ ۱۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء(
بحضور سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
)بسلسلہ اجلاس مسلم لیگ دھلی(

مسلم لیگ کا اجلاس دہلی اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا خطبہ صدارت
مسلم لیگ کا اجلاس دہلی ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو مسجد فتح پوری کے جیون بخش ہال میں زیر صدارت جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب منعقد
ہونا قرار پایا تھا۔ لیکن کئی روز سے احراریوں اور دوسرے کانگریسی علماء نے جلسہ میں روکاوٹ ڈالنے اور چوہدری صاحب کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے بدنام کرنے میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کر دیں۔ آپ کا سیاہ جھنڈیوں سے استقبال کیا اور بالاخر ہال پر بھی قبضہ کر لیا۔۹۸ جس پر مسلم لیگ کے ایک سو مندوبین خان صاحب نواب علی صاحب کی کوٹھی واقعہ کیلنگ روڈ نئی دہلی میں جمع ہوئے۔ خان صاحب ایس۔ ایم عبداللہ صدر مجلس استقبالیہ کے خطبہ کے بعد سر مولوی محمد یعقوب صاحب سیکرٹری مسلم لیگ نے لیگ کونسل کے انتخاب کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے فرائض صدارت ادا کرنے کی درخواست کی اور چوہدری صاحب کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے اور ایک مبسوط فاضلانہ خطبہ صدارت پڑھ کر سنایا۔
اس خطبہ میں آپ نے مسلم نقطہ نگاہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک کے تمام پیچیدہ اور لاینحل مسائل مثلاً وفاق` وفاقی مجالس قانون` مالیات وفاق` حق رائے دہندگی` عدالت وفاق` صوبجاتی خودمختاری` مسلمانوں کے اساسی حقوق وغیرہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور نہایت صاف اور واضح لفظوں میں مسلمانوں کے موقف کی معقولیت مہر نیم روز کی طرح روشن کر دکھائی۔ سیکرٹری مسلم لیگ کے الفاظ میں یہ اجلاس عدیم النظیر تھا۔ اور اس میں کونسل کے ارکان نے غیر معمولی تعداد میں شرکت کی۔4] ft[s۹۹
یہ خطبہ صدارت۱۰۰ مسلم لیگ کی تاریخ میں نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے جسے اسلامی پریس نے بے حد سراہا۔ چنانچہ چند مسلم اخبارات کی آراء درج ذیل ہیں۔
)۱( روزانہ اخبار >انقلاب< )لاہور( یکم جنوری ۱۹۳۲ء کے پرچہ میں خطبہ صدارت درج کرتے ہوئے لکھا۔
>چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی کے صدر کی حیثیت سے جو خطبہ پڑھا۔ اس میں سیاسیات ہند اور سیاسیات اسلامی کے تمام مسائل پر نہایت سلاست سادگی اور سنجیدگی سے اظہار خیالات فرمایا<۔
)۲( اخبار >الامان< دہلی ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء نے لکھا۔
>جہاں تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی تجاویز اور اس کے خطبہ صدارت کا تعلق ہے اس میں پوری پوری مسلمانان ہند کی ترجمانی کی گئی ہے۔ اور اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ بروقت مسلمانان ہند کی صحیح ترجمانی کرنے میں یہ اجلاس گزشتہ جلسوں سے زیادہ کامیاب رہا۔ وزیراعظم کے اس تاریخی اعلان پر جو اس نے ۲/ دسمبر کو گول میز کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ مایوسی کا اظہار افسوس کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ جب تک وہ مسلمانوں کے فلاں فلاں مطالبات نہ منظور کریں۔ اس وقت تک مسلمان محض اس اعلان سے ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتے۔ اس طرح ایک اہم تجویز آل انڈیا مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو متحد کرنے کے لئے منظور کی گئی۔ جس پر مسلمانوں کی سیاسی موت و حیات کا دارومدار ہے۔ اسی طرح بعض اور مفید ضروری تجاویز منظور ہوئیں۔ اسی طرح خطبہ صدارت میں جس دلیری و بے باکی کے ساتھ حکومت کے رویہ کی مذمت اور حقوق مسلمین کی وکالت کا حق ادا کیا گیا ہے۔ وہ بھی اس اجلاس کی ایک تاریخی خصوصیت ہے<۔
)۳( >الخلیل< دہلی نے اپنے یکم جنوری ۱۹۳۲ء کے پرچہ میں لکھا۔
>چودھری ظفر اللہ خاں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی میں جو خطبہ صدارت ارشاد فرمایا۔ وہ اپنی نوعیت و سود مندی کے اعتبار سے وقت کا ایک اہم خطبہ ہے اور اس میں مسلم جذبات کی صحیح صحیح ترجمانی کی گئی ہے۔ ہم چوہدری صاحب کے ممنون ہیں کہ آپ نے مسلم جذبات کی سچی وکالت کی اور حکومت اور دنیا کو ایک دفعہ اور متنبہ کر دیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے حقیقی مطالبات منظور نہ کئے گئے اور انتخاب جداگانہ کے قیام میں پنجاب و بنگال میں مسلم اکثریت کے تحفظ سندھ کی غیر مشروط علیحدگی اور سرحد کو حقیقی اصلاحات کے عطا کرنے کی طرف مستعدانہ قدم نہ اٹھایا گیا تو یہاں کوئی آئین کامیاب نہ ہو گا اور مسلمان ہرگز مطمئن نہ ہوں گے۔ مسلم حقوق کی وکالت کا جو طریقہ آپ نے اختیار کیا۔ وہ بہت صحیح اور بہت درست تھا۔ تمام خطبہ آپ کی فاضلانہ اور دلیرانہ ترجمانی سے لبریز ہے۔ آپ نے اس خطبہ صدارت میں جن گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت میں وہی مسلمانوں کے خیالات ہیں اس خطبہ کو پڑھ کر مخالفین کو یقیناً اپنے احتجاجی فعل و عمل پر افسوس ہوا ہو گا اور ہونا چاہئے<۔۱۰۱
سر محمد یعقوب خاں صاحب نے اجلاس دہلی کے بخیر و خوبی منعقد ہو جانے کے بعد مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ >آل انڈیا مسلم لیگ کو اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے میں جو دشواریاں دہلی میں ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو پیش آئیں وہ پہلی مرتبہ نہ تھیں بلکہ اس سے پیشتر کئی مرتبہ لیگ کے مخالفوں نے اس کو توڑنے اور اس کے جلسوں کو ناکام بنانے میں سعی اور کوشش کا کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس مرتبہ دہلی میں مخالفین کا ہجوم ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت زیادہ اور بہت قوی اسی وجہ سے ہوا کہ علم بغاوت مذہب کے نام سے بلند کیا گیا تھا اور یہی امر سب سے زیادہ باعث شرم اور قابل نفرت ہے مسلمانان ہند کو اس واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اور آئندہ کے واسطے اس فتنہ پردازی کا سدباب کرنا چاہئے۔ ورنہ مسلمانوں کا تمام قومی شیرازہ بکھر جائے گا۔ اور ان کے سیاسی حقوق کا قلعہ پاش پاش ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو اس وقت ہندوستان میں اپنی آٹھ کروڑ آبادی پر ناز ہے اور اسی کے تناسب سے ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں اگر قادیانی شیعہ` خوجے` بوہرے اور دیگر تمام فرقے مثلاً اہل قرآن اور اہل حدیث سب کے سب جیسا کہ علماء کرام ہمیشہ سے فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں۔ دائرہ اسلام سے خارج کر دئے جائیں۔ تو خالص مسلمانوں کی آبادی ہندوستان میں کس قدر رہ جائے اور ان کے سیاسی مطالبات کی کیا گت ہو گی<۔۱۰۲
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۹۳۱ء میں فوت ہونے والے بعض جلیل القدر صحابہ یہ ہیں۔ )۱( چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی )تاریخ وفات ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۱ء(۱۰۳
۲۔
حضرت سید ارادت حسین صاحب اورینویؓ۱۰۴ )تاریخ وفات ۲/ نومبر ۱۹۳۱ء(
۳۔
حضرت ملا محمد میرو صاحب افغان ساکن خوست۱۰۵ )تاریخ وفات ۸/۷ دسمبر ۱۹۳۱ء(
۱۹۳۱ء میں اندرون ملک کے مبلغین احمدیت
سلسلہ احمدیہ کے مبلغین اب تک کسی خاص حلقہ میں تعینات نہ کئے جاتے تھے۔ بلکہ مرکز جہاں چاہتا انہیں بھجوا دیتا تھا۔ مگر مجالس مشاورت ۱۹۳۰ء میں فیصلہ کیا گیا کہ مبلغین کے ہیڈ کوارٹر تجویز کرکے وہ کئی حلقوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ اس فیصلہ کے مطابق ۱۹۳۱ء میں مبلغین کے لئے حسب ذیل حلقے مقرر کئے گئے تھے۔
)۱( صوبہ پنجاب میں نو حلقے تھے جن کی تفصیل مع مبلغین متعلقہ یہ ہے۔
نمبرشمار
نام ہیڈکوارٹر
نام مہتمم تبلیغ
علاقہ
۱
امرتسر
حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب۔ بقاپوری
امرتسر` گورداسپور` لاہور فیروزپور۔
۲
راولپنڈی
مولوی ابوالبشارت عبدالغفور صاحب
راولپنڈی` کیمل پور` جہلم` میانوالی
۳
انبالہ
‏rt3] gat[ مولوی محمد حسین صاحب
انبالہ` لدھیانہ` پٹیالہ` نابھہ
۴
سیالکوٹ
حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکی` مولوی ظہور حسین صاحب
سیالکوٹ` گوجرانوالہ` گجرات` شیخوپورہ
۵
دھلی
مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی
دہلی` رہتک` حصار` کرنال
۶
جالندھر
مہاشہ محمد عمر صاحب
جالندھر` ہوشیارپور` کانگڑہ
۷
لائل پور
مولوی علی محمد صاحب اجمیری
لائلپور` منٹگمری` سرگودھا` جھنگ
۸
ملتان
مولوی عبدالاحد صاحب ہزاروی` مولوی ظفرمحمد صاحب
بہاولپور` ملتان` مظفر گڑھ ڈیرہ غازی خاں
۹
متفرق
گیانی واحد حسین صاحب

)۲( صوبہ سرحد کو بتفصیل ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
نمبرشمار
ہیڈ کوارٹر
مہتمم تبلیغ
علاقہ
۱
ٹوپی ضلع پشاور
صاحبزادہ عبداللطیف صاحب
پشاور` کوہاٹ` علاقہ غیر
۲
ڈیرہ اسمٰعیل خاں
مولوی چراغ دین صاحب
ڈیرہ اسمٰعیل خاں۔ بنوں مع علاقہ غیر
۳
بالا کوٹ
حکیم عبدالواحد صاحب
ضلع ہزارہ مع علاقہ غیر
ان کے علاوہ صوبہ یو۔ پی میں مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی` ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارف` مولوی افضال احمد صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب بالترتیب لکھنئو` مین پوری اور ساندھن میں کام کررہے تھے۔ کشمیر میں تبلیغ مولوی عبدالواحد صاحب کشمیری مولوی فاضل کے سپرد تھی۔ صوبہ سندھ میں مولوی مرید احمد صاحب اور مولوی محمد مبارک صاحب متعین تھے۔ حیدر آباد )دکن( میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر تبلیغ کے انچارج تھے۔ صوبہ بنگال میں مولوی ظلالرحمن صاحب بنگالی مقرر تھے اور اچھوت اقوام میں فریضہ تبلیغ کا کام شیخ حمید اللہ صاحب` شیخ عبدالرحیم صاحب اور مولوی خلیل الرحمن صاحب بجا لارہے تھے۔۱۰۶
چوتھا باب )فصل ششم(
۱۹۳۱ء کے بعض اہم و متفرق واقعات
مولانا محمد علی جوہر کا انتقال پر ملال
۱۹۳۱ء کا پہلا ہفتہ ملکی و قومی لحاظ سے بڑا المناک و دل خراش ثابت ہوا۔ یعنی ان کے نہایت ہی مقبول و ممتاز سیاسی لیڈر مولانا محمد علی جوہر جو حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں گوہر۱۰۷ کے چھوٹے بھائی تھے اس دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولانا محمد علی جوہر اپنی علمی قابلیت` سیاسی عظمت` فطری جرات اور جذبہ حریت میں شہرہ آفاق لیڈر تھے۔ آپ نے اپنے وطن و قوم کی خدمت کے لئے اپنے عزیز سے عزیز متاع کو بھی قربان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ آپ عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے۔ مگر محض آزادی کی تمنا لے کر لنڈن پہنچے۔ گول میز کانفرنس میں شامل ہوئے اور ۳۱/ دسمبر کو لیٹے لیٹے آزادی وطن کے لئے ایک پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور کہا۔ >اگر آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینا ہو گی<۔۱۰۸ یہ الفاظ ایک لحاظ سے صحیح ثابت ہوئے اور آپ لنڈن میں ہی ۴/ جنوری ۱۹۳۱ء ساڑھے ۹ بجے صبح کو وفات پا گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔۱۰۹ اور >خادم الحرمین الشریفین< مولانا جوہر کا انتقال ایک قومی حادثہ تھا جس پر پورے عالم اسلام میں صف ماتم بچھ گئی۔ جماعت احمدیہ نے اس پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ الفضل نے اس عظیم رہنما کی وفات پر نوٹ لکھا اور ان کے علمی کارناموں کو خراج تحسین ادا کیا۔۱۱۰ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے نظارت امور خارجہ نے محترم مولانا شوکت علی صاحب کے نام ایک برقی پیغام ارسال کیا۔ کہ >حضرت خلیفتہ المسیح کو مولانا محمد علی کی وفات کی خبر معلوم کرکے جو ایک قومی نقصان ہے سخت صدمہ ہوا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مہربانی فرما کر تمام خاندان سے حضور کی دلی ہمدردی کا اظہار کر دیں<۔۱۱۱
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
۲۱۔ ۲۲/ مئی ۱۹۳۱ء کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم ثالث )حضرت ام طاہر( سے مرزا اطہر احمد صاحب پیدا ہوئے۔۱۱۲
۱۷/ جولائی ۱۹۳۱ء کو حرم خامس حضرت ام وسیم کے ہاں صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب کی ولادت ہوئی۔۱۱۳
بنگال کی امارت
کلکتہ کی جماعت کے امیر حکیم ابوطاہر صاحب اپنی بیماری کے باوجود بہت کامیابی سے سلسلہ کا کام چلا رہے تھے۔ اور اپنی سرگرمیوں اور کوششوں سے کلکتہ جیسے علمی اور تجارتی مرکز میں جماعت احمدیہ کا وقار بلند کرکے اسے بڑے طبقہ میں مقبول بنا دیا تھا۔ وہاں کا سیرت النبیﷺ~ کا جلسہ )۱۹۳۰ء( بہترین جلسہ تھا۔ حضور نے ان کی ان مخلصانہ مساعی پر مجلس مشاورت میں اظہار خوشنودی فرمایا اور انہیں پورے بنگال کا امیر مقرر فرما دیا۔۱۱۴
نکاحوں سے متعلق ایک ضروری اعلان
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ کو شادی بیاہ کی غیر اسلامی رسوم سے بچانے کے لئے یہ اعلان فرمایا۔ >اگر مجھے علم ہو گیا کہ کسی نکاح کے لئے زیور یا کپڑے وغیرہ کی شرائط لگائی گئی ہیں یا لڑکی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان میں نہیں کروں گا<۔ اسی ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ >فضول رسمیں قوم کی گردن میں زنجیریں اور طوق ہوتے ہیں جو اسے ذلت اور ادبار کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں اسلام ان سے منع کرتا اور اعتدال سکھاتا ہے<۔۱۱۵
۱۹۱۳ء کی مردم شماری اور قادیان کی آبادی
۱۹۲۱ء کی مردم شماری میں قادیان کی کل آبادی ۴۴۰۰ تھی جس میں سے احمدی ۲۳۰۰ تھے۔ مگر دس برس کے بعد فروری ۱۹۳۱ء کی مردم شماری میں احمدی آبادی دگنی سے بھی بڑھ گئی جس کی فرقہ وار تفصیل یہ ہے۔
احمدی ۵۱۹۸۔ غیر احمدی ۸۱۹۔ سناتنی ۳۸۶۔ آریہ ۸۷۔ سکھ ۲۶۸۔ عیسائی چوہڑے ۵۱۔ چوہڑے ۲۰۹ = میزان ۷۰۱۸۔۱۱۶
ایک افغانی سیاح قادیان میں
ایک افغانی سیاح ۳۰/ مئی ۱۹۳۱ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کے لئے قادیان آئے اور حضور سے ملاقات کی۔۱۱۷
قادیان میں عورتوں کے لئے اعلیٰ انگریزی تعلیم کا اجراء
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان میں ایف۔ اے کلاس کا افتتاح فرمایا۔ اس موقع پر حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا۔ کہ انگریزی تعلیم جاری رہے یہاں تک کہ گریجوایٹ خواتین کی اتنی کثیر تعداد پیدا ہو جائے کہ ہم سکول میں بھی زنانہ سٹاف رکھ سکیں۔ اور کالج بھی قائم کر سکیں۔
اس تعلق میں حضور نے یہ بھی فرمایا۔ کہ تربیت اولاد کے مسئلہ میں کامیابی کی فقط یہی ایک صورت ہے کہ چھوٹی عمر کے بچوں کے بورڈنگ بنا کر ان کا انتظام عورتوں کے سپرد کر دیا جائے۔ تاکہ وہ ان میں بچپن میں ہی خاص اخلاق پیدا کریں اور پھر وہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے اخلاق کو اپنے اخلاق کے سانچے میں ڈھالیں۔ اگر ہم ایسے ہومز )گھر( قائم کر سکیں۔ تو اس کے ذریعہ سے اعلیٰ اخلاق پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ اور ایسی تربیت ہو سکتی ہے جو ہماری جماعت کو دوسروں سے بالکل ممتاز کر دے۔ مگر یہ بات کبھی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کافی تعداد میں تعلیم یافتہ عورتیں نہ ہوں۔۱۱۸
بیرونی مشنوں کے بعض واقعات][مولانا رحمت علی صاحب کے ذریعہ فروری ۱۹۳۱ء میں جاوا مشن کا قیام ہوا۔ مولوی صاحب کا مرکز بٹاویا تھا۔ ابتدا میں بٹاویا کے علاوہ چپو اور بوگر میں جماعتیں قائم ہوئیں۔۱۱۹
۲۔
کبابیر میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۳/ اپریل ۱۹۳۱ء کو پہلی احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی۔۱۲۰
۳۔
نومبر ۱۹۳۱ء میں فلسطین کی مردم شماری ہوئی۔ جس میں احباب جماعت نے اپنے نام کے ساتھ >احمدی مسلمان< لکھوایا۔ فلسطین کی یہ پہلی مردم شماری تھی جس میں جماعت احمدیہ کا ذکر ہوا۔۱۲۱
۴۔
مسلمانان عالم کی ایک کانفرنس اوائل دسمبر ۱۹۳۱ء میں بمقام بیت المقدس منعقد ہوئی جس میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی دعوت دی گئی۔ حضور نے مبلغ حیفا محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کو شامل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ اور گو بعض تنگ دل مشائخ نے یہ برداشت نہ کیا۔ مگر اس واقعہ سے جماعت احمدیہ کی عالمی حیثیت و اہمیت ضرور واضح ہو گئی۔۱۲۲ind] g[ta
مبلغین اسلام کی آمد و روانگی
۱۔ مکرم مولوی محمد یار صاحب عارف ۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان سے بغرض تبلیغ لنڈن روانہ ہوئے۔۱۲۳ اور محترام ابوالعطاء صاحب ۱۳/ اگست ۱۹۳۱ء کو قادیان سے حیفا )فلسطین( کو۔۱۲۴
۲۔
۲۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو محترم جناب مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری دس سال قادیان میں تعلیم حاصل کرنے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد سماٹرا روانہ ہوئے۔۱۲۵]ind [tag
۳۔
محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس شام و فلسطین میں فریضہ تبلیغ کی کامیاب ادائیگی کے بعد ۲۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو واپس دارلامان میں پہنچ گئے۔۱۲۶
۱۹۳۱ء کی مطبوعات سلسلہ
اس سال مرکز احمدیت سے مندرجہ ذیل کتاب شائع ہوئیں۔
۱۔
>تجلیات رحمانیہ< )از مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل( جناب مولوی ثناء اللہ امرتسری ایڈیٹر >اہلحدیث< نے >تعلیمات مرزا<۔ >فیصلہ مرزا< وغیرہ بعض رسائل لکھے تھے جن کا جواب مولانا ابوالعطاء صاحب نے حیفا فلسطین سے لکھ کر بذریعہ ہوائی ڈاک ارسال فرمایا اور حضرت مولوی میر قاسم علی ایڈیٹر >فاروق< نے دسمبر ۱۹۳۱ء میں >تجلیات رحمانیہ< کے نام سے شائع کیا۔
۲۔
>مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج< )مولفہ ملک فضل حسین صاحب( اس کتاب میں کشمیری مسلمانوں کے سیاسی مطالبات کی معقولیت حقائق و واقعات کی روشنی میں بالکل نمایاں اور ڈوگرہ راج میں ان کی دردناک حالت اور ناگفتہ بہ مظلومیت کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی دسمبر ۱۹۳۱ء میں اشاعت پذیر ہوئی اور ملک صاحب کی دوسری کتابوں کی طرح غیرمعمولی دلچسپی سے پڑھی گئی۔
مباحثات بالا کوٹ و پھگلہ
مولانا ابوالعطاء صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
>اوائل ۱۹۳۱ء کی بات ہے کہ بالا کوٹ ضلع ہزارہ میں غیر احمدی علماء سے مباحثات ہوئے۔ پادریوں سے کامیاب مناظرہ پہلے ہو چکا تھا۔ علماء سے جو مباحثہ وفات مسیح علیہ السلام پر ہوا اس میں مدمقابل مولوی عبدالحنان صاحب ہزاروی تھے۔ اس مباحثہ کا آغاز نہایت پر لطف طریق پر ہوا تھا میں نے اپنی تقریر کے شروع میں آیت قرآنی کی تلاوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر باواز بلند پڑھا۔ ~}~
ابن مریم مر گیا حق کی قسم
داخل جنت ہوا وہ محترم
اس پر مخالف مولوی صاحب نے کہا کہ یہ شعر اس لئے غلط ہے کہ اگر حضرت عیسیٰؑ کو وفات یافتہ بھی مان لیا جائے تب بھی یہ کہنا غلط ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو چکے ہیں۔ جنت میں تو ابھی کوئی بھی داخل نہیں ہوا۔ اس پر میں نے فوراً مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم~صل۱~ بھی جنت میں داخل نیں ہوئے؟ مولوی صاحب نے کہہ دیا کہ ہاں ابھی تک رسول کریم~صل۱~ بھی جنت میں داخل نہیں ہوئے میں نے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر پرزور لہجہ میں کہا میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے یہ قرآن مجید نازل کیا ہے کہ ہم احمدیوں کے عقیدہ کے رو سے رسول اکرم~صل۱~ جنت کے بلند ترین مقام میں داخل ہیں۔ اس قسم کے بعد میں نے کہا کہ بھائیو! ایک طرف مولوی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے جو ابھی آپ نے مولوی عبدالحنان صاحب کے منہ سے سنا ہے اور ایک طرف ہمارا عقیدہ ہے جو میں نے ابھی حلفاًبیان کیا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ رسول کریم~صل۱~ کی عزت و عظمت کو کون مانتا ہے؟ شروع مناظرہ میں ہی اس واقعہ سے سامعین پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ اس مناظرہ اور دیگر مناظرات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تائید شامل حال رہی اور اس پہاڑی علاقہ میں احمدیت کا خوب چرچا ہوا۔ فالحمدللہ علی ذلک۔
بالا کوٹ کے بعد پھگلہ میں مناظرہ مقرر تھا۔ یہ مناظرہ جمعہ کے روز ہونے والا تھا۔ مقام مناظرہ ایک کھلی جگہ گائوں سے کچھ فاصلہ پر عین اس سڑک پر واقع تھا جو مانسہرہ سے بالا کوٹ کو جاتی ہے۔ مناظرہ کا وقت نماز جمعہ کے بعد مقرر ہوا۔ ہم نے اسی جگہ پر نماز جمعہ ادا کی۔ احمدیوں کی تعداد تیس چالیس ہو گی۔ غیر احمدی جم غفیر کی صورت میں نیچے وادی میں پانی کے نالہ کے پاس نماز ادا کرنے کے لئے گئے۔ خطبہ جمعہ میں مولوی غلام غوث صاحب نے عوام کو سخت اشتعال دلایا۔ سامعین میں احمدیوں کے بعض رشتہ دار اور ہمدرد بھی تھے۔ انہوں نے وہاں سے جلد آکر اپنے احمدی رشتہ داروں کو بتایا کہ مناظرہ وغیرہ تو ہو گا نہیں فساد اور کشت و خون ہو گا بہتر ہے کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ ایک کے بعد دوسرے دوست نے آکر یہی ترغیب دی۔ جماعت احمدیہ پھگلہ کے صدر محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب کو دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے مجھے حالات سے اطلاع دی۔ میں نے کہا کہ جانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ جب غیر احمدی مولوی ہجوم کو لے کر مقام مناظرہ کی طرف آرہے تھے تو ان کے اطوار صاف بتا رہے تھے کہ وہ لوگ مناظرہ کے لئے نہیں بلکہ مقاتلہ کے لئے آرہے ہیں۔ محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب نے خطرہ کو بھانپ کر پھر توجہ دلائی میں نے پھر وہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ ان کے کہنے پر بھی میرا وہی جواب تھا۔ ہاں ہم نے اتنی احتیاط ضرور کر لی تھی کہ مناظرہ کی کتب جو پہلے پھیلا کر میز پر رکھی ہوئی تھیں انہیں محفوظ کر لیا تھا۔
اس وقت موت یقینی نظر آرہی تھی۔ میرے ہاتھ میں اس وقت بھیرہ کی بنی ہوئی بید کی خوبصورت چھڑی تھی جو مجھے اپنے بزرگوار حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالویؓ کی طرف سے میری شادی کے موقعہ پر ملی تھی۔ میرے دل میں اس وقت یہ حسرت تھی کہ دفاع کا کوئی انتظام نہیں تاہم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ہم سب تیار بیٹھے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو پیش آئے ہم اسے برداشت کریں گے۔
مخالف ہجوم میں لاٹھی تو قریباً ہر دیہاتی کے ہاتھ میں تھی` بہت سے لوگوں کے پاس کلہاڑیاں بھی تھیں۔ غیر احمدی مولوی صاحبان نے ہجوم کے ساتھ ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور ایک مولوی صاحب نے کھڑے کھڑے مجھ سے یوں خطاب کیا کہ آپ لوگ مناظرہ کرنا نہیں چاہتے؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں چاہتے ہم تو مناظرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ یہ کتابوں کے ٹرنک کس لئے ہیں؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا ہم پہلے مرزا صاحب کی صداقت پر مناظرہ کریں گے۔ میں نے کہا کہ ہمیں منظور ہے ابھی مناظرہ شروع ہو جاتا ہے میرے دل میں آیا کہ چلو پہلی تقریر میں پیغام حق تو پہنچا دیا جائے گا بعد میں تو یہ لوگ اغلباً فساد برپا کر دیں گے۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ پہلی تقریر ہم کریں گے۔ میں نے کہا کہ اصول کے مطابق پہلی تقریر مدعی کی ہوتی ہے۔ ہم صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدعی ہیں اس لئے پہلی تقریر ہماری ہو گی۔ اس مرحلہ پر ہجوم میں شور اٹھا اور اشتعال انگیز نعرہ کے ساتھ ایک دیہاتی لاٹھی لے کر میرے سر پر مارنے کے لئے آگے بڑھا۔ میرے ساتھ محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب کھڑے تھے انہوں نے لاٹھی کو دیکھ لیا اور آگے بڑھ کر روکنا چاہا مگر وہ لاٹھی ان کے ماتھے پر لگی۔ خون زور سے بہنے لگا اور ہنگامہ کی صورت پیدا ہو گئی۔
اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا عجیب نشان ظاہر ہوا۔ پھگلہ کے ایک غیر احمدی سید نے جب یہ دیکھا کہ قریبی گائوں کے ایک گوجر کی لاٹھی سے پھگلہ کے سید عبدالرحیم شاہ زخمی ہو گئے ہیں تو اس نے شور مچا دیا کہ اے پھگلہ کے لوگو! تمہارے سید کو فلاں گائوں کے گوجر مار گئے ہیں۔ یہ آواز بلند ہونی تھی کہ سارا ریلہ ان گوجروں کی طرف ہو گیا۔ ایک لمحہ کے اندر اندر یوں ہوا کہ وہ لوگ جو احمدیوں کو قتل کرنے کے لئے آئے تھے بھاگتے نظر آئے۔ وہ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ پھگلہ والوں نے سید عبدالرحیم شاہ صاحب کو لاٹھی مارنے والے شخص کو نیچے نالہ میں قریباً دو اڑھائی فرلانگ کے فاصلہ پر جا پکڑا اور خوب مارا حتیٰ کہ مشہور ہو گیا کہ شاید وہ مر گیا حالانکہ مرا نہیں تھا۔ ہم اس میدان میں کھڑے قدرت خداوندی کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔ سب مولوی میدان سے بھاگ چکے تھے صرف احمدی ہی اس جگہ موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کا یہ عجیب واقعہ تھا۔
میری طبیعت پر سید عبدالرحیم شاہ صاحب کے میری جگہ لاٹھی اپنے سر پر لینے کا بڑا اثر تھا اور آج تک قائم ہے اس کے بعد میں جب فلسطین گیا تب بھی اس واقعہ کی وجہ سے ان سے سلسلہ خط و کتابت جاری رہا۔
گزشہ سال )جولائی ۱۹۷۰ء میں( مجھے عزیزم مولوی محمد الدین صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کی معیت میں ایبٹ آباد اور پھگلہ جانے کا موقعہ ملا۔ برادرم سید محمد بشیر صاحب پسر سید عبدالرحیم شاہ صاحب ہمیں ایبٹ آباد سے مانسہرہ اور پھر پھگلہ لے گئے۔ ایک دن رات ہم نے پھگلہ میں احباب کے درمیان گزارا۔ محترم سید عبدالرحیم شاہ صاحب نے گزرے ہوئے واقعات سب کے سامنے بڑی محبت سے سنائے اور بار بار کہا کہ میں حیران تھا کہ میں نے جب بھی مولوی صاحب )خاکسار( سے اس وقت کہا کہ لوگ آمادہ فساد ہیں ہمیں حفاظت کا انتظام کرنا چاہئے تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ اب انتظام تو اللہ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں یہاں سے جانے کا بہرحال کوئی سوال نہیں ہے۔ اس قیام کے آخر پر ہم نے وہ مقام بھی دیکھا جہاں اب سکول بن چکا ہے<۔
)رسالہ الفرقان جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۵۴ تا ۵۶(
اندرون ملک کے دیگر مشہور مباحثات
۱۔ مباحثہ دھرگ میانہ تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ )احمدی مناظرین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری۔ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی محمد یار صاحب عارف غیر احمدی مناظرین مولوی محمد امین صاحب و مولوی عبدالرحیم صاحب( یہ مباحثہ ۳۔ ۴/ جنوری ۱۹۳۰ء کو مسئلہ حیات و وفات مسیح و صداقت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ہوا مناظرہ کے دوران ہی میں غیر احمدی مناظرین میدان مباحثہ سے چل دیئے۔۱۲۷
۲۔
مباحثہ جہلم: )مابین مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری و میر مدثر شاہ صاحب غیر مبائع( یہ مباحثہ ۱۵/ مارچ ۱۹۳۱ء کو نبوت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ہوا تھا۔ اس مناظرہ کا یہ اثر ہوا۔ کہ تعلیم یافتہ طبقہ نے ہمارے فاضل مناظر کے دلائل کی معقولیت کا کھلے طور پر اظہار کیا۱۲۸۔
۳۔
مباحثہ بدوملہی ضلع سیالکوٹ: )مابین مولوی ظہور حسین صاحب و پنڈت رام چندر صاحب دہلوی و مابین گیانی واحد حسین صاحب و پادری یوحنا صاحب( بدوملہی میں ۱۵/ مارچ ۱۹۳۱ء کو آریہ سماج نے مذاہب کانفرنس منعقد کی جس کے دوسرے روز مسجد احمدیہ میں مسلمانوں کا متفقہ جلسہ ہوا۔ جس میں احمدی۱۲۹ و غیر احمدی علماء۱۳۰ نے صداقت اسلام پر تقریریں کیں۔ اس جلسہ کے دوران احمدی مبلغوں نے کامیاب مناظرے کئے۔۱۳۱
۴۔
مباحثہ بسراواں متصل قادیان: )مابین پروفیسر حافظ مبارک احمد صاحب و مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑوی( یہ مباحثہ ۲۹/ مارچ ۱۹۳۱ء کو الہامات مسیح موعودؑ کے موضوع پر ہوا۔۱۳۲
۵۔
مباحثہ ہالہ ضلع حیدر آباد سندھ: )مابین مولوی مرید احمد صاحب احمدی اور مولوی عبدالکریم صاحب( یہ مناظرہ ۱۸/ اپریل ۱۹۳ء کو معروف تین اختلافی مسائل پر ہوا۔۱۳۳
۶۔
مباحثہ بوسن ضلع ملتان: )احمدی مناظر ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب فاضل و مولوی ظہور حسین صاحب فاضل( یہ مناظرہ ۱۷۔ ۱۸۔ ۱۹/ مئی ۱۹۳۱ء کو تین دن جاری رہا۔ موضوع بحث حیات و وفات مسیحؑ` مسئلہ نبوت اور صداقت مسیح موعودؑ تھے۔۱۳۴
۷۔
مباحثہ رنگ پور بنگال: جو مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی نے وسط ۱۹۳۱ء کے قریب ایک غیر احمدی عالم سے رنگ پور میں صداقت مسیح موعودؑ اور حیات و وفات مسیحؑ کے موضوع پر کیا۔ جس کا سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت اچھا اثر ہوا۔۱۳۵
۸۔
مباحثہ بٹالہ: )مابین مولوی محمد یار صاحب عارف و مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری اور جناب ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری و حافظ احمد الدین صاحب گکھڑوی( ۲۹۔ ۳۰/ جون ۱۹۳۱ء کو گلاب خاں قاضیاں تحصیل بٹالہ میں بالترتیب حیات و وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود پر مناظرہ ہوا۔۱۳۶
‏in] ga[t۹۔
مباحثہ ڈگری علاقہ سندھ: )مابین بابو اللہ داد صاحب احمدی و مولوی عبدالعزیز صاحب ملتانی مناظر اہلحدیث اور مابین مولوی محمد سلیم صاحب فاضل و عبدالرحیم شاہ صاحب( تاریخ انعقاد ۹۔۱۰/ جولائی ۱۹۳۱ء تھی اور موضوع بحث حیات و وفات مسیح و صداقت مسیح موعودؑ۔۱۳۷
۱۰۔
مباحثہ بھینی واقعہ بیٹ متصل قادیان: )مابین ابوالعطاء صاحب جالندھری و پادری عبدالحق صاحب( یہ مباحثہ ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء کو ہوا۔ اور اس میں احمدیت کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔۱۳۸
۱۱۔
مباحثہ سری گوبند پور: )مابین حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی و مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری( یہ مباحثہ ۲۹/ اگست ۱۹۳۱ء کو >ختم نبوت< کے موضوع پر ہوا۔۱۳۹
۱۲۔
مباحثہ کاہنووان تحصیل گورداسپور: )مابین مولوی محمد سلیم صاحب فاضل و مولوی محمدیوسف صاحب امرتسری( تاریخ مباحثہ ۱۸۔ ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء موضوع وفات مسیح و صداقت مسیح موعودؑ۔ یہ کامیاب مناظرہ مسلسل سات گھنٹے ہوا۔۱۴۰
بعض نو مبایعین
۱۹۳۱ء میں جن اصحاب نے بیعت کی۔ ان میں سے ڈپٹی فقیر اللہ صاحب ڈپٹی ایگزیکٹو انجینئر سرحد اور میر اللہ بخش صاحب تسنیم۱۴۱ راہوالی ضلع گوجرانوالہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حواشی )چوتھا باب(
۱۔
اشتہار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء۔
۲۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۱۔ ۱۹۳۰ء۔
۳۔
ملاحظہ ہو رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۰۔ ۱۹۳۱ء تا ۴۰۔ ۱۹۳۹ء۔
۴۔
وفد کے بعض دوستوں کے نام۔ میاں فضل محمد صاحب )ہرسیاں والے( بابو محمد رشید صاحب۔ سید عنایت علی شاہ صاحب۔ سردار نذر حسین صاحب۔ منشی امام دین صاحب۔ سید ولایت شاہ صاحب۔ سردار کرم داد خان صاحب۔ حافظ محمد رمضان صاحب۔ )الفضل ۳۱/ مارچ ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱(
۵۔
الفضل ۱۱/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۱۔ ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۴۔
۷۔
تفصیل اگلی جلد میں آئے گی۔
۸۔
الفضل ۵/ مارچ ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ تا ۸۔
۹۔
حال درویش قادیان کا اصل وطن افغانستان ہے آپ ۱۹۰۹ء میں داخل احمدیت ہوئے تھے۔
۱۰۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۱۸۔ ۱۱۹۔
۱۱۔
بیعت ۱۹۰۹ء۔
۱۲۔
خلف حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلویؓ )ولادت قریباً ۱۸۷۹ء وفات ۱۰/ اگست ۱۹۶۵ء( حضرت ڈاکٹر صاحب کے ایک فرزند مولوی عبدالقادر صاحب دہلوی قادیان میں ناظم جائداد صدر انجمن احمدیہ کے عہدہ پر ہیں۔
۱۳۔
یہ سطور یکم اکتوبر ۱۹۶۵ء کو لکھی جا رہی ہیں۔
۱۴۔
میخانہ درد )از جناب سید ناصر نذیر صاحب فراق دہلوی( صفحہ ۱۵۳۔ اشاعت مارچ ۱۹۱۰ء۔
۱۵۔
جناب تاجور کے بعد منصور احمد صاحب اور پھر جناب صلاح الدین احمد صاحب اس کے مدیر بنے۔ جنہوں نے ربع صدی سے زائد اس کے ادارت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے اور اس کی قلمی خدمت کرتے کرتے اپنے مولائے حقیقی کو جا ملے۔
۱۶۔
‏ Wordsworth
۱۷۔
‏ Arneld Mathew
۱۸۔
‏ Hegle
۱۹۔
ادبی دنیا مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۳۲۸ تا ۳۴۱۔
۲۰۔
ایضاً صفحہ ۳۲۳۔
۲۱۔
ادبی دنیا مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۳۴۱۔
۲۲۔
ادبی دنیا مارچ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۳۱۔
۲۳۔
ادبی دنیا اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱۹۔ ۱۲۰۔
۲۴`۲۵۔
بحوالہ الفضل ۱۱/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۶۔
ریکارڈ دفتر پرائیوت سیکرٹری ربوہ۔
۲۷۔
ملاحظہ ہو آریہ پنتھک لیکھرام ہندی صفحہ ۲۳۔ ۲۴۔ )از لالہ منشی رام المعروف )سوامی شردھانند(
۲۸۔
الفصل ۱۶/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۲۹۔
ایضاً صفحہ ۹ کالم ۳۔
۳۰۔
اس تصنیف کا انگریزی میں ترجمہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے کیا اور اس پر نظر ثانی صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمائی۔ طباعت اور کاسکیٹ اور طشت کی تیاری کا انتظام مخدومی حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کیا۔ )الفضل ۱۴/ اپریل ۱۹۳۱ء(
۳۱۔
ممبر چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے` چوہدری ظفر اللہ خان صاحب` مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے۔
۳۲۔
تحفہ لارڈ اردن )اردو( طبع اول اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۴۷ شائع کردہ بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان۔
۳۳۔
الفضل ۱۶/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ تا ۷۔
۳۴۔
بحوالہ فاروق ۲۸/۲۱ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۔
۳۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۔ ۸۔
۳۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۷۹۔ ۸۰۔
۳۷۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مشاورت ۱۹۳۱ء میں احباب جماعت سے یہ عہد لیا کہ جاپان انگلستان یا دوسرے ممالک کی بنی ہوئی جرابیں خواہ کتنی خوبصورت` چمکدار اور مضبوط کیوں نہ ہوں ہم اپنے کارخانہ کی ہی جرابیں استعمال کریں گے۔ چنانچہ احمدیوں نے اس عہد پر عمل کیا اور جلد ہی اس کی مصنوعات کو ملک بھر میں مقبولیت حاصل ہو گئی۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ۸۲(
۳۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰۴۔
۳۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲۸۔
۴۰۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۴۱۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ ہندو ایک عرصہ سے ہندو مہاسبھا کے زیر اہتمام جنگی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہی ہندو لیڈر جو کانگریس کے روح رواں سمجھے جاتے اور کانگریس کے پلیٹ فارم پر عدم تشدد پر زور دیتے تھے مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی نشانہ بازی اور شمشیر زنی سکھانے لگے اور پھر جلد ہی یہ کام براہ راست کانگریس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ )الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ کالم ۲(
۴۲۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۳۔
الفضل ۵/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۴۴۔
الفضل ۲/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۵۔
الفضل ۵/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۴۶۔
الفضل ۴/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۴۷۔
الفضل ۷/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۸۔
الفضل ۹/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۹۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون۔ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۶۔ ۳۷۔
۵۰۔
الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۱۔
سالنامہ منادی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۶۹۔ ۱۷۰۔
۵۲۔
زمانہ نے خود ثابت کر دیا کہ حضور کا موقف ہی صحیح تھا۔
۵۳۔
اخبار عادل دہلی ۲۴/ اپریل ۱۹۳۳ء و سالنامہ منادی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۷۸۔ ۱۷۹۔
۵۴۔
ملاحظہ ہو دیباچہ قواعد و ضوابط صدر انجمن احمدیہ قادیان شائع کردہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے۔ ناظر اعلیٰ۔
۵۵۔
الفضل ۹/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۵۶۔
رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو )قادیان( نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۳۔
۵۷۔
الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۵۸۔
الفضل ۱۹/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۵۹۔
قاضی صاحب کی سیرت طیبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۶۰۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۳۔
۶۱۔
الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۳۱ء۔
۶۲۔
الفضل ۱۱/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
‏]h1 [tag۶۳۔
الفضل ۱۱/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۶۴۔
الفضل ۱۸/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۶۵۔
بحوالہ الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۷۔
۶۶۔
الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۱ء۔
۶۷۔
الفضل ۴/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ تا ۷۔
۶۸۔
الفضل ۴/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۶۹۔
چوہدری عصمت اللہ خان صاحب وکیل کے ایک خط محررہ جون ۱۹۳۱ء سے ماخوذ جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں موجود ہے۔
‏h1] ga[t۷۰`۷۱۔
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` ناصرہ بیگم صاحبہ` مرزا مبارک احمد صاحب` امتہ القیوم بیگم صاحبہ` مرزا منور احمد صاحب` امتہ الرشید بیگم صاحبہ` امتہ العزیز بیگم سلمہم اللہ و بارک علیہم۔
۷۲۔
الفضل ۲/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۷۳۔
آپ کے مطبوعہ مضامین کے مجموعہ کی بارہ جلدیں خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہیں۔
۷۴۔
نقوش )لاہور( آپ بیتی نمبر صفحہ ۵۷۸۔ ۵۷۹ پر ان کتابوں کی مندرجہ ذیل فہرست درج ہے۔ اساس الاخلاق قوت اور محبت۔ الوجد۔ جبر و قدر۔ تبین الحق۔ مراہ الخیال۔ صدائے الم۔ معیار۔ اصول۔ سسی و پنوں )پنجابی( اخلاق احمدی۔ ریاض الاخلاق۔ سراج الاخلاق۔ رفیق الاخلاق۔ فرحت صداقت۔ امثال۔ دلنواز۔ دلسوز۔ ایک اعلیٰ ہستی۔ بزم خیال۔ زمیندارہ بنک۔ نظم خیال الفت۔ راز الفت۔ فن شاعری۔ مشیر باطل۔ نبوت۔ الصلوۃ۔ اعتصام۔ حیات صادقہ۔ نساء المومنین۔ خیالات یاد رسول۔ یادگار حسین۔ ایثار حسین۔ علوم القرآن۔ ملت۔ النظر۔ فنون لطیفہ )چند نظمیں( زندگی۔ درس بے خودی۔ طلاق و کثرت ازدواج۔ تنقید برمثنوی۔ مولانا قدوائی۔ ذبیح گائے۔ فلسفہ۔ صفات باری۔ سفر نامہ۔ مجموعہ مضامین )بارہ جلد( وغیرہ۔
۷۵۔
ادبی دنیا لاہور اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۹۔
۷۶۔
رسالہ حمایت اسلام لاہور ۹/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۴۔
۷۷۔
اصل خط دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۷۸۔
بحوالہ ہفت روز لاہور ۹/ اگست ۱۹۶۵ء صفحہ ۵۔ منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ نے کتاب یادگار دربار تاجپوشی حصہ دوم صفحہ ۲۵۵- ۲۵۶ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے مختصر حالات مع تصویر کے شائع کئے تھے۔
۷۹۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۸۰۔
الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۸۱۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۲۔
الفضل ۳۱/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۶۔
۸۳۔
الفضل ۱۶/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۸۴۔
آب کوثر )از جناب شیخ محمد اکرام ایم۔ اے( صفحہ ۱۹۔ ۲۱ طبع سوم۔
۸۵۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۱۸۸۔ )طبع اول(
۸۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۵۔
۸۷۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۸۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۱۔ ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۸۹۔
۔Pussulawa ۔Moturata ۔Gampola ۔Negombo ۔Pandura
۹۰۔
یہ لنکا کے اصل باشندے تھے اور ربوہ میں تعلیم حاصل کرکے گئے تھے۔
۹۱۔
الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ خواب نمبر ۱۔
۹۲۔
المبشرات شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ صفحہ ۱۶۵۔۱۶۸۔
۹۳۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۹۴۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۱ء۔
۹۵۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۹۶۔
الفضل نومبر و دسمبر ۱۹۳۱ء میں تفصیلی رپورٹیں موجود ہیں۔
۹۷۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء۔ مفصل تقریر الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ تا ۷ و ۶/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ تا ۹ پر چھپ گئی تھی۔
۹۸۔
سر محمد یعقوب صاحب سیکرٹری مسلم لیگ نے اس سلسلہ میں یہ بیان جاری کیا کہ دہلی کے غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی صدارت کے خلاف جو شرارت پھیلائی گئی وہ ان کانگریسی پٹھوئوں کی تیار کردہ تھی جو پس پردہ اس نوع کے کام کیا کرتے ہیں اور جن کا دماغی توازن اس وجہ سے اور بھی متزلزل ہو گیا تھا کہ گول میز کانفرنس میں مسلم مندوبین کی یگانگت و اتحاد نے کانگریسی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اور حاسد سخت پریشان ہو رہے تھے کہ اب کیا کریں۔ ناواقف طبقہ کی اس شورش کے باوجود میں دیکھتا ہوں کہ دہلی کے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ سمجھدار اور معاملہ فہم طبقہ ہمارے ساتھ ہے۔ )ملاپ ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء بحوالہ الفضل ۳/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۴(
اس بیان کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ ہندو پریس نے اس دھاندلی پر خوشی کے شادیانے بجائے اور لکھا ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کے قادیانی صدر چودھری ظفر اللہ خاں کی جوگت اب کے دہلی میں بنی ہے اور سیاہ جھنڈوں سے آپ کا استقبال ہوا ہے اس کی خبریں سن کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ یہ مسلم لیگ اور اس کے صدر مسلمانوں کے کسی طرح نمائندے نہیں ہیں۔ )ملاپ ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۱ء(
نیز لکھا۔ سمجھ نہیں آتی کہ عام مسلمانوں کے اس سلوک کے باوجود قادیانی کس طرح مسلم حقوق کی نمائندگی وغیرہ کی رٹ لگاتے اور ان کے لئے ہندوئوں سے الجھتے ہیں۔ )آریہ ویر ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء(
۹۹۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔
۱۰۰۔
یہ الفضل ۱۹۳۳ء میں بالا قساط شائع ہونے کے علاوہ ٹریکٹ کی صورت میں بھی چھپ چکا ہے۔
۱۰۱۔
بحوالہ اخبار الفضل ۵/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۱۰۲۔
الفضل ۱۲/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۸ کالم ۱۔ ۲۔
۱۰۳۔
حضرت مسیح موعود کے پرانے خدام میں سے تھے آپ خدمت احمدیت کے لئے ایک سرگرم سپاہی تھے۔ جن کے نتیجہ میں کاٹھ گڑھ اور اس کے گرد و نواح میں احمدیہ جماعتیں قائم ہوئیں۔ دینی تعلیم قادیان میں حاصل کی تھی۔ قرآن شریف` گرنتھ اور سنسکرت کے فاضل تھے کئی تبلیغی مناظرے کئے احمدیہ مڈل سکول اور احمدیہ شفا خانہ جاری کیا۔ تبلیغ کے لئے ایک عاشق کی مانند گھومتے رہتے تھے۔ آپ کا پروگرام مقرر ہوتا تھا کھانے اور پہننے کا آپ کو کوئی خیال نہ ہوتا جو کچھ ملا کھا لیا اور جو کچھ ملا پہن لیا۔ یہاں تک کہ اکثر سفر میں اپنے ساتھ جیب میں چنے رکھتے تھے۔ )الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۳(
۱۰۴۔
صوبہ بہار کے صحابہ میں سے تھے آخر عمر تک بڑے جوش کے ساتھ تبلیغ احمدیت اور مسلمانوں کے ملکی` سیاسی اور قومی مفاد میں کوشاں رہے۔ جماعت احمدیہ اور مسلمانان صوبہ بہار کے لئے ان کا وجود بہت نافع اور فیض رساں تھا۔ صوبہ بہار کے اخبار اتحاد نے ان کی وفات پر لکھا۔ آپ کے انتقال نے ایک زبردست کمی کر دی ہے خدا اسے پورا کرے۔ )الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳( یہ حضرت سید وزارت حسین صاحب کے بڑے بھائی تھے اور ہندوستان کے مشہور احمدی ادیب جناب سید اختر صاحب اورنیوی کے تایا۔
۱۰۵۔
حضرت مولوی عبدالستار صاحب افغان عرف بزرگ صاحب کے برادر خورد اور حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہیدؓ کے مخلص دوستوں میں سے تھے۔ حضرت ملا میرو صاحب کا عظیم الشان کارنامہ جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ یہ ہے کہ حضرت شہید مرحوم کا خاندان جب ترکستان میں جلا وطنی کے دن گزار رہا تھا حکومت افغانستان نے ان کی ساری جائدادیں ضبط کر لی تھیں اور اس خاندان کا نام تک لینا جرم سمجھا جاتا تھا۔ ملا میرو صاحب ہی کا وجود تھا جس کو خاندان شہید سے ہمدردی اور خدمات کا احساس تھا۔ چنانچہ صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب قدسی فرماتے ہیں۔ قریبا پندرہ سال تک وہ ہمارے خرچ وغیرہ کا انتظام کرتے رہے بنوں جا کر ہماری زمین کی آمدنی لے کر ترکستان پہنچا دیتے راستہ کی دوری برفوں اور پہاڑوں کی مشکلات آپ کے راستہ میں حائل نہ ہو سکتی تھیں۔ اور ایک مدت دراز تک ان دور دراز سفروں کو پیدل طے کرتے رہے پھر جب ہم کابل کے جیل خانوں میں تھے وہاں بھی آپ کا ہی وجود ہمارے لئے نہایت مفید ثابت ہوا۔ اور ہم خدا کے فضل سے آپ کی کوشش سے نہایت باآبرو اور عزت کے ساتھ رہتے۔ خلاصہ یہ کہ جب تک ہمیں ضرورت تھی۔ اس وقت تک انہوں نے ہمیں نہ چھوڑا اور جس وقت ہم کو شاہ امان اللہ خاں نے اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی اور ہم سیدگاہ میں آگئے۔ اس وقت انہوں نے کہا اب عمر کے آخری حصہ کو قادیان میں ہی ختم کرنا چاہئے۔ چنانچہ وہ قادیان آگئے اور پھر آخری دم تک قادیان میں ہی رہے۔ )الفضل ۱۷/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔ ۱۰( جناب عبدالرحیم خاں صاحب عادل کا بیان ہے کہ آپ کا اصل نام ملا محمد مہروز خاں تھا آپ موصی نہ تھے مگر حضرت خلیفہ ثانی کے حکم سے اپنی دینی خدمات کے باعث بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کئے گئے۔
۱۰۶۔
‏h2] [tag رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۸۔ ۲۰۔
۱۰۷۔
محترم سید رئیس احمد صاحب جعفری مولانا کی زندہ دلی اور ظرافت کا ایک واقعہ اپنی کتاب سیرت محمد علی میں لکھتے ہیں کہ احباب کی ایک صحبت میں بحث چھڑی۔ تم تین بھائی ہو دو شاعر ہیں ذوالفقار علی گوہر۔ محمد علی جوہر اور شوکت علی کیا؟ محمد علی نے فوراً جواب دیا۔ شوہر بھی ایک ہم قافیہ تخلص ہے صفحہ ۱۱۷۔ ۱۱۸۔
۱۰۸۔
سیرت محمد علی )از سید رئیس احمد صاحب جعفری( صفحہ ۵۷۰۔
۱۰۹`۱۱۰۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۲۔ ۳۔ آپ کی قبر مسجد اقصیٰ )بیت المقدس( کے احاطہ اور شاہ حسین کے جوار میں مغربی جانب کے درمیان گیٹ سے داخل ہوئے بائیں ہاتھ ہے۔
۱۱۱۔
الفضل ۸/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۶/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۳۔
الفضل ۲۱/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ تاریخ احمدیت جلد سوم میں ان کی جو تاریخ ولادت ۱۹۳۲ء درج ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
۱۱۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰۴۔
۱۱۵۔
الفضل ۷/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۱۱۶۔
الفضل ۲۶/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۱۷۔
الفضل ۲/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۸۔
الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۵۔
۱۱۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۲۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲۔
۱۲۱۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲۔
۱۲۲۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲۔
۱۲۳۔
الفضل ۲۸/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۴۔
الفضل ۱۵/ اگست ۱۹۳۱ء و ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۱۲۵۔
الفضل یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۶۔
الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۲۷۔
الفضل ۱۳/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۱۲۸۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۹۔
۱۲۹۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` مولوی ظہور حسین صاحب` مولوی محمد علی صاحب بدوملہوی` مہاشہ محمد عمر صاحب` گیانی واحد حسین صاحب۔
۱۳۰۔
مولوی محمد حنیف صاحب ندوی` مولوی عطاء اللہ صاحب امرتسری` مولوی عبدالواحد صاحب` مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب آف چونڈہ۔ حافظ بدر الدین صاحب۔ حافظ محمد حسین صاحب` چوہدری حکیم نور الدین صاحب جلال آبادی۔
۱۳۱۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۱۳۲۔
الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۳۳۔
الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۳۴۔
الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۸/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۳۶۔
الفضل ۲/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۳۷۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۱۳۸۔
الفضل ۲۱/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۳۹۔
الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۱۴۰۔
الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔ ۲۔
۱۴۱۔
الفضل ۴/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۔
‏tav.5.21
‏tav.5.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ

حصہ دوم
تحریک آزادی کشمیر
اور
جماعت احمدیہ
حصہ دوم۔ پہلا باب )فصل اول(
ریاست جموں و کشمیر کے جغرافیائی حالات تمدنی و مذہبی تاریخ اور تحریک آزادی کا پس منظر]0 [ff
ریاست کے جغرافیائی حالات
محل وقوع و رقبہ
ریاست جموں و کشمیر )جس کے قریباً چالیس لاکھ مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمان باشندے جنگ آزادی کے ایک فیصلہ کن اور نازک مرحلہ میں داخل ہو چکے ہیں( ایک عرصہ سے عالمی سیاست کی توجہ کا خصوصی مرکز بن چکی ہے۔ اس ریاست کے شمال میں چین اور روس` جنوب مغرب میں مغربی پاکستان` مشرق میں تبت اور جنوب مشرق میں بھارت ہے۔ ریاست کا رقبہ تقریباً چوراسی ہزار مربع میل ہے۔۱۔ جو بیلجیم` سوئٹزرلینڈ` بولیویا` البانیہ` ڈنمارک اور فلسطین کے مجموعہ رقبہ کے لگ بھگ اور بلغاریہ` پرتگال` چیکو سلواکیہ` آئس لینڈ` لائبیریا` ملایا` نیپال اور یونان جیسے ممالک سے ہزاروں میل زیادہ ہے۔
کشمیر کی خوبصورت وادی
کشمیر کی مشہور عالم اصل وادی جو قدرت کے دلکشن مناظر کی وجہ سے >جنت نظیر< کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔ تقریباً اسی میل لمبی اور ۳۰ میل چوڑی ہے۔ اس وادی کے طول میں سے دریائے جہلم گزرتا ہے۔ وادی کی زمین نہایت زرخیز ہے اور جابجا باغات سے مزین نظر آتی ہے۔ اس وادی کے ایک حصہ میں وہ مشہور علاقہ ہے جس میں زعفران پیدا ہوتا ہے۔ وادی کے چاروں طرف پہاڑوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جو قدرتی جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے مگر اس میں دیہات اور آبادیوں کے آس پاس زراعت بھی ہوتی ہے۔ قدرتی نالے اور چشمے کشمیر کی وادی اور پہاڑ کے حصہ ہر دو کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ لوگوں کا پیشہ عموماً زراعت اور گلہ بانی ہے مگر شہروں اور قصبوں میں صنعت و حرفت بھی اپنے کمال تک پہنچی ہوئی ہے۔ اور کشمیری لوگ اس شعبہ کے ساتھ خاص لگائو اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ اون کا کام` ریشم کا کام` لکڑی کا کام تمام صنعتوں میں سے نمایاں ہے۔ اور کشمیر کا یہ مال عرصہ سے بیرونی ممالک میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سری نگر میں ایک پیشہ اور بھی ہے یعنی زائرین کشمیر کی خدمت و تواضع کا پیشہ۔ مختصر یہ کہ کشمیر کی اصل وادی ایک دلکش سیر گاہ اور سیاحوں کا مرکز ہے۔ جسے بجا طور پر برصغیر پاک و ہند کا سوئٹزرلینڈ کہنا بالکل مناسب ہو گا۔ بعض لوگ اسے ایشیا کا وینس بھی کہتے ہیں اور سری نگر کو بغداد کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ فرخی` نظامی` فیضی` عرفی اور دوسرے نامور شاعروں کے کلام میں اس کی تعریف پائی جاتی ہے۔
فرانسیسی سیاح و ڈاکٹر گستائولی بان وادی کشمیر کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے۔ اس کے ایک طرف تو برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں ہیں۔ اور دوسری طرف پہاڑوں کی دیواریں جہان انسان کا قدم پہنچ نہیں سکتا۔ ان دو موانع کے وسط میں نہایت خوشگوار آب و ہوا کا یہ ملک ہے جس کے کھیت سرسبز ہیں` جھیلیں شفاف اور پرسکون` گائوں مکانات خوبصورت اور مندر اور قصروں کی دیواریں سفید سفید نظر آتی ہیں۔ اس ملک میں صرف ایک ہی ندی جہلم ہے جس کا نام آریوں نے دتستا رکھا۔ اور جسے یونانیوں نے ہائی ڈاس پنیر کہا ہے۔ یہاں یہ ندی اپنے منبع سے قریب واقع ہوئی ہے اور اس کے کناروں پر چنار اور بید اس طرح اگے ہوئے ہیں کہ پردوں کا کام دیتے ہیں۔ ندی کے کناروں پر چلتے وقت جب اوپر کو آنکھ اٹھتی ہے تو ایک طرف ننگا پربت کی شاندار چوٹی جو ملک ہند کی سرحد ہے اور دوسری طرف ڈب سنگ کا پہاڑ۔ جس کا درجہ دنیا کے پہاڑوں میں دوسرا سمجھا جاتا ہے۔ نظر آتا ہے۔ اگر نیچے نظر ڈالیں۔ تو ایک اور ہی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ جو بے انتہا خوشگوار اور دل پذیر ضرور ہے ایک طرف جھیلوں کے پرسکون نیلے پانی میں سنگ مرمر کی خوبصورت عمارتیں اپنے پائوں دھو رہی ہیں۔ اور دوسری طرف وہ سبزہ ہے جس کی گہری سبزی میں انواع و اقسام کے پھول اپنا تبسم دکھا رہے ہیں۔ کشمیر کے وسط میں سری نگر جو کہ اس کا دارالسلطنت ہے۔ جہلم کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ اور اس میں نہریں اس کثرت سے ہیں۔ کہ اسے ہند کا وینس کہتے ہیں۔ مکانات کی مسطح چھتوں پر ایک تہہ مٹی کی بچھائی گئی ہے۔ جس میں سے ہری گھاس اور قسماقسم کے پھول کھلتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک معلق باغوں کا سلسلہ ہے اور جھیلوں کے اندر بھی تیرتے ہوئے باغ موجود ہیں۔ اس گھاٹی میں انسان کا حس` فطرت کی لطافت سے بھی مقابلہ کرتا ہے۔ کشمیری صورت شکل میں نہایت حسین اور رنگ میں ہند کے کل باشندوں سے صاف ہیں۔۲
کشمیر کا یہ خوبصورت اور دلفریب خطہ صوبہ کشمیر کا صرف ایک حصہ ہے اور ریاست میں صوبہ کشمیر کے علاوہ صوبہ جموں اور ملحقہ جاگیرات اور لداخ و گلگت کے اضلاع سرحدی بھی شامل ہیں مردم شماری ۱۹۴۱ء کی رو سے ریاست کی کل آبادی کم و بیش چالیس لاکھ تھی جو ملک شام۳ کی موجودہ آبادی کے برابر ہے اس آبادی میں سے )تیس لاکھ تہتر ہزار پانچ سو چالیس( مسلمان تھے۔ چنانچہ >انسائیکلو پیڈیا آف بریٹینیکا< میں زیر لفظ >کشمیر< (Kashmir) لکھا ہے کہ کشمیر کے باشندوں میں بھاری اکثریت واضح اور صریح طور پر مسلمانوں کی ہے۔ جو ابھی تک اپنے قدیم مذہبی خیالات و عقائد سے زبردست متاثر اور اس پر سختی سے قائم ہیں ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی چالیس لاکھ اکیس ہزار چھ سو سولہ نفوس پر مشتمل تھی جن میں سے آٹھ لاکھ سات ہزار پانچ سو انچاس ہندو` تیس لاکھ تہتر ہزار پانچ سو چالیس مسلمان۔ تین ہزار اناسی دیسی عیسائی۔ انتیس ہزار تین سو چھہتر قبائلی اور ایک لاکھ آٹھ ہزار چوہتر متفرق لوگ تھے۔۴ )ترجمہ(
)فصل دوم(
قدیم تاریخ کشمیر
پندرھویں صدی قبل مسیح سے لے کر )جبکہ آریہ قوم جنوبی ایشیا میں داخل ہوئی( دو ہزار سال قبل مسیح اور مابعد کا زمانہ >زمانہ قبل از تاریخ< کہلاتا ہے۔ اس دور کی تاریخ کے دو اہم ماخذ ہیں۔ )۱( آثار قدیمہ۔ )۲( ہندو لٹریچر۔
آثار قدیمہ سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ >عہد تاریخ سے پہلے< بھی کشمیر میں آبادی تھی۔ چنانچہ ڈاکٹر صوفی غلام محی الدین صاحب لکھتے ہیں۔ >اب تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کشمیر میں پتھر کا زمانہ آیا ہی نہیں بہرحال پاندریٹھن` تخت سلیمان ارہوم` وندراہوم` رنگل اور نارن راگ کے مقامات پر کھدائی وغیرہ کے بعد کاشتکاری اور شکار کے اوزاروں قدیم وضع کی قبروں` مختلف شکلوں کے گھڑے ہوئے پتھروں کی حالیہ دریافت نے بظاہر ثابت کر دیا ہے کہ ایسا عہد کشمیر میں گزرا ہے یعنی اس قدیم قبل از تاریخ دور میں بھی یہ سرزمین انسانوں سے آباد رہ چکی ہے۔ بدھ زمانے سے پہلے اور بعد میں ناگ پوجا کا وسیع رواج اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وادی کشمیر کے اولین آباد کار ضرور وہ لوگ ہوں گے جو >باشندگان قدیم< کے نام سے مشہور ہیں۔ اور آریائوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں آباد تھے۔ اس بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ کشمیر میں قدم رکھتے وقت ان ابتدائی باشندوں کی تہذیب کس مقام تک پہنچ چکی تھی<۔۵
زمانہ تاریخ سے قبل کے حالات کشمیر کا دوسرا ماخذ ہندوئوں کا لٹریچر ہے۔ جس میں پنڈت کلہن کی کتاب >راج ترنگنی< )تاریخ کشمیر( جو بارھویں صدی عیسوی میں راجہ جے سنگھ )۱۱۳۵ء۔ ۱۱۶۲ء( کے عہد میں لکھی گئی اور بھوج پتر پر لکھی ہوئی کتاب رتناگر اور اس کا ترجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مگر متعدد مغربی محققین و مورخین کی رائے میں ہندوئوں کی پرانی کتابیں تاریخی نقطہ نگاہ سے قابل اعتماد نہیں ہیں۔ چنانچہ ڈبلیو کوک ٹیلر کا بیان ہے۔ >ہندوئوں کے بزرگوں نے ۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ کو بالکل خبط کر دیا ہے< ۔۔۔۔۔ الفنسٹن صاحب سابق گورنر بمبئی اپنی کتاب >تاریخ ہند< میں لکھتے ہیں۔ >ہندوئوں کی تاریخ نویسی انتہا درجہ ناقص و ناقابل اعتماد ہے ۔۔۔۔۔۔۔<۶]4 [rtf
مشہور مستشرق ڈاکٹر گستاولی بان نے کافی تحقیق کے بعد ہندو تاریخ نویسی کی نسبت یہ رائے قائم کی ہے۔ >ان ہزارہا جلدوں میں جو ہندوئوں نے اپنی تین ہزار سال کے تمدن میں تصنیف کی ہیں ایک تاریخی واقعہ بھی صحت کے ساتھ درج نہیں ہوا<۔۷ نامور وینسنٹ اے سمتھ ایم۔ اے >راج ترنگنی< کی نسبت مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ >کشمیر کی تاریخ بارھویں صدی میں لکھی گئی اور تمام سنسکرت ادبیات میں صرف ایک یہی کتاب ہے جو باقاعدہ تاریخ کے فن میں تحریر ہوئی اس میں کثرت سے ایسی بے سروپا قدیم روایتیں پائی جاتی ہیں جو سخت احتیاط کے بعد کام میں لائے جانے کے قابل ہوں گی<۔۸
مغربی محققین کے یہ نظریات متعدد ہندو فاضلوں اور ودوانوں کو بھی مسلم ہیں۔ چنانچہ بھائی پرمانند صاحب مشہور مہاسبھائی لیڈر کا اقرار ہے کہ >بدقسمتی سے ہمارے بزرگوں کو اپنے حالات درستی سے قلم بند کرنے کا شوق نہ تھا اور جو کچھ حالات لکھے ہوئے ملتے ہیں وہ شاعرانہ مبالغہ سے بھرے ہوئے ہیں۔ جن کی امداد سے صحیح واقعات پر پہنچنا محال ہے<۔۹body] gat[
اسی طرح منشی ہیرا لال صاحب معترف ہیں کہ >افسوس ہے ہندوستان کی کوئی پرانی تاریخ نہیں ملتی اس کے قدیمی حالات پر ایسا گھٹا ٹوپ بادل چھا گیا ہے۔ کہ جس کا پتہ لگنا قریباً ناممکن ہو گیا ہے۔۱۰ اسی طرح بابو رومیش چندردت نے ہندو و قائع نگاروں پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے لکھا ہے۔ >معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے متقدمین کی ناکامیابی زیادہ تر ان کے غلط راستہ پر چلنے کی وجہ سے تھی۔ انہوں نے اپنی تمام کوشش ہندوستان کے مختلف حصوں اور سلطنت کے راجائوں کی ایک فہرست بنانے میں صرف کر دی ۔۔۔۔۔۔ لیکن ہمارا یقین ہے کہ یہ فہرستیں قریباً غلط ہیں<۔۱۱
بابو رومیشن چندردت نے ہندو تاریخ دانی کے جس پہلو کی نشاندہی کی ہے وہ >راج ترنگنی<۱۲ اور >رتناگر<۱۳ دونوں میں موجود ہے جو عام طور پر قدیم تاریخ کشمیر کا سرچشمہ اور منبع قرار دی گئی ہیں۔ خصوصاً >راج ترنگنی< کے متعلق تو اس کے غالی مداحوں کو بھی )جو اسے مبالغہ آمیزی سے مصئون و محفوظ سمجھتے ہیں( اعتراف ہے کہ کلہن کی تحریر میں دھندلا پن ہے۔ اس نے نادر الفاظ استعمال کئے ہیں یا شاعرانہ گڑبڑ ڈال دی ہے اور اس کے بیانات کی طرز تحریر شاعرانہ ڈھنگ پر ہے یہ چیز ترنگ نمبر ۸ میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ یہ کہنے پر بھی مجبور ہیں کہ >فوق الفطرت عنصر جادو اور منتر وغیرہ کا بھی اس کی تاریخ میں بہت کچھ دخل ہے<۔ )دیباچہ >مکمل راج ترنگنی< صفحہ ۱۴۱۔ ۱۴۳( ان حالات میں عہد حاضر کے ایک مورخ کے لئے اصل واقعات کی تہہ تک پہنچنا کتنا مشکل کام ہے اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم منشی محمد الدین صاحب فوق۱۴ مورخ کشمیر کی محنت و کاوش کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے >راج ترنگنی< اور >رتناگر< اور دوسرے قدیم لٹریچر کی ورق گردانی کرکے اپنی ریسرچ کو ایک عمدہ خلاصہ اور بہترین نچوڑ >مکمل تاریخ کشمیر< جلد اول کی شکل میں شائع کر دیا اور اس میں ابتدائے ظہور آدم سے لے کر ۱۳۳۴ء تک کے تاریخ وار واقعات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے قدیم فرمانروایان کشمیر کے حالات کا ایک اہم خاکہ پیش کیا ہے۔
مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق کی تحقیق کا سادہ لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں کچھ عرصہ تک یہ خط کشمیر پانی کے نیچے دبا رہا۔ پانی ہٹ جانے یا نکالے جانے کے بعد یہ زمین آباد ہونی شروع ہوئی اور اس کی آبادی پر پانچ ہزار برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے قدیم ایام میں یہاں مستقل آبادی نہ تھی۔ کیونکہ کثرت سے برفباری سے موسم سرما میں یہاں قیام نہایت دشوار بلکہ ناممکن تھا خصوصاً جبکہ سخت سردی سے بچائو کے ضروری سامان ناپید تھے اور لوازمات زندگی کے وسائل محدود تھے۔ ابتداء میں کشمیر تالاب کی صورت میں ایک وسیع میدان تھا جس میں جابجا چشمے اور دریا موجود تھے۔ موجودہ دریا بہت )دوتستا( جسے جہلم کہتے ہیں پہلے بھی اس طرح کشمیر اور کاغان کا پانی لے کر پنجاب کو سیراب کرتا تھا اس وقت یہ موسم بہار کی چراگاہوں کا کام دیتا تھا۔ اوائل موسم بہار میں بھمبر` راجوری` کاغان پکھلی وغیرہ قرب و جوار کے باشندے اور چراوہے بھیڑ` بکریاں لے کر یہاں آجاتے اور ان کے مرغزاروں کی زرخیزی اور شادابی سے متمع ہو کر جاڑے سے پہلے ہی اپنے دیس کو لوٹ جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا۔ جبکہ لوگ تہذیب سے بالکل ناآشنا وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کا گزارہ زیادہ تر مال مویشی اور شکار پر تھا۔ پتھر کی کلہاڑیاں اور ہتھیار ان کے جنگی اسلحہ تھے آخر دور میں تیر و ترکش کا استعمال بھی کرنے لگے۔ اور زراعت بھی انہوں نے اختیار کی لیکن مستقل رہائش کے پابند نہ تھے جہاں زمین نظر آئی وہیں کاشتکاری شروع کر دی پھر نقل مکانی کرکے کسی اور طرف چل دیئے۔ دریا دیو کے ذریعہ یہاں ابتدائی آبادی شروع ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد مسیح سے تین ہزار آٹھ سو نو اسی سال پیشتر طوفان نوح کا حادثہ پیش آیا جس نے دریا دیو کی قوم کو بالکل نیست و نابود کر دیا۔ حضرت مسیحؑ سے دو ہزار بیالیس سال پہلے راجہ سندرسین کے عہد میں کشمیر کا شہر سندمت نگر بھی )یہ شہر اس مقام پر آباد تھا جہاں اب جھیل ولر ہے( غرق ہو گیا اس طغیانی سے کامراج کا ایک بڑا حصہ زیر آب آگیا۔ حضرت مسیحؑ سے بارہ سو بیاسی سال پہلے راجہ نریندر کے عہد حکومت میں پانی نکلوا کر کامراج میں دوبارہ آبادی کی بنیاد پڑی کہتے ہیں کہ کشمیر کی اس جدید آبادی کا سلسلہ کشیپ رشی کے زمانے سے شروع ہوتا ہے۔ جس نے مختلف لوگوں کو یہاں لاکر آباد کر دیا۔ دریا دیو کے بعد جب کشیپ رشی نے کشمیر از سر نو آباد کیا اس وقت ہر شخص اپنے اپنے گھر کا خود مختار اور حاکم تھا۔ اس حالت کے بعد ایک قبائلی نظام نے جنم لیا۔ اور اسی وقت سے شخصی طرز حکومت کی ابتدا ہوئی اور پورن کرن )راجہ جموں( کا لڑکا دیا کرن کشمیر کا سب سے پہلا حاکم بنا۔ یہ ۳۱۸۰ ق م کا واقعہ ہے اس کے بعد ۱۳۲۴ء تک کشمیر میں ہندو راجوں کے یکے بعد دیگر اکیس خاندان حکمران رہے اور آخری ہندو راجہ سہدیو تھا۔۱۵
منشی محمد الدین صاحب فوق نے بعض ہندو تواریخ اور آثار قدیمہ سے یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ ہندوئوں کے مشہور رشی راجہ رام چندر جی نے بھی کشمیر کو اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا تھا۔ ۷۵۰ء میں راجہ للتادت کے زمانے میں موضع شیر دروں کی زمین سے ایک مندر برآمد ہوا۔ جس کے دروازے پر صاف الفاظ میں کندہ تھا کہ یہ مندر رامچند اور لچھمن نے تعمیر کیا ہے۔۱۶۔ یاد رہے کہ بعض مورخین نے رامچندر جی کا زمانہ ایک ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ معین کیا ہے۔۱۷
فصل سوم
بدھ مت کا دور
آریہ قوم جب ہندوستان میں آکر بت پرستی میں ڈوب گئی۔ تو مہاتما بدھ )اندازاً ۵۶۷ ق م ۴۸۷ ق م( کا ظہور اور بدھ مت جلد ہی ہندوستان` چین` جاپان اور برما وغیرہ ممالک تک جا پہنچا۔ اور ۲۶۱ ق م راجہ اشوک نے اس وقت کے مشہور فاضل اپ گپتا کے ہاتھ پر بدھ دھرم قبول کر لیا۔ اس طرح بدھ دھرم کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہو گئی۔۱۸۔
راجہ اشوک نے اس مذہب کے فروغ دینے کے لئے ۲۵۹ ق م میں دوسرے علاقوں کے علاوہ کشمیر میں بھی واعظ و مبلغ بھجوائے۔۱۹ کشمیر اس کی علمداری اور سلطنت میں داخل تھا۔۲۰ اشوک کو تعمیرات کا بہت شوق تھا۔ کہتے ہیں کہ تین برس کی قلیل مدت میں اس نے چوراسی ہزار ستوپ تعمیر کرائے تھے۔ کشمیر میں بھی بدھوں کی عمارتیں پائی جاتی ہیں۔ مگر ان کے ستون اور مورتیاں یونانی طرز تعمیر کا نمونہ ہیں۔۔۲۱ قیاس ہے کہ ان عمارتوں کا زمانہ غالباً ۱۹۰ ق م سے لے کر ۲۰ء کا درمیانی زمانہ تھا۔ جبکہ شمالی مغربی ہندوستان )پنجاب( پر یونانیوں کا قبضہ تھا۔۲۲
فصل چہارم
کشان قوم کا قبضہ
وسط ایشیا کی ترکستانی قوموں کو یورپین مورخین ستھین اقوام کہتے ہیں۔ ان اقوام کی ایک شاخ یوچی بیان کی جاتی ہے۔ جس کی ایک شاخ کا نام کشن یا کشان تھا۔۲۳۔ اس کشن یا کشان قوم نے آگے چل کر کابل و کشمیر تک جو اس زمانہ میں >کی پن< کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔ قبضہ کرکے ایک زبردست حکومت قائم کر لی تھی۔۲۴`۲۵ مسٹر ونسینٹ اے سمتھ کے اندازہ میں یہ ۱۵ء تا ۳۰ء کا واقعہ ہے۔۲۶
تقریباً ۷۸ء میں اس شاخ کا بادشاہ کنشک تخت نشین ہوا۔ جس کے متعلق ونیسنٹ اے سمتھ نے لکھا ہے۔ کہ یہ >غالباً کنشک ہی کا کام تھا کہ اس نے کشمیر کی دور افتادہ وادی کو زیر نگین اور اپنی سلطنت کے ساتھ ملحق کیا یہاں اس نے بہت سی عمارات تعمیر کرائیں اور ایک شہر بسایا جو اگرچہ اب محض ایک گائوں ہی رہ گیا ہے مگر کنشک کا نام اب تک اس میں باقی ہے<۔۲۷
راج ترنگنی کے مترجم اسٹین کا قول ہے کہ کنشک پور کی جگہ اب ایک گائوں کانسپور آباد ہے جو ۷۴۔ ۲۸ مشرقی طول بلد اور ۳۴۔ ۱۴ شمالی عرض بلد پر دریائے بہت اور اس شاہراہ کے درمیان واقعہ ہے جو بارامولا سے سرینگر کو جاتی ہے ونسینٹ اے سمتھ نے لکھا ہے کہ کنشک کے سکے کشمیر میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔۲۸ پنڈت کلہن نے >راج ترنگنی< میں کنشک کی نسبت لکھا ہے کہ اس کے زمانے میں کشمیر کا علاقہ بحیثیت مجموعی بدھ مت والوں کے قبضہ میں تھا۔۲۹ راجہ کنشک نے بدھ مذہب کی تحقیق کے لئے کشمیر کا دارالسلطنت کے قریب کندلون کے مقام پر ایک مجلس منعقد کرائی جس میں پانچ سو کے قریب فاضل جمع ہوئے جنہوں نے شریعت سے متعلق بڑی ضخیم تفسیریں لکھیں جو خاتمہ مجلس کے بعد تانبے کی چادروں پر کندہ کرائی گئیں اور ایک خاص ستوپ میں جو کنشک نے اس غرض سے تعمیر کرایا تھا محفوظ کر دی گئیں ازاں بعد راجہ کنشک نے کشمیر کی آمدنی اشوک کی طرح مذہب کے لئے وقف کر دی۔۳۰
کنشک کے بعد ہوشک نے کشمیر میں ایک شہر ہشک پور بسایا جو شہر عین درہ بارامولا کے پار واقع تھا۔ کہتے ہیں کہ ۶۳۱ء میں جب چینی سیاح ہیون سانگ کشمیر گیا تو چند روز تک ہشک پور کی خانقاہ والوں نے اس کی مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور اسے بہت سے بھکشوئوں کے ساتھ بڑے کروفر سے دارالسلطنت میں پہنچایا۔۳۱ کشمیر کے فرمانروا )غالباً دربھور دھن( نے اس کا دھوم دھام سے استقبال کیا۔ اور اس نے کشمیر کے عالموں سے مباحثات کئے یہاں اس کو بدھ مذہب کی بہت سی کتابوں کے مطالعہ کا موقعہ ملا۔ جن میں سے بعض اس نے حفظ کر لیں اور مئی ۶۳۱ء سے اپریل ۶۳۳ء تک کشمیر میں قیام کرنے کے بعد واپس چلا گیا۔۳۲
بادشاہ ہو|شک کے بعد باسودیو اور باسودیو کی موت کے بعد جو ۱۷۸ء میں خیال کی جاتی ہے۔ کشن یا کشان سلطنت پر زوال آگیا۔۳۳
حصہ دوم۔ پہلا باب )فصل پنجم(
اسرائیلی قبائل کا کشمیر میں داخلہ
پانچویں صدی قبل مسیح سے تیسری صدی قبل مسیح کا دور تاریخ کشمیر کا نہایت اہم اور قابل ذکر دور ہے کیونکہ اسی زمانے میں خطہ کشمیر کے طول و عرض پر مستقل اور منظم آبادی کا آغاز ہوا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی حکومت دو حصوں میں بٹ گئی۔ تاریخ میں ایک حصہ کو سلطنت اسرائیل کہتے ہیں اور دوسرے کو سلطنت یہودویہ` سلطنت اسرائیل سرغوں کے ہاتھوں ۷۲۲ ق م میں ختم ہو گئی اور سولہ سترہ سال میں ہزاروں یہود جلا وطن ہو گئے۔ اس کے قریباً ڈیڑھ دو سو سال بعد بخت نصر نے سلطنت یہودیہ پر )جس کا دارالسلطنت یروشلم تھا( چڑھائی کرکے ۵۸۶ ق م میں اس کا تختہ الٹ دیا۔ یروشلم تباہ و برباد اور تاخت و تاراج کر دیا گیا۔ اور اسرائیلی قبائل` عراق ` فارس` میدیا اور دوسرے علاقوں میں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ولیم ایم لینگر کی تحقیق کے مطابق ۵۸۶ ق م سے ۵۳۸ ق م تک یہودی عراق کے ماتحت اور ۵۳۸ ق م سے ۳۳۲ ق م تک ۔۔۔ ایرانی حکومت کے ماتحت رہے آخر خورس نے انہیں یروشلم میں ہیکل از سر نو تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ نحمیاہ نبی نے یروشلم کی فصیلیں بنائیں اور شرعی قانون نافذ کئے۔۳۴ حالات کے سازگار ہونے پر بعض اسرائیلی قبائل اپنے وطن کو لوٹ آئے۔ مگر بقیہ دس قبائل پراسرار طریق پر غائب ہو گئے۔
مختصر تاریخ بائیبل History) Bible of Manual (A کے مصنف مسٹر بلیکی ان گمشدہ قبیلوں کی نسبت یہ قیاس آرائی کرتے ہیں۔ >یہ بات کہ آخر کار ان دس فرقوں کی کیا حالت ہوئی ایک ایسا تاریخی مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہوا بعض کا گمان ہے۔ کہ وہ ایشیاء میں ملک ٹرکی کے نسطوری فرقے کے عیسائیوں میں شامل ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ ہند کے افغانوں میں ملتے ہیں اور بعض کا یہ خیال ہے کہ وہ بہت دور دور جگہوں کو چلے گئے ہیں<۔۳۵ مسٹر بلیکی جس >تاریخی مسئلہ< کو لاینحل قرار دیتے تھے۔ کوئی سربستہ راز نہیں رہا۔ بلکہ تحقیق کی روشنی میں یہ حقیقت ناقابل تردید شواہد و دلائل کے ذریعہ سے ثابت ہوچکی ہے کہ یہ دس گم شدہ اسرائیلی قبائل قطعی طور پر افغانستان اور کشمیر میں آباد ہوئے اور اب ان علاقوں میں زیادہ تر انہیں کی نسل پائی جاتی ہے۔ کشمیریوں۳۶ کا نسبی سلسلہ کئی پشتوں کے واسطہ سے براہ راست ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام تک جا پہنچتا ہے۔
اگر اسرائیلی خصوصیات و آثار کی روشنی میں اہل کشمیر کے چہروں کی ساخت` رنگ` عادات زبان اور کشمیر کی پرانی یادگاروں اور ان کے ناموں پر وسیع نظر ڈالی جائے تو یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ کشمیر کے باشندے یقیناً بنی اسرائیل کی اولاد سے ہیں۔۳۷ یہ حقیقت اب اتنی واضح اور نمایاں ہو چکی ہے کہ مغربی اور مشرقی محقق مفکر اور سیاح حتیٰ کہ عیسائی دنیا بھی اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔۳۸ چنانچہ فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر نے اپنی کتاب >سلطنت مغلیہ میں سیر و سیاحت< )جلد دوم مطبوعہ لنڈن ۱۸۹۱ء( میں کئی محققین کے حوالہ سے بیان کی ہے کہ کشمیر کے باشندے دراصل یہودی ہیں کہ جو تفرقہ شاہ اسور کے ایام میں اس ملک میں آگئے تھے۔اور ان کے لباس اور بعض رسوم قطعی طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی خاندان میں سے ہیں۔ جارج فارسٹر نامی ایک انگریز اپنے >مکاتیب سفر از بنگال تا انگلستان< مطبوعہ لنڈن ۱۸۰۸ء میں لکھتا ہے کہ جب میں کشمیر میں تھا تو میں نے خیال کیا کہ میں ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ہوں۔۳۹
ڈاکٹر غلام محی الدین صاحب صوفی >اہل کشمیر< کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ کہ >کشمیریوں میں سے بہتوں کے خدوخال کی یہودی وضع کا متعدد جدید سیاحوں نے مشاہدہ کیا ہے۔ حالیہ زمانے میں کشمیر پر دو بلند پایہ محققین یعنی سر والٹر لارنس اور سر فرانسس ینگ ہزبینڈ نے جن کی کشمیر اور کشمیریوں سے گہری واقفیت میں کوئی کلام نہیں` عورتوں` بچوں اور مردوں کے چہروں کی صریح >یہودی< وضع کو تسلیم کیا ہے۔ سر والٹر لارنس کہتے ہیں کہ مڑی ہوئی ناک کشمیریوں کی امتیازی خصوصیت ہے۔ اور عبرانی ناک نقشہ عام ہے۔ سر فرانسس کا کہنا ہے کہ >ہم نے اپنے ذہن میں قدیم اسرائیلی ہیروں کی جو تصویر بنائی ہے اسے کشمیر میں سچ مچ دیکھنا ممکن ہے ۔۔۔۔۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اصلی انجیلی چہروں کو کشمیر میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ برنیئر نے بھی اسی فیصلہ کن انداز میں بات کی ہے۔ >پیرپنجال کے پہاڑ پار کرکے کشمیر میں داخل ہونے پر مجھے سرحدی دیہات کے باشندے یہودیوں سے بہت مشابہ معلوم ہوئے۔ ان کے خدوخال اور آداب اسی قدیم قوم کے معلوم ہوتے ہیں۔ میری بات کو محض تخیل آرائی نہ سمجھیئے کیونکہ میرے کشمیر آنے سے مدتوں قبل ہمارے جیسوئٹ۴۰ پادری اور کئی دوسرے یورپی ان کی یہودی شکل و صورت کا ذکر کر چکے ہیں<۔ شاہ ہمدان ولی اللہ چودھویں صدی )عیسوی( میں تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بھی وادی کو گویا کشمیر میں اسرائیلیوں کی آباد کاری کی تائید میں >باغ سلیمان< کا نام دیا تھا<۔۴۱
اس عظیم الشان انکشاف کے بعد کہ کشمیری اسرائیلی نسل سے ہیں >کشمیر< کی وجہ تسمیہ کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بتایا ہے کہ کشمیر دراصل عبرانی نام ہے۔ جو ک اور اشیر سے مرکب ہے ک کے معنی ہیں مانند اور اشیر عبرانی زبان میں ملک شام کو کہتے ہیں۔ پس ک اشیر کے معنی ہیں >ملک شام کی مانند< مگر کثرت استعمال اور مرور زمانہ سے ک اشیر کا درمیانی الف گر گیا اور کشیر رہ گیا۔ جس کا واقعاتی ثبوت یہ ہے کہ خود اہل کشمیر اس خطہ کو آج تک کشیر ہی کہتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ایک شعر ہے >کشیری کہ بابندگی خود گرفتہ ۔ بتے می تراشد زسنگ مزارے<۔۴۲

فصل ششم
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریمؑ کشمیر میں
اب ہم کشمیر کے اس تاریخی زمانے میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ خدا کے ایک برگزیدہ نبی اور جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام )جنہیں قدیم اسلامی لٹریچر میں >امام الحسائحین<۴۳ یعنی سیاحوں کا امام کہا گیا ہے( اپنی والدہ حضرت مریمؑ۴۴ کے ساتھ صلیبی موت سے بچ جانے کے بعد اپنی تبلیغی مشن کی تکمیل کے لئے عراق` فارس` افغانستان اور پنجاب سے گزرتے ہوئے کشمیر میں رونق افروز ہوگئے اور آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کا بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔۴۵
تاریخ کشمیر بلکہ تاریخ عالم کے اس پراسرار عہد پر صدیوں تک پردہ پڑا رہا اور خصوصاً عیسائی دنیا نے اپنی مذہبی مصالح کے باعث اسے چھپانے کی مسلسل کوشش کی مگر جدید تحقیقات سے جو مشہور مذاہب عالم` ہندو دھرم` بودھ مت` عیسائیت اور اسلام کے لٹریچر اور آثار قدیمہ کی روشنی میں کی گئی ہے اور جس کا سلسلہ گہری دلچسپی اور غیر معمولی توجہ سے جاری ہے اب تک حضرت مسیح علیہ السلام کے سفر کشمیر سے متعلق بہت ہی تعجب خیز اور حیرت انگیز تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس علمی تحقیق میں جن محققوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیق کی روشنی میں مزید کام کیا ہے ان میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ` حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ` حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ آف ہوتی مردان` مولانا جلال الدین صاحب شمس` خواجہ نذیر احمد صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور` شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت اور قریشی محمد اسداللہ صاحب کاشمیری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان محققین کی ریسرچ سے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صرف چند گھنٹے تک صلیب پر رہے اور بے ہوشی کے عالم میں زندہ ہی صلیب سے اتار لئے گئے۔ حضرت مسیحؑ کے صلیب سے زندہ اتارے جانے کے بعد حکیم نقودیمس نے آپ کے زخموں پر تیز مصالح اور شفا بخش مرہم لگایا اور پھر آپ ایک رومن طرز کی >قبر< میں منتقل کر دیئے گئے۔ جو آپ کے حواری یوسف آرمیتیا کی ملکیت تھی اور جو پہاڑ کھود کر بنائی گئی تھی اس قبر میں جو ایک کشادہ کمرہ کے مشابہ ہے۔ اور اب تک یروشلم میں موجود ہے( آپ کے جسم کو مختلف مقوی ادویہ اور بوٹیوں کا بخور دیا گیا۔ ایک بڑا پتھر رکھ دیا گیا۔ رات۴۶ کے آخری حصہ میں تیز آندھی اور زلزلہ سے چٹانیں ہلنے اور شق ہونے لگیں۔ اس وقت حضرت مسیح کا ایک معتقد سفید لباس میں ملبوس قبر تک پہنچا سردار کاہن کے پہرہ دار جو زلزلہ اور آندھی سے پہلے ہی خوفزدہ تھے اس شخص کو دیکھتے ہی دہشت زدہ ہو کر بھاگ گئے اور شہر میں جا کر افواہ پھیلا دی کہ ایک فرشتہ نے غار سے پتھر ہٹا کر اسے کھول لیا ہے۔
واقعہ صلیب پر تیس گھنٹے گزرنے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کو بے ہوشی سے افاقہ ہونا شروع ہوا۔ اور جب آپ کو ساری سرگزشت بتائی گئی تو آپ بہت متعجب ہوئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرنے لگے۔ حکیم نقودیمس کے مشورہ پر آپ نے کھجوریں اور روٹی شہد کے ساتھ کھائی اور آپ میں اتنی قوت آگئی کہ آپ خود اٹھ کر بیٹھ سکیں۔ اس مرحلہ پر زیادہ دیر تک حضرت مسیحؑ کو اس قبر ہی میں رہنے دینا بڑا مخدوش و خطرناک امر تھا اس لئے آپ کو اس قبر سے ایک قریبی مکان میں منتقل کر دیا گیا۔ چند روز کے بعد آپ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو آپ نے اپنے شاگردوں کو تبلیغ کے متعلق نصیحتیں فرمائیں۔ اور دو دراز مقام کے سفر پر روانگی سے پیشتر ان سے فرمایا۔ کہ >میں نہیں بتا سکتا۔ کہ اب کہاں جائوں گا۔ کیونکہ میں اس امر کو مخفی رکھنا ضروری سمجھتا ہوں اور میں سفر بھی تنہا ہی کروں گا۔ اور جب آپ یروشلم کے قریب کوہ زیتون پر حواریوں سے جدا ہونے لگے۔ تو پہاڑ پر سخت کہر چھائی ہوئی تھی۔ حواریوں نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیکے تو ان کے چہرے زمین کی طرف جھکے ہوئے تھے۔ اس حالت میں آپ اٹھے اور جلدی جلدی دھند اور غبار میں آگے روانہ ہو گئے لیکن شہر میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ یسوع بادلوں میں سے آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ مگر یہ خبر آپ کے ان حواریوں میں سے کسی نے مشہور نہیں کی تھی جو آپ کی روانگی کے وقت موجود تھے اور جن کے گھٹنے ٹیکنے کی حالت میں آپ آگے بڑھ گئے تھے۔ بلکہ یہ خبر ان لوگوں نے مشہور کی تھی جو آپ کی روانگی کے وقت موجود نہیں تھے۔ یہ واقعہ جو بہت اختصار سے لکھا گیا ہے۔ واقعہ صلیب کے ایک عینی شاہد نے اپنے مفصل مکتوب میں پوری شرح و بسط سے درج کیا ہے۔۴۷
گو حضرت مسیح علیہ السلام نے یروشم سے روانگی کے وقت مصلحتاً اپنے سفر کی نسبت کچھ نہیں بتایا تھا مگر اناجیل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود پہلے سے یہی سمجھتے تھے کہ آپ کا ارادہ بنی اسرائیل کے ان گمشدہ قبائل تک پیغام حق پہنچانے کا ہے چنانچہ یوحنا ۳۳۔ ۳۶/ ۷ )اتھورائزڈ ورشن( ¶میں لکھا ہے۔ >یہودیوں نے آپس میں کہا کہ یہ کہاں جائے گا کہ ہم اسے نہ پائیں گے۔ کیا ان کے پاس جائے گا جو غیر قوموں میں پراگندہ ہیں<۔ ان آیات کی شرح میں پیکس تفسیر بائیبل میں لکھا ہے۔ شاید مسیح ان علاقوں میں جانے کے لئے سوچ رہا تھا جہاں یہود جلا وطنی کے بعد بس گئے تھے۔
امریکن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر البرٹ ہیما اپنی کتاب History> <Ancient >)تاریخ قدیم(< میں انجیل کے اس بیان پر لکھتے ہیں۔ >ایک دن جب حضرت مسیح ناصری ایک پرجوش وعظ فرما رہے تھے اس وعظ میں آپ نے اپنی روانگی کا ذکر کیا۔ تو کچھ لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ کیا یہ بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل میں جاکر تبلیغ کا ارادہ رکھتے ہیں<۔ )صفحہ ۳۸(۴۸
حدیث نبویﷺ~ میں آتا ہے کہ >اوحی اللہ تعالی الی عیسی ان یا عیسی انتقل من مکان الی مکان لئلا تعرف فتوذی<۔۴۹ یعنی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے عیسیٰ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف چلتے رہو تا ایسا نہ ہو کہ تم پہچانے جائو اور تمہیں تکلیف دی جائے۔
اس فرمان خداوندی کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام یروشلم سے روانہ ہو کر پہلے دمشق تشریف لے گئے جہاں مقدسین دمشق یروشلم کے یہودی چرچ سے الگ ہو کر آبسے تھے۔ ان لوگوں نے جو آپ کے لئے چشم براہ تھے۔ نہ صرف آپ کو پناہ دی بلکہ خود بھی آپ کی پناہ میں آگئے یعنی حلقہ بگوش عیسائیت ہونے لگے۔ یروشلم کے کاہن اعظم کو جب یہ پتہ لگا کہ حضرت مسیحؑ دمشق میں پناہ گزین ہیں تو اس نے پولوس کو ان کی گرفتاری کے لئے مسلح دستہ دے کر دمشق کی طرف بھیجا۔ لیکن وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہا۔ ان واقعات کی تفصیل رابرٹ گریور اور جوشوعا پوڈرو کی تصنیف >یسوع روم میں<۔ Rome) in (Jesus میں موجود ہے۔۵۰ اس حقیقت کی مزید تائید وادی قمران سے برآمد ہونے والے صحائف سے بھی ہوتی ہے۔
دمشق سے آپؑمختلف مقامات کی سیر و سیاحت کرتے جن میں )روم بھی بتایا جاتا ہے( نصیبین کے رستہ افغانستان سے ہوتے ہوئے شمالی ہند میں داخل ہوئے )غالباً اسی زمانے میں یا اس کے کچھ مدت بعد آپ لیہ` لاسہ` گلگت` ہمس` نیپال` بنارس` پنجاب وغیرہ میں بھی تشریف لے گئے( اور بالاخر کشمیر میں جاگزین ہو گئے۔ جو >اوینھما الی ربوہ ذات قرار و معین< کے قرآنی الفاظ کی عملی تعبیر تھی۔ اس وقت راجہ اکھ کا بیٹا گوپانند )گوپات دوم( حکمران تھا۔ یہ ۷۸ء کا واقعہ ہے جبکہ وکک سن ۳۵۱۴۔ تھا اسی سال آپ کی ملاقات سری نگر کے قریب وین مقام پر ہندوستان کے مشہور راجہ شالباہن سے ہوئی۔۵۱حضرت مسیحؑ نے یہاں کھلے طور پر اعلان نبوت فرمایا اور اہل کشمیر کثرت سے آپ کی دعوت قبول کرنے لگے۔
حضرت مسیح علیہ السلام موسوی شریعت کے تابع نبی تھے۔ جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔ >یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں<۔۵۲ موسوی شریعت کی نشر و اشاعت کا فریضہ کی بجا آوری کے ساتھ ہی آپ کی آمد کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ موعود آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے ظہور کی بشارت سنائیں۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے الہامات کو انجیل ہی کا نام دیا گیا جس کے لغوی معنیٰ ہی خوشخبری کے ہیں۔
چنانچہ آپ نے اپنے اس فرض منصبی کی تکمیل فرمائی اور اہل کشمیر کو اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے ظہور کی خبر دی اور ان کو آنحضرت~صل۱~ اور اسلام کے استقبال کے لئے تیار کرتے رہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس ملک میں آکر اکثر بدھ مت میں داخل ہو گئے تھے۔ سو حضرت مسیحؑ کے کشمیر میں آنے پر ان میں سے اکثر راہ راست پر آگئے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی نسبت جس کا نام اس نے بگوامتیا )یعنی مسیحا( رکھا تھا پیشگوئی کی تھی اور کہ >متیا لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہو گا۔ جیسا کہ میں اب سینکڑوں کا ہوں<۔ )لگاوتی ستتا بحوالہ کتاب اولڈن برگ صفحہ ۱۴۴(
گوتم بدھ نے یہ بھی بتایا تھا کہ پانچویں صدی تک اس کے مذہب کا زوال ہو جائے گا تب میتا اس ملک میں دوبارہ میری اخلاقی تعلیموں کو قائم کرے گا۔ چنانچہ کشمیر میں حضرت مسیح کی آمد گوتم بدھ کی پیدائش سے پانچ سو سال کے بعد ہی ہوئی۔۵۳ اور بدھ کے پیرو پروانہ وار آپ کے گرد جمع ہوتے ہوگئے۔
غرض اس ملک میں حضرت مسیحؑ کو بڑی وجاہت حاصل ہوئی۔ حتیٰ کہ راجہ کا ایک مرید >سندھی متی< نامی آپ کی زندگی میں لا ولد راجہ جے اندر کے بعد تخت نشین بھی ہوا۔ چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں ایک سکہ پنجاب سے برآمد ہوا جس پر پالی زباں میں حضرت عیسیٰ کا نام درج تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کشمیر میں آکر شاہانہ عزت پائی غالباً یہ سکہ ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہو گا جو حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تھا۔۵۴
کتاب >اکمال الدین و اتمام النعمت< سے جو شیعوں کی معتبر کتاب ہے اور ہزار برس قبل تصنیف ہوئی۔ ظاہر ہوتا ہے کہ اہل کشمیر آنحضرت~صل۱~ کی آمد کے صدیوں سے منتظر چلے آرہے تھے اور ان کی کتابوں میں حضور کی پیشگوئی موجود تھی۔۵۵body] g[ta
>اکمال الدین< میں مزید لکھا ہے۔ >حضرت یوز آصف )یسوع مسیح علیہ السلام۔ ناقل( نے کشمیر میں آخری وقت اپنا خلیفہ مقرر کیا جس کا نام بابد تھا۔ اور اسے وصیت فرمائی کہ میرے بعد عبادت کا پابند رہنا` نماز پڑھتے رہنا` سچائی سے منہ نہ پھیرنا۔ پھر آپ نے اپنے اوپر ایک قبر بنائے جانے کا ارشاد فرمایا جہاں آپ نے اپنے پائوں مغرب کی طرف پھیلائے اور سر مشرق کی طرف کیا اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔۵۶
حدیث نبویﷺ~۵۷ کے مطابق آپ کا وصال ایک سو بیس برس کی عمر میں ہوا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ مقدس توما کے ہاتھوں دفن کئے گئے۔۵۸ )ناصرین گاسپل( سرینگر کے محلہ خانیاز میں آپ کا مزار مبارک اب تک موجود ہے۔ >طبقات کبیر< میں حضرت امام حسن علیہ السلام کا یہ قول درج ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کی روح ۲۷/ رمضان کو قبض کی گئی تھی۔۵۹ >لقد قبض فی اللیلہ التی عرج فیھا بروح عیسی بن مریم لیلہ سبع و عشرین من رمضان< اسی طرح تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کی قبر کے کتبہ کی عبارت یہ ہے۔ >ھذا قبر رسول اللہ عیسی بن مریم<۶۰ اس وقت کا واقعاتی ثبوت کہ حضرت مسیح نے واقعی لمبی زندگی پاکر وفات پائی تھی ان تصاویر سے بھی ملتا ہے جو دوسری صدی کے ابتدائی مسیحیوں نے بنائی تھیں اور جو ان کے ہاں امانت کے طور پر محفوظ چلی آتی تھیں یہ تصاویر انسائیکلو پیڈیا برٹینکا جلد ۱۴ میں شائع ہو چکی ہیں۔۶۱ ان تصاویر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ جوانی اور بڑھاپے کی تصاویر ہیں۔ بڑھاپے کی تصویر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حضرت مسیحؑ اس وقت طویل العمر تھے۔
مشرقی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا روحانی سلسلہ خلافت اسلام کی آمد کے زمانے تک موجود تھا۔ اور لوگ یہاں تورات` زبور` انجیل اور صحف ابراہیمی پڑھتے اور ان پر عمل کرتے اور دوسروں کو ان پر عمل کرنے کی تاکید کرتے رہتے تھے۔۶۲`۶۳
عصر جدید کی تحقیق پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب حضرت مسیح کے سفر کشمیر سے متعلق چند مستند شہادتیں درج کی جاتی ہیں۔ جن سے تاریخ کشمیر کے اس تاریخی واقعہ پر تیز روشنی پڑتی ہے۔ یاد رہے کہ حضرت مسیح قدیم لٹریچر میں کئی ناموں سے پکارے گئے ہیں۔ یسوع۔ یوز آسف۔ آصف یوسا۔ شافت متیا۔ مسیح۔ مشیحا۔ مسیحا۔ می شی ہو۔ عیسیٰ- ایشان دیو۔ عیسیٰ نادیو۔ عیسیٰ ناتھ۔ مگر یہ سب ایک ہی شخصیت کے مختلف نام ہیں۔ جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مختلف قوموں یا گروہوں نے اپنے لب و لہجہ اور تلفظ میں یاد کیا ہے۔۶۴
ہندو لٹریچر کی شہادت
>بھوشیہ مہا پران< ہندوئوں کے قدیم اٹھارہ پرانوں میں سے نواں پران ہے۔۶۵ اس کتاب کے تیسرے باب میں دو جگہ حضرت مسیح کی کشمیر میں آمد کا ذکر ملتا ہے چنانچہ لکھا ہے۔ >ایک دن مہاراجہ شالباہن ہمالیہ پہاڑ کے ایک ملک میں گیا۔ وہاں اس نے ساکا۶۶ قوم کے ایک راجہ کو وین۶۷ مقام پر دیکھا وہ خوبصورت رنگ کا تھا۔ اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ شالباہن۶۸ نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا۔ میں یوسا شافت )یوز آسف( ہوں اور عورت کے بطن سے میری پیدائش ہوئی۔ )راجہ شالباہن کے حیران ہونے پر( اس نے کہا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے سچ کہا ہے۔ اور میں مذہب کو صاف و پاک کرنے کے لئے آیا ہوں راجہ نے اس سے پوچھا کہ آپ کونسا مذہب رکھتے ہیں۔ اس نے جواب دیا اے راجہ! جب صداقت معدوم ہو گئی اور ملیچھوں کے ملک )ہندوستان سے باہر کسی ملک( میں حدود شریعت قائم نہ رہی تو میں وہاں مبعوث ہوا۔ میرے کلام کے ذریعہ جب گنہگاروں اور ظالموں کو تکلیف پہنچی تو ان کے ہاتھوں سے میں نے بھی تکلیفیں اٹھائیں۔ راجہ نے اس سے پھر پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ اس نے جواب دیا میرا مذہب محبت` صداقت اور تزکیہ قلوب پر مبنی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میرا نام >عیسیٰ مسیح< رکھا گیا ہے<۔۶۹
حضرت عیسیٰؑ کے کشمیر میں آنے اور ان کے ایک مرید >سندھی متی< کے بادشاہ بننے کا ذکر پنڈت کلہن کی >راج ترنگنی< میں بھی ملتا ہے یہ ذکر >ایشان دیو< کے نام سے کیا گیا ہے۔ اگرچہ پنڈت کلہن نے اس سلسلہ میں خالص دیو مالائی طرز بیان میں عجوبہ پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مبہم اور غیر مسلسل اور بہت لمبا واقعہ لکھا ہے جو >راج ترنگنی< مترجم از >ٹھاکر چند شاہپوریہ کے صفحہ ۱۷۷ سے ۱۹۴ تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن اگر دوسرے قدیم لٹریچر کی روشنی میں اس پورے واقعہ پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے اور اس کے حشو و زوائد اور غیر حقیقی عناصر کی چھان بین کی جائے۔ تو اس سے یہ قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں کہ ایشان دیو )یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام( کا ایک مرید >سندھی متی<۷۰ کشمیر کے راجہ جے اندر کا وزیر تھا جسے راجہ نے غلط کارمشیروں کی سازش کے نتیجہ میں جیل میں ڈال دیا۔ جو دس سال نظر بند رہا۔ راجہ لاولد تھا اس لئے اس نے اس خیال سے کہ میرے بعد سندھی متی ضرور تخت کا وارث ہو جائے گا۔ سندھی متی کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے دیا۔ اس پر >ایشان دیو< پر کشفی حالت طاری ہوئی۔ اور اس نے دیکھا کہ جو گنیوں کا ایک مجمع ہے جس کے گرد روشنی کا ہالہ بنا ہوا ہے۔ اس مجمع نے >سندھی متی< کا پنجرا اپنے حلقہ میں لے لیا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ مجمع اس کے )منتشر( اعضا جوڑ رہا ہے۔ >ایشان دیو< جب عالم کشف سے بیدار ہوئے۔ تو ان کو غیبی آواز آئی کہ اے ایشان خائف نہ ہو یہ شخص جسے ہم نے آسمانی جسم سے بنایا ہے زمین پر سندھی متی کے نام سے اور اپنے شریفانہ چال چلن کی وجہ سے آریہ راج کے لقب سے مشہور ہوگا۔ چنانچہ ادھر سندھی متی پھانسی کی موت سے بچ گیا۔ ادھر راجہ جے اندر کی موت واقع ہو گئی۔ ایشان دیو نے >سندھی متی< کو گلے لگایا اور اہل کشمیر نے بھی اس کے دوبارہ >زندہ< ہونے پر بڑی خوشی منائی اور بالاتفاق لاولد راجہ جے اندر کی جگہ اسے تخت پر بٹھایا۔ وہ ۴۷ برس تک حکمران رہا۔ اور آخر سلطنت چھوڑ کر کسی غار میں عبادت کے لئے چلا گیا۔۷۱
>بھوشیہ مہا پران< کے علاوہ بندھیا چل کے ایک ہندو فرقہ >ناتھ جوگی< کی کتاب >ناتھ مامو بولی< میں بھی حضرت مسیح کا ذکر آتا ہے چنانچہ لکھتا ہے۔ >عیسیٰ ناتھ کو اپنے ہم وطنوں نے ہاتھوں اور پیروں میں کیل لگا کر سولی پر چڑھا کر مارنے کی کوشش کی اور مردہ سمجھ کر قبر میں رکھ دیا۔ مگر عیسیٰ ناتھ نے قبر سے نکل کر آریہ دیس میں فرار اختیار کیا اور کوہ ہمالیہ کے دامن )کشمیر( میں ایک خانقاہ قائم کی اور خانیار سرینگر میں ان کی سمادھی )مزار( ہے<۔۷۲
بدھ مذہب کے لٹریچر کی شہادت
ایک روسی سیاح نکولس ناٹووچ ۱۸۹۰ء کے قریب لداخ میں بدھ مذہب کی ایک خانقاہ میں کئی ماہ مقیم رہا۔ جہاں بدھ علماء انہیں اپنے کتب خانے میں سے پرانی کتابیں ترجمہ کرکے سنایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک کتاب سے انہوں نے عیسیٰ کے حالات پڑھ کر سنائے اس کتاب کا ترجمہ کرکے وہ ساتھ لے گئے اور فرانسیسی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا ترجمہ انگریزی میں بھی شائع ہو گیا ہے۔ اس کتاب کا نام۔ Christ> Jesus of Life Unknown <The جب یہ کتاب شائع ہوئی تو عیسائی حلقوں نے پورا زور لگایا کہ اس کتاب کو جعلی ثابت کر دکھائیں۔
اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں نوٹووچ نے چیلنج کیا کہ میں محققین کے ایک مشن کے ساتھ خود ہندوستان جانے کے لئے تیار ہوں اور بدھ صحیفوں سے ان کی تسلی کروا سکتا ہوں۔ چنانچہ ایک فاضل خاتون لیڈی میرک نے ہمس جا کر تحقیقات کی اور اس کے نتائج شائع کرتے ہوئے لکھا۔ >لداخ کے شہرلیہ میں مسیح کی روایت ہمیں ملتی ہے۔ جو یہاں عیسیٰ کے نام سے مشہور تھے۔ ہمس کے بدھ معبد میں ۱۵۰۰ سو سال قبل کی نہایت قیمتی دستاویزات رکھی ہیں جو مسیح کی زندگی کے ان ایام سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو اس نے یہاں بسر کئے ان میں لکھا ہے کہ اس علاقہ میں مسیح کو خوش آمدید کہی گئی اور یہاں اس نے لوگوں کو تعلیم دی<۔۷۳
پروفیسر نکولس رورک Rorick) (Nicholus نے وسط ایشیا کی سیاحت کے بعد ۱۹۲۹ء میں ایک کتاب Asia) of (Heart کے نام سے شائع کی۔ اس کتاب میں پروفیسر مذکور نے لکھا ہے کہ >کشمیر` لداخ اور وسط ایشیا کے مختلف مقامات میں اب بھی یہ مضبوط روایات پائی جاتی ہیں کہ حضرت مسیح ناصری نے ان علاقوں کا سفر اختیار کیا ہے سری نگر میں وہ فوت ہوئے۔ وہیں ان کا مزار ہے۔ یہ سب کی سب روایات اس بات پر متفق ہیں کہ جس زمانے میں حضرت مسیح فلسطین سے غیر حاضر تھے۔ اس وقت آپ ایشیا اور ہندوستان میں موجود تھے۔۷۴
عیسائی لٹریچر کی شہادت
مکتوب اسکندریہ کا ذکر اوپر آچکا ہے اس کے علاوہ بعض مزید شہادتیں بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں۔
۱۔
مسٹر سٹیفن گراہم اپنی کتاب >روسین پلگرمز آف یروشلم< کے صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں۔
>غالباً مسیح کی موت )یعنی صلیبی >موت<۔ ناقل( کے بعد کئی سال تک ان کے درمیان یہ عجیب خبر پھیلی رہی کہ وہ زمین پر کسی دور دراز جگہ میں زندہ ہیں اور عنقریب دوبارہ ظاہر ہوں گے۔
۲۔
انیسویں صدی کے عیسائی مصنف مسٹر بروس لکھتے ہیں۔
>مسیح فی الواقع مرے نہیں تھے۔ عارضی بے ہوشی کے بعد وہ پھر ہوش میں آگئے تھے اور کئی مرتبہ اپنے شاگردوں کو زندہ نظر آئے۔ پھر وہ اتنا عرصہ زندہ رہے کہ پولوس کو بھی ان کی زیارت نصیب ہوئی اور بالاخر انہوں نے کسی نامعلوم مقام پر وفات پائی<۔ )اپالو گویٹر مطبوعہ ۱۸۹۲ء(
۳۔
ڈاکٹر ایم۔ اے )ایک مسیحی مصنف( لکھتے ہیں۔
>یہ ہو سکتا ہے کہ بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کو تبلیغ کرکے مسیح سرینگر )کشمیر( کے دور دراز علاقہ میں فوت ہو گیا ہو۔ اور وہ اس قبر میں دفن ہو جو اس کے نام سے مشہور ہے<۔۷۵
۴۔
کپتان سی۔ ایم انرک لکھتے ہیں۔ >مجھے اپنے قیام کشمیر کے دوران میں وہاں کی قبروں کے متعلق چند عجیب باتیں معلوم ہوئیں۔ ان میں سے ایک قبر کو مسیح ناصری کی قبر کہتے ہیں<۔۷۶
مسلم لٹریچر کی شہادت
کشمیر کی قدیم تاریخ میں جو کشمیر کے مشہور مورخ ملا نادری کی تالیف ہے اور جو ۱۳۷۸ء سے ۱۴۱۶ء تک مکمل ہوئی ہے۔
>راجہ گوپانند پسرش بعد از عزلی اوبر حکومت رسید۔ در )عہد حکومت(۷۷ اوبتخانہ ہائے بسیار )تعمیر شدند( بالائے کوہ سلیمان گنبد شکستہ بود و برائے تعمیرش یکے ازوز رائے خود نامی سلیمان کہ از پارس آمدہ بودتعیین نمود۔ ہندو واں اعتراض کردند کہ او غیر دین ملیچھ است دریں وقت حضرت یوزآصف از بیت المقدس بجانب وادی اقدس مرفوع شدہ دعوائے پیغمبری کردشب و روز عبادت باری تعالیٰ کرد و درتقویٰ و پارسائی بدرجہ اعلیٰ رسیدہ خودرا برسالت اہل کشمیر مبعوث )گوارید( و بدعوت خلائق اشتغال نمود زیرا کہ کثیر مرد مان خطہ عقیدت مند آنحضرت بودند۔ راجہ گوپادت اعتراض ہندواں پیش او کرد۔ بحکم آنحضرت سلیمان کہ ہندوان نامش سندیمان دادند تکمیل گنبد مذکورہ کرد )سال پنجاہ و چہار( دنیز برنردبان نوشت کہ دریں وقت یوز آصف دعویٰ پیغمبری می کندو بر دیگر سنگ نروبان ہم نوشت کہ ایشان یسوع پیغمبر بنی اسرائیل است ودر کتاب ہندواں دیدہ اند کہ آنحضرت بعینہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ والسلام بودو نام یوز آصف ہم گرفت۔ والعلم عند اللہ۔ عمر خود دریں بسر کرد بعد رحلت بمحلہ انزمرہ آسودہ و نیزے گوئد کہ بروضہ آنحضرت انوار نبوت جلوہ گرمے باشند و راجہ گوپادت شصت سال و دو ماہ حکومت نمودہ درزشت<۔۷۸
)ترجمہ( راجہ آکھ کے معزول ہونے کے بعد اس کا بیٹا راجہ گو پانند گو پادت کا نام اختیار کرکے حکمران ہوا۔ اس کے عہد حکومت میں بہت سی عمارات تعمیر ہوئیں۔ کوہ سلیمان کی چوٹی پر ایک شکستہ گنبد تھا۔ اپنے وزیروں میں سے ایک شخص سلیمان نامی کو جو پارس سے آیا تھا۔ اس کی تعمیر کے لئے مقرر کیا۔ ہندوئوں نے اعتراض کیا کہ وہ ملیچھ ہے اس وقت حضرت یوز آصف بیت المقدس کی جانب سے وادی اقدس )کشمیر( کی طرف سے مرفوع ہوئے۔ اور آپ نے پیغمبری کا دعویٰ کیا۔ شب و روز عبادت باری تعالیٰ میں مشغول رہے۔ تقویٰ اور پارسائی میں اعلیٰ درجہ پر پہنچ کر خود کو اہل کشمیر کی طرف پیغمبر مبعوث قرار دیا۔ اور دعوت خلائق میں مصروف ہو گئے۔ چونکہ خطہ کشمیر کے لوگ آنحضرت )یوز آصف( کے عقیدت مند تھے۔ راجہ گو پادت نے ہندوئوں کا اعتراض ان کے سامنے پیش کیا۔ اور آنحضرت کے حکم سے سلیمان کو جسے ہندوئوں نے سندیمان کا نام دیا گنبد مذکورہ کی تکمیل کی )۵۴ء تھا( اور اس نے گنبد کی سیڑھیوں پر لکھا۔ اس وقت یوز آصف نے دعویٰ پیغمبری کیا ہے اور دوسری سیڑھی کے پتھر پر یہ عبارت لکھی۔ وہ یسوع پیغمبر بنی اسرائیل ہے )ملانادری کہتے ہیں( ہندوئوں کی ایک کتاب میں میں نے دیکھا ہے کہ آنحضرت بعینہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلٰوۃ والسلام تھے۔ اور یوزآصف بھی نام اختیار کر لیا تھا۔ و العلم عنداللہ اور آپ نے اپنی عمر یہیں بسر کی اور وفات کے بعد موضع انزمرہ میں دفن ہوئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت کے روضہ پر انوار نبوت جلوہ گر ہوتے ہیں۔ راجہ گوپادت نے ۶۰ سال دو ماہ حکومت کرنے کے بعد انتقال کیا۔
‏tav.5.23
‏tav.5.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
حصہ دوم۔ پہلا باب )فصل ہفتم(
کشمیر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت
کشمیر میں پہلا مسلمان جو اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک )۷۰۵ء تا ۷۱۵ء( کے زمانے میں پہنچا۔۷۹`۸۰جہم بن سامہ شامی تھا جو فاتح محمد بن قاسم~رح~ کے سندھ پر حملہ )۷۱۲ء تا ۷۱۵( کے دوران راجہ داہر کے بیٹے جے سیہ )یا جے سنگھ( کے ہمراہ کشمیر میں آیا۔ کشمیر کے حکمران راجہ۸۱ نے جہم بن سامہ کی بہت قدر و منزلت کی اور اس نے وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ چنانچہ شروع ساتویں صدی ہجری کی مستند کتاب >چچ نامہ<۸۲ میں یہ ذکر موجود ہے۔
۷۱۷ء اور ۷۲۰ء کے وسطی زمانے میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے سلیط بن عبداللہ کو تبت اور کشمیر میں تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا )تاریخ یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۲۶۲(]01 [p۸۳
سلیط بن عبداللہ کی آمد کے قریباً چھ سو سال تک یہاں تبلیغ اسلام کی کسی نمایاں جدوجہد کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ البتہ دسویں صدی عیسوی میں ایک مسلمان عرب سیاح ابودلف سعر بن مہلہل بغداد سے ترکستان چین کابل تبت سے ہوتا ہوا کشمیر میں بھی آیا تھا۔۸۴ مگر اس کا سفرنامہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔۸۵
کشمیر کے حالات نے چودھویں صدی عیسوی کے آغاز میں یکایک پلٹا کھایا اور بعض باکمال مسلمان بزرگوں کے روحانی اثر اور بے نفس تبلیغ کے ذریعہ سے پوری ریاست اسلامی نور سے منور ہونے لگی۔ یہ روحانی انقلاب خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے ہوا۔ جس کی بظاہر یہ وجہ ہوئی کہ کشمیر کے راجہ رینچن کو دو مبلغین اسلام حضرت شاہ میر۸۶ اور حضرت بلال شاہ عرف حضرت بلبل شاہ۸۷ نے یکے بعد دیگرے تبلیغ کی اور راجہ صاحب ۱۳۲۷ء میں مع اہل و عیال حضرت بلبل شاہ کے دست حق پرست پر مشرف باسلام ہو گئے۔ اور ملک صدر الدین کے نام سے یاد کئے جانے لگے۔ راجہ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد سرزمین کشمیر اشاعت اسلام کا مرکز بن گئی۔ اور ہر طرف اسلام کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔ راجہ رینچن نے جن کا اسلامی نام صدر الدین قرار پایا تھا ۲ سال ۷ ماہ حکمران رہنے کے بعد ۱۳۲۷ء میں وفات پائی۔ صدر الدین بادشاہ اپنے عہد حکومت میں اشاعت اسلام کے لئے ہمہ تن کوشاں رہا۔
سلطان صدر الدین کی وفات کے بعد ریاستی نظم و نسق میں بدنظمی پیدا ہو گئی اور ۱۳۴۳ء میں حضرت شاہ میر~رح`~ سلطان شمس الدین کے نام سے تخت نشین ہوئے۔ آپ نے بلا تفریق مذہب و ملت تمام رعایا سے مالیہ سرکاری دسویں حصہ کی بجائے پانچواں حصہ مقرر کر دیا۔ ریاست میں بکرمی سمت موقوف کرکے نیا سنہ جاری کیا۔ جس کی ابتداء راجہ رینچن )سلطان صدر الدین( کی تاجپوشی کے وقت سے شروع کی۔ شاہان مغلیہ کے زمانے تک یہ سنہ کشمیری سنہ کے نام سے رائج رہا۔ ۱۳۴۷ء میں آپ دار فانی سے گزر گئے۔۸۸ آپ کے زمانے میں اسلامی حکومت مستحکم بنیاد پر قائم ہو گئی۔ سلطان جمشید کے عہد حکومت ۴۸۔ ۱۳۴۷ء میں بعض صاحب کرامات بزرگ ہوئے جن کا زہد و اتقا زبان زد خلائق تھا۔ اور کرامات سے کشمیر میں اشاعت اسلام کی رفتار پہلے سے تیز ہو گئی۔۸۹]4 [rtf
۱۳۷۲ء۹۰ میں یعنی سلطان شہاب الدین~رح~ کی حکومت )۱۳۶۰ء تا ۱۳۷۸ء( کے آخر میں امیر کبیر حضرت سید علمی ہمدانی~رح~ پہلی بار ہمدان سے تشریف لائے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس تشریف لے گئے پھر ۱۳۷۹ء میں )جبکہ سلطان قطب الدین~رح~ جیسا عادل` منصف اور رعایا پرور بادشاہ تخت نشین تھا۔ سات سو۹۱ مریدوں کے ہمراہ دوبارہ کشمیر تشریف لائے۔ اور کشمیر کے طول و عرض میں تبلیغی نظام قائم کر دیا۔ مساجد تعمیر کرائیں` مدارس قائم کئے اور ہر شہر میں معلمین و مبلغین کی ایک جماعت متعین فرمائی ۷۸۳ھ بمطابق ۱۳۷۲ء میں آپ بہت سے فقراء اور صوفیاء کو لے کر گلگت اور لداخ تشریف لے گئے اور تمام علاقے میں دورے کرکے تبلیغ اسلام فرماتے رہے۔۹۲
جن مبلغین اور داعیان اسلام نے آپ کی زیر نگرانی کشمیر میں تبلیغی فرائض انجام دیئے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ میر حسین سمنائی~رح`~ سید جمال الدین~رح`~ سید کمال الدین~رح`~ سید جمال الدین علائی~رح`~ سید فیروز~رح`~ سید محمد کاظم ملقب بہ سید قاضی` سید رکن الدین~رح`~ سید فخر الدین~رح`~ شیخ محمد قریشی~رح`~ سید مراد~رح`~ سید عزیز اللہ~رح`~ شیخ احمد قریشی~رح`~ حاجی محمد~رح`~ شیخ سلیمان~رح~۔ ان بزرگوں نے حضرت شاہ ہمدان~رح~ کے زیر ہدایت کشمیر کے مختلف مقامات کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا` خانقاہیں بنائیں جہاں مبلغین تیار ہوتے تھے۔ مساجد اور مدارس تعمیر کئے اور لنگر خانے جاری کئے۔ ان مبلغین کے علاوہ شاہ ہمدان~رح~ کے بھانجے سید احمد اندرابیہ کے بعض مشہور مبلغوں کے نام یہ ہیں۔ سید محمد اندرابی~رح`~ سید محمد ابراہیمؑ اندرابی` سید شمس الدینؑ` سید محمد میرکؑ اندرابی` سید محمد طاہرؑ` سید محمد افضلؑ` قطب العالمؑ` سید محمد عنایت اللہ~رح~ اندرابی` حاجی سید عتیق اللہ شہید~رح~ اندرابی` سید کمال الدین اندرابی~رح~۔۹۳
۱۳۹۴ء میں یعنی سلطان سکندر کی تخت نشینی کے پہلے سال حضرت امیر کبیر علی ہمدانی~رح~ کے نوجوان فرزند سید میر محمد ہمدانی بعمر ۲۲ سال تین سو رفقاء سمیت وارد کشمیر ہوئے اور بارہ سال )ایک روایت کے مطابق بائیس سال تک( کشمیر میں مصروف تبلیغ رہے۔ پروفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے کہ کشمیر میں میر ہمدانی کے آنے پر اس تیزی اور وسعت سے اسلام پھیل گیا۔ کہ ملک میں چند لوگ مسلمان ہونے سے رہ گئے اور جوں جوں لوگ مسلمان ہوتے گئے اپنے مندروں کو مسجدیں بناتے گئے۔
سلطان سکندر کے بعد ۱۴۱۷ء میں سلطان علی شاہ اور ۱۴۲۳ء میں سلطان زین العابدین عرف بڑ شاہ تخت نشین ہوا۔ اس علم نواز` انصاف پرور اور مساوات پسند مسلم فرمانروا کے زمانے میں کشمیر نے ہر لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی اور اس کا وجود مسلمان اور ہندو بلکہ پوری رعایا کے لئے سایہ رحمت ثابت ہوا اور ملک کی کایا پلٹ گئی۔
اس کے عہد حکومت میں ملک کشمیر علوم و فنون کا گہوارہ بن گیا۔ اور کشمیر کی شہرت ہندوستان سے گزر کر بلخ بخارا` خراسان اور ایران تک جا پہنچی اور علماء و فضلا خود بخود اس کے دربار میں کھنچے چلے آئے اور یہیں زندگی بسر کرنے لگے۔ ملک الشعراء ملا احمد کشمیری جیسے شاعر و مناظر اور ملا نادری جیسے مورخ اسی زمانے میں ہوئے ہیں۔۹۴ سلطان زین العابدین کے زمانہ میں کشمیر شریعت اسلامیہ کی پابندی کے لئے خاص طور پر مشہور ہوا۔ اور جس قدر علماء و مشائخ اس دور میں نظر آتے ہیں کسی بادشاہ کشمیر کے زمانے میں دکھائی نہیں دیتے۔ چند بزرگوں کے نام یہ ہیں۔ شیخ الاسلام مولانا کبیر` قاضی القضاۃ ملا جلال الدین~رح`~ حافظ بغدادی~رح`~ میر علی بخاری~رح`~ علامہ سید شمس الدین اندرابی~رح`~ سید حسین قمی رضوی~رح`~ بابا حاجی ادھم~رح`~ سید محمد مدنی` سید محمد عالی بلخی` میر سید حسن و میر سید حسین منطقی سید جان بازولی` بابا زین الدین~رح`~ بابا عثمان گنائی~رح`~ شیخ بہاء الدین گنج بخش~رح`~ شیخ نور الدین ولی~رح`~ میر سید محمد امین اویسی~رح`~۹۵ سلطان زین العابدین~رح`~ )متوفی ۱۴۷۴ء( کے عہد تک جن مبلغین اسلام کا تذکرہ کیا جا چکا ہے ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگ وقتاً فوقتاً کشمیر میں تبلیغ کے فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔ جن میں سے میر شمس الدین عراقی` شیخ محمد حمزہ~رح`~ مخدوم خواجہ طاہر~رح~ سہروردی` شاہ فرید الدین قادری~رح`~ میر عبدالرشید بیہقی~رح~۔۹۶ خواجہ محمد اعظم~رح`~ مولف >تاریخ اعظمی`< شیخ بہاء الدین گنج بخش~رح`~ شیخ نور الدین ولی~رح`~ مولانا محمد کمال~رح`~ )استاد حضرت مجدد الف ثانی~رح`(~ شاہ نعمت اللہ کشمیری~رح~ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۹۷4] ftr[
کشمیر میں اسلامی حکومت قریباً پانچ سو سال تک قائم رہی ۱۳۲۵ء سے ۱۳۴۴ء تک شاہان زمانہ بے استقلالی ۱۳۴۳ء تا ۱۵۵۴ء سلاطین کشمیر۔ ۱۵۵۴ء سے ۱۵۸۶ء تک خاندان چک۔ ۱۵۸۶ء سے ۱۷۵۲ء تک شاہان مغلیہ اور ۱۷۵۳ء سے ۱۸۱۹ء تک افغان برسر اقتدار رہے۹۸ اور آخری مسلمان بادشاہ شجاع الملک تھا۔
اسلامی عہد حکومت کی مذہبی تاریخ پر روشنی ڈالنے کے بعد بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ مسلم سلاطین کشمیر کے بعد اہل کشمیر کو خوشحال بنانے اور ملک کی علمی` ثقافتی اور مادی ترقی و بہبود میں مغل بادشاہوں نے گہری دلچسپی لی ہے۔ چنانچہ فرانسیسی سیاح ڈاکٹر برنیئر جو حضرت اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہ میں اس برصغیر میں سیر و سیاحت کر رہا تھا۔ مسلم کشمیر کی نسبت لکھتا ہے۔
دوسرے ممالک کی نسبت کشمیر میں علم و فضل کی فراوانی ہے۔ ادبیات اور حکمت سے یہاں کے لوگ کافی واقف ہیں صنعت و حرفت میں بھی یہ کسی سے کم نہیں۔ کشمیر جنت نظیر ہے سارا ملک سرسبز و شاداب اور سدا بہار باغ کی طرح ہے ۔۔۔۔۔۔ اور کشمیری ہر طرح سے سکھی ہیں<۔۹۹
پیٹرس جیروس جہانگیری دور کے کشمیر کا حال مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
>اکبر کا جانشین جہانگیر تھا۔ جسے اپنی سلطنت میں سب سے زیادہ عزیز کشمیر تھا۔ وہ کشمیر میں باغ لگانے والے کے نام سے مشہور ہے۔ کشمیر میں اس کے لگائے ہوئے جو باغ اب تک مشہور ہیں۔ وہ شالیمار باغ` نسیم باغ اور نشاط باغ ہیں۔ ہر ایک میں حیرت انگیز شہ نشین اور چبوترے بنے ہوئے ہیں جہاں فواروں سے ٹھنڈا پانی دھار باندھ کر نکلتا ہوا جھرنوں سے گرتا اور مرمرین ڈھلانوں پر جھلملاتا جاتا ہے۔ وادی کے طول و عرض میں جو دیوزاد اور پرشوکت چنار نظر آتے ہیں وہ بھی جہانگیر نے لگائے تھے۔۱۰۰
رائو بہادروی۔ پی مینن )بھارتی امور ریاست کے سابق سیکرٹری( اپنی تصنیفstates> Indian The of Integration <The میں لکھتے ہیں۔
دو سو سال تک کشمیر مغلوں کا گرمائی صدر مقام رہا۔ مغلوں کے آثار و نقوش قلعہ ہری پربت` شالیمار باغ` نشاط باغ` اچھابل اور ویری ناگ میں اب تک موجود ہیں۔ چنار کے بلند و بالا درخت جو ہر جگہ نظر آتے ہیں انہیں کی یادگار ہیں۔۱۰۱
‏20] p[
فصل ہشتم
کشمیر سکھ عہد حکومت میں
افسوس مغلیہ دور کی پرعظمت اور انمول وراثت کو بعد کے حکمرانوں نے حتی الوسع برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مسلمانوں کے ستارہ عروج کے زوال پر عنان اقتدار ۱۸۱۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے ہاتھ میں آگئی۔ مہاراجہ صاحب کے بعد ان کے جانشینوں نے مارچ ۱۸۴۶ء تک حکومت کی اس دور میں مسلمانوں کی رواداری کا بدلہ اس رنگ میں دیا گیا۔ کہ ان کی مساجد اور قلعے مسمار کئے گئے اور جن عمارتوں کو دیکھ کر انسانی عقل حیرت میں پڑ جاتی تھی۔ وہ اصطبلوں میں بدل دی گئیں اور وادی کشمیر میں اذان دینے کی سزا زبان کاٹنا قرار دی گئی۔
چنانچہ پیٹرس جیروس لکھتا ہے۔ > حکومت کی مسلح فوجیں تمام تندرست مردوں کو پکڑ دھکڑ کر دور دراز علاقوں میں طویل عرصوں تک بطور قلی کام کرنے کے لئے بھیج دیتیں۔ اکثر وہ کبھی واپس نہ آتے۔ کھیتی باڑی کا کام بوڑھے مرد اور عورتیں` جیسے بن پڑتا کرتیں۔ نوجوان عورتوں نے خود کو برقعوں میں چھپا لیا۔ اور لڑکوں کا وہی حشر ہوا۔ جو صدہا سال پہلے کورنتھ میں ان کے بھائیوں کا ہوا تھا۔ پھر سے ہزاروں لوگ کشمیر سے بھاگ گئے۔ اب کی دفعہ بھاگنے والے مسلمان تھے<۔۱۰۲
یورپین سیاح ولیم مور کریفٹ )جس نے ۱۸۲۴ء میں کشمیر کا سفر کیا تھا( لکھتا ہے۔
>سکھ کشمیریوں کو مویشیوں سے کسی طرح بہتر نہ سمجھتے تھے۔ اگر کوئی سکھ کسی کشمیری کو قتل کر دے تو اس کی سزا سولہ سے بیس روپے تک جرمانہ تھی۔ جس میں سے چار روپیہ مقتول کے ورثاء کو دیئے جاتے تھے اگر وہ ہندو ہو۔ اور دو روپے دیئے جاتے تھے اگر وہ مسلمان ہو<۔۱۰۳
فضل احمد صاحب صدیقی ایم۔ اے مدیر >ڈان< اپنی کتاب >خوننابہ کشمیر< صفحہ ۱۶ تا ۱۹ میں سکھ عہد حکومت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>مسلمانان کشمیر پر سکھوں کی کرم فرمائیاں انتہائی شرمناک حد تک پہنچی تھیں۔ اذان دینا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ بیشتر مساجد اراضی نزول قرار دے دی گئی تھیں۔ شاہ ہمدان جیسے جلیل القدر برزگ کے خانقاہ کے انہدام کے احکام جاری ہو گئے تھے۔ بربنائے ایں مفروضہ کہ ۱۲۰۰ سال پہلے اس خانقاہ کی جگہ کوئی شری کالی مندر تھا ۔۔۔۔۔۔ گائے کی قربانی کے الزام میں غریب مسلمان سری نگر کے بازاروں میں حقیر جانوروں کی طرح گھسیٹ گھسیٹ کر مار ڈالے گئے۔ انہی سفاکیوں سے تنگ آکر بے شمار کشمیری گھرانے ہجرت پر مجبور ہوئے اور پنجاب۔ یو پی۔ اور دیگر مقامات میں جابسے<۔۱۰۴۔ ۱۰۵
فصل نہم
کشمیر میں ڈوگرہ راج
وادی کشمیر کے ستم رسیدہ اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم و بربریت اور جبر و تشدد کا اس سے بھی زیادہ ہولناک دور ۱۶/ مارچ ۱۸۴۶ء کے منحوس دن سے شروع ہوا جبکہ انگریزی حکومت نے پچھتر لاکھ روپیہ ایک گھوڑا` بارہ بکریوں اور چھ جوڑا شال سالانہ خراج کے بدلے کشمیر اور دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کا تمام پہاڑی علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے >جانشین ہائے نرینہ< کو دے دیا۔
یہ سودا ایک تحریری معاہدہ کی رو سے ہوا جو معاہدہ امرتسر کہلاتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ خرید و فروخت محض فرضی اور دکھاوے کی تھی کوئی رقم لی دی نہیں گئی۔ اب خواہ مذکورہ سودا فرضی ہو یا واقعی بہرکیف یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر میں ڈوگرہ حکومت انگریزوں کی مہربانی سے قائم ہوئی تھی۔ اور اس طرح کشمیر کے لکھوکھا مسلمان عملاً فروخت کئے گئے اور غلام بنا دیئے گئے۔
اس زمانے میں کشمیر کی مرکزی وادی کو چھوڑ کر کشمیر کا ملک چار بڑی ریاستوں میں منقسم تھا۔ جو اپنی طاقت` اثر اور وسعت کے لحاظ سے دوسری چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے نمایاں تھیں اور یہ چاروں کی چاروں بڑی ریاستیں مسلمان تھیں اور ان کے رئیس اپنے اپنے علاقہ میں خود مختار رئیس تھے۔ ان میں سے ایک ریاست بھمبر تھی جو موجودہ اضلاع گجرات اور جہلم کی حدود کے ساتھ ملتی تھی۔ دوسری ریاست راجوری تھی۔ تیسری کرناء اور چوتھی کشتواڑ۔ راجہ گلاب سنگھ صاحب ایک زیرک آدمی تھے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ کشمیر کی مرکزی وادی چاروں طرف سے اسلامی ریاستوں میں گھری ہوئی ہے۔ تو انہوں نے ان ریاستوں کو مٹا کر کشمیر میں صرف ایک ڈوگرہ سلطنت قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اور چونکہ انگریزی حکومت ان کی پشت پناہ تھی اس لئے وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے چاروں اسلامی ریاستوں کو ختم کرکے مرکزی حکومت کشمیر میں شامل کر لیا۔ کشمیر کی اور مسلمان ریاستوں کے بہت ہی قلیل عرصہ میں نابود ہو جانے پر ان کے پسماندگان میں سے کچھ تو اپنے ہی ملک میں دربدر خاک چھاننے پر مجبور ہو گئے اور کچھ اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے ہندوستان کے مختلف مقامات میں پناہ گزین ہو گئے۔۱۰۶
مہاراجہ گلاب سنگھ صاحب نے اپنے ناروا عزائم کی تکمیل کے لئے مسلمان نوابوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے؟ اس بارے میں شیخ غلام حیدر چشتی بانی رکن ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں لکھتے ہیں۔ >گلاب سنگھ بے حد سفاک` ظالم` بے رحم اور حریص راجہ تھا۔ اس نے جموں کی حکومت سنبھالتے ہی ۔۔۔۔۔۔ بھمبر` پونچھ` میرپور` راجوری اور کشتواڑ وغیرہ کے مسلمان حکمرانوں کو مکر و فریب سے قابو میں لا کر کسی کو >درگ< میں ڈالا جو کنوئوں کی شکل کا ایک گڑھا ہوتا تھا جس میں دشمن کو ڈالا جاتا تھا( کسی کی آنکھیں نکلوائیں اور کسی کو سامنے کھڑا کرکے کھال اتروا دی۔ چنانچہ پونچھ کے ایک مسلمان راجے کو گرفتار کرکے گلاب سنگھ کے سامنے لایا گیا۔ تو اس نے راجے کی کھال اتارنے کا حکم دیا۔ کھال سر کی طرف سے اتارنے میں دماغی صدمے سے آدمی جلد مر جاتا ہے۔ اور اسے کم اذیت ہوتی ہے لیکن پائوں کی طرف سے اتارنے میں آدمی دیر تک زندہ رہتا ہے۔ اور مرنے سے پہلے زیادہ دیر تک اذیت اٹھاتا ہے گلاب سنگھ کا ایک بیٹا بھی اس وقت موجود تھا۔ جب مظلوم راجے کی کھال ٹانگوں سے اوپر ادھیڑی جا چکی تو اس دردانگیز نظارے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے منہ ایک طرف پھیر لیا۔ گلاب سنگھ نے بیٹے کی گردن پکڑ کر یہ کہتے ہوئے اس کا منہ مظلوم راجے کی طرف پھیردیا۔ کہ اگر یہ بزدلی دکھائو گے تو حکومت کیسے کرو گے<۔
جب کھال چھاتی تک اترچکی تو بہادر مسلمان راجہ نے جس کے حواس اس وقت تک بجا تھے پہلے پانی پینے کی اور پھر بیوی بچوں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن گلاب سنگھ نے اس کی اس خواہش کو مسترد کر دیا جب کھال گردن تک اتر چکی تو راجہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی<۔]01 [p۱۰۷`۱۰۸
مہاراجہ گلاب سنگھ صاحب کے اگست ۱۸۵۷ء۱۰۹ میں اس جہان سے رخصت ہو جانے کے بعد راجہ رنبیر سنگھ یارندھیر سنگھ حکمران ہوئے تو مسلمانوں کو کچھ سکون حاصل ہوا۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب ہی کے زمانے میں ۷۷۔ ۱۸۷۶ء کے قریب حاجی الحرمین حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب طبیب شاہی کی حیثیت سے کشمیر تشریف لے گئے۔ اور آپ نے عظیم الشان طبی خدمات انجام دیں۔ آپ کا وجود باجود نہ صرف کشمیری مسلمانوں کے لئے آیہ رحمت بن گیا۔ بلکہ پچاس سالہ تعطل کے بعد تبلیغ اسلام کا موقع بھی پیدا ہو گیا۔۱۱۰
۱۲/ ستمبر ۱۸۸۵ء کو مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب فوت ہو گئے۔ اور مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب ان کے جانشین ہوئے۔ کہا گیا ہے کہ یہ راجہ جی بڑے کٹر ہندو تھے۔ اور کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے پروہت زدہ تھے کہ پنڈتوں سے مشورہ کئے بغیر کوئی فیصلہ ہی نہ کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت لوگ جو مسلمانوں کے سخت دشمن اور ان پر ظلم و ستم ڈھانے کے خوگر چلے آتے تھے مگر مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کی عدل پسند طبیعت کی وجہ سے وقتی طور پر ظلم آرائی سے رکے ہوئے تھے۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کو شہ ملی اور وہ پوری کشادہ دلی سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے میں مشغول ہو گئے۔
چنانچہ رسالہ >پنجاب ریویو< )مارچ ۱۸۸۷ء( نے اہل کشمیر کی حالت زار کا دردناک نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا۔ >کشمیر کی حالت افریقہ کے وحشیوں کی حالت سے ذرا بھی کم نہیں اور اگر اور بھی سچ پوچھنا چاہتے ہیں تو ان بدنصیب معتوبوں گویا ازلی سیاہ بختوں پر تو نہ آج بلکہ ہمیشہ ہی سے آفت رہی ہے<۔
>دربار جموں و کشمیر ایک ایسا دربار ہے کہ جہاں چھانٹ چھانٹ کے متعصب لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں<۔ کرنل اے ڈیورنڈ اپنی کتاب >میکنگ آف اے فرنٹیر< میں ڈوگرہ مظالم کا ذکر یوں کرتا ہے۔
>تمام افسر اور سپاہی یا تو ڈوگرہ قوم سے ہیں یا دوسرے ہندوئوں سے کہ جنہیں کشمیریوں سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں۔ سپاہی مزدوروں سے کتوں کا سا سلوک کرتے اور انہیں اس طرح پیٹتے تھے جیسے کوئی بوجھ اٹھانے والے جانوروں کو پیٹتا ہے<۔۱۱۱
ایک غیر ملکی سیاح مسٹر ای` ایف نائٹ رکن مہم کرنل ڈیورنڈ نے ۱۸۹۱ء میں کشمیر کے دیہاتی مسلمانوں کی دردناک حالت کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
>جب کشمیر کے بے گاری سرینگر سے گلگت تک سامان رسد لے جانے کے لئے لگائے جاتے ہیں تو ان کی حالت قابل رحم ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بیگاری گلگت کی سنگلاخ اور دشوار گزار راہوں پر منوں بوجھ اٹھا کر برے صبر کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ اور گلگت ایسے بے برگ و گیاہ اور برفانی خطے میں )کشمیری( سامان رسد پہنچاتے ہیں۔ ان میں سے کئی بھوک` پیاس اور تھکاوٹ سے چور ہو کر پگڈنڈیوں پر ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ اور سینکڑوں نیم عریانی کے باعث برفانی سردیوں کی تاب نہ لا کر مر جاتے ہیں۔ جب کسی شخص کو اس کے گائوں میں بیگار کے لئے پکڑا جاتا ہے تو گھروں میں کہرام مچ جاتا ہے اس کے بیوی بچے چیختے اور چلاتے ہیں اور اس بدنصیب انسان سے چمٹ جاتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اب وہ اس کی صورت دوبارہ نہیں دیکھیں گے<۔۱۱۲
جہاں حکومت کے افسروں کی طرف سے مسلمانوں پر ایسے ظلم و ستم کئے جاتے ہیں۔ وہاں حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحبؓ جیسے حامی اسلام و المسلمین اور اظہار حق میں کسی بڑی سے بڑی قوت سے بھی مرعوب نہ ہونے والے مرد خدا کو زیادہ دیر تک کہاں برداشت کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ یہی ہوا اور مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب نے پنڈتوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ستمبر ۱۸۹۲ء کو آپ پر >گائو کشی< کا الزام لگا کر دو دن کے اندر اندر کشمیر چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔ )ملاحظہ ہو اخبار >سر مور گزٹ< ۱۶/ ستمبر ۱۸۹۲ء صفحہ ۲ کالم ۲(۱۱۳
حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحبؓ کے ریاست سے چلے آنے کے بعد مسلمانوں پر یہ حقیقت کھلی کی ریاست کشمیر میں مسلمانوں کو ملازمتوں سے برطرف یا ریاست سے نکلوا دینے کی منظم سازش کی جارہی ہے۔
چنانچہ راولپنڈی کے مشہور اخبار >چودھویں صدی< نے ۲۳/ جولائی ۱۸۹۵ء کو >مسلمانان کشمیر کی حق تلفی کا اصلی سبب< کے عنوان سے مضمون لکھ کر اس امر کا پہلی بار انکشاف کیا کہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق مسلمانوں کو ان کے عہدوں اور ملازمتوں سے محروم کیا جارہا ہے۔۱۱۴
حضرت خلیفہ اولؓ پر ایک انکشاف
ضمناً یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت مولانا حکیم نور الدینؓ کے ریاست کشمیر سے واپس آجانے کے ایک عرصہ بعد آپ پر اللہ تعالیٰ کی ¶طرف سے یہ عجیب انکشاف ہوا کہ کشمیر اور ہمالیہ کے دامن میں آباد مسلم آبادی کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے جس کا اظہار حضور نے مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سے بھی فرمایا۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب کی روایت کے مطابق حضور نے ارشاد فرمایا۔
>ساری رات میں جاگتا رہا اس غم و فکر میں کہ مسلمانوں کی نجات کیسے ہو گی۔ دجالی فتنہ شدت سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی کئی حکومتیں برباد ہو گئی ہیں۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔ تھوڑے وقفہ کے بعد حسرت بھرے لہجے میں فرمایا۔ قرآن مجید میں جو آیا ہے تکاد السموت یتفطرن منہ و تنشق الارض و تخر الجبال ھدا۱۱۵ پورا ہو گیا بہت ہی بڑا فتنہ جس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پھر فرمایا خدا کا کلام پر حکمت ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی علاج بھی سمجھا دیا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ ہے آپ نے کوہ ہمالیہ سے شروع کرتے ہوئے بلوچستان اور ڈیرہ غازی خان کے سب پہاڑی سلسلے گنے اور فرمایا۔ ان پہاڑی قوموں کے اندر کوئی جائے اور ان میں زندگی پیدا کرے تو شاید ان میں حرکت پیدا ہو اور مسلمانوں کا بقیتہ|الباقیہ کسی طرح بچ جائے<۔۱۱۶
مہاراجہ کشمیر کی طرف سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کا پروگرام
اوپر اخبار >چودھویں صدی< کے احتجاج کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس احتجاج کا رد عمل کیا ہوا۔ کشمیری پنڈتوں نے مسلمانوں کی زندگی تو پہلے ہی تلخ اور دوبھر بنا رکھی تھی۔ اب اس میں اور شدت اختیار کر لی اور خصوصاً بکسر والوں پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ دوسرے سرکاری ذرائع سے مسلمانان کشمیر کو شدھ کرنے کا پروگرام بھی بنا لیا۔ چنانچہ ۱۹۲۳ء میں جب ہندوئوں نے بے علم مسلمان راجپوتوں )ملکانہ( کو مرتد کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ تو مہاراجہ کشمیر پرتاب سنگھ صاحب نے اس کی پشت پناہی کی۔۱۱۷
جو مہاراجہ اور پنڈت ریاست کشمیر سے بہت دور دوسری حکومت کے علاقوں میں شدھی کا جال بچھانے کے لئے اتنے سرگرم ہوں وہ خود اپنی ریاست و حکومت میں کیا کچھ نہ کر رہے ہوں گے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی رائے میں تو ۷۱۔ ۱۸۶۱ء سے کشمیر میں شدھی کی سکیم بنائی گئی تھی لیکن اس سکیم کے نفاذ کا نمایاں زمانہ ۱۹۲۳ء ہی ہے جموں کے بعض اصحاب کا بیان ہے کہ شدھی کے زمانے میں مشہور مہا سبھائی لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ مہاراجہ کشمیر کے پاس پہنچے اور ارتداد )شدھی( کے لئے سب سے پہلے اودھم پور کا ضلع اور پھر باقی ریاست تجویز کی۔
جموں کے ممتاز سیاسی لیڈر جناب چوہدری غلام عباس صاحب >کشمکش< میں لکھتے ہیں کہ اس وقت ریاست کے بعض علاقوں میں ہندوئوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی۔ >پہاڑی علاقوں میں اس وقت ایک اجنبی کے لئے ہندو اور مسلمان میں تمیز کرنا بے حد مشکل بات تھی۔ ان مسلمانوں کی رسوم وضع قطع اور لباس حتیٰ کہ عام عادات بھی ہندوانہ تھیں۔ گھر گھر میں مورتیاں تھیں جن کو یہ مسلمان پوجتے اور ان سے مرادیں مانگتے تھے<۔۱۱۸
جموں شہر میں جہاں ہندوئوں کی اکثریت تھی ینگ مینز ایسوسی ایشن اور انجمن اسلامیہ کے نام سے مسلمانوں کی دو انجمنیں قائم تھیں۔ اور سرینگر میں انجمن >نصرت الاسلام<۔ >انجمن اسلامیہ< اور انجمن >ہمدرد اسلام< وغیرہ تھیں۔ مگر شدھی کے زمانے میں اس فتنہ کی روک تھام میں پرجوش اور نمایاں حصہ صرف جموں کی انجمنوں >)انجمن اسلامیہ< اور >ینگ مینز ایسوسی ایشن(< ہی نے لیا۔ انہوں نے جماعت احمدیہ قادیان اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے علماء و مبلغین بلوائے اور ہندو دھرم کے خلاف اور اسلام کی حقانیت میں کامیاب لیکچر دلوائے چنانچہ ماہ مارچ ۱۹۲۴ء کے آخری ہفتہ میں انجمن اسلامیہ جموں کے جلسوں میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مفتی محمدصادق صاحب کے نہایت کامیاب لیکچرار ہوئے۔۱۱۹
اگلے سال انجمن اسلامیہ جموں کے جلسہ میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے شمولیت فرمائی۔ حضرت حافظ صاحب کا لیکچر ۲۱/ مارچ ۱۹۲۵ء کی شام کو >حقیقت اسلام< کے موضوع پر ہوا۔ اور حضرت مولوی نیر صاحب نے ۲۲/ مارچ ۱۹۲۵ء کو >کتاب مبین< کے موضوع پر تقریر فرمائی۔۱۲۰
>انجمن اسلامیہ< سے زیادہ >مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن< نے اس تنظیم کے سرگرم ممبروں میں شدھی کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا۔ جناب چوہدری نواب خان صاحب )والد ماجد جناب چوہدری غلام عباس صاحب( اور مستری یعقوب علی صاحب جیسے مستعد اور مخلص احمدی بھی شامل تھے۔ ایسوسی ایشن کے جلسے انجمن اسلامیہ کے جلسوں کی نسبت زیادہ بارونق اور دلچسپ ہوتے تھے۔ اور اس کے سٹیج پر بھی احمدی مبلغین نے تقریریں کیں مثلاً ینگ مینز ایسوسی ایشن کے پہلے سالانہ جلسہ پر جناب چوہدری غلام عباس صاحب کی دعوت پر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحبؓ نے بھی تقریر فرمائی۔۱۲۱
ایسوسی ایشن کا یہ پہلا جلسہ بہت کامیاب رہا۔ چنانچہ چوہدری غلام عباس صاحب لکھتے ہیں۔ >مسلمانوں کے سینوں میں ایک غیر مرئی جوش و ہیجان پیدا ہو گیا۔ ان کی مدتوں سے بے حس رگوں میں خون تیزی سے دوڑنے لگا۔ جلسہ کے اختتام پر ایسوسی ایشن کی پوزیشن کو چار چاند لگ گئے اور کارکنان ایسوسی ایشن عوام کی توجہ کا مرکز اور ان کے سیاسی مستقبل کی امید بن گئے<۔۱۲۲
ان ابتدائی جلسوں کے بعد بھی جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان سے آریوں کا رد کرنے اور حقانیت اسلام ثابت کرنے کے لئے بار بار مبلغ جاتے رہے۔ مثلاً ۱۹۲۶ء اور ۱۹۲۹ء میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور فاضل سنسکرت مہاشہ محمد عمر صاحب مولوی فاضل نے انتہائی مخالف ماحول میں جموں اور کوٹلی میں لیکچر دیئے۔۱۲۳ ۱۹۳۰ء کے قریب جموں اور بھمبر میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے اسلامی انجمنوں کے جلسوں میں تقریریں فرمائیں۔۱۲۴ جولائی ۱۹۳۱ء میں ابو البشارت مولوی عبدالغفور صاحبؓ` گیانی واحد حسین صاحب` ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ بی۔ اے اور مولوی عبدالاحد صاحب جماعت احمدیہ پونچھ کے سالانہ جلسہ میں شامل ہوئے۔۱۲۵
۱۹۳۲ء میں ریاستی کوائف آتش فشاں پہاڑ کی مانند لاوا پھینکنے پر تیار ہو چکے تھے۔ آریوں نے سخت اشتعال پھیلا رکھا تھا اور ریاست کا حکمران طبقہ مسلمانوں کو کچل دینے کا تہیہ کر چکا تھا مگر ان مخدوش حالات کے باوجود قریشی محمد نذیر صاحب فاضل و مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل احمدی مبلغ جموں میں پہنچے اور آریوں کے اعتراضات کی دھجیاں اڑا دیں۔
ان مرکزی مبلغین احمدیت کے علاوہ مولوی عبدالواحد صاحب` مولوی فاضل ناسنور` مولوی نظام الدین صاحب` مولوی سید محمد یوسف شاہ صاحب` مولوی فاضل اور مولوی محمد حسین صاحب نے جو ریاست میں احمدی مبلغ تھے۔ کشمیر اور پونچھ میں فتنہ و ارتداد کا مقابلہ کیا۔ ان مجموعی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل و کرم سے ملکانہ قوم کی طرح اہل کشمیر بھی شدھی کے سیلاب کی زد سے بچ گئے۔
کشمیر سے افغانستان تک ہندو راج قائم کرنے کی سازش
لیکن مہاراجہ پرتاپ سنگھ اور کشمیر کے پنڈتوں کے ناروا و خطرناک عزائم اسی حد تک محدود نہ تھے بلکہ وہ ہندوستان کے دوسرے مہاسبھائیوں۱۲۶ اور جن سنگھیوں کے دوش بدوش سارے ہندوستان اور کشمیر میں بھی ہندو راج قائم کرنے کی زبردست سازش میں مصروف تھے اور یہ سازش جو پہلے اندر ہی اندر رواں دواں تھی ۱۹۲۵ء میں پوری طرح کھل کر سامنے آگئی۔
چنانچہ ہندو اخبار >ملاپ< لاہور نے )جو آگے چل کر مسلمانان کشمیر کی تحریک آزادی میں مہاراجہ کشمیر کی تائید اور مسلمانوں کی مخالفت میں پراپیگنڈہ کے لئے موقف ہو گیا تھا( ۱۵/ مئی ۱۹۲۵ء کو ایک مضمون شائع کیا جس میں لکھا کہ۔
>ہم بھی ایک نیا گل کھلائیں گے اور اس گل کی مہک کابل سے کلکتہ اور کشمیر سے راس کماری تک پھیل جائے گی۔ یہ گل ہندو سنگھٹن اور خصوصاً پنجابی ہندوئوں کا سنگھٹن ہے اس سے ہندو ریاست قائم ہو گی پورن شدھی ہوگی اور افغانستان اور سرحد کی فتح ہو گی یہ سب معجزے اور کرامات آئندہ ظہور میں آئیں گے<۔
نیز لکھا۔
>جب ہندو سنگھٹن کی طاقت سے سوراجیہ لینے کا وقت قریب آئے گا تو ہماری جو نیتی )پالیسی( مسلمانوں و عیسائیوں کی طرف ہوگی اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس وقت باہمی سمجھوتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ ہندومہا سبھا صرف اپنے فیصلہ کا اعلان کر دے گی کہ نئی ہندو ریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے فرائض اور حقوق کیا ہوں گے۔ اور ان کی شدھی کی کیا شرائط ہوں گی<۔۱۲۷
مہاراجہ پرتاپ سنگھ صاحب کے ستمبر ۱۹۲۵ء میں لاولد فوت ہو جانے پر جب ان کے بھتیجے سرہری سنگھ صاحب بہادر مہاراجہ کشمیر ہوئے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۳۱ء میں فرمایا کہ >ہم سب کو اس بات کی امید تھی۔ کہ سرہری سنگھ بہادر مہاراجہ کشمیر کے گدی نشین ہونے پر ریاست کی حالت اچھی ہو جائے گی لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وجہ سے کہ ریاست میں ایک ایسا عنصر اس وقت غالب ہو رہا ہے جو نہایت ہی متعصب ہے اور آریہ راج کے قائم کرنے کے خیالی پلائو پکا رہا ہے۔ یہ عنصر چونکہ مہاراجہ صاحب بہادر کے گردوپیش رہتا ہے اور ریاست کی بدقسمتی سے اس وقت ریاست کے سیاہ و سفید کا مالک بن رہا ہے۔ اس لئے مہاراجہ صاحب بہادر جموں و کشمیر بھی یا تو اس عنصر کے بڑھے ہوئے نفوذ سے خوف کھا کر یا بوجہ ناواقفیت کے ان کی پالیسی کو نہ سمجھتے ہوئے کسی مخالف آواز کے سننے کے لئے تیار نہیں ہیں<۔۱۲۸
کشمیری قوم اپنی فطری صلاحیتوں اور قدرتی استعدادوں کے لحاظ سے نہایت زرخیز دماغ لے کر پیدا ہوئی ہے یہ وہ قوم ہے جس نے حضرت مولانا عبدالکریمؓ سیالکوٹی جیسے >مسلمانوں کے لیڈر< حضرت مولانا سید محمد سرور شاہؓ جیسے شیر خدا` مولانا جلال الدین شمس جیسے مبلغ و مناظر` خواجہ کمال الدین جیسے وکیل اور مشنری` خواجہ غلام نبی و سید حبیب جیسے صحافی` ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال جیسے نامور فلسفی و شاعر` نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ جیسے محب وطن` نواب اعظم یار جنگ اور مولوی چراغ علی جیسے مصنف` خلیفہ رجب دین صاحب جیسے منتظم و مدبر` خلیفہ عبدالحکیم جیسے صاحب طرز ادیب حکیم اجمل خاں جیسے طبیب حاذق اور شیخ دین محمد جیسے قانون دان پیدا کئے مگر مہاراجہ ہری سنگھ کی ذہنیت کیا تھی اور وہ اپنے پیشروئوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کو کس نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ اس کی نسبت ایک مورخ رچرڈ ٹمپل کا ایک واقعہ لکھنا ضروری ہے رچرڈ لکھتا ہے کہ >جب میں نے مہاراجہ ہری سنگھ سے پوچھا وہ کیوں سری نگر شہر کو ایک پاک و صاف شہر بنانے کی کوشش نہیں کرتے تو انہوں نیے جواب دیا کہ کشمیری لوگ گندہ رہنا پسند کرتے ہیں اسی طرح جب ایک دفعہ مہاراجہ ہری سنگھ سے پوچھا گیا کہ وہ کشمیری قوم کے نوجوانوں کو اپنی فوج میں بھرتی کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ کشمیری بزدل ہیں اور جب انہیں رنبیر سنگھ کے عہد میں فوج کی تربیت دے کر لڑائی میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں پولیس کی حفاظت ہونی چاہئے<۔۱۲۹
لیکن یہ فرضی کہانی آئندہ رونما ہونے والے واقعات نے جھوٹی ثابت کر دی جبکہ فرزندان کشمیر نے آزادی کی آواز بلند کرنے کے بعد اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں اور اپنے خون سے جذبہ حریت کی مسلسل آبیاری کی۔ بہرحال ڈوگرہ حکومت کے مظالم` کشمیری پنڈتوں کی سازش اور مہاراجہ ہری سنگھ صاحب کی ذہنیت کا مطالعہ کرنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کا پس منظر معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔
حواشی )حصہ دوم ۔ پہلا باب(
۱۔
بین الاقوامی معلومات اور حالات حاضرہ صفحہ ۲۳۳ )از جناب محمد اکرم صاحب رہبر سینیئر سب ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت )لاہور( طبع اول ۱۹۶۴ء و تاریخ اقوام کشمیر )مولفہ مورخ کشمیر جناب منشی محمد دین صاحب فوق صفحہ ۱۲۸ طبع اول جون ۱۹۳۴۔
۲۔
تمدن ہند صفحہ ۳۷۔ ۳۸۔
۳۔
عرب دنیا صفحہ ۶۱ )از جناب محی الدین الوائی ایم۔ اے الازہر قاہرہ۔ ناشر مکتبہ برہان دہلی سن اشاعت دسمبر ۱۹۶۱ء۔
۴۔
۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار کے لئے ملاحظہ ہو مولوی حشمت اللہ صاحب لکھنوی کی کتاب مختصر تاریخ جموں وریاستہائے مفتوحہ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر مطبوعہ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۳۲۔
۵۔
ہفت روزہ نصرت لاہور کشمیر نمبر صفحہ ۸۱۔
۶۔
مقدمہ تاریخ ہند قدیم جلد اول )از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی( صفحہ ۱۰۶۔ ۱۰۸ مطبوعہ جولائی ۱۹۳۳ء۔
۷۔
‏h2] ga[t مقدمہ تاریخ ہند قدیم جلد اول )از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی( صفحہ ۱۴۴۔
۸۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۱۱۔ ازونیسنٹ اے سمتھ ایم۔ اے ترجمہ مولوی محمد جمیل الرحمن صاحب ایم اے۔ ایم آر اے ایس۔ مددگار پروفیسر تاریخ السلام کلیہ جامعہ عثمانیہ۔ سنئہ اشاعت ۱۹۲۲ء دارالطبع جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن۔
۹`۱۰۔
رسالہ زمانہ کانپور ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۱۴ء بحوالہ مقدمہ تاریخ ہند قدیم مولفہ اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی جلد اول صفحہ ۱۰۹۔
۱۱۔
مکمل راج ترنگنی )مترجم ٹھاکر اچھر چند صاحب شاہ پوری( صفحہ ۲۳۔ ۲۴۔
۱۲۔
اصل کتاب سنسکرت نظم میں اور آٹھ ترنگ )جلدوں( میں ہے جس کا نسخہ جناب فوق صاحب کے بیان کے مطابق کشمیر کے علاوہ جے پور یا جودھ پور میں بھی مل سکتا ہے۔ اس کتاب کے اردو اور انگریزی تراجم ہو چکے ہیں ٹھاکر اچھر چند شاہ پوری نے ۱۹۱۲ء میں مکمل راج ترنگنی کے نام سے اردو ترجمہ شائع کیا تھا اور ایم۔ اے سٹائن صاحب نے انگریزی میں۔
۱۳`۱۴۔
اردو لٹریچر میں رتنگاگر سے متعارف کرانے والے منشی محمد الدین صاحب فوق تھے۔ منشی صاحب فروری ۱۸۸۷ء میں کوٹلی ہرنارائن ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ۱۴/ ستمبر ۱۹۴۵ء کو وفات پائی بڑے فاضل و محقق۔ نغزگو شاعر کامیاب صحافی اور مایہ ناز تاریخ دان اور صاحب نظر مولف تھے۔ جماعت احمدیہ سے ان کو خاص انس تھا اور اس کے کارناموں کے بے حد مداح تھے آپ نے اپنے پیچھے ۹۵ کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں سے ۸۱ شائع ہو چکی ہیں کشمیر کی تاریخ آپ کا سب سے محبوب مضمون تھا۔ )رسالہ نقوش لاہور نمبر صفحہ ۹۹۷ تا ۱۰۰۳(
۱۵۔
ملخصاً از کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحہ ۱ تا ۲۸ )از منشی محمد الدین صاحب فوق(
۱۶۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحہ ۱۸۔ ۱۹ )از جناب منشی محمد الدین صاحب فوق(
۱۷۔
تاریخ اقوام عالم )از مرتضیٰ احمد خاں( صفحہ ۱۹۰۔ مطبوعہ ماچ ۱۹۴۶ء۔ شائع کردہ مجلس ترقی ادب اردو۔ کلب روڈ۔ لاہور۔
۱۸۔
تاریخ ہند و پاک صفحہ ۴۱۔ ۴۲۔
۱۹۔
تاریخ ہند و پاک صفحہ ۷۶۔
۲۰۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۲۲۵` ۲۲۶` ۲۲۷ )ونیسنٹ اے سمتھ(
۲۱۔
تمدن ہند اردو )بان گستاولی( صفحہ ۳۵۲ و ۳۶۳۔
۲۲۔
قدیم تاریخ ہند از ونیسنٹ اے سمتھ ایم۔ اے )ترجمہ( صفحہ ۳۵۵۔
۲۳۔
کروشتی طرز تحریر میں اس قوم کا نام کشن لکھا ہے مگر ساسانی اور چینی شہادات بتاتی ہیں کہ یہ نام کشان تھا۔ )قدیم تاریخ ہند از ونسنٹ اے سمتھ مترجم۔ صفحہ ۳۷۶ حاشیہ(
۲۴۔
مقدمہ تاریخ ہند قدیم صفحہ ۱۹۲ )از اکبر شاہ خان نجیب آبادی(
۲۵۔
ملاحظہ ہو قدیم تاریخ ہند )از ونسنٹ اے سمتھ۔ ترجمہ حاشیہ صفحہ ۳۷۶(
۲۶۔
‏]h2 [tag قدیم تاریخ ہند )ترجمہ( صفحہ ۳۷۷۔
۲۷۔
قدیم تاریخ ہند۔ اردو )از ونسنٹ اے سمتھ ایم۔ اے صفحہ ۳۹۱(
۲۸۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۳۹۱۔ ۳۹۲ حاشیہ۔
۲۹۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۳۹۱۔ ۳۹۲ حاشیہ۔
۳۰۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۴۰۳۔ ۴۰۵۔
۳۱۔
قدیم تاریخ ہند )از ونسنٹ اے سمتھ( مترجم صفحہ ۴۱۰۔
۳۲۔
مقدمہ تاریخ ہند قدیم صفحہ ۱۷۹ )از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی(
۳۳۔
قدیم تاریخ ہند )ونسنٹ اے سمتھ( اردو۔ صفحہ ۴۱۱۔
۳۴۔
انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد دوم صفحہ ۵۶۔ ۵۸ و تالیف ولیم ایل لینگر ترجمہ و تہذیب غلام رسول صاحب مہر( شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور۔ اشاعت اول ۱۹۵۹ء۔
۳۵۔
تاریخ بائیبل صفحہ ۳۷۵ )از مسٹر بلیکی( )ترجمہ(
۳۶`۳۷۔
اس سلسلہ میں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتاب مسیح ہندوستان میں باب چہارم فصل سوم۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتاب تحقیق دربارہ قبر مسیح اور حیات المسیح و وفاتہ از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور خواجہ نذیر احمد صاحب کی کتاب Earth on Heaven in Jesus قابل مطالعہ ہے۔
۳۸۔
ملاحظہ ہو تاریخ کلیسیا مصنفہ پادری برکت اللہ صاحب ایم+ اے صفحہ ۱۵۷ بحوالہ حضرت مسیح مشرق میں صفحہ ۴۔
۳۹۔
بحوالہ کتاب مسیح ہندوستان میں از سیدنا حضرت مسیح موعود طبع اول صفحہ ۱۵ و ۹۲۔ ۹۳۔
۴۰۔
یعنی یسوع۔ )ناقل(
‏h1] ga[t۴۱۔
رسالہ نصرت لاہور ۲۸/ فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۸۰۔ ۸۲۔
۴۲۔
روزگار فقیر صفحہ ۱۰۲ جلد دوم )مولفہ جناب فقیر سید وحید الدین صاحب( طبع اول نومبر ۱۹۶۴ء۔
۴۳۔
امام عالم عارف باللہ علامہ محمد بن الولید الفہری الطرطوشی اپنی شہرہ آفاق کتاب سراج الملوک مطبع خیریہ مصر ۱۳۰۶ء میں لکھتے ہیں۔ این عیسی روح اللہ و کلمتہ راس الزاھدین و امام السائحین )صفحہ ۶( اور لسان العرب میں لکھا ہے کہ قیل سمی عیسی بمسیح لانہ کان سائحا فی الارضh2] [tag یعنی عیسیٰ کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا کہ وہ زمین میں سیر کرتے رہے تھے۔
۴۴۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ حضرت مریم کا سفر کشمیر )از جناب محمد اسداللہ صاحب قریشی فاضل کشمیری(
۴۵۔
یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶۔
۴۶۔
انجیلی بیان کے مطابق دن کا آخری حصہ ہے۔
۴۷۔
یہ خط ۱۸۷۳ء میں ابی سینیا کی ایک تجارتی کمپنی کے ممبر کو شہر اسکندریہ کے ایک قدیم یونانی راہب خانے سے دستیاب ہوا۔ اور اس کا انگریزی ترجمہ انڈو امریکن بک کمپنی شکاگو نے witness> Eye AN by Crusifixion <The کے نام سے ۱۹۰۷ء میں شائع کر دیا تھا۔
۴۸۔
بائبل کے مشہور سکالر سی۔ آر۔ گریگری کو انجیل مرتس کا ایک نسخہ ملک یونان میں کوہ ایتھاس سے ۱۸۸۷ء میں ملا۔ جس کی کتابت نویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی۔ اس نسخہ کے اختتام پر یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح صلیب سے اتارے جانے کے بعد جس قبر میں رکھے گئے تھے اس سے آپ زندہ باہر نکل آئے تھے اور شاگردوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ گلیل میں آکر آپ سے ملیں۔ اس ضمن میں لکھا ہے کہ ان واقعات کے بعد یسوع خود بھی مشرق سے ظاہر ہوا اور اس نے ان کی معرفت )یعنی حواریوں کے ذریعہ سے( مغرب تک حیات جاوید کی پاک اور لازوال منادی پھیلائی۔ newtestament the of text and (Canon 512)۔P Gregry ۔R۔C By تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ انجیل مرتس کا آخری ورق )مولفہ محقق عیسائیت جناب شیخ عبدالقادر صاحب لائلپوری۔ چوبرجی۔ لاہور(
۴۹۔
کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۳۴ مطبوعہ ۱۳۱۲ھ حیدر آباد دکن۔
۵۰۔
ملاحظہ ہو کتاب صحائف قمران صفحہ ۶۶۔ ۶۹۔ از محقق عیسائیت شیخ عبدالقادر صاحب لائلپوری۔ طبع اول دسمبر ۱۹۶۰ء۔
۵۱۔
مسیح کشمیر میں )از محمد اسداللہ صاحب قریشی( صفحہ ۶۶۔ ۶۷۔
۵۲۔
متی باب ۵۔ آیت ۱۷۔
۵۳۔
مسیح ہندوستان میں صفحہ ۷۸۔ ۷۹۔ از سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام(
۵۴۔
مسیح ہندوستان میں صفحہ ۵۱ )از سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام(
۵۵۔
اکمال الدین فی اثبات الغیبتہ و کشف الحیرہ )مولفہ الشیخ السعید ابی جعفر محمد بن علی بن الحسن بن موسی بن بابویہ القمی( صفحہ ۲۴۴ و ۲۷۲۔
۵۶۔
ایضاً صفحہ ۳۶۰۔
۵۷۔
کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۱۲۰ و طبرانی بروایت حضرت فاطمتہ الزہراءؓ۔
۵۸۔
پادری ہیف ایم۔ اے نے اپنی کتاب ہندوستان کی تاریخ میں ایک روایت لکھی ہے کہ تھوما حواری کا شمالی ہندوستان میں جانا بھی ثابت ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ تھوما حواری نے حضرت مریم صدیقہ کے سامنے شمالی مشرقی ہند کے علاقہ میں اپنے تبلیغی حالات بیان کئے۔ مسز فرد ایک عیسائی خاتون کی )جو مدارس میں تھوما حواری کے مقبرہ پر متعین تھیں( ایک روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ اور ان کے ماں سب ہندوستان ہی میں تھے۔ )جلد اول صفحہ ۴۳( بحوالہ حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۳۹۔ )از جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کاشمیری(
۵۹۔
طبقات کبیر جلد ۳ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۱۳۲۱ھ۔
۶۰۔
تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۷۳۹ )مطبوعہ ۱۸۸۱۔ ۱۸۸۲ء(
۶۱۔
انسائیکلو پیڈیا میں ان تصاویر کے ساتھ مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا گیا ہے۔ یہ تصویر روم کے مقدس پطرس کے گرجا میں قدیم یادگاروں میں رکھی ہوئی ہے جو کہ ایک کپڑے پر بنائی گئی ہے تصویر کی تاریخ یقینی طور پر دوسری صدی عیسوی تک پیچھے جاتی ہے۔
۶۲۔
اصول کافی کتاب الحجتہ صفحہ ۲۱۵ مطبوعہ ایران )کتاب التوحید(
۶۳۔
چنانچہ دیسی پادری برکت اللہ صاحب ایم۔ اے لکھتے ہیں۔ حال ہی میں شمالی ہندوستان سے بھی اس قسم کی صلیبیں ملی ہیں یہ صلیبیں کشمیر کی قدیم قبروں اور پہاڑوں کی وادیوں سے دستیاب ہوئی ہیں۔ ان کی بناوٹ ان کے نقش و نگار اور الواح کی عبارات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صلیبیں نسطوری ہیں اور قبریں نسطوری عیسائیوں کی ہیں یہ امور ثابت کرتے ہیں کہ قدیم صدیوں میں کشمیر میں بھی عیسائی کلیسائیں جابجا قائم تھیں۔ اور وہاں نسطوری مسیحی بکثرت آباد تھے۔ )تاریخ کلیسائے ہند صفحہ ۱۵۷(
۶۴۔
یہ علم لسانیات کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک زبان کا لفظ جب دوسری زبان میں آتا ہے تو اس میں اکثر کچھ نہ کچھ تغیر پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میکیس مولر نے اپنی کتاب سیکرڈ آف دی ایسٹ جلد ۱۱ میں اس کی نظیر کے طور پر مثالیں بھی دی ہیں۔
۶۵۔
یہ کتاب ۱۱۵ء میں تصنیف ہوئی اور ۱۹۱۰ء میں مہاراجہ کشمیر سر پرتاپ سنگھ کے حکم سے بمبئی میں بزبان سنسکرت شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ شبوناتھ شاستری ودوان سے کرایا گیا۔
۶۶۔
باہر سے آنے والی قوم۔
۶۷۔
سری نگر سے دس میل کے فاصلہ پر ایک خوبصورت مقام ہے۔
۶۸۔
جیمز پرنسپ لکھتے ہیں راجہ شالباہن ۷۸ء میں کشمیر سے رخصت ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ )حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۴۶(
۶۹۔
مہابھوشیہ پران صفحہ ۲۸۰ پر ب ۳ ادھیائے ۲ شلوک ۲۱ تا ۳۱۔
۷۰۔
متی کا لفظ بھی معنیٰ خیز ہے۔
۷۱۔
مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو کتاب حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۵۳ تا ۶۰۔
۷۲۔
ماہنامہ بچتر اپوہ ۱۹۳۶ء بزبان بنگلہ )بحوالہ حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۴۶۔ ۴۷ )مولفہ مولانا محمد اسد اللہ صاحب قریشی الکاشمیری(
۷۳۔
کتاب مسیح بلاد شرقیہ میں تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء جناب مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل( صفحہ ۸۳۔ ۸۶۔
۷۴۔
ملخصاً از کتاب مسیح بلاد شرقیہ میں صفحہ ۷۰۔ ۷۳۔
۷۵۔
کتاب اگر مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوا۔ صفحہ ۷۱۔ بحوالہ die jesus did Where )مولفہ مولانا جلال الدین صاحب شمس(
۷۶۔
خدا کی سلطنت صفحہ ۹۷ مطبوعہ ۱۹۱۵ء۔
۷۷۔
قوسین میں دیئے ہوئے الفاظ کرم خوردہ تھے جو مشکل سے پڑھے گئے۔
۷۸۔
جناب خواجہ نذیر احمد صاحب نے اپنی کتاب Earth> on Hcaven in <Jesus کے صفحہ ۳۸۲ پر اس کا پہلی بار عکس شائع کیا۔
۷۹۔
جہم بن سامیہ علافیوں کے ساتھ عراق سے ہندوستان میں آیا۔
‏h1] gat[۸۰۔
بان گستاولی فرانسیی محقق نے اپنی کتاب تمدن عرب میں لکھا ہے کہ عربوں نے اپنی حکومت قائم ہو جانے کے ساتھ ہی ہندوستان سے تجارتی تعلقات کو بہت بڑی وسعت اور ترقی دی۔ ہندوستان پہنچنے کے لئے بحری اور بری دونوں راستے اختیار کئے۔ بری راستہ سے قافلے دمشق و بغداد و سمرقند و کشمیر سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچتے تھے۔ )تمدن عرب صفحہ ۵۰۳( عرب کشمیری شالیں` مسالہ جات` عطریات` اور پیش بہا لکڑیاں برآمد کرتے تھے )صفحہ ۵۰۴( پندرھویں صدی عیسوی کی فارسی کتاب ختائی نامہ میں ایک مسلمان تاجر نے لکھا ہے کہ عرب کشمیر کے راستہ سے چین تک تجارت کیا کرتے تھے۔ )صفحہ ۵۰۵(
۸۱۔
ہندو روایات کے مطابق ۷۰۸ء سے ۷۱۵ تک کشمیر کے یکے بعد دیگرے راجہ تاراپیڈ اور راجہ للتادت دو راجے گزرے ہیں۔ مقدم الذکر کا عہد حکومت ۷۱۱ء سے ۷۱۵ء تک رہا۔ موخر الذکر راجہ کا دور حکومت ۷۱۵ء سے ۷۵۲ء تک بیان کیا جاتا ہے بعض قرآئن سے جہم بن سامہ کی کشمیر میں آمد رمضان ۹۳ھ مطابق جون ۷۱۲ء کے بعد ہوئی ہے۔ )مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحہ ۱۹۵(
۸۲۔
چچ نامہ صفحہ ۲۰۳ تالیف علی بن حامد ابوبکر الکونی ¶سنہ تالیف ۶۱۳ھ۔ ناشر مجلس مخطوطات۔ فارسیہ حیدر آباد دکن سنہ اشاعت ۱۹۳۹ء۔ اس کتاب کا اصل نام فتح نامہ ہے۔
۸۳۔
بحوالہ تاریخ اشاعت اسلام )مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی( صفحہ ۵۶۱ سنہ اشاعت ۱۹۶۲ء۔ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور۔
۸۴۔
مسلم ثقافت ہندوستان میں صفحہ ۲۷۱۔ ۳۷۲ )مولفہ جناب مولانا عبدالمجید صاحب سالک( طبع اول ۱۹۵۷ء ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور۔
۸۵۔
جناب شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔ اے کی کتاب آب کوثر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں اکے دکے مسلمان کشمیر میں آتے جاتے رہتے تھے اور راجہ ہرش کے عہد حکومت )۱۱۰۳ء تا ۱۱۱۴ء( میں تو بعض مسلمان کشمیری فوج میں ملازم بھی رہے ہیں۔ صفحہ ۴۲۶ حاشیہ(
۸۶۔
آپ سوات سے ۱۳۱۵ء میں کشمیر تشریف لائے۔ اور شاہی دربار تک پہنچے تھے اور کشمیر کے سیاسی تعلقات مسلمانوں سے قائم ہوئے۔ )آب کوثر صفحہ ۴۲۶۔ ۴۲۷(
۸۷۔
خزینتہ الاصفیا میں لکھا ہے کہ حضرت بلبل شاہؓ کا اصل نام سید شرف الدین~رح~ تھا اور اسلام کشمیر میں انہی کی بدولت پھیلا وہ شاہ نعمت اللہ فارسی کے مرید اور سہروردی سلسلہ کے بزرگ تھے۔ )بحوالہ آب کوثر صفحہ ۴۲۷(
۸۸۔
مکمل تاریخ کشمیر )صفحہ ۱۲۔ ۱۳(
۸۹۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۱۳۔ ۱۴۔
۹۰۔
آب کوثر میں اس کی بجائے ۱۳۶۹ء کا سال لکھا ہے۔
۹۱۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۲۱۔ ۲۳۔ تاریخ مذکورہ کے مطابق آپ کے یہ سب مرید سادات کرام سے تھے۔
۹۲۔
تاریخ اشاعت اسلام مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی )صفحہ ۵۶۰۔ ۵۶۱(
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۹۳۔
تاریخ اشاعت اسلام مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی۔ )صفحہ ۵۶۱۔ ۵۶۲(
۹۴۔
ملخصاً از کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۳۳۔ ۵۵۔
۹۵۔
شباب کشمیر صفحہ ۲۵۰ تا ۲۸۸ )مولفہ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق(
۹۶۔
تاریخ اشاعت اسلام صفحہ ۵۶۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تبلیغ سے ایک فاضل برہمن مسلمان ہوا جس کا نام شیخ عبداللہ رکھا گیا۔ کشمیر کے موجودہ لیڈر شیر کشمیر شیخ عبداللہ صاحب ان کے پوتے کے پوتے ہیں۔
۹۷۔
مزید ناموں کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ اشاعت اسلام صفحہ ۵۶۲۔ ۵۶۳ )از شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی( خزینہ الاصفیاء )جلد دوم( مولفہ مفتی رحیم اللہ قریشی اسدی الہاشمی اللاہوری۔
۹۸۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۲ )مولفہ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق(
۹۹۔
)منقول از کتاب کاشمیر مصنفہ شری گوپال نیوٹیا صفحہ ۱۱۷( بحوالہ کتاب مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی صفحہ ۲۷ مولفہ ملک فضل حسین صاحب۔
۱۰۰۔
بحوالہ رسالہ نصرت ہفت روزہ۔ صفحہ ۴۹۔ کشمیر نمبر۔ )۲۸/ فروری ۱۹۶۰ء(
۱۰۱۔
بحوالہ کشمیر اور جونا گڑھ کی کہانی صفحہ ۲۰۷ )از جناب رئیس احمد صاحب جعفری(
۱۰۲۔
بحوالہ رسالہ نصرت لاہور صفحہ ۷۱۔ ۷۲KASHMIR) IS (THIS
۱۰۳۔
بحوالہ مختصر تاریخ کشمیر از اللہ بخش صاحب یوسفی شائع کردہ محمد علی ایجوکیشنل سوسائٹی یوسفی ہائوس کراچی نمبر ۵۔
۱۰۴۔
خوں نابہ کشمیر )مولفہ جناب فضل احمد صاحب صدیقی ایم۔ اے مدیر ڈان شائع کردہ ادارہ ادب فریئر اسٹریٹ صدر کراچی نمبر ۲(
۱۰۵۔
یہی وہ زمانہ تھا جبکہ سینکٹروں دوسرے خاندانوں کی طرح حاجی میر شمس الدین صاحب )لائف پریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام( میاں کریم بخش صاحب رئیس اعظم` شیخ حسن دین صاحب ڈار )مدیر حمایت اسلام( کے خاندان کے علاوہ گنائی خاندان لاہور میں پناہ گزین ہوا۔ خواجہ غلام محی الدین صاحب مالک کشمیر اخبار کے خاندان نے امرتسر میں بود و باش اختیار کر لی۔ ڈھاکہ کا مشہور نوابی خاندان )جس سے خواجہ نصرت جنگ نائب ناظم کا تعلق تھا( سکھوں کے مظالم سے تنگ آکر بنگال میں چلا گیا۔ اسی طرح سیالکوٹ` لاہور اور امرتسر میں آباد پال قوم کو بھی ان پر آشوب ایام میں کشمیر کو خیر باد کہنا پڑا۔ )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو منشی محمد الدین صاحب فوق کی کتاب تاریخ اقوام کشمیر(
۱۰۶۔
کشمیر کے حالات از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شائع کردہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی طبع اول صفحہ ۳۔ ۵۔ اشاعت اول اگست ۱۹۳۱ء مطبوعہ قادیان۔
۱۰۷۔
ہنگامہ کشمیر صفحہ ۸ )بحوالہ شیر کشمیر مصنفہ کلیم اختر صاحب صفحہ ۹۲ تا ۹۳( شائع کردہ سندھ ساگر اکاڈمی لاہور طبع اول ۱۹۶۳ء۔
۱۰۸۔
کشمیری مسلمانوں کی ہجرت کا جو سلسلہ سکھ عہد حکومت میں شروع ہوا تھا وہ ڈوگرہ راج کے ابتداء میں بھی جاری رہا۔ چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے جد امجد شیخ محمد رفیق صاحب بھی دوسرے بہت سے کشمیری خاندانوں کی طرح ۱۸۵۷ء کے بعد ہجرت کرکے سیالکوٹ میں آبسے تھے دار اور گورگانی خاندان جو تقسیم ہند سے پہلے امرتسر میں آباد تھا وہ بھی اسی دور میں ترک کشمیر پر مجبور ہوا تھا۔ )ذکر اقبال صفحہ ۷۔ ۸ )مولفہ مولانا عبدالمجید صاحب سالک و تاریخ اقوام کشمیر۔ )جلد اول(
۱۰۹۔
صحیفہ زریں صفحہ ۷ مطبوعہ نول کشور لکھنئو ۱۹۰۲ء۔
۱۱۰۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۹۱۔ )طبع اول(
۱۱۱۔
بحوالہ مختصر تاریخ کشمیر )از اللہ بخش صاحب یوسفی( صفحہ ۶۱۔
۱۱۲۔
شیر کشمیر مصنف جناب کلیم اختر صاحب )طابع۔ سندھ ساگرا کاڈی لاہور ۸۔ صفحہ ۹۴۔ ۹۵(
۱۱۳۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۱۳۶ تا ۱۴۱ میں یہ واقعہ بالتفصیل آچکا ہے۔
۱۱۴۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۱۴۰۔ ۱۴۱ )اس اخبار کے بعض متعلقہ پرچے خلافت لائبریری صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں محفوظ ہیں(
۱۱۵۔
)سورہ مریم : ع۶(
۱۱۶۔
روزنامہ الفضل قادیان ۶/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۱۱۷۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۳۲۰ پر یہ واقعہ آچکا ہے۔
۱۱۸۔
کشمکش صفحہ ۳۸۔ ۳۹۔ مولفہ چوہدری غلام عباس صاحب )شائع کردہ اردو اکیڈمی لاہور(
۱۱۹۔
اخبار الفضل یکم اپریل ۱۹۲۴ء و الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۴۔ ۳۵ میں تفصیل درج ہے۔
۱۲۰۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۱۔
الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۵۔
۱۲۲۔
کشمکش صفحہ ۴۷۔ ۴۸ )از جناب چوہدری غلام عباس صاحب۔ ناشر اردو اکیڈی لوہاری دروازہ لاہور(
۱۲۳۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۶ء صفحہ ۴ و الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۱۲۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۷۱۔
۱۲۵۔
الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۶۔
ملاحظہ ہو کتاب ہندو راج کے منصوبے )از ملک فضل حسین صاحب )احمدی مہاجر(
۱۲۷۔
بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندومہا سبھائی۔ صفحہ ۲۱۲۔ ۲۱۳۔ مطبوعہ ستمبر ۱۹۳۲ء ) از مکرم جناب مہاشہ ملک فضل حسین صاحب(
۱۲۸۔
الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۳۔
۱۲۹۔
کشمیر کی تحریک آزادی صفحہ ۲۷ )از میر عبدالعزیز صاحب بی۔ اے(
‏tav.5.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
حواشی )حصہ دوم ۔ پہلا باب(
۱۔
بین الاقوامی معلومات اور حالات حاضرہ صفحہ ۲۳۳ )از جناب محمد اکرم صاحب رہبر سینیئر سب ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت )لاہور( طبع اول ۱۹۶۴ء و تاریخ اقوام کشمیر )مولفہ مورخ کشمیر جناب منشی محمد دین صاحب فوق صفحہ ۱۲۸ طبع اول جون ۱۹۳۴۔
۲۔
تمدن ہند صفحہ ۳۷۔ ۳۸۔
۳۔
عرب دنیا صفحہ ۶۱ )از جناب محی الدین الوائی ایم۔ اے الازہر قاہرہ۔ ناشر مکتبہ برہان دہلی سن اشاعت دسمبر ۱۹۶۱ء۔
۴۔
۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار کے لئے ملاحظہ ہو مولوی حشمت اللہ صاحب لکھنوی کی کتاب مختصر تاریخ جموں وریاستہائے مفتوحہ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر مطبوعہ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۳۲۔
۵۔
ہفت روزہ نصرت لاہور کشمیر نمبر صفحہ ۸۱۔
۶۔
مقدمہ تاریخ ہند قدیم جلد اول )از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی( صفحہ ۱۰۶۔ ۱۰۸ مطبوعہ جولائی ۱۹۳۳ء۔
۷۔
مقدمہ تاریخ ہند قدیم جلد اول )از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی( صفحہ ۱۴۴۔
۸۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۱۱۔ ازونیسنٹ اے سمتھ ایم۔ اے ترجمہ مولوی محمد جمیل الرحمن صاحب ایم اے۔ ایم آر اے ایس۔ مددگار پروفیسر تاریخ السلام کلیہ جامعہ عثمانیہ۔ سنئہ اشاعت ۱۹۲۲ء دارالطبع جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن۔
۹`۱۰۔
رسالہ زمانہ کانپور ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۱۴ء بحوالہ مقدمہ تاریخ ہند قدیم مولفہ اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی جلد اول صفحہ ۱۰۹۔
۱۱۔
مکمل راج ترنگنی )مترجم ٹھاکر اچھر چند صاحب شاہ پوری( صفحہ ۲۳۔ ۲۴۔
۱۲۔
اصل کتاب سنسکرت نظم میں اور آٹھ ترنگ )جلدوں( میں ہے جس کا نسخہ جناب فوق صاحب کے بیان کے مطابق کشمیر کے علاوہ جے پور یا جودھ پور میں بھی مل سکتا ہے۔ اس کتاب کے اردو اور انگریزی تراجم ہو چکے ہیں ٹھاکر اچھر چند شاہ پوری نے ۱۹۱۲ء میں مکمل راج ترنگنی کے نام سے اردو ترجمہ شائع کیا تھا اور ایم۔ اے سٹائن صاحب نے انگریزی میں۔
۱۳`۱۴۔
اردو لٹریچر میں رتنگاگر سے متعارف کرانے والے منشی محمد الدین صاحب فوق تھے۔ منشی صاحب فروری ۱۸۸۷ء میں کوٹلی ہرنارائن ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ۱۴/ ستمبر ۱۹۴۵ء کو وفات پائی بڑے فاضل و محقق۔ نغزگو شاعر کامیاب صحافی اور مایہ ناز تاریخ دان اور صاحب نظر مولف تھے۔ جماعت احمدیہ سے ان کو خاص انس تھا اور اس کے کارناموں کے بے حد مداح تھے آپ نے اپنے پیچھے ۹۵ کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں سے ۸۱ شائع ہو چکی ہیں کشمیر کی تاریخ آپ کا سب سے محبوب مضمون تھا۔ )رسالہ نقوش لاہور نمبر صفحہ ۹۹۷ تا ۱۰۰۳(
۱۵۔
ملخصاً از کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحہ ۱ تا ۲۸ )از منشی محمد الدین صاحب فوق(
۱۶۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحہ ۱۸۔ ۱۹ )از جناب منشی محمد الدین صاحب فوق(
۱۷۔
تاریخ اقوام عالم )از مرتضیٰ احمد خاں( صفحہ ۱۹۰۔ مطبوعہ ماچ ۱۹۴۶ء۔ شائع کردہ مجلس ترقی ادب اردو۔ کلب روڈ۔ لاہور۔
۱۸۔
تاریخ ہند و پاک صفحہ ۴۱۔ ۴۲۔
۱۹۔
تاریخ ہند و پاک صفحہ ۷۶۔
‏h1] [tag۲۰۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۲۲۵` ۲۲۶` ۲۲۷ )ونیسنٹ اے سمتھ(
۲۱۔
تمدن ہند اردو )بان گستاولی( صفحہ ۳۵۲ و ۳۶۳۔
۲۲۔
قدیم تاریخ ہند از ونیسنٹ اے سمتھ ایم۔ اے )ترجمہ( صفحہ ۳۵۵۔
۲۳۔
کروشتی طرز تحریر میں اس قوم کا نام کشن لکھا ہے مگر ساسانی اور چینی شہادات بتاتی ہیں کہ یہ نام کشان تھا۔ )قدیم تاریخ ہند از ونسنٹ اے سمتھ مترجم۔ صفحہ ۳۷۶ حاشیہ(
۲۴۔
مقدمہ تاریخ ہند قدیم صفحہ ۱۹۲ )از اکبر شاہ خان نجیب آبادی(
۲۵۔
ملاحظہ ہو قدیم تاریخ ہند )از ونسنٹ اے سمتھ۔ ترجمہ حاشیہ صفحہ ۳۷۶(
۲۶۔
قدیم تاریخ ہند )ترجمہ( صفحہ ۳۷۷۔
۲۷۔
قدیم تاریخ ہند۔ اردو )از ونسنٹ اے سمتھ ایم۔ اے صفحہ ۳۹۱(
۲۸۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۳۹۱۔ ۳۹۲ حاشیہ۔
۲۹۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۳۹۱۔ ۳۹۲ حاشیہ۔
۳۰۔
قدیم تاریخ ہند صفحہ ۴۰۳۔ ۴۰۵۔
۳۱۔
قدیم تاریخ ہند )از ونسنٹ اے سمتھ( مترجم صفحہ ۴۱۰۔][۳۲۔
مقدمہ تاریخ ہند قدیم صفحہ ۱۷۹ )از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی(
۳۳۔
قدیم تاریخ ہند )ونسنٹ اے سمتھ( اردو۔ صفحہ ۴۱۱۔
۳۴۔
انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم جلد دوم صفحہ ۵۶۔ ۵۸ و تالیف ولیم ایل لینگر ترجمہ و تہذیب غلام رسول صاحب مہر( شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور۔ اشاعت اول ۱۹۵۹ء۔
۳۵۔
تاریخ بائیبل صفحہ ۳۷۵ )از مسٹر بلیکی( )ترجمہ(
۳۶`۳۷۔
اس سلسلہ میں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتاب مسیح ہندوستان میں باب چہارم فصل سوم۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتاب تحقیق دربارہ قبر مسیح اور حیات المسیح و وفاتہ از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور خواجہ نذیر احمد صاحب کی کتاب Earth on Heaven in Jesus قابل مطالعہ ہے۔
۳۸۔
ملاحظہ ہو تاریخ کلیسیا مصنفہ پادری برکت اللہ صاحب ایم+ اے صفحہ ۱۵۷ بحوالہ حضرت مسیح مشرق میں صفحہ ۴۔
۳۹۔
بحوالہ کتاب مسیح ہندوستان میں از سیدنا حضرت مسیح موعود طبع اول صفحہ ۱۵ و ۹۲۔ ۹۳۔
۴۰۔
یعنی یسوع۔ )ناقل(
۴۱۔
رسالہ نصرت لاہور ۲۸/ فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۸۰۔ ۸۲۔
۴۲۔
روزگار فقیر صفحہ ۱۰۲ جلد دوم )مولفہ جناب فقیر سید وحید الدین صاحب( طبع اول نومبر ۱۹۶۴ء۔
۴۳۔
امام عالم عارف باللہ علامہ محمد بن الولید الفہری الطرطوشی اپنی شہرہ آفاق کتاب سراج الملوک مطبع خیریہ مصر ۱۳۰۶ء میں لکھتے ہیں۔ این عیسی روح اللہ و کلمتہ راس الزاھدین و امام السائحین )صفحہ ۶( اور لسان العرب میں لکھا ہے کہ قیل سمی عیسی بمسیح لانہ کان سائحا فی الارض یعنی عیسیٰ کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا کہ وہ زمین میں سیر کرتے رہے تھے۔
۴۴۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ حضرت مریم کا سفر کشمیر )از جناب محمد اسداللہ صاحب قریشی فاضل کشمیری(
۴۵۔
یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶۔
۴۶۔
انجیلی بیان کے مطابق دن کا آخری حصہ ہے۔
۴۷۔
یہ خط ۱۸۷۳ء میں ابی سینیا کی ایک تجارتی کمپنی کے ممبر کو شہر اسکندریہ کے ایک قدیم یونانی راہب خانے سے دستیاب ہوا۔ اور اس کا انگریزی ترجمہ انڈو امریکن بک کمپنی شکاگو نے witness> Eye AN by Crusifixion <The کے نام سے ۱۹۰۷ء میں شائع کر دیا تھا۔
۴۸۔
بائبل کے مشہور سکالر سی۔ آر۔ گریگری کو انجیل مرتس کا ایک نسخہ ملک یونان میں کوہ ایتھاس سے ۱۸۸۷ء میں ملا۔ جس کی کتابت نویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی۔ اس نسخہ کے اختتام پر یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح صلیب سے اتارے جانے کے بعد جس قبر میں رکھے گئے تھے اس سے آپ زندہ باہر نکل آئے تھے اور شاگردوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ گلیل میں آکر آپ سے ملیں۔ اس ضمن میں لکھا ہے کہ ان واقعات کے بعد یسوع خود بھی مشرق سے ظاہر ہوا اور اس نے ان کی معرفت )یعنی حواریوں کے ذریعہ سے( مغرب تک حیات جاوید کی پاک اور لازوال منادی پھیلائی۔ newtestament the of text and (Canon 512)۔P Gregry ۔R۔C By تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ انجیل مرتس کا آخری ورق )مولفہ محقق عیسائیت جناب شیخ عبدالقادر صاحب لائلپوری۔ چوبرجی۔ لاہور(
۴۹۔
کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۳۴ مطبوعہ ۱۳۱۲ھ حیدر آباد دکن۔
۵۰۔
ملاحظہ ہو کتاب صحائف قمران صفحہ ۶۶۔ ۶۹۔ از محقق عیسائیت شیخ عبدالقادر صاحب لائلپوری۔ طبع اول دسمبر ۱۹۶۰ء۔
۵۱۔
مسیح کشمیر میں )از محمد اسداللہ صاحب قریشی( صفحہ ۶۶۔ ۶۷۔
۵۲۔
متی باب ۵۔ آیت ۱۷۔
۵۳۔
مسیح ہندوستان میں صفحہ ۷۸۔ ۷۹۔ از سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام(
۵۴۔
مسیح ہندوستان میں صفحہ ۵۱ )از سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام(
۵۵۔
اکمال الدین فی اثبات الغیبتہ و کشف الحیرہ )مولفہ الشیخ السعید ابی جعفر محمد بن علی بن الحسن بن موسی بن بابویہ القمی( صفحہ ۲۴۴ و ۲۷۲۔
۵۶۔
ایضاً صفحہ ۳۶۰۔
۵۷۔
کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۱۲۰ و طبرانی بروایت حضرت فاطمتہ الزہراءؓ۔
۵۸۔
پادری ہیف ایم۔ اے نے اپنی کتاب ہندوستان کی تاریخ میں ایک روایت لکھی ہے کہ تھوما حواری کا شمالی ہندوستان میں جانا بھی ثابت ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ تھوما حواری نے حضرت مریم صدیقہ کے سامنے شمالی مشرقی ہند کے علاقہ میں اپنے تبلیغی حالات بیان کئے۔ مسز فرد ایک عیسائی خاتون کی )جو مدارس میں تھوما حواری کے مقبرہ پر متعین تھیں( ایک روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ اور ان کے ماں سب ہندوستان ہی میں تھے۔ )جلد اول صفحہ ۴۳( بحوالہ حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۳۹۔ )از جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کاشمیری(
۵۹۔
طبقات کبیر جلد ۳ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۱۳۲۱ھ۔
۶۰۔
تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۷۳۹ )مطبوعہ ۱۸۸۱۔ ۱۸۸۲ء(
۶۱۔
انسائیکلو پیڈیا میں ان تصاویر کے ساتھ مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا گیا ہے۔ یہ تصویر روم کے مقدس پطرس کے گرجا میں قدیم یادگاروں میں رکھی ہوئی ہے جو کہ ایک کپڑے پر بنائی گئی ہے تصویر کی تاریخ یقینی طور پر دوسری صدی عیسوی تک پیچھے جاتی ہے۔
۶۲۔
اصول کافی کتاب الحجتہ صفحہ ۲۱۵ مطبوعہ ایران )کتاب التوحید(
۶۳۔
چنانچہ دیسی پادری برکت اللہ صاحب ایم۔ اے لکھتے ہیں۔ حال ہی میں شمالی ہندوستان سے بھی اس قسم کی صلیبیں ملی ہیں یہ صلیبیں کشمیر کی قدیم قبروں اور پہاڑوں کی وادیوں سے دستیاب ہوئی ہیں۔ ان کی بناوٹ ان کے نقش و نگار اور الواح کی عبارات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صلیبیں نسطوری ہیں اور قبریں نسطوری عیسائیوں کی ہیں یہ امور ثابت کرتے ہیں کہ قدیم صدیوں میں کشمیر میں بھی عیسائی کلیسائیں جابجا قائم تھیں۔ اور وہاں نسطوری مسیحی بکثرت آباد تھے۔ )تاریخ کلیسائے ہند صفحہ ۱۵۷(
۶۴۔
یہ علم لسانیات کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک زبان کا لفظ جب دوسری زبان میں آتا ہے تو اس میں اکثر کچھ نہ کچھ تغیر پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میکیس مولر نے اپنی کتاب سیکرڈ آف دی ایسٹ جلد ۱۱ میں اس کی نظیر کے طور پر مثالیں بھی دی ہیں۔
۶۵۔
یہ کتاب ۱۱۵ء میں تصنیف ہوئی اور ۱۹۱۰ء میں مہاراجہ کشمیر سر پرتاپ سنگھ کے حکم سے بمبئی میں بزبان سنسکرت شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ شبوناتھ شاستری ودوان سے کرایا گیا۔
۶۶۔
باہر سے آنے والی قوم۔
۶۷۔
سری نگر سے دس میل کے فاصلہ پر ایک خوبصورت مقام ہے۔
۶۸۔
جیمز پرنسپ لکھتے ہیں راجہ شالباہن ۷۸ء میں کشمیر سے رخصت ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ )حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۴۶(
۶۹۔
مہابھوشیہ پران صفحہ ۲۸۰ پر ب ۳ ادھیائے ۲ شلوک ۲۱ تا ۳۱۔
۷۰۔
متی کا لفظ بھی معنیٰ خیز ہے۔
۷۱۔
مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو کتاب حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۵۳ تا ۶۰۔
۷۲۔
ماہنامہ بچتر اپوہ ۱۹۳۶ء بزبان بنگلہ )بحوالہ حضرت مسیح کشمیر میں صفحہ ۴۶۔ ۴۷ )مولفہ مولانا محمد اسد اللہ صاحب قریشی الکاشمیری(
۷۳۔
کتاب مسیح بلاد شرقیہ میں تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء جناب مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل( صفحہ ۸۳۔ ۸۶۔
‏h1] ga[t۷۴۔
ملخصاً از کتاب مسیح بلاد شرقیہ میں صفحہ ۷۰۔ ۷۳۔
۷۵۔
کتاب اگر مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوا۔ صفحہ ۷۱۔ بحوالہ die jesus did Where )مولفہ مولانا جلال الدین صاحب شمس(
۷۶۔
خدا کی سلطنت صفحہ ۹۷ مطبوعہ ۱۹۱۵ء۔
۷۷۔
قوسین میں دیئے ہوئے الفاظ کرم خوردہ تھے جو مشکل سے پڑھے گئے۔
۷۸۔
جناب خواجہ نذیر احمد صاحب نے اپنی کتاب Earth> on Hcaven in <Jesus کے صفحہ ۳۸۲ پر اس کا پہلی بار عکس شائع کیا۔
۷۹۔
جہم بن سامیہ علافیوں کے ساتھ عراق سے ہندوستان میں آیا۔
۸۰۔
بان گستاولی فرانسیی محقق نے اپنی کتاب تمدن عرب میں لکھا ہے کہ عربوں نے اپنی حکومت قائم ہو جانے کے ساتھ ہی ہندوستان سے تجارتی تعلقات کو بہت بڑی وسعت اور ترقی دی۔ ہندوستان پہنچنے کے لئے بحری اور بری دونوں راستے اختیار کئے۔ بری راستہ سے قافلے دمشق و بغداد و سمرقند و کشمیر سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچتے تھے۔ )تمدن عرب صفحہ ۵۰۳( عرب کشمیری شالیں` مسالہ جات` عطریات` اور پیش بہا لکڑیاں برآمد کرتے تھے )صفحہ ۵۰۴( پندرھویں صدی عیسوی کی فارسی کتاب ختائی نامہ میں ایک مسلمان تاجر نے لکھا ہے کہ عرب کشمیر کے راستہ سے چین تک تجارت کیا کرتے تھے۔ )صفحہ ۵۰۵(
۸۱۔
ہندو روایات کے مطابق ۷۰۸ء سے ۷۱۵ تک کشمیر کے یکے بعد دیگرے راجہ تاراپیڈ اور راجہ للتادت دو راجے گزرے ہیں۔ مقدم الذکر کا عہد حکومت ۷۱۱ء سے ۷۱۵ء تک رہا۔ موخر الذکر راجہ کا دور حکومت ۷۱۵ء سے ۷۵۲ء تک بیان کیا جاتا ہے بعض قرآئن سے جہم بن سامہ کی کشمیر میں آمد رمضان ۹۳ھ مطابق جون ۷۱۲ء کے بعد ہوئی ہے۔ )مکمل تاریخ کشمیر جلد اول صفحہ ۱۹۵(
۸۲۔
چچ نامہ صفحہ ۲۰۳ تالیف علی بن حامد ابوبکر الکونی سنہ تالیف ۶۱۳ھ۔ ناشر مجلس مخطوطات۔ فارسیہ حیدر آباد دکن سنہ اشاعت ۱۹۳۹ء۔ اس کتاب کا اصل نام فتح نامہ ہے۔
۸۳۔
بحوالہ تاریخ اشاعت اسلام )مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی( صفحہ ۵۶۱ سنہ اشاعت ۱۹۶۲ء۔ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور۔
۸۴۔
مسلم ثقافت ہندوستان میں صفحہ ۲۷۱۔ ۳۷۲ )مولفہ جناب مولانا عبدالمجید صاحب سالک( طبع اول ۱۹۵۷ء ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور۔
۸۵۔
جناب شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔ اے کی کتاب آب کوثر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں اکے دکے مسلمان کشمیر میں آتے جاتے رہتے تھے اور راجہ ہرش کے عہد حکومت )۱۱۰۳ء تا ۱۱۱۴ء( میں تو بعض مسلمان کشمیری فوج میں ملازم بھی رہے ہیں۔ صفحہ ۴۲۶ حاشیہ(
۸۶۔
آپ سوات سے ۱۳۱۵ء میں کشمیر تشریف لائے۔ اور شاہی دربار تک پہنچے تھے اور کشمیر کے سیاسی تعلقات مسلمانوں سے قائم ہوئے۔ )آب کوثر صفحہ ۴۲۶۔ ۴۲۷(
۸۷۔
خزینتہ الاصفیا میں لکھا ہے کہ حضرت بلبل شاہؓ کا اصل نام سید شرف الدین~رح~ تھا اور اسلام کشمیر میں انہی کی بدولت پھیلا وہ شاہ نعمت اللہ فارسی کے مرید اور سہروردی سلسلہ کے بزرگ تھے۔ )بحوالہ آب کوثر صفحہ ۴۲۷(
۸۸۔
مکمل تاریخ کشمیر )صفحہ ۱۲۔ ۱۳(
۸۹۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۱۳۔ ۱۴۔
۹۰۔
آب کوثر میں اس کی بجائے ۱۳۶۹ء کا سال لکھا ہے۔
۹۱۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۲۱۔ ۲۳۔ تاریخ مذکورہ کے مطابق آپ کے یہ سب مرید سادات کرام سے تھے۔
۹۲۔
تاریخ اشاعت اسلام مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی )صفحہ ۵۶۰۔ ۵۶۱(
۹۳۔
تاریخ اشاعت اسلام مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی۔ )صفحہ ۵۶۱۔ ۵۶۲(
۹۴۔
ملخصاً از کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۳۳۔ ۵۵۔
۹۵۔
شباب کشمیر صفحہ ۲۵۰ تا ۲۸۸ )مولفہ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق(
۹۶۔
تاریخ اشاعت اسلام صفحہ ۵۶۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تبلیغ سے ایک فاضل برہمن مسلمان ہوا جس کا نام شیخ عبداللہ رکھا گیا۔ کشمیر کے موجودہ لیڈر شیر کشمیر شیخ عبداللہ صاحب ان کے پوتے کے پوتے ہیں۔
۹۷۔
مزید ناموں کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ اشاعت اسلام صفحہ ۵۶۲۔ ۵۶۳ )از شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی( خزینہ الاصفیاء )جلد دوم( مولفہ مفتی رحیم اللہ قریشی اسدی الہاشمی اللاہوری۔
۹۸۔
مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۲ )مولفہ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق(
۹۹۔
)منقول از کتاب کاشمیر مصنفہ شری گوپال نیوٹیا صفحہ ۱۱۷( بحوالہ کتاب مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی صفحہ ۲۷ مولفہ ملک فضل حسین صاحب۔
۱۰۰۔
بحوالہ رسالہ نصرت ہفت روزہ۔ صفحہ ۴۹۔ کشمیر نمبر۔ )۲۸/ فروری ۱۹۶۰ء(
۱۰۱۔
بحوالہ کشمیر اور جونا گڑھ کی کہانی صفحہ ۲۰۷ )از جناب رئیس احمد صاحب جعفری(
۱۰۲۔
بحوالہ رسالہ نصرت لاہور صفحہ ۷۱۔ ۷۲KASHMIR) IS (THIS
۱۰۳۔
بحوالہ مختصر تاریخ کشمیر از اللہ بخش صاحب یوسفی شائع کردہ محمد علی ایجوکیشنل سوسائٹی یوسفی ہائوس کراچی نمبر ۵۔
۱۰۴۔
خوں نابہ کشمیر )مولفہ جناب فضل احمد صاحب صدیقی ایم۔ اے مدیر ڈان شائع کردہ ادارہ ادب فریئر اسٹریٹ صدر کراچی نمبر ۲(
۱۰۵۔
یہی وہ زمانہ تھا جبکہ سینکٹروں دوسرے خاندانوں کی طرح حاجی میر شمس الدین صاحب )لائف پریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام( میاں کریم بخش صاحب رئیس اعظم` شیخ حسن دین صاحب ڈار )مدیر حمایت اسلام( کے خاندان کے علاوہ گنائی خاندان لاہور میں پناہ گزین ہوا۔ خواجہ غلام محی الدین صاحب مالک کشمیر اخبار کے خاندان نے امرتسر میں بود و باش اختیار کر لی۔ ڈھاکہ کا مشہور نوابی خاندان )جس سے خواجہ نصرت جنگ نائب ناظم کا تعلق تھا( سکھوں کے مظالم سے تنگ آکر بنگال میں چلا گیا۔ اسی طرح سیالکوٹ` لاہور اور امرتسر میں آباد پال قوم کو بھی ان پر آشوب ایام میں کشمیر کو خیر باد کہنا پڑا۔ )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو منشی محمد الدین صاحب فوق کی کتاب تاریخ اقوام کشمیر(
۱۰۶۔
کشمیر کے حالات از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شائع کردہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی طبع اول صفحہ ۳۔ ۵۔ اشاعت اول اگست ۱۹۳۱ء مطبوعہ قادیان۔
‏h1] g[ta۱۰۷۔
ہنگامہ کشمیر صفحہ ۸ )بحوالہ شیر کشمیر مصنفہ کلیم اختر صاحب صفحہ ۹۲ تا ۹۳( شائع کردہ سندھ ساگر اکاڈمی لاہور طبع اول ۱۹۶۳ء۔
۱۰۸۔
کشمیری مسلمانوں کی ہجرت کا جو سلسلہ سکھ عہد حکومت میں شروع ہوا تھا وہ ڈوگرہ راج کے ابتداء میں بھی جاری رہا۔ چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے جد امجد شیخ محمد رفیق صاحب بھی دوسرے بہت سے کشمیری خاندانوں کی طرح ۱۸۵۷ء کے بعد ہجرت کرکے سیالکوٹ میں آبسے تھے دار اور گورگانی خاندان جو تقسیم ہند سے پہلے امرتسر میں آباد تھا وہ بھی اسی دور میں ترک کشمیر پر مجبور ہوا تھا۔ )ذکر اقبال صفحہ ۷۔ ۸ )مولفہ مولانا عبدالمجید صاحب سالک و تاریخ اقوام کشمیر۔ )جلد اول(
۱۰۹۔
صحیفہ زریں صفحہ ۷ مطبوعہ نول کشور لکھنئو ۱۹۰۲ء۔
۱۱۰۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۹۱۔ )طبع اول(
۱۱۱۔
بحوالہ مختصر تاریخ کشمیر )از اللہ بخش صاحب یوسفی( صفحہ ۶۱۔
۱۱۲۔
شیر کشمیر مصنف جناب کلیم اختر صاحب )طابع۔ سندھ ساگرا کاڈی لاہور ۸۔ صفحہ ۹۴۔ ۹۵(
۱۱۳۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۱۳۶ تا ۱۴۱ میں یہ واقعہ بالتفصیل آچکا ہے۔
۱۱۴۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۱۴۰۔ ۱۴۱ )اس اخبار کے بعض متعلقہ پرچے خلافت لائبریری صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں محفوظ ہیں(
۱۱۵۔
)سورہ مریم : ع۶(
۱۱۶۔
روزنامہ الفضل قادیان ۶/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۱۱۷۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۳۲۰ پر یہ واقعہ آچکا ہے۔
۱۱۸۔
کشمکش صفحہ ۳۸۔ ۳۹۔ مولفہ چوہدری غلام عباس صاحب )شائع کردہ اردو اکیڈمی لاہور(
۱۱۹۔
اخبار الفضل یکم اپریل ۱۹۲۴ء و الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۴۔ ۳۵ میں تفصیل درج ہے۔
۱۲۰۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۱۔
الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۵۔
۱۲۲۔
کشمکش صفحہ ۴۷۔ ۴۸ )از جناب چوہدری غلام عباس صاحب۔ ناشر اردو اکیڈی لوہاری دروازہ لاہور(
۱۲۳۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۶ء صفحہ ۴ و الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۱۲۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۷۱۔
۱۲۵۔
الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۶۔
ملاحظہ ہو کتاب ہندو راج کے منصوبے )از ملک فضل حسین صاحب )احمدی مہاجر(
۱۲۷۔
بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندومہا سبھائی۔ صفحہ ۲۱۲۔ ۲۱۳۔ مطبوعہ ستمبر ۱۹۳۲ء ) از مکرم جناب مہاشہ ملک فضل حسین صاحب(
۱۲۸۔
الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۳۔
۱۲۹۔
کشمیر کی تحریک آزادی صفحہ ۲۷ )از میر عبدالعزیز صاحب بی۔ اے(
‏tav.5.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
دوسرا باب )فصل اول(
>تحریک آزادی کشمیر کے مختلف ابتدائی دور` مسلمانان کشمیر پر مظالم کے خوانچکاں واقعات` حضرت امام جماعت احمدیہ کے پرزور احتجاجی مضامین اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام۔ )از ستمبر ۱۸۹۲ء تا ۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء(
تحریک آزادی کا پہلا دور )از ۱۸۹۲ء تا ۱۹۰۸ء(
پنجاب کے مسلم پریس کا احتجاج
گزشتہ باب میں ذکر آچکا ہے کہ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب کو ستمبر ۱۸۹۲ء میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ صاحب کے حکم پر ریاست کشمیر چھوڑنا پڑی۔ آپ کے بعد ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق مسلمان ملازمین کو برطرف کیا جانے لگا۔ چنانچہ راولپنڈی کے اخبار >چودھویں صدی< نے ۲۳ / جولائی ۱۸۹۵ء کو پہلی بار ڈوگرہ حکومت کی درپردہ سازش کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا:۔ >جموں اور کشمیر کی حکومت میں مہاراجہ گلاب سنگھ کا زمانہ تو ایک نہایت پرآشوب زمانہ تھا۔ ان کے زمانہ حکومت سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کا عہد حکومت ایک پر امن زمانہ تھا۔ اور طرز حکومت کی ایک مستقل بناء پڑگئی تھی۔ اور ہر ایک قسم کی ترقیاں ہوئی تھیں جو سب سے بڑی خوبی مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کی حکومت میں تھی وہ یہ تھی کہ وہ اپنی رعایا کے ہر ایک فرقہ کے ساتھ ان کے حقوق کی مقدور کے مطابق سلوک کرنے کی طرف مائل رہتے تھے اپنی مسلمان رعایا سے بھی ایسی ہی الفت رکھتے تھے جیسی ہندو رعایا سے اور اگرچہ ان کے نزدیک ہندو اور مسلمانوں میں ان کی رعایا ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہ تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اپنی ملازمت میں رکھنا زیادہ پسند کرتے تھے اس سبب سے اچھے اچھے اور جلیل القدر عہدوں پر اکثر مسلمان ملازم دکھائی دیتے تھے اور ادنیٰ ملازمت میں بھی بے شمار مسلمان تھے اس وقت ہمارے پاس کوئی فہرست تو اس زمانہ کے ملازموں کی نہیں ہے لیکن ہم حافظہ سے بہت سے نام گنادے سکتے ہیں ) اس کے بعد بارہ مسلمانوں کے نام لکھ کر تیرھواں نام حضرت >مولوی نور الدین صاحب حکیم اعلیٰ< کا لکھا اور آپ کے بعد چند نام مزید لکھنے کے بعد تحریر کیا کہ( مولوی نور الدین صاحب حکیم اعلیٰ وغیرہ جیسے بزرگ اور قدیم اور ہردلعزیز عہدہ دار کی نسبت صرف یہ امر قابل بیان ہے کہ ان کے نکالنے کے واسطے گائوکشی کا الزام تجویز کیا گیا تھا کیونکہ اور کوئی بہانہ نہیں مل سکتا تھا ۱
اخبار چودھویں صدی نے اس مضمون کے بعد اہل کشمیر کی حق تلفیوں پر مسلسل مضامین لکھے جن میں ریاستی اعداد و شمار سے اصل حقائق پر روشنی ڈالی اور ان مسلمان ملازموں کی فہرستیں شائع کیں جو حکومت کشمیر کی ظالمانہ کارروائی کا شکار ہوئے تھے۔
اخبار چودھویں صدی کے بعد جناب تاج الدین صاحب تاج نے ۱۹۰۱ء میں گلشن کشمیر کے نام سے کشمیر کے صحیح حالات کی ترجمانی کے لئے ایک ہفت روزہ شروع کیا۔ ۲ ۱۹۰۶ء میں منشی محمد الدین صاحب فوق نے رسالہ کشمیر میگزین جاری کیا۔ ۱۹۱۳ء سے یہ رسالہ کشمیری اخبار کی صورت میں ۱۹۳۴ء تک چھپتا رہا۔ اس رسالہ و اخبار نے باشندگان کشمیر کی آواز بلند کرنے میں قریباً ربع صدی تک ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ ان اخبارات کے بعد تحریک آزادی کشمیر میں جن اخباروں نے نمایاں حصہ لیا ان میں اخبار انقلاب۔ مسلم آئوٹ لک۔ سیاست ۔ سن رائز )لاہور(۔ جماعت احمدیہ کا انگریزی ترجمان۔ اخبار الفضل اور اخبار فاروق )قادیان( خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور خصوصاً الفضل )قادیان( نے تو اس سلسلہ میں ایسا مستند اور مفصل ریکارڈ محفوظ کردیا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر پر قلم اٹھانے والا کوئی مورخ اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا!!
اہل کشمیر کے تحفظ حقوق کے لئے انجمنوں کا قیام
شروع شروع میں صحافت نے جو آواز بلند کی اس پر عملی قدم اٹھانے کے لئے مجلس کشمیری مسلمانان لاہور کے نام سے ۱۸۹۶ء میں پہلی انجمن قائم ہوئی جس کے بانیوں میں سے میاں کریم بخش صاحب رئیس اعظم لاہور ان کے فرزندان میاں شمس الدین صاحب و میاں نظام الدین صاحب و میاں جلال الدین صاحب۔ مولوی احمد دین صاحب بی۔اے پلیڈر۔ خواجہ رحیم بخش صاحب بی۔ اے اور ڈاکٹر محمد اقبال صاحب تھے اس مجلس نے ڈیڑھ سال تک کام کیا۔
یکم دسمبر ۱۹۰۱ء کو اس تنظیم کا احیاء >مسلم کشمیری کانفرنس< کے نام سے ہوا۔ اور اس کے جنرل سیکرٹری میاں شمس الدین صاحب اور پریذیڈنٹ میاں کریم بخش صاحب مقرر ہوئے۔ ۳ ۱۹۱۱ء میں >آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس< کی بنیاد پڑی جو ملک گیر تنظیم تھی جس نے جلد ہی ملک گیر صورت اختیار کرلی اور اس کے اجلاس لاہور` امرتسر` گوجرانوالہ` سیالکوٹ` گجرات` جہلم اور راولپنڈی میں بھی ہوئے۔ اور ۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۳ء تک خان بہادر شیخ غلام صادق صاحب آنریری اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر امرت سر ` خان بہادر خواجہ یوسف شاہ صاحب ممبر لیجسلیٹو اسمبلی پنجاب` نواب سربلند جنگ بہادر حاجی مولوی حمید اللٰہ خان صاحب سابق چیف جسٹس حیدر آباد دکن۔ خان بہادر نواب خواجہ محمد اعظم خان صاحب رئیس اعظم ڈھاکہ میاں فیروز الدین صاحب آنریری مجسٹریٹ ورئیس اعظم امرت سر اور شیخ عطا محمد صاحب بی۔اے ایل ایل ۔بی وکیل پبلک پراسیکیوٹر گجرات رئیس اعظم گوجرانوالہ نے ان اجلاسوں کی بالترتیب صدارت کی ۱۹۲۴ء میں یہ مجلس سرینگر میں اپنا اجلاس کرنا چاہتی تھی مگر معتمد وزیر امور خارجہ ریاست جموں وکشمیر نے اطلاع دی کہ سال رواں میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ۴
۲۵۔۱۹۲۴ء میں اس کے یہ عہدیدار تھے۔ )۱( شیخ عطا محمد صاحب۔ بی ۔اے ایل ایل۔ بی پریذیڈنٹ سنٹریل سٹینڈنگ کمیٹی )۲( سید محسن شاہ صاحب بی ۔اے ایل ایل۔بی بیرسٹرایٹ لاء ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور آنریری جائنٹ سیکرٹری )۳( خواجہ فیروز الدین احمد صاحب بی۔اے بیرسٹرایٹ لاء ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور۔ آنریری جائنٹ سیکرٹری۔ )۴( منشی محمد الدین صاحب فوق ایڈیٹر اخبار کشمیری لاہور آنریری اسسٹنٹ سیکرٹری۔ )۵( خواجہ غلام نبی صاحب آنریری فنانشل سیکرٹری۔ )۶( خواجہ صدرالدین صاحب آنریری آڈیٹر۔ ۵
اس تنظیم نے کشمیری خاندانوں کے ہونہار مگر نادار بچوں پر ہزاروں روپیصرف کئے ۱۹۱۷ء تک اس کانفرنس نے شمالی کشمیر میں ۱۲۔۱۳ مدرسے اپنے خرچ پر جاری کئے اور کشمیر کے بعض ہونہار طلبہ کو وظائف دیکر کالجوں کی تعلیم بھی دلوائی۔ ۶ ۱۹۳۱ء میں جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس کے سب عہدیداروں حضوصاً سید محسن شاہ صاحب بی۔اے۔ایل ایل۔ بی ہائیکورٹ لاہور اور منشی محمد الدین صاحب فوق نے کشمیر کمیٹی سے خاص طور پر تعاون کیا اور اپنی خدمات اسکے مقاصد کی تکمیل کے لئے پیش کردیں۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔ اس زمانہ میں آل انڈیا کشمیری کانفرنس< کے علاوہ >آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس< )جس کے جائنٹ سیکرٹری عرصہ تک صاحبزادہ آفتاب احمد خاں صاحب بی۔اے رہے( مسلمانان کشمیر کے تعلیمی مسئلہ کی طرف خاص دلچسپی لیتی رہی۔ ۷`۸

فصل دوم
تحریک آزادی کا دوسرا دور )۱۹۰۹ء تا ۱۹۲۰ء(
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا پہلا سفر کشمیر ۱۹۰۹ء
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے زمانہ خلافت سے پانچ سال ¶قبل بیس سال کی عمر میں یکم جولائی ۱۹۰۹ء کو پہلی بار کشمیر تشریف لے گئے اور ۲۲ / اگست ۱۹۰۹ء تک قیام پذیر رہے۔ ۹ اسی دوران میں آپ ناسنور ۱۰ بھی تشریف لائے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو فطری طور پر مظلوموں اور بیکسوں کے لئے ایک مضطرب اور حساس دل عطا فرمایا ہے دوران قیام کشمیر میں آپ کی آنکھوں نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کے ایسے ایسے نظارے دیکھے کہ آپ فرط غم سے آبدیدہ ہوگئے اور آپ میں اہل کشمیر کی آزادی کے لئے زبردست جذبہ ¶پیدا ہوگیا چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں۔
>میں چھوٹا تھا کہ ہم سرینگر جاتے ہوئے ایک گائوں میں سے گذرے اس وقت موٹریں نہ تھیں ٹانگوں پر جاتے تھے۔ گائوں والوں سے ہم نے مرغ مانگا مگر انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا اس گائوں میں تو وبا پڑی تھی اور سب مرغ مرگئے میرے چھوٹے بھائی بھی غالباً حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ناقل( بھی میرے ساتھ تھے جن کی عمر اس وقت تیرہ سال کی تھی وہ ایک گھر میں گھس گئے اور واپس آکر کہا کہ اس میں چالیس سے زیادہ مرغ ہیں میں نے سمجھا بچہ ہے غلطی لگی ہوگی لیکن پاس ہی صحن تھا میں نے جو ادھر نظر کی تو واقعی صحن مرغوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے جب گھر والے سے پوچھا تو اس نے کہا یہ تو ہم نے نسل کشی کے لئے رکھے ہوئے ہیں اتنے میں ایک اور ساتھی نے آکر کہا قریباً سب گھروں میں کثرت سے مرغ موجود ہیں۔ آخر گائوں والوں نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ سرکاری آدمی آتے ہیں اور بغیر پیسہ دیئے ہمارے گھر اجاڑ کر چلے جاتے ہیں اس لئے ہر سفید پوش کو سرکاری آدمی سمجھ کر انکار کردیتے ہیں۔ ایک دفعہ میں پہلگام گیا۔ ریاست کا اس وقت قانون تھا کہ بوجھ اٹھانے کے لئے اگر آدمی کی ضرورت ہوتو تحصیلدار کو چٹھی لکھی جائے چنانچہ میں نے چٹھی لکھی مزدور آگئے اور بوجھ اٹھاکر چل پڑے دور جاکر میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک آہیں بھر رہا ہے اور کراہ رہا ہے میں چونکہ جانتا تھا کہ کشمیری مزدور بوجھ بہت اٹھاتے ہیں اس لئے اس کے کراہنے پر مجھے حیرت ہوئی اور کہا تم لوگ بوجھ اٹھانے میں بہت مشاق ہو پھر اس طرح کیوں کراہ رہے ہو اس نے کہا مشاق وہی ہوتے ہیں جن کا یہ پیشہ ہو میں تو برات کے ساتھ جارہا تھا کہ پکڑ کر یہاں بھیج دیا گیا وہ ایک معزز زمیندار تھا جس نے کبھی یہ کام نہیں کیا تھا میں نے اسے کہا میں ٹرنک خود اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا پہلے گائوں میں ہی چلکر مجھے کتنی رقم خرچ کرنی پڑے میں وہاں سے مزدور لیکر تمہیں چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا< ۱۱ یہ ایسی دردناک بات تھی جس سے میں بہت ہی متاثر ہوا اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی کہ کشمیر کے لوگوں کو آزادی کے لئے کوشش کرنی چاہئے<۔ ۱۲
پھر فرماتے ہیں >اس سے بھی زیادہ عجیب واقعہ مجھے ایک افسر نے جو پونچھ میں وزارت کے عہدہ پر فائز رہا ہے بتایا۔۔۔۔ کہ ایک دفعہ مجھے مزدوروں کی ضرورت تھی میں نے حاکم مجاز کو اس کے متعلق خط لکھا اس نے کچھ مزدور بھیجے جن کے متعلق مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک بھی مزدور نہ تھا بلکہ سب کے سب براتی تھے جن میں دولہا بھی شامل تھا ذرا غور کرو یہ کس قدر درد ناک واقعہ ہے ان لوگوں کے لئے کھانے پکے ہوئے ہونگے اور لڑکی والے ان کی راہ دیکھ رہے ہوں گے دولہن دولہا کا انتظار کررہی ہوگی۔ اس واقعہ سے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے<۔ ۱۳
غرضیکہ اس نوعیت کے تلخ واقعات کی یاد لے کر آپ واپس قادیان تشریف لائے اور پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اگلے سال جب ستمبر ۱۹۱۰ء سے مدرسہ احمدیہ کے افسر بنے تو آپ نے کشمیری طلبہ کو قادیان میں تعلیم دلانے کی طرف خاص توجہ شروع کردی۔ اور جب مارچ ۱۹۱۴ء میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے کشمیری طلباء کے لئے خاص وظائف مقرر فرما دیئے اور ریاست کے نونہالوں کی کثیر تعداد قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے لگی جس کا سلسلہ ۱۹۴۷ء تک جاری رہا۔ حضور کو اہل کشمیر کا کس درجہ خیال تھا اس کا اندازہ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے رجسٹر متعلقہ سال ۱۹۱۷ء سے بخوبی لگ سکتا ہے اس رجسٹر میں لکھا ہے کہ:۔
>درخواست مسمیٰ عبدالجبار مدرس رشی نگر ڈاک خانہ شوپیاں ملک کشمیر۔ کہ اس کے بھائی عبدالرزاق کو مدرسہ احمدیہ میں داخل فرمایا جائے۔ معہ ارشاد حضرت خلیفہ المسیح کہ اب کشمیری لڑکے مدرسہ احمدیہ میں نہیں رہے اس لئے اس کا انتظام کرکے بلالیں۔ معہ رپورٹ سیکرٹری کہ لڑکے کو لکھ دیا گیا ہے کہ وہ بہت جلد آجاوے مناسب وظیفہ مقرر کیا جاوے۔ ۱۴
۱۹۲۹ء میں کشمیر کے ایک غیر احمدی پیر حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے حضور نے انہیں فرمایا کہ آپ کشمیر سے ذہین طلبہ بھجوائیں ہم ان کی تعلیم کا ذمہ لیتے ہیں۔ ۱۵
کشمیر میں تعلیم بالغاں کی بنیاد
کشمیر میں شوپیاں سے چند میل کے فاصلہ پر تحصیل کو لگام میں احمدیوں کا مشہور گائوں ناسنور ہے جہاں ۱۹۰۹ء کے جلسے میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی اور احمدیوں اور غیر احمدیوں سے خطاب کرتے ہوئے اہم نصائح فرمائیں۔ ۱۶
ناسنور میں ڈار قوم کا ایک معزز خاندان آباد تھا۔ جو سارے علاقہ میں بڑی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور زمینداری اور تجارت دونوں لحاظ سے وہ آسودہ حال تھا اس خاندان کے ایک بزرگ حضرت حاجی عمر ڈار حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدیم صحابہ ۱۷ میں سے تھے۔ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس نصیحت سے متاثر ہوکر کہ ریاست میں تعلیم عام کرنی چاہئے۔ ۱۹۰۹ء سے کشمیر میں تعلیم بالغان کی بنیاد رکھی چنانچہ منشی محمد الدین صاحب فوق لکھتے ہیں:۔ >خواجہ محمد عمر ڈار احمدی ہونے کے بعد سب سے پہلے حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ ۱۸ پھر انہوں نے قریباً پچاس سال کی عمر میں کچھ لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اور کشمیر میں تعلیم بالغان کی بنیاد قائم کی جس کے کھنڈروں پر آج ہماری ریاست کا محکمہ تعلیم ایک عالی شان عمارت کھڑی کرنے میں مصروف نظر آرہا ہے مرزا صاحب کے عقائد و دعاوی سے کسی کو مخالفت ہو یا موافقت اور خواجہ عمر ڈار کی قبول احمدیت اچھی ہو یا بری لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی احمدیت نے اس گائوں میں ایک بیداری سی پیدا کردی اور اس بیداری نے وہ علمی انقلاب پیدا کردیا جس کی بدولت آج ناسنور میں ایک پرائمری سکول کے علاوہ ایک زنانہ سکول بھی قائم ہے اور چھ مولوی فاضل کا امتحان پاس ہونے کے علاوہ متعدد انگریزی خوان نوجوان وہاں موجود ہیں جو مختلف محکموں میں اچھے اچھے عہدوں پر برسر روزگار ہیں<۔ ۱۹`۲۰
راجوری کے مسلمانوں کی تنظیم
۱۹۱۴ء میں ایک احمدی عالم مولوی عبدالرحمن صاحب ساکن اندورہ اسلام آباد )والد ڈاکٹر نظیر الاسلام صاحب( نے راجوری میں مسلمانوں کو منظم کرنے کی جدوجہد شروع کی اس بزرگ کو قرآن مجید سے عشق تھا۔ لوگ ان کو امام مہدی کہتے تھے۔ کیونکہ آپ جب قرآن کریم تلاوت فرماتے تھے تو لوگ وجد میں آجاتے تھے۲۱ مولوی عبدالرحمن صاحب کی تقریروں سے علاقہ میں مسلمانوں میں ایسا اتحاد پیدا ہوگیا اور ہندوئوں نے نئی ابھرنے والی تنظیم کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر ہندو مسلم فساد کھڑا کردیا۔ پولیس نے گولیاں چلائیں۔ مولوی عبدالرحمن صاحب کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔ اور انہیں کٹک میں پناہ گزیں ہونا پڑا۔ ۲۲ ایک عرصہ کے بعد دوبارہ اپنے گائوں میں آگئے۔ ۱۸ / جون ۱۹۴۴ء کو انتقال فرمایا۔
مسٹر شارپ اور کشمیری وفد
اس وقت تک اہل کشمیر کے لئے جو کچھ کیا جارہا تھا وہ زیادہ تر پنجاب کے مسلمانوں کی طرف سے ہورہا تھا۔ ۱۹۱۶ء پہلا سال ہے۔ جبکہ خود مسلمانان کشمیر نے حکومت ہند کے مشیر تعلیم مسٹر شارپ کے سامنے جو ان دنوں کشمیر کا دورہ کررہے تھے اپنے مطالبات پیش کرنے کی جرات کی۔ مہاراجہ )پرتاپ سنگھ صاحب( نے یہ مطالبات بظاہر منظور کرلئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمران ریاست کی رسمی منظوری کے باوجود وہ سفارشات کبھی شرمندہ معنٰی نہ ہوسکیں۔ ۲۳
فصل سوم
تحریک آزادی کا تیسرا دور )۱۹۲۱ء تا ۱۹۲۸ء(
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا دوسرا سفر کشمیر
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۹۲۱ء میں )۲۵ / جون تا ۲۹ / ستمبر( دوبارہ کشمیر تشریف لے گئے اور جیسا کہ تحریک آزادی کشمیر کے ایک نہایت مخلص اور سرگرم کارکن چوہدری ظہور احمد صاحب )حال آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ربوہ( نے کشمیر کی کہانی میں بالتفصیل تحریر فرمایا ہے اس سفر میں حضور کو اہل کشمیر کے روح فرسا حالات دیکھ کر ان سے ہمدردی کی تڑپ اور گہری ہوگئی اور ریاستی باشندوں کے حالات کا بہت گہرا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اور آپ نے اپنے متعلقین اور دوسرے افراد جماعت سے اس مظلومیت کا سیاق وسباق کا مواد فراہم کرنا شروع کردیا۔ اور پہلی فرصت میں مظلومین کشمیر کو باہمی اتحاد ` اتفاق` تعلیم کی اشاعت اقتصادی حالت کی ۲۴ بہتری اور اسلامی احکام کی تعمیل اور رسم ورواج سے علیحدگی کی طرف توجہ دلائی۔ مئوخرالذکر بات چونکہ دینی نقطہ نگاہ سے سب سے اہم تھی اس لئے حضور نے اس پر کشمیر میں خطبات جمعہ کے دوران بھی زور دیا اور فرمایا :۔
>اگر کامیابی یا ترقی کرنا چاہتے ہو تو جہاں خدا کا حکم آوے اسے کبھی حقیر نہ سمجھو۔ رسم ورواج کو جب تک خدا کے لئے چھوڑنے کو تیار نہ ہوگے تب تک نمازیں ` روزے اور دوسرے اعمال آپ کو مسلمان نہیں بناسکتے۔ جہاں نفس فرمانبرداری سے انکار کرتا ہے اسی موقعہ پر حقیقی فرمانبرداری کرنے کا نام اسلام ہے اگر کوئی ایسا فرمانبردار نہیں ہے اور رسم و رواج کو مقدم کرتا ہے تو اس کا اسلام اسلام نہیں ہے<۔ ۲۵
۱۹۲۴ء میں ڈوگرہ راج کے مظالم
جولائی ۱۹۲۴ء کا واقعہ ہے کہ سرینگر کے کارخانہ ریشم کے مزدوروں کو شکایت تھی کہ ان کو بہت کم مزدوری ملتی ہے اور جو کچھ ملتا ہے خود ہندو افسران اس میں سے رشوت جمع کرلیتے ہیں یہ الزام درست ثابت ہوا۔ مگر ریاست یا تو افسر کو بچالیتی ۔۔۔ یا برائے نام سزا دے کر کسی اور پارک میں تبدیل کردیتی تھی اس کھلی طرف داری پر مسلمان مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ ریاستی حکام نے رات کے بارہ بجے مظلوم مزدور لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔ اور دوسرے مزدوروں کو گورنر کشمیر کی موجودگی میں مسلح فوج نے اپنے نیزوں کا نشانہ بنایا۔ اس واقعہ پر شاید ایک ماہ نہ گذرا ہوگا کہ ایک ہندواخبار >عام< لاہور کے ایک مضمون کی بناء پر کشمیری پنڈتوں کی ایک جماعت نے خانقاہ معلیٰ پر اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کردیا۔ اور جوتوں سمیت اندرجاکر اس کی بعض کھڑکیاں بھی توڑ دیں چند دنوں کے بعد جب محرم آیا تو ریاست نے ذوالجناح اور ماتمی جلوس نکالنے پر عمداً پابندی لگادی بلکہ گورنر صاحب کشمیر )جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی تھے( شیعہ اصحاب سے ذوالجناح بھی چھین لیا۔ اس کے بعد ۱۴ / اکتوبر ۱۹۲۴ء کو وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ سیر و سیاحت کے لئے کشمیر آئے تو مسلمانان کشمیر کے نمائندوں نے اپنی سیاسی` مذہبی اور معاشرتی شکایات کا محضرنامہ )میموریل( تیار کیا جس میں اعداد و شمار دے کر بتایا کہ ریاست کی کل آبادی کا ننانوے فیصدی حصہ ہندو ارکان حکومت کی جیبوں میں جاتا ہے اور صرف ایک فیصدی حصہ ۹۵ فیصدی مسلمان آبادی کو دیا جا رہا ہے۔ ۲۶
یہ محضرنامہ مسلمانان کشمیر کے نمائندوں نے لارڈ ریڈنگ )وائسرائے ہندوستان( کو پیش کیا جو انہوں نے دربار کشمیر میں بھیج دیا لارڈ ریڈنگ ۲۸ /اکتوبر ۱۹۲۴ء تک کشمیر میں رہے ان کے جانے کے بعد مہاراجہ پرتاپ سنگھ صاحب نے رائے بہادر کرنل جنگ سنگھ صاحب مشیر مال چوہدری خوشی محمد صاحب ناظر اور مسٹر گلینسی )ممبر فائینینس و پولیس( پر مشتمل ایک کمیشن بٹھادیا جس نے محضرنامہ پر دستخط کرنے والوں کے بیانات لینے شروع کئے بیانات دینے والے کمیشن کے ممبروں سے مرعوب نہ ہوئے کشمیر کی حکومت کے لئے اس قسم کی حق گوئی بالکل نئی بات تھی نتیجہ یہ ہوا ۱۵/ مارچ ۱۹۲۵ء کو مسلمانوں کے ان نمائندوں میں سے خواجہ سعد الدین صاحب شال رئیس سرینگر کے مکان پر ایک انسپکٹر پولیس اور دو سب انسپکٹر پولیس نے ڈیڑھ سو سپاہیوں کی جمعیت کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ اس وقت خواجہ صاحب کا اکلوتا بیٹا نمونیہ میں مبتلا تھا اور آپ اس کی تیمار داری میں مصروف تھے آپ نے صبر وشکر سے ریاست کے ظالمانہ احکام کی تعمیل کی۔ اور پولیس پہلے بندگاڑی میں اور پھر موٹر میں بٹھا کر پنجاب کی سرحد تک چھوڑ گئی۔ اسی طرح خواجہ حسن شاہ صاحب نقش بندی رئیس ۲۷ کی چار ہزار روپیہ سالانہ کی جاگیر میموریل پر دستخط کرنے کی پاداش میں ضبط کرلی گئی۔ اور ان کے قابل فرزند خواجہ نور شاہ صاحب تحصیل دار خاص کا نہ صرف درجہ ترقی )وزیر وزارت( غصب کرکے ایک اور شخص کو دے دیا گیا بلکہ ان سے اس قسم کا سلوک روارکھا گیا کہ پہلے وہ جبراً رخصت لینے پر مجبور کئے گئے اور پھر ان کے ایک مشورہ طلب عریضہ کو ناحق استعفیٰ بناکر منظور کر لیا گیا۔ حالانکہ ان کا مذکورہ بالا میموریل کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھا اسی طرح سید حسین شاہ صاحب ذیلدار جڈل بل ۲۸ )سرینگر( بھی اسی >جرم< کی وجہ سے ذیلداری سے علیحدہ کر دیئے گئے۔
اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں مسلمانوں کو تہس نہس کرنے کے لئے لشکر اور توپ خانے منگوائے گئے بارہ مولا میں مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ مسجد کی دیواریں اپنے ہاتھ سے گرادیں۔ سرینگر میں ریشم خانہ کے مزدوروں کو بندوقوں کے کندوں اور سنگینوں کی نوکوں سے زخمی اور مجروح کرکے الٹا ان پر بلوہ اور بغاوت کے مقدمات قائم کئے گئے اور بیرونی دنیا کو بے خبر رکھنے کے لئے تار رکوا دئے گئے۔ ۲۹ لیکن مظلوموں کی آہیں جو توپ وتفنگ سے زیادہ اثر رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف آہنی دیواروں بلکہ ہمالیہ کے سربفلک پہاڑوں کو چیرتی اور کشمیر کی وادیوں کو طے کرتی پنجاب کے میدانوں میں جس جس جگہ اور جس جس میدان پرگئیں ان لوگوں کو جن کے پہلو میں پتھر نہیں بلکہ درد سے بھرا ہوا ایک گداز دل ہے ہم نوا وہم آہنگ بناتی گئیں۔
رشی نگر میں آتشزدگی
قریباً ۱۹۲۷ء میں کشمیر کے موضع رشی نگر کے مسلمان باشندوں کو آتشزدگی کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا جس پر نظارت امور خارجہ قادیان نے گورنر صاحب سرینگر سے درخواست کی کہ وہ مالیہ کی ادائیگی معاف کردیں یا اسے ملتوی کر دیں۔ ۳۰
ہندو ریاستوں سے انصاف پروری کی اپیل
ریاست بھوپال کی تعزیرات میں ایک دفعہ یہ چلی آتی تھی کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کرکے پھر ارتداد اختیار کرے تو اسے تین برس تک قید یا جرمانہ یا ہر دو قسم کی سزا دی جاسکتی تھی۔ والئی بھوپال نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں یہ قانون منسوخ کردیا۔ اخبار >الفضل< نے اس خبر پر کشمیر اور دوسری ہندو ریاستوں کے حکمرانوں کو توجہ دلائی کہ یہ ایک مسلم حکمران کی روشن ضمیری اور رعایا پروری کی تازہ ترین مثال ہے کاش وہ بھی اپنی مسلم رعایا کو مذہبی آزادی دے کر اپنے عدل شعار ہونے کا ثبوت دیں۔ ۳۱
کشمیر اور جموں میں تعلیمی جدوجہد
حضرت خواجہ محمد عمر صاحب ڈار کے فرزند خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار بھی صحابی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں پڑھتے رہے۔ اور حضور علیہ|السلام کی دعائوں کی برکت سے انڑنس میں کامیاب ہوئے تھے۔ خواجہ صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نصائح پر عمل پیرا ہوکر سارے علاقے کا دورہ کیا۔ مسلمانوں کو منظم کیا ان کے اختلافات رفع کرنے کی کوشش کی اور ان کو تعلیم کے فوائد بتائے۔ ادھر وادی کشمیر میں خواجہ صاحب کام کر رہے تھے ادھر علاقہ جموں میں خواجہ صاحب کے دوش بدوش ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب میاں فیض احمد صاحب اور ان کے رفقاء نے بھی یہ تحریک شروع کردی ٹھیکیدار صاحب انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ممبر تھے۔ اور فیض احمد صاحب کا تعلق جماعت احمدیہ قادیان سے تھا۔ ۳۲
‏]0 [stfمسلمان زمینداروں کی تنظیم
کشمیر میں زمینوں کا مالک ریاست سمجھی جاتی تھی جس کانتیجہ یہ تھا کہ کوئی زمیندار اپنی زمین پر کسی قسم کا مالکانہ تصرف نہیں کرسکتا تھا بلکہ ہر مالکانہ تصرف کے لئے اسے ریاست کی خاص اجازت حاصل کرنا پڑتی تھی گویا کشمیر میں زمیندار عملاً مزارعوں کی حیثیت رکھتے تھے وہ اپنی اراضی پر لگائے ہوئے درخت نہیں کاٹ سکتے تھے مکان نہیں تعمیر کرسکتے تھے اگر ریاست کو ان کی زمین کے لینے کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ فوراً بے دخل کردیئے جاتے اور محض کاشت کے حقوق کی بناء پر انہیں نہایت خفیف سا معاوضہ ملتا۔ ریاست کو یہ بھی قانوناً حق حاصل تھا کہ مسلمان زمینداروں پر غیر مسلم اشخاص کو لاکر مالک قرار دے چنانچہ کئی خالص مسلم رقبہ جات اسی طرح محض رسمی نذرانوں پر غیر مسلموں کی ملکیت قرار پاچکے تھے اور اس کے متعلق کسی مسلمان زمیندار کا عذر قابل شنوائی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح مسلمان زمینداروں کا بڑی بے دردی سے گلا کاٹا جارہاتھا ظلم وستم کی حد یہ تھی کہ ریاست کشمیر کو صرف نقدی میں ٹیکس وصول کرنے کی بجائے عملاً جنس اور نقدی ہر دو صورتوں میں معاملہ وصول کرتی تھی گویا کشمیری زمیندار کو لگان کے ساتھ مالکانہ بھی ادا کرنا پڑتا تھا یعنی کچھ ٹیکس تو وہ ریاست کو بحیثیت حکومت دیتا تھا اور کچھ بحیثیت مالک جس کی عملی صورت اور بھی عجیب تھی اور وہ یہ کہ ریاست زمیندار سے پیداوار کا ایک معقول حصہ لگان سرکاری میں وصول کرلیتی اور اس کے ساتھ ہی وہ زمیندار کی پیداوار بھی خود اپنے مقرر کردہ نرخ پر خرید لیتی جس کے بعد ریاست یہ خرید شدہ جنس بازاری بھائو پر معقول منافع کے ساتھ پھر زمنیدار اور دوسری رعایا کے ساتھ فروحت کردیتی اس طرح ریاست دوہرا فائدہ اٹھاتی اور رعایا کو دوہرا نقصان ہوتا۔ ۳۳
زمینداروں کی یہ حالت زار دیکھ کر خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار ۳۴ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ہدایات کی روشنی میں زمینداروں کی تنظیم و اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے قانون و اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے ریاست بھر کے مسلمان زمینداروں کی تنظیم کرلی۔ اس پر حکام ریاست نے انہیں ظلم وستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ حتیٰ کہ پولیس نے ان کو ڈوگرہ مظالم کے خلاف احتجاج اور محض زمینداروں کو منظم کرنے کے جرم میں غنڈوں میں شامل کرلیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ وہ نازک دور تھا جبکہ ڈوگرہ راج سے ٹکر لینے کا خیال و تصور بھی اہل کشمیر کو نہیں آسکتا تھا چنانچہ جناب چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں۔ نوجوانوں نے بڑے اشتیاق سے یہ واقعات سنے اور حیرت زدہ ہوکر چلا اٹھے کیا یہ ممکن ہے بڈھے ٹھڈوں نے جنھیں ظلم سہتے زیادہ عرصہ ہوا تھا۔ سر ہلا کر کہا بالکل جھوٹ بادشاہوں سے کون لڑسکتا ہے۔ )کشمیر از حسرت صفحہ۱۶۰( ۳۵
خلیفہ عبدالرحیم صاحب )آف جموں( کی خدمات اور بینرجی کا لرزہ خیز بیان
اس زمانہ میں ریاست کی کلیدی اسامیوں پر ڈوگروں اور کشمیری پنڈتوں کا قبضہ تھا )الا ماشاء اللہ( اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ
اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانان کشمیر کو یہ بھی تلقین کی جارہی تھی کہ وہ ریاست کی ملازمت میں زیادہ سے زیادہ آگے آنے کی کوشش کریں اور جو مسلمان ان اسامیوں پر ہیں وہ مسلمانوں کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔ حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونی کے فرزند خلیفہ عبدالرحیم صاحب ۳۶4] [rtf ان غیور افسروں میں سے تھے جنھوں نے دور ملازمت میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کردیا۔ تحریک آزادی کے سلسلہ میں آپ کی شاندار مساعی کا ذکر آئندہ بھی آئے گا مگر واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے یہاں ہم ان کے اس کارنامے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ خاص طور پر انہوں نے ریاستی وزراء سرایلبین بینرجی اور مسٹر ویکفیلڈ کے سامنے صحیح اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ کس طرح ۹۵ فیصدی مسلمان اکثریت بے انصافی اور جبر وتشدد کا شکار ہو رہی ہے۔
چوہدری ظہور احمد صاحب )آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان( خلیفہ عبدالرحیم صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ >خلیفہ عبدالرحیم صاحب )جو بعد میں ہوم سیکرٹری حکومت جموں وکشمیر بنے( انہی ریاستی افسروں میں سے ایک تھے جن کی قومی خدمات کو مسلمانان جموں وکشمیر کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ سرایلبین بینرجی اور مسٹر ویکفیلڈ ریاست کے وزراء میں شامل تھے اور مہاراجہ پر چھائے ہوئے تھے خلیفہ عبدالرحیم صاحب جو مسلمانوں کی حالت زار سے بخوبی واقف تھے اپنی قابلیت محنت اور دیانتداری کی وجہ سے اپنے بالا افسران یعنی وزراء کے دلوں میں بھی ایک خاص مقام پیدا کرچکے تھے انہوں نے ان وزراء کے سامنے مردم شماری کے اعدادو شمار رکھے اور اس کے مقابل ملازمتوں میں ان کا تناسب بتایا جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھا۔ ہندو ساری ریاست پرچھائے ہوئے تھے تجارت پر توکلیت¶ہ ہندوئوں کا ہی قبضہ تھا۔ پلیٹ فارم کی بھی کوئی آزادی نہ تھی ۔ انجمن بنانے کی ممانعت تھی مسلمانوں کے اوقاف پر ریاست کا قبضہ تھا بعض مساجد مال گوداموں کے طور پر استعمال ہورہی تھیں۔ یہ ساری باتیں سر بینرجی اور مسٹر ویکفیلڈbody] gat[ کے نوٹس میں لائی گئیں۔ ۳۷
خلیفہ عبدالرحیم صاحب کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ رونماہوا۔ کہ ہندوستان کے مشہور مدبر اور سیاست دان سرایلبین بینرجی ریاست کشمیر میں دوتین سال تک وزیر خارجہ و سیاسیات رہنے کے بعد مستعفی ہوگئے اور استعفاء کے فوراً بعد ایسوشی ایٹڈ پریس کے نمائندہ کو اپنے مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر مسلمانان کشمیر کے متعلق ایک اہم بیان دیا ۳۸ جو اخبار سٹیٹسمین (Statesman) کلکتہ نے حسب ذیل رائے کے ساتھ شائع کیا:۔
>ہندو کانگریسی اخبارات جس طرح برطانوی راج کے خلاف محاذ جنگ قائم کئے ہوئے تھے اسی طرح آج کل انہوں نے مسلمانوں کے کشمیری اضطراب کے خلاف بھی ایک مستقل جہاد شروع کر رکھا ہے اور اس مسلم ایجیٹیشن کو ناقص بتا بتا کر اس کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک اس قدر کامیاب اور منظم ہے کہ قارئین کرام کو بخوبی معلوم ہوگا۔
ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کی حالت جس قدر خراب ہے ان پر جس طرح حکومت کی جاتی ہے ان کے ساتھ غیر شریفانہ اور انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے اس کا اندازہ خود ریاست کے ایک اہلکار کی زبان سے سنئے۔ اور غور کیجئے کہ یہاں کی حالت کس قدر ناگفتہ بہ اور کس قدر ناقابل برداشت ہوچکی ہے پریس کے نمائندہ سے ریاست کشمیر کے >محکمہ خارجیہ سیاسیہ< کے سابق وزیر )۱۹۲۹ء( سرایلبین بینرجی نے اپنے عہدہ سے دست بردار ہونے کے بعد جو ایک دفعہ بیان دیا تھا اس وقت اس کا اعادہ ضرور مفید ہوگا یاد رہے کہ یہ بیان کسی تحریک کے سلسلہ میں نہیں دیاگیا تھا بلکہ ان واقعات سے متاثر ہوکر دیا گیا ہے جن سے وہ اپنے عہد میں متاثر ہوئے اور جو انہوں نے اپنے عہد حکومت میں اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آگاہی عوام کے لئے شائع کردیا۔ مسٹر ایلبین بینرجی نے جو واقعات بیان کئے تھے ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:۔
>کشمیر کی ریاست میں تقریباً تمام مسلمانوں کی آبادی ہے لیکن اس قدر جاہل اس قدر سادہ لوح اور مظلوم و معصوم کہ حالت حد بیان سے باہر ہے افلاس بے انتہا بڑھا ہوا ہے اور حکومت کی بے اعتنائی اور جور اسی قدر ناقابل برداشت ہیں کہ مجھے ان کی حالت دیکھ دیکھ کر رقت ہوتی ہے حکومت اور رعایا کے درمیان کوئی رابطہ محبت نہیں ہے وہ بے زبان مویشیوں کی طرح ہیں جو حاکم جس صورت سے چاہتا ہے ان سے کام لیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا حکومت کی انتظامی مشینری اس قدر خراب اور ناقص ہے کہ میں عرض نہیں کرسکتا۔ اشد ضروری ہے کہ تمام انتظامی عملہ کو ازسر نوتشکیل کیا جائے اور تمام نقائص فوراً دور کر دئے جائیں۔ لوگوں کو شکایتیں کرنے اور اپنی حالت حکام اعلیٰ تک پہنچانے کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہے اور حکومت ان کی طرف سے اس قدر استغناء برتتی ہے کہ گویا وہ ان سے کچھ فائدہ حاصل کرتی ہی نہیں تعلیم یافتہ طبقہ جو تمام تر کشمیری پنڈتوں پر مشتمل ہے ان کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں۔ اس لئے انہیں بھی ایک طرح سے مسلمانوں ہی کی طرح خراب و خستہ سمجھنا چاہئے وہ کسی قسم کی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اور مذہبی حلقوں میں ان کی حالت اچھی نہیں اس لئے وہ بھی بری حالت میں ہیں حکومت کی ملازمتوں میں ان کو بھی ترجیح نہیں دی جاتی وہاں بیرونی اصحاب کی خوب پرورش ہوتی ہے ریاست میں کوئی رائے عامہ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اخبارات سرے سے ہیں ہی نہیں اور موجودہ دور تمدن میں کسی مقام پر اخبارات کا نہ ہونا جس قدر اندوہناک منظر دور جہالت وبربریت کا ثبوت پیش کرسکتا ہے وہ وہاں موجود ہے یعنی رائے عامہ کے فقدان سے یہاں کی حکومت کی پالیسی پر نکتہ چینی بالکل نہیں ہوتی ۔۔۔۔ کشمیر کی سیاسی فوقیت زیادہ تر قدرتی اور جغرافیائی محل وقوع کی بناء پر ہے کیونکہ قدرت نے اسے تین بڑی بڑی سلطنتوں کے مابین پیدا کیا ہے اور اس وجہ سے اسے جو فوقیت حاصل ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے لیکن ریاست نہ تو کبھی اپنے پورے مدارج پر پہنچے گی اور نہ اپنی ذمہ داریاں پہچانے گی جب تک کہ حکومت اور باشندوں کے درمیان زیادہ رابطہ اتحاد اور زیادہ رشتہ الفت و مفاہمت قائم نہ ہو کشمیر کے دستکار جس قدر ۔۔۔ جفاکش مشہور تھے اب ان کی ہمت افزائی نہیں ہوتی اور اس وجہ سے ان کی حالت اس قدر مائل بہ انحطاط ہے کہ بیان سے باہر ہے حکومت ان کی سرپرستی اور امداد نہیں کرتی اس وجہ سے ان کی حالت روز بروز گرتی چلی جارہی ہے۔ میسور کی حکومت اپنے صناعوں کی جتنی امداد و سرپرستی کرتی ہے وہ اس ریاست )کشمیر( کے لئے نمونہ ہے<۔ ۳۹` ۴۰
حکام ریاست کا منصوبہ اور یعقوب علی صاحب کی ایمانی جرات
سرایلبین کے اس بیان نے جہاں ہندوستان کے طول وعرض میں زبردست ہیجان برپا کردیا وہاں حکومت جموں وکشمیر پر بھی اس مشہور مدبر کے الفاظ نے سراسیمگی اور گھبراہٹ طاری کردی اور اس نے پہلے انجمن اسلامیہ جموں وکشمیر کی اسلامی انجمنوں سے اس کی تردید کرانے اور عامتہ المسلمین کی آواز دبانے کا منصوبہ سوچا جو ناکام ہوگیا جس کا سہرا ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب احمدی )جموں( پرتھا۔ ۴۱ جو ینگ منیز ایسوسی ایشن کے روح رواں تھے اس اہم واقعہ کی تفصیل شمالی ہند کے پرجوش اخبار >انقلاب< نے اپنی تین اشاعتوں میں شائع کی جس کے تین اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
>سرایلبین بینر جی کے خیالات سے جو قریباً تمام اخبارات میں چھپ چکے ہیں متاثر ہوکر حکام ریاست جموں نے پرسوں مسلمانوں کا وفد آغا سید حسین ہائیکورٹ جج کے مکان پر بلایا اور یہ خیال ظاہر کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے آپ ایک ریزولیوشن منظور کرادیں جس میں بینرجی کے خیالات سے اختلاف ظاہر کیا جائے۔ مسلمانوں کے ان خودساختہ لیڈروں نے چائے کی ایک ایک پیالی سے اتنا نشہ حاصل کیا کہ مہاتما گاندھی بھی وائسرائے کی چائے پر اتنے سرشار نہ ہوئے ہونگے۔ آپ نے قوم سے استصواب کئے بغیر فرمادیا۔ ہمیں دیجئے قلم اور دوات ابھی لکھے دیتے ہیں خدا بھلا کرے مستری یعقوب علی صاحب قبلہ کا جنہوں نے کہدیا کہ پہلے مسلمانوں سے استصواب ضروری ہے چنانچہ کل انجمن اسلامیہ نے منادی کرادی کہ سرایلبین بینرجی کے خیالات پر اظہار رائے کیا جائے گا مسلم پبلک کو ان کی اس قوم فروشی کی خبر ہوئی تو انجمن مذکور کے خلاف نفرت کا جذبہ پھیل گیا جس پر اول تو جلسہ ملتوی کرنے کی ٹھانی گئی مگر مسلمانوں کے زور دینے پر جلسہ منعقد ہوا اور سرکار کے ان پٹھوئوں نے جو حکام سے کہہ آئے تھے کہ ہم میں قوت گویائی موجود ہے تمام مجمع کو ہاتھوں پر ڈال لیں گے جلسہ کا افتتاح کردیا۔ حاضری چھ ہزار سے زیادہ تھی قوت گویائی والے بزرگ تو بول ہی نہ سکے۔ چند اور لیڈروں نے برجستہ تقریریں کیں مگر مسلمانوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمیں انجمن کے موجودہ عہدیدار منظور نہیں کیونکہ تمام کے تمام پریذیڈنٹ اور سیکرٹری پنشن یافتہ ہیں اور مسلمان ان سے اعلائے کلمتہ الحق کی توقع نہیں رکھتے مسلمانوں نے تقاضا شروع کردیا مسلمانوں کو ۹۰ فیصدی ہوتے ہوئے تین فیصدی نوکریاں بھی نہیں دی جاتیں۔ مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ چند آزاد خیال حضرات نے کہہ دیا کہ مہاراج بہادر کے حکام مسلمانوں سے اس طرح سلوک کرتے ہیں جس طرح فرعون کی حکومت اسرائیلیوں سے کرتی تھی۔ کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے اتنے بھی حقوق نہیں جتنے گدھوں کے ہوتے ہیں کسی نے کہا انسپکٹر پولیس ایک بھی مسلمان نہیں غرض طرح طرح کی شکایات دہرائی گئیں۔ مسلمانوں کی ایک جماعت نے ایک پوسٹر پر جس پر ان کی شکایات مندرج تھی دستخط کرائے اور وہ پبلک جلسہ میں پڑھاگیا تمام مسلمانوں نے اس سے اتفاق کیا اور رجعت پسندوں کو ریزولیوشن منظور تو کیا پیش کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ غرض مسلمانان ریاست جموں نے سرایلبین بینرجی کے لفظ لفظ سے اتفاق کیا اور مہاراج سے استدعا کی کہ آپ مسلمانوں کی شکایات کا تدارک کرنے کی طرف توجہ فرمائیں<۔ ۴۲
دوسرے شمارہ میں نامہ نگار جموں کے حوالہ سے >انقلاب< نے یہ خبر شائع کی:۔
>یہاں کل سے بڑی زبردست افواہ پھیل رہی ہے کہ حکومت کشمیر اپنے لئے پراپیگنڈا کرانے کی غرض سے اس وقت تک بیس ہزار روپے خرچ کر چکی ہے اور ایک بڑے سرکاری افسر پچیس ہزار کی رقم لے کر پرسوں سے لاہور گئے ہوئے ہیں تاکہ اخبارات کے منہ بند کئے جائیں۔ شہر بھر میں بڑا ہیجان پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔ انجمن اسلامیہ نے اپنے جس اجلاس میں وہ رسوائے عالم ریزولیوشن منظور کیا وہ اغراض ومقاصد انجمن کی رو سے بالکل بے ضابطہ اجلاس تھا کیونکہ جلسہ سالانہ کے بعد کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوسکتا۔ تاوقتیکہ انتخاب عہدیداران نہ ہو۔ مزید براں اجلاس مذکورہ کا کورم بھی پورا نہ تھا<۔۴۳
تیسرے شمارہ میں یہ تبصرہ کیا:۔
>سرایلبین بینرجی کی صدائے حق نے ایک ہی دن میں جوکام کیا وہ اسلامی اخباروں کے پانسو مضامین اور اسلامی انجمنوں کی پانسو قرار دادوں سے بھی نہ ہوسکا۔ ایک قابل` تجربہ کار` مدبر نے ڈھائی سال تک ریاست کشمیر کے حالات کا امعان نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد جو رائے ظاہر کی ہے اس سے مہاراجہ بہادر` حکام ریاست حکومت ہند غرض کوئی بھی تغافل و تجاہل نہیں کرسکتی ۔۔۔ اگرچہ بعض ہندوعمال ریاست نے چند خوشامد پرست مسلمانوں کو ساتھ ملا کر عامہ مسلمین کی رائے کو دبانے اور سرایلبین بینرجی کے بیان کی تردید کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن تمام کشمیری مسلمانوں نے اپنی کمزوری اپنی مفلسی اور بیکسی کے باوجود ان کے خلاف شدت سے صدائے احتجاج بلند کی اور ان خوشامد پرستوں کو اسلام کا غدار بتایا جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے مسلمانوں کو پامال کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ تمام اسلامی اخبارات اس معاملے میں ہم زبان ہیں<۔۴۴
سرایلبین کے بیان کی تائید میں جماعت احمدیہ کا جلسہ
اس سلسلہ میں اپریل ۱۹۲۹ء میں مرکز احمدیت قادیان میں بھی ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس کی روداد اخبار انقلاب )۲۰ / اپریل ۱۹۲۹ء( نے بایں الفاظ شائع کی۔
>قادیان کے گذشتہ ہفتہ معزز کشمیری احباب کا ایک عظیم الشان جلسہ زیر صدارت مولوی عبدالاحد صاحب مولوی فاضل منعقد ہوا جس میں مولوی احد اللہ صاحب متعلم مولوی فاضل` مولوی غلام احمد صاحب )کشفی( کارکن صیغہ ترقی اسلام خاکسار محی الدین )بانڈی پورہ( مولومی عبدالعزیز صاحب ڈار` خواجہ محمد اسمٰعیل صاحب )شوپیاں( مولوی عبدالغفار صاحب ڈار` غلام محی الدین شاہ صاحب تاجر )بانڈی پورہ( ۴۵ کی زبردست تقریریں ہوئیں جلسے میں بالاتفاق رائے پاس ہوئی کہ سر ایلبین بینرجی نے مسلمانان کشمیر کی افتادگی` بے چارگی کے متعلق جو بیان دیا ہے بالکل صحیح اور آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے موصوف نے جو مفید و قیمتی مشورہ ریاست کو دیا ہے اس لائق ہے کہ ریاست اسے قدردانی اور قبولیت کی نظر سے دیکھے اور عملی جامہ پہنائے۔ سرایلبین بینرجی ایک غیر مسلم ہیں۔ ان کا مسلمانان کشمیر کے ساتھ سوائے اس کے اور کوئی تعلق نہیں کہ وہ اپنے پہلو میں بنی نوع انسان سے ہمدردی رکھنے والا ایک درد مند دل رکھتے ہیں۔ فطرت انسانی کا یہی تقاضا ہے کہ عاجز ومظلوم کی حالت دیکھ کر درد سے دل بھر جائے۔ یہ جلسہ ریاستی برادری اسلام سے پر زور استدعا کرتا ہے کہ ہر جگہ جلسے کرکے ذمہ دار حکام کی اس صلح کش حرکت اور چند نام نہاد مسلمانوں کی ملت فروشانہ کاروائی کے خلاف برملا نفرت ملامت کریں جس کا ارتکاب وہ دوروں سے اور جلسے کرکے کر رہے ہیں۔ جو مسلمانان کشمیر کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں بلکہ باعث ہلاکت ہے۔ ۔۔۔ آخر میں یہ جلسہ سرایلبین بینرجی کا اپنی کل مسلمان ریاست کی طرف سے دلی شکریہ ادا کرتا ہے اور ان کے بے غرضانہ بیان اور اس وسعت قلبی پر بصدق دل مبارک باد عرض کرتا ہے<۔ ۴۶
>الفضل< میں مسلمانان کشمیر کے مطالبات اور انکی تائید][۲۷۔۲۸ / اپریل ۱۹۲۹ء کو لدھیانہ میں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں اہل کشمیر کی فلاح و بہبود کے لئے ۱۹ ریزولیوشنز پاس کئے اور کانفرنس کے لائحہ عمل اور اس پر عملدرآمد کے لئے چالیس افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی اس اجلاس کی روداد الفضل )۱۴/ مئی ۱۹۲۹ء( نے )جوعرصہ سے کشمیری مسلمانوں کے مسئلہ میں دلچسپی لے رہا تھا( شائع کرتے ہوئے اہل کشمیر کے اہم مطالبات عوام تک پہنچائے۔ ۴۷
>آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس< نے اپنے اس اجلاس میں یہ قرار داد بھی پاس کی کہ یہ اجلاس نہایت افسوس سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ دربار کشمیر گذشتہ چند سال سے ان تجاویز کو جو کانفرنس سالانہ اجلاس میں منظور کرتی ہے اور دربار کو بھیجتی ہے توجہ کرنا تو کجا جواب دینے سے بھی قاصر رہا۔ جو معمولی روداری کا تقاضہ تھا اور باوجود کانفرنس کے متواتر مطالبات کے مسلمانان کشمیر کے مصائب کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی<۔ ۴۸
فصل چہارم
‏]1dhea [tagتحریک آزادی کا چوتھا دور )از ۱۹۲۹ء تا ۱۹۳۰ء(
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تیسرا سفر کشمیر
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۵ / جون ۱۹۲۹ء کو تیسری بار کشمیر تشریف لے گئے ہندو حلقوں کے سامنے چونکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک کشمیر سے متعلق سرگرمیاں آچکی تھیں۔ اس لئے اخبار >ملاپ< )لاہور( نے ۲۲ / جون ۱۹۲۹ء کو لکھا۔ ریاست کشمیر کو اس بارہ میں اپنی تسلی کر لینی چاہئے کہیں خلیفہ صاحب ریاست کشمیر کی مسلم آبادی میں اپنے تبلیغی وعظوں سے کوئی نئے کانٹے نہ بوآئیں۔ ۴۹ حضور کو اس سفر میں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کشمیر بیدار ہورہا ہے مگر خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار سے ریاستی سلوک معلوم کرکے سخت افسوس ہوا۔ چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں:۔
>میں ۱۹۲۹ء میں جب کشمیر گیا تو مجھے یہ بات معلوم کرکے نہایت خوشی ہوئی کہ مسلمانوں میں ایک عام بیداری پائی جاتی تھی حتیٰ کہ کشمیری زمیندار جو کہ لمبے عرصہ سے ظلموں کا تختہ مشق ہونے کی وجہ سے اپنی خود داری کی روح بھی کھوچکے تھے ان میں بھی زندگی کی روح داخل ہوتی ہوئی معلوم دیتی تھی۔ اتفاق حسنہ سے زمینداروں کی طرف سے جو جدوجہد کی جارہی تھی اس کے لیڈر ایک احمدی زمیندار تھے۔ زمینداروں کی حالت درست کرنے کے لئے جو کچھ وہ کوشش کر رہے تھے اس وجہ سے ریاست انہی طرح طرح سے دق کر رہی تھی وہ ایک نہایت ہی شریف آدمی ہیں معزز زمیندار ہیں` اچھے تاجر ہیں اور ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی اپنے علاقہ میں معزز چلا آیا ہے اور وہ بھی اپنی گذشتہ عمر میں نہایت معزز اور شریف سمجھے جاتے رہے ہیں۔ لیکن محض کسانوں کی حمایت کی وجہ سے ان کا نام بدمعاشوں میں لکھے جانے کی کوشش کی جارہی تھی جب مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے کو اس بارہ میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ریاست جموں وکشمیر سے ملاقات کے لئے بھیجا گفتگو کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس نے یہ وعدہ کیا کہ وہ جائز کوشش بے شک کریں لیکن زمینداروں کو اس طرح نہ اکسائیں جس سے شورش پیدا ہو اور اس کے مقابلہ میں وہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو جو ناجائز تکلیفیں پولیس کی طرف سے پہنچ رہی ہیں وہ ان کا ازالہ کردیں گے اور اسی طرح یہ یقین دلایا کہ جو جائز تکالیف کسانوں کو ہیں ان کا ازالہ کرنے کے لئے ریاست تیار ہے ہم نے یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ وعدے اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتے ہیں ان صاحب کو جو اس وقت کسانوں کی حمایت کررہے تھے یہ یقین دلایا کہ ان کی جائز شکایات پر ریاست غور کرے گی اس لئے وہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے شورش اور فتنہ کا خوف ہو لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداروں کی جائز شکایات کو دور ہونا تو الگ رہا برابر دوسال سے )یہ الفاظ جون ۱۹۳۱ء میں لکھے گئے ناقل( ان صاحب کے خلاف ریاست کے حکام کوشش کررہے ہیں اور باوجود مقامی حکام کے لکھنے کے کہ وہ صاحب نہایت ہی شریف انسان ہیں ان کا نام بدمعاشوں میں درج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے<۔ ۵۰
حضور کے دل کو )جو کشمیر کے بے بس اور مظلوم مسلمانوں کی غلامانہ زندگی اور دکھ بھری داستان پر پہلے ہی بہت دکھی تھا( اس قسم کے اخلاق سوز اورخلاف انسانیت واقعات سے اور زیادہ ٹھیس پہنچی۔ چنانچہ فرماتے ہیں >۱۹۲۹ء میں جب مجھے کشمیر جانے کا اتفاق ہوا تو پھر وہاں بعض اس قسم کے حالات دیکھنے میں آئے جن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی ہمدردی کا نقش اور گہرا ہوگیا<۔ ۵۱ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس سفر میں اہل کشمیر کو اپنی مدد آپ کرنے اور متحد ومنظم ہونے کی پرزور تلقین فرمائی جیسا کہ حصہ اول میں بتایا جاچکا ہے۔
سرینگر میں ریڈنگ روم پارٹی کا قیام
خواجہ غلام نبی صاحب گلکار ۵۲ سرینگر کے پرجوش احمدی اور اپنے خاندان میں پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سرینگر میں تشریف لائے تو خواجہ صاحب کو بھی حضور کی مجلس سے فیض یاب ہونے کا موقعہ ملا۔ ملک و قوم کی خدمت کی چنگاری طالب علمی کے زمانہ ہی سے آپ کے اندر دبی ہوئی حضور کی توجہ سے اب سلگنے لگی اور انہوں نے ۱۹۳۰ء کے آغاز میں مختلف پبلک مقامات پر جاجا کر اصلاحی تقاریر کا سلسلہ شروع کردیا۔ اور ان میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی نصائح کے پیش نظر تعلیم` اتحاد اور معاشرتی رسوم و رواج کی اصلاح پر زور دینے لگے۔ ۵۳
>مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق لکھتے ہیں:۔ جب شیخ محمد عبداللہ جن کی خدمات اولین نے ان کو شیر کشمیر کا خطاب دیا ہے علی گڑھ میں تعلیم پارہے تھے خواجہ غلام نبی ان ایام سے بھی قبل اپنی قومی پستی کا زبردست احساس رکھتے تھے آپ نے چند مسلمانوں کو منظم کیا۔ لیکن ریاست میں ان ایام میں انجمن بنانا جرم تھا آپ نے مسجدوں دعوتوں ` خانقاہوں اور میلوں اور ایسے ہی اجتماعات سے انجمنوں کا کام لے کر لیکچر وغیرہ شروع کردیئے آپ کے ساتھ ان دنوں مسٹر عبدالغنی ننگرو ولد صاحب جو نگرو ساکن پلوامہ اور فتح کدل سرینگر کے ایک لڑکے غلام حسن ولد حبیب اللہ صابون کے سوا کوئی آگے آنے والا نہ تھا۔ ان ایام میں شیخ محمد عبداللہ علی گڑھ سے ایم۔ایس۔سی ہوکر واپس کشمیر آچکے اور سٹیٹ ہائی سکول میں سائنس ماسٹر مقرر ہوچکے تھے۔ اور آپ سے اکثر بلکہ روزانہ ملاکرتے تھے۔ ۵۴
سرینگر کا مشہور اخبار >اصلاح< خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کی ان ابتدائی خدمات کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کرتا ہے۔ >کشمیر کا ہر کس وناکس بخوبی جانتا ہے کہ مسٹر گلکار ہی وہ مایہ ناز ہستی ہے جس کو سب سے پہلے اپنی قوم کی مظلومی و بے کسی کے خلاف آواز اٹھانے کا فخر حاصل ہوا۔ کشمیر کا بچہ بچہ اس امر کا زندہ گواہ ہے کہ مسٹر گلکار ان ہونہار نوجوانوں میں سے ہے جس کے دل نے سب سے پہلے قوم کی خستہ حالی پر درد محسوس کیا جونہی کہ اس نے عالم شباب میں قدم رکھا اس کی نگاہ قوم کی زبوں حالی وبدحالی پر پڑی اور اس کے دل پر ایسی چوٹ پڑی کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ۵۵ تحریک کشمیر کا جھنڈا بلند کرتا ہوا میدان میں کودا اور خطرات و مصائب کی پروانہ کرتے ہوئے قوم کو بیدار اور ہوشیار کرنے کے لئے عملی جدوجہد شروع کردی< اس مجاہد اعظم کی درد بھری آواز اور مخلصانہ تحریک نے صدیوں کے سوئے ہوئے غلام ملک کو بیدار کیا اور سالہا سال کی روندی ہوئی قوم میں زندگی کی لہر پیداکردی۔ ۵۶body] ga[t
جناب خواجہ صاحب کی نمایاں سیاسی زندگی کا آغاز >آل کشمیر مسلم سوشل اپ لفٹ ایسوسی ایشن< سے ہوتا ہے جو نوجوانان سرینگر نے ۱۹۳۰ء میں کشمیری مسلمانوں کی تنظیم کے لئے قائم کی اور جس کے پہلے صدر آپ ہی تجویز ہوئے اس تنظیم کو جن سربرآوردہ مسلمانوں کی پشت پناہی حاصل تھی ان میں مولوی احمد اللہ صاحب ہمدانی ` مولوی عبداللہ صاحب وکیل ۵۷ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انہی دنوں ایسوسی ایشن کے ممبروں میں ایک ایسے سرگرم انقلابی لیڈر کا اضافہ ہوا جس نے آئندہ چل کر اندورنی ریاست میں تحریک حریت کا جھنڈا اس شان سے بلند کیا کہ وہ خود مجسم تحریک بن گیا۔ میری مراد شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب ۵۸ سے ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس سی )کیمسٹری( کی ڈگری لیکر سرینگر میں تشریف لائے اور آتے ہی ایسوسی ایشن میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ۸/ مئی ۱۹۳۰ء کو آل کشمیر مسلم سوشل اپ لفٹ ایسوسی ایشن۔ ۵۹ کا پہلا اجلاس کا چگری مسجد حاجی سم راتھر کے محلہ میں خواجہ محمد سکندر صاحب ٹیلیگراف ماسٹر کے مکان پر ہوا جس میں قریب¶ا ایک سو نوجوان شامل ہوئے اور انہوں نے حلف اٹھایا کہ ہم ڈوگرہ حکومت سے کشمیر کو آزاد کراکے چھوڑیں گے۔ ۶۰` ۶۱
چونکہ ریاست میں سیاسی انجمن بنانے کی اجازت نہ تھی اس لئے طے پایا کہ ایک ریڈنگ روم کھولا جائے جس سے تحریک آزادی کے لئے پراپیگنڈا سنٹر کا کام لیا جاسکے چنانچہ مجوزہ پروگرام کے مطابق دوسرے دن ۹/ مئی ۱۹۳۰ء کو عیدالاضحیہ کے دن ۶۲ یہ ریڈنگ روم کھولا گیا اور فتح کدل پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کا نام فتح کدل ریڈنگ روم رکھا گیا اور اس سے وابستہ لوگ >ریڈنگ روم پارٹی< کے نام سے موسوم ہوئے اور اس کے صدر شیر کشمیر محمد عبداللہ صاحب اور جنرل سیکرٹری خواجہ غلام نبی صاحب گلکار چنے گئے۔۶۳
جموں میں >ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن< کے سیاسی لیڈر مثلاً جناب ٹھیکیدار مستری یعقوب علی صاحب چوہدری غلام عباس صاحب جناب سردار گوہر رحمان صاحب( بڑی جانفشانی` کوشش خلوص اور استقلال سے تحریک آزادی کا علم بلند کررہے تھے اور سرایلبین بینرجی کے بیان کے بعد پنجاب کے مسلم پریس کے ذریعہ کشمیر کے اندرونی حالات بیرونی دنیا کے سامنے لارہے تھے شیخ محمد عبداللہ صاحب ایسوسی ایشن سے رابطہ اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے خود جموں تشریف لے گئے۔ ۶۴ اور اپنے مشن میں کامیاب واپس آکر جلسوں جلوسوں اور تقریروں کا سلسلہ شروع کردیا اور اب جموں ۶۵ کی طرح سرینگر سے بھی پنجاب کے مسلم پریس میں ڈوگرہ راج کے ظلم وستم اور مسلمانوں کی مظلومی اور بیکسی کے متعلق مراسلات اور مضامین بھجوائے جانے لگے جن اخبارات میں یہ خطوط ومضامین شائع ہوتے تھے ریڈنگ روم پارٹی اسے پھیلا دیتی۔
ریڈنگ روم پارٹی نے ایک اور خفیہ پارٹی بنائی جو سرکاری ملازموں پر مشتمل تھی جس میں خواجہ علی شاہ صاحب خواجہ غلام محمد صاحب گلکار ` حکیم علی ریشم خانہ غلام احمد صاحب عشائی نظام الدین صاحب مستو` صفدر علی صاحب پیر غلام احمد صاحب فاضل اور پیر غلام رسول صاحب تھے جن کے ذمہ یہ کام تھا کہ مسلمانان ریاست کی ملازمتوں کے اعداد وشمار جمع کرکے پنجاب کے اخبارات کو ارسال کئے جائیں۔ ۶۶ چنانچہ یہ کام پوری سرگرمی سے جاری رہا۔
فصل پنجم
تحریک آزادی کے پانچویں دور کا آغاز )اپریل ۱۹۳۱ء سے مئی ۱۹۳۳ء تک(
مذہبی مداخلت اور توہین قرآن مجید کے ناگوار واقعات
اب ہم ۱۹۳۱ء کے اہم سال میں قدم رکھ رہے ہیں جبکہ تحریک آزادی کشمیر مختلف ابتدائی ادوار میں سے گذرتی ہوئی ایک نئے اور انقلاب انگیز دور میں داخل ہوگئی اور وہ مواد جو اندر ہی اندر بے کس مسلمانوں کے قلوب میں پک رہا تھا پھوٹ کر بہہ نکلا اور مظلوم کی زبان اس کے مظالم کی داستان سے ہویدا ہوگئی یہ انقلاب انگریز دور ۲۹ / اپریل ۱۹۳۱ء سے شروع ہوتا ہے جبکہ عیدالاضحیہ کے دن جموں میں ایک آریہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس نے ایک خطیب کو عید کا خطبہ پڑھنے سے روک دیا۔ اور یہ بتانے کے باوجود کہ خطبہ نماز کا ایک ضروری جزو ہے ہندوافسر اس بات پراڑا رہا میں کہتا ہوں صرف نماز پڑھ سکتے ہو لیکچر کی اجازت نہیں۔ ۶۷ ریاست کے مسلمان جو صدیوں سے زیر عتاب چلے آرہے تھے یہ واقعہ برداشت نہ کرسکے۔ اور ینگ مینز ایسوسی ایشن نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس سلسلہ میں ایک پوسٹر بھی شائع کیا۔ جس نے ریاست کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک آگ سی لگادی یہ آتشی ماحول قائم تھا کہ اس کے صرف چند روز بعد ۵ جون کی صبح کو ایک ہندو سارجنٹ کے ہاتھوں قرآن مجید کی سخت بے حرمتی کا دلآزار واقعہ پیش آگیا۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ جموں پولیس کا ایک مسلمان کانسٹیبل صبح کے وقت اپنے کمرہ میں تلاوت کر رہاتھا کہ ایک ہندوسارجنٹ آیا اور کانسٹیبل کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھ کر آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے کانسٹیبل کے ہاتھ سے قرآن کریم )پنجسورہ( چھین کر زمین پر دے مارا۔ اور غصہ سے کہنے لگا کہ تم یہ بکواس پڑھ رہے ہو۔ ۶۸ اور بعد میں حکومت کشمیر نے مسلمان سپاہی کو برطرفی کی سزا دے دی اور ظالم و سفاک ہندوافسر کوپنشن پر ریٹائر کردیا جس کے نتیجہ میں کئی مسلمانوں کے زخمی دلوں پر نہایت بیدردانہ طریق سے نمک پاشی ہوئی۔ ۶۹ اس زمانہ کے قریب ریاسی کی مسجد بھی گرائی گئی اور ڈھگوار اور کوٹلی میں نماز پڑھنے کی ممانعت کردی گئی۔
ان واقعات کے یکے بعد دیگرے ہونا` ہر واقعہ میں عبادت میں دخل اندازی کا ہونا اور پھر ہر واقعہ میں غیر مسلم پولیس کا ہاتھ ہونا بتاتا ہے کہ یہ اتفاقی حادثات نہیں تھے بلکہ دیدہ دانستہ کسی سکیم کا نتیجہ تھے اس امر نے قدرتاً ریاست کے مسلمانوں کے اندر جوش پیدا کردیا اور ریاست کی مسلم آبادی میں انتہائی رنج و الم کی لہر دوڑ گئی ۔ مسلمانوں نے سخت اضطراب اور بے تابی کی حالت میں حکومت کشمیر سے مناسب تلافی کی استدعا کی اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں کے سامنے وہ مظالم بھی پھر گئے جو ڈوگرہ حکومت ابتداء ہی سے ان پر کرتی آرہی تھی اور انہیں یہ احساس ہوا کہ ریاست کے افسران یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ جموں کشمیر میں اب مسلمان محض ذلیل اور غلامانہ حیثیت میں رہ سکتا ہے چنانچہ ساری ریاست میں اس کے خلاف پروٹسٹ شروع ہوگیا جلسے کئے گئے اور برطانوی ہند کے مسلم پریس ۷۰ نے خصوصاً زبردست تنقید کی۔ مگر حکومت جموں وکشمیر نے کوئی مصالحانہ قدم اٹھانے کی بجائے اور زیادہ سختی شروع کردی اور مسلم اخبارات کے داخلے بند کرنے شروع کردیئے چنانچہ >انقلاب< >مسلم آئوٹ لک< اور >سیاست< کا ریاست کے اندر داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جب بعض مسلم اخباروں نے بعض دوسرے ناموں سے اخبارات نکالنے شروع کئے تو ان کے داخلے بھی بند کر دیئے گئے اس طرح ریاست کے مسلمانوں اور باہر کے مسلمانوں میں جدائی ڈال دینے سے ریاستی مسلمانوں اور برطانوی ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید گھبراہٹ پیدا ہوگئی۔ ریاست کے مسلمان نوجوانوں کا ایک وفد ۹ / جون ۱۹۳۱ء کو )ریاست کے انگریز وزیر( مسٹر ویکفیلڈ Wakefield) ۔C۔E۔G ۔(Mr سے ملا جو ایک روز قبل بغرض تحقیق کشمیر سے جموں آئے تھے اور جموں کی تمام اسلامی انجمنوں کے صدر اور سیکرٹری مدعو کرکے مسلمانوں کی شکایات سے متعلق گفتگو کرچکے تھے۔ ۷۱ مسلم وفد نے پانچ گھنٹے تک ان سے تبادلہ خیالات کیا۔ اپنے ضروری مطالبات ان کے سامنے رکھے اور درخواست کی کہ وہ ان کو مہاراجہ صاحب جموں وکشمیر کے سامنے پیش کریں۔ ۷۲ مسٹر ویکفیلڈ )وزیردفاع و پولیٹکل امور( نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا ایک وفد سری نگر میں مہاراجہ صاحب کے پاس لے جائیں اور وعدہ کیا کہ مسلمانوں کی تکالیف مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کریں گے۔ اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔ ۷۳ چنانچہ ان کی اس یقین دہانی پر جموں کے چار مسلمان لیڈروں کا ایک وفد تجویز ہوا جس کے نام مندرجہ ذیل تھے۔)۱( چوہدری غلام عباس صاحب )۲( مستری یعقوب علی صاحب )۳( سردار گوہررحمان صاحب )۴( شیخ عبدالحمید صاحب ایڈووکیٹ۔
‏tav.5.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے آزادی کشمیر سے متعلق مضامین کا آغاز
جونہی یہ خبر روزنامہ انقلاب مورخہ ۱۲ / جون ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی خداداد فراست و
ذہانت سے قطعی طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہآزادی کشمیر کا یہ نہایت سنہری موقعہ ہے اور اس وقت بھی خاموشی کشمیریوں کی ابدی غلامی پر منتج ہوگی۔ چنانچہ آپ نے انقلاب میں ہی ایک مضمون لکھا۔ جو ۱۶ / جون ۱۹۳۱ء کو الفضل میں بھی شائع ہوا۔ اس مضمون میں حضور نے تحریر فرمایا:۔
>میں متواتر کئی سال سے کشمیر میں مسلمانوں کی جو حالت ہو رہی ہے اس کا مطالعہ کر رہا ہوں اور لمبے مطالعہ اور غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ جب تک مسلمان ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے یہ زرخیز خطہ جو نہ صرف زمین کے لحاظ سے زرخیز ہے بلکہ دماغی قابلیتوں سے بھی حیرت انگیز ہے کبھی بھی مسلمانوں کے لئے فائدہ بخش تو کیا آرام دہ ثابت نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ کشمیر ایک ایسا ملک ہے جسے صنعت و حرفت کا مرکز بنایا جاسکتا ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں کو ترقی دیکر ہم اپنی صنعتی اور دینی پستی کو دور کرسکتے ہیں۔ اس کی آب وہوا ان شدید تغیرات سے محفوظ ہونے کی وجہ سے جو پنجاب میں پائے جاتے ہیں بارہ مہینے کام کے قابل ہے۔ ہندوستان کی انڈسٹریل ترقی میں اس کا موسم بہت حد تک روک ہے لیکن کشمیر اس روک سے آزاد ہے اور پھر وہ ایک وسیع میدان ہے جس میں عظیم الشان کارخانوں کے قائم کرنے کی پوری گنجائش ہے پس تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس ملک کو اس تباہی سے بچانے کی کوشش کریں جس کے سامان بعض لوگ پوری طاقت سے پیدا کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اخبارات جیسے انقلاب ۔ مسلم آئوٹ لک۔ سیاست اور سن رائز اور اسی طرح نیا اخبار کشمیری مسلمان جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں بہت کچھ حصہ لے رہے ہیں لیکن خالی اخبارات کی کوششیں ایسے معاملات کو پوری طرح کامیاب نہیں کرسکتیں۔ ضرورت ہے کہ ریاست کشمیر کو اور گورنمنٹ کو پوری طرح اس بات کا یقین دلایاجائے کہ اس معاملے میں سارے کے سارے مسلمان خواہ وہ بڑے ہوں یا کہ چھوٹے ہوں کشمیر کے مسلمانوں کی تائید اور حمایت پر ہیں اور ان مظالم کو جو وہاں کے مسلمانوں پر جائز رکھے جاتے ہیں کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں ریاست پر اور گورنمنٹ پر زور ڈالنے کے سامان مفقود نہیں ہیں ہم دونوں طرف زور ڈال سکتے ہیں ضرورت صرف متحدہ کوشش اور عملی جدوجہد کی ہے۔
میں نے ان مطالبات کو جو مسلمانان کشمیر کی طرف سے مسٹر ویکفیلڈ کے سامنے پیش ہوئے ہیں دیکھا ہے میرے نزدیک وہ نہایت ہی معقول اور قلیل ترین مطالبات ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان میں اس مطالبہ کو بھی شامل کرنے کی ضروت ہے کہ کشمیر کے علاقہ میں انجمنیں قائم کرنے پر جو روک پیدا کی جاتی ہے اس کو بھی دور کیا جائے جہاں تک مجھے علم ہے یہی پونچھ کے علاقہ میں بھی روک ہوتی ہے اور اجازت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی جس طرح تحریر و تقریر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا گیا ہے اسی طرح اجتماع کی مکمل آزادی کا بھی مطالبہ کیا جائے اور میرے نزدیک علاقہ کشمیر کے مسلمانوں کے زمیندارہ حقوق جو ہیں ان پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی ہونا چاہئے کشمیر کے مسلمانوں کا بیشتر حصہ زمیندار ہے لیکن وہ لوگ ایسے قیود میں جکڑے ہوئے ہیں کہ سراٹھانا ان کے لئے ناممکن ہے عام طور پر کشمیر کے علاقہ میں کسی نہ کسی بڑے زمیندار کے قبضہ میں جائدادیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ انہیں تنگ کرتے رہتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوچار مسلمان زمیندار بھی ہیں لیکن دوچار مسلمانوں کی وجہ سے کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو غلام نہیں بنے رہنے دینا چاہئے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر ہمیں کشمیر وجموں کے مسلمانوں کی آزادی کا سوال حل کرنا مطلوب ہے تو اس کا وقت اس سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے نتیجہ میں قدرتی طور پر انگلستان اپنے قدم مضبوط کرنے کے لئے ریاستوں کو آئندہ بہت زیادہ آزادی دینے پر آمادہ ہے اگر اس وقت کے آنے سے پہلے جموں اور کشمیر کے مسلمان آزاد نہ ہوگئے تو وہ بیرونی دبائو جو جموں اور کشمیر ریاست پر آج ڈال سکتے ہیں کل نہیں ڈال سکیں گے پس میرے نزدیک اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک کانفرنس جلد سے جلد لاہور یا سیالکوٹ یا راولپنڈی میں منعقد کی جائے۔ اس کانفرنس میں جموں اورکشمیر سے بھی نمائندے بلوائے جائیں اور پنجاب اور اگر ہوسکے تو ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مسلمان لیڈروں کو بھی بلایا جائے اس کانفرنس میں ہمیں پورے طور پر جموں اور کشمیر کے نمائندوں سے حالات سن کر آئندہ کے لئے ایک طریق عمل تجویز کرلینا چاہئے اور پھر ایک طرف حکومت ہند پر زور ڈالنا چاہئے وہ کشمیر کی ریاست کو مجبور کرے کہ مسلمانوں کو حقوق دیئے جائیں۔ دوسری طرف مہاراجہ صاحب کشمیر وجموں کے سامنے پورے طور پر معاملہ کو کھول کر رکھ دینے کی کوشش کی جائے تاکہ جس حد تک ان کو غلط فہمی میں رکھا گیا ہے وہ غلط فہمی دور ہوجائے اور اگر ان دونوں کوششوں سے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو پھر ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ جن کے نتیجہ میں مسلمانان جموں اور کشمیر وہ آزادی حاصل کرسکیں جو دوسرے علاقہ کے لوگوں کو حاصل ہے چونکہ ریاست ہندو ہے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ ہم اپنے حقوق میں سے کچھ حصہ رئیس کے خاندان کے لئے چھوڑ دیں لیکن یہ کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ پچانوے فیصدی آبادی کو پانچ فیصدی بلکہ اس سے بھی کم حق دے کر خاموش کرادیا جائے۔ میرے خیال میں کشمیری کانفرنس نے جو کچھ کام اس وقت تک کیا ہے وہ قابل قدر ہے لیکن یہ سوال اس قسم کا ¶نہیں کہ جس کو باقی مسلمان کشمیریوں کا سوال کہہ کر چھوڑ دیں مسلمانان جموں وکشمیر کو اگر ان کے حق سے محروم رکھا جائے تو اس کا اثر صرف کشمیریوں پر ہی نہیں پڑے گا بلکہ سارے مسلمانوں پر پڑے گا اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے مسلمان تماشائی کے طور پر اس جنگ کو دیکھتے رہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کانفرنس کی دعوت کشمیری کانفرنس کی طرف سے جاری ہونی چاہئے لیکن دعوت صرف کشمیریوں تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ تمام مسلمانوں کو جو کوئی بھی اثر ورسوخ رکھتے ہیں اس مجلس میں شریک ہونے کی دعوت دینی چاہئے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر متحدہ کوشش کی جائے تو اس سوال کو جلد سے جلد حل نہ کیا جاسکے<۔ ۷۴
آزادی کشمیر میں دلچسپی لینے کے فوری وجوہ
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے لئے میدان عمل میں آنے کے چار اہم وجوہ واسباب تھے۔ جن پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے قلم سے روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:۔
>مجھے جو فوری توجہ کشمیر کے مسئلہ کی طرف ہوئی اس کی چار وجوہات تھیں پہلی وجہ تویہ تھی کہ میں کشمیر کا کئی دفعہ سفر کرچکا تھا۔ اور میں نے وہاں کے مسلمانوں کی مظلومیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پچاس ہزار کے قریب وہاں احمدی تھے جن کے حالات احمدیہ جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے مجھے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا۔ اور اس وجہ سے ان کی مظلومیت مجھ پر زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتی رہتی تھی۔ تیسرے نواب امام دین صاحب جو مہاراجہ رنجیت سنگھ سکھ بادشاہ کے زمانہ میں جالندھر کے گورنر تھے ان کو کشمیر کے خراب حالات دیکھ کر سکھ گورنمنٹ نے گورنر بنا کر کشمیر بھجوایا کشمیر کے حالات خراب تھے خصوص¶ا اردگرد بسنے والے ڈوگروں کی وجہ سے یہ خرابی بڑھ گئی تھی۔ اس لئے نواب امام دین صاحب کا یہ خیال تھا کہ یہ کام آسان نہیں بلکہ بہت مشکل ہے انہوں نے سکھ گورنمنٹ سے اصرار کیا کہ مجھے اپنے ساتھ بطور مددگار میرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ میرزا غلام مرتضیٰ صاحب میرے دادا تھے اور نواب امام دین صاحب کے نہایت گہرے دوست تھے چنانچہ یہ دونوں کشمیر گئے اتنے میں انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی ہوئی۔ اور انگریزوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لڑکے پر فتح پائی اور انہوں نے تاوان جنگ کے طور پر ۷۵ لاکھ نانک شاہی روپیہ مانگا۔ جو تقریباً پچاس لاکھ موجودہ سکہ کے برابر تھا۔ چونکہ سکھ خزانے اس وقت خالی تھے اور انگریزوں نے جو سکھوں پر فتح پائی تھی اس میں اندرونی سازش مہاراجہ دھیان سنگھ جرنیل مجیٹھہ اور جرنیل سردار گلاب سنگھ بھاگووالیہ )جورشتہ داری کے لحاظ سے پٹیالہ اور کپورتھلہ سے ہی تعلق رکھتا تھا( کی تھی اس لئے انگریزوں نے سکھ حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ۷۵ لاکھ چہرہ نانک شاہی کے بدلہ میں کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کے پاس بیچ دیں۔ اس کے بعد ریاست کشمیر نے اپنے ارد گرد کا ایک وسیع علاقہ جو چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمرانوں کے ماتحت تھا قیام امن کے نام سے فتح کیا۔ گلگت کا بہت سا علاقہ مظفر آباد کا بہت سا علاقہ اور ریاسی کا بہت سا علاقہ سب اسی قسم کا ہے مہاراجہ گلاب سنگھ کے پاس اس جائداد کے جانے سے اس سکیم کی وجہ سے جس پر ڈوگرے عمل کرنا چانتے تھے یعنی مسلمان ریاستوں کو تباہ کرکے ریاست جموں و کشمیر میں ملانا چاہتے تھے نواب امام دین صاحب نے بغاوت کرنا چاہی اور ان مسلمان ریاستوں کا ایک جتھہ بنانا چاہا۔ لیکن باقی مسلمانوں نے ان کو مشورہ دیا کہ یہ لڑائی انگریزوں کے ساتھ ہوگی۔ اور انگریزوں کے ساتھ پہاڑی نواب نہیں لڑسکتے ہیں اس لئے نواب امام دین صاحب چارج دیکر وہاں سے آگئے۔
چوتھی وجہ کشمیر میں دلچسپی کی یہ تھی کہ میرے استاد اور جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ اور میرے خسر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کشمیر میں بطور شاہی حکیم کے ملازم رہے تھے اور راجہ ہریسنگھ کا باپ امرسنگھ اور چچا رام سنگھ اس وقت دونوں ۱۵۔۱۵۔ ۱۶۔۱۶ سال کی عمر کے تھے۔ ان دونوں نے اسلام کی خوبیوں کو محسوس کیا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب سے خواہش کی کہ وہ انہیں قرآن شریف پڑھائیں اور آپ نے ان کو مخفی طور پر قرآن شریف پڑھانا شروع کیا۔ ۱۴۔۱۴۔ ۱۵۔۱۵ پارے پڑھے تھے کہ اس وقت کے مہاراجہ کو خبر ہوگئی جو مہاراجہ ہری سنگھ موجودہ راجہ کے تایا تھے اور ان کا نام پرتاپ سنگھ تھا انہوں نے اسی وقت مولوی صاحب کو تو تین دن کے اندر اندر جموں سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اور ان لڑکوں کو عملاً نظر بند کردیا۔ چوری چھپے کبھی بعد میں بھی حضرت مولوی صاحب سے خط وکتابت کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ میں نے ان کے بعض خط حضرت مولوی صاحب کے نام خود پڑھے ہیں )انکا حضرت مولوی صاحب سے ایسا تعلق تھا کہ امر سنگھ آپ کو اپنے خطوں میں اپنے بزرگ کے طور پر مخاطب کیا کرتا تھا( پس ایک طرف مسلمانوں کی ہمدردی اور ان کی مظلومیت کے احساس کی وجہ سے اور دوسری طرف اس خواہش کی وجہ سے کہ کشمیر جس میں میرے دادا سالہا سال تک کام کرتے رہے ہیں اور پھر اس وجہ سے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے باپ نے میرے خسر سے قرآن کریم پڑھا ہے ان سب کی ترقی کے لئے کوشش کروں میں نے فوراً اس معاملہ میں دلچسپی لینی شروع کردی<۔ ۷۵
۱۶ / جون کے تاریخی مضمون کی بازگشت
تحریک آزادی میں دلچسپی لینے کے عوامل و محرکات کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم دوبارہ ۱۶ / جون ۱۹۳۱ء کے مضمون کی طرف آتے ہیں یہ تاریخی مضمون جو گویا جنگ آزادی کا پہلا بگل تھا جب >انقلاب< اور >الفضل< میں شائع ہوا تو اس کی صدائے بازگشت یہ پیدا ہوئی کہ اول تو روزنامہ >سیاست< )لاہور( نے اسکی تائید میں ایک مضمون بعنوان کشمیر کانفرنس کے انعقاد کی تجویز لکھا۔ دوسرے مسلمانان ہند کے نامور صوفی لیڈر جناب شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حضور کو خط لکھا کہ اب دیر نہیں کرنا چاہئے اور جلد کشمیر کانفرنس کی تحریک کردینا چاہئے۔
‏]bus [tagجنرل سیکرٹری مسلم کشمیری کانفرنس کا مکتوب
تیسرے سید محسن شاہ صاحب بی۔اے۔ ایل ایل۔بی ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری مسلم کشمیری کانفرنس لاہور نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا جو انقلاب یکم جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ پر بھی شائع ہوا۔
>مکرمی محترمی جناب مرزا صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ میں نے آپ کا مضمون >ریاست کشمیرو جموں میں مسلمانوں کی حالت اور ایک خاص کشمیری کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت اخبار >انقلاب< مورخہ ۱۶ / جون میں پڑھا۔ مجھے آپ کے خیال سے کلی اتفاق ہے اور مسلمانان کشمیر کی حالت زار پر جو تجویز آپ نے تحریر فرمائی ہے وہ نہایت مفید اور قابل عمل ہے میرا خیال تھا کہ آپ مجھے بحیثیت آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس یہ تجویز تحریر کریں گے تاکہ میں اسے کانفرنس کی مجلس عاملہ میں پیش کروں مگر مجھے آج کے انقلاب مورخہ ۲۳ / جون ۱۹۳۱ء سے معلوم ہوا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اخبار کے ذریعہ آپ کی تجویز کے متعلق اپنی رائے تحریر کروں لہذا یہ چند سطور آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں میں کانفرنس کا مجلس عاملہ کا جلسہ آئندہ ۵ / جولائی کو منعقد کروں گا جو فیصلہ ہوگا اس سے آپ کو مطلع کردوں گا مگر میری ذاتی رائے یہ ہے کشمیر کا معاملہ ایسا معاملہ ہے جس میں سب مسلمانوں کا متفقہ طور پر شریک ہونا نہایت مفید ہوگا اور اس کے لئے ایک الگ انجمن قائم کرنی زیادہ مفید ہوگی لاہور کے اہل الرائے اصحاب سے میری اس معاملہ میں گفتگو ہوئی ہے اور یہ سب کی رائے ہے کہ یہ کام ایک الگ جماعت کے سپرد ہو تو اس سے جلد مفید نتیجہ نکلے گا۔ اور اس کے لئے بھی عنقریب لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا جائے گا۔ جس میں اگر آپ شریک ہوں تو بہت ہی اچھا ہو ورنہ آپ اپنے کسی نمائندے کو بھجوا دیں میں اس جلسے کی اطلاع آپ کو اور دیگر ہمدرد اصحاب کو دوں گا۔ اور اس جلسے میں مجوزہ کانفرنس کے ابتدائی مراحل طے کئے جائیں گے میں اور تمام مسلمان آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اس معاملے میں دلی ہمدردی اور دلچسپی کا اظہار فرمایا ہے جس سے یقین کامل ہے کہ بہت جلد مفید عملی نتائج پیدا ہوں گے ۔ خداوند کریم آپ کو اس نیک کام میں حصہ لینے کے لئے جزاہائے خیر عطا فرمائے<۔ والسلام نیازمند محسن شاہ آنریری جنرل سیکرٹری مسلم کشمیری کانفرنس۔۷۶
‏sub] ga[tآزادی کشمیر سے متعلق دوسرا مضمون
اس ردعمل پر حضور نے ایک اور مضمون رقم فرمایا جو روزنامہ انقلاب مورخہ ۲۵/ جون ۱۹۳۱ء اور روزنامہ الفضل ۲ / جولائی ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا۔ حضور نے اس مضمون میں لکھا کہ >آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس< جیسے ادارہ کو چاہئے کہ وہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دعوت نامہ شائع کرے اور مقام اجتماع کا اعلان کرے لیکن اگر مصلحت کی وجہ سے وہ اس کام کو ہاتھ میں نہ لینا چاہے تو پھر ہم لوگوں میں سے کوئی اس کا محرک ہوسکتا ہے<۔
اپنی اس ذاتی رائے کا اظہار کرنے کے بعد حضور نے کشمیر کانفرنس سے متعلق قیمتی مشورے دینے کے بعد تحریر فرمایا:۔
>اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ کشمیری کانفرنس کے سیکرٹری صاحب کو اس کام کے لئے کھڑا ہونا چاہئے مجھے اچھی طرح معلوم نہیں کہ وہ کون صاحب ہیں مگر میں امید کرتا ہوں کہ کام کو سہولت سے چلانے کے لئے وہی اس مجلس کے انعقاد کی کوشش کریں گے کیونکہ ہر کام کے لئے بلاضرورت و مصلحت الگ الگ انجمنوں کا بنانا تفرقہ اور انشقاق پیدا کرتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے وہ اس کام کو کرنا پسند نہ فرماتے ہوں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار کے ذریعہ سے اس کی اطلاع کردیں۔ تاکہ کوئی دوسرا انتظام کیا جائے۔
>سیاست< کے مضمون نگار صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ کشمیر کے نمائندوں کا طلب کرنا ناممکن ہوگا لیکن میرے نزدیک یہ ناممکن نہیں` مجھے جو اطلاعات کشمیر سے آرہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ کشمیر میں سینکڑوں آدمی اس امر کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں۔ کہ اپنی جان اور مال کو قربان کرکے مسلمانوں کو اس ذلت سے بچائیں جس میں وہ اس وقت مبتلا ہیں اور کشمیر والوں نے ایک انجمن سات آدمیوں کی ایسی بنائی ہے۔ جس کے ہاتھ میں سب کام دے دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انجمن اپنے میں سے کسی کو یا اپنے حلقہ سے باہر سے کسی شخص کو نمائندہ مقرر کرکے بھیج دے اسی طرح گائوں کے علاقوں سے بھی نمائندے بلوائے جاسکتے ہیں اگر ریاست کشمیر کی طرف سے روک کا احتمال ہو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان نمائندوں کا علم بھی کسی کو نہ دیا جائے لیکن اگر بفرض محال ہم کشمیر سے نمائندے طلب نہ بھی کرسکیں۔ تو پھر ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ایک دو معتبر آدمیوں کو اپنی طرف سے کشمیر بھجوا دیں وہ بہت معروف نہ ہوں اور نہ ان کے نام شائع کئے جائیں کشمیر پہنچ کر وہ کشمیر کی انجمن اور دوسرے علاقوں کے سربرآوردہ لوگوں سے مشورہ کرکے ان کے خیالات کو نوٹ کرکے لے آئیں۔ اور کانفرنس میں ان سے فائدہ اٹھا لیا جائے۔
بہر حال کشمیر کے حقیقی مطالبات کا علم ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں مختلف طور سے ظلم ہو رہا ہے اور ہم دور بیٹھے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن باوجود اس کے میرا یہ مطلب نہیں کہ اگر کشمیر کے نمائندے نہ آسکیں تو ہم کوئی کام ہی نہ کریں۔ اگر ان سب تجاویز میں سے کسی پر بھی عمل نہ ہو تو بھی ہمیں کانفرنس کرنی چاہئے جو باشندگان کشمیر کشمیر سے باہر ہیں وہ کم کشمیری نہیں ہیں ہم اس کی مدد سے جس حد تک مکمل ہوسکے اپنی سکیم تیار کرسکتے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ یہ کانفرنس تمام فرقوں اور تمام اقوام کی نمائندہ کانفرنس ہوتا کہ متفقہ کوشش سے کشمیر کے سوال کو حل کیا جاسکے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس غرض کے لئے ان مسلمانوں کو بھی ضرور دعوت دینی چاہئے جو کانگریس سے تعلق رکھتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ لوگ اس کام میں دوسرے مسلمانوں سے پیچھے رہیں گے۔
>سیاست< کے مضمون نگار صاحب نے ایک پبلسٹی کمیٹی کشمیر کے قیام کی بھی تجویز پیش کی ہے میں اس سے بالکل متفق ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں میں کشمیر کے دوستوں کو پہلے سے لکھ چکا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب کرنے کے لئے ہندوستان اور اس کے باہر بھی پروپیگنڈا کی ضرورت ہوگی اور میں اس کام میں سے یہ حصہ اپنے ذمہ لیتا ہوں کہ پارلیمنٹ کے ممبروں اور گورنمنٹ ہند کو کشمیر کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کرتا رہوں اور کشمیر کے حالات کے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کرواتا رہوں اس کے جواب میں مجھے یہ اطلاع بھی آگئی ہے کہ وہاں بعض دوست ایسے حالات جمع کرنے میں مشغول ہیں جن سے ان مظالم کی نوعیت ظاہر ہوگی۔ جو اس وقت کشمیر کے مسلمانوں پر روا رکھے جاتے ہیں اس فہرست کے آتے ہی میں ایک اشتہار میں ان کا مناسب حصہ درج کرکے پارلیمنٹ کے ممبروں میں اور دوسرے سربرآوردہ لوگوں میں تقسیم کرائوں گا اور گورنمنٹ ہند کو بھی توجہ دلائوں گا۔
اس وقت غلامی کے خلاف سخت شور ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کی لاکھوں کی آبادی بلا قصور غلام بناکر رکھی جائے آخر غلام اسی کو کہتے ہیں جسے روپیہ کے بدلے میں فروحت کردیا جائے اور کیا یہ حق نہیں کہ کشمیر کو روپیہ کے بدلہ میں حکومت ہند نے فروحت کردیا تھا پھر کیا ہمارا یہ مطالبہ درست نہیں کہ جبکہ انگریز عرب اور افریقہ کے غلاموں کو آزاد کرانے کی کوشش کررہے ہیں وہ ان غلاموں کو بھی آزاد کرائیں جن کی غلامی کا سبب وہ خود ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں ہر ایک دیانتدار آدمی اس معاملہ میں ہمارے ساتھ ہوگا۔ بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ خود مہاراجہ سر ہری سنگھ صاحب بھی اگر ان کے سامنے سب حالات رکھے جائیں تو اس ظلم کی جو ان کے نام سے کیا جارہا ہے اجازت نہ دیں گے اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دے کر اس فیڈریشن کے اصل کو مضبوط کریں گے جس کی وہ تائید کر رہے ہیں<۔ ۷۷
آزادی کشمیر سے متعلق تیسرا مضمون
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے اس دوسرے مضمون پر مختلف طور پر حاشیہ آرائی ہوتی رہی۔ بعض لوگوں نے کشمیر کے ساتھ دلچسپی پیدا کرنے کے لئے یوم کشمیر منانے کے فیصلے کئے لیکن بدقسمتی سے کسی نظام کے تحت نہیں پشاور نے الگ تاریخ مقرر کردی کانپور نے الگ اور لاہور نے الگ۔۷۸ تب حضور نے تیسرا مضمون لکھا جو الفضل مورخہ ۱۶ / جولائی ۱۹۳۱ء میں اور انقلاب ۱۸ / جولائی ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا اور اس میں آپ نے بتایا کہ یہ کام بغیر نظام کے ہونے والا نہیں انگریز کہہ چکا ہے کہ میں ریاستوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا۔ اور ہندو اور مسلمان ان کی اس پالیسی کو پسند کرچکے ہیں اس لئے جب تک کل ہند بنیاد پر کوئی تحریک جاری نہ کی گئی اور ان مشکلات کو سوچ کر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ اس وقت تک یہ سوال کبھی بھی حل نہیں ہوگا۔ پس میں تحریک کرتا ہوں کہ ایک ایسے مقام پر جہاں کشمیر کے لوگ بھی آسکیں کل ہند مسلم اجتماع کیا جائے چنانچہ حضور کے الفاظ یہ تھے۔
>میں تمام ان ذمہ دار اشخاص کو جو یا تو نسلا کشمیری ہیں یا مسئلہ کشمیر سے ہمدردی رکھتے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام کے کرنے کے لئے ایک نظام تجویز کریں کوئی لوکل کمیٹی خواہ کتنے ہی بااثر آدمیوں پر مشتمل ہو اس کام کو نہیں کرسکتی۔ جب تک کہ ایک آل انڈیا کانفرنس مسلمانوں کی اس مسئلہ پر غور نہ کرلے گی۔ اور اس کے لئے ایک متفقہ پروگرام تجویز نہ کرے گی اس سوال کا حل ناممکن ہے۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ سوال براہ راست برطانوی ہند کے باشندوں سے تعلق نہیں رکھتا اور ہمارے یہاں کے مظاہرے ریاست کشمیر پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے۔
دوسرے باشندگان کشمیر ابھی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اوربوجہ اس کے کہ ان کو کسی قسم کی بھی آزادی حاصل نہیں عوام الناس میں باقاعدہ جدوجہد کی بھی ہمت کم ہے۔
تیسرے ریاستوں میں اس طرح کی آئینی حکومت نہیں ہوتی جس طرح کی حکومت برطانوی علاقہ میں ہے نہ ان کا کوئی قانون مقرر ہے نہ ان کا کوئی ریکارڈ ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتی ہے کرتی ہے اور پھر اپنے منشاء کے مطابق اپنے فعل کی تشریح کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیتی ہے۔
چوتھے حکومت ہند ریاستوں کے معاملہ میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرچکی ہے اور ان کی اس پالیسی کی تائید مسلمان بھی کرچکے ہیں پس حکومت ہند پر اس معاملہ میں زور دینا کوئی معمولی کام نہیں ہوگا اور ہمیں نہایت غور کے بعد کوئی ایسی راہ تلاش کرنی پڑے گی کہ ہمارا اصول بھی نہ ٹوٹے اور ہمارا کام بھی ہوجائے۔
پس ان حالات میں ہمیں اپنا پروگرام ایسی طرز پر بنانا ہوگا کہ کشمیر کے مسلمانوں کی ہمت بھی قائم رہے اور حکومت ہند پر بھی ہم زور دے سکیں۔ اور کوئی ایسی بات بھی ہم سے صادر نہ ہوجس کا اثر ہمارے بعض دوسرے اصولوں پر جو مسئلہ کشمیر سے کم اہم نہیں ہیں پڑتا ہے اور ایسا پروگرام آل انڈیا کانفرنس کے بعد ہی مقرر کیا جاسکتا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بعض دوست یہ خیال کررہے ہیں کہ محض ان شکایات کو پیش کردینا اور کرتے رہنا جو جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو ریاست سے ہیں ہمارے لئے کافی پروگرام ہے حالانکہ یہ درست نہیں اس سوال میں بعض ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ اخبارات کے صفحات پر بھی ہم ان کو نہیں لا سکتے۔ اور میں ان مسلمانوں کو جو جوش تو رکھتے ہیں لیکن کسی نظام کے تحت کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بتادینا چاہتا ہوں اگر کافی غور و فکر کے بعد اور وسیع مشورہ کے بعد اس کا پروگرام تیار نہ کیا گیا تو آئندہ بعض ایسے سوالات پیدا ہو جائیں گے جن کا حل ان کے امکان سے باہر ہوگا۔ لیکن اس وقت پچھتانے سے کچھ حاصل نہ ہوسکے گا۔ اور مسلمانوں کو بعض ایسے نقصانات پہنچ جائیں گے جن کا خیال کرکے بھی دل کو تکلیف ہوتی ہے پس میں پھر ایک دفعہ ان ذمہ دار لیڈروں کو جو برطانوی ہند کی کشمیر برادری میں رسوخ رکھتے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نہایت محدود لیکن ہندوستان بھر کے چوٹی کے لیڈروں کی ایک کانفرنس کسی ایسے مقام پر جہاں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی آسکیں منعقد کریں۔ تاکہ اس موقعہ پر ان تمام مشکلات پر غور کرکے جو ہمارے رستے میں حائل ہیں ایک ایسا پروگرام تیار کیا جائے جس پر عمل کرکے بغیر کسی نئی پیچیدگی کے پیدا ہونے کے ہم مسلمانان کشمیر کی آزادی کے مسئلہ کو حل کرسکیں۔
اس پروگرام کے بعد ہی میرے نزدیک کشمیر ڈے کی کوئی تاریخ مقرر کرنی چاہئے اور اتنا عرصہ پہلے سے وہ تاریخ مقرر ہونی چاہئے کہ سارے ہندوستان میں جلسہ کی تیاری کی جاسکے اس دن علاوہ کشمیر کے حالات سے مسلمانوں کو واقف کرنے کے پروگرام کا وہ حصہ بھی لوگوں کو سنایا جائے جس کا شائع کرنا مناسب سمجھا جائے اور ہر مقام پر چندہ بھی کیا جائے اگر فی گائوں پانچ پانچ روپیہ بھی اوسطاً چندہ کے ہوجائیں تو قریباً تین لاکھ روپیہ پنجاب میں ہی جمع ہوسکتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جدوجہد میں بہت کچھ روپیہ بھی صرف کرنا پڑے گا اور بغیر ایک زبردست فنانشل کمیٹی کے جس پر ملک اعتبار کرسکے۔ کسی بڑے چندہ کی تحریک کرنا یقیناً مہلک ثابت ہوگا۔
میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` شیخ دین محمد صاحب` سید محسن شاہ صاحب اور اسی طرح دوسرے سربر آوردہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت میں کسی دوسرے سے کم نہیں ہیں اس موقعہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملوکی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہوجائے گی اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ ۷۹
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے مظلومین کشمیر کی فوری اعانت
یہی وہ زمانہ ہے جس کی نسبت تحریک آزادی کے ایک مشہور لیڈر مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء سابق مفتی اعظم پونچھ اپنے منظوم کتابچہ
نوحہ کشمیر میں لکھتے ہیں۔
آغاز تحریک آزادی میں مظلوم کشمیریوں کی طرف سے زعماء ہندوستان کی خدمت میں خطوط بھیجے گئے جن میں ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال صاحب )شاعر مشرق`( جناب شیخ صادق حسن صاحب امرت سری` امام جماعت احمدیہ اور خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی شامل ہیں اور کہا گیا کہ مظلوموں کی مدد کیجئے۔ )امام جماعت احمدیہ کے سوا( سب کی طرف سے یہ جواب آیا کہ آپ نے ایسے خطرناک کام میں کیوں ہاتھ ڈالا اور بس۔ صرف امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے یکمشت ایک خطیر رقم مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے موصول ہوگئی۔ ۸۰
‏]0 [stfخانقاہ معلیٰ )سرینگر( میں مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع
قبل ازیں مسٹر ویکفیلڈ کے مشورہ پرجموں کے وفد کی تشکیل پر روشنی ڈالی جاچکی ہے اب یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ وفد جب سرینگر میں پہنچا تو سرینگر میں بھی تحریک آزادی پہلے سے زیادہ زور پکڑ گئی۔ اس وقت تک ریڈنگ روم پارٹی نے سرینگر کے دونوں مذہبی رہنمائوں یعنی میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی اور میر واعظ یوسف شاہ صاحب کا تعاون حاصل کرلیا تھا۔ اور جامع مسجد سرینگر اور خانقاہ معلیٰ میں باقاعدگی سے اجلاس ہو رہے تھے چنانچہ سرینگر کی جامع مسجد میں شیخ محمد عبداللہ صاحب کے اہتمام سے ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جو تیس ہزار مسلمانوں پر مشتمل تھا یہ ریاست کشمیر میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا جس میں سیاسی تقریریں ہوئیں اور مسلمانوں کو اپنے پیدائشی حقوق حاصل کرنے کی تلقین کی گئی۔ اس کے بعد جامع مسجد ریڈنگ روم پارٹی اور دوسرے مسلم نوجوانوں کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی۔ ۸۱ اسی دوران میں مسلم نمائندگان کے انتخاب کے لئے ۲۱ / جون ۱۹۳۱ء کو خانقاہ معلیٰ سرینگر کے کھلے صحن میں ایک عظیم الشان اسلامی جلسہ منعقد ہوا۔ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب KASHMIR> <INSIDE کے صفحہ ۱۲۵ پر لکھا ہے کہ یہ تحریک آزادی کی تاریخ میں نہایت اہم جلسہ تھا جس میں میر واعظ یوسف شاہ اور مولوی عبداللہ وکیل >مرزائی< ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے تمام فرقہ وارانہ اختلاف یکسر نظر انداز کردیئے گئے اور سنی` شیعہ ` حنفی وہابی اور احمدی پوری طرح اپنے مطالبات منوانے کے لئے متفق و مجتمع ہوگئے۔ مسلمان لیڈروں نے اس موقعہ پر حلفاًعہد کیا کہ وہ آخر دم تک اپنے مقاصد کی خاطر نبردآزما رہیں گے۔
اس جلسہ میں مختصر مگر پر جوش تقریریں ہوئیں اور شیخ محمد عبداللہ صاحب` میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی` میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب ` خواجہ سعد الدین صاحب شال` خواجہ غلام احمد صاحب عشائی` منشی شہاب الدین صاحب` آغا سید حسین شاہ صاحب جلالی ۸۲ کا انتخاب )بطور نمائندگان( عمل میں آیا۔
جلسہ کے آخر میں ایک صاحب عبدالقدیر خاں جو امروہہ )یو۔پی( کے باشندے تھے اور بعض انگریزوں کے گائیڈ کے طور پر کشمیر آئے ہوئے تھے بڑے جوش سے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے ایک کونے میں کھڑے ہوکر جموں کے گزشتہ واقعات دہراتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو بے غیرتی کی زندگی چھوڑ دینی چاہئے۔ ۸۳
قرآن کو اٹھا کر زمین پر پھینکا جاتا ہے اور راجہ کچھ نہیں سنتا تو ایسے راجہ کو پتھروں اور اینٹوں سے بات سنانی چاہئے اس تقریر کے نتیجہ میں انہیں ۲۵ / جون ۱۹۳۱ء کو نگین باغ سے جہاں وہ کسی یورپین کے ساتھ فروکش تھے گرفتار کر لئے گئے۔ ۸۴ اور دفعہ ۱۲۴ الف و دفعہ ۱۵۱ ` ۱۵۳ کے تحت عوام کو اکسانے اور رعایا میں منافرت پھیلانے کے جرم میں ان کاچالان کر دیا گیا۔ ۶۔ ۷۔ ۸۔ ۹ / جولائی ۱۹۳۱ء کو سیشن کورٹ میں سماعت ہوئی۔
مقدمہ عبدالقدیر خان صاحب اور مہاراجہ جموں وکشمیر کا اعلان
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابتداء ہی سے عبدالقدیر خان صاحب کے مقدمہ میں گہری توجہ و دلچسپی لے رہے تھے اور سرینگر کے احمدی نوجوان حضور کو تازہ اطلاعات برابر پہنچاتے آرہے تھے چنانچہ ۱۰ / جولائی ۱۹۳۱ء کو جناب محمد یوسف صاحب بی۔اے )جو بعد کو ایل ایل بی ہو کر وکیل بنے( نے سرائے صفاکدل سے حسب ذیل خط لکھا جس سے اس زمانے کے ماحول پر خوب روشنی پڑتی ہے۔
سرائے صفاکدل سرینگر کشمیر
۳۱/۷/۱۰
بحضور حضرت اقدس خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ
آقائی ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
گذشتہ خطوں میں کچھ حال عرض خدمت کیا جاچکا ہے ان دنوں کوئی خاص امر تو پیش نہیں آیا البتہ مسٹر عبدالقدیر جنہوں نے توہین قرآن کریم کے متعلق تقریر کی تھی اور جن کی گرفتاری کی اطلاع حضور کو ہوچکی ہے۔ ان کا مقدمہ سیشن جج کی عدالت میں چل رہا ہے۔ پولیس اور D۔I۔C کی شہادتیں ہوچکی ہیں۔ عبدالقدیر صاحب کی طرف سے مولوی محمد عبداللہ صاحب وکیل` مولوی قمرالدین صاحب اور دو ایک اور وکیل پیروی کررہے ہیں اور سب مفت کام کررہے ہیں لیکن ان سب وکلاء کی رائے ہے کہ باہر پنجاب یا ہندوستان کا کوئی اچھا وکیل یا بیرسٹر چاہئے کیونکہ ریاستی وکلا بعض Points کھول کر بیان نہیں کرسکتے۔ ان کو ریاست کی طرف سے خطرہ رہتا ہے۔ کل ایک تار سید محسن شاہ سیکرٹری کشمیری کانفرنس کو اسی مضمون کا دیا گیا تھا۔ جو آج آپ کی خدمت میں دیا گیا وہاں سے آج جواب نہ آنے پر مسٹر عبداللہ اور مسٹر عبدالرحیم نے مجھ سے آپ کی خدمت میں تار دلوایا ہے اس Case میں باہر کے کسی قابل وکیل یا بیرسٹر کی ازحد ضرورت ہے جو ریاست سے بالکل نہ ڈرے اور ہر ایک بات کو کھول کر بیان کرسکے۔ اگر اس Case میں مسلمان دب گئے تو اوروں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا یہ ایک قسم کا مسلمانوں کی طاقت کا امتحان لیا جارہا ہے اس لئے زبردست Defence کی ضرورت ہے اس وقت تک مولوی عبداللہ صاحب نے مقدمہ کو نہایت قابلیت اور محنت سے چلایا ہے اور مقدمہ کو لمبا کر رہے ہیں تاکہ اس دوران میں باہر سے کوئی مدد آجائے۔ یہ مقدمہ یہاں کے Court High میں بھی جائے گا۔
مسلمانان کشمیر حضور والا سے امید رکھتے ہیں کہ حضور اس نازک موقع پر ان کی مدد فرمائیں گے ۔۔۔ غالباً اس سے قبل مسٹر محمد عبداللہ کی طرف سے یا ان کے ایما کے مطابق کسی اور صاحب کی طرف ۸۵ سے حضور کو مل چکا ہوگا۔ حضور کے دوسرے مضمون نے جو الفضل میں شائع ہوا۔ بہت مفید نتیجہ یہاں پیدا کیا ہے اور مطالبات میں ان مضامین سے Points لئے جارہے ہیں یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی توجہ حضور کی طرف بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اب ہر بات میں وہ حضور کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
آج یہاں کی نمائش گاہ میں ایک سرکاری پبلک جلسہ ہوا۔ گورنر صاحب نے مہاراجہ صاحب کا اعلان پڑھ کر سنایا۔ حاضرین کی تعداد دو اڑھائی ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اعلان کا مضمون یہ تھا کہ جب سے ہمارے خاندان کے ہاتھ حکومت آئی ہے ہندو مسلمان بھائیوں کی طرح آپس میں رہے ہیں لیکن اب کچھ کشیدگی ہورہی ہے جو ہرگز پسندیدہ نہیں۔ اعلان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمہاری جو شکایات ہوں وہ براہ راست میرے پاس ہونی چاہئیں میں اپنی رعایا کے ہر ایک فرد سے ملاقات کروں گا )حالانکہ مہاراجہ کی ملاقات ناممکن ہے عوام کو بالکل پاس نہیں جانے دیا جاتا( پھر اعلان میں اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ ریاست کی بات ریاست کے باہر بالکل نہیں جانی چاہئے۔ اور باہر کے اخبارات کو بالکل خبر نہیں ہونے دینی چاہئے اور کسی غیر ریاستی کی مدد بالکل نہ لی جائے مہاراجہ صاحب نے اس بات کا پھر اعلان کیا ہے کہ میں کوئی مذہب نہیں رکھتا میرا مذہب انصاف ہے ملازمتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں قابلیت کا معیار رکھا گیا ہے چونکہ مسلمان تعلیم یافتہ لوگ کم ہیں اس لئے وہ زیادہ ملازمتوں میں نہیں ہیں اور جتنے تعلیم یافتہ مسلمان ہیں وہ ملازمتوں میں لگائے گئے ہیں )حالانکہ یہ بیان بالکل غلط ہے سینکڑوں پڑھے لکھے اور کئی گریجویٹ مارے مارے پھر رہے ہیں اگر یہ حالت نہ ہوتی تو آج نوجوان اس قدر شور نہ کرتے۔ دوسرے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف رغبت نہیں دی جاتی اور ان کو Qualify کرنے کے لئے کوئی مدد ریاست نہیں دیتی صرف پنڈتوں اور ڈوگروں کی مدد اور آرام کا خیال رکھا جاتاہے(۔
آخر میں پولیس وغیرہ کی مدح سرائی کرتے ہوئے ان کا اعلان ختم ہوا کہ یہ لوگ نہایت ایمانداری سے عوام کی مدد کریں گے )مدد یہی ہے کہ رشوت کا بازار تمام ریاست میں گرم ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو فرعون خیال کرتے ہیں(
چند روز سے بارش کا زور رہا۔ طوفان بہت آیا گذشتہ سالوں کا طوفان امسال سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔ پنڈی اور کشمیر کا راستہ تباہ ہو گیا ہے اور سنا ہے کہ کوہالہ کا پل بہہ گیا ہے البتہ جموں کے راستہ سے آمدورفت جاری ہے ڈاک آج چار دن کے بعد قلیوں کے ذریعہ یہاں پہنچی ہے۔ خدا جانے یہ عریضہ کب حضور کی خدمت میں پہنچے گا۔
کاروبار کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے حضور کی خدمت اقدس میں ملتمس ہوں کہ حضور اپنی خاص دعائوں میں اس عاجز کو بھی یاد رکھیں باقی حالات جو ہوں گے اس کی اطلاع بعد میں کروں گا۔
والسلام
حضور کا ادنیٰ ترین خادم
خاکسار محمد یوسف
۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کا المناک دن اور سری|نگر کے مسلمانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ
مسلمانان سرینگر کو عبدالقدیر خان صاحب کے مقدمہ میں طبعاً دلچسپی اور ہمدردی تھی اور وہ کثیر تعداد میں مقدمہ کی کارروائی دیکھنے کے
لئے عدالت میں جایا کرتے تھے۔ مگر اس دوران میں حکومت نے اس مقدمہ کی سماعت معمولی عدالت سے منتقل کرکے ہری پربت کے جیل خانہ میں شروع کردی۔ مسلمانوں کو اس تبدیلی کا علم ہوا تو وہ یہ محسوس کرکے کہ شائد مقدمہ نے کوئی نئی صورت اختیار کرلی ہے ۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو مقدمہ کی سماعت کے وقت ہزاروں کی تعداد میں ہری پربت )سنٹرل جیل سرینگر( میں پہنچ گئے۔۸۶
تحریک کشمیر کے ایک رہنما مولوی محمد سعید صاحب سابق ایڈیٹر >ہمدرد< سرینگر کا بیان ہے کہ کئی ایک پیشیوں کے بعد ۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو پیشی تھی اس سے قبل دو دن شہر میں بعض چالاک لوگوں نے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے عوام اور غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اس افواہ کی شہرت کرادی کہ عبدالقدیر صاحب کو بغاوت کے الزام میں پھانسی ہوگی۔ یاکم از کم حبس دوام کی سزا دی جائے گی۔ اس افواہ نے شہر میں سراسیمگی پھیلادی امسال کی طرح ۱۹۳۱ء کی تاریخ ۱۳ / جولائی کو بھی سوموار کا دن تھا اتوار ۱۲ / جولائی کی شام کے بعد مائسمہ کی مسجد میں جلسہ ہوا شیخ محمد عبداللہ صاحب شیر کشمیر اور مولوی عبدالرحیم صاحب نے عوام کو یقین دلایا کہ مولانا عبدالقدیر کے مقدمہ کی تحقیقات ابھی جاری ہے افواہوں پر اعتبار نہیں۔ حکومت نے اگر کھلی عدالت کی بجائے بند کمرے میں تحقیقات شروع کی ہے تو اس سے خطرہ کا امکان نہیں اور چونکہ اب جیل میں سماعت ہورہی ہے اس لئے عوام جو کھلی عدالت میں روئداد سننے جاتے تھے جیل کی طرف ہرگز نہ جائیں۔ کیونکہ وہاں جانا بے سود ہے۔
عوام چونکہ دوسری افواہ سے اس قدر متاثر ہوچکے تھے کہ نوجوان رہنمائوں کی ہدایت نہیں اپیل نہ کرسکی۔ اس لئے دوسرے روز جوق در جوق لوگ سنٹرل جیل اور جیل سے ملحقہ باغات میں جمع ہوگئے۔ ۸۷body] [tag
المختصر اسی دوران میں سیشن جج ` ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور دوسرے افسر بھی وہاں آگئے۔ مسٹر پریم ناتھ بزاز کی رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً سب افسر ہندو تھے۔ ۸۸ مسلمان ان افسروں کے ساتھ ہی جیل کے بیرونی احاطہ میں گھس گئے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس موقعہ پر کسی افسر نے بھی یہ اعلان نہیں کیا کہ یہ اجتماع غیر قانونی ہے اور یہ کہ لوگوں کو منتشر ہوجانا چاہئے اور یہ کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان پر فائرنگ کیا جائے گا۔ اور بغیر کسی تنبیہ کے اس اجتماع میں سے ہجوم کے لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ مسلمان اس بات کو دیکھ کر نہایت گھبرائے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیڈروں کو فوراً رہا کردیا جائے اس موقعہ پر پھر بغیر تنبیہ کے پولیس کو فائر کرنے کا حکم دے دیاگیا۔ ۸۹ گورنمنٹ کی رپورٹ یہ تھی کہ دس آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے پبلک کی رائے یہ تھی کہ اس سے بہت زیادہ آدمی مارے گئے ہیں اور جو لاشیں جیل میں رہ گئیں وہ الگ ہیں لیکن پولیس نے جن کا تعاقب کیا اور گلیوں میں جاکر ان کو شہید کردیا وہ ان کے علاوہ تھے مسلمانان کشمیر نے اس وقت جس شجاعت اور بہادری کا نمونہ دکھایا اس کا اقرار کرتے ہوئے مسٹر ویکفیلڈ نے لکھا۔ >فسادات کے دوران جو ۱۹۳۱ء میں ہوئے جتنے بھی کشمیری مرے ان کے سارے کے سارے زخم سینے پر تھے پشت پر نہیں تھے۔ ۹۰`۹۱
مسلمانان سرینگر پر مظالم سے متعلق چشم دید شہادت
اس سے زیادہ تفصیل ہمیں مولوی عبداللہ صاحب وکیل` پیر قمرالدین صاحب وغیرہ وکلاء اور دوسرے اصحاب کی شہادتوں سے ملتی ہے جو الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۳۱ء( میں شائع شدہ ہیں۔
ان شہادتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر دو صاحبان ملزم عبدالقدیر صاحب کی طرف سے پیروکار تھے اس کے علاوہ مسٹر غلام محمد صاحب بی۔اے۔ ایل ایل بی موجود تھے۔ ۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو مسلمانوں کی ایک جماعت جیل کے باہر عبدالقدیر صاحب کا مقدمہ سننے کے لئے جمع ہوئی جس کا ہرگز یہ مقصد نہ تھا کہ وہ کسی قیدی کو چھڑائے مقدمہ عبدالقدیر کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تعلق تھا کہ عبدالقدیر توہین قرآن کریم کے سلسلے میں تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اور مسلمان اس مقدمہ کو مذہبی مقدمہ سمجھتے ہیں اس لئے مقدمہ کی کارروائی سننے کے لئے آنا مسلمانوں کا فطری تقاضا تھا مسلمان ہرگز جیل کے دروازہ کی طرف نہیں دوڑے اور نہ گارد پر حملہ کیا۔ اور نہ پھاٹک سے داخل ہوکر اندرونی دروازہ پر پہنچنے کی کوشش کی بلکہ بیرونی پھاٹک کھلا تھا لوگ بیرونی پھاٹک سے داخل ہوکر بیرونی صحن میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے۔ صاحب سیشن جج کے آنے پر دو تین سو اشخاص ان کے ساتھ صحن میں داخل ہوئے سیشن جج نے وکلاء ملزم سے کہا کہ لوگوں کو ہدایت کریں کہ باتیں کرکے شور نہ ڈالیں۔ وکلاء ملزم نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہا آپ چلے جائیں اسلام کا حکم ہے کہ امن سے رہو۔ اس پر لوگ جو اس صحن میں جمع تھے باہر چلے گئے جیل سے متصل ایک باغ میں ایک اور جماعت مسلمانوں کی مقدمہ سننے کے لئے جمع تھی ایک مسلمان پولیس افسر نے وکلاء ملزم سے کہا کہ اس جماعت کو بھی ہدایت کی جائے کہ وہ بھی چلی جائے۔ اور صحن میں نہ آئے چنانچہ وکیل نے مع ایک پولیس کے آدمی کے انہیں کہا کہ آپ چلے جائیں اور کوئی آدمی صحن میں نہ آئے انہوں نے جواب دیا کہ ہم نماز ظہر پڑھ کر چلے جاتے ہیں لوگ نماز کی تیاری میں مصروف ہوگئے وکلاء ملزم اور سپاہی واپس صحن جیل میں آگئے۔ گورنر کشمیر مع پولیس موجود تھے انہوں نے پولیس کو مجمع سے لوگوں کو گرفتار کرنے کے لئے کہا۔ پولیس والے ہتھکڑیاں لے کر دوڑے اور باغ والے لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کیا جو نماز کے لئے تیاری کررہے تھے چند اشخاص کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اس تشدد کو دیکھ کر مجمع میں شور پیدا ہوا اور فوراً گولی چلادی گئی اگر محض مجمع کو منتشر کرنا مقصود ہوتا تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ لاٹھی چارج کافی تھا مگر ایسانہ کیا گیا بلکہ گولی چلائی گئی جس سے بے بس اور نہتے مسلمان اس طرح گرے جس طرح درخت سے پتے گرتے ہیں اس کے ساتھ ہی پتھر بھی آتے رہے۔ غرضیکہ اس گولی کے چلنے سے کچھ اصحاب قتل ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے مجمع نے بھاگنا شروع کیا تو پولیس والوں نے کہا کہ پولیس لائن کو آگ لگ گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی جگہ نہیں جلی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پولیس والوں نے خود ہی آگ لگائی اور خود ہی بجھائی حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ اگر کوئی آگ لگاتا تو وہ موقع پر گرفتار ہوتا۔ کیونکہ پولیس مسلح ہوکر موقعہ پر حاضر تھی کسی قیدی نے مسلح پولیس سے بندوق چھیننے کی کوشش نہیں کی نہ کسی مسلمان سے کسی سپاہی نے تعرض کیا مجمع کو تنبیہہ نہیں کی گئی کہ تم منتشر ہوجائو۔ نہ مجمع خلاف قانون تھا اور نہ مجمع نے حملہ کیا ٹیلیفون اور تار کے کاٹنے کاواقعہ سراسر غلط ہے جب پہلے بندوقیں چلیں تو جواباً لوگوں نے کچھ پتھر مارے گولی آناً فاناً چلائی گئی لوگ وچار ناگ )قصبہ کا نام ہے( کی طرف نہیں گئے اور نہ ہی ان لوگوں نے شہر کا رخ کیا بلکہ اس قتل عام سے بچنے کے لئے ہندوئوں نے شور ڈال دیا اور لوٹ مار کی داستانیں بنائی گئیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس جگہ بھی شہر میں لوٹ مار کی داستانیں بنائی گئی ہیں وہاں ہندوئوں کی آبادی زیادہ ہے اور جس جگہ شہری پنڈتوں کی آبادی کم ہے وہاں کوئی شکایت لوٹ مار کی نہیں ہوئی اس کے علاوہ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ جس جگہ شہر میں لوٹ مار کی کہانی بیان کی گئی ہے آج برابر پچپن دن کے بعد تلاشی لینے پر ہندوئوں کی دوکانوں کا مال ان کے گھروں سے نکل رہا ہے۔
ملٹری مع سواروں کے شہر میں روانہ کی گئی۔ ملٹری کے سپاہیوں اور سواروں سے ہتھیار لے کر انہیں چھائونی میں ہی رکھا گیا اور خاص طور پر ہندو ملٹری شہر میں متعین کی گئی )یہ وہی فوج تھی جس کو صرف ایک ہفتہ پہلے ہندوئوں نے یہ کہہ کر کہ مسلمان گائے ذبح کرنے والے ہیں مشتعل کیا ہوا تھا اور وہ پہلے سے مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے( غرضیکہ فوج نے شہر میں داخل ہوکر وہ تباہی مچائی کہ ہلاکوخاں کے مظالم کی ازسر نو یاد تازہ ہوگئی۔ ایک نوسالہ لڑکی کی ناک کاٹی گئی اور اس کو دریا میں ڈبودیاگیا اس سلسلے میں ایک معزز غیر مسلم خاتون کا بیان ملاحظہ ہو جو یہ ہے۔
>مورخہ ۱۵ / جولائی ۱۹۳۱ء دس بجے کے قریب محلہ تاشوان کی طرف سے میں نے عورتوں کے رونے کی آواز سنی ایک آدمی جو پل کے اوپر سے جارہاتھا میں نے اس سے پوچھا کہ شور کیسا ہے اس نے جواب دیا کہ ایک آدمی اپنی موت سے مرا ہے عورتیں اس کا ماتم کررہی ہیں۔ اس کے دومنٹ بعد میں نے گولی چلنے کی آواز محلہ تاشوان کی طرف سے سنی اتنے ہی میں اسی طرف سے ملٹری والوں کو آتے دیکھا اور میں بھی اسی وقت اپنے گھر سے باہر نکلی۔ میرا لڑکا میرے ساتھ تھا میں نے ایک اور لڑکے کو جو پل پر کھڑا تھا دیکھا جب ملٹری پل سے گزری توایک سپاہی نے اس لڑکے کا تعاقب کیا اور گولی چلائی اور وہ لڑکھڑا کر قصائی اور نان بائی کی دکان کے درمیان گرگیا۔ میرا لڑکا جو میرے ساتھ اس کی مدد کے لئے دوڑا اس پر بھی ایک گولی دوسرے سپاہی نے چلائی لیکن گولی کا نشانہ خطا گیا۔ اور میرا لڑکا بچ گیا اتنے میں ایک ماشکی جو سامنے سے آرہا تھا اس پر بھی ایک گولی چلائی اور وہ بھی گر گیا ایک تیسرا شخص جو کہیں جارہا تھا اس پر بھی گولی چلائی گئی جس وقت وہ دم توڑ رہا تھا اس پر دو اور فائر کئے گئے یہ سارا واقعہ دو تین منٹ میں ہوا میں نے انہیں کہا تم لوگوں کو کس نے اس طرح گولیاں چلانے کی اجازت دی ہے مجھے لکھت دکھائو انہوں نے جواب دیا ہم کو اجازت ہے اور چلے گئے ایک شخص جو کہ نواکدل کی طرف سے بائیسکل پر آرہا تھا مجھے گھبرایا ہوا دیکھ کر مجھ سے دریافت کرنے لگا کہ کیا معاملہ ہے میں نے صرف اتنا کہا کہ جاکر ملٹری افسر کو ٹیلیفون کردو اور کہہ دو کہ اس محلہ میں بلا وجہ گولی چلائی جارہی ہے اور ہم لوگ خطرہ میں ہیں وہ چلا گیا تھوڑی دیر بعد آفیسر آگئے اور مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اصلی واقعات سنا دیئے<۔
الغرض مسلمانوں کو قتل کرنے کے علاوہ لوٹا گیا اور کثیر التعداد کو جیل خانہ میں بھیج دیا گیا عورتوں کی بے حرمتی فوجیوں اور پنڈتوں نے مل کر کی۔ مسلمانوں کے گھروں کی تلاشیاں لی گئیں ابھی سلسلہ جارہی ہے اور بغیر کسی مدعی کے صرف ایک ہندو کے کہنے پر محلہ محلہ کی تلاشی لی جاتی ہے۔
سپاہیوں کی پنڈتوں نے خوب خاطر و مدارات کی اور بہت عمدہ کھانے کھلائے پنڈتوں کے اس منصوبے کی )جو انہوں نے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے باندھ رکھا ہے( دلیل یہ ہے کہ جموں میں پہلے مسلمانوں پر بم پھینکا گیا اور سرینگر کے شفاخانے سے ایک پنڈت کے ذریعہ جو وہاں کا ملازم ہے پکرک ایسڈ کی ایک کثیر مقدار چرائی قتل وغارت کے علاوہ اندھا دھند گرفتاریاں کرکے کثیر جماعت پر تشدد کیا گیا۔ اور پانی بند کرکے پیاسا رکھا گیا۔ صدہا مسلمانوں کو گھروں سے نکالکر جیل میں ڈالا گیا۔ حبس میں رکھا گیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا کہ خدا کی پناہ اب )۴ / اگست( تک دریا سے نعشیں مل رہی ہیں۔ صدہا ایسی مثالیں ہیں جن سے یہ ایک منظم سازش ثابت ہے۔ مولوی نور الدین قاری جو ایک بہت ہردلعزیز مسلم ٹیچر ہیں سکول سے نکلتے ہی پکڑ لئے گئے اور ان کو ایک کوچہ کی طرف لے گئے اور خوب مارا۔ اورآخر چند یوم حوالات میں رکھا۔ محلہ نوابازار بہری کدل۔ مہاراج گنج۔ ڈومہ کدل۔ وچارناگ۔ وغیرہ وغیرہ مقامات پر ہندوئوں نے مسلمانوں کو قتل کیا لیکن حکومت نے آج تک کوئی تفتیشی کارروائی نہیں کی۔ اور نہ ہی ہندوئوں کو پکڑا ہے۔
مسلمانوں نے جب اصرار کیا کہ شہر میں تحقیقات کی جائے تو ایک ہندو اور ایک مسلمان افسر مقرر کیا گیا لیکن مسلمان افسر بھی حکومت کے اعلیٰ ارکان کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں کیونکہ انہیں ملازمت سے علیحدگی کا خوف ہے چنانچہ کچھ ملازم مسلمان اور کچھ معلمات معطل کی گئی ہیں غرضیکہ مسلمان نہایت بے کس` بے بس ہیں نہ قانونی امداد مہیا ہے<۔۹۲
ان واقعات نے کشمیر میں گویا ایک قیامت برپا کردی اور سرینگر کے مسلمان محلہ جات نے ماتمی لباس پہن لیا۔ اور شہر میں عام ہڑتال ہوگئی جو متواتر سترہ دن تک جاری رہی اس پر ریاست نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن کے بچائو کے لئے فوری طور پر دو تدبیریں اختیار کیں ایک تو یہ کہ خبروں پر سنسر لگادیا تا کوئی خبر جو اصل حالات کو منکشف کرے یا جو ریاست کے مفاد کے خلاف ہو بذریعہ تار یا ڈاک باہر نہ بھیجی جاسکے۔ دوسری تدبیر ریاست نے یہ کی کہ فوراً ایک تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کردیا مگر یہ خدا کا فضل ہوا کہ حکام ریاست کی یہ ہر دوتجویزیں ناکام رہیں یعنی اول تو باوجود سنسر وغیرہ کی کوشش کے بیرونی دنیا تک حقیقت حال پہنچنے سے نہ رکی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو سیالکوٹ سے بذریعہ تار اس کی اطلاع پہنچ گئی دوسرے مسلمانان کشمیر نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ریاست کا مقرر کیا ہوا کمیشن صحیح معنوں میں غیر جانبدار کمیشن نہیں ہے اور ان کو اس سے انصاف کی توقع نہیں ہوسکتی غیر معمولی جرات سے کام لیا اور کمیشن کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا جس پر یہ کمیشن توڑنا پڑا۔ اس کے بعد نیا کمیشن مقرر کرنا پڑا جو جانبدار ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہ کرسکا۔ ۹۳
حکام ریاست کی مکروہ ذہنیت کا اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ جب جماعت احمدیہ نے ریاست سے یہ استدعا کی کہ زخمی مسلمانوں کی طبی امداد کے لئے ایک طبی ۹۴ وفد کو ریاست میں آنے کی اجازت دی جائے تو ریاست نے یہ عذر کرکے کہ تمام ضروری طبی انتظامات پہلے سے مہیا ہیں اجازت دینے سے انکار کردیا حالانکہ اس وفد کی تجویز خود مسلمانان کشمیر کی اس درخواست پر کہ ہمیں طبی امداد کی ضرورت ہے کی گئی تھی۔
تحریک آزادی کے لیڈروں کی گرفتاری
حکام ریاست نے بے گناہ فرزندان توحید کو شہید یا زخمی کرنے اور ان کی لاکھوں روپے کی جائیدادیں لوٹ لینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ۱۳۔ ۱۴ / جولائی ہی کو کئی سو بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل خانہ میں ڈال دیا۔ گرفتار ہونے والوں میں تحریک آزادی کے تمام مشہور لیڈر بھی شامل تھے۔
اس واقعہ کی تفصیل میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں۔ >۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو جب گورنمنٹ کو یہ معلوم ہوگیا کہ مسلمان اب آپے سے باہر ہوگئے ہیں اور مظالم کی برداشت ان سے ناممکن ہے تو انہوں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کے لیڈروں کو گرفتار کرلینا چاہئے چنانچہ جو لوگ مرنے والوں کو جیل خانہ سے اٹھا کر مسجد میں لے آئے تھے اور اس بات کی تیاری کررہے تھے کہ دوسرے دن مسلمانوں کے اجتماع کے ساتھ ان کو دفن کرآئیں پہلے تو حکام نے اس کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ تم لوگ خاموشی سے چند آدمی لاشوں کے ساتھ بھجوادو اور پبلک پراس حادثہ کو ظاہر نہ ہونے دو۔ اور یہاں تک بھی تجویز کی کہ جامع مسجد جہاں لاشیں رکھی ہوئی تھیں اس کے قریب ایک جگہ میں ان کو دفن کردو لیکن مسلمان لیڈروں نے اس کو تسلیم نہ کیا اس پر گورنمنٹ نے تجویز کی کہ ظاہر میں تو لیڈروں کا پکڑنا مشکل ہوگا چوری چھپے ان لوگوں کو یکدم گرفتار کرلیا جائے چنانچہ مسٹر سدرلینڈ جو اس وقت فوج کے افسر اور غالباً جرنیل کے عہدہ پر تھے وہ جامع مسجد کے دروازہ پر آئے اور اشارہ سے شیخ عبداللہ صاحب کو بات کرنے کے بہانے سے بلایا۔ اور پھر چپ کرکے ان کو ساتھ لے گئے اور جیل خانہ میں ڈال دیا اس کے کچھ گھنٹوں کے بعد میاں غلام نبی صاحب گلکار جو دوسرے لیڈر تھے ان کو بھی ان کے گھر پر رات کے نو دس بجے گرفتار کر لیا۔ پھر ۱۵ یا ۱۶ / جولائی کو تیسرے لیڈر مسٹر عبدالرحیم کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور غالباً ۱۴ تاریخ کی رات کو ہی یعنی جس دن صبح شیخ عبدالل¶ہ صاحب کو گرفتار گیا تھا جموں کے اس وفد کے تین لیڈروں کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ جو مسٹر ویکفیلڈ کے کہنے پر مہاراجہ سے ملنے کے لئے گیا تھا۔ اور جس کا اس ایجی ٹیشن میں کوئی حصہ نہ تھا۔ ان لوگوں کے نام یہ تھے۔ )۱( جناب مستری یعقوب علی صاحب ٹھیکیدار۔ )۲( سردار گوہر رحمان صاحب ۹۵ )۳( چوہدری غلام عباس صاحب ۹۶
زعمائے کشمیری نے اس موقعہ پر جس حوصلہ اور جاں فروشی کا نمونمہ دکھایا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اخبار>اصلاح< )سرینگر( نے ۱۳ / جولائی ۱۹۳۲ء کو لکھا۔ جب شیخ عبداللہ صاحب اور ان کے نوجوان ہمراہیوں کو رات کے اندھیرے میں بادامی باغ سے قلعہ ہری پربت میں لے جایاگیا اور ایک اندھیری کوٹھری کے سامنے لے جاکر دریافت کیا گیا کہ کون پہلے اندرجانا چاہتا ہے تو اس خیال سے کہ شاید اس کوٹھری میں ایک ایک کرکے سب کو گولی سے اڑا دیاجائے گا بعض نوجوانوں کے حوصلے پست ہوگئے اس وقت شیخ صاحب موصوف نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ دنیا میں انسان کو ایک نہ ایک دن مرنا ہی ہوتا ہے پس اس بات سے ایمان والے نہیں ڈرا کرتے کہ ہم آج مرتے ہیں کہ کل ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو قوم پر نثار کررہے ہیں اور سسک سسک کر غلاموں کی طرح نہیں مرتے مجھے پوری امید ہیکہ اس قربانی سے ہمارا وہ مقصد پورا ہوگا۔ جس کے لئے ہم نے اپنی تحریک کو شروع کر رکھا ہے۔ اس تقریر کے بعد قیدی چند لمحات کے لئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر غلام نبی صاحب گلکار نے جرات سے کام لے کر بتایا دوستو مرنا دنیا میں ایک ہی دفعہ ہے بزدلوں کی طرح زندہ رہنے سے دلاور کی موت مرنا بہترین ہے میں سب سے پہلے اندر جارہا ہوں آپ میرے پیچھے آئیں )سوانح حیات شیخ محمد عبداللہ صاحب صفحہ۵۶( چنانچہ اس نو عمر قومی جرنیل کی ہمت پر آفرین کہتے ہوئے اس وقت شیخ محمد عبداللہ صاحب نے فرمایا ۔ تم پر فخر کرتا ہوں۔۹۷
ہندو پریس کا ظالمانہ رویہ
مسلمانان سرینگر کے پرامن نہتے اور بے بس مجمع کو ریاستی حکام نے گولیوں کا نشانہ بنا کر جہاں اپنی وحشت و درندگی اور مسلمانان ریاست کی بے کسی و مظلومی انتہا تک پہنچادی وہاں ہندو پریس نے نہ صرف اس قابل نفرین فعل کی تائید و حمایت کی بلکہ ریاستی حکام کو اور زیادہ ظلم وستم کی تحریک کرکے اشتعال انگیزی کی حد کردی۔
چنانچہ اخبار >ملاپ< لاہور نے لکھا >باغیوں کو ایسی عبرتناک سزائیں دی جائیں جو دوسروں کے لئے تازیانہ عبرت ہوں< )ملاپ ۱۷ / جولائی ۱۹۳۱ء(
>حکومت نے گرفتاریوں کے سلسلہ میں اس قدر فراخدلی سے کیوں کام لیا ہے سات ہزار حملہ آوروں میں سے صرف دو سو مسلمانوں کو پکڑا جانا کوئی خاص اثر پیدا نہیں کرسکتا چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت ان سات ہزار مسلمانوں کو گرفتار کرلیتی اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا۔ مگر ایسانہیں کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ۶۸ سو مسلمان قانون کے ڈنڈے کی زد سے بچ جائیں گے اور مستقبل میں اس قسم کی جرات کرسکیں گے<۔ )ملاپ ۱۷ / جولائی ۱۹۳۱ء(
اگلے روز اخبار پرتاپ لاہور نے )۱۸ / جولائی ۱۹۳۱ء ( اس کی تائید مزید میں لکھا >سخت ہاتھ کے ساتھ فسادات کو کچل کر رکھ دینے کی ضرورت ہے<۔ ۹۸
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا وائسرائے ہند کے نام تار
مسلمانان ریاست کشمیر نے ۱۳ / جولائی ہی کے خونچکاں واقعہ کی اطلاع اسی روز حضور کو پہنچادی اوراسی خواہش کا اظہار کیا کہ آپ فوراً یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیں چنانچہ حضور نے اسی دن یعنی ۱۳ / جولائی کو ہزایکسی لینسی وائسرائے ہند )لارڈ ولنگڈن( کو مندرجہ ذیل تار بھجوایا >یورایکسی لینسی کشمیر میں مسلمانوں کی خستہ حالی سے ناواقف نہیں ۔ تازہ ترین اطاعات سے پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں پر نہایت ہی خلاف انسانیت اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب شروع ہوگیا ہے ۱۳ / جولائی کو سرینگر میں جو کچھ ہوا وہ فی الواقعہ تاسف انگیز ہے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع کے مطابق نو مسلمان ہلاک اور متعدد مجروح ہوئے ہیں لیکن پرائیویٹ اطلاعات سے پایاجاتا ہے کہ سینکڑوں مسلمان ہلاک اور مجروح ہوئے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ اطلاعات سے پایاجاتا ہے کہ سینکڑوں مسلمان ہلاک اور مجروح ہوئے ہیں ریاست سے آنے والی تمام خبروں پر سخت سنسر ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں جو تار موصول ہوا وہ سیالکوٹ سے دیا گیا ہے ہز ہائی نیس مہاراجہ کشمیر کے تازہ اعلان کے معاً بعد جس میں انہوں نے اپنی مسلم رعایا کو کئی طرح کی دھمکیاں دی ہیں۔ اس قسم کی واردات کا ہونا صاف بتاتا ہے کہ یا تو غریب مسلمانوں پر بلا وجہ حملہ کردیا گیا ہے۔ اور یا ایک نہایت ہی معمولی سے بہانہ کی آڑلے کر ان بچاروں کو سفاکی کے ساتھ ذبح کردیا گیا ہے۔
کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے لیکن ان کے حقوق بے دردی سے پامال کئے جارہے ہیں اس وقت وہاں مسلم گریجوایٹوں کی تعداد بہت کافی ہے مگر انہیں کوئی ملازمت نہیں دی جاتی۔ یا اگر بہت مہربانی ہوتو کسی ادنیٰ سے کام پر لگا دیا جاتا ہے اور جب ایک ملک کی ۹۵ فی صد آبادی کو اس کے جائز حقوق سے صریح ناانصافی کرکے محروم رکھا جائے تو اس کے دل میں ناراضگی کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے لیکن نہایت ہی افسوس ہے کہ ریاست کے ذمہ دار حکام بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے جائز مطالبات منظور کریں ان کی خفگی کو رائفلوں اور بک شاٹ سے دور کرنا چاہتے ہیں جموں کے حکمرانوں نے کشمیر کو فتح نہیں کیا تھا بلکہ انگریزوں نے اسے ان کے ہاتھ ایک حقیر سی رقم کے بدلے فروخت کردیا تھا لہذا وہاں جو کچھ ہورہا ہے حکومت برطانیہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ مزید برآں ریاست آخر کار برطانیہ کے ماتحت ہے اور موجودہ حکمران جو محض ایک چیف تھا ریاست اور اختیارات کے لئے حکومت برطانیہ کا ممنون احسان ہے اس لئے حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ کشمیر کے بے بس مسلمانوں کی شکایات کا ازالہ کے لئے جو کچھ کرسکتی ہے کرنے سے دریغ نہ کرے۔ کشمیر کی اپنی علیحدہ زبان ہے اور اس کا تمدن اور مذہب وغیرہ جموں سے بالکل جداگانہ ہے اس لئے ڈوگرہ وزراء سے کشمیری مسلمانوں کے حق میں کسی بہتری کی توقع نہیں ہوسکتی اور انہیں اس وقت تک امن حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب تک ان کی اپنی وزارت کے ذریعہ مہاراجہ جموں ان پر حکومت نہ کریں لہذا انسانیت کے نام پر میں یورایکسی لینسی سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ آپ کشمیر کے لاکھوں غریب مسلمانوں کو جنہیں برٹش گورنمنٹ نے چند سکوں کے عوض غلام بنا دیا ان مظالم سے بچالیں تاکہ ترقی اور آزاد خیالی کے موجودہ زمانہ کے چہرہ سے سیاہ داغ دور ہوسکے۔ کشمیر بے شک ایک ریاست ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ ناانصافی سے پنجاب سے علیحدہ کیا گیا ہے اور دوسرے صوبہ جات کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان کشمیری مسلمانوں پر ان مظالم کو کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتے۔ اگر حکومت ہند اس میں مداخلت نہ کرے گی تو مجھے خطرہ ہے مسلمان اس انتہائی ظلم وستم کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوئے گول میز کانفرنس میں شمولیت سے انکار نہ کردیں اور انتہائی مایوسی کے عالم میں کانگریسی رو میں نہ بہہ جائیں<۔۹۹
مجروحین و مظلومین کی فوری امداد
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے وائسرائے کو تار دینے کے ساتھ ہی دوسرا کام یہ کیا کہ چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل لائلپوری کو سرینگر بھجوایا اور مظلومین کی امداد کے لئے پانچ سو کی رقم بھی فی الفور ارسال فرمادی۔ ۱۰۰
کشمیر کانفرنس کی اطلاع اور دوسرے اہم اقدامات
سرینگر کے لرزہ خیز سانحہ نے مزید انتظار کو غیر ضروری بنادیا تھا اس لئے حضور نے فوراً ایک گشتی چٹھی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے مسلمانوں کو بھی لکھی اور تار بھی دیئے کہ ۲۵ / جولائی ۱۹۳۱ء کو ہم شملہ میں جمع ہوکر کشمیر کے معاملہ پر پورے طور پر غور کریں۔ ۱۰۱ اور اس کے ساتھ ہی آپ نے تین اقدامات فرمائے۔ )۱( لنڈن مشن کو کشمیر کے حالات پر احتجاج کرنے کے لئے لکھا۔ )۲( روزنامہ الفضل کو اہل کشمیر پر ظلم وستم کے خلاف زیادہ پر زور آواز بلند کرنے کا ارشاد فرمایا )۳( جماعت احمدیہ کے تمام افراد کو تحریک آزادی کے لئے مستعدد تیار کرنے کے لئے ۱۸ / جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان میں وسیع پیمانے پر زبردست احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا جس میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے۔ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل اور مولوی نظام الدین صاحب مبلغ کشمیر نے مظالم کشمیر پر تقریریں کیں اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے متعدد قرار دادیں پاس کی گئیں۔ ۱۰۲
جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کی طرف سے اشتراک عمل و تعاون کی آواز
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے پے در پے مضامین نے یوں تو ملک کے طول و عرض میں بسنے والے مسلمانوں میں زبردست جنبش پیدا کردی اور
ان کی نگاہیں قیادت کے لئے آپ کی طرف اٹھنے لگیں مگر اس پر جوش تعاون و اشتراک عمل کی غالباًپہلی زور دار آواز شمس العلماء جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کی طرف سے اٹھی جنہوں نے حضور
‏tav.5.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
کو اس سلسلے میں متعدد خطوط لکھے اور ایک بلند پایہ لیڈر ہونے کے باوجود نہایت اخلاص و محبت سے ایک خادم کی حیثیت سے تحریک میں کام کرنے کی پیشکش کی چنانچہ ان کے دو مکتوب بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم
در خواجہ حسن نظامی۔ ۱۳ / جولائی ۱۹۳۱ء
مخلص نواز جناب مرزا صاحب! السلام علیکم۔ آپ نے سرینگر کے حالات پڑھ لئے ہوں گے یہ موقع ہے کہ ہم سب مسلمان اپنی مستعدی اور اخوت اسلامی کو جتنی جلدی ایک مرکز پر جمع کرکے کام شروع کردیں گے اتنا ہی زیادہ اثر ہوگا میر رائے یہ ہے کہ سری نگر کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے آپ کو اور مجھ کو فوراً خود چلنا چاہئے اس سلسلہ میں اگر ہم دونوں کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ تو ایک برس کا کام ایک مہینہ میں پورا ہوجائے گا بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ جلدی کامیابی ہوجائے گی اور خود آپ کی جماعت میں اتنی بڑی زندگی صرف معمولی حرکت سے پیدا ہوجائے گی جو حیرت انگیز ہوگی۔
میں جانتا ہوں کہ آپ کی پوزیشن اور آپ کی ذاتی مصالح اور آپ کی جسمانی صحت مزاحم ہوگی لیکن یہ وقت کسی بات کے دیکھنے کا نہیں ہے۔ قدیمی مسلمانوں کی طرح نہایت چستی اور پھرتی سے آگے بڑھ جانے کا وقت ہے میں آپ کے ساتھ بحیثیت ایک معمولی خادم کے چلوں گا لاہور میں بھی اطلاعیں دی ہیں تاکہ اسمبلی کا کوئی ممبر اور کوئی پنشز مسلمان جج اور کوئی بے تعصب ہندو بھی ہمارے ساتھ ہو تاکہ ہم سرینگر میں جاکر ایک منصفانہ اور موثر تحقیقات کرسکیں۔ تحقیقات تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کیا جائے جن پر تلوار اٹھائی گئی ہے لیکن ہمیں صرف تحقیقات کرنے کا اعلان کرنا ہے اور ہر قسم کی تکلیفوں اور سختیوں کو برداشت کرکے کام کرنا ہے۔ اس خط کو دیکھتے ہی مجھے تار دیجئے جہاں آپ بتائیں گے میں فوراً پہنچ جائوں گا۔۔۔۔۔ حسن نظامی )نقل بمطابق اصل(
۲۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم
در خواجہ حسن نظامی۔ ۱۸ / جولائی ۱۹۳۱ء
مخلص نواز حامی مسلمین جناب میرزا صاحب! اسلام علیکم۔ ۱۶ / جولائی ۱۰۳]ydob [tag کا خط پہنچا غالباً کل یا پرسوں میرا بھی ایک خط آپ کو ملا ہوگا آج کے خط پر غور کرنے سے جو خیال ہوا وہ عرض کرتا ہوں
لاہور کی کشمیری کانفرنس کی نسبت آپ نے نہایت صحیح رائے قائم کی ہے ڈاکٹر محمد اقبال کی نسبت یہ تو ٹھیک ہے کہ ان کا اثر ہے مگر یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ان میں عملی جرات بھی ہے وہ ہرگز اس مشکل کام میں دخل نہ دیں گے چاہے اس وقت وہ وعدہ کرلیں لیکن ایفاء کی امید نہیں ہے۔
آپ ڈکٹیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں میں آپ کے ساتھ کام کرنے کو موجود ہوں لاہور میں ایک مرکزی مقام بنا دیجئے میں بھی وہاں آجایا کروں گا اور ایک بار آپ بھی آجائیں۔ ۲۴ / جولائی کا جو دن مقرر ہوا ہے اس دن آپ لاہور آجائیں میں بھی آجائوں گا وہاں سب سے مل کر کام کا نقشہ بنالیا جائے گا میں نے تو بڑے بڑے متعصب مولویوں سے باتیں کیں تو ان کو آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے آمادہ پایا۔ بہر حال دوسرے غافل و کاہل و بے اثر لوگوں کا انتظار کرنا فضول ہے اب قدم بڑھائے سب آپ کے پاس جمع ہوجائیں گے۔
۲۴ / جولائی کو لاہور آنا ممکن ہوتو تار دیجئے۔ تاکہ میں ۲۳ کو وہاں پہنچ جائوں ورنہ قادیان آجائوں گا تاکہ تمام امور پر زبانی گفتگو ہوسکے۔
آپ نے وائسرائے اور لندن کا کام موقع کے موافق کیا۔ مگر اس کا کچھ اثر نہیں ہوگا۔ جب تک کہ گورنمنٹ اور ریاست مسلمانوں میں یک جہتی اور قوت محسوس نہ کرے خواجہ بانو خدا کے فضل سے اچھی ہیں اور آپ کی اہلیہ کی عیادت کی شکر گزار ہیں۔ نیاز مند حسن نظامی۔
حضورکی طرف سے خواجہ حسن نظامی صاحب کی تجویز کا جواب
خواجہ صاحب موصوف نے سرینگر جانے اور گرفتار ہونے کی جو تجویز پیش کی تھی اس کا جواب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ یہ صحیح ہے کہ میری اور آپ کی گرفتاری پر شور پڑجائے گا کیونکہ ہمارے لئے اپنی جان اور مال قربان کرنے والے لاکھوں لوگ موجود ہیں مگر ریاست اتنی بیوقوف نہیں کہ ہمیں گرفتار کرے۔ میں خوب جاتنا ہوں وہ ہرگز ایسا نہیں کرے گی۔ پس اس فعل میں ہماری کوئی قربانی نہیں ہو گی صرف ایک نمائش ہوجائے گی جس سے فائدہ اٹھانا ہماری شان کے خلاف ہے۔ چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا۔ ۱۰۴
شملہ میں مسلم زعماکی کانفرنس اورآل انڈیاکشمیر کمیٹی کاقیام
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسئلہ کشمیر پر غور کرنے کے لئے ۲۵ / جولائی ۱۹۳۱ء کا دن مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ اس روز نواب سرذوالفقار علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کی کوٹھی View> <Fair )شملہ( میں نماز ظہر کے بعد ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے بہت سے مسلم لیڈر مثلاً حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۰۵ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی۔ سر میاں فضل حسین صاحب۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` سر ذوالفقار علی خاں صاحب۔ جناب نواب صاحب کنج پورہ۔ خاں بہادر شیخ رحیم بخش صاحب ریٹائرڈ سیشن جج` سید محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ لاہور سیکرٹری آل انڈیا کشمیری کانفرنس )لاہور( مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی )امرتسر( مولوی نورالحق صاحب مالک >مسلم آئوٹ لک< )لاہور( سید حبیب صاحب ایڈیٹر سیاست )لاہور( شامل ہوئے۔ ان کے علاوہ مولوی میرک شاہ صاحب )سابق پروفیسر دیوبند پروفیسر اورینٹل کالج لاہور( نے نمائندہ کشمیر کی حیثیت سے اور جناب اللہ رکھا صاحب ساغر نے نمائندہ جموں کی حیثیت سے شرکت فرمائی۔ صوبہ سرحد کی نمائندگی کے فرائض صاحبزادہ سر عبدالقیوم کے بھائی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب )آف ٹوپی( نے انجام دیئے۔ ۱۰۶ اور مسلم پریس کے لئے اس اجلاس کی رو داد قلمبند کرنے کا فریضہ چوہدری ظہور احمد صاحب )حال ایڈیٹر صدرانجمن احمدیہ پاکستان( نے ادا کیا۔ ۱۰۷
کانفرنس میں جب مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہوا ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب سر میاں فضل حسین صاحب اور دوسرے نمائندوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ سے کہا کہ اس بارے میں آپ وائسرائے سے ملیں اور اس سے گفتگو کرکے معلوم کریں کہ وہ کس حد تک کشمیر کے معاملات میں دخل دے سکتے ہیں جس حد تک وہ دخل دے سکتے ہوں اسی حد تک ہی ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہئے۔ حضور نے فرمایا کہ یہ طریق درست نہیں کہ وائسرائے سے پوچھا جائے کہ وہ کس حد تک دخل دے سکتا ہے بلکہ ہم سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پھر ان کے مطالبات کو پورے زور کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے رکھیں گے۔ ۱۰۸
آخر طے پایا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو اس سارے کام کو اپنے ذمہ لیکر انجام دے اور اس وقت تک یہ مہم جاری رہے جب تک کہ ریاست کے باشندوں کو ان کے جائز حقوق نہ حاصل ہوجائیں تمام نمائندوں نے جو ریاست سے تعلق نہ رکھتے تھے یہ اقرار کیا کہ وہ بھی اس کمیٹی میں شمولیت اختیار کریں گے بلکہ وہ اسی وقت اس کے ممبر بھی بن گئے۔
اس کمیٹی کے قیام کے بعد اب اس کی صدارت کا نازک معاملہ پیش ہوا )کانفرنس کے نامہ نگار( چوہدری ظہور احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
>مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے دائیں ہاتھ ایک ہی صوفہ پر ڈاکٹر سر محمداقبال بیٹھے تھے اور دائیں طرف دوسرے صوفہ پر نواب سر ذوالفقار علی تھے اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے بائیں طرف پہلے خواجہ حسن نظامی اور ان کے بعد نواب صاحب آف کنج پورہ تھے اور پھر بقیہ معززین جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ڈاکٹر سر محمد اقبال نے تجویز کیا کہ اس کمیٹی کے صدر امام جماعت احمدیہ ہوں ان کے وسائل مخلص اور کام کرنے والے کارکن یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان سے بہتر ہمارے پاس کوئی آدمی نہیں۔- خواجہ حسن نظامی صاحب نے فوراً اس کی تائید کی اور سب طرف سے درست ہے کی آوازیں آئیں۔ اس پر امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ >مجھے ¶اس تجویز سے ہرگز اتفاق نہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری جماعت ہررنگ میں کمیٹی کے ساتھ تعاون کرے گی لیکن مجھے صدر منتخب نہ کیا جائے<۔
ڈاکٹر سر محمداقبال نے امام جماعت احمدیہ کو مخاطب کرکے فرمایا:۔
>حضرت صاحب۔ جب تک آپ اس کام کو اپنے صدر کی حیثیت سے نہ لیں گے یہ کام نہیں ہوگا<۔ ۱۰۹
اس تعلق میں ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب نے ملک غلام فرید صاحب ایم۔اے کو ایک ملاقات میں خود بتایا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی اور ہم نے دیکھا کہ بچارے کشمیریوں کو مہاراجہ تباہ کرکے رکھ دے گا تو مجھے اور دیگر مسلمان لیڈروں کو خیال پیدا ہوا کہ کشمیریوں کی کیسے مدد کی جائے ہم نے سوچا اگر ہم نے جلسے وغیرہ کئے اور کارکنوں اور سرمایہ کے لئے تحریک کی تو اول تو دیانتدار کارکن نہ ملیں گے اور سرمایہ جمع نہیں ہوگا۔ اور جو سرمایہ جمع ہوگا۔ وہ بے ایمان کارکن کھا جائیں گے۔ اور اس دوران میں مہاراجہ تحریک کو کچل کر رکھ دے گا۔ کام فوراً شروع ہونا چاہئے ہم نے سوچا کہ ہندوستان میں صرف ایک ہی شخصیت ہے کہ اگر وہ اس تحریک کی قیادت منظور کرلے تو دیانتدار کارکن بھی مہیا کرلے گی سرمایہ بھی جمع کرلے گی۔ وکلاء وغیرہ بھی وہ خود دے گی۔ اخبارات میں ولایت میں اور یہاں بھی پراپیگنڈا وہ خود کرلے گی۔ وکلاء وغیرہ بھی وہ خود دے کی۔ اخبارات میں ولایت میں اور یہاں بھی پراپیگنڈا وہ خود کرلے گی اور وائسرائے اور اس کے سیکرٹریوں سے ملاقات بھی خود کرے گی وہ شخصیت مرزا محمود احمد ہیں<۔ ۱۱۰
ملک صاحب موصوف کا یہ بیان جو حال ہی میں چوہدری ظہور احمد صاحب نے شائع کیا ہے یقیناً شک و شبہ سے بالا شہادت ہے جس کی بالواسطہ تائید ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے اپنے ایک خط سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے کمیٹی کے قیام سے قریباً دس ماہ قبل ۵ / ستمبر ۱۹۳۰ء کو شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری )حضرت خلیفتہ المسیح الثانی( کے نام تحریر کیا چونکہ آپ کی جماعت منظم ہے اور نیز بہت سے مستعد آدمی اس جماعت میں موجود ہیں اس واسطے آپ بہت مفید کام مسلمانوں کے لئے انجام دے سکیں گے۔
>باقی رہا بورڈ ۱۱۱ کا معاملہ سو یہ خیال بھی نہایت عمدہ ہے میں اس کی ممبری کے لئے حاضر ہوں صدارت کے لئے کوئی زیادہ مستعد اور مجھ سے کم عمر کا آدمی ہوتو زیادہ موزوں ہوگا لیکن اگر اس بورڈ کا مقصد حکام کے پاس وفود لے جانا ہوتو ہمیں اس سے معاف فرمایا جائے وفد بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں اس کے علاوہ مجھ میں اس قدر چستی اور مستعدی بھی باقی نہیں رہی۔ بہر حال اگر آپ ممبروں میں میرا نام درج کریں تو اس سے پہلے باقی ممبروں کی فہرست ارسال فرمائیں۔ مخلص محمد اقبال
)چربہ مکتوب ڈاکٹر سر محمداقبال ۵ / ستمبر ۱۹۳۰ء(



المختصر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی نگاہ میں چونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات سے بڑھ کر تحریک آزادی کشمیر کی قیادت کے لئے اور کوئی موزوں شخصیت ملک میں موجود نہیں تھی۔ اس لئے آپ نے حضور ہی کا نام صدارت کے لئے پیش فرمایا ڈاکٹر صاحب کے بعد شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب اور دوسرے ارکان نے بھی اس کی مکمل تائید و حمایت کی اور جب ہر طرف سے یہی آواز بلند ہوئی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بتیس لاکھ مسلمانان جموں کے بنیادی انسانی حقوق دلانے اور انہیں اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کے لئے صدارت کی ذمہ داری قبول فرمالی۔ 10] p[۱۱۲اور نمائندوں کی رضامندی سے کمیٹی کے سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے )سابق مبلغ انگلستان( تجویز کی گئی<۔ ۱۱۳
حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کو ڈکٹیٹر تجویز کرتے ہیں آپ جو کہیں گے وہ ہم کریں گے مگر میں نے کہا مجھے اور بہت کام ہیں اور میرے لئے یہ کام کرنا مشکل ہے اس پر کہا گیا یہ بھی ثواب کا کام ہے ۳۰ لاکھ مظلوم اور بے کس مسلمانوں کی خدمت ہے آپ ضرور یہ کام کریں ہمارا اصول تھا کہ خلیفہ دوسری انجمنوں میں شامل نہ ہو۔ ۱۱۴ مگر جب مجھ سے یہ کہا گیا تو میں اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ پھر خیال آیا یہ کہیں گے کہ ناکامی کے ڈر سے پیچھے ہٹتا ہے۔ اس پر میں نے کہا دوسری انجمنوں میں خلیفہ کے شامل نہ ہونے کا دستور ہم نے خود ہی بنایا ہے اسے خدمت خلق کے لئے توڑ دیں تو کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ میں نے ڈکٹیٹر بننے سے تو انکار کردیا۔ لیکن کہا پریذیڈنٹ بننا قبول کرلیتا ہوں<۔ ۱۱۵
فہرست ممبران آل انڈیا کشمیر کمیٹی
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز صدر آل انڈیا کشمیرکمیٹی کے علاوہ دیگر ممبران کے نام درج ذیل ہیں۔
۱۔ایم محمد اسماعیل حاجی احمد صاحب
کلکتہ
۲۔ احمد عبدالستار صاحب آنریری سیکرٹری۔ وی کلکتہ مجلس
کلکتہ
۳۔ مسٹر ایچ ایس سہروردی۔ بار ایٹ لاء
کلکتہ
۴۔ مولانا ابوظفر وجیہ الدین صاحب
کلکتہ
۵۔ ایم محمد علی اللہ بخش صاحب۔ سیکرٹری مسلم فیڈریشن
بمبئی
‏]col3 [tag۶۔ مسٹر اے آر ڈنسٹنکر
بمبئی ۸
۷۔ مولانا ابویوسف صاحب اصفہانی
شمالی بمبئی
۸۔ قاضی کبیر الدین صاحب
بمبئی
۹۔ ڈاکٹر شفاعت احمد خاں صاحب
الہ آباد
۱۰۔ میاں سید جعفر شاہ صاحب
شاہ آباد
۱۱۔ سید کشفی شاہ نظامی
رنگون
۱۲۔ جناب مولانا حسرت موہانی صاحب
کانپور
۱۳۔ سید عبدالحفیظ صاحب
ڈھاکہ
۱۴۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب۔ ایم۔ایل۔اے
ایبٹ آباد
۱۵۔ مولانا محمد شفیع صاحب دائودی
پٹنہ
۱۶۔ نواب ابراہیم علی خاں صاحب۔ نواب آف کنج پورہ۔ ایم۔ایل اے
کرنال
۷ا۔ چوہدری عبدالمتین صاحب۔ ایم۔ایل۔اے سلہٹ۔
آسام
۱۸۔ جناب مشیر حسین صاحب قدوائی
لکھنو
۱۹۔ سید غلام بھیک صاحب نیرنگ پلیڈر
انبالہ
۲۰۔ مولانا سید حبیب شاہ صاحب۔ ایڈیٹر >سیاست<
لاہور
۲۱۔ مولوی نور الحق صاحب۔ پروپرائیٹر مسلم آئوٹلک
لاہور
۲۲۔ سید محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کانفرنس
لاہور
۲۳۔ مولانا غلام رسول صاحب مہر۔ ایڈیٹر >انقلاب<
لاہور
۲۴۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب۔ بارایٹ لاء
لاہور
۲۵۔ مولانا محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ
لاہور
۲۶۔خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب۔ ریٹائرڈ سیشن جج
لاہور
۲۷۔ آنریبل نواب سر ذوالفقار علیخاں صاحب۔ ایم۔ ایل۔ اے
لاہور
۲۸۔ مولانا عبدالمجید صاحب سالک ایڈیٹر انقلاب
لاہور
۲۹۔ محمد رفیق صاحب باریٹ لاء ایڈووکیٹ ہائیکورٹ
لاہور
۳۰۔ ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ
لاہور
۳۱۔ حاجی شمس الدین صاحب
لاہور
۳۲۔ میاں فیروز الدین صاحب۔ سیکرٹری خلافت کمیٹی
لاہور
۳۳۔ میاں نظام الدین صاحب رئیس
لاہور
۳۴۔ میاں فضل کریم صاحب۔ ایل۔ایل۔بی پلیڈر
لاہور
۳۵۔ ڈاکٹر عبدالحق صاحب ایم۔بی بی ایس
لاہور
۳۶۔ سید عبدالقدادر صاحب ایم۔اے۔ پروفیسر اسلامیہ کالج
لاہور
۳۷۔ مولانا علم الدین صاحب سالک
لاہور
۳۸۔ غلام مصطفیٰ صاحب ایڈووکیٹ
لاہور
۳۹۔ شیخ نیاز علی صاحب ایڈووکیٹ
لاہور
۴۰۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بارایٹ|لاء۔ ایم۔ ایل۔ سی
لاہور
۴۱۔ پیر اکبر علی صاحب ایڈووکیٹ۔ ایم۔ ایل۔ سی
فیروز پور
۴۲۔ چوہدری محمد شریف صاحب ایل۔ایل بی پلیڈر منٹگمری
۴۳۔ خواجہ محمد شفیع صاحب
دہلی
۴۴۔ مولانا مظہر الدین صاحب ایڈیٹر >الامان<
دہلی
۴۵۔ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب
دہلی
۴۶۔ حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون صاحب۔ ایم۔ ایل۔ اے
کراچی
۴۷۔ مولانا سید محمد اسماعیل صاحب غزنوی
امرتسر
۴۸۔ شیخ محمد صادق صاحب ایم۔ایل۔ اے
امرتسر
۴۹۔ مولانا عقیل الرحمان صاحب ندوی
سہارنپور
۵۰۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس
قادیان
۵۱۔ مولانا عبدالرحیم صاحب درد
قادیان
۵۲۔ مولانا عصمت اللہ صاحب
سیالکوٹ
۵۳۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب
لاہور
۵۴۔ غلام مصطفیٰ صاحب بارایٹ لاء
گوجرانوالہ
۵۵۔ ایم حسام الدین صاحب آنریری میجسٹریٹ
امرتسر
۵۶۔ مولانا کرم علی صاحب
لکھنو
۵۷۔ مولانا سید میرک شاہ صاحب فاضل دیوبند
‏]col2 [tagکرنال
۵۸۔ شیخ صادق حسن صاحب ایم۔ایل۔اے
امرتسر
۵۹۔ شیخ فضل حق صاحب ایم۔ایل۔اے۔ پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی
بھیرہ
۶۰۔ سید ذاکر علی شاہ صاحب
لکھنو
۶۱۔ مولانا عبدالحمید صاحب
؟
۶۲۔ چوہدری اسد اللہ خان صاحب بارایٹ لاء
لاہور
۶۳۔شاہ مسعود احمد شاہ صاحب ایم۔ایل۔اے
؟
۶۴۔ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب
قادیان
۶۵۔ ایس ایم عبداللہ صاحب۔ نائب صدر میونسپلٹی
دہلی

حواشی
۱۔
>چودھویں صدی< )راولپنڈی( ۲۳ / جولائی ۱۸۹۵ء صفحہ ۵۔۶۔ )تاریخ احمدیت جلد چہارم طبع اول صفحہ ۱۴۰۔ ۱۴۱
۲۔
>شیر کشمیر< صفحہ ۳۲۶ )از کلیم اختر صاحب( شائع کردہ سندھ ساگر اکاڈمی لاہور طبع اول ۱۹۶۳ء
۳۔
اخبار کشمیری لاہور ۲۱ / اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۳۔۴۔ >مسلم کشمیری کانفرنس<کا پہلا اجلاس امرتسر میں ۱۹۰۱ء میں ہواتھا جس میں نواب سر سلیم اللہ مہمان خصوصی تھے اس اجتماع میں شیخ محمد اقبال صاحب ` خواجہ الف دین صاحب وکیل` خواجہ احمد دین صاحب ایڈووکیٹ اور دوسرے عمائدین کے ساتھ منشی محمد الدین صاحب فوق بھی شامل تھے اس موقعہ کا فوٹو روز گار فقیر جلد دوم )مولفہ فقیر سید وحیدالدین صاحب( میں چھپ چکا ہے۔
۴۔
الفضل )قادیان( ۲ / ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۲ کالم۱
۵۔
>فغان کشمیر< )شائع کردہ کشمیر پبلسٹی بورڈ آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس لاہور( سرورق صفحہ ۱ تا ۴
۶۔
ایضاً صفحہ ۲۹ و >رہنمائے کشمیر< صفحہ ۷۷ )از منشی محمد الدین صاحب فوق( مطبوعہ گلزار محمدی پریس لاہور ۱۹۱۷ء(
۷۔
>رہنمائے کشمیر< صفحہ ۷۷ )از منشی محمد الدین صاحب فوق( یہ کانفرنس ۱۸۸۶ء میں سرسید احمد خاں مرحوم کی کوشش سے قائم ہوئی تھی مختلف اور دور دراز مقامات پر اس کے اجلاس منعقد ہوئے جن میں علامہ شبلی اور حالی نظمیں پڑھتے۔ نواب محسن الملک اور خواجہ غلام الثقلین صاحب لیکچر دیتے۔ مسلم لیگ کے قیام سے پہلے سیاسی و نیم سیاسی امور میں کانفرنس ہی مسلم قوم کی آواز سمجھی جاتی تھی۔ )موج کوثر صفحہ ۸۲( مولفہ شیخ محمد اکرام صاحب بی۔اے۔
۸۔
ان مشہور کانفرنسوں کے علاوہ ہندوستان میں کشمیری خاندانوں کی اور بھی متعدد انجمنیں قائم تھیں جن کے نام آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کے رسالہ >فغان کشمیر< مطبوعہ ۱۹۲۴ء میں مندرج ہیں۔
۹۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۱۷
۱۰۔
اس قصبہ کو آسنور بھی کہتے ہیں۔
۱۱۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار اسلام صفحہ ۱۶۔۱۷ )لیکچر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۱۴ / ستمبر ۱۹۳۱ء بمقام سیالکوٹ والفضل ۲۴ / ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۸۔۹
۱۲۔
الفضل ۲۴ / جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۲
۱۳۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احراراسلام صفحہ ۱۷ و الفضل ۲۴ / ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۸۔۹ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے واقعات بڑی کثرت سے ہوتے تھے چنانچہ ملک فضل حسین صاحب نے اپنی کتاب مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج صفحہ۱۳۰ حاشیہ میں اخبار گورو گھنٹال ۳ / جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۳ کے حوالہ سے نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی سیر کشمیر میں اسی قسم کا واقعہ لکھا ہے۔
۱۴۔
رجسٹر کارروائی صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء نمبر ۱۰ صفحہ ۲۰
۱۵۔
)مفہوم( الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ۶
۱۶۔
الفضل ۵ / ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۔۲
۱۷۔
ولادت قریباً ۱۸۳۹ء ۔ ۱۸۹۴ء میں بیعت کی >کتاب البریہ< میں ان کا ذکر موجود ہے ۱۹۰۷ء میں قریباً ۶۸ سال کی عمر میں قادیان سے قرآن شریف پڑھا۔ مارچ ۱۹۱۴ء میں وفات پائی ناسنور میں مزار ہے ان کے علاوہ ریاست کشمیر کے بعض ممتاز صحابہ کے نام یہ ہیں خواجہ عبدالقادر صاحب ڈار ناسنور۔ خواجہ عبدالرحمان صاحب ڈار ناسنور )دونوں حضرت حاجی عمر ڈار کے فرزند( مولوی حبیب اللہ لون ناسنور۔ مولوی غلام محمد صاحب ناسنور۔ فقیر محمد صاحب بھٹی ناسنور۔ راجہ عطاء اللہ خان صاحب یاڑی پورہ۔ راجہ غلام حیدر صاحب یاڑی پورہ )یہ دونوں بزرگ کشمیر کے اولین صحابہ ہیں( حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جموں۔ مولوی غلام احمد صاحب لون ناسنور۔ شیخ فتح محمد صاحب ڈپٹی انسپکٹر کشتواڑ )ضلع اودھم پورہ( میاں محمد دین صاحب تاجر جموں۔ میر حبیب اللہ صاحب گاگرن شوپیاں۔ میر عبدالرحمن صاحب رینجر۔ میر غلام محمد صاحب گاگرن )شوپیاں( جمال الدین صاحب گاگرن )شوپیاں( غلام رسول صاحب شیخ مافلوشوپیاں مولوی خلیل الرحمان صاحب )قصبہ پنجیڑی راجگان( )بروایت جناب عبدالعزیز صاحب ڈار( مولوی عبدالرحمان صاحب )اندورہ اسلام آباد(
۱۸۔
۱۸۹۵ء
۱۹۔
>تاریخ اقوام کشمیر<جلد ۲ صفحہ۱۷۵۔ ۱۷۶
۲۰۔
مولوی فاضل مولوی عبدالجبار صاحب ناسنور۔ مولوی احد اللہ صاحب ناسنور۔ مولوی نور احمد صاحب ناسنور۔ مولوی محمد عبداللہ شاہ صاحب ناسنور۔ مولوی خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار صحافی نام منور کاشمیری( انگریزی خوان۔ جناب غلام محمد ڈار۔ مبارک احمد صاحب ڈار۔ مولوی عبدالرحیم صاحب۔ محمد ایوب صاحب صابر )مولوی عبداللہ صاحب وکیل۔ )مولوی عبداللہ صاحب وکیل بعد کو ناسنور سے سرینگر آگئے اور پھر کچھ عرصہ بعد اسلام چھوڑ کر بہائی ہوگئے۔(
۲۱۔
ضمیمہ >نوائے کشمیر< کوٹلی ۲ / فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۰ )مضمون جناب منشی امیر عالم صاحب کوٹلی ضلع میرپور(
۲۲۔
بروایت جناب خواجہ عبدالعزیز صاحب ڈار۔ ناسنور
۲۳۔
مختصر تاریخ کشمیر صفحہ ۱۴۶ )مولف جناب اللہ بخش صاحب یوسفی(
۲۴۔
ہفت روزہ لاہور ۲۲ مارچ ۱۹۶۵ء صفحہ ۶ )مقام اشاعت لاہور(
۲۵۔
الفضل یکم ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۹ کالم ۲
۲۶۔
محضرنامہ کا مکمل متن رسالہ فغان کشمیر صفحہ ۵۔۱۰ پر موجود ہے۔
۲۷۔
تاریخ اقوام کشمیر صفحہ ۱۴۹ میں آپ کا ذکر آتا ہے۔
۲۸۔
تاریخ اقوام کشمیر صفحہ ۱۷۷
۲۹۔
فغان کشمیر صفحہ ۱۲۔۱۳
۳۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء
۳۱۔
الفضل ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم۱
۳۲۔
آپ کی پانچ روایات صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب سیرت المہدی حصہ سوم )صفحہ ۲۴۰۔۲۴۱( میں درج فرمائی ہیں۔
۳۳۔
کشمیر کے حالات صفحہ ۱۴۔۱۵ )از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب( شائع کردہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی قادیان ۱۹۳۱ء
۳۴۔
خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار مولوی فاضل سابق مدیراخبار اصلاح سرینگر آپ کے فرزند ارجمند ہیں۔ خواجہ عبدالرحمن صاحب کے حقیقی بھائی خواجہ عبدالعزیز صاحب ہیں۔ جن کی نسبت ہفت روزہ ضمیمہ نوائے کشمیر کوٹلی )۲ / فروری ۱۹۵۱ء( لکھتا ہے خواجہ صاحب موصوف ۱۹۳۱ء سے برابر مسلمانوں کیآزادی کے لئے جدوجہد کرتے رہے ۱۹۴۵ء میں آپ نے تحصیل دار صاحب کو لگام کے خلاف ایک زمیندار کو عدالت میں بے عزت کرنے پر تمام کو لگام میں شورش برپا کردی آخر پنڈت جیالال وانچو تحصیلدار کو کھلے اجلاس میں زمیندار سے معافی مانگی پڑی خواجہ صاحب نے تحصیل کو لگام کے ڈوگرہ جاگیرداروں کا ناک میں دم کردیاتھا مرزا عین کو ان کا پورا پورا حق دلانے میں پوری جدوجہد کی۔ جب پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کوثر ناگ آئے تھے تو شیخ عبداللہ صاحب نے خواجہ عبدالعزیز ڈار کا تعارف کراتے ہوئے کہا خواجہ صاحب میرے پرانے رفیق کاروں میں سے ہیں مگر جب سے میں نے نیشنلزم کو اختیار کیا یہ مجھ سے ناراض ہیں مگر میں ضرور یہ کہوں گا کہ جس جماعت سے یہ تعلق رکھتے ہیں وہ زندہ اور فعال جماعت ہے اس جماعت نے کشمیریوں کو بیدار کرنے میں تمام لوگوں سے زیادہ کام کیا اور خواجہ صاحب اپنے علاقہ کے مسلمہ لیڈر ہیں )صفحہ۲۱(
۳۵۔
بحوالہ >شیر کشمیر< صفحہ ۱۶ )از جناب کلیم اختر صاحب(
۳۶۔
خلیفہ صاحب مہاراجہ کشمیر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ خاص تھے اس کے بعد وہ ترقی پاکر پہلے ریاست کی وزارت خارجہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری بنائے گئے پھر وسط ۱۹۲۹ء میں ہوم سیکرٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
۳۷۔
رسالہ >لاہور< ۲۲ / مارچ ۱۹۶۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔۳
۳۸۔
الفضل ۳ / ستمبر ۱۹۳۱ء
۳۹۔
اسٹیٹسمین کلکتہ ۱۹ / اگست ۱۹۳۱ء >سیاست< لاہور ۲۳ / اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۴( بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندو مہاسبھائی< مصنفہ ملک فضل حسین صاحب احمدی مہاجر صفحہ ۵۹ تا ۶۲۔ )اشاعت ستمبر ۱۹۳۲ء(
۴۰۔
سرایلبین بینرجی کے اس بیان نے اندرون کشمیر مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچائی اور ینگ مینز ایسوسی ایشن )جموں( اور انجمن نوجوانان اسلام )سرینگر نے اس کی اشاعت میں خوب حصہ لیا موخرالذکر انجمن کی بنیاد مولوی غلام احمد صاحب ہمدانی نے ۱۹۲۸ء میں رکھی تھی۔
۴۱۔
بیان عبدالمجید صاحب قریشی )الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۲۔۳
۴۲۔
انقلاب ۷ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔ جناب چوہدری غلام عباس صاحب نے ٹھیکدار یعقوب علی صاحب کے اس جرات مندانہ اقدام کا ذکر >کشمکش< )صفحہ۵۲۔۵۳( میں بھی کیا ہے۔
۴۳۔
انقلاب ۱۲ / اپریل ۱۹۲۵ء
۴۴۔
انقلاب ۱۳ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۳
۴۵۔
)بریکٹ میں وضاحتی الفاظ خواجہ عبدالعزیز صاحب ڈار سے استوصواب کے بعد اضافہ کئے گئے ہیں۔
۴۶۔
اخبار >انقلاب< لاہور ۲۰ / اپریل ۱۹۲۹ء
۴۷۔
الفضل ۱۴ / مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹
۴۸۔
اخبار >انقلاب< لاہور ۳ / مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۶
۴۹۔
بحوالہ الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۳ کالم ۳
۵۰۔
الفضل ۱۶ / جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۳
۵۱۔
الفضل ۲۴ / جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۲
۵۲۔
ولادت مارچ ۱۹۰۹ء۔ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ایک عیسائی نوجوان احمد شاہ ایم۔اے نے آہستہ آہستہ عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی دوسرے ساتھی تو عیسائی ہونے پر آمادہ ہوگئے مگر گلکار صاحب اپنے ہمجولیوں کو مولوی عبداللہ صاحب وکیل کے پاس لے گئے اور ان سے پوچھا کہ اسلام اچھا مذہب ہے یا عیسائیت مولوی صاحب روزانہ شام کو درس دیا کرتے تھے اس روز انہوں نے اپنے درس میں عیسائیت کے خلاف زبردست تقریر کی اور حضرت مسیح موعود کی کتاب نورالقرآن نکال کر سنائی جس سے سب بہت متاثر ہوئے اور روزانہ درس میں حاضر ہونے لگے۔ اور ان کی تبلیغ سے وفات مسیح کے قائل ہوکر مدرسہ نصرت الاسلام میں جہاں نویں جماعت کا داخلہ لیا تھا اپنے ہم مکتبوں میں اس مسئلہ پر بحث شروع کردی اس پر مہتمم مدرسہ نے آپ کو مدرسہ سے خارج کردیا اور آپ سری پرتاپ ہائی سکول میں داخل ہوگئے دسویں جماعت پاس کی تو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے مبلغ مولوی عصمت اللہ صاحب کی تحریک پر اشاعت اسلام کالج )احمدیہ بلڈنگس لاہور( میں تعلیم پانے لگے۔ اسی دوران میں آپ کو ۱۹۲۸ء کے سالانہ جلسہ قادیان کی زیارت کا پہلا موقعہ میسر آیا اور حصرت مفتی محمد صادق صاحب کے مکان پر قیام کیا اسی دوران میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک شیشہ ہے جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کھڑے معلوم ہوتے ہیں اور اس کے اندر لکھا ہے کہ یہ نور ہے اور آسمان سے یہ نور آیا ہے اس آسمانی انکشاف پر آپ جماعت احمدیہ قادیان میں شامل ہوگئے۔ اور دسمبر ۱۹۳۱ء میں بیعت کرلی۔
۵۳۔
معمار آزادی کشمیر صفحہ ۲ مطبوعہ ۱۹۶۱ء دارالاشاعت راولپنڈی )از محمد اسداللہ صاحب قریشی کاشمیری(
۵۴۔
>تاریخ اقوام کشمیر< جلد ۲ صفحہ ۴۵۱۔ ۴۵۳ )مولف منشی محمد الدین صاحب فوق مطبوعہ ۱۹۴۳ء(بحوالہ معمار آزادی کشمیر صفحہ ۴۹۔۵۳
۵۵۔
خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کا بیان ہے کہ اشاعت اسلام کالج کے پرنسپل )مولوی صدر الدین صاحب( کی خواہش تھی کہ میں انجمن کا ملازم ہو جائوں اور مبلغ بن جائوں وہ چاہتے تھے کہ وہ مجھے نواب آف منگر دل کے پاس بھیج دیں جہاں مجھے ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوسکتی تھیں مگر میں نے انکار کیا اور کہا کہ میں اپنے ہی ملک کی خدمت کرنا چاہتاہوں۔][۵۶۔
>اصلاح< ۲۷ / نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ۲
۵۷۔
جناب مولوی محمد عبداللہ صاحب وکیل کشمیر کے ایک فرزند مشتاق احمد فاروق ایڈووکیٹ اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں >مجھے تحریک کشمیر سے نہ صرف ایک کشمیری تعلیم یافتہ اور محب وطن کی حیثیت سے ہی دلچسپی رہی ہے بلکہ اس لئے بھی زیادہ اور غیر معمولی دلچسپی رہی ہے کہ تحریک کا آغاز سرینگر میں والد صاحب مرحوم )مولوی محمد عبداللہ وکیل( کی کوششوں کا نتیجہ تھا والد مرحوم نے ایک کتابچہ )مارچ ۱۹۳۱ء کے قریب ناقل( دور جدید کے عنوان سے لکھا اس سے قبل وہ مذہبی تبلیغ و معاشرتی اصلاح وبہبود کا کام کرتے رہے اور دور جدید کے شائع ہوتے ہی والد بزرگوار نے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں ادھر فتح کدل ریڈنگ روم کے نوجوانوں کی پشت پناہی اور ہدایت کا کام جہاں والد بزرگوار نے سنبھالا ادھر جموں میں مستری یعقوب علی مرحوم وہاں کے نوجوانوں کی پشت پناہی اور ہدایت فرما رہے تھے والد صاحب اور مستری یعقوب علی صاحب چونکہ دونوں کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا اورجماعت احمدیہ میں والد صاحب کو ان دنوں خاص مقام حاصل تھا۔ اس لئے تحریک کشمیر کا ہیڈکوارٹر ہمارا مکان بن گیا<۔ ) >انصاف< راولپنڈی ۱۱ / فروری ۱۹۶۵ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۵۸۔
دسمبر ۱۹۰۵ء میں بمقام سرینگر پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے پندرہ روز قبل آپ کے والد ماجد شیخ محمد ابراہیم صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔ آپ کی والدہ محترمہ کے پاس جس قدر دنیاوی دولت تھی وہ انہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر نثار کردی ۱۹۲۲ء میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرتے ہی شفیق والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ مگر بڑی بڑی مالی مشکلات برداشت کرتے ہوئے آپ نے تعلیم جاری رکھی اور سرینگر سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے آپ کو بچپن ہی سے اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کی مظلومیت پر افسوس ہوتا تھا اور دل خون ہوا جاتا تھا اور آنکھیں فرط ہمدردی سے پرنم ہوجاتیں۔ سرینگر اور لاہور دنوں جگہ آپ نے اپنے ہم وطنوں کی زبوں حالی کے تڑپادینے والے مناظر دیکھے۔ ۱۹۲۸ء میں اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کا امتحان پاس کرکے علی گڑھ کالج چلے گئے یہاں آپ پر کیا بیتی اس داستان مظلومیت پر شیخ محمد عبداللہ صاحب ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں۔ وہاں بھی میری حالت ایسی تھی میرے لئے کشمیری ہونا ایک عیب تھا جو لاہور میں معاف کیا گیا اور نہ علی گڑھ میں وطن اور وطن سے باہر اپنے عزیز وطن اور اہل وطن کی یہ ذلت و رسوائی دیکھ کر میرا دل پاش پاش ہوگیا۔ اور میں نے بے زبان کشمیریوں کے استخلاص کے لئے دعا کی اور سچے دل سے یہ حلف اٹھایا کہ میں یاتو اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو ان مصائب سے نجات دلائوں گا یا خود بھی صیاد کے ظلم وستم کاشکار ہوجائوں گا۔ ۱۹۳۰ء کے آغاز میں آپ ایم ایس سی )کیمسٹری( کی ڈگری حاصل کرکے سرینگر آگئے اور گورنمنٹ ہائی سکول سرینگر میں بطور سائنس ماسٹر کام کرنے لگے آپ ایم ایس سی تھے لیکن ڈوگرہ حکومت نے آپ کو ساٹھ روپے ماہوار تنخواہ اور ۲۳ روپے الائونس کی ملازمت دی حالانکہ آپ سے کم تعلیم یافتہ ہندو بڑے بڑے عہدوں بلکہ وزارتوں پر قابض >نقوش لاہور آپ بیتی نمبر۔ صفحہ نمبر ۹۰۳۔ ۹۰۴ و شیر کشمیر ۶۹۔۸۰
۵۹۔
الفضل ۱۸ / ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تنظیم کی سرگرمیاں نمایاں رنگ میں وسط ۱۹۳۲ء سے پبلک کے سامنے آنے لگیں جبکہ گلانسی سفارشات منظور ہوگئیں الفضل نے نوجوانوں کی اس تنظیم کی خبر دیتے ہوئے لکھا یہ بات مسلم ہے کہ مسلمانان کشمیر بیدار ہوچکے ہیں۔۔۔۔۔۔ خداتعالیٰ ان کی ہمتوں میں برکت دے۔
۶۰۔
اخبار >ہمارا کشمیر< مظفر آباد ۲۶ / جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۔ اس پہلے اجلاس میں شیخ محمد عبداللہ صاحب۔ غلام احمد صاحب عشائی اور مولوی محمد سعید صاحب جیسے زعماء میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا بعض شامل ہونے والے نوجوان یہ تھے۔ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار۔ خواجہ محمد رجب صاحب )حال مجسٹریٹ مقبوضہ کشمیر( ملک محمد صدیق صاحب` مولوی بشیر احمد صاحب ابن مولوی عبداللہ ` خواجہ عبدالغنی پلوامی` غلام احمد صاحب ظہرہ` محمد یحییٰ صاحب رفیقی` غلام نبی صاحب رفیقی` خواجہ عبدالصمد صاحب درزی` محمد مقبول صاحب کوزگر` مبارک شاہ صاحب نقشبندی` پیر سیف الدین صاحب` پیر حفیظ اللہ صاحب کاش` ملک غلام نبی صاحب درزی` ملک عبدالقدیر صاحب` غلام محمد صاحب باغ` غلام رسول صاحب ویر۔ غلام محمد صاحب بٹ` ماسٹر غلام محمد صاحب ذینہ کدلی` خواجہ علی محمد صاحب سقہ` مفتی جلال الدین` پیر عبدالقدوس صاحب غلام محمد صاحب بانڈے` ماسٹر محمد اسمٰعیل صاحب اسلام آبادی وغیرہ۔ )آواز حق مظفر آباد ۷ / ستمبر ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۵۹(
۶۱۔
منشی محمد الدین صاحب فوق اس ایسوسی ایشن کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں مسلم سوشل اپ لفٹ ایسوسی ایشن ۔۔۔۔ کی سکیم کے تحت ساٹھ ستر نائٹ سکول بھی سرینگر میں کھل چکے تھے )تاریخ اقوام کشمیر جلد ۲ صفحہ ۴۵۱۔۴۵۳(
۶۲۔
خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کا بیان ہے کہ دوسرے روز عیدالاضحیہ تھی ان نوجوانوں نے برسرعام چندہ جمع کیا عید گاہ میں حکومت کے خلاف تقریریں کیں اور اس کے ساتھ ہی فتح کدلی ریڈنگ روم کا افتتاح کیا وہاں نوجوانوں کی آمدورفت شروع ہوئی نوجوان رہنمائی نے حضرت بل آثار شریف` خانقاہ معلی` علم صاحب` مخدوم صاحب` مسجدوں ` دعوتوں` نائٹ سکولوں عرسوں اور میلوں پر حکومت کے خلاف عوامی طاقتوں کو مجتمع کیا اور مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی تلقین کی جگہ جگہ دستی پوسٹر لگائے۔ >اخبار ہمارا کشمیر< مظفر آباد ۲۶ / جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۳(
۶۳۔
معمار آزادی کشمیر صفحہ ۳۔
۶۴۔
>شیر کشمیر< صفحہ ۸۲۔۸۳
۶۵۔
مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن کے کارکنوں نے کس طرح ابتداء پنجاب کے اسلامی اخبارات میں حالات بھجوانے شروع کئے اور حکومت کشمیر کا عتاب نازل ہوا۔ اور دوبارہ یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری ہوا اس کی تفصیل جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اپنی >سرگزشت< صفحہ ۲۸۵۔۲۸۸ میں بیان فرمائی۔
۶۶۔
>آواز حق< مظفر آباد ۷ / ستمبر ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۶۳ کالم ۳۔ اس شمارہ میں یہ بھی لکھا ہے >ریڈنگ روم پارٹی< نے یہ تجویز کی کہ لاہور سے اخبار نکالا جائے۔ مگر اقتصادی حالات اجازت نہیں دیتے تھے اس لئے یہ تجویز ہوئی کہ انقلاب کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اور جب اس اخبار کا داخلہ ریاست میں بند کردیا جائے تو ایک اور نام سے اخبار جاری کیا جائے اور جب وہ بھی بند ہوجائے تو اشتہار نکالے جائیں چنانچہ ایساہی ہوا اور اشتہاروں کے طریقہ پر اخبار >مظلوم کشمیر< کشمیری مسلمان۔ ہتو کشمیر یکے بعد دیگرے آتے گئے اور ادھر ریڈنگ روم پارٹی ان کو مشتہر کرتی گئی۔
۶۷۔
الفضل ۱۲ / مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۴
۶۸۔
الفضل ۱۱ / جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۱
۶۹۔
الفضل ۴ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۲۔
۷۰۔
مثلاً انقلاب )لاہور( ۹ / جون ۱۹۳۱ء ` الفضل قادیان ۱۱ / جون ۱۹۳۱ء انقلاب لاہور ۱۲ / جون ۱۹۳۱ء و الفضل )قادیان( ۱۳ / جون ۱۹۳۱ء۔
۷۱۔
‏h2] [tag الفضل ۱۳ / جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۷۲۔
‏ KASHMIR> <INSIDEصفحہ ۱۳۵ )مولف مورخ کشمیر مسٹر پریم ناتھ بزاز( مطبوعہ ۱۹۴۱ء ناشر پبلشنگ کمپنی سرینگر۔
۷۳۔
>انقلاب< ۱۲ / جون ۱۹۳۱ء
۷۴۔
الفضل ۱۶ / جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔۴
۷۵۔
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ایک غیر مطبوعہ مضمون سے ماخوذ
۷۶۔
انقلاب یکم جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳
۷۷۔
الفضل ۲ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳
۷۸۔
یہ تاریخ بالترتیب ۱۰۔۲۸۔۲۴ / جولائی ۱۹۳۱ء تجویز کی گئی۔
۷۹۔
اخبار الفضل قادیان دارالامان ۱۶ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔۴
۸۰۔
اردو ترجمہ >نوحہ کشمیر< )فارسی منظوم( صفحہ ۱۲۔۱۳ مطبوعہ پنجاب نیشنل پریس لاہور ۱۹۶۳ء
۸۱۔
اخبار >ہمدرد سرینگر< ذمہ دار حکومت نمبر ۳۱ / جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۱(
۸۲۔
‏ KASHMIR> <INSIDE صفحہ ۱۲۵
۸۳۔
کشمیر کے حالات صفحہ ۲۸ )از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب( و الفضل ۹ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۹ کالم ۱۔۲۔ >آواز حق< مظفر آباد صفحہ ۲۵۹۔ مولوی محمد سعید صاحب مسعودی سابق ایڈیٹر اخبار ہمدرد لکھتے ہیں مولانا عبدالقدیر صاحب ۳۵۔۴۰ کے درمیان سن وسال کے ایک گرانڈیل جوان تھے بھر پور جسم ` بڑا ساسر۔ گھنی اور تائو دی ہوئی کانوں کی لو سے ہمکنار مونچھیں ۔ تیز چمکدار اور گہری آنکھیں۔ گہرا گندمی رنگ اور گرجدار آواز۔ ان سب باتوں نے مولانا میں امتیازی رعب کی شان پیدا کررکھی تھی آپ فطرتاً سپاہی تھے اور آپ کا کاروبار چھائونیوں سے وابستہ رہنے کے باعث کریلا اور نیم چڑھا ہوگیا تھا مولانا یوپی کی طرف کسی مقام کے رہنے والے اور علمی خاندان سے متعلق تھے آپ کی تعلیم عربی` فارسی قبل از تکمیل ہی رک چکی تھی فوجیوں کے ساتھ کاروبار کی وجہ سے انگریزی نہایت رواں اور فوجیانہ بولتے تھے اردو مادری زبان ہونے کے باعث زیر تصرف تھی راولپنڈی اور پشاور کے طویل قیام کے باعث پنجابی اور پشتو زبان بھی اہل زبان کی طرح بول لیتے تھے کشمیر میں آپ کا ورود ۱۹۳۱ء میں پہلی دفعہ یورپین فوجی افسروں کی معیت میں ہوا خانقاہ معلیٰ میں مسلمانان کشمیر کا پہلا جلسہ تھا جس میں آپ شامل ہوئے جلسہ کے اختتام پر آپ نے مسلمانان کشمیر کی نسبت اپنے تاثرات بیان کئے اردو زبان کسی نے بھی نہ سمجھی۔ مگر پولیس کی رپورٹ پر دوسرے دن آپ کی گرفتاری عمل میں آگئی۔ اس سے قبل آپ حضرت بل میں جمعہ کے دن بھی کوئی تقریر کر چکے تھے<۔ )اخبار اصلاح سرینگر ۱۳ / جولائی ۱۹۳۶ء(
۸۴۔
ہفت روزہ اصلاح سرینگر ۱۳ / جولائی ۱۹۳۶ء
۸۵۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے پاس متواتر وفود اور تاریں آئیں کہ آپ یہ کام اپنے ہاتھ میں لیں اور ہماری مدد کریں )الفضل ۲۴ / جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۲
۸۶۔
>کشمیر کے حالات< صفحہ ۲۸ )از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب( مطبوعہ اگست ۱۹۳۱ء
۸۷۔
اخبار >اصلاح< سرینگر ۱۳ / جولائی ۱۹۳۶ء
۸۸۔
‏ KASHIR> <INSIDE صفحہ ۱۳۰۔ مطبوعہکشمیر پبلشنگ کمیٹی سرینگر ۱۹۴۱ء
۸۹۔
جب گول چلی تو عبدالقدیر خان صاحب کو کسی کارروائی کے بغیر جیل کی ڈیوڑھی سے واپس لے جاکر حوالات میں بند کردیاگیا۔ اور چند روز بعد سرینگر سیشن جج نے ان کو ۶ سال کی سخت قید سنادی۔ مگر بعد ازاں جلد ہی انہیں رہا کر دیا گیا۔ )الفضل ۶ / اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲(
۹۰۔
‏ <RECOLLECTIONS> صفحہ ۱۹۴۔ )بحوالہ >شیر کشمیر< صفحہ ۱۰۵۔ از جناب کلیم اختر صاحب( اخبار الفضل قادیان نے مسلمانان کشمیر کی قابل تعریف ہمت اور استقلال کے عنوان پر ۴ / اگست ۱۹۳۱ء کو ایک پرزور اداریہ بھی لکھا تھا۔
۹۱۔
۱۳۔۱۴ / جولائی ۱۹۳۱ء کو شہید ہونے والوں کی ایک نا تمام فہرست اخبار ہمارا کشمیر مظفر آباد ۲۶ / جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۔ اور ہفت روزہ ولر ۱۳ / جولائی ۱۹۶۳ء میں شائع شدہ ہے۔
۹۲۔
الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۹۔۱۰
۹۳۔
>کشمیر کے حالات< )از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب(
۹۴۔
یہ وفد ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کی سرکردگی میں زخمیوں کے علاج کے لئے بھیجا جانا تجویز ہوا تھا جس کے لئے بذریعہ تار اجازت طلب کی گئی مگر حکومت کشمیر نے اسے داخلہ کی اجازت نہ دی۔ )الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱(
۹۵۔
ابن مولوی عبداللہ صاحب وکیل ولادت ۱۸۹۵ء قریباً ۱۹۴۷ء میں جموں سے ہجرت کے کے سیالکوٹ آگئے اب تک وہیں قیام رکھتے ہیں۔
۹۶۔
ولادت ۴ / فروری ۱۹۰۴ء بمقام جموں۔ چوہدری غلام عباس صاحب کی سیاسی جدوجہد میں ان کے والد بزرگوار منشی نواب الدین مرحوم احمدی کی تربیت اور دعائوں کا بہت دخل ہے چنانچہ چوہدری صاحب خود ہی فرماتے ہیں >میرے والد محترم بے حد متشرع اور دین دار تھے۔ اور یہ امر واقع ہے کہ میں نے اپنی عمر میں ان کو ہمیشہ معمولاً اور التزاماً دوبجے صبح کے لگ بھگ بیدار ہوتے پایا۔ تہجد نماز پنجگانہ اور روزہ سے سوائے علالت کے انہوں نے کبھی ناغہ نہ کیا۔ مجھے ان سے بعض مذہبی عقائد میں اختلاف تھا لیکن میں جو کچھ بھی ہوں اور میں نے جو کچھ بھی اس دنیا میں حاصل کیا سب انکی بدولت ہے یہاں تک کہ میری موجودہ زندگی بھی ان ہی کی مرہون منت ہے ابتداء میں مہاراجہ ہری سنگھ اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف لب کشائی کوئی آسان بات نہ تھی چہ جائے کہ حکومت کے خلاف باغیانہ تحریک کی رہنمائی کی جاتی ۔ اکثر گھر والے میری سیاسی سرگرمیوں کے مخالف تھے لیکن والد محترم بالخصوص تخلیہ میں میری گرفتاری پر بہت خوش ہوتے اور مجھے ہمیشہ ہمت اور استقلال کا سبق دیتے جب میری غیر آئینی سرگرمیاں شروع ہوگئیں تو ایک دفعہ باوجود کسر نفسی کے خود بھی گرفتار ہوگئے اب ان کے پاس مجھے دینے کے لئے کچھ نہ رہا تھا لیکن ان کی زندگی اور ان کی میرے حق میں دعائیں میرے لئے دنیا کی تمام نعمتوں اور ثروتوں سے زیادہ گراں قدر اندوختہ اور زادحیات تھیں کاش وہ آج زندہ ہوتے اور میری پریشانی خاطر میں میرے درد دل کا مداوا ہوسکتے۔ >)کشمکش<مولف جناب چوہدری غلام عباس صاحب صفحہ ۲۴۲۔۲۴۳۔ شیخ عبداللہ صاحب کا بیان ہے کہ گلکار صاحب نے بڑی جرات کے ساتھ اپنی ہتھیلیاں پیش کرتے ہوئے کہا لو پہنائو۔ ہمارے لئے یہ لوہے کی زنجیریں نہیں بلکہ سونے کے کنگن ہیں >)آتش چنار صفحہ ۱۹۸ از شیخ محمد عبداللہ صاحب ناشر چوہدری اکیڈمی لاہور تصنیف ۱۹۸۲ء اشاعت ۱۹۸۵ء
۹۷۔
>اصلاح< سرینگر ۱۳ / جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۔۴۔ ہری پربت کے ان لیڈروں کی گرفتاری کے بعد ۱۷ دن تک مسلسل ہڑتال رہی۔ کچھ عرصہ جیل میں رہنے کے بعد جب ان کی رہائی عمل میں آئی تو خواجہ غلام محی الدین صاحب رہبر ساکن بٹ مالو سرینگر نے ان کا گروپ فوٹو لیا تھا مگر افسوس مئولف کو وہ پاکستان سے دستیاب نہیں ہوسکا۔ خواجہ غلام محی الدین صاحب کی دکان گنڈہ سنگھ بلڈنگ سرینگر سے متصل واقع تھی ممکن ہے سرینگر سے یہ قیمتی اور یادگار فوٹو مہیا ہوجائے۔
۹۸۔
بحوالہ >الفضل< ۲۳ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔۲
۹۹۔
الفضل ۱۸ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱`۱۲
۱۰۰۔
الفضل ۲۴ / ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۴
۱۰۱۔
غیر مطبوعہ مضمون ۱۹۵۱ء )سیدنا حضرت خلیفہ الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ(
۱۰۲۔
جلسہ سے قبل ایک عظیم الشان جلوس بھی نکالا گیا۔ جس نے مظالم کشمیر سے متعلق نظمیں پڑھنے اور اللہ اکبر ` اسلام زندہ باد` اور ڈوگرہ راج مردہ باد< کے نعرے بلند کرکے زبردست مظاہرہ کیا۔ )الفضل ۲۱ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم۲۔۳
۱۰۳۔
کچھ عرصہ ہوا مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ جماعت احمدیہ دہلی نے شمس العلماء جناب خواجہ حسن نظامی مرحوم کے فرزند حسن نظامی ثانی صاحب سے ملاقات کی۔ تو انہوں نے بتایا کہ آپ کے خلیفہ صاحب کے متعدد خطوط ہمارے یہاں محفوظ ہیں۔
۱۰۴۔
اخبار >الفضل< ۲۴ / ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم۳
۱۰۵۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ۲۳ / جولائی ۱۹۳۱ء کو قادیان سے بذریعہ گاڑی سفر شملہ کے لئے روانہ ہوئے تھے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے` شیخ یوسف علی صاحب بی۔اے۔ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب )پروفیسر جامعہ احمدیہ( ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور چوہدری ظہور احمد صاحب )حال آڈیٹر صدر انمن احمدیہ ربوہ( بھی ہمراہ تھے )الفضل ۲۵ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۱( و رسالہ لاہور ۵ / اپریل ۱۹۶۵ء(
۱۰۶۔
بردایت چوہدری ظہور احمد صاحب )لاہور ۵ / اپریل ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲ کالم ۱(
۱۰۷۔
ایضاً
۱۰۸۔
>الموعود< صفحہ ۱۵۸۔۱۵۹ )تقریر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۱۹۴۴ء( ناشر الشرکتہ الاسلامہ ربوہ مطبوعہ دسمبر ۱۹۶۱ء
۱۰۹۔
لاہور ۵ / اپریل ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲ کالم ۲
۱۱۰۔
ہفت روزہ >لاہور< مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۲ تا ۴
۱۱۱۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ان دنوں ملک میں اسلامی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک مسلم بورڈ کی تجویز پر غور فرمارہے تھے یہ اسی تجویز کی طرف اشارہ ہے۔
۱۱۲۔
صدر بننے کے بعد بھی حضرت کا ذاتی نقطہ نگاہ یہ تھا کہ یہ عہدہ کسی اور مسلمان لیڈر کو سونپ دیا جائے اور آپ اور جماعت احمدیہ کمیٹی کے پلیٹ فارم سے مسلمانان کشمیر کیآزادی کے لئے سرگرم جدوجہد جاری رکھیں مگر خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ۳۱ / جولائی ۱۹۳۱ء کو آپ کی خدمت میں لکھا۔ دوسرے صدر کا نام لینا آپ کی ہمت اور اعلیٰ جرات سے بعید ہے آپ تو ان مشکلات کے عادی ہیں اس پر آپ کو اپنا خیال مجبوراً بدلنا پڑا۔
۱۱۳۔
الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ و >لاہور< ۵ / اپریل ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲۔
۱۱۴۔
ایک نادان احمدی نے ۲۸ / جولائی ۱۹۳۱ء کو حضور کی خدمت میں لکھا۔ آج اخبار میں یہ پڑھ کر کہ حضور کشمیر کمیٹی کے پریذیڈنٹ ہوگئے ہیں بہت افسوس ہوا کہ تاج خلافت ہوتے ہوئے اس انجمن کی پریذیڈنٹی حضور نے قبول فرمالی ہے حضور امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ملفوف کی پشت پر اپنے قلم سے یہ جواب رقم فرمایا۔ کہ بعض دفعہ شفقت علیٰ خلق اللہ کی وجہ سے مزیل شان باتیں کرنی پڑتی ہیں میں پہلے بھی انکار کا ارادہ رکھتا تھا مگر جب دیکھا کہ بعض لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری کو اٹھا لیا۔
۱۱۵۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲۔۳۔
‏tav.5.29
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
حصہ دوم۔ تیسرا باب )فصل اول(
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا طریق کار و نظام عمل` مسلمانان ریاست کی تنظیم` حکومت ہندو حکومت کشمیر سے رابطہ و خط و کتابت` یوم کشمیر` عالمی پراپیگنڈا` مظلومین کشمیر کی طبی اور مالی امداد` معاہدہ صلح` اجلاس سیالکوٹ اور مہاراجہ کی طرف سے ابتدائی حقوق دینے کا اعلان
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا طریق کار و نظام عمل
)۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء تا ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء(
یہ تفصیل بتانے سے پیشتر کہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیادت میں تحریک آزادی کشمیر کس شان سے اٹھی` آگے بڑھی اور منزل مقصود کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوئی۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نظام عمل اور طریق کار کا بیان کرنا ضروری ہے۔
اصولی اور آئینی تحریک
تحریک آزادی کشمیر دراصل ایک سماجی اور اقتصادی تحریک تھی جس کی بنیاد اخلاق اور انسانیت کے تقاضوں پر رکھی گئی۔ اس لئے ایک بااصول ادارہ کی حیثیت سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ہندوئوں کے اشتعال انگیز پراپیگنڈا کے رد میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ موجودہ ایجی ٹیشن کسی صورت میں بھی ہزہائی نس مہاراجہ صاحب کی ذات کے خلاف نہیں بلکہ اس کا مطلب صرف مسلمانان کشمیر کی ناقابل برداشت شکایات کا ازالہ اور متشددانہ طرز حکومت کی اصلاح کرانا ہے۔ جو مدت مدید سے کشمیر میں مروج ہے<۔۱
پھر یہ اصلاح بھی آل انڈیا کشمیر کمیٹی آئینی و دستوری دائرہ میں کرنے کے لئے قائم ہوئی تھی اور حق یہ ہے کہ اگر یہ کمیٹی سیاسی اغراض کے لئے بھی قائم ہوتی تب بھی اس کے لئے کسی غیر آئینی اور خلاف قانون روش کا اختیار کرنا سراسر نقصان دہ تھا وجہ یہ کہ زمانہ مسلمانان کشمیر ہی کے لئے نہیں مسلمانان ہند کے لئے بھی نہایت نازک زمانہ تھا۔ اور وہ خود اپنے حقوق و مطالبات کے حصول میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھے۔ برطانوی حکومت کا جھکائو ہندوئوں کی طرف تھا۔ اور ہندو اپنے تمام تر اختلافات فراموش کرکے پورے ہندوستان سے مسلمانوں کی ہستی تک مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ ہندو راجوں` مہاراجوں اور سرمایہ داروں کو کسی بھی ناجائز اور ناروا ذریعہ کے اختیار کرنے سے دریغ نہیں تھا۔ کانگریس کے لیڈر آزادی ہند کے دعاوی کے باوجود ہندو راجوں اور مہاراجوں کے حق میں تھے۔۲ اور حکومت ہند کی پالیسی یہ تھی کہ وہ ریاستوں کے اندرونی حالات میں غیر ریاستی لوگوں کی مداخلت کسی طرح گوارا نہ کرتی تھی۔۳
ظاہر ہے کہ ان حالات میں ہندوستان اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی طرح ریاست کشمیر کی آزادی کا مسئلہ بھی تدریجی طور پر ہی حل ہو سکتا تھا اور اہل کشمیر قانوناً دوسری ریاستوں سے بڑھ کر کوئی غیر معمولی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ لہذا >آل انڈیا کشمیر کمیٹی< کے لئے تحریک کو چلانے کے لئے صرف آئینی جدوجہد ممکن تھی۔ اور حضور نے شروع میں ہی ممبران کمیٹی کے سامنے اس کی وضاحت فرما دی تھی۔
چنانچہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا بیان ہے۔ >جب ۱۹۳۱ء میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لیڈران قوم کے مشورہ بلکہ ان کے اصرار اور اعتماد پر تحریک کشمیر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ تو اس وقت حضور نے صرف اس شرط پر اس مبارک کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا کہ آپ کی ساری کوششیں کانسٹی ٹیوشنل یعنی دائرہ نظام کے اندر ہوں گی اور اس روح تعاون پر مبنی ہوں گی جو جماعت احمدیہ کے مذہبی اصول میں سے ایک اہم اصول ہے لیڈروں نے اس شرط کو منظور کیا<۔۴
مسلمانان ہند کو متحد پلیٹ فارم پر لانے کی جدوجہد
مسلمانان کشمیر کا مسئلہ چونکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ تھا اس لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں نے روز اول ہی سے یہ حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ملک کی تمام مسلمان جماعتوں اور انجمنوں سے اشتراک عمل کرکے کشمیر کی خاطر کام کرنے والی مختلف جماعتوں میں نظم پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ تا مسلمانوں کے متحد پلیٹ فارم سے اٹھنے والی آواز تحریک کو چلانے میں زیادہ سے زیادہ ممد و معاون ہو سکے۔
چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے کمیٹی بنتے ہی ملک کے مختلف مسلمان لیڈروں کو کمیٹی سے تعاون کرنے کی اپیل کی اور اس خیال سے کہ اس کمیٹی میں کانگریس کے موید مسلمانوں کی بھی نمائندگی ہو جائے گی آپ نے مظہر علی صاحب اظہر اور چوہدری افضل حق صاحب )مفکر احرار( کو خطوط لکھوائے کہ مجھے امید ہے کہ آپ اس میں شامل ہو کر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی کو ان کے پاس بھجوایا کہ یہ اصحاب کسی طرح اس میں شامل ہو جائیں۔ مگر یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں اس پر آپ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی اور مولوی غلام رسول صاحب مہر کو خطوط لکھے کہ اگر کمیٹی میں شمولیت سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ میں صدر ہوں تو آپ ان حضرات کو تیار کریں کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبر ہو جائیں۔ اور مسلمانوں کی کثرت رائے کے ماتحت تحریک چلانے کا اقرار کریں۔ تو میں کمیٹی سے فوراً مستعفی ہو جائوں گا۔ بلکہ اس صورت میں وہ میرے اس خط ہی کو استعفیٰ سمجھ لیں۔ اس پیشکش کا جواب یہ دیا گیا کہ ہم اپنا الگ کام کریں گے۔۵
یہ صورت حال بڑی حوصلہ شکن تھی مگر کشمیر کمیٹی نے نہ صرف عدم تعاون کرنے والوں کی تشہیر سے اجتناب کیا بلکہ اعلان کر دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں ہر مسلم تنظیم یا مجلس سے تعاون کرے گی۔ اور حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے تمام شاخوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے پروگرام کو قائم رکھتے ہوئے جس قسم کی امداد کر سکیں کر دیں مثلاً طبی امداد۔۶
بہرحال کشمیر کمیٹی کا یہ کارنامہ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل توجہ اور زبردست کوشش نے مولوی میرک شاہ صاحب جیسے دیوبندی عالم` مولوی محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی اور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی جیسے عالم اہلحدیث` خواجہ حسن نظامی صاحب اور مولوی عبدالحمید ظفر صاحب بنگالی جیسے مذہبی پیشوا` مولوی حسرت صاحب موہانی` مولوی شفیع دائودی صاحب اور ڈاکٹر شفاعت احمد خاں جیسے سیاستدان` سید عبدالقادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج جیسے مورخ پروفیسر علم الدین صاحب سالک جیسے فاضل` حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون اور شیخ نیاز علی صاحب ایڈووکیٹ اور چوہدری عبدالمتین صاحب آف ڈھاکہ جیسے قومی کارکن` ملک برکت علی صاحب اور مشیر حسین صاحب قدوائی جیسے کانگریسی` ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب جیسے ماہر تعلیم ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جیسے فلسفی و شاعر اور سید محسن شاہ صاحب جیسے کشمیر کے دیرینہ خادم مولوی عبدالمجید صاحب سالک` مولوی غلام رسول صاحب مہر اور سید حبیب صاحب جیسے صحافی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے۔ اور تحریک آزادی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے لگے۔ ہندی مسلمانوں کی سیاسی جماعت آل انڈیا >مسلم لیگ< اور کشمیری کانفرنس دونوں کمیٹی کی حمایت کرنے لگیں بلکہ دہلی میں کمیٹی کا اجلاس )۲۲/ نومبر ۱۹۳۱ء( کو مسلم لیگ کے دفتر میں ہی منعقد ہوا۔
پبلسٹی کمیٹی
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اگست ۱۹۳۱ء کے پہلے ہفتہ میں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے` سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی عبدالمغنی خان صاحب پر مشتمل ایک پبلسٹی کمیٹی تجویز فرمائی۔ جس کا کام مسلمانان کشمیر کے حقوق و مطالبات کی حمایت و اشاعت تھا۔ اس کمیٹی نے اپنا فرض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ چنانچہ >کشمیر کے حالات<۔۷ >مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج<۔۸ اور >مسئلہ کشمیر اور ہندومہا سبھائی< جیسی تصانیف اس کی کوشش سے شائع ہوئیں۔ مقدم الذکر کتاب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے قلم سے لکھی گئی تھی۔ اور دوسری ملک فضل حسین صاحب احمدی مہاجر جماعت کے مشہور فاضل و محقق کی تحقیق کا نتیجہ تھیں ان کتابوں سے کشمیریوں کے موقف کو بہت تقویت پہنچی جیسا کہ آگے ذکر آئے گا۔ اس اہم لٹریچر کی اشاعت کے علاوہ کمیٹی نے وقتاً فوقتاً مختلف ہینڈ بل۹ اور ٹریکٹ بھی شائع کئے۔ مسلمانان کشمیر کا محضر نامہ )۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۱ء برائے مہاراجہ کشمیر(
>۔MULSIMS KASHMIR OF DEMANDS CONTAINING <MEMORIAL
کے نام سے شائع کیا۔
پبلسٹی کمیٹی نے مسلم پریس سے رابطہ قائم کرنے کی طرف بھی خاص توجہ دی۔ احمدی اخبارات میں سے اخبار >الفضل< )قادیان( >سن رائز< اور >پیغام صلح< لاہور نے نمایاں حصہ لیا۔ اور تحریک کو چپہ چپہ تک پھیلانے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا حتیٰ کہ پنجاب کے مشہور صحافی اور سیاسی لیڈر مولوی ظفر علی خان صاحب مدیر >زمیندار< کو لکھنا پڑا کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب تو اخبار الفضل کے اداریوں سے شیر کشمیر بنے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے >شیر کشمیر< کے عنوان سے ۱۱/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو ایک نظم لکھی جس میں شیخ محمد عبداللہہ صاحب کی زبان سے یہ شعر کہے ~}~
شیر کشمیر بن گیا ہوں میں
فقط >الفضل< کے مقالوں سے۱۰`۱۱
اخبار >سن رائز< ہفت روزہ انگریزی اخبار تھا جس نے کشمیریوں کے مطالبات کی تائید میں نہایت معرکتہ الاراء مضامین شائع کئے۔ اس کے ایڈیٹر ان دنوں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے تھے یہ وہ بلند پایہ اور وقیع اخبار تھا جس کے مضامین دوسرے اخبارات بھی نقل کرتے تھے۔ اور لنڈن میں پارلیمنٹ کے ممبروں اور انڈیا آفس کے افسروں تک پہنچتا تھا۔ بمبئی کے اخبار >سوشل ریفارمر< کے ایڈیٹر نٹراجن (NATRAJAN) نے اپنے اخبار میں لکھا کہ >سن رائز< جس جرات اور قابلیت سے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ مسلمانوں کا کوئی اور اخبار نہیں کرتا۔۱۲ اس اخبار کے اداریے عموماً حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے تھے )گو حضور کا نام نہیں ہوتا تھا( اور ملک صاحب فصیح اور شستہ اور رواں انگریزی میں ترجمہ کرکے بطور اداریہ شائع کر دیتے تھے۔۱۳
ان اخبارات کے علاوہ >اسلامی پریس< میں سے اخبار >انقلاب< )لاہور( >سیاست< )لاہور( >منادی< )دہلی( >ہمت< )لکھنئو(۱۴ نے کشمیر کمیٹی سے خاص تعاون کیا اور نہ صرف اس کے اجلاسوں کی کارروائی شائع کی۔ بلکہ تحریک کے حق میں آواز بلند کی۔ چونکہ مسلم پریس میں اخبار >انقلاب< تحریک کشمیر کی تائید میں بڑا اہم کردار ادا کررہا تھا۔ اس لئے حکام کشمیر نے اس پر مقدمہ چلانا چاہا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو علم ہوا تو حضور نے ایڈیٹر صاحب >انقلاب< کو تار دیا کہ۔
>مجھے یہ سن کر بہت مسرت ہوئی کہ حکوت کشمیر >انقلاب< کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمیں موقعہ ملے گا کہ ہم کشمیر کے مظالم کو انگریزی عدالت میں بے نقاب کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری ہر قسم کی تائید و حمایت آپ کے ساتھ ہو گی<۔۱۵
اسی طرح >انقلاب< سے پانچ ہزار کی ضمانت طلب کی گئی تو مدیران انقلاب نے اعلان کیا کہ ضمانت داخل خزانہ کرانے کی بجائے وہ اخبار بند کر دیا جائے گا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے عبدالمجید صاحب سالک اپنی >سرگزشت< میں لکھتے ہیں۔ >دوستوں اور قدر دانوں کے تار پر تار آنے لگے۔ صاحبزادہ سر عبدالقیوم )پشاور( مرزا محمود احمد )قادیان( شعیب قریشی )بھوپال( نے آمادگی ظاہر کی کہ ہم پوری ضمانت داخل کر دینے کو تیار ہیں۔ >انقلاب< بند نہ ہونا چاہئے<۔۱۶
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اندرونی نظم و نسق
شروع شروع میں جبکہ کمیٹی کا قیام ہوا۔ نظارت امور عامہ نے )جس کے ناظران دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے( کام سنبھالا۔ یوم کشمیر کے پروگرام سب جماعتوں اور غیر احمدی معززین کو بھیجے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا پمفلٹ >کشمیر کے حالات< راتوں رات چھپوا کر بھیجا۔ چندہ کے متعلق جماعت میں تحریکات کیں اور کئی دن پورا عملہ اسی میں مصروف رہا۔۱۷ اس کے بعد نظارت امور خارجہ کے تحت )جس کے اس وقت ناظر اور کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے تھے( کشمیر کمیٹی کے لئے باقاعدہ محکمہ قائم کر دیا گیا۔۱۸ جس کے زیر انتظام وقتاً فوقتاً مولوی عبدالرحیم صاحب درد سیکرٹری کشمیر کمیٹی۔ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے۱۹` بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی` حکیم فضل الرحمن صاحب` چوہدری ظہور احمد صاحب` چودھری نذیر احمد صاحب باجوہ` چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ` چوہدری عصمت اللہ صاحب ایل ایل بی` مولوی ظہور الحسن صاحب )حال سیالکوٹ( اور لفٹنٹ محمد اسحاق صاحب )ابن حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحبؓ( سرینگر` جموں اور میر پور میں تحریک آزادی میں اہم خدمات بجا لانے کا موقعہ ملا۔
چوہدری ظہور احمد صاحب لکھتے ہیں۔ )فروری ۱۹۳۲ء میں قادیان سے( >اپیل کی گئی کہ گریجوئیٹ اور مولوی فاضل اور اس سے کم تعلیم کے لوگ اپنے آپ کو آنریری خدمات کے لئے پیش کریں تاکہ ان کے سپرد خدمت کی جاسکے۔ سینکٹروں لوگوں نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کر دیا میرپور کے علاقہ میں زیادہ کارکنوں کی ضرورت تھی۔ جموں سے چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ میرپور جاچکے تھے۔ دوسرے کارکنوں کی ایک ٹیم مولانا ظہور الحسن کی سرکردگی میں بھجوائی گئی۔ مولانا بڑے جوشیلے کارکن ہیں وہاں خوب کام کیا۔ ناصر میر پوری کا نام اخبارات میں کثرت سے آتا تھا یہ ناصر میر پوری مولانا ظہور الحسن ہی تھے<۔
اخبار >انقلاب< نے انہی سرفروش اور جانباز کارکنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔
>کشمیر کمیٹی کے ۔۔۔۔۔۔ اگرچہ وہاں پہلے ہی متعدد ارکان مصروف کار تھے لیکن ان کی امداد اور مسلم نمائندوں سے مشاورت کرنے کی غرض سے پنجاب کے بعض مقتدر اور تجربہ کار حضرات بھیجے گئے۔ جنہوں نے اندرون کشمیر کے منظم کرنے میں نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں ۔۔۔۔۔۔ ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے محترم عہدیداروں اور کارکنوں کے شکرگزار ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اس شکر گزاری میں مسلمانان کشمیر ہم سے کاملاً ہم آہنگ ہیں کہ کمیٹی کے کارکنوں نے نہایت بے نفسی اور انتہائی فراست سے ان کاموں کو نباہا ہے<۔۲۰
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے اور دفتر کشمیر کمیٹی کے مستعد کارکنوں کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت مولوی محمد دین صاحب بی۔ اے اور بعض دوسرے بزرگوں کو بھی افسروں کی ملاقاتوں وغیرہ کے لئے بھجوایا جاتا رہا۔۲۱
مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے ابتداء میں سیکرٹری شپ کے فرائض ادا کرنے کے علاوہ دفتر کے بھی ناظم تھے۔ مگر جب دسمبر ۱۹۳۱ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمس فلسطین سے اعلائے کلمئہ اسلام کی بجا آوری کے بعد تشریف لائے تو حضور نے آپ کو دفتر کا انچارج مقرر فرما دیا اور اس نئے تقرر کی نسبت بتایا کہ >مولوی جلال الدین صاحب کو شام سے واپسی پر کشمیر کا کام سپرد کیا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہمارے کام کرنے والے لوگ کام سے تھکتے نہیں ایک شخص جو چھ سال کا لمبا عرصہ اپنے وطن سے دور سمندر پار رہا ہو وہ امید کر سکتا ہے کہ واپسی پر اسے اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے اور آرام کرنے کا موقعہ دیا جائے مگر یہ مردوں اور عورتوں کے لئے تعجب کی بات ہے کہ مولوی صاحب جب سے آئے ہیں کل )۹/ فروری ۱۹۳۱ء کو۔ ناقل( صرف چند گھنٹوں کے لئے اپنے وطن گئے کیونکہ آتے ہی انہیں کام پر لگا دیا گیا<۔۲۲
فروری ۱۹۳۳ء میں مولانا درد صاحب انگلستان تشریف لے گئے۔ تو ان کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس پہلے اسسٹنٹ سیکرٹری کشمیر کمیٹی پھر اسسٹنٹ سیکرٹری >آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن< کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ فروری ۱۹۳۶ء میں مولانا صاحب انگلستان میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب اس دفتر کے انچارج بنائے گئے اب یہ دفتر >کشمیر ریلیف فنڈ< کے نام سے موسوم ہوتا تھا۔
اس دفتر کے ذمہ تحریک آزادی کشمیر سے متعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ امور کا انتظام تھا۔ غیر احمدی دوستوں کے عطایا مسلم بنک لاہور میں جمع ہوتے تھے۔۲۳ اور احمدیوں کا چندہ یہ دفتر وصول کرتا تھا۔ دفتر کشمیر کمیٹی ہر قسم کے چندہ کی آمد اور خرچ کا پورا حساب رکھتا۔ اندرون یا بیرون ریاست میں تحریک آزادی کے لیڈروں اور کارکنوں کے ضروری اخراجات مہیا کرتا` کشمیری طلباء کے وظائف کا انتظام کرتا۔ جلا وطن اور نظر بند کشمیریوں کی امداد کرتا اور عدالتوں کے ضروری اخراجات ادا کرتا تھا۔
کشمیر ریلیف فنڈ
شروع ہی میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ہر احمدی کے لئے ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے >کشمیر ریلیف فنڈ< لازمی قرار دے دیا گیا تھا اور جماعتیں عرصہ تک بڑے التزام سے یہ ادا کرتی رہیں۔ اس فنڈ کے پہلے فنانشل سیکرٹری چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکری تھے۔ جنہوں نے اس مد کو غیر معمولی ترقی دی۔ ۷/ اپریل ۱۹۶۰ء کو آپ کا انتقال ہو گیا۔ جس پر چوہدری ظہور احمد صاحب )آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان( کو >ریلیف فنڈ< کی نگرانی کا کام سپرد کرکے حضور نے انہیں فنانشل سیکرٹری مقرر فرمایا۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس
کشمیر کمیٹی کے اجلاس شملہ` دہلی` سیالکوٹ اور لاہور میں ہوئے۔۲۴ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ان اجلاسوں میں بار بار شرکت کرنے کے علاوہ تحریک آزادی کے سلسلہ میں وزیر آباد` راولپنڈی اور گڑھی حبیب اللہ بھی تشریف لے جانا پڑا۔ آپ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب` مولوی عبدالرحیم صاحب درد` شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے پرائیوٹ سیکرٹری اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کو بھی رفاقت نصیب ہوئی۔ گڑھی حبیب اللہ کے سفر میں جناب درد صاحب ساتھ نہیں تھے بلکہ آپ سرینگر گئے ہوئے تھے۔ اس سفر میں خان یحییٰ خان صاحب )ہیڈ کلرک دفتر پرائیوٹ سیکرٹری( میاں نذیر احمد صاحب بھاگلپوری )موٹر ڈرائیور( اور خاں میر خان صاحب )پہریدار( کو خدمت کا موقع ملا۔۲۵
برطانوی ہند کے احمدی اور تحریک آزادی
جماعت احمدیہ اگرچہ مدتوں سے تحریک آزادی کشمیر میں دلچسپی لے رہی تھی لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی تشکیل کے بعد جبکہ کشمیر کمیٹی کی باگ ڈور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سنبھال لی پوری دنیا کے احمدی گویا آزادی کشمیر کی فوج کے سپاہی بن گئے۔ قادیان جہاں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اصل دفتر تھا ان دنوں تحریک آزادی کا اہم مرکز بن گیا۔ اور اس کے کارکن جن میں ہر طبقہ کے احمدی شامل تھے۔ میدان عمل میں آگئے۔ قادیان کے علاوہ ہندوستان میں جہاں جہاں احمدی جماعتیں قائم تھیں سرگرم عمل ہو گئیں۔ شدھی کے بعد ایسا جوش و خروش جماعت میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ خدا کے فضل سے کمیٹی کے اخراجات کا اکثر حصہ جماعت احمدیہ نے برداشت کیا۔۲۶ اور برطانوی ہند کی مسلمان جماعتوں میں سب سے زیادہ کارکن اندرون و بیرون ریاست کام کرنے والے جماعت احمدیہ نے فراہم کئے۔
تحریک آزادی کشمیر کا خمیازہ جماعت احمدیہ کو اس رنگ میں بھگتنا پڑا کہ جہاں کانگریسی خیال کے بعض مسلمان لیڈروں نے سرسکندر حیات خاں کی کوٹھی میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو احمدیت کے صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکی دی۔۲۷ وہاں ہندوستان کی انگریزی حکومت جو ریاست کشمیر کی نگران تھی۔ احمدیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ چنانچہ سید ولی اللہ شاہ صاحب کا بیان ہے کہ۔ >حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے بذریعہ تار پالم پور بلوایا اور فرمایا۔ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب شملہ میں ہیں آپ وہاں جائیں اور فارن سیکرٹری مسٹر گلینسی سے ملیں خان صاحب کو میں نے ہدایت بھیج دی ہے آپ اپنے طریق پر ان سے بات کریں۔ اور کہیں کہ کشمیر میں کام کرنے سے اب ہمیں روکا جارہا ہے یہ درست پالیسی نہیں نیز جن حالات میں مجھے اور شیخ بشیر احمد صاحب کو وہاں سے نکالا گیا ہے وہ بھی پیش کروں چنانچہ میں ان اخبارات کے بہت سے تراشے لے گیا۔ مسٹر گلینسی نے اثنائے گفتگو میں اپنا وہی مشورہ دہرایا۔ اتفاق سے ان دنوں چار انگریز جاسوس روس میں گرفتار کئے گئے تھے۔ اور ملاقات سے ایک دن پہلے میں نے اخبار میں پڑھا کہ برٹش گورنمنٹ نے روس کو بمبارڈ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ میں نے کہا چار انگریز جاسوس پکڑے جائیں اور برٹش حکومت سارے ملک کو بمبارڈ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یہ تو آپ کے لئے جائز اور لاکھوں مسلمان کشمیر میں پامال ہوں اور ان کے بھائیوں کو یہ اجازت بھی نہ دی جائے کہ وہ ان کی جائز مدد کریں یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اس پر وہ بگڑے اور خان صاحب سے کہنے لگے۔
>۔Britishers the in reflecting is gentleman the Sahib Moulvi <Well
اچھا مولوی صاحب یہ نوجوان انگریزوں کو طعنہ دیتا ہے۔ یہ کہ کر انہوں نے گھنٹی بجائی اور ہمیں رخصت کیا<۔۲۸
یہ تو انگریزی حکومت کا ذکر ہے جہاں تک حکام کشمیر کا تعلق ہے۔ انہوں نے بیرونی احمدیوں کی کڑی نگرانی رکھی اور بعض اوقات ان کے لئے اخراج ریاست تک کی سزا دے دی۔ چنانچہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے` چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء` شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ` محمد یوسف خان صاحب وکیل اور شیخ مبارک احمد صاحب۲۹ مولوی فاضل کو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر حدود ریاست سے نکل جانا پڑا۔ مہاشہ محمد عمر صاحب اور مولانا ابوالعطاء صاحب کو اخبار >سیاست< کا پرچہ ساتھ رکھنے کے جرم میں جرمانہ کر دیا گیا۔
تحریک آزادی کشمیر کا بیرونی مرکز قادیان
قادیان ان دنوں تحریک آزادی کشمیر کا ایک اہم مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ چنانچہ اس زمانہ میں ریاست کے تمام بڑے بڑے لیڈر حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے قیمتی مشورہ لینے اور راہنمائی حاصل کرنے کے لئے قادیان تشریف لاتے تھے۔ شروع شروع میں حضور کی ہدایت تھی کہ پریس میں ان کی آمد کا ذکر تک نہ کیا جائے۔ چنانچہ قادیان آنے والے بعض زعماء کے نام یہ ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ صاحب )شیر کشمیر4]( [stf۳۰` مولانا میرک شاہ صاحب فاضل دیو بند` ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب )جموں`( جناب چوہدری غلام عباس صاحب جموں` جناب اللہ رکھا صاحب ساغر جموں` جناب عبدالمجید صاحب قرشی` سردار گوہر رحمان صاحب جموں` جناب شیخ غلام قادر صاحب )جموں( مولوی محمد امین صاحب )بھمبر( حافظ محمد صاحب )ڈکٹیٹر میر پور( ڈاکٹر امام الدین صاحب قریشی )میر پور( سید ولایت شاہ صاحب مفتی تحصیل راجوری` فتح محمد صاحب کریلوی علاقہ کوٹلی` مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء` مفتی اعظم پونچھ` سید مقبول شاہ صاحب خانیاری` شیخ غلام احمد صاحب کلو پونچھ` جی۔ ایم صادق صاحب` مفتی عتیق اللہ صاحب پونچھ` خواجہ غلام محی الدین صاحب قرہ` خواجہ غلام قادر صاحب گاندربلی` مولوی عبدالرحیم صاحب ایم۔ اے۔ ایل ایل۔ بی` مولوی عبداللہ صاحب وکیل۔۳۱
کشمیر کے مقتدر اور بااثر لیڈر اور دوسرے کشمیری مسلمان ان دنوں اتنی کثرت سے قادیان تشریف لاتے تھے کہ اخبار >ملاپ< )۱۲/ جون ۱۹۳۲ء( نے اہل کشمیر سے طنزاً کہا۔
>اس موقعہ پر ہم کشمیری مسلمان بھائیوں سے چند کلمات کہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ بیرونی مسلمانوں کے اشارے پر ناچنا بند کر دیں۔ دوم یہ کہ بیرونی مسلمانوں کے تنخواہ دار کشمیری ایجی ٹیٹروں کو کہہ دیں کہ ہم تمہاری لیڈری سے باز آئے اب معاف رکھو اور اگر کشمیر میں تمہارا گزارا نہیں ہو سکتا تو قادیان میں چلے جائو<۔۳۲
اندرون ریاست کے احمدی اور تحریک آزادی
اندرون ریاست میں ہزاروں۳۳ احمدی پائے جاتے تھے جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بننے کے ساتھ ہی ریاستی احمدی تحریک آزادی کے لئے سربکف ہو گئے۔ ۱۹۳۱ء میں جہاں جہاں ریاست میں مشہور احمدی جماعتیں قائم تھیں ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
صوبہ
حلقہ
احمدی جماعتیں
کشمیر )وزارت
بارہ مولہ
بارہ مولہ۔ بانڈی پورہ۔ سو پورہ۔ ہچی مرگ۔ لدرون۔ ہانجی پورہ۔ ہندواڑہ۔
شمالی و جنوبی(


اسلام آباد
سرینگر` اسلام آباد` ویری ناگ` اندورہ` پھڑا` پولی۔

کولگام
ناسنور` کوریل` نندگام` کولگام` وٹو` رشی نگر` شوپیاں` مندوجن` گاگرن` زدرو مانلو


قلم پورہ` چک ایمرچ` زینت پورہ` بالسو` نون مٹی` ارونی` یاڑی پورہ` بیج بیاڑہ


شورت` تاری گام` کند پورہ` ویری ناگ۔

پلوامہ
پلوامہ` ہاری پاری گام` ترال۔
صوبہ کشمیر وزارت
مظفر آباد
گھنڈی` سال خلہ` مظفر آباد` کرناہ۔
)مظفر آباد(


صوبہ جموں
‏]2yx [tag ضلع جموں
شہر جموں` بورے جال )چھمب(

ضلع کٹھوعہ
؟

ضلع اودھم پور
اکھنور` بھدرواہ` کشتواڑ۔

جاگیر چنینی
؟

ضلع ریاسی
راجوری` ہڑانہ` چارکوٹ` رتیال` ہموسان` ساج` موہریاں


کالا بن` ڈھرانہ` دھوڑیاں۔

ضلع میر پور
میر پور شہر` کوٹلی` گوئی` بھمبر` پنجیڑی` نگیال` دیتال` بھابڑا۔

ضلع پونچھ
پونچھ شہر` چھنیدرو` سلواہ` سرن` جوڑیاں` پٹھاناں تیر` سونا گلی` ناڑ` ٹائیں


ہاڑی مڑوٹ` باغ` کینیاں` گرسائی` درہ شیر خاں۔
اضلاع سرحدی
گلگت
گلگت شہر

لداخ
؟
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کے ایک خط )بنام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مورخہ ۲/ مارچ ۱۹۳۲ء( سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک آزادی کے ایام میں قریباً تمام احمدی بلیک لسٹ کر دیئے گئے۔ اور حکام ریاست ان کے خلاف تشدد پر اتر آئے۔ حتیٰ کہ خلیفہ عبدالرحیم صاحب جیسے فرض شناس افسر کو تخفیف کا بہانہ کرکے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ اور دوبارہ ملازمت میں آنے کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔۳۴ سلسلہ کے مبلغ مولوی عبدالواحد صاحب` مولوی فاضل )آسنوری( بتاریخ ۱۴/ فروری ۱۹۳۲ء مظفر آباد میں گرفتار کر لئے گئے۔ دوران مقدمہ آپ کے ساتھ بے حد سختی اور درشتی روا رکھی گئی۔ فحش گالیاں تک دی گئیں۔ اور چھ ماہ قید سخت کی سزا دی گئی۔۳۵4] ftr[ جیل خانہ میں انہیں اس قدر تکلیف کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کے دماغی توازن میں خلل آگیا اور آخر مظفر آباد سے ان کو سرینگر جیل منتقل کرکے رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد کافی عرصہ تک آپ دماغی عارضہ میں مبتلا رہے۔۳۶
کشمیر کے مقامی احمدیوں کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کے >جرم< میں کئی سال تک برابر تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑا` بالخصوص ۳۷۔ ۱۹۳۶ء میں ایک خاص منصوبہ کے تحت ان پر مظالم ڈھائے جانے لگے۔ ریاست میں جس جس جگہ قلیل تعداد میں یا اکیلا احمدی تھا اسے طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں۔ ان کے مکانات جلائے گئے۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنا کر عدالت میں گھسیٹا گیا۔ بائیکاٹ کرائے گئے اور مقامی حکام نے فتنہ پردازوں کی خوب پیٹھ ٹھونکی چنانچہ وزارت جنوبی میں موضع مہیشہ دار تحصیل پلوامہ میں ایک احمدی دوست جلال الدین صاحب کو مصائب کا تختہ مشق بنایا گیا۔ اور پلوامہ کے تھانیدار نے اس مظلوم کی حمایت کرنے کی بجائے ظالموں کا ساتھ دیا۔ اسی طرح وزارت شمالی میں موضع لدرون زرہامہ کے احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ ان کے مکانات جلائے گئے کاروبار تباہ کر دیا گیا۔ اور جھوٹے مقدمات کھڑے کرکے حوالات میں بھیج دیا گیا۔۳۷
ریاست میں تحریک آزادی میں کام کرنے والے احمدیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ بطور نمونہ چند قابل ذکر اصحاب کے نام یہ ہیں۔ مولوی عبداللہ صاحب وکیل` خواجہ غلام نبی صاحب گلکار` مولوی عبدالرحیم صاحب ایم۔اے` محمد ایوب صاحب صابر` یوسف خاں صاحب بی ۔اے۔ ایل ایل۔ بی` خواجہ محمد امین صاحب سرینگر` عبدالقدوس صاحب مخدومی سرینگر` غلام نبی صاحب رفیقی سرینگر` قریشی محمد امین صاحب سرینگر` قاری نور الدین صاحب سرینگر` خواجہ صدر الدین صاحب بانہال` خلیفہ نور الدین صاحب )جموں`( خلیفہ عبدالرحیم صاحب )جموں`( ٹھیکیدار یعقوب علی صاحب )جموں`( مستری فیض احمد صاحب )جموں`( میاں عبدالرحمن صاحب )جموں( خواجہ امداد علی شاہ صاحب )جموں( غلام محمد صاحب خادم )جموں`( ماسٹر امیر عالم صاحب کوٹلی۔ منشی دانشمند خان صاحب )پونچھ( میر غلام احمد صاحب کشفی` خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار )ناسنور( خواجہ عبدالغنی صاحب بانڈی پورہ` میاں عبدالرحمن صاحب )آف فیض احمد اینڈ سنز( خواجہ ولی محمد صاحب ڈارکند پورہ` مولوی قطب الدین صاحب شرق` خواجہ محمد رمضان صاحب یاتورشی نگر` خواجہ محمد اسمعیل صاحب ٹیلر ماسٹر شوپیاں` سید محمد ناصر شاہ صاحب سرور مظفر آباد` سید سردار شاہ صاحب حال تاجر مظفر آباد` غلام محمد صاحب بانڈے` خواجہ نور الدین صاحب دانی لدرون تحصیل ہندواڑہ` چوہدری راج محمد صاحب ہچہ مرگ` حکیم عبدالرحمن صاحب ہانجی پورہ` خواجہ غلام رسول صاحب سکنہ مانلو` عبدالغنی صاحب پلواما` محمد یوسف صاحب گلگتی` مولوی خلیل الرحمن صاحب پنجیڑی۔۳۸
کشمیر کمیٹی مصلحتاً ابتداء ہی سے اس تحریک میں جماعت کے افراد کی قربانیوں اور سرگرمیوں کو نمایاں طور پر پبلک کے سامنے لانا ہرگز مناسب نہ سمجھتی تھی۔ اور اندرون ریاست اور بیرون ریاست یکساں طور پر دونوں جگہ اس نے یہی پالیسی اختیار کی۔ اس بارے میں کس حد تک احتیاط برتی گئی اس کا اندازہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل الفاظ سے باسانی لگ سکتا ہے۔
>احمدیہ جماعت کے متعلق میں نے یہ احتیاط کی کہ سوائے ایک صاحب کے جو لاہور کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے )یعنی جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب۔ ناقل( اور اس جماعت کی نمائندگی بھی ضروری تھی ایک احمدی بھی اس کمیٹی کا ممبر نہیں بنایا تا یہ الزام نہ ہو کہ اپنے آدمی بھرتی کر لئے گئے بلکہ ملک کے بہترین اور مشہور لوگوں کو دعوت دی<۔۳۹
جناب محی الدین صاحب قمر قمرازی مصنف >ارمغان کشمیر< کا بیان ہے۔ تحریک آزادی کے دوران جو پارٹ احمدیوں اور ان کے امیر جماعت نے ادا کیا ہے وہ کوئی شخص بشرطیکہ غیر متعصب ہو بھلا نہیں سکتا۔ تحریک کے دنوں میں سوپور میں سپیشل طور پر گورنر کشمیر ٹھاکر کرتار سنگھ کے حکم سے وہاں تعینات ہوا تھا۔ اور مجھے بخوبی علم ہے کہ احمدی جماعت کے افراد نہایت تندہی اور خلوص نیت سے تحریک آزادی کی قلمے` درمے امداد کرتے رہتے تھے مجھے یاد ہے کہ میں گھر میں صبح سویرے اٹھتا تھا۔ تو مجھے سرہانے پر تحریک کشمیر کے سلسلہ میں کارکنان جماعت احمدیہ کی طرف سے ٹریکٹ رکھے ہوئے مل جاتے تھے۔ جنہیں پڑھ کر ہماری بڑی حوصلہ افزائی ہوتی تھی<۔
>اس جماعت کی معلومات اس قدر وسیع تھیں۔ کہ جو کچھ پندرہ دن کے بعد ہونے والا ہوتا تھا۔ اس سے اہل خطہ کو آگاہ کرتے تھے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ایک دفعہ میں مسلم ہوٹل سری نگر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس وقت شیخ عبداللہ صاحب گرفتار ہو چکے تھے تو جماعت احمدیہ کے ایک ممبر نے کہا کہ فلاں تاریخ کو شیخ صاحب رہا کئے جائیں گے۔ اس پر نہایت متعجب ہوا کہ اس جماعت کی معلومات کس قدر وسیع اور مصدقہ ہوتی ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ جس آزادی کے لئے ہم اس وقت متمنی ہیں وہ اس وقت حاصل ہو گئی ہوتی` مگر بعض اونچی شخصیتوں کی تنگ دلی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ ہمارا مدعا آزادی کشمیر کی تحصیل میں وقف تمنا رہ گیا<۔۴۰
بیرونی ممالک کے احمدی اور تحریک آزادی
یہی صورت بیرونی ممالک کے احمدیوں کی تھی فرق صرف یہ تھا کہ وہ عملاً کشمیر میں پہنچ نہیں سکتے تھے۔ مگر اس کی کمی انہوں نے کشمیر کے مظلوموں کی آواز کو بلند کرنے اور مالی امداد بھجوانے کی صورت میں کر دی۔۴۱
‏tav.5.30
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل دوم(
مسلمانان ریاست کی تنظیم
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا جب قیام عمل میں آیا۔ تو ریاست کے مشہور مسلم لیڈر نظر بند تھے۔ اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدارت قبول فرمانے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانان ریاست کی تنظیم کی طرف فوری توجہ مبذول فرمائی۔ دراصل آزادی کشمیر کے متعلق حضور کا قطعی نقطہ نظر )جس کا آپ نے واضح لفظوں میں اعلان بھی کر دیا( یہ تھا کہ >کشمیر کو آزادی صرف اہالیان کشمیر کی کوشش سے مل سکتی ہے باہر کے لوگ صرف دو طرح ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ )۱( روپیہ سے )۲( حکومت برطانیہ اور دوسری مہذب اقوام میں اہالیان کشمیر کی تائید میں جذبات پیدا کرکے۔ پس ایک طرف تو اہل کشمیر کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ باہر کے لوگ آکر ان کی کوئی جسمانی مدد کر سکتے ہیں ان کی مدد اول بے اثر ہو گی دوسرے اس کا آزادی کی کوشش پر الٹا اثر پڑے گا۔ اور جدوجہد کی باگ اہل کشمیر کے ہاتھ سے نکل کر ایسے ہاتھوں میں چلی جائے گی جو بالکل ممکن ہے کہ کسی وقت انہیں فروخت کر ڈالیں۔ اور خود الگ ہو جائیں۔ پس خود اہل کشمیر کا فائدہ اس میں ہے کہ باہر سے مشورہ لیں` مالی امداد لیں۔ لیکن کسی صورت میں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے انہیں نہ بلائیں۔ تاکہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے۔ عارضی جوش ان کے کام نہ آئے گا بلکہ مستقل قربانی ان کے کام آئے گی۔ اور مستقل قربانی ملک کے باشندے ہی کر سکتے ہیں<۔۴۲]4 [rtf
بہرکیف حضرت خلیفہ المسیح الثانی چاہتے تھے کہ مسلمانان کشمیر کی اندرونی تنظیم ایسی مستقل` پائیدار اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہو جائے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مظالم کا مردانہ وار مقابلہ کرکے اپنے حقوق و مطالبات منوا سکیں۔
اس سلسلہ میں حضور نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شامل ہونے والے کشمیری نمائندوں کو ہر قسم کے مخلصانہ تعاون کا یقین دلا کر انہیں مسلمانوں کو منظم کرنے کی اہم ہدایات دیں۔ چنانچہ جموں کے مشہور سیاسی لیڈر جناب اللہ رکھا صاحب ساغر )سابق مدیر و مالک اخبار >جاوید(< کا بیان ہے کہ >کچھ خفیہ ہدایات مجھے دی گئیں اور کہا گیا کہ میں جموں جانے سے پہلے سیدھا سرینگر پہنچوں جہاں حالات خاصے خراب ہو چکے تھے۔ اور سیاست کا مرکز جموں کی بجائے سرینگر بن چکا تھا۔ میں شملہ سے راولپنڈی پہنچا یہاں معلوم ہوا کہ سرینگر میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے اور کسی مسلمان کا جس کا سیاست سے دور کا بھی تعلق ہو سرینگر پہنچنا ممکن نہیں<۔ )اس کے بعد ساغر صاحب نے تفصیل سے ان مشکلات کا ذکر کیا ہے جن سے گزر کر وہ سرینگر پہنچے اور وہاں خلیفہ عبدالرحیم صاحب سے جو ان دنوں مسٹر ویکفیلڈ پرائم منسٹر کے پرائیوٹ سیکرٹری تھے۔ ملے اور جیسا کہ ہدایت دی گئی تھی ان کے مشورے کے مطابق کام کرکے کشمیر کمیٹی کی ہدایات قلمبند کرکے محبوب شاہ صاحب کے حوالہ کیں تا اسے متعلقہ افراد تک پہنچا دیا جائے۔ اس کے بعد آپ جموں روانہ ہو گئے۔ یہ واقعات بیان کرنے کے بعد مسلسل بیان میں لکھتے ہیں۔ دوسرے دن جموں پہنچتے ہی پروگرام کے مطابق عمل شروع کر دیا۔ یعنی جگہ جگہ پبلک میٹنگیں منعقد کی گئیں جن میں دربار کشمیر کی چیرہ دستیوں کی مذمت کی جاتی تھی اور حکومت سے مداخلت کی اپیل کی جاتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی ایک انجمن بنائی گئی۔ جو مختلف قسم کے کتبے اٹھا کر جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے گلی کوچوں میں سے گزرتے تھے جب پولیس آتی تو تتر بتر ہو جاتے۔ اور کسی دوسری گلی میں جا کر اکٹھے ہو جاتے اور وہی نعرے بازی شروع کر دیتے تھے اس طرح پولیس والوں کو خوب ہلکان کیا جاتا تھا۔ اس کا نام >انجمن اطفال الاسلام< تھا۔۴۳ عورتوں کی جماعت بھی انہی خطوط پر بنائی گئی تھی۔ لیکن اس کا طریق زیادہ سنجیدہ اور مستور تھا ایک سائیکلو سٹائل کے ذریعہ۴۴ ہر روز پمفلٹ چھاپ کر تقسیم کئے جاتے اور نمایاں جگہوں پر چسپاں کئے جاتے یہی طریقہ صوبہ جموں کے تمام قصبوں میں اختیار کیا گیا اور دیکھتے دیکھتے چند دنوں کے اندر اندر سرینگر اور جموں جیسے شہروں کی طرح ریاست کے چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی مسلمانوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اور انقلاب آزادی کے پرچم لہرانے لگے<۔۴۵
حضرت خلیفہ المسیح کے ارشاد پر مسلمانان کشمیر کی تنظیم کے لئے سرینگر` جموں` میر پور وغیرہ میں باقاعدہ دفتر کھول دیئے گئے۔ جو تحریک آزادی کے مضبوط اور فعال مراکز ثابت ہوئے چنانچہ پروفیسر محمداسحٰق صاحب قریشی ایم۔ اے کا بیان ہے۔ >میں جس وقت دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس وقت جماعت احمدیہ نے اردو بازار جموں میں تحریک آزادی کے کام کے سلسلہ میں ایک دفتر کھولا ہوا تھا۔ جس میں بہت سے کارکن کام کرتے تھے جب حکومت نے مسلمانوں کے مطالبات کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا تھا اس سلسلہ میں یہ دفتر مختلف لوگوں کے بیانات اور خیالات قلمبند کرتا تھا میں بھی اس دفتر میں کام کرنے جایا کرتا تھا طالب علموں کو بلا کر ان کے ذریعہ مسودات کے نقول لکھوائے جاتے تھے۔ اور آئندہ میدان میں کام کرنے کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لئے وہاں لائبریری بھی قائم کی گئی تھی۔ جس میں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے اخبارات اور رسائل موجود رہا کرتے تھے جماعت احمدیہ کے کارکن` مبلغین اور وکلاء اس سلسلہ میں مظلومین کشمیر کی خدمات اور تحریک آزادی کے کام کے سلسلہ میں پیش پیش تھے۔
میرا تاثر یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر ۳۲۔ ۱۹۳۱ء میں جو ذہنی انقلاب اور عملی تحریک ابھری اس میں سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کی مخلصانہ کوششوں کا عمل دخل تھا۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس وقت ریاست کے لوگ ڈوگرہ جبر و تشدد کے تحت اتنے دبے ہوئے تھے۔ کہ لوگوں کو تنظیم سے سیاسی تحریکیں چلانے اور سیاسی کام کرنے کا طریقہ ہی معلوم نہ تھا۔ جماعت نے ہی اہل ریاست کو تنظیم سے عملاً کام کرنے کا طریقہ سکھایا۔۴۶ میں نے جس تنظیم` مستعدی اور خلوص سے اس زمانہ میں تحریک آزادی کشمیر کے لئے جماعت احمدیہ کو کام کرتے دیکھا۔ وہ اب تک میں پاکستان میں بھی نہ دیکھ سکا۔ جماعت احمدیہ نے اس سلسلہ میں مالی اور قانونی امداد بھی کی اور ہر رنگ میں تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کے لئے ایثار و اخلاص سے بے مثال کام کیا ہے<۔۴۷
شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کی صدر کشمیر کمیٹی سے پہلی ملاقات اور تنظیم کے سنہری دور کا آغاز
کشمیر میں مسلمانوں کی تنظیم کا نیا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب شیخ محمد عبداللہ صاحب >شیر کشمیر< دوسرے زعمائے کشمیر کے ساتھ قلعہ ہری پربت سے رہا ہو گئے اور انہوں نے صدر
آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کے بعد نئے عزائم اور نئے ارادوں کے ساتھ ریاست کے مسلمانوں کی قیادت اور رہنمائی کا کام دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینا قبول کیا۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے شیخ محمد عبداللہ صاحب کی کس طرح پہلی ملاقات ہوئی اور اس وقت کیا کیا تجاویز زیر غور آئیں؟ یہ تاریخ آزادی کشمیر کا ایک مخفی مگر نہایت اہم واقعہ ہے جس کی تفصیل حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔
>جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہو گئی اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو آزادانہ طور پر باہر کام نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ کشمیر اور جموں کے لوگوں سے مل کر کام کرنا چاہئے تو میں نے کشمیر اور جموں کے نمائندے قادیان بلوائے اور ان سے مشورہ لیا۔ کوئی پندرہ سولہ آدمی آئے میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا کوئی اور ایسا آدمی رہ تو نہیں گیا۔ جس کا کشمیر میں اثر ہو۔ انہوں نے کہا کہ شیخ عبداللہ ایک نوجوان ہیں جن کا نوجوان لڑکوں پر اچھا خاصہ اثر ہے۔ اور وہ بول بھی سکتے ہیں۔ نڈر بھی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ لوگ ان کو کیوں ساتھ نہیں لائے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ان کے متعلق ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے مخفی آرڈر کئے ہوئے ہیں ¶کہ اگر یہ ریاست سے باہر نکلیں تو پھر ان کو واپس نہ آنے دیا جائے۔ مجھے یہ شیخ عبداللہ کے حالات معلوم ہوئے ان سے میں نے سمجھا کہ یہ آدمی کام کا ہے۔ پس کشمیر کی تحریک کی لیڈری کے متعلق میں نے اس وقت تک کوئی فیصلہ کرنا مناسب نہ سمجھا جب تک میں شیخ عبداللہ سے نہ مل لوں۔ چنانچہ میں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری تھے۔ اس غرض کے لئے کشمیر بھجوایا۔ کہ وہ کشمیر کے حالات بھی دریافت کریں۔ اور دوسرے اس بات کا انتظام کریں کہ شیخ عبداللہ کشمیر کی کسی سرحد پر مجھ سے مل لیں۔ چنانچہ درد صاحب نے اس بات کا انتظام کیا۔ میں قادیان سے گڑھی حبیب اللہ گیا۔ اور درد صاحب شیخ عبداللہ صاحب کو لے کر گڑھی حبیب اللہ آئے۔ چونکہ گڑھی حبیب اللہ سرحد کشمیر پر تو واقع ہے لیکن سرحد کشمیر سے باہر۔ اور برطانوی ہندوستان میں تھا )اور اس وقت پاکستان میں ہے( اس لئے یہ ضروری سمجھا جائے گا کہ شیخ عبداللہ کو چھپا کر لایا جائے۔ چنانچہ جب ریاست کشمیر کے کسٹم پر پہنچے تو درد صاحب نے شیخ عبداللہ صاحب کو کار کے بیچ میں لٹا دیا اور ان کے اوپر کپڑے ڈال دیئے تاکہ سٹیٹ کے افسران کو پتہ نہ لگے۔ اور اس طرح چھپا کر وہ میرے پاس گڑھی حبیب اللہ کے ڈاک بنگلہ پر ان کو لائے۔ وہ میری اور شیخ عبداللہ صاحب کی پہلی ملاقات تھی۔ شیخ محمد عبداللہ صاحب سے میں نے بڑی لمبی گفتگو کی۔ اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس شخص سے لیڈری کا کام لیا جا سکتا ہے۔ لمبی گفتگو کے بعد میں نے کہا کہ شیخ محمد عبداللہ! میں آپ کو کشمیر کی تحریک آزادی کا لیڈر مقرر کرنا چاہتا ہوں شیخ محمد عبداللہ نے کہا میں لیڈری کے قابل نہیں مجھے تو کچھ آتا نہیں۔ جب میں نے اصرار کیا اور انہوں نے انکار کیا۔ تو میں نے کہا کہ شیخ محمد عبداللہ! میں آپ کو اصل حقیقت سمجھاتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جب ہم برطانوی ہندوستان میں کشمیر کے متعلق آواز اٹھائیں گے تو لازماً انگریز ہم سے یہ پوچھے گا۔ آپ لوگ تو ریاست کے باشندے نہیں۔ آپ ان کے معاملات میں کیوں دخل دیتے ہیں اس کے دو ہی جواب میں ان کو دے سکتا ہوں یا تو یہ کہ وہ احمدی ہیں۔ مگر ان کی اکثریت احمدی نہیں ہے اور یا میں ان کو یہ جواب دے سکتا ہوں کہ میں ان کا وکیل ہوں۔ اور وکیل کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ اس ملک کا باشندہ ہو۔ پس مجھے کشمیر میں تنظیم کی اس لئے ضرورت ہے کہ جب کبھی میں گورنمنٹ برطانیہ کو مخاطب کروں اور )وہ( مجھ سے پوچھیں کہ تمہارا ان سے کیا واسطہ ہے۔ تو میں ان کو دلیری سے کہہ سکوں کہ میں کشمیر اور جموں کے لوگوں کا وکیل ہوں۔ پس جب تک جموں و کشمیر سے ایسی آواز نہ اٹھتی رہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے صدر اس کے نمائندے ہیں اور وکیل ہیں اس وقت تک ہماری کوششیں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ شیخ محمد عبداللہ! تم یہ بتائو کہ کیا یہ آواز تم کشمیر سے زور کے ساتھ اٹھوا سکتے ہو یا نہیں؟ شیخ محمد عبداللہ نے جواب دیا یہ آواز تو نہایت شاندار طور پر اٹھا سکتا ہوں۔ اس پر میں نے کہا۔ بس آپ اس کام کے اہل ہیں اور خدا کا نام لے کر اس کو شروع کر دیں میں نے ان کو اخراجات کے متعلق ہدایتیں دیں۔ کہ اس طرح دفتر بنانا چاہئے۔ اور وعدہ کیا کہ دفتر کے اخراجات اور دوسری ضرورتیں جو پیدا ہوں گی۔ ان کے اخراجات میں مہیا کرتا رہوں گا۔ چنانچہ اس گفتگو کے بعد درد صاحب شیخ محمد عبداللہ صاحب کو لے کر کشمیر چلے گئے۔ اور ان کی واپسی پر کشمیر گورنمنٹ کو علم ہوا کہ انہوں نے کشمیر کے بارڈر پر مجھ سے ملاقات کی۔ چنانچہ اس کی طرف مسٹر جیون لعل پرسنل اسسٹنٹ پرائم منسٹر نے اپنے خط میں اشارہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔
>کسی قدر ہمیں یہ تسلی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آکر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں۔ اور تمام حالات معلوم کر گئے ہیں۔< یہ تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک غیر مطبوعہ مضمون میں درج فرمائی ہے اور ساتھ ہی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کا ایک طویل خط بھی درج کیا ہے۔ جس میں شیخ صاحب نے علاوہ دوسرے امور کے اس تاریخی ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ >میں جناب کو مودبانہ گڑھی حبیب اللہ والا وعدہ یاد دلانے کی جرات کرتا ہوں کہ اخراجات دفتر جو کہ شاید مبلغ ۔/۲۳۸ روپے بنتے ہیں۔ جناب والا ماہور بھیجتے رہیں گے مجھے روپے کی از حد ضرورت ہے کاش مجھے سرینگر سے صرف دو ہفتہ کی مہلت ملتی کہ میں دیہات کا دورہ کرکے چندہ جمع کرتا مگر جونہی میں ادھر ادھر جاتا ہوں کام تمام کا تمام بگڑتا ہے۔ میں جناب سے التجا کروں گا۔ کہ کم از کم اخراجات دفتر کا انتظام فرمائیں<۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد عبداللہ صاحب سے اپنا وعدہ کس مخلصانہ انداز میں پورا فرمایا۔ اس کی تفصیلات تو آئندہ مختلف مقامات پر آئیں گی مگر یہاں بھی بطور نمونہ شیخ محمد عبداللہ صاحب کی صرف ایک تحریر درج کر دی جاتی ہے۔
۱۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے مسلمانان ہند کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
سرینگر۔ برادران ملت: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ جن حالات میں سے کشمیر کے مسلمان اس وقت گزر رہے ہیں۔ وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور ان کی تمدنی اور تعلیمی اور مذہبی ترقی کے لئے جدوجہد ایک صرف کثیر کو چاہتی ہے۔ اندریں حالات ہم بیرون کشمیر کے مسلمان بھائیوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس کارخیر میں ہماری امداد فرمائیں۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اس وقت اپنے قیمتی مشورہ سے امداد کرنے کے علاوہ ہماری قانونی امداد بھی کی ہے اور مالی امداد بھی ہمیں صرف انہیں سے پہنچی ہے اس لئے ہم برادران ملت سے پر زور اپیل اور استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس کے فنڈز کو مضبوط کرنے کی طرف فوری توجہ فرماویں۔ تاکہ مالی تنگی کی وجہ سے ضروری کاموں میں حرج واقع نہ ہو۔ مجلس احرار نے جو تکالیف جسمانی مظلومان کشمیر کی ہمدردی میں برداشت کی ہیں ان کے ہم تہ دل سے مشکور ہیں۔ مگر اس وقت کا افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جماعت احرار کی طرف سے ہمیں مالی امداد ایک روپیہ کی بھی اس وقت تک نہیں پہنچی۔ والسلام۔ شیخ محمد عبداللہ
۲۔ )مکتوب بنام حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ(
۲۳/ مئی ۱۹۳۲ء۔ بچھوارہ سرینگر مکرمی جناب میاں صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ مبلغ تین صد روپیہ بذریعہ رجسٹری بیمہ وصول پایا۔ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں میں نئی زندگی پیدا ہو رہی ہے۔ اب صرف اخبار کی کمی ہے میں کوشش کرتا ہوں پانچ دس آدمی مل کر اگر پانچ پانچ سو روپیہ نکالیں تو ایک اعلیٰ اخبار جاری ہو سکتا ہے۔ اور اخبار ایک مشترکہ کمیٹی کی صورت میں چلایا جاسکتا ہے۔ اور پریس بھی اپنا خریدا جا سکتا ہے۔ ابھی مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن کوشش جاری ہے کل رات آپ کی جماعت کے مبلغ مولوی عبدالاحد صاحب مجھے راستہ میں چلتے چلتے ملے اور فرمایا کہ آپ نے ارادہ ظاہر فرمایا ہے کہ کشمیر کے چند نوجوان طالب علموں کو جو کہ کالج یا ہائی کلاسز میں تعلیم پاتے ہوں` غریب ہوں اور قومی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہوں آپ کی جماعت کی طرف سے کچھ وظیفہ مقرر کیا جائے۔ اگر یہ درست ہے تو سب سے اول ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس مد میں کل آپ کتنا خرچ کر سکتے ہیں تاکہ ہم اسی حساب سے لڑکوں کا انتخاب کریں۔ دوسری عرض میری یہ ہے کہ دیہاتوں سے بہت سے لڑکے امتحان انٹرنس میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہ کالج میں صرف اسی لئے داخل نہیں ہو سکتے ہیں۔ کہ وہ غریب ہیں اور شہر میں رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اگر سرینگر میں ایک مکان بطور بورڈنگ کے لیا جائے اور ایک باورچی ایک چپراسی اور ایک سپرنٹنڈنٹ اس میں رہے اور کم از کم ۲۰ لڑکوں کی رہائش کی گنجاش اس میں ہو تو میرے خیال میں یہ بہت ہی مفید بات ہو گی۔ ماہوار اخراجات تقریباً ۲۰۰ روپیہ ہوں گے اپنے مشورہ سے مشکور فرماویں۔ تمام احباب کو عرض۔ والسلام
تابعدار شیخ محمد عبداللہ
۳۔ )مکتوب بنام مولوی عبدالرحیم صاحب درد )سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی(
1932۔11۔10 ۔JAMUN (Alig) c۔S۔M ABDULLAH ۔M۔S
مکرمی مولانا درد صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آج میں غلام قادر کو آپ کے پاس بدیں وجہ روانہ کرتا ہوں کہ تا وہ جناب کو یاد دلاتا رہے۔ ۹ ممبر شپ فارمز رجسٹرات رسید بک فارمز دفتر پریس پیڈ کے متعلق انتظام مکمل ہو سکے باقی حالات وہ زبانی عرض کرے گا۔ اشائی صاحب ابھی جموں میں ہیں آپ وقت بتا دیجئے کہ کب ہم لاہور آئیں گے۔ میرا خیال ہے کہ دستور اساسی مکمل ہو۔ تاہم کام کو شروع کرتے۔ باقی خیریت ہے میری طرف سے جناب حضرت صاحب کو دست بستہ عرض سلام۔ آپکا شیخ محمد عبداللہ۔
اندرون کشمیر کام کرنے والے بعض پرجوش کارکن
شیخ محمد عبداللہ صاحب شیر کشمیر نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تعاون سے اندرون کشمیر جو تنظیم کی اس کو کامیاب بنانے والے تو خدا کے فضل و کرم سے لاکھوں مسلمانان کشمیر تھے مگر بعض پرجوش کارکنوں اور تحریک آزادی کے علمبرداروں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ میر واعظ محمد یوسف صاحب )حال راولپنڈی پاکستان( میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی` غلام نبی صاحب ہمدانی` مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء` سابق مفتی اعظم پونچھ )حال مقیم لاہور پاکستان`( سید حسین شاہ صاحب` غلام احمد صاحب اشائی` میاں احمد یار صاحب وکیل` خواجہ سعد الدین صاحب شال` بخشی غلام محمد صاحب سابق وزیر اعظم مقبوضہ کشمیر` خواجہ غلام محمد صاحب بانڈے` غلام نبی صاحب صحرائی` غلام محمد صادق صاحب )مقبوضہ کشمیر کے موجودہ وزیراعظم`( سید حسین شاہ صاحب جلالی` حسام الدین صاحب گیلانی` خواجہ شہاب الدین صاحب` شیخ عبدالحمید صاحب وکیل )حال مظفر آباد`( سردار گوہر رحمان صاحب )حال سیالکوٹ`( چوہدری غلام عباس صاحب جموں )حال مقیم راولپنڈی پاکستان`( اللہ رکھا صاحب ساغر سابق ایڈیٹر >نوجوان< )حال مقیم راولپنڈی پاکستان` پروفیسر قریشی محمد اسحاق صاحب سابق جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس` میجر محمد خان صاحب )صدر انجمن اسلامیہ پونچھ`( ڈاکٹر امام الدین صاحب قریشی جنرل سیکرٹری مسلم ایسوسی ایشن میر پور` صاحب دین صاحب زرگر )میر پور`( سید ولایت شاہ صاحب مفتی تحصیل راجوری۔ سرفراز خان صاحب نمبردار تھکیالہ` رئیس کریلا پونچھ` فتح محمد صاحب کریلوی` مولوی محمد عبداللہ صاحب سیاکھوی )صدر جمعیتہ العلماء کشمیر`( مولانا محمد سعید مسعودی )حال مقبوضہ کشمیر`( سید محمد مقبول صاحب بیہقی` صوفی محمد اکبر صاحب` خواجہ عبدالرحیم صاحب ڈار` خواجہ احمد اللہ صاحب جنرل شال مرچنٹ سرینگر۴۸` خواجہ غلام محمد صاحب شال مرچنٹ سرینگر` میر واعظ محمد عبداللہ شوپیاں` پیر محمد یاسین` سید میرک شاہ صاحب اندرابی حال لاہور` سید غلام محی الدین اندرابی` محمد رجب بخش صاحب` خواجہ غلام نبی صاحب شال مرچنٹ سرینگر` فقیر سالک ہمدانی صاحب` سید عبدالغفور شاہ صاحب` حکیم عبدالحی صاحب نواکدل سرینگر` محمد عثمان صاحب بٹ قصبہ ترال` خواجہ غلام دازہ )ہندواڑہ`( محمد مقبول صاحب )وٹالی`( غلام قادر مسالہ )ہندواڑہ`( قاضی عبدالغنی صاحب دلنہ )بارہ مولا`( محمد یوسف )کونٹیل`( محمد یوسف صاحب قریشی` صدر الدین )پونچھ`( حبیب اللہ صاحب زرگر` خواجہ عبدالرزاق صاحب ترال` حکیم غلام علی صاحب سرینگر` مفتی جلال الدین صاحب` غلام قادر صاحب )گاندربلی( پیر ضیاء الدین صاحب اندرابی` قلندر شاہ مظفر آباد` خواجہ محمد شعبان صاحب` محمد عبداللہ خان صاحب۔
برادران کشمیر کے لئے مطبوعہ خطوط
مسلمانان کشمیر کی تنظیمی جدوجہد میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان شائع شدہ مکتوبات کا بھاری عمل دخل ہے جو حضور اہل کشمیر میں یکجہتی` تنظیم اور روح قربانی قائم رکھنے کے لئے شائع کرکے اندرون کشمیر بھجواتے رہے۔ ان خطوط نے خصوصاً ان ایام میں جبکہ شیخ محمد عبداللہ صاحب نظر بند ہوئے کشمیریوں میں زبردست تنظیم ولولہ اور جوش پیدا کر دیا۔ اور تحریک کے ہر نازک موڑ پر صحیح رہنمائی کی )باب چہارم فصل پنجم میں یہ اہم خطوط بطور ضمیمہ شامل کر دیئے گئے ہیں( چنانچہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا۔
>مکرم و معظم جناب حضرت میاں صاحب۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ سب سے پہلے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کروں اس بے لوث اور بے غرضانہ کوشش اور جدوجہد کے لئے جو آپ نے کشمیر کے درماندہ مسلمانوں کے لئے کی پھر آپ نے جس استقلال اور محنت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو لیا۔ اور میری غیر موجودگی میں جس قابلیت کے ساتھ ہمارے ملک کے سیاسی احساس کو قائم اور زندہ رکھا مجھے امید رکھنی چاہئے کہ آپ نے جس ارادہ اور عزم کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد فرمائی۔ آئندہ بھی اسے زیادہ کوشش اور توجہ سے جاری رکھیں گے۔ اور اس وقت تک اپنی مفید کوششوں کو بند نہ کریں گے۔ جب تک ہمارے تمام مطالبات صحیح معنوں میں ہمیں حاصل نہ ہو جائیں<۔
حکام ریاست نے جلد ہی یہ خطوط جو آپ شائع کرکے اندرون کشمیر بھجواتے رہتے تھے ضبط کرنا شروع کر دیئے جس پر حضور نے لکھا۔ >عزیز دوستو! جو میرے پہلے خط کا حشر ہوا وہی اس خط کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ لوگ یہ احتیاط کیا کریں کہ میرا مطبوعہ خط ملتے ہی فوراً اسے پڑھ کر دوسروں تک پہنچا دیا کریں۔ تاکہ ریاست کے ضبط کرنے سے پہلے وہ خط ہر ایک کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہو۔ اور تاکہ ہر مسلمان اپنے فرض سے آگا ہو چکا ہو۔ اور بہتر ہو گا جس کے ہاتھ میں میرا خط پہنچے وہ اس کا مضمون ان مردوں` عورتوں اور بچوں کو سنا دے جو پڑھنا نہیں جانتے۔ اور اگر ہو سکے تو اس کی کئی نقلیں کرکے دوسرے گائوں کے دوستوں کو بھجوا دے۔ اگر پورا خط نقل نہ ہو سکے تو اس کا خلاصہ ہی لکھ کر دوسرے دوستوں کو اطلاع کر دے<۔۴۹
چنانچہ اس نصیحت کے مطابق مطبوعہ مکتوبات کشمیر و جموں کے طول و عرض میں پہنچتے رہے۔ اور مسلمانان ریاست میں آزادی و حریت کے جذبات و احساسات کو زندہ رکھنے میں ممد و معاون بنتے رہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ان خطوط میں چونکہ بعض برطانوی افسروں پر بھی تنقید کی گئی تھی اس لئے بعض انگریز افسروں نے ریاستی احکام ضبطی کی تائید کی۔ یہ بات چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو سر میاں فضل حسین صاحب سے ایک ملاقات کے دوران معلوم ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۱۷/ مارچ ۱۹۳۲ء کو ایک مکتوب میں اطلاع دی کہ۔
>مسٹڑ میکناٹن` سر چارلس والٹن اور مسٹر ایمرسن نے یہ شکایت کی ہوئی تھی کہ حضور کے اردو مطبوعہ خطوط اس قسم کے تھے جن کے نتیجہ میں قومی منافرت ریاست میں اور پنجاب میں بڑھنے کا اندیشہ تھا خصوصیت سے مڈلٹن رپورٹ کے متعلق جو خط تھا اس کے متعلق شکایت تھی کہ اس میں ایک شخص کی مفروضہ غلطی کی بناء پر برطانوی انصاف پر الزام لگایا گیا ہے ۔۔۔۔۔ مسٹر ایمرسن نے لکھا تھا کہ یہ مطبوعہ خطوط نامناسب اور نقصان دہ ہیں لیکن اس کی ذمہ داری صدر کمیٹی پر ہے۔ اس کی بناء پر وفد سے انکار نہیں کرنا چاہئے<۔
‏tav.5.31
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل سوم(
حکومت ہند حکومت کشمیر سے رابطہ اور خط و کتابت
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ چونکہ شروع سے کشمیر کے معاملہ میں دلچسپی لے رہے تھے اس لئے جب آپ ۲۴/ جولائی ۱۹۳۱ء کو کانفرنس میں شرکت کے لئے شملہ تشریف لائے تو آپ نے شملہ پہنچتے ہی ۲۴ اور ۲۷/ جولائی ۱۹۳۱ء کو وائسرائے کو ملاقات کے لئے لکھا۔ جس کا جواب ۳۰/ جولائی کو یکم اگست ۱۹۳۱ء کو ہزایکسی لینسی وائسرائے آپ سے ملاقات کر سکیں گے۔ اور ان کو اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ آپ کے فارن سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد آپ کے بطور ترجمان ہوں۔ چنانچہ حضور یکم اگست ۱۹۳۱ء کو وائسرائے ہند )لارڈن ولنگڈن( سے ملے اس وقت مولانا درد بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس ملاقات کی تفصیل اور اس کے نتائج خود حضور ہی کے الفاظ میں یہ ہیں۔
>پہلے تو وہ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے جب میں نے کشمیر کا نام لیا۔ تو وہ اپنے کوچ سے کچھ آگے کی طرف ہو کر کہنے لگے۔ کہ کیا آپ کو بھی کشمیر کے معاملات میں انٹرسٹ ہے آپ تو مذہبی آدمی ہیں مذہبی آدمی کا ان باتوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا۔ میں بے شک مذہبی آدمی ہوں اور مجھے مذہبی امور میں ہی دخل دینا چاہئے۔ مگر کشمیر میں تو لوگوں کو ابتدائی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں اور یہ وہ کام ہے جو ہر مذہبی شخص کر سکتا ہے۔ بلکہ اسے کرنا چاہئے۔ اس لئے مذہبی ہونے کے لحاظ سے بھی اور انسان ہونے کے لحاظ سے بھی میرا فرض ہے کہ میں انہیں وہ ابتدائی انسانی حقوق دلوائوں جو ریاست نے چھین رکھے ہیں آپ اس بارے میں کشمیر کے معاملات میں دخل دیں۔ تاکہ کشمیریوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کا انسداد ہو۔ وہ کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ ریاستوں کے معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے۔ میں نے کہا میں یہ جانتا تو ہوں مگر کبھی کبھی آپ دخل دے دیتے ہیں۔ چنانچہ میں نے کہا کیا حیدرآباد میں آپ نے انگریز وزیر بھجوائے ہیں یا نہیں کہنے لگے تو کیا آپ کو پتہ نہیں نظام حیدر آباد کیسا مناتا ہے۔ میں نے کہا یہی بات تو میں کہتا ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے کہ نظام حیدر آباد برا منائیں تو آپ ان کی پروا نہ کریں اور مہاراجہ صاحب کشمیر برا منائیں تو آپ ان کے معاملات میں دخل دینے سے رک جائیں یہ ہندو اور مسلم میں سوتیلے بیٹوں والا فرق آپ کیوں کرتے ہیں۔ آخر یا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ گورنمنٹ ریاستی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی۔ اور یا یہ کہنے لگے کہ جب مجھے وائسرائے مقرر کیا گیا تھا تو وزیر ہند نے مجھ سے کہا کہ ہندوستان کی سیاسی حالت سخت خراب ہے کیا تم اس کو سنبھال لو گے میں نے کہا میں سنبھال لوں گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ مجھے چھ مہینہ کی مہلت دی جائے اور مجھ پر اعتراض نہ کیا جائے۔ کہ تم نے کوئی انتظام نہیں کیا۔ ہاں اگر چھ مہینے کے بعد بھی میں انتظام نہ کر سکا تو آپ بے شک مجھے الزام دیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا چھ مہینے یا سال نہیں میں آپ کو ۱۸ مہینے کی مہلت دیتا ہوں آپ اس عرصہ کے اندر یہ کام کرکے دکھائیں۔ لارڈ ولنگڈن کہنے لگے وزیر ہند نے تو مجھے ۱۸ مہینے کی مہلت دی تھی۔ اور آپ مجھے کوئی بھی مہلت نہیں دیتے بلکہ چاہتے ہیں کہ فوی طور پر میں یہ کام کر دوں۔ میں نے کہا۔ اگر یہی بات ہے تو جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں انہوں نے تو ۱۸ مہینے کی آپ کو مہلت دی ہے آپ کو ۱۸ سال کی مہلت دینے کو تیار ہوں بشرطیکہ آپ مجھے یقین دلائیں کہ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت سدھر جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پانچ چھ ماہ تک مجھے حالات دیکھنے ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکا۔ میں کروں گا اور کشمیر کے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کی پوری پوری کوشش کروں گا<۔۵۰
اسی ضمن میں فرماتے ہیں۔ >میری اس تجویز کو انہوں نے پسند کیا کہ ایک وفد جو نواب ذوالفقار علی خان صاحب` خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب ریٹائرڈ سیشن جج` خواجہ حسن نظامی صاحب`نواب صاحب کنج پورہ اور مولوی محمد اسمعیل ¶صاحب غزنوی پر مشتمل ہو اس کے کشمیر جانے کی درخواست کی جائے۔ تاکہ یہ لوگ جاکر صورت حال پر غور کریں اور اگر مسلمانوں کی غلطی ان کو نظر آئے تو ان کو سمجھائیں اور اگر ریاست کی غلطی ان کو نظر آئے تو مہاراجہ صاحب کو صحیح مشورہ دیں۔
میں نے یہ تجویز اس بات کو خوب سمجھتے ہوئے کی تھی کہ مہاراجہ صاحب اس کو نہیں مانیں گے۔ اور اس کا وائسرائے پرنیک اثر پڑے گا۔ بعد میں میں نے ڈاکٹر اقبال کے نام بھی اس وفد میں جانے کے لئے تجویز کیا اور اس کے متعلق انہیں سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے تار بھی دی گئی انہوں نے اس کے جواب میں یہ لکھا کہ اس وقت وفد لے جانا میری رائے ناقص میں قرین مصلحت نہیں ہے کچھ ایجی ٹیشن کے بعد ہو تو مناسب ہے۔ اہل ریاست کا خیال ہے کہ یہ شورش لاہور سے اٹھی ہے۔ اس واسطے اول تو مجھے یہ اندیشہ ہے کہ وفد کو باریابی کی اجازت نہ ہو۔ اگر ہو بھی تو گورنمنٹ کشمیر اس کا بے جا فائدہ اٹھائے گی خود اہل خطہ بھی اس بات کو پسند نہ کریں گے۔ آج میر واعظ صاحب کا اعلان شائع ہوا ہے کہ ان کے دستخط اس اعلان پر جعلی بنائے گئے ہیں ریاست کے بعض مسلمانوں نے غالباً کشمیر گورنمنٹ کے اشارہ پر شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست نے مولوی ابوالکلام آزاد کو دعوت دی ہے۔ یہ دعوت اگرچہ پہلے کی ہے تاہم اندیشہ ہے کہ ریاست ایک نیشنلسٹ مسلمان کو وہاں بلوا کر مسلمانان کشمیر کے کیس کو خراب کرنا چاہتی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں میری طرف سے آداب عرض ہو۔ محمد اقبال
پھر ۵/ اگست ۱۹۳۱ء کو ان کا لکھا ہوا خط خود براہ راست میرے پاس آیا جس کے متعلقہ حصے درج ذیل ہیں۔ >کشمیر کے متعلق آپ کی کوششیں یقین ہے بارآور ہوں گی۔ مگر ذرا ہمت سے کام لیجئے اور اس معاملہ کو انجام تک پہنچائیے۔ کشمیر کے مہاراجہ کے پاس وفد لے جانا مسلمانوں کے مفاد کے لئے نہایت مضر ثابت ہو گا۔ میں آپ کو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اس تجویز کو جامعہ عمل نہ پہنائیے۔ میں مفصل عرض نہیں کر سکتا۔ بالمشافہ موقعہ ہوا تو عرض کروں گا۔ اس تجویز کی بجائے یہ کیجئے کہ تین معززین کا وفد جس میں ایک آپ ہوں انگلستان جائے اور وہاں صرف دو ماہ قیام کرے اور انگریزی قوم اور پارلیمنٹ کو کشمیر کی تاریخ اور موجودہ حالات سے آگاہ کرے اس پر زیادہ سے زیاہ آٹھ دس ہزار روپیہ خرچ ہو گا اور ننتائج اس کے بے انتہا خوشگوار ہوں گا اور مجھے یقین ہے کہ ہم سب کی توقعات سے بڑھ کر ہوں گے اگر مجھ کو CONFERANCE TABEL ROUND سے موقعہ مل گیا۔ تو انشاء اللہ کشمیر کے ADMINISTRATION کا سارا تارو پود بکھیر کر رکھ دوں گا اور ایسا کرنے میں کسی کا خوف مجھ پر غالب نہ ہو گا<۔
جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں میں نے وفد کی اس لئے تجویز پیش کی تھی کہ میں جانتا تھا کہ مہاراجہ نے نہیں ماننا اور اس طرح وائسرائے جو کہ اس کا بہت ہی گرویدہ ہے اس کی ذہنی کیفیت کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے گا۔ اس لئے باوجود اس کے کہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا میرے دل میں بہت احترام تھا میں نے ان کے مشورہ کو قبول نہ کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ دونوں باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے نہ وفد نے جانا ہے اور نہ وہ نتائج پیدا ہونے ہیں جن کا ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو خوف ہے اور ایسا ہی ہوا۔
میں نے ۳/ اگست ۱۹۳۱ء کو وائسرائے کے مشورہ سے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ میں تار مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کو دلائی۔ >براہ مہربانی نواب سر ذوالفقار خان صاحب` نواب ابراہیم خان صاحب آف کنج پورہ` خواجہ حسن نظامی صاحب` خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی پر مشتمل مسلمانوں کے ایک وفد کو اجازت دیں کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورت حالات کے سلسلہ میں اگلے ہفتہ کی تاریخ کو یورہائینس کی خدمت میں حاضر ہو۔۵۱
اس کا جواب پرائم منسٹر کشمیر کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ میں آیا۔ >عبدالرحیم درد سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی فیئرویو شملہ! بجواب آپ کے تار لکھا جاتا ہے کہ صورت حال پر پوری طرح قابو پا لیا گیا ہے۔ اور حالات اب اصل حالت میں ہیں غیر جانبدارنہ تحقیقات ہو رہی ہے۔ ایسے موقع پر کسی ڈیپوٹیشن کے آنے سے لازماً از سر نو جوش پیدا ہو جائے گا۔ اس لئے افسوس ہے کہ ہرہائینس آپ کی درخواست منظور نہیں کر سکتے<۔۵۲
اس پر میں نے وائسرائے کے سامنے پروٹسٹ کیا کہ آپ سے مشورہ کرنے کے بعد یہ تار دی گئی تھی اور ایسے لوگ منتخب کئے گئے تھے جن پر ہرگز کسی فساد کا شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر باوجود اس کے مہاراجہ نے خود سری کے ماتحت مسلمانوں کی ہتک کی ہے۔ اور ایسے وفد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے جواب میں وائسرائے کی طرف سے کچھ معذرت کی گئی اور کہا گیا کہ غالباً غلط فہمی ہو گئی ہے دوبارہ پھر تار دیجئے۔ چنانچہ ۵/ اگست ۱۹۳۱ء کو میری طرف سے مندرجہ ذیل تار مہاراجہ کو دی گئی۔
یورہائینس کے وزیراعظم کے تار بنام سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے متعلق میں یورہائینس سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کریں۔ اگرچہ کشمیر کے حالات بظاہر اصلاح پذیر نظر آتے ہیں۔ مگر ہماری معلومات کے لحاظ سے ایجی ٹیشن شدید ہے۔ اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ علاوہ ازیں ہندوستان کے مسلمانوں میں کشمیر کے معاملات کے متعلق بہت ایجی ٹیشن ہے اور یورہائینس کی طرف سے اس وفد کو ملاقات کا موقع دینے سے حالات میں سکون پیدا ہو گا برخلاف اس کے ایسے معزز افراد کو ملاقات کی اجازت دینے سے انکار پر اصرار سے مسلمانوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گا۔۵۳
اس کا جواب دو ایک دن کے بعد پرائم منسٹر کی طرف سے یہ آیا۔ >امام جماعت احمدیہ فیئرویو شملہ! بحوالہ آپ کے تار ۵/ اگست ہزہائینس کی گورنمنٹ کا اب تک بھی یہی خیال ہے۔ کہ ایسے حالات میں جبکہ حالت بدستور سابق ہو چکی ہے اور معاملات روبہ اصلاح ہیں۔ کسی بیرونی وفد کی آمد سے یقیناً تازہ جوش اور شبہات پیدا ہوں گے۔ خاص کر ایسی حالت میں جبکہ آپ خود گواہ ہیں کہ ایجی ٹیشن کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ وزیراعظم کشمیر<۔۵۴
میں نے وائسرائے کو لکھا اس تار کے الفاظ کو دیکھ لیجئے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کشمیر گورنمنٹ کی نیت مسلمانوں کے متعلق خراب ہے جب میں نے ان کو یہ لکھا کہ فسادات کی وجہ سے برطانوی ہند میں بھی شورش ہے اور وفد کے جانے سے اس میں سکون پیدا ہو جائے گا۔ تو کشمیر گورنمنٹ نے جواب دیا کہ چونکہ امن ہو گیا ہے اس لئے کسی وفد کی ضرورت نہیں گویا فساد کی حالت میں تو وفد کی ضرورت ہے۔ امن کی حالت میں وفد کی ضرورت نہیں لیکن جب میں نے تار دی کہ گو بظاہر آپ کو فتنہ دبا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر چونکہ اس فتنہ کی جڑیں گہری ہیں اور ہندوستان کے مسلمانوں میں کشمیر کے معاملات کے متعلق ایجی ٹیشن ہے اس لئے آپ وفد کے جانے کی اجازت دیں۔ اس کا آنا مفید ہو گا تو اس پر کشمیر گورنمنٹ یہ جواب دیتی ہے کہ چونکہ فساد کی جڑیں گہری ہیں اس لئے وفد کے آنے کی ضرورت نہیں۔ گویا کہ خطرہ کے متعلق وفد کا آنا ضروری نہیں۔ اس طرح وہ اپنی دوسری تار میں پہلی تار کی تردید کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تاروں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وائسرائے پر حقیقت کھل گئی۔ اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ جلد یا بدیر حکومت ہند کو اس معاملہ میں دخل دینا پڑے گا۔ اور جو پہلی ملاقات میں مجھ پر اثر تھا کہ وہ کسی صورت میں بھی کشمیر کے معاملات میں دخل دینے کو تیار نہیں یا کم سے کم وہ پورا زور لگائیں گے کہ وہ اس سے بچیں اس میں تبدیلی پیدا ہو گئی۔ اور میں نے سمجھا کہ اب آئندہ میں جو زور گورنمنٹ ہند پر ڈالوں گا بے اثر نہیں جائے گا` بلکہ نتیجہ خیز ہو گا<۔۵۵
‏]body [tag
)فصل چہارم(
>یوم کشمیر< کے عظیم الشان جلسے اور ان کا ردعمل
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس شملہ میں قرار پایا تھا کہ ۱۴/ اگست ۱۹۳۱ء کو ملک میں >یوم کشمیر< منایا جائے۔ چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۶/ اگست ۱۹۳۱ء کو اپنے قلم سے ایک مفصل مضمون لکھا جس میں پرزور تحریک فرمائی کہ کشمیر ڈے پورے اہتمام کے ساتھ منایا جائے چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا۔
>مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے بتیس لاکھ بھائی بے زبان جانوروں کی طرح قسم قسم کے ظلموں کا تختہ مشق بنائے جارہے ہیں جن زمینوں پر وہ ہزاروں سال سے قابض تھے ان کو ریاست کشمیر اپنی ملکیت قرار دے کر ناقابل برداشت مالیہ وصول کر رہی ہے۔ درخت کاٹنے` مکان بنانے` بغیر اجازت زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی شخص کشمیر میں مسلمان ہو جائے تو اس کی جائیداد ضبط کی جاتی ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل و عیال بھی اس سے زبردستی چھین کر الگ کر دیئے جاتے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں` انجمن بنانے کی اجازت نہیں۔ اخبار نکالنے کی اجازت نہیں غرض اپنی اصلاح اور ظلموں پر شکایت کرنے کے سامان بھی ان سے چھین لئے گئے ہیں وہاں کے مسلمانوں کی حالت اس شعر کے مصداق ہے ~}~
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے۵۶
چنانچہ حضور کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ۱۴/ اگست کو ہندوستان کے ہر مشہور شہر اور بستی میں بڑے جوش و خروش سے یوم کشمیر منایا گیا۔ قادیان میں مظلومین کشمیر کی حمایت میں مظاہرہ کیا گیا۔ اس روز اس شان کا جلوس نکلا کہ قادیان میں کبھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جلوس کے علاوہ چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے )سابق مبلغ انگلستان( کی صدارت میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف ریزولیوشن پاس ہوئے اور مظلومین کی امداد کے لئے چندہ کیا گیا۔ قادیان کی خواتین کا الگ جلسہ زیر صدارت حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ )حرم حضرت خلیفہ المسیح الثانی( ہوا جس میں حضور کے مجوزہ ریزولیوشنز کے علاوہ یہ قرار داد بھی پاس کی گئی کہ اس جلسہ کی کارروائی سے بذریعہ تار لیڈی لارڈ ولنگڈن کو مطلع کیا جائے۔۵۷
دیو بند کے جلسہ میں مولوی محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم` مولوی حسین احمد صاحب مدنی اور مولوی میرک شاہ صاحب کی تقریریں ہوئیں۔ لاہور کا جلسہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی صدارت میں ہوا جلوس اور جلسہ میں ایک لاکھ مسلمان شریک ہوئے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` مولوی دائود صاحب غزنوی اور سید محسن شاہ صاحب نے پرجوش تقریریں کیں۔
کلکتہ میں سہروردی صاحب نے عظیم الشان جلسہ کی صدارت کی۔ بمبئی میں ایک ہزار باوردی والنٹیرز نے جلوس کا انتظام کیا۔ مسلمانوں کا یہ جلوس بے نظیر تھا۔ جلسہ میں مولوی شوکت علی صاحب نے خاص طور پر حصہ لیا۔ سیالکوٹ میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف پرجوش مظاہرہ کیا گیا جس میں مولوی عصمت اللہ صاحب مبلغ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام نے پرجوش تقریر کی۔ اور آغا غلام حیدر صاحب میونسپل کمشنر سیالکوٹ کی صدارت میں قرار دادیں پاس ہوئیں۔ پٹنہ میں مولوی شفیع دائودی صاحب کی صدارت میں جلسہ ہوا اور انہوں نے اطلاع دی کہ صوبہ بہار کے گوشہ گوشہ میں یوم کشمیر کے موقعہ پر پرجوش مظاہرے ہوئے۔
علی گڑھ میں حاجی محمد صالح خان صاحب شیروانی آنریری مجسٹریٹ کی صدارت میں جلسہ ہوا کراچی کے خالقدینہ ہال میں مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع ہوا۔ حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون صاحب نے صدارت کی۔ اسی طرح دہلی` پونا` لکھنئو` رنگون` مالا بار` گیا` حیدر آباد` بنگال` بنگلور` بہار واڑیسہ وغیرہ شہروں میں زبردست جلسے منعقد ہوئے۔ غرضکہ برصغیر کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ ملک کا گوشہ گوشہ تحریک آزادی کشمیر کی آواز سے گونج اٹھا اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمانوں میں درد و الم کی ایسی لہر دوڑ گئی کہ وہ دیوانہ وار اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے<۔۵۸
اندرون ریاست میں جہاں ڈوگرہ حکومت مظالم ڈھارہی تھی۔ یوم کشمیر خاص اہتمام سے منایا گیا۔ چنانچہ اس دن سرینگر میں حکام کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود جامع مسجد میں نہایت کامیاب جلسہ ہوا جس میں ایک لاکھ فرزندان توحید کا اجتماع ہوا۔ اس موقعہ پر ان چھوٹے چھوٹے یتیم بچے اور بچیوں کو سٹیج پر لایا گیا جن کے باپ ظالم اور فرعون مزاج ڈوگرو کے مظالم کا شکار ہو گئے تھے۔ یہ نظارہ بڑا ہی دردناک تھا جونہی لوگوں کی نظر ان معصوموں پر پڑی۔ مجمع زار زار رونے لگا۔ ہر ایک کی آنکھیں پرنم تھیں جلسہ گاہ اس وقت ماتم کدہ بن گئی۔ اور جب شہیدوں کے خونی کپڑے دکھائے گئے تو ایک حشر سا برپا ہو گیا<۔۵۹ سرینگر کے علاوہ گلمرگ` شوپیاں` بانڈی پور اور دوسرے مقامات پر بھی اس زور کامیاب احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ چنانچہ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق لکھتے ہیں۔
>۱۴/ اگست کو یوم آزادی کے موقعہ پر مسلمانوں میں اتنا جوش و خروش تھا کہ اس کی نظیر ریاست کی سرزمین میں دوبارہ ملنی محال ہے<۔۶۰
>یوم کشمیر< کے موقعہ پر یہ پورے مظاہرے پورے امن و امان کے ماحول میں ہوئے البتہ جموں میں جب اس موقعہ پر جلوس نکالا گیا۔ تو اس پر گولی چلا دی گئی۔ اور ایک مسلمان شہید ہو گیا اور کئی ایک زخمی بھی ہوئے جن میں بچے بھی تھے۔ اور مسجدوں پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ قادیان میں یہ اطلاع اسی روز پہنچ گئی اور حضور نے اسی وقت مہاراجہ صاحب کشمیر کو ذاتی طور پر مداخلت کرنے اور وائسرائے ہند کو سخت اقدام کرنے کے لئے تار دیئے۔ مہاراجہ صاحب کشمیر کو مندرجہ ذیل الفاظ میں تار دیا گیا۔
>قادیان ۴/ اگست جموں سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں پرامن مسلم جلوس پر نہایت بے رحمی سے گولی چلا دی گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک ہو گیا ہے۔ اور کئی زخمی ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ مساجد پر افواج نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو حکام کی یہ ستم رانی ناقابل برداشت ہے مسلمانوں کا ایک طبقہ پہلے ہی انتہائی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہا ہے میں یورہائی نس سے اپیل کرتا ہوں کہ قبل اس کے کہ حالات بالکل قابو سے باہر ہو جائیں۔ جن سے مجبور ہو کر مجھے یا تو کشمیر کمیٹی کی صدارت انتہا پسند طبقہ کے حوالے کرنی پڑے یا سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑے۔ آپ ذاتی طور پر اس میں مداخلت کریں۔ اس وقت تمام دنیا کی آنکھیں کشمیر کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ کہ دیکھئے ان لاکھوں بے بسوں کے ساتھ جنہیں قدرت نے یورہائی نس کی رعایا بنایا ہے۔ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے<۔۶۱
وائسرائے ہند کے نام دیئے جانے والے تار کے الفاظ یہ تھے۔ >قادیان ۱۴/ اگست جموں سے تار آیا ہے۔ کہ کشمیر ڈے کے سلسلہ میں مسلمانوں کے پر امن جلوس پر ریاستی فوج نے گولی چلا دی۔ جس کے نتیجہ میں ایک مر گیا۔ اور کئی زخمی ہو گئے۔ جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ مسجدوں پر فوجوں کا قبضہ ہے اگر یہ درست ہے تو یہ مظالم ناقابل برداشت ہیں۔ اگر حکومت نے مداخلت نہ کی تو معاملہ میں اہم پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حالات بالکل قابو سے باہر ہو جائیں گے میں پہلے بھی معاملہ کی اہمیت و نزاکت پر زور دے چکا ہوں۔ اور موجودہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ پہلے ہی انتہائی کارروائی کئے جانے پر زور دے رہا ہے۔ مجھے یا تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے کر اسے انتہا پسندوں کے حوالہ کرنا پڑے گا۔ یا پھر سخت قدم اٹھانے پر رضا مند ہونا پڑے گا<۔۶۲body] g[ta
تار کے علاوہ حضور نے اسی وقت اپنا ایک نمائندہ جموں روانہ کر دیا۔ اور فوٹو گرافر بھی بھجوایا تا زخمیوں کے فوٹو لے۔ چنانچہ وہاں پہنچ کر خفیہ طور پر تصاویر لی گئیں اور اس طرح ڈوگرہ حکومت کے مظالم کا زبردست ثبوت فراہم کر لیا گیا۔ چنانچہ سرینگر اور جموں کے ۱۹۳۱ء کے خونچکاں واقعات سے متعلق جو تصاویر اس کتاب میں شائع کی جارہی ہیں۔ وہ حضور ہی کی ہدایت پر لی گئی تھیں اور حضور ہی کی توجہ کی بدولت آج تک محفوظ ہیں۔۶۳
اس بروقت اقدام کی اہمیت بہت جلد نمایاں ہو گئی۔ حضور کا تار ملنے پر وائسرائے ہند نے ریاست کو تار دیا۔ کہ جموں کے مسلمانوں پر گولی چلائی گئی ہے مگر حکومت نے جواب دیا کہ یہ غلط ہے جلوس پر معمولی لاٹھی چارج ہوا ہے۔
یہی جواب وزیر اعظم کشمیر ہری کشن کول نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو اپنے ۲۲/ اگست ۱۹۳۱ء کے مکتوب میں دیا۔ چنانچہ اصل واقعات کو بالکل مسخ کرتے ہوئے لکھا۔ >آپ تحریر فرماتے ہیں کہ بچوں کو جموں میں برچھیوں سے زخمی کیا گیا۔ پرسوں چار نمائندگان مسلمانان مجھے ملنے آئے۔ اور یہی شکایت میرے پاس کی میں نے فوراً بذریعہ ٹیلیفون جموں سے پتہ کیا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ مورخہ ۱۴/ اگست کے دن خلاف قانون مسلمانوں نے جموں میں سیاہ جھنڈوں کے ساتھ جلوس نکالا ۔۔۔۔۔۔۔ جس پر پولیس کو مجبور ہو کر جلوس کو لاٹھی چارج سے منتشر کرنا پرا ۔۔۔۔۔۔۔ لاٹھی چارج میں ۸ یا ۱۰ آدمیوں کو خراش لگے۔ جن میں سے دو کو کسی قدر زیادہ ضرب آئی۔ لیکن ایسی نہیں جنہیں ضرب شدید کہا جا سکے ہر دو کی حالت کل سے قریباً بالکل اچھی ہے۔ اس واقعہ کو یہاں تک رنگ دیا گیا کہ گولی چل گئی۔ اور پچاس ساٹھ آدمی ہلاک اور زخمی ہوئے برچھیوں اور سنگینوں سے۔ اصلیت یہ ہے کہ کوئی برچھا یا سنگین ¶استعمال نہیں کی گئی<۔۶۴
بالکل اسی قسم کی رپورٹ حکام کشمیر نے وائسرائے ہند کو بھجوائی ۔۔۔۔۔۔ کہ معمولی لاٹھی چارج ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ پہنچنے پر وائسرائے کے پولٹیکل سیکرٹری نے بذریعہ تار خط کو اطلاع دی کہ حکومت کشمیر گولی چلنے سے بالکل انکار کرتی ہے۔ مگر جب حضور نے حکومت ہند کے سامنے تصاویر رکھیں تو ڈوگرہ حکومت کی غلط بیانی بے نقاب ہو گئی۔
)فصل پنجم(
عالمی پراپیگنڈے کا آغاز
حکومت ہند اور ریاست کشمیر پر دبائو ڈالنے کا نہایت موثر ذریعہ بیرونی پراپیگنڈا تھا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آغاز کار ہی سے اس کا خاص انتظام کیا۔
چناچہ اس ضمن میں آپ نے امریکہ` سماٹرا` جاوا` عرب مصر و شام میں ایک مہم شروع کی مگر سب سے زیادہ توجہ انگلستان کی برطانوی حکومت` برطانوی پریس اور برطانوی عوام پر دی۔ کیونکہ کشمیر کی ریاست پر حکومت ہند کی نگرانی تھی۔ اور حکومت ہند برطانوی حکومت کے ماتحت تھی۔ برطانیہ کو متاثر کرنے کے لئے آپ نے مختلف ذرائع اختیار فرمائے۔
۱۔ آپ نے لندن مشن کے انچارج خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو انگلستان میں تحریک آزادی کی آواز بلند کرنے کے لئے کئی ہدایات دیں جن کی تعمیل میں انہوں نے<KASHMIR PRESENT> AND PAST )کشمیر کا ماضی و حال( کے نام سے بیس صفحات کا ایک انگریزی پمفلٹ شائع کیا` برطانوی پریس سے رابطہ کرکے ان میں مظلومان کشمیر کے حالات شائع کرائے چنانچہ لنڈن کے متعدد بااثر اور باوقار اخبارات مثلاً >مارننگ پوسٹ<۔ >سنڈے ٹائمز<۔ >ڈیلی ٹیلیگراف<۔ >نیئر ایسٹ< وغیرہ میں ہمدردانہ مضامین شائع ہوئے۔ اور وزیراعظم کشمیر )ہری کشن کول( کی برطرفی کے عام مطالبہ اور نظم و نسق میں اصلاحات کی پرزور تائید کی گئی۔۶۵`۶۶
اخبار >انقلاب< یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء نے لکھا۔ >لنڈن ۲۸/ ستمبر آج کل برطانوی اخبارات میں کشمیر کے متعلق جو مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ ان کی بناء پر معتبر حلقوں میں اہل کشمیر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔ لندنی اخبارات کا خیال ہے کہ ان کے مطالبات معقول اور دقیع ہیں جن سے حکومت کے لئے لازمی ہو گیا ہے۔ کہ ریاست کے نظم و نسق کا تجزیہ اور امتحان کرے خیال کیا جاتا ہے کہ خود مہاراجہ کشمیر مسلمانان کشمیر کی شکایات اور مطالبات پر غور کرنا چاہتے ہیں اور اس کے متمنی ہیں کہ انتظام ریاست کی اصلاح کرکے ریاست میں انتظامی شعبہ کو مضبوط کریں<۔۶۷
جناب غلام رسول صاحب مہر نے جو ان دنوں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے ہمراہ نمائندہ >انقلاب< کی حیثیت سے انگلستان گئے ہوئے تھے انگلستان سے مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>کشمیری مسلمانوں کے تعلق میں برطانوی جرائد کا رویہ پہلے کی نسبت بہتر ہے۔ اور اس میں بلا شائبہ و ریب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد لندن کا بڑا حصہ ہے۔ جو شروع سے لے کر کشمیر کے تعلق میں مسلسل جدوجہد فرماتے رہے ہیں۔ اخبارات میں جو خبریں شائع ہوتی رہیں ان کے علاوہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف سے متعدد تار موصول ہوئے جن کی کاپیاں ایک ایک مندوب کے پاس بھیجی جاتی ہیں<۔ >)انقلاب< ۱۹/ نومبر ۱۹۳۱ء(۶۸
جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔ انگلستان میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جو کام کیا وہ ہندوستان کے کام سے بھی کہیں زیادہ بیش بہا تھا۔ مولانا مہر کے تازہ مکتوب میں قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ انگریزی پریس کا رویہ پہلے اچھا نہ تھا۔ لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کے برقی پیغامات اور مولوی فرزند علی امام مسجد لنڈن کی ان تھک مساعی سے اب حالات بہت بہتر ہیں اور اکثر انگریزی اخبارات کا لب و لہجہ ہمدردانہ ہو گیا ہے۔ اس کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے جو معزز و محترم ارکان گول میز کانفرنس میں شریک ہیں ان کو ہندوستان کے مفصل تار پہنچتے رہے جن میں حوادث کشمیر بیان کئے جاتے تھے۔ اور ان حضرات نے انہی تاروں سے متاثر ہو کر وزیر ہند سے متعدد ملاقاتیں کیں اور یہ وعدہ ¶لیا کہ کشمیر کے معاملہ میں مظلوموں کی امداد کی جائے گی<۔۶۹
مظفر آباد )آزاد کشمیر( کا اخبار >ہمارا کشمیر< ۱۶/ مارچ ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ )جناب مرزا صاحب نے( جنگ آزادی میں شہید ہونے والوں کی تصویریں اپنے آدمیوں سے کھچوا کر انگلستان ارسال کیں۔ شہیدوں کے خونی جامے پارلیمنٹ کے ممبروں کو دکھائے گئے۔
اسی طرح وہ بعض لارڈز مثلاً کرنل ہاور ڈبری وغیرہ کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کہ وزراء اور پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں پر زور دیں کہ برطانوی حکومت مسئلہ کشمیر میں مداخلت کر لے۔۷۰ چنانچہ وزیر ہند کی پہلوتہی کے باوجود پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ کئی بار زیر بحث لایا گیا۔۷۱ مولوی فرزند علی خان صاحب کے بعد جب مولوی عبدالرحیم صاحب درد انگلستان تشریف لے گئے تو تحریک آزادی کی سرگرمیاں زور شور سے جاری رہیں چنانچہ آپ کے تیار کردہ بعض سوالات پارلیمنٹ میں ایک ممبر لیفٹیننٹ کرنل آر۔ وی۔ کے ایلپن نے دریافت کئے۔۷۲
حضور نے امام مسجد لنڈن کو یہ بھی تاکید فرمائی کہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے والے مسلمان ممبروں کے ذریعہ سے بھی مسئلہ کشمیر کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی جائے چنانچہ ہزہائی نس سر آغا خاں` سر میاں محمد شفیع` ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے علیحدہ علیحدہ وزیر ہند سے ملاقاتیں کیں۔۷۳ وزیر ہند نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے وعدہ کیا کہ وہ خود بھی اس معاملہ میں توجہ کریں گے۔ اور حکومت ہند کو بھی توجہ دلائیں گے۔ اس کے بعد وائسرائے ہند کے پرائیوٹ سیکرٹری نے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو تار دیا کہ حکومت ہند اس بارے میں ریاست سے خط و کتابت کر رہی ہے۔۷۴
یہ پروپیگنڈہ شروع ہوتے ہی ریاست کو فکر پڑ گئی اور اس نے قریباً چھ سو روپیہ ماہوار تنخواہ پر لنڈن میں ایک ایجنٹ مقرر کر دیا۔ تا اس پراپیگنڈا کا اثر زائل کرکے برطانوی اخبارات کو ریاست کے حق میں لکھنے پر مائل کرے مگر خدا کے فضل سے یہ سازش ناکام رہی۔۷۵
جناب چوہدری غلام عباس صاحب نے بھی اپنی سوانح عمری >کشمکش< میں تحریر فرمایا ہے۔
>آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی معرفت ہماری شکایات سمندر پار کے مسلمانوں میں بھی زبان زد ہر خاص و عام ہو گئیں۔ اس نزاکت حال کے پیش نظر حکومت کشمیر کے لئے ہماری شکایات کو ٹالنا` اور بزور طاقت عمومی محرکات کو بلا فکر نتائج کچلتے چلے جانا مشکل ہو گیا۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پیہم اصرار کے باعث حکومت ہند کا معاملات کشمیر میں دخل انداز ہونا ناگریز ہو گیا۔ کشمیر کی سرحدات چین` روس جیسے اشتراکی ممالک سے ملتی ہیں۔ لہذا اپنی فوجی اہمیت اور بین الاقوامی معاملات کے نقطہ نظر سے بھی ضروری ہو گیا کہ انگریز ریاست کے معاملات میں ضرور ہی دخل دے۔ نومبر ۱۹۳۱ء کے آخری دنوں میں حکومت کشمیر کو مجبوراً مسلمانان ریاست کی شکایات اور مطالبات کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن کا اعلان کرنا پڑا۔ یقین غالب ہے کہ اس کمیشن کے تقرر میں حکومت ہند کو بھی زبردست دخل تھا<۔۷۶ وائسرائے اور حکومت ہند کے دوسرے افسروں پر معاملات کشمیر کی وضاحت کرنے کے سلسلہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے غیر معمولی دلچسپی لی اور وہ حتی الوسع برابر ان پر اپنا اثر و رسوخ ڈالتے رہے جیسا کہ اس زمانے کے خطوط سے جو آج تک محفوظ ہیں روشنی پڑتی ہے۔
مہاراجہ کشمیر کی سازش اور اس کی ناکامی
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں۔
>جب کشمیر کی تحریک ہوئی۔ اس وقت بھی ہمیں ایسے ہی لوگوں سے کئی خبریں ملیں۔ جن سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔ ایک وقت ایسا واقعہ ہونے لگا تھا جس سے تحریک کشمیر بالکل تباہ ہو جاتی۔ اس وقت ایک ہندو لیڈر دیوان چمن لال تھے جو دیوان رام لال کے بھائی تھے۔ کانگریس میں انہیں کافی پوزیشن حاصل تھی۔ جب راجہ نے دیکھا کہ اب اسے کوئی رستہ نہیں ملتا۔ تو اس نے کانگریس کو خریدنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس نے دیوان چمن لال سے کہا کہ میں آپ کو یورپ میں پروپیگنڈا کے لئے مقرر کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اس تحریک کے ماتحت اپنی ایک واقف عورت کو جو انگلستان کی مشہور جرنلسٹ اور اخباری نمائندوں میں اچھی پوزیشن رکھنے والی تھی مقرر کیا۔ اور اسے تار دیا کہ میں تمہیں ۵۰ پونڈ ماہوار دوں گا۔ اور تمہارے باقی سب اخراجات بھی ادا کر دوں گا تم اخباروں میں ریاست کے حق میں پروپیگنڈا کرو۔ وہ عورت بہت اثر رکھنے والی تھی۔ چنانچہ اس نے پریس کے نمائندوں اور اپنے دوستوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ بعض کی اس نے تنخواہیں مقرر کر دیں۔ اور اس طرح کشمیر کے راجہ کے حق میں پروپیگنڈا کا انتظام کیا۔ وہ اس قسم کا انتظام کر ہی رہی تھی کہ کسی مسلمان نے جس کے ہاتھ سے وہ تار گزری تھی ۔ تار ٹائپ کرکے مجھے بھیج دی۔ اور لکھا کہ یہ تار دیوان چمن لال کی طرف سے فلاں عورت کو گئی ہے مگر اس نے اپنا نام نہ لکھا۔ ہم سمجھ گئے کہ تار کی نقل بھیجنے والا تار کے محکمہ میں کام کرتا ہے اور یہ تار اس کے ہاتھ سے گزری ہے۔ میں نے اس وقت وہ نقل ولائت میں اپنے نمائندہ کو بھجوائی۔ اور اسے ہدایت کی کہ وہ اس بارے میں فوراً کارروائی کرے چنانچہ تار ملتے ہی ہمارے نمائندہ نے اس عورت کو بلایا۔ اور کہا مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ جب وہ عورت آئی تو ہمارے نمائندہ نے اسے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے دیوان چمن لال نے تمہیں یہاں ریاست کے پروپیگنڈا کے لئے مقرر کیا ہے اور تمہارے نام یہ تار آیا ہے میں یہ تار اخبارات میں چھپوانے لگا ہوں اور یہ لکھنے لگا ہوں کہ تم فلاں شخص کے لئے اجرت پر کام کر رہی ہو۔ اور اخبارات میں جو فلاں فلاں مضمون شائع ہوا ہے۔ وہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ انگلستان میں یہ سخت عیب سمجھا جاتا ہے کہ کوئی اخباری نمائندہ کسی سے پیسے لے کر کام کرے۔ جب اس نے یہ بات سنی تو وہ سخت گھبرائی۔ اور معذرت کرتے ہوئے کہنے لگی۔ کہ میں نے تو پہلے انکار کر دیا تھا۔ مگر خیر اب میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ اس سلسلہ میں کچھ نہیں لکھوں گی۔ چنانچہ اس نے اس کام کے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح یہ پروپیگنڈا ختم ہوا۔ پھر ایک غیر احمدی دوست نے مجھے لکھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس نے مجھے اپنا نام بھی لکھا تھا یا نہیں کہ ایک شخص جو سر کا خطاب رکھتا ہے اور ایک ریاست کا وزیر اور رائونڈ ٹیبل کانفرنس کا ممبر ہے۔ راجہ نے اسے اس بات کے لئے مقرر کیا ہے۔ کہ وہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے ممبروں میں ریاست کے لئے پروپیگنڈا کرے میں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو لکھا کہ آپ وہاں یہ چیز پیش کریں کہ فلاں رائونڈ ٹیبل کانفرنس کا ممبر مہاراجہ کشمیر کے حق میں پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ کیا گورنمنٹ نے یہاں لوگوں کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ دوسری جماعتوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کریں۔ انہوں نے وزیر ہند سے بات کی۔ چنانچہ سر سیموئیل ہو رجو بعد میں لارڈ ٹمپل وڈ ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس ممبر کو بلا کر کہا۔ کہ یہ نہایت بری بات ہے۔ تم یا تو وعدہ کرو۔ کہ یہ کام نہیں کرو گے۔ ورنہ وائسرائے ہند کو لکھوں گا۔ کہ وہ تمہاری ممبری منسوخ کر دیں۔ چنانچہ اس نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر کے بارہ میں پروپیگنڈا نہیں کرے گا<۔
)الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۵۴ء صفحہ ۴(
کشمیر کمیٹی کے جلسہ پر سنگباری
)ہفت روزہ >سلطنت< دہلی کا اداریہ )مورخہ ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۱ء۔ سید شفیع احمد صاحب دہلوی کے قلم سے(
یہ سن کر ہماری حیرت کی کوئی حد نہیں رہی کہ سیالکوٹ میں ۱۳/ ستمبر کو ساڑھے نو بجے شب کو کشمیر کمیٹی کا جلسہ میں جبکہ جناب صدر کشمیر کمیٹی کے تقریر کرنے کا وقت مقرر تھا اور جلسہ گاہ قلعہ کے وسیع میدان میں ہو رہا تھا تو لوگ آٹھ بجے سے ہی جوق در جوق وہاں جمع ہونے لگے جب تجویز حاضرین جلسہ حکیم عبدالحکیم صاحب جو سیالکوٹ کے بااثر شرفاء میں شمار کئے جاتے ہیں اور احمدی عقیدے کے آدمی نہیں ہیں صدر جلسہ قرار دیئے گئے اور اسٹیج پر تشریف لا کر صدارتی تقریر کرنے لگے تو اشرار کے ایک گروہ نے جو فتنہ و فساد کی غرض سے جلسہ گاہ میں بھیجا گیا تھا۔ سخت شور بپا کر دیا۔ یہ دیکھ کر صاحب صدر نے ایک مقامی حافظ صاحب کو قرآن کریم کی تلاوت کے لئے کھڑا کیا تایہ تحفظ اسلام کے مدعیان خاموش ہو جاویں۔ لیکن ان لوگوں کو خدا اور رسول~صل۱~ سے تعلق ہی کیا تھا انہیں تو اپنے آقایان ولی نعمت کے احکام کی تعمیل کرنی تھی۔ عدوان اسلام و المسلمین کے پٹھو جن کا مقصد ہی تحریک کو نقصان پہنچا کر اپنے آقائوں کا حق نمک ادا کرنا ہے۔ اس عظیم الشان جلسے میں ابتری پیدا کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شور و شر کرکے ہاو ہو کے نعرے بلند کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دھکیل کر بیٹھے ہوئے پرامن حاضرین پر پتھر پھینکنا شروع کر دیا تاکہ لوگ منتشر ہو جائیں۔ یہ دیکھ کر پولیس نے ان لوگوں کو امن کے ساتھ مجمع سے چند فٹ پیچھے ہٹا دیا جہاں کھڑے ہو کر انہوں نے بیہودہ بکواس کے ساتھ ساتھ جلسہ پر سنگ باری بھی شروع کر دی۔
صدر صاحب کشمیر کمیٹی بھی جلسہ گاہ میں تشریف لائے تھے۔ فتنہ پردازوں اور لفنگوں کی ٹولی کی شرارتیں اور خلاف انسانیت و شرافت حرکات دیکھ کر منتظمین جلسہ نے صدر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ چونکہ سخت خطرہ کی حالت پیدا ہو گئی ہے اور نقصان کا احتمال ہے اس لئے آپ تشریف نہ لائیں لیکن جناب صدر نے اس خطرہ کی ذرہ بھر بھی پروا نہ کی اور فوراً پتھروں کی اس شدید بارش کے دوران میں ہی اسٹیج پر تشریف لے آئے۔ چونکہ مفسد اور فتنہ پرداز ٹولی یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اپنی شرمناک حرکات سے جلسہ کو درہم برہم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور فتنہ و فساد کے نہ صرف اسباب جو اس نے پیدا کر رکھے ہیں بلکہ اپنی طرف سے فساد شروع بھی کر رکھا ہے اس سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس لئے جب اس نے دیکھا کہ اسے یہ مقصد حاصل نہیں ہوا اور وہ انسان جس کی تقریر سننے کے لئے ہزارہا انسان جمع ہوئے ہیں۔ مردانہ وار جلسہ میں آگیا ہے تو اس ٹولی نے اپنی کمینگی اور شرارت کا انتہائی مظاہرہ کرنا اور بہت زیادہ زور اور شدت کے ساتھ پتھر برسانا شروع کر دیئے چونکہ تمام احمدی اکٹھے اسٹیج کے اردگرد بیٹھے تھے اس لئے فتنہ پرداز ٹولی کا نشانہ وہی بنے۔ اس وقت احمدیوں نے جناب صدر کے اردگرد حلقہ بنالیا اور چھتریاں تان لیں مگر پتھروں کا اس قدر زور تھا کہ باوجود اس کے تین پتھر جناب صدر کے ہاتھوں پر آکر لگے اور احمدی تو شاید ہی کوئی ایسا ہو کہ جسے چوٹ نہ آئی ہو۔ پچیس تیس کے قریب احمدیوں کو تو شدید زخم آئے اور ان کے کپڑے خون سے تربتر ہو گئے۔ احمدیوں کو سخت چوٹیں آئیں اور سب سے زیادہ تکلیف وہ پہلو یہ تھا کہ ظالم اور سفاک فتنہ پرداز چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی سخت زخمی کر رہے تھے۔ لیکن باوجود اس کے ایک بھی احمدی نہ تو اپنی جگہ سے ہلا اور نہ کسی قسم کا اضطراب ظاہر کیا۔ تمام احمدی جناب صدر کے ساتھ نہایت مردانگی اور حوصلہ کے ساتھ پتھر کھا کر وقار اور استقلال کا ثبوت پیش کرتے رہے اور ہر لحظہ اللہ اکبر اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ پتھروں کا سارا زور جناب صدر کے اردگرد تھا کیونکہ بدباطن ٹولی آپ کو گزند پہنچانا چاہتی تھی اور آپ خطرہ کے منہ میں تھے۔ چنانچہ باوجود خدام کی جان نثارانہ حفاظت کے تین دفعہ آپ پر پتھر آکر پڑے۔ مگر جب اس خطرہ کو دیکھ کر منتظمین جلسہ نے آپ کو مشورہ دیا کہ یہاں سے ہٹ جانا چاہئے تو آپ نے نہایت جوش کے ساتھ اسے رد فرما دیا اور خطرہ کی کوئی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے تقریر کئے بغیر جانے سے انکار کر دیا اگرچہ ساری شرارت آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے کی گئی تھی لیکن آپ کی معجزانہ طور پر حفاظت ہوئی اور بدظن لفنگے سخت ناکام رہے۔
غرض جب پتھروں کی بارش پورے زور پر تھی تو احمدیوں کے کسی ایک بچہ نے بھی خطرہ کو محسوس کرکے اپنی جگہ سے ہلنے کی ضرورت نہ سمجھی تمام لوگ نہایت صبر و سکون کے ساتھ پتھر کھاتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے۔ یہ حالت ایک گھنٹہ سے زیادہ تک جاری رہی اس دوران میں ۲۵۔ ۳۰ احمدی ایسے شدید طور پر مجروح ہوئے جنہیں ہسپتال پہنچانا ضروری ہو گیا۔ چنانچہ انہیں موٹر میں بٹھا کر ہسپتال لے جانے کا انتظام کیا گیا اور مہذب دنیا میں یہ سن کر سیالکوٹ کے ان غنڈوں کی کمینگی پر ماتم کرے گی کہ ان مدعیان شجاعت و بسالت نے زخمیوں سے بھری ہوئی موٹر پر بھی پتھر برسائے اور اس کے شیشے وغیرہ توڑ ڈالے۔ اتنے لمبے عرصہ تک ہنگامہ خیزی اور فساد انگیزی کے باوجود پولیس کی گارد جو جلسہ سے قبل ہی وہاں آچکی تھی کہیں نظر نہ آتی تھی اور اس نے فتنہ پردازوں کی حد سے بڑھتی ہوئی شرارتیں دیکھنے کے باوجود انہیں روکنے کی قطعاً کوئی کوشش نہ کی۔ گویا اس کا وجود اور عدم وجود برابر تھا۔ اخبار الفضل کا بیان ہے کہ >ہمیں معتبر لوگوں نے بتایا ہے کہ بعض ذمہ دار پولیس افسر مفسدوں کی مدد کر رہے تھے اور بعض لوگوں کے متعلق معلوم ہوا ہے۔ انہوں نے خود اپنے کانوں سے سنا کہ بعض پولیس افسر اور سپاہی پتھر مارنے کی تحریک کر رہے تھے<۔
موجودہ الوقت پولیس کی اس مجرمانہ غفلت کو دیکھ کر لوکل کشمیر کمیٹی کے بعض معزز ارکان نے ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اس حالت سے اطلاع دی اور وہ دونوں صاحبان موٹر میں وہاں پہنچ گئے ان کے آتے ہی انسپکٹر ان ڈیوٹی بھی کہیں سے نکل کر ادھر ادھر گھومتے ہوئے نظر آنے لگے۔ افسران مذکور نے شرارت کرنے والوں کو ان کی شرمناک حرکات سے باز رکھنے کی دیانتدارانہ کوشش کی اور ادھر ادھر چکر لگا کر انہیں روکتے رہے لیکن چونکہ بعض کمینہ فطرت شریر درختوں کے اوپر چڑھے ہوئے تھے اور عورتوں کی طرح چھپ چھپ کر حملے کر رہے تھے۔ اس لئے ڈپٹی کمشنر وغیرہ کی آمد پر بھی ان کی شرارت کا سلسلہ بند نہ ہوا۔
یہ حالت دیکھ کر جناب صدر کشمیر کمیٹی نے مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اے سیکرٹری کشمیر کمیٹی سے ارشاد فرمایا کہ جاکر افسروں سے کہہ دیا جائے۔ اگر وہ ان لوگوں پر قابو نہیں پا سکتے تو ہمیں اجازت دیں۔ ہم خدا کے فضل سے چند منٹوں کے اندر اندر ان کے حواس درست کر سکتے ہیں احمدی جو اس موقعہ پر دو ڈھائی ہزار سے تعداد میں کم نہ تھے نہایت جوش کی حالت میں تھے اور اگر ان کے پیر و مرشد اور امام یعنی صدر کشمیر کمیٹی جناب مرزا محمود احمد صاحب کی مسلسل اور متواتر صبر و سکون کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے کی ہدایات نے ان کو جکڑا ہوا نہ ہوتا تو اس رات سیالکوٹ کی سرزمین کچھ اور ہی نظارہ دیکھتی جب احمدی چپ چاپ بیٹھ کر زخمی ہو رہے تھے اور اپنے بھائیوں کو لہو لہان دیکھ کر اپنے کم سن بچوں کو زخم کھا کر گرتے دیکھ کر اور اپنے زخمیوں پر لحظ بہ لحظ اضافہ پا کر بے مثال حوصلہ اور استقلال کا اظہار کر رہے تھے تو اشرار کو ان کی فتنہ پردازی سے روکنا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا وہ ہاتھ ہلائے بغیر زخمی ہونے پر ہر عزیز چیز سے عزیز تر مرزا محمود احمد صاحب کی حفاظت اور اپنے بچائو کے لئے اشرار کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دیتے اور اس طرح ہر تکلیف کو اپنے لئے راحت محسوس کرتے۔ لیکن انہوں نے اس موقع پر بھی اپنے امام کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ اور اپنی امن پسندی کا اپنے تازہ تازہ اور گرم گرم خون سے ثبوت پیش کرتے رہے۔
آخر جب شرارت حد سے بڑھ گئی اور باوجود اعلیٰ حکام کی موجودگی کے رکتی نظر نہ آئی تو مولانا درد صاحب جناب صدر کے ارشاد کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور اس سے گفتگو شروع کی۔ چونکہ زخمی متواتر اس کے پاس سے گز رہے تھے اور وہ یہی سمجھ چکا تھا کہ اس سے زیادہ احمدیوں کی صبر آزمائی کا امتحان کرنا خطرناک نتائج پیدا کرے گا اس لئے اس نے پانچ منٹ کے اندر اندر فتنہ پردازوں کو منتشر ہونے کا حکم دے دیا۔ یہ لوگ جس قدر جوش دکھا رہے تھے بغیر مار کھانے کے بلکہ بعض کے مارے جانے سے ہرگز نہیں ملیں گے۔ لیکن حیرانی کی کوئی حد نہ رہی۔ جب یہ دیکھا کہ جنگ کے بلند بانگ نعرے لگانے والے اور اپنی شجاعت و بسالت سے دنیا کو زیر و زبر کر دینے کے دعوے کرنے والے دم دبا کر ایسے بھاگے کہ مڑ کر پیچھے دیکھنے کی جرات بھی نہ کر سکے اور دو منٹ کے اندر اندر میدان ان شریروں سے بالکل صاف ہو گیا۔
اس کے بعد جناب صدر تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور ایسی زوردار اور موثر تقریر فرمائی کہ سب لوگ نہ صرف اپنے زخموں اور چوٹوں کو بھول گئے بلکہ نہایت لطف و سرور محسوس کرنے لگے۔ تقریر کے دوران میں سیالکوٹ کے شرفا اور نیک طینت لوگ آخر تک موجود رہے۔ تقریر کے دوران میں ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس موٹر میں ادھر ادھر گھومتے رہے اور اختتام پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے خود حاضر ہو کر جناب صدر سے اس ہنگامہ کے متعلق اظہار افسوس کیا اور سپرنٹنڈنٹ صاحب اپنی موٹر میں بیٹھ کر جناب صدر صاحب کی فرودگاہ تک ساتھ گئے۔
اشرار کی اس شرارت اور احمدیوں کے صبر و استقلال اپنے خلیفہ کے لئے جذبہ فدا کاری اور خطرناک سے خطرناک حالات میں اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل و اطاعت کے جوش سے سیالکوٹ کے شریف النفس اور سمجھدار لوگ بے حد متاثر ہوئے۔ چنانچہ ان میں سے کئی ایک نے خود حاضر ہو کر مبارکباد پیش کی اور فتنہ پردازوں کی شرارت کے متعلق اظہار نفرت کیا۔ ایک معزز مولوی صاحب نے جو مذہبی لحاظ سے جناب صدر سے شدید اختلاف رکھتے ہیں جلسہ کے اختتام پر فرودگاہ پر آکر جناب صدر کو مبارکباد دی اور کہا آپ لوگوں نے آج ہمیں رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقعہ بہم پہنچایا ہے۔
مذکورہ بالا واقعات کو مطالعہ کرنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ کشمیر کمیٹی مسلمانوں کے سربرآوردہ اصحاب اور لیڈروں نے بنائی تھی جن میں خواجہ حسن نظامی جو مذہبی رنگ میں جناب مرزا محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی اشد ترین مخالف ہیں اور سر محمد اقبال اور نواب سر ذوالفقار علی ایم ایل اے اور نواب ابراہیم علی خان صاحب آف کرنال وغیرہ وغیرہ کیا اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ اس کمیٹی کا صدر اگر مرزا صاحب ممدوح کو بنایا گیا تو بجائے کشمیری مسلمانوں کی مدد کرنے کے یہ احمدیت کا پروپیگنڈا شروع کردیں گے۔ مذکورہ بالا تمام سربرآور وہ مسلمانوں کو بخوبی علم تھا کہ اس کمیٹی کے کام میں کوئی بھی ایسا کام نہیں۔ کہ جس میں احمدیت اور غیر احمدیت کا سوال اٹھ سکے اور اس وقت تک کے حالات اور واقعات بھی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جناب صدر نے نہایت دیانتداری اور ایمان داری اور بڑے استقلال کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کا کام کیا مگر جاہل اور کندہ ناتراش خود غرض لیڈروں کو شیطان نے بہکا کر بھولے مسلمانوں کو اس اپنے محسن کے ساتھ یہ برتائو کرنے پر آمادہ کر دیا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا واقعات صحیح ہیں تو پولیس نے کس مصلحت سے مجرمانہ خاموش سے کام لیا؟ کیا سیالکوٹ میں حکومت کشمیر کے ایجنٹ اور گرگے موجود تھے؟ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر کیا ہوا۔ گورنمنٹ کے حکام کے اشارہ سے ہوا یا لیڈروں کے اشارہ سے ہوا۔ یا کشمیر کے ایماء سے ہوا۔ ہمارے خیال میں گورنمنٹ کو اور کشمیر کو ایک بیان شائع کرکے اپنی پوزیشن فوراً صاف کرنی چاہئے اور ہندوستان میں ہر مقام پر ہندو مسلمانوں کو اس حرکت پر نفرن کی آواز بلند کرنی چاہئے<۔
)رسالہ سلطنت دہلی ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۔ ۸(
‏tav.5.32
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل ششم(
مظلومین ریاست کو طبی اور مالی امداد
تحریک آزادی کے نتیجہ میں مظلوم نہتے اور مفلوک الحال کشمیریوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے خصوصاً وسط ۱۹۳۱ء سے تو ان کے لئے متعدد ایسے نئے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جن سے ان کی زندگی دوبھر ہو گئی اور قافیہ حیات تنگ ہو گیا۔ یہ نئے مسائل اصولی اعتبار سے تین تھے۔
۱۔
ڈوگرہ مظالم سے زخمی ہونے والوں کے علاج کا معاملہ۔
۲۔
اسیران کشمیر کے اہل و عیال کی مالی ضروریات اور ان کے جرمانوں کی ادائیگی۔
۳۔
تحریک آزادی دبانے کے لئے حکام نے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل خانوں میں ڈال دیا تھا اور ان پر سنگین الزامات عائد کرکے مقدمے چلا دیئے تھے ان کے لئے آئینی امداد کی ضرورت تھی۔
ان مسائل کے حل کے لئے بغیر تحریک کشمیر کا اندرون ریاست میں قائم و زندہ رہنا ممکن نہیں تھا لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے ذاتی اور اپنی جماعت اور ممبران کشمیر کمیٹی کے پورے وسائل و ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام امور کو طے کرنے میں اپنی پوری طاقت و قوت اور پورے وسائل و ذرائع صرف کر دیئے۔ زخمیوں کو طبی امداد پہنچانے کے لئے وفد بھیجے شہدا کے پسماندگان اور نظر بندوں کے اہل و عیال کی ہر ممکن نگہداشت اور خبرگیری کا وسیع انتظام کیا حتیٰ کہ قید ہونے والے لیڈروں کے جرمانے اپنے فنڈ سے ادا کئے۔ اس سلسلہ میں پہلا وفد چوہدری عصمت الل¶ہ خان صاحب بی ایس سی۔ ایل ایل بی اور متعدد ڈاکٹروں پر مشتمل تھا۔ جو ۱۴/ اگست ۱۹۳۱ء سے قبل ہی جموں و سرینگر بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد دو طبی وفد اور بھجوائے گئے ایک کے انچارج میجر ڈاکٹر شاہ نواز تھے اور دوسرے کے ڈاکٹر محمد منیر صاحب پہلا وفد میر پور گیا تھا اور دوسرا بھمبر۔
یہ تمام حقائق اخبار الفضل اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی طرف سے آنے والے مختلف پرائیویٹ خطوط سے واضح ہوتے ہیں۔ جو آج تک کشمیر کمیٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ مگر اس تفصیل میں جانا ہم مناسب نہیں سمجھتے البتہ ذیل میں بعض اہم آراء کا ذکر کر دینا مناسب ہو گا۔ ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں کا ایک اشتہار یہاں درج کیا جاتا ہے۔ جس سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مالی خدمات کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے<۔ مصیبت زدہ مسلمانان جموں کی اپیل دردمندان ملت کے نام<۔
برادران اسلام! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آپ پر روشن ہو چکا ہو گا کہ غریب مسلمانان کشمیر کو ابتدائی انسانی حقوق کے حصول میں آج تک کس طرح اپنا قیمتی خون پانی کی طرح بہانا پڑا اور یہ بھی واضح ہو چکا ہو گا کہ ۲/ نومبر کے المناک حادثہ میں جو ۴/ نومبر ۱۹۳۱ء تک جاری رہا۔ غریب مسلمانان جموں کو کن روح قرسا مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد بیسیویں ناکردہ گناہ مسلمانوں پر مقدمات دائر کر دیئے گئے ہیں چونکہ کوئی انجمن کافی سرمایہ کی عدم موجودگی میں مذکورہ واقعات سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی آپ کی حمیت اسلامی سے پرزور التجا کی جاتی ہے۔ کہ از راہ کرم حتی المقدور مالی امداد سے دریغ نہ فرمائیں ہماری امداد کی خاطر تمام سرمایہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے حساب میں فی الفور جمع ہونا چاہئے۔ کیونکہ کمیٹی مذکورہ کی طرف سے کئی ماہ سے باقاعدہ طور پر ایک معتدبہ رقم ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں کو ماہ بماہ پہنچ رہی ہے۔ اور اب ہمیں یہ معلوم کرکے بے حد افسوس ہوا ہے کہ سرمایہ کی کمی کی وجہ سے کمیٹی مذکورہ مقروض ہو چکی ہے۔ کیونکہ برادران ملت نے یہ خیال فرما کر کہ چونکہ اب کام ختم ہو چکا ہے روپیہ کی ضرورت نہیں رہی۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو مالی امداد بہم پہنچانا ترک فرما دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ضروریات روز افزوں ہیں ایسی حالت میں کمیٹی مذکورہ کا مقروض ہونا ہماری کم نصیبی کا باعث ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پریذیڈنٹ محمد امین شاہ۔ جنرل سیکرٹری شیخ غلام قادر ینگ مینز ایسوسی ایشن جموں<۔
اخبار >انقلاب< )۱۱/ مارچ ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔ >آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مسلمانان کشمیر کے شہدا پسماندگان اور زخمیوں کی امداد اور ماخوذین بلا کی قانونی اعانت میں جس قابل تعریف سرگرمی محنت اور ایثار کا ثبوت دیا ہے۔ اس کو مسلمانان کشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ اب تک اس کمیٹی کے بے شمار کارکن اندرون کشمیر مختلف خدمات میں مصروف ہیں۔ اور ہزارہا روپیہ مظلومین و ماخوذین کی امداد میں صرف کر رہے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں نے اب تک اس کمیٹی کی مالی امداد میں کافی سرگرمی کا اظہار نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمیٹی ہزار ہا روپیہ کی مقروض ہے۔ پچھلے دنوں >انقلاب< میں اس کمیٹی کے مداخل و مخارج بابت ماہ جنوری ۱۹۳۲ء شائع ہوئے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ صرف ایک مہینہ میں خرچ آگے سے بقدر بارہ تیرہ سو روپے کے زائد ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حالات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور قرض پر اتنا بڑا کام چل نہیں سکتا اور اگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو محض قلت سرمایہ کی وجہ سے اپنی خفیہ سرگرمیاں روک دینی پڑیں۔ تو یہ امر مسلمانان کشمیر کے لئے بے حد مصائب کا باعث ہو گا۔ اور مسلمانان ہند بھی یہ دعویٰ نہ کر سکیں گے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں سے عملی ہمدردی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ کشمیر کمیٹی کے مختلف شعبے ہیں بہت سا روپیہ پروپیگنڈا پر صرف ہوتا ہے اور بہت سا روپیہ امداد مظلومین اور اعانت ماخوذین اور مصارف مقدمات اور قیام دفاتر کے سلسلے میں خرچ کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے تقریباً تمام قابل ذکر مقامات پر کشمیر کمیٹی کے کارکن مصروف عمل ہیں۔ اور نہایت امن و امان خاموشی ۔۔۔۔۔۔ اور آئین کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ کمیٹی کی مالی امداد میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں۔ اور یقین رکھیں کہ ان کا ایک ایک پیسہ نہایت جائز مصارف پر خرچ ہوگا<۔۷۷
اخبار >انقلاب< میں ہی مسلمانان راجوری کا مندرجہ ذیل مکتوب مع ادارتی نوٹ شائع ہوا۔ >جب سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے اس نے نہایت اخلاص سے مسلمانان کشمیر کی ہر ممکن طریق سے امداد کی ہے اور سینکٹروں تباہ حال مسلمانوں کو ہلاکت سے بچا لیا ہے۔ اگر اس کے راستے میں بعض لوگ رکاوٹ نہ ڈالتے تو مسلمانان نے اپنے حقوق حاصل کر لئے ہوتے ہمیں افسوس ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی کو مالی امداد دینے میں بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ حقیقی اور ٹھوس کام کشمیر کمیٹی ہی کر رہی ہے۔ چنانچہ اس بات کے ثبوت سے ہم اس وقت مسلمانان راجوری کی ایک مراسلت درج کرتے ہیں۔ جس میں انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس قسم کے بیسویں مراسلات ہم کو کشمیر کے مختلف علاقوں سے موصول ہو چکے ہیں جن سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کا سچے دل سے اعتراف کیا گیا ہے۔ مسلمانان راجوری کا مراسلہ یہ ہے۔ ہم قصبہ مسلمانان راجوری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی ایک کمیٹی ہے جو ہر گلی کوچہ میں غریب اور ناتوان مسلمانوں کی خبر لے رہی ہے۔ ہم ایک ایسے ویران جنگل کے رہنے والے ہیں۔ جن کا خبر گیراں تحت الثریٰ سے لوح محفوظ تک سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں۔ مگر اس کمیٹی نے ہماری دستگیری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اور ہم پر بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ کمیٹی کی نظر نہایت باریک ہے ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے زمین و آسمان کے خالق اور دنیا و مافیہا کے ناظم ہماری اس ممد و معاون کمیٹی کو جو آج آڑے وقت میں ہمارے کام آرہی ہے مضبوط کر` خصوصاً صدر صاحب آل انڈیا کمیٹی کے احسانات کو تمام فرقوں کے مسلمانوں کسی صورت میں بھی بھول نہیں سکتے۔ ہمارے بہت سے مصائب کا اس کمیٹی کی مہربانی سے کچھ نہ کچھ ازالہ ہو گیا ہے۔ اور ابھی بہت سی مشکلات موجود ہیں۔ اگر یہ کمیٹی اپنی پوری کوشش جاری رکھنے میں سرگرم رہی۔ تو انشاء اللہ ایک نہ ایک دن ان مصائب سے ہم نجات حاصل کر لیں گے<۔۷۸
سرینگر کے معزز مسلمانوں نے >انقلاب< )لاہور( میں کشمیر کمیٹی کی شاندار خدمات پر ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے لکھا۔ >برادران اسلام! ہم تمام مسلمانان کشمیر اس وقت مصائب کی چکی میں پیسے جارہے ہیں زمین اور آسمان پر تنگ ہو رہا ہے کچھ ہم میں سے شہید ہوئے۔ بہت سے زخمی ہوئے بہت سے مقدمات میں گرفتار ہیں۔ کچھ بھوکے مر رہے ہیں اور بہت سے پریشان ہیں۔
اس مصیبت کے وقت میں ہم چاہتے ہیں کہ کوئی خدا کا نیک بندہ ہماری امداد کرے خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی عیسائی ہو یا ہندو۔ کیونکہ اس وقت مذہب کا سوال نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ محض انسانی ہمدردی کی بناء پر کوئی ہماری امداد کرتا ہے یا نہیں۔ ان حالات میں ہم تمام مسلمانان کشمیر جنات پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکرگزار ہیں۔ کہ انہوں نے ہمارے دوسرے رہبران قوم کے ساتھ شامل ہو کر بہت ہی بلند کام کیا ہے۔ اور جو ان تھک کوششیں وہ ہم مظلومین کی امداد کے لئے کر رہے ہیں اس کو بیان کرنے سے ہماری ناچیز زبانیں قاصر ہیں۔ ہم کو جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے عقائد اور اختلافی خیالات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہم ان کے اختلافی خیالات کے ایسے ہی مخالف ہیں۔ جیسے کہ خواجہ حسن نظامی صاحب و دیگر عمائدین دین متین مخالف ہیں لیکن قومیت کے سوال میں عقائد کو چھوڑ کر ان کا کام نہایت ہی قابل تعریف ہے۔ پس ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مصیبت کے وقت غدار اور قوم فروش اخبار ۔۔۔۔۔ یہ کونسی خدمت انجام دے رہا ہے۔ کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے سارا اخبار قادیانیت کے جھگڑے میں سیاہ کرکے ہماری مزید پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ نے کشمیر میں آکر اور سرکاری مہمان بن کر اپنی عاقبت کس طرح خراب کی ہے۔ اب ہمارے بڑے خیر خواہ بن کر آریہ اخبارات کی کس طرح حمایت شروع کر رکھی ہے۔ اس لئے اب ہم مسلمانان کشمیر مجبور ہو کر اس تفرقہ پرداز اور مسلم کش اخبار اور اس کے حواریین پر نفرت کرتے ہیں۔ اور مسلمانان ہند سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اخبار مذکورہ پر دبائو ڈال کر اسے حرکات ناشائستہ سے روکیں۔ ورنہ ہم لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہماری پستی اور ذلت کے ایسے نام نہاد اخبار بھی ذمہ دار ہیں۔ الراقمان۔ خواجہ احمد اللہ صاحب جنرل شال مرچنٹ سرینگر` خواجہ غلام محمد صاحب شال مرچنٹ سرینگر` خواجہ غلام محمد صاحب مرچنٹ سرینگر` مسٹر غلام نبی سرینگر` فقیر سالک صاحب ہمدانی` سید عبدالغفور شاہ صاحب` مفتی ضیاء الدین صاحب سرینگر` حکیم عبدالحی صاحب سرینگر` محمد عثمان صاحب بٹ قصبہ ترال` غلام محمد صاحب ترال` خواجہ عبدالرزاق صاحب ترال` حکیم غلام علی صاحب سرینگر` مسٹر غلام محمد صاحب بی۔ اے۔
مندرجہ بالا احباب کی طرف سے مجھے خط ہذا آپ کی خدمت میں روانہ کرنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ خادم مفتی ضیاء الدین عفی عنہ از نواکدل سرینگر۔ انقلاب ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء<۔۷۹
مفتی مولوی عتیق اللہ صاحب کشمیری )پونچھ( نے لکھا۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جس خلوص اور ہمدردی کے ساتھ مظلوم مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کی مالی` جانی` قانونی امداد دی` اس کے لئے ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ زبان سپاس ہے۔ ہم لوگ اس کمیٹی کی بے لوث مالی امداد کے تازیست ممنون رہیں گے اس کمیٹی نے شہدا کے پسماندگان کا خیال رکھا۔ یتامیٰ و ایامیٰ کی پرورش کی۔ محبوسین کے پسماندگان کو مالی امداد دی۔ ماخوذین کو قانونی امداد دی۔ کارکنوں کو گرانقدر مشورے دیئے۔ جنگلوں میں پہاڑوں میں جا کر مظلومین کی امداد کی۔ ماخوذین کی اپیلیں دائر کیں اور ان کے مقدمات کی پیروی کی۔ قابل ترین قانونی مشیر بہم پہنچائے۔ ہندوستان اور بیرون ہند میں ہماری مظلومیت ظاہر کرنے کی جان توڑ کوشش کی۔ ہماری آواز کو حکام بالا تک پہنچایا۔ ہماری تسلی اور تسکین کی خاطر اشتہارات اور ٹریکٹ شائع کئے ہر وقت قابل اور موزون والنٹیر دیئے دنیائے اسلام کو ہمارے حالات سے آگاہ کرکے ہمدردی پر آمادہ کیا۔ اخبارات کے ذریعہ سے ہماری مظلومیت کو ظاہر کیا<۔۸۰
جناب سید حبیب صاحب مدیر >سیاست< لاہور نے لکھا۔ >مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے صرف دو جماعتیں پیدا ہوئیں۔ ایک کشمیر کمیٹی دوسری احرار۔ تیسری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بن سکی۔ احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا۔ اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامیٰ` مظلومین اور بیوائوں کے نام سے روپیہ وصول کرکے احرار شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس جرم کا مرتکب نہ ہوا ہو۔ کشمیر کمیٹی نے انہیں دعوت اتحاد عمل دی۔ مگر اس شرط پر کہ کثرت رائے سے کام ہو اور حساب باقاعدہ رکھا جائے۔ انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لہذا میرے لئے سوائے ازیں چارہ نہ تھا کہ میں کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیتا۔ اور میں یہ بہ بانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی` محنت` ہمت جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں ان کی عزت کرتا ہوں<۔۸۱
نواب میجر سر محمد خان زمان خاں کے۔ سی۔ آئی۔ ای فرمانروائے ریاست امب و ریاست ترنول )سابق صوبہ سرحد( نے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء کو ایک مکتوب میں لکھا۔
>ہرگاہ از مخلصین باعتماد خود حالات ہمدردی عامہ مسلمین در ذات والا صفات آنجناب شنیدہ ام` دور اخبارات نیز ظہور ہمدردی عمل در اوقات فتنہ ارتداد کہ معاملہ مذہبی بود و مصیبت مسلمانان کشمیر کہ معاملہ سیاسی بود بار بار از نظر گزشتہ و اقوال مخلصین خود کہ وابستگان امان آں ذیشان مے باشند بہ صداقت و تحقیق ذہن نشین شدہ اند<۔
یعنی میں نے اپنے قابل اعتماد مخلصین سے آنجناب کی ذات والا صفات کے عام مسلمانوں سے ہمدری کے حالات سنے ہیں۔ اور اخبارات میں بھی فتنہ ارتداد کے اوقات میں جو ایک مذہبی معاملہ تھا اور مسلمانان کشمیر کی مصیبت میں جو ایک سیاسی معاملہ تھا آپ کی عملی ہمدردی کا ظہور بار بار نظر سے گزرا ہے اور اپنے مخلصین کے اقوال جو آپ کی امان ذی شان سے وابستہ ہیں صحیح اور ٹھیک ٹھیک ذہن نشین ہوئے ہیں۔
یہ تو نہایت اختصار کے ساتھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طبی اور مالی امداد کا تذکرہ ہے۔ جہاں تک قانونی امداد کا تعلق ہے کمیٹی کے زیر انتظام جماعت احمدیہ کے قابل اور چوٹی کے وکلاء نے ایسے بے نظیر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ کہ تاریخ آزادی کشمیر میں ہمیشہ سنہری لفظوں سے یاد کئے جائیں گے۔ لہذا اس پہلو پر ہم آئندہ ایک فصل میں بالتفصیل روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
اہل کشمیر تک مالی امداد پہنچانا فی ذاتہ ایک کٹھن مرحلہ تھا جس کی مشکلات کا اندازہ جناب میر غلام احمد صاحب کشفی کے اس واقعہ سے لگ سکتا ہے۔ کہ تحریک کشمیر کے دوران مظلومین کشمیر کی مالی امداد کے سلسلے میں آپ ایک بار قادیان سے پانچ سو روپیہ دے کر جموں بھیجے گئے جہاں میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ کشمیر کمیٹی کی طرف سے مقدمات کی پیروی میں مصروف تھے۔ میر غلام احمد صاحب نے پانچ سو روپے اور اس کے ساتھ ایک چٹھی اپنے بوٹ کے تلوے میں سی لی راستوں میں تلاشیاں لی جاتی تھیں آپ رات پھر جموں چھائونی میں رہے۔ اور صبح شہر میں داخل ہو کر دفتر کشمیر کمیٹی )واقعہ اردو بازار( میں پہنچے اور بوٹ کا تلوا کھول کر نقدی مع خط میر محمد بخش صاحب کے حوالہ کر دی۔۸۲]ydob [tag
)فصل ہفتم(
معاہدہ صلح اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مخلصانہ مشورہ
حکام کشمیر نے مولانا ابوالکلام صاحب آزاد اور سر تیج بہادر سپرو کو اس لئے کشمیر بلایا۔ تا ان کے اثر سے تحریک ختم کی جا سکے۔ چنانچہ جیسا کہ مسٹر پریم ناتھ براز نے اپنی کتاب (INSIDE KASHMIR) کے صفحہ ۱۴۳ پر لکھا ہے کہ جناب آزاد نے کشمیری مسلم لیڈروں سے کہا کہ وہ اپنے فرقہ وارانہ معاملات کو سیاست سے نہ الجھائیں بالفاظ دیگر ایجی ٹیشن بند کرکے مہاراجہ کی ذات پر اعتماد کریں۔ اس پر اخبار >کشمیری< لاہور )۷/ اگست ۱۹۳۱ء( نے لکھا کہ >اگر مولانا ابوالکلام آزاد نے قوم کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے گفتگو کئے بغیر اس معاملہ میں دخل نہ دیں<۔ مگر افسوس کہ سرینگر کے خود مسلمان لیڈر ان کی باتوں سے متاثر ہو گئے اور وزیراعظم کشمیر ہری کشن کول کے دوست نواب سر مہر شاہ کے کہنے پر حکومت کشمیر سے ایک عارضی صلح نامہ کر لیا۔ اس معاہدہ کی مندرجہ ذیل شرائط تھیں۔
۱۔
موجودہ ایجی ٹیشن بالکل بند کر دی جائے گی۔ مساجد یا دوسرے مذہبی مقام پر ایسے پبلک جلسے منعقد نہ کئے جائیں گے جن سے حکومت کے خلاف یا فرقہ وارانہ منافرت پیدا ہوتی ہو۔
۲۔
مساجد اور زیارت گاہوں میں عام اعلان کر دیا جائے گا کہ مسلمان بیرونی شورش سے متاثر نہ ہوں اور ہزہائینس کے جن سے انہیں اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کی امید ہے وفادار رہیں گے۔
۳۔
بیرونی ہمدردوں سے درخواست کی جائے گی کہ مطالبات کے متعلق آخری تصفیہ تک کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جس سے اس فضا میں جس کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے ضرورت ہے کسی قسم کا تکدر پیدا ہو۔
۴۔
اس سمجھوتہ سے رائج الوقت قوانین میں کوئی مداخلت نہ ہو گی۔
۵۔
اس سمجھوتہ کے لئے وزیراعظم کی مشفقانہ اور ہمدردانہ امداد کے لئے ہم ان کے ممنون ہیں۔ مطالبات کے متعلق ان سے پوری توجہ کی امید رکھتے ہیں۔ )نوٹ( باوجود ہزہائینس کی طرف سے ہماری ۵/ اگست ۱۹۳۱ء کی عرضداشت کا جواب اطمینان بخش نہیں۔ ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور ہزہائینس سے وفاداری کی وجہ سے مشروط صلح کے لئے تیار ہیں۔
اس کے مقابل حکومت نے وعدہ کیا کہ )۱( >قصبات اور دیہات میں مسلمان رہنمائوں کی طرف سے اس اعلان عام کے بعد کہ ایجی ٹیشن بند کر دی گئی ہے۔ وہ ان تمام ذرائع کو ترک کر دے گی جو گزشتہ دو ماہ سے اس کی طرف سے اختیار کئے گئے ہیں۔ )۲( وہ ملزم جن کا فسادات کے الزام میں عدالت میں چالان کیا جا چکا ہے ضمانت پر رہا کر دیئے جائیں گے۔ اور تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے تک ان کے مقدمات کی سماعت ملتوی رہے گی۔ )۳( ان سرکاری ملازمین کے متعلق جنہیں ایجی ٹیشن میں حصہ لینے کے الزام میں موقوف` معطل یا تنزل کر دیا گیا ہے۔ اس وعدہ پر کہ وہ آئندہ ایسی باتوں میں حصہ نہیں لیں گے ان کے معاملہ میں دوبارہ غور کیا جائے گا۔ اور انہیں پھر وہی حقوق دیئے جائیں گے<۔۸۳
اس معاہدہ کا اعلان جامع مسجد سرینگر میں ۲۸/ اگست ۱۹۳۱ء کو جمعہ کے اجتماع میں کیا گیا اور غیور مسلمانوں میں شدید نفرت کی لہر پیدا ہو گئی۔ حتیٰ کہ پبلک نے خود شیخ محمد عبداللہ صاحب پر حملہ کر دیا۔
جوہری کشن کول وزیراعظم کشمیر کی تمنائے دلی کے عین مطابق تھا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے معزز لیڈروں کو شروع سے محض آوارہ مزاج نوجوان کہہ کر سب و شتم کرتے آرہے تھے۔۸۴
اس درد انگیز حادثہ کی تفصیلات ہدایت اللہ صاحب )یعنی چوہدری عصمت اللہ صاحب ایڈووکیٹ( نے ۲۹/ اگست ۱۹۳۱ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درج ذیل الفاظ میں بھجوائیں۔
>یہ صلح یا عارضی صلح ایک عجیب ہیجان پیدا کرنے کا باعث ہوئی ہے۔ شہر میں ایک کشمیری حیران اور پریشان نظر آتا تھا۔ بعض کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ اس کے متعلق علم ہونے پر رونے لگے۔ بعض نے صدمہ کی وجہ سے کھانا نہ کھایا اور زیادہ آپے سے باہر ہونے والے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم دس نمائندوں کو قتل کر دیں گے۔ اور اس کے بعد خود بھی خودکشی کر لیں گے یہاں تک تو ہوا کہ بعض نے )شیخ( محمد عبداللہ کو گریبان سے پکڑا۔ اور مارنا چاہا۔ بعض نے جبکہ وہ موٹر پر جارہا تھا اس پر پتھر برسائے اور بعض نے فحش گالیاں دیں۔ اور ہر ایک نظر آرہا تھا کہ وہ اپنی قسمت کو رو رہا ہے۔ اس تمام کیفیت کی وجہ کیا تھی۔ وہ صرف یہی تھی کہ شہر میں مشہور ہو گیا کہ اس عارضی صلح میں نمائندوں نے کشمیری مسلمانوں کو فروخت کر دیا ہے۔ میرے پاس بھی میرے محلہ میں سے بعض آئے اور کہنے لگے کہ آج تک تو ہم کشمیری پنڈتوں سے محمد عبداللہ کے لئے لڑ پڑتے تھے۔ لیکن کل اگر ہم ہی سٹیج پر بے|عزتی کریں گے۔ تو کشمیری پنڈت ہم کو طعنہ نہ دیں گے؟ کہ ہم جو کہہ رہے تھے کہ محمد عبداللہ تم کو دھوکہ دے جائے گا۔ کیا وہ درست نہ نکلا؟ میں نے ہر ایک کو اطمینان دینے کی کوشش کی اور جس جس سے میری گفتگو ہوئی۔ وہ تسلی کے ساتھ واپس گیا۔ شہر کے ہر ایک حصہ میں نمائندوں کے خلاف غیظ و غضب نظر آتا تھا۔ اور یہی ہر ایک کہتا تھا کہ کل ہم ان نمائندوں کو بے عزت کریں گے۔ اور سٹیج پر نہیں آنے دیں گے<۔
جب حالات اس نہج تک آپہنچے تو شیر کشمیر جناب شیخ محمد عبداللہ صاحب نے ان سے کہا کہ آپ لوگ پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے پوچھ لیں اگر وہ ہمارے اس عارضی صلح نامہ کو ایسا ہی خطرناک قرار دیں تو آپ لوگوں کی جو مرضی ہو کریں ورنہ آپ ان کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ چنانچہ شیخ محمد عبداللہ صاحب اور دوسرے کشمیری زعماء کی طرف سے معاملہ صدر صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو بھجوایا گیا۔ جس پر صدر کشمیر کمیٹی )حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز( نے >ریاست کشمیر و مسلم نمائندگان کے درمیان شرائط صلح پر ایک نظر< کے عنوان سے کشمیر میں ایک اشتہار شائع کیا۸۵ جس میں صلح نامہ کے خطرناک نقائص کی نشاندہی کرنے کے بعد تحریر فرمایا۔
>مسلمانوں کے نمائندوں نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی پوری طرح اتباع کریں کیونکہ مسلمان دھوکہ باز نہیں ہوتا۔ اور جو قوم اپنے لیڈر کی خود تذلیل کرتی ہے۔ وہ کبھی عزت نہیں پاتی۔ نیز مسلمانوں میں قحط الرجال ہے۔ اور کام کرنے کے قابل آدمی تھوڑے ہیں پس انہی سے کام لیا جا سکتا ہے اور لینا چاہئے۔ پس یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر کوئی جوشیلا شخص جموں اور کشمیر کے لیڈروں کی مخالفت شروع کر دے۔ انہوں نے دیانتداری سے کام کیا ہے اور ہمیں ان کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہئے۔ اور ہنستے ہوئے ان کی غلطی کو قبول کرنا چاہئے پھر اس کے ضرر سے بچنے کا بہترین طریق سوچنا چاہئے۔
وہ طریق میرے نزدیک یہ ہے کہ وقت کے تعین سے اس معاہدہ کے ضرر کو محدود کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا جائے۔ میرے نزدیک اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ دستخط کرنے والے نمائندگان ریاست کو ایک دوسری یادداشت یہ بھجوا دیں کہ چونکہ عارضی صلح کا وقت کوئی مقرر نہیں اور یہ اصول کے خلاف ہے اس فروگذاشت کا علاج ہونا چاہئے۔ پس ہم لوگ یہ تحریر کرتے ہیں کہ ایک ماہ تک اس کی میعاد ہوگی۔ اگر ایک ماہ کے اندر مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ریاست نے کوئی فیصلہ کر دیا یا کم سے کم جس طرح انگریزی حکومت نے ہندوستان کے حقوق کے متعلق ایک اصولی اعلان کر دیا ہے کوئی قابل تسلی اعلان کر دیا تب اس عارضی صلح کا زمانہ یا لمبا کر دیا جائے گا یا اسے مستقل صلح کی شکل میں بدل دیا جائے گا۔ لیکن اگر ایک ماہ کے عرصہ میں ریاست نے رعایا کو ابتدائی انسانی حقوق نہ دیئے یا ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کیا۔ تو یہ صلح ختم سمجھی جائے گی۔ اور دونوں فریق اپنی اپنی جگہ پر آزاد ہوں گے<۔۸۶
اس اشتہار کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل کشمیر میں عارضی سمجھوتہ کے خلاف جوش دب گیا۔ اور ان کو تسلی ہو گئی۔ کہ اس کی خرابی کو سنبھال لیا جائے گا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ایک تار بھی قادیان پہنچا۔ کہ >حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت نے عارضی صلح کے شرائط پر جو تبصرہ فرمایا ہے اسے یہاں کی پبلک نے بہت پسند کیا ہے<۔۸۷`۸۸ اس تبصرہ کا مزید نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانان کشمیر نے فیصلہ کر لیا ہے وہ معاہدہ لمبا نہیں ہونے دیں گے یا حکومت ان کو حقوق دینے کا فیصلہ کرے گی۔ یا صلح نامہ ختم کر دیا جائے گا۔
)فصل ہشتم(
حکام ریاست اور ہندوئوں کا شر انگیز منصوبہ` جماعت احمدیہ کے خلاف مہم` آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اجلاس سیالکوٹ اور ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام
جس روز سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی معرض وجود میں آئی مہاراجہ کشمیر` ریاستی حکام اور ہندوئوں کی تمام کوششیں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو ختم کرنے اور صدر کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے وقف ہو گئیں اور ہندو پریس نے پرزور پراپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ کشمیر ایجی ٹیشن قادیانی سازش کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ بطور نمونہ چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔ ہندو اخبار >ملاپ< )لاہور( نے لکھا۔
>قادیان کے خلیفہ جو خالص مذہبی آدمی بنتے ہیں وہ بھی کشمیر کے مسلمانوں کے گلے سے طوق غلامی اتارنے کے لئے لنگر لنگوٹے کس لیتے ہیں۔ آج سے برسوں پہلے کشمیر کے گائوں گائوں میں قادیانیوں نے اپنے واعظ بھیج دیئے جن کا کام مسلمانوں کو احمدی بنانے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ وہ حکومت کشمیر کے خلاف لوگوں کو بھڑکائیں اور بغاوت تیار کریں<۔
>قادیانی سازش کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کے امن پسند مسلمان اب شورش اور شرارت اور بغاوت کے شرارے بن چکے ہیں اب کشمیری مسلمانوں کو وہ پہلے جیسا صلح جو` میانہ رو اور حلیم الطبع انسان نہ سمجھو بلکہ قادیانی روپیہ نے قادیانی پراپیگنڈا نے اور قادیانی گدی کے خلیفہ کی حرص و آز نے ان کشمیری مسلمانوں کو مرنے مارنے پر تیار کر دیا ہے<۔۸۹`۹۰
>مرزا قادیانی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اسی غرض سے قائم کی ہے۔ تاکہ کشمیر کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس غرض کے لئے انہوں نے کشمیر کے گائوں گائوں میں پراپیگنڈا کیا ۔۔۔۔۔ انہیں روپیہ بھیجا ان کے لئے وکیل بھیجے شورش پیدا کرنے والے واعظ بھیجے۔ شملہ میں اعلیٰ افسروں کے ساتھ ساز باز کرتا رہا<۔ )ملاپ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵(
>کشمیر میں قادیانی شرارت کی آگ لگائی واعظ گائوں گائوں گھسنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ چھپوائے گئے اردو میں بھی اور کشمیری زبان میں بھی اور انہیں ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا گیا۔ مزید برآں روپیہ بھی بانٹا گیا<۔ )ملاپ ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵(
اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ہندو پریس نے ایک طرف اہل کشمیر کو ڈرایا کہ قادیانی سازش بے نقاب ہو گئی ہے اب وہ اپنی تحریک سے ہاتھ کھینچ لیں۔ چنانچہ لکھا۔ >کشمیری مسلمانوں کو بھی دیکھنا چاہئے کہ وہ کن ٹھگوں کے پنجوں میں پھنس گئے ہیں۔ اور کس طرح اپنے مہاراجہ کے خلاف ایک بھاری سازش کے کل پرزے بنے ہوئے ہیں۔ یہ حالات ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں کشمیری مسلمانوں کو اب پرائشچت )کفارہ۔ ناقل( کے طور پر اعلان کرنا چاہئے کہ وہ کسی قسم کے حقوق کا مطالبہ فی الحال نہیں کرتے جس حالت میں وہ اب ہیں اسی حالت میں رہیں گے<۔ )ملاپ ۱۴/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۵(۹۱
دوسری طرف حکومت کو توجہ دلائی >کہ حیرانی ہے کہ ریاست کشمیر کے خلاف شملہ میں بیٹھ کر جو سازش کی جارہی ہے )کشمیر کمیٹی کے قیام کی طرف اشارہ ہے۔ ناقل( یہ اسی پروگرام کی ایک مد ہے۔ حیرانی ہے کہ ریاست کشمیر کے خلاف اسی حکومت کے پایہ تخت میں بیٹھ کر سازش کی جارہی ہے جس حکومت کے لئے ریاست کشمیر کے حکمرانوں سے یہ معاہدہ کررکھا ہے کہ وہ بیرونی دشمنوں سے کشمیر کی حفاظت کرے گی<۔ )ملاپ ۱۱۔ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۵(
یہ بھی لکھا۔ >کشمیر کے چاروں طرف مسلمان حکومتیں ہیں۔ کشمیر پر اگر اسلامی جھنڈا لہرایا تو گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہو گا<۔ )ملاپ ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۶(۹۲
تیسری طرف ہندوئوں کو اشتعال دلایا کہ۔ اگر کشمیر میں مسلمان غالب ہو گئے اور کشمیری ہندوئوں کو نقصان پہنچا تو ہندوستان کے ۲۸ کروڑ ہندوئوں کی حالت خطرے میں ہو جائے گی۔ ہندوئوں کو مٹانے کی تیاری کشمیر میں ہو چکی ہے۔ اب پنجاب کے ہندوئوں کو جاگنا چاہئے۔ ورنہ ان کی حالت کشمیر جیسی ہو جائے گی<۔ )ملاپ ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۴(
اسی طرح لکھا۔ )ہندوستان کے ہندو( >اگر اس ہندو ریاست کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں آرام طلبی کو چھوڑ کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ ورنہ بعد میں جموں و کشمیر کے ہندئووں کے لئے آنسو بہانا بے سود ہو گا۔ وقت ہے جاگو` سنبھلو اور راکھشوں )ناپاک جانوروں یعنی مسلمانوں۔ ناقل( کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہندو ریاست کو بچائو<۔ )ملاپ ۱۴/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵(
چوتھی طرف حکومت کشمیر کو توجہ دلاتے ہوئے کہا۔ >جہاں تک ہندو ریاست کے استحکام کا معاملہ ہے خطرہ کی کوئی بات نہیں اس شرارت کا منبع اس قدر ریاست کے اندر نہیں جتنا کہ برٹش پنجاب میں ہے یہاں کے قادیانی ہندو دھرم` قوم پرستی` کانگریس یا گاندھی کے سخت دشمن ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ احرار کی سرگرمیوں کا کوئی نوٹس نہیں لینا چاہئے ان کی ایجی ٹیشن خالی خول ہے<۔۹۳ )ملاپ ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۶(
ان حالات میں ہندو قوم کی طرف سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی` اس کے صدر محترم امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے خلاف منصوبہ بندی خلاف توقع نہیں تھی۔ چنانچہ اس ضمن میں کشمیر حکومت کے در پردہ عزائم کا پہلی بار انکشاف اس وقت ہوا جبکہ ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کا مندرجہ ذیل تار سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نام پہنچا۔
‏ ARRIVED DEPUTATION AHRAR 1931 ۔SEP 8 QADIYAN COMMITTEE KASHMIR SECRETARY BADLY DEPUTATION YOUR OPERATE CO- WE SHOULD ۔GUESTS STATE AS STAYING HERE۹۴۔ABDULLAH ۔NEEDED
یعنی احرار کا وفد یہاں پہنچ گیا ہے۔ اور سرکاری مہمان کی حیثیت سے ٹھہرا ہوا ہے۔ کیا ہم اس سے تعاون کریں آپ کے وفد کی اشد ضرورت ہے۔
احراری وفد کے ممتاز رکن مفکر احرار جناب چوہدری افضل حق صاحب یہ بتاتے ہوئے کہ جموں کے گورنر نے وزیراعظم )ہری کشن کول( کو تار دے کر اس وفد کے داخلہ کی اجازت حاصل کر لی تھی داخلہ کشمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ >ہم سرینگر پہنچے تو فضا قدرے مکدر تھی۔ لوگ غریب جماعت کے غریب افراد کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ تنگ حال لوگ دوسروں کی تنگ حالی میں کیا مدد کریں گے بس آئے ہیں ریاستی خزانے سے جیبیں بھر کے لوٹ جائیں گے ہمارے ریاست میں آنے کا مقصد ہمارے بعض کانگرسی احباب نے لوگوں کو یہی سمجھایا اور لوگوں نے یونہی سمجھا ۔۔۔۔۔ غرض ایسے ماحول میں ہم سرینگر پہنچے حکومت کو ابتداء سے اصرار تھا کہ ہم ریاستی مہمان بنیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے آرام کا ہماری ضرورت سے زیادہ خیال رکھا۔ خورد و نوش کا سامان ریاست کی شان کے مطابق کیا<۔۹۵ ان >شاہی مہمانوں< سے حکام کشمیر کی کیا گفتگو ہوئی یہ تو معلوم نہیں البتہ اس کے بعد عملاً ہوا یہ کہ چند روز بعد ۱۲۔ ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو سیالکوٹ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی۔۹۶ اس اجلاس میں عارضی معاہدہ کی روشنی میں کشمیر کی صورت حال پر غور کیا گیا اور مسلمانوں کو قربانی کے لئے تیار کرتے ہوئے خاص طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانان کشمیر حتی الامکان بہت جلد اپنے مطالبات ریاست کشمیر کے سامنے پیش کر دیں۔ اور اسے آگاہ کر دیں کہ اگر ان مطالبات پر مناسب غور کرنے کے بعد ایک مہینہ کے اندر تسلی بخش فیصلہ نہ کیا گیا تو مفاہمت کالعدم سمجھی جائے گی۔۹۷ کمیٹی کے سب فیصلوں کی تائید بعد کو آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس نے اپنے ایک خصوصی اجلاس میں کرتے ہوئے کمیٹی کو اپنی امداد کا پورا یقین دلایا۔۹۸`۹۹
کشمیر کمیٹی کا اجلاس سیالکوٹ بخیر وخوبی ختم ہوا تو سیالکوٹ کشمیر کمیٹی کے ارکان نے حضور سے درخواست کی کہ کل ۱۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو قلعہ کے وسیع میدان پر ایک جلسہ سے خطاب فرمائیں۔ یہ درخواست حضور نے قبول فرمالی مگر دوسرے دن شام کو جب حضور قیام گاہ سے جلسہ گاہ کی طرف تشریف لے جانے لگے تو منتظمین جلسہ نے عرض کیا کہ کشمیر کمیٹی کے مخالفین۱۰۰ جلسہ پر سنگباری کر رہے ہیں سخت خطرہ کی حالت ہے اور نقصان کا احتمال ہے اس لئے آپ تشریف نہ لے جائیں۔ لیکن حضور نے اس کی ذرہ برابر پروا نہ کی۔ اور پتھروں کی بارش میں سٹیج پر پہنچ گئے۔ خدام نے حضور کے اردگرد حلقہ بنا لیا اور میر عبدالسلام صاحب وغیرہ مخلصین نے چھتریاں تان لیں۔ مگر اس کے باوجود تین پتھر حضور کے ہاتھوں پر آکر لگے۔ اور احمدی تو شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے چوٹ نہ آئی ہو پچیس تیس کے قریب احمدیوں کو تو شدید زخم آئے۔ اور ان کے کپڑے خون آلود ہوگئے حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی سخت زخمی ہوئے۔ مگر احمدی استقلال کے ساتھ کوہ وقار اور پیکر عزم و شجاعت بنے ہوئے ہر لحظہ >اللہ اکبر< اور >اسلام زندہ باد< کے نعرے بلند کرتے رہے۔ پتھروں کا سارا زور حضور کے اردگرد تھا۔ منتظمین جلسہ نے مشورہ دیا کہ یہاں سے ہٹ جانا چاہئے۔ مگر آپ نے تقریر کئے بغیر واپس جانے سے بالکل انکار کر دیا اور آخر مولوی عبدالرحیم صاحب درد )سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی( حضور کے ارشاد پر ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور ان کو صورت حال سے باخبر کیا چونکہ زخمی متواتر ان کے پاس سے گز رہے تھے اوہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اس سے زیادہ احمدیوں کی صبر آزمائی کا امتحان کرنا خطرناک نتائج پیدا کرے گا اس لئے انہوں نے پانچ منٹ کے اندر اندر مجمع کو منتشر ہونے کا حکم دے دیا۔ اس حکم کے بعد ابھی تین منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ قلعہ کا میدان صاف ہو گیا۔۱۰۱
اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے موثر اور پرزور تقریر کی اور نہایت پرشوکت انداز میں فرمایا کہ >جو لوگ دوسروں کی خاطر پتھر کھاتے ہیں ان پر ضرور پھول برستے ہیں۔ جو پتھر آج پھینکے گئے ہیں ان کے کھانے کی ہم میں اہلیت نہیں یہ خدا تعالیٰ نے اس لئے پھینکوائے ہیں کہ کل کو پھول بن کر ہمیں لگیں ان سے سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر آزاد ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ پتھر بھی جن لوگوں نے مارے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ کشمیر کی طرف سے مارے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست نے علاقہ پر رعایا کو قبضہ دے دیا۔ سو اللہ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں وہ مظلوم جو سینکٹروں سال سے ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں ان کی آہیں اور سسکیاں آسمان پر جاپہنچیں اور خدا تعالیٰ نے ظالموں سے ظلم کی آخری اینٹیں پھینکوائیں تا اس ملک پر اپنا فضل نازل کرے ہم نے چاہا کہ مہاراجہ اور حکومت کے ادب کو قائم رکھتے ہوئے امن کے ساتھ بغیر اس کے کہ مہاراجہ کی عزت میں فرق آئے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ کشمیر کی تمام رعایا کو اس کے حقوق دلائیں مگر اس کے نادان وزراء نے ایسا نہ چاہا۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم باہر رہیں گے اور اس کے گھر پر جاکر پتھر نہیں پھینکیں گے مگر ریاست نے ہمارے علاقہ میں ہم پر پتھر پھینکوائے اور ابتدا کی اور یہ مسلمہ ہے کہ البادی اظلم ۔۔۔۔ لیکن ہمارا قلب وسیع ہے ہم ان ہاتھوں کو جنہوں نے پتھر برسائے ان زبانوں کو جنہوں نے اس کے لئے تحریک کی اور اس کنجی کو جو اس کا باعث ہوئی معاف کرتے ہیں کیونکہ جس کام کا ہم نے بیٹرا اٹھایا ہے اس کے مقابلہ میں یہ تکلیف جو ہمیں پہنچائی گئی بالکل معمولی ہے ۔۔۔۔۔۔ پس کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے اگر ہم نے چند پتھر کھائے تو یہ کیا ہے ہم نے شروع سے کوشش کی ہے کہ امن کے ساتھ کام کریں اور آئندہ بھی یہی کوشش کرتے رہیں گے<۔ پھر حضور نے ڈوگرہ حکومت کے زہرہ گداز مظالم کے بعض چشم دید واقعات بیان کرنے کے بعد حاضرین جلسہ کو نہایت درد اور سوز سے تحریک آزادی کشمیر کے لئے ایک جھنڈے تلے جمع ہونے کی تلقین کی اور ارشاد فرمایا۔ >کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری مسلمانوں پر ایسی ایسی آفتیں اور مصائب نازل ہو رہی ہوں اور یہاں یہ جھگڑے پیدا کئے جائیں۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ متحدہ کوشش سے ان کی تکلیف کو دور کیا جاتا ۔۔۔۔۔۔ میں احرار کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی یہاں بیٹھا ہو تو جاکر اپنے دوستوں کو سنا دے میں ان پتھروں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اور اس وجہ سے ان پر کوئی غصہ نہیں انہیں چاہئے کہ کشمیر کے مظلوم بھائیوں کی خاطر اب بھی ان باتوں کو چھوڑ دیں۔ وہ آئیں میں صدارت چھوڑنے کے لئے تیار ہوں لیکن وہ عہد کریں کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کی اتباع کریں گے- ان کے اخلاق آج ہم نے دیکھ لئے ہیں وہ آئیں ہمارے اخلاق بھی دیکھیں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ صدارت چھوڑ دینے کے بعد بھی میں اور میری جماعت بھی ان کے ساتھیوں سے بھی زیادہ ان کا ہاتھ بٹائیں گے صدارت میرے لئے عزت کی چیز نہیں۔ عزت خدمت سے حاصل ہوتی ہے۔ سید القوم خادمھم۔ اگر کام نہ کیا جائے تو صرف صدر بننے سے کیا عزت ہو سکتی ہے۔ وہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مجنون کہے۔ میں بادشاہ ہوں۔ بغیر خدمت کے اعزاز حاصل نہیں ہو سکتا۔ میرے ذمہ تو پہلے ہی بہت کام ہیں اتنی عظیم الشان جماعت کا میں امام ہوں اور اس قدر کام کرنا پڑتا ہے کہ بارہ ایک بجے سے پہلے شاید ہی کبھی سونا نصیب ہوتا ہو۔ میں نے تو یہ بوجھ صرف اس لئے اٹھایا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی آئندہ نسلیں دعائیں دیں گی۔ اور کہیں گی کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا بھلا کرے جن کی کوشش سے آج ہم آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بھی موقع ہے کہ کشمیریوں سے دعائیں لیں ان کی دعائیں عرش الہیٰ کو ہلا دیں گی۔ وہ کہیں گے الہیٰ! جن لوگوں نے ہمیں آزاد کرایا ہے تو بھی ان کو آزاد کر دے`۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں سب حاضرین سے اور ان سب سے جن تک میرا یہ پیغام پہنچے کہتا ہوں کہ اٹھو! اپنے بھائیوں کی امداد کرو۔ اپنے کام بھی کرتے رہو مگر کچھ نہ کچھ یاد ان مظلوموں کی بھی دل میں رکھو جہاں اپنے خانگی معاملات اور ذاتی تکالیف کے لئے ہمارے دلوں میں ٹیسیں اٹھتی ہیں وہاں ایک ٹیس ان مظلوموں کے لئے بھی پیدا کرو۔ اور ان آنسوئوں کی جھڑیوں میں سے جو اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے برساتے ہو۔ اور نہیں تو ایک آنسو ان ستم رسیدہ بھائیوں کے لئے بھی ٹپکائو مجھے یقین ہے کہ تمہاری آنکھوں سے ٹپکا ہوا ایک ایک آنسو جس کی محرک سچی ہمدردی ہوگی۔ ایک ایسا دریا بن جائے گا۔ جو ان غریبوں کی تمام مصائب کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جائے گا اور اس ملک کو آزاد کر دے گا<۔ )الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔ ۹(
مسلمانان سرینگر و اسلام آباد پر فوج کے مظالم
ادھر اجلاس سیالکوٹ کے معاًبعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا جلسہ پر سنگباری کی گئی۔ ادھر ایک ہفتہ بعد ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو شیخ محمد عبداللہ صاحب کو جو اسلامیہ سکول کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے گرفتار کر لیا گیا گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کے ایک پرامن جلوس پر ریاستی پولیس اور فوج نے حملہ کر دیا۔ اس حملہ سے متعدد مسلمان شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے۔ کشمیر کمیٹی کے نمائندہ چوہدری عصمت اللہ خان صاحب بی ایس سی۔ ایل ایل بی تھے۔ جنہیں شروع سے آخر تک تمام واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا آپ نے قادیان میں نہ صرف اس دردناک حادثہ کے چشم دید حالات بالتفصیل بھجوا دیئے بلکہ جامع مسجد کا نقشہ بھی بھجوایا جو الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء میں شائع کر دیا گیا۔ چوہدری صاحب نے مسلح سواروں اور شہداء کے فوٹو ارسال کئے اور ان کے خون سے رنگین کرکے ایک کپڑا بھی جس پر انہیں کے خون سے لکھ کر یہ الفاظ بھی بھیجے کہ >مقتول مسلمانوں کا خون صفحہ کاغذ پر مظلومیت کی آواز بلند کر رہا ہے<۔۱۰۲
سرینگر سے بھی زیادہ اسلام آباد میں مسلمانوں کا کشت وخون ہوا۔ جہاں ۲۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو گولی چلنے سے ۲۵ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا اور ڈیڑھ سو سے زیادہ کے قریب زخمی ہوئے۔۱۰۳ اس کے علاوہ شوپیاں اور اس کے مضافات میں بعض مسلمانوں کو ان کے مکانوں میں نہایت بے دردی اور بے رحمی سے جلا دیا گیا۔ جب اہل کشمیر نے اس ظلم و ستم کو دیکھا تو انہوں نے ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو سرینگر اور مضافات میں مسلح بغاوت کی۔ اس پر حکومت نے ۲۶/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ۱۹۔ ایل اور مارشل لاء برما آرڈنینس جاری کر دیا۔۱۰۴
تحریک آزادی کے لئے مسلسل قربانی کی تحریک
مہاراجہ کشمیر اور ان کے افسروں کی اس عہد شکنی نے عارضی صلح نامہ کو خود بخود چاک کر دیا۔ اور اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ ان مظالم سے یہ تحریک کہیں دب ہی نہ جائے۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اہل کشمیر اور مسلمانان ہند دونوں کو تحریک آزادی کے لئے مسلسل قربانی کی پرجوش تحریک فرمائی کہ
>میرے نزدیک اپنی اور اپنی ملک کی سب سے بڑی خدمت یہ ہو گی کہ ہر باشندہ کشمیر جو آزادی کی خواہش رکھتا ہے یہی ارادہ کر لے کہ خواہ میری ساری عمر آزادی کی کوشش میں خرچ ہو جائے میں اس کام میں اسے خرچ کر دوں گا اور آگے اپنی اولاد کو بھی یہی سبق دوں گا۔ کہ اسی کوشش میں لگی رہے اور اسی طرح قربانی کے متعلق ہر ایک شخص کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آزادی جیسی عزیز شے کے لئے جو کچھ بھی مجھے قربان کرنا پڑے میں قربان کر دوں گا۔ اگر اس قسم کا ارادہ رکھا جائے گا تو لازماً درمیانی مشکلات معمولی معلوم ہوں گی اور ہمت بڑھتی رہے گی<۔۱۰۵
ریاست کشمیر کی طرف سے کشمیری مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جارہا تھا اس ضمن میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانان ہند کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ایسی تدابیر رکھیں جن سے بائیکاٹ کی سکیم کو ناکام بنانے میں مدد مل سکتی تھی۔۱۰۶
‏tav.5.33
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل نہم(
مہاراجہ صاحب کی طرف سے ابتدائی حقوق دیئے جانے کا اعلان
ریاست کشمیر کے حکام نے ظلم و ستم کی حد کر دی تھی۔ اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ مگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مساعی جمیلہ کا بالاخر نتیجہ یہ ہوا کہ مہاراجہ ہری سنگھ صاحب نے ۵/ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اپنی سالگرہ کے موقعہ پر شیخ محمد عبداللہ صاحب اور بعض دوسرے سیاسی قیدیوں کی عام رہائی کا اعلان کر دیا۔ مارشل لاء ختم کر دیا اور مسلمانوں کے حقوق و مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ اس عظیم الشان تغیر پر جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی زبردست جدوجہد اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی کوششوں سے رونما ہوا تھا شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے >روزنامچہ< )مورخہ ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۱ء( میں لکھا۔ >حقیقت یہ ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے اراکین کی اندرونی کوششوں کا یہ نتیجہ ہے۔ بے شک احرار کمیٹی کے کام کا بھی اثر پڑا ہے اور مہاراجہ کی سالگرہ کا بھی کچھ نہ کچھ اس سے تعلق ہے لیکن زیادہ اثر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ولایتی پراپیگنڈا کا ہے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر نے ممتاز مسلمانوں کے ذریعہ لندن میں کوشش کی۔ انگلستان کے بڑے بڑے اخباروں میں ریاست کشمیر کے مظالم کی اطلاعیں شائع ہوئیں اور اخباروں نے ریاست کشمیر کو مطعون کیا۔ اور مسلمان لیڈروں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کی تحریک کی وجہ سے وزیر ہند پر زور ڈالا۔ اور وائسرائے نے ریاست کی حکومت پر زور ڈالا۔ جب یہ نتیجہ نکلا۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس موقع پر مسلمانوں کو باہمی تفریق سے بچانے کی کوشش کی۔ ورنہ بعض مسلمان ریاست کی حکمت عملی کا شکار ہو گئے۔ اور انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری کی نسبت یہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ صحیح عقیدہ کے مسلمان نہیں اس واسطے مسلمان ان کے ساتھ کام نہیں کر سکتے مگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری اور اراکین نے نہایت عقلمندی اور صبر و ضبط سے کام لیا۔ ورنہ بات بڑھ جاتی اور مسلمان آپس میں لڑنے لگتے اور کشمیر کی حمایت کا کام رک جاتا اور کشمیر کے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم ہونے لگتے۔ کیونکہ ریاست کے حکام مسلمانوں کی خانہ جنگی سے مضبوط ہو جاتے<۔۱۰۷
حضرت خلیفہ المسیح کا ایک اہم اعلان
عین اس وقت جبکہ جنگ آزادی مہاراجہ صاحب کشمیر کے اعلان کے بعد ایک اہم مرحلہ میں داخل ہو گئی امام جماعت احمدیہ کو یہ اطلاعات پہنچیں کہ بعض حلقے یہ پراپیگنڈا بھی کر رہے ہیں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پردہ میں تبلیغ احمدیت کی جارہی ہے۔ اس پر حضور نے مندرجہ ذیل اہم اعلان لکھا جو انقلاب ۷/ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا۔
>میرے نزدیک ایسا فعل یقیناً بددیانتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس بددیانتی سے محفوظ ہیں۔ میں اس انکار کے ساتھ سب احمدیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کشمیر کی خدمت ایک انسانی ہمدردی کا فعل ہے اس نیکی کو کسی ایسی غلطی سے جو بددیانتی کا رنگ رکھتی ہو خراب نہ کریں اور دوسرے مسلمانوں سے مل کر پوری تندہی سے خالص برادران کشمیر کے نفع کو مدنظر رکھ کر سب کام کریں<۔۱۰۸]ydob [tag
مہاراجہ کے سامنے مسلم وفد کے مطالبات
آل انڈیا کشمیر نے اجلاس سیالکوٹ میں فیصلہ کیا تھا کہ مسلمانان ریاست جلد از جلد اپنے مطالبات پیش کر دیں اس فیصلہ کے بعد خود مہاراجہ نے اپنی سالگرہ کے موقعہ پر مطالبات پر غور کرنے کا اعلان کر دیا تھا لہذا ضرورت تھی کہ فوری طور پر مسلمانوں کا ایک وفد مہاراجہ کے سامنے مطالبات پیش کر دے۔ چنانچہ مسلمانان جموں و کشمیر کے نمائندگان )جناب مستری یعقوب علی صاحب۱۰۹ اور چوہدری عباس احمد صاحب نے( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشورہ کیا ازاں بعد مسودہ مطالبات تیار کیا گیا اور مشہور زعمائے کشمیر نے اس پر کافی غور و بحث کی اور اسے آخری اصطلاحی اور قانونی شکل دینے کی غرض سے شیخ محمد عبداللہ صاحب نے حضور کو تار دیا۔ کہ اپنے ذمہ دار نمائندوں کو کشمیر بھجوائیں۔ تا وہ آخری شکل دے کر مہاراجہ کے سامنے پیش کر سکیں۔ یہ تار قادیان میں ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو پہنچا چنانچہ حضور کی ہدایت پر مولوی عبدالرحیم صاحب درد` مولوی محمد یعقوب خان صاحب ایڈیٹر اخبار >لائٹ< )لاہور( مولوی عصمت اللہ صاحب اور چوہدری ظہور احمد صاحب سرینگر پہنچ گئے۔ چوہدری ظہور احمد صاحب کا بیان ہے۔ >ہم سرینگر کی چیکنگ پوسٹ پر پہنچے تو ریاست کا ایک سیکرٹری کار لے کر موجود تھا۔ مولانا عبدالرحیم درد کے متعلق دریافت کرکے ان سے ملا اور درخواست کی کہ آپ لوگوں کی رہائش کا انتظام ریاست کے بڑے گیسٹ ہائوس میں ہے۔ اور میں کار لے کر آپ کو لینے کے لئے آیا ہوا ہوں۔ وزیراعظم صاحب نے مجھے بھجوایا ہے۔
مولانا درد نے جواب دیا کہ ہم تو ان کے مہمان ہیں جنہوں نے ہمیں بلوایا ہے اس نے بہتیرا زور مارا لیکن محترم درد صاحب نے نہ ماننا تھا نہ مانے۔ اور ہم چیکنگ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنی کرایہ والی کار ہی پر امیر اکدل پہنچے۔ شیخ محمد عبداللہ )صاحب( اور ان کے رفقاء استقبال کے لئے موجود تھے سب بہت خوشی سے ملے۔ ان کے حوصلے بلند ہو گئے ۔۔۔۔۔۔ میں نے آتے ہی اپنے کمرہ میں دفتر لگایا۔ ہم دفتر کا تمام ضروری سامان ٹائپ رائٹر وغیرہ ساتھ لے گئے تھے۔ یہ وہ تاریخی ٹائپ رائٹر تھا۔ جس نے کشمیریوں کی امداد میں لاکھوں لفظ ٹائپ کئے۔ اور ان کا تاریخی میموریل بھی اس پر ٹائپ ہوا۔ جو مہاراجہ کو پیش کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے لمبے اور گہرے مطالعہ اور نمائندگی کشمیر کے مشورہ سے مطالبات کا جو مشورہ انگریزی زبان میں تیار کیا تھا وہ ان کے سپرد اس غرض سے کر دیا گیا کہ اس پر پورے گیارہ نمائندے پھر غور کریں اور اگر کسی جگہ ترمیم کی ضرورت سمجھیں تو کریں ۔۔۔۔۔۔۔ کئی گھنٹہ کے غور وفکر کے بعد نمائندگان کشمیر نے اس میں کسی کسی جگہ ترمیم کی۔ البتہ ان ترمیموں کی صرف زبان مولانا یعقوب خان صاحب ایڈیٹر >لائٹ <(LIGHT) لاہور اور مولانا درد صاحب نے درست کی۔ جب اس مسودہ پر سب نمائندگان کو شرح صدر ہو گیا تو وہیں راقم الحروف نے اسے ٹائپ کیا اور رات گئے یہ کام ختم ہوا۔ دوسرے دن ۔۔۔۔۔۔۔ پھر غور ہوتا رہا۔ چند الفاظ کی کمی و بیشی ہوئی۔ اور اس کے بعد میں نے اس مسودہ کو آخری شکل میں ٹائپ کر دیا۔ اور اس ٹائپ شدہ میموریل کی ایک کاپی )بطور ایڈوانس( اسی روز اور دوسری کاپی ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو حسب پروگرام نمائندگان نے خود مہاراجہ کے سامنے جاکر پیش کی<۔۱۱۰`۱۱۱
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تار مہاراجہ کشمیر کے نام
مہاراجہ کشمیر نے مظالم کی تحقیقات کے لئے جو >دلال کمیشن< مقرر کیا تھا اس نے سراسر جانبدارانہ رپورٹ کی جس پر ریاست کے بدعنوان افسروں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور جموں میں فوج نے درجنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جموں سے یہ خبر ملنے پر حضور نے نومبر کے آغاز میں مہاراجہ کشمیر سے بذریعہ تار اپیل کی کہ وہ اپنی رعایا اور احراری جتھوں کو جو سیاسی جرائم میں گرفتار اور سزا یاب ہوئے رہا کر دیں۔ دلال رپورٹ کو منسوخ کر دیں اور تمام فسادات کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن مقرر کیا جائے۔ کمیشن کا صدر باہر کے ہائی کورٹ کا غیر جانبدار جج ہو۔ جس کو حکومت ہند مقرر کرے اور اس میں مسلمانوں کی کافی نمائندگی ہو۔ نیز نومبر کے آخری ہفتہ تک مسلمانوں کی شکایات کا ازالہ اور ابتدائی حقوق کے متعلق اعلان کر دیا جائے۔۱۱۲
مہاراجہ کی طرف سے ابتدائی حقوق دیئے جانے کا اصولی اعلان اور پتھر مسجد کی واگزاری!
اس تار پر ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ مہاراجہ صاحب کشمیر نے رعایا کو ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء کو ابتدائی انسانی حقوق دینے کا مفصل اعلان جاری کر دیا۔ جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور
تحریک آزادی کشمیر کی پہلی شاندار فتح تھی۔ حالانکہ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شروع شروع میں حکومت ہند ریاست کشمیر کے معاملہ میں مداخلت کرنے سے گریز کرتی تھی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت عملی فہم و تدبر اور آئینی جدوجہد کے نتیجہ میں تحریک آزادی کو ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ ایک طرف وائسرائے ہند کو دخل دینا پڑا دوسری طرف کشمیر گورنمنٹ کو جھکنا پڑا اور اس نے دوبار حضور کو پیغام بھیجا کہ آپ جموں آئیں اور مہاراجہ صاحب سے مل کر فیصلہ کر لیں۔ آپ کی گفتگو کے بعد جن حقوق کے متعلق اتفاق ہو گا۔ وہ کشمیر کے مسلمانوں کو دے دیئے جائیں گے حضور نے جواب دیا کہ میرے فیصلے کا کوئی سوال نہیں کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ ہونا ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے نمائندے ہی کر سکتے ہیں۔ میں نہیں کر سکتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں آئوں اور آپ سے باتیں کرکے کچھ فیصلہ کر لوں۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے حقوق کا سوال ہے ان کے نمائندوں کو بات کرنے کا موقعہ دیا جائے۔۱۱۳
‏]ydbo [tagبالاخر وزیراعظم کشمیر ہری کشن کول نے پیغام بھیجا کہ >آپ اپنے نمائندے بھجوائیں جن سے وقتاً فوقتاً بات چیت کی جا سکے جس پر حضور نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی کو بطور نمائندہ بھجوا دیا۔۱۱۴ ۱۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو وزیر اعظم ریاست کشمیر کے پرائیویٹ سیکرٹری جیون لعل نے پرائیوٹ سیکرٹری )حضرت خلیفتہ المسیح الثانی( کو مندرجہ ذیل خط لکھا۔
تسلیم! آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۳/ نومبر ۱۹۳۱ء جناب حضور والا شان پرائم منسٹر صاحب بہادر کے ملاحظہ سے گزرا۔ مختصراً جواب عرض کرتا ہوں کہ ابتداء سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانان کشمیر کو ابتدائی جائز حقوق دینے میں بے حد جلدی کی جاوے۔ اور خاص طور پر گزشتہ ایک ہفتہ سے تو شب و روز سوائے اس کام کے پرائم مسٹر صاحب کسی دوسرے کام کی طرف متوجہ نہیں البتہ دو تین روز کے لئے جموں کے واقعات نے مجبور کیا۔ کہ وہاں پرائم منسٹر صاحب خود تشریف لے جائیں۔ جموں کے واقعات نے جس کے ذمہ دار احرار ہیں۔ معاملہ مطالبات کو قدرے التوا میں ڈال دیا- اور صدر صاحب کے ساتھ گفت و شنید یا خط و کتابت میں بھی دیر محض اسی وجہ سے ہوئی ۔۔۔۔۔۔ علاوہ بریں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نمائندگان نے مقیمی سرینگر عبدالرحیم صاحب درد اور مولانا اسمعیل غزنوی صاحب کے ساتھ اکثر تبادلہ خیالات ہوتا رہتا ہے۔ اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ آپ کو بتلا سکیں گے۔ کہ حکومت ہند نے اس معاملہ میں کس قدر دلچسپی لی ہے ۔۔۔۔۔۔ کسی قدر یہ ہمیں تسلی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آکر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں اور تمام حالات معلوم کر گئے ہیں۔۱۱۵ صدر صاحب کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مساجد وغیرہ کے اعلان میں صدر صاحب اور ہماری منشاء کے خلاف ہمیں اعلان کو جلد شائع کرنے کے لئے کس طرح سے رائے دی گئی۔ جو مجبوری کی حد تک پہنچ گئی ۔۔۔۔۔ کہ ہمیں کشمیر کے نمائندوں نے مجبور کیا تھا کہ ہم اس قسم کا اعلان کر دیں آپ نے صدر صاحب کے خیال کو اس شکل میں رکھا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں اور سنجدگی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ پر پہنچنے کی غرض سے گفتگو کرنا ہمارا مقصد نہیں یہ محض غلط فہمی ہے افسوس ہے کہ صدر صاحب نے ہماری مصروفیت اور مشکلات کا اندازہ نہیں کیا۔ لیکن ہر بات کا علاج وقت اور معیاد ہے۔ صدر صاحب عنقریب یقین کرنے پر تیار ہو جاویں گے کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں یا مختصر؟ اور کہاں تک اس کے مشورہ صائب کے مطابق عمل کر رہے ہیں آپ کے لکھنے کے مطابق صدر صاحب کی خواہش محض مسلمانان کشمیر کو حقوق دلوانے کی ہے جس میں حکومت پورے طور سے خود مصروف ہے۔ آپ کا صادق جیون لعل۔ پرسنل اسسٹنٹ<۔۱۱۶
اگلے دن ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء کو وزیراعظم کے پرسنل اسسٹنٹ نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو چٹھی لکھی کہ وزیراعظم صاحب ابتدائی حقوق دینے کو تیار ہیں۔ ایسا ہی وہ حکومت کی پالیسی کا بھی فیصلہ کریں گے آپ اور صوفی عبدالقدیر صاحب بھی تشریف لائیں۔۱۱۷ چنانچہ یہ اصحاب وزیر اعظم کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے ملنے کے بعد وزیراعظم نے ابتدائی حقوق کے اعلان کا مسودہ تیار کیا اور اس کی ایک نقل ریذیڈنٹ کشمیر مسٹر لیٹیمر LATIMAR) (MR, کو بھی بھجوا دی۔ مسٹر لیٹیمر نے ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء کو مولوی عبدالرحیم صاحب درد سے تشریف لانے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ آپ رات کے دو بجے ریذیڈنسی پہنچے وہاں مسٹر لیٹیمر کے ساتھ مسٹر گلینسی بھی بیٹھے ہوئے تھے جو کشمیر کے فساد دور کرنے کے لئے جموں گورنمنٹ کے ساتھ وابستہ کئے گئے تھے۔ وہاں کیا گفتگو ہوئی؟ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے جس کی تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں یہ ہے۔
>مسٹر درد کے پہنچتے ہی مسٹر گلینسی نے نہایت ہی گستاخانہ لہجہ میں کہنا شروع کیا۔ کہ آپ نے اس اعلان کی مخالفت کی تو میں آپ لوگوں کو قید کر دوں گا۔ اور سزائیں دوں گا۔ نیز کہا آپ لوگ ریاست کی مخالفت سے باز نہ آئے تو وائسرائے کو آپ کے خلاف رپورٹ کر دوں گا۔ اور گورنمنٹ آف انڈیا کو لکھوں گا جب مسٹر گلینسی نے اس رنگ میں بات کی تو درد صاحب نے بھی مناسب سمجھا کہ اس کو اس کی پوزیشن سے واقف کیا جائے انہوں نے کہا کہ اگر آپ وائسرائے کے پاس پہنچ سکتے ہیں تو میں بھی سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کے پاس جا سکتا ہوں اس پر گلینسی نے رویہ بدل لیا۔ اور کہا کہ اگر آپ لوگوں نے مخالفت کی تو میرا مستقبل بالکل تباہ ہو جائے گا۔ تب مسٹر لیٹیمر جو کہ گلینسی سے زیادہ ہوشیار تھے انہوں نے درد صاحب کو اپنی طرف مخاطب کر لیا اور کہا کہ آپ بتائیں کہ جو اعلان حقوق کا ہوا ہے۔ اس سے آپ متفق ہیں یا نہیں؟ درد صاحب نے کہا کہ ابھی میں نے اس پر غور نہیں کیا۔ مسٹر لیٹیمر نے بکس سے پمفلٹ نکال کر ان کو دے دیا کہ آپ اس کو پڑھ لیں۔ جب انہوں نے اسے پڑھ لیا۔ تو مسٹر لیٹیمر نے کہا کہ اب میں آپ کو پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں۔ جو بات درست ہو اس کی تصدیق کر دیں۔ اور جو غلط ہو وہ بتا دیں۔ چنانچہ مسٹر لیٹیمر نے اس اعلان کو پڑھنا شروع کیا اس کی اکثر باتوں کی درد صاحب نے تصدیق کی۔ اور دو باتوں کے خلاف کہا۔ اس پر مسٹر لیٹیمر نے خواہش ظاہر کی کم سے کم کل جو سرینگر میں جلسہ ہو گا اس میں اس کو کلی طور پر رد نہ کیا جائے۔ اور اس کے جو پوائنٹ اچھے نظر آتے ہیں اس کی مخالفت نہ کریں۔ درد صاحب نے کہا یہ تو طبعی بات ہے اور درست ہے اور ہم ایسا ہی کریں گے مگر جو غلط بات ہے اس کی ہم تردید بھی کریں گے۔ اس پر مسٹر لیٹیمر نے مسٹر گلینسی سے کہا کہ بس بات ٹھیک ہو گئی۔ اکثر باتوں سے ان کو اتفاق ہے اور جن باتوں کو یہ صحیح سمجھتے ہیں ان کی خواہ مخواہ تردید کرنے کے لئے یہ آمادہ نہیں ہیں جب وہ یہ کہہ چکے تو درد صاحب نے ان کو بتایا کہ اس میں اکثر امور وہی ہیں جو ہم نے گورنمنٹ آف انڈیا اور گورنمنٹ آف کشمیر کے ذریعہ خود منظور کرائی ہیں۔ ان کی ہم مخالفت کس طرح کر سکتے ہیں۔ چنانچہ دو گھنٹے کی گفتگو کے بعد ریذیڈنٹ کا موٹر درد صاحب کو واپس ان کے ہائوس بوٹ )میں( چھوڑ گیا<۔۱۱۸
المختصر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مسلسل سعی و جدوجہد کے نتیجہ میں مہاراجہ صاحب کشمیر نے ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء کو ابتدائی حقوق آزادی دینے کا تاریخی اعلان کر دیا۔ جس کا مکمل متن یہ تھا۔ )یہ اعلان ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء کو لکھا ہوا تھا(
مہاراجہ صاحب کشمیر کا قابل تعریف اعلان
رعایا کو ضروری حقوق دینے کا اقرار
>کچھ عرصہ سے میری توجہ اس قسم کی بعض خاص شکایات کی طرف مبذول رہی ہے جن کا مفاد یہ ہے کہ میری ریاست میں مذہبی آزادی پر قیود موجود ہیں۔ ان شکایات کی وجہ سے مجھے بہت ہی سخت ایذا پہنچی ہے اور میں اپنی رعایا کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیشہ میری یہ خواہش رہی ہے اور میری حکومت کی حکمت عملی )پالیسی( رہی ہے کہ ریاست کی آبادی کے ہر گروہ کو مکمل ترین آزادی حاصل ہو کہ وہ جس مذہب کی پابند ہو وہ اس مذہب پر عمل پیرا رہ سکے میری خواہش یہ ہے کہ اس معاملہ کے متعلق جو غلط فہمی ابھی موجود ہے فی الفور رفع ہو جائے۔ اور اس پالیسی کے نفاذ میں ماتحت حکام سے جو غلطی بھی سرزد ہو وہ ظاہر کی جائے اور اس کا ازالہ کیا جائے۔
گلانسی کمیشن کا ذکر: میری درخواست پر بیرون ریاست سے ایک غیر جانبدار افسر کی خدمات حکومت ہند نے میرے سپرد کی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ یہ افسر ان شکایات کی تحقیقات کرے۔ جو اس وقت موجود ہیں اور ان کے ازالہ کے لئے سفارشات مرتب کرے۔ جس افسر کو میں نے اس غرض سے منتخب کیا ہے ان کا نام مسٹر جے۔ بی گلانسی صاحب سی۔ آئی۔ ای ہے۔ ان صاحب کو اہل کشمیر سے متعارف کرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس لئے کہ آج سے چند ہی سال قبل انہوں نے غلہ کے انضباط کے طریق کار کے متعلق ریاست اور اہل ریاست کی جو بیش بہا خدمات کی تھیں وہ سب کو خوب معلوم ہیں غلہ کے متعلق ہر قسم کا کام کرنے والوں کو پہلے جن مشکلات سے سابقہ پڑتا تھا وہ خوش قسمتی سے رفع ہو گئی تھیں۔ اور ان کے رفع ہونے سے سب کو آرام اور نفع حاصل ہوا تھا جس کے لئے ہم ان تدابیر کے ممنون ہیں جو میری حکومت نے مسٹر گلانسی کے مشورہ کے بعد اختیار کی تھیں۔ لہذا مجھے امید اور یقین ہے کہ مسٹر گلانسی کو میری رعایا کا اعتماد حاصل ہو گا۔ اور کہ میری رعایا کی تمام جماعتیں اس کام میں جو مسٹر موصوف کو درپیش ہے ان کا ہاتھ بٹائیں گی۔
پرامن فضا کی ضرورت: میری ہدایات کے مطابق مسٹر گلانسی نے مختلف فرقوں کے نمائندوں سے تبادلہ خیالات کیا۔ اور ان کے ساتھ موجودہ حالت کی ہر صورت پر نہایت صفائی سے بحث کی۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ پرامن فضا پیدا ہو جائے۔ اس لئے کہ تحقیقات کے کامیابی سے پورا ہونے کے لئے ایسی فضا کا وجود ناگریز ہے۔
مسٹر گلانسی کے مددگار: اس تحقیقات میں مسٹر گلانسی کے چار غیر سرکاری آدمی مددگار ہوں گے جن میں سے دو مسلمان اور دو ہندو ہوں گے ان چار آدمیوں کو ان کی قوموں کے مصدقہ نمائندوں نے نامزد کیا ہے لہذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی اپنی قوم کے مفاد کے نہایت مناسب اور پورے پورے نمائندہ ہیں۔
شکایات کی تحقیقات: اس کمیشن کا پہلا کام یہ ہوگا۔ کہ یہ میری ریاست میں کسی جماعت کا جو مذہب ہو اسی مذہب کی آزادانہ پیروی میں جو حالات یا واقعات کسی طرح بھی حائل ہوں ان کے متعلق اب تک جو شکایتیں میرے روبرو بغرض غور پیش ہو چکی ہیں ان کی جو تازہ شکایات کمیشن کے روبرو پیش کی جائیں گی ان کی تحقیقات کرے۔
مساجد وغیرہ کی واپسی: اس تحقیقات میں ان مقامات و عمارات کی واپسی کے دعاوی کی تحقیقات بھی شامل ہو گی۔ جن کا مقصد یہ ہو گا کہ ایسی عمارات اور ایسے مقامات جو اس وقت حکومت کے قبضہ میں ہیں اور جن کو رعایا کی کوئی جماعت ایسا مقام یا ایسی عمارت سمجھتی ہے جو کہ وہ کسی مذہب کے شعار کی پیروی کے لئے مخصوص ہیں اور اس سے قبل جو احکام میں جاری کر چکا ہوں ان میں ان مقامات یا عمارتوں کا تذکرہ نہیں ہوا۔ میری ¶حکومت کا منشا ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی عمارت یا کسی ایسے مقام پر قبضہ کئے رہے جس کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ مقام یا عمارت کسی مذہب کے شعار کی پیروی کے لئے مخصوص تھی۔ اور جن ایسے مقامات یا عمارات کے متعلق کوئی جھگڑا نہیں ہو گا۔ ان کی واپسی کی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔ نیز میری رعایا کا کوئی گروہ اگر کوئی ایسی فرقہ وار یا تمدنی شکایت ظاہر کرے گا جو اس گروہ کے خیال میں اس کے مذہب کے شعار کی پابندی کے راستہ میں حائل ہو تو گلانسی کمیشن اس کی بھی تحقیقات کرے گا۔
دیگر شکایات کی تحقیقات: اس کے بعد یہ کمیشن ان شکایات کی تحقیقات کرے گا۔ جو عام قسم کی ہوں اور جن کا کسی مذہب کے شعار کی پابندی سے کوئی تعلق نہ ہو۔
شکایات کا ازالہ کب ہو گا؟ ان تمام امور کے متعلق یہ کمیشن ممکن الوجود سرعت سے کام کرے گا۔ اور اپنی رپورٹ اپنی سفارشات کے ساتھ میری حکومت کے روبرو پیش کرے گا جن کے موصول ہوتے ہی بلا تاخیر مزید میری حکومت اس رپورٹ اور ان سفارشات کے متعلق مناسب کارروائی کرے گی اور جو احکام ضروری معلوم ہوں گے وہ نافذ کئے جائیں گے۔
‏]ydob [tagآزادی تحریر و تقریر و اجتماع: میری خواہش یہ ہے کہ ریاست میں جو قوانین اس وقت جماعتیں اور انجمنیں بنانے کے متعلق اور اخبارات کے ذریعہ سے یا جلسوں میں اظہار خیالات کی آزادی کے متعلق اور دوسرے ایسے معاملات کے متعلق رائج ہیں۔ ان کو بہتر بنایا جائے۔ تاکہ جہاں تک میری رعایا کی بہبود اور اس کے امن سے زندگی گزارنے کی مقتضیات اجازت دیں۔ ان قوانین کو ریاست میں ان قواعد کے مطابق بنایا جائے جو اس وقت ایسے معاملات کے متعلق برطانوی ہندوستان میں رائج و نافذ ہیں۔ اس لحاظ سے ریاست کے قوانین میں تغیر و تبدل مسٹر گلانسی کے مشورہ کے مطابق ہو گا۔ اور یہ کام فی الفور شروع کر دیا جائے گا۔
دستور اساسی کا مسئلہ: جیسے کہ میں قبل ازیں اعلان کر چکا ہوں میری نیت یہ ہے کہ ایسے ذرائع پیدا کئے جائیں۔ کہ میری رعایا کو ریاست کی حکومت میں دخل حاصل ہو جائے میں چاہتا ہوں کہ ہر قوم کے نمائندوں کو مناسب موقع دیا جائے کہ وہ ریاست کے معاملات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں اور حکومت کے نظام میں دخل اور امداد بھی دے سکیں۔
کشمیر میں گول میز کانفرنس: میرا ارادہ یہ ہے کہ جب متذکرہ بالا کمیشن موجودہ شکایات و تکالیف کی تحقیقات کا کام ختم کر چکے تو میں ایک ایسی کانفرنس طلب کروں جس کے صدر مسٹر گلانسی ہوں اور جس میں میری رعایا کے تمام فرقوں کے نمائندے شامل ہوں۔ تاکہ اس کانفرنس میں دستور اساسی میں اصلاحات کی ترویج کے بہترین و مناسب ترین ذرائع پر تبالہ خیالات ہو سکے۔ اور اس تبادلہ خیالات کے نتائج کے موافق میرے غور اور میرے احکام کے لئے سفارشات مرتب کی جاسکیں۔
بعض مناسب احکام کا نفاذ: اس تحریر کے ساتھ میری حکومت کے بعض اعلانات کئے گئے ہیں ان سے معلوم ہوگا کہ امور ذیل کے متعلق احکام نافذ کر دیئے گئے ہیں۔ اول۔ جن افسروں کو گزشتہ فسادات کے سلسلہ میں محکمانہ طور پر سزا دی گئی تھی۔ ان کو پھر بحال کر دیا گیا ہے۔
دوم۔ حال ہی میں جن لوگوں کو سیاسی جرائم کی وجہ سے سزا ملی ہے۔ ان کے لئے اپیل کی معیاد وسیع کر دی گئی ہے۔ سوم۔ گزشتہ چار ماہ میں جو فسادات ہوئے ہیں ان کی وجہ سے جو فاقہ مست ہو گئے ان کو فی الفور امداد دی جائے۔ چہارم۔ سرینگر میں اول اول جو فسادات ہوئے ہیں ان کی تحقیقات کے لئے جو )دلال( کمیٹی مقرر ہوئی تھی اس کی تحقیقات کے بعد جو فسادات رونما ہوئے ان کی اور ان فسادات کو دبانے کے لئے ریاست نے جو وسائل اختیار کئے ہیں ان کی تحقیقات کے لئے ایک افسر مقرر کیا گیا ہے۔ )دستخط( ہری سنگھ مہاراجہ سرینگر مورخہ ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء<۔۱۱۹
مہاراجہ صاحب نے اس سلسلہ میں سب سے پہلا اور فوری قدم یہ اٹھایا کہ پتھر مسجد۱۲۰ جس پر ریاست کا مدت مدید سے قبضہ تھا اور سرکاری گودام کے طور پر استعمال ہوتی تھی بڑی فراخدلی کے ساتھ مسلمانوں کے سپرد کر دی۔ اس مسجد کی رسم افتتاح برے جوش و خروش کے ساتھ ۲۹/ نومبر ۱۹۳۱ء کو عمل میں آئی یہ دن مسلمانان ریاست کے لئے سچ مچ جشن عید کا دن تھا اس تقریب پر پچاس ہزار مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں کشمیری مسلمانوں کے مشہور لیڈروں نے خطاب کیا۔ اور اس میں متفقہ طور پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکریہ کی قرارداد منظور کی۔۱۲۱ چوہدری ظہور احمد صاحب جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممتاز نمائندوں کے ساتھ اس تقریب میں خاص طور پر مدعو تھے اور اعزازی مہمانوں کی حیثیت سے سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ تحریر فرماتے ہیں۔ >راقم الحروف اس جلسہ میں شروع سے آخر تک موجود رہا۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد >اللہ اکبر<۔ >اسلام زندہ باد< اور >صدر کشمیر کمیٹی زندہ باد< کے نعرے بلند ہوتے تھے۔ اور حاضرین خوشی سے اچھلتے تھے اس جلسہ میں جو تین ریزولیوشن متفقہ طور پر منظور ہوئے ان میں سے سب سے پہلا آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اس کے محترم صدر کے شکریہ پر مشتمل تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جلسہ سے فراغت کے بعد ہم لوگ کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد جب شام کے بعد اپنے ہائوس بوٹ پر پہنچے تو ہمارا ہائوس بوٹ پھولوں` ہاروں اور بجلی کے قمقموں سے روشن تھا۔ اور گھاٹ پر بھی چراغاں تھا۔ یہ سب کام رضا کاروں نے خود بخود کیا تھا۔ ان میں بخشی غلام محمد اور خواجہ غلام قادر ڈکٹیٹر خواجہ غلام محمد صادق اور خواجہ غلام محی الدین قرہ پیش پیش تھے اور یہ سب دوسرے رضا کاروں کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔ ہمارے ہائوس بوٹ پر پہنچتے ہی ان لوگوں نے خوشی سے پھر نعرے لگائے<۔۱۲۲
حواشی
۱۔
قرار داد آل انڈیا کشمیر کمیٹی )اجلاس لاہور( نومبر ۱۹۳۱ء-
۲۔
گاندھی جی کے اخبار ینگ انڈیا ۱۵/ جنوری ۱۹۲۵ء میں ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ جسے YAJNIC> ۔KA ۔ <INDULAL نے اپنی کتاب HIM> KNOW I AS <GANDHI صفحہ ۳۸۰ پر نقل کیا۔ جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ کہ کانگریس اس زمانہ میں راجوں مہاراجوں کے مخالف نہیں۔ بلکہ بالواسطہ طور پر حامی تھی۔ یہ کتاب دانش محل فیض گنج دہلی نے اپریل ۱۹۴۳ء میں شائع کی تھی۔
۳۔
اسی وجہ سے بعض مسلمانوں نے کانفرنس کے انعقاد کی ¶مخاطفت کی تھی۔ )الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲(
۴۔
اخبار اصلاح سرینگر ۲۷/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۵۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔
۶۔
برادران ریاست کے نام تیسرا پیغام صفحہ ۱۔ سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو اعلان کیا کہ بعض آل انڈیا کشمیر کمیٹیاں دریافت کرتی ہیں کہ مجلس احرار کے متعلق ان کا رویہ کیا ہونا چاہئے ان سب کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ مجلس احرار بھی اسی کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے جس کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی۔ اس لئے ہمارا رویہ ان کے متعلق ہمدردانہ ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے پروگرام کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی مدد ان کے پروگرام میں ہم کر سکیں تو اس سے بھی ہمیں دریغ نہیں کرنا چاہئے مرکزی کمیٹی بھی ان کی ممکن امداد سے دریغ نہیں کرے گی کیونکہ مشترکہ امور میں ایک دوسرے کی اعانت ایک بہترین پالیسی ہے۔ )الفضل ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱(
۷۔
الفضل ۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۱ کالم ۱۔
۸۔
اس کتاب کا انگریزی ترجمہ مسٹر محمد حسین صاحب بی۔ ¶کام نے کیا۔ )رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۸۱(
۹۔
مثلاً آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں کی طرف سے ایک اہم اعلان۔ میرزا صاحب کی صدارت اور خواجہ حسن نظامی مصیبت زدہ مسلمانان جموں کی اپیل دردمندان ملت کے نام میر واعظ ریاست کشمیر کا باطل سوز اعلان۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات جلیلہ کا اعتراف۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا فوری اجلاس۔
۱۰۔
ارمغان قادیان صفحہ ۹۴ )کلام مولوی ظفر علی خاں صاحب( مطبوعہ مسلم پرنٹنگ پریس ریلوے روڈ لاہور(
۱۱۔
جماعت احمدیہ کے دوسرے جرائد و رسائل مثلاً اخبار فاروق۔ نور۔ مصباح بھی تحریک آزادی کی حمایت کرتے رہتے تھے۔
۱۲۔
جناب ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کے مکتوب مورخہ ۱۱/ اکتوبر ۱۹۶۴ء سے ماخوذ۔
۱۳۔
ہفت روزہ لاہور ۲۴/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۱۔ ۲۔ )مضمون چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ(
۱۴۔
اس اخبار نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا رقم فرمودہ پمفلٹ کشمیر کے حالات اپنے کالموں میں باقساط شائع کیا تھا۔
۱۵۔
الفضل یکم اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۔
سرگزشت صفحہ ۲۹۸۔
۱۷۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۱ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۲۔
۱۸۔
ملک محمد اسحاق صاحب کا )جو ایک عرصہ تک بطور خزانچی اس محکمہ میں کام کرتے ہیں( بیان ہے کہ اس محکمے کا دفتراً اولاً کشمیر کمیٹی کے نام سے ثانیاً کشمیر ایسوسی ایشن کے نام سے قریباً ۱۹۳۶ء تک قصر خلافت میں قائم رہاں ازاں بعد کچھ عرصہ حضرت اماں جان کے چوبارہ )متصل احمدیہ بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان( میں رہنے کے بعد حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب کے گھر میں منتقل ہو گیا جو ان دنوں کشمیر ریلیف فنڈ کے انچارج تھے۔
۱۹۔
ہفت روزہ لاہور ۳۱/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۹ کالم ۲۔ ۳۔
۲۰۔
اخبار انقلاب )لاہور( ۲۰/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔
۲۱۔
سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰۶۔
۲۲۔
الفضل ۱۴/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۳۔
اخبار سیاست ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کے ساتھ ایک کشمیر فنڈ کمیٹی بھی قائم کر دی گئی تھی۔ جس کے صدر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب تھے کمیٹی کا حساب مسلم بنک لاہور میں کھول دیا گیا۔ روپے کا اخراج ڈاکٹر صاحب بالقابہ اور غلام رسول صاحب بیرسٹرایٹ لاء کے دستخطوں سے ہوتا تھا۔
۲۴۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاسوں کی تاریخیں۔ ۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء )شملہ`( ۱۳/ ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء )سیالکوٹ`( ۱۳/ اکتوبر ۱۹۳۱ء )لاہور`( ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۱ء )لاہور`( ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء )لاہور`( ۲۲/ نومبر ۱۹۳۱ء )دہلی`( ۱۳/ فروری ۱۹۳۲ء )لاہور`( ۲/ مارچ و ۴/ مارچ ۱۹۳۲ء )دہلی`( ۹/ مئی ۱۹۳۲ء )لاہور` ۵/ جولائی ۱۹۳۲ء )لاہور`( یکم فروری ۱۹۳۳ء )لاہور`( ۷/ مئی ۱۹۳۳ء )لاہور`( ۳/ ستمبر ۱۹۳۳ء )لاہور`( ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۳ء )شملہ`( ۲۵/ مارچ ۱۹۳۳ء )لاہور`( ۲۸/ مارچ ۱۹۳۴ء۔
۲۵۔
رسالہ لاہور ۳۱/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۸۔
۲۶۔
اجلاس منعقدہ ۹/ مئی ۱۹۳۲ء بمقام لاہور کی روئیداد میں حضور کی تقریر درج ہے کہ کمیٹی اس وقت تک ۳۳ ہزار روپیہ خرچ کر چکی ہے۔ اور جو ایڈووکیٹ محاذ کشمیر پر کام کر رہے ہیں ان کی قربانیاں اس کے علاوہ ہیں احمدیوں کے سوا دوسرے مسلمانوں کی طرف سے صرف سات ہزار روپیہ وصول ہوا ہے اور آٹھ ہزار کے قریب کمیٹی نے قرض لیا ہے باقی تمام رقم جماعت احمدیہ نے مہیا کی ہے۔ ماہوار خرچ ۳۔ ۴ ہزار کے درمیان ہے لیکن احمدیوں کے چندہ کے سوا ماہوار آمد چار سو سے زیادہ نہیں ہر ماہ تقریباً بارہ سو قرض لینا پڑتا ہے۔ رجسٹر روئیداد کشمیر کمیٹی صفحہ ۱۹( یہ تو بطور مثال لکھا گیا ہے ورنہ کشمیر کمیٹی کی آمد کے حسابات سے جو موجود ہیں اس حقیقت کی پوری تائید ہوتی ہے۔
۲۷۔
غالباً یہ واقعہ اگست ۱۹۳۲ء کا ہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے ۱۹۴۴ء میں فرمایا۔ ایک دن سر سکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں دونوں میں تبادلہ خیالات ہو جائے کیا آپ ایسی مجلس میں شریک ہو سکتے ہیں میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں۔ چنانچہ یہ میٹنگ سر سکندر حیات خاں کی کوٹھی پر لاہور میں ہوئی اور میں بھی اس میں شامل ہوا۔ چوہدری افضل حق صاحب بھی وہیں تھے۔ باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے۔ اور میرے متعلق کہنے لگے کہ انہوں نے الیکش میں میری مدد نہیں کی۔ اور اب تو ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدیہ جماعت کو کچل کر رکھ دیں گے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر جماعت احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جا سکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی۔ اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقیناً یہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ )الموعود صفحہ ۱۷۳( جناب چوہدری افضل حق صاحب تاریخ احرار صفحہ ۷۵۔ ۷۶ میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں۔ میں نے کہا مرزا صاحب کوئی الیکشن ایسا نہیں گزرا جس میں مرزائیوں نے میرے خلاف ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا بھی خدا کے فضل سے فیصلہ یہ ہے کہ اس جماعت کو مٹا کر چھوڑیں گے<۔
۲۸۔
خود نوشت حالات حضرت سید زین العابدین ولی اللہ صاحب )غیر مطبوعہ(
۲۹۔
محترم شیخ مبارک احمد صاحب کے خلاف نوٹس جاری کئے جانے کے حکام کشمیر نے ایک عجیب عذر تراشا شیخ صاحب موصوف قادیان سے محض جماعتی تربیت و اصلاح کے لئے سرینگر بھجوائے گئے تھے۔ اب آپ آب و ہوا کی ناموافقت کے باعث جاتے ہی بیمار ہو گئے قادیان سے آپ کو اپنے والد ماجد )حضرت شیخ محمد الدین صاحب( کا تار ملا کہ چاول کھالیں اور چائے کا قہوہ استعمال کریں۔ MILK) WITHOUT TEA TAKE AND RICE (EAT آپ نے جوابی تار دیا کہ میں چاول اور قہوہ استعمال کرنے کے بھی قابل نہیں ہوں۔ MILK) WITHOUT TEA TAKE AND RICE EAT TO (UNABLE سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ان تاروں کو خفیہ اشارات قرار دے کر آپ کو گورنر کشمیر سردار عطر سنگھ کے حکم سے چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر سرینگر سے چلے جانے کا حکم دے دیا۔
۳۰۔
دسمبر ۱۹۳۱ء کے آخری ہفتہ میں شیر کشمیر پہلی بار قادیان تشریف لائے اس تقریب پر قادیان کے ایک پبلک جلسہ میں انہوں نے کشمیریوں کے حقوق و مطالبات پر تقرر بھی کی تھی۔ مشہور احمدی شاعر جناب حسن رہتاسی صاحب نے اس استقبالیہ تقریب کے لئے شیر آمد کے قافیہ پر لکھی ہوئی ایک فارسی نظم لکھی جو خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار نے جو ان دنوں جامعہ احمدیہ میں تعلیم پارہے تھے( پڑھ کر سنائی جناب چوہدری ظہور احمد صاحب کا بیان ہے کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب میری یادداشت کے مطابق دو دفعہ قادیان آئے دونوں دفعہ حضور کے مہمان تھے نواب صاحب کی کوٹھی پر ایک دفعہ حضور بوجہ بیماری مقیم تھے۔ اس لئے یہ بھی وہیں رہے ایک سفر میں حضور کے ملکیتی گائوں راجپورہ بھی گئے<۔
۳۱۔
ملک فضل حسین صاحب کی شہادت کے مطابق عبدالقدیر خان صاحب بھی رہائی کے بعد قادیان آئے تھے۔
۳۲۔
بحوالہ الفضل ۱۹/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۳۔
۳۳۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۸۔
۳۴۔
لاہور ۳۱/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۹ کالم ۴ )مفہوم(
۳۵۔
الفضل ۲۰/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔
۳۶۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اخبار اصلاح یکم ستمبر ۱۹۳۹ء تا ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۹ء بعنوان کشمیر تحریک کے ایک اسیر زندان کی داستان زندان۔
۳۷۔
اخبار اصلاح سرینگر ۲۰/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۳۔
۳۸۔
قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کاشمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ۔
۳۹۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ اس درجہ محتاط رہنے کے باوجود جب بعض حلقوں کی طرف سے احمدی غیر احمدی کا سوال اٹھا دیا گیا تو حضور نے کشمیر کمیٹی کے مفاد کی خاطر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب` پیر اکبر علی صاحب فیروزپور` فضل کریم صاحب ایل ایل بی۔ چودھری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری` مولانا جلال الدین صاحب شمس اور ڈاکٹر عبدالحق صاحب کو بھی اس کا ممبر بننے کی دعوت دی اور کشمیر کمیٹی کے اجلاس لاہور میں دوسرے ممبروں کو اسکی اطلاع دیتے ہوئے وعدہ فرمایا کہ اگر کمیٹی کو ان میں سے کسی صاحب پر اعتراض ہو تو میں ان سے استعفاء دلوا سکتا ہوں<۔
۴۰۔
جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ۔
۴۱۔
بیرونی احمدیوں نے جس خلوص و استقلال سے اہل کشمیر کی مالی امداد کی اس کی رپورٹیں ۳۳۔ ۱۹۳۱ء کے( الفضل` فاروق اور مصباح میں شائع شدہ ہیں۔
۴۲۔
الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔
۴۳۔
اس کا بانی اور روح رواں جموں کا ایک ننھا لیڈر محمد اسمعیل تھا جو شہید ہو گیا۔ )لاہور ۲۶/ اپریل ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۲(
۴۴۔
یہ مشین` سٹیشنری اور مطبوعات وغیرہ بھی کشمیر کمیٹی کی طرف سے خفیہ راستوں سے پہنچائی گئی تھی۔
۴۵۔
بیان جناب اللہ رکھا صاحب ساغر محررہ ۲۲/ دسمبر ۱۹۶۳ء )جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کشمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ(
۴۶۔
جناب میر عبدالعزیز صاحب ایڈیٹر اخبار انصاف راولپنڈی کا بیان ہے کہ چوہدری غلام عباس صاحب نے اپنی کتاب کشمکش کے مسودہ میں ایک عبارت یہ لکھی تھی کہ میں نے مذہب مولانا ابوالکلام آزاد سے سیکھا ہے اور سیاست مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے۔ اول الذکر سے میرا سیاسی اختلاف ہے اور ثانی الذکر سے مذہبی۔ مگر جب کتاب شائع ہوئی تو دوسری سطور کے علاوہ یہ حصہ بھی حذف کر دیا گیا۔ )لاہور ۲۸/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲(
۴۷۔
بیان پروفیسر جناب محمد اسحق صاحب قریشی )قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ(
۴۸۔
خواجہ احمد اللہ صاحب` جناب خواجہ غلام محی الدین صاحب قرہ کے والد اور غلام محمد صادق کے چچا اور خسر تھے۔
۴۹۔
اہل کشمیر کے دو اہم فرض۔ صفحہ ۱۔
۵۰۔
الموعود )لیکچر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ( سالانہ جلسہ ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۵۹۔ ۱۶۱۔
۵۱۔
الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۵۲۔
الفضل ۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۵۳۔
بحوالہ الفضل مورخہ ۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۵۴۔
بحوالہ اخبار الفضل مورخہ ۱۱/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۵۵۔
ایک غیر مطبوعہ مضمون )مرقومہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز( سے ماخوذ۔
۵۶۔
الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۵۷۔
الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۵۸۔
تفصیلات الفضل اگست۔ ستمبر ۱۹۳۱ء میں موجود ہیں۔
۵۹۔
الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۶۰۔
اخبار کشمیری لاہور ۷/ ۱۴ ستمبر ۱۹۳۱ء۔
۶۱۔
الفضل مورخہ ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۲۔
الفضل مورخہ ۱۸/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۶۳۔
یہ تصاویر کافی تعداد میں لی گئی تھیں۔ مگر افسوس ۱۹۴۷ء کے انقلاب میں ان کا ایک حصہ تلف ہو گیا۔
۶۴۔
اصل خط خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۶۵`۶۶۔
الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۳۲ء و رپورٹ صدر انجمن احمدیہ سالانہ ۳۴۔ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۹۰۔
۶۷۔
انقلاب یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۶۸۔
بحوالہ الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴۔
۶۹۔
انقلاب ۲۰/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ بحوالہ الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰۔
۷۰۔
الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۔
۷۱۔
الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۷۲۔
رپورٹ سالانہ )صدر انجمن احمدیہ( ۳۴۔ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۹۰۔
۷۳۔
الفضل ۱۳/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۷۴۔
الفضل ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۷۵۔
اس کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۵۴ء۔
۷۶۔
بحوالہ کتاب کشمکش صفحہ ۱۱۱ و صفحہ ۱۱۲۔ مصنف۔ چوہدری غلام عباس(
۷۷۔
انقلاب ۱۱/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۴۔
‏h1] [tag۷۸۔
انقلاب ۴/ اپریل ۱۹۳۲ء۔
۷۹۔
بحوالہ الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۔
۸۰۔
اخبار انقلاب )لاہور( ۲۰/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۶۔
۸۱۔
تحریک قادیان حصہ اول صفحہ ۴۲ )مولفہ مولانا سید حبیب صاحب مدیر سیاست( طبع اول ستمبر ۱۹۳۲ء۔
۸۲۔
جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کشمیری کے غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ۔
۸۳۔
الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۸۴۔
چنانچہ ہری کشن کول صاحب ۲۲/ اگست ۱۹۳۱ء کو شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب کو ایک مکتوب میں )جو کشمیر کمیٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے( واضح لفظوں میں لکھا۔ بانی موجودہ ایجی ٹیشن جو جوان لڑکے ہیں ان میں سے اکثر ریاست کی ملازمت سے بوجہ بدچلنی وغیرہ برخاست شدہ ہیں۔
۸۵۔
یہ اشتہار الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء میں بھی چھپ گیا تھا۔
۸۶۔
الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۸۷۔
الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۸۸۔
ڈاکٹر محمد عالم صاحب کانگریس کے اہم مسلمان ممبر تھے۔ اپنے وعدہ کے مطابق انہوں نے کانگریسی لیڈروں کی حمایت حاصل کرنے کی جدوجہد کی۔ لیکن ان کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کانگریس سے بدظن ہو گئے۔ اور کانگریس چھوڑ گئے اور بعد میں مسلمانوں کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے لئے کھڑے ہوئے۔
۸۹۔
بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندومہا سبھائی )مولفہ جناب ملک فضل حسین صاحب( صفحہ ۹۴(۔ ۹۵ طبع اول ستمبر ۳۲ء۔
۹۰۔
حدیہ ہے کہ مولوی ظفر علی خان صاحب کے اخبار زمیندار نے لفظاً لفظاً ملاپ کی تائید میں یہ بیان دیا کہ بظاہر ریاست میں امن کے آثار نظر آرہے تھے لیکن مصیبت یہ آپڑی کہ کشمیر کے فلاکت زدہ مسلمانوں کو روپیہ کی ضرورت تھی وہ روپیہ نہ انہیں جمعیت احرار دے سکتی تھی نہ کوئی دوسرا مسلمان۔ خلیفہ جی نے بات بگڑی دیکھ کر پھر اپنی ہمیانیوں کا منہ کھول دیا اور ہزارہا روپے کشمیری مسلمانوں کے پاس پہنچا دیئے اس طرح وہ آگ جسے مہاراجہ سر ہری سنگھ کی آشتی پسندی اور سرسید مہر شاہ اور مسلمانان کشمیر کے دوسرے مخلص ہمدردوں نے بجھائی تھی پھر بھڑک اٹھی<۔ )زمیندار ۲۷/ نومبر ۱۹۳۱ء( بحوالہ الفضل ۳/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ کالم ۳۔ ملاپ کی ہمنوائی کے پس منظر کیا تھا اس پر حضرت ظفر الملت کے مندرجہ ذیل اشعار جو آپ نے مہاراجہ کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے تھے۔~}~
اے جواں سال مہاراجہ کہ بزم کشمیر
گونجتی ہے ترے اخلاق کے افسانوں سے
اے کہ آراستہ ہے نامہ عظمت تیرا
بخت و دولت کے چمکتے ہوئے عنوانوں سے
ہے یہی میری تمنا کہ تشکر کی زباں
نہ کبھی عہدہ برآ ہو تیرے احسانوں سے
چن کے لایا ہوں میں اخلاص و صداقت کے یہ پھول
تیرے ہی لطف و نوازش کے گلستانوں سے
)زمیندار ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ بحوالہ ظفر علی خاں کی گرفتاری صفحہ ۴۴ از حبیب الرحمن کابلی شائع کردہ ریفارم لیگ` اسلام گلی وسن پورہ لاہور مطبوعہ مارچ ۱۹۳۷ء(
۹۱۔
بحوالہ مسئلہ کشمیر اور ہندومہا سبھائی صفحہ ۸۶ تا ۱۱۹۔
۹۲۔
بحوالہ مسئلہ کشمیر و ہندومہا سبھائی صفحہ ۱۲۰۔
۹۳۔
مجلس احرار اسلام ہند نے ان دنوں کشمیر میں وسیع پیمانے پر سینکٹروں مسلمان رضا کار حدود کشمیر میں بھجوائے تھے یہاں اسی جتھہ بندی کی طرف اشارہ ہے۔ اس اقدام سے تحریک آزادی کشمیر پر کیا اثر پڑا اس کا اندازہ اخبار سیاست کے مندرجہ ذیل اقتباسات سے باسانی لگ سکتا ہے۔ اخبار >سیاست< ۳۔ ستمبر ۱۹۳۲ء نے لکھا۔ اس جماعت احرار نے اہل الرائے مسلمانوں کے مشورہ کے خلاف کشمیر کو جتھے روانہ کئے جو آخر کار ناکام ہو کر ملت مرحومہ کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوئے۔ پھر لکھا۔ جتھے بازی بے سود اور مضرت رساں ثابت ہوئی اس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان پہنچا احرار کی جانب سے مسلمانان خطہ کو کوئی مالی امداد بھی نہ ملی ان کے جارحانہ اقدام کے باعث حکومت پنجاب و ہند بھی برگشتہ ہو گئی۔ )سیاست یکم مارچ ۱۹۳۲ء( یہ تو ہندوستان کے مسلم پریس کی رائے تھی۔ کشمیری مسلمانوں کا ردعمل بہت زیادہ شدید تھا چنانچہ کشمیری نمائندگان کے سیکرٹری مفتی جلال الدین صاحب نے اعلان کیا کہ میں بصد تاسف احرار کی سرگرمیوں کی مذمت پر مجبور ہوں۔ کیونکہ ان گمراہوں کے بے جا جوش و خروش نے ہماری زندگیوں کو تباہ و برباد کرکے عظیم الشان مصائب میں مبتلا کر دیا۔ )سیاست ۲۴/ نومبر ۱۹۳۲ء(
۹۴۔
یہ وفد جیسا کہ تار سے واضح ہے ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو سرینگر پہنچا مگر کسی خاص مصلحت سے چوہدری افضل حق صاحب نے تاریخ احرار کے صفحہ ۴۳ میں داخلہ کشمیر کا مہینہ اکتوبر ۱۹۳۱ء لکھ دیا ہے مگر صفحہ ۴۷ سے اصل حقیقت بالکل نمایاں ہو گئی ہے کیونکہ لکھا ہے کہ ستمبر ۱۹۳۱ء میں مکلیگن کالج سٹرائیک کے ہنگامہ کی اطلاع ہمیں سرینگر میں ملی تھی۔
۹۵۔
تاریخ احرار صفحہ ۴۵۔ ۴۶۔
۹۶۔
حضور شریک اجلاس ہونے کے لئے ۱۱/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو ۳ بجے کی گاڑی سے عازم سیالکوٹ ہوئے رستہ میں ڈیرہ بابانانک` نارووال` چونڈہ اور سیالکوٹ اسٹیشن پر آپ کا شاندار استقبال کیا گیا سیالکوٹ میں آپ آغا حیدر صاحب رئیس کے مکان پر فروکش ہوئے اور کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں شامل ہونے کے علاوہ جماعت احمدیہ سیالکوٹ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی خطاب فرمایا۔ اور قلعہ سیالکوٹ پر معرکتہ الاراء تقریر بھی فرمائی اور حسب پروگرام ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۱ء کو صبح ساڑھے چار بجے کے قریب بذریعہ موٹر روانہ ہو کر تین بجے شام واپس قادیان تشریف لے آئے۔ )الفضل ۱۵ و ۱۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ و ۲(
۹۷۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۔
۹۸۔
الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴۔
۹۹۔
اخبار الامان )۱۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء(نے لکھا۔ یہ تجاویز نہایت معقول ہیں اور کافی غور و تدبر کے بعد منظور کی گئی ہیں۔ ان تجاویز کے ذریعہ مہاراجہ کشمیر کو موقع دیا گیا ہے۔ کہ وہ ایک ماہ کے اندر مسلمانوں کے مطالبات پورے کر دیں۔ ورنہ اس کے بعد مسلمان اپنی جدوجہد شروع کر دیں گے نیز اس عرصہ میں مسلمانوں کے لئے ایک پروگرام بھی تجویز کر دیا گیا ہے۔ کہ وہ اس پر عمل کرکے قربانیاں دینے کی تیاری کریں ۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس پروگرام کے مطابق ہر جگہ تیاریاں شروع کر دیں۔ )بحوالہ الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۳(
۱۰۰۔
ان حضرات کی شان میں جناب افضل حق صاحب مفکر احرار لکھتے ہیں یہ ۔۔۔۔۔۔ اپنی پگڑی پہلے ہی بغل میں دابے پھرتے تھے اور دوسروں کی اچھل جائے تو افسوس نہیں کرتے۔ )تاریخ احرار صفحہ ۴۱( طبقاتی جنگ احرار کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ )تاریخ احرار صفحہ ۱۱۰(
ہم نے ابھی تخریبی کام سیکھا ہے۔ تخریب کے ساتھ ساتھ تعمیری ذہن کی ضرورت ہے۔ )تاریخ احرار صفحہ ۲۷۴(
۱۰۱۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔ ۴۔ مشہور عالم اہلحدیث جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے لکھا۔ سیالکوٹ میں خلیفہ پر اتنے پتھر پڑے تھے کہ دو ٹرنک بھر کر لائے تھے۔ )اہلحدیث امرتسر ۷/ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۴(
۱۰۲۔
الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ و ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ میں یہ تفصیلات چھپ گئی تھیں۔
۱۰۳۔
الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۱۰۴۔
الفضل ۶/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۱۰۵۔
الفضل قادیان مورخہ ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳ و ۴۔
۱۰۶۔
الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۱۰۷۔
بحوالہ الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔ ۳۔ اسی زمانہ میں پنجاب کے ۲۲ مشہور مسلمان زعماء )مثلاً ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب بیرسٹرایٹ لاء` سید محسن شاہ ایڈووکیٹ` مولوی غلام مرشد صاحب` مولوی غلام محی الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام` پروفیسر سید عبدالقادر صاحب` خواجہ دل محمد صاحب ایم۔ اے( وغیرہ نے مسلمانوں سے ایک بیان میں اپیل کی کہ بعض مضبوط قرائن سے یہ اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ حکام ریاست کشمیر مسلمانوں کی قوت کو توڑنے کے لئے یہ حربہ استعمال کرنے کے درپے ہیں کہ ان کے اندر فرقہ وارانہ سوال پیدا کریں ۔۔۔۔۔۔ مسئلہ کشمیر ایک مہتم بالشان اسلامی مسئلہ ہے کسی قسم کے فرقہ وارانہ خیالات کی وجہ سے اس کو کسی قسم کا ضعف پہنچانا اسلام کے ساتھ غداری کے مترادف ہے اور ہمیں امید واثق ہے کہ ریاست ہمارے اندر اس قسم کی کمزوری پیدا کرنے میں ناکام ہو گی اور اس کی طرف سے آخری حربہ کے بالمقابل بھی مسلمان اپنی اسلامی صلاحیت کا ثبوت دیں گے۔ )الفضل ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔ ۲(
۱۰۸۔
یہ نام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ایک تار سے معین ہوتے ہیں۔ جو حضور نے مولوی محمد یوسف صاحب میر واعظ کے نام دیا تھا۔
۱۰۹۔
الفضل ۲۵۔ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۱۰۔
لاہور ۳/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۸۔
۱۱۱۔
یہ میموریل جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے خوبصورت انگریزی پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا تھا مندرجہ ذیل نمائندگان نے پیش کیا۔ )۱( میر واعظ محمد یوسف صاحب )۲( میر واعظ احمد اللہ صاحب ہمدانی )۳( سعد الدین صاحب شال )۴( سید حسین شاہ صاحب جلالی )۵( غلام احمد صاحب اشائی )۶( ٹھیکیدار مستری یعقوب علی صاحب )۷( شہاب الدین صاحب )۸( شیخ عبدالحمید صاحب ایڈووکیٹ )۹( چوہدری غلام عباس صاحب )۱۰( سردار گوہر رحمان صاحب )۱۱( شیر محمد عبداللہ صاحب )شیر کشمیر(
۱۱۲۔
الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۳۱ء۔
۱۱۳۔
الموعود صفحہ ۱۶۱۔ ۱۶۲۔
۱۱۴۔
الموعود صفحہ ۱۷۰ )لیکچر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۲۸/ دسمبر ۱۹۴۴ء(
۱۱۵۔
گڑھی حبیب اللہ میں شیخ محمد عبداللہ صاحب کی ملاقات کی طرف اشارہ ہے۔ ناقل۔
۱۱۶۔
الموعود صفحہ ۱۶۹ تا ۱۷۱۔
۱۱۷۔
)ملخص( اصل خط محفوظ ہے۔
۱۱۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک غیر مطبوعہ مضمون سے ماخوذ ۱۹۵۱ء۔
۱۱۹۔
الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۱۲۰۔
یہ مسجد ملکہ ہند نور جہاں بیگم نے تعمیر کرائی تھی۔ منشی محمد الدین صاحب فوق نے اپنی مشہور کتاب مکمل تاریخ کشمیر جلد دوم صفحہ ۱۹۵ )مطبوعہ ۱۹۱۰ء( پر اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ملکہ ہند نے خانقاہ معلی کے مقابلہ میں ایک سنگین مسجد بھی تیار کرنے کا حکم دیا۔ جو بعد میں بڑے عالی شان پیمانے پر تیار ہوئی اور اب تک موجود ہے اور سرکاری انباروں کا کام دیتی ہے۔
۱۲۱۔
الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۲۲۔
لاہور ہفت روزہ مورخہ ۱۰/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳۔
‏tav.5.34
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
حصہ دوم۔ چوتھا باب )فصل اول(
>مڈلٹن کمیشن< اور >گلانسی کمیشن< میں جماعت احمدیہ کی خدمات` اہل کشمیر کے لئے مالی و جانی قربانیوں کی تحریک` وسیع پیمانے پر فسادات اور ان کی روک تھام` مظلومین کشمیر کے مقدمات کی پیروی میں احمدی وکلاء کے سنہری کارنامے` آل جموں و کشمیر پولٹیکل مسلم کانفرنس کی بنیاد` اخبار >اصلاح< کا اجراء اور کشمیر اسمبلی کا قیام
>مڈلٹن کمیشن< اور >گلانسی کمیشن<
)نومبر ۱۹۳۱ء سے لے کر ستمبر ۱۹۳۴ء تک(
مہاراجہ ہری سنگھ صاحب والی جموں و کشمیر کے تاریخی اعلان )مورخہ ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء( سے جدوجہد آزادی کا ایک نیا محاذ شروع ہوا یعنی ریاست کے مقرر کردہ >مڈلٹن کمیشن< اور >گلانسی کمیشن< کے سامنے کارآمد اور مفید شہادتوں کا مرتب کرنا اور کشمیری مسلمانوں کو ایسے مشورے دینا جن سے وہ اپنا کیس موثر رنگ میں پیش کر سکیں۔
کمیشن میں کام کرنے والے مخلص کارکن
یہ بہت بڑا معرکہ تھا جسے سر کرنے کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے سرینگر` جموں` پونچھ اور میر پور میں باقاعدہ دفاتر کھول دیئے سرینگر میں شیخ بشیر احمد صاحب بی اے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ` چوہدری عصمت اللہ صاحب بی ایس سی۔ ایل ایل بی` مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے` مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی` مولوی سید میرک شاہ صاحب اور چوہدری ظہور احمد صاحب کو دن رات کام کرنا پڑا۔ جس کا ¶چرچا پنجاب کے مسلم پریس میں بھی ہوا۔ چنانچہ اخبار >انقلاب< نے لکھا۔
>کشمیر میں اس وقت دو کمیشن مصروف کار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی خدمات آئینی جدوجہد میں ایسی عظیم الشان ہیں کہ کوئی دوسری جماعت اس لحاظ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی<۔۱ اسی اخبار نے ایک اور اشاعت میں لکھا۔ >حقیقت یہ ہے کہ تحریک کشمیر کے سلسلے میں جو تعمیری کام اس کمیٹی نے انتہائی خلوص اور خاموشی سے انجام دیا ہے۔ اس کے شکریہ سے مسلمان کبھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔۔۔۔ بحالت موجودہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ایک مشہور عالم` دو وکیل` ایک گریجوایٹ اور ایک کلرک کو سرینگر میں اس کام پر مامور کر رکھا ہے کہ تحقیقاتی کمیشنوں کے سامنے مسلمانوں کا کیس تیار کریں اور ان کمیشنوں کی کارروائی پر نگرانی رکھیں ایک وکیل جموں میں مصروف کار ہے ایک میر پور بھیجا جارہا ہے۔ دو اچھے وکیل گلانسی کمیشن کے ساتھ کام کرنے کے لئے بھیجے جارہے ہیں۔ لیکن ان کا سفر خرچ اور مصارف قیام پر بھی کافی روپیہ خرچ ہو رہا ہے<۔۲
>مڈلٹن کمیشن< کے سلسلہ میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی خدمات سے متاثر ہو کر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے ۲۱/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو سرینگر سے >الفضل< کے نام مندرجہ ذیل پیغام بھیجا۔ >شوپیاں کا مقدمہ قتل۳ گزشتہ ہفتہ سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نہایت قابلیت کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک ملزم رہا کر دیا گیا ہے۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے ہمارے مفاد کی خاطر جو قربانی کی ہے اس کے ہم بے حد ممنون ہیں آپ نے مڈلٹن تحقیقاتی کمیٹی کے سلسلہ میں بھی ہمیں قابل قدر امداد دی ہے ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایسا قابل قانون دان ہماری امداد کے لئے بھیجا<۔۴
شیخ صاحب کے دوش بدوش مولوی عبدالرحیم صاحب درد کی جدوجہد بھی قابل تعریف تھی اور ان کا وجود اہل کشمیر کے لئے بہت غنیمت تھا۔ چنانچہ چوہدری ظہور احمد صاحب کا بیان ہے کہ گلینسی نے جس وقت کام شروع کیا مولانا عبدالرحیم صاحب درد سرینگر ہی میں تھے۔ ان کا دستور یہ تھا کہ روزانہ شام کو مسلم نمائندوں سے سارے دن کی کارروائی کے حالات سنتے` مشورے دیتے جاتے شہادتیں اور مواد مہیا کرنے کا کام بہت اہمیت رکھتا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ کام پوری ذمہ داری سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سر انجام دے رہے تھے۔
ایک روز ایک نمائندہ کمیشن سے مولانا درد صاحب نے فرمایا کہ وہ کمیشن کے اس طرح رکن ہیں۔ جیسے مسٹر گلینسی اگر مسٹر گلینسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کارروائی کی تمام فائل اپنے ساتھ گھر پر لے جائیں` مسٹر مڈلٹن اور ریاست کے دوسرے حکام سے مشورہ کریں۔ تو یہ حق آپ کو بھی حاصل ہے۔ اس لئے آپ آج مکمل فائل ہمارے پاس لائیں۔ تاکہ ہم ملاحظہ کے بعد آپ کو مزید مشورہ دے سکیں ہفتہ کی شام کو وہ فائل لے آئے اور راقم الحروف سے بیان کیا کہ وہ فائل مسٹر گلینسی کے علم کے بغیر اس کی اردلی سے اس شرط پر لے کر آئے ہیں کہ پیر کے روز دفتر کھلنے سے پہلے وہ اسے واپس کر دیں گے راقم الحروف نے اسی وقت اسے ٹائپ کرنا شروع کر دیا۔ ساری رات کام کرتا رہا۔ دوسرا دن )جو اتفاق سے اتوار کا دن تھا( کام کیا۔ اگلی رات نصف شب کے قریب میں نے ساری فائل کی چار نقلیں ٹائپ کر لیں تھیں۔ جو بعد میں بہت مفید ثابت ہوئیں۔ کیونکہ مسل میں جو نقائص رہ گئے تھے ان کا علم ہو گیا اور مسلم نمائندگان کو ضروری مواد مہیا کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کر دیئے گئے اس ۳۴ گھنٹے کے عرصہ میں آرام اور نمازوں کا وقت غالباً چار گھنٹے سے زیادہ نہ ہو گا۔ نیند سے بچنے کے لئے کھانے سے پرہیز کیا۔ اور صرف قہوہ استعمال کیا۔ اب میں خود حیران ہوتا ہوں کہ ان دنوں اتنا کام کرنے پر بھی خاص کوفت محسوس نہ ہوئی تھی<۔۵
محترم درد صاحب اس دوران میں چند روز کے لئے قادیان تشریف لے گئے تو شیخ محمد عبداللہ صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ >کیا کروں اکیلا ہوں ۔۔۔۔۔ جناب سے استدعا کی تھی کہ مولانا درد کو کم از کم دس دن کے لئے سرینگر بھیج دیجئے اور درد صاحب نے بھی فرمایا تھا مگر ابھی تک نہیں آئے۔ خدارا انہیں جلدی روانہ فرمائیں۔ ورنہ تمام کام بگڑ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔ ہمیں اس وقت مختلف ہندوستانی ریاستوں کے انسداد گائو کشی کے قوانین کے حوالہ جات کی از حد ضرورت ہے مجھے امید قوی ہے کہ جناب والا اس کے متعلق کوشش فرما کر ہمیں مطلوبہ حوالہ جات روانہ فرمائیں گے۔ جناب کو شاید کشمیری پنڈتوں کا کمیشن کا نقل بیان مل گیا ہو گا۔ ہمیں تبدیلی مذہب کے متعلق جناب کا تفصیلی جواب مطلوب ہے۔ براہ کرم تھوڑا بہت وقت نکال کر جناب اس پر تبصرہ فرمائیں۔ ہم نے ایک ایک مہینہ سے دفتر پتھر مسجد کے ساتھ قائم کیا ہے اور کام باقاعدہ چل رہا ہے جناب کو مئودبانہ گڑھی حبیب اللہ والا وعدہ یاد دلانے کی جرات کرتا ہوں کہ اخراجات دفتر جو کہ شاید مبلغ /-۲۳۸ سے روپے بنتے ہیں جناب والا ماہوار بھیجتے رہیں گے مجھے روپے کی از حد ضرورت ہے۔ کاش مجھے سری نگر سے صرف دو ہفتہ کی مہلت ملتی۔ تاکہ میں دیہات کا دورہ کرکے چندہ جمع کرتا۔ مگر جونہی میں ادھر ادھر جاتا ہوں کام تمام کا تمام بگڑتا ہے۔ میں جناب سے التجا کروں گا کہ کم از کم اخراجات دفتر کا انتظام فرما کر میری طرف سے مولانا درد صاحب` مولانا غزنوی صاحب و دیگر کارکنان کی خدمت میں مودبانہ عرض السلام۔ میں ہوں جناب کا تابعدار دستخط شیخ محمد عبداللہ )بحروف انگریزی۔ ناقل(۶
تبدیلی مذہب اور گائو کشی سے متعلق قوانین کی فراہمی
اس خط کے پہنچنے پر کشمیر کمیٹی نے گلینسی کمیشن کے لئے مطلوبہ مواد مہیا کرکے بھجوا دیا اور بھوپال` رامپور` جے پور` حیدر آباد میسور` بھرت پور` بیکانیر` پٹیالہ` بڑودہ` بہاولپور` مالیر کوٹلہ اور کپور تھلہ کے وزرائے اعظم سے خط و کتابت کی` اور ان کے قوانین وراثت حاصل کرکے شیخ محمد عبداللہ صاحب کو بھجوائے اور ریاستوں سے جواب آتے ہی مسٹر گلینسی کو لکھا کہ معلوم ہوا ہے ریاست کے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب سے محرومی وراثت کا قانون تمام ہندوستانی ریاستوں میں موجود ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم نے مختلف ریاستوں سے تحقیق کی ہے پرائم منسٹر بیکانیر اور پولیٹیکل سیکرٹری بڑودہ نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ ان کے یہاں یہ قانون منسوخ ہو چکا ہے )مراسلہ مورخہ ۵/ مارچ ۱۹۳۲ء( ان کے علاوہ جے پور` میسور وغیرہ سے بھی اس قانون کی تنسیخی کا جواب آیا۔ رامپور اور پٹیالہ سے مکتوب ملا کہ قانون وراثت سے متعلق فیصلے ہر فرقہ کے عقیدہ و قانون کے مطابق کئے جاتے ہیں تبدیلی پر محرومی وراثت کی کوئی دفعہ موجود نہیں۔
زعمائے کشمیر حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں
جناب شیخ عبدالحمید صاحب ایڈووکیٹ جموں کا بیان ہے کہ >مسلم مطالبات کے سلسلہ میں یہ مشکل پیش آئی کہ جب ہم نے حکومت کشمیر سے مسجدیں واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ تو ہندوئوں نے قدیم مندر کی )جو مسجدوں میں تبدیل ہوئے ہیں( واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ہم نے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی طرف رجوع کیا۔ آپ نے نمائندوں کو وزیر آباد بلایا۔ چنانچہ میں اور قاضی گوہر رحمان صاحب اور شیخ محمد عبداللہ صاحب اور مستری یعقوب علی صاحب آپ سے وزیر آباد آکر ملے۔ اور آپ کی ہدایات کے مطابق ہم نے یہ جواب جا کر گلینسی کے سامنے دیا کہ مساجد ہم حکومت کشمیر سے واپس مانگ رہے ہیں نہ کہ کسی فرقہ کے قبضہ سے اور ہندوئوں کا جو سوال ہے وہ ان مقامات کے متعلق ہے جو صدیوں سے ان بزرگوں کے مسلمان ہونے کے بعد مسلمانوں کے قبضہ میں چلے آتے ہیں ایسی جائیداد کو واپس لینے کے لئے جو کسی دوسرے فرقہ کے قبضہ میں ہو انہیں عدالت کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم نے یہ جواب پیش کیا تو فریق مخالف کا منہ بند ہو گیا<۔۷
گلانسی کمیشن کے سلسلہ میں چوہدری عصمت اللہ صاحب` صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کی خدمات بھی یادگار رہیں گی۔ چوہدری عصمت اللہ صاحب مڈلٹن کمیشن میں بطور عینی شاہد پیش ہوئے اس کے بعد گلانسی کمیشن کے لئے مواد جمع کرنے میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے دست و بازو بن گئے۔۸ مسٹر گلینسی سے موخر الذکر دو اصحاب نے بار بار ملاقاتیں کیں۔ اور ان پر مسلم مطالبات کی معقولیت ہر رنگ میں واضح کرنے کی کوشش کی اور جن معاملات میں مسٹر گلینسی کو شرح صدر نہ تھا ان کو دلائل کے ذریعہ اپنا ہم خیال بنانے کی سعی و جدوجہد آخر وقت تک جاری رکھی ان مخلص اور مستعد کارکنوں کے علاوہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مالیہ اور لگان کی تخفیف سے متعلق مسلم مطالبات کو مدلل بنانے کے لئے راولپنڈی` جہلم` سیالکوٹ وغیرہ ملحقہ اضلاع میں تشریف لے گئے اور پٹواریوں اور قانون گوئوں وغیرہ کی مدد سے مالیہ سے متعلق ضروری اور اہم کوائف فراہم کئے جو کمیشن کے مسلمان ممبروں کی طرف سے پیش کئے گئے۔
کمیشن جموں میں
مڈلٹن اور گلانسی کمیشن سرینگر سے کام ختم کرکے وسط جنوری ۱۹۳۲ء میں سرینگر سے جموں پہنچا جہاں چوہدری عزیز احمد صاحب بی اے۔ ایل ایل بی نے اور مولوی غلام مصطفیٰ صاحب بیرسٹر گوجرانوالہ نے ینگ مینز ایوسی ایشن کی طرف سے مڈلٹن کمیشن کے سامنے گواہوں کے بیانات دلائے۔۹ چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ اس خدمت میں چوہدری عزیز احمد صاحب کا ہاتھ بٹاتے تھے اور لفٹیننٹ محمد اسحٰق صاحب نے دفتری کام عمدگی سے سنبھالا چنانچہ چوہدری غلام عباس صاحب اپنی کتاب >کشمکش< میں تحریر فرماتے ہیں کہ >میں سرینگر سے جموں پہنچ گیا تھا۔ وہاں مسلم ایسوسی ایشن مڈلٹن کمیشن کے روبرو اپنا کیس پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے دو ایڈووکیٹ مقدمہ کی پیروی کے لئے جموں بھیجے جنہوں نے پوری دلچسپی اور انہماک سے دو ماہ تک یہ کام سر انجام دیا<۔۱۰
جموں کے لیڈر سردار گوہر رحمان صاحب کے خطوط
ذیل میں جموں کی ینگ مینز ایسوسی ایشن کے مشہور لیڈر اور ڈکٹیٹر جناب سردار گوہر رحمان صاحب کے چند خطوط کا درج کرنا ضروری ہے ان خطوط سے اس عظیم الشان کام کی نوعیت و اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔
)۱( 31۔X11۔8 مخدومی و معظمی جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی
السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ مزاج شریف۔
چونکہ گلینسی کمیشن کی آمد آمد ہے۔ اور کمیشن مذکور کی آمد سے پہلے >مطالبات< کی کاپیاں تمام قلمرو میں ارسال کرنی ضروری ہیں۔ لہذا از راہ کرم انگریزی مطالبات کا ترجمہ کرا کر کم از کم ۳۰۰۰ کاپیاں ایک ہفتہ کے اندر اندر ارسال فرما کر شکر گزار فرمائیں۔ کیونکہ دیہاتی لوگ ابھی تک اپنے مطالبات سے ہی ناواقف ہیں۔ خاکسار گوہر رحمان )نقل مطابق اصل(
)۲( جموں نحمدہ و نصلے علی رسولہ الکریم
بخدمت محترم جناب حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ یہاں پہنچ کر حسب الحکم سب کچھ کر دیا گیا ہے۔ اور آئندہ بھی انشاء اللہ ایسا ہی ہوا کرے گا۔ ہمارے لئے ہر وقت دعا فرمایا کریں۔ کیونکہ ہم دشمنوں کے نرغے میں بے یار و مددگار ہیں۔ اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی حامی و مددگار نہیں۔
آج معلوم ہوا ہے کہ بیمہ آگیا ہے صبح وصول ہو جائے گا۔ اخراجات کی سخت تکلیف ہے علاوہ ازیں یہاں پر سخت تکالیف کا سامنا ہے۔ میں بالکل تنہا ہوں اور کوئی صاحب ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے۔ صبح سے لے کر رات دس بارہ بجے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ دفتر میں شیخ غلام قادر صاحب بالکل تنہا ہیں اور کام کی اس قدر کثرت ہے کہ انہیں اس قدر پریشانی ہو رہی ہے جو بیان سے باہر ہے۔ اس کے متعلق میں اس قدر عرض کروں گا۔ کہ ایک ٹرینڈ کلرک ایک دو ماہ کے لئے اور ایک ٹائپ کا اگر انتظام فرما دیں۔ تو ہمیں کچھ سہولت ہو سکتی ہے اس وقت تک نہ ہی گلینسی کمیشن اور نہ ہی مڈلٹن کمیشن کے لئے کوئی تیاری ہو سکی ہے۔ باہر دورہ کرنے کے لئے آدمی نہیں ملتے یہاں کے تمام امورات ادھورے پڑے ہیں۔ اس لئے جناب بہت جلد کوئی مستقل انتظام فرما کر شکر گزار فرمائیں۔
وکلاء صاحبان میں سے کوئی صاحب اس وقت تک تشریف نہیں لائے۔ مقدمات کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے اگر شروع میں جرح نہ ہوئی تو بعد میں ہمیں مزید جرح کا موقعہ نہیں مل سکتا۔ اس لئے مودبانہ عرض ہے کہ جہاں تک جلد ممکن ہو سکے وکلاء کا انتظام فرمائیں۔ یہاں پر وہی وکیل پیش ہو سکتے ہیں جو ایڈووکیٹ ہوں اس لئے اس کا ضرور خیال رکھیں۔ چوہدری عزیز احمد صاحب کو بحیثیت مختار پیش ہونے کی اجازت ملی ہے ۔۔۔۔۔۔ والسلام خاکسار گوہر رحمان<۔ )نقل مطابق اصل(
)۳( ۳۱/۱۲/۲۰ جموں بخدمت محترم جناب حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ جناب بخیریت ہوں گے۔ جلسہ کی وجہ سے مصروفیت زیادہ ہو گی۔ یہاں کے حالات دن بدن پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ اشتہارات جاری کرنے کے بعد اس وقت تک صرف میر پور میں پریذیڈنٹ صاحب شکایات کی فراہمی کے لئے تشریف لے گئے ہیں۔ شکایات اس وقت تک بہت کم بھیجی گئی ہیں۔ اور وقت بہت کم ہے۔ میں نے جناب سے عرض کیا تھا۔ کہ ان اخراجات کے لئے کم از کم چار صد روپیہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی توجہ نہیں فرمائی گئی جس قدر ممکن ہو سکے روپیہ ارسال فرمائیں۔ مڈلٹن کمیشن کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور محمد اسحاق صاحب خوب محنت سے کام کر رہے ہیں۔ کرسمس میں تمام کام ختم کر لیا جائے گا۔ بشرطیکہ یہ تمام احباب یہاں پر رہیں اس لئے جناب میر صاحب وغیرہ کو کرسمس میں یہیں رہنے کے لئے حکم دیں تاکہ تمام بیانات مکمل کر لئے جائیں۔ اگر کام ہلکا ہو گیا تو ایک دن کے لئے جلسہ پر چلے جائیں گے۔ گلانسی کمیشن کے لئے تاحال کوئی مواد فراہم نہیں ہوا۔ وہ تمام بیانات کشمیر طلب کر رہے ہیں۔ اس لئے آج ان کو لکھ دیا ہے کہ بیانات ان کے آنے پر یہاں پیش کئے جائیں گے کیونکہ ہندو شہادتوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مسٹر عبداللہ کا تار سرینگر سے آیا تھا۔ جو نوٹ وزیر آباد سے تیار کئے گئے تھے ان کے متعلق ریزولیوشن پاس ہو چکے ہیں۔ اب صرف گائے کشی کے سزا کی تخفیف پر بحث شروع ہے ۔۔۔۔۔۔ شہاب الدین کو سپوکس مین مقرر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ایسے نازک وقت میں ہماری امداد فرمائے۔ ۔۔۔۔۔ چوہدری عزیز احمد صاحب کو میر پور بھیجا ہوا ہے جناب کے پاس ایک اور وکیل نے یہاں آنے کی درخواست کی ہوئی ہے مہربانی کرکے انہیں فوراً روانہ فرمائیں۔ تاکہ عزیز احمد صاحب کو مڈلٹن کمیشن کی تیاری کے لئے واپس بلایا جا سکے۔ کیونکہ وہ اس سے اچھی طرح واقف ہیں اس وقت ضرورت صرف ایک ایسے قابل اور محنتی کارکن کی ہے جو کمیشن کے کام سے اچھی واقفیت رکھتا ہو۔ کیونکہ ہم سب بالکل ناواقف ہیں۔ اور گلانسی کمیشن کی تیاری میں سخت پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ امر جناب کی فوری توجہ کا محتاج ہے۔ روپیہ کی اشد ضرورت ہے۔ آخر میں یہ عرض ہے کہ ہم سب جناب کی دعا کے بھی محتاج ہیں۔ ہماری کامیابی کے لئے ہر وقت دعا فرمایا کریں۔ درد صاحب ابھی تک یہاں نہیں پہنچے کیا کشمیر چلے گئے ہیں۔ احباب آپ سے آداب کرتے ہیں۔ خاکسار گوہر رحمان جموں )نقل مطابق اصل(
ملک فضل حسین صاحب کی دو تصانیف
ان کمیشنوں میں تصنیفی لحاظ سے جس چیز نے بہت مدد کی وہ ملک فضل حسین صاحب کی تالیف >مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج< تھی۔ جو ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو شائع ہوئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ذاتی طور پر ڈیڑھ سو نسخے اس کے خرید فرمائے اور حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کو مظفر آباد روانہ فرمایا تا وہ سربرآوردہ مسلمانوں میں اسے مفت تقسیم کر دیں چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اس کتاب کے کئی ابواب کا انگریزی ترجمہ شیخ محمد عبداللہ صاحب کی خواہش پر گلینسی کمیشن کے سامنے رکھا گیا۔۱۱
اس کتاب نے مسلمانان کشمیر کے مطالبات کی معقولیت واضح کر دی اور زعمائے کشمیر نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا۔ چنانچہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے تحریر فرمایا کہ >میری رائے ہے کہ قابل مصنف نے بہت محنت سے کام کیا ہے۔ اور کشمیر کے مسلمانوں کی نسبت درد دل رکھنے والے تمام حضرات کو چاہئے کہ وہ اس رسالہ کا ضرور مطالعہ کریں۔ مسلمانان ریاست کو بھی چاہئے کہ گھر گھر میں اس کتاب کو منگوائیں اور اپنے اصل حالات اور دشمنوں کی چالوں سے واقف رہیں اور اگر وہ آئندہ دنیا میں ایک باوقار قوم کی مانند رہنا چاہتے ہیں<۔
مولوی سید میرک شاہ صاحب فاضل دیوبند و پروفیسر اورنٹیل کالج لاہور نے لکھا۔ اس کتاب کی ممتاز ترین خوبی یہ ہے کہ غیر جانبدار شاہدوں کی شہادت اور صحیح اعداد و شمار نیز واقعات کی روشنی میں مسلمانان کشمیر یا بالفاظ دیگر رعایائے کشمیر کی وہ تباہی و بربادی دکھا دی گئی ہے جو ڈوگرہ حکومت کے عہد میں کشمیریوں کو پیش آئی ۔۔۔۔۔۔ اس موضوع پر روشنی ڈالنے کے لئے میرے خیال میں اب تک کوئی کتاب اس سے بہتر نہیں لکھی گئی<۔
جناب اللہ رکھا صاحب ساغر لیڈر جموں نے تحریر فرمایا۔ >میرے خیال میں رسالہ سلیقہ سے مرتب ہوا ہے مصنف کی عرقریزی قابل داد ہے<۔
شیخ غلام قادر صاحب جنرل سیکرٹری ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن جموں نے یہ رائے دی۔ >یہ اپنی نوعیت کا سب سے پہلا رسالہ ہے اس کے مصنف نے مہاسبھائی ہندوئوں کی خفیہ سازشوں کا تمام تاروپود کھول کر رکھ دیا ہے۔ جو مسلمانان کشمیر کو ایک مدت دراز سے سختی کے ساتھ کچل رہا تھا حوالہ جات سے ہندوئوں کی سازشوں کے اثبات میں جو محنت مصنف نے کی ہے قابل داد ہے ریاست کے محکمانہ گوشوارے جن میں ملازمتوں کا تناسب دکھایا گیا ہے۔ اور وہ مثالیں جن سے حکام کے کورانہ تعصبات کا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ سراسر حقیقت پر مبنی ہیں<۔
سید ولایت شاہ صاحب مفتی تحصیل راجوری نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا کہ >میرے خیال میں یہ کتاب واقعات کشمیر کے لحاظ سے مشاہدات عینی کا عین ترجمہ ہے۔ اور مصنف صاحب نے جس خلوص سے محنت کرکے یہ کتاب لکھی ہے تہ دل سے اہل خطہ کیا جملہ مومنین کو مشکور ہونا عین انصاف ہے<۔۱۲
ملک فضل حسین صاحب نے مسلمانان کشمیر کے ڈوگرہ راج کے بعد ستمبر ۱۹۳۲ء میں >مسئلہ کشمیر اور ہندو مہا سبھائی< کے نام سے دوسری کتاب شائع کی جس میں تحریک حریت کشمیر کے خلاف مہا سبھائی پراپیگنڈا کی خوب قلعی کھولی اور ثابت کر دکھایا کہ ویدوں میں تبدیلی مذہب پر ضبطی جائیداد کا کوئی قانون موجود نہیں` باقی رہی منو سمرتی تو اس کے قانون وقتی ہیں اور خود ہندوئوں نے بلکہ ریاست کشمیر نے بھی اس کے متعدد قانون عملاً منسوخ اور کالعدم کر رکھے ہیں۔ بلکہ کشمیری پنڈت منو کے خلاف مطالبات کر رہے ہیں۔ ان کتابوں کی قوت و ہیبت کا حکام ریاست پر یہ اثر تھا کہ انہوں نے یہ دونوں کتابیں ضبط کر لیں۔ اور ہدایت جاری کر دی کہ جس شخص کے پاس ان کا کوئی نسخہ پایا جائے گا اسے چھ ماہ قید اور سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔][حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی نظر ثانی گلانسی کمیشن کے مسودہ اصلاحات پر
گلانسی کمیشن کا کام اختتام پذیر ہوا۔ تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسلم مطالبات کے تحفظ کے لئے آخری کوشش
یہ فرمائی کہ کمیشن کے مسودہ اصلاحات پر احتیاطاً خود بھی نظر ثانی کرکے مسلم زعماء کو مفید مشورے دیئے۔ چنانچہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ >حضور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اصلاحات کے مسودے میں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی شقیں شامل کر دی جائیں جن سے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کو نقصان پہنچے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان ممبروں کے دستخط ہونے سے پہلے وہ مسودہ اصلاحات حضور کی نظر سے گزر جائے۔ یہ کام بہت مشکل تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ مسٹر گلینسی اور ان کی بیوی مسودہ اصلاحات خود ٹائپ کرتے ہیں اور اپنی صندوقچی میں اسے مقفل رکھتے ہیں۔ ممبران کو بلا کر تبادلہ خیال کرتے ہیں ان سے اپنے سامنے ہی دستخط کروائیں گے۔ اور رپورٹ بالا بالا بھیج دیں گے۔ ان کا یہ طریق عمل میرے لئے مایوس کن تھا۔ لیکن سیدھی سادی تدبیر سے بغیر اس کے کہ سرقہ کی صورت ہو۔ تیار کردہ رپورٹ جس پر دستخط ہونے تھے۔ آگئی راتوں رات وہ ٹائپ کروائی اور میں وہ لے کر قادیان پہنچ گیا۔ حضور نے اس میں اصلاحات فرمائیں اور تیسرے دن میں اور درد صاحب مرحوم دونوں مسودہ کو جموں لے آئے اور مسٹر عباس اور مسٹر اشائی کو ضروری مشورہ دیا گیا۔ اور یہ ممبر بہت ہی ممنون ہوئے۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو کشمیریوں کی بہبود کا اتنا خیال تھا کہ حضور نے اصلاح شدہ مسودے کی دو کاپیاں ٹائپ کروائیں۔ ایک ایک کاپی دونوں کو دے دی گئی۔ کہ ہم میں سے اگر ایک گرفتار ہو جائے تو دوسرا مسلمان ممبران کمیشن کو پہنچا دے<۔
مڈلٹن کمیشن کی رپورٹیں
>مڈلٹن کمیشن< اور >گلانسی کمیشن< سے متعلق جماعت احمدیہ کی عظیم الشان حفاظت کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم >مڈلٹن کمیشن< کی رپورٹ کی طرف آتے ہیں۔
ابتداًء مڈلٹن کمیشن کا خلاصہ ایسوسی ائیٹڈ پریس نے شائع کیا تھا۔ جسے دیکھ کر مسلمانان کشمیر اور کشمیر کمیٹی کو بہت افسوس ہوا۔ کیونکہ ڈوگرہ مظالم کے متعلق رپورٹ سراسر غیر منصفانہ اور اس شہادت کے بالکل خلاف تھی جو کمیشن کے روبرو پیش کی گئی۔ اس بناء پر کشمیر کمیٹی نے حکومت کشمیر سے مطالبہ کیا کہ وہ مڈلٹن رپورٹ کی مکمل نقل مع شہادتوں کے کمیٹی کو مہیا کرے۔ نیز مطالبہ کیا کہ پوری رپورٹ بلاتاخیر شائع کی جائے۔ چنانچہ جب بعد کو اصل رپورٹ منظر عام پر آئی تو معلوم ہوا کہ اخبارات کا خلاصہ سخت گمراہ کن اور خلاف اصل تھا۔ اور گو مسلمانوں سے پورا پورا انصاف نہیں کیا گیا تھا۔ مگر وہ ایسی بری بھی نہیں تھی جیسی کہ خلاصہ سے معلوم ہوتی تھی۔ اور اس میں فسادات کی ذمہ داری ریاست کے سول اور فوجی افسروں پر ڈالی گئی تھی۱۳ مگر چونکہ رپورٹ کے خلاصہ نے مسلمانان کشمیر میں سخت اضطراب و تشویش کی لہر دوڑا دی تھی۔ لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اہل کشمیر کے نام مطبوعہ خط لکھا جس میں اس رپورٹ پر انتقاد کرتے ہوئے فرمایا۔ >بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں گلیسنی کمیشن پر کیا اعتبار رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گلینسی کمیشن سے بھی خطرہ ہے جس طرح مڈلٹن کمیشن میں خطرہ تھا۔ لیکن اگر اس کمیشن نے بھی ہماری امیدوں کے خلاف فیصلہ کیا۔ تو ہمارا کیا نقصان ہو گا۔ کیا انگریز کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہمارے مذہب کی جزو ہے۔ اگر مسٹر گلینسی نے مسٹر مڈلٹن والا طریق اختیار کیا تو ہم مڈلٹن رپورٹ کی طرح اس کی غلطیوں کا بھی پردہ فاش کریں گے۔ اور اگر اس میں مسلمانوں کے حق میں کوئی سفارش کی گئی تو یقیناً اس سے ہم کو فائدہ پہنچے گا<۔۱۴
گلانسی کمیشن کی رپورٹ اور مسلمانان کشمیر کے حقوق و مطالبات پر مہر تصدیق
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے یہ الفاظ صحیح ثابت ہوئے اور گلانسی کمیشن نے مسلمانوں کے اکثر حقوق و مطالبات کی سفارش کر دی۔ اور ان
‏body2] [tagکی معقولیت پر اس طرح مہر تصدیق ثبت کر دی کہ ہندو پریس نے احتجاجاً لکھا۔ >کشمیر کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔۱۵ ۲۲/ مارچ ۱۹۳۲ء کو کمیشن کی رپورٹ مکمل ہوئی اور مہاراجہ صاحب نے ۱۰/ اپریل ۱۹۳۲ء کو رپورٹ کی سفارشات منظور کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ اور اس طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قیادت میں صرف چند ماہ کی آئینی جدوجہد سے اہل کشمیر کو اکثر و بیشتر وہ حقوق قانوناً حاصل ہو گئے جو سکھوں کے عہد حکومت سے چھن گئے تھے۔ اور جن کی خاطر اندرون کشمیر اور بیرون ریاست دونوں جگہ ایک لمبے عرصہ سے کوششیں جاری تھیں۔
چنانچہ گلانسی کمیشن کے نتیجہ میں خانقاہ >سوختہ<۔ خانقاہ شاہدرہ` زیارت مدنی صاحب خانقاہ` بلبل شاہ` خانقاہ داراشکوہ` شاہی باغ مسجد` خانقاہ صوفی شاہ` عید گاہ سرینگر وغیرہ مساجد و مقابر اور مقدس مقامات جو مدت سے ڈوگرہ حکومت کے قبضہ میں تھے۔ مسلمانوں کو واپس کر دیئے گئے اور آئندہ کے لئے مہاراجہ نے یہ اعلان کیا کہ اس نوع کی تمام مقدس عمارتیں مسلمانوں کے سپرد کر دی جائیں اور اگر ان پر قابض لوگوں کو معاوضہ دینے کا عدالتی فیصلہ ہو تو ریاست اسے معاوضہ ادا کرے۔ اور نئی مساجد بنانے کی درخواست پر بھی ہمدردانہ غور کیا جائے۔
مہاراجہ صاحب کی طرف سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ہر قوم کو ریاست میں کامل مذہبی آزادی ہے اور اگر کوئی شخص اذان میں مداخلت کرے تو اسے سزا دی جائے۔ یا کسی کو اس کی تبدیلی مذہب کی بناء پر ہراساں اور خوفزدہ کیا جائے۔ تو اس کی گو شمالی کی جائے۔ خواہ وہ پولیس ہو یا کوئی اور سرکاری عہدیدار ہو یا رعایا میں سے کوئی شخص!!
تعلیم کے متعلق کمیشن کی سفارشات منظور کرتے ہوئے ابتدائی تعلیم کی توسیع` عربی کے اساتذہ کی تعداد` اسلامی وظائف کی مقدار اور محکمہ تعلیم کے مسلمان انسپکٹروں میں اضافہ کے احکام دیئے اور مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک خاص انسپکٹر کے تقرر کا فیصلہ کیا۔
مسلمانوں کا ایک نہایت اہم مطالبہ یہ تھا کہ زمینداروں کو حقوق مالکانہ دیئے جائیں۔ جو تسلیم کر لیا گیا۔ اور جموں` سانیہ` اکھنور` کھٹولہ` جیمر گڑھ` میر پور اور بھمبر کی تحصیلوں سے کاہ چرائی کا ٹیکس عارضی طور پر اڑا دیا گیا۔ دھاروں میں جو مزید ٹیکس وصول کیا جاتا تھا وہ بھی اڑا دیا گیا۔ اخروٹ کے درخت کاٹنے پر پابندی بھی ختم کر دی گئی` محکمہ جنگلات` پولیس اور مال وغیرہ میں بھی نئی اصلاحات جاری کی گئیں اور بکر والوں پر ٹیکس میں تخفیف کر دی گئی۔
آزادی تقریر و تحریر سے متعلق اعلان کیا کہ ریاست میں جلد از جلد وہی قانون رائج ہو۔ جو برطانوی ہند میں رائج ہے۔ مالیہ کی شرح برطانوی علاقہ کے مطابق کرنے کے مطالبہ کی معقولیت تسلیم کر لی گئی ریاست کے افسروں اور مہاراجہ کو رائے عامہ سے آگاہ کرنے اور ریاست کی قانون سازی اور حکام کے اعمال پر تنقید کرنے اور رعایا کو شامل کرنے کے لئے مسٹر گلانسی کی زیر صدارت اصلاحاتی کانفرنس نے ریاست میں آئین ساز اسمبلی قائم کرنے کی سفارش کی۔ چنانچہ اس کی عملی تشکیل کے لئے مہاراجہ نے ایک فرنچائز کمیٹی قائم کر دی۱۶ اور ۱۹۳۴ء میں اسمبلی کا قیام ہوا۔
اس کے علاوہ بیگار` جنگلات` رکھ` کسٹم` دھڑت` محکمہ تعمیرات عامہ` میونسپلٹی` محکمہ طبی` ذبیحہ` شادی صغر سنی سے متعلق مراعات کا اعلان کیا گیا۔ اور ریاستی مطابع کو برطانوی ہند کے مطابق بنانے کے لئے ایک نیا ترمیم شدہ قانون جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس بارے میں احکام بھی جاری کر دیئے گئے۔
‏]j1 [tagحضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے گلانسی اور زعماء کشمیر کو مبارکباد
حضرت امام جماعت احمدیہ نے گلانسی کمیشن کی سفارشات اور مہاراجہ صاحب کے فیصلہ جات پر مفصل تبصرہ شائع فرمایا۔ اس تبصرہ میں۱۷ حضور
نے جہاں مسٹر گلینسی کو مبارک باد دی وہاں گلینسی کمیشن کے مسلمان ممبروں یعنی چوہدری غلام عباس صاحب اور خواجہ غلام احمد صاحب اشائی کی خدمات کو بہت سراہا اور گلینسی رپورٹ کے فیصلہ ملکیت اراضی پر خاص طور پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ کہ >گو بظاہر یہ صرف ایک اصطلاحی تغیر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن چند دنوں کے بعد اس کے عظیم الشان نتائج کو لوگ محسوس کریں گے۔ اور یہ امر کشمیر کی آزادی کی پہلی بنیاد ہے اور اس کی وجہ سے اہل کشمیر پر زندگی کا نیا دور شروع ہو گا۔ مجھے اس تغیر پر دوہری خوشی ہے کیونکہ اس مطالبہ کا خیال سب سے پہلے میں نے پیدا کیا تھا اور زور دے کر اس کی اہمیت کو منوایا تھا بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ مطالبہ مانا نہیں جا سکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ آخر یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا<۔4] ft[s۱۸ مگر ساتھ ہی یہ وضاحت فرمائی کہ >ابھی ہمارا بہت سا کام پڑا ہے اور اسے پورا کئے بغیر ہم دم نہیں لے سکتے۔ نیز ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف قانون سے ہم خوش نہیں ہو سکتے کیونکہ قانون کا غلط استعمال اچھے قانون کو بھی خراب کر دیتا ہے پس دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ جات پر مہاراجہ کی حکومت عمل کس طرح کرتی ہے<۔۱۹
سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا دورہ کشمیر
حضور نے صرف اس اعلان پر ہی اکتفا نہیں فرمایا۔ بلکہ جلد ہی سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو کشمیر میں بھجوایا۔ کہ اندرون ریاست میں جاکر معلوم کریں۔ کہ گلانسی سفارشات پر کہاں تک عمل ہوا ہے چنانچہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ >میں نے گاندر بل کے قومی کارکن مسٹر غلام قادر کو ساتھ لیا اور کشمیر ٹورسٹ گائیڈ کی مدد سے دور دراز علاقوں میں گیا۔ سون مرگ۔ بال تل` بالتستان` دراز ہاپت وادی )ریچھ والی وادی( شیطان کنڈ` تراگربل` بانڈی پورہ` سو پور` بارہ مولا وغیرہ علاقوں کا دورہ کرتا ہوا۔ دو تین ماہ بعد سرینگر پہنچا۔ ۔۔۔۔۔۔ گھوڑے کی سواری سے پنڈلی کے بال جھڑ چکے تھے۔ جو اب تک صاف ہیں سر اور داڑھی کے بالوں میں سفیدی شروع ہو گئی تھی ان سفروں میں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ منظور کردہ اصلاحات نافذ ہیں۔ بکر وال وغیرہ قبائل نے ۔۔۔۔۔۔ میرا ہر جگہ خوشی سے استقبال کیا۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعائیں دیں کہ ان کے کاہ چرائی کے ٹیکس کم ہوئے۔ اس سفر کے اثناء میں بعض وقت مجھے ریچھوں کی غاروں میں رات گزارنا پڑی۔ ریچھ موسم گرما میں برفانی چوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور غاریں خالی ہوتی ہیں۔ موسم کی خرابی اور بارش کی وجہ سے ہمیں مجبوراً راستے میں ان ہی غاروں میں سے ایک غار میں رات ٹھہرنا پڑا<۔
گلانسی کمیشن کے تعلق میں فصل کے اختتام پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے ایک اہم واقعہ کا درج کرنا ضروری ہے۔ حضور فرماتے ہیں >گورنمنٹ آف انڈیا نے ایک والئی ریاست کو اسی غرض کے لئے مقرر کیا۔ کہ کس طرح اس جھگڑے کا وہ فیصلہ کروا دیں۔ انہوں نے میری طرف آدمی بھیجے اور کہا کہ جب تک آپ دخل نہیں دیں گے یہ معاملہ کسی طرح ختم نہیں ہو گا۔ میں نے کہا مجھے تو دخل دینے میں کوئی اعتراض نہیں۔ میری تو اپنی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا دور ہو جائے۔ آخر ان کا پیغام آیا کہ آپ دہلی آئیں۔ میں دہلی گیا۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ دو دفعہ ہم نے کشمیر کے متعلق سکیم تیار کی۔ اور آخر گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ فیصلہ ہوا کہ ان ان شرائط پر صلح ہو جانی چاہئے۔ اس وقت کشمیر میں بھی یہ خبر پہنچ گئی۔ اور مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم نے فیصلہ میں دیر کی تو تمام کریڈٹ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو جائے گا۔ چنانچہ پیشتر اس کے کہ ہم اپنی تجاویز کے مطابق تمام فیصلے کروا لیتے مسلمانوں نے ان سے بہت کم مطالبات پر دستخط کر دیئے حالانکہ ان سے بہت زیادہ حقوق کا ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ فیصلہ کروا چکے تھے<۔۲۰
)فصل دوم(
حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے اہل کشمیر کے لئے مالی و جانی قربانیوں کی پرزور تحریک اور اہل کشمیر سے ایک اہم وعدہ
آل انڈیا کشمیر کمیٹی اگرچہ اصولاً مسلمانان ہند کا ایک ملک گیر ادارہ تھا۔ مگر اس کی مالی اور دوسری عملی ذمہ داریاں سب سے زیادہ جماعت نے پوری کرنا تھیں۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہایت اولوالعزمی کے ساتھ سالانہ جلسہ ۱۹۳۱ء پر واضح اعلان فرمایا کہ۔
>میں نے اپنے نفس سے اقرار کیا ہے۔ اور طریق بھی یہی ہے کہ مومن جب کوئی کام شروع کرے۔ تو اسے ادھورا نہ چھوڑے۔ میں نے کشمیر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک کامیابی حاصل نہ ہوئے خواہ سو سال لگیں۔ ہماری جماعت ان کی مدد کرتی رہے گی۔ اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ کل پرسوں اترسوں سال دو سال سو دو سال جب تک کام ختم نہ ہو جائے ہماری جماعت کام کرتی رہے گی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلاں فلاں رعایتیں تمہیں دی جائیں گی جب اسلامی فوج گئی۔ تو اس قوم نے کہا کہ ہم سے تو یہ معاہدہ ہے۔ فوج کے افسر اعلیٰ نے اس معاہدہ کو تسلیم کرنے سے لیت و لعل کی تو بات حضرت عمرؓ کے پاس گئی انہوں نے فرمایا۔ مسلمانوں کی بات جھوٹی نہ ہونی چاہئے۔ خواہ غلام ہی کی ہو۔ مگر یہ غلام کا نہیں جماعت کے امام کا وعدہ ہے پس ہماری جماعت کو مسلمانان کشمیر کی امداد جاری رکھنی چاہئے۔ جب تک کہ ان کو اپنے حقوق حاصل نہ ہو جائیں۔ خواہ اس کے لئے کتنا عرصہ لگے۔ اور خواہ مالی اور خواہ کسی وقت جانی قربانیاں بھی کرنی پڑیں۔ ہم نے یہ کام مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لئے شروع کیا ہے۔ مگر بعض لوگوں نے اس میں کامیابی دیکھ کریہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے تبلیغ احمدیت کے لئے یہ کام شروع کیا ہے اس کام کی وجہ سے اگر اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں ہماری محبت ڈالے تو ہم خدا تعالیٰ کے اس انعام سے انکار نہیں کر سکتے۔ مگر اسے ہم تبلیغ احمدیت کا آلہ نہیں بنا سکتے۔ اس کام کو چونکہ ہماری جماعت نے ابتغاء لوجہ اللہ شروع کیا ہے۔ تاکہ ایک مظلوم قوم آزاد ہو۔ اس لئے کسی اپنے نفوذ کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے<۔۲۱
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں میں یوں زبردست جذبہ اور روح پھونکنے کے بعد خاص آزادی کشمیر سے متعلق پانچ خطبے ارشاد فرمائے۔ چنانچہ ۲۲/ جنوری ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں بعض رویاء و کشوف کی بناء پر فرمایا۔
>کشمیر کے مسلمان یقیناً غلام ہیں اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد جو یہ کہتا ہے کہ ان کو کسی قسم کے انسانی حقوق حاصل ہیں۔ وہ یا تو پاگل ہے۔ اور یا اول درجہ کا جھوٹا اور مکار۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بہترین دماغ دیئے ہیں اور ان کے ملک کو دنیا کی جنت بنایا ہے۔ مگر ظالموں نے بہترین دماغوں کو جانوروں سے بدتر اور انسانی ہاتھوں نے اس بہشت کو دوزخ بنا دیا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی غیرت نہیں چاہتی کہ خوبصورت پھول کو کانٹا بنا دیا جائے۔ اس لئے وہ اب چاہتا ہے کہ جسے اس نے پھول بنایا ہے وہ پھول ہی رہے۔ اور کوئی ریاست اور حکومت اسے کانٹا نہیں بنا سکتی۔ روپیہ چالاکی` مخفی تدبیریں اور پراپیگنڈا کسی ذریعہ سے بھی اسے کانٹا نہیں بنایا جا سکتا۔ چونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے اس لئے کشمیر ضرور آزاد ہو گا۔ اور اس کے رہنے والوں کو ضرور ترقی کا موقع دیا جائے گا۔ اگر تم اس میں حصہ لو گے تو گو بظاہر اس بڑھیا کی مثال ہو گی۔ جس کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ وہ سوت کی انٹی لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدنے گئی تھی۔ لیکن ساتھ ہی یہ مت خیال کرو تمہارا حصہ بہت تھوڑا ہے ممکن ہے ہمارا پیسہ یا دھیلہ یا دمڑی ہی اس کی آزادی کا موجب ہو جائے۔ اور اگرچہ دنیا کی نظر میں اس کی کچھ حقیقت نہ ہو مگر خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہو کہ اگر وہ دمڑی خرچ نہ کی جاتی تو یہ ملک آزاد نہ ہو سکتا۔ دوسری چیز دعا ہے۔ میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ رمضان کی دعائوں میں کشمیر کی آزادی کو بھی شامل رکھیں۔ اگر ہمارے پاس ریاست کے مقابلہ میں روپیہ نہیں۔ آدمی نہیں۔ فوجیں نہیں اور دوسرے دینوی اسباب نہیں تو کچھ پروا نہیں کیونکہ ہمارے پاس وہ ہتھیار ہے جو دنیا کے سارے بادشاہوں کے پاس نہیں اور جس سے تمام حکومتوں کی متحدہ طاقتوں کو بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ اور وہ دعا ہے<۔۲۲
اس خطبہ کے بعد حضور نے ۵/ فروری ۱۹۳۲ء کو مسلمانان کشمیر کے لئے ایک پائی فی روپیہ چندہ دینے کی اہم تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا۔
>تیس لاکھ انسانوں کی قوم سینکڑوں سال سے ظلم و استبداد کے نیچے چلی آتی ہے۔ پھر وہ ہماری تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل میں سے ہے۔ وہی بنی اسرائیل جنہیں خدا تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے ذریعہ فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ پھر اس فرعونی حکومت سے ان غریبوں کو بھی بچانا چاہتا ہو۔ اس لئے اس معاملہ میں ہماری مدد اس کی خوشنودی کا موجب ہوگی جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اس موقعہ سے محروم نہ رہیں۔ اور اس معاملہ میں یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے۔ کہ وہ لوگ ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے ہمیں ان کی امداد کی کیا ضرورت ہے جس طرح خدا تعالیٰ کا احسان اپنے پرائے میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اسی طرح مومن کے احسان میں بھی کوئی اس قسم کی تمیز نہ ہونی چاہئے ۔۔۔۔۔ اور ان بے چاروں کی تو ایسی مظلومی کی حالت ہے کہ اگر وہ مسلمان بھی نہ ہوتے تب بھی ان کی مدد واجب تھی<۔۲۳
مظلومین کشمیر کی امداد کے سلسلہ میں حضور نے تیسرا خطبہ ۱۲/ فروری ۱۹۳۱ء۲۴ کو چوتھا خطبہ ۱۹/ فروری ۱۹۳۲ء۲۵ کو اور پانچواں خطبہ ۲۶/ اگست ۱۹۳۲ء۲۶ کو ارشاد فرمایا۔ اور جماعت سے تحریک آزادی کے لئے قربانیوں کا مطالبہ کیا اور یہ حضور کی قوت قدسی ہی کا نتیجہ تھا کہ جماعت کے ہر طبقہ نے اس مطالبہ پر نہایت اخلاص و فدائیت سے لبیک کہا۔ اور ان میں عمل و جدوجہد کی نئی روح پیدا ہو گئی۔
‏tav.5.35
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل سوم(
فسادات اور ان کی روک تھام` زعماء کشمیر کی رہائی کے لئے کامیاب جدوجہد اور مجرموں کی سزایابی
۱۹۳۲ء کا آغاز ظالمانہ آرڈی نینس کے نفاذ` میر پور` جموں` راجوری` ہندواڑہ` بارہ مولا` سوپور` بھمبر` کوٹلی اور پونچھ میں ڈوگرہ حکومت کے شرمناک مظالم` مفتی ضیاء الدین صاحب کی جلاوطنی۲۷ شیخ محمد عبداللہ صاحب اور دوسرے زعماء کشمیر۲۸ اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے کے اخراج ریاست سے ہوا۔ جبر و تشدد کے اس نئے دور کا سبب یہ ہوا کہ جموں میں امن کی بحالی کے لئے جو انگریزی فوج متعین کی گئی تھی۔ وہ مسلمانان جموں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود ۲۱/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو ریاست کشمیر کے زور دینے پر واپس بلا لی گئی اور جموں کے نہتے مسلمان پھر ریاستی حکام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے۔ ادھر جموں میں کشیدگی انتہاء تک پہنچی ادھر میر پور میں یہ ظلم و ستم ہوا کہ انسپکٹر جنرل پولیس` گورنر جموں اور وزیر وزارت نے فوج اور پولیس کی معیت میں عدم ادائیگی مالیہ۲۹ کے سلسلہ میں میر پور کے ایک گائوں )کھڑی( میں چھاپہ مارا۔ عورتوں کے زیورات اور دیگر چیزوں کے علاوہ مویشی بھی قرق کے لئے مگر زمینداروں نے کوئی مزاحمت نہ کی حکام تمام مال مویشی اور سامان لے کر جب روانہ ہونے لگے۔ تو زمینداروں نے رسیدیں طلب کیں لیکن حکام نے قطعی انکار کر دیا۔ اس پر زمیندار نہایت بے دست و پائی اور عجز کے ساتھ مویشیوں کے سامنے لیٹ گئے۔ اور رسیدات کا مطالبہ کرنے لگے انسپکٹر جنرل پولیس نے پولیس کو لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ مگر مسلمان پھر بھی لیٹے رہے۔ آخر گولی چلا دی گئی۔ جس سے پانچ مسلمان شہید اور ۲۵ مجروع ہوئے۔۳۰
اس دہشت انگیزی کے بعد مظالم کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہو گیا۔ اور چند ماہ میں علاقہ میر پور کے ہزاروں مسلمان جن میں مرد` عورتیں بچے سب شامل تھے۔ تباہ حال ہو کر انگریزی علاقہ میں آگئے اور تین ہزار کے قریب تو صرف جہلم میں پناہ گزیں ہوئے۔۳۱ ان واقعات کی بازگشت جموں میں یہ ہوئی کہ ۱۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کو جموں کے ہندوئوں نے مہاراجہ کشمیر اور اس کے وزیراعظم اور دوسرے سرکاری افسروں سے ملنے کے بعد سازش کی کہ جموں کے مسلمانوں کو تہ تیغ کرکے ان کے مکانات کو لوٹا اور جلا دیا جائے اور اس غرض کے لئے مسلح دیہاتی راجپوتوں کو اجرت پر منگوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سازش کا علم ہوتے ہی مسلم ایسوسی ایشن جموں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو تار دیا کہ وہ مہربانی فرما کر احتیاطی انتظامات کرانے کی کوشش فرمائیں۔ مسلمان سخت مضطرب ہیں<۔]10 [p۳۲
سول نافرمانی کی تحریک
ان مخدوش حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ذرہ برابر غیر قانونی حرکت بارودی ماحول کو شعلہ دکھانے کے مترادف تھی۔ لیکن افسوس وقت کی نزاکت کے سراسر خلاف اور ریاست کے ذمہ دار مسلمان نمائندوں کی اجازت کے بغیر میر پور میں عدم ادائے مالیہ کی تحریک جاری کر دی گئی اور سول نافرمانی کا پروگرام بنا لیا گیا۔ جس کا خمیازہ پورے صوبہ جموں بلکہ پوری ریاست کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔ جگہ جگہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور شیخ محمد عبداللہ اور دوسرے نامور لیڈر گرفتار کر لئے گئے اس سلسلہ میں جناب چوہدری غلام عباس صاحب اپنی کتاب >کشمکش< میں تحریر فرماتے ہیں۔ >چند نوجوان احرار۳۳ کے حامی تھے انہوں نے مسلم ایسوسی ایشن پر دبائو ڈالا کہ ریاست کے مسلمان احرار کی رفاقت سے کام کریں۔ جماعت احرار کے لیڈروں اور بزرگوں سے جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو شدید اختلافات تھے۔ یہ تحریک انہوں نے ہماری شدید مخالفت کے باوجود ایسے حالات میں شروع کی جو اسلامیان ریاست کی اس وقت کی سیاسی فضا کے لئے سازگار نہ تھی کمیشن کے فیصلہ کی طرف ہندوستان اور ریاست کے مسلمانوں کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں اور ہر معقول آدمی اس وقت کسی غیر آئینی کارروائی کو مفاد ملت کے خلاف ایک تخریبی حرکت تصور کرتا تھا۔ میری غیر حاضری میں مسلم ایسوسی ایشن کا کام ساغر صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے جماعت احرار کی تحریک کے ردعمل کے لئے انفرادی سول نافرمانی کی۔ اور پچاس کے قریب نوجوانوں کے ہمراہ قید ہو گئے انہی دنوں میر پور میں تحریک عدم ادائے مالیہ کسی طے شدہ پروگرام اور مسلم نمائندگان ریاست سے مشورہ کئے بغیر شروع کر دی گئی<۔10] [p۳۴
اخبار >سیاست< یکم مارچ ۱۹۳۲ء نے لکھا۔ >کشمیر جنت نظیر میں ہندو کار پردازان حکومت کشمیر کی ناہلی اور مکرو تعصب کے سبب اسلامیان خطہ پر جو قیامت برپا ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ اسلامیان ہند کو ان زہرہ شگاف تکالیف نے تڑپا دیا۔ اور دیوانہ وار وہ ان کی مدد و اعانت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اسی غرض کے لئے مرتب ہوئی` قرار پایا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اسلامیان خطہ کو جن میں انتہائی حالت پر پہنچ کر احساس خودداری پیدا ہوا ہے ہرممکن اور جائز طریق سے مدد دی جائے انہیں حصول مقصد کے لئے بہترین طریق کار سمجھایا جائے اور ان کو مالی امداد دی جائے کیونکہ بوجہ ان کی بے انتہا مفلوک الحالی کے سب سے زیادہ انہیں مالی مدد کی ضرورت تھی۔ یہ ایک ایسا پروگرام تھا۔ کہ اس پر متحدانہ طریق پر عمل ہوتا تو اسلامیان کشمیر کو بے انتہاء فوائد مرتب ہوتے لیکن سوء تقدیر سے احرار کی افتراق انگیزی کے باعث اس پر اس طرح عمل نہ ہو سکا۔ جس طرح کہ ہونا چاہئے تھا۔ تاہم کشمیر کمیٹی نے مخالف حالات کی موجودگی میں جو کیا اور جو کر رہی ہے کسی آئندہ وقت میں جبکہ حالات کلیت¶ہ پر سکون ہو جائیں گے روشن ہو جائے گی۔ اور مسلمان دیکھ لیں گے کہ حق بجانب کون تھا۔ اتنا تو اس وقت بھی ظاہر ہو گیا۔ کہ دو تین مرتبہ کھیل بن بن کر بگڑ گیا ۔۔۔۔۔۔ جتھے بازی بے سود اور مضرت رساں ثابت ہوئی اس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان پہنچا۔ احرار کی جانب سے مسلمانان خطہ کو کوئی مالی امداد بھی نہ ملی ان کے جارحانہ اقدام کے باعث حکومت پنجاب و ہند بھی برگشتہ ہو گئی جس کا اثر ان تحقیقاتی کمشنوں پر پڑا۔ جو بڑے پر زور مطالبات اور بڑی جہدو کوشش سے مقرر کرائی گئیں اور اسلامیان کشمیر کی حالت بد سے بدتر ہو گئی<۔۳۵]ydob [tag
شیخ محمد عبداللہ صاحب اور دوسرے زعماء کشمیر کی گرفتاری پر احتجاج اور ان کی رہائی
۲۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو سرینگر سے شیخ محمد عبداللہ صاحب اور ان کے رفقاء کی گرفتاری اور مفتی ضیاء الدین صاحب کے جبریہ اخراج کی
خبر قادیان پہنچی تو حضور نے فوراً مہاراجہ کشمیر کو تار دیا کہ >اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مسٹر عبداللہ کو سرینگر میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ صرف وہی ایسا آدمی تھا جس کے مشورے ریاست میں قیام امن کا موجب رہے ہیں۔ اور اس کی گرفتاری سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی حکام امن کے خواہش مند نہیں بلکہ بدامنی چاہتے ہیں۔
میں یورہائی نس سے آخری بار التماس کرتا ہوں کہ مہربانی فرما کر حکام کو اس تشدد اور سختی سے روک دیں۔ وگرنہ باوجود ہماری انتہائی کوشش کے مجھے خطرہ ہے کہ خواہ کتنے بھی آرڈنینس جاری کئے جائیں امن قائم نہ ہو سکے گا۔ اور اس کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر ہوگی<۔۳۶
ساتھ ہی وائسرائے ہند کے نام بھی تار دیا کہ >ہماری مصالحانہ مساعی کے باوجود ریاستی حکام مسلمانوں پر انتہائی تشدد میں مصروف رہے اور جلسوں کی ممانعت پانچ افراد سے زیادہ کے اجتماع کی ممانعت وغیرہ کے لئے ان مقامات پر بھی آرڈی نینس جاری کر دیئے گئے جہاں بالکل امن و امان تھا اب خبر آئی ہے کہ مفتی ضیاء الدین صاحب کو جبراً حدود ریاست سے نکال دیا گیا ہے اور مسٹر عبداللہ کو ان کے رفقاء سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی حکام خود ہی فتنہ انگیزی کرنا چاہتے ہیں تا حکومت برطانیہ کی ہمدردی حاصل کر سکیں اور مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے بہانہ بنا سکیں۔
اس لئے میں ایک بار پھر یور ایکسی لینسی سے اپیل کرتا ہوں کہ فوری مداخلت کرکے حالات کو بدتر صورت اختیار کرنے سے بچا لیں۔ اگر یور ایکسی لینسی کے لئے اس میں مداخلت ممکن نہ ہو تو مہربانی فرما کر مجھے اطلاع کرا دیں۔ تا میں مسلمانان کشمیر کو اطلاع دے سکوں کہ اب ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یا تو جدوجہد میں ہی اپنے آپ کو فنا کر دیں اور یا دائمی غلامی پر رضا مند ہو جائیں<۔۳۷
ریاست کشمیر کا مقابلہ کرنے کے لئے نیا پروگرام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے وائسرائے صاحب اور مہاراجہ صاحب کو توجہ دلانے کے علاوہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور ان کے دوسرے رفقاء کے نام ۲۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو بذریعہ مکتوب مندرجہ ذیل ہدایات بھیجیں۔
>مسٹر عبداللہ قید کر لئے گئے ہیں اور مفتی ضیاء الدین صاحب نکال دیئے گئے ہیں۔ ان حالات میں ریاست کا منشاء صاف ظاہر ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کے کام کو کچلنا چاہتی ہے اور ایک دفعہ تحریک کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ اس صورت میں ریاست سے تعاون یا اس کی امداد خود اپنے سے دشمنی ہے میرے نزدیک اب وقت ہے کہ پوری طرح ریاست سے مقابلہ کیا جائے۔ میں نے اس کے لئے تیاری شروع کر دی ہے۔ افسوس کہ احرار کی تحریک نے اس کام کو خراب کر دیا۔ اور جو اثر ہم نے پیدا کیا تھا اسے تباہ کر دیا۔ اب نئے سرے سے کوشش کی ضرورت ہو گی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ہم فتح پائیں گے اب اگر آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ گفتگو کے نتیجہ میں مسٹر عبداللہ اور دوسرے قیدی رہا ہو سکتے ہیں تو گفتگو کو جاری رکھیں ورنہ گفتگو کو بند کر دیں۔ اور واپس آکر مقابلہ کا پروگرام تیار کرنے میں میری مدد کریں اور پھر اس کے پورا کرنے میں۔ اب ضرورت ہے کہ سب پریس یکدم ایک آواز اٹھائے اور حکومت ہند پر پورا زور دیا جائے۔
ہاں واپس آنے سے پہلے ایک دفعہ ریذیڈنٹ اور مسٹر گلینسی سے مل کر ان کی امداد حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔ اگر ان کی معرفت بھی کچھ نہ ہو سکے تو پھر ہمارا فرض ہے کہ پورا زور لگا کر ریاست کی شرارت کو کچلا جائے آتے ہوئے خود ریاست میں جہاں تک ہو سکے نظام قائم کرتے آئیں۔ اور اندر کے کام کے متعلق بھی مشورہ کرتے آئیں۔ احرار کے پروگرام سے بہرحال ہمارا اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اپنے اصول پر سب داغ بیل ڈالی جائے<۔
طبی وفد
‏0] ft[rحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس انتہائی تشویشناک ماحول میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب ایم بی بی ایس کی قیادت میں ایک طبی وفد بھجوایا۔ وفد پہلے انسپکٹر جنرل پولیس مسٹر لاتھر سے ملا۔ >صاحب بہادر< نے دوران گفتگو میں کہا کہ میں مسلمانوں سے تنگ آگیا ہوں اور میں بغیر مالیہ لئے واپس نہ جائوں گا اور اس کے لئے انتہائی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ ہوں۔ وفد نے اس ملاقات کے بعد سول ہسپتال میر پور میں مجروحین کا معائنہ کیا اور پھر جہلم میں آیا اور ان ¶مجروحین کا مشاہدہ کیا جو سول ہسپتال جہلم میں زیر علاج تھے۳۸ اور واپس آکر مفصل رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کر دی۔
سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی ملاقات مسٹرلاتھر سے
حضور نے طبی وفد بھجوانے کے ساتھ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو تحقیق حالات کے لئے روانہ فرمایا۔۳۹
فسادات جموں کے بعد حضرت شاہ صاحب واقعات کی تحقیق کے سلسلہ میں مسٹر لاتھر کے پاس پہنچے جو اس وقت میر پور میں تھے۔ آپ نے مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم اور ان کی تشویش اور بے چینی کے اسباب وضاحت سے بتائے۔ مسٹر لاتھر انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ موجودہ حالات نے مجھے تکمیل معاہدہ کی مہلت ہی نہیں دی۔ مسٹر لاتھر نے وزیراعظم ہری کشن کول کا ایک تار بھی دکھایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ زمیندار پہلے مالیہ ادا کریں اس کے بعد تحقیقات کرائی جائے گی۔ اگر ضروری ہوا تو مناسب تدابیر اختیار کی جائیں گی۔۴۰
وزیراعظم ہری کشن کول صاحب کی برطرفی
شاہ صاحب کی تحقیقات سے چونکہ یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ گزشتہ فسادات کے بھڑکنے اور زعمائے کشمیر کی گرفتاری اور کشمیر کمیٹی کے نامور کارکنوں کے اخراج کی ذمہ داری وزیراعظم ہری کشن کول پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوشش تھی کہ انہیں عہدہ وزارت سے موقوف کرا دیا جائے۔ چنانچہ آخر فروری ۱۹۳۲ء میں ان کی بجائے مسٹر کالون وزیراعظم مقرر کر دیئے گئے اور ریاستی مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
ہر کشن کول صاحب سے متعلق اہم واقعات
‏]text [tagسیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے >الموعود< میں کشن کول صاحب سے متعلق واقعات بیان فرمائے ہیں جو حضور ہی کے قلم سے درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
>آخر سر ہری کشن کول نے مجبور ہو کر مجھے لکھا کہ آپ اپنے چیف سیکرٹری کو بھیج دیں۔ مہاراجہ صاحب کہتے ہیں میں خود ان سے بات کرکے ان معاملات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھیج دیا مگر ساتھ ہی انہیں کہہ دیا کہ یہ پرائم منسٹر کی کوئی چال نہ ہو۔ تیسرے دن ان کا تار پہنچا کہ میں یہاں تین دن سے بیٹھا ہوا ہوں مگر مہاراجہ صاحب ملاقات میں لیت و لعل کر رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ ان پر حجت تمام کرکے واپس آجائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ پھر ملاقات کی کوشش کی مگر جب انہیں کامیابی نہ ہوئی تو وہ میری ہدایت کے ماتحت واپس آگئے۔
چوہدری صاحب کے واپس آنے کے بعد سر ہری کشن کول کا خط آیا۔ کہ مہاراجہ صاحب ملنا تو چاہتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ مرزا صاحب خود آتے تو میں ان سے ملاقات بھی کرتا۔ ان کے سیکرٹری سے ملاقات کرنے میں تو میری ہتک ہے۔ اتفاق کی بات ہے۔ اس کے چند دن بعد ہی میں لاہور گیا۔ تو سرہری کشن کول مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ مہاراجہ صاحب خود آتے تو میں ان سے ملاقات بھی کرتا۔ آپ تو ان کے سیکرٹری ہیں اور آپ سے ملنے میں میری ہتک ہے۔ میرا یہ جواب سنکر وہ سخت گھبرایا میں نے کہا پہلے تو میں تم سے ملتا رہا ہوں۔ کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ سیکرٹری کے ساتھ ملنے سے انسان کی ہتک ہو جاتی ہے۔ لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ اگر سیکرٹری سے ملاقات کی جائے تو ہتک ہو جاتی ہے۔ اس لئے میں اب تم سے نہیں مل سکتا۔ گویا خدا نے فوری طور پر مجھے ان سے بدلہ لینے کا موقع عطا فرما دیا۔
آخر اسی دوران میں ایک دن سر سکندر حیات خاں صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں دونوں میں تبادلہ خیالات ہو جائے۔ کیا آپ ایسی مجلس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں۔ چنانچہ یہ میٹنگ سر سکندر حیات خاں کی کوٹھی پر لاہور میں ہوئی اور میں بھی اس میں شامل ہوا۔ چوہدری افضل حق صاحب بھی وہیں تھے۔ باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے اور میرے متعلق کہنے لگے کہ انہوں نے الیکشن میں میری مدد نہیں کی اور اب تو ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدیہ جماعت کو کچل کر رکھ دیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اگر جماعت احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جا سکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقیناً یہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ پھر میں نے کہا یہ بھی درست نہیں کہ میں نے الیکشن میں آپ کی مدد نہیں کی ایک الیکشن میں میں نے آپ کی مخالفت کی ہے۔ اور ایک الیکشن میں آپ کی مدد کی ہے۔ سرسکندر حیات خاں بھی کہنے لگے۔ افضل حق تم بات بھول گئے ہو۔ انہوں نے ایک الیکشن میں تمہاری مدد کی تھی صرف ایک الیکشن میں انہوں نے تمہاری مخالفت کی ہے۔ وہ کہنے لگے۔ میری بڑی ہتک ہوئی ہے اور اب تو میں نے احمدیت کو کچل کر رکھ دینا ہے۔
جب اس طرح کوئی فیصلہ نہ ہوا تو گورنمنٹ آف انڈیا نے ایک والی ریاست کو اس غرض کے لئے مقرر کیا کہ کسی طرح اس جھگڑے کا وہ فیصلہ کروا دیں۔ انہوں نے میری طرف آدمی بھیجے اور کہا کہ جب تک آپ دخل نہیں دیں گے یہ معاملہ کسی طرح ختم نہیں ہو گا۔ میں نے کہا۔ مجھے تو دخل دینے میں کوئی اعتراض نہیں۔ میری تو اپنی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا دور ہو جائے۔ آخر ان کا پیغام آیا کہ آپ دہلی آئیں۔ میں دہلی گیا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ دو دفعہ ہم نے کشمیر کے متعلق سکیم تیار کی اور آخر گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ فیصلہ ہوا کہ ان ان شرائط پر صلح ہو جانی چاہئے۔ اس وقت کشمیر میں بھی یہ خبر پہنچ گئی اور مسلمانوں نے سمجھا کہا اگر ہم نے فیصلہ میں دیر کی تو تمام کریڈٹ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو جائے گا۔ چنانچہ پیشتر اس کے کہ ہم اپنی تجاویز کے مطابق تمام فیصلے کروا لیتے۔ مسلمانوں نے ان سے بہت کم مطالبات پر دستخط کر دیئے۔ حالانکہ ان سے بہت زیادہ حقوق کا ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ فیصلہ کروا چکے تھے۔
غرض کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کا تمام کام میرے ذریعہ سے ہوا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا کہ مصلح موعود اسیروں کا رستگار ہوگا۔
ان ہی ایام میں آخری دفعہ جب میں لاہور گیا تو سر ہری کشن کول بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کا میرے نام پیغام آیا کہ اپنے آدمی بھیج دیں۔ تاکہ شرائط کا ان کے ساتھ تصفیہ ہو جائے۔ میں نے کہلا بھیجا کہ تصفیہ ان ان شرائط پر ہو گا۔ اگر مان لو تو صلح ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ وہ کہنے لگے یہ شرائط تو بہت سخت ہیں۔ اگر ان کو تسلیم کر لیا گیا تو ہماری قوم بگڑ جائے گی۔ میں نے کہا یہ تمہاری مرضی ہے چاہو تو صلح کر لو اور چاہو تو نہ کرو۔ درد صاحب اس کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔ آخر رات کے گیارہ بجے اس نے کہہ دیا کہ ان شرائط پر صلح نہیں ہو سکتی۔ مجھے درد صاحب نے یہ بات پہنچائی تو میں نے ان سے کہا آپ سر ہری کشن کول سے جا کر کہہ دیں کہ اگر ان شرائط پر وہ صلح کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر وہ بھی وزیر نہیں رہ سکتے۔ درد صاحب نے یہ بات اسے کہی تو وہ کہنے لگا میں تجربہ کار ہوں میں ایسے بلف (BLUFF) سے نہیں ڈرا کرتا۔ میں نے درد صاحب سے کہا آپ ان سے دریافت کریں اور پوچھیں کہ کرنل ہکسر جموں گیا ہے یا نہیں اگر وہ جموں گیا ہے اور مہاراجہ صاحب سے ملا ہے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا مہاراجہ صاحب نے آپ کو وہ باتیں بتائیں ہیں۔ اگر نہیں بتائیں حالانکہ مہاراجہ آپ کو اپنا باپ کہا کرتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو الگ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب آپ کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب آپ وزیراعظم نہیں رہ سکتے۔ مہاراجہ صاحب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ کو الگ کر دیا جائے اور کالون صاحب کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ یہ سنتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اور کہنے لگا بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ پھر اسی وقت اس نے اپنا موٹر تیار کیا۔ اور درد صاحب سے کہا کہ آپ ان سے اجازت لے کر آئیں اور میرے ساتھ چلیں جو شرائط بھی آپ لکھیں گے میں ان پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا اب دستخط کرنے کا وقت نہیں رہا۔ کل صبح تم پرائم منسٹر ہو گے ہی نہیں اس کو ایسا فکر ہوا کہ وہ اسی وقت راتوں رات موٹر پر جموں گیا۔ مگر جب صبح ہوئی تو مہاراجہ نے اسے کہہ دیا کہ تمہیں وزارت سے الگ کیا جاتا ہے۔
غرض کشمیر کے لوگوں کو جو کچھ ملا وہ میری جدوجہد کے نتیجہ میں ملا اور واقع یہ ہے کہ اگر کشمیر کے لوگ جلدی نہ کرتے تو گورنمنٹ آف انڈیا کی معرفت جو سمجھوتہ ہوتا۔ اس میں انہیں زیادہ حقوق مل جاتے اور گائے کا سوال بھی حل ہو جاتا۔
میں نے ان واقعات کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں چھوڑ دیں اور بعض والیان ریاست کا نام بھی نہیں لیا اگر میں آخری مرحلہ کی تفصیل بیان کروں تو شاید بعض والیان ریاست اسے اپنی ہتک خیال کریں مگر چونکہ یہ واقعہ اب گزر چکا ہے اس لئے اس کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں<۔۴۱
مہاجرین علاقہ میرپور کے خوردونوش اوربازیابی کیلئے جدوجہد
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے۔ علاقہ کھڑی کے ہزاروں مظلوم مسلمان ریاستی حکام کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر علاقہ انگریزی خصوصاً جہلم میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کے قریباً پچاسی گائوں تھے جو بالکل ویران و برباد ہو گئے حتیٰ کہ یہ بے کس لوگ مال مویشی اور پکی ہوئی فصلیں تک چھوڑ کر چلے آئے۔۴۲ اس پر حضور نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو اصلاح احوال کے لئے روانہ فرمایا۔
حضرت شاہ صاحب کا بیان ہے کہ >میں نے مسٹر سالسبری کو بذریعہ تار اطلاع کی کہ میں جہلم آرہا ہوں اور راجہ محمد اکبر کی کوٹھی پر ٹھہروں گا۔ اگر آپ وہاں تشریف لے آئیں تو مہاجرین کی واپسی کی تدبیر سوچیں ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ مسٹر سالسبری جہلم آئے اور میں نے ان سے گفتگو کی اور شرط یہ کی کہ میری موجودگی میں مظلومین کی فریاد سنی جائے۔ اور تحقیق کی جائے چنانچہ علی وال کا بنگلہ اس غرض کے لئے مقرر ہوا۔ اور میں نے یہ شرط کی کہ کوئی پولیس بوقت تحقیق موجود نہ رہے۔ چنانچہ مولوی ظہور الحسن صاحب فاضل جہلمی یکے بعد دیگرے مظلومین کو لاری میں لاتے اور ایک ہفتہ تک واقعات کی چھان بین ہوتی رہی۔ میں نے اپنے کلرک کو سمجھا دیا تھا کہ ایک طرف بیٹھ کر وہ واقعات ایسے طور سے نوٹ کرلے کہ کسی کو معلوم نہ ہو۔ چنانچہ مسٹر سالسبری کو بہت حد تک تسلی ہوئی اور انہیں یقین ہو گیا کہ اس علاقہ کے لوگ واقعی مظلوم ہیں۔ جس کی تمام تر ذمہ داری رام چند ڈی۔ آئی۔ جی اور ڈوگرہ سپرنٹنڈنٹ پر ہے جس کا نام غالباً رام رتن تھا۔ میں نے مہاجرین کو تسلی دی اور انہیں واپس کیا۔ دو ہفتہ تک جہلم کے مسلمانوں نے جن میں جماعت احمدیہ جہلم بھی تھی۔ مظلوم مہاجرین کی کھلے دل سے مدد کی۔ رپورٹ مرتب کرکے میں نے جموں آکر وزیراعظم مسٹر کالون کے سامنے پیش کی۔ انہوں نے یہ رپورٹ انپسکٹر جنرل پولیس مسٹر لاتھر کو بھیجی اور جب یہ رپورٹ ان کو دی گئی تو میں ان کے پاس ہی تھا۔ اور محمد یوسف صاحب سابق لیفٹیننٹ )پسر مولوی قطب الدینؓ( اپنی وردی میں ملبوس میری کرسی کے پیچھے کھڑے تھے۔ ان سے ایک عجیب حرکت صادر ہوئی۔ اگر کوئی مکھی میری طرف آتی تو اسے دور کرتے اور ایک دفعہ جھک کر میرے بوٹ سے بھی مٹی صاف کی۔ بعد میں میں نے پوچھا آپ نے یہ کیا حرکت کی مجھے سخت شرم محسوس ہو رہی تھی۔ کہنے لگے یہ اس لئے کیا تا آئی جی پولیس کو آپ کے مقام کا علم ہو۔ اسی روح تواضع و بے نفسی کے ساتھ ہمارے کارکن محاذ کشمیر میں کام کرتے رہے۔ مولوی ظہور الحسن صاحب نے بہت محنت سے کام کیا۔ اور اسی طرح دوسروں نے بھی جب مسٹر لاتھر میری رپورٹ پڑھ چکے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں پنجاب واپس جارہا ہوں میں نے کہا۔ آج جانے کا ارادہ ہے۔ کہنے لگے نہیں آپ ٹھہر جائیں۔ پرائم منسٹر میں اور مسٹر جارڈین آج رات سیالکوٹ جارہے ہیں۔ مسٹر یسٹیمر ریذیڈنٹ جموں و کشمیر کے ساتھ مشورہ کرنا ہے اور مسٹر سالسبری کو بذریعہ تار بلوایا گیا ہے۔ کل نتیجہ سن کر جائیں چنانچہ دوسرے دن صبح میں ان کے ہاں گیا اور انہوں نے بتایا کہ سالسبری کو پنجاب واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوا اور رام چند ڈی آئی جی کی جبری ریٹائرمنٹ کا۔ میں نے حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ کو اطلاع دی اور دوسرے دن اخباروں میں بھی شائع ہو گیا<۔
مظلومین پونچھ کی امداد کیلئے سید ولی اللہ شاہ صاحب کی مساعی جمیلہ
میر پور کے مسلمانوں کی امدادی مہم مکمل ہو جانے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب کو مظلومین پونچھ کی فریاد
رسی کے لئے بھیجا۔ حضرت شاہ صاحب اس واقعہ کی تفصیل میں بیان فرماتے ہیں۔ >علاقہ پونچھ میں جگہ جگہ فسادات ہوئے۔ ڈوگروں نے مسلمانوں پر ظلم توڑے اور ان کے بڑے بڑے آدمیوں کو قید میں ڈالا۔ علاقہ مینڈھیر اور علاقہ سرن وغیرہ پر ڈیڑھ سے دو لاکھ جرمانے ڈالے گئے۔ اور جرمانوں کو وصول کرنے کے لئے مسلمانوں پر سختیاں کی گئیں۔ الزام یہ تھا کہ ان لوگوں نے بغاوت کی ہے۔ اور ہندوئوں کے مکانات جلائے ہیں۔ تھکیالا پڑاوا کے مسلمان رئوساء بھی قید میں تھے۔ سردار فتح محمد خان )کریلہ( روپوش تھے ان کے خلاف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پھانسی کے احکام عدالت سے جاری ہو چکے تھے۔ اور ان کے والد اور رشتہ دار سب قید و بند میں تھے۔ چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ وغیرہ احمدی وکلاء ان کے مقدمات کی پیروی کے لئے بھیجے گئے تھے۔ اور میں ان مظلوموں کی مدد کے لئے بھیجا گیا۔ سب سے پہلے میں نے آنجہانی راجہ پونچھ )سکھ دیو( سے ملاقات کی ۔۔۔۔۔۔۔ راجہ صاحب نے مجھے اجازت دی کہ میں خود فسادات کے مواقع دیکھوں اور حالات کی تحقیقات کروں۔ یہی میرا مقصد اس ملاقات سے تھا اور انہوں نے وزیر صاحب کو حکم دیا۔ وہ کورنش بجا لائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ میں اگلی صبح سفر پر روانہ ہوں اور وہ اس بارے میں متعلقہ علاقہ جات کے افسران کو پروانہ بھیج دیں گے کہ میرے لئے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ اور مجھے کہا کہ روانہ ہونے سے پہلے ان سے ملوں۔ میں نے اس کے لئے ان سے مدد نہیں مانگی تھی۔ بلکہ چاہتا تھا کہ تنہا فساد زدہ علاقوں کا دورہ کروں۔ دوسری صبح جب ان کے ہاں گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور نو دس بجے جاگتے ہیں میں یہ جانتا تھا اس لئے عمداً صبح سویرے کا سفر اختیار کیا ۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہوا کہ ایک ہی ہفتہ میں علاقہ تھکیالہ پڑاوا` مینڈھیر اور سرن کا دورہ مکمل کر لیا۔ اور یہی علاقے فساد زدہ تھے۔ تھکیالہ پڑاوا کا سفر بہت ہی تھکا دینے والا تھا۔ راستے میں کہیں کھانے کے لئے کچھ نہ ملا۔ پہاڑی پر پگڈنڈیوں کا راستہ تھا۔ رات تاریک تھی گھوڑے تھے مگر ان پر سفر محفوظ نہ تھا۔ اور چڑھائی کی وجہ سے تکلیف دہ اور رات بارہ ایک بجے کے درمیان پیدل کریلا مقام پر پہنچا۔ جہاں جنگل میں سردار فتح محمد خان صاحب روپوش تھے۔ وہ مجھے رات ہی کو ملے اور میں نے انہیں مشورہ دیا کہ یہاں سے چلے جائیں۔ کیونکہ پھانسی کے احکام صادر ہو چکے ہیں۔ میں سرن سے پہاڑیوں اور ندیوں اور وادیوں کو عبور کرتا ہوا موسلادھار بارش میں آدھی رات پونچھ پہنچا۔ راستے میں تین چار دفعہ کپڑے تبدیل کرنے پڑے۔ راستہ میں ندی تھی پندرہ بیس پونچھیوں کی مدد سے ندی عبور کی اور انہیں معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ ان کے جرمانے معاف کروانے اور ظالموں کو سزا دلانے کی غرض سے میرا یہ سفر ہے۔ دوسرے دن رپورٹ مرتب کی اور نقشہ جات مقامات فساد زدہ بھی تیار کئے۔ مسٹر جارڈین نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ان سے یہاں نہ ملوں بلکہ سرینگر میں ملوں اسی دن وہ تو سرینگر چلے گئے۔ میں قادیان آیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سامنے رپورٹ پیش کی۔ آپ نے فرمایا کہ میرا پہلا اخلاقی فرض یہ ہے کہ رام رتن صاحب ایم اے وزیر پونچھ کو خط لکھوں اور ان کو اصلاح حال کا موقع دوں۔ اور اگر وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائیں تو پھر سرینگر جاکر حکام بالا کو صورت حال سے آگاہ کروں۔ چنانچہ میں نے انہیں مفصل خط لکھا۔ جو حضور نے ملاحظہ کیا۔ اور اس میں مناسب اصلاح فرمائی خط میں انہیں ہفتہ عشرہ کی مہلت دی گئی۔ دراصل میرے نزدیک بغاوت کو ہوا دینے اور ظلم کرنے والے یہ اور بڑو صاحب تھے۔ یہ دونوں بغاوت فرو کرنے کے بہانے داد لینا چاہتے تھے کہ بڑا تیر مارا ہے۔ انہوں نے میرے خط کی پروا نہ کی بلکہ میرے خلاف کارروائی کرنے کے لئے سرینگر پہنچے۔ میں بھی سرینگر پہنچ گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ سرینگر میں وزیراعظم مسٹر کالون سے ملا۔ اور رپورٹ پیش کی۔ اور اس کی کاپی مسٹر جارڈین پولیٹیکل وزیر کو بھی دی۔ اور صورت حال سے انہیں پوری طرح آگاہ کیا۔ دونوں انگریز افسر میری رپورٹ سے پورے طور پر مطمئن اور متفق تھے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اطلاع ملی۔ کہ محترم وزیر صاحب پونچھ ملازمت سے علیحدہ کئے گئے ہیں۔ اور بڑو صاحب ریاست بدر!
پنڈت بلکاک وزیر اسلام آباد ۔۔۔۔۔ کے ظلموں کی داستان لمبی ہے لیکن سب سے بڑھ کر ظلم انہوں نے یہ کیا تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی` شیخ محمد عبداللہ میرے اور درد صاحب مرحوم وغیرہ کے جعلی دستخطوں سے چٹھیاں لکھوائیں۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم مہاراجہ کشمیر کو علیحدہ کرنے کی سازش میں ہیں اور مسٹر پیل آئی جی پولیس نے جب مجھے ریاست سے واپس جانے کے لئے کہا تو یہ بھی دھمکی دی کہ وہ ہماری سازش کو برسر عام لانے والے ہیں اور ہمارے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ میں نے مسکراتے ہوئے ان کی ان دھمکی کو قبول کیا اور کہا کہ وہ وقت بھی آئے گا کہ آپ ان الفاظ کے دہرانے سے شرم محسوس کریں گے چناچہ انہوں نے پنجاب سی آئی ڈی کی مدد سے اس جعلی خط و کتابت کی تحقیق کی۔ اور ثابت ہوا کہ ان تمام چھٹیوں میں سے صرف ایک چٹھی کے دستخط اصلی ہیں۔ یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی چٹھی کے۔ جو بحیثیت صدر کشمیر کمیٹی شیخ محمد عبداللہ کو لکھی گئی اور اس کا یہ مضمون تھا کہ مہاراجہ کشمیر کو بالکل مستثنیٰ رکھا جائے۔ کیونکہ مظالم کے ذمہ دار حکام ریاست ہیں یا ناقص قانون نہ کہ مہاراجہ صاحب۔ ان کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اس پر پنڈت بلکاک کی علیحدگی کا فیصلہ ہوا۔ یہ مسل پہلے مسٹر جارڈین کے دفتر میں غائب ہو گئی تھی۔ لیکن وہ جلد ہی واپس قبضے میں لے لی گئی۔ انہوں نے مجھے وہ فائل بھی دکھائی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے انہیں پنڈت بلکاک کے خلاف کارروائی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی یاد دہانی کی۔ اور مجھے فائل کی گمشدگی کی تفصیل بھی بتائی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ واقعات اختصار سے میں نے اس لئے بیان کئے ہیں تا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی نگرانی کے تحت ان کے بھیجے ہوئے کارکنان کے کام کی نوعیت معلوم ہو اور یہ کہ مظلومانان کشمیر کی کس طرح داد رسی کی گئی۔ چنانچہ علاقہ سرن اور مینڈھیر کے جرمانے معاف ہوئے اور میری دوسری ملاقات میں مہاراجہ صاحب پونچھ نے میرے سامنے قید اور پھانسی کی سزائوں کے احکام منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ قید و بند میں پڑے ہوئے مسلمان سرداروں کی رہائی ہوئی۔ اور اسیروں کو رہائی دلائے گا سے متعلقہ نوشتہ پورا ہوا۔ اور آخر ہماری کوشش سے سردار فتح محمد خان صاحب جو موت کے ڈر سے بھاگے پھرتے تھے۔ وہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تختہ دار پر کھینچے جانے والے انسان کے لئے کتنی بڑی خوشی ہے اور ستم رسیدہ لوگوں کی رہائی اور آزادی کتنی بڑی خدمت ہے جو حضور کے ہاتھوں سے ادا ہوئی<۔۴۳
سید ولی اللہ شاہ صاحب کی خدمات پر شکریہ
اخبار >انقلاب< ۸/ ستمبر ۱۹۳۲ء میں لکھا ہے۔ سید ولی اللہ شاہ صاحب ۔۔۔۔۔۔ بحیثیت نمائندہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی لار` دراس` تلیل` گریز کا دورہ کرتے ہوئے ۹/ اگست کو براہ تراگہ بل بوقت ظہر وارد ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم باشندگان بانڈی پورہ جناب پریذیڈنٹ صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ حضور ممدوح اور ان کے کارکن جو کوشش ہماری گری ہوئی حالت کے سنوارنے کے لئے کرتے ہیں اس کے شکریہ سے عہدہ برآ ہونا ہمارے لئے ناممکن ہے<۔۴۴
وزیراعظم کشمیر سے کشمیر کمیٹی کے وفد کی ملاقات
جب ہری کشن کول کی برطرفی کے بعد مسٹر کالون وزیراعظم بنے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۳/ اپریل ۱۹۳۲ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ایک وفد۴۵]4 [rtf ان کے پاس بھجوایا۔ جس نے نئے آرڈی نینسوں کی منسوخی اور شیخ محمد عبداللہ صاحب اور دوسرے سیاسی قیدیوں کی رہائی پر تبادلہ خیالات کیا۔۴۶
اہل کشمیر سے خطاب
اس کے چند روز بعد حضور نے اہل کشمیر کو توجہ دلائی۔
>ہر قوم جو زندہ رہنا چاہتی ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں سے وفاداری کا معاملہ کرے اور اگر کوئی کارکن قید رہیں اور لوگ تسلی سے بیٹھ جائیں تو یہ امر یقیناً خطرناک قسم کی بے وفائی ہو گا۔ مسلمانان جموں و کشمیر کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو وہ بہت سے ظلموں کے تلے دبے چلے آتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی حالت یتیموں والی نہ تھی کیونکہ جب تک ان کے لئے جان دینے والے لوگ موجود تھے۔ وہ یتیم نہ تھے۔ لیکن اگر وہ آرام ملنے پر اپنے قومی کارکنوں کو بھول جائیں گے تو یقیناً آئندہ کسی کو ان کے لئے قربانی کرنے کی جرات نہ ہو گی۔ اور اس وقت یقیناً وہ یتیم ہوجائیں گے۔ پس انہیں اس نکتہ کو یاد رکھنا چاہئے اور ملک کی خاطر قربانی کرنے والوں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم رکھنا چاہئے۔ پس ان کا یہ فرض ہے کہ جب تک مسٹر عبداللہ قاضی گوہر رحمان اور ان کے ساتھی آزاد نہ ہوں وہ چین سے نہ بیٹھیں اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کام میں ان کی ہر ممکن امداد کروں گا۔ اور اب بھی اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہوں مشکلات ہیں لیکن مسلمانوں کو مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے<۔۴۷
اس پیغام پر اخبار >انقلاب< )۶/ مئی ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔ >ہمیں کشمیر کمیٹی کی قابل تحسین خدمات کا تہ دل سے اعتراف ہے اس کمیٹی نے مسلمانان کشمیر کے حقوق کی حمایت اور مظلومین کی مالی اور قانونی امداد میں جس حیرت انگیز سرگرمی عمل اور روح ایثار کا ثبوت دیا ہے وہ محتاج بیان نہیں اور مسلمانوں کو تہ دل سے اس کی شاندار خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے ہمیں یہ معلوم کرکے مسرت ہوئی کہ سیاسی قیدیوں کے مسئلہ میں بھی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے کارکن بالکل >انقلاب< کے ہم خیال ہیں اس کمیٹی کے صدر محترم اور سیکرٹری نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ بحالات موجودہ سب سے زیادہ ضروری کام یہی ہے کہ کشمیر کے سیاسی قید فی الفور رہا کر دیئے جائیں گے<۔
آخر کشمیر کمیٹی کی کوششیں بار آور ہوئیں اور ۹/ مئی ۱۹۳۲ء4] ¶[stf۴۸ کو مسٹر یوسف خان صاحب )علیگ( نذیر احمد صاحب` عبدالقدوس صاحب` غلام محمد صاحب )بخشی( اور ۵/ جون ۱۹۳۲ء کو شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب دوسرے ۳۵ رفقاء سمیت رہا کر دیئے گئے۔۴۹
شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے رہا ہوتے ہی پہلا اہم کام یہ کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا۔
‏SRINAGAR (ALIG) c۔S۔M ABDULLAH ۔M۔S
مکرم و معظم جناب حضرت میاں صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ سب سے پہلے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کروں اس بے لوث اور بے غرضانہ کوشش اور جدوجہد کے لئے جو آپ نے کشمیر کے درماندہ مسلمانوں کے لئے کی پھر آپ نے جس استقلال اور محنت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو لیا۔ اور میری غیر موجودگی میں جس قابلیت کے ساتھ ہمارے ملک کے سیاسی احساس کو قائم اور زندہ رکھا۔ مجھے امید رکھنی چاہئے کہ آپ نے جس ارادہ اور عزم کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد فرمائی ہے۔ آئندہ بھی اسے زیادہ کوشش اور توجہ سے جاری رکھیں گے اور اس وقت تک اپنی مفید کوششوں کو بند نہ کریں گے جب تک کہ ہمارے تمام مطالبات صحیح معنوں میں ہمیں حاصل نہ ہو جائیں<۔ ۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں پھر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عریضہ کو ختم کرتا ہوں۔ میں ہوں۔ آپ کا تابعدار شیخ محمد عبداللہ
سید ولی اللہ شاہ صاحب کی جدوجہد اور مجرموں کی سزایابی
شیخ محمد عبداللہ صاحب کی رہائی کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ریاست کے ظالم اور بدنہاد حکام کی سرکوبی کی طرف توجہ فرمائی اور اس کام کے لئے حضور نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو منتخب فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اپنا فرض اس خوبی` تدبر` ذہانت اور معاملہ فہمی سے ادا کیا کہ ظالم افسر کیفر کردار تک پہنچ گئے۔
اس اجمال کی تفصیل حضرت شاہ صاحب نے اپنے قلم سے جو تحریر فرمائی ہے وہ درج ذیل ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔ >طویل جدوجہد کی اثناء میں جو ۱۹۳۱ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۳۴ء کے آخر تک جاری رہی حکومت کشمیر کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ دھمکیاں دی گئیں بلکہ گرفتاری کے وارنٹ تک جاری ہوئے۔ چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ بھی ان کارکنوں میں سے ایک تھے جن کی گرفتاری کے وارنٹ مسٹرسالسبری سپیشل آفیسر میر پور کے حکم سے صادر ہوئے۔ اور وہ لاہور میں آچھپے۔ انہوں نے میر پور میں کام کیا تھا۔ وہ دشوار گزار علاقے میں پیدل سفر کرکے مظلوموں کی مدد کو وہاں پہنچے جہاں چونی لال سب انسپکٹر نے نہایت ہی گندے ظلموں کا ارتکاب کیا تھا۔ اور رام چند ڈی آئی جی پولیس نے ظالموں کو پناہ دی۔ اور ہمارے کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے اس قسم کے ظالم حکام کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے میں بھیجا گیا۔ اور اس کے لئے مجھے بھی جموں و کشمیر اور پونچھ میں دور و نزدیک علاقہ جات کے پیدل اور گھوڑے پر سفر کرنے پڑے تھے۔ ظالموں کی فہرستیں تیار کیں۔ مظلوموں کے بیانات سنے اور نقشے بنائے اور ہسٹری شیٹ تیار کی۔ اس اثناء میں ایک دن جبکہ میں ہائوس بوٹ میں تھا۔ شیخ محمد عبداللہ صاحب عصر کے بعد آئے سر سے ننگے آواز میں گھبراہٹ تھی۔ بخشی غلام محمد صاحب ان کی حفاظت کے لئے پیچھے پیچھے تھے جو ہائوس بوٹ کے باہر رہے۔ شیخ صاحب مجھ سے کہنے لگے۔ شاہ صاحب! ایک خطرناک خبر ہے۔ میں نے کہا مجھے معلوم ہے۔ کہنے لگے کیا؟ میں نے کہا مروانے کا انتظام ¶ہو گیا ہے۔ وہ یہ سن کر حیران ہوئے اور کہا یہی خبر میں لایا ہوں مہاراجہ صاحب کے محل کے فلاں کارکن نے بتایا ہے کہ کانگڑہ اور ویلی سے چار آدمی بلائے گئے ہیں اور ان کے سپرد یہ کام ہوا ہے۔ کہ آپ کو اور مجھے مروا دیا جائے۔ میں نے کہا کہ اطلاع درست ہے۔ مجھ سے دریافت کیا۔ کہ آپ کو کس نے بتایا ہے۔ میں نے اپنا ذریعہ خبر رسانی بتانے سے معذرت کی )دراصل یہ ایک کھلا بیداری کی حالت میں مکاشفہ تھا۔ اور بلند آواز سے احتیاط کرنے کی ہدایت تھی اس لئے بتانے سے ہچکچایا( انہوں نے کہا کہ کیا تجویز ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ابھی اطلاع دی جانی چاہئے۔ جو ایک آدمی کے ہاتھ بھیجنی مناسب ہے۔ چنانچہ چٹھی لکھی گئی کہ اگر ہم مارے گئے تو اس کی ذمہ داری مہاراجہ صاحب پر ہوگی۔ اور درخواست کی یہ چٹھی بینک میں محفوظ کر دی جائے۔ چنانچہ شیخ صاحب موصوف نے بھی اپنی حفاظت کا انتظام کیا۔ اور میں اپنی بندوق اپنی رانوں میں لے کر سوتا۔ ہر جگہ جہاں میں گیا۔ اس حالت میں شب گزارتا۔ اور مشہور ہو گیا کہ میں مسلح سوتا ہوں۔ غرض ان ~۰~پرخطر حالات میں ہمیں کام کرنا پڑا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میری کارروائی کے نتیجہ میں مندرجہ ذیل افسر برخاست ہوئے یا وہ پنجاب واپس کر دیئے گئے۔ )۱( مسٹر سالسبری سپیشل آفیسر علاقہ میر پور۔ )۲( رام چند ڈی آئی جی )جبری پنشن( )۳( چونی لال سب انپسکٹر پولیس )سزائے قید( یہ جیل سے بھاگ گیا تھا۔ اور اسے دوبارہ گرفتار کرانے کے بعد سزا دلوائی گئی مسٹر لاتھر آئی جی پولیس سے میں نے کہا۔ یہ کام محمد دین صاحب سب انسپکٹر )احمدی( کے سپرد کیا جائے اور اس کی دوبارہ گرفتاری کا ذمہ میں لیتا ہوں۔ چنانچہ وہ گرفتار ہوا۔ اور اس نے سزا پائی۔ )۴( رام رتن کپورتھلوی ایم اے وزیر پونچھ یہ بھی وزارت سے علیحدہ کئے گئے۔ )۵( بڑو صاحب مجسٹریٹ درجہ اول پونچھ ملک صاحب کو ملک بدر کیا گیا اور قادیان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے معافی مانگنے کے لئے آئے۔ اور روتے ہوئے پائوں پر گر گئے۔ اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور درد صاحبؓ حضور کے پاس بیٹھے تھے۔ )۶( پنڈت بلکاک وزیر وزارت اسلام آباد )جبری ریٹائرمنٹ( ۔۔۔۔۔۔ )۷( ایک انسپکٹر پولیس جس نے علاقہ ویری ناگ میں مظالم کئے تھے۔ اس کا چالان کرایا گیا۔ اور میری موجودگی میں اس کے خلاف مقدمہ چلا اور تحقیق کے بعد آخر اس نے سزا پائی<۔
‏tav.5.36
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل چہارم(
مظلومین کشمیر کے مقدمات کی شاندار
وکالت اور بے نظیر کامیابی
جماعت احمدیہ کے وہ وکلاء جو >مڈلٹن کمیشن< اور >گلانسی کمیشن< کے لئے قانونی محاذ پر نبردآزما تھے خدا کے فضل و کرم سے شاندار طور پر کامیاب و کامران ہوئے مگر ان کے سامنے آئینی جنگ کے اس محاذ کے علاوہ مظلومین کشمیر کے مقدمات کی پیروی کا ایک ایسا زبردست معرکہ بھی درپیش تھا۔ جس کے ایک ایک مورچہ پر ان کو عدالتوں کے ساتھ دستوری جنگ کرنا پڑی۔
قبل اس کے کہ تحریک آزادی کے اس نہایت اہم حصہ پر ذرا تفصیلی روشنی ڈالی جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں اس کا ایک جمالی خاکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں درج کر دیں حضور ۱۹۵۱ء کے ایک غیر مطبوعہ مضمون میں تحریر فرماتے ہیں۔
>۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء میں متواتر حکومت کشمیر نے مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے گرفتار کر لیا ان گرفتاریوں کے نتیجہ میں بہت سے مقدمات دائر ہوئے جن میں بعض قتل کے تھے بعض ڈکیتی` بعض بغاوت` بعض بلوے کے تھے۔ یہ بیسیوں تھے اور سینکڑوں ملزم اس میں پیش ہوئے۔ ان لوگوں کے دفاع کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے عموماً اور احمدیہ جماعت نے خصوصاً اپنے وکلاء کی خدمات پیش کیں۔ عملاً احمدیہ جماعت سے باہر صرف ایک صاحب یعنی غلام مصطفیٰ صاحب نائک بیرسٹر گوجرانوالہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ جنہں نے ایک مہینے کے قریب کام کیا۔ باقی تمام کے تمام وکلاء جو سب نوجوان احمدی تھے۔ اور اپنی عمر کے اس دور میں سے گزر رہے تھے کہ اگر ایک ماہ بھی اس کام میں حرج ہو جائے تو ساری عمر کی پریکٹس ضائع ہو جاتی ہے۔ ان کے نام اور کام کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔
شیخ بشیر احمد صاحب وکیل جو اس وقت لاہور کے چوٹی کے سول سائڈ کے وکیل ہیں انہوں نے چار ماہ تک سرینگر میں کام کیا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ انہوں نے میر پور میں بھی کام کیا۔
۲۔
چوہدری یوسف خاں اور چوہدری عصمت اللہ صاحب وکلاء نے میر پور میں کئی ماہ تک کام کیا۔
۳۔
شیخ محمد احمد صاحب وکیل جو ریاست کپورتھلہ میں سیشن جج اور ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے ہیں انہوں نے سات ماہ تک سرینگر میں کام کیا۔
۴۔
چوہدری یوسف خان صاحب نے اڑھائی ماہ سرینگر میں کام کیا۔
۵۔
چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ نے پانچ ماہ تک پونچھ میں کام کیا۔
۶۔
قاضی عبدالحمید صاحب پلیڈر نے پونچھ میں چار ماہ تک کام کیا۔
۷۔
میر محمد بخش صاحب پلیڈر نے جو گوجرانوالہ میں کامیاب ترین وکلاء میں سے ہیں۔ جموں میں چھ ماہ تک کام کیا۔
۸۔
‏ind] [tag چوہدری اسداللہ خان صاحب بار ایٹ لاء )برادر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب( نے بعض اپیلوں میں کام کیا۔
۹۔
قاضی عبدالحمید صاحب پلیڈر نے راجوری میں تین ماہ تک کام کیا۔
۱۰۔
میر محمد بخش صاحب نے نوشہرہ میں تین ماہ کام کیا۔
جو مقدمات ہوئے ان میں ۱۲۱۰۔ آدمیوں پر مقدمات چلائے گئے اور اندازاً ایک سو مقدمات تھے۔ ان وکلاء کی کوشش سے ان میں ۱۰۷۰ کے قریب بری ہو گئے اور ۱۴۰ کو بہت ہی معمولی سزائیں ہوئیں۔ حالانکہ مقدمات اکثر قتل اور ڈکیتی وغیرہ تھے ۔۔۔۔۔۔ ہمارے احمدی وکیل ڈیڑھ درجن کے قریب تھے جن میں سے نصف نے اپنے آپ کو پیش کیا اور بعض ایسے ہیں جو آج تک دوبارہ اپنی پریکٹس نہیں کرسکے<۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا الفاظ میں وکلاء کی جن بے لوث قربانیوں کا مختصراً تذکرہ فرمایا ہے اب ناموں کی اسی ترتیب سے ان پر ذرا تفصیلا روشنی ڈالی جاتی ہے۔
شیخ بشیر احمد صاحب بی اے۔ ایل ایل بی۔ ایڈووکیٹ
جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ پہلے قانون دان ہیں جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کے بعد خلیفتہ المسیح الثانی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کشمیر میں تشریف لے گئے اور سرینگر` جموں اور میر پور میں نہایت سنگین مقدمات کی نہایت کامیاب پیروی کرکے مظلومین کشمیر کی قابل قدر امداد کی۔ اس دوران میں آپ کو دوبار حدود ریاست سے بھی نکال دیا گیا۔ مگر جلد ہی حکومت کشمیر کو اپنا نوٹس واپس لینا پڑا۔ اور آپ پھر قانونی خدمات بجا لانے کے لئے تشریف لے گئے۔
آپ نے جن ملزمین کو رہا کرایا ان میں شوپیاں کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بات یہ ہوئی کہ ۱۹۳۰ء کے فسادات میں ایک سرکاری ملازم پنڈت )مادھوکول( موضع شوپیاں میں مارا گیا۔ جس پر شوپیاں کے بعض مسلمان الزام قتل میں پکڑے گئے اور ان کا مقدمہ قریباً چھ ماہ تک سشن جج صاحبان کے سپیشل بینچ میں چلتا رہا تھا۔ جس کے فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر تھی۔ اس مقدمہ کی کامیاب پیروی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے کی۔ چنانچہ اخبار >انقلاب< )۱۵/ اگست ۱۹۳۱ء( نے لکھا۔
>ملزمین کی طرف سے کشمیر کمیٹی کے قابل اور لائق وکیل شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور پیش ہوئے۔ جنہوں نے نہایت قابلیت سے مقدمہ کی پیروی کی ٹریبونل نے واقعہ شوپیاں کو محض بلوہ قرار دیا تھا اور ملزمین کو سزائے قید دی گئی۔ ملزمین نے ہائیکورٹ کشمیر میں اپیل دائر کر رکھی تھی جس کی پیروی کے لئے جناب شیخ صاحب موصوف سرینگر تشریف لے آئے ہیں ہم جناب صدر محترم کشمیر کمیٹی کا اہالیان کشمیر کی طرف سے اس محنت ومشقت کے لئے شکریہ ادا کرتے ہیں<۔
محترم شیخ صاحب نے ہائیکورٹ کے سامنے اس غیر معمولی لیاقت و قابلیت سے وکالت کی کہ چند دن کے اندر کیس کے ایک ملزم کو رہا کر دیا گیا۔ جس پر شیخ محمد عبداللہ صاحب ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو الفضل کے نام شکریہ کا تار دینے۵۰ کے بعد دسمبر ۱۹۳۱ء کے آخر میں بنفس نفیس حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تا اسلامیان کشمیر کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب اور کشمیر کمیٹی کے دوسرے مخلص کارکنوں کے کارہائے نمایاں کا شکریہ ادا کریں۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ شیخ بشیر احمد صاحب` مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے اور مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی بھی تھے۔
شوپیاں کے علاوہ آپ نے >علی بیگ< )میر پور( کے مقدمہ کی بھی پیروی کی اور اس مقدمہ کے چوالیس ملزمان نے مندرجہ ذیل الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ >سب سے بڑھ کر ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممنون ہیں جنہوں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو ہمارے مقدمہ کی بحث کے لئے ہماری درخواست کو قبول کرتے ہوئے بھیجا اور مسلسل ایک ہفتہ بحث کرکے انہوں نے ہماری نیابت کا حق ادا کر دیا<۔۵۱
چوہدری محمد یوسف خان صاحب بی اے۔ ایل ایل بی
چوہدری محمد یوسف خان صاحب نے سرینگر اور میرپور میں نہایت اخلاص سے قانونی امداد بہم پہنچائی۔ آپ کو بھی ایک بار ریاست بدر کر دیا گیا تھا آپ کی خدمات کے تعلق میں دو اقتباسات بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔
۱۔
اخبار >سیاست< )۷/ ستمبر ۱۹۳۲ء( میں لکھا ہے کہ >صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمت میں مندرجہ ذیل تار موصول ہوا ہے۔ کہ ہم >ممنون ہیں کہ چوہدری یوسف خان پلیڈر کی محنت اور کوشش سے مقدمہ سرکار بنام شہاب الدین وغیرہ جس میں ۴۷ ملزم ڈاکہ کے الزام میں ماخوذ تھے اور اسی طرح مقدمہ سرکار بنام فقیر محمد وغیرہ جس میں ۹ ملزم ماخوذ تھے خارج کر دیئے گئے ہیں۔ مہربانی فرما کر ہماری طرف سے دلی شکریہ قبول فرمائیں<۔
۲۔
ملزمان >علی بیگ< )میر پور( کی طرف سے اخبار >انقلاب< )لاہور( ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ء میں مندرجہ ذیل الفاظ میں چوہدری محمد یوسف خان صاحب کی مساعی جمیلہ کا شکریہ ادا کیا گیا۔
>چوہدری یوسف خان صاحب وکیل گورداسپور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے نہایت قابلیت کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ اور صرف چار ماہ سے جدید کشمیر کمیٹی کی طرف سے ایک وکیل صاحب بھیجے گئے جو چوہدری صاحب موصوف کی امداد کرتے رہے۔ اور اصل امداد چوہدری صاحب موصوف کی طرف سے ہمیں ملی<۔
چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل
چوہدری عصمت اللہ صاحب ایڈووکیٹ لائلپور کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ جولائی ۱۹۳۱ء کے آغاز میں جبکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا بھی قیام نہ ہوا تھا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر سرینگر تشریف لے گئے۔ جہاں سے اکتوبر ۱۹۳۱ء میں واپس آکر دوبارہ نومبر ۱۹۳۱ء میں وارد کشمیر ہوئے اور تین ماہ تک قانونی امداد کا فریضہ ادا کیا۔ اور فروری ۱۹۳۲ء میں واپس لائلپور آگئے۔ لیکن پھر جلد ہی واپس ریاست کشمیر تشریف لے گئے۔ جہاں آپ دسمبر ۱۹۳۲ء تک بھمبر` نوشہرہ اور کوٹلی میں مظلومین کشمیر کے مقدمات میں قانونی امداد فرماتے رہے۔ آپ کی کوشش سے سمووال مقدمہ قتل کے تمام ملزم بری ہو گئے۔۵۲ اس کے علاوہ مسلمانان کوٹلی کے مقدمات کی پیروی میں آپ نے اور میر محمد بخش صاحب نے نہایت شاندار خدمات سرانجام دیں۔ جن کا اقرار انجمن اسلامیہ کوٹلی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا۔
>بارہا انجمن ہائے پنجاب اور ہندوستان کے مختلف اراکین کو امداد کے لئے پکارا گیا اور کہا گیا کہ خدا کے لئے ہماری امداد کریں۔ مگر افسوس کہ سوائے خاموشی کے کسی نے کوئی جواب نہ دیا آخر کشمیر کمیٹی سے درخواست کی گئی جس کے جواب میں دو وکیل صاحبان دھوپ میں جلتے ہوئے یہاں آپہنچے۔ اور سسکتے ہوئے بے کس مسلمانوں کی امداد شروع کر دی۔ مقدمات جو کہ اس جگہ کے مسلمانوں پر بنائے گئے ہیں تمام قتل کے ہیں۔ چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل بی اے۔ ایل ایل بی اور میر محمد بخش صاحب پلیڈر نے نہایت جانفشانی سے مقدمات کی پیروی کی۔ گواہ استغاثہ جو کہ چار ماہ سے پولیس کی زیر حراست تھے۔ ان پر ایسی عمدہ جرح کی کہ مقدمہ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ سلطانی گواہ پر پورے دو دن جرح ہوتی رہی۔ جس سے مقدمہ کی قلعی کھل گئی۔ باقی بیس گواہ بھی اسی طرح زمین و آسمان میں گھومتے ہوئے نظر آتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے اراکین کا ہم جس قدر شکریہ ادا کریں کم ہے۔ خاص کر محترم صدر صاحب کا جو کہ بڑی بزرگ ہستی ہیں۔ ان کے حسن اخلاق کی تمام علاقہ میں دھوم ہے مظلوم مسلمان جو کہ وقتاً فوقتاً ان کی خدمت میں اپنی تکالیف بیان کرنے کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ آپ کے حسن اخلاق کے بے حد مداح ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی صدر محترم اور اراکین کشمیر کمیٹی ہم بے کس مسلمانوں کی امداد فرماتے رہیں گے۔ اور اس کا اجر مالک حقیقی سے پائیں گے۔
ہم مظلوم مسلمانان کوٹلی مسلمانان ہند سے اپیل کرتے ہیں کہ تمام تفرقات کو بالائے طاق رکھ کر کشمیر کمیٹی کے مشورہ سے ہماری امداد کریں۔ ہم وکلاء صاحبان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ آپ اپنی خدمات کشمیر کمیٹی کی معرفت پیش کریں۔ تاکہ ہم بے کسوں کو ظلم سے نجات ملے۔ )مسلمانان کوٹلی بذریعہ انجمن اسلامیہ کوٹلی(
شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ
جناب شیخ محمد احمد صاحب ۱۹۱۹ء میں بی اے آنرز پاس کرکے انگریزی کا ایم۔ اے کرنا چاہتے تھے۔ مگر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ کہ جماعت کو آئندہ وکلاء کی بہت ضرورت پیش آئے گی۔ اس لئے وکالت کا امتحان پاس کریں۔ چنانچہ آپ نے لاء کالج میں داخلہ لیا۔ اور ۱۹۲۱ء سے کپورتھلہ میں وکالت کا کام شروع کر دیا۔ اسی دوران میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا۔ اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۷/ نومبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے آپ کو تار دیا کہ۔
‏ COME KINDLY IMMIDIATELY START CAN,T IF KASHMIR, YOU SENDING ><PROPOSE۔ MASSIH KHALIFATUL ۔ CONSULTATION FOR HERE
یعنی آپ کو کشمیر بھجوانے کی تجویز ہے اگر فوراً روانہ ہونا ممکن نہ ہو تو آپ یہاں بغرض مشورہ آجائیے۔ )خلیفتہ المسیح(
یہ تار ملتے ہی آپ پہلی گاڑی سے لاہور پہنچے۔ عندالملاقات حضور نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کتنے مقدمات ہیں؟ آپ کے پاس اس وقت ڈیڑھ سو کے قریب مقدمات تھے جن کی فہرست آپ نے حضور کے سامنے رکھ دی۔ حضور نے فرمایا کہ ان مقدمات کو دوسروں کے سپرد کرنے کا انتظام کرو اور ہمیں تار دو۔ چنانچہ آپ واپس کپورتھلہ آگئے۔ اور چند دنوں میں یہ مقدمات اپنے دوست وکلاء کے سپرد کرکے حضور کی خدمت میں تار دیا کہ میں حاضر ہوں حضور نے جوابی تار دیا کہ بھمبر روانہ ہو جائیں وہاں کثیر مقدمات پیروی طلب ہیں چنانچہ آپ براستہ گجرات بھمبر پہنچ گئے۔
بھمبر پہنچ کر ایک عجیب دقت کا سامنا ہوا۔ اور وہ یہ کہ ریاستی قانون کے لحاظ سے لازمی تھا کہ بیرون ریاست سے آنے والا وکیل ہر مقدمے کے لئے اجازت حاصل کرے دو روپیہ کے کاغذ پر درخواست دے اور بیس روپیہ فیس ادا کرے گویا اگر ایک معمولی سا مقدمہ بھی پیروی طلب ہو تو عدالت ابتدائی عدالت اپیل اول اور ہائیکورٹ تک ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے چھیاسٹھ روپے ادا کئے جائیں یہ صورت حال بہت سے اخراجات آل انڈیا کشمیر کمیٹی پر عائد کرنے والی تھی۔ صاحب استطاعت مقدمہ والوں نے اس فیس کو ادا کرنا چاہا لیکن غریب لوگ اس کی طاقت نہ رکھتے تھے آپ کو یہ نظر آیا کہ اگر میں باحیثیت لوگوں کی پیروی فیس ادا کرکے شروع کر دوں تو غرباء کو لازماً شکایت پیدا ہوگی کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی غریبوں کی مدد نہیں کرتی۔ اس مشکل کے پیش نظر اس قانون میں ترمیم کرانا ضروری تھا۔ اس لئے آپ بھمبر سے قادیان پہنچے اور رپورٹ پہنچا دی۔ جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے چوہدری اسداللہ خاں صاحب بار ایٹ لاء لاہور کو دوبارہ جموں بھجوایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چیف جسٹس کی سفارش پر اپریل ۱۹۳۲ء میں مہاراجہ نے بیرونی وکلاء پر عائد شدہ پابندیاں دور کر دیں اور فیس کے لئے بھی قانون بنا دیا کہ چیف جسٹس کو اختیار رہے کہ اگر وہ چاہے تو فیس معاف کر سکتا ہے۔۵۳ اس ترمیم نے مقدمات کی پیروی کا دروازہ کھول دیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایڈووکیٹ کے متعلق مہاراجہ کی ترمیم و اجازت کے معاً بعد شیخ محمد احمد صاحب مظہر اور چوہدری یوسف خاں صاحب پلیڈر گورداسپور کو سرینگر روانہ فرمایا اور اپنی دعائوں سے رخصت کرنے سے قبل اہم ہدایات دیں جو جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کی یادداشت کے مطابق حسب ذیل تھیں۔
)۱(
ہم نے ایک مظلوم قوم کی مدد کرنی ہے وکلاء کا قاعدہ ہے کہ وہ موکل کی لمبی بات نہیں سنا کرتے لیکن کشمیری مظلوم ہیں آپ کو تحمل سے ان کی باتیں سننا ہوں گی۔ خواہ آپ ان باتوں کو غیر ضروری ہی سمجھیں۔
)۲(
کسی شخص سے کوئی تحفہ یا امداد قبول نہ کریں۔ بلکہ جو لوگ آپ کے پاس ملاقات کے لئے آئیں ان کی مناسب تواضع پر خود خرچ کریں کسی سے کوئی پیسہ نہ لیں۔
)۳(
کشمیر میں جو سرکردہ لوگ اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں ان کی طبیعتوں کا اندازہ بھی ہونا چاہئے اور اس کے مطابق ان سے معاملات کرنے چاہئیں۔
)۴(
ہر شخص راز دار ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا اس لئے حزم و احتیاط ضروری ہے۔
)۵(
سرینگر پہنچتے ہی وہاں کے گورنر سے ملاقات کریں۔ کیونکہ وہ مہم آزادی کشمیر کا معاند ہے اور اسے بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔
)۶(
اپنے کام کی رپورٹ ہمیں بھیجتے رہیں۔
یہ ہدایت لے کر آپ۵۴ اور بعد ازاں چوہدری یوسف خان صاحب )پلیڈر گورداسپور( بھی سری نگر پہنچ گئے۔
سر دلال چیف جسٹس جموں و کشمیر ہائیکورٹ ان دنوں جموں میں تھے۔ اس لئے آپ )شیخ محمد احمد صاحب مظہر( نے پیروی مقدمات کے لئے اجازت کی درخواست پہلے ہی بذریعہ ڈاک جموں روانہ کر دی تھی۔ مگر سر دلال نے اجازت نہ دی۔ شیخ محمد عبداللہ صاحب اور ان کے رفقاء کار کے مشورہ سے آپ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور نے فرمایا۔ آپ سر دلال کی طبیعت کو نہیں جانتے۔ جو شخص نرمی سے پیش آئے اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اور جو شخص سختی سے پیش آئے اس سے نہایت سخت سلوک کرتے ہیں ان کی طبیعت کو مدنظر رکھو خود جا کر ان سے ملو اور پیروی مقدمات کی اجازت نرمی اور انکسار سے طلب کرو چنانچہ شیخ صاحب نے حضور کی اس ہدایت کی پوری پوری تعمیل کی اور سردلال نے منظوری کا حکم صادر کردیا۔ اور آپ نے بلا روک ٹوک مقدمات کی پیروی شروع کردی۔ اس کے بعد رجسٹرار ہائیکورٹ سے آپ کے ایسے مراسم ہو گئے کہ اس نے آپ سے کہہ دیا کہ جس وکیل کے لئے آپ کو اجازت لینا ہو مجھے کہہ دیا کیجئے۔ چنانچہ رجسٹرار مذکور کی وساطت سے اور وکلاء کے لئے بھی اجازت ملتی چلی گئی۔
)اخبار >سیاست< ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء میں مطبوعہ رپورٹ کے مطابق( عدالت ابتدائی اور عدالت ہائے اپیل کے لحاظ سے ۲۵ مقدمات قتل` بلوہ` ڈکیتی وغیرہ میں آپ کو پیروی کرنا پڑی جن میں ۱۸۰ مظلوم اور بے کس مسلمان ماخوذ تھے آپ کی مساعی سے ۱۲۲ صاف بری ہو گئے ۱۵ اپیل میں بری ہوئے اور کم و بیش ۲۸ کی سزائیں کم ہو گئیں۔ بارہ مولا کا مقدمہ جس میں چالیس معززین ملوث کئے گئے تھے حکومت نے از خود واپس لے لیا۔ یہ آخر جولائی ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے مقدمہ کی واپسی پر جناب قاضی عبدالغنی صاحب ریڈر اور دوسرے اکتیس اصحاب کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو سرینگر سے یہ تار موصول ہوا کہ بارہ مولا کا سب سے اہم مقدمہ حکومت نے واپس لے لیا ہے۔ از راہ کرم اپنے وکیل صاحب کی کامیابی اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی انمول خدمات کا شکریہ اور مبارک باد منظور فرمائیں۔ )الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳( پرائیوٹ سیکرٹری صاحب حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے ۶/ اگست ۱۹۳۲ء کو یہ خط شیخ محمد احمد صاحب کو ملا کہ حضور نے مقدمہ بارہ مولا میں کامیابی پر مبارکباد دی<۔
آپ کو جس مقدمہ میں بے نظیر کامیاب ہوئی وہ تحصیل ہندواڑہ کا ایک کیس تھا اس علاقہ میں ایک مقدمہ چار اشخاص پر قائم کیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ فسادات کے ایام میں یہاں ایک حکومت قائم کی گئی۔ ان چار اشخاص میں سے ایک جج ہائیکورٹ` ایک مجسٹریٹ` ایک تحصیلدار اور ایک جیلر ہوا۔ اور ان چاروں نے اپنے اپنے عہدے کے لحاظ سے کام کیا۔ ملزموں کو جرمانے کئے یا انہیں قید کیا یا اور کارروائی جو ان کے منصب کے مطابق تھی کی گئی۔ >جیلر< اور >تحصیلدار< ہائیکورٹ میں بھی مجرم قرار پائے۔ باقی دو ملزم مولوی سیف اللہ شاہ صاحب اور مولوی سلیمان شاہ صاحب جیسے معزز اشخاص کا مقدمہ ابھی ہائیکورٹ میں چل رہا تھا۔ یہ دونوں اصحاب شیخ الحدیث جناب مولوی سید انور شاہ صاحب کشمیری پرنسپل مدرسہ دارالعلوم دیو بند کے سگے بھائی تھے۔ اور اپنے علاقہ میں بڑے بااثر تھے۔ اور ان کے ہزاروں مرید بیان ہوتے تھے۔ مقدمہ جو اپنی نوعیت میں پہلے ہی نہایت سنگین تھا آخری مرحلہ تک آپہنچا تھا یعنی اپیل نامنظور ہو چکی تھی اور ہائیکورٹ میں اپیل ثانی دائر ہو کر آخری موقعہ تھا اور سب سے بڑی مشکل یہ آپڑی تھی۔ کہ اس مقدمہ کی دو شاخیں تحصیلدار اور جیلر ہائیکورٹ تک مجرم قرار پاچکے تھے۔ اور استغاثہ کو یہ کہنے کا حق تھا کہ جب وہ دونوں شخص جو ان ملزمان کے حکم سے کارروائی کرتے تھے۔ آخری عدالت سے مجرم قرار پا چکے تھے۔ تو یہ دونوں لازماً مجرم ہیں یہ بڑا عقدہ لاینحل تھا لیکن خدا تعالیٰ کی شان یفعل اللہ مایشاء ہے وہ چاہے تو بگڑی کو بنا دے اور یہی ہوا کہ یہ بگڑی اس کے فضل سے بن گئی جناب شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ اس اجمال کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں >قصہ یہ ہوا کہ مسل کے معائنہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ جس نے عدالت ابتدائی میں اس مقدمہ کی سماعت کی اور سزا دی قانوناً مجاز نہ تھا۔ کہ اس مقدمہ کی سماعت کرتا مسل پر یہ بات موجود تھی کہ مجسٹریٹ مذکور نے بحیثیت اعلیٰ انتظامی افسر اس الزام کی اپنے طور پر تحقیقات کی تھی اور نمبرداروں کو موقوف کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنے علاقہ میں ایسی متوازی حکومت کے جاری ہونے کے متعلق سرکار کو اطلاع کیوں نہیں دی؟ نمبرداروں کی اس طرح پر برطرفی کے بعد یہ مقدمہ سرکار بنام سیف اللہ شاہ و سلیمان شا حاکم مذکور ہی نے سنا۔ ظاہر ہے کہ وہ اس بارہ میں اپنی قطعی رائے قائم کر چکا تھا۔ اور اس کے لئے مقدمہ کی سماعت ایک تحصیل حاصل تھی۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ مقدمہ سر دلال کی پیشی میں آنے کی بجائے دوسرے جج کی پیشی میں لگ گیا۔ ہم نے بحث میں یہ عذر اٹھایا کہ سماعت مقدمہ از اول تا آخر غلط ہے۔ کیونکہ مجسٹریٹ اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا مجاز نہ تھا۔ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ جج اور چیف جسٹس مجرم قرار دے چکا۔ ہمارا جواب یہ تھا کہ چیف جسٹس کے سامنے یہ بات نہیں پیش کی گئی کہ مجسٹریٹ نے خلاف قانون سماعت مقدمہ کی۔ یہ نقل فیصلہ موجود ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ عذر کسی نے نہیں اٹھایا۔ جج نے سرکاری وکیل سے اس بات کا جواب طلب کیا۔ جواب تو دراصل کوئی ہو نہیں سکتا تھا۔ دونوں اپیلانٹ اسی وقت بری کر دیئے گئے اور انہوں نے عدالت سے نکلتے ہی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کے نام شکریے کا تار دیا<۔
شیخ صاحب کو ان دنوں راتوں کو بھی مسلسل کام کرنا پڑتا تھا۔ جس کی وجہ سے آپ کی صحت پر سخت ناگوار اثر پڑا۔ مگر آپ اپنی کوششوں میں برابر منہمک رہے۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب پر جناب شیخ صاحب کی جانفشانی` خلوص اور محنت کا اتنا اثر تھا کہ انہوں نے ۱۶/ جولائی ۱۹۳۲ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس اسسٹنٹ سیکرٹری کشمیر کمیٹی کو ایک خط میں لکھا۔ >محمد احمد صاحب وکیل کے متعلق ایک بات میں آپ سے عرض کر دوں آپ اس پر بھی توجہ کریں اور حضرت صاحب کی توجہ مبذول کریں۔ محمد احمد صاحب ایک قابل اور محنتی وکیل ہیں انہوں نے کشمیر کے مقدمات میں بڑی جانفشانی کے ساتھ کام کیا۔ مگر انہیں کشمیر کمیٹی کی طرف سے بہت قلیل فنڈ مہیا ہوتے ہیں میں اس کے لئے خاص سفارش کرتا ہوں۔ کہ آپ اس کے لئے کم از کم اتنی رقم تو بھیج دیں تاکہ وہ یہاں مقروض نہ ہوں<۔
۱۳/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو پتھر مسجد سری نگر میں زیر صدارت سید حبیب صاحب ایڈیٹر >سیاست< ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں شیخ محمد احمد صاحب مظہر` شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور چوہدری محمد یوسف خاں صاحب بی۔ اے کے کارہائے نمایاں` بے لوث اور بیش قیمت قربانیوں کے لئے شکریہ ادا کیا گیا۔۵۵
۱۷/ نومبر ۱۹۳۲ء کو شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ` شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ` جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور بعض دوسرے اصحاب کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی چائے نوشی کے بعد یہ سب اصحاب پتھر مسجد میں تشریف لے گئے۔ جہاں قریباً بیس ہزار مسلمان ان کے الوداعی جلسہ میں موجود تھے۔ اس جلسہ میں شیخ محمد احمد صاحب اور چوہدری محمد یوسف خان صاحب کی خدمات کو بہت سراہا گیا۔ چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب وکیل نے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی نسبت چشم دید واقعہ بیان کیا۔ >شیخ صاحب موصوف نے نہایت ایمانداری سے اپنی جانفشانی کا ثبوت دیا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ شیخ صاحب کے فرزند پنجاب میں بیمار ہو گئے اور انہوں نے مقدمات کو چھوڑ کر اپنے عزیز فرزند کی عیادت کے لئے پنجاب جانا مناسب نہ جانا۔ اور ذاتی معاملہ پر قومی مفاد کو ترجیح دے دی۔ اسی طرح ایک مرتبہ مالی مشکلات اور ضروریات کے لئے مجبور تھے۔ اور میں نے کشمیر کمیٹی سے مانگنے کے لئے کہا۔ مگر شیخ صاحب نے دلیرانہ جواب دے کر اپنے ایثار کا ثبوت پیش کیا اور فرمایا۔ میں کشمیر کمیٹی سے غریبوں اور قوم کا روپیہ لے کر صرف کرنا نہیں چاہتا۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ سکونتی مکان فروخت کرکے گزارہ کر لوں۔ اس جلسہ کی پوری تفصیل اخبار >سیاست< ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ پر شائع ہو گئی تھی۔
چیف جسٹس کشمیر کے نام میموریل
جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کرنے کے بعد بالاخر آپ ہی کے قلم سے ایک اہم واقعہ درج کرنا ضروری ہے۔ یہ واقعہ شیخ محمد عبداللہ صاحب شیر کشمیر کے ذریعہ سے چیف جسٹس ہائیکورٹ کشمیر کے نام میموریل بھجوانے کا ہے۔ جس کے بعد خدا کے فضل سے مظلومین کشمیر کے مقدمات میں کامیابی کا دروازہ کھل گیا۔ آپ کا بیان ہے کہ
>چیف جسٹس سر دلال کی طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمان اسے ناانصاف جج تصور کرتے ہیں اور اس کے انصاف پر اعتماد نہیں رکھتے۔ بعض ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے۔ جن کی وجہ سے سر دلال کی طبعیت میں تحریک آزادی کے متعلق ایک تکدر اور تنفر پیدا ہوچکا تھا۔ خصوصاً شیخ محمد عبداللہ صاحب کو وہ اپنا شدید مخالف تصور کرتے تھے۔ اور مقدمات میں شیخ صاحب کا نام آتے ہی چیں بچیں ہو جاتے تھے۔ نچلی عدالتوں کو اس تکدر کا علم تھا۔ اس لئے وہ ایک حد تک بے خوف تھیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی۔ جو مقدمات کی کامیابی میں ایک ناقابل بیان سد راہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ یہ عقدہ جو بظاہر لاینحل نظر آتا تھا۔ اس کے حل کی خود بخود ایک تقریب پیدا ہو گئی۔~}~
خود کنی و خود کنانی کار را
خود دہی رونق تو ایں بازار را
یہ تقریب اس طرح پیش آئی کہ ایک دن شیخ محمد عبداللہ صاحب انگریز وزیر اعظم کشمیر مسٹر کالون نامی سے ملاقات کرنے گئے۔ اور انہوں نے کشمیریوں پر مظالم اور انکے حقوق کی تلفی کا ذکر کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بہرحال شورش بند ہونی چاہئے۔ اور امن قائم کیا جائے۔ خیر اس ملاقات کے بعد شیخ صاحب چنار باغ میں میرے ہائوس بوٹ پر تشریف لائے۔ شیخ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ مسٹر کالون کہتے ہیں کہ شورش بند ہونی چاہئے۔ اور امن قائم ہو جانا چاہئے۔ مجھے اس بات میں ایک بہت ہی بڑا نکتہ نظر آیا اور میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ آپ کل تشریف لائیں۔ میں آپ کی طرف سے ایک میموریل لکھوں گا جو مسٹر کالون کو بھیجا جائے گا۔ اور آپ کی قوم کی اس میں بھلائی اور فائدہ ہے کہ وہ میموریل آپ کی طرف سے پیش ہو۔ میں نے شیخ صاحب کے اندر ایک بہت بڑی خوبی مشاہدہ کی۔ جس بات میں ان کی قوم کا بھلا ہو وہ اپنی رائے کو چھوڑ کر بھی اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ خواہ بظاہر یہ بات ہو کہ اپنی رائے کو چھوڑنا ایک مشکل امر ہو لیکن شیخ صاحب کا خلوص بے نفسی پر مبنی تھا۔ میں نے ایک میموریل انگریزی زبان میں تیار کیا۔ جس میں امور ذیل پیش کئے۔
آپ فرماتے ہیں کہ شورش بند ہو لیکن آپ کو وجوہات معلوم ہونی چاہئیں۔ جن کی وجہ سے شورش جاری ہے اور جب تک ان وجوہات کا ازالہ نہ ہو۔ امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ان وجوہات میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
)۱(
تمام لوگوں میں یہ احساس ہے کہ آزادی کا مطالبہ کرنے پر حکومت نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلائیں بہت سے لوگ جاں بحق ہو گئے بعض زخمی ہوئے کسی کی ٹانگ کاٹنی پڑی کسی کا ہاتھ کاٹنا پڑا کسی کو زخم ہوئے یہ زخمی لوگ مقدمات میں لپیٹے گئے۔ اور جب یہ لوگ لاریوں میں سوار ہو کر علاقوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور لوگ دیکھتے ہیں کہ کسی کا ہاتھ کٹا ہوا ہے اور کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے اور کوئی زخمی ہے اور باوجود اس کے عدالت کی طرف لے جایا جارہا ہے تو لوگوں میں ایک ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ تو ملزمان کے متعلق زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں۔
)۲(
جب عدالتوں کے اندر مقامات کی پیروی ہوتی ہے۔ تو جو لوگ برسر عدالت ہیں وہ تحریک آزادی کے دشمن ہیں اور اس معاملہ کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں۔ کسی بے گناہ کو بھی بری کرنا ایک پاپ سمجھتے ہیں۔ اسکے نتیجہ میں ہی انتہائی بے اعتمادی عدالتوں اور حکومت کے خلاف پیدا ہوتی ہے۔
)۳(
نچلی عدالتیں ایسی ہیں کہ ان کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے۔
)۴(
بعض مقدمات میں بعض بڑے بڑے شریف اور معزز لوگ ملوث کئے گئے ہیں۔ تاکہ ان کو سزا دے کر عام لوگوں کو عبرت دلائی جا سکے۔ کہ وہ تحریک آزادی سے کنارہ کش ہو جائیں۔ ورنہ ان کا بھی یہی حشر ہو گا۔ مثلاً بارہ مولا کے مقدمہ میں چالیس معزز اور ممتاز شہری لپیٹے گئے ہیں اور مقدمہ چل رہا ہے۔ اور خصوصاً تمام علاقے میں ہیجان اور اضطراب کا موجب ہے۔
)۵(
نچلی عدالتیں طریق انصاف سے بہت حد تک محروم ہیں۔ اور شاید ہم ان حالات میں مقدمات کی پیروی سے دستکش ہو جاتے۔ لیکن ہمیں اس بات پر اعتماد ہے کہ بالاخر چیف جسٹس کے پاس پہنچ کر داد رسی اور انصاف اور قانون کی پناہ حاصل ہو جائے گی۔
یہ وہ امور ہیں جن کی طرف وزیراعظم صاحب کو توجہ کرنی چاہئے اور ظلم اور استبداد کی روک تھام ہونی چاہئے۔ اور قانون کے تقاضے مقدمات میں پورے ہونے چاہئیں۔
دوسرے دن شیخ صاحب حسب وعدہ تشریف لائے۔ میں نے یہ میموریل انہیں سنایا۔ اور انہوں نے پسند فرمایا۔ چنانچہ یہ میموریل شیخ صاحب نے مسٹر کالون کو بھیج دیا۔ بعد اس کے معلوم ہوا کہ وزیراعظم نے یہ میموریل چیف جسٹس کے پاس روانہ کیا کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں اور ان کے ریمارک ان امور کے متعلق آنے چاہئیں۔
جب یہ میموریل چیف جسٹس صاحب کے پاس پہنچا۔ تو انہوں نے فوراً شیخ صاحب سے ملاقات کرنا چاہی۔ شیخ صاحب میرے پاس تشریف لائے کہ چیف جسٹس کی روبکار بغرض ملاقات مجھے پہنچی ہے اور میں نے شیخ صاحب سے مندرجہ ذیل گفتگو کی۔ چیف جسٹس کا یہ خیال کہ مسلمان انہیں بے انصاف سمجھتے ہیں دور ہونا چاہئے۔ اور یہ ایک ایسا امر ہے جو چیف جسٹس کو تمام ہندوستان میں نیک نام اور انصاف پسند قرار دے چکا ہے اور تمام مسلمان ان کے ممنون ہیں۔ اور ان کی انصاف پسندی کے قائل ہیں۔ وہ امر یہ ہے کہ جب راجپال نے >رنگیلا رسول< کتاب لکھی اور اس پر مقدمہ قائم ہوا۔ اور سر دلیپ سنگھ نے بطور جج ہائیکورٹ یہ قرار دیا کہ حضور نبی کریم~صل۱~ کا شاتم موجودہ قانون کی رو سے مجرم نہیں قرار پا سکتا۔ اور راجپال کو بری کر دیا۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے اس کے بعد اس قسم کے مقدمہ توہین رسولﷺ~ کے الزام میں ایک شخص کالی چرن کے خلاف الہ آباد ہائیکورٹ کے دائر ہوا۔ اور جب یہ مقدمہ ہائیکورٹ میں پہنچا تو سر دلال جج تھے۔ ان کے سامنے سر دلیپ سنگھ کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا۔ کہ شاتم رسولﷺ~ مجرم نہیں ہوتا۔ جو سر دلال نے نہایت حقارت سے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے مجرم کو سزا دی اور قرار دیا کہ قانوناً شاتم رسولﷺ~ بری نہیں ہو سکتا۔ اور یہ جرم ہے۔
دونوں ہائیکورٹوں کے فیصلے متضاد ہو گئے۔ اس پر گورنمنٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ متعلقہ میں ترمیم کی اور مذہبی پیشوائوں کی ہتک کو جرم قرار دیا۔
میں نے شیخ صاحب سے عرض کیا کہ اگر سر دلال پوچھیں تو آپ مندرجہ بالا دفعات کا ذکر کریں اور یہ کہ ہم تو کیا ہندوستان کے تمام مسلمان آپ کی انصاف پسندی کے قائل ہیں۔ اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر میں بھی کوئی تعصب آپ کی موجودگی میں انصاف کی راہ میں حائل نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ شیخ صاحب جب سر دلال سے ملاقی ہوئے تو انہوں نے یہی سوال کیا کہ انہیں نا انصاف سمجھا جاتا رہا لیکن شیخ صاحب کے میموریل میں انہیں باانصاف ظاہر کیا گیا ہے اس کی کیا وجہ ہے جواباً شیخ صاحب کی طرف سے دلیپ سنگھ والا مقدمہ اور کالی چرن والا مقدمہ مذکور ہوئے جیسا کہ اوپر درج کیا گیا ہے۔ یہ سن کر سر دلال بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے۔ کہ ہاں میں نے جو اس وقت فیصلہ کیا مسلمانوں کا بچہ بچہ اسے جانتا ہے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں چیف جسٹس ہوتا ہوا کشمیر میں پورا عدل و انصاف نہ کرائوں۔ جن جن مقدمات میں نا انصافی ہوئی ہے آپ بے شک کوائف مجھے بھیج دیں۔ حسب ضرورت اس میں دست اندازی کروں گا۔
اس ملاقات کے بعد شیخ صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ اور انہوں نے ملاقات مندرجہ بالا کا ذکر فرمایا اور یہ کہ جن مقدمات میں ناانصافی ہوئی ہے ان پر نوٹ لکھا جائے۔ اور یہ کہ سر دلال بالکل مطمئن ہو چکے ہیں اور ان کا تکدر دور ہو چکا ہے۔ خاکسار نے بعض مقدمات کے متعلق ایک یادداشت تیار کی جو سردلال کو بھیجی گئی۔ پہلا حکم سر دلال نے اس بارے میں یہ صادر کیا کہ مقدمہ بارہ مولا جس میں چالیس معززین ملوث کئے گئے ہیں۔ فوراً واپس لیا جائے۔
یاد رہے کہ سر دلال کشمیر کے چیف جسٹس بھی تھے اور جوڈیشل منسٹر بھی۔ اس لئے مقدمات کو واپس لینا یا ان میں دست اندازی کرنا ان کے اختیار میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورت حال اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت صاحب نے سر دلال کی طبیعت کا جو نفسیاتی تجزیہ کیا ہوا تھا اس کے مطابق وہ نرم پڑ گئے اس کے بعد ہوا کا رخ پلٹ گیا اور مقدمات کامیاب ہونے شروع ہوئے اور اکثر ایسا ہوا کہ ہائیکورٹ میں اپیل کرنے پر مقدمہ کامیاب ہوتا رہا۔ کیونکہ سر دلال ایک مشہور باانصاف جج رہے ہیں۔ اور بطور جوڈیشنل کمشنر اودھ یا جج ہائیکورٹ الہ آباد ان کے فیصلوں میں سلامت اعتدال اور حقیقی انصاف پایا جاتا ہے۔ فمن شاء فلیر جع الیہ۔
مندرجہ بالا میموریل کی نقل خاکسار نے حضرت صاحب کی خدمت میں بھی روانہ کر دی۔ اور شیخ محمد عبداللہ صاحب بھی اس کے بعد لاہور میں حضرت صاحب سے ملاقی ہوئے۔ انہوں نے اس کا ذکر کیا۔ چنانچہ حضور نے اس کے بعد ۶/ اگست ۱۹۳۲ء کو مقدمہ بارہ مولا میں کامیابی پر مبارکباد دی اور فرمایا کہ آپ نے جو کیا بہت اچھا کیا۔ جزا کم اللہ احسن الجزاء<
چوہدری عزیز احمد صاحب بی اے۔ ایل ایل بی
چوہدری عزیز احمد صاحب نے بھمبر اور پونچھ میں قابل رشک خدمات سر انجام دیں آپ کے علاوہ پونچھ میں قاضی عبدالحمید صاحب نے بھی مقدمات کی پیروی کی۔ مسلمانان علاقہ تھکیالہ` پڑاوہ جاگیر پونچھ نے ان فاضل وکلاء کی خدمات کا شکریہ درج ذیل الفاظ میں ادا کیا۔ >ہم جملہ مسلمانان علاقہ تھکیالہ پڑاہ جاگیر پونچھ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر محترم و جملہ کار پردازان کے تہ دل سے ممنون ہیں اس وقت تک جو معقول امداد ہمیں اس کمیٹی کی طرف سے پہنچی ہے۔ وہ بے حد مسرت بخش ہے قانونی مدد کے علاوہ مالی امداد سے بھی ہمیں کمیٹی نے فائدہ پہنچایا ہے۔ خود غرض لوگ اگر اس کمیٹی کے کارناموں میں بلاوجہ روڑے نہ اٹکاتے تو یقیناً اس وقت تک مسلماننا جموں و کشمیر و پونچھ منزل مقصود کو پہنچ گئے ہوتے۔ مگر باوجود رکاوٹوں کے کمیٹی نے مسلمانوں کے حقوق اور جان و مال کی بے حد حفاظت کی ہے۔ اور سرتوڑ کوشش ¶کی ہے<۔۵۶
قاضی عبدالحمید صاحب امرتسری
آپ نے پونچھ میں قریباً ۵ ماہ اور راجوری میں قریباً تین ماہ تک خدمات انجام دیں۔ پونچھ میں خاصی تعداد مقدمات چل رہے تھے۔ اور قریباً سب سنگین نوعیت کے تھے۔ قتل` آتش زنی` ڈاکہ اور بلوہ وغیرہ ہر قسم کے مقدمات تھے۔ اور پولیس اور ہندوئوں نے محض سربرآوردہ ہونے کی وجہ سے علاقہ کے معزز ترین مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات میں جکڑ دیا تھا۔ قاضی صاحب نے نہایت محنت اور قابلیت سے پیروی کی اور الا ماشاء اللہ سب مقدمات کے نتائج مسلمانوں کے حق میں برآمد ہوئے۔ آپ کی خدمات کا سلسلہ مئی ۱۹۳۲ء سے دسمبر ۱۹۳۲ء تک جاری رہا۔۵۷
میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ
میر محمد بخش صاحب نے جموں` کوٹلی اور نوشہرہ میں پیروی مقدمات کی۔ آپ جموں میں تشریف لے گئے تو اس وقت تک ریاست کی طرف سے بیرونی پلیڈرز کو وکالت کی اجازت نہ تھی۔ اس لئے عدالت میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ میر صاحب پلیڈر ہیں اس لئے بطور وکیل پیش نہیں ہو سکتے۔ اس پر آپ نے ساری رات ریاستی قوانین کا مطالعہ کیا۔ اور اس نکتہ تک پہنچے کہ ریاستی قانون کے ماتحت کسی ملزم کا مختار خاص مقدمہ کی پیروی کر سکتا ہے۔ چنانچہ میر صاحب نے جیل سے تمام ملزمان کے خاص مختار نامے حاصل کرکے عدالت میں پیش کر دیئے۔ عدالت نے اعتراض کیا کہ جب غیر ریاستی پلیڈر پیش نہیں ہو سکتا تو غیر ریاستی مختار خاص کس طرح پیش ہو سکتا ہے؟ میر صاحب کا موقف یہ تھا کہ مختار صاحب کے لئے یہ شرط ریاستی قانون میں نہیں رکھی گئی۔ عدالت جموں کوئی فیصلہ نہ کر سکی۔ ہائیکورٹ سے استصواب کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے میر صاحب کے نقطہ نظر کی تائید کی اور اس طرح یہ قانونی روک بھی ہمیشہ کے لئے دور ہو گئی۔۵۸
جموں میں مشہور مقدمہ سرکار بنام غلام چل رہا تھا۔ جس میں بارہ مسلمان قتل اور ڈاکہ کے الزام میں ماخوذ تھے میر صاحب نے خدا کے فضل سے اس قابلیت سے کیس پیش کیا۔ کہ تمام مسلمان بری کر دیئے گئے۔۵۹
محترم میر محمد بخش صاحب نے اپنے آپ کو دو ماہ کے لئے وقف کیا تھا یہ عرصہ گزارنے پر انہوں نے صدر محترم کشمیر کمیٹی سے واپس جانے کی اجازت چاہی۔ اس کا علم ملزمین کو بھی ہو گیا۔ انہوں نے بھی جناب صدر کو بذریعہ تار گزارش کی کہ میر صاحب کو تا اختتام مقدمہ جموں ہی میں رہنے کا حکم دیا جائے۔ یہ درخواست منظور کر لی گئی اور میر صاحب نے پورے چھ ماہ وہاں گزارے اور نہایت قابلیت سے یہ کام ختم کیا۔
جموں کے مشہور مقدمہ میں سترہ ملزم تھے۔ جن پر قتل` ڈاکہ آتش زنی اور بلوہ وغیرہ کے مقدمات تھے۔ چھ ماہ بعد جب ساری کارروائی ختم ہوئی۔ تو میر محمد بخش صاحب نے بڑی قابلیت سے بحث کی۔ پہلے دن چھ گھنٹے کی بحث کے نتیجہ میں دونوں جج صاحبان نے اس بات پر اتفاق کیا۔ کہ چار ملزموں کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا۔ دوسرے دن کی بحث کے اختتام پر مزید چار کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا۔ اب صرف چار ملزم باقی رہ گئے تھے۔ اور بحث کا آخری دن تھا۔ عدالت کو مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ زائد وقت دینا پڑا۔ جج صاحبان نے میر صاحب کی قابلیت کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے جس محنت اور دیانتداری سے اس کیس کی پیروی کی اس سے ان کو بھی بہت فائدہ پہنچا ہے۔ اور عدل و انصاف کرنے میں ان کو مدد ملی ہے۔ فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔ خیال تھا کہ تمام ملزم بری کر دیئے جائیں گے کئی دن گزر گئے۔ فیصلہ نہ سنایا گیا۔ ایک روز میر صاحب مسلم جج کے پاس گئے۔ اور دیر کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ دونوں ججوں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ تیرہ ملزم بے گناہ ہیں ان کو بری کر دیا جائے۔ باقی چار کے متعلق اس حصہ میں اتفاق ہے کہ قتل وغیرہ کے الزام ثابت نہیں۔ لیکن ہندو جج کو اس بات پر اصرار ہے کہ اگر ہم نے سب کو بری کر دیا۔ تو ریاست کی بدنامی ہو گی۔ دنیا کہے گی کہ جھوٹے مقدمات کھڑے کئے گئے تھے۔ اور ریاست کا لاکھوں روپیہ خرچ ہو گیا ہے۔ آخر فیصلہ سنا دیا گیا تیرہ ملزم بالکل بری اور چار کو بلوہ کرنے کے جرم میں چھ چھ ماہ قید کی سزا ہوئی اور اس طرح چار ہندوئوں کو بھی اس جرم میں چھ چھ ماہ کی قید کی سزا سنا دی گئی۔
جن کی سزا ہوئی ان کی طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹر نے ہائی کورٹ میں پیروی کی جہاں ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ فریقین کو رہا کر دیا گیا اور اس طرح اس بہت بڑے مقدمے کا انجام بخیر ہوا۔ اور ریاست بھر میں کشمیر کمیٹی کے لئے تشکر و امتنان کی لہر دوڑ گئی<۔۶۰
میر صاحب جموں میں کام کر رہے تھے۔ کہ گوجرانوالہ سے بچہ کی تشویشناک بیماری کا تار آیا مگر آپ نے مسلمانوں کے دفاع کو ترجیح دی اور گھر والوں کو لکھا کہ میرا جموں سے مقدمہ سے فارغ ہو کر آنا مشکل ہے میں ڈاکٹر بھی نہیں کہ اس کی مدد کر سکوں۔ ہاں دعا کر سکتا ہوں اور وہ جموں بیٹھے ہوئے بھی کرتا رہوں گا۔ ادھر میر صاحب نے یہ جواب دیا ادھر حسن اتفاق سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کشمیر سے گوجرانوالہ تشریف لائے۔ تو انہیں بچے کی بیماری کا علم ہوا۔ تو آپ نے فوراً خاطر خواہ طبی انتظام کر دیا۔ اور تھوڑے دنوں کے بعد بیماری سے افاقہ ہونا شروع ہو گیا۔۶۱
آپ ۱۹/ مئی ۱۹۳۲ء کو چھ ماہ مسلسل جموں میں قانونی امداد کا فریضہ انجام دینے کے بعد نوشہرہ روانہ ہوئے تو مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن جموں نے نہ صرف اپنے خصوصی اجلاس میں آپ کا شکریہ ادا کیا۔۶۲ بلکہ اس کے جنرل سیکرٹری نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا۔
>جناب والا کی خدمت میں اس بات کا اظہار کرنا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مظلوم و تباہ حال مسلمانان کشمیر کی کیسی فقید المثال اور شاندار خدمات انجام دی ہیں تحصیل حاصل ہے کیونکہ کشمیری مسلمانوں کا بچہ بچہ ان احسانات کے بارے میں جو آپ حضرات نے خالصت¶ہ لل¶ہ ہم لوگوں پر کئے۔ اور کئے جارہے ہیں قیامت تک سبکدوش نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔
آپ کے فرستادہ وکلاء نے جس تندہی جانفشانی اور ہمدردی سے مظلوموں کی دستگیری فرمائی اس کا شکریہ ادا کرنا بھی ہمارے امکان سے باہر ہے۔
مجھے ایسوسی ایشن کی طرف سے ہدایت ہوئی ہے کہ جناب میر محمد بخش صاحب پلیڈر کی بے نظیر خدمات کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کروں<۔۶۳
جموں کے بعد آپ نے کوٹلی اور نوشہرہ کے مظلوم مسسلمانوں کی رہائی کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ نوشہرہ سپیشل بینچ میں پندرہ مسلمانوں کے خلاف الزام قتل میں پانچ ماہ سے مقدمہ چل رہا تھا۔ میر صاحب نے نہایت قابلیت اور محنت سے پیروی کی جس کے نتیجہ میں تمام ملزم بری کر دیئے گئے۔۶۴ البتہ ریاست کی عزت بچانے کے لئے چار لیڈروں کو بلوہ کے جرم میں سو سو روپیہ جرمانہ کیا گیا اور تین چار کو معمولی سزا ہوئی۔ فیصلہ سننے کے لئے ہزاروں لوگ جمع تھے۔ انہوں نے اس فیصلہ پر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نعرے بلند کئے اور کشمیر کمیٹی کے وکلاء کا شکریہ ادا کیا۔ ہائیکورٹ میں اپیل کا کام پھر چوہدری اسداللہ خاں بیرسٹر لاہور کے سپرد ہوا۔۶۵
چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء۔ لاہور
جناب چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء کی کوششوں سے بیرون ریاست سے آنے والے ایڈووکیٹ کے لئے فیس کی معافی کا جو حکم نامہ جاری ہوا اس کا ذکر گزر چکا ہے اس عظیم الشان خدمت کے علاوہ آپ جموں اور میر پور بھی تشریف لے گئے۔ چوہدری صاحب نے دونوں جگہ بہت محنت و خلوص سے قانونی خدمات انجام دیں۔ خصوصاً میرپور میں آپ نے وکالت کا حق ادا کر دیا۔ ان دنوں اس علاقہ میں فسادات جاری تھے اور مسلمان بے دریغ قتل کئے جارہے تھے۔ میر پور میں مسلمان شہداء کی جو نعشیں پہنچتی تھیں۔ چوہدری صاحب اپنے سامنے ہر نعش کا معائنہ کراتے اور مقتولین کے ورثاء کو تسلی دیتے علاقہ کے لوگ چودھری صاحب کے جذبہ ہمدردی سے بہت متاثر و مداح تھے۔۶۶
میر پور کے مقدمہ میں میر محمد بخش صاحب کی کوشش سے بہت سے مسلمان بری ہو گئے تھے مگر چھ کو سزا ہو گئی تھی۔ ہائیکورٹ میں اپیل کی گئی چوہدری اسدالل¶ہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لائے نے تین گھنٹہ تک بحث کی جس کے نتیجہ میں پانچ مسلمان بالکل بری کر دیئے گئے اور ایک کی سزا میں تخفیف کر دی گئی۔۶۷
ریاستی حکام نے آپ کو بھی چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر ریاست چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ چوہدری صاحب نے جواب دیا کہ میں نے کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کیا۔ اس لئے میں ریاست سے باہر نہیں جائوں گا۔ ہاں اگر حکام مجھے زبردستی اٹھا کر ریاست سے باہر چھوڑ آئیں۔ تو اور بات ہے یا پھر مجھ پر قانون کے ماتحت مقدمہ چلایا جائے۔ بالاخر ریاست کو نوٹس واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔۶۸
وکلاء کی خدمات پر خراج تحسین
جماعت احمدیہ کے وکلاء نے تحریک آزادی کے سلسلہ میں جو سنہری کارنامے دکھائے ان کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔ اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ بھی اگرچہ اجمالی رنگ کی تفصیل تھی۔ مگر اس سے تحریک آزادی کشمیر کے ان مجاہدوں کی سرگرمیوں کا نقشہ جنگ مطالعہ کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ تاہم اس فصل کے اختتام پر کشمیر کے مسلم زعماء کے عمومی تاثرات کا درج کرنا ضروری ہے۔
جناب اللہ رکھا صاحب ساغر کا بیان
۱۔ جناب اللہ رکھا صاحب ساغر سابق مدیر >رہبر< سرینگر و >جاوید< جموں )جن کا شمار ریاست کے ممتاز سیاسی رہنمائوں میں ہوتا ہے( ایک بیان میں فرماتے ہیں۔ >ریاست کے اندر تو یہ ہو رہا تھا اور بیرون ریاست برطانوی ہند میں بھی پارہ کافی حد تک اونچا چڑھ چکا تھا۔ اپنے اپنے طور پر سب ہی کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانان کشمیر کی ممکن حد تک مدد ہوتی رہے۔ لیکن اس سلسلے میں کشمیر کمیٹی کی حیثیت منفرد تھی۔ اس نے سائنٹیفک طور پر اس مہم کو بڑے منظم طریقے سے چلایا۔ پبلسٹی کو بہت فروغ دیا۔ حکومت ہند تک کئی یاد داشتیں بھیجیں۔ متعدد وفود ارسال کئے اور سب سے بڑھ کر اندرون ریاست سے ایسا اچھا میل قائم کیا کہ لوگوں کو اس سے بڑی سہولت ملی۔ اطلاعات ہم لوگ فراہم کرتے۔ برطانوی ہند میں اس کو نشر کرنے کی ساری ذمہ داری کشمیر کمیٹی کی تھی۔ اور یہ رابطہ بڑا سہل اور آسان رکھا گیا۔ ہر جگہ سے اطلاعات بڑے سادہ طریقہ پر پہنچائی جاتیں کم خواندہ آدمی بھیجے جاتے۔ اور اس کی نوک پلک درست کرکے اور اس کو دل نشین اور موثر پیرایہ میں ڈھال لیا جاتا تھا۔ اور کشمیر کمیٹی کی کوئی ایجنسی انہیں نشر کر دیتی تھی۔ اس کے علاوہ روزمرہ کی ضروریات کے لئے مادی امداد بھی برابر پہنچتی رہتی تھی۔ مثلاً سائیکلو سٹائل کی مشین` سٹیشنری` مطبوعات وغیرہ کی سپلائی خفیہ راستوں سے باقاعدہ جاری رہتی تھی۔ چونکہ ریاست میں پکڑ دھکڑ عام ہو چکی تھی۔ اور تمام قابل ذکر لیڈر اور کارکن گرفتار کر لئے گئے تھے۔ بلکہ ان کے لواحقین تک کو بھی جو سیاسیات میں اپنے بڑھاپے یا کاروبار کی وجہ سے کم ہی دخل دیتے تھے۔ ان کو بھی مختلف الزامات میں ماخوذ کر لیا تھا۔ اس لئے آئے دن ان کی قانونی امداد کی ضرورت پڑتی رہتی تھی۔ چونکہ مسلم وکلاء اول تو تھے ہی کم اور اگر اکا دکا کہیں تھا بھی تو وہ خود اسیر زندان تھا۔ اس لئے اس پہلو میں بھی بڑی مدد کی ضرورت تھی اور اس سلسلہ میں کشمیر کمیٹی نے جہاں مقامی طور پر قانونی امداد میسر آسکتی تھی اس کے مہیا کرنے کا بندوبست کیا۔ اور جہاں یہ ناممکن تھا وہاں لاہور سے وکلاء مہیا کئے گئے۔ اور ان کے اخراجات کمیٹی نے بھی برداشت کئے۔ اس کے سوا چھوٹے بڑے دوسرے کاموں کے لئے اخراجات کی کافی ضرورت ہوتی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہنگامی قسم کے اخراجات تو مقامی طور پر بے شک پیدا ہو جاتے تھے لیکن دور رس اور مسلسل قسم کے اخراجات کے لئے کشمیر کمیٹی مالی امداد بھی کرتی تھی۔ میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی نے ۱۹۳۱ء میں جو مالی امداد تحریک کشمیر کی کی وہ لا محالہ بڑی ٹھوس اور وزن دار تھی اور پائیداری اور نتیجہ خیزی کے لحاظ سے بے مثل تھی۔ میں ان آدمیوں سے متفق نہیں ہوں۔ جو یہ سمجھتے تھے یا اگر نہیں سمجھتے تھے تو کہتے تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کشمیر کمیٹی کا ڈھونگ حکومت ہند کے ایماء پر کھڑا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو علاہ اقبال جیسے انسان جس مجلس میں شامل ہوئے ہوں میں کبھی بھی نہیں سمجھ سکتا۔ کہ اس کا تعلق حکومت ہند سے ہو سکتا ہے۔ میرے مرشد کبھی بھی ایسی جماعت میں شامل نہ ہوتے۔ جس کے متعلق انہیں ایک فیصدی بھی شبہ ہوتا۔ کہ وہ حکومت ہند کی آلہ کار ہے دوسرے بہ حیثیت جموں اور کشمیر کا ایک باشندہ ہونے کے ہماری سب سے بڑی خواہش یہی تھی اور سب سے برا مفاد اس میں تھا کہ حکومت ہند کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرے۔ کیونکہ حکمران کشمیر نے مسلمانان کشمیر کو بالکل مجبور و بے بس کر دیا تھا اور انصاف کے سارے دروازے ان پر بند کر دیئے گئے تھے۔ اور اس کا مداوا صرف یہی تھا کہ حکومت ہند جس کے پاس پرامونٹ پاور تھی۔ وہی اس کا ازالہ کر سکتی تھی اور خود کانگریس نے چند دوسری ریاستوں میں اس چیز کے لئے حکومت ہند سے اپیل بھی کی تھی۔ کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جو چیز دوسری ریاستوں کے عوام کو وہاں کے حکمرانوں کی بے اعتدالیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے طلب کی گئی وہی چیز اگر ہمارے لئے مطلوب ہوئی تو اسے برا کیوں کہا جائے<۔۶۹
شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کا بیان
۲۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے ایک مضمون میں لکھا۔
>گزشتہ سال جس وقت ہم پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔ اس وقت ہماری بے کسی اور بے چارگی کی جو حالت تھی۔ اس کا اقتضاء یہ تھا کہ ہم دنیا کی ہر اس چیز سے فائدہ حاصل کریں جو ہمارے لئے ذرہ بھر بھی مفید ہو سکتی ہو۔ پنجاب کے حساس مسلمانوں نے اخوت اسلام کے پیش نظر ہماری امداد کرنے کے لئے ایک طرف کشمیر کمیٹی کی بنیاد ڈالی اور دوسری طرف مجلس احرار کی سرفروش جماعت کا رخ ہماری طرف پھیر دیا۔ ہماری گو ناگوں ضروریات اس بات کی مقتضی تھیں کہ ہماری امداد سب سے زیادہ قانونی اور مالی شکل میں کی جائے۔ کیونکہ ہماری مقابل طاقت نے زیادہ تر ہماری ان ہی دو کمزوریوں کو ہمارے دبانے کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ تحریک کو دبانے کے لئے جو قتل و غارت عمل میں آئی۔ اس کے باعث سینکڑوں` بیوائیں اور یتیم اور ہزاروں بے خانماں اشخاص تحریک کی گردن پر بوجھ بن کر رہ گئے۔ جن کی مالی امداد کرنا تحریک کو فروغ دینے کے مترادف ہو گیا۔ اسی کے ساتھ ہزارہا مسلمانوں پر جعلی مقدمات دائر کر دیئے گئے۔ مسلم وکلاء کی جو حالت کشمیر میں ہے۔ وہ عیاں ہے پہلے تو ہیں ہی ناپید اور جو کہیں ایک آدھ ہے بھی تو اس کے لئے جرات کے ساتھ سیاسی مقدمات کی پیروی کرنا ممکن نہیں۔ ان حالات میں ہمارے بیرونی معاونین کا فرض تھا کہ وہ ہماری ان دو سب سے بڑی ضرورتوں کو اچھی طرح سے محسوس کرتے اور اسی رنگ میں ہماری امداد کی طرف قدم اٹھاتے۔
اس معاملہ میں جہاں تک ممکن ہو سکا۔ کشمیر کمیٹی نے ہمارا ہاتھ بٹایا۔ مگر افسوس کہ لیڈران احرار نے اپنی توجہ کو ہمارے اس فوری اور صبر شکن درد کی طرف متوجہ نہ کیا۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی نگاہیں بہت رفیع مقاصد کی طرف لگی ہوئی تھیں اور وہ ہمارے لئے سیاسیات عالیہ کے انتہائی مدارج کو پاانداز کر دینا چاہتے تھے۔ مگر افسوس کہ درخت پر چڑھنے کے لئے جو قدرتی اصول تھا۔ اسے انہوں نے نطر انداز کرکے براہ راست پھنگ کو ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی<۔۷۰
علاوہ ازیں شیخ صاحب نے اکتوبر ۱۹۳۳ء میں صفا کدل میں ایک تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کیا تم اس جماعت کو >مردہ باد< کہتے ہو جس جماعت کے ہر فرد میں صحابیوں جیسا ایثار ہے اور آپس میں ایسی ہمدردی ہے جیسا کہ قرون اولیٰ والے مسلمانوں میں تھی کیا تم کو معلوم نہیں کہ یہاں کے اکثر پیرزادے یا اور دیگر طالب علم جب پنجاب میں طلب علم کے لئے جاتے ہیں۔ تو وہاں شہر شہر دربدر پھرتے ہیں جس وقت وہ قادیان پہنچ جاتے ہیں تو انہیں وہاں آرائش اور آرام ملتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ایک عالم یا گریجوایٹ بن کر وہاں سے نکلتا ہے وہ لوگ نرمی` اخلاق اور تہذیب میں مشہور ہیں۔
۔۔۔۔۔۔جب میں قید بند کے زمانہ میں بالکل بے بس اور لاچار تھا میں نے یہاں کے وکلاء سے مدد مانگی انہوں نے صاف انکار کیا بلکہ دوگنا معاوضہ طلب کیا۔ پھر میں نے ہندوستان کے مسلمانوں سے درخواست کی وہاں سے بھی ناامیدی ہوئی۔ پھر اس جماعت کے امام سے میں نے امداد کی درخواست کی ۔۔۔۔۔۔ تو فوراً انہوں نے ہر رنگ میں ہماری مدد کی جس سے تم بے خبر نہیں ہو۔ جس وقت ان کے ایک وکیل کو گھر سے تار آیا کہ اس کے بچے بیمار ہیں تو وہ میرے پاس آیا میں نے انہیں جانے کے لئے مشورہ دیا لیکن انہوں نے جواب دیا۔ اگر یہاں ایک مسلمان آزاد ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے بچے صحت یاب ہو گئے۔ بعد میں اس کے بچے یہاں ہی آئے۔ تو ۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم میں سے بہتوں نے نہیں دیکھا کہ وہ صاحب ایک ہاتھ سے بچوں کی مالش کرتے تھے اور ایک ہاتھ سے ۔۔۔۔۔۔ مسل کا مطالعہ کرتے تھے<۔۷۱4] f[rt
عتیق اللہ صاحب کشمیری کا بیان
۳۔ جناب عتیق اللہ صاحب کشمیری نے انقلاب ۲۰/ اپریل ۱۹۳۲ء میں لکھا۔ >آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جس خلوص اور ہمدردی کے ساتھ مظلوم مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کو مالی` جانی` قانونی امداد دی۔ اس کے لئے ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ زبان سپاس ہے اور ہم لوگ اس کمیٹی کی بے لوث مالی امداد کے تازیست ممنون رہیں گے۔ اس کمیٹی نے شہدا کے پسماندگان کا خیال رکھا۔ یتامیٰ و ایامیٰ )بیوگان۔ ناقل( کی پرورش کی۔ محبوسین کے پسماندگان کو مالی امداد دی۔ ماخوذین کو قانونی امداد دی۔ کارکنوں کو گرانقدر مشور دیئے جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر مظلومین کی امداد کی۔ ماخوذین کی اپیلیں دائر کیں۔ اور ان کے مقدمات کی پیروی کی۔ قابل ترین قانونی مشیر بہم پہنچائے۔ ہندوستان اور بیرون ہند میں ہماری مظلومیت ظاہر کرنے کے لئے جان توڑ کوشش کی۔ ہماری آواز کو مقام بالا تک پہنچایا۔ ہماری تسلی اور تسکین کی خاطر اشتہارات اور ٹریکٹ شائع کئے۔ ہر وقت قابل اور موزوں والنٹیئر دیئے۔ دنیائے اسلام کو ہمارے حالات سے آگاہ کرکے ہمدردی پر آگاہ کیا۔ اخبارات کے ذریعہ سے ہماری مظلومیت کو ظاہر کیا گیا<۔۷۲
صاحب دین صاحب میر پور کا بیان
۴۔ صاحب دین صاحب میر پور نے اکتوبر ۱۹۳۳ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا۔ >مظلومان خطہ کشمیر خاص کر مہجوران و مظلومان میر پور پر جو الطاف و اکرام ۔۔۔۔۔ معلیٰ القاب نے کئے ہر صاحب خرد و ہوش پر اظہر من الشمس ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ از ابتدائے تحریک تا حال زیر صدارت آنحضور مریدان باعقیدت مولوی ظہور الحسن` مسٹر محمد یوسف` عزیز احمد اور شیخ بشیر احمد صاحب جیسے لائق اشخاص کی بے لوث خدمات نے میر پور کیا بلکہ ریاست بھر کے بے کس و بے نوا انسانوں کے سفینہ حیات کو گرداب استبداد میں جبر و تظلم کے تھپیڑوں سے بچا کر ساحل استراحت کی جانب لا رکھا۔ آنحضرت کے فیض عالم اور احباب متذکرہ بالا کی خدمات کے نقش مسلمان میر پور کے صفحہ دل پر قیامت تک منقش رہیں گے۔ جن کا اعتراف تاحد علم ہر ایک موقعہ پر کرتے رہے اور کرتے رہیں گے<۔
‏tav.5.37
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل پنجم(
برادران کشمیر کے نام
حضرت امام جماعت احمدیہ کے پیغامات
ذیل میں حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفتہ المسیح الثانی کے وہ اہم اور ولولہ انگریز پیغامات درج کئے جاتے ہیں جو حضور نے تحریک آزادی کے دوران ہر مہم پر وقتاً فوقتاً مسلمانان کشمیر کے نام دیئے اور جو پمفلٹ کی صورت میں شائع ہو کر ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں پہنچے اور نئے جوش اور نئے ولولہ اور نئی روح پیدا کرنے کا موجب بنے۔ یہ پیغامات حریت کشمیر کی مستند تاریخ ہیں۔ اور قیادت و فراست کی ایک حیرت انگیز مثال جن کی اہمیت و افادیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔
اس جگہ یہ تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اس فصل میں حضور کے وہ پیغامات بھی شامل کردئے گئے ہیں جو کشمیر کمیٹی سے استعفاء کے بعد دیئے۔ علاوہ ازیں تحریک آزادی کشمیر سے متعلق غیر مطبوعہ مکتوب بھی ان دستاویزات کا یکجائی مطالعہ تاریخ کشمیر پر قلم اٹھانے والے ہر مورخ کے لئے ازبس ضروری ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران کشمیر کے نام پیغام
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ:
ریاست کشمیر میں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کو پڑھ کر ہر مسلمان کا دل دکھ رہا ہے اور ہر اک شخص کا دل ہمدردی سے آپ کی طرف کھینچا جارہا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم لوگوں کی طاقت میں جو کچھ بھی ہے اس سے دریغ نہیں کریں گے اور اگر آپ کو تکالیف سے بچانے کے لئے سو سال بھی کوشش کرنی پڑے تو انشاء اللہ وفاداری اور نیک نیتی سے اس کو جاری رکھیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں کہ صورت حالات جلد بہتر ہو جائے گی۔ کیونکہ ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ زبردست دوست ہمیں عنایت کر رہا ہے۔
برادران! اس موقعہ پر آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ظلم کی شدت کے وقت انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ لیکن کامیابی کا گر صبر ہے۔ صبر انسان کی طاقت کو بڑھا دیتا ہے۔ اس کی قابلیت کو ترقی دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ رسول کریم~صل۱~ کو پہلے دن ہی فتح بخش سکتا تھا۔ لیکن اس نے تیرہ سال آپ کو اہل مکہ کے ظلموں تلے اسی وجہ سے رکھا کہ وہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں میں حکومت کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے اس میں شک نہیں کہ آپ مدتوں سے مظلوم ہیں لیکن حق یہ ہے کہ پہلے آپ کے دل میں آزادی کا خیال ہی پیدا نہ تھا۔ اس لئے اس وقت آپ کی خاموشی صبر نہ تھی بلکہ کمزوری تھی۔ صبر اسی حالت کا نام ہے کہ انسان کا دل مقابلہ کو چاہے لیکن پھر وہ اپنے آپ کو کسی اصول کے ماتحت روک لے یہ حالت انسان کی اعلیٰ درجہ کی تربیت کرتی ہے۔ اور اس میں بڑی قابلیتیں پیدا کر دیتی ہے اور اس کا موقعہ آپ کو ابھی ملا ہے۔
پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ کس قدر ظلم ہو۔ آپ لوگ اس کا جواب تشدد سے نہ دیں بلکہ صبر اور قربانی سے دیں اور اس وقت کو تنظیم اور ایثار اور قربانی سے خرچ کریں۔ تب اللہ تعالیٰ کا فضل آسمان سے بھی نازل ہو گا۔ یعنی اس کی براہ راست مدد بھی آپ کو حاصل ہو گی۔ اور زمین سے بھی ظاہر ہو گا۔ یعنی اس کے بندوں کے دل بھی آپ کی مدد اور ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہو جائیں گے۔
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ آپ لوگ قطعی طور پر صلح سے انکار کر دیں جب تک کہ آپ کے گرفتار شدہ لیڈر رہا نہ ہو جائیں۔ یہ مصلحت کے بھی خلاف ہو گا اور غداری بھی ہو گی۔ کہ آپ کے لئے قربانی کرنے واے جیل خانہ میں ہوں اور آپ ان سے بالا بالا صلح کر لیں۔ جس وقت تک ایک نمائندہ بھی قید میں ہو اس وقت تک صلح کی گفتگو نہیں ہونی چاہئے۔ جب سب آزاد ہو جائیں پھر سب مل کر اور مشورہ سے اور اتحاد سے اپنی قوم کی ضرورتوں کو مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کریں۔ تو میں امید کرتا ہوں کہ مہاراجہ صاحب جن پر میں اب تک بھی حسن ظن رکھتا ہوں۔ آپ لوگوں کی تکلیفوں کو دور کریں گے۔ اور آپ لوگوں کو موقع مل جائے گا کہ اپنے پیارے ملک کی ترقی کے لئے دل کی خواہش کے مطابق کام کر سکیں۔
آخر میں میں پھر سب مسلمانوں کی ہمدردی کا یقین دلاتے ہوئے اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہم لوگ اپنی طاقت کے مطابق آپ لوگوں کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں اور انشاء اللہ تیار رہیں گے اس کے لئے کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
‏]ydob [tagاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران کشمیر کے نام دوسرا پیغام
برادران کشمیر! آپ لوگوں سے جو سلوک اس وقت ہو رہا ہے اسے سن کر ہر مسلمان کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ اور تمام ہندوستان میں غم و غصہ کی ایک لہر پھیل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی پورا زور لگا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ جلد اس کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی اور اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مشکلات دور فرما کر بہتری کی صورت پیدا کر دے گا۔
برادران! اس وقت بعض خود پرست لوگ مہاراجہ صاحب کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی زبان بن رہے ہیں۔ اور ان تک جھوٹی رپورٹیں کر کرکے انہیں آپ لوگوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ کہیں ایک باتصویر جھنڈے کو مشرکانہ طریق پر سلام کروایا جارہا ہے اور کہیں ٹکٹکیوں پر کس کر بید لگائے جارہے ہیں اور کہیں بانی اسلام ~صل۱~ اور اسلام کو گالیاں دلوائی جارہی ہیں لیکن یہ سب کچھ عارضی مصیبتیں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ عرصہ میں دور ہو جائیں گی۔ ایک طالب علم علم کے حصول کے لئے پندرہ سال رات دن محنت کرتا ہے۔ ایک نان ~۰~پز اور ایک روٹی پکانے کے لئے تین دفعہ آگ میں جھکتا ہے۔ پھر آپ لوگ جو صدیوں کی تیار کردہ غلامی کی زنجیریں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ان تکالیف کو جو آپ کو پیش آرہی ہیں کب خاطر میں لا سکتے ہیں۔ یہ تکلیفیں تو کچھ نہیں ان سے ہزاروں گنا تکالیف بھی اس کام میں پیش آئیں تو ان کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ ایک بات ضروری ہے کہ آپ لوگ اپنی طبائع میں جوش پیدا نہ ہونے دیں۔ اور اگر پبلک میں آپ کو بولنے کی اجازت نہیں تو اس وقت اپنے گھروں میں ظلموں کی داستانیں بیان کریں۔ اور رات کو سونے سے پہلے اپنی بیویوں` بہنوں اور بچوں کو نصیحت کریں کہ غلامی کی زندگی سخت ذلت کی زندگی ہے انہیں اپنے باپ دادوں کی مصیبتوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ اور ان غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یاد رکھیں کہ مظلومیت آخر کامیاب ہوتی ہے۔ اور بچپن میں کان میں ڈالی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر کی طرح ثابت ہوتی ہیں۔ پس جن تقریروں سے آپ کو باہر روک دیا گیا ہے وہ تقریریں آپ میں سے ہر شخص رات کے وقت اپنے اپنے گھر میں گھر کی عورتوں اور بچوں کے سامنے کرے کہ اس سے سارے ملک کی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی اور باہر کی تقریروں کا جو مقصد تھا اس طرح اور بھی زیادہ عمدگی سے پورا ہوتا رہے گا۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ جو شخص اکیلا ہے اسے چاہئے کہ رات کو سونے سے پہلے خواہ اونچی آواز سے خواہ دل میں ایک دفعہ ان ظلموں کا ذکر کر لیا کرے۔ جو امن کے قیام کے نام سے گزشتہ دنوں میں کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں۔
دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ رات کو سونے سے پہلے سب گھر والوں کو جمع کرکے اپنے ان لیڈروں کی آزادی کے لئے جو اپنے کسی جرم کے بدلے میں نہیں۔ بلکہ صرف آپ لوگوں کو انصاف دلانے کے لئے جیل خانوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ رو رو کر دعائیں کریں تاکہ آپ کی دعائیں عرش عظیم کو ہلائیں اور وہ شہنشاہ جو سب بادشاہوں پر حکمران ہے آپ کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنے فرشتوں کو بھیجے۔ اصل میں تو زبردست بادشاہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے ہر وقت محتاج ہوتے ہیں لیکن مظلوم اور کمزور کا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے۔ پس روز رات کو اپنے اپنے گھروں میں اسے پکاریں اور بچوں کو ساتھ شامل کریں تا ان کے دل میں بھی درد پیدا ہو۔ اور تا شاید ان معصوموں کی دعائوں سے ہی اللہ تعالیٰ آپ کے مظلوم لیڈروں اور دوسرے قومی خادموں کو قید و بند کی تکلیف سے بچائے۔
اسی طرح وہ لیڈر جو ابھی تک آزاد ہیں۔ ان کے لئے بھی دعائیں کیا کریں۔ کہ خدا تعالیٰ ان پر بھی اپنا فضل کرے اور انہیں ان کی قومی خدمتوں کا بہت بڑا اجر دے آپ لوگ اگر سمجھیں تو اللہ تعالیٰ کا آپ پر بڑا فضل ہے کہ دونوں میر واعظان کو اس نے قومی درد عطا فرمایا۔ اور وہ سب جھگڑے بھلا کر دوش بدوش ہر اک قسم کی تکلیف برداشت کرکے آپ لوگوں کے لئے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ اتحاد اور ان کی یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ جہاں انہیں نیک بدلہ دے گا۔ وہاں اس قربانی کے بدلہ میں آپ لوگوں کو بھی کامیاب کرے گا۔
ہم لوگوں سے جس قدر ہو سکتا ہے۔ کام کر رہے ہیں میں نے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی اب پہلے سے بہت زیادہ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ چاروں طرف آدمی مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرنے کے لئے بھجوا دیئے ہیں اور چندہ پر بھی آگے سے بہت زیادہ زور دینا شروع کر دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ہر قسم کی مالی اور جانی امداد آپ کو بہم پہنچاتے رہیں گے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے تجویز کی ہے کہ پہلے اچھی طرح حکومت ہند پر تمام حجت کر دے۔ اور اس کے لئے حضور وائسرائے کو توجہ دلائی جارہی ہے۔ چنانچہ پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کے تار سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت حکومت ہند اور ریاست میں تازہ مظالم کے متعلق خط و کتابت ہو رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر حکومت ہند فوراً دخل دینے کے لئے تیار نہ ہو تو ہم لوگ خود ایسی تدابیر اختیار کریں جن سے حکومت ہند اور ریاست آپ لوگوں کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے مجبور ہو۔
ہر ایک کام میں تب ہی کامیابی ہوتی ہے جب پورے نظام سے کیا جائے۔ اس لئے تمام پہلوئوں کو سوچ کر قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ پس میں آپ کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ریاست کو خواہ مخواہ دخل دینے کا موقع ملے اور وہ بیرونی دنیا کو کہے کہ ہم تو مجبور ہو کر سختی کرتے ہیں۔ ورنہ ابتداء مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ اب بھی وہ یہی کہتی ہے۔ چنانچہ ایک معزز صاحب نے مجھے خط لکھا ہے کہ میں گاندھی جی کے ساتھ جہاز میں تھا۔ میں نے انہیں کشمیر کے واقعات کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ میری یہ تحقیق ہے کہ سب شرارت مسلمانوں کی ہے۔ اور ریاست مظلوم ہے وہ صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے سختی سے گاندھی جی کو توجہ دلائی کہ اس قدر بڑے لیڈر ہو کر آپ اس قدر تعصب سے کام لیتے ہیں اور بغیر تحقیق کے مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا کہ میں بھی تم کو قسم دیتا ہوں کہ کشمیریوں کا مظلوم ہونا ثابت کرو۔ ورنہ تم کو میں سخت بددیانت سمجھوں گا۔ آپ لوگ دیکھ لیں کہ گاندھی جی جیسے انسان کو جنہیں ہر دلعزیز بننے کا نہایت شوق ہے بعض حکام ریاست نے دھوکا دے کر اس قدر متعصب بنا دیا ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا حال ہو گا۔ پس آپ کو چاہئے کہ اپنے مظلوم ہونے کی حالت کو بالکل نہ بدلیں بیدبے شک تکلیف دہ ہیں قید بے شک ایک مصیبت ہے لیکن ان تکلیفوں سے بہت زیادہ رسول کریم~صل۱~ نے اور آپﷺ~ کے صحابہ نے برداشت کی تھیں۔ ظلم کے پائوں نہیں ہوتے ظلم بھی دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کانٹوں کے ساتھ ہی پھول ہوتے ہیں۔ گلاب کے درخت میں پہلے کانٹے لگتے ہیں پھر پھول آتا ہے پس ان کانٹوں کو صبر سے برداشت کرو۔ تا گلاب کا پھول آپ کو دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ اس خط کے مضمون کو جہاں تک ہو سکے اپنے دوستوں تک پہنچائو۔ حتیٰ کہ کشمیر کا ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ اس کے مضمون سے آگاہ ہو جائے میں انشاء اللہ جلد ہی تیسرا خط آپ لوگوں کو لکھوں گا۔ خدا کرے اس خط میں میں آپ لوگوں کو کوئی بشارت دے سکوں اور اس وقت تک آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے ہوں۔
مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
۴۔ اکتوبر ۱۹۳۱ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران کشمیر کے نام تیسرا پیغام
برادران کشمیر! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ:
میرا دوسرا مطبوعہ خط آپ کو مل گیا ہو گا۔ مجھے خوشی ہے کہ چار تاریخ کی صبح کو جو میں نے لکھا تھا کہ جب میرا تیسرا خط آپ کو پہنچے گا تو انشاء اللہ آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے ہوں گے وہ بات صحیح ثابت ہوئی۔ اور اب میں ایسے ہی وقت میں خط لکھ رہا ہوں جبکہ ہمارے بھائی آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے۔ برادران یہ وقت آپ پر نہایت نازک ہے احتیاط کی سخت ضرورت ہے اور ذرہ سی لغزش خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے پس ان دنوں خاص طور پر اتحاد عمل اور خلوص نیت کی ضرورت ہے چنانچہ میں نے باوجود اس کے کہ احرار کی طرف سے ہمارے خلاف متواتر حملے ہوئے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے اس کی تمام شاخوں کو میں نے ہدایت کی ہے کہ وہ جس قسم کی امداد اپنے پروگرام کو قائم رکھتے ہوئے کر سکیں کر دیں جیسے مثلاً طبی امداد۔ پس کشمیر میں جہاں اصل جنگ ہو رہی ہے اتحاد کی زیادہ ضرورت ہے۔ دشمن ہمیشہ تفرقہ پیدا کرکے فائدہ اٹھایا کرتا ہے۔ اور یقیناً مسلمانوں کے بدخواہ احمدی غیر احمدی۔ سنی` شیعہ` وہابی` حنفی` دیو بندی اور بریلوی اس قسم کے اور سوال پیدا کرکے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہیں گے لیکن یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں سیاسی معاملات میں آپس کا اتفاق نہایت ضروری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں میں سے ہے پس آپ کو دشمنوں کے اس قسم کے فریبوں میں نہیں آنا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے اپنی آزادی کے لئے پوری کوشش کریں۔ میں آپ سے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی اور بحیثیت امام جماعت احمدیہ ہونے کے بھی پورا وعدہ کرتا ہوں کہ ہم لوگ انشاء اللہ آپ کی ہر طرح مدد کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے۔ یہاں تک کہ آپ کی تکالیف دور ہو جائیں۔ اور آپ کو آزادی کا سانس لینا مفید ہو اور خدا تعالیٰ آپ کو دشمنوں کے شر سے بچائے۔
میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کامیابی کے سامان پیدا ہو چکے ہیں لیکن میں آپ کو اس امر کے لئے ہوشیار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی ترقی خود آپ کی قربانی پر منحصر ہے۔ جب تک آپ لوگ خود ایک لمبی قربانی کے لئے تیار نہ ہوں گے۔ باوجود ریاست سے حقوق مل جانے کے آپ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ لیکن اگر آپ اپنی اصلاح کرنے کے لئے تیار ہوں تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی ہر طرح آپ کی امداد انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی۔ اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے انگلستان کی وزارت پر اور ہندوستان کی حکومت پر اس نے اس قدر اثر ڈالا ہے کہ ریاست کو فکر پڑ گئی ہے۔ اور وہ توجہ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے اور آئندہ انشاء اللہ ہم کو اس سے بھی زیادہ امید ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ ریاست کے گوشہ گوشہ میں کمیٹیاں بنا لیں گے۔ تاکہ آئندہ تعاون میں دقت نہ ہو۔ اور اپنے لیڈروں کی اطاعت کا مادہ پیدا کریں گے۔ تاکہ کامیابی میں روک نہ ہو۔
والسلام۔ خاکسار مرزا محمود احمد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
کشمیر کے لیڈر مسٹر عبداللہ کی گرفتاری اور اہل کشمیر کا فرض
برادران کشمیر! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ:
گزشہ کئی ماہ کے عرصہ میں میں خاموش رہا ہوں اور اپنا مطبوعہ خط آپ کے نام نہیں بھیج سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ لوگوں کے قابل فخر لیڈر مسٹر عبداللہ آزاد ہو کر آگئے تھے۔ اور آزادی کی جدوجہد کو نہایت خوبی اور قابلیت سے چلا رہے تھے۔ پس میں ضرورت نہیں سمجھتا تھا کہ اپنے مطبوعہ خطوں کا سلسلہ جاری رکھوں لیکن اب جبکہ ریاست نے پھر مسٹر عبداللہ اور دوسرے لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے مطبوعہ خطوں کا سلسلہ پھر جاری کر دوں۔ تاکہ آپ لوگوں کی کام کرنے کی روح زندہ رہے۔ اور مسٹر عبداللہ کی گرفتاری کی وجہ سے آپ میں پراگندگی اور سستی پیدا نہ ہو۔
اے عزیز بھائیو! ریاست کے بعض حکام ایک عرصہ سے کوشش کر رہے تھے کہ مسٹر عبداللہ کو گرفتار کریں لیکن انہیں کوئی موقع نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ کوشش کی کہ مسٹر عبداللہ جس جگہ ہوں وہاں لڑائی کروا دی جائے۔ اور پھر مسٹر عبداللہ کو پکڑوا دیا جائے کہ یہ بھی لڑائی میں شامل تھے۔ اسی طرح بعض خبیثوں نے یہ بھی کوشش کی کہ کسی ہندو فاحشہ عورت کو سکھا کر ان کے گھر پر بھیج دیں اور ان پر جبریہ بداخلاقی کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کروا دیں۔ میں یہ نہیں جانتا کہ کسی ذمہ دار ریاستی افسر کا اس میں دخل تھا یا نہیں۔ لیکن یہ یقینی امر ہے کہ اس قسم کی کوششیں بعض لوگ کر رہے تھے لیکن چونکہ میں نے ان ارادوں کا ذمہ دار حلقوں میں افشاء کر دیا تھا۔ اس لئے وہ لوگ ڈر گئے اور ان ارادوں کے پورا کرنے سے باز رہے۔ آخر اب مفتی ضیاء الدین صاحب کی جلا وطنی کے موقع پر کہ یہ صاحب بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مخلص قومی خادم ہیں ایک لغو بہانہ بنا کر مسٹر عبداللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ مسٹر عبداللہ امن کے قیام کے لئے کوشاں تھے نہ کہ فساد پیدا کرنے کے لئے۔
عزیز بھائیو! چونکہ انسان حالات سے واقف ہو کر مخالف کے حملوں سے بچ جاتا ہے بلکہ مشہور ہے کہ دشمن کے منصوبوں سے واقف ہونا آدھی فتح ہوتی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ریاست کے حکام کن چالوں سے آپ کو پھنسانا اور آپ کے حقوق کو تلف کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ لوگ فریب میں نہ آئیں اور اپنے اعلیٰ درجہ کے کام کو کامیابی کے ساتھ فتح کر سکیں۔
آپ کو معلوم رہنا چاہئے کہ پچھلے مظالم کے وقت میں اور دوسرے ہمدردان کشمیر میں اس امر میں کامیاب ہو گئے تھے کہ حکومت ہند کی توجہ کو آپ لوگوں کی ناگفتہ بہ حالت کی طرف پھرا سکیں۔ اور اوپر کے دبائو کی وجہ سے ریاست مجبور ہو گئی تھی کہ ظلم کا راستہ ترک کرکے انصاف کی طرف مائل ہو لیکن وہ حکام ریاست جن کا دلی منشاء یہ تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو حق نہ ملیں۔ انہوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ کسی اہل کشمیر کی طرف سے ایسے مطالبات پیش کر ادیں۔ جو بالکل غیر معقول ہوں۔ یا ایسے فسادات کروا دیں۔ جنہیں انگریز ناپسندیدہ سمجھیں وہ اس کا یہ فائدہ سمجھتے تھے۔ کہ اس طرح انگریزوں کی ہمدردی مسلمانوں سے ہٹ کر ریاست کے ساتھ ہو جائے گی۔ دوسری کوشش انہوں نے یہ کرنی شروع کر دی کہ فرقہ وارانہ سوال پیدا کرکے مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کر دیں۔
پہلے مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے بعض مسلمان ذمہ دار لوگوں کو انگریزوں سے لڑوانے کی کوشش کی۔ چنانچہ جب گلنسی کمیشن مقرر ہوا۔ تو باوجود اس کے کہ مسٹر عبداللہ اور ان کے ساتھی اس امر کا فیصلہ کر چکے تھے کہ جب تک کوئی خلاف بات ظاہر نہ ہو۔ وہ اس سے تعاون کریں گے اور میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا۔ ریاست کا ایک ایجنٹ جسے اسی قسم کے کاموں کے لئے باہر سے بلوایا گیا تھا۔ مسٹر گلنسی سے ملا۔ اور انہیں اس نے کہا کہ مسلمان تم سے تعاون کرنا نہیں چاہتے اور اس طرح انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ مگر چونکہ مسلمان تعاون کرنے کے لئے تیار تھے اس کا علاج اس شخص نے یہ کیا کہ مسلمانوں سے کہا کہ مسٹر گلنسی تم سے ملنا نہیں چاہتے ہیں انہیں سمجھا کر منوا دیتا ہوں اور پھر مسٹر گلنسی کو یہ بتا کر میں نے بڑی محنت سے مسلمانوں کو منوایا ہے اپنے جرم پر پردہ ڈالا۔ اور ساتھ ہی مسٹر گلنسی کی طبیعت میں شروع میں ہی مسلمان لیڈروں سے بغض پیدا کر دیا۔ چنانچہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی جو کہ عرصہ سے آپ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں انہیں ایک رات گیارہ بجے بلا کر ریذیڈنٹ صاحب اور مسٹر گلنسی نے صبح کے تین بجے تک جو گفتگو کی۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ دونوں صاحبان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کی پوری کوشش کی گئی تھی۔
اسی سلسلہ میں ایک کوشش یہ کی گئی کہ بعض اہالیان کشمیر سے جو درحقیقت ¶ریاست کے بعض حکام سے ساز باز رکھتے ہیں۔ اور ان کی خفیہ چٹھیاں معتبر لوگوں نے دیکھی ہیں۔ یہ اعلان کروایا کہ وہ لوگ کشمیر کے لئے آزاد اسمبلی چاہتے ہیں۔ یہ امر کہ یہ لوگ بعض حکام ریاست کے سکھانے پر ایسا کر رہے تھے اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ ساتھ کے ساتھ کہے جاتے ہیں کہ وہ مہاراجہ صاحب کے اقتدار کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ حالانکہ آزاد اسمبلی کے معنی ہی یہ ہیں کہ مہاراجہ صاحب کے کل اختیار لے کر اسمبلی کو دے دیئے جائیں۔ اور جب سب اختیار مہاراجہ صاحب سے لے لئے جائیں۔ تو پھر ان کا اقتدار کہاں باقی رہا۔ غرض یہ دونوں باتیں ایسی متضاد اور ایک دوسرے سے مخالف ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی کا مطالبہ خود حکام ریاست انگریزوں کو یہ بتانے کے لئے کہ اہل کشمیر کے مطالبات خلاف عقل اور باغیانہ ہیں کرواتے تھے۔ اصل میں یہ لوگ ریاست کے ایجنٹ تھے۔ تب ہی تو یہ کہتے تھے کہ ہم مہاراجہ صاحب کے اقتدار میں کوئی فرق نہیں لانا چاہتے۔ دوسرا ثبوت کہ یہ لوگ ریاست کی طرف سے اس کام پر مقرر ہوئے تھے یہ ہے کہ یہ لوگ ریاست کی موٹروں میں ریاست کے خرچ پر سفر کرتے رہے ہیں اور حکام ریاست نے تاریں دے دے کر انہیں بلوایا ہے اور ان کو اپنے کاموں پر بھجوایا ہے اب کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ کامل آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دوسری طرف ریاست جو مسلمانوں کو سر دست کچھ بھی دینے کو تیار نہیں معلوم ہوتی۔ ان لوگوں سے دوستانہ برتائو کر رہی تھی اور مسٹر عبداللہ جیسے آدمی کو جن کے مطالبات نہایت معقول تھے اپنا دشمن قرار دے رہی تھی ریاست کا یہ سلوک صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ریاست کے ایجنٹ تھے۔ اور مسٹر عبداللہ رعایا کے حقیقی خیر خواہ تھے۔
دوسرا کام یعنی مسلمانوں میں تفرقہ ڈلوانے کا کام بھی ریاست نے خود مسلمانوں سے لیا۔ اور انہی میں سے بعض لوگوں کو اس کام کے لئے کھڑا کیا کہ فرقہ بندی کا سوال اٹھائیں۔ حالانکہ فرقہ بندی مذہبی شے ہے اور کشمیر کی آزادی کا سوال مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے کیا اگر ہندو اٹھ کر آج مسلمانوں کے مطالبات کی تصدیق کرنے لگیں۔ اور کہیں کہ ان حقوق کے ملنے سے ہمارا بھی فائدہ ہے تو کیا کوئی مسلمان ہے جو کہے گا کہ ہندوئوں کا ہم سے کیا تعلق؟ بلکہ ہر مسلمان شوق سے ان ہندوئوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔ اور ہندوئوں کی امداد کو امداد غیبی سمجھے گا۔ یا مثلاً مہاراجہ صاحب اختیار دینے کو تیار ہوں تو کیا کوئی کہے گا کہ وہ ہندو ہیں ہم ان سے کچھ نہیں مانگتے یا جب سرینگر کے مظالم کے موقع پر بعض انگریزوں نے بعض مسلمانوں کو مار پیٹنے سے بچانے کے لئے کوشش کی تھی۔ تو کیا وہ مسلمان انہیں یہ کہتے تھے کہ ہم عیسائی کافر سے مدد نہیں لیتے ان ڈوگروں کو مارنے دو تم ہمیں نہ بچائو غرض یہ ایک بالکل خلاف عقل سوال تھا۔ اور اصل بات یہ تھی کہ ریاست کے حکام جانتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے آئینی جدوجہد میں میرا بہت سا دخل ہے اور وہ اسی جدوجہد سے زیادہ خائف تھے۔ پس ریاست نے یہ کوشش شروع کی کہ مجھے تنگ کرے اور کشمیر کمیٹی سے استعفاء دینے پر مجبور کر دے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ جو ایک ارادہ کرکے اس سے پیچھے ہٹ جائیں۔ مجھے اگر کشمیر کمیٹی سے استعفاء بھی دینا پڑتا۔ تو بھی میں اہل کشمیر کی مدد سے دست کش نہ ہوتا اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ اہل کشمیر کے آزاد ہونے تک مجھے ان کی خدمت کی برابر توفیق ملتی رہے گی۔ اے میرے رب تو ایسا ہی کر۔ اور مجھے اس مظلوم قوم کی مدد کرنے اور بے غرض اور بے نفس خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین اللہم آمین۔
اس تفرقہ ڈلوانے کے کام پر اس قدر زور دیا گیا کہ ریاست کے بعض حکام نے خود بلوا کر ۔۔۔۔۔ صاحب کو لاہور بھجوایا۔ جہاں انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ میں صدارت سے مستعفی ہو جائوں۔ لیکن بعض معززین کا بیان ہے کہ جب انہوں نے ۔۔۔۔۔۔ صاحب سے پوچھا۔ کہ اگر موجودہ صدر استعفاء دے دیں تو کیا آپ مسٹر عبداللہ صاحب سے مل کر کام کرنے لگ جائیں گے۔ اور ان کی تائید کرنے لگیں گے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں میں ایسا پھر بھی نہیں کروں گا۔ اس پر ان معززین نے کہا کہ اگر صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے استعفاء کی غرض اتحاد پیدا کرنا ہے تو اتحاد تو اس صورت میں بھی نہ ہوا۔ پھر ہم خواہ مخواہ کیوں کوشش کریں کہ وہ استعفاء دیں۔
غرض یہ کہ ریاست کے بعض حکام نے پورا زور لگایا کہ مذہبی فرقہ بندی کا سوال اٹھا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ لیکن مسٹر عبداللہ کی دور اندیشی اور اہل کشمیر کی وہ طبعی ذہانت جو انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی ہے ان کے منشاء کے راستہ میں روک بن گئی اور اہل کشمیر نے صاف کہہ دیا کہ وہ اس سیاسی سوال میں مذہبی تفرقہ پیدا نہیں ہونے دیں گے فالحمدلل¶ہ ثم الحمدلل¶ہ۔
ان حالات کے بیان کرنے سے میری غرض یہ ہے کہ آپ لوگ پوری طرح ان کوششوں سے آگاہ رہیں جو ریاست آپ کے کام کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہی ہے۔ اور آئندہ بھی کرے گی۔ اور اس کے ایجنٹوں کے دھوکہ میں آکر غصہ کی حالت میں کوئی فساد نہ کر بیٹھیں یا فرقہ بندی کے سوال کو سیاسی مسائل میں داخل نہ کر لیں۔
اے بھائیو! اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر عبداللہ جیسے لیڈر کے بلا وجہ گرفتار کئے جانے پر جنہوں نے اپنی زندگی اپنے پیارے وطن اور اپنے پیارے وطنی بھائیوں کی خدمت کے لئے وقف کر چھوڑی تھی آپ لوگوں کو جس قدر بھی غصہ ہو کم ہے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے اکثر اس جگہ خون بہانے کے لئے تیار ہیں۔ جہاں مسٹر عبداللہ کا پسینہ گرے لیکن آپ لوگوں کو یہ بات نہیں بھلانی چاہئے کہ مسٹر عبداللہ سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کام کو جاری رکھا جائے۔ پس آپ لوگ ریاست کے اس ظلم کا جواب جو انہوں نے مسٹر عبداللہ صاحب` مفتی ضیاء الدین صاحب اور دیگر لیڈران کشمیر کو گرفتار یا جلا وطن کرکے کیا ہے یہ دیں کہ اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے جو مسٹر عبداللہ نے شروع کر رکھی تھی پہلے سے بھی زیادہ مستعد ہو جائیں۔ نیز جو مطالبات انہوں نے پیش کئے تھے۔ ان پر آپ لوگ اڑے رہیں اور جو شخص ان مطالبات کے خلاف کہے خواہ آپ کا ظاہر میں دوست بن کر یہی کہے کہ ان مطالبات سے زیادہ سخت مطالبات ہونے چاہئیں اس کی بات کو رد کر دیں۔ اور صاف کہ دیں کہ مسٹر عبداللہ کی پیٹھ پیچھے ہم کسی اور کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مجھے اس نصیحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں خود ریاست کا اس میں فائدہ ہے کہ بعض لوگوں سے زیادہ سخت مطالبات پیش کرائے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف مسٹر عبداللہ کی لیڈری میں فرق آتا ہے۔ دوسری طرف انگریزوں کو بھڑکانے کا اسے موقع ملتا ہے۔ پس آپ نہ صرف اس خوشامدی سے ہوشیار رہیں۔ جو نقصان کا خوف دلا کر آزادی کی تحریک سے آپ لوگوں کو ہٹانا چاہے بلکہ اس دوست نما دشمن سے بھی ہوشیار رہیں جو بظاہر آپ کی خیر خواہی کا دعویٰ کرکے اور سبز باغ دکھا کر آپ کو آپ کے حقیقی لیڈر سے پھرانا چاہتا ہے۔ مجھے اس بات پر زور دینے کی اس لئے بھی ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض لیڈر جو ظاہر میں جوشیلے نظر آتے ہیں مجھے ان کی نسبت یقینی طور پر معلوم ہے۔ کہ وہ ریاست سے روپیہ لیتے ہیں اور مسٹر عبداللہ کا اثر گھٹانے کے لئے ریاست کی طرف سے مقرر ہیں۔
یہ امر بھی یاد رکھیں کہ کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جب تک کہ پبلک کی ہمدردی اس کے ساتھ نہ ہو اور پبلک اس کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار نہ ہو۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے ہزار درجہ اچھی ہوتی ہے پس جہاں میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں پر قابو رکھیں وہاں میں یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے نفسوں کو ملک اور قوم کے لئے قربانی کی خاطر تیار رکھنا چاہئے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ اپنے ملک کے فائدہ کے لئے اعتدال کا طریق اختیار کریں اور یہ بات اور ہے کہ آپ اس امر کے لئے تیار ہوں کہ اگر ملک کے لئے جان دینی پڑے گی تو خوشی سے جان دے دیں گے۔ یہ دونوں باتیں جدا جدا ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں حق ہیں پس چونکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسا وقت آجائے کہ بغیر اخلاق یا مذہب کو ہاتھ سے دینے کے آپ کو اپنے ملک کے لئے جان دینی پڑے اس لئے اس وقت کے لئے بھی آپ کو تیار رہنا چاہئے۔ اور اپنے اندر قربانی کی روح اور بہادری کا احساس پیدا کرنا چاہئے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہر کشمیری کو آپ لوگ اس جنگ کے لئے تیار رکھیں جو اس وقت آزادی کے لئے آپ لوگ کر رہے ہیں قید ہونا صرف مسٹر عبداللہ کا فرض نہیں۔ آپ لوگوں کا بھی فرض ہے۔ مسٹر عبداللہ آسمان سے نہیں گرے ان کے بھی ماں باپ بھائی بند ہیں ان کا بھی ایک دل اور ایک جسم ہے جس طرح آپ کے قید ہونے پر آپ کے عزیزوں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے اور جس طرح قید ہونے سے خود آپ لوگوں کے دل اور جسم کو بھی تکلیف پہنچتی ہے پس اس پر خوش نہ ہوں کہ آپ کا لیڈر آپ کے لئے قید میں ہے کیونکہ یہ غداری اور بے وفائی کی کمینہ مثال ہو گی۔ بلکہ اس امر کے لئے تیار رہیں کہ اگر موقع آئے تو آپ بھی اور آپ کے عزیز بھی بلکہ آپ کی عورتیں بھی قید ہونے کو تیار رہیں گی۔
یہ بھی مت خیال کریں کہ جب ہمیں امن کی تعلیم دی جاتی ہے تو ہمیں قید ہونے کا موقع کس طرح مل سکتا ہے کیونکہ مسٹر عبداللہ کو بھی ریاست نے بلاوجہ اور بلا قصور گرفتار کیا ہے اور اسی دفعہ نہیں پہلے بھی اسی طرح بلاوجہ انہیں قید کرتی رہی ہے۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی کسی وقت ریاست بلاوجہ قید کر لے۔ پس اپنے نفسوں کو تیار رکھیں۔ اور اپنی اولاد کو بھی سمجھاتے رہیں کہ ملک کی خاطر قید ہونا کوئی بری بات نہیں بلکہ عزت ہے۔
میں نے اپنے ایک پہلے خط میں لکھا تھا کہ مسٹر عبدالل¶ہ اور دوسرے لیڈر جب تک آزاد نہ ہوں۔ آپ لوگ روزانہ ان کے لئے دعا کرتے رہا کریں۔ اور اپنی اولادوں کو بھی اس میں شامل کیا کریں۔ میں اس بات کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں کہ آج سے آپ لوگ متواتر رات کو سونے سے پہلے خدا تعالیٰ سے اپنے مذہب اور طریقہ کے مطابق مسٹر عبداللہ کے لئے اور اہل کشمیر کو انسانی حقوق ملنے کے لئے دعا کیا کریں۔ نیز میں مساجد کے اماموں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر جمعہ کے دن تمام نمازیوں سمیت مناسب موقع پر کشمیر کی آزادی اور مسٹر عبداللہ اور دیگر لیڈران کشمیر کی حفاظت اور رہائی کے لئے دعا کیا کریں اس کا فائدہ ایک تو یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آکر ان ظلموں کا خاتمہ جلد کر دے گی جو اہل کشمیر پر روا رکھے جاتے ہیں۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر گھر میں اور بچوں تک بھی یہ تحریک پہنچ جائے گی۔ یاد رکھیں کہ ریاست یہ قانون تو بنا سکتی ہے کہ گزرگاہوں یا مساجد میں آپ کو اور آپ کے بچوں کو اور آپ کی عورتوں کو کوئی شخص ملک کے صحیح حالات نہ بتائے۔ لیکن کوئی ریاست خواہ کس قدر زبردست کیوں نہ ہو اس امر کا انتظام نہیں کر سکتی کہ ہر گھر میں اپنے سپاہی بٹھا دے۔ پس اگر قانون نے مجلسوں کا دروازہ آپ کے لئے بند کر دیا ہے۔ تو اپنے گھروں میں اپنی عورتوں اور بچوں کو بٹھا کر دعائوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہو اور اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کی قومی تربیت بھی کرو۔
اور بھی کئی باتیں ہیں جو میں کہنی چاہتا ہوں لیکن سردست میں اپنے اس خط کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ اے اہل کشمیر آپ کو یہ امر ایک منٹ کے لئے بھی نہیں بھلانا چاہئے۔ کہ مسٹر عبداللہ جو آپ سے زیادہ ناز و نعم میں پلے ہوئے ہیں جو ظاہری تعلیم کی آخری ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور جو اگر کسی مہذب ملک میں ہوتے اور کسی منصف حکومت سے ان کا واسطہ پڑتا تو کسی نہایت ہی اعلیٰ عہدہ پر ہوتے۔ آج قید خانہ کی تاریک کوٹھڑی میں بند ہیں۔ کسی اپنے جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے کہ اے اہل کشمیر آپ لوگ غلامی سے آزاد ہو جائیں۔ اور آپ کی اولادیں عزت کی زندگی بسر کریں۔ )باقی آئندہ(
خاکسار میرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
قادیان ضلع گورداسپور )پنجاب( ۳۲/۱/۲۷
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

اہل کشمیر کے دو اھم فرض
میرا دوسرا خط )سلسلہ دوم(
برادران کشمیر! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ میرا پہلا خط آپ کو مل گیا ہے اور گورنر کشمیر نے اسے ضبط شدہ بھی قرار دے دیا ہے یہ ریاست کشمیر کی بدقسمتی ہے کہ اس میں گورنر جیسے عہدہ پر جاہلوں اور ناقابلوں کا تقرر ہوتا ہے اور مہاراجہ صاحب کی حکومت کے چلانے کے لئے ایسے لوگ مقرر ہوتے ہیں جو ان خطوط کو ضبط کرتے ہیں جن میں پر امن رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ افسوس کہ مہاراجہ صاحب ان امور سے ناواقف ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے افسر خود ان کی حکومت کی جڑ پر تبر رکھ رہے ہیں اور ان کے ہاتھ سے کھا کر ان ہی کے ہاتھ کو کاٹ رہے ہیں ممکن ہے یہ لوگ دل سے خیال کرتے ہوں کہ مہاراجہ صاحب کی وفاداری کرتے ہیں لیکن مجھے تو شبہ ہے کہ یہ لوگ دل سے بھی مہاراجہ صاحب کے بدخواہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ امن کی تعلیم دینے والوں کی کوششوں کو کمزور کرکے ریاست میں بغاوت پھیلائیں۔ بہرحال اگر یہ لوگ مہاراجہ صاحب اور ریاست کے دشمن نہیں تو نہایت بے وقوف دوست ضرور ہیں۔
عزیز دوستو! جو میرے پہلے خط کا حشر ہوا وہی اس خط کا بھی ہو سکتا ہے اس لئے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ آپ لوگ یہ احتیاط کیا کریں کہ میرا مطبوعہ خط ملتے ہی فوراً اسے پڑھ کر دوسروں تک پہنچا دیا کریں تاکہ ریاست کے ضبط کرنے سے پہلے وہ خط ہر اک کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہو اور تاکہ ہر مسلمان اپنے فرض سے آگاہ ہو چکا ہو اور بہتر ہو گا کہ جس کے ہاتھ میں میرا خط پہنچے وہ اس کا مضمون ان مردوں عورتوں اور بچوں کو سنا دے جو پڑھنا نہیں جانتے اور اگر ہو سکے تو اس کی کئی نقلیں کرکے دوسرے گائوں کے دوستوں کو بھجوا دے اگر پورا خط نقل نہ ہو سکے تو اس کا خلاصہ ہی لکھ کر دوسرے دوستوں کو اطلاع کر دے۔
ان ہدایات کے بعد میں آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو خط لکھنے کے علاوہ میں نے اپنے نائبوں کو انگلستان میں بھی تاریں دیں کہ وہ کشمیر کے مظالم کی طرف وہاں کے حکام کو توجہ دلائیں اور کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری کو دہلی بھیجا تاکہ وہ حکومت ہند میں بھی آپ لوگوں کی تکالیف کو پیش کرکے داد خواہی کریں اور اسی طرح اپنے عزیز چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ممبر رائونڈ ٹیبل کانفرنس کو بھی تار دی کہ وہ بھی حکام سے ملیں۔ چنانچہ یہ لوگ وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری اور دوسرے سیکرٹریوں اور حکام سے ملے اور انہیں صورت حالات سے آگاہ کیا۔ اسی طرح ولایت میں خان صاحب فرزند علی خان صاحب امام مسجد لنڈن نے میری ہدایت کے مطابق کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کو دہلی اور لندن دونوں جگہ اصل حقیقت سے آگاہی ہو گئی اور ولایت کے اخبارات نے بڑے زور سے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ریاست کا نظام پوری طرح بدل کر مسلمانوں کی داد خواہی کرنی چاہئے۔ اور حکومت ہند نے بھی اس طرف توجہ کرنی شروع کی چنانچہ تازہ اطلاعات مظہر ہیں کہ اگر وزیراعظم صاحب نے اپنا رویہ نہ بدلا تو شاید وہ چند دن میں اپنے عہدہ سے الگ کر دیئے جائیں گے۔ اور جلد ہی دوسرے افسروں میں بھی مناسب تبدیلی ہو جائے گی۔ جس کے لئے میں میرپور کوٹلی راجوری اور بھمبر کے دوستوں کی خواہش کے مطابق کوشش کر رہا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ جلد کوئی آپ لوگوں کی بہتری کے سامان ہو جائیں گے میں نے ولایت پھر تار دی ہے کہ وہاں پہلے سے بھی زیادہ پراپیگنڈا کیا جائے۔ اور اصل حالات سے انگریزوں کو واقف کیا جائے۔ کیونکہ ریاست میں اس قدر ظلم ہوئے ہیں کہ اس انصاف پسند قوم کو اگر ان کا علم ہو گیا تو یقیناً ایک شور پڑ جائے گا۔ اور وہ حکومت پر بے انتہا زور دے گی میں نے اس سلسلہ میں نے اس سلسلہ میں ایک ولایتی خطوں کا سلسلہ بھی شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے یعنی جس طرح میں آپ کو خط لکھتا ہوں اسی طرح ایک خط پارلیمنٹ کے ممبروں وزراء امراء اور ولایتی اخبارات کے ایڈیٹروں کے نام بھی لکھا کروں گا تاکہ انہیں بھی سب حالات کا علم ہوتا رہے اور ہندوئوں کے غلط پروپیگنڈا سے وہ واقف ہوتے رہیں مجھے امید ہے کہ میرے ایک دو خطوں سے وہاں شور پڑ جائے گا۔ اور فریب کی چادر جو ریاستی ہندوئوں نے بنی ہے تار تار ہو جائے گی۔
اس کے بعد میں آپ لوگوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ سول نافرمانی کا لفظ جو بدقسمتی سے بعض لوگوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور جس کے سبب انگریزی حکومت نے دھوکہ کھا کر ریاست کو سختی کرنے کی اجازت دے دی تھی اسے بالکل ترک کر دیں اور ہر اک شخص کو سمجھائیں کہ غلط الفاظ استعمال کرنے سے بھی سخت نقصان ہوتا ہے وہ ایسے لفظوں کا استعمال ترک کر دیں اور ایسے طریقوں سے بچیں کہ جن کے ذریعہ سے انگریزی حکومت کو ریاستی حکام دھوکہ دے سکیں یاد رکھیں کہ آزادی یا تلوار کے زور سے حاصل ہو سکتی ہے یا انگریزوں کی امداد سے اور تلوار سے آزادی کا حصول آپ لوگوں کے لئے ناممکن ہے پس ایسے طریقے اختیار کرنے جن سے انگریزوں کی ہمدردی بھی جاتی رہے ہرگز عقلمندی کا شیوہ نہیں اس لفظ کے استعمال سے دیکھ لو کہ پہلے کس قدر نقصان ہوا ہے۔ صرف میر پور کے علاقہ میں چند نوجوانوں نے غلطی سے سول نافرمانی کا سوال اٹھایا۔ اور وہاں کے علاوہ تمام ریاست کشمیر پر ظلم کی انتہا ہو گئی۔ کارکن گرفتار ہو گئے عورتوں کی بے عزتی ہوئی اور بچے بلاوجہ پیٹے گئے۔ جس سول نافرمانی نے اب تک انگریزی علاقہ میں جہاں رعایا پہلے سے آزاد ہے کچھ نفع نہیں دیا۔ بلکہ مسٹر گاندھی اس کے بانی اب تک قید ہیں اور سب مسلمان اس کا تجربہ کرکے اس کی مخالفت کررہے ہیں اس نے وہاں کیا نفع دینا ہے سوائے اس کے کہ مہذب دنیا اس کی وجہ سے مسلمانوں کو باغی کہنے لگے اور ریاست کا دلی منشاء پورا ہوا۔ اور اس کا کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں ابتدائی انسانی حقوق کے متعلق اگر کسی وقت سب لیڈروں کے مشورہ سے ریاست کے ظالمانہ اور خلاف شریعت احکام کے ماننے سے انکار کیا جائے تو وہ سول نافرمانی نہ ہو گی کیونکہ ابتدائی حقوق سے محروم کرنے والی حکومت عرف عام میں خود باغی کہلاتی ہے ان احکام کے نہ ماننے والے لوگ باغی نہیں کہلاتے مگر اس کے متعلق میں تفصیل سے بعد میں لکھوں گا۔
اس وقت سب سے اہم بات جو کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ گلنسی کمیشن اس وقت جلد جلد اپنا کام ختم کر رہا ہے اس کمیشن کی رپورٹ پر انگریزی حکومت کی آئندہ امداد کا بہت کچھ انحصار ہے میں خود بھی اس کمیشن کے سامنے پیش کرنے کو ایک بیان لکھ رہا ہوں لیکن آپ لوگوں کی کئی تکالیف ہوں گی جو مجھے معلوم نہیں اس لئے جس علاقہ میں میرا یہ خط پہنچے وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ اپنی شکایات اور ان کے ثبوت لکھ کر جلد سے جلد مفتی جلال الدین صاحب کو جو مسٹر عبداللہ صاحب کے جانشین ہیں۔ سرینگر بھجوا دیں تاکہ وہ کمیشن کے آگے ان شکایات کو رکھ سکیں۔ اس معاملہ میں سستی ہوئی تو بعد میں پچھتانا پڑے گا۔ کیونکہ ایسے کمیشن روز روز نہیں بیٹھا کرتے۔
مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ آپ لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ اس کمیشن سے تعاون کا کوئی فائدہ نہ ہو گا لیکن یاد رکھیں کہ آپ کے لیڈر شیخ عبداللہ صاحب اور دوسرے سب آپ کے خیر خواہوں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کمیشن سے تعاون کیا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمیشن سے تعاون مفید ہو گا پہلا فائدہ تو یہی ہے کہ اس کمیشن کی بدولت پریس اور تقریر اور انجمنوں کی آزادی کا سوال پیش ہو چکا ہے۔ اور تھوڑے دنوں میں اس کے متعلق کاروائی شروع ہو جائے گی اس کے علاوہ بھی امید ہے کہ اور بہت سے فوائد انشاء اللہ حاصل ہوں گے اور جن امور میں اس کمیشن کی رپورٹ نامکمل یا غلط ہوئی ہمارے لئے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا پھر بھی راستہ کھلا ہے علاوہ ازیں اس وقت یہ کمیشن ایک طرح روک بن رہا ہے۔ جب انگریزی حکومت کو توجہ دلائی جاتی ہے تو اس کے ذمہ دار حکام کہتے ہیں کہ مہاراجہ صاحب ایک کمیشن بٹھا چکے ہیں پس اس کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے پس ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے جلد اس کمیشن کا کام ختم کرائیں اور پوری کوشش کریں کہ اس کمیشن کی کارروائی اس رنگ میں تکمیل کو پہنچے کہ کمیشن مجبور ہو کہ کاغذات کی بناء پر مسلمانوں کے حق میں رپورٹ کرے۔
دوسرا ضروری امر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ریاست نے اس وقت پرامن لوگوں کے جلسے اور جلوس روک رکھے ہیں سول نافرمانی کے پروگرام والوں اور ہندوئوں کے جلسے اور جلوس کھلے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں میں ۔۔۔۔۔۔ کا جلوس نکلا اور اس میں احرار زندہ باد اور قادیانی مردہ باد کے نعرے لگائے گئے کسی کے مردہ باد کہنے سے ہم مر نہیں جاتے پس میں تو کہتا ہوں کہ اگر ہمیں مردہ باد کہ کر کسی کا دل خوش ہوتا ہے تو چلو یہ بھی ایک ہماری خدمت ہے وہ اسی طرح اپنا دل خوش کر لیں ہم بھی خوش ہیں کہ ہمارے ایک بھائی کا دل اس طرح خوش ہو گیا۔ مگر ایک سبق ہمیں ان جلسوں اور جلوسوں سے ملتا ہے اور وہ یہ کہ ریاست کا ان لوگوں کو جلسوں اور جلوس کی اجازت دینا صاف بتاتا ہے کہ ریاست کے لئے اس میں فائدے ہیں اور وہ فائدے میرے نزدیک دو ہیں۔ )۱( اول فائدہ یہ ہے کہ ریاست اس طرح حکومت انگریزی کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ ریاست کے مسلمان باغی ہو گئے ہیں اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے ایجنٹ مقرر کر رہی ہے۔ )۲( دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ریاست لوگوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ مسٹر عبداللہ لیڈر کشمیر کی پارٹی کمزور اور تھوڑی ہے اور ان کے مخالف زور پر ہیں ریاست کے ہاتھ میں فوج ہے اور حکومت ہے۔ وہ ظلم کے ساتھ ایک ہی قانون کو دو طرح استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے اور ہم بغیر فساد پیدا کرنے کے اس کی اس تجویز کو رد کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ریاست نے جلسوں سے تو آپ لوگوں کو روک دیا ہے لیکن وہ لباس پر تو کوئی پابندی نہیں لگا سکتی۔ اس لئے میرے نزدیک آپ لوگ لباس کے ذریعہ سے اپنے خیالات کو ظاہر کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ جس قدر لوگ مسٹر عبداللہ کے ہم خیال ہیں اور امن پسندی کے ساتھ اپنے حق لینا چاہتے ہیں اور سول نافرمانی کے حامی نہیں ہیں وہ اس امر کے ظاہر کرنے کے لئے کہ مسٹر عبداللہ اور دوسرے لیڈروں کی قید سے انہیں تکلیف ہے اور دوسرے اس امر کو ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ بہرحال پر امن ذریعہ سے اپنے حقوق طلب کریں گے اور ریاست کے حکام کے جوش دلانے کے باوجود اپنے طریق کو نہیں چھوڑیں گے اپنے بازو پر ایک سیاہ رنگ کا چھوٹا سا کپڑا باندھ لیں یا اپنے سینہ پر ایک سیاہ نشان لٹکا لیں۔ ایسے نشان سے بغیر ایک لفظ منہ سے نکالنے کے بغیر تقریر کرنے کے بغیر جلوس نکالنے کے آپ حکومت اور دوسرے لوگوں کو بتا سکیں گے کہ آپ مسٹر عبداللہ کے ہم خیال ہیں اگر یہ تحریک ہر جگہ کے لیڈر کامیاب کر سکیں اور ملک کے ہر گوشہ میں ہر شخص خواہ مرد ہو خواہ عورت` خواہ بچہ اس سیاہ نشان کا حامل ہو۔ تو آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ بغیر جلسوں اور جلوس کے آپ لوگوں کی طرف سے اس امر کا اظہار ہوتا رہے گا کہ ایک طرف تو آپ لوگ مسٹر عبداللہ کی قید پر احتجاج کرتے ہیں اور دوسری طرف ریاست کے ان ایجنٹوں کی پالیسی کے خلاف اظہار رائے کرتے ہیں۔ جو اندر سے تو ریاست سے ملے ہوئے ہیں اور بظاہر کامل آزادی کا مظاہرہ پیش کرکے تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں۔ اگر مختلف علاقوں کے لیڈر اس تحریک کو جاری کریں تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ تھوڑے ہی دنوں میں ریاست اور اس کے ایجنٹ مرعوب ہونے لگیں گے۔ اور ہر راہ چلتے آدمی کو معلوم ہو جائے گا کہ کشمیر کا بچہ بچہ شیر کشمیر اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ ہے اور یہ کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ حقوق کا مطالبہ صرف چند لوگوں کی طرف سے ہے یا یہ کہ ریاست کشمیر کے لوگ فساد کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اس تحریک میں سب اہل کشمیر شامل ہیں اور وہ باغی نہیں بلکہ آئینی طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے ہیں اور یہ وہ حق ہے جس سے کوئی شخص کسی کو محروم نہیں کر سکتا۔
اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہیں جو میں اپنے اگلے خط میں ظاہر کروں گا۔ سر دست میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ جلد سے جلد ان امور کے متعلق کوشش کریں گے اور ایسے سامان پیدا کردیں گے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری کوششیں بارآور ہوں اور آپ لوگوں کو آزادی کا سانس لینا نصیب ہو اور آپ کے لیڈر پھر آپ لوگوں میں آکر شامل ہوں اور آپ کی خدمت میں مشغول ہوں۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
نوٹ: )۱( جن صاحبان کو یہ خط پہنچے ان سے درخواست ہے کہ اس کے اثر کو وسیع کرنے کے لئے وہ اپنے دوسرے دوستوں اور واقفوں کے نام اور پتے جو دوسرے گائوں کے ہوں میرے نام یا سیکرٹری کے نام بھجوا دیں تاکہ آئندہ خطوط اور بھی وسیع علاقوں میں پھیلائے جا سکیں۔
)۲( چونکہ میرا ارادہ ہے کہ میں باقاعدہ انگلستان کے لوگوں کو اور ہندوستان کے حکام کو ایک رسالہ کے ذریعہ سے حالات کشمیر سے واقف کرتا رہوں۔ میں ممنون ہوں گا کہ اگر اپنے علاقہ کے حالات سے اور حکام کے رویہ سے مجھے آپ لوگ اطلاع دیتے رہا کریں۔ واقعات بالکل سچے اور بیان حلفیہ ہونے چاہیں۔ مرزا محمود احمد۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
اہل کشمیر کے نام تیسرا خط )سلسلہ دوم(
مڈلٹن کمیشن رپورٹ
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ گو اب تک مڈلٹن رپورٹ مکمل صورت میں شائع نہیں ہوئی لیکن اس کا خلاصہ اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس خلاصہ کو دیکھ کر مسلمانوں میں سخت جوش اور غضب کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ محسوس کر رہے ہیں کہ ریاست کے ہندو افسروں کی طرح انگریزی افسروں نے بھی ان سے دھوکہ کیا ہے اور یہ کہ وہ آئندہ انگریزوں سے بھی کسی انصاف کی امید نہیں کر سکتے۔
گو اس قسم کی منافرت اور مایوسی کے جذبات میرے دل میں پیدا نہ ہوئے ہوں جو بعض دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوئے ہیں لیکن میں اس امر کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہ میرے نزدیک ہر انصاف پسند انسان کے نزدیک یہ رپورٹ موجب حیرت ثابت ہوئی ہو گی۔ اور تو اور سول اینڈ ملٹری گزٹ اخبار تک اس رپورٹ کے متعلق شبہات کا اظہار کرتا ہے اور اس کے حیرت انگیز یک طرفہ فیصلہ کو ایسوسی ائیٹڈ پریس کے خلاصہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اصل رپورٹ کے شائع ہونے کی انتظار کا مشورہ دیتا ہے۔
وہ لوگ جو اس امید میں تھے کہ مڈلٹن کمیشن کی رپورٹ مسلمانوں کی مظلومیت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دے گی بے شک اس وقت سخت مایوسی محسوس کرتے ہیں لیکن جن لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ نہ افراد اقوام کے قائم مقام ہوتے ہیں اور نہ قومی جنگیں آسانی سے ختم ہوا کرتی ہیں۔ وہ باوجود خلاف امید نتیجہ کے مایوس نہیں اگر مسلمان مظلوم ہیں جیسا کہ ہمارے نزدیک مظلوم ہیں تو ہزار مڈلٹن رپورٹ بھی ان کو ظالم نہیں بنا سکتی وہ مظاہرات جو برطانوی علاقہ کے مظاہرات کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جن کو بجائے لاٹھیوں کے گولیوں سے پراگندہ کیا گیا۔ اور گولیاں بھی اس بے دردی سے چلائی گئیں کہ کثیر تعداد آدمیوں کی ان کا نشانہ بنی ایسا واقعہ نہیں ہیں۔ کہ مڈلٹن رپورٹ ان کی حقیقت پر پردہ ڈال سکے۔ اگر مڈلٹن رپورٹ کا کوئی اثر دنیا پر ہو گا۔ تو صرف یہ کہ لاکھوں آدمی جو اس سے پہلے برطانوی انصاف پر اعتماد رکھتے تھے۔ اب برطانوی قوم کو بھی ظالم اور جابر قرار دینے لگیں گے۔ پس میرے نزدیک مڈلٹن رپورٹ کا نہ ریاست کو فائدہ پہنچا ہے اور نہ مسلمانوں کو نقصان۔ بلکہ انگریزوں کو نقصان پہنچا ہے۔ پس نہ ہندوئوں کے لئے خوشی کا موقع ہے اور نہ مسلمانوں کے لئے گھبراہٹ کا۔ اگر کسی کے لئے گھبراہٹ کا موقعہ ہے۔ تو عقلمند اور سمجھدار انگریزوں کے لئے جو اس میں اپنے وقار پر ایک شدید ضرب محسوس کریں گے۔
مجھے یقین ہے کہ مسٹر مڈلٹن بددیانت نہیں۔ اور معاملہ وہ نہیں جو ریاست کے بعض اعلیٰ کارکن کئی ماہ سے بیان کر رہے تھے۔ یعنے یہ کہ انہوں نے مسٹر مڈلٹن کی رائے کو خرید لیا ہے کیونکہ گو میں مسٹر مڈلٹن کو ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ لیکن ان کے جاننے والے سب مسلمان یہی کہتے ہیں کہ خواہ ہائیکورٹ کے جج خریدے جا سکتے ہوں لیکن مسٹر مڈلٹن نہیں خریدے جا سکتے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ واقفوں کی رائے کو جو خود ہماری قوم کے فرد ہیں ہم نظر انداز کر دیں۔ پس میں یہ تو نہیں مان سکتا۔ کہ مسٹر مڈلٹن نے بددیانتی سے کام لیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی رائے یکطرفہ ہے اور ان کی طبیعت کا میلان ان کے فیصلہ سے پھوٹا پڑتا ہے۔
جب ایک کمیشن کے تقرر کی ہم کوشش کرتے ہیں۔ تو ہمیں اس امر کی توقع رکھنی چاہئے کہ ممکن ہے اس کا فیصلہ ہمارے خلاف ہو۔ ہزاروں مقدمات میں سچے جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں اور جھوٹے سچے ثابت ہو جاتے ہیں پس اگر صرف مڈلٹن کمیشن کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوتا اور مسلمان اس پر ناراض ہوتے تو میں اسے بچپن کا فعل قرار دیتا اور باوجود اس فیصلہ سے اختلاف رکھنے کے اس پر ناراضگی کا اظہار نہ کرتا لیکن یہ فیصلہ اس رنگ میں لکھا گیا ہے۔ کہ صرف خلاف ہی فیصلہ نہیں ہے۔ بلکہ متعصبانہ رنگ رکھتا ہے چنانچہ ہر اک بات جو مسلمانوں کے منہ سے نکلی ہے اسے >خلاف عقل< بالبداہت باطل` کھلی کھلی دروغ بیانی قرار دیا گیا ہے اور جو کچھ ریاست کی طرف سے کہا گیا ہے۔ اسے معقول اور درست قرار دیا گیا ہے اور متعدد گواہوں کی گواہیوں کو اپنے ذاتی میلان پر قربان کر دیا گیا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کی گواہی کو من حیث القوم ناقابل اعتبار قرار دے کر ایک ایسی قومی ہتک کی گئی ہے کہ اس کا خمیازہ اگر خطرناک سیاسی بے چینی کی صورت میں پیدا ہو تو برطانیہ کو سوائے اس بات کے کہنے کے چارہ نہ ہو گا کہ خدا مجھے میرے بے احتیاط فرزندوں سے بچائے۔
مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اکثر انگریز دلوں میں خوب سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے۔ پس اس رپورٹ کا مسلمانوں پر تو کیا اثر ہو گا۔ خود انگریزوں پر بھی اس کا کوئی اثر نہ ہو گا یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ اپنے سیاسی فوائد کی وجہ سے اپنے دلی خیال کا اظہار نہ کریں۔
مجھے حیرت ہے کہ جب مسٹر مڈلٹن کے نزدیک سب کشمیری مسلمان جھوٹے ہیں۔ تو انہیں اس قدر عرصہ تک تحقیقات کی ضرورت کیا پیش آئی تھی۔ انہوں نے تو شروع میں ہی کہ دینا چاہئے تھا کہ میں کسی مسلمان کی گواہی نہیں سنوں گا۔ اس قدر روپیہ اپنی ذات پر اور اپنے عملہ پر خرچ کروانے کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کا روپیہ بھی جنھوں نے دور دور سے گواہ منگوا کر پیش کئے تھے کیوں ضائع کرایا۔
مڈلٹن کمیشن رپورٹ پر اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد اس امر پر بھی اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہ اس رپورٹ کے شائع ہونے پر بعض لوگ اس طرح مایوس ہو گئے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مڈلٹن کمیشن ہی ہمارا معبود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کام کرنے کے کئی راستے تجویز کئے ہیں۔ اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان راستوں سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کریں۔ اگر ان میں سے بعض بند نظر آئیں تو ہمیں مایوسی کی ضرورت نہیں ہم نے اگر ایک کوشش کی اور اس میں ہم ناکام رہے تو مایوسی کی کونسی بات ہے ہمیں پھر کوشش کرنی چاہئے۔ اور پھر کوشش کرنی چاہئے یہاں تک کہ ہم کامیاب ہو جائیں۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مڈلٹن کمشن خود مسلمانوں کی کوششوں کے نتیجہ میں مقرر ہوا تھا۔ کشمیر سے متواتر یہ آواز آرہی تھی۔ کہ آزاد کمیشن مقرر کرایا جائے۔ اور باہر کے مسلمانوں نے اس کی تائید کی۔ پس اس قسم کے نتائج سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ مڈلٹن کمیشن پر نہ آپ کو کوئی ناقابل برداشت قربانی کرنی پڑی ہے اور نہ اس رپورٹ سے ہماری پہلی پوزیشن میں کوئی نقص واقع ہوا ہے اس کمیشن کا مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے اس خیال سے تھا کہ اگر وہ انصاف پر مبنی ہوا تو مسلمانوں کی طرف غیر جانبدار لوگوں کی توجہ ہو جائے گی۔ اب اگر خلاف فیصلہ ہوا تو حالت وہیں کی وہیں آگئی جہاں پہلے تھی۔ پس نقصان کچھ نہیں ہوا۔ ہاں اگر فیصلہ درست ہوتا تو فائدہ ہو سکتا تھا۔ پس مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ قومی جنگوں میں اتار چڑھائو ہوتے رہتے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ کے متعلق بھی آتا ہے کہ لڑائی ڈول کی طرح تھی۔ کبھی کسی کا ڈول کوئیں میں پڑتا اور کبھی کسی کا پس اگر فی الواقع مسلمانان کشمیر کا ارادہ آزادی حاصل کرنا ہے تو انہیں اپنے دل وسیع اور مضبوط کرنے چاہئیں۔ اور اپنی ہمتیں بلند اور اس قسم کی تکلیفوں اور ناکامیوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہ یاد رکھیں کہ بڑے کام چھوٹے حوصلوں سے نہیں ہوتے اور اگر ان کا منشاء صرف تکلیفوں سے بچنے کا ہے تو اس کا آسان علاج ہے کہ ہتھیار ڈال دیں۔ اس صورت میں کچھ دنوں تک یہ ظاہری ظلم بند ہو کر اسی سابقہ کند چھری سے ہندو افسر انہیں قربان کرنے لگیں گے۔ جس سے پہلے قربان کیا کرتے تھے۔ لیکن اس موت میں نہ کوئی شان ہو گی نہ مسلمانوں کی ان سے ہمدردی ہو گی۔ ہم لوگ آپ کے بلانے پر آئے ہیں اگر آپ لوگ خاموش ہونا چاہیں تو ہم بھی خاموش ہو جائیں گے مگر مجھے یقین ہے کہ مایوسی صرف چند لوگوں کا حصہ ہے مسلمانوں کی کثرت اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے آزادی حاصل کرنے کے لئے جان و دل سے مستعد ہے اور یہی کثرت ہے جو آخر باوجود ہمت ہارنے والوں اور مایوس ہونے والوں کے انشاء اللہ کامیاب ہو کر رہے گی۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں گلنسی کمیشن پر کیا اعتبار رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گلنسی کمیشن سے بھی خطرہ ہے جس طرح مڈلٹن کمیشن میں خطرہ تھا۔ لیکن اگر اس کمیشن نے بھی ہماری امیدوں کے خلاف فیصلہ کیا۔ تو ہمارا کیا نقصان ہو گا۔ کیا انگریز کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہمارے مذہب کا جزو ہے اگر مسٹر گلنسی نے مسٹر مڈلٹن والا طریق اختیار کیا تو ہم مڈلٹن رپورٹ کی طرح اس کی غلطیوں کا بھی پردہ فاش کریں گے۔ اور اگر اس میں مسلمانوں کے حق میں کوئی سفارش کی گئی۔ تو یقیناً اس سے ہم کو فائدہ پہنچے گا۔ بعض افسر اور بعض دوسرے لوگ بہت پہلے سے گلنسی رپورٹ کے متعلق بھی کہہ رہے ہیں کہ مسٹر گلنسی نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ ان کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہو گا۔ اگر یہ سچ ہے تو بھی میرے نزدیک ہمیں اس سے مایوسی کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک غیر منصفانہ رپورٹ جو انگریز کریں گے اس سے مسلمانوں کی ہمدردی کھو کر اپنی قوم کے لئے مشکلات پیدا کریں گے۔ پس ایسی رپورٹ سے ہمارا نقصان نہیں خود ان کا نقصان ہے ہمارے مطالبات پھر بھی قائم رہیں گے ہم نے اپنے حقوق کے متعلق کیا یہ تسلیم کیا ہے کہ جو کچھ انگریز کہ دیں گے اسے ہم تسلیم کر لیں گے۔ اگر وہ معقول بات ہو گی تو ہم اسے مانیں گے۔ ورنہ کہیں گے کہ عطائے تو بلقائے تو۔
برادران! یاد رکھیں کہ یہ مایوسی کی لہر دو طرح سے چلائی جارہی ہے۔ ایک ریاست کے ہندو افسروں کی طرف سے جو بعض انگریزوں کی غلطیاں گنوا کر مسلمانوں کو اس طرف لانا چاہتے ہیں کہ وہ خود ریاست کے ہندو افسروں سے فیصلہ چاہیں۔ حالانکہ جو کچھ ہندو افسروں نے سلوک کیا ہے وہ اس قدر پرانا نہیں کہ اسے مسلمان بھول جائیں۔ ایک شخص کے فیصلہ سے انگریزی طبیعت کا حال نہیں معلوم ہو سکتا نہ مسٹر مڈلٹن اور مسٹر گلنسی انگریزی حکومت کا نام ہے۔ لیکن ہندوئوں نے تو ریاست میں افراد کی حیثیت میں نہیں حکومت کی حیثیت میں مسلمانوں کو بے دردی سے کچلا ہے۔ پس جو کچھ ان سے ظاہر ہوا ہے کیا مسلمان اسے اس قدر جلد بھول جائیں گے؟ اب اس وقت بھی کہ مڈلٹن رپورٹ شائع ہو چکی ہے میرے پاس درخواستیں آرہی ہیں کہ میر پور کی طرح دوسرے علاقوں میں بھی انگریزی مداخلت کی کوشش کی جائے۔ اگر انگریزوں اور ریاستی حکام میں فرق نہیں تو یہ کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سخت بے وقوفی ہو گی کہ ہم ایک شخص سے یا ایک فعل سے ناراض ہو کر عقل کو ہی چھوڑ دیں اور اپنی موت کے سامان خود کرنے لگیں۔ پس مڈلٹن رپورٹ کی غلطی کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہئے کہ ہم ہندو حکام کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں۔ ان باتوں میں آنے والے لوگوں کو چاہئے۔ کہ ان وسوسوں کے پیدا کرنے والوں سے دریافت کریں کہ فرض کرو کہ مڈلٹن صاحب کوئی رقم کھا گئے ہیں )جسے میں تسلیم نہیں کرتا( تو یہ بتائو وہ رقم کس نے کھلائی ہے۔ اور کس غرض سے؟ اگر ہندو حکام نے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تو اس جھوٹ کو تسلیم کرکے بھی تو اصل دشمن وہی رشوت کھلانے والے ثابت ہوتے ہیں۔
دوسرے لوگ جو اس وقت مایوسی پیدا کر رہے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جو اس امر سے ڈرتے ہیں کہ کہیں دوسری مسلمان ریاستوں میں شورش نہ پیدا کی جائے یہ لوگ بھی سخت غلطی پر ہیں۔ اول تو کشمیر اور مسلمان ریاستوں کے حالات یکساں نہیں دوسرے یہ بھی غلط ہے کہ ہندو مسلمانوں کے کشمیر کے معاملات میں دلچسپی لینے کی وجہ سے مسلمان ریاستوں کے خلاف شورش کریں گے وہ پہلے سے یہ کام کر رہے ہیں۔ مسلمان کشمیر کے متعلق دلچسپی لیں یا نہ لیں انہوں نے مسلم ریاستوں میں بغیر وجہ کے بھی ضرور شورش پیدا کرنی ہے۔ پس ہمیں ان لوگوں کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے۔ اور استقلال سے کشمیر کی آزادی کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اور ایک سبب پر توکل نہیں کرنا چاہئے ہر جائز وسیلہ جس سے کام کیے ہونے کی امید ہو ہمیں اختیار کرنا چاہئے۔ اور اگر کسی کوشش کا نتیجہ حسب دلخواہ نہ نکلے تو ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت سب سے بڑا آلہ آزادی کا سول نافرمانی سمجھا جاتا ہے پھر کیا یہ آلہ گزشتہ آٹھ سال میں کامیاب ہو گیا؟ اگر وہ آٹھ سال میں کامیاب نہیں ہوا۔ تو ہم نو ماہ میں اپنی کوششوں سے کیوں مایوس ہوں۔
یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے خود ہی ہمارے لئے ایک راستہ مقرر کر چھوڑا ہے۔ اور ہمیں درمیانی روکوں کی وجہ سے اس سے ادھر ادھر نہیں ہونا چاہئے۔ اور وہ توکل اور تبلیغ ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھنا اور انسانی فطرت پر یقین رکھنا کہ وہ زیادہ دیر تک دلیل کا مقابلہ نہیں کر سکتی یہی اصل کامیابیوں کی جڑ ہے۔ اور یہی کمزوروں کا حربہ ہے۔ جس سے وہ بغیر فوجوں کے جیت جاتے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کو دیکھ لو۔ آپ باوجود انتہائی کوشش کر چکنے کے اپنے مخالفوں سے ناامید نہیں ہوئے کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بھی یقین تھا اور آپ اس امر پر بھی یقین رکھتے تھے کہ انسانی فطرت زیادہ دیر تک معقولیت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ آخر ایک دن وہی لوگ جو آپ کے دشمن تھے۔ آپ کے تابع فرمان ہو گئے۔ پس ہمارے آقا کا اسوہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہمیں کسی اور کی نقل کی ضرورت نہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ایک طرف ہر مسلمان کے دل میں خواہ وہ کشمیر کا ہو یا باہر کا کشمیر کے مسئلہ سے دلچسپی پیدا کریں۔ اور دوسری طرف ریاست کے حکام کو بھی اور انگریزوں کو بھی اپنے دعاوی کی معقولیت کا قائل کریں اور یہ نہ شبہ کریں کہ یہ لوگ ہماری بات نہیں مانیں گے۔ کیونکہ جب ہم اپنی طاقت پر خود شک کرنے لگ جائیں۔ تو ہماری بات کا دوسروں پر بھی اثر نہیں ہوتا ہمیں چاہئے کہ یقین رکھیں کہ ضرور ہماری بات اثر کرے گی۔ دیکھو مسمریزم کرنے والا ایک جاگتے شخص کے کو کہنے لگتا ہے کہ تم سو گئے تم سو گئے اور وہ سو جاتا ہے۔ پھر وہ اس سے جو کچھ چاہتا ہے منوا لیتا ہے اگر وہ دوسرے سے جھوٹ منوا لیتا ہے تو کیا ہم سچ نہ منوا سکیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ضرور ہے کہ ایک دن یا ریاست کے حکام ہماری بات مان لیں اور مسلمانوں کے حق دے دیں اور یا انگریز ہی ہماری بات مان لیں۔ اور ہمارے حق دلا دیں۔ اسی طرح اگر ہم ریاست اور اس کے باہر مسلمانوں کو بیدار کرتے رہیں۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ دوسرے لوگ ہم سے مرعوب ہوں گے کیونکہ بیدار قوم کو کوئی نہیں دبا سکتا۔ غرض اگر دوسرے لوگ دیکھیں گے کہ کشمیر کے مسلمان اور دوسرے مسلمان اس امر پر تل گئے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے ان کے جائز حق حاصل کریں۔ تو جو لوگ دلیل سے ماننے والے نہیں وہ رعب سے مان لیں گے مگر رعب دھمکیوں سے اور مارنے سے نہیں پیدا ہوتا۔ بلکہ پختہ ارادہ اور اپنے کام کے لئے مستقل قربانی کے لئے تیار ہو جانے سے پیدا ہوتا ہے مجھے یقین ہے کہ اگر یہ باتیں اہل کشمیر پیدا کر لیں تو نہ ریاست ان کے حق کو دبا سکتی ہے نہ انگریز اس میں اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ کوئی حکومت اپنے سب ملک کو تباہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی۔ اور کوئی توپ پختہ ارادہ کو زیر نہیں کر سکتی۔ پس ہمارا راستہ کھلا ہے اندرونی تنظیم اور اپنے معاملہ کو بار بار دلیل کے ساتھ پبلک میں لانا ان دونوں تدبیروں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اثر کرے گی۔ یا تنظیم رعب پیدا کرے گی یا دلیل دل کو صاف کر دے گی۔ خواہ ریاست کے حکام کے دلوں کو خواہ انگریزوں کے دلوں کو۔ اور جس طرف سے بھی ہمیں حق مل جائے ہم اسے خوشی سے قبول کریں گے اور نہ ریاست سے گفتگو کا دروازہ بند کریں گے۔ نہ انگریزوں سے جو بھی ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا اس کی طرف ہم بھی دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ اگر آج ریاست ہمارے بھائیوں کے حقوق دینے کو تیار ہو جائے تو ہم اس کے ساتھ مل کر انگریزوں سے کہیں گے کہ ہم لوگوں کی صلح ہو گئی ہے اب آپ لوگ یہاں سے تشریف لے جائیے۔ اور اگر انگریزوں کی معرفت ہمیں حق ملے گا تو ہم کہیں گے کہ ہمارے وطنی بھائیوں سے یہ غیر اچھے ہیں۔ جنہوں نے انصاف سے کام لیا۔ یہی اور صرف یہی عقلمندی کا طریق ہے۔ اور جو شخص غصہ میں اور درمیانی مشکلات سے ڈر کر اپنے لئے خود ایک دروازہ کو بند کر لیتا ہے وہ نادان ہے اور قوم کا دشمن ہے آج ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا حق ریاست سے ملے گا یا انگریزوں سے اور دلیل سے ملے گا یا قربانی کے رعب سے۔ پس ہم دونوں دروازوں کو کھلا رکھیں گے اور دونوں طریق کو اختیار کئے رہیں گے۔ یعنی انگریزوں اور ریاست دونوں سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں گے اسی طرح علاوہ دلیل کے اپنی تنظیم کو مضبوط کرتے چلے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے علم میں جس طرح ہماری کامیابی مقدر ہے۔ اسے قبول کر لیں گے۔ اور اس ¶کی قضا پر خوش ہوجائیں گے۔
میں امید کرتا ہوں کہ میں نے حقیقت کو خوب واضح کر دیا ہے اور بیدار مغز اہل کشمیر مایوسی پیدا کرنے والے لوگوں کی باتوں میں نہیں آئیں گے۔ بلکہ ہمت اور استقلال سے اپنے کام میں مشغول رہیں گے۔ اور یہ سمجھ لیں گے کہ مڈلٹن رپورٹ ہماری قسمت کا فیصلہ نہیں وہ فیصلہ ہمارے مولا نے کرنا ہے۔ اور وہ ضرور اچھا ہی فیصلہ کرے گا۔ مڈلٹن کمیشن مختلف سامانوں میں سے ایک سامان تھا۔ اگر فی الواقع وہ سامان مفید بھی ثابت نہیں ہوا )گو میرے نزدیک یہ فیصلہ بھی مفید ہو گا۔ اور بوجہ اپنے کھلے ہوئے تعصب کے شریف طبقہ کو اور بھی ہمارا ہمدرد بنا دے گا( تو ہمیں نہ مایوسی کی کوئی وجہ ہے اور نہ اپنا طریق عمل بدلنے کی ہمارا اصل پروگرام اسی طرح قائم ہے اور ہم اس کے ذریعہ سے کامیاب ہونے کی کامل امید رکھتے ہیں۔ لیکن ہتھیلی پر سرسوں جما کر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اور سچی قربانیوں اور تنظیم اور دلیل کے ذریعہ سے۔
واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین
خاکسار
میرزا محمود احمد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ:
میں نے اس امر کو دیکھ کر حکام کشمیر بغیر اس امر کا خیال کئے کہ میرے خطوط ان کے فائدے کے ہیں یا نقصان کے خطوط کو ضبط کرتے رہے ہیں آئندہ خط لکھنے میں وقفہ ڈال دیا تھا لیکن جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے میں آپ لوگوں کے کام کے لئے دہلی گیا تھا۔ اور جموں بھی مناسب کوشش کرتا رہا ہوں سو الحمدلل¶ہ کہ سر راجہ ہری کشن کول صاحب تو ریاست کو چھوڑ گئے ہیں اور نیا انتظام امید ہے کہ مسلمانوں کے حق میں مفید ہو گا گو میرے نزدیک آدمیوں کی تبدیلی نہیں بلکہ قانون اور نیت کی تبدیلی سے رعایا کو فائدہ پہنچ سکتا ہے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جو کچھ کوششیں کی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں مجھے امید ہے کہ بہت جلد اہل کشمیر کی اکثر تکالیف دور ہو جائیں گی۔ اور ان کی آئندہ ترقی کا سامان پیدا ہو جائے گا۔ یہ کس رنگ میں ہو گا اور کب ہو گا۔ اس سوال کا جواب دینے سے میں ابھی معذور ہوں ہاں ۔۔۔۔۔۔ آپ لوگ تسلی رکھیں کہ انشاء اللہ ایک ماہ یا اس کے قریب عرصہ میں ایسے امور ظاہر ہوں گے جو آپ لوگوں کے لئے خوشی کا موجب ہوں گے۔ اور آپ گزشتہ تکالیف کو بھول جائیں گے لیکن اصل کام اسی وقت سے شروع ہو گا۔ کیونکہ حق کا ملنا اور اس سے فائدہ اٹھانا الگ الگ امور ہیں اگر ریاست کشمیر کے مسلمانوں نے حقوق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی تو سب قربانی ضائع جائے گی۔
‏tav.5.38
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
آپ لوگوں کو گزشتہ ایام میں سخت تکالیف کا سامنا ہوا ہے اور اب تک ہو رہا ہے- لیکن یہ امر آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے کاموں کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اگر میرا علم صحیح ہے اور آپ لوگوں کو جلد بہت سے حقوق ملنے والے ہیں۔ تو یہ کامیابی آپ کی ایسی ہو گی کہ اس کی نظیر ہندوستان میں اور کہیں نہیں ملتی۔ اور کامیابی کے مقابلہ میں تکالیف بہت کم رہ جائیں گی۔
مجھے افسوس ہے کہ پوری طرح میرے منشاء کے مطابق کام نہیں ہوا۔ ورنہ مجھے یقین ہے کہ اس قدر تکالیف بھی نہ ہوتیں۔ لیکن آپ لوگوں کو چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ حقوق دلاوے تو سب گزشتہ ظلموں کو بھول کر آئندہ ترقی کے سامان پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ ورنہ اگر اس وقت گزشتہ بدلے لینے کی طرف آپ متوجہ ہوئے تو بدلہ تو نہ معلوم آپ لے سکیں یا نہ لے سکیں حقوق سے فائدہ اٹھانے سے آپ لوگ محروم رہ جائیں گے یاد رکھیں کہ مسلمان نہایت وسیع الحوصلہ ہوتا ہے۔
میں انشاء اللہ جس وقت خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو کامیاب کیا۔ ایک ایسا پروگرام آپ لوگوں کے سامنے اور آپ کے ہندوستان کے خیر خواہوں کے سامنے رکھوں گا۔ جس پر چل کر مجھے امید ہے کہ آپ لوگ اپنے حقوق سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اور اپنی ہمسایہ قوموں سے بھی آپ کے تعلقات خوشگوار رہیں گے۔
میں اپنی طرف سے بھی یہ وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہر ممکن امداد آپ کی آئندہ ترقی کے لئے دیتا رہوں گا۔ وما تو فیقی الا باللہ۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
‏nskc] ga[tاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
اہل جموں و کشمیر کی طرف میرا پانچواں خط )سلسلہ دوم(
برادران! میرے گزشتہ خط کے بعد بعض حالات میرے علم میں ایسے آئے ہیں کہ جن کی وجہ سے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض امور کی تشریح جس قدر جلد ہو سکے کر دوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جموں میں یہ بات مشہور کی جارہی ہے کہ سر ظفر علی خان صاحب کو میں نے کوشش کرکے نکلوایا ہے اور میری غرض یہ ہے کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو ان کی جگہ وزیر مقرر کروائوں مجھے افسوس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بعض ذمہ دار لیڈروں نے بھی اس خیال کا اظہار کیا ہے اور عوام الناس میں بھی اس بات کا چرچا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ جس اخلاص اور محبت سے میں نے اہل کشمیر کا کام کیا تھا اس کے بعد اس قسم کی بدظنیاں پیدا نہ ہو سکیں گی۔ لیکن افسوس کہ میرا یہ خیال غلط نکلا۔ اگر محض اختلاف رائے ہوتا تو میں بالکل پرواہ نہ کرتا۔ لیکن اس الزام میں میری نیت اور دیانت پر چونکہ حملہ کیا گیا ہے میں اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی نام نہ لوں گا تاکہ دوسروں کی بدنامی کا موجب نہ ہو۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ سر ظفر علی صاحب کے کشمیر پہنچنے کے معاً بعد بعض نمائندگان کشمیر نے مجھے ایسے واقعات لکھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ سر ظفر علی صاحب مسلمانوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے اور ایک واقعہ میر واعظ یوسف شاہ صاحب کے ساتھ ان کے سلوک کا خاص طور پر بیان کیا گیا تھا اس پر میں نے ولایت تار دیئے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں اور ہمدردوں نے وہاں کوشش کی اور بعض ذمہ دار حکام نے بتایا کہ احرار کی تحریک کے کمزور ہوتے ہی سر ہری کشن کول اور مرزا سر ظفر علی صاحب کو کشمیر سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔ یہ غالباً اکتوبر کا واقعہ ہے اس واقعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ ان کے اخراج کی تحریک خود کشمیر سے ہوئی۔ اور اکتوبر میں اس کا فیصلہ بھی درحقیقت ہو چکا تھا۔ گو خاص حالات کی وجہ سے اس پر عمل بعد میں ہوا۔ پس اس کا الزام مجھ پر لگانا درست نہیں۔
باقی رہا یہ الزام کہ میں نے یہ کوشش عزیز مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو وزیر بنانے کے لئے کی ہے اس کا جواب میں یہی دے سکتا ہوں کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا میرے دل میں بہت احترام ہے لیکن مجھے یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ کشمیر کی وزارت کی خواہش رکھتے ہیں تو میری رائے ان کی نسبت بدل جائے کیونکہ میں ان کو اس سے بہت بڑے کاموں کا اہل سمجھتا ہوں پس اس وجہ سے اس عہدہ کو ان کی ترقی کا نہیں بلکہ ان کے تنزل کا موجب سمجھوں گا۔ علاوہ ازیں کشمیر کے وزیر کی تنخواہ غالباً تین ہزار کے قریب ہے لیکن چودھری ظفر اللہ خان صاحب اس وقت بھی چار اور پانچ ہزار کے درمیان حکومت ہند سے وصول کر رہے ہیں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ زیادہ آمد والے کام سے ہٹا کر میں انہیں ایک تھوڑی تنخواہ والے کام پر لگنے کا مشورہ دوں خصوصاً جبکہ اس میں کوئی مزید ترقی اور مزید عزت کا بھی سوال نہیں۔ پس جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے ان کی عقل ویسی ہی ہے جیسی کہ اس فقیر کی جس نے ایک ڈپٹی کو خوش ہو کر دعا دی تھی کہ خدا تعالیٰ تجھے تھانہ دار بنائے۔ کاش وہ بدظنی کرکے گنہگار نہ بنتے اور سمجھ سے کام لیتے اور سوچتے کہ عزیزم ظفر اللہ خان صاحب وزارت کشمیر سے زیادہ اہم کام کر رہے ہیں۔ اور اس سے بہت زیادہ ترقی کے سامان ان کے لئے خدا تعالیٰ کے محض فضل سے میسر ہیں۔
دوسرا اعتراض مجھ پر یہ کیا گیا ہے کہ میں نے کوشش کرکے انگریزوں کو ریاست میں داخل کیا ہے۔۔۔۔۔۔ انگریزوں کے داخلہ کا واقعہ بھی اس طرح ہے کہ جب کشمیر میں شورش زیادہ ہوئی اور مجھے یہ آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ انگریز کشمیر میں گھس جائیں تو اچھا ہے تو میں نے اپنے ہاتھ سے ایک خط شیخ عبداللہ صاحب ایم۔ ایس۔ سی لیڈر کشمیر کو لکھا اور رجسٹری کرکے بھیجا۔ کہ انگریز افسروں کا آنا مفید نہیں مضر ہو گا۔ اس لئے آپ لوگ اس قسم کا مطالبہ ہرگز نہ کریں۔ اور یہی خیال میرا شروع سے ہے کیونکہ گو انگریز افسر بالعموم انصاف اور قواعد کی پابندی میں بہت سے ہندوستانیوں سے بڑھ کر ہوتا ہے لیکن انگریز انگریزی حکومت میں ہی مفید ہوتا ہے ریاستوں میں نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں میں بوجہ ان کی اپنے قومی کیریکٹر کے اعلیٰ ہونے کے یہ نقص ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی بات کو زیادہ مانتے ہیں انگریزی علاقہ میں یہ بات چنداں مضر نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہاں انگریزی طریق ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اور نگرانی اس شدت سے ہوتی ہے کہ دیسی افسروں کو بھی قواعد کی پابندی اور محکمانہ دیانت کی عادت ہو گئی ہے ریاستوں میں یہ بات نہیں ہوتی پس وہاں کے جھوٹ سے جب انگریز کا اعتماد ملتا ہے تو بجائے ملک کو نفع پہنچنے کے نقصان پہنچتا ہے انگریز اسی وقت مفید ہوتے ہیں جب سب نظام انگریزی ہو اس نظام میں ان کی عادات بالکل پیوست ہو جاتی ہیں اور کام اچھا چلنے لگتا ہے پس اس خطرہ کی وجہ سے میرا ہمیشہ یہ خیال ہے کہ انگریزوں کے کشمیر میں چلے جانے پر ہندو افسر زیادہ ظلم کر سکیں گے کیونکہ وہ ظلم کرکے جھوٹی رپورٹ دیں گے اور انگریز افسر کو اگر دھوکہ لگ گیا۔ اور اس جھوٹ پر اس کے سامنے پردہ پڑ گیا تو حکومت ہند اس انگریز افسر کے مقابلہ میں کسی اور کی بات نہیں سنے گی۔ کیونکہ وہ سمجھے گی کہ ایک غیر جانبدار آدمی کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے اور اس سے ہمارے کام کو نقصان پہنچے گا یہ میرا خطرہ اب صحیح ثابت ہو رہا ہے چنانچہ مسلمانوں کی آواز حکومت ہند میں پہلی سی موثر نہیں رہی اور آئندہ کامیابی کے لئے ہمیں بہت زیادہ عقل اور بہت زیادہ علم اور آہستگی کی ضرورت ہے۔ غرض شیخ عبداللہ صاحب کے نام میرا خط اس امر کا شاہد ہے کہ انگریزوں کے لانے کی مجھے کوئی خواہش نہ تھی۔۔۔۔۔۔
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ ایک دو ماہ میں کشمیر کے متعلق کوئی ایسا فیصلہ ہو جائے گا جو مسلمانوں کے حق میں مفید ہو گا یہ فیصلہ کیا ہے اور کس حد تک مسلمانوں کے لئے مفید ہے میں ان دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے جو علم ہوا ہے وہ پانچ ذرائع سے ہے اور وہ سب ہی مخفی ہیں پس میں تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انشاء اللہ مسلمانوں کی حالت پہلے سے اچھی ہو جائے گی باقی سیاسی جدوجہد ایسی ہی ہوتی ہے کہ آج ایک طاقت کو انسان حاصل کرتا ہے کل دوسرا اقدام اٹھاتا ہے اہل کشمیر دوسری ریاستوں سے غیر معمولی طور پر آگے قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ریاستوں کی آزادی ہندوستان کی طرح تدریجی ہو گی۔ لیکن ہوگی ضرور یہ ناممکن ہے کہ ریاستیں اب بھی پرانی چال پر چلتی جائیں زمانہ انہیں مجبور کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا۔ پس یہ خیال غلط ہے کہ سب کچھ ایک وقت میں حاصل ہو جائے۔ جس طرح یہ خیال بھی غلط ہے کہ ریاستیں اپنی پرانی حالت پر قائم رہ سکیں گی۔
تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ گو آئینی کمیشن کی ترکیب قابل اعتراض ہے اس میں نہ مسلمانوں کی کافی تعداد ہے اور نہ مسلمانوں سے مشورہ کرکے ممبر مقرر کئے گئے ہیں پس یہ تو ہمارا فرض تھا کہ اس کے خلاف پروٹسٹ کریں لیکن پروٹسٹ کرنے کے بعد میرے نزدیک اس کا بائیکاٹ مسلمانوں کے لئے مفید نہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا۔ کہ مسلمانوں کا پہلو کمزور ہو جائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اسمبلی کسی نہ کسی شکل میں دینے کا فیصلہ مہاراجہ صاحب کر چکے ہیں۔ اب سوال صرف تفصیلات کا ہے پس اگر مسلمان شامل نہ ہوئے تو کام تو رکے گا نہیں صرف نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں کا مشورہ کمزور ہو گا۔ جو نقصان دہ ہو گا۔ گو میری رائے تو یہی ہے کہ پروٹسٹ کرکے اس میں مسلمان ممبر حصہ لیں۔ اور کوشش کریں کہ بہتر سے بہتر صورت اسمبلی کی بن سکے۔ کیونکہ گو اصول میرے نزدیک پہلے سے طے شدہ ہیں۔ اور اس پر کمیشن کا کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اچھی باتوں کو زیادہ اچھا بنا دیتی ہیں یا اور خراب کر دیتی ہیں۔ پس اس موقعہ سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جب ہم نے پروٹسٹ کر دیا تو دنیا پر یہ ظاہر ہو گیا کہ ہم اس بے انصافی کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری شمولیت قطعاً غلط فہمی نہیں پیدا کر سکتی کیونکہ سیاسی امور میں اس قسم کی شمولیت ہوتی ہی رہتی ہے اور لوگ اس کی حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں پس جو فائدہ آپ لوگ اس وقت اٹھا سکتے ہیں کمیشن میں شامل ہو کر اٹھا لیں جو نقص رہ جائے گا اسے انشاء اللہ آئندہ درست کرنے کی کوشش ہوتی رہے گی۔ اور ابھی تو اہل کشمیر کے سامنے اپنی تعلیم اور تربیت کا اس قدر کام ہے جو کئی سال تک ان کی توجہ کو اپنی طرف لئے رہے گا۔
چوتھی بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی ہزار آدمی علاقہ کھڑی سے مقامی حکام کے ظلموں سے تنگ آکر جہلم میں آگئے ہیں۔ مجھے ان مصیبت زدوں سے ہمدردی ہے لیکن میرے نزدیک فوراً نکل آنے کی بجائے بہتر ہوتا کہ پہلے ہم لوگوں کو کوشش کرنے دی جاتی۔ اب بھی میں ان بھائیوں کو یہی نصیحت کروں گا کہ وہ اس اپنے علاقہ میں چلے جائیں اور ہمیں اپنی بہتری کے لئے کوشش کرنے دیں اگر ہم سے کچھ نہ ہو سکا تو ہم خود ان سے کہہ دیں گے کہ اب آپ لوگوں کے لئے ملک چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر پوری کوشش کئے بغیر اور حکومت کو اصلاح کا موقع دینے سے پہلے نکلنا زیادہ مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔
میں ایک دفعہ پھر برادران ریاست کشمیر کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممبران کے پورے خیر خواہ ہیں اور انشاء اللہ جہاں تک ان کی طاقت میں ہے۔ وہ اس کام کو معقول اصول پر جاری رکھیں گے اور نہ میں اور نہ کوئی اور ممبر انشاء اللہ اس قسم کے اعتراضات سے بددل ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم ایسا کریں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم میں سچا قومی درد نہیں۔ ہم انشاء اللہ آپ لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرنے میں پوری سعی کریں گے اور کر رہے ہیں۔ چار تاریخ کو کمیٹی کی طرف سے ایک وفد ہز ایکسی لنسی وائسرائے کی خدمت میں کشمیر کے متعلق پیش ہونے والا ہے۔ وکلاء کے لئے بھی ہم اجازت طلب کر رہے ہیں اور جس حد تک ممکن ہو گا ہم لوگ انشاء اللہ ریلیف کا کام بھی کریں گے۔ ہاں آپ لوگوں سے ہم یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ ہمارے تجربہ سے جہاں تک ہو سکے فائدہ اٹھائیں اور ایسے رنگ میں کام کریں کہ غریبوں اور کمزوروں کا نقصان نہ ہو اور ملک تباہ نہ ہو بلکہ ترقی کرے۔
خاکسار مرزا محمود احمد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا چھٹا خط )سلسلہ دوم(
برادران! میں اپنے پچھلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی آپ لوگوں کی تکالیف کے متعلق پوری کوشش کر رہی ہے اور میں نے یہ ذکر بھی کیا تھا کہ ایک وفد چار تاریخ کو جناب وائسرائے صاحب کی خدمت میں پیش ہونے والا ہے جو آپ لوگوں کی تکالیف کے متعلق آپ سے تفصیلی گفتگو کرے گا۔ یہ وفد چار تاریخ کو پیش ہوا۔ اور اس کے ممبر مندرجہ ذیل اصحاب تھے۔
)۱( نواب عبدالحفیظ صاحب ڈھاکہ )۲( خواجہ حسن نظامی صاحب )۳( مولانا شفیع دائودی صاحب )۴( نواب صاحب کنجپورہ )۵( سید مسعود احمد شاہ صاحب بہار )۶( اے۔ ایچ غزنوی صاحب بنگال )۷( سید محسن شاہ صاحب )۸( خان بہادر رحیم بخش صاحب )۹( ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب لاہور )۱۰( سید حبیب صاحب )۱۱( ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب یو۔ پی )۱۲( شیخ فضل حق صاحب بھیرہ )۱۳( کپتان شیر محمد صاحب دومیلی )۱۴( چودھری ظفر اللہ خان صاحب )۱۵( مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کسی مجبور کی وجہ سے وفد میں شامل نہ ہو سکے۔ وفد نے جو ایڈریس حضور وائسرائے کی خدمت میں پیش کیا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
>کشمیر کی ریاست میں ایک لمبے عرصہ سے عملاً ہندوئوں کو ہی حکومت میں حصہ دیا جاتا ہے مسلمان بہت کم اور النادر کالمعدوم کی حیثیت میں ہیں۔ حالانکہ ان کی آبادی ستانوے فی صدی ہے نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو انتظامی اور قانونی دونوں شکنجوں میں اس طرح کس دیا گیا ہے کہ وہ ترقی نہیں کر سکتے۔ ایک لمبے عرصہ تک صبر کرنے کے بعد اب مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے بالکل جائز طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ہند اس بارہ میں ان کی امداد کرے گی۔
اسی غرض کے پورا کرنے کے لئے جو کمیشن مقرر کیا گیا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس میں مسلمانوں کی نہ تو صحیح نمائندگی ہے اور نہ کافی نمائندگی ہے۔ اس کا تدارک ہونا چاہئے۔ مگر صرف اسی قدر اصلاح سے کام نہیں چلے گا چاہئے کہ کشمیر کے مسلم لیڈروں کو آزاد کرکے اس مشورہ میں شریک کیا جائے اور دوسرے سیاسی قیدیوں کو بھی رہا کرکے فضاء صاف کی جائے۔
موجودہ فسادات میں جو مقدمات چلائے جارہے ہیں اس پر مسلمانوں میں بے چینی ہے ریاست کے افسر جن پر خود الزام ہے آزاد تحقیقات نہیں کر سکتے۔ اس لئے ریاست کے باہر سے قابل اعتماد جج بلوا کر مقدمات ان کے سامنے پیش کرنے چاہئیں۔
ہمیں مختلف ذرائع سے رپورٹیں ملی ہیں کہ بعض حکام نے سخت مظالم کئے ہیں اور فسادات کو اپنے بغض نکالنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کھڑی کے علاقہ سے ہزاروں آدمی نکل کر انگریزی علاقہ میں چلے آئے ہیں اس کا علاج ہونا چاہئے۔ جس کے لئے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ فوراً وہاں سے ان افسروں کو جن کے خلاف مسلمانوں کو شکایت ہے تبدیل کر دیا جائے اور ایک آزاد تحقیقات ان کے افعال کے متعلق کرائی جائے اس بارہ میں خصوصیت سے کشمیر` کوٹلی` راجوری اور تحصیل مینڈر پونچھ کے افسر قابل ذکر ہیں۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ کشمیر میں ہمیشہ سردیوں میں مسلمان گورنر اور مسلمان یا انگریز افسر پولیس رہنا چاہئے۔
مہاراجہ صاحب کی وزارت میں کم سے کم دو مسلمان وزراء جن پر مسلمانوں کو اعتبار ہو۔ ہونے چاہئیں۔ مسلمان موجودہ مسلمان وزیر کے خلاف سخت مشتعل ہیں کیونکہ وہ ہرگز مسلمانوں کے فوائد کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
موجودہ فسادات کے متعلق جو مقدمات ہیں ان میں سے باہر سے مسلمان وکیلوں کو پیش ہونے کی اجازت ہونی چاہئے اور ان سے بائیس روپیہ کی خاص فیس نہیں لینی چاہئے۔ اس بارہ میں چیف جسٹس صاحب کشمیر نے سفارش کی ہے اور حکومت ہند کی سفارش مزید سہولت پیدا کر سکتی ہے۔
کشمیر میں قیدیوں کے ساتھ سلوک اچھا نہیں ہوتا اس کی اصلاح کی جائے اور آئندہ کے لئے ہر قوم میں سے کچھ معتمد علیہ غیر سرکاری آدمی مقرر کئے جائیں۔ جو جیل خانوں کا معائنہ کیا کریں۔ تاکہ اگر کوئی ظلم ہو رہا ہو تو اس کا علم ہو جائے۔ ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ آزاد تحقیقات جیل خانوں کے انتظام کے متعلق کروائی جائے اور قانون جیل خانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور خوارک وغیرہ کا انتظام بھی بہتر کیا جائے۔
یہ ایڈریس چار تاریخ کو حضور وائسرائے کے پیش ہوا اور تمام ممبران کے اتفاق سے چوہدری ظفراللہ خان صاحب گفتگو کے لئے مقرر ہوئے ایک گھنٹہ تک وائسرائے صاحب سے جن کے ساتھ وزیر ریاست اور پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے گفتگو ہوئی۔ اور علاوہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے مناسب موقعوں پر دوسرے ممبران وفد نے بھی حضور وائسرائے کو مسلمانوں کی تکالیف اور صورت حالات سے آگاہ کیا۔
میرے پاس گفتگو کی تفصیلات آچکی ہیں لیکن چونکہ ایسی گفتگو پرائیویٹ سمجھی جاتی ہے میں اسے شائع نہیں کر سکتا۔ مگر اس قدر بتا دینا چاہتا ہوں کہ سب گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت ہند اور ریاست دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ اصلاح کی کافی گنجائش ہے اور دونوں آمادہ ہیں کہ اصلاح کی جائے تجاویز پر غور ہو رہا ہے اور امید ہے کہ جلد ترتیب وار مختلف تکالیف کا ازالہ شروع ہو جائے گا۔
پس ان حالات میں میں یہ دو نصیحتیں کروں گا۔ اول یہ کہ جس جس جگہ کوئی غیر آئینی کارروائی ہو رہی ہو اسے ترک کر دینا چاہئے۔ تاکہ اس پروگرام کے پورا کرے میں روک پیدا نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آئینی جدوجہد چھوڑ دیں آئینی کوششوں کو بہ سہولت اور پرامن ذرائع سے برابر جاری رکھنا چاہئے۔ یہاں تک کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب` قاضی گوہر رحمن صاحب مفتی جلال الدین صاحب اور دوسرے قومی لیڈر اور قومی کارکن آزاد ہو کر ملک کی رہنمائی کر سکیں۔ جن لوگوں نے خود تکلیف اٹھا کر اپنی قوم کو بیدار کیا ہے خواہ وہ قید میں ہیں یا آزاد ہم ان کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ایک خوشخبری میں اور دیتا ہوں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف لوگوں کو مقدمات کی تھی کیونکہ باہر سے وکیل آنے کی اجازت نہ تھی۔ اور ریاستی وکلاء میں مسلمان بہت کم تھے اور ان میں سے تجربہ کار اور بھی کم تھے۔ میں نے چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹر برادر خورد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر کو اس کام کے لئے جموں بھجوایا تھا۔ جنہوں نے آنریبل مسٹر دلال چیف جسٹس ریاست جموں و کشمیر سے گفتگو کی اور چیف جسٹس صاحب نے اجازت کی ضرورت کو تسلیم کرکے حکومت کے پاس اس قید کے اڑانے کی سفارش کی مہاراجہ صاحب نے عنایت فرما کر پہلے قانون میں تبدیلی کر دی ہے اور اب چیف جسٹس صاحب کی اجازت سے باہر کے وکلاء بغیر کسی خاص فیس ادا کرنے کے مقدمات میں پیش ہو سکیں گے اس سے امید ہے کہ وہ بے اطمینانی جو پیدا ہو رہی تھی دور ہو جائے گی۔ اور لوگوں کو ان الزامات کے دور کرنے کا کافی موقع مل جائے گا۔ جو بعض متعصب افسروں نے بلاوجہ ان پر لگا دیئے ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ کہ اس غرض کے لئے قومی درد رکھنے والے وکلاء انشاء اللہ میسر آجائیں گے۔
میں امید کرتا ہوں کہ جلد بعض دوسری تکالیف کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔ اور آپ لوگوں کو آرام کا سانس لینا میسر ہو گا۔ خدا کرے کہ میری یہ امید ٹھیک ہو۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا ساتواں خط )سلسلہ دوم(
برادران! میں اپنے گزشتہ خطوں میں لکھ چکا ہوں کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے مطالبات کا ایک حصہ پورا ہونے والا ہے۔ چنانچہ اس وقت تک آپ لوگوں کو گلینسی کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ معلوم ہو چکا ہو گا۔ اس رپورٹ کے متعلق میں تفصیلاً لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ کیونکہ گو مجھے اس کے مضمون سے پہلے سے آگاہی تھی بلکہ اس کے لکھے جانے سے بھی پہلے مجھے اس کے بعض مطالب سے آگاہی تھی۔ لیکن پھر بھی اس کی مطبوعہ شکل میں چونکہ میں نے اسے پوری طرح نہیں پڑھا اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے خاص اجلاس میں بھی اس پر غور نہیں ہوا۔ اس لئے اس پر تفصیلی رائے کا اظہار کرنا ابھی مناسب نہیں ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ گو یہ رپورٹ میری خواہشات کو کلی طور پر پورا کرنے والی نہیں لیکن پھر بھی اس میں کافی مواد ایسا موجود ہے جس پر مسلمانوں کو بھی خوش ہونا چاہئے اور مہاراجہ صاحب بہادر کو بھی۔ کیونکہ انہوں نے اپنی رعایا کے حقوق کی طرف توجہ کرکے اپنی نیک نفسی کا ثبوت دیا ہے اس طرح اس رپورٹ کے لکھنے پر مسٹر گلینسی بھی خاص مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور ان کے ساتھ کام کرنے والے نمائندے بھی کہ انہوں نے رعایا کے حقوق ادا کرنے کی سفارشات کی ہیں خواہ وہ مسلمانوں کے مرض کا پورا علاج نہ بھی ہوں میں خصوصیت سے اپنے باہمت نوجوان چوہدری غلام عباس صاحب اور دیرینہ قومی کارکن خواجہ غلام احمد صاحب اشائی کو شکریہ کا مستحق سمجھتا ہوں کہ انہوں نے نہایت محنت اور تکلیف برداشت کرکے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو پیش کرنے کی کوشش کی چودھری غلام عباس صاحب نے اس نیک کام میں اپنوں اور بیگانوں سے جو برا بھلا سنا ہے میں امید کرتا ہوں کہ ان کے دل پر اس کا کوئی اثر نہیں رہے گا۔ کیونکہ انہوں نے خلوص سے قومی خدمت کی ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو ضائع نہیں کرے گا۔ اگر موجودہ نسل ان کی قربانی کی داد نہ بھی دے تو بھی آئندہ نسلیں انہیں ضرور دعائوں سے یاد کریں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں امید کرتا ہوں کہ دوسری گلینسی رپورٹ ایک نیا دروازہ سیاسی میدان کا مسلمانوں کے لئے کھول دے گی۔ اور گو وہ بھی یقیناً مسلمانوں کی پوری طور پر داد رسی کرنے والی نہ ہو گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی ان کی زندگی کے نقطہ نگاہ کو بدلنے والی اور آئندہ منزل کی طرف ایک صحیح قدم ہاں مگر ایک چھوٹا قدم ہو گی۔
میں اس وقت نہ تو یہ کہتا ہوں کہ ہمیں ان رپورٹوں پر افسوس کرنا چاہئے کیونکہ ان میں یقیناً اچھے امور ہیں اور ایسی باتیں ہیں کہ اگر انہیں صحیح طور پر استعمال کیا جائے۔ تو یقیناً مسلمان آزادی حاصل کرنے کے قریب ہو جائیں گے اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ ہمیں خوش ہونا چاہئے۔ کیونکہ ابھی ہمارا بہت سا کام پڑا ہے۔ اور اسے پورا کئے بغیر ہم دم نہیں لے سکتے نیز ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف قانون سے ہم خوش نہیں ہو سکتے کیونکہ قانون کا غلط استعمال اچھے قانون کو بھی خراب کر دیتا ہے پس دیکھنا یہ ہے کہ ان فیصلہ جات پر مہاراجہ صاحب کی حکومت عمل کس طرح کرتی ہے ہمیں امید ہے کہ اب جبکہ انگریز وزراء آگئے ہیں اور انہوں نے ایک حد تک حقیقت کو بھی سمجھ لیا ہے پہلے کی نسبت اچھی طرح ان اصلاحات پر عمل ہو گا۔ لیکن غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اس لئے جب کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم اس سے عاجزانہ طور پر دعا بھی کرتے ہیں کہ وہ ان رپورٹوں کے اچھے حصوں کو نافذ کرنے کی وزراء اور حکام کو مناسب توفیق بخشے۔ اللھم امین۔]ybod [tag
مجھے یقین ہے کہ اگر مجھے صحیح طور پر اس تحریک کی رہنمائی کا موقع ملتا اور بعض امور ایسے پیدا نہ ہو جاتے کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا تو نتائج اس سے بھی شاندار ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے آگے کوئی چارہ نہیں اور پھر ہم کہہ بھی کیا سکتے ہیں شاید جو کچھ ہوا اس میں ہمارا نفع ہو کیونکہ علم غیب تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس امر کی ہے کہ زمینوں کی ملکیت ریاست سے لے کر زمینداروں کو دے دی گئی ہے اگر سوچا جائے تو یہ کروڑوں روپیہ کا فائدہ ہے اور گو بظاہر یہ صرف ایک اصطلاحی تغیر معلوم ہوتا ہے لیکن چند دنوں کے بعد اس کے عظیم الشان نتائج کو لوگ محسوس کریں گے اور یہ امر کشمیر کی آزادی کی پہلی بنیاد ہے۔ اور اس کی وجہ سے اہل کشمیر پر زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو گا مجھے اس تغیر پر دوہری خوشی ہے کیونکہ اس مطالبہ کا خیال سب سے پہلے میں نے پیدا کیا تھا۔ اور زور دے کر اس کی اہمیت کو منوایا تھا بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ مطالبہ مانا نہیں جا سکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ آخر یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔
اسی طرح پریس کی آزادی کے متعلق جدید قوانین کا وعدہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے شاملاتوں کی ناواجب تقسیم کا انسداد` اخروٹ کا درخت کاٹنے کی مکمل اور چنار کا مشروط آزادی لکڑی کے مہیا کرنے کے لئے سہولتیں بعض علاقوں میں چرائی کا ٹیکس معاف ہونا۔ تعلیم اور ملازمتوں میں سہولتیں` ہانجیوں کی مشکلات کا ازالہ اور ایسے ہی بہت سے امور ہیں کہ جن میں اصلاح ایک نہایت خوشکن امر ہے اور انشاء اللہ اس سے ریاست کشمیر کی رعایا کو بہت فائدہ پہنچے گا۔
بعض باتیں ابھی باقی ہیں۔ جیسے وزارت کے متعلق فیصلہ۔ انجمنوں اور تقریر کی آزادی۔ مالیہ کو صحیح اصول پر لانا۔ آرڈی نینسوں کو اڑانا۔ اور قیدیوں کی عام آزادی کا اعلان۔ مسلمان ہونے والوں کی جائیدادوں کی ضبطی جن کے متعلق فیصلہ یا نہیں ہوا یا ناقص ہوا ہے یا بالکل خلاف ہوا ہے۔ مجھے ان کا خیال ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آخر ان امور میں بھی انشاء اللہ ہمیں کامیابی حاصل ہو گی۔
قیدیوں کی آزادی گو سیاسی حقوق سے تعلق نہیں رکھتی۔ لیکن ہر قوم جو زندہ رہنا چاہتی ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں سے وفاداری کا معاملہ کرے اور اگر قومی کارکن قید رہیں اور لوگ تسلی سے بیٹھ جائیں تو یہ امر یقیناً خطرناک قسم کی بے وفائی ہو گا۔ مسلمانان جموں و کشمیر کو یاد رکھنا چاہئے۔ کہ گو وہ بہت سے ظلموں کے تلے دبے چلے آتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی حالت یتیموں والی نہ تھی۔ کیونکہ جب تک ان کے لئے جان دینے والے لوگ موجود تھے وہ یتیم نہ تھے لیکن اگر وہ آرام ملنے پر اپنے قومی کارکنوں کو بھول جائیں گے تو یقیناً آئندہ کسی کو ان کے لئے قربانی کرنے کی جرات نہ ہو گی۔ اور اس وقت وہ یقیناً یتیم ہو جائیں گے پس انہیں نکتہ کو یاد رکھنا چاہئے اور ملک کی خاطر قربانی کرنے والوں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم رکھنا چاہئے۔ پس ان کا یہ فرض ہے کہ جب تک مسٹر عبداللہ صاحب` قاضی گوہر الرحمن صاحب اور ان کے ساتھی آزاد نہ ہوں۔ وہ چین سے نہ بیٹھیں اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کام میں میں ان کی ہر ممکن امداد کروں گا اور اب بھی اس غرض کے پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہوں مشکلات ہیں لیکن مسلمان کو مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے۔
یہ بھی یاد رہے کہ بعض۔۔۔۔۔۔۔ آئندہ اصلاحات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اہل کشمیر اگر اس فریب میں آگئے اور آئندہ کونسلوں میں مسٹر عبداللہ کے دشمن اور قومی تحریک کے مخالف ممبر ہو گئے تو سب محنت اکارت جائے گی اور مسٹر عبداللہ اور دوسرے قومی کارکنوں کی سخت ہتک ہو گی پس اس امر کے لئے آپ لوگ تیار رہیں کہ اگر خدانخواستہ قومی کارکنوں کو جلدی آزادی نہ ملی۔ اور ان کی آزادی سے پہلے اسمبلی کے انتخابات ہوئے )گو مجھے امید نہیں کہ ایسا ہو( تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ۔۔۔۔۔۔۔ کے مقابلہ میں قومی کام سے ہمدردی رکھنے والوں کو امیدوار کرکے کھڑا کر دیں۔ اور یہ نہ کریں کہ کانگریس کی نقل میں بائیکاٹ کا سوال اٹھا دیں۔ بائیکاٹ سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ کیونکہ آخر کوئی نہ کوئی ممبر تو ہوہی جائے گا۔ اور قومی خیر خواہوں کی جگہ قومی غداروں کو ممبر بننے کا موقعہ دینا ہرگز عقلمندی نہ کہلائے گا پس گو یہ ایک بہت طول امل ہے کہ قومی کارکنوں کی آزادی سے پہلے اسمبلی کا انتخاب ہو۔ لیکن چونکہ بعض قومی غدار اندر ہی اندر اس کی تیاریاں کر رہے ہیں اہل جموں و کشمیر کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی خواجہ سعد الدین صاحب شال خواجہ غلام احمد صاحب اشاعی اور دوسرے کارکنوں کو جن کی گزشتہ قومی خدمات کا انکار نہیں ہو سکتا۔ توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ وہ قومی تحریکات کو مضبوط کرنے کے لئے اختلاف چھوڑ دیں۔ میں ہمیشہ ان کا خیر خواہ رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کی گزشتہ خدمات قومی تحسین کا انعام حاصل کئے بغیر نہ رہیں۔ پس میں ان سے اور ان کے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قومی کارکنوں کی خدمت میں آکر شامل ہو جائیں۔ اور یقین رکھیں کہ اس طریق کو اختیار کرکے انہیں ذلت نہیں بلکہ عزت حاصل ہو گی۔
ایک دو اور باتیں ہیں جن کا ذکر کرکے میں اس خط کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ اول یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گو اصلاحات کا اعلان ہو گیا ہے لیکن ظلم تو ابھی تک جاری ہے اس شبہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوڑتے ہوئے گھوڑے کو یکدم نہیں روکا جا سکتا۔ طوفان بھی بیٹھتے ہوئے کچھ وقت لیتا ہے پس ظلم گو جاری ہے لیکن ایسے سامان ہو رہے ہیں کہ انشاء اللہ ظلموں کا بھی انسداد ہو جائے گا۔ میں ابھی تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا لیکن یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے عقل سے کام لیا گیا۔ تو تھوڑے سے عرصہ میں ظلم کے روکے جانے کے بھی سامان ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ وکلاء کے متعلق جو اعلان میں نے کیا تھا اس میں بعض غلط فہمیوں سے کچھ الجھن پیدا ہو گئی ہے لیکن میں اس کے لئے کوشش کر رہا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتری کی توقع رکھتا ہوں اور اگر لوگوں کو پوری طرح ڈیفنس کا موقع نہ دیا گیا تو میں انشاء اللہ اور ایسی تدابیر اختیار کروں گا کہ جن سے لوگوں کے اس اہم حق کی طرف حکومت کو توجہ ہو۔
تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں نے جو سیاہ نشان لگانے کا اعلان کیا تھا اس کے متعلق مجھے سرینگر سے شکایات موصول ہوئی تھیں کہ سیاہ نشان لگانے کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس نشان کے لگانے کے سبب سے بعض لوگوں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔ میں نے اس کے متعلق حکومت کشمیر سے خط و کتابت کی ہے اور جو جواب وزیراعظم کی طرف سے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ کیونکہ ان کے جواب میں اس امر سے قطعاً انکار کیا گیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ نہ کسی شخص کو سیاہ نشان لگانے پر سزا دی گئی ہے اور نہ مقدمہ ہی چلایا گیا ہے۔ اگر یہ بیان درست ہے تو مجھے تعجب ہے کہ رپورٹ دینے والوں کو اتنا بڑا مغالطہ کیونکر لگ گیا۔ بہرحال یہ سوال حل ہو گیا ہے کہ سیاہ نشان لگانے کو ریاست کشمیر میں جرم نہیں قرار دیا گیا۔
میں اس خواہش کے اظہار پر اس خط کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس موسم گرما میں توفیق دے کہ خواہ چند دن کے لئے ہو کشمیر آکر خود صورت حالات کا معائنہ کر سکوں اور اس ملک کے مرض کو بذات خود دیکھ کر اس کے علاج کی پہلے سے زیادہ تدبیر کرنے کی توفیق پائوں۔ وما توفیقی الا باللہ۔
واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین
خاکسار مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
برادران ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا آٹھواں خط
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ:۔۔۔۔۔۔۔ میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے گلینسی کمیشن کی رپورٹ کو کلی طور پر تسلیم نہیں کیا نہ ارتداد کے مسئلہ پر خاموشی کی ہے۔ نہ جدوجہد بند کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ میرے خط پر ایک نگاہ ڈالنے سے ثابت ہو سکتا ہے کہ میں گلینسی رپورٹ کو ناقص سمجھتا ہوں ارتداد کے مسئلہ کو اہم اور آئندہ جدوجہد کو ضروری بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ خود مختار حکومتوں میں بھی آزادی کی جدوجہد کا جاری رہنا ضروری ہوتا ہے جس دن یہ جدوجہد بند ہو اسی دن سے غلامی کی روح قوم میں داخل ہونے لگتی ہے اور بظاہر آزاد نظر آنے والی قوم باطن میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے۔
میں نے جو کچھ لکھا ہے یہ ہے کہ گلنسی رپورٹ میں بہت سے امور مسلمانوں کے فائدے کے ہیں اگر مسلمان ان سے فائدہ اٹھائیں تو بہت بڑا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ کہ ارتداد کے مسئلہ کے متعلق اور دوسرے امور کے متعلق جو ناقص ہیں۔ ہم جدوجہد جاری رکھیں گے لیکن جو اچھا کام گلنسی کمیشن نے کیا ہے اس کے بارہ میں شکریہ ادا کرنا چاہئے اور اس کے ذریعہ سے جو طاقت ہمیں حاصل ہوئی ہے اس سے کام لے کر ترقی کی نئی راہیں نکالنی چاہئیں اور جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لئے حالات کے مطابق اس کی صورت بدل دینی چاہئے۔ میں نے جو کچھ لکھا اس پر اب تک قائم ہوں میرے نزدیک کشمیر کے لوگوں کا اس میں فائدہ ہے۔ میں نے یہ کام لوگوں کی خوشنودی کے لئے نہیں کیا تھا کہ ان کے اعتراض سے ڈر جائوں۔ میں نے بلا غرض یہ کام کیا ہے اور بلا غرض ہی اسے جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ اگر میں لوگوں کے اعتراض سے ڈر کر اس بات کو چھوڑ دوں جو میرے نزدیک حق ہے تو میں یقیناً خود غرض ہوں گا۔ اور میرا سب پہلا کام برباد ہو جائے گا۔
وائسرائے صاحب کو خوش کرنا یا مہاراجہ صاحب کو خوش کرنا کوئی بری بات نہیں۔ میں مہاراجہ صاحب سے کبھی نہیں ملا اور نہ اس وقت تک خواہش ہے جب تک کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق دبائو سے نہیں بلکہ دلی رغبت سے غور کرنے کو تیار نہیں۔ سر ہری کشن کول صاحب نے مجھے متواتر مہاراجہ صاحب سے ملنے کی دعوت دی لیکن میں نے نہیں مانا اور یہی اصرار کیا کہ مہاراجہ صاحب مسلمانوں کے حقوق کے متعلق میرے ساتھ گفتگو کرنا چاہیں تو مل سکتا ہوں ورنہ نہیں۔ یہ خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے۔ ان کی خوشنودی کی اس حد تک مجھے ضرورت ہے جس حد تک ہر انسان کی کیونکہ میں سب انسانوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور کسی بھائی سے لڑنا پسند نہیں کرنا۔ باقی مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ کیونکہ خاندانی لحاظ سے میں ایک ایسے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ جس نے ایک ہزار سال تک دنیا کی تاریخ کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ اور وجاہت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر جان فدا کرنے والے لوگ میرے ماتحت ہیں ان کا ہزارواں حصہ بھی مہاراجہ صاحب کو حاصل نہیں۔ پس مہاراجہ صاحب تو کسی وقت میری مدد کے محتاج ہو سکتے ہیں۔ میں ان کی مدد کا محتاج خدا تعالیٰ کے فضل سے نہیں اور نہ انشاء اللہ ہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو حکومت کے متعلق ہے۔ اب میں اہل کشمیر کو لیتا ہوں۔ میں اپنے ان بھائیوں سے بھی صاف کہہ دینا چاہتا ہوں۔ میرا ان سے تعلق اخلاقی ہے۔ جب تک وہ مظلوم ہیں میں اپنا پورا زور ان کی تائید میں خرچ کروں گا۔ لیکن اگر انہوں نے ایسا راہ اختیار کیا جو اخلاقاً درست نہ ہو گا۔ تو میں اس وقت یقیناً اسی کی تائید کروں گا۔ کہ جو حق پر ہو گا اور انہیں غلطی سے روکوں گا۔ میں نے جو کچھ کام کیا ہے وہ ان کے لئے نہیں اپنے مولیٰ کے لئے کیا ہے۔ پس میرا ان پر احسان نہیں۔ نہ میں ان سے کسی شکریہ کا طالب ہوں ہاں میں انہیں کے فائدہ کے لئے انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ انسان کو ہر اچھی چیز کی خوبی تسلیم کرنی چاہئے۔ گلنسی کمیشن کی رپورٹ یقیناً بہت سی خوبیاں رکھتی ہے۔ اس میں یقیناً مسلمانوں کی بھلائی کا بہت سا سامان موجود ہے۔ اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے ہماری حالت پہلے سے بدتر ہو جائے گی درست نہیں۔ اگریہ درست ہے تو کیا یہ لوگ اس امر کا اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ اس کمیشن کی سفارشات کو واپس لے لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ ایک ضروری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہندوئوں نے بھی ایجی ٹیشن شروع کیا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو جو تھوڑے بہت حقوق ملے ہیں وہ بھی انہیں حاصل رہیں۔ اگر اس موقعہ پر مسلمانوں نے غفلت سے کام لیا تو ہندو یقیناً اپنا مدعا حاصل کر لیں گے۔ پس اس وقت ضرورت ہے کہ مسٹر عبداللہ کی عدم موجودگی میں ایک انجمن مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بنائی جائے۔۷۳ اور وہ انجمن اپنی رائے سے ¶حکومت کو اطلاع دیتی رہے۔ ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن کے اصول پر اگر ایک انجمن تیار ہو تو یقیناً اس کے ذریعہ سے بہت سا کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ مت خیال کریں کہ بغیر اجازت کے انجمن نہیں بن سکتی۔ انجمنوں کی ممانعت کا کوئی قانون دنیا کی کوئی حکومت نہیں بنا سکتی۔ آخر ہندو انجمنیں بنا رہے ہیں آپ کی انجمن خفیہ نہ ہو گی` نہ باغیانہ` پھر حکومت اس بارہ میں کس طرح دخل دے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان فوراً اس طرف قدم اٹھائیں گے۔ اور اس ضرورت کو پورا کریں گے۔ ورنہ سخت نقصان کا خطرہ ہے اور بعد میں پچھتائے کچھ نہ ہو گا۔
ایک ضروری امر جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جب تک خود اہل کشمیر اپنے آپ کو منظم نہ کریں گے کچھ کام نہیں ہو گا۔ باہر کے لوگ کبھی کسی نظام کو سنبھال نہیں سکتے۔ پس ضرورت ہے ایسے والنیٹروں کی جو اپنی خدمات کو قومی کاموں کے لئے وقف کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ایسے لوگ اگر ایک ایک دو دو درجن بھی ہر شہر اور قصبہ میں مل جائیں تو ہندو ایجی ٹیشن کو بے اثر بنایا جا سکتا ہے۔
مجھے بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ حکومت مسٹر عبداللہ کی قید کو لمبا کرنے کی فکر میں ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہندو اس بارہ میں پورا زور لگائیں گے۔ لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں بعض حلقوں میں یہ خیال زیر غور ہے وہاں بعض حلقوں میں سیاسی قیدی چھوڑ کر اچھی فضا پیدا کرنے کا خیال بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اور کیا تعجب ہے کہ دوسری تحریک پہلی پر غالب آجائے۔ پس ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم ہوشیاری سے سب حالات کو دیکھیں۔ اور جس رنگ میں ہمارا فائدہ نظر آتا ہو اس کے مطابق کام کریں۔
بعض لوگوں کو وزارت کے متعلق بھی شکایات ہیں۔ میں اس کے متعلق بھی آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کی اصلاح کے متعلق بھی ہم کوشش کر رہے ہیں اور میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک ایک کام کرنے والی وزارت مقرر نہ ہو گی۔ ہم انشاء اللہ صبر نہیں کریں گے۔ اور ایسے آثار ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس امر میں ہمیں کامیابی ہو گی۔
میں نے گزشتہ خط میں لکھا تھا کہ میں کشمیر آنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ بعض دوستوں کو اس سے غلط فہمی ہوئی ہے میں قریب زمانہ میں وہاں آنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ میرا ارادہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہمارے قیدی بھائیوں کو آزاد کرے تو آئندہ تنظیم کے پروگرام پر مشورہ کرنے کے لئے وہاں آئوں۔ تاکہ جو فوائد گزشتہ سیاسی جنگ میں ہم نے حاصل کئے ہیں۔ ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ والسلام۔
خاکسار مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی ۳۲/۵/۲۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جس مسلم کو یہ مضمون پہنچے وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی ضرور پہنچا دے۔
حقیقت حال
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
میں نے ایک عرصہ سے اہل جموں و کشمیر کے نام اپنے خطوط کا سلسلہ بند کیا ہوا تھا اور یہ اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے اہل کشمیر سے ہمدردی نہ رہی تھی بلکہ اس کی وجوہ اور تھیں اور میرا ان وجوہ کی بناء پر خیال تھا کہ میری طرف سے سلسلہ خطوط کا جاری رہنا لیڈران کشمیر کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ پس خود اہل کشمیر کے فائدہ کے لئے میں خاموش رہا۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد میں دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں صدارت سے علیحدہ ہو کر امداد سے غافل نہیں رہا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں پس پردہ کوشش نہ کرتا رہتا۔ تو یقیناً موجودہ حالت سے بھی بدتر حالت ہوتی۔ لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھ کر میں نے اس امداد کا اظہار نہیں کیا۔ کیونکہ اس میں نقصان کا خطرہ تھا۔
سب سے اول میں نے یہ کام کیا کہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد جن کے نام اور کام سے کشمیر کا ہر عاقل بالغ واقف ہے انہیں انگلستان ہدایت بھجوائی کہ وہ انگلستان میں لوگوں کو کشمیر کے حالات سے واقف کریں تا اس سے لوگوں کو دلچسپی پیدا ہو۔ چنانچہ انہوں نے دو کام اس بارہ میں کئے۔
)۱( مختلف ذمہ دار لوگوں سے اور پریس سے مل کر کشمیر کے متعلق ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ کئی اخبارات میں ہمدردانہ مضامین نکلے۔ جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر ڈیلی ٹیلی گراف کا وہ مضمون ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ پہلے یہ بتایا جاتا تھا کہ کشمیر کے فسادات افسروں کی نالائقی کے سبب سے ہیں۔ لیکن اب تو انگریز افسر چلے گئے ہیں پھر بھی فساد ہو رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی گہرا نقص ہے جس کے لئے اب ہمیں ایک اور کمیشن بٹھانا چاہئے۔ اور ان نقصوں کو دور کرنا چاہئے۔ اس پر درد صاحب نے ایک تائیدی مضمون لکھا اور وہ اس اخبار میں چھپ گیا۔ یہ اخبار موجودہ حکمران جماعت کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔
)۲( دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ پارلیمنٹ میں کشمیر کے متعلق سوال کرائے اور ذمہ دار لوگوں سے ملاقاتیں کیں چنانچہ لیڈی ندر لینڈ کے اخراج کے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کرایا گیا اور بعض سوال موجودہ حالات کشمیر کے متعلق کرائے گئے۔ ایک اشتہار کشمیر کے حالات کے متعلق بڑے بڑے لوگوں میں حال میں شائع کیا گیا ہے اور بہت سے پارلیمنٹ کے ممبروں نے امداد کا وعدہ کیا ہے۔ اور پارلیمنٹ میں سوال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے معمولی ممبر ہونے کی حیثیت سے درد صاحب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ اور جو کچھ وہ کر سکتے تھے اس سے انہوں نے دریغ نہیں کیا۔
میں نے ہندوستان میں جو کام کیا وہ یہ ہے۔
)۱(
مقدمات میر پور کی پیروی جس پر ہزاروں روپیہ خرچ ہوا۔
)۲(
موجودہ فسادات میں جو گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ان کے متعلق بھی جدوجہد کی گئی ہے۔ چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب سیاکھوی کے رشتہ داروں کی تحریک پر ان کے لئے ایک لائق وکیل کا انتظام کیا گیا ہے۔ جو ان کے مقدمہ کی اپیل کرے گا۔
)۳(
بعض قیدیوں کی رہائی کے لئے کوشش کی گئی۔
)۴(
میر واعظ صاحب ہمدانی مجاورین خانقاہ میر مقبول شاہ صاحب اور دیگر بہت سے احباب کے متعلق جو ناواجب احکام جاری ہوئے تھے۔ ان کے منسوخ کرانے کی کوشش کی گئی۔ اور کی جارہی ہے۔ کچھ حصہ میں ہمیں کامیابی ہوئی ہے۔ بقیہ کے لئے کام ہو رہا ہے۔
)۵(
ہزایکسیلنسی وائسرائے بہادر کے پرائیویٹ سیکرٹری۔ اور پھر خود حضور وائسرائے کے پاس میں نے مفتی محمد صادق صاحب کو بھیج کر مظالم کشمیر کے دور کرنے کی طرف توجہ دلوائی۔ اور ہزایکسی لینسی کے کہنے پر مسٹر کالون سے بھی ہمارے آدمی ملیں۔ وہ ضرور توجہ کریں گے۔ سید زین العابدین صاحب کو جموں دو دفعہ بھجوایا۔ اور ایک دفعہ دہلی۔ جہاں وہ مسٹر کالون۔ مسٹر وزارت حسین اور مسٹر پیل سے ملے اور موجودہ حالات کو بدلوانے کے لئے پوری سعی کی۔
)۶(
اس کے بعد میں نے عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ وہ ہزایکسیلنسی وائسرائے سے ملاقات کے موقعہ پر کشمیر کے متعلق بھی تذکرہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے ان امور کے متعلق وائسرائے ہند سے گفتگو کی۔
)۷(
جو لوگ جلا وطن کئے گئے ہیں۔ یا جن کو کشمیر میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان میں سے بعض کی مالی امداد بھی کی گئی۔
)۸(
جب بھی لیڈران کشمیر نے خواہش کی انہیں مناسب مشورے دیئے گئے۔
غرض یہ کام ہے۔ جو گزشتہ ایام میں میں نے کیا ہے۔ اور آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام معمولی کام نہیں۔ ہاں اگر نتیجہ اتنا شاندار نہیں نکلا۔ جس قدر کہ پہلے نکلا کرتا تھا۔ تو اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہیں۔ میں نہیں۔ اول تو اس لئے کہ آپ نے یا آپ میں سے بعض نے سول نافرمانی جاری کرکے میرے ہاتھ باندھ دیئے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں سول نافرمانی کا سخت مخالف ہوں۔ میرے نزدیک سول نافرمانی اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے۔ جبکہ حکومت شرافت سے کام لے۔ جس دن حکومت کے افسر رعایا کی طرح قانون شکنی پر آمادہ ہو جائیں۔ اس دن رعایا کا سب زور ٹوٹ جاتا ہے۔ پس اول تو میرے نزدیک سول نافرمانی کامیابی کا ذریعہ ہی نہیں۔ دوسرے میرے نزدیک سول نافرمانی مذہباً اور اخلاقاً درست نہیں۔ کیونکہ اس سے قانون شکنی کی روح پیدا ہوتی ہے۔ اور جب یہ روح پیدا ہو جائے۔ تو خواہ اپنی ہی حکومت کیوں نہ ہو۔ وہ چل نہیں سکتی۔ تیسرے یہ کہ اگر سول نافرمانی کو مفید اور جائز بھی سمجھ لیا جائے۔ تب بھی میرے نزدیک کشمیر کے لوگ اس کے لئے تیار نہ تھے۔ سول نافرمانی کے لئے نہایت وسیع مخفی نظام اور کافی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جس وقت سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا ہے اس وقت اہل کشمیر کو یہ باتیں میسر نہ تھیں۔ پس اگر سول نافرمانی کو مفید بھی سمجھ لیا جائے۔ تب بھی موجودہ حالات میں اس میں کامیابی ممکن نہ تھی۔ سول نافرمانی کے تجربے ہندوستان۔ آئر لینڈ۔ مصر اور فلسطین میں کئے گئے ہیں۔ لیکن ایک جگہ بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ ہندوستان میں مل والوں کی دولت اور گاندھی جی کی شخصیت اس کی تائید میں تھی۔ مصر میں سعد زغلول جیسے شخص کی روح کام کر رہی تھی۔ آئرلینڈ کو امریکہ جیسے دولت مند ملک کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اور دو سو سال کی تنظیم ڈی ولیرا کی امداد پر تھی۔ فلسطین کی جدوجہد عیسائی اور مسلمانوں کی مشترکہ تھی۔ گویا اصلی باشندے اور وہ باشندے جو وہاں قریب زمانہ میں حکومت کر چکے تھے۔ وہ مقابلہ پر آمادہ تھے۔ مگر بارہ سالہ جدوجہد کے بعد بھی ان لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ سوائے آئر لینڈ کے جس نے تجربہ کے بعد سول نافرمانی کو ترک کر دیا۔ اور کونسلوں میں داخل ہو کر ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ سو آئرلینڈ میں ڈی ولیرا آج تبدیلی اصول کی وجہ سے حکومت کو رہا ہے اور ہندوستان` فلسطین اور مصر میں سول نافرمانی کے مدوجزر کے بعد حالات پھر وہی کے وہی ہیں۔ اور اس کے شیدا و مولا پھر کونسلوں کی طرف رغبت کر رہے ہیں۔
غرض سول نافرمانی ایک مشتبہ ہتھیار ہے جو دشمن ہی کو نہیں کبھی اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیتاہے اور اس وقت تک اس کے ذریعہ سے کسی ملک میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کامیابی یا قانونی تعاون سے ہوئی ہے جیسے کہ آئرلینڈ` ایران وغیرہ میں۔ یا لڑائی سے جیسے کہ جرمنی` اٹلی اور ٹرکی میں۔ پس اس مضر عمل کی موجودگی میں میں آپ کی کیا امداد کر سکتا تھا۔ برطانوی حکام کا ایک ہی جواب تھا۔ کہ جب یہ لوگ قانون توڑ رہے ہیں۔ تو حکام سوائے سزا دینے کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے فسادات میں وہ یہ جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اور نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ اس وقت ہم انہیں کہتے تھے کہ باوجود اس کے کہ ملک قانون شکنی کے مخالف ہے۔ حکام خود قانون شکنی کرکے فساد پھیلا رہے ہیں۔ اور برطانوی حکام تحقیق کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔
دوسری دقت میرے راستہ میں وہی تھی کہ میں اب صدر نہ تھا۔ میں حکام کے کان میں تو بات ڈال سکتا تھا۔ مگر میں کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ مجھے اس کا اختیار نہ تھا۔ اور اس وجہ سے کسی بات کو میں انتہا تک نہیں پہنچا سکتا تھا۔ اس کے سوا کہ نتیجہ میرے اختیار میں نہ تھا۔ میں نے پورے طور پر کوشش کی۔ اور اس میں کمی نہیں کی۔ ہاں اپنی کوشش کو شائع بھی نہیں کیا۔ کیونکہ ڈر تھا کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت خود آپ کے لیڈر ہی حکومت کو تاریں دینے لگ جاتے کہ مجھے کشمیر کے متعلق کچھ کہنے کا حق نہیں اور فائدہ کی جگہ نقصان ہی ہوتا۔
میں یہ بھی یقین دلادینا چاہتا ہوں کہ میں نے کشمیر ایسوسی ایشن کو صاف کہ دیا ہے کہ جو عہدہ دار بھی منتخب ہوں۔ میں اپنی پوری طاقت ان کی امداد کے لئے انشاء اللہ خرچ کروں گا۔ اور تبدیل شدہ حالات میں جو کچھ ہو سکتا ہے۔ اس سے مجھے دریغ نہ ہو گا۔
اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک کامیابی کے سرے پر پہنچے ہوئے کام میں روک پیدا ہو گئی ہے۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ اس میں کس کا قصور تھا۔ بہرحال موجودہ خرابی کو ہم نے دور کرنا ہے۔ اور اس کے لئے مندرجہ ذیل مشورہ ان لوگوں کو جو مجھ پر اعتبار رکھتے۔ اور میری امداد کی ضرورت سمجھتے ہیں دیتا ہوں۔
۱۔
کسی قسم کی قانون شکنی نہ کی جائے۔ بلکہ قانون کا پورا احترام کیا جائے۔ میں اس وقت اس اصل کی اخلاقی خوبیاں نہیں بیان کرنا چاہتا۔ صرف یہ کہتا ہوں کہ کم سے کم فائدہ اس کا یہ ہو گا۔ کہ قانون شکنی کا الزام لگا کر حکام کو ظلم کرنے کا موقعہ نہ ملے گا۔ اور آپ لوگ اس عرصہ میں منظم ہو سکیں گے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر جنگ سے پہلے تنظیم ضروری ہے۔ مگر ابھی تو آپ لوگوں نے تنظیم کا کام ختم کیا شروع بھی نہیں کیا۔ پھر کتنا ظلم ہو گا۔ اگر آپ لوگ قومی طاقت کو ضائع کر لیں۔ آپ کی جانیں اور آپ کے مال قومی امانت ہیں۔ اس امانت کو بے موقعہ خرچ کرنا اپنا ہی نقصان نہیں۔ قوم پر بھی ظلم ہے۔
۲۔
دوسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ اگر حکام ظلم بھی کریں۔ تب بھی آپ لوگ اس کا جواب خود نہ دیں۔ بلکہ قانونی طور پر اس کے ازالہ کی کوشش کریں۔ قانونی کوشش لمبی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا اثر بہت اعلیٰ پڑتا ہے۔ اور غیر کو بھی اس کا جواب دینے کی جرات نہیں پڑتی۔ آخر ایک لمبے تجربہ سے آپ معلوم کر چکے ہیں۔ کہ خود جواب دے کر بھی ظلم کا ازالہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ظالم کو ظلم کا اور موقعہ ملتا ہے۔ پس کیوں نہ صبر کے ساتھ کوشش کی جائے۔ اور ایک دفعہ ظالم حکام پر اس طرح حجت کر دی جائے۔ کہ پھر ان کے لئے منہ دکھانے کی صورت نہ رہے۔ بے شک آپ کا بہت کچھ نقصان ہوا ہے۔ لیکن آخر چوری سے` تجارتی نقصان سے` طوفان سے اور دیگر حوادث سے بھی تو نقصان ہو جاتا ہے۔ اگر قوم کی خاطر نقصان ہو گیا۔ تو کیوں آپ اس قدر پریشان ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ نقصان نقصان نہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ایک تجارت ہے۔ صبر کے نتیجہ میں یہ نقصان آپ کو نفع سمیت واپس ملے گا۔ اور وہ دن دور نہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کی مظلومیت کی فریاد کو سنے گا۔ اور ظالم زیر کئے جائیں گے۔ اور آپ کو غلبہ دیا جائے گا۔ ظلم پہلے کب کامیاب ہوا ہے۔ کہ اب کامیاب ہو گا۔ پس ظلم پر صبر کریں۔ یعنے اس کے جواب کے لئے خود ہاتھ نہ اٹھائیں۔ بلکہ قانون کے اندر رہ کر ظالم کو سزا دلانے کی کوشش کریں۔
۳۔
اور سب کاموں سے زیادہ تنظیم کی طرف توجہ کریں۔ جب تک آپ کے ملک میں تنطیم نہ ہو گی۔ کچھ نہ ہو سکے گا۔ منظم ملک پر ڈاکے نہیں ڈالے جا سکتے۔ پس آپ اپنے آپ کو منظم کریں۔ مگر تنظیم سے میری مراد یہ نہیں۔ کہ ہر جگہ ایک انجمن ہو۔ یہ امر بھی ضروری ہے۔ اور اب تک یہ کام بھی نہیں ہوا۔ لیکن میں تنظیم کے معنے اس سے زیادہ لیتا ہوں۔ تنظیم کے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ ایک تو سارے ملک میں ہر فرد بشر کو قومی تحریک کا ہمدرد بنایا جائے۔ صرف جلسوں کا ہونا کافی نہیں۔ بلکہ ہر شخص کا ممبر ہونا اور ممبری کی علامت کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ میں نے بارہا سیاہ بلا لگانے یا ایسا ہی کوئی اور نشان لگانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لیکن ابھی تک آپ لوگوں نے کوئی نشان قرار نہیں دیا۔ اور نہ اس پر عمل کیا ہے۔ حالانکہ جب تک حکومت کو یہ معلوم نہ ہو۔ کہ کس قدر لوگ قومی تحریک میں شامل ہیں۔ وہ مرعوب نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ شروع شروع میں جب میں نے کام شروع کیا تھا۔ آپ لوگ آج سے زیادہ کمزور تھے۔ مگر صحیح ذرائع سے کام لے کر خدا تعالیٰ کی امداد سے بہت بڑی کامیابی حاصل ہو گئی۔ اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ اور اگر آپ صحیح طریق اختیار کریں گے تو انشاء اللہ جلد حالات بدل جائیں گے۔ صرف ضرورت ہمت` استقلال اور قانون کے اندر رہ کر کام کرتے ہوئے قربانی اور ایثار کی ہے۔ سو جس دن آپ لوگ پہلے کی طرح پھر کمر باندھ لیں گے۔ انشاء اللہ غم کے بادل پھٹ جائیں گے۔ اور خوشی کا سورج نکل آئے گا۔ مگر یاد رہے کہ قومی آزادی ایک دن میں نہیں ملتی۔ ہاں آزادی کی قسطیں صحیح جدوجہد سے یکے بعد دیگرے ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔
۴۔
حکومت کی آپ لوگ پوری نگرانی رکھیں کہ گلینسی رپورٹ پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ جہاں نقص معلوم ہو۔ فوراً اس کی اطلاع آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کو یا مجھے دیں۔ ہم تحقیق کرکے انشاء الل¶ہ حکومت پر دبائو ڈالیں گے۔ کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گلنسی رپورٹ میں جو کچھ ملا ہے۔ وہ ہمارے مطالبات سے بہت کم ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں۔ کہ اگر اس پر عمل ہو۔ تو مسلمانوں کی حالت موجودہ حالت سے اچھی ہو جاتی ہے۔ پس مطابق مثل یکے رابگیر و دیگرے راد عویٰ بکن۔ جو ملا ہے اسے تو لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور باقی مطالبات کے لئے جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہی طریق احسن ہے۔ اور اس میں کامیابی کا راز ہے۔ حکومت موجودہ شورش سے فائدہ اٹھا کر گلنسی رپورٹ کو عملاً داخل دفتر کرنا چاہتی ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہوشیاری سے اس پر عمل کرائیں۔ اور اگر وہ عمل نہ کرے تو حکومت ہند اور حکومت انگلستان کے سامنے اس معاملہ کو پیش کریں۔ اگر باری باری ایک ایک مسئلہ کو لے کر زور دیا گیا۔ تو آپ دیکھیں گے کہ زور زیادہ پڑ سکے گا۔ اور کامیابی زیادہ یقینی ہوگی۔ سب امور کو اکٹھا پیش کرنے پر حکومت برطانیہ جواب دے دیتی ہے کہ آخر ان کاموں کے لئے وقت چاہئے۔ لیکن اگر ایک امر کو لے کر کشمیر اور باہر کی طاقت اس پر خرچ کر دی جائے۔ تو یقیناً کشمیر دربار معین صورت میں احکام جاری کرنے پر مجبور ہو گا۔ مثلاً سب سے پہلے ملازمتوں کے سوال کو لے لیا جائے۔ اس سوال کے حل ہو جانے سے آپ کو آدھی فتح حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ علاوہ مالی فائدہ کے حکومت میں ایک کافی تعداد ایسے لوگوں کی آجاتی ہے۔ جن کے دل آپ کی ہمدردی سے پر ہوں گے۔ اسی طرح ایک ایک کرکے مختلف مسائل کو لیا جائے تو یقیناً نہ تو حکومت مہلت کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اور نہ اسے اس چھوٹے سے امر کے لئے ساری اسلامی طاقت کا مقابلہ کرنے کی جرات ہو سکتی ہے۔
۵۔
اسمبلی بھلی یا بری جلد بننے والی ہے۔ بعض ساتھی بعض حکام سے مل کر کوشش کر رہے ہیں۔ کہ ووٹروں کی فہرست ایسی بنوائیں۔ کہ جس سے ان کی پارٹی کو طاقت حاصل ہو جائے۔ آپ کو چاہئے کہ اس کا تندہی اور عقلمندی سے مقابلہ کریں۔ اور اپنے ووٹروں کی لسٹ مکمل کروائیں۔ تاکہ اگر اسمبلی پر قبضہ کرنے کی تجویز ہو۔ جو میرے نزدیک ضروری ہے۔ تو آپ ایسا کر سکیں۔ ورنہ اگر کانفرنس نے اسمبلی پر قبضہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ تو ووٹروں کی فہرست کے نقائص کی وجہ سے آپ لوگ زیادہ ہو کر بھی کم نظر آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔
۶۔
چھٹی بات آپ کے آئندہ پروگرام میں یہ ہونی چاہئے۔ کہ جن حکام نے قانون شکنی کرکے ظلم کیا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کریں۔ میرے نزدیک ہر جگہ تحقیقاتی کمیٹیاں مقرر ہو جانی چاہئیں۔ جو گواہیاں لے کر ظالم حکام کے خلاف مصالح جمع کریں۔ جب یہ مواد جمع ہو جائے۔ ہم انشاء اللہ لائق وکلاء سے مشورہ لے کر جہاں جہاں حکام پر مقدمات چلائے جاسکیں گے۔ مقدمات چلائیں گے۔ اگر اس طرح ہم بعض حکام کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ تو ایک تو حکام کے ظلم کا ثبوت مل جائے گا۔ دوسرے آئندہ کے لئے حکام کو ظلم کرنے کی جرات باقی نہ رہے گی۔
یہ تو میرے نزدیک آپ لوگوں کے لئے موجودہ حالات میں بہترین پروگرام ہے۔ جو کام ہمیں کرنا چاہئے۔ اور ہم انشاء اللہ اسے کریں گے۔ وہ یہ ہے۔
۱۔
باہمی جھگڑوں کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں کو کشمیر کے معاملہ سے دلچسپی نہیں رہی۔ ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ حکمت عملی سے اس طرف پھر لوگوں کی توجہ پھیری جائے۔ تا اس بارے میں مسلمانوں کی متفقہ آواز اٹھے۔
۲۔
سول نافرمانی کی وجہ سے حکومت کی ہمدردی جاتی رہی ہے۔ حالانکہ عوام میں سے اکثر و خاص میں سے بھی بعض اس تحریک کے مخالف تھے۔ پس چاہئے کہ حکومت کا نقطہ نگاہ پھر درست کیا جائے۔ گو یہ کام موجودہ حالات میں بہت مشکل ہے۔ لیکن مشکل کام بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس طرف سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ صبر و استقلال سے کام لیتے ہوئے اگر صدر و دیگر عہدہ داران کشمیر ایوسی ایشن نے جدوجہد کو جاری رکھا۔ تو وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
۳۔
انگلستان و دیگر ممالک میں پھر اس مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجہ کو پھرانا۔ اس کام کو میں باسانی کر سکتا ہوں۔ اور انشاء اللہ پوری طرح ایسوسی ایشن سے تعاون کروں گا۔
۴۔
گلینسی رپورٹ کے خلاف جو باتیں ہوں۔ ان کو احسن طریق پر حکومت ہند اور حکومت برطانیہ کے سامنے رکھنا۔ اس کام میں بھی ایسوسی ایشن نہایت مفید بلکہ کامیاب مدد دے سکتی ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایسا کرے گی۔
۵۔
چونکہ کانفرنس عملاً بند پڑی ہے۔ بعض طلباء جن کو کتابوں وغیرہ کی امداد دی جاتی تھی۔ حیران پھر رہے ہیں۔ اسی طرح اور کئی مستحقین بے سرو سامانی کی حالت میں ہیں۔ ان کی مالی امداد کرنا۔ اس بارہ میں بھی ایسوسی ایشن اچھا کام کر سکتی ہے۔ اور انشاء اللہ کرے گی۔ سر دست طلباء کی فوری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے تین سو کی رقم اپنی طرف سے منظور کی ہے۔ جس سے مستحق طلباء کو امداد دی جائے گی۔ اس کے لئے مولوی عبدالاحد صاحب۔ مسٹر غلام نبی صاحب گلکار۔ مولوی عبداللہ صاحب وکیل۔ خواجہ صدر الدین صاحب اور میر مقبول شاہ صاحب کی سب کمیٹی میں تجویز کرتا ہوں۔ اگر ان میں سے کسی کو اس سب کمیٹی میں کام کرنا منظور نہ ہو۔ تو باقی ممبر مل کر کام کریں اور فوراً مستحق طلباء کی درخواستوں پر غور کرکے کتب وغیرہ کی امداد دیں۔ مولوی عبدالاحد صاحب ہمارے مبلغ ہیں اور سیاسی کاموں سے الگ رہتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ کام سیاسی نہیں۔ بلکہ تعلیمی اور تمدنی ہے۔ میں نے اس کمیٹی میں ان کو ممبر مقرر کیا ہے۔
آخر میں میں پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ قانون کے اندر رہ کر استقلال سے کام کریں۔ جس طرح رات ہمیشہ نہیں رہتی۔ آپ لوگوں کی تکالیف بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ آخر کامیابی کا دن چڑھے گا۔ اور وہ دن انہی کے لئے مبارک ہو گا۔ جنہوں نے اس وقت قومی کام کے لئے قربانیاں کی ہیں۔ دوسرے لوگوں کا مونہہ اس دن کالا ہو گا۔ اور اپنی شرمندگی اور ندامت کو چھپانے کا کوئی ذریعہ انہیں نہیں ملے گا۔ پس اے بھائیو! ہمت کرو اور صبر سے کام لو۔ اور استقلال سے قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کرتے چلے جائو۔ کہ خدا تعالیٰ کی مدد ظالم کے ساتھ نہیں۔ بلکہ مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ اپنی بے بسی اور بے کسی کو نہ دیکھو۔ اپنے خدا کی طرف دیکھو۔ جو بے بسوں اور بے کسوں کا یار ہے۔ وہ خود آپ کے لئے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا کر دے گا۔ اور غیب سے نصرت کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔ جو بات آج ناممکن نظر آتی ہے کل کو ممکن ہی نہیں آسان نظر آئے گی۔ آج جسے آپ قربانی خیال کرتے ہیں۔ کل اسے کھیل سمجھیں گے۔ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں آپ کی امداد انشاء اللہ کروں گا۔ اور میں اس وعدہ پر قائم ہوں۔ اور خدا تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میری اس امداد میں برکت دے گا۔ واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العلمین۔
خاکسار میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
‏tav.5.39
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران کشمیر کے نام سلسلہ چہارم کا مکتوب اول
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ: مجھے افسوس ہے کہ میرے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد اس قدر جلد آپ لوگوں پر پھر ایک دردناک مصیبت نازل ہو گئی ہے۔ اور جبکہ آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ مشکلات کا دروازہ از سر نو کھل گیا ہے۔
میں نے آپ لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک آپ لوگ مجھے اپنی مدد کے لئے بلائیں گے میں اپنی طاقت بھر آپ کی مدد کروں گا۔ اور یہ وعدہ مجھے خوب یاد ہے۔ اسی وعدہ کو یاد کرتے ہوئے میں نے میر واعظ صاحب ہمدانی کو تار دیا تھا۔ کہ میں اہل کشمیر کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ اور کرنی شروع کر دی ہے۔
جو کچھ مختصراً میں نے اس تار میں لکھا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے ولایت بھی ہدایات بھجوا دی ہیں۔ کہ وہاں کے ذمہ دار لوگوں کو صحیح حالات سے آگاہ کرکے کشمیر کے حالات کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اور خود ریاست کو بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب مسٹر کالون کو صحیح حالات سے واقف کیا جائے گا تو وہ اس ظلم کو جو ان کے نام پر کیا گیا ہے۔ ضرور دور کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ غرض یہ کہ میں انشاء اللہ آپ لوگوں کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ اور میں نے کام شروع بھی کر دیا ہے۔ لیکن آپ لوگوں کو بھی دیانتداری سے ایک فیصلہ کر لینا چاہئے۔ تاکہ آپ کے کام میں برکت ہو۔ اور میری کوششیں بھی کوئی نیک نتیجہ پیدا کریں۔ یہ مت خیال کریں کہ اب آپ لاوارث رہ گئے ہیں۔ اب بھی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اور انشاء اللہ اگر آپ صحیح رویہ اختیار کریں تو کامیاب ہوں گے۔ لیکن اگر آپ یہ چاہیں کہ بغیر صحیح رویہ اختیار کرنے کے آپ کامیاب ہوں تو یہ ناممکن ہے۔
آخر میں میں آپ کو پرامن رہنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ ہر فساد سے پرہیز کریں۔ اور مجھے کچھ دن کوشش کر لینے دیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ میری نصیحت پر کاربند ہوں گے۔ تو جلد آپ کے لیڈر عزت سے باہر آجائیں گے۔ اور آپ آزادی کے اور قریب ہو جائیں گے۔ اور یہی آزادی قیمتی آزادی ہے۔ ورنہ ذلت کے ساتھ قید سے رہائی کوئی آزادی نہیں۔ اس سے تو مر جانا بہتر ہے۔ والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
۱۸/ جون ۱۹۳۳ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران جموں و کشمیر کے نام میرا دوسرا خط بسلسلہ چہارم
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ: میرا پہلا خط آپ کو مل چکا ہے۔ اور جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علاقہ پر اس نے ایک مفید اور نیک اثر پیدا کیا ہے۔ آج میں دوسرا خط آپ کی طرف لکھ رہا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ گزشتہ کی طرح آپ اس خط کے مضمون کو بھی غور سے پڑھیں گے۔ اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں آپ سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں۔ کہ چونکہ ہر شخص تک یہ خطوط نہیں پہنچائے جا سکتے۔ جس کو یہ خط ملے وہ دوسرے پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کو یہ خط پڑھا دے۔ اور ان پڑھوں کو سنا دے۔ اور جو دور ہیں ان تک پہنچا دے۔ حتیٰ کہ ہر باشندہ ریاست جموں و کشمیر کو یہ خط مل جائے۔ یا اس کے مضمون سے وہ واقف ہو جائے۔
میرا کام۔ سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ ایام میں میرے سامنے یہ کام رہے ہیں۔ اول۔ شیخ محمد عبداللہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو جو نہایت ظالمانہ طور پر گرم جگہ پر قید کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف کوشش اور ان کو کسی ٹھنڈے مقام پر تبدیل کروانا۔ دوم۔ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی آزادی کے لئے کوشش۔ سوم۔ گزشتہ دو ماہ سے جو افسران کشمیر کے عام رویہ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اور وہی پرانا استبداد نظر آرہا ہے اس کے خلاف کوشش۔
میں نے ان تین مقصدوں کے پورا کرنے کے لئے مندرجہ ذیل ذریعے اختیار کئے۔ اول میں نے سوچا کہ جب تک پبلک میں بیداری پیدا نہ کی جائے۔ اور ان کی محبت کو اپنے لیڈروں سے قائم نہ رکھا جائے۔ اس وقت تک اندرونی دبائو ریاست پر نہیں پڑ سکتا۔ اس کے لئے میں نے اپنا پہلا خط شائع کیا۔ اور کشمیر کے کام کے متعلق جو لوگ سرگرم ہیں انہیں ہدایت کی۔ کہ ریاست کے مختلف علاقوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بہت حد تک کامیابی ہوئی۔ اور میں اس بارہ میں صوبہ جاتی انجمنوں کا ممنون ہوں۔ کہ انہوں نے شیخ محمد عبداللہ صاحب سے اظہار وفاداری کرکے میرے ہاتھوں کو بہت مضبوط کر دیا۔
دوسری بات میں نے یہ سوچی۔ کہ ریاست کے حکام کو توجہ دلائوں۔ تاکہ وہ زور اور طاقت کے استعمال کو چھوڑ کر تحمل اور دلیل کی طرف توجہ کریں۔ مگر افسوس کہ اس بارہ میں مسٹر کالون کا رویہ اتنا ہمدردانہ ثابت نہیں ہوا۔ جس قدر کہ مجھے ان سے امید تھی۔ مجھے ان پر اب تک حسن ظنی ہے۔ لیکن میرے نزدیک انگریز جس قدر انگریزی علاقہ میں مفید کام کر سکتے ہیں۔ ریاست میں نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ریاستوں میں دیانتدار کارکنوں کا ملنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ اور بغیر اچھے نائبوں کے انسان اچھا کام نہیں کر سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انگریز بھی اس خیال میں مجھ سے متفق ہیں۔ کیونکہ اگر وہ ہندوستانیوں کو حکومت کا پورا اہل سمجھتے۔ تو ہندوستان کو آزادی دینے میں اس قدر پس و پیش کیوں کرتے۔
اس بارہ میں میں نے جو کچھ کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے اس کام کے لئے سید زین العابدین صاحب کو مقرر کیا۔ کہ وہ مسٹر کالون اور مسٹر پیل سے جا کر ملیں۔ اور ان کے آگے تمام حالات رکھ کر انہیں موجودہ مظالم کے دور کرنے کی ترغیب دیں۔ ان کے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو میں نے اس لئے بھجوایا۔ تاکہ وہ شیخ محمد عبداللہ صاحب سے مل کر ان کی طرف سے قانونی طور پر کارروائی کریں اور اسی طرح گزشتہ فسادات میں جو میر واعظ صاحب ہمدانی اور ان کے معتقدوں کے خلاف بعض خلاف قانون کارروائیاں ہوئی ہیں یا مقدمات چلائے گئے ہیں۔ اس میں قانونی امداد دیں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ مہذب دنیا کے معروف دستور کے خلاف گورنر نے ان دونوں صاحبوں کو فوراً ریاست سے نکلنے پر مجبور کیا۔۷۴ حکم کے الفاظ یہ تھے کہ آپ لوگوں کے گزشتہ اعمال سے یہ ثابت ہے کہ آپ سری نگر میں فساد کرانے کی نیت سے آئے ہیں۔ شیخ بشیر احمد صاحب تو وکیل ہیں۔ خود اپنی طرف سے ہائی کورٹ کو توجہ دلائیں گے مگر سید زین العابدین صاحب کے متعلق جو حکم دیا گیا تھا۔ اس کے متعلق میں نے حکام کو توجہ دلائی۔ تو مجھے یہ جواب دیا گیا ہے۔ کہ سید زین العابدین کی ہتک منظور نہ تھی بلکہ مطلب صرف یہ تھا کہ ان کے آنے سے لوگوں میں جوش پیدا نہ ہو۔ لیکن حکم کے الفاظ واضح ہیں۔ حکم میں صاف یہ لکھا ہے کہ >فساد کرانے کی نیت سے آپ آئے ہیں<۔ اور یہ کہ آپ کا گزشتہ طریق عمل اس بدنیتی کی تصدیق کرتا ہے۔ پس حکام بالا کا یہ کہنا۔ کہ ہمارا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ شاہ صاحب فساد کرانے کی نیت سے آئے ہیں صاف بتاتا ہے کہ ریاست کے بعض حکام انگریز افسروں کے احکام کی پوری تعمیل نہیں کرتے۔ بلکہ اپنے پاس سے خلاف واقع باتیں شامل کردیتے ہیں۔ ریاست کے حکام کے پاس حکومت کی طاقت ہے۔ اور میرے پاس دلیل کی طاقت۔ ریاست نے حکومت کا زور آزما لیا ہے۔ اور اب اگر ریاست نے اصلاح نہ کی۔ تو میں دلیل کا زور آزمائوں گا۔ میں ایک طرف گورنر کے الفاظ کی نقل کروں گا۔ اور دوسری طرف حکام بالا کی تشریح کو اور اسے چھاپ کر تمام ممبران پارلیمنٹ اور انگریزی اخبارات اور ذمہ دار افسران کے پاس بھیجوں گا۔ اور پوچھوں گا کہ کیا یہ طریق حکومت کامیاب ہو سکتا ہے؟ میں اس کے ساتھ انگریز افسروں کی وہ تحریرات درج کروں گا۔ جو انہوں نے سید زین العابدین کے نام ارسال کی ہیں۔ اور جن میں لکھا ہے کہ انہوں نے قیام امن میں ریاست کی پوری امداد کی ہے۔ پھر دنیا اس کو پڑھ کر خود اندازہ لگائے گی کہ گورنر کشمیر کا یہ حکم حکومت کے زور پر تھا یا کہ دلیل اور انصاف کے زور پر۔ وہ اس امر کا اندازہ لگا لے گی کہ انگریز حکام کی منشاء کو ماتحت حکام کس طرح پورا کر رہے ہیں۔ اور ان کی آمد سے غریب مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ دلیل تلوار سے زیادہ زبردست ہے اور باوجود حکومت کشمیر کی طاقت اور اس کے معاونوں کی قوت کے مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر میری کمزوری کے باوجود مظلوم کی مدد کی کوشش اور انصاف کی تائید آخر کامیاب ہو کر رہے گی۔ یہ دنیا لاوارث نہیں۔ اس کے اوپر ایک زبردست خدا نگران ہے وہ ہمیشہ انصاف اور سچ کی امداد کرتا ہے اور وہ یقیناً اب بھی ان غیر منصفانہ افعال کو جیتنے نہیں دے گا۔
تیسری کوشش میں نے یہ کی کہ اپنے انگلستان کے نمائندہ کو تار دی کہ وہ وہاں وزراء اور امراء اور ممبران پارلیمنٹ اور پریس کے سامنے سب حالات رکھیں۔ اور انصاف کی طرف توجہ دلائیں۔ اس بارہ میں جو کام ہوا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک ذی اثر دوست نے اس بارہ میں وزیر ہند سے ملاقات اور گفتگو کی ہے۔ پارلیمنٹ کے بعض ممبروں نے پارلیمنٹ میں سوال کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اور بعض ذمہ دار امراء نے اس معاملہ کی طرف خود توجہ کرنے اور اس کی اہمیت کی طرف حکومت کو توجہ دلانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ سو امید ہے کہ انشاء اللہ جلد انگلستان کے لوگوں کی توجہ اس سوال کی طرف ہو جائے گی اور ان کی توجہ کا نیک اثر ہندوستان میں بھی پیدا ہو گا۔
چوتھی کوشش میں نے اس بارہ میں یہ کی ہے کہ اپنے ایک نمائندہ کو شملہ بھجوا دیا ہے۔ تاکہ وہ وہاں کے ذی اثر لوگوں اور حکام کو مل کر معاملات کشمیر کی طرف توجہ دلائیں۔ جنہوں نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔ اور امید ہے کہ جلد اس کے نیک نتائج نکلنے شروع ہو جائیں گے۔ لیکن چونکہ میں اب کشمیر کمیٹی کا صدر نہیں ہوں۔ اس لئے یقیناً اس کام میں میرے ہاتھ اور بھی مضبوط ہو جائیں گے۔ اگر کشمیر کی ریاست کی مختلف انجمنیں ریزولیوشنوں کے ذریعہ سے اس امر کا فیصلہ کریں اور حکومت کو اطلاع دیں کہ میں ان کے حقوق کے لئے حکومت کو مخاطب کرنے کا حق رکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ جو لوگ مجھ سے امداد چاہتے ہیں میں حسب وعدہ ان کی امداد کروں۔ اور ان کی قومی آزادی اور ان کے حقیقی لیڈر شیخ محمد عبداللہ صاحب کی آزادی کے لئے کوشش کروں اور انہیں چاہئے کہ وہ اس طرح مجھے اپنی خدمت کا موقع دیں۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ صورت حالات: اپنے کام کے اظہار کے بعد اب میں آپ لوگوں کو موجودہ صورت حال کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ غالباً اس امر کو سمجھ چکے ہوں گے۔ کہ بعض افسران ریاست نے یہ دیکھ کر کہ ریاست کے بعض سابق افسران کے مظالم اس قدر طشت از بام ہو چکے ہیں کہ سیاسی عذرات کے ماتحت کشمیر کے حقوقی لیڈروں کو قید کرنا۔ ان کے لئے بالکل ناممکن ہے۔ قومی خدام کو فساد اور شورش کے الزام کے نیچے گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے۔
میں اس امر کا یقین رکھتا ہوں کہ بعض افسران ریاست کی نیت درست نہیں اور اس یقین کی وجوہ یہ ہیں۔
۱۔
میرے ایک نمائندہ سے ریاست کے ایک ہندو وزیر نے گزشتہ سال یہ الفاظ کہے تھے۔ کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمیں بھی پارٹیاں بنانی آتی ہیں اور ہم بھی ریاست میں آپ کے خلاف پارٹیاں بنوا سکتے ہیں۔ بعض لوگ جو شیخ محمد عبداللہ صاحب کے خلاف کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی نسبت یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ اس وزیر سے خاص تعلقات رکھتے ہیں۔
۲۔
باہمی مناقشات دیر سے شروع تھے۔ لیکن نہ حکومت نے ان پر سختی سے نوٹس لیا اور نہ شیخ محمد عبداللہ صاحب کو اس کا ذمہ دار بنایا۔ لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اس اجلاس کے بعد جس میں مسٹر مہتہ کے خلاف ریزولیوشن تھا۔ یکدم ریاست میں بھی ہل چل شروع ہو گئی۔ اور بعض ریاست کے افراد نے باہر آکر لوگوں کو اکسانا شروع کیا کہ کمیٹی کا احمدی صدر نہیں ہونا چاہئے اور ان ایجنٹوں میں سے ایک نے اپنے ایک ہم خیال لیڈر سے لاہور میں کہا کہ اگر آپ چاہیں۔ تو میں پندرہ سولہ ہزار فوراً مہیا کر سکتا ہوں۔ پھر اس نے کشمیر جاکر اپنے ایک دوست کو لکھا۔ کہ میں لاہور میں آگ لگا آیا ہوں۔ اب چاہئے کہ یہ آگ سلگتی رہے۔ اور بجھے نہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسٹر مہتہ کے بعض ہوا خواہوں نے یہ کارروائی کی ہے۔ ورنہ واقعات کا یہ اجتماع کس طرح ہوا۔ آدمی وہی ہیں` حالات وہی ہیں` کام وہی ہیں۔ پھر نتائج کیوں مختلف نکلنے لگے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ یہ سب واقعات اور ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات بتاتے ہیں کہ حکومت میں ایک ایسا عنصر موجود ہے۔ جس کی اصل غرض یہ ہے کہ کسی طرح لوگوں کی ہمدردی کو شیخ محمد عبداللہ صاحب سے ہٹا کر دوسری پارٹی کی طرف کر دیا جائے۔ یا کم سے کم ان کی پارٹی کو کچل دیا جائے۔ مگر کیا نوجوانان کشمیر اس بے غرض خدمت کو بھول جائیں گے جو ان کے لیڈر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے نہایت مخالف حالات میں کی ہے؟ میں امید کرتا ہوں کہ کشمیر کے تمام غیور باشندے اس سوال کا جواب یک زبان ہو کر یہی دیں گے کہ ہرگز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہر قسم کے فساد سے بچیں۔ وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ کشمیر آزاد نہ ہو۔ فساد ڈلوانے کی پوری کوشش کریں گے۔ مگر آپ کا فرض ہے کہ قانون شکنی نہ کریں۔ اور صرف اپنے کام سے کام رکھیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ باوجود قانون کا احترام اور ادب کرنے کے فتح حاصل ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ اور اگر آپ لوگ میری ہدایتوں پر عمل کریں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو بغیر کسی فساد کے کامیابی ہو گی۔ آپ پچھلے سال دیکھ چکے ہیں کہ میرے مشورے آپ کے لئے مفید ثابت ہوئے ہیں۔ اب پھر آپ لوگ تجربہ کر لیں۔ یہی راہ آپ کے لئے مفید ثابت ہو گی۔ کہ قانون نہ توڑیں اور غیر ضروری شور نہ مچائیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے ایسے راستے کھولے ہیں کہ وہ بغیر قانون شکنی کے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر امن کی وہ طاقت رکھی ہے کہ شورش پسندی کو وہ طاقت ہرگز حاصل نہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ پہلے بھی ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ مگر میں آپ کو مزید ہوشیار کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ آپس میں لڑیں گے تو سب مسلمانوں کی ہمدردی آپ سے جاتی رہے گی۔ اور آپ اکیلے رہ جائیں گے۔ اور دشمنوں کا شکار ہو جائیں گے۔
آئندہ کے لئے دستور عمل: اب میں آپ کو آئندہ کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب حکومت سختی پر اتر آئے تو انجمنیں کام نہیں دے سکتیں۔ پس جب تک شیخ صاحب باہر نکلیں نوجوانوں کا فرض ہے کہ قومی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے اپنی تنظیم کریں۔ اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ سرینگر جیسے شہر میں تو محلہ دار قومی خدمت کا درد رکھنے والے لوگ آپس میں سے ایک ایک شخص کو اپنا لیڈر بنا لیں۔ اس کا نام خواہ ڈکٹیٹر رکھیں یا کچھ اور مگر بہرحال محلہ دار ایک ایک لیڈر ہونا چاہئے۔ اور اس کے بعد محلوں کے لیڈر اپنے میں سے ایک لیڈر تجویز کر لیں۔ جو سارے شہر کے حالات کا نگران رہے۔
جو چھوٹے شہر یا قصبات ہیں وہ اپنا ایک ایک لیڈر چن لیں۔ اس انتظام میں ہر ایک جماعت کو چاہئے کہ حلفیہ اس امر کا اقرار کرے کہ وہ اپنے لیڈروں کی تمام قومی امور میں فرمانبرداری کرے گی۔ میں یہ صرف اس خیال سے لکھ رہا ہوں۔ کہ شاید اس وقت تک اس قسم کا انتظام مکمل نہ ہوا ہو۔ لیکن اگر شیخ محمد عبداللہ صاحب جیل میں جانے سے پہلے ایسا انتظام کر چکے ہیں تو جس جس جگہ یہ انتظام موجود ہے وہاں اس قسم کے انتظام کی ضرورت نہیں۔ البتہ جہاں کوئی لیڈر مقرر نہیں ہو چکا وہاں مقرر کر لیا جائے۔ میرا جہاں تک علم ہے ابھی ریاست کا اکثر حصہ اس انتظام سے خالی ہے۔ میں اس سے پونچھ اور بعض دیگر علاقوں کو مستثنیٰ کرتا ہوں۔ کیونکہ وہاں کی انجمنیں اب تک نہایت منظم صورت میں کام کر رہی ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ انہیں کسی نئے انتظام کی ضرورت نہیں۔ لیکن سرینگر اور جموں کے شہروں سے باہر علاقہ کشمیر و جموں میں ابھی تک یہ انتظام مکمل نہیں۔ وہاں فوراً اس قسم کا انتظام ہو جانا چاہئے۔ یہ آپ لوگوں کے لئے مصیبت کا زمانہ ہے۔ اور ایسے زمانوں میں بغیر ایک لیڈر کے جس کی اطاعت سب لوگ کریں کام نہیں چلتا۔ اور جس طرح سارے ملک کو ایک لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح علاقوں اور شہروں اور گائوں کو بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے میری پہلی نصیحت تو آپ لوگوں کو یہ ہے کہ جس جس جگہ کوئی ایسا شخص موجود نہیں کہ جس کی اطاعت کا آپ اقرار کر چکے ہیں اس اس جگہ فوراً ایک لیڈر منتخب کرکے کام کو منظم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کسی وقت وہ لیڈر قید ہو جائے یا کام چھوڑ دے یا فوت ہو جائے تو اسی وقت دوسرا آدمی اس کی جگہ مقرر کر دیا جائے۔ جہاں جہاں ایسے آدمی پہلے سے مقرر ہیں۔ یا جہاں پہلے مقرر نہیں تھے۔ اور اب مقرر کئے جائیں۔ انہیں چاہئے کہ مجھے اپنے ناموں اور پتوں سے اطلاع دیں تاکہ میں انہیں ضروری حالات سے آگاہ رکھوں۔ اور تاکہ ان کی جو امداد مجھ سے ممکن ہو اس کا سامان کروں۔
میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ تو جو لوگ اس قومی تحریک میں شامل ہونا چاہیں۔ ان سب سے حلفیہ اقرار لیا جائے کہ وہ ہر قسم کی شورش اور فساد سے بچیں گے۔ کیونکہ بغیر حلف کے لوگ وقت پر اپنے فرائض کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن جب وہ قسم اٹھا لیں تو وہ قسم انہیں ان کے فرائض یاد دلاتی رہتی ہے۔ چاہئے کہ آپ کی مظلومیت ہمیشہ واضح رہے۔ جب تک آپ کی مظلومیت ثابت کی جا سکے گی اس وقت تک آپ غالب رہیں گے۔ جب یہ امر مشتبہ ہو جائے گا۔ اسی وقت لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ اور آپ کی تحریک کی ساری طاقت زائل ہو جائے گی۔
جو لوگ لیڈر مقرر ہوں یا پہلے سے مقرر ہیں انہیں چاہئے کہ کامیابی کے لئے مندرجہ ذیل طریق اختیار کریں۔
۱۔
جب تک شیخ محمد عبداللہ صاحب قید سے آزاد نہ ہوں۔ اس وقت تک تمام لوگوں کو نصیحت کریں کہ روزانہ گھروں میں ان کی آزادی کے لئے دعا کریں۔ اس سے ہر گھر میں شیخ صاحب کا ذکر بھی تازہ رہے گا۔ اور بچوں` بوڑھوں` عورتوں` مردوں سب کو یہ یاد رہے گا کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب کو آزاد کرانا ان کا فرض ہے۔ اس طرح یہ دعا خود ان کے اندر بھی زندگی قائم رکھے گی۔
۲۔
دوسرے ان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ بغیر شور کرنے کے اپنے محلہ یا شہر کے لوگوں کو سیاسی حالات سے باخبر رکھیں۔ اور ان کے علاقہ میں جو ظلم ہوں۔ ان سے فوراً اپنے مرکزی انتظام کو اور مجھے خبر دیں۔ تاکہ اس کے متعلق مناسب کارروائی کی جا سکے۔
۳۔
چونکہ ان دنوں حکومت پر یہ اثر ڈالا جارہا ہے۔ کہ لوگ شیخ محمد عبداللہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اور چونکہ پبلک مظاہرے اس وقت مناسب نہیں ہیں۔ اس لئے اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کہ ملک کلی طور پر شیخ محمد عبداللہ صاحب کے ساتھ ہے۔ چاہئے کہ کوئی نشان ایسا مقرر کر لیا جائے۔ جس کو دیکھتے ہی ہر شخص یہ سمجھ لے کہ یہ لوگ شیخ محمد عبداللہ صاحب کے ساتھ ہیں۔ میرے خیال میں اگر ایک سیاہ نشان ہر ایک شخص اس وقت تک کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب جیل سے نکلیں اپنے بازو پر باندھ لے تو یہ ایک عمدہ ذریعہ حکومت پر اس امر کے ظاہر کرنے کا ہو گا۔ کہ ملک سوائے چند ایک لوگوں کے کلی طور پر شیخ محمد عبداللہ صاحب کے ساتھ ہے۔ اسی طرح بغیر جلوس نکالے کے ہر گلی اور کوچے میں چلتے ہوئے لوگ اس نشان کے ذریعہ سے حکومت پر واضح کر دیں گے کہ ہم شیخ محمد عبداللہ صاحب کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور چونکہ اس طرح فرداً فرداً اپنے خیال کے ظاہر کرنے میں کسی فساد کا خطرہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت بھی اس میں دخل نہ دے سکے گی۔ اور ایک طرف تو ملک منظم ہوتا چلا جائے گا۔ اور دوسری طرف ملک کی رائے کا اظہار ایک پرامن طریق سے ہوتا رہے گا۔ مگر اس قسم کے انتظام کو بااثر بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ انتظام وسیع ترین پیمانہ پر کیا جائے۔ اور حتی الوسع شیخ صاحب کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی فرد اس سے باہر نہ رہے۔
آخر میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ میں یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ مجھے بعض نہایت خوش کن خبریں ملی ہیں۔ جن سے میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے فضل سے آپ لوگوں کی بہتری کے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے دکھوں کو جلد دور کرنے والا ہے۔ آپ کو صرف تھوڑے سے حوصلہ کی ضرورت ہے اور اس امر کی ضرورت ہے۔ کہ ملک کے غداروں کے دھوکے میں نہ آئیں۔ میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک آپ لوگوں میں سے کوئی حصہ بھی میری مدد کی ضرورت کو سمجھے گا۔ میں انشاء اللہ ہر ممکن مدد آپ لوگوں کی ترقی کے بارہ میں کرتا رہوں گا۔ والتوفیق من اللہ۔ و اخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین۔ والسلام۔
خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد۔ قادیان
مورخہ ۱۱/ جولائی ۱۹۳۳ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جس مسلم کو یہ مضمون پہنچے وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی ضرور پہنچاوے
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات
اصلاحات کشمیر سے جو میرا تعلق رہا ہے اس کے یاد کرانے کی مجھے ضرورت نہیں۔ اس جدوجہد میں جو خدمت کرنے کی مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اس کے بیان کرنے کی بھی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ کیونکہ میرے نزدیک وہ بنیاد جو صرف ماضی پر رکھی جاتی ہے اس قدر مضبوط نہیں ہوتی۔ جس قدر وہ جو حال میں اپنی صداقت کا ثبوت رکھتی ہے۔ اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے فلاں وقت کوئی کام کیا تھا۔ اس لئے میری بات سنو۔ بلکہ اہل کشمیر سے صرف یہ کہتا ہوں کہ میں اب جو کچھ کہہ رہا ہوں اس پر غور کریں اور اگر اس میں سے کوئی بات آپ کو مفید نظر آئے تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
جب میں نے کام شروع کیا تھا اس وقت کشمیر ایجی ٹیشن گو بظاہر فرقہ وارانہ تھا۔ مگر جو مطالبات پیش کئے جاتے تھے وہ فرقہ وارانہ نہ تھے۔ زمینوں کی واگزاری کا فائدہ صرف مسلمانوں کو نہ پہنچتا تھا۔ نہ پریس اور پلیٹ فارم کی آزادی کا تعلق صرف مسلمانوں سے تھا۔ نہ حکومت کے مشوروں میں شراکت میں مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ تھا۔ ملازمتوں کا سوال ایک ایسا سوال تھا جس میں مسلمانوں کے لئے کچھ زائد حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن اسی ۹۰ فی صدی آبادی کے لئے اس کے گم گشتہ حقوق میں سے صرف تھوڑے سے حق کا مطالبہ فرقہ وارانہ مطالبہ نہیں کہلا سکتا۔
اس تحریک کا نتیجہ کم نکلا یا زیادہ۔ مگر بہرحال کچھ نہ کچھ نکلا ضرور۔ اور کشمیر کے لوگ جو سب ریاستوں کے باشندوں میں سے کمزور سمجھے جاتے تھے اس ادنیٰ مقام سے ترقی کرکے ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے کہ اب وہ دوسری ریاستوں کے باشندوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتے۔
میں نے جو کچھ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا ایک سمجھوتہ سچائی پر مبنی ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ہم ظاہر میں کچھ کہیں اور باطن میں کچھ ارادہ کریں۔ ایسے ارادوں میں جن میں سچائی پر بناء نہیں ہوتی۔ کبھی حقیقی کامیابی نہیں ہوتی اور کم سے کم یہ نقص ضرور ہوتا ہے کہ آنے والی نسلیں خود اپنے باپ دادوں کو گالیاں دیتی ہیں اور وہ تاریخ میں عزت کے ساتھ یاد نہیں کئے جاتے۔ پس میرے نزدیک کسی سمجھوتے سے پہلے ایسے سب امور کا جو اختلافی ہوں مناسب تصفیہ ہو جانا چاہئے تا بعد میں غلط فہمی اور غلط فہمی سے اختلاف اور جھگڑا پیدا نہ ہو۔
اس اصل کے ماتحت جب میں نے اس تحریک کا مطالعہ کیا تو مجھے اخباری بیانات سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ کہ آیا مسلم و غیر مسلم کے سیاسی سمجھوتے کی مشکلات کو پوری طرح سمجھ لیا گیا ہے یا نہیں اور مسلم و غیر مسلم کے حقوق کے متعلق جو شکایات ہیں ان کو دور کرنے کی تدبیر کر لی گئی ہے یا نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی جدوجہد دو غرضوں میں سے ایک کے لئے ہوتی ہے یا تو اس لئے کہ اس قوم نے کوئی پیغام دنیا تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ عواقب و نتائج کو نہیں دیکھا کرتی۔ نقصان ہو یا فائدہ وہ اپنا کام کئے جاتی ہے۔ جیسے اسلام کے نزول کے وقت غریب اور امیر سب نے قربانی کی اور اس کی پروا نہیں کی کہ کسے نقصان ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ مادی نتیجہ مدنظر نہ تھا۔ بلکہ پیغام الہی کو دنیا تک پہنچانا مدنظر تھا۔ اس پیغام کے پہنچ جانے سے ان کا مقصد حاصل ہو جاتا تھا۔ خواہ دنیا میں انہیں کچھ بھی نہ ملتا۔ اور اس پیغام کے پہنچانے میں ناکامی کی صورت میں ان کو کوئی خوشی نہ تھی۔ خواہ ساری دنیا کی حکومت ان کو مل جاتی۔ یا پھر قومی جدوجہد اس لئے ہوتی ہے کہ کوئی قوم بعض دینوی تکلیفوں کو دور کرنا چاہتی ہے وہ ہر قدم پر یہ دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے کہ جن تکالیف کو دور کرنے کے لئے میں کھڑی ہوئی ہوں وہ اس جدوجہد سے دور ہوسکتی ہے یا نہیں۔ اس کی ہر ایک قربانی ایک مادی فائدے کے لئے ہوتی ہے۔ اور وہ اس مادی فائدے کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ تمام سیاسی تحریکیں اس دوسری قسم کی جدوجہد سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور مادی فوائد کو ان میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب یہ امر ظاہر ہو گیا تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ کشمیر کی تحریک کوئی مذہبی تحریک ہے یا سیاسی۔ اگر سیاسی ہے تو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سے فوائد ہیں جن کے لئے اہل کشمیر کوشاں ہیں خصوصاً مسلمان؟
اس سوال کا جواب میں سمجھتا ہوں باآرام ہر کشمیری یہ دے گا کہ اس کی جدوجہد صرف اس لئے ہے کہ اس کی بارام اور خوش زندگی کا سامان کشمیر میں نہیں ہے۔ نہ اس کی تعلیم کا اچھا انتظام ہے نہ اس کی زمینوں کی ترقی کے لئے کوشش کی جاتی ہے نہ اسے حریت ضمیر حاصل ہے نہ اس کی اس آبادی کے اچھے گزارہ کے لئے کوئی صورت ہے۔ جس کا گزارہ زمین پر نہیں بلکہ مزدوری اور صنعت و حرفت پر ہے اور نہ اس کی تجارتوں اور کارخانوں کی ترقی کے لئے ضرورت کے مطابق جدوجہد ہو رہی ہے۔ نہ اسے اپنے حق کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جارہا ہے۔ اور ان لوگوں میں سے جن کے ذریعہ سے حکومت تاجروں` ٹھیکہ داروں وغیرہ کو نفع پہنچایا کرتی ہے۔ اور نہ مجالس قانون ساز میں ان کی آواز کو سنا جاتا ہے۔ یہ مطالبات مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے ہیں۔ اور یہی مطالبات قریباً ہر افتادہ قوم کے ہوتے ہیں۔
یہ امر ظاہر ہے کہ وہی سکیم مسلمانان کشمیر کے لئے مفید ہو سکتی ہے جو اوپر کی اغراض کو پورا کرے۔ اور دوسری کوئی سکیم انہیں نفع نہیں دے سکتی پس میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیا اتحاد جو مسلمانوں کے ایک طبقہ کا بعض دوسری اقوام سے ہوا ہے۔ کیا اس غرض کو پورا کرتا ہے؟
ہر ایک شخص جانتا ہے کہ مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ملازمتوں اور ٹھیکیوں وغیرہ میں اور مجالس آئینی میں تناسب کے لحاظ سے حصہ نہ ملنے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے اور یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ ان ملازمتوں پر سوائے چند ایک بڑے افسروں کے ریاست ہی کے باشندے قابض ہیں۔ جو غیر مسلم اقوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہی حال ٹھیکوں کا ہے۔ وہ بھی اکثر مقام میں غیر مسلم اصحاب کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح مجالس آئینی میں بھی مسلمانوں کا حق زیادہ تر ریاست کشمیر کے غیر مسلم باشندوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ان حالات میں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقوام نے اپنے حاصل کردہ منافع مسلمانوں کے حق میں چھوڑ دینے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اگر نہیں تو یہ سمجھوتہ کس کام آئے گا۔ اگر اس تمام جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر کے ہاتھ سے اختیار نکل کر رعایا کے پاس اس صورت میں آجانے ہیں کہ نہایت قلیل اقلیت نے نصف یا نصف کے قریب نمائندگی پر قابض رہنا ہے اور اسی طرح ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں بھی اسے یہی حصہ ملنا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پندرہ فیصدی باشندے پچاس فی صدی آمد پر قابض رہیں۔ اور پچاسی فیصدی باشندے بھی پچاس فیصدی آمد پر قابض رہیں۔ گویا ایک جماعت کے ہر فرد پر ۳/۱2] ftr[ ۳ فیصدی آمد خرچ ہو اور دوسری قوم کے ہر فرد پر ۱۷/۱۰ فیصدی آمد خرچ ہو یا دوسرے لفظوں میں ہمیشہ کے لئے کچھ مسلمان اتنا حصہ لیں جتنا کہ ایک غیر مسلم حصہ لے۔ یہ تقسیم تو بالبداہت باطل ہے۔
اگر سمجھوتہ اس اصول پر نہیں بلکہ اس اصول پر ہے کہ ہر قوم اپنے افراد اور لیاقت کے مطابق حصہ لے۔ خواہ مجالس آئین میں ہو خواہ ملازمتوں میں خواہ ٹھیکہ میں۔ گو اقلیت کو اس کے حق سے استمالت کے لئے کچھ زیادہ دے دیا جائے اور اس کے ساتھ یہ شرطیں ہوں کہ اقلیت کے مذہب اس کی تہذیب اور تمدن کی ہمیشہ حفاظت کی جائے گی۔ تو یہ ایک جائز اور درست اور منصفانہ معاہدہ ہو گا۔ مگر جہاں تک میں نے اخبارات سے پڑھا ہے ایسا کوئی معاہدہ مسلمانان کشمیر اور دیگر اقوام میں نہیں ہوا۔ اور نہ میں سمجھ سکا ہوں کہ موجودہ حالات میں وہ اقوام جو ملازمتوں اور ٹھیکوں اور دوسرے حقوق پر قابض ہیں وہ اس آسانی سے اپنے حاصل کردہ فوائد مسلمانوں کو واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں گی۔ اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو لازماً یہ اتحاد بعد میں جاکر فسادات کے بڑھ جانے کا موجب ہو گا۔ اگر کوئی کامیابی ہوئی اور مسلمانوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو غیر مسلم اقوام کہیں گی کی جدوجہد تو صرف اختیارات پبلک کے ہاتھ میں لانے کے لئے تھی۔ سودہ آگئے ہیں۔ کسی قوم کو خاص حق دینے کے متعلق تو تھی ہی نہیں۔ ہم بھی کشمیری تم بھی کشمیری۔ ملازمت ہمارے پاس رہی تو کیا۔ تمہارے پاس رہی تو کیا۔ جو لوگ عہدوں پر ہیں وہ زیادہ لائق ہیں۔ اس لئے قوم کا کوئی سوال نہیں اٹھانا چاہئے۔ کہ اس میں ملک کا نقصان ہے اور اگر مسلمانوں کا زور چل گیا اور انہوں نے مسلمانوں کو ملازمتوں` ٹھیکوں وغیرہ میں زیادہ حصہ دینا شروع کیا تو دوسری اقوام کو رنج ہو گا اور وہ کہیں گی کہ پہلے ہم سے قربانی کروائی۔ اب ہمیں نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ اور ایک دوسرے پر بدظنی اور بدگمانی شروع ہو جائے گی اور فتنہ بڑھے گا گھٹے گا نہیں۔ اور اب تو صرف چند وزراء سے مقابلہ ہے پھر چند وزراء سے نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں پر مشتمل اقوام سے مقابلہ ہو گا۔ کیونکہ حقوق مل جانے کی صورت میں اس قوم کا زور ہو گا جو اس وقت ملازمتوں وغیرہ پر قائم ہے خواہ وہ تھوڑی ہو اور وہ قوم دست نگر ہو گی۔ جو ملازمتوں میں کم حصہ رکھتی ہے خواہ وہ زیادہ ہو۔ اور یہ ظاہر ہے کہ چند وزراء کو قائل کر لینا آسان ہے۔ مگر ایسی جماعت کو قائل کرنا مشکل ہے جس کی پشت پر لاکھوں اور آدمی موجود ہوں کیونکہ گو وہ قلیل التعداد ہو حکومت اور جتھا مل کر اسے کثیر التعداد لوگوں پر غلبہ دے دیتا ہے اور سیاسی ماہروں کا قول ہے کہ نہ مقید بادشاہ کی حکومت ایسی خطرناک ہوتی ہے نہ غیر ملکی قوم کی۔ جس قدر خطرناک کہ وہ حکومت ہوتی ہے جس میں قلیل التعداد لیکن متحد قوم اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہو۔ کیونکہ اس کا نقصان ملک کے اکثر حصہ کو پہنچتا ہے۔ لیکن اس کا ازالہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی تاریخ کو دیکھ لو کہ ایسی حکومتیں ہمیشہ دیر پا رہی ہیں اور انہوں نے اکثریت کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ ہندوستان میں ہی اچھوت اقوام کو دیکھ لو کہ ایک زبردست اکثریت سے اب وہ اقلیت میں بدل گئی ہے۔ اور ان کے حالات جس قدر خراب ہیں وہ بھی ظاہر ہیں۔
پس میرے نزدیک بغیر ایک ایسے فیصلہ کے جسے پبلک پر ظاہر کر دیا جائے ایسا سمجھوتہ مفید نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ نفع یا نقصان تو پبلک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ممکن ہے غیر مسلم لیڈر مسلمانوں کو بعض حق دینے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن ان کی قومیں تسلیم نہ کریں۔ پھر ایسے سمجھوتے سے کیا فائدہ۔ یا مسلمان لیڈر بعض حق چھوڑنے کا اقرار کر لیں۔ لیکن مسلمان پبلک اس کے لئے تیار نہ ہو اور ملک کی قربانیان رائگاں جائیں اور فساد اور بھی بڑھ جائے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں کوئی سمجھوتہ مسلمانوں کے لئے مفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کی بدحالی اور بے کاری کا علاج تجویز نہ کرتا ہو یعنی ان کی تعداد کے قریب قریب انہیں ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں حق نہ دلاتا ہو۔ جو سمجھوتہ اس امر کو مدنظر نہیں رکھتا وہ نہ کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ امن پیدا کر سکتا ہے۔ عوام لیڈروں کے لئے قربانی کرنے میں بے شک دلیر ہوتے ہیں لیکن جب ساری جنگ پیٹ کے لئے ہو اور پیٹ پھر بھی خالی کا خالی رہے تو عوام الناس زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکتے اور ان کے دلوں میں لیڈروں کے خلاف جذبہ نفرت پیدا ہو جاتا ہے۔ اور ایسے فتنہ کا سدباب کر دینا شروع میں ہی مفید ہوتا ہے۔
یہ میرا مختصر مشورہ مسلمانان کشمیر کو ہے وہ اپنے مصالح کو خوب سمجھتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں میں تو اب کشمیر کمیٹی کا پریذیڈنٹ نہیں ہوں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا کشمیر کمیٹی کی رائے اس معاملہ میں کیا ہو گی۔ لیکن سابق تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مشورہ دینا مناسب سمجھا۔
عقلمند وہی ہے جو پہلے سے انجام دیکھ لے۔ میرے سامنے سمجھوتہ نہیں نہ صحیح معلوم ہے کہ کن حالات میں اور کن سے وہ سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ میں تو اخبارات میں شائع شدہ حالات کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ اس کا سمجھوتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ہوا ہے۔ اور اس کے مطابق اب دونوں قومیں مشترکہ قربانی پر تیار ہو رہی ہیں۔ پس میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قربانی ایک مقدس شے ہے اور بہت بڑی ذمہ داریاں اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ وہ کس امر کے لئے قربانی کرنے لگے ہیں۔ اور یہ کہ وہ اس امر کو نباہنے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ سمجھوتہ بجائے پریشانیوں کے کم کرنے کے نئی پریشانیاں پیدا کر دے۔ انگریزی کی ایک مثل ہے کہ کڑاہی سے نکل کر آگ میں گرا۔ سو یہ دیکھ لینا چاہئے کہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ سب کڑاہی سے نکل آئیں گے یا یہ کہ بعض کڑاہی سے نکل کر باہر آجائیں گے اور بعض آگ میں گر کر بھونے جائیں گے۔
میں اس موقعہ پر حکومت کو بھی یہ نصیحت کروں گا کہ پبلک کے مفاد کا خیال رکھنا حکومت کا اصل فرض ہے۔ اسے چاہئے کہ اپنے زور اور طاقت کو نہ دیکھے بلکہ اس کو دیکھے کہ خدا نے اسے یہ طاقت کیوں دی ہے؟ حاکم اور محکوم سب ایک ہی ملک کے رہنے والے ہیں۔ پس اگر وہ اپنی ہی رعایا کا سر کچلنے لگے تو یہ امر حکومت کی طاقت کے بڑھانے کا موجب نہیں ہوسکتا۔ جو ہاتھ دوسرے ہاتھ کو کاٹتا ہے وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی جڑ پر تبر رکھتا ہے۔ یہ اہالیان کشمیر ہی ہیں جو ہزہائی نس مہاراجہ کی عزت کا موجب ہیں ان کو اپنے ہم|عصروں میں عزت اسی سبب سے ہے۔ کہ ان کی رعایا میں ۳۶ لاکھ افراد ہیں۔ اور اگر وہ افراد ذلیل ہیں تو یقیناً ان کی عزت اتنی بلند نہیں ہوسکتی جتنی بلند کہ اس صورت میں کہ وہ افراد معزز ہوں۔ پس ادنیٰ ترین کشمیری ریاست کشمیر کی شوکت کو بڑھانے والا ہے۔ اور وہ حکام جو اس کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کی عزت پر نہیں بلکہ ریاست کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اس نازک موقعہ پر انہیں صبر اور تحمل سے کام لینا چاہئے۔ اور رعایا کے صحیح جذبات سے ہزہائی نس کو آگاہ رکھنا چاہئے کہ وفاداری کا یہی تقاضا ہے اور خیر خواہی کا یہی مطالبہ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہزہائی نس کو اپنی رعایا سے رحم اور انصاف کی اور حکام کو دیانتداری اور ہمدردی کی اور پبلک کو سمجھ اور عقل کی توفیق دے تاکہ کشمیر جو جنت نظیر کہلاتا ہے۔ جنت نہیں تو اپنے ان باغوں جیسا تو دلکش ہوجائے۔ جن کی سیر کرنے کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین۔
خاکسار میرزا محمود امام جماعت احمدیہ۔ قادیان
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ
کے بعض نہایت اہم غیر مطبوعہ مکتوبات
مکتوب )۱( الفیض لاہور۔ ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۱ء۔
مکرمی درد وغزنوی صاحب۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ آپ لوگوں کے کام سے نہایت خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ کامیاب فرمائے۔ میں نے کل تار دیا تھا کہ بدھ تک کام بند کر دیں۔ جواب بھی مل گیا ہے۔ اس عرصہ میں احرار نے اعلان کیا ہے کہ جیون لال کی تار آئی ہے کہ میں آپ لوگوں سے ملنے کے لئے آرہا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکام دو طرفہ چال چل رہے ہیں۔ میں نے صاف کہ دیا ہے کہ معاملہ کو صاف کریں۔ واللہ اعلم کیا بات ہے۔ ابھی ان کا پیغام آیا ہے کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ جیون لال وہاں سے چلے ہیں۔ وہ اب تک وہیں ہیں۔
کل کی تار کا موجب وزیراعظم کی تار تھی کہ تقریریں رکوائیں۔ رات کو یہ سمجھوتہ ہوا تھا کہ میں جائوں اور میری موجودگی میں نمائندوں سے ریاست فیصلہ کرے اور ابتدائی حقوق کا اعلان کرے۔ اور کمشن میں مناسب تبدیلی کرے۔ لیکن جب میں صبح اس غرض سے آدمی بھیجنے والا تھا تو وہ دوست جن کی معرفت کام ہو رہا تھا آئے اور خواہش ظاہر کی کہ مہاراجہ صاحب سردی سے تکلیف میں ہیں۔ وقت لمبا کر دیا جائے وہ جموں تشریف لے آئیں تو آسانی ہو گی۔ میں نے کہا کہ بغیر اس کے کہ حقوق کا اعلان ہو اور معیاد بڑھانے کو تیار نہیں۔ جموں ہمارے لئے مضر ہے کہ وہاں ہندوئوں کا زور ہے انہوں نے کہا کہ وہ کون سے امور ہیں جن کا اعلان ضروری ہے۔ میں نے وہ امور لکھوا دیئے اس پر انہوں نے کہا کہ اگر وہ نہ مانیں۔ میں نے جواب دیا کہ پھر ریاست سے مقابلہ ہو گا۔ اور کہا ہاں وہ تبدیلیاں پیش کریں تو بے شک میں غور کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مہاراجہ خود بلا کر نمائندوں سے کہیں کہ کچھ دن کی اور مہلت دے دو۔ میں نے کہا کہ اس میں ان کی فتح ہے۔ میں سفارش کروں گا کہ کچھ دن اور بڑھا دو باقی اپنی مصلحت وہ خود سمجھ سکتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر یوں ہو کہ کچھ مہلت مل جائے اور اس عرصہ میں وقت مقرر ہو کر راجہ ہری کشن کول صاحب باہر آکر آپ سے ملیں۔ میں نیے کہا کہ مجھے ان سے ملنے کا شوق نہیں۔ اصل سوال تو اہل کشمیر کے خوش ہونے کا ہے اگر وہ ساتھ ہوں اور خوش ہو جائیں تو مجھے کچھ اعتراض نہیں اس پر وہ تینوں تجویزیں لے کر گئے ہیں۔ لیکن جیون لال صاحب کی تار نے اور آپ کی تار نے شبہ ڈال دیا ہے اس لئے آپ لوگ بھی ہوشیار رہیں۔
گلنسی صاحب کے متعلق الگ ہدایات میں ذکر کروں گا۔ نہایت مخفی بات ہے۔ احرار باہر یہ مشہور کررہے ہیں کہ قادیانی پروپیگنڈا کی وجہ سے ہمیں آنا پڑا۔ لیڈروں نے روپیہ کھا لیا ہے اور مصنوعی تاریں دلوا رہے ہیں کہ نمائندوں پر ہمیں اعتبار نہیں آپ لوگ اس سے بھی ہوشیار رہیں۔ خاکسار مرزا محمود احمد۔
)اوپر جن تجاویز کا ذکر آیا ہے۔ ان کا مسودہ حضور کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے(
عارضی معاہدہ کی شرائط
۱۔
میرپور` کوٹلی` راجوری` کشمیر و پونچھ وغیرہ کے فسادات کے متعلق ایک کمیشن جس میں ایک جج مسلمان ایک ہندو اور ایک انگریز ہو مقرر کر دیا جائے۔ ایسے جج ہوں جن پر فریقین کو اعتماد ہو۔
۲۔
ان علاقوں میں فوراً کم سے کم پچاس فیصدی افسر یعنی وزیر وزارت` سپرنٹنڈنٹ پولیس` انسپکٹران پولیس` مجسٹریٹ درجہ اول و دوم مسلمان مقرر کر دیئے جائیں اور موجودہ تمام افسر وہاں سے بدل دیئے جائیں۔ گورنر کشمیر کو بھی وہاں سے فوراً بدل دیا جائے۔
۳۔
قانون` پریس اور ایسوسی ایشن انگریزی اصول پر فوراً جاری کر دئے جائیں` قانون` آزادی تقریر ابھی جاری ہو جائے۔ لیکن اگر اس کا اجرا دو تین ماہ کے لئے بعض قیود کے ماتحت ہو تو معقول قیود پر اعتراض نہ ہو گا۔
۳۔
۷۵ معاملہ وکاہ چرائی و ٹیکس درختاں وغیرہ کے متعلق ایک کمشن مقرر کرکے مزید کمی کی جائے اور جہاں مناسب چراہ گاہیں نہیں وہاں کاہ چرائی کا ٹیکس بالکل اڑا دیا جائے جہاں چراگاہیں ہیں وہاں اس میں معقول تخفیف کی جائے۔
۴۔
معاملہ کے لگانے میں جو زیادتیاں اور بے قاعدیاں ہوئی ہیں اور مسلمانوں پر زائد بوجھ ڈالا گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے۔
۵۔
جن جن علاقوں کے لیڈر سول نافرمانی بند کرنے کا اعلان کریں اور جہاں لوگ معاملہ دینے لگ جائیں یا دے چکے ہوں وہاں سے آرڈنینس ہٹا دیا جائے۔ بعض افراد کے جرم قوم کی طرف منسوب نہ ہوں کثرت دیکھی جائے کہ کدھر ہے۔
۶۔
چونکہ مسلمانوں کو واقع میں روپیہ نہیں ملتا۔ جن لوگوں کے پاس روپیہ نہیں معقول شرائط پر معاملہ کی ادائیگی کے لئے انہیں قرض دلوایا جائے۔ ورنہ جب ان کے پاس ہو ہی نہ تو انہیں مجرم قرار نہ دیا جائے۔
۷۔
فیصلہ کر دیا جائے کہ دس سال کے عرصہ میں کم سے کم پچاس فیصدی افسر اور ماتحت عملہ قریباً مسلمانوں میں سے مقرر کیا جائے گا اور اس کے لئے ایسے قواعد تجویز ہو جائیں کہ اس فیصلہ پر عمل ہونا یقینی ہو جائے۔
۱۰۔
۷۶ جو سیاسی قیدی اس سمجھوتہ پر دستخط کر دیں ان کو رہا کر دیا جائے اور جن ملزموں کے متعلق مسلمانوں کو شبہ ہو کہ ان کا اصل جرم سیاسی ہے صرف ظاہر میں کوئی اور الزام لگایا گیا ہے ان کے کیس پر غور کرنے کے لئے ایک ایسا جج جس پر مسلمانوں کو اعتماد ہو مقرر کیا جائے۔
۱۱۔
جو مستقل مطالبات ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مسلمان نمائندوں کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں۔ ان کے متعلق چھ ماہ کے اندر ریاست اپنا آخری فیصلہ شائع کر دے۔
مکتوب نمبر ۲: مکرمی درد صاحب۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ ایک خط ابھی غزنوی صاحب کو لکھا ہے اس کے ضروری مطالب سے وہ آپ کو آگاہ کر دیں گے۔ جموں کے واقعات سخت قابل افسوس ہیں۔ بالا بالا کام سے سب کوشش کے تباہ ہونے کا اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اگر اس طرح ایک جگہ کام شروع نہ کیا جاتا تو اس طرح بے دردی سے حملہ کرنے کی ریاست کے عمال کو جرات نہ ہوتی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نظام کی پابندی کی توفیق دے۔
سیاہ نشان کے پروگرام کے متعلق اطلاع نہیں ملی۔ اس طرح کشمیر کے لوگوں کی حقیقی تعداد کا جو اس تحریک سے دلچسپی لیتی ہے خوب پتہ لگ جاتا اور دلوں میں ہر وقت آزادی کی لہر دوڑتی رہتی نہ معلوم ابھی تک عمل شروع ہوا یا نہیں۔ یہ پروگرام بہترین تعمیری پروگرام ہے اور ایک رنگ میں مردم شماری۔ کیونکہ ہر سیہ نشان لگانے والا بغیر ایک لفظ بولنے کے اپنے مقصد کی تبلیغ بھی کرتا اور دوسرے ایک نظر سے معلوم ہوسکتا کہ کس حد تک لوگ ہمدردی رکھتے ہیں۔ گویا دل بھی مضبوط ہوتے۔ پروپیگنڈا ہوتا۔ اپنوں کو اپنے اثر کا علم ہوتا اور ریاست پر رعب پڑتا۔ اگر عمل نہیں ہوا تو اب توجہ دلائیں۔ ظاہری نشانات باطنی حالتوں پر خاص روشنی ڈالتے ہیں۔
کل آپ کی تار قانونی امداد کے متعلق ملی ہے۔ پہلے لکھ چکا ہوں کہ قانونی امداد تیار ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے۔ )۱( مقدمات کب شروع ہوں گے۔ )۲( کوشش ہو کہ ایک مجسٹریٹ متواتر سنے۔ )۳( کمشن کا اس وقت تک بائیکاٹ ہو جب تک پہلے کمشن کی رپورٹ رد نہ ہو اور نئے کمشن کو مسلمانوں کی مرضی کے مطابق نہ بنایا جائے۔ ورنہ دوسرا کمیشن بھی مضر ہو گا۔ اور جب تک مسلمانوں کی مظلومیت ثابت نہ ہو کانسٹی چیوشنل کمشن پر زور سفارش نہیں کر سکتا۔
اساسی کمیشن کا بھی اس وقت تک بائیکاٹ ہونا چاہئے جب تک اس کی ہیت ترکیبی درست نہ ہو۔ پس بغیر ان امور کے تصفیہ کے آپ وکیل کیوں طلب کر رہے ہیں یہ سمجھ میں نہیں آیا بہرحال دوستوں کو یقین دلائیں کہ انشاء اللہ وکلاء پہنچ جائیں گے )آپ وزیراعظم سے مل کر یہ کوشش کریں کہ ایڈووکیٹ اور بیرسٹر کے بغیر بھی دوسرے وکلاء کو اجازت مل جائے۔ اس میں سہولت رہے گی(۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاکسار مرزا محمود احمد
مکتوب نمبر ۳: مکرمی و معظمی راجہ سر ہری کشن صاحب کول۔ آپ کا خط مجھے ملا۔ اگر ہزہائی نس مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر خیال فرماتے ہیں کہ میری ملاقات سے کوئی بہتر صورت پیدا ہو سکتی ہے اور امن کے قیام میں مدد مل سکتی ہے تو مجھے ان کی ملاقات کے لئے کسی مناسب مقام پر آنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ میں بڑی خوشی سے اس کام کو کروں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا فائدہ مہاراجہ صاحب کے منشاء پر منحصر ہے۔ کیونکہ فائدہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر مہاراجہ صاحب مجھ سے اس امر پر گفتگو کرنے کو تیار ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات میں سے کون سے ایسے امور ہیں جن کے متعلق خود مہاراجہ صاحب اعلان کر سکتے ہیں اور کون سے ایسے امور ہیں جن کا اصولی تصفیہ اس وقت ہو سکتا ہے لیکن ان کی تفصیلات کو گلنسی کمیشن کی رپورٹ تک ملتوی رکھنا ضروری ہے اور کون سے ایسے امور ہیں کہ جن کے لئے کلی طور پر گلنسی کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے۔ اگر مہاراجہ صاحب اس قسم کی گفتگو کرنے پر تیار ہوں اور اس امر کو پسند فرما لیں کہ وہ کسی مناسب مقام پر جیسے چھائونی سیالکوٹ میں تشریف لے آئیں تو میں چند ممبران کشمیر کمیٹی کو ہمراہ لے کر وہاں آجائوں گا تاکہ جو گفتگو ہو میں فوراً اس کے متعلق ممبروں سے گفتگو کر لوں اور فیصلہ بغیر ناواجب دیر کے ہو سکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا انتظام ہو گیا تو یقیناً ریاست اور مسلمانوں دونوں کے لئے مفید ہو گا۔ کیونکہ میرا یا میرے ساتھیوں کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ فساد پھیلے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی صورت پیدا ہو جائے۔ اس صورت میں ہم پوری طرح امن کے قیام کے لئے کوشش کریں گے۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
مکتوب نمبر ۴: مکرمی راجہ سر ہری کشن کول صاحب۔ آپ کا خط مورخہ ۳۱/ دسمبر ۱۹۳۱ء ملا۔ جس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ چونکہ مقدم چیز یہ ہے کہ ہزہائی نس مہاراجہ صاحب سے میری ملاقات کوئی مفید نتیجہ پیدا کرے۔ اس لئے سردست میں ملاقات کی جگہ کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوں اور اصل سوال کو لیتا ہوں جو مسلمانوں کے حقوق کے تصفیہ کے متعلق ہے۔ اگر ان امور کے متعلق ہزہائی نس مہاراجہ صاحب ہمدردانہ طور پر غور فرمانا چاہیں تو میں انشاء اللہ پوری کوشش کروں گا کہ مناسب سمجھوتہ ہو کر ریاست میں امن قائم ہو جائے۔
مسلمانان کشمیر کے مطالبات کے جواب میں جو اعلان ہزہائی نس مہاراجہ بہادر نے ۱۲/ نومبر ۱۹۳۱ء کو فرمایا وہ بحیثیت مجموعی بہت قابل قدر تھا۔ اور اسی لئے مسلمانان کشمیر اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اس کے متعلق قدردانی اور شکریہ کا اظہار کیا۔ مگر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے جو مطالبات ریاست کے سامنے نمائندگان نے پیش کئے تھے ان میں نو امور ایسے تھے جن کے متعلق ان کا مطالبہ تھا کہ ان کا مناسب فیصلہ فوراً کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے متعلق فوری فیصلہ کرنے میں کوئی روک نہیں۔ اور وہ ہرگز کسی قسم کے کمشن کے قیام کے محتاج نہیں ہیں۔ مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ اب تک ان مطالبات کے متعلق کوئی کارروائی اس رنگ میں نہیں ہوئی کہ مسلمانوں کی تسلی کا موجب ہو۔
سب سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ جن حکام نے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچایا ہے انہیں مناسب سزا دی جائے دلال کمیشن حالانکہ مسلمان اس پر خوش نہیں تسلیم کرتا ہے کہ ایک انسپکٹر پولیس نے خطبہ سے امام کو روک کر فساد کی آگ بھڑکائی لیکن اس وقت تک اسے کوئی سزا نہیں دی گئی اور نہ اس شخص کو جس نے قرآن کی ہتک کی تھی کوئی سزا دی گئی۔ اس کا ریٹائر ہونا طبعی وقت پر ہوا ہے اور وہ کوئی سزا نہیں۔
دوسرا مطالبہ جو مقدس مقامات کے متعلق تھا وہ ایک حد تک پورا ہو رہا ہے۔ لیکن اول تو ابھی بہت سے مقدس مقامات واگزار ہونا باقی ہیں۔ علاوہ ازیں جو مسجد واگزار کی گئی ہے۔ یعنی پتھر مسجد وہ ایسی خراب حالت میں ہے کہ مسلمانوں پر اس کی مرمت کا بوجھ ڈالنا ایک سزا ہو گا۔ اس کے متعلق ضروری ہے کہ مسجد کے گرد کا علاقہ بھی اگر اب تک واگزار نہیں ہوا۔ واگزار کیا جائے۔ نیز ریاست کو چاہئے کہ مسجد کی مرمت کے لئے بھی ایک معقول رقم دے تاکہ مسجد کے احترام اور تقدس کے مطابق اس کی واجبی مرمت کروائی جا سکے۔
تیسرا مطالبہ بھی مکمل طور پر پورا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بعض ایسے ملازم ہیں کہ جن کو گواہیاں دینے یا مسلمانوں کی ہمدردی کے جرم میں دور یا خراب مقامات پر تبدیل کر دیا گیا ہے اور ابھی تک انہیں اپنے مقامات پر واپس نہیں لایا گیا۔
چوتھا مطالبہ تازہ فسادات میں مقتولوں کے وارثوں اور زخمیوں کو معاوضہ اور گزارہ دینے کا تھا۔ جہاں تک مجھے بتایا گیا ہے اس کو بھی اب تک عملاً پورا نہیں کیا گیا اور اکثر غرباء اب تک فاقوں مر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ کام جس قدر جلد ہوتا خود ریاست کے حق میں مفید ہوتا اور رعایا کے دلوں میں محبت پیدا کرنے کا موجب۔
مطالبہ نمبر ۵ کے متعلق بھی مناسب کارروائی نہیں ہوئی اور اب تک بعض سیاسی قیدی جیسے میاں عبدالقدیر قید ہیں۔ اگر ہزہائینس ایسے قیدیوں کو چھوڑ دیں تو یقیناً اچھی فضا پیدا ہو جائے گی۔
مطالبہ نمبر ۶ کے متعلق کمیشن بیٹھ چکا ہے اور اس کے لئے ہم ریاست کے ممنون ہیں۔
مطالبات نمبر سات آٹھ نو درحقیقت ایسے مطالبات ہیں کہ جن کا مسلمانوں کے حقیقی مفاد سے تعلق ہے۔ بلکہ سات اور نو کا ریاست کی تمام رعایا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ان میں سے نو کے سوا دوسرے دونوں مطالبات کو ابھی عملاً پورا نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ان کے فوری طور پر پورا ہونے میں کوئی مشکل نہ تھی۔ ریاست اور انگریزی علاقہ میں اس بارہ میں ایک سے حالات ہیں اور جو قانون انگریزی علاقہ میں ہے کوئی وجہ نہیں کہ ریاست میں وہ فوراً جاری نہ ہو سکے۔
مطالبہ نمبر ۷ کے متعلق سنا گیا ہے کہ مسٹر گلنسی رپورٹ کر چکے ہیں کہ پریس اور انجمنوں اور تقریر کی آزادی دی جائے۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ امر اور بھی قابل افسوس ہے کہ اب تک اس کے متعلق فیصلہ نہ کرکے فضا کو خراب ہونے دیا گیا ہے۔
مطالبہ نمبر آٹھ بھی ایسا مطالبہ ہے کہ جس کے متعلق انگریزی حکومت کو جہاں ہندو آبادی کی اکثریت ہے ایک فیصلہ کر چکی ہے اگر اس قانون کو ریاست کشمیر میں کہ جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے جاری کر دیا جائے تو اس میں کوئی ہرج نظر نہیں آتا۔
مطالبہ نمبر نو کے متعلق ہز ہائینس نے مہربانی فرما کر یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ اپنی رعایا کو زیادہ سے زیادہ حکومت میں حصہ لینے کا موقعہ دیں گے۔ لیکن یہ الفاظ اصل مطالبہ پر حاوی نہیں۔ ہزہائینس کی رعایا کا مودبانہ مطالبہ یہ تھا کہ حکومت کے انتظام کی ترتیب ایسی ہو کہ آہستہ آہستہ حکومت نمائندہ ہو جائے۔ ہز ہائینس مہاراجہ صاحب بہادر کے وعدہ کے الفاظ ایسے ہیں کہ اگر صرف ملازمتیں مسلمانوں کو زیادہ دے دی جائیں تو ان الفاظ کا مفہوم ایک گو نہ پورا ہو جائے گا۔ حالانکہ اصل مطالبہ اور ہے۔ پس اگر اس امر کی تسلی دلا دی جائے کہ ASSOCIATION> <INCREASING سے مراد نمائندہ حکومت کے اصول پر حکومت کو قائم کرنا ہو گا۔ خواہ اس کی پہلی قسط آخری قسط کو پورا کرنے والی نہ ہو تو یہ امر یقیناً رعایا کی تسلی کا موجب ہو گا۔
مطالبات کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں یہ زائد کرنا چاہتا ہوں کہ بعض حالات ان مطالبات کے تیار ہونے کے بعد حوادث زمانہ کی وجہ سے یا ریاست کے بعض اعلانات کی وجہ سے نئے پیدا ہو گئے ہیں ان کے متعلق ہمدردانہ غور بھی ضروری ہے کیونکہ ان کے تصفیہ کے بغیر فساد کا مٹنا مشکل ہے۔
سب سے پہلا سوال زمینداروں کی اقتصادی حالت تباہ ہو جانا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ریاست جموں کی سرحد اس حکومت سے ملتی ہے جس نے اس زمانہ میں جموریت کا ایک نیا مفہوم پیدا کیا ہیے اور اس سے تمام دنیا میں ہیجان پیدا ہو گیا ہے۔ زمینداروں کی موجودہ تباہی نے ان خیالات کو رائج کرنے میں بے انتہا مدد دی ہے۔ انگریزی حکومت نے باوجود قیام امن کی خاطر کثیر رقوم خرچ کرنے کے اس وقت زمینداروں کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ ریاست جموں نے بھی اپنے مالیہ میں تخفیف کی ہے۔ لیکن وہ تخفیف بہت کم ہے۔ زمیندار پر جو بار ریاست میں اس وقت ہے وہ انگریزی علاقہ کے زمیندار کے بار سے بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ جو قیمت انگریزی علاقہ کے زمیندار کو اپنی پیداوار پر ملتی ہے اس سے بہت کم ریاست کے زمیندار کو اپنی پیداوار پر ملتی ہے۔ پس ان حالات کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر ریاست ایک سال کے لئے عارضی طور پر جب تک کہ گلنسی کمیشن کی رپورٹ پیش ہو کہ اس پر غور کیا جا سکے۔ ریاست کے زمینداروں کا بار تمام ٹیکسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی علاقہ کے بار کے مطابق کم کر دے تو نہ صرف یہ ایک انصاف کا کام ہو گا بلکہ اس سے رعایا اور راعی کے تعلقات کے درست ہونے میں یقیناً بہت کچھ مدد ملے گی۔
دوسرا تغیر جو بعد کے حالات سے پیدا ہوا ہے وہ جموں اور میر پور کے سیاسی قیدیوں کا سوال ہے۔ جب گاندھی ارون پیکٹ ہوا تھا تو تمام سیاسی قیدی حکومت برطانیہ نے بغیر کوئی معاہدہ لینے کے چھوڑ دیئے تھے۔ ریاست نے رعایا سے صلح تو کی لیکن قیدیوں کو نہیں چھوڑا اس کی وجہ سے ان قیدیوں کے دوستوں اور ساتھیوں کا دبائو لیڈروں پر پڑ رہا ہے اور تعاون کی کارروائی پوری طرح نہیں ہو سکتی۔ میرے نزدیک یقیناً ریاست کا اس میں فائدہ ہے کہ وہ ان قیدیوں کو چھوڑ دے۔ اگر وہ لوگ نئی فضا سے فائدہ نہ اٹھائیں تو انہیں پھر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اور اس وقت یقیناً رعایا کا سمجھدار طبقہ ریاست کے ساتھ ہو گا۔
ایک نیا تغیر گلنسی کمیشن کے قیام کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس کی موجودہ ترکیب سے مطمئن نہیں لیکن جو کچھ پہلے ہو چکا وہ تو خیر ہو چکا آئندہ ایک نئی کمیشن قانون اساسی کے متعلق مقرر کی جائے گی۔ اس کی ترکیب سے پہلے مسلمانوں کے احساسات کو معلوم کرکے ان کا خیال رکھ لینا ضروری امر ہے۔
دلال کمیشن کے مسلمان مخالف تھے لیکن دلال کمیشن کی رپورٹ کا جو حصہ مفید تھا اب تک اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ یعنی )۱( مسلمانوں کی ملازمتوں کے متعلق کوئی معین احکام جاری نہیں ہوے۔ )۲( اس قسم کے غیر تعلیم یافتہ افسروں کو جن کے بے فائدہ ہونے کے متعلق کمیشن نے رائے ظاہر کی تھی اب تک ہٹایا نہیں گیا۔
یہ جملہ امور ایسے ہیں کہ جن پر گفتگو ہو کر کسی مفید نتیجہ کی امید ہو سکتی ہے اور اگر ہزہائینس ان کے متعلق تبادلہ خیال کا مجھے موقع دیں تو میں ہز ہائینس کی ملاقات کو ایک مبارک بات سمجھوں گا جس سے لاکھوں آدمیوں کے فائدہ کی امید ہو گی۔ اور اگر کوئی مفید صورت نکلے تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سامنے اس )کا(۷۷ نتیجہ رکھ کر کوشش کروں گا کہ کوئی ایسی صورت نکلے جس سے جلد سے جلد امن قائم ہو سکے۔ لیکن اگر ہزہائینس کسی مصلحت کی وجہ سے ان امور پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں تو محض ایک رسمی ملاقات باوجود اس ادب و احترام کے جو میرے دل میں ہزہائینس کا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی۔
میں خط ختم کرنے سے پہلے یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ ہر امر جس صورت میں نمائندوں نے پیش کیا ہے اسی صورت میں اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے۔ وہ صرف ایک بنیاد ہے لیکن اگر کوئی ایسی راہ نکل آئے جو رعایا کے حقوق کی حفاظت کرتی ہو اور ساتھ ہی والئی ملک کے احساسات اور ریاست کے حقیقی مفاد بھی اس میں ملحوظ رہتے ہوں تو ایسے تصفیہ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور میں ایسے تغیرات کو ملک سے منوانے میں ہر طرح ہزہائینس کی حکومت کی امداد کروں گا۔][میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہزہائینس کو ایسا مشورہ دیں گے کہ کوئی راہ ملک میں قیام امن کی نکل آئے گی۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک ایجی ٹیشن کے جاری رہنے کے بعد ایک طبقہ کو ایجی ٹیشن کی عادت ہی نہ پڑ جائے۔ جس کے بعد کوئی حق بھی ایسے لوگوں کو تسلی نہیں دے سکتا۔ یہ حالت ملک اور حکومت دونوں کے لئے نہایت خطرناک ہوتی ہے اور عظیم الشان انقلابات کے بغیر ایسی حالت نہیں بدلا کرتی۔ اللہ تعالیٰ ایسے ناگوار تغیرات سے مہاراجہ صاحب بہادر اور ان کی رعایا کو محفوظ رکھے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد ۳۲/۱/۳۱
مکتوب نمبر ۵: مکرمی ماسٹر محمد الدین صاحب۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ سید ولی اللہ شاہ صاحب بیمار ہیں اور درد صاحب وائسرائے کے ڈیپوٹیشن کے انتظام میں ہیں۔ یہ دونوں صاحب کشمیر کا کام کیا کرتے تھے اس لئے ایک ضروری امر کے لئے جس کا پیچھے ڈالنا مصلحت اور ضرورت کے خلاف ہے آپ کو تکلیف دیتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔ کا علاقہ )نام پوری طرح حافظہ میں نہیں ہے( جموں کی ریاست کا حصہ ہے اور ٹھیکہ پر پونچھ کو ملا ہوا ہے اس علاقہ کے لوگوں کی حالت ریاست کشمیر سے بھی خراب ہے۔ پونچھ کے لوگوں کو جو آزادیاں ہیں مثلاً بعض اقوام کو کاہ چرائی معاف ہے اس سے یہ لوگ محروم ہیں کہ تم جموں کے باشندے ہو۔ جموں میں درختوں وغیرہ کے متعلق جو میر پور کی تحصیل کو آزادی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس سے انہیں محروم رکھا جاتا ہے کہ تم پونچھ کے ماتحت ہو۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ پونچھ سے مال جموں میں لاتے وقت ریاست پونچھ ان سے کسٹمز وصول کرتی ہے۔ اور جب جموں میں آتے ہیں تو پھر درآمد کا ٹیکس انہیں دینا پڑتا ہے۔ اس طرح باہر سے لانے والے مال پر پہلے جموں والے اور پھر پونچھ والے کسٹمز لیتے ہیں حالانکہ یہ اصل میں جموں سے وابستہ ہیں اور کسٹم کی چوکیاں پونچھ میں ہونی چاہئے تھیں۔ جموں کے علاقہ میں مال لانے یا وہاں سے لے جانے پر کوئی ڈیوٹی نہیں ہونی چاہئے تھی۔
اس تکلیف سے گھبرا کر ان لوگوں نے پروٹسٹ کیا اور حسب قواعد میر پور جس کے ساتھ اصولاً یہ وابستہ ہیں۔ بعض درخت کاٹے اور بوجہ جموں ریاست کے باشندے ہونے کے ڈیوٹی دینے سے انکار کیا تو موجودہ شورش سے فائدہ اٹھا کر ان لوگوں کے فعل کو پونچھ کی حکومت نے سول نافرمانی قرار دیا۔ حالانکہ انہوں نے حکومت جموں کے جس کے یہ باشندے ہیں قانون نہیں توڑے۔ بلکہ ان پر اس کے مطابق عمل کیا۔ زیادہ سے زیادہ ان پر دیوانی نالشیں کرکے حکومت کو اپنا حق ثابت کرنا چاہئے تھا۔
پھر ان پر یہ ظلم ہے کہ یہ جموں کے باشندے ہیں وہیں ان کی رشئتہ داریاں ہیں۔ لیکن باوجود جموں کے ساتھ وابستہ ہونے کے ان کے مقدمات پونچھ میں سنے جاتے ہیں۔ حالانکہ زمینداری اگر ٹھیکے پر دے دی جائے تو یہ کسی حکومت کو حق نہیں کہ اپنی رعایا کے سول حقوق کسی اور حکومت کو دیدے۔ یہ بیل گائے نہیں ہیں کہ ان سے ایسا سلوک روا رکھا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسٹر کالون نے ان لوگوں کو مسٹر جارڈین کے پاس شکایات سنانے کو بھیجا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس بناء پر کہ یہ علاقہ جموں میں نہیں پونچھ میں ہے حالانکہ حقیقتاً یہ جموں کا علاقہ ہے۔
آپ نے ان امور کو مسٹر کالون پر روشن کرکے یہ کوشش کرنی ہے کہ اس ردعمل کو دور کیا جائے۔ اگر پونچھ کو جموں نے امداد دینی ہے تو روپیہ دے لیں۔ یہ لوگ اپنے فروخت کئے جانے پر راضی نہیں۔ )۱( ان کے مقدمات جموں کورٹس میں ہوں۔ )۲( کسٹمز جموں اور اس کے علاقہ کے درمیان میں نہ ہوں بلکہ پونچھ کی کسٹمز کی چوکیاں ان کے علاقہ کے پرے پونچھ کے علاقہ میں ہوں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ پونچھ کے علاقہ سے ان کے علاقہ میں مال لانے یا وہاں لے جانے پر کسٹمز لی جائیں۔ )۳( اس وقت جو مقدمات خواہ مخواہ سول نافرمانی کے اٹھائے گئے ہیں۔ محض اس وجہ سے کہ پونچھ دربار اور جموں دربار میں جھگڑا ہے اور یہ لوگ جموں کے ساتھ ہیں۔ ان مقدمات کے سننے کے لئے عارضی طور پر جموں سے جج جائیں اور اپیل جموں کورٹ میں ہو۔ )۴( کوئی انگریز افسر مسٹر لاتھر یا مسٹر جارڈین یا اور کوئی افسر ریاست کا خواہ انگریز نہ ہو ان امور کی تحقیق کے لئے جائے اور علاقہ کے لوگوں کو سب حالات اور ثبوت اس کے پاس پیش کرنے کی اجازت ہو۔ سرسری کارروائی نہ ہو۔ )۵( اس وقت تک مقدمات کی کارروائی ملتوی رہے۔
مسٹر کالون کے علاوہ ریذیڈنٹ سے بھی ملیں اور اسے یہ وجہ بتائیں کہ چونکہ یہ جھگڑا دو درباروں میں ہے جو دونوں آپ کے ماتحت ہیں اس لئے ہم آپ کے پاس آئے ہیں آپ ان واقعات کو دیکھ لیں کہ ناقابل برداشت ہیں۔ اس علاقہ میں گویا کوئی بھی حکومت نہیں۔ یہ اپنے حق کسی سے بھی مانگ نہیں سکتے۔ نہ ملازمتوں کا راستہ ان کے لئے پوری طرح کھلا ہے۔
کوشش کرکے مسٹر گلینسی کو بھی ملیں اور انہیں بھی سب حالات بتا کر مشورہ لیں۔ وہ آئندہ وزیر ریاست ہائے حکومت ہند میں ہونے والے ہیں۔
)۲( دوسرا امر ایک اور ہے اس کی تشریح کے لئے ایک خط بھجوا رہا ہوں اسے پڑھ لیں۔ اس کے متعلق بھی مسٹر کالون وزیراعظم ریاست جموں اور ریزیڈنٹ کو ملیں۔ اس بارہ میں اول بدعنوانی ہوئی ہے۔ کہ جموں کی رعایا پر پونچھ والوں نے چھاپہ مارا ہے اور پھر انہی پکڑ کر لے گئے ہیں۔
دوم۔ ان لوگوں نے ہندوئوں کو پناہ دی اور فساد کے وقت انہیں بچایا۔ لیکن الٹا ان پر ظلم کیا جارہا ہے۔
کہیں کہ اس بارہ میں ہم بحیثیت جماعت پروٹسٹ کرتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں کی مدد کریں اور اگر اس قدر ظلم ریاست نے روا رکھا اور فوراً تحقیق کرکے شریروں کو سزا نہ دی تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ آئندہ ہماری جماعت بھی بجائے فسادات سے بچنے کے ان میں حصہ لے۔۔۔۔۔۔ ظلم ہو رہا ہے اور ریاست کے اعلیٰ حکام کوئی خبر نہیں لیتے۔ اس بارہ میں بھی پریذیڈنٹ سے ذکر کریں۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد۔
مکتوب نمبر ۶: مولوی جلال الدین صاحب۔ السلام علیکم۔ گوہر الرحمن صاحب کا جرمانہ اب تک ادا نہیں ہوا اس وجہ سے ان کی قید بڑھ جانے کا اندیشہ ہے اس کی طرف فوری توجہ کریں۔ قاضی صاحب کی مراد دو سو ہے ایک سو گھر کے لئے اور ایک سو جرمانہ کی معلوم ہوتی ہے۔ اس حساب سے روپیہ ارسال کر دیا جائے۔
مرزا محمود احمد
۳۲/۶/۲۵ خلیفتہ المسیح الثانی
‏tav.5.40
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل ششم(
>آل جموں و کشمیر مسلم پولٹیکل کانفرنس< کی بنیاد
مسلم کانفرنس کے قیام کی تحریک
ریاست میں سیاسی انجمنوں پر پابندی تھی مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریک آزادی کشمیر کی باگ ڈور سنبھالتے ہی مسلمانان کشمیر کی اندرونی تنظیم کی طرف پوری توجہات مبذول کر دی تھیں اور جونہی ریاستی حالات میں کچھ سکون ہوا۔ اور )گلانسی کمیشن کی رپورٹ کے بعد( فضا سازگار ہوئی۔ آپ نے ایک مطبوعہ مکتوب۷۸ )برادران کشمیر کے نام آٹھواں خط( میں اہل کشمیر کو خاص طور پر تحریک فرمائی کہ >ایک ضروری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہندوئوں نے بھی ایجی ٹیشن شروع کیا ہے۔ اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو جو تھوڑے بہت حقوق ملے ہیں۔ وہ بھی انہیں حاصل رہیں۔ اگر اس موقعہ پر مسلمانوں نے غفلت سے کام لیا۔ تو ہندو یقیناً اپنا مدعا حاصل کر لیں گے پس اس وقت ضرورت ہے کہ مسٹر عبداللہ کی عدم موجودگی میں ایک انجمن مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بنائی جائے۔ اور وہ انجمن اپنی رائے سے حکومت کو اطلاع دیتی رہے۔ ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن کے اصول پر اگر ایک انجمن تیار ہو تو یقیناً اس کے ذریعہ سے بہت سا کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ مت خیال کریں کہ بغیر اجازت کے انجمن نہیں بن سکتی۔ انجمنوں کی ممانعت کا کوئی قانون دنیا کی کوئی حکومت نہیں بنا سکتی۔ آخر ہندو انجمنیں بنا رہے ہیں آپ کی انجمن نہ خفیہ ہو گی نہ باغیانہ۔ پھر حکومت اس بارہ میں کس طرح دخل دے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان فوراً اس طرف قدم اٹھائیں گے اور اس ضرورت کو پورا کریں گے ورنہ سخت نقصان کا خطرہ ہے۔ اور بعد میں پچھتانے سے کچھ نہ ہو گا<۔
یہ زمانہ مسلمانان کشمیر کے لئے ہر لحاظ سے نہایت نازک زمانہ تھا چنانچہ جناب چوہدری غلام عباس صاحب کا اقرار ہے کہ >اس وقت تک مسلمانوں نے جو کچھ کیا تھا۔ وہ بے سرو سامانی اور افراتفری کی
حالت میں کیا تھا نہ مسلمانوں کا کوئی فنڈ )بیت المال( تھا اور نہ کوئی باقاعدہ ذریعہ آمدن کہ جس سے جماعتی اور قومی امور خوش اسلوبی اور بے فکری سے پورے ہو سکتے۔ قریباً قریباً تمام کارکن نو عمر تھے نہ ان کا کوئی ذاتی سرمایہ تھا اور نہ کوئی ذریعہ معاش<۔۷۹
شیخ محمد عبداللہ صاحب کی ایک درخواست
اس ماحول میں >شیر کشمیر< شیخ محمد عبداللہ صاحب ایم۔ ایس سی مشورہ کرنے اور دوسرے کوائف ریاست بیان کرنے کے لئے لاہور میں حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور واپس سرینگر پہنچ کر ۸/ جولائی ۱۹۳۲ء کو مندرجہ ذیل مکتوب حضور کے نام لکھا۔
۸/ جولائی ۳۲ء SRINAGAR (ALIG) c۔S۔M ۔ABDULLAH ۔M۔S
جناب حضرت میاں صاحب دام اقبالہ!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ میں حضور کی نوازشات کا تہ دل سے مشکور ہوں۔ آج میں لاہور ہوتے ہوئے جموں اور پھر کشمیر واپس جارہا ہوں۔ جیسا کہ میں نے ظاہر کر دیا ہے کہ میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں ایک پولٹیکل کانفرنس کشمیر میں بلوا رہا ہوں۔ اس کے بعد شملہ جانے کا خیال ہے جیسا کہ حضور کو بھی معلوم ہے اگر حضور اگست کے دوسرے ہفتہ میں کشمیر چند دن کے لئے تشریف لے آویں۔ تو کانفرنس کے کامیاب بنانے میں ہمیں بہت امداد مل سکتی ہے۔ بلکہ ضرورت بھی ہے کہ حضور ابھی سے مجھے شملہ جانے اور کانفرنس کے پروگرام کے متعلق تفصیلی ہدایات و تجاویز بھیج کر میری راہنمائی فرماویں مشکور ہوں گا کانفرنس کی معین تاریخ کے متعلق میں حضور کو سرینگر سے مطلع کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ حضور آج سے کانفرنس کے کامیاب بنانے میں سعی فرمائیں گے۔
والسلام
آپ کا تابعدار
عبداللہ
سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ]0 [stfکے ہاتھوں کانفرنس کے انتظامات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خود تو تشریف نہ لے جا سکے۔ مگر آپ نے پہلے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو کانفرنس کے انتظام میں مدد دینے کے لئے سرینگر بھجوا دیا اور
کانفرنس کے پراپیگنڈا کے لئے میر پور` کوٹلی` کٹھوعہ` بھبمر` راجوری` اودھم پور اور ریاسی کو بھی نمائندہ کارکن روانہ کر دیئے۔ اور شیخ محمد عبداللہ صاحب کو لکھا کہ میں جہاں تک ہو سکے گا آپ کی مدد کروں گا۔ مسٹر عبداللہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس خیال سے کہ اس وقت کشمیر میں آپ سے بہتر کوئی اور مخلص کارکن نظر نہیں آتا۔ )مکتوب محررہ ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۲ء(
حضرت شاہ صاحب سرینگر پہنچے یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلی اور بہت بڑی مشکل یہ آن پڑی کہ حکومت کشمیر نے کانفرنس کے انعقاد کی منظور دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت شاہ صاحب مسٹر جارڈین )ریاست کے پولٹیکل منسٹر( سے ملے اور ان سے کہا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کونسل نے شیخ محمد عبداللہ صاحب کی درخواست رد کر دی ہے اور انہیں کانفرنس قائم کرنے کی اجازت نہیں دی کہنے لگے یہ درست ہے۔ شاہ صاحب نے کہا تعجب ہے کہ آپ جیسے مشیر سیاسی کی موجودگی میں یہ فیصلہ ہوا ہو پوچھا کیوں اس میں کیا غلطی ہے آپ نے فرمایا۔ کونسل نے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ لوگ سیالکوٹ جائیں گے۔ اور وہاں کانفرنس قائم کریں گے۔ اور اس طرح یہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ جو غیر آئینی سرگرمیاں کریں گے کہنے لگے آپ کو یقین ہے کہ وہ ایسا کریں گے شاہ صاحب نے جواب دیا مجھے قطعی یقینی ہے۔ ملاقات سے فارغ ہو کر آپ شیخ محمد عبداللہ صاحب کے پاس پہنچے جو ان دنوں بستر علالت پر پڑے ہوئے تھے۔ اور ان سے اور مولوی عبدالرحیم صاحب ایم۔ اے سے مشورہ کرکے شام کو پتھر مسجد میں ایک جلسہ کیا۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ دو ایک تقاریر کے بعد شاہ صاحب نے نظام کی پابندی اور خدمت خلق وغرہ پر اعتماد کرنے کی تلقین فرمائی۔ آخر میں عبدالرحیم صاحب ایم۔ اے )آف سرینگر( نے پبلک کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ حکومت نے انعقاد کانفرنس سے متعلق درخواست ٹھکرا دی ہے۔ اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیالکوٹ میں ایک آفس قائم کیا جائے۔ اور وہیں کانفرنس کی بنیاد ڈالی جائے۔ چاروں طرف سے آوازیں آئیں ضرور ایسا کیا جائے۔ دوسرے روز گورنر سردار عطر سنگھ صاحب۸۰ نے کشیر کمیٹی کے دفتر واقع چنار باغ میں شاہ صاحب کو بلانے کے لئے اپنی کار بھیجی۔ شاہ صاحب ان سے ملے تو انہوں نے کہا کہ کل شام آپ نے بہت عمدہ تقریر کی جو رات ہی کونسل میں پڑھی گئی ہے کونسل اس شرط پر کانفرنس کی اجازت دیتی ہے کہ آپ تحریر ذمہ داری لیں۔ کہ کوئی فساد نہیں ہو گا۔ چنانچہ مسودہ کی عبارت لکھی گئی اور شاہ صاحب نے اس پر دستخط کر دیئے اور کانفرنس کی زور شور سے تیاریاں شروع کر دی گئیں اور ریاست کے چاروں طرف سے نمائندگان کی آمد شروع ہو گئی اس دوران میں )کانفرنس سے دو ایک دن قبل( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد )مع چوہدری ظہور احمد صاحب( بھی تشریف لے گئے۔ اور شاہ صاحب سے مل کر انتظامات کی نگرانی کے علاوہ مسودہ آئین کانفرنس اور اس میں پیش ہونے والی قرار دادوں کی تیاری اور نظر ثانی میں مدد دینے لگے۔
مسلم کانفرنس کا پہلا تاریخی اجلاس
آخر خدا کے فضل و کرم سے آل کشمیر مسلم کانفرنس کا پہلا تاریخی اجلاس پورے تزک و احتشام سے )۱۵/ اکتوبر تا ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۲ء( برابر پانچ روز تک جاری رہا۔۸۱ مقام اجتماع پتھر مسجد تھا جہاں پندرہ فٹ بلند چوبی پلیٹ فارم تعمیر کیا گیا تھا۔ جو دو سو نمائندوں اور ایک سو زائرین اور ممبران استقبالیہ کمیٹی کے لئے کافی تھا۔ پنڈال میں لائوڈ اسپیکر بھی نصب تھا۔ مسلمانان ریاست کا یہ عظیم اجتماع بڑا شاندار اور کامیاب رہا۔ جس میں شیخ محمد عبداللہ صاحب شیر کشمیر نے اپنا فاضلانہ خطبہ صدارت۸۲ پڑھنے کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا۔
>سب سے پہلے میں اپنی طرف سے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے آل کشمیر مسلمز کانفرنس کے مندوبین کو ان قربانیوں پر جو انہوں نے اور ان کے اہل وطن نے کی ہیں۔ اور اس کامیابی پر جو انہوں نے آزادی کی تازہ جدوجہد میں حاصل کی ہے۔ مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے اس بات کا فخر ہے کہ بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی مجھے ان کے ملک کی خدمت کرنے کی خوشی حاصل ہوئی ہے جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک خستہ حالت میں رہا ہے۔
برادران! میں آپ کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ کانفرنس کی کارروائی میں سچی حب الوطنی کے جذبہ کے ماتحت جرات` میانہ روی` رواداری` تشکر دانائی اور تدبر کے ذریعہ آپ ایسے نتائج پر پہنچیں گے جو آپ کے ملک کی ترقی میں بہت ممد ہوں گے اور اسلام کی شان کو دوبالا کرنے والے ہوں گے۔
برادران! میرا آپ کے لئے یہی پیغام ہے کہ جب تک انسان اپنی قوم کے مفاد کے لئے ذاتیات کو فنا نہ کر دے وہ کامیاب خدمت نہیں کر سکتا۔ بلکہ نفاق اور انشقاق پیدا کرتا ہے۔ پس اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو نفسانی خیالات کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دو۔ اور اپنے قلوب کو صاف کرکے قطعی فیصلہ کر دو کہ خالق ہدایت کے تحت آپ ہر چیز اپنے اس مقصد کے لئے قربان کر دیں گے جو آپ نے اپنے لئے مقرر کیا ہے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم یعنی مسلمانان ہندوستان آپ کے مقصد کے لئے جو کچھ ہماری طاقت میں ہے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور خدا کے فضل سے آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ اور امیدوں سے بڑھ کر ہوں گے۔ اور آپ کا ملک موجودہ مصیبت سے نکل کر پھر جنت نشان ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو<۔۸۳
اجلاس میں خوشی اور مسرت کی اس وقت ایک زبردست لہر دوڑ گئی جب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے یہ نہایت خوشکن اعلان کیا۔ کہ راجہ صاحب پونچھ نے مسلمانوں کے بہت سے مطالبات منظور کر لئے ہیں۔ یہ سنتے ہی جلسہ گاہ تالیوں اور >زین العابدین< زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس موقعہ پر آپ نے مسلمانان پونچھ کی داستان مصیبت بیان کی اور انہیں دور کرنے کے لئے راجہ صاحب پونچھ سے اپنی سہ روزہ ملاقات کے حالات بیان کئے جو روز پانچ اور سات گھنٹہ تک جاری رہتی تھی۔ مسلمانان کشمیر نے شاہ صاحب پر پھول نچھاور کئے۔ شاہ صاحب نے اختتام تقریر میں نمائندوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اختلافات ختم کرکے ایک متحدہ محاذ قائم کریں تا کامیاب ہوں۔
حضرت شاہ صاحب کے بعد مفتی ضیاء الدین صاحب نے کشمیر کمیٹی اور بالخصوص اس کے واجب الاحترام صدر )حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ( کی بیش قیمت خدمات کو خراج تحسین ادا کیا۔۸۴ مسلم کانفرنس کے اس پہلے اجلاس میں کانفرنس کا مفصل آئین و دستور مرتب کیا گیا۔ اور ریاست کے طول و عرض میں اس کی شاخوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے اغراض و مقاصد میں خاص طور پر مسلمانان کشمیر کے حقوق و سیاسی مفاد کا تحفظ شامل کیا گیا۔ اور ایک سو ارکان کی ایک جنرل کونسل اور پچاس ارکان کی مجلس عاملہ مرتب کی گئی اور مندرجہ ذیل حضرات بحیثیت عہدیدار منتخب کئے گئے۔
شیخ محمد عبداللہ صاحب )صدر`( چوہدری غلام عباس صاحب )جنرل سیکرٹری`( میاں احمد یار صاحب مظفر آباد` مولوی عبدالرحیم صاحب سرینگر` شیخ عبدالحمید صاحب جموں )سینیئر پریذیڈنٹ`( عبدالحکیم صاحب` غلام احمد صاحب۔۸۵ اس طرح مسلمانان کشمیر کی پہلی اور واحد نمائندہ تنظیم >آل کشمیر مسلم کانفرنس< کی بنیاد پڑی جس نے آئندہ چل کر تحریک آزادی کشمیر کو فروغ اور ترقی دینے میں عمدہ خدمات انجام دیں اس کے بل بوتے پر کشمیر اسمبلی کے لئے الیکشن لڑا گیا۔
شیخ محمد عبداللہ صاحب کا مکتوب حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام
شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے کانفرنس کے پہلے اجلاس کے بخیر و خوبی ختم ہونے پر ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔
1932 ۔OCT ۔22 SRINAGAR (ALIG) c۔S۔M ۔ABDULLATH ۔M۔S
جناب محترم میاں صاحب دام اقبالہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ نہ میری زبان میں طاقت ہے اور نہ میرے قلم میں زور اور نہ میرے پاس وہ الفاظ ہیں جن سے میں جناب کا اور جناب کے بھیجے ہوئے کارکن مولانا درد` سید زین العابدین صاحب وغیرہ کا شکریہ ادا کر سکوں۔ یقیناً اس عظیم الشان کام کا بدلہ جو کہ آنجناب نے ایک بے کس اور مظلوم قوم کی بہتری کے لئے کیا ہے۔ صرف خدائے لایزال سے بھی مل سکتا ہے۔ میری عاجزانہ دعا ہے کہ خداوند کریم آنجناب کو زیادہ زیادہ طاقت دے تاکہ آنحضور کا وجود مسعود بے کسوں کے لئے سہارا ہو۔
شاید جناب عاجز سے ناراض ہوں کہ میں نے جناب کے ارشادات گرامی کے جواب دینے میں تساہل سے کام لیا۔ میں مانتا ہوں کہ یقیناً یہ صریح گستاخی ہے مگر خدا کو حاضر جان کر میں جناب سے عرض کئے دیتا ہوں کہ میری گوناگوں پریشانیوں نے مجھے مجبور کر رکھا تھا۔ ایک طرف ۔۔۔۔۔۔ اس کی پارٹی۔ ایک طرف پنڈتوں اور مسلمانوں کا افسوسناک فساد` مالی پریشانی` اپنوں سے بیگانگی` کانفرنس کی تیاری وغیرہ وغیرہ۔ ان سب باتوں نے مجھے پریشان کر رکھا تھا۔ اس کی شہادت جناب کے پاس سید زین العابدین صاحب دے سکتے ہیں۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے مجھے کامل یقین ہے۔ کہ جناب ¶مجھے معاف فرمائیں گے۔ اور بزرگانہ کریمانہ صفات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یقین کر لینا چاہئے کہ جناب کا تسلی بخش جواب باصواب میری پریشانیوں کو جلد از جلد رفع کر دے گا۔
حالات بالکل ٹھیک ہیں۔ جناب درد صاحب اور شاہ صاحب وغیرہ کام میں مصروف ہیں۔ جو لوگ قومی کام میں مخل ہونا چاہتے ہیں۔ اللہ میاں نے انہیں کافی سزا دی ہے۔ الحمدلل¶ہ۔ درد صاحب سے موٹر کا روپیہ بھی وصول ہو چکا ہے۔ بہت بہت شکریہ۔
کانفرنس بخیر و خوبی ختم ہوئی۔ بجائے تین دن کے کانفرنس برابر پانچ دن ہوتی رہی اور بڑی شان سے دستور اساسی نے بڑا وقت لیا ۔۔۔۔۔۔ اخراجات تقریباً آٹھ ہزار آئے ہیں۔ پنڈال میں ڈیڑھ ہزار روپیہ خرچہ آیا۔ لائوڈ اسپیکر بجلی وغیرہ کا اچھا انتظام تھا۔ مختلف اطراف سے رضا کار آئے ہوئے تھے۔ فرودگاہ کا انتظام بہت اچھا تھا۔ الغرض جناب کی دعا سے کانفرنس نہایت کامیاب رہی مفصل کارروائی جناب درد صاحب نے آنحضور کو بھیج دی ہو گی۔ میرا بھی خیال ہے پنجاب آنے کا۔ انشاء اللہ شرف قدم بوسی حاصل کروں گا۔ احراری خیال کے چند افراد غلط پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ میں کشمیر کمیٹی کے ہاتھ کٹھ پتلی کا کھیل بنا ہوا ہوں کبھی کہتے ہیں کہ میرا عقیدہ بھی بدل گیا ہے مگر خداوند کریم بہتر جانتا ہے کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں اس لئے ہمیشہ ان کو ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جناب کی دعائیں ہمیشہ میرے شامل حال ہوں گی۔ آخر مجھے اپنا بچہ سمجھتے ہوئے مجھے حق حاصل ہونا چاہئے کہ کبھی کبھی مجبوری کی وجہ سے جناب سے گستاخی کا بھی مرتکب ہو جائوں اور پھر معافی بھی طلب کروں۔ امید کرتا ہوں کہ جناب کا ارشاد گرامی جلدی ہی میری تسلی کر دے گا۔ عبدالرحیم صاحب اور محمد یحیی صاحب رفیقی کی طرف سے مودبانہ عرض و سلام۔ جناب کا تابعدار شیخ محمد عبدالل¶ہ۔
مسلم کانفرنس کے دوسرے اجلاس
مسلمانان کشمیر کی یہ نمائندہ کانفرنس خالص مسلم تنظیم کی حیثیت سے ۱۹۳۸ء تک مصروف عمل رہی اور ۱۹۳۲ء کے بعد اس کا دوسرا سالانہ اجلاس ۱۵۔ ۱۶۔ ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو بمقام میر پور منعقد ہوا۔ تیسرا اجلاس سو پور میں ۱۱۔ ۱۲۔ ۱۳/ نومبر ۱۹۳۴ء کو ہوا جس میں جناب میاں احمد یار صاحب بی۔ اے ایل ایل بی صدر منتخب ہوئے۔ یہ اجلاس بہت کامیاب رہا۔ اور اس کے انتظامات کی تکمیل میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار نے بڑی محنت و جانفشانی سے کام لیا۔ مسلمانان سو پور نے ایک کھلے جلسہ میں یہ قرار داد پاس کی کہ >یہ اجلاس شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب پریذیڈنٹ مسلم کانفرنس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ کہ انہوں نے مہربانی فرما کر کانفرنس کے اعلیٰ کارکن اور اپنے دست راست مسٹر غلام نبی صاحب گلکار کو سوپور کانفرنس کے انتظامات کے لئے بھیجا<۔۸۶
چوتھا اجلاس بمقام سرینگر اکتوبر ۱۹۳۵ء میں ہوا جس میں صدارت کے فرائض قوم نے جناب چوہدری غلام عباس صاحب کو تفویض کئے۔ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اس چوتھے اجلاس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر تھے۔ اور آپ ہی کے اہتمام میں چوہدری صاحب کا ایسا شاندار جلوس نکالا گیا جو مہاراجہ صاحب کے تزک و احتشام کی جھلک نمایاں رکھتا تھا۔ اور اس کے لئے وردیاں قادیان سے بن کر آئی تھیں۔ یہ جلوس پانچ کشتیوں میں نکالا گیا۔
پانچواں اجلاس ۱۴/ مئی ۱۹۳۷ء کو پونچھ میں منعقد ہوا۔ اور صدارت دوبارہ شیخ محمد عبداللہ صاحب کو سونپ دی گئی۔۸۷
مسلم کانفرنس کا سیاسی اثر
خدا تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے مسلم کانفرنس کی شاخیں ریاست کے طول و عرض میں قائم ہو گئیں اور مسلمان ایک ہی سلک میں پرو دیئے جانے لگے۔ اور اس تنظیم کی دھاک حکومت کشمیر اور کشمیر کے غیر مسلموں پر ایسی بیٹھ گئی کہ ایک موقع پر جبکہ اس تنظیم کی ورکنگ کمیٹی نے اپنا اجلاس راست اقدام کے لئے بچھوارہ )سرینگر( میں بلایا۔ تو وزیراعظم مسٹر کالون فوراً دہلی سے روانہ ہو کر سرینگر پہنچ گئے اور مسلمانان کشمیر کے زعماء سے درخواست کی کہ وہ اجلاس کو ملتوی کریں وہ ان کے مطالبات ماننے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ ان کی درخواست پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ اور اکثر مطالبات منظور کر لئے گئے۔ کرنل کالون نے احکام جاری کئے اور تمام کے تمام اسسٹنٹ سیکرٹری مسلمان مقرر ہوئے۔ اور کئی صوبائی آسامیاں بھی مسلمانوں کو دی گئیں۔ اور مسٹر وجاہت حسین صاحب منسٹر مقرر ہوئے۔۸۸
کانفرنسی لیڈروں کی طرف سے اتحاد کی اپیل
تحریک آزادی کشمیر کا پانچواں دور قیام کانفرنس پر ختم ہوتا ہے۔ جس سے مسلمانوں کو ایک متحدہ سیاسی پلیٹ فارم حاصل ہوا اور ان کی تنظیمی کوششیں نقطہ عروج تک پہنچ گئیں مگر افسوس اس کے ساتھ ہی مختلف اندرونی و بیرونی مخالف عناصر مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے پوری قوت سے سامنے آگئے اور انہوں نے فرقہ وارانہ سوال کھڑا کر دیا۔ اور تحریک کو نقصان پہنچانے کے لئے خود شیخ محمد عبداللہ صاحب کو احمدی مشہور کرنے لگے۔ غرضکہ مسلم کانفرنس کی کشتی اپنے آغاز ہی میں طوفان حوادث میں گھر گئی۔
یہ نازک صورت حال دیکھ کر ۲۷/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو سرینگر میں مسلمانان کشمیر کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں شیر کشمیر شیخ عبداللہ صاحب نے اپنی تقریر میں اور دوسرے زعماء کشمیر نے اپنے پیغامات میں مسلمانوں کو متحد العمل ہونے کی پرزور اپیل کی۔ چنانچہ شیخ محمد عبداللہ صاحب نے فرمایا۔
>مسلمانو! آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اپنے نفع و نقصان کا امتیاز کرتے ہوئے مفاد اسلامی کے تحفظ کے مسئلہ پر خود غور کریں اور دیکھیں کہ آیا موجودہ وقت میں سنی` شیعہ` اہل حدیث اور احمدی وغیرہ کا سوال اٹھانے میں وہ کہاں تک حق بجانب ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ )یہ سن کر لوگوں نے باواز بلند کہا کہ گزشتہ پرآشوب دنوں میں جب مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا تھا اس وقت حکومت کشمیر یا ڈوگرہ درندے یہ امتیاز کرتے تھے کہ فلاں شیعہ ہے یا سنی یا احمدی ہے یا اہل حدیث؟ بلکہ ان کے نیزوں اور گولی کا نشانہ بننے کے لئے صرف مسلمان ہونا کافی تھا(
شیخ صاحب نے اپنی تقریر کے بعد کانفرنس کے دیگر معزز نمائندگان کے پیغامات پڑھ کر سنائے چنانچہ سید حسین شاہ جلالی )اہل تشیع کے نمائندہ( نے اپنے پیغام میں کہا۔ >جب انتخاب نمائندگان ہوا تھا۔ تو ہم تمام نمائندگان نے اسے اپنا اصول بنا رکھا تھا۔ بلکہ ایک قسم کا حلف لیا تھا۔ کہ فرقہ وارانہ سوال کو کبھی عامتہ المسلمین میں نہیں اٹھانا چاہئے۔ اور تمام فرقوں کو خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ` اہل حدیث ہوں یا احمدی` مقلد ہوں یا غیر مقلد متحد اور متفق ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ اس تحریک میں اشتراک عمل کرنا چاہئے<۔
خواجہ غلام احمد صاحب اشائی نے پیغام دیا۔ >میں خود مرزائی نہیں ہوں اور نہ اہلحدیث مگر اس جدوجہد میں ہم فرقہ واری سے بالا تر ہو کر تمام اہل اسلام خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوںمتفق ہو کر کامیابی کی امید رکھتے تھے اس وقت کوئی تفرقہ کا فرقہ وارانہ سوال پیدا کرنا سخت مہلک ہے<۔
چوہدری غلام عباس صاحب نے پیغام دیا۔
>آپ صاحبان کو یہ جان لینا چاہئے۔ کہ اس وقت قوم کی زندگی اور موت کا سوال درپیش ہے۔ اور اگر ان حالات میں نمائندگان کی طرف سے ذرا ایسی لغزش بھی واقع ہوئی تو میں برملا یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ قوم کے خون ناحق کے ذمہ دار وہ ہوں گے۔ اس لئے میں نہایت ادب کے ساتھ نمائندگان کی خدمت میں عرض پرداز ہوں کہ قوم کی خاطر باہمی کشمکش سے احتراز کریں۔ اور احمدیت اور حنفیت کے زہریلے پراپیگنڈے سے بچیں۔ موجودہ سوال قوم کا من حیث القوم سوال ہے اور نہ حکومت نے گولی چلانے` گرفتاریاں عمل میں لانے اور تشدد کرتے وقت فرقہ وارانہ تمیز سے کام لیا<۔۸۹
حواشی حصہ دوم۔ چوتھا باب
۱۔
انقلاب ۴/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔
۲۔
اخبار انقلاب ۹/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔
۳۔
اس مشہور مقدمہ کا ذکر آگے آرہا ہے )مولف(
۴۔
اخبار الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۔
۵۔
رسالہ لاہور ۱۴/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲۔
۶۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک غیر مطبوعہ مضمون سے ماخوذ۔
۷۔
بیان شیخ عبدالحمید صاحب )۲۳/ اکتوبر ۱۹۶۳ء( جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کشمیری مربی سلسلہ احمدیہ کے ایک غیرمطبوعہ مقالہ سے ماخوذ۔
۸۔
لاہور ۷/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲۔ ۱۳۔
۹۔
اخبار سیاست )لاہور( ۴۔ ۷۔ ۹/ فروری ۱۹۳۲ء میں بھی اس کا مفصل تذکرہ ملتا ہے۔
۱۰۔
کشمکش صفحہ ۱۱۰۔
۱۱۔
الفضل ۳/ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۲۔
الفضل ۳/ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۔
۱۳۔
چنانچہ مڈلٹن نے لکھا۔ اگر حکام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرتے اور مضبوطی سے صورت حالات کا مقابلہ کرتے تو معاملہ قابو سے باہر نہ ہو جاتا۔ پھر کہا محکمہ پولیس کی حالت بہت افسوس ناک ہے۔ ضرورت ہے کہ اس محکمہ کو نئے سرے سے باقاعدہ منظم کیا جائے۔ ریاستی فوج کی نسبت یہ رائے قائم کی کہ فساد کے وقت فوج فوراً موقع پر پہنچ گئی۔ جس نے مسلمانوں کو تو منتشر کر دیا۔ اور ہندوئوں کو کھلے بندوں چھوڑ دیا گیا۔ جنہوں نے جتھے بنا کر اکے دکے مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا مسلمانوں کی دکانوں کو فوج کی موجودگی میں لوٹنا شروع کر دیا۔ ہندو مسلمانوں کو اس طرح تباہ و برباد کر رہے تھے لیکن فوجی سپاہی کھرے دیکھتے رہے اگرچہ بعد میں فوج کو شہر کے مختلف حصوں میں تعینات کر دیا گیا لیکن ہندوئوں کی چیرہ دستیاں کئی دنوں تک بدستور جاری رہیں۔ )بحوالہ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔ ۴(
۱۴۔
سلسلہ دوم کا تیسرا خط صفحہ ۴۔ ۵ اس خط کا مکمل متن دوسرے مطبوعہ خطوط کے ساتھ ضمیمہ میں شائع کر دیا گیا ہے۔
‏]1h [tag۱۵۔
ملاپ ۱۲/ اپریل ۱۹۳۲ء )بحوالہ الفضل ۱۷/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۴(
۱۶۔
ارکان کمیٹی سر بجورد دلال )صدر( مسٹر ایل۔ ڈبلیو جارڈین )نائب( خان بہادر عبدالقیوم )رکن( ٹھاکر کرتار سنگھ )رکن( مسٹر رام ناتھ شرما )سیکرٹری(
۱۷۔
متن کے لئے ملاحظہ ہو ضمیمہ )۱(
۱۸۔
الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۹۔
الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۲۰۔
الموعود )لیکچر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ( صفحہ ۱۷۴۔
۲۱۔
بحوالہ الفضل قادیان مورخہ ۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۲۔
الفضل قادیان مورخہ ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۳۔
الفضل ۱۴/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۷۔
۲۴۔
مطبوعہ الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔
۲۵۔
مطبوعہ الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۶۔
مطبوعہ الفضل یکم ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ تا ۱۰۔
۲۷۔
مفتی ضیاء الدین صاحب نے ۱۹۳۴ء میں لاہور کے ایک پبلک جلسہ میں اپنی جلا وطنی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا۔ >جس وقت چند احراری لیڈروں کی انگیخت پر عامتہ المسلمین کے بیس پچیس ہزار افراد جیلوں میں پہنچ گئے تو احراری لیڈر کشمیر گئے اور اس وقت جبکہ ہزاروں مسلمانان پنجاب اور اہل کشمیر جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں سختیاں جھیل رہے تھے۔ احرار کے یہ لیڈر حکومت کشمیر کی شاندار موٹروں اور مزین ہاوس بوٹوں میں کشمیر کے پرفضا مقامات کی سیر میں مشغول تھے انہی پرکیف ایام کے دوران میں اتفاق سے میری ملاقات ان میں سے ایک لیڈر سے ہوئی اور میں نے انہیں مسلمانان کشمیر کی حالت زار کے بعض واقعات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے امداد کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جواب دیا آپ یہ تمام واقعات قلمبند کرکے میرے حوالہ کر دیں میں ان تکالیف کا ازالہ کرانے کی سعی کروں گا۔ لیکن بھائیو۔ آہ افسوس میں کس منہ سے کہوں ان احراری بزرگ نے جن پر ایک اسلامی اور دینی بھائی سمجھتے ہوئے اور ایک اسلامی تحریک کا لیڈر جانتے ہوئے میں نے بھروسہ کیا تھا۔ میری دستخطی تحریر بجنسہ مسٹر کالون کے حوالے کر دی۔ جس ک طفیل آج میں اپنے وطن سے دور` اپنے عزیزوں سے الگ` اپنے بال بچوں سے جدا` غربت کی حالت میں در بدر مارا مارا پھر رہا ہوں<۔ )اخبار اصلاح ۲۷/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱(
۲۸۔
مسٹر یوسف خان صاحب علیگ` نذیر احمد صاحب` عبدالقدوس صاحب اور غلام محمد صاحب` عبدالرحیم ڈار )سوپور`( عبدالغنی صاحب گنائی )سو پور`( مولوی محمد یٰسین صاحب )سوپور`( قاضی عبدالغنی صاحب ڈکٹیٹر )بارہ مولا`(
۲۹۔
یاد رہے اس علاقہ میں اس قدر مالیہ لگا دیا گیا تھا جس کی ادائیگی کاشتکاروں کی طاقت سے باہر تھی اور مسلم و غیر مسلم زمیندار ریاست سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ موجودہ مالیہ ناقابل برداشت ہے۔ اسے کم کرے ملحقہ انگریزی علاقہ کے اضلاع جہلم راولپنڈی وغیرہ کے برابر کر دیا جائے۔
۳۰۔
الفضل ۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۱۔
الفضل ۳/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۳۲۔
الفضل ۱۹/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۳۳۔
شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے اخبار زمیندار میں لکھا۔ >مابہ الامتیاز کشمیر کمیٹی اور مجلس احرار کے درمیان یہ رہا کہ مجلس احرار نے بجائے مشیر بننے کے ہمیشہ ڈکٹیٹر بننے کی کوشش کی اور ہمارا بنیادی اصول یہی تھا کہ ہم بیرونی بھائیوں کی امداد اسی صورت میں لیں گے کہ اس کا تعلق صرف خیر خواہانہ مشوروں تک محدود ہو<۔ )بحوالہ الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۲(
۳۴۔
>کشمکش< صفحہ ۱۱۷۔
۳۵۔
بحوالہ الفضل ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔
۳۶۔
الفضل قادیان مورخہ ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۷۔
اخبار الفضل قادیان مورخہ ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
‏]h1 [tag۳۸۔
الفضل ۲۴/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔
۳۹۔
الفضل ۱۷/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۰۔
الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۴۔
۴۱۔
الموعود صفحہ ۱۷۲ تا ۱۷۶۔
۴۲۔
الفضل ۱۷/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۳۔
اس جلد میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے جس قدر بیانات بغیر حوالہ درج ہیں وہ سب آپ کے غیر مطبوعہ خود نوشت حالات سے ماخوذ ہیں جو مئولف کتاب کے پاس محفوظ ہے۔
۴۴۔
انقلاب ۳/ ستمبر ۱۹۳۲ء۔
۴۵۔
ارکان وفد مولوی عبدالرحیم صاحب درد` سید محسن شاہ صاحب` مولوی محمد یعقوب خان صاحب` مسٹر مجید ملک صاحب` مولوی سید میرک شاہ صاحب تھے اور نامہ نگار جناب چوہدری ظہور احمد صاحب۔
۴۶۔
الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔
۴۷۔
الفضل قادیان مورخہ یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۴۸۔
الفضل ۱۲/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔
۴۹۔
الفضل ۹/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۵۰۔
الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۱ء )اس تار کا متن گزشتہ فصل میں درج ہو چکا ہے(
۵۱۔
انقلاب )لاہور( ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۶۔
۵۲۔
لاہور ۷/ جون ۱۹۶۵ء )بعنوان کشمیر کی کہانی( صفحہ ۱۳ کالم ۱۔
۵۳۔
الفضل ۲۴/ اپریل ۱۹۳۳ء۔
۵۴۔
اس سفر میں بڑی مشکلات پیش آئیں چنانچہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا بیان ہے۔ >ہم دونوں قادیان سے رخصت ہوئے اور ہم نے یہ تجویز کی کہ چونکہ ابھی تک کشمیر داخل ہونے میں روک ٹوک جاری ہے اس لئے یوسف خان صاحب لاہور ٹھہر جائیں اور خاکسار اکیلا پہلے سرینگر پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ میں راولپنڈی پہنچا۔ اور ڈاک کی لاری میں سوار ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔ کوہالہ پہنچنے پر ایک سخت مشکل پیش آئی۔ کوہالہ کے پل پر ایک مسلمان سب انسپکٹر پولیس تعینات تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا آپ کہاں جاتے ہیں؟ اور کون ہیں؟ میں نے کہا میں وکیل ہوں اور مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ سب انسپکٹر مذکور نے کہا آپ نہیں جا سکتے جانے کی اجازت نہیں۔ میں نے کہا کہ ہائیکورٹ کا قانون ترمیم ہو چکا ہے اور بیرونی وکلاء کو پیروی مقدمات کی اجازت مل چکی ہے۔ میرے پاس موکلوں کی تاریں موجود ہیں۔ چنانچہ ایک شخص فتح محمد کے مقدمہ کی پیروی کل ہی میں نے شروع کر دینی ہے۔ کیونکہ کل تاریخ مقدمہ ہے لیکن سب انسپکٹر مذکور بدستور مصر رہا کہ آپ نہیں جاسکتے میں نے کہا کہ پھر لکھ دو اور یہ آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ کل کے مقدمات بلا پیروی رہ جائیں گے۔ اس پر سب انسپکٹر مذکور نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ مجھے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مظفر آباد کے روبرو پیش کرے گا۔ چنانچہ ہم دونوں اس لاری میں سوار ہو کر مظفر آباد ایک بجے دن کے قریب پہنچ گئے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب دورے پر گئے ہوئے ہیں اس پر سب انسپکٹر نے کہا آپ یہاں ٹھہر جائیں کیونکہ کل تک وہ آجائیں گے۔ میں نے اس سے انکار کیا۔ کہ میں بہرحال کل مقدمات کی پیروی سے رک نہیں سکتا۔ یا آپ مجھے لکھ کر دیں۔ حیص بیص میں دو بج گئے لاری اور اس کے مسافر رکے رہے۔ یہ ڈومیل کا واقعہ ہے میں لاری میں سوار ہونا چاہوں تو سب انسپکٹر ڈرائیور کو لاری چلانے سے روک دے اس کے بعد میرے ذہن میں ایک تجویز آئی۔ اور میں نے کہا کہ سب انسپکٹر صاحب علیحدہ ہو کر میری بات سنیں میں انہیں علیحدہ ایک طرف لے گیا۔ اور میں نے حسب ذیل کلمات ان سے کہے چونکہ آپ مسلمان پولیس افسر ہیں اس لئے اپنی بے جا نیک نامی اور ترقی کے لئے مسلمانوں کے جائز کام میں بھی رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کے افسر آپ سے خوش ہوں اور آپ کو ترقی ملے۔ اگر کوئی ہندو سب انسپکٹر ہوتا تو میرے کاغذات دیکھ کر ایک منٹ کے لئے مجھے نہ روکتا۔ لیکن آپ اپنی قوم کے دشمن ہیں۔ اور مسلمانوں کی جائز مدد بھی آپ کو منظور نہیں۔
جب میں نے یہ باتیں کیں تو میں سچ کہتا ہوں کہ سب انسپکٹر پولیس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور وہ کہنے لگا کہ کیا مجھے آپ مسلمانوں کا ایسا دشمن سمجھتے ہیں؟ لوہا گرم ہو چکا تھا۔ میں نے شدت سے اپنی بات کو دہرایا اور کہا کہ آپ کے رویہ سے زیادہ مسلمانوں کی دشمنی کا آپ کے متعلق کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ یقیناً آپ مسلمانوں کے بدخواہ ہیں۔
اس پر سب انسپکٹر مذکور نے مجھے بتایا۔ یہ خیال غلط ہے میں سرینگر میں تعینات تھا۔ بلاوجہ مجھ پر شبہ کیا گیا کہ میں ایجی ٹیشن میں حصہ لے رہا ہوں۔ اور سزا کے طور پر مجھے سرینگر سے کوہالہ جیسی گرم جگہ تبدیل کر دیا گیا۔ مجھے خیال گزار کہ مجھ پر یہ الزام نہ لگ جائے کہ میں نے باہر سے وکیل بلوا لیا ہے اس لئے میں نے یہ احتیاط کرنی چاہی کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت سے آپ سرینگر چلے جائیں اچھا جو کچھ بھی ہو آپ جا سکتے ہیں۔
میں خدا کا شکر کرتا ہوا دو بجے کے قریب ڈومیل سے روانہ ہو گیا۔ میں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا تھا۔ لیکن اس خوشی نے بھوک کا احساس کم کر دیا اور مغرب کے قریب ہماری لاری بارہ مولا پہنچ گئی۔ چونکہ رات کو لاری نے بارہ مولا ٹھہرنا تھا اور صبح کو روانہ ہونا تھا۔ اس لئے مجھے یہ خیال آیا کہ سرینگر داخل ہوتے وقت بھی شاید کوئی دقت پیش آئے۔ مارگزیدہ از ریسماں مے ترسد۔ میں نے اپنے چند ہمراہیوں سے )جن میں ایک پروفیسر صاحب بھی تھے( مشورہ کیا کہ اگر ہم اس وقت روانہ ہو کر سرینگر پہنچ جائیں تو رات کی بے آرامی سے بچ جائیں گے وہ اس سے متفق ہوئے۔ ایک لاری والا منچلا تھا دگنا کرایہ لے کر پہنچانے پر آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ ہم دگنا کرایہ دے کر رات کے بارہ بجے کے قریب سرینگر کی چونگی پر پہنچ گئے۔<
۵۵۔
الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ و سیاست ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۲ء۔
۵۶۔
الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۵۷۔
لاہور ۷/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۲۔ کشمیر کی کہانی۔
۵۸۔
لاہور ۱۷/ مئی ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۴ کالم ۳۔ )کشمیر کی کہانی( از جناب چوہدری ظہور احمد صاحب۔
۵۹۔
الفضل ۲۶/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ۲۔
۶۰۔
اخبار لاہور ۷/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲۔ کشمیر کی کہانی از چوہدری ظہور احمد صاحب۔
۶۱۔
لاہور ۷/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳۔
۶۲۔
الفضل ۲۹/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۳۔
الفضل ۲۱/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔
‏]h1 [tag۶۴۔
الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۶۵۔
لاہور )لاہور( ۷/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۳۔
۶۶۔
الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔
۶۷۔
الفضل ۲۶/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۶۸۔
لاہور ۷/ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۲۔ ۱۳۔ کشمیر کی کہانی از جناب چوہدری ظہور احمد صاحب۔
۶۹۔
بیان جناب اللہ رکھا صاحب ساغر سابق ایڈیٹر رہبر کشمیر مورخہ ۶۳/۱۲/۲۲۔ قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کاشمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ۔
۷۰۔
الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔ ۲۔
۷۱۔
ماخوذ از مکتوب محمد امین صاحب قریشی )مورخہ ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۳ء سرینگر کشمیر(
۷۲۔
انقلاب ۲۰/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۶۔ )عتیق اللہ کشمیری(
۷۳۔
اسی مشورہ کے مطابق آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ )ناقل(
۷۴۔
میرے پاس اس امر کے باور کرنے کی کافی وجوہ ہیں کہ سید زین العابدین صاحب کے اخراج میں بعض نام نہاد لیڈروں کا ہاتھ ہے جنہوں نے اس امر سے ڈر کر کہ ان کے آنے سے حقیقت حال ظاہر ہو جائے گی بعض اپنے ہمدرد افسروں کے ذریعہ سے ان کے نکالنے کی کوشش کی تاکہ ان کے لئے راستہ کھلا رہے۔ منہ۔
۷۵۔
نقل مطابق اصل۔
۷۶۔
نقل مطابق اصل۔
۷۷۔
سہوراً رہ گیا ہے۔ )ناقل(
۷۸۔
متن کے لئے ملاحظہ ہو ضمیمہ کتاب۔
۷۹۔
کشمکش صفحہ ۱۳۸۔
۸۰۔
حضرت شاہ صاحب کا قیام ان دنوں قاضی صلاح الدین صاحب پشاوری کی کوٹھی واقع گپکار میں تھا اور دن کے وقت آپ ہائوس بوٹ چنار باغ میں آکر اپنے دفتر میں کام کرتے تھے شیخ بشیر احمد صاحب اور شیخ محمد احمد صاحب مظہر بھی اسی ہائوس بوٹ میں رہائش پذیر تھے۔
۸۱۔
الفضل ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳ و ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۸۲۔
اس کا مکمل متن الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء و ۲۷۔ اکتوبر ۱۹۳۲ء میں شائع شدہ ہے۔
۸۳۔
الفضل قادیان مورخہ ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ و ۲۔
۸۴۔
‏h2] ga[t الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۸۵۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۸۶۔
اخبار >اصلاح< )سرینگر( ۹/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۔ اخبار اصلاح ۲۰/ نومبر ۱۹۳۴ء میں اجلاس سوپور کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے۔ آخر مسلمانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مشہور قومی کارکن مسٹر جی۔ این گلکار کی قیادت میں جلوس کی صورت میں مرتب ہوا جو اپنے محبوب رہنمائوں کو لئے مرکزی مقامات سے قوی ترانے گاتا ہوا دو بجے جلسہ گاہ میں پہنچا۔ )اصلاح ۲۰/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲(
۸۷۔
اخبار ہمدرد سرینگر ۳۱/ جولائی ۱۹۳۸ء۔
۸۸۔
اخبار اصلاح سرینگر ۱۹/ دسمبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۴ کالم ۲ )ایک غیر جانبدار مقالہ نگار کے قلم سے(
۸۹۔
انقلاب ۴/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔
‏tav.5.41
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
پانچواں باب )فصل اول(
کشمیر کمیٹی کی صدارت سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا استعفیٰ` اس کا پس منظر` اور ردعمل` آل انڈیا ایسوسی ایشن کا قیام` اخبار >اصلاح< کا اجراء` کشمیر اسمبلی کا قیام` ۱۹۳۸ء کی کشمیر ایجی ٹیشن پر حضرت خلیفتہ المسیح کی رہنمائی نیشنل کانفرنس کے خلاف محاذ` مسلم کانفرنس کا احیاء ` شاہی تحقیقاتی کمیشن میں بیانات ` تحریک >کشمیر چھوڑ دو<۔ آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد` چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ترجمانی اہل کشمیر کی طرف سے` اور فرقان بٹالین کے کارنامے
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا صدارت سے
استعفیٰ ` اس کا پس منظر اور ردعمل
تحریک آزادی کے چھٹے دور کا آغاز
مسلم کانفرنس میں تشتت وافتراق مسلمانان کشمیر کی قومی زندگی کے لئے سخت مہلک تھا اور ہر مخلص مسلمان کی دلی تمنا تھی کہ کشمیری مسلمانوں کی صفوں میں یکجہتی قائم رہے تاکہ تحریک آزادی کشمیر کی منزل اور زیادہ قریب ہوجائے۔ چنانچہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب نے بھی شیخ محمد عبداللہ صاحب کو ایک مکتوب لکھا کہ >مجھے یقین ہے کہ بزرگان کشمیر بہت جلد اپنے معاملات سلجھا سکیں گے اس بات کے لئے میں ہر لخط وست بدعاہوں۔۔۔۔ اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آپ کی مساعی کو بارآور کردیگا لیکن جو مختلف جماعتیں سنا ہے کہ بن گئی ہیں اور ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہوگا ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام سیاسی وتمدنی مشکلات کا علاج ہے ہندی مسلمان کے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہوسکی۔ اور اس کے افراد اور بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت ہیں<۔ ۱
بے شبہ یہ نہایت قیمتی نصیحت تھی مگر خود کشمیر کمیٹی کے بعض مقتدر اور معزز ممبر بالکل نظر انداز کرگئے اور خدا کے فضل و کرم سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز قیادت وصدارت کی بدولت ایک نہایت قلیل عرصہ کی جنگ کے بعد )جوقوموں کی زندگی میں ایک سانس کی بھی حیثیت نہیں رکھتا( نہ صرف ریاست بلکہ ایک طرح سے حکومت انگریزی نے بھی ہتھیار ڈال دیئے تھے اور کشمیر کا صدیوں کا غلام آنکھیں کھولکر آزادی کی ہوا کھانے لگا تھا اور قانوناً ابتدائی حقوق حاصل کرنے کے بعد ان سے عملاً استفادہ کرنے کی دوسری مہم کا آغاز ہوچکا تھا کہ عین اس وقت نیم سرکاری اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۴ / مئی ۱۹۳۳ء( میں یہ بیان شائع ہوا۔ کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بعض ارکان نے ایک درخواست بھیجی ہے کہ آئندہ کشمیر کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہوا کرے۔ اس اخباری بیان کے علاوہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` خان بہادر رحیم بخش صاحب` سید محسن شاہ صاحب وغیرہ لاہور کے گیارہ ارکان کے دستخطوں سے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی )حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ( کی خدمت میں ایک مکتوب پہنچا جس میں لکھا تھا ہماری رائے میں پندرہ دن کے اندر اندر کمیٹی کا اجلاس عہدہ داران کے انتخاب کے لئے نہایت ضروری ہے اس کے چند روز بعد ۴ / مئی ۱۹۳۳ء دستخط کنندگان میں سے دو اصحاب کی طرف سے جن میں پروفیسر سید عبدالقادر صاحب بھی شامل تھے۔( جناب عبدالرشید صاحب تبسم اسسٹنٹ ایڈیٹر اخبار سیاست لاہور( کے ذریعہ سے یہ پیغام ملا کہ انفرادی طور پر کشمیر کمیٹی کے کسی رکن کو اس کمیٹی کی تنظیم کے متعلق کوئی شکایت نہیں اوروں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہم دونوں کا یقین ہی نہیں بلکہ ایمان ہے کہ اگر حضرت صاحب کے علاوہ کوئی اور صدر ہوتا تو کبھی یہ مہم سر نہ ہوسکتی اس تحریک میں احمدیہ جماعت نے جو قربانیاں کی ہیں وہ دنیائے اسلام کبھی فراموش نہیں کرسکتی لیکن کچھ عرصہ سے درپردہ یہ کوشش جاری رہی ہے کہ کسی طرح موجودہ صدر کو علیحدہ کردیا جائے۔ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس پروپیگنڈہ کا بانی کون ہے اور کس اصول پر یہ سوال اٹھایا گیابہرکیف ہمیں اس وقت پتہ چلا ہے جب یہ پروپیگنڈہ کامیاب ہوچکا ہے ایک تحریر اس مضمون کی لکھی گئی ہے کہ کشمیر کا ایک خاص اجلاس منعقد کیا جائے جس میں عہدہ داروں کو دوبارہ منتخب کیا جائے یہ محض دھوکہ ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف صدارت ڈاکٹر اقبال ۲ کے سپرد کرنا چاہتے ہیں اور خود اقبال کی بھی یہی خواہش ہے سیکرٹری وہی رہے گا جو پہلے ہے اس تحریر پر انفرادی طور پر ہر ایک رکن سے علیحدگی میں دستخط کرالئے گئے ہیں اور تمام اراکین نے اس پردستخط کردیئے ہیں کہ واقعی عہدہ داروں کا انتخاب دوبارہ عمل میں آنا چاہئے صرف ہم دونوں یعنی عبدالقادر اور علم الدین سالک نے تاحال اس پر دستخط نہیں کئے لیکن ہمارا دستخط نہ کرنا آئینی لحاظ سے غلط ہے لہذا ہم دونوں بھی دستخط کردیں گے ۔۔۔۔۔ سوائے اس کے چارہ نہیں ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے سو آپ کی خدمت میں کوئی رائے پیش کرنا ایک بہت بڑی گستاخی کے مترادف ہے آپ بہترین مدبر ہیں تاہم یہ عرض کردینا ضروی خیال کرتے ہیں کہ آپ ۔۔۔۔۔ ابھی اجلاس منعقد نہ ہونے دیں تھوڑے عرصہ تک بہت سے اراکین پہاڑ پر چلے جائیں گے اس عرصہ میں ہمیں بھی کوشش کا موقعہ مل جائے گا۔ اور ہم پھر اراکین کی اکثریت اپنی طرف کرلیں گے۔
مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ تجویز قبول نہ فرمائی اور ۷ / مئی ۱۹۳۳ء کو سیسل ہوٹل لاہور میں ایک ہنگامی اجلاس بلوایا جس میں حسب ذیل ممبران شامل ہوئے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` ملک برکت علی صاحب` حاجی شمس الدین صاحب` سید محسن شاہ صاحب ` خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب` مولوی عبدالمجید صاحب سالک۔ مولوی غلام مصطفٰے صاحب ڈاکٹر عبدالحق صاحب سید عبدالقادر صاحب` پروفیسر علم الدین صاحب سالک۔ میاں فیروزالدین احمدصاحب۔ پیر اکبر علی صاحب۔ چوہدری اسد اللہ خان صاحب۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب۔ چوہدری محمد شریف صاحب۔ مولوی عصمت اللہ صاحب اور شیخ نیاز علی صاحب اس اجلاس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل تحریر سنائی:۔
>مجھے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تیرہ ممبروں کے دستخط سے ایک تحریر ملی ہے جس میں اس امر کی خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ میں پندرہ دن کے اندر کشمیر کمیٹی کا ایک اجلاس اس غرض سے منعقد کروں کہ کمیٹی کے عہدہ داروں کا نیا انتخاب کیا جائے گو میں اپنے گذشتہ طریق عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ میں نے کبھی کسی ایک ممبر کی خواہش کو بھی کمیٹی کے بارہ میں پس پشت نہیں ڈالا اس قدر دستخطوں کی ضرورت کو نہیں سمجھا لیکن ویسے میں ان ممبروں کی خواہش سے متفق ہوں۔ اور وہ ممبران جو کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں ان میں سے بعض کو شاید یاد ہوکہ میں نے گذستہ سال ایک اجلاس کے موقعہ پر خود یہ خواہش ظاہر کی تھی۔ کہ اب ایک سال گذر چکا۔ اس کے عہدہ داروں کا نیا انتخاب ہوجانا چاہئے۔ لیکن ان ہی ممبروں میں سے جن کے دستخط مذکورہ بالا تحریر پر ثبت ہیں بعض نے یہ خیال ظاہر کیا تھا جس کی کسی دوسرے ممبر نے تردید نہیں کی تھی کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کوئی مستقل کمیٹی نہیں بلکہ ایک عارضی کام کے لئے تھوڑے عرصہ کے لئے اس کا قیام ہوا ہے اس لئے اس کے عہدہ داروں کا سالانہ انتخاب ضروری نہیں۔
غرض میں ان احباب کی خواہش سے متفق ہوں اور آئندہ انتخاب کے لئے راستہ صاف کرنے کی غرض سے اور اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اب کشمیر کمیٹی کے کام کی نوعیت بہت کچھ بدل گئی ہے میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہوتا ہوں میں اس موقعہ پر یہ بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں کا شکریہ ادا کروں۔ انہوں نے باوجود قسم قسم کے مشکلات کے حتیالوسع تعاون سے کام لیا۔ اور کئی مواقع پر میری خواہش کی بناء پر اپنی آرا کو ایک ایسے دائرہ میں محدود کردیا جو اتحاد کے لئے ضروری تھا۔
اس بیان کے پڑھے جانے کے بعد حسب ذیل قراردادیں پاس کی گئیں۔
۲۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا یہ جلسہ سول اینڈ ملٹری گزٹ< میں شائع شدہ بیان سے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے متعدد ارکان نے ایک درخواست اس امر کی بھیجی ہے کہ آئندہ کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہوا کرے قطعی علیحدگی کا اظہار کرتا ہے نیز یہ جلسہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ حضرت مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب نے مسلمانان کشمیر کے لئے جو گراں بہا اور مخلصانہ خدمات انجام دی ہیں ان پر آپ کا دلی شکریہ ادا کرے۔
۳۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بذات خود آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا استعفیٰ پیش کردیا ہے کمیٹی افسوس کے ساتھ ان کا استعفیٰ قبول کرتی ہے۔
۴۔ یہ جلسہ ڈاکٹر سر محمداقبال کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قائم مقام صدر اور ملک برکت علی صاحب ایڈووکیٹ لاہور کو آئندہ انتخابات تک قائم مقام سیکرٹری مقرر کرتا ہے۔ ۳
استعفیٰ کا ردعمل کشمیر میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مستعفی ہونے کے بعد پھر مسلمانان کشمیر جبر وتشدد کا تختہ مشق بننے لگے۔ اور حکومت کشمیر نے چند ہفتے بعد وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کردیں اس دوران میں شیخ محمد عبداللہ صاحب کو اپنی گرفتاری کے احکام کی خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں مندرجہ ذیل مکتوب لکھا:۔
سرینگر ۳۱ / مئی ۳۳ء ۷۸۶
محترم میاں صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ
کل شام کو میری گرفتاری کے احکام نکلے ہوئے ہیں لیکن رات کو میں گرفتار نہ ہوسکا کیونکہ میں گھر پر نہ تھا یہ سب کچھ مہتہ کرتار سنگھ اور ۔۔۔۔ کی مہربانی ہے ۔۔۔۔۔ لہذا میں مختصراً عرض کرتا ہوں کہ آپ خدارا ایک بار پھر مظلوم کشمیریوں کو بچائیے۔ اور اپنے کارکن روانہ کریں۔۔۔ وائسرائے پردبائو ڈال دیجئے گا بہر حال آپ سب کچھ جانتے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ ایک وفادار دوست کو امداد کے بغیر ہرگز نہیں چھوڑیں گے فقط آپ کا شیخ محمد عبداللہ<۔
مکتوب لکھنے کے معاً بعد شیخ صاحب اور ان کے دو رفقاء غلام محمد بخشی اور خواجہ غلام نبی صاحب گلکار گرفتار کر لئے گئے۔ ان زعماء نے جیل خانہ کی طرف جاتے ہوئے اپنے دستخطوں سے مندرجہ ذیل تحریر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو لکھی جو مولوی عبدالاحد صاحب )ہزاروی( نے حضور کی خدمت میں پہنچادی۔
بحضور امام جماعت احمدیہ۔ قادیان
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ۔ ہم اس حیثیت سے کہ کشمیر کے مظلوم ہیں اور ہمارا جرم صرف اسلام ہے ہم حضور سے بحیثیت امام جماعت احمدیہ ہونے کے طالب امداد ہیں۔ حضور ہماری امداد فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
گو ہمیں اس امر کا ازحد صدمہ ہے کہ حضور نے اپنا دست شفقت بعض کم فہم احباب کی وجہ سے ہمارے سرپر سے اٹھالیا۔ مگر آپ کی ذات سے ہمیں پوری امید ہے کہ حضور اس آڑے وقت میں ہماری راہنمائی فرما کر ہمیں ممنون ومشکور فرماویں گے۔ اور ہمارے لئے ساتھ ہی دعا بھی فرماویں۔ والسلام۔ مفصل حالات صوفی عبدالاحد صاحب تحریر کریں گے۔ جیل جاتے وقت عریضہ لکھا گیا۔ کسی بھی قسم کی غلطی ہوتو معافی کے خواستگار ہیں۔ خاکساران
33۔5۔31 Bukhshi Mohammad Ghulam
33۔5۔31 ۔Nabi Ghulam ۔33۔5۔31 Abdullah ۔M۔S
شیخ عبداللہ صاحب کی گرفتاری کے چند روز بعد چودھری غلام عباس صاحب اور عبدالمجید صاحب قرشی قید کردیئے گئے اور ان کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں ایک درخواست موصول ہوئی جو ۷ / جون ۱۹۳۳ء کو سپرد ڈاک کی گئی تھی اور اس کے لفافہ پر یہ پتہ درج تھا:۔
>بخدمت اقدس حضرت مرزا بشیر الدین صاحب محمود امیر جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور< درخواست کے الفاظ یہ تھے:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازدفتر جموں وکشمیر مسلم کانفرنس۔ بخدمت حضرت صاحب قبلہ!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مزاج شریف
بندہ معہ عبدالمجید قرشی ایڈیٹر >پاسبان< آج غالباً ایک نوٹس کے بعد جو نوٹیفیکیشن ایل ۱۹ کے ماتحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے ہمیں موصول ہوا ہے خلاف ورزی کر کے جیل میں جارہے ہیں آنجناب نے جو کچھ اس وقت تک مظلومان کشمیر کے لئے کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور کسی تشریح کا محتاج نہیں بندہ کو امید واثق ہے کہ آنجناب اپنے گذشتہ ایثار کے پیش نظر پھر مظلوم مسلمانان کشمیر کی حمایت کے لئے کمربستہ ہوجائیں گے کیونکہ حالات سخت نازک صورت اختیار کررہے ہیں اور آنجناب کی مساعی جمیلہ کی از حد ضرورت ہے >برکریماں کارہا دشوار نیست< احقر غلام عباس۔ شیخ محمد عبداللہ کی گرفتاری کے بعد نوجوان پارٹی میدان عمل میں آئی تو مسلمانان کشمیر کے ۹ ڈکٹیٹروں میں سے ۳ احمدی ڈکٹیٹر تحریک آزادی کا جھنڈا تھامے ہوئے آگے آئے اور گرفتار کرلئے گئے۔ ۴
انہیں دنوں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت پر وزیراعظم کشمیر )مسٹر کالون( سے ملاقات کرنے کے لئے سرینگر پہنچے۔ مگر گورنر کشمیر نے سرینگر میں ٹھہر نے کی اجازت نہ دی آپ کو واپس آجانا پڑا۔ ۵ حکومت کشمیر مسلمانوں کی آئینی امداد کا سلسلہ بھی بند کردینا چاہتی تھی اس لئے اس نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو بھی ریاست سے چلے جانے کا نوٹس جاری کر دیا نیز میر واعظ مولانا احمد اللہ صاحب ہمدانی جلاد وطن کردیئے گئے۔
یہ تو حکومت کشمیر کا ردعمل تھا جہاں تک مسلمانان کشمیر کا تعلق ہے ان کو صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے استعفیٰ سے ازحد صدمہ ہوا۔ اور ان میں انتہائی بے چینی اور اضطراب کے آثار پیدا ہوگئے۔ اور ہر حصہ کشمیر کے معززین نے محضر نامے بھیجکر درخواست کی کہ آپ مسلمانان کشمیر کی پہلے کی طرح امداد فرماتے رہیں۔۶ چنانچہ جماعت احمدیہ کی طرف سے انہیں یقین دلایاگیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ اور دوسرے افراد جماعت اہل کشمیر کی ترقی و بہبود میں اپنے وعدہ کے مطابق ہمیشہ سرگرم عمل رہیں گے۔ جدید کشمیر کمیٹی کے ممبروں نے پنجاب میں یہ غلط فہمی پھیلا رکھی تھی کہ یہ احمدی وکلاء اور احمدی کارکن اس تحریک کو اپنی تبلیغ کے لئے آلہ کار بنا رہے تھے کشمیر کے مخلص مسلمانوں نے اس الزام کی پر زور تردید کی اور اسے احسان فراموشی پر محمول کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اللہ تعالیٰ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
میر احمد اللہ صاحب ہمدانی میر واعظ سرینگر
میراحمد اللہ صاحب ہمدانی میر واعظ کشمیر نے لکھا۔ اگرچہ میں قادیانیت سے دور ہوں مگر سیاسی مصالح کے لحاظ سے متحدہ محاذ بنانے کے حق میں ہوں کشمیر کمیٹی اور جناب کی انتھک کوشش ہمارے دلی شکریہ کی مستحق ہے جس کی ہر وقت کی امداد اور قیمتی مشوروں نے مشکلات کے حل کرنے میں آسانیاں پیدا کیں۔
وائس پریذیڈنٹ انجمن اسلامیہ کوٹلی نے لکھا۔ احرار کمیٹی نے مسلمانوں کو تحتہ لحد میں پہنچادیا۔ ہم مسلمانان ریاست آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے تہ دل سے مشکور ہیں کہ جنہوں نے اس نازک موقعہ پر جانی و مالی ودماغی امداد دے کر ہمیں مشکور کیا۔ اگر کشمیر کمیٹی کا وجود نہ ہوتا تو مسلمانان ریاست ہی معدوم ہوگئے ہوتے<۔ ۷
مسلمانان سرینگر
سرینگر کے مسلمانوں نے اعلان کیا:۔
۱۔ ہم مسلمانان محلہ کلاش پورہ محلہ مخدوم منڈو اور محلہ بابا ندہ گنائی ۔۔۔ جناب مرزا محمود احمد صاحب نے جو خدمات مسلمانان کشمیر کے لئے فرمائیں ان کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ آئندہ بھی مسلمانان کشمیر کی اعانت پہلے سے بھی زیادہ فرمائیں گے۔ کیونکہ مسلمانان کشمیر کو ان کی ہمدردی اور مدد کی ہر وقت ضرورت ہے جملہ مسلمانان کشمیر کو جناب ممدوح پر بہت اعتماد اور بھروسہ ہے اور جناب ممدوح کے خلاف پراپیگنڈا` کرنیوالے عنصر کو کشمیری مسلمان قومی غدار خیال کرتے ہیں۔۔۔۔ جملہ مسلمانان محلہ جات بذریعہ پیر احسن شاہ صاحب سرینگر کشمیر۔ ۸
مسلمانان جموں
مسلمانان جموں نے لکھا:۔ ہم جملہ اسلامی فرقہ جات اہل سنت والجماعت اہلحدیث نقشبندی وقادری اعلان کرتے ہیں کہ اکثر غداران قوم نے یہ غلط طور پر مشہور کیا۔ کہ وکلاء صاحبان مامورہ کشمیر کمیٹی نے ورثاء اہل مقدرمات سے محنتانہ لیا اور یہ بھی غلط پروپیگنڈا کیا گیا۔ کہ جماعت احمدیہ نے کشمیر کی آڑ میں اپنی جماعت کی تبلیغ کی انہوں نے قطعاً کوئی تبلیغ نہ کی۔ بلکہ بنظر ہمدردی ہر گونہ امداد کی۔ اور سیاسی معاملات میں ہم کو اس تفریق کی ضرورت نہیں۔ کل مسلمان بھائی بھائی ہیں اور سیاسی میدان میں مکمل اتحاد ضروری ہے ہم جناب مرزا محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی اس کوشش اور تردد کے لئے جو انہوں نے سیاسی پہلو سے اہل کشمیر کے لئے فرمائی تہ دل سے مشکور ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ خواہ وہ صدارت کشمیر کمیٹی سے مستعفی ہوچکے ہیں پھر بھی بدستور اس کار خیر کو ذاتی کوشش سے سرانجام دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔ ۹ )اس درخواست پر جموں کے اکتیس معزز مسلمانوں کے دستخط تھے۔
مسلمانان علاقہ سماہنی )ریاست جموں)
علاقہ سماہنی )ریاست جموں( کے مقتدر مسلمانوں نے لکھا۔ گو جناب مصلحت وقتی کی بناء پر صدارت آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مستعفی ہوگئے ہیں لیکن آپ کی سابقہ عنایات کا نقش ہمارے دلوں سے کبھی مٹ نہیں سکتا۔ بلکہ آئے دن تازہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وکلاء نے بدوران شورش ہمارے مقدمات میں جس محنت اور تندہی سے کام کیا ہے اس کا ہمارے دلوں پر گہرا اثر ہے جو کبھی مٹنے والا نہیں۔
یہ تبلیغ احمدیت کا جو الزام وکلاء پر لگایا جاتا ہے۔ اسے ہم نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے معترضوں کی لغوبیانی کو بہت بری طرح محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت جبکہ ہم سخت مصیبتوں کا شکار ہورہے تھے۔ آپ ہی کا کام تھا کہ بغیر کسی ذاتی مفاد کے ہمارے مقدمات کی پیروی کے لئے اپنے وکلاء کو بھیج کر ہماری مدد کی۔ اور محنتانہ کے عوض خالی شکریہ پر ہی اکتفا کرتے رہے۔ اور ہمیں تمام تکالیف سے نجات دلانے کے لئے خود مصائب برداشت کرتے رہے۔ ۱۰
‏sub] g[taمسلمانان میرپور
صاحب دین صاحب نے مسلمانان میرپور کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا۔ مجھے یہ کامل یقین تھا کہ آنحضرت کی ذات اقدس اگر بدستور پریذیڈنٹ شپ کے عہدے پر فائز رہی تو ہم مظلومان میر پور کی فلاح وبہبود کا موجب ہوگی مگر چند ایک ناعاقبت اندیشوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ جس کا نتیجہ لازمی طور پر برعکس نکلا علی بیگ اور سکھ چین پور کے مقدمات میں اسیران کو جو طویل وسنگین سزائیں دی گئی ہیں غالباً یہ اس امر کا روشن ثبوت ہے۔
سزائوں کے متعلق جناب کے پاس اخبار پہنچ ہی چکے ہوں گے جناب کی خدمت اقدس میں اب میری یہی التجا )ہے( جس طرح پیشتر آنحضور نے فی سبیل اللہ خود غرضوں کی طعن و تشنیع کو نظر انداز کرتے ہوئے مظلوموں کی حمایت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اسی طرح اب بھی ان معصوم بچوں کی زاری پرجن کے باپ شاید ان سے ہمیشہ کے لئے چھن گئے ترس فرماتے ہوئے ان کی مدد کے لئے میدان عمل میں گامزن ہوکر مسلمانان میر پور کی املاک قلوب پر قابض ہوجائیں مجھے دنیا میں آنحضرت اور جماعت احمدیہ کے بجز کوئی اور شخصیت یا سوسائٹی نظر نہیں آتی جو بے سپر مسلم قوم کی معاون ومددگار ہو تمام باتونی لیڈران میر پور کو آپ جانتے ہیں اب موقع ہے کہ مسلمانان میرپور کے دلوں کو ہمیشہ کے لئے جیتا جائے ۔۔۔۔۔ مجھے پوری پوری توقع ہے کہ ضرور کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے گا جو میرے اور میرے ہم خیالوں کے لئے باعث فخر ہوگا< ۔۔۔۔ آپ کا خادم بقلم خود صاحب الدین زرگر پنشنر میرپور<۔
مسلم ایسوسی ایشن پونچھ
)۱( مسلم ایسوسی ایشن پونچھ نے ایک عام اجلاس میں جو ۲۳ / جون ۱۹۳۳ء کو منعقد ہوا۔ قرار داد پاس کی کہ گذشتہ فسادات کے موقعہ پر جو احمدی وکلاء یہاں کام کرتے رہے ہیں۔ ان پر عائد کردہ سب الزامات قطعاً غلط اور جھوٹے ہیں۔ انہوں نے نہایت شرافت` نہایت دیانتداری اور انتہائی بے نفسی سے ہماری مدد کی۔ اور اس کے معاوضہ میں سوائے مخلصانہ شکریہ اور دلی دعائوں کے کچھ وصول نہیں کیا۔ ہم متفقہ طور پر انسانیت کے ان محسنوں کے خلاف ایسے غیر شریفانہ پراپیگنڈا کی پورے زور کے ساتھ مذمت کرتے ہیں اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر اظہار ملامت کرتے ہیں۔
۲۔ ایسوسی ایشن ان احسانات اور نوازشات کی ممنون ہے جو کشمیر کمیٹی کے سابق صدر نے ازراہ مہربانی بروقت امداد کرکے نہایت فیاضانہ طور پر ہم پر کی ہیں اور آئندہ کے لئے بھی ان سے ہمدردانہ امداد کی توقع رکھتے ہیں کوئی جھوٹا پراپیگنڈا نہ ان کو بد دل کرسکتا ہے اور نہ انہیں بد دل ہونا چاہئے ہمیں تاحال ان کی مدد کی ضرورت ہے۔
۳۔ احمدی وکلاء چوہدری عزیز احمد صاحب اور قاضی عبدالحمید صاحب کی مخلصانہ خدمات کی ہم تہ دل سے قدر کرتے ہیں۔
۴۔ ہم مرزا بشیر الدین محمود احمد سابق صدر کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ہماری درخواست پر پھر یہاں بھیج دیا۔ جن کی کوششیں ہمارے لئے بہت ہی مفید ثابت ہورہی ہیں<۔۱۱
مسلمانان تھکیالہ پڑاوہ
سرفراز خاں صاحب نمبردار تھکیالہ پونچھ رئیس کریلا نے لکھا حضور کے کمیٹی سے مستعفی ہونے پر ہر طرف شور برپا ہورہا ہے لوگ حضور کے احسان سے تادم مرگ عہدہ برآنہیں ہوسکتے۔
مسلمانان تھکیالہ نے ۲۳ / مئی ۳۳ء کے ایک عظیم اجتماع میں مندرجہ ذیل ریزولیوشن پاس کیا کہ ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی ڈیڑھ سالہ خدمات کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ کمیٹی نے اپنے وسیع ذرائع سے کام لے کر مسلمانان کشمیر کے مطالبات کی حمایت میں عالمگیر پراپیگنڈا کیا جس سے انگلستان تک کے جرائد وعمائد بلکہ ارباب حکومت تک متاثر ہوئے اس نے سب سے اہم خدمات خود کشمیر میں سرانجام دیں شہداء اور مجروحین کی مالی امداد کی۔ کارکنوں کی تنظیم کی۔ ماخوذین کے لئے قابل اور ایثار پیشہ بیرسٹر بھیجے کشمیر کمیٹی کے صدر محترم صاحب کا استعفیٰ اہالیان کشمیر کے لئے انتہائی بدقسمتی ہے- ہم جناب مرزا صاحب سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے استعفیٰ پر نظرثانی فرمادیں<۔
مسلمانان گلگت
مسلمانان گلگت نے حضور کی خدمت میں لکھا۔ بحضور عالی جناب حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
گذارش ہے کہ جملہ مسلمانان گلگت تحریک کشمیر میں حضور والا کو اپنا نمائندہ تسلیم کرتے ہوئے نہایت ہی عاجزی اور انکساری سے التجا کرتے ہیں کہ لل¶ہ حقوق طلبی میں مسلمانان کشمیر کو ہر ممکن امداد دیکر ممنون احسان بنایا جائے۔ )۲( اس وقت تک تحریک کشمیر میں جو امداد حضور والا دیتے رہے ہیں۔ اس کے لئے مسلمانان گلگت )کشمیر( کا بچہ بچہ حضور کا شکر گزار ہے خداوند تعالیٰ حضور کو اس احسان کے عوض جزائے خیر عطا فرمائے۔۱۲ )جملہ مسلمانان گلگت بذریعہ محمد اکبر خان(
مسلم پریس کا تبصرہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے صدارت کمیٹی سے استعفیٰ پر اہل کشمیر پر کیابیتی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے اب یہ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب کے مسلم پریس نے اس موقعہ پر کن خیالات کا اظہار کیا۔ جناب سید حبیب صاحب نے اپنے اخبار >سیاست< ۱۸ / مئی ۳۳ء میں لکھا۔
>لاہور کے بعض ارکان کشمیر کمیٹی میں یہ تحریک جاری تھی کہ کمیٹی مذکور کے عہدہ داروں کا جدید انتخاب ہو مجھ سے بھی اس تحریک کی تائید کے لئے کہا گیا اور میں نے بھی متعلقہ کاغذ پر دستخط کئے لیکن افسوس ہے کہ معلومہ حادثہ کی وجہ سے میں جلسہ میں موجود نہ تھا معلوم ہوا ہے کہ اس جلسہ میں مرزا صاحب کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا چوہدری غلام رسول صاحب مہر نے بھی سیکرٹری کے عہدہ سے استعفیٰ داخل کردیا۔ اور ان کی جگہ ملک برکت علی صاحب کا تقرر عمل میں آیا۔ میں خوش ہوں کہ ایسا ہوا۔ اس لئے میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باوجود ڈاکٹر اقبال اور ملک برکت علی صاحب دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے۔ اور یوں دنیا پر واضح ہوجائے گا۔ کہ جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کام کی کامیابی کو زیرنگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا۔ اس وقت اگر اختلافات عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی۔ اور امت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا۔ میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کا مترادف ہے مختصر یہ کہ ہمارے انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہوجائے گی۔ والحمد للہ علی ذالک<۔۱۳
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کااستعفیٰ اور اخبار >سیاست<
جناب سید حبیب صاحب ایڈیٹر سیاست کا اندازہ آئندہ واقعات نے بالکل صحیح ثابت کردیا چنانچہ ڈاکٹر سر اقبال صاحب نے ۲۰ / جون ۱۹۳۳ء۱۴ کو ایک بیان میں کشمیر کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا سید حبیب صاحب نے اس بیان اور استعفیٰ پر اخبار سیاست )۲۴ / جون ۱۹۳۳ء( میں مفصل تبصرہ شائع کیا جو بجنسہ درج ذیل ہے۔ سید صاحب نے لکھا-:
>ڈاکٹر سر محمد اقبال نے جو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے تھے۔ عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے آپ نے ایک بیان میں جو اخبارات کر برائے اشاعت دیا گیا ہے کشمیر کمیٹی کے قادیانی ممبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے مذہبی پیشوا کے علاوہ کسی شخص یا جماعت کی وفاداری نہیں کرسکتے۔
آپ اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں۔ >پبلک کو یاد ہوگا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنا کشمیر کے مسلمانوں کی فوری ضرورت کو مدنظر رکھ کر ڈالی گئی تھی اس وقت یہ خیال نہ تھا کہ اس کمیٹی کی عمر بہت لمبی ہوگی اس لئے اس کے لئے کوئی آئین وضع نہ کیا گیا تھا۔ بلکہ صدر کو مطلق العنان اختیارات دیئے گئے تھے جب کشمیر کے حالات کی وجہ سے کشمیر کمیٹی ایک مستقل جماعت بن گئی تو بہت سے ممبروں کو یہ خیال ہوا کہ اس کے لئے ایک باضابطہ آئین بنایا جائے اور اس کے عہدہ داروں کا ازسر نوانتخاب کیا جائے اس خیال کو تقویت دینے والا یہ امر بھی تھا کہ بہت سے ممبر کشمیر کمیٹی کی بناوٹ اور اس کے کام سے غیر مطمئن تھے چنانچہ اس مقصد کے لئے کشمیر کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں اس کے صدر نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا جو منظور کر لیا گیا۔
اس کے بعد گزشتہ اتوار کو کشمیر کمیٹی کا ایک اجلاس برکت علی محمڈن ہال میں منعقد ہوا۔ اور اس کے سامنے کشمیر کمیٹی کے آئین کا ایک مسودہ پیش کیاگیا۔ جس کی غرض یہ تھی کہ کشمیر کمیٹی کو صحیح معنوں میں نمائندہ جماعت بنالیا جائے بعض ممبران اس مقصد کے مخالف تھے اور عہدوں کے مسئلے پر جو بحث ہوئی اس سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ صاحبان کشمیر کمیٹی کو برائے نام ایک جماعت رکھتے ہوئے اصل میں دو جماعتوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں چنانچہ میں نے اسی وقت اس رائے کا اظہار بھی کردیا۔
بدقسمتی سے کشمیر کمیٹی میں بعض ایسے ممبر بھی ہیں جو اپنے مذہبی پیشوا کے علاوہ کسی اور کی اطاعت تسلیم نہیں کرتے یہ امر اس بیان سے ظاہر ہوگیا تھا جو ایک احمدی وکیل نے جو میر پور کے مقدمات میں پیروی کررہا تھا۔ چند روز ہوئے اخبارات میں شائع کرایاتھا۔ اس نے اس امر کا اعتراف کیا تھا۔ کہ اس نے یا اس کے ساتھیوں نے جوکچھ اب تک کیا تھا۔ وہ صرف اپنے مذہبی پیشوا کے حکم کی تعمیل میں کیا تھا۔ میں نے اس بیان کو احمدیوں کے عام نقطہ نگاہ کا اعلان خیال کیا تھا۔ اور مجھے اس وقت کشمیر کمیٹی کے مستقبل کے متعلق خطرات پیدا ہوگئے تھے۔ جہاں تک کشمیر کمیٹی کی عام پالیسی کا تعلق ہے میرے علم میں ممبروں میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر پالیسی میں عام اختلاف ہوتو کمیٹی کے اندر یا کسی پارٹی کے بننے پر کوئی اعتراض نہیں رکھ سکتا لیکن کشمیر کمیٹی میں جو اختلاف رونما ہیں وہ ایسے وجوہات کی بناء پر ہیں جو میری رائے میں بالکل غیر متعلق ہیں مجھے یقین نہیں کہ کشمیر کمیٹی آئندہ سکون کے ساتھ کام کرسکے گی اور میں محسوس کرتا ہوں کہ تمام پارٹیوں کے مفاد میں یہی بات ہے کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کو توڑ دیا جائے لیکن کشمیر کے مسلمانوں کو برطانوی ہند میں ایک کشمیر کمیٹی کی اعانت اور راہنمائی کی ضرورت ہے اگر برطانوی ہند کے مسلمان ان کی اعانت اور راہنمائی کرنا چاہیں تو وہ ایک پبلک جلسہ منعقد کرکے ایک نئی کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں میں نے ان وجوہ کو جنہوں نے مجھے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا بلاکم وکاست بیان کردیا ہے میں امید کرتا ہوں کہ میری صاف گوئی سے کوئی شخص ناراض نہ ہوگا کیونکہ یہ صاف گوئی کسی سے عداوت کی بناء پر نہیں ہے<۔
۱۔ علامہ صاحب نے دانشمندی سے بیان نہیں کیا کہ جس روز شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا بطور صدر انتخاب علامہ اقبال ہی کی تحریک پر عمل میں آیا تھا اور جن لوگوں نے ان کے عقائد کی وجہ سے ان کے انتخاب کو صحیح نہ سمجھا تھا۔ علامہ قبال نے ان کے اندیشہ پر کمزوری کی پھبتی اڑائی تھی۔
۲۔ ممکن ہے کہ حضرت علامہ کا یہ خیال صحیح ہو کہ کشمیر کمیٹی کے قادیانی ارکان تدبرو دانشمندی کی تدابیر کی بجائے اپنے امام کی تائید کرتے ہیں لیکن جس اجلاس میں علامہ اقبال مستعفی ہوئے اس میں کوئی ایسا مظاہرہ نہیں ہوا البتہ اگر کسی نے مجالس کے بنیادی اصول و دستور کو مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے اشارے پر قربان کیا تو وہ خود علامہ اقبال تھے۔ جس کی تفصیل آگے چل کر بیان کی جائے گی۔
۳۔ جس جلسہ میں علامہ اقبال مستعفی ہوئے وہ ۱۸ / جون کو ہوا تھا اس جلسہ میں پہلی قرارداد اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔
۴۔ اس کے بعد آئین مجلس کا معاملہ پیش ہوا۔ پہلی دفعہ جو نام کے متعلق تھی بالاتفاق منظور ہوئی مقاصد کے دوحصے تھے دونوں لفظی ترمیم کے بعد اتفاق آراء سے پاس ہوئے۔ تیسری دفعہ میں خاکسار نے تین ترمیمیں پیش کیں۔ دو اتفاق رائے سے منظور ہوئیں۔ تیسری یہ تھی کہ ممبری کی درخواست پر کمیٹی کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہوگی۔ یہ بہت بحث کے بعد ووٹ کے لئے پیش ہوئی۔ دس ووٹ اس کے حق میں تھے اور پانچ مخالف لہذا میری ترمیم منظور ہوگئی۔
۵۔ علامہ اقبال اور مرزا محمود احمد صاحب امیر جماعت قادیان دونوں میرے خلاف تھے لہذا دونوں متحد ہوگئے مرزا صاحب نے میری ترمیم کے مقابلہ میں ترمیم پیش کی ہوئی تھی۔ جو میری ترمیم کے منظور ہوجانے کے بعد کسی قاعدہ کے رو سے پیش نہیں ہوسکتی تھی۔ مگر علامہ اقبال نے اصول مجالس کو مرزا صاحب کی خاطر بالائے طاق رکھ دیا۔ اور ان کی ترمیم مجلس کے روبرو پیش کردی اور علامہ اقبال اور مرزا صاحب کے مریدوں کے ووٹوں سے وہ منظور ہوگئی۔ گویا مرزا صاحب کی بے جا حمایت اگر کسی نے کی تو علامہ اقبال تھے۔
۶۔ اس کے بعد عہدیداروں کی تعداد زیر بحث آئی۔ صدر ایک بالاتفاق تجویز ہوا وائس پریذیڈنٹ دس تجویز کئے گئے تھے کثرت رائے یہ تھی کہ وائس پریذیڈنٹ بھی ایک ہی ہو۔ مگر علامہ اقبال مصر تھے کہ ایک سینئر وائس پریذیڈنٹ اور باقی صرف وائس پریذیڈنٹ کہلائیں۔ یہ بات منظور ہوئی اور قرار پایا کہ ایک سینئر پریذیڈنٹ ہوا کرے اور تین وائس پریذیڈنٹ۔ یہاں تک صلح و آشتی اور امن سے کارروائی ہوئی۔
۷۔ اس کے بعد تجویز کیا گیا تھا کہ ایک سیکرٹری ہوا کرے ۔ اور ایک اسسٹنٹ سیکرٹری ۔ کثرت رائے یہ تھی کہ سیکرٹری دوہوں مگر دونوں سیکرٹری کہلائیں کسی کو اسسٹنٹ کہہ کر ذلیل نہ کیا جائے۔ اور نہ دوسروں کے ماتحت کیا جائے علامہ اقبال نے زور دیا کہ سیکرٹری اور اسسٹنٹ سیکرٹری کی تجویز منظور کی جائے مرزا صاحب نے بھی اس موقع پر علامہ اقبال کی خاطر تجویز کیا کہ دوجائنٹ سیکرٹری رکھے جائیں۔ دوسری طرف سے عرض کیا گیا کہ دلائل سن لئے جائیں مناسب یہ تھا کہ علامہ اقبال دلائل سن کر مسئلہ کو ووٹ پر چھوڑ دیتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اور کسی سے بات کئے بغیر اچانک یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا۔ کہ بعض ارکان کی روش ایسی ہے کہ میں آئندہ آپ کا صدر نہیں بن سکتا )حالانکہ یہ زیربحث نہیں تھا کہ علامہ صاحب آئندہ صدر ہوں( اور میں عارضی صدارت بھی ترک کرتا ہوں<۔
آپ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے سیکرٹری نے کہا آپ مستعفی ہوتے ہیں تو میں بھی استعفیٰ دیتا ہوں اور وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے لیکن آخر وکیل تھے۔ فوراً پلٹا کھایا اور کہنے لگے کہ صاحب صدر جلسہ منتشر کرتے ہیں اور حالانکہ صدر نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اور وہ مستعفی ہونے کے بعد شاید کر بھی نہیں سکتے تھے پیراکبر علی صاحب نے اسی وقت کہدیا کہ صدر صاحب نے مستعفی ہونے سے پہلے جلسہ منتشر نہیں کیا اور اب وہ ایسا کرنہیں سکتے تھے۔ اس کے بعد افراتفری سی پیدا ہوگئی اور سب چل دیئے۔
۸۔ میری دانست میں علامہ اقبال کو غلط فہمی ہوئی کوئی شخص ان کی ذات یا صدارت کے خلاف نہیں ہے لیکن یہ خوامخواہ ملک برکت علی کی حمایت کرتے ہیں۔۔۔ انہوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ ملک صاحب کی قسم کے لوگوں کو عملاً بتادیں گے کہ ان کی قوم کے حلقوں میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کانگریسی حلقہ انہیں کمزور سمجھتا ہے یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے لہذا سراقبال کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ ملک صاحب کی حمایت سے ہاتھ اٹھائیں۔
۹۔ علامہ اقبال کی یہ تجویز فتنہ کی بنیاد ہے کہ مسلمان جلسہ کرکے کشمیر کمیٹی بنالیں۔ علامہ اقبال کے بغیر کشمیر کمیٹی نے کام کیا وہ اب بھی موجود ہے اور آئندہ بھی کام کرے گی۔
۱۰۔ حق یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا کام علامہ اقبال اور برکت علی صاحب کے بس کا نہیں تھا۔ لہذا وہ بہانہ بناکر بھاگ گئے ورنہ جس وقت وہ مستعفی ہوئے اس وقت نہ کوئی جھگڑا ہوا نہ تو تو میں میں ہوئی اور نہ کوئی اختلاف رائے ہی بہت زیادہ موجود تھا<۔۱۵
قدیم کشمیرکمیٹی کے خاتمہ کااعلان اورجدید کشمیرکمیٹی کی تشکیل
ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اپنے بیان میں کشمیر کمیٹی کے وجود وبقا کے لئے ایک پبلک جلسہ کی تجویز پیش کی تھی۔ جو ان کے رفقاء کی طرف سے ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو لاہور میں منعقد کیا گیا اور اس میں قدیم کشمیر کمیٹی کے خاتمہ اور ایک جدید کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا حالانکہ مدیرانقلاب کے الفاظ میں لاہور شہر کا کوئی نہایت ہی معمولی پبلک جلسہ نہ اس بات کا حقدار تھا کہ نئی کمیٹی بناکر اسے آل انڈیا کشمیر کمیٹی قرار دیتا اور نہ اس امر کا مجاز تھا کہ پہلی کشمیر کمیٹی کو توڑ دیتا زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا تھا کہ کسی بننے والی کمیٹی پر اظہار اعتماد کردیاجاتا اور پرانی کمیٹی پر بے اعتمادی کی قرار داد منظور کردی جاتی اس حالت میں یہ سمجھا جاتا کہ لاہور شہر کے ان چند سو مسلمانوں کو جو ایک خاص تاریخ کو دہلی دروازے کے باہر جمع ہوئے تھے پرانی کمیٹی کے کام پراعتماد نہیں اور بس لیکن وہ مسلمان اگر چند سونہیں بلکہ چند ہزار بھی ہوتے تو سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی ونیابت کا منصب سنبھال لینے کے حقدار نہ تھے۔ ۱۶
پنجاب کے مشہور مسلمان سیاسی لیڈر جناب احمد یار صاحب دولتانہ نے اس مرحلہ پر ۱۲ / جولائی ۱۹۳۳ء کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا:۔ دلنواز ۔ ڈلہوزی ۳۳/۷/۱۲
قبلہ وکعبہ مخدومی معظمی محترم مدظلہ۔ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ و ادائے آداب کے بعد گزارش ہے نوازش نامہ فیض شمامہ شرف صدور لاکر باعث سربلندی بندہ ہوا خداوندکریم کے فضل اور حضور کی دعاسے عزیز ممتاز محمد خاں بی۔اے کے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا۔ اور تاریخ میں آنرز میں پنجاب بھر میں دوم رہا۔ وہ انشاء اللہ ۷ / ستمبر کو آکسفورڈ جائے گا۔ دعافرمائیں کہ خداوندکریم اسے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق اور ہدایت دے۔
حسام الدین جو کشمیر سے آیا تھا اس نے لاہور میں روپیہ خرچ کیا اسے ایک دوست نے کہا کہ کشمیر کمیٹی کا اس وقت تک خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ حضور کمیٹی میں ہیں آپ کی ذات مہاراجہ کی آنکھو میں مثل خار کھٹکتی تھی۔ اور واقعی جوکام گورنمنٹ آف انڈیا اور ریاست کشمیر نہ کرسکتے تھے وہ حضور کی بلند حوصلگی اور اقبال کی دوں ہمتی سے ہوگیا میں نے تو پیر اکبرعلی صاحب سے صاف کہ دیا تھا کہ۔
نکوئی یابداں کردن چناں است
کہ بدکردن بجائے نیک مرداں
میاں سرفضل حسین نے بھی میری زبانی سراقبال کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کے نقصان کے علاوہ اسے ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوگا مگر وہ شیر قالین ہے عملی بات تو سمجھنے سے قاصر ہے میری رائے ناقص میں تو حضور والا کو یہ کام پھر ہاتھ میں لینا چاہئے۔ ہم سب حضور کے جانثار خادم ہیں۔ اقبال سے نہ پہلے کچھ ہوسکا اور نہ اب ہوسکے گا اس کے متعلق جو احکام ہوں بسروچشم تعمیل ہوگی۔
برادرم محمد عبداللہ کی بابت بھائی سکندر حیات نے گوکل چند سے وعدہ لے لیا ہے میں پھر ان کو اور ڈاکٹر صاحب کو لکھ رہا ہوں میرے لئے دعائے خیر فرمائیں۔ اگر کسی خدمت کے قابل ہوں تو خادم ہوں۔ حضور کا جان نثار غلام ۔ احمدیار دولتانہ
>جدید کشمیر کمیٹی< کا انجام
جدید کشمیر کمیٹی بڑے جوش وخروش سے ۲ / جولائی ۱۹۳۳ء کو معرض وجود میں آئی تھی۔ بالاخر مختصر سی مدت کے بعد ختم ہوگئی۔ اس کے زمانہ قیام میں اس نے اگر کوئی قابل ذکر کام کیا تو یہ کہ اس نے بعض وکلاء کو )جن میں بہار کے ایک وکیل مسٹر نعیم الحق بھی تھے( کو دو ایک مقدمات کی پیروی کے لئے ریاست کشمیر میں بھجوایاجو چند روز بحث کرنے کے بعد چلے آئے ڈاکٹر صاحب ایک اور مقدمہ میں بھی سید نعیم الحق صاحب کو بھجوانا چاہتے تھے کہ شیخ عبدالحمید صاحب )صدر آل کشمیر مسلم کانفرنس کی طرف سے انہیں اطلاع پہنچی کہ اس کی پیروی چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کریں گے اس پر ڈاکٹر صاحب نے ۹ / فروری ۱۹۳۴ء کو سید نعیم الحق صاحب اس سے مطلع کرتے ہوئے لکھا۔ >چوہدری ظفر اللہ خان کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جارہے ہیں مجھے معلوم نہیں شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں۔ ۱۷
ڈاکٹر صاحب کے مشہور سوانح نویس جناب عبدالمجید صاحب سالک ذکر اقبال میں خط کا یہ حصہ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں حالانکہ شیخ محمد عبداللہ )شیرکشمیر( اور دوسرے کارکنان کشمیر مرزا محمود احمد صاحب اور ان کے بعض کارپردازوں کے ساتھ خفیہ نہیں بلکہ علانیہ روابط رکھتے تھے اور ان روابط کا کوئی تعلق عقائد احمدیت سے نہ تھا بلکہ ان کی بناء محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیرالوسائل ہونے کی وجہ سے تحریک کشمیر کی امداد کئی پہلوئوں سے کررہے تھے اور کارکنان کشمیر طبعاً ان کے ممنون تھے۔ چودھری ظفر اللہ خاں بھی یقیناً مرزا صاحب ہی کے اشارے سے مقدمے کی پیروی کے لئے گئے ہوں گے۔ ۱۸
دو اہم بیانات
اس مقام پر جدید کشمیر کمیٹی کے آغاز و انجام سے متعلق دوضروری بیانات کا درج کرنا ضروری ہے پہلا بیان جناب شیخ عبدالحمید صاحب ایڈووکیٹ سابق صدر آل کشمیر مسلم کانفرنس کا ہے اور دوسرا پروفیسر علم الدین صاحب سالک کا ۔ یہ بیانات اصل واقعات تک پہنچنے میں کافی راہنمائی کرتے ہیں۔
جناب شیخ عبدالحمید صاحب ۱۹ ایڈووکیٹ جموں کا بیان ہے کہ میرے نزدیک دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس امر کا اظہار بلاخوف تردید کیا جائے کہ میاں بشیر الدین محمود صاحب امام جماعت احمدیہ اور ان کی تشکیل کردہ کشمیر کمیٹی اور ان کی جماعت کے افراد نے جو گراں بہا خدمات تحریک آزادی کشمیر کے سلسلہ میں انجام دیں۔ اس کا ہی یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانان ریاست اپنے حقوق حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ملازمتوں میں ان کی کمی پوری ہونی شروع ہوئی اسمبلی یعنی مجلس قانون ساز کا قیام عمل میں آیا۔ جس قدر مساجد و دیگر مقدس ومتبرک مقامات سکھوں کے عہد سے ڈوگرہ حکومت کے زیر قبضہ و تصرف تھے سب واگزار ہوکر اہل اسلام کو مل گئے اور صوبہ کشمیر و میرپور جس کو ڈوگرہ حکمران اپنی ذاتی ملکیت اور زرخرید جانتے تھے اور زمینداروں سے حق مالکان وصول کرتے تھے بالاخر اس سے ان کی دست بردار ہونا پڑا۔ نہ صرف لوگوں کو حق ملکیت ہی مل گیا بلکہ رقم مالکانہ جو مالیہ اراضی میں تھی۔ وہ بھی منفی ہوگئی۔ جس سے مسلمانوں کو لاکھوں روپے سالانہ کی ادائیگی معاف ہوگئی اور جائیداد زرعی دیہی کے رہن وبیع وغیرہ پر جو پابندی عائد تھی دور ہوگئی یہ لوگ اپنی مقبوضہ جائیداد کے مالک کامل بن گئے پریس اور پلیٹ فارم کو بھی آزادی نصیب ہوئی تعصب مذہبی نے جب میاں بشیر الدین صاحب کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے علیحدگی پر مجبور کر دیا۔ تو ان کی جگہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم ومغفور صدر چنے گئے علامہ مسلمانوں کے لحاظ سے بڑے محترم تھے مگر ان کے پاس ایسی کوئی منظم جماعت نہ تھی کہ جیسی جماعت احمدیہ میاں بشیر الدین صاحب کے تابع فرمان تھی اور نہ ہی علامہ کے پاس ایسا کوئی سرمایہ تھا کہ جس سے وہ ریاست کے اندر جماعت احمدیہ کی طرح اپنے خرچ پر دفاتر کھول دیتے۔ اس لئے ان کی صدارت کے ایام میں کوئی نمایاں کام نہ ہوسکا۔ کہاں میاں بشیر الدین محمود کے حکم سے سرظفر اللہ اور شیخ بشیر احمد و چودھری اسداللہ وغیرہ وکلاء مقدمات کی پیروی کے لئے آتے رہے بلکہ مستقل طور پر بعض سرینگر ` میر پور` نوشہرہ وجموں میں رہ کر کام کرتے رہے ان کے طعام وقیام وغیرہ کے تمام اخراجات بھی میاں صاحب بھیجتے رہے۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد نہ دفتر رہے نہ مستقل وکلاء ہی رہے ایک بار سرینگر کے ایک کیس میں جبکہ میں شیخ صاحب کی گرفتاری پر قائم مقام صدر مسلم کانفرنس تھا میرے لکھنے پر انہوں نے بہار کے وکیل سرکار انعام الحق صاحب ۲۰ کو سرینگر میں بحث کرنے کے لئے روانہ فرمایا چند دن رہے اور ہائیکورٹ میں بحث فرماکر واپس چلے گئے<۔
جناب پروفیسر علم الدین صاحب سالک )پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور( کا بیان ہے:۔
>حکومت کشمیر کی طرف سے ایک بااثر پیر صاحب آئے دن کشمیر سے آکر لاہور کی مسجد غوثیہ میں فروکش رہتے تھے وہ یہاں کشمیر کمیٹی کے خلاف سازش کرتے رہتے تھے اس نے احرار نیشلسٹ مسلمانوں سے مل کر اور دیگر اپنے کام کے آدمیوں کی معرفت کشمیر کمیٹی کے ممبروں تک رازداری کے ساتھ رسائی حاصل کرکے تفرقہ وانتشار کا بیج بویا۔ اور ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی بیچ میں گانٹھ لیا۔ اسی تفرقہ اندازی کا ہی نتیجہ تھا کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکاکر احمدی اور غیر احمدی کا سوال بڑے زور سے اٹھایا گیا چنانچہ اندر ہی اندر یہ تحریک چلائی گئی کہ کشمیر کمیٹی کا صدر غیر قادیانی ہونا چاہئے تاکہ کمیٹی اطمینان کے ساتھ صحیح معنوں میں کام کرسکے۔ اس خفیہ تحریک کو اس طرح بروئے کار لایا گیا کہ کمیٹی کے ممبران سے یہ مطالبہ شروع کرایا گیا کہ کمیٹی کا نیا انتخاب ہونا چاہئے امام جماعت احمدیہ کو اس ساری کارروائی کا پتہ چل گیا۔ اور اسی دوران میں بعض ممبران کی طرف سے وہ بیان >سول اینڈ ملٹری گزٹ< میں شائع کرایا گیا جس کا حوالہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے استعفیٰ میں دیا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ امام جماعت احمدیہ نے استعفیٰ دے دیا اور اس طرح حکومت کشمیر اور ہندوقوم کے راستہ سے بزعم ان کے وہ کانٹا دور ہوگیا جس نے ہمالیہ کے پہاڑوں سے لیکر انگلستان وامریکہ کے درودیوار تک ان کے ناک میں دم کر رکھا تھا جس نے حکومت کشمیر کو صدیوں کے جبرو استبداد کے راستہ میں چٹان بن کر تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا انقلاب پیدا کردیا تھا جس کے نتیجہ میں حکومت کشمیر مسلمانان کشمیر کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئی تھی اور اسے عوام کو مطلوبہ حقوق دینے پڑے تھے۔
ادھر امام جماعت احمدیہ نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ادھر اندرون کشمیر جو کام چل رہا تھا اس میں یکایک تعطل پیدا ہوگیا۔ اور ایک عام بے چینی پھیل گئی کیونکہ وہاں پکڑ دھکڑ جاری تھی اور اس سلسلہ میں ان کی مالی اور قانونی امداد جو صدر کشمیر کمیٹی کی طرف سے جاری تھی بند ہوگئی اور نئے عہدیداران اندورن کشمیر کام کرنے والے سابق وکلاء اور کارکنوں کو نہ نئے انتخاب اور نئے انتظام کی کوئی اطلاع بھیج سکے اور نہ ہی ان سابق کارکنوں کے خوردونوش اور رہائش اور کام کے لئے کوئی بندوبست کرسکے اور نہ اپنی طرف سے متبادل مالی اور قانونی امداد کشمیر میں بھیج سکے جس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ سابق وکلاء اور کارکن کام سے واپس آنے پر مجبور ہوگئے۔ جب نئی کشمیر کمیٹی نے اپنی کمزوری محسوس کی تواس کے عارضی سیکرٹری ملک برکت علی صاحب نے ایک بیان اخبارات میں شائع کرایا کہ شیخ بشیر احمد احمدی وکیل اور کارکنوں نے مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب کے استعفیٰ کے بعد کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور یہ غلط فہمی بھی پھیلائی کہ مرزا صاحب نے وکلاء اور کارکنوں کی واپسی کی ہدایات بھجوادی ہیں جب یہ بیان اخبارات میں شائع ہواتو شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی طرف سے مفصل تردیدی بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ یہ درست ہے کہ میں نے کشمیر میں جو خدمات کیں اپنے مقدس امام کی اطاعت میں کیں مگر یہ بالکل غلط ہے کہ ہمارے مقدس امام نے مجھے یادیگر کارکنان کو واپس آنے کی ہدایات بھیجی تھیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جب نئی کشمیر کمیٹی کی طرف سے ہمیں کوئی ہدایات موصول نہ ہوئی اور توجہ دلانے کے باوجود اس نے مکمل سکوت اختیار کرلیا۔ تو ہم نے ایک تار اپنے مقدس امام کو اپنے موجودہ کام کے بارے میں ہدایت طلب کرنے کی غرض سے بھیجا جس کا جواب آیا کہ ہم کام کو جاری رکھیں تانکہ نئے عہدیدار اپنے طریق کار کا فیصلہ نہ کرلیں۔ مقدمات کے ملزموں کو جب اندرون کشمیر نئے حالات کی اطلاع کردی گئی تو انہوں نے نئی کشمیر کمیٹی اور علامہ اقبال کے نام خطوط اور تاریں بھیجیں لیکن وہ بے اعتنائی کی نذر ہوگئیں اور انہیں کوئی جواب نہ ملا شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ جب میں واپس جانے پر مجبور ہوا۔ اور گوجرانوالہ پہنچا تو مجھے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ ہدایت موصول ہوئی کہ میں میرپور جائوں مگر میں بوجہ لاہور میں ناگزیز۔ ذمہ داریوں کے تعمیل ارشاد سے قاصر رہا۔ یہ امرکہ میرے رفیق کار برادرم چوہدری یوسف خاں مقدمہ علی بیگ میں اب تک ملزمان کی طرف سے پیروی کررہے ہیں اس الزام کے بطلان کے لئے کافی ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے ہمیں مقدمات سے واپسی کا حکم دیا<۔
اس بیان سے ظاہر ہے کہ استعفیٰ کے بعد بھی باوجود اس کے کہ استعفاء میں مبینہ حالات کے تحت آپ نے واضح کردیا تھا کہ استعفیٰ کے بعد کمیٹی سے میرا کسی طرح تعاون کرنا بھی درست نہ ہوگا( امام جماعت احمدیہ نے حتی المقدور نئی کشمیر کمیٹی سے تعاون کیا مگر نئی کشمیر کمیٹی کام نہ چلا سکی علامہ اقبال ایک اجلاس کے بعد ہی مستعفی ہوگئے اور کمیٹی کو توڑ دیا<۔ ۲۱
‏po] ga[t
فصل دوم
>کشمیر کمیٹی< کا احیا >آل انڈیا کشمیرایسوسی ایشن< کی شکل میں
چونکہ کشمیر کمیٹی کے عارضی صدر صاحب مستعفی ہوچکے تھے اور عارضی سیکرٹری صاحب نے استعفیٰ دیئے بغیر ہی اپنے فرائض و واجبات کو اور جماعتی آداب وقواعد کو پس پشت ڈال کرنئی کمیٹی میں سیکرٹری شپ کا عہدہ قبول کرلیا تھا اس لئے پرانی کمیٹی عملا معطل ومفلوج ہوکے رہ گئی لہذا چار ممبروں کے دستخطوں سے ایک گشتی مراسلہ مختلف ممبران کمیٹی کی خدمت میں بھیجا گیا کہ آیا ان حالات میں پرانی کمیٹی کو قائم رکھا جائے یا اسے توڑ دیا جائے کمیٹی کے کل تریسٹھ ممبر تھے جن میں سے گیارہ یا بارہ ممبر غیر جانبدار رہے باق باون میں سے انیس نے اپنی رائے سے اطلاع نہ دی۔ اور ۳۲ ممبروں نے قدیم کشمیر کمیٹی پر اظہار اعتماد کیا۔ ۲۲اور ۳ ستمبر ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے زیرصدارت )لورینگ ہوٹل لاہور میں( فیصلہ کیا گیا کہ اتحاد اتفاق قائم رکھنے کے لئے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب کو علی الترتیب )قدیم( آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت اور سیکرٹری شپ کے عہدے پیش کئے جائیں اور نئے عہدیداروں کے تقرر کا آخری فیصلہ ہونے تک حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ` مولانا سید حبیب صاحب` مولانا غلام رسول صاحب مہر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب بیرسٹر گوجرانوالہ پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقرر کردی گئی اسی عرصہ میں چونکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال اور خان بہادر رحیم بخش صاحب نے قدیم کشمیر کمیٹی میں شرکت سے صاف انکار کردیا اس لئے ۲۵ / مارچ ۱۹۳۴ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس لاہور میں قرار پایا کہ زعمائے کشمیر سے استصواب کیا جائے کہ کشمیر کمیٹی جن اصولوں پر پہلے کام کرتی رہی ہے انہی اصولوں پر دوبارہ کام کرنا ان کے لئے مفید ہوگا یا نہیں؟ شیخ محمد عبداللہ صاحب )شیر کشمیر( ۲۳ شیخ عبدالحمید صاحب )ایڈووکیٹ جموں( مولوی محمد سعید صاحب )مسعودی( اور مفتی ضیاء الدین صاحب آف پونچھ نے باالتفاق یہ کہا کہ جو جماعت ہماری امداد کے لئے ہاتھ بڑھائے گی ہم اس سے امداد لینے کو تیار ہیں اور خصوصاً موجودہ حالات میں ہمیں مدد کی سخت ضرورت ہے اور مدد کی نوعیت یہ بتائی کہ اول گورنمنٹ انڈیا پر زور ڈالا جائے دوسرے ہماری مالی اعانت کی جائے تیسرے فرنچائز رپورٹ میں جو حق نمائندگی مسلمانوں کو دیاگیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے اس کے لئے کوشش کی جائے کہ کم ازکم ساٹھ فیصدی مسلمانوں کو حق نیابت دیاجائے۔ چوتھے جو لوگ کشمیر سے نکال دیئے گئے ہیں ان کی واپسی کے لئے بھی کوشس کی جائے زعمائے کشمیر نے اس کے ساتھ یہ رائے بھی پیش کی کہ اندرون کشمیر کام کو منظم کرنے کے لئے کشمیر کمیٹی کا کوئی صدر منتخب کیا جانا ضروری ہے چنانچہ ۲۸ / مارچ ۱۹۳۴ء کو کمیٹی نے باقاعدہ کام شروع کردیا اور محض اس لئے کہ ڈاکٹر سر محمداقبال صاحب کی کشمیر کمیٹی میں امتیاز ہوسکے اس کمیٹی کا نام آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن تجویز کیا گیا سید حبیب صاحب مدیر سیاست اس ادارہ کے صدر اور منشی محمد الدین صاحب فوق اس کے سیکرٹری مقرر کئے گئے۔ ۲۴
اس ایسوسی ایشن کا پہلا اجلاس ۱۴ اپریل ۱۹۳۴ء کو اور آخری ۱۵ / دسمبر ۱۹۳۷ کو منعقد ہوا۔ ۲۵ بالفاظ دیگر یہ ایسوسی ایشن قریباً پونے چار برس تک زعمائے کشمیر کی پشت پناہی کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کے لئے جدوجہد کرتی رہی اور حسب سابق اس تنظیم کی مالی ضروریات کا بارجماعت احمدیہ ہی نے اٹھایا اور ہر معاملہ میں اس کی پوری پوری سر پرستی کی۔
ایسوسی ایشن نے اپنے دور میں مظلومین کشمیر کی مالی اور قانونی امداد سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جلاوطن ۲۶ کشمیریوں کی واپسی کے لئے گرانقدر مساعی کیں اس سلسلہ میں بعض واقعات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔
۱۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپریل ۱۹۳۴ء میں ایک وفد کے ساتھ مسلمانان کشمیر کے لئے آئینی جدوجہد کی غرض سے جموں تشریف لے گئے۔
۲۔ چوہدری اسدالل¶ہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء میر غلام حسین صاحب کلوخانیاری اور جناب محمد عبداللہ صاحب سیاکھی کے مقدمات کی پیروی کے لئے ۲۳ / مئی ۱۹۳۴ء کو سرینگر تشریف لے گئے آپ کو مولوی محمد عبداللہ صاحب کی نگرانی ہائی کورٹ میں داخل کرنا تھی۔ وہ داخل کردی گئی اور سشن جج صاحب کی عدالت میں دومقدمات کی اپیلیں تھیں جو میر کلو صاحب کے متعلق دائر تھیں ان مقدامات میں جناب چوہدری صاحب نے کورٹ فیس اپنے پاس سے حکومت کشمیر کو ادا کی۔ آپ نے میر غلام حسین صاحب کے مقدمہ میں عدالت میں ایسا قانونی نکتہ پیش کیا کہ وہ بری کردیئے گئے۔ ۲۷
۳۔ چوہدری صاحب موصوف نے اسی سفر میں مقدمات سے فارغ ہونے کے بعد ۲۶ / مئی ۱۹۳۴ء کو وزیراعظم کشمیر کرنل کالون اور ہوم منسٹر وجاہت حسین صاحب سے ملاقات کی اور کشمیر کے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی جلاوطنوں کی واپسی اور ضبط شدہ جائداد کی بحالی اور طلبہ کے داخلہ کالج اور سکول کے متعلق گفتگو فرمائی۔
۴۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰے نبصرہ العزیز نے کشمیری طلباء کی اعانت کے لئے ساڑھے چارسو روپے کمیٹی برائے امداد طلباء سرینگر کو بھجوائے جس پر صدرالدین صاحب سیکرٹری کمیٹی برائے امداد طلباء سرینگر نے شکریہ ادا کیا۔ ۲۸
۵۔ سید صادق علی شاہ صاحب بھدرواہ کی جنہوں نے جدید کشمیر کمیٹی کے ممبروں سے ہمنوائی کی تھی ایسوسی ایشن کی طرف سے قانونی امداد کی گئی چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۲۳ / اگست ۱۹۳۴ء کو سید حبیب صاحب صدر ایسوسی ایشن کے نام ایک مکتوب بھی تحریرکیا۔ جس میں لکھا کہ ہم مظلوم کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ۶۔ سید صبح صادق شاہ صاحب علاقہ کھڑی کے بہت بڑے گدی نشین تھے آپ کو نظر بند کردیاگیا تھا شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور ان کے مقدمہ کی پیروی اور آخری قانونی کوشش کرنے کے لئے مئی ۱۹۳۵ء میں جموں تشریف لے گئے۔ ۲۹
حضرت امام جماعت احمدیہ کا شکریہ
۷۔ نور الدین صاحب ولد مفتی ضیاء الدین آف سرینگر کا بیان ہے کہ مس عشبی انچارج سوپورمشن نے مجھ پر دعویٰ کیا کہ میرے نابالغ بھائی شمس الدین اور میری ہمشیرہ عائشہ کی جواب بالغ ہوچکی ہے( وہ میرے والد صاحب مرحوم کی کسی وصیت کی رو سے گارڈین ہے حالانکہ قبل از وفات میرے والد صاحب اس وصیت کو منسوخ کرچکے تھے میں چونکہ بے یارومددگار تھا رشتہ داروں نے امداد سے انکار کیا۔ میں علماء گدی نشینوں اور لیڈروں کے پاس امداد کے لئے گیا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی۔ اور عیسائیوں نے بذریعہ عدالت میرے چھوٹے بھائی پر قبضہ حاصل کرلیا۔ اس کے بعد عیسائیوں نے میری ہمشیرہ کے حصول کے لئے کوشش کی جب میں نے سب طرف سے اپنے آپ کوبے یارومدد گار پایا تو میں نے اس کس مپرسی کی حالت میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کے حضور امداد کے لئے درخواست کی گو میں سنی ہوں اور جماعت احمدیہ کے خیالات و عقائد سے متفق نہیں لیکن انہوں نے بروقت امداد فرمائی اور بذریعہ ایڈیٹر صاحب >اصلاح< مقدمہ کا خرچہ ارسال فرمایا چنانچہ سمیع پال صاحب کو وکیل مقرر کیا گیا اور انہوں نے بھی اسلامی ہمدردی کو مدنظر رکھ کر کم خرچہ پر میرے مقدمہ کی پیروی منظور کرلی چنانچہ خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس مقدمہ میں ہمیں کامیابی ہوئی عیسائیوں کی اپیل خارج ہوگئی۔ اس جگہ میں اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے محسن امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک بے بس اور مظلوم کی بروقت امداد فرمائی۔ ۳۰
‏tav.5.42
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
میاں احمد یار صاحب وکیل صدر مسلم کانفرنس کابیان
ایسوسی ایشن کے کاموں کا سلسلہ تووسیع ہے مگر اس جگہ صرف انہیں چند واقعات پر اکتفا کیا جاتا ہے میاں احمد یار صاحب صدر مسلم کانفرنس نے اجلاس سو پور کی صدارتی تقریر میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:۔
>جب تحریک حریت کی ابتدا ہوئی ہندوستان کے سربرآوردہ مسلمانوں نے شملہ میں ایک میٹنگ کرکے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن نے مالی اور جانی رنگ میں قربانی دے کر ہماری مدد کی ہماری تکالیف سے دنیا کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک آگاہ کیا یورپ اور امریکہ میں پروپیگنڈا کیا تحریک کے حامیوں مظلومین اور شہداء کے پسماندگان کو مدد دی اور ہر حالت میں بے لوث اور ہمدردانہ خدمات انجام دیں جب تحریک کشمیر اور سنجیدہ ہوگئی تو ہندوستان کے ہزارہا مسلمان جیلوں میں گئے اور جام شہادت پیا۔ اب آئینی رنگ میں کشمیر ایسوسی ایشن ہماری مدد کررہی ہے۔ آل انڈیا کانفرنس نے تحریری رنگ میں مظلومین کشمیر کی امداد کی اس لئے یہ سب افراد اور جماعتیں دلی شکریہ کے مستحق ہیں۔ ۳۱
فہرست ممبران آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن
۱۔ مولانا سید حبیب صاحب ایڈیٹر >سیاست<
لاہور
۲۔ ایم محمدالدین صاحب فوق >ایڈیٹر کشمیری اخبار<
لاہور
۳۔ مولانا غلام رسول صاحب مہر ایڈیٹر >انقلاب<
لاہور
۴۔ مولانا عبدالمجید صاحب سالک ایڈیٹر >انقلاب<
لاہور
۵۔ مولانا محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر >لائٹ<
لاہور
۶۔ سیدعبدالقادر صاحب ایم۔اے پروفیسراسلامیہ کالج
لاہور
۷۔ میاں علم الدین صاحب سالک پروفیسر اسلامیہ کالج
لاہور
۸۔ شیخ نیاز علی صاحب ایڈووکیٹ
لاہور
۹۔ چوہدری اسداللہ خان صاحب بارایٹ لاء
لاہور
۱۰۔ ڈاکٹر عبدالحق صاحب ایم بی بی ایس
لاہور
۱۱۔ چوہدری غلام مصطفٰے صاحب بارایٹ لاء
گوجرانوالہ
۱۲۔ شیخ فضل الحق صاحب۔ ایم۔ایل اے پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی
بھیرہ
۱۳۔ سید عبدالحفیظ صاحب
ڈھاکہ
۱۴۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب ایم۔ایل۔اے
ایبٹ آباد
۱۵۔ ایس ایم عبداللہ صاحب نائب صدر میونسپلٹی
دہلی
‏]3lco [tag۱۶۔ خواجہ حسن نظامی صاحب
دہلی
۱۷۔ مولانا مظہر الدین صاحب ایڈیٹر الامان
دہلی
۱۸۔ شاہ مسعود احمد صاحب ایم۔ایل۔اے
دہلی
۱۹۔ چوہدری محمدشریف صاحب بی۔اے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ
منٹگمری
۲۰۔ پیر اکبرعلی صاحب ایڈووکیٹ ایم۔ایل۔سی
فیروز پور
۲۱۔ ایم احمدعبدالستار صاحب آنریری جائنٹ سیکرٹری دی کلکتہ مجلس
کلکتہ
۲۲۔ مسٹر ایم ایس سہروردی بارایٹ لاء
کلکتہ
۲۳۔ مولانا ابو ظفر وجیہ الدین صاحب
کلکتہ
۲۴۔ مولانا کرم علی شاہ صاحب
لکھنو
۲۵۔ سید ذاکر علی شاہ صاحب
لکھنو
۲۶۔ مولانا عقیل الرحمن صاحب ندوی
سہارنپور
۲۷۔ مولانا کشفی صاحب نظامی
رنگون
۲۸۔ جناب مولانا حسرت موہانی صاحب
کانپور
۲۹۔ جناب مشیر حسین صاحب قدوائی
‏]2loc [tagلکھنو
۳۰۔ نواب ابراہیم علی خان صاحب۔ نواب آف کنج پورہ ایم ایل اے۔
کرنال
۳۱۔ چوہدری عبدالمتین صاحب ایم ایل اے۔
سہلٹ )آسام(
۳۲۔ مولانا محمدشفیع صاحب دائودی ایم۔ایل۔اے۔
پٹنہ
۳۳۔ ڈاکٹر سرشفاعت احمد خان صاحب
الہ آباد
۳۴۔ حاجی عبداللہ ہارون صاحب
کراچی
۳۵۔ مولانامحمد علی اللہ بخش صاحب سیکرٹری مسلم فیڈریشن
بمبئی
‏]3loc [tag۳۶۔ ایم۔ اے۔آر ڈنسٹکر
بمبئی
۳۷۔ مولانا ابویوسف صاحب اصفہانی
شمالی بمبئی
۳۸۔ قاضی کبیر الدین صاحب
بمبئی
۳۹۔ مولانا میرک شاہ صاحب
مراد آباد
۴۰۔ خواجہ محمد شفیع صاحب
دہلی
۴۱۔ میاں سید جعفر شاہ صاحب
شاہ آباد
۴۲۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ
قادیان
۴۳۔ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب
قادیان
۴۴۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس
قادیان
۴۵۔ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ
لاہور
فصل سوم
اخبار >اصلاح< کا اجزاء
۴ / اگست ۱۹۳۴ء کا دن تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ اس دن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۳۲ کی خاص ہدایت سے مسلمانان کشمیری کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور ترجمانی کے لئے سرینگر سے سہ روزہ اخبار >اصلاح< جاری کیا گیا۔ ۳۳ اس اخبار کے مندرجہ ذیل اغراض ومقاصد تھے۔
)۱( مسلمانان کشمیر کی مذہبی ` اخلاقی` تمدنی اور سیاسی راہ نمائی اور بیداری )۲( مسلمانوں میں تعلیم وصنعت کی اشاعت وترویج )۳( مسلم حقوق کی حفاظت )۴( قانون شکن تحریکات کا مقابلہ )۵( اتحاد واتفاق اور تنظیم )۶( بدرسومات کی اصلاح )۷( حکومت اور عوام کو مخلصانہ مشورے اور صحیح راہ نمائی۔
اخبار اصلاح اہل کشمیر کی نظر میں
اخبار اصلاح کے اجراء پر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب مسٹر غلام محمد صاحب صادق بی۔اے ایل ایل۔ بی۔ خواجہ عبدالسمیع صاحب پال ایم۔اے۔ ایل ایل بی وکیل ہائیکورٹ جموں وکشمیر۔ مسٹر عبدالمجید صاحب قرشی مالک اخبار پاسبان )جموں( وغیرہ حضرات نے پر جوش خیر مقدم کیا اور پیغامات دیئے۔ ۳۴ اور منشی محمد الدین صاحب فوق مورخ کشمیر نے مدیر اصلاح کو مکتوب لکھا۔
>اصلاح جن نیک مقاصد کو لے کر عالم وجود میں آیا ہے ان کے لئے میرا دلی ہدیہ تبریک قبول فرمائیے۔ اصلاح کے دو پرچے میں نے دیکھے ہیں >اصلاح< کی اعتدال پسند پالیسی شاید سطحی خیال کے لوگوں کے لئے قابل قبول نہ ہو اور وہ ہنگامہ خیزیوں اور فرقہ بندیوں اور شعلہ افشانیوں ہی کو پسند کرتے ہوں۔ لیکن تھوڑے وقت میں بہت کچھ نشیب وفراز دیکھ چکنے کے بعد ایک جماعت اب ایسی بھی پیدا ہورہی ہے بلکہ ہوچکی ہے جو ایک دوسرے کی پگڑیاں اتار نے اور باہمی فرقہ آرائیاں پیدا کرنے اور غیرذمہ دارانہ مضامین لکھنے اور غیر آئینی روش پیدا کرنے والے اخبارات سے تنگ آچکی ہے اگر کار پردازان >اصلاح< نے عزم صمیم اور قلب سلیم سے کام لیا تو انشاء اللہ اس جماعت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا اور یقین رکھئے ایسی ہی جماعتیں اور ایسے ہی اخبارات ملک کی صحیح ترجمانی اور صحیح خدمت کرسکتے ہیں۔ ۳۵
اسلامی پریس نے بھی >اصلاح< جیسے اصلاحی پرچہ کی اشاعت پر بہت خوشی کا اظہار کیا چنانچہ روزنامہ >رہبر دکن< نے ۲ / ستمبر ۱۹۳۴ء کو مندرجہ ذیل نوٹ لکھا:۔
>اس کا مقصد ملک کی پیداشدہ نئی طاقتوں سے اس طرح کام لینا ہے کہ وہ ملک کے لئے مفید ثابت ہوں وہ چاہتا ہے کہ اس وقت اہل کشمیر میں جو بیداری پیدا ہوگئی ہے اس کو صحیح راستے پرآگے بڑھائے اور سارے ملک کے مختلف فرقوں میں صلح وآشتی کی اسپرٹ کو ترقی دے یہ مقاصد بہت اچھے ہیں اور اداریے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی باگ قابل ہاتھوں میں ہے۔ ۳۶
روزنامہ >طاقت< )سیالکوٹ( نے ۲۶ / اگست ۱۹۳۴ء کے شمارہ میں اخبار اصلاح پر یہ تبصرہ کیا۔ >بغور مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ اخبار مسلم کشمیری قوم کا حقیقی مصلح ثابت ہوگا اصلاح رسومات اور تنظیم ملت کا لائحہ عمل اس نے ترتیب دیا ہے کشمیر کے غریب و مفلس مسلمانوں کی نجات اور ان کی بیداری و ترقی کے لئے اعلیٰ وانصب ۳۷ ہے اصلاح کی سرپرستی لازمی ہے مسلمانان جموں و کشمیری کو اس کی اشاعت میں ہرممکن اضافہ کی کوشش کرنی چاہئے۔ ۳۸
یہ اخبار اگست ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۷ء تک جاری رہا اور اس نے لگاتار تیرہ برس تک مسلمانوں کی تنظیم واصلاح کو مضبوط بنانے ان کے سیاسی وسماجی مطالبات کو حکومت تک پہنچانے اور ہر اہم مرحلہ پر ان کی رہنمائی کرنے اور مسلم کشمیر کانظریہ قائم کرکے اس کی ضروریات پر روشنی ڈالنے کا فرض اتنی جرات اور بے خوفی سے ادا کیا کہ حکومت کشمیر نے اسے بلیک لسٹ کردیا۔ جس پر آل جموں و کشمیر مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مسٹر اے۔ یو۔ رعنا )نمائندہ اخبار >جاوید< سرینگر( بمقام امیراکدل منعقد ہوا اور اس میں اخبار رہبر< >اصلاح< سرینگر کے بلیک لسٹ آنے پر اظہار افسوس کیا گیا اور حکومت کشمیر کی اس حرکت کو ملکی پریس کے لئے عموماً اور مسلم پریس کے لئے خصوصاً غیر منصفانہ اور متشدانہ کارروائی قرار دیاگیا۔ ۳۹
اخبار اصلاح کے مدلل اداریئے
‏]text [tagاخبار اصلاح کو اپنے مدلل متین اور ٹھوس ادارتی مضامین کی وجہ سے بہت شہرت حاصل ہوئی اور اس نے مسائل حاضرہ میں مسلمانان کشمیر کی بروقت رہنمائی کرکے اہم خدمات انجام دیں۔ بطور نمونہ چند عنوانات ملاحظہ ہوں۔ مسلم کشمیر کی ضروریات ۴۰ )۸ / اگست ۱۹۳۴ء( الیکشن اور مسلمان )۱۱ / اگست ۱۹۳۴ء( مسلمان اور ملازمتیں )۱۶ / اگست ۱۹۳۴ء( الیکشن اور ملت اسلامیہ کا فرض ۔)۳۱ / اگست ۱۹۳۴ء( باہمی مناقشات بند کردو )۷/ ستمبر ۱۹۳۴ء( کشمیر میں اقتصادی بے چینی اور اس کا علاج )۱۸ / ستمبر ۱۹۳۴ء( مسلمانان کشمیر کس طرح ترقی کرسکتے ہیں۔ )۲۵ / ستمبر ۱۹۳۴ء( جموں وکشمیر مسلم پولیٹیکل کانفرنس )۲۲ / اکتوبر ۱۹۳۴ء( برادران وطن مسلمانوں کی توہین کررہے ہیں )۳۰ / اکتوبر ۱۹۳۴ء( جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور مسلمانوں کا فرض )۹ / نومبر ۱۹۳۴ء( کیا مسلمانان کشمیر ناقابل ہیں۔ ۱۱ / دسمبر ۱۹۳۴ء مدارس میں مذہبی تعلیم کا فقدان )۲۵ / دسمبر ۱۹۳۴ء( تحریک حریت کشمیر کا مستقبل )۱۸ / جنوری ۱۹۳۵ء( دورحاضرہ کی ضروریات )۲۵ / جنوری ۱۹۳۵ء( شادی بیاہ کے متعلق اسلامی اصول )یکم فروری ۱۹۳۵ء( تحریک حریت مسلم کانفرنس اور آزاد کانفرنس )۸ / فروری ۱۹۳۵ء ( تحریک حریت کشمیر کی کامیابی کا راز اس کی استقامت میں مضمر ہے )۲۲ / مارچ ۱۹۳۵ء( اسلامیان کشمیر کی بے بسی ۲۳ / مئی ۱۹۳۵ء( ریاست میں علوم شرقیہ کی بے قدری اور مسلمانوں کی شدید حق تلفی )۷/ اگست ۱۹۳۵ء( کامیابی کے لئے قومی اتحاد پہلا زینہ ہے۔ )۶ / جنوری ۱۹۳۷ء( مسلمانوں مسلمانان سپین کی تباہی سے سبق حاصل کرو۔ )۱۳ / جولائی ۱۹۳۷ء( اپنی بہتری کے لئے کسانوں کا منظم ہونا ضروری ہے )۲۹ / اپریل ۱۹۳۸ء( ریاستوں میں تحریک آزادی اور ریاستی حکومتوں کا فرض۴۱]4 [rtf )۲۴ / جون ۱۹۳۸ء( تحریک حریت کشمیر۔ حکومت اور عوام کا فرض۔ )یکم اکتوبر ۱۹۳۸ء( رہنمایان قوم کی سب سے بڑی سیاسی غلطی مسلمانان کشمیر کی واحد ملی تنظیم ۴۲ کا خاتمہ ۱۶ / جون ۱۹۳۹ء( >فیڈریشن اور مسلمان )۲۸ / جولائی ۱۹۳۹ء( برادران وطن کے عزائم اور مسلمانوں کافرض )دسمبر ۳۹ء(۴۳ مسلمانوں کے تین اہم اور جائز۴۴ مطالبات )۲۵ / جولائی ۱۹۴۰ء( مسلمانان کشمیر کی مصائب کا واحد علاج )۲۲ / اگست ۱۹۴۰ء( کیا مسلمانوں پر ہندی ٹھونسنا جائز ہے )۱۰ / اپریل۱۹۴۱ء( آزاد ہندوستان کی اقلیتیں اور ریاستہائے ہند )۹ / اپریل ۱۹۴۲ء(۴۵ پاکستان۴۶ )۲۵/ نومبر ۱۹۴۲ء( ہندوریاست یا مسلم ریاست ۴۷ )۱۶ / مارچ ۱۹۴۴ ریاستی وزراء اور ہماری شہری آزادی )۳۱ / جنوری ۱۹۴۶ء ( اہل کشمیر کی حیات نو )۱۳ / جولائی ۱۹۴۶ء(
بہترین معتدل پالیسی صلح کل روش مضامین کی متانت ودلکشی ملک و ملت کی صحیح خدمت منصفانہ نمائندگی اور سلاست زبان اصلاح کی امتیازی خصوصیات تھیں جن پر اپنوں اور بیگانوں اعلیٰ وادنیٰ غرضیکہ ہر خیال اور سوسائٹی کے لوگوں نے بارہا اظہار خوشنودی و مسرت کیا اس حقیقت کا اندازہ مندرجہ ذیل آراء سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق اپنی کتاب تاریخ اقوام کشمیر جلد ۲ صفحہ ۲۸۵ پر لکھتے ہیں >یہ اخبار )اصلاح۔ ناقل<( ۱۹۳۴ء میں کشمیر ریلیف فنڈ قادیان کی طرف سے جاری کیا گیا کشمیر ریلیف کا صیغہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان کے زیرنگرانی کام کرتا ہے یہ اخبار مسلم حلقوں میں خاص طور پر پسندیدگی سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے اس میں بعض علمی سلسلہ ہائے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں اس کی اشاعت کا دائرہ بہت وسیع ہے یہ اخبار گورنمنٹ آف انڈیا کی لسٹ پر بھی ہے کشمیر کے اخبارات میں سے اس وقت یہی ایک اخبار اس لسٹ پر ہے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے نہایت دلیری سے اس میں آواز اٹھائی جاتی ہے اسی وجہ سے یہ آئنگر حکومت کے زمانہ میں کئی بار عتاب کا شکار ہوا۔
فتح محمد خان صاحب سابق ممبر کشمیر اسمبلی و منظور الحق صاحب جاگیردار پونچھ نے یہ بیان دیا کہ:۔
>اخبار اصلاح< نے اپنی گزشتہ سات سالہ زندگی میں جسے اس کی آئندہ زندگی کا دیباچہ کہنا چاہئے وطن اور قوم کی مخلصانہ خدمات سر انجام دینے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا اور اپنی ہردلعزیزی اور بااصول صحافت سے ہرگز انحراف نہیں کیا بلکہ ادراہ نے اخبار کو تجارتی منفعت اور ذاتی اغراض سے بالا رکھ کر حتی المقدور ملک اور قوم کی بے لوث خدمات سرانجام دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور اہل ملک کو ہمیشہ صحیح اور پاک رنگ میں اپنے قیمتی مشوروں اور رہنمائی سے متمتع کیا ہے<۔۴۸
خواجہ غلام السیدین صاحب جب ریاست میں اہل کشمیر کی شاندار تعلیمی خدمات بجالانے کے بعد وزارت تعلیم سے ریٹائر ہوئے تو انہوں نے خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار مدیر اصلاح کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا:۔ میرے قیام کشمیر کے دوران میں آپ نے تعلیمی معاملات میں جس خلوص اور بے غرضی کے ساتھ محکمہ تعلیم کے ساتھ تعاون کیا میں اس کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اگر اخبار نویسوں میں آپ کے اور مولوی عبدالواحد صاحب کی قسم کے چند اور اصحاب ہوتے تو غالباً اس ریاست کی بہتری کی کوششیں زیادہ بار آور ہوتیں۔ ۴۹body] gat[
>اخبار اصلاح< کی مقبولیت کا اس سے پتہ چلتا ہے سندھ کے ایک معزز چیئر مین نے ایڈیٹر اصلاح کو لکھا میں نے اخبار اصلاح کے چند پرچوں کا مطالعہ کیا آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اخبار اصلاح واقعی ان صفات کا حامل ہے جو ایک قومی اخبار کے لئے ضروری ہیں آپ کے اخبار کی مصالحانہ پالیسی مسلمانوں کے موجودہ تشتت میں آب بقا کا حکم رکھتی ہے میں کئی دفعہ کشمیر آیا ہوں اور اس خطہ میں بہت وقت گزارا ہے یہاں کا تمدن اور طرز معاشرت بہت حد تک قابل اصلاح ہے جس کا بیڑا آپ نے اٹھایا ہے اصلاح کے اصلاحی مضامین اس قابل ہیں کہ ان پر اہل کشمیر کو دل سے عمل کرنا چاہئے اسی طرح تجارتی مضامین کا مفید سلسلہ کشمیر ایسے ملک میں نہایت موزوں اور مفید ہے میں >اصلاح< کے طرز عمل سے بہت خوش ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس مفید اخبار کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دے )شیخ عبدالرحیم و محمد اسمٰعیل سوداگران اسلحہ مہر )سندھ( ۵۰
اخبار>اصلاح< کا عملہ
یہ بلند پایہ اخبار محمد امین صاحب قریشی کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا۔ ۱۰ / ستمبر ۱۹۳۴ء سے مولوی غلام احمد صاحب میر مولوی فاضل اس کے مدیر اور قریشی صاحب مدیر معاون مقرر ہوئے ۱۵ / مارچ ۱۹۳۵ء سے دوبارہ قریشی صاحب مدیر کے فرائض بجالانے لگے۔ اپریل ۱۹۳۶ء میں جبکہ اخبار بند ہوچکا تھا چوہدری عبدالواحد صاحب نے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے زمام ادارت سنبھالی اور قریشی صاحب مدیر معاون بنائے گئے ۹ / دسمبر ۱۹۳۸ء سے خواجہ عبدالغفار صاحوب ڈار مولوی فاضل اس کے ادارہ تحریر میں منسلک ہوگئے۔ اور چوہدری عبدالواحد صاحب مدیر اعلیٰ کی رفاقت میں مدیر >اصلاح< کے فرائض ادا کرنے لگے۔ اور محمد امین صاحب قریشی اور خواجہ غلام رسول صاحب کا گہرا اور پرخلوص تعاون بھی اسے حاصل رہا۔ ادارہ اصلاح ملت و قوم کی ترجمانی کا حق خوش اسلوبی سے ادا کررہا تھا کہ ۱۹۴۷ء میں شورش اٹھ کھڑی ہوئی اور دونوں اصحاب کو سرینگر سے ہجرت کرکے پاکستان آجانا پڑا تحریک آزادی کشمیر کی آواز کو بلند سے بلند تر کرنے میں چوہدری عبدالواحد صاحب نے جو غیر معمولی جدوجہد کی ہے اس کا مفصل تذکرہ اپنے مقام پر آرہا ہے تاہم اس جگہ یہ بتانا مناسب ہوگا کہ مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق نے اپنی کتاب >تایخ اقوام کشمیر< میں ادارہ اصلاح کا ایک گروپ فوٹو 4] [stf۵۱ شائع کیا جس میں چوہدری عبدالواحد صاحب` خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار` غلام محی الدین صاحب اور ایم عبدالرحمن صاحب موجود ہیں۔ فوق صاحب نے اس کتاب میں چوہدری صاحب کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے:۔
>اپریل ۱۹۳۶ء میں مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان نے آپ کو ایڈیٹر >اصلاح< مقرر کیا۔ جس وقت آپ ایڈیٹر مقرر ہوئے اخبار اصلاح کچھ عرصہ کے بعد بند ہوگیا تھا آپ کی محنت اور تگ ودو سے یہ اخبار ترقی کرکے کشمیر میں خاص حیثیت حاصل کرگیا آپ نے ریاست کشمیر کے مختلف حصوں اور دشوار ترین علاقوں کے پاپیادہ دورے کئے ہیں یہانتک کہ لداخ جیسے دور دراز علاقہ میں پہنچے ہیں۔ آپ کو ریاست کے اخبار نویسوں میں خاص حیثیت حاصل ہے آپ مسلسل اڑھائی سال کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ رہے ہیں۔ ۵۲
فصل چہارم
کشمیرکی پہلی اسمبلی کاقیام اورمسلم کانفرنس کی سوفیصدی کامیابی
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے وسط ۱۹۳۲ء میں جبکہ شیخ محمد عبداللہ صاحب اور دوسرے زعماء کشمیر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے اہل کشمیر کو ہوشیار کیا کہ:۔
>آپ لوگ تیار رہیں کہ اگر خدانخواستہ قومی کارکنوں کو جلدی آزادی نہ ملی اور ان کی آزادی سے پہلے اسمبلی کے انتخابات ہوئے )گو مجھے امید نہیں کہ ایسا ہو( تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ ۔۔۔ قومی کام سے ہمدردی رکھنے والوں کو امیدوار کرکے کھڑا کردیں۔ اور یہ نہ کریں کہ کانگریس کی نقل میں بائیکاٹ کا سوال اٹھادیں۔ بائیکاٹ سے کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ آخر کوئی نہ کوئی ممبر تو ہوہی جائیگا۔ اور قومی خیرخواہوں کی جگہ قومی غداروں کو ممبر بننے کا موقعہ دینا ہرگز عقلمندی نہ کہلائے گا۔ ۵۳
مسلمانان ریاست کے لئے اسمبلی کا کوئی تجربہ نہیں تھا جس کے لئے پوری ٹریننگ کی ضرورت تھی لہذا ریاست ٹراونکور کے چیف سیکرٹری )کے۔جارج بی۔اے( سے خط وکتابت کرکے اسکی لیجسلیٹو اسمبلی اور میونسپلٹی کے مطبوعہ انتخابی اصول و قواعد منگوائے اور ان کی روشنی میں مسلم کانفرنس کے کارکنوں کو الیکشن کے لئے تیار کرنے کا انتظام شروع کردیا۔
اسی ثناء میں شیخ عبداللہ صاحب رہا ہوگئے مگر چونکہ بہت سے مسلمان قیدی ۵۴ جیل میں پڑے ہوئے تھے اس لئے وہ اتخاب کے بارے میں ریاست سے تعاون کرنے پر رضامند تھے لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے زور دیا کہ مسلم کانفرنس انتخاب میں ضرور حصہ لے۔ چنانچہ مسلم کانفرنس نے اپنے نمائندے کھڑے کردیئے ۵ / ستمبر ۱۹۳۴ء کو امیدواران اسمبلی کے نتائج سنائے گئے۔ اور خدا کے فضل و کرم سے مسلم کانفرنس کو سوفیصدی کامیابی حاصل ہوئی۔ اور اس کے تمام نامزد ممبر جیت گئے کامیاب امیدواروں کے نام یہ ہیں:۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب وکیل۔ خواجہ علی محمد صاحب` خواجہ احمد اللہ صاحب شہداد۔ غلام محمد صاحب صادق۔ سید حسین شاہ صاحب جلالی۔ ۵۶۵۵
شیخ محمد عبداللہ صاحب کے اہم مکتوبات
مسلم کانفرنس کی مشکلات اور اس کی شاندار کامیابی کا صحیح موازنہ شیخ محمد عبداللہ صاحب شیر کشمیر کے ان خطوط سے باآسانی ہوسکتا ہے۔ جو انہوں نے انتخابات اسمبلی کے دوران حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کے نام لکھے اس اہم خط وکتابت کی نقل ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
پہلا مکتوب
سرینگر کشمیر ۔ ۸ / مئی ۱۹۳۴ء
ڈیئر بشیر احمد صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ
امید ہے کہ میرا پہلا خط مل گیا ہوگا۔ اس کے بعد میں وزیراعظم `مشیرمال` اور انسپکٹر جنرل پولیس سے ملا۔ مختصراً میں نے ان سے کہا کہ میں ذاتی طور پر موجودہ اسمبلی کی تین سال کے لئے آزمائش کرنی چاہتا ہوں اور خواہش میری یہی ہے کہ ملک کے بہترین نمائندے اسمبلی میں جائیں مگر حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ فضاء کو ساز گار بنائے تمام ایسے قوانین مثلاً ORDINANCES وغیرہ ضبطی جاگیرات` رہائی قیدیان` معافی تعزیری جرمانہ وغیرہ وغیرہ ان تمام سختیوں پر نظر ثانی کرے ورنہ میرے لئے تعاون کرنا مشکل ہوگا میں نے سول نافرمانی کو واپس لے لیا اور بغیر کسی شرط کے واپس لیا۔ یہ باتیں میں بطور شرائط کے پیش نہیں کرتا بلکہ ان کے بغیر میرا تعاون کرنا غداری کے مترادف ہوگا۔ دوم جن آدمیوں نے اسمبلی میں جانا ہے یا جوکہ اس کے متعلق پروپیگنڈا کرسکتے ہیں وہ سب قید خانہ میں ہیں۔ میں اکیلا کیا کرسکتا ہوں۔ تمام حکام میرے نظریہ کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں لیکن عملاً ابھی کچھ ظہور میں نہیں آیا شاید اس لئے کہ مہاراجہ صاحب جموں میں تھے وہ بھی کل آگئے ہیں ٹھاکر کرتارسنگھ اور وجاہت حسین بھی سرینگر میں نہیں تھے باہر گئے تھے اس لئے درنگی ہوئی ورنہ ادھر یا ادھر فیصلہ ہوا ہوتا۔ امید ہے کہ چند دن کے اندر اندر فیصلہ کن بات طے ہوگی موجودہ وقت میں ہمارے پاس آدمی کوئی ایسا نہیں ہے جوکہ اسمبلی میں جاسکے۔ اگر حکومت سے فیصلہ ہوگیا تو امید ہے کہ توسیع میعاد ہوسکتی ہے اور حکومت ایسا کرنے پر آمادہ ہے غرض یہ ہے کہ اگر میں نے ابھی سے تعاون کا اعلان کردیا پھر قیدیوں کا باہر آنا مشکل ہوگا۔ تعزیری جرمانہ کی واپسی کے لئے بھی میں کوشش کر رہا ہوں۔ میر مقبول کے لئے بھی کوشش ہورہی ہے حضرت صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری سے مبلغ دو صد ۵۷ روپیہ بذریعہ تار منی آرڈر مل گئے ہیں شکریہ۔
جواب کا منتظر ۔ شیخ محمد عبداللہ
دوسرا مکتوب
بچھوارہ ۔ سرینگر کشمیر۔ سوموار ۱۵ / مئی ۳۴ء
مکرمی جناب میاں صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ
امید ہے کہ میرے خطوط آپ کو مل گئے ہونگے۔ مزید حالات یہ ہیں کہ حکومت نے مجھ کو اخیروقت تک دھوکہ میں رکھا۔ اور میں نے جو جو باتیں پیش کردی تھیں۔ ان پر غور کرنے کا وعدہ کیا بہرحال جو حالات میرے پیش آئے ان کا ذکر میں نے ایک درخواست میں کردیا ہے جو کہ میں آپ کو لفافہ ہذا میں ارسال کرتا ہوں اور جو۔۔۔۔ درخواست وزراعظم کو میں نے بھیجدی ہے دیکھئے نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے ہم نے کوشش کی کہ اپنے آدمی ہر ایک علاقہ سے اسمبلی کے لئے کھڑے ہوں لیکن وقت کی تنگی نے اور حکومت کی دھوکہ دہی کی وجہ سے شاید تمام علاقوں سے اپنے خاص آدمی کھڑے نہ ہوئے ہوں۔ ابھی پورا معلوم نہیں سرینگر سے تو پانچ آدمی اپنے کھڑے کردیئے ہیں بارہ مولہ اسلام آباد` کولہ گام` پلوامہ سے بالترتیب شیخ محمد اکبر ` محمد افضل بیگ۔ عبدالرحمن ڈار۔ خواجہ اکبر ڈار ہمارے آدمی ہیں سرینگر سے غلام محمد صادق ۔ سید حسین شاہ جلالی۔ مولوی محمد عبداللہ وکیل۔ خواجہ علی محمد خواجہ سعد اللہ صاحب شہداد کھڑے ہوئے ہیں۔ غلام نبی گلکار کو میں نے اس لئے روکا۔ کہ مخالف جماعت کا تمام زور صرف مسئلہ احمدیت پر ہوگا۔ اس لئے اگر ہم نے صرف مولوی عبداللہ صاحب وکیل کو کامیاب کردیا۔ تو یہ کافی شکست ۔۔۔۔ کو ہوگی۔ اگر غلام نبی صاحب بھی دوسرے وارڈ سے کھڑا ہوتا تو ہماری طاقت تقسیم ہوجاتی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مخالف پارٹی کا مدمقابل صرف مولوی عبداللہ صاحب ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ غلام نبی صاحب کے مقابلہ میں خواجہ احمد اللہ صاحب شہداد تھے جو کہ جماعت اہلحدیث کے پریذیڈنٹ رہ چکے ہیں اور ایک اسکول بھی چلاتے تھے پیسہ والے بھی ہیں اور کافی رسوخ رکھتے ہیں۔ اگر غلام نبی کھڑا ہوتا تو ہمارے خلاف بہت شدید پروپیگنڈا ہوتا ہے ۔۔۔میں اس اصول کا پابند ہوں کہ سیاست میں عقیدہ کو کوئی دخل نہ ہونا چاہئے مگر میرے مدنظر کامیابی اور ناکامیابی کا سوال ہے۔ اور صرف انہی وجوہات کی بناء پر میں نے غلام نبی کو مشورہ دیا۔۔۔ کہ اس کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے جہاں تک اصول کا سوال ہے مولوی محمد عبداللہ صاحب کا کامیاب ہونا کافی ہے ۔۔۔۔ میں نے غلام نبی صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپکو آزاد رکھے۔۔۔ حکومت کے اشارہ پر ہمارے آدمی کے مقابل ممبری کے لئے کھڑے ہوئے مگر ان کو کامیابی کی امید نہیں ہے الغرض اسمبلی کیا ہے میرے لئے ایک اور مصیبت کاسامان ہے آگے ہی مخالفت کیا کم تھی کہ اب اور اضافہ ہورہا ہے بہر حال خدا مددگار ہے اور دوستوں کا حوصلہ۔ سب سے اہم مشکل میرے سامنے ہو ہے وہ مالی مشکلات ہیں ایجی ٹیشن کیا رہی ہے میرے لئے قرضہ کی مصیبت ہر طرف سے بل پیش ہورہے ہیں پٹرول کا بل` کرایہ کا بل` عملہ کی تنخواہ کابل` اور ہماری حالت یہ ہے کہ کھانے کو میسر نہیں ہوتا ہے لوگ ایسے بے حس ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں کام کروں مگر کیسے کام کروں اس کے متعلق خاموش شاید یہ ایجی ٹیشن اور تکالیف کا نتیجہ ہے اور شاید یہ اثر آہستہ آہستہ دور ہوجائے گا اس وقت ضرورت ہے کہ آپ کسی صاحب کو کشمیر روانہ کریں۔ جو کہ مجھے مشورہ دے کہ ایسے حالات میں ۔۔۔۔ کام کس طرح چلایا جاسکتاہے اگر آپ نے مہربانی نہ کی ہوتی اور تھوڑی بہت مالی امداد روانہ نہ کی ہوتی تو میں ابتک پریشانیوں کی وجہ سے میدان سے ہٹ گیا ہوتا۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ کسی صاحب کو آپ کے پاس روانہ کرسکوں جو کہ تمام حالات آپ کو پہنچائے گا اور آپ سے مشورہ حاصل کرے گا۔ میں بھی حالات کو بہتر بنانے کی سعی میں لگاہوا ہوں۔ امید ہے کہ بزرگوں کی دعا سے خدا وند کریم ہم لوگوں کو کامیاب کرے گا فقط آپ کا خیراندیش شیخ محمد عبداللہ<
تیسرا مکتوب
>بچھوارہ ۔ سرینگر۔ ۱۰ / ستمبر
مکرمی جناب شمس صاحب! السلام علیکم۔ آپ کا تار ملا شکریہ واقعی خدا وند کریم نے فضل و کرم کیا اور کانفرنس کا وقار ازسر نوقائم ہوگیا۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی یہی ہے کہ کشمیر سے تمام ہمارے ہی آدمی کامیاب ہوگئے الحمدلل¶ہ۔ میری طرف سے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں عرض وتسلیم پہنچادیجئے۔ مصروفیت کی وجہ سے میں اس سے قبل نہ لکھ سکا۔ شاہ صاحب معلوم نہیں کہاں چلے گئے ہیں پتہ نہیں ملتا تتمہ سب خیریت ہے آپ کا دوست شیخ محمد عبداللہ۔
قادیان میں مجلس کشامرہ کی بنیاد
۱۹۳۶ء میں >مجلس کشامرہ< کے نام سے ایک انجمن کا قیام ہوا جس کی غرض وغایت یہ تھی کہ ریاست جموں وکشمیر کے طلباہ اور دیگر کشمیری احباب کے لئے )جوقادیان میں موجود تھے( فلاح وبہبود کی تجاویز کرکے ان پر عمل کیا جائے یہ مجلس کچھ عرصہ باقائدہ کام کرتی رہی مگر بعض کارکنوں کے چلے جانے کے باعث معطل سی ہوگئی وسط ۱۹۴۶ء میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کی تحریک پر اس کا احیاء ہوا اور اس کا نام >انجمن کشامرہ< رکھا گیا۔ ]01 [p۵۸
فصل پنجم
چوہدری عبدالواحد صاحب کی قومی وملی خدمات
اخبار>اصلاح< کے ضمن میں چوہدری عبدالواحد صاحب۵۹ کا اجمالاً تذکرہ آچکا ہے اب ہم ذراتفصیل سے بتاتے ہیں کہ اپریل ۱۹۳۶ء میں مدیراعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے کیسی شاندار خدمات انجام دیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز نے آپ کو >اصلاح< کی ادارت سپرد کرتے ہوئے جو قیمتی نصائح فرمائیں ان میں ایک نصیحت یہ تھی کہ کشمیر کے طول وعرض میں مختلف علاقوں کا سفر کریں اور کشمیر کے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے علاوہ ان کے حالات اخبار میں شائع کرائیں ۶۰
چنانچہ آپ نے قیام کشمیر کے دوران ریاست کے چپہ چپہ کا )اکثر( پیدل سفر کرکے مسلمانان ریاست کے اندر ذہنی و اسلامی انقلاب برپا کیا اور ان کی مشکلات کا تفصیل سے جائزہ لے کر ان کو اخبار >اصلاح< کے ذریعہ سے حکومت اور عوام دونوں تک پہنچایا۔ اس خدمت میں آپ کے رفقاء میں سے خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار مولوی فاضل` محمد امین صاحب قریشی اور خواجہ غلام رسول صاحب ۶۱ بھی ۱۹۴۷ء کے آخر تک برابر شریک رہے۔ ان سب مجاہدوں کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرکاری ملازم جو عوام پر ظلم وتشدد کرنے کے خوگر تھے اخبار اصلاح سے لرزنے اور ان شکایات کے تدارک پر متوجہ ہونے لگے بہرکیف حضور کی اس قیمتی ہدایت کا اہل کشمیر کو بے حد فائدہ پہنچا اور ریاست بھر میں اس امتیازی خصوصیت کے باعث اخبار >اصلاح< کی دھوم مچ گئی۔
بعض دوستوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ ایک کامیاب صحافی ہونے کی حیثیت سے آپ کو پیدل چلنے کی بجائے بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے سفر کرنا چاہئے بلکہ سرینگر کے ایک اخبار کے مدیر نے کہا کہ جس رنگ میں آپ لوگ سفر کرتے ہیں یہ صحابہ اور مجاہدوں کے لئے تو درست تھا مگر ایک اخبار کے ایڈیٹر کے لئے یہ ٹھیک نہیں اخبار کے مدیر کو تھوڑی سی مکاری بھی کرنی پڑتی ہے تب جاکر کام چل سکتا ہے چنانچہ انہوں نے بعض واقعات بھی بیان کئے اور کہا کہ وقار کے خیال سے آپ لوگ یہ طریق چھوڑ دیں مگر چوہدری صاحب نے اخبار>اصلاح< )۲۷ / جولائی ۱۹۴۲ء( میں خادم خلق کو کرسی نشینی زیب نہیں دیتی۔ کے عنوان سے نوٹ لکھا۔ کہ اگر ہم اس سازوسامان سے سفر کریں تو ہم ان دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں پہنچ نہیں سکتے۔ جہاں کے لوگ سب سے زیادہ ہماری مدد کے محتاج ہیں اگر ہم نے بھی وقار کا خیال رکھا۔ تو پھر ہمارے اور سرکاری افسروں۔۔۔ کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا۔۔۔ میری ذاتی رائے یہ ہے یاتو انسان خدمت خلق کا کام اپنے ذمہ نہ لے اور اگر لے تو پھر اپنے آرام اور وقار کو اس میں حائل نہ ہونے دے مزید برآں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگراس قسم کے سامانوں کے ساتھ سفر کیا جائے تو غریب دیہاتی ڈرتے ہیں ۔۔۔ اور صحیح حالات بتلانے سے گریز کرتے ہیں گزشتہ دنوں میں اپنے دورہ کے دوران میں جب ونہگام )نزد بانڈی پورہ( پہنچا تو محترم خواجہ عبدالغنی صاحب ایک خواب بیان کررہے تھے کہ مجھے اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا یہ مصرع یاد آیا )منہ ازبہرما کرسی کہ ماموریم خدمت را( اپنے آقا کا فرمودہ یہ مصرعہ میں دل میں بار بار دہرا کر لذت لیتا رہا اس مصرعہ پر جس قدر زیادہ میں نے غور کیا اس نتیجہ پر پہنچا کہ جس نے خدمت کرنی ہو اسے آرام اور کرسی نشینی سے محبت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے تمام لوازمات کو بالائے طاق رکھ کر خدمت کے جذبہ ¶سے سرشار ہوکر عوام کے کام کو سرانجام دینا جاہئے۔ ۶۲
آپ بعض اوقات تیس پنتیس میل تک سفر کرلیا کرتے تھے کشمیر میں اکثر سفر کرنے کی وجہ سے اپنے بعض احباب میں مردآہن کے نام سے یاد کئے جاتے تھے ۱۹۴۴ میں جب )قائداعظم( محمد علی جناح سرینگر تشریف لے گئے تو انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ایسے آدمی سے ملنا ہے جو ریاست کے ہر حصہ سے واقف ہوا نہیں بتلایا گیا کہ ایک پنجابی نے تمام ریاست کا کئی بار سفر کیا ہے یہاں تک کہ گریز اور بلتستان وغیرہ علاقوں میں بھی پہنچا ہے قائداعظم )مسٹر محمد علی جناح( نے چوہدری صاحب کو بلوایا اور مختلف مقامات کے حالات دریافت کرتے رہے اور ان طول طویل سفروں کی وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ میں جماعت احمدیہ قادیان سے تعلق رکھتا ہوں اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی ہدایات کے مطابق کشمیریوں کی بہبود کے لئے میں نے یہ سفر کئے ہیں۔ اس پر قائداعظم بہت خوش ہوئے۔۶۳`۶۴
بالاخر اس سلسلہ میں کشمیر کے بعض مقتدر اصحاب اور عوامی حلقوں کی آراء تاثرات درج کئے جاتے ہیں۔
محمد خلیل صاحب کچلو ممبر اسمبلی ضلع اودھم پور نے بیان دیا کہ >مجھے اس بات کا اظہار کرنے میں مسرت ہے کہ مولوی عبدالواحد صاحب مدیر اعلیٰ >اصلاح< جس جواں ہمتی اور بلند حوصلگی سے جموں و کشمیر کے دور افتادہ اور پہاڑی علاقوں کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان مظلوموں اور مفلوک الحال انسانوں کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں یہ ان کا ہی حصہ ہے۔ آپ نے جن دشوار گزار راستوں اور صعب انگیز اور ناموافق حالات میں ڈوڈہ` بھدرواہ` بونجوہ` کشتواڑ` مڑوہ` داڑوں کا پیدل سفر کرکے یہاں کے حالات کو حکومت کے کانوں تک پہنچایا ہے اس کے لئے میں اپنے تمام علاقہ کے لوگوں کی طرف سے مولوی صاحب موصوف کا شکریہ ادا کرتا ہوں<۔۶۵
سردار فتح محمد خاں صاحب ممبر کشمیر اسمبلی پونچھ نے ادارہ >اصلاح< کی ان گراں بہا اور بے لوث اور جرات آموز خدمات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا۔ آپ کے مدیر صاحب اعلیٰ کے موجودہ دورہ پونچھ کے حالات اخبار >اصلاح< میں پڑھے ان کی یہ محنت و جانفشانی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے ہمارے علاقہ کے پہاڑی راستوں کے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر ہمارے حالات اور جائز شکایات سے واقفیت حاصل کرکے ان کے ازالہ کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے پونچھ کے علاقہ کا ہر فرد بشر جو معمولی سمجھ بھی رکھتا ہے۔ ان کے اس جذبہ خدمت خلق کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بلکہ ہر عقل سلیم رکھنے والے انسان کا سر تشکر و امتنان کے جذبات کے بوجھ سے جھک جاتا ہے جب وہ غور کرتا ہے کہ ایک ایڈیٹر جس کا کام صرف اپنے دفتر میں بیٹھ کر سمند قلم کی باگ اٹھانا ہوتا ہے۔ محض مخلوق خدا کی ہمدردی کے پیش نظر اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے۔ اور شہر بہ شہر قریہ بہ قریہ پیدل چل کر پہنچتا ہے۔ اور لوگوں سے ان کے حالات دریافت کرتا ہے۔ کسی جگہ اسے بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے۔ کہیں اسے بارش میں بھیگنا پڑتا ہے۔ اور کہیں دھوپ کی سختی اس کے ایثار و استقلال کا امتحان لیتی ہے۔ بھوک اور پیاس اسے تنگ نہیں کرتیں کیونکہ وہ ان سے مانوس ہو چکا ہے۔
یہ بیچارہ دن کو بڑے بڑے خوفناک جنگلوں اور بے آب و گیاہ وادیوں میں سے سفر کرتا ہے اور چوتھائی شب گزرے جب کسی غریب کسان یا گوجر کے مکان پر پہنچتا ہے۔ تو گھاس پھوس کے فرش پر بیٹھ کر اپنے افلاس زدہ بے کس میزبان سے اس کے ذاتی اور گردوپیش کے حالات دریافت کرتا ہے لسی کا ایک گلاس پی کر کہ وہی اس کے نادار مگر متواضع میزبان سے میسر آسکا۔ یہ انتھک انسان اس علاقہ کے غریب دیہاتیوں کی داستان رنج و محن کا قلمی فوٹو صفحہ قرطاس پر کھینچنا شروع کرتا ہے اور ساتھ ہی بار بار حکومت کو اس کے خزانے بھرنے والے کی تکالیف کے سدباب کی طرف توجہ دلاتا جاتا ہے دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس سے بھی زیادہ خدمت خلق کی توفیق عطا فرمائے۔ )سردار فتح محمد خان ممبر کشمیر اسمبلی پونچھ(۶۶
علاقہ بلتستان کے مسلمانوں نے مندرجہ ذیل الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ >بخدمت جناب مولانا صاحب مدظلہ السلام علیکم۔ آپ نے اپنے دورہ اور اس کے بعد اپنے جریدہ کے ذریعہ اہل بلتستان کی جو گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں ان کے لئے اہل بلتستان ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے ممنون ہو گئے ہیں عوام میں آپ کی ان خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے یہ مفلوک الحال قوم آپ کی ہمدردیوں کا اور کیا صلہ دے سکتی ہے اہل بلتستان کی یہ زبردست خواہش ہے کہ آپ پھر امسال اس طرف تشریف لائیں اور اپنے پہلے دورہ اور اخباری مضامین کے نیک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھیں<۔۶۷
کشمیر کے مسلم پریس کی تنظیم
‏text] ga[tکشمیر میں مسلمان اخبار نویسوں کی باہمی آویزش اور کشمکش کے باعث اخبار نویسوں کی انجمن کے عہدوں پر ہندو قابض تھے۔ چوہدری عبدالواحد صاحب نے سرینگر آکر مسلم پریس منظم کیا اور مسلمانوں کا بھی اس میں اثر و نفوذ شروع ہوا۔ چوہدری صاحب مسلسل پانچ سال تک پریس کانفرنس کے صدر رہے۔۶۸
کشمیر ایسوسی ایشن کو خراج تحسین
جموں و کشمیر مسلم پولیٹیکل کانفرنس ۱۹۳۴ء کے موقعہ پر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب نے صدارتی تقریر کے دوران فرمایا۔
>جب تحریک حریت کی ابتداء ہوئی۔ ہندوستان کے سربرآوردہ مسلمانوں نے شملہ میں ایک میٹنگ کرکے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن نے مالی اور جانی رنگ میں قربانی دے کر ہماری مدد کی۔ ہماری تکالیف سے دنیا کو مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک آگاہ کیا یورپ اور امریکہ میں پروپیگنڈا کیا۔ تحریک کے حامیوں` مظلومین اور شہداء کے پسماندگان کو مدد دی اور ہر حالت میں بے لوث اور ہمدردانہ خدمات انجام دیں۔ جب تحریک کشمیر اور سنجیدہ ہو گئی تو ہندوستان کے ہزارہا مسلمان جیلوں میں گئے اور جام شہادت پیا اب آئینی رنگ میں کشمیر ایسوسی ایشن ہماری مدد کر رہی ہے۔ آل انڈیا کانفرنس نے تحریری رنگ میں مظلومین کشمیر کی امداد کی اس لئے یہ سب افراد اور جماعتیں دلی شکریہ کے مستحق ہیں<۔
)اخبار >اصلاح< کشمیر ۲۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔۳(
>شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کے قابل قدر ارشادات اور اسلامیان کشمیر کا فرض
سرینگر کے اخبار اصلاح )۴/ جولائی ۱۹۳۵ء( نے مندرجہ بالا عنوان کے تحت صفحہ اول پر حسب ذیل نوٹ سپرد اشاعت کیا۔ >شیخ صاحب
نے ایک پوسٹر کا جواب دیتے ہوئے ۱۹/ جون کو مسلمانوں کے ایک عظیم الشان اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ اس قابل ہے کہ مسلمان اس کو اپنے دلوں پر لکھیں اور کوئی مسلم گھر ایسا نہ رہ جائے جس میں یہ الفاظ آویزاں نہ ہوں۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ شیخ صاحب کے بیان کردہ اصول پر تمام مسلمانوں کو پیرا ہونے کی تلقین کریں اگر جمہور مسلمان اسی ایک اصول پر کاربند ہو جائیں تو ان کا کوئی زبردست سے زبردست دشمن بھی ان کو نیچا نہیں دکھا سکتا شیخ صاحب نے فرمایا۔
>کوئی بھی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہلائے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتا ہو وہ مسلمان ہے اور کسی کو حق پہنچتا نہیں پہنچتا کہ اس کے مسلمان ہونے سے انکار کرے ہر وہ مسلمان جو اپنی قوم کے لئے خدمات پیش کرے گا۔ مسلم کانفرنس خوشی کے ساتھ قبول کرے گی۔
اگر کسی جماعت یا گروہ کا یہ مطالبہ ہو کہ احمدیوں کو کانفرنس یا قومی کاموں سے علیحدہ کیا جائے تو میری ان سے التماس ہے کہ خود ہی کانفرنس سے علیحدہ ہو جائیں کیونکہ مسلم کانفرنس کے اہل الرائے اصحاب کا قائم شدہ اصول یہی ہے کہ ہر ایک مسلمان بلا تمیز فرقہ بندی مسلم کانفرنس میں شامل اور قومی خدمات میں حصہ لینے کا حقدار ہے۔
جب تک میرا تعلق مسلم کانفرنس کے ساتھ ہے میں اس اصول پر سختی سے کاربند رہوں گا۔ میں حنفی` اہلحدیث` سنی` شیعہ` احمدی فرقوں کی کوئی تمیز نہیں کروں گا<۔
‏tav.5.43
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
)فصل ششم(
۱۹۳۸ء کی ایجی ٹیشن میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی رہنمائی اور مسلم کانفرنس کا احیاء
سرینگر میں مسلمانوں کے جلوس پر لاٹھی چارج
سرینگر کے ہندو اخبار >مارتنڈ< )جون ۱۹۳۷ء( نے ایک پنڈت صاحب کی تقریر کا خلاصہ شائع کیا جس میں یہ فقرات بھی تھے کہ گائے کو ہندو اسی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں جس طرح مسلمان حضرت محمدﷺ~ کو۔<۶۹ ان الفاظ پر مسلمانان سرینگر نے ۲۷/ جون ۱۹۳۷ء کو میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب کی رہنمائی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا۔ یہ جلوس جب نرپرستان۷۰ پہنچا تو پولیس کی بھاری جمعیت نے اس پر لاٹھی چارج کر دیا جس سے پانچ سو کے قریب اشخاص زخمی اور بعض قریب المرگ ہو گئے۔ علاوہ ازیں میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب اور بعض دوسرے سرکردہ مسلمان گرفتار کر لئے گئے۔ اور میر واعظ صاحب ہمدانی اور مولوی غلام نبی صاحب کی زبان بندی کر دی گئی۔۷۱ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو اس حادثہ کی اطلاع ہوئی تو حضور نے فی الفور بذریعہ تار کچھ رقم مجروحین و مظلومین کی امداد کے لئے بھجوا دی اور حکم دیا کہ آپ کے نمائندے مجروحین و مظلومین کے پاس اسے پہنچا دیں۔ چنانچہ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اور مولوی عبدالواحد صاحب مدیر اعلیٰ اخبار >اصلاح< نے احمدی نمائندوں کی حیثیت سے اسی روز شام کو مجروحین اور ان کے لواحقین سے ملاقات کرکے قولی و عملی رنگ میں اظہار ہمدردی کیا۔۷۲ اخبار >اصلاح< نے پولیس کے مظالم کی رپورٹ اور مہاشہ محمد عمر صاحب کے مضامین شائع کئے۷۳ جن میں ثابت کیا گیا تھا۔ کہ ویدوں کی رو سے گائے کا گوشت کھانا جائز ہے۔ ریاست میں ابھی تک گائے کے ذبیحہ پر دس سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی تھی۔ اس لئے ان مضامین کی اشاعت بغاوت کے مترادف قرار دے کر اخبار >اصلاح< بلیک لسٹ کر دیا گیا۔۷۴
اسی زمانہ میں سرینگر کے سناتنی اخبار >وکیل< نے تمام مسلم لیڈروں` مولویوں اور مذہبی پیشوائوں کو پانچ سو روپیہ کا انعامی چیلنج دیا کہ قرآن مجید سے گائے کا ذبیحہ ثابت کر دکھائیں۔ جماعت احمدیہ سرینگر نے یہ چیلنج منظور کر لیا۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم پر مہاشہ محمد عمر صاحب سرینگر پہنچ گئے مگر سناتنیوں نے انعامی چیلنج واپس لے لیا اور معافی مانگ لی۔۷۵
کشمیر ایجی ٹیشن کے متعلق چند خیالات
چوہدری غلام عباس صاحب اپنی کتاب >کشمکش< میں لکھتے ہیں کہ۔
>۱۹۳۵ء میں حضرت قائداعظم )مسٹر محمد علی جناح۔ ناقل( سرینگر تشریف لائے تھے مسلم کانفرنس کی جانب سے ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا تھا اس وقت صدر میں ہی تھا ۔۔۔۔۔۔ سپاسنامہ کے جواب میں حضرت قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ریاست میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کے لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف غیر مسلموں کی تالیف قلوب کریں بلکہ ان کو سیاسی گاڑی کا ایک پہیہ سمجھ کر ساتھ چلائیں<۔۷۶ قائداعظم نے واقعی یہ مشورہ دیا یا نہیں اور دیا تھا تو کس رنگ میں؟ اس امر سے قطع نظر ہمیں یہ بتانا ہے کہ اس مشورہ کا ردعمل ۱۹۳۸ء میں یہ ہوا کہ برطانوی ہند میں نئی اصلاحات کے نفاذ کے کچھ عرصہ بعد کشمیر کے مسلمان لیڈر دوسرے اقلیتی نمائندوں کے ساتھ ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایجی ٹیشن شروع کر دی۔ سیاسیات کشمیر کے اس نازک موڑ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے >کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات< کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع فرمایا۔۷۷ جس میں خدادا بصیرت کی روشنی میں مسلمان لیڈروں پر یہ واضح فرمایا کہ فریقین کی طرف سے باہمی حقوق کے واضح تصفیہ کے بغیر اس سمجھوتہ کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ اور اس کے تلخ نتائج ظاہر ہوں گے۔ چنانچہ جموں کے اخبار >دیش سیوک< نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔ >مرزا محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پمفلٹ بعنوان >کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات< شائع کیا گیا ہے۔ جس میں آپ نے ایجی ٹیشن موجودہ کے متعلق اظہار فرماتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ تاوقتیکہ آپس میں دونوں قوموں کا حقوق کے متعلق کوئی معاہدہ نہ ہو جائے ایجی ٹیشن کو چلانا بالکل فضول ہے۔ بلکہ ایسی ایجی ٹیشن بعد میں فساد اور بدامنی کا باعث ہوا کرتی ہے۔ اس لئے سب سے پہلے کوئی آپس میں معاہدہ ہونا لازمی ہے۔ تب ایک مقصد کے لئے قربانیاں سودمند ثابت ہو سکیں گی<۔۷۸
جماعت احمدیہ اور نیشنل کانفرنس
افسوس زعماء کشمیر نے کشمیری مسلمانوں کے اس محسن اعظم کی آواز پر کان دھرنے کی بجائے ۱۰/ جون ۱۹۳۹ء کو اپنی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس >نیشنل کانفرنس< میں بدل دی۔۷۹ اس تبدیلی کے جواز میں ایک طرف >معاہدہ مدینہ< اور >صلح حدیبیہ< پیش کی گئی اور دوسری طرف یہ نقطہ نگاہ رکھا گیا کہ >سیاسی دنیا میں مذاہب کو اس حد تک گھسیٹر دینا کہ وہ پھندا بن جائے صحیح طریق نہیں۔ >اس ضمن میں جموں کے ایک مشہور مسلمان نے اپنی تقریر میں یہاں تک کہہ دیا کہ۔ >۱۹۳۱ء سے لے کر آج تک جو کچھ ہم نے کیا وہ صرف فرقہ وارانہ پلیٹ فارم سے کیا۔ اور وہ عام حالات میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی حقوق کی بہبوی کے لئے کیا۔ کیونکہ ریاست کے اسی فیصدی مسلمان آبادی نہایت مظلومانہ زندگی بسر کر رہی تھی۔ آٹھ سال کا یہ عرصہ اپنی تکلیفوں کے رفع کرنے پر محدود رہا۔ خدا کا فضل ہے کہ آٹھ یا نو سال میں ہم ان تکالیف کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ زمانہ کے ساتھ حالات و خیالات بدلتے رہتے ہیں۔ آٹھ سال قبل جو ہم نے سیاسی قبا پہنی تھی۔ وہ صرف پرانی ہی نہیں ہو گئی بلکہ پھٹ کر تار تار بھی ہو چکی ہے اب ہم ایسا جامہ پنہیں گے جو ہمارے لئے باعث فخر ہو اور دنیا کے سامنے بھی باعث فخر ہو<۔۸۰
اخبار >اصلاح< نے اس موقعہ پر >رہنمایان قوم کی سب سے بڑی سیاسی غلطی< کے عنوان سے ایک زوردار اور موثر اداریہ لکھا جو مسلسل پانچ قسطوں میں شائع ہوا۔۸۱ اس اداریہ میں بالتفصیل بتایا گیا کہ صلح کی خاطر آنحضرت~صل۱~ یا صحابہ نے کبھی اپنی ملی تنظیم کا خاتمہ نہیں کیا اور نہ صلح کے لئے انفرادی تنظیم کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ مگر عارضی ہیجان اور وقتی جوش میں ان گزارشات کی قدر نہ کی گئی۔ اور نیشنلسٹ مسلمان لیڈروں نے اس کانفرنس کو ہندوئوں میں مقبول بنانے کے لئے آل انڈیا نیشنل کانگریس سے اپنا تعلق قائم کرنا ضروری سمجھا اور دیانتداری اور خلوص کے ساتھ حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہو کر ذمہ دار حکومت کے قیام کی جدوجہد کرنے لگے۔ اس کے برعکس ریاستی ہندئووں نے نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کی بجائے اپنی تنظیم کو مضبوط کرنا اور پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ نیز حکومت کشمیر مسلمانوں کے انتشار و افتراق سے فائدہ اٹھا کر ان کے حقوق بالکل پامال کرنے پر کمربستہ ہو گئی۔ اب مخلص رہنمائوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ بھی ملت و قوم کے وجود و بقاء کو خطرہ میں دیکھ کر نیشنل کانفرنس سے مستعفی ہونے لگے۔ چنانچہ وہ لیڈر بھی جنہوں نے مسلم کانفرنس کے خاتمہ کی تائید میں یہ فرمایا تھا کہ ۱۹۳۱ء کی تحریک فرقہ وارانہ تھی اور اس کی قبا اب تار تار ہو چکی ہے۔ بالاخر ۱۹۴۰ء میں نیشنل کانفرنس سے علیحدہ ہو گئے اور بیان دیا کہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بجائے نیشنل تحریک بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے۔ غیر مسلموں کی حمایت حاصل کئے بغیر نئی انجمن نے بتدریج عوام اور مسلمانوں کا اعتماد بھی کھو دیا ہے۔ جس کا نتیجہ بربادی کی صورت میں ظاہر ہوا پولیٹیکل ترقی رک گئی ہے۔ دفتری حکومت کی جڑیں زمین میں بہت زیادہ مستحکم ہو چکی ہیں جنہیں جنبش دینا مشکل ہو گیا ہے بین الاقوامی تعلقات زیادہ کشیدہ ہیں اور اس میدان میں جدید خطرناک سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ان کو بھی جائز حقوق حاصل ہونے چاہئیں پامال ہو رہا ہے۔ ان کی زبان` کلچر اور ہستی اس قدر معرض خطر میں ہیں جو پہلے کبھی نہ تھے۔ نیشنل کانفرنس نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا۔ جس سے ان کی خواہش استطاعت ظاہر ہو<۔۸۲
مسلمانان کشمیر کو کشمیری پنڈتوں کے عزائم سے چوکس اور ہوشیار کرنے کی مہم
۱۹۳۹ء میں ہندو اخبار >مارتنڈ< )سرینگر( نے حکومت کشمیر کے سامنے یہ مطالبات کئے کہ جو محکمہ جات لا اینڈ آرڈر سے تعلق رکھتے ہیں
ان میں انہیں اس قدر نمائندگی مل جائے کہ اکثریت کی نمائندگی برائے نام رہ جائے اس کے علاوہ جہاں ہندو ۵ فیصدی ہوں وہاں ان کو آتشین اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے۸۳ اخبار مذکور نے بعد کو یہ بھی اعلان کیا کہ کشمیری پنڈت ایک ایسا کھلاڑی ہے کہ وہ کسی چاتر سے چاتر شخص کو مہروں کی طرح استعمال کر سکتا ہے۔ یہ مطالبات و بیانات مسلمانان کشمیر کے لئے خطرہ کا الارم تھے۔ مگر ریاستی مسلمان خواب غفلت میں سو رہے تھے ایسے نازک وقت میں ادارہ >اصلاح< نے برادران وطن کے عزائم اور مسلمانوں کا فرض< کے عنوان سے اکیس اقساط۸۴ پر مشتمل ایک مدلل مضمون شائع کیا اور مسلمانان کشمیر کو بتایا کہ ہندو لوگ ہندوستان کی طرح ریاست کشمیر پر بھی ہندو راج کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں۔ یہ سلسلہ مضامین بہت پسند کیا گیا۔ چنانچہ اخبار >ہدایت< >کشمیر( نے اپنے ۷ و ۳۱/ مئی ۱۹۳۹ء کے پرچوں میں اس کی سولہویں اور سترھویں قسط نقل کرتے ہوئے حسب ذیل تبصرہ کیا۔ >یہ مضامین نہایت ہی پراز معلومات اور مفید ثابت ہوئے اور انہیں ریاست کے گوشہ گوشہ میں نہایت ہی پسند کیا گیا<۔ )۷/ مئی ۱۹۴۰ء(
>اصلاح< سرینگر نے ۔۔۔۔۔۔ اسلام اور اہل اسلام کی ایک قابل قدر خدمت انجام دی ہے جس کا اعتراف ریاست کے کونے کونے میں مسلمانوں کے فہمیدہ طبقہ نے کھلے بندوں کیا<۔ )۳۱/ مئی ۱۹۴۰ء(۸۵
مسلم کانفرنس کا احیاء
یکم اکتوبر ۱۹۴۰ء کو منشی محمد الدین صاحب فوق کے زیر صدارت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ارکان خصوصی کا اجلاس ہوا۔ جس میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے احیاء کا فیصلہ کیا گیا۔ اور ساتھ ہی مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل انتظامیہ کمیٹی تشکیل کی گئی سردار گوہر رحمان صاحب جموں )صدر( خواجہ محمد یوسف صاحب قریشی مدیر >پیغام< سرینگر )سیکرٹری( سردار فتح محمد خان صاحب پونچھ ممبر کشمیر اسمبلی` مرزا عطاء اللہ خان صاحب راجوری ممبر اسمبلی` غلام حیدر خان صاحب غوری )جموں مدیر >نوجوان(< سید مرتضیٰ حسن شاہ صاحب جلالی سرینگر۔ جناب اللہ رکھا صاحب ساغر مدیر معاون >رہبر< سرینگر۔۸۶
جناب سردار گوہر رحمان صاحب کا بیان ہے کہ >جب مسلم کانفرنس کا احیاء عمل میں آیا تو جموں میں میرے ہاں کئی روز تک مولوی ظفر علی خان صاحب اور چوہدری عبدالواحد صاحب مدیر اعلیٰ >اصلاح< بھی مقیم رہے۔ انہی دنوں مولوی ظفر علی خان صاحب نے ایک بار مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ >خدا کی قسم عبدالواحد ہے تو مرزائی مگر بہت نیک انسان ہے<۔
اس سلسلہ میں یہ بتانا ضروری ہے کہ ادارہ >اصلاح< نے مسلم کانفرنس کے احیاء کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا اور اس کے کالم کانفرنس کی سرگرمیوں کی اشاعت کے لئے گویا وقف ہو گئے۔
مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن کا قیام
حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہدایت پر مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لئے ۱۹۴۴ء میں >آل جموں و کشمیر مسلم ویلفیئر ایوسی ایشن< کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا۔ جس کے صدر خواجہ غلام محمد صاحب ٹھیکہ دار` جنرل سیکرٹری خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اور آفس سیکرٹری خواجہ غلام رسول صاحب تھے۔ یہ ادارہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کی آواز حکومت تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔]4 [stf۸۷`۸۸
)فصل ہفتم(
>شاھی تحقیقاتی کمیشن< اور >کشمیر چھوڑ دو< کی تحریک
شاہی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے خواجہ غلام نبی صاحب گلکار` چوہدری عبدالواحد صاحب اور خواجہ عبدالرحمن صاحب ڈار کے بیانات
جون ۱۹۴۴ء میں حکومت کشمیر کی طرف سے سر گنگا ناتھ )چیف جسٹس کشمیر( کی زیر صدارت ایک شاہی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا۔۸۹j2] gat[تا ریاست کا آئندہ آئین و نظام اس طرز پر ڈھالا جا سکے کہ ریاست کے مختلف فرقے یکساں طور پر زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کر سکیں۔
اس کمیشن میں مسلمانان کشمیر کی نمائندگی خواجہ غلام نبی صاحب گلکار )جنرل سیکرٹری مسلم ویلفیئر ایوسی ایشن`( چوہدری عبدالواحد صاحب )مدیر اعلیٰ >اصلاح< و امیر جماعت ہائے احمدیہ کشمیر( اور خواجہ عبدالرحمان صاحب ڈار )سرپنچ پنچایت ناسنور( نے کی۔ اور خصوصاً چوہدری عبدالواحد صاحب نے اپنے مفصل و مبسوط بیان میں ریاستی عوام کا صحیح نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ جس پر مسلمانوں کے علاوہ بعض ہری جنوں اور سکھوں نے بھی آپ کو مبارکباد دی۔۹۰ اور مورخ کشمیر منشی محمد الدین صاحب فوق ایڈیٹر اخبار >کشمیری< نے لکھا۔
>چوہدری عبدالواحد صاحب کا بیان شاہی کمیشن میں ریاست کی آزادی اقتصادی اور ہر قسم کی کیفیت پر ایک بے لاگ تبصرہ ہے ایسا مفصل` جامع اور مفید بیان کسی اور نے کب دیا ہو گا<۔۹۱
مولوی عبداللہ ناصر الدین صاحب کا بیان
۲۹/ جون ۱۹۴۴ء کو شاہی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ کے مبلغ مولوی عبداللہ ناصر الدین صاحب` مولوی فاضل وید بھوشن کا ویہ تیرتھ کی اہم شہادت ہوئی جس میں آپ نیے وید منتروں اور سمرتیوں کے شلوکوں سے ثابت کیا کہ قدیم زمانہ کے آریہ گائے کی قربانی کیا کرتے تھے۔ اور نہ صرف اسے برا نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ اسے باعث ثواب یقین کرتے تھے۔ آپ نے ویدوں سے اس امر کا بھی ثبوت پیش کیا۔ کہ دھرم تبدیل کرنے پر کسی ہندو کو جائیداد سے محروم نہیں کرنا چاہئے۔ آپ کے وید منتر اور سمرتیوں کے شلوک سنسکرت میں پڑھنے سے حاضرین خاص طور پر متاثر ہوئے۔۹۲
>کشمیر چھوڑ دو<
/ مارچ ۱۹۴۶ء میں بیعنامہ امرتسر پر پوری ایک صدی ہو چکی تھی۔ لہذا شیخ محمد عبداللہ صاحب نے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ مشورہ سے یہ آواز بلند کی کہ یہ معاہدہ منسوخ کر دیا جائے اس پر وہ اپنے بعض رفقاء سمیت ۲۱/ مئی ۱۹۴۶ء کو گرفتار کر لئے گئے۹۳ اور سرینگر پر ملٹری راج قائم کر دیا گیا۔ نیز عوام کو )امیر اکدل کے سوا( باقی پلوں پر چلتے ہوئے جبراً ہاتھ اٹھوا کر چلایا گیا اور مہاراجہ صاحب کے حق میں نعرے لگائے گئے۔۹۴ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان مظلومان کشمیر سے اظہار ہمدردی کیا۔ مگر ساتھ ہی ایجی ٹیشن کرنے والوں کو نصیحت فرمائی کہ >موجودہ شورش میں ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس کی ابتداء خود مہاراجہ صاحب اور ان کے خاندان کے خلاف الزامات لگانے سے کی گئی ہے<۔ دوسری طرف مہاراجہ صاحب کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنی رعایا کی عزت قائم کریں اور ان پر ظلم کو روکیں کیونکہ بادشاہ وہی ہے جو اپنی رعایا کو بیٹوں کی طرح سمجھے۔۹۵]4 [rtf
حضور کے اس ارشاد کے مطابق اخبار >اصلاح< نے بھی جہاں تحریک اٹھانے والوں کو تہذیب و شائستگی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی وہاں ملٹری راج کے مظالم پر زبردست احتجاج کیا اور لکھا۔ >یہ حکومت نہیں بلکہ اندھیر گردی ہے کہ اصل مجرم نہ مل سکا تو غیر مجرم کے گلے میں ہی پھندا ڈال دیا<۔۹۶
علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کشمیر نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایات کے مطابق ایک حد تک اس تحریک میں دلچسپی لی اور چودھری عبدالواحد صاحب نے شیخ محمد عبداللہہ صاحب کے مقدمہ کے واقعات اپنی کتاب >کشمیر چھوڑ دو< میں لکھے۔ جسے پیر علی محمد صاحب کتب فروش حبہ کدل نے شائع کر دیا تھا۔۹۷
)فصل ہشتم(
آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد` مجاہدین کشمیر کے لئے اعانت کی اپیل` حضرت امام جماعت احمدیہ کی اقوام متحدہ سے متعلق ایک نصیحت` انجمن مہاجرین جموں و کشمیر اور مسلم کانفرنس کا قیام
تحریک آزادی کشمیر کا ساتواں دور۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو شروع ہوا جبکہ >اسیروں کے رستگار< سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مبارک ہاتھوں سے آزاد کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ چنانچہ سردار گل احمد خاں صاحب کوثر سابق چیف پبلسٹی آفیسر جمہوریہ حکومت کشمیر کا بیان ہے کہ
>یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جونا گڑھ میں عارضی متوازی حکومت کا اعلان کیا گیا اور نواب جونا گڑھ کو معزول کیا گیا۔ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے دیکھا کہ یہی وقت کشمیریوں کی آزادی کا ہے تو آپ نے کشمیری لیڈروں اور ورکروں کو بلایا۔ میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ مفتی اعظم ضیاء الدین صاحب ضیاء کو عارضی جمہوریہ کشمیر کا صدر بنایا جائے۔ مگر انہوں نے انکار کیا اس کے بعد ایک اور نوجوان قادری صاحب کو کہا گیا۔ اس نے بھی انکار کیا۔ آخر میں قرعہ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور صاحب کے نام پڑا۔ دو اکتوبر ۱۹۴۷ء کو گجرات میں ایک اور میٹنگ ہوئی جس میں غضنفر علی خاں وغیرہ سے مشورہ ہوا۔
بمشورہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی پلیڈر مسودہ تیار کیا گیا۔ اس کی نقل بذریعہ ماسٹر امیر عالم صاحب کوٹلی اور چوہدری رحیم داد صاحب حال سب جج بھمبر آزاد کشمیر جناب مرزا صاحب کی خدمت میں لاہور بھیج دیا گیا۔ سیلاب کی وجہ سے راولپنڈی اور لاہور کی ریل بند تھی۔ مرزا صاحب نے خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور کو اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں لاہور سے گوجرانوالہ بھیج دیا۔
۳/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بمقام پیرس ہوٹل متصل ریلوے پل راولپنڈی کارکنوں کی کئی میٹنگیں ہوئیں۔ آخر مسودہ پاس ہو کر خواجہ غلام نبی۹۸ گلکار انور کے ہاتھ سے لکھ کر انور۔ بانی صدر >عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر< کے نام سے ہری سنگھ کی معزولی کا اعلان ہوا۔ خواجہ غلام نبی گلکار انور صاحب نے یہ تار راولپنڈی صدر تار گھر سے غالباً چالیس روپیہ دے کر دے دیا۔ یہ پریس ٹیلیگرام ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات کے علاوہ اے پی آئی کو دیا گیا۔ راولپنڈی میں اس وقت اے پی پی کا کوئی نمائندہ نہیں تھا مسٹر بشارت >پاکستان ٹائمز< کے نمائندے تھے۔ اعلان کے بعد ۵/ تاریخ کو راقم الحروف۹۹ خواجہ غلام نبی گلکار انور اور بشارت صاحب نے باجازت باقی ممبران کیبنٹ سردار محمد ابراہیم خان صاحب پرائم منسٹر عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کا بیان تیار کرکے شائع کر دیا گیا جو اخبارات میں چھپ گیا۔ خواجہ غلام نبی گلکار انور صاحب بانی صدر عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کے بیان میں یہ واضح کر دیا گیا کہ ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء ایک بجے رات کے بعد ہری سنگھ کی معزولی کے ساتھ >عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر< کا قیام بمقام مظفر آباد عمل میں لایا گیا۔ اور انور اس حکومت کا صدر ہے۔ ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بمقام پیرس ہوٹل راولپنڈی حسب ذیل وزیر اور عہدہ دار مقرر ہوئے چونکہ معاملہ عارضی تھا اور کسی کو کیا گمان تھا کہ یہ حقیقت بن کر رہے گا۔ مگر دل سے جو آواز نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
صدر >عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر< خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور۔ پرائم منسٹر سردار محمد ابراہیم خاں صاحب بمشورہ مولوی غلام حیدر صاحب جنڈالوی )سردار ابراہیم خان صاحب میٹنگ میں موجود نہ تھے( وزیر مالیات سید نذیر حسین شاہ` وزیر دفاع۔ مولوی غلام حیدر جنڈالوی` چیف پبلسٹی آفیسر گل احمد خان کوثر )راقم الحروف(
میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ خواجہ انور صاحب کو سرینگر فوراً روانہ کر دیا جائے۔ اور انہیں مکمل اختیار دے دیا گیا کہ وہ جنہیں مناسب سمجھیں انڈر گرائونڈ گورنمنٹ میں وزیر یا عہدیدار بنا لیں۔ چنانچہ ریڈیو سے ۴۔ ۵/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پے در پے >عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر< کے قیام کا اعلان بمقام مظفر آباد ہوتا رہا۔ خواجہ انور بانی صدر ۶/ اکتوبر کو راولپنڈی سے روانہ ہوئے اسی روز انہیں مسٹر عبدالرحیم درانی دو میل پل کے پاس ملے تو انہیں ڈیفینس سیکرٹری مقرر کرکے کشمیر چھوڑنے کو کہا۔ خواجہ غلام دین صاحب وانی کو بھی مظفر آباد چھوڑنے کو کہا اور ان دونوں صاحبان کو فوری لاہور مرزا صاحب کے پاس جانے کو کہا گیا۔ ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں یہ فیصلہ بھی ہوا تھا۔ کہ وزیر مالیات سید نذیر حسین شاہ صاحب` وزیر دفاع مولوی غلام حیدر صاحب جنڈالوی` گل احمد خان کوثر >راقم الحروف< اور دیگر لیڈران تحریک جناب مرزا صاحب کی خدمت میں لاہور پہنچ جائیں گے اور مشورہ کریں گے کیونکہ اس وقت حالت یہ تھی کہ مغربی پاکستان اور کشمیر کی آزادی دونوں خطرے میں نظر آرہی تھیں۔ اور عارضی حکومت کا اعلان اخبارات میں چھپ چکا تھا۔ مگر ان مذکورہ بالا آدمیوں کے سوا کسی کو علم نہ تھا کہ یہ اعلان کس نے کیا اور کیسے ہوا؟
خواجہ غلام نبی گلکار انور صاحب بانی صدر ۸/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو شیخ محمد عبداللہ صاحب کے مکان واقع سوورہ سرینگر پر ملے ۲/۲۱ گھنٹے باتیں ہوئیں۔ آخر میں یہ طے پایا کہ ان کے اور قائداعظم کے درمیان ملاقات کا بندوبست کر دیا جائے۔ ۷/ اکتوبر ۱۹۴۷ء سے لے کر ۲۲/ اکتوبر ۱۹۴۷ء تک گویا ۱۵ یوم کے عرصہ میں چھان بین کرکے حسب ذیل وزراء اور عہدیدار مقرر ہوئے۔۱۰۰ وزیر تعلیم مسٹر علیم )ڈاکٹر نذر الاسلام صاحب پی۔ ایچ۔ ڈی( وزیر صحت و صفائی مسٹر لقمان )ڈاکٹر وزیر احمد صاحب قریشی مرحوم ۔۔۔۔۔۔سابق ملحقہ آفیسر سرینگر( وزارت زراعت مسٹر فہیم )اندرون کشمیر ہیں( وزیر عدل و انصاف مسٹر انصاف )اندرون کشمیر ہیں( وزیر صنعت و حرفت مسٹر کارخانہ )اندرون کشمیر ہیں( گورنر کشمیر مسٹر شمس النہار )اندرون کشمیر ہیں(۱۰۱ ڈائریکٹر ریشم خانہ مسٹر ریشم الدین۔ )اندرون کشمیر ہیں( ڈائریکٹر میڈیکل سروسز ڈاکٹر بشیر محمود صاحب وانی مرحوم آف پونچھ۔ چیف انجینئر مسٹر انعام )خلیفہ عبدالمنان صاحب( انسپکٹر جنرل پولیس مسٹر حکیم صاحب` ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس مسٹر سٹیم )محمد اکبر کیانی صاحب( سیکرٹری فار ٹراسپورٹ مسٹر رحمت اللہ صاحب آف چراغ دین اینڈ سنز۔ ڈپٹی پبلسٹی آفیسر منور )خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار( انڈر گرائونڈ گورنمنٹ کی تشکیل کے بعد فوجی رضا کاروں کو منظم کرنے کے لئے مسٹر جون )اندرون کشمیر ہیں( کو کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا اور ہری سنگھ کی گرفتاری کی سکیم کی تعمیل پر غور ہوتا رہا اور سکیم کا بہت سا حصہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ اس میں کپٹن بدر الدین صاحب` کپٹن جمال الدین صاحب` مرزا میاں عبدالرشید ایم۔ ایل۔ اے` سجادہ نشین درگاہ کنبیا شریف اور بہت سے دوست تھے جو اندرون کشمیر میں مقیم ہیں۔ اس شعبہ کے اجلاس کارونیشن ہوٹل متصل لال چوک امیر اکدل ہوتے رہے<۔۱۰۲
سردار گل احمد خان صاحب کے مندرجہ بالا بیان کی تائید و تصدیق متعدد ذرائع سے ہوتی ہے۔
۱۔
چنانچہ مسٹر ریڈی نے انہی دنوں پاکستان سے ہندوستان میں پہنچنے کے بعد >پاکستان کا بھانڈا چوراہے پر< نامی ایک کتابچہ شائع کیا۔ جس میں لکھا کہ >آزاد کشمیر کا قیام مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کے دماغ کا نتیجہ ہے جس کا پروگرام انہوں نے رتن باغ لاہور میں بنایا تھا۔ ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت آزاد کشمیر کا قیام دراصل اس پروگرام کا ابتدائی اقدام تھا<۔۱۰۳
۲۔
پروفیسر محمد اسحاق صاحب قریشی ایم۔ اے سابق قائم مقام جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس کا بیان ہے۔ >۲۱/ ستمبر ۱۹۴۷ء میں جب مجھے تین سال کے لئے ریاست بدر کر دیا گیا تو بمقام لاہور وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان مرحوم نے ایک سیاسی میٹنگ میں مجھے کہا کہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ساتھ رابطہ قائم کروں کیونکہ کشمیر کے کام کے سلسلے میں میرے سپرد بحیثیت جنرل سیکرٹری مسلم کانفرنس ایک ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے رابطہ قائم کیا۔ اور اس سلسلہ میں ان کے ساتھ ستمبر` اکتوبر` نومبر میں تین چار ملاقاتیں پریذیڈنٹ مسلم کانفرنس چودھری حمید اللہ خان کے ساتھ کیں۔ اور اس کے علاوہ تنہا ملاقاتیں بھی کیں۔ میں ذاتی علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ امام جماعت احمدیہ کشمیر کی آزادی کے سلسلہ میں بہت اہم رول ادا کر رہے تھے۔ اور حکومت پاکستان کے وزیراعظم کی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس سلسلہ میں انہیں حمایت حاصل تھی۔ اور حضرت صاحب جو کچھ کہہ رہے تھے حکومت کے علم کے ساتھ کہہ رہے تھے۔ میں متعدد بار حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد سے ملا ہوں۔ اور کشمیر کو آزاد کرنے کے سلسلے میں جو تڑپ میں نے ان کے دل میں دیکھی ہے۔ وہ دنیا کے بڑے بڑے محب وطنوں میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس موضوع پر میں نے ان کے ساتھ بڑی طویل ملاقاتیں کی ہیں اور میں نے ان جیسی صاف سوچ اور ان جیسا تدبر بہت کم مدبروں میں دیکھا۔ میرا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن میں نے میاں بشیر الدین صاحب کا ان جذبات کے لئے ہمیشہ احترام کیا ہے۔ میں نے اب تک حضرت مرزا صاحب جیسا عالی دماغ مدبر اور آزادی کشمیر میں مخلص کسی کو نہیں دیکھا۔
ستمبر۔ اکتوبر کو میری ملاقاتوں میں اور اہم سیاسی میٹنگوں میں یہ طے پایا کہ جہاد کشمیر کے آغاز سے پہلے ایک مفصل منشور تیار کر لیا جائے۔ جس کا اعلان جنگی بگل بجنے سے پہلے کر دیا جائے۔ یہ ایک قسم کا سیاسی منشور تھا جس میں جہاد کی غایت اور کشمیر کو فتح کرنے کے بعد نظم و نسق کی تشکیل اور اہل کشمیر کا حق خود ارادیت وغیرہ شامل تھے۔
یہ مسودہ فیض احمد فیض سابق ایڈیٹر پاکستان ٹائمز اور میں نے تیار کیا تھا۔ بعد میں یہ مسودہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کو دکھایا انہوں نے اس پر قومی نقطہ نظر سے بعض ترامیم کیں اس کے بعد یہ مسودہ ایک بڑی سیاسی کمیٹی نے منظور کر لیا اور اس کے اعلان کے لئے تاریخ اور وقت کے تعین کا کام اس کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ مگر بعد میں حالات خراب ہو جانے کی وجہ سے اس ترتیب سے جہاد کا کام نہیں ہوا۔ جس ترتیب سے اس منشور میں تجویز کیا گیا تھا<۔۱۰۴
۳۔
مورخ کشمیر پریم ناتھ بزاز تاریخ جدوجہد حریت کشمیر
‏KASHMIR> IN FREEDON FOR STRUGGLE THE OF <HISTORY
میں لکھتے ہیں۔ انور غلام نبی گلکار کے سوا کوئی اور نہ تھا جو مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کے ایک ممبر اور تحریک آزادی کا ایک قدیم آزمودہ کار سپاہی ہے جس نے صوبائی انقلابی حکومت آف آزاد کشمیر کی سرکردگی کی۔ )ترجمہ(۱۰۵
پھر لکھتے ہیں۔ قبل اس کے کہ مسٹر گلکار مہاراجہ کشمیر کو دیکھ بھی سکتے۔۔ لڑائی پھوٹ پڑی اور صوبائی حکومت کے رئیس اپنے ہیڈ کوارٹرز کو واپس نہ آسکے اس کے بعد یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ وہ )گلکار صاحب۔ ناقل( دسمبر ۱۹۴۷ء میں گرفتار کر لئے گئے اور ڈوگرہ حکومت کی طرف سے جیل خانہ میں بھیج دیئے گئے لیکن بغیر یہ علم دیئے کہ وہ آزاد حکومت کا پہلا صدر ہے مسٹر گلکار سرینگر میں مسٹر عبداللہ سے قید ہونے سے پہلے ملے اور ان کے ساتھ گفتگو کی۔ لیکن انہوں نے اس کی شناخت کو ظاہر نہ کیا۔ )ترجمہ(۱۰۶
۴۔
مغربی مورخ لارڈ برڈوڈ اپنی کتاب >دو قومیں اور کشمیر< میں تحریر کرتے ہیں۔ حکومت آزاد کشمیر کی بنیاد )۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پڑی تھی اور اس کے پہلیے صدر خواجہ غلام نبی گلکار تھے اور سردار محمد ابراہیم خان اس حکومت کے پرائم منسٹر تھے جو خواجہ غلام نبی گلکار مظفر آباد سے اندرون کشمیر چلے گئے تو اس کے بعد ۲۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو زمام حکومت سردار محمد ابراہیم کے ہاتھ میں آگئی۔ )ترجمہ(۱۰۷
غازی کشمیر ڈاکٹر بشیر محمود وانی شہید
جناب کلیم اختر صاحب لکھتے ہیں۔
>کشمیر کی ڈوگرہ حکومت اور مفاد پرست عناصر نے کشمیری مسلمانوں کے متعلق یہ تاثر پیدا کر رکھا تھا کہ کشمیری قوم بزدل اور اذیت پسند ہے اور ان کی بزدلی ہی ان کی محکومی اور غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہے مگر تحریک آزادی کشمیر کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ کشمیری مسلمان ریاست کے کسی بھی حصہ کے مکیں کیوں نہ ہوں۔ ہر دور میں طاغوتی اور سامراجی قوتوں سے نبردآزما رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خون سے بے مثال قربانیوں اور جذبہ ایثار سے جدوجہد آزادی کو آگے ہی بڑھایا ہے۔
ڈاکٹر بشیر محمود وانی شہید بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں حکومت آزاد کشمیر نے >غازی کشمیر< کے اعزاز سے نوازا اور ان کی قومی و ملی خدمات جلیلہ کا اعتراف کیا ہے۔
ڈاکٹر بشیر محمود کے والد ماجد کا نام ڈاکٹر محمد رمضان تھا۔ آپ اسلام آباد )کشمیر( کے رہنے والے ایک نہایت متقی` پرہیزگار اور بااصول انسان تھے۔ خدمت خلق کا جذبہ ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ جب کشمیر میں ہیضہ کی وبا پھوٹی تو انہوں نے شب و روز کام کیا اور مریضوں کی دیکھ بھال میں اس طرح مصروف رہے کہ کود اس موذی مرض کا شکار ہو گئے۔ اس وقت ڈاکٹر بشیر محمود کی عمر سات برس کی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کا جنون تھا مگر مالی مجبوریان رکاوت بنی ہوئی تھیں۔ چھوٹی کلاسیں تو کسی نہ کسی طور پاس کر لیں لیکن کالج کی پڑھائی بہت مہنگی تھی۔ اس کا علاج انہوں نیے یہ کیا کہ ایک ہوٹل میں ملازمت کر لی۔ رات کو ہوٹل میں کام کرتے اور صبح کالج جاتے۔ آخر ان کی یہ محنت رنگ لائی اور وہ ڈاکٹر بن کر برطانوی ہند کی حکومت سے منسلک ہو گئے۔ طبیعت چونکہ حریت پسند تھی اس لئے فرنگیوں کی ملازمت ذہنی طور پر قبول نہ کی اور جب انہیں پتہ چلا کہ پونچھ میں ملیریا کی وبا پھوٹ پڑی ہے تو ملازمت کو لات مار کر پونچھ میں آن بسے اور خدمت اہل وطن میں لگ گئے۔ ان کیے عمل کا یہ اثر ہوا کہ لوگوں کی نگاہوں میں قدر و منزلت پیدا ہو گئی اور دور دراز سے لوگ علاج معالجے کے لئے آنے لگے۔
ان کی مقبولیت اور شہرت غیر مسلموں کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ نتیجہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے ہم پیشہ لوگوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ ڈاکٹر بشیر محمود کو اپنی قوم کی محکومی اور خفتہ بختی پر ہمیشہ ہی پریشانی رہی کیونکہ وہ جہاں ایک اچھے معالج تھے وہاں سیاسی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی خطرپسند طبیعت ہر وقت کچھ کر گزرنے کی تاک میں رہتی۔ چنانچہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کا جذبہ حریت بھی بڑھتا چلا گیا۔ جب وہ پونچھ کے دور افتادہ علاقوں میں مریضوں کو دیکھنے کے لئے جاتے تھے تو سیاسی بیداری کام کام بھی کرتے تھے۔ انہیں اکثر مریضوں کو دیکھنے کے لئے رات کے وقت گھنے جنگلوں میں سے گزرنا پڑتا تھا جہاں درندے ہوتے تھے۔ درندوں کے علاوہ لوگ کہتے تھے کہ وہاں جن بھوت بھی رہتے ہیں۔ لوگ ڈاکٹر صاحب سے اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ جنگل >بھاری ہے< یعنی وہاں شر شرار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بشیر محمود ہنس کر جواب دیا کرتے تھے۔ >آپ فکر نہ کریں میں خود سرشرار ہوں<۔
ڈاکٹر بشیر محمود خوبرو انسان تھے۔ قد چھ فٹ نو انچ` سرخ و سپید رنگت` حاضر جواب` خوش گفتار اور صاحب کردار تھے۔ صوم و صلٰوۃ کے پابند اور عاشق رسولﷺ~ تھے۔ ماہر تیراک اور اچھے اتھیلیٹ تھے۔ ایک بار ایک مریض کو دیکھنے جارہے تھے کہ راستے میں دریا طغیانی پر تھا۔ ساتھیوں نے دریا پار کرنے سے منع کیا مگر انہوں نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور دریا پار کر گئے اور جان بلب مریض کے لئے مسیحا ثابت ہوئے۔ حافظ یعقوب ہاشمی کا بیان ہے کہ واپسی پر جب وہ پانی سے شرابور لباس میں ایک محفل مشاعرہ میں شرکت کے لئے آئے تو ان سے تاخیر کی وجہ دریافت کی گئی۔ انہوں نے اپنے لباس کی طرف اشارہ کرکے غالب کا یہ شعر ذرا سی تبدیلی کے ساتھ یوں پڑھا۔
ہوئے >جی< کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
ڈاکٹر بشیر محمود کو شعر و سخن سے خاص شغف تھا اور کبھی کبھار طبع آزمائی بھی کر لیتے تھے ایک طرحی مشاعرے میں جس میں طرح مصرع تھا۔
ان کھڑکیوں سے جھانک رہی ہے فضا مجھے
پر ایک شعر یوں کہا۔
آئی نہ راس پونچھ کی آب و ہوا مجھے
ان چوٹیوں سے جھانک رہی ہے قضا مجھے
ڈاکٹر مرحوم کے کردار کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ پونچھ میں ان کے حریف ہندو ڈاکٹروں نے ایک سازش کی اور ڈاکٹر صاحب کے ہی کمپونڈر جمشید کے ہاتھ سے انہیں زہر پلا دیا۔ مگر ان کے صحت مند جسم میں زہر مہلک اثر نہ کر سکا۔ انہیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ انہیں زہر جمشید نے دیا ہے انہوں نے جمشید کو معاف کر دیا اور اسے نیک راہ پر چلنے کی تلقین کی۔ اس واقعہ کے چند مہینوں بعد وہ پونچھ سے سرینگر میں منتقل ہوگئے اور میراکدال چوک میں جسے اب لال چوک کہا جاتا ہے کارونیشن ہوٹل کی بلڈنگ میں >مسلم میڈیکل ہال< کے نام سے کلینک کھولا۔ یہ تشکیل پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اسی کلینک میں دیکھا تھا۔ ان کی رہائش گاہ ہمارے محلہ مائی سوماں میں تھی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر سیاسی سرگرمیوں کا زور ہوتا تھا۔ پنجاب مسلم ہوٹل سیاست دانوں کی آماجگاہ تھا اور نیشنل کانفرنس کے صف اول کے رہنما اسی چوک کے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں محفلیں جماتے تھے۔ میراکدل چوک میں پلیڈیم سینما کے ساتھ ڈاکٹر بشیر محمود کا کلینک نظریہ پاکستانکے شیدائیوں کا ایک مرکز تھا جہاں ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنے پاکستانی خیالات سے لوگوں کو آگاہ کرتے اور نظریہ پاکستان کی تبلیغ کرتے۔ نہ صرف تبلیغ کرتے بلکہ ان کا تعلق تحریک آزادی کشمیر کے ایک زمین دوز گروپ سے بھی قائم تھا۔ اس گروپ نے مہاراجہ ہری سنگھ کو گرفتار کرنے یا دسہرہ کے موقع پر ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق موجودہ آزاد کشمیر میں ان لوگوں سے تھا جو مسلح جدوجہد پر عمل پیرا تھے۔ چنانچہ پاکستان مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے سالار میجر خورشید انور سے ان کا باقاعدہ رابطہ قائم تھا اور اس سلسلے میں مشہور کشمیری کارکن خواجہ اسداللہ کاشمیری بھی سرینگر میں )۱۹۴۷ء( ان سے ملا تھا۔
سیاسی اعتبار سے ڈاکٹر بشیر محمود کی وفاداریاں خواجہ غلام نبی گلکار گروپ سے تھیں۔ چنانچہ جب ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو خواجہ غلام نبی گلکار نے آزاد کشمیر حکومت کے قیام کا اعلان کیا تو اس میں کابینہ کے دیگر اراکین کے ناموں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بشیر محمود وانی کا نام بطور ڈائریکٹر میڈیکل سروسز کے شامل تھا۔ ڈوگرہ حکومت کو ڈاکٹر بشیر محمود کے مخفی منصوبوں کا پتہ چل گیا اور ان کے کئی ایسے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا جو مقبوضہ کشمیر میں تھے مگر ڈاکٹر صاحب سرینگر سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حکومت نے ان کا سارا سامان ضبط کرکے نیلام کر دیا۔ ادھر آزاد کشمیر میں جنگ آزادی شروع ہو چکی تھی۔ انہوں نے محاذ جنگ پر طبی امداد کا سلسلہ جاری کیا۔ ڈسپنسریاں کھولیں اور ادویات کی ترسیل کا بندوبست کیا۔ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اگلے مورچوں پر پہنچتے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انہیں سواری نہ ملتی تو وہ پیدل ہی چل پڑتے۔ انہوں نے اپنی جنگی خدمات کا نہ تو کوئی معاوضہ لیا اور نہ ہی تنخواہ۔
ان کے بیوی بچے راولپنڈی میں تھے۔ مگر وہ خود پونچھ کے محاذ پر سرگرم رہے۔ ان ایام میں انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کو ایک خط میں لکھا۔
>پونچھ شہر فتح ہونے والا ہے۔ ہماری آزاد فوج بڑھ چڑھ کر لڑ رہی ہے میں پونچھ سے چند میل کے فاصلے پر شہر پہ نظریں جمائے منتظر ہوں اور ہاتھ میں ٹیلیفون لئے بیٹھا ہوں۔ جوں ہی شہر فتح ہونے کی خبر آئے گی میں گھوڑا دوڑا کر وہاں پہنچوں گا اور اپنے ہاتھ سے تیرہ ہندوستانیوں کو قتل کروں گا۔ جنہوں نے میرے خاندان کے تیرہ افراد کو شہید کیا ہے۔
مگر افسوس ڈاکٹر صاحب مرحوم کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی اور جنگ بندی نے پونچھ کی مکمل فتح میں رکاوٹ ڈال دی۔ سردار محمد ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر بشیر محمود ہوائی حملوں کی صورت میں بھی اپنا کام جاری رکھتے اور شہیدان وطن کی لاشوں کو محاذ جنگ سے اٹھا کر لاتے اور سپرد خاک کرتے۔
آزاد کشمیر حکومت کی تشکیل کے موقع پر آپ کو ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز مقرر کیا گیا تھا۔ اس ہنگامی اور جنگی دور میں انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ سر انجام دیا مگر جوں ہی حالات اعتدال پر آئے حکومت پاکستان نے دیگر کلیدی اسامیوں کی طرح اس عہدے کے لئے بھی پاکستان سے ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے نئے آفیسر کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور خود نہایت خاموشی سے ڈپٹی دائریکٹر کا عہدہ لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اس جذبہ اور ایثار کو جنرل ہیڈ کوارٹر اور حکومت آزاد کشمیر نے بے حد سراہا اور غازی کشمیر کے خطاب سے نوازا۔
ڈاکٹر بشیر محمود قومی ضیاع کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔ ہر کام کی خود نگرانی کرتے تھے اور اگر کسی وقت کوئی ماتحت حاضر نہیں تو اس کا کام بھی خود ہی سرانجام دیتے۔ یہی خوبی ان کی وفات کا موجب بنی۔ وفات سے چند روز قبل وہ گلگت کے سرکاری دورے پر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے اپنے ساتھ ادویات بھی لے جارہے تھے۔ چنانچہ وہ ادویات کے گودام میں جب داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ سپرٹ کا ایک بیرل ٹوٹ گیا ہے اور سپرٹ فضا میں پھیل رہی ہے۔ دراصل اندر آگ لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب موم سے بیرل کو بند کرنے کی کوشش میں آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ مگر وہاں سے بھاگنے کی بجائے گودام کی آگ بجھانے میں مصروف ہو گئے اور تن تنہا آگ پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن ان کا پورا جسم جل گیا۔ پھر بھی حوصلہ نہ ہارا اور جھلسے ہوئے اپنے گھر جو شہزادہ کوٹھی کے قریب تھا پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور بالاخر سی۔ ایم۔ ایچ راولپنڈی میں دو روز تک زندگی و موت کی کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کر دی۔
وفات کے وقت ان کی عمر ۳۶ برس تھی۔ ساتھیوں نے ان کی المناک وفات کو شہادت کا نام دیا ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد ان کے اہل و عیال پر کیا گزری؟ یہ ایک حسرت ناک داستان ہے ان کا بیٹا نصیر محمود وانی اس وقت دو برس کا تھا۔ اب عہد جوانی میں داخل ہو چکا ہے۔ اس کو اپنے نامور باپ کی طرح اپنی تعلیم و تدریس کے لئے بہت جدوجہد کرنی پڑی۔ وہ ہنوذ ذریعہ معاش کے لئے سرگرداں ہے وہی قومی درد اس نوجوان کے دل میں موجزن ہے جو باپ کے دل میں تھا۔ چند سال بیشتر جب بھارتی طیارہ >گنگا< کے اغوا کے سلسلے میں حکومت نے چند کشمیری حریت پسندوں کو گرفتار کیا تو ان میں نصیر محمود وانی بھی تھا<۔
)رسالہ >حکایت< لاہور دسمبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۹۰ تا ۹۲(
کشمیر اور حیدر آباد کو فوری طور پر متوازی سطح پر حل کرنے کا بروقت مشورہ
مہاراجہ صاحب کشمیر نے ابھی ہندوستان سے الحاق کا اعلان نہیں کیا تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹/ اکتوبر ۱۹۴۷ء
کو انکشاف فرمایا کہ >کشمیر مخفی سمجھوتہ ہندوستان سے کر چکا ہے۔ اور دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ کشمیر نے جو فیصلہ کیا ہے ملک کی اکثریت کی رائے کے مطابق ہے۔ اس فیصلہ کو چھپایا جارہا ہے اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کا کچھ حصہ توڑ کر ملک کی اکثریت سے بھی اعلان کروا دیا جائے کہ وہ انڈین یونین میں ملنا چاہتے ہیں<۔۱۰۸
نیز تحریر فرمایا۔ >حیدر آباد اور کشمیر کے سوال متوازی ہیں۔ اور ایک کا فیصلہ دوسرے کے فیصلہ کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ عقلی طور پر ان دونوں ریاستوں کے فیصلے دو اصول میں سے ایک پر مبنی ہو سکتے ہیں یا تو اس اصل پر کہ جدھر راجہ جانا چاہے اس کو اجازت ہو ۔۔۔۔۔ دوسرے اس اصل پر فیصلہ ہو سکتا ہے کہ ملک کی اکثریت جس امر کا فیصلہ کرے اس طرف ریاست جا سکتی ہے۔ اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کشمیر پاکستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہو گا۔ اور حیدر آباد ہندوستان کے ساتھ ملنے پر مجبور ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہو گا کہ بتیس لاکھ مسلمان آبادی اس کی آبادی میں اور شامل ہو جائے گی۔ لکڑی کا بڑا ذخیرہ اس کو مل جائے گا بجلی کی پیداوار کے لئے آبشاروں سے مدد حاصل ہو جائے گی اور روس کے ساتھ اس کی سرحد کے مل جانے کی وجہ سے اسے سیاسی طور پر بری فوقیت حاصل ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ کشمیر اس کے سات شامل ہو حیدر آباد کی حفاظت کرنی اس کے لئے مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔ کشمیر کا لمبا ساحل پاکستان سے ملتا ہے۔ کشمیر کی معدنی اور نباتاتی دولت ان اشیاء پر مشتمل ہے جن کی پاکستان کو اپنی زندگی کے لئے اشد ضرورت ہے اور کشمیر کا ایک ساحل پاکستان کو چین اور روس کی سرحدوں سے ملا دیتا ہے یہ فوائد اتنے عظیم الشان ہیں کہ ان کو کسی صورت میں بھی چھوڑنا درست نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
پس ملک کے ہر اخبار ہر انجمن ہر سیاسی ادارے اور ہر ذمہ دار آدمی کو پاکستان کی حکومت پر متواتر زور دینا چاہئے کہ حیدر آباد کے فیصلہ سے پہلے پہلے کشمیر کا فیصلہ کروا لیا جائے۔ ورنہ حیدر آباد کے ہندوستان یونین سے مل جانے کے بعد کوئی دلیل ہمارے پاس کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے باقی نہیں رہے گی۔ سوائے اس کے کہ کشمیر کے لوگ خود بغاوت کرکے آزادی حاصل کریں لیکن یہ کام بہت لمبا اور مشکل ہے اور اگر کشمیر گورنمنٹ ہندوستان یونین میں شامل ہو گئی۔ تو پھر یہ کام خطرناک بھی ہو جائے گا کیونکہ ہندوستان یونین اس صورت میں اپنی فوجیں کشمیر میں بھیج دے گی اور کشمیر کو فتح کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہو گا کہ پاکستان اور ہندوستان یونین آپس میں جنگ کریں ۔۔۔۔۔۔ جو کام تھوڑی سی دور اندیشی اور تھوڑی سی عقلمندی سے اس وقت آسانی سے ہو سکتا ہے اسے تغافل اور سستی کی وجہ سے لٹکا دینا ہرگز عقلمندی نہیں کہلا سکتا۔۱۰۹
مجاہدین کشمیر کی اعانت کے لئے اپیل
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی شروع سے اس کوشش میں تھے کہ اہل ملک میں مجاہدین کشمیر کی موسمی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف خاص توجہ پیدا ہو جائے۔ چنانچہ حضور نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کے لئے مسلسل اپیلیں کیں اور پناہ گزینی کے عالم میں ہونے کے باوجود خود بھی اس کارخیر میں حصہ لیا۔ اور جماعت کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔]4 [stf۱۱۰
اس سلسلہ میں حضور نے ۱۲/ نومبر ۱۹۴۷ء کو ملک میں کشمیر فنڈ کے قیام کی بھی تحریک کی اور فرمایا۔
>ہم تمام مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھراتے ہیں کہ اس وقت بخل سے کام نہ لیں کیونکہ کشمیر کا مستقبل پاکستان کے مستقبل سے وابستہ ہے آج اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا سوال نہیں۔ پاکستان کے مسلمانوں کو خود فاقے رہ کر اور ننگے رہ کر بھی پاکستان کی مضبوطی کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں پاکستان کی مضبوطی کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے<۔10] p[۱۱۱اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں مختلف اہم شہروں میں پبلک لیکچر دیئے۔ جن میں خاص طور پر مسئلہ کشمیر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو مجاہدین کشمیر کی فراخ دلی سے امداد کرنے کی پرزور تحریک فرمائی اس ضمن میں حضور نے لاہور میں بھی ۲/ دسمبر ۱۹۴۷ء کو ایک اہم لیکچر دیا جس کا خلاصہ اخبار >نظام< )لاہور( نے ۴/ دسمبر ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں بایں الفاظ شائع کیا۔
>مسئلہ کشمیر پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ کشمیر کا ہندوستان میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ہر سمت سے گھیر لیا جائے۔ اور اس کی طاقت کو ہمیشہ زیر رکھا جائے انہوں نے فرمایا کہ باشندگان پاکستان کو کشمیر کے جہاد حریت میں ہر قسم کی امداد کرنی چاہئے۔ مجاہدین کشمیر میں نہایت بہادرانہ جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کو گرم کپڑوں کی فوری اشد ضرورت ہے جو ان کو فوراً پہنچائے جائیں<۔
اخبار >سفینہ< لاہور )۴/ دسمبر ۱۹۴۷ء۱( نے حضور کے یہ الفاظ شائع کئے۔ >پاکستان کے باشندوں کو کشمیر کی جنگ آزادی جیتنے کے لئے پوری پوری کوشش کرنی چاہئے اس میں پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے استحکام اور دفاع کا راز ہے کشمیر میں مجاہدین مشکل ترین حالات کے باوجود جنگ لڑرہے ہیں۔ انہیں گرم کپڑوں کی اشد ضرورت ہے<۔
اخبار >زمیندار< )۴/ دسمبر ۱۹۴۷ء( نے اس تقریر کا ملخص یہ شائع کیا کہ >امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ایک میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے باشندگان پاکستان سے اپیل کی کہ مجاہدین کشمیر کو جو پسماندہ عوام کی خاطر جنگ آزادی لڑ رہے ہیں۔ ہر قسم کی امداد دی جائے مجاہدین کی فتح سے پاکستان کی دفاعی لائن بہت مضبوط ہو جائے گی<۔
انجمن مہاجرین جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام
‏text] [tagحضرت خلیفتہ المسیح کی سرپرستی میں ۱۹۴۸ء میں >انجمن مہاجرین جموں و کشمیر مسلم کانفرنس< کا قیام ہوا۔ اس انجمن نے جس کے جملہ اخراجات کے کفیل حضور تھے اس دور میں کشمیر کے خستہ حال اور مصیبت زدہ پناہ گزینوں کی ہر ممکن خدمت کی۔۱۱۲
فصل نہم
اہل کشمیر کی طرف سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سلامتی کونسل میں نمائندگی
کشمیر کے الحاق کا مسئلہ پہلے پہل جنوری ۱۹۴۸ء میں سکیورٹی کونسل کے سامنے پیش ہوا تھا حکومت بھارت اس یقین کے ساتھ سلامتی کونسل میں گئی تھی کہ پاکستان کو حملہ آور قرار
دے دیا جائے گا۔ اور اس کے لئے پوری ریاست پر قبضہ جمانے کی راہ ہمیشہ کے لئے ہموار ہوجائے گی۔ مگر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے اہل کشمیر کے حق ارادیت اور تحریک آزادی کشمیر کی اس قابلیت اور عمدگی سے نمائندگی کی کہ دنیا پر بھارتی موقف کی غیر معقولیت ہی نہیں اس کی جارحانہ روش بھی واضح ہوگئی۔
رسالہ >طلوع اسلام< کراچی مارچ ۱۹۴۸ء نے اپنے ادارتی نوٹ مں لکھا۔ پراپیگنڈا ! یعنی وہ فن شریف جس کی بنیاد اس دعوے پر ہے کہ جھوٹ کو سو مرتبہ دہرائیے وہ سچ بن کر دکھائی دے گا۔ اقوام مغرب کا سب سے بڑا موثر حربہ یہی ابلیسانہ فریب کاری ہے اور ان کے شاگرد ان رشید مملکت ہندیہ کے ارباب سیاست کے ترکش کا سب سے زیادہ کارگر تیر ہی دروغ بافانہ عیاری دجل وفریب اور کذب وفسوں سازی کے یہی وہ رسیوں کے سانپ تھے جن کی پٹاری یہ جادوگر ان عہد حاضر` سرخیل غداران عبداللہ کاشمیری کے سر پر رکھ کر اقوام متحدہ کی عدالت عالیہ میں بغرض نگاہ قریبی پہنچے۔ اس جزم ویقین کے ساتھ کہ حق وباطل کی ان غوغاآرائیوں اور جھوٹ کی ان طمع سازیوں کے نیچے دب کر رہ جائے گا اور وہ سرزمین کشمیر کی ڈگری لے کر فاتح و منصور واپس لوٹیں گے۔
لیکن حسن اتفاق سے پاکستان کو ایک ایسا قابل وکیل مل گیا جس نے حق وصداقت پر مبنی دعوے کو اس اندازسے پیش کیا کہ اس کے دلائل وبراہین عصائے موسوی بن کر رسیوں کے ان تمام سانپوں کو نگل گئے اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ ان الباطل کان زھوقا باطل بناہی اس لئے ہوتا ہے کہ حق کے مقابلہ میں میدان چھوڑ کے بھاگ جائے۔
ہم پاکستان کو اس عدیم النظیر کامیابی پر مستحق ہزار تبریک وتہنیت سمجھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدائے برحق اسے حق و باطل کے ہرمعرکہ میں کامیابی عطا کرے اور اس کے دشمن اس طرح خاسرونامراد واپس لوٹا کریں کہ شریفوں کی مجلس میں پھر منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی پریس نے حضرت چوہدری صاحب کو جس والہانہ انداز میں خراج تحسین پیش کیا اس کے چند نمونے درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ چنانچہ اخبار >نوائے وقت< لاہور ۲۴ اگست ۱۹۴۸ء نے لکھا۔ ہندوستان نے کشمیر کا قضیہ یو۔این۔او میں پیش کردیا چوہدری صاحب پھر نیویارک پہنچے۔ ۱۶ / فروری ۱۹۴۸ء کو آپ نے یو۔این۔او میں دنیا بھر کے چوٹی کے دماغوں کے سامنے اپنے ملک وملت کی وکالت کرتے ہوئے مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے تقریر کی۔ ظفر اللہ کی تقریر ٹھوس` دلائل اور حقائق سے لبریز تھی۔۔۔۔ کشمیر کمیشن کا تقرر ظفر اللہ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مسلمان کبھی نہ بھولیں گے۔
۲۔ اخبار >سفینہ< )۲ جولائی ۱۹۴۹ء( نے تبصرہ کیا کہ:۔ سر محمد ظفر اللہ خان نے مسئلہ کشمیر اس خوبی اور جانفشانی سے پیش کیا کہ انہوں نے اپنے حریف آئنگر کوشکست فاش دیدی اور میدان سیاست میں آنے کا نہیں چھوڑا۔ اکیس ہفتوں کے قلمی اور عقلی معرکوں کے بعد سر ظفر اللہ اپنے وطن لوٹے ۔۔۔ جس دن وادی کشمیر کا الحاق حکومت پاکستان سے اعلان کیا جائے گا تو سر ظفراللہ خان کی عزت اور شہرت اور بھی بڑھ جائے گی ان کی شخصیت حکومت پاکستان کی تاریخ میں درخشندہ ستارہ رہے گی۔
۳۔ اخبار >احسان< لاہور )۲۱ / فروری ۱۹۵۰ء( نے لکھا:۔ یہ امر ہر لحاظ سے باعث مسرت ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی مقدمہ کے تاروپود بکھیر کر پاکستانی وزیرخارجہ نے ساری دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں اس کے برخلاف پاکستان کا کشمیر سے جغرافیائی اقتصادی مذہبی اور تمدنی اعتبار سے ہمیشہ کا قریب ترین تعلق ہے ویسے چھ گھنٹہ تقریر کرنا بھی دنیا کی سب سے بڑی انجمن میں کوئی آسان کام نہیں اس سے مقرر کی غیر معمولی قوت` تقریر اور محنت ہی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ بلکہ خود مسئلہ زیر بحث کی صداقت بھی آشکارا ہوتی ہے کیونکہ معاملات کے واقف کار لوگ بخوبی جانتے ہیں جب تک موضوع میں جان نہ ہو محض لفظی جمع خرچ سے کام نہیں چلتا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ٹھوس حقائق اور واقعات پیش کئے۔
۴۔ اخبار >تنظیم< پشاور )۳۰ جولائی ۱۹۵۰ء( نے لکھا۔ حضرت مرزا بشیر محمود نے اپنی جماعت کو مسلمانوں کے سواداعظم سے وابستگی کے لئے خطبات وبیانات ارشاد فرمائے کشمیر کے سلسلہ میں آپ کی جدوجہد عیاں ہے آپ کے والد کے ایک بہت بڑے چہیتے مرید خاں سر محمد ظفر اللہ خاں قادیانی نے جس قابلیت سے مجلس اقوام میں پاکستان۔۔۔ اور کشمیر کے مسائل پیش کئے ہیں وہ آتی دنیا کے لئے مشعل راہ اور تاریخ میں سنہری حروف سے نقش کرنے کے قابل ہیں۔
بھارتی پریس پر چوہدری صاحب کی تقریروں کا کیا ردعمل ہوا۔ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے باسانی لگ سکتا ہے:۔
۱۔ ہندوستان کے مشہور اخبار >پرتاپ< نے اپنی ۲۳ اگست ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں واضح لفظوں میں اقرار کیا:۔ یو۔این۔او سے پاکستان کے خلاف فریاد کرنا ہمالیہ جیسی بڑی غلطی تھی ہم وہاں گئے تھے مستغیث بن کر اور لوٹے وہاں سے ملزم بن کر۔ دوسری غلطی اس وقت ہوئی جب ہم نے یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو اس کے کہنے پر جنگ بند کردی۔ جنگ بند نہ کی ہوتی تو کشمیر کے سوال کا خود بخود حل ہوگیا ہوتا نہرو وزارت کا یہ عمل صحیح تھا کہ انہوں نے مہاراجہ کی درخواست پر اپنی فوجیں کشمیر کی رکھشا کے لئے بھیجیں اس کی یہ ذمہ داری لینا غلط تھا کہ جب ہم حملہ آوروں سے کشمیر کو پاک کردیں گے تو ہم اس کے پرجا سے پوچھیں گے کہ تم ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہو یا پاکستان کے ساتھ؟ اس کا یہ عمل بھی غلط تھا کہ وہ یو۔این۔او کے پاس مستغیث بن کر گئی۔ آج تک ہم یو۔این۔او میں جانے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
۲۔ سردار گوربخش سنگھ صاحب بی۔ایس سی نے اپنے رسالہ >پریت لڑی< )جون ۱۹۴۹ء( میں لکھا >مونٹ بیٹن نے پنڈت نہرو کو تلقین کرکے کشمیر کا معاملہ متحدہ قوموں کی انجمن میں امریکہ بھجوادیا۔ وہاں ہمیں لینے کے دینے پڑگئے اور ہم اس دلدل سے نکل نہیں سکے<۔ 4] ft[s۱۱۳
۳۔ ماسٹر تاراسنگھ صاحب نے اپنے رسالہ سنت سپاہی )ستمبر ۱۹۵۱ء( میں لکھا:۔ کشمیر کے معاملہ میں ان )ہندولیڈروں( کی سیاست تباہی والی ہے اور انہوں نے یہ سوال متحدہ قوموں کی انجمن میں پیش کرکے ہمالیہ جتنی بڑی غلطی کی ہے<۔ ۱۱۴
یو۔این۔او۔ پر اعتماد نہ کرنے کی نصیحت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰے نے ان دنوں جبکہ یو۔این۔او میں مسئلہ کشمیر پر بحث ابھی ابتدائی مرحلہ پر تھی۔ اس رائے کا اظہار فرمایا کہ سیکیورٹی کونسل اپنے دوسرے فیصلوں کی طرح کشمیر کا فیصلہ بھی حقائق اور واقعات کی روشنی میں تقاضائے انصاف کے مطابق نہیں کرے گی۔ بلکہ اس کا فیصلہ بین الاقوامی سیاست کے پیش نظر ہوگا۔ ۱۱۵ چنانچہ عملاً یہی ہوا کہ بڑی طاقتوں نے آزادانہ استصواب کی قرار داد منظور کرلینے کے باوجود یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو جنگ بند کراکے مسئلہ کشمیر کو لمبے عرصہ کے لئے کھٹائی میں ڈال دیا تاہم چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی کوشش سے پاس ہونیوالی )۱۳ اگست ۱۹۴۹ء کی( قرارداد آجتک قائم ہے۔ اور تحریک آزادی کشمیر کی آئینی وقانونی جدوجہد کا کام دے رہی ہے۔
فصل دہم
فرقان بٹالین کے کارہائے نمایاں
)از جون ۱۹۴۸ء تا جون ۱۹۵۰ء(
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ستمبر ۱۹۴۷ء میں جماعت احمدیہ پاکستان کے نمائندوں کی ایک مجلس شوریٰ ہجرت قادیان کے بعد رتن باغ لاہور میں بلائی اور اس میں اعلان فرمایا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ والسلام نے جہاد بالسیف کے التوا کا جواعلان )ارشاد نبوی >یضع الحرب< کی تعمیل میں( فرمایا تھا اب اس کا زمانہ ختم ہورہا ہے۔ اور جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ جہاد بالسیف کے لئے تیاری کریں تاجب وقت جہاد آجائے تو سب اس میں شمولیت کے قابل ہوں۔ ۱۱۶
احمدی کمپنی معراجکے کے محاذ پر
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس زمانہ کی خبر دی تھی وہ جلد ہی آگیا جبکہ حکومت پاکستان کے بعض فوجی افسروں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے محاذ جموں کے لئے ایک پلاٹون بھجوانے کی خواہش کی جس پر حضور نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی کمان میں چالیس پچاس احمدی جوان بھجوائے جو ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ کے ایماء پر جموں سرحد پر واقع گائوں معراجکے میں متعین کئے گئے۔ جہاں بھارتی فوج کی بمباری اور گولہ باری اکثر اوقات جاری رہتی تھی اور پے در پے ہوائی حملے ہوتے رہتے تھے کمپنی کے بہادر سپاہی دن کو اپنے دفاعی مورچوں میں ڈٹے رہتے اور رات کو پٹرولنگ کے ذریعہ سے دشمن کی سرگرمیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ اس محاذ پر دو احمدی نوجوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ )۱( برکت علی صاحب آف داتہ زید کا ضلع سیالکوٹ )۲( اللہ رکھا صاحب جسو کے ضلع گجرات۔
فرقان بٹالین کا قیام
یہ کمپنی ابھی معراجکے ہی میں نبرد آزما تھی کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ایک رضاکار بٹالین کے قیام کا منشاء ظاہر ہوا۔ جس پر سیدنا المصلح الموعود نے جماعت احمدیہ میں شوق جہاد اور ذوق شہادت کی ایسی زبردست روح پھونک دی کہ احمدی جوان ملک کے چاروں طرف سے لبیک کہتے ہوئے رتن باغ لاہور میں پہنچنے شروع ہوگئے۔ اور جون ۱۹۴۸ء میں فرقان بٹالین معرض وجود میں آگئی اور معراجکے میں معین سپاہی اس بٹالین میں منتقل کرکے سرائے عالمگیر کے قریب سوہن گائوں سے متصل بھجوا دیئے گئے جہاں نہر کے کنارے بٹالین کا فوجی کیمپ قائم کیا گیا۔ حضور نے اس بٹالین میں رضاکار بھجوانے اور دوسرے ضروری انتظامات کرنے کا کام ایک کمیٹی کے سپرد فرمایا جو مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل تھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )صدر( آپ فرقان بٹالین کے اشارات میں >فاتح الدین< سے موسوم ہوتے تھے۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ )سیکرٹری( سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب )ناظر امور عامہ( مولوی عبدالمغنی خاں صاحب )ناظر دعوۃ وتبلیغ( کمیٹی کا دفتر قیام امن کے نام سے موسوم تھا۔
فرقان بٹالین کے دو سالہ مجاہدانہ کارنامے
فرقان بٹالین جون ۱۹۴۸ء سے جون ۱۹۵۰ء تک قائم رہی۔ جس کی قیادت کے فرائض شروع میں )کرنل( سردار محمد حیات صاحب قیصرانی نے بعد ازاں کرنل صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے انجام دیئے صاحبزادہ صاحب فرقان کی فوجی اصطلاح میں >کلید< کے نام سے یاد کئے جاتے تھے۔ فرقان کیمپ اور محاذ جنگ دونوں کا انتظام براہ راست کلید کے ماتحت تھا فرقان کیمپ کا افسر زبیر اور محاذ جنگ کا امیر عالم کباب کہلاتا تھا۔
فرقان بٹالین کی تعداد` اسلحہ اور دیگر سامان کی مقدار پر منحصر تھی جسے جنرل ہیڈ کوار ٹر نے منظور کرنا تھا۔ اور وہاں سے صرف ایک بٹالین کی منظوری تھی گو اس امر کا ساتھ ہی فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر اس فوج کا تین بٹالین تک اضافہ کیا جاسکے گا۔
فورس کی ٹریننگ اور اسلحہ بندی کے لئے صرف ایک ماہ کا عرصہ کافی سمجھا گیا۔ ٹریننگ پروگرام تیار کئے گئے اور رضاکاروں کو جلدی جلدی مثلاً ہتھیاروں کا استعمال۔ میدان جنگ کی سوجھ بوجھ CRAFT) (FIELD پٹرولنگ وغیرہ کی ٹریننگ دے دی گئی۔ بریگیڈیئر کے۔ ایم شیخ عموماً اس فورس کا معائنہ کرتے اور ہر بار اس کی ٹریننگ کی رفتار اور نوجوانوں کے شوق سے نہایت مطمئن ہوکر لوٹتے تھے۔ ۱۰ جولائی ۱۹۴۸ء کو بٹالین محاذ جنگ باغسر )بربط( کی طرف روانہ ہوئی زبردست بارشوں کی وجہ سے راستے معدوم ہوکر بہہ گئے تھے ان حالات میں آگے بڑھنا بلا وجہ خطرات مول لینے کے مترادف تھا اس لئے بٹالین نے رات کو سیکٹر ہیڈ کواٹر پر قیام کیا۔ جویہاں ہیڈ کوارٹر کے نام سے موسوم تھا آدھی رات کے بعد فضا توپ کے گولوں سے گونج اٹھی۔ اگلے روز اس امر کا انکشاف ہوا کہ ہندوستانیوں کو بٹالین کے آگے بڑھنے کی کسی طرح اطلاع مل گئی تھی۔ اور یہ گولہ باری انہیں کے آگے بڑھنے والے راستوں پر کی گئی تھی اس واقعہ سے ہر کمانڈر کو یقین ہوگیا کہ خبروں کے نکل جانے کے سلسلہ میں کڑے انتظامات کرنے چاہیں تاہندوستانیوں کو ہماری خبریں نہ مل سکیں۔ اگلی رات فرقان بٹالین نے اپنے مورچے سنبھال لئے اور بٹالین پانچ کمپنیوں میں تقسیم کردی گئی۔ )۱( نصرت کمپنی )۲( برکت کمپنی )۳( تنویر کمپنی )۴( شوکت کمپنی )۵( عظمت کمپنی ۔۔۔۔ صورت حال یہ تھی کہ ہندوستانی غیر مملوکہ علاقہ LAND) NAM (NO پر پورا تسلط جماچکے تھے اور ان کے شبانہ پٹرول فرقان بٹالین کے اگلے مورچوں تک بلاروک ٹوک پہنچتے تھے اور ان کے جاسوس ان مورچوں کے عقبی دیہات میں کثرت سے پھیلے ہوئے تھے اور مقامی باشندوں سے اہم خبریں ہندوستانیوں کو پہنچایا کرتے تھے فرقان فورس کے اپنی پوزیشن لے لینے پر ہندوستانی سپاہیوں نے مسلسل ہوائی اور بری حملے کئے تانئی بٹالین کو پسپا کردیا جائے فرقان بٹالین کے جوان اگرچہ آزمودہ کارنہ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہندوستانی چوکیوں پر پے در پے حملے کئے اور ان کے جاسوسوں کا صفایا کرکے بھارتی سپاہیوں کو اپنے مورچوں میں محصور ہوجانے پر مجبور کردیا۔
سیکٹر ہیڈ کوارٹر نے یہ خوشگوار تبدیلی دیکھتے ہوئے ہندوستانیوں کو ان کے مخفوظ مقامات سے پیچھے دھکیلنے کے لئے ایک حملے کی تیاری شروع کردی جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں میں ہراس پیدا کرکے ان کے حوصلوں کو توڑ دیا جائے تاکہ ان کے لڑنے کا عزم ٹوٹ جائے اور جب وسیع حملہ شروع ہواس وقت ہمارا کام زیادہ سہل ہو۔
فورس کے جوان نہ صرف وادی سعد آباد میں اپنی جنگی کارروائیاں آزادانہ کرتے تھے بلکہ وہ ہندوستانیوں کی حفاظتی چوکیوں کے عقب تک بھی چلے جایا کرتے تھے انہوں نے بھارتی سپاہیوں سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرلیں۔ اب پوری فوج حملہ کے لئے بالکل تیار تھی۔ مگر افسوس یواین او کی مداخلت کے نتیجے میں جنگ بند کردی گئی لہذا فرقان فورس نے بدلے ہوئے حالات میں اپنی ذمہ داریوں کا نئے سرے سے جائزہ لیا اور ہندوستانی خطہ دفاع کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر اپنی مضبوط چوکیوں کا سلسلہ قائم کرنا شروع کردیا بھارتی سپاہیوں پر اس کا شدید ردعمل ہوا انہوں نے فورس کی چوکیوں پر پر توپوں اور ہوائی جہازوں سے زبردست بمباری شروع کردی مگر ہندوستانی اپنی تعداد اور طاقت کی برتری کے باوجود اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس نہ لے سکے اور مجاہدوں نے وادی سعد آباد کو ہندوستانیوں پر بند کردیا۔ اور اس ۵ میل لمبی ۲ میل چوڑی ۱۱۷ وادی پر قبضہ کرکے پاکستانی علاقہ میں شامل کر لیا۔ یہ وادی اس علاقہ کی زرخیز ترین وادی ہے جس میں اب سینکڑوں مہاجر خاندان بس رہے ہیں۔
فرقان بٹالین کے لئے نقل وحمل کے وسائل درد سر بنے ہوئے تھے مسلسل ہوائی حملوں کی وجہ سے تمام رسد رات کے وقت پہنچائی جاتی تھی اندھیری راتیں` بارش` کیچڑ تنگ پگڈنڈیاں فوج کے لئے مشکلات کا باعث بن رہی تھیں اور اس وجہ سے اکثر اوقات جوانوں کو بروقت راشن نہ پہنچنے کی وجہ سے قلیل مقدار پر ہی گذارہ کرنا پڑتاتھا۔ مگر اس ماحول میں بھی جوانوں کا حوصلہ ہمیشہ بلند رہا۔
میدان جنگ میں حضرت سیدناالمصلح الموعود )اور فوجی اشارات میں امین الملک( بھی تشریف لے گئے حضور کی تشریف آوری سے احمدی جوانوں میں نیا جوش نئی امنگ اور نیا ولولہ پیدا ہوگیا۔ اور ان کے حوصلے غیر معمولی طور پر بڑھ گئے۔ فرقان بٹالین کی مزید تفصیلات تو دور پاکستان کی تاریخ میں آئیں گی۔ یہاں صرف ایک چھوٹا سا واقعہ بتایا جاتا ہے۔ جس سے جوانوں کی اس روح کا پتہ چلتا ہے جس کے ساتھ انہوں نے جنگ کشمیر لڑی ۔ جنگی پوزیشن لینے کے دو دن کے بعد ہمارے سپاہیوں کو ہراساں کرنے کے لئے ایک شب طاقتور پٹرول بھیجی گئی جس کے نتیجہ میں دونوں طرف سے گولیاں چلنی شروع ہوگئیں ہندوستانیوں نے فرقان فورس کے مورچوں پر شدید گولہ باری شروع کردی اور فرقان کے سپاہی سمجھے کہ شاید حملہ شروع ہوگیا ہے ایک مختصر سی جھڑپ کے بعد ہندوستانی پسپا ہوگئے اور گولیاں چلنی بند ہوگئیں۔ اس کے بعد حسب معمول جب پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ ہسپتال سے ایک بیمار سپاہی غائب ہے یہ بھی پتہ چلا کہ جب گولیاں چل رہی تھیں تو وہ چپکے سے اپنے بستر سے اٹھ کر اندھیرے میں پہاڑی پر چڑھ گیا اور اپنے دستہ میں شامل ہوگیا۔ جہاں اس نے مشین گن کے سپاہی کے ساتھ ڈیوٹی ادا کی۔
اس مشقت کی وجہ سے اس کی طبیعت اور بھی خراب ہوگئی اگلے روز اسے جب کمان افسر کے سامنے جواب دہی کے لئے پیش کیا گیا تو اس نے اقبال جرم کرلیا` لیکن ساتھ ہی یہ بیان بھی دیا کہ جب اس کے سیکشن پر حملہ ہوا تو وہ یہ برداشت نہ کر سکا کہ اس کے ساتھیوں پر حملہ ہوچکا ہو اور وہ بستر میں پڑا رہے اسے گواس >حرکت< پر تنبہیہ تو کی گئی لیکن جس جذبہ کے ساتھ اس نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا وہ ایک قابل تحسین اثر اپنے پیچھے چھوڑ گیا۔
فرقان بٹالین کے مجاہدوں پر ایک نظر
فرقان بٹالین کے مجاہد عام طور پر چار اقسام پر مشتمل تھے- اول پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسر جس میں کرنل سردار محمد حیات صاحب قیصرانی سب سے ممتاز ہیں- محاذ جنگ میں بٹالین کے سب سے پہلے کمانڈر آپ ہی تھے- اور اس کے تنظیمی اور دفاعی کارناموں میں آپ کی مجاہدانہ کوششوں کا بھاری دخل ہے آپ کے علاوہ میجر وقیع الزمان صاحب )سیکنڈ ان کمانڈ( میجر حمیداللہ صاحب کلیم- میجر عبدالحمید صاحب` میجر عبداللہ مہار صاحب اور کپٹن نعمت اللہ صاحب شریف نے مختلف کمپنیوں کی خوش اسلوبی سے کمان کی- اور میجر وقیع الزمان صاحب فرقان کیمپ کے نوجوانوں کو ٹریننگ بھی دیتے رہے-
‏tav.5.44
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
تحریک آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ
دوم- مستقل عملہ جس میں معراجکے میں کام کرنے والے مجاہد بھی شامل تھے- حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس طبقہ کے مجاہدین ہی کی نسبت ارشاد فرمایاتھا- جو لوگ فوجی خدمت دے رہے ہیں- ان میں سے سواسو کے قریب توایسے ہیں جن کو ہم کچھ گذارہ دیتے ہیں لیکن بہت کم درحقیقت یہ لوگ بڑے نیک ہیں بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں- بڑے اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے ہیں اور سالہا سال سے اس فرض کو ادا کررہے ہیں اور پھر اپنے عہدوں کے لحاظ سے بعض پانچواں بعض چھٹا اور بعض ساتواں حصہ گزارہ لے رہے ہیں میں نے خود گورنمنٹ کی ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی لوگ جو یہاں کام کر رہے ہیں وہ صرف نام کا گزارہ لے رہے ہیں اسی طرح مثلاً سپاہی ہیں ان میں سے بعض کو بیس بیس روپے مل رہے ہیں آفیسر جو کمانڈ کرتا ہے اسے سو روپے ملتے ہیں حالانکہ اگر وہ فوج میں ہوتا تو اسے ہزار روپیہ ملتا غرض انتہائی قربانی کے ساتھ یہ لوگ کام کر رہے ہیں اور پھر فوجی ٹریننگ میں بھی یہ لوگ کسی سے پیچھے نہیں چنانچہ فوجی افسروں کی رپورٹ ہے کہ ان لوگوں کو عام سپاہیوں سے کسی طرح کم نہیں قرار دیا جاسکتا یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے فخر کا بھی موجب ہیں-< ۱۱۸
سوم- بٹالین کا تیسرا طبقہ ان افسروں کا تھا جو رضاکار کی حیثیت سے جنگ کشمیر میں حصہ لے رہے تھے-
چہارم- چوتھے نمبر پر )مگر تعداد کے لحاظ سے سب سے اول نمبر پر( ایثار پیشہ رضاکار تھے- جن کی مجموعی تعداد آخر میں قریباً تین ہزار تک پہنچ گئی تھی ان رضاکاروں میں خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے افراد مبلغین احمدیت` جامعہ احمدیہ` مدرسہ احمدیہ` تعلیم الاسلام ہائی سکول تعلیم الاسلام کالج کے اساتذہ و طلبہ` ڈاکٹر` زمیندار ` دکاندار` کلرک` غرضیکہ ہر حلقہ کے احمدی شامل تھے-
فرقان بٹالین کے شہداء
فرقان بٹالین کی تاریخ میں ان جانباز سپاہیوں اور قابل فخر رضاکاروں کا نام ہمیشہ یاد گار رہے گا جنہوں نے اپنے مقدس فرض کی ادائیگی میں جام شہادت نوش کیا اور اپنے خون سے تحریک آزادی کشمیر کی آبیاری کی ان خوش قسمت شہداء کے نام یہ ہیں-:
۱۔
چوہدری نصیر احمد مرحوم ولد چوہدری عنایت اللہ مرحوم )چک ۳۵b/۔s ضلع سرگودھا( طالب علم ایف ایس سی زراعتی کالج لائلپور )تاریخ شہادت ۱۲ / اگست ۱۹۴۸ء بعمر ۱۸ سال بمقام بھمبر(
۲۔
چوہدری محمد اسلم مرحوم ولد چوہدری جہان خان صاحب مانگٹ اونچے تحصیل حافظ آباد )تاریخ شہادت ۲۰ / اکتوبر ۱۹۴۸ء مقام شہادت باغسر(
۳۔
چوہدری منظور احمد مرحوم ولد چوہدری دین محمد صاحب چک ۹۳ ڈاکخانہ ہڑالہ آباد تحصیل فورٹ عباس )تاریخ شہادت ۷ / دسمبر۱۹۴۸ء مقام شہادت باغسر(
۴۔
عبدالرزاق مرحوم ولد چوہدری محمد علی چک ۶۸ ٹھیکریوالہ ضلع لائلپور )تاریخ شہادت ۲۱ / دسمبر ۴۸ء( ۱۱۹
۵۔
سخی جنگ مرحوم عرف منگا ولد امام بخش مرحوم موضع بھڑتانوالہ ضلع سیالکوٹ )تاریخ شہادت ۱۶-۱۷ / جنوری ۱۹۴۹ء بعمر ۳۸ سال مقام شہادت بھمبر(
۶۔
غلام یٰسین مرحوم ولد چوہدری غلام نبی صاحب ادرحمہ ضلع سرگودھا )تاریخ شہادت یکم فروری ۱۹۴۹ء مقام شہادت بھمبر(
‏in] ga[t۷۔
محمد خاں مرحوم ولد ابراہیم صاحب بھینی ضلع شیخوپورہ )تاریخ شہادت ۱۸ / مارچ ۱۹۴۹ء
۸۔
بشیر احمد ریاض مرحوم ولد دیوان صاحب مانسر کیمپ )تاریخ شہادت ۹ / اکتوبر ۱۹۴۹ء مقام شہادت باغسر(
۹۔
عبدالرحمن مرحوم ولد ولی محمد صاحب واہ کیمپ )تاریخ شہادت ۱۵ / جون ۱۹۵۰ء مقام شہادت فرقان کیمپ متصل سرائے عالمگیر( ~}~
~}~
بناکر وندخوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
فرقان بٹالین کی تقریب سبکدوشی
حکومت پاکستان نے فوری تصفیے اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کے کام میں مکمل تعاون کے پیش نظر بالاخر فیصلہ کیا کہ تمام رضاکار سپاہیوں کو آزاد کشمیر کے محاذ سے واپس بلالیا جائے چنانچہ اس تعلق میں ۱۵ / جون ۱۹۵۰ء کو فرقان بٹالین کی سبکدوشی کے احکام جاری کئے گئے اور ۱۷ / جون ۱۹۵۰ء کو فرقان کیمپ )متصل سرائے عالمگیر( میں ایک خصوصی تقریب کے ذریعہ اس کی سبکدوشی عمل میں آئی ۱۲۰ پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف )جنرل ڈگلس گریسی( چونکہ باہر دورہ پر تھے اس لئے انہوں نے ایک خاص پیغام بھجوایا جسے پاکستانی فوج کے بریگیڈیر شیخ نے پریڈ کے معائنہ اور مارچ پاسٹ کے وقت سلامی لینے کے بعد پڑھ کر سنایا- اس موقعہ پر حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے بعض اعلیٰ اور فوجی افسر بھی تشریف فرما تھے اس پیغام کی ڈرافٹنگ بریگیڈیئر کے ایم شیخ ہی نے کی تھی۔۱۲۱
‏MESSAGE
‏FROM
‏GRACEY DOUGLAS SIR GENERAL
‏COMMANDER-IN-CHIEF ,۔E۔B۔C ,۔B۔C ,۔E۔I۔C۔K
‏TO
‏BATTALION FURQAN
‏of liberation for fight the in force volunteer a provide to offer Bn,Your Furqan the and accepted, gratefully was 1948 June in Kashmir ۔being into came
‏1948, of summer the during training of period short a SeptemberAfter In ۔field the in place your take to ready soon were you۔MALF Commander under placed were you 1948
‏came who volunteers of entirely composed was Bn menYour teachers, students, peasants, young life, of walks all from for service of tispir the with embued all were they business; in the for publicity no and remuneration, no accepted you Pakistan;۔cause noble a was Yours ۔volunteered all you which for sacrifice self
‏ the and learn, to keenness your with all us impressed soonYou officers your and You ۔you with brought you enthusiasm۔unit yong a face that difficulties many the over got
‏ you soon very and sector, important an allotted were you Kashmir In nobly your and you on placed ecrelian the justified air and ground enemy heavy against battle in yourself acquitted ۔ground of inch single a losing without attacks,
‏ discipline your and collective and individual bothe conduct Your۔order high very a of been have
‏to orders under is Bn your and over is mission your haveAs you service the for you of one every thank to wish I Hafiz!disband, Khuda ۔country your to rendered
۔Sd
‏ General
۔Chief in Commander
۔Army Pakistan 1950 June, 17th
کمانڈر انچیف پاکستان کا پیغام
کمانڈر انچیف پاکستان کے انگریزی پیغام کا ترجمہ یہ ہے-:
آپ کی بٹالین خاص رضاکار بٹالین تھی جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ان میں کسان بھی تھے اور مزدور پیشہ بھی` کاروباری لوگ بھی تھے اور نوجوان طلباء و اساتذہ بھی- وہ سب کے سب خدمت پاکستان کے جذبہ میں سرشار تھے آپ نے اس قربانی کے بدلے میں جس کے لئے آپ میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو بخوشی پیش کیا کسی قسم کے معاوضہ اور شہرت ونمود کی توقع نہ کی-
آپ جس جوش اور ولولے کے ساتھ آئے اور اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے لئے تربیت حاصل کرنے میں جس ہمہ گیر اشتیاق کا اظہار کیا اس سے ہم سب بہت متاثر ہوئے ان تمام مشکل مراحل پر جو نئی پلٹن کو پیش آتے ہیں آپ کے افسروں نے بہت عبور حاصل کر لیا-
کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا اور آپ نے ان تمام توقعات کو پورا کردکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کئی گئی تھیں- دشمن نے ہوا پر سے اور زمین پر سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی آپ کے انفرادی اور مجموعی اخلاق کا معیار بہت بلند تھا اور تنظیم کا جذبہ بھی انتہائی قابل تعریف !!
اب جبکہ آپ کا مشن مکمل ہوچکا ہے آپ کی بٹالین تخفیف میں لائی جارہی ہے میں اس قابل قدر خدمت کی بناء پر جو آپ نے اپنے وطن کی انجام دی ہے آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کرتا ہوں خدا حافظ۱۲۲4] ft[r
مجاہدین کا پرجوش استقبال
فرقان بٹالین کے جوان سبکدوشی کے بعد سرائے عالمگیر سے بذریعہ سپیشل ٹرین ۲۰ / جون ۱۹۵۰ء کو ساڑھے نو بجے ربوہ پہنچے اسٹیشن پر ان کا پر جوش استقبال کیا گیا- اور کرنل صاحبزادہ مبارک احمد صاحب اور دوسرے تمام مجاہدوں کو پھولوں کے ہار پہنائے اور ان پر پھول نچھاور کئے گئے-
بٹالن کے تمام مجاہد پلیٹ فارم پر ترتیب وار ایستادہ ہوئے ان کے ورد زبان وہی مسنون دعائیں تھی جو آنحضرت~صل۱~ جہاد سے واپسی کے وقت پڑھا کرتے تھے چنانچہ سب مجاہد باآواز بلند یہ دعا پڑھنے میں مصروف تھے ائبون تائبون حامدون لربنا ساجدون انہوں نے صحابہ کرام ؓ کی اتباع میں نہایت جوش کے ساتھ یہ شعر بھی پڑھا-
نحن الذین بایعوا محمدا علی الجھاد مابقینا ابدا
یعنی ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت~صل۱~ سے بیعت کی ہے کہ آخر دم تک جہاد کرتے رہیں گے-
>فاتح|الدین< حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کاخطاب اورایک اہم|اعلان
اسی روز شام کو ۶ بجے مجاہدین کے اعزاز میں ایک خاص تقریب منعقد کی گئی جس میں )حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر اور حضور کی
نیابت میں ۱۲۳( حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب )ناظر اعلیٰ نے سلامی لی- مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے کمانڈر انچیف پاکستان کا پیغام پڑھ کر سنایا ازاں بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب فاتح الدین نے ایک مختصر لیکن پر معارف تقریر فرمائی جس میں فرقان بٹالین کی تاریخ` مجاہدین کے کارہائے نمایاں پر روشنی ڈالنے کے علاوہ خدائی تائید ونصرت کے ایمان افروز واقعات بھی بیان فرمائے جن سے نہ صرف بٹالین کے جوانوں نے بلکہ دوسرے لوگوں نے بھی یہ محسوس کیاکہ خداتعالیٰ
کے فرشتے ان کی مدد اور حفاظت پر مامور ہیں چنانچہ مجاہدین بعض انتہائی شدید قسم کے خطرات میں سے محفوظ بچ نکلتے رہے اور بعض اوقات دشمن کے گولے اور بم نشانے پر لگنے کے باوجود کوئی گزند نہ پہنچا سکے حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں یہ اعلان فرمایا-
>ہم نے کشمیر میں اپنے شہید چھوڑے ہیں جگہ جگہ ان کے خون کے دھبوں کے نشان چھوڑے ہیں ہمارے لئے کشمیر کی سرزمین اب مقدس جگہ بن چکی ہے ہمارا فرض ہے کہ جب تک ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنالیں اپنی کوششوں میں کسی قسم کی کوتاہی نہ آنے دیں- <
>اگرچہ کامیاب جدوجہد کے بعد فرقان کوسبکدوش کیا جارہا ہے لیکن جس جہاد کا ہم نے خدا سے وعدہ کیا ہے اس میں سبکدوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- خداتعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانیوں کایہ دور چلتا جائے اور اس نیت کی ہر نئی قربانی سلسلہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے کا موجب ثابت ہوتی رہے ۔۔۔۔ اندریں حالات ہمارا فرض ہے کہ ہم ان قربانیوں کے لئے ہروقت تیار رہیں تاوقت آنے پر ہم پیچھے رہنے والوں میں شمار نہ ہوں بلکہ اس طرح اپنی جانیں پیش کرتے چلے جائیں جس طرح ایک پروانہ دیوانہ وار آگے بڑھتا ہے اور شمع پر اپنی جان نچھاور کردیتا ہے شمع کی لو اس کی ہستی کو ختم کر دیتی ہے لیکن ہمارا محبوب تو خدا تعالٰے ہے اس کے راستے میں اگر ہم اپنی جانیں قربان کریں گے تو پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم پر اپنے انعامات کی بارش کرتا چلا جائے گا-< ۱۲۴
فرقان بٹالین کے کارناموں پر غیروں کا خراج تحسین
فرقان بٹالین کے جانباز مجاہدوں کو غیراز جماعت حلقوں کی طرف سے بھی خراج تحسین ادا کیا گیا چنانچہ حکیم احمد الدین صاحب صدر جماعت >المشائخ< سیالکوٹ نے اپنے رسالہ قائداعظم بابت ماہ جنوری ۱۹۴۹ء میں لکھا-: >اس وقت تمام مسلم جماعتوں میں سے احمدیوں کی قادیانی جماعت نمبر اول پر جارہی ہے وہ قدیم سے منظم ہے نماز روزہ وغیرہ امور کی پابند ہے یہاں کے علاوہ ممالک غیر میں بھی اس کے مبلغ احمدیت کی تبلیغ میں کامیاب ہیں- قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے اس کا ہاتھ بہت کام کرتا تھا جہاد کشمیر میں مجاہدین آزاد کشمیر کے دوش بدوش جس قدر احمدی جماعت نے خلوق اور درد دل سے حصہ لیا ہے اور قربانیاں کی ہیں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی کسی دوسری جماعت نے ابھی تک ایسی جرات اور پیش قدمی نہیں کی ہم ان تمام امور میں احمدی بزرگوں کے مداح اور مشکور ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ملک و ملت اور مذہب کی خدمت کرنیکی مزید توفیق بخشے-<
اسی طرح گلزار احمد صاحب فدا ایڈیٹر اخبار >جہاد< سیالکوٹ نے اپنے اخبار مورخہ ۱۶ / جون ۱۹۵۰ء میں لکھا- >فرقان بٹالین نے مجاہدین کشمیر کے شانہ بشانہ ڈوگرہ فوجوں سے جنگ کی- اور اسلامیان کشمیر کے اختیار کردہ موقف کو مضبوط بنایا-<
فرقان بٹالین کے نظم ونسق پر ایک طائرانہ نظر
بالاخر فرقان بٹالین کے نظم ونسق پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ فرقان بٹالین کی نصرت کمپنی کے کمانڈر کیپٹن عبدالمنان صاحب دہلوی )تمغہ >خدمت پاکستان(< تحریر فرماتے ہیں۔:
>بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
فرقان فورس
کمانڈر:۔
کمانڈنگ آفیسر:۔ لیفٹیننٹ کرنل شیر ولی صاحب سردار بہادر )او۔ بی۔ آئی( سیکنڈ ان کمان۔ میجر عبدالوہاب صاحبؓ
سیکنڈ ان کمان۔ میجر عبدالوہاب صاحبؓ۔
ایڈجوئینٹ۔ میجر اسلم حیات صاحب۔ قریشی فیروز محی الدین صاحب۔ مولوی محمد صدیق صاحب فاضل۔
کوارٹر ماسٹر صاحب۔ لیفٹیننٹ چوہدری فیروز الدین صاحب امرتسری۔
میڈیکل آفیسر۔ کیپٹن ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن صاحبؓ
بٹالین ٹریننگ آفیسر۔ لیفٹیننٹ شیر احمد خان صاحب۔
بٹالین فزیکل آفیسر۔ کیپٹن عبدالمنان دہلوی۔
بٹالین ہیڈ کوارٹر
چوہدری اعجاز احمد صاحب کلرک )۱( عبدالواحد صاحب
ٹیلیفون انچارج۔
)۲( محمد اشرف صاحب )بعد میں ۶ پنجاب میں صوبیدار ہوگئے(
کمپنی کمانڈر
نصرت کمپنی عبدالمنان دہلوی تمغہ خدمت پاکستان سیکنڈ ان کمان لیفٹیننٹ )مولوی( عبداللطیف صاحب پریمی
برکت کمپنی۔ کیپٹن نور احمد صاحب۔ سیکنڈ ان کمان۔ لیفٹیننٹ )مولوی( عبدالمالک صاحب
شوکت کمپنی۔ کیپٹن مشتاق احمد صاحب۔ سیکنڈ ان کمان۔ لیفٹیننٹ مولوی عبدالقدیر صاحب۔ معاون سیکنڈ ان کمان صوبیدار چوہدری محمد عبداللہ صاحب۔
تنویر کمپنی۔ کیپٹن عطاء اللہ صاحب بنگہ۔ سیکنڈ ان کمان۔ مولوی سردار احمد صاحب۔
ہیڈکوارٹر کمپنی۔ کیپٹن فقیر محمد خان صاحب۔
نوٹ:۔ مندرجہ بالا عہدیداروں کو GHQ راولپنڈی سے ان کے ناموں کے سامنے لکھے ہوئے رینک پہننے کی اجازت دی گئی تھی۔

پلاٹون کمانڈر۔ چوہدری عبدالسلام صاحب۔ محمد اقبال صاحب۔ چوہدری عنایت اللہ صاحب۔ چوہدری محبوب احمد صاحب۔ محمد خان صاحب۔
حوالدار میجر اور حوالدار کوارٹر ماسٹر۔ مولوی خلیل الرحمن خان صاحب پشاوری۔ برکات احمد منٹگمری۔ بشیر احمد صاحب گجراتی۔ محمد شفیع صاحب زبیر۔ مولوی محمد یوسف راجوری۔
دیگر مجاہدین۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب دیالگڑھی۔ مولوی محمد احمد صاحب جلیل۔ حافظ شفیق احمد صاحبؓ مدرس حافظ کلاس۔ رانا ناصر احمد کاٹھگڑھی۔ چوہدری صالح محمد سندھی۔ حوالدار رانا ناصر احمد۔ بشیر احمد سندھی۔
۳ مارٹر ڈئچمنٹ کمانڈر۔ رانا محمد دین صاحب
اسسٹنٹ۔ رانا محمد دین صاحب
مجاہدین کی حجامت کے لئے۔ محمد رمضان صاحب خادم مرحوم وگلزار احمد صاحب۔
ٹریننگ
کشمیر محاذ جنگ پر آنے والے مجاہدین کو ان کے معینہ عرصہ قیام میں فوجی کرتب سے حتی الوسع پورے طور پر تربیت دے کر اس قابل بنادیا جاتا تھا جس سے وہ دشمن کی حدود میں داخل ہوکر پیٹرولنگ کرتے ہوئے خبریں حاصل کرلاتے تھے۔
مثلاً انہیں۔ ڈرل۔ پی ٹی۔ روڈ مارچ۔ رائفل ٹریننگ۔ سٹین گن۔ 36۔E۔H گرنیڈ۔ ۲ مارٹر۔ ۳ مارٹر۔ ویری لائٹ پسٹل۔ ریوالوار۔ برین گن فائرنگ کی مشق کے علاوہ دشمن پر فائرنگ بھی کروائی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ فیلڈ کرافٹ۔ ایئر کرافٹ۔ ٹرنچر۔ بینکر۔ نائٹ پریڈ۔ بینٹ فائٹنگ۔ رئیک۔ ڈیفنس۔ ود ڈرال۔ یونیفارم کا استعمال۔ ملٹری کے عہدوں کی پہچان وغیرہ وغیرہ۔ ٹریننگ دے کر اس قابل بنا دیا جاتا تھی کہ مجاہد بخوبی پورے بھروسہ اور مستعدی و وثوق کے ساتھ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے۔
ہمارے کئی ایک مجاہد دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے زخمی ہونے کے علاوہ شہید بھی ہوئے۔ جن کی قبریں باکسر۔ سوکھا تلا بھنمبر میں موجود احمدی مجاہد اسلام و فرقان بٹالین کے آج بھی علمبردار نظر آتی ہیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی تربیتوں پر اپنی بے پایاں رحمتیں۔ برکتیں نازل فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے۔ )آمین(
مجاہد جب اپنا معینہ عرصہ مکمل کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے تو گھر جانے سے قبل ان کا باقاعدہ امتحان لے کر اس بات کی سند دی جاتی تھی کہ جو کچھ ٹریننگ کے دوران میں انہوں نے محاذ پر سیکھا ہے۔ واقعی یہ مجاہد اس سند اور شاباش کے مستحق ہیں۔
ساتھ کے ساتھ دینی مشاغل بھی لازمی حصہ تھے جنہیں نہایت عمدگی واحترام کے ساتھ باوقار طریق پر ادا کیا جاتا تھا۔ مثلاً نماز باجماعت۔ تلاوۃ قرآن پاک۔ درس وتدریس۔ تاریخ اسلام ومجاہدین اسلام کے کارہائے نمایاں۔ اسلامی روایات پر عمل پیرا ہونے کا پور پورا انتظام ہونے کے علاوہ قرآن پاک ناظرہ وباترجمہ۔ نماز معہ ترجمہ سکھانے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا اور یوں مجاہدین کو جہاد کی غرض و غایت سے پورے طور پر آگاہ کیا جاتا۔ جس سے پورے پورے اخلاص ومحبت اور جوش وخروش کے ساتھ جذبہ حق کو قائم ودائم رکھنے کے لئے وہ خدا تعالیٰ کی حدود کی حفاظت میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرتے ہوئے قوم کی عزت وناموس اور ملک کی سرحدوں کی آخری سانس تک حفاظت کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے اور کسی حالت میں بھی دشمن خدا ودشمن اسلام کے سامنے اپنے ہتھیار نہ گراتے اور اس طرح سے وقت آنے پر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرتے ہوئے اس کے دربار میں اپنے آپ کو پیش کردیتے اور اسلام کا پرچم ہر قیمت پر سربلند رکھتے۔
حضور کی محاذ پر آمد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جب محاذ کشمیر پر فرقان فورس کے مجاہدین سے مل کر ان کی حوصلہ افزائی کے لئے بنفس نفیس تشریف لائے تو اس وقت آپ کے ہمراہ اخباری نمائندوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ حضور نے ظہر عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں۔ سب کے ساتھ بیٹھ کر دوپہر کا کھانا تناول فرمایا۔ اس موقعہ پر فوجی کرتب دکھائے جانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا اور ایک رنگا رنگ تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں پاک آرمی کے بہت سے آفیسرز کے علاوہ بہت سے مختلف رینک کے عہدیدار اور سپاہی بھی مدعو کئے گئے تھے جنہوں نے احمدی مجاہدین کے نہایت عمدہ اور صاف ستھرے فوجی کارنامے دیکھے جن سے بہت ہی لطف اندوز ہوکر انگشت بدنداں ہوکر رہ گئے۔
حضورؓ نے قرآن پاک اور حضور اکرم~صل۱~ کے ارشادات کی روشنی میں اصحاب رسول اللہ و مجاہدین اسلام کے سنہری فوجی کارناموں اور فتوحات کی روشنی میں مجاہدین و حاضرین کو اپنے نہایت قیمتی و بیش بہا نصائح سے سرفراز فرمایا۔ نیز فرمایا شیر ولی جناب آپ رہیں۔ صلٰوۃ خوف بھی سکھائیں۔
حضورؓ نے اپنے خطاب میں ان فوجی افسران سے دریافت فرمایا کہ اب آپ یہ فیصلہ کریں کہ آرمی اور ان مجاہدین کی تربیت میں کس کا کام بہتر ہے؟ اس پر انہوں نے بیک زبان ہوکر کہا کہ مجاہدین کی کاردگی آرمی کے جوانوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس پر حضورؓ نے ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تنخواہ لے کر دشمن کے مقابلے پر آئے ہیں اور یہ مجاہد جذبہ جہاد اسلام سے سرشار ہوکر دشمن کے مقابلہ پر آئے اور سینہ سپر ہیں۔
اس تقریب کے اختتام پر >نشان< یعنی بہترین انعام جو کہ انعامی جھنڈا تھا شوکت کمپنی کو دیا گیا جسے حضورؓ نے اپنے دست شفقت سے پلاٹون کمانڈر چوہدری عنایت اللہ صاحب کے ہاتھوں میں پکڑا دیا۔ تمام حاضرین نے بارک اللہ لک کی صدا بلند کی اور یوں یہ مبارک تقریب سعید اختتام پذیر ہوئی۔ الحمدلل¶ہ۔
جناب شیر ولی صاحب
جناب شیر ولی صاحب کے وقت میں جو اہم واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں۔
آپ نے باگسر محاذ پر پہنچ کر احمدی مجاہدین کشمیر کی فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ دینی تربیت واصلاح کی طرف بھی پوری توجہ مرکوز رکھی۔ آپ کے وقت میں ہر کمپنی کی حدود میں کمپنی کمانڈروں کی زیر نگرانی فوجی مشقیں کرانے کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہوا۔ جناب شیر ولی صاحب نے باگسر سے سوکھے تلائو تک فرقان کا پہلا روڈ مارچ کروایا۔ آپ ہی کے وقت میں ڈاکٹر گراہم کے پاکستان آنے پر آپ نے راتوں رات نومینر لینڈ کو عبور کرکے دشمن کے منہ کے سامنے دشمن سے چند سو گز پر آئوٹ پوسٹ کے قیام کا انتظام فرما کر صبح کی اذان دلوا دی۔ ایسی کارروائی دشمن بھی کرسکتا تھا مگر دشمن کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ پہاڑ سے نیچے اتر کر ایسا کرسکے۔ جس وقت ڈاکٹر گراہم نے موقعہ کا معائنہ کیا اس وقت حدود کی نشان بندی کی برجی ہماری پوسٹ سے آگے لینے ریچھ پیاری کے قدموں میں نصب کردی گئی۔ اور اس طرح سے ۲/۱۱۔ ۲ میل چوڑی اور کئی میل لمبی ویلی جناب شیر ولی صاحب کی حسن بصیرت و جرات مندی کے نتیجے میں آزاد کشمیر کی حدود کے قبضہ میں آگئی اس ویل سے نکالے ہوئے درجنوں دیہات کے ہزار ہا مسلم باشندے کئی سال تک پاکستان میں خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے کے بعد اپنے اپنے گھروں میں آکر آباد ہوگئے۔ بھمبر سے سوکھا تلا باگسر بانح۔ قلعہ امر گڑھ کر پاس سے گزرتی ہوئی لکڑ منڈی تک پختہ سڑک تعمیر ہوئی۔ سڑک کے مکمل ہونے پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی محاذ کشمیر پر تشریف فرما ہوئے۔ فرقان فورس نے آئوٹ پوسٹ پر اس وقت تک قبضہ جمائے رکھا تا وقتیکہ اس سے آزاد کشمیر فورس نے باقاعدہ پاکستان فوج کے کمانڈروں کے روبرو چارج نہ سنبھال لیا۔<
فصل یازدہم
جنوری ۱۹۴۹ء کی جنگ بندی کے بعد
سلامتی کونسل کے فیصلہ کی تعمیل میں یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو کشمیر کی جنگ بند کردی گئی اور تحریک آزادی کا آٹھواں دور شروع ہوا- جو وسط ۱۹۶۵ء تک جاری رہا- اس درمیانی عرصہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسئلہ کشمیر کو ملک میں زندہ اور تازہ رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
تحریک کشمیر کیلئے متحد العمل ہونیکی دردمندانہ تحریک
‏]text [tagچنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالٰے نے ۱۶ / اپریل ۱۹۴۹ء کو مسلمانان پاکستاان کو آزادی کشمیر کے لئے متحدالعمل ہونے کی دردمندانہ تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا- >مجھے خصوصیت سے یہ تڑپ ہے کہ کشمیر کے مسلمان آزاد ہوں اور اپنے دوسرے بھائیوں سے مل کر اسلام کی ترقی کی جدوجہد میں نمایاں کام کریں اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں تمام ان لوگوں سے جو کشمیر کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ یہ آزادی کی تحریک آخری ادوار میں سے گذر رہی ہے اپنی سب طاقت اسکی کامیابی کے حصول کے لئے لگادیں اور ایسی تمام باتوں کو ترک کردیں- جو اس مقصد کے حصول کے لئے روک ہوسکتی ہیں- ۱۲۵
جماعت احمدیہ کوجہاد کیلئے تیار رہنے کی ہدایت
اگلے سال اپریل ۱۹۵۰ء میں مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا-
>میں جماعت کے دوستوں پر یہ امر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اگر تم اپنے ایمان کو سلامت لے جانا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ تو تمہیں یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایاہے کہ جو شخص جہاد کے موقعہ پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے اور جہاد میں کوئی شخص حصہ ہی کس طرح لے سکتا ہے جب تک وہ فوجی فنون کو سیکھنے کے لئے نہیں جاتا ہے-< ۱۲۶
پھر فرمایا- >اگر قرآن نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے اور اگر احمدیت بھی سچی ہے تو لازماً اپنے ملک کی عزت کی حفاظت کے لئے اس وقت جو موقعہ پیدا ہوا ہے اس میں تمہیں حصہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ تغیر الل¶ہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے زیادہ قربانیاں ہم کو ہندوستان میں دینی ہونگی یا افریقہ میں لیکن فرض کرو کہ افریقہ میں پیش آتی ہیں تو وہاں کے احمدی ہمارا نمونہ دیکھیں گے۔ اگر ہم اس وقت اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے تو ہم ان سے کہہ سکیں گے کہ ہمارے ملک اور ہماری قوم پر جب حملہ ہوا تو ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کردیا یہ نمونہ ہے جس سے وہ سبق سیکھیں گے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے-< 10] ¶[p۱۲۷
آزادی کشمیر کے لئے دعا
کتاب >شیر کشمیر< کے مولف جناب کلیم اختر صاحب نے ۳ / دسمبر ۱۹۵۵ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تو حضور نے فرمایا- )۱( میرا مسئلہ کشمیر سے گہرا تعلق ہے اور اس سانحہ کا زخم ابھی میرے دل پر قائم ہے میں ہروقت کشمیریوں کی بے بسی پر خون کے آنسو روتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی رستگاری کے لئے دعا گو ہوں-
۲۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ ایک نہایت مومن انسان ہیں انہوں نے کشمیریوں کے لئے بڑی جدوجہد کی ہے ان کی کوششیں ضرور رنگ لائیں گی- ۱۲۸
مستقبل سے متعلق ایک آسمانی انکشاف
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۸ / دسمبر ۱۹۵۶ء کو سالانہ جلسہ کے موقعہ پر خدائی تصرف والقاء کے تحت ایک عظیم الشان آسمانی انکشاف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا-
>میں اپنی جماعت کو ایک تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جب دعائیں ہوں گی تو کشمیر کے متعلق بھی دعائیں کریں- دوسرے میں ان کو یہ تسلی بھی دلانا چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سامان نرالے ہوتے ہیں میں جب پارٹیشن کے بعد آیا تھا تو اس وقت بھی میں نے تقریروں میں اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔ اب نظر آرہا ہے کہ وہی باتیں جن کو میں نے ظاہر کیا تھا وہ پوری ہو رہی ہیں یعنی پاکستان کو جنوب اور مشرق کی طرف سے خطرہ ہے لیکن ایسے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ ہندوستان کو شمال اور مشرق کی طرف سے شدید خطرہ پیدا ہونے والا ہے اور وہ خطرہ ایسا ہوگا کہ باوجود طاقت اور قوت کے ہندوستان اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گا- اور روس کی ہمدردی بھی اس سے جاتی رہے گی سو دعائیں کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری گورنمنٹ کمزور ہے یا ہم کمزور ہیں خدا کی انگلی اشارے کر رہی ہے اور میں اسے دیکھ رہا ہوں- اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ روس اور اس کے دوست ہندوستان سے الگ ہوجائیں گے۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ امریکہ یہ محسوس کرے گا کہ اگر میں نے جلدی قدم نہ اٹھایا تو میرے قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے روس اور اس کے دوست بیچ میں گھس آئیں گے پس مایوس نہ ہوں اور خدا تعالٰے پر توکل کرو- اللہ تعالیٰ کچھ عرصہ کے اندر ایسے سامان پیدا کردے گا آخر دیکھو یہودیوں نے تیرہ سو سال انتظار کیا اور پھر فلسطین میں آگئے مگر آپ لوگوں کو تیرہ سوسال انتظار نہیں کرنا پڑے گا ممکن ہے تیرہ بھی نہ کرنا پڑے ممکن ہے دس بھی نہ کرنا پڑے اور اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں کے نمونے تمہیں دکھائے گا-< ۱۲۹
اس آسمانی انکشاف کے بعد کس طرح تغیرات رونما ہوئے- اور احمدی نوجوانوں نے تحریک آزادی کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے کیا کیا خدمات انجام دیں ان پر مستقبل کا مورخ ہی روشنی ڈال سکے گا-
آزادی کشمیر کے لئے دعائوں کی تحریک خاص
‏text] ga[tسیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۸ / فروری ۱۹۵۷ء کو آزادی کشمیر کے لئے دعائوں کی ایک خاص تحریک فرمائی جس کا تذکرہ حضور ہی کے مبارک ومقدس الفاظ میں کرنا ضروری ہے اور اسی پر تحریک آزادی کشمیر کے ساتویں دور کی تاریخ کا اختتام ہوتا ہے حضور نے ارشاد فرمایا-:
>ہماری جماعت کے دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ کشمیر کے قریباً نصف کروڑ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اپنے منشاء کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس پر کاربند رہنے کی توفیق دے اور ایسے سامان پیدا کرے کہ یہ لوگ جبری غلامی میں نہ رہیں- بلکہ اپنی مرضی سے جس ملک کے ساتھ چاہیں مل جائیں اوراگر کوئی تحریک اس بات میں روک بنتی ہو تو خداتعالٰے اسے کامیاب نہ کرے- پھر اللہ تعالٰے ہمارے اہل مملکت کو بھی ایسی سمجھ عطافرمائے کہ وہ وقت پر ہوشیار ہوجائیں اور دیکھیں کہ کون شخص انہیں سیدھے رستہ سے ہٹا رہا ہے اور ہمیشہ وہ طریق اختیار کریں جو پاکستان کی عزت اور سرفرازی کا موجب ہواور کشمیر کی عزت اور سرفرازی کا بھی موجب ہو۔۔۔۔ چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لئے کشمیر بھی ہمیں بہت پیارا ہے پھر کشمیر ہمیں اس لئے بھی پیارا ہے کہ وہاں قریباً ۸۰ ہزار احمدی ہیں اور بعض ایسے علاقے ہیں جن کی رائے کے مطابق کشمیر یا ہندوستان میں جاسکتا ہے یا پاکستان میں جاسکتا ہے ان میں احمدیوں کی اکثریت ہے۔۔۔۔ پس ہمیں دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کشمیری بھائیوں کی مدد کرے- آخر کشمیر وہ ہے جو میں مسیح اول دفن ہیں اور مسیح ثانی کی بڑی بھاری جماعت اس میں موجود ہے ۔۔۔۔ مسیح اول نہ ہندو تھے اور نہ عیسائی تھے اور مسیح ثانی بھی نہ ہندو تھے نہ عیسائی تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ ~صل۱~ کے خادم تھے اور اسلام کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں مبعوث کیا تھا پس جس ملک میں دومسیحوں کا دخل ہے وہ ملک بہر حال مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کو ہی ملنا چاہئے اس لئے ۔۔۔۔ ہمیں ہروقت خدا تعالٰے سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالٰے انہیں اپنے مستقبل کے متعلق خود فیصلہ کرنے کی توفیق بخشے اور جس طرح کہتے ہیں جہاں کی مٹی تھی وہیں آلگی-< وہ جہاں کی مٹی ہیں وہیں آلگیں اور ان کے رستہ میں کوئی منصوبہ اور کوئی سازش روک نہ بنے-< ۱۳۰
سیدنا المصلح الموعود کا عہد اور دعائیہ کلمات
‏]txet [tagچنانچہ حضور کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں پوری جماعت آج تک کشمیر کی آزادی کے لئے دعائوں میں برابر مصروف ہے۔ اور سیدنا المصلح الموعود کا وجود مقدس تو ہمیشہ فتح کشمیر اور واپسی قادیان کے لئے مجسم گریہ و زاری رہا ہے۔ جس کی ایک جھلک اس عہد صمیم اور ان دعائیہ کلمات سے بخوبی نمایاں ہوتی ہے۔ جو حضور انور نے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے نام اپنے ۶/ ستمبر ۱۹۶۵ء کے پیغام میں لکھوائے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>میں اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کو دل و جان کے ساتھ مکمل تعاون اور مدد کا یقین دلاتا ہوں۔ اس نازک موقعہ پر ہم ہر مطلوبہ قربانی بجا لانے کا عہد کرتے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے بے پایاں فضل کے نتیجہ میں اپنی خاص راہنمائی سے آپ کو نوازے اور ہم سب کو اپنے وطن عزیز کا دفاع کرنے کی طاقت و ہمت عطا فرمائے یہاں تک کہ اس کے فضل سے کلی طور پر فتح یاب ہوں اور ہمارے کشمیری بھائی آزادی سے ہمکنار ہوں۔ آمین<۔۱۳۱
حواشی حصہ دوم )پانچواں باب(
‏]h1 [tag۱۔
مکاتیب اقبال حصہ اول صفحہ ۳۹۶۔ )مکتوب ۱۲/ اکتوبر ۱۹۳۳ء( شائع کردہ شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور۔
۲۔
مجلس احرار اسلام کا رسالہ تبصرہ لاہور )اکتوبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں( لکھتا ہے۔
>کشمیر کمیٹی کی بنیاد ۱۹۳۱ء میں چند اعتدال پسند لوگوں نے رکھی تھی میاں سر محمد شفیع` سر فضل حسین` میاں امیر الدین اور شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ساتھ قادیان کے خلیفہ بشیر الدین محمود بھی اس ادارہ میں شامل تھے اس کمیٹی کے انتخاب سے مرزا بشیر الدین محمود کو صدر اور عبدالرحیم درد )مرزائی( کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔۔۔۔۔ حضرت امیر شریعت~رح~ )جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری۔ ناقل( ڈاکٹر اقبال کو مرشد اور ڈاکٹر اقبال حضرت شاہ صاحب کو پیر جی کہا کرتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے سلسلہ میں ان دونوں کے درمیان چودھری افضل حق کی معیت میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اور طے پایا کہ بشیر الدین محمود اور عبدالرحیم درد کو اگر ان کی موجودہ ذمہ داری سے نہ ہٹایا گیا۔ تو کشمیر کے ۳۲ لاکھ مظلوم مسلمان کفر و ارتداد کا شکار ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔ لہذا بہتر ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی باگ ڈور مجلس احرار کے سپرد کر دی جائے<۔
۳۔
الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۴۔
الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۴۔
۵۔
الفضل ۱۶/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۶۔
الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۳۳ء۔
۷۔
اصل خط کشمیر کمیٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۸۔
الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔
۹۔
الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۱۰۔
الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
‏h1] g[ta۱۱۔
الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۱۲۔
الفضل ۱۷/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۳۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۱۴۔
الفضل ۲۵/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۲۔
۱۵۔
بحوالہ الفضل قادیان مورخہ ۲۹/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۰` ۱۱۔
۱۶۔
انقلاب ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۷ بحوالہ الفضل ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۱۷۔
مکاتیب اقبال حصہ اول صفحہ ۴۳۵۔
۱۸۔
ذکر اقبال صفحہ ۱۸۸ )مولفہ عبدالمجید صاحب سالک(
۱۹۔
قریشی محمد اسداللہ فاضل کاشمیری کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ۔
۲۰۔
سہو ہے اصل نام ہے نعیم الحق۔
۲۱۔
جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ کے غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ۔
۲۲۔
انقلاب ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء و ریکارڈ کشمیر کمیٹی۔
۲۳۔
شیخ محمد عبداللہ صاحب کا خط۔ السلام علیکم۔ قبل بھی ایک عریضہ ارسال خدمت کر چکا ہوں اب پھر التماس ہے کہ میری رائے ناقص میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کام برابر جاری رکھا جائے اور جو کمیٹی پہلے بنی تھی وہ برابر کام کرے یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اس کی ہر سیاسی جماعت کی خود غرضی باہمی اتفاق کو نقصان پہنچا کر ساری قوم کو نقصان پہنچانے کے لئے اور نیز اس انجمن کو ختم کر دینے کے لئے اسباب پیدا کر دیتی ہے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو ضرور کام کرنا چاہئے۔ بابت انتخاب عہدیداران میری رائے میں مسٹر غلام رسول مہر کو سیکرٹری مقرر کیا جائے اور عہدہ صدارت کے لئے میں اپنی رائے ۔۔۔۔ مسٹر غلام رسول مہر کے حق میں دیتا ہوں جس کو وہ اپنی رائے دیں۔ میری رائے بھی اس کے ساتھ گنی جائے مجھ کو افسوس ہے کہ میرے مشاغل قطعی مانع ہیں کہ جلسہ میں شرکت کر سکوں<۔
۲۴۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۳۴ء۔
۲۵۔
درمیانی اجلاسوں کی تاریخیں ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء۔ ۷/ اکتوبر ۱۹۳۴ء۔ ۱۴/ اپریل ۱۹۳۵ء۔ ۲۹/ اپریل ۱۹۳۶ء۔ ۲۵/ اپریل ۱۹۳۷ء۔ ایسوسی ایشن کے سب اجلاس لاہور میں ہوئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی گاہے بگاہے ان اجلاسوں میں شمولیت فرماتے رہے۔ سید حبیب صاحب نے ایک موقعہ پر مولانا جلال الدین صاحب شمس کو جو اسسٹنٹ سیکرٹری ایسوسی ایشن تھے بھی اپنا قائم مقام تجویز فرمایا۔ نیز عبدالرشید صاحب تبسم کو قائم مقام سیکرٹری کے فرائض انجام دینے کا موقعہ ملا۔
۲۶۔
مثلاً مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء` مولوی احمد اللہ صاحب ہمدانی میر واعظ` صدر الدین صاحب بچھ۔ ینگ عبداللہ صاحب` سید مقبول صاحب بیہقی` مسٹر ایوب صاحب` مولوی محمد سعید صاحب` سید غلام محی الدین صاحب` مولوی غلام مصطفیٰ صاحب )الفضل ۱۴/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۹( اخبار اصلاح میں مولوی احمد اللہ صاحب ہمدانی کی نسبت لکھا ہے۔ ۱۹۳۴ء میں جب نوجوانوں نے ایجی ٹیشن کی تو مولوی صاحب کفن پہن کر آگئے ۔۔۔۔۔ اس پر حکومت نے آپ کو جلا وطن کر دیا سخت گرمیوں کے ایام میں آپ کو لاہور جانا پڑا۔ آپ کو سخت تکلیف ہوئی اس زمانہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے آپ کی ہر طرح مدد کی۔ )اصلاح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۶(
۲۷۔
اخبار اصلاح سرینگر ۱۸/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔
۲۸۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۲۹۔
اصلاح سرینگر ۲۳/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۳۰۔
اخبار اصلاح سرینگر ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۳۱۔
اخبار اصلاح ۲۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔ ۳۔
۳۲۔
اخبار کے پہلے پرچہ کا اداریہ بھی حضور ہی نے رقم فرمایا۔
۳۳۔
آخر ۱۹۳۵ء میں یہ ہفت روزہ بنا دیا گیا۔
۳۴۔
اصلاح کے پہلے پرچہ میں یہ پیغامات شائع شدہ ہیں۔
۳۵۔
اخبار اصلاح ۱۶/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۳۶۔
بحوالہ اخبار اصلاح سرینگر ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۳۷۔
نقل مطابق اصل۔
۳۸۔
بحوالہ اخبار اصلاح سرینگر ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔
۳۹۔
اخبار اصلاح سرینگر ۱۵/ اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۵ کالم ۳۔
۴۰۔
یہ اداریہ جو مسلسل کئی اشاعتوں میں جاری رہا مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوا۔ کشمیر ایک خالص اسلامی علاقہ ہے۔ الخ۔
۴۱۔
اداریہ کے آخری الفاظ یہ تھے ریاستی باشندے برطانوی ہند کے پہلو بہ پہلو رہتے ہیں ایسی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ وہ برطانوی ہند کی تحریک حریت سے متاثر نہ ہوں۔ ایسی صورت میں حالات کا اقتضاء اور دانشمندی یہی ہے کہ ریاستی حکومتیں زیادہ سے زیادہ اختیارات عوام کے نمائندوں کے سپرد کریں اور کم از کم صوبجاتی خود مختاری کے پیمانہ پر اپنی اپنی ریاستی حکومتوں کو لے آئیں۔
۴۲۔
یعنی مسلم کانفرنس جسے ۱۹۳۹ء میں نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیا گیا۔
۴۳۔
۲۱ اقساط میں شائع ہوا۔
۴۴۔
)۱( تبدیلی مذہب کی بناء پر ضبطی جائداد کے قانون کی تنسیخی۔ )۲( گئو کشی کی سزا میں تخفیف۔ )۳( ملازمتوں میں مسلم تناسب کے مطابق حصہ۔
۴۵۔
اس اداریہ کا خلاصہ یہ تھا کہ جس طرح برطانوی ہند کے رہنے والے آزادی کا حق رکھتے ہیں۔ ریاستی باشندوں کو بھی وہی حق حاصل ہونا چاہئے۔
۴۶۔
مطالبہ پاکستان کی تائید میں۔
۴۷۔
بتایا ہے کہ ریاست کشمیر کی نسبت مسلمان یہ تخیل قبول نہیں کر سکتے کہ یہ ہندو ریاست ہے۔
۴۸۔
اخبار اصلاح ۱۳/ مارچ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۹۔
اخبار اصلاح ۱۵/ فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۰۔
اخبار اصلاح سرینگر ۲/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۵۱۔ ][ ملاحظہ ہو تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم صفحہ ۱۸۵۔
۵۲۔
تاریخ اقوام کشمیر جلد ۲ صفحہ ۲۸۵۔
۵۳۔
مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام میرا ساتواں خط )از سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ( صفحہ ۳۔
۵۴۔
ریاست کے وزراء نے یقین دلایا کہ اگر شیخ محمد عبداللہ صاحب سول نافرمانی کی تحریک واپس لے لیں تو سیاسی قیدی آزاد کر دیئے جائیں گے۔ مگر اس وعدہ کے باوجود ریاست نے ایفاء عہد نہ کیا تو اخبار اصلاح نے ۲۳/ اگست ۱۹۳۴ء کو حکومت سے درد مندانہ گزارش کی کہ سول نافرمانی کے قیدی رہا کر دیئے جائیں۔ )اصلاح ۲۳/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۳(
۵۵۔
اخبار اصلاح ۷/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۱ و صفحہ ۸ کالم ۳۔
۵۶۔
۱۹۳۷ء میں میونسپل کمیٹی کے انتخابات ہوئے تو جماعت احمدیہ کشمیر نے مسلم کانفرنس کے نمائندوں کے حق میں ووٹ ڈالے اور خدا کے فضل سے اس بار بھی اس کے سب نمائندے منتخب ہو گئے۔ جن کے نام یہ ہیں احسن اللہ صاحب مینجر آرمی ایجنسی۔ غلام محمد صاحب ڈار۔ مولوی محمد سعید صاحب مسعودی ایڈیٹر ہمدرد۔ میر غلام حسین صاحب گیلانی۔ خواجہ عبدالاحد صاحب برزہ۔ میر مقبول شاہ صاحب سجادہ نشین قادریہ۔ غلام رسول صاحب وڈیرا۔ سید غلام مرتضیٰ صاحب جلالی )اخبار اصلاح سرینگر ۶/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔ ایضاً ۱۳/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۲(
۵۷۔
یعنی دو سو روپیہ۔ ناقل۔
۵۸۔
اصلاح ۱۶/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۷۔
۵۹۔
محترم چوہدری صاحب ۱۵/ اپریل ۱۹۰۳ء کو میانوال ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد منشی احمد بخش صاحب ملازمت کے سلسلہ میں خانقاہ ڈوگراں )ضلع شیخوپورہ( میں چلے آئے تھے۔ اسی قصبہ میں مولوی صاحب نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ سالانہ جلسہ ۱۹۱۷ء پر پہلی بار اپنے والدین کے ساتھ قادیان تشریف لائے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ ۱۹۲۷ء جے وی کا امتحان پاس کرکے مدرسہ احمدیہ قادیان میں انگلش ٹیچر مقرر کئے گئے اور تعلیم کے ساتھ سکائوٹنگ کا کام بھی آپ کے سپرد ہوا۔ سالانہ ٹورنامنٹ کے موقعہ پر سکائوٹ جو کھیلیں دکھاتے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان کا ملاحظہ کرتے اور اظہار پسندیدگی فرماتے۔ مدرسہ احمدیہ کے سکاوٹوں نے آپ ہی کی نگرانی میں سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء کے پنڈال کی توسیع میں حصہ لیا۔ جس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ ۱۹۳۲ء سے ۱۹۳۴ء تک دہلی میں بطور ٹیچر کام کرتے رہے۔ ۱۹۳۵ء میں ضلع سہارن پور میں محکمہ سکائوٹنگ کے افسر رہے اپریل ۱۹۳۶ میں مدیر اصلاح مقرر کئے گئے ۱۹۴۷ء تک کامیابی سے یہ خدمت انجام دینے نیز الفضل کی مینجری کے فرائض ادا کرنے کے بعد قائد آباد سے متصل علاقہ تھل کے چک ۸ ایم۔ پی )تحصیل خوشاب ضلع سرگودھا( مستقل بودوباش اختیار کر لی۔ بالاخر ۸/ جولائی ۱۹۶۴ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ )اصلاح ۲۹/ اگست ۱۹۴۰ء و الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء(
۶۰۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۵ کالم ۳۔
۶۱۔
بعض دوروں میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار بھی ہمسفر رہے )اخبار اصلاح سرینگر ۱۵/ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۶۲۔
اخبار اصلاح ۲۷/ جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۲۔
۶۳۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۵ کالم ۴۔
۶۴۔
اخبار اصلاح سرینگر ۱۳/ جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوہدری صاحب نے کشمیر پریس کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے دوسرے صحافیوں کے ساتھ ۲۳/ مئی ۱۹۴۴ء کو ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں قائداعظم نے مسلمانوں کو بلاامتیاز فرقہ ایک پلیٹ فارم پر اور ایک جھنڈے تلے جمع ہونے کی تلقین فرمائی۔
۶۵۔
اخبار اصلاح ۱۳/ نومبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۔
۶۶۔
اخبار اصلاح ۶/ مارچ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ۲۔
۶۷۔
اخبار اصلاح ۲/ جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۔
۶۸۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۶۹۔
بحوالہ اصلاح سرینگر ۱۵/ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۷۰۔
نرپرستان کے علاقہ میں کشمیری پنڈتوں کی آبادی زیادہ تھی۔
۷۱۔
اخبار اصلاح سرینگر ۲۹/ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۷۲۔
اخبار اصلاح سرینگر ۱۳/ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۳ و اخبار اصلاح سرینگر ۲۹/ جون ۱۹۳۷ء۔
۷۳۔
اخبار الفضل قادیان نے بھی احتجاج کیا تھا۔
۷۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ستمبر ۱۹۳۷ء میں مولوی عبدالرحیم صاحب نیر )سابق مبلغ انگلستان و افریقہ( کو سرینگر بھجوایا۔ حضرت نیر صاحب نے وہاں پہنچ کر کشمیر کے گورنر` وزیراعظم` وزیرمال` سیکرٹری سیاسیات سے مفصل ملاقاتیں کیں۔ اور ان پر مسئلہ گائو کشی کی حقیقت واضح کی اور ینگ مین سناتن دھرم ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ و سیکرٹری اور ایڈیٹر مارتنڈ۔ ایڈیٹر ہمدرد وغیرہ سے بھی ملے۔
۷۵۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۷۶۔
کشمکش صفحہ ۲۱۴۔ ۲۱۵۔
۷۷۔
مکمل پمفلٹ ضمیمہ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
۷۸۔
دیش سیوک ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۸ء۔
۷۹۔
یہ فیصلہ مسلم کانفرنس کے آخری اجلاسوں میں پتھر مسجد میں کیا گیا۔ یعنی عین اس جگہ جہاں سات سال قبل اس اسلامی ادارہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ چوہدری حمید اللہ خاں صاحب` مولوی رفیع الدین صاحب اور غلام حیدر خان صاحب غوری اور عبدالستار صاحب پریزیڈنٹ انجمن شیر گوجراں سرینگر نے اس قرارداد کی مخالفت کی مگر بھاری اکثریت نے نیشنل کانفرنس کے حق میں فیصلہ دیا۔
۸۰۔
اخبار اصلاح )سرینگر( ۱۶/ جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۸۱۔
اخبار اصلاح سرینگر ۱۶/ جون ۱۹۳۹ء تا ۲۱/ جولائی ۱۹۳۹ء۔
۸۲۔
اخبار اصلاح ۶/ فروری ۱۹۴۱ء صفحہ ۳ کالم ۱ )بیان جناب چوہدری غلام عباس صاحب(
۸۳۔
اخبار مارتنڈ ۷/ مئی ۱۹۳۹ء بحوالہ اخبار اصلاح سرینگر ۲/ مئی ۱۹۴۰ء۔
۸۴۔
ملاحظہ ہو اخبار اصلاح سرینگر ۲۵/ دسمبر ۱۹۳۹ء تا ۲۰/ جون ۱۹۴۰ء۔
۸۵۔
بحوالہ اخبار اصلاح ۲۶/ جون ۱۹۴۰ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۶۔
اخبار اصلاح ۱۰/ اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۱ و ۱۲۔
۸۷۔
اخبار اصلاح ۲۱/ ستمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۸۸۔
وسط ۱۹۴۴ء میں مسٹر محمد علی جناحب صاحب )قائداعظم( کشمیر میں قیام پذیر تھے ایسوسی ایشن کا ایک وفد جو خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اور خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار مولوی فاضل مدیر اصلاح پر مشتمل تھا ۱۹/ مئی ۱۹۴۴ء کو آپ کی قیام گاہ پر ملا۔ اور سیاسیات کشمیر پر گفتگو کی۔ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کے بیان کے مطابق دوسرے روز چوہدری غلام عباس خان صاحب اور مسلم کانفرنس کے دوسرے کارکنوں نے بتایا کہ قائداعظم آپ )یعنی خواجہ گلکار صاحب( کی بہت تعریف کرتے تھے اور ان کی نظر کشمیر کی لیڈر شپ کے لئے آپ پر لگی ہوئی ہے۔
۸۹۔
اصلاح )سرینگر( ۱۳/ جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۔
۹۰۔
اصلاح ۱۳/ جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۹۱۔
اخبار اصلاح سرینگر ۲۵/ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۲۔
اخبار اصلاح ۶/ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۔
۹۳۔
اصلاح )سرینگر( ۲۳/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۴۔
۹۴۔
اصلاح ۳۰/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔
۹۵۔
الفضل ۲۴/ جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ ۴۔
۹۶۔
اخبار اصلاح ۳۰/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۴۔
۹۷۔ ][ اخبار الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۹۸۔
جناب عبدالوحید قاسمی صاحب اسلام آباد تحریر کرتے ہیں کہ ۴/ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو خواجہ غلام نبی گل کار آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر بنے۔ )اخبار لولاک فیصل آباد ۱۵/ جنوری ۱۹۸۸ء صفحہ ۱۳(
۹۹۔
یعنی احمد گل صاحب کوثر مدیر اخبار ہمارا کشمیر )مظفر آباد(
۱۰۰۔
اصلی نام مصلحتاً پوشیدہ رکھے گئے اور ان کی بجائے ان کے متبادل نام رکھے گئے تھے۔ تاکہ ان کو کام کرنے میں آسانی ہو۔ )مولف(
۱۰۱۔
خواجہ غلام محمد خان مرحوم المعروف عدم تشدد۔
۱۰۲۔
روزنامہ ہمارا کشمیر مظفر آباد مورخہ ۴/ اکتوبر ۱۹۵۳ء )ایڈیٹر گل احمد خاں صاحب کوثر(
۱۰۳۔
میری یادداشت کا ایک ورق از منور کاشمیری خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار۔ محررہ دسمبر ۱۹۶۳ء۔
۱۰۴۔
بیان محررہ ۸/ اکتوبر ۱۹۶۳ء )قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کے ایک غیر مطبوعہ مقالہ سے ماخوذ(
۱۰۵۔
صفحہ ۶۲۱۔
۱۰۶۔
‏TASEER BILQEES۔(BYC 317۔P HALLUDAB MUHAMMED SHEIKH OF KASHMIR THE ناشر فیروز سنز لاہور ۱۹۸۶ء۔
۱۰۷۔
دو قومیں اور کشمیر )مصنفہ لارڈ برڈوڈ( صفحہ ۱ ملخص طبع اول ۱۹۵۶ء بحوالہ معمار آزادی کشمیر صفحہ ۴۶۔ ۴۷ )از جناب قریشی محمد اسداللہ صاحب فاضل کاشمیری(
۱۰۸۔
الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۴۷ء )یہ اداریہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے قلم کا لکھا ہوا ہے(
۱۰۹۔
الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۱۰۔
خان محمد رفیق صاحب مہاجر کشمیر مقیم سیالکوٹ اپنے کتابچہ سیاسیات کشمیر پر ایک نظر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور میاں افتخار الدین صاحب ممدوٹ دلی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے حکومت کو )کشمیری مہاجرین کی آباد کاری۔ ناقل( پر مائل و قائل کیا۔ صفحہ ۱۶ پبلشرز ایم ایم شیخ اینڈ برادرز چوک پوربیاں سیالکوٹ۔ ممتاز برقی پریس شہر سیالکوٹ۔
۱۱۱۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ کالم ۳ )یہ اداریہ حضور کے قلم سے لکھا ہوا ہے(
۱۱۲۔
اس انجمن کے عہدیدار اور مشہور ممبر حسب ذیل ہیں۔ خان محمد رفیق خان صاحب )صدر`( خواجہ علی محمد صاحب بابا )نائب صدر( ڈاکٹر نیاز صاحب )جنرل سیکرٹری`( میر عبدالمنان صاحب ایم۔ اے ایل ایل بی )نائب سیکرٹری`( خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار )آفس سیکرٹری و سیکرٹری مال`( خواجہ غلام نبی صاحب گلکار` راجہ زبردست خان صاحب مرحوم` محمد ایوب صاحب صابر` مولوی عبدالرحیم صاحب` چوہدری کریم بخش صاحب جنجوعہ` غلام قادر صاحب سوپوری` خواجہ منظور الحق صاحب ڈار` ڈاکٹر نظیر الاسلام صاحب` شیخ عبدالحی صاحب ایڈووکیٹ مظفر آباد` مفتی ضیاء الدین صاحب ضیاء` قاضی حفیظ اللہ صاحب سالب` خواجہ عبدالعزیز صاحب ڈار` چوہدری اللہ رکھا صاحب` چوہدری محمد اسمعیل صاحب ایڈووکیٹ` چوہدری احمد خان صاحب۔
۱۱۳`۱۱۴۔
بحوالہ ہندو سامراج اور کشمیر صفحہ ۷۱۶ )مولفہ جناب گیانی عباداللہ صاحب مینجر الفضل ربوہ۔
۱۱۵۔
اخبار رھنما راولپنڈی ۱۵/ اپریل ۱۹۴۸ء۔
۱۱۶۔
احمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۹۸۱۔ ۹۸۲ )مولفہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ بار ششم مطبوعہ دسمبر ۱۹۵۲ء(
۱۱۷۔
جنگ بندی کے بعد ہندوستانی فوجی افسروں نے بین الاقوامی افسروں کے ساتھ مل کر خط متارکہ کی نشاندہی کے وقت میں وادی کے حصول کی کوشش کی۔ لیکن اس موقعہ پر بھی فرقان بٹالین کے افسران نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے وادی کے اگلے کناروں پر دشمن کی مقبوضہ پہاڑی کے دامن میں اپنی پوسٹ قائم کر لی اور اس پوسٹ کے آگے نشاندہی کے موقف پر قائم رہے اور اس طرح ہندو فوج کے افسران کی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔ چنانچہ بین الاقوامی افسروں کو دو ہفتہ کے لئے یہ کام ملتوی رکھنا پڑا۔ آخر فرقان بٹالین ہی کو فتح ہوئی اور خطہ متارکہ کا نشان وادی کے آخری کنارہ سے ۱۵۰ گز تک دشمن کے علاقہ میں لگایا گیا۔
۱۱۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۲۔ ۱۳ )شائع کردہ میاں محمد یوسف صاحب سیکرٹری مجلس مشاورت(
۱۱۹۔
یہاں ان مجاہدوں کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جو اپنے فرائض بجا لاتے ہوئے حوادث کا شکار ہو کر عمر بھر کر لئے بیکار ہو گئے۔ )۱( محمد اسمعیل صاحب ولد اللہ دتہ صاحب چک نمبر ۵۶۵ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور۔ )۲( محمد سلیمان صاحب گوالمنڈی لاہور۔ )۳( محمد خورشید صاحب ولد محمد دین صاحب گیانی۔ )۴( محمد حسین صاحب ولد نور محمد صاحب چک شیر کا نمبر ۲۷۸ ج۔ ب ضلع لائلپور۔ )۵( بشیر احمد صاحب سندھی۔
۱۲۰۔
پاکستانی افواج کے افسران فرقان بٹالین کے سیکٹر کا مختلف اوقات میں معائنہ فرماتے رہے اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے جذبہ قربانی کو دیکھ کر نہایت اچھا اثر لیتے رہے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب )جو اس وقت پاکستانی افواج کے ایڈجوٹینٹ جنرل تھے( نے بھی اس بٹالین کا معائنہ فرمایا۔
۱۲۱۔
یہ بات سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثاث نے ۲۳/ مارچ ۱۹۸۱ء کو ایک ملاقات کے دوران مولف کتاب ہذا کو خود بتلائی اور فرمایا کہ بریگیڈیئر کے ایم شیخ کو فرقان کے عظیم الشان خدمات کا ذاتی طور پر علم تھا اور وہ ان کے معترف اور بے حد متاثر تھے۔
۱۲۲۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان نے فرقان بٹالین کے ان ۹۱۷ مجاہدین کو تمغات دفاع دیئے ہیں جو ۱۹۴۹ء کی جنگ سے پیشتر کسی وقت ۴۵ روز تک اس بٹالین میں خدمات بجا لاتے رہے۔
۱۲۳۔
حضور ان دنوں کوئٹہ میں تشریف فرما تھے۔
۱۲۴۔
الفضل ۲۳/ جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۸۔
۱۲۵۔
الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۴۹ء صفحہ ۸۔
۱۲۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۴۔
۱۲۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۰۔
۱۲۸۔
شیر کشمیر صفحہ ۱۲۹۔
۱۲۹۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۳۰۔
الفضل ۲۳/ فروری ۱۹۵۷ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۴۔
۱۳۱۔
الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
مرزا صاحب نے آڑے وقت میں مسلمانوں کی صحیح راہنمائی فرمائی
کتاب تاریخ احمدیت جلد پنجم کشمیر کی تحریک آزادی
کا بہترین مرقع ہے
)ہفت روزہ انصاف )۲۱۔ اپریل ۱۹۶۶( نے تاریخ احمدیت جلد ششم )طبع اول( پر حسب ذیل تبصرہ کیا(
>جماعت احمدیہ کے تیسرے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمد جو پچھلے سال وفات پاگئے۔ مذہبی رہنما ہونے کے علاوہ عظیم سیاست دان بھی تھے۔ چنانچہ چوہدری غلام عباس خان سابق صدر جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے اپنی خود نوشتہ سوانح حیات کے ایک بات میں لکھا تھا کہ میں نے مذہب مولانا ابوالکلام آزاد سے سیکھا جن سے میرا سیاسی اختلاف ہے اور میں نے سیاست مرزا بشیر الدین محمود احمد سے سیکھی جن سے میرا مذہبی اختلاف ہے۔ تاریخ احمدیت جلد پنجم کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس جماعت کی مذہبی سرگرمیوں کی تفصیل ہوگی لیکن اس کے اوراق الٹنے سے پتہ لگتا ہے کہ یہ مسلمانان غیر منقسم ہند اور پھر اسلامیان جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کا بہترین مرقع ہے۔ مرزا صاحب نے آڑے وقت میں جب کہ بہت سے مسلمان لیڈروں کی آنکھیں کانگریس کے خوشنما بہروپ سے چکا چوند ہوتی تھیں۔ مسلمانان ہند کی صحیح رہنمائی اور ترجمانی کی۔ اور ان کو ہندوئوں کی نیت اور عزائم سے بروقت آگاہ کیا۔ اس کے بعد آپ نے تحریک آزادی کشمیر کی ۱۹۳۱ء سے قبل ہی داغ بیل ڈال دی۔ اس کتاب کا مطالعہ سیاسیات کشمیر کے ہر طالب علم کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے مطالعہ سے بہت ہی دلچسپ اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۳۵ء میں جب چوہدری عباس کو مسلم کانفرنس کا صدر بنایا گیا اور ان کا فقید المثال دریائی جلوس نکالا گیا تو مجلس استقبالیہ کے صدر خواجہ غلام نبی گلکار حال انور تھے اور رضا کاروں کی وردیاں قادیان سے بن کر آئی تھیں۔ ۱۹۳۲ء میں شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے گڑھی حبیب اللہ حال پاکستان میں مرزا صاحب موصوف سے ملاقات کرنی تھی تو شیخ صاحب کو یار لوگوں نے کار میں لٹا کر اور اوپر کپڑے ڈال کر ریاست کی حدود سے باہر سمگل کیا۔ کتاب میں علامہ اقبال مرحوم شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ سردار گوہر رحمان عبدالمجید قرشی اور چوہدری غلام عباس وغیرہ زعماء کے بعض تاریخی اور علمی اہمیت کے خطوط بھی شامل ہیں۔ بعض تاریخی فوٹوں گراف بھی دیئے گئے ہیں۔ غرضیکہ یہ کتاب کشمیر کی تحریک آزادی سے متعلق معلومات کا ایک بیش بہا خزینہ ہے اور ان معلومات کے بغیر کشمیر کی سیاسی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم اپنے علم ۔۔۔۔۔۔۔ کو مکمل نہیں قرار دے سکتا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد آزاد کشمیر حکومت کی ابتدائی تشکیل میں بھی مرزا صاحب کا ہاتھ تھا۔ جس کی تصدیق پروفیسر محمد اسحاق قریشی کے ایک بیان سے ہوتی ہے جو اس کتاب میں چھپا ہے۔ قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے چوہدری حمید اللہ خان مرحوم سابق صدر مسلم کانفرنس( کی معیت میں معاملات کشمیر کے بارے میں ۱۹۴۷ء میں مرحوم لیاقت علی خان سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے ہمیں مرزا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا۔ فرقان بٹالین جس نے ۴۸۔۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں جو نمایاں کارنامے سرانجام دئے ان کا بھی ذکر ہے اور اس کی توصیف میں اس وقت کے پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کا ایک توصیفی خط بھی شائع ہوا ہے۔<
)بحوالہ الفضل ۳۰۔ اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۵(
 
Top