• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 7 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 7 ۔ یونی کوڈ

‏tav.7.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
تاریخ احمدیت
جلد ششم
۱۹۳۲ء سے لیکر ۱۹۳۵ء تک کے
پرفتن اور المناک دور ابتلاء کا مفصل جائزہ

مولفہ
دوست محمد شاہد
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی ساتویں جلد
)رقم فرمودہ مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(
یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی ساتویں جلد تیار ہو کر احباب کے ہاتھوں میں آرہی ہے۔ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا باون سالہ دور قیادت ایسا عظیم الشان اور خدا تعالیٰ کی نصرتوں سے بھرپور ہے کہ انسانی روح اور زبان خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہے کجا وہ وقت کہ خلافت ثانیہ کا مبارک دور خلافت شروع ہوا۔ اور بعض لوگوں نے یہ تعلیاں شروع کر دیں کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن باون سالہ قیادت کے دوران اللہ تعالیٰ نے جس طرح آسمان سے نصرت کی۔ اور قدم قدم پر نشانات کا ظہور ہوا وہ احمدیت کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک زمانہ میں دنیا کے ہر کونے اور ہر ملک میں احمدیت کی مضبوط جماعتیں قائم ہو گئیں۔ اور احمدیت کا درخت ایسا تناور ہو گیا کہ ہر ملک کے پرندے اس پر نشیمن بنا کر آرام کرنے لگے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔
اس عرصہ میں مخالفت کی آندھیاں آئیں` ابتلائوں کے طوفان آئے اور مخالفوں نے چاہا کہ وہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے پودہ کو ختم کر دیں لیکن سب کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ان مخالفتوں کے نتیجہ میں احمدیت اور تیزی سے ترقی کرنے لگی۔~}~
ہربلا کیں قوم را حق دادہ اند
زیر آں گنج کرم بنہادہ اند
نوجوانان احمدیت کا فرض ہے کہ وہ سلسلہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے اور قربانیوں کے معیار کو قائم کرنے کی پوری سعی کریں یہ خدا کی تقدیر ہے اور یہ خدا کا نوشتہ ہے کہ احمدیت غالب ہو گی اور دنیا پر ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی دین اور سب قومیں اسلام کے چشمہ سے سیراب ہوں گی اور قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی تسکین قلب حاصل کریں گے پس مبارک ہے وہ شخص جو اپنے من` تن` دھن کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتا ہے کیونکہ اسلام کا احیاء ہم سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربان ہونا طلب کرتا ہے۔
پس عزیزو! اٹھو۔ کمر ہمت باندھو اور جس طرح خلافت ثانیہ میں آنے والے احباب نے قربانیوں کا بے نظیر نمونہ دکھایا۔ اسی طرح خلافت ثالثہ میں تم بھی آگے بڑھو۔ تا اسلام کا جھنڈا سب دنیا پر لہرانے لگے۔ آمین۔
والسلام
)دستخط( ظفر اللہ خان۔ ازلاہور
۶۷۔ ۱۔ ۱۸
نوٹ:۔ >تاریخ احمدیت< کے سیٹ اور موجودہ ایڈیشن کے اعتبار سے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کا یہ پیش لفظ زیرنظر جلد ۶ ہی سے متعلق ہے۔ )مولف(
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت جلد ہفتم
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خلافت ثانیہ کے بابرکت دور کی تاریخ کی تیسری جلد احباب کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے یہ جلد دو ابواب میں ہے اور ۱۹۳۲ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے تاریخ کے پہلے باب میں علاوہ دوسرے اہم واقعات کے مقدمہ بہاول پور اور مشرقی افریقہ میں احمدیت کا بیج بوئے جانے اور پھر باوجود مخالفت کی آندھیوں کے اس کے بڑھنے اور تناور درخت بننے کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں جماعت پر آنے والے ابتلائی دور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے جب کہ احرار نے جماعت کی مخالفت کرتے ہوئے یہ تعلی کی تھی کہ وہ جماعت احمدیہ کو ختم کر دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق احرار کے سب منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور جماعت احمدیہ پہلے سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ ترقی کرنے لگی۔ احرار کی مخالفت کے نتیجہ میں جو انعامات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے کھولے۔ ان کا ذکر انشاء اللہ مفصل اگلی جلد میں آئے گا۔ سیدنا حضرت مصلح الموعودؓ کے ساتھ جو خدائی وعدے کئے گئے تھے ان میں سے دو وعدے یہ تھے کہ قومیں آپ سے برکت پائیں گی اور خدا کا سایہ آپ کے سر پر ہو گا۔ ان ہر دو امور کی تصدیق ببانگ دہل اس جلد کے واقعات کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس جلد کو قبول فرمائے اور مصنف مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو صحت و سلامتی کے ساتھ باقی حصوں کو جلد مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے )آمین( اور ان کی محنت کو نوازے۔ وما توفیقنا الا باللہ العظیم۔
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے کتاب کے ابتدائی حصہ کو از راہ شفقت ملاحظہ فرمایا اور دعا فرمائی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہان پوری نے باوجود علالت طبع اور کمزوری کے اول سے آخر تک کتاب کے مسودہ کو سنا اور مناسب اصلاح فرمائی اسی طرح خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے مقدمہ بہاول پور کے حالات پر نظر ثانی فرمائی۔ ان بزرگوں کے علاوہ درج ذیل محترم اصحاب نے بھی اپنے قیمتی وقت کو صرف کرکے جستہ جستہ مقامات پر نہایت محنت سے نظر ثانی فرمائی۔
۱۔
مکرم شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سابق جج ہائی کورٹ و صدر ادارۃ المصنفین۔
۲۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ۔
۳۔
مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب مجاہد مشرقی افریقہ۔
۴۔
مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔
۵۔
مکرم قریشی ضیاء الدین صاحب بی اے ایل ایل بی` ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور۔
۶۔
مکرم چوہدری صلاح الدین صاحب بی اے ایل ایل بی مشیر قانونی )صدر انجمن احمدیہ ربوہ(
ان کے علاوہ مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی نے شروع سے آخر تک مضمون ملاحظہ فرما کر قیمتی مشورے دیئے۔ فجزاھم اللہ
خاکسار کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ شروع سے آخر تک اس کتاب کے مسودہ کو اس لحاظ سے دیکھا کہ کتاب کا ہر گوشہ مکمل نظر آئے۔ فالحمد للہ علی ذلک
اس جلد میں بعض نایاب تصاویر لگائی جارہی ہیں۔ یہ تصاویر مندرجہ ذیل اصحاب نے مہیا کی ہیں۔
۱۔
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل
‏]ni [tag۲۔
مکرم حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ قادیان
۳۔
مکرم جناب ناظر صاحب خدمت درویشان )سید میر دائود احمد صاحب(
۴۔
جناب مختار احمد صاحب ہاشمی
۵۔
مکرم چوہدری سردار احمد صاحب فاضل لندن
۶۔
مکرم حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال تحریک جدید
۷۔
مکرم شیخ عبدالمجید صاحب کارکن صدر انجمن احمدیہ ربوہ
اسی طرح جلد کے لئے مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب انور فاضل پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح اور محترم سید اعجاز احمد صاحب انسپکٹر بیت المال صدر انجمن نے نہایت قیمتی مواد مہیا فرمایا۔ حوالہ جات کے مقابلہ کرنے میں عزیزم مکرم محمد یوسف صاحب سلیم ایم اے شاہد نے نہایت محنت اور عرق ریزی سے کام کیا۔ اسی طرح مکرم مولانا محمد صدیق صاحب فاضل ایم اے انچارج خلاف لائبریری اور آپ کے دونوں ساتھی راجہ محمد یعقوب صاحب اور ملک محمد اکرم صاحب مضمون کی تیاری کے لئے کتب کی فراہمی میں خصوصی تعاون فرماتے رہے۔ فجز اہم اللہ تعالیٰ۔
تنگی وقت کے باوجود مکرم سید محمد باقر صاحب خوشنویس نے نہایت محنت سے کتابت کی اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل نے پروفوں کے پڑھنے میں نہایت جدوجہد سے کام لیا۔ مکرم قاضی منیر احمد صاحب اور لطیف احمد صاحب کارکن ادارہ نے دن رات ایک کرکے اس کو چھپوانے کی سعی کی۔
ادارۃ المصنفین تمام ان اصحاب کا جنہوں نے اس جلد کی تیاری میں کسی نہ کسی رنگ میں مدد کی ہے دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان سب کی محنت کو نوازے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے۔ )آمین(
ابو المنیر نورالحق
مینیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ
۱۷/ جنوری ۱۹۶۷ء
نوٹ:۔ موجودہ ایڈیشن کے اعتبار سے یہ الفاظ زیر نظر جلد ۶ کا تعارف ہیں۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب )فصل اول(
اشاعت احمدیت کی پرزور تحریک اور >یوم التبلیغ< کے آغاز سے لے کر دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کے قیام تک
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
)جنوری ۱۹۳۲ء تا دسمبر ۱۹۳۲ء بمطابق شعبان ۱۳۵۰ھ تا شوال ۱۳۵۱ھ(
۱۹۳۲ء کے ماحول پر ایک سرسری نظر
جماعت احمدیہ کی علمی و تبلیغی اور اخلاقی و روحانی تاریخ جو ابتداء سے لے کر ۱۹۳۱ء تک کے عمومی کوائف اور تحریک آزادی کشمیر کے مفصل حالات و وقائع پر مشتمل تھی۔ قبل ازیں چھ حصوں میں محفوظ ہو چکی` اور اب ہم خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ پیش نظر )ساتویں( جلد سے ۱۹۳۲ء کے واقعات کا آغاز کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وما توفیقنا الا باللہ العلی العظیم۔
اس دور کی تاریخ پر قلم اٹھانے سے پیشتر یہ بتا دینا نہایت ضروری ہے کہ خلافت ثانیہ کے ابتداء میں تحریک احمدیت کو جو عظیم الشان ترقیات و فتوحات نصیب ہوئیں وہ ۳۱۔ ۱۹۳۲ء میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آگئیں۔ اور سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی بے مثال راہ نمائی نے سلسلہ احمدیہ کو اٹھارہ برس کے اندر اندر اپنوں اور غیروں کی بے انتہا مخالفانہ سرگرمیوں کے باوجود ۔۔۔۔ رفعت و عظمت کے ایسے بلند مقام پر لاکھڑا کیا کہ نہ صرف برصغیر کے مختلف طبقے اس مختصر سی جماعت کے غیر معمول اثر و نفوذ اور کامیابی کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے۔ بلکہ دنیائے اسلام کے بعض ممالک میں بھی اس کے تبلیغی کارناموں اور اس کی مجاہدانہ کوششوں اور تنظیمی صلاحیتوں پر اظہار تحسین کیا جانے لگا۔
مسلمانان ہند کی قابل رحم حالت
یہ زمانہ مسلمانان ہند کے لئے گوناگوں مصائب سے لبریز تھا۔ کشمیر اور صوبہ سرحد میں مسلمانوں پر جبر و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس کے ساتھ ہی کرنال` حصار اور ریاست الور کے مسلمانوں کو سخت دق کیا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ پنجاب مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کے باوجود ہندوئوں اور سکھوں کی سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اب سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ )قائداعظم( محمد علی جناح کے انگلستان چلے جانے اور وہاں بودوباش اختیار کر لینے کے بعد مسلمانان ہند کا سیاسی قافلہ انتشار` تشتت اور پراگندگی کا شکار ہو رہا تھا اور مسلمان لامرکزیت اور فقدان قیادت کے نتیجہ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو چکے تھے۔ چنانچہ >تازیانہ ریویو< )۳۰ / نومبر ۱۹۳۲ء( نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ:
>مسلمان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے تاوقتیکہ ان میں کوئی لیڈر پیدا نہ ہو گا۔ گاندھی نہ ہو تو مالوی ہی ہو اور اگر وہ نہ ہو تو پرمانند ہی سہی۔ لیکن یہاں تو ہندو لیڈروں کے مقابلہ میں ہم کسی ایک مسلمان کو بھی پیش نہیں کر سکتے<۔
جماعت احمدیہ کی خصوصی شان اپنوں اور غیروں کی نظر میں
بایں ہمہ مایوسی اور ناامیدی کے اس دردناک ماحول میں نظریں بیتابانہ اور مضطربانہ طور پر قادیان کی طرف اٹھتی تھیں اور وہاں روشنی کی ایک امید افزا کرن موجود پاتی تھیں۔ چنانچہ ذیل میں بعض اہم آراء و افکار درج کی جاتی ہیں جن سے جماعت احمدیہ کی اس خصوصی شان کا اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی۔
۱۔
مراد آباد کے ایک مشہور مسلمان مصنف جناب اشفاق حسین صاحب مختار )سابق میونسپل کمشنر مراد آباد( نے اپنے ایک کتابچہ >خون کے آنسو< میں لکھا۔
)>جماعت اور بھیڑ کا فرق احمدی جماعت ہیں( ہم سات کروڑ تو ہیں لیکن ہم سات کروڑ آدمیوں کی بھیڑ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ البتہ احمدی صاحبان اپنے آپ کو جماعت کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی تنظیم اچھی ہے ۔۔۔۔ مشہور عربی مقولہ ہے ید اللہ علی الجماعہ۔ یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہوتا ہے یعنی اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو تنظیم کرکے اپنی جماعت بنالیتے ہیں۔ خدا بھیڑ کی مدد نہیں کرتا۔ چونکہ ہم بھیڑ ہیں اس لئے خدا نے اپنا مددگار ہاتھ ہمارے اوپر سے اٹھالیا۔ تنظیم اگر ہوتو تھوڑی سی جماعت بھی دنیا میں تہلکہ ڈال دیتی ہے اور اگر تنظیم نہ ہوتو سات کروڑ تو کیا بلکہ ستر کروڑ بھی ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں<۱
۲۔
ایک کانگریسی لیڈر پنڈت نانک چند صاحب نے گول میز کانفرنس میں کہا کہ۔
>مسلمان جاہل پسماندہ اور ناکافی تعلیم یافتہ ہیں اور ان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ناخواندہ فرقہ کے ہاتھ میں دی جانے لگی ہے<۔
اس بیان پر آل انڈیا خلافت کمیٹی کے ترجمان >خلافت< )بمبئی(۲ نے ایک جوابی نوٹ سپرد قلم کیا۔ جس میں لکھا کہ۔
>اگر قادیان جیسے قصہ کا ٹانگہ والا خالصہ اور دیانند کالج کے گریجوئیٹوں کو بند نہ کر دے۔ تو ہمارا ذمہ۔ پھر مسلمان کبھی صوبہ کی آزادی طلب نہیں کریں گے<۔
یہ الفاظ ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان کو ایسی فضیلت اور علمی شان عطا فرمائی ہے کہ اس مقدس مقام کا بچہ بچہ اپنے علم اور قابلیت میں دنیا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اشخاص پر بھاری ہے نیز یہ کہ قادیان کی سرزمین نے ایسے زبردست دماغ پیدا کئے ہیں جو حجت اور برہان کی رو سے بڑے بڑے مخالفین اسلام کا ناطقہ بند کرکے ان کا اثر بخوبی زائل کر سکتے ہیں۔
۳۔
جمعیتہ العلماء ہند کے آرگن >الجمعیتہ< )دہلی( نے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور اس کے سالانہ جلسہ کی اہمیت کی نسبت مندرجہ ذیل بیان شائع کیا۔
>قادیانیوں کی کامیابی کا راز صرف ایک بات میں مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بہت منظم ہیں۔ ان کے یہاں مختلف امور کے لئے مختلف شعبے قائم ہیں جن میں تنخواہ دار اور مستقل سٹاف کام کرتا ہے۔ مریدین کے چندوں کا اگرچہ کافی حصہ غیر متعلقہ مدات میں بھی صرف ہوتا ہے لیکن پھر بھی قادیانی پراپیگنڈا کے لئے کافی سرمایہ موجود رہتا ہے ظاہر ہے کہ موجودہ زمانہ میں سرمایہ اور تنظیم کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں قادیانیوں کو میسر ہیں۔ علاوہ مرکزی سٹاف کے جو قادیان میں ہے ہر اس مقام پر جہاں دو چار قادیانی بھی ہیں ایک الگ جماعت قائم ہے۔ جو مرکزی جماعت کے زیر نگرانی ہے۔ اس طرح سے ہر ایک قادیانی اپنے مرکز سے وابستہ ہے۔ اخبار اور سالانہ جلسہ سے اس تنظیم کی اور بھی تکمیل ہو جاتی ہے گویا قادیانیوں کا سالانہ جلسہ بسلسلہ تنظیم وہ کام کر رہا ہے جو مسلمانوں کے یہاں حج بیت اللہ سے ہونا چاہئے۔ اب اس قادیانی تنظیم کے مقابلہ میں مسلمانوں کی حالت دیکھی جائے تو نہایت پراگندہ اور غیر منظم ہے<۔۳
۴۔
جماعت احمدیہ کے مشہور معاند اخبار >زمیندار< کے ایڈیٹر جناب مولوی ظفر علی خان صاحب نے جماعت احمدیہ کی ترقی اور عروج اقبال کا اقرار کرتے ہوئے لکھا۔
>یہ ایک تناور درخت ہو چلا ہے اس کی شاخیں ایک طرف چین میں اور دوسری طرف یورپ میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں<۔
نیز لکھا۔
>آج میری حیرت زدہ نگاہیں بحسرت دیکھ رہی ہیں کہ بڑے بڑے گریجوئیٹ اور وکیل اور پروفیسر اور ڈاکٹر جوکونٹ اور ڈیکارٹ اور ہیگل کے فلسفہ تک کو خاطر میں نہیں لاتے تھے غلام احمد قادیانی کے خرافات واہیہ پراندھا دھند آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئے ہیں<۔۴
یہ تو برطانوی ہند کے بعض مسلم زعماء کے تاثرات ہیں جو بطور نمونہ اوپر درج کئے گئے ہیں۔ اب برصغیر کے غیر مسلم پریس کا نقطہ خیال ملاحظہ ہو۔ آریہ سماجی اخبار >پرکاش<۵ لاہور نے تبلیغ احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ۳/ جنوری ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا۔
>ان کے پلیٹ فارم کی مضبوطی کی تو یہ حالت ہے کہ ہر ایک احمدی سے یہ آشا۶ کی جاتی ہے کہ مرکز سے حکم پاتے ہی وہ باقاعدہ واعظ کا کام کرنے پر تیار ہو گا۔ ورنہ معمولی طور پر تو جو بھی احمدی جس اوستھا۷ میں ہے وہ واعظ کا کام کرتا ہے لیکن اس کا پریس مضبوطی میں آریہ سماج کے مقابلہ میں حیرت انگیز ہے ایک قادیان کو لو وہاں سے نصف درجن اخبارات سے کم نہیں نکلتے جن میں دو انگریزی ہیں اور اردو پتروں میں سے ایک ہفتہ میں تین بار شائع ہوتا ہے۔ عجب نہیں کہ اسے جلد روزانہ کر دیا جائے۔۸ احمدی پریس کا جال سارے ہندوستان میں ہی نہیں۔ باہر نو آبادیوں اور مغربی ممالک تک بچھا ہوا ہے۔ ہر جگہ سے احمدی اخبار اور رسالے نکلتے ہیں۔ اس اوستھا میں احمدیت کی تبلیغ کامیاب ہو تو تعجب ہی کیا ہے یہ سارے اخبار پچپن ہزار احمدیوں کے سر پر چل رہے ہیں۔ یہ احمدی تبلیغ کے سوائے کوئی اور کام نہیں کرتے اس لئے احمدیت سے باہر ان کی اشاعت کی کوئی توقع نہیں پچپن ہزار احمدی ہی ہیں جو اپنی کمائی کے حصہ سے انہیں زندہ رکھ رہے ہیں اور کس لئے زندہ رکھ رہے ہیں؟ احمدیت کے پرچار کے لئے۔ آریوں کی سنکھیا۹ ماتری۱۰ بھارت میں ہی دس لاکھ سے کیا کم ہو گی لیکن آریہ سماج کے پریس کی حالت کو دیکھ کر ہر ایک آریہ کا سر مارے ندامت کے جھک جانا چاہئے<۔
مصری پریس میں جماعت احمدیہ کی خدمات اسلامیہ کی بازگشت
ہندوستان سے باہر جس مسلمان ملک میں پہلی بار جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز کامیابی اور قابل تقلید اسلامی خدمات کا کھلا کھلا اقرار کیا گیا وہ مصر تھا۔ چنانچہ قاہرہ کے اخبار >الفتح< )۲۰/ جمادی الاخر ۱۳۵۱ ھ مطابق ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء( نے جماعت احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>نظرت فاذ احرکتھم امرمدھش فانھم رفعوا اصواتھم و اجروا اقلامھم باللغات المختلفہ و ایدوا دعوتھم ببذل المال فی المشرقین و المغربین فی مختلف الاقطار و الشعوب و نظموا جمعیاتھم و صدقوا الحملہ حتی استفحل امرھم و صارت لھم مراکز دعایہ فی اسیا و اووبا و امریکا و افریقیہ تساوی علما و عملا جمعیات النصاری واما فی التاثیر والنجاح فلا مناسبہ بینھم و بین النصاری فالقادیانیون اعظم نجاحالما معھم من حقائق الاسلام و حکمہ<۔
ترجمہ: میں نے دیکھا ہے کہ قادیانی تحریک ایک حیرت انگیز چیز ہے قادیانیوں نے تقریری اور تحریری طور پر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے۔ نئی اور پرانی دنیا کے مشرق و مغرب میں مختلف ملکوں اور قوموں میں بذل مال کے ذریعہ اپنی تبلیغ کو تقویت پہنچائی ہے۔ انجمنیں اور جمعیتیں مرتب کرکے زبردست حملہ کیا ہے یہاں تک کہ ان کا معاملہ عظیم الشان ہو گیا۔ اور ایشیا` یورپ` امریکہ اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مرکز قائم ہو گئے۔ جو ہر طرح سے علمی اور عملی طور پر عیسائیوں کے مشنوں کے ہم پلہ لیکن تاثیر اور کامیابی کی رو سے ان میں اور مسیحیوں میں کچھ نسبت نہیں۔ کیونکہ قادیانی اسلامی حقائق اور حکمتوں کی وجہ سے عیسائیوں سے بدرجہا زیادہ کامیاب ہیں۔ پھر لکھا۔ >ولا ینقضی عجبی من ھولاء الرجال الذین بلغوا فی علو الھمم والعلوم الکونیہ مبلغا مالمر تبلغہ حتی الان ایہ فرقہ اسلامیہ کیف الخدعو بما اخترعہ غلام احمد القادیانی من الحیل والخارق<۔
یعنی میرے تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی جبکہ میں ان لوگوں )جماعت احمدیہ کے افراد( کو جو علو ہمت اور علوم جدید میں اس درجہ ترقی کرگئے ہیں کہ آج تک کوئی اسلامی فرقہ وہاں تک نہیں پہنچا دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کے ایجاد کردہ حیلہ و فریب سے کس طرح دھوکہ کھا گئے ہیں۔ پھر لکھا ہے:۔
>والذی یری اعمالھم المدھشہ ویقدر الامور حق قدرھا لا یملک نفسہ من الدھشہ و الاعجاب بجھاد ھذہ الفرقہ القلیلہ التی عملت مالم تستطعہ مئات الملایین من المسلمین وقد جعلوا جھادھم ھذا ونجاحھم اکبر معجزہ تدل علی صدق ممایزعمون۔ وسا عدھم علی ذلک موت غیرھم ممن ینتسب الی الاسلام<۔
ترجمہ: جو شخص معاملہ فہم ہو اور ان لوگوں کے حیرت انگیز کارناموں کو دیکھے۔ وہ یقیناً اس چھوٹی سی جماعت کے جہاد کو دیکھ کر حیران اور انگشت بدنداں رہ جائے گا۔ اس جماعت نے وہ کام کیا ہے جس کو کروڑوں مسلمان نہ کر سکے۔ ان لوگوں نے اپنے جہاد اور کامیابی کو اپنے دعویٰ کی صداقت پر سب سے بڑا معجزہ قرار دیا ہے۔ ان کے اس بیان کو ان لوگوں کی موت نے تقویت پہنچائی ہے جو ان کے علاوہ اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
آخر میں )حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` احمدیت کے بیرونی مشنوں` ریویو آف ریلیجنز انگریزی و اردو کے ذکر کے بعد( لکھا۔
>افلا یجب علی المسلمین و الحال ھذہ ان یزیلوا عن اذھان اھل اوربا و امریکا تلک العقائد الفاسدہ التی یعتقد ونھافی دینھم و نبیھم ھذا فرض علی امراء المسلمین و علماء ھم و اغنیاء ھم و فقراء ھم ایضا فمن ذالذی یقوم الیوم بتبدید تلک الاوھام؟ لا احد لا القادیانیون و حد ھم ھم الذین یبذلون فی ذلک الاموال والانفس ولو قام المصلحون یصیحون حتی تبح اصواتھم و یکتبون حتی تنکسر اقلامھم ماجمعوا من الاموال و الرجال فے جمیع الاقطار الاسلامیہ عشر ما تبذلھا ھذہ الشرذمہ القلیلہ<۔
ترجمہ: کیا ان حالات میں مسلمانوں پر واجب نہیں کہ اہل یورپ و امریکہ کے ذہنوں سے وہ فاسد خیالات دور کریں جو وہ اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے متعلق رکھتے ہیں۔ یقیناً واجب ہے اور یہ مسلمانوں کے سلاطین` علماء` اغنیاء اور فقراء کا فرض ہے۔ مگر کون ہے جو ان اوہام کو دور کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہو؟ ہرگز کوئی نہیں۔ صرف اکیلے احمدی ہیں جو اپنے اموال اور جانوں کو اس راہ میں خرچ کر رہے ہیں ہاں اگر مسلمانوں کے زعماء اور مصلحین کھڑے بھی ہوں اور چلاتے چلاتے ان کی آواز بھرا جائے اور لکھتے لکھتے ان کے قلم ٹوٹ جائیں تب بھی وہ تمام اسلامی دنیا سے مال اور کارناموں کے لحاظ سے اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتے جس قدر یہ چھوٹی سی جماعت خرچ کر رہی ہے۔۱۱]ydob [tag
اسی طرح جامعہ ازہر کے ماہوار رسالہ >نور الاسلام< نے بھی انہیں دنوں لکھا کہ۔
>للقاد دیانیہ حرکہ نشیطہ فی الدعوہ الی نحلتھم ولما کانوا یقیمون ھذہ النحلہ علی شی من تعالیم الاسلام امکنھم ان یدعوا انھم دعاہ الاسلام ۔۔۔۔۔۔ بعثوا بدعاتھم الی سوریہ و فلسطین و مصر و جدہ و العراق و غیرھا من البلاد الاسلامیہ ۔۔۔۔ کثیرا ما وردتنا رسائل من البلاد العربیہ و غیرھا کامریکا یسال محرروھا عن اصل ھذہ النحلہ و مبلغ صلتھا بالاسلام<۔
ترجمہ: قادیانی لوگ اپنے مذہب کی طرف دعوت دینے میں مستعدی اور نشاط سے کام کر رہے ہیں اور چونکہ وہ اپنے دین کی بنیاد بعض اسلامی تعلیمات پر رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کو موقعہ مل گیا کہ اسلام کے مبلغ ہونے کا دعویٰ کریں انہوں نے اپنے مبلغ شام` فلسطین` مصر` جدہ` عراق اور دوسرے بلاد اسلامیہ کی طرف بھیجے ہیں۔ کئی مرتبہ ہمارے پاس بلاد عربیہ اور امریکہ سے خطوط آتے ہیں جن کے لکھنے والوں نے دریافت کیا ہے کہ اس جماعت اور دین کی حقیقت کیا ہے اور ان کا اسلام سے کس قدر تعلق ہے<۔۱۲
۱۹۳۲ء کے ماحول کا دوسرا رخ
۱۹۳۲ء کے ماحول کو سمجھنے کے لئے اوپر کی تحریرات کا مطالعہ مفید ہے مگر یہ حقیقی صورت حال کا صرف ایک پہلو ہے دوسرا پہلو اور رخ جس کا جاننا اس دور کی مذہبی اور سیاسی فضاء کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ یہی وہ سال ہے جس میں بعض مخالفین حق نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکنے بلکہ اسے صفحہ ہستی سے بالکل محو کر دینے کی دھمکی دی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام مخالف احمدیت طاقتیں میدان مخالفت میں اتر پڑیں۔ حتیٰ کہ صوبہ پنجاب میں برسر اقتدار انگریزی حکومت کی پوری سرکاری مشینری حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور جماعت احمدیہ کے خلاف حرکت میں آگئی اور سراسر ناروا` ناشائستہ اور ناجائز حربوں سے حملہ آوروں کی پشت پناہی کرنے لگی۔ احمدیت کے خلاف اپنی نوعیت کی اس پہلی منظم اور ہمہ گیر مخالفت کے اسباب و علل کیا تھے؟ اور حکومت کے افسروں نے اس میں سرگرم حصہ کیوں لیا؟ اور انگریزی حکام کی نگاہ میں جماعت احمدیہ جیسی خادم دین اور خادم ملک جماعت کے کون کون سے مفروضہ >جرائم< تھے جن کی پاداش میں اسے مسلسل کئی برس تک نہایت درجہ المناک حالات اور لرزا دینے والے مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا؟ دور ابتلا کی یہ جملہ تفصیلات دوسرے باب میں آرہی ہیں جہاں ۱۹۳۴ء کی قادیان احرار کانفرنس کے پس منظر اور اس کے اثرات و نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن چونکہ مندرجہ بالا الٹی میٹم کا تعلق ایک ایسے واقعہ سے ہے جو ۱۹۳۲ء۱۳ میں پیش آیا اس لئے اس مقام پر جبکہ ہم اس سال کے تفصیلی واقعات درج کرنے سے پہلے اس کا اجمالی تعارف کرا رہے ہیں اس واقعہ کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
۱۹۳۲ء کا ایک واقعہ
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بیان ہے کہ۔
>بعض مسلمان کہلانے والوں نے محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اگر اس سے آگے بڑھ گئی تو اس کا مٹانا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا اس لئے انہوں نے تنظیم کرکے اور ایسے لوگوں کی مدد لے کر جو بظاہر ہمارے دوست بنے ہوئے تھے مگر اندرونی طور پر دشمن تھے ہمارے خلاف اڈا قائم کر لیا اور ایسی تنظیم کی جس کی غرض احمدیت کو کچل دینا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں تحریک کشمیر کے دوران میں ایک دن سرسکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی اس بارے میں دونوں کا تبادلہ خیال چاہتا ہوں کیا آپ شریک ہو سکتے ہیں میں اس وقت لاہور میں ہی تھا۔ میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں۔ میٹنگ سرسکندر حیات خان صاحب کی کوٹھی پر ہوئی اور میں اس میں شریک ہوا۔ چودھری افضل حق صاحب بھی وہہیں تھے باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے ور کہنے لگے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدی جماعت کو کچل کر رکھ دیں میں نے اس پر مسکرا کر کہا۔ اگر جماعت احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جا سکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقیناً وہ رہنے کے قابل نہیں ہے یہ پہلی کوشش تھی۔ پھر احرار نے جماعت احمدیہ کو کچلنے کی مزید کوشش شروع کی اور یہ عجیب بات ہے کہ وہی احرار جو اپنی دوسری تحریکات کے لئے جب کوشش کرتے تو انہیں روپیہ نہیں ملتا تھا انہوں نے جب جماعت احمدیہ کے خلاف کوشش شروع کی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑے خزانہ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے<۔۱۴
اس واقعہ کا ذکر حضور نے سب سے پہلے ۲۹/ جولائی ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔ چنانچہ حضور نے بتایا کہ۔
ابھی تھوڑے دنوں کا واقعہ ہے کہ احرار کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر نے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے ایک مجلس میں جو صلح کے لئے منعقد ہوئی تھی کہہ دیا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم احمدیوں کو کچل ڈالیں گے۔ اب انسانی لحاظ سے ہم ان سے کہہ سکتے تھے کہ ہم تم کو کچل ڈالیں گے اور اگر زیادہ نرمی اختیار کرتے تو کہہ دیتے کہ کچل کر تو دیکھو۔ تیسری حالت ڈر جانا تھی کہ نامعلوم کیا ہو گا خدا جانے وہ کیا کر دیں گے وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں اور ہم قلیل ہیں لیکن صحیح بات وہی ہے جو میں نے کہہ دی۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ بندوں کی تحریک ہے تو ضرور کچلی جائے گی اور اگر خدا کی تحریک ہے تو ہم کو کیا ڈر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا<۔۱۵
خود چوہدری افضل حق صاحب >مفکر احرار< نے >تاریخ احرار< )صفحہ ۷۵ و ۷۶( میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے صاف لفظوں میں اعتراف کیا۔
>میں نے کہا مرزا صاحب! کوئی الیکشن نہیں گزرا جس میں مرزائیوں نے میرے خلاف ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا بھی خدا کے فضل سے فیصلہ یہی ہے کہ اس جماعت کو مٹا کر چھوڑیں گے<۔
اسی زمانہ میں سید محمد انور شاہ صاحب` شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند نے بھی لاہور کے ایک عام جلسہ میں یہ دھمکی دی کہ میں مرزائیوں کو تباہ کرکے دم لوں گا۔۱۶
یہ ہے ۱۹۳۲ء کا گردو پیش جس میں جماعت احمدیہ کے جری قائداور مقدس امام حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک نئے جوش نئی قوت اور نئے ولولے کے ساتھ کاروان احمدیت کی قیادت و سیادت کا بیڑہ اٹھایا اور پھر خدا کے فضل` نیم شبی دعائوں` حق و معرفت سے لبریز کلمات و خطبات اور بروقت اور مناسب تدابیر اور دوسرے روحانی و مادی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جماعت کو ایک ایسی مضبوط اور مستحکم چٹان تک پہنچا دیا کہ نہ صرف یہ کہ آئندہ جو طوفان بھی اٹھا اس کے کناروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ بلکہ اس کے نتیجہ میں ہر بار جماعت احمدیہ کو پہلے سے زیادہ قوت و شوکت نصیب ہوتی چلی گئی جیسا کہ آئندہ کے صفحات سے معلوم ہو گا۔
پیغام احمدیت پہنچانے کی زبردست تحریک اور یوم التبلیغ کا آغاز
خدائی سلسلوں کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا واحد ذریعہ تبلیغ ہے یعنی نرمی` اخلاق اور دعائوں پر زور دے کر حق و صداقت کی اشاعت
کرنا جیسا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے >الوصیتہ< میں تحریر فرمایا ہے کہ۔
>خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔ سوتم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے<۔۱۷
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ خصوصاً پچھلے کئی سالوں سے جماعت کو اس کی تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا رہے تھے اور گو اس کا نتیجہ بھی نہایت خوش کن نکل رہا تھا۔ اور خدا کے فضل سے جماعت سرعت سے ترقی بھی کر رہی تھی مگر چونکہ یہ ترقی نسبتی تھی اور ابھی جماعت کے بہت سے احباب حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے اس لئے حضور نے ۱۹۳۲ء کے آغاز میں ہی جماعت کو نہایت جوش سے تبلیغ کرنے کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ ۸/ جنوری ۱۹۳۲ء کو خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ۔
>ضروری ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ کام کریں۔ کیونکہ جب تک ہر سال لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں گے۔ اس وقت تک ہم پورے طور پر ترقی نہیں کر سکیں گے۔ بالعموم پہلی صدی ہی ایسی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت دنیا میں وسیع طور پر پھیل جاتی ہے اور ہم یہ ترقی حاصل نہیں کر سکتے جب تک لاکھوں آدمی ہر سال ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں اور اگر ہم نے پہلی صدی میں ہی اپنی جماعت کو دنیا پر غالب نہ کیا تو پھر اور کونسا وقت ہو گا جب ہم تبلیغ کا کام کریں گے جبکہ پہلی صدی ہی اپنے ساتھ عظیم الشان برکات رکھتی ہے اور پہلی صدی میں ہی تعلیم اور تربیت کا بہترین سامان مہیا ہوتا ہے۔ اگر ہم پہلی صدی میں تبلیغ کی طرف سے کوتاہی کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف تو ہماری ترقی کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچے گا اور دوسری طرف ہماری جماعت کی تربیت میں بھی نقص آجائے گا کیونکہ تبلیغی زمانہ میں اگرچہ جماعت خود تربیت کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کر سکتی مگر دشمنوں کی طرف سے متواتر مظالم ہوتے ہیں اور وہ الٰہی سلسلہ میں داخل ہونے والوں کو مختلف قسم کی اذیتیں اور دکھ پہنچاتے ہیں اس لئے ان کے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی وجہ سے خود بخود لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت ہوتی چلی جاتی ہے۔
پس الٰہی سلسلہ کی پہلی صدی میں تبلیغ کا کام تو دوستوں کے سپرد ہوتا ہے اور تربیت کا کام دشمنوں کے سپرد۔ مگر بعد کی صدیوں میں چونکہ دشمن کم ہو جاتے ہیں اور دشمنوں کے شدائد کی کمی کی وجہ سے تربیت میں نقص آجاتا ہے اس لئے اس وقت بہت سے جھگڑے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس اگر ہم اس وقت تبلیغ میں سستی ظاہر کرتے ہیں تو یہ سستی تربیت پر بھی برا اثر ڈالتی ہے اور جماعت اگر تعداد کے لحاظ سے کم ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی تربیت میں بھی کمی آجاتی ہے کیونکہ جب وہ تبلیغ سرد پڑ جائے گی اس وقت تربیت بھی سرد پڑ جائے گی یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کے مظالم دکھ اور تکالیف مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے متوجہ کرتی ہے اور یہ تکالیف ہی ایسی چیز ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی نصرت لاکر مومن کو اللہ تعالیٰ کا عینی مشاہدہ کرا دیتی ہیں۔ تب وہ ایمان حاصل ہوتا ہے جو خطرے سے بچاتا اور تمام لغزشوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔
پس میں تبلیغ کے لئے اگرچہ پہلے بھی کئی بار احباب کو توجہ دلا چکا ہوں مگر اب پھر توجہ دلاتا ہوں اور دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنی سستی کو دور کریں اور اس جوش سے تبلیغ کا کام کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال لاکھوں آدمی سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو جائیں<۔۱۸
اس ولولہ انگریز خطبہ کے بعد حضور نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا ایک عام رجحان اور حرکت پیدا کرنے کے لئے اس سال کی مجلس مشاورت )منعقدہ مارچ ۱۹۳۲ء( میں یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ جماعت سال میں دو دفعہ >یوم التبلیغ< منائے۔ ایک >یوم التبلیغ< غیر احمدی مسلمانوں کے لئے مخصوص ہو اور دوسرا غیر مسلموں خصوصاً ہندو اصحاب کے لئے۔ نیز یہ ہدایت فرمائی کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ ایسے قواعد بنائے کہ ہر احمدی اس دن تبلیغ میں مشغول ہو سکے اور اس غرض کے لئے باقاعدہ ایک سکیم بنائی جائے۔ فہرستیں تیار کی جائیں اور اس کے ماتحت احمدی مردوں اور احمدی خواتیں غرضکہ تمام افراد جماعت کی نگرانی کی جائے کہ اس میں کہاں تک حصہ لیا گیا ہے۔۱۹
پہلا یوم التبلیغ
چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق جماعت احمدیہ نے ملک بھر میں سب سے پہلا یوم التبلیغ ۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو پورے جوش و خروش اور والہانہ اور فدائیانہ ذوق و شوق سے منایا۔۲۰ اور مخالفین احمدیت کی شر انگیزیوں کے باوجود اس کے نہایت شاندار نتائج برآمد ہوئے جن کی تفصیل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>جس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ دن مقرر کیا گیا تھا اس وقت تک جس حد تک نتائج میرے سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت حد تک پوری ہو چکی ہے اور مخالفوں کی مخالفت ہمارے رستہ میں روک بننے کی بجائے کھاد کا موجب ہوئی ہے۔ بعض دوستوں نے لکھا اور بعض نے بیان کیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس جا کر ہم نے دس پندرہ منٹ صرف اپنی آمد کی غرض بتانے میں صرف کرنے تھے انہوں نے دیکھتے ہی کہہ دیا۔ اچھا آپ آج ہمیں تبلیغ کرنے کے لئے آئے ہیں ہم تو پہلے ہی سمجھتے تھے کہ آپ نے ہمیں چھوڑنا نہیں۔ اچھا آئیے سنائیے گویا اس مخالفت سے وہ ہزاروں لاکھوں آدمی جن تک ہماری آواز پہنچنا مشکل تھی یا جن کے گھروں پر جاکر دس پندرہ منٹ اپنی آمد کی غرض سمجھانے میں ہمیں صرف کرنے پڑتے انہیں مخالفوں کی آواز نے پہلے ہی تیار کر دیا۔ >زمیندار<۔ >حریت< اور مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ معاندین نے انہیں بتا دیا کہ فلاں تاریخ کو احمدی تمہارے پاس آئیں گے ان کے پاس وقت چونکہ تھوڑا ہے اس لئے اسے ضائع نہ کرنا ان کی آمد کی غرض ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں اور اس طرح وہ ہزارہا گھنٹے جو احمدیوں کے اپنے آنے کی تمہید میں ضائع ہونے تھے بچ گئے۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے مختلف طبائع پیدا کی ہیں کہ انہیں جس کام سے روکا جائے وہ کہتے ہیں اسے ضرور کریں گے اور مسلمانوں میں بھی ایسی طبائع کے لاکھوں آدمی ہوں گے۔ اس لئے مخالفوں کی طرف سے بار بار یہ تاکید ہونے پر کہ احمدیوں کی بات نہ سننا انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ضرور سنیں گے۔ پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مخالفت کا جتنا شور بلند ہو اتنی ہی زیادہ بیداری ان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے علماء کی مخالفت تو نہیں کرتے۔ مگر تماشہ دیکھنے کے شائق ضرور ہوتے ہیں وہ اسے ایک تماشہ سمجھتے ہیں اور گو قریب نہیں آتے مگر دور سے جھانکتے رہتے ہیں ایسے لوگ بھی بالاخر قابو آجایا کرتے ہیں کیونکہ اگر تماشہ دلچسپ ہو تو دور سے جھانکنے والے آہستہ آہستہ قریب آجاتے ہیں اور کسی چیز کے خوشگوار نتائج دیکھ کر کسی نہ کسی بہانہ سے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال مخالفوں کی مخالفت نے بھی ہمیں فائدہ ہی پہنچایا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر یہ نہ ہوتی تو شاید ہماری تبلیغ اس سے آدھی بھی نہ ہو سکتی جتنی کہ اب ہوئی ہے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ بعض احمدیوں نے جو شاید عام حالات میں سستی دکھاتے جب سنا کہ مخالف کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری باتوں کو نہیں سننے دیں گے تو ان کے دل میں بھی جوش پیدا ہوا کہ ہم بھی تبلیغ کریں گے جماعت میں بیداری اور دوسروں میں دلچسپی پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہوئیں اور بہت سے لوگوں نے بیعت کی مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بیعت اپنی ذات میں مقصود نہ تھی بلکہ اس کے اصل نتائج دوچار ماہ تک انشاء اللہ تعالیٰ نکلیں گے۔ اس سے ایک طرف تو جماعت میں اور بیداری ہو گی اور زیادہ تبلیغ کا شوق بڑھے گا۔ اگر کسی کو مخالفوں کے سامنے ندامت اٹھانی پڑی ہے تو وہ آئندہ کے لئے مطالعہ کرکے اپنی قابلیت بڑھائے گا اور جنہیں کامیابی ہوئی ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں وہ اور زیادہ جوش سے کام کریں گے۔ غرضیکہ بہت سے فوائد ہوں گے اور کچھ تازہ بتازہ پھل بھی مل گئے ہیں۔ اس سے جماعت میں ایک عام احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم سے پہلے سستی ہوئی ہے اور آئندہ زیادہ توجہ سے وہ کام کریں گے بعض نے وعدہ کیا ہے کہ وہ باقاعدہ ٹریکٹ شائع کیا کریں گے۔ غیر احمدیوں کی طرف سے ہمارے مبلغوں کو جو جواب ملے وہ بھی بعض صورتوں میں حوصلہ افزا ہیں۔ کئی لوگوں نے انہیں آتے دیکھ کر کہا کہ ہم پہلے ہی انتظار میں تھے اور دروازے کھول کر آپ کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے بعض جگہ لطائف بھی ہوئے ایک جگہ ایک مولوی صاحب نے لوگوں سے کہا کہ اپنے دروازے بند رکھو تا کوئی احمدی تمہارے ہاں نہ آسکے۔ لوگوں نے تو کیا بند کرنے تھے البتہ وہ خود دروازہ بند کرکے بیٹھا رہا اور جو بھی آکر اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا وہ یہ سمجھ کر کوئی احمدی آیا ہے اندر سے گالیاں دینے لگ جاتا۔ آخر ایک احمدی جو وہاں مدرس ہیں اس کے مکان پر گئے اور اسے آواز دی اس نے آواز پہچان کر کہا کہ معاف کرنا آج تو تمام دن آپ کے احمدیوں نے ستا مارا ہے میں سمجھا ہوں ایک چوک ہوئی ہماری لاہور کی جماعت کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے تبلیغی وفد >زمیندار< اور >حریت< کے دفتر بھیجتے۔ دوست صبح ہی صبح ان کے ہاں پہنچ جاتے اور کہتے ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ نے آج ہمارے خلاف جلسہ کرکے تقریریں کرنی ہیں پہلے آپ ہمارے خیالات سن لیں اور ان میں جو بات آپ کو قابل اعتراض نظر آئے اس پر بے شک اعتراض کریں لاہور کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ پہلے تبلیغ ان ہی لوگوں سے شروع کرتے۔
جیسا کہ میں نے ڈلہوزی کے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا تبلیغ کے لئے تھوڑی سی دیوانگی بھی ضروری ہے کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جسے دیوانہ نہ کہا گیا ہو اور جب ہم نے ان کا ورثہ پایا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں دیوانہ نہ کہا جائے۔ دیوانگی ہی دراصل حقیقی فرزانگی عطا کرتی ہے اور جنون ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچتا ہے یہ ایک قسم کی دیوانگی ہی ہے کہ ایسے شدید دشمنوں کے پاس انسان تبلیغ کے لئے جائے جو ممکن ہے ماریں یا کوئی جھوٹا مقدمہ ہی بنا دیں۔ مگر بہرحال یہ دیوانگی ایسی ہوتی ہے کہ دوسروں کے دلوں میں بھی بیداری پیدا کرتی ہے بعض جگہ دوسرے لوگوں سے بھی دیوانگی ہوئی جو ہمارے لئے فائدہ کا موجب بن گئی۔ ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ان میں سے ایک نے اس مکان میں جہاں وہ جاکر بیٹھے باہر سے کنڈی لگا دی تا دوسرے لوگ آکر ان کی باتوں کو نہ سن سکیں۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے پانچ سات آدمی جو وہاں پہلے موجود تھے ان کو خوب تبلیغ کی گئی۔ کنڈی باہر سے لگی رہی اور وہ مجبوراً بیٹھے سنتے رہے۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت کی تبلیغ بھی زیادہ موثر ہوئی ہوگی۔ اگر ہمارے آدمی کی طرف سے کنڈی لگائی جاتی تو ان پر اور قسم کا اثر ہوتا وہ اسے شرارت پر محمول کرتے اور بھڑک جاتے لیکن جب ان کے اپنے آدمی کی طرف سے ایسا ہوا تو ہمارے مبلغین پر غصہ نہیں ہوسکتے تھے بلکہ ان سے گو نہ ہمدردی پیدا ہوئی ہو گی تو کچھ دیوانگی ہم سے بھی ہونی چاہئے تھی اور وہ یہ کہ شدید مخالفوں کے گھروں میں جاتے۔ مثلاً مولوی ظفر علی۔ مولوی ثناء اللہ۔ مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ اور ایسے مخالفوں کے مکانوں پر پہنچ کر انہیں تبلیغ کرتے لیکن بہرحال اس سے جو نتائج نکلے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بہت ہی مفید چیز ہے<۔۲۱
دوسرا یوم التبلیغ
دوسرا یوم التبلیغ جو غیر مسلموں کے لئے مقرر کیا گیا تھا بڑی شان و شوکت سے اگلے سال ۵/ مارچ ۱۹۳۳ء کو منایا گیا اور احمدیوںؑ نے ہندوئوں` سکھوں اور عیسائیوں اور اچھوتوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے پورا دن وقف کیا۔ قادیان میں اس تقریب پر صبح سوا آٹھ بجے کے قریب حضور نے تبلیغ پر جانے والوں کو بیش قیمت ہدایات دیں۔۲۲ اور دعا سے رخصت کیا۔ قادیان کے چھوٹے بڑے اصحاب کے قریباً ساٹھ وفود قادیان کے گردونواح کے دس میل کے حلقہ میں تمام دن مصروف تبلیغ رہے۔ اس کے علاوہ قادیان کے مقامی غیر مسلموں کے گھروں اور دکانو میں جاکر آنحضرت~صل۱~ کا پیغام پہنچایا اور ایک تبلیغی پوسٹر اور ۱۵۔ ۱۶ مختلف تبلیغی ٹریکٹ قادیان اور بیرونجات کے لکھے پڑھے لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔ چھوٹے بچوں کا ایک جلوس نکالا گیا۔ دوپہر کے وقت لوکل کمیٹی کی طرف سے قادیان کے دو سو اچھوتوں کو ہائی سکول کے ہال میں دعوت طعام دی گئی۲۳ جس میں حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ` میاں عبدالسلام صاحب عمر مرحوم اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے تقریریں کیں۔ شام کے وقت چالیس کے قریب ہندو اور سکھ معززین قادیان کو قصر خلافت میں پھلوں کی پارٹی دی گئی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے نہایت لطیف پیرایہ میں صداقت اسلام معلوم کرنے کا یہ طریق بتایا کہ۔
>وہ سچے دل سے دعا کریں اور سارے خیالات دل سے نکال کر خدا کے آگے جھکیں اور کہیں۔ ہم ہر طرف سے منقطع ہو کر تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ہدایت عطا کر۔ اگر اب بھی ہماری دعا نہ سنی گئی تو ذمہ داری ہم پر نہ ہو گی<۔
اس تقریر سے مقامی غیر مسلم بہت متاثر ہوئے اور لالہ دولت رام ممبر سمال ٹائون کمیٹی نے ہنود اور اہل شہر کی طرف سے اس تقریب کے انعقاد پر شکریہ بھی ادا کیا اور مبارک باد بھی پیش کی۔۲۴`۲۵
قادیان کی مستورات نے بھی یوم التبلیغ میں سرگرم حصہ لیا اور ہندو سکھ عورتوں کے علاوہ خاکروب عورتوں کے گھروں میں جاکر تبلیغ اسلام کی۔ بعض خواتین نواحی دیہات میں بھی گئیں۔۲۶
امرتسر میں غیر احمدی علماء نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ احمدیوں کو غیر مسلموں میں تبلیغ نہیں کرنے دیں گے اس مقصد کے لئے احمدیت کے خلاف متواتر دو ہفتے تک جلسے کئے گئے۔ ایک مقامی انجمن >تبلیغ اسلام< نے اشتہارات شائع کئے اور ہندوئوں کو اکسایا گیا کہ احمدیوں کی بات نہ سنو کیونکہ ہم ان کو اسلام سے خارج کر چکے ہیں۔ یہ )احمدی( ۵/ مارچ کو تمہارے گھروں پر ہلہ بولیں گے اور فساد کریں گے۔ ہم مسلمان ذمہ دار نہیں ہوں گے مگر اس زبردست مخالفت کے باوجود امرتسر کے احمدیوں نے باقاعدہ تنظیم کے ساتھ الگ الگ گروپ ترتیب دے کر غیر مسلم ایڈیٹروں` مضمون نگاروں` مذہبی پیشوائوں` وکیلوں` ڈاکٹروں` افسروں یا اعلیٰ حکام غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔
اس موقعہ پر مقامی جماعت نے پانچ ہزار کی تعداد میں )انگریزی` ہندی` گورمکھی کے( اشتہارات ٹریکٹ اور پمفلٹ اور ہینڈبل تقسیم کئے۔ غیر مسلم حضرات بڑی خوش دلی اور محبت و تکریم سے پیش آئے اور تبلیغی لٹریچر بڑی مسرت اور قدردانی سے قبول کیا۔ پنڈت کرتار سنگھ فلاسفر )ہندی گورمکھی` سنسکرت اور انگریزی کے فاضل( نے کہا کہ میں مسلمانوں کو ڈاکو سمجھتا تھا مگر حضرت مرزا صاحبؑ کی کتاب >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے ترجمہ >دی ٹیچنگ آف اسلام< نے میرے خیالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ اب مجھے اسلام آنحضرت ~)صل۱(~ اور احمدی جماعت سے بڑی عقیدت ہے۔ اور حضرت مرزا صاحب کو ایک بہت بڑا بزرگ رشی مانتا ہوں اور کہا ہم نے تو حضرت مرزا صاحبؑ کے طفیل اسلام کا صحیح فوٹو دیکھا ہے۔
کبیر پنتھیوں کے استھان میں جب اسلام کی خوبیوں اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا ذکر کیا گیا۔ تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ زندگی بھر میں آج پہلی دفعہ اسلام کی سچی تعلیم ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے۔ غیر احمدی علماء اور مساجد کے درویش بازاروں میں برملا گالیاں دیتے اور احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں کے آگے سیاپا کرتے اور دل آزار نعرے لگاتے ہوئے کوشش کرتے کہ کسی طرح فساد ہو جائے۔ مگر احمدیوں نے ان کو قطعاً لائق التفات ہی نہ سمجھا اور صبر و تحمل سے پورا دن تبلیغ میں مصروف رہے۔4] fts[۲۷
حدیہ ہے کہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار >اہلحدیث< )۱۰/ مارچ ۱۹۳۳ء( میں فخریہ انداز سے لکھا۔
>امرتسر میں پانچ مارچ کا دن دیکھنے کے قابل تھا۔ بجائے اس کے کہ مرزائی ہندوئوں کو تبلیغ کرتے۔ طلباء عربی مرزائیوں کو تلاش کرکر کے بازاروں` گلیوں اور ان کے گھروں میں پکڑ کر تبلیغ حق کا حق ادا کرتے تھے<۔
گویا بالفاظ مولوی صاحب یہ طریق اس لئے اختیار کیا گیا کہ احمدی ہندوئوں کو تبلیغ اسلام نہ کر سکیں۔ ورنہ خاص اس دن جو احمدیوں نے خالصت¶ہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا احمدیوں کو تلاش کرکے اور پکڑ کر >تبلیغ< کرنے کے کیا معنی ہو سکتے تھے۔
آگرہ میں جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے اچھوتوں کے لیڈر بابو کھیم چند صاحب سابق ایم ایل سی سے ساڑھے چار گھنٹے تک تبادلہ خیالات کیا۔ بابو صاحب نے اقرار کیا کہ ان کی قومی ترقی کا راز قبول اسلام میں مضمر ہے۔
جماعت احمدیہ شملہ اور دہلی کے متفقہ فیصلہ کے مطابق جماعت شملہ نے نئی دہلی کا علاقہ تبلیغ کے لئے مخصوص کیا اور گورنمنٹ آف انڈیا کے تقریباً تمام اسٹاف اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ کے تقریباً تمام ہندو ممبروں کو اردو اور انگریزی ٹریکٹ بھجوائے۔ دو سو بنگالی اور مدراسی ہندو خصوصیت سے زیر تبلیغ رہے انگریزی ٹریکٹ وائسرائے چیف کمشنر دہلی اور ڈپٹی کمشنر دہلی کو بھی بھیجے گئے۔ )حجتہ اللہ( حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ نے کپورتھلہ کے سکھ رئوساء کو اردو اور انگریزی لٹریچر دیا۔
پشاور میں غیر مسلموں کا ردعمل بہت خوش کن تھا۔ چنانچہ انہوں نے بعض احمدیوں کو اپنی سماجوں میں تقریر کی اجازت دی۔ شاہ جہانپور میں ہندوئوں نے اسلام کا پیغام نہ صرف محبت اور توجہ سے سنا بلکہ یہ معلوم کرکے کہ احمدیوں نے محض ان کی بھلائی کے لئے آج اپنے کام کاج کو چھوڑ دیا ہے دھن باد کہا۔۲۸
لائل پور میں قریباً ایک ہزار غیر مسلم اسلام سے روشناس کئے گئے۔ بہاول پور میں علمائے سلسلہ کے ایک وفد نے آریہ سماج مندر میں جاکر بہت سے ہندوئوں کے سامنے اسلام کی خوبیوں پر روشنی ڈالی۔ ڈیرہ بابانانک میں سکھوں کا بھاری میلہ تھا جہاں احمدی سارا دن ہندوئوں اور سکھوں میں حق کا پرچار کرتے رہے۔۲۹
اڑیسہ کے گائوں سرلونیاں میں صرف دو ہی احمدی تھے جو تمام دن مصروف تبلیغ رہے۔ ایک معزز ہندو نے اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کو میں تسلیم کرتا ہوں۔ اڑیسہ زبان کا ایک ٹریکٹ بھی تقسیم کیا گیا۔
بھیرہ کی ہندوئوں کی آبادی میں اس روز چھ کامیاب لیکچرز دیئے گئے۔ ایک مسلمان نے شرارت کرنا چاہی مگر خود ہندوئوں نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔
میرٹھ کے لال کرتی بازار میں صرف ایک ہی احمدی تھا۔ جس نے آریہ سماج مندر اور سناتن دھرم مندر پر تبلیغی پوسٹر وغیرہ لگا دیئے اور غیر مسلموں کے مکانوں اور دکانوں پر جاکر تبلیغ اسلام کی۔
لاہور میں >عشرہ کاملہ< اور >احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ< کے ممبروں نے قریباً چار ہزار )اردو( ٹریکٹ تقسیم کئے اور ایک خوبصورت ٹریکٹ انگریزی میں بھی شائع کیا اور قریباً آٹھ ہزار غیر مسلموں تک خدا کا کلام پہنچایا گیا- اس موقعہ کے لئے چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ اور موزوں سائز پر ایک دو ورقہ شائع کرکے غیر مسلموں میں تقسیم کرایا۔۳۰
ان شہروں کے علاوہ کا ذکر بطور نمونہ یہاں کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے ہر ایسے مقام پر جہاں احمدی موجود تھے وہاں یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ اور جماعت احمدیہ کی بدولت ملک کے ہر غیر مسلم طبقے تک اسلام کی آواز پہنچی اور ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے تاثرات
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کامیاب کوشش کا تذکرہ کرتے ہوئے ۱۰/ مارچ ۱۹۳۳ء کو فرمایا۔
>اس ہفتہ میں ہمارے دوسرے یوم التبلیغ کی تاریخ تھی اور جو رپورٹیں باہر سے آئی ہیں اور جو کام اس جگہ ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کچھ برکت کے سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا کی اصلاح کی بہت کچھ امید کی جاسکتی ہے<۔۳۱
>ہمارا یہ یوم التبلیغ کیا تھا وہ جری اللہ فی حلل الانبیاء کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس ذریعہ سے جتنے لوگوں کو ہم اسلام میں داخل کریں گے۔ اتنے ہی زیادہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ ابھی مجھے ساری رپورٹیں نہیں ملیں۔ مگر جو ملی ہیں وہ بہت خوشکن ہیں۔ غیر احمدیوں نے ہماری مخالفت کی اور مقابلے پر آمادہ ہو گئے مگر ہندوئوں نے جس محبت اور شرافت سے باتیں سنیں اور جس روح کا اظہار کیا اس کا دسواں حصہ بھی مسلمانوں نے اس موقعہ پر نیز پچھلے یوم تبلیغ کے موقع پر نہیں کیا تھا سوائے شاذ کے ہر جگہ ہندوئوں نے احمدیوں کا تپاک کے ساتھ استقبال کیا خوشی کے ساتھ بٹھایا اور محبت کے ساتھ باتیں سنیں۔ قادیان کے ایک دوست جو تبلیغ کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سنایا کہ انہوں نے ایک ہندو نے جو موٹر میں بیٹھے تھے اپنے ساتھ بٹھا لیا کہ اپنی باتیں سنائو اور ساتھ لے جا کر ان کی باتیںں سنتے رہے۔ پھر قادیان کے قریب آکر انہیں اتار دیا۔ امرتسر میں ہمارے دوست ایک سکھ عالم کے پاس گئے تو انہوں نے نہایت تکریم کے ساتھ بٹھایا اور اس امر پر افسوس کیا کہ آپ تبلیغ تو ہم لوگوں کو کرتے ہیں۔ اور ان مولویوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ آپ کو خواہ مخواہ مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اسلام کا سخت مخالف تھا اور رسول کریم ~)صل۱(~ کو ڈاکو سمجھتا تھا مگر مرزا صاحبؑ کی کتب کے مطالعہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں سخت غلطی پر تھا اور اس دن سے میں آپؑ کی بہت عزت کرتا ہوں خدا جانے ان مولویوں کو کیا ہو گیا اور یہ آپ لوگوں کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میرے دل میں اگر اسلام کی عزت ہے تو محض مرزا صاحب کے طفیل ہے اس میں شبہ نہیں کہ غیر احمدیوں میں بھی مخالفت کرنے والے بہت محدود ہیں اور عام تعلیم یافتہ طبقہ جیسا کہ اخبارات وغیرہ سے پتہ لگتا ہے ان کی اس حرکت کو برا سمجھتا ہے اور یہ خوشکن تبدیلی ہے مگر ہندوئوں کی بیداری مسلمانوں سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ بعض جگہ مسلمانوں نے ہمارے دوستوں کو گالیاں دیں اور کہا کہ یہاں سے نکل جائو۔ لیکن ہندوئوں نے ان کو بدزبانی سے روکا اور کہا یہ تو ہمیں تبلیغ کرتے ہیں تم کیوں منع کرتے ہو۔ پھر ان کو بٹھایا اور ان کی باتیں سنیں لیکن غیر احمدیوں نے بعض جگہ احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں پر جاکر سیاپے کئے۔ گالیاں دیں اور یہ نہ سوچا کہ ان باتوں سے بھلا کیا بنتا ہے یہ تو جھوٹے اور شکست خوردہ ہونے کی علامات ہیں جب کوئی شکست کھاتا ہے تو گالیوں پر اتر آتا ہے لیکن جو غالب ہوتا ہے وہ گالی نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک تھپڑ مار کے مخالف کے دانت باہر نکال دوں گا ۔۔۔۔۔۔ بہرحال ان دونوں ایام التبلیغ سے ہمیں علم ہو گیا ہے کہ دنیا میں شریف انسانوں کی کمی نہیں پہلے یوم التبلیغ پر یہ معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں میں شرفاء کی کمی نہیں اور دوسرے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ ہندوئوں میں ذاتی شرافت رکھنے والے لوگ مسلمانوں سے بھی زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ اگر ہماری تبلیغی مساعی جاری رہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا الہام جری اللہ فی حلل الانبیاء اپنے مادی رنگ میں بھی بہت جلد پورا ہو جائے گا یعنی ہر مذہب کے لوگ سلسلہ میں داخل ہو جائیں گے۔
‏tav.7.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے لئے صرف تبلیغ کی ضرورت نہیں اس کے لئے صرف ایک دن کی تبلیغ کافی نہیں بلکہ مستقل تبلیغ اور ساتھ ہی دعائوں کی ضرورت ہے<۔۳۲
تحریک مصالحت اور اس کا اثر
تبلیغی نظام چونکہ جماعت مومنین کے باہمی اتفاق و اتحاد اور جذبہ اخوت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حضورؓ نے تبلیغ پرزور دینے کے ساتھ ۸/ جنوری کے خطبہ جمعہ ہی میں جماعت سے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم اس نئے سال کو اس غرض کے لئے وقف کر دیں کہ جماعت سے تمام لڑائیاں جھگڑے تفرقے اور عناد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مٹا دیں۔ اس سلسلہ میں احباب جماعت کو یہ خاص ہدایت بھی فرمائی کہ جو شخص اپنے دوسرے بھائی سے کسی وجہ سے نہیں بولتا۔ یا اس سے عداوت اور بغض رکھتا ہے وہ فوراً اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس سے خلوص دل کے ساتھ صلح کرلے اور آئندہ کے لئے کوشش کرے کہ آپس میں کوئی لڑائی اور جھگڑا نہ ہو۔۳۳
حضرت امیر المومنین کے اس خطبہ کا جماعت پر حیرت انگیز اثر ہوا اور جماعت کے دوستوں نے اپنی رنجشوں اور کدورتوں کو حضور کے اشارہ پر چھوڑ دیا۔ حتیٰ کہ لوگوں نے مالی نقصان گوارا کرکے خطبہ سنتے یا پڑھتے ہی صلح کر لی۔ مستثنیات تو ہر معاملہ میں چلتی ہیں۔ تاہم شاذ و نادر ہی کوئی ایک شخص ہوگا جو اس سعادت سے بکلی محروم رہا ہو۔۳۴
امیر المومنینؓ کی قیمتی نصیحت
جماعت میں صلح و آشتی کا یہ خوشکن نظارہ دیکھ کر حضورؓ نے ۲۹/ جنوری ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ مگر ساتھ ہی نصیحت فرمائی۔
>میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ لوگ اپنے دلوں کو دوسروں کی نسبت صاف کر لیں اور خواہ وہ مظلوم ہی کیوں نہ ہوں صلح کر لیں۔ میری یہ نصیحت نامکمل رہے گی اور فتنوں کا سدباب پوری طرح نہیں ہو گا جب تک میں اس کا دوسرا حصہ بھی بیان نہ کروں اور وہ یہ ہے کہ نہ صرف دوسروں کے متعلق ہر قسم کی کدورت سے اپنے دلوں کو صاف کرو بلکہ اس امر کو بھی مدنظر رکھو کہ کسی مظلوم کا معافی مانگ لینا ایسی بات نہیں جو تمہارے لئے خوشی کا موجب ہو سکے بلکہ خوشی صرف اسی کے لئے ہے جس نے معافی مانگی اور تمہیں خوشی اس وقت حاصل ہو گی جب تم اپنے خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اگر دوسروں کے حقوق کو تم نے غضب کیا ہوا ہے تو وہ حقوق ادا کر دو۔ اور اگر تم پر کسی کا مالی یا جانی یا اخلاقاً حق ہے تو وہ اسے دے دو۔ ورنہ اگر تم دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے تو خواہ دوسرا شخص تم سے ہزار معافی مانگے اس کا درجہ تو بڑھتا جائے گا لیکن تمہارا جرم اور گناہ بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا جائے گا کیونکہ وہ شخص میرے کہنے پر تمہارے پاس گیا۔ اور اس نے مظلوم ہونے کے باوجود تم سے معافی مانگی۔ مگر تم نے باوجود ظالم ہونے کے اور باوجود اس کے معافی مانگ لینے کے اس کے حقوق کی ادائیگی کا خیال نہ کیا۔ اور تم نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ وہ نیچا ہو گیا پس اپنے نفوس کو اس غرور میں مبتلا نہ ہونے دو کہ ہم نے دوسرے کو نیچا دکھا دیا کیونکہ وہ معافی مانگ کر نیچا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اونچا ہو گیا۔ کیونکہ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور خلیفہ وقت کی بات مانی مگر تم جو اس وقت اپنے آپ کو اونچا سمجھ رہے ہو دراصل نیچے گر گئے جس طرح انسان جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکتا ہے اتنا ہی اس کا درجہ بلند ہوتا ہے۔ حتیٰ کی حدیثوں میں آتا ہے جو شخص خدا کے لئے نیچے جھکتا ہے۔ خدا اس کو اوپر اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان پر لے جاتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے بھائی سے معافی مانگتا ہے وہ نیچے نہیں گرتا بلکہ اس کا درجہ بلند ہوتا اور خدا کے حضور بہت بلند ہو جاتا ہے<۔۳۵
دوبارہ تحریک اور زبردست انتباہ
کچھ عرصہ بعد جبکہ جماعتی مخالفت زوروں پر تھی جماعت کے ایک طبقہ میں اندرونی مناقشات نے پھر سر اٹھایا۔ اور اس تحریک کے اثرات زائل ہوتے نظر آئے تو مقدس امامؓ نے ۲۶/ مئی ۱۹۳۵ء کو پھر توجہ دلائی کہ۔
>کوئی احمق ہی اس وقت اپنے بھائی سے لڑ سکتا ہے۔ جب کوئی دشمن اس کے گھر پر حملہ آور ہو ایسے نازک وقت میں اپنے بھائی کی گردن پکڑنے والا یا تو پاگل ہو سکتا ہے یا منافق۔ ایسے شخص کے متعلق کسی مزید غور کی ضرورت نہیں وہ یقیناً یا تو پاگل ہے اور یا منافق اس لئے آج چھ ماہ کے بعد میں پھر ان لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو۔ کہتا ہوں کہ وہ توبہ کریں توبہ کریں۔ ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے منہ کی احمدیت انہیں ہرگز ہرگز نہیں بچا سکے گی۔ ایسے لوگ خدا کے دشمن ہیں۔ رسولﷺ~ کے دشمن ہیں۔ قرآن کے دشمن ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمن ہیں۔ ایسے لوگ خون آلود گندے چیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیئے جانے کے قابل ہیں۔ اس لئے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لئے صلح کرلے اور پھر کبھی بھی نہ لڑے<۔۳۶
قادیان میں یوم سرحد
صوبہ سرحد کے سرخ پوش مسلمانوں پر حکومت کی سخت گیر پالیسی اور تشدد نے ایک قیامت سی بپا کر دی تھی اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کے طور پر )آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی کے فیصلہ کے مطابق( ۵/ فروری ۱۹۳۲ء کو ملک کے دوسرے شہروں کی طرح قادیان میں بھی یوم سرحد کے سلسلہ میں ایک عام جلسہ منعقد کیا گیا اور مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرنے اور حکومت سے اس کا ازالہ کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر پاس کی گئی۔۳۷
جلسہ سے قبل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی خطبہ جمعہ میں مظالم سرحد کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ >صوبہ سرحد میں معلوم ہوا ہے کہ بعض افسروں نے بہت زیادتیاں کی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے خیال کے مطابق سرخ پوش تحریک جائز نہیں مگر پھر بھی وہاں کے مظلوموں کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ ان حالات کا علم ہونے کے بعد حکومت ان کے ازالہ کی کوشش کرے گی اور ہر وہ مسلمان جو ان کی کسی نہ کسی طرح مدد کر سکتا ہو اس سے دریغ نہ کرے گا۔ میں اپنے سرحدی بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ایسی حرکات نہ کریں جن سے امن میں خلل واقع ہو اس وقت وہاں ریفارم سکیم نافذ کی جاری ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس وقت وہاں پرامن فضا کی ضرورت ہے<۔۳۸
فیصلہ متعلق امیر جماعت احمدیہ بنگال
حضرت چودھری ابوالہاشم خاں صاحبؓ جنرل سیکرٹری صوبہ بنگال نے امیر سے اختلاف کی بناء پر اپنے کام سے استعفاء دے دیا تھا جس پر حضورؓ نے صوبہ بنگال کے دوستوں سے مشورہ کیا اور دریافت فرمایا کہ مرکز کہاں ہو۔ اور بنگال کا امیر کیسے مقرر کیا جائے؟ جوابات سے معلوم ہوا کہ اہل بنگال پر ابھی منصب امارت کی حقیقت پوری طرح واضح نہیں لہذا حضور نے ایک مفصل مضمون لکھا جس میں بڑی وضاحت سے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریرات اور ہدایات کے مطابق ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کا مالی کام براہ راست ایک شخص کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ حضرت اقدس ایک انجمن کے ذریعہ سے ایک ایگزیکٹو باڈی BODY) text](EXCUTIVE ¶[tag کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں جو آپ کے نزدیک تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کے لئے نقطہ مرکزی ہے اور جس کا ابدی مرکز قادیان ہے دوسری طرف حضور اس جماعت کی ترقی خلافت سے وابستگی کے ساتھ مشروط رکھتے ہیں۔ تیسری طرف اسلام سے ثابت ہے کہ کوئی خلافت بغیر مشورہ کے نہیں چل سکتی۔ ان تینوں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک ہی نظام ہے جو صوبہ جات میں قائم کیا جا سکتا ہے اور ایسا نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک امیر ہو جو خلیفہ وقت کا نائب ہو۔
غرض حضورؓ نے ثابت کیا کہ بہترین نظام امارت کا نظام ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے مقامی انتظام اور مرکز کی ضرورتیں دونوں پوری ہوتی رہتی ہیں۔ مگر امیر کے لئے ہرگز یہ شرط نہیں کہ اسی ملک کا باشندہ ہو اسلام کے شروع زمانہ میں نوے فیصدی امراء مرکز کسے نامزد ہوتے تھے اور اب بھی ضرورت پر ایسا کیا جا سکتا ہے امیر پبلک کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہے اس لئے خواہ لوگ کتنا بھی اصرار کریں یہ عہدہ درحقیقت خلیفہ وقت کا اعتماد رکھنے والے شخص کو مل سکتا ہے اور اس میں یہی حکمت ہے کہ اسلامی نظام اتحاد عالم پر مبنی ہے نہ کہ قومیت پر۔
نظام امارت پر روشنی ڈالنے کے بعد حضور نے تحریر فرمایا۔
>احمدی یاد رکھیں یہ اصول ہیں جن پر سلسلہ کا آئندہ نظام چلایا جائے گا۔ اور سب صوبوں اور ملکوں کے احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے تاکہ وہ دھوکہ نہ کھائیں اور انہیں کوئی دوسرا شخص دھوکا نہ دے سکے<۔۳۹
جہاں تک امارت بنگال کا تعلق تھا حضور نے فیصلہ فرمایاکہ >حکیم ابوطاہر صاحب جنہوں نے اپنے گزشتہ رویہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امارت کے منصب کو خوب سمجھتے ہیں انہیں علاوہ کلکتہ کا مقامی امیر ہونے کے تمام بنگال کا بھی امیر مقرر کرتا ہوں چونکہ صوبہ کے کام کیلئے وہ صرف کلکتہ کے احباب کے مشورہ پر انحصار نہیں کرسکتے اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ امیر صوبہ کی ایک مجلس شوریٰ ہو جس میں صوبہ کے تمام مقامی امراء شامل ہوں اور علاوہ اس کے مبلغین سلسلہ بھی اس کے ممبر ہوں۔ علاوہ ان کے اگر کسی شخص کو خاص طور پر مرکز کی طرف سے اس غرض کیلئے چنا جائے یا صوبہ کی انجمنیں اپنے سالانہ اجتماع میں بعض لوگوں کو خاص طور پر اس کام کیلئے تجویز کریں تو ان لوگوں کو بھی اس مجلس کا ممبر سمجھا جائے۔ سردست علاوہ امراء اور مبلغین کے چودھری ابوالہاشم خان صاحب` مولوی مبارک علی صاحب اور پروفیسر عبدالقادر صاحب کو اس مجلس کا ممبر مقرر کرتا ہوں<۔۴۰
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے سفر )۱۹۳۲ء میں(
اس سال حضورؓ نے لاہور` دہلی` ڈیرہ دون` راولپنڈی` شملہ اور ڈلہوزی کے سفر اختیار کئے۔
سفر لاہور: ۱۳/ فروری` ۹/ مارچ` ۹/ مئی اور ۵/ جولائی ۱۹۳۲ء کی تاریخوں میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے لاہور میں اجلاس منعقد ہوئے۔ حضور نے لاہور جاکر ان سب اجلاسوں کی صدارت فرمائی۔ علاوہ ازیں آپ مسلمانوں کے مفاد سے متعلق ایک اہم مشورہ کے لئے ۲۹/ جنوری ۱۹۳۲ء کو بھی تشریف لے گئے۔ ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کو سردار سکندر حیات خاں قائم مقام گورنر پنجاب کو دی جانے والی پارٹی میں شمولیت کے لئے بھی لاہور جانا پڑا۔۴۱
سفر دہلی: ۲ و ۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کو دہلی میں کشمیر کمیٹی کے اجلاس تھے۔ جن میں شمولیت کے لئے حضور یکم مارچ کو دہلی تشریف لے گئے۔۴۲ اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پرانا وائسرائیگل لاج میں قیام فرمایا۔۴۳ یہاں حضور نے کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء کو )رتالکوٹورہ پارک میں( خان صاحب منشی برکت علی خان صاحبؓ مرحوم کے اعزاز میں دی جانے والی جماعت احمدیہ دہلی و شملہ کی مشترکہ الوداعی پارٹی میں تقریر فرمائی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے خان صاحب کو جماعت شملہ کی طرف سے قرآن پاک کا ایک نسخہ بطور تحفہ عطا فرمایا۔ اس تقریب پر حضور کی معیت میں مجمع کا فوٹو بھی لیا گیا جو اس کتاب میں موجود اور اس سفر کی یادگار ہے۔]01 [p۴۴ چند روزہ قیام کے بعد حضور ۱۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کو دہلی سے قادیان پہنچ گئے۔۴۵
سفر ڈیرہ دون: یکم مئی ۱۹۳۲ء کو حضور تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے )مع حرم اول حضرت سیدہ ام ناصرؓ اور صاحبزادگان( ڈیرہ دون تشریف لے گئے۔۴۶ اور قریباً ایک ہفتہ تشریف فرما ہونے کے بعد ڈیرہ دون سے لاہور آئے اور کشمیر کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کے فرائض انجام دینے کے بعد ۱۲/ مئی ۱۹۳۲ء کو وارد قادیان ہوئے۔10] p[۴۷ ڈیرہ دون میں قیام کے دوران ۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو شہر کے بعض رئوسا` مسلم تنظیم کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری حضور کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے دیر تک گفتگو ہوتی رہی جس کا اکثر و بیشتر حصہ تحریک کشمیر ہی سے متعلق تھا۔۴۸
سفر راولپنڈی: سیدناؓ ۲۰/ جون ۱۹۳۲ء کو آنکھوں کا معائنہ کرانے کے لئے راولپنڈی تشریف لے گئے۔۴۹ اور ۴/ جولائی کی صبح کو واپس لاہور پہنچے۔۵۰]ydob [tag اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ای۔ اے۔ سی کی کوٹھی پر مقیم ہوئے۔ قیام لاہور کے عرصہ میں حضور بہت مصروف رہے۔ ایک دفعہ رات کے ۲ بجے تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء کی شام کو واپس قادیان میں تشریف لے آئے۔۵۱
سفر ڈلہوزی و شملہ ۹/ جولائی ۱۹۳۲ء کو حضور ڈلہوزی کے لئے روانہ ہوئے۔۵۲ جہاں سے ۱۴/ جولائی کو قادیان آگئے اور اسی دن عازم شملہ ہوئے۔۵۳ ۱۸/ جولائی کو شملہ سے واپس آکر آپ ۲۰/ جولائی کو دوبارہ ڈلہوزی تشریف لے گئے۔۵۴ اور ۱۸/ اگست ۱۹۳۲ء کو قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۵۵
رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان
۲۲/ فروری ۱۹۳۲ء سے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی ایک سب کمیٹی وائسرائے ہند کی صدارت میں جاری تھی جس میں فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیہ اور اساسی حقوق اور برطانوی ہند اور ریاستوں کی مذہبی آزادی سے متعلق اہم امور زیر غور تھے اس موقعہ پر مسلمانان ہند دو حصوں میں بٹ گئے۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ کا خیال تھا کہ جب تک ہمارے حقوق کا فیصلہ نہیں ہوتا ہمیں اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے دوسرا گروہ کمیٹی کا پرجوش حامی تھا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے >رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان< کے عنوان سے ایک مفصل و مدلل مضمون میں مسلمانوں کو رائے دی کہ۔
>میں ان دونوں گروہوں کو نیک نیت اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتا ہوں لیکن میرے نزدیک یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں اور اس نازک موقعہ پر ہمیں اس سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ جس قدر کہ اس وقت مسلمان کر رہے ہیں۔
ہمیں اس امر کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی تاریخ قریب میں مسلمانوں کے حقوق طے کرنے کا موقعہ دوبارہ نہیں آئے گا اور یہ کہ اگر ہم آج غلطی کر بیٹھے تو ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اور گو ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کو تیار ہوں۔ ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنی اولادوں کو قربان کرکے غلامی کے طوقوں میں جکڑ دیں۔ یقیناً اس سے زیادہ بدقسمت انسان ملنا مشکل ہو گا جس کی اپنی اولاد یا جس کے آباء کی اولاد اس پر *** کرے اور اسے اپنی ذلت کا موجب قرار دے۔
مسلمانان ہند کے حقوق کی اہمیت: ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال دوچار ہزار آدمیوں کا سوال نہیں بلکہ آٹھ نو کروڑ آدمیوں کا سوال ہے اور پھر ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال نہیں بلکہ کل دنیا کے مسلمانوں کا سوال ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کے مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ بیداری ہندوستان کے مسلمانوں میں ہی ہے اور ان کی موت سے عالم اسلام کی سیاسی موت اور ان کی زندگی سے عالم اسلام کی سیاسی زندگی وابستہ ہے۔ کیا اس قدر عظیم الشان ذمہ داری کی طرف سے ہم لاپرواہی کر سکتے ہیں۔ اسلام تو کیا اگر ہم میں انسانیت کا ایک خفیف سا اثر بھی باقی ہے تو ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
صحیح طریق عمل: اس تمہید کے بعد میں اپنا خیال ظاہر کرتا ہوں۔ میرے نزدیک ہمیں ہر اک مخالفت پر بائیکاٹ کا حربہ نہیں اختیار کرنا چاہئے کیونکہ بائیکاٹ جب کہ صرف تبادلہ خیال تک محدود ہو۔ صرف ذہنی نشوونما کو روکنے کا ہی موجب ہوتا ہے اس سے زیادہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک صحیح طریق عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے مقصود کے حصول کو تواصل قرار دیں اور جائز ذرائع کو فرع۔ پس جو جائز ذریعہ ہمیں حاصل ہو ہم اسے استعمال کر لیں اور ذریعہ کو مقصد کا قائم مقام بنا کر اپنی سب توجہ اس کی طرف نہ لگا دیں۔ ایک وکیل اگر دیکھے کہ اس کے موکل کو اس کے نقطہ نگاہ کے سوا اور کوئی نقطہ نگاہ فائدہ پہنچا سکتا ہے تو اسے اس کے اختیار کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہئے۔ پس ہمیں اس امر پر زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے کہ ہم نے کون سا ذریعہ حصول مراد کے لئے آج سے پہلے پسند کیا تھا بلکہ اس پر بحث کرنی چاہئے کہ ہمارے مدعا کے حاصل کرنے کے لئے کونسا ذریعہ مفید ہو سکتا ہے۔ اور کسی جائز راستہ کو اپنے لئے بند نہیں کرنا چاہئے۔ اس اصل کو تسلیم کرتے ہوئے اگر رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں کی شرکت ہمارے لئے مفید ہو تو ہمیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے اور اگر مضر ہو تو حتی الوسع ہمیں اس سے بچنا چاہئے<۔۵۶
مسلم اخبار >انقلاب< )لاہور( کی ضمانت اور گورنر پنجاب کے نام مکتوب
فروری ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے کہ حکومت پنجاب نے پریس آرڈنینس کے تحت >انقلاب< اور اس کے پریس سے اڑھائی اڑھائی ہزار کی
ضمانتیں طلب کیں۔ اور وجہ یہ بتائی کہ کشمیر کے متعلق بعض غیر صحیح واقعات شائع کئے گئے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ہندو اخبار >ملاپ< اور اس کے پریس سے تین تین ہزار کی اور اخبار >کیسری< اور اس کے پریس سے دو دو ہزار کی ضمانتیں طلب کیں۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے دہلی میں فروکش تھے کہ اخبارات سے اس خبر کا علم ہوا۔ ہندوستان کا مسلم پریس پہلے ہی ہندوئوں کے مقابل کمزور تھا اور بعض اخبار محض مشکلات کی تاب نہ لاکر بند ہو چکے تھے اس صورت حال سے حضور از حد مشوش ہوئے اور آپؓ نے دہلی ہی سے گورنر پنجاب کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔
>جناب من! میں آج ایک ایسے امر کے متعلق جناب کو توجہ دلانی چاہتا ہوں جو گو قانون کے محدود دائرہ میں تو درست ہے لیکن مصلحت وقت اور حکومت کے فوائد کے بالکل برخلاف ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جناب کا سا دور اندیش رئیس صوبہ ضرور نظر ثانی فرما کر اس کا تدارک کرے گا۔
وہ امر یہ ہے کہ حکومت نے >انقلاب< کی اور اس کے پریس کی اڑھائی اڑھائی ہزار کی ضمانت طلب کی ہے چونکہ پریس بھی مالکان >انقلاب< کا ہے اس لئے گویا پانچ ہزار روپیہ کی ضمانت طلب کی گئی ہے۔ جناب اس امر سے یقیناً واقف ہوں گے کہ ہندوستانی پریس خصوصاً اسلامی پریس سرمایہ کے لحاظ سے بہت گری ہوئی حالت میں ہے اور کئی ایسے اخبار ہیں کہ جن کا کل سرمایہ بھی پانچ ہزار نہیں اس صورت میں یہ ضمانت اخبار کے بند کر دینے کے مترادف ہے۔
جناب سے یہ امر بھی مخفی نہ ہو گا کہ >انقلاب< نے کانگریس کا مقابلہ کرنے میں اس قدر کام کیا ہے جو اپنے اثر کے لحاظ سے نہایت شاندار اور قابل قدر ہے۔ >انقلاب< ہی تھا جس کے مضامین کی وجہ سے مسلمانوں کا نوجوان طبقہ کانگریس سے الگ رہا اور یہ خدمت اس قابل تھی کہ حکومت اسے شکریہ کی نگاہ سے دیکھتی۔ لیکن قدر کے سوال کو الگ بھی کر دیا جائے تو اس ضمانت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اخبار بند کر دیا جائے گا اور ہزاہا مسلمان نوجوان اپنی سیاسی ضرورتوں کے لئے ہندو اخبار خریدنے پر مجبور ہوں گے اور چند ماہ میں ایک ایسی مکدر فضا پیدا ہو جائے گی جس کا سنبھالنا بہت سا خرچ اور وقت چاہے گا۔ یہ خیال کرنا کہ مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ اخبار پڑھنا بند کر دے گا خلاف عقل ہے وہ اخبار ضرور پڑھے گا۔ اور >انقلاب< کے بند ہونے کی صورت میں ہندو اخبارات جو کانگریسی پراپیگنڈا سے پر ہیں پڑھے گا۔ پس یہ ضمانت خود حکومت کے خلاف اثر پیدا کر دے گی۔
یہ امر بھی سوچنے کے قابل ہے کہ >احرار< بھی بند ہو گیا ہے >زمیندار< بھی نازک حالت میں ہے یہ اخبار خواہ کیسے بھی ہوں اسلامی اخبار کہلاتے تھے اگر >انقلاب< بھی بند ہو گیا تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ حکومت اسلامی پریس کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ یہ خیال خواہ صداقت سے کتنا بھی دور ہو پیدا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اس وقت روکنا حکومت کے لئے نہایت ضروری ہے۔
گو میں نے وہ مضمون نہیں دیکھا جس کی بناء پر انقلاب سے ضمانت لی گئی ہے لیکن میں اس امر کو فرض کرتے ہوئے کہ وہ مضمون نہایت سخت تھا سمجھتا ہوں کہ جبکہ حکومت کے تسلیم کردہ بیانات کے مطابق یہ امر ثابت ہے کہ ہندو پریس نے بھی سخت جھوٹی اور اشتعال انگیز خبریں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی ہیں اس قابل ضرور ہے کہ اس کے خلاف یکدم انتہائی کارروائی نہ کی جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ جناب مذکورہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور خصوصاً احرار کی نئی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو وہ برطانوی حکومت کے خلاف شروع کرنے والے ہیں۔ اس فیصلہ پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ میرے نزدیک تو اخبار کی یہ معذرت کہ افسوس ہے اس نے ایک غیر مصدقہ خبر شائع کر دی کافی ہونی چاہئے لیکن اگر ضمانت بھی ضروری سمجھی جائے تو پانچ سو روپیہ کی ضمانت موجودہ حالات میں بہت ہے۔
میں اس وقت کشمیر کے قضیہ ہی کے متعلق دہلی آیا ہوا ہوں۔ ہز ایکسی لینسی دی وائسرائے کی مہربانی سے امید کی جاتی ہے کہ کوئی امن کی صورت جلد پیدا ہو جائے اس صورت میں یہ قضیہ بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔ اور وہ غیر ضروری پریشانی جو پنجاب کو ملحق صوبہ ہونے کی وجہ سے اٹھانی پڑی دور ہو جائے گی<۔
قادیان میں مکان بنانے کی تحریک اور محلہ دار الانوار کی بنیاد
احمدیت کی ترقی کے آثار کے ساتھ جماعتی مشکلات بھی بڑھ رہی تھیں جن کا مقابلہ کرنے کے لئے قادیان کی ترقی و توسیع کی طرف
توجہ کرنا ضروری تھا کیونکہ قادیان جماعت احمدیہ کا مرکز تھا اور اس پر دشمن کی نظر تھی۔ بناء بریں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۱ء پر جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ قادیان میں مکان بنائیں تا قادیان کو وسعت حاصل ہو اور اس مقام کی ظاہری عظمت بھی قائم ہو۔ نیز بتایا کہ اس کے لئے میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے اور خطوط کے ذریعہ شائع کی گئی ہے جو یہ ہے کہ ایک حصہ پچیس روپے ماہوار کا رکھا گیا ہے کل حصے ایک سو بیس رکھے گئے ہیں ایک شخص ایک یا زیادہ حصے لے سکتا ہے اس طرح جو روپیہ جمع ہو وہ قرعہ ڈال کر ہر مہینے میں ایک دوست کو دے دیا جائے جو مکان بنا لے اس طرح ایک سو بیس حصوں کے مکان نئے اور اچھے بن جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ پہلے ڈیڑھ سال تک کوئی قرعہ نہیں ڈالا جائے گا تاکہ اس طرح جو رقم جمع ہو اس سے زمین خرید لی جائے اس کے بعد ہر مہینے قرعہ ڈالا جائے گا اور جس کے نام نکلے گا اس سے یہ شرط ہو گی کہ روپیہ مکان بنانے پر ہی خرچ کیا جائے<۔۵۷
دارالحمد کی تاسیس
حضور کی اس تحریک پر متعدد مخلصین جماعت۵۸ نے لبیک کہا اور اس سکیم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی پوری کرنے کے لئے قادیان کی پرانی آبادی کے مشرق کی طرف ایک نیا محلہ >دارالانوار< کے نام سے آباد کیا گیا۔ جس کی بنیاد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۴/ اپریل ۱۹۳۲ء کو رکھی۔۵۹text] gat[ اور ۲۵/ اپریل ۱۹۳۲ء کو اپنی کوٹھی >دارالحمد< کی بنیادی اینٹ رکھی جو اس نئے محلہ کی پہلی عمارت تھی۔ حضورؓ نے اس روز صبح آٹھ بجے کے قریب اس محلہ کی طرف تشریف لے جاتے ہوئے پہلے مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال کے مکان کی بنیاد رکھی اور مجمع سمیت دعا کی بعد ازاں اپنے تجویز کردہ مقام پر جاکر پہلے جنوب کی طرف پانچ اینٹیں بطور بنیاد رکھیں۔ پھر شمال مغرب کی طرف ایک اینٹ خود رکھی اور چار اینٹیں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ` حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ` حضرت سید ناصر شاہ صاحبؓ اور حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ سے علی الترتیب رکھوائیں۔ اسی طرح شمال مشرق کی جانب ایک اینٹ خود رکھی اور چار حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ` حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ` حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ سے رکھوائیں۔ پھر دعا کی اس جگہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر دارالانوار کمیٹی کے سیکرٹری حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے کی کوٹھی بننے والی تھی۔ حضور نے اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور دعا کی۔ واپسی کے بعد ۹ بجے کے قریب صدر انجمن احمدیہ کے نئے دفاتر کا افتتاح فرمایا جو مسجد اقصیٰ سے متصل عمارت میں چند روز ہوئے منتقل ہوئے تھے۔۶۰ دارالحمد کی عمارت دسمبر ۱۹۳۲ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۶۱ اور ۱۵/ جنوری ۱۹۳۳ء کو حضور نے بطور افتتاح ایک سو روپیہ غرباء میں پارچات تقسیم کرنے کے لئے عطا فرمایا۶۲ نیز ۲۹/ جنوری ۱۹۳۳ء کو حضور کی طرف سے وسیع پیمانہ پر ایک دعوت اس نئی کوٹھی میں دی گئی جس میں قریباً آٹھ سو افراد )مردوزن( شامل ہوئے۔۶۳ علاوہ ازیں حضور نے ۲۷/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو احباب جلسہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہ اس نئے مکان کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
>میں نے قرض لے کر ایک مکان بنوایا ہے کیونکہ اب ہمارے گھر میں اتنی تنگی ہے کہ ایک ایک کمرہ میں جیل کی اتنی جگہ کے مقابلہ میں دوگنے افراد رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے مکان بنوانے سے ہمیشہ ڈر آتا ہے جو مکان بنوایا گیا ہے اس کے متعلق بھی میرے دل پر بوجھ ہے اس لئے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ دعا کریں خدا تعالیٰ اس مکان کو بابرکت کرے۔ میں تو اس میں رہنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا میرے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مکان ہی بہترین ہے مگر جو اس میں جاکر رہے اس کے لئے دعا کی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات سے اسے حصہ ملے<۔۶۴
غرضکہ تضرعانہ دعائوں کے ساتھ دارالانوار کی بناء پڑی اور دراصل انہیں دعائوں کا اثر تھا کہ چند سالوں کے اندر اندر قادیان کا یہ مشرقی علاقہ آباد ہو گیا اور ہر طرف خوبصورت اور عالی شان عمارتیں بن گئیں۔۶۵body] gat[
بعض دوسری مقدس عمارتیں
حضرت ام المومنینؓ کی کوٹھی >بیت النصرت< )جو حضرت ام المومنینؓ نے کمال مادرانہ شفقت سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ کو تحفت¶ہ دے کر دلی محبت کے اظہار سے ان کی عزت افزائی فرمائی( اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی >بیت الظفر< جن کی بنیاد حضرت امیر المومنینؓ کے دست مبارک سے بالترتیب ۲۳/ فروری ۱۹۳۳ء۶۶ اور ۱۲/ اپریل ۱۹۳۴ء کو رکھی گئی اسی محلہ میں تعمیر ہوئیں۔ اسی طرح گیسٹ ہائوس اور دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ بھی یہی بنے۔
جماعت احمدیہ کی شاندار مالی قربانی
۳۱۔ ۱۹۳۲ء کا مالی سال جماعت احمدیہ کے لئے بڑی تنگی کا سال تھا جس میں قریباً اڑتالیس ہزار قرض تھا جو اکتوبر ۱۹۳۱ء میں بہتر ہزار کے قریب جاپہنچا اس کے علاوہ کچھ اور قرضے بھی تھے جس پر حضور نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ ایسی کوشش کی جائے کہ پچھلا قرضہ بے باق ہو جائے۔ چنانچہ جماعت نے تین ماہ کے اندر اندر چندہ خاص کے سمیت قریباً پونے دو لاکھ روپیہ اپنے مقدس آقا کے حضور پیش کر دیئے جس پر سیدناؓ نے ۱۳/ مئی ۱۹۳۲ء کو اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے اظہار اور تحدیث نعمت کے طور پر یہ اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ جبکہ پچھلے مالی سال کے شروع میں ۴۸۰۰۰ کے بلوں کے علاوہ اور بھی قرض تھا۔ یہ سال جب ختم ہوا تو بجائے قرضہ کے قریباً ڈیڑھ ہزار انجمن کے خزانہ میں جمع تھا گویا جماعت نے پونے دو لاکھ کی رقم جمع کرنی تھی اور ایسی حالت میں جمع کرنی تھی کہ بیشتر حصہ مالی لحاظ سے مفلوج ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ بڑی بڑی حکومتیں قرضے لینے پر مجبور ہو رہی تھیں<۔۶۷
کارکنان سلسلہ کے نئے دور کا افتتاح
حضرت میرزا محمد اشرف صاحبؓ بلانوی یکم جنوری ۱۹۰۷ء سے صدر انجمن احمدیہ قادیان سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء تک آڈیٹر اور ۱۹۲۲ء سے ریٹائرڈ ہونے تک محاسب کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران میں آپ نے حسابی معاملات میں غیر معمولی مہارت سے صدر انجمن احمدیہ کے مالی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ہر ممکن صورت اختیار کی۔ آپ ہی کی تجویز سے انجمن میں پراویڈنٹ فنڈ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے سرمایہ سے جماعت کے لئے نئی آمد ہونے لگی۔ اور اسی سے مسجد اقصیٰ سے متصل وہ عظیم الشان مکان خریدا گیا۔ جس میں بعد کو صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر منتقل کئے گئے۔۶۸
ان خدمات کی بناء پر ۱۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو ان کے اعزاز میں ایک الوداعی پارٹی دی گئی۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے الٰہی سلسلہ کے اوائل میں کام کرنے والوں کے بلند مقام اور میرزا محمد اشرف صاحبؓ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>آج کی تقریب جس کے لئے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں اس لحاظ سے ایک نئے دور کا افتتاح ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ابتدائی ایام سے ایک نظام کے ماتحت سلسلہ کا کام کیا ان میں سے کچھ لوگ ایام کارکردگی کو پورا کرکے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ پہلا دوران لوگوں کا تھا جنہوں نے ابتدائی ایام میں انفرادی جدوجہد میں حصہ لیا اور ایک ایک کرکے ہم سے جدا ہوتے گئے۔ اب یہ نیا دور شروع ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت ہمارا نظام اگرچہ بہت قلیل اور محدود ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب دنیا کی ترقی کا انحصار اس پر ہوگا اور روحانی ترقیات کی طرح مادی ترقیات بھی احمدیت کے قبضہ میں ہوں گی۔ جس طرح بنک آف انگلینڈ میں ذرا سی کمزوری پیدا ہونے سے حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ وزارتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ایکس چینج میں تغیر ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ تغیرات ہوں گے جب سلسلہ احمدیہ کے بیت المال میں کسی قسم کا تغیر رونما ہو گا۔ بنک آف انگلینڈ کا اثر تو صرف ایک ملک پر ہے لیکن یہ دنیا کی ساری حکومتوں پر اثر انداز ہو گا۔ اور اس وقت یہاں کے کارکنوں کا دینوی معیار بھی اس قدر بلند ہو گا کہ حکومتوں کی وزارتوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں۔ یہ چیزیں ایک ایسے مستقبل کو پیش کر رہی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے احباب کی خدمات کی قیمت کا اندازہ کرنا چاہئے۔ دراصل ان کی خدمات کی قیمت وہ چند روپے نہیں جو بطور مشاہرہ دیئے جاتے ہیں بلکہ جماعت کا آئندہ شاندار مستقبل ہے اور اس کا اندازہ خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے بندہ نہیں لگا سکتا۔ اور جب یہ وقت آیا اس وقت ان کی خدمات کا اندازہ ہو سکے گا اور ان میں سے ہر ایک کام کرنے والا خواہ وہ چپڑاسی ہو یا ناظر الا ماشاء اللہ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ انتہائی ترقی کے مدارج ہم میں سے کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس دنیا کے تغیرات جو مومن سے تعلق رکھتے ہیں اسے بتائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جو کوئی اس کی قبر پر جاتا ہے اس کا بھی اسے علم ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے کان آنے والوں کے پائوں کی آہٹ نہیں سنتے لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس کا علم ضرور دے دیتا ہے اس لئے جب وہ تغیرات پیدا ہوں گے تو ان میں حصہ لینے والوں کو اس کا علم ہو گا۔ اور گو وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گا مگر پھر بھی سلسلہ کی ترقیات کو معلوم کرکے ان کی روح خوشی اور مسرت سے بھر جائے گی اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے گی کہ اس نے مجھے بھی اپنے جسم کو اس میں استعمال کرنے کا موقعہ اور توفیق عطا فرمائی تھی۔ ہمارا نقطہ نگاہ مالی نتائج پر نہیں جو کارکنوں کو خدمات کے بدلہ میں ملتے ہیں بلکہ ان تغیرات پر ہے۔ جس کا اندازہ سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔
جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں دودھ کی نہریں ہوں گی باغات ہوں گے مگر پھر بھی رسول کریم~صل۱~ ے فرمایا لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر حالانکہ قرآن پاک جنت کے نقشوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں سلسلہ احمدیہ کی ترقیات کا نقشہ ہے اور آپ نے تفسیریں بھی کی ہیں۔ لیکن وہ ساری قبل از وقت ہیں اور الفاظ وہ نقشہ کھینچ ہی نہیں سکتے جو آنے والا ہے۔ اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بڑے بڑے بادشاہ یہاں آئیں گے لیکن اس کا قیاس نہیں کر سکتے کہ کس طرح ان کی گردنیں احمدیت کے ہاتھ میں دے دی جائیں گی۔ گویا جزئیات کو ہم نہیں سمجھ سکتے اور وہ جذبات ہم اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے جو اس وقت ہوں گے۔
پس جو بھی سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے وہ دراصل ایک عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں کام کر رہا ہے اور اس کی مثال اس مونگے کی طرح ہے جو جزیرہ بناتے ہی اپنی جان ضائع کر دیتا ہے۔ کورل آئی لینڈ کی تیاری میں ایک مونگا اپنی جان قربان کر دیتا ہے لیکن اسے کیا پتہ ہوتا ہے کہ اس کی قربانی کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اس کی جان ضائع ہونے سے جزیرہ تیار ہوتا ہے۔ جس میں انسان بستے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث یا اس کے غضب کے مورد ہوتے ہیں۔ لیکن مونے کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ وہ ایک نئی دنیا پیدا کر رہا ہے اور اس طرح وہ خدا تعالیٰ کا بروز ہو جاتا ہے۔ انبیاء بھی خدا تعالیٰ کے بروز ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
میرزا محمد اشرف نے بھی اس نظام میں کام کیا ہے اور اس میں کام کرنے والوں کی یہ ترقی نہیں کہ وہ مثلاً تیس روپیہ تنخواہ سے شروع ہو کر سو روپیہ پر پہنچ جائیں۔ یہ بھی بے شک ترقی ہے لیکن اصل چیز کے مقابلہ میں یہ بالکل ہیچ ہے۔ ہر کارکن خواہ وہ اپنی حیثیت کو سمجھے یا نہ سمجھے بہرحال اگر اس نے اخلاص سے کام کیا ہے تو وہ اس عظیم الشان عمارت میں بمنزلہ بنیاد کے ہے جس کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث اس سے بھی محروم ہوتے ہیں کہ وہ کسی چیز کا اس قدر بھی اندازہ کر سکیں جس قدر بیان کی جاچکی ہے اور اس لئے بعض لوگ اس عظمت کو بھی محسوس نہیں کر سکتے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے۔ جنت کا جو نقشہ قرآن کریم میں بیانکیا گیا ہے اس کا کسی قدر اندازہ وہ دشمن تو کر سکتا ہے جس نے شالامار باغ اور دوسرے فرحت افزا باغات دیکھے ہیں لیکن عرب کا وہ وحشی جس کا باغ کھجور کے دو درختوں سے زیادہ نہیں ہوتا وہ اس کا اندازہ بھی کرنے لگے تو زیادہ سے زیادہ پانچ دس کھجوروں کے درخت پرجاکر اس کا تخیل ختم ہو جائے گا اسی طرح بعض لوگ باوجود بنیاد کی اینٹ ہونے کے ظاہری علوم سے بے بہرہ ہونے کے باعث محسوس نہیں کر سکتے۔ کہ ان کی خدمات کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں وہ اس کام کی عظمت کو سمجھتے نہیں یا سمجھ سکتے نہیں کہ وہ کتنے عظیم الشان کام میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں کس قدر زبردست نتائج نکلنے والے ہیں۔ لیکن بہرحال نہ جاننے سے کام کی عظمت میں فرق نہیں آسکتا۔
میرزا محمد اشرف صاحب کو میں نے دیکھا ہے اور ان کی یہ بات مجھے ہمیشہ پسند آئی کہ وہ اس طرح کام کرتے رہے ہیں جس طرح ایک عورت اپنے گھر میں کام کرتی ہے وہ جانتی ہے کہ اس کے پاس کتنا سرمایہ ہے اور وہ اس سے کس طرح بہتر سے بہتر کام لے سکتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ قلیل سے قلیل رقم میں ہی سب کام نپٹالوں۔ ان کے اندر ہمیشہ یہی روح کام کرتی رہی ہے کہ سلسلہ کا صیغہ مالیات مضبوط چٹان کی طرح ہو اور چونکہ میرے اپنے خیالات کی روح بھی اسی طرف ہے اس لئے مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی اور ہمیشہ اطمینان رہتا تھا کہ مالیات کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اسے صحیح طریق پر چلا رہا ہے انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ممکن ہے ان سے بھی ہوتی ہوں لیکن ایسے شخص کے کاموں میں جو درد رکھتا ہے اور جو اس روح کے ساتھ کام کرتا ہے اس کی غلطیوں کے باوجود نتائج اچھے نکلیں گے اگر تمام کارکن اس روح کے ساتھ کام کریں تو بہت جلد ترقی ہو سکتی ہے<۔۶۹
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل میں
آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب وسط ماہ جون ۱۹۳۲ء میں خرابی صحت کے باعث رخصت پر جارہے تھے حکومت نے ان کی جگہ چوہدری
محمد ظفر اللہ خان صاحب کو گورنر جنرل کی ایگزیکٹو کونسل کے عارضی رکن کی حیثیت سے نامزد کردیا اور آپ محکمہ تعلیم و صحت و اراضیات کے انچارج مقرر کر دیئے گئے۔۷۰
اس انتخاب پر ملک کے متین و سنجیدہ حلقوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور چوہدری صاحب کی قابلیت او لیاقت کا اقرار کیا۔ چنانچہ پیسہ اخبار ۱۹/ مئی ۱۹۳۲ء نے لکھا۔
>چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رکن گول میز کانفرنس جو مقدمہ سازش دہلی میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ سر فضل حسین کی جگہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے قائم مقام ممبر ہوں گے آپ پہلے پہل سرشہاب الدین کے قانونی رسالہ انڈین کیسز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ آپ نے انہیں قانونی پریکٹس کا مشورہ دیا۔ جس میں آپ کو کافی کامیابی اور شہرت حاصل ہوئی یہی وجہ تھی کہ آپ مقدمہ سازش دہلی میں سرکاری وکیل مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس کے رکن بھی مقرر کئے گئے گول میز کانفرنس میں آپ کی تقریریں خاص طور سے جاذب تھیں مسلمانوں کو ان کے ذاتی عقیدہ سے خواہ کتنا ہی اختلاف ہو مگر ان کی قابلیت اور لیاقت کا زمانہ قائل ہے امید ہے کہ سر فضل حسین کی جگہ آپ ایگزیٹو کونسل کی رکنیت کے فرائض بوجہ احسن ادا کریں گے اور عام مسلمانوں کے تحفظ حقوق کا کماحقہ خیال رکھیں گے<۔۷۱
ہندو پریس کی شدید مخالفت
اسلامی پریس کے مقابل ہندو پریس نے جس میں >پرکاش< اور >ٹریبیون< پیش پیش تھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے تقرر کی زبردست مخالفت کی۔ بلکہ مسلمانوں کو مشتعل کیا کہ انہوں نے خاموشی سے اس نامزدگی کو کیوں برداشت کر لیا جبکہ چوہدری صاحب سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ >پرکاش< )۲۹/ مئی ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔
>مسلمان اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جس عہدے پر ایک بار کوئی مسلمان تعینات ہو جائے پھر اس پر کوئی اور مقرر نہیں کیا جانا چاہئے۔ وہ مسلمانوں کا موروثی حق ہو چکا ہے عام طور پر مسلمانوں کی جگہ مسلمان مقرر ہوتے ہیں لیکن اگر کسی حالت میں اس قاعدہ کی خلاف ورزی ہو جائے تو مسلمان اس کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ سر فضل حسین کی رخصت پر جانے کی حالت میں وائسرائے ہند کی کونسل کی ممبری کا عہدہ مسلمان کی بجائے قادیانی کو دیا گیا ہے اور کسی مسلمان نے چوں تک نہیں کی<۔۷۲
دراصل ہندوئوں کی اول یہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی سرکاری عہدہ پر کوئی مسلمان مقرر ہی نہ ہو لیکن جب اس میں انہیں کامیابی کی صورت نظر نہ آتی تو وہ چاہتے کہ کوئی اعلیٰ عہدہ کسی قابل مسلمان کو نہ دیا جائے بلکہ ایسے شخص کے سپرد ہو جو ان کی چالبازیوں سے آگاہ نہ ہو سکے اور نہ ان کا توڑ کر سکے۔ چوہدری صاحب کے معاملہ میں چونکہ اس وقت تک خصوصاً گول میز کانفرنس میں انہیں سخت ناکامی ہوئی تھی اسی بناء پر وہ یہ لکھ رہے تھے کہ >چونکہ ظفر اللہ خان فرقہ پرستی میں کسی بھی فرقہ پرست مسلمان سے پیچھے نہیں<۔ فرقہ پرستی سے ہندوئوں کی مراد مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پنڈت نہرو نے چوہدری صاحب اور دوسرے مسلمان لیڈروں کی نسبت اپنی کتاب >میری کہانی< میں یہاں تک لکھا تھا۔ >وطن پرستی کی مخالفت اور رجعت پسندی کی غیر معمولی نمائش گول میز کانفرنس میں ہوئی۔ برطانوی حکومت نے چن چن کر صرف فرقہ پرست مسلمانوں کو نامزد کرنے پر اصرار کیا تھا اور یہ لوگ آغا خاں کی قیادت میں بڑے بڑے رجعت پسندوں سے جاکر مل گئے جو نہ صرف ہندوستان کے بلکہ تمام ترقی پسندوں کے نقطہ نظر سے برطانیہ کی سیاسی زندگی میں سب سے خطرناک عناصر سمجھے جاتے ہیں<۔۷۳
ان حالات میں چونکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسی شخصیت کا تقرر جو پنڈت جواہر لال صاحب نہرو اور دوسرے کانگرسی ہندوئوں کی نگاہ میں کٹر >فرقہ پرست< تھا کانگرسی عزائم کے لئے ایک عظیم خطرہ اور ایک عظیم چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے کانگریس کے ہوشیار سیاستدانوں نے >قادیانی< اور >غیر قادیانی< کا سوال اٹھا کر مسلمانوں کو الجھانے اور ان کی صفوں میں انتشار اور فتنہ برپا کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کا پہلی بار افشاء >پرکاش< ہی نے کیا اور اس کو عملی جامہ پہنچانے کا بیڑہ کانگریس کے آلہ کار اور ہمنوا مولویوں نے اٹھایا جیسا کہ آئندہ کے حالات سے پتہ چلے گا۔
مخالفت کا حقیقی سبب
حقیقت یہ ہے کہ ہندو پریس پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو چکی تھی کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی حقوق کی حفاظت کے لئے میدان عمل میں آچکی ہے اور اب ہندوئوں کے لئے مسلمانوں کے حقوق غصب کرنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے تھا اسی وجہ سے وہ بات بات میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے اور مسلمانوں میں فرقہ وارانہ فتنہ پیدا کرنے پر اتر آئے تھے اور خصوصاً چوہدری صاحب کے عارضی تقرر پر جبکہ مسلمانوں کے خیر مقدم نے انہیں محسوس کرا دیا تھا کہ چوہدری صاحب پر مسلمان اعتماد رکھتے ہیں اور انہیں اس اعزاز کا ہر طرح اہل پاتے ہیں ہندوئوں کے انتقامی جذبات میں تلاطم برپا کر دیا اور وہ خم ٹھونک کر سامنے آگئے۔
اخبار >سیاست< کا اہم نوٹ
ہندو اخبار >ٹریبیون< نے )جس نے ایک بار حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی وفات کی مفتریانہ خبر شائع کی تھی( اس موقعہ ہندو قوم کے اندرونی خیالات و افکار کی عکاسی کرتے ہوئے چوہدری صاحب کے خلاف بہت زہر اگلا اور ان کی مسلمہ قابلیت و لیاقت پر بھی خوب دل کھول کر حملے کئے۔ جس کے جواب میں شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار >سیاست< )۲۵/ مئی ۱۹۳۲ء( نے مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا۔
>چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ہندو: اس پر کہ جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء ایم۔ ایل۔ سی نے آنریبل میاں سر فضل حسین کی جگہ رکنیت تعلیمات کا عہدہ منظور فرما لیا ہے ہندو سیاسی حلقے بے انتہاء مضطرب ہیں اور تو اور >ٹریبیون< ایسے اخبار نے فرقہ واریت میں ڈوبا ہوا شذرہ حوالہ قرطاس کیا اور محض اس جرم پر کہ چوہدری صاحب مسلم مطالبات کے زبردست حامی اور موید ہیں ان کی لیاقت و قابلیت سے بھی انکار کیا بلکہ یہاں تک لکھ مارا کہ بحیثیت قانونی پیشہ بھی آپ گوئے سبقت نہیں لے جاسکتے غضب کی بات ہے کہ تعصب اس درجہ انسان کو اندھا کر دے کہ محض کسی شخص کے کانگریس سے اختلاف رکھنے کے باعث اس ہر جلیل القدر عہدہ کا نااہل قرار دیا جائے۔ سیدھی بات ان میں سے کوئی نہیں کہتا اور انٹ کی سنٹ اڑاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ فرقہ واریت حصول عہدہ کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی اس لئے ان کے مطالبہ کا صاف مقصدیہ ہے کہ ایسے مسلمان کو کیوں رکنیت کا جلیل القدر عہدہ دے دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت کا ہم خیال ہو کیونکہ اسے وہ اپنے ڈھب پر نہ لگا سکیں گے اور ان کا بہت بڑا مقصد فوت ہو جائے گا۔ یہ چیخ پکار اسی لئے ہے ورنہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہر طرح اس عہدہ کے اہل ہیں ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں<۔۷۴
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا پنجاب کونسل میں بلامقابلہ انتخاب
چوہدری صاحب وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل میں قائم مقام ممبر ہو جانے کی وجہ سے پنجاب کونسل کی نشست سے دستبردار ہو گئے
تھے اس تقرر کے اختتام پر آپ سابقہ نشست حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ہندوئوں کی خواہشات کے عین مطابق اخبار >زمیندار< اور >حریت< نے محض اس بناء پر کہ آپ احمدی ہیں آپ کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ اخبار >زمیندار< )۴/ اکتوبر ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔
>ہم مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کی غیرت برداشت کر سکتی ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کونسل میں بلامقابلہ منتخب ہو جائیں۔ کیا پنجاب میں ایک فقط چوہدری ظفر اللہ خاں ہی بلامقابلہ منتخب ہونے کے لئے رہ گئے ہیں آخر اسلامیان پنجاب اپنے آزمودہ کار خدام کو کیوں نظر انداز کئے بیٹھے ہیں۔ کیا ملک برکت علی خواجہ عبدالرحمن غازی` مولانا مظہر علی اظہر کا کونسل کی نشستوں پر حق نہیں ہے؟ ہم تو چاہتے ہیں کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کے حلقہ انتخاب سے کوئی نائی یا مراثی اٹھے اور انہیں میدان مقابلہ میں ایسی شکست دے کہ قادیانی جیتے جی یاد رکھیں اور از بسکہ اسلام میں کامل مساوات ہے اس لئے ہر کلمہ گو مسلمان پر فرض ہو گا کہ وہ چوہدری ظفر اللہ خاں کے حریف کی پوری پوری اعانت کرے<۔۷۵
اس کے بعد اپنی ۷/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا۔
>چوہدری ظفر اللہ خاں نے کونسل میں بلامقابلہ انتخاب کی جو توقعات قائم کر رکھی تھیں ان پر >زمیندار< کے پروپیگنڈے کا بے حد اثر ہوا ہے۔ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خاں نے کونسل کی رکنیت کے لئے کھڑے ہونے کا فیصلہ کو سردست معرض التوا میں ڈال دیا ہے۔ معتبر حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جماعت احرار کا کوئی رکن چوہدری ظفر اللہ خاں کے حلقہ انتخاب سے کھڑا ہوگا<۔۷۶
>زمیندار< کے اس پراپیگنڈا کے علاوہ احراری ذہنیت رکھنے ولے اصحاب کی طرف سے ہر رنگ میں کوشش کی گئی کہ اول تو جناب چوہدری صاحب اپنے حلقہ سے منتخب ہی نہ ہو سکیں یا کم از کم بلامقابلہ منتخب نہ ہو سکیں۔ کسی نہ کسی کو ضرور کھڑا کر دیا جائے لیکن حلقہ سیالکوٹ میں کسی اور شخص کو مقابلہ میں کھڑے ہونے کی جرات نہ ہو سکی اور آپ خدا کے فضل و رحم سے بلامقابلہ منتخب ہو گئے جس پر اخبار >سیاست< ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۲ء نے بعنوان >چوہدری ظفر اللہ خاں کی ہر دلعزیزی و غیر جنبہ داری< کے عنوان سے لکھا۔
>سب نے بیک زبان آپ کی حسن کارگزاری کمال سیاسی قابلیت اور غیر جنبہ داری کا اعتراف کیا اور آپ کو اپنی نمائندگی کے لئے بہترین شخص قرار دیا۔ واقعی چوہدری صاحب موصوف اس قابل ہیں کہ ان پر اس درجہ اعتماد و اعتبار کیا جائے۔ آپ نے کونسل میں گراں بہا کام کرنے کے علاوہ اہم ترین مواقع پر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا کماحقہ حق ادا کیا۔ لہذا ہم بہ طمانیت تمام جناب چوہدری صاحب کو آپ کی اس شاندار کامیابی پر کہ علی ¶الرغم حسود کوئی شخص آپ کے مقابلہ کے لئے میدان عمل میں نہیں اترا اور آپ کو صحیح معنیٰ میں رائے دہندگان نے منتخب کیا۔ مبارکباد دیتے ہیں<۔۷۷
پونڈری )ضلع کرنال( کے مسلمانوں کی امداد
ضلع کرنال کے ایک قصبہ پونڈری پورہ کے مسلمان ۲/ جون ۱۹۳۲ء کو مذبح تعمیر کر رہے تھے کہ ہندوئوں کے ایک بہت بڑے مسلح مجمع نے تعمیر مذبح کی پاداش میں نہتے مسلمانوں پر حملہ کرکے تین مسلمانوں کو شہید اور تیس کے قریب کو سخت زخمی کر دیا۔۷۸4] [rtf جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ڈلہوزی سے بذریعہ تار حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ کو مسلمانوں کی امداد اور اصل واقعات کی تحقیق کے لئے بھجوایا۔۷۹ جنہوں نے علاقہ کا دورہ کیا اور صحیح حالات معلوم کرکے افسران بالا کو توجہ دلائی نیز اخبارات کے ذریعہ سے پبلک کو علاقہ کے مظلوم مسلمانوں کی مظلومیت کے صحیح حالات سے آگاہ کیا۔ چونکہ ہندو اخبارات نے اصل واقعات پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں پر ہندوئوں نے قاتلانہ حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمان آپس میں کٹ مرے ہیں اس لئے اخبار >الفضل< نے ۱۴/ جون ۱۹۳۲ء کو ایک نوٹ لکھا جس میں اسے ہندوئوں کی گہری سازش قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ پونڈری کے ستم رسیدہ اور تباہ حال مسلمانوں کی داد رسی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔۸۰
اس نوٹ کی اشاعت کے دو تین ہفتہ بعد یہ خبر ملی کہ اس قصبہ میں پولیس کی تعزیری چوکی قائم کی جانے والی ہے اور اس کا خرچ وہاں کے اور مضافات کے باشندوں پر ڈالا جائے گا۔ چونکہ خطرہ تھا کہ یہ ٹیکس بے گناہ اور مظلوم مسلمانوں پر بھی عائد کر دیا جائے۔ س لئے قصبہ کے مسلمانوں نے ڈپٹی کمشنر کرنال کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہندوئوں کی قانون شکنی کے باعث تعزیری چوکی کا ٹیکس مسلم آبادی پر نہیں پڑنا چاہئے۔
جب وہاں ہندوئوں کے خلاف مقدمہ چلا۔ تو وہاں کے مسلمانوں نے حضورؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کی قانونی مدد کی جائے چنانچہ حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت جناب مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور وہاں بھجوائے گئے۔ جنہوں نے تقریباً ایک ماہ رہ کر نہایت محنت سے مقدمہ کی پیروی کی۔ جس کے نتیجہ میں ۲۴ کے قریب ملزموں کو سخت سزائیں ہوئیں۔۸۱ مسلمانان حصار نے مرزا عبدالحق صاحب احمدی وکیل گورداسپور کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ جنہوں نے بلا فیس عدالت ابتدائی میں پیروی کی تھی۔۸۲
‏tav.7.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل دوم(
مقدمہ بہاولپور
اس زمانے میں مخالفین احمدیت اور احمدیوں میں مقدمات کا سلسلہ جاری تھا۔ مثلاً مقدمہ شاہجہانپور )یو۔ پی( برہمن بڑیہ )بنگال( اوربن باجوہ )ضلع سیالکوٹ( کے امراء جماعت کے مقدمات۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ مقدمہ بہاولپور میں دائر تھا جس نے بعد کو قومی مقدمہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ احمد پور شرقیہ کے ایک شخص الٰہی بخش صاحب نے اپنی بیٹی مسمات غلام فاطمہ کا نکاح عبدالرزاق صاحب )ساکن موضع مہمند تحصیل احمدپور شرقیہ( سے کیا۔ عبدالرزاق صاحب احمدی ہو گئے تو الٰہی بخش صاحب نے علماء کی انگیخت سے ۲۴/ جولائی ۱۹۲۶ء کو ریاست بہاول پور میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا۔ کہ مدعیہ اب تک نابالغ رہی ہے اب عرصہ دو سال سے بالغ ہوئی ہے مدعا علیہ ناکح مدعیہ نے مذہب اہلسنت و الجماعت ترک کرکے قادیانی مرزائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور اس وجہ سے وہ مرتد ہو گیا ہے اس کے مرتد ہو جانے کے باعث مدعیہ اب اس کی منکوحہ نہیں رہی۔۸۳
ڈسٹرکٹ عدالت سے مقدمہ خارج
ڈسٹرکٹ جج نے سماعت کے بعد ۲۱/ نومبر ۱۹۲۸ء کو یہ دعویٰ اس بناء پر خارج کر دیا کہ عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاولپور سے اسی قسم کے ایک مقدمہ بعنوان مسماۃ جند وڈی بنام کریم بخش میں باتباع فیصلہ جات عدالتہائے اعلیٰ مدراس۸۴ پٹنہ و پنجاب یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہیں نہ کہ اسلام سے باہر اور کہ احمدی مذہب اختیار کرنے سے کسی سنی عورت کا نکاح اس شخص کے ساتھ جو اس مذہب کو قبول کرے فسخ نہیں ہو جاتا اور کہ مدعیہ کی طرف سے ان فیصلہ جات کے خلاف کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔ ڈسٹرکٹ جج کا یہ حکم عدالت عالیہ چیف کورٹ میں بھی بحال رہا۔۸۵
دربار معلیٰ میں اپیل
فریق ثانی نے اس فیصلہ کے خلاف ریاست بہاولپور کی آخر عدالت >دربار معلیٰ< میں اپیل ثانی دائر کر دی۔ اس دربار کی ان دنوں ہیئت ترکیبی یہ تھی۔
۱۔ وزیر اعلیٰ ۲۔ وزیر حضوری ۳۔ وزیر مال )ایک انگریز سی۔ ایچ ٹونشن( ۴۔ ہوم ممبر۔
اب جو ریاست بہاولپور کے دربار معلیٰ میں یہ مقدمہ پہنچا تو وزیر اعلیٰ صاحب نے پہلی پیشی میں حکم دیا کہ ریاست کے مفتی )مولوی غلام محمد صاحب شیخ الجامعہ عباسی( تنسیخ نکاح کے دلائل پیش کریں یہ مفتی صاحب اپنے وعظوں اور خطبوں میں احمدیوں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے میں خاص شہرت رکھتے تھے۔
دربار معلیٰ کا رویہ
‏text] gat[دربار معلیٰ کی اس تجویز پر مدعا علیہ نے درخواست دی کہ اسے بھی کسی عالم دین کو عدالت میں پیش کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ تا عدالت فریقین کے علماء کے دلائل سن کر صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب نے اس سے انکار کر دیا۔ مگر خاص جدوجہد کے بعد مثل مقدمہ پر کئی موقع پر انہیں یہ نوٹ کرنا پڑا کہ احمدی فریق بھی اپنا عالم پیش کر سکتا ہے۔ لیکن باوجود اس نوٹ کے جب مدعا علیہ نے اس سلسلہ میں مولوی فضل الدین صاحب کے پیش ہونے کی باقاعدہ درخواست دی تو وہ واپس کر دی گئی۔ تاہم قادیان سے جماعت کے ایک اور عالم مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی مولوی فاضل بھیج دیئے گئے۔ ۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کو >دربار معلیٰ< میں پیشی تھی فریقین مقدمہ کو بلانے سے قبل قریباً پون گھنٹہ تک وزیر اعلیٰ اور مفتی صاحب میں گفتگو ہوتی رہی۔ پھر مدعا علیہ کو بلا کر وزیر اعلیٰ نے فرمایا کہ تم مفتی صاحب پر اعتراض کرو مدعا علیہ نے کہا کہ میں بھی اپنی طرف سے کوئی عالم پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے تو وزیراعلیٰ صاحب نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ مگر پھر اس کی اجازت دے دی۔ اس پر جب مولوی صاحب موصوف پیش ہوئے۔ تو وزیراعلیٰ صاحب نے ان سے بھی یہی کہا کہ مفتی صاحب پر اعتراض کرو۔ مولوی صاحب نے کہا۔ مفتی صاحب کا بیان میرے سامنے نہیں۔ میں کس طرح اعتراض کر سکتا ہوں؟ وزیراعلیٰ صاحب نے مفتی صاحب کی خود ہی ترجمانی کرتے ہوئے کہا۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اب جو شخص کسی نبی کے آنے کا قائل ہو وہ کافر ہے۔ اس پر اعتراض کرو۔ مولوی صاحب نے اس پر مفتی صاحب سے پوچھا۔ کیا وہ اولیاء ابدال اور صوفیاء جو مانتے آئے ہیں کہ نبوت جاری ہے وہ سب کافر تھے؟ اس پر بجائے اس کے کہ مفتی صاحب کوئی جواب دیتے وزیراعلیٰ صاحب نے کہا کہ یہ طے ہو چکا ہے کہ قرآن سے بات پیش کی جائے گی سلف صالحین کا ذکر نہ ہو گا۔ مولانا غلام احمد صاحب نے کہا بہت اچھا۔ مفتی صاحب بتائیں قرآن کریم میں کہاں لکھا ہے کہ جو کسی نبی کی آمد کا قائل ہو وہ کافر ہے؟ اس پر وزیراعلیٰ صاحب نے پھر دخل دے کر کہا یہ سوال نہیں بلکہ کسی آیت سے ثابت کرو کہ نبی آسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے تین آیات قرآنی پیش کیں۔ مگر تینوں آیتوں کے متعلق وزیراعلیٰ صاحب انکار کا سر ہلاتے رہے اور جب مولوی صاحب آیات کی تشریح کرنے لگتے تو انہیں روک دیتے۔ آخر مولوی صاحب نے کہا۔ مفتی صاحب! قرآن میں نبوت کے بند ہونے کا کوئی ثبوت ہے؟ اس کا جواب بھی وزیراعلیٰ صاحب نے خود ہی دیا۔ اور وہ یہ کہ ہم سن چکے ہیں۔ مولوی صاحب نے جب کہا کہ مجھے بھی سن لینے دیا جائے تو ایک آیت پیش کی گئی۔ لیکن جب مولوی صاحب اس کا صحیح مطلب بیان کرنے لگے تو کہہ دیا اب بس کرو اور چلے جائو۔۸۶
دربار معلیٰ کی کارروائی
قصہ کوتاہ دربار معلیٰ نے ہائی کورٹوں کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی ریاست کے شیخ الجامعہ مولوی غلام محمد صاحب کو بطور گواہ عدالت طلب کیا اور ان کا یہ بیان درج کیا کہ >اگر کسی شخص کا قادیانی عقائد کے مطابق یہ ایمان ہو کہ حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے بعد کوئی اور نبی آیا ہے اور اس پر وحی نازل ہوئی تو ایسا شخص چونکہ ختم النبوۃ حضرت رسول کریم~صل۱~ کا منکر ہے اور ختم النبوۃ اسلام کی ضروریات میں سے ہے لہذا وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے<۔ اس بیان پر دربار نے یہ رائے ظاہر کی کہ >مولوی صاحب موصوف نے بطور دلائل کئی ایک آیات قرآن شریف پیش کیں۔ جن میں اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ آنحضرت~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا<۔
پھر مقدمہ کو مزید >تحقیقات کا محتاج< قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مدعا علیہ کو بھی موقع دینا چاہئے۔ کہ شیخ الجامعہ کے بالمقابل اپنے دلائل پیش کرے اس لئے ہم مزید تحقیقات کے لئے یہ مقدمہ پھر عدالت صاحب ڈسٹرکٹ جج بہاولپور میں بھیجتے ہیں اور ہدایت کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ بروئے شرع شریف فیصلہ کیا جائے<۔۸۷
مقدمہ دوبارہ ڈسٹرکٹ عدالت میں
ڈسٹرکٹ جج صاحب اپنے گزشتہ فیصلہ میں صاف لکھ چکے ہیں کہ موجودہ فیصلہ قوانین و آئین کی روشنی میں ہے اگر شریعت کے نقطہ نگاہ سے مقدمہ پر نظر ڈالی جاتی تو ہمارا فیصلہ مختلف ہوتا۔ اس بناء پر مدعا علیہ کے مختار مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے عدالت عالیہ کو لکھا کہ جو عدالت پہلے اپنی رائے کا اظہار کر چکی ہے اس میں دوبارہ اسے پیش کرنا صحیح نہیں۔ مگر کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ بہرکیف اس مرحلہ پر یہ مقدمہ ایک نئے دور میں داخل ہو گیا اور فریقین کی طرف سے اس کے لئے زور شور سے تیاریاں شروع کر دی گئیں جیسا کہ >فیصلہ مقدمہ بہاولپور< میں لکھا ہے کہ۔
>واپسی پر اس مقدمہ میں فریقین کے ہم مذہب اور ہم خیال اشخاص کی فرقہ ¶بندی شروع ہو گئی اور تقریباً تمام ہندوستان میں اس کے متعلق ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ اور طرفین سے ان کی جماعت کے بڑے بڑے علماء بطور مختاران فریقین و بطور گواہان پیش ہونے لگے ان کے اس طرح میدان میں آنے سے قدرتاً یہ سوال عوام کے لئے جاذب توجہ بن گیا اور پبلک کو اس میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی اور ہر تاریخ سماعت پر لوگ جوق در جوق کمرہ عدالت میں آنے لگے۔ چنانچہ عوام کی اس دلچسپی اور مذہبی جوش کو مدنظر رکھتے ہوئے حفظ امن قائم رکھنے کی خاطر پولیس کی امداد کی ضرورت محسوس کی گئی اور عدالت ہذا کی تحریک پر صاحب بہادر کمشنر پولیس کی طرف سے ہر تاریخ پیشی پر پولیس کا خاطر خواہ انتظام کیا جاتا رہا<۔۸۸
ڈسٹرکٹ جج صاحب کا رویہ
۲۱/ جون ۱۹۳۲ء کو ڈسٹرکٹ جج بہاولپور )منشی محمد اکبر خان صاحب بی۔ اے ایل ایل۔ بی( نے سماعت شروع کی۔ عدالت نے شیخ الجامعہ کو وہ کچھ دہرانے کے لئے بلایا۔ جو انہوں نے دربار معلیٰ میں کہا تھا اور دو سو کے قریب ان کے ہم خیالوں کو عدالت میں جگہ دے دی گئی۔ لیکن احمدیوں میں اس سے سوائے مدعا علیہ کے باوجود درخواست کرنے کے کسی احمدی کو اندر نہ آنے دیا گیا۔ شیخ الجامعہ نے متواتر تین گھنٹے بیان جاری رکھا۔ بیان کیا تھا بانی جماعت احمدیہ پر سب دشتم کی بوچھاڑ تھی۔ غلط اور بے بنیاد الزامات کا مجموعہ تھا۔ فاضل جج ساتھ ساتھ ہر بات کی تائید کرتے جاتے اور شیخ الجامعہ جو بات بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے پیش کرتے اس کے متعلق کہہ دیتے۔ واقعی یہ صریح کفر ہے۔ ایک دفعہ جج صاحب نے مدعا علیہ سے یہ بھی کہا کہ شیخ الجامعہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو یا باہر نکل جا۔ نیز یہ کہ تجھے ان باتوں کو ماننا پڑے گا جو شیخ الجامعہ نے بیان کی ہیں جب مدعا علیہ نے اس سے انکار کیا تو کہہ دیا یہ باتیں صحیح ہیں اور تجھے ماننی پڑیں گی۔ بالاخر شیخ الجامعہ کے طول طویل بیان کی نقل لے کر جرح کرنے کی ہدایت کی۔ نقل لینے پر چونکہ تیس روپے کے قریب خرچ کرنا پڑتا تھا اس لئے مدعا علیہ نے اپنی غربت کا عذر پیش کیا۔ اس پر کہہ دیا گیا پھر مقدمہ کا فیصلہ تمہارے خلاف کر دیا جائے گا۔
عدالت کا یہ رویہ دیکھ کر مدعا علیہ نے انتقال مقدمہ کی درخواست دے دی جو رکھ لی گئی اور کہہ دیا گیا جو کچھ کرنا ہو کر لو۔ اور ۱۴/ جولائی کی تاریخ پیشی مقرر کی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر جج صاحب نے پھر کہا کہ کل آکر نقل کی درخواست دے دو اور ۱۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو جرح پیش کرو۔ کوئی زیادہ موقعہ نہ دیا جائے گا۔ قادیان سے دو مولویوں کو شہادت کے لئے خود منگائو۔ لیکن تمہارے علماء کو شیخ الجامعہ کے بیان پر جرح کرنے کا کوئی حق نہ ہوگا اس کے بعد مدعا علیہ کو باہر نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔۸۹
علمائے دیوبند کی شہادتیں اور ان پر جرح
ڈسٹرکٹ عدالت نے فریقین کی شہادتوں کے لئے ۲۰ تا ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کی تاریخیں مقرر کی تھیں۔ مدعیہ کی طرف سے مولوی سید محمد انور شاہ صاحب سابق صدر المدرسین دیو بند` مولوی محمد شفیع صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند` مولوی سید محمد مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی ناظم تعلیمات دیوبند اور مولوی نجم الدین صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کی شہادتیں ہوئیں اور مدعا علیہ کی طرف سے علامہ جلال الدین صاحب شمسؓ` مولانا غلام احمد صاحب مولوی فاضل` مولوی عبدالاحد صاحب اور چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹر پیش ہوئے۔ جج صاحب نے چوہدری اسداللہ خان صاحب کو بیرسٹر ہونے کی وجہ سے مختار ہونا منظور نہ کیا لہذا مولانا شمس صاحبؓ اور مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی مدعا علیہ کی طرف سے مختار ہوئے جو ابتدائی پیشیوں تک مختار رہے ازاں بعد جب یہ حضرات بطور گواہ پیش ہونے لگے تو ان کی بجائے شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی عبداللہ صاحب اعجاز کو یہ خدمت سپرد ہوئی جسے انہوں نے آخر تک نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ عدالت کی کارروائی شروع ہونے پر مدعا علیہ کی طرف سے زور دیا گیا کہ جب مقدمہ کا فیصلہ شریعت کے مطابق ہونا ہے تو شریعت کی رو سے ہی شہادتیں بھی لی جائیں۔ پہلے ایک شہادت مدعیہ کی طرف سے ہو اور اس کے مقابل دوسری مدعا علیہ کی طرف سے۔ جج صاحب نے اسے منظور بھی کر لیا۔ مگر فریق مخالف نے جب اصرار کیا کہ پہلے ضروری ہے کہ ہماری تمام شہادتیں ختم ہو جائیں تو جج صاحب نے آخری فیصلہ یہ دیا کہ شہادتیں ضابطہ دیوانی کے ماتحت لی جائیں گی۔ گویا پہلے قدم پر ہی شریعت کو جواب دے دیا گیا۔۹۰
سب سے پہلے مفتی محمد شفیع صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند کی شہادت ہوئی۔ جس پر مولانا جلالالدین صاحب شمسؓ نے لاجواب جرح کی۔4] [stf۹۱
دوسری شہادت مولوی سید مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی کی ہوئی جو ۲۳/ اگست سے شروع ہوکر ۲۴/ اگست کو ختم ہوئی۔ مولوی صاحب نے اپنی شہادت کے آغاز میں کہا کہ مرزائیوں کا ارتداد اور کفر ایسا واضح اور صریح ہے کہ اس میں کسی ایچ پیچ کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایسے دلائل سے ثابت ہے کہ مطلقاً اس پر جرح نہیں ہو سکتی خواہ مخواہ کوئی جرح میں وقت ضائع کرے تو اور بات ہے۔۹۲
آخر انہوں نے ایک طول طویل بیان دیا۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بیس وجوہ کفر پیش کئے۔ ۲۴/ اگست کو جبکہ مولوی سید مرتضیٰ حسن خان صاحب کے بیان پر جرح ہونی تھی عوام بہت خوش نظر آتے تھے۔ لیکن جب مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی نے )جنہیں ان دنوں مجاہد کے نام سے پکارا جاتا تھا( جرح کرکے ابتداء میں دوچار سوالات کئے تو مجلس کا رنگ ہی بدل گیا۔ اور تمام کمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔۹۳
تیسری شہادت مولوی سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری شیخ الحدیث دیو بند کی تھی۔ جو ۲۵/ اگست سے شروع ہو کر ۲۷/ اگست کو ختم ہوئی۔ مخالفین کو اپنے علامہ شیخ الحدیث پر بہت ناز تھا۔ اور ان کے مداحوں کا خیال تھا کہ شیخ الحدیث کی شہادت احمدیت کے لئے خطرناک حربہ ثابت ہو گی۔ ان کا شہرہ سن کر پہلے دن تمام سرکاری حکام اور معززین شہر حاضر عدالت ہوئے۔ تا شیخ الحدیث کا بیان اور اس پر جرح سنیں۔ عدالت کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شہادت ختم ہونے پر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے اپنی باطل شکن جرح شروع کی تو شیخ الحدیث کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ علمی کم مائیگی کایہ عالم ہوا کہ تورات کی مشہور آیت >خداوند سینا سے آیا اور فاران سے طلوع ہوا< کو انجیل کی آیت بتلایا۔ کئی بار پوچھنے پر فرمایا۔ کتاب الفصل میں ایسا ہی لکھا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ علم نہیں۔ اسی طرح ایک مشہور حدیت جس میں حضور سید الانبیاء~صل۱~ نے اسلام کے پانچ ارکان بیان فرمائے ہیں )یعنی بنی الاسلام علی خمس( شیخ الحدیث زبانی نہ پڑھ سکے حدیث کی کتاب لانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو اشارہ کیا اور سرنیچا کئے فرمایا اس وقت یہ حدیث میرے ذہن سے اتر گئی ہے اور الفاظ حدیث اچھی طرح یاد نہیں رہے۔ آخر مولانا شمسؓ صاحب نے پوری حدیث زبانی پڑھ دی۔ جس کی صحت کا شیخ الحدیث نے کھلی عدالت میں اقرار کیا۔۹۴
غرضکہ مولانا شمس صاحبؓ کی جرح نے شیخ الحدیث کی علمی حقیقت کھول دی اور وہ بالاخر نہایت گھبراہٹ کے عالم میں کمرہ عدالت سے باہر تشریف لے گئے۔۹۵
جرح کے دوران کا ایک اہم واقعہ
ہم یہاں یہ ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جرح کے دوران ایک واقعہ یہ بھی پیش آیا۔ کہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے ایک حدیث سنانا چاہی۔ مگر مخالف علماء نے شور مچا دیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے آنحضرت~صل۱~ کی توہین ہوتی ہے اس پر عدالت نے بھی حکم دیا کہ یہ حدیث چھوڑ دیں کوئی اور مثال پیش کریں اس پر مولانا شمس صاحبؓ نے کیا جواب دیا اور عدالت کی جانبداری کی وجہ سے کس طرح جرح ترک کرنا پڑی۔ اس کی تفصیل >الفضل< کے نامہ نگار کے الفاط میں درج ذیل ہے۔
>جج۔ آپ اس حدیث کو چھوڑ دیں کوئی اور مثال پیش کریں۔ شمس۔ کیوں چھوڑ دیا جائے۔ جس پاک شخصیت کے متعلق بحث ہے اسی کی مثال دی جائے گی اور شاہد کی شہادت کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مسلمات سے مثال پیش کی جائے۔ جج۔ اس سوال کا تعلق کیا ہے؟ شمس۔ جب ایک بات ایک شخص کے لئے وجہ تکفیر ٹھہرائی جاتی ہے تو وہی بات جب دوسرا کہے تو کیوں وجہ تکفیر نہ قرار دی جائے۔ اگر وہ واقعت¶ہ وجہ توہین ہے۔ مولویان دیو بند۔ نہیں۔ اس سے مسلمانوں کو طیش آتا ہے اور ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ جج۔ آپ عام پبلک کا خیال رکھیں اور ایسی بات نہ کریں جس سے لوگوں کو طیش آئے۔ شمس۔ میں اس حدیث کو اپنی تائید میں ضرور پیش کروں گا۔ طیش کی کوئی وجہ نہیں ہمیں روزانہ یہاں کافر مرتد کہا جاتا ہے اور مسجدوں کے دروازوں پر گندے اور گالیوں سے پر اشتہار لگائے جاتے ہیں اور ہمارے مقدس امام کو برا کہا جاتا ہے۔ کیا ہمیں طیش نہیں آتا؟ لیکن رسول اللہ~صل۱~ کی حدیث پیش کرنے پر ان مولویوں کو طیش آتا ہے یہ عدالت کا کمرہ ہے کوئی مسجد یا درسگاہ نہیں یہاں شاہد کی شہادت پر جرح ہو رہی ہے جسے طیش آتا ہے وہ یہاں سے چلا جائے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جرح کے سوال کو جو گواہ کی شہادت کو کمزور کرتا ہے چھوڑ دیا جائے۔ جج۔ میں اس سوال کو روکتا ہوں۔ شمس۔ جب آپ ہماری جرح کو اس طرح روکتے ہیں تو میں جرح بند کرتا ہوں )یہ کہہ کر مولانا شمسؓ صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور عدالت میں دو تین منٹ تک سناٹا چھا گیا( پھر مجسٹریٹ صاحب نے مولوی انور شاہ صاحب کے مختار سے کہا آپ جو سوالات توضیح کے لئے شاہد سے کرنا چاہتے ہیں کریں۔ اس نے سوال کیا اور انور شاہ صاحب نے جواب دینا شروع کیا۔ جج صاحب لکھنے لگے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد جج صاحب نے شمس صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے مقدمہ کی پیروی چھوڑ دی ہے؟ شمسؓ۔ میں نے مقدمہ کی پیروی نہیں چھوڑی جرح چھوڑ دی ہے کیونکہ عدالت ہماری جرح نہیں سننا چاہتی۔ شاہد جو اس وقت کہہ رہا ہے میں اسے لکھ رہا ہوں<۔۹۶
۵/ نومبر ۱۹۳۲ء کو مقدمہ کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔ قبل ازیں احمدیوں سے عدالت میں انتہائی غیر منصفانہ اور غیر مساویانہ سلوک ہوتا تھا۔ اور سٹیج پر غیر احمدی رئوساء کو بھی جج کے ساتھ کرسی ملتی تھی۔ مگر جب اس جنبہ داری کا بہت چرچا ہوا تو عدالت میں سٹیج کے ساتھ اینٹوں کا ایک کٹہرا بنا دیا گیا۔
مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا بیان اور اس پر جرح
۷/ نومبر ۱۹۳۲ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا معرکتہ الاراء بیان شروع ہوا۔۹۷ جو کئی دنوں تک جاری رہا۔ یہ بیان ایک رسالہ کی صورت میں >مقدمہ بہاولپور< کے نام سے دسمبر ۱۹۳۲ء میں شائع کر دیا گیا تھا جو غیر احمدی علماء کے پاس پہنچ چکا تھا۔ چونکہ دیو بند کے مایہ ناز علماء کو گزشتہ جرح میں مولانا شمس صاحبؓ کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہوئی تھی۔ اس لئے ان اصحاب نے اس کا انتقال لینے کے لئے دہلی` دیوبند` اور لکھنئو وغیرہ مقامات کا دورہ کیا اور مسلسل ساڑھے تین ماہ تک اس بیان پر جرح تیار کرتے رہے۔۹۸ مگر اس درجہ تیاری کے باوجود جب یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو مقدمہ کی کارروائی پھر شروع ہوئی۔۹۹ اور انہیں بیان پر جرح کا موقع ملا۔ تو خدا کے فضل و کرم سے کس طرح انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ اس کا اندازہ مولانا کے ان جوابات سے باسانی ہو سکتا ہے جو انہی دنوں الفضل میں شائع کر دیئے گئے تھے۔۱۰۰
مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیوبند کی چشمدید شہادت
مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیوبند کا بیان ہے کہ >۳۳۔۳۲ء کا واقعہ ہے جب کہ ریاست بہاولپور میں مقدمہ تنسیخ نکاح کے دوران احمدیوں اور دیو بندیوں کے مابین ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں بحث ہورہی تھی۔ میں بھی یہ بحث سننے کے لئے آیا تھا۔ چونکہ دیر ہوجانے کے باعث میں پیدل تیز تیز جارہا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک ٹانگہ آپہنچا جس میں دیوبندی احباب جو میرے پرانے واقف کار اور بعض کلاس فیلو بھی تھے اس میں سوار تھے۔ مواد بحث کے لئے کچھ امدادی کتب لئے وہ بھی ادھر جارہے تھے چونکہ سلسلہ احمدیہ میں مجھے داخل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا ان دوستوں کو میرے احمدی ہونے کا علم نہیں تھا۔ مجھے پیدل جاتے دیکھ کر ٹانگہ کھڑا کیا۔ اور مجھ سے پوچھنے پر جب انہیں معلوم ہوا کہ میں بھی ادھر ہی جارہا ہوں مجھے سوار کرکے ٹانگہ دوڑا کر احاطہ عدالت تک پہنچے۔
جب ہم کمرہ عدالت تک پہنچے تو میں نے اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کا عجیب نظارہ دیکھا۔ کمرہ عدالت میں داخلہ کا دروازہ جو شرقی طرف تھا دیکھا کہ اس کے دائیں طرف احمدیوں کی نشست گاہ ہے اور بائیں طرف احمدیوں کے مقابل فریق ثانی کی۔ داخل ہوکر جب میں داہنی طرف جانے لگا تو دیوبندی دوست میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف لے جانے لگے اور میرے دوسری جانب اصرار کرنے پر کہنے لگے کہ وہ تو مرزائیوں کی جگہ ہے۔ تب میں نے انہیں کہا انا من اصحاب الیمین کہ میں اصحاب الیمین میں شامل ہوں۔ اتفاق دیکھئے نشست گاہ کی ہیئت کذائیہ کی تجویز خود انہیں غیر احمدیوں کے منصوبے سے ہوئی تھی۔ انہوں نے شائد اپنے نقطہ نگاہ سے احمدیوں کو بائیں طرف جگہ دی تھی اور دائیں جانب اپنے لئے منتخب کی تھی۔ کیونکہ عدالت کی جگہ جو مغربی جانب تھی اور جج جو قبلہ کو پیٹھ دے کر بیٹھتا تھا۔ اس کی داہنی طرف کو انہوں نے اپنے لئے باعث فخر اور نیک فال شمار کیا اور احمدیوں کو جج کی بائیں جانب جگہ دے کر گویا اپنے خیال میں ان کی تذلیل کی۔ مگر قدرت کی ستم ظرفی دیکھئے۔ بوجہ حق سے محجوت ہونے کے ان کے دماغ ایسے کند ہوگئے کہ یہ نہ سوچا کہ یہ ہیئت تو قبلہ کو پیٹھ دینے کی وجہ سے ہے حالانکہ مومن کو تو یہ حکم ہے۔
حیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ۔
عہد حاضر میں بھی جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اجتماع واتحاد کیلئے ایک امام اور اسلام کی نشاء|ۃ ثانیہ کے لئے ایک روحانی مرکز قرار دیا تو اس کی طرف بھی ان میں سے اکثر نے رخ نہ کیا۔ بلکہ پیٹھ ہی دی۔ جب میں اندر داخل ہوا تو دیکھا محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی تقریر ہورہی تھی اور کمرہ میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سامعین ہمہ تن نغمہ سروش کے خمار میں مست تھے۔ جج بھی کرسی عدالت پر محویت کے علم میں قلم ہاتھ میں تھامے منہ کے قریب لئے محو سماع نظر آیا۔ میں چونکہ احمدیت کے لحاظ سے حدیت العہد تھا۔ )میری بیعت ۱۹۲۷ء کی ہے اس سے پہلے میں نے کسی احمدی کو اپنے مدمقابل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی تقریر کچھ ایسے رنگ میں تھی جس کا نقشہ قرآن مجید کی ان آیات میں کھینچا گیا ہے۔ جہاں مجاہدین اسلام کے کارناموں کے تذکرے بیان کئے ہیں اور جن میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور کی بھی پیشگوئی ہے۔
النازعات غرقا والناشطات نشطا والسابحات سبحا۔
میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج کا یہ جانباز سپاہی پورے زور وقوت کے ساتھ دلائل حقہ اور براہین قاطعہ کے پیہم داروں سے مولویوں کے عقائد باطلہ اور ان کے خود تراشیدہ مسائل کی دھجیاں اڑانے میں مستغرق ہے اور ایک ہوشیار ڈاکٹر کی طرح اپنے فن سرجری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان اغلوطات کا اپریشن ایسے عمدہ طریق سے کررہا ہے۔ اور تنقیحی امور کی تنقید کرتے ہوئے ان عقائد فاسدہ کے پرعفونت مواد خبیثہ کو ایک ایک کرکے ایسے طور پر نکال رہا ہے۔ جیسے لائق سول سرجن کامیاب اپریشن کی صورت میں مریض کے جسم سے تمام غلیظ اور زہریلے مواد نکال کر باہر پھینک دیتا ہے۔ اور کام ایسے پرسکون کیف اور نشاط طبع سے ہورہا ہے کہ گفتگو میں کسی قسم کی تلخی آنے نہیں پاتی۔ جیسا کہ عموماً مولویوں کی گفتگو میں ہوتی ہے۔ بلکہ نہایت ٹھنڈے دل سے حاضرین بھی نشاط وسرور سے سن رہے ہیں۔ یہ شہسوار میدان تقریر میں اپنے اشہب بیان کو ایسے طور پر چلا رہا تھا۔ گویا اسپ تیز رفتار ہوا میں تیر رہا ہے۔ >)مضامین لطیفہ< صفحہ ۱۸۱ تا ۱۸۴ مرتبہ مولانا عبداللطیف صاحب۔ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ(
مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کا بیان
۱۳/ مارچ ۱۹۳۳ء کو مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کا مدلل بیان شروع ہوا۔ بیان کے شروع ہوتے ہی فریق ثانی نے یہ سوال اٹھایا کہ مرزا صاحب کے ساتھ علیہ الصلوہ والسلام کے الفاظ کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟ جج صاحب نے بھی ایک حد تک اس کی تائید کی۔ مگر جب مولوی صاحب نے کہا کہ اگر جج کوئی ہندو ہو اور رنگیلا رسول کا لکھنے والا کسی مسلمان گواہ کے متعلق اصرار کرے کہ محمد~صل۱~ کے ساتھ مت کہو تو کیا جج قانوناً مجاز ہے کہ نہ لکھے یا اس گواہ کو روک دے۔ اگر ایسا نہیں تو ہمیں کیوں روکا جاتا ہے۔ اس نکتہ پر جج نے مجبوراً اپنی رائے بدل لی۔ مولوی صاحب کا اصل بیان ۲۴۰ صفحات پر مشتمل تھا۔ مگر عدالت کے سامنے صرف ۴۹ صفحات میں لکھوایا گیا۔۱۰۱ یہ مکمل بیان بعد کو >اظہار الحق<۱۰۲ کے نام سے شائع کر دیا گیا تھا۔ جسے مولانا بدوملہی صاحب نے نہایت محنت و کاوش سے لکھا تھا اور اس کی ترتیب میں حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہ جہانپوری نے گرانقدر تعاون فرمایا۔ اور راہنمائی کی اور ہر مرحلہ پر اپنے قیمتی اور مفید مشوروں سے نوازا۔
۳۱/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو مقدمہ کی پیروی کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ` مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل بہاولپور تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس مرکز میں آگئے۔ ۳/ مارچ ۱۹۳۴ء کو تاریخ پیشی تھی جس میں شمولیت کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~ اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب تشریف لے گئے۔۱۰۳ اور مولانا شمس صاحبؓ نے مارچ کے پہلے ہفتہ میں مدعا علیہ کی طرف سے بحث مکمل کر لی۔
مختاران مدعیہ کا رویہ
مختاران مدعیہ۱۰۴ کی طرف سے خلل اندازی کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری تھا۔ جو بڑی روک کا موجب بنا۔ قدم قدم پر طفلانہ ضدوں اور خفیف حرکتوں کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ جس سے بہت وقت ضائع ہوا۔ تاہم مولانا شمس صاحب ۶/ مارچ کو بفضل تعالیٰ خاتمہ بحث تک جاپہنچے۔
مختاران مدعیہ نے دوران بحث میں اشتعال دلانیے کا بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اور یہ آخری بحث بھی اس سے خالی نہ رہی۔ جب مختاران مدعیہ کا اپنے اقوال سے انحراف حد سے گزر گیا۔ تو مولانا شمس صاحب نے عدالت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسی صورت اختیار کی گئی ہے کہ گویا خدا کے وجود کا یقین ہی نہیں ہے تو مختار مدعیہ بگڑ گئے کہ ہماری ہتک کی گئی ہے۔ اور گویا ہوئے کہ ہمارا یہاں کھڑا ہونا بے کار ہے اور یہ کہہ کر آپ بنچ پر اپنے معاونین کے پاس جا بیٹھے۔ مگر پھر اٹھے اور اپنے ایک ہم خیال مولوی صاحب کو جو عدالت کے کٹہرے کے پاس کھڑے بحث سن رہے تھے پکڑ کر گھسیٹنے لگے کہ چلے آئو یہاں کھڑے ہونا فضول ہے اور ہٹا کر بنچ پر لے آئے۔ پھر باہر نکل گئے۔ آخر دس منٹ کے بعد پھر خود ہی واپس آگئے اور بنچ پر بیٹھ گئے۔ پھر بنچ سے اٹھے اور اپنی مقررہ جگہ پر کھڑے ہو گئے اور بدستور الجھنے اور تقریر بحث میں خلل ڈالنے لگے۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ آپ گئے کیوں تھے اور گئے تھے تو پھر خود ہی واپس کیوں تشریف لے آئے؟<۱۰۵
۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مولانا شمس صاحبؓ نے جوابی بحث شروع کی۔۱۰۶
۲۸/ اپریل سے پھر مقدمہ کی پیشی شروع ہوئی۔ تو مختار مدعیہ کی طرف سے جواب شروع کیا گیا جو غیر متعلق باتوں کا مجموعہ تھا جن سے مختار مدعیہ کا مقصود جواب کی بجائے صرف بحث کو بے جا طوالت دینا اور الجھانا تھا۔ عدالت ہر روز اسے اس امر کی طرف توجہ دلاتی تھی۔ کہ اس بے موقعہ اور بے وجہ تطویل کا کیا فائدہ؟ جواب مدعا علیہ کے رد میں جو کہنا ہو کہو۔۱۰۷
مختار مدعیہ اور مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~
مختار مدعیہ کی اس بحث کی نوعیت کیا تھی اس کا اندازہ لگانے کے لئے حضرت مولٰنا جلال الدین صاحب شمسؓ کے قلم سے مقدمہ کے اس حصہ کی بعض باتیں بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں۔
بحث کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے بہاولپور سے لکھا۔ >روزانہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے مختار مدعیہ کی خیانت اور جہالت ٹپکتی ہے جن پر عدالت کو توجہ دلائی جاتی ہے۔ ان میں سے چند باتیں بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔ مختار مدعیہ۔ )عدالت کے توجہ دلانے پر کہ بے جا تکرار کو چھوڑو( مختار مدعا علیہ نے بھی اپنی بحث میں بے جا تکرار کی ہے۔ شمس۔ بالکل غلط ہے کوئی ایک ہی مثال پیش کرو۔ مختار مدعیہ۔ خاتم النبین کے معنی ایک جگہ تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے عنوان کے ماتحت بیان کئے ہیں اور پھر اسی تفصیل کے ساتھ مسئلہ ختم نبوت کے ماتحت بھی۔ شمس۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر؟ مختار مدعیہ۔ میں جھوٹا ہوں گا۔ شمس۔ نکالو بحث۔ )انہوں نے بحث نکالی وہاں میں نے صرف حوالہ دیا ہوا تھا کہ چونکہ خاتم النبین کے معنی پر مفل بحث گواہان مدعا علیہ اپنے بیان میں کرچکے ہیں اس لئے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں( شمس۔ )مختار مدعیہ کو مخاطب کرکے( اب تو تمہارے جھوٹے ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( دیکھو حضور والا! مجھے جھوٹا کہتے ہیں۔ شمس۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ اگر تکرار ثابت نہ ہو تو میں جھوٹا اور ظاہر ہے کہ تکرار ثابت نہیں ہوئی اس لئے یہ اقراری جھوٹے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔ عدالت نے مختار مدعیہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
)۲( شق القمر کے خسوف ہونے پر میں نے ایک روایت >روح المعانی< سے لکھی تھی جس کے جواب میں مختار مدعیہ نے کہا کہ صاحب روح المعانی پر افترا کرکے اس کی طرف یہ عقیدہ منسوب کر دیا کہ وہ بھی شق القمر کو ایک قسم کا خسوف سمجھتے تھے۔ شمس۔ )عدالت کو توجہ دلا کر( یہ میرے جواب سے دکھائیں کہ میں نے کہاں مولف روح المعانی کی طرف یہ عقیدہ منسوب کیا ہے؟ مختار مدعیہ۔ ابھی دکھاتے ہیں۔ شمس۔ دکھائو )جب بحث نکالی تو اس میں مولف >روح المعانی< کی طرف یہ عقیدہ منسوب نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ لکھا تھا کہ >روح المعانی< میں ایک روایت موجود ہے جس میں وہی لکھا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں( مختار مدعیہ۔ دیکھو یہ عبارت بتاتی ہے کہ مولف >روح المعانی< کا یہ عقیدہ ہے۔ شمس۔ اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ ان کا عقیدہ ہے یہاں تو اس میں ایک روایت کے موجود ہونے کا ذکر ہے۔ عدالت۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مولف >روح المعانی< کا عقیدہ ہے۔
)۳( قیامت و حشر پر بحث کرتے ہوئے مختار مدعیہ نے ایک آیت وما ھم منھا بخارجین پڑھی۔ شمس۔ یہ آیت کس پارہ میں ہے؟ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( ان کے لئے جواب کا موقعہ نہیں یہ کیوں ایسے طور پر دریافت کرتے ہیں؟ شمس۔ کیا تمہارا یہ منشاء ہے کہ قرآن مجید کی طرف بھی اپنی طرف سے آیات منسوب کرتے چلے جائو۔ ۔۔۔۔۔۔ مختار مدعیہ کے ساتھی بولے کہ خارجین والی آیت قرآن میں ہے۔ شمس۔ وما ھم منھا بمخرجین ہے یا وما ھم بخارجین من النار ہے >وما ھم منھا بخارجین< تو کہیں نہیں۔
)۴( وحی کی بحث کرتے ہوئے مختار مدعیہ نے کہا کہ آیت رفیع الدرجات ذوالعرش یلقی الروح من امرہ میں مذکورہ صفات خداوندی انتخاب کے ساتھ متعلق ہے نہ یہ کہ وحی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کفار کا اعتراض بھی نقل کیا ہے۔nsk] g[ta ا انزل علیہ الذکر من بیننا۔ شمس۔ یہ آیت کس سورۃ میں آئی ہے حوالہ دیں؟ مختار مدعیہ۔ )ادھر ادھر جھانک کر( یہاں حافظ صاحب بیٹھے تھے۔
حافظ صاحب۔ )سوچنے کے بعد( سورۃ قمر کی آیت ہے۔ شمس۔ کیا یہ آنحضرت~صل۱~ کے حق میں ہے؟ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( یہ ان کے جواب دینے کا موقعہ نہیں۔
شمس۔ جواب نہ دینے کے موقعہ کے یہ معنی نہیں کہ ہم توجہ بھی نہ دلائیں۔ اور تم جو چاہو قرآن مجید کی آیات کو محرف و مبدل کرکے پیش کرتے جائو۔ دیکھو یہ آیت سورۃ قمر میں ہے حضرت صالحؑ کی قوم ثمود کا قول ہے اور تم کفار مکہ کا بتا رہے ہو۔
)۵( خاتم النبین کے معانی بتانے کے لئے مختار مدعیہ نے ایک حوالہ حضرت ملا علی قاری کا پیش کیا تھا اس میں لا نبی بعدی کے معنی صاف طور پر یہ لکھے ہیں کہ ای لایحدث بعدہ نبی کہ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو گا۔ نہ یہ کہ پرانا بھی نہیں آسکتا۔ شمس۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( مختار مدعیہ نے اس میں بھی صریح خیانت سے کام لیا ہے کیا اس کے ساتھ ہی یہ نہیں لکھا کہ >ینسخ شرعہ< کے ایسا نبی نہ ہو گا جو آپﷺ~ کی شریعت کو منسوخ کرے اس کو چھوڑ دیا اور پہلا حصہ لے لیا۔ کس قدر خیانت ہے۔ مختار مدعیہ۔ یہ ان کے جواب دینے کا وقت نہیں ہے۔ شمس۔ لیکن میں عدالت کو آپ کی خیانت پر توجہ دلا سکتا ہوں<۔۱۰۸
عدالت کے اختیار سماعت کا سوال
دوران سماعت مقدمہ مدعا علیہ نے مدعیہ اور اس کے والد مولوی الٰہی بخش صاحب کے خلاف ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کو عدالت سب جج صاحب درجہ دوم ملتان میں دعویٰ اعادہ حقوق زوجین دائر کرکے عدالت موصوف سے ان ہر دو کے خلاف ۱۷/ جون ۱۹۳۴ء کو ڈگری یکطرفہ حاصل کر لی اور عدالت بہاولپور کے سامنے یہ اہم قانونی عذر پیش کیا کہ عدالت کو اس مقدمہ کے بارے میں اختیار سماعت حاصل نہیں کیونکہ بناء دعویٰ حدود ریاست بہاولپور میں پیدا نہیں ہوئی اور نہ مدعا علیہ کی رہائش عارضی یا مستقل ریاست بہاولپور کے اندر ہوئی ہے۔ دوسرا عدالت برطانیہ سے مدعا علیہ کے حق میں ڈگری استقرار حق زوجیت برخلاف مدعیہ اور اس کے والد الٰہی بخش کے صادر ہو چکی ہے اس لئے بروئے دفعہ ۱۱ ضابطہ دیوانی عدالت ہذا کو اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ دفعات ۱۳۔ ۱۴ ضابطہ دیوانی کے بموجب ڈگری قطعی ہو چکی ہے۔ اور اس کے صادر ہونے کے بعد مقدمہ زیر سماعت ڈسٹرکٹ عدالت بہاولپور میں نہیں چل سکتا۔
اختیار سماعت کے اس اہم سوال پر ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو عدالت نے تنقیحات ایزاد کیں۔ ۱۲/ جنوری ۱۹۳۴ء کو مدعا علیہ نے درخواست دی کہ یہ امر بھی زیر تنقیح لایا جائے۔ کہ کیا مدعا علیہ کی وطنیت ریاست بہاولپور میں واقع ہے مگر دسٹرکٹ عدالت نے اسے محض اس بناء پر مسترد کر دیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے اس قسم کا عذر پہلے نہیں اٹھایا گیا۔۱۰۹
مدعا علیہ نے یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو یہ تنقیح قائم کی کہ مدعیہ بوقت ارجاع نالش نابالغ تھی۔ جو ۲۹/ مارچ ۱۹۳۳ء کو خارج کر دی گئی۔۱۱۰
مدعا علیہ کی وفات کے بعد عدالت کا فیصلہ
مقدمہ کی اس لمبی کارروائی کے خاتمہ کے بعد جبکہ مقدمہ ابھی زیر غور تھا مظلوم احمدی عبدالرزاق صاحب جو ۱۹۲۶ء سے اس مقدمہ میں الجھائے گئے تھے وفات پا گئے۔ جس پر عدالت میں درخواست دی گئی کہ مدعا علیہ کی موت واقع ہونے کے سبب اب کارروائی ختم کر دی جائے لیکن عدالت چونکہ ریاستی حکام اور اپنے مفتی صاحب کے پوری طرح زیر اثر تھی اس لئے اس نے یہ درخواست بھی رد کر دی اور فاضل جج نے ۷/ فروری ۱۹۳۵ء مطابق ۳/ ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ کو ایک طویل فیصلہ سنایا جس میں وہی کچھ بیان کیا جس کی اس عدالت کے عملی رویہ سے توقع تھی۔ یعنی لکھا۔
>مدعیہ کی طرف سے ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب کاذب مدعی نبوت ہیں اس لئے مدعا علیہ بھی مرزا صاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہذا ابتدائی تنقیحات جو ۴/ نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھی بحق مدعیہ ثابت قرار دی جاکر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہو چکا ہے۔ لہذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہو چکاہے ۔۔۔۔۔۔ لہذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہو گی<۔۱۱۱
>شرع شریف< کی روشنی میں عدالتی فیصلہ اور >ختم نبوت<
فاضل جج نے اپنے طویل فیصلہ میں اپنے ہم مشرب علماء کی تائید و تصدیق میں >شرع شریف< کی روشنی میں جو شرعی محاکمہ فرمایا اس کی بنیاد محض ختم نبوت کے ان معنیٰ پر رکھی جو عدالت میں پیش ہونے والے غیر احمدی علماء نے بیان کئے تھے اور جن کی حقیقت احمدی علماء نے اپنے واضح بیانات میں قرآن و حدیث اور اقوال آئمہ سے روز روشن کی طرح واضح کر دی تھی۔ مگر فاضل جج نے انہیں علماء کے بیانات کو جن کو مسلمانوں کے بعض فرقے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے صحیح قرار دیا۔
چنانچہ فاضل جج کے بیان کے مطابق >مدعا علیہ کی طرف سے لغت اور عربی زبان کے محاورات سے یہ دکھلایا گیا۔ کہ لفظ خاتم جب تا کی زبر سے پڑھا جائے تو انگوٹھی یا مہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اگر زیر سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ختم کرنے والا دوسرا مہر لگانے والا ہوتے ہیں اور >خاتم< کا لفظ کمال کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوتا ہے اور کہ خاتم کے اصل معنی آخر کے نہیں ہیں اگر آخر کے معنی بھی لئے جائیں تو پھر لازم معنی کہلائیں گے نہ اصل معنے اور جب اصل معنے لئے جا سکتے ہیں تو لازم معنی کیوں لئے جائیں خاتم اگر کہیں آخر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے تو لازم معنے لے کر کیا جاتا ہے اور جبکہ قرآن مجید میں کوئی ایسا صریح قرینہ موجود نہیں جو لازم معنے لینے پر ہی دلالت کرے تو اس کے باقی سب معنے چھوڑ کر صرف آخر کے معنے میں لینا کسی طرح صحیح نہیں<۔۱۱۲
اس پر فاضل جج نے یہ فیصلہ صادر فرمایا۔ >لیکن مقدمہ ہذا میں سوال زیر بحث عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے الفاظ کے معنے یا مراد سے تعلق نہیں رکھتا دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ کس معنیٰ پر قائم ہوا۔ جب مدعا علیہ کے نزدیک خاتم کے معنے )نقل مطابق اصل( آخر کے ہو سکتے ہیں اور عقیدہ بھی تیرہ سو سال تک اس پر قائم رہا ہے تو اب ان الفاظ پر بحث کرنا کہ ان کے معنی آخر کے نہیں بلکہ مہر کے ہیں سوائے ایک علمی دلچسپی کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا<۔۱۱۳
اب خاتم کے معنی مہر کو محض ایک >علمی دلچسپی< قرار دینے والے فاضل جج کے فیصلہ کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔
>اس میں شک نہیں کہ خاتم کے معنے مہر دیگر علماء نے بھی کئے ہیں اور حال ہی میں قرآن مجید کا جو ترجمہ مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا شائع ہوا ہے اس میں بھی خاتم کے معنے مہر درج ہے اور خاتم النبین کے معنیٰ انہوں نے یہ لکھے ہیں کہ مہر ہیں تمام نبیوں پر اور میری رائے میں سیاق و سباق عبارت سے یہی معنیٰ درست معلوم ہوتے ہیں<۔۱۱۴
فاضل جج نے مولوی محمود الحسن صاحب کے جس ترجمہ قرآن کی تائید کی ہے اس کے حاشیہ میں >نبیوںں کی مہر< کا مفہوم یہ بتایا گیا تھا کہ۔
>جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی~صل۱~ پر ختم ہوتا ہے بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبین ہیں۔ اور جن کو نبوت ملی ہے آپﷺ~ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے<۔۱۱۵
بنابریں فاضل جج کے لئے یہ نکتہ سمجھنا چنداں مشکل نہ تھا کہ جب آنحضرت~صل۱~ ہی کی مہر لگ کر سب نبیوں کو نبوت ملی ہے تو وہ شخص کیسے مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ >اللہ جل شانہ` نے آنحضرت~صل۱~ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپﷺ~ کو افاضئہ کمال کے لئے مہروی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپﷺ~ کا نام خاتم النبین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے<۔۱۱۶
فاضل جج اور >تعریف نبوت<
پھر ختم نبوت کی وضاحت کے لئے تعریف نبوت کا سمجھنا ضروری تھا فاضل جج نے اپنے محاکمہ میں تسلیم کیا کہ >موجودہ زمانہ میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں<۔۱۱۷ نیز لکھا کہ >مدعیہ کی طرف سے بھی نبی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبوت ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا جاتا رہا ہے اور نبی اور رسول میں یہ فرق بیان کیا گیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لئے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو فریق ثانی نے بحوالہ نبراس صفحہ ۸۹ بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ احکام شریعت کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے بخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے کتاب لائے یا نہ لائے رسول کے لئے کتاب کا لانا شرط ہے اسی طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے کہ جو صاحب کتاب ہو یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے<۔۱۱۸
ان تعریفوں کو تشنہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اپنے طور پر مطالعہ شروع کیا تو انہوں نے ایک اور تعریف کا علم ہوا۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
>یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی نہ تھیں اس لئے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یا رسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازم نبوت پر حاوی ہو اس سلسلہ میں مجھے مولانا محمود علی صاحب پروفیسر رندھیر کالج کی کتاب >دین و آئین< دیکھنے کا موقعہ ملا انہوں نے معترضین کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نبوت کی حقیقت یہ بیان کی کہ جس شخص کے دل میں کوئی نیک تجویز بغیر ظاہری وسائل اور نور کے پیدا ہو ایسا شخص پیغمبر کہلاتا ہے اور اس کے خیالات کو وحی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعریف بھی مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی<۔۱۱۹
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدعیہ کی طرف سے پیش ہونے والے >مستند مشاہیر علماء ہند< اور مولانا محمود علی جیسے روشن خیال پروفیسر جب تسلی نہ کرا سکے تو فاضل جج نے آخریہ بنیادی مسئلہ >شرع شریف< کے مطابق کس طرح حل فرمایا؟ سو جواب یہ ہے کہ صرف اور صرف ادارہ طلوع اسلام کے علمبردار چوہدری غلام احمد صاحب پرویز کی تحریر سے جن کو آج برصغیر کے بہت سے مسلم علماء سرے سے مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ چنانچہ فاضل جج کا بیان ہے۔
>آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بعنوان میکانیکی اسلام از جناب چوہدری غلام احمد صاحب پرویز میری نظر سے گزرا۔ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کے روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے میری رائے میں اس سے بہتر اور کوئی بیان نہیں کی جا سکتی۔ اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس پر انکار بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر اور ایک مصلح قوم ہوتا ہے جو اپنی قوم کی نکبت اور زبوں حالی سے متاثر ہو کر انہیں فلاح و بہبود کی طرف بلاتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میںں انکے اندر انضباط و ایثار کی روح پھونک کر زمین کے بہترین خطوں کا ان کو مالک بنا دیتا ہیں۔ الخ<۱۲۰
یہ تعریف کہاں تک لوازم نبوت پر حاوی ہے اس کی نسبت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مقصود صرف اس قدر بتانا ہے کہ دربار معلیٰ کا مقرر کردہ جج جو >شرع شریف< کی روشنی میں نبوت کا انقطاع یا تسلسل کا >فیصلہ< کرنے کے لئے قلم اٹھاتا ہے اس کا ذہن خود نبوت کی تعریف کے بارہ میں متشکک اور متذبذب ہے اور اپنی نگاہ میں جس تعریف کو >بہترین< قرار دیتا ہے نہ صرف اس کا تصریحات قرآنی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ایک طرف اس سے تمام انبیاء سیاسی لیڈروں کی صف میں کھڑے کر دیئے گئے ہیں تو دوسری طرف اس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام` حضرت یحییٰ علیہ السلام اور دوسرے بہت سے جلیل القدر پیغمبر جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی قوم کو زمین کے بہترین خطوں کا مالک نہیں بنایا۔ اور ہمیشہ غیر ملکی حکومت کی سیاسی اعانت کرتے رہے دائرہ انبیاء سے خارج قرار پاتے ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کی شہادت اور اس کی حکمت
افسوس ہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسی سرزمین میں کیا گیا جہاں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف جیسے بزرگ کامل گزرے ہیں
جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت صاف لفظوں میں فرمایا تھا کہ۔
>فرمود ندکہ ہمہ اوقات مرزا صاحب بعبادت خدا عزوجل میگذر ندیا نماز میخواند یا تلاوت قرآن میکند یا دیگر شغل اشغال مے نماید۔ و برحمایت دین اسلام چناں کمر ہمت بستہ کہ ملکہ زمان لنڈن رانیز دعوت دین محمدیﷺ~ کردہ است و بادشاہ روس و فرانس وغیر ہمارا ہم دعوت اسلام نمودہ است و ہمہ سعی و کوشش اودرایں است کہ عقیدہ تثلیث و صلیب را کہ سراسر کفر است بگذارند۔ و تبوحید خداوند تعالیٰ بگروند و علمائے وقت رابہ بینید کہ دیگر گروہ مذاہب باطلہ را گزاشتہ صرف درپے ایں چنیں نیک مردکہ اہلسنت وجماعت است و برصراط مستقم است دراہ ہدایت مے نماید افتادہ اندو بروئے حکم تکفیر مے سازند۔ کلام عربی اوبہ بینید کہ از طاقت بشریہ خارج است و تمام کلام او از معارف و حقائق و ہدایت است و از عقائد اہلسنت و جماعت و ضروریات دین ہرگز منکر نیست<۔۱۲۱
ترجمہ: حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمتہ نے فرمایا کہ )حضرت( مرزا صاحب تمام اوقات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا تلاوت قرآن شریف کیا کرتے ہیں یا اور شغل و اشغال کیا کرتے ہیں اور حمایت دین اسلام پر ایسے کمربستہ ہیں کہ ملکہ زمان لنڈن کو بھی دین محمدیﷺ~ کی دعوت دی ہے اور بادشاہان روس و فرانس وغیرہم کو بھی دعوت اسلام دی ہے اور ان کی تمام سعی اور کوشش اس میں ہے کہ لوگ عقیدہ تثلیث و صلیب چھوڑ کر جو کفر ہے خدا تعالیٰ کی توحید کو مان لیں اور علماء وقت کو دیکھو کہ تمام مذاہب باطلہ کے گروہ کو چھوڑ کر صرف ایسے شخص کے درپے ہو گئے ہیں جو اہل سنت و جماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے اور راہ ہدایت دکھلاتا ہے اور اس پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اس کا عربی کلام دیکھو کہ طاقت بشری سے بالا ہے اور اس کا تمام کلام معارف و حقائق و ہدایت سے پر ہے اور وہ عقائد اہلسنت و جماعت و ضروریات دین سے ہرگز منکر نہیں ہے۔
یہ پاک شہادت اس محترم انسان کی ہے جس کی بزرگی اور تقدس کا ایک جہان قائل و معترف ہے اور ریاست بہاولپور کا ایک بڑا حصہ اس کا معتقد و مرید ہے اور وہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کے پیر تھے۔ ان کی شہادت حقہ کے محفوظ رہنے میں )جیسا کہ مولانا شمس صاحبؓ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا( اللہ تعالیٰ کی یہی حکمت تھی کہ ایک دن اس ریاست کی عدالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کفر و اسلام کا مسئلہ پیش ہونا تھا اس لئے پہلے سے خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادہ کی تائید کے لئے یہ سامان پیدا کر دیا کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کے مقدس پیر کی شہادت جو ہزاروں شہادتوں سے بڑھ کر ہے ان کے سچے مسلمان ہونے پر پیش کی جا سکے۔ اور گواہوں نے جو وجہ تکفیر پیش کرنی تھی کہ وہ ضروریات دین کے منکر ہیں وہی الفاظ خدا تعالیٰ نے حضرت خواجہ صاحب کے منہ سے نکلوائے کہ وہ ضروریات دین کے ہرگز منکر نہیں ہیں۔
فاضل جج کی >شان تحقیق<
فاضل جج کی >شان تحقیق< اور >قوت فیصلہ< کی یہ حیرت انگیز مثال ہے کہ انہوں نے مدعیہ کی طرف سے حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ جیسی بلند پایہ شخصیت کے اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے اس سے انحراف کے لئے عذر یہ تراشا کہ >مرزا صاحب کی ایک تحریر سے جو آپ کی کتاب >انجام آتھم< صفحہ ۶۹ پر درج ہے پایا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب بھی بعد میں مرزا صاحب کے مفکر اور مکذب ہو گئے تھے<۔۱۲۲ حالانکہ اسی >انجام آتھم< کے آخر میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں کا مندرجہ ذیل خط بھی موجود ہے جو دعوت مباہلہ کے جواب میں انہوں نے نہایت محبت و عقیدت سے لکھا۔
من فقیر باب اللہ غلام فرید سجادہ نشین الی جناب میرزا غلام احمد صاحب قادیانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب الارباب۔ والصلوہ علی رسولہ الشفیع بیوم الحساب و علی الہ والاصحاب والسلام علیکم و علی من اجتھد و اصاب۔ اما بعد قد ارسلت الی الکتاب وبہ دعوت الی المباھلہ و طالبت باالجواب وانی ان کنت عدیم الفرصہ ولکن رایت جزء|ہ من حسن الخطاب۔ وسوق العتاب۔ اعلم یا اعزا الاحباب۔ انی من بدو حالک واقف علی مقام تعظیمک لنیل الثواب وما جرت علی لسانی کلمہ فی حقک الا با التبحیل و رعایہ الاداب۔ والان اطلع لک بانی معترف بصلاح حالک بلا ارتیاب۔ وموقن بانک من عباد اللہ الصالحین و فے سعیک المشکور مثاب۔ واوتیت الفضل من الملک الوھاب ولک ان تسئل من اللہ تعالی خیر عاقبتی وادعولکم حسن ماب۔ ولولا خوف الاطناب لا زددت فی الخطاب۔ والسلام علی من سلک سبیل الصواب۔ فقط ۲۷/ رجب ۱۳۱۴ھ۱۲۳ من مقام چاچڑاں<۔ )مہر(
ترجمہ: اس کا یہ ہے۔ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو رب الارباب ہے اور درود اس رسول مقبولﷺ~ پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کی آل اور اصحاب پر اور تم پر سلام اور ہر یک پر جو راہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو اس کے بعد واضح ہو کر مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا۔ تاہم میں نے اس کتاب کی ایک جز کو جو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے۔ سوائے ہر یک حبیب سے عزیز تر! تجھے معلوم ہو کہ میں ابتداء سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو۔ اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا۔ اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے میرے لئے عاقبت بالخبر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں۔ اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا۔ والسلام علیٰ من سلک سبیل الصواب۔ من مقام چاچڑاں۔۱۲۴
اس خط کا ذکر بھی مولانا شمس صاحبؓ کے بیان میں وضاحت سے کردیا گیا تھا بلکہ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کی پھوپھی صاحبہ خان عبدالغفور خاں صاحب آف ٹوپی سے شادی شدہ ہیں وہ خود غیر احمدی ہیں مگر ان کے خاوند احمدی ہیں۔
مقدمہ بہاولپور کے حالات و واقعات پر روشنی ڈالنے کے بعد بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مقدمہ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مولانا غلام احمد صاحب کے بیانات کی تیاری میں حضرت حافط سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے از حد محنت و کاوش فرمائی اور معاونت کا حق ادا کر دیا۔ اس سلسلہ میں آپ بہاولپور بھی تشریف لے گئے )جیسا کہ ذکر آچکا ہے( اسی طرح مولانا شیخ مبارک احمد صاحب` مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ اور چوہدری محمد شریف صاحب فاضل جو جامعہ احمدیہ سے نئے نئے فارع التحصیل ہوئے تھے لگاتار ایک ماہ تک بطور معاون مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کے ساتھ مصروف عمل رہے۔
جہاں تک قانونی امداد و راہ نمائی کا تعلق ہے چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء کی خدمات ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔۱۲۵ چوہدری صاحب موصوف حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خصوصی ہدایت پر مقدمہ کی کارروائی میں آخر تک شامل رہے اور اپنے بیش قیمت مشوروں سے بہت مدد پہنچائی۔
صوفی عبدالغفور صاحب پراچہ ان دنوں ریاست بہاولپور کے پبلسٹی آفیسر تھے اور بہاولپور میں ہی مقیم تھے سلسلہ کے تمام بزرگ اور مبلغین جو مرکز سے مقدمات کی پیروی کے لئے وہاں تشریف لے جاتے تھے ہمیشہ انہیں کے ہاں قیام پذیر ہوتے اس طرح صوفی صاحب تین چار سال تک مسلسل نہایت خندہ پیشانی سے مہمان نوازی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں انتشار اورحضرت خلیفتہ المسیحؓ کی اپیل
ایک ایسے نازک وقت میں جبکہ سیاسی حقوق اور مفاد کے لحاظ سے ہندوستان کے مسلمان امید و بیم کی کشمکش میں مبتلا تھے وسط ۱۹۳۲ء میں
یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ مشہور مسلمان لیڈر مولانا شفیع صاحب دائودی نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی سیکرٹری شپ سے کسی بناء پر استعفیٰ دے دیا اور مسلمانان ہند کی اس واحد سیاسی نمائندہ جماعت میں زبردست اختلاف رونما ہو گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس نازک موقعہ پر مولانا محمد شفیع صاحب دائودی کو تو یہ مشورہ دیا کہ وہ استعفیٰ واپس لے لیں۔ اور مسلمان لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ کوئی نئی پارٹی بنانے سے احتراز کریں۔
حضورؓ کے اس بیان کا مکمل متن حسب ذیل ہے۔
>مسلم کیمپ میں پھوٹ پڑ جانا نہایت درجہ افسوسناک ہے اور مسلم مفاد کے لئے بے حد ضرر رساں ہے میری رائے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا مجوزہ جلسہ جو ۳/ جولائی کو منقعد ہونے والا تھا اس کو ملتوی کر دینے کی ضرورت نہ تھی۔ بہتر ہوتا کہ جلسہ کر لیا جاتا۔ اور اس میں طے شدہ مسلم پروگرام کے متعلق التواء کا فیصلہ کیا جاتا۔ اگر اکثریت اس کے حق میں ہوتی تو جلسہ ملتوی کر دیا جاتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ صدر نے التوا کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ آپ نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا لہذا کوئی وجہ نہ تھی کہ مولانا شفیع دائودی استعفیٰ دے دیتے۔ مسلمانوں کے لئے بے حد نازک موقعہ ہے لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ بجائے اس کہ کوئی نئی پارٹی بنا کر مسلم مفاد کو نقصان پہنچایا جائے۔ متحد ہو کر کام کریں۔ میں مولانا محمد شفیع دائودی سے مخلصانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں۔ اور اگر وہ بورڈ کا جلسہ منعقد کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے دلائل کانفرنس میں پیش کریں۔ اس صورت میں انہیں اختیار دیا جائے لیکن اس سے باہر کام کرنا درست نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان اپنے جمود کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اگر ہمارے مسلم نوجوان دیکھیں گے کہ ہمارے لیڈر معمولی معمولی بات پر آپس میں جھگڑ رہے ہیں تو وہ باغی ہو جائیں گے اور ناتجربہ کار نوجوان کانگریس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور مسلم مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور مسلم رہنما بندوں اور خدا کے سامنے ذمہ دار ہوں گے۔ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اور قبل اس کے کہ معاملہ بڑھے اس کا انسداد لازمی ہے<۔۱۲۶
اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس دور میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ` آل انڈیا مسلم یوتھ لیگ اور دوسری تمام مسلمہ سیاسی انجمنوں سے جماعت احمدیہ کے روابط تھے اور ان کے اجلاس میں جماعت کا کوئی نہ کوئی مرکزی نمائندہ ضرور شامل ہوتا تھا۔۱۲۷
آل سکھ پارٹیز کانفرنس کی قرارداد اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اہم بیان]0 [rtf
ان دنوں ہندوئوں نے پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے لے لئے سکھوں کو اپنا آلہ کار بنا رکھا تھا۔ اور ہندو پریس سکھوں
کی تعریفیں کرکے ان کو مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزی کے لئے مسلسل اکسا رہا تھا اسی کا اثر تھا کہ ۲۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ پر سکھوں کی ایک کانفرنس آئندہ دستور اساسی میں سکھوں کی پوزیشن واضح کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا کہ پنجاب میں مسلمانوں کو فرقہ وارانہ آئینی اکثریت نہ دی جائے اور یہ کہ پنجاب کونسل میں سکھوں کو ۳۰ فیصدی نشستیں دی جائیں۔ اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ کہا گیا کہ سکھ اس فیصلے کے خلاف کوئی بات منظور نہ کریں گے نیز ایک کمیٹی بنائی گئی جو سکھوں کے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے خلاف اقدام کرے۔۱۲۸
اس نازک موقعہ جب کہ سکھوں کی اس قرارداد نے ملکی فضا بہت مکدر کر دی تھی اور مسلمانوں کے قومی مطالبات کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مسلمانوں کو سکھوں کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے ایک پنجاب مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا۔
>میں آل پارٹیز سکھ کانفرنس کی قرارداد کے لب و لہجہ پر سخت حیران ہوں۔ میں نے سکھوں اور مسلمانوں کے اتحاد کی ہمیشہ تلقین کی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بحالات موجودہ کوئی مسلمان بھی سکھوں کے چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کرے گا۔ میں سکھ راہنمائوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی پوزیشن پر اچھی طرح سے غور کر لیں۔ میرا خیال ہے کہ مرکز میں مسلمانوں کی پوزیشن پنجاب میں سکھوں اور ہندوئوں کے مقابلہ میں بدرجہا بدتر ہے۔ انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دھمکیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس قسم کی دھمکیاں ہر پارٹی کی طرف سے باسانی دی جا سکتی ہیں۔
میں اس موقع پر یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ایک پنجاب مسلم کانفرنس منعقد کی جائے جس میں تمام اضلاع اور تمام طبقات کے سیاسی و مذہبی نمائندے شامل ہوں اور پھر موجودہ حالات پر غور کرنے کے بعد اپنے آخری اور قطعی فیصلے کو حکومت تک پہنچا دیا جائے تاکہ اسلامی مطالبات ہماری خاموشی کے باعث حکومت کی تغافل کی نذر نہ ہو جائیں۔ دنیا کو یہ معلوم ہو جانا چاہئے کہ مسلمان کسی طبقہ کی دھمکی سے مرعوب ہونے کے لئے ہرگز ہرگز تیار نہیں<۔۱۲۹
‏tav.7.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل سوم(
ہندوستان کا سیاسی فتنہ اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی راہنمائی
آل انڈیا نیشنل کانگریس نے )مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانے اور انگریزی حکومت کے بعد تنہا اقتدار سنبھالنے کی غرض سے( ۱۹۳۰ء میں
‏body2] ga[tسول نافرمانی کا جو پروگرام جاری کر رکھا تھا۔۱۳۰ اس نے ۱۹۳۲ء میں خطرناک صورت اختیار کر لی اور شورش` بدامنی` انارکزم اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قیام امن کے لئے متواتر خطبے دیئے اور جماعت احمدیہ کو مسلمانان ہند کے قومی حقوق کی حفاظت و حصول میں ہر ممکن قربانی پیش کرنے کی ہدایت فرمائی چنانچہ حضورؓ نے ارشاد فرمایا۔
>اس وقت یہاں بہت سے فتنے ہیں ایک تو مسلمانوں کی حق تلفی کا سوال ہے اور دوسرے حکومت کے خلاف شورش۔ اس حکومت کو خواہ غاصبانہ ظالمانہ یا غیر ملکی کہہ لو۔ لیکن بہرحال ملک کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہے اسے ایسے طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ملک کے اخلاق بگڑ جائیں اور عام بدامنی شروع ہو جائے اور یہ ایسی باتیں ہیں۔ جن سے ملک کا کوئی حقیقی خیر خواہ آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔
ان دونوں فتنوں کا مسلمانوں کو ہوشیاری سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔ ملک میں قیام امن خدا تعالیٰ کا حکم ہے پس اگر انگریز خود امن نہ بھی قائم کریں۔ جب بھی ہمیں چاہئے کہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر بھی اسے قائم کریں۔ اور یہ انگریز کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے لئے اور اپنی اولادوں کو بداخلاقی سے بچانے کے لئے ہے اگر کسی وجہ سے ہم اس فرض سے دستکش ہو جائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نادانی کی وجہ سے ہم اپنی اولادوں کو بگاڑتے ہیں۔ اور اس میں انگریز کا نہیں ہمارا اپنا نقصان ہے ۔۔۔۔۔۔ جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے ناجائز ذرائع اختیار کرنا کسی صورت میں بھی مناسب نہیں۔ جو قوم جائز ذرائع سے جدوجہد کرتی ہے اور صداقت کے ساتھ اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہے ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اسے محروم نہیں رکھ سکتیں جو حکومت رعایا کے بیدار جذبات کا لحاظ نہیں کرتی اور اسے خوش رکھنے کی کوشش نہیں کرتی وہ خود بخود تباہ ہو جائے گی اس لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں پکٹنگ اور سول نافرمانی وغیرہ تحریکات کا پورے زور کے ساتھ مقابلہ کرو ۔۔۔۔۔ کسی سے مت ڈرو یاد رکھو کہ جو انسان سے ڈرتا ہے وہ مشرک ہے ۔۔۔۔۔ پس یاد رکھو جس دن تک تم انگریز۔ کانگریس یا دوسرے مخالفین سے خواہ کس قدر زبردست کیوں نہ ہوں ڈرتے رہو گے اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے۔ بلکہ مشرک رہو گے اور تمہارا ٹھکانہ جنت نہیں جہنم میں ہو گا لیکن جس دن تمہارے دلوں سے فوج` پولیس` مالدار لوگوں اور دوسرے فتنہ انگریز مفسد طبقات کا ڈر اور خوف نکل گیا اور جس دن تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کی خوش نصیبی اور موت کو راحت کا پیغام سمجھنے لگے اور نفس کی حفاظت صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں کرنے لگ گئے اس دن اور صرف اس دن تم ایمان کے رستہ پر چلنے والے ہو گے<۔
>اس کے علاوہ مسلمانوں کے حقوق کے حصول کا سوال ہے۔ جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ قیام امن کے لئے حکومت کو مدد دیں ۔۔۔۔۔۔ وہاں یہ بھی فرض ہے کہ مسلمانوں کی بھی خدمت کریں جو اس وقت ذلیل ہو رہے ہیں اور حصول حقوق کے لئے ہر قربانی کرنے پر آمادہ ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے فتنہ کو دور کرنے کے لئے راستے رکھے ہیں اور ایسے راستے موجود ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ظالم سے ظالم انسان سے بھی اپنا حق انسان لے سکے بعض قانون ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ انہیں نہ ماناجائے مثلاً کوئی حکومت اگر یہ کہے کہ نماز نہ پڑھو تو ہم ہرگز تسلیم نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔ مکہ والے رسول کریم~صل۱~ کو عبادت الٰہی سے روکتے تھے۔ اور اگرچہ آپﷺ~ ان کا مقابلہ نہ کرتے لیکن نمازیں برابر پڑھتے تھے اسی طرح تبلیغ ہے اگر حکومت اس سے روکے تو اگرچہ اس کے مقابل پر ہم تلوار نہیں اٹھائیں گے لیکن تبلیغ ضرور کرتے رہیں گے اور ایسے احکام اگر انگریزی حکومت دے تو ہم ضرور اس کی نافرمانی کریں گے لیکن یہاں کوئی ایسا قانون نہیں کہ سول نافرمانی کو جائز سمجھا جا سکے ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کے لئے حقوق طلبی میں ہم کسی سے پیچھے نہیں اگر جائز طور پر حکومت کا مقابلہ کیا جائے تو ہم گاندھی جی کے دوش بدوش کام کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن ناجائز طریق اگر ہمارا بھائی بھی اختیار کرے تو ہم اسے صاف کہہ دیں گے کہ تم بے شک ہمارے بھائی ہو لیکن اس معاملہ میں ہم تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے۔ پس اس امتیاز کو سمجھو اور دونوں فتنوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرو ۔۔۔۔۔۔ جس جس رنگ میں کوئی ملک و قوم کی خدمت کر سکے ضرور کرے مثلاً سرکاری ملازم جلسوں وغیرہ میں شامل نہیں ہوسکتے ان کے لئے خدمت کا یہی طریق ہے کہ وہ حکومت کے ذمہ دار ارکان کے سامنے صحیح واقعات رکھ دیا کریں۔ خواہ وہ حالات حکومت کے خلاف ہوں یا پبلک کے۔ میں نے دیکھا ہے پولیس والے جھوٹی رپورٹیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ حکومت سے دشمنی ہے چاہئے کہ جو صحیح بات ہو پیش کر دی جائے۔ اس سے کوئی حاکم ناراض نہیں ہو سکتا بلکہ انصاف والا افسر تو اس کی قدر کرے گا۔ باقی لوگ جو ملازم نہیں وہ جائز حقوق کے حصول کے لئے کوشش کریں۔ لیکن ساتھ ہی کانگریس اور انارکسٹوں کا مقابلہ بھی بغیر کسی ڈر اور لالچ کے کریں اور مسلمانوں کے حقوق حاصل ہونے کے لئے جو خدمت ان سے ہو سکے کرتے رہیں لیکن اس قدر احتیاط ضرور کی جائے کہ جس کام میں ہم شریک ہوں بہ حیثیت جماعت ہوں انفرادی طور پر نہیں اور مالی امداد بھی اسی طرح دی جائے<۔۱۳۱
اس ضمن میں حضورؓ نے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف بھی توجہ دلائی کہ:
>ایک طرف میں کانگریس کو دیکھتا ہوں کہ اس کے اصول اتنے خطرناک اور فساد پیدا کرنے والے ہیں کہ اگر ہم انہیں مان لیں تو بجائے دنیا میں امن قائم ہونے کے فتنہ و فساد پھیل جائے دوسری طرف میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلاتے ہیں کہ وہ حد درجہ کے لالچی دنیا دار خود غرض اور قوم فروش ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ میں کسی قوم کے تمام افراد کو ایسا نہیں سمجھتا۔ اس کے مقابلہ میں کانگریس کے ایک طبقہ کو دیکھتا ہوں کہ اس میں ایثار قربانی اور سچا اخلاص پایا جاتا ہے۔ بے شک کانگریسیوں کے اصول سے مجھے اختلاف ہے لیکن اگر میرے سامنے ذاتی دوستی کا سوال ہو تو میں ایک کانگریسی کو گورنمنٹ کے خوشمادی پر ترجیح دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف ہمارے اندر ایسا ایثار قربانی اور ملکی محبت کا مادہ ہونا چاہئے جو کانگریسیوں سے بھی بڑھ کر ہو اور دوسری طرف ہمارے اصول وفاداری ایسے پختہ بنیادوں پر قائم ہوں کہ وہ ہر قسم کے خوشامدی لوگوں کے اصول سے بلند ہوں۔ ہمیں گورنمنٹ کے ان خوشامدیوں سے شدید نفرت ہونی چاہئے اور ہمیں کانگریس کے اصول سے بھی شدید نفرت ہونی چاہئے ہمارا معیار اس قدر بلند ہونا چاہئے۔ کہ ہم کسی خدمت کے بدلہ کسی معاوضہ کے طلبگار نہ ہوں اور اپنے ملک کو بدامنی سے بچانے کے لئے کانگرسیوں سے بڑھ کر ایثار اور قربانی سے کام کریں<۔
>میں اگر کانگریسیوں کے مقابلہ کے لئے کہتا ہوں تو کانگریسی اصول کے لحاظ سے ورنہ دوستی کے لحاظ سے میں انہیں بہت بہتر سمجھتا ہوں اور ان کی ذات سے دشمنی رکھنا غلطی سمجھتا ہوں۔ نہ انگریز ہمارے سگے بھائی ہیں۔ نہ کانگریسی سوتیلے بھائی۔ دونوں ہمارے بھائی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے دل میں ہر قوم کے اچھے لوگوں کی عزت ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو یا انگریز۔ ہاں جو لوگ غلط طریق اختیار کریں۔ ہم ایسے لوگوں کے اس طریق کو برا کہیں گے۔ پس ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم پیار محبت اور استقلال کے ساتھ ان خلاف آئین تحریکوں کا مقابلہ کریں۔ میں اپنی جماعت کے تمام افراد کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں ہوں انارکسٹوں کی تحریک کی نگرانی رکھیں اور یہ کبھی خیال نہ کریں کہ اس کے بدلہ میں گورنمنٹ سے انہیں کیا ملے گا۔ میں تو جب کسی کے منہ سے ایسی بات سنتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری کمر ٹوٹ گئی دراصل یہ ہمارا اپنا کام ہے گورنمنٹ نے ملک سے فتنہ و فساد کو روکنے کے ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور ہم پر فتنہ و فساد کے روکنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے<۔۱۳۲
صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کا سفر بنگال
دہشت پسندوں اور انارکسٹوں کا ایک بہت بڑا اور مضبوط مرکز بنگال تھا۔ لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بنگالی مسلمانوں کو اس خوفناک تحریک سے الگ رکھنے اور انہیں سیاست اسلامیہ کے قومی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے دسمبر ۱۹۳۲ء میں صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کو بھجوایا۔ صوفی صاحب نے حضور کی ہدایات کے ماتحت اگست ۱۹۳۳ء تک کام کیا۔ آپ کے مشن میں بعض خاص امور یہ تھے۔
۱۔
بنگالی مسلمانوں کو اردو کے ساتھ مانوس کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اہل بنگال کو اردو کے مقابل بنگالی زبان سے تعصب کی حد تک پہنچی ہوئی غالیانہ محبت تھی جس کی تلخی اور شدت کو کم کرنا حضور کی دانست میں اس خطے کے مسلمانوں کے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری اور لازمی تھا۔۱۳۳
۲۔
مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور شعور پیدا کیا جائے۔ مسلمان ملازمین کی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے اور مسلمانوں کو خاص ملازمتیں دلوانے میں مدد دی جائے۔
۳۔
ان تمام تحریکوں کا مقابلہ جو ملکی امن برباد کرنے والی ہوں جس کی بعض صورتیں یہ ہوسکتی تھیں۔
)الف(
قیام امن کے لئے ان لوگوں سے کام لیا جائے جن کا ابتداء ہی سے حکومت سے کوئی علاقہ نہیں۔
)ب(
ایک مسلم کور کی تشکیل کی جائے جس کا کام فوجی ٹریننگ` میلوں اور جلسوں اور کھیلوں کا انتظام ہو۔ اسی طرح بچوں کی بازیابی اور آگ بجھانے کی خدمت بھی اس کے سپرد ہو۔ کور کے ہر ممبر کو کوئی پیشہ سکھانے کی کوشش کی جائے اور شادی بیاہ` میلہ` ولادت اور عید الاضحیہ اور تنخواہ کی ترقی کے مواقع پر فنڈ جمع کیا جایا کرے۔
)ج(
انارکزم کا مقابلہ کرنے والوں کو ابھارا جائے۔
)د(
معین انارکسٹوں کے دوستوں میں سے ممبروں کی تلاش کی جائے۔
)ھ(
سکول کے امتحانوں کے پرچے دیکھے جائیں کہ آیا استاد لیاقت پر نمبر دیتے ہیں یا باغیانہ خیالات کی بناء پر۔
)و(
دیکھا جائے کہ کون کون سے استادوں کے گھروں پر طالب علم جاتے ہیں وہ استاد اکثر باغیانہ خیالات کے محرک ہوں گے۔
)ز(
انارکسٹوں یا ان کے مداحوں کے خیالات کو بحث مباحثہ کے ذریعہ سے معلوم کرکے ان کے اعتراضوں اور ان کی دلیلوں کو جمع کیا جائے تاکہ ان کا رد پمفلٹوں یا لیکچروں کے ذریعہ سے کیا جائے۔
)ح(
مذہب کی طرف توجہ دلا کر بھی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
۴۔
چٹاگانگ میں زیادہ سے زیادہ مسلمان عہدیداروں کو جمع کرنا۔
۵۔
مندرجہ بالا کام پہلے ایک ضلع میں شروع کیا جائے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اس تفصیلی سکیم کے پیچھے کیا روح کار فرما تھی اس کا اندازہ حضور کے ایک مکتوب )مورخہ ۱۳/ جولائی ۱۹۳۳ء( سے باسانی لگ سکتا ہے جو حضور نے صوفی صاحب کو ان کی مفصل رپورٹوں پر تحریر کیا تھا فرمایا۔
>کام کے متعلق میری یہ ہدایت تھی کہ آپ بڑے آدمیوں کو چھوڑ دیں ان سے صرف اتنا تعلق رکھیں کہ وہ آپ کے کام میں روک نہ بنیں لیکن آپ کی رپورٹوں سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ پر آپ مسلمان لیڈروں سے زیادہ ملتے اور ان کی امداد کے خواہش مند رہتے ہیں مگر ہر جگہ پر آپ کے تجربے سے ہی ثابت ہوا کہ مسلمان لیڈر بالکل مردہ ہیں ان میں زندگی کی روح باقی نہیں اور احمدیت سے ان کو اس حد تک تعصب ہے کہ وہ بنگالی مسلمانوں کی تباہی کو خوشی سے برداشت کرنے کو تیار ہیں لیکن اس امر کے لئے تیار نہیں کہ احمدی ان کی مدد کریں یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اگر بنگال کے مسلمان جلد بیدار نہ ہوئے تو ان کی حالت ریاستی مسلمانوں سے بھی بدتر ہو جائے گی۔ جب اتنی بڑی قیامت مسلمانوں کے سامنے نظر آتی ہے تو ہم صرف لیڈروں کا منہ تکتے ہوئے خاموش بیٹھے نہیں رہ سکتے<۔
احمدیہ کور
ہندوستان میں حالات جس سرعت سے تغیر پذیر ہو رہے تھے ان کا تقاضا تھا کہ مسلمانوں کی بہبود` خدمت خلق اور احمدی نوجوانوں میں تنظیمی روح پھونکنے کے لئے ہر قسم کے آئینی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے کوئی موثر نظام عمل تجویز کریں تا بدلے ہوئے حالات میں ملک و قوم کی بہتر خدمت کر سکیں۔ اس اہم قومی ضرورت کے ماتحت پیر اکبر علی صاحبؓ نے مشاورت ۱۹۳۲ء )منعقدہ ۲۵ تا ۲۷/ مارچ( میں یہ تجویز پیش کی کہ ایک احمدیہ والنٹیر کور بنائی جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ احمدی نوجوان اس کور میں داخل ہوں اس تحریک کو کلی طور پر منظم کیا جائے اور جلسوں کے انتظام اور دیگر رفاہ عام کے کاموں میں ان سے مدد لی جایا کرے اس کور کا فائدہ یہ ہو گا کہ بچوں میں فوجی سپرٹ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی۔ جلسوں اور رفاہ عام کے کاموں میں تنظیم سے نوجوان کام کریں گے۔ اور اس سے بہت فائدہ ہو گا۔۱۳۴
نمائندگان جماعت کی بحث و تمحیص اور استصواب رائے کے بعد حضورؓ نے احمدیہ کور بنانے کی اجازت دے دی اور اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں فیصلہ صادر فرمایا۔
>میں اس تجویز کو اتفاق رائے کے مطابق منظور کرتا ہوا بعض خیالات ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس تجویز کو ہم دو نقطہ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں ایک وقتی اور سیاسی حالات کے ماتحت اور یہ بہت محدود نقطہ نگاہ ہے کیونکہ وقتی اور سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن جب یہ حالات پیدا ہوں۔ تو ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ایسے حالات ہیں جن کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ مستقل تربیت کی ضرورت ہے جس سے کبھی کوئی جماعت مستغنی نہیں ہو سکتی نیک خاندانوں میں شریر اور شریر خاندانوں میں نیک لوگ پیدا ہو جاتے ہیں نوجوانوں کو خطرہ میں پڑنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی صحیح طور پر تربیت کی جائے۔ مگر اس میں دقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں جوش ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کریں ان کے سامنے نہ لڑکے ہوتے ہیں اور نہ لڑکوں کے جرائم۔ نہ لڑکوں کی نیکیاں ہوتی ہیں اور نہ ان کی غلطیاں۔ ایک جماعت کا مقامی امیر اپنی جماعت کے لڑکوں کی تربیت کرسکتا ہے مگر لڑکوں کی برائیاں اور نقائص اس کے سامنے نہیں آتے۔ اگر ہر جگہ والنٹیر کور بنالیں )اور یہ کام ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے عرصہ اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے( تو اس سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں جماعت کی تربیت کی طرف نگاہ رکھنے والے آدمیوں کے سامنے سارے نوجوان آجایا کریں گے اور وہ ان کو نصائح کر سکیں گے۔ مذہبی اور اخلاقی وعظ کیا جا سکے گا۔ گویا اس طرح تربیت اور نصائح کرنے کے مواقع زیادہ ملنے لگ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کے ذریعہ نگرانی بھی کرائی جا سکے گی۔ جب کسی لڑکے کے متعلق شکایت ہو کہ اس میں یہ نقص ہے تو کور کے افسر کے ذریعہ اس کی اصلاح آسانی سے کرائی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اپنے ماتحت لڑکے کی نگرانی کر سکتا ہے اور دوسرے لڑکوں کے ذریعہ نگرانی کرا سکتا ہے۔ عام طور پر یہ نگرانی اس لئے نہیں کی جا سکتی کہ اپنے طور پر جب ایک لڑکا دوسرے لڑکے کو دوست بنائے گا تو اپنے ہی رنگ کے لڑکے کو بنائے گا۔ یعنی بدمعاش لڑکا بدمعاش کو ہی دوست بنائے گا لیکن کور میں اس کے اختیار میں نہ ہو گا کہ جس سے چاہے دوستی کرے۔ بلکہ کور کا افسر جسے چاہے گا۔ اس کا ساتھی مقرر کر دے گا اور اس طرح آوارہ لڑکوں کو شریف لڑکوں کے سپرد کرکے ان کی نگرانی اور اصلاح کرائی جا سکتی ہے پھر لڑکوں میں آوارگی کی وجہ سے بے کاری اور کوئی شغل نہ ہونا بھی ہوتی ہے لیکن کوریں بنا کر جب انہیں ایک کام میں مشغول کر دیا جائے گا۔ تو وہ آوارگی سے بچ جائیں گے اور اچھے کاموں میں انہیں لگا کر ان کے اوقات کو مفید بنایا جا سکتا ہے اور جب وہ نیکی کا کام کریں گے تو ان کے دل میں امنگ اور خوشی پیدا ہو گی۔ نیکی کے کاموں کی طرف توجہ ہو گی۔ ان کے کرنے میں فخر اور خوشی کی روح پیدا ہو جائے گی۔ اس طرح دینی کاموں میں بھی ان سے مدد لی جا سکتی ہے اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کو قومی کاموں میں حصہ لینے کا موقعہ دے کر ان میں قومی کام کرنے کی روح پیدا کی جا سکتی ہے جس کا اثر ان کی آئندہ زندگی پر پڑے گا۔ روحانیت ہر شخص کو ہی خود بخود حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ بہت لوگوں کو تربیت کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔ دماغ میں شیطانی اور روحانی جنگ جاری رہتی ہے آخر میں جس کا غلبہ ہوجائے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے لیکن ایک حصہ تربیت کے متعلق ہے اس کے ذریعہ انسان شیطانی غلبہ سے بچ سکتا ہے۔
پھر عارضی ضرورتوں کی وجہ سے بھی اس قسم کے انتظام کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں یہ احساس پیدا کیا جارہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یہ روح نہایت گندی ہے مگر پیدا ہو گئی ہے۔ میں گزشتہ سال جب سیالکوٹ گیا تو وہاں ایک جلسہ میں ہم پر پتھر برسائے گئے اور سوا گھنٹہ تک برسائے گئے۔ ہماری جماعت نے ان پتھروں کا کامیاب مقابلہ کیا۔ تاہم معلوم ہوا کہ ابھی اور زیادہ تربیت کی ضرورت ہے اگر مکمل تربیت ہو تو ہماری جماعت کے لوگ زیادہ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں چونکہ مخالف اس طرح بھی ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس لئے ایسے انتظام کی ضرورت ہے اور ہم خدا کے فضل سے ایسے منظم والنٹیر کور بنا سکتے ہیں کہ ہم سے سو سو گنی تعداد رکھنے والے لوگ بھی ویسے نہیں بنا سکتے۔ پس ہمیں اس قسم کا انتظام کرنا چاہئے۔ اور یہی ضروری نہیں کہ اپنے جلسوں کا ہی انتظام کیا جائے بلکہ ایک آریہ بھی اگر تقریر کررہا ہو اور کوئی اس میں دخل انداز ہو تو کور کے والنٹیر کا فرض ہو گا کہ اسے روکیں<۔۱۳۵
یہ تھے وہ اہم اغراض و مقاصد جن کے پیش نظر احمدیہ کور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے کور کی سرپرستی منظور کر لی اور اس کا ناظم و افسر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کو مقرر فرمایا۔ اور اس کے نوجوانوں کا نام >عباداللہ< تجویز کیا گیا۔ صدر انجمن احمدیہ نے فیصلہ کیا کہ انجمن کے تمام کارکن والنٹیر کور کے ممبر ہوں گے۔ اور مہینہ میں کم از کم ایک دن اپنے فرائض منصبی کور کی وردی میں ادا کریں گے۔ ایسے کارکن جن کی عمر ۳۵ سال سے زائد ہو انہیں اجازت دی گئی۔ کہ وہ تمام پریڈوں میں شامل نہ ہوں بلکہ صرف ہفتہ میں معائنہ سامان کی پریڈ میں شامل ہوا کریں۔ بیرونی جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹوں کو بحیثیت عہدہ مقامی کور کا افسر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ اور سیکرٹری اور دیگر عہدیدار بلالحاط عمر کور کے ممبر قرار پائے۔۱۳۶
۳/ جولائی ۱۹۳۲ء کو احمدیہ کور اور اس کی پہلی ٹریننگ کلاس کے انعقاد کی نسبت مشاورتی کمیٹی ہوئی جس میں درج ذیل فیصلے ہوئے۔
قادیان کے مدارس کے طلباء کی نسبت قرار پایا کہ کلاس میں شامل ہونے والوں کو تمام ریکروٹی کورس ختم کرایا جائے۔ نیز کوشش کی جائے کہ رائفل کلب کا لائسنس مل جائے تو چاند ماری بھی سکھائی جا سکے۔
ہیئت نظام: بیرونی جماعتوں میں احمدیہ کور کے قیام کے متعلق مندرجہ ذیل باتوں کا فیصلہ ہوا۔
۱۔
احمدیہ کور کا دستہ (SECTION) سات آدمیوں کا ہو گا۔ ایک سربراہ دستہ اور چھ والنٹیر۔
۲۔
چار دستوں کو ملا کر ایک پلاٹون یا گروپ بنایا جائے اور پھر چار پلاٹون ملا کر ایک کمپنی ہو گی۔
۳۔
چونکہ ہماری جماعت کے افراد تھوڑی تھوڑی تعداد میں مختلف مقامات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور کسی ایک جگہ شاید ہی کمپنی بن سکے۔ اس لئے فیصلہ ہوا کہ حسب تعداد جماعت دستے یا پلاٹون اور کمپنیاں قائم کی جائیں اور پھر قریب قریب کے دستوں اور پلاٹونوں کو ملا کر کمپنیاں بنا دی جائیں۔
ٹریننگ: کور کے والنٹیئر کی سکھلائی کے متعلق حسب ذیل تجویز ہوئی۔
)۱( مارچ اور ڈبل مارچ افسر کی نگرانی کے ماتحت ہفتہ میں ایک بار )۲( لاٹھی فائٹنگ اور گتکا ہفتہ میں دو دفعہ )۳( معائنہ سامان اور پی۔ ٹی ہفتہ میں ایک دفعہ )۴( باقاعدہ فوجی نظام کے طرز پر پہرا مہینہ میں ایک دفعہ )۵( اپنی پلٹون میں مل کر کام کرنا مہینہ میں ایک دفعہ )۶( کمپنی میں کام کرنا سال میں ایک دفعہ )۷( تمام کور کی ریلی سال میں ایک دفعہ۔
والنٹیرز کو تحریک کی جائے کہ وہ غلیل )اور اگر اجازت ہو تو تیر کمان اور تلوار بھی( رکھیں۔ یہ صرف تحریک ہو گی لازمی امر نہ ہو گا۔
سامان: )۱( ایک سوٹی پانچ فٹ ۱۷ انچ لمبی )۲( رسی ۳/۱ انچ موٹی ۱۵ فٹ لمبی )۳( سکائوٹ چاقو )۴( قرآن شریف )۵( کشتی نوح۔
وردی: )۱( پولیس ٹائپ جوتی یا بوٹ )۲( جراب )۳( نکر خاکی )۴( قمیض خاکی )۵( پگڑی خاکی۔ قمیض نصف آستین کی ہو گی جس کا کالر سبز ہو گا۔ نیز آستین کا کنارہ سبز۔ آنے والے اصحاب یہ وردی خود بنوا کر نہ لائیں بلکہ یہاں بنوائی جائے گی۔ تاکہ ایک طرز کی بن سکے اور پھر احباب اپنے اپنے مقامات پر جاکر اس کے مطابق بنوائیں۔
عہد: والنٹیر کور کے لئے یہ اقرار ہو گا >میں خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ )۱( جو فرائض خدا اس کے رسول اور خلیفہ وقت کی طرف سے مجھ پر عاید ہیں۔ میں تابمقدور انہیں سر انجام دینے کی کوشش کروں گا۔ )۲( ملک میں نہ صرف خود امن سے رہوں گا بلکہ حتی الوسع دوسروں کو بھی اس کی تحریک کروں گا اور بغاوت و بدامنی کا ہمیشہ مقابلہ کروں گا۔ )۳( باہمی مقدمات تنازعات اور فسادات سے ہمیشہ اجتناب کروں گا۔ )۴( مسلمانوں سے خصوصاً اور دیگر بنی نوع انسان سے عموماً ہمدردی کروں گا۔ )۵( احمدیہ والنٹیر کور کے قواعد و ضوابط کی ہمیشہ پابندی کروں گا<۔۱۳۷
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی نگرانی میں یکم ستمبر ۱۹۳۲ء کو صبح سات بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی گرائونڈ میں احمدیہ کور ٹریننگ کلاس کا آغاز ہوا۔ جس میں بہت سے مقامی نوجوانوں کے علاوہ بیرونی جماعتوں سے بھی تیس کے قریب نوجوان شریک ہوئے۔۱۳۸ یہ کلاس ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو ختم ہوئی۔۱۳۹ یکم اکتوبر کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ڈلہوزی سے تشریف لائے تو کور نے حضور کا فوجی طریق پر شاندار استقبال کیا۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی خصوصی توجہ کی بدولت ٹریننگ کا یہ پہلا عملی مظاہرہ اس قدر عمدہ اور خوش کن تھا کہ کور کا کام دیکھ کر خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ ایک ماہ کی سکھلائی کا نتیجہ ہے۔ احمدیہ کور کے نوجوان اس وقت خوشنما وردیوں میں ملبوس اپنا سبز رنگ کے کپڑے کا خاص جھنڈا لئے ہوئے تھے۔ جھنڈے کے درمیان منارۃ المسیح دائیں طرف اللہ اکبر اور بائیں طرف عباداللہ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے جو والنٹیر کا اصل نام تھا۔۱۴۰ ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ قواعد سے متعلق تمام احکام انگریزی کی بجائے اردو میں دیئے جاتے تھے۔ انگریزی کے فوجی الفاظ کا اردو جامہ پہنانے کا کام بھی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ ہی نے سرانجام دیا۔۱۴۱ اور >احمدیہ کور< کے نام سے اردو احکام کا ایک کتابچہ بھی بعد کو شائع فرما دیا۔
احمدیہ کور کے تنظیمی اصول و مقاصد یعنی قیام امن` مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت اور بنی نوع انسان کی عمومی فلاح و بہبود وغیرہ بالکل واضح تھے۔ مگر ہندو پریس نے اسے ایک خفیہ انقلابی تحریک سے تعبیر کیا۔ چنانچہ اخبار >ملاپ< )لاہور( نے ۱۰/ جون ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا۔
>گورنمنٹ کو بھی اور عوام کو بھی احمدیوں کی فوج کی طرف ضرور متوجہ ہونا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ یہ فوجی تیاریاں بظاہر چاہے کچھ کہیں لیکن اپنے اندر اصلی غرض و غایت کیا رکھتی ہیں<۔۱۴۲
ہندوئوں کے اس پروپیگنڈا کو مجلس احرار اسلام نے خوب ہوا دی۔ اور اسے حکومت کو جماعت احمدیہ کے خلاف ابھارنے کے لئے ایک کامیاب حربہ کے طور پر استعمال کیا۔
اچھوت اقوام کی حفاظت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اپیل
گاندھی جی نے برودہ جیل سے سرسیموئیل ہور وزیرہند کے نام ۱۱/ مارچ ۱۹۳۲ء اور مسٹر میکڈانلڈ وزیراعظم برطانیہ کے نام ۱۸/ اگست
۱۹۳۲ء کو خط لکھا کہ میں نے گول میز کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ میں زندگی بھر اچھوتوں کو جداگانہ نیابت نہ حاصل ہونے دوں گا۔ چونکہ حکومت نے >کمیونل ایوارڈ< کے ذریعہ اپنے طریق کار کا اعلان کرکے اچھوتوں کے لئے جداگانہ انتخاب تجویز کیا ہے اس لئے میں ملک معظم کی حکومت کو مطلع کرتا ہوں کہ میں ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء سے زندگی کے آخری سانس تک برت رکھوں گا صرف پانی پیوں گا۔ اور اسی طرح جان دے دوں گا۔ میری جیل سے رہائی بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔۱۴۳ وزیراعظم نے جواب دیا کہ گورنمنٹ کا فیصلہ قائم ہے اور صرف ہندوستان کے مختلف فرقوں کے درمیان سمجھوتہ ہی اس کی جگہ لے سکتا ہے۔
دراصل اچھوت اقوام کو ہندوئوں میں جذب کرنے کا یہ ایک نیا حربہ تھا جسے ¶اچھوت اقوام کے مسلمہ لیڈر ڈاکٹر امبید کرنے >سیاسی کرتب< سے موسوم کیا۔ اور اعلان کیا کہ میں جداگانہ انتخاب کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔۱۴۴ اسی طرح مسٹر آر۔ ایل بسواس )جنرل سیکرٹری آل انڈیا اچھوت فیڈریشن( نے بیان دیا کہ گاندھی جی کامرن برت ہرگز جائز نہیں۔ جب ہندوئوں نے خود اپنی قوم کو ذات پات کے صدہا امتیازات میں تقسیم کر رکھا ہے تو حکومت کو ہندو قوم کے انتشار کا ذمہ دار گرداننا سراسر بے سروپا اور بے معنی ہے۔۱۴۵ علاوہ ازیں اچھوتوں نے اپنے ہزاروں کے اجتماع میں قرارداد منظور کی کہ گاندھی جی کی فاقہ کشی کے ذریعہ مر جانے کی دھمکی اچھوتوں کو فریب دینے کے لئے ایک سیاسی حربہ ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ہمیں ابدالاباد تک ہندوئوں کی اونچی جاتیوں کا زر خرید غلام بنا دیا جائے۔۱۴۶
سر محمد اقبال نے مرن برت کی نسبت کہا کہ فاقہ کشی کی موت نامردی کی علامت ہے اگر مجھے یہی صورت پیش آتی تو بجائے حکومت کو دھمکی دینے کے اپنی قوم کو مجبور کرتا کہ فلاں تاریخ تک اچھوتوں کے ساتھ مذہبی اور معاشرتی مساوات شروع کر دو وگرنہ جان دے دوں گا۔۱۴۷
سر محمد یعقوب نے کہا کہ اعلیٰ ذات کے ہندو اگر گاندھی جی کی جان بچانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ مندروں کے دروازے اچھوتوں کے لئے کھول دیں۔۱۴۸
ہندوئوں نے مرن برت کے خلاف یہ ہیجان پایا تو بمبئی میں ہندوئوں اور اچھوت لیڈروں کی کانفرنس منعقد کرنے کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر امبید کرنے کانفرنس کے پہلے روز ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو تقریر کی کہ اگرچہ فرقہ وارانہ فیصلہ کے بعد اچھوتوں کے جداگانہ نیابت کے سوال پر کسی قسم کی بحث نہیں ہو سکتی تاہم میں مسٹر گاندھی سے گفت و شنید کرنے کے لئے تیار ہوں جب میں نے لنڈن میں مطالبہ کیا تھا کہ اچھوتوں کے لئے آئینی طور پر جداگانہ نیابت دے دی جائے۔ تو مسٹر گاندھی میرے سب سے بڑے مخالف تھے لہذا اب مسٹر گاندھی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ اچھوتوں کو کیا کچھ دینے کے لئے تیار ہیں۔۱۴۹
عین اسی روز جبکہ اچھوت لیڈر نے مندرجہ بالا اعلان کیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے یہ بیان بذریعہ تار جاری کیا گیا کہ >گاندھی جی کے اعلان پر ہندو جو جذباتی اپیلیں کر رہے ہیں اگر اچھوت ان سے متاثر ہو گئے تو اس کا انجام ان کی کامل تباہی ہو گا یہ مسائل چند مندروں کے دروازے اچھوتوں پر کھول دینے سے حل نہیں ہو سکتے۔ اس سے تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک ہندو فی الواقعہ انہیں ناپاک سمجھتے ہیں۔ بمبئی کے ہندو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر اچھوت ہمارے ساتھ متفق نہ ہوئے تو انہیں پچھتانا پڑے گا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی ذہنیت میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ ادنیٰ اقوام کے خیالات اور نقطہ ہائے نگاہ میں بنوک شمشیر تبدیلی کرانا چاہتے ہیں میرے خیال میں ہندوئوں کو تمام اپیلیں صرف گاندھی جی سے کرنی چاہئیں۔ جو خود کشی کا اقدام کرکے نہ صرف ہندو لاء کی نافرمانی اور اپنی اہنسا کی تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ تمام مذاہب کے قوانین کو بھی توڑ رہے ہیں ان کے فیصلہ کے صرف یہ معنی ہیں کہ اب انہیں خدا پر بھروسہ نہیں اور اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ دنیا میں رہنا نہیں چاہتے۔
اچھوت اقوم کے لئے یہ سخت نازک موقعہ ہے وہ اپنی خواہشات کو دوسروں کے لئے قربان کرنے کے عادی ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ اپنی تاریخ کے اس نازک ترین موقعہ پر بھی وہ جذبات اور دلائل میں تمیز نہ کر سکیں گے<۔۱۵۰
حضرت اقدسؓ نے اپنے بیان میں جس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا وہ صحیح ثابت ہوا چنانچہ پونا میں ۲۴/ ستمبر کو ہندو لیڈروں نے ڈاکٹر امبیدکر کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ جو برطانیہ کے وزیراعظم نے منظور کر لیا اور گاندھی جی نے فاقہ کشی ترک کر دی۔
حادثہ بڈھلاڈا )ضلع حصار( اور جماعت احمدیہ کی خدمات جلیلہ
مشرقی پنجاب کے اضلاع حصار` رہتک` کرنال اور گوڑگائوں میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے ہندو اکثریت ان کو تباہ کرنے کے لئے اندر ہی اندر خوفناک تیاریوں میں مصروف تھی۔ ہندوئوں کی اس خفیہ سازش کا پہلا نشانہ پونڈری کے مسلمان بنے اس کے بعد انہوں نے ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کی رات کو بڈھلاڈا )ضلع حصار( کے مسلمانوں پر بھی یورش کر دی۔ اور چند منٹوں میں سولہ مسلمان مرد عورتیں اور بچے گولیوں کا شکار ہوئے جن میں سے سات شہید اور نو زخمی ہو گئے۔ عین اسی وقت جبکہ بڈھلاڈا کے مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر ختم کیا جارہا تھا بندوقوں سے مسلح ہندوئوں نے تلونڈی کے آٹھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۱۵۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان خونچکاں واقعات کی اطلاع اور مسلمانان بڈھلاڈا کی درخواست پر صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے کو تحقیقات کے لئے بھجوایا۔ جنہوں نے ایک مبصر کی حیثیت سے نہایت محنت و عرقریزی کے ساتھ پیش آمدہ حالات کی چھان بین کی اور اس سازش کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا۔ جو ایک عرصہ سے ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف نہایت منظم طور پر کررکھی تھی۔۱۵۲ صوفی صاحب کی مکمل تحقیقات الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۲ء )صفحہ ۷۔ ۱۰( میں شائع کر دی گئی جس سے مسلمانان پنجاب کو پہلی بار صحیح اور مکمل واقعات کا علم ہوا۔ صوفی صاحب نے اپنے قیام کے دوران میں ایک اہم کام یہ بھی کیا کہ وہاں مسلمانوں کی تنظیم کے لئے ایک مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے صدر اور سیکرٹری بڈھلاڈا کے بعض اہل علم مسلمانوں کو مقرر کیا۔
صوفی صاحب کے بعد مرکز کی طرف سے بعض اور اصحاب بھی بھجوائے گئے۔ اور بالاخر چوہدری مظفر الدین صاحب بی۔ اے بنگالی روانہ کئے گئے جنہوں نے اس علاقہ میں قریباً ایک سال تک قیام کیا۔ افسروں سے ملاقات اور خط و کتابت کرکے مسلمانوں کی مدد کی اور اصل واقعات منظر عام پر لانے کے لئے متعدد مضامین لکھے۔ چوہدری مظفر الدین صاحب نے مسلمانان حصار کی تنظیم میں بھی دلچسپی لی اور ان کی اقتصادی بہبود کے لئے بھی کوشش کرتے رہے اور جہاں ان کے جانے سے قبل بڈھلاڈا میں مسلمانوں کی خوردونوش کی ایک دکان بھی موجود نہ تھی۔ وہاں ان کی تحریک پر پانچ چھ دکانیں کھل گئیں اور وہ مسلمان جو دہششت زدہ ہو گئے تھے اور ہندوئوں کی چیرہ دستیوں سے سہمے ہوئے تھے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے لگے۔۱۵۳body] [tag اور وہ ہندو اور سکھ افسر جو اس فتنہ کے پشت پناہ تھے تبدیل کر دیئے گئے۔ قبل ازیں ہندو افسر حصار کے مسلم طبقہ کے خلاف کس درجہ انتقامی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اس کا اندازہ حصار کے معزز غیر احمدی مسلمانوں کی مندرجہ ذیل چٹھی سے باسانی لگ سکتا ہے۔ جو انہوں نے ۲۶/ جون ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھجوائی اور جس پر حضور کی ہدایت کے مطابق احمدی نمائندہ نے حکومت پر مسلمانوں کا معاملہ ایسے طریق پر واضح کیا کہ اسے ظالم افسروں کے خلاف موثر اقدام کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا۔
۳۳/۲ ۲۶۔ جان محمد آنریری سیکرٹری زمیندارہ بنک حصار
بنام سیدنا بحضور حضرت خلیفہ صاحب ایدہ اللہ بنصرہ العزیز۔
السلام علیکم۔ عرض ہے کہ مسلمانان ضلع حصار کی دکھ بھری داستان کا ایک نیا واقعہ حضور کے پیش کرکے امیدوار ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔ توجہ فرما کر حضور عالی فوری امداد فرماویں گے۔ قبل ازیں واقعہ بڈھلا ڈا کی نسبت حضور کی خدمت عالی میں عرض کیا گیا تھا۔ جس پر جماعت احمدیہ کی جانب سے اس کی ۔۔۔۔۔۔ پوری پوری امداد ہوئی جس کی نسبت ضلع ہذا کی مسلم آبادی مشکور و ممنون ہے۔
حضور کو معلوم ہوگا کہ ہندو مہا سبھا کی سفاکانہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہندوئوں نے انبالہ ڈویژن خصوصاً ضلع حصار کو اپنی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ انبالہ۔ رہتک۔ کرنال وغیرہ دیگر اضلاع ڈویژن ہذا کے مسلمان اسی ضلع کے جاندار اور سمجھدار ہیں اس لئے ہندو جنون کے پیروئوں نے اب اپنی تمام توجہات ضلع حصار پر ڈال دی ہے نیز اسی جگہ اعلیٰ ہندو افسران اندریں بارہ ان کی کھلم کھلا امداد و معاونت کر رہے ہیں۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔ ان مسلمانوں کو نفاق کے ذریعہ لڑا لڑا کر ان کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔
غرض کہ مسلمانان ضلع کی ہر طرح سے خراب و خستہ حالت کے سامان مہیا کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی مسلم آبادی کی حالت وہی ہے جو بنی اسرائیل کی حضرت موسیٰؑ کی بعثت سے قبل فرعون کے زمانہ میں تھی یا مسلم آبادی کشمیر کی آج سے چند روز پہلے۔ ان خطرناک۔ برباد کن حالات کی موجودگی میں یہاں کے مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے۔ جس پر میرے چند احباب و مسلم پبلک کی جانب ے ہدایت ہوئی ہے کہ حضور کی خدمت میں عرض کیا جاوے کہ اندریں بارہ توجہ فرما کر ہماری فوری امداد فرمائی جاوے۔ دستخط جان محمد صاحب مولوی محمد شریف صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی وکیل حصار۔ خان عزیز الحسن خاں صاحب حمزئی بی۔ اے ایل ایل۔ بی وکیل<۔۱۵۴
چوہدری مظفر الدین صاحب کا بیان
حادثہ بڈھلا ڈا سے متعلق ۔۔۔۔۔۔ واقعات کا ایک اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے رکھنے کے بعد اب ہم چوہدری مظفر الدین صاحب بی۔ اے کا ایک بیان درج کرتے ہیں۔ جس میں اس اہم واقعہ کی بعض تفصیلات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔
>بڈھ لاڈا ایک مشہور منڈی ضلع حصار میں ہے جہاں مذبح تھا جس سے تمام پنجاب کے ملٹری کنٹونمنٹ میں گائے کا گوشت سپلائی ہوتا تھا۔ ہندوئوں نے سازش کی کہ مسلمان قصابوں کے بعض لیڈروں کو ختم کر دیا جائے چنانچہ انہوں نے ڈاکوئوں کے ایک گروہ سے سازباز کرکے ان کے تین سرغنوں کو اس کام کے لئے تیار کر لیا اور ایک روز تین آدمی بندوقوں سے مسلح ہو کر مسجد قصاباں موضع بڈھلاڈا میں پہنچے اور جو مسلمان بھی ملا اسے گولی مار دی۔ اس طرح تقریباً سولہ مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جن میں سے سات جاں بحق ہو گئے اور جو زندہ بچے ان میں سے بعض ہمیشہ کے لئے بے کار ہو گئے۔][اس واقعہ سے مسلمان اتنے ڈر گئے کہ کئی روز تک گھروں میں بند رہے اور ان میں سے بعض چوری چھپے حصار اور لاہور پہنچے اور حصار کے افسروں اور لاہور کے اخبار والوں کو اس واقعہ کے بارے میں مطلع کیا اور یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں نے اس سازش کے بارے میں اگرچہ قبل از وقت حصار کے ہندو ڈپٹی کمشنر اور سکھ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی تھی۔ لیکن انہوں نے اس بارہ میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ اخباروں میں حادثہ بڈھلاڈا کی خبریں شائع ہوئیں تو ڈپٹی کمشنر کے حکم پر بڈھلاڈا کے مسلمان محلہ میں تعزیزی چوکی بٹھا دی گئی اور پولیس کے اخراجات بھی مسلمانوں پر ڈالے گئے۔ جس پر حصار کے بے کس مسلمان پنجاب کے مسلمان لیڈروں کے پاس پہنچے اور داد رسی کی کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا آخر بڈھلاڈا کے دو ایک ہوشیار اور صاحب علم اصحاب نے ایک روز مسجد میں سب کو اکٹھا کرکے کہا کہ اگر زندگی چاہتے ہو۔ تو جو کچھ ہم کہیں گے اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائو انہوں نے کہا کیا کرنا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہم ایسے لیڈر کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں جس کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارا ہاتھ بھی بٹائے گا اور ہمیں کامیابی بھی ہو گی۔ اس کے بعد خطیب مسجد اور دوسرے عالموں کو مخاطب کرکے یہ قسم لی کہ کوئی مذہبی اختلاف پیدا نہیں کرے گا۔ سب حاضرین نے اس کا اقرار کیا جس پر انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بذریعہ تار اپنی داد رسی کے لئے درخواست کی حضور نے از راہ کرم مکرم جناب صوفی عبدالقدیر صاحب کو بھیجا۔ جنہوں نے وہاں جاکر حالات کا جائزہ لیا۔ اور حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ اس اثناء میں ہندوئوں نے اصل واقعہ دبا دیا۔ اور محض ایک ڈاکو کی رپورٹ کرکے آخری تحقیقات مکمل کر دی۔ جماعت احمدیہ کی کوشش سے افسران بالا تک معاملہ پہنچایا گیا۔ تو یہ جواب ملا کہ مسلمان اپنا کیس خود ہی صحیح رنگ میں پیش نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ صوفی صاحب بڈھلاڈا میں ایک مسلم ایسوسی ایشن قائم کر آئے تھے اور انہیں یہ ہدایت دے آئے تھے کہ آئندہ جو کام کیا جائے وہ ایسوسی ایشن کے نام سے کیا جائے۔ اس ایسوسی ایشن کے صدر نے یکے بعد دیگرے مختلف خطوط اور تار بھجوانے شروع کر دیئے جس پر حضور نے ہدایت دی کہ خاکسار )مظفر الدین( کو بڈھلاڈا بھجوایا جائے چنانچہ حضرت اقدس سے ہدایات حاصل کرنے کے بعد عید الفطر کے دوسرے روز آدھی رات کو بڈھلاڈا پہنچ گیا اور منڈی کی مسجد میں )جو ہندو آبادی سے گھری ہوئی تھی اور پرخطر جگہ پر تھی( قیام کر لیا اس کے بعد صورت حالات کا جائزہ لیا اور حصار جا کر مسٹر حمزائی` چوہدری محمد شریف صاحب وکیل۔ مسٹر جلال الدین صاحب بیرسٹر اور مسٹر راجہ حسن اختر ای۔ ایس۔ سی سے ملاقات کی ان لوگوں نے بتایا کہ کیس خراب ہو گیا ہے اور معاملہ دبا دیا گیا ہے لیکن خدا کے فضل سے جلد ہی مسلمانوں کو ہمت دلانے کی کوشش میں میرے لئے پہلا موقعہ پیدا ہو گیا۔ اور وہ یہ کہ زیر دفعہ ۱۰۷ بہت سے مسلمان اور چند ہندوئوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ اور یہ کیس مسٹر حسن اختر ہی کے پاس تھا۔ اور ان ہی کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضور ایدہ اللہ کی دعائوں کی برکت سے راجہ حسن اختر صاحب مقدمہ کی سماعت بڈھ لاڈا کے ڈاک بنگلہ میں کرنے کے لئے رضا مند ہو گئے۔ سماعت کے دن ہندوئوں کی طرف سے ایک بیرسٹر اور ایک وکیل آئے اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی بھی پیش نہ ہوا۔ صرف صدر صاحب مسلم ایسوسی ایشن نے درخواستیں لکھیں اور ہر ایک کی ضمانت کے لئے اپنے میں سے کوئی نہ کوئی آدمی کھڑا کر دیا۔ مسلمانوں کی سب ضمانتیں راجہ صاحب نے منظور کر لیں اور کسی پر اعتراض نہ کیا۔ اس کارروائی کا اثر مسلمانوں پر بہت ہی اچھا پڑا۔ اس کے بعد کچھ مضامین میں نے انگریزی میں لکھ کر لاہور کے اخبارات کو بھجوائے جو >ایسٹرن ٹائمز< اور اخبار >سیاست< اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئے۔ قادیان سے بھی برابر کوششیں جاری رہیں۔ اور مناسب کارروائی اس ضمن میں ہوتی رہی اور تھوڑے ہی دنوں کے اندر سکھ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی تبدیلی ہو گئی اور اس کی جگہ ایک یوروپین ایس پی حصار میں آگیا۔ جس سے میری ملاقات ہی بڈھلاڈا کی تعزیری چوکی کے بارے میں ہوئی میں نے کہا کہ مسلمانوں پر ہی ظلم ہو اور ان پر ہی یہ پولیس بٹھائی جائے اور پھر اخراجات بھی انہیں سے وصول کئے جائیں یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ چنانچہ ایس۔ پی کی تحقیقات کے بعد یہ پولیس وہاں سے ہٹا لی گئی۔ مسلمان محلہ میں بہت خوشی منائی گئی اور ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب فضا خوشگوار معلوم ہوئی میں نے گتکا اور کبڈی کی تحریک کی اس پر مسلمان محلہ کے نزدیک کھلے میدان میں یہ دونوں کھیل شروع ہو گئے۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف افسران بالا کو رپورٹ کر دی اور پولیس کے ذریعہ خفیہ تحقیقات شروع ہو گئی لیکن ثابت نہ ہو سکا کہ یہ کسی تنظیم کی طرف سے باقاعدہ تحریک ہے۔ پھر میں نے مسلمانوں کو حوصلہ دلا کر دکانیں کھولنے کی بھی تحریک کی جو کامیاب ہوئی۔ بڈھ لاڈا میں چونکہ کوئی احمدی نہ تھا۔ اس لئے میں ہر جمعہ مانسہ جایا کرتا تھا جہاں مسٹر محمد علی صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی کے مکان پر نماز جمعہ ہوتی تھی۔ اسی جگہ میری پٹیالہ اسٹیٹ کے ایک مخلص احمدی پولیس انسپکٹر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے بڈھ لاڈا کے مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے عرض کی اور اس کا طریق یہ بتایا کہ پٹیالہ میں بہت سے ڈاکو پناہ گزین ہیں آپ کوشش کرکے کوئی ایک ڈاکو پکڑوا لیں اور اس کے ذریعہ سے بڈھ لاڈا میں واردات کرنے والے ڈاکوئوں کا سراغ لگائیں۔ خدا کی شان چند ماہ بعد ایک ڈاکو ان کے ہاتھ آگیا جس سے واردات کرنے والے تینوں ڈاکوئوں کے ٹھکانوں کا پتہ چل گیا چنانچہ مناسب وقت پر تینوں گرفتار کر لئے گئے ایک ڈاکو جوان کا سردار تھا۔ گولی لگنے سے مر گیا۔ باقی دو زخمی حالت میں پکڑ لئے گئے اور جنگل میں ان سے بہت سا اسلحہ اور گولیاں وغیرہ برآمد ہوئیں۔ اس طرح بڈھ لاڈا کیس جو پہلے عملاً ختم ہو چکا تھا۔ پھر دوبارہ زندہ ہو گیا۔
مختصر یہ کہ عدالت میں دونوں کو موت کی سزا ہوئی۔ میں سپرنٹنڈنٹ سے ملا اور سازش کرنے والے ہندوئوں پر مقدمہ چلانے کی درخواست کی انہوں نے پنجاب کے قانون دانوں سے مشورہ کیا جنہوں نے تمام رپورٹ ملاحظہ کرنے کے بعد اگرچہ تسلیم کیا کہ یہ سازش ہے لیکن کہا کہ مقدمہ سازش چلانے کے لئے ثبوت کافی نہیں اس لئے کوشش یہ کی جائے کہ سازش کو تسلیم کیا جائے لیکن ضروری ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ملتوی کر دیا جائے اور ملزموں کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا کر سزا دلوائی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
اس عرصہ میں یعنی بڈھ لاڈا کی رہائش کے چھ سات مہینہ کے بعد حصار شہر کے نزدیک ایک گائوں میں اسی طرح فساد ہو گیا جس طرح بڈھ لاڈا میں ہوا تھا اور بہت سے مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ میں حصار پہنچا اور واقعہ کے صحیح حالات معلوم کئے اور ایک مفصل مضمون اخبارات کے لئے لکھا یہ مضمون انگریزی اور اردو اخبارات میں چھپا۔ اس مضمون میں علاوہ واقعہ بیان کرنے کے میں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہاں ایک متوازی گورنمنٹ قائم ہے جو ڈپٹی کمشنر کے علم میں ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے اس کا اثر زائل کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ مسلم ایسوسی ایشن کا ایک اجلاس بلایا اور کوشش کی کہ یہ ریزولیوشن پاس کروا لیا جائے کہ حصار میں بالکل امن و امان ہے بڈھلاڈا مسلم ایسوسی ایشن کے صدر نے مجھے تار دیا میں رہتک سے حصار پہنچا اور شائع شدہ مضمون کے حق میں ایک مناسب ریزولیوشن تیار کیا جو اجلاس میں پاس ہو گیا- یہ ریزولیوشن اخبارات میں شائع ہوا اور افسران بالا کے علاوہ گورنر صاحب کو بھی اس کی ایک کاپی بھیجی گئی۔ گورنر صاحب نے ڈپٹی کمشنر کو لکھا کہ میں حصار آرہا ہوں لیکن کوئی ایڈریس قبول نہیں کروں گا البتہ میورنڈم دیا جا سکتا ہے چنانچہ میں نے مسلم ایسوسی ایشن کے ممبران سے مل کر ایک میمورنڈم تیار کیا اب اس کے چھپوانے کا مسئلہ پیش ہوا۔ وقت بہت کم تھا۔ اور حصار میں کوئی پریس بھی نہ تھا اس لئے ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور دوسرے ارکان نے مجھ سے درخواست کی کہ میں خود یہ کام سرانجام دوں۔ چنانچہ میں فوراً دہلی روانہ ہو گیا۔ امیر جماعت احمدیہ دہلی کے تعاون اور کوشش سے بارہ گھنٹے کے اندر اندر یہ میمورنڈم چھپ گیا جسے لے کر میں گورنر صاحب کے آنے سے پہلے حصار پہنچ گیا۔ چونکہ اخبارات کو اس میمورنڈم کی نقول میں نے بھجوا دی تھیں اس لئے گورنر صاحب کو میمورنڈم پیش کرنے کے ساتھ ہی اخبارات کو تار دے دیئے گئے چنانچہ دوسرے ہی دن یہ بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں چھپ گیا۔ گورنر صاحب نے انٹرویو کے لئے ایسوسی ایشن کے بعض ارکان کو موقع دیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان ارکان پر اپنا اثر ڈالنے کے لئے بعض پابندیاں عائد کر دیں کہ آپ بڈھلا ڈا کیس کا ذکر نہ کریں۔ مگر گورنر صاحب نے خود ہی اس کی نسبت ممبران سے دریافت کیا تو ممبران نے گورنر صاحب کو صحیح صحیح حالات سے آگاہ کر دیا۔ گورنر صاحب کی روانگی کے بعد واقعات سے معلوم ہوا کہ وہ ڈپٹی کمشنر وغیرہ کے خلاف اثر لے کر گئے ہیں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے اپنی پوزیشن بچانے کے لئے افسران بالا سے رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس پر حضورؓ کی طرف سے مجھے ہدایت ہوئی کہ میں شملہ جاکر خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ کو سارے حالات سے آگاہ کروں چنانچہ میں شملہ پہنچا اور خان صاحب موصوف سے ملا۔ انہوں نے مناسب طور پر کوشش کی کہ ڈپٹی کمشنر وغیرہ کے خلاف گورنر صاحب کا اثر قائم رہے نتیجہ یہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر اور سول سرجن دونوں تبدیل ہو گئے سپرنٹنڈنٹ پولیس تو پہلے ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ اس طرح حضورؓ کی کوششوں سے مسلمانوں کو اس اذیت ناک ماحول سے چھٹکارا ملا۔ میں وہاں تقریباً ایک سال تک رہا اس عرصہ کے دوران میرا اور مجھ سے پیشتر آنے والے احمدی احباب کا سارا خرچہ جماعت احمدیہ ہی نے اٹھایا۔ وہاں کے مقامی مسلمانوں پر اس کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
بڈھلا ڈا کیس کے ضمن میں مجھے انبالہ میں )جو اس وقت ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھا( بھی جانے کا موقعہ ملا اور میں نے کمشنر صاحب۔ ڈی۔ آئی۔ جی اور دیگر افسران اور معززین سے ملاقات کرکے بڈھ لاڈا اور حصار ڈسٹرکٹ کے مقامات کے مسلمانوں کی ابتر حالت ان پر واضح کی۔ اسی غرض کے لئے مشہور ایڈووکیٹ اور مسلمانوں کے لیڈر سید غلام بھیک صاحب نیرنگ سے بھی میری ملاقات ہوئی۔ جب میں نے ان سے ملنے کے لئے تعارفی کارڈ بھیجا انہوں نے مجھے فوراً بلا لیا اور بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ جماعت احمدیہ کے کارناموں کا ذکر کیا۔ بڈھلاڈا کیس کے بارہ میں جو حالات میرے ذریعہ سے اخبارات میں آتے رہے تھے ان سے وہ باخبر تھے علاوہ ازیں بعض اور لوگوں سے میری کارگزاری کے بارہ میں ان کو کچھ علم ہو چکا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس کام کو بہت سراہا اور تعریف کی<۔۱۵۵
مسلمانان الور کی امداد
ریاست الور کے بہت سے مسلمان ریاستی مظالم کی تاب نہ لاکر جے پور` اجمیر شریف` بھرت پور اور ضلع گوڑ گائوں اور دہلی وغیرہ مقامات میں آگئے تھے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو جب ان کے حالات کا علم ہوا۔ تو مظلوموں کی اعانت کے لئے سید غلام بھیک صاحب نیرنگ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سنٹرل جماعت تبلیغ الاسلام کو دو سو روپے ارسال فرمائے۔
اسی طرح مرکز کی طرف سے افسران بالا سے خط و کتابت کی گئی۔ افسروں نے نہایت ہمدردی سے غور کیا اور ریاست کے متعلق حکام کو ہدایت کی کہ وہ مسلمانوں کے مطالبات کا پورے طور پر خیال رکھیں اور ان کی شکایات کا تدارک کریں۔۱۵۶ اس کے شکریہ میں نیرنگ صاحب نے انبالہ شہر سے ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو حضورؓ کی خدمت میں مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>انبالہ شہر ۳۲/۱۰ ۲۲
عالی جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان
مکرم و محترم و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ- مزاج گرامی! نوازش نامہ )بلا تاریخ( نوشتہ از مقام ڈلہوزی باعث مسرت ہوا۔ اس کے بعد لائیڈز بنک لاہور نے آپ کے حکم کے مطابق مبلغ دو صد روپے کا ڈرافٹ بنام امپیریل بنک انبالہ بھیجا۔ میں چونکہ سفر میں تھا اس لئے نوازش نامہ کے جواب اور ڈرافٹ مذکور کی رقم کی وصولی آج تک ملتوی رہی۔ آج بنک سے رقم وصول ہو گئی اور لائیڈز بنک کو بھی ڈرافٹ کی وصولی کی اطلاع دی گئی جناب کے عطیہ کی رسید ضابطہ ملفوف ہے۔ جزاکم اللہ فی الدارین احسن الجزاء۔
مجھ کو معلوم ہے کہ بحالات موجودہ آپ امداد مہاجرین الور کے لئے خاطر خواہ رقم بھیجنے میں خاص دقت محسوس فرماتے ہیں مگر درحقیقت جو رقم آپ نے بھیجی وہ بجائے خود معقول ہے اور آپ کی اس ہمدردی کا ایک بین ثبوت جو آپ کو مظلوم مسلمانان الور سے ہے۔ ان لوگوں کی ہجرت کے بارہ میں جو خیالات آپ نے ظاہر فرمائے وہ بالکل درست ہیں درحقیقت ان لوگوں نے ایک حالت ناچاری و مایوسی میں بلا مشورہ مسلمانان بیرون ریاست یکایک ہجرت کی۔ اگر مشورے کا موقعہ ملتا تو یا تو ان کو روکا جاتا ورنہ ان کے لئے پہلے سے معقول انتظام ہوتا وہ بھی جانتے کہ ہم نے کہاں جانا ہے اور ہم بھی جانتے کہ ان کے واسطے کیا انتظام ہے یہ لوگ محض سراسیمگی کے عالم میں جے پور۔ اجمیر شریف۔ بھرت پور۔ آگے ضلع گوڑ گائوں دہلی وغیرہ مقامات میں جہاں جہاں جس کے سینگ سمائے چلے گئے اور مجھ کو تو یکایک بمقام شملہ پے در پے تین تار پہنچے ان سے یہ واقعہ معلوم ہوا۔ اس وقت دو باتیں کی گئیں جو چلے آئے تھے۔ ان کے لئے قیام و طعام کی فکر کی گئی اور ان کو سمجھایا گیا کہ اب چلے آئے ہو تو کچھ غربت برداشت کرو۔ کیونکہ اگر اسی طرح بے ترتیب اور بے تصفیہ نزاع واپس جائو گے تو پہلے سے زیادہ ذلت و نقصان اٹھائو گے اور جو ابھی نہیں آئے تھے ان کو روکا گیا۔
وائسرائے صاحب کے ہاں وفد کی پیشی کے وقت یہ توقع تھی کہ پولٹیکل سیکرٹری ضرور موجود ہو گا چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے جن کو وفد کشمیر کا تجربہ تھا یہی بتایا۔ مگر جب وفد پیش ہوا تو دیکھا کہ وائسرائے صاحب کے ساتھ صرف پرائیویٹ سیکرٹری ہے تاہم ہم نے وائسرائے صاحب سے درخواست کی کہ تمام مواد پولٹیکل سیکرٹری ہم سے لیں اور وائسرائے صاحب کے لئے نوٹ تیار کریں۔ چنانچہ یہ درخواست منظور کی گئی اور اس کے مطابق ۱۳/ اکتوبر کو میں مسٹر گلینسی سے بمقام شملہ ملا اور سوا گھنٹہ تک ان سے مکالمہ ہوتا رہا۔ ان کو بہت سا مواد دیا گیا۔ اور جہاں تک ہو سکا ان کے شکوک کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاحال یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا نوٹ لکھا۔ ۱۷/ اکتوبر کو سر محمد اقبال نے وائسرائے کو تار بھی دیا کہ پولیٹکل سیکرٹری کو ۱۳/ اکتوبر کو مواد دیا جا چکا ہے اب جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ تاحال کوئی نتیجہ معلوم نہیں ہوا مگر مختلف واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ الورراج بہت سراسمیہ اور مضطرب ہے میں آپ کی نوازش کا مکرر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ زیادہ نیاز۔ والسلام
بندہ غلام بھیک نیرنگ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سینٹرل۔ جماعت تبلیغ الالسلام۔۱۵۷4] f[rt
‏tav.7.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل چہارم(
جلسہ سیرت النبیﷺ~ لکھنئو کے خلاف ہنگامہ آرائی
جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام ۶/ نومبر ۱۹۳۲ء کو ہندوستان بھر میں سیرت النبیﷺ~ کے کامیاب جلسے ہوئے مگر لکھنئو میں اس کے خلاف احراری خیال کے علماء اور ان کے زیر اثر مسلمانوں کی طرف سے افسوسناک مظاہرہ ہوا جسے لکھنئو کے مسلم پریس نے سخت حقارت سے دیکھا۔ اس ضمن میں روزنامہ >حقیقت< اور روزنامہ >ہمدم< اور روزنامہ >اودھ< لکھنئو کے اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
روزنامہ >حقیقت< نے لکھا۔ >پرسوں شب کو امین الدولہ پارک میں جبکہ سیرۃ النبیﷺ~ کا جلسہ ہو رہا تھا تو عین اس وقت جبکہ کلام پاک کی تلاوت کے وقت ہر عقیدت مند مسلمان ادب و تعظیم کے ساتھ قرآن پاک سن رہا تھا امین الدولہ پارک کے باہر کچھ مسلمان سخت شور و ہنگامہ کے ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کر رہے تھے کہ وہ جلسہ سے اٹھ کر چلے آئیں اور اس قدر شور و شر مچایا جا رہا تھا کہ قاری کی آواز کو سننا مشکل ہو گیا۔ یہ کس قدر افسوسناک اور قابل عبرت ہے کہ ایک ایسے جلسہ کو جو رسول عربیﷺ~ کی یادگار منانے کے لئے منقعد ہو رہا ہو` خواہ وہ کسی جماعت کی طرف سے ہو اس کے خلاف اس حد تک نفسانیت سے کام لیا جائے کہ رسول اللہﷺ~ کا ذکر سننے سے لوگوں کو روکا جائے۔ احمدی حضرات کے عقائد جو کچھ بھی ہوں لیکن جب یہ جلسہ خالص سیرۃﷺ~ کا جلسہ تھا اور یہ طے شدہ تھا کہ اس میں اشارۃ" و کنایت¶ہ بھی احمدی عقائد کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ تو پھر کیا بانی اسلام علیہ التحیتہ والسلام کی صریح توہین نہیں ہے کہ اس جلسہ میں شرکت سے مسلمانوں کو روکا جائے اور شور مچا کر آنحضرتﷺ~ کی سیرت پاکﷺ~ کا ذکر سننے سے لوگوں کو روکا جائے۔ سب سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ حرکت خود مسلمانوں کی طرف سے سرزد ہوئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون<۔۱۵۸
۲۔
روزنامہ >اودھ< نے لکھا۔
>اس مرتبہ بھی سالہائے گزشتہ کی طرح احمدیہ جماعت کی طرف سے بانی اسلام~صل۱~ کی حیات مبارک کے قابل تقلید واقعات سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے پبلک تک پہنچانے کی مبارک غرض سے ۶/ نومبر کو جلسہ سیرۃ النبی~صل۱~ منعقد کیا گیا لیکن ہم کو یہ دیکھ کر انتہائی تعجب ہوا کہ اس مرتبہ بعض ان ہی مسلم علماء نے اس جلسہ سے اپنے قولی و عملی اختلاف کا اظہار کیا جو سالہائے گزشتہ اس مبارک جلسہ کے سلسلہ میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مذہبی حیثیت سے ایک سال قبل اس جلسہ کی شرکت کیونکر جائز تھی اور ایک سال بعد کیونکر حرام ہو گئی۔ بہرحال اس جلسہ کے مقاطعہ کے لئے جو اعتراضات پبلک تک پہنچائے جارہے تھے وہ یہ تھے کہ اس جلسہ کے بانی قادیانی ہیں۔ یہ دراصل کوئی اعتراض نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ببانگ دہل یہ الفاظ بھی سنے گئے کہ لکھنئو کے تمام علماء نے متفقہ طور پر اس جلسہ کا بائیکاٹ کیا ہے لہذا کوئی مسلمان اس میں شریک نہ ہو۔ کوئی وجہ کوئی دلیل اور کوئی سبب بیان نہیں کیا جارہا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلسہ میں جوق در جوق ہندو اور مسلمان سب شریک ہوئے۔ گو کہ ان کو جلسہ گاہ کے ہر دروازہ پر مذموم قسم کی پکٹنگ کے ذریعہ روکنے کی بھی کوشش کی گئی اور غلط فہمیاں بھی پیدا کرائی گئیں۔ مثلاً تمام علماء اس جلسہ کے مقصد کو مسلمانوں کے لئے مضرت رساں سمجھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے منشی محمود علی صاحب صدر منتخب نے استعفاء بھی دے دیا وغیرہ وغیرہ لیکن ایک طرف سے شائقین جلسہ کا ہجوم تھا دوسری طرف وہ لوگ بھی جلسہ کی شرکت کے لئے مجبور ہو رہے تھے جن کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ ایک خالص مذہبی تقریب مذہب کے لئے کس طرح مضرت رساں ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہم کو اس اختلاف پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اختلاف کی جو صورت اختیار کی گئی مثلاً شرکائے جلسہ پر آوازے کسنا۔ زنانہ نشست میں پتھر بازی کرنا اور جلسہ کے باہر سڑک پر غنڈوں کی طرح غل مچانا وغیرہ یہ ہمارے نزدیک نہ صرف قابل اعتراض ہے بلکہ انتہائی شرمناک ہے جس سے خود مخالفوں کی پوزیشن پر برا اثر پڑتا ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ باوجود اس کے جلسہ کامیاب ہوا۔ اور یہ تمام مضحکہ خیز کوششیں ناکام ہونے کے علاوہ اور کچھ نہ ہو سکیں۔ پھر سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہوئی کہ جلسہ کے اختتام پر تمام حاضرین جلسہ یہی کہتے ہوئے اٹھے کہ اس جلسہ کی مخالفت اب تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اور جو اعتراضات مخالفین جلسہ اٹھا رہے تھے ان میں سے ہم نے ایک کو بھی صحیح نہیں پایا۔ اس موقع پر ہم بانیان جلسہ کو مبارکباد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جنہوں نے نہایت سکون کے ساتھ اس تمام مضحکہ خیز مخالفت کا مقابلہ کیا اور اپنی طرف سے مدافعانہ کوئی کارروائی نہ ہونے دی یہاں تک کہ مخالف اپنی ناکامی سے خود ہی تھک گئے<۔۱۵۹
۳۔
روزنامہ >ہمدم< نے لکھا۔
>ہمارے موجودہ علماء کی حد سے گری ہوئی حالت کا سدھار خدا ہی ہے جو ہو سکے۔ سیرت پاک کی مقدس مجلس میں مولوی وزیر حسن صاحب اور مولوی فتح اللہ صاحب کا ایمان سوختہ پارٹی نے جو انسانیت سوز مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے انتہائی ندامت کا سبب تھا۔ ادھر تو ذکر رسولﷺ~ ہو رہا ہے اور ایک ہندو مداح رسولﷺ~ فرما رہے تھے کہ مجھے ڈاکٹروں نے بولنے سے منع کیا ہے کیونکہ میں بیمار ہوں لیکن جس مجلس میں حضرت رسول مقبول~صل۱~ کا ذکر پاک ہو میں اس میں شریک ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آپ نے حضرتﷺ~ کی سیرت پر ایک محبت سے ڈوبی ہوئی تقریر بھی کی اور ادھر چار طرف ننگ اسلام پارٹیاں جو انسانیت کش حرکات کر رہی تھیں۔ وہ شہدا پن کی انتہائی ڈگری سے کئی ہزار گنا بڑھ گئی تھیں۔ آہ خواتین کی نشست گاہ پر بری طرح ڈھیلے برسائے گئے حاضرین جلسہ پر گالیوں کی بوچھاڑ کی گئی وہ وہ حرکات کی گئیں جن سے شیطنت بھی پناہ مانگتی تھی۔ پروپیگنڈا یہ تھا کہ قادیانیوں کا جلسہ ہے۔ حکیم خواجہ شمس الدین صاحب کی تقریر ہو رہی تھی۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ مولانا کی تعریف کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک شیداء رسولﷺ~ حنفی تقریر کر رہا ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک کہیں قادیانیت کا نام تک بھی نہیں سنا۔ میں خود قادیانی عقائد سے شدید اختلاف رکھتا ہوں۔ لیکن یہاں تو قادیانیت سے کچھ واسطہ ہی نہ تھا۔ حضرت آقاء نامدار محمدﷺ~ عربی کی سیرت پر قادیانی` حنفی` ہندو وغیرہ تقریریں کر رہے تھے جو ہمارے لئے انتہائی مسرت کا باعث تھیں پارک میں جو محفل میلاد ہوتی ہے اس میں ہمیں خوب علم ہے کہ قادیانی حضرات برسوں سے شرکت کرتے ہیں انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ جلسہ غیر احمدی مسلمانوں کا ہے بہرکیف خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ غیب سے مسلمانوں کی اصلاح کے سامان کر دے ورنہ ان علماء نے تو مسلمانوں کو کہیں کا بھی نہیں رکھا۔ )سید اعجاز حسین رضوی<(۱۶۰
اراضی سندھ کی خرید
‏0] f[rtاب سلسلہ کی ضروریات ایسی صورت اختیار کر چکی تھیں کہ اسلام و احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک مستقل فنڈ جاری کرنا ضروری تھا۔ آنحضرت~صل۱~ کے زمانہ مبارک میں بھی بعض جائدادیں اسلامی کاموں کے لئے وقف کر دی گئی تھیں اسی طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کیا گیا۔ حضرت فضل عمرؓ نے بھی اسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ۱۹۳۲ء میں ریزرو فنڈ کی مستقل بنیاد رکھی اور سندھ میں زمینیں خرید فرمائیں یہ پانچ لاکھ کا سودا تھا۔ جو بیس سال میں ادا کرنا تھا۔۱۶۱ صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ مطبوعہ رپورٹ )یکم مئی ۱۹۳۲ء لفایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۲( سے اراضی سندھ کی خرید کے ابتدائی حالات پر روشنی پڑتی ہے چنانچہ لکھا ہے۔
>ایک سال چھ ماہ کی متواتر کوشش سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کامیابی عطا فرمائی اور سندھ میں حضور کی خواہش کے مطابق پانچ ہزار ایکڑ زمین مل گئی۔ اس میں انجمن کا حصہ ۲۸۶۰ ایکڑ کا ہے۔ انتظامی لحاظ سے انجمن کا اس میں اسی قدر دخل ہے جس قدر کہ یک حصہ دار کا ہو سکتا ہے مگر چونکہ انجمن کا سب حصہ داروں سے بڑا حصہ ہے اس لئے ناظر صاحب اعلیٰ اس کمیٹی مذکور یعنی سنڈیکیٹ کے ممبر ہیں اور اس ذریعہ سے مشترکہ جائداد کے نظم و نسق میں انجمن کا خاص دخل ہے پس اس لحاظ سے ایک حد تک انجمن کے مفاد پر انجمن کے قائم مقام یعنی ناظر صاحب اعلیٰ ہر وقت نظر رکھتے ہیں اور اس کاروبار کے عنوان انشاء اللہ امید افزاء ہیں۔
چونکہ پانچ ہزار ایکڑ اچھی زمین کا ایک جگہ پر ملنا مشکل تھا۔ اس لئے دو مقامات پر اچھی اچھی زمین منتخب کی گئی جس کی تلاش میں سنڈیکیٹ نے بہت سا مال اور وقت صرف کرکے اسے حاصل کیا۔ اور اس انتخاب میں خان صاحب محمد عبداللہ خان صاحب خلف الرشید نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ خاص شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے سندھ کے متفرق علاقوں میں پھر پھر کر اسے تلاش کیا۔ جزاھم اللہ خیرا۔ ان ہر دو مقامات میں ۱۰۔ ۱۱ میل کا آپس میں فاصلہ ہے۔
ایک کا نام احمد آباد اسٹیٹ اور دوسرے کا محمود آباد اسٹیٹ رکھا گیا۔ اول الذکر میں ۴/ نومبر ۱۹۳۲ء کو پانی ملا تھا۔ جہاں بوجہ تنگی وقت صرف ۵۷۵ ایکڑ زمین میں فصل ربیع بویا جا سکا۔ جس کی آمد اندازاً ۸۔ ۹ ہزار ہوئی۔ اور دوسرے رقبہ میں چونکہ پانی ربیع گزشتہ ۱۹۳۲ء کے موقعہ پر نہیں ملا تھا۔ بلکہ ابھی تک بھی پانی کی مقدار ضرورت سے کم ہے اس لئے وہ گزشتہ سرما ۳۲۔ ۱۹۳۳ء میں خالی رہا۔ البتہ موسم خریف میں تین چار سو ایکڑ کپاس اور باجرہ بویا گیا۔ اور اس طرح احمد آباد اور محمود آباد میں بفضلہ تعالیٰ اندازاً ایک ہزار ایکڑ کپاس و باجرہ فصل خریف سن رواں میں ہوئی۔ جس سے امید ہے کہ انشاء اللہ اندازاً تیس ہزار روپیہ سنڈیکیٹ کو آمد ہو جائے گی اور آئندہ ربیع بارہ تیرہ سو ایکڑ کاشت ہو چکی ہے۔
۲۔ فروخت جائداد: اراضیات سندھ کے خرید کرنے کے لئے انجمن کے خزانہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑا۔ بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے متعلق تجویز فرمایا کہ انجمن کی بیرونی متفرق جائدادیں جو مختلف جگہوں پر واقع ہیں یا قادیان کے گرد و نواح کی بکھری ہوئی جائدادوں کو فروخت کرکے روپیہ مہیا کیا جاوے اور اس سے سندھ کی زمین خرید کی جائے چنانچہ اس وقت تک ۲۳ ہزار روپیہ کی جائیدادیں فروخت ہوکر سندھ کی اراضیات کے سلسلہ میں روپیہ بھجوایا جا چکا ہے اور اس کے علاوہ کچھ قرضہ بھی بیرونی جماعتوں اور بعض احباب سے لیا گیا تھا جو سب مل ملا کر قریباً چالیس ہزار روپیہ ۲۵۶۰ ایکڑ پر انجمن کی طرف سے خرچ ہو چکا ہے جس میں قسط اول اور اخراجات آبادی اور انتظامی شامل ہیں مگر خزانہ انجمن سے کوئی روپیہ نہیں لیا گیا<۔۱۶۲
جامعہ احمدیہ کا تبلیغی و تعلیمی وفد
۲۶/ نومبر ۱۹۳۲ء۱۶۳ کو مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں انتیس افراد پر مشتمل جامعہ احمدیہ کا ایک وفد قادیان سے روانہ ہوا۔ اور ۹/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو واپس مرکز میں پہنچا۔۱۶۴ اس دورہ کے اصل محرک مولوی ظہور الحسن صاحب مولوی فاضل تھے۔
یہ وفد جامعہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا وفد تھا جس نے قادیان سے چل کر جالندھر` پھلور` لدھیانہ` انبالہ شہر` دہلی` علی گڑھ اور میرٹھ سے ہوتے ہوئے دیوبند اور سہارنپور تک کا ایک لمبا سفر طے کیا۔ اور اس وفد کی ایک عجیب خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ارکان دن کو کھیلوں کے میچ میں داد تحسین حاصل کرتے اور رات کو اپنی پرجوش اور معلومات افزاء تقریروں سے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے تھے کہ سبز عمامے پہننے والے قادیان کے عالم بھی عجیب قسم کے ہیں کہ کھیل اور لیکچر ہر دو فنون میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔۱۶۵ وفد جہاں جہاں پہنچا اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور ہر جگہ اپنی تبلیغی و تفریحی صلاحیتوں سے دھوم مچا دی۔
جالندھر چھائونی میں وفد نے جلسہ منعقد کرنے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی سکول کو ہاکی کے میچ میں تین گول سے شکست دی۔۱۶۶
پھلور میں پولیس ٹریننگ سکول کے ساتھ میچ ہوا۔ جس میں ارکان وفد نے کھیل کا اس قدر شاندار مظاہرہ کیا کہ بار بار نعرے ہائے تحسین بلند ہوتے تھے دوسرے ہاف میں جامعہ نے گول کردیا جس کے بعد کھیل بے حد تیز ہو گئی اور عین اس وقت جبکہ پانچ منٹ باقی تھے پولیس نے گول اتار دیا۔ وہاں کے لوگوں کا بیان تھا کہ اس قدر دلچسپ میچ پھلور میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میچ کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ کھیل کے دوران میں جامعہ کے وفد کی طرف سے ٹیم کو WELLDONE کی بجائے حبذا کہا جاتا تھا۔ چند منٹ بعد تمام ٹریننگ پولیس کلب حتیٰ کہ دو یورپین آفیسروں نے بھی یہی لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔
لدھیانہ میں جلسہ بھی ہوا اور پولیس کلب کے ساتھ میچ بھی۔ جس میں جامعہ نے پولیس ٹیم کو ایک گول سے ہرا دیا۔
انبالہ میں لوگوں کو وفد دیکھ کر حیرانی پیدا ہوئی ایک شخص کو جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ قادیان سے آئے ہیں تو کہنے لگے کہ تبھی ان کے چہروں سے نور اور نیکی کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ یہاں بھی جلسہ کے علاوہ جامعہ کا انبالہ کی مشہور کلب ایل ایل۔ بی سے ہاکی کا زبردست مقابلہ ہوا۔ جس میں کامیابی کا سہرا جامعہ کی ٹیم کے سر رہا۔۱۶۷
علی گڑھ میں وفد کی سرگرمیاں زیادہ تر مسلم یونیورسٹی کے شعبہ جات کو دیکھنے اور ایک انگریزی مباحثہ سننے تک محدود رہیں۔۱۶۸ علی گڑھ کالج میں ان دنوں ایک اردو مباحثہ بھی منقعد ہو رہا تھا جس میں جامعہ احمدیہ کی طرف سے شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کی شمولیت کا فیصلہ ہو چکا تھا مگر چونکہ اصل قرارداد کے الفاظ قرآنی تعلیم کے خلاف تھے اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر یہ فیصلہ منسوخ کر دیا گیا۔
دہلی میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں طلبائے جامعہ نے مختلف مضامین پر تقریریں کیں نیز دہلی کے مختلف حلقوں سے متعارف ہونے کے لئے ارکان کی متعدد پارٹیاں ترتیب دی گئیں جنہوں نے اپنا مفوضہ کام نہایت خوبی کے ساتھ انجام دیا۔
میرٹھ میں بھی اخذ معلومات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور عربی درسگاہوں` مذہبی انجمنوں اور اخبارات کے دفتروں کی طرف پارٹیاں بھجوائی گئیں۔ یہاں وفد نے دو میچ کھیلے۔ ایک سناتن دھرم ہائی سکول سے دوسرا یونین کلب میرٹھ سے دونوں میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ لوگوں کو جب بتایا گیا کہ یہی لوگ رات کو لیکچر بھی دیں گے تو وہ بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ مسلمانوں کے مولوی تو حجروں میں بند رہنے کو اسلام سمجھتے ہیں مگر قادیان نے ایسے علماء پیدا کئے ہیں جو دینوی امور میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔۱۶۹
غرضکہ وفد کا یہ تبلیغی و تعلیمی اور معلوماتی۱۷۰ سفر ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور احمدی جماعتوں میں حرکت پیدا کرنے اور غیروں میں احمدیت کے اثر و نفوذ کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوا- ارکان وفد حسب ذیل تھے۔
مولوی ارجمند خان صاحب۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری` شیخ مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` مولوی محمد سلیم صاحب` شیخ عبدالقادر صاحب` مولوی احمد خاں صاحب نسیم` مولوی ظہور الحسن صاحب` سید احمد صاحب` مولوی نذر احمد صاحب` مولوی صالح محمد صاحب` مولوی نذیر احمد صاحب مبشر` ملک میں عبداللہ صاحب` چوہدری محمد شریف صاحب` مرزا عبدالرحمن صاحب` مولوی محمد احمد صاحب جلیل` عطاء الرحمن صاحب سار چوری` محمد نور صاحب کابلی` عطاء اللہ صاحب )ابن اللہ بخش صاحب`( عطاء اللہ صاحب بنگہ` چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ` مولوی نور الٰہی صاحب` مولوی ولی داد خان صاحب` حافظ بشیر احمد صاحب` مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری` مولوی عبدالرحمن صاحب پشاوری` حافظ عبدالغفور صاحب جالندھری` عبدالرحیم صاحب۔ )ایک نام کا تعین نہیں ہو سکا(
سالانہ جلسہ پر ایک قرار داد
الہ آباد میں وسط دسمبر ۱۹۳۲ء میں ایک اتحاد کانفرنس ہوئی جس میں مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے مطالبات کے خلاف بعض نہایت ضرر رساں تجاویز پاس کی گئیں۔ لہذا جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء کے تیسرے دن )۲۸/ دسمبر کو( یہ قرار داد پاس کی گئی کہ >مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے مطالبات مسلمانوں کے لئے بہت مفید اور ضروری ہیں اور اس کے خلاف یونٹی کانفرنس الہ آباد کی تجاویز مسلمانوں کے مفاد کے لئے ضرر رساں اور نقصان دہ ہیں۔ پس ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کے پیش کردہ مطالبات کو ہی صحیح مطالبات سمجھے ہم مسلم کانفرنس کے مطالبات کی تائید میں ہر اک قسم کی امداد کا وعدہ کرتے ہیں<۔۱۷۱
اخبار >الفضل< میں مسلمانان ہند کی تائید میں مسلسل مضامین
اس سال اخبار >الفضل< نے مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے مسلسل آواز اٹھائی اور ان کے خلاف ملک میں اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف بڑے پرزور طریق سے اور بڑی جرات کے ساتھ قلم اٹھایا۔ حقوق اسلامی کی حفاظت و صیانت کی ان عظیم الشان خدمات کا اندازہ >الفضل< کے مندرجہ ذیل مضامین کے عنوانوں سے باسانی لگ سکتا ہے )مسلمانان کشمیر کی نسبت الفضل کے موثر مضامین اس کے علاوہ ہیں( >صوبہ سرحد میں مسلم کانفرنس کا وفد<۔ >مسلمانوں کو حصول حقوق کے لئے کیا کرنا چاہئے<۔ >مسلمانان بنگال کی امداد کی ضرورت<۔ >کشمیر کے مقابل میں حیدرآباد اور بھوپال کا طریق عمل<۔ >مسلمانوں کے حقوق سے حکومت کی بے التفاتی<۔ >ریاست جے پور اور جودھپور کے مسلمانوں کی حالت زار<۔ >فرقہ وار مسئلہ کے تصفیہ کا مطالبہ<۔ >محکمہ ریلوے میں مسلمانوں کی شدید حق تلفی<۔ >انقلاب ہرگز بند نہیں ہونا چاہئے<۔ >آل انڈیا مسلم کانفرنس کی اہم قرارداد<۔ >مسلمانان پنجاب کے لئے پچاس فیصدی ملازمتیں<۔ >مسلمانوں کی ضروری تنظیم<۔ >حاجیوں کی تکالیف کے انسداد کا معاملہ<۔ >بی۔ اے کے نصاب سے اسلامی تاریخ کا اخراج<۔ >آل انڈیا مسلم کانفرنس میں افسوسناک اختلاف<۔ >مسلمانوں کے حقوق کے خلاف ہندوئوں کی حکومت کو دھمکیاں<۔ >مسلمانان پونڈری سے تعزیری ٹیکس نہ لیا جائے<۔ >سکھوں کا اعلان جنگ<۔ >سکھوں کی دھمکیاں اور حکومت کا فرض<۔ >مسلمانوں کی مخالفت میں ہندوستان کو آئینی ترقی سے محروم رکھنے کی کوشش<۔ >ہندو ریاستوں میں مسلم عناصر کو کچلنے کی تلقین<۔ >مسلمانان الور کے ناقابل برداشت مصائب<۔ >مسلمانوں کے خلاف بلاوجہ شور و شر<۔ >مسلمان اچھوتوں کو فراموش نہ کریں<۔ >حکومت اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاریاں<۔ >مسلمانان پنجاب کے نیابتی حقوق کے خلاف شورش انگیزی کا نتیجہ<۔ >سکھوں کا فائدہ ہندوئوں کا آلہ کار بننے میں نہیں مسلمانوں کے ساتھ متحد ہونے میں ہے<۔ >ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمانوں کی جدوجہد<۔ >اسلام کا جھنڈا نہ صرف گنگا پر بلکہ ساری دنیا پر لہرائے گا<۔ >حکومت کو عجلت کی بجائے تدبر اور احتیاط سے کام لینا چاہئے<۔ >مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی جنگی تیاریاں<۔ >بڈھلاڈا ضلع حصار کے مسلمانوں پر اندھا دھند قاتلانہ یورش<۔ >کیا حکومت مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کرے گی<۔ >ہندو مسلم سمجھوتہ سے ہندوئوں کا گریز<۔ >مسلمانوں کے خلاف ڈاکٹر نارنگ کا اظہار غیظ و غضب<۔ >بڈھلاڈا کے حادثہ نے ہندوئوں کی خطرناک سازش کو بے نقاب کر دیا<۔ >مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے کی افسوسناک کوشش<۔ >فرقہ وارانہ منافرت کو مٹانے کے لئے تاریخی کتب میں اصلاح کی ضرورت<
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال مندرجہ ذیل صحابہ کبار نے رحلت فرمائی۔
۱۔
حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری )تاریخ وفات ۱۸/۱۷ اپریل ۱۹۳۲ء(۱۷۲ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت اپنے زمانہ خلافت سے قبل الفضل میں تحریر فرمایا۔ >حکیم صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور ان چند لوگوں میں سے ہیں کہ جن کو حضرت بے تکلفی سے کام بتا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اکثر کام جو لاہور کے متعلق ہوتے تھے۔ ان کی نسبت حضرت صاحب حکیم صاحب کو ہی لکھا کرتے تھے اور اس طرح آپ کو حضرت صاحب کی دعائوں سے فائدہ اٹھانے کا خاص موقعہ ملتا تھا۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کے لئے ایک خاص جوش دیا ہے<۔۱۷۳
۲۔
حضرت مولوی سید غلام محمد صاحب مہاجر افغانستان )تاریخ وفات ۲۸/ جولائی ۱۹۳۲ء(۱۷۴
۳۔
حضرت مولانا عبدالستار صاحبؓ افغان المعروف بزرگ صاحب )تاریخ وفات ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء(۱۷۵
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی وفات پر ایک مفصل خطبہ دیا جس میں آپ کے مقام ایمان و اخلاص پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مولوی صاحب کا بہت بڑا درجہ تھا۔ ان کی وفات سے دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے میں نے ڈلہوزی میں ایک رئویا دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھبرائے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دوڑ و دوڑو قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان اور زمین ہل گئے ہیں۔ جب میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ واقعی آسمان ہل رہا ہے اور مکان بھی ہل رہے ہیں۔ گویا ایک زلزلہ آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اب جبکہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رئویا انہی کے متعلق تھی جو پوری ہو گئی۔ جب کوئی شخص ایسا فوت ہوتا ہے جو مقبول الہی ہو۔ تو اس کی وفات کا زمین و آسمان پر اثر ضرور ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ میں تاریخ میں جماعت کے ایک نیک اور اچھے شخص کے نمونہ کو قائم کرنے کے لئے یہ خطبہ کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ غرض جہاں میں چاہتا ہوں کہ تاریخ میں ان مخلص اور خدا رسیدہ لوگوں کے نام رہ جائیں وہاں میں نوجوان احمدیوں اور نئے احمدی بننے والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اسی قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ سے ایسا یقین` معرفت اور توکل حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہمکلام ہو اور وہ اس مقام پر کھڑے ہوں کہ ان کی وفات آسمان اور زمین کو ہلا دینے کا موجب ہو جائے وہ بھی کیا انسان ہے جو دنیا میں آیا اور چند سال رہ کر یوں مر گیا۔ جیسے مکھی مر جاتی ہے<۔۱۷۶]ydob [tag
۴۔
حضرت مولوی فضل دین صاحب ساکن کھاریاں جو عالم باعمل اور ۳۱۳۔ اصحاب کبار میں شامل تھے ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو رحلت فرما گئے۔۱۷۷
۵۔
نانی اماں حضرت سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر نواب صاحبؓ )تاریخ وفات ۲۴/ ۲۳ نومبر ۱۹۳۲ء(
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ سول سرجن نے ایک مفصل مضمون میں ان کے حالات زندگی شائع کئے تھے جن میں تحریر فرمایا۔ >والدہ صاحبہ کی شادی قریباً ۱۲۔ ۱۳ سال کی عمر میں حضرت والد صاحب کے ساتھ ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ہجرت کرکے قادیان ۱۸۹۴ء میں آئی تھیں اور پھر یہیں رہیں۔ مگر اس سے پہلے ہمیشہ وقتاً فوقتاً ہمارے والد صاحب ان کو قادیان اپنے ہمراہ لایا کرتے تھے یا کبھی ان کو چھوڑ جاتے پھر دوسرے پھیرے میں لے جاتے سب سے پہلے وہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے والد بزرگوار کی زندگی میں آئی تھیں جب میر صاحب نہر پر سب اوورسیر تھے اور کئی ماہ قادیان میں ٹھہری تھیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دہلی میں حضرت ام المومنینؓ کے لئے پیغام بھیجا تو میر صاحب کو انہوں نے بھی مشورہ دیا تھا کہ دیگر برادری کے لڑکوں کی نسبت تو غلام احمد )علیہ الصلٰوہ والسلام( ہی اچھا ہے چنانچہ وہ نکاح ظہور میں آگیا<۔۱۷۸
۶۔
خواجہ کمال الدین صاحب بانی ووکنگ مشن انگلستان )تاریخ وفات ۲۸/۲۷ دسمبر ۱۹۳۲ء( ان کی وفات کی خبر سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء کے دوران سنی گئی جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنی تقریر میں خواجہ صاحب مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے فرمایا۔
>اگرچہ خواجہ صاحب نے میری بہت مخالفتیں کیں لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام کے وقت خدمات بھی کی ہیں اس وجہ سے ان کی موت کی خبر سنتے ہی میں نے کہہ دیا کہ انہوں نے میری جتنی مخالفت کی وہ میں نے سب معاف کی۔ خدا تعالیٰ بھی ان کو معاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن بندوں کو خدا تعالیٰ کھینچ کر اپنے مامورین کے پاس لاتا ہے ان میں ہو سکتا ہے کہ غلطیاں بھی ہوں لیکن خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں ان خوبیوں کی قدر کرنی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں خلافت کا انکار بڑی خطا ہے خدا تعالیٰ نے اسے بڑا گناہ قرار دیا ہے مگر ہمارا جہاں تک تعلق ہے۔ ہمیں معاف کرنا چاہئے خدا تعالیٰ کے نزدیک اگر ایسے شخص کی نیکیاں بڑھی ہوئی ہوں گی۔ تو وہ اس سے بہتر سلوک کرے گا<۔۱۷۹
زمرہ اصحاب مسیح موعودؑ کے ان مقدسین کے علاوہ حافظ سلطان حامد صاحب جو مدرسہ احمدیہ میں طلباء کو قرآن مجید حفظ کراتے تھے۔ اور سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے استاد ہونے کا شرف رکھتے تھے ۲۷/ اپریل ۱۹۳۲ء کو انتقال کر گئے۔۱۸۰
اسی طرح چودھری شمشاد علی خان صاحب آئی سی ایس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پورنیا نے ۱۶/ جنوری ۱۹۳۲ء کو ایک حادثہ سے وفات پائی۔ حکومت بہار کے سرکاری اعلان اور دوسری اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم اس روز شام ۷ بجے شکار سے جب کیمپ میں واپس پہنچے تو ایک شخص کے ہاتھ سے ان کی رائفل اتفاقاً چل گئی گولی بائیں پھیپھڑے میں لگی۔ اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔۱۸۱ چوہدری صاحب موصوف حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہم مکتب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خسر تھے۔ مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس آفیسر سیالکوٹ کی تبلیغ سے قبول حق کی توفیق ملی۔ باقاعدہ بیعت ۱۱۔ ۱۹۱۰ء میں کی تھی۔۱۸۲
پہلا باب )فصل پنجم(
۱۹۳۲ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
۲۳۔ ۲۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حرم رابع حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے بطن سے مرزا حنیف احمد صاحب پیدا ہوئے۔۱۸۳
میاں عبدالرحیم خاں کا نکاح
۱۱/ نومبر ۱۹۳۲ء کو میاں محمد عبدالرحیم خان صاحب )ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ( کا نکاح نواب زادہ جعفر علی خان صاحب برادر خورد ہزہائی نس نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی دختر نیک اختر قدسیہ بیگم صاحبہ سے پڑھا گیا۔۱۸۴ ۲۹/ نومبر ۱۹۳۴ء کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔۱۸۵
سر محمد شفیع صاحب کا انتقال
شمالی ہند کے مشہور مسلم لیڈر اور پنجاب مسلم لیگ کے سابق صدر سر محمد شفیع ۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے اس اندوہناک قومی حادثہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے ناظر صاحب امور خارجہ قادیان نے ان کے بیٹے میاں محمد رفیع صاحب کو حسب ذیل تار ارسال کیا۔
>حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ آپ کے والد ماجد کی اندوہناک وفات پر دلی ہمدردی کا اظہار کروں۔ مسلمان اپنے حقوق کے ایک زبردست نگران اور ہندوستان ایک اعلیٰ درجہ کے مدبر کی خدمات سے ایسے وقت میں محروم ہو گیا ہے۔ جبکہ اس کی سخت ضرورت تھی<۔۱۸۶
جلسہ تقسیم انعامات
۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کا جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا۔ جس میں حضورؓ نے بھی شرکت فرمائی۔ اور تعلیم الاسلام اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو قیمتی ہدایات سے نوازتے ہوئے تلقین فرمائی کہ انعام حاصل کرنے کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔۱۸۷ اس سال پہلی بار طلبہ مدرسہ کا ایک خاص امتحان دینیات کا لیا گیا امتحان کے پرچے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور حضرت میر سید محمد اسحٰق صاحب نے بنائے اور ان کو حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے` ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد حسن صاحب نے ملاحظہ فرمایا۔ جو طلبہ اس امتحان میں اول رہے ان کے نام مع حاصل کردہ انعام کے درج ذیل ہیں۔
۱۔ جماعت دہم۔ عطاء الرحمن صاحب )حال امیر جماعت احمدیہ ساہیوال(
طلائی تمغہ
۲۔ جماعت نہم۔ محمد ہاشم صاحب۔
نقرئی تمغہ
۳۔ جماعت ہشتم۔ سردار محمد صاحب۔
نقرئی تمغہ
۴۔ جماعت ہفتم۔ غلام حسین صاحب۔
سیرت خاتم النبیین ہر دو حﷺ
۵۔ جماعت ششم۔ محمد دین صاحب۔
سیرت خاتم النبیین ہر دو حﷺ
مجالس >ذکر حبیبؑ<
کچھ عرصہ سے سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی حضورؑ ہی کے صحابہ سے سنانے کا انتظام کر رکھا تھا اسی سلسلہ میں انہوں نے ۲۱/۲۰ اپریل کی درمیانی شب کو قادیان کے تمام حاضر الوقت صحابہ کو جن کی تعداد تین سو تھی مسجد اقصیٰ میں دعوت طعام دی۔ کھانے کے بعد گیارہ صحابہ نے نے حضور علیہ السلام کی زندگی کا ایک ایک چشم دید واقعہ بیان کرکے حاضرین کے ایمان کو تازہ کیا۔۱۸۸
سناتن دھرم سبھا لاہور کی مذہبی کانفرنس
لاہور کی سناتن دھرم سبھا نے اپنے سالانہ جلسہ پر ۲۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی جس میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے >کیا مذہب ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے؟< کے موضوع پر ایک مختصر مگر موثر مضمون پڑھا۔۱۸۹
قادیان میں السنہ مشرقیہ کے امتحانات کا سنٹر
اس سال قادیان میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے السنہ مشرقیہ کے امتحانات کا بھی سنٹر مقرر کر دیا گیا۔۱۹۰
قادیان کے دفاتر میں ٹیلی فون
جولائی ۱۹۳۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ` ناظر صاحب اعلیٰ` ناظر صاحب بیت المال اور ایڈیٹر صاحب الفضل کے دفاتر میں ٹیلی فون لگا۔۱۹۱
واعظ مقامی کا تقرر
قبل ازیں قادیان میں آنے والے مہمانوں اور مقامی جماعت کی تربیت کا کوئی تسلی بخش مرکزی انتظام نہیں تھا۔ یکم نومبر ۱۹۳۲ء سے >واعظ مقامی< کی ایک اسامی منظور کی گئی اور حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ قادیان کے پہلے واعظ مقامی مقرر کئے گئے۔ آپ کے فرائض مختصراً یہ تھے۔
)۱( مہمانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام )۲( درس کا انتظام )۳( غیر معروف مہمانوں کے حالات کا پتہ لگانا اور مشتبہ لوگوں کی نگرانی کرنا )۴( نئے آنے والے مہاجرین کو ہجرت کی غرض و غایت سے آگاہ کرنا۔ )۵( مقامی عہدیداروں کے توسط سے مقامی احمدیوں کی عام تربیت کی نگرانی کرنا۔۱۹۲
حضرت مولوی صاحبؓ ایک لمبے عرصہ تک واعظ مقامی کے فرائض نہایت ذمہ داری اور اخلاص سے سر انجام دیتے رہے جس کا تفصیلی ذکر صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹوں سے ملتا ہے۔
بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات
فلسطین مشن: مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے مارچ ۱۹۳۲ء سے ایک سہ ماہی رسالہ >البشارۃ اسلامیتہ< جاری کیا۔]10 [p۱۹۳ اخبار >الفلسطین< >الاقدام< اور >الصراط المستقیم< نے اس کے اجراء پر عمدہ تبصرے کئے۔ چنانچہ >الصراط المستقیم< )۱۰/ مارچ ۱۹۳۲ء( نے لکھا کہ احمدیہ عقائد نصرانیت پر ضرب کاری کی حیثیت رکھتے ہیں اور احمدی مسیحیت اور یہودیت پر دوسرے تمام لوگوں سے اشد ہیں۔
مولانا ابوالعطاء صاحب کا غیر احمدی عالم شیخ احمد قصاب سے کامیاب مباحثہ ہوا اور وہ وقت ختم ہونے سے پہلے ہی چل دیئے۔۱۹۴ علاوہ ازیں بغداد کے مشہور پادری الانستاس الکرملی سے اگست میں تبادلہ خیالات ہوا۔ مگر پادری صاحب نے آخر گفتگو سے انکار کر دیا۔۱۹۵
گولڈ کوسٹ مشن: ٹمالے علاقہ میں تبلیغ اسلام سے متعلق مقامی افسرں نے بعض قیود لگا دی تھیں اس سال کے شروع میں چیف کمشنر نے یہ پابندیاں اٹھا دیں۔ اشانٹی میں مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے دورہ کیا اور ایک ذی اثر شخص الحاج عیسیٰ اپنے ۵۶ مریدوں سمیت سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۱۹۶
نیا سالینڈ: ۸/ فروری ۱۹۳۲ء کو مسلمانان نیاسالینڈ کا ایک وفد گورنمنٹ ہائوس زومبار میں گورنر صاحب کے سامنے پیش ہوا جس کی قیادت ایک احمدی مسٹر عبدالحکیم جان نے کی۔ اور مسلمانوں کے مطالبات پیش کئے۔ اس جدوجہد پر انجمن حمایت اسلام زومبار )نیاسالینڈ( نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور لکھا جماعت احمدیہ بھی شکریہ کی مستحق ہے جس کے ایک ممبر نے عین موقعہ پر ہماری راہ نمائی کی اور اپنی آمد سے لے کر اس وقت تک مسلم مفاد کی خاطر کئی ایک بہترین کام کئے۔۱۹۷
امریکہ مشنbody]: ga[tاسی دن جبکہ نیاسالینڈ کا مندرجہ بالا وفد پیش ہوا تھا۔ امریکہ میں شام کے وقت مبلغ امریکہ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی نے ایک کالج میں ہندوستانی سیاسیات پر تقریر کی اور مسلمانوں کے حقوق و مطالبات کی تشریح کی۔۱۹۸ اس کے بعد نیو یارک اور اس کے نواح میں انہوں نے بذریعہ لیکچر یہ سلسلہ جاری رکھا۔۱۹۹ ۵/ جون کو صوفی صاحب کی شکاگو کی اعلیٰ سوسائٹی CHURCH COMMNITY PEOPLE میں تقریر ہوئی۔ خاتمہ پر صدر جلسہ نے کہا۔ میری تمام زندگی میں جو سب سے زیادہ تعجب انگیز معلومات کا اضافہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس تقریر سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلام ایسا خوبصورت مذہب ہے<۔۲۰۰ ۱۳/ جون کو ڈی ٹرائٹ میںFAITH OF SHIP FELLOW کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں آپ کی تقریر ہوئی۔ ہندوستانی۔ عرب اور ترک مسلمانوں نے کہا کہ آپ نے آج اسلام کی لاج رکھ لی ہے۔۲۰۱ اس سال سٹوبین ہال` نیگس ٹائون` کلیولینڈ اور ہوم سٹید میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔۲۰۲body] [tag
ایران مشن
مرزا برکت علی صاحب آنریری مبلغ نے دارخونین کے ایک پرائیویٹ مکان میں جہاں ایرانی اور عرب اور ہندوستانی موجود تھے وفات مسیح پر چار گھنٹے تک تقریر کی۔ جس کا بہت چرچا ہوا۔۲۰۳
جاوا مشن
مولوی رحمت علی صاحب نے جاوا کے مشہور لیڈر چکروفنو سے ملاقات کی اور پیغام حق پہنچایا اور انگریزی لٹریچر بھی پیش کیا۔۲۰۴
سماٹرا مشن
‏0] ft[rمولوی محمد صادق صاحب کو پتہ راجہ میں تشریف لے گئے مگر ان کو پولیس نے لیکچر دینے اور مباحثہ کرنے سے روک دیا۔ شہر سگلی میں لوگوں نے سخت مخالفت کی اور انہیں پولیس کے حکم سے شہر چھوڑنا پڑا۔۲۰۵
زنجبار
ڈاکٹر محمد شاہ نواز خان صاحب وغیرہ کی کوشش سے ۱۲/ مئی ۱۹۳۲ء کو انجمن احمدیہ زنجبار کی بنیاد رکھی گئی۔ احمدی وفد نے ۷/ جون ۱۹۳۲ء کو ریذیڈنٹ زنجبار سے اور ۱۱/ جون کو سلطان المعظم خلیفہ بن حاروب سلطان زنجبار سے ملاقات کی اور سلسلہ احمدیہ سے متعارف کیا۔۲۰۶
۱۹۳۲ء کی نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل اہم کتب شائع ہوئیں اور سلسلہ کے لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ کا موجب بنیں۔
۱۔
>رہنمائے تبلیغ< )مولفہ سید طفیل محمد شاہ صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ کھیوہ سالار والا ضلع لائلپور( تقریباً ساڑھے تین سو صفحات کی یہ کتاب سوال و جواب کی طرز پر لکھی گئی تھی اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنی۔
۲۔
مقدمہ بہاولپور: حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا وہ بیان جو آپ نے ایک احمدی کے خلاف مقدمہ تنسیخ نکاح میں بطور گواہ مدعا علیہ عدالت بہاولپور میں دیا۔۲۰۷
۳۔
تفہیمات الٰہیہ: )مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی تصنیف( اس کتاب میں مولانا صاحب نے نئے اسلوب و انداز میں غیر مسلموں کے ان اعتراضوں کے جوابات تحریر فرمائے جو سورہ فاتحہ کی نسبت عام طور پر کئے جاتے تھے۔
۴۔
اسلام کی پہلی کتاب: چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے ۱۹۳۲ء و ۱۹۳۶ء میں احمدی بچوں کے لئے نہایت سادہ اور آسان زبان میں ایک سلسلہ کتب جاری کیا جو پانچ حصوں میں شائع کیا گیا جسے بزرگان سلسلہ نے بہت پسند فرمایا۔
۵۔
>تحقیق واقعات کربلا<۔ )تالیف حضرت منشی خادم حسن صاحب خادم بھیرویؓ( سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کتاب کی نسبت سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء میں فرمایا۔
>بہت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے۔ خادم صاحب کا طرز تحریر ایسا ہے کہ شیعہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے سخت لکھا۔ بلکہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا کلام بہت نرم اور میٹھا ہوتا ہے وہ جو کچھ لکھتے ہیں احمدیت کی روشنی میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں<۔۲۰۸
۶۔
مکمل تبلیغی پاکٹ بک: ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ کی شاندار تصنیف جسے تبلیغی انسائیکلو پیڈیا کہنا چاہئے۔
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
تبلیغ پر زور دینے کی وجہ سے اس سال ملک میں کثرت سے مناظرے ہوئے جن میں سے سولہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔
مباحثہ مجوکہ: مجوکہ ضلع سرگودھا میں ۱۸۔ ۱۹۔ ۲۰/ فروری ۱۹۳۲ء کو مباحثہ ہوا۔ جس میں حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری- مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور مولوی عبدالاحد صاحب احمدی مناظر شامل ہوئے۔ مباحثہ کے اختتام پر ۵۲ افراد نے بیعت کر لی غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد مسعود الہڑوی اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی وغیرہ دس علماء شریک بحث تھے۔۲۰۹
۲۔
مباحثہ دیڑ چک نمبر ۲۹ )ضلع شیخوپورہ( ۲۵۔ ۲۶/ فروری ۱۹۳۲ء کو یہاں ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے مسئلہ وفات مسیحؑ و صداقت مسیح موعودؑ پر مباحثہ کیا غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب گوندلانوالہ۔ مولوی محمد مسلم صاحب اور مولوی نور شاہ صاحب مناظر تھے۔ وقت مناظرہ ابھی باقی تھا کہ غیر احمدی علماء میدان مناظرہ سے چل دیئے۔ اس مناظرہ میں تین اشخاص داخل سلسلہ ہوئے۔۲۱۰
۳۔
مباحثہ آنبہ )ضلع شیخوپورہ( آنبہ میں ملک عبدالرحمن خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب نے ۲۷۔ ۲۸ اور ۲۹/ فروری کو مولوی محمد حسین صاحب پنڈی بہاء الدین` حافظ احمد الدین صاحب گکھڑوی` اور مولوی نور حسین صاحب گرجا کھی سے چار مناظرے کئے۔ پہلے مناظرہ میں خود غیر احمدیوں نے اپنے مناظر صاحب کو وقت ختم ہونے سے پہلے ہی بٹھا دیا۔ دوسرے مناظرے میں ایک معزز سکھ سردار نے غیر احمدیوں سے کہا کہ آپ کے مناظر کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔۲۱۱
۴۔
مباحثہ لاہور: یہ نہایت کامیاب مناظرہ تھا۔ جو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے ۲۔ ۳/ مارچ ۱۹۳۲ء کو پہلے پادری ٹھاکرداس صاحب ایم۔ اے پھر پادری سلطان محمد پال ایڈیٹر >نور افشاں< سے کیا۔ تمام حاضرین جن میں غیر مسلم بھی شامل تھے خادم صاحب کے دلائل سے حد درجہ متاثر ہوئے۔ اور غیر احمدی اصحاب تو اس درجہ خوش تھے کہ بے اختیار نعرہ تکبیر بلند کرتے تھے۔۲۱۲
۵۔
مباحثہ روپڑ )ضلع انبالہ( یہاں ۲۰۔ ۲۱/ مارچ ۱۹۳۲ء کو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب کا غیر احمدی عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی اور مولوی احمد دین صاحب کے ساتھ مناظرہ ہوا۔ ایک شخص نے اسی وقت اعلان بیعت کر دیا۔۲۱۳
۶۔
مباحثہ سیدو باغ )سندھ( ۲۶۔ ۲۷/ مارچ ۱۹۳۲ء کو شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے وفات مسیح اور صدق مسیح موعودؑ پر مناظرے کئے غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی پیش ہوئے مناظرہ کے بعد ایک صاحب داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔۲۱۴
۷۔
مباحثہ وزیر آباد: یہاں مولوی محمد سلیم صاحب کا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے ۱۰/ اپریل کو مباحثہ ہوا۔ مناظرہ میں اہلحدیث نے یہ عجیب شرط رکھی کہ ان کے لئے کسی اپنے امام کا قول بھی حجت و سند نہیں ہے اس لئے وہ پیش نہ کیا جائے مولوی محمد سلیم صاحب نے قرآن مجید سے معیار صداقت پیش کرکے صداقت مسیح موعودؑ کا ثبوت دیا مگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے کسی دلیل کو چھونے کی بھی جرات نہ کی مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر >زمیندار< خلاف اصول اپنے مناظر کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے تو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے ان کی تقریر کا دندان شکن جواب دیا۔ مباحثہ کے آخر میں اہلحدیث نے دلائل کی تاب نہ لا کر شور مچا دیا۔ ۲۱۵
۸۔
مباحثہ شہباز پور )بنگال( ۲۱/ مئی کو اس جگہ صداقت احمدیت اور نبوت مسیح موعودؑ پر مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی سید سعید احمد صاحب نے بحث کی۔ صدر مولوی تمیز الدین صاحب تھے جنہوں نے صرف ۱۰ منٹ تک احمدی مناظر کو اور دو گھنٹے تک غیر احمدی مناظر مولوی حسن الدین صاحب کو بولنے کی اجازت دی۔ غیر احمدی مناظر بالاخر جماعت احمدیہ کے خلاف فتویٰ کفر دینے اور از خود مناظرہ ختم کرکے جانے لگے۔ لیکن سامعین نے ان کو مجبور کرکے بٹھا دیا۔ اس کے بعد مولوی سید سعید احمد صاحب نے فریق ثانی کا مدلل جواب دیا۔۲۱۶
۹۔
مباحثہ خانیوال )ضلع ملتان( جون ۱۹۳۲ء میں اس جگہ ایک کامیاب مناظرہ ہوا جس میں مرکز سے حافظ مبارک احمد صاحب` مولوی احمد خاں صاحب اور مولوی عبدالاحد صاحب نے شرکت کی پبلک اس سے بے حد متاثر ہوئی۔ اور ایک معزز غیر احمدی نے احمدی مبلغین کو دعوت طعام دی۔۲۱۷
۱۰۔
مباحثہ اجنالہ: سید احمد علی صاحب اور مولوی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی نے ۲۳/ جون کو اجنالہ میں علمائے اہلحدیث مولوی عبدالقادر صاحب اور حافظ احمد دین صاحب سے مناظرہ کیا۔ غیر مسلم پبلک اہلحدیث مناظر کی بدزبانی کی بہت شاکی تھی۔ جس پر غیر احمدی صدر صاحب کو معذرت کرنا پڑی۔۲۱۸
۱۱۔
مباحثہ شاہ مسکین )ضلع شیخوپورہ( ۳۔ ۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو ایک کامیاب مناظرہ ہوا۔ جس میں احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب اور شیخ مبارک احمد صاحب مناظر تھے۔۲۱۹
۱۲۔
مناظرہ گنج مغلپورہ: ۱۷/ جولائی ۱۹۳۲ء کو موضع گنج متصل لاہور میں جماعت احمدیہ اور اہلحدیث کے درمیان ایک فیصلہ کن مناظرہ ہوا۔ ختم نبوت کے مسئلہ پر جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب اور اہلحدیث کی طرف سے مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی مناظر تھے۔ حیات و وفات مسیحؑ اور صداقت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے جماعت احمدیہ کی جانب سے مناظرہ کیا اور اہلحدیث کی طرف سے پہلے مولوی احمد دین صاحب پھر مولوی عبدالرحیم شاہ صاحب پیش ہوئے دوسرے اور تیسرے مناظرے کے درمیان غیر اہلحدیث نے میدان مناظرہ میں ہی اپنا جلسہ کرکے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کی تقریر شروع کرا دی۔ مگر پھر فیصلہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے تقریر ہو جس پر بعد کو سوالات و جوابات ہوں چنانچہ ابتداًء حافظ مبارک احمد صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں ہوئیں اس کے بعد ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ کھڑے ہوئے تو فریق ثانی نماز عصر کا بہانہ کرکے چلا گیا۔ اس مناظرہ کے نتیجہ میں تین اشخاص سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۲۲۰
۱۳۔
مباحثہ بمبو )تحصیل شکر گڑھ( ۳۱/ جولائی کو جماعت احمدیہ اور اہلحدیث کا مناظرہ ہوا۔ احمدی مناظر حافظ مبارک احمد صاحب اور مناظر اہلحدیث حافظ احمد دین صاحب گکھڑوی اور عبدالرحیم شاہ صاحب وغیرہ تھے۔ پبلک نے اقرار کیا کہ احمدی مبلغ نے اپنے دلائل نہایت سنجیدگی سے بیان کئے ہیں۔۲۲۱
۱۴۔
مباحثہ بھیرہ )ضلع شاہ پور( جماعت احمدیہ اور بریلویوں کے درمیان ۱۶/ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۲ء کو تین مناظرے ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے اور دوسرے مناظرہ میں مولوی محمد سلیم صاحب اور تیسرے میں ملک عبدالرحٰمن صاحب خادمؓ نے حصہ لیا۔ غیر احمدی مناظر مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی تھے۔ تیسرا مناظرہ بڑے معرکے کا تھا۔ جس کے نتیجہ میں بھیرہ اور اس کے مضافات میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور پانچ نفوس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۲۲۲
۱۵۔
مباحثہ گوبند پورہ: ۲۰۔ ۲۱/ نومبر کو مولوی محمد سلیم صاحب نے یہاں غیر احمدی عالم مولوی محمد ادریس صاحب سے مناظرہ کیا۔ ہندو پبلک نے خصوصیت سے جماعت احمدیہ کے دلائل کی معقولیت تسلیم کی۔۲۲۳
۱۶۔
مباحثہ جہلم: جہلم کا یہ مشہور مباحثہ الوہیت مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ۱۲ سے ۱۵/ دسمبر تک جاری رہا۔ احمدی مناظر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ تھے اور عیسائی مناظر پادری عبدالحق صاحب مناظرہ جہلم کے گرجا گھر میں ہوا۔ فریقین کے کل ۲۲ پرچے ہوئے یہ مناظرہ شائع شدہ ہے جس کے پڑھنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدیت کو عیسائیت پر کتنی بین فتح دی۔۲۲۴
نو مبایعین
اس سال سینکڑوں۲۲۵ احباب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ بیعت کرنے والوں میں مرزا محمد اسحٰق بیگ صاحب آف پٹی بھی تھے جو مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری کے نواسے اور محمدی بیگم صاحبہ کے بیٹے ہیں۔ مرزا صاحب موصوف نے انہیں دنوں قبول احمدیت پر ایک مفصل بیان4] f[st۲۲۶ میں زور دار الفاظ سے اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ صاحب روز روشن کی طرح پوری ہو چکی ہے اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں یہ وہی مسیح موعود ہے جن کی نسبت نبی کریم~صل۱~ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
‏tav.7.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل ششم(
)جنوری ۱۹۳۳ء تا دسمبر ۱۹۳۳ء بمطابق رمضان المبارک ۱۳۵۱ ھ تا رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ(
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہوائی جہاز میں پہلی بار پرواز
۱۹۳۳ء کا آغاز حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضور کے برادران کی ہوائی جہاز میں پہلی بار پرواز کے واقعہ سے ہوتا ہے۔
ہندوستان کے مشہور ہوا باز مسٹر چاولہ ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو ۷ بجے شام کے قریب اپنے ہوائی جہاز پر لاہور سے آئے اور قادیان کے اسٹیشن کے پاس کھلے میدان میں اترے اور حضور سے جہاز دیکھنے کی درخواست کی چنانچہ حضور یکم جنوری ۱۹۳۳ء کو گیارہ بجے کے قریب تشریف لے گئے۔ قادیان میں ہوائی جہاز کے آنے کا یہ پہلا موقعہ تھا۔ اس لئے قادیان اور اس کے مضافات سے بکثرت لوگ جمع تھے۔ جہاز نے تین دفعہ پرواز کی۔ پہلی بار حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے اور سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ۲۲۷ سوار ہوئے اور دوسری دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور سیدہ امتہ القیوم صاحبہ۔۲۲۸ تیسری بار حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ۔ جہاز اللہ اکبر کے نعروں میں زمین سے بلند ہوا اور آدھ گھنٹہ کے قریب چار ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے اور دریائے بیاس تک چکر لگانے کے بعد زمین پر اترا۔
یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ کئی اصحاب کو ہوائی جہاز کے سفر سے تشویش بھی ہوئی اور بعض مخلصین نے تو حضور کی خدمت میں اس کا اظہار بھی کر دیا۔ مگر حضور نے ان کو تسلی دی لیکن جب جہاز کی تیسری اڑان کے دوران پہلی دو پروازوں کی نسبت زیادہ وقت گزرنے لگا اور جہاز کہیں دکھائی نہ دیا تو گھبراہٹ اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی اس اثناء میں جونہی جہاز نظر آیا لوگوں نے فرط مسرت سے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔۲۲۹
اچھوتوں سے متعلق جماعت احمدیہ کی مخلصانہ مساعی اور ہندوئوں کی مخالفت
جماعت احمدیہ نے اچھوتوں میں تبلیغ اسلام کی جو مہم جاری کر رکھی تھی اس نے ہندوئوں کو بہت برا فروختہ کر رکھا تھا اور اب انہوں نے
کھلم کھلا جماعت احمدیہ کی مخالفت شروع کر دی۔ ہندوئوں کے جذبات کی تلخی کتنی شدت اختیار کر چکی تھی اس کا نمونہ اخبار >آریہ گزٹ< ۷/ جنوری ۱۹۳۳ء کے مندرجہ ذیل الفاظ سے ملتا ہے۔
>ان کے )احمدیوں کے۔ ناقل( زیر نظر دو مقصد ہیں اول ہندوئوں کو نقصان پہنچانا۔ احمدی جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے اور مسلمانوں میں جو تبلیغی بیداری پائی جاتی ہے وہ موجودہ زمانہ میں بہت حد تک احمدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے احمدی جماعت ہندوئوں کی بہت سخت دشمن ہے اور ہر ممکن طریقہ سے ہندو قوم کو نقصان پہنچانے میں کوشاں رہتی ہے اور اس طریقہ سے بھی وہ ہندوئوں کو نقصان پہنچانے میں کامیابی کی امید رکھتے ہیں۔ دوسرا مقصد ان کے زیر نظر یہ ہے کہ احمدیوں کی تعداد بڑھائی جائے اس وقت ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے دوسرے مسلمان ان کے بہت مخالف ہیں۔ اور ان میں نئے شامل ہونے والے بہت کم ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اچھوتوں کو احمدی بنا کر مردم شماری میں ان کی تعداد بڑھائی جائے اور پنجاب میں سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے اس وقت باوجود تھوڑے ہونے کے احمدی لوگ میدان سیاست میں کافی اثر رکھتے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کی تنظیم اور اپنے خلیفہ کی اطاعت کرنا ہے کونسل کے تمام مسلمان ممبران ان کے ووٹوں کی ضرورت محسوس کرکے ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے اور جب اچھوتوں کو ساتھ ملا کر ان کی تعداد میں کافی اضافہ ہو جائے گا۔ تو آسانی سے خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کا سیاسی اثر کس قدر زیادہ ہو جائے گا۔ بلکہ مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ اگر جداگانہ انتخاب قائم رہا تو زمانہ مستقبل میں پنجاب پر دراصل خلیفہ قادیان کی حکومت ہو گی<۔۲۳۰
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سفر ولایت سے واپسی
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تیسری گول میز کانفرنس میں مسلمانان ہند کی سیاسی نیابت کے اہم فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹/ جنوری ۱۹۳۳ء کو لنڈن سے وارد بمبئی ہوئے۔ بندرگاہ پر احمدیوں کے علاوہ بعض مشہور مسلمان شخصیتوں۲۳۱ نے بھی آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ بوہرہ جماعت کے پیشوا ملا سیف الدین طاہر صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد آپ فرنٹیر میل میں دہلی روانہ ہو گئے۔۲۳۲ دہلی میں ایک دن قیام فرمانے کے بعد ۲۲/ جنوری ۱۹۳۳ء کو ۱۲ بجے کی گاڑی سے سیدھے قادیان تشریف لائے۔ اسٹیشن پر خیر مقدم کرنے والوں کا ایک بہت بڑا ہجوم موجود تھا۔ خود حضرت خلیفہ ثانیؓ بھی رونق افروز تھے۔ آپ معانقہ و مصافحہ کے بعد حضور کی میت میں بذریعہ موٹر مسجد مبارک آئے اور نفل پڑھنے کے بعد بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ واپسی پر حضرت امیر المومنینؓ کے ہاں کھانا تناول فرمایا اور تین بجے کی گاڑی میں لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔4] f[st۲۳۳
لاہور اسٹیشن پر بھی مسلمانان پنجاب کے نہایت معزز اور سرکردہ اصحاب و عمائد استقبال کے لئے موجود تھے۔
چوہدری صاحب کی واپسی اور استقبال کے سلسلہ میں ہندو اخبار >ملاپ< )لاہور( نے ۲۵۔ ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء کے پرچوں میں مندرجہ ذیل دو نوٹ شائع کئے۔ پہلا نوٹ ادارہ >ملاپ< کے ایک رکن کا تھا اور دوسرا اس کے مالک لالہ خوشحال چند صاحب کا۔
پہلا نوٹ: >پلیٹ فارم ۹ نمبر پر ایک اور ہی نقشہ نظر آیا۔ جدھر دیکھو ترکی ٹوپیوں والے ہار ہاتھوں میں لئے پھر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک سانولی صورت لمبا چوڑا شخص ایک لبادہ پہنے نظر آیا۔ صحیح طور پر لکھا جائے تو یہ کہنا ہو گا کہ شوخ رنگ کا ایک لبادہ چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ پنجاب کونسل کے جلیل القدر صدر چودھری سر شہاب الدین چلے آرہے ہیں۔ چند منٹ کے بعد فاصلہ پر ایک اور صاحب نظر پڑے غپی سمجھا شاہ ایڈورڈ ہفتم نے دوبارہ جنم لے لیا ہے اور لیا بھی غلام آباد ہندوستان میں لیکن یہاں بھی دھوکا ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج سر عبدالقادر تھے۔ اتنے میں نہایت اعلیٰ قسم کا تمباکو سلگنے کی خوشبو آئی۔ منہ پھر کر دیکھا تو سامنے ایک وجیہہ جوان چلے آرہے تھے۔ سر پر زرکار کلاء جس پر ایک سفید ململ کی پگڑی لیکن اس پر ایک امتیازی طرہ عنفوان جوانی میں متانت پیدا کر رہا تھا۔ پائوں میں پیٹنٹ لیدر کی بڑھیا پمپ شو اور بدن پر ایک چسٹر جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے سمجھا کوئی بڑے رئیس زادے ہیں لیکن ایک منٹ کے اندر اندر ہی نو وارد کے اردگرد ایک ہجوم ہو گیا۔ آپ سب سے مصافحہ کرتے جاتے اور مسکراتے جاتے تھے قریب پہنچ کر دیکھا تو معلوم ہوا نووارد حضرت سردار سکندر حیات خاں ریونیو ممبر گورنمنٹ پنجاب ہیں وہی سکندر حیات اور خان صاحب جو حال میں قائم مقام گورنر رہ چکے ہیں۔ میں حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے سردار سکندر حیات اور یہ سادگی اور یہ بے تکلفی۔ ہر کہ ومہ سے اس طرح مصافحہ کررہے ہیں گویا ساری عمر کسی بڑے عہدہ کی جھلک نہیں دیکھی چہ جائیکہ گورنری کی گدی پر براجمان رہ چکے ہیں۔ مجھے معاً اپنی قوم کے بڑے آدمیوں کا خیال آگیا۔ ان سے ملنا کتنا دشوار ہے اور پھر مل کر طبیعت پر کتنا بوجھ معلوم ہوتا ہے۔ کیا ہندو بھی کبھی اس اخلاص کا نمونہ پیش کر سکیں گے۔ جو مسلمانوں کی ایک قومی خصوصیت ہے۔
یہ سب صاحبان چودھری ظفر الل¶ہ خاں صاحب کے استقبال کے لئے جمع ہوئے تھے۔ چوہدری صاحب لنڈن سے آرہے تھے مگر گاڑی گورداسپور سے آرہی تھی۔ حیرت ہوئی کہ آخر گورداسپور کی گاڑی میں آنے کا کیا مطلب؟ معلوم ہوا کہ آپ پنجاب میں قدم رکھنے کے بعد اپنے خویش و اقارب کو ملنے سے پہلے اپنے پیر و مرشد خلیفہ قادیان کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے قادیان تشریف لے گئے تھے۔ مجھے اس سے مطلب نہیں کہ چوہدری صاحب احمدی ہیں یا حنفی یا وہابی۔ اس کے سامنے تو صرف ایک سوال تھا اور وہ یہ کہ مسلمان اپنے مذہب کا کتنا پابند ہے۔ بخلاف اس کے پڑھے لکھے ہندو نوجوان مذہب کا مذاق اڑانا سب سے بڑی سعادت خیال کرتے ہیں<۔
دوسرا نوٹ: >جو ہندو لیڈر شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ گورنمنٹ کے ہاں ان کی سنی نہیں جاتی۔ اور ہندو پبلک ان کی آواز پر عمل نہیں کرتی۔ انہیں دیکھنا چاہئے کہ اس کی تہہ میں کونسی وجوہات کام کر رہی ہیں۔ دوسری باتوں کے علاوہ ایک بات جو ہندو لیڈروں کو کمزور بنارہی ہے وہ دھارمک پہلو میں ان کی لاپروائی ہے جتنا بڑا ہندو لیڈر ہو گا اتنا ہی زیادہ ناستک بننے کی کوشش کرے گا جوں جوں اس کا درجہ بڑھتا جائے گا۔ وہ ویدوں کو جواب دیتا جائے گا۔ شاستروں کو جواب دیتا جائے گا اور آخری منزل پر پہنچ کر شاید ایشور کو بھی جواب دینا مناسب سمجھ لیا جائے۔ اس سے بڑھ کر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ان باتوں کو فراخدلی اور آزاد خیالی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوسائٹی اور جاتی کے پرخچے اڑا دینے والے جتنے کام ہیں ان کو کرنا فخر خیال کیا جاتا ہے ویدوں کو الہامی ماننا سدھانتوں پر چٹان کی طرح کھڑے رہنا دقیانوسی سپرٹ سمجھی جاتی ہے اور اسے تنگدلی کا اور غلامانہ ذہنیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مجھے ہندو جاتی کے انتشار کی سب سے بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے۔ بتلائو تو سہی ہندوئوں کے لئے کوئی مرکز چھوڑا بھی گیا ہے جس کے اردگرد جمع ہوں یا آزاد خیالی یا مادر پدر آزادی کے طوفان میں سب کچھ غرق کر دیا گیا ہے کتنے ہی ہندو لیڈر گول میز کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لنڈن پہنچے لیکن کسی کے متعلق یہ سننے میں نہیں آیا کہ کوئی شخص وید کاپستک ساتھ لے گیا ہو اور اسے تختہ جہاز پر یا لنڈن کے ہوٹلوں میں وید منتر پڑھتے ہوئے دیکھا یا سنا گیا ہو۔ اس کے برعکس مسلم لیڈروں کو لے لیجئے۔ قریباً ہر ایک مسلمان لیڈر کے پاس قرآن موجود تھا اور وہ ہر روز اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہندو لیڈر واپس آئے اور اپنی اپنی کوٹھیوں میں چلے گئے لیکن ہندو لیڈروں کے لئے چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک شمع ہدایت دکھلائی ہے اور ہندو لیڈروں کو بتلایا ہے کہ قوت ایمان اور اپنے مذہب کی محبت ہی اونچا اور بلند کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ۱۹/ جنوری کو جہاز سے اترے اور ایک دن دہلی رہ کر وہاں سے سیدھے ۲۲/ جنوری کو قادیان جا پہنچے اس کے متعلق جو روئداد >الفضل< نے لکھی وہ یہ ہے کہ:
>احمدیہ چوک میں موٹر سے اتر کر مسجد مبارک میں نفل پڑھے۔ پھر مقبرہ بہشتی میں دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاں کھانا کھایا اور تین بجے کی گاڑی سے لاہور تشریف لے گئے<۔
گویا چودھری صاحب نے لنڈن سے واپسی پر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے >دارالامان< پہنچے اور وہاں مسجد میں پہنچ کر اپنا فرض ادا کیا۔ اسے کہتے ہیں قوت ایماان اور یہی چیز ہے جو مسلمانوں کو سنگٹھت کر رہی ہے لیکن ہندوئوں میں جیسے ان کے لیڈر ویسے یہ خود۔ نہ لیڈروں کو دھرم کا خیال ہے نہ عوام کو۔ ذرا کوئی ہندو پالٹیکس کی طرف جھکتا ہے تو وہ سب سے پہلے دھرم اور دھارمک عقیدوں کے خلاف جہاد کرنا اپنا فرض سمجھ لیتا ہے چاہے کوئی کانگرسی ہو یا غیر کانگرسی۔ ہندو بھائی ہو یا قوم پرست` ہر ایک ہندو اور ہندو لیڈر کو مسلم لیڈروں میں سے کسی نے نہیں تو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے جو مثال پیدا کی اسے دیکھ کر یقیناً ہر ہندو لیڈر شرمندہ ہو رہا ہوگا<۔۲۳۴
ایک ناگوار واقعہ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا فیصلہ
مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ ۲/ فروری ۱۹۳۳ء کو بغرض تبلیغ انگلستان روانہ ہونے والے تھے۔ روانگی کے وقت بعض مقامی طلباء و اساتذہ نے بعض دفتری امور کی بناء پر آپ کے خلاف ایسا رویہ اختیار کیا جو سلسلہ احمدیہ کی روایات اور اسلامی تعلیم کے سراسر منافی تھا۔
حضرت امیر المومنینؓ کو دوسرے دن اس مظاہرہ کی اطلاع پہنچی تو حضور نے ایک طرف تو حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بمبئی کو تار بھیجا کہ جب مولوی صاحب جہاز پر سوار ہوں تو ان کے گلے میں پھولوں کا ایک ہار حضور کی طرف سے اور چار ہار اطراف عالم میں پھیلے ہوئے احمدیوں کی طرف سے ڈالے جائیں۔ دوسری طرف حضورؓ نے ۳/ فروری کو ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا۔ جس میں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے` حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ` حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ سیال ایم اے ناظر اعلیٰ اور حضرت مفتی محمدﷺ~ صادق صاحبؓ کو بطور مشیر شامل فرمایا اور اپنی نگرانی میں ۴/ فروری سے ۱۶/ فروری تک مصروف تحقیقات رہے۔
تحقیقات کے دوران حضور انور کی شفقت و ذرہ نوازی کے عجیب نظارے دیکھنے میں آئے۔ حضورؓ ان دنوں ناسازی طبع کے باوجود ایک ایسے معاملہ کی تحقیقات میں مصروف تھے جس کی وجہ سے حضور کو سخت صدمہ تھا مگر اس کے باوجود حضور کو ان لوگوں کے آرام اور تواضع کا خیال دامنگیر تھا جو تحقیقات کے لئے بلائے جاتے تھے۔ حضور بار بار ان کو احترام کے ساتھ بٹھاتے اور ان کو آرام پہنچانے کے لئے انگیٹھی بھی رکھوا دیتے اور جب کھانے یا چائے کا وقت آتا تو جو لوگ اس وقت تحقیق کے لئے مدعو ہوتے ان کو بھی اپنے ساتھ کھانا کھانے یا چائے پینے کا شرف عطا فرماتے۔ اسی قسم کے ایک موقعہ پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے منہ سے نکل گیا کہ اس عدالت کی عجیب شان ہے جس میں صدر عدالت` ان کے مشیر اور ملزم ایک ہی میز پر ایک ہی قسم کے برتنوں اور ایک ہی قسم کی اشیاء کا ناشتہ کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں زیر الزام اشخاص قدرتاً جھینپتے اور شرماتے۔ اس وقت قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے میزبانی کے فرائض ادا فرماتے اور اپنے ہاتھ سے اشیاء اٹھا اٹھا کر ان کے آگے رکھتے۔
حاصل کلام یہ کہ جب معاملہ کے ایک حصہ کی تحقیقات پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تو ۱۰/ فروری کو خطبہ جمعہ میں حضور نے یہ اعلان فرمایا کہ بات اس سے بھی زیادہ اہم اور افسوسناک تھی جس قدر کہ مجھے پہلے خطبہ کے وقت نظر آتی تھی۔ اور باوجود رحم کے ایک شدید جذبہ کے جو ایک باپ کو اپنے بچہ کے متعلق پیدا ہوتا ہے۔ میں اس فیصلہ پر مجبور ہوا ہوں کہ بعض ایسے لوگ اساتذہ میں سے بھی ہیں کہ جن کے فعل کی برائی حد سے بڑھی ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے افعال سے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ ان کے معاملہ پر غور کیا جائے اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے عفو کے سامان پیدا نہ کرے تو انہیں ان کے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اس وضاحت کے بعد حضور نے اس مظاہرہ میں نمایاں حصہ لینے والوں کی نسبت حکم دیا کہ ان کے ساتھ کوئی احمدی اطلاع ثانی تک کوئی کلام نہ کرے۔ چنانچہ ۱۰/ فروری سے لے کر ۱۸/ فروری تک جبکہ حضور کی طرف سے معافی کا اعلان نہ ہو گیا ان کے ساتھ کسی نے کلام نہ کیا اور ان لوگوں نے بھی یہ ایام نہایت تضرع وزاری میں گزارے اور شب و روز توبہ و استغفار میں مصروف رہے اور روزہ رکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری سے دعائیں کرتے رہے۔
جب ہر لحاظ سے تحقیقات مکمل ہو گئی تو حضور کے حکم پر ۱۸/ فروری ۱۹۳۳ء کو صبح ساڑھے دس بجے تک سب لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے اور حضور نے اپنا فیصلہ سنایا جس جس شخص نے کوئی نازیبا حرکت کی تھی اس کا ذکر بھی کیا۔ اور فرمایا کہ اگر ان ایام میں ایسے لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہو اور سچی ندامت بھی پیدا ہو چکی ہو۔ تو وہ کھڑے ہو کر اس کا اظہار کر دیں۔ اور خدا تعالیٰ` خلیفہ وقت اور جماعت سے معافی مانگیں نیز آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کا اقرار کریں تو انہیں معافی دے دی جائے گی۔ اس پر متعلقہ اصحاب باری باری اٹھے اور رو رو کر انشراح صدر سے معافی مانگی اور اپنے افعال پر ندامت کا اظہار کیا۔ جس پر حضور نے ان کو معاف فرما دیا البتہ بعض طلباء و اساتذہ کی معافی بعض شرائط کے ساتھ مشروط کر دی۔
عفو و معافی کا یہ عجیب نظارہ تھا جس میں اپنے مشفق آقا اور رحیم و کریم امام کی زبان مبارک سے محبت و شفقت سے لبریز فیصلہ سن کر ہر آنکھ پرنم ہو گئی۔ خوشی اور مسرت کے آنسو نکل پڑے۔ اور ہر دل نے محسوس کیا کہ خلافت کا وجود ہر قصور وار اور خطا کار کے لئے آیہ رحمت ہے بشرطیکہ اسے اپنی غلطی پر حقیقی ندامت اور پشیمانی ہو۔۲۳۵
چینی اور جاپانی مسلمانوں کیلئے جاپانی حکومت سے خط و کتابت
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جاپانی قونصل جنرل کو ایک خط لکھا تھا جس میں جاپانی و چینی مسلمانوں کے خلاف حکومت کے رویہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ جاپانی قونصل جنرل نے جواب بھیجا کہ >میں آپ کو بخوشی اطلاع دیتا ہوں کہ حکومت جاپان کو مسلمانوں کے خلاف ہرگز کوئی تعصب نہیں ہے جاپان میں اہل اسلام کو اپنے مذہب اور قومی تہذیب و تمدن کے لحاظ سے پوری آزادی ہے<۔ نیز لکھا کہ:
>جاپان کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں کہ اہل چین کے ساتھ جنگ کرے ۔۔۔۔۔۔۔ چین میں مسلم آبادی بہت غربی جانب ہے اور موجودہ چینی جاپانی لڑائی کا اس حصہ ملک پر کوئی اثر نہیں جن چینیوں سے اس وقت جاپان کی لڑائی ہے وہ چین کے قوم پرست ہیں جو کمیونل۲۳۶ خیالات کے زیر اثر ہیں چین کے مسلمان ان خیالات میں ان کے ساتھ متحد نہیں<۔۲۳۷
>بیت النصرت< کی بنیاد
۲۳/ فروری ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے حضرت ام المومنینؓ کی کوٹھی >بیت النصرت< کا سنگ بنیاد رکھا۔۲۳۸ جیسا کہ قبل ازیں ذکر آچکا ہے حضرت ام المومنینؓ نے یہ کوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے لئے بنوائی تھی جن سے آپ کو از حد محبت تھی۔ چنانچہ مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن کی اہلیہ محترمہ کا بیان ہے کہ یوں تو خاندان کے بنیادی فرد ہونے کی حیثیت میں آپ ہر فرد خاندان سے محبت و الفت سے پیش آتی ہیں لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنے بڑے پوتے سے خاص الفت ہے۔ ایک مرتبہ عاجزہ کو حضرت صاحبزادہ صاحب کا مکان لے جاکر بتلایا جو آپ نے بنوایا تھا آپ نے اس مکان کے بالائی حصہ میں بیت الدعا دکھا کر فرمایا کہ میں نے تبرکا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مکان کی ایک اینٹ اس کوٹھی کے بالائی حصہ میں لگوا دی ہے۔ آپ کا یہ جذبہ عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ہزار دلیلوں سے بڑھ کر ایک دلیل ہے۔۲۳۹
مرکز میں صیغہ نشر و اشاعت کا قیام
مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء میں ایک اہم فیصلہ یہ ہوا کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ کے ماتحت ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جائے جس کا مقصد مقامی ضرورتوں کے مطابق اشتہارات اور ہینڈ بلز کی اشاعت کا انتظام ہو۔ اس فیصلہ کے مطابق صیغہ نشر و اشاعت کی بنیاد پڑی۔ جو آج تک جاری ہے اور بہت مفید تبلیغی خدمات بجا لارہا ہے۔
مسجد فضل لنڈن میں قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر
اپریل ۱۹۳۳ء میں عید الاضحیہ کے موقع پر مسجد احمدیہ لنڈن میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں دو سو کے قریب مشہور شخصیتیں مدعو تھیں۔۲۴۰ اس موقعہ پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ کی تحریک پر قائداعظم محمد علی جناح نے >ہندوستان کے مستقبل< پر سرسٹیوارٹ سنڈیمین ایم۔ اے SANDAMAN) STEWART ۔(SIR کی صدارت میں تقریر کی جس میں آپ نے بتایا کہ ہندوستان اب بہت جلد جلد ترقی کرے گا۔ نیز یہ کہ قرطاس ابیض کی تجاویز ہندوستان کو مطمئن نہیں کر سکتیں انہیں کامل خودمختاری ملنی چاہئے۔ صدر جلسہ نے مسٹر جناح کے خیالات سے اختلاف کیا۔ مگر درد صاحب نے ہر دو اصحاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دونوں قسم کے خیالات سن لئے ہیں اب ہمیں غور کرکے صحیح نتیجہ اخذ کرنا چاہئے۔۲۴۱
قائداعظم نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔
‏ME LEFT IMAM THE OF PERSUATION ELOQUENT THE۲۴۲۔ESCAPE NO
>امام صاحب کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کی نہیں چھوڑی<۔ قائداعظم کی یہ تقریر برطانوی اور ہندوستانی پریس کی خاص توجہ کا موجب بنی اور >دی ایوننگ سٹینڈرڈ< )لنڈن`( >ہندو< )مدراس`( >دی سٹیٹسمین< )کلکتہ`( >مدراس میل< )مدراس`( )پایونیئر( )الہ آباد`( >ویسٹ افریقہ< )افریقہ`( >ایجپشن گزٹ< )اسکندریہ( وغیرہ اخبار نے اس کی خبر شائع کی۔4] f[st۲۴۳ مگر ساتھ ہی یہ چہ میگوئیاں بھی ہونے لگیں کہ ایک مذہبی جماعت کے مرکز میں سیاسی لیکچر کی وجہ کیا ہے؟
دراصل بات یہ تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح پہلی گول میز کانفرنس کے بعد اصلاح احوال کے لئے سخت مایوسی کا شکار ہو کر مستقل فیصلہ کر چکے تھے کہ اب وہ واپس ہندوستان نہ جائیں گے بلکہ حیات مستعار کے بقیہ سال انگلستان میں ہی بسر کر دیں گے چنانچہ خود لکھتے ہیں۔
>اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانوا ڈول ہو رہے تھے کبھی حکومت کے یار وفادار ان کی رہنمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے۔ کبھی کانگرس کے نیازمندان خصوصی ان کی قیادت کا فرض ادا کرنے لگے تھے۔ مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر میں نے لندن میں ہی بودوباش کا فیصلہ کر لیا<۔۲۴۴
اس ناموافق صورت حال کے باوجود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا دلی منشاء اور قلبی خواہش تھی۔ کہ ان کو پھر سے سیاسیات ہند میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کیا جائے۔ اس کام کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ کو منتخب فرمایا۔ چنانچہ آپ نے مارچ ۱۹۳۳ء میں انگلستان پہنچ کر حضور کی ہدایت و منشاء کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ۲۴۵ قائم کرلیا تھا اور قائداعظم کا مسجد پٹنی میں آکر لیکچر دینا اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔
چنانچہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کا بیان ہے کہ۔
>یہ بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ قائداعظم نے انگلستان سے ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالی اس طرح بالاخر ۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جب میں ۱۹۳۳ء میں امام مسجد لندن کے طور پر انگلستان پہنچا تو اس وقت قائداعظم انگلستان میں ہی سکونت رکھتے تھے وہاں میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا۔ مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑے وقت میں جب کہ مسلمانوں کی راہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہو گی۔ چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجد احمدیہ لندن میں تشریف لائے اور وہاں باقاعدہ ایک تقریر کی جس میں ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اس کے بعد قائداعظم انگلستان کو خیرباد کہ کر ہندوستان واپس آئے۲۴۶ اور اس طرح چند سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا<۔۲۴۷
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کی خود نوشت][مختصر سوانح حیات سے ایک اقتباس
)انگریزی سے ترجمہ(
)مولانا عبدالرحیم صاحب درد اپنی خود نوشت مختصر سوانح )انگریزی( میں اس امر کی مزید تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:)
>قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء میں بمقام علی گڑھ ایک تقریر کے دوران فرمایا کہ گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ جونہی خطرہ کے آثار نمایاں ہوئے۔ ہندوئیت دل و دماغ کے اعتبار سے اس طرح نمایاں ہوئی کہ اتحاد کا امکان ہی ختم ہو گیا۔ اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانوا ڈول ہو رہے تھے کبھی حکومت کے یار وفادار ان کی راہ نمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے کبھی کانگریس کے نیاز مندان خصوصی ان کی قیادت کا فرض ادا کرنے لگتے تھے۔ جب کبھی مسلمانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف ٹوڈیوں اور پٹھوئوں نے اور دوسری طرف کانگریس میں شامل غداروں نے یہ کوششیں ناکام بنا دیں۔ اس لئے مجھے محسوس ہونے لگا کہ ان حالات میں نہ تو میں ہندوستان کی خدمت کر سکتا ہوں۔ نہ ہندو ذہنیت کو بدل سکتا ہوں اور نہ مسلمانوں کو ان کی نازک حالت سے خبردار کر سکتا ہوں میں اس حد تک مایوس ہو گیا اور میرے قلق کا یہ عالم تھا کہ میں نے انگلستان میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا یہ اقدام اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ میرے دل میں ہندوستان کے ساتھ محبت نہ رہی تھی بلکہ اس کی وجہ اصلاح احوال سے میری عاجزی تھی۔ >جناح<۔ مصنفہ ہاکڑ بولیتھو لنڈن ۱۹۵۴ء صفحہ ۱۰۰۔100) PAGE 1954, ۔LONDON BOLITTO, HOCTER, BY (JINNAH
مندرجہ بالا بیان کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح نے لنڈن )ویسٹ ہیتھ ہائوس ہیمپ سٹیڈ( HAMPSTEAD) HOUSE, HEATH, (WEST ]ydbo [tagمیں رہائش اختیار کر لی اور وکالت شروع کر دی۔
میں نے قائداعظم سے ماچ ۱۹۳۳ء میں ان کے دفتر واقع BENCH (KING,S LONDON) WALU میں ملاقات کی اور تین گھنٹوں کی بحث و تمحیص کے بعد انہیں اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ مسلمانان ہند کی خدمت کے لئے وہ پھر پبلک میں آئیں۔ قائداعظم میری درخواست پر >ہندوستان کا مستقبل< کے موضوع پر تقریر کرنے کے لئے رضا مند ہو گئے۔ اور میں نے ۶۳ میلروز روڈ لنڈن میں تقریر کے لئے انتظامات کروا دیئے۔<
اخبار >مدراس میل< نے لکھا۔
‏sub] ga[tپریس میں تقریر کا چرچا
ہندوستان کے مسلمان راہنما ایم۔ اے جناح نے امام درد کی دعوت پر تقریر کی جس کا موضوع تھا >ہندوستان کا مستقبل<۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندوستان سماجی` اقتصادی اور سیاسی طور پر ترقی کر رہا ہے اور ملک میں ایک نئی سیاسی زندگی ابھر رہی ہے۔ لیکن تاوقتیکہ ایک معقول حد تک سیلف گورنمنٹ نہ دی جائے اطمینان یا امن کی امید رکھنا عبث ہے حالات یہ صورت اختیار کر گئے ہیں کہ انگریزی راج یا سلطنت برطانیہ کے اندر رہتے ہوئے ہندوستانی راج میں سے ایک کو اختیار کرنے کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔
>ہندوستان کو فریب<
قرطاس ابیض کی تجاویز کو انہوں نے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ انگریزوں کے لئے حقیقی تحفظ تو ہندوستانیوں کی نیک رائے میں ہے۔ قرطاس ابیض کی تجاویز تحفظ کے طور پر کارآمد نہیں ہو سکتیں کیونکہ اس کے ماتحت ہندوستان کا مستقبل درخشندہ نہیں ہو سکتا ہندوستان تو انصاف پر مبنی اور حتمی فیصلہ کا خواہش مند ہے جو حقیقی معنوں میں سیلف گورنمنٹ حاصل ہونے سے ہو سکتا ہے تا معقولیت پسند راہنما اعتدال پسند رائے عامہ کو اپنے گرد جمع کرکے دستور چلا سکیں۔ )ترجمہ >اخبار مدراس میل< ۷/ اپریل ۱۹۳۳ء( اخبار >سنڈے ٹائمز< نے لکھا ہے:
>ویمبلڈن۔ میلروز روڈ پر واقع چھوٹی سی مسجد کی گرائونڈ میں ایک بڑے مجمع سے مشہور ہندوستانی مسلمان راہنما نے خطاب کیا۔ تقریر کا موضوع تھا۔ >ہندوستان کا مستقبل< سرنیئرنے سٹیوارٹ سنڈیمان NAIRNE (SIR SANDEMAN) STEWART نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ ایک خاصی تعداد میں غیر مسلم بھی موجود تھے۔
مسٹر محمد علی جناح نے ایک قوم پرست)TSILNOIT(NA کے نقطہ نگاہ کے مطابق قرطاس ابیض اور اس میں مندرج تحفظات پر سخت تنقید کی۔ لیکن صاحب صدر نے اپنے جواب میں چرچل کے رویہ کو اپنایا اور اس کے نتیجہ میں سامعین میں سے بعض مسلمان طلباء نے مداخلت کی اور آوازے کسے۔ لیکن بالاخر امام مسجد لنڈن نے انہیں خاموش کروا دیا<۔ )ترجمہ >اخبار سنڈے ٹائمز< ۹/ اپریل ۱۹۳۳ء( یہ خبر اخبار >دی سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور( ۸/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ میں بھی شائع ہوئی۔ )ناقل(
اس تقریر نے انگلستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں زبردست تہلکہ مچا دیا۔ جس کے بعد نواب زادہ لیاقت علی خاں اور ان کی بیگم قائداعظم کی خدمت میں جولائی ۱۹۳۳ء میں حاضر ہوئے اور ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی۔ آخر آپ ہندوستان واپس تشریف لائے۔ اور پاکستان کے حصول تک مسلمانوں کی کامیاب قیادت فرمائی۔
بوہرہ جماعت کے قومی مفاد کا تحفظ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو مسلمانوں کے ہر مذہبی فرقہ سے محبت تھی اور آپ ان کے قومی مفاد کی حفاظت کے لئے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے اس ضمن میں بوہرہ کمیونٹی کے امام سے بھی حضور کے مراسم و روابط تھے۔ انہیں دنوں بوہروں میں باہمی چپقلش پیدا ہوئی۔ جس کو ختم کرنے اور ان کی مرکزیت برقرار رکھنے کے لئے حضور نے کیا اقدام فرمایا؟ اس کا ہلکا سا تصور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے مندرجہ ذیل مکتوب سے کیا جا سکے گا جو انہوں نے دہلی سے ۳/ اپریل ۱۹۳۳ء کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں بھجوایا۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے لکھا۔
بوہرہ کمیونٹی کے متعلق حضور کا تار ملا تھا اور سیٹھ اللہ بخش صاحب بھی اسمبلی میں گئے تھے علیگ صاحب سے میں نے ان کے متعلق ذکر کیا تھا وہ کہتے تھے گورنمنٹ نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس سے تحقیقات کرکے معلوم ہوا ہے کہ اس کمیونٹی کی میجارٹی یہ چاہتی ہے کہ وقف ایک آدمی کے ہاتھ نہ رہے میں نے کہا یہ مذہبی معاملہ ہے اور ابتدا"ء وقف کرنے والوں کا مقصد یہی تھا کہ امام جماعت کے اختیار میں سب کچھ رہے اس مقصد کے مطابق جیسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اب اس کے خلاف گورنمنٹ کو مداخلت کرنا مناسب نہ ہو گا۔ علیگ صاحب نے کہا گورنمنٹ تو مداخلت کرنا نہیں چاہتی اور یہ معاملہ متعلق بمبئی گورنمنٹ ہے ہم تو اس میں کچھ DIRECTIONS۲۴۸ نہیں کرتے مگر میں اس بات کا خیال رکھوں گا کہ آپ ان کے امام کو SUPPORT۲۴۹ کرتے ہیں۔۲۵۰
حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کا حادثہ ارتحال
۱۳/ مئی ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی حرم )اور حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوریؓ کی دختر( حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کا قادیان میں انتقال ہو گیا۔ حضور کو راولپنڈی میں اس الم انگیز واقعہ کی اطلاع ملی اور حضور نے حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ امیر مقامی کو تار دیا کہ جنازہ میں خود آکر پڑھائوں گا۔ چنانچہ حضور اگلے روز ۱۴/ مئی کو پونے نو بجے قادیان تشریف لے آئے۔ اور اسی دن سوا بارہ بجے کے قریب حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں ایک جم غفیر کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ۔ حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرحومہ کے بھائیوں نے میت کو لحد میں اتارا اور آپ بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہؓ کے پہلو میں سپرد خاک کر دی گئیں۔۲۵۱
سیدنا حضرت امیر المومنینؓ نے حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کے نیک اذکار قائم رکھنے اور دوسری احمدی خواتین کو مرحومہ کی طرح محض رضاء الٰہی اور خدمت سلسلہ کی خاطر تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب و تحریص دلانے کی غرض سے >میری سارہ< کے عنوان سے مفصل مضمون لکھا جس میں مرحومہ سے نکاح کی وجوہ اور ان کی فنائیت` قابلیت اور اخلاق پر روشنی ڈالی چنانچہ تحریر فرمایا۔
>غالباً ۱۹۲۴ء کا شروع تھا یا ۱۹۲۳ء تھا۔ جب برادرم پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے قادیان تشریف لائے ہوئے تھے وہ کچھ بیمار ہوئے اور ان کے لئے ہومیو پیتھک دوا لینے کے لئے ان کی چھوٹی ہمشیرہ میرے پاس آئیں انہوں نے اپنے بھائی کی بیماری کے متعلق کچھ اس فلسفیانہ رنگ میں مجھ سے گفتگو کی کہ میرے دل پر اس کا ایک گہرا نقش پڑا۔ جب وہ دوا لے کر چلی گئیں۔ میں اوپر دوسرے گھر کی طرف گیا۔ جس میں میری مرحومہ بیوی رہا کرتی تھیں۔ وہاں کچھ مذہبی تذکرہ ہوا اور ایک برقع میں سے ایک سنجیدہ آواز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی ڈائری کا حوالہ دیا کہ آپؑ اس موقعہ پر اس طرح فرماتے ہیں۔ یہ آواز پروفیسر صاحب کی ہمشیرہ ہی کی تھی اور حوالہ ایسا برجستہ تھا کہ میں دنگ رہ گیا۔ میری حیرت کو دیکھ کر امتہ الحی مرحومہ نے کہا۔ انہیں حضرت صاحبؑ کی ڈائریوں اور کتب کے حوالے بہت یاد ہیں اور حضرت مسیح موعود )علیہ السلام( کے فارسی شعر بھی۔ یہ کہتی ہیں کہ میں نے الحکم اور بدر میں سے اکثر ڈائریاں پڑھی ہیں اور مجھے یاد ہیں۔ میرے دل نے کہا۔ یہ بچی ایک دن خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے لئے مفید وجود بنے گی۔ میں وہاں سے چلا گیا اور وہ بات بھول گئی۔ جب امتہ الحی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی نسبت فکر پیدا ہوئی تو مجھے اس بچی کا خیال آیا۔ اتفاق سے اس کے والد ماجد مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اس کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو میں نے لڑکی کی صحت کے متعلق رپورٹ کرنے کو بھیجا اور انہوں نے رپورٹ کی کہ صحت اچھی ہے کچھ فکر کی بات نہیں ان کی اس رپورٹ پر میں نے جو خط مولوی صاحب کو لکھا اس کا ایک فقرہ حسب ذیل ہے۔
>ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آج واپس تشریف لے آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سائرہ سلمہا اللہ تعالیٰ کی صحت ایسی نہیں جس سے کچھ خدشہ ہو۔ چونکہ فیصلہ کی بناء طبی مشورہ پر رکھی گئی تھی۔ اور طبی مشورہ موافق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر مندرجہ ذیل امور میں آپ کی رائے اثبات میں ہو اور سارہ سلمہا اللہ تعالیٰ بھی ایسی ہی رائے رکھتی ہوں تو ان کا نکاح مجھ سے کر دیا جائے<۔
اس خط کی نقل میں نے رکھی ہوئی تھی اتفاقاً آج سارہ بیگم مرحومہ کا پہلا خط تلاش کرنے لگا تو ساتھ ہی اس خط کی نقل بھی مل گئی۔ غرض یہ خط میں نے لکھا اور مولوی صاحب موصوف نے جو کچھ میں نے لکھا تھا اسے بخوشی قبول کیا۔ اور ہمارا نکاح ہو گیا۔
سارہ جو بھاگلپور کے ایک نہایت معزز اور علمی خاندان میں پیدا ہوئی تھی ۱۹۲۵ء میں اس سال کی مجلس شوریٰ کے موقعہ پر میرے نکاح میں آگئیں ان کا خطبہ نکاح خود میں نے پڑھا اور اس طرح ایک مردہ سنت پھر قائم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی لاکھوں برکتیں ہوں مولوی عبدالماجد صاحب پر جنہوں نے ہر طرح کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے ایک بے نظیر اخلاص کا ثبوت دیا اور میرے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے مجھے ایک ہتھیار مہیا کر دیا۔
مرحومہ امتہ الحی کی وفات سے جو ایک قومی نقصان مجھے نظر آتا تھا اس کی ذہنی اذیت نے مجھے اس بات کے لئے بے تاب کر دیا کہ سارہ کے قادیان آنے سے پہلے ہی انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائوں۔ چنانچہ میں نے انہیں ایک خط لکھا جس میں بالاجمال آنے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ اور امید ظاہر کی کہ وہ میرے لئے مشکلات کا نہیں بلکہ راحت کا موجب بنیں گی خط کے جواب میں کچھ دیر ہو گئی تو میں نے ایک اور خط لکھا۔ اس کا جو جواب آیا وہ میں نے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ آج کہ مرحومہ اس دنیا سے اٹھ گئی ہیں۔ آج کہ ہمارے تعلقات سفلی زندگی کے اثرات سے پاک ہو کر بالکل اور نوعیت کے ہو گئے ہیں۔ آج کہ نہ ان کے لئے اس خط کے ظاہر ہونے میں کوئی شرم ہے اور نہ میرے لئے۔ میں اس خط کو مرنے والی کی نیک یاد کو تازہ رکھنے کے لئے درج کرتا ہوں۔ جب یہ خط مجھے ملا۔ اس وقت میری آنکھیں پرنم تھیں اور آج بھی کہ وہ خط میری آنکھوں کے سامنے اس نہ واپس لوٹ سکنے والے زمانہ کو سامنے لارہا ہے۔ میری آنکھیں اشکوں پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی اور مرحومہ پر بھی رحم فرمائے۔ کہ اگر ہم گندے ہیں تو بھی اس کے ہیں اور نیک ہیں تو بھی اس کے ہیں وہ خط یہ ہے۔
۲۴/ اپریل ۰۲۵ء از احمدیہ ہائوس بھاگلپور۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میرے واجب الاطاعت خاوند۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
عید کی نماز کے معاً بعد آپ کا نامہ ملا۔ دریافت حالات سے خوشی ہوئی۔ امید ہے کہ میرا دوسرا خط بھی حضور کی خدمت میں پہنچا ہو گا۔ حیران ہوں کہ کیا جواب تحریر کروں۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے مجھ کو ہر طرح سے آپ کی منشاء اور مرضی کے مطابق بنا کر عملاً اس کا بہترین جواب بننے کی توفیق بخشے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے بہ حیثیت آپ کی بیوی ہونے کے اپنے عظیم الشان فرائض کی ادائیگی کی ہمت و طاقت عطا فرمائے۔ اور ہر ایک تنگی و تراشی کو اس راہ میں برداشت کرنے کی توفیق دے۔
میں اپنے رب سے دعا کرتی ہوں کہ وہ میری ہمت و طاقت و علم و ایمان و ایقان و صحت میں بیش از پیش برکت عطا فرما کر مجھے اس مقصد عالی کے حصول میں کامیاب فرمائے۔ میں اپنی زندگی کا مسلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فرمان کے مطابق بنانے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرا معین و مددگار ہو ~}~
برآستان آنکہ ز خود رفت بہریار
چوں خاک شو` و مرضی یارے دراں بجو
دعا کرتی ہوں اور کروں گی آپ کے لئے خصوصاً۔ اللہ تعالیٰ میری زبان میں اثر و قوت عطا فرمائے۔
آپ کے خط میں اپنے نام کو مشدد دیکھ کر پہلے متعجب ہوئی۔ لفافہ کے اوپر کی عبارت نے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ میں اس سے ناواقف تھی۔ اردو فارسی لغتوں میں دیکھا لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ آخر منہتی الادب میں دیکھا۔ اس میں اس کے معنے لکھے تھے >زن شاد ماں کن<۔ اس انکشاف حقیقت سے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فی الواقعہ اسم بامسمی بنائے۔ میری طبیعت نسبتاً اچھی ہے کامل صحت کے لئے دعا کی ضرورت ہے۔ راقمہ۔ آپ کی سارہ<۔
ان دوستوں کے لئے جو میری طرح فارسی کا علم کم رکھتے ہیں یا بالکل ہی نہیں رکھتے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی تلاش کر جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو کھو چکا ہو اور پھر اس کے دروازہ پر مٹی کی طرح بے خواہش ہو کر گرجا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر۔
آہ مرحومہ نے اس وقت جب وہ اپنے نئے گھر میں آئی بھی نہ تھی جو کچھ کہا تھا اسے لفظاً لفظاً پورا کر دکھایا۔ اس کی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا شعر کی مصداق ہو کر رہ گئی۔ وہ اس عقیدت سے آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ پر جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو کھو دیا تھا گر جائے اور پھر اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کی تلاش میں اس دروازہ کی مٹی ہو کر رہ جائے۔ ہمیشہ کے لئے اپنے وجود کو کھو دے۔ ایک مشت خاک ہو جس میں کوئی جان نہ ہو۔ خواہ اسے اٹھار کر پھینک دو خواہ اسے مقدس سمجھ کر تبرک کی طرح رکھ لو۔
بخدا اس نے جو کہا تھا وہ پورا کر دیا۔ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے قدموں میں خاک ہوئی پڑی ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس آستان پر گر چکی ہے تا خدا تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہو۔ اے راحم خدا! تو اس گر ہوئی کو اٹھا لے۔ تو اس پر پوری طرح راضی ہو جا۔ آمین<۔
حضرت سارہ بیگمؓ کی اولاد نے اپنی پیاری والدہ کی وفات پر صبر و شکر کا جو شاندار نمونہ دکھایا۔ حضورؓ نے اس مضمون میں خاص طور پر اس کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا۔
>ان کے پانچ بچے ہوئے۔ دو ایام حمل میں ہی ضائع ہو گئے اور تین خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں۔ بڑے کا نام رفیع احمد ہے۔ درمیانی لڑکی ہے اس کا نام امتہ النصیر ہے چھوٹے بچے کا نام حنیف احمد ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بامسمی بنائے۔ اور اس قسم کے نیک اعمال کی توفیق دے کہ اپنی ماں کے لئے نیک یادگار چھوڑیں اور ان کے نیک کاموں کی وجہ سے ان کی ماں کا درجہ بلند ہوتا رہے۔ یہ بچے اپنی ماں کی طرح نہایت صابر ہیں۔ حنیف احمد سلمہ اللہ تعالیٰ تو ابھی چھوٹا ہے وہ چونکہ صرف ڈیڑھ ماہ کا تھا کہ ان کی پڑھائی کی وجہ سے ماں سے جدا کر دیا گیا۔ اور ننھیال بھجوا دیا گیا۔ وہاں سے ماں کی وفات سے صرف تین دن پہلے آیا۔ وہ گویا اپنی ماں سے بالکل ناواقف ہے اور ابھی اس کی عمر بھی ایک سال سے دو تین ماہ اوپر ہے اس لئے اسے تو ماں کی موت یا زندگی کی کوئی حس ہی نہیں لیکن رفیع احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کہ وہ بھی اپنی ننھیال گیا ہوا تھا اور والدہ کی وفات سے صرف تین دن پہلے واپس آیا۔ اس کی عمر چھ سال سے کچھ اور ہے اس کی نسبت راولپنڈی سے واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ جوں ہی ان کی والدہ فوت ہوئی وہ اپنی بہن امتہ النصیر کو جو والدہ کے پاس رہنے کے سبب سے سب سے زیادہ والدہ سے مانوس تھی۔ ایک طرف لے گیا اور ایک دروازہ کے پیچھے کھڑے ہو کر دیر تک اسے کچھ سمجھاتا رہا۔ اس کے بعد جب مرحومہ کو غسل دے کر چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ تو ایک پھولوں کا ہار لے کر آیا اور پہلے والدہ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور پھر ہار گلے میں ڈال کر اپنے آنسوئوں کو بزور روکتا ہوا اپنے منہ کو ایک طرف کرکے تاکہ اس کے جذبات کو کوئی دیکھ نہ لے دوسرے کمرہ میں چلا گیا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ وہ ایک چھ برس کا بچہ ہے یہ عمل ایک غیر معمولی عمل ہے ایک حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ ہے جب میں واپس آیا اور میں نے رفیع احمد کو بلوایا تو میں نے دیکھا کہ وہ میری آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملاتا تھا اور اپنے جذبات کو پورے طور پر دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کہ اگر میری آنکھوں سے اس کی آنکھیں ملیں تو اپنے آنسو نہیں روک سکے گا۔ شاید وہ کہیں چھپ کر رویا ہو تو رویا ہو۔ میں نے اسے روتے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔
یہ تو رفیع احمد کا حال تھا۔ امتہ النصیر جو تین ساڑھے تین سال کی عمر کی بچی ہے اور ہر وقت اپنی ماں کے پاس رہنے کے سبب سے بہت زیادہ اس سے مانوس تھی۔ اپنے بھائی کے سمجھانے کے بعد وہ خاموش سی ہو گئی۔ جیسے کوئی حیران ہوتا ہے۔ وہ موت سے ناواقف تھی وہ موت کو صرف دوسروں سے سن کر سمجھ سکتی تھی نہ معلوم اس کے بھائی نے اسے کیا سمجھایا کہ وہ نہ روئی نہ چیخی نہ چلائی۔ وہ خاموش پھرتی رہی اور جب سارہ بیگم کی نعش کو چارپائی پر رکھا گیا اور جماعت کی مستورات جو جمع ہو گئی تھیں رونے لگیں تو کہنے لگی۔ میری امی! تو سو رہی ہیں۔ یہ کیوں روتی ہیں۔ میری امی جب جاگیں گی۔ تو میں ان سے کہوں گی آپ سوئی تھیں اور عورتیں آپ کے سرہانے بیٹھ کر روتی تھیں۔
جب میں سفر سے واپس آیا اور امتہ النصیر کو پیار کیا تو اس کی آنکھیں پرنم تھیں لیکن وہ روئی نہیں۔ اس دن تک میں نے کبھی اسے گلے نہیں لگایا تھا۔ اس دن پہلی دفعہ میں نے اسے گلے لگا کر پیار کیا مگر وہ پھر بھی نہیں روئی۔ حتیٰ کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اسے نہیں معلوم کہ موت کیا چیز ہے؟ مگر نہیں یہ میری غلطی تھی۔ یہ لڑکی مجھے ایک اور سبق دے رہی تھی۔ سارہ بیگم دارالانوار کے نئے مکان میں فوت ہوئیں۔ جب ہم اپنے اصلی گھر دارالمسیح میں واپس آئے تو معلوم ہوا اس کے پائوں میں بوٹ نہیں ایک شخص کو بوٹ لانے کے لئے کہا گیا۔ وہ بوٹ لے کر دکھانے کے لئے لایا تو میں نے امتہ النصیر سے کہا۔ تم پسند کرلو۔ جو بوٹ تمہیں پسند ہو وہ لے لو۔ وہ دو قدم تو بے دھیان چلی گئی۔ پھر یکدم رکی اور ایک عجیب حیرت ناک چہرہ سے ایک دفعہ اس نے میری طرف دیکھا اور ایک دفعہ اپنی بڑی والدہ کی طرف۔ جس کا یہ مفہوم تھا کہ تم تو کہتے ہو جو بوٹ پسند ہولے لو۔ مگر میری ماں تو فوت ہوچکی ہے مجھے بوٹ لے کر کون دے گا۔ میں اس امر کے بیان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ وفور جذبات سے اس وقت مجھے یقین تھا کہ اگر میں نے بات کی یا وہاں ٹھہرا رہا تو آنسو میری آنکھوں سے ٹپک پڑیں گے۔ اس لئے میں نے فوراً منہ پھیر لیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ بوٹ اپنی امی جان کے پاس لے جائو۔
ہمارے گھر میں سب بچے اپنی مائوں کو خالی امی اور میری بڑی بیوی کو امی جان کہتے ہیں۔ میں نے جاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو امتہ النصیر اپنے جذبات پر قابو پا چکی تھی۔ وہ نہایت استقلال سے بوٹ اٹھائے اپنی امی جان کی طرف جارہی تھی۔ بعد کے حالات نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے حادثہ کو باوجود چھوٹی عمر کے خوب سمجھتی ہے۔ چنانچہ اس کے ایک بھائی نے اس دق کیا اور پھر اپنے ظلم کو اور زیادہ سنگین بنانے اور اس کے دل کو دکھانے کی نیت سے اسے کہا کہ تم میرے اس چھیڑنے کی شکایت اپنی امی سے کرو گی۔ اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ نہیں بھائی۔ میں اپنی امی سے شکایت نہیں کر سکتی۔ >خدا کی کچھم )خدا کی قسم( میری امی تو اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں وہ تو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی<۔ یہ گفتگو مجھے گھر کے ایک اور بچے نے سنائی اور مجھے یقین ہو گیا کہ امتہ النصیر موت کی حقیقت کو جانتی ہے اس کا فعل صابرانہ فعل ہے اور وہ اپنی ماں کی سچی یادگار ہے وہ حقیقت کو جانتے ہوئے اپنے دل پر قابو پائے ہوئے ہے<۔۲۵۲
‏sub] [tagسیدنا حضرت خلیفتہ المسیحؑ کی شہادت ایک مقدمہ میں
مرزا اکرم بیگ اور ان کی والدہ سردار بیگم صاحبہ )بیوہ مرزا فضل بیگ صاحب( نے ۱۹۲۰ء میں اپنی پوری جائداد واقع قادیان حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے صاحبزادگان کے نام ایک لاکھ ۴۸ ہزار روپیہ پر فروخت کر دی تھی جس میں سے بعد کو بہت سے احباب جماعت نے حصے خرید کئے تھے۔ ایک معتدبہ حصہ پر لاکھوں روپے کی عمارات بن چکی تھیں۔ گیارہ سال کے بعد ۱۹۳۱ء میں مرزا اکرم بیگ صاحب اور ان کی والدہ نے مرزا اعظم بیگ پسر مرزا اکرم بیگ صاحب سے استقرار حق کا دعویٰ سینئر سب جج صاحب گورداسپور کی عدالت میں دائر کرا دیا۔ جو ڈھائی سال تک چلتا رہا۔ آخر ۱۴/ نومبر ۱۹۳۳ء کو دعویٰ خارج ہو گیا۔۲۵۳
اس مقدمہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے علاوہ ۲۵/ مئی ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی شہادت بھی ہوئی۔ اس موقعہ پر چوہدری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹر لاہور اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ بھی موجود تھے۔۲۵۴]ydob [tag
احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ
وسط ۱۹۳۲ء میں لاہور کے احمدی نوجوانوں نے >ینگ مین احمدیہ ایسوسی ایشن< کے نام سے ایک تبلیغی انجمن قائم کی جس کے پریذیڈنٹ سید محمود احمد صاحب بی۔ اے اور سیکرٹری چوہدرری بشیر احمد صاحب صادق مقرر کئے گئے۔۲۵۵ یہ انجمن جلسوں کے علاوہ ہر ماہ ایک تبلیغی ٹریکٹ بھی شائع کرتی تھی۔۲۵۶ چند ماہ بعد اس کا نام >احمد فیلو شپ آف یوتھ< کر دیا گیا اور ۳۴۔ ۱۹۳۳ء کے لئے مندرجہ ذیل عہدیدار تجویز کئے گئے۔ )پریذیڈنٹ( ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے )سیکرٹری( محمد ابراہیم صاحب ناصر )اسسٹنٹ سیکرٹری( قاضی محمود صادق صاحب )فنانشل سیکرٹری( عطاء اللہ خان صاحب۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم انجمن کے قیام ہی سے اس کے سرگرم اور پرجوش ممبر بلکہ روح رواں تھے اس کے بعد ہر سال انجمن کا نیا انتخاب ہوتا رہا۔
>احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ< کے ممبروں کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا اور لاہور سے باہر بھی اس کی شاخیں قائم ہو گئیں۔ انجمن کے قابل تعریف تبلیغی سرگرمیوں کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خاص طور پر اپنے قلم سے ایک قیمتی مضمون >پکارنے والے کی آواز< بھی اسے عطا فرمایا۔ جو اردو اور انگریزی میں ۱۹۳۳ء کے >یوم التبلیغ< پر شائع کیا گیا۔۲۵۷ اسی طرح مصری فتنہ کے زمانہ میں انجمن کی طرف سے >محمود کی آمین< بکثرت شائع کی گئی۔۲۵۸ اور وسط ۱۹۳۸ء میں اس کے ماتحت ایک مذہبی کانفرنس کا بھی انعقاد ہوا۔۲۵۹ غرضکہ تحریک خدام الاحمدیہ کے قیام سے قبل اس انجمن کو نظارت دعوۃ و تبلیغی کے زیر ہدایات تبلیغی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا۔
ایک ایرانی کے سوالات اور ان کے جوابات
وسط ۱۹۳۳ء میں ایک ایرانی بزرگ مہر صاحب کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں چار سوالات پہنچے جن کا تعلق پیدائش عالم` مذہبی خیال کے ارتقاء` الہام کی حقیقت اور تکمیل دین سے تھا۔ حضور پرنور نے ان سب سوالات کا مسکت جواب دینے کے بعد آخر میں ان کو جماعت احمدیہ کے شاندار مستقبل کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔
>ہماری جماعت پھر مسلمانوں کو تیرہ سو سال پیچھے لے جارہی ہے۔ ہم دنیا کی گرد کے برابر بھی نہیں لیکن خدا کے فضل سے فتح ہماری ہے۔ ایک سمجھدار انسان بڑ کے درخت کی تازہ نکلنے والی کونپل کو نہیں دیکھا کرتا۔ بلکہ وہ اس کی سبزی اور شادابی سے اس کے آئندہ بننے والے تنے کو دیکھتا ہے۔ اگر بزرگ مہر صاحب دوراندیشی کی عینک لگا کر ہماری حقیقت کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ احمدیت کی اس چھوٹی سی کونپل میں وہ طاقت موجود ہے کہ ایک تھوڑے سے عرصہ میں وہ ایک ایسے تناور درخت کے پیدا کرنے کے قابل ہو گی۔ جس کے سائے میں بیٹھنے کے لئے دنیا مجبور ہو گی<۔۲۶۰
مسلم تنظیموں کی مالی امداد اور ہندوئوں کی برہمی
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔
>ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب خود آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس کے صدر ہیں اور اس حیثیت میں انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس باڈی کے وہ صدر ہیں اس کے کام کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے زیادہ مالی امداد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے دی ہے یعنی ۱۹۳۰ء سے اس وقت تک آپ اس مجلس کے لئے تین ہزار کے قریب روپیہ دے چکے ہیں اگر احمدی دوسروں کے ماتحت کام کرنا ناپسند کرتے تو اس قدر مالی امداد جو دوسرے مسلمانوں کی امداد کے غالباً برابر ہو گی وہ اس انجمن کو کیوں دیتے جس کے صدر سر محمد اقبال صاحب ہیں۔ مسلم لیگ کے رجسٹرات سے بھی یہ امر ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کی امداد میں بہت بڑا حصہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ حالانکہ اس مجلس کے صدر بھی سوائے ان چند ایام کے جن میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب صدر ہوئے ایسے احباب ہوتے رہے ہیں جو جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے<۔۲۶۱
ہندوئوں کے اخبار >پرتاپ< کو جماعت احمدیہ کی مالی امداد )جو مسلمانوں کی سیاسی انجمنوں کو اسلامی اغراض کے تحت دی گئی تھی( بہت ناگوار گزری اور اس نے مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ پر یہ الزام عائد کر دیا کہ اسی امداد کی وجہ سے ان جماعتوں نے >وطن کشی< پر کمر باندھ رکھی ہے چنانچہ اس نے ۳۰/ جون ۱۹۳۳ء کو لکھا۔
>مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ نے جو روش اختیار کر رکھی ہے اس کے لئے احمدی جماعت کا روپیہ ذمہ دار ہے مسلم کانفرنس کا جنم ہی بطور ایک ٹوڈی جماعت کے ہوا اور کچھ عرصہ سے مسلم لیگ بھی ٹوڈیت میں اس کے دوش بدوش چل رہی ہے ۔۔۔۔۔ کسی وقت تو تعجب ہوتا تھا لیکن اب نہیں رہا کہ ان جماعتوں نے وطن کشی پر کیوں کمر باندھ رکھی ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ انہیں اسی مالی امداد کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جو انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے ملتی رہی ہے۔
دراصل مسلمانوں کا سیاسی اتحاد ہندوئوں کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا اور اس میں رخنہ اندازی کے لئے وہ مختلف سیاسی چالیں چل رہے تھے۔ چنانچہ >پرتاپ< نے مندرجہ بالا نوٹ میں یہاں تک لکھا کہ۔
>مسلمانوں اور احمدیوں کا ایک دوسرے کو کافر کہنا محض دھوکہ کی ٹٹی ہے۔ دونوں اپنے پولٹیکل اغراض مشترکہ سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مسلمان ہندوئوں کو بھی کافر کہتے ہیں اور احمدیوں کو بھی۔ لیکن ہندو کافر کے ساتھ وہ تعاون گوارا نہیں کر سکتے اور احمدی کافر کے ساتھ خوب گھل مل کر رہتے ہیں۔ احمدی بھی مسلمانوں کو اسی حد تک کافر سمجھتے ہیں کہ وہ کسی مسلم امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی احمدی کو غیر احمدی سے رشتہ ناطہ کرنے کی اجازت ہے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جبکہ احمدیوں کو اس لئے سزا دی گئی کہ انہوں نے غیر احمدیوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا۔ اگر باوجود اس کے احمدی اور غیر احمدی کسی مسلم انجمن میں شامل ہو سکتے ہیں تو یقیناً ان کی پوزیشن دوسروں کی نظر میں مضحکہ خیز ہو جاتی ہے یہ عجیب بات ہے کہ مذہبی اغراض کے لئے ایک شخص کافر ہو اور پولٹیکل اغراض کے لئے وہی شخص مومن بن جائے<۔۲۶۲اخبار >الفضل< نے >پرتاپ< کی اس روش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>ہندوئوں کے نزدیک مسلمانوں کا اپنے پولٹیکل اغراض کو مشترکہ سمجھنا اور احمدی و غیر احمدی کا کسی مسلم انجمن میں شامل ہونا تو >مضحکہ خیز< پوزیشن ہے لیکن ہندو فرقوں میں مذہبی لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہونے کے باوجود ان کا سیاسیات میں اتحاد عین معقولیت ہے۔ حتیٰ کہ اچھوت اقوام جنہیں ہندو بدترین مخلوق سمجھتے ہیں اور ان سے نہایت ہی شرمناک سلوک کرتے چلے آرہے ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا معقولیت پر مبنی قرار دیتے ہیں اگر احمدی و غیر احمدی کو عقائد کے اختلاف کی وجہ سے سیاسی اغراض مشترکہ میں متحد نہیں ہونا چاہئے۔ اور اس طرح بالفاظ >پرتاپ< ان کی پوزیشن دوسروں کی نظروں میں مضحکہ خیز ہو جاتی ہے تو پھر ہندو مذہبی لحاظ سے آپس میں بعد المشرقین رکھتے ہوئے سیاسیات میں کیوں متحد ہیں۔ اور کیوں انہیں اپنی پوزیشن مضحکہ خیز نظر نہیں آتی؟ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ اور بھی ہو سکتی ہے کہ ہندو مسلمانوں کو پراگندہ اور منتشر دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپس میں زیادہ سے زیادہ اتحاد قائم کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے تباہی کے گھاٹ اتار سکیں۔ مسلمانوں نے اگر ہندوئوں کی اس چال کو نہ سمجھا اور باوجود یہ جاننے کے نہ سمجھا کہ سیاسیات کا مذہبی عقائد کے ساتھ تعلق نہیں تو اس کا نتیجہ وہی ہو گا۔ جو ایک منظم اور متحد قوم کے مقابلہ میں پراگندہ حال قوم کا ہوا کرتا ہے اور یہی ہندو چاہتے ہیں<۔۲۶۳
‏tav.7.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل ہفتم(
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی لنڈن میں مذہبی و سیاسی خدمات
چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ہندوستان کے آئندہ نظام ملکی و آئین اساسی کو ترتیب دینے کے لئے دوسرے مسلم زعماء ہند کے ساتھ اس سال بھی لنڈن تشریف لے گئے۔ اور قریب¶ا تین ماہ تک گول میز کانفرنس کی کمیٹیوں میں شرکت فرما کر مفاد اسلامی کو تقویت پہنچاتے رہے۔ نیز مسلمانان فلسطین کی حمایت کے لئے کئی مرتبہ وزیر ہند اور وزیر نو آبادیات اور دیگر افسروں سے ملاقات کی۔ ان سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ حسب معمول مسجد فضل لنڈن میں تشریف لاتے اور لیکچر دیتے رہے۔ اور جہاں بھی موقعہ ملا اسلام کی تبلیغ میں حصہ لیا۔
جولائی ۱۹۳۳ء میں نیشنل لیگ )لندن( کے زیر انتظام ہندوستان کے مسلم مندوبین کے لیکچر ہوئے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اس جلسہ میں اسلامی نظریات کی برتری پر نہایت کامیاب لیکچر دیا جس پر یافاء )فلسطین( کے ایک اخبار >الجامعتہ الاسلامیہ< نے ۱۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کے پرچہ میں >الاسلام فی البرلمان الانکلیزی< کے عنوان سے مفضل نوٹ لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
>حال ہی میں انگریزی پارلیمنٹ کے ایک حصہ میں بعض ان مسلمانان اصحاب کے لیکچر ہوئے جو ہندوستان سے جائنٹ سیلیکٹ کمیٹی کے مباحث میں شریک ہونے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ یہ جائنٹ سیلیکٹ کمیٹی ہندوستان کی آئندہ آئین اساسی کو ترتیب دینے اور نظام حکومت کا ڈھانچہ تیار کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اس جلسہ میں غیر معمولی طور پر لارڈز۔ ہاوس آف کامنز کے ممبران اور بعض دیگر معززین نے شمولیت کی۔ لارڈ ڈربی جو آج سے کئی سال پیشتر ہندوستان کے افسر رہ چکے ہیں صدر جلسہ تھے سب سے پہلے سر آغا خان نے اور بعد ازاں ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` سر محمد یعقوب اور السید ظفر اللہ خاں نے تقاریر کیں۔ ان تمام کے خطبات کا موضوع یہ تھا کہ اسلام ان مشکلات کا کیا حل پیش کرتا ہے جو موجودہ دور میں رونما ہو رہی ہیں۔ لیکچر تو سب نے دیئے مگر حق یہ ہے کہ السید ظفر اللہ خاں جو حکومت ہند کے وزیر تعلیم رہ چکے ہیں انہوں نے اپنے اصل موضوع پر نہایت خوبی اور سلاست کے ساتھ تقریر فرمائی۔ اور انہی کی ایک تقریر ایسی تھی جس میں مقررہ موضوع پر نہایت عالمانہ انداز میں بحث تھی۔ آپ نے اپنی تقریر سے یورپین اور مسلمان دونوں طبقوں کو محفوظ کیا۔ السید ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی تقریر میں موجودہ اقتصادی بدحالی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اقتصادیات کے متعلق جو اسلام نے نظریہ پیش کیا ہے وہ مغربی ماہرین اقتصادیات کے نقطہ نگاہ سے بالکل مغائر ہے کیونکہ اسلام کاملا کسی ایک شخص کو تمام اموال کا مالک نہیں سمجھتا بلکہ وہ اموال میں تمام لوگوں کو شریک سمجھتا اور ان کا حق اپنے اموال میں سے دینے کی تاکید کرتا ہے اور اغنیاء کو تاکید کرتا ہے کہ وہ فقراء کا خیال رکھیں۔ آپ نے اس حصہ مضمون کے لئے آیت کریمہ فی اموالھم حق للسائل و المحروم سے استدلال کیا۔
خاتمہ تقریر پر آپ نے نہایت صراحت سے یہ امر بیان کیا کہ مغرب کو اقتصادی نظام میں جو پیچیدگیاں اور مشکلات درپیش ہیں ان کا بجز اس کے کوئی حل نہیں کہ وہ اسلامی اصول کو خضر راہ بنائے جو بے شمار حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ہمیشہ کامیابی ہوتی ہے<۔
‏sub] ga[tاردو سیکھنے کیلئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے کی تحریک
۲۳/ جولائی ۱۹۳۳ء کو طلباء جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ نے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ افریقہ کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دوبارہ تحریک فرمائی کہ احمدی طلبہ کو اردو سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنی چاہئیں اس تعلق میں یہ بھی ارشاد فرمایا۔
>جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دینی امور میں اصلاح کی ہے ¶وہاں اردو زبان میں بھی بہت بڑی اصلاح کی ہے چنانچہ ایک شخص۲۶۴ نے لنڈن یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے >انگریزی لٹریچر کا اردو لٹریچر پر اثر< کے عنوان سے ایک مقالہ۲۶۵ لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعلق یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آپ کی تحریروں نے زبان اردو پر خاص اثر ڈالا ہے<۔
>اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے یا یہ کہ اردو کے حامل احمدی ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ زمانہ خود اردو کو اس طرف لے جارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو کے سمجھے جائیں گے پس ہمارے طلباء کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتب نمونہ اور ماڈل ہونی چاہئیں خصوصاً آخری زمانہ کی کتابیں ان کی روانی اور سلاست پہلے کی نسبت بہت بڑھی ہوئی ہے ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی<۔۲۶۶
یہاں ضمناً یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دسمبر ۱۹۱۳ء میں >آل انڈیا محمدن اینگلو اورنٹیل ایجوکیشنل کانفرنس< کا ستائیسواں اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں خواجہ غلام الثقلین )۱۸۷۱ء۔ ۱۹۱۵ء( نے خطبہ صدارت میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جنہوں نے اردو کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ان لوگوں کی صف میں شمار کیا جن کو آج اردو زبان میں بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً پروفیسر آزاد` مولانا حالی` سرسید احمد خاں` داغ دہلوی` امیر مینائی جلال لکھنوی` پنڈت رتن ناتھ سرشار۔ )ملاحظہ ہو رپورٹ اجلاس مذکورہ صفحہ ۷۶( پھر اسی رپورٹ کے صفحہ ۷۲ پر پنجاب کے انشاء پردازوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اردو زبان کے اعلیٰ اور بلند پایہ انشاء پردازوں میں شمار کیا گیا۔۲۶۷
اتحاد و مذاہب کانفرنس شکاگو کے لئے افتتاحی پیغام
شکاگو کی عالمی جمعیتہ مذاہب FELLOW (WORLD FAITHS) OF SHIP کے وائس پریذیڈنٹ ریبن سٹیفنز وائز کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ درخواست موصول ہوئی کہ شکاگو میں )۲۷/ اگست تا ۱۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء( دوسری عالمی مذہبی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں خود شرکت فرما کر منتظمین کی عزت افزائی کریں یا اپنی طرف سے دو ایک نمائندے ہی مقرر فرما دیں جو اس میں شامل ہوں اس پر حضور نے صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالیؓ اور میاں محمد یوسف صاحب کو جو امریکہ کے مبلغ تھے۔ کانفرنس میں شرکت کا ارشاد فرمایا۔ نیز منتظمین کانفرنس کی درخواست پر حسب ذیل پیغام ۲۲/ اگست ۱۹۳۳ء کو بذریعہ تار ارسال فرمایا۔
>مجھے ورلڈ فیلو شپ آف فیتھ کے مقاصد سے بے انتہا دلچسپی ہے کیونکہ اس کے مقصد میں میں اس اعلان کی تکمیل دیکھتا ہوں جو تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ یعنی کوئی قوم نہیں جس میں نبی نہ گزرا ہو اور یہ کہ محض بدی کبھی دنیا میں قائم نہیں رہ سکتی وہ مذاہب جو سینکڑوں ہزاروں سال تک علی الاعلان اپنی تعلیم پیش کرتے رہے ہیں۔ اور لاکھوں آدمیوں سے والہانہ فرمانبرداری کراتے رہے ہیں ممکن ہی نہیں کہ کسی گندے سرچشمہ سے نکلے ہوں یا اپنا سب حسن کھو چکے ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جن کا یہ عقیدہ ہو کہ ہر راستہ پر چل کر خدا مل سکتا ہے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ روشنی کے مینار تک پہنچانے کے لئے روشن سڑکوں کی بھی ضرورت ہے۔ جو شخص سڑکوں کو اندھیرا کرتا ہے۔ وہ مینار کو بھی ویران کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جو شخص دوسرے مذاہب کی عیب جوئی میں اپنے مذہب کی فتح دیکھتا ہے وہ نادان ہے اگر خدا تعالیٰ کا نور ہر قوم اور ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں موجود نہیں تو لوگ بینائی کھو بیٹھیں گے اور جب بینائی جاتی رہے تو نور کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ پس جو جماعت لوگوں کو اس صداقت سے آگاہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے کہ ہر مذہب میں خوبیاں موجود ہیں وہ صداقت کا جھنڈا کھڑا رکھنے کے لئے ایک بہت بڑی خدمت کرتی ہے اور اس وجہ سے ورلڈ فیلو شپ آف فیتھس میرے نزدیک دنیا کی ایک اہم ترین خدمت کر رہی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کی کوششوں کو دنیا کے ہر حصہ میں وسیع کیا جائے۔ میں امام جماعت احمدیہ ہونے کی حیثیت میں انہیں اس کام کے لئے ہر ممکن امداد دینے کا وعدہ کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کا ارادہ بھی ان کی کوششوں کی تائید میں ہے آسمان کے فرشتے صلح کی قرناء پھونک رہے ہیں۔ جو آج اس آواز کو نہیں سنتا وہ کل سنے گا۔ اور جو کل نہیں سنتا وہ پرسوں سنے گا مگر سنے گا ضرور۔ پس مبارک ہیں وہ جو پہلی ہی آواز پر جنگی ہتھیار زمین میں دفن کر دیتے ہیں اور صلح کا ¶ہاتھ اپنے بھائیوں کی طرف بڑھاتے ہیں۔ کیونکہ انہی کے ہاتھ پر خدا کا ہاتھ ہو گا اور وہی آسمانی بادشاہت کے وارث ہوں گا<۔۲۶۸
صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مرحوم نے حضور کے نمائندہ کی حیثیت سے یہ پیغام سنایا۔ جس سے سامعین بہت متاثر ہوئے کئی لوگوں نے برملا تسلیم کیا کہ یہ سب سے اعلیٰ مضمون ہے۔۲۶۹ علاوہ ازیں بشپ فرانسس میکونل صدر کانفرنس نے حضور کی خدمت میں شکریہ کا خط لکھا کہ >آپ کا پیغام جو سجری تار کے ذریعہ موصول ہوا۔ عظیم الشان اجتماع میں ۲۷/ اگست بروز اتوار بعد دوپہر جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر جو کہ ہمارے جلسہ کے انتہائی عروج کا وقت تھا پڑھا گیا۔ تمام سامعین نے آپ کے پاک اور پاکیزگی بخشنے والے الفاظ کو نہایت پسند کیا<۔۲۷۰ )ترجمہ(
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا پہلا سفر امریکہ
۲۹/ اگست ۱۹۳۳ء سے ۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء تک کے ایام احمدیہ مسلم مشن امریکہ کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے کیونکہ ان ایام میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب پہلی بار لندن سے امریکہ تشریف لے گئے۔ آپ کا یہ مبارک سفر بظاہر سیاسی نوعیت کا تھا۔ مگر اس کے دوران آپ نے شکاگو میں خدمت دین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ چنانچہ آپ نے تین پبلک جلسوں کو خطاب فرمایا۔ اتحاد و مذاہب عالم کے جلسہ میں بھی اسلام پر لیکچر دیا۔ دو تقاریر شکاگو مشن میں کیں۔ ان باقاعدہ تقریروں کے علاوہ شبانہ روز ملاقاتوں میں آپ اسلام سے دلچسپی رکھنے والوں کو پیغام ہدایت دیتے رہے اور ہفتہ بھر تبلیغ اسلام کا غلغلہ رہا جن لوگوں کو چوہدری صاحب کی پر معارف تقاریر سننے یا ملاقات کرنے کا موقعہ ملا۔ وہ دل و جان سے آپ کے والہ و شیدا اور آپ کے اخلاق فاضلہ` تبحر علمی اور روحانی جاذبیت سے سچ مچ مسحور ہو گئے۔۲۷۱
چودھری صاحب کے اس پہلے سفر امریکہ کا ایک بھاری فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کی ملاقات سے نو مسلموں کے ایمان میں زیادتی اور تقویت ہوئی۔ اسی طرح وہ لوگ جو عرصہ سے زیر تبلیغ تھے اور اسلام کے متعلق احترام و اخلاص رکھتے تھے۔ وہ اور بھی قریب آگئے۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ چودھری صاحب جیسی شخصیت نے احمدیہ مشن امریکہ کا بذات خود معائنہ فرمایا اور مرکز کو احمدیہ مشن کی مشکلات سے باخبر کیا۔۲۷۲
پہلا باب )فصل ہشتم(
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کا سفر ولایت
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب )خلف قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ( ۳۰/ اگست ۱۹۳۳ء کو قادیان سے بغرض تعلیم
انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔۲۷۳
تاریخ احمدیت میں چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پوتا بیرونی ممالک میں تعلیم کی خاطر جارہا تھا اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت قمر الانبیاءؓ نے صاحبزادہ صاحب کی روانگی پر اپنے قلم سے ان کو اہم ہدایات تحریر کرکے عطا فرمائیں۔ حضورؓ کے ارشادات کا ملخص یہ تھا۔
۱۔
آپ کو لوگ اس نگاہ سے دیکھیں گے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہیں پس ہمیشہ اس امر کا خیال رکھیں کہ آپ کے ہاتھ میں اپنی عزت کی حفاظت کا ہی کام نہیں ہے بلکہ سلسلہ کی عزت بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عزت کی حفاظت کی بھی ذمہ داری ہے۔
۲۔
ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی مادیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے پس آپ کو دعائوں پر خاص زور دینا چاہئے۔
۳۔
ہمیشہ کوشش کریں کہ نمازوں میں باقاعدگی ہو۔ نمازیں وقت پر ادا ہوں اور اگر ہو سکے تو باجماعت ادا ہوں۔
۴۔
قرآن شریف کا سمجھ کر مطالعہ کرتے رہیں کہ اس میں سب نور اور ہدایت ہے۔ اگر غور سے پڑھیں گے تو معلوم ہو گا کہ یورپ باوجود ترقی کے اس مقابلہ میں ابھی تاریکی میں پڑا ہوا ہے۔
۵۔
ہر ممکن کوشش احمدیوں سے ملتے رہنے کی کرتے رہیں۔ خصوصاً مسجد میں آنے کی۔
۶۔
ہمیشہ اچھے دوستوں سے تعلق پیدا کریں اور اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کرتے رہیں اور اچھے نوجوانوں کو انگریز ہوں یا ہندوستانی مسجد میں لے جانے کی کوشش کریں کہ اس سے دل کو نور حاصل ہوتا ہے۔
۷۔
مقامی مبلغ وہاں کا امام اور امیر ہے اس کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے۔
۸۔
وہاں عورتوں کی وبا کثرت سے ہے اس سے بچنا تو مشکل ہے کیونکہ وہ ہر مجلس میں موجود ہوتی ہیں لیکن جوان عورتوں سے الگ ملنے یا ان کے ساتھ سیر وغیرہ پر جانے سے احتراز کرنا چاہئے۔
۹۔
کھانے میں حلال حرام کا خاص خیال رکھیں اور شکل میں ڈاڑھی کا۔
۱۰۔
جہاز اس مقدس سرزمین کے پاس سے گزرے گا جس سے ہمیں نور ملا ہے اور جہاں ہمارا سب سے پیاراﷺ~ مدفون ہے دونوں جگہ سے جہاز کے گزرنے کا علم جہاز کے افسروں سے ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس جگہ اس سرزمین کو دیکھ کر دعائیں کریں۔ تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو ایک جگہ تسبیح و تحمید اور دوسری جگہ درود پڑھیں کہ اس احسان عظیم کا جو ہم پر ہوا ہے اعتراف ہو۔ ان شکرتم لا زیدنکم۔۲۷۴
حضرت قمر الانبیاءؓ کی تحریر فرمودہ و نصائح کا ایک حصہ تو وہ تھا جن کی طرف حضرت امیر المومنینؓ نے بھی اپنے مخصوص انداز میں توجہ دلائی تھی مگر ایک اہم حصہ ایسا تھا جس میں بعض اور مفید باتوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ مثلاً آپ نے فرمایا۔
۱۔
>لباس گرد و پیش کے حالات اور ملک کی آب و ہوا پر منحصر ہے مگر انگریزی لباس میں ایک چیز ایسی ہے جسے حدیثوں میں دجال کی نشانی قرار دیا ہے۔ اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اسے ناپسند فرماتے تھے اور وہ انگریزی ٹوپی ہے۔ لہذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا<۔
۲۔
>انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میں ہے مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کون سا ہے؟ اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہئے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی۔ بلکہ سارا دارومدار طالب علم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگاہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیاری کراتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے علاوہ ازیں تمہیں چاہئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جائو جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ اس لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور گزشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہئے<۔
۳۔
حضرت صاحب کو باقاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو اور دعا کی تحریک کرتے رہو۔ اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ ام المومنینؓ کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو۔ گاہے گاہے سلسلہ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو۔ ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہو سکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کرکے بھجوا دیئے جائیں<۔۲۷۵
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۳ء کی شام کو انگلستان پہنچے۔۲۷۶ آپ کے قیام لنڈن سے چند ماہ بعد ۱۵/ نومبر ۱۹۳۳ء کو صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب )ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ( بھی حصول تعلیم کے لئے ولایت تشریف لے گئے۔۲۷۷
حضرت مسیح موعودؑ کی نظموں کا ریکارڈ
ستمبر ۱۹۳۳ء کا واقعہ ہے کی >دی گراموفون کمپنی لمیٹڈ بمبئی< نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعض نظمیں نہایت نازیبا طریقہ پر گراموفون میں ریکارڈ کیں۔ اور وہ کلام جو لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ ڈھولک اور باجہ کے ساتھ گا کر کھیل کے رنگ میں پیش کیا گیا۔۲۷۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓنے ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۳ء۲۷۹ کے خطبہ جمعہ میں اس حرکت پر سخت نقد کیا ازاں بعد احمدی جماعتوں کی طرف سے بھی صدائے احتجاج بلند کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنی نے خود ہی یہ ریکارڈ تلف کرا دیئے۔
آل بنگال احمدیہ کانفرنس
۲۹۔ ۳۰/ ستمبر و یکم اکتوبر ۱۹۳۳ء کو بنگال احمدیہ کانفرنس کا سترھواں سالانہ جلسہ منقعد ہوا۔ جس کی صدارت کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ قادیان سے تشریف لے گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس موقعہ پر احمدیان بنگال کے نام ایک مختصر مگر جوش انگریز اور ولولہ انگیز پیغام بھجوایا جس میں خاص طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ۔
>آپ لوگ یاد رکھیں کہ ہر خلیفہ کا مذہبی فرض ہو گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق امامت کو خلافت کے نقطہ پر اور تفصیلی انتظام کو صدر انجمن احمدیہ کے نقطہ پر قائم رکھے اور کسی ایسے خیال کو جو اس کے خلاف ہو چلنے نہ دے ہر قربانی جو خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اس مقصد کے حصول کے لئے معمولی سمجھی جائے گی۔ پس ہر ایک بہی خواہ سلسلہ کو اور ہر اس شخص کو جو روحانی موت اپنے لئے پسند نہیں کرتا میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایسا کوئی خیال اس کے دل میں ہے تو اسے اپنے دل سے نکال دے ورنہ یہ اس کی اپنے ساتھ بھی غداری ہوگی۔ اور اپنی قوم کے ساتھ بھی غداری ہو گی<۔۲۸۰
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر برہمن بڑیہ سے واپس آتے ہوئے کلکتہ سے قادیان تک کی تمام بڑی جماعتوں کا دورہ بھی فرمایا۔
سرزمین کابل میں ایک نہایت اہم نشان کا ظہور
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۳/ مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا۔ >آہ نادر شاہ کہاں گیا<۔۲۸۱ یہ عظیم الشان پیشگوئی )اٹھائیس برس بعد( اس سال ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو لفظاً لفظاً پوری ہو گئی۔ جبکہ والئی افغانستان نادر شاہ دن کے تین بجے ایک طالب علم کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔
اس دردناک حادثہ قتل کی اطلاع پہنچنے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے اظہار افسوس اور دلی ہمدردی کا تار جلالت ماب محمد ظاہر شاہ شاہ کابل کو دیا گیا۔ جس میں یہ امید بھی ظاہر کی کہ شاہ معظم اپنے والد ذی شان کے نیک کام کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔۲۸۲
حکومت افغانستان کی طرف سے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل مکتوب موصول ہوا۔
>ہزمیجسٹی شاہ افغانستان آپ کے ان دلی جذبات ہمدردی کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جن کا اظہار آپ نے اپنی طرف سے نیز اپنی جماعت کی طرف سے اعلیٰ حضرت مرحوم کی دردناک وفات پر فرمایا ہے<۔۲۸۳
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس پیغام تعزیت کے علاوہ >سرزمین کابل میں ایک تازہ نشان کا ظہور< کے عنوان سے ایک مفصل مضمون بھی تحریر فرمایا۔ جو الفضل )۲۳/ نومبر ۱۹۳۳ء( کے بعد اردو اور سندھی میں پمفلٹ کی صورت میں بکثرت شائع کیا گیا۔
اس مضمون میں حضور نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح نادر خاں انتہائی کس مپرسی اور بے سرو سامانی اور بالکل مخالف حالات میں مسند حکومت پر بیٹھے پھر الہام کے مطابق نادر خاں سے نادر شاہ بنے اور پھر اچانک حادثہ سے وفات پا گئے اس ضمن میں اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی کہ >اس پیشگوئی سے یہ بات معلوم ہوتی تھی کہ جس وقت نادر شاہ صاحب کی وفات ہو گی۔ اس وقت ملک کو ان کی اشد ضرورت ہو گی۔ واقعات سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے چنانچہ بڑا ثبوت اس امر کا یہ ہے کہ شاہ موصوف کی وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر محمد اقبال صاحب افغانستان سے واپس آئے تو انہوں نے اخبارات میں یہ امر شائع کرایا کہ اگر دس سال بھی نادر شاہ صاحب کو اور مل گئے تو افغانستان کی حالت درست ہو جائے گی اور وہ ترقی کی چوٹی پر پہنچ جائے گا اس اعلان کے دوسرے دن وہ مارے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب واقف لوگ اس امر کو محسوس کرتے تھے کہ نادر شاہ صاحب کی زندگی کی ابھی ملک کو بہت ضرورت ہے لیکن پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہ تھا کہ وہ اس وقت تک رہتے<۔۲۸۴
محلہ دارالسعتہ
پچھلے سال قادیان میں محلہ دارالانوار کی بنیاد رکھی گئی تھی اس سال حضرت سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۹/ نومبر ۱۹۳۳ء کو ریلوے لائن کے مشرقی جانب ایک نئے محلہ دارالسعتہ کا سنگ بنیاد رکھا۔۲۸۵
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سفر انگلستان و امریکہ سے واپسی اور شاندار استقبال
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب انگلستان میں مسلمانان ہند کی بالخصوص اور اہل ہند کی بالعموم سنہری خدمات سرانجام دینے کے بعد دسمبر ۱۹۳۳ء کے دوسرے ہفتہ میں واپس ہندوستان
تشریف لائے تو مسلمانان ہند نے ان کا شاندار استقبال کیا اور مسلمان لیڈروںں کی طرف سے آپ کو سنہری ہار پہنائے گئے چنانچہ اس ضمن میں دہلی اور لاہور کے بعض مسلم اخبارات کے تین نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
اخبار >عادل< ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء نے لکھا۔
۹/ دسمبر )دہلی( آج رات کو ساڑھے نو بجے فرنٹیر میل سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رائونڈ ٹیبل کانفرنس سے واپس تشریف لائے۔ دہلی اسٹیشن پر مسلمانوں کا ایک جم غفیر استقبال کے لئے موجود تھا جن میں حسب ذیل اصحاب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب ممبر گورنمنٹ ہند۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب سی۔ آئی۔ ای ممبر اسمبلی۔ محمدیامین خان صاحب ممبر اسمبلی۔ کنور اسمعیل خان صاحب ممبر اسمبلی۔ مولانا شفیع دائودی صاحب ممبر اسمبلی۔ خان صاحب ایس۔ ایم عبداللہ صاحب۔ خان صاحب حاجی رشید احمد صاحب۔ خان صاحب حافظ محمد صدیق صاحب ملتانی۔ مسٹر صالح حیدری انڈر سیکرٹری زراعت۔ اشتیاق احمد صاحب چشتی۔ مسٹر نادر شاہ۔ مفتی شوکت علی صاحب فہمی ایڈیٹر عادل۔ محمد انوار صاحب ہاشمی اڈیٹر اسلامی دنیا۔ ڈاکٹر شفیع احمد صاحب ایڈیٹر روزانہ اخبار سلطنت۔ ضیاء الدین صاحب ایڈیٹر الخلیل۔ حافظ حکیم سید محمد ہلال صاحب۔ پیرزادہ درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحب۔ حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب۔ خان بہادر حافظ عبدالحکیم صاحب۔ میر منشی کمانڈر انچیف خان صاحب۔ میر نواب علی صاحب۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے ممبران اسمبلی کی طرف سے اور حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے دہلی کے مسلمانوں کی طرف سے سنہری ہار پہنائے<۔۲۸۶
۲۔
جناب خواجہ حسن نظامی صاحب نے روزنامہ >عادل< ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء کے صفحہ اول پر مسلم سیاست کی دو آنکھیں >میاں سر فضل حسین اور چوہدری ظفر اللہ خان< کے دوہرے عنوان سے تحریر فرمایا۔
>اگر خدا نے ہندو قوم کو گاندھی اور جواہر لال اور مالوی جیسے مخلص اور لائق لیڈر دیئے ہیں تو مسلمانوں کو بھی میاں سر فضل حسین اور چوہدری ظفر اللہ جیسے سراپا اخلاص اور لیاقت سے بھرپور لیڈر عطا فرمائے ہیں۔ یہ دونوں مسلمانوں کی سیاست کی دو آنکھیں ہیں بلکہ دو سانس ہیں جو بظاہر دو مگر درحقیقت ایک ہی ہیں اور مسلمان قوم ان دونوں کے وجود پر فخر کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہے کہ اس نے اس قحط الرجال میں ایسے رہنما اس کو دیئے ہیں۔ جو حریفوں میں بھی بے مثل مانے جاتے ہیں۔
میاں سر فضل حسین نے ہندوستان میں اور چوہدری ظفر اللہ نے انگلستان میں مسلمانوں کی بے کس قوم کی جو سیاسی خدمات انجام دی ہیں ان کو موجودہ مسلمانان ہند اور ان کی آئندہ نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ آج چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اپنی مسلمان قوم کی خدمات انجام دے کر انگلستان سے واپس آئے ہیں۔ اور پایہ تخت دہلی کے مسلمان تمام مسلمانان ہند کی طرف سے اپنی آنکھوں کا فرش ان کے راستہ میں بچھاتے ہیں۔ حسن نظامی ۹/ دسمبر ۱۹۳۳ء۲۸۷
۳۔
اخبار >سیاست< لاہور نے ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا۔
>ہم بہ مسرت تمام چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب کو ولایت سے مع الخیر واپس تشریف لانے پر مبارکباد عرض کرتے اور ان کی قوم اور ان کے ملک کی طرف سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حکومت ہند نے اگرچہ مسلمانوں کو پارلیمنٹ کی ہندوستان کے متعلق مجلس منتخبہ مشترکہ کے لئے نمائندے چننے کا حق نہیں دیا۔ تاہم اس نے خود ایسے مسلمان چنے جنہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کا حق کماحقہ ادا کیا۔ تمام مسلم نمائندے جس اتحاد و یگانگت سے کام کرتے رہے ہیں وہ مسلمانوں کی کامیابی کا بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہے اور یوں ہر مسلمان رکن مجلس وغیرہ ہمارے دلی شکریہ کا مستحق ہے۔ لیکن ان نمائندوں میں سے چودھری ظفر اللہ خاں اور ڈاکٹر شفاعت احمد خاں نے جس قابلیت اور صفائی سے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو پیش کیا اور جس طرح دلائل سے ہمارے مطالبات کی صداقت کو واضح کیا۔ وہ انہی کا حصہ تھا۔ اور ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں ان کی کامیابی اور مع الخیر مراجعت پر مبارکباد و خوش آمدید عرض کرتے ہیں<۔۲۸۸
علم طب کی سرپرستی
قادیان نے ہمیشہ فن طب کی سرپرستی کی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاندانی روایات کے مطابق طب میں گہرا شغف تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے شفاء کا اعجازی نشان تو اتنی کثرت اور تواتر سے حضور کے ہاتھ پر ظاہر ہوا کہ ایک جہان انگشت بدنداں رہ گیا۔ اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ انیسویں صدی کی دنیائے طب میں مسلمہ شخصیت تھے جن کی طبابت اور حکمت کا شہرہ چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا تھا لہذا جب آپ قادیان میں ہجرت کرکے آگئے تو قادیان طبابت کا بھی مرکز بن گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو طب خاندانی ورثہ میں ملی اور حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی شاگردی نے اسے چار چاند لگا دیئے۔ اور آپ کے عہد خلافت میں فن طب نے بہت فروغ پایا۔
اسی حقیقت کے پیش نظر پنجاب کے مشہور حکیم حاذق سید علی احمد صاحب نیر واسطی )لاہور( نے اس سال حضور کی خدمت میں مندرجہ ذیل مراسلہ بھیجا۔
از دفتر دیسی دواخانہ چونا منڈی لاہور زیر سرپرستی حکیم سید علی احمد صاحب نیر واسطی جناب المکرم! تسلیم و نیاز
مجھ سے زیادہ جناب پر یہ حقیقت روشن ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اسی وقت زندہ رہ سکتی ہے جبکہ اس کے علوم و فنون کا تحفظ کیا جائے مسلمان اگر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یقیناً انہیں اپنے علوم و فنون کی جانب اعتنا کرنا پڑے گا۔ انہیں اپنے علم کلام` علم معانی` منطق` فلسفہ اور اس ضمن میں اپنے علم طب پر خصوصی توجہ مبذول کرنی ہوگی۔
قادیان نے ہمیشہ سے علم طب کی سرپرستی کی ہے۔ خود مرزا صاحب ایک بہت بڑے فاضل جید اور حادق طبیب تھے۔ حکیم نور الدین صاحب بھیروی کا مرتبہ اطبائے کاملین کی صف اول میں خصوصاً بہت بلند ہے ان کے مجربات کے نسخوں اور ان نسخوں کی ترکیبوں کو دیکھ کر جالینوس اور شیخ کے عہد کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی ذات گرامی سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس فن عزیز کی سرپرستی کے لئے اب عملی قدم بڑھائیں۔
لکھنا بہت کچھ تھا لیکن سردست ان چند سطور پر اکتفا کیا گیا۔
سردار محمد خاں
بحکم حکیم علی احمد صاحب نیر واسطی
اس خط کا حضورؓ نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل جواب دیا۔
>آپ کا خط ملا۔ حسب توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب ہی کاموں کی طرف توجہ کا ارادہ رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ ارادوں کا پورا کرنے والا ہے۔ سب کام روپیہ چاہتے ہیں اور روپیہ ان ابتدائی ضرورتوں کو جن کے لئے سلسلہ کا قیام ہے بہ مشکل پوراہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو طب کا خاص خیال تھا مجھے جو علم علاوہ قرآن کریم اور حدیث کے حکماء سے پڑھوایا وہ طب تھا فرماتے تھے یہ ہمارا خاندانی شغل ہے چنانچہ دو تین ابتدائی کتب حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ سے طب کی میں نے پڑھیں پھر دوسرے کاموں میں لگ گیا ارادہ ہے کہ اپنے ایک بچے کو علم طب ایسے اصول پر پڑھوائوں کہ طب کا صحیح حصہ قائم رکھا جائے آپ کی رائے کا معلوم کرنا موجب خوشی ہو گا<۔
اخبار >الفضل< کی اسلامی خدمات
اخبار >الفضل< نے اپنی مستقل پالیسی کے مطابق ۱۹۳۳ء میں بھی مسلمانوں کے اہم مسائل اور ان کے قومی مفاد میں گہری دلچسپی لی۔ اس ضمن میں چند اہم معاملات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
السنہ شرقیہ کا تحفظ: یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اورینٹل کالج لاہور اور السنہ شرقیہ کی حیثیت اور وقت کم کرنے کی تجاویز پنجاب یونورسٹی کے تحقیقاتی کمشن کے زیر غور ہیں۔ اخبار الفضل نے اس پر لکھا کہ >مسلمان قطعاً برداشت نہیں کریں گے کہ وہ زبانیں جو ان کی تہذیب ان کے تمدن` ان کی شاندار روایات` ان کے اسلاف کے بے مثال کارناموں اور ان کے علوم کی حامل ہونے کے علاوہ ان کے مذاہب کو بھی محفوظ کئے ہوئے ہیں انہیں ایسے صوبہ میں جہاں تمام دوسری اقوام کے مقابلہ میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے نذر تغافل ہونے دیں<۔]4 [stf۲۸۹
مملکت آصفیہ اور مسئلہ برار: مملکت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے مابین مسئلہ برار مدتوں زیر بحث چلا آرہا تھا۔ اخباری اطلاعات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت والی دکن اور ان کے لائق و جہاندیدہ وزیراعظم سر اکبر حیدری اور ان کے رفقاء کار کی کوشش سے ایک باقاعدہ معاہدہ ہو رہا ہے جس کی رو سے برار کا علاقہ شہر یار دکن کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اخبار >الفضل< نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اور اس تصفیہ کو مملکت دکن اور اہل برار دونوں کے لئے بابرکت قرار دیا اور اہل برار کو مشورہ دیا کہ انہیں ایسے لوگوں کی باتوں کی کوئی وقعت نہیں دینی چاہئے۔ جو سودیشی حکومت کے نعرے بلند کرتے ہیں مگر نہیں چاہتے کہ سب سے بڑے ہندوستانی فرمانروا کو اپنا علاقہ واپس مل جائے۔۲۹۰
مسلمان افسر کی برطرفی پر احتجاج: سرحد کے ایک اعلیٰ مسلمان افسر )شیخ تاج محمد صاحب کنٹرولر آف اکونٹس( برطرف کر دیئے گئے۔ اس پر >الفضل< نے سخت احتجاج کیا اور لکھا کہ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ ۹۵ فیصد مسلمان آبادی والے صوبہ کے اعلیٰ مسلمان افسر بھی باسانی غیر مسلموں کی سازش کا شکار بنائے جا سکتے ہیں۔۲۹۱
ہندوئوں کے حملہ کی مذمت: عید الاضحیہ کی تقریب پر حکومت کے وسیع انتظامات کے باوجود ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا اس ظالمانہ روش پر اظہار افسوس کرنے کی بجائے اخبار >ملاپ< )۲/ اپریل ۱۹۳۳ء( نے لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عید کی قربانی ہی بند کر دینی چاہئے۔ >الفضل< نے اس ذہنیت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا۔ کاش ہندوئوں میں رواداری کا مادہ ہوتا کہ وہ اقلیتوں کو حقوق نہیں بلکہ مراعات دے کر اپنا اعتماد جما لیتے۔۲۹۲
ریاست بہاولپور کے خلاف ہندو شورش: ہندوئوں نے تحریک آزادی کشمیر کے ردعمل کے طور پر ریاست بہاولپور کے خلاف شورش برپا کر رکھی تھی جس کی حقیقت اخبار الفضل نے واضح کی۔۲۹۳
اتحاد المسلمین کی جدوجہد: صدر خلافت کمیٹی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ >مسلمانوں کی نجات ان کی اپنی تنظیم میں مضمر ہے لہذا مسلمانوں کو اپنے تمام اختلافات دفن کرکے متحد طور پر کام کرنا چاہئے<۔ الفضل نے اس مشورہ کا پرجوش خیر مقدم کیا۔۲۹۴
مسلم لیگ میں یکجہتی کے لئے کوشش: قائداعظم محمد علی جناح کے قیام لنڈن کے دوران مسلم لیگ کو بہت نقصان پہنچ رہا تھا اور یہ تنظیم اندرونی الجھنوں کا شکار بن کر عضو معطل بن رہی تھی۔ اخبار >الفضل< نے اس نازک مرحلہ پر مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی ہماری سب سے پہلی سیاسی انجمن ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی حقوق کی حفاظت کی بلکہ ان میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ لہذا آج جبکہ مخالف طاقتیں نہایت منظم طریق سے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے برسرپیکار ہیں یہ طریق نہ صرف ارکان مسلم لیگ کی شان کے شایاں نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے سخت نقصان رساں اور ان کے سیاسی حقوق کو تباہ کرنے والا ہے۔۲۹۵
ریاست مانگرول کی تائید: مانگرول کاٹھیا واڑ میں ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست تھی۔ ہندو ذبیحہ گائے کا سوال اٹھا کر اس میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور آریہ اخبار نواب صاحب مانگرول کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے تھے جس کے خلاف اخبار الفضل نے آواز بلند کی۔۲۹۶
سیو اسنگھی تنظیم کی مخالفت: اجمیر میں ہندوئوں کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ جس میں مسلمانوں کے خلاف جدید محاذ جنگ قائم کرتے ہوئے سیوا سنگھ کے نام سے رضا کاروں کی ایک فوج تیار کرنے اور مسلمانوں کو جلد سے جلد شدھ کرکے ہندو بنانے کا فیصلہ کیا۔ اخبار >الفضل< نے مسلمانوں کو ہندوئوں کے ان ناپاک عزائم سے خبردار کرنے کے لئے ایک مفصل شذرہ سپرد قلم کیا۔۲۹۷
سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء
اس سال کا سالانہ جلسہ رمضان المبارک کے مہینہ میں آیا۔ جس کی وجہ سے بعض نئی قسم کی دقتیں پیش آئیں مگر ان پر قابو پا لیا گیا۔ اور سخت سردی کے باوجود منتظمین اور کارکن سخت مشقت اٹھا کر روزہ داروں کے لئے افطار اور سحری کے وقت کھانا پہنچاتے رہے۔
جلسہ سے قبل حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے تقریر نہ کر سکوں گا۔ اس لئے سردست اس جلسہ کے لئے آلہ نشر الصوت کرایہ پر منگوانے کا انتظام کیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں صوفی محمد ابراہیم صاحب بی۔ ایس۔ سی لاہور بھجوائے گئے مگر جب انہوں نے بذریعہ تار اطلاع دی کہ PAR کمپنی والے تین دن کے لئے پانچ سو روپیہ کرایہ لائوڈ سپیکر کا طلب کرتے ہیں نیز پتہ چلا کہ اچھا مائیکرو فون ان دنوں لاہور میں دستیاب نہیں ہو سکتا۔ لہذا حضور نے اس سال لائوڈ سپیکر کرایہ پر منگوانے کی اجازت نہ دی اور فرمایا مستقل انتظام کے لئے غور کیا جائے۔۲۹۸ تاہم اس وقت کے باوجود حضورؓ نے حسب دستور سالانہ جلسہ پر تین بار خطاب فرمایا۔ آخری تقریر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وحی سے متعلق تھی نہایت پرمعارف اور بے حد ایمان افروز تھی یہ تقریر تین بجے سے سوا پانچ بجے تک جاری رہی۔۲۹۹
اس جلسہ پر ۲۸/ دسمبر کی رات تک بیعت کرنے والوں کی تعداد ۳۶۴ شمار کی گئی جن میں معزز تعلیم یافتہ اور بارسوخ غیر احمدی اصحاب کے علاوہ بعض غیر مبایعین بھی شامل تھے۔۳۰۰
بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیوں پر سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا تبصرہ
۱۹۳۳ء میں جماعت احمدیہ کے بلاد غیر میں پانچ مستقل مشن قائم تھے ۱۔ امریکہ ۲۔ جاوا ۳۔ انگلستان ۴۔ شام و مصر ۵۔ مغربی افریقہ۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء کے موقعہ پر ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>سال حال میں تبلیغ کے عملی نتائج بھی اچھے نکلے ہیں امریکہ میں کئی نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں سات آٹھ نئی جماعتیں بنی ہیں اسی طرح جاوا میں بہت کامیابی حاصل ہو رہی ہے یہ برکتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ مولوی رحمت علی صاحب طالب علمی کے زمانہ اور اب بھی اتنے سادہ ہیں کہ لوگ عام طور پر ان کی باتوں پر ہنس پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ غرض وہ بہت سادہ ہیں مگر وہ جہاں جہاں بھی گئے وہاں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا اور لوگ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کا مقابلہ ان کے علماء نہیں کر سکتے` کچھ عرصہ ہوا یہاں ڈچ قونصل مجھے ملنے کے لئے آیا۔ اس نے بھی مجھ سے ذکر کیا کہ مولوی رحمت علی بہت بڑا عالم ہے وہاں کا ایک پادری یہاں آیا۔ اس نے بھی یہی کہا۔ بات اصل یہ ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب اپنے آپ کو ہیچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر اس کی راہ میں کام کرتے ہیں اس پر خدا تعالیٰ اپنی خاص برکتیں نازل کرتا اور ہر موقعہ پر ان کو کامیابی عطا کرتا ہے انہوں نے پہلے سماٹرا میں ایک بہت بڑی جماعت قائم کی۔ اب وہ جاوا بھیجے گئے یہ تعلیم یافتہ علاقہ ہے۔ مولوی صاحب اگرچہ اس علاقہ کی زبان سے ناواقف تھے مگر باوجود اس کے گزشتہ تین ماہ کے اندر انہوں نے تین زبردست مباحثے کئے ہیں ان کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دو جگہ بڑی زبردست جماعتیں قائم ہوگئی ہیں یہاں ہندوستان میں ایک مبلغ دو دو سال تک تبلیغ کرتا رہتا ہے تو ایک دو احمدی ہوتے ہیں مگر وہاں بوگرا اور بٹاویہ دو مقامات میں تھوڑے عرصہ میں بڑی بڑی جماعتیں پیدا ہو گئیں جن کی تعداد دو دو اڑھائی اڑھائی سو افراد کے قریب ہے اور وہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ مگر مولوی رحمت علی صاحب جب آئیں گے تو پھر بھی ویسے ہی سادہ ہوں گے جیسے پہلے تھے۔ ان کے مباحثات کا ذکر جب غیر احمدی اخبارات میں چھپتا ہے تو بہت تعریف کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں مولوی رحمت علی صاحب مباحثہ میں اس طرح بولتے ہیں جس طرح آسمان سے گرج کی آواز آتی ہے ان کے مقابلہ میں ہمارے بیس بیس اور تیس تیس مولوی تھراتے اور کانپتے ہیں۔ وہ اخبارات مولوی رحمت علی صاحب کا اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ گویا وہ جماعت احمدیہ کے تمام علماء کا نچوڑ ہیں۔ یہ اسی اخلاص اور بے نفسی کا نتیجہ ہے جس سے مولوی صاحب کام کرتے ہیں۔ مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ایک غیر احمدی اخبار نے لکھا ایک مباحثہ میں بیس سے زیادہ مولوی مقابلہ پر تھے۔ مگر وہ مولوی صاحب سے کانپتے تھے اور ڈرتے تھے۔ جاوا اور سماٹرا کے علاوہ اور جزائر میں بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
امریکہ میں تبلیغ کا جو کام ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں نہیں بیان کرتا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب خود دیکھ آئے ہیں اور انہوں نے اس کے متعلق تقریر بھی کی ہے وہ اس کام سے بہت ہی متاثر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ صوفی مطیع الرحمن صاحب کو اسلامی لٹریچر اور اسلامی مسائل کے متعلق یہ درجہ حاصل ہے کہ اسلامی لٹریچر کے بڑے بڑے ماہرین ان کے سامنے کوئی بات پیش کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ صوفی صاحب اسے غلط نہ قرار دے دیں۔
انگلستان میں اس سال مبلغین کی تبدیلی ہوئی ہے اس وجہ سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کام کو سنبھال رہے ہیں۔ میں نے انہیں اب کے ہدایت کی تھی کہ علمی طبقہ میں کام کریں۔ اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں چنانچہ پادریوں کے ایک کلب میں انہوں نے تقریر کی جس کا اچھا اثر ہوا امید ہے کہ وہاں بھی علمی طبقہ پر احمدی مبلغین کا سکہ بیٹھ جائے گا۔ مولوی اللہ دتہ صاحب۳۰۱ شام اور مصر میں اچھا کام کر رہے ہیں وہاں احمدیت کی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔ بعض احمدیوں کو پیٹا بھی گیا ہے۔ حکومت بھی خلاف ہے۔ حیفہ میں ایک بہت بڑی جماعت قائم ہے جس کے بہت سے افراد مولوی جلال الدین صاحب شمس کے وقت کے ہیں مگر مولوی اللہ دتہ صاحب کام کو خوب پھیلا رہے ہیں۔
افریقہ کے مبلغ حکیم فضل الرحمن صاحب بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں وہاں بیس ہزار کی جماعت قائم ہو چکی ہے احمدیوں کے چھ سکول ہیں۔ وہاں کے احمدیوں میں سے ہی کئی ایک بطور مبلغ کام کرتے ہیں<۔۳۰۲
بعض مخلص احمدی نوجوانوں اور نئے مبلغوں کا ذکر
۳۳۔ ۱۹۳۲ء کو تاریخی نقطہ نگاہ سے یہ بھاری خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کے بعض ایسے مخلص نوجوان آگے آئے جنہوں نے آئندہ چل کر سلسلہ کی شاندار خدمات سر انجام دیں اور جن کا نام بنام ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء پر ارشاد فرمایا۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجاب میں ایک نئی روح پیدا ہو رہی ہے کچھ عرصہ پہلے مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن دو سال سے بیداری پائی جاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے مخلص نوجوان پیدا ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے نام آج میں لے دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنت پر کہ آپ بھی مخلصین کا نام لے کر ذکر کر دیا کرتے تھے پھر اس لئے بھی کہ جن کے نام لئے جائیں ان میں غیرت پیدا ہو جائے کہ اس عزت کو قائم رکھنا ہے۔ کئی مخلص نو جوان ہیں جن میں سے بعض کے لئے ان کی سرگرمیوں کے متعلق حد بندیوں کی ضرورت ہے اور بعض کے لئے قوت عملیہ کے بڑھانے کی ضرورت۔ ان میں سے ایک تو ۔۔۔۔۔۔ چودھری فقیر محمد خان صاحب ہیں یہ نسبتاً پرانے احمدی ہیں اور نوجوانوں کے لئے اچھا نمونہ ہیں۔ ایک چوہدری اعظم علی صاحب ہیں یہ نئے جماعت میں داخل ہوئے ہیں انہوں نے اخلاص کا نہایت اچھا نمونہ دکھلایا ہے وہ شیعوں میں سے آئے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے اخلاص کا قابل تعریف نمونہ پیش کیا ہے اور میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ اور نئے آنے والے کیوں نہ ان کی طرح دین میں ترقی کر سکیں۔ بیعت کرنے کے چھ ماہ بعد جب میں نے ان کی شکل دکھی تو میں انہیں پہچان نہ سکا۔ کیونکہ ان کی شکل سے ایسا اخلاص اور ایسی دینداری ظاہر ہوتی تھی گویا کہ وہ پرانے احمدی ہیں۔ اسی طرح چودھری محمد شریف صاحب وکیل` مرزا عبدالحق صاحب وکیل` میاں عطاء اللہ صاحب وکیل` چودھری عبداللہ خان صاحب برادر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب` قاضی پروفیسر محمد اسلم صاحب` ڈاکٹر محمد منیر صاحب` عبدالرحمن صاحب خادم بشرطیکہ نفس پر قابو رکھیں۔ چودھری خلیل الرحمن صاحب بنگالی اور اسی طرح اور کئی نوجوان ہیں جن کے اندر سلسلہ کی خدمت اور روحانی ترقی کا جوش ہے۔ بعض نسلی احمدی ہیں بعض نئے احمدی ہیں۔ اور ان نوجوانوں کی حالت دوسرے نوجوانوں کے لئے نیک نمونہ بن سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے صحیح طریق پر ترقی جاری رکھی تو رئویا اور کشوف سے بھی حصہ پا سکیں گے۔ تمام احمدیوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی اولاد میں روحانیت پائی جائے۔ اور ہمارے نوجوان روحانیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ اصلی چیز یہی ہے ورنہ عملی بحثوں نے مولویوں کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔ اور نہ یہ بحثیں ہمیں کوئی فائدہ دے سکتی ہیں۔
نئے مبلغ جو پیدا ہو رہے ہیں ان میں بھی اچھے نوجوان نکل رہے ہیں۔ مولوی محمد سلیم صاحب ایک اچھے مبلغ ہیں۔ مولوی )شیخ( مبارک احمد صاحب کی قابلیت اس سے پہلے معلوم نہ تھی۔ اب ظاہر ہو رہی ہے ہماری جماعت میں ایک صاحب۳۰۳ تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ وہ مبلغین کے متعلق نکتہچینی کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے متعلق بھی نکتہ چینی کر دیتے تھے۔ اب کے وہ مجھ سے ملنے کے لئے پالم پور گئے۔ تو کہنے لگا میں نے اپنی جماعت میں مبارک احمد ایک مبلغ دیکھا ہے جو بہت قابل ہے میں نے کہا شکر ہے آپ کو ایک قابل مبلغ تو مل گیا۔ ایک اور مبلغ شیخ عبدالقادر صاحب ہیں۔ وہ ہندوئوں میں سے آئے ہیں اور اب مسلمانوں کے مولوی ہیں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی تحریر کا رنگ اچھا ہے۔ غرض نئے مبلغ نکل رہے ہیں اور اچھے اچھے نکل رہے ہیں۔ امید ہے کہ جماعت کو مبلغوں کے نہ ملنے کی جو شکایتیں رہتی ہیں وہ کسی حد تک دور ہو جائیں گی۔ گو ان کا کلیت¶ہ دور ہونا مشکل ہے کیونکہ ابھی مبلغ اس قدر نہیں ہیں کہ ہر جماعت کی شکایت دور کی جا سکے۔۳۰۴
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۹۳۳ء میں وفات پانے والے بعض جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت چوہدری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ )تاریخ وفات یکم مارچ ۱۹۳۳ء(۳۰۵
۲۔
حضرت مولوی محمد علی صاحب مہاجر بدوملہویؓ )تاریخ وفات ۳۰/ اپریل ۱۹۳۳ء(۳۰۶
۳۔
حضرت حافظ محمد حسین صاحب قریشیؓ )تاریخ وفات ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء(۳۰۷
۴۔
حضرت منشی خادم حسین صاحب بھیرویؓ )تاریخ وفات نومبر ۱۹۳۳ء(۳۰۸
۵۔
حضرت قاضی محبوب عالم صاحبؓ امرت سری خلف اکبر حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ )تاریخ وفات ۱۲/ مئی ۱۹۳۳ء(۳۰۹
۶۔ ][ صحابیات میں سے اس سال والدہ ماجدہ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی جنوری ۱۹۳۳ء میں وفات ہوئی۔۳۱۰ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کی نسبت فرمایا۔ >وہ ایک نہایت مخلص اور نیک خاتون تھیں اگر انہیں ولیہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ایمان میں ان کو قدم صدق حاصل تھا ایسی بے شر اور نیک عورتیں اس زمانہ میں کم ہی دیکھی جاتی ہیں<۔۳۱۱
‏tav.7.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل نہم(
۱۹۳۳ء کے بعض متفرق مگر نہایت اہم واقعات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی عیادت
مولوی میاں عبدالمنان صاحب عمر )خلف حضرت خلیفتہ المسیح الاول( ۱۹۳۳ء کے شروع میں سخت بیمار ہو گئے۔ ۱۵/ جنوری کو خون کی قے بھی آئی یہ اطلاع ملنے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ بہ نفس نفیس عیادت کے لئے تشریف لے گئے اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کا قریباً سارا خاندان بھی۔ حضرت امیر المومنینؓ کے حکم پر مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ ادویہ اور ڈاکٹر لانے کے لئے لاہور گئے اور راتوں رات ڈاکٹر عبدالحق صاحب اسسٹنٹ سرجن کو ساتھ لے آئے۔۳۱۲ اس کے بعد میاں صاحب موصوف کو افاقہ ہونا شروع ہوا اور آپ جلد صحت یاب ہو گئے۔
دو نئی مساجد
اس سال ملک میں دو نئی احمدیہ مسجدوں کی تعمیر ہوئی۔ )۱( مسجد انبالہ )تاریخ بنیاد ۲۵/ مارچ ۱۹۳۳ء(۳۱۳
۲۔
مسجد بھدرک اڑیسہ )تاریخ بنیاد ۱۶/ جون ۱۹۳۳ء(۳۱۴
مسجد انبالہ اس زمین میں بنائی گئی جو مقامی جماعت کے امیر بابو عبدالرحمن صاحب نے اپنے مکان کے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔ اور اس کا نقشہ بھی تیار ہو چکا تھا۔ حاجی میراں بخش صاحب نے زرکثیر صرف کرکے یہاں مسجد تعمیر کرائی جس کا افتتاح ۳۰/ جولائی ۱۹۳۳ء کو ہوا۔10] p[۳۱۵
مسجد بھدرک مولوی نور محمد صاحب انسپکٹر ریلوے پولیس )خوردہ روڈ اڑیسہ( کی ذاتی کوشش اور اخراجات سے تیار ہوئی اور ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ تعمیر مسجد کے خلاف غیر احمدیوں نے پورا زور صرف کیا اور قانونی چارہ جوئی بھی کی مگر ناکام رہے۔۳۱۶
انسداد بیکاری
۱۹۳۳ء کی مجلس مشاورت میں بیکاری کے انسداد کی نسبت علاوہ دوسری تجاویز کے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ قادیان میں ایک ہفتہ وار بازار کا انتظام کیا جائے چنانچہ ۱۹۳۳ء کے وسط میں >سب کمیٹی انسداد بیکاری< کے زیر انتظام ریتی چھلہ )قادیان( میں ہر جمعہ کے روز بازار لگایا جانا شروع ہوا۔۳۱۷
کوٹلی ضلع گجرات میں مباہلہ
۲۸/ اگست ۱۹۳۳ء کو موضع کوٹلی )ضلع گجرات( میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کا مباہلہ ہوا۔ دونوں طرف سے اکیس اکیس افراد نے شرکت کی خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام احمدی افراد آخر سال تک بخیریت و عافیت رہے مگر غیر احمدی مباہلین میں سے دو )شرف دین اور احمد نامی( موت کا شکار ہوئے۔ ایک اور شخص )پیر بخش( بھی جو اگرچہ مباہلین کی فہرست میں نہیں تھا مگر دعا میں شامل ہو گیا تھا اور سخت مخالف تھا مر گیا اسی طرح ایک غیر احمدی مباہل کی بیوی لقمہ اجل ہو گئی اور ایک پر فالج گرا۔ ایک کا لڑکا مرا اور دوسرے کا پوتا۔ یہ گویا آسمانی فیصلہ تھا جو خدائی عدالت سے احمدیت کے حق میں صادر ہوا۔۳۱۸
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
جاوا مشن; جاوا میں اس سال دو معرکتہ الاراء مباحثے ہوئے۔ پہلا مناظرہ ۱۳۔ ۱۴۔ ۱۵/ اپریل کو بمقام بنڈنگ ہوا۔ جس میں پہلے مولوی رحمت علی صاحب نے مقامی انجمن >پمبیلا اسلام<۳۱۹ ISLAM) (PEMBELA کے مناظر حسن صاحب بنڈوم کو شکست فاش دی۔ غیر احمدی مناظر گھر سے سوالات لکھ کر لایا تھا مگر مولوی رحمت علی صاحب فی البدیہہ جواب دے رہے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ حاضرین احمدیوں کے تبحر علمی کے قائل ہو گئے اور کھلے بندوں اقرار کرنے لگے کہ ہمارا مناظر ہرگز اصل موضوع کی طرف نہیں آیا۔ احمدی مناظر نے نہایت معقول اور مسکت جواب دیئے ہیں دوسرے دن مولوی ابوبکر صاحب سماٹری مناظر تھے جن کے زبردست دلائل کی تاب نہ لا کر غیر احمدی مناظر گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہنے لگا کہ >اے خدا! میں کس سے مدد لوں<۔ صدر مباحثہ نے کہا۔ >اس وقت تمہاری کوئی بھی مدد نہیں کرے گا<۔ غیر احمدی مناظر پہلے دو دن غیر متعلق سوالات کرکے پبلک میں بہت ندامت اٹھا چکا تھا۔ اس لئے تیسرے دن اس نے اصل موضوع >وفات مسیح< پر گفتگو کرنا شروع کی۔ مگر جب اس کے اعتراضوں کا پہلی بار ہی تسلی بخش جواب دے دیا گیا تو وہ بے بس ہو کے رہ گیا۔
اس مناظرہ میں خاص پابندیوں اور شرطوں کے باوجود ایک ہزار اصحاب شامل ہوئے جن میں جاوا` سماٹرا` سنگاپور` بورنیو کے نمائندے بھی تھے۔ اور اخباروں کے نامہ نگار اور حکومت کے افسر بھی! سماٹرا اور جاوا کے مشہور عالم ڈاکٹر حاجی عبداللہ احمد صاحب اور احمد سور کاتی۳۲۰ بھی مناظرہ سننے کے لئے تشریف لائے غرضکہ اس مناظرہ میں احمدیت کو شاندار فتح نصیب ہوئی۔ اور احمدیت کا چرچا جزائر شرق الہند کے اکناف و اطراف میں پھیل گیا۔
مناظرے کے بعد مولوی رحمت علی صاحبؓ نے صدر جلسہ سے کہا کہ اب آپ ہمارے پاس بٹاویہ میں تشریف لائیں تمام اخراجات کے ہم ذمہ دار ہوں گے جیسا کہ اب انجمن حمایت اسلام نے اس کا خرچ برداشت کیا۔ چنانچہ طے پایا کہ دوسرا مناظرہ ماہ ستمبر میں کیا جائے۔۳۲۱
باہمی تصفیہ کے مطابق بٹاویہ میں ایک اور عظیم الشان مناظرہ ہوا جس میں احمدیت کو ایسی نمایاں کامیابی ہوئی کہ بعض غیر احمدی مقتدر لیڈروں اور مشہور ایڈیٹروں نے برملا اس کا اقرار کیا۔ چنانچہ ایک غیر احمدی لیڈر نے مناظرہ کے اختتام پر مندرجہ ذیل اعلان کیا۔
>میں ہر دو مناظروں میں موجود رہا ہوں اور فریقین کے دلائل کا موازنہ کرکے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مناظرین کے پاس نہ تو وہ دلائل ہیں جو صحیح معنوں میں احمدیوں کے دلائل کا جواب ہوں۔ اور نہ وہ کشش اور جذب ہے جس سے احمدی مناظر پبلک کے قلوب کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ان کے دلائل عقل انسانی کو اپنی طرف مائل کرتے اور انسانی فطرت کی گہرائیوں تک کو اپیل کرتے ہیں۔ اور اگر دو تین مناظرے اور ہوئے تو مجھے خطرہ ہے کہ ان جزائر کا ایک معتدبہ حصہ احمدیت کا حلقہ بگوش ہو جائے گا۔ پس میری رائے میں ہمیں چاہئے کہ ہم آئندہ کسی احمدی سے مناظرہ نہ کریں اور نہ علیحدگی میں ان سے تبادلہ خیالات کریں کیونکہ ہر دو صورتوں میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ روپیہ ہمارا خرچ ہوتا ہے وقت ہمارا خرچ ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آج فلاں جگہ دس احمدی ہو گئے آج فلاں جگہ بیس احمدی بن گئے<۔
اس مناظرہ میں بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی رحمت علی صاحب اور مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری پیش ہوئے۔ مولوی رحمت علی صاحبؓ نے >وفات مسیحؑ< پر سیر کن بحث کی چنانچہ جاوا کے ایک مشہور اور کہنہ مشق ایڈیٹر نے لکھا۔
>اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدی مناظر نے متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث سے نہایت ہی موثر اور دلکش پیرائے میں یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ واقعی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام وفات پا گئے۔ ہمارے مناظر نے اپنی طرف سے حیات مسیح کے اثبات میں پورا زور لگایا مگر حقیقت یہ ہے کہ احمدی مناظر کے دلائل سننے کے بعد گو ہمارا اعتقاد تواب بھی یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ زندہ آسمان پرموجود ہیں لیکن عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی کہ کس طرح ایک انسان دو ہزار سال بے کھائے پیئے آسمان پر زندہ رہ سکتا ہے<۔
مولوی ابوبکر ایوب صاحب کی قابلیت اور وسعت معلومات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسرے ہی دن کئی اخباروں نے کالم کے کالم مولانا کی تعریف اور مناظرہ کی سرگزشت میں صرف کئے چنانچہ مذکورہ ایڈیٹر نے لکھا۔
>آج کی رات پہلے تجربہ کی بناء پر میں وقت مقررہ سے بہت پہلے ہال میں پہنچ گیا۔ مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ احمدیوں کی طرف سے ایک گورے رنگ کا نوجوان )جس کے متعلق مشہور ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کا سند یافتہ ہے( کھڑا ہوا۔ نہایت سلاست اور روانی سے ایک ایسے انوکھے اور مشکل مضمون پر تقریر کر رہا ہے کہ جو ہم نے زندگی بھر ¶کبھی نہیں سنا۔ اور باوجود اس بات کے کہ کثیر مجمع اس کے خیالات کا مخالف ہے مگر وہ ایسے موثر اور دلنشین پیرائے میں کلام کر رہا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے گویا لوگوں کے سروں پر جانور بیٹھے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ ذرا ہلے تو اڑ جائیں گے۔ بلکہ بعض کو تو یہاں تک کہتے سنا کہ اس قسم کی تقریر ان جزائر میں پہلے کبھی نہیں سنی گئی<۔
مختصر یہ کہ اس مناظرہ میں بھی حق و صداقت کو بے نظیر کامیابی حاصل ہوئی۔۳۲۲ بالاخر یہ بتانا بھی ضرور ہے کہ ان مناظروں میں مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا بھی شامل تھے اور انہوں نے مباحثات کی تیاری اور حوالہ جات کی فراہمی میں ہر ممکن اعانت فرمائی۔
مصر و فلسطین مشن: ان دنوں اس مشن کے انچارج مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے جنہوں نے ممالک عرب میں تبلیغ اسلام و احمدیت کی کوششیں اس سال پہلے سے زیادہ تیز کر دیں اور مناظروں اور مباحثوں کے ذریعہ سے خاص طور پر احمدیت کا سکہ بٹھا دیا۔ سب سے نمایاں مناظرہ امریکن مشن قاہرہ کے انچارج ڈاکٹر فیلبس سے ہوا۔ یہ مناظرہ تین مضامین پر تھا اور اللہ تعالیٰ نے تینوں میں ہی اسلام کو فتح بخشی۔ تیسرے مضمون میں ڈاکٹر فیلبس اپنے ساتھ دو اور پادری )پادری کامل منصور اور پادری ایلڈر( بھی لائے تھے مگر حق وصداقت کے سامنے دم مارنے کی کسے مجال تھی۔ اختتام پر ایک ازہری عالم نے کہا بخدا اگر تمام علماء ازہر مل کر بھی ایسا مناظرہ کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں۔ پادری کامل منصور نے جاتے وقت اقرار کیا کہ احمدی مناظر نے مسیحیت سے متعلق ہم سے زیادہ مطالعہ کیا ہے۔ بلکہ دوسرے مناظرے کے بعد خود ڈاکٹر فیلبس نے اعتراف کیا کہ >قد فشلت الیوم< میں آج ہار گیا۔۳۲۳ یہ شہرہ آفاق مناظرہ >مباحثہ مصر< کے نام سے اردو اور انگریزی میں شائع شدہ ہے۔
فلسطین کی پہلی مسجد >سیدنا محمود< جس کا بنیادی پتھر ۳/ اپریل ۱۹۳۱ء کو علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے رکھا تھا۔ ۳/ دسمبر ۱۹۳۳`ء کو اس کا افتتاح مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے فرمایا۔۳۲۴
امریکہ مشن: جاوا اور مصر و فلسطین کے علاوہ امریکہ میں بھی مناظرات کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں ۱۹۳۳ء کا مشہور مناظرہ گرائونڈ ریپڈ مچ میں ہوا۔ جس میں مبلغ اسلام صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالیؓ نے دو روز تک ایک پادری سے بحث کرکے اسلام کی حقانیت اور سچائی کا ڈنکا بجا دیا۔ چنانچہ نیو یارک کے عربی جریدہ >البیان< نے اپنی ۶/ مئی ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں >امریکہ میں اسلام< کے عنوان کے تحت لکھا۔
>معزز و محترم مولانا صوفی مطیع الرحمن صاحب جو ہندوستان کی جماعت احمدیہ کی طرف سے شمالی امریکہ میں دین اسلام کے مبلغ ہیں گرائونڈ رپیڈس میں تشریف لائے مقامی مسلمانوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ آپ اگرچہ یہاں صرف چند دن قیام پذیر رہے مگر ان دنوں میں آپ دعوت اسلامی کی نشر و اشاعت کے لئے سرگرم عمل رہے آپ نے مسلمانوں اور امریکنوں کے بہت سے اجتماعات میں خطبات پڑھنے سننے والوں پر آپ کے وعظ و تذکیر نے نہایت گہرا اثر کیا یہ سب کچھ آپ کے تبحر علمی وسعت معلومات اور کثرت مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دنوں مولانا موصوف اور ایک عیسائی امریکن مبلغ کے درمیان پانچ گھنٹے تک ایک مناظرہ بھی ہوا۔ جس میں الاستاذ صوفی مطیع الرحمن صاحب اپنے جج قاہرہ اور دلائل باہرہ کے رو سے نمایاں طور پر کامیاب رہے۔ فریق مخالف آپ کے دلائل کا قطعاً رد نہ کر سکا<۔]4 [stf۳۲۵
مبلغین کی آمد و روانگی
اس سال مرکز سے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ درد اور مولوی حکیم فضل الرحمن صاحبؓ ۲/ فروری ۱۹۳۳ء کو بالترتیب انگلستان اور مغربی افریقہ میں تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے۔۳۲۶
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ نے ۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء۳۲۷ کو امام مسجد لنڈن حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ سے مشن کا چارج لیا۔ خان صاحب اسی تاریخ سے آسٹریا کے راستہ عازم ہند ہو گئے۔ اور ۱۰/ اپریل ۱۹۳۳ء کو قادیان تشریف لے آئے۔۳۲۸ سول اینڈ ملٹری گزٹ )۲۰/ مارچ ۱۹۳۳ء( نے اس تبادلہ پر لکھا۔
>ہمیں ہندوستان میں لنڈن مسلم مشن کے کام سے ہمیشہ بہت دلچسپی رہی ہے گزشتہ چند سالوں سے پٹنی میں واقع عظیم الشان مسجد تبلیغ اسلام کا مرکز بنی ہوئی ہے جس کی اہمیت کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ اس کے موجودہ امام خان صاحب مولانا فرزند علی صاحب کی روانگی اور ان کے بعد مقرر ہونے والے امام مولانا عبدالرحیم صاحب درد کے وہاں پہنچنے کی خبر رپوٹر نے ایک خاص کیبل گرام کے ذریعہ دی ہے اگرچہ مولانا فرزند علی صاحب سے ہمیں ذاتی طور پر واقفیت حاصل نہیں ہے لیکن وہ لوگ جو ان کی امامت کے زمانہ میں مسجد پٹنی میں گئے ہیں ان کا بیان ہے کہ آپ ایک عالم اور متقی انسان ہیں اور یہ تو مشہور عام بات ہے کہ انہوں نے اپنا اثر و رسوخ اس جماعت کے دوسرے مبلغین کی طرح جس کے ساتھ ان کا تعلق ہے ہمیشہ صحیح طور پر استعمال کیا ہے آپ ان مسلمان نوجوانوں کو جو انگلینڈ میں زیر تعلیم ہیں ان خطرناک اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے جو زبان زد خلائق ہیں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد جو ان کی جگہ گئے ہیں پنجاب میں ایک مشہور ہستی ہیں۔ اور ان کی اعلیٰ خدمات کا اعتراف ان ہی کالموں میں تھوڑا ہی عرصہ ہوا کیا جا چکا ہے<۔۳۲۹
محترم حکیم فضل الرحمن صاحبؓ جو حضرت درد صاحب کے ساتھ قادیان سے روانہ ہوئے تھے۔ ۴/ اپریل ۱۹۳۳ء۳۳۰ کو گولڈ کوسٹ میں وارد ہوئے اور ۱۲/ اپریل ۱۹۳۳ء کو مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ان کو چارج دے کر ۱۱/ مئی ۱۹۳۳ء۳۳۱ کو بمبئی پہنچے اور ۱۵/ مئی ۱۹۳۳ء کو دارالامان میں تشریف لائے۔۳۳۲
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
اس سال کے بعض مشہور مناظرے یہ ہیں۔
مباحثہ مٹاری )سندھ( )۳۰/ جنوری تا ۲/ فروری ۱۹۳۳ء( حافظ مبارک احمد صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے مناظر تھے اور مولوی عبدالحق صاحب غیر احمدیوں کی طرف سے۔ آخری دن ابھی فریقین نے ایک ایک تقریر ہی کی تھی کہ بہت بڑا ہجوم حافظ صاحب اور ایک احمدی پر )جو اس وقت موجود تھے( ٹوٹ پڑا اور دونوں کو سخت زدوکوب کیا۔ آخر جب شرفا حملہ آوروں پر غالب آگئے اور حافظ صاحب کو بھی ہوش آیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے مولوی صاحبان کہاں ہیں اس پر بتایا گیا کہ وہ بھاگ گئے ہیں۔ آخر حافظ صاحب نے دعا کی کہ الہیٰ تو ان لوگوں کو ہدایت دے ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ بے سمجھی میں کیا ہے۔۳۳۳
مباحثہ شامپور):ضلع رنگ پور بنگال( )۸/ فروری ۱۹۳۳ء( یہاں مولوی ظل الرحمن صاحب احمدی مناظر نے صبح سات بجے سے چھ بجے شام تک مختلف غیر احمدی علماء سے مباحثہ کیا۔ مناظرہ کے معاًبعد ایک معزز نوجوان داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔۳۳۴
مناظرہ مانانوالہ: )مارچ/ فروری ۱۹۳۳ء( یہ مناظرہ مولوی دل محمد صاحب مبلغ سلسلہ نے کیا۔ اور غیر احمدی عالم کو تینوں عنوانوں پر جو مقرر تھے بحث کرکے لاجواب کر دیا۔ غیر احمدی بلکہ غیر مسلم بھی احمدی مناظر کے دلائل سے متاثر ہوئے اور علی الاعلان احمدیت کے غلبہ کا اقرار کیا۔۳۳۵
مباحثہ نور محل: )۲/ مارچ تا ۴/ مارچ ۱۹۳۳ء( احمدی مبلغ مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے آریوں کے مناظر سوامی اور انند سے >موجودہ وید الہامی کتاب ہے< کے موضوع پر مباحثہ کیا اور جب ویدوں سے بعض الزامی جوابات پیش کئے تو آریوں میں کھلبی سی مچ گئی۔۳۳۶
مناظرہ پاک پٹن: )۴/ مارچ ۱۹۳۳ء( سجادہ نشین صاحب کے مکان پر چوہدری غلام احمد صاحب مرحوم امیر جماعت پاک پٹن نے پنڈت چرنجی لال پریم سے مناظرہ کرکے پنڈت جی سے منوایا لیا کہ لیکھرام سے متعلق پیشگوئی وقت پر پوری ہوئی۔۳۳۷
مباحثہ سرائیل: )بنگال( )۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء( ایک غیر احمدی عالم سے مولوی سید سعید احمد صاحب نے >صداقت مسیح موعود< کے مسئلہ پر ایک کامیاب مناظرہ کیا۔۳۳۸
مناظرہ تاریگام کشمیر: )اندازاً مئی/ اپریل ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالواحد صاحب اور مولوی عبدالاحد صاحب داتوی احمدی مباحث تھے۔ اور غیر احمدیوں کی طرف سے مشہور فاضل دیو بند مولوی محمود شاہ صاحب شامل ہوئے۔ غیر احمدیوں کے پریذیڈنٹ نے تسلیم کیا کہ ہمارے مولوی صاحب سوالوں کے جواب نہیں دے سکے۔ نیز کہا کہ ان کو غصہ بہت آتا ہے اور گالیوں پر اتر آتے ہیں اس پر محمود شاہ صاحب کے بعد مولوی ابراہیم صاحب کھڑے کئے گئے انہوں نے دلائل کا جواب اشتعال انگیزی سے دیا جسے تعلیم یافتہ طبقہ نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔۳۳۹
مناظرہ وزیر آباد: )اپریل ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالغفور صاحب فاضلؓ نے لال حسین صاحب۳۴۰ سے مناظرہ کیا۔ شرفاء نے احمدی مناظر کے دلائل کی معقولیت کا اقرار کیا۔۳۴۱
مناظرہ سیالکوٹ: )اندازاً جون ۱۹۳۳ء( یہ نہایت کامیاب مناظرہ تھا جو احمدیوں اور اہل حدیثوں میں ہوا۔ احمدی مناظر ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب تھے اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی احمد دین صاحب گکھڑوی` لال حسین صاحب اختر اور مولوی محمد ابراہیم صاحب شریک بحث ہوئے مناظرہ کے خاتمہ پر چار اصحاب نے بیعت کی۔۳۴۲
مناظرہ لدھیانہ: )اندازاً جولائی ۱۹۳۳ء( محلہ قاضیاں میں شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور بابو عبدالحمید صاحب آرنسل کلرک فیروزپور کا مناظرہ ہوا۔ غیر احمدی مناظر دلائل سے بالکل لاجواب ہو گئے۔۳۴۳
مناظرہ غازی آباد: )ماہ جولائی ۱۹۳۳ء( >کیا ویدوں کا خدا خدا ہے<۔ اور >کیا ویدک تعلیم عالمگیر ہے< ان دو مضامین پر حضرت ماسٹر محمد حسن خان صاحب آسان دہلویؓ نے سناتینوں سے مناظرہ کیا۔ جس کا پبلک پر بہت اچھا اثر ہوا۔۳۴۴]ydob [tag
مناظرہ بالیسر: )۱۸/ جولائی ۱۹۳۳ء( بالیسر کے غیر احمدی مسلمانوں کو علم ہوا کہ لاہور سے ایک پادری )عبدالسبحان صاحب پروفیسر( آرہے ہیں تو انہوں نے قادیان اطلاع دی جس پر مولوی عبدالسلام صاحب احمدی سنگڑوی بھجوائے گئے جنہوں نے مناظرہ کے آغاز میں دو تین ایسے مدلل اعتراض کئے کہ پادری صاحب بے بس ہو کر کہنے لگے کہ اے سنی بھائیو! آپ لوگ ایک مرزائی کو پیش کرتے ہیں حالانکہ مرزائیوں کو علماء نے متفقہ طور پر کفر کا فتویٰ دیا ہے السنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والے مسلمان یہ چال سمجھ گئے اور انہوں نے کہا اس وقت وہ اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں یہ سن کر پادری صاحب نے معافی مانگ لی۔۳۴۵
مناظرہ بنارس: )۲۰/ اگست ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالمجید صاحب بی۔ اے مولوی فاضل نے ایک غیر احمدی عالم مولوی محمد یوسف صاحب سے تین مشہور اختلافی مسائل پر مباحثہ کیا۔ جس میں جماعت کو نمایاں غلبہ حاصل ہوا۔۳۴۶
مناظرہ شملہ: )۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء( علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~ نے >وفات مسیحؑ< کے موضوع پر اور >ختم نبوت< اور >صداقت مسیح موعود< کے موضوع پر مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے غیر احمدی علماء سے مناظرہ کیا۔ احمدی مقررین کی تقریریں نہایت موثر اور طرز استدلال نہایت عام فہم تھا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے۔۳۴۷
مناظرہ پونچھ: ۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء( احمدی مبلغ مولوی محمد حسین صاحب نے غیر احمدی عالم کرم دین سے مبادلہ خیالات کیا۔ غیر احمدیوں نے اقرار کیا کہ ہمارے عالم حیات مسیح کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کر سکے نیز کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ آخر سب احمدی ہو جائیں گے۔۳۴۸
مناظرہ مدرسہ چٹھہ )تحصیل وزیر آباد( )ستمبر ۱۹۳۳ء( مولوی دل محمد صاحب مولوی فاضل نے مولوی محمد نذیر صاحب عالم اہلسنت و الجماعت سے تینوں مشہور متنازعہ مسائل پر مناظرہ کیا۔ غیر احمدیوں کا تاثر یہ تھا کہ ان کے مولوی صاحب نے کسی دلیل کا جواب نہیں دیا۔۳۴۹
مناظرہ بنگلور )۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء( یہ مناظرہ عثمانیہ تھیٹر بنگلور شہر میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ کی ختم نبوت پر تقریر اور عالمانہ و فاضلانہ بحث نہایت درجہ موثر تھی۔ حنفیوں نے پہلے دن کے مناظرہ کا اثر دیکھ کر دوسرے دن کا مناظرہ جبراً روک دیا۔۳۵۰
مناظرہ بنگہ )ضلع جالندھر( )۲۸/ تا ۳۰/ اکتوبر ۱۹۳۳ء( یہ اس سال کا نہایت اہم مناظرہ تھا جس میں جماعت احمدیہ کو نمایاں فتح ہوئی۔ احمدی مناظر یہ تھے۔ علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری` مولوی محمد سلیم صاحب فاضل۔ فریق مخالف کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی اور مولوی محمد صاحب عریبک ٹیچر رائے کوٹ نے بحث کی۔ اختتام جلسہ پر چار نفوس نے احمدی ہونے کا اعلان کیا۔ فریق مخالف نے بھی تین آدمی کھڑے کئے۔ جنہوں نے کمال سادگی سے اعلان کیا کہ ہم پہلے مرزائی تھے اب احمدی ہوتے ہیں۔ اس پر بے اختیار چاروں طرف سے قہقہے بلند ہوئے۔ بنگہ میں غیر احمدیوں کے ساتھ یہ پہلا مناظرہ تھا جس کے علاوہ دو آبہ میں غیر معمولی شہرت ہوئی۔۳۵۱
مباحثہ بٹالہ:]ydbo [tag )۱۷/ دسممبر ۱۹۳۳ء( یہ مباحثہ >صداقت مسیح موعود< اور >امکان نبوت< پر تھا جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے مضمون کے لئے مولوی عبدالغفور صاحب فاضلؓ اور دوسرے مضمون کے لئے ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم پیش ہوئے۔ مناظر اہل حدیث مولوی محمد یوسف صاحب درشت کلامی اور بدتہذیبی کے علاوہ اپنی ہمہ دانی اور منطق پر بہت اتراتے تھے۔ مگر خادم صاحبؓ نے دس منٹ تک ایسی زبردست تقریر کی کہ وہ آخر تک سراسیمہ رہے اگرچہ مخالفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس مناظرہ میں کوئی شخص نہ جائے اور کہ مناظرہ میں شامل ہونے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو کر مرزائی ہو جائے گا۔ مگر ہزارہا غیر احمدی مناظرہ میں شامل ہوئے اور نہایت دلچسپی سے آخر تک موجود رہے۔۳۵۲
مناظرہ اٹاوہ: )شروع نومبر ۱۹۳۳ء( مولوی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی نے علمائے اہل حدیث )مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی محمد یوسف صاحب( سے تینوں مخصوص مسائل پر مناظرہ کیا۔ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں نے رائے دی کہ احمدی مناظر کے دلائل کا جواب مناظر اہل حدیث نہ دے سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل حدیثوں نے اس بات کی بھی کوشش کی کہ آخر میں ایک مصنوعی احمدی تیار کرکے احمدیت سے تائب ہونے کا اعلان کرایا جائے مگر جس شخص نے اس اعلان کا وعدہ کیا تھا اس نے از خود ظاہر کیا کہ احمدی مناظر کے پیش کردہ دلائل اور اہل حدیث کی جانب سے جواب نہ دیئے جانے پر جو اثر پبلک پر اور مجھ پر ہوا تھا اس کے سبب مجھے اس قسم کے اعلان کی جرات نہ ہو سکی۔۳۵۳
نئی مطبوعات
۱۹۳۳ء میں علماء سلسلہ کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع کی گئیں۔
)۱( >اچھوتوں کی درد بھری کہانیاں<۔ )۲( >اچھوتوں کی حالت زار<۔ )مہاشہ ملک فضل حسین صاحب کی قابل قدر تالیفات جن میں ایک مظلوم مخلوق کی قابل تعریف خدمت کی گئی تھی۔۳۵۴
)۳( >تسہیل العربیہ< )عربی اردو لغت جسے حضرت مولانا محمد جی صاحب اور چودھری غلام محمد صاحب بی۔ اے نے نہایت محنت سے تیار کیا۔(
)۴( >برق احمدیت< )لال حسین صاحب اختر کی کتاب >ترک مرزائیت< کا جواب جو آغا عبدالعزیز صاحب فاروقی نے شائع کیا(
)۵( >صرف و نحو جدید فیض< )ابو اکمل حضرت مولانا امام الدین صاحب فیضؓ کے تعلیمی تجرات کا نچوڑ(
)۶( >اظہار الحق<۳۵۵ )مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی کا مقدمہ بہاولپور سے متعلق مفصل اہم بیان جس کا خلاصہ عدالت میں پیش کیا گیا(
)۷( رسالہ >درود شریف< )حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحبؓ حلال پوری کی تالیف جس میں آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی برکات درود شریف سے متعلق ایمان افروز تحریرات یکجا صورت میں شائع کر دیں(
‏tav.7.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل دہم(
)جنوری ۱۹۳۴ء تا دسمبر ۱۹۳۴ء بمطابق رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ تا رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ(
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
۱۹۳۴ء کے اہم ترین واقعات میں سے احرار کانفرنس قادیان کا انعقاد اور تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا قیام ہے۔ اول الذکر واقعہ مخالفین احمدیت کی منظم یورش پر منتج ہوا۔ اور ثانی الذکر سے اسلام و احمدیت کی عالمگیر روحانی فتح و نصرت کی مضبوط بنیاد رکھی گئی۔ ایک طرف ارضی دماغوں کے منصوبوں اور مادی تدبیروں کا اجتماع ہوا۔ تو دوسری طرف خدائے ذوالجلال کی آسمانی سکیم کا نفاذ عمل میں آیا۔
اس جنگ میں کون جیتا اور کسے عبرتناک شکست ہوئی اس کی تفصیلات ہم چونکہ دوسرے اور تیسرے باب میں بیان کر رہے ہیں۔ اس لئے یہاں فقط ۱۹۳۴ء کے دیگر واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
تحریک سالکین
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے احمدیوں کی تربیت و اصلاح کی غرض سے ۱۹۳۴ء کے ابتداء میں ایک نہایت اہم تحریک۔ تحریک سالکین کے نام سے جاری فرمائی۔ یہ تحریک تین سال کے لئے تھی اس کے مقاصد حضور کے الفاظ میں یہ تھے۔
>تربیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تربیت ابدال یا تبدیلی سے ہوتی ہے اور ایک تربیت سلوک سے ہوتی ہے۔ صوفیاء نے ان دونوں طریق کو تسلیم کیا ہے تبدیلی یہ ہے کہ انسان کے اندر کسی اہم حادثہ سے فوراً ایک تبدیلی پیدا ہو جائے اور سلوک یہ ہے کہ مجاہدہ اور بحث سے آہستہ آہستہ تبدیلی پیدا ہو۔ یورپ والے بھی ان کو تسلیم کرتے ہیں اور فوری تبدیلی کو کنورشن (CONVERSION) کہتے ہیں صوفیاء کنورشن کو ہی ابدال کہتے ہیں۔ ابدال کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے ایک شخص ہمیشہ برے کاموں میں مبتلا رہتا تھا۔ اسے بہت سمجھایا گیا۔ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک دفعہ کوئی شخص گلی میں سے گزرتا ہوا یہ آیت پڑھ رہا تھا الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ۳۵۶ )الحدید:۱۷(
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومن کے دل میں خشیت اللہ پیدا ہو؟ اس وقت وہ شخص ناچ اور رنگ رلیوں میں مصروف تھا یہ آیت سنتے ہی چیخیں مار کر رونے لگ گیا۔ سارا قرآن سن کر اس پر اثر نہ ہوتا تھا لیکن یہ آیت سن کر اس کی حالت بدل گئی یہ اصلاح کنورشن کہلاتی ہے۔ ایک سلوک ہوتا ہے۔ یعنی انسان اپنی اصلاح کی آہستہ آہستہ کوشش کرتا ہے وہ ذکر الٰہی کرتا ہے مگر کبھی اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے اس پر وہ توبہ کرتا ہے اور دوسروں سے دعائیں کراتا ہے اور اس طرح اپنی اصلاح میں لگا رہتا ہے لیکن کبھی یہ دونوں باتیں ایک ہی انسان میں پائی جاتی ہیں جماعت احمدیہ میں جو شخص داخل ہوتا ہے اس پر یہ دونوں حالتیں آتی ہیں جب کوئی پہلے پہل داخل ہوتا ہے تو وہ ابدال میں شامل ہوتا ہے ایک عظیم الشان تغیر اس پر آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے یدعون لک ابدال الشام۔۳۵۷ شام کو ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں گو اس جگہ ابدال شام کا ذکر ہے لیکن ہم اس سے نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ احمدیت میں سچے دل سے داخل ہونے والے ابدال میں شامل ہوتے ہیں۔ یعنی شخصیت کو بدلنے والی ایک فوری تبدیلی ان میں پیدا ہوتی ہے جیسا کہ اس لفظ کے معنوں سے ثابت ہے۔ بدل عوض کو کہتے ہیں اور تغیر کو بھی۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ پہلے وجود کی جگہ ایک نیا وجود اس شخص کو ملتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ پورے ابدال بن جاتے ہیں اور بعض ناقص یعنی کچھ حصہ ان کا سلوک کا محتاج رہ جاتا ہے اور ان لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مجاہدات سے اپنے بقیہ نقصوں کو دور کریں اس قسم کے نقصوں کو دور کرنے کے لئے وعظ اور نصیحت کی جاتی ہے مگر خالی وعظ سے یہ کام نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک مستقل نگرانی کی حاجت باقی رہتی ہے۔۳۵۸body] g[ta
سالکین کے لئے ضروری ہدایات
حضور نے ۱۹۳۴ء کے اوائل میں تحریک سالکین کی نسبت متعدد خطبات دیئے جن میں سالکین کو پانچ بنیادی ہدایات دیں جو یہ تھیں۔
اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی امید نہ ہو۔ وہ قرض نہ لیا کریں۔ دوم روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں۔ سوم یہ کہ دھوکہ باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں۔ تا لوگ اس سے بچ کر رہیں۔۳۵۹
چہارم احباب اپنے اپنے نقائص کا پتہ لگائیں اور ان کی اصلاح کریں۔ اس سلسلہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے۔ دوسرے اس امر پر غور کیا جائے کہ غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔۳۶۰ پنجم رب العالمین کی صفت کے ماتحت تو کام ہوتے ہی رہتے ہیں۔ رحمانیت کی صفت کے ماتحت بھی نیکیاں کریں اور اس نیت سے کریں کہ دین کو تقویت ہو۳۶۱ یہ گویا پانچ ستون تھے جن پر تحریک سالکین کی بنیاد رکھی گئی۔
اس مبارک تحریک میں بہت سے مخلصین جماعت نے اپنے نام پیش کئے جن میں سے بعض اصحاب کے نام یہ تھے۔ چودھری ظفر اللہ خان صاحب۔ شیخ اعجاز احمد صاحب سب جج۔ سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمدیہ آنبہ ضلع شیخوپورہ۔ ماسٹر برکت علی صاحب فائق لدھیانہ۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری۔ ماسٹر مسیح الدین صاحب پشاور۔ حافظ عبدالسلام صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ۔ ملک صلاح الدین صاحب قادیان۔ حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری جامعہ احمدیہ قادیان۔ قاضی عبدالرحمن صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔۳۶۲ چوہدری فضل احمد صاحب اے ڈی آئی آف سکولز گجرات۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ننکانہ صاحب۔ چوہدری غلام محمد صاحب پوہلہ مہاراں۔ بابو شمس الدین خان صاحب۔ پولٹیکل کلرک لنڈی کوتل۔ مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس افسر گجرات۔ بابو احمد جان صاحب کوئٹہ۔ مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی۔ بابا حسن محمد صاحب )والد مولوی رحمت علی صاحب( حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس۔ ڈاکٹر بدر الدین صاحب مگاڈی )افریقہ( ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب۔ چوہدری عبداللہ خان صاحب ایگزیکٹو آفیسر قصور۔ چودھری ابوالہاشم خان صاحب ڈھاکہ۔۳۶۳
الحکم کا دوبارہ اجراء اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اظہار مسرت
سلسلہ احمدیہ کا سب سے پہلا اخبار >الحکم< ایک عرصہ سے بند ہو چکا تھا حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کبیرؓ ۱۹۲۵ء کی پہلی ششماہی
میں یورپ اور بلاد اسلامیہ کی سیاحت کے لئے تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہو کر ۱۹۲۷ء میں واپس آئے اور کچھ مدت مرکز میں رہنے کے بعد ۱۹۳۰ء میں بمبئی چلے گئے اور وہاں ۱۹۳۱ء سے >سالار< کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کر دیا۔ لیکن الحکم کے احیاء کا خیال آپ کو دوبارہ قادیان لے آیا۔ اور آپ نے ۱۴/ جنوری ۱۹۳۴ء سے دوبارہ الحکم نکالنا شروع کر دیا۔ اور آپ کے فرزند شیخ محمود احمد صاحبؓ عرفانی جو قاہرہ میں >اسلامی دنیا< کی کامیاب ادارت کرتے رہے تھے اس دور جدید کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔۳۶۴
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو الحکم کے دوبارہ اجراء پر بہت خوشی ہوئی اور حضور نے اپنے قلم سے حضرت شیخ صاحب کے نام مندرجہ ذیل مکتوب مبارک لکھا۔
>مکرمی شیخ صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
مجھے یہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ پھر الحکم جاری کرنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ برکت دے اور اس ارادہ کی تکمیل کے سامان پیدا کر دے۔
الحکم سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے اور جو موقع خدمت کا اسے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ میں اسے اور بدر کو ملا ہے وہ کروڑوں روپیہ خرچ کرکے بھی اور کسی اخبار کو نہیں مل سکتا۔
میں کہتا ہوں کہ الحکم اپنی ظاہری صورت میں زندہ رہے یا نہ رہے لیکن اس کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ ہے سلسلہ کا کوئی مہتم بالشان کام اس کا ذکر کئے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ تاریخ سلسلہ کا حامل ہے۔ لیکن دل یہی چاہتا ہے کہ >الحکم< جس کا نام ہی بتا رہا ہے کہ ابتدائے ایام سے سلسلہ کے افراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا درجہ سمجھتے تھے۔ اپنی ظاہری صورت میں بھی زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی نسل کو اس خدمت کی ہمیشہ توفیق دیتا رہے۔ اللہم آمین۔
خاکسار میرزا محمود احمد۳۶۵
۱۹۳۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے اھم سفر
‏]0 [rtfحضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اس سال کئی بار لاہور۔ تین دفعہ فیروزپور اور ایک بار گوجرانوالہ تشریف لے جانا پڑا۔ ان سفروں کے مختصر حالات و کوائف درج ذیل ہیں۔
)۱( حضور ۱۸/ جنوری کو قادیان سے روانہ ہوکر لاہور تشریف لائے۔۳۶۶ اور یہاں سے چل کر فیروزپور اور قصور میں قیام پذیر ہونے کے بعد ۲۸/ جنوری ۱۹۳۴ء کو وارد قادیان ہوئے۔۳۶۷ حضور نے اس سفر کے دوران ۲۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو بمقام قصور >احمدیت کے اصول< کے موضوع پر ایک معرکتہ الاراء تقریر فرمائی جس کا مکمل متن الفضل میں بھی شائع ہوگیا تھا۔۳۶۸ ازاں بعد حضور کو ۲۴/ فروری ۱۹۳۴ء سے لے کر یکم مارچ ۱۹۳۴ء تک دوبارہ لاہور اور فیروزپور کا سفر اختیار کرنا پڑا
)۲( صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی علالت کے سلسلہ میں حضور ۱۸/ اپریل ۱۹۳۴ء کو گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور گوجرانوالہ اور لاہور میں قیام پذیر رہنے کے بعد ۲۳/ اپریل ۱۹۳۴ء کو قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۳۶۹ صاحبزادی صاحبہ کی عیادت کے سلسلہ میں بار بار آپ کو لاہور آنا پڑا۔
)۳( لاہور میں بعض علمی لیکچروں کا پروگرام تھا جس میں شمولیت کے لئے حضور ۲۸/ مئی ۱۹۳۴ء کو قادیان سے لاہور تشریف لائے۔ قیام لاہور کے دوارن حضور کے دو شاندار لیکچر ہوئے جن کا انتظام پنجاب لٹریری لیگ نے کیا۔
پہلا لیکچر: >عربی زبان کا مقام السنئہ عالم میں< کے موضوع پر ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج کی صداررت میں ۳۱/ مئی کو وائی ایم۔ سی۔ اے ہال میں ہوا۔ جو ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب جاری رہا۔ اور بہت مقبول ہوا۔ ہال کی وسعت سے بہت زیادہ ٹکٹ جاری کرنے کے باوجود بہت سے لوگوں کو جگہ کی تنگی کی وجہ سے لیکچر سننے کا موقعہ نہ مل سکا۔۳۷۰ اختتام پر جناب صدر صاحب نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقعہ ملے۔ صدارتی خطاب کے بعد لالہ کنورسین صاحب سابق چیف جج کشمیر نے انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ آج قابل لیکچرار نے زبان عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکتہ الاراء تقریر کی ہے اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور اس لحاظ سے بھی خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں چنانچہ آپ کے والد ماجد سے میرے والد صاحب )لالہ بھیم سین صاحب( نے عربی زبان سیکھی تھی جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا۔ اس وقت میں نے خیال کیا تھا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کیا کرتے ہیں۔ مگر جو لیکچر دیا گیا۔ وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر رہے گا۔ اور میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ جن دوسرے احباب نے یہ مضمون سنا ہے وہ بھی تادیر اس کا اثر اپنے دلوں میں محسوس کریں گے۔ باقی زبان کے متعلق چونکہ نظریوں میں اختلاف ہے اور سنسکرت زبان بھی بہت سے قواعد پر مبنی ہے اس لئے عربی اور سنسکرت کا مقابلہ کرنے میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اور ایک دفعہ پھر قابل لیکچرار کے بیش قیمت لیکچر کا دلی اخلاص سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔۳۷۱
دوسرا لیکچر; ۲/ جون ۱۹۳۴ء کو ڈاکٹر ایس۔ کے دتا پرنسپل فورمین کرسچن کالج کی صدارت میں ٹائون ہال میں ہوا۔ حضور کا یہ لیکچر >کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں<۔ کے عنوان پر تھا جو قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ سامعین میں کالجوں کے پروفیسر` وکلاء اور طلباء خاص طور پر شامل تھے۔ لیگ کی طرف سے حضور کو پھولوں کا ہار پہنایا گیا۔ صدر جلسہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں سامعین کو متوجہ کیا کہ وہ ایسی عظیم الشان شخصیت کا لیکچر بہت توجہ سے سنیں اور آخر میں لیکچر کی بہت تعریف کی اور خواہش ظاہر کی کہ پھر بھی لاہور کی پبلک کو آپ کے قیمتی خیالات سننے کا موقعہ میسر آئے۔۳۷۲
ان کامیاب تقاریر کے علاوہ حضور نے ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء کو آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں بھی شرکت فرمائی۔۳۷۳ اور ۷/ جون ۱۹۳۴ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے۔۳۷۴
)۵( حضور ۱۶/ اکتوبر ۱۹۳۴ء۳۷۵ کو قادیان سے فیروز پور تشریف لے گئے اور مختصر سے قیام کے بعد دوسرے روز ہی واپس قادیان پہنچ گئے۔۳۷۶
کالی کٹ )مالابار( کے احمدیوں پر دردناک مظالم
یوں تو کالی کٹ کے احمدی عرصہ سے مظالم کا تختہ مشق بنائے جارہے تھے۔ مگر ۲۹/ جنوری ۱۹۳۴ء کی شام کو جبکہ ایک احمدی بھائی کی تجہیز و تکفین کا مرحلہ پیش آیا مخالفین کی شرارتیں انتہا تک پہنچ گئیں اور وہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے اور فوت شدہ احمدی کے مکان پر گالیوں دھمکیوں اور شور و شر سے ایسا طوفان مچا دیا کہ گنتی کے چند احمدیوں کے لئے مکان سے بہار نکلنا یا اندر جانا مشکل ہو گیا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب ایک شخص کو بڑی مشکل سے قبرستان میں بھیجا گیا۔ مگر وہاں بھی ہزاروں لوگ لاٹھیاں لے کر جمع تھے اور انہوں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ اس احمدی کو کسی صورت میں بھی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں گے حالانکہ وہ قبرستان تمام مسلمانوں کے لئے میونسپلٹی کی طرف سے وقف تھا۔ اور اس میں دفن کرنے سے روکنے کا کسی کو قطعاً حق نہیں تھا۔ بے کس احمدیوں نے مخالفین کو اس طرح فساد پر آمادہ دیکھ کر ذمہ دار حکام کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں معلوم ہوا کہ کلکٹر صاحب دورہ پر ہیں آخر ان سے تار کے ذریعہ سے مداخلت کرنے کی درخواست کی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ احمدی رات بھر اسی مکان میں بند رہے۔
دوسرے دن صبح کو احمدیوں نے ڈویژنل افسر کو درخواست دی۔ اور صورت حال سے آگاہ کیا اس پر انہوں نے پولیس کو ہدایت کہ کہ تمام رکاوٹیں دور کرکے نعش کے دفن کرانے کا انتظام کریں۔ لیکن بعد میں انہوں نے مخالف سرغنوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے میت کو اس قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا اور بالاخر شام کے قریب ایک ایسی جگہ پر جو شہر سے بہت دور تھی اور جہاں دو تین فٹ کھودنے سے پانی نکل آتا تھا احمدیوں کو اپنے بھائی کے دفن کرنے پر مجبور کیا گیا۔ احمدیوں نے جگہ کی غیر موزونیت کے متعلق بار بار کہا مگر سرکاری افسروں نے یہی کہا کہ اس وقت لاش کو دفن کرو اور بعد میں کچھ کہنا ہو تو رپورٹ کرو۔
چونکہ میت پر ۲۴ گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ اس لئے احمدی رات کو ساڑھے دس بجے میت اٹھانے پر مجبور ہو گئے اس وقت احمدیوں کی تعداد صرف اٹھارہ اور شرارت پسندوں کا مجمع کم از کم دس ہزار کا تھا۔ اگرچہ بعض پولیس والے بھی موجود تھے۔ مگر مخالف گالیاں دیتے` آوازیں کستے اور شور مچاتے ساتھ جارہے تھے۔ اور وہ فتنہ انگیز اور شورش پسند موپلائوں کے اتنے بڑے ہجوم کے مقابلہ میں کچھ نہ کر سکے پھر جنازہ بھاری تھا دوسرے اٹھانے کے لئے ایک بھاری لکڑی کے پلنگ کے سوا کوئی چیز میسر نہ تھی۔ تیسرے اٹھانے والے چند کمزور نوجوان تھے جو بار بار اٹھاتے اور اتارتے ہوئے آدھی رات کے وقت ایک نہایت دور مقام پر ایسی حالت میں جنازہ لئے جارہے تھے جب کہ دس ہزار شوریدہ سر آدمیوں کا ہجوم انہیں گھیرے ہوئے ہر طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ کرتا` تمسخر اڑاتا` تالیاں بجاتا اور ان پر مٹی اور کنکر پھینکتا جارہا تھا۔
آخر غریب و ناتواں احمدی افتاں و خیزاں اس مقام پر پہنچے جو حکام نے قبر کے لئے تجویز کیا تھا انہوں نے خود قبر کھودی اور اپنے بھائی کو دفن کرکے پھر پہلے کی طرح مخالفین کی حیا سوز حرکات اور انسانیت سے دور افعال سے دوچار ہوتے ہوئے واپس لوٹے۔ قبر کھودتے اور دفن کرتے وقت جو جو تکلیفیں احمدیوں کو برداشت کرنا پڑیں۔ اور واپسی پر جو سختیاں جھیلیں ان کی تفصیل اور بھی دردناک تھی۔
اس واقعہ کے بعد کچھ عرصہ تک صورت حال یہ ہو گئی کہ عوام نے احمدیوں کے خلاف پورے شہر میں سخت اشتعال دلا کر ان کا عام سڑکوں پر چلنا مشکل کر دیا اور بعض احمدیوں کے بیوی بچے ان سے زبردستی علیحدہ کر دیئے گئے۔ مگر ان تمام مخدوش حالات میں کالی کٹ کے احمدی اپنی کسم پرسی` بے سروسامانی اور بے بضاعتی کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کی راہ میں ہر مشکل کے سامنے دیوانہ وار کھڑے رہے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے کوہ استقلال ثابت ہوئے اور کوئی دکھ اور کوئی فتنہ ان کے پائوں میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔۳۷۷
اس درد انگیز حادثہ کی تفصیلات جب الفضل کے ذریعہ سے جماعت کے سامنے آئیں تو احمدیوں کو بے حد دکھ ہوا اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس خطہ کے مظلوم احمدیوں کی فریاد رسی کرے۔ آخر کالی کٹ کی میونسپل کمیٹی نے یہ ریزولیوشن پاس کر دیا کہ >کنم پرمبا< قبرستان کا ایک حصہ احمدیوں کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ یہ قرار داد ڈاکٹر چندو نے پیش کی مسٹر اچھوتھان نے اس کی تائید اور مسٹر سندر آئر نے تائید مزید کی۔ مگر موپلوں کے مسلمان نمائندے مسٹر محمد عبدالرحمن واک آئوٹ کرکے ہال سے باہر چلے گئے۔ تاہم یہ قرارداد کثرت رائے سے پاس ہوگئی۔۳۷۸]ydob [tag
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب ان انسانیت سوز افعال کی اطلاع حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر کو جوان دنوں حیدر آباد )دکن( میں بطور مبلغ متعین تھے حکم فرمایا کہ وہ سیٹھ محمد اعظم صاحب کو ساتھ لے کر فوراً کالی کٹ )مالا بار( پہنچ جائیں اور حضور کی طرف سے احمدی احباب سے اظہار ہمدردی کریں نیز یہ ارشاد ہوا کہ ارباب حل و عقد سے مل کرایسا انتظام کروا دیں کہ آئندہ اس قسم کے افسوسناک حالات اور واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ چنانچہ اس حکم پر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر اور سیٹھ محمد اعظم صاحب ۱۰/ مارچ ۱۹۳۴ء۳۷۹ کو کالی کٹ پہنچ گئے ان حضرات کا مالابار میں ورود مالا بار کی جماعت کے لئے بڑی ڈھارس اور اطمینان کا موجب ہوا۔ سارے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ان اصحاب نے سیکرٹری جماعت احمدیہ کالی کٹ کے ساتھ کلکٹر ضلع مالا بار سے )جو انگریز تھا( ملاقات کی اور اس سے فوت شدہ احمدی کی تدفین کے سلسلہ میں جو افسوسناک واقعات پیش آئے تھے۔ اور جن وحشیانہ افعال کا ارتکاب غیر احمدیوں کی طرف سے کیا گیا تھا ان کا ذکر کیا۔ اور ان واقعات کے پیش نظر کلکٹر سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ایسا انتظام کیا جائے کہ آئندہ فوت ہونے والے احمدیوں کی تدفین میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ کلکٹر نے ساری باتیں توجہ سے سنیں اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مالا باری مسلمانوں )موپلے( کے شدید تعصب (FANATISM) اور ان لوگوں کی معروف ہنگامہ آرائی کے پیش نظر حکومت اس معاملہ میں الجھ کر اپنے لئے ایک نیا درد سر مول لینا نہیں چاہتی اس پر حضرت مولانا نیرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ احمدیوں کو قبرستان کے لئے علیحدہ زمین دی جائے تو وہ اس پر متفق نہ ہو سکا اور جواب دیا کہ حکومت مسلمانوں کے قبرستان کے لئے ایک وسیع زمین دے چکی ہے اب وہ فرقہ وارانہ اساس پر علیحدہ قبرستان کے لئے جگہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ بہرحال کافی گفتگو اس موضوع پر ہوئی اور کلکٹر کو حکومت کی اس ذمہ داری کی طرف متوجہ گیا جو شہریوں کی بنیادی ضروریات اور ان کے تحفظ کے تعلق سے ہے لیکن وہ باوجود اظہار ہمدردی کے کسی عملی اقدام کے لئے تیار نہ تھا۔ ان حالات میں حضرت مولانا نیرؓ نے جماعت کالی کٹ کے سیکرٹری سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے سن لیا ہے کہ آپ کے کلکٹر آپ کی کسی قسم کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان حالات میں میں آپ کو ہدایت کرتا ہوں کہ جب کبھی کوئی احمدی فوت ہو۔ تو آپ لوگ حکومت کے لئے >لاء اینڈ آرڈر< کا مسئلہ کھڑا نہ کریں۔ بلکہ بعد نماز جنازہ اس احمدی کی میت کو خاموشی کے ساتھ کسی ٹرک میں لے جا کر کلکٹر کی کوٹھی پر پہنچا دیں۔ کلکٹر جس طرح مناسب خیال کریں گے اس کی تدفین کا انتظام کردیں گے۔ حضرت مولانا کے اس ارشاد پر کلکٹر بڑا پریشان ہوا۔ اور بے ساختہ کہا کہ >نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے<۔ مولانا نے جواب میں فرمایا کہ ایسا ہی ہو گا۔ اگر غیر احمدی اپنی تعداد کے بل بوتے پر ہمارے مردوں کو قبرستان میں دفن ہونے میں مزاحم ہیں اور حکومت اپنی سنہری اور روپہلی مصلحتوں کی بنا پر ہمارے حق کو دلوانے اور مدد کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اس صورت میں اس کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ مزید کچھ گفتگو کے بعد کلکٹر نے کہا کہ وہ اس سارے معاملہ کو مناسب فیصلہ کے لئے میونسپلٹی کوجس کے زیر انتظام قبرستان ہیں ہدایت کرے گا۔
چنانچہ اس ہدایت کے ساتھ کہ اس معاملہ کا فوری تصفیہ کیا جائے۔ کلکٹر نے میونسپلٹی کو حکم دیا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ اور سیٹھ محمد اعظم صاحب نے میونسپلٹی کے بااثر ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ اور سارے معاملے کو سمجھایا اور ان کی اخلاقی ذمہ داری سے ان کو آگاہ کیا۔ بالاخر جب یہ معاملہ میونسپلٹی کے اجلاس میں آخری فیصلے کے لئے پیش ہوا تو مسلمان ممبروں کی شدید مخالفت کے باوجود غالب اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ قبرستان کی زمین میونسپلٹی کی ملکیت ہے جو مسلمانوں کو ان کے مردوں کی تدفین وغیرہ کے لئے دی گئی ہے اور اس میں مردہ شخص جو خود کو مسلمان کہتا رہا ہو وہ اس میں بعد وفات دفن ہو سکتا ہے۔
میونسپلٹی کے اس فیصلہ کے خلاف غیر احمدی مسلمانوں کا ایک وفد کلکٹر سے ملا لیکن کلکٹر اس فیصلہ کو بدلنے کے لئے راضی نہ ہوا۔ غیر احمدیوں کا ادعا یہ تھا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں احمدیوں کی تدفین سے ان کے اپنے مردے نجس ہو جائیں گے اس پر کلکٹر نے ارکان وفد سے پوچھا کہ کیا قبرستان کی زمین تقسیم کرکے اس کا ایک حصہ احمدیوں کے لئے مختص کر دیا جائے؟ لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ اور بالاخر یہ تصفیہ ہوا کہ کسی دوسری جگہ احمدیوں کے قبرستان کے لئے حکومت زمین مہیا کرے اور اس کی قیمت غیر احمدی مسلمان ادا کریں۔ چنانچہ احمدیوں کوقبرستان کے لئے جگہ مل گئی۔ متنازعہ قبرستان پرانی آبادی کے متصلہ علاقہ میں واقع ہے جہاں پہنچنے کے لئے گنجان آبادی اور تنگ و تاریک گلی کوچوں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اب جو جگہ احمدیوں کو قبرستان کے لئے دی گئی ہے وہ نئی آبادی سے متصل زمین ہے اور اس نئی آبادی میں پڑھے لکھے اور خوشحال لوگ رہتے ہیں اور سڑکیں بھی کشادہ ہیں۔ اور جنازے کے وہاں تدفین کے لئے لے جانے میں راستہ میں فتنہ و فساد کا بہت کم اندیشہ رہتا ہے۔
تدفین کے سلسلہ میں جو دشواریاں تھیں ان کے پیش نظر بعض لوگ قبول احمدیت میں متذبذب تھے اور بعض کمزور احمدی بھی پریشان تھے لیکن احمدیوں کے لئے قبرستان کا انتظام ہو جانے کے بعد تذبذب اور پریشانی کی کوئی بات باقی نہیں رہی اس سے احمدیوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور غیر احمدیوں میں باوجود اپنی بے پناہ اکثریت اور اثر و رسوخ کے اس ناکامی پر بڑی مایوسی ہوئی۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ اور سیٹھ صاحب موصوف ۱۹/ مارچ ۱۹۳۴ء کو واپس تشریف لے آئے۔۳۸۰
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات و کشوف کی جمع و تدوین کا مرکزی انتظام
۱۹۳۳ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود مہدی مسعود علیہ الصلوہ والسلام کے الہامات اور کشوف و رئویا کی
جمع و تدوین کے لئے ایک سب کمیٹی تجویز فرمائی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور بعض دوسرے جلیل القدر بزرگ شامل تھے اس کمیٹی نے باہمی مشورہ کے بعد ضروری اصول طے کئے۳۸۱ اور فروری ۱۹۳۴ء۳۸۲ سے جمع و ترتیب کا عملی کام شروع ہوا۔ جس میں حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ اور مولوی عبدالرشید صاحب فاضل زیروی نے نمایاں کام کیا۔ حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ اس کام کے اصل انچارج اور ذمہ دار تھے اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل ان کے دست راست اور مولوی عبدالرشید صاحب نے بعد کو تالیف کے بقیہ مراحل سر انجام دینے اور کاپیوں اور پروفوں کے دیکھنے میں نہایت محنت اور دیدہ ریزی کی۔
اس مقدس مجموعہ کا نام حضرت خلیفتہ المسیحؓ نے >تذکرہ< تجویز فرمایا۔ جو دسمبر ۱۹۳۵ء میں عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ شائع ہو گیا۔
اس کے بعد اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا۔ جس کی تیاری کا سارا کام مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیو بند بہاولپوری کی مساعی کا رہین منت تھا جو صیغہ تالیف و تصنیف اور >الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ< کے زیر انتظام عرصہ دو سال میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اس غرض کے لئے آپ کو سلسلہ کے لٹریچر کا از سر نو وسیع اور گہرا مطالعہ کرنا پڑا۔ بعد ازاں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر علامہ جلال الدین صاحب شمسؓ نے پورے مسودہ پر نظر ثانی فرمائی۔
تذکرہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری نے کمال محنت سے اس کی کلید بھی مرتب کر دی جو دسمبر ۱۹۵۷ء میں >مفتاح التذکرہ< کے نام سے شائع کر دی گئی۔
تحریک قرضہ اور مسلم پریس
سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر فروری ۱۹۳۴ء میں مرکزی ادارہ نظارت امور عامہ کی طرف سے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی ایک تحریک کی گئی کہ مخلصین جماعت کم از کم ایک ایک سو روپیہ اس کارخیر میں دیں۔۳۸۳]txet [tag یہ تحریک غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئی۔ اور ساٹھ ہزار کی بجائے پچھتر ہزار روپیہ اس میں جمع ہو گیا۔۳۸۴ جو معیاد کے اندر واپس بھی کر دیا گیا اس تحریک کی کامیابی کا سہرا ناظر امور عامہ خان صاحب فرزند علی صاحبؓ کے سر تھا۔ جس پر نہ صرف حضرت امیر المومنینؓ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ بلکہ ایثار پیشہ احمدیوں کے اس جذبہ اخلاص کو مسلم پریس نے بھی بہت سراہا۔ چنانچہ لکھنئو کے روزنامہ >حقیقت< )۲۵/ مئی ۱۹۳۴ء( نے لکھا۔
>یہ واقعہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کی تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منظم اور سرگرم عمل احمدی جماعت ہے جس نے دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنے تبلیغی مشن قائم کر دیئے ہیں حالانکہ اس جماعت کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہے اور اس میں غرباء و متوسط الحال لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے باوجود اس کے حال میں اس کے دفتر قادیان سے سلسلہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرضہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی چنانچہ دو ماہ کے اندر ہی یہ رقم فراہم ہو گئی۔ لیکن اگر کسی غیر احمدی جماعت کی طرف سے اتنی ہی رقم کے لئے اپیل کی جاتی تو وہ چھ ماہ میں کیا سال بھر میں جمع نہ ہو سکتی تھی۔ خواہ وہ ضرورت کتنی ہی شدید ہوتی۔ چنانچہ مثلاً امارت شرعیہ بہار کے زلزلہ فنڈ ہی کو دیکھ لیجئے۔ کہ چار ماہ میں صدہا اپیلوں اور التجائوں کے باوجود اب تک چالیس ہزار بھی فراہم نہیں ہو سکا کاش احمدی جماعت کے اس ایثار سے عام مسلمان سبق لیں۔ اور قومی ضروریات کے لئے ایک بیت المال قائم کرکے اپنی بیداری اور زندگی کا ثبوت دیں<۔۳۸۵
اسی طرح لکھنئو کے مشہور شیعہ ترجمان >سرفراز< )یکم جون ۱۹۳۴ء( نے لکھا۔
>مذہبی حیثیت سے ہمیں قادیانیوں سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ لیکن ہم ان کے اس جوش قومی و مذہبی کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جوان کی طرف سے اپنے جماعتی مفاد کو تقویت دینے کے لئے آئے دن ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سلسلہ احمدیہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی تحریک کی گئی تھی۔ ناظر امور عامہ قادیان کا بیان جو الفضل قادیان مورخہ ۲۹/ مئی ۱۹۳۴ء میں شائع کیا گیا ہے بتایا ہے کہ >اگر اس فنڈ کے بند کر دینے کا اعلان نہ کر دیا جاتا تو اس سلسلہ میں ایک لاکھ روپیہ جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ اب بھی اس تحریک کے ان وعدوں کو ملا کر جن کی چند روز میں وصولی یقینی ہے یہ رقم پچھتر ہزار تک پہنچ چکی ہے<۔
یہ واضح رہے کہ چندے یا قرض کی یہ تحریک ایسی تحریک نہیں ہے جو کئی برس کے بعد اٹھائی گئی ہو۔ اور اس کے لئے کوئی خاص جدوجہد عمل میں آئی ہو بلکہ اس جماعت کی طرف سے آئے دن اپنے جماعتی مفاد کے لئے چندے ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس وقت تک چار ہزار کے قریب ایسی وصیتیں ہو چکی ہیں جن میں وصیت کنندگان نے اپنی جائداد کا بڑا حصہ اپنے جماعتی` قومی اور مذہببی کاموں کے لئے وقف کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ قادیانیوں کی مجموعی تعداد ہندوستان کے شیعوں سے بہت کم ہے لیکن جذبہ عمل میں یہ مٹھی بھر قادیانی دو کروڑ شیعوں سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں سینکٹروں مکانات پچاسوں اراضیات جماعت قادیانی کے پاس موجود ہیں۔ برخلاف اس کے ہم شیعوں کی یہ حالت ہے کہ ہماری واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے پاس دفاتر کے لئے بھی کوئی اس کا ذاتی مکان نہیں ہے اور اس مد کرایہ میں اسے گزشتہ چھ سات سال کے اندر پانچ چھ ہزار روپیہ دینے پڑے۔ اتنی رقم میں دفتر کانفرنس اور ادارت متعلقہ کے لئے ایک خاص عمارت بن سکتی یا خریدی جاسکتی تھی لیکن سرمایہ کے سوال نے اب تک اس تحریک کو بار آور نہ ہونے دیا۔
کیا شیعہ جماعت میں ایسے سرمایہ دار موجود نہیں کہ وہ پانچ سات ہزار چندہ نہیں تو قرض حسنہ ہی دے کر دفتر آل انڈیا شیعہ کانفرنس کو کرایہ مکان کے مستقل بار سے محفوظ کر دیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اپنے قومی ادارت کی حالت زار پر ایک آہ سرد بھر کر خاموش ہو جانا چاہئے۔ اور یہ طے کر لینا چاہئے کہ ہمارے دست شل میں یہ صلاحیت نہیں کہ ہم کسی بار کو اٹھا سکیں۔ کاش کہ قادیانی جماعت کا جذبہ عمل ہماری سوئی ہوئی قوم کے لئے سبق آموز اور ہمت آفرین ہو اور ہم بھی وقت کی اہم ضروریات کی طرف متوجہ ہوسکیں<۔۳۸۶
پنجاب ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اور جماعت احمدیہ
حکومت ہند نے سرشادی لال کی جگہ ان کے ریٹائر ہونے پر الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مسٹر جان ڈگلس ینگ بیرسٹرایٹ لاء کو پنجاب ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ اس فیصلہ پر اخبار >الفضل< نے ایک زور دار شذرہ لکھا۔ جس میں مسلمانوں کی حق تلفی اور حکومت کے دل شکن رویہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت کو توجہ دلائی کہ >پنجاب میں ایسے قابل مسلمان قانون دان موجود ہیں جن کی قانونی قابلیت حکومت سے پوشیدہ نہیں اور وہ ان کی قابلیت کا کئی بار تجربہ بھی کر چکی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن چیف ججی کے متعلق اس نے یہی مناسب سمجھا کہ مسلمان قانون دانوں کو نظر انداز کرکے یہ منصب ایک انگریز کے سپرد کیا جائے۔ کہا گیا ہے کہ حکومت کے لئے اس بارے میں یہ مشکل درپیش تھی کہ پنجاب ہائی کورٹ میں کوئی مسلمان سینئر جج نہیں تھا اور یہ اس کے لئے ناممکن تھا کہ وہ کسی مسلمان بیرسٹر کو خواہ وہ خاص قابلیت کا ہی مالک کیوں نہ ہو چیف جج مقرر کر دیتی اس کے متعلق اول تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح پنجاب ہائی کورٹ کے ججوں کو چھوڑ کر باہر سے ایک انگریز چیف جسٹس لایا گیا۔ اسی طرح کسی مسلمان کو بھی یہ منصب دیا جا سکتا تھا علاوہ ازیں اس سے یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ اگر آج پنجاب ہائیکورٹ کے ججوں میں کوئی مسلمان سینئر جج موجود نہیں تو اس کی ذمہ داری انہی ارباب اقتدار پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پندرہ برس کے طویل عرصہ میں پنجاب کے کسی ایک قابل مسلمان کو بھی مستقل جج نہ بننے دیا۔ حالانکہ پنجاب میں نہایت اعلیٰ قابلیت کے مسلمان قانون دان موجود تھے۔ جب مسلمان قانون دان کے متعلق یہ صریح بے انصافی روا رکھی گئی تو اس کا تدارک اسی صورت میں ممکن تھا کہ حکومت کسی مسلمان بیرسٹر کو جس کی قابلیت دوسروں کے مقابلہ میں خاص درجہ رکھتی۔ چیف جج بنا دیتی اور اس طرح مسلمانان پنجاب کی دیرینہ اور جائز آرزو پوری کرکے ان کے دل مٹھی میں لے لیتی لیکن افسوس کہ حکومت نے اس کی پروا نہ کی اس نے جہاں مسلمانوں کے لئے بہت بڑی شکایت پیدا کر دی وہاں ہندوئوں کو موقعہ دے دیا کہ مسلمانوں کے سینے طعن و تشنیع کے تیروں سے چھلنی کر سکیں<۔۳۸۷
ہائیڈرو الیکٹرک برانچ میں مسلمانوں کی حق تلفی کے خلاف آواز
قریباً تمام کلیدی آسامیوں پر ہندو قابض تھے اس لئے مسلمانوں کے حقوق نہایت بے دردی سے پامال کئے جارہے تھے حتیٰ کہ مسلم اکثریت کے صوبہ پنجاب میں بھی ان کے ساتھ صریح بے انصافی کا سلوک کیا جاتا تھا۔
شہروں میں نئی نئی بجلی پہنچی تھی۔ لیکن چونکہ ہائیڈرو الیکٹرک کا شعبہ )لوکل سیلف گورنمنٹ کے ہندو وزیر( ڈاکٹر گوکل چند صاحب نارنگ کے ماتحت تھا اس لئے اس صیغہ میں بھی مسلمان اکثریت کو جائز اور واجبی حقوق سے محروم رکھا جارہا تھا۔ مسلمانوں نے اس رویہ پر نکتہ چینی کی تو ہندو پریس نے ڈاکٹر نارنگ کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نسبت اس بے بنیاد خیال کا اظہار کیا کہ
>ان کے سامنے تو ایک ہی وہم ہے کہ ہر محکمہ` ہر شعبہ` ہر صیغہ میں سوائے مسلمانوں کے اور کوئی نظر نہیں آنا چاہئے۔ مسلمان چاہے انجینرنگ جانتے ہوں یا نہ وہ بجلی کے کام سے واقف ہوں` یا ناوقف انہیں علم و ہنر کی دولت ملی ہو یا وہ اس پہلو میں خالص مفلس و قلاش ہی ہوں۔ لیکن ہر ذمہ دار عہدہ پر مسلمان ہی رکھے جانے چاہئیں اور مسلمانوں کی آبادی کی اوسط سے انہیں ملازمت مل جانی چاہئے چاہے موچی دروازہ کے گامے اور ماجے ہی بھرتی کرنے پڑیں<۔۳۸۸
اخبار >الفضل< )۱۱/ مارچ ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں( ہندو پریس کی اس افسوسناک ذہنیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ ہائیڈرو الیکٹرک برانچ میں ان کے حقوق تلف کئے جانے کی یہ ایک مثال ہے اور اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں مگر ان کے جواز کے لئے یہ کہنا کافی سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان نااہل اور ناقابل ہیں اگر حالات یہی رہے تو ناممکن ہے کہ مسلمان کبھی ان محکموں میں کام کرنے کے قابل سمجھے جائیں۔ لہذا انہیں چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے پرزور جدوجہد کریں اور اس وقت تک دم نہ لیں جب تک اس صیغہ کی ہر چھوٹی بڑی لائن میں مسلمان ملازمین کی تعداد اتنی نہ ہو جائے جتنی ان کی آبادی کے تناسب سے ہونی لازمی ہے۔۳۸۹
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا فیصلہ مباحثات کی نسبت
اس زمانہ میں مباحثات و مناظرات کثرت سے ہوتے تھے اور خصوصاً پچھلے چند سالوں سے ان کی تعداد نسبتاً بہت زیادہ ہو گئی تھی چنانچہ ۱۹۳۳ء میں ۱۷۸ مناظرے ہوئے۔۳۹۰ اس بڑھتی ہوئی رو سے گو سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع ہوا مگر ساتھ ہی کئی قسم کی پیچیدگیاں اور مشکلات بھی پیدا ہو گئیں مخالف مباحثات میں سخت بدزبانی اور دریدہ دہنی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتے تھے جس کے جواب میں احمدی مناظر کے لئے دو ہی صورتیں تھیں یا تو خاموش رہے یا ترکی بہ ترکی جواب دے اور مخالفین کی طرح بد زبانی پر اتر آئے ظاہر کہ یہ دونوں طریق جماعت کے لئے نقصان رساں تھے اس لئے نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء میں یہ معاملہ پیش کیا گیا جس پر کافی بحث و تمحیص کے بعد کثرت رائے نے یہ تجویز کی کہ۔
>حتی الوسع پبلک مباحثات سے اجتناب کیا جائے اور انفرادی تبلیغ اور تقاریر پر زور دیا جائے۔ اگر مخالفین کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج ملے اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ اثر پڑتا ہو کہ گویا ہماری طرف سے فرار ہے تو بہتر ہے کہ مباحثہ تحریری ہو اور تحریر مجلس مناظرہ میں پڑھ کر سنائی جائے استثنائی حالات میں جہاں اس امر کا اطمینان ہو کہ فریق مخالف بدتہذیبی اور امن شکنی نہ کرے گا۔ تقریری مباحثہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں ان مباحثات کے لئے ناظر دعوۃ و تبلیغ کی اجازت قبل از تصفیہ شرائط و تعین مباحثہ ضروری ہو گی۔ اس کے سوا کہ مقامی جماعت مناظرہ کا اپنے طور پر انتظام کرے یا مرکزی مبلغ موجود ہو اور اپنے دورے کے پروگرام کو توڑے بغیر مباحثہ کرسکتا ہو` مباحثہ کی ضرورت سے متعلق مقامی جماعت سے متفق ہو<۔۳۹۱
اس پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو پسند نہیں کیا بلکہ ایسی چیز قرار دی ہے جیسے جنگ کی مثال ہے دوسرا حملہ کرے تو اجازت ہے کہ مقابلہ کریں۔ اور وہ بھی اجازت ہے حکم نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کے ابتدائی وقت میں دشمن حملہ کرتے تو جنگ سے گریز کیا جاتا۔ یہاں تک کہ ایک وقت آگیا جب مقابلہ ضروری ہو گیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو ناپسند کیا ہے مگر پھر بھی آپؑ کے زمانہ میں مباحثات ہوئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو مباحثات کرنے سے روک دیا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت میں ایسے بالغ عاقل افراد مذہبی لحاظ سے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ بوجھ اٹھا سکیں۔ ہماری یہ تجویز اسی روح کو تازہ کرنے والی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کی کہ مباحثات سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔ اور انفرادی تبلیغ اور تقاریر پر زور دیا جائے۔ اگر مخالفین کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج ملے اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ اثر پڑتا ہو کہ گویا ہماری طرف سے فرار ہے تو بہتر ہے کہ مباحثہ تحریری ہو<۔ میں اسے منظور کرتا ہوں۔
دوسرا حصہ جو یہ ہے کہ مبلغ موجود ہو یا مقامی لوگ مباحثہ کر سکیں۔ تو مرکز سے اجازت لینے کی ضرورت نہ ہو۔ اس میں بعض خطرات باقی رہ جاتے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص مباحثہ کر لیتا ہے کہ وہ جو تحریر دے وہ کمزور ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب وہ شائع ہو گی تو لوگوں پر یہ اثر پڑے گا کہ احمدی جواب نہیں دے سکے۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ سب احمدی حقیقی طور پر انہیں سمجھتے نہیں حالانکہ ہم بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس وجہ سے میں تقریری مباحثات کو ترجیح دوں گا جہاں مقامی مناظر پیش ہو۔ یعنی وہ تقریری مناظرہ کرے۔ تحریری نہ کرے اور اگر تحریری کرے تو انفرادی طور پر کرے۔ جماعت کی طرف سے پیش نہ ہو۔ یعنی جہاں مرکزی مبلغ مناظرہ کرے وہاں تحریری مناظرہ کو ترجیح دی جائے۔ اور جہاں مقامی مناظر پیش ہو وہاں تقریری کو۔ مرکزی مناظرہ کی صورت میں تمام ذمہ داری مرکزی مناظر کی سمجھی جائے گی اور اس کا یہ کہنا کافی نہ ہوگا کہ مجھے جماعت کی طرف سے مناظرہ کے لئے مجبور کیا گیا تھا<۔۳۹۲
وائسرائے ہند کی خدمت میں احمدیہ وفد اور مسلم حقوق کے تحفظ کا اہم مسئلہ
۲۶/ مارچ ۱۹۳۴ء کو نمائندگان جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے دہلی میں وائسرائے ہند لارڈ ولنگڈن سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں
ایک ایڈریس پڑھا جس میں خاص طور پر ان سے درخواست کی کہ مستقبل میں ہندوستان کے نظام حکومت میں مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
چنانچہ وفد نے کہا۔ ایک ایسی حکومت جس کے ماتحت ہر ملت و مذہب کے لوگ ہوں کسی خاص جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کر سکتی۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ایک قوم اپنے جائز حقوق سے محروم ہو خواہ اس محرومی میں اس کی اپنی کوتاہی کا ہی کیوں نہ دخل ہو وہ ایک حد تک مدد اور سہارے کی محتاج ہوتی ہے اور مسلمانوں کی یہی حالت ہے۔ حکومت مغلیہ کی تباہی کے بعد مسلمانوں پر دیر تک ایک سکتہ کا سا عالم رہا اور شاید یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا بلکہ لارڈ کرزن جیسے واقف گورنر جنرل کی اس خیال کو تصدیق حاصل ہے کہ حکومت بھی اپنا پیش رو ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو ابتداء میں شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔ لیکن جب کوئی شک پیدا ہو جائے تو وہ آہستہ آہستہ ہی دور ہوتا ہے پس اس شک کے عرصہ میں دوسری اقوام نے خاص ترقی کر لی اور مسلمان پیچھے رہ گئے۔ تعلیم میں بھی` سرکاری ملازمتوں میں بھی` اور سیاسی میدان میں بھی۔ اب جبکہ وہ شکوک دور ہو چکے ہیں۔ اور دونوں قومیں جن پر دنیا کے آئندہ امن کا انحصار ہے۔ ایک دوسرے کی طرف صلح اور محبت کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں اس امر کی خواہش بے جا نہ ہو گی کہ گزشتہ کوتاہی کو دور کرنے کے لئے صحیح اور موثر قدم اٹھایا جائے۔
وفد نے مزید کہا۔ سرحد جو ہمیشہ ہندوستان کے دروازہ پر کندھا دیئے کھڑا رہا ہے۔ اسلامی بنگال جو مقدور بھر ٹیررازم کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اسلامی پنجاب جو برطانوی مشکلات کے وقت اپنے جگر گوشوں کو برطانیہ کی خدمت کے لئے نکال کر پھینکتا رہا ہے اور وہ دوسرے صوبوں کے مسلمان جو تعلیم یافتہ منظم اور آگے نکلی ہوئی قوموں کے درمیان پراگندہ طور پر پڑے ہوئے ہیں اس وقت برطانوی انصاف ہی کے نہیں بلکہ اس کی ہمدردی کے خواہشمند اور مستحق ہیں۔ جناب اور جناب کی حکومت نے ان کے لئے بہت کچھ کیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے اور ہم یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا آئندہ سیاسی نظام میں اور ان کی اقتصادی حالت کا حکومت کے ماتحت سرکاری ملازمتوں میں اور نئی مالی تجاویز کے اجراء کے وقت خاص خیال رکھا جائے۔۳۹۳
یہ وفد ۲۲ ممبروں پر مشتمل تھا جن کے نام یہ ہیں۔
)۱( لیفٹیننٹ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۔ )۲( چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بی اے۔ ایل ایل بی بیرسٹرایٹ لاء لاہور۔ )۳( کرنل اوصاف علی خان صاحب سی۔ آئی۔ ای مالیر کوٹلہ۔ )۴( سردار بہادر کیپٹن غلام محمد خان صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔ )۵( صوبیدار فتح محمد خان صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔ )۶( لیفٹیننٹ تاج محمد خان صاحب نوشہرہ ضلع پشاور۔ )۷( خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سینئر سب جج علی گڑھ۔ )۸( خان بہادر چوہدری نعمت اللہ خان صاحب آنریری مجسٹریٹ مدار ضلع جالندھر۔ )۹( حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد۔ حیدر آباد دکن۔ )۱۰( حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب رئیس کلکتہ۔ )۱۱( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۔ )۱۲( صاحبزادہ محمد طیب صاحب بنوں۔ )۱۳( قاضی محمد شفیق صاحب ایم۔ اے ایل ایل۔ بی وکیل چار سدہ پشاور۔ )۱۴( سید ارتضیٰ علی صاحب تاجر لکھنئو۔ )۱۵( بابو اعجاز حسین صاحب دہلی۔ )۱۶( میاں محمد ابراہیم صاحب تاجر چرم کان پور۔ )۱۷( حضرت مولوی عبدالماجد صاحب پروفیسر جوبلی کالج بھاگلپور۔ )۱۸( ملک عبدالرحمن صاحب قصور )۱۹( حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے ناظر اعلیٰ۔ )۲۰( حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر امور عامہ۔ )۲۱( حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ۔ )۲۲( حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ناظر امور خارجہ۔۳۹۴
مسلمانان اجودھیا پر ہندوئوں کے مظالم
۲۶/ مارچ ۱۹۳۴ء کو عید الاضحیہ کی تقریب منائی گئی۔ یہ ایک مذہبی تہوار تھا مگر ہندوئوں نے اس موقعہ پر کئی مقامات میں مسلمانوں میں >گئو ہتیا< کی آڑ لے کر حملہ کر دیا۔ اس شرارت کا سب سے زیادہ خمیازہ اجودھیا کے مسلمانوں کو بھگنا پڑا۔ جہاں تین مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ آٹھ مجروح ہوئے اور ۱۸/ مسلمانوں کے مکانات جلا دیئے گئے۔
اخبار >الفضل< نے اس فتنہ انگیزی کے خلاف دو پرزور اداریے لکھے۔۳۹۵
پہلا باب )فصل یاز دہم(
مسجد >فضل< لائلپور کی تعمیر اور حضرت امیر المومنین کا افتتاح
لائلپور صوبہ کی نئی آبادی کا مرکز اور اپنے زراعتی یونیورسٹی اور کارخانوں کے باعث ایشیا بھر میں مشہور ہے اس شہر کے مقامی اور باہر سے آنے والے احمدی مدت سے ایک تکلیف دہ ماحول میں سے گزر رہے تھے وجہ یہ کہ یہاں کوئی احمدیہ مسجد نہیں تھی اور احمدی چنیوٹ بازار کے دو چوباروں میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے آخر دوڑ دھوپ کرکے ڈگلس پورہ )متصل مین بازار( میں حصول زمین کے لئے درخواست دی گئی مگر غیر احمدی مسلمانوں نے مخالفت کی کہ یہ ہمارا محلہ ہے یہاں مسجد نہیں ہونی چاہئے لہذا یہ جگہ حاصل نہ ہوسکی اور مسجد کی بجائے یہاں مندر بن گیا۔ اب دوبارہ جدوجہد شروع کرنا پڑی اور نڑ والے اڈہ کے نزدیک دو کنال کا ایک قطعہ تلاش کیا گیا۔ بعض دوستوں نے رائے دی کہ اس جگہ مسجد بنانے سے خرچ بہت زیادہ اٹھے گا جو ہماری طاقت سے باہر ہے اس پر ایک کنال کے لئے درخواست دی گئی لیکن حکومت نے ہندوئوں کی دلجوئی کرتے ہوئے وہ زمین دینے سے انکار کر دیا۔۳۹۶
ان پے در پے روکاوٹوں کے باوجود جماعت احمدیہ لائل پور نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں اور بالاخر آٹھ سال کی متواتر جدوجہد کے بعد گول منشی محلہ بھوانہ بازار اور امین پور بازار کے درمیان ایک قطعہ زمین کے لئے درخواست دی۔ یہاں اس وقت میونسپلٹی کی طرف سے جستی چادروں سے بیت الخلاء بنے ہوئے تھے اور ہر طرف تعفن اور بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ میونسپلٹی نے مسجد کی تعمیر کے لئے متفقہ طور پر ریزولیوشن پاس کر دیا مگر جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے متعلقہ کاغذاب کمشنری میں بھیج دیئے تو مخالف علماء نے عوام میں سخت اشتعال پیدا کر دیا بلکہ بعض روایات کے مطابق مسجد جامع میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر یہاں احمدیوں کی مسجد بنائی گئی تو خون کی ندیاں بہا دی جائیں گی۔ بلکہ تین اشخاص نے خاص طور پر وعدہ کیا کہ ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے مگر احمدیوں کو مسجد نہیں بننے دیں گے۔۳۹۷ البتہ لائلپور کے علمائے اہل حدیث نے مخالفت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ چنانچہ مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کا بیان ہے کہ مجھ سے لائلپور کے اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب نے خود ذکر کیا کہ ہم لوگوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری سے فتویٰ پوچھا۔ تو انہوں نے ہمیں جواب دیا کہ اہل حدیث کو احمدیوں کی مسجد بننے میں روک نہیں بننا چاہئے۔ مگر چونکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں ان کے مولوی صاحبان نے سخت اشتعال اور منافرت پیدا کر دی تھی اس لئے انہوں نے میونسپلٹی میں ایک محضر نامہ پیش کیا جس پر میونسپلٹی نے اپنا پہلا ریزولیوشن منسوخ کر دیا اور مخالفین کی طرف سے گورنر تک کو تار دیئے گئے مگر اس مخالفت نے جماعت کے دلوں میں ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی۔ اور وہ انابت الی اللہ کے سچے جذبے کے ساتھ خشوع و خضوع سے دعائوں میں لگ گئے رات کے وقت بعض احمدی خفیہ طور پر اس مقام پر آتے اور نوافل پڑھتے۔ انہوں نے اپنے پیارے آقا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھی دعا کے لئے درخواستیں کیں۔ ایک رات جماعت لائل پور کے پریذیڈنٹ شیخ محمد محسن صاحب نے دعا کی تو اللہ تعالی نے ان کی زبان پر انا فتحنا لک فتحا مبینا کے الفاظ جاری کرکے قبل از وقت کامیابی کی بشارت دے دی۔ بالاخر خدا کے فضل اور اس کی بشارت کے مطابق جماعت کی کوششیں بارآور ہوئیں اور زمین کی منظوری ہو گئی اور اس کا قبضہ مل گیا۔۳۹۸ جماعت کے دل میں مسجد کی تعمیر کا پہلے ہی زبردست جذبہ موجزن تھا اب جو غیر معمولی حالات میں حصول زمین میں کامیابی ہوئی تو اس کے اندر اور زیادہ جوش پیدا ہو گیا اور اس ایک سال کے اندر اندر اس مقام پر ایک عظیم الشان مسجد تیار کرنے کی توفیق مل گئی۔
اس مسجد کی تعمیر میں یوں تو لائل پور کے سب احمدیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالی قربانیاں کیں۔ مگر بعض مخلصین نے جن میں شیخ محمد محسن صاحب مرحوم پریذیڈنٹ لائل پور سر فہرست ہیں اس موقعہ پر انتہائی اخلاص کا ثبوت دیا۔ شیخ محمد محسن صاحب نے بیش قیمت مالی امداد کے علاوہ مہتمم تعمیر کے فرائض بھی سرانجام دیئے اور اپنی اہلیہ )محترمہ اللہ جوائی صاحبہ مرحومہ( کی وصیت پر ان کی یادگار کے طور پر مسجد کے ساتھ ایک کنواں تعمیر کرایا اسی طرح مسجد میں بجلی کی فٹنگ کا تمام خرچ اپنی جیب خاص سے ادا کیا اور زندگی بھر مسجد کی روشنی کا پورا خرچ خود ہی برداشت کرتے رہے بلکہ ان کی وفات کے بعد اب تک ان کی دوسری بیگم محترمہ محمودہ صاحبہ )ہمشیرہ شیخ بشیر احمد صاحب سابق جج ہائی کورٹ لاہور( ادا کر رہی ہیں۔
شیخ محمد محسن صاحب کے بھائی شیخ مولا بخش صاحب )غیر مبائع( نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا۔ چندہ کی وصولی کے لئے شیخ محمد محسن صاحب` شیخ مولا بخش صاحب قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل سیاح` ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے۔ بی ٹی اور شیخ محمد یوسف صاحب نے دورہ کیا۔ چوہدری عطا محمد صاحب نائب تحصیلدار نے مسجد کی تعمیر کے لئے بطور عمومی کارکن اور شیخ بابو ولایت محمد صاحب نے انجینئر کی حیثیت سے قابل رشک خدمات سرانجام دیں۔ اخوند افضل خاں صاحب آف ڈیرہ غازی خاں نے بھی اس مسجد کی تیاری کے لئے بہت امداد کی۔۳۹۹ علاوہ ازیں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے )جو ان دنوں مسلم ہائی سکول لائلپور میں عربی ٹیچر اور مقامی جماعت کے نائب مہتمم تبلیغ اور خطیب و امام الصلٰوۃ تھے( اپنے وعظ و تلقین سے جماعت لائلپور میں ایک زبردست روح پھونک دی اور احباب تعمیر مسجد کے لئے ایثار و اخلاص کے جذبات سے لبریز اور ہر قربانی پر آمادہ ہو گئے۔
افتتاح کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی منظوری اور اس کا پس منظر
مسجد کی شاندار عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی تو جماعت لائلپور نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اس کے افتتاح کرنے کی
درخواست پیش کی۔۴۰۰ جو حضور نے قبول فرما لی اور ۷/ اپریل ۱۹۳۴ء مطابق ۲۲/ ذوالحجہ ۱۳۵۲ھ کا مبارک دن اس کے لئے مقرر فرمایا۔ حضور کی طبیعت ان دنوں علیل تھی اور ڈاکٹری مشورہ یہ تھا کہ یہ سفر ملتوی کر دیا جائے مگر حضور نے یہ التوا منظور نہ فرمایا جس کی اصلی وجہ حضور کے مقدس الفاظ ہی میں بیان کرنا موجب برکت ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>میں سمجھا کہ یہ خاص طور پر دینی کام ہے لائل پور نو آبادی کا مرکز ہے اور اس لحاظ سے گویا نئی دنیا ہے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک کشف بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک نئی دنیا بنانے آئے تھے۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ جو نئی دنیا بسی ہے وہاں جائوں۔ تا وہ کشف ایک رنگ میں پورا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رئویا میں دیکھا تھا کہ آپؑ نے نیا آسمان اور نئی زمین بنائی ہے اس کے حقیقی معنے تو یہی ہیں کہ ساری دنیا میں آپ کے ذریعہ ایک نئی روح پھونکی جائے گی۔ مگر جزوی معنی یہ بھی ہیں کہ جو نئی دنیا بسی ہے وہاں کے لوگوں میں سچا ایمان پیدا کر دیا جائے۔ پس اس قسم کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں بھی احمدیت کو مضبوط کر دے تا ظاہری آبادی کی طرح یہاں باطنی آبادی بھی ہو جائے۔ میں یہاں آنے پرآمادہ ہو گیا<۔۴۰۱
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی قادیان سے روانگی
حضور پروگرام کے مطابق ۷/ اپریل کی صبح قادیان سے موٹر میں روانہ ہووئے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور مولوی قمر الدین صاحب اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری بھی حضور کے ہمراہ تھے۔
‏]ydob [tagحضور ۹ بجے لاہور سے لائل پور کی گاڑی میں سوار ہوئے جہاں لائلپور جانے کے لئے قادیان۴۰۲ کے متعدد احباب پہلے ہی لاہور پہنچ چکے تھے اور لاہور کے بھی کئی دوست شریک قافلہ ہو گئے راستہ میں بھی بعض اسٹیشنوں پر احمدی دوست شامل ہوتے رہے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی لائل پور میں تشریف آوری
گاڑی سوا بجے لائل پور پہنچی۔ پلیٹ فارم پر اور اسٹیشن سے باہر حضور کا استقبال کرنے کے لئے ایک بڑا ہجوم امڈ آیا تھا۔ احمدیوں کا ایسا شاندار اجتماع قادیان کے سالانہ جلسہ کے سوا کسی اور احمدیہ جماعت کے جلسہ پر دیکھنے میں نہیں آیا تھا استقبال کرنے والوں میں احمدی` غیر احمدی` ہندو اور سکھ وغیرہ سب اقوام کے لوگ موجود تھے جن میں سرکاری عہدیدار` وکلا` بیرسٹر` مقامی شرفاء و معززین میونسپل کمشنر وغیرہ شریک تھے گاڑی سے اترنے کے بعد حضور کے گلے میں پھولوں کے بکثرت ہار ڈالے گئے اور جب ان کا بوجھ بہت ہو گیا۔ تو لوگوں نے فرط عقیدت سے پھول برسانے شروع کر دیئے لوگ اسٹیشن سے باہر دو رویہ کھڑتے تھے اور احمدی والنٹیر انتظام قائم کئے ہوئے تھے۔ پولیس کا قابل تعریف انتظام تھا اور خود سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس بھی موجود تھے۔ حضور نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان پلیٹ فارم سے باہر تشریف لائے اور موٹر میں سوار ہو کر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ موٹر کے آگے احمدیہ والنٹیرز کور کے نوجوان جھنڈے اٹھائے جارہے تھے۔
افتتاح مسجد
حضور سیدھے مسجد احمدیہ میں تشریف لے گئے اور بطور افتتاح دو نوافل جہری قرائت سے پڑھائے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کی ہر آیت کا تین مرتبہ تکرار کیا اور ہر بار حضور کی آواز میں ایک خاص قسم کا جوش اور جذب تھا۔ نمازیوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ ایک دوسرے کی پیٹھ پر سجدے کئے گئے۔ اور نمازیوں پر اس قدر رقت طاری تھی کہ بے اختیار چیخیں نکل رہی تھیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کی گئیں۔
جماعت ہائے احمدیہ ضلع لائل پور کا ایڈریس
نماز سے فارغ ہو کر حضور کرسی پر رونق افروز ہوئے اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے ضلع لائل پور کی احمدی جماعتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پڑھا۔۴۰۳ جس کی سنہری حروف میں طبع شدہ ایک کاپی مخمل کے نہایت خوبصورت کیس میں رکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کی گئی۔ یہ ایڈریس چھاپ کر تقسیم کر دیا گیا تھا۔ قاضی صاحب پر بھی اس وقت ایک خاص کیفیت طاری تھی اور وہ ایڈیٹر صاحب >الحکم< حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے الفاظ پیکر محویت بنے ہوئے تھے۔ اور حضور کی تشریف آوری نے ان میں اور باقی تمام افراد جماعت میں ایک نیا رنگ پیدا کر دیا تھا۔۴۰۴
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے جواب
ایڈریس کے جواب میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے پرمعارف خطاب فرمایا۔ ایڈریس میں مسجد کی تعمیر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ نشان قرار دیتے ہوئے چونکہ مخالفین سلسلہ کی مخالفانہ روش کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا اس لئے حضور نے اپنی تقریر کے ابتدا ہی میں ارشاد فرمایا۔
>جہاں میں ایڈریس دینے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہاں ایک امر کے متعلق اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایشیائی لوگوں میں عام رواج ہے کہ وہ اپنے کاموں کی بنیاد کچھ نہ کچھ جذبات پر رکھتے ہیں یورپین لوگوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ ان کے تمام کاموں میں تجارتی رنگ ہوتا ہے۔ ایشیائی ممالک کا اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو وہ قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ قاتلوں کو معاف کرے گا۔ ملازموں کو چھٹیاں دے گا۔ اور انعام و اکرام تقسیم کرے گا لیکن یورپ میں اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ عرض ہماری دنیا جذباتی دنیا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ بعض حالات میں مفید ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں اس موقعہ پر جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی کہ آپ لوگ اس کے نام پر ایک گھر بنائیں۔ بعض >لوگوں< کا جو شکوہ کیا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہوں نے مخالفت کی ہو گی مگر یہ سمجھ کر کہ اس طرح وہ دین کی کوئی خدمت کر رہے ہیں انہوں نے مخالفت کی لیکن اب جب خدا تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا کی۔ تو چاہئے تھا کہ خدمت کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے مگر مخالفت کرنے والوں کا ذکر چھوڑ دیتے اور دلوں میں ان کے لئے دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب کرے۔ ایڈریس کے اس حصہ نے مجھے تکلیف دی ہے۔ خوشی کے موقعہ پر ایشیائی بادشاہ قیدیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور مخالفت کرنے والے لوگ تو آپ کے قیدی نہ تھے ان کا ذکر چھوڑ دینے میں آپ کا کوئی حرج نہیں ہوتا تھا<۔۴۰۵
اس ارشاد کے بعد حضور نے اختصار کے ساتھ دوستوں کو مسجد بنانے کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔
>مساجد اپنے ساتھ بعض ذمہ داریاں رکھتی ہیں۔ مسجد خدا کا گھر ہے اور جو شخص مسجد بنانے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اسے ہم نے بنایا۔ اور یہ ہماری ہے وہ گویا خدا کے گھر کو اپنا گھر قرار دیتا ہے دنیا میں اگر کوئی شخص کسی معمولی آدمی کے گھر کو بھی کہے کہ یہ میرا ہے تو وہ مجرم سمجھا جاتا ہے اس سے اندازہ کر لو کہ جو شخص خدا کے نام پر ایک گھر بنائے اور پھر اسے اپنا قرار دے وہ کتنی بڑی سزا کا مستحق ہو گا پس لائل پور کا ہر احمدی فرد یہ سمجھے کہ یہ خدا کا گھر ہے اگر یہ خدا کا گھر نہیں ہے تو مسجد نہیں ہو سکتی۔ اور اگر خدا کا گھر ہے تو آج سے آپ لوگوں میں سے کوئی شخص ایک ساعت کے لئے بھی یہ خیال نہ کرے کہ یہ ان کی ہے جس وقت میں نے دو رکعتیں پڑھ کر اس کا افتتاح کیا اس کے بعد کسی کو اب یہ حق نہیں کہ اسے اپنی قرار دے اور کسی کو اس میں عبادت کرنے سے روکے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص ایک ہندو یا عیسائی کو بھی روکے گا تو وہ خدا کا فوجداری مجرم ہو گا<۔۴۰۶
حضرت امیر المومنین قیام گاہ میں
اس ایمان افروز خطاب کے بعد۴۰۷ حضور شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر کی کوٹھی )واقع سرکلر روڈ متصل کچہری( میں تشریف لے آئے۔ جہاں حضور کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ شیخ صاحب موصوف اپنی اس خوش نصیبی پر اس روز بہت شادماں و نازاں تھے کہ خدا تعالیٰ کے عالی مقام خلیفہ موعود کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل ہو رہا ہے۔ آپ نے ایسے اخلاص و محبت سے اپنے فرائض ادا کئے کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے الحکم میں لکھا۔ >شیخ صاحب نے اس موقعہ پر مہمان نوازی کا جو نمونہ دکھایا ہے وہ صد ہزار تحسین کے قابل اور واجب التقلید ہے۔ آپ بہ نفس نفیس اور آپ کے گھر والے اور ملازم سب کے سب ہر وقت مہمانوں کی خدمت میں کمربستہ تھے شیخ صاحب کی اس مہمان نوازی کا اثر ہر شخص کے دل پر ہے وہ خود آرام کے خوگر اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے ہیں مگر اس موقعہ پر معمولی سے معمولی خدمت کو بھی انشراح صدر سے بجا لاتے تھے یہ ان کے اخلاص اور ایمان کا ثمرہ تھا<۔۴۰۸
جماعت احمدیہ لائل پور کا جلسہ
حضور کی تقریر کے بعد تمام لوگ جلسہ گاہ کی طرف چلے گئے جو مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کے زیر انتظام میونسپل باغات میں نہایت شاندار خوبصورت شامیانوں اور قناتوں سے بنائی گئی تھی۔ اور ایک باقاعدہ سٹیج سالانہ جلسہ کے نمونہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جلسہ میں سلسلہ کے مبلغین میں سے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل` گیانی واحد حسین صاحب )سابق شیر سنگھ( اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے مختلف موضوعات پر تقریریں کیں اور جلسہ نماز مغرب کے لئے برخاست ہوا۔
حضرت اقدس جلسہ گاہ میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جلسہ گاہ میں نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں پھر سٹیج پر رونق افروز ہوئے اور تمام احباب کو مصافحہ کا موقعہ بخشا۔ مصافحہ کرنے والے باقاعدہ ایک انتظام کے ماتحت ایک راستہ سے آتے اور دوسرے سے جاتے تھے اس حسن انتظام پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور یہاں سے فارغ ہو کر شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر کی کوٹھی میں واپس تشریف لے گئے حضور کی واپسی کے بعد علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ مجاہد فلسطین نے بلاد اسلامیہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات پر تقریر فرمائی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی معرکتہ الاراء تقریریں
اگلے روز ۸/ اپریل کو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مولانا محمد سلیم صاحب نے ۔۔۔۱۲ بجے تک تقاریر کیں۔ پھر حضور نے وہیں تشریف لا کر ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں اور ۔۔۔۲ بجے کے قریب جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحبؓ بی۔ اے سابق مبلغ ماریشس نے تلاوت قرآن کریم کی اور حکیم سراج الدین صاحب لاہوری نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نظم پڑھی پونے تین بجے کے قریب حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے حضور نے اپنی تقریر میں تحقیق حق سے متعلق بعض اہم ضروری ہدایات دینے کے بعد وفات مسیح ناصری علیہ السلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر ایسی دلچسپی` موثر اور جامع تقریر فرمائی کہ لوگوں پر وجد کی حالت طاری ہو گئی۔ مجمع میں ہر خیال اور ہر مذہب و ملت کے لوگ شریک تھے پانچ بجے چونکہ ایک ٹی پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس لئے حضور نے فرمایا کہ بقیہ تقریر میں رات کو نو بجے کے بعد کروں گا۔ اس کے بعد حضور ٹی پارٹی میں تشریف لے گئے جو جماعت احمدیہ لائل پور کی طرف سے حضور کی آمد کی خوشی میں دی گئی تھی اور جس میں شہر کے معزز و ممتاز سرکاری اور غیر سرکاری اصحاب بکثرت مدعو تھے۔ اکل و شرب کا یہ انتظام نہایت عمدہ تھا۔ پارٹی کے اختتام پر حضور نے مختصر سی تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ بین الملی اتحاد کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے؟
حضور ۹ بجے کے قریب پارٹی سے فارغ ہو کر دوبارہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور نمازیں جمع کرکے پڑھائیں اس کے بعد حافظ مسعود احمد صاحب )ابن بھائی محمود احمد صاحب قادیانی( نے تلاوت کی اور ایک مقامی دوست میاں غریب الدین صاحب نے نظم پڑھی پھر پونے دس بجے حضور کی پرمعارف تقریر شروع ہوئی جو رات کے بارہ بجے ان دعائیہ الفاظ پر ختم ہوئی۔۴۰۹
>دعا کرتا ہوں کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سچے رستہ پر چلنے` قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمارے اختلافات کو دور کرکے ہندو` عیسائی` سکھ غرضیکہ سب کو ہدایت دیکر دین واحد پر جمع کردے تا وہ سب محمد رسول اللہہ~صل۱~ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک ہو جائیں۔ اے میرے قادر و توانا خدا! میں تیرے حضور یہ درخواست کرتا ہوں۔ کوئی عیسائی ہو یا ہندو و سکھ سب تیرے بندے ہیں پس اپنے بندوں کو گمراہ ہونے سے بچا لے تیری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے دوزخ کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازے کھول دے۔ اللہم آمین<۔۴۱۰
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جڑانوالہ میں
حضور انور ۹/ اپریل کی صبح کو آٹھ بجے کے قریب لائل پور سے روانہ ہوئے۔ جڑانوالہ میں ان دنوں جماعت کے ایک پرجوش اور مخلص دوست ڈاکٹر محمد شفیع صاحب بطور ویٹرنری اسسٹنٹ متعین تھے جنہوں نے ایک روز قبل حضور سے چند منٹ ٹھہرنے کی درخواست کی تھی جسے حضور نے شرف قبولیت بخشا چنانچہ حضور ۹ بجے کے قریب جڑانوالہ میں ان کے ہاں رونق افروز ہوئے اس وقت تیس کے قریب خدام حضور کے ساتھ تھے باوجود یکہ ان کو وقت بہت کم ملا تھا انہوں نے پرتکلف ناشتہ پیش کیا۔۴۱۱`۴۱۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ احمد پور میں
جڑانوالہ سے روانہ ہوکر حضور ملک غلام محمد صاحب آف لاہور کی درخواست پر ان کے گائوں احمدپور تشریف لے گئے اور ملک صاحب کے مکان میں وہاں کے احمدیوں کو شرف زیارت بخشا اور بعض مستورات نے بیعت کی۔ یہاں حضور نے جماعت کی مسجد میں دو رکعت نماز بھی پڑھائی۔ اور پھر پنجابی زبان میں چند نصائح بھی فرمائیں۔ جن کا لب لباب یہ تھا کہ اپنی زندگی کی حقیقی غرض و غایت کو مدنظر رکھتے ہوئے دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ احمدپور کی ایک غریب اور عمر رسیدہ خاتون نے حضور کی لائل پور میں تشریف آوری کی خبر سن کر اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ قادیان جلسہ سالانہ پر تو میں نہیں جا سکتی مجھے لائل پور ہی لے چلو تا میں حضرت صاحب کی زیارت کر سکوں۔ بیٹے نے قریب کے ایک گائوں ڈیری والا کے احمدیوں سے جاکر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ لائل پور میں مستورات کے لئے کوئی انتظام نہیں ہو گا۔ بیٹا اپنی والدہ کو یہ بتا کر خود لائل پور روانہ ہو گیا۔ ابھی وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ وہ بوڑھی خاتون سجدہ میں گر پڑیں اور یہ دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کی زیارت کا کوئی سامان پیدا کر دے۔ چنانچہ جب حضور اس گائوں میں تشریف لائے تو اس مخلص خاتون نے بھی زیارت کی اور بہت خوش ہوئی۔۴۱۳
قادیان میں ورود مسعود
یہاں سے فراغت کے بعد حضور لاہور کی طرف روانہ ہوئے اور اسی روز )۹/ اپریل کو( شام کے قریب واپس قادیان پہنچ گئے۔۴۱۴ اس طرح حضور کا یہ سفر جو افتتاح مسجد کے لحاظ سے سفر انگلستان کے بعد اپنی نوعیت کا دوسرا سفر تھا نہایت کامیابی سے ختم ہوا۔
‏tav.7.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
جلسہ کے بعض ضروری کوائف
جلسہ سے چند روز قبل پیر جماعت علی شاہ صاحب تین دن وہاں رہے کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں سے حلف لئے کہ احمدیوں کے جلسہ میں شامل نہ ہوں گے۔ احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز فتووں کی اشاعت کی گئی۔ جلسہ گاہ کے حصول میں مشکلات پیدا کی گئیں۔ خیموں کے تاجروں کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر تم نے شامیانے وغیرہ دیئے تو وہ جلا دیئے جائیں گے۔ جلسہ سے ایک رات پہلے نہر کے نالے کو کاٹ کر اس قطعہ کو جہاں جلسہ گاہ تیار کی گئی تھی دلدل کر دینے کی کوشش کی گئی۔ مولوی ظفر علی خان صاحب اور بعض دوسرے مخالفین بذریعہ تار بلائے گئے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف سخت زہر اگلا اور غیر مبائع اصحاب نے مولوی محمد علی صاحب امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے لکھے ہوئے ٹریکٹ بھی تقسیم کئے۔
لیکن ان تمام معاندانہ کوششوں اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ حاضرین کی تعداد کا اندازہ چھ ہزار سے کسی طرح کم نہیں تھا اور حضور کی تقریروں کے وقت تو اس میں اور بھی اضافہ ہو جاتا تھا۔ احمدی احباب بھی تمام نواحی دیہات اور اردگرد کے اضلاع سے بکثرت شامل ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس موقعہ پر ڈیڑھ سو کے قریب افراد بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۴۱۵
جماعت لائل پور تبلیغ کے نئے دور میں
اس جلسہ سے لائل پور میں تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا تھا جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے مرکز کی طرف سے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کو کچھ عرصہ لائل پور ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے قیام کے دوران احمدیت کی خوب تبلیغ کی اور غیر احمدی علماء پر احمدیت کی دھاک بٹھا دی۔ یہاں ایک دیو بندی فاضل مولوی محمد مسلم صاحب نے سورہ فاتحہ کی ایک مختصر سی تفسیر لکھی تھی جس کا متن اردو میں تھا اور حاشیہ عربی میں۔ انہوں نے حضرت مولانا راجیکیؓ کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا۔ دوپہر کا وقت تھا جونہی یہ چیلنج آپ کی خدمت میں پہنچا آپ اسی وقت قلم دوات لے کر بیٹھ گئے اور دوسرے دن بارہ بجے تک فلسکیپ سائز کے ساٹھ صفحات پر فصیح و بلیغ عربی میں صرف بسم اللہ کی تفسیر لکھی اور مولوی محمد مسلم صاحب کو پیغام بھیجا کہ اب آپ تین علماء مقرر کریں جو ہم دونوں کی تفسیر پڑھ کر حلفیہ بیان دیں کہ کس کی تفسیر زبان دانی اور حقائق و معارف کے لحاظ سے اعلیٰ پایہ کی ہے اس پر مولوی محمد مسلم بالکل مبہوت رہ گئے۔۴۱۶
اس زمانہ میں شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور شیخ مولانا عبدالقادر صاحبؓ فاضل بھی لائل پور میں رہے اور حضرت مولانا راجیکیؓ کی صحبت میں تبلیغی میدان کے لئے عملی تربیت حاصل کی اور اس طرح لائل پور کو روحانی و تبلیغی اعتبار سے ایک رنگ میں تربیتی مرکز کی سی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔۴۱۷
مسجد فضل لائل پور کے لئے کتبہ
اس مسجد کا نام حضور نے مسجد فضل تجویز فرمایا تھا اور اس کے لئے اپنے قلم مبارک سے کتبہ کے مندرجہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے تھے۔ جو تاریخی یادگار کے طور پر آج تک دیوار مسجد پر کنندہ ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر
الٰہی! اس مسجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ پر ہو۔ اور اس میں نمازیں پڑھنے والے ہمیشہ تیری رضا کو دوسری سب چیزوں پر مقدم رکھیں۔ میں تیرے فضل سے امید رکھتے ہوئے اس مسجد کا نام مسجد فضل رکھتا ہوں۔
اے میرے رب! میری اس امید کو پورا کر اور اس مسجد کو اپنے فضل کا مقام بنا۔ اس سے تعلق رکھنے والوں اور اس میں نمازوں کی مداومت کرنے والوں کو اپنے بڑھنے والے فضل سے حصہ دیتا رہ اور اسے اپنے دین کی اشاعت کا اس علاقہ کے لئے مرکز بنا۔ اللھم آمین۔
میرزا بشیر الدین محمود احمد۴۱۸
۲۲/ ذی الحجہ ۱۳۵۲ھ مطابق ۷/ اپریل ۱۹۳۴ء بروز افتتاح
سفر لائل پور کے تاثرات سیدنا حضرت امیر المومنینؓ کی زبان مبارک سے
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے لائل پور سے واپسی پر اس سفر کے تاثرات ان الفاظ میں بیان فرمائے۔
>مجھے اپنی خلافت کے ایام میں پہلی مرتبہ اس قسم کا سفر درپیش ہوا۔ جیسا کہ گزشتہ ہفتہ میں لائلپور کا پیش آیا تھا اور میں اس سفر سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جہاں ایک طرف مخالفت زوروں پر ہے ۔۔۔۔۔۔ وہاں لوگ ہماری باتیں سننے پر آمادہ بھی ہیں اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ کوئی انہیں سلسلہ کے حالات سے واقف کرے۔
میرے لائل پور جانے کے موقعہ پر ہر رنگ میں مخالفین کے رئوساء نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لوگ اس طرف توجہ نہ کریں۔ مگر باوجود اس کے کہ وہاں کی مقامی جماعت نہایت قلیل ہے اور شاید چالیس مردوں سے زیادہ نہیں کیونکہ ساری مردم شماری عورتوں اور بچوں سمیت جو مجھے بتائی گئی وہ دو سو کے قریب ہے۔ پس مرد تیس پینتیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس ہوں گے اور چالیس ہزار کی آبادی والے شہر میں یہ تعداد بہت ہی قلیل ہے پھر سوائے دو تین کے باقی لوگ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر باوجود ان تمام حالات کے لوگوں نے اس مخالفت کی پروا نہیں کی جو مخالفین کی طرف سے کی گئی تھی۔ عام طور پر جلسوں کی حاضری تین ہزار سے چھ ہزار تک سمجھی جاتی تھی۔ اور مجھے قادیان سے باہر کسی جگہ اس بات کے دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کھلے میدان میں اس طرح وسعت سے آدمی پھیلے ہوئے ہوں جیسا کہ قادیان میں سالانہ جلسہ کے موقعہ پر پھیلے ہوتے ہیں۔ گیلریوں کو چھوڑ کر جو زائد ہوتی ہیں۔ یہاں جس قدر جلسہ گاہ کا حصہ ہوتا ہے اس کے قریب قریب ہی لائل پور کی جلسہ گاہ تھی اور پھر تمام آدمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ مگر سوال یہ نہیں کہ آدمیوں سے جلسہ گاہ بھری ہوئی تھی بلکہ قابل غور امر یہ ہے کہ سخت مخالفت کے باوجود یہاں تک کہ مخالف علماء کی طرف سے یہ فتوے دیئے جانے کے باوجود کہ احمدیوں سے ملنے پر نکاح ٹوٹ جائے گا ہر طبقہ کے لوگ آئے۔ معززین میں سے بھی اور عوام الناس میں سے بھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف جو کوششیں ہمارے خلاف کر رہے ہیں اگر ایک طرف ان سے ہمارے لئے بعض مشکلات پیدا ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ان کی مخالفت ہمارے تبلیغی راستے میں روک نہیں ہو رہی بلکہ لوگوں کی توجہ پھرانے کا باعث بن رہی ہے۔
مجھے ایک شخص نے لائل پور میں بیعت کرتے وقت عجیب واقعہ سنایا۔ وہاں قریباً ایک سو چالیس افراد نے بیعت کی ہے اور جو بیعت کرتا۔ میں اس سے متفرق حالات بھی دریافت کرتا۔ تا مجھے معلوم ہو کہ یہ کس ضلع کا ہے اور اب آئندہ ہماری تبلیغی سرگرمیاں کس ضلع میں زیادہ نمایاں تغیر پیدا کر سکیں گی اور کس جگہ کی جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کریں گی ضمنی طور پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ضلع دار بیعت کے لحاظ سے ضلع شیخوپورہ کے بیعت کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی اس کے بعد لائل پور اور پھر سرگودھا وغیرہ اضلاع کے لوگوں نے بیعت کی۔ ایک شخص نے جو سرگودھا کے ضلع کے تھے اور لائل پور میں کسی ای اے سی کے لڑکوں کو پڑھاتے تھے۔ جب انہوں نے بیعت کی تو میں نے ان سے پوچھا۔ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں ضلع سرگودھا کا ہوں پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو سلسلہ احمدیہ کی طرف کس طرح توجہ ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ میں لائل پور میں نوکر تھا یا کہا کہ میں نوکر ہوں۔ اسی دوران میں مجھے ایک اشتہار ملا۔ جو یہاں کی کسی مسجد کے امام کی طرف سے شائع ہوا تھا۔ اس میں جماعت احمدیہ کے خلاف بہت سی باتیں لکھی تھیں وہ کہنے لگے مجھے اشتہار پڑھ کر سخت غصہ آیا کہ ایک طرف تو یہ احمدی اپنی نیکی اور اسلامی ہمدردی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی اتنی ہتک کرتے ہیں کہ امامت اور نبوت کے مدعی بنتے ہیں۔ کہتے ہیں اسی غصہ کے جوش میں ایک احمدی کے ہاں گیا اور اس سے کہا کہ آپ لوگ اندر سے اور ہیں اور باہر سے اور۔ منہ سے تو اسلامی ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحبؑ مستقل نبوت کے مدعی ہیں۔ انہوں نے بڑی نرمی سے کہا کہ ذرا بیٹھ جائیے اور پھر ایک ایک اعتراض لے کر انہوں نے مجھے حوالے کتابوں سے دکھانے شروع کئے جو بھی وہ حوالہ نکالیں۔ اصل عبارت میں کچھ اور ہوتا اور اشتہار میں کچھ اور۔ اس طرح دو دن وہ مجھے سمجھاتے رہے۔ جب میں اچھی طرح سمجھ گیا۔ تو پھر مجھے اس مولوی صاحب پر غصہ آیا جس نے اشتہار شائع کیا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے عجیب راہنما ہیں۔ اشتہار میں لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب فلاں فلاں عقیدہ رکھتے تھے۔ حالانکہ اصل کتابیں میں نے دیکھی ہیں وہاں کچھ اور ہی لکھا ہے۔ مولوی صاحب میری بات سنتے ہی ناراض ہو گئے اور کہنے لگے تم کسی احمدی کے پاس گئے ہی کیوں تھے۔ میں نے کہا تم یہ بتائو تم نے جھوٹ کیوں بولا۔ آخر وہ مولوی صاحب مجھ سے سخت ناراض ہو گئے اور میں سمجھا کہ اب مجھے تحقیق کرنی چاہئے پندرہ بیس دن تحقیق کی تو حق مجھ پر کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہو گیا۔
دیکھو یہ مخالفت ہی تھی جو انہیں ادھر لانے کا ذریعہ بنی۔ کیونکہ ان کے احمدی بنانے کا ذریعہ ہم نہیں تھے بلکہ غیر احمدی امام مسجد صاحب ذریعہ بنے۔ تو کئی دفعہ مخالفتیں فائدہ بخش ہو جاتی ہیں۔ میں نے اس سفر سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ باوجود مخالفت کے خدا تعالیٰ کا یہ فضل بھی ہو رہا ہے کہ اس مخالفت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف پھر رہی ہے۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اتنی بیعت ایک دن کے لیکچر کا نتیجہ تھی۔ بلکہ ان لوگوں کو پہلے سے تبلیغ ہو چکی تھی۔ لیکن وہ تین ہزار سے چھ ہزار لوگ جو جلسوں میں شامل ہوتے رہے ان کے دلوں میں بھی ایک بیج بویا گیا ہے جو آج نہیں تو کل اور اس مہینہ میں نہیں تو اگلے مہینہ میں پھوٹے گا۔ جب باوجود نکاح ٹوٹ جانے کی دھمکی دیئے جانے کے وہ شوق سے ہمارے جلسوں میں آئے تو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں ہدایت کی تڑپ ہے جو کسی دن اپنا رنگ لائے گی۔ سب سے زیادہ ڈر لوگوں کو نکاح ٹوٹنے کا ہوتا ہے اور یہی مولویوں کا آخری ہتھیار ہے جس سے وہ کام لیا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ غرض نکاحوں کا سوال ایک اہم سوال ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے اس قسم کے فتویٰ کے بعد جلسوں میں شامل ہونا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر عورتیں کمزور ہوتی ہیں اور وہ خیال کر لیتی ہیں کہ اگر ہمارے مرد فتویٰ کی زد میں آگئے تو اس کے بعد ہمارا اپنے گھر میں رہنا بدکاری سمجھا جائے گا۔ مگر اس قسم کے فتووں کے باوجود کثرت سے لوگ آئے جو علامت ہے اس بات کی کہ جو فتنہ اور شورش ہمارے خلاف پیدا کی جارہی ہے وہ گو بعض لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہو مگر تبلیغی دروازہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بند نہیں ہونے دیا۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ اس موقعہ پر ہماری جماعت کو مختلف جماعتوں کی طرف سے مدد ملی جہاں غیر احمدی شرفاء نے تعاون کیا وہاں بعض ذمہ دار افسران کا رویہ بھی بہت ہمدردانہ رہا سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جو ہندوستانی مسلمان ہیں۔ ان کا رویہ نہایت ہی قابل تعریف تھا۔ وہ ٹی پارٹی کے موقعہ پر مجھے بھی ملے۔ ان کا طریق عمل ایسا اعلیٰ تھا جس میں قطعاً تعصب کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا تھا۔ مگر شائد افسروں کے متعلق کوئی کہے کہ دیانتدار افسر انصاف کے لئے کوشش کیا ہی کرتے ہیں۔ اس لئے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگوں میں بھی ہمدردی اور تعاون کا پہلو نمایاں طور پر پایا جاتا تھا۔ بعض میونسپل کمیٹی کے افسروں نے کوشش کرکے ہمارے لئے مفت چیزیں مہیا کیں چنانچہ میز اور کرسیوں کے گڈے بھروا کر مفت ہمارے جلسہ گاہ میں بھیج دیئے۔ اسی طرح ایک سکھ صاحب کے سائبان تھے۔ انہوں نے نصف کرایہ لیا۔ حالانکہ ان کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ ہم سائبانوں کو جلا دیں گے۔ وہ سامان ۱۵۔ ۱۶ ہزار کی مالیت کا تھا۔ اور ایک تاجر کے لئے اس سے زیادہ خطرہ کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ سامان کو تلف کر دینے کی اسے دھمکی دی جائے مگر باوجود اس کے انہوں نے نصف کرایہ وصول کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریف طبقہ ہمارے متعلق اپنے دلوں میں ہمدردی کے جذبات موجزن پاتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ جاہلوں کی مخالفت ذاتی اغراض کی بناء پر ہے حقیقتاً یہ سلسلہ ملک و ملت کا خادم ہے لیکن جہاں اس نتیجہ کے نکالنے سے ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ وہاں ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے<۔۴۱۹
ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک نشان
۲۰/ اپریل ۱۹۰۷ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آنے والے ایک تباہ کن زلزلہ کا نظارہ دکھایا گیا۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں۔
‏body] gat>[رئویا میں دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا<۔۴۲۰
چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق ۱۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو ایک قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے بنگال سے لے کر پنجاب تک تباہی مچا دی بے شمار عمارتیں گر گئیں زلزلہ سے زمین پھٹ گئی طغیانی سے آبادیاں غرق ہو گئیں اور بیس ہزار انسانوں کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ زلزلہ کی ہلاکت آفرینیوں کا اثر اتنا وسیع تھا کہ ہر طرف شور محشر بپا ہو گیا جس کی کسی حد تک تفصیل اس زمانے کے اخبارات مثلاً >الجمیتہ< )دہلی( >مدینہ< )بجنور( اخبار >حقیقت< )لکھنئو( >سرچ لائٹ< )پٹنہ( >اتحاد< )پٹنہ( )سرفراز( >لکھنئو< >اہل حدیث< )امرتسر( >سیاست< )لاہور( >زمیندار< )للاہور( >انقلاب< )لاہور( >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور( )سٹیٹسمین( >ملاپ< )لاہور( >پرتاپ< لاہور اور >پرکاش< )لاہور( میں مل سکتی ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا رسالہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رئویا میں چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے اشارہ کرنے کا ذکر موجود تھا اور خدائی تصرف کے تحت سب سے پہلے ان ہی کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ یہ وہی موعودہ زلزلہ ہے اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان سے فرمایا۔ کہ وہ اس تازہ نشان پر مفصل رسالہ لکھیں کیونکہ انہی کے مونہہ سے یہ الفاظ نکلوائے گئے ہیں۔۴۲۱ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے >ایک اور تازہ نشان< کے عنوان سے ایک اہم رسالہ تصنیف فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے الہامات و کشوف کی روشنی میں اس زلزلہ کی پانچ ایسی واضح علامتیں بیان کیں جن سے اہل علم پوری طرح کھل گیا کہ یہ زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان ہے۔۴۲۲
حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس رسالہ کے آخر میں مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت پرخلوص اور محبت سے لبریز الفاظ میں لکھا۔
>ہم دنیا کی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خدا جانتا ہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیا کیا جذبات اٹھتے ہیں ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں جسے اس زلزلہ میں کسی قسم کا نقصان پہنچا ہے ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان کے گرنے پر۔ ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی کے فوت ہونے پر۔ ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جدا ہونے پر۔ ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر۔ ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر۔ ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کا عملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارا یہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کا کوئی نشان پورا ہوتا دیکھیں تو اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پوری ہوا کرتی ہیں۔ تاکہ وہ خدا کو پہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور و مرسل کو شناخت کریں اور خدا سے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروں کے نیچے آجائیں<۔۴۲۳
مصیبت زدگان کی مرکزی امداد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲/ فروری ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ زلزلہ کے مصیبت زدگان کی بلا امتیاز مذہب و ملت امداد کریں۔۴۲۴ مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی اظہار ہمدردی اور تفصیلات مہیا کرنے کے لئے بہار بھجوائے گئے۔۴۲۵ اور مئی ۱۹۳۴ء میں تیرہ سو روپیہ کی رقم حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ بھاگلپور کو روانہ کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک ہزار روپیہ ریلیف فنڈ میں دیا گیا۔۴۲۶
احمدیان بہار کی خدائی حفاظت
‏]txet [tagاس قیامت خیز زلزلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے صوبہ بہار کے احمدیوں کی جانیں معجزانہ رنگ میں محفوظ رہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ بھاگلپوری امیر صوبہ بہار نے ۲۲/ فروری ۱۹۳۴ء کو زلزلہ کے چشم دید حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
>میرا مکان بھاگلپور کا چاروں طرف سے مسقف ہے اور درمیان میں صحن دس گیارہ ہاتھ مربع ہے۔ زلزلہ کے وقت چاروں جانب کے مکان میں سخت جنبش ہوئی اور بظاہر کوئی امید کسی کے بچنے کی نہ تھی اس وقت ہم سب لوگ مع )صاحبزادہ مرزا( حنیف احمد سلمہ` سربسجود ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے۔ خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور سب کی جانیں بچ گئیں۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ شہر کے کسی اور احمدی کو بھی خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
مونگیر کے احمدی بھی عجیب و غریب طریقہ سے بچے۔ سید وزارت حسین صاحب راجہ صاحب کے ملازم ہیں راجہ صاحب کے پاس ان کے مکان میں بیٹھے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ دونوں باہر کو بھاگے اور خدا کے فضل سے بچ گئے۔ راجہ صاحب کا محل اور وزارت حسین صاحب کا کمرہ جس میں وہ رہتے تھے بالکل مسمار ہو گیا اور تمام مال و اسباب اس میں دب گیا مولوی عبدالباقی صاحب مولوی علی احمد صاحب کے بھتیجے مونگیر میں ملازم ہیں ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نماز ظہر پڑھ کر قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ نیچے سے کسی نے پکارا کہ بھاگو! وہ اسی حالت میں زینہ سے اترے اور نیچے پہنچے ہی تھے کہ سارا مکان بیٹھ گیا۔ ان کا بھی کوئی مال و اسباب نہیں نکل سکا۔ حکیم خلیل احمد صاحب کے بال بچے رام پور میں تھے اور حکیم صاحب گھر میں اکیلے تھے مکان سے باہر نکل آئے اور مکان زمین بوس ہو گیا۔ دو بھائی سید عبدالغفار صاحب و سید محمد حنیف صاحب کی دکانیں بازار میں تھیں۔ وہ اپنے مکان سے تو نکل گئے مگر دوسرے مکان کی دیوار کے نیچے دونوں بھائی دب گئے سید محمد حنیف صاحب تو شہید ہو گئے اور سید عبدالغفار صاحب کئی گھنٹہ کے بعد زندہ نکالے گئے جس مکان کی دیوار ان پر گری وہ کسی روئی کے تاجر کا تھا۔ روئی یا سوت کا ایک گٹھا ان کے اوپر پہلے گرا پھر دیوار آپڑی انہیں سانس لینے کا موقعہ اسی گٹھے کی وجہ سے مل گیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی الہامی دعا رب کل شی ء خادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی۴۲۷]body [tag پڑھتا رہا۔
سید وزارت حسین صاحب کے دو بھتیجے اور داماد اور ایک لڑکا مظفر پور میں تھے۔ وہ لوگ بھی محض قدرت الٰہی سے بچ گئے۔ عورتیں عید کے لئے کچھ دن پہلے اورین اپنے گائوں میں چلی گئی تھیں اور لوگ مکان سے نکل بھاگے اور بچ گئے۔ لڑکا دو منزلہ پر تھا مکان گر گیا اور کئی ہزار کا زیور۔ نقدی اور سامان دب گیا۔ لوگ کسی طرح چوتھے دن اورین پہنچ گئے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب مرحوم کے فرزند محمد اسمعیل صاحب بھی مظفر پور میں تھے وہ بھی محفوظ رہے۔ الغرض سوائے ایک احمدی کے بہار میں کوئی احمدی زلزلہ کے حادثہ میں فوت نہیں ہوا۔۴۲۸
عجیب بات یہ ہے کہ اس ہیبت ناک زلزلہ کے آنے سے پہلے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور ان کی اہلیہ صاحبہ سید وزارت حسین صاحب` بھائی منظور عالم صاحب` بھائی شمس الہدیٰ صاحب وغیرہ بہاری احمدیوں کو منذر خوابیں آئیں اور حکیم خلیل احمد صاحب کو تو صاف دکھایا گیا کہ بہت بڑا زلزلہ آیا ہے اور سخت بدحواسی پھیلی ہوئی ہے۔۴۲۹
سکھوں کا اشتعال انگیز اجتماع
۲۶۔ ۲۷۔ ۲۸/ مئی ۱۹۳۴ء کو سکھوں کا قادیان سے قریباً میل سوا میل مشرق کی طرف موضع بسرا کے قریب بوہڑی صاحب میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ جس میں سردار کھڑک سنگھ صاحب۴۳۰ خاص طور پر شامل تھے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز اور دل آزار تقریریں کیں۔ چنانچہ سردار صاحب نے مذبح قادیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احمدی قادیان میں سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ انہیں شہ دیتی ہے اس لئے انگریزوں کو اگر سیدھا کر دیا جائے تو احمدی خود بخود سیدھے ہو جائیں گے۔ نیز کہا احمدی اگر باز نہ آئے تو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ اسی طرح ایک اور سکھ لیڈر نے دھمکی دی کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی۔ سکھوں کے اس جلسہ میں ایک احراری مولوی )عنایت اللہ صاحب( نے سکھوں کو اشتعال دلایا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گورو کو مسلمان کہتے ہیں اور پھر بھی ان کو غیرت نہیں آتی۔۴۳۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق
۲۷/ مئی کو یہ دلازار تقریریں کی گئیں اور اسی روز حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ان کی مفصل ڈائری پہنچ گئی۔ جس پر حضور نے ایک اہم مضمون رقم فرمایا۔ جو راتوں رات
چھپوا کر ۲۸/ مئی کو سکھوں کے جلسہ میں بکثرت تقسیم کیا گیا اور بعد کو اس کا گور مکھی ترجمہ بھی!۴۳۲
سیدنا حضرت امیر المومنینؓ نے اپنے اس مضمون میں خاص طور پر گزشتہ واقعات کی روشنی میں اس غلط فہمی کا پوری طرح ازالہ کیا کہ احمدی سکھوں پر ظلم کرتے ہیں چنانچہ حضور نے سردار کھڑک سنگھ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔
>میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کی تحقیق بالکل غلط ہے۔ احمدی سکھوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں سے فرداً فرداً وہ قسم دے کر جسے پنجابی میں ددھ پت کی قسم کہتے ہیں پوچھیں تو ان میں سے ۹۹ فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتائو کرتے چلے آئے ہیں اور جو کوئی مصیبت زدہ ہمارے پاس آیا ہے ہم نے اس کی مدد کی ہے بالکل ممکن ہے کہ بعض نادان احمدیوں نے بعض سکھوں سے ناواجب سلوک کیا ہو لیکن ان سے پوچھیں کہ جب کبھی میرے پاس ایسی رپورٹ ہوئی۔ اور میں نے احمدی کو خطاوار پایا میں نے اسے سزا دی یا نہیں دی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزار کہ ایک احمدی نے اپنی کتاب میں حضرت باوا صاحب~رح~ کے متعلق کچھ الفاظ سوء ادبی کے لکھ دیئے تھے میرے پاس سکھوں کا وفد آیا۔ تو میں نے نہ صرف یہ کہ اس احمدی کو سخت سرزنش کی بلکہ اس کی کتاب کو ضبط کر لیا اور وہ صفحات تلف کروائے جو سکھ صاحبان کے لئے دل آزار تھے۔ اردگرد کے سکھوں کو آپ قسم دے کر پوچھیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ان کی خاطر پندرہ سال تک میں نے قادیان میں مذبح نہیں بننے دیا اور اب بھی مذبح صرف چند نادانوں کی نادانی کی وجہ سے بنا ہے ورنہ میں نے ہندو اور سکھ رئوساء کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ مجھ پر چھوڑ دیں تو ان کے احساسات کا پورا خیال رکھا جائے گا لیکن افسوس کہ مفسدہ پرداز لوگوں نے مجھ پر اعتبار نہ کیا اور دھمکیاں دینی شروع کر دیں جن کی وجہ سے مجھے اپنا قدم بیچ میں سے ہٹانا پڑا۔
سردار صاحب! یہاں کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں کہ ان کی درخواست پر میں نے اپنے سکول میں ان کے لئے خاص انتظام کیا یا نہیں۔ اور اس وقت جب وہ مجھ سے لڑ رہے تھے آریوں کی طرف سے تکلیف پہنچنے پر میں نے ماضی کو بھلا کر پھر ان کے بچوں کے لئے ان کے حسب دل خواہ تعلیم کا انتظام کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے یا نہیں؟
ہاں انہیں قسم دے کر پوچھئے کہ انفلوائنزا کے دنوں میں جبکہ میں اور میرے گھر کے سب لوگ تکلیف میں مبتلا تھے قادیان کا ہر گھر مریضوں کی چیخ و پکار سے ایک میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا اس وقت اپنے پاس سے دوائیں دے کر اور اطباء اور ڈاکٹروں کو فارغ کرکے ان کے علاج کے لئے چھ چھ سات سات میل تک باہر بھجوایا یا نہیں اور یہ بھی ان سے پوچھئے کہ کوئی ایسے سکھ طالب علم انہیں معلوم ہیں یا نہیں جن کی تعلیم کے لئے میں نے مدد کی اور کوئی ایسے سکھ خاندان ہیں یا نہیں جنہوں نے اپنی مشکلات میں میری طرف رجوع کیا اور میں نے ہر ایک طرح ان کی امداد کی۔ دور کیوں جاتے ہیں اسی علاقہ کے رئیس خاندان سے جہاں آپ کا جلسہ ہو رہا ہے پوچھیں کہ بعض سکھ خاندانوں کے اختلاف کے وقت میں نے انہیں تباہی سے بچانے کے لئے باہمی سمجھوتے کرائے یا نہیں ان کی خاندانی وجاہتوں کے خطرہ میں پڑنے کے وقت ان کا پوری طرح ساتھ دیا یا نہیں<۔۴۳۳
سکھ لیڈروں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے جو بلند بانگ دعا دی کئے تھے ان کی نسبت نہایت محبت بھرے الفاظ میں توجہ دلائی۔
فرمایا۔ >سردار صاحب! میں اس بارہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ فقرہ کہنے میں تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ اینٹ سے اینٹ بجانا خدا تعالیٰ کا کام ہے بندوں کا کام نہیں۔ منہ سے دعویٰ کرنے پر تو کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اگر میں بھی آپ ہی کی طرح جوش میں آنے والا ہوتا تو شاید میں بھی آپ کے اس دعویٰ کو سن کر یہ کہہ دیتا کہ میں بھی آپ کے مقدس مقامات کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے تقویٰ عطا فرمایا ہے۔ جب میں نے آپ کا یہ دعویٰ سنا تو بجائے کوئی ایسا فقرہ کہنے کے مجھے آپ پر رحم آیا اور میں نے کہا کہ میرے اس بھائی کو اگر خدا تعالیٰ کی معرفت نصیب ہوتی تو کبھی یہ ایسا دعویٰ نہ کرتا۔ جس شخص کو اپنی زندگی کے ایک منٹ پر اختیار نہ ہو اس کا یہ کہنا کہ وہ فلاں جگہ کی اینٹ سے ینٹ بجا دے گا۔ ایک قابل رحم امر نہیں تو اور کیا ہے۔
سردار صاحب! جب آپ کے گورو صاحب ظاہر ہوئے تھے تو وہ بھی ظاہر حالت میں کمزور تھے اور اس وقت کے طاقتور لوگ بھی آپ کی طرح یہ کہا کرتے تھے کہ ہم چاہیں تو ان کو یوں نقصان پہنچا دیں یوں ذلیل کر دیں۔ مگر آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا کس طرح خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رات اور دن ترقی کرتا چلا گیا اور اس کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے اپنے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ دیکھو مغل ہمارے مقابلہ میں کس طرح تباہ ہو گئے۔ میں اس امر کو صحیح مان لیتا ہوں۔ مگر پوچھتا ہوں کہ آخر وہ کیوں تباہ ہو گئے؟ کیا سردار کھڑک سنگھ کی بہادری سے یا اللہ تعالیٰ کی مدد سے؟ اگر آپ کی بہادری سے ایسا ہوا تھا تو انگریزوں کے مقابلہ میں آپ کی تلواریں کیوں ٹوٹ گئی تھیں۔ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ وہ کبھی کسی قوم کو بڑھاتا ہے کبھی کسی قوم کو۔ کبھی مغلوں کی تلواروں کے آگے پنجاب کے سورمائوں کے باپ دادا اور ہندوستان کے راجے بھیڑوں اور بکریوں کی طرح بھاگتے پھرتے تھے پھر وہ وقت آیا کہ مرہٹوں اور سکھوں جیسی چھوٹی چھوٹی قوموں نے ان کے چھکے چھڑا دیئے۔ پھر وہی مرہٹے احمد شاہ ابدالی کے سامنے پیٹھ دکھا کر ایسے بھاگے کہ سینکڑوں میل تک ان کا پتہ نہ تھا اور وہی سکھ انگریزی فوجوں سے اس قدر خائف ہوئے کہ توپیں تک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ پس سوال بہادری کا نہیں۔ سوال خدا تعالیٰ کی دین کا ہے۔ منہ کے دعوے نجات نہیں دیتے۔ خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو عزت دیتا ہے پس جس جگہ کو خدا تعالیٰ بڑھانا چاہتا ہے اس کے متعلق ایسے دعوے کرکے جن کا کوئی بھی فائدہ نہیں اپنی عاقبت نہ بگاڑیں۔ ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے اس وقت اپنا نور قادیان میں اتارا ہے۔ پس خدا کا خوف کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور ٹھنڈے دل اور نیک ارادوں سے اس بات کو سنیں جسے ایک شخص نے خدا تعالیٰ کی طرف سے پاکر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ دنیا چند روزہ ہے نہ پہلے کوئی رہا نہ اب رہے گا۔ نہ آپ رہیں گے نہ میں رہوں گا۔ نہ آپ کے سامعین رہیں گے۔ ہم سب کوئی آگے کوئی پیچھے خدا تعالیٰ کے سامنے جانے والے ہیں پس عاقبت کی فکر کیجئے اور ایسے الفظ منہ سے نہ نکالئے جو خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا موجب ہیں<۔۴۳۴
جب یہ اشتہار سردار کھڑک سنگھ صاحب تک پہنچا تو انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں۔۴۳۵
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا لاہور میں شاندار لیکچر
حضرت خلیفتہ المسمیح الثانیؓ کا لاہور میں شاندار لیکچر
سیدنا حضرت مصلح موعود نے پنجاب لٹریری لیگ کی تحریک پر جس کے عمائد پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے لاہور میں دو لیکچر دینے منظور فرمائے تھے۔ اس کے مطابق حضور کا پہلا لیکچر >عربی زبان کا مقام السنہ عالم میں< کے موضوع پر ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء کو وائی۔ ام۔ سی اے کے ہال واقعہ مال روڈ پر ٹھیک ۲/۸۱ بجے شب زیر صدارت جناب ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم۔ اے پی ایچ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج ہوا۔ سامعین سات بجے سے ہی آنے شروع ہو گئے اور لیکچر کے شروع ہونے تک ہال اپنی گنجائش سے دوگنا بھر گیا۔ اور بعد میں آنے والوں کو جگہ کی قلت کی وجہ سے واپس جانا پڑا۔ حضورؓ کا لیکچر ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔ جسے سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ اختتام پر جناب صدر نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقعہ ملے۔ سامعین میں علمی طبقہ کے ہر خیال کے اصحاب شامل تھے۔ احمدی دوست ہی کافی تعداد میں شریک ہوئے اور بعض دوست باہر کی جماعتوں سے خصوصاً دارالامان کے احباب و بزرگان بھی شامل ہوئے۔ جناب لالہ کنور حسین صاحب سابق چیف جج کشمیر جو جناب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند ہیں۔ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر اور صاحب صدر کے شکریہ کے بعد خاص طور پر شکر گزاری کے جذبا سے لبریز انگریزی میں ایک موثر تقریر فرمائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ آج قابل لیکچرار نے زبان عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکتہ الاراء تقریر کی ہے۔ اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اور اس لحاظ سے بھی مجھے خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں۔ چنانچہ ان کے والد ماجد سے میرے والد صاحب نے عربی زبان سیکھی تھی۔ جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا۔ اس وقت میں نے خیال کیا تھا۔ کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا۔ جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کیا کرتے ہیں۔ مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبان عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا کہ اسے تین وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے کہ میں عرب کا رہنے والا ہوں دوسرے اس لئے کہ قرآن مجید کی زبان ہے تیسرے اس لئے کہ جنت میں بھی عربی بولی جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبان عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی۔ مگر جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر رہے گا میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ جن دوسرے احباب نے اس مضمون کو سنا ہے وہ بھی تادیر اس کا اثر اپنے دلوں میں محسوس کریں گے۔ باقی زبان کے متعلق چونکہ نظریوں میں اختلاف ہے اور سنسکرت زبان بھی بہت سے قواعد پر مبنی ہے۔ اس لئے عربی اور سنسکرت کا مقابلہ کرنے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اور ایک دفعہ پھر قابل لیکچرار کے بیش قیمت لیکچر کا دلی اخلاص سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
دوسرا لیکچر اسی لیگ کے زیر انتظام ٹائون ہال میں ۲/ جون کو ہوا۔ یہ ہال پہلے ہال سے وسیع تھا اور اس میں ایک ہزار سامعین کے لئے گنجائش تھی۔ پہلے لیکچر کی طرح اس لیکچر کا داخلہ بھی بذریعہ ٹکٹ تھا۔ ٹکٹ کی قیمت ۲ تھی۔ اس دفعہ جماعت احمدیہ لاہور کو ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک دوسروں کو جگہ نہ مل جائے۔ وہ ہال میں نہ جائیں۔ چنانچہ جب دوسرے دوست اچھی طرح بیٹھ گئے تب جماعت لاہور کو داخل کیا گیا۔ اس طرح دوسرے احباب کو اچھی طرح جگہ مل گئی۔ استقبال` پانی` روشنی اور ہوا کا کافی انتظام تھا اور کسی کو کسی قسم کی شکایت کا موقعہ نہیں ملا۔ ہر ایک شخص کو اس کے حسب دل خواہ جگہ دی گئی۔ حضورؓ کا لیکچر قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ لیکچر >کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں< کے موضوع پر تھا۔ سامعین میں معزز طبقہ کے لوگ خصوصاً کالجوں کے پروفیسر وکلاء` لاہور کے پرانے خاندانوں کے افراد اور طلباء شامل تھے۔ اور ہر مذہب کے آدمی پائے جاتے تھے۔ ہندو مسلمان عیسائی اور سکھ مسلمانوں میں بھی قریباً ہر قسم کے خیالات کے اصحاب شامل تھے۔ اور آخر وقت تک نہایت اطمینان اور سکون سے سنتے رہے۔ لیگ کی ¶طرف سے پھولوں کا ہار حضورؓ کو پہنایا گیا۔ صدر جلسہ ڈاکٹر ایس کے دتا پرنسپل فورمین کرسچن کالج نے افتتاحی تقریر میں سامعین کو متوجہ کیا کہ وہ ایسی بڑی شخصیت کے لیکچر کو توجہ سے سنیں اور آخر میں لیکچر کی بہت تعریف کی اور خواہش ظاہر کی کہ پھر بھی لاہور کی پبلک کو آپ کے قیمتی خیالات کے سننے کا موقعہ میسر آئے۔ جناب شیخ عبدالکریم صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے حضور کا نہایت پرتعریف الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔۴۳۶
خاندان حضرت مسیح موعودؑکو اشاعت اسلام کی زبردست تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا۔ اس پرمسرت تقریب پر حضور نے ایک نہایت ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے افراد خاندان کو خصوصاً اور جماعت احمدیہ کو عموماً ان کی حفاظت اسلام سے متعلق اہم ذمہ داریوں کی نسبت پرزور طریق پر توجہ دلائی۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>رسول کریم~صل۱~ نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت امید ظاہر کی ہے کہ لنا لہ رجال من فارس اور یقین ظاہر کیا کہ اس فارسی النسل موعود کی اولاد دنیا کے لالچوں` حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا جائے۔ ایمان کو ثریا سے واپس لایا جائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے۔ یہ امید ہے کہ جو خدا کے رسول نے کی اب میں ان پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ خواہ میری اولاد ہو یا میرے بھائیوں کی۔ وہ اپنے دلوں میں غور کرکے اپنی فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ آج دین کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ~}~
بیکسے شد دین احمد ہیچ خویش و یار نیست
ہر کسے در کار خود با دین احمد کارنیست
اسی طرح فرماتے ہیں۔
ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید
دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدیں
ان حالات میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کے دلوں میں کس قسم کے احساسات ہونے چاہئیں۔ یہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق خود سمجھ سکتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ جب ایک کمزور انسان کسی کو بلندی پر گامزن دیکھتا ہے جب ایک دولتمند کی دولت اور عہدہ دار کے عہدہ پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے دل میں لالچ آتا ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ میں بھی کیوں ایسا ہی نہ بنوں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک ایسا ہوتا ہے مگر یہ ساری چیزیں اس وقت بھی تھیں جب ہوازن کے سامنے صحابہ صف آراء تھے۔ ان کے سامنے بھی ان کے بیوی بچے تھے۔ ان کے سامنے بھی یہ بات تھی کہ اگر وہ ہوازن کے تیر اندازوں کے سامنے ہوئے تو ان کے سینے چھلنی ہو جائیں گے اور وہ چند منٹوں میں ہی خاک و خون میں لوٹیں گے مگر ان تمام امور کے باوجود انہوں نے رسول کریم~صل۱~ کی آواز پر اپنی بیویوں اور بچوں کو بھلا دیا۔ اور ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھا کہ جس طرف خدا کا رسولﷺ~ بلاتا ہے اسی طرف جائیں۔
آج دجالی فتنہ جس رنگ میں دنیا پر غالب ہے اس کی تصویر کھینچنے کی مجھے ضرورت نہیں کوئی چیز آج اسلام کی باقی نہیں نہ تمدنی احکام قائم ہیں اور نہ شخصی احکام قائم ہیں ہر چیز میں آج تبدیلی کر دی گئی ہے پس جب تک اسے مٹانے کے لئے ہمارے اندر دیوانگی نہ ہو گی جب تک ہمیں اس تہذیب مغربی سے بغض نہ ہو گا اتنا بغض کے اس سے بڑھ کر ہمیں کسی اور چیز سے بغض نہ ہو اس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم میں سے جو بھی شخص مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے جو بھی اس تہذیب سے متاثر ہے۔ وہ روحانی میدان کا اہل نہیں۔ جس تہذیب نے ہمارے مقدس آقا کی تصویر کو دنیا کے سامنے برے رنگ میں پیش کیا ہے۔ جس تہذیب نے اسلامی تمدن کی شکل کو بدل دیا۔ جب تک اس کی ایک ایک اینٹ کو ریزہ ریزہ نہ کر دیں کبھی چین اور اطمینان کی نیند سو نہیں سکتے وہ لوگ جو یورپ کی نقالی کرتے ہیں جو مغربیت کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارے تن بدن میں تو ان کی ہر چیز کو دیکھ کر آگ لگ جانی چاہئے۔ کیونکہ ہم اور مغربیت ایک جگہ نہیں جمع ہو سکتے۔ یا ہم زندہ رہیں گے یا مغربیت زندہ رہے گی۔
یہ مت خیال کرو کہ ہم تو انگریزوں کے دوست ہیں پھر مغربیت کے متعلق میں ایسے خیال کیوں رکھتا ہوں کیونکہ انگریز اور مغربیت میں فرق ہے۔ انگریز انسان ہیں اور ویسے ہی انسان ہیں جیسے کہ ہم اور اس لحاظ سے انگریز ہدایت پا سکتے ہیں لیکن مغربیت ہدایت نہیں پا سکتی۔ وہ شیطان کا ہتھیار ہے اور جب تک اسے توڑا نہیں جائے گا۔ دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اولاد میں سے اگر کوئی شخص مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ مسیح موعودؑ کا حقیقی بیٹا نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے اس آواز کو نہیں سنا۔ جسے پھیلانے کے لئے مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے۔ پس میں وضاحت سے ان کو یہ پیغام پہنچاتا اور وضاحت سے ہر ایک کو ہوشیار کرتا ہوں کہ میں ہر ایسے خیال اور ہر ایسے شخص سے بے زار ہوں۔ جس کے دل میں مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ پایا جاتا ہے۔ اور جو دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ میرا بیٹا ہو یا میرے کسی عزیز کا۔ میں نے ہمیشہ یہ دعا کی ہے اور متواتر کی ہے کہ اگر میرے لئے وہ اولاد مقدر نہیں جو دین کی خدمت کرنے والی ہو تو مجھے اولاد کی ضرورت نہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسی دعا کی آخر تک توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے سامنے ایک عظیم الشان کام ہے اتنا عظیم الشان کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سامنے ایک فتنہ ہے اتنا بڑا فتنہ کہ اس کے برابر دنیا میں اور کوئی فتنہ نہیں اگر ہم اس کام کی سرانجام دہی کے لئے کھڑے نہیں ہو جاتے اور اس فتنہ کے مقابلہ کی ضرورت اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے تو میں نہیں سمجھ سکتا۔ ہم دنیا میں ذرہ سی عزت کے بھی مستحق ہو سکتے ہیں۔
اس وقت اسلام کے مقابل پر بیسیوں جھنڈے بلند ہیں جب تک وہ تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جب تک تثلیث کا جھنڈا سر نگوں نہیں ہوجاتا۔ جب تک بت پرستی کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہوجاتا۔ جب تک اسلام کے سوا باقی تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جب تک سب دنیا میں تکبیر کے نعرے بلند نہیں ہو جاتے ہم کبھی اپنے فرائض کو پورا کرنے والے سمجھے نہیں جا سکتے یہ وہ چیز ہے جس کو میں آج پیش کرتا ہوں اور اگرچہ میں پہلے بھی اسے پیش کرتا رہا ہوں لیکن کچھ دنوں سے ایک طاقت مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں واضح طور پر یہ بات پیش کر دوں<۔۴۳۷
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی شادی
جیسا کہ اوپر اشارۃ" ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ۲/ جولائی ۱۹۳۴ء کو اپنے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد
صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کا نکاح صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ دختر نیک اختر حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے ساتھ پڑھا۔ نکاح کے قریباً ایک ماہ بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریب شادی عمل میں آئی۔
چنانچہ ۴/ اگست ۱۹۳۴ء کو آپ کی برات مالیر کوٹلہ گئی۔ جو حضرت ام المومنینؓ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ۔ حضرت سیدہ ام ناصرؓ )حرم اول حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب پر مشتمل تھی۔ اگلے روز ۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو سیدنا حضرت امیر المومنینؓ خود بھی کار میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے۔۴۳۸
یہ برات اسی روز ۳ بجے بعد دوپہر لدھیانہ پہنچی جہاں احباب نے استقبال کیا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ پونے پانچ گاڑی مالیر کوٹلہ روانہ ہوئی۔۴۳۹ اور ایک روزہ قیام کے بعد ۶/ اگست کو بارہ بجے کی گاڑی میں بروز دو شنبہ واپس قادیان پہنچی۔ حضور انورؓ جو رخصتانہ کے مبارک کے موقع میں شمولیت کے لئے مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے اسی روز گیارہ بجے کے قریب دارالامان میں رونق افروز ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد اسٹیشن پر تشریف لے گئے جہاں بہت بڑا ہجوم برات کے پرخلوص خیر مقدم کے لئے موجود تھا مسجد مبارک سے لے کر قادیان کے اسٹیشن تک دو رویہ رنگ دار جھنڈیاں لہرا رہی تھیں کئی جگہ اعزازی دروازے نصب تھے اور مختلف مقامات پر موزوں اشعار اور دعائیہ کلمات کے قطعات آویزاں تھے۔
گاڑی کی آمد سے قبل اسٹیشن پر مردوں` عورتوں اور بچوں کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ جس پر نظر ڈالنے سے ہر طرف خوشی و مسرت کا سماں نظر آتا تھا جب گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچی تو مجمع نے نعرہ ہائے تکبیر۔ غلام احمد کی جے۔ حضرت خلیفتہ المسیح زندہ باد۔ مرزا ناصر احمد زندہ باد۔ اھلا و سھلا و مرحبا کے نعروں سے جذبات مسرت کا اظہار کیا۔ حضرت امیر المومنین نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گاڑی سے اترتے ہی مبارک باد دی اور پھولوں کا ہار پہنایا۔ حضور کے گلے میں بھی پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور مبارکبادیں عرض کی گئیں۔
اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ معزز براتی اور دولہا دلہن تینوں موٹروں میں سوار ہوئے۔ موٹریں شاندار جلوس میں آہستہ آہستہ روانہ ہوئیں۔ اہل جلوس خوش الحانی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دعائیہ اشعار پڑھتے رہے جو آپ نے اپنی ذریت طیبہ سے متعلق فرمائے تھے۔ جلوس جب احمدیہ چوک تک پہنچا تو حضرت اقدس نے مسجد مبارک میں کھڑے ہو کر دعا کی جس میں تمام مجمع شریک ہوا۔۴۴۰
۸/ اگست ۱۹۳۴ء کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفتہ المسیح کی طرف سے >دارالحمد< میں نہایت وسیع پیمانہ پر دعوت ولیمہ دی گئی جس میں قادیان میں مقیم صحابہ حضرت مسیح موعودؑ۔ کارکنان صدر انجمن احمدیہ مختلف محلوں کے احباب` مضافات کے احمدی دوست اور قادیان کے غیر احمدی اصحاب شامل ہوئے۔ بیوائوں اور یتیموں کو گھروں میں کھانا پہنچایا گیا۔ الفضل کی رپورٹ کے مطابق اندازاً دو ہزار افراد نے کھانا کھایا۔ قادیان کے ہندوئوں میں اس خوشی کی تقریب میں شیرینی تقسیم کی گئی۔ جو اصحاب اس دن شامل دعوت نہ ہو سکے وہ ۹/ اگست کو دوپہر کے وقت مسجد اقصیٰ میں بلائے گئے مستورات کی ضیافت کا انتظام ۱۰/ اگست کو کیا گیا۔۴۴۱
اس بابرکت تقریب پر مقامی سکولوں اور صدر انجمن کے دفتروں میں تعطیل عام رہی اور احمدی شعراء میں سے حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسملؓ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکملؓ۔ حضرت ابو عبیداللہ۔ حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ۔ حضرت مولانا صوفی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نیز رحمت اللہ صاحب شاکر نے فارسی` اردو اور پنجابی زبان میں دعائیہ نظمیں کہیں اور سہرے لکھے جو الفضل میں شائع ہوئے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اپنے عقائد پر حلفیہ بیان
ایک صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے مطالبہ کیا کہ اپنے عقائد پر حلفیہ بیان دیں جس پر حضور نے حلفیہ اور موکد بعذ اب بیان لکھا۔ جو الفضل ۴/ ستمبر ۱۹۳۴ء کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا۔ یہ بیان مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔
>میں مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ ساکن قادیان ولد مرزا غلام احمد صاحب مدعی ماموریت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھانا انسان کو روحانی اور جسمانی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور ناقابل برداشت عذابوں میں مبتلا کرتا ہے کہتا ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب میرے یقین اور ایمان کے مطابق بلا شک و شبہ مسیح موعود اور مہدی مسعود تھے اور آنحضرت~صل۱~ سے مستفیض ہو کر مقام نبوت پر فائز ہوئے تھے اگر میں اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا وہ وعید جو جھوٹوں کے لئے مقرر ہے مجھ پر نازل ہو<۔۴۴۲
پہلا باب )فصل دواز دہم(
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر ولایت
اس سال کے نہایت درجہ اہم واقعات میں سے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر انگلستان ہے۔ جو محض خدمت دین اور خالصت¶ہ اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے کیا گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی روح پرور نصائح
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے جو قیمتی ہدایات اور روح پرور نصائح اس موقعہ پر آپ کو لکھ کر دیں۔ وہ پورے تیس۴۴۳ صفحوں پر مشتمل تھیں اور ان میں پہلی ہدایت کے طور پر بڑی وضاحت و تصریح کے ساتھ اس سفر کے حقیقی مقصد پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا۔
>سب علم قرآن کریم میں ہی ہے اور اس کی کنجی محبت الٰہی ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اسے قرآن کریم کا علم دیا جاتا ہے اور جو اس کے قبضہ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے وہ اس کے عرفان کے دودھ سے خود پرورش کرتا ہے۔ پس میں تم کو انگلستان کسی علم کے سیکھنے کے لئے نہیں بھجوا رہا کہ جو کچھ علم کہلانے کا مستحق ہے وہ قرآن کریم میں موجود ہے۔
اور جو قرآن کریم میں نہیں وہ علم نہیں جہالت ہے۔ میں مبالغہ سے کام نہیں لے رہا میں کلام کو چست فقرات سے مزین نہیں کر رہا۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے یہ ایک مشاہدہ ہے اور اس کے لئے ہر قسم کی قسم اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ میرے کلام میں نقص کا احتمال تو ہو سکتا ہے لیکن مبالغہ کا نہیں۔ واللہ علی ما اقوال شھید۔
میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس عرض سے جس غرض سے رسول کریم~صل۱~ اپنے صحابہ کو فتح مکہ سے پہلے مکہ بھجوایا کرتے تھے میں اس لئے بھجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نگاہ کو سمجھو۔ تم اس زہر کی گہرائی کو معلوم کرو۔ جو انسان کے روحانی جسم کو ہلاک کر رہا ہے تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جائو جن کو دجال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے غرض تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کرو یہ مت خیال کرو کہ وہاں سے تم کچھ حاصل کر سکتے ہو۔ وہاں کی ہر چیز آسانی سے یہاں مل سکتی ہے تم کو میں اس لئے وہاں بھجوا رہا ہوں کہ تم وہاں کے لوگوں کو کچھ سکھائو۔ اگر تم کوئی اچھی بات ان میں دیکھو تو وہ تم کو مرعوب نہ کرے کیونکہ اگر وہ مسلمانوں میں موجود نہیں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ اسلام میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے بھلا دیا ہے رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں۔nsk] gat[ کلمہ الحکمہ ضالہ المومن اخذ ھا حدیث و جدھا۔ آپؑ کے اس قول میں )فداہ نفسی و روحی( اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام کے باہر کوئی اچھی شے نہیں اگر کوئی ایسی شئی نظر آئے تو یا تو ہمارا خیال غلط ہو گا اور وہ شے اچھی نہیں بلکہ بری ہو گی یا پھر اگر وہ اچھی چیز ہو گی تو وہ ضرور قرآن کریم سے ہی لی ہوئی ہو گی اور مومن ہی کی گم گشتہ متاع ہوگی۔ جو کچھ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ میں اس کا ایک زندہ ثبوت ہوں۔ میں گواہ ہوں راستبازوں کے بادشاہ کی بات کی صداقت کا۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم یورپ سے مرعوب ہو۔ خدا تعالیٰ نے جو ہمیں خزانہ دیا ہے وہ یورپ کے پاس نہیں اور جو ہمیں طاقت دی ہے وہ اسے حاصل نہیں۔ تم ایک اسلام کے سپاہی کی طرح جائو اور وہ سب کچھ اکٹھا کرو جو اسلام کی خدمت کے لئے مفید ہو اور اس سب کچھ کو لغو سمجھ کر چھوڑ دو جو اسلام کے خلاف ہے کیونکہ وہ ہرگز کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ تم اسے زہر سمجھ کر اس کی شدت کا مطالعہ کرو لیکن اسے کھائو نہیں کہ زہر کھانے والا انسان اپنے آپ کو خود ہلاک کرتا ہے اور لوگوں کی ہنسی اور تمسخر کا مستحق ہوتا ہے۔۴۴۴
آخر میں حضور نے اپنی ہدایات اور نصیحتوں کا خلاصہ ان الفاظ میں تحریر فرمایا۔
>پھر سب نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے بنو خدا کے ۔۔۔۔۔۔ ہم سب فانی ہیں اور وہی زندہ اور حاصل کرنے کے قابل ہے اس کا چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کرو۔ اپنی زندگی کو اسی کے لئے کردو ہر سانس اسی کے لئے ہو وہی مقصود ہو` وہی مطلوب ہو` وہی محبوب ہو۔ جب تک اس کا نام دنیا میں روشن نہ ہو تم کو آرام نہ آئے تم چین سے نہ بیٹھو<۔۴۴۵
سفر انگلستان کی غرض وغایت خود سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ مبارک میں بیان کرنے کے بعد اب ہم اس بابرکت سفر کے واقعات کی طرف آتے ہیں۔
قادیان سے روانگی
۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء کا دن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحبؓ )ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب( کی روانگی کے لئے مقرر تھا۔ سہ پہر کے تین بجے کے بعد گاڑی کو قادیان کے اسٹیشن سے چلنا تھا۔ قادیان کے احباب۔ بوڑھے۔ جوان۔ بچے اور مستورات ظہر کی نماز کے بعد ہی اسٹیشن کی طرف کھنچے چلے جارہے تھے۔ احمدی دکانداروں نے اس تقریب الوداع میں شامل ہونے کے لئے دکانیں بند کر دی تھیں۔ اسٹیشن پر بہت بڑا اجتماع تھا جو چلچلاتی دھوپ میں کھڑا تھا۔ خاندان مسیح موعودؑ کے افراد نیز حضرت ام المومنینؓ اور حضرت اقدس خلیفتہ المسیحؓ بنفس نفیس اپنے پیارے لخت جگر اور اپنے دوسرے عزیز کو خدا حافظ کہنے کے لئے موجود تھے۔
صاحبزادگان نے جن کے سینے ہاروں سے مزین تھے اسٹیشن کے بیرونی برآمدے میں سینکٹروں افراد سے مصافحہ کیا اور بعض بعض سے معانقہ بھی۔
گاڑی روانہ ہونے سے پندرہ منٹ پہلے حضور نے دونوں صاحبزادوں کو پاس کھڑا کرکے ایک لمبی دعا فرمائی دعا میں اکثر لوگوں کی آنکھیں پرنم تھیں خود حضرت خلیفتہ المسیحؓ کی آنکھیں آنسوئوں سے ڈبڈبا گئیں۔
دعا کے بعد حضور نے اپنے فرزند دلبند کو اپنے سینہ سے لگایا اور پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف معانقہ فرمایا۔ معانقہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضور کے دست مبارک کو چوما۔ اس کے بعد حضور نے صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب سے معانقہ فرمایا۔ اور میرزا سعید احمد صاحب نے بھی حضور کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ گاڑی اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان روانہ ہوئی تو بہت سے احباب فرط اشتیاق سے گاڑی کے ساتھ ساتھ دور تک دوڑتے چلے گئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ` حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی` میرزا گل محمد صاحب رئیس اور دوسرے بہت سے دوست مشایعت کے لئے امرت سر تک تشریف لے گئے۔۴۴۶
امرت سر سے لدھیانہ تک
امرتسر سے صاحبزادگان >فرنٹیر میل< میں عازم بمبئی ہوئے۔ لدھیانہ میں قریباً آدھی رات کے وقت گاڑی پہنچی اسٹیشن پر احباب لدھیانہ کے علاوہ مالیر کوٹلہ سے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ )مع نواب مسعود احمد خان صاحب( بھی تشریف لائی ہوئی تھیں اور ویٹنگ روم میں موجود تھیں۔ گاڑی کے پہنچتے ہی سید محمد عبدالرحیم صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ لدھیانہ نے معانقہ کیا اور ہار پہنائے۔ اسی طرح حضرت سیدہ موصوفہ نے بھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب کے گلے میں ہار ڈالے۔۴۴۷ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابی حضرت سید عنات علی شاہ صاحبؓ نے مجمع سمیت دعا فرمائی۔ اور سب نے نیک تمنائوں کے ساتھ اپنے محبوب امام کے جگر گوشہ اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے چشم و چراغ کو خدا حافظ کہا۔۴۴۸
حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کی دعائیہ نظم
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کو لدھیانہ اسٹیشن پر چند اہم نصائح اور ایک دعائیہ نظم لکھ کر عنایت فرمائی اس پاکیزہ اور موثر نظم کے اشعار درج ذیل ہیں۔
جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر
اللہ نگہبان۔ خدا حافظ و ناصر
ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری
ہر لمحہ و ہر آن۔ خدا حافظ و ناصر
والی بنو امصار علوم دو جہاں کے
ائے >یوسف کنعان< خدا حافظ و ناصر
ہر علم سے حاصل کرو عرفان الٰہی
بڑھتا رہے ایمان۔ خدا حافظ و ناصر
پہرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے نہ پائے
ڈرتا رہے شیطان۔ خدا حافظ و ناصر
ہر بحر کے غواض بنو لیک بہ ایں شرط
بھیگے نہیں دامان۔ خدا حافظ و ناصر
سر پاک ہو اغیار سے` دل پاک نظر پاک
اے بندہ سبحان۔ خدا حافظ و ناصر
محبوب حقیقی کی >امانت< سے خبردار
اے حافظ قرآن۔ خدا حافظ و ناصر۴۴۹
لدھیانہ سے بمبئی تک
فرنٹیئر میل دوسرے دن ۷/ ستمبر بروز جمعہ` صبح کے وقت دہلی پہنچی۔ جہاں علی گڑھ بریلی اور شاہ جہانپور تک کے احباب ملاقات کے لئے حاضر تھے گاڑی قریباً ایک گھنٹہ تک ٹھہری۔ روانگی سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے احباب جماعت سمیت دعا فرمائی۔۴۵۰ ۸/ ستمبر کی صبح کو یہ مقدس قافلہ >بیلا رڈ پیئر< )بمبئی کی بندرگاہ کا ایک پلیٹ فارم(۴۵۱ پہنچا۔ جہاں رنپورہ جہاز پہلے سے لنگر انداز تھا۔ بمبئی کی جماعت نے اخلاص و محبت کے ساتھ استقبال کیا۔ استقبال کرنے والوں میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیرؓ اور سید رسول شاہ صاحب کلیانی بھی تھے۔ صاحبزادگان نے حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ کے ہاں ناشتہ کیا۔ اس وقت حضرت عرفانی الکبیرؓ بھی ساتھ تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سے احمدی احباب نے سمندر پار جانا شروع کیا تھا حضرت سیٹھ صاحبؓ مہمان نوازی کے فرائض بجا لارہے تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جب حج اور مصر کے سفر پر تشریف لے گئے تو آپ کو شرف میزبانی عطا ہوا۔ پھر اس سفر میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بھی آپ کے یہاں مہمان رہے۔ آپ کے بعد حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ بھی )یعنی صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب کے دادا( مہمان رہ چکے تھے اور اسی طرح باہر سے آنے جانے والے مبلغین کی خاطر تواضع کا ¶سلسلہ اب تک برابر جاری تھا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت سیٹھ صاحبؓ کو بذریعہ تار اطلاع دی تھی کہ روانگی کے وقت پھلوں کی دو ٹوکریاں صاحبزادگان کو دی جائیں۔ چنانچہ سیٹھ صاحب نے نہایت عمدہ پھلوں کی ٹوکریاں تیار کیں اور پیش کر دیں۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ انہوں نے ایک رئویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور حضور نے تین سو روپیہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے سیٹھ صاحب نے اپنی میز میں دیکھا تو وہاں صرف تیس روپے تھے جو آپ نے میز پر رکھ دیئے اس کے بعد آپ کی آنکھ کھل گئی عجیب بات یہ ہوئی کہ اس تقریب پر ان کے پورے تیس روپے خرچ ہوئے۔ اور آپ کو بہت خوشی ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے حضور آپ کے تیس روپے تین سو کے برابر ہیں۔
بمبئی سے سویز تک
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب ناشتہ کر چکے تو حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ اور حضرت عرفانی کبیرؓ ان کے ہمراہ تختہ جہاز تک آگئے اور ان کو ہار پہنائے اور نہایت رقت بھری دعائوں سے رخصت کیا۔ جب تک جہاز نظر آتا رہا۔ حضرت سیٹھ صاحب اور دوسرے احباب جماعت کھڑے رہے اور دعائیں کرتے رہے یوسف علی صاحب عرفانی نے الوداع کے وقت کئی فوٹو لئے خود حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی تختہ جہاز پر موجود احباب کا فوٹو لیا۔۴۵۲
جہاز بمبئی سے چل کر نویں روز ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو نو بجے سویز میں لنگر انداز ہوا جہاں مولانا ابوالعطاء صاحب مبلغ فلسطین و مصر اور احمد آفندی محمودی ذہنی نے خیر مقدم کیا اور یہ چاروں حضرات موٹر میں بارہ بجے قاہرہ پہنچے اور عجائب گھر دیکھنے کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب دارالتبلیغ میں گئے ظہر و عصر کی نماز اور کھانے سے فراغت کے بعد مصر کے آثار قدیمہ میں سے اہرامات اور ابوالہول کی تمثال دیکھنے گئے۔ السید محی الدین آفندی الحصنی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں ایک ٹی پارٹی کا انتظام اپنے مکان پر کر رکھا تھا۔ جہاں بعض شیعہ` اہل حدیث` حنفی اور مسیحی و بہائی دوستوں کے علاوہ جماعت احمدیہ قاہرہ کے تمام احباب موجود تھے۔ اس دعوت اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی آمد کا ذکر قاہرہ کے اخبار >المقطم< نے بھی کیا۔ سوا چار بجے کے قریب تعارف اور مختصر گفتگو کے بعد جس میں سب حاضرین نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں خوش آمدید کہا اور چائے پیش کی۔ پھر مجمع کا فوٹو لیا گیا یہ فوٹو اخبار >المقطم< میں بھی شائع ہوا۔ اور اس کتاب میں بھی موجود ہے۔ فوٹو لینے کے بعد مصر کے مشہور ترین عالم الشیخ محمد عبدہ کے ایک شاگرد الشیخ علی الازہری اور ایک نوجوان تاجر السید ابراہیم نامی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی مستقل اجازت کے مطابق بیعت لی۔
مولانا ابوالعطاء صاحب نے جماعت احمدیہ قاہرہ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ سفر کے لئے الوادع کہا پھر حضرت صاحبزادہ صاحب نے مختصر مگر پر معزز تقریر فرمائی اور دعا پر یہ اجتماع ختم ہوا اور دوست اسٹیشن پر الوداع کہنے کے لئے روانہ ہوئے ٹھیک چھ بجے گاڑی روانہ ہوئی اور تمام دوست مصافحہ کے بعد پلیٹ فارم پر کھڑے دعا کرتے رہے گاڑی ساڑھے دس بجے پورٹ سعید پہنچی۔ ڈھائی بجے رات مولانا ابوالعطاء صاحب` حضرت صاحبزادہ صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب کو جہاز پر الوداع کہہ کر واپس روانہ ہوئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی نہایت ہی مختصر سی فرصت میں نہایت گہرا اثر احباب کے دلوں پر چھوڑا۔ سادہ زندگی اور محبت سے بھرے ہوئے اخلاق کا ایک پاکیزہ اور مقدس نمونہ آپ میں نظر آتا تھا۔۴۵۳
سویز سے لنڈن تک
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے عرشہ جہاز سے ایک خط ہوائی ڈاک کے ذریعہ سے مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ مبلغ لنڈن کو ارسال فرمایا کہ ہم ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو لنڈن پہنچیں گے اس اطلاع کے مطابق ۲۲/ ستمبر کو ڈیڑھ بجے دوپہر جہاز ساحل انگلستان پر پہنچا۔ اس وقت سمندر میں خفیف سا تلاطم تھا بادل اور ہوا کی وجہ سے کچھ سردی بھی تھی اس لئے صاحبزادگان کمرہ کے اندر ہی تشریف فرما تھے انہوں نے کنارہ پر قدم رکھا ہی تھا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب۔ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور مشہور نو مسلم انگریز بھائی مسٹر مبارک احمد صاحب فیولنگ نے خوش آمدید کہا اور معانقہ و مصافحہ کیا اور کسٹم ہائوس سے نکل کر گاڑی میں بیٹھے۔ گاڑی لنڈن کے ریلوے اسٹیشن وکٹوریہ پر پہنچی تو بارش ہو رہی تھی۔ اسٹیشن پر چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب` مولوی محمد یار صاحب عارف اور کئی اور دوست موجود تھے چودھری صاحب موصوف نے حضرت اقدس کو تار دے دیا کہ صاحبزادگان خدا کے فضل سے بخیریت پہنچ گئے ہیں۔ دونوں کے گلے میں ہار ڈالے گئے اور مسٹر عبداللہ رائن کی کار میں بیٹھ کر سوا چار بجے مسجد میں پہنچ گئے۔
حضرت ام ناصرؓ )حرم اول سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ( نے کمال شفقت و نوازش سے اپنے پیارے بیٹے اور مرزا منصور احمد صاحب کے نکاح پر تقسیم ہونے والے چھوہاروں کا ایک لفافہ مولانا درد صاحب کے لئے دیا تھا۔ جو ان کو پہنچا دیا گیا چھوہارے نہ صرف مولانا درد صاحب نے خود کھائے بلکہ تمام موجودہ دوستوں کو کھلائے اور سب نے دعائیں دیں کہ ہزاروں میل کے فاصلہ پر دور افتادہ خدام کو بھی نکاح کی تقریب میں شامل فرما لیا۔
اسی طرح حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ نے حضرت عرفانی الکبیرؓ کی تحریک پر دو مصلے مسٹر مبارک احمد صاحب فیولنگ اور مسٹر بلال نٹل )دو نو مسلموں( کے لئے بھجوائے تھے جو انہیں دے دیئے گئے مصلے دیکھ کر ان مخلص بھائیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
صاحبزادگان کے اعزاز میں جلسہ
اگلے دن اتوار کو ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے تقریر فرمائی کہ اب خدا کے فضل سے ولایت میں خاندان مسیح موعودؑ کے چار ممبر ہو گئے ہیں اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی لنڈن مشن میں کوئی نظیر نہیں تھی۔ چودھری صاحب کی تقریر نہایت فصیح اور پر اثر تھی۔ اس تقریر کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب نے مختصر سی تقریریں فرمائیں اور چند الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ علاوہ ازیں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور مولوی محمد یار صاحب عارف مولوی فاضل نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
اس تقریب پر حضرت مولانا درد صاحبؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے بچپن` حفظ قرآن` تعلیم مدرسہ احمدیہ` انگریزی تعلیم اور وقف زندگی کے حالات سنائے اور کہا۔ لاکھوں اور کروڑوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر ایسا بچہ جس کے متعلق خالق دو جہان نے پہلے سے اطلاع دی ہو صدیوں کے بعد دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ انا نبشرک بغلام نافلہ لک کی پیشگوئی میں سمجھتا ہوں )حضرت( مرزا ناصر احمد صاحب کی ذات میں ہی پوری ہوئی ہے پھر انہیں ایک ایسا امتیاز حاصل ہے جو دوسرے بچوں میں اس رنگ میں نہیں پایا جاتا۔ وہ یہ کہ ان کی تربیت براہ راست ایک ایسی ماں نے کی جو ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔ زمانہ گزر جائے گا آنے والی نسلیں اسلام کی عظیم الشان فتوحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی۔ مشرق و مغرب میں اسلام کا علم بلند ہوگا۔ دنیا اپنے تمام جمال و جلال کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے غلاموں کی غلام ہو گی۔ لیکن سب کے دل اس حسرت سے پر ہوں گے کہ کاش وہ اس زمانہ کو پاتے اور حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پائوں کی خاک چومتے۔ مگر انہیں یہ عزت نصیب نہ ہو سکے گی۔ حضرت مرزا ناصر صاحب کی پرورش اسی آغوش محبت میں ہوئی ہے جہاں سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللٰہ تعالیٰ جیسا اولوالعزم خلیفہ پیدا ہوا۔ الخ۔۴۵۴
‏tav.7.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اہم فرمان مرکزی کارکنوں کی نسبت
اس عظیم الشان منصب و مقام کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے خلعت خلافت پہنا کر حضرت خلیفتہ المسیح کو عطا فرمایا تھا۔ حضور کی فروتنی`
ملنساری اور کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص سے ہمیشہ کھڑے ہو کر ملاقات فرماتے اور اپنے ساتھ جگہ دیتے اور محبت اور تپاک سے بٹھاتے تھے۔ حضرت اقدس یہی روح سلسلہ کے مرکزی کارکنوں میں کام کرتی دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ حضور نے اسی مقصد کے پیش نظر ناظر صاحب اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اہم فرمان جاری فرمایا۔
>آپ کو اور دیگر ناظروں اور عہدیداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص ملنے یا کام کے لئے آئے۔ ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ کھڑا ہو کر اسے ملے۔ خواہ کام والا چوہڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والا سزا کا مستوجب سمجھا جائے گا۔ نیز سب ناظروں اور نائب ناظروں کا فرض ہو گا کہ وہ جب بازاروں۔ گلیوں سے گزریں تو حتی الوسع سلام میں تقدم کریں<۔
حضور کا ارشاد بیرونی احباب کی اطلاع کے لئے الفضل )۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء( میں بھی شائع کر دیا گیا۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت سے
۲۳/ جولائی ۱۹۳۴ء کو وزیر ہند کی طرف سے مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت
سے لئے جانے کی پیش کش ہوئی۔ مکرم چوہدری صاحب نے جواباً کہا کہ مجھے تو آپ کی پیش کش منظور ہے لیکن ممکن ہے ملک کے بعض لوگوں کی طرف سے مخالفت ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مخالفت کی کوئی پرواء نہیں ہمیں تو لائق اور قابل آدمی چاہئے چنانچہ آپ کی تقرری کے متعلق بعد میں اعلان ہو گیا۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی تقرری اوراخبار>زمیندار<
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ابھی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر مقرر نہیں ہوئے تھے کہ اخبار >زمیندار< نے وائسرائے ہند کے نام مندرجہ ذیل مکتوب مفتوح شائع کیا۔
>مکتوب مفتوح بنام نائب السلطنت کشور ہند<
۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب والا کی مجلس وزراء جس کے مشورہ پر نظم و نسق سلطنت کا دارومدار ہے۔ چھ ارکان سے مرکب ہے جن میں سے تین ہندوستانی ہیں اور تین انگریز۔ ان تین ہندوستانیوں میں ایک مسلمان ہونا لازمی ہے یہ مسلمان وزیر اس وقت سر فضل حسین ہیں جن کے عہدہ کی معیاد عنقریب منقضی ہونے والی ہے۔ خیال ہو سکتا تھا کہ جناب والا سر فضل حسین کی جانشینی کے لئے آزمودہ کار اور سربرآوردہ مسلمانوں میں سے جن کی ہندوستان میں کمی نہیں کسی معتمد علیہ شخص کو نامزد فرمائیں گے۔ لیکن یہ گرم افواہ سن کر مسلمانوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ سر فضل حسین کے خدمت سے سبکدوش ہونے پر ان کا قلمدان وزارت چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی کے سپرد کیا جائے گا جو تمام مسلمانوں کو اپنے پختہ عقیدہ کی بناء پر دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور اس لئے ہندوستان کے مسلمان ان کو ابداً اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کر سکتے۔۴۵۵
>چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام بے شک مسلمانوں کا سا ہے اور شاید اس کی آڑ لے کر جناب والا کو اور سر سیموئیل ہور وزیر ہند کو بعض اشخاص نے اپنی ذاتی اغراض کی خاطر یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں اسلامیان ہند کے ایک بہت بڑے لیڈر ہیں جن کی ذات پر ہر چھوٹے بڑے کو پورا پورا اعتماد ہے لیکن اگر جناب اپنی امپریل مصروفیتوں سے کچھ وقت نکال کر ہندوستانی مسلمانوں کے اساسی معتقدات اور ان کے عمیق حسیات کے مطالعہ کی زحمت گوارا فرما سکیں تو جناب پر یہ حقیقت آفتاب عالمتاب کی طرح روشن ہو جائے گی کہ جو کچھ جناب کو یا وزیر ہند کو بتایا گیا ہے اس کی قطعاً کوئی اصلیت نہیں<۔
>طول و عرض ہند میں جو بے شمار احتجاجی جلسے سر فضل حسین کی جانشینی کے سلسلہ میں ہو رہے ہیں ان کا علم جناب والا کو ہر روز ہو رہا ہو گا۔ امید ہے کہ جناب والا مسلمانان ہند کی رائے عامہ سے بے نیازی نہ برتیں گے اور اگر حقیقت میں یہ تجویز جناب کے زیر غور ہے کہ سر فضل حسین کی جگہ چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی کو مقرر کیا جائے تو اس پر نظر ثانی فرمائی جائے گی اور کسی ایسے جلیل القدر مسلمان کو یہ منصب رفیع سپرد کیا جائے گا جو مسلمانان ہند کے اعتماد کا اہل ہو<۔
>آخر میں صرف یہ نکتہ جناب کے گوش گزار کرنا اور باقی رہ گیا ہے کہ یہ مکتوب کسی فرقہ مندانہ نیت سے سپرد قلم نہیں کیا گیا۔ شاید جناب والا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ قادیانیت بھی اسلام ہی کا ایک فرقہ ہے اور دوسرے فرقوں کے مسلمان محض تعصب اور ہٹ دھرمی سے اس کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں جس کا حکومت پر کوئی اثر نہ ہونا چاہئے۔ یہ دعویٰ قطعاً غلط ہے مسلمانوں میں کئی ایسی جماعتیں موجود ہیں جو بعض مسائل میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتی ہیں لیکن ان اختلافات کے باوجود دنیائے اسلام نے ان کو تمام وہ حقوق بخش رکھے ہیں جو ایک مسلمان کو حاصل ہونے چاہئیں۔ سر علی امام مرحوم شیعہ تھے اور ظاہر ہے کہ مسلمانان ہند کی اکثریت شیعی مسلک نہیں رکھتی۔ لیکن مسلمانان ہند نے انہیں اپنی نمائندگی کا پورا پورا اہل سمجھا اور وہ اسی حیثیت سے مجلس وزراء کی رکنیت پر فائز ہوئے۔ ہز ہائینس آغا خاں کے عقائد مسلمانان ہند کے سواد اعظم کے معتقدات سے مختلف ہیں۔ با ایں ہمہ وہ سیاسیات میں اپنی سمجھ کے مطابق ان کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اور مسلمانوں نے کبھی ان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں کی نمائندگی کے خلاف اگر مسلمان ہمہ گیر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قادیانی ہیں اور قادیانیت ہرگز اسلام کا کوئی فرقہ نہیں بلکہ بالکل علیحدہ مذہب ہے جس سے سارے مسلمان بے زار ہیں<۔۴۵۶
اخبار >زمیندار< کی روش کے خلاف بعض مسلم اخبارات کا زبردست احتجاج
اخبار >زمیندار< کی اس افسوسناک روش پر بعض مسلم اخبارات نے زبردست احتجاج کیا اور اس پالیسی کو مفاد اسلامی کے لئے ضرر رساں اور
نقصان دہ قرار دیا۔
اخبار >ستارہ سندھ< کا اداریہ
چنانچہ سندھ کے روزنامہ >ستارہ سندھ<۴۵۷ نے اپنے ۳۱/ اگست ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں ایک اداراتی نوٹ لکھا۔ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے۔ ستارہ سندھ نے لکھا۔
>اس وقت مسلمانان ہند کے لیڈروں میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ایک بڑے پایہ کے لیڈر ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں انہوں نے مسلمان قوم کی اتنی بڑی خدمات کی ہیں کہ وہ جناب سر آغا خاں کے دوش بدوش کھڑے ہو سکتے ہیں رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور جائنٹ کمیٹی کے موقعوں پر انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کا کیس ایسی قابلیت کے ساتھ پیش کیا کہ اس پر سارے انگلستان کے مدبر انگشت بدنداں رہ گئے۔
سیکرٹری آف سٹیٹ ہند نے چودھری صاحب ممدوح کی قابلیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو مبارکباد دی اور کہا کہ >آپ کا مستقبل نہایت درخشندہ< نظر آتا ہے<۔
رائونڈ ٹیبل کے مختلف اجلاسوں میں ہندوستان کی سب قوموں کے بہترین دماغ رکھنے والے لیڈر موجود تھے اور جو کچھ انہوں نے وہاں کام کیا۔ وہ آج بھی کارروائی کی کتابوں میں موجود ہے اگر کوئی صاحب بنظر غائر ان کتب کا ملاحظہ فرمائیں تو ان کو چودھری صاحب کا پلہ بھاری نظر آئے گا۔][اب عنقریب سر فضل حسین صاحب کی جگہ وائسرائے ہند کی مجلس منتظمہ کی ممبری کی ایک جگہ مسلمانوں کے لئے خالی ہو گی۔ پنجاب کے اخبار >زمیندار< کی پارٹی نے چودھری صاحب کے برخلاف ذاتی کاوشوں کی وجہ سے سخت طوفان بے تمیزی شروع کر رکھا ہے ہے اور بعض خانہ ساز انجمنوں کی طرف سے ریزولیوشن پاس کرا کے وائسرائے ہندکی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ جن کے ذریعہ وائسرائے ہند سے درخواست کی جاتی ہے کہ چودھری صاحب کو ایگزیکٹو کونسل کی ممبری پر مقرر نہ کیا جائے۔ بدتمیزی اور معاملہ نافہمی کی اس لہر کو >زمیندار< پارٹی نے سندھ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ ایک تازہ اشاعت میں >زمیندار< نے لکھا ہے کہ میر پور خاص سندھ میں ایک جلسہ چودھری صاحب کے برخلاف ہوا ہے لیکن جہاں تک ہم کو معلوم ہے ایسی کوئی بھی میٹنگ میر پور خاص بلکہ سندھ کے کسی بھی حصہ میں نہیں ہوئی اور جو رپورٹ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں میٹنگ کے متعلق کوئی بھی تفصیل نہیں دی گئی کہ وہ کس جگہ اور کس کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ کتنے اشخاص اس میں شامل ہوئے اور اس تجویز کی تحریک اور تائید کن اصحاب نے کی۔ اس کے علاوہ اگر یہ میٹنگ سندھ میں منعقد ہوتی تو لازمی طور پر پہلے اس کی کارروائی سندھ کے کسی اخبار میں چھپتی۔
بہرحال خدا کے فضل سے سندھ کے مسلمان ابھی تک اس قدر ناعاقبت اندیش نہیں ہوئے کہ وہ پنجابی بھائیوں کی ایک خاص پارٹی کی ایسی حالت میں تائید کریں۔ خصوصاً جبکہ وہ لوگ محض پارٹی بازی اور ذاتی کاوشوں کی بناء پر ایک مقتدر اور نہایت کار آمد لیڈر کی مخالفت کر رہی ہے۔
چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف صرف ایک بات پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ وہ قادیانی جماعت کے ایک فرد ہیں لیکن مسلمانوں کی کسی خاص جماعت سے کسی شخص کا تعلق رکھنا اس کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بننے سے روک نہیں سکتا۔ بشرطیکہ اس میں دوسری قابلیتیں اور مسلمان قوم کے لئے ہمدردی موجود ہو اگر مذہبی اعتقادات اور فرقہ بندی کی رو سے ایسی ذمہ داری کے منصب تقسیم کئے جانے لگے تو یہ مسلمانوں کی انتہائی بدقسمتی ہو گی کیونکہ مسلمان قوم کے ۷۲ فرقے ہی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایک فرقہ تمام دوسرے فرقوں کی مخالفت کرے گا اور نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلے گا کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے اور فائدہ دوسری قومیں اٹھائیں گی۔
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی مذہبیت کا توازن دوسرے لیڈروں کی مذہبیت سے کرنا نامناسب ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے کئی ایک مقتدر مسلمان لیڈروں کے متعلق بھی بعض ناگوار باتیں کرنی پڑیں گی۔ پس اس بحث کو یہاں ہی ختم کرتے ہوئے ہم سندھ کے مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان کے وائسرائے کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ سر فضل حسین کی جگہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا تقرر ہندوستان کے عام مسلمانوں کے لئے پسندیدگی کا باعث ہو گا<۔۴۵۸
اخبار >قومیت< اردو کا آرٹیکل
اخبار >قومیت< لاہور نے >آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب کی جانشینی کا مسئلہ۔ مولوی ظفر علی خاں صاحب کا لغو اور بے ہودہ پروپیگنڈا< کے عنوانوں سے ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔
>وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل سے میاں سر فضل حسین صاحب عنقریب ریٹائر ہو رہے ہیں اور سرکای حلقوں میں یہ خبر بڑے وثوق سے بیان کی جاتی ہے کہ ان کی جگہ حکومت چودھری ظفر اللہ خاں بیرسٹرایٹ لاء کا تقرر عمل میں لانے والی ہے جو موجودہ حالت میں ان کے نزدیک ہر طرح سے قابل و موزون ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب موصوف کی رائے بھی چودھری صاحب ہی کے حق میں ہے مسلمانان ہند کے سمجھدار طبقہ نے بحیثیت مجموعی حکومت کے اس ارادہ کو بنظر استحسان دیکھا ہے لیکن مولوی ظفر علی خاں ہیں کہ وہ اپنی دیرینہ ذاتی عداوت کی وجہ سے جو فرقہ احمدیہ سے ہے اس معاملہ کو بلاوجہ مذہبی عقائد کا رنگ دے کر نہایت لغو اور شرمناک پروپیگنڈا سے >زمیندار< کے کالم کے کالم سیاہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف مولوی صاحب اپنی مخالفت کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا تقرر مولوی صاحب کی سمجھ کے مطابق صحیح نہیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کے ذمہ دار لیڈروں اور ان کی سب سے بڑی جماعتوں آل انڈیا مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ نے اس تقرر کو موزوں قرار دیتے ہوئے چودھری صاحب پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے مولوی ظفر علی خان کا اپنی وجہ مخالفت میں یہ دلیل پیش کرنا کہ چودھری صاحب قادیانی ہیں اور اس لئے وہ وائسرائے کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر نہیں ہو سکتے۔ نہایت بے معنی اور لغو ہے اور اس سے مولوی صاحب کی ذاتی پر خاش کے سوا اور کچھ بھی مترشح نہیں ہوتا۔ تعجب ہے کہ مولوی صاحب نے دلیل مذکور پیش کرتے وقت اتنا بھی نہیں سوچا کہ ایگزیکٹو کونسلر کے فرائض منصبی میں آخر وہ کونسی شق ہے جس کے مطابق چودھری صاحب موصوف قادیانی عقائد کے پیروئوں کو فائدہ اور غیر قادیانیوں کو نقصان پہنچا سکیں گے؟ کیا ایگزیکٹو کونسلر کو مسلمانوں کے امور شرعیہ میں کسی وقت مخل ہونے کا حق حاصل ہے جو مولوی صاحب کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ چودھری صاحب زمام ایگزیکٹو کونسلری ہاتھ میں لیتے ہی سوائے قادیانی عقیدہ کے دیگر تمام عقیدوں کو سرزمین ہند سے مٹا دیں گے۔ کیا مولوی صاحب زمانہ ماسبق کی کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ جس عقیدہ اور مذہب کا شخص ایگزیکٹو کونسلری پر فائز ہوا اس نے اپنے ہم عقیدہ والوں کے سوا باقی تمام کے دائرہ حیات کو تنگ کر دیا تھا اور حکومت نے اس کے ایسے فعل پر اپنی منظوری ثبت کر دی ہو۔ کیا مولوی صاحب کوئی ایسی مثال دے سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ فلاں موقعہ پر جب چودھری ظفر اللہ خان مسلمانوں کی ترجمانی کے لئے سرکاری یا غیر سرکاری طور پر منتخب کئے گئے تو انہوں نے صرف اپنے ہم عقیدہ والوں ہی کی ترجمانی کی ہو؟ کیا مولوی صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ ایام میں جب چودھری صاحب عارضی طور پر ایگزیکٹو کونسلر مقرر ہوئے تو انہوں نے کوئی ایسا کام کیا جس سے غیر قادیانیوں کو نقصان پہنچا ہو؟ پس جب ان تمام باتوں کا مولوی صاحب کے پاس کوئی معقول جواب نہیں اور یقیناً نہیں ہے جو حقیقت میں مخالفت کا جواز ہو سکتی ہے تو پھر مسلمان مولوی صاحب کی مخالفت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے اور جو کسی حالت میں بھی قومی و ملی نظریہ کے مطابق مناسب نہیں بلکہ ذاتیات کی بدترین تنگ نظری کا مظاہرہ ہے۔۴۵۹
مزید برآں ہر مسلمان جس نے مولوی صاحب کی زندگی کا عمیق نظروں سے مطالعہ کیا ہے وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس شخص کی متلون مزاجی اور قدم قدم پر متضاد حکمت عملی نے مسلم قوم کو بحیثیت مجموعی سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی کسی اہم ذمہ دار سیاسی نمائندہ جماعت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قوم کے تمام ذمہ دار نمائندے ان کی رائے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی کسی معاملہ میں نہ ان کی رائے طلب کی ہے اور نہ ہی ان کے نظریہ کو قومی و ملی مفاد کے لئے بہتر قرار دیا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ چودھری ظفر اللہ خاں ایک فرقہ احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح دوسرے مسلمان کسی نہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مختلف اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے سے شدید اختلاف ہے اور علماء آئے دن ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ مولوی ظفر علی خاں کو معلوم ہو گا کہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ اہلحدیثوں نے گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ یا تو ہمیں علیحدہ نیابت دی جائے یا مخلوط انتخاب ہو کیونکہ وہ اپنا نمائندہ ایک غیر مسلم کو بنا سکتے ہیں لیکن حنفی مسلمان کو بدعتی اور مشرک سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سے شیعہ حضرات کا مطالبہ بھی ایک سے زائد مرتبہ اسی قسم کا ہو چکا ہے لیکن آج تک اس فرقہ کی طرف سے جس کو مولوی ظفر علی خاں اپنی نظر میں مسلمان ہی نہیں سمجھتے کبھی ایسا مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی معاملہ اسلامی مفاد عامہ کے متعلق دنیا کے سامنے آیا اس فرقہ کے مسلمانوں نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کو ہی لے لیجئے ۱۹۲۷ء میں چودھری صاحب موصوف ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب کے ساتھ لنڈن گئے اور انہوں نے خاص طور پر وزیر ہند اور دیگر برطانوی مدبرین پر ہندوستان میں مسلمانوں کی حق تلفی واضح کی۔ سائمن کمیشن` گول میز کانفرنس اور جائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے اجلاسوں میں ان کی شمولیت سے مسلمانوں کو خاص فائدہ پہنچا۔ آپ جداگانہ انتخاب کے خاص حامی ہیں۔ مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے ہمیشہ ہم نوا رہے ہیں۔ ان کی قابلیت اور سیاسی فہم و فراست مسلمہ ہے۔ ان کا سیاسی مطمح وہی ہے جو مسلمانوں کے تمام ذمہ دار نمائندوں کا ہے۔ حال ہی میں وزیر ہند سر سیموئیل ہور نے ان کی مدبرانہ حکمت عملی اور قابلیت کا بجا طور پر اعتراف کیا ہے علاوہ ازیں گزشتہ ایام میں چوہدری صاحب موصوف عارضی طور پر ایگریکٹو کونسلری کے فرائض بوجہ احسن سرانجام دے چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر گورنمنٹ کی نظر میں میاں سر فضل حسین صاحب کے صحیح اور موزوں جانشین چودھری صاحب ہی ہو سکتے ہیں تو مولوی ظفر علی خاں کا بے ہودہ پروپیگنڈا کرکے مسلمانوں کی قوم کو گمراہ کرنا بدترین اخلاقی جرم ہے۔ مولوی ظفر علی خاں جو ہمیشہ جمہور کے نظریہ سے اختلاف رکھ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانے کے عادی ہیں اگر ان کی اس دلیل پر کہ چوھدری صاحب موصوف قادیانی ہیں حکومت کسی عہدہ کی تقرری کے لئے عقیدہ کا معیار مقرر کر دے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ قابل اور موزوں اشخاص کا انتخاب نہ ہو سکے گا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ میاں سر فضل حسین صاحب حنفی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جب ان کی تقرری پر مسلمانوں کی غیر حنفی جماعتوں نے اعتراض نہ کیا تھا تو اب چوہدری صاحب کی تقرری پر مولوی ظفر علی خاں کا یہ اعتراض کرنا کہ وہ قادیانی ہیں کسی حالت میں بھی جائز اور مستحن نہیں ہو سکتا ماسوا اس کے کہ مولوی صاحب نے حسب عادت مسلمانوں میں جو آگے ہی افتراق اور تفریق کی بدولت اپنی طاقت کو زائل کرکے چہار اطراف سے تنزل وادبار میں گھر چکے ہیں۔ مزید افتراق و تفریق کا فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ تباہ حالی کا اگر کوئی باعث ہوا ہے تو وہ ان کی اپنی ہی فرقہ بندی اور تفریق و تقسیم ہے۔ ~}~
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
پس مسلمانوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ مولوی صاحب کی فتنہ پردازی پر نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہوئے اور نہیں تو کم از کم اپنے سیاسی حقوق و مفاد ہی کے استحکام کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جایا کریں۔ تا اغیار کی گہری سازشوں کا بخوبی مقابلہ ہو سکے<۔۴۶۰
اخبار >عزیز ہند< کا اداریہ
اخبار >عزیز ہند< جھانسی کے ایڈیٹر خان صاحب محمد رفیق صاحب نے اپنے ۲۸/ ستمبر کے اخبار میں لکھا کہ۔
>پچھلے مہینہ ڈیڑھ مہینہ سے اخبارات میں اس بات پر بڑے زور شور کے ساتھ بحث ہو رہی ہے کہ سر فضل حسین کا جو کہ عنقریب ریٹائر ہورہے ہیں جانشین کون ہے؟ باخبر حلقوں میں اس امر کا یقین ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء اس عہدہ پر ممتاز کئے جائیں گے مسلمانوں میں ¶بدنصیبی سے یہ عادت ہو گئی ہے کہ کسی ہونہار آدمی کو بڑھتا ہوا دیکھ نہیں سکتے اور اپنے ہم قوم کی ترقی کو ہمیشہ روکنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہی قصہ اس وقت بھی درپیش ہے اور چند مسلمانوں نے یہ بانگ بے ہنگام اٹھائی ہے کہ ظفر اللہ خاں صاحب احمدی ہیں اس لئے مسلمانوں کے قائم مقام نہیں سمجھے جا سکتے۔
اس سے زیادہ لغو اور احمقانہ تحریک آج تک ہم نے نہیں سنی اس عہدے پر شیعہ` سنی پابند مذہب اور لا مذہب سب ہی رہ چکے ہیں اس وقت کسی نے بھی شکایت نہیں کی۔ اب چونکہ بعض خود مطلب امیدوار اپنے فائدہ کی غرض سے کوشاں ہیں اور چند بے عقل مسلمانوں کو آمادہ کرکے ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف شور و غل مچانا چاہتے ہیں۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی قابلیت معاملہ فہمی اور اسلامی ہمدردی روز روشن کی طرح مشہور ہے اور یہ امر کہ میاں سر فضل حسین صاحب ان کے حامی ہیں اس بات کی ضمانت ہے کہ ان سے زیادہ کوئی مسلمانوں کا ہمدرد نہیں ہو سکتا انگلستان میں ظفر اللہ خان صاحب نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں مسلمانوں کو جو کچھ ملا ہے یہ سب ظفر اللہ خان` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں اور حافظ ہدایت حسین کی بدولت ہے۔ ایسے شخص کی مخالفت انتہائی احسان فراموشی ہے اور ہر سمجھدار مسلمان جس قدر اس احسان فراموشی کی مخالفت کرے کم ہے۔
یہ یاد رہے کہ گو اس بانگ بے ہنگام سے ظفر اللہ خان صاحب کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا لیکن غیر قوموں کو مسلمان پر ہنسی کا موقع مل جائے گا اور خود ظفر اللہ خاں کے دل میں اس کا ضرور افسوس ہو گا کہ جس قوم کی انہوں نے اس قدر جاں نثاری کے ساتھ خدمت کی اسی کے چند افراد ایسی احسان فراموشی کر رہے ہیں۔
ہم بھی نہایت ادب کے ساتھ ہز ایکسی لینسی لارڈ و لنگڈن اور سر سیموئیل ہور سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ایسی بے اصل مخالفت کی پروا نہ کریں اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے تقرر کا جلد اعلان فرما دیں ان سے بہتر سر فضل حسین صاحب کا کوئی جانشین نہیں ہو سکتا<۔۴۶۱
اخبار >سیاست< کا ایک مضمون
خواجہ غلام السبطین صاحب بی۔ اے منیجنگ ڈائرکٹر دواخانہ دہلی نے اخبار >سیاست< ۲/ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں لکھا۔
چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جاتی ہے تو کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی کہ انہوں نے جمہور مسلمانان ہندوستان کی مسلمہ پالیسی کے خلاف کوئی بات کی ہو یا انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ حکومت اپنے مصالح یا سرکاری عہدوں کی تقسیم مسلمان فرقوں کی آپس کی مذہبی رقابت یا عداوت کے ماتحت نہیں کر سکتی جبکہ ان سب فرقوں کا مطمح نظر ایک ہو اور کسی سیاسی معاملہ میں ان کا آپس میں تصادم نہ ہوتا ہو مجھ کو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے نہ ان کے مذہبی عقائد سے مجھ کو اتفاق ہے کیونکہ وہ ایک مرزائی ہیں اور میں شیعہ ہوں۔ مذہبی عقائد کے لحاظ سے مجھ میں اور ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے لیکن میں اصولاً اس رائے سے اختلاف رکھتا ہوں کہ کسی شخص کے تقرر کے خلاف محض اس بناء پر احتجاج کیا جائے کہ وہ ہمارے فرقہ سے نہیں۔ حالانکہ سیاسی لحاظ سے وہ ہمارا ہمنوا ہے اور ایک سے زیادہ موقعوں پردہ مسلمانوں کے حقوق کی ترجمانی کر چکا ہے اس قسم کی مخالفتوں کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ہے کہ ہم اپنی کمزوری دوسروں کے سامنے ظاہر کرتے ہیں اور ان کو اپنے اوپر شیر کرتے ہیں<۔۴۶۲
اخبار >سیاست< کا اہم اداریہ
مولانا سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار >سیاست< نے ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں لکھا۔
میں اور میرے ہم خیال جو کچھ کہتے ہیں وہ نہایت سادی بات ہے ہم کہتے ہیں کہ گول میز کانفرنس میں آغا خان کی طرح کے جو لوگ اسلام کے لئے مفید ثابت ہوئے وہ صحیح العقیدہ نہیں ہیں لیکن اختلاف عقیدہ کے باعث ان کی خدمات سے منہ موڑ لینا اور ان کی جگہ لینے کے لئے کوئی قابل آدمی پیش نہ کرنا ملت کے مفاد کو کند چھری سے ذبح کرنے کے مصداق ہے اسمبلی اور کونسلوں میں جو مسلمان بزرگوار ملت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کو اگر عقائد کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ان میں سے ایک فیصدی بھی ایسے نہ نکلیں گے جو اس لحاظ سے قابل قبول ہوں۔ نیز اس اصول کو قبول کر لینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جس مسلمان کو بھی ایسا اثر و رسوخ حاصل ہو گا جو ملت کے لئے مفید ہو سکے وہ لازماً عقیدۃ" کسی ایک گروہ ملت سے متعلق ہو گا۔ لہذا ۷۲ آراء اس کے خلاف بلند ہوں گی اور یوں مسلمانوں میں سے کسی لیڈر کے بارسوخ و مفید ہونے کا تمام امکان مٹ جائے گا اور مسلمانوں میں عقیدوں کی جو جنگ موجود ہے وہ مساجد کو برباد کرنے کے بعد اب سیاسیات کے میدان کو بھی آلودہ کرکے خراب کر دے گی۔ پس عقیدہ کی بناء پر ظفر اللہ خاں یا کسی دوسرے مسلمان کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی نادانی ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں کسی عہدہ کے امیدوار نہیں ہیں ہاں ان کو اگر کوئی منصب ملا اور انہوں نے سمجھا کہ وہ اس منصب کو قبول کرکے مسلمانوں کی خدمت کر سکیں گے تو وہ اس کو قبول کر لیں گے۔ ان حالات میں ایسے صاحب ایثار کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی اندوہناک جسارت ہے جو مفاد ملت کے لئے بے حد مضر ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں اس قابل نہیں کہ وہ سر فضل حسین کے جانشین ہوں یا ان کو تجربہ کافی نہیں ہے یا دوسرے امیدواروں سے افضل نہیں۔ تو یہ طریق مخالفت جائز ہو گا لیکن عقیدہ کی بناء پر ان کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی غلطی ہے جس کا ارتکاب چودھری صاحب سے کہیں زیادہ ملت کے لئے خوفناک ثابت ہو گا۔
چودھری صاحب بارہا مسلمانوں کی طرف سے پنجاب کونسل میں نمائندہ بن کر آئے۔ ایک دفعہ ان کو یہ اعزاز بلامقابلہ نصیب ہوا۔ کونسل کے اندر مسلمانوں کے عام مفاد کی نمائندگی کرتے رہے سائمن کمیشن میں انہوں نے مسلم نمائندہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ سر فضل حسین کی جگہ پر عارضی طور پر مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس میں مسلم نمائندہ کی حیثیت سے لئے گئے۔ ان تمام مواقع پر کوئی آواز ان کے خلاف بلند نہیں ہوئی لہذا اب ان کے خلاف اس آواز کا بلند ہونا صاف بتا رہا ہے کہ ع۔ کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں۔ لیکن معاملہ کے اس پہلو کے متعلق فی الحال زیادہ عرض کرنا مناسب نہیں ۔۔۔۔۔ چودھری صاحب نے جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی خدمت کی وہاں ہمیشہ مفاد ملت کا خیال رکھا کسی موقعہ پر ان کے کسی بدترین دشمن کو بھی یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ انہوں نے قادیانیت کو مفاد اسلام پر ترجیح دی۔ انہوں نے لنڈن میں اپنا اور مسلمانوں کا نام روشن کیا۔ سر آغا خاں اور دوسرے مسلمان ان کی قابلیت` محنت` جانفشانی اور مفاد اسلام کے لئے ان کی عرق ریزی کے مداح رہے لہذا عقیدہ کی بناء پر اس وقت ان کی مخالفت کرنا پرلے درجے کی احسان ناشناسی ہے جو اسلام کو کبھی گوارا نہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ چودھری صاحب کا اصول یہ ہے کہ وہ کسی منصب یا عہدہ کے لئے حکومت کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں گے اس لئے کسی شخص کو یہ جرات نہیں ہوسکی کہ وہ ان کو کسی منصب کا امیدوار سمجھ کر ان کی تائید کرے۔ لیکن میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ خدمات` قابلیت` محنت` مفاد اسلام کے لئے عرقریزی اور مسلم مطالبات کی دیانتدارانہ تائید کے لحاط سے چودھری صاحب بفضلہ تعالیٰ سر میاں فضل حسین صاحب کے جانشین ہونے کے اہل ہیں اور اگرچہ ۸ کروڑ مسلمانان ہند میں اور لوگ بھی اس اہلیت کے مالک ہیں تاہم اگر حکومت نے انتخاب کا قرعہ فال چودھری صاحب کے نام پر نکالا تو ۸ کروڑ مسلمانان ہند کی ۹ ء۹۹ فیصدی تعداد کو مسرت ہو گی<۔۴۶۳
رسالہ >شاہکار< کا شذرہ
مندرجہ بالا بیانات چودھری صاحب کے تقرر سے پہلے کے ہیں اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ سرکاری اعلان کے بعد مسلمانوں کے سنجیدہ باوقار اور محب قوم طبقہ نے کس رائے کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں بطور مثال پروفیسر احسان اللہ خاں صاحب تاجور نجیب آبادی کا ایک بیان ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے مشہور رسالہ >شاہکار< اپریل ۱۹۳۵ء میں شائع کیا تھا۔
علامہ تاجور نے لکھا۔
>احمدی ہے یا غیر احمدی! مسلمان ہے یا کافر مجھے اس سے بحث نہیں کیونکہ میں مفتی مذہب کی حیثیت نہیں رکھتا۔ البتہ بحیثیت ایک انسان کے میں نے ظفر اللہ خاں کو ایک قابل قدر انسان پایا ہے کم و بیش اٹھارہ سال سے میں اسے جاننے کی طرح جانتا ہوں۔ مجھے ایماندارانہ اعتراف ہے کہ میں نے ظفر اللہ خاں میں انسانیت کی بہت سی خوبیاں دیکھی ہیں۔ میرے مذہبی خیالات احمدی عقائد سے بہت مختلف ہیں میں احمدی نہیں ہوں۔ دیو بند کی جامعہ اسلامیہ میرا گہوارا تربیت ہے دیو بند اور قادیان میں جس قدر بعد مسافت حائل ہے اس سے زیادہ ان مقامات کی مذہبی جماعتوں میں اختلاف عقائد ہے لیکن کسی سے عقیدہ کا اختلاف رکھنے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس کی ذاتی خوبیوں کا بھی انکار کر دیا جائے میں ایک غیر احمدی ہونے کے باوجود چودھری ظفر اللہ خاں کی ممتاز صفات سے انکار نہیں کر سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس نے احمدی ہونے کا بہت نقصان اٹھایا ہے ورنہ ظفر اللہ خاں ایسی گراں مایہ شخصیت کا مالک ہے جس پر کوئی قوم کوئی ملک اور کسی ملک کی آئندہ نسلیں فخر کر سکتی ہیں سیموئیل ہور کا یہ کہہ دینا معمولی سی بات نہیں کہ >آج تک انگلستان میں جتنے بھی ہندوستانی آئے ہیں ظفر اللہ خان اپنی قابلیت میں ان سب سے ممتاز ہے<۔
گول میز کانفرنس کی کارکن کمیٹیوں میں ظفر اللہ خاں کی قانونی قابلیت نکتہ دانی اور آئین سازی کے جوہر دیکھ کر رائٹ آنریبل سری نواس شاستری جیسے جوہر شناس کا یہ کہنا بے انتہا اہمیت رکھتا ہے کہ >اگر آپ برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ آپ کے کمال قابلیت کو دیکھ کر میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو گئی ہے<۔
مولانا ابوالکلام صاحب کے استفسار پر مسز سروجنی نیڈو کا یہ ارشاد بھی کچھ معنیٰ رکھتا ہے کہ >گول میز کانفرنس میں ہندوستان کے کیس کو سب سے بہتر طریقے پر چوہدری ظفر اللہ خاں نے پیش کیا اور ان کے بعد سوامی مدلیار نے<۔
عجیب واقعہ ہے کہ غیر مسلم طبقوں میں چودھری ظفر اللہ خاں متعصب سمجھے جاتے ہیں لیکن جو لوگ ان کے خیالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں اور تعصب ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے البتہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو غضب ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور بالکل اسی طرح دوسروں کے حقوق کا فراخدلانہ اعتراف اور ان میں عدم مداخلت کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ظفر اللہ خاں کے منہ سے میں نے کبھی غیر معقول بات نہیں سنی وہ نہایت ذہین` فطین اور متین ہونے کے ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کی معقولیت پسند بھی ہیں مجھے ان کی کوئی خوشامد نہیں لیکن ان کی انسانیت اور خدا پرستی کا میں دل سے معترف ہوں<۔]01 [p۴۶۴
اخبار >ڈیلی گزٹ< کراچی کا مضمون
اخبار >ڈیلی گزٹ< کراچی )۴/ مئی ۱۹۳۵ء( نے لکھا۔ >آنریبل چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے چارج لینے سے پہلے اور بعد مسلمانوں کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں اس خطرناک مخالفت کے اثرات زیر بحث ہیں جو پنجاب کے بعض غیر ذمہ دار مسلمانوں کی طرف سے آپ کے تقرر کے خلاف کی جارہی ہے اور ان کی طرف سے اب یہ تجویز ہے کہ احرار اور ان کی قسم کے دوسرے مسلمانوں کو مسلم سرکردہ لیڈر یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیں کہ جناب چوہدری صاحب مسلمانوں کے اسی قسم کے صحیح نمائندے ہیں جس طرح کوئی اور مسلم لیڈر ہو سکتا ہے نیز یہ کہ وہ ان لوگوں کو ان بد نتائج سے متنبہ کریں جو انہیں اس مسلم ممبر کی مخالفت کے سلسلہ کو جاری رکھنے سے بحیثیت قوم برداشت کرنے پڑیں گے۔
ایسے سرکاری اور غیر سرکاری مسلم لیڈر اس امر کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتے کہ جناب چوہدری صاحب کی محض اس وجہ سے مخالفت کی جائے کہ وہ نہ سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ اور کہ وہ ایک ایسے فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے اور یہ کہ چونکہ مسلمانوں کا کثیر حصہ احمدی نہیں اس لئے وہ مسلمانوں کے نمائندے تصور نہیں کئے جا سکتے۔ حالانکہ سرکردہ لیڈروں کے نزدیک چودھری صاحب ویسے ہی مسلمان ہیں جس طرح کوئی دوسرا مسلمان ہو سکتا ہے۔ گویا یہ لوگ چودھری صاحب کے خلاف ایسے کمینہ حملوں کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ احرار اور دیگر مخالفین کی توجہ ان عظیم الشان خدمات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو چودھری صاحب موصوف گول میز کانفرنس میں مسلم قوم کی خاطر بجا لائے اور انہوں نے ہزہائی نس سر آغا خان جیسی جلیل القدر شخصیت سے خراج تحسین حاصل کیا۔
جناب چوہدری صاحب کے حامیوں۴۶۵ کے لئے جو بات سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب تک چوہدری صاحب پنجاب لیجلیٹو کونسل کے ممبر رہ کر ایک اہم مسلم حصہ کی نمائندگی کرتے رہے اس وقت تک ان لوگوں میں سے جو آج کل ان کے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں کسی ایک نے بھی آپ پر کبھی کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا اور یہ لوگ انہیں اپنے صوبہ میں باقاعدہ مسلم نمائندہ قرار دیتے رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں پنجاب کے اردو اخبارات میں احرار نے اس بناء پر مخالفت شروع کر رکھی ہے کہ چودھری صاحب اپنے ماتحت محکموں میں ملازم بھرتی کرتے ہوئے ایسے مسلمانوں کو ترجیح دیا کریں گے جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہوں شملہ کے مسلمان افسر احرار کی ایسی ناپسندیدہ حرکات کو نہایت بری نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اس امر کو باور نہیں کر سکتے کہ چودھری صاحب جنہوں نے کبھی احمدیوں اور غیر احمدیوں میں تفریق نہیں کی اب ایسے فعل کے مرتکب ہوں۔
جہاں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اس تمام مخالفت کو جو پنجاب میں ان کے خلاف تحریراً یا تقریراً کی جارہی ہے اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں وہاں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ اس امر کو محسوس کر رہا ہے کہ احرار اور ان کے ہمنوائوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرا دی جائے کہ باوجود ان کی اندھا دھند مخالفت کے چودھری صاحب موصوف پر اکثریت کا اعتماد ہے اور وہ انہیں وائسرائے کی کونسل میں مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ سمجھتے ہیں<۔۴۶۶
اردو کے بعض مایہ ناز ادیبوں اور صحافیوں کا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے خصوصی تعلق
مسلمان ایک فاتح کی حیثیت سے اس برصغیر میں فارسی زبان ساتھ لائے تھے پھر یہاں کے رہنے سہنے اور اختلاط و ارتباط سے خود بخود اردو زبان بن گئی جس کی تعمیر و ارتقاء میں ہندوئوں اور
مسلمانوں کا برابر کا حصہ تھا۔ مگر افسوس ہندو مسلم اتحاد کی اس بہترین یادگار کے بارے میں کانگریسی لیڈر گاندھی جی نے کہا۔
>اردو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے مسلمان بادشاہوں نے اسے اپنے زمانہ حکومت میں بنایا اور پھلایا تھا<۔۴۶۷
یہ نظریہ تنہا گاندھی جی کا نہیں تھا بلکہ کانگریس کے اکثر متعصب لیڈر در پردہ اسی کے حامی تھے یہی وجہ ہے کہ جب بعد کو کانگریسی وزارتوں کا قیام عمل میں آیا تو کانگریس نے باقاعدہ ایک مستقبل محاذ اردو کے خلاف قائم کر لیا اور گاندھی جی کی اختراع کی ہوئی >ہندوستانی< زبان کو فروغ دینے کے لئے زبردست مہم چلائی گئی۔ اور اس کے لئے سرکاری سطح پر بھی کوششیں کی گئیں۔
غرض ملک میں یہ ایک لسانی کشمکش تھی جو سیاسی حقوق کی جنگ کے متوازی جاری تھی اور ہندو عناصر اس کوشش میں مصروف تھے کہ مسلمانوں کو ایک ایسی زبان سے محروم کر دیں جو ملکی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہونے کے علاوہ ان کی مذہبی اور اخلاقی روایات کی بھی امین اور محافظ ہے۔
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کے گزشتہ واقعات سے واضح ہے اس معاملہ میں جماعت احمدیہ کی ہمدردی شروع ہی سے اردو کے ساتھ تھی کیونکہ اس کا مذہبی لٹریچر زیادہ تر اسی زبان میں تھا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نظریہ کا اظہار فرمایا تھا کہ اردو زبان اس زمانہ میں تکمیل اشاعت اسلام کا بہترین ذریعہ ثابت ہونے والی ہے چنانچہ حضورؑ نے اپنی کتاب >تحفہ گولڑویہ< میں تحریر فرمایا۔
>حسب منطوق آیت قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ آنحضرت~صل۱~ کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوئوں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی۔ آنحضرت~صل۱~ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ~صل۱~ ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں۔ آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت پھیلا سکتے ہیں<۔۴۶۸
اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو یقین کامل تھا کہ >چونکہ اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت )وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ الخ ہود ناقل( کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہو گی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکے گی<۔۴۶۹
اردو زبان سے اس والہانہ تعلق اور گہرے ربط ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اردو کی خدمت کرنے والوں سے بہت محبت تھی۔ دوسری جانب ملک کے ادبی حلقوں میں بھی آپ خاص وقعت و عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور بلند پایہ اردو ادیب اور صحافی آپ سے مراسلت کرنا اور ملاقات کرنا اپنے لئے موجب فخر سمجھتے تھے چنانچہ مولانا شوکت علی` مولانا محمد علی جوہر` شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی` مولانا سید حبیب مدیر >سیاست`< مولانا غلام رسول صاحب مہر` مولانا عبدالمجید سالک مدیر انقلاب` سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور` علامہ احسان اللہ خاں تاجور` سید عبدالقدوس صاحب ہاشمی ندوی ایم۔ اے مدیر رسالہ >ندیم< گیا` علامہ منشی عاشق حسین` ۔۔۔۔۔ سیمات اکبر آبادی` جناب منشی محمد عمر شوکت تھانوی` مرزا فرحت اللہ بیگ` منشی محمد الدین فوق مورخ کشمیر` انیس احمد عباسی ایڈیٹر >حقیقت< لکنھئو` حکیم محمد یوسف حسن ایڈیٹر >نیرنگ خیال< لاہور` مولانا صلاح الدین احمد صاحب )مدیر ادبی دنیا( وقار انبالوی` خان بہادر میرزا عبدالرحمن چغتائی` سید ابو ظفر نازش رضوی سے آپ کے مراسم بھی تھے اور خط و کتابت بھی۔ اور ان میں سے اکثر اصحاب کو قادیان میں آنے اور آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کا فخر بھی حاصل تھا۔ ذیل میں بطور نمونہ ہم اردو کے بعض نامور ادیبوں کے چند خطوط درج کرتے ہیں جو انہوں نے حضور کی خدمت میں لکھے جن سے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اردو نوازی کی بدولت قادیان کی بستی ادیبوں کی توجہ کا بھی مرکز بنتی جارہی تھی۔
مولانا شوکت علی کا مکتوب مورخہ ۱۶/ جولائی ۱۹۳۰ء
شملہ ۱۹۳۰ء/۷~/~ ۱۶
مخدومی و مکرمی جناب حضرت صاحب! السلام علیکم
اس شب کو مکان پر پہنچ کر جناب کا خط اور اس میں ۔/۲۵۰ کے نوٹ ملے۔ مجھ پر اس کا بے انتہا اثر ہوا۔ خاص کر اس وجہ سے کہ اعتراض کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں اور ہمت بڑھانے والے کم۔ میں اس رقم کو نہایت درجہ شکریہ کے ساتھ قبول کرتا ہوں اور ہمارے سب شرکاء کار بھی ضرور مشکور ہوں گے اور خوش بھی۔ جمعیت خلافت میرے سفر کے مصارف کی کفیل ہے اس کو اس امداد سے سہولت ہو گی۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ آپ کا نیازمند
شوکت علی خادم کعبہ۔
سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی ایم اے کا مکتوب

دفتر رسالہ >ندیم< گیا
مورخہ ۹ ماہ اپریل ۱۹۳۱ء
محترم و معظم ادام اللہ سرورکم سلام و رحمت
میں جناب سے پہلی بار شرف مخاطبت حاصل کرتا ہوں۔ امید کہ جناب والا شرف باریابی سے مشرف فرمائیں گے۔ میں نے جناب کی اسکیم رسالہ >ادبی دنیا< کے مارچ نمبر میں دیکھی۔ اردو۴۷۰ رسالہ کیونکر زبان کی خدمت کر سکتے ہیں؟ اس سکیم کو میں نے کئی بار پڑھا مجھے یہ تحریک بہت پسند آئی۔
جناب والا کو غالباً معلوم ہوگا کہ بہار سے اس وقت اردو کا کوئی رسالہ نہیں جاری ہے۔ گیا میں چند باذوق اور دولت مند تاجروں۴۷۱ نے ایک لمیٹڈ سرمایہ سے ادبی رسالہ جاری کرنے والے ہیں۔ رسالہ کا نام >ندیم< ہو گا۔ ۷۲ صفحہ پر ہر ماہ نکلا کرے گا- مئی ۱۹۳۱ء میں اس کا پہلا پرچہ حاضر خدمت ہو گا۔
مجھے اس رسالہ کی ادارت کے لئے بلایا گیا۔ میں جناب والا کی اسکیم کو بروئے کار لانا چاہتا ہوں اور میں انشاء اللہ ابتدائی دقتیں برداشت کرلوں گا۔ میں حضور کا بہت شکر گزار اگر اس بارے میں مجھے اور گرانقدر مشورہ اور طریق کار کی فہمائش سے سرفراز فرمایا جائے۔ میں عریضہ کے جواب کا انتظار کروں گا۔ والسلام
عریضہ ادب۔ سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی )ایم۔ اے(
مدیر رسالہ >ندیم< گیا۔
علامہ احسان اللہ خاں تاجور کا مکتوب مورخہ ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء

حامداً و مصلیاً
محترمی قبلہ جناب میاں صاحب دام بالمجد والعلیٰ۔
سلام مسنون! اپنی گراں مایہ مصروفیتوں میں در انداز ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیے۔ گزارش یہ ہے کہ ادبی دنیا تو لاہور کی سازشی فضا کے سر صدقے ہو گیا۔ خیال تھا کہ اب اردو مجھ پر رحم کرے گی مگر حالات کے استبداد نے ایک جدید علمی رسالے کی اشاعت پر مجبور کیا ہے اس رسالے کا پہلا نمبر زیر ترتیب ہے >علمی دنیا< اس کا نام ہو گا میں چاہتا ہوں کہ جناب کوئی مضمون اس نمبر کے لئے عنایت فرما دیں تو تبرکاً شائع کر دوں۔ میں نے اس رسالے میں ایک مستقبل سرخی بزم تحقیق کی رکھی ہے اس عنوان کے تحت اردو زبان و ادب کے متعلق بحث طلب مسائل پر اہل الرائے سے استصواب رائے کیا جائے گا۔ پہلا سوال جو پہلے نمبر میں زیر بحث آئے گا یہ ہے۔
سوال جدید تہذیب کے ساتھ جو نئے نئے الفاظ و محاورات غیر ملکی و ملکی زبانوں کے معاشرت میں استعمال ہو رہے ہیں اردو عبارات میں ان کے استعمال کا معیار کیا ہے؟ اور جدید الفاظ کی تذکیر و تانیث کن اصول پر ہونی چاہئے؟ اس سوال پر روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا فرمائیں تو بحث میں وقعت پیدا ہو جائے گی۔ جناب ہی کی تحریک و ہدایت پر یہ سرخی قائم کی گئی ہے۔
خدا کرے جناب کی صحت و فرصت میری گزارش کی پذیرائی میں حائل نہ ہو جائے۔ حد ادب
والسلام
تاجور۔ دفتر اخبار >پریم< محلہ مزنگ لاہور
سیدنا نے اپنے قلم سے اس خط پر اپنے دفتر کو ہدایت فرمائی کہ
>محفوظ۔ لکھیں اللہ تعالیٰ کامیاب کرے۔ میں ضرور مضمون لکھ دوں گا۔ بشرطیکہ پچیس اکتوبر کے بعد چاہئے ہو کیونکہ اس وقت مجھے بالکل فرصت ہوگی۔ اطلاع ملنے پر لکھنا شروع کردوں گا انشاء اللہ<۔
علامہ منشی عاشق حسین صاحب سیماب اکبر آبادی کا مکتوب۔15] [p مورخہ ۸/ مئی ۱۹۳۵ء
حضور محترم! السلام علیکم
یہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ میں ایک سال سے اذن حاضری طلب کر رہا ہوں۔ اور یہ مجھے یاد ہے کہ میری تمنا ہر مرتبہ ٹھکرا دی گئی ہے جس کا کچھ نہ کچھ سبب ضرور تھا۔ پیمانہ` تاج اور شاعر کے ذریعے میں آپ سے متعارف ہو چکا ہوں اور اب اتنا بیگانہ نہیں رہا ہوں کہ آپ میری شخصیت نہ سمجھ سکیں بار بار اجازت حاضری طلب کرنے کا مدعا بجز اس کے کچھ نہیں کہ ادبی پیرائے میں آپ کی کوئی خدمت کر سکوں اور آپ سے استعانت کرکے آگرہ کے ادبی سکول کی بقاء و احیاء کا انتظام کروں۔ آج ایک عرصہ کے بعد یہ عریضہ پھر ارسال خدمت کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ حضور والا آخر مئی تک کوئی تاریخ میری حاضری کے لئے مقرر فرما کر مجھے اطلاع دیں گے میں اس عنایت کے لئے آپ کا ہمیشہ ممنون و شاکر رہوں گا۔
طالب جواب عقید تمند
سیماب اکبر آبادی
حضور نے اس خط پر یہ نوٹ دیا۔ >لکھیں ہر دفعہ ہی ایسا اتفاق ہوا کہ میں یا بیمار تھا یا باہر۔ اب بھی ایسا ہوا۔ ڈلہوزی سے آکر سات ماہ قادیان رہا اس عرصہ میں آپ کا خط نہیں آیا۔ اب میں اس خط کو محفوظ رکھوں گا اور قادیان میں قیام کے وقت کی فوراً آپ کو اطلاع کر دوں گا تاکہ آپ تشریف لا سکیں۔ گو ادبی ادارہ میں میں سمجھ نہیں سکا کہ کس طرح مفید ہو سکتا ہوں۔ مگر بہرحال آپ کی ملاقات سے مجھے خوشی ہو گی<۔
مولانا سید حبیب صاحب مدیر >سیاست< کے مکتوبات
)۱( مخدومی الاکرم سلام علیکم طبتم
آپ کو مبارک ہو میں آج آزاد کر دیا گیا ہوں البتہ مزید کام کرنے کی صورت میں تنبیہہ بھی کر دی گئی ہے آپ کے احسانات کے بارگراں سے سبکدوش ہونا خارج از امکان ہے تشکر سے میرا دل لبریز ہے دعائیں کرتا ہوں چاہتا ہوں کہ آپ سے جلد ملوں۔ فرمائیں کیا حکم ہے۔
والسلام
آپ کا حبیب
)محررہ ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۵ء(
۲۔ مخدوم محترم سلام علیکم طبتم۔ بعض احباب کی رائے ہے کہ سیاست کے منسلکہ مقالات کے نشان زدہ حﷺ کا ترجمہ اگر ڈیلی ہیرلڈ جیسے صحائف برطانیہ میں شائع ہو تو خوب ہو مجھے آپ کے سوا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اگر ممکن اور مناسب ہو تو یہ کام کر دیں۔ ورنہ کاغذات ملفوفہ واپس کر دیں۔ والسلام
آپ کا حبیب
)محررہ ۱۵/ مئی ۱۹۳۶ء(
۳۔ محسن بندہ۔ السلام علیکم۔ میں جناب والا کی قدم بوسی کا متمنی ہوں۔ اطلاع دے کر مرہون منت فرمائیں کہ آں محترم مجھے کس روز کہاں مل سکیں گے احسان ہو گا۔ والسلام آپ کا حبیب۔ )محررہ ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۷ء(
منشی محمد عمر شوکت تھانوی کا مکتوب مورخہ )۱۱/ اگست ۱۹۳۷ء(
>حضرت سیدی و مولائی! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آج برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب احمدی کے توسل سے مبلغ یکصد روپیہ جو آنحضور کا عطیہ ہے وصول پایا۔ اس شفقت بزرگانہ کا اگر میں مستحق ہوں تو شکریہ ایک مہمل سی رسم ہے اور اگر مستحق نہیں ہوں تو شکر یہ سوائے تصنع کے اور کیا ہو سکتا ہے بہرحال میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بزرگی اور خوردی کے یہی تعلقات ہو سکتے ہیں جو آنحضور اور اس کفش بردار کے درمیان ہیں۔ بیٹا باپ کی سرپرستی کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ لہذا میں بھی شکریہ کو درمیان میں لا کر بے گانگی کو اس طرح نشوونما دینا نہیں چاہتا۔ البتہ یہ جانتا ہوں کہ کوئی خرید رہا ہے اور کوئی بک رہا ہے مجھ جنس ارزاں کی آپ نے قیمت برھائی تو یہ بھی کہنے دیجئے کہ ع۔ نرخ بالا کن کہ ار زانی ہنوز
کفش برادر
شوکت تھانوی ۱۱/ اگست ۱۹۳۷ء<
مولانا عبدالمجید سالک کا مکتوب مورخہ ۲۰/ اپریل ۱۹۳۸ء
>محترمی حضرت قبلہ۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ
جتنی ساعتیں میں نے قادیان میں گزاریں۔ آپ کی برکت سے بے حد مسرت و اطمینان سے بسر ہوئیں۔ مولوی عبدالوہاب عمر۔ عبدالعزیز خاں صاحب۔ شاکر صاحب نے میری مدارات میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ افسوس ہے کہ میں بوقت رخصت آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا۔ اس لئے کہ آپ مجلس شوریٰ میں مصروف تھے۔
مہر صاحب کی طرف سے سلام مسنون۔ عبدالمجید سالک
مولانا صلاح الدین احمد کا مکتوب
>محترمی و مکرمی ملک صاحب۴۷۲ السلام علیکم
ہارن بذریعہ ریلوے پارسل ارسال کر دیا گیا ہے۔ بلٹی ملفوف ہے۔ خدا کرے کہ آپ کو وقت پر مل جائے۔
میں اور میرے رفیق عاشق حسین صاحب۴۷۳ آپ کے محبت بھرے سلوک اور قادیان میں اپنے مختصر لیکن نہایت خوش آئند قیام کی یاد کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
قبلہ حضرت میاں صاحب نے جس توجہ سے ہماری گزارشات کو سنا اور جس ایثار سے کام لے کر اپنے اوقات گرامی کا ایک معقول حصہ ہمیں باریاب فرمانے میں صرف کیا۔ ہم ان نوازشات کی یاد اپنے دلوں میں ہمیشہ تازہ پائیں گے حضرت صاحب کی خدمت میں ہمارا سلام نیاز پہنچا دیجئے۔
عبدالرحمن صاحب کی خدمت میں سلام علیکم۔
خاکسار صلاح الدین احمد<۔
خان بہادر میرزا عبدالرحمن چغتائی کا مکتوب
>محترم معظم قبلہ حضرت میاں صاحب بہادر بزرگوار
السلام علیکم۔ آپ کی خدمت اقدس میں یہ میرا تیسرا خط ہے اور یہ خط محض اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معافی چاہوں۔ میری نیت نہایت نیک تھی اور لکھنے کی جرات عقیدت و احترام تھا۔ آپ جیسے وسیع الاخلاق اور روشن خیال انسان سے ایسی امید نہ کی جائے تو کہاں رسائی ہو۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
آپ کا نیاز مند۔ والسلام
عبدالرحمن چغتائی لاہور<۔
اردو ادیبوں کے خطوط کے چربے



حضرت میر مہدی حسین صاحب کا سفر ایران اور حضرت امیر المومنینؓ کی زریں ہدایات
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو آنریری مبلغ کی حیثیت سے ایران تشریف لے گئے اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے قلم سے انہیں
مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر عطا فرمائیں۔ جو ہر مبلغ اسلام کے لئے شمع ہدایت ہیں۔
>مکرمی سید مہدی حسین صاحب۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
آپ نے ایران جانے کا ارادہ کیا ہے اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو پورا فرما کر اس کے نیک نتائج پیدا کرے۔ اس موقعہ پر میں چند امور کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں۔
۱۔
آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے اور اس لئے آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے ہیں اور صرف اس کی مدد ہمارے کام بنا سکتی ہے۔ پس تبلیغ سے زیادہ ہمارا زور دعائوں پر ہونا چاہئے۔
۲۔
بہترین تبلیغ اچھا نمونہ ہے جب خدا تعالیٰ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو اس کے عمل میں برکت دیتا ہے اور لوگ اس کے نور سے خود بخود مرعوب ہونے لگتے ہیں۔
۳۔
تبلیغ میں ہمیشہ نرمی اور استقلال کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ایک طرف تو دوسروں کے احساسات کا پورا پاس ہو ان کی محبت ہر لفظ سے ظاہر ہوتی ہو۔ لیکن دوسری طرف سچائی کے بیان کرنے میں بالکل بے خوفی کا اظہار ہو۔
۴۔
حضرت مسیح ناصریؑ نے ایک بہت اچھی نصیحت فرمائی ہے کہ جس جگہ کجی دیکھو اس قصبہ کی خاک تک جھاڑ کر چلے جائو۔ بعض لوگ حق کو قبول کرنے میں سابق ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ایسے آدمیوں کی تلاش میں رہنا چاہئے اور ضدی لوگوں کو بعد میں آنے والوں کے لئے چھوڑ دینا چاہئے۔
۵۔
جماعت آبادان اور دوسری جماعتوں سے وقتاً فوقتا مشورہ لیتے رہا کریں کہ مشورہ کے کام میں برکت ہوتی ہے۔
۶۔
اپنے حالات سے ہر مرحلہ پر اطلاع دیتے رہیں کہ اس طرح دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے اور دل کو بھی تسلی رہتی ہے۔ جب کوئی دوست باہر جاتا ہے تو ہزاروں مخلصوں کے دل اس کی فکر میں اندر ہی اندر گھلے جاتے ہیں۔ سچے مومن ایک دوسرے کے اعضاء ہوتے ہیں اور جب کوئی عضو الگ ہو تو ضرور تکلیف ہوتی ہے۔ پس جب تک خبر رسانی کے ذریعہ سے اطلاع حالات رہے دل تسلی پاتے رہتے ہیں۔ ورنہ تکلیف پاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے ارادہ میں برکت دے۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
مکرر یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت وقت کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے ایران میں آپ اس حکومت کے تابع ہوں گے۔ پس حکومت کے قانون کی پابندی کا خیال رہے۔
خاکسار مرزا محمود احمد
مکتوب مبارک سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ
بنام حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ
عکس
سید عبدالباسط صاحب )ابن سید میر مہدی حسین صاحب( اس تبیلغی سفر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔ >حضرت والد صاحب قبلہ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں برائے اعلائے کلمتہ اللہ ایران کے لئے روانہ ہوئے۔ پاسپورٹ وغیرہ بنوا چکنے کے بعد خدا تعالیٰ نے کرائے وغیرہ کے سامان بھی خود ہی پیدا کر دیئے قادیان سے ظہر کی نماز مسجد مبارک میں ادا کرنے کے بعد ساڑھے تین بجے کی گاڑی سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے بٹالہ میں گاڑی تبدیل کرنی پڑی اور رات لاہور بڑے بھائی محترم سید عبدالغفور صاحب عطاء کے پاس پہنچ گئے۔ دوسرے دن آپ کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ کراچی جاکر معلوم ہوا کہ پاسپورٹ میں کچھ نقص رہ گیا ہے۔ مزید تصاویر بھجوانے کے لئے آپ نے مجھے قادیان خط لکھا۔ مگر اسی اثناء میں آپ کے ہاتھ پر اگزیما کی قسم کی پھنسیاں نکل آئیں۔ جن کے علاج کے لئے آپ کو قریباً ایک ماہ کراچی قیام کرنا پڑا۔ کراچی سے آپ ایران کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ نے بتایا کہ جب آپ ایران کی بندرگاہ آباد ان پر اترے تو وہاں احمدی احباب استقبال کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان سے تحریک جدید کے اعلان کی اطلاع ملی۔ یہ پہلا اعلان تھا۔ آپ کے پاس اس وقت صرف ۔/۴۹ روپے باقی تھے۔ وہ سب کے سب آپ نے سیکرٹری مال کو دے دیئے کہ آپ کی طرف سے تحریک جدید کے لئے حضور خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کر دیئے جائیں۔
آپ وہاں احمدی احباب کے ساتھ رہے۔ مگر آپ کی تبلیغ کو دوسرے لوگ پسند نہ کرتے تھے اور جماعت کے دوستوں پر زور دیتے تھے کہ تبلیغ بند کی جائے۔ چنانچہ مقامی احباب نے مرکز میں بھی لکھا اور آپ کی واپسی کے احکامات منگوا لئے۔ آپ نے مقامی احباب سے کہہ دیا کہ آپ مجھے یہاں سے واپس بھجوا رہے ہیں میں واپس جا کر دوبارہ آزادانہ طور پر آنے کی کوشش کروں گا۔ مگر اس عرصہ میں آپ کی نظر بہت ہی کمزور ہو چکی تھی اور سہارے کے سوا چلنا مشکل ہو گیا تھا۔ قادیان واپس آکر جب حضرت امیر المومنینؓ کی خدمت میں اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے آنکھوں کے علاج کی ہدایت فرمائی چنانچہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ ریٹائرڈ سول سرجن نے حضرت میر محمد اسحٰق صاحب ناظر ضیافت اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری کی مدد سے آپ کو نور ہسپتال میں لے جاکر آنکھوں کا کامیاب اپریشن کر دیا۔ الل¶ہ تعالیٰ نے بینائی واپس کر دی تو پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ حضور کے ارشاد کی تعمیل ہو چکی ہے۔ آنکھوں کا علاج ہو چکا ہے۔ اب ایران جانے کی اجازت دیں مگر حضورؓ چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں قادیان میں موجود رہیں۔ چنانچہ حضور نے قادیان میں ہی قیام کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح آپ دوبارہ ایران تشریف نہ لے جا سکے۔
پرانے کاغذات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۱۲/ مئی ۱۹۳۵ء کو کراچی واپس پہنچ گئے اور دو ایک دن کراچی میں قیام کرنے کے بعد آپ لاہور ہوتے ہوئے قادیان تشریف لے آئے تھے۔ اس طرح آپ کی واپسی مئی ۱۹۳۵ء کے آخری ہفتہ میں قادیان میں ثابت ہوتی ہے۔
ایران میں قیام کے زمانہ کے حالات آپ نے ہمیں بہت کم سنائے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کا بڑا موقعہ دیا۔ مختلف گورنروں اور بڑے بڑے حکام سے بے دھڑک ملتا تھا اور ان کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتا تھا چونکہ آپ احمدیت قبول کرنے سے قبل شیعہ مذہب میں تھے اس لئے آپ کو مرثئے بھی بہت سے حفظ تھے اور آواز بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بلند اور سریلی تھی اسی طرح بڑی روانی سے فارسی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے میل ملاقات میں آپ کو بڑی سہولت ہوتی تھی<۔۴۷۴
تحریک احمدیت کے ذریعہ سے پادریوں کی شکست فاش کا اعتراف
اس سال دہلی سے برصغیر کے مشہور تاجر کتب مولوی نور محمد صاحب نقشبندی قادری چشتی مالک کارخانہ تجارت کتب دہلی نے حضرت شاہ رفیع الدین رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے دو ترجموں والا >معجزنما کلاں قرآن شریف< شائع کیا۔ جس کے دیباچہ مین تسلیم کیا کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی اور ہندوستان کو عیسائی بنانے کی سازش عقیدہ وفات مسیحؑ کے ذریعہ سے بالکل ناکام بنا دی چنانچہ انہوں نے لکھا۔
>اسی زمانہ میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنا لوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا اسلام کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام و سیرت رسول~صل۱~ اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہار گیا۔ مگر حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰؑ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسیٰؑ کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔ اس ترکیب سے اس نے لفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی<۔۴۷۵
افسوس ۱۹۳۴ء کے بعد >معجز نما کلاں قرآن شریف< کے دیباچہ سے وہ پورا باب جس میں مندرجہ بالا عبارت درج تھی بالکل حذف کر دیا گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جلیل القدر صحابہ اور بعض دوسرے بزرگوں کا وصال
اس فصل کے خاتمہ پر اب ان بزرگوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو ۱۹۳۴ء میں داغ مفارقت دے گئے۔
۱۔
محی الدین صاحب مالا باریؓ )مالا بار کے سب سے پہلے احمدی( حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو ان کی نماز جنازہ سے قبل فرمایا۔ >پرانے احمدی تھے مالا بار میں احمدیت ان کے ذریعہ ہی قائم ہوئی ہے ان کے بچے بھی یہیں پڑھے جن میں سے ایک کی تو زندگی وقف ہے اور گو دوسرے دینوی کام کرتے ہیں مگر مخلص نوجوان ہیں<۔4] fts[۴۷۶
۲۔
عبدالکریم صاحبؓ آف یادگیر )حیدر آباد دکن( ۵/ جنوری ہی کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت فرمایا۔ >دوسرا جنازہ عبدالکریم صاحب کا ہے۔ عام قانون کے ماتحت میں ان ہی کا جنازہ پڑھتا ہوں جو یا تو جماعت کے خاص کارکن ہوں یا پرانے احمدی اور حضرت مسیح موعودؑ کے وقت خدمات کرچکے ہوں یا جن کا جنازہ پڑھنے والا کوئی احمدی نہ ہو لیکن ان صاحب کا اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ معجزہ تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کو باولے کتے نے کاٹا اور کسولی سے علاج کرانے کے بعد حملہ ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے شفا یاب ہوئے۔۴۷۷
۳۔
اسی روز حضور نے چودھری غلام حسین صاحبؓ کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور فرمایا >آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے۔ بہت مخلص تھے مگر بعد میں غیر مبائع ہو گئے تھے۔
آخری عمر میں ان کو توجہ ہوئی تھی اور مجھے لکھا تھا کہ دعا کریں۔ اگر آپ کی بیعت ہی میں ہدایت ہے تو اللہ تعالیٰ میرے نصیب کرے اور مجھ پر حق کھول دے۔ کتابیں پڑھتے اور تحقیقات کر رہے تھے کہ فوت ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے غیر مبائع جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدمت کی ہے اگر اب انہوں نے ہتک نہ کی ہو تو ہمارا فرض ہے کہ حضورؑ کی طرف سے ان کی خدمت کا آخری بدلہ جنازہ پڑھ کر دیں۔ اس پر کئی لوگ مجھ پر ناراض بھی ہوئے ہیں۔ مگر اس بارے میں میرا نفس اس قدر مطمئن ہے کہ میں کسی کی ناراضگی کی پروا نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارے دل بغض سے پاک ہونے چاہئیں۔ زندگی میں ہم ان سے دلائل سے لڑیں گے۔ لیکن ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ سے یہی کہیں گے کہ یہ تیرے مسیح پر ایمان لائے تھے۔ ہمیں جو تکلیف ان سے پہنچی ہے وہ معاف کرتے اور تیرے حضور ان کے لئے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں۔ خواجہ کمال الدین صاحب کی وفات پر بھی میں نے ایسا کیا تھا۔ خلافت کا انکار تو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر ان کی وفات کی خبر سنتے ہی میں نے ان کے لئے دعا کی اور کہا کہ میں اپنی تکالیف معاف کرتا ہوں اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف کر دے۔ مرنے کے بعد ایسی بات کو دل میں رکھنا بہت ہی ادنیٰ سمجھتا ہوں<۔۴۷۸
‏]in [tag۴۔
اسی سال حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ مبلغ ملکانہ کی وفات ہوئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۸/ جون ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں خاص طور پر ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>مولوی جلال الدین صاحبؓ جو کھریپڑ ضلع فیروزپور کے رہنے والے تھے اور ملکانوں میں تبلیغ کے لئے مین پوری رہتے تھے۔ فوت ہو گئے ہیں وہ پرانے اور نہایت مخلص احمدی تھے۔ میں دیر سے انہیں جانتا ہوں۔ یہ تو میں۴۷۹ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں آئے یا بعد لیکن حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ سے میرے ان سے تعلقات تھے میرا ۲۷ سالہ تجربہ ہے کہ میں نے ان کے چہرہ پر کبھی اصامت کے آثار نہیں دیکھے۔ ہمیشہ خوش نظر آتے کئی دفعہ وہ اپنے معاملات پیش کرتے اور انہیں ایسا مشورہ دینا پڑتا جو ان کے خاندان کے خلاف ہوتا مگر وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے سنتے اور ہنستے ہوئے کہتے کہ اچھا یہ بات ہے اور کبھی کسی بات پر برا نہ مناتے انہیں تبلیغ کا جنون تھا۔ مین پوری سے جو احمدی آتے بلکہ بعض اوقات وہاں سے غیر احمدی بھی آتے وہ بتاتے کہ ان کے تقویٰ و طہارت کا اس علاقہ میں گہرا اثر ہے۔ جس طرح ان کی وفات ہوئی۔ وہ بھی اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے۔ سخت گرمی کے دن ہیں وہ ایک جگہ تبلیغ کے لئے گئے اور یہ گوارا نہ کیا کہ تمام دن وہیں گزاریں۔ لوگوں نے بھی کہا کہ گرمی بہت ہے یہیں ٹھہر جائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں دوسری جگہ جا کر بھی تبلیغ کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ چلے گئے اور رستہ میں سن سٹروک جسے ضربتہ الشمس کہتے ہیں ہو گیا اور بے ہوشی میں کسی گوردوارے کے سامنے جاگرے اور فوت ہو گئے۔ لوگوں نے پولیس والوں کو بلایا۔ وہ بھی آپ کو پہچانتے تھے تو یہ موت بھی شہادت کی موت ہے<۔۴۸۰
ان بزرگ ہستیوں کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہؓ کی وفات بھی اسی سال ہوئی۔ حضرت بابو عزیز الدین صاحب سیالکوٹیؓ۴۸۱ )تاریخ وفات ۹/ مئی ۱۹۳۴ء(۔ حضرت حکیم محمد عبداللہ صاحبؓ ماچھیواڑہ ضلع لدھیانہ۴۸۲ )؟( حضرت مستری قطب الدین صاحبؓ بھیروی۴۸۳۔ حضرت ملک نور الدین صاحبؓ۴۸۴ )تاریخ وفات ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء( حضرت حکیم محمد الدین صاحبؓ آف گوجرانوالہ )تاریخ وفات ۱۰/ نومبر ۱۹۳۴ء(۴۸۵ حضرت صوفی کرم الٰہی صاحب آف لاہور )تاریخ وفات ۱۶/ دسمبر ۱۹۳۴ء( حضرت صوفی صاحب کا نام ضمیمہ >انجام آتھم< کی فہرست ۳۱۳ اصحاب کبار میں ۲۹۰ نمبر پر درج ہے۔
خواتین میں سے حضرت خان بہادر نواب محمد الدین صاحب )ممبر کونسل آف سٹیٹ و ریونیو ممبر ریاست جے پور( کی اہلیہ۴۸۶ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی اہلیہ۴۸۷]ydbo [tag اور سیٹھ محمد سعید صاحب عرب کی اہلیہ۴۸۸ بھی اسی سال وفات پا گئیں۔ موخر الذکر حضرت علامہ مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی بیٹی تھیں۔
‏tav.7.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل سیز دھم(
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کا قیام
مشرقی افریقہ کا اسلامی عہد اقتدار
حصول آزادی سے قبل )جو پچھلے چند سالوں میں ہوئی( برطانوی مشرقی افریقہ چار علاقوں پر مشتمل تھا۔
۱۔ کینیا کالونی ۲۔ یوگنڈا ۳۔ ٹانگا نیکا ۴۔ زنجبار۴۸۹
یوں تو زمانہ قدیم سے عرب کا مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں سے تجارتی تعلق رہا ہے۔ لیکن ظہور اسلام کے بعد پہلے سے زیادہ تعداد میں عربوں نے یہاں آنا شروع کیا۔ اب ان کے پیش نظر تجارت کے ساتھ تبلیغ اسلام بھی تھی۔ اس کے علاوہ خلیج فارس سے ملحق ملکوں کے مسلمان باشندوں نے بھی حسب سابق اپنی آمد جاری رکھی اور چھوٹے چھوٹے جزیروں میں مستقل طور پر اپنی تجارتی کوٹھیاں اور آبادیاں قائم کر لیں اور وہ سمندر کے کنارے بعض قصبات میں آباد ہو گئے۔ انہوں نے اصل باشندوں کی )جو سیام فام اور BANTU نسل سے تھے( عورتوں سے شادیاں کرنا شروع کر دیں۔ ان سے جو بچے پیدا ہوئے انہیں سوا حیلی کہا جانے لگا۔ اس عرصہ میں اہل عرب و فارس نے جن کی اکثریت شافعی مسلک کی تھی۔ پورے طور پر فروغ حاصل کر لیا اور افریقہ کے مشرقی ساحل سے لے کر جنوب تک ان کا تسلط قائم ہو گیا جو چار پانچ سو سال تک رہا اور آج بھی ان کے عہد اقتدار کے اثرات پرانے کھنڈروں` عمارتوں اور اصل باشندوں کے لباس اور ان کی زبان سے ظاہر ہیں۔
عیسائی مشنوں کی یورش
چار پانچ صدیوں کا زمانہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ اگر اس مدت دراز میں اشاعت اسلام کی منظم جدوجہد کی جاتی تو پورا مشرقی افریقہ مسلمان ہوتا اور عیسائیوں کو یہاں قدم رکھنے کی جرات نہ ہوتی۔ مگر اس زمانے کے مسلمانوں نے تبلیغی جہاد سے بے اعتنائی برتی اور مشرقی افریقہ کی وسیع اسلامی حکومت سمٹ کر زنجبار کی مختصر سی برائے نام ریاست میں محدود ہو گئی اور ہر جگہ عیسائی پادریوں نے اپنا وسیع جال پھیلا دیا۔
چنانچہ ۱۸۴۰ء میں مسلم اکثریت کے علاقہ میں عیسائی مشن قائم ہوا۔ جس نے افریقہ کے اصل باشندوں میں پورے زور کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ تعلیمی و طبی ادارے اور یتیم خانے قائم کئے اور خدمت خلق کے مختلف قسم کے کام سر انجام دینے کے علاوہ تبلیغ کے ذریعہ سے اس طرح عیسائیت کی اشاعت کی کہ بیسویں صدی کے پہلے اڑتیس انتالیس برسوں میں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک کی اٹھارہ سوسائٹیوں کی زبردست جدوجہد کے نتیجہ میں افریقن آبادی کا دسواں حصہ عیسائیت کی آغوش میں چلا گیا اور جہاں مسلمانوں کی کثرت تھی یا ہے وہاں اردگرد کے علاقہ میں عیسائی مشن نے سکول وغیرہ کھول کر یہ کوشش کی کہ کینیا کالونی کے جس تھوڑے سے حصہ میں اسلام ہے وہاں سے بھی وہ رخصت کر دیا جائے۔ چنانچہ ۳۹۔ ۱۹۳۸ء کے قریب عیسائیوں نے IN DAY NEW <A KENYA> کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں لکھا۔
‏DECADENT LARGELY BEEN HAS KENYA IN MOHAMMEDANISM THAT FACT ><THE۔NEGLECTED BE SHOULD IT PROFESSING THOSE WHY REASON NO IS APETHETIC AND
صفحہ ۱۳۲ زیر عنوان PROBLEM MUSLEM (THE
یعنی یہ حقیقت کہ مذہب اسلام کینیا میں بہت حد تک زوال پذیر ہو رہا ہے اس امر کی وجہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگ جو اپنے تئیں اسلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں نظر انداز کر دیئے گئے جائیں اور انہیں عیسائیت کی تبلیغ نہ کی جائے۔ نیز لکھا۔
‏THE SEIZE CHURCH CHRISTIAN THE WILL BUT ۔CROSSROAD THE AT TODAY IS 133ISLAM ۔P >￿OPPORTUNITY
یعنی اسلام تو اب دم توڑ رہا ہے لیکن کیا عیسائیت اس موقعہ سے فائدہ اٹھائے گی اور اسے بھی پورے طور پر اپنے قبضہ میں کرے گی؟
زنجبار جو مشرقی افریقہ کی اسلامی سلطنت کا مرکز رہا ہے سب سے زیادہ عیسائیت کے نرغہ میں گھر گیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ اسلام کے خلاف سب سے زیادہ لٹریچر یہیں سے شائع ہونے لگا۔ حتیٰ کہ یہاں سے سواحیلی میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ جس سے اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کا وسیع دروازہ کھل گیا۔ زنجبار میں یونیورسٹیز مشن نے ہیڈ کوار قائم کر لیا اور اس کے زیر انتظام بہت بڑا سکول پریس اور کتب خانہ کھل گیا۔ یہاں سواحیلی اور عرب باشندوں میں اگرچہ عیسائیت نہیں پھیلی۔ لیکن ان کے تمدن و تہذیب کو مغربیت کا جامہ پہنا کر انہیں ذلیل بنا دیا گیا۔
یوگنڈا میں عیسائی مشنریوں نے اپنا کام ۱۸۶۲ء میں شروع کیا اور پچھتر سال کے اندر اندر عیسائیوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ حد یہ ہے کہ مسلمانوں نے جو صدیوں تک حکمران رہے پادریوں کو تو ہر قسم کے آرام پہنچائے اور سہولتیں مہیا کیں لیکن خود تبلیغ اسلام کے لئے کوئی خاص جدوجہد نہ کی اس پر مصیبت یہ کہ عربوں نے غلاموں کی تجارت سے بہت برا اثر ڈالا۔ کہتے ہیں کہ I MUTESA KING نے ایک بار عربوں اور عیسائی پادریوں کو اپنے دربار میں بلایا۔ یہ شخص لامذہب تھا لیکن اسلام کی طرف مائل تھا اس کے کسی سوال پر عربوں نے کہا کہ انسانوں کو پکڑنا اور فروخت کرنا جائز ہے مگر پادریوں نے اسی سوال کا یہ جواب دیا کہ ہم تمام انسان خدا کے بیٹے ہیں اور وہ ہم سب کا باپ ہے یہ بات سن کر بادشاہ اپنے درباریوں سمیت اسلام سے بدظن ہو گیا اور اس کے وزیر عیسائی ہو گئے ازاں بعد ملک میں عیسائی حکومت قائم ہو گئی چنانچہ WA DAUDICH SIR جو ۱۹۳۸ء میں تخت حکومت پر متمکن تھا عیسائی تھا۔
سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ اس علاقہ میں جو تھوڑے بہت مسلمان رہ گئے وہ بھی یہ سمجھنے لگے کہ جب عربوں نے غلاموں کی تجارت کی تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہو گا۔ اس طرح اسلام اور غلامی مترادف الفاظ بن گئے۔ جو آئندہ چل کر اشاعت اسلام کی کوشش میں بری طرح رخنہ انداز ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
ٹانگا نیکا ایک بہت بڑا علاقہ ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کے قبضہ میں آگیا اور پھر اس میں عیسائی مشنوں کا دبائو یہاں تک بڑھ گیا کہ )۱۹۳۸ء تک( بائیس رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مشن مختلف ممالک کی طرف سے قائم ہو چکے تھے جن کے ماتحت ۲۴۵ اہم مراکز تھے اور بارہ سو غیر ملکی مشنری کام کر رہے تھے ان مشنوں کے قریباً پانچ ہزار مختلف قسم کے سکول کھل چکے تھے۔ ہسپتال اور ڈسپنسریاں مزید برآں تھیں۔ مسیحیت کے فروغ و اشاعت کے لئے کئی رسائل و اخبارات شائع ہوتے تھے اور ٹانگا نیکا کی مختلف ۳۳ زبانوں میں عیسائیت کا لٹریچر شائع ہو چکا تھا۔ اس تمام جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب افریقن عیسائیت میں داخل ہو گئے۔۴۹۰
مشرقی افریقہ میں اشاعت احمدیت کی ابتدائی تاریخ
شروع ۱۸۹۶ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دو صحابی حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت میاں عبداللہ صاحبؓ نو مسلم یوگنڈا ریلوے میں بھرتی ہو کر کینیا کالونی کی بندرگاہ ممباسہ میں پہنچے۔ یہ سب سے پہلے احمدی تھے جنہوں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر قدم رکھا۔ اسی سال تھوڑے تھوڑے وقفہ سے حضرت ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خاں صاحبؓ گوڑیانوی )ملٹری میں( شیخ محمد بخش صاحبؓ ساکن کڑیانوالہ۴۹۱ ضلع گجرات )بعہدہ ہیڈ جمعداری( حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ جالندھری اور حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ ساکن تھہ غلام نبی متصل قادیان۔ حضرت حافظ محمد اسحٰق صاحبؓ اور ان کے بھائی میاں قطب الدین صاحب ساکن بھیرہ بھی یوگنڈا ریلوے کے ملازم کی حیثیت سے وارد ممباسہ ہوئے۔ اور مشرقی افریقہ میں پہلی احمدیہ جماعت کی داغ بیل پڑی۔
۱۸۹۶ء میں تشریف لے جانے والے صحابہ میں سے حضرت حافظ محمد اسحٰق صاحبؓ اور شیخ حامد علی صاحبؓ کو آب و ہوا کی ناموافقت یا بعض دوسرے ضروری اور نجی امور کی وجہ سے جلد واپس آنا پڑا۔ لیکن ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانوی تین سال تک ملٹری میں رہے اور بڑی متانت اور حکمت کے ساتھ اپنے حلقہ میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ فوج کے اکثر مسلمانوں نے ڈاکٹر صاحبؓ سے قرآن مجید پڑھا اور اپنا دینی علم بڑھایا بعضوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی خوابیں آئیں اور وہ بیعت سے مشرف ہوئے۔ جن میں سے بابو عمر الدین صاحب بھی تھے جنہوں نے ۷/ اکتوبر ۱۹۰۰ء کو کلنڈینی میں انتقال کیا۔۴۹۲ حضرت ڈاکٹر صاحب کے فیض صحبت سے ان کے ساتھ کام کرنے والے پانچ مسلمان ڈاکٹروں کو بھی شناخت حق کی توفیق ملی۔ اس ضمن میں اخبار الحکم ۲۹/ اکتوبر ۱۸۹۸ء میں مندرجہ ذیل خط درج ہے۔
یہاں ممباسہ اور مشرقی افریقہ کے گردونواح میں ایک شخص مبارک نامی بگڑا ہوا باغی سردار تھا یہ شخص سلطان زنجبار کے مشیروں میں سے تھا۔ مگر جب سلطان نے سلطنت برطانیہ سے کچھ عہد و پیمان کرکے ممباسہ جس میں بیٹھے ہم مضمون لکھ رہے ہیں کچھ عرصہ کے لئے انتظام ملکی وغیرہ کی خاطر صاحبان انگریزی کو دے دیا تو یہ شخص مبارک سلطان کا سخت دشمن ہو گیا اور ہر طرح اور ہر طرف سے سلطان زنجبار کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ہوتے ہوئے صاحبان انگریز کس طرح چین سے اس جزیرے میں نڈر بیٹھ سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سرکوبی کے لئے )ایک فوجی کمپنی(۴۹۳4] f[rt یہاں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔ یہ فوج اس شخص مبارک سے ۔۔۔۔۔۔۔ جنگلوں میں لڑی اور آخر کار ۔۔۔۔۔۔ ایک ایسے جنگل میں جا پڑی جہاں پانی کا نشان نہ ملتا تھا اور پانی کے نہ ملنے کی وجہ سے اس پر سخت مصیبت طاری ہوئی مگر اسی اثناء میں انہیں ایک باغیچہ ناریل کا مل گیا۔ جس سے انہوں نے اپنی بلب جانوں کو بچا لیا۔ مبارک ان کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکا اور آخر کار جنگلوں میں بھاگ کر اپنے کئے کی پاداش بھوگ رہا ہے۔
اس فوج میں علاوہ مسلمان سپاہیوں کے ۶ ہاسپٹل اسسٹنٹ تھے جس میں سے ایک ہمارے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایدہ اللہ بنصرہ کے مخلص مرید ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب ساکن گوڑیانی تھے اور دوسرے پانچ صاحبان اول اول عدم واقفیت کی وجہ سے ہمارے مشن کی مخالفت کرتے رہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کے سینوں کو حق کی شناخت کے لئے کھولا اور ہر ایک نے نیاز نامہ حضرت اقدس کی خدمت میں مخلصانہ روا نہ کیا۔۴۹۴
اس کامیابی پر فوج کے بعض مسلمان افسروں نے یہ الزام لگایا کہ ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف اشتعال پھیلا رہے ہیں مگر جب اس کی رپورٹ کپتان تک گئی تو یہ بات غلط نکلی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو مضافات ممباسہ کے علاوہ مشرقی افریقہ کی دوسری بندرگاہوں پر بھی جانا پڑا اور انہوں نے ہر جگہ سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کی۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ تین سال کے بعد اپنے وطن تشریف لے آئے مگر حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ۴۹۵ برابر پانچ برس تک مخالفت کے باوجود اشاعت احمدیت میں مصروف رہے ان بزرگوں کے ذریعہ سے جو لوگ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے ان میں سب سے نمایاں اور ممتاز فرد حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب )آف رنمل ضلع گجرات( تھے۔ جنہوں نے قبول حق کے بعد اپنے اندر مثالی تبدیلی پیدا کی۔ احمدی ہونے کے بعد ان کی بہت مخالفت ہوئی مگر ان کے نیک نمونہ نے نہ صرف اپنے حقیقی بھائی حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت پیر برکت علی صاحبؓ کو سلسلہ احمدیہ سے منسلک کر دیا۔۴۹۶ بلکہ سیٹھ فتح دین صاحبؓ جہلمی۔ ڈاکٹر سلطان علی صاحبؓ اور ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ۴۹۷ )احمدی( آف گجرات اور کئی اور اصحاب آپ کے اثر سے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے اور پھر ان کے ذریعہ سے احمدیت کا نور پھیلنا شروع ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب )احمدی( کی تبلیغ سے میرو (MERU) میں جونیر وبی سے دو سو میل کے فاصلہ پر ایک گائوں ہے قاسم منگیا نامی ایک میمن اپنے خاندان سمیت داخل سلسلہ ہوئے پھر رفتہ رفتہ مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہو گئی جن میں سیٹھ عثمان یعقوب صاحب اور ان کے بڑے بھائی حاجی ایوب صاحب اور سیٹھ نور احمد صاحب` حاجی ابراہیم صاحب اور حاجی ایوب صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۴۹۸
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب ممباسہ کے کلنڈینی (KILINDINI) ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ یہ ہسپتال ان دنوں مشرقی افریقہ میں اشاعت احمدیت کا ایک مرکز بن گیا تھا جہاں جماعت کے باقاعدہ ہفتہ وار اجلاس ہوتے۔ قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعودؑ کا درس دیا جاتا اور مسئلہ حیات و وفات مسیحؑ پر تقاریر کی جاتیں۔۴۹۹
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ ۱۹۰۱ء کے شروع میں واپس ہندوستان تشریف لائے اور پھر سومالی لینڈ گئے۔ جہاں آپ فوجی خدمات بجا لارہے تھے کہ اٹھائیس برس کی عمر میں شہید کر دیئے گئے۔۵۰۰ )تاریخ شہادت ۱۰/ جنوری ۱۹۰۴ء(۵۰۱
کلنڈنی بندرگاہ )مشرقی افریقہ( میں مقیم اولین صحابی
بابو محمد افضل صاحب نے الحکم ۱۹/ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۵ پر حسب ذیل اعلان شائع کیا جس سے مشرقی افریقہ کے اولین صحابہ کے مبارک ناموں کی تفصیل کا بھی علم ہوتا ہے۔
جماعت افریقہ کی طرف سے اپنی جماعت میں سے افریقہ آنے والے اصحاب کے لئے ضروری نوٹس
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!`
چونکہ بعض احباب اپنی جماعت و سلسلہ ملازمت میں یہاں ایسی صورت میں پہنچے کہ کلنڈنی بندرگاہ پر جہاں کہ ہر ایک گروہ ملازمین آمدہ از ہند کا ۳ دن ضرور قیام کیا کرتا ہے۔ اگرچہ حضرت اقدس کے خادمین مستقل طور پر خدمات یوگنڈا ریلوے پر متعین ہیں مگر تاہم عدم واقفیت کی وجہ سے نووارد احباب ان سے ملاقات نہ کر سکے اور جب وہ اپنی اپنی جگہ پر تبدیل ہو کر لائن پر چلے گئے تو پیچھے سے ان کو اس بات کا علم ہوا کہ ہمارے بھائی کلنڈنی میں بھی ہیں اور اس طرح سے ہم لوگوں کو جو بندر پر رہنے کی وجہ سے ان اصحاب کی زیارت کے اول حقدار تھے۔ ایک ایک اور دو دو ماہ کے بعد ان سے ملاقات نصیب ہوئی۔ لہذا آئندہ کی سہولت کے خیال سے ذیل میں ہم ایک فہرست اپنے تمام ممبران جماعت افریقہ کی درج کر دیتے ہیں تاکہ ہر ایک نووارد بھائی آتے ہی کسی ممبر جماعت سے مل کر ان تمام تکالیف سے امن میں رہے جو کہ اجنبیت کی حالت میں ایک مسافر کو پیش آسکتی ہیں۔ اور نیز بندر پر رہنے والے بھائیوں کو زیادہ انتظار اپنے نو وارد بھائیوں کی زیارت کا نہ کرنا پڑے حضرت اقدس کے ان خادمین کی فہرست جو کہ کلنڈنی بندر پر مستقل طور پر مقیم ہیں۔
۱۔
سید کرم حسین صاحب انچارج کول اشو کلرک کلنڈنی بندرویہ ہمارے بھائی ہمیشہ بندر کے کنارے پر ہی رہتے ہیں۔
۲۔
بابو رحمت علی صاحب سیپل اسسٹنٹ کلنڈنی ہسپتال۔ ساکن انمل ضلع گجرات۔
۳۔
سیٹھ احمد دین صاحب قصاب کلنڈنی بازار۔ ساکن جادہ ضلع جہلم۔
۴۔
خاکسار راقم الحروف محمد افضل کلنڈنی بازار ساکن قادیان۔
جماعت احمدیہ افریقہ کے کل باقی ممبران کی فہرست۔
۵۔
ہیڈ جمعدار صاحب محمد بخش ساکن کڑیانوالہ۔ کنسٹرکشن نمبر ۱۔ ڈویژن۔
۶۔
خواجہ احمد صاحب وارڈ مین کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ ساکن گجرات۔
۷۔
عظیم شاہ صاحب باورچی کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ داسوہہ۔
۸۔
حافظ الٰہی بخش صاحب وارڈ مین کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ سیالکوٹ۔
۹۔
میاں دین محمد صاحب مزدور کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ گوجرانوالہ۔
۱۰۔
شیخ فضل کریم صاحب عطاء جمعدار کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ سیالکوٹ۔
۱۱۔
سید محمد شاہ صاحب کلرک ٹیلیفون کلنڈنی بندر۔ ضلع جالندھر
۱۲۔
میاں بھولا ٹھیکیدار مینٹیننس ڈویژن ساکن جادہ ضلع جہلم۔
۱۳۔
میاں محمد ابراہیم اینڈ کو ٹھیکیدار مینٹیننس ڈویژن۔ پسرور ضلع سیالکوٹ
۱۴۔
حافظ محمد صاحب مینٹیننس ڈویژن۔ ساکن کوٹلہ ریمہ جہلم
۱۵۔
مستری نبی بخش صاحب سب انسپکٹر۔ کوٹ جادہ
۱۶۔
شیخ نور احمد صاحب ٹائم کیپر۔ جالندھر
۱۷۔
بابو محمد الدین صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ محکمہ ریلوے ٹرانسپورٹ۔ ساکن بٹالہ
۱۸۔
میاں محمد نادر خاں صاحب تھانہ دار سٹیشن کمہنیڈو۔ ضلع جہلم
۱۹۔
میاں محمد اسماعیل ٹائم کیپر پلیٹ لے انگ کڑیانوالہ۔
۲۰۔
میاں جواہر زرگر کلنڈنی بازار جہلم۔
۲۱۔
شیخ عنایت اللہ صاحب سٹور کیپر کلرک ہیڈ ڈویژن۔ لاہور۔
۲۲۔
حافظ محمد الیاس صاحب قاری فیض پوریہ جمعدار۔ فیض پور۔
۲۳۔
بابو رستم علی صاحب راشن سٹور کیپر مکہنیڈو۔ جالندھر۔
)راقم محمد افضل از کلنڈنی بلند ممباسہ۔ لائن سیٹھ احمد الدین صاحب قصاب ۶/ فروری ۱۸۹۹( )الحکم ۱۹/ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۵(
مشرقی افریقہ کے قدیم صحابہ کی ایک فہرست
مشرقی افریقہ میں تشریف لے جانے والے صحابہ کی تبلیغ سے احمدیت ترقی کرنے لگی اور پانچ سال کے عرصہ میں ۱۸۹۶ء سے لے کر ۱۹۰۱ء تک احمدیوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو گئی جن کی فہرست الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ میں شائع شدہ ہے اور وہ یہ ہے۔
تفصیل بیعت کنندگان جنہوں نے افریقہ میں حضرت اقدس سے بیعت کی۔
۱۔ ڈاکٹر رحمت علی صاحب ضلع گجرات

۲۲۔ غلام قادر صاحب ڈریسر۔ گجرات

۲۔ ٹھیکیدار محمد ابراہیم صاحب پسرور

۲۳۔ فتح دین صاحب جمعدار گجرات

۳۔ فرزند علی صاحب سوداگر پسرور

۲۴۔ عظیم شاہ صاحب باورچی ہسپتال

۴۔ سیٹھ احمد دین صاحب جہلم

۲۵۔ منشی علی محمد صاحب

۵۔ میاں جواہر صاحب زرگر جہلم

۲۶۔ محمد اسمعیل صاحب ساکن کڑیانوالہ گجرات

۶۔ میاں اللہ دتہ صاحب زرگر جہلم

۲۷۔ برکت علی صاحب نوشاہی گجرات

۷۔ محمد عالم صاحب کلرک سٹور جہلم

۲۸۔ دولت علی صاحب نوشاہی گجرات

۸۔ میاں بھولا صاحب

۲۹۔ عبداللہ صاحب کمپونڈر گجرات

۹۔ نبی بخش صاحب مستری جاوہ۔ جہلم

۳۰۔ بابو غلام نبی صاحب اوورسیر ہوشیار پور

۱۰۔ غلام محمد صاحب ٹھیکیدار جہلم۔

۳۱۔ رحیم بخش صاحب مستری گجرات

۱۱۔ حافظ محمد صاحب ٹھیکیدار جہلم

۳۲۔ عبدالعزیز صاحب جمعدار گجرات

۱۲۔ محمد حفیظ صاحب ٹھیکیدار جہلم

۳۳۔ جان محمد صاحب ڈریسر گجرات

۱۳۔ سید محمد صاحب کلرک اسٹور۔

۳۴۔ مولوی فضل الرحمن صاحب کمپونڈر گجرات

۱۴۔ بابو غلام غوث شاہ صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ یوگنڈا ریلوے۔

۳۵۔ نادر خاں صاحب ڈپٹی انسپکٹر

۱۵۔ بابو محمد عبدالقادر صاحب اسٹیشن ماسٹر

۳۶۔ بابو علی اظفر صاحب کمپونڈر امرتسر

۱۶۔ منشی امیر خان صاحب ہسپتال ریلوے۔

۳۷۔ بابو مظہر علی صاحب کلرک امرتسر

۱۷۔ بابو محمد الدین صاحب مرحوم ویٹرنری اسسٹنٹ از جالندھر

‏]3col [tag۳۸۔ بابو فیض علی صاحب کمپونڈر امرتسر

۱۸۔ بابو مولا بخش صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ از جالندھر

۳۹۔ سید کرم حسین صاحب کلرک ساکن لاہور بھونڈ پورہ

۱۹۔ بابو سلطان علی شاہ صاحب کمپونڈر

۴۰۔ علی احمد شاہ صاحب لاہور

۲۰۔ بابو احمد صاحب کمپونڈر

۴۱۔ غلام حیدر صاحب سوداگر لاہور

۲۱۔ خواجہ احمد صاحب داروغہ ضلع گجرات

‏]3col [tag۴۲۔ غلام علی صاحب گھڑی ساز لاہور



۴۳۔ بابو اللہ داد خان صاحب گارڈ۔ لاہور



۴۴۔ بابو محمد عالم صاحب سگنیلر لاہور



۴۵۔ مستری کریم بخش صاحب ٹھیکیدار لاہور



۴۶۔ عالم شیر صاحب سپاہی گننجٹ



۴۷۔ عظیم خاں صاحب دفتر یوگنڈا ریلوے دہلی
‏col4] [tag


۴۸۔ حسن دین صاحب فائرمین لاہور

فہرست دیگر ممبران جماعت جو کہ ہند میں
بیعت کرکے افریقہ میں آئے۔
۱۔ محمد افضل صاحب ٹھیکیدار۔ لاہور

۷۔ حافظ محمد اسحاق صاحب اوورسیر۔ بھیرہ

۲۔ محمد بخش صاحب۔ کڑیانوالہ

۸۔ قطب الدین صاحب مستری۔ بھیرہ

۳۔ ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب۔ گوڑیانی

۹- بابو نبی بخش صاحب کلرک اکونٹنٹ آفس۔ لاہور

۴۔ شیخ نور احمد صاحب ٹائم کیپر حال کلرک ہسپتال جالندھر

۱۰۔ بابو عبدالرحمن صاحب کلرک لوکو آفس لاہور

۵۔ شیخ حامد علی صاحب جمعدار۔ قادیان

۱۱۔ چوہدری محمد اسمعیل صاحب جمعدار جھانرا والہ سیالکوٹ

۶۔ برادر شیخ حامد علی صاحب جمعدار۔ قادیان

۱۲۔ غلام محمد صاحب کمپونڈر۔ جالندھر۔۵۰۲

۱۹۰۱ء کے بعد بھی ہندوستان سے صحابہ کے جانے اور افریقہ میں بھی بیعت کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ حضرت سید غلام حسین صاحبؓ۵۰۳ اور بھائی نظام الدین صاحب جہلمی۵۰۴ اور حضرت مولوی فخر الدین صاحب گھوگھیاٹ۵۰۵ اسی زمانہ میں افریقہ تشریف لے گئے اور پیغام حق پہنچاتے رہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عہد مبارک میں بیرونی ممالک کے لحاظ سے مشرقی افریقہ کی احمدیہ جماعت سب سے پہلی اور سب سے بڑی جماعت تھی جس نے شروع ہی سے سلسلہ کی مالی قربانیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
چنانچہ حضرت بابو محمد افضل صاحبؓ نے >الحکم< ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء میں لکھا۔
>آج تک تخمیناً چھ ہزار سے زیادہ روپیہ افریقہ کی جماعت کی طرف سے اشاعت سلسلہ محکم تعلیم عمارات و فنڈ مساکین وغیرہ میں مختلف طور پر قادیان کی طرف روانہ کیا جا چکا ہے اس میں وہ اخراجات شامل نہیں ہیں جو کہ خاص افریقہ میں اشاعت سلسلہ کے متعلق کئے گئے ہیں۔ افسوس ہے کہ ¶کوئی باقاعدہ رجسٹر نہیں رکھا گیا جس میں پورے طور پر تعداد روپیہ اور دیگر کارروائی سلسلہ کی رکھی جاتی مگر انشاء اللہ آئندہ اس کا پورا پورا انتظام کیا جائے گا۔
اس مذکورہ بالا رقم میں بھاری بھاری رقمیں ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب` ڈاکٹر رحمت علی صاحب۔ سیٹھ احمد الدین صاحب اور محمد ابراہیم و محمد افضل ٹھیکیداران کی ہیں۔ جناب بابو نور احمد صاحب نے باوجود جمعداری کے عہدہ پر ہونے کے اور ۳۰ روپے تنخواہ پانے کے اپنی تین سالہ ملازمت میں چار سو روپیہ روانہ کیا۔
اور ایک صاحب میاں مصاحب دین کمپونڈر نے جو کہ ابھی تک اگرچہ جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہوئے اور صرف حسن ظن رکھتے ہیں اور جو کہ اپنی تین سالہ ملازمت کا بقیہ اندوختہ لے کر ہندوستان رخصت پر اپنے گھر جانے والے تھے۔ ایک دفعہ صرف یہ خبر سن کر حضرت مرزا صاحب کو خدمت دین کے لئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے بڑی عالی ہمتی اور دریا دلی سے اپنی رخصت کو منسوخ کرا دیا اور کل اندوختہ روپیہ دینی خدمت کے لئے چندہ میں دے دیا<۔۵۰۶
خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں کینیا کالونی کے علاقہ میں ہندوستانی احمدیوں کی آمد کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ اور تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہونے لگا۔ چنانچہ میگاڈی (MAGADI) میں حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحبؓ عرصہ تک دیوانہ وار تبلیغی جہاد میں مصروف رہے اور نیروبی میں حضرت سید معراج الدین صاحب۔ حضرت ڈاکٹر عمر الدین صاحب` مولانا عبدالواحد صاحبؓ جہلمی۔ حضرت بھائی دوست محمد صاحبؓ جہلمی۔ قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی` حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ۵۰۷ سید عبدالرزاق صاحب شاہ صاحب` محمد اکرم خان صاحب غوری` چوہدری نثار احمد صاحب` شیخ غلام فرید صاحب` بھائی عبدالرحیم صاحب ٹیلر ماسٹر` بھائی شیر محمد صاحب بٹ` ملک احمد حسین صاحب` سید یوسف شاہ صاحب` عبدالعزیز صاحب جہلمی` چوہدری محمد شریف صاحب بی۔ اے۵۰۸ اور دوسرے مخلصین کے وجود سے جماعت احمدیہ کو بہت تقویت ملی۔ اسی طرح ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب کٹوئی (KITUI) میں عمر حیات خاں صاحب کسومو میں اور بھائی اکبر علی صاحب اور بابو محمد عالم صاحب ممباسہ میں پیغام حق پہنچاتے رہے۔
یوگنڈا میں پیغام احمدیت خلافت اولیٰ کے آخری سال یا خلافت ثانیہ کے آغاز میں پہنچا جبکہ سب سے پہلے ڈاکٹر فضل الدین صاحب وہاں پہنچے آپ کے بعد آپ کے بھائی ڈاکٹر احمد دین صاحب اور ڈاکٹر لعل دین صاحب۵۰۹ نیز بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر اور بابو نذیر احمد صاحب کھوکھر بھی تشریف لے گئے اور اس طرح ایشیائی احمدیوں کی ایک جماعت کا وہاں قیام ہو گیا۔
ٹانگا نیکا بہت دیر کے بعد احمدیت سے روشناس ہوا۔ اگرچہ ہندوستانی احمدیوں کی مختصر سی جماعت شروع میں اس علاقہ کے مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ آخر بابو محمد یوسف صاحب پوسٹ ماسٹر اور بعض دوسرے احمدیوں کی کوشش اور ہمت سے ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی اور خاص طور پر میاں محمد بخش صاحب )ریلوے ڈرائیور( بابو محمد ایو صاحب بابو محمد جمیل صاحب` ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب` ڈاکٹر احمد دین صاحب اور فضل کریم صاحب لون` عبدالکریم صاحب ڈار مرحوم اور مختار احمد صاحب ایاز جیسے مخلص احمدیوں کی مالی قربانیاں اور تبلیغی کوششوں سے اس جماعت نے بڑا نام پیدا کیا۔ موخر الذکر دونوں بزرگوں کو ایک لمبا عرصہ ٹانگا نیکا )تنزانیہ( میں تکالیف دی گئیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط چٹان بن کر تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ ٹانگا نیکا میں دوسرا مقام جہاں ہندوستانی احمدیوں کی ایک پرجوش جماعت قائم ہوئی۔ ٹبورا تھا۔ یہ جماعت اپنے اخلاص و محبت اور تبلیغی مساعی میں بہت آگے نکل گئی اور بہت جلد نیروبی` میرو` ممباسہ` کسوموں اور کمپالہ کے دوش بدوش خدمات سلسلہ بجا لانے لگی۔۵۱۰
نیروبی میں احمدیہ پریس کا قیام اور سلسلہ اشتہارات کا آغاز
نیروبی میں ۳۲۔۱۹۳۳ء میں مخالفین احمدیت کی طرف سے خاص طور پر نہایت کثرت سے گندہ لٹریچر شائع کیا گیا۔ قادیان سے جوابات چھپوا کر یہاں منگوانے میں بہت دیر ہوجاتی تھی اور نیروبی میں کوئی اردو پریس نہیں تھا۔ اس لئے جماعت احمدیہ نیروبی نے ایک سائیکلو سٹائل مشین کا انتظام کیا۔ مگر مستعمل ہونے کی وجہ سے یہ مشین کام نہ دے سکی۔ اس سے پہلے قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی ایک گلیسرین پریس تیار کرکے کچھ کام چلاتے رہے۔ مگر اس سے جماعتی ضروریات پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس لئے جماعت نے اپنی ایک پرانی طرز کی لیتھو ہینڈ پریس4] ft[s۵۱۱ مشین کو جو ناقابل استعمال اور خستہ حالت میں پڑی تھی۔ از سر نو درست کرایا اس کام میں یوگنڈا اور دارالسلام کے احمدیوں نے بھی کسی قدر مدد دی۔ یکم جون ۱۹۳۴ء کو اس پریس کا اجراء ہوا اور سب سے پہلا اشتہار >صداقت کی چمک< کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ یہ پریس احمدیہ مسجد نیروبی۵۱۲ کے مشرق کی طرف کی ایک کوٹھری میں نصب کیا گیا اور ساتھ کی دوسری کوٹھری میں پریس کا سامان رکھا گیا۔ قادیان سے کاپی کی سیاہی اور کاغذ منگوائے گئے پتھر کے وزن کی وجہ مشین آسانی سے نہیں چلتی تھی اس لئے مخلصین جماعت خصوصاً شیر محمد صاحب بٹ قاضی عبدالسلام صاحب کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان اشتہاروں کی تقسیم بھائی شیر محمد صاحب بٹ اور عبدالعزیز صاحب قریشی جہلمی نے اپنے ذمہ لگا رکھی تھی۔۵۱۳ محترم قاضی عبدالسلام صاحب کا بیان ہے کہ یہ >اشتہارات خاکسار ہی لکھتا یا سلسلہ کے لٹریچر سے اخذ کرتا تھا۔ اور میگاڈی سے حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب مرحوم بھی لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔
اخبار >الھدی< کا اجراء
اشتہارات کا یہ وسیع سلسلہ ۱۹۳۶ء کے اوائل تک زور شور سے جاری رہا۔ اس کے بعد اس کی بجائے >الہدی< نام سے ایک ہفتہ وار اخبار ملک احمد حسین صاحب کے زیر انتظام جاری کیا گیا۔ اس اخبار کا پہلا پرچہ ۲۳/ جولائی ۱۹۳۶ء کو شائع ہوا۔ اخبارات کی کتابت و طباعت کا تمام کام محمد اکرم صاحب غوری` سید عبدالرزاق شاہ صاحب اور ملک احمد حسین صاحب انجام دیتے تھے اور اخبار کی ترسیل کی خدمت شیخ غلام فرید صاحب سیکرٹری کے سپرد تھی۔ ان کے معاون بابو غلام محمد صاحب تھے۔ مضامین لکھنے والوں میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب` ملک احمد حسین صاحب` شیخ غلام فرید صاحب نمایاں تھے۔ اس اخبار کے بعض مضامین سے مخالفین میں شور پڑ گیا اور قانونی کارروائی کے لئے اخبار کے ایڈیٹر وغیرہ کو نوٹس دیئے گئے۔ لیکن سارا معاملہ محض نوٹسوں تک ہی محدود رہا اور مخالفین کو احساس ہو گیا کہ احمدیوں کے ہاتھوں میں بھی قلم ہے۔ آخر دس نمبروں کے بعد بعض وجوہ کی بناء پر اخبار بند ہو گیا اور ساتھ ہی اشتہارات کا سلسلہ بھی ایک عرصہ تک بند رہا۔۵۱۴
انجمن حمایت اسلام نیروبی کی طرف سے ردعمل
جماعت احمدیہ نیروبی کے جوابی اشتہارات اور تبلیغی جدوجہد کا ردعمل یہ ہوا کہ نیروبی کی انجمن حمایت اسلام نے احمدیوں کے مقابلہ کے لئے ہندوستان سے مبلغ بلوانے کا فیصلہ کیا اور ۱۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو جناب مولوی ظفر علی خاں صاحب مدیر اخبار >زمیندار< )لاہور( سے بذریعہ خط درخواست کی کہ آپ کسی موزوں شخص کا انتخاب فرمائیں ان کا جواب ۵/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو موصول ہوا کہ وہ مولوی لال حسین صاحب اختر کی سفارش کرتے ہیں چنانچہ انجمن مذکور نے ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کے اجلاس میں یہ سفارش قبول کر لی اور ان کے مصارف سفر )سیکنڈ کلاس( کے لئے تین سو روپیہ کا چیک روانہ کر دیا گیا۔۵۱۵ اور یہ صاحب جلد ہی مشرقی افریقہ پہنچ گئے۔
مستقل مشن کا قیام
جماعت احمدیہ نیروبی کے غیور افراد نے >انجمن حمایت اسلام< کی بڑھتی ہوئی مخالفانہ سرگرمیوں کو اپنے لئے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان سے درخواست کی کہ ہم اپنے خرچ پر ایک مبلغ چھ ماہ کے لئے منگوانا چاہتے ہیں نظارت کی طرف سے معاملہ پیش ہونے پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو مشرقی افریقہ بھیجنے کا ارشاد فرمایا۔
اس فیصلے کے مطابق آپ ۱۱/ نومبر ۱۹۳۴ء۵۱۶ کو تین بجے بعد دوپہر قادیان سے روانہ ہوئے۔ ۱۵/ نومبر کو بمبئی سے TAKLIWA) نامی( جہاز پر سوار ہوئے۔۵۱۷ اور ۲۷/ نومبر کو بخیریت نیروبی پہنچ گئے۔۵۱۸
نیروبی میں کامیاب مناظرہ
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے پیش نظر احمدی مبلغ کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کا ایک وسیع اور بلند نصب العین تھا اور آپ اس تاریک براعظم کو جلد از جلد منور کرنے کی فکر میں تھے مگر اس کے برعکس سائیں لال حسین صاحب محض احمدیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بلائے گئے تھے اس لئے انہوں نے افریقہ میں آتے ہی نور خدا کو اپنی مونہہ کی پھونکوں سے بجھانے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دیں اور احمدیوں کو مناظرے کا چیلنج دے دیا جو شیخ صاحب نے منظور کر لیا اور مسٹر ورما صاحب بیرسٹر` پنڈت دولت رام صاحب اور پنڈت آریہ منی صاحب کی موجودگی میں مناظرہ کے شرائط کا تصفیہ کیا گیا۔ بحث کے لئے تین مضامین تجویز ہوئے۔ )۱( حیات و وفات مسیحؑ )۲( انقطاع و اجرائے نبوت )۳( صداقت مسیح موعودؑ۔ تصفیہ شرائط کے بعد یہ مناظرہ۔ ۲۰/ جنوری ۱۹۳۵ء بروز ہفتہ و اتوار نیروبی مسلم سپورٹس کی وسیع و عریض گرائونڈ میں ہوا۔۵۱۹ جس میں حق و صداقت کو ایسی نمایاں فتح نصیب ہوئی کہ غیر مسلم پبلک نے بھی احمدی مناظر کو مبارکباد دی۔۵۲۰ چنانچہ ایک سکھ اجیت سنگھ صاحب نے اپنی ایک چٹھی میں لکھا۔ >بندہ آپ کے اس مناظرہ میں شامل تھا جس میں کہ آپ کو فتح حاصل ہوئی پس اس کی خوشی میں میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے معاملات میں حق کو پہچاننا نہایت مشکل ہوتا ہے مگر اس دن خدا تعالیٰ کی زبردست طاقت آپ کے ساتھ تھی۔ اور آپ نے حق پہنچا دیا ہے۔ دشمن کی زبان بند ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ جھوٹے پر عذاب کیوں نہیں آتا؟ پس یہ عذاب تھا اور اس سے بڑھ کر اور عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے زبان ہی بند کر دی۔ خیمہ کا گرنا ہی میں تو زبردست نشان سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے اور دوسرے دوستوں نے نوٹ کیا کہ اس کی زبان اب رک رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پبلک نے آپ کو مبارکباد دی۔ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے پھولوں کی روحانی بارش ہوئی۔ >اجیت سنگھ مگاڈی سوڈا کمپنی کینیا کالونی ۳۵/۱ ۲۳<۔۵۲۱
احمدیوں پر حملہ
اس معرکہ نے نیروبی میں احمدیت کی دھاک بٹھا دی اور مخالفین کے حوصلے پست کر دیئے۔ اب سائیں صاحب نے نیروبی کے باہر کے علاقوں کی طرف رخ کیا۔ شیخ مبارک احمد صاحب نے بھی ان کا تعاقب کیا اور جہاں بھی مباحثہ کی دعوت دی گئی آپ نے اسے قبول کر لیا۔ چنانچہ ۲۔ ۳/ فروری ۱۹۳۵ء کو میگاڈی میں کامیاب مناظرے کئے ایک مناظرہ ۱۰/ فروری ۱۹۳۵ء کو نیروبی سے قریباً دو سو میل کے فاصلہ پر ایک بستی >میرو< میں ہوا۔ اس مناظرہ میں احمدی مناظر نے چیلنج دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے قرآن سے آسمان کا لفظ دکھانے پر سوشلنگ انعام دوں گا۔ سائیں صاحب کو آخر وقت تک وہاں مرد میدان بننے کی جرات نہ ہو سکی۔۵۲۲ مگر واپسی پر نیری۵۲۳ (NYERI) کے مقام پر احمدیت کے خلاف ایک زہر آلود تقریر کرکے بدلہ لینا چاہا۔ دوران تقریر ایک احمدی میاں عبداللطیف صاحب۵۲۴ نے چند سوالات کے لئے وقت مانگا۔ انہوں نے جواب دیا تم جاہل ہو اپنے مولوی کو میرے سامنے لائو۔ عبداللطیف صاحب نے کہا مولوی صاحب آجائیں گے مگر پہلے میرے سوالات کا جواب دیں بڑی لے دے کے بعد انہوں نے بعض انتہائی غیر معقول شرائط پیش کیں۔ جو عبداللطیف صاحب نے تسلیم بھی کر لیں مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں ۲/ مارچ کو دوبارہ آئوں گا۔ تب جواب دوں گا۔
چنانچہ ۲/ مارچ کو شیخ مبارک احمد صاحب بعض اور احمدیوں سمیت نیری پہنچ گئے۔ سائیں صاحب اس وقت تقریر کر رہے تھے۔ عبداللطیف صاحب نے صدر سے وقت مانگا۔ سائیں صاحب نے جھٹ کہہ دیا کہ کیا کوئی تحریری ثبوت میرے وعدے کا پیش کر سکتے ہو؟ اس پر شیخ مبارک احمد صاحب نے کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ علی الاعلان وعدہ کرکے انکار کیا جاتا ہے۔ ابھی آپ یہ فقرہ مکمل بھی نہ کر پائے تھے کہ نیری کے ایک مشہور تاجر عثمان علو نے تالی بجائی اور ساتھ ہی بعض افریقنوں نے شیخ مبارک احمد صاحب پر حملہ کر دیا۔ مکرم عبداللطیف صاحب نے بہت وار اپنے بازوں پر لئے اور شیخ صاحب اور دوسرے احمدیوں کو چوٹیں آئیں۔ جب تک نادان لوگ خود ہی مارنے کے بعد ادھر ادھر نہ چلے گئے احمدی وہیں موجود رہے۔۵۲۵
بائیکاٹ کا حربہ
اس طرح کے اوچھے ہتھیاروں پر اترنے کے بعد لال حسین صاحب نے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی۔ اور نیروبی` ممباسہ` کسومو` نکورو وغیرہ شہروں میں بھی احمدیوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس آگ کو مرکزی انجمن حمایت اسلام نے بہت ہوا دی۔
جمالی اور جلالی نشان
کچھ دنوں کے بعد سائیں لال حسین صاحب جنجہ )یوگنڈا( پہنچے تو وہاں کی مقامی انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری عبدالغفور صاحب نے جو سائیں صاحب کو جنجہ بلانے کے محرک تھے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مخالفت کی۔ اس پر وہ عبدالغفور صاحب کے درپے آزار ہو گئے اور انہوں نے تحقیق و مطالعہ کے بعد ۱۹۳۶ء میں بیعت کر لی اور عدن سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ عریضہ لکھا۔
سیدنا و مولانا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسلمین خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`۔ پس از سلام الاسلام مسنون عارض ہوں کہ خاکسار کا نام محمد عبدالغفور ہے اور گزشتہ سال جب آپ کے نظام تبلیغ کے ماتحت شیخ مبارک احمد صاحب مشرقی افریقہ تشریف لائے اور ان کے مقابلہ کے لئے مسلمانوں نے مولوی لال حسین صاحب اختر کو افریقہ بلایا۔ تو ان دنوں خاکسار اہل سنت و الجماعت کی انجمن کا سیکرٹری تھا۔ لال حسین صاحب کی آمد پر بڑا شور و غوغا مچا۔ ظاہری نمائش کے مطابق ان کا استقبال کیا گیا اور زمین و آسمان کا درمیانی خلا ان کی تعریف سے پر کر دیا گیا۔ آخر کار جب لیکچروں کا بندوبست کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اختر صاحب سوائے طوطے کی رٹ کے کچھ نہیں جانتے۔
اس وقت تعصب کی پٹی آنکھوں پر بندھی تھی مگر وہ اس طرح سرکنی شروع ہوئی کہ جب اختر صاحب سے کوئی سوال کیا تو فوری جواب ملا کہ کیا احمدیوں سے ملاقات کی ہے ان کی تعلیم کا اثر گفتگو سے مترشح ہوتا ہے۔ لوگوں نے منع کیا کہ مولوی صاحب محتاط رئیے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ شخص آپ کے یہاں ہوتے ہوئے احمدی ہو جائے۔ آخر جب احمدیوں کے بائیکاٹ کا فتنہ شروع ہوا تو بندہ نے صدر صاحب سے اجازت حاصل کرکے اپنی یہ رائے ظاہر کی کہ آغا خانی اور شیعہ وہابی وغیرہ وغیرہ کا بائیکاٹ بھی ہونا چاہئے اور اگر آپ بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کریں گے تو نصاریٰ` یہودی` اہل ہنود` سکھ` پارسی سب کا کرنا ہو گا۔ پھر اختر صاحب تبلیغ کسے کریں گے۔ الٹے پائوں انہیں ہندوستان جانا پڑے گا۔ اس پر بعض لوگوں نے جو کہ منیجنگ میٹنگ کے ممبر تھے۔ میری حمایت کی اور کہا مولانا فی الحال یہ قدم اٹھانے کے لئے لوگ تیار نہیں اس ناکامی سے جھلا کر مولوی صاحب مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئے۔ اس وجہ سے ملازمت چھوڑنی پڑی۔ ایک خاندان میں میرا رشتہ قرار پا چکا تھا اس سے دستبردار ہونا پڑا<۔۵۲۶
انجمن کے سیکرٹری کا احمدی ہو جانا ایک جمالی نشان تھا لیکن ایک جلالی نشان کا ظہور ابھی باقی تھا یعنی اس انجمن کے بانی مبانی اور روح رواں سید احمد الحداد کی عبرتناک ہلاکت۔۵۲۷ سید احمد الحداد میگاڈی میں کمپنی کے منظور کردہ راشن اور پٹرول کی دکان کے مالک تھے۔ ساری آبادی کی سپلائی کا یہی ایک سٹور تھا۔ اس لئے وہ بہت بڑی تجارت کے مالک تھے۔ آخر نیروبی سے میگاڈی کے رستے میں موٹر کے حادثہ میں لقمہ اجل ہوئے۔ جس کا اثر انجمن حمایت اسلام کی مساعی پر بھی ہوا اور مخالفت میں نمایاں کمی ہو گئی اور پہلا ساز ورنہ رہا۔ اور ۱۹۳۶ء میں لال حسین صاحب اختر بھی واپس ہندوستان چلے جانے پر مجبور ہوئے۔۵۲۸
رسالہ >ماپینزی یا مانگو< کا اجراء
جب حالات کچھ سازگار ہوئے تو شیخ مبارک احمد صاحب نے تبلیغ اسلام کے بنیادی اور اساسی کام کی طرف پوری توجہ شروع کر دی اور جنوری ۱۹۳۶ء میں ممباسہ سے >ماپینزی یا مانگو< MANGU) YA (MAPENZI کے نام سے ایک ماہوار سواحیلی رسالہ جاری کیا۔۵۲۹text] gat[ رسالہ کا پہلا نمبر ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ دوسرے نمبر سے اس کی اشاعت دو ہزار کر دی گئی اور پہلے نمبر کو بھی دوبارہ دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ چند ہی نمبر شائع ہوئے تھے کہ عیسائیوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ اور )رسالہ رفیقی ییٹو YETU) (RAFIKI کے ایک یورپین ایڈیٹر نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ایک چٹھی میں لکھا کہ تم نے اپنے آپ کو سخت جنگ میں ڈال دیا ہے اور تم ناکام رہو گے۔۵۳۰
اسی رسالہ نے اگست ۱۹۳۷ء کے پرچہ میں اعلان کیا کہ جو کوئی یہ رسالہ پڑھے گا وہ گناہگار ہو جائے گا ہر کیتھولک کو چاہئے کہ اس قسم کا رسالہ جب بھی اس کے ہاتھ میں آجائے۔ تو آگ میں اسے ڈال دے۔۵۳۱
مگر چرچ کی مخالفت کے باوجود یہ رسالہ آج تک کامیابی سے جاری ہے اور اس نے ملک میں زبردست حرکت پیدا کر دی ہے۔
احمدیہ مسلم سکول ٹبورا
افریقن میں تبلیغ کے لئے تعلیم کا انتظام از بس ضروری تھا۔ اس ضرورت کے پیش نظر شیخ مبارک احمد صاحب نے ٹبورا۵۳۲ میں احمدیہ مسلم سکول کی بنیاد رکھی اس سکول کے قیام کی راہ میں بہت مشکلات پیدا کی گئیں۔ اور حکومت کے افسروں میں سے خصوصاً مسٹر بیگشا BAGSHAW) (MR نے جو ان دنوں پراونشل کمشنر اور مذہباً کیتھولک تھے اس کی سخت مخالفت کی مگر کئی ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد محکمہ تعلیم کی طرف سے منظور مل گئی اور ۱۱/ جنوری ۱۹۳۷ء کو اس پہلے احمدیہ سکول کا افتتاح کیا گیا۔۵۳۳ بٹورا سکول کے افتتاح سے نہ صرف عیسائیوں کو یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ہمارے مقابلہ کے لئے مستقل طور پر ایک جماعت میدان میں نکل آئی ہے بلکہ حکومت نے بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا چنانچہ ۱۹۳۶ء کی سالانہ رپورٹ میں لکھا کہ۔
>یہ امر قابل ذکر ہے کہ سب سے پہلی منظم تبلیغی سوسائٹی یعنی >احمدیہ ہندوستانی مشن< نے دوران سال میں افریقن باشندوں میں کام شروع کیا۔ ان کا سب سے پہلا سکول ٹبورا شہر میں قائم کیا گیا ہے جس کی حاضری کافی ہے۔ )صفحہ ۱۸(۵۳۴
افسوس مخالفین کی شورش اور بائیکاٹ کے باعث ۴۱۔۱۹۴۰ء میں یہ سکول بند کر دیا گیا۔
تبلیغ اسلام کے دوسرے ذرائع
سکول کے اجراء کے بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے اشاعت اسلام کے دوسرے ذرائع کی طرف بھی خاص توجہ دینا شروع کر دی۔
سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے لئے ہفتہ میں دو دن وقت رکھا جاتا تھا۔ عیسائی مشنری اس سے فائدہ اٹھاتے تھے مگر مسلمانوں نے اس سے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ مکرم شیخ صاحب نے افریقن سکول بٹورا میں باقاعدگی سے لڑکوں کو دینی تعلیم دینا شروع کی۔ گورنمنٹ سکول بٹورا کے بعض طالب علم جو آپ کے زمانہ میں پڑھتے تھے۔ آزادی کے بعد اکثر حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔
سکولوں کے علاوہ ٹبورا جیل میں بھی انہوں نے پیغام حق پہنچانا شروع کیا جس سے بہت عمدہ نتائج برآمد ہوئے اور یہ طریق سلسلہ کی شہرت کا باعث بھی ہوا۔ چنانچہ حکومت کی سالانہ رپورٹ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا کہ۔
دوران سال میں ایک نیا مسلم استاد ٹبورا میں آیا ہے جس نے خوابیدہ اور پرانے خیال کے باشندوں میں اپنی قوت کے ساتھ ہلچل پیدا کر دی ہے وہ پرامن طریق سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔۵۳۵ )ترجمہ(
تبلیغ اسلام و احمدیت کے لئے آپ نے اور بھی کئی طریق اختیار کئے۔ مثلاً انفرادی ملاقاتیں` جلسے` مقامی اخبارات۵۳۶ میں مضامین کی اشاعت` تقسیم کتب` تبلیغ بذریعہ خطوط` بلند پایہ شخصیتوں کی دعوتیں` مناظرات جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ`~ ریڈیو سے تقاریر` تبلیغی مجالس کا قیام` یوم التبلیغ غیر مسلموں کی مذہبی کانفرنسوں میں شمولیت وغیرہ وغیرہ۔
نیروبی میں مخالفت کا نیا دور
۳۸۔ ۱۹۳۷ء میں یہاں مخالفت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مشرقی افریقہ کا ساحل چونکہ ہندوستان کے ساحل سے نزدیک ہے۔ اس لئے ہندوستان میں جب کوئی تحریک اٹھتی ہے اس کی بازگشت فوراً مشرقی افریقہ میں بھی سنائی دیتی ہے چنانچہ ۱۹۳۴ء۵۳۷ کی احراری شورش کی طرح یہاں بھی شورش پیدا ہو گئی۔ پھر ۱۹۳۷ء۵۳۸ میں مصری صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا لٹریچر خاص طور پر افریقہ کے غیر احمدیوں نے منگوایا اور پھیلا دیا۔ جو ٹریکٹ ہندوستان میں ضبط ہوتے اس جگہ ان کی اشاعت کی جاتی۔
نیروبی کی انجمن حمایت اسلام نے اس سال کئی ہزار شلنگ خرچ کرکے اپنا پریس قائم کیا اور ایک اخبار >مسلم< کے نام سے جاری کر دیا اور اس میں احمدیت کے خلاف گند اچھالنے لگے اسی طرح یوگنڈا کی مسلم ایسوسی ایشن نے افریقن باشندوں میں زہریلا پروپیگنڈا کیا اور پرنس بدرو کی طرف سے )جو بگنڈا۵۳۹ کے عیسائی بادشاہ کے چچا اور افریقن مسلمانوں کے لیڈر تھے( اشتہار دیا کہ شیخ مبارک احمد اس علاقے کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ لوگ اس کی باتیں نہ سنیں اور اس سے بچیں۔۵۴۰
اس مخالفت کا اثر یہ ہوا کہ جہاں عام لوگ احمدی لٹریچر پڑھنے سے گریز کرنے لگے وہاں افریقن احمدی جماعت کے مخصوص مسائل پر خدا کے فضل سے اور پختہ ہو گئے اور برملا کہنے لگے کہ >اگر احمدیت کفر ہے تو جائو ہم کافر ہی سہی<۔۵۴۱
ٹبورا )ٹانگا نیکا( میں مقدمات
۱۹۳۷ء کے شروع میں مخالفت کی لہر نیروبی سے گزرتی ہوئی ٹبورا میں بھی پہنچ گئی اور احمد صالح )افریقن مجسٹریٹ( پولیس کے افسر` ڈسٹرکٹ آفیسر اور مقامی پنجابی سب کے سب شیخ مبارک احمد صاحب کی تبلیغی سرگرمیوں کو روکنے میں متحد ہو گئے اور بالاخر احمد صالح نے سازش کرکے ان کے اور قاری محمد یٰسین صاحب کے خلاف دو جھوٹے مقدمات کھڑے کر دیئے۔ ایک مقدمہ PASS) (TRESS اور دوسرا مذہبی جذبات کے مجروح کرنے کا۔ ان مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں ہوئی۔ مزرا بدر الدین صاحب بیرسٹر اور مسٹرنینے ایڈووکیٹ نے وکالت کی غیر احمدی مولویوں نے بڑے بڑے جبے پہن کر اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر عدالت میں جھوٹی گواہیاں دیں۔ پادری بھی دیکھنے آئے کہ احمدی مبلغ مجرموں کے کٹہرہ میں بیٹھا ہے۔ تقریباً گیارہ دن دونوں مقدمات کی سماعت ہوئی اور آخر عدالت نے ایک مقدمہ میں ۱۰۰ شلنگ شیخ مبارک احمد صاحب کو جرمانہ کیا اور محمد یاسین صاحب بری کر دیئے گئے اور دوسرے مقدمہ میں محترم شیخ صاحب کو تابر خاست عدالت قید` ایک سال کے لئے حفظ امن کی دو ضمانتیں اور ۲۰۰ شلنگ جرمانہ۔۵۴۲ اور محمد یاسین صاحب کو سوشلنگ جرمانہ کیا گیا۔ اس فیصلہ پر مخالفین احمدیت کی چڑھ بنی اور انہوں نے مشورہ کر دیا کہ احمدی مبلغ نکلوا دیا گیا ہے۔۵۴۳
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کا بیان ہے کہ شہر کا افریقن مجسٹریٹ احمد صالح اشد مخالف تھا اور مقدمات وغیرہ بھی اس نے شروع کرائے تھے۔ جس احمدی افریقن کے خلاف مقدمہ اس کے پاس جاتا تو خواہ وہ معاملہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہوتا وہ اپنے پورے اختیارات کو کام میں لے آتا۔ ہمارے دو افریقن بھائیوں کا اپنی بیویوں سے کسی بات پر اختلاف تھا ان میں سے ایک کو اس نے اپنی عدالت میں پٹوایا۔ اور پھر توہین عدالت کے الزام میں اسے ۵۰ شلنگ جرمانہ بھی کر دیا۔ میں نے اس شخص کا معاملہ ڈسٹرکٹ آفیسر کے سامنے رکھا اور اسے پوری طرح سمجھایا مگر وہ افریقن مجسٹریٹ کا طریق کار درست ہی قرار دیتا رہا۔ حالانکہ اس بات کی شہادت بھی اس کے سامنے رکھی گئی تھی وہ احمدی محض >قادیانی< کہہ کر پیٹا گیا۔ اور پھر ہتھکڑی لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ شخص مجسٹریٹ کی توہین کے درپے تھا۔ ساتھ ہی جب احمدی معلم مسعودی کے بھائی نے کہا کہ کیوں بے گناہ پر ظلم کرتے ہو تو اسے بھی ساتھ ہی ہتھکڑی لگا دی گئی اور اس سے کہا گیا کہ اچھا تم بھی اس کی مدد کرتے ہو۔
غرض کہ افریقن مجسٹریٹ نے خاص طور پر مخالفت میں حصہ لیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ احمدیوں کی نعشیں قبرستانوں میں دفن کئے جانے سے انکار کیا جانے لگا۔ راہ چلتے احمدیوں کو گالیاں دی جاتیں۔ ٹبورا میں یہ جوش و خروش مقدمات کے بعد کافی دیر تک قائم رہا۔۵۴۴ البتہ ٹبورا سے باہر اردگرد کے علاقہ میں اس کا کوئی زیادہ اثر نہ تھا بلکہ مخالفین کی غلط بیانیوں اور ستم رانیوں پر خود ٹبورا کے بعض حلقوں میں نفرت کا اظہار کیا گیا اور فیصلہ مقدمہ کے معاًبعد بیس سے زائد افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔۵۴۵
بالاخر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓکی ہدایت پر اس فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دی گئی۔ مسٹر ہرے سیرین بیرسٹر نے پیروی کی۔ ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۷ء کو چیف جسٹس BRUCE) KNIGHT ۔C۔(K نے فیصلہ سنایا کہ دونوں مقدمات میں عدالت ماتحت اور پولیس کی کارروائی سراسر غیر مناسب اور روح آئین کے خلاف ہے۔ فاضل جج نے PASS TRESS کے مقدمہ میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو بالکل بری کر دیا اور دوسرے مقدمہ میں ضمانتیں خلاف قانون قرار دیں اور ۲۰۰ کی بجائے جرمانہ ۵۰ شلنگ کر دیا۔
ہائیکورٹ کا فیصلہ ٹبورا میں پہنچا تو نہ معلوم افریقن میں کیسے مشہور ہو گیا کہ احمدی مبلغ اپیلوں میں جیت گیا اور مجسٹریٹوں اور پولیس کو فیصلہ میں برا بھلا کہا گیا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے احمدیت کا ایک رعب لوگوں میں بیٹھ گیا اور ان کے جوش و خروش میں بھی کمی آگئی۔۵۴۶
احمدیہ مسجد ٹبورا
مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں ایک اہم ضرورت یہ تھی کہ ملک کے طول و عرض میں مساجد تعمیر کی جائیں۔ گرجوں کی بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر افریقنوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ شاید گرجے ہی ان کی ترقی کی بنیاد ثابت ہوں گے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی دور رس نگاہ نے اس اہم ضرورت کو محسوس کیا اور شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت فرمائی کہ مساجد کی تعمیر کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ اس ملک میں جماعت احمدیہ کے لئے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل نے یہ آسان کر دیا اور ہر طرح کی مشکلات کے باوجود جماعت متعدد مساجد تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سلسلہ میں شیخ صاحب کے زمانہ میں پہلی مسجد ٹبورا میں تعمیر ہوئی۔ جماعت احمدیہ ٹبورا کے ہندوستانی افراد نے ۱۹۳۵ء میں فری ہولڈ شہر کے وسط میں مسجد کے لئے ایک قطعہ خریدا۔ جنوری ۱۹۴۱ء میں ٹائون شپ اتھارٹی سے تعمیر مسجد کی آخری منظوری مل گئی یکم فروری ۱۹۴۱ء کو ابتدائی انتظامات شروع کر دیئے گئے اور احمدیوں نے پہلے بنیادیں کھودیں پھر تین
‏tav.7.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
تین دن تک مختلف مقامات سے پتھر اٹھا کر لاتے اور مسجد کی زمین پر جمع کرتے رہے۔ جب سب تیاری مکمل ہو گئی تو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ۷/ فروری ۱۹۴۱ء کو بعد نماز جمعہ مسجد کی بنیاد رکھی یہ تقریب پونے تین بجے بخیر و خوبی ختم ہوئی اور سب احمدی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
تین بجے کے قریب مکرم شیخ مبارک احمد صاحب بعض اور احمدیوں کے ساتھ ایک احمدی کی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک مخالفین کا ایک جم غفیر ہاتھوں میں ڈنڈے لئے آپ کی طرف بڑھنے لگا۔ دراصل جیسا کہ بعد کو علم ہوا یہ لوگ اپنی مجلس میں فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر تعمیر مسجد کی یہ اجازت منسوخ نہ کی گئی تو آپ قتل کر دیئے جائیں۔ اس سوچی سمجھی تجویز کے مطابق پہلے ایک شخص سائیکل پر آیا اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو موجود پاکر سواحیلی زبان میں کہنے لگا شیخ مبارک بیٹھا ہے مار ڈالو اس پر ہجوم نے دکان کا محاصرہ کر لیا احمدیوں نے فوراً دروازے بند کر دیئے حملہ آور دروازے توڑتے رہے لیکن اندر داخل نہ ہو سکے اور خیال کیا کہ مبارک احمد کسی اور رستہ سے اپنے گھر چلے گئے ہیں یہ سوچ کر وہ آپ کے مکان کی طرف دوڑے آپ کی اہلیہ صاحبہ اس وقت مکان میں تھیں۔ مگر دروازے بند تھے۔ اس لئے یہ لوگ وہاں شور و شر کرکے واپس آگئے پھر ایک احمدی دوست محمد اصغر صاحب لون پر )جو اپنے مکان میں داخل ہو رہے تھے( حملہ کر دیا کچھ چوٹیں بھی ان کو آئیں۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو ہجوم بھی داخل ہو گیا۔ اتنے میں اصغر صاحب بندوق اٹھا لائے۔ بندوق دیکھتے ہی فسادی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو احمدی اس وقت شورش پسندوں کے سامنے آیا۔ اسے انہوں نے خوب پیٹا۔ یہ لوگ شیخ صالح۵۴۷ افریقن مبلغ کے مکان پر بھی گئے وہاں بھی احمدیوں نے دروازہ نہ کھولا۔ احمدیہ سکول میں ایک بوڑھے احمدی مزیع عرفہ رہتے تھے۔ یہ لوگ ان پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے احمدی جو گھروں کو جا چکے تھے۔ شیخ مبارک احمد صاحب کی حفاظت کے لئے ان کے مکان پر پہنچے۔ شہر میں دکانیں بند ہو گئیں اور دہشت پھیل گئی تھوڑے وقفہ کے بعد )ڈسٹرکٹ کمشنر( مسٹر ویرین )سپرنٹنڈنٹ پولیس( مسٹر نعیم اور )سینیٹری انسپکٹر( مسٹر بولٹن سپاہیوں کے دستے کے ساتھ پہنچ گئے اور شام چھ بجے تک پوری توجہ اور فرض شناسی سے کام کرتے رہے۔ ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس شام کے وقت مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگلی صبح کو پراونشل کمشنر آپ سے اپنے دفتر میں ملنا چاہتے ہیں۔ مسجد کے سلسلہ میں ضروری کاغذات لے کر پہنچ جائیں۔
چنانچہ اگلے روز ۸/ فروری کو آپ پراونشل کمشنر سے ملے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ احمدی اس جگہ مسجد نہ بنائیں۔ سارا معاملہ گورنر صاحب بہادر کے پاس پہنچا اور انہوں نے بھی تیسرے دن یہ احکام صادر کر دیئے کہ حکومت فی الحال موجودہ حالات کے پیش نظر اس مخصوص پلاٹ پر تعمیر مسجد کی اجازت نہیں دے سکتی۔۵۴۸
اب مسجد کی زمین کے لئے کوششیں دوبارہ شروع کر دی گئیں۔ بالاخر حکومت نے ۱۹۴۲ء کے آغاز میں دس ہزار مربع فٹ کا ایک نہایت عمدہ اور باموقعہ قطعہ ننانوے سال کی اقساط اور صرف ایک شلنگ سالانہ کرایہ پر دے دیا۔ یہ جگہ پہلے تجویز شدہ مقام سے بدرجہا بہتر تھی اور یہ خدائی تصرف تھا کہ اس نے خود مخالفین کے ہاتھوں احمدیہ مسجد کے لئے اعلیٰ جگہ دلا دی۔
یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا جبکہ شمالی افریقہ لڑائی کا میدان بنا ہوا تھا اور حکومت نے ہر قسم کے عمارتی سامان پر کنٹرول کر رکھا تھا۔ مگر اس نے تعمیر مسجد کے لئے فراخدلی سے سامان کی اجازت دے دی اور مقامی ٹائون شپ اتھارٹی نے بھی اور شیخ مبارک احمد صاحب نے جماعت کے تعاون سے مسجد کے سامان کی فراہمی کا اکثر و بیشتر انتظام کر لیا۔
اب معماروں اور مزدوروں کا سوال تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے بھی ایک عجیب سامان پیدا کر دیا۔ جس کی تفصیل مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ جب ہم حکومت کی طرف سے دی گئی زمین پر مسجد تعمیر کرنے لگے تو افریقن ترکھانوں اور معماروں نے )مخالفت کے باعث( کام کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے کام رک گیا لیکن جلد ہی جنگ شروع ہو گئی اور تین ہزار اٹالین قیدی مشرقی افریقہ آگئے۔ ان قیدیوں میں لکٹری اور عمارت بنانے والے بہترین کاریگر تھے۔ مشرقی افریقہ میں معمار اور ترکھان بیس شلنگ روزانہ لیتے ہیں لیکن ہمیں یہ قیدی دو شلنگ روزانہ پر دستیاب ہونے لگے۔ ان قیدیوں کے کیمپ کا کمانڈر ایک رومن کیتھولک کرنل تھا۔ جب عیسائیوں نے دیکھا کہ قیدی ہماری مسجد تعمیر کر رہے ہیں تو اس کرنل کو لکھا اور اس نے قیدی بھیجنے بند کر دیئے اور اس طرح مسجد کی تعمیر کا کام درمیان میں ہی رک گیا۔ میں دارالسلام گیا اور وہاں ایک یورپین افسر سے ملا میرے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ اس نے ڈائریکٹر آف مین پاور۵۴۸ کو فون کیا کہ یہ بہت بری حرکت ہے قیدی عیسائیوں کے گرجے بناتے ہیں لیکن مسجد تعمیر کرنے سے وہ روکے جاتے ہیں۔ دوسرے دن ڈائریکٹر آف مین پاور نے مجھے بلایا اور پھر قیدیوں کے انچارج کو تار دیا کہ مسجد کی تعمیر کے لئے قیدیوں کو ریلیز کیا جائے۔۵۴۹
شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے مسجد کی بنیاد۵۵۰ ۲۷/ جون ۱۹۴۲ء کو رکھی اور خدا کے توکل پر کام شروع کرا دیا۔ تعمیر کے دوران پتھر ختم ہو گئے رمضان کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کا موسم۔ مگر افریقن احمدی تین روز تک شہر کے قریب ایک پہاڑ سے پتھر کاٹتے اور جمع کرتے رہے۔۵۵۱ اس موقعہ کے علاوہ بھی متعدد بار انہوں نے یہ خدمت رضاکارنہ طور پر انجام دی۔
آخر نومبر ۱۹۴۴ء میں پینتیس ہزار شلنگ سے یہ مسجد پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔۵۵۲`۵۵۳ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا نام مسجد فضل تجویز فرمایا اور ۱۴/ دسمبر ۱۹۴۴ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے کیا۔
اس تقریب کے لئے سلطان آف زنجبار` گورنر ٹانگا نیکا` گورنر کینیا کالونی چیف سیکرٹری ٹانگا نیکا` ڈائریکٹر محکمہ تعلیم` ایڈ منسٹریٹر سیکرٹری` امریکن` پولش اور نیدرلینڈ کے قونصلوں ` اثنا عشری` سنی کمیونٹی اور پارسی کمیونٹی نے پرجوش پیغامات بھجوائے تھے۔ اسی طرح دنیا میں پھیلی ہوئی احمدی جماعتوں نے بذریعہ تار مبارکباد کے پیغامات دیئے۔ جو چوہدری مختار احمد صاحب ایاز نے پڑھ کر سنائے۔۵۵۴
اس علاقہ کے بااثر اخبارات >ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ<۔ >ٹانگا نیکا سٹینڈرڈ<۔ >افریقہ سنیٹنیل<۔ >کینیا ڈیلی میل< اور >برازا< نے افتتاح کی تفصیلی خبر شائع کی اور ۱۶/ جنوری ۱۹۴۵ء کو نیروبی ریڈیو سٹیشن سے یہ تقریب نشر کی گئی۔ علاوہ ازیں حکومت کے خاص انتظام کے تحت بی۔ بی۔ سی سے ایک خاص مضمون بھی نشر کیا گیا۔
مشرقی افریقہ کے لئے نئے مجاہدین کی روانگی اور دائرہ تبلیغ میں وسعت
مشرقی افریقہ میں تبلیغ کا کام چونکہ پہلے سے بہت بڑھ چکا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مرکز سے نئے مجاہدین بھجوانے کا
فیصلہ فرمایا۔ سب سے پہلے مولوی نور الحق صاحب انور ۲۲/ اکتوبر ۱۹۴۵ء۵۵۵ کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۷/ نومبر ۱۹۴۵ء۵۵۶ کی صبح کو ممباسہ پہنچے۔ مکرم مولوی نور الحق انور کے پہنچنے کے بعد مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے )جو ان دنوں مشرقی افریقہ ملٹری میں ملازم تھے( زندگی وقف کر دی اور اسلامی فوج کے سپاہیوں میں داخل ہو گئے اور جولائی ۱۹۴۶ء سے اسی ملک میں تبلیغی خدمات بجا لانے لگے اور ایک لمبے عرصہ تک نیروبی` کسوموں` جنجہ` ٹبورا اور دارالسلام وغیرہ مقامات پر نہایت محنت و خلوص سے اعلائے کلمتہ اللہ میں مصروف رہے۔۵۵۷
مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب کے میدان تبلیغ میں آنے کے بعد فروری ۱۹۴۷ء۵۵۸ میں چھ مجاہدین کا ایک قافلہ قادیان سے بھجوایا گیا جو میر ضیاء اللہ صاحب` مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر۔۵۵۹ سید ولی اللہ صاحب` مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل۔۵۶۰ مولوی جلال الدین صاحب قمر۵۶۱ اور حکیم محمد ابراہیم صاحب۵۶۲ پر مشتمل تھا۔ یہ مبلغین ۲۸/ فروری ۱۹۴۷ء کو دارالسلام پہنچے۔۵۶۳ اور تین ماہ تک ٹبورا میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے سواحیلی سیکھنے اور دوسری ضروری ٹریننگ لینے کے بعد آخر جون ۱۹۴۷ء میں نیروبی` کسوموں` یوگنڈا` ٹانگا نیکا اور ٹبورا میں متعین کر دیئے گئے۔۵۶۴ جس سے ملک کے طول و عرض میں تبلیغ اسلام کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی اور خاص بات یہ ہوئی کہ احمدیت خاص طور پر افریقنوں میں بھی پھیلنے لگی۔ چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا۔
>ایسٹ افریقہ میں ہماری جماعت بہت مضبوط تھی مگر مقامی باشندوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی تھی یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ مقامی باشندے ہماری بات ہی نہیں سنتے۔ میں انہیں یہی کہتا تھا کہ تم اپنی بات انہیں سناتے ہی نہیں ہو۔ اس لئے کہ پنجابیوں میں اپنی زبان میں تبلیغ کرلینا زیادہ آسان ہے ہندوستانیوں میں تبلیغ کر لینا زیادہ آسان ہے۔ میں نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت دی کہ وہ افریقنوں میں بھی تبلیغ کی طرف توجہ دیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں توفیق دی ہمارے ایک نوجوان۵۶۵ جو وہاں کام کرتے تھے انہوں نے زندگی وقف کر دی میں نے لکھا۔ انہیں وہیں رکھ لو ۔۔۔۔۔۔ شیخ مبارک احمد صاحب نے زائد آدمی مل جانے پر میری ہدایت کے مطابق انہیں افریقنوں میں تبلیغ پر لگا دیا۔ چھ سات ماہ کے بعد دو چار افریقن جماعت میں داخل ہو گئے۔ پھر انہیں چاٹ لگ گئی۔ اب خط آیا ہے کہ وہاں ایک آدمی کے ذریعہ چالیس افریقن احمدیت میں داخل ہوئے ہیں وہاں اب ہمارے کافی مبلغ کام کر رہے ہیں۔ ویسٹ افریقہ میں ہزاروں مقامی لوگ جماعت میں داخل ہیں۔۵۶۶
مشرقی افریقہ کے نئے مراکز کو تقویت پہنچانے کے لئے قیام پاکستان کے بعد جو مجاہدین حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم سے اب تک اس ملک میں تشریف لے گئے ان کے نام یہ ہیں۔
مولوی محمد منور صاحب۔۵۶۷body] [tag مولوی عبدالکریم صاحب شرما۔۵۶۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری احسان الٰہی صاحب جنجوعہ۔ مولوی نور الدین صاحب منیر۔۵۶۹ حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب )یوگنڈا(۵۷۰ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر۔۵۷۱ حافظ محمد سلیمان صاحب )نیروبی کسموں(۵۷۲ مولوی منیر الدین احمد صاحب )نیروبی کسموں(۵۷۳ مولوی عبدالخالق صاحب۔۵۷۴ مولوی عبدالرحمن صاحب سیلونی )ٹبورا(۵۷۵ ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق )دارالسلام(۵۷۶ مولوی رشید احمد صاحب سرور ٹبورا )ٹانگا نیکا(۵۷۷ قاضی نعیم الدین احمد صاحب )کسموں(۵۷۸ صوفی محمد اسحق صاحب )یوگنڈا۔ کینیا(۵۷۹ شیخ ابوطالب صاحب عیدی ساندھی صاحب )ٹانگا نیکا(۵۸۰ مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح ¶)یوگنڈا(۵۸۱ قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی )نیروبی(۵۸۲ مولوی روشن دین صاحب )کینیا(۵۸۳ ملک احسان اللہ صاحب )دارالسلام(۵۸۴ مولوی عبدالرشید صاحب رازی )ٹبورا(۵۸۵ مرزا محمد ادریس صاحب )یوگنڈا(۵۸۶ محمد عیسیٰ صاحب )کینیا(۵۸۷
ان سب مبلغین کی ان تھک کوشش` محنت` ایثار اور اخلاص کا یہ نتیجہ ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور احمدیت کے قدم مضبوط سے مضبوط تر ہو گئے ہیں۔
جماعت ہائے مشرقی افریقہ کی سالانہ کانفرنس
جب ٹبورا کی مسجد کا ۱۹۴۴ء میں افتتاح ہوا اور مشرقی افریقہ کے مختلف علاقوں سے احمدی شامل ہوئے تو مشرقی افریقہ کی سالانہ کانفرنس بھی منعقد کی گئی اس کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ہر سال مشرقی افریقہ کے احمدیوں کی کانفرنس ہوا کرے اس کے بعد دوسری کانفرنس کا انعقاد دسمبر ۱۹۴۵ء میں نیروبی کے مقام پر ہوا۔ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ کے علاوہ اس میں مولوی نور الحق صاحب انور شیخ امری عبیدی صاحب مرحوم اور شیخ صالح صاحب بطور مبلغین شامل ہوئے۔ چند سال بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم پر مشن کے بجٹ` اخراجات اور آمد کے علاوہ گزشتہ جدوجہد کے جائزہ اور نئے سال کا پروگرام مرتب کرنے کے لئے مالی اور تبلیغی معاملات کی دو سب کمیٹیاں تشکیل کی گئیں جن میں ہر سال چھ مبلغین اور چھ منتخب نمائندے مشرقی افریقہ کے شامل کئے جاتے تھے۔ ان کمیٹیوں کے صدر رئیس التبلیغ شیخ مبارک احمد صاحب تھے۔۵۸۸]4 [rtf
اس نئے طریق پر کانفرنس پہلی بار کمپالہ میں پھر نیروبی میں ہوئی اور پھر باقاعدہ ہر سال منعقد ہوتی رہی۔ آخری کانفرنس دسمبر ۱۹۶۰ء میں دارالسلام کی مسجد میں منعقد ہوئی۔
ٹبورا کے پادریوں کا مقابلہ
جولائی اگست ۱۹۵۰ء کا واقعہ ہے کہ ٹبورا کے ایک رومن کیتھولک پادری نے اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے خلاف اپنے رسالہ <KIONGOZI> میں بہت کچھ لکھا اور مولوی جلال الدین صاحب قمر نے راتوں رات مکرم امری عبیدی صاحب کی معیت میں ایک مختصر سا اشتہار احمدیہ پریس بٹورا۵۸۹ سے شائع کیا جس میں پادریوں کے الزامات کا مختصر جواب دے کر ان کو پبلک مناظرہ کی دعوت دی۔
اس اشتہار سے عیسائیوں میں کھلبلی مچ گئی اور مسلمانوں کی طرف سے خوشی اور مسرت کے خطوط آنے شروع ہو گئے چنانچہ زنجبار کے مشہور و معروف عالم شیخ عبداللہ صالح نے سواحیلی میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر کے نام ایک خط لکھا کہ آپ کا مضمون >حق ہی غالب ہوتا ہے<۔ پر مبارکباد دیتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور ان تمام کو جو حق کی حمایت میں کمربستہ ہیں۔ اگرچہ میں احمدیوں کی بعض باتوں سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن خدا تعالیٰ اور اس کے مقدسوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کے اندر حفاظت اسلام کے لئے جو غیرت ہے وہ مجھے بے حد محبوب ہے احمدی قطعاً اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کے خلاف کچھ لکھا یا کہا جائے اور جب تک اس کا شافی جواب دے کر دشمن اسلام کو خاموش نہ کر دیں دم نہیں لیتے۔ خصوصاً افریقہ کے عیسائیوں کو دست بدست لینے میں جو کمال جرات دکھائی ہے وہ انہیں کا کام ہے<۔۵۹۰]4 [rtf
سواحیلی ترجمہ قرآن
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی تحریک تراجم قرآن کریم کے ماتحت مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے نومبر ۱۹۳۶ء میں قرآن مجید کے سواحیلی ترجمہ کا مقدس کام شروع کیا۔۵۹۱ محترم شیخ صاحب ترجمہ کر چکے تو مسودہ پر >انٹر ٹیر ٹیوریل لنگویج کمیٹی فار سواحیلی< نے )جس میں کینیا اور زنجبار کے سواحیلی زبان کے ماہر شامل تھے( ناقدانہ نظر ڈالی اور جائزہ کے بعد رائے دی کہ بحیثیت مجموعی یہ ترجمہ اچھا ہے۔ تاہم ماہرین زبان کے مشورہ سے بعض اصول زبان دانی و ترجمہ وضع کئے گئے اور ان کے مطابق محترم شیخ صاحب نے ترجمہ پر نظر ثانی کی۔ اس ہم کام میں شیخ امری عبیدی صاحب۵۹۲ اور مولوی محمد منور صاحب نے مکرم شیخ صاحب کے ساتھ مل کر بہت ہی قابل قدر کام کیا۔ جب ہر طرح سے ترجمہ کی سلامت و صحت کا یقین ہو گیا اور مختصر تفسیری نوٹ بھی مکمل ہو گئے تو اسے حوالہ طباعت کیا گیا اور آخر سترہ سال کی محنت شاقہ اور دو لاکھ شلنگ کے صرف کثیر سے یہ ترجمہ مارچ ۱۹۵۳ء میں دس ہزار کی تعداد میں منظر عام پر آگیا۔ دیباچہ کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اردو میں ایک خاص۵۹۳ مضمون ارسال فرمایا جو سواحیلی زبان میں ترجمہ کرکے شامل کیا گیا اور اس کی سب سے پہلی کاپی بذریعہ ہوائی ڈاک حضورؓ کی خدمت اقدس میں بھیج دی۔ حضورؓ انور نے بذریعہ تار قرآن کریم کے ترجمہ سواحیلی کی اشاعت اور تقسیم کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سواحیلی ترجمہ قرآن کی اشاعت۵۹۴ سے مشرقی افریقہ مشن کی تاریخ کا ایک نیا اور سنہری دور شروع ہوتا ہے جو اشاعت اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ترجمہ سے مشرقی افریقہ میں تبلیغ و اشاعت اسلام کا کام پہلے کی نسبت بہت آسان ہو گیا اور قرآن مجید کی روشنی سے اس تاریک براعظم کے مقامی باشندے بھی منور ہونے لگے۔
چنانچہ ایک افریقن چیف نے لکھا۔
>ہم گہرے اندھیرے میں تھے اور روحانی طور پر مردہ۔ قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ کی اشاعت سے اسلام کے نور سے ہمیں منور کیا گیا ہے اور افریقن اقوام کو ابھارنے کی عمدہ سعی کی گئی ہے<۔
مشرقی افریقہ میں آزادی کے علمبردار مشہور لیڈر مسٹر جومو کنیاٹا )حکومت کینیا کے موجودہ صدر( اور ان کے ساتھیوں کو جبکہ وہ مائو مائو تحریک کو منظم کرنے کے الزام میں گرفتار تھے سواحیلی ترجمہ بھجوایا گیا۔ مسٹر جو موکنیاٹا نے تین دفعہ یہ ترجمہ پڑھایا اور کہا ابھی اس کو پھر پڑھنے کا شوق ہے نیز ایک مجلس میں برملا کہا کہ اسلام توحید و مساوات کا علمبردار ہے اور عیسائیت بت پرستی اور شرک کی تعلیم سے ملوث۔۵۹۵
اسی طرح مسٹر جولیس نیریرے )صدر جمہوریہ ٹانگا نیکا( مسٹر رشیدی کواوا )نائب صدر جمہوریہ ٹانگا نیکا( کابینہ کے ارکان اور دیگر سیاسی اور قومی لیڈروں نے اسے بڑے شوق سے پڑھا اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا۔۵۹۶
مسٹر لنڈن ہیرس ایم۔ اے پی۔ ایچ۔ ڈی لکھتے ہیں۔
>۱۹۵۳ء میں قرآن کریم کا ایک نیا ترجمہ طبع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔ یہ ترجمہ جماعت احمدیہ کے ایک سرکردہ رکن شیخ مبارک احمد صاحب نے نیروبی سے شائع کیا ہے اس سواحیلی ترجمہ میں قرآنی آیات کی احمدیہ نکتہ نگاہ سے تفسیر بھی درج کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس میں وہ تفسیر بھی شامل کی گئی ہے جو صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے قبل ازیں شائع ہو چکی ہے۔ تاہم بائیبل کے حالیہ سواحیلی ترجموں مثلاً >یونین ورشن آف دی بائیبل< اور مشرقی افریقہ کے اخبارات اور آرچ بشپ آف یارک ایسے نامور عیسائی لیڈروں کے تبصروں کے اقتباسات اور حوالے وغیرہ درج کرکے اسے زیادہ سے زیادہ مکمل کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب عالمانہ شان اور جدت کی پوری آئینہ دار ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ دوسرے متعصب قسم کے مسلمان جماعت احمدیہ کو بدعتی سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ تمام ہم مذہب فرقوں کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا زیادہ بہتر طریق پر دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا میں ان سے زیادہ فعال تبلیغی جماعت موجود نہیں۔ یہ امر خاص طور پر نمایاں حیثیت کا حامل ہے کہ تمام مسلمان فرقوں میں سے صرف یہی ایک ایسا فرقہ ہے جو افریقہ کے قبائلی مسلمانوں کے درمیان پائوں جمانے اور اپنے آپ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے<۔۵۹۷ کیمرج یونیورسٹی نے ۔AFRICA EAST OF HISTORY THE TO INTRODUCTION کتاب میں مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے تاریخی حالات لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا۔
>اسلام کا مشرقی افریقہ میں یہ پہلا تبلیغی مرکز جماعت احمدیہ نے ۱۹۳۵ء میں ٹبورا )ٹانگا نیکا( میں قائم کیا اور اب یہ فرقہ ہر سہ علاقوں میں تبلیغی کام کر رہا ہے۔ اس فرقہ کا سب سے پہلا اور اہم کام جو اس کے مبلغ شیخ مبارک احمد صاحب نے سر انجام دیا ہے وہ سواحیلی ترجمتہ القرآن مع تفسیری نوٹوں کے ہے اور دوسرا اسلامی لٹریچر بھی شائع کیا جارہا ہے<۔
کسموں میں مسجد کی تعمیر
۱۹۵۳ء میں مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل نے مسجد کسموں کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد اپریل ۱۹۵۴ء کو تکمیل تک پہنچی بعد میں یہاں مشن ہائوس بھی تعمیر کیا گیا جو ستمبر ۱۹۵۴ء میں مکمل ہوا۔۵۹۸
شیخ امری عبیدی صاحب کی اسلامی خدمات
مشرقی افریقہ مشن کی تاریخ میں شیخ امری عبیدی جیسے عالم باعمل اور صاحب رئویاء کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ محترم عبیدی صاحب نومبر ۱۹۳۶ء۵۹۹ میں شیخ مبارک احمد صاحب کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے اور آپ کے زیر تربیت دینی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ پھر آپ ہی کی تحریک پر سرکاری ملازمت سے فارغ ہو کر یکم اکتوبر ۱۹۴۳ء۶۰۰ سے مبلغین سلسلہ میں شامل ہو کر مشرقی افریقہ میں تبلیغی خدمات بجا لانے لگے۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو زبردست دماغ بخشا تھا اور تقریر کی غیر معمولی قابلیت بھی عطا کر رکھی تھی۔ اب جو تبلیغی میدان میں آئے تو خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت ان کے شامل حال ہوئی اور آپ کے ذریعہ سے کئی لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق ملی۔ اسی طرح سواحیلی لٹریچر تیار کرنے میں آپ نے شیخ مبارک احمد صاحب کا پورے اخلاص و فدائیت کے ساتھ ہاتھ بٹایا۔
۱۹۵۴ء میں آپ ربوہ بھجوائے گئے اور مزید مذہبی تعلیم حاصل کرکے ۲۴/ اپریل ۱۹۵۶ء کو واپس مشرقی افریقہ تشریف لے گئے۔
ان دنوں افریقہ کی تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے بھی اس میں مناسب حصہ لیا اور اس میدان میں بڑا نام پیدا کیا۔ بڑے سے بڑے افریقن سیاسی رہنما ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کی قدر کرتے تھے۔
۱۵/ فروری ۱۹۶۰ء۶۰۱ کو پہلی بار دارالسلام کے میئر منتخب ہوئے جس سے تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھل گیا اور سرکاری حلقوں میں بھی اسلام اور احمدیت کی آواز بلند ہونے لگی۔ یاد رہے دارالسلام وہی علاقہ تھا جہاں احمدی مبلغین کی سخت مخالفت کی گئی اور بعض اوقات ان کی قیام گاہوں پر پتھرائو کیا جاتا تھا اور شیخ امری عبیدی تو احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیئے گئے تھے اور ان کے قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا چکی تھیں۔ میئر بننے کے بعد آپ ٹانگا نیکا لیجسلیٹو کونسل کے بلامقابلہ ممبر بھی منتخب ہو گئے۔۶۰۲
ایک بار اسمبلی میں حقوق شہریت کا بل پیش ہوا۔ جس کے پاس نہ ہونے کی صورت میں وہاں ایشیائی باشندوں کے لئے زبردست مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ اسمبلی میں اس کی سخت مخالفت ہوئی۔ اس موقعہ پر جناب امری عبیدی صاحب نے دعا کی کہ انہیں ایسی تقریر کرنے کی توفیق ملے جس سے ہائوس کی رائے بدل جائے اور حکومت کے حسب منشا بل پاس ہو جائے تا افریقنوں کے ساتھ ساتھ ایشیائی اور یورپی باشندے بھی مساوی حقوق شہریت کے حقدار قرار پا سکیں۔ چنانچہ انہوں نے خدائی تائید سے ایسی معرکتہ الاراء تقریر کی کہ ہائوس کی رائے یکسر بدل گئی۔ تقریر ختم ہوتے ہیں وزیراعظم چل کر آپ کے پاس آئے اور آپ سے بغل گیر ہو کر نہایت مدلل اور کامیاب تقریر پر آپ کو مبارکباد دی۔ اخبارات نے آپ کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہائوس میں ایسی عمدہ تقریر آج تک نہیں ہوئی۔ یورپی اور ایشیائی باشندوں نے بھی آپ کی تقریر کو بہت سراہا اور بعض کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ یہ احمدیہ مشن ہی کا ایک ثمرہ ہے۔
آپ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے ٹانگا نیکا میں عید الاضحیٰ کی تعطیل عام کا سوال اٹھایا اور حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا۔ اسی طرح انہی کے زور دینے پر یہ فیصلہ بھی ہوا کہ جمعہ کے دن سرکاری دفتروں میں مسلمان ملازمین کو بارہ بجے کے بعد رخصت ہو گی۔۶۰۳][۱۹۶۲ء کے شروع میں ہی آپ ٹانگا نیکا کے مغربی صوبہ کے ریجنل کمشنر مقرر کر دیئے گئے۔ ۱۲/ مارچ ۱۹۶۳ء کو ٹانگا نیکا کے وزیر انصاف مقرر کئے گئے۔ ۱۹۶۴ء کے شروع سے جب زنجبار کا علاقہ ٹانگا نیکا سے ملا دیا گیا تو انہیں تعمیر قومی و ثقافت ملیہ کی وزارت سونپی گئی۔ اس عہدہ پر فائز ہونے کے بعد آپ کی صحت خراب ہونے لگی اور مغربی جرمنی کے شہربان میں قریباً دو ماہ زیر علاج رہنے کے بعد ۹/ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آپ ۱۶/ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ احمدیہ قبرستان چنگو مبے کے قطعہ موصیان میں دفن کئے گئے۔ آپ کے جنازہ میں ٹانگا نیکا کے صدر اور کینیا اور یوگنڈا کے وزرائے اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شامل ہوئے اور ٹانگا نیکا اور زنجبار ریپبلک کے صدر مملکت ڈاکٹر جولئیس نیریرے نے کہا۔
>ہم میں سے ان بہت سے لوگوں کے لئے جن کے ایک لمبے عرصہ سے ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ان کی وفات ایک ذاتی نقصان کی حیثیت رکھتی ہے مزید برآں ان کی وفات ہماری قوم کے لئے بھی ایک عظیم نقصان ہے ان کی عظیم لیاقتیں اور ان کی خدمات بلا پس و پیش اس ملک کے لوگوں کے لئے ہمیشہ وقف رہیں۔ ہم اپنے درمیان اس خلاء کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے<۔۶۰۴
مسجد دارالسلام کی تعمیر
۱۹۵۵ء میں ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی اس وقت مولوی جلال الدین صاحب قمر اور مولوی عبدالکریم صاحب شرما دارالسلام میں متعین تھے۔ یہ مسجد ایک لاکھ شلنگ کے خرچ سے مکمل ہوئی اور ۱۵/ مارچ ۱۹۵۷ء کو اس کا افتتاح ہوا۔
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس موقعہ پر ایک اہم پیغام ارسال فرمایا۔ جس میں اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ >میں یوگنڈا کے علاقہ میں بھی مسجد کی تعمیر کی خوشخبری سننے کا منتظر ہوں<۔۶۰۵
مسلمانان مشرقی افریقہ کی تعلیمی ترقی کے لئے جدوجہد
افریقن مسلمانوں کی تعلیم کا سوال اسلام کی ترقی و استحکام کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے احمدیہ مشن مشرقی افریقہ نے اپنے محدود ذرائع کے باوجود اس طرف شروع سے خاص توجہ کی ہے۔
ممباسہ میں افریقن مسلمان آبادی چالیس ہزار کے قریب ہے مگر تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے لیجسلیٹو کونسل کے لئے ایک بھی مسلمان کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ مولوی نور الدین صاحب منیر )کینیا کے احمدی مبلغ( نے اعلیٰ سرکاری افسروں سے ملاقات کی اور ان کو توجہ دلائی کہ وہ افریقن مسلمانوں کی تعلیم کے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں۔
اس کے علاوہ آپ نے پریس میں ممباسہ کے مسلمان بچوں کے اعداد و شمار دیئے جس میں بتایا کہ دس ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اس جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنوری ۱۹۵۷ء سے ایک نیا سکول جاری ہو گیا جس میں افریقن مسلمانوں نے خاصی تعداد میں بچے بھجوائے اور حکومت ممباسہ نے افریقن مسلم سوسائٹی کو مالی امداد دینے کا بھی وعدہ کیا۔۶۰۶` ۶۰۷
علاوہ ازیں مسلمان افریقنوں کی تعلیم کے لئے ٹانگا نیکا اور یوگنڈا کے مبلغین نے بے حد کوشش کی۔
اخبار >ایسٹ افریقن ٹائمز<
مئی ۱۹۵۷ء سے جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ کی طرف سے انگریزی ماہنامہ >ایسٹ افریقن ٹائمز<۶۰۸ جاری کیا گیا۔ جو جلد ہی پندرہ روزہ اخبار کی صورت میں شائع ہونے لگا۔ اخبار کے پہلے ¶ایڈیٹر مولوی نور الدین صاحب منیر مقرر کئے گئے۔ جنہوں نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اس کی اشاعت کی طرف خاص توجہ کی۔
افریقن مسلمان تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ سب اسکول عیسائی مشنوں کی طرف سے جاری کئے گئے تھے اور وہاں عموماً مسلمانوں کو داخلہ نہیں ملتا تھا۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی یہ تھی کہ جو مقامی ادارہ سکول جاری کرکے ایک سال تک کامیابی سے چلا کر دکھا دے اسے سو فیصدی گرانٹ دی جائے گی اس پالیسی کا نتیجہ یہ تھا کہ سارے اسکول عیسائی مشنوں کے تھے اور مسلمان ایک سکول بھی جاری نہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس نہ سرمایہ تھا نہ ٹرینڈ استاد۔ >ایسٹ افریقن ٹائمز< نے افریقن مسلمانوں میں تعلیمی لحاظ سے بیداری پیدا کرنے کی جدوجہد کی بلکہ حکومت کو بھی توجہ دلائی کہ اس کی تعلیمی پالیسی جانبدارانہ ہے اور اسے مسلمانوں کے لئے علیحدہ اسکول جاری کرنے چاہئیں۔ چنانچہ اس کے خاطر خواہ نتائج پیدا ہوئے۔
شروع ۱۹۵۸ء میں برطانیہ نے کینیا میں ایک دستور نافذ کیا۔ جس کی رو سے قانون ساز اسمبلی میں افریقنوں کے لئے چار ایسی نشستیں مقرر کی گئیں جن کا انتخاب دستور ساز اسمبلی کے ذمہ تھا اور جس میں اکثریت یورپین ممبروں کی تھی۔ اسمبلی کے افریقن ممبروں نے ایک بیان میں ایسے افریقنوں کو جو ان نشستوں کے لئے کھڑے ہوں >غدار< قرار دیا۔ یہ بیان >ایسٹ افریقن ٹائمز< میں بھی شائع کیا گیا۔ حکومت نے افریقن لیڈروں کے ساتھ اس اخبار پر بھی مقدمہ دائر کر دیا۔ یہ مقدمہ نیروبی میں ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا مشن کی طرف سے محترم ملک احمد حسن صاحب اور ملک عبدالقادر صاحب نے اس کی پیروی کی۔ عدالت نے مولوی نور الدین صاحب منیر )ایڈیٹر( اور مولوی محمد منور صاحب پر معمولی جرمانہ تو کر دیا لیکن اخبار کو شہرت کے لحاظ سے بہت فائدہ ہوا۔ مقدمہ کی ہر پیشی پر نہ صرف ریڈیو نے ساری روداد نشر کی بلکہ مشرقی افریقہ کے سب مقتدر >روزنامے< بھی اس کی خبر نمایاں طور پر شائع کرتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ >ایسٹ افریقن ٹائمز< دور دور علاقوں میں مشہور ہو گیا۔ اور افریقنوں نے اسے خواب سراہا کہ اس نے ان کی جدوجہد آزادی میں افریقنوں کے دوش بدوش ساتھ دیا ہے۔
>ایسٹ افریقن ٹائمز< اب تک باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے اور اپنی عمدگی و نفاست اور مضامین کی ندرت کے باعث نہ صرف مشرقی افریقہ بلکہ سارے افریقہ میں بڑا مقبول ہے مسٹر >ہمفری جے فشر< نے اپنی تصنیف >احمدیت افریقہ میں< اس کا ذکر تعریف آمیز الفاظ میں کیا ہے۔ محترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی اور قاضی کبیر احمد صاحب بھٹی شروع سے ہی اس اخبار کی تدوین و اشاعت میں امداد کرتے رہے اور قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی تو ۱۹۶۳ء سے لے کر ۱۹۶۶ء تک اس کے ایڈیٹر بھی رہے۔
جنجہ )یوگنڈا( میں مسجد اور مشن ہائوس کی تعمیر
۲۷/ جولائی ۱۹۵۷ء کو مسجد جنجہ کی اور اگست ۱۹۵۷ء میں اس کے مشن ہائوس کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹبورا کی طرح یہاں بھی لوگوں نے مسجد کا بائیکاٹ کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کی مخلصانہ کوششوں میں برکت ڈالی اور یہ دونوں عمارتیں ۱۹۵۹ء میں مکمل ہو گئیں۔ جنجہ کی جماعت نے عموماً اور حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب مبلغ مقامی اور بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر صدر جماعت نے خصوصاً اس کی تکمیل میں نمایاں حصہ لیا۔۶۰۹
ممباسہ میں مسجد کی تعمیر
یہ مسجد ممباسہ کے محلہ مکوپا میں ایک فری ہولڈ پلاٹ پر تعمیر کی گئی اس کے لئے ایک مخلص احمدی خاتون سیدہ مرجان صاحبہ )اہلیہ سید معراج الدین صاحب مرحوم( نے ساٹھ ہزار شلنگ کا عطیہ دیا۔۶۱۰
مسجد کے ساتھ دارالتبلیغ بھی تعمیر ہوا جس کے لئے بابا فقیر محمد صاحب مرحوم کے بچوں نے بیس ہزار شلنگ چندہ دیا۔۶۱۱ تعمیر کا کام محمد افضل خاں صاحب اور نعمت اللہ خان صاحب بلڈنگ کنٹریکٹرز نے اپنی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ڈاکٹر بلی گراہم کو مقابلہ روحانی کا چیلنج
امریکہ کے مشہور مسیحی مناد ڈاکٹر بلی گراہم ۱۹۶۱ء کے شروع میں افریقہ کے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوئے تو امریکی پریس )خصوصاً اخبار >ٹائم< اور >نیوز ویک(< نے اس دورہ کو بہت اہم قرار دیا اور عیسائیت کی کامیابی کی بڑی امیدیں اس سے وابستہ کیں۔ افریقہ کے طول و عرض میں کئی ماہ سے ان کی آمد کا زبردست پروپیگنڈا جاری تھا کہ ڈاکٹر بلی گرام فروری کے آخر میں نیروبی پہنچے اور عظیم الشان جلسے منعقد کئے گئے جن میں انہوں نے لاکھوں نفوس سے خطاب کیا۔
شیخ مبارک احمد صاحب نے ۳/ مارچ ۱۹۶۱ء کو ڈاکٹر بلی گراہم کے نام ایک خط لکھا جس میں ان کے سامنے انجیل کے اصولوں کی رو سے بذریعہ دعا لا علاج بیماروں کو تندرست کرنے کا طریق رکھا اور اس کے مطابق اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو للکارا۔۶۱۲
ملکی اخبارات میں اس چیلنج کا خوب چرچا ہوا اور پریس نے شیخ صاحب کا فوٹو شائع کرکے اس کو خاص اہمیت دے دی جس سے متاثر ہو کر ڈاکٹر گراہم سے ان کے ایک لیکچر کے بعد سوال کیا گیا کہ کیا آپ چیلنج قبول کریں گے؟ ڈاکٹر گراہم نے جواب دیا۔ >میرا کام محض وعظ کرنا ہے مریضوں کو چنگا کرنا نہیں<۔۶۱۳body] g[ta
عیسائی حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر بلی گراہم کو مجبور کیا جانے لگا کہ وہ یہ چیلنج قبول کرکے عیسائیت کی سچائی کا ثبوت دیں۔ ورنہ عیسائیت کو سخت زک پہنچے گی۔ مگر وہ آمادہ نہ ہو سکتے تھے اور نہ ہوئے۔۶۱۴ افریقہ کے غیر احمدی مسلمانوں نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو مبارکباد دی اور اقرار کیا کہ آپ نے عیسائیت کے بالمقابل اسلام کا جھنڈا خوب بلند رکھا ہے۔۶۱۵
اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد غزنوی نے پاکستان کے اخبار >مشرق< )لاہور( مورخہ ۱۸/ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں لکھا۔
>چند سال سے افریقہ میں تبلیغ کے سلسلہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان معرکہ جاری ہے عیسائی مشنری اپنے تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر افریقہ پر ایک مدت سے حملہ آور ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمان مشنریوں نے بھی وہی طریقے اختیار کئے فرق صرف اتنا تھا کہ مسلمانوں کی تنظیم اتنی مکمل نہ تھی اور ان کے مالی وسائل حد درجہ محدود تھے۔ جس کی کمی پوری کرنے کے لئے انہوں نے حد درجہ جسمانی مشقت سے کام لیا۔ امریکہ کے ایک پادری بلی گراہم کو پچھلے دنوں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی مسلمان مبلغوں نے ان کا افریقہ میں اس طرح پیچھا کیا کہ ان کی خطابت اور زور بیان کا بھرم کھل گیا۔ ہر جلسہ میں ان سے عیسائیت کے بارے میں ایسے سوال کئے گئے کہ کوئی عیسائی ان کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ انہیں ہر شہر میں مناظرہ۶۱۶ کا چیلنج دیا گیا جب انہوں نے یہ رنگ دیکھا تو وہ اپنا چار مہینہ کا طویل پروگرام مہینہ بھر میں ختم کرکے واپس بھاگ گئے اور اس دن سے ان کی شہرت پھر کبھی سننے میں نہ آئی<۔۶۱۷
مسیحی مورخین ومحققین کا اعتراف
ہٹسن )امریکہ( کی رائس یونیورسٹی کے پروفیسر عمرانیات جناب ولیم مارٹن (WILLIAM MARTIN) مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کے چیلنج اور بلی گراہم کے واضح گریز کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔:
‏ invitation Graham,s rescind to managed Sudan is Muslim feared they because apparently country, that in preach to sacred the Ramadan, of observance proper disrupt might he normal restrict severely Muslims which during month challenge, Muslim elbaromem and explicit most The ۔activities Sheikh Maulana where Kenya, in came however, Mission Muslim Ahmadiyya the of chief Ahmad, Mubarak reminiscent challenge a hurled Africa, East in famous his in Elijah prophet the by proposed that of ۔40)۔20 18: Kings (I Ball of priests the with Carmel Mount on contest leader Muslim the Graham, to letter a In Europeans, ten ۔individuals thirty that proposed the by certified all Africans, ten and Asians, ten be a Kenya of services medical of director tol by assigned be ۔medicine scientific by incurable a with together Graham, and he that and groups two into the heal to God beseech associates, of band small to as determine "to them to assigned group and mercy and grace Lord,s the with blessed is who declined, Graham If "۔closed remains door His whom upon world the to proved be will ~~t " argued, Ahmad capable is which religion only the is Islam that group A "۔God with relationship man,s establishing of the challenge; the "accept to mhi cabled Pentecostals American of up picked neither Graham but lives," still Elijah of 260)God ۔(P ۔press the to comment any offered nor gauntler the
‏ William Martin William By 260۔P honor with Prophet York)(A New Company and Morrow
)ترجمہ( سوڈان میں مسلمانوں نے گراہم کو ملک میں تبلیغ کرنے کی دعوت منسوخ کرالی` بظاہر اس خوف سے کہ اس سے رمضان کی عبادات میں خلل واقع ہوگا۔ رمضان کے مقدس مہینہ میں مسلمان عام مصروفیات سختی سے روک دیتے ہیں۔ نہایت کھلا اور یاد رکھنے کے قابل چیلنج کینیا میں دیا گیا۔ کینیا میں ایسٹ افریقہ احمدیہ مسلم مشن کے سربراہ مولانا شیخ مبارک احمد نے ایسا زبردست چیلنج دیا جو کہ نبی ایلیا )الیاس( کے اس چیلنج کی یاد دلاتا ہے جو اس نے کوہ کرمل پر بعل کے پادریوں کو دیا تھا۔ )۱۔ سلاطین باب ۱۸ آیت ۲۰۔۴۰( اپنے خط میں مسلم لیڈر نے گراہم کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ تیس مریض لئے جائیں۔ جن میں سے دس یورپین ہوں` دس ایشین اور دس افریقن۔ ان مریضوں کے بارہ کینیا کے ڈائریکٹر آف میڈیکل سروسز کی تصدیق ہو یہ سب طبی لحاظ سے لاعلاج ہیں۔ یہ مریض بذریعہ قرعہ اندازی مسلم لیڈر اور گراہم میں برابر تقسیم کردئے جائیں۔ پھر ہر دو اپنے اپنے چند ساتھیوں سمیت اپنے حصے کے مریضوں کی شفایابی کے لئے خدا سے دعا کریں۔ تاکہ فیصلہ ہو کہ خدا کا فضل اور رحم کس کے ساتھ ہے اور کون اس سے محروم ہے۔ احمد )شیخ مبارک احمد( نے کہا کہ اگر گراہم نے یہ تجویز قبول نہ کی تو دنیا پر ثابت ہوجائے گا کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو بندے کا خدا سے تعلق قائم کرا سکتا ہے۔ امریکہ کے Pentecost کے ایک گروہ نے گراہم کو تار دی کہ >چیلنج قبول کرلو۔ ایلیاء )الیاس( کا خدا اب بھی زندہ ہے<۔ مگر گراہم نے نہ تو چیلنج قبول کیا اور نہ ہی پریس کے لئے کوئی تبصرہ کیا۔
مشہور امریکی اخبار لائف (LIFE) اور نیوز ویک WEEK) (NEWS خصوصی نامہ نگار اور کئی درجن کتابوں کے مولف مارشل فریڈی FRADY) (MARSHALL لکھتے ہیں ۔:
‏ persistently was also Graham disarrayings, occasional these Beside healing to evangelists Islamic by challenged between equally divide to being proposal one ۔duels incurable pronounced patients hospital thirty them Roy ۔Allah and Christ between off۔face public grand a for "Boy, remembers, there, Graham accompanied had who Gustafson, sorts, all and people press ringing, started phones those Graham, But "۔do to going was Billy what know to wanting to snap merely would harried, somewhat feel to beginning Gustafson, says Finally, "۔comment No ۔comment "No inquiries, all letters and wires these all getting started "We ۔floks Pentecostal the particularly ۔States the in back people from the that them Show challenge! eht Accept on! Go us` telling from quoting kept just Billy But lives!, still Elijah of God prophets, the and Moses not hear they If parable, 330)Jesus,۔(P "۔dead the from rose one though persuaded, be they will neither
‏ Brown ۔Little by published Frady Marshall By 330 ۔P Graham Boston~/~Toronto)(Billy Company and
)ترجمہ( گراہم کو پے درپے مسلمان مشنریوں کی طرف سے شفا بخشنے کے مقابلے کا چیلنج بھی دیا گیا۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ تیس ایسے مریض جو ہسپتال کی طرف سے لاعلاج قرار دئے گئے ہوں ان کے درمیان تقسیم کردئے جائیں تاکہ عوام الناس کے سامنے یسوع اور خدا کا مقابلہ ہوجائے۔ رائے گسٹاف سن کو جو گراہم کے ساتھ تھے` یاد ہے کہ اس چیلنج پر ٹیلیفون بجنے لگے۔ پریس والے اور دیگر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ گراہم کیا اقدام کریں گے۔ لیکن گراہم قدرے برہم ہوکر تند لہجے میں صرف یہ جواب دیتے کہ >کوئی تبصرہ نہیں۔ کوئی تبصرہ نہیں<۔ مسٹر گسٹاف سن کہتے ہیں کہ آخر ہمیں امریکہ سے بھی تاریں اور خطوط آنے لگے` خاص طور پر فرقہ Pentecost کے لوگوں کی طرف سے` کہ >آگے بڑھو اور چیلنج قبول کرلو<۔ ان پر روشن کردو کہ ایلیاء کا خدا اب بھی زندہ ہے<۔ لیکن بلی گراہم محض یسوع کی اس تمثیل کا حوالہ دینے پر اکتفاء کرتے کہ >اگر وہ موسیٰ اور نبیوں کی نہیں سنتے` اور نہ ہی ان کو قائل کیا جائے گا اگرچہ کوئی مردوں سے جی اٹھے۔
کمپالہ )یوگنڈا( میں تعمیر مسجد محمود
مسجد سلام کے افتتاح پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یوگنڈا میں تعمیر مسجد کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا جس کی تعمیل میں ۹/ اگست ۱۹۵۷ء کو مسجد کمپالہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔۶۱۸ یہ مسجد ۱۹۶۲ء میں مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے فرمایا۔ اس مسجد کے اکثر و بیشتر اخراجات محمد اکرم غوری صاحب نے ادا کئے۔
مشرقی افریقہ کے نظام تبلیغ میں تبدیلی
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کا دائرہ عمل نہایت وسیع تھا۔ جس میں چار مستقل ممالک کینیا` یوگنڈا` ٹانگا نیکا اور زنجبار شامل تھے اور چاروں ممالک آزاد ہو رہے تھے۔۶۱۹ اس لئے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق یکم مئی ۱۹۶۱ء سے ان ممالک کا تبلیغی نظام بھی علیحدہ علیحدہ قائم کر دیا گیا۔
ٹانگا نیکا: نئے نظام کے تحت ٹانگا نیکا کے امیر اور انچارج مشن مولوی محمد منور صاحب فاضل مقرر کئے گئے۔ زنجبار کا الحاق ٹانگا نیکا کے ساتھ ہو گیا اور ملک کا نام تنزانیہ رکھ دیا گیا۔ اس وقت تنزانیہ مشن کے تین تبلیغی حلقے ہیں۔
)۱(
ٹبورا میں اس وقت مولوی عبدالرشید صاحب رازی اس مشن کے انچارج ہیں۔
)۲(
ٹانگا شہر جہاں حال ہی میں مسجد اور مشن کی تعمیر ہوئی ہے۔ موجودہ مشن انچارج شیخ ابو طالب عیدی ساندھی ہیں۔
)۳(
بکوبا میں حافظ محمد سلیمان صاحب انچارج ہیں۔
)۴(
دارالسلام تنزایہ کا دارلحکومت ہے اور انچارج مبلغ کا ہیڈ کوارٹر بھی یہی ہے۔
کینیا: نئے نظام کے ماتحت کینیا کے امیر اور مبلغ انچارج مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مقرر ہوئے آپ ۳۰/ اپریل ۱۹۶۲ء کو نیروبی سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ روانگی سے پہلے شیخ صاحب نے کینیا مشن کا چارج مکرم مولوی نور الحق صاحب انور کو دیا۔ شیخ مبارک احمد صاحب ۷/ مئی ۱۹۶۲ء کو مرکز میں تشریف لے آئے اور ساتھ ہی رئیس التبلیغ کا عہدہ بھی ختم کر دیا گیا۔
دسمبر ۱۹۶۴ء میں مولوی نور الحق صاحب انور واپس آگئے اور صوفی محمد اسحٰق صاحب اس وقت سے مشن کے انچارج ہیں۔ اس وقت کینیا کے تین اہم تبلیغی مراکز ہیں )۱( ممباسہ )۲( کسموں )۳( نیروبی۔ )امیر جماعت اور مبلغ انچارج نیروبی میں ہی رہتے ہیں(
یوگنڈا: نئے طریق عمل کے مطابق یکم مئی ۱۹۶۱ء سے مولوی عبدالکریم صاحب شرما اس ملک کے امیر اور یوگنڈا احمدیہ مشن کے انچارج مقرر کئے گئے۔ جو اب تک مصروف عمل ہیں۔ اس مشن کے اہم مراکز یہ ہیں۔ )۱( جنجہ )۲( کمپالہ )۳( مساکا )۴( لیرا۔۶۲۰
جدید نظام عمل کے تحت اشاعت احمدیت کے سلسلہ میں مبلغین نے جو سنہری خدمات انجام دیں وہ ترتیب واقعات کے لحاظ سے اپنے مقام پر آئیں گی۔ انشاء اللہ۔
افریقن معلمین
مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے کام میں افریقن احمدی معلمین نے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ مشہور اور مخلص معلمین کے نام یہ ہیں۔
کینیا: علی کئوس۔ معلم علی۔ معلم نعمان۔ معلم حمیدی۔ معلم بشیر اوینڈو۔ حسن وڈینیں۔ اسمعیل حسیئیس۔ رجب اکیلو۔ نذیر احمد ابوایا۔ فضل احمدا وڈیرا۔ صادق امباسو۔ احمد امبوکا۔
یوگنڈا: حاجی ابراہیم سیمفوما۔ حاجی معلم زیدی۔ حاجی ایوب۔ حاجی جمادا۔ شیخ شعبانی کرونڈے۔ سلیمان مٹروممبا۔ معلم علی۔ نیکسانجا۔ شیخ عبدالقادر بگوہ۔ علی ککئی رے۔ معلم زکریا کزیٹو بلوڈے۔ معلم محمد بوزا۔ احمد مٹودو۔ مسعودی موٹوو۔ معلم خمیسی جمعہ۔ ہارون مٹورو۔ موسیٰ سیمپا۔ معلم حسانی۔ معلم محمود۔10] [p۶۲۱
تنزانیہ: معلم عمر عبداللہ۔ معلم رشیدی صالح۔ معلم سعیدی علی۔ عبدہ عمران۔ معلم شعبان سیف۔ شیخ یوسف دنیا۔ معلم محمود عبداللہ صاحب۔ معلم دائود علی صاحب۔ شیخ محاذ مشائو جی۔ شیخ احمد مٹاک۔ شیخ صالح مبروک۔ معلم احمد سانسہ۔ معلم عثمان کامبا الایا )مرحوم( معلوم مسعودی مسگارا۔ معلم موسیٰ براکا۔ معلم حمیدی بیانا۔ شیخ احمد اوکاش۔ شیخ رشیدی مسبہ۔ چیف محمد کلوفیا۔
اسلامی لٹریچر کی اشاعت
مشرقی افریقہ کے احمدی مجاہدین نے آج تک جو اسلامی لٹریچر شائع کیا ہے وہ بہت وسیع ہے جس کے اہم حصہ کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
)سواحیلی زبان میں( ترجمتہ القرآن سواحیلی۔ کشتی نوح۔ ایک غلطی کا ازالہ۔ احمدی اور غیر احمدی میں فرق۔ )کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام( >افریقن کس طرح ترقی کس سکتے ہیں؟< اسلام اور دیگر مذاہب۔ پیغام احمدیت۔ الکفر ملتہ واحدہ )حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( اسلام اور غلامی )سیرت خاتم النبینﷺ~ مولفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ماخوذ( اسوہ حسنہ )از حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ( نماز کی کتاب ۔ آسمانی آواز۔ ادعیتہ الرسولﷺ~۔ اسلام میں بیاہ اور شادی۔ ہم اسلام کیوں قبول کریں۔ ہادی برحقﷺ~ کے احکام و ہدایات۔ اسباق الاسلام۔ الانذار۔ KATIKA UTUMWA ISLAM KI YA DINI )امری عبیدی صاحب مرحوم کا پہلا اشتہار(
)عربی زبان میں( )۱( الجماعہ الاحمدیہ الاسلامیہ )۲( کلمہ الحق )۳( الاحمدیہ ای الاسلام الصحیح )۴( شمس الھدی )حضرت مسیح موعودؑ کی نعت( )۵( اسمعوا صوت المنادی۔
)گجراتی زبان میں( ہمارا محمدﷺ~۔ خاتم القلوب۔ مسیح کی موت میں اسلام کی زندگی۔ ہمارا مذہب۔ سچائی کی فتح۔ شری نہہ کلنک اوتار۔ عقیدہ حیات مسیح اور مولوی عبداللہ شاہ کی درماندگی۔ مولوی عبداللہ شاہ سے دو حرفی فیصلہ۔ مولوی عبداللہ شاہ قرآن مجید سے ایک آیت بھی حیات مسیح کی نہ دکھا سکے۔۶۲۲ آسمانی آواز۔ نبوت کے متعلق بزرگان ملت کا خیال اور حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کی حقیقت۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت۔ جماعت احمدیہ کے عقائد۔ کامل ایمان کس کا ہے؟ یکے ندائے از زمین قدسیاں۔ وفات مسیح۔ الوہیت مسیح۔ وہی ہمارا کرشن )مضمون حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
لوگنڈا زبان میں: ترجمہ قرآن مجید پہلے پانچ پارے۔ نماز کی کتاب۔ اسلامی اسباق۔ خاتم النبیین کے معنے۔ روزے کی کتاب۔ فضائل اسلام۔ کیا مسیح خدا تھا؟
)ککویو زبان میں( میں اسلام کو کیوں قبول کرتا ہوں؟
)لوئو زبان میں( ۔ALINCNDE NYASAYE (2) NYASAYE YOR (i) مقدس نبی محمدﷺ~ ۶۲۳ MOHAMMAD ۔MALENG ANNEBI (3)
)کسکا مبا زبان میں( موجودہ عیسائیت دین حق نہیں۔
)لانگو زبان میں( سیرت رسول مقبولﷺ~ )از حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
)انگریزی زبان میں(
)ہمارا محمدﷺ~۔ دلوں کا فاتح(
۔HEARTS OF CONQUROR THE MOHAMMED OUR (1)
)فاتح محمدﷺ(~
۔MOHAMMED VICTORIUS THE (2)
)احمدیہ تحریک(
‏ MOVEMENT AHMMADIYYA THE (3)
)محمد۔ افضل الرسل(
۔PROPHET MASTER THE MOHAMMED (4)
)قادیان میں سازش کے متعلق
‏ ON COURT HIGH PUNJAB (5)
پنجاب ہائی کورٹ کا فیصلہ(
۔MENACE QADIAN
)آنحضرت~صل۱~ کی صفات کاملہ(
۔EXCELLANCE PROPHET HOLY (6)
)میں مسلمان کیوں ہوا(
۔MUSLIM A BECAME I WHY (7)
)محمد~صل۱(~
۔MOHAMMED (9)
)اسلام کیا ہے؟(
۔ISLAM IS WHAT (8)
)فتح کا راستہ(
۔VICTORY TO WAY THE (10)
)کتب مقدسہ میں بعثت ثانیہ کی پیشگوئی(
‏]eng2 [tag ۔SCRIPTURES THE IN FORETOLD ADVENT SECOND THE (11)
)احمد علیہ السلام(
۔AHMAD (13)
)اسلام کیوں؟(
‏ ISLAM WHY (12)
محمد~صل۱~ بائیبل میں(
۔BIBLE THE IN MOHAMMED (14)
احمدیہ مشرقی افریقہ مشن دوسروں کی نظر میں
مبلغین احمدیت نے مشرقی افریقہ میں جو مسلسل تبلیغی جہاد کیا ہے وہ اتنا شاندار ہے کہ مسلم اور غیر مسلم حلقے دونوں اس کی اہمیت کا برملا اظہار کرنے پر مجبور ہیں۔4] [stf۶۲۴ بطور نمونہ بعض ضروری اقتباسات )اردو کے ترجمہ کی صورت میں( درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
یوگنڈا میں میکر یرے کالج آف یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مسٹر گولڈ تھروپ اپنی کتاب SOCIETY> AFRICAN EAST OF LINES۔<OUT میں لکھتے ہیں۔
>اسلام کی یہ کامیابی اس لحاظ سے اور بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہے کہ ابھی زمانہ حال میں چند سال قبل تک یہاں تبلیغی مساعی کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ گزشتہ دس پندرہ سال میں روشن خیال فرقہ احمدیہ نے جس کا مرکز پاکستان میں ہے بعض مستعد نوجوان علماء بطور مبلغ یہاں بھیجے ہیں اور آج کل سارے افریقہ میں ایک درجن کے قریب ایسے مبلغین اسلام مصروف کار ہیں جنہیں یہاں کی مقامی جماعت کی پوری پوری تائید و حمایت اور امداد حاصل ہے اگرچہ اس جماعت کے افراد تعداد کے لحاظ سے ابھی تھوڑے ہیں لیکن ان میں مالدار اور بااثر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لئے یہ جماعت اپنی تعداد سے کہیں بڑھ کر اثر ڈالنے اور نفوذ حاصل کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہے<۔۶۲۵
۲۔
>ممباسہ ٹائمز< )مورخہ ۲۱/ جون ۱۹۶۲ء( لکھتا ہے۔
>افریقہ میں مسلمان مبلغین ہمارے عیسائی مشنریز کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تیز رفتاری سے لوگوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا رہے ہیں۔ گراہمز ٹائون کے ایک استاد اے۔ کے گراہم کے بیان کے بموجب توقع یہ ہے کہ عنقریب اشاعت اسلام کی یہ رفتار اور بھی زیادہ تیز ہو جائے گی۔ مسٹر گراہم نے جو اسلام کا خاص طور پر مطالعہ کر چکے ہیں۔ خبردار کیا ہے کہ بہت سے مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر عیسائیت نے خطرہ کا پورے طور پر احساس نہ کیا تو اسلام باسانی سارے افریقہ کا مذہب بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیسویں صدی کا سب سے اہم اور تعجب خیز امر وہ مخصوص اسلام ہے جو حیات نو سے ہمکنار ہونے کے علاوہ اپنی ذات میں جارحانہ نوعیت کا حامل ہے اور یہی وہ اسلام ہے جو بیداری سے ہمکنار ہونے والے افریقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا اس وقت تین بڑی طاقتیں اپنی اپنی جگہ افریقہ پر غالب آنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ایک اشتراکیت ہے جو بیک وقت دوسری دو طاقتوں یعنی اسلام اور عیسائیت کی مخالفت پر کمربستہ ہے۔ اس جدوجہد میں اسلام بہرطور کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام` نسل` قومیت` سیاسی علائق اور تعلیم وغیرہ کے امتیازات سے یکسر بالاتر رہتے ہوئے ہر انسان کے عزو وقار کا احترام کرتا ہے اور اسے ضروری قرار دیتا ہے<۔
۳۔
نیروبی کے مشہور اخبار >ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ< نے لکھا۔
>پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ افریقہ کے دروازے عیسائیت کے لئے ہمیشہ ہی کھلے ہیں۔ لیکن اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بند ہوتے جارہے ہیں۔ بعض لوگوں کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اسلام عیسائیت کے مقابلے میں دس گناہ زیادہ رفتار کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ براعظم افریقہ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک عیسائی مشن قائم کرکے اسلام کی اس وسعت پذیر ترقی کو روکنے کے لئے جو حکمت عملی بنائی گئی تھی وہ بظاہر کتنی اچھی کیوں نہ ہو کامیاب ثابت نہیں ہوئی<۔
۴۔
اخبار >یوگنڈا آرگس< )۱۶/ اپریل ۱۹۶۳ء( نے آرچ بشپ آف کنٹر بری ڈاکٹر رامزے کے ٹیلویژن انٹرویو کی تفصیل شائع کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر رامزے نے گزشتہ اتوار کے روز تسلیم کیا کہ افریقہ میں بہت وسیع پیمانے پر اسلام کی پیش قدمی جاری ہے<۔
۵۔
مسٹر عبداللہ فونڈی کیرا سابق وزیر انصاف ٹانگا نیکا لکھتے ہیں۔
>مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ نے ۲۵ سال میں دو جنگیں لڑیں ہیں۔ ایک جنگ عیسائیوں کے ساتھ۔ جو تابڑ توڑ حملے اسلام اور حضرت بانی اسلام~صل۱~ پر کر رہے تھے۔ ان کے جوابات دے کر عیسائیت کو ناقابل عمل اور ناقابل قبول ثابت کرکے ان کے منہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے۔ دوسری جنگ میں احمدیوں نے غیر از جماعت لوگوں پر اپنے عمل اور کردار اور تبلیغ اسلام کی مخلصانہ جدوجہد سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسلام کے سچے اور بہادر سپاہی ہیں<۔۶۲۶ind] g[ta
۶۔
چیف ہارون لگوشا )ٹانگا نیکا کی لیجسلیٹو کونسل کے سابق سپیکر اور ایسٹ افریقن کونسل کے سابق ممبر( نے کہا۔
>اگر جماعت احمدیہ نہ ہوتی تو اسلام کا نام افریقہ سے مٹ جاتا<۔۶۲۷
۷۔
ایس کے جمال )جونز برگ جنوبی افریقہ کی علم دوست شخصیت( نے ۲۶/ ستمبر ۱۹۶۳ء کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ۔
>اسلام اور عیسائیت کے سلسلہ میں جو قیمتی اور بلند پایہ مضامین اخبار >ایسٹ افریقن ٹائمز< میں شائع کئے جاتے ہیں۔ میں قدر دانی کے جذبات کے پیش نظر آپ کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں ان مضامین کو پڑھ کر ہمیشہ حظ اٹھاتا ہوں۔ بالخصوص وہ اداریے جو عیسائیت کے رد اور اسلام کی حمایت و دفاع میں آپ نے تحریر کئے بے حد قابل قدر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مجال نہیں کہ احمدی حضرات کا اس میدان میں مقابلہ کر سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم سنی جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن حقدار کو اس کا حق دینا بھی ضروری اور لابدی ہے۔ میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ایسے ادارے یا انجمنیں جو تبلیغ اسلام کے فریضہ کو غیر مسلموں میں بجا لارہی ہیں۔ احمدی حضرات کے تیارہ کردہ لٹریچر سے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں اور اس علم کلام کے زور سے اپنی تبلیغ کو غیر مسلموں میں موثر بناتی ہیں۔ احمدی حضرات نے بائیبل کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے اور ہم سنی آپ حضرات کی محنت شاقہ اور جدوجہد کے نتیجہ سے )جو عیسائیت کی علمی تحقیقات کے بارہ میں کی ہے( فائدہ اٹھا رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی انجمنوں یا اداروں نے آپ کا شکریہ ادا کرنے اور قدر دانی کے جذبات کے اظہار میں بخل سے کام لیا ہو۔ لیکن میں ایسے ناشکرا پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتا اور چاہتا ہوں کہ آپ کا اور جماعت احمدیہ کا قدر دانی کے جذبات کے ساتھ دلی خلوص سے بھر پور شکریہ کا اظہار کروں کہ آپ نے عیسائیت کے رد کے لئے بائیبل کا گہرا اور تحقیقی مطالعہ کرکے زبردست مواد عیسائیت کے ابطال کے لئے تیار کر دیا ہے بلکہ احمدی حضرات اپنی ان تھک کوششوں سے اس مواد میں روز بروز اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ ایسٹ افریقن احمدیہ مسلم مشن کا اخبار اس حقیقت کے ثبوت میں ایک روشن اور تابندہ نشان ہے ہم خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ اخبار عیسائیت کے لئے ایک تکلیف دہ اور خاردار کانٹا ہے۔
مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ میں اشاعت اسلام کا زبردست کام خالصت¶ہ جماعت احمدیہ کی ان تھک کوششوں اور مستقل جدوجہد کے نتیجہ میں انجام پارہا ہے۔ کوئی سنی عالم اس عزت کا مستحق نظر نہیں آتا<۔۶۲۸
۸۔
سکول آف اورنٹیل سٹڈیز لنڈن کے پروفیسر لینڈن ہیرس HARRIS) (LYNDON نے )جو عرصہ تک عیسائی مشنری کے طور پر )ٹانگا نیکا( مشرقی افریقہ میں کام کرتے رہے( اپنی کتاب AFRICA> EAST IN <ISLAM میں لکھتے ہیں۔
>موجودہ صدی کے آغاز میں عیسائی مصنفین اس بات پر زور دے رہے تھے کہ سیاسی طاقت کے بغیر اسلام کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام اب افریقہ میں زندہ نہیں رہ سکتا لیکن آج کوئی شخص بھی سنجیدگی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اسلام کا چیلنج اب بھی موجود ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سیاسی زندگی کے نت نئے اتار چڑھائو کی وجہ سے یہ چیلنج اور بھی قوت حاصل کر چکا ہے<۔
>اپنے تمام ہم عصروں میں احمدی اپنے مذہب اور معتقدات کے دفاع کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں اسلامی دنیا میں بالعموم فعال قسم کے مبلغ موجود نہیں ہیں۔ یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے تمام اسلامی فرقوں میں سے صرف یہی ایک فرقہ ہے جو افریقن میں اپنے پائوں جمانے اور اپنے لئے جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے<۔
۹۔
انگلستان کی نامور مضمون نگار مسز الزبتھ ہکسلے نے دورہ افریقہ کے بعد >سنڈے ٹائمز< )لنڈن( میں لکھا۔
>جھیل وکٹوریہ کے علاقہ میں جہاں کے لوگ کینیا کی سیاسیات میں بہت پیش پیش ہیں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی مساعی بارآور ثابت ہو رہی ہیں اور وہاں لوگ اس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت جو پہلے پہل ٹانگا نیکا میں پھیلنی شروع ہوئی اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی نظر آرہی ہے اس جماعت کی طرف سے جو مبلغین پاکستان سے بھجوائے جاتے ہیں اکثر و بیشتر نظر ذہنی لحاظ سے پر اثر شخصیت اور اعلیٰ قوت و کردار کے مالک ہوتے ہیں اور اس جماعت کا یہ اصول ہے کہ ہر ایک اپنی آمد کا دسواں حصہ اشاعت اسلام کے لئے ادا کرے۔ مزید ترقی اور اشاعت اسلام کے لئے فنڈ فراہم کرنے کا یہ موثر ذریعہ ہے<۔۶۲۹
۱۰۔
مغربی جرمنی کے بااثر ہفت روزہ STERN کے خصوصی نامہ نگار HALDT TOACHIM نے یوگنڈا سے ایک اہم مضمون بھجوایا۔ جس میں انہوں نے عیسائی مشنریوں کی اسی سالہ کوششوں کی ناکامی کے اسباب و عوامل اور مشرقی افریقہ میں عیسائیت کے تاریک مستقبل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>افریقہ میں اسلام کی پیش قدمی<
>اسلام جو ایک پیغمبرﷺ~ کا لایا ہوا مذہب ہے اور جس نے صحرا میں جنم لیا۔ اب تک وسطی افریقہ کے جنگلوں اور مشرقی افریقہ میں ہی پہنچا تھا۔ لیکن چند سالوں سے اس نے باقاعدہ طور پر قدیم مذہبوں کے علاقوں میں بھی تبلیغی مہم جاری کر رکھی ہے۔ عیسائیت زیادہ تر ساحل کے ساتھ ساتھ یا وسطی افریقہ کی بعض ریاستوں میں قدم جما سکی ہے اور آج ساڑھے تین کروڑ عیسائی افریقہ میں پائے جاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے<۔
فاضل مضمون نگار نے اس مقالہ میں یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے کمپالہ کے دو پادریوں سے دریافت کیا کہ >میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیا سبب ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام کو عیسائیت کے بالمقابل زیادہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے؟< اس کے جواب میں انہوں نے جو وجوہ پیش کیں وہ انہی کے الفاظ میں یہ تھیں۔
>جب میں نے یہ سوال ایک یورپین پادری سے کیا تو انہوں نے صرف یہ کہ کر پیچھا چھڑایا کہ مسلمان نت نئی مسجدیں بناتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ہم سے زیادہ روپیہ ہے اس لئے انہیں کامیابی بھی زیادہ ہو رہی ہے<۔
دوسرے پادری نے کہا۔ >اسلام کی ترقی کا صحیح اندازہ اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے ۱۹۳۰ء میں مسلمان چار کروڑ تھے اور آج ان کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پورے افریقہ کی آبادی کا چالیسواں حصہ مسلمان ہو چکا ہے اور آج کل سال بھر میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں چرچوں کے ذریعہ عیسائی ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں<۔۶۳۰
۱۱۔
روزنامہ >نوائے وقت< لاہور )۱۲/ اپریل ۱۹۶۰ء( کے نمائندہ خصوصی مسٹر حفیظ ملک )مقیم واشنگٹن امریکہ( نے لکھا۔
>افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی ۱۵ فیصد ہے جس میں >ایسٹ افریقن ٹائمز< کے بیان کے مطابق دس ہزار افریقی لوگ احمدی ہیں۔ پرتگیزی مشرقی افریقہ میں تقریباً دس لاکھ افریقی مسلمان ہو چکے ہیں جن میں سے غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ کینیا کے سرحدی صوبوں میں اسلام کو فروغ ہو رہا ہے اور یہاں بھی غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ نیروبی میں تو خیر احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی تبلیغی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ جو روزنامہ انگریزی اخبار بھی شائع کرتا ہے اور اس کے علاوہ تعلیم کے لئے اس سینٹر نے کالج وغیرہ بھی قائم کر رکھے ہیں۔
ہمیں احمدیت سے شدید اختلافات ہیں اور ہم عقیدہ ختم نبوت کے مسئلہ میں احمدیوں بالخصوص قادیانی فرقہ کے تصورات کو بالکل باطل اور گمراہ سمجھتے ہیں اور سواد اعظم کی طرح ان تصورات سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی مساعی کی داد دینی پڑتی ہے۔ بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں نیروبی گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمدیہ تھی۔ کینیا۔ یوگنڈا اور ٹانگا نیکا میں اس وقت ۲۵ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ لیکن ان کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور ہے۔ عیسائی مشنری سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ سے طلباء کو عیسائیت کی طرف راغب کر رہے ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جماعت احمدیہ کے سوا پاکستان میں اور کوئی مذہبی جماعت موجود نہیں جو افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو انجام دے سکے<۔۶۳۱
۱۲۔
جناب حفیظ ملک صاحب کے اس مضمون پر مشہور شیعہ اخبار >رضا کار< نے ۸/ مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں لکھا۔
>اس وقت افریقہ کے تمام قابل ذکر شہروں میں شیعہ مبلغین موجود ہیں لیکن جب ہم اپنے ان مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب ہم ان کا مقابلہ احمدی مبلغین سے کرتے ہیں تو ندامت سے ہمارا سر جھک جاتا ہے۔ تبلیغی میدان میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان مبلغین کی پشت پر حکومتیں ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں روپے سے ان کی امداد کر رہی ہیں۔ لیکن احمدی مبلغین کی پشت پر نہ ہی کوئی حکومت ہے اور نہ ہی کوئی سرمایہ دار طبقہ۔ ان کی پشت پر صرف ان کی جماعت ہے جو انہیں معمولی تنخواہیں دیتی ہے اور ایک محدود سرمایہ سے ان کی تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔ ان حالات میں احمدی مبلغین کا عیسائی مبلغین سے مقابلہ کرنا اور اس مقابلہ میں ان سے بازی لے جانا یقیناً خراج تحسین کا مستحق ہے اور ہمارے مبلغین حضرات کے لئے تازیانہ عبرت ہے۔ جن کو افریقہ میں ایک سرمایہ دار طبقہ کی سرپرستی حاصل ہے اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں انہیں ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔
کاش ہمارے مبلغین حضرات بھی اپنے میں مشنری سپرٹ پیدا کرتے۔ یعنی آرام و آسائش کی زندگی کو خیر باد کہتے اور محنت و مشقت کو اپنا نصب العین بناتے تو آج ان کا ذکر بھی تبلیغی مشن کے سلسلہ میں سرفہرست ہوتا<۔۶۳۲
۱۳۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صدر پاکستان نے اسلامک ¶اکیڈیمی ڈھاکہ کی ایک تقریب میں کہا۔
>آپ کے سامنے افریقہ میں رونما ہونے والا غیر معمولی انقلاب ہے۔ جہاں مسلمان مبلغوں کا ایک قلیل گروہ اپنے نہایت محدود وسائل کے ساتھ وہاں کے لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کر رہا ہے۔ مذہب اسلام میں بنیادی کشش یہ ہے کہ یہ رنگ و نسل کے امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا<۔۶۳۳
‏tav.7.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل چہاردہم(
۱۹۳۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کے تفصیلی کوائف کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم ۱۹۳۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات کی طرف لوٹتے ہیں۔
امتحان میں کامیابی
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( اور مرزا سعید احمد صاحب )خلف حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے( نے پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔۶۳۴
صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی شادی
۲۶/ اگست ۱۹۳۳ء کو سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ )بنت سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔۶۳۵ آپ کا نکاح ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو حضرت اقدسؓ نے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب )حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے فرزند( کے ساتھ پڑھا تھا۔ سیدہ موصوفہ کے بطن سے یہ اولاد ہوئی۔ صاحبزادی امتہ الرئوف صاحبہ۔ مرزا ادریس احمد صاحب۔ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ۔ مرزا مغفور احمد صاحب۔ مرزا مسرور احمد صاحب۔
ایرانی سیاح قادیان میں
۱۹/ فروری ۱۹۳۴ء کو ایک ایرانی سیاح ابو القاسم خاں صاحب قادیان پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں اپنے حالات سفر پر فارسی زبان میں روشنی ڈالی۔۶۳۶ اور مکرم اللہ بخش صاحب ضیاء نے ان کی تقریر کا فی البدیہہ اردو میں نہایت عمدگی سے ترجمہ سنا دیا۔
مولوی محمد اسمٰعیل صاحب یادگر کی مراجعت وطن
اسی سال مولوی محمد اسمعیل صاحب اپنی تعلیم سے فراغت پا کر قادیان سے اپنے وطن یادگیر )حیدر آباد دکن( چلے گئے وہاں جاکر آپ نے مسجد احمدیہ یادگیر میں درس و تدریس جاری کیا۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے کاموں میں امداد کی۔ صحابہ جنوبی ہند کے حالات جمع کئے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کی تصانیف کے لئے مواد اکٹھا کرنے میں بھی بہت محنت کی جیسا کہ حضرت عرفانی صاحبؓ نے اپنی کتاب >حیات حسن< صفحہ ۲۱۹ پر ذکر فرمایا ہے اس کے علاوہ مولوی صاحب موصوف نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے >خطبات و جمعہ و عیدین< کی فہرست بھی شائع کی۔ غرضکہ آپ آخر دم تک سلسلہ کی آنریری خدمات بجا لاتے رہے ۱۹۶۵ء میں آپ کا انتقال ہوا۔
چوہدری علی بخش صاحب کا انتقال
مارچ ۱۹۳۴ء میں چوہدری علی بخش صاحب رئیس بھینی پسوال جو علاقہ بیٹ میں سلسلہ کے ایک پرجوش فدائی اور شیدائی تھے وفات پا گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے اپنی طرف سے مولانا محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری اور ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے مولانا حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی کو ان کے پسماندگان سے اظہار افسوس کے لئے بھیجا۔۶۳۷
سناتن دھرم سبھا فیروز پور شہر
۳۱/ مارچ ۱۹۳۴ء کو فیروزپور شہر میں سناتن دھرم سبھا منعقد ہوئی۔ جس میں نمائندہ جماعت احمدیہ کی حیثیت سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے بھی شرکت فرمائی جہاں دوسرے مقررین کی تقریروں پر بہت شور و شر ہوتا رہا۔ وہاں آپ کی تقریر آخر وقت تک خاص دلچسپی اور دلجمعی سے سنی گئی۔۶۳۸
یونیورسٹی کمیشن کے لئے میمورنڈم
جماعت احمدیہ نے اس سال ملک کی ایک بھاری علمی خدمت یہ سر انجام دی کہ اس نے یونیورسٹی کمیشن کے سامنے فلسکیپ کاغذ کے انتالیس صفحات پر مشتمل ایک مفید میمورنڈم پیش کیا۔ جس میں پنجاب یونیورسٹی کی اصلاح اور ترقی کے لئے بیش قیمت مشورے اور تجاویز تھیں۔۶۳۹
دی >سٹار ہوزری ورکس< قادیان کا افتتاح
۲۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے >دی سٹار ہوزری ورکس لمیٹڈ قادیان< کے کارخانہ کا افتتاح فرمایا۔۶۴۰ یہ پہلا کارخانہ تھا جو قادیان میں قائم ہوا۔ اور اس نے بہت جلد شہرت حاصل کر لی۔ ابتداء میں اس کارخانہ کے ڈائریکٹر مندرجہ ذیل اصحاب منتخب ہوئے۔
)۱( حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب تاجر سکندر آباد )۲( چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بار ایٹ لاء ایم۔ ایل۔ سی لاہور )۳( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے قادیان )۴( جناب شیخ محمد صدیق صاحب تاجر اوکاڑہ )۵( حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب قادیان )۶( حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب ناظر امور عامہ قادیان )۷( حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب قادیان )۸( شیخ عبدالواحد صاحب ٹھیکہ دار قادیان )۹( شیخ غلام مجتبی صاحب پنشنر قادیان )۱۰( چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ )ہوزری ایکسپرٹ( تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ۔۶۴۱
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
مصر و فلسطین: )۱( یکم جنوری ۱۹۳۴ء کو کبابیر کے احمدیہ مدرسہ کا افتتاح عمل میں آیا۔۶۴۲ )۲( اس سال ایک احمدیہ لائبریری کی بنیاد رکھی گئی۔ )۳( مولانا ابوالعطاء صاحب کی تحریک پر کبابیر میں پریس کا قیام ہوا جو بلاد عربیہ میں سب سے پہلا احمدیہ پریس تھا۔۶۴۳
مغربی افریقہ: لیگوس میں عرصہ سے ایک مسجد سے متعلق جماعت احمدیہ اور مخالفین کے درمیان مقدمہ چل رہا تھا۔ اس سال اپریل ۱۹۳۴ء میں جماعت احمدیہ کے حق میں اس کا فیصلہ ہوا۔۶۴۴]4 [rtf مقدمہ میں فتح یابی کا سہرا قابل و مخلص احمدی جبرائیل مارٹن بیرسٹرایٹ لاء کے سر تھا۔ جنہوں نے اس مقدمہ میں کامیاب وکالت کی۔۶۴۵
۱۳۔ ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو لیگوس میں پہلا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں لیگوس کے علاوہ کانو` ابادان` پورٹ ہارکوٹ وغیرہ دور دراز مقامات سے نمائندگان جماعت شامل ہوئے۔۶۴۶
لنڈن مشن: انگلینڈ کی کرسچین چرچ کو غیر مسیحی ممالک میں تبلیغ کے لئے موزوں مشنری مہیا کرنے میں روز بروز دقت ہو رہی تھی۔ جس کا حل یہ سوچا گیا کہ انگلش چرچ اور سٹوڈنٹس کرسچن موومنٹ مل کر کام کریں۔ اس تحریک کے تمام ممبر مختلف یونیورسٹیوں کے انڈر گریجوایٹ ہوتے تھے اور چرچ کی امداد سے ہندوستانی طلباء میں نہایت ہوشیاری سے عیسائیت کا پرچار کرتے تھے۔ جماعت احمدیہ کے سیکرٹری امور خارجہ ڈاکٹر جے سلیمان )آف جنوبی افریقہ(نے برطانیہ کی تمام یونیورسٹیوں کو مسلم طلبہ کی تعداد سے مطلع کرنے کو لکھا۔ لیکن ناٹنگھم یونیورسٹی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی نے لکھا کہ ہائی کمشنر آف انڈیا سے معلوم کریں۔ دوسری یونیورسٹیوں نے مطلوبہ معلومات بھجوا دیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اسی سلسلہ میں جون ۱۹۳۴ء کے آخر میں برسٹل یونیورسٹی میں بھی گئے اور گو امتحانات کی وجہ سے کماحقہ فائدہ نہ اٹھا سکے مگر بعض مسلم طلبا سے ملاقات کرکے ان کو مسجد احمدیہ لنڈن سے رابطہ قائم رکھنے اور کرسچن چرچ اور سٹوڈنٹس کرسچن موومنٹ کی سرگرمیوں سے خبردار رہنے کی تلقین کی۔ ۶۴۷
سماٹرا مشن: ۳/ جون ۱۹۳۴ء کو مولوی ابوبکر صاحب مولوی فاضل نے میدان میں انجمن تلاشیان حق` کے ایک عالم سے کامیاب مناظرہ کیا۔ ایک مقامی اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ کے مناظر کی تقریریں صاف طور پر ظاہر کر رہی تھیں کہ اس کا علم بہت وسیع اور گہرا ہے اس کے مقابل میں ہمارے علماء کی تحقیق افسوسناک حد تک کم تھی۔ ایک اور اخبار نے لکھا ہم احمدی نوجوان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کی طرز بحث اور تائید احمدیت کا طریق پبلک کو حیرت میں ڈال رہا تھا اور اس کے مذہبی معلومات کی وسعت ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کوئی معمولی عالم نہیں۔۶۴۸
نئی مطبوعات
جماعت احمدیہ کی طرف سے ۱۹۳۴ء میں جو لٹریچر شائع ہوا۔ اس میں سے مندرجہ ذیل کتب و رسائل قابل ذکر ہیں۔
۱۔ حیات احمد جلد دوم نمبر ۲ )حضرت عرفانی کبیرؓ کی تالیف( )۲( >امتحان پاس کرنے کے گر<۔ )از حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۳۔
>چشمہ عرفان< سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار >سیاست< لاہور نے ۲۱/ اپریل ۱۹۳۳ء سے >تحریک قادیان< کے عنوان سے ایک طویل سلسلہ مضمون جاری کیا تھا۔ جس پر مدلل و مسکت تبصرہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر کے قلم سے >چشمہ عرفان< کی صورت میں شائع کیا گیا۔
۴۔
>ہمارا مذہب< حیدر آباد دکن کے پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس صاحب برنی ایم۔ اے` ایل ایل۔ بی علیگ نے ایک کتاب >قادیانی مذہب< لکھی تھی۔ جس کا جواب مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے تیار کیا۔ جو >ہمارا مذہب< کے نام سے شائع کر دیا گیا۔
۵۔
>تصدیق احمدیت< یہ بھی پروفیسر برنی صاحب کی کتاب کا مختصر جواب ہے۔ جو سید بشارت احمد صاحب جنرل سیکرٹری حیدر آباد دکن کی طرف سے شائع ہوا۔ >تصدیق احمدیت< کے بعد آپ نے >بشارت احمد< کے نام سے برنی صاحب کی کتاب کے جواب میں نہایت مفصل اور مدلل کتاب شائع کی جو بہت مقبول ہوئی۔
۶۔
>عروج احمدیت< )ابو البشارت مولانا عبدالغفور صاحبؓ فاضل کی ایمان افروز تقریر برموقعہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ء(
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
مناظرہ لاہور: ۱۹۳۴ء کا پہلا مباحثہ یکم جنوری کو لاہور میں ہوا جس میں میاں عبداللہ صاحب معمار سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی بحث ہوئی۔ محترم خادم صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کی تشریح جب اخبار اہلحدیث ۲۶/ اپریل ۱۹۰۷ء سے پیش کی تو حاضرین پر سناٹا چھا گیا۔۶۴۹
مناظرہ بڈھن وال )ضلع جالندھر( یہاں عیسائیوں نے اپنا کیمپ لگایا تھا۔ غیر احمدیوں نے پادریوں کے سامنے اپنے علماء کو بے بس پاکر نکودر سے ایک احمدی عالم مولوی عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل کو بلایا جنہوں نے کیمپ میں مسئلہ کفارہ کے موضوع پر مناظرہ کرکے پادریوں کو ساکت کر دیا۔۶۵۰
مناظرہ دہلی: یکم فروری ۱۹۳۴ء کو جماعت احمدیہ دہلی کا آریہ سماج چاوڑی بازار کے ساتھ >مکتی< پر کامیاب مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ماسٹر محمد حسن صاحب آسان مناظر تھے۔ بعض ہندوئوں نے بھی اقرار کیا کہ احمدی مناظر اپنے طرز بیان اور دلائل کے لحاظ سے آریہ سماجی مناظر پر غالب رہا۔۶۵۱
مناظرہ کراچی: یہاں ۴/ فروری ۱۹۳۴ء کو مولوی محمد سلیم صاحب نے لال حسین صاحب اختر اور احمد دین صاحب سے مناظرہ کیا اور خدا کے فضل سے مخالفین کے معاندانہ رویہ کے باوجود نمایاں کامیابی حاصل کی۔۶۵۲
مناظرہ اچہ ججہ )ضلع سیالکوٹ( ۵۔ ۶۔ ۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مولوی محمد عبداللہ صاحب اور مولوی دل محمد صاحب نے غیر احمدیوں سے مباحثہ کیا۔ احمدی مبلغین کے ٹھوس دلائل کا جواب بدزبانی کی صورت میں دیا گیا۔۶۵۳
مناظرہ بٹالہ: انجمن خادم المسلمین اہلحدیث بٹالہ کے سالانہ جلسہ )منعقدہ ۱۲ تا ۱۴/ مارچ ۱۹۳۴ء( میں مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر کے بعد سوال و جواب کا موقعہ دیا گیا۔ جس میں مرکز کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے حصہ لیا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے عنوان >قرآن اور مسیح موعود قادیانی< کے مطابق قرآن مجید سے حضرت اقدس کے خلاف ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکے۔۶۵۴
مناظرہ لالہ موسیٰ: انجمن اہلحدیث لالہ موسیٰ نے احمدیوں سے طے کیا کہ وہ ۲۲۔ ۲۳/ مارچ ۱۹۳۴ء کو تین متنازعہ مسائل پر مناظرہ کریں گے۔ چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق ۲۲/ مارچ کو مولوی محمد سلیم صاحب نے لال حسین صاحب اختر سے مسئلہ وفات و حیات مسیح اور صداقت مسیح موعود پر ایسا شاندار مناظرہ کیا کہ دوسرے دن فریق ثانی کو مسئلہ ختم نبوت پر بحث کرنے کی جرات ہی نہ ہو سکی۔۶۵۵
مناظرہ چوہدریوالہ چک نمبر ۱۰۸ )ضلع لائلپور( اس گائوں میں عیسائیوں نے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا تھا مسلمانوں کی دعوت پر مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل تشریف لے گئے اور ایک پادری صاحب کے ساتھ >کفارہ< اور >موجودہ انجیل الہانی کتاب ہے یا قرآن مجید< پر مناظرہ ہوا۔ پادری صاحب قاضی صاحب کے مطالبات سے عاجز آگئے تو مناظرہ درمیان ہی میں چھوڑ کر احمدیوں اور غیر احمدیوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے دلائل طلب کرنے لگے۔ محترم قاضی صاحب نے بائبل کی رو سے حضورؑ کی صداقت ایسے موثر پیرایہ میں واضح کی کہ پادری صاحب کو لاجواب ہونا پڑا۔۶۵۶
مناظرہ کلاسوالہ )ضلع سیالکوٹ( ۲۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے آریہ سماج کے پنڈال میں پنڈت شانتی پرکاش سے >قرآن شریف الہامی کتاب ہے< کے موضوع پر مناظرہ کیا۔ کئی غیر احمدیوں اور سفاتنی ہندوئوں نے صاف تسلیم کیا کہ آریہ پنڈت صاحب احمدیوں کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔۶۵۷
مناظرہ لائل پور: حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے ۱۴/ اپریل ۱۹۳۴ء کو خواجہ غلام حسن صاحب وکیل کے مکان پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے تین گھنٹے مناظرہ کیا۔ جس کا تعلیم یافتہ طبقہ پر اچھا اثر ہوا۔۶۵۸
مناظرہ حافظ آباد نمبر ۱ )ضلع گوجرانوالہ( مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء کو ۲ بجے دوپہر اہلحدیث مناظر مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی سے اور رات کو حنفی جماعت کے نمائندہ چوہدری محمد اکبر صاحب سے مناظرہ کیا۔ دونوں مناظروں سے سنجیدہ طبقہ بہت متاثر ہوا۔۶۵۹
مناظرہ دھاریوال نمبر ۱: ۲۱۔ ۲۲/ اپریل ۱۹۳۴ء کو دھاریوال میں علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور پادری میلا رام صاحب کے درمیان چار مناظرے ہوئے۔ جماعت احمدیہ کے مبلغ کی کامیاب بحث کا غیر احمدیوں نے بھی اقرار کیا۔۶۶۰
مناظرہ پونچھ: )مئی ۱۹۳۴ء میں مورخہ ۲۴ بیساکھ( مولوی محمد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے مولوی احمد الدین صاحب گکھڑوی مبلغ اہلحدیث سے مناظرہ کیا۔ دوران مناظرہ >پیشگوئی محمدی بیگم< اور اشتہار >آخری فیصلہ< خاص طور پر زیر بحث آئے۔ جن کا احمدی مناظر نے ایسا مسکت جواب دیا کہ ان کی آخری تقریر سننے سے پہلے ہی صدر اہلحدیث کو جلسہ برخاست کرنا پڑا۔۶۶۱
مناظرہ ڈیرہ غازی خان: ۲۳/ مئی ۱۹۳۴ء کو احمدیوں اور اہلحدیث میں مناظرہ ہوا۔ احمدی عالم ابو البشارت مولانا عبدالغفور صاحب مرحوم نے صداقت انبیاء کے بارہ دلائل قرآن کریم سے اور ایک حدیث بخاری شریف سے پیش کئے۔ مگر مناظر اہلحدیث مولوی عبدالعزیز صاحب ملتانی نے اپنی تقریروں میں اس درجہ استہزاء تمسخر اور فحش کلامی شروع کر دی کہ صدر اہلحدیث رحیم بخش صاحب کرسی صدارت چھوڑ کر چل دیئے اور پولیس نے مناظرہ بند کروا دیا۔۶۶۲4] f[rt
مناظرہ فیروز والا )ضلع گوجرانوالہ( ۲۵۔ ۲۶/ مئی ۱۹۳۴ء کو ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم نے سائیں لال حسین صاحب اختر اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی سے اور مولوی محمد نذیر صاحب مولوی فاضل نے مولوی محمد چراغ صاحب سے مناظرہ کیا۔ خادم صاحب کی سحر بیانی اور حاضر جوابی نے اپنوں اور بیگانوں سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اس کے مقابل خود ارکان اہلسنت نے اپنے ایک مناظر کی نسبت اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر ان کی اس بے بضاعتی کا ہمیں پہلے علم ہوتا تو ان کو بطور مناظر کبھی نہ بلواتے۔۶۶۳
مناظرہ حافظ آباد )نمبر ۲( اسی سال حافظ آباد میں دوسرا مناظرہ ۲۷/ مئی ۱۹۳۴ء کو ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے حافظ مبارک احمد صاحب اور ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور اہلسنت و الجماعت کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی اور لال حسین صاحب اختر شامل ہوئے۔ میدان مناظرہ میں موخر الذکر غیر احمدی مناظر نے اپنی >خوش کلامی< کا خوب مظاہرہ کیا۔ اور رہی سہی کسر اہلسنت و الجماعت نے شور مچا کر اور تالیاں بجا کر پوری کر دی۔ بحالیکہ شرائط مباحثہ میں خاص طور پر درج تھا کہ اول بحث دائرہ تہذیب کے اندر ہو گی۔ دوسرے شور مچانے والا فریق شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔۶۶۴
مناظرہ ہنگو )ضلع کوہاٹ( ۲۵/ جون ۱۹۳۴ء کو مولوی چراغ دین صاحب نے صوبہ سرحد کے ایک مشہور معاند احمدیت سے کامیاب مباحثہ کیا۔۶۶۵
مناظرہ شیر نگر )ضلع لاہور( انہی ایام میں شیر نگر میں مولوی عبداللہ صاحب اعجاز نے مولوی عبدالقادر صاحب رو پڑی سے اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب رو پڑی سے مناظرے کئے۔۶۶۶
مناظرہ شاہ مسکین )ضلع شیخوپورہ( یکم جولائی ۱۹۳۴ء کو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے عبداللہ صاحب معمار امرتسری سے مباحثہ کیا۔ معمار صاحب استہزاء اور ہنسی مذاق کے سوا کوئی معقول بات پیش نہ کر سکے۔۶۶۷
مناظرہ دھاریوال )نمبر ۲( اس سال کا یادگار اور معرکتہ الاراء مناظرہ ۲۸۔ ۲۹/ جولائی ۱۹۳۴ء کو عیسائیوں کے مشہور تبلیغی مرکز دھاریوال میں ہوا۔ جس نے کاسر صلیب کے شاگردوں کی دھاک بٹھا دی مناظرے کے چار اجلاس ہوئے پہلے اجلاس میں مسئلہ کفارہ پر ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم نے سادھو میلا رام صاحب سے مناظرہ کیا۔ عیسائی مناظر صاحب کی تقریر بالکل سطحی اور عامیانہ تھی۔ مگر ملک صاحب نے ایسی زبردست تقریر کی کہ کفارہ کے نظریہ کا بطلان روز روشن کی طرح ثابت ہو گیا۔ دوسرے اجلاس میں >صداقت مسیح موعود< پر بحث ہوئی عیسائی مناظر صاحب نے غیر احمدی مناظرین کی خوشہ چینی کرکے وہی فرسودہ اعتراضات دہرا دیئے جو عام طور پر مناظروں میں کئے جاتے تھے- ان اعتراضات کا رد ملک صاحب مرحوم نے ایسی قابلیت سے کیا کہ عیسائی مناظر صاحب گالیوں اور بدزبانیوں پر اتر آئے۔ لیکن ہر بات کا دنداں شکن جواب پاکر جلد ہی اپنی روش بدلنے پر مجبور ہو گئے۔
مناظرہ کے تیسرے اجلاس میں بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ ہی نے بحث کی۔ اس اجلاس میں >یسوع مسیح کی شخصیت از روئے بائیبل< زیر بحث تھی۔ خادم صاحب نے انجیلی یسوع کا نقشہ اس خوبی سے پیش کیا کہ عیسائی مناظر صاحب کو دم مارنے کی مجال نہ رہی۔ آپ نے انعامی چیلنج دیا کہ بائیبل کے یسوع کی والدہ کا یسوع پر ایمان لانا ثابت کر دو۔ مگر وہ آخر وقت تک اس مطالبہ سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ چوتھے اور آخری اجلاس میں >تحریف بائیبل< پر بحث ہوئی۔ احمدی مناظر مولوی علی محمد صاحب اجمیری تھے اور عیسائی مناظر مسٹر ہوز۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے بائبل کے محرف و مبدل ہونے کی ایسی ایسی مثالیں دیں کہ حاضرین ونگ رہ گئے۔ مسٹر ہوز آخری تقریر میں کسی مطالبہ کا جواب دینے کے بجائے >ہائے ہائے قادیان< کے الفاظ منہ سے نکالنے لگے۔ بلکہ تقریر کے خاتمہ پر یہاں تک کہ دیا کہ میز پر جتنی کتابیں پڑی ہیں سب جلا دو اور جب ادھر سے کہا گیا کہ ان میں توانا جیل بھی ہیں۔ تو فرمانے لگے ان کو بھی جلا دو۔ اگرچہ باہمی طور پر چھ متنازعہ مسائل پر بحث قرار پائی تھی۔ مگر عیسائیوں نے آخری دو مسئلوں پر مناظرہ کرنے سے فرار اختیار کر لیا۔
اس مناظرہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت علامہ میر محمد اسحٰق صاحبؓ ناظر ضیافت اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ بھی شروع سے آخر تک اس میں تشریف فرما رہے اور احمدی مناظرین کی راہ نمائی کے فرائض انجام دیتے رہے۔]01 [p۶۶۸
مناظرہ چوہدریوالہ چک نمبر ۱۰۸ ضلع لائلپور: اس گائوں میں تین مباحثات ہوئے۔ پہلا مباحثہ چوہدری محمد شریف صاحب فاضل جامعہ اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی کے درمیان دوسرا مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ اور مولوی محمد مسلم صاحب دیوبندی کے درمیان اور تیسرا مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور لال حسین صاحب اختر کے درمیان ہوا۔ تینوں مناظروں کا غیر احمدیوں پر بہت اچھا اثر پرا۔۶۶۹
مناظرہ مکیانہ ضلع گجرات ۲۸۔ ۲۹/ اگست ۱۹۳۴ء کو جماعت احمدیہ فتح پور کا اہلسنت و الجماعت مکیانہ سے مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ نے بحث کی اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی حافظ احمد دین صاحب گکھڑوی نے۔ تعلیم یافتہ غیر احمدیوں نے تسلیم کیا کہ ان کے مناظر نے کوئی معقول جواب نہیں دیا۔ خصوصاً خادم صاحبؓ کی تقریر اس قدر موثر اور لاجواب تھی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ آخری تقریر خادم صاحب کی تھی مگر غیر احمدی اصحاب میدان مناظرہ چھوڑ کر چلے گئے اور تالیاں بجانا شروع کر دیں۔۶۷۰
مناظرہ گوجرہ: ۲۲۔ ۲۳/ ستمبر ۱۹۳۴ء عیسائیوں کا گوجرہ ضلع لائل پور میں جلسہ تھا۔ اس موقعہ پر انہوں نے جماعت احمدیہ کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ جو منظور کر لیا گیا۔ قادیان سے مولوی محمد سلیم صاحب اور لائل پور سے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل تشریف لے آئے۔ دو مضمون تجویز ہوئے۔ >مسیحیت حضرت مرزا صاحب< اور >کفارہ<۔ ۲۵/ ستمبر کو دونوں مضمونوں پر مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے پادری عبدالحق صاحب سے مناظرہ کیا۔ جس میں دوست دشمن نے مولوی صاحب کی فصیح البیانی اور زور استدلال اور پادری صاحب کے عجز اور بے بسی کا اقرار کیا۔
پادری عبدالحق صاحب نے اپنی باری میں احمدیوں کو >عصمت انبیاء< پر بھی مناظرہ کا چیلنج دیا جو اسی وقت منظور کر لیا گیا تھا اور ساتھ ہی ان کو >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ ابھی پادری صاحب سے اس بارے میں گفتگو جاری تھی کہ مولوی محمد شاہ صاحب سیالکوٹی )جو غیر احمدیوں کی طرف سے عیسائیوں سے بحث کے لئے بلوائے گئے تھے اور جن کی نسبت بعد کو معلوم ہوا کہ انہوں نے عیسائیوں سے ساز باز کر رکھی ہے` درمیان میں کھڑے ہو گئے اور ختم نبوت پر مناظرہ کا چیلنج دے دیا جو مولوی محمد سلیم صاحب نے فوراً منظور کر لیا۔ یہ سنتے ہی مولوی محمد شاہ صاحب عیسائیوں کی سٹیج پر جا بیٹھے۔ مولوی محمد شاہ صاحب کی اس حرکت نازیبا کو ذمہ دار مسلمانوں نے نہایت ناپسند کیا نیز سب انسپکٹر صاحب پولیس نے بھی انہیں اس وقت مناظرہ سے روک دیا اور کہا کہ یہ مناظرہ تب ہو سکتا ہے جب باقاعدہ آپس میں مناظرہ کی شرائط طے کر لو۔ دوسری طرف عیسائیوں سے مناظرہ جاری رکھنے کی انہوں نے اجازت دے دی۔ مگر پادری صاحب نے مناظرہ کا چیلنج دے کر انکار کر دیا۔ لیکن عیسائیوں کی چالاکی و ہوشیاری ملاحظہ ہو۔ دوسرے دن جب مولوی محمد سلیم صاحب اپنے مقررہ پروگرام کے مطابق خوشاب روانہ ہو گئے تو انہوں نے منادی کرا دی کہ مولوی محمد سلیم صاحب بھاگ گئے ہیں جماعت احمدیہ گوجرہ نے منادی سنتے ہی مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کو بلوا لیا اور ۸ بجے شام عیسائیوں کے بالمقابل سٹیج لگا دی۔ قاضی محمد نذیر صاحب نے پادری عبدالحق صاحب کو >عصمت انبیاء< اور >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کرنے کے لئے للکارا۔ پادری صاحب کہنے لگے میں عصمت انبیاء پر مناظرہ کرنا نہیں چاہتا۔ ہاں >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کے لئے تیار ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ مولوی محمد شاہ صاحب ثالث ہوں اور آپ محض میرے دلائل کو توڑیں۔ قاضی صاحب نے جواب دیا مجھے یہ شرط بھی منظور ہے۔ مگر پہلے اپنے پیش کردہ ثالث سے منظوری لے لو۔ اس پر مولوی محمد شاہ صاحب کہنے لگے میں ثالث نہیں بنتا۔ میرے متعلق پہلے ہی عجیب قسم کے خیالات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس طرح پبلک پر واضح ہو گیا کہ پادری عبدالحق صاحب نے ثالثی کی شرط محض میدان مناظرہ سے فرار کے لئے لگائی تھی اور یہ کہ پادری صاحب پہلے دن ہی ایسی منہ کی کھا چکے تھے کہ اب وہ احمدیوں سے مناظرہ کی تاب نہیں رکھتے تھے۔۶۷۱
مناظرہ امرتسر: مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کی رات کو ڈھاب کھٹیکاں میں ایک جلسہ کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کے موضوع پر مبادلہ خیالات کی دعوت دی جس پر علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل تشریف لے گئے۔ علامہ شمسؓ صاحب نے حضور علیہ السلام کی عمر سے متعلق الہامات کے اصل الفاظ پیش کرکے حضورؑ کے الفاظ بلکہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی تحریرات سے ثابت کر دکھایا کہ الہام الٰہی کے مطابق حضورؑ نے ۷۵ سال کی عمر پائی۔۶۷۲
مناظرہ آڑھا ضلع گیا: یہاں ۲۰۔ ۲۱/ اکتوبر کو مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی نے غیر احمدیوں سے چار موضوعات پر مناظرہ کیا۔ آخر میں غیر احمدیوں نے تالیاں بجائیں اور احمدیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ حتیٰ کہ ہندوئوں کو بھی روکا گیا کہ احمدیوں کے ہاتھ کوئی چیز نہ بیچیں۔۶۷۳]body [tag
مناظرہ سونگھڑہ )کٹک( یہاں سید ضیاء الحق صاحب بی۔ اے بی ٹی اور قریشی محمد حنیف صاحب نے غیر احمدیوں سے دو کامیاب مناظرے کئے اور جب غیر احمدی اصحاب سے تیسرے مناظرے کی شرائط طے کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے ہاتھ ہلا کر بس بس کی آوازیں بلند کر دیں۔۶۷۴
مناظرہ کلکتہ: ایک تعلیم یافتہ بنگالی نوجوان کے قبول احمدیت پر اس کے رشتہ داروں نے مناظرہ کا مطالبہ کیا اور ۲/ نومبر ۱۹۳۴ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔ قادیان سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل تشریف لے گئے اور مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری سے تینوں اختلافی مسائل پر مناظرہ کیا۔ جس سے سعید الفطرت لوگوں کے لئے تحقیق کا دروازہ کھل گیا۔۶۷۵
مناظرہ کلاسوالہ۴۔ ۵/ نومبر کو مہاشہ مولوی محمد عمر صاحب فاضل نے پنڈت چرنجی لال پریم صاحب سے >صداقت مسیح موعود< اور >ویدوں کی تعلیم< پر مناظرہ کیا۔ پنڈت صاحب احمدی مناظر کے اعتراضات کا جواب دینے سے قاصر رہے۔۶۷۶
بعض ممتاز نو مبایعین
اس سال جن خوش نصیبوں کو نظام خلافت یا سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہونے کی توفیق ملی ان میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے برادر اکبر شیخ عطاء محمد صاحب اور بھتیجا شیخ اعجاز احمد صاحب بہت ممتاز ہیں۔ محترم شیخ عطا محمد صاحب نے اپنی بیعت کا حسب ذیل الفاظ میں خط لکھا۔
>سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ جناب والا کمترین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کا بیعت شدہ ہے۔ خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعودؑ کی دعائوں کی برکت سے بیعت پر ثابت قدم ہے بلکہ بعض نشانات نے میرے ایمان کو زیادہ محکم کر دیا ہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے بتلایا کہ خلافت کی بیعت بھی ضروری ہے بوجہ پیرانہ سالی و نقاہت حاضری سے مجبور ہو کر یہ عریضہ خدمت اقدس میں ارسال ہے۔ براہ نوازش قدیمانہ مجھے اپنی بیعت کے سلسلہ میں لے لیویں میں صدق دلی سے آپ کی بیعت خلافت کرتا ہوں۔ نیاز مند شیخ عطا محمد۔۶۷۷
ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اپنے برادر معظم شیخ عطا محمد صاحب ہی کی نسبت مندرجہ ذیل اشعار کہے تھے۔ 2] [stf ~}~
وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو
ہوائے عشق میں پالا` کیا جواں مجھ کو
ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں
کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے۶۷۸
اسی سال مرزا ضیاء اللہ بیگ صاحب )داماد مرزا سلطان محمد بیگ صاحب رسالدار( مع اہل و عیال داخل احمدیت ہوئے۔۶۷۹ اسی طرح محترمہ عزت بیگم صاحبہ جو حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ کے چھوٹے بھائی مرزا فضل احمد صاحب کی اہلیہ تھیں خدا کے فضل سے احمدی ہو گئیں۔۶۸۰ حضرت سلطان احمد صاحبؓ کے خاندان میں صرف یہی ایک خاتون باقی تھیں جن کو آخر قبول حق کی توفیق مل گئی۔
اس سال کے مبایعین میں حاجی الٰہی بخش صاحب گورایا )ساکن موضع ہرچو کے ضلع گوجرانوالہ( بھی تھے۔ جن کی عمر سو سال کے قریب تھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی بیعت کے خط پر تحریر فرمایا۔ >اس عمر میں ہدایت آپ کے لئے مبارک اور ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے<۔۶۸۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
پہلا باب
حواشی
۱۔
>خون کے آنسو<۔ مصنفہ جناب اشفاق حسین صاحب مختار میونسپل پبلک پراسیکیوٹر سابق میونسپل کمشنر مراد آباد۔ ناشر حافظ محمد دین اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور۔ سن اشاعت ۱۹۳۱ء۔
۲۔
یہ اخبار مولانا شوکت علی مرحوم نے جاری کیا تھا۔ اس کے پہلے مدیر عبدالغنی چودھری اور دوسرے علی بہادر خاں تھے۔ آخری دور میں سید رئیس احمد صاحب جعفری ادارت پر فائز رہے جب آل انڈیا مسلم لیگ کی ۱۹۳۵ء میں نشاۃ ثانیہ ہوئی تو اس اخبار نے بڑے زور شور سے اس کی حمایت کی۔
۳۔
الجمعیتہ ۲۸/ نومبر ۱۹۳۲ء۔ یاد رہے الجمعیتہ کے اس مضمون کا عنوان ہے >مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے فتنہ سے محفوظ رہنا چاہئے<۔
۴۔
زمیندار ۹/ اکتوبر ۱۹۳۲ء )قادیان نمبر(
۵۔
ہفت روزہ پرکاش کے ایڈیٹر مہاشہ کرشن تھے جو سوامی شردھانند کے دست راست تھے۔ آریہ سماج کا پرجوش ترجمان پرتاپ بھی انہی کی ادارت میں نکلتا تھا اور ہندوئوں میں بہت مقبول تھا۔
۶۔
امید۔
۷۔
حالت۔
۸۔
یہ الفضل کی طرف اشارہ ہے )ناقل(
۹۔
تعداد۔
۱۰۔
ماتا۔
۱۱۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۔ ۶
۱۲۔
رسالہ نور الاسلام رجب ۱۳۵۱ھ جلد ۳ نمبر ۷ مطابق اکتوبر۔ نومبر ۱۹۳۲ء۔
۱۳۔
جلد ششم میں اسے اگست ۱۹۳۰ء کا واقعہ قرار دیا گیا ہے جو سہو ہے۔
۱۴۔
الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۲۔ ایضاً ۱۸/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳
۱۵۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۶۔
۱۶۔
پیغام صلح ۷/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۱۷۔
الوصیت صفحہ ۶ )طبع اول( مطبوعہ ۲۴/ دسمبر ۱۹۰۵ء۔
۱۸۔
)خطبہ جمعہ از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرمودہ ۸/ جنوری ۱۹۳۲ء( اخبار الفضل مورخہ ۱۴/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۵۔ ۶
۱۹۔
ملخصاً از رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء صفحہ ۴۴ تا صفحہ ۴۹۔
۲۰۔
الفضل ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ ۲۰/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۷ و ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔
۲۱۔
الفضل مورخہ ۲۷/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۔ ۶
۲۲۔
تفصیلی ہدایات الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء میں چھپ چکی ہیں۔
۲۳۔
الفضل ۷/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔ اس دعوت کے اہتمام میں ملک فضل حسین صاحب` مرزا گل محمد صاحب` مرزا صالح علی صاحب` سید محمد عبداللہ صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ` مولوی فاضل نے نمایاں حصہ لیا۔
۲۴۔
الفضل ۱۴/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۲۵۔
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب۔ ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب۔ ڈاکٹر احسان علی صاحب اور صوفی محمد یعقوب صاحب نے اس دعوت کے انتظام میں پوری تندہی سے کام کیا۔ الفضل ۹/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۶۔
الفضل ۹/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۷۔
الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۔ ۸ )مضمون سید بہاول شاہ صاحب نائب مہتمم تبلیغ کٹڑہ خزانہ امرتسر(
۲۸۔
الفضل ۲۶/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔
۲۹۔
الفضل ۴/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۳۰۔
الفضل ۱۴/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔
۳۱۔
الفضل ۱۶/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۳۲۔
الفضل ۱۶/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۳۳۔
الفضل ۱۴/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۸/ جنوری ۱۹۳۲ء(
۳۴۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۷۷۔
۳۵۔
الفضل ۴/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۔
۳۶۔
الفضل ۱۲/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ ۴۔
۳۷۔
الفضل ۱۱/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۳۸۔
الفضل ۱۴/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۳۹۔
ملخصا از الفضل ۱۱/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۴۰۔
ایضاً صفحہ ۴ کالم ۳۔
۴۱۔
الفضل ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۲۔
الفضل ۳/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۳۔
الفضل ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۴۔
حضرت خان صاحب برکت علی صاحبؓ ایک لمبی اور قابل تعریف ملازمت سے پنشن یاب ہو کر اور بقیہ زندگی خدمت سلسلہ کے لئے وقف کرکے قادیان جارہے تھے یہ پارٹی اسی سلسلہ میں تھی اس پارٹی میں جماعت دہلی کا ایڈریس جناب اکبر علی صاحبؓ نے اور جماعت شملہ کا ایڈریس حافظ عبدالسلام صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ )الفضل ۲۰/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱( یہ دونوں ایڈریس اور خان صاحب کا جواب الفضل ۱۷/ اپریل ۱۹۳۲ء میں چھپا ہوا ہے۔
‏h1] [tag۴۵۔
الفضل ۱۷/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔
۴۶۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۷۔
الفضل ۱۵/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۸۔
الفضل ۸/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۹۔
الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔
۵۰۔
ایضاً
۵۱۔
الفضل ۱۰/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔
۵۲۔
الفضل ۱۲/ جولائی ۱۹۳۲ء۔
۵۳۔
الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
‏]1h [tag۵۴۔
الفض ۲۱/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۵۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۶۔
الفضل ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۳۔
۵۷۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۵۸۔
ابتدائی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔
۵۹۔
الفضل ۷/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۶۰۔
الفضل ۲۸/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۶۱۔
الفضل ۸/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۳ و الفضل ۸/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۴۔
۶۲۔
الفضل ۱۷/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۶۳۔
الفضل ۳۱/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۳۔ یہ دعوت حضرت میر محمد اسحٰق صاحب ناظر ضیافت کے زیر اہتمام کی گئی تھی۔
۶۴۔
الفضل ۸/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۶۵۔
کوٹھیاں بنانے والوں میں سے بعض۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ۔ حضرت سیٹھ عبدالل¶ہ الہ دین صاحبؓ۔ چودھری ابوالہاشم خان صاحبؓ۔ ملک عمر علی صاحب کھوکھر مرحوم۔ حضرت میاں محمد شریف صاحب ای۔ اے۔ سی۔ ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب۔ ڈاکٹر حاجی خان صاحب یوسف زئی۔ مولوی ظہور حسین صاحب فاضل مبلغ بخارا۔ قاضی عبدالمجید صاحب امرتسری۔ حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ۔ قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے۔ مبلغ جاپان صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے۔
۶۶۔
الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۶۷۔
الفضل ۱۹/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳۔
‏h1] g[ta۶۸۔
الفضل ۲۲/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔
۶۹۔
الفضل ۲۲/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ تا ۷۔
۷۰۔
الفضل ۲/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۷۱۔
پیسہ اخبار ۱۹/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ بحوالہ الفضل ۵/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۷۲۔
بحوالہ الفضل ۷/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔
۷۳۔
میری کہانی صفحہ ۳۲۷۔ ۳۲۸۔
۷۴۔
بحوالہ الفضل ۵/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۷۵۔
بحوالہ الفضل ۸/ نومبر ۱۹۳۲ء۔
۷۶۔
بحوالہ الفضل ۸/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔
۷۷۔
سیاست ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۷۸۔
الفضل ۷/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۷۹۔
الفضل ۹/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۰۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۸۱۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۹۔ ۶۰۔
۸۲۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲ کالم ۲۔ ۳۔
۸۳۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۵ شائع کردہ شیخ الجامعہ بہاولپور سن اشاعت جولائی ۱۹۳۵ء۔
۸۴۔
پٹنہ ہائی کورٹ نے ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۶ء کے ایک فیصلہ میں یہ رولنگ دیا کہ احمدی باوجود اس اختلاف کے جو مذہب کے بعض ضروری حصوں کے متعلق ان میں اور عام رواجی مسلمانوں کے خیالات میں بیان کیا جاتا ہے مسلمان ہیں۔ پٹنہ لاء جرنل صفحہ ۱۰۸ جلد دوم۔ اسی طرح مدراس ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک مسلمان محض جماعت احمدیہ میں داخل ہو جانے کی وجہ سے اسلام سے مرتد نہیں ہو جاتا۔ اور اپنی بیوی کے ساتھ اس کا نکاح نسخ نہیں ہوسکتا۔ )لاء جرنل رپورٹ حصہ ۲۰ صفحہ ۶۶۳(
۸۵۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۸۔
۸۶۔
الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۷۔
الفضل ۱۰/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔
۸۸۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۹۔
۸۹۔
الفضل مورخہ ۱۰/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۴۔
۹۰۔
الفضل ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۹۱۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔ ۱۸/ ستمبر ۱۹۳۲ء۔
‏h1] gat[۹۲۔
الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۹۳۔
الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۹۴۔
الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔
۹۵۔
جرح کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔ ۲۵/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۷۔ ۸۔ ۲۷/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۴۔ ۶۔ ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۷۔ ۸۔ و ۴/ اکتوبر ۸۔ ۹۔
۹۶۔
الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔
۹۷۔
الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۹۸۔
‏h2] ga[t الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۸۔
۹۹۔
الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۰۰۔
ملاحظہ ہو الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۸ و ۹/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۸ و ۱۱/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۸ و ۲۰/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۸ و ۴/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ و ۷/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۸ و ۲۱/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ و ۲۸/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۱۰۱۔
الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۱۰۲۔
پہلا نام بیان المجاھد۔
۱۰۳۔
الفضل ۲/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۰۴۔
مثلاً جناب مولوی ابو الوفا صاحب شاہ جہانپوری۔ لال حسین اختر وغیرہ۔
۱۰۵۔
الفضل مورخہ ۲۰/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔
۱۰۶۔
الفضل ۲۰/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔
۱۰۷۔
الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔
۱۰۸۔
الفضل مورخہ ۱۳/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔
۱۰۹۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۱۱۰۔
ایضاً صفحہ ۱۲۔
۱۱۱۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۴۹۔
۱۱۲۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۰۰۔
۱۱۳۔
ایضاً
۱۱۴۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۹۹۔
۱۱۵۔
صفحہ ۵۵۰ ناشر نور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ۔ کراچی۔
۱۱۶۔
مدعا علیہ کا بیان جو فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۹۸ پر مندرج ہے اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب حقیقتہ الوحی صفحہ ۹۷ سے ماخوذ ہے۔
۱۱۷۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۷۶۔
۱۱۸۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۷۶۔ ۷۷۔
۱۱۹۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۷۷۔
۱۲۰۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۷۷۔
۱۲۱۔
اشارات فریدی جلد ۳ صفحہ ۶۹ در مطبع مفید عام آگرہ باہتمام محمد قادر علی خاں صوفی طبع شد۔ ۱۳۲۱ھ۔
۱۲۲۔
فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۲۸۔
۱۲۳۔
مطابق یکم جنوری ۱۸۹۷ء ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۲۳۔
۱۲۴۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۹۔ ۴۰۔
۱۲۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۲ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۳۔ )اسلامک فائونڈیشن ۱۔ ڈیوس روڈ لاہور نے مقدمہ بہاولپور کی روداد اکتوبر ۱۹۸۸ء میں تین جلدوں میں شائع کر دی ہے جس سے احمدی اور غیر احمدی مسلک کی خوب وضاحت ہوتی ہے(
۱۲۶۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۲۷۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ )یکم مئی ۱۹۳۱ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۲ء( صفحہ ۱۱۰۔
۱۲۸۔
الفضل ۲۸/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲۔
۱۲۹۔
الفضل ۲/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۱۳۰۔
اس کا پس منظر تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ ۲۱۵ پر بیان کیا جا چکا ہے۔
۱۳۱۔
الفضل ۱۴/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۸ تا ۱۱ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۵/ فروری ۱۹۳۲ء(
۱۳۲۔
الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء )خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی ۱۹۳۲ء(
۱۳۳۔
ملاحظہ ہو جامعہ احمدیہ کا علمی و ادبی رسالہ مجلتہ الجامعتہ جلد ۱ شمارہ ۴ صفحہ ۱۷۰۔
۱۳۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۸۔
۱۳۵۔
‏h2] gat[ رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمدیہ منعقدہ ۲۵۔ ۲۶۔ ۲۷/ مارچ ۱۹۳۲ء۔ )صفحہ ۹۰۔ ۹۱۔ ۹۲(
۱۳۶۔
الفضل یکم ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۱۳۷۔
الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔
۱۳۸۔
الفضل ۴/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۳۹۔
الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۴۰۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۱۔
الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔
۱۴۲۔
الفضل ۲۰/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۴۳۔
الفضل ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔ گاندھی جی نے اپنے مرن برت کی نسبت یہ دعویٰ بھی کیا کہ میں اپنے فیصلہ کو پرماتما کی طرف سے ایک پیغام سمجھتا ہوں اور مجھے ایشور کا سندیش آیا ہے کہ میں اچھوتوں کے لئے پران تیاگ دوں۔ الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲۔
۱۴۴۔
الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲ کالم ۱۔
۱۴۵۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۶۔
ایضاً
۱۴۷۔
الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲ کالم ۱۔ ۲۔
۱۴۸۔
ایضاً
۱۴۹۔
الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۱۵۰۔
الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۵۱۔
الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۔ ۸۔
۱۵۲۔
الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۳۔ الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۷۔ ۱۰۔
۱۵۳۔
الفضل رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء۔
۱۵۴۔
اصل خط دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۱۵۵۔
غیر مطبوعہ۔
۱۵۶۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔۱۹۳۲ء صفحہ ۵۹۔
۱۵۷۔
اصل خط دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۱۵۸۔
روزنامہ حقیقت لکھنئو ۸/ نومبر ۱۹۳۲ء۔
۱۵۹۔
روزنامہ اودھ اخبار لکھنئو ۱۰/ نومبر ۱۹۳۲ء۔
۱۶۰۔
روزنامہ ھمدم لکھنئو مورخہ ۱۲/ نومبر ۱۹۳۲ء۔
۱۶۱۔
الفضل ۸/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۶۲۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۳۰ تا ۱۳۲۔
۱۶۳۔
الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۶۴۔
الفضل ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱ و رسالہ جامعہ احمدیہ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ب۔
۱۶۵۔
الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۔
۱۶۶۔
الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۔
۱۶۷۔
الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۔
۱۶۸۔
الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۱۶۹۔
الفضل ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۲ء۔
۱۷۰۔
سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۱ کے مطابق وفد نے سترہ میچ کھیلے جن میں بارہ جیتے تین میں ناکام دو میں برابر رہا۔ وفد کے مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو )جامعہ احمدیہ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ب تا د(
۱۷۱۔
الفضل یکم جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۱۷۲۔
الفضل ۲۴/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۷۳۔
الفضل ۱۹/ جون ۱۹۱۳ء جلد ۱ نمبر ۱ صفحہ ۱۳ ان کے تفصیلی حالات لاہور تاریخ احمدیت مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل مربی سلسلہ صفحہ ۱۴۸ تا صفحہ ۱۵۸ میں درج ہیں۔
۱۷۴۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے شاگرد تھے اور آپ ہی کے سایہ عاطف میں پرورش پائی اور آپ ہی کے طفیل داخل احمدیت ہوئے حضرت شہید مرحوم کے سانحہ شہادت کے بعد احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کو بھی بڑی تکالیف جھیلنا پڑیں۔ مدتوں گوشہ نشین رہے مگر تبلیغ جاری رکھی کئی بار گرفتار ہوئے اور قید خانہ میں مبتلائے آلام رہے ایک بار کابل کے اکثر احمدی پکڑے گئے اور انہیں دردناک طریقے سے مارنے پیٹنے کے بعد جیل میں ڈال دیا گیا۔ کئی احمدی ان دکھوں کی تاب نہ لا کر جیل ہی میں شہید ہو گئے اور باقی جرمانہ کی بھاری رقوم ادا کرکے رہا ہوئے۔ ان دنوں میں حضرت مولوی صاحب کے خلاف بھی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے لیکن اتفاقاً آپ کہیں سفر پر تھے۔ گھر آنے پر حالات کا علم ہوا تو آپ مصلحتاً انگریزی علاقہ میں آگئے۔ اس کے بعد جب امان اللہ خاں کی حکومت نے احمدیوں کی آزادی کا فرمان جاری کیا تو آپ واپس وطن تشریف لے گئے۔ مگر جب علماء نے دوبارہ مخالفت کی آگ بھڑکا کر بعض احمدیوں کو قید اور بعض کو شہید کرا دیا تو آپ اہل و عیال کے بغیر قادیان میں ہجرت کرکے تشریف لے آئے تخمیناً پچپن سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کئے گئے۔ )الفضل ۹/ اگست ۱۹۳۲ء ملخصاً از مضمون جناب سید ابوالحسن صاحب قدسی خلف الرشید صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ(
۱۷۵۔
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کے شاگرد خاص اور صاحب کشف بزرگ جو پہلی بار خوست سے ۱۸۹۷ء میں قادیان تشریف لائے ۱۹۰۳ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے سفر قادیان میں رفاقت سے مشرف ہوئے۔ ۱۹۰۴ء میں مستقل طور پر قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور عمر بھر مہمانخانہ کے ایک چھوٹے سے حجرہ میں نہایت صبر و شکر کے ساتھ فقیرانہ رنگ میں اقامت گزین رہے۔ )الفضل ۲۰/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ایضاً الفضل ۳۰/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸ کالم ۳(
جناب مولوی عبدالرحیم خاں صاحب عادل تحریر فرماتے ہیں۔
>میں حضرت عبدالستار خان صاحبؓ عرف بزرگ کے ایک توکل علی اللہ کا ایک ذاتی مشاہدہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ایک عرصہ دراز سے میرے ذہن میں اس طرح محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہے۔ میں یہ بیان حلفیہ تحریر کر رہا ہوں۔
میں نے اپنے چچا دادا حضرت عبدالستار خان افغانؓ عرف بزرگ صاحب کو بہت قریب سے بہت دفعہ دیکھا ہے۔ میں ان کو >منجی ابا< چارپائی والے ابا کہا کرتا تھا۔ میں اکثر ان کے کمرہ میں جایا کرتا تھا۔ جو مہمان خانے کے شمال مشرقی کونہ میں تھا۔ میں جب بھی گیا ہوں آپ کو چارپائی پر بیٹھے دیکھا۔ ان کا کمرہ پٹھانوں سے بھرا ہوتا اور آپ درس قرآن کریم دے رہے ہوتے اور قہوہ کا دور جاری ہوتا۔
مجھے اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ حضرت بزرگ صاحب کو پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ وہ اپنی ضروریات کی چیزیں چاء۔ چینی۔ صابن وغیرہ میرے ابا جی حضرت عبداللہ خاں سے منگواتے۔ یہ غالباً ۱۹۲۶ء ` ۱۹۲۷ء کا واقعہ ہے میری عمر اس وقت ۱۲۔ ۱۳ برس ہو گی۔ میں حضرت بزرگ صاحبؓ کی چارپائی کے پینتی )پائوں( کی جانب کھڑا تھا۔ حضرت ابا جی سے حضرت بزرگ صاحب نے کچھ چیزیں بازار سے منگوائی تھیں۔ جو ابا جی لے کر آئے تھے۔ چیزیں خریدنے کے بعد ابا جی کے پاس کچھ پیسے بچ گئے تھے۔ )معلوم نہیں کتنے( حضرت ابا جیؓ یہ پیسے حضرت بزرگ صاحب کے سرہانے تکیہ کے نیچے رکھنے لگے۔ جونہی حضرت ابا جی کا ہاتھ سرہانے کے نیچے گیا۔ حضرت بزرگ صاحب جو چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے اس طرف دیکھا اور پشتو میں فرمایا۔ >سہ شہ دی< کیا بات ہے؟ حضرت ابا جی نے پشتو میں جواب دیا۔ ترجمہ >کچھ پیسے سودا خریدنے کے بعد بچ گئے تھے یہ رکھ رہا ہوں صبح کام آجائیں گے حضرت بزرگ صاحب نے پشتو میں فرمایا >سہ شی تہ کگدے۔ صبوتہ بیا خدائے نہ دی< ترجمہ کس لئے رکھ رہے ہو۔ جو خدا آج ہے کیا وہ صبح نہیں ہو گا< اور پشتو میں فرمایا ترجمہ۔ >ہٹائو اور دے دو غریبوں کو< شایداس وقت ۲ پیسے یا ایک آنہ مجھے ملا اس وقت مجھے اس بات کی سمجھ نہیں تھی لیکن جب یہ بات یاد آتی ہے تو ان کے اس قدر زبردست توکل علی اللہ کے اعلیٰ مقام کا پتہ چلتا ہے اللہ اللہ سبحان اللہ کس قدر اونچا پراز یقین تو کل علی اللہ کا مقام ہے کہ چند پیسے جو سودے سے بچ گئے وہ بھی کل کے لئے رکھنے گوارا نہیں۔ کہیں خدا تعالیٰ پر یقین اور ایمان میں تزلزل نہ آجائے میں پہلے عرض کر چکا ہوں میں یہ بیان حلفاًلکھ رہا ہوں جو کچھ میرے ذہن میں محفوظ تھا وہی لکھا ہے میں چاہتا ہوں کہ واقعہ حضرت بزرگ صاحب کی سوانح حیات کے کسی حصہ میں سما دیا جائے تو یہ آپ کا بہت بڑا احسان ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عظیم دے۔ آمین۔
حصرت بزرگ صاحب چار بھائی تھے۔
۱۔ حضرت عبدالغفار خاں صاحب مہاجر صحابی خاکسار کے دادا جان۔ آپ حضرت شہزادہ صاحب کے پانچ خطوط شاہ کابل کے درباریوں کے نام لے کر کابل گئے تھے۔
۲۔ حضرت عبدالستار خان افغان عرف بزرگ صاحب۔ حضرت شہزادہ صاحب کے رفیق خاص جنہیں حضرت شہزادہ صاحب اللہ تعالیٰ سے حضرت مسیح موعودؑ کے ظہور کی خبر پاکر >بار بار< قادیان بھیجا۔ آپ نے تمام عمر شادی نہیں کی اور تمام عمر دین کے حصول اور دین کی تعلیم تبلیغ میں گزار دی آپ صاحب کشف و الہام تھے۔
۳۔ حضرت ملاں میرو خان۔ آپ شادی شدہ تھے مگر لاولد رہے۔ آپ نے حضرت شہزادہ صاحب شہید کی نعش مبارک کو پہاڑی بالائی سارے متصل قبرستان سے نکال کر شہید موصوف کے اپنے گائوں سید گاہ میں لا کر دفن کیا۔ آپ حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بغیر وصیت کے بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔
۴۔ جمعہ خان آپ احمدی نہ تھے ایک مرتبہ قادیان تشریف لائے حضرت ملاں میرو صاحب )ان کے بھائی( نے ان کو سمجھایا کہ بیعت کرلو دونوں بھائیوں میں تلخ کلامی ہوئی اور جمعہ خان واپس چلے گئے اور پھر نہیں آئے یہ واقعہ خاکسار کی موجودگی میں ہوا۔
ہمارے داد جان حضرت عبدالغفار خان نے دو شادیاں کیں آپ کا ایک بیٹا میرے والد محترم حضرت عبداللہ افغان مہاجر درویش ہیں اور ایک بیٹی کا نام حضرت عائشہ صاحبہ زوجہ مولوی غلام رسول صاحب افغان مرحوم ہے۔ جو بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ ان کے کتبہ پر تاریخ پیدائش >۱۸۹۹ء اور پیدائشی احمدی درج ہے< اس سے زیادہ کا مجھے علم نہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے چوتھے چچا دادا جمعہ خان جو احمدی نہیں ہوئے کی اولاد صوبہ پکنیانزد بنوں میں موجود ہے مگر میری ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ ہمارے پڑدادا جان کا نام حضرت دیندار خان ہے<۔
خاکسار طالب دعا
عبدالرحیم خاں عادل مولوی فاضل )پسر حضرت عبداللہ خان افغان مہاجر صحابی درویش قادیان مورخہ ۱۴/ جولائی ۱۹۸۹ء(
حال ۔ مکان ۱۳۹۹/ بی وڈا ڈیرہ اندرون بھاٹی گیٹ لاہور نمبر ۸
۱۷۶۔
الفضل ۳/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۱۷۷۔
الفض ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۱۷۸۔
الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۲۔ ۳۔
۱۷۹۔
‏h2] gat[ الفضل یکم جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۸۰۔
الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۸۱۔
الفضل ۲۴/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ و ۳۱/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۱۸۲۔
الفضل ۲۴/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۱۸۳۔
الفضل ۲۷/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۸۴۔
الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۸۵۔
الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۸۶۔
الفضل ۱۲/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۸۷۔
الفضل ۲/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۱۸۸۔
الفضل ۲۴/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۱۸۹۔
الفضل ۱۲/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۔ ۶ میں مضمون چھپ چکا ہے۔
۱۹۰۔
الفضل ۳/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۹۱۔
الفضل ۲۸/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۹۲۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۴۔ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۲۷۔ ۱۲۹۔
۱۹۳۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱۔
۱۹۴۔
ریویو آف ریلیجنز اردو اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۱۔ ۳۲۔
۱۹۵۔
الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۱۹۶۔
الفضل ۲۴/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۹۷۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۱۹۸۔
الفضل ۵/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۱۹۹۔
الفضل ۲۶/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۰۰۔
الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۰۱۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۰۲۔
الفضل ۳/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۲۰۳۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۲۰۴۔
الفضل ۲۶/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۰۵۔
الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۔
۲۰۶۔
الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۰۷۔
یہ بیان صرف ایک ہفتہ کے اندر مرتب کیا گیا۔ اور وہ بھی صرف رات کے وقت۔ ملک فضل حسین صاحب منیجر بکڈپو تالیف و اشاعت نے کاتب سے ساتھ ساتھ لکھوا کر صرف ایک دن رات میں چھپوا کر شائع کر دیا۔ )ریویو آف ریلیجنز اردو دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۳۹(
۲۰۸۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۰۹۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔
۲۱۰۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۲۱۱۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۹ کالم ۲۔ ۳۔
۲۱۲۔
الفضل ۲۷/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔
۲۱۳۔
الفضل ۱۰/ اپریل ۱۹۳۲ء۔
۲۱۴۔
الفضل ۱۰/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۴۔
‏]1h [tag۲۱۵۔
الفضل ۵/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔
۲۱۶۔
الفضل ۳/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۱۔
۲۱۷۔
الفضل ۱۴/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۲۱۸۔
الفضل ۲۸/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۱۹۔
الفضل ۴/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
۲۲۰۔
الفضل ۴/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۹۔ ۱۰ و اخبار فاروق ۷/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲ و اخبار فاروق ۱۴/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۔ ۱۰ و اخبار فاروق ۲۱/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۵۔ ۶ و اخبار فاروق ۲۸/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۔ ۱۰۔
۲۲۱۔
الفضل ۱۱/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۲۲۔
الفضل ۲۰/ اکتوبر صفحہ ۸ و ۱۷/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۲۲۳۔
الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۲۴۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مناظرہ جہلم قبل ازیں اسی سال ۱۹۔ ۲۰/ جون ۱۹۳۲ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پادری عبدالحق صاحب سے عیسائیوں کے ایک پبلک جلسہ میں کامیاب گفتگو کی جس کی روداد الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۵۔ ۶ پر چھپ چکی ہے۔
۲۲۵۔
‏h2] ga[t فہرست کے لئے الفضل ۹/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰ و ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰ یکم نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰` الفضل ۸/ نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ۱۰` الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۳۲ء` ۳۱/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۹` ۱۴/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۰۔
۲۲۶۔
ملاحظہ ہو الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ بعنوان صداقت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک تازہ نشان۔ یہ مضمون ایک پوسٹر کی صورت میں بھی چھاپ کر تقسیم کیا گیا۔ اس بیان کا مکمل متن تاریخ احمدیت جلد دوم میں شائع شدہ ہے۔
۲۲۷۔
بنت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~
۲۲۸۔
ایضاً
۲۲۹۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۳۰۔
آریہ گزٹ ۷/ جنوری ۱۹۳۳ء بحوالہ الفضل ۵/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔
۲۳۱۔
مثلاً سر رفیع الدین احمد صاحب سابق وزیر تعلیم صوبہ بمبئی جناب ملا سیف الدین طاہر صاحب پیشوا بوہرہ جماعت کے معتمد خارجہ وغیرہ۔
۲۳۲۔
الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۳۳۔
الفضل ۲۴/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۲۳۴۔
اخبار ملاپ ۲۵ اور ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء۔
۲۳۵۔
الفضل ۲/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۳۶۔
‏ COMMUNAL
۲۳۷۔
الفضل ۱۴/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۲۳۸۔
الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۳۹۔
روایت اہلیہ محترمہ سید بشارت احمد صاحب )معمولی لفظی تصرف کے ساتھ( سیرت حضرت سیدۃ النساء ام المومنین صفحہ ۱۴۔ ۱۵ حصہ دوم طبع دوم تاریخ اشاعت ۲۵/ جولائی ۱۹۴۵ء مطبوعہ انتظامی پریس حیدر آباد دکن۔
۲۴۰۔
مثلاً مسٹر پیتھک لارنس۔ سر ایڈورڈ میکلیگن۔ مس مارگریٹ فرکو ہرسن پریذیڈنٹ نیشنل لیگ پروفیسر ایچ۔ اے آر۔ گب۔ سر ڈینی سن راس۔
۲۴۱۔
الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔
۲۴۲۔
انقلاب عظیم کے متعلق انداز و بشارات نمبر ۲ صفحہ ۱۹ )از حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب(
۲۴۳۔
ان سب اخبارات کے تراشے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کی ایک فائل میں اب بھی محفوظ ہیں۔
۲۴۴۔
قائداعظم اور ان کے عہد )از رئیس احمد صاحب جعفری( صفحہ ۱۹۱۔ ۱۹۲۔ ناشر مقبول اکیڈمی شاہ عالم گیٹ لاہور۔
۲۴۵۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح کے ریکارڈ میں ۱۴/ اپریل ۱۹۳۳ء کی ایک رپورٹ ملتی ہے جس کے مطالعہ سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔
۲۴۶۔
یہ دسمبر ۱۹۳۴ء کے آخر کا واقعہ ہے )اقبال کے آخری دو سال از ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی( صفحہ ۴۳۱ ناشر اقبال اکاڈمی پاکستان کراچی طبع اول اپریل ۱۹۶۱ء۔
۲۴۷۔
الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۸۔
۲۴۸۔
ہدایات
۲۴۹۔
مدد
۲۵۰۔
اصل مکتوب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب حضرت خلیفتہ المسیح کے دفتری ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۲۵۱۔
الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۵۲۔
الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۳ تا ۵۔
۲۵۳۔
الفضل ۱۶/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۵۴۔
الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۵۵۔
الفضل ۲۱/ جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ الفضل ۱۲/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔
‏]1h [tag۲۵۶۔
چند ابتدائی ٹریکٹ پیارا مسیح موعود۔ رد فضیلت مسیح بمقابلہ انحضرت~صل۱~۔ خدا کا مسیح موعود۔ معیار صداقت۔ صداقت مسیح موعود از روئے بائبل۔ احمدی فریق لاہور کے عقائد۔
۲۵۷۔
الفضل ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۳ ۔ ۴ )مضمون کا عنوان تھا پکارنے والے کی آواز(
۲۵۸۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۔
۲۵۹۔
الفضل ۷/ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۔
‏tav.7.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
۲۶۰۔
الفضل ۲۹/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۶۱۔
بحوالہ الفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔
۲۶۲۔
بحوالہ الفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔
۲۶۳۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۶۴۔
ڈاکٹر سید عبداللطیف مطابق پروفیسر انگریزی عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد مراد ہیں۔
۲۶۵۔
یہ مقالہ (THESIS) LONDON LTD CO & GROON FORSTER نے ۱۹۴۴ء میں شائع کیا تھا۔
۲۶۶۔
الفضل ۶/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۲۶۷۔
بحوالہ چشمہ عرفان مصنفہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری و مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل مرحوم صفحہ ۳۵۔
۲۶۸۔
الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۲۶۹۔
الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔
۲۷۰۔
الفضل ۱۷/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔
۲۷۱۔
الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۵ )رپورٹ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مبلغ امریکہ(
۲۷۲۔
الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۶۔
۲۷۳۔
الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۷۴۔
حضور کی مفصل ہدایات کا متن الفضل ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۵۔ ۶ میں شائع شدہ ہے۔
۲۷۵۔
الفضل ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۵ تا ۷ میں یہ قیمتی ہدایات بھی طبع شدہ ہیں۔
۲۷۶۔
الفضل ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء۔
۲۷۷۔
الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۷۸۔
فاروق ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۲ کالم ۱۔
۲۷۹۔
مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۵ تا ۷۔
۲۸۰۔
الفضل ۳/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۸۱۔
بدر ۲۷/ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۔ الحکم ۱۰/ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۔
۲۸۲۔
الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۲۸۳۔
الفضل ۲۸/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۸۴۔
الفضل ۲۳/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۲۸۵۔
الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔ اس موقعہ پر حضور نے مسجد کے علاوہ خواجہ معین الدین صاحب کلرک دفتر محاسب۔ منشی رمضان علی صاحب کارکن دفتر محاسب` قاری محمد امین صاحب کارکن ریویو انگریزی` منشی حمید الدین صاحب کارکن دفتر افسر جائداد اور منشی جلال الدین صاحب پٹواری کے مکانات کی بنیادی اینٹیں بھی رکھیں۔
۲۸۶۔
بحوالہ الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۔
۲۸۷۔
بحوالہ الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۔
۲۸۸۔
بحوالہ الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۷۔
۲۸۹۔
الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۹۰۔
الفضل ۱۶/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۹۱۔
الفضل ۲۶/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۲۹۲۔
الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۹۳۔
الفضل ۹/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۲۹۴۔
الفضل یکم جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۴۔ ۵ کالم ۱ تا ۴۔
۲۹۵۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۹۶۔
الفضل ۱۰/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۲۹۷۔
الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۹۸۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ قادیان )۲۰/ جنوری ۱۹۳۴ء(
۲۹۹۔
الفضل ۳۱/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ و صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۳۰۰۔
ایضاً صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۰۱۔
یعنی مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری۔
۳۰۲۔
الفضل ۷/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۳۰۳۔
‏]2h [tag صحابی حضرت مسیح موعودؑ حضرت منشی احمد دین صاحبؓ اپیل نویس آف گوجرانوالہ کی طرف اشارہ ہے جو عرصہ سے مالیر کوٹلہ اور لدھیانہ میں بودو باش رکھتے تھے۔ اور قریباً اسی سال کی عمر میں ۶/ نومبر ۱۹۳۳ء کو وفات پا گئے۔
۳۰۴۔
الفضل ۹/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔
۳۰۵۔
الفضل ۳/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۰۶۔
الفضل ۴/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ تفصیلی حالات الفضل ۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲ میں شائع ہو چکے ہیں۔ جب حضرت خلیفہ اول~رضی۲~ احمدیت میں داخل ہو گئے تو آپ نے بھی یہ سمجھ کر بیعت کر لی کہ جب اتنا بڑا قرآن دان اور عاشق قرآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سچا سمجھتا ہے تو یہ ضرور سچے ہوں گے۔ دین کے معاملے میں بہت غیور اور جری تھے مگر اپنی ذات کی خاطر رنج اور ناراضی کو قریب نہ آنے دیتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو شروع ہی سے نبی قبول کیا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی نسبت پہلے ہی یقین تھا کہ خلافت کی قبا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو پہنائی جائے گی۔ مولوی محمد علی صاحب امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کو اکثر لمبے لمبے خط لکھتے رہتے تھے۔ میر مدثر شاہ صاحب مبلغ غیر مبایعین سے مسئلہ نبوت پر نہایت کامیاب مناظرہ بھی کیا۔ آپ نے عمر کے آخری تین سالوں میں مختلف مسائل کے نوٹ تیار کرنے میں از حد محنت کی۔ بہت دعاگو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ )الفضل ۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۹(
۳۰۷۔
الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۳ء حضرت قاضی میر حسین صاحب ملتانی کے چھوٹے بھائی تھے۔ ۹۸۔ ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی اور ستمبر ۱۹۱۶ء میں مستقل طور پر قادیان آگئے۔ ہجرت سے قبل آپ اپنے گائوں میں امام مسجد تھے۔ اور مذہبی مخالفت کے باوجود متعصب سے متعصب غیر احمدی بھی آپ کے زہد و تقویٰ کے قائل تھے اور آپ کی اقتداء میں نمازیں پڑھتے تھے۔ صاحب کشف و الہام تھے اور قرآن مجید سے تو عشق تھا۔ قریشی محمد افضل صاحب مبلغ افریقہ آپ ہی کے فرزند ہیں۔ )قاضی عبدالرحمن صاحب کا مضمون مطبوعہ الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۸(
۳۰۸۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۰۹۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔ ۱۰ کالم ۱ تا ۳۔ امرتسر کی مشہور قاضی فیملی کے درخشندہ گوہر جنہیں اپنے خاندان میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا اور جنہوں نے حضرت اقدس کا نورانی چہرہ دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ منہ کاذب نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ چاروں طرف سے مخالفت کا ایک طوفان امڈا ہوا تھا۔ اشاعت حق کے لئے آپ کے دل میں بڑا جوش تھا۔ آپ کی تبلیغ کا طریق عملی تھا۔ یعنی اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ سے بہت کم سخن تھے۔ مگر اخبارات اور سلسلہ کا لٹریچر تقسیم کرتے رہتے تھے۔ راجپوتانہ میں آپ ہی کے ذریعہ سے جماعت احمدیہ قائم ہوئی چنانچہ سانبھر میں قاضی برکات انیس صاحب اور قاضی رحمت اللہ صاحب کو ۱۹۰۳ء میں داخل سلسلہ ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور جئے پور میں قاصے محمد عثمان صاحب اور عبدالغفور صاحب احمدی` انسپکٹر محکمہ نمک سانبھر جھیل نے حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی بیعت کر لی۔ مرحوم مخلوق خدا کے ہمدرد` مردم شناس` اخلاقی جرات` رعب حق کے مالک اور صاحب مروت انسان تھے اور ہر احمدی کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا نشان سمجھ کر بہت قدر وعظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ )الفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۵۔ ۶(
۳۱۰۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۱۱۔
الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۱۔
۳۱۲۔
الفضل ۱۹/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۱۳۔
فاروق ۱۴/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۳۱۴۔
الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۳۱۵۔
فاروق ۱۴/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔ یہ دونوں بزرگ جن کی کوشش سے انبالہ میں مسجد تیار ہوئی۔ ۱۹۰۳ء میں داخل سلسلہ ہوئے تھے۔
۳۱۶۔
الفضل ۱۴/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۳۱۷۔
الفضل یکم اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۳۱۸۔
الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۳۱۹۔
حمایت اسلام۔
۳۲۰۔
بروایت مولانا محمد صادق صاحب فاضل سابق مبلغ انڈونیشیا )حال انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ(
۳۲۱۔
الفضل ۳۰/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۳۲۲۔
الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۳۲۳۔
الفضل ۲۰/ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۰۔
۳۲۴۔
الفضل ۸/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔
۳۲۵۔
‏h2] gat[ بحوالہ الفضل ۳۰/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۳۲۶۔
الفضل ۵/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔
۳۲۷۔
الفضل ۱۶/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۲۔
۳۲۸۔
الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔
۳۲۹۔
ترجمہ۔
۳۳۰۔
الفضل ۲/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۳۳۱۔
الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۳۲۔
الفضل ۱۸/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۔
۳۳۳۔
الفضل ۱۶/ فروری ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۳۳۴۔
الفضل ۲۸/ فروری ۱۹۳۳ء۔
۳۳۵۔
الفضل ۲۳/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۳۳۶۔
الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
۳۳۷۔
الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۳۳۸۔
الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۳۳۹۔
الفضل ۱۸/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۱ و فاروق ۱۴/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۶۔
۳۴۰۔
الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۴۱۔
۱۹۳۳ء سے یہ صاحب جو مناظروں میں پیش پیش نظر آتے ہیں ان کی حقیقت احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے آنریری جائنٹ سیکرٹری منظور الہیٰ صاحب کے مندرجہ ذیل اعلان سے بخوبی معلوم ہو سکتی ہے۔ >میاں لال حسین کو کچھ عرصہ صیغہ تحصیل وتبلیغ میں کام کرنے کے بعد اراضی اوکاڑہ پر لگا دیا گیا تھا جہاں اس نے انجمن کے مفاد کے خلاف انجمن کے روپیہ سے گھی کی تجارت شروع کر دی اور ملازمین انجمن کو گھی کی خرید پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور وہاں سے گھی لاہور فروخت کرنے کے لئے بہانہ انجمن کے کام کرکے سفر خرچ انجمن سے وصول کیا خود بھی خلاف دیانتداری کام کرتا رہا اور دوسرے ملازموں کو بھی ترغیب دیتا رہا۔ اور پھر جب مینجر نے باز پرس کی تو اس کے خلاف بے بنیاد افواہوں کی بناء پر جھوٹے الزام لگانے شروع کر دیئے اور پھر افسران متعلقہ کے رو برو اس کا اعتراف کیا اور اپنی تحریر بھی اس کے متعلق لکھ کر دی۔ جب اپنی امانت و دیانت کا پردہ اس طرح چاک ہوتے دیکھا تو جھٹ رخصت لی اور پھر استعفاء داخل کر دیا اور اب اسے مذہبی اختلافات کا بہانہ بنا لیا اور مسلمانوں کی مذہبی حس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا خلاف دیانت کام کرنے والا شخص کہاں تک صداقت کا دعویٰ کر سکتا ہے اس لئے احباب مطلع رہیں کہ یہ شخص نہ اب انجمن کا ملازم ہے اور نہ سلسلہ احمدیہ کا ممبر۔< )پیغام صلح ۲۷/ اپریل ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۱(
سائیں لال حسین صاحب نے اس اعلان کی آج تک تحریری طور پر کوئی تردید شائع نہیں کی۔ حتیٰ کہ اپنی کتاب ترک مرزائیت میں بھی )جو اس اعلان کے بعد کئی بار شائع ہوئی( انجمن مذکور کے محصل ہونے کا تو صاف اقرار کیا ہے مگر آپ کو ان الزامات سے بریت کے لئے ایک لفظ تک لکھنے کی جرات نہیں ہوسکی جو اس امر کی ناقابل تردید شہادت ہے کہ انجمن مذکور کا یہ اعلان لفظاً لفظاً صحیح ہے۔
۳۴۲۔
الفضل ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۳۴۳۔
الفضل ۳۰/ جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ یہ محلہ ان دنوں مخالفت کا گڑھ تھا جہاں شیخ صاحب اکثر نصب شب تک تقریریں کرتے اور مخالفین کے اعتراضوں کا جواب دیا کرتے تھے اس ضمن میں یہ مناظرہ بھی ہوا۔
۳۴۴۔
الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔
۳۴۵۔
الفضل ۸/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۲۔ ۳۔
۳۴۶۔
الفضل ۳۱/ اگست ۱۹۳۳ء صفحہ ۲۔
‏]h1 [tag۳۴۷۔
الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔
۳۴۸۔
الفضل ۱۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۳۴۹۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۵۰۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳ و ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔
۳۵۱۔
الفضل ۵/ نومبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۳۵۲۔
الفضل ۲/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۳۵۳۔
الفضل ۲۱/ دسمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۳۵۴۔
‏h2] gat[ اچھوتوں سے متعلق ملک صاحب کا پیدا کردہ لٹریچر ملک میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا اور اچھوت لیڈروں مثلاً امبید کراس کے لئے بہت ممنون ہوئے۔
۳۵۵۔
اس کتاب کو ابتداء میں بیان المجاہد کے نام سے شائع کیا گیا تھا۔
۳۵۶۔
سورۃ الحدید آیت ۱۷۔
۳۵۷۔
تذکرہ طبع دوم صفحہ ۱۳۰ )یہ الہام ۶/ اپریل ۱۸۸۶ء کو ہوا تھا(
۳۵۸۔
الفضل ۱۴/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۔
۳۵۹۔
الفضل ۱۵/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۳۶۰۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۳۶۱۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۳۶۲۔
الفضل ۱۸/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰۔
۳۶۳۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔
۳۶۴۔
الحکم ۱۴/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۳۶۵۔
الحکم ۱۴/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔
۳۶۶۔
الفضل ۲۳/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔
۳۶۷۔
الفضل ۳۰/ جنوری ۱۹۳۴ء۔
۳۶۸۔ ][ دیکھئے ۱۱/ فروری ۱۳۔ ۱۵/ فروری ۱۹۳۴ء۔
۳۶۹۔
الفضل ۲۲/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔ الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۷۰۔
الفضل ۵/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔ ان صفحات میں مندرجہ بالا لیکچر کا جامع خلاصہ بھی موجود ہے۔
۳۷۱۔
الفضل ۷/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۷۲۔
الفضل ۷/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۷۳۔
الفضل ۷/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۷۴۔
الفضل ۱۰/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۷۵۔
الفضل ۱۸/ اکتوبر صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۷۶۔
الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۷۷۔
الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۔
۳۷۸۔
الفضل ۸/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔
۳۷۹۔
الفضل ۸/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔
۳۸۰۔
الفضل ۸/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔
۳۸۱۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو عرض حال تذکرہ طبع اول )تحریر فرمودہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۳۸۲۔
حیات بشیر صفحہ ۶۴ )مرتبہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضلؓ(
۳۸۳۔
الفضل ۱۱/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۸۴۔
الفضل ۲۹/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
۳۸۵۔
بحوالہ الفضل ۳۔ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۸۶۔
بحوالہ الفضل ۷/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۳۸۷۔
الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔
۳۸۸۔
ملاپ لاہور ۲۷/ فروری ۱۹۳۴ء بحوالہ الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔
۳۸۹۔
‏h2] [tag الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۳۴ء۔
۳۹۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۸۔
۳۹۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۷۔
۳۹۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۹۔ ۵۰۔
۳۹۳۔
الفضل ۳/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۳۹۴۔
ایضاً
۳۹۵۔
دیکھئے الفضل ۸/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔ و ۲۴/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۹۶۔
بروایت شیخ محمد یوسف صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ لائل پور شہر۔
۳۹۷۔
شیخ محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ اسی سلسلہ میں جماعت احمدیہ لائل پور کے اس زمانے کے بعض عہدیداران )مثلاً شیخ محمد محسن صاحبؓ پریذیڈنٹ چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل` مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل چوہدری اللہ دتہ صاحب` شیخ عبدالرب صاحبؓ نو مسلم اور خاکسار شیخ محمد یوسف کو چٹھیاں موصول ہوئیں جن میں ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
۳۹۸۔
میاں حشمت اللہ صاحب احمدی انارکلی بازار لائل پور کا بیان ہے )جب مسجد کی منظوری کے لئے نائب تحصیلدار عطاء محمد صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب لائلپور کے سامنے کاغذات پیش کئے تو انہوں نے مسجد کی منظوری کے لئے دو مسلمانوں کی گواہی دلوانے کے لئے کہا اب احمدیوں کو بڑی مشکل پیش آئی شہر میں مخالفت کا زور تھا اور کوئی مسلمان گواہی کے دستخط تک ڈالنے کے لئے تیار نہ ہو سکا آخر غالباً بابو ولایت حسین صاحب احمدی میرے تایا صاحب اور والد صاحب کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے دستخط کر دیئے حالانکہ وہ غیر احمدی تھے اور موقف یہ اختیار کیا کہ مندر` گرجا یا گوردوارہ بننے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ یہاں کسی کلمہ گو کی مسجد بن جائے تا پانچوں وقت اذان کی آواز بلند ہوتی رہے جامع مسجد لائل پور کے امام مولوی محمد یونس صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے ان دستخط کرنے والے اصحاب )ثناء اللہ و عطاء اللہ صاحبان کریانہ مرچنٹ بھوانہ بازار( پر کفر کا فتویٰ لگا دیا مگر یہ حربہ بھی کارگر نہ ہو سکا۔
۳۹۹۔
الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰ و الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ ملک عبدالمجید صاحب نے مسجد کی نگرانی کے لئے اپنے اوقات وقف کئے۔ بابا جوڑا ہیڈ مستری تھے۔
۴۰۰۔
اس غرض کے لئے جماعت لائل پور کا ایک وفد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا جو مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل` شیخ محمد محسن صاحب مرحوم` محمد عظیم صاحب اور شیخ محمد یوسف صاحب پر مشتمل تھا۔
۴۰۱۔
الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۴۰۲۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس تقریب پر قادیان کے مرکزی دفاتر و مدارس میں تین روز کے لئے تعطیل کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے قادیان سے ایک کثیر تعداد نے اس میں شرکت کی۔ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل لائل پور میں مہتمم لنگر خانہ تھے اور نائب شیخ محمد یوسف صاحب ان دنوں مقامی مبلغ مولوی عبدالرحمن صاحب انور تھے۔
۴۰۳۔
مفصل ایڈریس الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء میں شائع شدہ ہیں۔
۴۰۴۔
حضرت عرفانی صاحب نے الحکم میں جلسہ کے مفصل حالات میں اس کا تذکرہ انہی الفاظ میں فرمایا۔ دیکھئے الحکم ۲۸/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۱۔
۴۰۵۔
الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔ ۶ پر مفصل ایڈریس طبع شدہ ہے۔
۴۰۶۔
الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۴۰۷۔
شیخ محمد یوسف صاحب حال سیکرٹری مال حلقہ مسجد فضل لائل پور کی روایت۔
۴۰۸۔
الحکم ۱۴/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضور کے سٹاف کے علاوہ باقی مہمانوں کے لئے ذیل گھر اور ڈسٹرکٹ انجینئر کی کوٹھی میں انتظام تھا جو نہایت تسلی بخش قابل تعریف اور قادیان کے سالانہ جلسہ کی انتظامی بنیاد پر تھا۔ مختلف محکمے تقسیم کار کے اصول پر بنا دیئے گئے تھے اور ہر صیغہ کا ایک ناظم تھا جس کے ماتحت والنٹیر تھے جنہیں رات دن کام کرنا پڑا مگر وہ بہت مصروفیت کے باوجود تازہ دم ہی نظر آتے تھے۔
‏]1h [tag۴۰۹۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۱۰۔
یہ ولولہ انگیز تقریر الفضل کی کئی قسطوں میں اشاعت پذیر ہونے کے بعد کتابی شکل میں تبلیغ حق کے نام سے شائع کر دی گئی۔
۴۱۱۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۴۱۲۔
ڈاکٹر محمد شفیع صاحب کا بیان ہے کہ ۸/ اپریل ۱۹۳۴ء کو خاکسار نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور واپسی پر جڑانوالہ میں غریب خانہ پر دو منٹ کے لئے تشریف لائیں۔ حضور نے ارشاد فرمایا۔ انشاء اللہ کل ہم جڑانوالہ آپ کے ہاں آئیں گے مجھے بے حد خوشی ہوئی غالباً یہ شام کا وقت تھا میں سامان ناشتہ اور شامیانہ فراہم کرکے رات کو جڑانوالہ پہچنا۔ حضور دوسرے روز صبح تشریف لائے۔ حضور کی کار ہسپتال کے دروازے کے سامنے رکی۔ اس وقت بہت سے لوگ حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے میں نے حضور کے گلے میں ہار ڈالے۔ مصافحہ کے بعد حضور نے اپنے خدام سمیت ناشتہ کیا۔ پھر میری درخواست پر اندرون خانہ تشریف لے گئے جہاں حضور کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا گیا اس کے بعد حضور نے شامیانہ کے نیچے لمبی دعا فرمائی اور روانہ ہو گئے۔ )غیر مطبوعہ(
۴۱۳۔
الفضل ۱۷/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ )مضمون حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب(
۴۱۴۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۱۵۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ یہ بیعتیں شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر کی کوٹھی میں ہوئیں۔
۴۱۶۔
رسالہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۷۔ ۳۸ )مضمون شیخ عبدالقادر صاحب فاضلؓ(
۴۱۷۔
تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۵۱ )مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان( ناشر احمدیہ بکڈپو ربوہ پاکستان طبع اول دسمبر ۱۹۶۱ء۔
۴۱۸۔
مولوی عبدالرحمن صاحب انور کی غیر مطبوعہ ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ۲/ اپریل ۱۹۳۴ء کو کتبہ کے مضمون کے لئے قادیان تشریف لے گئے اور اگلے روز حضور نے یہ مضمون انہیں عطا فرمایا۔
۴۱۹۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۵ تا ۷۔
۴۲۰۔
بدر ۲/ مئی ۱۹۰۷ء و الحکم ۳۰/ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴۔
۴۲۱۔
الفضل ۸/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۴۲۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا یہ قیمتی مضمون الفضل ۴/ مارچ ۱۹۳۴ء میں بھی شائع شدہ ہے۔
۴۲۳۔
رسالہ ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ۔
۴۲۴۔
الفضل ۸/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۴۲۵۔
الفضل ۳۰/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۲۶۔
الفضل ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ کالم ۱۔
۴۲۷۔
تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۵۸۔ ۶۴۹۔
۴۲۸۔
الفضل ۱۸/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔
۴۲۹۔
ایضاً صفحہ ۵۔ ۶۔
۴۳۰۔
سردار صاحب ان دنوں سکھوں کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔
۴۳۱۔
الفضل ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۳ و رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۴ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۸۵۔
۴۳۲۔
ایضاً
۴۳۳۔
الفضل ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔
۴۳۴۔
الفضل ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ اور صفحہ ۹۔
۴۳۵۔
الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ )سردار کھڑک سنگھ صاحب دو تین سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں(
۴۳۶۔
الفضل ۵۔ ۷/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۳۷۔
الفضل ۲۶/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۶- ۷۔
۴۳۸۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۳۹۔
الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۴۰۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۴۴۱۔
الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۴۲۔
الفضل ۴/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۴۴۳۔
الحکم ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ حضور کی یہ ہدایات جو مشعل راہ کی دوامی حیثیت رکھتی ہیں۔ الفضل )۱۱/ ستمبر ۱۹۳۴ء( میں شائع شدہ ہیں۔
۴۴۴۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔ ۶` ۸
۴۴۵۔
ایضاً
۴۴۶۔
الحکم ۱۴/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
۴۴۷۔
ایضاً صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۴۸۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۴۹۔
ایضاً صفحہ ۲۔
۴۵۰۔
الفضل ۱۱/ ستمبر صفحہ ۲۔
۴۵۱۔
اس پلیٹ فارم پرINDIA OF GATE کے الفاظ لکھے ہیں۔ یہاں سے انگلستان کو جہاز روانہ ہوتے ہیں۔
۴۵۲۔
الحکم ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
۴۵۳۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۴۵۴۔
الفضل ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۴۵۵۔
اگر برطانوی ہند میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کے لئے یہ بات اصولاً تسلیم کر لی جاتی تو کسی مسلمان فرقہ کا کوئی فرد بھی مسلمانوں کا نمائندہ تجویز نہ کیا جا سکتا۔ وجہ یہ کہ شیعہ` سنی` مقلد غیر مقلد غرضکہ تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور کوئی فرقہ بلکہ کسی فرقہ کا کوئی مشہور و مقتدر عالم و پیشوا اس سے مستثنیٰ نہیں ہے بطور نمونہ چند فتاویٰ ملاحظہ ہو۔ )۱( سوائے فرقہ اثنا عشریہ امامیہ کے ناجی نیست کشتہ شود و خوردہ بموت بمیرد۔ یعنی شیعوں کے سوا کوئی ناجی نہیں خواہ وہ مارا جائے یا اپنی موت مرے )حدیقہ شہدا صفحہ ۶۵( )۲( فرقہ امامیہ منکر خلافت حضرت صدیق اند و درکتب فقہ مسطور است کہ ہر کہ انکار خلافت حضرت صدیق نمائد منکر اجماع قطع گشت و کافر باشد۔ )رد تبراء صفحہ ۳۰( یعنی شیعہ حضرت صدیق اکبر کی خلافت کے منکر ہیں اور فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ جو شخص حضرت صدیق کی خلافت کا انکار کرے وہ منکر اجماع اور کافر ہے۔ )۳( چاروں اماموں کے پیرو اور چاروں طریقوں کے متبع یعنی حنفی شافعی مالکی حنبلی اور چشتیہ اور قادریہ و نقشبندیہ و مجددیہ سب لوگ کافر ہیں )جامع الشواہد صفحہ ۲ بحوالہ کتاب اعتصام السنہ مطبوعہ کانپور صفحہ ۷۔ ۸( )۴( غیر مقلدین کی نسبت یہ طائفے سب کے سب کافر و مرتد ہیں اور جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔ )حسام الحرمین از مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی صفحہ ۱۱۳( مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب حربہ تکفیر اور علمائے زمانہ شائع کردہ کتاب گھر قادیان۔
اب رہی جماعت احمدیہ تو اس کی ابتدائی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے اس نوع کے کسی فتویٰ میں ہرگز ابتداء نہیں کی جو کچھ کہا مخالف علما کے سب و شتم اور فتاویٰ کفر و ارتداد کے بعض محض علمی نقطہ نگاہ سے کہا اور وہ بھی حد اعتدال کے اندر رہتے ہوئے۔ جس کا بھاری ثبوت یہ ہے کہ جہاں احمدیت کی مخالف علماء نے شروع ہی سے احمدیوں کے واجب القتل تک ہونے کا فتویٰ صادر کیا۔ وہاں جماعت احمدیہ نے قطعاً اس سے اجتناب کیا اور آج تک دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں فرق کرنے کے لئے اسلام کے پیروکاروں کے لئے غیر احمدی اور اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے غیر مسلم کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ پھر اس جماعت کو تمام مسلمان فرقوں میں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لئے دائرہ اسلام کی دو تعبیریں پیش کیں ایک مذہبی اور دوسری سیاسی۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ ۲۳/ مئی ۱۹۲۴ء کے لئے اساس الاتحاد کے نام سے جو مضمون لکھا اس میں مسلمانان ہند کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی تلقین کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک لفظ اپنے اپنے دائرہ میں الگ معنے رکھتا ہے لفظ مسلم کی تعبیر مذہبی نقطہ خیال سے اور ہے اور سیاسی نقطہ خیال سے اور۔ مذہبی نقطہ خیال سے تو مختلف فرق اسلام کے نزدیک وہ لوگ مسلم ہیں جو ان اصولی مسائل میں جن پر وہ اپنے نزدیک بنائے اسلام رکھتے ہیں متفق ہو اور سیاسی نقطہ خیال کے مطابق ہر شخص جو رسول کریمﷺ~ پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ نہیں قرار دیتا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں لفظ مسلم کے دائرہ کے اندر آجاتا ہے۔ )صفحہ ۳۔ ۴(
۴۵۶۔
روزنامہ زمیندار ۲۶/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔
۴۵۷۔
یہ اخبار سندھی زبان میں شائع ہوتا تھا اور اس کی ادارت پیر علی محمد شاہ صاحب راشدی کرتے تھے۔
۴۵۸۔
اخبار ستارہ سندھ سکھر ۳۱/ اگست ۱۹۳۴ء بحوالہ الفضل ۹/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۴۵۹۔
وہ تو سو بار ندامت سے جھکا لیں آنکھیں
مگر آتا بھی ہو جب ان کو پشیماں ہونا۔ )ناقل(
۴۶۰۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۴۶۱۔
بحوالہ الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔
۴۶۲۔
بحوالہ الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔
۴۶۳۔
روزنامہ سیاست )لاہور( ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔ بحوالہ الفضل ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔ ۱۰(
۴۶۴۔
شاہکار )لاہور( اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۹۔۷۰۔
۴۶۵۔
مثلاً ملک سر فیروز خاں صاحب نون` نواب مظفر خان صاحب` جسٹس شیخ دین محمد صاحب` ملک محمد حیات خان صاحب نون` نواب اللہ بخش صاحب ٹوانہ` نواب محمد شاہ نواز خان صاحب` نواب آف ممدوٹ` ملک خضر حیات صاحب ٹوانہ` نواب نثار علی خان صاحب قزلباش` خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب سیکرٹری آل انڈیا مسلم کانفرنس` فقیر سید نجم الدین صاحب رئیس لاہور` خان بہادر سید مراتب علی صاحب لاہور` خان صاحب حکیم احمد شجاع صاحب` خان بہادر میاں احمد یار خان صاحب دولتانہ` خان بہادر میاں مشتاق احمد صاحب گرمانی۔
۴۶۶۔
بحوالہ الفضل ۱۲/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۴۶۷۔
قائداعظم اور ان کا عہد )از مولانا سید رئیس احمد جعفری( صفحہ ۱۹۷۔ ۱۹۸۔
۴۶۸۔
تحفہ گولڑویہ طبع اول صفحہ ۱۰۱۔
۴۶۹۔
تفسیر کبیر )مولفہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( جلد ۳ صفحہ ۴۴۴ کالم ۲۔
۴۷۰۔
نقل مطابق اصل۔ اصل میں رسائل کا لفظ ہے۔ >)ادبی دنیا< میں حضور کا ایک اور مضمون >علم الالسنہ اور اردو< کے زیر عنوان بھی شائع ہوا(
۴۷۱۔
ایضاً
۴۷۲۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے نام۔
۴۷۳۔
غالباً برصغیر کے مشہور ادیب و مورخ عاشق حسین صاحب بٹالوی مراد ہیں۔
۴۷۴۔
)غیر مطبوعہ( تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحہ ۳۱۰ پر حضرت میر صاحب کا مختصر ذکر گزر چکا ہے۔
۴۷۵۔
دیباچہ معجز نما کلاں قرآن شریف مترجم صفحہ ۳۰ مطبوعہ ۱۹۳۴ء۔
۴۷۶۔
الفضل ۹/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۷۷۔
ایضاً
۴۷۸۔
الفضل ۹/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
‏h1] g[ta۴۷۹۔
حضور نے خطبہ جمعہ کو اشاعت کے لئے بھجواتے ہوئے اس مقام پر حاشیہ میں اپنے قلم سے تحریر فرمایا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے۔
۴۸۰۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۴۸۱۔
الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۸۲۔
الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۸۳۔
الفضل ۳/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۸۴۔
الفضل ۴/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۸۵۔
الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۴۸۶۔
الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔
۴۸۷۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۸۸۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۸۹۔
ٹانگا نیکا اور زنجبار کو آزادی کے بعد تنزانیہ کہا جاتا ہے۔
۴۹۰۔
ملخصاً از مضمون مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ )ریویو آف ریلیجنز اردو فروری ۱۹۳۹ء(
‏]1h [tag۴۹۱۔
یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اپنے کاروبار میں نقصان کے سبب دعا کی درخواست کی۔ جس پر حضور علیہ السلام نے اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے والی نظم لکھ کر ارسال فرمائی۔ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور حضور کی دعا کی برکت سے مالی مشکلات دور ہو گئیں۔ آپ کے سب لڑکے دینداری کا جذبہ رکھتے ہیں اور آج کل مشرقی افریقہ میں ہی رہتے ہیں۔
۴۹۲۔
الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۴۹۳۔
نام >RNEGNICONT <INDIAN
۴۹۴۔
حیات احمد جلد پنجم صفحہ ۱۳۱ )از حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی(
۴۹۵۔
یاد رہے یہ تینوں بزرگ ۳۱۳ صحابہ کبار میں سے تھے جن کا نام حضرت مسیح موعودؑ نے ضمیمہ انجام آتھم کی فہرست میں بالترتیب نمبر ۶۷۔ ۶۸ اور ۲۴۲ پر درج فرمایا ہے۔
۴۹۶۔
الحکم ۲۴/ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۵ کالم ۳۔
۴۹۷۔
یہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے اور احمدی کے نام سے یاد کئے جاتے تھے مشرقی افریقہ میں ایک اور احمدی ڈاکٹر بھی رہا کرتے تھے جو آپ کے ہم نام تھے۔
۴۹۸۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۴۔
۴۹۹۔
الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳ کالم ۱۔
۵۰۰۔
حیات احمد جلد پنجم صفحہ ۱۳۱ )از مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ( الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۴ کالم ۲۔ الفرقان حضرت حافظ روشن علی نمبر( صفحہ ۵۷۔ آپ کی یادگار ایک لڑکی امتہ اللہ بیگم صاحبہ )اہلیہ کیپٹن محمد اسلم صاحب( ہیں۔
۵۰۱۔
البدر ۱۶/ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷۔
‏h1] gat[۵۰۲۔
الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴۔
۵۰۳۔
برادر حضرت قاضی سید امیر حسین صاحبؓ۔
۵۰۴۔
آپ بڑے اعلیٰ پایہ کے مناظر اور مقرر بھی تھے۔
۵۰۵۔
مولوی فخر الدین صاحب مرحوم کی نسبت ان کے پوتے محمد دائود صاحب طاہر )ابن مولانا محمد یعقوب صاحبؓ طاہر( بذریعہ خط مطلع کرتے ہیں کہ دادا جان کے حالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ آپ ۱۸۹۹ء کے اواخر میں حضرت خلیفہ اولؓ کے ارشاد پر ممباسہ تشریف لے گئے تھے۔ )محررہ ۲/ دسمبر ۱۹۶۶ء( اگر یہ صحیح ہے تو معلوم نہیں ۱۹۰۱ء کی مندرجہ بالا فہرست سے ان کا نام کیسے رہ گیا؟
۵۰۶۔
الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳ کالم ۱۔ ۲۔
۵۰۷۔
آپ مارچ ۱۹۲۷ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے بہ سلسلہ ملازمت مشرقی افریقہ تشریف لے گئے تھے۔
۵۰۸۔
آپ ۱۹۲۹ء کے آخر میں انڈین ہائی سکول میں مدرس کے طور پر وہاں گئے تھے۔ آپ کی ملازمت کا انتظام ملک احمد حسین صاحب ممبر کینیا لیجسلیٹو کونسل کے توسط سے ہوا آپ کے نیک نمونہ اخلاق اور مقناطیسی شخصیت نے نیروبی کے اپنوں اور بیگانوں پر نہایت گہرے نقوش چھوڑے ہیں سید عبدالرزاق شاہ صاحب چند سال بعد تشریف لے گئے اور اسی سکول میں ہی ملازم ہوئے۔
۵۰۹۔
تینوں بھائی مسیح محمدی علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہیں۔
۵۱۰۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۵۔
۵۱۱۔
یہ پریس جماعت نے اپنے ایک گزشتہ تبلیغی دور میں اخبار البلاغ چھاپنے کے لئے لیا ہوا تھا۔
۵۱۲۔
احمدیہ مسجد نیروبی کی بنیاد ۱۹۲۹ء میں رکھی گئی اور ۱۹۳۱ء میں تکمیل کو پہنچی۔ محمد حسین صاحب بٹ کے سپرد اس کی تعمیر کا کام تھا۔ بٹ صاحب جلد ہی فوت ہو گئے تھے اس کے بعد ملک احمد حسین صاحب نے مسجد کی تکمیل کرائی۔ ملک صاحب موصوف میونسپل کونسل کے ممبر تھے۔ جب شہر کی دوسری جماعتوں کو قطعات اپنی مذہبی ضروریات کے لئے الاٹ ہوئے تو ملک صاحب نے بھی جماعت کے لئے مسجد کی یہ زمین حاصل کی۔
۵۱۳۔
اس پریس نے ۱۹۳۶ء تک مندرجہ ذیل اشتہارات شائع کئے گئے۔ )۱( قرآن کریم کی طرف آئو )اشتہار( )۲( نور کے سامنے بھلا ظلمت کیا ٹھہرے گی؟ )۳( کیا مسیح پنشنر ہو کر آئے گا؟ )۴( اتمام حجت نمبر ۱۔ نمبر ۲۔ )۵( روئیداد مباحثہ نیروبی و مگاڈی و میرو وکسمو )الگ الگ( )۶( اسلام کی دلکش خوبیاں )۷( صادقوں کی روشنی کون دور کر سکتا ہے۔ )۸( صادقوں کی شناخت کے لئے قرآن مجید کا فیصلہ دیکھو )۹( کوہاٹی کا پیش کردہ انعام کہاں ہے؟ )۱۰( کامل اتمام حجت۔ ۲۱ ہزار روپیہ کا انعام۔ )۱۱( صداقت کی چمک )۱۲( پیر صاحب العلم کا کشف )۱۳( اے لوگو قرآن کی طرف آئو کہ ساری خیر و برکت اسی میں ہے۔ )۱۴( احمدیت کی بنیاد قرآن مجید پر ہے )۱۹۔ اشتہارات کا ایک سلسلہ( )۱۵( مباہلہ مسنونہ )۱۶( اے لوگو آسمانی پانی کی طرف لپکو )تین اشتہارات کا سلسلہ( )۱۷( تبلیغ صداقت )چار اشتہارات کا سلسلہ( )۱۸( آسمانی نصرت کا تازہ نشان )۱۹( مولوی عبداللہ شاہ سے دو حرفی فیصلہ )۲۰( مولوی عبداللہ شاہ کو ۱۵۰۰۰ شلنگ کا مزید انعام۔ )۲۱( مولوی عبداللہ شاہ کی درماندگی )۲۲( وفات مسیح )تین اشتہارات کا سلسلہ( )۲۳( اپنے سارے اختلافات کا فیصلہ محمد~صل۱~ کے دربار سے کرائو۔ )۲۴( آسمانی آواز۔ )۲۵( پاک محمد مصطفیٰﷺ~ نبیوں کا سردار )۲۶( اعلان بخدمت علماء اسلام )از حقیقتہ الوحی( )۲۷( نجات یافتہ کون ہے از کشتی نوحؑ )۲۸( وہی ہمارا کرشن )از حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ )۲۹( ندائے ایمان )۳۰( غیر احمدیوں کے دلچسپ انکشاف کی حقیقت )۳۱( مسئلہ نبوت اور دیوبندی فاضل )تین نمبر( )۳۲( اجرائے نبوت اور انجمن حمایت اسلام کا عجز۔ )۳۳( سید الانبیاء~صل۱~ اور بددعا )۳۴( فاضل دیو بند کی قرآن دانی اور اسلامی اصولوں کی بیخکنی۔ )۳۵( میدان دلائل میں مقامی احراریوں کا عجز )۳۶( امام الزمان کا انتظار چھوڑ دو آنے والا آچکا )۳۷( نبوت کسبی ہے یا وہبی۔ )۳۸( مدعیان حمایت اسلام کی غیر معقولیت )۳۹( خاتم النبین کی آیت میں خاتم کے معنے )۴۰( مفتری علی اللہ بہت جلد ہلاک کیا جاتا ہے۔ )۴۱( مسئلہ ختم نبوت اور فاضل دیوبند کی لغزشیں۔ )۴۲( ختم نبوت کے معنے از ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ )۴۳( دیوبندی فاضل نے بزرگان سلف کو اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ )۴۴( جھوٹا مدعی الہام از روئے قرآن ہرگز لمبی عمر نہیں پاتا۔ )۴۵( کیا حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمانی پر زندہ ہیں۔ )۴۶( زمانہ حال کے مسلمانوں پر احمدیت کے عظیم الشان احسانات )۴۷( الانذار۔ )۴۸( مسلمانوں کی نجات اور ترقی خلافت سے وابستہ ہے۔ )۴۹( احمدیت کیا ہے؟
۵۱۴۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۸۲۔ ۸۴۔
۵۱۵۔
روزنامہ ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء۔ جناب مولوی ظفر علی خاں صاحب کی طرف سے لال حسین صاحب اختر کی خصوصی سفارش کیوں کی گئی اس کا بالواسطہ جواب ایک غیر احمدی اخبار مجاہد مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۸ کے حسب ذیل نوٹ سے )جو اس نے اختر صاحب کی تقریر ڈیرہ اسٰمعیل خاں کی نسبت لکھا تھا( باسانی مل سکتا ہے۔ >ختم نبوت کے مسئلہ پر عام پیشہ وار واعظین کا بیان نہایت بازاری اور سوقیانہ ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں مولانا ۔۔۔۔ ڈیرہ تشریف لائے تھے انہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق جو کچھ کہا وہ صرف بازاری ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی بھی تھا کیونکہ انہوں نے اپنی صداقت کا اظہار فریق ثانی کو فحش ترین گالیاں دے کر کیا۔ مرزا غلام احمد صاحب کو آپ مجدد نبی تسلیم نہ کریں لیکن انہیں فحش ترین گالیاں دینے کا حق آپ کو کس شریعت کی رو سے حاصل ہوا۔ صرف یہی نہیں کہ اسلامی متانت و سنجیدگی ہی بازاری طرز گفتگو کی متحمل نہیں بلکہ خدائے اسلام نے واضح اور کھلے ہوئے الفاظ میں مسلمانوں کو کسی کے پتھر کے خدائوں کو بھی برا بھلا کہنے سے پرہیز کی تلقین کی ہے چہ جائیکہ آپ ایک ایسے انسان کو فحش ترین گالیاں دیں جس کی غلامی کا حلقہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی گردن میں ہے حق و صداقت کے اظہار کے لئے شریفانہ طرز مخاطب اور دلائل کی ضرورت ہوا کرتی ہے گالیوں کی نہیں گالیاں وہی دیتا ہے جس کے پاس دلائل کی کمی ہو۔ )بحوالہ الفضل ۲۸/ فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۷ کالم ۱۔ ۲(
۵۱۶۔
الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔
۵۱۷۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۱۸۔
الفضل ۲/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳ و رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء تا اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۴۸۔
۵۱۹۔
الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۵۲۰۔
الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔ ۸۔ ۲۵/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔ مشرقی افریقہ کا یہ پہلا مشہور مناظرہ کتابی صورت میں شائع شدہ ہے۔
۵۲۱۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۴ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۰۔ ۷۱۔
۵۲۲۔
الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۵۲۳۔
نیروبی سے ۸۰ میل جانب شمال واقع ہے۔
۵۲۴۔
پسر بھائی نظام دین صاحب مرحوم۔
۵۲۵۔
الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ ۴۔
۵۲۶۔
الفضل ۲/ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۵۲۷۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۵۳۔
۵۲۸۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۵ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۹۔
۵۲۹۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ¶۱۹۳۵ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۵۶۔
۵۳۰۔
ریویو آف ریلیجنز اردو فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۹۔ ۵۰۔
۵۳۱۔
بحوالہ رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۷ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۹۳۔
۵۳۲۔
آپ ۱۹۳۵ء کی پہلی سہ ماہی میں ٹانگا نیکا کے دورہ پر آئے تو باہمی مشورہ سے یہ فیصلہ کیا کہ ٹبورا میں دارالتبلیغ قائم کیا جائے۔ چنانچہ آپ نیروبی سے ٹبورا تشریف لے آئے اور اسے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا۔
۵۳۳۔
سکول کے ابتدائی سٹاف میں ناجم ابن سالم اور مسلم سعیدی صاحب تھے اور اس کی نگرانی کے تمام فرائض ایک عرصہ تک براہ راست مبلغ سلسلہ شیخ مبارک احمد صاحب ہی کو ادا کرنے پڑے۔ جس کی وجہ سے ان کا کام بہت بڑھ گیا۔ )رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۹۲ تا ۹۸۔
۵۳۴۔
بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۱۔ ۵۲۔
۵۳۵۔
۔1937 ADMINISTRATION NATIVE ON REPORT ANNUAL بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۴۔
۵۳۶۔
مثلاً ایسٹ افریقہ سٹینڈرڈ )نیروبی( ممباسہ ٹائمز۔ روزنامہ کینیا ڈیلی میل )ممباسہ( دی ینگ )ٹانگا نیکا( کوسٹ گارڈین۔ ٹانگا نیکا سٹینڈرڈ۔ ٹانگا نیکا اوپینین۔ سماچار زنجبار۔ یوگنڈا۔ ہیرلڈ۔ گلستان علم۔ اخبار الفلق )زنجبار( کولونیل ٹائمز۔ ہفت روزہ )نیروبی( GAMBUZI )کمپالہ( NKUYOLA YULA۔ ٹانگا نیکا ہیرلڈ۔ میمبولی )ٹانگا نیکا( BMAZD )سواحیلی رسالہ نیروبی(
۵۳۷۔
ان کا ذکر آگے تفصیل سے آئے گا۔
‏]1h [tag۵۳۸۔
ایضاً
۵۳۹۔
یوگنڈا کے ایک علاقہ کا نام۔
۵۴۰۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۷ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۶۱۔
۵۴۱۔
رپورٹ سالانہ ایضاً صفحہ ۶۵۔
۵۴۲۔
۱۲/ اپریل کو پہلے مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا اور ۱۶/ اپریل کو دوسرے مقدمہ کا۔
۵۴۳۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۵۳۔ ۵۶ ایضاً رپورٹ ۳۷۔ ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۱۴۔
۵۴۴۔
ملخصاً رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۷ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۹۔ ۶۰۔
۵۴۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۵۶ ایضاً سالانہ رپورٹ ۳۸۔ ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۱۴۔
۵۴۶۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۵۶ ایضاً رپورٹ سالانہ ۳۸۔ ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۱۴ ایضاً ۱۲۵۔ ۱۲۶۔ اس اپیل کے تمام اخراجات مکرم عبدالحکیم جان صاحب نے برداشت کئے اور بعض دوسرے احباب ٹبورا نے بھی اس میں گرانقدر مالی امداد کی۔
۵۴۷۔
شیخ صالح مع اہلیہ ۱۹۳۴ء کے آخر میں داخل سلسلہ ہوئے۔ شیخ صالح کی اہلیہ ڈچ نسل سے تھیں اور انگریزی اور سواحیلی زبان کی ماہر تھیں ان کا اخلاص قابل رشک تھا۔ آپ آخر وقت تک عورتوں میں تبلیغ کا کام کرتی رہیں افسوس ۲۰/ جون ۱۹۴۰ء کو ان کا انتقال ہو گیا الٰہم اغفر لہا۔ )رپورٹ سالانہ یکم مئی ۱۹۴۰ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۳۳(
۵۴۸۔
‏ MAN-POWER OF DIRECTOR
۵۴۹۔
‏h2] ga[t الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۶۔
۵۵۰۔
الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۵۔
۵۵۱۔
الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۵۵۲۔
الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲۔ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کا بیان ہے کہ مسجد تعمیر کرنے والے اٹالین قیدیوں کو اپنے وطن جانے کا بہت اشتیاق تھا۔ وہ اکثر پوچھتے کہ جنگ کب ختم ہو گی میں انہیں کہا کرتا کہ ہماری مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر جنگ ختم ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت! کہ ایسا ہی ہوا۔ ادھر ہماری مسجد مکمل ہوئی اور ادھر جنگ ختم ہوگئی۔ گویا اللہ تعالیٰ تعمیر مسجد کے لئے ہی انہیں لایا اور اس کے مکمل ہونے تک وہیں روکے رکھا۔
۵۵۳۔
حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سید عبدالرزاق شاہ صاحب فضل کریم صاحب لون۔ عبدالکریم صاحب بٹ میاں اکرم صاحب غوری نے خصوصاً اور دوسرے ایشیائی اور افریقن احمدیوں نے عموماً مسجد کی تعمیر میں خاص مدد دی۔
۵۵۴۔
الفضل ۴/ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۵۵۵۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۵۔ آپ اپریل ۱۹۵۰ء میں واپس آگئے دوبارہ ۲/ جولائی ۱۹۶۱ء کو روانہ ہوئے اور ۷/ دسمبر ۱۹۶۴ء کو مرکز میں پہنچے۔
۵۵۶۔
الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۵۵۷۔
مشرقی افریقہ سے آپ کی حالیہ آمد ۱۰/ جنوری ۱۹۶۶ء کو ہوئی۔
۵۵۸۔
الفضل ۱۰/ فروری ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۵۵۹۔
واپسی ۲۴/ جولائی ۱۹۵۲ء کو ہوئی )بمطابق ریکارڈ تحریک جدید(
۵۶۰۔
۷/ اگست ۱۹۶۴ء کو آخری بار مشرقی افریقہ سے ربوہ تشریف لائے۔
۵۶۱۔
۷/ نومبر ۱۹۵۲ء کو واپس آئے )بمطابق ریکارڈ تحریک جدید(
۵۶۲۔
۷/ اگست ۱۹۶۴ء کو آخری بار مشرقی افریقہ سے ربوہ تشریف لائے۔
۵۶۳۔
الفضل ۳/ مارچ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔ میر ضیاء اللہ صاحب اور مولوی فضل الہیٰ صاحب بشیر قادیان سے چند دن پہلے کراچی روانہ ہو گئے تھے۔
۵۶۴۔
الفضل ۵/ اگست ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۵۶۵۔
چوہدری عنایت اللہ صاحب مبلغ مشرقی افریقہ مراد ہیں )ناقل(
۵۶۶۔
الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۴۸ء خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳/ جولائی ۱۹۴۸ء۔
‏h1] ga[t۵۶۷۔
پہلی بار یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو تشریف لے گئے اب تک مصروف تبلیغ ہیں اور جمہوریہ ٹانگا نیکا و زنجبار مشن )تنزانیہ( کے انچارج ہیں۔
۵۶۸۔
یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو پہلی دفعہ روانہ ہوئے۔ اب یوگنڈا مشن کے انچارج کی حیثیت سے تبلیغی فرائض بجا لارہے ہیں۔
۵۶۹۔
روانگی ۲۱/ جولائی ۱۹۵۵ء واپسی ۲/ جون ۱۹۵۹ء۔
۵۷۰۔
روانگی ۴/ اگست ۱۹۵۵ء واپسی ۲/ جون ۱۹۵۹ء۔
۵۷۱۔
روانگی ۵/ جولائی ۱۹۵۶ء واپسی ۸/ اپریل ۱۹۵۸ء دوبارہ ۵/ جون ۱۹۵۹ء۔
۵۷۲۔
پہلی بار روانگی ۷/ مارچ ۱۹۵۹ء اب تک مصروف جہاد ہیں۔
۵۷۳۔
)تحریک جدید کے ریکارڈ کے مطابق( پہلی بار ۲۳/ جون ۱۹۶۰ء کو روانہ ہوئے اب تک تبلیغی فرائض ادا کر رہے ہیں۔
۵۷۴۔
روانگی ۱۰/ ستمبر ۱۹۶۱ء واپسی ۲/ فروری ۱۹۶۲ء )بمطابق ریکارڈ تحریک جدید(
۵۷۵۔
۲۱/ دسمبر ۱۹۶۱ء کو سیلون سے مشرقی افریقہ گئے اور مختصر قیام کے بعد آگئے۔ )بمطابق ریکارڈ تحریک جدید(
۵۷۶۔
روانگی ۱۱/ اپریل ۱۹۶۲ء واپسی ۱۰/ جون ۱۹۶۵ء۔
۵۷۷۔
روانگی ۷/ جون ۱۹۶۲ء واپسی ۵/ جنوری ۱۹۶۲ء۔
۵۷۸۔
روانگی ۹/ جولائی ۱۹۶۲ء واپسی ۱۱/ اکتوبر ۱۹۶۵ء-
۵۷۹۔
روانگی ۱۲/ جولائی ۱۹۶۲ء )اب تک مصروف تبلیغ ہیں(
۵۸۰۔
روانگی ۱۶/ مارچ ۱۹۶۳ء اب تک اعلائے کلمتہ اللہ کا فریضہ بجا لارہے ہیں۔
۵۸۱۔
ایضاً
۵۸۲۔
روانگی ۱۶/ مارچ ۱۹۶۳ء۔ ۱۹۶۶ء میں واپس آئے۔ )بمطابق ریکارڈ تحریک جدید(
۵۸۳۔
‏h2] gat[ روانگی ۱۳/ مئی ۱۹۶۴ء )اب تک کینیا میں مصروف تبلیغ ہیں(
۵۸۴۔
)بمطابق ریکارڈ تحریک جدید( روانگی ۲/ اپریل ۱۹۶۵ء اب تک مصروف تبلیغ ہیں۔
۵۸۵۔
روانگی ۱۲/ اگست ۱۹۶۵ء۔
۵۸۶۔
)تحریک جدید کے ریکارڈ کے مطابق( ۱۲/ جولائی ۱۹۶۴ء کو یوگنڈا تشریف لے گئے اب تک مشرقی افریقہ میں ہیں۔
۵۸۷۔
روانگی ۲۶/ جنوری ۱۹۶۶ء اب تک میدان عمل میں ہیں۔
۵۸۸۔
الفضل ۷/ مئی ۱۹۴۹ء صفحہ ۶۔
۵۸۹۔
یہ مختصر چھاپہ خانہ تھا جو احمدیہ مشن نے ۱۹۴۹ء کے شروع میں خریدا۔ مسٹر امری عبیدی کو مشن کی طرف روزنامہ ٹانگا نیکا سٹینڈرڈ )دارالسلام( کے پریس میں طباعت کی ٹریننگ دلائی گئی اس لئے ابتداء میں پریس کے وہی مہتمم تھے۔)الفضل یکم اپریل ۱۹۴۹ء صفحہ ۵( آپ کے بعد مولوی جلال الدین صاحب قمر اور چوہدری عنایت اللہ صاحب اس کے انچارج رہے۔ ۱۹۵۷ء میں یہ بند ہو گیا۔
۵۹۰۔
ترجمہ از سواحیلی )الفضل ۱۵/ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵(
۵۹۱۔
الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۵۔
۵۹۲۔
آپ کا مفصل تذکرہ آگے آرہا ہے امری عبیدی صاحب مرحوم کو سواحیلی زبان کے اعتبار سے ملک بھر میں سند کی حیثیت حاصل تھی آپ واحد قومی شاعر ہیں جن کا سواحیلی دیوان مطبوعہ ہے اور کثرت سے پڑھا جاتا ہے۔ امری صاحب نے سواحیلی میں علم العروض پر بھی کتاب تصنیف کی جسے بہت شہرت حاصل ہوئی۔
۵۹۳۔
مکمل متن الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۵۳ء میں شائع ہو چکا ہے۔
۵۹۴۔
اس ترجمہ کے لئے ایک غیر از جماعت مخیر دوست نے ایک لاکھ شلنگ کے قریب گرانقدر عطیہ دیا اور ساتھ ہی تاکید کی کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے جماعت کے بہت سے مخلصین نے بھی ایک ایک ہزار شلنگ کی رقم بطور عطیہ اس مقدس کام کے لئے دی۔
۵۹۵۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۴۔
۵۹۶۔
الفضل ۲۶/ اگست ۱۹۶۳ء۔
۵۹۷۔
‏ D۔H۔P ۔A۔M ۔HARRIS LYNDON BY AFRICA` EAST IN ISLAM یہ صاحب لمبا عرصہ ٹانگا نیکا میں مشنری اور پھر لنڈن کے سکول آف اورنٹیل سٹڈیز میں لیکچرار بھی رہے ہیں۔
۵۹۸۔
مسجد کسموں کی تعمیر کے اخراجات ایک مخلص احمدی محمد اکرم خان صاحب غوری نے برداشت کئے۔
۵۹۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰۲۔ ۱۰۳۔
۶۰۰۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۴۴ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۶۰۱۔
الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴۔
۶۰۲۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۔
۶۰۳۔
الفضل ۵/ جون ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۶۰۴۔
ایسٹ افریقہ سٹینڈرڈ نیروبی ۱۲/ اکتوبر ۱۹۶۴ء۔
۶۰۵۔
الفضل ۲۰/ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۱۔
۶۰۶۔
الفضل ۲۱/ جون ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۔
۶۰۷۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۵۸ء صفحہ ۳۔
۶۰۸۔
الفضل ۲/ جون ۱۹۵۷ء صفحہ ۱۔
۶۰۹۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۴۔
۶۱۰۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۵۹ء صفحہ ۵۔
۶۱۱۔
الفضل ۸/ مئی ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔
۶۱۲۔
خط کا مکمل متن ۱۴/ اپریل ۱۹۶۰ء کے الفضل صفحہ ۳ میں شائع شدہ ہے۔
۶۱۳۔
دی سنڈے پوسٹ نیروبی ۹/ مارچ ۱۹۶۰ء بحوالہ الفضل ۱۴/ اپریل ۱۹۶۰ء۔
۶۱۴۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۶۲ء۔
۶۱۵۔
الفضل ۵/ جون ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۶۱۶۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر گراہم افریقہ میں جہاں بھی گئے احمدی مبلغوں نے ان کا پورا پورا تعاقب کیا۔ جناب مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی )رئیس التبلیغ مغربی افریقہ( نے لیگوس میں بلی گراہم صاحب کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ مگر وہ اسے منظور کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ جس کا ذکر امریکہ کے یونیٹیرین فرقہ کے لیڈر جیک فیڈ لسان نے اپنی تصنیف >TODAT AFRICA IN <RELIGION کے صفحہ ۲۳ اور ۹۶ پر کیا ہے۔
۶۱۷۔
مشرق لاہور ۱۸/ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۳۔
۶۱۸۔
الفضل ۶/ اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۴۔
۶۱۹۔
ٹانگا نیکا ۹/ دسمبر ۱۹۶۱ء میں اور یوگنڈا ۹/ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو آزاد ہوئے۔
۶۲۰۔
یہ مشن مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح کے ذریعہ مارچ ۱۹۶۳ء میں جاری ہوا۔
۶۲۱۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ یوگنڈا کے یہ تمام افریقی معلم محض آنریری طور پر تبلیغ کرتے ہیں۔
‏]1h [tag۶۲۲۔
رپورٹ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ قادیان یکم مئی ۱۹۳۴ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۱۔
۶۲۳۔
آنحضرت~صل۱~ کی سیرت و سوانح جو دیباچہ قرآن کریم )مولفہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ( سے ماخوذ ہے۔
۶۲۴۔
ہم خواجہ ضیاء الدین صاحب گنائی آف نیروبی )انجمن حمایت اسلام کے سرگرم کارکن( کا ایک بیان درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ دوسرے اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے مشرقی افریقہ میں تبلیغ کے لئے کہاں تک اپنی ذمہ داری کا احساس فرمایا ہے۔
>کینیا کے مسلمان اپنے علاقہ میں تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کے سلسلہ میں پاکستان کے علماء کرام کو اکثر اوقات دعوت دیتے رہتے ہیں وہ لوگ ان علماء کرام کی آمدورفت کے جملہ مصارف کا بھی ذمہ اٹھاتے ہیں لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بعض علماء کرام وعدہ کرکے بھی وہاں تک جانے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان علماء کرام کے نام یاد ہیں کینیا کے مسلمانوں نے جنہیں بذریعہ ہوائی جہاز آمدورفت کا کرایہ اور دیگر اخراجات دینے کا یقین دلایا۔ اس پر وعدہ کے باوجود وہ حضرات کینیا نہ جا سکے۔ اور لوگ ان کے انتظار میں دیدہ و دل فرش راہ کئے رہے۔ )مجلس احرار اسلام کا آرگن روزنامہ نوائے پاکستان لاہور ۱۵/ جولائی ۱۹۵۷ء(
غیر از جماعت علماء کی اس سر و مہری اور بے التفاتی کے مقابل اب مجاہدین احمدیت کے اسلامی کارناموں کا تذکرہ دوسروں کے قلم سے متن میں مطالعہ کیجئے۔
۶۲۵۔
صفحہ ۲۰۴ یہ کتاب میکریرے یونیورسٹی میں بی۔ اے کے نصاب میں شامل ہے۔
۶۲۶۔
بحوالہ الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۔
۶۲۷۔
الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۔
۶۲۸۔
ایسٹ افریقن ٹائمز یکم اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۲` بحوالہ الفضل ۱۲/ اکتوبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۳۔
۶۲۹۔
سنڈے ٹائمز لنڈن ۲۵/ مئی ۱۹۵۸ء۔
۶۳۰۔
ہفت روزہ STERN ۱۲/ نومبر ۱۹۶۱ء بعنوان AFRICA IN GOD
۶۳۱۔
بحوالہ الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۔ نمائندہ خصوصی کی اس رپورٹ میں بہت مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔ )مرتب(
۶۳۲۔
بحوالہ الفضل ۲۶/ مئی ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔
‏h1] gat[۶۳۳۔
ترجمہ از اخبار پاکستان ٹائمز لاہور )۹/ مئی ۱۹۶۳ء(
۶۳۴۔
الفضل ۱۹/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۶۳۵۔
الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔
۶۳۶۔
الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۶۳۷۔
الفضل ۲۰/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۳۸۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۶۳۹۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۷۔
۶۴۰۔
الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۴۱۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۶۴۲۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۶۴۳۔
الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔
۶۴۴۔
الفضل ۲۲/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۴۵۔
الفضل ۲۶/ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔
۶۴۶۔
الفضل ۸/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۶۴۷۔
الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۶۴۸۔
الفضل ۸/ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
۶۴۹۔
الفضل ۱۶/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۶۵۰۔
الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۵۱۔
الفضل ۱۳/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۵۲۔
الفضل ۸/ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۶۵۳۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۵۴۔
الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۶۵۵۔
الفضل ۸/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔
۶۵۶۔
الفضل ۱۰/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۶۵۷۔
الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۵۸۔
الفضل ۶/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۵۹۔
الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۶۶۰۔
الفضل ۶/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۶۶۱۔
الفضل ۲۲/ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۶۶۲۔
الفضل ۱۲/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔
۶۶۳۔
الفضل ۱۷/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۶۶۴۔
الفضل ۲۱/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۶۶۵۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۶۶۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۶۶۷۔
الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۳۴ء۔
۶۶۸۔
الفضل ۲/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔ ۱۲۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ کا الفضل یکم ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ تا ۱۰ میں ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا جس میں وہ تمام دلائل بالاختصار جمع کر دیئے گئے تھے جو اس مباحثہ کے دوران میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کئے گئے۔
۶۶۹۔
الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۶۷۰۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۳۔
۶۷۱۔
الفضل ۶/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰ و الفضل ۸/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔ ۹ )مضمون مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل(
۶۷۲۔
الفضل ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۶۷۳۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔
۶۷۴۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۶۷۵۔
الفضل ۲۰/ دسمبر ۱۹۳۴ء۔
۶۷۶۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۶۷۷۔
الفضل ۱۰/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۷۸۔
بانگ درا صفحہ ۹۹۔
۶۷۹۔
الفضل ۲۳/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۸۰۔
الفضل ۷/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۶۸۱۔
الفضل ۲۷/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
‏tav.7.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
دوسرا باب )فصل اول(
احرار اور حکومت انگریزی کی طرف سے منظم مخالفت` پس منظر` تفصیل اور اثرات و نتائج
حضرت خلیفتہ المسیح ثانیؓ کا قبل از وقت انتباہ
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ۱۹۲۷ء سے اپنی خداداد بصیرت اور روحانی و کشفی قوت کی بناء پر جماعت کو متنبہ کرتے آرہے تھے کہ وہ زمانہ قریب ہے جس میں رحمان اور شیطان کی آخری جنگ مقدر ہے۔ جس کے لئے جماعت کو بہت زیادہ ہوشیار اور بیدار ہونا چاہئے۔ بہت زیادہ قربانیاں کرنی چاہئیں اور بہت زیادہ زور اور توجہ سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ حضور احمدیوں کو قبل از وقت ہوشیار کرتے ہوئے بتا چکے تھے` کہ دس سال کے اندر ہندوستان میں ایسا تغیر ہونے والا ہے جو سچ اور جھوٹ کا فرق کھول کر رکھ دے گا اور دنیا پر یہ روشن کر دے گا کہ کس جماعت کو ہندوستان میں رہنا چاہئے۔ اور کس کو نہیں۱ چنانچہ حضور نے ۱۹۲۷ء کی مجلس شوریٰ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>آج سے دس سال کے اندر اندر ہندوستان میں اس بات کا فیصلہ ہو جانے والا ہے کہ کون سی قوم زندہ رہے اور کس کا نام و نشان مٹ جائے۔ حالات اس سرعت اور تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ جو قوم یہ سمجھے کہ آج سے ۲۰۔ ۲۵ سال بعد کام کرنے کے لئے تیار ہو گی۔ وہ زندہ نہیں رہ سکے گی اور جو قوم یہ خیال رکھتی ہے وہ اپنی قبر آپ کھودتی ہے اگر دس سال کے اندر اندر ہماری جماعت نے فتح نہ پائی اور وہ تمام راہیں جو ارتداد کی ہیں بند کرکے وہ تمام دروازے جو اسلام قبول کرنے کے ہیں کھول نہ دیئے۔ تو ہماری جماعت کی زندگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یاد رکھو کبھی کسی قوم کی مدت خواہ وہ کتنے بڑے نبی سے وابستہ ہو غیر منتہی زمانہ تک نہیں چلتی۔ ۔۔۔۔۔ جب تک ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیدا کردہ طاقت ہے اس وقت تک اگر ہم نے دنیا فتح نہ کی تو جب مردہ ہو جائیں گے اس وقت کیا کریں گے۔ اگر تم لوگ اس فورس اور اس قوت اور اس روح سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیدا کی ہے کام نہ لو گے اور ساری دنیا کو ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ہلا نہ دو گے ۔۔۔۔۔۔۔ اور دنیا کو فتح کرنے کے لئے ابھی سے تیار نہ ہو جائو گے تو بھی اپنی موت کا آپ فتویٰ دو گے<۔۲
اس کھلے انداز و انتباہ کے صرف تین چار سال بعد جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا ایک ایسا زبردست طوفان اٹھنا شروع ہوا جس نے بہت جلد نہ صرف صوبہ پنجاب بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس سے پہلے احمدیت کے خلاف انفرادی جدوجہد ہوا کرتی تھی اور وہ بھی زیادہ تر مذہبی حلقوں میں لیکن اب کانگریس اور حکومت دونوں نے جماعت احمدیہ کو کچل دینے اور صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا فیصلہ کر لیا اور ہر جگہ فتنہ کی ایک آگ لگا دی اور خدا کے مامور کی جماعت کا عرصہ حیات تنگ کر دیا اور جبر و تشدد اور ظلم و ستم اور جو رو جفا کی انتہا ہو گئی۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ دور بڑے خوفناک زلزلہ کی حیثیت رکھتا ہے جس نے ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بسنے والے ایک ایک احمدی کو ہلا دیا۔ ایک قیامت تھی جو نمودار ہوئی ایک حشر تھا جو بپا ہوا !!
ہندو راج کے منصوبے اور >قومیت متحدہ< کا فتنہ
جماعت احمدیہ کی مخالفت میں مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی کے لئے کانگریس اور حکومت انگریزی کے افسروں کا گٹھ جوڑ کیوں ہوا؟ کس طرح ہوا اور اس سلسلہ میں کون کون سے افراد یا جماعتیں آلہ کار بنیں؟
۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی سازش
ان وجوہ واسباب کا سراغ لگانے کے لئے ہمیں ۱۸۵۷ء سے ملکی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہندوستان میں اکثریت ہندو قوم کی تھی۔ جو مسلمانوں کے ہزار سالہ عہد حکومت کے فیاضانہ سلوک پر سیر چشمی اور دریا دلی کے باوجود اندر ہی اندر ہندوستان میں پھر سے خالص ہندو راج کے منصوبے سوچتی آرہی تھی۔ ۱۸۵۷ء میں ہندوئوں نے ملک پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو مستقل طور پر محکوم و اسیر بنانے کے لئے بغاوت کرا دی۔
یہ بغاوت اگرچہ بظاہر ایک غیر ملکی )انگریزی( حکومت سے نجات پانے کی غرض سے تھی مگر اس کے پیچھے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے غلام بنانے کی سازش بھی کارفرما تھی۔ وجہ یہ کہ ہندوئوں کی نگاہ میں مسلمان اور انگریز دونوں ملیچھ اور قابل نفرت اور اچھوتوں بلکہ چماروں سے بھی بدتر تھے۔ جن کا وجود ان کے لئے ناگوار اور ناقابل برداشت تھا۔ جیسا کہ پنڈت مدن موہن مالویہ )کانگریس کے سابق صدر( نے ایک بار کہا۔
>میں یوروپین اور مسلمانوں پر چماروں کو ترجیح دیتا ہوں۔ اگر مجھے کسی ایسے ملک میں جانے کا اتفاق ہو جہاں اچھوتوں اور مسلمانوں اور یوروپینوں کے سوا اور کوئی نہ ہو تو میں یورپینوں اور مسلمانوں کے ہاتھ کا پانی پینے کی بجائے چماروں اور اچھوتوں کا پانی پینا پسند کروں گا کیونکہ اچھوت میرے دھرم بھائی ہیں<۔۳
مسلمانوں سے اس درجہ نفرت کے باوجود ہندوئوں کے لئے بیک وقت دو قوموں سے الجھنا بہت بڑی تنظیم` وقت اور قوت چاہتا تھا۔ اس لئے ہندوئوں نے ہوشیاری اور چالاکی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کو آلہ کار بنانا ضروری خیال کیا۔ تا ان کی مدد سے انگریزوں کو نکال کر پورے ملک پر خود قبضہ کر لیں اور مسلمان جو پہلے ہی کمزور اور درماندہ ہو چکے ہیں۔ انگریزوں سے ٹکر لینے پر اور بھی خفیف ہو جائیں گے تو ان کو غلام بنا لینا آسان ہو جائے گا۔
موجودہ وقت کے اکثر اہل قلم اور تاریخ نویس اگرچہ عذر ۱۸۵۷ء کو انقلاب آزادی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کا ایک پرجوش طبقہ تو اسے جہاد حریت۴`۵ قرار دیتا ہے۔ مگر جب اس زمانہ کی چشم دید شہادات اور مستند دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے تو ان واقعات کے پس پردہ صاف طور پر ہندو قوم کا ہاتھ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔
کاغذات پارلیمنٹ ۱۸۵۷ء
چنانچہ اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہم کاغذات ۱۸۵۷ء پارلیمنٹ کا مطالعہ کرتے ہیں ان کاغذات میں لکھا ہے۔
>۲۴ ویں پلٹن میں جس میں بغاوت سب سے اول اور نہایت کامل طور سے ظاہر ہوئی اور وہیں سے وہ ۱۹ پلٹن تک پہنچی ایک ہزار نواسی سپاہی تھے جن میں سے پورے آٹھ سو تین ہندو تھے۔ ان میں سے ۳۳۵ بشمول ۴۱ ہندوستانی افسروں کے برہمن تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اس پلٹن میں ہندوستانیوں پر بڑا دبائو براہمنوں کا ہے تعداد میں بھی زیادہ ہیں<۔۶
پھر لکھا ہے۔
>تھوڑی ہی مدت میں یہ چرچا )کارتوسوں کا( تمام ہندوستانی پلٹنوں میں جو کلکتہ کے قریب کے مقاموں میں تھیں پھیل گیا۔ دن میں تو اس بات کی سرگوشیاں ہوتی تھیں اور رات کو براہمنوں کے گھروں میں مشورے ہوتے تھے<۔۷
‏sub] [tagمغلیہ تاجدار بہادر شاہ ظفر کا حلفیہ بیان
ان تحریرات کی روشنی میں آئیے اب مغلیہ حکومت کے آخری تاجدار سراج الدین بہادر شاہ ظفر کا وہ حلفیہ بیان پڑھیں جو آپ نے ۹/ مارچ ۱۸۵۸ء کو دیوان خاص )قلعہ دہلی( میں منعقدہ عدالت کے سامنے دیا تھا۔
>اصل حقیقت یہ ہے غدر کے روز کی مجھے پہلے سے خبر نہیں تھی۔ آٹھ بجے کے قریب باغی سوار دفعت¶ہ آئے ۔۔۔۔۔۔۸
باغی سپاہ دیوان خانہ میں گھس آئی ۔۔۔۔۔ اور مجھے چاروں طرف سے گھیر کر پہرہ متعین کر دیا میں نے ان کا مطلب دریافت کیا اور چلے جانے کو کہا۔ جس کے جواب میں انہوں نے خاموش کھڑے رہنے کو کہا اور کہا کہ جب انہوں نے اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالا ہے تو اب اپنی طاقت کے موافق سب کچھ کرکے چھوڑیں گے۔ خوف کھا کر کہیں میں قتل نہ کر دیا جائوں میں نے منہ سے اف تک نہ کی اور چپ چاپ اپنے کمرہ میں چلا گیا۔ شام کے وقت یہ نمک حرام کئی انگریز مرد و عورت کو گرفتار کرکے لائے۔ جن کو انہوں نے میگزین میں پکڑا تھا اور ان کے قتل کا قصد کرنے لگے۔ میں نے باز رہنے کی درخواست کی۔ اس وقت تو میں ان انگریزوں کی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ مگر باغی سپاہیوں نے انہیں اپنی حراست میں رکھا متواتر دو موقعوں پر انہوں نے انگریزوں کے قتل کا قصد کیا اور میں نے منت و سماجت کرکے باز رکھا اور قیدیوں کی جانیں بچا لیں۔ آخری وقت اگرچہ میں مفسد بلوائیوں کو حتی المقدور باز رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر انہوں نے میری طرف مطلق التفات نہیں کیا اور ان بے چاروں کو قتل کرنے باہر لے گئے ۔۔۔۔۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جو میرا گواہ ہے کہ میں نے مسٹر فریزر یا اور کسی انگریز کے قتل کا حکم نہیں دیا۔ مکند لال و دیگر گواہان نے کہا ہے کہ >میں نے حکم دیا ہے<۔ غلط ہے۔ مرزا مغل و مرزا خضر سلطان نے احکام دیئے ہوں تو تعجب نہیں کیونکہ وہ سپاہ سے مل گئے تھے بعد ازاں فوجیں مرزا مغل و مرزا خضر سلطان و مرزا ابوبکر کو میرے سامنے لائیں اور کہا کہ >ہم انہیں اپنا سردار بنانا چاہتے ہیں< میں نے ان کی درخواست رد کر دی۔ لیکن جب سپاہ ضد کرنے لگی اور مرزا مغل غصہ ہو کر اپنی والدہ کے مکان پر چلا گیا۔ تو میں سپاہیوں کے خوف سے ساکت رہ گیا اور پھر طرفین کی رضامندی سے مرزا مغل کمانڈر انچیف افواج مقرر ہوا۔ میری مہر کے ثبت شدہ اور دستخط کئے ہوئے احکام کی نسبت معاملہ کی اصل حالت یہ ہے کہ جس روز سے سپاہ آئی انگریزی افسروں کو قتل کیا اور مجھے مقید کر لیا۔ میں ان کے اختیار میں رہا۔ جیسا کہ اب ہوں تمام کاغذات جو مناسب سمجھتے میرے پاس لاتے اور مجھے مہر ثبت کرنے پر مجبور کرتے بسا اوقات احکام کے مسودے لاتے اور میرے سیکرٹری سے انہیں صاف کرواتے کبھی اصلی کاغذات لاتے اور ان کی نقلیں دفتر میں رکھ دیتے۔ اس لئے کئی خطوط تحریریں روئیداد کی فائل بن گئی ہیں۔ بارہا انہوں نے خالی لفافوں پر مہر ثبت کرالی ہے نہیں معلوم ان میں انہوں نے کون سے کاغذات بھیجے اور کہاں بھیجے ۔۔۔۔۔۔ میں نے کبھی ان کی کانفرنس میں شرکت نہیں کی انہوں نے اس طرح بدون میری مرضی یا خلاف حکم صرف میرے ملازموں ہی کو نہیں لوٹا بلکہ کئی محلوں کو لوٹ لیا۔ چوری کرنا` قید کرنا اور ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور جو جی چاہتا تھا کر گزرتے تھے۔ جبراً معزز اہل شہر سے اور تجار سے جتنی رقم چاہتے وصول کرتے تھے اور یہ مطالبات ذاتی اغراص کے لئے کرتے تھے۔ جو کچھ گزرا ہے وہ سب مفسدہ پرداز فوج کا کیا دھرا ہے۔ میں ان کے قابو میں تھا اور کیا کر سکتا تھا- وہ اچانک آپڑے اور مجھے قیدی بنا لیا۔ میں لاچار تھا اور دہشت زدہ۔ جو انہوں نے کہا میں نے کیا۔ ورنہ انہوں نے مجھے کبھی کا قتل کر ڈالا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ میں ان فوجوں پر کیا اعتبار کرتا جنہوں نے اپنے ذاتی آقائوں کو قتل کر دیا۔ جس طرح انہوں نے ان کو قتل کیا مجھے بھی قید کر لیا۔ مجھ پر جور کئے۔ مجھے حکم میں رکھا اور میرے نام سے فائدہ اٹھایا تاکہ میرے نام کی وجہ سے ان کے افعال مقبول ہوں۔ یہ دیکھ کر کہ ان فوجوں نے اپنے ذی وجاہت و صاحب فرمان افسروں کو مار ڈالا۔ میں بے فوج` بے خزانہ` بے سامان جنگ` بے توپ خانہ کیونکر انہیں روک سکتا تھا۔ یا ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر سکتا تھا لیکن میں نے کبھی کسی طرح کی انہیں مدد نہیں دی۔ جب باغی افواج قلعہ کے پاس آئیں۔ میری طاقت میں تھا۔ میں نے دروازے بند کرا دیئے میں نے قلعہ دار کو طلب کیا اور جو کچھ گزر امن و عن بیان کر دیا۔ اور انہیں باغیوں میں جانے سے باز رکھا۔ میں نے لیڈیوں کے لئے دو پالکیاں اور دو توپیں قلعہ کے پھاٹک کی حفاظت کے لئے قلعہ دار۹ اور ایجنٹ لفٹنٹ۱۰ گورنر کی درخواستوں پر روانہ کر دی تھیں۔ مزید برآں اسی شب کو تیز سانڈنی سوار کو جو کچھ ہنگامہ یہاں برپا ہوا تھا اس کا اطلاعی خط دے کر ہز آنر لفٹنٹ گورنر آگرہ کی خدمت میں روانہ کر دیا تھا۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا کیا۔ میں نے اپنی خود مختار مرضی سے کوئی حکم نہیں دیا۔ میں سپاہ کے اختیار میں تھا اور انہوں نے جبراً و قہراً جیسا چاہا کرایا ۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا جواب میرا خود تحریر کیا ہوا ہے اور بلا مبالغہ ہے۔ حق سے اصلا انحراف نہیں کیا ہے۔ خدا میرا عالم و شاہد ہے کہ جو کچھ بالکل صحیح تھا جو کچھ مجھے یاد تھا وہ میں نے لکھا ہے۔ شروع میں میں نے حلفیہ کہا تھا کہ میں بغیر بناوٹ اور بغیر ملاوٹ کے وہی لکھوں گا۔ جو حق اور راست ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی میں نے کیا ہے<۔۱۱
ہندو راج کے احکام
اس بیان کا ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ مظلوم بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ان واقعات سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور باغی ہندو سپاہی محض ان کی چھاپ سے فائدہ اٹھا کر اپنا مطلب نکال رہے تھے پھر باغی سپاہ نے مغلیہ بادشاہ کو یوں بے بس اور مقید کر دینے کے بعد جو احکام جاری کئے وہ خود اس امر کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس پوری تحریک کے اصل کرتا دھرتا ہندو تھے۔ اور اس وقت دہلی پر ہندو کی حکومت ہو چکی تھی۔ چنانچہ خاں بہادر شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ خاں اپنی کتاب >تاریخ عروج عہد سلطنت انگلشیہ ہند< میں لکھتے ہیں۔
>اول حکم بادشاہ کا جو صادر ہوا۔ وہ یہ تھا کہ گائے ذبح نہیں کی جائے گی۔ ۹/ جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا کہ جو گائے ذبح کرے گا وہ توپ کے منہ اڑایا جائے گا۔ بقرہ عید کو گائے کی قربانی منع کی گئی۔۱۲ اگر بادشاہ کو اختیار ہوتا تو وہ کیوں ہندو راجہ کے سے احکام دیتا۔ مگر تلنگوں کے ہاتھ سے وہ مجبور تھا جو اس نے اپنی مرضی اور مذہب کے خلاف یہ حکم دیئے گائے قصاب چار مہینے تک اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے رہے۔ اگر باہر نکلتے تھے تو تلنگے ان کو اسی طرح ذبح کرتے جیسے وہ گائے کو ذبح کرتے تھے۔ پانچ چار مسلمان قصائی ہندو قصائیوں کے ہاتھ سے ذبح ہوئے پھر تلنگوں نے دوسرا حکم بادشاہ سے یہ صادر کرایا کہ شہر کے ڈلائو اور کوڑا جو بیلوں پر لد کر شہر سے باہر کھیتوں میں ڈالنے کے لئے جاتا ہے وہ گدھوں پر لد کر جایا کرے بھنگیوں کے ہاتھ جب تک گدھے لگے شہر میں ڈلائو کے ڈھیر لگے مگر بہت دن نہیں لگے کہ حلال خوروں نے اپنے بیل بیچ کر گدھے مول لئے پھر کبھی ایام عذر میں بیلوں کی پیٹھ پر ڈلائو لدا ہوا دیکھنے میں نہیں آیا۔ مسلمانوں کو یہ بادشاہی احکام ناگوار گزرے اور انہوں نے کہا کہ یہ اسلام کی بادشاہی نہیں یہ تو ہندوئوں کا راج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں نے ایک دفعہ اپنا محمدیﷺ~ جھنڈا ہندوئوں پر جہاد کے لئے لگایا۔ دوسری دفعہ مولوی محمد سعید نے جامع مسجد میں یہ جھنڈا کھڑا کیا۔ تو بادشاہ نے ان سے کہا کہ یہ کس کے لئے ہے انگریز تو شہر میں باقی نہیں تو انہوں نے کہا ہندوئوں کے لئے لگایا ہے۔ بادشاہ نے ان کو یہ سمجھا کر اس جھنڈے کو اکھڑوایا کہ سارے تلنگے ہندو ہیں ان سے بیچارے مسلمان کیا لڑیں گے<۱۳
ہندو تلنگوں کی یورش کا بادشاہ اور شاہی ملازموں پر اثر
زمانہ غدر میں ان ہندو تلنگوں کی وجہ سے بادشاہ اور دوسرے شاہی ملازمین پر کیا بیتی؟ اس کا آنکھوں دیکھا حال ظہیر دہلوی نے اپنی کتاب >داستان عذر< میں یہ لکھا ہے۔
>شاہی ملازموں کا یہ حال تھا کہ جب سے یہ بدمعاش شہر میں داخل ہوئے تھے بچارے روٹیوں کو محتاج تھے۔ تنخواہیں بند تھیں۔ تنخواہ کہاں سے ملتی۔ خود بادشاہ کی تنخواہ بند ہو گئی تھی۔ لاکھ روپیہ مہینا بادشاہ کے یہاں انگریزی خزانہ سے آتا تھا۔ جب انگریز ہی نہ رہے اور خزانہ بھی لٹ گیا تو بادشاہ کو تنخواہ کون دیتا اور بادشاہ کے پاس کیا دھرا تھا کہ وہ نوکروں کو تنخواہ دیتے۔۱۴
ہندوئوں کی حزم و احتیاط
کاغذات پارلیمنٹ ۱۸۵۷ء بہادر شاہ ظفر کا حلفیہ بیان اور ظہیر دہلوی کی چشم دید روایت ان سب سے یہ بات قطعی طور پر پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء کے محرک یقیناً ہندو تھے۱۵ اور ان کا مقصد مسلمان بادشاہ کو مفلوج کرکے اور ان کے نام سے احکام جاری کرا کے عام مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانا اور انگریزوں کو ملک بدر کرکے خود قابض ہو جانا تھا ہندوئوں کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اتنی باریک بینی` حزم و احتیاط اور زیر کی سے یہ سارا کام انجام دیا کہ اس وقت چھپے رہے اور پھر اصل واقعات پر ایسے دبیز پردے ڈال دیئے کہ مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کا قلم اصل حقائق و واقعات میں ان کا نام لیتے ہوئے بھی لرزنے لگا حتیٰ کہ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی دہلوی جیسے مفکر بھی جنہوں نے حالات غدر پر نہایت محنت و عرقریزی سے ایک بیش قیمت مواد جمع کرکے اصل حالات آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیئے۔ اسباب غدر پر مورخانہ حیثیت سے نہایت محتاط رنگ میں یہ تبصرہ کرنے پر مجبور ہیں کہ۔
>میں مجمل طور پر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ غدر میں دہلی شہر کے اندر انقلاب حکومت کی جو بساط بچھائی گئی تھی اور جس قدر مہرے اس میں حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس عظیم الشان فساد کی بنیاد رکھنے والے کچھ اور ہی لوگ تھے جو ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلتے رہے اور آخر وقت تک سامنے نہ آئے<۔۱۶
تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواجہ حسن نظامی نے ساتھ ہی سرکاری وکیل کے اس الزام کے جواب میں کہ یہ >غدر مسلمانوں کی سازش کا نتیجہ تھا<۔ یہ لکھ کر حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ >انہوں نے جو کچھ کہا اور جیسے جیسے الزام مسلمانوں اور اسلام پر لگائے اور جیسا سخت لہجہ اختیار کیا وہ ۔۔۔۔۔ صداقت کے اعتبار سے بالکل کمزور اور بودا معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ البتہ موجودہ نسل کے لئے یہ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سازش اور بغاوت کا حامی نہیں ہے غدر ۱۸۵۷ء میں جس قسم کے ناجائز واقعات پیش آئے۔ اسلام نے کہیں بھی ان کی اجازت نہیں دی تیرہ سو برس سے آج تک تاریخ ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کرتی کہ اسلام کی اجازت سے اس قسم کی کوئی حرکت کی گئی ہو جیسی غدر ۱۸۵۷ء میں پیش آئی۔ البتہ مسلمانوں کے ذاتی افعال کا اسلام ذمہ دار نہیں ہے<۔۱۷
سرسید احمد خاں بانی علی گڑھ تحریک کی مفصل رائے
کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ مسلمان بادشاہ کا جو اولوالامر کی حیثیت رکھتا تھا اس سے سازش کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر چونکہ مسلمان علماء نے ۱۸۵۷ء میں جہاد کا فتویٰ دیا لہذا مسلمان اجتماعی اور قومی حیثیت سے ہنگامہ غدر کے ذمہ دار ہیں۔ مگر ایسا خیال کرنا محض تحکم اور زبردستی ہے اور سرسید احمد خاں نے اپنی کتاب >اسباب بغاوت ہند< میں نہایت تفصیل سے اس خیال کی پرزور تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ۔
>مسلمانوں کا بہت روزوں سے آپس میں سازش اور مشورہ کرنا اس ارادے سے کہ ہم باہم متفق ہو کر غیر مذہب کے لوگوں پر جہاد کریں اور ان کی حکومت سے آزاد ہو جائیں نہایت بے بنیاد بات ہے جبکہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستامن تھے۔ کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے۔
بیس تیس برس پیشتر ایک بہت بڑے نامی مولوی محمد اسٰمعیل نے ہندوستان میں جہاد کا وعظ کہا اور آدمیوں کو جہاد کی ترغیب دی اس وقت اس نے صاف بیان کیا کہ ہندوستان کے رہنے والے جو سرکار انگریزی کے امن میں رہتے ہیں۔ ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے اس لئے ہزاروں آدمی جہادی ہر ایک ضلع ہندوستان میں جمع ہوئے اور سرکار کی عملداری میں کسی طرح کا فساد نہیں کیا اور غربی سرحد پنجاب پر جاکر لڑائی کی اور یہ جوہر ضلع میں پاجی اور جاہلوں کی طرف سے جہاد کا نام ہوا اگر ہم اس کو جہاد ہی فرض کریں تو بھی اس کی سازش و صلاح قبل دسویں مئی ۱۸۵۷ء مطلق نہ تھی۔
غور کرنا چاہئے کہ اس زمانے میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے خراب اور بدرویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خواری اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔ بھلا یہ کیونکر پیشوا اور مقتداء جہاد کے گنے جا سکتے تھے؟ اس ہنگامے میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا ملازمین کو نمک ّ*** کرنی مذہب کی رو سے درست نہ تھی صریح ظاہر ہے کہ بیگناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بڈھوں کا۔ مذہب کے بموجب گناہ عظیم تھا۔ پھر کیونکر یہ ہنگامہ غدر جہاد ہو سکتا تھا؟ ہاں البتہ چند بد ذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت جمع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا۔ پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرمزدگیوں میں سے ایک حرمزدگی تھی نہ واقع میں جہاد۔
دلی میں جو جہاد کا فتویٰ چھپا وہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے مگر میں نے تحقیق سنا ہے اور اس کے اثبات پر بہت دلیلیں ہیں کہ وہ محض بے اصل ہے میں نے سنا ہے کہ جب فوج نمک حرام میرٹھ سے دلی میں گئی تو کسی نے جہاد کے باب میں فتویٰ چاہا سب نے فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اس پہلے فتوے کی میں نے نقل دیکھی ہے۔ مگر جبکہ وہ اصل فتویٰ معدوم ہے تو میں اس نقل کو نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک لائق اعتماد کے ہے مگر جب بریلی کی فوج دلی میں پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہوا جو مشہور ہے اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے بلاشبہ اصلی نہیں چھاپنے والے اس فتوے نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بد ذات آدمی تھا جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو رونق دی تھی بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی جو قبل غدر مر چکا تھا۔ مگر مشہور ہے کہ چند آدمیوں نے فوجی باغی بریلی اور اس کے مفسد ہمراہیوں کے جبر اور ظلم سے مہریں بھی کی تھیں۔
دلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اور ان کے تابعین کا ایسا تھا کہ وہ مذہب کی رو سے معزول بادشاہ دلی کو بہت برا اور بدعتی سمجھتے تھے ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض ودخل اور اہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جامع مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اور غدر سے بہت قبل کے چھپے ہوئے فتوے اس معاملے میں موجود ہیں۔ پھر کبھی عقل قبول کرسکتی ہے کہ ان لوگوں نے جہاد کے درست ہونے میں اور بادشاہ کو سردار بنانے میں فتویٰ دیا ہو۔
جن لوگوں کی مہر اس فتوے پر چھاپی گئی ہے۔ ان میں سے بعضوں نے عیسائیوں کو پناہ دی اور ان کی جان اور عزت کی حفاظت کی ان میں سے کوئی شخص لڑائی پر نہیں چڑھا مقابلے پر نہیں آیا۔ اگر واقع میں وہ ایسا ہی سمجھتے جیسا کہ مشہور ہے تو یہ باتیں کیوں کرتے غرض کہ میری رائے میں کبھی مسلمانوں کے خیال میں بھی نہیں آیا کہ باہم متفق ہو کر غیر مذہب کے حاکموں پر جہاد کریں۔ اور جاہلوں اور مفسدوں کا غلغلہ ڈال دینا کہ جہاد ہے جہاد ہے۔ ایک نعرہ حیدری پکارتے پھر ناقابل اعتبار کے نہیں<۔۱۸
علماء اہلحدیث اور غدر ۱۸۵۷ء
اہلحدیث ہمیشہ انگریز دشمنی میں بدنام رہے ہیں مگر جیسا کہ اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا ہے۔
>مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے اصل معنیٰ جہاد کے لحاظ سے بغاوت ۱۸۵۷ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا۔ بلکہ اس کو بے ایمانی و عہد شکنی و فساد و عناد خیال کرکے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت قرار دیا اور اس کے برعکس اس غدر میں گورنمنٹ کی خیر خواہی کی اور عین طغیانی طوفان بے تمیزی میں ایک زخمی لیڈی )زوجہ مسٹر لیسن( کی جان بچائی اور اس کے زخم کے معالجہ کے بعد وہ سرکاری کیمپ میں پہنچائی جس پر گورنمنٹ کی طرف سے بھی قدردانی و توجہ ہوئی<۔۱۹
ایک دوسرے عالم اہلحدیث نواب مولوی صدیق حسن خان صاحب رئیس اعظم بھوپال نے کتاب ہدایتہ السائل اور دوسری متعدد کتابوں میں لکھا۔
۱۔
ہندوستان کے بلاد دارالاسلام ہیں نہ دارالحرب ۔۔۔۔۔۔
۲۔
برٹش گورنمنٹ سے ہندوستان کے تمام رئوساء و رعایا کا ہمیشہ کے لئے معاہدہ دوستی ہو چکا ہے۔ لہذا ہندوستان کے کسی شخص کا برٹش گورنمنٹ سے جہاد کرنا اور اس معاہدہ کو توڑنا ناجائز نہیں ہے۔
۳۔
جو غدر ۱۸۵۷ء میں برٹش گورنمنٹ سے مفسدوں نے سلوک کیا وہ فساد تھا نہ جہاد۔
۴۔
‏ind] [tag ہندوستان کو دارالحرب سمجھنے والوں کو بھی اس ملک میں رہ کر گورنمنٹ سے مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔
۵۔
اس وقت جہاد کی شرطیں بالکل مفقود ہیں۔ لہذا ملک ہند میں کلکتہ سے پشاور تک اور سندھ سے دکھن تک کوئی شخص برٹش گورنمنٹ سے جہاد نہیں کر سکتا۔
۶۔
برٹش گورنمنٹ عادل ہے اور خیر خواہ و امن جوئے عامہ خلائق ہے وغیرہ وغیرہ<۔۲۰
اہلحدیث کے تیسرے لیڈر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا۔
>عہدہ و امن والوں سے لڑنا ہرگز شرعی جہاد )ملکی ہو خواہ مذہبی( نہیں ہو سکتا بلکہ عناد و فساد کہلاتا ہے مفسدہ ۱۸۵۷ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہگار اور بحکم قرآن و حدیث وہ مفسد وباغی بدکردار تھے۔ اکثر ان میں عوام کالانعام تھے بعض جو خواص و علماء کہلاتے تھے۔ وہ بھی اصل علوم دین )قرآن و حدیث( سے بے بہرہ تھے یا نافہم و بے سمجھ۔ باخبر و سمجھ دار علماء اس میں ہرگز شریک نہیں ہوئے اور نہ اس فتویٰ پر جو اس غدر کو جہاد بنانے کے لئے مفسد لئے پھرتے تھے انہوں نے خوشی سے دستخط کئے ۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ مولوی اسٰمعیل~رح~ دہلوی جو حدیث و قرآن سے باخبر اور اس کے پابند تھے۔ اپنے ملک ہندوستان میں انگریزوں سے )جن کے امن و عہد میں رہے تھے( نہیں لڑے اور نہ اس ملک کی ریاستوں سے لڑے ہیں۔ اس ملک سے باہر ہو کر قوم سکھوں سے )جو مسلمانوں کے مذہب میں دست اندازی کرتے تھے کسی کو اونچے اذان نہیں کہنے دیتے تھے( لڑے<۔۲۱
خلیفتہ المسلمین ترکی اور غدر ۱۸۵۷ء
پس بلاشبہ غدر ۱۸۵۷ء کے محرک نہ تو مسلمان تھے اور نہ اس زمانہ کے مقتدر اور مستند علماء نے اسے کبھی جہاد قرار دیا۔ اور بعد کو اسے جو اس نام سے یاد کیا گیا۔ یہ بھی ہندو کی ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے ۱۸۵۷ء کے واقعات پر غور کرنے کا ایک اور نقطہ نگاہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بیرونی حکومتوں میں سے سب سے بڑی اسلامی سلطنت ان دنوں ترکی تھی جس کے بادشاہ سلطان عبدالحمید ثانی۲۲ نے جو مسلمانان عالم کے مذہبی لیڈر ہونے کی وجہ سے خلیفتہ المسلمین مانے جاتے تھے۔ اس موقعہ پر مسلمانان ہند کو سلطنت برطانیہ کا ساتھ دینے اور اس کی وفادار رعیت رہنے کا مشورہ دیا۔
چنانچہ مرتضیٰ احمد خاں >تاریخ اقوام عالم< میں لکھتے ہیں۔ >خلیفہ نے اس مضمون کا فتویٰ لکھ کر انگریزوں کو دے دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں سے نہیں لڑنا چاہئے کیونکہ وہ خلافت اسلامیہ کے حلیف و ہمدرد ثابت ہو چکے ہیں<۔۲۳
اس کے علاوہ خلیفتہ المسلمین ترکی نے انگریزی افواج کو گزرنے میں بھی مدد دی۔ چنانچہ شیخ عبدالقادر صاحب بی۔ اے بیرسٹرایٹ لاء سیکرٹری خلافت کمیٹی سیالکوٹ اپنے رسالہ >ترکوں کے ارمنوں پر فرضی مظالم< میں تسلیم کرتے ہیں کہ
>۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں غدر مچا اس غدر کو فرو کرنے کے لئے انگریزوں کی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت حضور خلیفتہ المسلمین سلطان المعظم نے ہی دی تھی جنوبی افریقہ میں جنگ بوئر ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ ترکی نے انگلستان کا ساتھ دیا۔ ہزارہا ترکوں نے انگریزی جھنڈے کے نیچے لڑنے مرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ مساجد میں انگریزوں کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں کی گئیں<۔۲۴
ہندوئوں کی جھوٹی مخبریوں اور جھوٹی گواہیوں کی بدولت مسلمانوں کا دردناک حشر
یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچانے کے بعد کہ ۱۸۵۷ء کی نام نہاد تحریک آزادی کے محرک ہرگز مسلمان نہیں تھے۔ اور سارا منصوبہ ہندو
قوم نے اپنے اقتدار و استیلاء کے لئے تیار کیا تھا۔ اب ہم یہ دردناک حقیقت پیش کرتے ہیں کہ اگرچہ اس تحریک کے کرتا دھرتا ہندو تھے۔ مگر جب یہ ناکام ہو گئی تو نقصان مسلمانوں کو پہنچا کیونکہ انگریزوں نے جب ملک پر پورا تسلط قائم کر لیا اور پھر پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو تحریک کے بانی تو روپوش ہو گئے۔ مگر آفت رسیدہ مسلمان اپنے ہی یاران وطن کی جھوٹی شکایتوں` جھوٹی گواہیوں۲۵ اور جھوٹی مخبریوں کی بدولت پکڑ لئے گئے۔ غدر کی تمام ذمہ داری بے جا طور پر مسلمانوں کے سرمنڈھ دی گئی۔ وہ چن چن کر مارے گئے۔۲۶ گولیوں سے اڑائے گئے تختہ دار پر لٹکائے گئے سینکڑوں خاندان اجڑ گئے۔ بے شمار جائیدادیں ضبط کی گئیں اور دلی کا وہ تخت جو بدقسمت حکومت مغلیہ کی آخری یادگار تھا ہمیشہ کے لئے چھن گیا۔
ہندوئوں کا مسلمانوں کی جائدادوں پر قبضہ
مسلمانوں کی اس قیامت خیز تباہی کے مقابل ہندوئوں نے انگریزوں سے مل کر ہاتھ رنگے۔ بغاوت سے پہلے جو اکثر جائدادیں مسلمانوں کے قبضہ میں تھیں ان پر ہندو قابض ہو کر رئیس بن گئے۔۲۷ اور برسر اقتدار انگریزی حکومت سے گہرا ربط ضبط قائم کرکے جہاں ملک میں اپنے قدم مضبوط کر لئے وہاں مسلمانوں کے خلاف خوب کان بھرے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی عزت و سطوت بالکل خاک میں مل گئی اور رہی سہی کسر ہندوئوں کے مجلسی و اقتصادی بائیکاٹ اور ان کے مسلم آزار بلکہ انسانیت سوز سلوک نے پوری کر دی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا بیان ہندو کی تنگ ظرفی سے متعلق
چنانچہ مولانا ابوالکلام صاحب آزاد مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی تنگ ظرفی اور تعصب جبلی سے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔
>جہاں تک ملکی حقوق و فوائد کے معاملات کا تعلق ہے ۔۔۔۔۔۔ ہندوئوں کا جماعتی وصف تنگ دلی اور کوتاہ دستی ہے وہ چیز جسے دل کا کھلا ہونا اور طبیعت کی فیاضی کہتے ہیں۔ ہمارے ہندو بھائیوں میں پیدا نہ ہو سکی اور میں یقین کرتا ہوں کہ ایک ہزار برس سے ایسے حالات موجود ہیں کہ پیدا ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات کو کبھی کشادہ دلی اور وسعت ظرف کے ساتھ نہ دیکھ سکے۔ اگر دیکھ سکتے تو کب کا یہ سارا جھگڑا ختم ہو جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تجربے نے ثابت کر دیا کہ وہ ایسا نہ کر سکے<۔۲۸
چوہدری افضل حق صاحب کی نگاہ میں ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف تباہ|کاریاں
ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمان قوم کس طرح اچھوت بن کے رہ گئی اور اسے اقتصادی اور سماجی لحاظ سے عضو معطل بنا دیا گیا؟ اس کی
دردناک تفصیل مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب کے قلم سے پڑھئے۔
>دو قوموں کے قرب کو بعد میں بدلنے والی چیز ہے ہندوئوں کی چھوت چھات۔ اگر کوئی کسی کو ناپاک سمجھے پھر اس سے رفاقت کی امید کرے یہ بس بوکر کاٹنے کی امید لگانا ہے۔ دنیا کا کون بدنصیب ملک ہے جہاں کوئی اسیران جنگ کے ساتھ وہ سلوک کرے جو ہندو آئے دن مسلمانوں اور اچھوتوں سے برتتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ مسلمان عوام ہندو کے آئے دن کے طرز عمل سے ایسے برگشتہ ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا حادثہ مسلمانوں کے دل سے ہندوئوں کے سلوک کے ردعمل کو دور نہیں کر سکتا ،،،،،،، مسلمان ہندو مسلم اتحاد کی دعوت پر بدک جاتے ہیں اور کہتے ہیں ایسی قوم سے اتحاد جو ہمسایہ کو نجس سمجھے کیسے ہو؟ یہی چھوت چھات ہندوئوں کی تجارتی ترقی کا راز ہے۔ مسلمان ہندو کی دکان کا گاہک تو ہے مگر ہندو مسلمان کے مال تجارت کا خریدار شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمائے کا میلان اور اس کی رو ایک ہی طرف رہتی ہے مسلمان کا سرمایہ ہندو کے گھر جاتا ہے۔ ہندو کا مال مسلمان کے ہاں قسمت سے ہی آتا ہے۔ اس طرح وہ مجلسی اور اقتصادی طور پر ہندوئوں کو ظالم ترین قوم سمجھنے پر مجبور ہے۔ جب تک ہندو اپنا طرز عمل نہ بدلے مسلمان اس کے متعلق اپنی رائے نہ بدل سکے گا۔ مسلمان کیا ان حالات میں کوئی قوم ہوتی اس کا طرز عمل وہی ہوتا جو مسلمانوں کا ہے۔ اس سلوک کے علاوہ اب ایک اور دقت درپیش ہے ایسی تنگ دل اکثریت کو آئندہ آئین میں کلی اقتدار حاصل ہو جائے گا۔ مسلمان سمجھتا ہے آئے دن ہندو چھوت چھات سے ذلت بھی کرتا ہے اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ بھی کرتا ہے اب مرکز میں اسے اور موقعہ مل گیا تو مسلمانوں کی موت یا زندگی موت سے بدتر بنے گی<۔۲۹
۲۔
>مسلمان اعلانیہ اپنے مصائب کی وجہ ہندوئوں کی چھوت ¶چھات اور ہندو ساہو کاروں کی بددیانتیاں قرار دیتے ہیں۔ وہ ملوکیت کے ہاتھوں میں بھی کھیلنے کو تیار ہیں۔ بشرطیکہ انہیں انسان کی طرف سے دی ہوئی تکالیف سے چھٹکارا پانے کی امید دلائی جائے۔ برطانی شہنشاہیت ہمارے برادران وطن کے سلوک سے زیادہ بری نہیں<۔۳۰
۳۔
>میں کانگریسی مسلمان کی طرح صرف مسلمان ہی کو ہندوستان کی غلامی کا باعث قرار دیتا تھا۔ لیکن ہندوئوں کے نفرت زا سلوک یعنی چھوت کا مجھ پر گہرا اثر تھا۔ اس لئے حب الوطنی کا جوش کبھی ذرا تھمتا تو کبھی کبھی خیال بھی آتا کہ مسلمان بھی آخر انسان ہے ہندو کے موجودہ سلوک کی موجودگی میں مسلمان سے اتحاد کی خواہش امر محال ہے چند مسلمان تو تعاون کے لئے مل سکتے ہیں مگر قوموں کے درمیان چھوت نے ایسا پاٹ ڈال رکھا ہے جس کا پر کرنا آسان نہیں<۔۳۱
۴۔
>ہندو تاریخ اور انسانیت کے سامنے ملزم کی حیثیت سے کھڑے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ہی ملکی بھائیوں کے گلے کاٹے ہیں۔ کسی کتے یا چلپاسہ کا خراب کیا ہوا پانی اتنا اپوتر نہیں ہوتا جتنا کہ ایک مسلمان یا شودر کا چھوا ہوا پانی۔ میں یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ بعض ہندو اچھوت ادھار کی طرف توجہ کر رہے ہیں۔ مگر مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا۔ اس اچھوت ادھار کی تحریک کی وجہ صرف یہ ہے کہ مہاسبھائی لیڈر صرف یہ چاہتے ہیں کہ آئینی جنگ لڑنے کے لئے تعداد کا غلبہ حاصل ہونا چاہئے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو ان اچھوتوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا جا سکے-<۳۲
>ایک مسلمان کے لئے ہندو سوسائٹی کا ماحول کتنا تنگ ہے؟ کسی ہندو کو اس کا خیال تک بھی نہیں آسکتا۔ جب تک ہم چھوت چھات کے دیو کو چکنا چور نہیں کر دیتے اس وقت تک ہندوستان جو جنت ارضی ہے فرقہ وارانہ کشمکش کی وجہ سے جہنم بنا رہے گا۔ ہمیں منافقانہ باتیں چھوڑ دینی چاہئیں اور صاف صاف یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ جب تک چھوت چھات باقی ہے ہندوئوں اور مسلمانوں میں کوئی مجلسی رابطہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ مسلمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور صرف شودروں کا ادھار کرکے ہندوستان پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے<۔۳۳
۵۔
>میرے ایک احراری دوست مولانا عبدالقیوم کانپوری نے جو میرے ساتھ راولپنڈی جیل میں قید ہیں مجھے بتایا ہے کہ ہندو کارکن مسلمانوں کے خلاف اچھوتوں میں نفرت کی تلقین کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یو۔ پی` بہار اور اڑیسہ میں اچھوت اب مسلمانوں کو اچھوت سمجھنے لگے ہیں<۔۳۴
مولوی مظہر علی صاحب اظہر کا اقرار ہندوئوں کی روش کی نسبت
چوہدری افضل حق صاحب کے حقیقت افروز بیانات کے بعد اب ہم مجلس احرار اسلام کے بعض دوسرے قائدین کی اہم شہادتیں زیب قرطاس کرتے ہیں۔ مولوی مظہر علی صاحب اظہر قائد احرار لکھتے ہیں۔ >ہندوئوں کو انگریزی عملداری کے ابتدائی دور میں جو حد اور حق سے زیادہ حصہ مال و دولت` تعلیم و ملازمت` صنعت و تجارت میں ہاتھ آیا اور انہیں مسلمانوں پر جو فائق اقتدار حاصل ہوا وہ اس کو چھوڑنے پر آسانی سے تیار نہیں ہو سکے۔ انہوں نے صوبجاتی معاملات میں کوتاہ اندیشی سے کام لے کر تمام ہندوستان میں جھگڑے کی بنیاد کو وسیع کیا<۔۳۵
مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کابیان ہندوئوں کی نسبت
مولوی حبیب الرحمٰن صاحب لدھیانوی نے ہندو اکثریت کی سیاسی تنظیم نیشنل کانگریس کی نسبت یہ رائے قائم کی۔
>میں اگرچہ کانگریسی ہوں اور میں نے ہمیشہ کانگریس کے جھنڈے تلے کام کیا ہے مگر مجھے اس کے کہنے میں پس و پیش نہیں ہے کہ کانگریس کی محنت اور قربانی کا نتیجہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان کی حکومت انگریزی سرمایہ داروں کے ہاتھ سے نکل کر ہندوستان کے سرمایہ داروں کے ہاتھ دے دی جائے۔ بلکہ ڈومینین سٹیٹس کی شکل میں تو جو حکومت ہندوستان پر قائم ہو گی اس میں ہندوستانی اور انگریز سرمایہ دار مل کر یہاں کے غرباء کو کچلنے کی کوشش کریں گے<۔۳۶
شیخ حسام الدین صاحب بی۔ اے کا تائیدی بیان
اس کی تائید میں شیخ حسام الدین صاحب بی۔ اے نے کھلا اقرار کیا کہ۔
>شہروں کی آبادیاں جو کل تک مسلمانوں کے قبضہ و تصرف میں تھیں ایک ایک کرکے نکل رہی ہیں۔ جائیدادیں بک گئیں۔ زمینیں نیلام ہو گئیں۔ تجارت پر تمہارا قبضہ نہیں۔ کارخانوں میں مزدور کی حیثیت سے دوسروں کے محتاج۔ پس ایسے حالات میں سیاسی آزادی بھی من حیث الجماعت کوئی فائدے کی چیز ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا جس کو ہم اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں کہ سرمایہ دار طاقتیں چند انسانوں کو خرید کر غریب و فاقہ مست قوم پر من مانے طریق پر حکومت کریں گی۔ جسے غریب نہایت سادہ لوحی سے نمائندہ حکومت کہے گا<۔۳۷
مسلمانوں کو ابدی غلام بنا لینے کے منصوبے
ملک کی سیاسی آزادی کے بعد ہندو سرمایہ داروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کے رہ جانے بلکہ ابدی غلام بن جانے کا خطرہ اس وجہ سے حقیقت میں بدلتا جارہا تھا کہ کانگریس کے ہندو لیڈر مثلاً جواہر لال صاحب نہرو وغیرہ مسلمانوں کی سیاسی تنظیموں >)مسلم لیگ< اور >مسلم کانفرنس< کو( محض فرقہ پرست جماعتیں قرار دے کر ان کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ >اس ملک میں دو طاقتیں ہیں کانگریس اور انگریز<۔۳۸
اسی بناء پر ان کی جدوجہد کا اصل محور یہ تھا کہ حکومت انگریزی کانگریس کو ملکی اقتدار کی باگ ڈور سونپ دے۔ کانگریس انتقال اقتدار کے بعد تمام فرقہ وارانہ الجھنیں سلجھانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ چنانچہ >مہاتما گاندھی نے ۳۰/ نومبر ۱۹۳۱ء کو اقلیتی سب کمیٹی کے اجلاس میں اعلان کیا<۔ اگر ملک کو غیر مشروط طور پر کانگریسی اکثریت کے حوالے کر دیا جائے تو فرقہ وارانہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا<۔۳۹`۴۰
مسلمانوں کی شدھی کے ذریعہ سے فرقہ وارانہ حل
یہ فرقہ وارانہ مسئلہ >خود بخود< کس طرح حل ہو جائے گا؟ اس سوال کا جواب ہندو سنگھٹن کے مشہور حامی لالہ ہر دیال ایم۔ اے کے الفاظ میں یہ ہے۔
>جب ہندو سنگھٹن کی طاقت سے سوراجیہ لینے کا وقت آئے گا تو ہماری جو نیتی )پالیسی( عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرف ہو گی۔ اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس وقت باہمی سمجھوتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ ہندو مہاسبھا صرف اپنے فیصلہ کا اعلان کرے گی کہ نئی ہندو ریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے کیا فرائض اور حقوق ہوں گے اور ان کی شدھی کے کیا شرائط ہوں گی<۔۴۱
ایک آریہ سماج نے جو دیش بھگتی` امن اور رواداری کے مدعی تھے یہ لکھا۔
>یہ ملک آریوں کا ہے گو آج ہم غیروں کے ماتحت ہیں مگر کسی کے دن یکساں نہیں رہتے۔ وقت آئے گا کہ جب یہاں پھر سے آریوں کا راج ہو گا۔ یاد رکھو جس طرح رشی دیانند کے خون نے ہندوستان میں لاکھوں آریہ بیر پیدا کر دیئے ہیں۔ جن کے بہادرانہ کارناموں کی آج سارے ملک میں دھوم مچ رہی ہے اور جن کی سرگرمی اور بہادری سے آج اسلام تھر تھر کانپ رہا ہے )مہاراج کیوں نہیں؟ ناقل( اسی طرح کل کو جب آریہ جرنیل سوامی شردھانند کاپوتر خون رنگ لائے گا تو دیکھنا اسلام کی یہ شکل و صورت ہی نہ رہے گی جو اس وقت ہے۔ اس میں یا تو مناسب اصلاح ہو جائے گی اور یا لوگ عبدالرشید اور محمد امین کو رام سیوک اور رام دلارے کے نام سے پکارتے ہوئے دکھائی دیں گے اور ہندوستان میں آریہ سوراجیہ کا جھنڈا کوہ ہمالیہ کی سب سے بڑی چوٹی پر لہراتا ایک دنیا دیکھے گی<۔۴۲
سوامی ستیہ دیوابراجک نے ساگر )صوبہ متوسط( میں تقریر کرتے ہوئے یہاں تک کہا۔
>میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل اگر وہ قوم پرست نہ بنیں بڑے خطرے میں رہے گا ہندوستان کے مسلمان اگر اپنے مذہبی دیوانہ پن میں ڈوبے رہے تو ان کا کام صرف بدیشی گورنمنٹ کی مدد کرنا۔ ہندوستان کو غلام رکھنا رہ جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی آزادی کے موقعہ پر ملک کے سب لوگ )ہندو( ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی ہستی بڑے خطرے میں پڑ جائے گی۔ مسلمانوں کی نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ قوم پرستی کا ہے۔ پس میرا فرض عظیم ہے کہ ملک کے لوگوں کو قوم پرستی کی سچی تعلیم دے کر ہمیشہ کا خطرہ جو ملک کو لگا ہوا ہے اسے دور کروں اور پھوٹ کے اس خوفناک کانٹے کو نکال دوں<۔۴۳
پھر کہا۔ >سوراجیہ کی لڑائی خاص طور پر ہندوئوں کی لڑائی ہے۔ کیونکہ یہ ملک ہندوئوں کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے خاص طور سے کہتا ہوں کہ ہندوستانیوں کا موجودہ زمانہ میں سب سے بڑھ کر مذہب قوم پرستی ہے۔ جو فرقے قوم پرستی کے خلاف جائیں گے ان کا نام و نشان مٹ جائے گا<۔۴۴
کانگریس کی طرف سے قومیت متحدہ کا پرچار اور اس کا مقصد
دراصل یہی وہ مذہب >قوم پرستی< ہے جسے کانگریس کے ذہین و فطین ہندو لیڈروں نے >قومیت متحدہ< یا >قومیت واحدہ< کے نام سے موسوم کیا۔ چنانچہ مہاتما گاندھی نے لکھا۔
>آج مسلمانوں کی الگ تہذیب ہے اور ہندوئوں کی الگ ان دونوں تہذیبوں کے امتزاج سے متحدہ قومیت کی تہذیب مرتب ہو گی<۔۴۵
اس کی تشریح سوامی سمپورنا نند وزیر تعلیم یو۔ پی نے ان الفاظ میں کی۔
>ہر وہ شخص جو ہندو یا مسلم تہذیب کے قائم رکھنے اور اس کو مدارس میں جاری کرنے پر زور دیتا ہے وہ یقینی طور پر ملک کو نقصان پہنچاتا ہے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ چیز ہندوستان میں مفقود ہونی چاہئے جب ہندو مسلم تہذیبیں مٹ جائیں گی تب ہی ہندوستانی تہذیب زندہ رہ سکے گی<۔۴۶
آنریبل مسٹر کے۔ ایم منشی ہوم منسٹر حکومت بمبئی نے >قومیت متحدہ< کی وضاحت میں بتایا۔
>جس قدر رجحانات مذہب یا زبان یا ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل کی بناء پر قومیت پرستی کے خلاف پیدا ہوتے ہیں۔ کانگریس ان رجحانات کی مخالفت میں ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے من حیث القوم ہماری کمزوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کی طرف سے ایک واہمہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ مذہب یا زبان کا رشتہ قومیت کے رشتہ کی جگہ وجہ جامعیت ہو سکتا ہے یہ ایک بڑا مہلک دھوکا ہے۔ یاد رکھئے مذہب یا زبان کا رشتہ قومیت کے بلند ترین رشتہ کے ماتحت رہنا چاہئے۔ یہ تصور ہی ہندوستان کو محکم اور آزاد بنا سکے گا<۔ )نیشنل کال ۲۹/۹/۲۰(۴۷
مسٹر بھولا بھائی ڈیسائی )کانگرسی پارٹی کے لیڈر( نے قومیت متحدہ کی تشریح میں کہا۔
>اب یہ ناممکن ہو گا کہ کوئی ایسا نظام حکومت قائم کیا جائے جس کی بنیاد مذہب پر ہو۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اس امر کا اعتراف کر لیں اور اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ ضمیر` مذہب اور خدا کو ان کے مناسب مقام یعنی آسمان کی بلندیوں پر رکھ دیا جائے اور انہیں خواہ مخواہ زمین کے معاملات میں گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔ اس بات کا تصور بھی ناممکن ہے کہ اگر مذہب کو سیاست سے الگ نہ کیا جائے تو کوئی نظام حکومت قائم ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عہد حاضر میں بہترین نظام حکومت کی بناء اس نظرئیے پر قائم ہو سکتی ہے کہ جغرافیائی حدود کے اندر گھرا ہوا ایک ملک ہو اور اس ملک کے اندر رہنے والے تمام افراد معاشی اور سیاسی مفاد کے رشتہ میں منسلک ہو کر ایک متحدہ قومیت بن جائیں<۔ )ہندوستان ٹائمز ۳۸/۹/۵(۴۸
مسلم قوم کا تخیل اور پنڈت جواہر لال صاحب نہرو
متحدہ قومیت کی موجودگی میں مسلم قومیت کا کوئی تصور کانگریسی لیڈروں کے یہاں قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لئے پنڈت جواہر لال نہرو نے >دو قوموں< کے نظریہ کا مذاق اڑاتے ہوئے >میری کہانی< میں لکھا۔
>ہندوستان میں مسلم قومیت پر زور دینے کا مطلب اب کیا ہوتا بس یہی کہ ایک قوم کے اندر ایک دوسری قوم موجود ہے جو یکجا نہیں منتشر ہے مبہم ہے اور غیر متعین ہے۔ سیاسی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ تخیل بالکل لغو معلوم ہوتا ہے اور معاشی نقطہ نظر سے یہ بہت دور از کار ہے ۔۔۔۔۔۔ مسلم قومیت کا ذکر کرنے کے معنے یہ ہیں کہ دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں بس مذہبی اخوت کا رشتہ ہی ایک چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم قوم کا تخیل تو صرف چند لوگوں کی من گھڑت اور محض پرواز خیال ہے۔ اگر اخبارات اس کی اس قدر اشاعت نہ کرتے تو بہت تھوڑے لوگ اس سے واقف ہوتے اور اگر زیادہ لوگوں کو اس پر اعتقاد ہوتا بھی تو حقیقت سے دوچار ہونے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا ۔۔۔۔۔ ایسے لوگ ابھی زندہ ہیں جو ہندو مسلمانوں کا ذکر اس طور پر کرتے ہیں گویا دو ملتوں اور قوموں کے بارے میں گفتگو ہے جدید دنیا میں اس دقیانوسی خیال کی گنجائش نہیں<۔۴۹
‏sub] ga>[tقومیت متحدہ< کے لئے جمعیتہ العلماء کا فتویٰ
کانگریس نے >قومیت متحدہ< کی جو فتنہ خیز اصطلاح مسلم تہذیب و تمدن کو بالکل فنا کر دینے کے لئے ایجاد کی تھی چونکہ مسلمان اسے باسانی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا کانگریس نے اپنی مستقل ہندو نواز پالیسی کے مطابق جمعیتہ العلماء اور دوسرے آلہ کار علماء کو اس کی ترویج و اشاعت کے لئے آگے کر دیا۔
جمعیتہ العلماء ہندو کے آرگن >الجمعیتہ< دہلی میں ۱۳/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو کانگرسی اخبار >ہند جدید< کا یہ مضمون شائع ہوا کہ۔
>مسلمانان ہند کے مسلم علماء کی انجمن یعنی >جمعیتہ العلماء< جب کانگرس کے کسی فیصلہ کو امت کی مصلحت اور امت کے مقصد اعلیٰ کے لئے مفید سمجھ کر قبول کرلے تو جمعیتہ علماء کا یہ فیصلہ شرعی حیثیت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ یہ جمعیتہ اس وقت اولوالامر کی حیثیت رکھتی ہے<۔۵۰
اب جو >قومیت متحدہ< پر >اولو الامر< علماء کی شرعی مہر ثبت ہو گئی تو مسلمانوں میں اس کا پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ چنانچہ مولوی حسین احمد صاحب مدنی نے برملا کہا کہ۔
>آج کل قومیں اوطان سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں بنتیں<۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے اسی نظریہ کے خلاف یہ اشعار کہے تھے۔~}~
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
ز دیو بند حسین احمد ایں چہ بو العجبی است
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے جز ز مقام محمد عربی است
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
مولانا ابوالکلام صاحب آزاد >راشٹر پتی< اور >قومیت متحدہ<
لیکن کانگریسی علماء جو قدم اٹھا چکے تھے اسے مسلمانوں کا کوئی احتجاج اور کوئی تنقید پلٹ نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ مولانا ابو الکلام صاحب آزاد تو )جن کی نسبت مولوی محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی نے لکھا تھا کہ۔
>مولانا ابو الکلام تمام تر ہندوئوں کے قبضے میں ہیں اور ان کی صدارت صرف نمائشی ہے وہ مسلمانوں کو چھوڑ چکے ہیں(<۵۱ ایک قدم آگے بڑھا کر مسلمانوں کو یہ درس دینے لگے کہ >میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں میں اس متحدہ قومیت کا ایک اہم عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے میں اس کی تکوین )بناوٹ( کا ایک ناگزیر عامل FACTOR ہوں میں اپنے اس دعویٰ سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ گیارہ صدیوں کی مشترک )ملی جلی( تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھر دیا ہے ہماری زبانیں` ہماری شاعری` ہمارا ادب` ہماری معاشرت` ہمارا ذوق` ہمارا لباس` ہمارے رسم و رواج` ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں` کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ سکی ہو۔ ہماری بولیاں الگ تھیں مگر ہم ایک ہی زبان بولنے لگے۔ ہمارے رسم و رواج ایک دوسرے سے بیگانہ تھے مگر انہوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کر دیا۔ ہمارا پرانا لباس` تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے مگر وہ اب ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا۔ یہ تمام مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے اور ہم اسے چھوڑ کر اس زمانہ کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے۔ جب ہماری یہ ملی جلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی ہم میں اگر ایسے ہندو دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس پہلے کی ہندو زندگی واپس لائیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں جو کبھی پورا ہونے والا نہیں اسی طرح اگر ایسے مسلمان دماغ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی گزری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں۔ جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے بھی کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہو جائیں بہتر ہے۔ کیونکہ یہ ایک قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سرزمین میں ایسے خیالات اگ نہیں سکتے ۔۔۔۔ ہماری ایک ہزار برس کی مشترک زندگی نے ایک متحدہ قومیت کا سانچہ ڈھال دیا ہے ایسے سانچے بنائے نہیں جا سکتے۔ وہ قدرت کے مخفی ہاتھوں سے صدیوں میں خود بخود بنا کرتے ہیں۔ اب یہ سانچہ ڈھل چکا اور قسمت کی مہر اس پر لگ چکی۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں مگر اب ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں۔ علیحدگی کا کوئی بناوٹی تخیل ہمارے اس ایک ہونے کو دو نہیں بنا سکتا۔ ہمیں قدرت کے فیصلہ پر رضامند ہونا چاہئے اور اپنی قسمت کی تعمیر میں لگ جانا چاہئے<۔۵۲
‏tav.7.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
دوسرا باب )فصل دوم(
کانگرسی >قومیت متحدہ< کی تعمیر کے لئے
مجلس احرار اسلام کا قیام
>قومیت متحدہ<
مولانا ابو الکلام آزاد نے مولوی ظفر علی خاں صاحب۵۳ مدیر >زمیندار< کی >متحدہ قومیت< کے فارمولا کو مسلمانوں میں مقبول بنانے اور کانگریس کے ہر پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دسمبر ۱۹۲۹ء میں پنجاب کے سابق خلافتی علماء کی ایک نئی مجلس کی بنیاد رکھی جس کا نام مجلس احرار اسلام تجویز کیا گیا۔ چنانچہ مجلس احرار اسلام ہند کے ترجمان اخبار مجاہد )۱۴/ اگست ۱۹۳۵ء( میں لکھا ہے۔
>جب آل انڈیا کشمیر کانگریس کمیٹی کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تو امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کی موجودگی میں یہ مسئلہ پیش ہوا کہ مسلمانوں کی ایک علیحدہ آزاد خیال جماعت قائم کی جائے جو مسلمانوں کو مذہب کے ساتھ ساتھ وطنیت کا بھی سبق دیتی رہے اور مسلم قوم کو رجعت پسندوں کے دجل و فریب سے بچائے رکھے سب نے اس پر اتفاق کیا اور اس معاملہ پر کافی دیر بحث ہوتی رہی کہ نام کیا تجویز کیا جائے باہمی مشورہ سے یہ طے پایا کہ اس مجلس کا نام مجلس احرار اسلام ہو جسے سب دوستوں نے بخوشی قبول کر لیا<۔۵۴
عزیز الرحمن صاحب جامعی )مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کے بیٹے( اپنی کتاب >رئیس الاحرار< مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی اور ہندوستان کی جنگ میں رقمطراز ہیں۔
>۱۹۲۹ء کے کانگریس کے اجلاس میں ۲۹/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو مولانا آزاد کے مشورہ پر آل انڈیا کانگریس کے سٹیج پر چودھری افضل حق صاحب کی صدارت میں مجلس احرار کا پہلا جلسہ ہوا۔ مجلس مشاورت میں مولانا حبیب الرحمن لودھیانوی مولانا سید دائود احمد غزنوی ۔۔۔۔۔۔۔ اور مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری۔ مولانا مظہر علی صاحب۔ خواجہ عبدالرحمن غازی نے باہم مشورہ کرکے مولانا آزاد کے تجویز کردہ نام کے مطابق مجلس احرار ہند قائم کی اور مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری مجلس احرار کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ کانگریس کی طرف سے عام سول نافرمانی کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس لئے سب احرار کی تنظیم کو چھوڑ کر کانگریس تحریک میں شامل ہو گئے۔ گاندھی ارون معاہدے کے بعد احرار رہنمائوں نے رہا ہوتے ہی پنجاب مجلس احرار کے اضلاعی اور شہری دفاتر قائم کر دیئے۔ احرار رہنمائوں نے یک سو ہو کر کانگریس کے نئے فارمولے پر غور کرنا شروع کیا<۔۵۵
مجلس احرار کے قیام سے کانگریس کو مسلمانوں میں نفوذ کرکے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا آسان ہو گیا۔ کانگریس جو کہتی اس کو ملک کے گوشے گوشے تک پہنچانا اور اس کے مطابق مسلمانوں کو ڈھالنا احراری لیڈروں نے اپنے ذمہ لے لیا۔ اور عجیب و غریب رنگ سے >قومیت متحدہ< کا پرچار کرنے لگے۔
احراری زعماء کی طرف سے >قومیت متحدہ< کے دلائل
چنانچہ مفکر احرار چودھری افضل حق صاحب نے )قومیت متحدہ< کی تائید میں ایک نئے زاویہ نگاہ سے لکھا۔
ہندوستانی اسلام سناتن دھرم کا عربی ترجمہ ہے اور سکھ مت اور آریہ سماج تحریک اصلی اسلام کے گورمکھی اور ہندی ایڈیشن ہیں لیکن ہندوئوں اور مسلمانوں میں پھر بھی مخاصمت موجود ہے اور سکھ اور سماجی ہمیشہ ہندوئوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ جب میں ان حقائق پر نظر ڈالتا ہوں تو میرا ذہن یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ہندو مسلم مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں اور ہمیں ملک کی موجودہ حالت کے اصلی اسباب تلاش کرنے چاہئیں۔
یہ غلط نظریہ عام ہو چکا ہے کہ صرف صوفی ہی دوسروں کے ساتھ رواداری برتتے ہیں اور مذہبی ملا بہت زیادہ متعصب ہوتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی انکار نہیں کہ ملا قدامت پسند ہے لیکن تمام مسلمان اس شخص کے سخت مخالف ہیں جو دوسروں پر کسی قسم کا ظلم کرے۔ کافر کوئی مکروہ اصطلاح نہیں۔ یہ غیر مسلمانوں سے متمیز کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ کافر کے معنے خدا کو نہ ماننے والا ہے۔ اگلی دنیا میں یہ اپنے کئے کی سزا بھگتیں گے۔ لیکن اس دنیا میں ان سے کوئی برا سلوک نہیں کیا جاتا۔ اسلام کافروں کو بھیڑیوں کے سامنے نہیں پھینک دیتا بلکہ ان کی حفاظت کرتا ہے۔ ملا کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ سخت اور غیر روادارانہ ہوتا ہے لیکن کافروں کے ساتھ اس کا سلوک ہمدردانہ ہوتا ہے اپنی قوم میں اس کی حیثیت پولیس افسر کی ہے کہ ہر کوئی اس سے ڈرے لیکن غیر مسلموں کے لئے وہ محبت و الفت کا علمبردار ہے۔ وسیع المشرب مسلمان اسے ایک تند خو دیو سمجھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خنداں مزاج دیوتا ہے جو دوسروں اور بالخصوص کافروں کی ہمیشہ بھلائی چاہتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ میرے اس خیال پر ایک ہندو حیران رہ جائے گا کیونکہ اس نے ملا کی حمایت میں کبھی کچھ نہیں سنا۔ مگر میرے پاس اپنے خیال کی تائید میں ٹھوس حقائق ہیں۔ جمعیتہ العلماء صرف مذہبی علماء کی جماعت ہے یہ جماعت ہمیشہ کانگرس کا ساتھ دیتی ہے اور کانگرسیوں کے اعمال کے تضاد اور ان کی متلون مزاجیوں کو ہمیشہ صحیح ثابت کرتی ہے یہاں تک کہ انہیں ہندوئوں کا اجیر سمجھا جانے لگا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کون ہیں؟ ایک بہت بڑی شہرت کے مالک مذہبی عالم۔ ان کی مذہبیت نے انہیں نہ صرف عملی سیاسیات میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ بلکہ کانگریس اور ہندوئوں پر مسلمانوں کی طرف سے جو سخت حملے کئے جاتے ہیں وہ ان کا جواب بھی دیتے ہیں مسلمانوں کی ایک دوسری جماعت مجلس احرار ہے یہ غریبوں کی جماعت ہے اس کی قیادت مذہب کے شیدائیوں کے ہاتھ میں ہے وہ ہندوئوں سے زیادہ ہمدردانہ سلوک کرتے ہیں اور غیر مسلم ہمسایوں کے ساتھ بردباری برتنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ مسلمان جماعتیں جن کی تہہ میں مذہب کام نہیں کر رہا۔ وہ نہ صرف کبھی کبھی بلکہ ہمیشہ ہندوئوں اور کانگریس کے خلاف صف آراء رہتی ہیں۔ کیا ان حقائق کی موجودگی میں ملا کے متعلق ہماری رائے تبدیل نہیں ہونی چاہئے اور کیا ان کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے موجودہ اختلافات کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں؟
ایک اور حقیقت پر بھی نظر ڈالئے۔ مسلمانوں کی دو یونیورسٹیاں ہیں ایک علی گڑھ میں دوسری دیو بند میں۔ اول الذکر میں دینوی علوم پڑھائے جاتے ہیں اور ثانی الذکر میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ علی گڑھ کے طلباء کی ذہنیت تقریباً ہمیشہ ہی برطانیہ کی حامی اور ہندو کی مخالف رہی ہے۔ مگر دیو بند کے علماء برطانیہ کے مخالف اور کانگریس کے حامی ہیں۔ مسلم لیگ کی رہنمائی علی گڑھ اور انگریزی یونیورسٹیوں کے سند یافتوں کے ہاتھ میں ہے۔ جمعیتہ العلماء کے ارکان کے مقابلہ میں انہیں اسلام کے متعلق کچھ علم نہیں۔ اگر ہمارے اختلافات مذہب کی بناء پر ہوتے تو جمعیتہ العلماء اور مجلس احرار کانگریس اور ہندوئوں کی مسلم لیگ سے بھی زیادہ مخالفت کرتیں۔ اور اگر موجودہ پیچیدگیاں اور کشمکش تھوڑا سا بھی مذہب کی بناء پر ہوتیں تو مسلمانوں کی قیادت مسٹر جناح کے ہاتھ میں نہ ہوتی جو ایک لائق قانون دان اور بہترین سیاس ہیں۔ لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مذہبی معلومات کے لحاظ سے وہ ہر مسلمان سے پیچھے ہیں<۔۵۶
>قومیت متحدہ< کی تائید میں ایک اور احراری دلیل
چودھری افضل حق صاحب نے >قومیت متحدہ< کی تعمیر کے سلسلہ میں یہ نظریہ بھی پیش کیا۔
>اس زمانہ میں صوبہ جات کی آزادی نے مسلمانوں میں صوبجاتی تعصب زیادہ کر دیا ہے۔ اور ہر صوبہ چند خود غرض` نام نہاد لیڈروں کی آرزوئوں کے مطابق کام کر رہا ہے۔ یہ لیڈر چونکہ طبقہ اولیٰ سے متعلق ہیں۔ غریبوں کی خواہشات سے الگ ان کے اغراض ہیں اس لئے ہر صوبے کے مسلمان الگ الگ زاویہ نگاہ کے مطابق تربیت پا رہے ہیں۔ ہندوستان میں غریب مسلمانوں کی یہ گروہ بندیاں صرف چند امراء کی خدمت کے کام آئیں گی۔ جس طرح افریقہ اور ایشیا کے قبائل اور ملک شاہ و شیوخ میں تقسیم ہو کر برباد ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے صوبے الگ الگ ہو کر پامال ہوں گے۔ الحمدلل¶ہ احرار ان تحریکات سے بیزار ہیں۔ صوبائی تعصبات کو پیدا کرنا اسلام کے اعضاء کو کاٹ کر الگ کرنا ہے۔ مصر` ٹرکی` عرب اور ایران` مراکش اور افعانستان نے الگ الگ رہ کر کیا فائدہ اٹھایا جو ہم ہندوستان میں اٹھائیں گے کیا یہ ممالک کسی بڑی یورپی سلطنت سے الگ الگ رہ کر دو دن بھی ٹکر لے سکتے ہیں۔ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد چن کر امراء نے مسلمانوں کی عام قوتوں کو برباد کر رکھا ہے۔ ہم مسلمانوں کی موجودہ پریشان حالی کا باعث شیوخ` سلاطین اور امراء کو سمجھتے ہیں۔ غریب مسلمان اب بھی دنیا کی عظیم قوت بن سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ان کے سر سے امراء شیوخ اور سلاطین کا منحوس سایہ اٹھ جائے<۔۵۷
کانگریس کے نظریات کی حیرت انگیز ترجمانی
۱۔ کانگریس کے لیڈروں کا دعویٰ تھا کہ ملک میں کانگریس اور انگریز کے سوا اور کوئی نمائندہ جماعت نہیں۔ یہی پراپیگنڈا احراری زعماء نے کیا۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب نے یکم جنوری ۱۹۳۹ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا۔
>ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں ایک کانگریس اور دوسری حکومت برطانیہ<۔۵۸
۲۔
پنڈت جواہر لال نہرو کے دل و دماغ پر روس کی تعلیم کا غلبہ تھا۵۹ اور ان کی پختہ رائے تھی کہ ہندوستان کی ضرورت اور فقر و فاقہ کا علاج سوشل ازم ہے۔۶۰ اسی لئے ان کی صدارت میں مزدوروں کی کانگریس کے اجلاس ناگپور میں یہ تجویز پاس ہوئی کہ ہندوستان کا نصب العین مکمل آزادی ہے جس میں روس کے نمونے پر سوشلسٹ جمہوری حکومت قائم کی جائے۔۶۱
اس نکتہ کے پیش نظر اگر مجلس احرار کے اکابر کی تقاریر و خطبات کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو صاف کھل جاتا ہے کہ یہ اصحاب سوشلزم کے بارے میں پنڈت جی کے غالی مقلدوں میں شامل تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ اسلام سوشلزم ہی کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ چودھری افضل حق صاحب نے آل پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ۱۵/ جنوری ۱۹۳۹ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا۔
>اسلام دراصل سوشلزم ہے-<۶۲
چودھری صاحب نے اپنے اس نقطہ کی وضاحت >تاریخ احرار< میں یہ کی ہے کہ۔
>ابتداء ہی سے مجلس احرار کے ذمہ دار احراری لیڈروں کے سامنے یہی مقصد حیات تھا کہ مزدور اور کسان کو خاص حقوق اور مراعات رکھنے والے لوگوں کے خلاف منظم کیا جائے۔ تاکہ ان امتیازی خاندانوں اور مالداروں کو غریب کاشتکاروں اور مزدوروں کی محنت کا ثمرہ اڑا لے جانے سے روکا جائے اور اسلام اور اشتراکیت کا لٹریچر ان ہی چند فقروں کی تفصیل ہے<۔۶۳
چودھری افضل حق صاحب ڈکٹیٹر احرار نے >اسلامی سوشلزم کے علمبرداروں< کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ بھی لکھا۔
>اگر جواہر لال اور گاندھی خلفائے راشدین کی پیروی میں سوسائٹی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹائے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے ہمیں نقصان کیا؟<۶۴
حقیقت یہ ہے کہ >خلفائے راشدین< کا نام تو محض مسلمانوں کے جذبات کو اپیل کرنے کے لئے تھا ورنہ چودھری صاحب کے نزدیک تو اسلام کی ساری تاریخ >شہنشاہیت اور جاگیرداری< کی کہانی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
>لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہو گیا کہ مذہب کی دلدل میں پھنس گئے یہاں پھنس کر کون نکلا ہے جو یہ نکلیں گے۔ مگر یہ کون لوگ ہیں وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبتوں سے خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں۔ اس لئے کہ اس کی ساری تاریخ شہنشاہیت اور جاگیرداری کی دردناک کہانی ہے۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کرکے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تاکہ انسانیت کی چاک دامانی کا رفو کر سکے۔ اس کے پاس کارل مارکس کے سائنٹفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے۔ وہ اس کے ذریعے سے امراء اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ میں سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں؟ سرمایہ داروں نے ان برسوں کی تاریخ کے واقعات کو سرمایہ داری کے رنگ میں رنگا اور مساوات انسانی کی تحریک جس کو اسلام کہتے ہیں مذہبی لحاظ سے عوام کی تاریخ نہ رہی اور نہ اس میں کوئی انقلابی سپرٹ باقی رہی۔ عامتہ المسلمین امیروں جاگیرداروں کے ہاتھ میں موم کی ناک بن کر رہ گئے۔ ہندوستان میں اس وقت بھی وہ سب سے زیادہ مفلوک الحال مگر حال مست ہیں انہیں اپنے حال کو بدلنے کا کوئی احساس نہیں یہ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ خود علمائے مذہب انقلابی سپرٹ سے ناآشنا ہیں اور وہ اب تک مذہب کی اموی اور عباسی عقائد کے مطابق تشریح کر رہے ہیں<۔۶۵
۳۔
گاندھی جی اور دوسرے کانگریسی ہندو راج کا خواب پورا کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے تھے کہ انگریز کے بعد ملک کی زمام اقتدار کانگریس کو سونپ دی جائے یہی بات صدر احرار و امیر شریعت احرار سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ساری عمر دہرائی۔ چنانچہ کہا۔
>ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ غیر ملکی طاقت سے گلو خلاصی حاصل ہو اس ملک سے انگریز نکلیں نکلیں کیا نکالے جائیں تب دیکھا جائے گا کہ آزادی کے خطوط کیا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ اگر اس مہم میں سئور بھی میری مدد کریں گے تو میں ان کا منہ چوم لوں گا<۔۶۶
احرار کے نزدیک کانگریس میں شمولیت اور اس کی راہ نمائی میں کام کرنے کی عظمت کتنی تھی اس کا کسی قدر اندازہ مولوی حبیب الرحمن صاحب صدر آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے ان الفاظ سے باسانی لگ سکتا ہے۔
>ہماری ایماندارانہ رائے ہے کہ کانگریس سے علیحدہ ہو کر ہم نے جس قدر تحریکوں میں حصہ لیا ہے ان تمام میں بیکار وقت ضائع کیا ہے اور فضول ہنگامے برپا کئے<۔۶۷
اسی پر بس نہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک مقام پر کانگریس میں شمولیت کو >جہاد< قرار دیتے ہوئے یہ بیان دیا۔
>سیاسی جماعتوں کو زندہ رکھنا ایک مذہبی فریضہ ہے ہندوستان میں فوجوں اور ہتھیار سے جہاد نہیں ہو سکتا بلکہ یہاں پر یہی جہاد ہے کہ بے خوف ہو کر حق بات کہی جائے اور اس کے راستہ میں جو تکلیف آئے اسے خوشی کے ساتھ برداشت کیا جائے میرے نزدیک ایک والنٹیر کی امداد ایک سیاسی جماعت کو منظم کرنا ہندوستان میں حقیقی جہاد ہے<۔۶۸
۴۔
گاندھی جی کا فلسفہ >عدم تشدد< کانگریسی حلقوں میں اگرچہ عام طور پر مشہور تھا۔ مگر اسے ہندوستان کے چپہ چپہ تک پہنچانے کی خدمت امیر شریعت احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے انجام دی چنانچہ خود ہی اقرار کرتے ہیں۔
>میں تیس سال سے عدم تشدد کی تبلیغ کر رہا ہوں ہنگو سے ڈھاکہ تک اور شملہ سے بمبئی تک کروڑوں آدمیوں میں عدم تشدد کی تبلیغ کی اور لاکھوں کو اپنا رفیق بنایا<۔۶۹
پنڈت نہرو کے پروگرام کی تعمیل
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی انہی خدمات کی وجہ سے کانگریسی لیڈر ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کی سوانح >رئیس الاحرار< میں لکھا ہے۔
>پنڈت موتی لال نہرو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی سحر بیانی کے عاشق تھے انہیں کے پروگرام کے مطابق شاہ صاحب کام کر رہے تھے۔ الہ آباد میں جب شاہ صاحب پنڈت موتی لال جی کے یہاں پہنچے تو پنڈت موتی لال جی نے خود شاہ صاحب کے کھانے کا بندوبست کیا اور اپنے ہاتھوں سے دونوں وقت چائے بنا کر پلائی۔
پنڈت جی بار بار شاہ صاحب سے کہتے کہ شاہ صاحب کانگریسی ستیہ گرہ کی کامیابی صرف آپ ہی سے وابستہ ہے۔
کانگریس تحریک میں پنجاب کے احرار رہنمائوں کی شرکت اور شاہ صاحب کے دورہ کا یہ اثر ہوا کہ گاندھی ارون پیکٹ کے بعد جب بھی احرار رہنما گاندھی جی سے ملنے گئے تو گاندھی جی اٹھ کر دروازے تک خود احرار رہنمائوں کو لینے آئے یہ امتیازی بات تھی جو زندگی میں گاندھی جی نے صرف احرار رہنمائوں کی عزت و تکریم میں کی۔ >رئیس الاحرار صفحہ ۱۳۶۔ ۱۳۷<۔۷۰
کانگریس کی طرف سے مالی امداد
مگر معاملہ محض تکریم و تعظیم تک ہی نہیں تھا بلکہ احرار کو جیسا کہ اس کے ذمہ دار کارکنوں کی چشم دید شہادت ہے کانگریس سے باقاعدہ روپیہ بھی ملتا تھا۔ چنانچہ آغا عبدالکریم صاحب شورش کاشمیری )سابق جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام( اپنے رسالہ >چٹان< )مورخہ ۱۶/ اپریل ۱۹۵۱ء( میں لکھتے ہیں۔
پہلا اقتباس: >جہاں تک کانگریس کے روپے کا تعلق ہے وہ تو خود مولانا حبیب الرحمن کے علم میں ہے بلکہ پچاس ہزار روپے کی قسط دلوانے کے ذمہ دار ہی آپ تھے۔ رہا یونینسٹ پارٹی کے روپے کا سوال تو میرا مخبر تمام کاعذات شاہ جی یا مولانا غلام غوث )ہزاروی( کو دکھانے کے لئے تیار ہے<۔
دوسرا اقتباس: >جب مولانا دھتکار کر جانے لگے تو شاہ جی نے ¶روک لیا >مولوی صاحب آپ کہاں جارہے ہیں آپ تشریف رکھیں۔ آپ کے خلاف یا جماعت کے خلاف شورش کچھ چارج لگا رہا ہے<۔ مولوی صاحب رک گئے۔ میں نے ترتیب وار چارج لگانے شروع کئے کانگریس کا روپیہ ساٹھ ہزار۔ دس ہزار کی ایک قسط اور پچاس ہزار کی دوسری قسط۔ اور یونینسٹ پارٹی ۔۔۔۔!! ابھی فقرہ پورا بھی نہ ہوا تھا کہ مولانا غلام غوث نے ایک ایک شق پر زور دیا۔ کچھ دیر تو سناٹا چھایا رہا۔ پھر سکوت ٹوٹا۔ مولانا نے تسلیم کیا کہ روپیہ لیا گیا ہے لیکن اس وقت ان کے ذہن میں صحیح یاد نہیں کہ یہ رقم کتنی ہے بات صبح پر ملتوی ہو گئی۔ مجھے صاحبزادہ فیض الحسن شاہ۔ مولانا مظہر علی اظہر کے مکان پر لے گئے۔ رات وہیں کاٹی۔ مولانا اس افشاء کو برا خیال کرتے تھے۔ اور مضطرب بھی تھے لیکن وہ اخفاء کے حق میں تھے میں نے عرض کیا۔ جب تمام لوگ آپ سے روپیہ لے چکے ہیں تو پھر وہ معصوم عن الخطاء کیوں بنتے ہیں؟ رات جو گزری سو گزری۔ صبح پھر وہی حیث بحث۔ صاحبزادہ صاحب نے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کہیں یہ کہہ دیا کہ شورش اپنے الزام واپس لیتا ہے۔ میں موجودہ نہ تھا۔ جب پہنچا تو مجھے حیرت ہوئی۔ خیر دوبارہ وہی قصہ چھڑ گیا۔ مولانا مظہر علی نے تسلیم کیا کہ روپیہ لیا گیا ہے لیکن اس کے سزاوار وہ تنہا نہیں بلکہ باقاعدہ مشورہ سے رقم قبول کی گئی۔ پہلا دس ہزار روپیہ مولانا دائود غزنوی نے دیا تھا اور شیخ حسام الدین اس وقت موجود تھے۔ دوسری قسط بھی انہی حضرات کے مشورے سے حاصل کی گئی۔ یعنی شیخ حسام الدین صاحب نے مولانا حبیب الرحمن کو لدھیانہ خط لکھا کہ وہ کلکتہ میں کانگریس ہائی کمانڈ تک پہنچیں۔ یہ خط لے کر خاقان بابر مولانا مظہر علی کے صاحبزادے لدھیانہ پہنچے۔ مولانا حبیب الرحمن کلکتہ گئے۔ مولانا ابو الکلام ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم دینے کو تیار ہو گئے مگر سردار پٹیل نے جو کانگریس کے خازن تھے اس سے اختلاف کیا اور پچاس ہزار روپے کی رقم کا چیک لالہ بھیم سین سچر کی تحویل میں دیا گیا۔ جو ان کی معرفت دفتر احرار میں پہنچا۔ پھر اس رقم کی بندر بانٹ کی گئی۔ اور وہ رقم جو دو چار ہزار بطور چندہ فراہم کی گئی۔ یہ تمام مل ملا کر پچانوے یا پچاسی ہزار بنتے تھے جب مولانا مظہر علی نے بتایا کہ نواب زادہ نصر اللہ خاں کے سوا ورکنگ کمیٹی کے ہر امیدوار ممبر نے ان سے روپیہ لیا ہے تو سب نے تسلیم کیا شیخ حسام الدین بھی مان گئے۔ ماسٹر تاج الدین نے بھی سر ہلا دیا۔ مولانا حبیب الرحمن نے بھی صاد کیا اس مجموعی رقم میں سے لے دے کر صرف بیس ہزار بچتے تھے مولانا مظہر علی نے دس ہزار اپنے الیکشن کا صرفہ بتایا اور دس ہزار روپیہ کے متعلق کہا کہ وہ روزنامہ >آزاد< نکالنے کے لئے جمع رکھا گیا ہے<۔۷۱
کانگرسی نوازشات کے نتائج
کانگریس کی نوازشات رائیگاں نہیں گئیں بلکہ احرار نے بھی وفاداری کا حق ادا کر دیا اور کانگرس کی کامیابی کے لئے ملک کا چپہ چپہ چھان مارا۔ چنانچہ انہیں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد اکثر صوبوں میں کانگرسی حکومتیں قائم ہوئیں۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی صدر آل انڈیا مجلس احرار نے ۱۲/ مارچ ۱۹۳۹ء کو ڈسٹرکٹ احرار پولٹیکل کانفرنس لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔
>کانگریس کی سول نافرمانی کے دنوں میں مجلس احرار جمعیت العلماء ہند اور سرحد کے مجاہد سرخپوش رضاکاروں نے جس ایثار قربانی کے ساتھ کام کیا وہ تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے سرحد کے مجاہد حبیب نور کی قربانی۔ سردار بھگت سنگھ کی قربانی سے کم نہیں۔ گزشتہ دنوں کی سول نافرمانی میں دو لاکھ مسلمان کانگریس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر قید ہوئے جس کا اعتراف پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی کیا ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کانگریس کا ممبر ہونے کا فخر ہے پنڈت جواہر لال اور سید عطاء اللہ شاہ نے دیہاتیوں میں جاکر آزادی کا پیغام دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان میں کانگریس کی حکومت ہے<۔۷۲
مسلم اکثریت امیر شریعت احرار کی نظر میں
مسلمانوں کی اکثریت کانگریسی عزائم سے خائف تھی اور احراریوں سے مطالبہ کرتی تھی کہ وہ اپنی روش بدل کر ہمارے ساتھ شامل ہوں اور مسلمانوں کو منظم و متحد کریں۔ مگر سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا جواب یہ ہوتا تھا کہ
>ہم سے کہا جاتا ہے کہ جدھر اکثریت ہو ادھر تم بھی چلو۔ اور اکثریت کا ساتھ دو۔ ہم اکثریت نہیں چاہتے ہمیشہ اقلیت حق پر ہوتی آئی ہے تم ہمیں کیوں مجبور کرتے ہو کہ اکثریت کا ساتھ دیں۔ کیا میں مولانا حسین احمد کے مقابلہ میں مسٹر جناح کو ترجیح دوں جو بیدھڑک خلاف شرع دعوتوں میں شرکت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہم نام نہاد اکثریت کی تابعداری نہیں کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے<۔۷۳
اسی طرح شاہ صاحب موصوف ایک بار بیرون دہلی دروازہ لاہور میں تقریر کر رہے تھے کہ کسی شخص نے اٹھ کر کہا۔ شاہ جی آپ اکثریت کے ساتھ کیوں نہیں ہو جاتے۔ آپ نے فوراً یہ جواب دیا کہ >اگر اکثریت ہی کا لحاظ ہے تو حضرت حسینؓ پر درود کیوں بھیجتے ہو یزید پر درود پڑھو<۔۷۴
جدوجہد آزادی کے نام پر >جنگ بربادی<
الغرض یہ حقیقت چھپائے چھپ نہیں سکتی کہ >قومیت متحدہ< کا نعرہ مسلم قومیت مسلم تہذیب اور مسلم تمدن کا نام و نشان تک مٹانے کے لئے بلند کیا گیا۔ یہ بالفاظ دیگر >جنگ بربادی< تھی۔ جو ہندوستانی مسلمانوں کی تباہی کے لئے >جدوجہد آزادی< کے نام سے کھیلی گئی اور اس سیاسی ڈرامہ میں سب سے نمایاں پارٹ امام الہند مولانا ابو الکلام صاحب آزاد۷۵ اور خصوصاً ان کے توسط سے قائم کی ہوئی مجلس احرار اسلام نے ادا کیا۔
ظلم و ستم کی حد یہ ہے کہ مجلس نے یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کیا۔ مذہب کے نام پر کیا اور مسلمانوں میں ڈنکے کی چوٹ یہ وعظ کرتے ہوئے کیا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو بخوشی ہندوئوں کی مستقل غلامی قبول کر لینی چاہئے۔
چنانچہ مولوی مظہر علی صاحب اظہر کو جو مدت تک احرار کے جنرل سیکرٹری رہے احرار کی اس کانگرس نوازی کا ان لفظوں میں اقرار کرنا پڑا۔
>مجلس احرار میں کانگرس نوازی کا رجحان مدت سے چلا آرہا ہے اور جس نے جماعت کو ہر مرحلے پر نقصان پہنچایا ہے آج زوروں پر ہے اور ۴۵ فیصدی کے حامی کسی مقام پر ٹھہرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہندوستان کی قسمت ہندوئوں کے سپرد کرکے مسلمانان ہند کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کے لئے بضد ہیں<۔ )انقلاب لاہور ۹/ ستمبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔ بحوالہ فسادات ۱۹۵۳ء کا پس منظر صفحہ ۱۹۔ ۲۰ )مولفہ ملک فضل حسین صاحب(
آزادی کا تحفہ پنڈت نہرو جی کی خدمت میں پیش کر دینے کا لرزہ خیز اعلان
کہا جا سکتا ہے کہ ہندو کی چوکھٹ پر مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے جھکانے کا رجحان محض احرار کے عوامی ذہن کی پیداوار ہے اور امیر شریعت
احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری جیسے بلند پایہ احراری لیڈر اس سے مستثنیٰ ہیں مگر نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ حق یہ ہے کہ جب ہم احراری تاریخ کے گزشتہ اوراق کھنگالتے ہیں تو ہم پر اس دردناک حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ شاہ صاحب جو بقول شورش کاشمیری >سیاست میں ابوالکلام صاحب آزاد کے مقلد تھے<۔۷۶ اس باب میں اپنے پیر و مرشد سے بھی بہت آگے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے احرار پولٹیکل کانفرنس امرتسر میں ۹/ مئی ۱۹۳۶ء کو احراری پرچم لہراتے ہوئے بڑی بلند آہنگی سے یہ اعلان کیا کہ۔
>مسلمانوں نے دو صد سال کے بعد کروٹ لی ہے اور اگر اس بات پر فخر کیا جائے کہ کامل آزادی کا جھنڈا مسلمانوں کی جماعتوں میں سے سب سے پہلے ہم نے بلند کیا تو بجا ہے بلاشبہ پنڈت جواہر لال نہرو جی نے بھی یہ آزادی کا جھنڈا بلند کیا تھا خدا انہیں استقامت دے اور دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دے مگر یہ نعمت چونکہ ہم نے چھینی ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اسے حاصل کرکے پنڈت جی کی خدمت میں پیش کریں ۔۔۔۔۔۔ کوشش کرو کہ ہر مسلمان جواہر لال نہرو جیسا خطبہ پڑھے مسلمانوں کا حق ہے کہ آزادی حاصل کرکے دیگر اقوام کے سامنے بطور تحفہ پیش کریں اور خود خدمت خلق میں مصروف ہو جائیں۔ ہم کو کسی چیز پر قابض ہو کر تسلط جما کر بیٹھنا نہیں چاہئے<۔۷۷
دوسرا باب )فصل سوم(
کانگریس کی >قومیت متحدہ< کے خلاف
جماعت احمدیہ کی مذہبی طاقت
کانگریس کی >قومیت متحدہ< کے خلاف سیاسی طاقت >مسلم لیگ<
کانگریس اور اس کے ہم نوا احراری لیڈر >قومیت متحدہ< کی بناء پر مستقبل میں مسلمانوں کو ہندو اکثریت کی مستقل غلامی میں دے دینا چاہتے تھے۔ جس کے خلاف ملک میں دو زبردست طاقتیں کار فرما تھیں۔ ایک سیاسی دوسری مذہبی۔ سیاسی طاقت کا نام آل انڈیا مسلم لیگ تھا۔ جس کی قیادت قائداعظم محمد علی جناح کر رہے تھے۔ اور جس میں درد مند دل رکھنے والے مخلص مسلمانوں کی خاصی تعداد تھی۔ جو مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے لئے قومی پلیٹ فارم پر جدوجہد میں مصروف تھی۔ مسلم لیگ نے پہلے تو مصالحانہ رنگ میں کوششیں کیں کہ ہندو مسلمان بھائیوں کی طرح آپس میں کوئی مفاہمت کرکے اس ملک میں آبرومندانہ زندگی بسر کریں مگر جب ہندو قوم کی تنگ ظرفی` تعصب اور اسلام دشمنی کا بار بار تجربہ کیا تو بالاخر پاکستان کا مطالبہ کر دیا۔ مسلمانان ہند کی یہ واحد سیاسی جماعت اور اس کے لیڈر چونکہ ہندو قوم کے عزائم و مقاصد کے راہ میں سد راہ تھے۔ اس لئے احراری لیڈروں کی بدکلامی اور سب و شتم کا ہمیشہ نشانہ بنتے رہے لیکن یہ موقعہ ان تفصیلات میں جانے کا نہیں انشاء اللہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے ضمن میں اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔ سر دست اس جگہ احراری زعماء کی >خوش کلامیوں< اور >شیریں بیانیوں< کے ایک نمونہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ مولوی ظفر علی خاں صاحب مدیر اخبار >زمیندار< تحریر فرماتے ہیں۔
>احرار کی شریعت کے امیر مولانا سید عطاء اللہ بخاری نے امروہہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے وہ سئور ہیں اور سئور کھانے والے ہیں۔ او کما قال پھر میرٹھ میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی صدر مجلس احرار اس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے غصہ میں آکر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ دس ہزار جینا اور شوکت اور ظفر جواہر لال نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جا سکتے ہیں<۔۷۸
‏]0 [stfکانگرس کی قومیت متحدہ کے خلاف مذہبی طاقت )جماعت احمدیہ(
>قومیت متحدہ< کے خلاف ملک میں دوسری منظم طاقت جماعت احمدیہ کی شکل میں موجود تھی جو مذہبی اقدار کی علمبردار وحامل تھی اور جو اپنے بنیادی عقائد و نظریات کی بناء پر اس ہندو فارمولا کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتی تھی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے سب سے پہلے اپنی آخری تصنیف >پیغام صلح< میں بابو ضاحت دو قوموں کا نظریہ پیش فرمایا تھا چنانچہ حضور نے ہم وطنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
دوستو! یقیناً سمجھو کہ اگر ہم دونوں قوموں میں سے کوئی قوم خدا کے اخلاق کی عزت نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔۔ تو وہ قوم جلد ہلاک ہو جائے گی<۔۷۹ پھر فرمایا۔
>یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ اتفاق ایک ایسی چیز ہے کہ وہ بلائیں جو کسی طرح دور نہیں ہو سکتیں اور وہ مشکلات جو کسی تدبیر سے حل نہیں ہو سکتیں وہ اتفاق سے حل ہو جاتی ہیں پس ایک عقلمند سے بعید ہے کہ اتفاق کی برکتوں سے اپنے تئیں محروم رکھے ہندو اور مسلمان اس ملک میں دو ایسی قومیں ہیں کہ یہ ایک خیال محال ہے کہ کسی وقت مثل¶ا ہندو جمع ہو کر مسلمانوں کو اس ملک سے باہر نکال دیں گے یا مسلمان اکٹھے ہو کر ہندوئوں کو جلا وطن کر دیں گے بلکہ اب تو ہندو مسلمانوں کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہو رہا ہے۔ اگر ایک پر کوئی تباہی آوے تو دوسرا بھی اس میں شریک ہو جائے گا اور اگر ایک قوم دوسری قوم کو محض اپنے نفسانی تکبر اور مشیخت سے حقیر کرنا چاہے گی تو وہ بھی داغ حقارت سے نہیں بچے گی اور کوئی ان میں سے اپنے پڑوسی کی ہمدردی میں قاصر رہے گا تو اس کا نقصان وہ آپ بھی اٹھائے گا جو شخص تم دونوں قوموں میں سے دوسری قوم کی تباہی کی فکر میں ہے اس کی اس شخص کی مثال ہے جو ایک شاخ پر بیٹھ کر اسی کو کاٹتا ہے<۔۸۰
ہندو مسلم مسئلہ کی اساس مذہبی ہے نہ کہ سیاسی
کانگریس ہمیشہ ہندو مسلم کشمکش کو محض ایک سیاسی اور اقتصادی مسئلہ قرار دیتی تھی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بنیادی اعتبار سے خالص مذہبی سوال قرار دیا اور فرمایا۔
>مجھے اس جگہ ان باتوں کے ذکر کرنے سے کچھ غرض نہیں کہ وہ نفاق اور فساد جو ہندو اور مسلمانوں میں آج کل بڑھتا جاتا ہے اس کے وجوہ صرف مذہبی اختلافات تک محدود نہیں ہیں بلکہ دوسری اغراض اس کی وجوہ ہیں جو دنیا کی خواہشوں اور معاملات سے متعلق ہیں مثلاً ہندوئوں کو ابتداء سے یہ خواہش ہے کہ گورنمنٹ اور ملک کے معاملات میں ان کا دخل ہو یا کم سے کم یہ کہ ملک داری کے معاملات میں ان کی رائے لی جائے اور گورنمنٹ ان کی ہر یک شکایت کو توجہ سے سنے اور بڑے بڑے گورنمنٹ کے عہدے انگریزوں کی طرح ان کو بھی ملا کریں مسلمانوں سے یہ غلطی ہوئی کہ ہندوئوں کی ان کوششوں میں شریک نہ ہوئے اور خیال کیا کہ ہم تعداد میں کم ہیں اور یہ سوچا کہ ان تمام کوششوں کا اگر کچھ فائدہ ہے تو وہ ہندوئوں کے لئے ہے نہ کہ مسلمانوں کے لئے اس لئے نہ صرف شراکت سے دستکش رہے بلکہ مخالفت کرکے ہندوئوں کی کوشش کے سد راہ ہوئے جس سے رنجش بڑھتی گئی۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان وجوہ سے بھی اصل عداوت پر حاشیے چڑھ گئے ہیں مگر میں ہرگز تسلیم نہیں کروں گا کہ اصل وجوہ یہی ہیں اور مجھے ان صاحبوں سے اتفاق رائے نہیں جو کہتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کی باہمی عداوت اور نفاق کا باعث مذہبی تنازعات نہیں ہیں۔ اصل تنازعات پولٹیکل ہیں۔
یہ بات ہر ایک شخص باسانی سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبات میں ہندوئوں کے ساتھ شامل ہو جائیں اور آج تک ان کی کانگریس کی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں اور کیوں آخر کار ہندوئوں کی درستی رائے محسوس کرکے ان کے قدم پر قدم رکھا مگر الگ ہو کر اور ان کے مقابل پر ایک مسلم انجمن )یعنی آل انڈیا مسلم لیگ۔ ناقل( قائم کر دی مگر ان کی شراکت کو قبول نہ کیا۔
صاحبو اس کا باعث دراصل مذہب ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں اگر آج وہی ہندو کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر مسلمانوں سے آکر بغل گیر ہو جائیں یا مسلمان ہی ہندو بن کر اگنی وایو وغیرہ کی پرستش وید کے حکم کے موافق شروع کر دیں اور اسلام کو الوداع کہہ دیں تو جن تنازعات کا نام اب پولٹیکل رکھتے ہیں۔ وہ ایک دم میں ایسے معدوم ہو جائیں کہ گویا کبھی نہ تھے )جیسا کہ کانگریس کا منتہائے مقصود تھا۔ ناقل( پس اس سے ظاہر ہے کہ تمام بغضوں اور کینوں کی جڑھ دراصل اختلاف مذہب ہے۔ یہی اختلاف مذہب قدیم سے جب انتہا تک پہنچتا رہا ہے تو خون کی ندیاں بہاتا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ پس جب تک اس سبب کا ازالہ نہ ہو گا۔ کیونکر ۔۔۔۔۔۔ ایک سچی صفائی پیدا ہو سکتی ہے ہاں ممکن ہے کہ منافقانہ طور پر باہم چند روز کے لئے میل جول بھی ہو جائے<۔۸۱`۸۲
صاف ظاہر ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ۱۹۰۸ء میں >دو قوموں< کا جو نظریہ پیش فرمایا وہ کانگریس اور متعصب ہندوئوں کی >قومیت متحدہ< کے خلاف ایک کھلا چیلنج تھا خصوصاً اس لئے کہ حضور علیہ السلام خدا سے حکم پاکر یہ پیشگوئی فرما چکے تھے کہ >مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہو گا<۔۸۳4] [rtf
علاوہ ازیں حضور نے ملک میں ہندو راج کے علمبردار آریہ سماج تحریک کی نسبت فرمایا تھا کہ ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب آریہ کو نابود ہوتے دیکھ لو گے۔۸۴
ہم نے اوپر اشارۃ" ذکر کیا ہے کہ آریہ سماجی تحریک کا منشاء ملک میں ہندو راج قائم کرنا تھا۔ یہ صرف ہمارا ہی خیال نہیں بلکہ آریہ سماجی لٹریچر بھی اس کی تائید کرتا ہے مثلاً۔
۱۔
لالہ دھنپت رائے بی۔ ایل ٹی نے لکھا۔ >ہندوستان میں سوائے ہندو راج کے دوسرا راج ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا ایک دن آئے گا کہ ہندوستان کے سب مسلمان شدھی آدی )وغیرہ( آندولن کی وجہ سے آریہ سماجی ہو جائیں گے یہ بھی ہندو بھائی ہیں۔ آخر صرف ہندو ہی رہ جائیں گے یہ ہمارا آورش )نصب العین( ہے یہ ہماری آشا )تمنا( ہے سوامی جی مہاراج نے آریہ سماج کی بنیاد اسی اصول کو لے کر ڈالی تھی<۔۸۵
۲۔
پنڈت رام گوپال جی شاستری نے تسلیم کیا۔ >راج نیتک )پولٹیکل( آریوں کو اس بات کا فخر ہے کہ کانگریس کی بنیاد سے بھی پہلے سوامی دیانند نے دیش بھگتی اور سوراجیہ کا خیال دیا ۔۔۔۔۔۔ رشی دیانند کی آریہ بھونے کی ویا کھیا کا کوئی منتر خالی نہیں جس میں سوراج پراپتی )حصول سوراج( کی پرارتھنا نہ ہو<۔۸۶
۳۔
پنڈت نندلال جی نے کہا۔ >پنجاب کے سیاسی کارکنوں اور آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والے نوجوانوں میں زیادہ تعداد آریہ سیوکوں )نوجوانوں( کی ہے یہ آریہ سماج کے لئے فخر کا مقام ہے۔ سیاسی بیداری میں آریہ سماج نے جو کام کیا۔ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں<۔۸۷
‏in] g[ta۴۔
ہندو اخبار >ملاپ< )لاہور ۲۷/ اکتوبر ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>آریہ یووک )نوجوان( نہ انگریزوں کا راجیہ چاہتے ہیں نہ مسلمانوں کا بلکہ رام راجیہ چاہتے ہیں<۔۸۸
حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کی جماعت کا مسلسل جہاد ہندوئوں کی خلاف اسلام تحریکات کے خلاف
جماعت احمدیہ کو ہندوئوں کی >قومیت متحدہ< کے خلاف کس طرح ایک مذہبی طاقت کی حیثیت حاصل تھی اور ہے؟ اس کا نظریاتی پہلو ہم بتا چکے ہیں اب ہم اس مبحث کے واقعاتی پہلو کی طرف
آتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کی جماعت نے ہمیشہ ہی ہندوئوں کی ہر خلاف اسلام تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار لکھتے ہیں۔
>آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا جس میں تبلیغی حس مفقود ہو چکی تھی سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گیا۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا۔ اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا۔ تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے<۔۸۹
پھر سید حبیب صاحب مدیر سیاست نے >تحریک قادیان< میں لکھا ہے۔
>اس وقت کہ آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے<۔۹۰
اسی طرح مولانا ابوالکلام صاحب آزاد نے اخبار >وکیل< امرتسر میں اقرار کیا کہ۔
>آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے مرزا صاحب اور مولوی محمد قاسم صاحب نے اس وقت سے کہ سوامی دیانند نے اسلام کے متعلق اپنی دماغی مفلسی کی نوحہ خوانی جابجا آغاز کی تھی۔ ان کا تعاقب شروع کر دیا تھا۔ ان حضرات نے عمر بھر سوامی جی کا قافیہ تنگ رکھا جب وہ اجمیر میں آگ کے حوالے کر دیئے گئے اس وقت سے اخیر عمر تک برابر مرزا صاحب آریہ سماج کے چہرہ سے انیسویں صدی کے ہندو ریفارمر کا چڑھایا ہوا ملمع اتارنے میں مصروف رہے۔ ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جا سکیں<۔۹۱
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریہ سماج اور ہندوئوں کی دوسری ضرر رساں تحریک کے مقابلہ کے لئے اپنی جماعت میں جو زبردست روح پیدا کر دی تھی اس کا نمایاں اظہار خلافت ثانیہ میں ہوا جبکہ اس نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی قیادت میں نہ صرف آریہ سماج سے ملکانہ کے میدان کار زار شدھی میں ٹکر لی اور اس کے خوفناک منصوبوں کو پاش پاش کر دیا بلکہ آل انڈیا نیشنل کانگرس کی ہر اس تحریک کے سامنے جو مسلمانان ہند کے مفاد ملی و قومی کے منافی تھی پوری قوت و طاقت سے سینہ سپر ہو گئی- اور اپنے خلوص و علم اور قربانی کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کے لئے منظم کیا اور قدم قدم پر ان کی صحیح اور بروقت راہ نمائی کی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں تحریک خلافت` تحریک عدم موالات` تحریک ہجرت` مقدمہ ورتمان اور >رنگیلا رسول<۔ مخلوط انتخاب` نہرو رپورٹ وغیرہ کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی شاندار خدمات پر مفصل روشنی ڈالی جا چکی ہے۔
کانگریس اور ہندوئوں کا سب سے کارگر ہتھیار سول نافرمانی` پکٹنگ اور بائیکاٹ تھا۔ جس کا مقصد غیر ملکی طاقت کو بزور نکال کر ملک پر خود قبضہ کرنا تھا۔ جماعت احمدیہ نے سالہا سال تک مسلمانوں کو اس حربہ کے خوفناک نتائج سے آگاہ کیا اور اس کے خلاف ایسی کامیاب مہم چلائی کہ مسلمانوں نے من حیث القوم شورش اور بغاوت کی ان سرگرمیوں میں حصہ لینے سے عملاً انکار کر دیا۔ اس حقیقت کے ثبوت میں ہندوستان کے مسلم رہنمائوں کا وہ مشہور اعلان درج کیا جاتا ہے جو انہوں نے ۵/ جون ۱۹۳۲ء کو حکومت سے مطالبات کے سلسلہ میں جاری کیا تھا۔
>مسلمانوں نے ۱۹۳۰ء کی کانگرس کی مہم میں بہت کم حصہ لیا۔ سوائے صوبہ سرحد کے جہاں کہ سرخ پوشوں نے دھوکے میں آکر کانگرس کے جھنڈے کو قبول کیا اور وہ تحریک جاری کی جس کا کانگریس سے تعلق نہ تھا۔ مگر جس میں اب انصاف کو کانگریس کی سازش پر فتح نصیب ہو چکی ہے۔ کانگریس کی موجودہ مہم میں مسلمان ایک سے زیادہ مواقع پر بغاوت پسندوں کے خلاف عداوت کا اظہار کر چکے ہیں اور پہلے سے بہت کم مسلمان ظاہرہ طور پر کانگریس کا ساتھ دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔<
>گورنروں کے صوبوں میں گزشتہ دو سال میں یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ میں جو سیاسی قتل ہوئے ہیں ان میں کوئی بھی کسی مسلمان نے نہیں کیا ۔۔۔۔۔ ۱۹۰۷ء سے لے کر ۱۹۱۷ء کی سیاسی تحریک اور جرائم کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی جبکہ مسلمانوں کے جذبات ایک سے زیادہ مرتبہ انگریزوں کے خلاف بھڑکائے گئے تھے مسلمانوں اور ہندوئوں کا تناسب ایک تیس کا تھا۔ ہمیں یہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسلمان اخبار نے بھی گزشتہ دو برس میں کسی سیاسی قاتل کے ساتھ ہمدردی کا ایک لفظ بھی کہا ہو حالانکہ ہندو کانگریسی اخباروں نے کئی مہینوں تک ایسے سیاسی مجرموں کی قصیدہ خوانی کی<۔۹۲`۹۳
مسلمانوں کی یہ سیاسی بیداری کہ ہمیں ہندوئوں کا آلہ کار بن کر سول نافرمانی اور بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے۔ اکثر و بیشتر جماعت احمدیہ ہی کی مرہون منت تھی۔ جیسا کہ ایک غیر مسلم صحافی سردار ارجن سنگھ ایڈیٹر >رنگین< امرتسر نے انہیں دنوں بالوضاحت لکھا تھا۔
>خلیفہ قادیان کانگریس کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ اگرچہ کسی زمانہ میں قریباً تمام کے تمام مسلمان کانگریس کے ساتھ ملنا باعث عزت سمجھتے تھے۔ لیکن اس وقت بھی خلیفہ قادیان کا کوئی مرید کانگریس کے ساتھ شامل نہ ہوا۔ جن دنوں سول نافرمانی کا بڑا زور تھا اور مسلمانوں کی اکثریت سول نافرمانی کی حامی تھی لیکن خلیفہ قادیان کو سول نافرمانی سے کسی قسم کا تعلق نہ تھا بلکہ آپ سول نافرمانی کو ملک کے لئے مضر خیال کرتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے پیروئوں میں سے کسی ایک نے بھی کبھی اور کسی حالت میں سول نافرمانی کی حمایت نہ کی۔ الغرض احمدی جہاں مذہبی احکام میں اپنے لیڈر کی پیروی کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں سیاسی لحاظ سے بھی اپنے خلیفہ کی تابعداری کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور لطف تو یہ ہے کہ بحالات موجودہ خود مسلمانوں کی بڑی بھاری اکثریت بلکہ ایک معنیٰ میں ساری کی ساری قوم کانگریس سے قطع تعلق کر چکی ہے ۔۔۔۔۔ گویا مسلمان بحیثیت قوم انہی سیاسی عقائد کی جانب مائل ہو رہے ہیں جو پہلے پہل خلیفہ قادیان نے پیش کئے تھے<۔۹۴
نیز لکھا۔
>جن دنوں ملک میں سول نافرمانی بہت زوروں پر تھی اور مسلمان بھی اس کے حامی تھے ۔۔۔۔۔۔ سول نافرمانی کے حامی مسلمانوں نے سول نافرمانی کے مخالف مسلمانوں پر زندگی تنگ کر رکھی تھی یہاں تک کہ مخالفین سول نافرمانی ¶کے جنازوں تک کو بھی قبروں میں دفن کرنے سے روکا گیا۔ ان حالات کو دیکھ کر سول نافرمانی کے مخالف مسلمانوں کو کسی ایسی منظم جماعت کی تلاش ہوئی جو سول نافرمانی کی مخالف ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جماعت احمدیہ ایک منظم جماعت ہے اور یہ جماعت اپنے خلیفہ کے حکم کے ماتحت سول نافرمانی کی مخالف تھی چنانچہ بعض بڑے بڑے مسلمانوں نے احمدیوں کے ساتھ سیاسی اتحاد ضروری خیال کیا ۔۔۔۔۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد کانگریسی مسلمان بھی کانگرس سے علیحدہ ہونے شروع ہوئے اور اب مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال جاگزین ہونے لگا کہ سیاسی لحاظ سے احمدیوں کا عقیدہ دوسری مسلمان جماعتوں کی نسبت زیادہ صحیح تھا۔ چنانچہ پڑھے لکھے مسلمانوں کی اکثریت اس بات کے حق میں ہو گئی کہ جماعت احمدیہ سے سیاسی اتحاد رکھا جائے<۔۹۵`۹۶
جماعت احمدیہ کی تنظیم اورمرکزیت کوتباہ کرنے کامنصوبہ
اگرچہ ۱۹۲۳ء کی شدھی تحریک کے زمانہ ہی سے کانگریس کے لیڈروں اور دوسرے ہندوئوں میں جمات احمدیہ کے خلاف انتقامی جذبات و خیالات سختی اور تلخی کی حد تک پہنچ چکے تھے مگر ۱۹۲۸ء میں جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے نہرو رپورٹ کے خلاف منظم احتجاج کیا اور ملک کے ہر گوشہ میں موثر آواز بلند کی۔ تو ہندو عصبیت کے غیظ و غضب کی کوئی انتہاء نہ رہی اور اس نے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور مرکزیت کو صفحہ ہستی سے معدوم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لئے ایک خفیہ منصوبہ تیار کرکے اندر ہی اندر کوششیں شروع کردیں۔
اس منصوبہ کا انکشاف ایک مسلمان وکیل کے ذریعہ سے ہوا جس نے ایک ہندو سے پتہ چلا کر مکرم فضل کریم صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی کو آگاہ کر دیا۔ جس پر انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ۷/ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ` حضور کو قبل اس کے ہندوئوں کی مخالفت اور بغض کے متعلق کافی علم ہے۔ مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوئوں نے )منظم رنگ میں( ORGINIZED ہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی ۔۔۔۔۔ تیار کر رہے ہیں خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجودہ نہرو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے انہیں آگ لگا دی ہے۔ اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبردست روک ہیں ہم انہیں CRUSH کرکے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوئوں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتلایا کہ معمولی انسان ہے جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جارہی ہے<۔
اس منصوبہ کے انکشاف سے چند ماہ پہلے >احرار المسلمین< کے نام سے ایک گمنام انجمن قائم ہوئی جس کے زیر اہتمام قادیان سے >پیغام حق< نامی گالیوں سے پر ایک ہفتہ وار اخبار شائع ہونے لگا۔ کانگریس کے سفیر۹۷ مولانا ظفر علی خاں صاحب کے اخبار >زمیندار< نے جو ان دنوں کانگریس کی >تحریک آزادی< کے لئے وقف تھا اس اخبار کا تعارف کراتے ہوئے ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا جس میں خاص طور پر لکھا کہ۔
>پیغام حق کے مقاصد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ قادیانی جماعت اور ان کے قائد اور قادیانی اخبارات کے وجود سے جو مفاسد اشاعت پارہے ہیں ان کا سد باب کرے ۔۔۔۔۔ اس غرض کی اہمیت محتاج بیان نہیں اور گھر کا بھیدی ہونے کے لحاظ سے اس کام کو جس خوبی سے >پیغام حق< سر انجام دے سکتا ہے وہ دوسرے اخبارات کے امکان میں نہیں۔ سیاسیات وطن کے بارے میں >پیغام حق< ان جرائد کا ہم نوا ہو گا جو ملک کے مختلف الخیال جماعتوں کو متحد کرکے آزادی و استقلال کے لئے رستہ صاف کر رہے ہیں<۔۹۸
اخبار >پیغام حق< کی اشاعت کے تھوڑے عرصہ بعد دسمبر ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام ہند کا قیام ہوا اور ۱۹۳۰ء میں امیر شریعت احرار کانگریس کی سول نافرمانی میں حصہ لینے کی وجہ سے قید ہو گئے۔ چنانچہ سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی سوائح عمری میں لکھا ہے۔ >انڈین نیشنل کانگریس نے ۱۹۲۹ء کے اجلاس میں بمقام لاہور جب آزادی کامل کی قرار داد منظور کی تو اس کی تائید و اشاعت میں آپ نے نہایت انہماک اور سرگرمی سے حصہ لیا۔ اور جب مہاتما گاندھی جی کی قیادت میں آزادی کا بگل بجایا گیا اور ممکن سول نافرمانی کا ملک میں آغاز ہوا۔ تو آپ پیش پیش رہے اور تمام ہندوستان میں کانگریس کے پروگرام کی اشاعت کے لئے طوفانی دورے کئے اور آخر کار بتاریخ ۳۰/ اگست ۱۹۳۰ء کو دیناج پور بنگال میں ۱۰۸ الف کے تحت گرفتار کر لئے گئے ۔۔۔۔۔ اس مقدمہ میں آپ کو ۲۰/ اکتوبر کو چھ ماہ قید سخت کی سزا دی گئی شاہ صاحب نے معیاد اسیری علی پور اور ڈم ڈم جیل میں گزاری<۔۹۹
شاہ صاحب بالاخر ڈم ڈم جیل سے گاندھی جی اور حکومت کی عارضی صلح کے نتیجہ میں رہا ہو کر پنجاب آئے اور رہا ہوتے ہی آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ ۱۴/ جون ۱۹۳۱ء کو بٹالہ کی انجمن شباب المسلمین کے سالانہ اجلاس میں احمدیت کے خلاف ایک اشتعال انگیز تقریر کی جس میں کہا۔ >میں سر سے پائوں تک سیاسی آدمی ہوں۔ میری یہ دلی آرزو ہے کہ مسلمان اور اسلام پر قائم ہوکر مروں۔ مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں اسلام کا فرزند ہوں قادیان کے لٹھ بازوں کی ہمیں کیا پرواہ ہے ہم اس کھونٹے ہی کو اکھاڑنے کی فکر میں ہیں جس پر قادیانی ناچتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ آئین ہمارے ہاتھ میں آرہا ہے۔ سائمن رپورٹ تو ہمارے قدموں میں ہے لیکن ہم سوراج چاہتے ہیں۔ وہ بھی ہمیں چند تحفظات کے ساتھ دیا جارہا ہے۔ جسے ہم منظور نہیں کرتے کل کو گورنمنٹ ہماری ہو گی۔ مرزائی کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب حکومت وقت کے تحت اطاعت سے رہنا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ
>اب گورنمنٹ ہماری ہے<۔
جنگ آزادی کے سپاہی بنو۔ آئو آج میرے ساتھ بحالی امن کے ذمہ دار بنو۔ میرے رضا کار بنو۔ پھر دیکھو! میں مرزائی کیمپ پر کس طرح پکٹنگ کرتا ہوں<۔۱۰۰
اسی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا۔ >سیاسی طور پر مسلمان کانگریس کی مدد کریں احمدی ہمیشہ سے خوشامدی چلے آئے ہیں۔ چنانچہ ان کا پیر بھی خوشامدی ہی تھا۔ جس دن ہمیں حکومت ملی اور میں وزیراعظم ہو گیا۔ یہ لوگ میرے بوٹ چاٹا کریں گے مسلمانوں کو گاندھی جی کے پیچھے چلنا چاہئے یہ وہی شخص ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلائی۔ مرزا صاحب نے آکر دنیا کو کونسی آزادی دلائی تھی۔ انہوں نے تو آکر غلام بنا دیا۔ یہ لوگ جب سوراج مل گیا تو گاندھی جی کی سرداری تسلیم کریں گے اور اب تو گائے پر لڑتے ہیں پھر گائے کا پیشاب پیا کریں گے<۔۱۰۱
‏tav.7.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
دوسرا باب )فصل چہارم(
تحریک کشمیر اور احرار ہند
تحریک کشمیر میں جماعت احمدیہ کی مخالفت اور اس کا مقصد
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی مندرجہ بالا تقریر کے ایک ماہ بعد ۲۵/ جولائی ۱۹۳۱ء کو مسلمانان کشمیر کی امداد کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ صدر منتخب کئے گئے۔ جس پر پنجاب کے ہندو پریس احرار اور مولوی ظفر علی خاں تینوں احمدیت اور احمدیوں کے خلاف میدان مخالفت میں آگئے اور طعن و تشنیع کی بوچھاڑ شروع کر دی۔۱۰۲
اس تحریک میں مجلس احرار نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ حریت کشمیر میں ایک بہت بڑا المیہ اور سانحہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس تحریک میں احرار کی شمولیت مسلمانان کشمیر کی ہمدردی و غم خواری کے جذبہ کا نتیجہ تھی یا کانگریس اور ہندو پریس کی ہمنوائی میں محض جماعت احمدیہ کی مخالفت!! اس بارے میں >مہاتما<۱۰۳ چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار کی شہادت قابل توجہ ہے۔ آپ ۱۹۳۱ء میں احرار لیڈروں کی رہائی کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
>گاندھی جی کو اپنے تعاون کا یقین دلانے کے لئے سید عطاء اللہ شاہ اور مولانا حبیب الرحمن صاحب بمبئی گئے۔ لیکن مہاتما جی کی روح لندن کے متعارف کوچوں کی دوبارہ سیر کے لئے بے تاب تھی چھوٹا بھائی بڑے بھیا )یعنی گاندھی۔ ناقل( کو کھل کر مشورہ نہیں دے سکتا۔ گورو کو کون کہے کہ بوڑھے بابا کرم کرو ۔۔۔۔۔ اس دوران میں کشمیر پھر دیوار گریہ بن گیا۔ سرینگر نے خون شہداء کے باعث کربلا کی سی صورت پیش کی ۔۔۔۔۔۔ ابھی ہماری سست فکری کسی منزل پر نہ پہنچی تھی کہ کچھ عافیت کوش مسلمان شملے۱۰۴ کی بلندیوں سے بادل کی طرح گرجے ۔۔۔۔۔۔ ان خانہ برباد رئوسا اور امراء۱۰۵ نے غضب یہ ڈھایا کہ مرزا بشیر محمود قادیانی کو اپنا قائد تسلیم کر لیا۔ جمعیت العلماء نے ¶ستم یہ کیا کہ اس بشیر کمیٹی سے تعاون کا اعلان کر دیا )؟( اس شخص نے اہل خطہ کی خدمت یہ کی کہ مرزائی مبلغ بھیج کر سرکاری نبوت کی اشاعت شروع کر دی اور دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا کہ پورے اسلامی ہند نے اسے لیڈر مان کر اس کے باپ کی نبوت کی تصدیق کر دی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس لئے باخبر اہل مذاہب کو مرزائی مبلغوں کے ہاتھوں مسلمانان کشمیر کے ارتداد کا خطرہ لاحق ہو گیا<۔۱۰۶
قارئین کو >تاریخ احمدیت< کی گزشتہ جلد سے معلوم ہو چکا ہو گا کہ خط کشیدہ الفاظ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ جھوٹ اور بہتان کی بدترین مثال ہے لہذا ہم اس پر کوئی مزید تبصرہ کئے بغیر چودھری افضل حق صاحب کی تحریر کا اگلا حصہ نقل کرتے ہیں۔
>میں ۔۔۔۔۔ اس پیدا شدہ صورت حال سے گھبرا گیا اور لاہور پہنچا میں نے دیکھا کہ مولانا دائود غزنوی۱۰۷ ٹانگے پر سوار پریشان سے جارہے ہیں۔ پوچھا کدھر کا عزم ہے کہا کہ مرزائی قیادت مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہو گی۔ میں شہر کے علماء سے مل کر ان کی قیادت کے خلاف اعلان کرانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اسی دن یا اگلے دن علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی صدارت میں محمڈن ہال میں عمائدین شہر کا جلسہ تھا جس میں کشمیر کی اوس پڑی قسمت زیر غور تھی۔ مولانا مظہر علی غالباً مولانا دائود غزنوی۱۰۸ بھی اور میں بھی محمڈن ہال گئے خیال یہ تھا کہ کوئی تدبیر لڑا کر مرزا بشیر کی کمیٹی کے مقابلے میں احرار کے حق میں ان لوگوں کی تائید حاصل کی جائے باقی حاضرین طبقہ اولیٰ سے متعلق تھے وہ احرار کے نام پر حقارت سے منہ بسورتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب احرار کو آگے بڑھانے پر بضد تھے۔ بہرحال ہم بزوری و بزاری ان کا اعلان اپنے حق میں کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ بس تھوڑی سی کھڑے ہونے کو جگہ ملی تھی بیٹھے اور پائوں پسار کر ساری جگہ پر قبضہ کرنے کے لئے ہمت درکار تھی<۔۱۰۹
پھر لکھتے ہیں۔ >علامہ سر محمد اقبال ۔۔۔۔۔ کشمیر کمیٹی کے ۔۔۔۔۔۔ ضرور ممبر ہو گئے تھے لیکن یہ کیفیت اضطراری تھی۔ وہ فوراً سنبھل کر کشمیر کمیٹی کی تخریب میں لگ گئے اور احرار کی تنظیم کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنے لگے۔۱۱۰
احرار نے >بزوری و بزاری< اعلان کروانے میں کامیاب ہونے کے بعد کشمیر کمیٹی کی >تخریب< اور >پائوں پسار کر ساری جگہ پر قبضہ کرنے کے لئے< وسیع پیمانے پر جارحانہ کارروائی شروع کر دی۔
تحریک آزادی کو تباہ کرنے کے لئے پہلا قدم
اس سلسلہ میں تحریک آزادی کو تباہ کرنے کے لئے ایک خطرناک قدم یہ اٹھایا گیا کہ ایک طرف تو کشمیر کمیٹی سے وابستہ مسلم زعماء )مثلاً خواجہ حسن نظامی صاحب` مولوی محمد اسمعیل صاحب عزنوی` سید حبیب صاحب آف >سیاست< اور مولانا غلام رسول صاحب مہر( کو مرزائی یا مرزائی نواز قرار دے کر مسلمانان ہند کو بد دل کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔۱۱۱]4 [rtf اور دوسری طرف ان تمام کشمیری لیڈروں کو جو اندرون ریاست قیادت کر رہے تھے اور کشمیر کمیٹی سے رابطہ رکھتے تھے بے بنیاد اور مفتریانہ پراپیگنڈا کرکے ناکام بنانے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اگرچہ ڈوگرہ حکومت اور پنجاب کا ہندو پریس لگاتار یہ حربہ استعمال کرتے رہے تھے مگر احرار ان دونوں سے گوئے سبقت لے گئے جس سے تحریک کشمیر کو سخت نقصان پہنچا اور کشمیری لیڈر از حد پریشان ہو گئے۔ چنانچہ جناب اللہ رکھا صاحب ساغر نے جموں سے مولانا سید حبیب صاحب مدیر >ریاست< کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔
۳۱۔ ۱۰۔ ۲۴ پرائیویٹ چٹھی
حضرت مولانا! السلام علیکم۔ شرمندہ ہوں کہ آپ کو الوداع نہ کہہ سکا۔ یہاں احرار والوں نے سخت کمینہ پراپیگنڈا شروع کر دیا ہے اور جعلی تار دلائے جارہے ہیں۔ جن میں نمائندگان کشمیر پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے اور افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ نمائندے روپیہ بٹور گئے ہیں۔ جموں کی صورت حالات حد درجہ تشویشناک ہو گئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ عوام گمراہ نہ ہو جائیں احرار والوں کی گو شمالی کی شدت سے ضرورت ہے لیکن صرف آپ کی طرف سے ایسوسی ایشن خاموش رہے گی البتہ اندرونی طور پر ہم سب کچھ کریں گے۔
کیا آپ >کشمیری مسلمان< کی طرز کا کوئی اخبار احرار والوں کے شرمناک پروپیگنڈا کی روک تھام کے لئے جاری کر سکتے ہیں؟
>انقلاب< کی طرح >سیاست< کے پرچے بھی تین یوم کے بعد >مطبوعہ مواد< کے پاکٹ میں بھجوا دیا کریں تو نوازش ہو گی۔ تاکہ ہم بھی >سیاست< کے مشورہ سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔
خادم
اے۔ آر۔ ساغر جموں
مولانا سید حبیب صاحب نے یہ مکتوب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ بھجوا دیا۔ >حضرت مرزا صاحب السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔ یہ خط بغرض اطلاع ابلاغ خدمت ہے۔ میں حاضر ہوا تھا آپ موجود نہ تھے۔ حبیب<۔
عکس کے لئے




مجلس احرار نے سب سے زیادہ جس شخص کو ہدف تنقید بنایا وہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب تھے چنانچہ شیخ صاحب نے ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو مولانا عبدالرحیم صاحب درد۱۱۲ کے نام خط لکھا کہ >میرے خلاف احراری لوگ پنجاب میں برابر احمدی ہونے کا پراپیگنڈا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں مجلس احرار کے کارکنوں سے ملا تھا انہوں نے کہا۔ جب تک تم احمدیوں کو خارج نہ کرو گے ۔۔۔۔۔۔ ہم سے صلح نہیں ہو سکتی۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ بات ناممکن ہے۔ ہمیں پرواہ نہیں آپ اگر آسمان پر جاکر میرے خلاف پراپیگنڈا کریں گے کہ یہ احمدی ہے لیکن خدا اور کشمیر کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ احمدیوں کا کسی سیاسی جماعت سے عقیدہ کی بنا پر علیحدہ کرنا دنیا میں کہیں نہیں دیکھا ہے۔ یہ صرف احرار کا ہی نرالا اصول ہے۔ بہرحال کشمکش جاری ہے<۔
احرار ہند کا ایک ایسے وقت میں جبکہ مسلمانان کشمیر کی تحریک آزادی پوری کامیابی سے جاری تھی زعمائے آزادی کے خلاف مہم چلانا مفاد اسلامی سے صریح غداری کے مترادف تھا جس کی دشمنان اسلام کے ہاتھ میں کھلونا بننے والوں کے سوا کسی اور سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی یہ ایک ایسی کھلی بات تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو بھی لکھنا پڑا۔
>اس اختلاف کا ظاہری سبب قادیانیت ہے سارے ملک کے نمائندے سات ارکان بنائے گئے جن میں ایک رکن قادیانی بھی ہے جمہور امت قادیانی کا دخل نہیں چاہتی۔ شیخ عبداللہ لیڈر اس کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں یہ وقت ان باتوں کا نہیں ۔۔۔۔۔ ہم اس بارے میں تینوں گروہوں کو ۔۔۔۔۔۔ تو یہ سمجھاتے ہیں کہ یہ وقت تمہارے اختلاف کا نہیں قادیانی کو پہلے داخل نہ کرتے تو خوب ہوتا۔ لیکن جب داخل ہو گیا تو اب اس کے اخراج پر جھگڑا پیدا نہ کریں۔ ۔۔۔۔۔۔ پس اہل کشمیر اعداء کے دائو پیچ سے بچ کر باہمی اتفاق سے رہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مثل صادق آجائے۔ >دو مرغ جنگ کنند فائدہ تیر دیگر<۔۱۱۳
مگر افسوس >اعداء کے دائو پیچ< نے مجلس احرار کو کشمیری لیڈروں خصوصاً شیخ عبداللہ صاحب کے خلاف سالہا سال تک برسر پیکار رکھا۔ جناب چراغ حسن صاحب حسرت اور احرار کشمیری لیڈروں سے عدم مفاہمت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>کشمیر کے لیڈر خصوصاً شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کو کشمیر کمیٹی کی امداد قبول کرنے میں تو دریغ نہیں تھا لیکن احرار سے تعاون کرنے میں انہیں سخت تامل تھا۔ اس کی کئی وجہیں تھیں ایک تو احرار کے دامن پر کانگریس کے تولد کا جو داغ تھا وہ ابھی پوری طرح نہیں دھلا تھا ۔۔۔۔۔۔ ادھر احرار ۔۔۔۔۔۔ کشمیر کے نوجوان لیڈروں کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے۔ اور اس بات پر مصر تھے کہ کشمیر کے بارے میں جو فیصلہ کیا جائے ہمارے مشورہ سے کیا جائے۔ ادھر کشمیری نوجوانوں کا انداز کچھ اس قسم کا تھا۔ کہ اگر آپ کشمیر کمیٹی کی طرح ہماری مدد کر سکتے ہیں تو شوق سے کیجئے۔ ورنہ ہمارے معاملات میں دخل نہ دیجئے۔۱۱۴
تحریک آزادی کو تباہ کرنے کے لئے دوسرا قدم اور اس کے خوفناک نتائج
مجلس احرار ہند نے کشمیری لیڈروں کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے خطرناک رستہ یہ اختیار کیا کہ عین اس وقت جبکہ یہ آئینی
تحریک )آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بدولت( کامیابی کی منازل طے کرکے ایک اہم مرحلہ میں داخل ہو رہی تھی درمیان میں آگئے اور ریاست میں جتھے بھیجنے کا اعلان کر دیا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی جدوجہد کے باعث چونکہ پورے ملک میں زبردست جوش و خروش پیدا ہو چکا تھا اس لئے لوگ دیوانہ وار آگے بڑھے احرار نے رضا کاروں کے بکثرت جتھے بھیجنے شروع کر دیئے یہ جتھے سیالکوٹ )مدینہ احرار(۱۱۵ اور سوچیت گڑھ کے راستے جموں کے علاقے میں داخل ہوتے تھے جہاں وہ گرفتار کر لئے جاتے تھے بعض جتھے راولپنڈی سے کوہالہ پہنچے اور وہاں گرفتار کر لئے گئے۔۱۱۶
>تاریخ احرار< میں لکھا ہے کہ >کانگریس کی کسی سول نافرمانی میں ۸۰ ہزار سے زیادہ ہندو مسلمان اور دوسری اقوام مل کر ایک سال تک قید نہیں ہوئے پنجاب میں تین ماہ کے اندر احرار نے ۵۰ ہزار نفوس کو جیل بھجوا دیا<۔ )صفحہ ۶۳( ان >۵۰ ہزار نفوس< اور ان کے خاندانوں پر کیا بیتی یہ الگ مستقل مضمون ہے۔
اس بیرونی مداخلت اور ہنگامہ آرائی کے علاوہ احرار نے جموں کے بعض نوجوان لیڈروں سے گٹھ جوڑ کرکے میر پور کے علاقہ میں عدم مالیہ کی تحریک اٹھا دی۔ چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں۔ >احرار کی تحریک کا زور بندھا۔ تحقیقاتی کمیشن کا اعلان ہو چکا تھا اور کشمیری بہت حد تک مطمئن نظر آتے تھے۔ احرار کی تحریک کا غلغلہ بلند ہوا تو یہ لوگ ڈرے کہ یہ جوشیلے لوگ کہیں سارا کام نہ بگاڑ دیں<۔۱۱۷ مظلوم کشمیریوں کا یہ خدشہ حرف بحرف صحیح نکلا اور حکومت کشمیر نے اس سول نافرمانی کی آڑ لے کر اہل کشمیر پر بے پناہ مظالم ڈھانے شروع کر دیئے اور شیخ عبداللہ اور دوسرے کشمیری لیڈر ۲۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو جیلوں میں ڈال دیئے گئے اور میر پور کے ستم رسیدہ مسلمان اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر علاقہ انگریزی میں پناہ گزین ہو گئے۔
چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار کا اعتراف
چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب لکھتے ہیں۔ >علاقہ میر پور میں زیادہ تر اسلامی آبادی تھی۔ وہاں جو ہلچل ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ تو ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ مصیبتوں سے کہیں پناہ نہ پاکر ریاستی مسلمان دھڑا دھڑ انگریزی علاقے میں چلے آئے۔ اف! بے سرو سامانی اور غریب الوطنی! ۔۔۔۔۔ جہلم کے کنارے یہ قافلے اترے۔ شہر ہے ہی کتنا۔ جو مہاجرین کی بڑی تعداد کے لئے پناہ گاہ ہوتا؟ باشندوں نے بڑی جان لڑائی مگر یہ بوجھ ان کی برداشت سے زیادہ تھا ۔۔۔۔۔ ایسے بوجھ کو تو سلطنت بھی برداشت نہیں کر سکتی<۔۱۱۸
اپنا دامن بچالینے کی کامیاب کوشش
میرپور میں بغاوت کے شعلے بھڑکا کر احرار کس طرح اپنا دامن صاف بچا کر نکل آئے اس کی تفصیل چوہدری افضل حق صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔ >اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے جتھے اس علاقہ میں ضرور جاتے تھے مگر سول نافرمانی کے لئے نہ کہ تشدد کو ہوا دینے کے لئے۔ ۔۔۔۔۔۔ ورکنگ کمیٹی میں سے صرف میں ہی ایک شخص جیل سے باہر تھا حکام کو بتایا گیا کہ میں ہی بیٹھا تار ہلا رہا ہوں۔ تجویز یہ ہوئی کہ مجھے اور آخری جتھے کے آدمیوں کو بغاوت کی آگ بھڑکانے کے جرم میں گرفتار کرلیا جائے۔ سرجافرے گورنر پنجاب ایک شریف انگریز تھا۔ اس نے کہا کہ گرفتاریوں سے قبل واقعے کی تحقیق کی جائے۔ کہ یہ کام احرار کا ہے بھی یا نہیں۔ خدا کی نظر عنایت ہو تو دشمن دوست ہوجاتے ہیں۔ مخالف موافق ہوکر دوش بدوش لڑنے لگتے ہیں۔ یہ صحیح خبر مجھے ایسے ذمہ دار شخص نے دی جس سے یہ توقع نہ تھی۔ اس نے مجھے رات کے ڈیڑھ بجے جگایا۔ اطلاع کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ اردو روزنامہ >احرار< کے ساتھ انگریزی صفحہ زیادہ کرلیا جائے۔ تاکہ انگریزی افسران کو پارٹی کے پرامن مقاصد کا علم ہو۔ ورنہ یہ تحقیقات آپ کی ذات تک محدود نہ رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ مجھے دوسرے ہی دن صرف کثیر سے روزنامہ >احرار< کے ساتھ انگریزی ضمیمے کا اضافہ کرنا پڑا۔ حالات سے بے خبر دوستوں نے کہا کہ یہ امیری کرلی؟ حالانکہ یہ غریبوں کا بچائو تھا ۔۔۔۔۔۔ انگریزی پولیس نے تحقیقات شروع کی۔ سپرنٹنڈنٹ سی۔ آئی۔ ڈی خان بہادر مرزا معراج دین نے میرے بیانات لئے۔ میں نے تشدد کے الزام سے اپنا اور پارٹی کا دامن پاک بتایا<۔۱۱۹
ادھر اہل کشمیر مبتلائے آلام ہوکے نظر بند اور بے خانماں ہوئے ادھر احراری >مجاہدوں< کا سب جوش وخروش ختم ہوگیا چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب لکھتے ہیں:۔
>مسلمانوں میں ان دنوں تحریک خلافت سے زیادہ سرگرمی تھی پنجاب کے مسلمانوں کو ایک نشہ سا چڑھا تھا سول نافرمانی کو چوتھا مہینہ تھا مگر یہ سیاسی طوفان برابر بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں رمضان۱۲۰ کا مہینہ آگیا۔ میں متوقع تھا کہ مسلمانوں میں جہاد کا جوش اور شہادت کا شوق بہت بڑھ جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ جوش اور یہ شوق مسلمانوں کو بالکل سرمست کردے اور تحریک میں نظم قائم نہ رہ سکے<۔
>میں نے دیکھا کہ پوری قوم پر اوس پڑگئی ہے۔ ہر شخص جیل جانے کی بجائے روزہ رکھ کر گھر میں معتکف ہو بیٹھا پوری نو کروڑ کی آبادی میں سے ایک بھی تو نظر نہ آیا۔ جس نے خوش دلی سے یہ کہا ہو کہ رمضان میں ہم امتحان کے لئے تیار ہیں<۔۱۲۱
تحریک کشمیر میں اس عبرتناک ناکامی پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ >یہ میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ مجاہد روزوں کے بہانے کھسک جائیں گے۔ ہمارے دلوں میں مذہب نے کیسی بری صورت اختیار کرلی ہے جہاد قولی عبادتوں اور رسمی روزوں پر قربان کیا جانے لگا ہے۔ غرض جو نہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوا رمضان میں عام مسلمانوں کی خاموشی میدان سے باقاعدہ پسپائی نہ تھی۔ بلکہ ہتھیار اٹھانے سے کانوں پر ہاتھ دھرنا تھا۔ ان حالات میں دفتر نے اعلان کردیا کہ عید کے بعد سول نافرمانی کا پروگرام زور شور سے جاری کیا جائے گا۔ حالانکہ اب کسی >زور شور< کی امید باقی نہ تھی اب ہمارے پاس بہت تھوڑے والنٹیر رہ گئے تھے وہ بھی کٹے پتنگ کی طرح اداس اور اکیلے اکیلے سڑک کے حاشیوں پر پھرتے تھے۔ بھاگڑ مچی فوج کا دوبارہ مربوط ہوکر لڑنا خوش قسمتی کا کھیل ہوتا ہے ورنہ قانون قدرت یہی ہے کہ صفوں کے اکھڑے پائوں نہیں جمتے<۔۱۲۲
پھر لکھتے ہیں:۔ >اگرچہ تحریک سے جان نکل چکی تھی لیکن مخلصین کا ایک حصہ ایسا ضرور تھا۔ کہ اگر ان کے بچوں کے نان ونمک کا سامان کردیا جائے تو وہ جیل کو کھیل سمجھیں۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مالی مدد بہم پہنچائی جائے سیالکوٹ میں ایک معقول رقم پڑی تھی۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم خود جائو لے آئو۔ وقت کی بات ہوتی ہے۔ کہ سیالکوٹ کے مقامی کارکن ایک کانگرسی دولت کے زیر اثر آچکے تھے۔ انہوں نے بھرے جلسے میں کہہ دیا کہ یہ رقم مرکز کو نہیں مل سکتی۔ یہ بہت ہی برا ہوا۔ اگر یہ مدد مل جاتی تو قیاس تھا کہ تحریک ایک ماہ اور بغیر ہماری کمزوری کے اظہار کے زور پر نظر آتی<۔۱۲۳
مردوں کے بعد عورتوں کو جیل میں بھجوانے کی ناکام کوشش
احراری مردوں کے عزائم جو یوں پست ہوگئے تو عورتوں کو جیل بھجوانے کی کوشش جاری کردی گئی۔ مگر یہ جدوجہد بھی پوری طرح ناکام ہوگئی۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب لکھتے ہیں۔
>جب مردوں کا مذہب میدان محاربہ کو چھوڑ کر رمضان کے روزوں اور نمازوں کے لئے معتکف ہو جانا ہو تو حالات زمانہ سے ناواقف رکھی ہوئی عورتیں تعلیم اسلامی سے بے خبر بے چاریاں کیا پہاڑ ڈھائیں ۔۔۔۔۔۔۔ مردہ تحریک کو زندہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ بہتیرے ہاتھ پائوں مارے اور بڑے جتن کئے مگر خاکستر کو کون سلگا سکتا ہے۔ ناچار عورتوں کو آگے بڑھایا کہ شاید مردوں کی ہمت بڑھے مگر ان کی نبضیں چھوٹی ہوئی تھیں<۔۱۲۴
ڈاکٹر علم الدین صاحب میونسپل کمشنر امرتسر کا تبصرہ
ڈاکٹر چوہدری علم الدین صاحب میونسپل کمشنر امرتسر نے تحریک کشمیر میں احرار کی افسوسناک اور نقصان دہ سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>احرار کاایک وفد کشمیرپہنچا توحکومت کشمیر نے انہیں دعوت دی کہ وہ عرصہ قیام کشمیر میں ان کے ہاں مہمان رہیں جسے احراری لیڈروں نے منظور کر لیا۔ اور حکومت کشمیر کے مہمان بن کر رہے۔ ان دنوں حکومت اور رعایا میں کشمکش تھی مسلمان نہ چاہتے تھے کہ کوئی ان کا حامی حکومت سے تعاون کرے چنانچہ احراریوں کا حکومت کے ہاں فروکش ہونا کشمیری مسلمانوں کو سخت ناگوار گزرا۔ بالخصوص اس حالت میں کہ احراری وفد نے مسلمانوں سے پوچھا تک بھی نہ کہ وہ کیا چاہتے ہیں بلکہ اپنی مرضی سے ہی چند مطالبات حکومت کشمیر کے سامنے پیش کر دیئے۔ احرار کی اس خود سرانہ حرکت سے مسلمانان کشمیر بے حد رنجیدہ ہوئے۔ اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ہو نہ ہو اس جماعت کا مقصد مہاراجہ کی حکومت سے سازش کرکے اپنے فوائد حاصل کرنا اور کشمیری مسلمانوں کو حکومت کشمیر کے ہاتھوں فروخت کر دینے کے سوا کچھ نہیں۔
بر خلاف اس کے انہی دنوں کشمیر کمیٹی کا ایک وفد کشمیر پہنچا۔ مہاراجہ کی حکومت کی جانب سے انہیں بھی دعوت دی گئی۔ لیکن انہوں نے حکومت کا مہمان بننے سے صاف انکار کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ وہ مسلمانان کشمیر کے جذبات کا احترام اپنا مقدس فرض سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے غریب بھائیوں کی مہمانی میں شاہی دستر خوان سے زیادہ لطف محسوس کرتے ہیں۔ وہ ان پوشیدہ جھونپڑیوں میں ہائوس بوٹوں سے زیادہ راحت پاتے ہیں کیونکہ وہ کشمیر میں عیش کرنے اور سیر منانے کے لئے نہیں آئے بلکہ مسلمانان کشمیر کے حقوق کی حفاظت کے لئے آئے ہیں۔ اس لئے وہ مسلمانوں سے تبادلہ خیالات کرنے اور ان کے آراء و افکار کا مطالعہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ کشمیر کمیٹی کے وفد نے مسلمانان کشمیر کے مشورہ سے مطالبات کی ایک فہرست حکومت کشمیر کے سامنے پیش کر دی۔
احراری وفد کی خودسری اور کشمیر کمیٹی کے ڈیپوٹیشن کی وفادارانہ روش نے جہاں مسلمانان کشمیر کو احراریوں کی جانب سے بدظن کر دیا وہاں کشمیر کمیٹی کے ارکان سے محبت و مودت کے جذبات پیدا کر دیئے۔
احراریوں کو اعتراض ہے کہ کشمیر کمیٹی کے وفد کی مقبولیت نے کشمیر میں مرزائیت کی جڑیں لگا دیں اور ان کی بنیادوں کو مستحکم کردیا اس لئے وہ کشمیر کمیٹی کو متہم کرتے ہیں کہ کشمیر میں مرزائیت کے فروغ کی ذمہ داری کشمیر کمیٹی کے سر پر ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ >اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست<۔ یعنی اس کی تمام تر ذمہ داری خود احرار کے سر پر ہے۔
احرار اگر اپنے اغراض کی خاطر حکومت کشمیر کی مہمانی قبول نہ کرتے اور مسلمانوں سے تبادلہ خیالات کئے بغیر نہایت خود سرانہ طریق پر مطالبات کی فہرست حکومت کے حوالے نہ کر دیتے بلکہ کشمیر کمیٹی کے وفد کی طرح عقل و خرد سے کام لیتے اپنے بھائیوں کے جذبات کا احترام فرماتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مسلمانان کشمیر احرار سے نفرت کرنے لگتے اور کشمیر کمیٹی والوں کو آنکھوں پر بٹھلاتے۔ یہی نہیں بلکہ ان دنوں کشمیر میں احرار کے خلاف نفرت و حقارت کا ایک عام جذبہ تھا اور احراریوں کے رویہ کے خلاف برملا ملامت کی جاتی تھی اور ان کے خلاف طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے تھے۔ مثلاً
)ا(
بہت سے احراری لیڈروں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ انہوں نے حکومت کشمیر سے نقد روپیہ لیا ہے اور اس طرح انہوں نے مسلمانوں کی غلط راہنمائی کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے۔
)ب(
یہ بھی کہا جاتا تھا کہ احراری اپنے کسی خاص لیڈر کو کشمیر میں کوئی چھوٹی موٹی وزارت یا ملازمت دلانا چاہتے ہیں اس لئے حکومت کشمیر کے ایماء پر مسلمانوں کو ٹیڑھے راستہ پر چلانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ الزامات صحیح ہوں یا غلط۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر احرار ہائوس بوٹوں پر جان نہ دیتے۔ اگر مرغن غذائوں پر نہ مرتے۔ اگر سیرو تفریح کے سامانوں پر لٹو نہ ہو جاتے۔ بلکہ مسلمانان کشمیر کے ہاں فروکش ہوتے۔ ان کے نان و نمک پر قناعت کرتے تو ۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً ستائیس ہزار مسلمانوں کی قربانیاں سپھل ہوتیں۔ لیکن آہ! احرار کی خود غرضیوں نے ان عظیم الشان قربانیوں کو بھی بے اثر بنا دیا<۔۱۲۵
تحریک کشمیرکی تخریب کے بعدپھر کانگریس کی تحریک میں
تحریک کشمیر کی صفوں میں انتشار اور مسلمانان کشمیر کے گرفتار بلا ہونے کے باعث ہندو قوم اور ڈوگرہ حکومت کا منشاء پورا ہو چکا تھا۔ اس لئے احرار بھی تحریک کشمیر کے اس ضمنی کام کو چھوڑ کر اپنے مستقل فرائض کی طرف متوجہ ہوئے یعنی کانگریس کی تحریک سول نافرمانی میں پہنچے اور بہانہ یہ بنایا کہ شاید اس طرح انگریز ریاستی مسلمانوں سے انصاف کرنے کی طرف مائل ہو جائے۔ حالانکہ احرار کے نزدیک بھی اس تحریک کشمیر کا آغاز براہ راست ہندو ذہنیت کے نتیجہ میں ہوا تھا اور جنگ دراصل انہی کے خلاف تھی۔۱۲۶ مگر اس واضح حقیقت کے باوجود مجلس احرار کے >مجاہد< جو تحریک کشمیر سے گھبرا اور اکتا چکے تھے کانگرس کی سول نافرمانی کو کامیاب بنانے کے لئے یکایک تازہ دم ہو گئے اور ہندوئوں کے دوش بدوش کام کرنے لگے۔ چنانچہ چودھری افضل حق صاحب >تاریخ احرار< میں لکھتے ہیں۔
>اس وقت کانگریس کی سول نافرمانی شروع تھی لیکن احرار کے عدم شمولیت کے باعث اس کی حیثیت خالص ہندوئوں کے مظاہرے سے زیادہ نہ تھی۔ ہمارے سامنے سوال یہ تھا کہ کانگریس کی سول نافرمانی میں شریک ہو کر انگریز کے گھائو کو گہرا کریں؟ شاید یوں انگریز ریاست کے مسلمانوں سے انصاف کرنے پر مجبور ہو جائے علاوہ ازیں یہ بھی مقصود تھا کہ کانگریس کی تحریک مسلمانوں کی شمولیت کے بغیر نہ رہ جائے۔
آخر یہی مناسب خیال کیا گیا کہ اپنے پلیٹ فارم کو قائم رکھ کر مقامی طور پر بدیشی کپڑے کی دکانوں پر پکٹنگ لگا دی جائے۔ اس طرح مجلس اخراجات کی زیر باری سے بچے گی کیونکہ احرار کا خزانہ خالی ہو چکا تھا<۔۱۲۷
احراری لیڈروں اور مجاہدوں کی اس روش نے ان کا سارا بھرم کھول دیا۔ چنانچہ >پیسہ اخبار< نے ۱۰/ مارچ ۱۹۳۲ء )صفحہ ۶ کالم ۳( میں لکھا۔
>مجلس احرار کے موجودہ ارباب حل و عقد نے احرار کا جو تازہ پروگرام اور لائحہ عمل تیار کیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے سواد اعظم کا مسلک نہیں کہلا سکتا۔ اسی وجہ سے عام مسلمانوں کو احرار کے جدید پروگرام سے بیزاری ہوئی۔ احرار رہنمائوں نے جدید سکیم کے ماتحت پکٹنگ` بدیشی مال کا بائیکاٹ` بغیر ٹکٹ کے ریلوے میں سفر کرنا اور ڈاک خانہ میں بیرنگ خطوط ڈالنا وغیرہ وغیرہ نکات کو اپنے پروگرام میں جزو اعظم قرار دیا ہے اور اس پروگرام کو مرتب کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ انگریز ہماری تحریک کے راستہ میں حائل ہو گیا ہے اس کی رکاوٹ کی وجہ سے مظلوم کشمیری مسلمانوں کے لئے ڈوگرہ شاہی مظالم سے استخلاص حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جدید سکیم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو جائے گا کہ احرار کا جدید لائحہ عمل قطعاً ناقابل عمل ہے۔ پکٹنگ اور بائیکاٹ دو ایسے حربے ہیں جن میں راعی اور رعایا دونوں کے لئے سخت مصائب اور جنگ کا سامان ہے۔ مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا<۔
جناب چراغ حسن صاحب حسرت نے اسی واقعہ کا تذکرہ اپنی کتاب >کشمیر< میں بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ۔ >احرار کی تحریک ابھی اور چلتی لیکن اتفاق سے انہیں دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس اچھی خاصی تحریک کو ختم کر دیا ۔۔۔۔۔ یعنی احرار کے رضا کاروں نے کانگریس کے رضا کاروں کی طرح شراب اور بدیشی کپڑے کی دکانوں پر پکٹنگ شروع کر دی۔ کہنے کو تو اب بھی کشمیر کا مسئلہ ان کا قبلہ مقصود تھا۔ اور یہ طریقہ صرف اس لئے اختیار کیا گیا تھا کہ مہاراجہ کشمیر کے پشتی بان یعنی انگریز کو زک پہنچائی جائے لیکن عام مسلمان یہ باریک باتیں کہاں سمجھ سکتے تھے۔ انہوں نے یہی نتیجہ نکالا کہ احرار پھر کانگرس سے جا ملے ہیں<۔۱۲۸
دوسرا باب )فصل پنجم(
جماعت احمدیہ کے خلاف سیاسی جنگ کا اعلان
اور اس کے ہتھیار
پہلا >اینٹی قادیان ڈے<
احرار >تحریک کشمیر< پر شدید ضرب لگانے کے بعد دوبارہ کانگریس کی سول نافرمانی کی طرف متوجہ ہوئے تو ساتھ ہی سول نافرمانی کے مخالف مذہبی طاقت )جماعت احمدیہ( کے خلاف مورچہ بندی کا فیصلہ کرکے >اینٹی قادیان ڈے< منانے کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان احرار نے اپنے نئے جاری شدہ اخبار >احرار<۱۲۹ کے ذریعہ سے کیا۔ اور اس کی تائید میں صدر مجلس احرار لاہور اور صدر مجلس احرار ہند دونوں نے مضامین شائع کئے۔
مجلس احرار کی اس شر انگیز تجویز پر )جو تحریک کشمیر کو مزید نقصان پہنچانے کا موجب اور اتحاد اسلامی کو پارہ پارہ کرنے والی تھی( محمد فضل شاہ صاحب۱۳۰ سجادہ نشین جلال پور جٹاں )ضلع گجرات( نے حسب ذیل بیان دیا۔
مجھے اس بات کا سخت افسوس ہے کہ جس روز سے اخبار >احرار< جاری ہوا ہے اسی دن سے فرقہ وارانہ جنگ شروع کر رکھی ہے پہلے >زمیندار< نے غداری۱۳۱ کی اور اس کے بعد احمدی و غیر احمدی جنگ۱۳۲ شروع کر دی۔ اسی طرح >احرار< بھی زمیندار کا شاگرد بن گیا۔ ہمیں اس وقت اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے نہ کہ جنگ کی جب کبھی >احرار< کا پرچہ دیکھا۔ کہیں قادیانیوں پر لعن طعن ہے اور کہیں اینٹی قادیان ڈے کے سلسلے میں بدکلامی ہے۔ ہمیں تو اس وقت اس کی ضرورت ہے جو ہماری مدد کرے چاہے کوئی ہو۔ میں احراریوں کو خدا اور رسول کا واسطہ دے کر تحریر کرتا ہوں کہ ایسے نازک وقت میں فرقہ وارانہ فساد کو ترک کر دیں۔
اعتراض کیا گیا ہے کہ کمیشن کے سامنے قادیانی وکلاء پیش کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ بھی خلیفہ صاحب قادیانی کی مہربانی ہے جو مظلوموں کی امداد فرما کر وکلاء روانہ کرتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں آپ نے آج تک کس قدر وکلاء جموں و کشمیر روانہ کئے ہیں؟ میں ابھی تک اپنے حلقہ اثر کے دو ہزار آدمی جیلوں میں روانہ کر چکا ہوں۔ مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح مظلوموں کی ظلم سے رہائی نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو مجلس احرار مردہ ہو جائے گی۔ ایسے نازک وقت میں جبکہ مسلمانان ریاست موت کے منہ میں ہیں اور ظلم و ستم روز بروز ان پر بڑھ رہا ہے جناب صدر آل انڈیا مسلم کشمیر کمیٹی نے اپنے مظلوم بھائیوں کو ہر طرح سے امداد بہم پہنچائی ہے مگر آپ لوگ ہمیشہ ان کے خلاف مضمون تحریر کرکے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں براہ مہربانی آپ ایسے مضامین شائع نہ کیا کریں۔ ایک مضمون >احرار< مورخہ ۲۵/ جنوری ۱۹۳۲ء کا میری نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر مجھے سخت رنج و افسوس ہوا۔ اس میں ملک محمد صادق صاحب سیکرٹری مجلس احرار ہند نے یہ فرمان جاری کیا ہے کہ مسلمان کانگریس کی مخالفت نہ کریں۔ مگر میں سوال کرتا ہوں کیا آپ لوگ بھی کانگریس کے حامی ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔ خدارا آپ غور کریں۔ ہاں اگر آپ کانگریس کے تنخواہ دار ہیں تو مجلس احرار سے علیحدہ ہو کر ان کی امداد کریں۔ مسلمانوں نے تو بدل و جان یہ اقرار کر لیا ہے کہ جب تک کانگریس قائم رہے گی۔ اس کے برخلاف میدان عمل میں کھڑے رہیں گے۔ کیونکہ کانگریس کے ظلم و ستم کے نشان ابھی ہمارے دل سے محو نہیں ہوئے اور نہ ہی ہوں گے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اپنے حقوق جداگانہ حاصل کریں گے۔
آخر میں میں یہ بھی کہہ دوں۔ بہت سی شکایتیں سننے میں آرہی ہیں کہ مجلس احرار کا حساب ٹھیک نہیں۔ آپ لوگ براہ مہربانی کوئی کام سر انجام دینے کی کوشش کریں۔ )خاکسار محمد فضل شاہ سجادہ نشین جلال پور جٹاں<۔۱۳۳
اسی طرح اخبار >رہنما< )راولپنڈی( نے ۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں احرار کے >اینٹی ڈے قادیان< پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔ >ہم موضوع بالا پر نہایت مفید حقائق اور تجاویز پیش کرنے والے تھے مگر احرار کے اینٹی قادیان ڈے نے ہمیں دوسری طرف متوجہ کر دیا ہے اور حالات حاضرہ کے پیش نظر اور نفس مضمون کی علت غائی کے خیال سے احرار کی اس فتنہ انگیزی سے مسلمان کو علیحدہ رکھنا ہمارے فرض کو اور بھی اہم بنا دیتا ہے جس وقت ہم نے ڈاکٹر عزیز احمد صدر مجلس احرار لاہور کے اس مضمون کو پڑھا تھا اسی وقت سے ہم نے احرار کی حمایت ترک کر دی ہے۔ ہم احرار کی اس لئے حمایت کرتے تھے کہ یہ جماعت اسلامی خدمات بجا لارہی ہے مگر اب یہ جماعت کلمہ گوئوں کو مٹانے والی ہے۔ ہمیں یقین ہوتا جارہا ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی دن اپنے ہاتھوں ہی تباہ ہو کر رہیں گے کیونکہ ہر ایک تحریک جو خاص مفاد اسلامی کے پیش نظر شروع کی جاتی ہے ایک عارضی اور ہنگامی فائدہ کے بعد الٹی ہماری تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ جماعت احرار مظلوم مسلمانان کشمیر کی دستگیری کے لئے تیار ہوئی مگر اب یہ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے دستور العمل وضع کر رہی ہے۔ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے اور نہ چاہنے دینے کے خواہش مند ہیں کہ احرار کے ذریعے مسلمانوں میں جنگ کا سامان مہیا کیا جائے۔ اس وقت اتفاق کی ضرورت ہے نہ کہ کلمہ گو انسانوں کے مٹانے کی۔ ہم احرار کے اس شر انگیز رویہ کے خلاف انشاء اللہ العزیز زبردست جدوجہد کریں گے اور اگر خدا تعالیٰ نے ہمارا ساتھ دیا تو ہماری کوششیں پھل لائیں گی اور مسلمان بھائی بھائی کس طرح گلے ملیں گے۔
اس دور پرخطر میں جبکہ ہر قوم اپنی بقاء کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے اور ہر قوم کا منتہائے نظریہ بن رہا ہے کہ دوسری قومیں اس کی عظمت کا راگ الاپیں۔ ورنہ ان کو مٹا دیا جائے تو مسلمانوں کو باہمی فرقہ وارانہ فساد میں مبتلا کرکے صفحہ ہستی سے ناپید کرنا کہاں کہ دانشمندی ہے۔ اس نازک دور میں جبکہ دشمنان ملت اسلام اس مقدس مذہب اور اس کے معتقدین کو تحریر و تقریر اور عمل و تعمیل میں مٹانے کے درپے ہیں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی ان کے لئے ایک سہولت مہیا کر دے گی اور دشمن ہماری قوم کو آسانی سے کچل دیں گے<۔۱۳۴
احرار کا اعلان کہ احمدیوں کے خلاف ہماری جنگ مذہبی نہیں سیاسی ہے
>اینٹی قادیان ڈے< سے جماعت احمدیہ کے خلاف جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور ساتھ ہی احراری لیڈروں نے یہ بھی وضاحت کر دی
کہ >قادیانیت< کے خلاف ہماری جنگ مذہبی نہیں خالص سیاسی نوعیت۱۳۵`۱۳۶ کی ہے جیسا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے >اہلحدیث< میں لکھا کہ۔
>احرار اب کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ قادیانی گروہ کے ساتھ مسائل کا فیصلہ علماء کی طرف سے ہو چکا ہمارا مقابلہ ان کے ساتھ سیاسی رنگ میں ہے چنانچہ مولوی محمد دائود غزنوی سیکرٹری مجلس احرار نے جلسہ اہلحدیث کانفرنس کی تقریر میں صاف کہہ دیا تھا کہ مرزائیوں کے ساتھ ہمارا مقابلہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے<۔
مولوی صاحب نے مزید لکھا۔
>احرار کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ہم قادیانی سیاست پر گولہ اندازی کرتے ہیں پس احرار اور قادیان کا اختلاف بالکل ایسا ہے جیسا کہ مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کا ہے۔ اس لئے حسب اصول تقسیم کار احرار کو دوسری تبلیغی انجمنوں سے اپنا کام ممتاز کر لینا چاہئے۔ یعنی منقولی مباحثے اور مباہلہ دوسری انجمنوں اور اشخاص کے سپرد کر دیں احرار ان باتوں میں دخل نہ دیں۔ جیسے مسلم لیگ کے ممبر ہندوئوں سے تناسخ وغیرہ مضامین پر بحث نہیں کرتے<۔۱۳۷
خود مجلس احرار کے مشہور آرگن >آزاد< کو اعتراف ہے کہ۔
>حجتہ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کاشمیری حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہم رحمہم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ داشتہ >نبوت< کو موت کے گھاٹ نہ اتار سکے۔ تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رخ بدلا۔ نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹ کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے<۔۱۳۸
احرار کی سیاسی جنگ کا پہلا سیاسی ہتھیار
احرار نے احمدیوں کو مٹانے کے لئے جو سیاسی جنگ شروع کی اس میں اول نمبر پر جو ہتھیار استعمال کیا وہ جذباتیت` پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا ہتھیار ہے اور جس کے ماہر ہونے کا دعویٰ خود مجلس احرار کو ہے۔ چنانچہ اخبار >آزاد< کے خصوصی >احرار نمبر< )مورخہ ۲۷/ ستمبر ۱۹۵۸ء( میں لکھا ہے۔
>یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطیبوں میں جذباتیت`پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ ذرا حقیقت پسند` سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں اور کوئی تعمیری و اصلاحی کام کر لیں تو ہمارا ذمہ۔ یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے صرف جذبات سے کام نکالتے ہیں۔ اسی طرح استعال انگیزی بھی ہماری تحریکوں` جماعتوں اور قائدوں کی جان ہے۔ آپ بڑے بڑے دیندار بااخلاق اور سنجیدہ و متین پہاڑوں کو کھودیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا۔ الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم لیتا ہے اور کوئی زیادہ ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اسی لئے وہ رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں<۔۱۳۹
اس اقتباس میں جماعت احمدیہ کے مخالف احراری پراپیگنڈا کی تین بنیادی خصوصیات کی نشان دہی کی گئی ہے اور اگر ہم احرار کی تحریروں اور تقریروں کا تجزیہ کریں تو وہ سب انہیں خصوصیات کے گرد چکر لگاتی ہیں اس حقیقت کی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مگر اس موقعہ پر نہ اس کی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ اس لئے یہاں ان کے صرف چند نمونوں پر اکتفا کریں گے۔
جذباتیت: یوں تو سبھی احراری لیڈر عوامی جذبات سے کھیلنے میں مشاق تھے۔ مگر امیر شریعت احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اس معاملہ میں سب پر سبقت رکھتے تھے کیونکہ اس کی ساحرانہ خطابت بے مثال تھی جس کے سامنے عوام و خواص مبہوت ہو کے رہ جاتے اور ان کی ہر بات پر جھوم جاتے۔
چنانچہ ان کی سوانح عمری میں لکھا ہے۔
>بعض خصوصیتیں صرف شاہ جی کے لئے مخصوص ہیں مثلاً وہ مخاطبین کو سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دیتے اس تیزی سے سامعین کو اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں کہ ان میں حرکت یا جذبے کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی<۔۱۴۰
کچھ عرصہ قبل رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار >ہمدرد< )مورخہ ۱۲/ نومبر ۱۹۲۶ء( میں سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کو مشورہ دیا تھا۔
>جو قدرت تم کو اپنی زبان پر ہے وہ خداداد ہے اور خدا کی ایک بڑی نعمت ہے مگر ایک بڑی خطرناک نعمت ہے اور تمہاری مسئولیت بہت بڑھ گئی ہے جب تک تم اسے حق کی راہ میں استعمال کرو گے فلاح دارین حاصل کرو گے لیکن اگر کبھی یہ باطل کی راہ میں استعمال کی گئی تو ہزاروں بندگان خدا کو بھی گمراہ کرنے کے لئے کافی ہو گی<۔۱۴۱ افسوس! آئندہ واقعات سے مولانا جوہر کا یہ قیاس بالکل صحیح نکلا۔
پھکڑ بازی: جناب آغا شورش کاشمیری سید عطاء اللہ صاحب بخاری کے سوانح میں لکھتے ہیں۔ >ان کے ہاں ہر سخن کی ترازو ہے ان کے الفاظ تل کر نکلتے ہیں۔ ان کے ہاں طنز بھی ہے سخت قسم کا طنز لیکن سب وشتم نہیں۔ جن چیزوں سے نفور ہوں ان سے تمسخر بھی روا رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں اس تمسخر یا پھکڑ کی زد سب سے زیادہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی ذریات پر پڑتی ہے<۔۱۴۲
اشتعال انگیزی: احرار کو اشتعال انگیزی کے فن میں ہمیشہ ید طولیٰ حاصل رہا ہے احمدیت کے خلاف ان کے جلسوں کا نام تبلیغ کانفرنس ہوتا تھا۔۱۴۳ مگر یہ تبلیغ محبت و دلائل سے نہیں ڈنڈے کی زبان سے ہوتی تھی۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس حقیقت کی وضاحت دو فقروں میں کر دی ہے چنانچہ لکھا >احرار بھی مناظرات مرزائیہ کو حرام قطعی نہیں جانتے بلکہ اگر ضرورت بود روا باشد پر عمل کرتے ہیں۔ یہی ہمارا طریق ہے فرق اتنا ہے کہ ہمارا مناظرہ کتابی ہوتا ہے اور احرار کے مناظرہ میں بقول ان کے ڈنڈا ~}~ ہر کسے رابہر کارے ساختند<۔۱۴۴
اب ظاہر ہے مذہب اسلام کی تبلیغ کا جھگڑا نہیں کہ لٹھ بازی سے کام لینے کی نوبت آئے چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار فرماتے ہیں۔
>مذہب کی تبلیغ جھگڑا نہیں بلکہ قوموں کے حسن اخلاق کا مقابلہ ہے تم نے محبت سے اور پورے خلوص دل سے دوسروں کو ان کے اپنے فائدہ کے لئے بلانا ہے تمہیں تو حسن نیت کا اجر ملے گا جہاں حسن نیت ہو وہاں جھگڑے کی صورت کیا ہوسکتی ہے اپنے اخلاق عمدہ بناکر دوسروں کو حسن اخلاق کی دعوت دینا ہے پس پہلے نمازوں سے خدائی امداد حاصل کرو۔ محبت کی زبان سے مخلوق خدا کو بلائو۔ خدمت اور قربانی سے دوسروں کا دل جیتنے کی کوشش کرو۔ اپنے ایسے عمل میں اضافہ کرو جس سے مسلمانوں کی نیک سیرت قائم ہو ایسے اخلاق سے بچو جن سے قومیں رسوا ہوتی ہیں۔ کیا تم نے خود محسوس نہیں کیا کہ ہمارے برے اخلاق دنیا کو اسلام سے نفرت دلا رہے ہیں حالانکہ اسلام کی تعلیم نور ہی نور ہے یہ مذہب قومی اور شخصی انصاف کا تقاضا کرتا ہے ظلم اور برائی سے نفرت دلاتا ہے۔ ہمیں ضرور مبلغ بننا ہے اس کے معنے یہ ہوئے کہ پہلے اپنے عمل کو انصاف کے ترازو پر تول کر اس کا پورا جائزہ لینا ہے ہر قسم کی ناانصافی سے توبہ کرنا ہے بلکہ دوسروں کی غلطیاں معاف کرکے ان کی زیادہ سے زیادہ خدمت کا عہد باندھنا ہے دین میں کوئی زبردستی نہیں فریب اور ظلم سے دین نہیں پھیلتا بلکہ شرارت پھیلتی ہے دنیا میں انصاف پھیلائو رحم اور محبت کے ذریعہ دوسروں کے دل میں گھر کرو جس کام کو تم رحم اور محبت کی بناء پر نہ کرو گے اس سے دنیا میں فساد پھیلے گا۔ قرآن بار بار لا تفسدوا فی الارض )زمین میں فساد نہ پھیلائو( کا تقاضا کرتا ہے۔ تبلیغ دین میں اشتعال انگیز حالات پیدا کرنا دنیا کو اپنے مذہب سے نفرت دلانا ہے۔ اچھا عمل میٹھی زبان اور عقل سے اپیل تبلیغ کے لئے نہایت اہم حیثیت رکھتے ہیں اگرچہ عقل بڑی چیز ہے۔ مگر اشاعت مذہب میں اس کا درجہ آخری ہے۔ دنیا پہلے تمہارے عمل کو دیکھے گی۔ پھر جس زبا سے بات کرو گے اس کی شیرینی کو دیکھے گی۔ پھر کہیں اسے عقل سے پرکھے گی<۔۱۴۵
مگر تبلیغ اسلام کا یہ دینی تقاضا مجلس احرار کے ہاتھوں اس سیاسی جنگ میں کس طرح پامال ہوا؟ اس کی نسبت مولانا سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں۔
>اسلام اور قادیانیت مسلمان اور قادیانی ایک خالص دینی اور علمی مسئلہ ہے اس پر اسی حیثیت سے بحث و گفتگو ہونی چاہئے۔ بدقسمتی سے اس مسئلہ کو جذباتی بنا لیا گیا جس سے عوام متاثر بھی ہوئے اور مشتعل بھی۔ پھر اس کے نتیجہ میں ہنگامہ آرائیاں اور فساد انگیزیاں بھی ہوئیں۔ قتل و غارت اور کشت و خون کے مناظر بھی لوگوں نے دیکھے۔ چنانچہ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ ان حرکتوں کے باعث یا تو سرے سے مذہب کے بیزار ہوگیا یا کم از کم اس مسئلہ کو اس نے کوئی اہمیت نہیں دی اور دین ملا فی سبیل اللہ فساد کہہ کر خاموش ہو گیا<۔۱۴۶
قتل کے منصوبے
احراریوں کی اشتعال انگیزی سے کس طرح دلخراش و روح فرسا مناظر سامنے آئے اس کی تفصیل تو اس باب میں بھی اور آئندہ جلدوں میں بھی آئے گی۔ مگر یہاں خاص طور پر یہ بتانا مقصود ہے کہ احرار کی شرر بار تقریروں کے نتیجہ میں شوریدہ سر لوگوں نے احمدیوں کو قتل کرنے کے منصوبے کئے۔ احرار ہی کی اشتعال انگیزی کا اثر تھا کہ اخبار >احسان< )۵/ فروری ۱۹۳۵ء( لاہور نے لکھا۔
>مرزائیوں کو شکر کرنا چاہئے کہ وہ صدیق اکبرؓ کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے۔ ورنہ جس طرح انہوں نے ان نام نہاد مسلمانوں کے خلاف جہاد بالسیف کیا تھا جنہوں نے زکٰوۃ ادا کرنے سے انکار کیا تھا اسی طرح وہ مرزائیوں کا بھی صفایا کر دیتے<۔
پھر ۶/ فروری ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں لکھا۔
>اگر آج مسلمانوں میں حضرت صدیق اکبرؓ ہوتے تو استیصال قادیانیت کے لئے شمشیر آبدار کو نیام سے باہر کرتے<۔۱۴۷
اس عمومی فتویٰ کے علاوہ احراری خطیبوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ذات والا صفات کو خاص طور پر اپنی مخالفت کا مرکز بنا لیا اور بار بار آپ کے قتل کے لئے اکساتے رہے۔ چنانچہ غزنوی خاندان کے ایک امرتسری مولوی صاحب نے ۷/ فروری ۱۹۳۵ء کو ویرووال میں تقریر کرتے ہوئے کہا عنقریب چند یوم میں خلیفہ قادیان قتل کیا جائے گا اور منارہ گرا دیا جائے گا۔ نیز نہایت جوش میں یہاں تک کہا کہ پولیس اور گورنمنٹ سن لے کہ ہم جلدی خلیفہ قادیان کو قتل کرا دیں گے۔۱۴۸
یکم مارچ ۱۹۳۵ء کو ایک احراری مولوی صاحب نے ارائیوں کی مسجد میں تقریر کی کہ >ایک شخص اس قدر تنگ آگیا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ یا تو میں خود کشی کروں گا یا خلیفہ قادیان کو قتل کر دوں گا<۔۱۴۹
قتل و غارت کی یہ دھمکیاں رنگ لائے بغیر نہ رہیں اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو قتل کرنے یا زہر دینے کی متعدد بار کوششیں کی گئیں۔ اس ضمن میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے قلم سے پانچ اہم واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۴۴ء کے موقعہ پر ارشاد فرمایا۔
>پہلا واقعہ: ایک گزشتہ جلسے کا واقعہ ہے۔ میں تقریر کر رہا تھا اور تقریر کرتے کرتے میری عادت ہے کہ میں گرم گرم چائے کے ایک دو گھونٹ پی لیا کرتا ہوں تاکہ گلا درست رہے کہ اسی دوران میں جلسہ گاہ میں کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی اور کہا کہ یہ جلدی حضرت صاحب تک پہنچا دیں کہ حضور کو تقریر کرتے کرتے ضعف ہو رہا ہے چنانچہ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو وہ پیالی ہاتھوں ہاتھ پہنچانی شروع کر دی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ سٹیج پر پہنچ گئی۔ سٹیج پر اتفاقاً کسی شخص کو خیال آگیا اور اس نے احتیاط کے طور پر ذرا سی ملائی چکھی تو اس کی زبان کٹ گئی تب معلوم ہوا کہ اس میں زہر ملی ہوئی ہے۔ اب اگر وہ ملائی مجھ تک پہنچ جاتی اور میں خدانخواستہ اسے چکھ لیتا تو اور کچھ اثر ہوتا یا نہ ہوتا اتنا تو ضرور ہوتا کہ تقریر رک جاتی۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ دیسی عیسائی آیا۔ جس کا نام جے میتھیوز تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ مجھے قتل کر دے یہاں سے جب وہ ناکام لوٹا تو اس کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ اور اس نے اسے قتل کر دیا۔ اس پر عدلت میں مقدمہ چلا اور اس نے سپیشل کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہ اصل بات یہ ہے کہ میرا ارادہ اپنی بیوی کو ہلاک کرنے کا نہیں تھا بلکہ میں مرزا صاحب کو ہلاک کرنا چاہتا تھا میں نے ایک جگہ کسی مولوی کی تقریر سنی جس نے ذکر کیا کہ قادیان کے مرزا صاحب بہت برے آدمی ہیں اور ان میں یہ یہ برائیاں ہیں۔ میں نے اس کی تقریر کے بعد فیصلہ کیا کہ میں قادیان جا کر مرزا صاحب کو مار ڈالوں گا۔ چنانچہ میں پستول لے کر قادیان گیا۔ اتفاقاً اس روز جمعہ تھا۔ جمعہ کے خطبہ میں چونکہ بہت لوگ اکٹھے تھے اس لئے مجھے ان پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ دوسرے دن میں نے سنا کہ وہ پھیروچیچی چلے گئے ہیں۔ میں پستول لے کر ان کے پیچھے پیچھے پھیرو چیچی گیا اور میں نے سمجھا کہ وہاں آسانی سے میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکوں گا۔ مگر وہاں بھی میں نے دیکھا کہ ان کے دروازہ پر ہر وقت پہرے دار بیٹھے رہتے ہیں اس لئے میں واپس آگیا۔ گھر آکر میرا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ اور میں نے اسے مار ڈالا۔ یہ سارا واقعہ اس نے عدالت میں خود بیان کیا حالانکہ ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ کوئی شخص کس نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے۔ لیکن ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے حفاطت کی اور اسے حملہ کرنے میں ناکام رکھا۔
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ احرار کی شورش کے ایام میں میں ایک دن اپنی کوٹھی دارالحمد میں تھا کہ ایک افعان لڑکا آیا اور اس نے کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں میرے چھوٹے بچے اندر آئے اور انہوں نے بتایا کہ ایک لڑکا باہر کھڑا ہے اور وہ ملنا چاہتا ہے میں باہر نکلنے ہی والا تھا کہ میں نے شور کی آواز سنی میں حیران ہوا کہ یہ شور کیسا ہے۔ چنانچہ میں نے دریافت کرایا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ یہ لڑکا قتل کے ارادہ سے آیا تھا۔ مگر عبدالاحد صاحب نے اسے پکڑلیا اور اس سے ایک چھرا بھی انہوں نے برآمد کرلیا ہے۔ میں نے عبدالاحد صاحب سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگ گیا کہ یہ قتل کے ارادہ سے آیا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ لڑکا پٹھان تھا اور ہم پٹھانوں کی عادات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب یہ باتیں کر رہا تھا تو باتیں باتیں کرتے اس نے اپنی ٹانگوں کو اس طرح ہلایا کہ میں فوراً سمجھ گیا کہ اس نے چھرا چھپایا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے ہاتھ ڈالا تو چھرا نکل آیا۔ پولیس نے اس پر مقدمہ بھی چلایا تھا اور غالباً اس نے اقرار کیا تھا کہ میں قتل کی نیت سے ہی قادیان آیا تھا۔ )اس موقعہ پر حضور نے فرمایا کہ میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ اس جیل خانہ میں قید تھا۔ جہاں میں افسر لگا ہوا تھا وہ کہتا تھا کہ میں پہلے دھرم سالہ تک ان کو قتل کرنے کے لئے گیا تھا۔ مگر مجھے کامیابی نہ ہوئی آخر میں قادیان گیا اور پکڑا گیا(
چوتھا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ام طاہر کے مکان کی دیوار پھاند کر ایک شخص اندر کودنا چاہتا تھا کہ لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔ پولیس والے چونکہ ہمارے خلاف تھے اس لئے انہوں نے یہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا کہ یہ پاگل ہے۔
پانچواں واقعہ بالکل تازہ ہے جو کل ہی ہوا ہے۔ کل ہمارے گھر میں دودھ رکھا ہوا تھا کہ میری بیوی کو شبہ پیدا ہوا کہ کسی نے دودھ میں کچھ ڈال دیا ہے چنانچہ اس شبہ کی وجہ سے انہوں نے کہہ دیا کہ اس دودھ کو استعمال نہ کیا جائے ایک دوسری عورت جسے اس کا علم نہیں تھا یا اس نے خیال کیا کہ یہ محض وہم ہے۔ اس نے وہ دودھ پی لیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اب تک متواتر قئیں آرہی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شبہ کیا گیا تھا وہ درست تھا۔
لیکن باوجود اس کے لوگوں نے مجھے ہلاک کرنے کی کئی کوششیں کیں اور ہر رنگ میں انہوں نے زور لگایا چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ خدا کا سایہ میرے سر پر ہو گا۔ اس لئے وہ ہمیشہ میری حفاظت کرتا رہا<۔۱۵۰
دوسرا سیاسی ہتھیار۔ احمدیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ
سیاسیات میں >تقسیم کرو اور حکومت کرو<۔ RULE AND DIVIDE کا ہتھیار بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس ہتھیار سے اگرچہ انگریز اور
ہندو دونوں نے بہت فائدہ اٹھایا مگر جہاں تک مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا تعلق ہے کانگرسی لیڈروں او دوسرے ہندوئوں نے اسے موثر ترین حربہ کے طور پر استعمال کرنے میں ایسی چابک دستی ہوشیاری اور چالاکی کا مظاہرہ کیا ہے کہ حیرت آتی ہے۔
ہم پہلے باب میں گاندھی جی کی اس کوشش کا ذکر کر چکے ہیں جو انہوں نے اچھوتوں کو سیاسی طور پر ہندوئوں کے ساتھ مدغم کرنے کے لئے کی۔ چنانچہ گاندھی جی نے ستمبر ۱۹۳۲ء میں مسٹر رامزے میکڈ انلڈ وزیراعظم برطانیہ کو لکھا۔
)۱(
>میرے لئے یہ معاملہ مذہب کا معاملہ ہے محض سیاسی معاملہ نہیں ہے اچھوتوں کو ۲ ۔ ۲ )دو دو( ووٹ مل جانے سے نہ ان کی حفاظت ہوتی ہے اور نہ ہندو قوم ٹکرے ہونے سے بچ سکتی ہے۔ میں جداگانہ انتخاب کو جو اچھوتوں کو دیا جارہا ہے ایک ایسا زہر سمجھتا ہوں جو ہندو قوم کے جسم میں ٹیکہ کے ذریعے پھیلایا جارہا ہے اور جو ہندو دھرم کو تباہ کر دے گا۔ مگر اچھوتوں کو کوئی نفع نہیں پہنچائے گا<۔
)۲(
>آپ معاملہ کو سمجھنے کے قابل نہیں خواہ آپ کتنے ہی ہمدرد کیوں نہ ہوں میں اچھوتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ نمائندگی دینا برداشت کر سکتا ہوں لیکن میں ان کی قانونی علیحدگی برداشت نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ دھرم کی شرن میں ہیں<۔۱۵۱
عجیب بات ہے کہ وہی ہندو قوم جسے اچھوتوں کی قانونی علیحدگی بھی گوارا نہ تھی اسی نے مسلمانوں میں احمدیوں کے غیر مسلم اور جداگانہ اقلیت قرار دیئے جانے کا سوال اٹھا دیا۔ اور یہ >خدمت< مولوی ظفر علی خان صاحب اور مجلس احرار نے انجام دی۔
واقعہ یہ ہوا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے فیصلہ فرمایا کہ ۵/ مارچ ۱۹۳۳ء کو غیر مسلموں خصوصاً ہندوئوں کو تبلیغ۱۵۲ کی جائے اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔
اس اعلان پر ہندوئوں کی مخالفت۱۵۳ تو قرین قیاس تھی مگر یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ہندوئوں کی حمایت میں مولوی ظفر علی خان صاحب اٹھ کھڑے ہوں گے۔ لیکن ہوا یہی۔ چنانچہ انہوں نے ¶ہندوئوں سے مخصوص اس یوم التبلیغ کے خلاف ۴/ مارچ ۱۹۳۳ء کو >قادیان نمبر< شائع کیا جس میں لکھا۔
>اگر زمیندار یزیدیت کے خلاف جہاد کر رہا ہے تو زمیندار کے لئے قربانی کرو۔ اگر >نور افشاں< یزیدیت کا خاتمہ کر رہا ہے تو >نور افشاں< کی امداد کرو۔ اگر >آریہ مسافر< یزیدیت کے خلاف برسر جنگ ہے تو اس بارہ میں >آریہ مسافر< کا ساتھ دو۔ قادیانیت کے مقابلہ میں ہندو مسلم اور عیسائی کا سوال فضول ہے۔ پہلے روح کو اور روحانیت کو موت سے بچائو۔ اس کے بعد فیصلہ کر لینا کہ اس کی نشوونما کے لئے کونسا طریقہ بہتر ہے<۔
>جہاں تک قادیانیت کا تعلق ہے مخلوق خدا کو متحد ہو کر جنگ کرنا چاہئے<۔
اس کے بعد ۶/ مارچ ۱۹۳۳ء کو لاہور میں مجلس دعوت و ارشاد کے زیر انتظام ایک جلسہ ہوا جس میں بالفاظ زمیندار )۸/ مارچ ۱۹۳۳ء( مہاشہ ادوائیں نند شانت یوگانند نے مولوی ظفر علی خان صاحب کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔
>مرزا غلام احمد ایک دہریہ ہے اور اس کی تعلیم دہریت سے پر ہے یہ اپنے آپ کو کرشن اوتار بتاتا ہے
‏tav.7.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
ہے حالانکہ اس کی تعلیم اس کے خلاف ہے ہم نے اس کی روک تھام کے لئے کام شروع کر دیا ہے۔ ہم ہندوئوں میں سے کسی کو قادیانی نہیں ہونے دیں گے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ان میں سے بھی کوئی قادیانی نہ ہو<۔۱۵۴
رسالہ >دین و دنیا< کا ایک نوٹ مولوی ظفر علی خان صاحب کی نسبت
رسالہ >دین و دنیا< دہلی نے مولوی ظفر علی خاں صاحب کی احمدیت کے خلاف شورش انگیزی کا حقیقی سبب بیان کرتے ہوئے لکھا۔ >پنجاب
نے بلاشبہ ظفر علی خان سے بڑا فتنہ پرواز اور ابن الوقت! آج تک پیدا نہیں کیا ہے۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ظفر علی خاں کا جواب مشکل سے ہندوستان پیش کر سکے گا۔ ظفر علی خاں کی ہر تحریک اور ہر تبدیلی کی تہہ میں زر پرستی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس زر پرستی پر قوم پرستی کا نقاب ڈال کر ہمیشہ ظفر علی خاں نے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا ہے۔ پچھلے دنوں جب کانگریس اور مہا سبھائیوں نے مسلمانوں کے خلاف تمام ہندوستان میں فتنہ برپا کر رکھا تھا۔ اس وقت پراسرار طریقہ پر ظفر علی خاں مہاسبھائی جماعت کے سب سے بڑے حامی بن گئے تھے۔ ہم دوسرے سادہ لوح مسلمانوں کی طرح ظفر علی خاں کی اس تبدیلی کو بھی قوم پرستی ہی سمجھتے۔ اگر ہم کو ایک لاہور کے مخلص دوست سے یہ معلوم نہ ہو جاتا کہ ظفر علی خاں نے باقاعدہ طور پر مہا سبھائیوں سے سودا کیا ہے لیکن ہم کو یہ معلوم کرکے اور بھی رنج ہوا کہ اس سودے کی کچھ اقساط ظفر علی خاں صاحب کو مہاسبھائیوں سے ابھی تک وصول نہیں ہوئیں جس کی بناء پر ظفر علی خاں پھر رفتہ رفتہ کانگریس اور مہاسبھا کو چھوڑ کر مسلمانوں میں ملنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے آج کل قادیانیوں کے خلاف آپ شدید زہر افشانی کر رہے ہیں۔ قادیانیوں کی مخالفت اس لئے نہیں ہو رہی ہے کہ آپ خدانخواستہ قادیانیت کے خلاف ہیں بلکہ مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن شاید ظفر علی خاں کو یہ معلوم نہیں کہ اب آپ کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ دنیا میں کوئی شخص آپ کا یا ایک ایسے شخص کا کیا اعتبار کر سکتا ہے جو بے شرمی کا مجسمہ اور اخلاقی پستی کا پیکر ہو اور جس کے ہاں کی اندرونی زندگی بے انتہاء شرمناک اور اخلاق سوز ہو۔ میرے خیال میں اب مسلمان اتنے بے وقوف نہیں رہے ہیں کہ وہ قومی راہ نمائوں میں اور قوم فروشوں میں فرق محسوس نہ کریں۔ ہم اس نازک موقعہ پر سادہ مزاج مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ظفر علی خاں کے اس فریب سے ہوشیار رہیں جس کے پردے میں قادیانی اور غیر قادیانی۔ سنی۔ شیعہ کا جھگڑا اٹھا کر مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے کی کوشش کسی جدید سودے کی بناء پر ہو رہی ہے۔ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ ظفر علی خاں ہندو سے جو سرتاپا کافر ہے اتحاد کرنے کی تو تعلیم دیتے ہیں اور مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں افتراق پیدا کیا جارہا ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ کیوں ہو رہا ہے اور کس مصلحت کی بناء پر مسلمانوں کے گلے پر چھری پھیری جارہی ہے۔ خدا مسلمانوں کو ظفر علی خاں اور ان کی فتنہ پردازی سے جلد نجات دلائے<۔۱۵۵
اس احتجاج کے باوجود مولوی ظفر علی خاں صاحب نے اپنی روش بدلنے کی بجائے انگریزی حکومت سے یہ مطالبہ پیش کر دیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
اسی زمانہ میں اہلحدیث لیگ بنارس نے مسلمانوں کے مفاد سیاسی کے خلاف حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر فرقہ وارانہ انتخاب کو برقرار رکھنا ضروری ہو تو اہلحدیث کے لئے نشستیں مخصوص کر دی جائیں اس مطالبہ پر >پیسہ اخبار< لاہور )۲۸/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔ ۹( نے لکھا کہ۔
>یہ کیسی مذموم ذہنیت اور کیسا برا خیال ہے کہ ہر شخص ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانے کی ٹھان لے۔ اگر ہر گدی ہر سجادہ اور ہر پیر خانہ کی طرف سے ایسا ہی نامعقول مطالبہ شروع ہو جائے تو پھر ملک میں ہڑبونگ مچ جائے گا اور ایسی مشکل پیدا ہو جائے گی کہ پیروں اور مذہبی فرقوں کے لئے شاید موجودہ تعداد سے بہت زیادہ نشستیں بنانی پڑیں کیونکہ شیعہ` سنی` وہابی` چکڑالوی` مرزائی` رحمان` شاہی` جلالی` جمالی` قادری` نقشبندی` چشتی` سہروردی` نتھے شاھی` نانک شاہی وغیرہ وغیرہ اتنے فرقے نکل آئیں گے کہ کونسلوں کی نشستیں ان کے لئے ہرگز مکتفی نہیں ہو سکتیں۔ مسلمانوں کے ہر حلقہ انتخاب کی طرف سے بہترین تعلیم یافتہ لائق سے لائق اور قومی ضروریات سے واقف اشخاص کو اپنے نمائندے بتانا چاہئے۔ یہ احمق شاہی` جلال شاہی` سنی` وہابی` مرزائی` چکڑالوی کی تمیز درمیان سے اٹھا دینی چاہئے ورنہ ۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے کازکو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے<۔
ظاہر ہے کہ مسلمانان ہند کا ملی مفاد اسی میں تھا کہ وہ ہندوئوں اور دوسری قوموں کے مقابل اپنے سیاسی حقوق کی خاطر متحد رہیں اپنے لئے علیحدہ نشستوں کے مخصوص کئے جانے کا مطالبہ نہ کریں۔ مگر افسوس جہاں دوسرے مسلمان اخباروں نے مسلمانوں کو متحد العمل رہنے کی تلقین کی وہاں مولوی ظفر علی خاں صاحب اور مجلس احرار نے یہ مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ >مرزائی< مسلمانوں سے الگ جداگانہ اقلیت ہیں انہیں سیاسی حقوق کے لحاظ سے مسلمانوں میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے حقوق غصب کرکے ان کی سیاست پر چھائے جارہے ہیں اور ان کا وجود مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس مطالبہ کے پیچھے خاص طور پر یہ مقصد کام کر رہا تھا کہ وہ مسلمان قوم جو ہندوئوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہی تھی اور اسی لئے کانگریس کی >قومیت متحدہ< سے بھی لرزاں و ترساں تھی اپنی توجہات کا رخ ہندوئوں کی بجائے براہ راست احمدیوں کی طرف کرکے آپس میں الجھ جائے۔ اگر مطالبہ کے اغراض میں یہ امر کارفرما نہ تھا تو آخر وجہ کیا ہے کہ وہی امیر شریعت احرار جو احمدیوں کو مسلم سیاست کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے تھے۔ مسلمانوں کو ہندوئوں کی نسبت یہ تلقین فرماتے۔
>سبحان اللہ! کہتے ہیں ہندو ہم کو کھا جائے گا۔ مسلمان پورا اونٹ کھا جاتا ہے پوری بھینس کھا جاتا ہے اس کو ہندو کیسے کھا سکتا ہے جو چڑیا بھی نہیں کھا سکتا ۔۔۔۔۔۔ آج جنگل کا بادشاہ شیر رو رہا ہے کہ کیا کروں بکریوں کے ریوڑ بہت ہو گئے مجھے کھا جائیں گے۔ باز رو رہا ہے چڑیاں بہت زیادہ ہو گئیں مجھے کھا جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان تو سڑک کے درمیان لیٹ جاتا ہے )یعنی دفن کر دیا جاتا ہے( تو حکومتیں بھی اس کو وہاں سے نہیں ہٹا سکتیں<۔۱۵۶
مجلس احرار نے اس سیاسی مطالبہ کے جواز میں جو >مذہبی< دلائل پیش کئے ان میں سے دو خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اول۔ ہر نئے نبی کی آمد سے امت بھی بدل جاتی ہے لہذا >قادیانیوں< کا امت مسلمہ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ حالانکہ یہ بنیاد ہی سراسر غلط تھی۔ جو نبی پہلی شریعت کی تجدید و احیاء کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ وہ کوئی نئی امت نہیں ہوتے۔ یہ ایسی واضح حقیقت ہے کہ اسے مولانا ابو الکلام صاحب آزاد بھی >البلاغ< )بابت ۱۲/ نومبر ۱۹۱۵ء( میں تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
>قرآن کریم میں اگرچہ نبوت کے عام اشتراک جنسی کی بناء پر تمام انبیاء کرام کا نام ایک ساتھ اور ایک حیثیت سے آیا ہے لیکن بعض خصوصیات نوعی کے لحاظ سے اس نے انبیاء کے جو مختلف طبقات قائم کر دیئے ہیں ان میں دو سلسلے عام طور پر ممتاز نظر آتے ہیں۔ ایک سلسلہ ان انبیاء و موسسین کا ہے۔ جنہوں نے اپنی دعوت کے ذریعہ قومیتوں کی بنیاد ڈالی اور جو قدیم عمارتوں کی اصلاح کے لئے نہیں بلکہ از سر نو ایک نئی قومی عمارت بنانے کے لئے آئے تھے دوسرا سلسلہ انبیاء مجددین و محدثین )بالفتح( کا ہے۔ جنہوں نے کسی نئی امت کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ کسی پیشتر کی قائم شدہ امت صالحہ کی مزید تکمیل و تبلیغ کی۔ یا امتداد عہد کے نتائج مضلہ و استیلائے بدعات و محدثات سے اسے نجات دلا کر فرض تجدید و احیاء ادا کیا<۔۱۵۷
دوم: احراریوں نے احمدیوں کو جداگانہ اقلیت قرار دینے کی دوسری دلیل یہ دی کہ احمدی چونکہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ اس لئے وہ امت محمدیہ میں شامل نہیں سمجھے جا سکتے حالانکہ جیسا کہ ہم متعدد بار بتا چکے ہیں کہ جماعت احمدیہ دنیا بھر میں بسنے والے تمام کلمہ گو مسلمانوں کو حکومت اسلامی کی آئینی اور قانونی تعریف اور اصطلاح کی رو سے مسلمان ہی سمجھتی ہے اور اسے عالم اسلام کے سیاسی اتحاد کا نقطہ مرکز یہ قرار دیتی ہے مگر جہاں تک روح اسلامی کا تعلق ہے دوسرے مسلمان بھی خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس زمانہ کے مسلمان کہلانے والے عملی اعتبار سے مسلمان نہیں ہیں۔۱۵۸
پس محض اس وجہ سے کہ جماعت احمدیہ دوسرے مسلمانوں کو سیاسی اور آئینی اعتبار سے مسلمان سمجھتی ہے ملت اسلامیہ سے الگ نہیں کی جا سکتی تھی اور احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ بالکل ناجائز اور ہر لحاظ سے ناروا اور نامناسب تھا جو صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر اختیار کیا گیا مگر بدقسمتی سے اسے ایک شرعی فتویٰ کی حیثیت دے دی گئی جو گاندھی جی کی تحریک سے احراری علماء کی وابستگی کا ایک کرشمہ تھا۔
چنانچہ اخبار >زمیندار< نے ایک بار اسی طرز کی >شرعی< سیاست کاریوں کے بارے میں یہ رائے دی تھی۔
>بدقسمتی سے جب >تحریک خلافت< نے مہاتما گاندھی کی سیاسی تحریک سے اپنا دامن باندھا تو بہت سے ایسے علماء جنہوں نے اپنی تمام عمر مدرسوں اور حجروں اور مسجدوں کے مصلوں پر گزاری تھی۔ مختلف طریقوں سے سیاسی میدان میں لائے گئے اور ان سے فتویٰ حاصل کرکے سیاسی جدوجہد کو تقویت پہنچائی گئی۔ یہ ایک طویل داستان ہے جس کے بعض پہلو افسوسناک اور شرمناک بھی ہیں بہرحال اس وقت سے حالت یہ ہو گئی ہے کہ ایک طرف تو سینکڑوں ایسے نقلی علماء میدان میں نظر آنے لگے جن کو کسی حیثیت سے فتویٰ جاری کرنے کا حق حاصل نہ تھا اور دوسری طرف عوام کے اندر یہ ذہنیت پیدا ہو گئی کہ وہ ہر معمولی سے معمولی سیاسی مسئلہ کو علماء کی جانب رجوع کرنے لگے<۔۱۵۹
اسی طرح پاکستان کے مشہور محقق و مورخ عاشق حسین صاحب بٹالوی >ہماری قومی جدوجہد< میں لکھتے ہیں۔
>جہاں تک ملکی سیاسست کا تعلق ہے ہندوستان کے پیشہ ور مولویوں نے کتاب و سنت کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا تھا جب کانگریس نے ترک موالات کا ریزولیوشن پاس کیا تو جمعیتہ العلماء نے بھی قرآن و حدیث کی بناء پر ترک موالات کا فتویٰ دے دیا۔ پھر حالات بدلے اور سی۔ آر داس اور موتی لال نہرو نے سوراج پارٹی قائم کرکے کونسلوں کے مقاطعہ کی شرط اٹھا دی تو ان ہی پیشہ ور مولویوں نے جھٹ پہلا فتویٰ منسوخ کرکے کونسلوں میں داخلے کو جائز قرار دینے کی غرض سے نیا فتویٰ داغ دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان پر انگریز مسلط تھے اور ہندوستان کے لئے ہر قسم کا آئین برطانیہ کی پارلیمنٹ سے منظور ہو کر آتا تھا۔ پارلیمنٹری نظام ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کے لئے انگریزی زبان` انگریزی قانون` انگریزی روایات` انگریزی تاریخ` انگریزی سلطنت اور انگریزی کانسٹی ٹیوشن پر مکمل عبور درکار ہے۔ ہندوستان کے پیشہ ور مولویوں کو اس پورے نظام کی الف ب سے بھی شناسائی نہ تھی۔
برطانیہ کا ارادہ تھا کہ ہندوستان میں بتدریج >پارلیمنٹری جمہوریت< کی طرز کا آئین نافذ کیا جائے گا۔ یہ آئین سراسر برطانیہ کی سرزمین سے پیدا ہوا تھا۔ ہندوستان اس سے قطعاً ناآشنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیشہ ور مولوی جن کا مبلغ علم درس نظامی تک محدود تھا۔ اس طرز حکومت کے مبادی بھی سمجھنے سے معذور تھے وہ صرف رفع یدین۔ آمین بالجہر اور حیات و وفات مسیح پر بحث کر سکتے تھے<۔۱۶۰
بالاخر یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ہندوئوں اور سکھوں نے احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ نشستیں متعین کئے جانے کے احراری مطالبہ کی پرزور تائید کی۔ چنانچہ سکھوں کے مشہور اخبار >شیر پنجاب< نے لکھا۔
>ہم اس کی بزور تائید کرتے ہیں اور گورنر صاحب بہادر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر پنجاب میں کم از کم ۵ فیصدی نشستیں کونسل میں اور دو نشستیں مرکزی اسمبلی میں دی جائیں اس سے کئی پولٹیکل پیچیدگیاں سلجھ جائیں گی<۔۱۶۱
ہندئوں کے مشہور اخبار >ملاپ< اور >آریہ گزٹ< نے لکھا۔
>جب احمدیوں کو مسلمان لیڈر اور علماء اور عوام مسلمان ہی نہیں سمجھتے تو پھر یہ کس فرقہ میں شمار ہوں<۔
>چونکہ یہ مسلمانوں میں سے ہیں اس لئے ان کے لئے مسلمانوں کی نشستوں میں سے کچھ نشستیں مخصوص کر دی جائیں۔ احمدیوں کا بھلا بھی اسی میں ہے کیونکہ الیکشن میں تو کوئی مسلمان ان کو ووٹ دے کر کونسل میں نہیں بھیجے گا اور نامزدگی کا سلسلہ آئندہ کونسل میں ہو گا نہیں اس لئے احمدیوں کی نمائندگی کرنے والا کونسل میں کوئی نہ ہو گا<۔۱۶۲
ہندوئوں کی اس منطق پر اخبار >الفضل< نے یہ تبصرہ کیا کہ۔
>اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت احمدیہ جداگانہ اقلیت بن کر مسلمانوں کی نشستوں میں سے ہی اپنا حصہ لے گی۔ کیونکہ مسلمانوں کی نیابت کی جو نسبت قرار دی گئی ہے۔ وہ بشمول جماعت احمدیہ قرار دی گئی ہے اور خواہ وہ حصہ کتنا ہی قلیل حصہ ہو اس کی وجہ سے مسلمانوں کی نشستوں میں یقیناً کمی واقع ہو گی۔ اس میں جماعت احمدیہ کا تو فائدہ ہی ہے جیسا کہ ہم پہلے لکھ بھی چکے ہیں۔ اور خود >ملاپ< نے بھی اپنے مندرجہ بالا الفاظ میں تسلیم کیا ہے۔ مگر مسلمانوں کے لئے سخت نقصان رساں ہے۔ پنجاب میں مسلمانوں کو ناخنوں تک کا زور لگانے کے بعد جو اکثریت حاصل ہوئی ہے اور وہ بھی اس لئے کہ تمام مسلمانوں نے متحد ہو کر اس کا مطالبہ کیا وہ نہایت ہی قلیل ہے اور جماعت احمدیہ کے جداگانہ اقلیت قرار پا جانے کی صورت میں وہ قطعاً قائم نہ رہ سکے گی۔ یہی غرض ان لوگوں کے مدنظر ہے جو احراریوں کی تائید کر رہے ہیں۔ پھر جماعت احمدیہ کو یہ پوزیشن حاصل ہو جانے پر بات یہیں ختم نہ ہو جائے گی بلکہ شیعہ اور اہلحدیث مسلمان جو پہلے سے ہی جداگانہ اقلیت بننے کی ضرورت محسوس کررہے اور اس کے لئے زور لگا رہے ہیں۔ وہ بھی اپنے مطالبہ میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کی جو حالت ہو سکتی ہے۔ اسے تصور میں لاکر غور کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو جداگانہ اقلیت قرار دینے کی اس قدر پرزور حمایت و تائید پنجاب کا غیر مسلم پریس کیوں کر رہا ہے اور احراری اس مطالبہ کو پیش کرکے مسلمانوں کی تباہی کے لئے کتنا گہرا گڑھا کھود رہے ہیں<۔۱۶۳
تیسرا ہتھیار
جماعت احمدیہ کی گہری ہمدردیاں ہمیشہ ہی مسلم لیگ کے ساتھ وابستہ رہی تھیں۔ اس لئے مجلس احرار اسلام ہند نے جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے بھی وہی سیاسی حربے استعمال کئے جو کانگریس اور اس کے ہمنوا علماء ہمیشہ مسلم لیگ کے خلاف استعمال کرتے آرہے تھے اور وہ یہ کہ معاذ اللہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریز کے جاسوس تھے۔ اور یہ کہ احمدی برطانوی امپیر یلزم کے کھلے ایجنٹ ہیں۔۱۶۴ دوسروں کو انگریز کے پٹھو ہونے کا الزام دینا کانگریس کے ہندو لیڈروں کا ایسا دل پسند اور عام حربہ تھا کہ جو دراصل ان دنوں وہ اپنے حریف کو خواہ وہ ان کا ہم خیال ہی کیوں نہ ہو ناکام بنانے کے لئے کھلے بندوں اور بے دریغ استعمال کرتے تھے۔ جیسا کہ چودھری افضل حق صاحب تحریک کشمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>مہاتما گاندھی بڑے دھڑلے کا آدمی ہے جس کے برخلاف ہو جائے اس کو خاک میں ملا کر چھوڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لنڈن میں آپ نے سنا کہ احرار کشمیر پر چڑھ دوڑے۔ اس مرد دانا نے ۔۔۔۔۔۔ اعلان کیا کہ یہ تحریک انگریز کی تقویت کے لئے شروع کی گئی ہے اس زمانے میں اس دائوں سے کوئی بچتا تھا اس دائوں کا گھائو گہرا ہوا<۔۱۶۵
مجلس احرار اسلام ہند کے جوشیلے لیڈروں نے کانگریس کے اس سیاسی >دائوں< سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا اور اپنے نظریات سے اختلاف کرنے والوں کو انگریزوں کے جاسوس اور ایجنٹ قرار دینے میں ہمیشہ انتہائی تشدد پسندی کا مظاہرہ کیا۔ بطور نمونہ صرف چند تحریرات درج ذیل کی جاتی ہیں۔
)۱(
>حکومت برطانیہ کی اجازت سے تحریک خاکسار کی ابتداء کی گئی۱۶۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ < )چوھدری افضل حق صاحب(
)۲(
>لیگ کا نقاب اوڑھے ہوئے انگریز کا ایجنٹ ایسے مواقع کی تاک میں رہتا ہے<۔۱۶۷ )چوہدری افضل حق صاحب(
)۳(
>لیگی وزارتیں مسٹر جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ انگریزوں کے رہین منت ہیں اور انگریزوں کے اشارے پر ناچ رہے ہیں<۔۱۶۸
)۴(
>آئندہ دور کا مورخ لکھے گا کہ ہندوستان کے نام نہاد مسلمانوں کی رائے عامہ مدتوں ان لوگوں کی طرف دار رہی ہے جو بلحاظ ضمیر مردہ تھے اور ۔۔۔۔۔۔۔ حکومت انگلشیہ کے خود کاشتہ پودے<۔۱۶۹
‏in] gat)[۵(
>سوچ لو پاکستان کی تحریک بھی برطانوی جھانسہ ہی نہ ہو ۔۔۔۔۔<۱۷۰ )چوہدری افضل حق صاحب(
)۶(
>ہر ملک کے مقامی مولویوں کو اپنے ساتھ گانٹھ کر ان سے جاسوسی کے کام لئے جاتے ہیں۔ وہاں ولی بنائے جاتے ہیں۔ مزار قائم کئے جاتے ہیں۔ معجزہ دکھانے والے پیر بنائے جاتے ہیں<۔۱۷۱ )ڈاکٹر صابر صاحب ملتانی(
)۷(
>دوسرا کام )عیسائیوں نے۔ ناقل( یہ کیا کہ مسلمان نام کے چند >خود کاشتہ پودے< تلاش کرکے تیار کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ قادیان` علی گڑھ` چکڑالہ` ربوہ اور >مولوی کا غلط مذہب<۔ >طلوع اسلام<۔ >تجدید و احیائے دیں< اور خلیفہ عبدالحکیم کی >ثقافت اسلامیہ< وغیرہ کو اسی سلسلہ کی کڑیاں سمجھنا چاہئے<۔۱۷۲ )مولوی شمس الدین صاحب ہزاروی(
مجلس احرار اسلام کی مندرجہ بالا تحریرات کے مطابق خاکسار تحریک` مسلم لیگ` ڈاکٹر سر محمد اقبال` نظریہ پاکستان` مختلف اسلامی ممالک کے علماء` جماعت احمدیہ` سرسید` چکڑالوی تحریک` پرویزی تحریک` جماعت اسلامی اور ثقافت اسلامیہ سب انگریزی استعمار کا شاہکار ہیں اور فرنگیت کی پیداوار!!۱۷۳
ایک غلط بات کو صحیح اور درست ثابت کرنے کے لئے کئی بے بنیاد باتیں اپنے ذہن سے اختراع کرنا پڑتی ہیں۔ یہی راہ مجلس احرار نے اختیار کی اور اس نے اپنے فرضی افسانہ کو حقائق کی شکل میں ڈھالنے کے لئے بہت سی بے سروپا باتوں کا سہارا لیا۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
۱۔ احرار نے اپنے فسانہ کو دقیع بنانے کے لئے یہ بھی کہا کہ >مجاہدین کی ان پیش قدمیوں کو دیکھ کر انگریز نے ایک نئی چال چلی کہ اسلامی جذبہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی مرکزیت کو ختم کرنے کی کوئی سبیل بنانی چاہئے۔ اس اہم کام کی سرانجام دہی کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کو تیار کیا۔ اس سے نبوت کا دعویٰ کرانے کے بعد اسلامی رنگ میں فتویٰ صادر کرایا کہ اب جہاد ہمیشہ کے لئے حرام ہو چکا ہے<۔ ۔۔۔۔۔۔۔۱۷۴
انگریزوں کے خلاف تحریک ۱۸۵۷ء میں اٹھی اور جماعت احمدیہ کا قیام ۱۸۸۹ء میں ہوا۔ گویا افسانہ سازوں کی نگاہ میں انگریز بتیس سال تک تو صرف اسی نسخہ کی سوچ بچار میں رہا کہ کسی ایک شخص کو >نبی< بنا دینا چاہئے تو اسلامی مرکزیت ختم ہو جائے گی۔ یا للعجب۔ پھر اس کے خاتمہ کی جو یہ صورت تجویز کی گئی کہ جہاد کے۱۷۵ حرام ہونے کا فتویٰ صادر کرالیا۔ تو یہ بات بھی غلط ہے اس ئے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جہاد بالسیف کے التواء کا فتویٰ ۱۹۰۰ء میں دیا۔ مگر ہندوستان کے مشہور و مستند علماء ہی نہیں مکہ کے چاروں مفتی مدتوں قبل یہ فتوی دے چکے تھے پس جو کام ہندوستان اور عرب کے علماء برسوں سے کامیابی کے ساتھ انجام دے چکے تھے اس کے لئے اب کسی >نبی< کے کھڑے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پھر یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیشہ کے لئے جہاد بالسیف حرام قرار دیا یہ بھی محض بہتان ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف >نور الحق< حصہ اول صفحہ ۴۵ پر صاف تحریر فرماتے ہیں کہ
>جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کومسلمان ہونے سے روکتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنوں پر واجب ہے جو ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں<۔۱۷۶
پھر فرمایا۔
و امرنا ان نعد للکفرین کما یعدون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام۔۱۷۷
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم کفار کے مقابلہ کے لئے اسی طرح تیاری کریں جس طرح وہ تیاری کرتے ہیں۔ اور جب تک ہمیں تلوار سے قتل نہ کیا جائے ہم ابتداء تلوار نہ اٹھائیں۔
نیز ارشاد فرمایا۔
>اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں۔ مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں۔ دین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں یہی جہاد ہے جب تک خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کر دے<۔۱۷۸
۲۔ احرار نے یہ بھی پراپیگنڈا کیا کہ >جب فرنگی نے نبی پیدا کر لیا تو اس کے تمام کام آسان ہو گئے کیونکہ اسلام کو ختم اور مسلمانوں کو فنا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سامراجی قوتوں کو قائم رکھنے کے لئے تمام ذمہ داریاں اس نبی اور اس کی امت نے اپنے سر لے لیں<۔۱۷۹
احرار کا تو یہ پراپیگنڈا ہے مگر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دعویٰ مسیحیت سے متعلق اپنی پہلی ہی کتاب >فتح اسلام< میں یہ ارشاد فرمایا ہے۔
>یہ کرسچن قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک ان کے اس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پرزور ہاتھ نہ دکھا دے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اس معجزہ سے اس طلسم کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو مخلصی حاصل ہونا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے سو خدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور اپنی برکات خاصہ سے مشرف کرکے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرہ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا ۔۔۔۔۔۔۔ تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے تیار کیا ہے<۔۱۸۰
۳۔ احمدیوں کے انگریزی ایجنٹ ہونے کی ایک >دلیل< یہ بھی دی گئی کہ ان کے ذریعہ سے مسلم ممالک میں برطانوی استعمار مستحکم ہوا۔ حالانکہ جماعت احمدیہ کا قیام بعد کو ہوا اور انگریز پہلے ہی ہر طرف چھا چکے تھے حتیٰ کہ افغانستان جیسے مسلمان ملک کے فرمانروا امیر عبدالرحمن کی نسبت برصغیر کے نامور عالم مولوی محمد علی صاحب قصوری لکھتے ہیں۔
>انگریزی حکومت کے ہندوستان میں قیام کے بعد اس کی افعانستان سے آئے دن چقپلش رہتی تھی بالاخر انگریزوں نے امیر عبدالرحمن کو کابل کے تخت پر بٹھلایا اور ان سے معاہدہ کیا کہ وہ ہندوستانی سرحدوں پر افغان قبائل کی یورش کی روک تھام کرتے رہیں گے اور اس کے صلے میں انہیں بارہ لاکھ سالانہ وظیفہ دینا منظور کیا۔ امیر عبدالرحمن مرحوم نہایت جابر بادشاہ تھے انہوں نے افغانوں کی روح آزادی کچلنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا<۔۱۸۱
اسی طرح امیر حبیب اللہ صاحب کی نسبت لکھتے ہیں۔
>امیر صاحب کا سارا بجٹ انگریزوں کے روپے کا مرہون احسان تھا۔ ان کا تمام ذاتی خرچ ہندوستان کے امدادی روپے سے چلتا تھا۔ پھر مختلف بیش قیمت تحائف بھی سرکار انگریزی سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پہنچتے رہتے تھے۔ بڑے بڑے افغان افسر تقریباً تمام انگریزوں کے تنخواہ دار تھے<۔۱۸۲
ہندوستان میں جہاں ۱۸۵۸ء سے عنان حکومت براہ راست برطانیہ کے ہاتھ میں آچکی تھی مسلمانوں اور ان کے اداروں کو حکومت انگریزی کی طرف سے جاگیروں خطابوں اور انعاموں سے نوازا گیا جس کی بہت سی تفصیل سر لیپل گریفن کی کتاب >رئوسائے پنجاب< میں موجود ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ احمدیت کے سب سے پہلے اور بڑے مخالف ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو کتاب >الاقتصاد فی مسائل الجہاد<۱۸۳ لکھنے پر چار مربعے دیئے گئے جس کا ذکر خود ان کے قلم سے اشاعت السنہ جلد ۱۹ نمبر ۱ صفحہ ہ/۱ پر موجود ہے۔
غرضکہ کہاں تک بیان کیا جائے حقائق و واقعات سے ثابت ہے کہ جماعت کے قیام سے قبل اور اس کے بعد مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی طبقات بلکہ حکمران تک انگریز کے رہین منت اور تابع فرمان تھے ان حالات میں جماعت احمدیہ پر برطانوی استعمار کے مضبوط کرنے کا الزام جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے بالخصوص جبکہ کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ جماعت احمدیہ نے کبھی انگریزی حکومت سے رعایا کے عام حقوق سے بالا کوئی فائدہ اٹھایا ہو۔
۴۔ سکھوں کے زمانہ حکومت میں مسلمان سچ مچ ایک دہکتے ہوئے تنور میں پڑے ہوئے تھے کہ انگریزی حکومت کی وجہ سے مذہبی آزادی نصیب ہوئی۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محض اس احسان کے باعث اپنی کتابوں میں انگریزوں کی تعریف فرمائی ہے۔ احراری یہ تعریف اپنے ماحول سے الگ کرکے سناتے اور نتیجہ یہ اخذ کرتے تھے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کی ایجنٹ ہے یہ اصول احراری ذہن کی پیداوار تھا جس کو صحیح تسلیم کر لینے سے مسلمانوں کے تمام فرقے اور ان کے جید علماء اور زعماء انگریزوں کے پٹھوئوں اور ٹوڈیوں کی فہرست میں داخل ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً امیر شریعت احرار کے استاد۱۸۴ مولوی ظفر علی خاں صاحب۱۸۵ اور >حکیم الامت< ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب۱۸۶ بھی کیونکہ ان کی تحریرات انگریز کی مدح سرائی سے بھری پڑی ہیں۔
چوتھا ہتھیار
جماعت احمدیہ کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دینے والے احراریوں نے احمدیت کو شکست دینے کے لئے چوتھا ہتھیار یہ استعمال کیا کہ یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ احمدی لوگ نہ صرف درپردہ انگریزی حکومت کے مخالف ہیں بلکہ اپنی طاقت بڑھا کر سیاسی اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے قادیان میں ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ جس کے قوانین برطانوی آئین سے مزاحم ہیں۔
مجلس احرار کا یہ نظریہ اگرچہ ان کے اس خیال کے بالکل برعکس تھا کہ احمدی برطانیہ کے جاسوس ہیں مگر سیاست کے ان شاطروں نے اسے بڑی کثرت و شدت کے ساتھ پیش کیا۔ یہ ہتھیار تحریک کشمیر کے شروع میں براہ راست ہندو قوم کے سیاسی کارخانے سے ڈھل کر آیا تھا اور اس کا مقصد جماعت احمدیہ اور حکومت کو آپس میں الجھانا اور لڑانا تھا۔
چنانچہ آریہ اخبار >پرکاش< )۲۸/ فروری ۱۹۳۲ء( نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ایک تقریر مندرجہ >الفضل< )۱۸/ فروری ۱۹۳۲ء( سے چند سطور نقل کرنے کے بعد لکھا۔
>ان سطور میں مرزا جو کہہ گئے کوئی کانگرسی اس سے زیادہ کیا کہے گا۔ ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ کانگریسی اپنے بیگانوں سب کے سامنے ایک ہی بات کہتا ہے لیکن قادیانی خلیفہ اپنے پولٹیکل آقائوں کے سامنے ان کی وفاداری کا دم بھرتا ہے لیکن اپنے مریدوں کے سامنے حکومت پر نکتہ چینی کی جرات دکھا سکتا ہے<۔۱۸۷
ہندو پریس کے اس پراپیگنڈا کو عوام اور حکومت دونوں تک پھیلانے کا کام مولوی ظفر علی خاں صاحب نے اپنے ذمہ لیا اور ۲۴/ فروری ۱۹۳۳ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔
>ہم جارج پنجم کی حکومت سے کہتے ہیں کہ از برائے مسیحؑ ہمیں اس *** سے بچائیے کہ ہمارے نبی عیسیٰؑ کو گالیاں دی جائیں ۔۔۔۔۔۔ مسیحیت۱۸۸ کی غیرت آج مر گئی ہے<۔
>آج خواہ حکومت کی وقتی مصلحتیں قادیانیوں کو اس کی چہیتی امت بنا دیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ آڑے وقتوں میں حکومت کے ہرگز کام نہیں آسکتے۔ حکومت کی مدد سر عمر حیات خاں` سر فیروز خاں نون` سر سکندر حیات خاں` خاں بہادر رحیم بخش کر سکتے ہیں یا یہ قادیانی جنہیں کسی بات کا شعور نہیں۔ حکومت کی اعانت ان قادیانیوں نے نہیں کی بلکہ ان مسلمانوں نے کی جو عراق و شام میں ثمن قلیل کے عوض اپنا دین و ایمان بیچ آئے<۔۱۸۹
اسی طرح اخبار >زمیندار< نے اس سے بھی واضح لفظوں میں لکھا۔ >قادیان میں جو قوانین نافذ ہیں وہ برطانی قوانین سے ٹکرا رہے ہیں<۔۱۹۰
ہندو اور مولوی ظفر علی خاں صاحب کے دوش بدوش اب مجلس احرار نے بھی اس کی اشاعت میں سرگرمی دکھانا شروع کی۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی نے ۲۰/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مسجد خیر الدین امرتسر میں تقریر کی جس میں کہا۔
>میں احمدیوں کو کافر مانتا ہوں۔ مگر میری وجوہات اور ہیں اور آپ کی اور۔ میں اس لئے ان کو کافر نہیں مانتا کہ یہ انگریزوں کو >اولو الامر منکم< مانتے ہیں یا جہاد کے منکر ہیں یا قرآن کے منکر ہیں یا مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ میری اور وجوہات ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے مولویوں کے فتاویٰ کفر پڑھے ہیں انہوں نے گھبرا کر اور احمدیوں سے مرعوب ہو کر ایسے فتوے دیئے یہ مولویوں کی کمزوری ہے۔ اگر آج یہ انگریزوں کے خلاف جنگ کریں یا جہاد کریں اور ختم نبوت مانیں تو کیا تم ان کو مسلمان مان لو گے ہرگز نہیں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ان کے کفر کی اور ہی وجوہات ہیں۔ انگریزوں کے خلاف تو یہ ضرور ہی جنگ کریں گے جیسا کہ ان کے ارادے ہیں۔ ان کی عورتیں` بچے` بوڑھے` چھوٹے اور بڑے بندوقوں اور تلواروں اور پستولوں کے لائسنس لے رہے ہیں اور مشق کر رہے ہیں ان کی عورتیں نشانہ بازی کرتی ہیں۔ مرزائیوں کو معلوم ہے کہ گورنمنٹ مسلمانوں سے ڈر کر ہمارا ساتھ چھوڑ دے گی۔ اس وقت یہ لوگ فوراً میدان جنگ میں کود پڑیں گے۔ میرے نزدیک ان کے کفر کی وجہ یہ ہے۔ ایک اور وجہ مرزائیوں کے کفر کی یہ ہے کہ محمد کے تو قائل ہین مگر رسول اللہ کے منکر ۔۔۔۔۔۔
احمدی اپنی سیاسی طاقت کو بڑھا کر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری اور گورنمنٹ کی سیاسی طاقت کو یہ آہستہ آہستہ چھین رہے ہیں۔ گورنمنٹ بے وقوف ہے اسے سمجھ نہیں آتی۔ ہم نے ان کی طاقت کو دبانا اور سیاسی قوت کو تباہ کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم نے ایک سال کے لئے عہد کر لیا ہے کہ نہ چماروں کو نہ ہندوئوں اور سکھوں کو نہ عیسائیوں کو تبلیغ کریں گے اور نہ ان کے پاس جائیں گے۔ صرف استیصال مرزائیت کریں گے۔ اس کام کے لئے احرار اسلام نے شعبہ تبلیغ الگ کرایا ہے۔ جس کے سیکرٹری مولوی دائود صاحب غزنوی ۔۔۔۔۔۔ اور صدر میں ہوں۔ اب یہ کام ہم نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ انشاء اللہ وہ دن نزدیک ہیں کہ مرزا محمود جیل میں ہو گا اور جیل خانہ کی ہوا کھائے گا۔
ختم نبوت کی وجہ سے اس لئے ان کو کافر جانتا ہوں کہ اب تو خواہ رسول آئے خواہ کتا آئے دونوں برابر ہیں۔ ایک ہندو نے مجھ سے سوال کیا کہ جب نبوت کا دروازہ کھلا ہے تو مہاتما گاندھی نبی کیوں نہیں ہو سکتے۔ کیا انہوں نے نبیوں اور رسولوں والے خصائل اور اخلاق کا نمونہ نہیں دکھایا۔ میں نے اس ہندو کو کہا کہ واقعی تمہارا سوال درست اور وزنی ہے۔
اب ہم نے قادیان میں جھنڈے گاڑ دیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مرزائیوں کو مٹانے کا پکا عہد کر لیا ہے۔ تم جماعت بندی کرو۔ اپنی سیاسی طاقت کو بڑھائو تاکہ ہم ان کا مقابلہ کر سکیں<۔۱۹۱
دوسرا باب )فصل ششم(
انگریزی حکومت کی طرف سے
جماعت احمدیہ کی مخالفت
اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ ہندوئوں اور ان کی ہمنوائی میں مجلس احرار نے انگریزی حکومت کو جماعت احمدیہ کے خلاف مشتعل کرنے اور اکسانے کا جو چوتھا خطرناک ہتھیار استعمال کیا۔ وہ صرف چند تقریروں اور تحریروں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے اس کے ساتھ ہی سرکاری حلقوں میں اندر ہی اندر ایسی راہ نکال لی کہ حکومت انگریزی کے اعلیٰ افسر مثلاً وائسرائے` گورنر پنجاب وغیرہ اس پراپیگنڈا کا شکار ہو گئے اور جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور خود حکومت سلسلہ احمدیہ کے مقابلہ کے لئے ڈٹ کر سامنے آگئی۔
جماعت احمدیہ اور انگریزی حکومت
مگر قبل اس کے کہ اس کی تفصیل پر روشنی ڈالی جائے ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ مہدی سوڈانی کے خلاف نبرد آزما ہونے کی وجہ سے انگریزی حکومت کے لئے کسی شخص کا دعویٰ مہدویت کرنا بہت بڑی وجہ اشتعال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ برطانوی حکومت نے اپنے آئین و قانون کے مطابق جہاں ہندوستان کی تمام رعایا کو مذہبی آزادی دی وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا۔ مگر جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء کے الفضل میں تحریر فرمایا۔ شروع ہی سے وہ آپ کو اور آپ کی تحریک کو مشکوک نگاہ سے دیکھتی اور کڑی نگرانی رکھتی آرہی تھی۔ خفیہ پولیس حضور علیہ السلام سے متعلق رپورٹیں بھجواتی۔ قادیان جانے والے مہمانوں کی نگرانی کرتی اور ہمیشہ اس تاک میں رہتی کہ کسی منصوبہ کا پتہ لگتے ہی آپ کو گرفتار کر لیا جائے بعض انگریز حکام ان رئوساء کو جن کی نسبت ان کو معلوم ہوتا کہ احمدیت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں بوقت ملاقات اشارۃ" کہہ دیتے کہ گورنمنٹ تو اس سلسلہ کو مشکوک نظر سے دیکھتی ہے پھر آپ اس سے کیوں وابستہ ہیں۔ بالا افسر حکومت کے احمدی ملازمین کو بہت دق کرتے تھے اور انگریزی حکام ان کے حقوق کا پامال کرنا معمولی بات سمجھتے تھے خصوصاً اس لئے کہ عیسائی` ہندو اور مسلمان عوام سب احمدیوں کے مخالف تھے۔
انگریزی حکومت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اندرونی طور پر کتنا زہر بھرا ہوا تھا اس کا اندازہ پنجاب کے نیم سرکاری روزنامہ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۲۴/ اکتوبر ۱۸۹۴ء صفحہ ۳ کالم ۳( کے مندرجہ ذیل مضمون سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
ایک خطرناک مذہبی جنونی: پنجاب میں ایک مشہور مذہبی جنونی ہے ۔۔۔۔۔ اس قسم کا وہمی اور مذہبی جنونی بلا شک پولیس کی نگرانی میں ہے۔ جب کبھی وہ باہر تبلیغ کرتا ہے امن عامہ میں بڑے فسادات کا فوری خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے ماننے والے بے شمار ہیں اور وہ مذہبی جنون میں اس سے کچھ ہی کم ہیں۔ اس قسم کے شخص کے بے معنی تصورات سے کسی سیاسی خطرہ کا اندیشہ تو نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کی دیوانگی میں بھی ایک ڈھنگ ہے۔ اس کی ادبی قابلیت مسلمہ ہے اور اس کی تصانیف بہت ہیں اور عالمانہ ہیں۔ وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی ترکیب سے ایک خطرناک مرکز بنا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
قادیان کا مولوی سالہا سال ہمارے زیر نظر رہا ہے اور ہم اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر جو ہمیں اس کی ذات اور اس کے کام کے متعلق حاصل ہیں۔ مندرجہ بالا رائے کی پوری طرح تائید کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ طاقت پکڑ رہا ہے۔ اور غالباً مستقبل قریب میں ہم پر یہ فرض عائد ہو جائے گا کہ ہم اس کی طرف زیادہ تفصیل سے توجہ دیں<۔۱۹۲ )ترجمہ(
انگریزی حکومت کی اس مخالفت کی ایک سیاسی وجہ یہ بھی تھی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ >اشاعتہ السنہ< میں حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے اشتعال دلایا۔
>گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی کادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا<۔۱۹۳
احمدیوں کے خلاف انگریز کی مخالفت کی بنیادی وجہ مذہبی تھی۔ کیونکہ تحریک احمدیت کا مقصد ہی عیسائیت کے دجل و فریب کو پاش پاش کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سلسلہ کے معاند مولوی کرم دین صاحب آف بھیں ضلع جہلم نے انگریزی حکومت کو اکساتے ہوئے تحریر کیا تھا۔
>گورنمنٹ کو اپنی وفادار اور مسلمان رعایا پر اطمینان ہے اور گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے کہ مرزا جی جیسے مہدی مسیح وغیرہ بننے والے ہی کوئی نہ کوئی آفت سلطنت میں برپا کیا کرتے ہیں۔ مسلمان تو یہ زمانہ مہدی و مسیح کا قرار ہی نہیں دیتے کیونکہ یہ امن اور انصاف و عدل کا زمانہ ہے اور خلق خدا کو ہر طرح سے اس سلطنت کے سایہ میں امن اور آسائش حاصل ہے اور مہدی اور مسیح کے آنے کی جب ضرورت ہو گی تو عنان سلطنت سخت ظالم اور جفا پیشہ بادشاہ کے ہاتھ میں ہو گی۔ اور روئے زمین پر کشت و خون اور فتنہ و فساد کا طوفان برپا ہو گا۔ اس وقت اس کی ضرورت ہو گی کہ الہ العالمین اپنی مخلوق کی حفاظت اور آسائش و امن گستری کے لئے کسی انصاف مجسم امام بادشاہ اسلام )مہدی و مسیح( کو معبوث فرمائیں۔ لیکن مرزا جی نے تو مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ مہدی و مسیح کا یہی زمانہ ہے اور قادیان ضلع گورداسپور میں وہ مہدی و مسیح بیٹھا ہوا ہے وہ کسر صلیب کے لئے معبوث ہوا ہے۔ تاکہ عیسویت کو محو کرکے اسلام کو روشن کرے اور یہ بھی برملا کہتا ہے کہ خدا نے اسے بتلا دیا ہے کہ سلطنت بھی اس کو ملنے والی ہے چنانچہ اس نے اپنی متعدد تصانیف میں یہ الہام و کشف سنایا ہے کہ خدا نے اسے بتلا دیا ہے کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ بلکہ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ بادشاہ اسے دکھائے بھی گئے ہیں اور یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت مرزائیوں کی جماعت کو کسی زمانہ میں ملے گی۔
اب خیال فرمائیے کہ یہ خیال کہاں تک خوفناک خیال ہے جبکہ مرزا جی نے یہ الہام ظاہر کرکے پیشگوئی کر دی ہے کہ بادشاہ اس کے حلقہ بگوش ہوں گے اور بادشاہت مرزائیوں کو ملے گی کیا عجب کہ ایک زمانہ میں مرزائیوں کو جو اس کی پیشگوئیاں پورا کرنے کے لئے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں )جیسا کہ اپنے بیان میں وہ لکھا چکا ہے کہ اس کے مرید جان و مال اس پر قربان کئے بیٹھے ہیں( یہ جوش آجائے کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا جائے اور وہ کوئی فتنہ و بغاوت برپا کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا جی نے مسلمانوں کو نصاریٰ سے سخت بدظن اور مشتعل کر رکھا ہے۔ وہ دجال سمجھتے ہیں تو نصاریٰ کو خردجال کہتے ہیں تو ریلوے کو۔ اب سوال یہ ہے کہ ریلوے کس نے جاری کر رکھی ہے؟ جب یہ خردجال ہے تو اس کے چلانے والے بادشاہ وقت` کو ہی دجال کہتے ہیں اور مسلمانوں کو اس کے برخلاف سخت مشتعل کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کو ایسے اشخاص کا ہر وقت خیال رکھنا چاہئے<۔]01 [p۱۹۴
الغرض ان سیاسی اور مذہبی وجوہ کے باعث سرکاری حلقوں میں ۱۹۰۷ء تک جماعت احمدیہ کی مخالفت پوری شدت سے ہوتی رہی۔ سرایبٹس گورنر ہوئے تو انہوں نے تمام حالات کا جائزہ لے کر اور حضور کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد حکومت کو یہ رپورٹ کی کہ اس جماعت کے ساتھ یہ سلوک ناروا ہے۔ چنانچہ اس کی رپورٹ پر احمدیوں سے تو پولیس کی کڑی نگرانی تو ختم کر دی گئی۔ مگر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نگرانی کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں آخر دم تک جاری رہا۔ جس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے کہ ۸/ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تحریراً عرض کیا کہ ایک انگریز حضور کو ملنا چاہتا ہے۔ جس پر حضور نے جواب دیا۔ >مجھے معلوم نہیں کہ کیسا اور کس خیال کا انگریز ہے بعض جاسوسی کے عہدے پر ہوتے ہیں اور بعد ملاقات خلاف واقعہ باتیں لکھ کر شائع کر دیتے ہیں۔ صرف یہ اندیشہ ہے<۔۱۹۵
مسٹر اوبرائن کا نظریہ
پنجاب کے ایک سابق کمشنر مسٹر او برائن کہا کرتے تھے کہ سارے انگریز جو جماعت احمدیہ کو دوست سمجھتے ہیں بے وقوف ہیں۔ یہ ایسی منظم جماعت ہے کہ کسی روز اپنی بادشاہت قائم کر لے گی۔۱۹۶ مسٹر اوبرائن کا یہ نظریہ اگرچہ ذاتی نوعیت کا ہے۔ مگر خلافت ثانیہ کے ابتدائی دور میں جبکہ جماعت احمدیہ نے مسلمانان ہند کی فلاح و بہبود کے لئے مختلف قومی اور ملی تحریکات میں حصہ لیا عوام میں یہ خیال تیزی سے پھیلنے لگا تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک دفعہ خطبہ میں بیان فرمایا کہ لارڈ ہیلی نے چٹھی لکھی کہ جب میں پنجاب کا گورنر تھا۔ اس وقت بھی اس جماعت کے خلاف ایسی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ حتیٰ کہ ان ہی باتوں کی تحقیقات کے لئے مجھے دو تین بار گورداسپور جانا پڑا۔ مگر میں نے ہمیشہ یہ باتیں غلط پائیں۔ اور یہی ثابت ہوا کہ وہ صرف دشمنی کی وجہ سے کی جاتی تھیں۔۱۹۷
لیکن ۱۹۳۲ء میں تحریک کشمیر کے جاری ہو جانے کے بعد گورنر پنجاب سے لے کر وائسرائے ہند تک مسٹر اوبرائن کے نظریہ کے قائل ہو گئے اور وہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی بے مثال قیادت کے زبردست اثرات و نتائج دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر جماعت احمدیہ اسی طرح >سیاسیات< میں دخل دیتی رہی تو آئندہ چل کر وہ انگریزی اقتدار کے لئے ایک عظیم خطرہ بن جائے گی۔ اس لئے ضروری خیال کیا کہ اس مرحلہ پر ہی اس کی سرگرمیاں کچل دی جائیں۔ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ۱۹۳۴ء کے آغاز میں ایک خطبہ جمعہ کے دوران انکشاف فرمایا۔ >انگریز شاید خیال کرنے لگے ہیں کہ اتنی بڑی منظم جماعت اگر مخالف ہو گئی تو ہمارے لئے بہت پریشانیوں کا موجب ہو گی ۔۔۔۔۔ ایک ذمہ دار افسر سے یہ بات سن کر مجھے سخت حیرت ہوئی کہ حکومت نے تحقیق کرائی ہے کہ قادیان میں حکومت کے خلاف کیا سازشیں ہو رہی ہیں<۔۱۹۸
ایک دوسرے خطبہ میں بتایا کہ >گورنمنٹ پنجاب کے ایک ذمہ دار سیکرٹری نے سلسلہ کے ایک سیکرٹری سے کہا کہ آپ لوگ پیرالل گورنمنٹ یعنی متوازی حکومت قائم کر رہے ہیں اور اس کا ثبوت یہ دیا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ اپنی جماعت کے مقدمات سنتے ہیں<۔۱۹۹
اس خیال کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ مہاراجہ کشمیر انگریزوں کے زیر سایہ اور حلیف تھے اس لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جب عالمی سطح پر ان کی حکومت کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا تو ہندوستان کی انگریزی حکومت نے اس کو اپنی توہین سمجھا۔ پھر ہندوئوں کے پریس اور اخبار >زمیندار< کے اس الزام نے کہ اندرون کشمیر شورش برپا کئے جانے کی ذمہ داری قادیان۲۰۰ پر عائد ہوتی ہے انگریزی حکومت کو بھی متاثر کیا اور حکومت نے اسے نہ صرف امن و امان بلکہ وقار کا بھی مسئلہ بنا لیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اہل کشمیر کے نام خطوط لکھے جن سے )کشمیر میں کام کرنے والے( مسٹر گلانسی اور دوسرے انگریزوں کی ناراضگی بہت بڑھ گئی۔ اور آخر ڈوگرہ حکومت اور حکومت انگریزی کی منشاء کے مطابق اور کوشش کے نتیجہ میں کشمیر کمیٹی میں احمدی اور غیر احمدی کا سوال کھڑا کر دیا گیا اور ۷/ مئی ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہو گئے جس کے بعد انگریزی حکومت نے رستہ صاف پا کر احمدیت کی مخالفت میں اپنی کوششیں تیز تر کر دیں اور سرکاری حلقوں میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور آپ کی جماعت کا >سیاسیات< میں حصہ لینے کا عام چرچا کیا جانے لگا۔
سیاسی حلقوں میں احمدیوں کے سیاسیات میں حصہ لینے کا چرچا
اس حقیقت کے ثبوت میں ہم ذیل میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے بعض ان اہم رپورٹوں۲۰۱ کے اقتباسات یا ان کے خلاصے درج کرتے ہیں جو آپ نے ۳۴۔ ۱۹۳۳ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تحریر کئے۔ حضرت خان صاحبؓ ان دنوں جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور دوسرے ملکی معاملات کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ تھے اور اسی حیثیت سے سرکاری افسروں سے ملاقاتیں کرنا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ آپ کے علاوہ ۲۰/ فروری ۱۹۳۴ء کو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بھی وائسرائے سے ملاقات کی تو انہوں نے تحریک کشمیر کا ذکر آنے پر کہا۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ کشمیر کے احمدی فساد مچا رہے ہیں اور گورنمنٹ کی مخالفت کر رہے ہیں اور امن قائم نہیں ہونے دیتے۔
انگریزی افسروں میں سے سب سے پہلے جس افسر نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے سیاسیات میں حصہ لینے پر ناپسندیدگی کا کھلا اظہار کیا وہ مسٹر گلانسی تھے۔ چنانچہ مولوی فرزند علی صاحبؓ کی ایک رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں۔
>میری پہلی ملاقات مسٹر گلانسی )پولٹیکل سیکرٹری حکومت ہند( سے ۱۰/ جولائی ۱۹۳۳ء کی صبح کو ہوئی۔ اسی روز بعد دوپہر گورنر سے ملاقات تھی جس میں انہوں نے ہمارے کشمیر میں دخل دینے کو برا ماننے کا اظہار کیا- گلانسی نے اس ملاقات میں ایسا نہیں کہا۔ دوسری ملاقات میں اس نے بھی گورنر کی رائے سے اتفاق کا اظہار کیا۔ میاں فضل حسین صاحب نے غالباً پہلی دفعہ ۱۴/ جولائی ۱۹۳۳ء کو اس بات کا تذکرہ کیا کہ حضور کا سیاسیات میں دخل دینا معیوب سمجھا جاتا ہے<۔۲۰۲
حضرت خان صاحبؓ موصوف نے ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۳ء کو پنجاب کے چیف ¶سیکرٹری مسٹر گاربٹ سے ملاقات کی اور ان تک مسلمانان حصار کی حالت زار پہنچائی اور ہندو ڈپٹی کمشنر کی چیرہ دستیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو تبدیل کئے جانے کی درخواست کی۔ اس پر مسٹر گاربٹ نے کہا کہ ہم اس قسم کی تحریک کو اپنے انتظامی امور میں مداخلت سمجھتے ہیں۔۲۰۳
۲۴/ ستمبر ۱۹۳۳ء کو آپ شملہ میں میاں فضل حسین صاحب ممبر وائسرائے کونسل سے ملے تو میاں صاحب نے ملاقات کے دوران کہا کہ نہ صرف غیر سرکاری بلکہ سرکاری حلقوں اور نہ صرف ہندوستانیوں میں بلکہ انگریز حکام میں بھی اس بات کا چرچا ہے کہ حضور کی طرف سے سیاسیات میں زیادہ دخل دیا جاتا ہے۔۲۰۴
۲/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو آپ سر ہیری ہیگ )ہوم ممبر وائسرائے کونسل( سے ملے تو انہوں نے دوران ملاقات کہا۔ آپ لوگ ہمیشہ گورنمنٹ کے خیر خواہ رہے ہیں۔ البتہ اتنا کہوں گا کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے میں نے سنا تھا کہ حضرت صاحب اور ان کی جماعت شمالی ہند کی سیاسیات میں اس رنگ میں زبردست فرقہ وارانہ خطوط پر دخل دیتے ہیں کہ گورنمنٹ کو پریشانی ہوتی تھی۔ خان صاحبؓ نے پوچھا شمالی ہند سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے جواباً کشمیر کا نام لیا۔۲۰۵ اس پر حضرت خان صاحبؓ نے بالتفصیل بتایا۔ کہ مسلمانان کشمیر کی امداد کے لئے جو مشورہ ہوا۔ تو ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی گئی اور تمام حاضرین نے حضور کو عہدہ صدارت قبول کرنے کے لئے مجبور کیا۔ وگرنہ حضور کا اصل کام خالص مذہبی ہے۔ بہرحال حضور یہ ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اپنے ملی فرائض سے غافل یا سست نہیں ہوسکتے تھے مگر جو کارروائی بھی حضور کی ہدایت کے ماتحت کی گئی وہ تمام تر آئینی تھی۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی جگہ ہمارے ہم مذہب لوگوں پر ظلم اور زیادتی ہو رہی ہو تو ہمیں ان کی تکلیف کا کوئی احساس نہ ہو اور جبکہ ہم دونوں سیاسی امور میں فائدہ اور نقصان ہر اعتبار سے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک اور حصہ وار ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہو گا کہ ہماری طرف سے بھی آئینی جدوجہد مسلمانوں کے مفاد کے لئے ہو مگر اس کو فرقہ وارانہ (COMMUNAL) نہیں کہا جائے گا یہ تو خود حفاظتی کی صورت ہو گی۔
اسی روز آپ چیف آف دی جنرل سٹاف کے دفتر میں تشریف لے گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے فوجیوں کے لئے >الفضل< منگوانے کی ممانعت کر رکھی تھی اور گو اس دفتر سے یہ پابندی اٹھائی جا چکی تھی مگر مختلف مقامات سے برابر شکایات آرہی تھیں کہ ہمیں >الفضل< منگوانے کی اجازت نہیں ملتی۔ دفتر کے افسر نے جو کیپٹن تھے اگرچہ یہ وعدہ کیا کہ ہم دوبارہ اس سلسلہ میں توجہ دلا دیں گے۔ لیکن ساتھ ہی کہا کہ بعض اوقات الفضل میں ہندوئوں کے خلاف حملے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہندو مسلم تعلقات کی فضا بگڑ جاتی ہے۔ خان صاحبؓ نے کہا کہ وہ مضمون جس پر حکومت پنجاب ناراص ہوئی تھی وہ تو آریہ سماج سے متعلق تھا اور آپ کی فوجوں میں آریہ سماجی سپاہی نہیں ہوتے اس لئے >الفضل< کی مخالفت درحقیقت غیر ضروری سرکاری زبردستی تھی۔
یہ افسر پوچھنے لگے کہ کشمیر کمیٹی کا کیا حشر ہوا اور شیخ محمد عبداللہ کا کیا حال ہے؟ نیز کہا وہ تو احمدی ہے۔ خان صاحب نے کہا یہ اطلاع آپ کی غلط ہے۔ اس کے بعد آپ رخصت ہو کر چلے آئے۔۲۰۶
اس ملاقات کے بعد حضرت مولوی فرزند علی صاحبؓ نے دوبارہ ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو میاں سر فضل حسین صاحب سے شملہ میں ملاقات کی۔ جس کی تفصیل خان صاحب ہی کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے۔ >خاکسار نے میاں فضل حسین صاحب کو کہلا بھیجا تھا کہ میں محض ان کی ملاقات کی خاطر آرہا ہوں۔ جس پر انہوں نے آج صبح ملاقات کا وقت دیا۔ چنانچہ آج ملاقات ہوئی۔ میرے سوال کرنے پر انہوں نے وکیلانہ پہلو اختیار کر لیا کہ یہ امر واقعہ ہے کہ حضور کے متعلق یہ خیال سرکاری حلقوں میں پایا جاتا ہے کہ حضور اور حضور کی جماعت سیاسیات میں زیادہ دخل دیتی ہے۔ اس کی تنقیح قائم کرنا اور اس پر جرح کرنا فائدہ مند نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا تدارک سوچنا چاہئے۔ مگر میرے اس بات کے زور دینے پر کہ حضور اسی لئے دریافت فرمانا چاہتے ہیں کہ آخر اس خیال کے پیدا ہونے کی وجہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس خود مسٹر گلانسی اور گورنر پنجاب دونوں نے شکایت کی ہے پہلے مجھے ہی پوچھنے لگے کہ آپ بتائیں یہ امر واقعہ ہے یا نہیں کہ گزشتہ سال ان دنوں میں احمدی جماعت کے خلاف اس قدر جوش نہ تھا۔ جیسا کہ اب ہے پھر اس کی کیا وجہ ہے میں نے کہا ہماری مخالفت کی آگ اگر اب زیادہ چمکی ہوئی ہے تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ جماعت سیاسیات میں زیادہ دخل دیتی ہے۔ بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔ پریس تو ہماری تبلیغی کوششوں پر بھی بھڑکتا ہے۔ ہاں ایک وجہ یہ بھی ہوئی ہے کہ ¶حضور کو جو کامیابی کشمیر کے کام میں ہوئی تو اس پر بعض لوگوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی ہے اور انہوں نے ایک طرف کشمیر کمیٹی میں فتنہ کھڑا کر دیا۔ دوسری طرف پریس میں وہی مخالفت کرنا شروع کر دی اس کے بعد میاں صاحب نے بتایا کہ سر ہیری ہیگ نے آپ کی ملاقات کا میرے ساتھ ذکر کیا تھا اور وہ حیران تھا کہ اس کے متعلق یہ کس طرح یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ سے ناراض ہو سکتا ہے تو میں نے کہا تھا کہ آپ کس طرح ناراض ہو سکتے ہیں آپ کا تعلق DISOBEDIENCE CIVIL )عوامی حکم عدولی( سے ہے اور احمدیہ جماعت خود اس طریقہ کی سخت مخالف ہے درحقیقت احمدی جماعت سے ناراض وہ لوگ ہیں جن کا ریاستوں کے ساتھ تعلق ہے اور جن کو احمدی جماعت کی بعض باتوں سے تکلیف پہنچی ہے اس کے بعد بتایا کہ گلانسی اور گورنر دونوں نے میرے پاس احمدی جماعت کے خلاف شکایت کی ہے پھر لمبا بیان دیا کہ میں پورے وثوق کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا کس کس بات پر ہے مگر گلانسی نے مجھ سے کہا کہ یہ لوگ ہر چیز اور ہر بات میں دخل دیتے ہیں اور بہت ناراضگی کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔۔ پھر خود انہی وجوہات کو بیان کرنا شروع کر دیا۔ جو ہمارے خلاف عام مخالفت کے بھڑکانے کا موجب ہوتی ہیں کہنے لگے جب کشمیر کمیٹی بنی ہے اور حضور کو اس کا صدر بنایا گیا اور اتفاق رائے سے بنایا تو میرے نزدیک اس وقت بھی یہ پسندیدہ نہ تھا حضور کو لوگوں نے اس لئے صدر بنایا تھا کہ وہ سمجھتے تھے یہ کام بڑا مشکل ہے بہت روپیہ خرچ کو چاہئے تھا اور کامیابی کا حاصل ہونا موہوم نظر آتا تھا۔ اس لئے لوگوں نے چاہا حضور کو صدر بنا دیں تا اگر کوئی کام نہ بنا تو اس کی ذمہ داری حضور کے سر ہو گی مگر جب دیکھا کام چل نکلا ہے اور اس کی وجہ سے بھی حضور کے اقتدار میں اضافہ ہو رہا ہے تو بعض لوگوں کے دلوں میں حسد پیدا ہوا۔ اس اثناء میں ظفر اللہ خاں صاحب رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے ضمن میں ولایت بھیجے گئے۔ وہاں نام پیدا کیا تو اس حسد میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد جب وہ میری جگہ قائم مقام بنائے گئے تو لوگوں نے نہ صرف چوہدری صاحب کی مخالفت پیٹ بھر کر کی بلکہ میری مخالفت میں بھی حتی الامکان زور لگایا گیا میں تو چونکہ ابھی تک برسر سرکار ہوں اس لئے میرا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے آپ لوگوں کے خلاف حکام کے کان بھرے جاتے ہیں۔ یہی ایمرسن ہے جو بہ حیثیت ہوم سیکرٹری آپ لوگوں کا بے حد مداح تھا ۔۔۔۔۔۔ چونکہ اس کو نسبتاً چھوٹے درجہ سے ترقی ہوئی ہے اور وہ پنجاب میں ہی چھوٹے عہدوں پر رہ چکا ہے اس لئے اس کو ہر قسم اور ہر طبقہ کے لوگ ملتے ہیں۔ اور احمدی جماعت کے خلاف باتیں کہہ کر اس کے کان بھرتے ہیں میں نے حال ہی میں اس کے پاس ایک سفارش کرنا تھی۔ تو اس موقعہ پر اس نے احمدی جماعت کے خلاف مجھے باتیں سنائیں کہ آپ کو معلوم نہیں لوگ کس طرح احمدی جماعت کے لوگوں کو برا سمجھتے ہیں میں نے اسے بتایا کہ درحقیقت لوگ ذاتی اغراض کے ماتحت ایسا پراپیگنڈا کیا کرتے ہیں۔ میں اس قسم کی باتوں سے متاثر نہیں ہوا کرتا آپ کو بھی اس طرح کے پروپیگنڈا کے متعلق ہوشیار رہنا چاہئے اور جو باتیں آپ کے گوش گزار کی جائیں ان کی صداقت کو بلا چون و چرا تسلیم نہیں کر لینا چاہئے<۔
حضرت مولوی صاحبؓ اس کے بعد لکھتے ہیں۔ >میں نے کہا )یعنی میاں فضل حسین صاحب سے۔ ناقل( اس کے تدارک کے متعلق ہمیں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ کہنے لگے کہ میں نے چوہدری ظفر اللہ خاں کو بھی چٹھی لکھی ہوئی ہے وہ انشاء اللہ ۱۰/ دسمبر تک واپس آجائیں گے تو وہ خود بھی اس معاملہ سے متعلق حضور کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ہم آپ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی واقعی شکایت ہو جو حضور کی توجہ کے قابل ہو تو اس سے ہمیں اطلاع دیں گے۔ اس کو تسلیم کیا کہ ہاں ایسا کروں گا<۔۲۰۷
‏tav.7.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
دوسرا باب )فصل ہفتم(
احرار کا حکومت پنجاب سے گٹھ جوڑ
اب ہندوستان کی انگریزی حکومت کے تیور تیزی سے بدل رہے تھے اور وہ جماعت احمدیہ کے خلاف اقدام کرانے پر آمادہ ہو چکی تھی۔ ہندو جو اس تاک میں بیٹھے ہوئے تھے یہ سنہری موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتے تھے لہذا انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا فیصلہ کیا یعنی جماعت احمدیہ سے مقابلہ کرنے کے ساتھ ہندوستان کی مسلم سیاست کے نامور لیڈر اور اپنے خطرناک حریف سر فضل حسین صاحب کو ناکام بنانے کے لئے حکومت پنجاب سے گٹھ جوڑ کر لیا۔ اور عین اس وقت جبکہ سر فضل حسین کے بعد ایگزیکٹو کونسل کی ممبری کے سلسلہ میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو منتخب کئے جانے کی خبریں مشہور ہونے لگیں انہوں نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے خلاف احمدی ہونے اور میاں سر فضل حسین صاحب کے خلاف >قادیانی نواز< ہونے کی بناء پر ہنگامہ برپا کرا دیا۔
ہندئوں نے حکومت پنجاب سے کیوں اور کس طرح گٹھ جوڑ کیا اور انگریزی ہندو اور سکھ بساط سیاست کے وہ کون سے مہرے تھے جو اس موقعہ پر آگے آئے؟ اس کی حقیقت افروز تفصیل جناب سید نور احمد صاحب کے قلم سے پڑھئے۔ لکھتے ہیں۔
جناب سید نور احمد صاحب کا بیان
>کمیونل ایوارڈ< کے اعلان کے بعد پنجاب کے ہندوئوں اور سکھوں نے اپنے ذہن پر >مسلم راج< کا خوف مسلط کر لیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر نئے آئین کے تحت سر فضل حسین کو پنجاب کا وزیراعظم بننے کا موقعہ ملا تو >مسلم راج< کا ہوا حقیقی صورت اختیار کر لے گا۔ لہذا وہ ہر شخص کو جو سر فضل حسین کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے علیحدہ رکھ سکے اپنا تعاون پیش کرنے کو تیار تھے۔ اس صوبے کی یونینسٹ پارٹی میں سر فضل حسین کے بعد سب سے نمایاں حیثیت سر سکندر حیات خاں نے حاصل کر لی تھی۔ جب سر فضل حسین گورنر جنرل کی ایگزیکٹو کونسل میں تھے تو صوبائی کابینہ میں ان کی جگہ سر سکندر نے سنبھالی اور اپنے اس عہدے کے زمانے میں انہیں ایک مرتبہ دو ماہ اور دوسری مرتبہ چار ماہ کے لئے قائم مقام گورنر بننے کا موقعہ مل گیا یہ اعزاز اس سے پہلے کسی پنجابی کو حاصل نہ ہوا تھا۔ ہندو شہری پارٹی کے لیڈر راجہ نریندر ناتھ کے ساتھ سر سکندر کے خاندانی تعلقات تھے اگر پنجاب کا وزیراعظم کسی مسلمان کو قبول کئے بغیر چارہ نہ ہو تو اس صورت میں ہندوئوں اور سکھوں کے لئے سر فضل حسین کے مقابلے میں سر سکندر بہت زیادہ قابل قبول تھے۔ ملک فیروز خاں نون کے ساتھ سر فضل حسین کی قرابت داری ہو گئی تھی اس لئے نون ٹوانہ گروپ کو سر فضل حسین کے مقابلے پر کھڑا کرنا ممکن نہ تھا ان حالات میں بعض ہندو اور سکھ لیڈروں نے سر سکندر اور ان کے دوستوں کو اپنے تعاون کی امید دلانا شروع کیا۔
سر سکندر کے دائیں اور بائیں دو شخص جو ان حالات میں خود سر سکندر سے بھی زیادہ انہیں پنجاب کا وزیراعظم بنانے کے خواہشمند ہو گئے۔ ایک ان کے رشتے کے بھائی اور عمر کے لحاظ سے بزرگ نواب مظفر خاں تھے جو سرکاری عہدیدار تھے اور ریفارمز کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے تھے۔ دوسرے سر سکندر حیات کے جگری دوست میاں احمد یار دولتانہ جن کی زندگی سر سکندر کی خدمت کے لئے وقف تھی۔ نواب مظفر خاں کو پنجاب میں ایک اور بااثر جماعت ایسی نظر آئی جس کا تعاون سر فضل حسین کی مخالف کے سوال پر حاصل کیا جا سکتا تھا یہ مجلس احرار تھی جو وسط پنجاب کی مسلم شہری آبادی میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی اور بوجوہ سر فضل حسین کی مخالفت ہو گئی تھی چنانچہ دولتانہ صاحب اور نواب مظفر خاں نے ایک طرف ہندو اور سکھ لیڈروں سے اور دوسری طرف مجلس احرار کے چودھری افضل کے ساتھ ساز باز شروع کر دی خود سر سکندر کا اپنا رویہ محتاط تھا وہ اس ساز باز سے الگ رہے اور ایک خوش خلق انسان کی طرح ہر ایک کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرتے رہے لیکن ان کے دونوں ساتھیوں نے انہیں ایک شرمیلے دولہا کی حیثیت دے رکھی تھی اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ دولہا کو عروس وزارت کے ساتھ اپنے رشتے کے لئے سرگرمی دکھانے کی ضرورت نہیں دولہا کے رشتے کی بات چیت اس کے عزیز و اقارب ہی کیا کرتے تھے<۔۲۰۸
پھر لکھتے ہیں۔
مجلس احرار ۔۔۔۔۔۔ کی سیاسی پالیسی چودھری افضل حق کے دماغ کی مرہون منت تھی عوامی جلسوں سے خطاب کرنے کے لئے اس کے پاس ایک سحر انگیز خطیب مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی صورت میں موجود تھا۔ ۱۹۳۲ء میں چودھری ظفر اللہ خاں کو عارضی طور پر وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں لیا گیا۔ تو یہ بات مجلس احرار کے لئے پراپیگنڈا کا بہت اچھا موضوع بن گئی۔ یہ بات عام طور پر معلوم تھی کہ چودھری صاحب کو یہ موقع دلانے میں سر فضل حسین کا ہاتھ تھا لہذا وہ بطور خاص اس پروپیگنڈا کا نشانہ بن گئے<۔۲۰۹
میاں فضل حسین صاحب کی یونینسٹ پارٹی کے باغی عنصر اور مجلس احرار کی باہمی مفاہمت پر روشنی ڈالتے ہوئے سید نور احمد صاحب نے یہ بھی لکھا ہے۔
>۱۹۳۴ء میں مرکزی اسمبلی کے نئے انتخاب ہوئے۔ اس وقت مجلس احرار لاہور اور وسطی پنجاب کے دوسرے شہروں میں سب سے زیادہ بااثر عوامی جماعت تھی۔ سر فضل حسین کے اشارے سے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سیکرٹری حاجی رحیم بخش لاہور اور مضافات کے حلقے میں بطور امیدوار کھڑے ہوئے۔ مجلس احرار نے آنجہانی لالہ ہرکشن لال کے بڑے بیٹے کو جو کچھ عرصہ پہلے اسلام قبول کرکے اپنا اسلامی نام خالد لطیف گابا رکھ چکے تھے )بعد میں وہ نقل وطن کرکے بھارتی اور مذہب تبدیل کرکے ہندو بن گئے( اپنا امیدوار چن لیا۔ لیکن اس انتخابی معرکے میں مسٹر گابا کی پشت پر صرف مجلس احرار کا اثر و رسوخ نہ تھا۔ یونینسٹ پارٹی کے اندر سر فضل حسین کے در پردہ مخالف عنصر کی خفیہ امداد بھی مسٹر گابا کو ملی۔ غالباً قیاس یہ تھا کہ گابا اس امداد کے بغیر بھی جیت جاتے۔ بہرحال وہ بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ یونینسٹ پارٹی کے >باغی< عنصر اور مجلس احرار کے لیڈروں کے درمیان پخت و پز آئندہ پروگرام کے متعلق بھی ہوتی رہی۔ گو دونوں فریق اس پر پردہ ڈالے رکھنا چاہتے تھے لیکن مجلس احرار نے علانیہ طور پر سر فضل حسین کو اپنا سیاسی مخالف نمبر ایک گردان لیا<۔۲۱۰
ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی کا بیان
سید نور احمد صاحب کے علاوہ ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی بھی اپنی کتاب >اقبال کے آخری دو سال< میں احرار کی مخالفت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔
>تحریک کشمیر کے بعد احرار بعض فروعی اور بے مصرف باتوں میں الجھ کر اپنی قوت عمل کو ضائع کرنے لگے۔ قادیانی فتنے کا ڈھونگ بھی صرف میاں فضل حسین کی مخالفت کے لئے کھڑا کیا گیا تھا۔ حالانکہ قوم کے بعض بے حد اہم سیاسی امور اور اقتصادی مسائل ان کی توجہ کے طلبگار تھے۔ احرار نے بار بار مسلم کانفرنس پر حملے کئے میاں فضل حسین کو قادیانیت نواز کہہ کہہ کر ہندوستان بھر میں ان کے خلاف پراپاگنڈا کیا گیا۔ یہ سب کچھ سراسر محنت اور وقت کا ضیاع تھا۔ اگر احرار کے حسب منشاء قادیانیت کا استیصال ہو جاتا۔ تو بھی مسلمانوں کے سیاسی مسئلہ کا تشفی بخش حل ممکن نہ تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ احرار نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ میاں فضل حسین ان کے راستے میں حائل ہیں۔ اس لئے انہوں نے سب سے پہلے اس سنگ گراں کو راہ سے ہٹا دینا ضروری سمجھا ہوشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ تحریک کشمیر سے فارغ ہو کر احرار کوئی سیاسی اور اقتصادی پروگرام مرتب کرتے اور مسلمان عوام کی بے پناہ قوت کو ساتھ لے کر اس پروگرام کی تکمیل کے لئے آگے بڑھتے لیکن انہوں نے زود رنج اور مشتعل ہو کر میاں فضل حسین سے جنگ شروع کر دی<۔۲۱۱
>مفکر احرار< چوہدری افضل حق صاحب اور مولوی مظہر علی صاحب اظہر کے اقبالی بیانات
اب ہم دو مشہور احراری لیڈروں چوہدری افضل حق صاحب اور مولوی مظہر علی صاحب اظہر کے حیرت انگیز اقبالی بیانات درج کرتے ہیں جس سے سید نور احمد صاحب اور عاشق حسین صاحب بٹالوی کے دعویٰ کی تائید ہوتی لکھتے ہیں۔
>کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ میاں سر فضل حسین ہندوئوں کی نظر میں اورنگ زیب کا بروز تھے۲۱۲ سر سکندر نے بڑھ کر امید دلائی کہ ہندوئوں کے لئے وہ اکبر ثابت ہوں گے۔ اس طرح ہندوئوں کا سہارا پا کر وہ ابھرے۔ خاندانی خدمات کے باعث انگریزوں نے ان کا ہاتھ تھاما۔ یہ گمنامی کی سطح سے اونچے اٹھے پہلی دفعہ پولیس کمیٹی کے ممبر بنائے گئے۔ پھر سائمن کمیشن کی تعاونی کمیٹی کے صدر بنے۔ اس صدارت میں راجہ نریندر ناتھ لیڈر ہندو پارٹی کے اثر و رسوخ نے بڑا کام کیا۔ پنجاب کے ہندوئوں کو میاں صاحب کے مقابلے میں مہرہ درکار تھا۔ سر سکندر بھی انہیں پوری پوری امید اور حوصلہ )دیتے(۲۱۳ رہے۔ ہندو ان سے خوش یہ ہندوئوں سے راضی راضی خوشی دونوں آنے والے دور کے دن گننے لگے۔ وہ ایگزیکٹو کونسلر اسی خوبی کے باعث بنائے گئے کہ برخلاف میاں صاحب کے ہندو پارٹی کو آپ پر اعتماد تھا سر سکندر کی یہی خوبی ان کی گورنری )کا(۲۱۴ باعث ہوئی۔ میاں سر فضل حسین اگرچہ انگریزی سیاسیات کی کل کا بہترین پرزہ تھے لیکن انہیں اپنی لیاقت اور کامیاب سیاسی چالوں پر اتنا ناز تھا کہ وہ انگریز افسران کی ناز برداری کے بجائے ان سے خوشامد کی توقع رکھتے تھے۔ انگریز اعلیٰ افسران سے ان کا رات دن کا رگڑا جھگڑا تھا اور ہر مرحلے پر من مانی منواتے تھے اور خود کسی کی نہ مانتے تھے اس لئے انگریز حکام جہاں ان کی کانگریس کے مقابلے میں کامیاب سیاسی ہتھکنڈوں کے معترف تھے وہاں ان کی محکمانہ دراز دستیوں کے شاکی تھے۔ میاں صاحب کئی انگریز اعلیٰ افسروں کو ذلیل کرکے نکال چکے تھے جس کو ذرا سرکش پاتے تھے اس کی سرکوبی پر آمادہ ہو جاتے تھے میاں صاحب کی یہ ادا انگریز کو نہ بھاتی تھی برخلاف اس کے سرسکندر حیات خاں انگریزوں کے مقابلہ میں ایسی مروت برتتے تھے کہ حاکم ہو کر محکوم نظر آتے تھے۔ انگریزی حسیات کے احترام میں وہ ہندوستانی یا اسلامی حقوق کے لئے بلند بانگ نہ تھے۔ مطالبات کے بجائے عرضداشتوں کے قائل تھے مبادا انگریز کا مزاج برہم ہو جائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔
ظاہر ہے کہ میاں صاحب کے مقابلے میں احرار کو سر سکندر حیات سے کوئی دلبستگی نہ تھی۔ مگر مصیبت یہ آئی کہ میاں صاحب نے سر سکندر حیات کے مقابلہ میں مرکزی حکومت میں اپنا اقتدار رکھنے کے لئے ظفر اللہ خاں قادیانی کو بڑھایا اور مسلمانوں کے جذبات کو پامال کرکے سیاسیات میں اپنا الو سیدھا کرنا چاہا۔ انہوں نے اس مسئلے کی اہمیت کو نہ سمجھا اور نہ احرار کی قوت کا ابتدا میں پورا اندازہ کیا<۔۲۱۵
پھر لکھتے ہیں۔
>اسی زمانے میں احرار نے میاں سر فضل حسین کو جو بساط سیاست کے کامیاب کھلاڑی تھے جن کی چالیں بے حد گہری اور جن کی تدبیریں بہت موثر ہوتی تھیں۔ ناراض کر لیا بلکہ اس کے خلاف ایک محاذ قائم کیا۔ سر ظفر اللہ کو میاں سر فضل حسین نے یہاں تک نوازا کہ اس کی سفارش حکومت ہند تک کی۔ حکومت ہند گویا اس سفارش کی منتظر ہی تھی۔ مرزائیت کا حکومت انگریزی سے جو تعلق ہے اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہند کے ایگزیکٹو کونسلر کے عہدہ پر ایک مرزائی ظفر اللہ کا تقرر تو درحقیقت انگریز کے خود کاشتہ پودے کی آبیاری تھی مگر احرار کو صدمہ یہ تھا کہ میاں صاحب جیسے بالغ النظر شخص نے دیکھ کر قادیانی مکھی کیسے نگلی۔ ادھر میاں صاحب کی مجبوری یہ تھی کہ سر سکندر حیات خاں کے تیور بے حد بگڑے نظر آتے تھے۔ وہ سر سکندر حیات کے گروپ کے مقابلے میں اپنے دنگ کو مضبوط کرنے میں مصروف تھے ایسی مصروفیتوں میں بعض اہم غلطیاں ہو جاتی ہیں یہ فاش غلطی ہو گئی۔ اب وہ غلط قدم واپس کیا لیتے؟ پھر انہوں نے اپنے وقار کا سوال بنا لیا۔ مرزائیوں کی مخالفت احرار کی تبلیغ کا اہم جزو تھا۔ انہوں نے میاں صاحب کو للکارا۔ اس طرح احرار نے ہندوستان کے مضبوط ترین مدبر کو اپنا بیری بنا لیا۔ لیکن اس زمانے میں احرار کا بول بالا تھا کسی مخالف کی کچھ پیش نہ جاتی تھی<۔۲۱۶
سیدعطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے سوانح نگارکا واضح اعتراف
مندرجہ بالا تمام بیانات پر مجموعی نظر ڈالنے سے صاف طور پر یہ برآمد ہوتا ہے کہ سر فضل حسین صاحب کی سیاست مسلمانان ہند کے لئے مفید اور ہندو عزائم کے لئے نقصان دہ تھی۔ ان حالات میں مجلس احرار کا ان کی آڑ میں احمدیت کے خلاف ہنگامہ کھڑا کرنے کا مقصد محض ہندو سیاست کی تقویت ہی کے لئے تھا اور وہ مقصد آئندہ الیکشن میں کامیاب ہو کر ہندو مفاد کے تحفظ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی سوانح عمری میں لکھا ہے۔
>پنجاب کے امراء کا طبقہ ۔۔۔۔۔۔ احرار کی تیز روی اور قبول عامہ کو اپنے لئے مضر سمجھتا تھا اس کے سامنے آئندہ کے الیکشن تھے ملک کو پہلی بار صوبجاتی خود مختاری حاصل ہو رہی تھی۔ مسلمانوں اور نا مسلمانوں کی طاقت میں دو یا تین ووٹوں کا فرق تھا ۔۔۔۔۔۔ احرار بھی اس سے خالی الذہن نہ تھے۔ ان کے پیش نظر بھی انتخابات تھے اور سمجھتے تھے کہ طاقت کے بغیر کوئی تنظیم بھی موثر نہیں ہوتی<۔۲۱۷
سابق جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام کا حلفیہ بیان
اسی حقیقت کی تائید مزید جناب سیفی کاشمیری )سابق سیکرٹری مجلس احرار اسلام( کے مندرجہ ذیل حلفیہ بیان سے بھی ہوتی ہے یہ بیان >زمیندار< ۲۸/ اگست ۱۹۳۶ء کے پرچہ میں شائع ہوا تھا۔
>میں تمام ان مسلمانوں کی خدمت میں جن کے دل میں خدائے قہار و جبار اور اس کے برگزیدہ رسول سرور کائنات حضرت محمد عربی~صل۱~ کی ذات والا صفات کی محبت کا جذبہ ہے۔ اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر جو کچھ مجھ کو احرار کے سرکردہ لیڈروں کی معیت احرار کے دفتر مرکزی میں ایک لمبے عرصہ کی رہائش اور زعمائے احرار کی پرائیویٹ مجالس کی کارروائی سننے کے بعد حاصل ہوا تھا۔ خدائے وحدہ لا شریک کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانا *** کا کام ہے قطعی اور یقینی طور پر کہتا ہوں کہ مجلس احرار کی مرزائیت یا قادیانیت کے خلاف تمام تر ۔۔۔۔۔۔۔ جدوجہد اور قادیان کے خلاف یہ سب پراپیگنڈا محض مسلمانوں سے چندہ وصول کرنے اور کونسل کی ممبری کے لئے ان سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہے۔ احرار کے لیڈر اس حقیقت کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمان اپنے جذبہ ایمانی کے باعث اسلام کے نام پر مرمٹنے کے لئے تیار ہے۔ پس مسلمانوں میں اپنی ساکھ بٹھانے اور ان سے چندہ وصول کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ تبلیغ اسلام اور تردید قادیانیت کو بہانہ بنایا جائے۔ اس طریق سے ایک طرف تو ان سے چندہ وصول کیا جائے اور دوسری طرف ان سے وعدہ لیا جائے کہ وہ ہر آئندہ کونسل کے انتخاب میں ووٹ احرار کے نمائندہ ہی کو دیں گے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ احرار اپنی تبلیغی کانفرنسیں صرف ان ہی مقامات پر منعقد کرتے ہیں جہاں سے احراری نمائندہ آئندہ انتخاب میں کھڑا ہو رہا ہو۔ لیکن جہاں سے ان کا نمائندہ کھڑا نہ ہو رہا ہو وہاں پر یہ تبلیغی کانفرنس منعقد نہیں کرتے۔ ان کانفرنسوں کے لیکچراروں کی آخری تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ کونسل میں اپنا نمائندہ اس کو بنائو جو احراری ہو۔ میرا یہ بیان محض ایک خیال یا نتیجہ نہیں جو واقعات سے اخذ کیا گیا ہو بلکہ میں نے خود احرار کے بڑے بڑے لیڈروں کو بارہا یہ کہتے سنا کہ حصول مقصد کے لئے قادیانیوں کے خلاف پروپیگنڈا ایک ایسا ہتھیار ہمارے ہاتھ ہے جس سے ہم تمام مخالفتوں کو دور کر سکتے ہیں اور ہر قسم کی مالی یا انتخابی مشکل اس سے حل ہو سکتی ہے<۔۲۱۸
مولوی ظفر علی خان صاحب کے اخبار >زمیندار< کا بیان
‏0] ftr[اخبار >زمیندار< )۱۱/ اگست ۱۹۳۵ء( نے اپنے اداریہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی مخالفت میں شامل ہونے کا سبب سیاسی انتخاب قرار دیتے ہوئے لکھا۔
>قادیانیت کے خلاف تحریک شروع ہوئی یہ تحریک آغاز کار میں منظم نہ تھی۔ منظم تحریک اس وقت ہوئی` جب مولانا ظفر علی خاں کی صدارت میں بٹالہ میں کانفرنس ہوئی۔ پنجاب اور یو۔ پی کے اکثر علماء نے شرکت کی۔ مولانا ظفر علی خاں نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا کہ اس سلسلہ میں تعمیری اور تخریبی دونوں کام ہونے چاہئیں اور تجویز کیا کہ تعمیری کام کے لئے مجلس دعوت و ارشاد قائم ہونی چاہئے۔ یہ مجلس پہلے بٹالہ میں قائم ہوئی اس کے بعد لاہور میں اس کے متعلق تحریک ہوئی۔ تمام علماء بلا تمیز سنی و شیعہ` دیوبندی و بریلوی و مقلد و غیر مقلد اس میں شامل ہوئے اور تمام فرق اسلامیہ کی تائید اسے حاصل تھی ۔۔۔۔۔۔ چوہدری افضل حق نے اس مرحلہ پر مسلمانوں کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حکومت پر کونسلوں میں شور و غوغا مچائے بغیر اثر نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لئے ہم تو کونسل میں جائیں گے۔ آپ چاہے تو مجالس دعوت و ارشاد قائم کیجئے چاہئے تو مساجد میں تقریریں کیجئے اور چاہے تو جیلوں میں جائیے۔ اس سے قارئین کرام اندازہ فرما سکتے ہیں کہ احرار کے نزدیک قادیان کی مخالفت کی کیا اہمیت تھی بتدریج یہ حقیقت زمانہ نے مولانا حبیب الرحمن اور چودھری افضل حق پر جو سب سے بڑا استاد ہے واضح کر دی کہ کیا خدمت دین کے اعتبار سے اور کیا مالی منفعت کے لحاظ سے قادیانیت کی مخالفت اہم ترین اور موثر ترین ہے۔ اس کے بعد وہ بھی اس میدان میں اتر آئے ۔۔۔۔۔۔۔ آج احرار کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے جذبہ ایمانی نے قادیانیت کی مخالفت کی طرف ان کی راہنمائی کی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس دعویٰ میں صداقت کا ایک شمہ بھی نہیں ان کا جذبہ ایمانی تو وہ تھا جس نے ان سے یہ کہلوایا تھا کہ کونسلوں میں جانا زیادہ ضروری ہے۔ یہ جذبہ مسابقت تھا جس نے پھر انہیں اس میدان میں لا ڈالا<۔۲۱۹
سرسکندر اور گورنر ایمرسن
ہندوئوں` سکھوں اور احراریوں نے سر سکندر اور ان کے ساتھیوں سے آئندہ الیکشن میں کامیابی کے لئے جو منصوبہ سوچا وہ مندرجہ بالا تحریرات کی روشنی میں بالکل عیاں اور نمایاں ہیں۔ اب ہمیں اس امر پر روشنی ڈالنا ہے کہ سر سکندر اور انگریزی قوم اور گورنر پنجاب سر ایمرسن کے باہمی تعلقات کتنے گہرے تھے۔ یہ بتانا اس لئے ضروری ہے کہ پنجاب میں احمدیوں خلاف منظم شورش ایمرسن کے زمانہ میں اور ان کے ذریعہ سے اٹھی۔ یاد رہے یہ وہی ایمرسن ہیں جن کی نسبت سید نور احمد صاحب نے لکھا ہے۔
>سر فضل حسین نے ۔۔۔۔۔۔ یہ بات بری طرح محسوس کی تھی اور اب پھر محسوس کی کہ گورنر ایمرسن کا رجحان مسلمانوں کے خلاف اور ہندوئوں اور سکھوں کے حق میں ہے<۔۲۲۰
>خطبات احرار< میں لکھا ہے۔
>اگر پنجاب برطانوی بساط سیاست کا بہترین مقام ہے تو سر سکندر اسی بساط پر انگریز کا دلپسند مہرہ بھی ہے اس سے بہت مفید کام لئے گئے اور آئندہ بھی انگریز کو اس کی ذات سے یہی توقع ہے<۔۲۲۱
اسی طرح چودھری افضل حق صاحب نے >تاریخ احرار< میں صاف لکھا ہے۔
>سر سکندر بقول مسٹر جناح مسٹر ایمرسن گورنر پنجاب کی پیداوار تھے<۔۲۲۲
ان حالات میں ظاہر ہے کہ انگریزی حکومت کی طرف سے پنجاب کے احمدیوں کے خلاف شورش برپا کرنے کی سکیم مسٹر ایمرسن گورنر پنجاب کے نیچے سر سکندر سے بڑھ کر کامیابی سے کوئی نہیں چلا سکتا تھا۔ اور انہوں نے یہ فرض پوری ذمہ داری سے ادا کر دکھایا۔ اور جماعت احمدیہ کے خلاف مجلس احرار اور مولوی ظفر علی خان صاحب کی پشت پناہی کرنے کا حق ادا کر دیا۔
سر سکندر >ایمرسن دوستی< میں اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ وہ سالہا سال تک حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے اس لئے دشمن بنے رہے کہ ایمرسن حضور کے مخالف تھے۔ اس حقیقت کے ثبوت میں ہم سید حبیب صاحب آف >سیاست< کی ایک اہم تحریر کا چربہ درج ذیل کرتے ہیں۔ سید صاحب نے پندرہ نومبر ۱۹۳۶ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے نام ایک خط میں لکھا۔
>سر سکندر کی نظر گورنر کے ہر مخالف سے بگڑی ہوئی ہے اس سے نہ آپ مستثنیٰ ہیں نہ میں انہوں نے مجھے صاف کہ دیا ہے کہ گورنر تم سے ناراض ہیں۔ لہذا تم امیدواری کا خیال ترک کر دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں احرار نے مجھے انتخاب میں مدد دینے سے انکار کر دیا ہے وہ سکندر حیات کے آدمی شیخ عبدالغنی کی امداد کریں گے۔
والسلام
آپ کا حبیب
عکس کے لئے
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ 0] f[stمیں مخالفت کے نئے دور کا پس منظر
جماعت احمدیہ کے خلاف ۱۹۳۴ء کی منظم مخالفت کے مذہبی اور سیاسی اسباب پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد ہم بالاخر سیدنا حضرت امیر
المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ میں ممانعت کے نئے دور کا پس منظر بیان کرتے ہیں۔ حضور نے فرمایا۔
>اس وقت ہمارے خلاف جو فتنہ ہے یہ صرف مذہبی نہیں۔ نہ صرف سیاسی اور نہ صرف اقتصادی ہے بلکہ یہ مذہبی بھی ہے اور اقتصادی بھی اور سیاسی فتنہ بھی۔
سیاسی مخالفتbody]: gat[ یہ سیاسی مخالفت ہے اس لئے کہ ہم نے کانگرس کے پچھلے دنوں شدید مخالفت کی۔ یہاں تک کہ کانگریس والوں نے خود تسلیم کیا کہ احمدیہ جماعت کی مخالفت موثر ثابت ہوئی ہے ہمارے آدمی چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ کام کرنا جانتے ہیں پھر ان کے اندر ایک حد تک استقلال بھی پایا جاتا ہے۔ اس لئے کانگریس کے لاکھ والنٹیرز جتنا کام کرتے ہیں اتنا کام ہمارا ایک ہزار آدمی کر لیتا ہے۔ اسی طرح ہمارا تھوڑا روپیہ ان کے بہت سے روپیہ کے مقابلہ میں کام دے جاتا ہے۔ یہ کانگریس کی ناکامی اتنی واضح ہے کہ اس کے لیڈر محسوس کرتے ہیں کہ اس کی ناکامی مین بہت حد تک دخل احمدیہ جماعت کا بھی ہے پھر یہ اس لئے بھی سیاسی فتنہ ہے کہ عام طو پر اسلامی مسائل کی وجہ سے مسلمانوں میں جوش پیدا کرکے ان کی سیاست کو تباہ کیا جاتا تھا۔ جیسے خلافت کا مسئلہ پیدا کیا گیا۔ ہجرت کا سوال اٹھایا گیا یا میکلیگن کالج کا جھگڑا پیدا کیا گیا۔ ان پر ایک مذہبی رنگ چڑھایا گیا تھا جسے اتار کر ہم نے رکھ دیا اور بتا دیا کہ یہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تحریکیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ہر تحریک میں آگے آنا پڑا اور ہر تحریک کے وقت ہم نے اصل حقیقت کو بے نقاب کیا۔ غرض مسلمانوں کی ہجرت کا پول ہم نے کھولا۔ خلافت کے متعلق غلط جوش کے دنوں میں ہم نے ان کی صحیح راہ نمائی کی میکلیگن کالج کے جھگڑے کے وقت ہم نے صحیح طریق عمل بتایا اور لوگوں پر ظاہر کیا کہ یہ مذہب کے بہانے سے سیاسیات میں طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی طرز کے مسلمانوں نے سمجھا کہ جب تک یہ جماعت موجود ہے اس وقت تک ہم سیاسی طور پر مسلمانوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے پس وہ بھی ہمارے مخالف ہو گئے۔ تیسری مثال اس کی وہ فتور ہے جو پچھلے دنوں کمیونل ایوارڈ یعنی فرقہ وارانہ تصفیہ کے نام سے اٹھا۔ سکھوں اور ہندوئوں نے گورنمنٹ کو نوٹس دیا تھا کہ ہم ایک لاکھ والنٹیرز اس کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار کریں گے۔ اس پر ہم نے بھی اپنی جماعت کی تنظیم شروع کر دی اور گورنمنٹ کے سامنے اپنی خدمات رکھ دیں نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو بھی قوموں نے محسوس کیا اور انہوں نے کہا کہ اگر ہم گورنمنٹ کو دھمکی دیتے ہیں تو یہ دھمکی کا اثر بھی قبول ہونے نہیں دیتے آئو اس جماعت کا ہی متحدہ مقابلہ کریں۔ پچھلے دنوں ایک اخبار والے کو دھمکی دی گئی کہ اگر مسلمانوں کے حقوق کی تائید سے وہ نہ رکے تو اس کے دروازوں پر پکٹنگ کیا جائے گا۔ ہم نے جب یہ سنا تو اپنے نوجوانوں کی خدمات پیش کر دیں اس پر کسی نے پکٹنگ نہ کیا۔ پس لوگوں نے دیکھا کہ جب وہ دھمکیاں دیتے ہیں تو ہم ان کی دھمکیوں کو باطل ثابت کر دیتے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے دبائو ڈالنا چاہتے ہیں۔ تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو بہکانا چاہتے ہیں تو اس میں روک بن جاتے ہیں اور ان کا پول کھول دیتے ہیں۔ طاقت اور گھمنڈ سے مرغوب کرنا چاہتے ہیں تو یہ اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں اس لئے ہندوئوں` سکھوں اور مسلمانوں میں سے ہر شخص ہماری کوششوں پر برا مناتا اور ہماری مخالفت کرنا اپنے مقاصد کے لئے مفید سمجھتا ہے۔ سیاسی مخالفت کے اسباب میں سے ایک ہمارا اس وقت شمشیر کے جہاد کی مخالفت کرنا بھی ہے۔ مولوی اس مسئلے کی مدد سے عوام کو خوب بھڑکا سکتے تھے ہم نے اس حربہ کو بھی چھین لیا ہے۔ پس ہماری جماعت کی مخالفت نہایت وسیع پیمانہ پر ہے اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک احمدیوں کو کمزور نہ کرایا جائے یا احمدیوں اور حکومت میں لڑائی نہ کرا دی جائے اس وقت تک ان کا قدم مضبوطی سے جم نہیں سکتا۔ یہ صرف خیالی بات نہیں بلکہ خود مجھ سے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ایک ذمہ دار آدمی نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو جب یورپ کی سیاحت سے واپس تشریف لائے تو سٹیشن پر ہی دوران گفتگو میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے دوران سیاحت میں محسوس کرایا گیا ہے کہ اگر ہم ہندوستان میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے احمدیہ جماعت کو کچل دینا چاہئے۔ اس عرض کے لئے انہوں نے کئی کوششیں بھی کیں مگر خدا کے فضل سے کامیاب نہ ہوئے۔ اب کانگریس والوں کی ایک طرف تو یہ کوشش ہے کہ ہمیں مسلمانوں سے لڑا کر کمزور کر دیا جائے اور دوسری طرف یہ کوشش ہے کہ ہماری انگریزوں سے لڑائی ہو جائے۔ ممکن ہے انگریز افسروں میں سے کوئی غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے مگر اطاعت چونکہ اصول مذہبی کی بناء پر ہے اس لئے ہم حکومت کی اطاعت سے کبھی انحراف نہیں کر سکتے گو اگر حکومت نے ہماری ہتک کا ازالہ نہ کیا تو پھر ہمارا تعلق اس سے محض قانونی اطاعت والا رہ جائے گا۔ محبت والا تعلق باقی نہ رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاسی مخالفت کی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہم پین اسلامزم کے مخالف ہیں۔ حالانکہ میں جب یورپ گیا تو راستہ میں عربی ممالک میں تمام امم اسلامیہ کی سکیم میں نے بنائی جسے بعد میں شیخ یعقوب علی صاحب نے دوسرے سفر کے موقعہ پر اور پھیلایا اور پھر ان کے لڑکے شیخ محمود احمد صاحب نے بلاد اسلامیہ کے سفر میں لوگوں میں اس کی اشاعت کی۔ جس کے نتیجہ میں معتمر اسلامی کا اجلاس ہوا۔ پس عالم اسلامی کے اتحاد کا میں بڑے زور سے قائل ہوں مگر اس اتحاد کا میں قائل نہیں جو لڑائیاں اور فتنہ و فساد کے لئے ہو۔ ہم اخلاق کو درست کرکے اتحاد رکھنے کے قائل ہیں اس امر کے قائل نہیں کہ انگریزوں یا کسی دوسری قوم سے خواہ مخواہ لڑا جائے۔
غرض ان وجوہ سے سیاسی لوگ ہمارے مخالف ہیں اور چونکہ کچھ لوگ حکومت میں بھی کانگرسی خیال کے داخل ہیں وہ بھی ان وجوہ سے دل میں ہمارے مخالف ہیں اور ایسے لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر ملتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کے لوگ سیاسی اختلاف کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ اور جماعت احمدیہ میں لڑائی ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے کسی دوسرے کا مال تو نہیں کھایا` بلکہ ہر ایک کو اس کا حق دلاتے ہیں۔ لیکن بہرحال لوگ ہم سے یہی بدگمانی رکھتے ہیں کہ گویا ہم انگریزوں سے مل کر ان کے حقوق کا نقصان کر رہے ہیں اور اس غصہ میں وہ ہمارے خلاف چالیں چلتے ہیں اور اب انہوں نے یہ تدبیر سوچی ہے کہ گورنمنٹ میں اور ہم میں اختلاف ڈالوا کر دونوں کو الگ الگ نقصان پہنچائیں۔ گورنمنٹ کی بنیاد چونکہ مذہب پر نہیں اس لئے ممکن ہے وہ ان کے قابو میں آجائے مگر ہم انشاء اللہ ان کے قابو میں نہیں آسکتے۔
مذہبی مخالفت: علاوہ سیاسی مخالفت کے موجودہ فتنہ کے تحت میں مذہبی مخالفت بھی کام کر رہی ہے علماء میدان دلائل میں شکست کھا چکے ہیں۔ وفات مسیحؑ کے مسئلہ کو پیش کیا جائے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں اسلام کا اس سے کیا تعلق کہ مسیح ناصری زندہ ہیں یا مر چکے۔ حالانکہ اگر اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں تو یہ لوگ اسی وجہ سے ہم پر کفر کے فتوے کیوں لگاتے رہے ہیں۔ اسی طرح نبوت کا مسئلہ ہے سوائے شور مچانے کے اور کوئی بات نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پہلے بزرگ خود لکھ چکے ہیں کہ امت محمدیہ میں غیر تشریعی نبوت کا سلسلہ جاری ہے اب وہ رد کس طرح کریں۔ گالیاں دیں تو اپنے بزرگوں پر بھی پڑتی ہیں۔ غرض میدان دلائل میں علماء ہمارے سامنے مات کھا چکے ہیں اور اب تو میں نے کثرت سے تعلیم یافتہ لوگوں کے مونہوں سے سنا ہے کہ ہم یہ تو مانتے ہیں کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے صرف یہ بتائیے کہ حضرت مرزا صاحب کس طرح نبی بن گئے ۔۔۔۔۔۔ علماء کے سامنے جب یہ باتیں پیش کی جاتی ہیں تو وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ پھر لوگ انہیں کہتے رہتے ہیں تم کرتے کیا ہو۔ احمدیوں میں سے تو کوئی افریقہ جا کر لوگوں کو مسلمان بنا رہا ہے اور کوئی امریکہ۔ کوئی انگلستان جارہا ہے اور کوئی ماریشس اور دمشق وغیرہ مگر تم بجز اس کے کہ گھر بیٹھے روٹیاں توڑتے رہتے ہو اور لوگوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہو اور کیا کرتے ہو۔ یہ باتیں جب ان کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ پس ہمارے وجود سے مولویوں کی زندگی تلخ ہو گئی ہے اور وہ دل میں کہتے ہیں کہ ہم تو احمدیوں کو چھوڑ دیں یہ ہمیں نہیں چھوڑتے۔ ہم کیا کریں جیسے کسی نے کہا تھا میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں پر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ غرض علماء پر ایک عجیب مصیبت نازل ہے۔ ہم ان سے لڑیں یا نہ لڑیں لوگ جب سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں احمدیوں کے ذریعہ اتنے مسلمان ہو گئے۔ افریقہ میں اتنے اور امریکہ میں اتنے لوگ داخل اسلام ہوئے تو وہ مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ تم سوائے کافر بنانے کے اور کیا کام کرتے ہو۔ مولوی جب یہ باتیں سنتے ہیں تو بجز اس کے انہیں کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کہتے ہیں ہم لٹھ تیار کر لیں کہیں احمدی نظر آیا تو اس کا سر پھوڑ دیں گے پھر نہ یہ کم بخت دنیا میں رہیں گے اور نہ لوگ ہمیں ستایا کریں گے۔ ہر مولوی چونکہ اپنے ساتھ چیلے بھی رکھتا ہے اور ان چیلوں کا آگے حلقہ احباب ہوتا ہے اس طرح یہ مخالفت پھیل جاتی ہے دوسری طرف آریوں نے بھی محسوس کرلیا ہے کہ ہماری جماعت کی وجہ سے ان کی ترقی رک رہی ہے۔ جب ملکانہ میں ارتداد شروع ہوا اور تھوڑے ہی عرصہ میں یعنی قریباً دو مہینہ کے اندر اندر انہوں نے بیس ہزار آدمی مسلمانوں میں سے مرتد کر لئے تو اس وقت لاہور میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ کیا کوئی مسلمان ملکانوں کی خبر گیری کرنے والا نہیں پھر اشتہار دیئے گئے جن میں لکھا گیا کہ احمدی لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے محافظ ہیں بتائیں کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ بیدار ہوں اور اسلام کی حفاظت کریں اس پر میں نے اپنی جماعت میں اعلان کیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے تین سو آدمیوں نے اپنی جانیں پیش کر دیں اور ایک ایک وقت میں سو سو مبلغ ہمارا ملکانہ میں کام کرتا رہا۔ ایک لاکھ کے قریب ہمارا روپیہ خرچ ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے نتیجہ یہ نکلا کہ آریوں کو ہر میدان میں شکست دی اور یہ جو ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں میں ایک عام رو ارتداد کی چلا دیں گے غلط ثابت ہوا۔ گاندھی جی کو جو اس وقت جیل میں تھے جب یہ حالت معلوم ہوئی تو انہوں نے اس پر اظہار ناراضگی کرنا شروع کیا اور سیاسی لیڈروں نے کہنا شروع کیا کہ آپس میں صلح کر لو اور اپنے اپنے مبلغ واپس منگا لو۔ سوامی شردھا نند جی اس وقت زندہ تھے انہوں نے پرزور آواز اٹھائی کہ ہمیں گاندھی جی کی بات مان لینی چاہئے اور آپس میں صلح کر لینی چاہئے۔
چنانچہ دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی ہمارے بعض دوستوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں ہمیں نہیں بلایا گیا۔ میں نے کہا آپ لوگ تسلی رکھیں وہ ہمیں بلانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ ہمارے بغیر یہ صلح ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ڈاکٹر انصاری` مولانا محمد علی صاحب اور حکیم اجمل خاں صاحب کی طرف سے میرے نام تار آیا جس میں لکھا تھا کہ آپ اپنے نمائندوں کو یہاں بھیجئے۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا۔ دیکھو وہ ہمارے بلانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ وہ ہمارے بغیر صلح کر ہی نہیں سکتے۔ خیر جب میں نے اپنی طرف سے نمائندے بھیجے تو میں نے انہیں کہہ دیا کہ وہاں یہی امر پیش کیا جائے گا کہ گاندھی جی چونکہ سخت اذیت پا رہے ہیں اس لئے کام سب بند کر دینا چاہئے۔ اور اپنے اپنے مبلغ واپس منگوا لینے چاہئیں آریہ اپنے گھروں کو چلے جائیں اور مسلمان اپنے گھروں میں۔ مگر آپ اس کے جواب میں یہ کہیں کہ آپ لوگ بیس ہزار مسلمان آریہ بنا چکے ہیں۔ ان بیس ہزار کو آپ کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیں تو ہم اپنے گھروں میں آجائیں گے اور آپ اپنے گھروں میں آجائیں ورنہ جب تک بیس ہزار اشخاص اسلام میں واپس نہیں آتے اس وقت تک ہماری تبلیغ جاری رہے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب ہمارے نمائندے گئے تو انہوں نے یہی امر پیش کیا کہ آپ بیس ہزار مسلمان آریہ کر چکے ہیں۔ جب تک آپ انہیں واپس نہیں کرتے ہم تبلیغ سے کس طرح رک سکتے ہیں اور اگر صلح کر لیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم گھاٹے میں رہے آریہ بھلا اس بات کو کب تسلیم کر سکتے تھے کہ ہم بیس ہزار لوگوں کو کلمہ پڑھا کر اسلام میں واپس کر لیں وہ نہایت مایوس ہوئے اور سوامی شردھانند جی نے کہا بات بالکل صاف ہے اگر اس پر بھی کوئی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں عجیب بات یہ ہوئی کہ ہماری یہ بات بعض مسلمان سیاسی نمائندوں کی سمجھ میں آگئی اور وہ کہنے لگے کہ برابری تو تب ہی ہوتی ہے جب بیس ہزار لوگ اسلام میں واپس ہوں۔ >جمعتہ العلماء< کا نمائندہ بھی وہاں موجود تھا اس نے بڑے جوش سے سوامی شردھانند جی کو کہا کہ ان احمدیوں کی ہستی ہی کیا ہے۔ انہیں چھوڑئے اور ہم سے معاہدہ کیجئے۔ میں سات کروڑ مسلمانوں کی طرف سے آپ سے معاہدہ کروں گا کہ وہاں کوئی مسلمان تبلیغ نہیں کرے گا۔ سوامی جی حقیقت سے خوب واقف تھے وہ کہنے لگے مولانا آپ کے وہاں پچاس مبلغ ہوں تو حرج نہیں لیکن اگر ایک احمدی مبلغ بھی وہاں موجود ہو تو اس کا رہنا خطرناک ہے۔ یہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے آریہ غصے سے بھرے ہوئے ہیں۔
ادھر عیسائی الگ مخالف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مشنوں کو جس قدر نقصان پہنچ رہا ہے سب احمدیوں کی وجہ سے ہی ہے۔ اچھوتوں میں ہم جو تبلیغ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی انہیں دشمنی ہے۔ چنانچہ اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اچھوت ہماری جماعت میں شامل ہو چکے ہیں اس کا بھی انہیں غصہ ہے پھر یہ کوششیں نہ صرف اندرون ہند میں بلکہ بیرون ہند میں بھی ہماری طرف سے جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس میں سات مختلف مقامات پر افریقہ کے ذکر میں بیان کیا گیا ہے کہ احمدیوں نے عیسائیت کی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ غرض ان حالات کی وجہ سے مسلمان۔ عیسائی اور آریہ تینوں قومیں متحد ہو کر ہمیں مٹانا چاہتی ہیں۔
اقتصادی مخالفت: پھر ہماری جماعت کی موجودہ مخالفت میں اقتصادی تغیرات کا بھی دخل ہے کیونکہ مالدار طبقہ ہمیشہ غرباء کو لوٹتا رہتا ہے اور ہماری جماعت اس تحریک کی مخالف ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امراء ہماری جماعت کی مخالفت کرتے ہیں دو تین مہینے ہوئے کہ ایک انگریز پولٹیکل ایجنٹ نے ہماری جماعت کے ایک افسر کو کہا کہ فلاں ریاست میں آپ لوگوں کی طرف سے تبلیغ ہو رہی ہے مجھ سے وہاں کے وزیر نے شکایت کی کہ ان کی تبلیغ سے خطرات ہیں۔ ہمیں اس کے روکنے کی اجازت دی جائے تو میں نے لکھا کہ اگر احمدی اچھوتوں میں تبلیغ کریں تو انہیں روک دو۔ ہاں مسلمانوں میں تبلیغ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ اچھوتوں میں تبلیغ کرنے سے زمیندار ناراض ہوتے ہیں کہ ہمارے کاموں کو نقصان پہنچتا ہے غرض اچھوت قوموں کی ترقی اور ادھار جو ہمارے ذریعہ ہو سکتا ہے وہ نہ آریوں کے ذریعہ ہو سکتا ہے اور نہ عیسائیوں کے ذریعہ۔مسلمان ہی وہ قوم ہے جس میں اچھوت جذب ہو کر ایک ہو سکتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ جب کوئی اچھوتوں میں سے نیا نیا نکل کر آتا ہے تو اس سے تعلقات رکھنے پسند نہیں کئے جاتے۔ مگر آہستہ آہستہ خود ہی مسلمانوں میں جذبہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے کوئی کھیت میں جائے اور تازہ پاخانہ پڑا ہوا دیکھے تو دو چار دن شلجم` کدو کھانے کو اس کا جی نہیں چاہتا۔ مگر دو چار دن کے بعد خود بخود کھانے لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اچھوت دو چار نسلوں میں ہی مسلمانوں میں اس طرح مل جاتے ہیں کہ ان کا کچھ پتہ نہیں لگتا۔ بہرحال اچھوتوں میں تبلیغ کرنے کی وجہ سے مالدار طبقہ کو ہم پر غصہ آتا ہے۔ پھر غرباء کی جب ہم ناجائز مدد نہیں کرتے تو انہیں بھی ہم پر غصہ آتا ہے وہ جب سٹرائکیں کرتے کارخانوں کو آگ لگاتے اور بائیکاٹ کی تحریکات جاری کرتے ہیں تو ہم ان کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور اس طرح مزدور طبقہ سمجھتا ہے کہ ہم ان کے دشمن ہیں۔ حالانکہ ہم غرباء کو ان کے حقوق دلاتے اور امراء کو دست درازیوں اور تعدیوں سے مجتنب رہنے کی تعلیم دیتے ہیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ امراء غرباء کی تذلیل کریں۔ مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ غرباء امراء کو قتل کریں اور ان پر ناجائز حملے کریں۔ دونوں ہمارے مخالف ہو جاتے ہیں۔ پس اقتصادی اصول پر بھی ہماری مخالفت شروع ہو گئی ہے۔
ان تینوں وجوہات کی بناء پر مذہبی سیاسی اور اقتصادی رنگ میں ہماری مخالفت کی جاتی ہے ہم ہر ایک کے دوست اور خیر خواہ ہیں۔ مگر چونکہ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اس حد تک ان کے دوست نہیں جس حد تک وہ چاہتے ہیں اس لئے وہ ہماری دشمنی کرتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تمام لوگ ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اب یہ لوگ کیوں زیادہ مخالفت کر رہے ہیں۔ ہماری جماعت تو ابتداء سے ان ہی اصول کی قائل ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ شروع شروع میں گو ہماری تعلیم یہی تھی اور ہم ان ہی عقائد کو پیش کرتے تھے مگر بڑے بڑے مالدار یہ کہا کرتے تھے کہ ان کے ساتھ بحث کرنا وقت کو ضائع کرنا ہے بھلا کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا ہم جب چاہیں گے انہیں مسل دیں گے مولوی لوگ سمجھتے کہ ان کے کفر کے فتوے ہماری جماعت کو مٹا دیں گے۔ سیاستدانوں کے سامنے جب ہماری جماعت کا ذکر آتا تو وہ کہتے۔ یہ چھوٹی سی جماعت ہے اس نے کیا کر لینا ہے۔ آپس میں اتحاد رکھنا چاہئے۔ اقتصادی لوگوں کے سامنے ابھی ہماری تعلمیں آئی ہی نہ تھیں۔
غرض ہماری جماعت کو چوہے کی طرح سمجھا جاتا تھا مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ جسے چوہا سمجھتے تھے شیر ہے اور جسے ناقابل التفات سمجھتے تھے وہ جماعت لوگوں کو کھانے لگ گئی۔ وہ بڑے بڑے باوقار لوگ جو اپنی کرسیوں پر اس خیال میں مست بیٹھے تھے کہ ہم جب چاہیں گے احمدیوں کو مسل کر رکھ دیں گے وہ بھی ہمارے نظام اور جماعت کی ترقی کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ جماعت شیر ہے جو ایک دنیا پر غالب آکر رہے گی۔ پس لوگ ہمارے دشمن ہیں مگر ہم کسی کے دشمن نہیں ہم مسلمانوں کے بھی خیر خواہ ہیں اور ہندوئوں کے بھی بلکہ ہندوئوں کے بزرگوں کو سچا تسلیم کرکے مسلمانوں کی نگاہ میں کافر بنتے ہیں۔ سکھوں کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ حضرت باوا نانک~رح~ صاحب کو خدا کا ولی اور نہایت نیک انسان سمجھتے ہیں حکومت کے بھی خیر خواہ ہیں۔ کیونکہ انارکسٹوں کا مقابلہ کرتے اور قانون کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں۔ کانگریس کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم ملک کی جائز حد تک آزادی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ امراء کے بھی خیر خواہ ہیں۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ سٹرائکیں ہوں اور لوگ انہیں قتل کریں۔ غریبوں اور مزدوروں کے بھی خیر خواہ ہوں۔ کیونکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ جو ان پر ظلم ہوتے ہیں ان کا ازالہ کیا جائے اور ان کے حقوق انہیں دلوائے جائیں۔
غرض ہم سب کے خیر خواہ ہیں اور ہمارا قصور اگر ہے تو یہ ہے کہ ہم اتنے خیر خواہ نہیں جتنی خیر خواہی ناجائز ہوتی ہے اور اسی بناء پر سب لوگ ہمارے دشمن ہو گئے ہیں۔ اور اب ہماری ترقی کو دیکھ کر سب جماعتیں پریشان ہو گئی ہیں اور ہمارے تباہ کرنے کے لئے متفق ہو گئی ہیں یا پھر موجودہ فتنہ کی یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری آزمائش کرنا چاہتا ہے ہم جو روزانہ اس کے سامنے فخر سے کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم تجھ پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لائے اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس کے مطابق اب خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم کس حد تک قربانیاں کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں کتنا ایمان ہے<۔۲۲۳
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دوسرا باب )فصل ہشتم(
قادیان میں احرار اور حکومت کی اشتعال انگیز سرگرمیاں
سلسلہ احمدیہ کا مقدس نظام چونکہ ایک واجب الاطاعت امام اور ایک فعال مرکز سے وابستہ تھا اور ہے اس لئے احرار اور حکومت دونوں نے جماعت احمدیہ کی تنظیم پارہ پارہ کرنے کے لئے براہ راست قادیان ہی کو اپنی اشتعال انگیزیوں کی آماجگاہ بنا لیا اور سر توڑ کوشش شروع کر دی کہ احمدیوں کے خلاف ایسی فضا پیدا کر دی جائے کہ وہ صبر و تحمل کا دامن چھوڑ کر قانون شکنی پر مجبور ہو جائیں اور بالاخر ملکی آئین کے ساتھ ایسا کھلا تصادم شروع ہو جائے کہ حکومت کے لئے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ پر اور پھر آپ کے بعد قادیان اور اس سے باہر پورے صوبہ میں پھیلے ہوئے دوسرے احمدیوں پر ہاتھ ڈالنا آسان ہو جائے۔ اس بارے میں انگریزی حکومت کی ناپاک اور مکروہ عزائم کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ ایک عرصہ بعد مرزا معراج الدین صاحب انسپکٹر جنرل سی۔ آئی۔ ڈی نے ایک مشہور احمدی کو بتایا کہ گزشتہ سالوں میں حکومت نے جو منصوبے آپ کی جماعت کے خلاف کئے تھے وہ اتنے بھیانک اور اتنے خوفناک تھے کہ ان کا تصور کرکے بھی انسان کا دل لرز جاتا ہے۔ مگر جماعت کی زبردست قیادت نے ان سب کو ناکام بنا دیا۔ اور اسی لئے میں امام جماعت احمدیہ کا گرویدہ ہو گیا ہوں۔۲۲۴
مرکز احمدیت پر حملہ کرنے اور اس سکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سب سے پہلا اور اہم قدم یہ اٹھایا گیا کہ احرار نے ابتداء" ۶/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو دو نوجوان قادیان میں بھیجے تا صورت حال کا جائزہ لیں۔ ان نوجوانوں کی آمد پر قادیان کی اہلسنت و الجماعت اور ہندوئوں نے اخبار الفضل میں ایک بیان دیا کہ۔
>۶/ اکتوبر ۱۹۳۳ء کو دو نوجوان آئے اور بیان کیا کہ ہم احرار اسلام کی طرف سے بھیجے گئے ہیں چونکہ مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اس لئے ہم نے ان کو کہا کہ مسجد عبادت کے لئے ہے چونکہ ایسی کارروائیوں سے فتنہ و فساد ہوتا ہے اس لئے آپ مسجد سے چلے جائیں۔ لہذا وہ دونوں صاحب چلے گئے اس کے سوا اور کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ احرار کا قادیان میں نہ کوئی دفتر ہے نہ لنگر خانہ اور نہ کوئی جماعت<۔۲۲۵
احرار جھوٹے پراپیگنڈا کے ماہر تھے ہی انہوں نے اتنی سی بات کا بتنگڑ بنا لیا اور مسلمانوں کو اکسانے کے لئے یہ روایت گھڑ لی کہ احمدیوں نے اپنے اقتدار کے نشہ میں ان احراری نوجوانوں کو لاٹھیوں سے مار مار کر ادھ موا کر دیا ہے۔ چنانچہ چودھری افضل حق صاحب مفکر احرار >تاریخ احرار< میں یہ واقعہ بالکل مسخ شدہ رنگ میں پیش کرکے لکھتے ہیں کہ۔
>چند نوجوان والنٹیروں کو قادیان میں بھیجا تاکہ مسلمانوں کی مساجد میں جاکر نماز ادا کریں لیکن ایسا نہ کریں کہ کہیں مرزائیوں کی مسجد میں جا گھسو۔ اور مرزائیوں کو تم پر تشدد کا معقول بہانہ مل جائے لیکن قادیانی مرزائیوں کو مسلمانوں کی مسجد میں آوازہ اذان کی برداشت کہاں تھی مسلمان پر ان کا لاٹھی کا ہاتھ رواں تھا ہی۔ آئے اور لاٹھی کے جوہر دکھانے لگے۔ بے دردوں نے لاٹھیوں سے احرار اور والنٹیروں کو اس قدر پیٹا کہ پناہ بہ خدا۔ بزدل دشمن قابو پاکر ایسے ہی غیر شریفانہ مظاہرے کرتا ہے<۔۲۲۶
قادیان میں آنے والے احرار کی اس پہلی پارٹی کے بعد ایک شخص عنایت اللہ نامی احرار کے مبلغ کی حیثیت سے یہاں پہنچ گئے جنہوں نے بعض متفنی اور آوارہ مزاج لوگوں کو آلہ کار بنا کر احمدیوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں کہ کسی طرح مقامی احمدیوں سے تصادم ہو جائے اور وہ اپنی چیخ و پکار سے نہ صرف مسلمانوں کی توجہ اور ہمدردی حاصل کر سکیں۲۲۷ بلکہ غیر مسلموں میں سے گہرا تعلق ہو جائے تا احمدیوں کے خلاف جو بھی سرکاری کارروائی ہو وہ ان کی پشت پناہی میں ہو۔
انجمن >احرار المسلمین< کی طرف سے اخبار >پیغام حق< کے ذریعہ ۱۹۲۹ء میں قادیان کے غیر احمدیوں اور غیر مسلموں پر احمدیوں کے مفروضہ مظالم کا ڈھنڈورا پیٹا جا چکا تھا۔ اب یہ پراپیگنڈا نمک مرچ لگا کر اور بھی تیز کر دیا گیا کہ قادیان میں انگریزی حکومت مفلوج ہو کے رہ گئی ہے اور >مرزائیوں< نے اپنی متوازی حکومت قائم کرکے مقامی ہندوئوں اور مسلمانوں کا عرصئہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور یہ کہ احرار اس مظلوم اور ستم رسیدہ آبادی کی پکار پر قادیان گئے ہیں اور ان کو اس جبر و تشدد سے نجات دلا کے رہیں گے۔ خود >مفکر احرار< چودھری افضل حق صاحب نے قادیان میں احرار کے داخلہ کی ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے چنانچہ احرار کی اس کارروائی کو آسمانی تحریک قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔
>جس طرح بے کسی کشمیر کی غریب آبادی کی مصیبتوں کو دیکھ کر آہ و فغاں کر رہی تھی اور ہم اس کے دردناک نالوں کو سن کر اٹھے اسی طرح ہم نے قادیان کے تباہ حال اور ستائے ہوئے ہندوئوں اور مسلمانوں کی پکار سن کر کان کھڑے کئے۔ قادیان کے مرزائی سرمایہ داروں کو یقین تھا کہ زمین کے دردناک نالے آسمان کے خداوند تک نہیں پہنچتے ۔۔۔۔۔۔ لیکن دیکھو! یوں معلوم ہوا کہ گویا آسمان کے خداوند نے کہا کہ اے ارباب غرور یہ تمہاری متشدددانہ زندگی کی انجیل کے اوراق اب بند ہو جانے چاہئیں۔ پس اس نے جھوٹے مسیحا اور اس کے حواریوں کے مظالم کو روکنے کے لئے ایک خاک نشینوں کی جماعت کے دل میں تحریک کی<۔۲۷۸
>سوانح حیات میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری< میں بھی قادیان پر >نظر عنایت< کرنے کا ایک سبب قادیان کے ہندوئوں اور مسلمانوں کو بھی بتایا گیا ہے۔ الفاظ یہ ہیں۔
>مذہب کی آڑ میں یہاں ایک خوفناک نظام قائم ہے۔ جس کے تحت >حسن بن صباح< جیسے کارنامے سر انجام دیئے جاتے ہیں ان حالات اور باشندگان قادیان کی فریاد نے احرار کو مظالم قادیان کے انسداد کے لئے مجبور کیا<۔۲۷۹
احرار نے >مظالم قادیان< کے ازالہ کے لئے سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء کا موقعہ تجویز کیا اور انہوں نے ان ایام میں جبکہ ملک کے اکناف و اطراف سے ہزاروں احمدی اپنے مقدس مرکز میں جمع تھے محض احمدیوں کی دلازاری کے لئے جلسہ کیا اور اشتعال انگیز اشتہارات تقسیم کئے۔ اس موقعہ پر مقامی پولیس نے ایک طرف تو ہنگامہ آرائی کی حوصلہ افزائی کی اور دوسری طرف حکام بالا کو اس قسم کی اطلاع بھیج کر کہ احمدیوں کی طرف سے فساد کا خطرہ ہے پولیس کی ایک خاصی جمعیت منگالی۔ اور مجسٹریٹ صاحب علاقہ نے جماعت کے ذمہ دار ارکان کو مشورہ دیا کہ احمدیوں کو جلسہ میں نہ جانا چاہئے۔ چنانچہ احراری جلسہ گاہ کی طرف جانے والے ہر راستے پر آدمی مقرر کر دیئے گئے تا اگر کوئی ناواقف احمدی ان کے جلسہ میں جانے کے لئے وہاں پہنچے تو اسے واپس کر دیا جائے اور انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی کہ احرار کو کسی قسم کی شکایت نہ پیدا ہو لیکن چونکہ ان لوگوں کی غرض محض جماعت احمدیہ کے خلاف شور مچانا تھی جس میں مقامی پولیس خود پشت پناہ بنی ہوئی تھی۔ اس لئے جب فساد کے لئے کوئی اور بات نہ سوجھی تو انہوں نے اپنی جلسہ گاہ کے تھوڑی دور ایک احمدی مکان میں دو ایک مہمان احمدیوں کے اشعار پڑھنے پر شور مچا دیا کہ شعر پرھنے والوں کی آواز ان تک پہنچتی ہے۔ مقامی پولیس کے انچارج نے حکم نافذ کر دیا کہ احمدی اشعار پڑھنا بند کر دیں۔ کیونکہ اس سے فساد کا خطرہ ہے چنانچہ شعر پڑھنے بند کر دیئے گئے اس پر احراریوں نے ایک احمدی کے مکان کی دیوار پر )اس کے منع کرنے کے باوجود( ایک پوسٹر چسپاں کر دیا وہ پوسٹر اس جلسہ سے متعلق نہیں تھا۔ اور اس پر حضرت خلیفتہ
‏tav.7.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور جماعت احمدیہ کے متعلق نہایت اشتعال انگیز بے ہودہ سرائی کی گئی تھی۔ احمدی نے چپکے سے یہ اشتہار اکھیڑ دیا اس پر احراریوں نے پولیس سے کہا کہ دیکھو ہمارے اشتہار پھاڑے جارہے ہیں۔ اب فساد ہو جائے گا۔ سر پھٹ جائیں گے ہم یہ کردیں گے وہ کر دیں گے۔ یہ دیکھ کر انچارج پولیس )جس کے سامنے وہ اشتہار لگایا گیا تھا( احراری کو منع کرنے کی بجائے احمدی کو ڈانٹنے لگا۔۲۳۰
قادیان میں مجلس احرار کے دفتر کا قیام
شرارت کی یہ پہلی کھلی کوشش تھی جسے وسیع کرنے کے لئے ۱۹۳۴ء کے آغاز میں یہاں مجلس احرار کا ایک دفتر قائم کر دیا گیا۔۲۳۱
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی سوانح حیات میں اس دفتر کے ذکر میں لکھا ہے۔ >قادیان میں مجلس احرار کا دفتر ۱۹۳۴ء سے قائم ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مبلغین تردید قادیانیت کا کام نہایت احسن طریق سے انجام دے رہے ہیں۔ دفتر ایک عظیم الشان عمارت میں قائم کیا گیا ہے جو قادیان کے عین وسط میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ قادیان کے مدرسہ اور مبلغین اور دفتر کا ماہوار خرچ تین سو روپے سے زائد ہے<۔۲۳۲
اس دفتر کے اخراجات کہاں سے مہیا ہوتے تھے؟ اس کی تفصیل میں ہم جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے شاہ صاحب کے سوانح نویس نے اس کی نسبت صرف یہ لکھا ہے کہ >اس تمام خرچ کی کفالت حضرت امیر شریعت کے ذمہ ہے اور آپ ہی کی کوششوں سے قادیان کا کام ابھی تک بند نہیں ہوا<۔۲۳۳
اس دفتر کی >عظیم الشان عمارت< اس کے >مدرسہ< اور >مبلغین< کی کیفیت تو دیکھنے والوں پر خوب عیاں تھی۔ مگر شاہ صاحب اپنے زور خطابت میں کس طرح اس دفتر کے >کارناموں< کی باہر تشہیر کیا کرتے تھے اس کا نمونہ ان کے لکھے ہوئے درج ذیل اشتہار سے ملتا ہے۔
>ہمارے دفتر نے جو خاص قادیان میں قائم کیا گیا ہے اس فتنہ کی ترقی کو کافی حد تک روک دیا ہے بلکہ تمام مرزائی جماعت کو کھوکھلا کر دیا ہے سینکڑوں مرزائی تائب ہو گئے ہیں اور ہزاروں تیار ہیں جو آپ لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ لوگ پوری ہمت اور پوری ذمہ داری سے جو اسلام نے آپ پر عائد کی ہے شعبہ تبلیغ مجلس احرار اسلام کے استحکام کے لئے کوشش کریں اور ہم اس قابل ہو جائیں کہ ان کے بڑے بڑے لوگوں کو دعوت دیں جو محض مجبوریوں کی وجہ سے وہاں پھنسے ہوئے ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ ہماری آنکھوں کے دیکھتے دیکھتے یہ فتنہ دنیا سے فنا ہو جائے اس لئے ضروری ہے کہ آپ خود اور اپنے ملنے والے دوستوں کو بھی اس کار ثواب کی طرف ترغیب دے کر شعبہ تبلیغ مجلس احرار کے استحکام کے لئے جدوجہد کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قادیانیوں کے خلاف روپیہ خرچ کرنا اس وقت کا جہاد ہے-<۲۳۴
احرار نے قادیان میں ڈیرہ جماتے اور دفتر قائم کرتے ہی خلاف امن کارروائیاں شروع کر دی تھیں جن کی وجہ سے قادیان ہی نہیں اس کے نواح میں بسنے والوں کے باہمی تعلقات میں بھی زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی جس میں اضافہ کرنے کے لئے انہوں نے ایک طرف حکام کو احمدیوں کے خلاف جھوٹی رپورٹوں سے بھڑکایا دوسری طرف ہر ایک مسجد میں نہایت اشتعال انگیز اور دلازار تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جس میں جماعت احمدیہ کے مقدس پیشوا اور دوسرے بزرگوں پر نہایت فحش اتہام لگائے جاتے۔ احمدیوں کو قاتل اور سفاک قرار دیا جاتا اور مختلف پیرایوں اور رنگوں میں لوگوں کو فتنہ و فساد کے لئے اکسایا جاتا۔۲۳۵
بدزبانی اور بدگوئی کا یہ ناروا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے لاہور` امرتسر` لدھیانہ اور دوسرے شہروں کے آتش زیرپا اور شرر بار خطیبوں اور مولویوں کا ایک تانتا لگ گیا۔ یہ خدا ناترس دشنام طرازی` زہر چکانی` تمسخر` پھکڑ بازی` جھوٹ اور دوسرے تمام اوچھے ہتھیاروں سے کام لیتے تھے اور یہ سب کچھ پولیس اور دوسرے ذمہ دار حکام کی موجودگی بلکہ سرپرستی میں ہوتا تھا۔
یہ لوگ جہاں عوامی جذبات کو مشتعل اور برانگیختہ کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔ وہاں اپنی امن پسندی اور مظلومیت کی نمائش بھی باقاعدگی سے کرتے تھے اور یہ ڈھنگ قریباً ہر ایک مقرر اختیار کرتا تھا اور اس عرض کے لئے نت نیا انداز اختیار کیا جاتا تھا۔ چنانچہ صدر مجلس احرار اسلام ہند مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی قادیان آئے تو ۲۳/ مارچ ۱۹۳۴ء۲۳۶ کو ان کی خدمت میں ذیل کا سپاسنامہ پیش کیا گیا۔
>جناب کی خدمت میں سچ عرض کرتے ہیں کہ ہم قادیان میں برطانوی حکومت نہیں سمجھتے بلکہ ہم پر قادیانی جماعت حکمران ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قادیان میں برطانوی حکومت کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اور اسی لئے ہم لوگوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ قادیان سے کان پکڑ کر نکال دنیا ہر روز کا مشغلہ ہے۔ جرمانوں اور بیدوں کی سزا دی جاتی ہے- قتل تک ہضم کر لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ تھوڑا عرصہ گزار ہے کہ محمد امین مجاہد بخارا کو دن دہاڑے قتل کیا گیا اور قاتل اقبال جرم کرتا ہے مگر کوئی مقدمہ نہیں چلتا۔ باقاعدہ امور عامہ۔ امور داخلہ۔ امور خارجہ مقرر کئے جاتے ہیں۔ خانہ ساز ہائیکورٹ اور اس کے ماتحت لوئر کورٹ موجود ہے اور خصوصیت سے مسلمانوں کے متعلق ان کی پالیسی یہ ہے کہ ان کو قادیان سے نکال دیا جائے اور ان کا مذہبی عقیدہ بھی ہے چنانچہ سمال ٹائون قادیان کا موجودہ پریذیڈنٹ کا عدالت میں بیان ہوا۔ اور اس نے علی الاعلان کہا کہ قادیان کے۔۔۔۔۔۔۔ غیر احمدیوں کے لئے صرف دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو محمد الرسول اللہ~صل۱~ کے دامن اقدس کو چھوڑ کر قادیانی ہو جائیں یا قادیان سے نکل جائیں<۔۲۳۷body] [tag
یہ اکثر و بیشتر الزامات وہ ہیں جو بعد کو پنجاب ہائی کورٹ میں پوری تفصیل سے زیر بحث آئے اور عدالت نے ان کو بالکل بے بنیاد اور غلط قرار دیا۔۲۳۸ بہرکیف اس سپاسنامہ کے جواب میں جو اول تا آخر غلط بیانیوں کا مجموعہ تھا مولوی حبیب الرحمن صاحب موصوف نے بڑی تیز و تند تقریر کی جس میں قادیان کے غیر احمدیوں کو سخت اشتعال دلاتے ہوئے کہا۔
>تمہارا فرض ہے کہ محمود اور اس کے رفقاء کو پرامن طور پر صراط مستقیم کی طرف بلائو اور ان کے سامنے سرکار دو عالم~صل۱~ کے سچے دین کو پیش کرو اور اس کے عوض میں تمہارے سر پھوڑ جائیں تو سر پھڑوالو۔ اگر تم کو گولی کا نشانہ بنائیں تو سینوں کو کھول دو اور بے تابانہ طور پر موت سے بغل گیر ہو جائو۔ خدا کی قسم میں اس بات کا منتظر ہوں کہ قادیان کی گلیوں میں احرار کے رضاکاروں کے خون کی نہریں بہتی ہوں اور میں سمجھ لوں کہ آج میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر میں اپنے مشن کو پورا کرتے ہوئے محمود کے حواریوں کے ہاتھوں خاص قادیان میں قتل کیا جائوں تو میں اس کو شہادت کبریٰ تصور کروں گا<۔۲۳۹]ybod [tag
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ احراری لیڈروں کی تقریروں میں اشتعال انگیزیوں کے کیا کیا حربے استعمال نہ کئے جاتے ہوں گے۔ ان شعلہ افشانیوں کا ایک حصہ الفضل میں اور ایک حصہ سلسلہ احمدیہ کے جماعتی ریکارڈ میں آج تک محفوظ ہے اور انشاء اللہ آئندہ نسلوں کے لئے قیامت تک محفوظ رہے گا۔
پنجاب کے بعض سرکردہ علماکی طرف سے احرارکی حوصلہ افزائی
یہ تو قادیان میں آنے والوں کا حال تھا جو مخالف علماء دوسرے شہروں میں رہتے تھے اور انہیں قادیان آنے کا موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ ان کی زبان و قلم میں غضب کی تیزی اور خیالات میں بلا کی شدت آگئی تھی۔ اور وہ احرار کی مخالفانہ کوششوں کو جہاد قرار دے رہے تھے اور تمام مسلمانوں کو احمدیت کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ چنانچہ انہی دنوں مولوی سید انور شاہ صاحب کاشمیری )مشہور فاضل دیوبند( نے ایک اپیل شائع کی جس میں لکھا۔
>قادیانیوں کے مقابلہ میں موجودہ جنگ خالصت¶ہ لوجہ اللہ جاری ہے۔ لہذا ان حضرات سے جنہوں نے مجھ سے حدیث کا سبق پڑھا ہے خصوصاً اور عام اہل اسلام سے عموماً دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ لاہوری فدا کاران دین کی طرح مرزائیت کے قصر بے بنیاد کو برباد کرنے میں ہر ممکن سعی کرنے سے دریغ نہ فرما دیں<۔۲۴۰
اسی طرح مولوی احمد علی صاحب امیر انجمن خدام الدین لاہور اور مولوی ظفر علی خاں صاحب۲۴۱ ایڈیٹر >زمیندار< نے مسلمانوں سے اپیل کی۔
>وہ آخری فتنہ جس کی رسول اللہ~صل۱~ نے خبر دی تھی مشرق میں قادیانیت کی صورت پکڑ کر ظاہر ہو چکا ہے لہذا ہم تمام مسلمانوں کو اللہ کے نام سے جو لم یلد ولم یولد ہے۔ محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے نام پر جو خاتم النبین ہے اسلام کے نام پر کہ اللہ کے نزدیک وہی دین مقبول ہے درد بھرے دل سے صلائے عام دیتے ہیں کہ وہ اپنے تمام جزوی اختلاف کو دور کرکے اس فتنہ )قادیانی( کی بیخ کنی کرنے میں ہر ممکن ذرائع کے استعمال سے پہلو تہی نہ کریں۔ ورنہ بجز خسر الدنیا و الاخرۃ کچھ حاصل نہ ہو گا<۔۲۴۲
فتنہ کی روک تھام کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل
مرزا عبدالحق صاہب )پلیڈر گورداسپور( کا بیان ہے کہ احرار کے مقابلہ کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کے وہ بھی ممبر تھے۔ اسی طرح مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور اور چند اور اصحاب بھی۔ حضور خود اس کمیٹی کی صدارت فرماتے۔ کمیٹی کے ممبروں پر بہت سی پابندیاں تھیں اور ان کے سامنے واقعات تفصیلی طور پر رکھے جاتے تھے۔۲۴۳ اس ضمن میں ضروری خط و کتابت اور لٹریچر کے محفوظ رکھنے کا کام حضور نے براہ راست اپنی نگرانی میں رکھا ہوا تھا۔۲۴۴
فتح احمدیت کی پیشگوئیاں
ابھی اس فتنہ کا آغاز ہی ہوا تھا کہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے احمدیت کی کامیابی کا واضح اعلان کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ حضورؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۱ء کے پہلے روز احرار کو مخاطب کرتے ہوئے نہایت پرشوکت الفاظ میں فرمایا۔
>ہم ان سے کہتے ہیں تم کیا۔ اگر تم دنیا کی ساری حکومتوں اور ساری قوموں کو بلا کر بھی اپنے ساتھ لے آئو پھر بھی تم جیت جائو تو ہم جھوٹے۔ اگر ان لوگوں نے ایسا کیا تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس چیز سے ٹکراتے ہیں۔ اگر انہوں نے ہم پر حملہ کیا تو چکنا چور ہو جائیں گے اور اگر ہم نے ان پر حملہ کیا تو بھی وہ چکنا چور ہو جائیں گے۔ یہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور یہ اس کی مشیت اور ارادہ ہے کہ اسے کامیاب کرے۔ اس کے خلاف کوئی انسانی طاقت کچھ نہیں کر سکتی۔ بے شک ہم کمزور ہیں۔ ضعیف ہیں اس کا ہمیں اقرار ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ پر ہمیں یقین ہے اور اس کے متعلق ہم کوئی ضعف نہیں دکھا سکتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کو کچل دیں گے۔ مگر یہ ضرور یقیناً اور حتمی طور پر کہتے ہیں کہ خدا ان کو کچل دے گا۔ خواہ وہ کتنی بڑی فوجوں کے ساتھ ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ لڑائی کا نام اسلامی اصطلاح میں آگ رکھا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا الہام ہے۔ >آگ سے ہمیں مت ڈرائو۔ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے<۔
پس ہم پر غالب آنے کا خیال ان کا محض وہم و گمان ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک کو قتل کر دیں پھر قتل کرکے جلا دیں اور پھر راکھ کو اڑا دیں تو بھی دنیا میں احمدیت قائم رہے گی۔ ہر قوم ہر ملک اور ہر براعظم میں پھیلے گی اور ساری دنیا میں احمدیت ہی احمدیت نظر آئے گی۔ یہ خدا کا لگایا ہوا پودا ہے اس کے خلاف جو زبان دراز ہو گی وہ زبان کاٹی جائے گی۔ جو ہاتھ اٹھے گا وہ ہاتھ گرایا جائے گا۔ جو آواز بلند ہو گی وہ آواز بند کی جائے گی۔ جو قدم اٹھے گا وہ قدم کاٹا جائے گا اگر انگریز` جرمن` امریکن` فرانسیسی سب مل جائیں تو بھی جس طرح مچھر مسلا جاتا ہے اسی طرح مسلے جائیں گے اور ساری قومیں احمدیت کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی<۔۲۴۵
اسی طرح ۱۴/ اپریل ۱۹۳۳ء کو خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا۔
>ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں۔ ایک چیز ہے جو مقدر ہے اور ان مقدرات سے ہے جن میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ فرمایا لا تبدیل لکلمت اللہ جس طرح ماں کے پیٹ کے بچہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ انسان بنے خواہ چھوٹا یا بڑا بہرحال وہ انسانیت کے رستے پر چلے گا۔ اگر وہ ضائع بھی ہو جائے۔ تب بھی انسانیت کے راستہ پر ہی ہو گا۔ اس کے لئے ایک رستہ مقرر ہے جس میں کوئی ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہمارے لئے مقدر ہے کہ بہرحال اللہ تعالیٰ کے مسیح کے ماننے والے غالب آئیں گے اس لئے یہ تو سوال ہی زیر بحث نہیں آسکتا کہ ہم جیتیں گے یا ہمارے مخالف۔ فتح اور جیت ہمارے لئے مقدر ہو چکی ہے<۔۲۴۶
اس کے بعد ۱۹۳۴ء کے وسط میں بھی ارشاد فرمایا۔
>احرار ہوں یا کوئی اور ہوں وہ ایک مچھر جتنی بھی وقعت نہیں رکھتے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ لوگ ہمارے مقابل میں ایک فیصدی کامیابی بھی حاصل کر لیں گے۔ یہ کیا قادیان کے سارے مخالف مل جائیں۔ ہندو سکھ غیر احمدی اور احراری ہماری مخالفت میں متحد ہو جائیں اس کے بعد وہ اردگرد کے لوگوں کو ملا کر اپنی جماعت کو بڑھائیں۔ پھر سارے ملک میں سے جن کو اپنا مددگار بنا سکتے ہیں بنا لیں۔ حتیٰ کہ انگریز بھی بے شک ان کے ساتھ مل جائیں اگر یہ تمام مل کر ہمارے مقابلہ میں ایک فیصدی کامیابی کر سکیں تو وہ سچے۔ مگر ناممکن ہے کہ انہیں کامیابی ہو۔ باقی رہیں عارضی مشکلات سو یہ آیا ہی کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے شک ہمیں ماریں۔ پیٹیں۔ ہم میں سے بعض کو لولا لنگڑا کر دیں یا جان سے مار دیں ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ جس چیز کی پرواہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہار نہ جائیں اور یہ یقینی بات ہے کہ دشمن ہی ہاریں گے ہم نہیں ہار سکتے۔ چاہے کوئی گورنمنٹ کھڑی ہو جائے۔ علماء اور عوام سب مل جائیں یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ ہم جیتیں گے ہم کونے کا پتھر ہیں جس پر ہم گرے وہ بھی ٹوٹ جائے گا اور جو ہم پر گرا وہ بھی سلامت نہیں رہے گا۔ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا<۔۲۴۷
جماعت احمدیہ کو نہایت اہم اور قیمتی ہدایات
ان بشارتوں کے ساتھ حضور نے جماعت کو بعض نہایت اہم اور قیمتی ہدایات سے نوازا۔ اس سلسلہ میں بعض قیمتی ہدایات حضور ہی کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہیں۔
پہلی ہدایت: >ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا مقصد فتح نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی فتح حاصل کرنا ہے۔ ہمارا مقصد دین اور اسلام کے احکام کے مطابق فتح حاصل کرنا ہے اور یہ چیزیں حاصل نہیں ہوتیں جب تک انسان خدا کے لئے موت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو موت اور صرف موت کے ذریعہ یہ فتح حاصل ہو سکتی ہے اور جو موت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اسے فتح بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر موت بھی ایک وقت کی نہیں بلکہ وہ جو ہر منٹ اور ہر گھڑی آتی ہے<۔
>پس اپنے نفوس میں تبدیلی پیدا کرو۔ قلوب کو پاک کرو۔ زبان کو شائستہ اور اپنے آپ کو اس امر کا عادی بنائو کہ خدا کے لئے دکھ اور تکلیفوں کو برداشت کرسکو۔ تب تم خدا کا ہتھیار ہو جائو گے اور پھر خدا ساری دنیا کو کھینچ کر تمہاری طرف لے آئے گا اگر یہ تبدیلی تم اپنے اندر پیدا نہیں کرتے تو پھر کچھ بھی نہیں اور اگر اس صورت میں فتح آ بھی جائے تو وہ ذلت سے بدتر ہے اور وہ خدا کی نہیں بلکہ شیطان کی فتح ہے<۔۲۴۸
دوسری ہدایت: >ایک ہی ڈر ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ دشمن ہمیں کہیں مار نہ ڈالیں۔ ایک ساعت کے لئے بلکہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ کے لئے بھی جس شخص کے دل میں یہ خیال آتا ہے اس کے اندر ایمان کی ایک رائی کا کروڑ واں حصہ بھی داخل نہیں ہوا۔ میں تو یقین رکھتا ہوں کہ یہ دشمن کیا اگر انگریز اور جرمن اور چین اور جاپان اور روس اور اٹلی وغیرہ تمام حکومتیں بھی مل جائیں تب بھی وہ ہمیں تباہ نہیں کر سکتیں اور اگر تباہ کر دیں تو یقیناً ہمارا سلسلہ جھوٹا ہے بنی نوع انسان تمام کے تمام مل جائیں۔ امراء و غرباء علماء و ادباء بڑے اور چھوٹے عالم اور جاہل مرد اور عورتیں اجتماعی حیثیت میں بھی ہمارے سلسلہ کو مٹا دیں۔ تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہو گا اور یہ بات یقینی ہو گی کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ نعوذ باللہ جھوٹا اور ہم بھی اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں۔ مشرق اور مغرب کے لوگ اور شمال اور جنوب کے باشندے بھی اگر مل جائیں تو وہ ایک تنکا کے برابر بھی ہمیں اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں کر سکتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہے اور وہ خود اس کا محافظ اور نگران ہے تمہارا کام ہے کہ تم محبت اور پیار سے لوگوں کو سمجھائو اور اگر کوئی مخالفت میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو تم اس کے لئے دعائوں میں بڑھتے چلے جائو کیونکہ برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہو اگر وہ گالیاں دیتے ہیں تو دیں کیونکہ ان کے پاس گالیوں کے سوا اور کوئی چیز نہیں مگر تمہارا فرض ہے کہ تم نرمی اور محبت کا ثبوت پیش کرو۔ کیونکہ تمہارے پاس یہی چیز ہے جس سے کامیابی ہو گی۔ وہ اگر گالیاں بھی دیں تو جیسے شہد کے چھتے پر اگر کوئی شخص پتھر مارے تو اس سے شہد ہی ٹپکے گا۔ اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم گالیوں کے جواب میں دعائیں دو یہ مت خیال کرو کہ نرمی سے کیا بنتا ہے۔ دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں نرمی کا اثر ہوتا ہے اور آخر سخت دل بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پس تم ثابت کر دو کہ تمہارے اندر نیکی اور تقویٰ ہے اگر وہ پتھر مارتے ہیں تو تم دعائیں دو گالیاں دیتے ہیں تو انہیں برداشت کرو اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرو کہ ان لوگوں کو ہدایت دے اور یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو اس کی نصرت اور تائید ایسے رنگ میں ظاہر ہو گی کہ انسانی تدابیر اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی<۔۲۴۹
تیسری ہدایت: اس ضمن میں حضورؓ نے ۱۲/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو خطبہ جمعہ میں ایک اہم نصیحت یہ فرمائی کہ۔
>جس طرح سورج اور چاند کے وجود پر یقین ہے اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ احمدیت خدا کی طرف سے ہے پس کسی فتنہ کے نتیجہ کے متعلق تو ہمیں شبہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہمارے لئے نتیجہ ظاہر ہے اور اسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ جف القلم بما ھو کائن۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے نتائج کے لحاظ سے ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بے فکر ہیں جو مخالفتیں ہمارے لئے مقدر ہیں اور جو فتنے ہم نے دور کرنے ہیں ان کے مقابل میں اس موجودہ فتنہ کی حقیقت اتنی بھی نہیں جتنی کہ ایک ہاتھی کے مقابلہ میں چیونٹی کی ہو سکتی ہے۔ جو مشکلات ہمارے لئے مقدر ہیں وہ اتنی بڑی ہیں کہ بعض احمدیوں کے خیال میں بھی نہیں آسکتیں صرف وہی لوگ جانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا علم عطا کیا ہے اور وہ بھی ظاہر نہیں کرتے جب تک کہ خدا تعالیٰ ان کے اظہار کا موقعہ نہ لے آئے ان مشکلات کے مقابلہ میں یہ فتنہ تو ایسا ہی ہے جیسے راستہ چلتے ہوئے کسی کے پائوں کے آگے کنکر آجائے اور وہ اسے پائوں کی ٹھوکر سے پرے پھینک دے ہم نے تو اس آسمان کو بدل کر نیا آسمان اور اس زمین کو بدل کر نئی زمین پیدا کرنی ہے ہم نے پہاڑوں کو اڑانا اور سمندروں کو خشک کرنا ہے نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رئویا کو پورا کرنا ہے۔ پس یہ چیزیں ہمارے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ جب کوئی برگزیدہ قوم سست اور غافل ہونے لگے تو اس آزمائش کے طور پر کسی ابتلاء میں ڈال دیتا ہے پس ہمیں یہ تو ڈر نہیں کہ دشمن ہم پر غالب آجائے گا۔ ہمارے لئے جو خطرہ ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی جانوں یا آئندہ نسلوں کے لئے کسی فتنہ کا موجب نہ ہو جائیں یا ہماری مقدر فتح کچھ عرصہ پیچھے نہ جا پڑے اس کے سوا کچھ نہیں۔ ان چیزوں کو کھاد کی طرح سمجھو<۔۲۵۰
چوتھی ہدایت: فرمایا۔ >آج کل احراری یہاں آئے ہوئے ہیں وہ بھی تو آخر انسان کی نسل سے ہی ہیں۔ دماغ` کان` آنکھیں` قلب و جگر عام انسانوں کی طرح رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ سینکڑوں خلافتی بلکہ ان کے کئی پرجوش ڈکٹیٹر احمدی ہو چکے ہیں۔ حالانکہ تحریک خلافت کے ایام میں احمدیت کے خلاف بھی بہت سخت جوش تھا لیکن بعض ہجرت کرنے والوں میں سے بھی احمدی ہوئے ہیں صوفی عبدالغفور صاحب بی۔ اے ہجرت کرکے افغانستان گئے اور وہاں سے خراب و خستہ ہو کر واپس آئے پھر وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے اس طرح چھچھ کے لیڈر محمد غوث صاحب بڑے پرجوش خلافتی اور اپنے علاقہ کے لیڈر تھے سینکڑوں لوگوں کو انہوں نے قید کرا دیا۔ مگر اب وہ مخلص احمدی ہیں۔۔۔۔۔۔ اسی طرح احراری بھی سارے کے سارے برے نہیں۔ ان میں ہزاروں ہیں جن کے نزدیک اسلام کی خدمت کا صحیح رستہ وہی ہے جو انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ اخلاص سے کام کر رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہدایت پا سکتے ہیں پس ان سے ملو ان کے پاس جائو۔ بیٹھو انہیں اپنے ہاں بلائو بٹھائو۔۔۔۔۔۔۔ احراری ہماری مسجدوں میں آئیں تقریریں کریں اور دوست ٹھنڈے دل سے سنیں باہر کے احمدیوں کو تو گالیاں سننے کی عادت ہوتی ہے مگر یہاں تو خدا تعالیٰ کسی کو بھیج دیتا ہے لوکل کمیٹی کو چاہئے کہ ہر محلہ سے ایسے لوگ مقرر کر دے جو ان سے ملیں ان کی دعوتیں کریں قلوب کو انہیں ذرائع سے فتح کرو۔ جو خدا نے بتائے ہیں اور اس تلوار سے دشمن کو فتح کرو جو براہین دلیل نیکی صداقت اور راستبازی و خوش اخلاقی کی تلوار ہے<۔۲۵۱
احرار کو تبلیغ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ۔
>یہاں ایسے فتنے پیدا کئے جارہے ہیں جن کی غرض یہ ہے کہ وہ ہمارے اخلاق پر دھبہ لگائیں پھر یہاں کچھ احراری آگئے ہیں بعض پولیس کے لوگ ہیں جو ہمارے خلاف کوشش کر رہے ہیں کچھ غیر احمدیوں میں سے کھڑے ہو گئے ہیں کچھ سکھوں اور ہندوئوں میں سے ان سب کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ دنیا کے سامنے ہم پر یہ الزام لگائیں کہ ہم اخلاق کے کچے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے توجہ دلائی تھی کہ ایسے امور سے احتراز کیا جائے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ باوجود توجہ دلانے کے جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو اس خوف سے گھبرایا پھرتا ہے کہ یہاں احراری آگئے ہیں حالانکہ کیا شیر بھی اس وقت خوف کھایا کرتا ہے جب اس کی کچھار میں کوئی بکری آجائے۔ اگر تم واقعی سمجھتے ہو کہ تم ایک نبی کی جماعت ہو اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت تمہارے ساتھ ہے تو تم صحیح ذرائع اختیار کرکے ان کے ماتحت اس شر کے ازالہ کی کوشش کرو۔ مگر ڈر کس بات کا؟ کیا شیر کی غار میں جب کوئی بکری آجائے تو وہ ڈرا کرتا ہے آخر جب ساری دنیا نے احمدیت میں داخل ہونا ہے تو کیا احراری اس دنیا سے علیحدہ ہیں کہ یہ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے سے رہ جائیں گے۔ یا کیا یہ آسمان پر چلے جائیں گے اگر ان لوگوں نے بھی دنیا میں ہی رہنا ہے اور آج نہیں تو کل احمدیت میں داخل ہونا ہے تو کیوں آج سے ہی کام شروع نہیں کر دیتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہی احمدیت مں داخل ہو جائیں۔ ابھی احراریوں نے یہاں کوئی زمین خریدی ہے اور وہ وہاں ایک مسجد بنانے لگے ہیں بعض نے مجھے لکھا کہ اس پر حق شفع کی نالش کرنی چاہئے مگر تمہارا اس میں کیا حرج ہے تم یہ سمجھ لو کہ تھوڑے دنوں تک اللہ تعالیٰ یہ مسجد بھی تمہارے قبضہ میں دے دے گا۔ آخر جب دنیا کی ساری مسجدیں تمہارے قبضہ میں آنی ہیں تو کیا احراریوں کی یہ مسجد تمہارے قبضہ میں نہیں آئے گی؟ دراصل یہ تمام گھبراہٹ عدم ایمان یا کمزوری ایمان پر دلالت کرتی ہے اور بعض دفعہ منافق شرارت کرکے گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس قسم کے لوگ بھی شرارت آمیز خبریں پھیلا دیا کرتے ہیں اور یہ لوگ جماعت میں سے بھی ہو سکتے ہیں اور جماعت کے علاوہ بھی قرآن مجید پڑھ کر دیکھ لو اس کے مطالعہ سے تمہیں معلوم ہو گا کہ منافق ہمیشہ مدینہ میں اس قسم کی جھوٹی خبریں اڑا دیا کرتے تھے کہ دشمن آگیا مارے گئے ہلاک ہو گئے مگر فرمایا مومن اس قسم کی خبروں سے ڈرا نہیں کرتے بلکہ ایمان میں اور زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں تم فرض کرو یہاں احراریوں کے قلعے بھی بن جائیں تو کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم نے دنیا کے جن قلعوں کو فتح کرنا ہے۔ یہ قلعے ان سے زیادہ مضبوط اور زبردست ہوں گے کہ تم انہیں فتح نہیں کر سکو گے اگر تم نے یورپ` فرانس` جرمن اور امریکہ کے قلعے ایک دن فتح کرنے ہیں اور دنیا میں تمہاری ہی تمہاری حکومت ہونی ہے تو کیا تم سمجھتے ہو فرانس جرمن اور امریکہ کے قلعے تو تم فتح کر لو گے مگر احراریوں کی یہ جھونپڑی تم سے فتح نہیں ہو سکے گی جن توپوں اور گولوں سے تم نے دنیا کے اور قلعے فتح کرنے ہیں کیوں انہیں توپوں اور گولوں سے اس قلعہ کو فتح نہیں کرتے۔ پس جائو اور ان لوگوں میں تبلیغ کرو۔ خدا تعالیٰ کے تازہ نشان جو دنیا میں ظاہر ہو رہے ہیں وہ انہیں سمجھائو یہ کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں آخر ہر انسان میں نیکی کا مادہ ہوتا ہے اور یہ بھی اس سے خالی نہیں ہو سکتے۔ اگر تم تبلیغ کرو گے اور انہیں احمدیت میں داخل کر لو گے تو یہ خود اپنے قلعوں کو جو آج ہمارے خلاف تیار کر رہے ہیں اپنے ہاتھ سے گرا دیں گے یا ہمارے سپرد کر دیں گے<۔۲۵۲پانچویں ہدایت: حضور انورؓ نے اس فتنے کا روحانی رنگ میں مقابلہ کرنے کے لئے ۲/ مارچ ۱۹۳۴ء کو جماعت سے ارشاد فرمایا۔
>میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ گویا ایک چھوٹی سی جماعت کو چاروں طرف سے ایک فوج گھیرے چلی آرہی ہے اور قریب ہے کہ اس کے نکلنے کے لئے ایک انچ بھی جگہ باقی نہ رہے ایک زلزلہ ہے جو اگرچہ ظاہر تو نہیں ہوا۔ مگر زمین کے نیچے خوفناک آگ شعلہ زن ہے۔۔۔۔۔۔ پس میں عام جماعت سے عموماً اور مخلصوں سے بالخصوص جنہوں نے سلوک کے لئے اپنے نام دیئے ہوئے ہیں کہتا ہوں کہ وہ ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو مخفی ابتلائوں سے بھی اور ظاہری سے بھی محفوظ رکھے اور اس عظیم الشان ابتلا سے بھی جو گو ابتدائی ایام کی مخالفت کے مشابہ ہے مگر اس وجہ سے اس سے بہت زیادہ خطرناک ہے کہ اس وقت ہم میں خدا تعالیٰ کا نبی تھا اور آج نہیں۔ محفوظ رکھ کر ہمیں ہر ایک قسم کی شکست` ذلت` نامرادی` رسوائی اور بدنامی سے بچائے اور ہر قسم کے فضل` برکات عنایات اور مہربانیوں سے حصہ دے۔ کامیابیاں کامرانیاں فتوحات ترقیات اور غلبہ عطا فرمائے تا اس کام کو جو اس نے ہمارے ذمہ لگایا ہے ہم کماحقہ کر سکیں اور تا ہماری غلطیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بدنام نہ ہوں۔ پس دعائیں کرو ممکن ہے چالیس روز کی دعائیں ہی ہمارے اندر ایک تغیر پیدا کر دیں ہمارے لئے ہمارے خاندانوں` ہمسایوں` دوستوں` رشتہ داروں` شہریوں اور جماعت کے لئے ایک نیک تغیر کا موجب ہو جائیں۔ پھر ایسا تغیر ہو کہ ساری دنیا نیک ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ پس خود بھی دعائیں کرو اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور ہم کامیاب ہو جائیں<۔۲۵۳
پھر فرمایا۔
>پس وہ دوست جو مجھ سے آکر پوچھتے ہیں کہ ہم کیا کریں میری نصیحت انہیں یہی ہے کہ صبر سے کام لو اور اگر کبھی صبر کا دامن کسی کے ہاتھ سے چھٹ جائے تو پھر صدق سے کام لو۔ اسی طرح صوم و صلٰوۃ سے کام لو روزے رکھو اور دعائیں کرو۔ نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو۔ تمہارا روزے رکھنا اور تمہارا اپنے دل میں درد پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کر لے گا۔ تمہارا درد ایسا نہیں ہو گا کہ اسے دیکھ کر خدا تعالیٰ خاموش رہے بلکہ احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مومن کے دل میں درد پیدا ہوتا ہے تو اس سے عرش الہیٰ کانپ اٹھتا ہے اور وہ بس نہیں کرتا جب تک اپنے بندے کے غم کو دور نہیں کر دیتا<۔۲۵۴
چھٹی ہدایت: بیرونی مخالفین نے فتنہ برپا کرنے کے لئے شروع ہی سے بعض منافقین کو آلہ کار بنا لیا تھا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دی اور اس تعلق میں جماعت کو خاص طور پر تاکید فرمائی کہ ان سے ہوشیار رہیں۔ چنانچہ فرمایا۔
>میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ جب بھی کوئی فتنہ اٹھتا ہے۔ منافقوں کے ذریعہ اٹھتا ہے اور میں نے ہمیشہ جماعت سے کہا ہے کہ منافقوں کو ظاہر کرو اور ان کی پوشیدہ کارروائیوں کو کھولو۔ مگر جماعت اس طرف توجہ نہیں کرتی۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے ایک درجن سے زائد آدمی قادیان میں ایسے رہتے ہیں جن کی مجالس میں فتنہ انگیزی کی گفتگوئیں ہوتی رہتی ہے اور جو باہر سے آنے والوں کو ورغلاتے رہتے ہیں۔ مجھے شریعت اجازت نہیں دیتی کہ میں بغیر ثبوت قائم کئے انہیں سزا دوں۔ اس لئے میں خاموش رہتا ہوں مگر میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسے منافقوں کا پتہ لگا کر ان کی منافقت کا میرے سامنے ثبوت مہیا کرے تاکہ میں ان اختیارات کو استعمال کروں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیئے ہیں بعض دفعہ کسی عدالتی ثبوت کے بغیر یونہی میرے پاس ایک بات بیان کر دی جاتی ہے۔ میں سمجھ رہا ہوتا ہوں کہ شکایت کرنے والا سچ کہہ رہا ہے مگر جب میں اسے کہتا ہوں کہ اس کا ثبوت مہیا کرو تو وہ شکوہ کرکے چلا جاتا ہے کہ میری بات پر توجہ نہیں کی جاتی۔ حالانکہ جب تک شرعی اور عدالتی طور پر میرے پاس ثبوت مہیا نہ کیا جائے میں سزا دینے کا مجاز نہیں چاہے مجھے یقین ہو کہ فلاں آدمی میرے اور جماعت کے خلاف فتنہ انگیزی کرتے رہتے ہیں باقی اگر ذرا بھی کوشش کی جائے تو اس قسم کے ثبوت مہیا کرنے مشکل نہیں ہوتے۔ منافق کچھ دلیر ہوتا ہے اور وہ ایک ہی بات بعض دفعہ کئی مجالس میں کر دیتا ہے اس لئے گواہ آسانی سے پیدا کئے جا سکتے ہیں مگر لوگ کوشش نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ جس کی ہم شکایت پہنچائیں اسے فوراً سزا دے دی جائے۔ حالانکہ یہ مومنانہ مشورہ نہیں پھر ہماری جماعت کے آدمی باہر بھی ہیں ان سے بھی اطلاعات ملتی رہتی ہیں تھوڑے ہی دن ہوئے احراریوں کے ایک لیڈر نے قادیان کے ایک شخص کے متعلق بتایا کہ اس کے ذریعہ قادیان کی خبریں انہیں ملتی رہتی ہیں۔ اس شخص کے متعلق اپنی جماعت کی طرف سے اگر کوئی اطلاع مجھے پہنچتی ہے تو وہ خبر احاد ہوتی ہے جس پر گرفت نہیں کی جا سکتی۔ سالہا سال میں نے اس شخص کے متعلق عفو سے کام لیا ہے مگر اب ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو الگ کیا جائے۔ اس لئے میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ منافقوں کو ظاہر کرے<۔۲۵۵`۲۵۶
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ڈاک پر سنسر شپ
مخالفت کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا حکومت نے اپنی سوچی سمجھی سکیم کے مطابق حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ڈاک پر سنسر شپ بٹھا دی۔ یہ گویا جماعت احمدیہ کے مقدس امام کی ایک قسم کہ ناکہ بندی تھی جس سے حکومت کا مقصد واضح تھا کہ کسی نہ کسی بہانے سے وہ حضور پر گرفت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
حضرت امیر المومنینؓ کے لفظ لفظ پر حکومت کی نظر
ڈاک پر سنسر شپ کے علاوہ حکومت نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی تقریریں بھی زبردست ناقدانہ نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
>>۱۹۳۴ء میں جبکہ احرار کی مخالفت زوروں پر تھی گورنمنٹ نے پورا زور لگایا ہے کہ مجھے کسی بات کے متعلق پکڑے۔ سی۔ آئی۔ ڈی کے آفیسر ہر وقت پیچھے لگے رہتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ایسا کرنے کی توفیق ہی نہ دی۔ سی۔ آئی۔ ڈی کا ایک چوٹی کا افسر ان دنوں مجھے لاہور میں ملا۔ اس نے مجھ سے کہا۔ حد ہو گئی حکومت کے آفیسرز اور گورنر ہر روز مشورہ کرتے ہیں کہ کسی طرح آپ کو کوئی چھوٹی سی بات بنا کر ہی پکڑ لیں۔ مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ میں نے کہا اس میں ہماری اپنی کوئی خوبی یا بہادری نہیں یہ سب کچھ ہمارا خدا کر رہا ہے کوئی بندہ کچھ نہیں کر رہا<۔۲۵۷
اس تعلق میں مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ مربی سلسلہ احمدیہ کا بیان ہے کہ۔
>سر ایمرسن گورنر )پنجاب( ہر ممکن کوشش میں تھے کہ کسی طرح موقعہ ملے تو حضرت اقدس کو زیر الزام لگانے کا بہانہ تلاش کریں مگر وہ سراسر ناکام رہے۔ ان ایام میں چونکہ حضور کا خطبہ جمعہ لمبا ہو جایا کرتا تھا اور اڑھائی بجے کے قریب گاڑی قادیان سے بٹالہ کے لئے روانہ ہوتی تھی اس لئے حضور کا خطبہ نوٹ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے دو رپورٹر مقرر تھے ایک رپورٹر گاڑی چلنے سے پہلے کا مضمون نوٹ کرکے گاڑی پر چلا جایا کرتا تھا اور دوسرا خطبے کا بقیہ حصہ نوٹ کیا کرتا تھا۔ سر ایمرسن حضرت اقدس کی خداداد ذہانت اور فراست دیکھ کر حیران تھے وہ کہا کرتے تھے کہ یہ عجیب انسان ہے۔ اپنی قوم کو بیدار کرنے اور ابھارنے کے لئے ایسی زبردست تقریر کرتا ہے کہ جو سراسر قابل اعتراض ہوتی ہے مگر آخر میں ایک ہی فقرہ ایسا کہہ جاتا ہے کہ جس سے پہلی تقریری ساری کی ساری ناقابل اعتراض ہو کر رہ جاتی ہے اور ہم اس پر کوئی گرفت نہیں کر سکتے<۔۲۵۸
یہاں ضمناً سر ایمرسن کی نسبت حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے قلم سے ایک کا واقعہ لکھنا ضروری ہے۔ حضور فرماتے ہیں۔
>جب سر ایمرسن۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ بعد۔۔۔۔۔ اپنی ٹرم (TERM) پوری کرکے ریٹائر ہونے والے تھے تو ہوم گورنمنٹ نے ان کی مدت کو اور بڑھا دیا۔ جماعت کی طرف سے مجھے خطوط آئے کہ یہ تو ظلم ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا میں نے ان کو لکھا کہ میں نے تو سر ایمرسن کو مبارکباد دی ہے اس لئے کہ میرے ساتھ گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں اس کا مقابلہ تو خدا تعالیٰ سے ہے پس اگر ان کی معیاد میں توسیع ہو گئی ہے تو اس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہو گی اس میں گھبرانے کی کونسی بات ہے خدا کی قدرت گورنمنٹ نے ان کی معیاد میں توسیع کر دی مگر کچھ ہی دیر بعد وہ بیماری کی چھٹی لے کر ولایت چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے انہیں کہہ دیا کہ آپ قطعی طور پر کام کرنے کے قابل نہیں آپ کام سے فارغ ہو جائیں آپ کا اپریشن ہو گا۔ چنانچہ وہ مستعفی ہو گئے اور ڈاکٹری رائے کے مطابق چند ہفتے آرام کرتے رہے اس کے بعد جب وہ ڈاکٹروں کے پاس اپریشن کے لئے آئے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ تو اچھے بھلے ہیں خبر نہیں ہم نے اس وقت کس طرح یہ کہہ دیا تھا کہ آپ کام کے قابل نہیں ہیں دیکھو کہ بغیر اس کے کہ ہم ایک لفظ بھی کہتے خدا تعالیٰ نے خود ہی ہماری طرف سے جواب دے دیا<۔۲۵۹
سر سکندر حیات خان صاحب کا مشورہ
جماعت احمدیہ نے اصلاح احوال کے لئے جو طریق اختیار کئے۔ ان میں خصوصیت سے یہ امر شامل تھا کہ حکومت کے متعلقہ افسروں کو ہر نوع کی بے انصافیوں سے باخبر رکھا جائے اسی سلسلہ میں ۱۰/ فروری ۱۹۳۴ء کو حضرت مولوی فرزند علی صاحبؓ سر سکندر حیات خاں سے ملے اور بتایا کہ قادیان میں پولیس کا مظاہرہ بے ضرورت کیا جارہا ہے مگر ان دوسرے مقامات پر جہاں اکے دکے احمدی مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں وہاں ان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔ پھر احمدیوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے ساتھ برابر کا انصاف کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے ایک پمفلٹ لکھنے والے دوست کو سزا دلوائی گئی اور احراریوں کو صرف تنبیہہ کرنا کافی سمجھا گیا۔ سر سکندر حیات خان صاحب نے آغاز کلام میں یہ مشورہ دیا کہ اگر آپ لوگ چھ ماہ تک احرار کے مقابلہ میں بالکل خاموش رہیں تو خود بخود امن و امان ہو جائے گا۔۲۶۰
اخبار >زمیندار< اور >احسان< کی ضمانت طلبی
‏]txte [tagاخبار >زمیندار< اور >احسان< وغیرہ ان دنوں احمدیت کے خلاف جی بھر کر دلازار مضامین اور اشتعال انگیز اداریے لکھ رہے تھے۔ مگر حکومت اشک شوئی کے لئے ان اخبارات کو محض وارننگ کرنے پر ہی اکتفا کرتی تھی۔ البتہ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے وسط میں اس نے >زمیندار< اور >احسان< سے ضمانت طلب کی جو صرف دکھاوے کی چیز تھی۔ وگرنہ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ ان دنوں وہ چند دنوں کے بعد خاموشی سے ضمانت واپس کر دیتی تھی۔ پس ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے دے دینے کا طریق ایک کھیل تھا۔ جو مجروح قلوب کی نمک پاشی کے لئے اختیار کیا جاتا تھا۔
مگر حکومت کی اس در پردہ روش کے باوجود اخبار >زمیندار< نے اس لفظی >ضمانت طلبی< کو بھی اس دلچسپ پراپیگنڈا کا ذریعہ بنا لیا۔ کہ حکومت گویا >قادیانیت نوازی< کا ثبوت دے رہی ہے۔
اس ضمن میں >زمیندار< ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کی ایک خبر ملاحظہ ہو۔
>لاہور ۱۹/ اکتوبر )۱۹۳۴ء(۲۶۱ آج نماز کے بعد مسجد آسٹریلیا والی متصل ریلوے اسٹیشن میں مسلمانوں کا زبردست اجتماع ہوا۔ جس میں حسب ذیل قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئیں۔
)۱( مسلمانان آسٹریلیا مسجد کا یہ جلسہ حکومت پنجاب کی اس پالیسی کو نہایت حقارت و نفرت سے دیکھتا ہے جس کا مظاہرہ مسلمانوں کے صحیح ترجمان روزنامہ >زمیندار< اور موقر جریدہ >احسان< سے ضمانت طلب کرکے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرکے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں روزنامے اسلام کی سچی خدمت کر رہے ہیں ان سے ضمانت مانگ کر یہ کوشش کرنا کہ اسلام کی آواز کو بند کر دیا جائے۔ محال ہے۔
ہم حکومت کے ارباب بست وکشاد کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرکے اس کو منسوخ کرتے ہوئے اپنے تدبر اور عاقبت اندیشی کا ثبوت پیش کرے۔
)۲( یہ جلسہ مولانا ظفر علی خان صاحب اور آقائے مرتضیٰ احمد خاں میکش کو اس پر استقلال اور استقامت پر مبارک باد دیتا ہے کہ انہوں نے باطل سے نہ دبتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ اسلامی و سچی آواز انشاء اللہ ہمیشہ کلمتہ الحق کے ساتھ بلند ہوتی رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور ۱۹/ اکتوبر۔ چونکہ مولانا احمد علی موجودہ نہیں تھے اس لئے آج مسجد لائن والی دروازہ شیرانوالہ میں مولانا حبیب الرحمن صاحب لودھیانوی نے ڈیڑھ گھنٹہ تک ایک زبردست خطبہ دیا۔ جس میں آپ نے حکومت کی قادیانیت نوازی پر مفصل تبصرہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عمل کا جواب قول نہیں بلکہ عمل ہے اس دنیا میں بے عمل اور خاموش آدمی کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ گوشہ نشینی کی عبادت سے آخرت میں صرف جنت مل سکتی ہے۔ لیکن دنیا اور آخرت کی عزت قربانی کے سوا نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔
آپ نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں آج صبح ۶ بجے خانپور )ریاست بہاولپور( سے واپس لوٹ کر یہاں پہنچا تو مجھے آتے ہی یہ خبر ملی کہ حکومت نے >زمیندار< سے چار ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی ہے۔ جس کا سبب یہ بتایا گیا کہ اخبار کے ایک مضمون میں دجال کے گدھے کے ذکر کے سلسلے میں قادیانی۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ذکر بھی آگیا۔ گویا حکومت کے نزدیک قادیانی۔۔۔۔۔۔ کے متعلق کچھ لکھنا اس کی اپنی توہین ہے آپ نے کہا کہ میں اس ضمانت کے سلسلہ میں بلا کسی تمہید کے مسلمانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ >زمیندار<۲۶۲ کی موت مرزائیت کی حیات ہے۔۲۶۳ اس لئے مسلمانوں کا پہلا کام یہ ہے کہ >زمیندار< کے زندہ رکھنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ کل تبلیغ نمبر شائع ہو رہا ہے جس کی قیمت اس لئے ۴ رکھی گئی ہے کہ اگر مسلمان اس نمبر کے سولہ ہزار پرچے خرید لیں تو >زمیندار< بلا ایک دن کے توقف کے جاری رہ سکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان میری اس آواز پر لبیک کہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا کی تقریر کے بعد۔۔۔۔۔۔ مولانا محمد حسن صاحب امرتسری نے فرمایا کہ مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کا یہ فقرہ کہ >زمیندار< کی موت مرزائیت کی حیات ہے۔ ایک ایسا فقرہ ہے جس کی شرح ایک رسالہ میں ہو سکتی ہے۔ زمیندار نے مرزائیت کے خلاف وہاں تک آواز پہنچائی ہے جہاں تک علماء نہیں پہنچا سکتے تھے۔ اس لئے میں تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تہجد کے وقت اٹھ کر >زمیندار< کی دائمی حیات کے لئے دعا کریں۔ اور نہ صرف دعا ہی کریں بلکہ عملی طور پر بھی اس کی اعانت کریں۔ )نامہ نگار(۲۶۴
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی زبان مبارک سے حکومت کی چیرہ دستیوں کے بعض ضروری واقعات کا ذکر
ادھر احرار نے قادیان میں اپنا اڈہ جمایا ادھر پولیس نے قادیان کی احمدی آبادی کو پہلے سے زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ مشق بنانا شروع کر دیا۔ چنانچہ ذیل میں حکومت کی ان چیرہ دستیوں
اور سفاکیوں کے بعض اہم واقعات حضرت سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی زبان مبارک سے پیش کئے جاتے ہیں حضور پرنور نے ۲/ نومبر ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ۔
پہلا واقعہ
>پہلا واقعہ میں اس کا ہی لے لیتا ہوں جسے احراری لوگ مسجد کہتے ہیں حالانکہ وہ قبلہ رخ نہیں۔ وہ شاید ڈیڑھ مرلہ کے قریب جگہ ہے۔ میں نے خود اسے دیکھا ہے قریباً ایک کمرہ کے برابر زمین ہے۔ وہ زمین احرار کے نام سے یا احراریوں کی طرف سے کسی آدمی نے خریدی مجھے صحیح واقعہ معلوم نہیں بہرحال اس تحریک کے سلسلے میں یہ زمین خریدی گئی اور اس کے خریدنے کے بعد چندہ جمع کرنے کی نیت سے وہاں مسجد کے نام سے ایک چھوٹی سی عمارت بنانی شروع کر دی گئی۔ وہ جگہ سمال ٹائون کمیٹی کی حدود میں ہے اور گورنمنٹ کے قانون کے ماتحت سمال ٹائون کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اس کے حلقہ میں عمارت کھڑی نہیں کر سکتا۔ مگر وہ چونکہ حر ہیں اور قانون کی پابندی سے آزاد۔ اس لئے انہوں نے اجازت لینے کی ضرورت نہ سمجھی اور دیواریں کھڑی کرنی شروع کر دیں اس تعمیر کے وقت پولیس کے آدمی باوردی اس جگہ پر موجود تھے۔ اس قانون شکنی کو دیکھ کر کمیٹی نے انہیں ممانعت کا نوٹس دیا۔ تو اسے لینے سے بھی انکار کر دیا اور اٹھا کر پھینک دیا۔ اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس نے اسے اٹھایا یہ سب کارروائی گورنمنٹ کے ایک تسلیم شدہ ادارہ کی طرف سے اور گورنمنٹ کے قانون کو پورا کرانے کے لئے ہوئی اور اس میں ہماری جماعت کا ایک ذرہ بھر بھی دخل نہ تھا لیکن صرف اس وجہ سے کہ کمیٹی کا نوٹس پیش کرنے والا کلرک احمدی تھا۔ احراریوں نے شور مچا دیا کہ احمدی ہم پر حملہ کرنے آگئے ہیں اور ہمیں مسجد کی تعمیر سے روکتے ہیں۔ یہ سب کہانی بالکل جھوٹی تھی احمدی حملہ آور ہو کر نہیں گئے اور کسی نے ان کو مسجد بنانے سے نہیں روکا۔ سمال ٹائون کمیٹی گورنمنٹ کے قانون کے ماتحت بنی ہوئی ہے اور اسی کے ایک افسر نے گورنمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت انہیں روکا۔ مگر یہ روکنا کیا تھا گویا ۱۸۵۷ء کا غدر ہو گیا کہیں سپرنٹنڈنٹ پولیس چلے آرہے ہیں کہیں مجسٹریٹ علاقہ چلے آرہے ہیں۔ کہیں پولیس کے دوسرے افسر دوڑے آرہے ہیں گویا ایک آفت تھی جو آگئی ناظر امور عامہ کو بلوایا گیا اور ان سے بار بار پوچھا گیا کہ یہ کیا ظلم اور اندھیر ہے جو یہاں ہو رہا ہے۔ گورنمنٹ آگے ہی آپ لوگوں کے خلاف ہے اب آپ نے یہ حرکت کر دی ہے۔۔۔۔۔ پس قانون کی پابندی کرانے والی سمال ٹائون کمیٹی اور قانون کو توڑنے والے احراری۔ مگر الزام ہمارے ذمہ لگایا جاتا ہے اور ہمارے آدمیوں کو بلا بلا کر ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جب جماعت کے کارکنوں نے ثابت کر دیا کہ اس بارہ میں ان کا کوئی دخل ہی نہیں تو اب حکام نے ایک اور کروٹ بدلی اور یہ کہنا شروع کیا کہ چونکہ کمیٹی میں تمہاری اکثریت ہے اس لئے تم ہی اس امر کے ذمہ دار ہو۔ تم ممبران کمیٹی کو مجبور کرو کہ احراریوں سے درخواست منگوا کر اور فوری اجلاس کرکے احرار کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دیں۔ اب کوئی انصاف پسند جج گورنمنٹ مقرر کرکے دیکھ لے معمولی سے معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گا کہ احمدیوں کو ناواجب طور پر ستایا اور دکھ دیا گیا اور ان کے امن میں خلل ڈالا گیا۔ آخر یہ بھی کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا ارادہ ہے کہ اگر فوراً اس فتنہ کو دور نہ کیا گیا تو دونوں فریق کی دفعہ ۱۰۷ کے ماتحت ضمانتیں لی جائیں گی۔ شاید جب سے لوکل سیلف گورنمنٹ کا قانون بنا ہے یہ نہ ہوا ہو گا کہ کمیٹی اپنے اختیارات سے ایک کام کرے اور ۱۰۷ دفعہ باامن شہریوں پر لگانے کی دھمکی دی جائے۔
یہ سلوک یہاں احرار سے روا رکھا گیا۔ اور ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا گیا کہ ایک احمدی نے اپنے مکان اور مسجد کے لئے ایک زمین لی وہاں کے مقامی افسران نے جو تعصب رکھتے ہیں جھٹ رپورٹ کرکے لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ کے ماتحت اس زمین کا بڑا ٹکڑا چھین لیا۔ بہتیرا شور کیا گیا کہ حکومت کو اور زمین مل سکتی ہے ہمیں تو لوگ تعصب سے دیتے نہیں لیکن کچھ شنوائی نہ ہوئی اس واقعہ کو اور اس واقعہ کو ملا کر دیکھ لو کہ کس طرح حکومت ہم سے سوتیل پنے والا سلوک کر رہی ہے۔ ہماری مسجد کی زمین ضبط کر لی جاتی ہے اور احراری خلاف قانون ایک عمارت بنانا چاہتے ہیں تو سپیشل آرڈر دیا جاتا ہے کہ فوراً ان سے درخواست لے کر اجلاس کرکے اس تعمیر کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ ایک پولیس کے اعلیٰ افسر یعنی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ایک علاقہ مجسٹریٹ یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے ممبروں کو حکم دیجئے کہ وہ فوراً اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دیں حالانکہ وہ سمال ٹائون کس بات کی ہے جس سے ہمارے زور سے کام لیا جائے جس سمال ٹائون کمیٹی کو ہم سے حکم دلوا دلوا کر مجبور کرنا اور اس کے فرائض منصبی سے روکنا ہے وہ کمیٹی نہیں بلکہ کھلونا ہے اور اس قابل ہے کہ اسے پھونک دیا جائے لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے امن پسندوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ چونکہ ہمیں امن پسندی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس لئے حکام کی خواہش کو ہمیں پورا کرنا چاہئے۔ اپنی جماعت کے ممبران کمیٹی پر زور ڈالا کہ یہ کام جلدی کر دیا جائے غرض صنادید حکومت کی خوشنودی مزاج کے حصول کے لئے انہوں نے یہ سب کچھ کیا۔ مگر جو اس کا انعام ملا وہ بھی سن لو۔ اس موجودہ جھگڑے کے پیدا ہونے پر ہمارے آدمیوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے کہا کہ ہم تو ہمیشہ حکومت کے وفادار رہے ہیں۔ مثلاً حکام کے کہنے کے مطابق ہم نے سمال ٹائون کمیٹی کے ممبروں پر زور دیا اور انہیں کہا کہ احرار کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دینی چاہئے۔ تو اس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ نہ علاقہ مجسٹریٹ اور نہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اختیار تھا کہ ایسا حکم کمیٹی کو دیتے۔ یہ کہنے پر کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس تو کہتے تھے کہ ڈپٹی کمشنر کا منشاء ہے کہ اس جھگڑے کو چکایا نہ جائے تو فریقین کی زیر دفعہ ۱۰۷ ضمانتیں لی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص نے یہ کہا ہے کہ میں نے ایسا حکم دیا تھا وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اب ہمارے لئے عجیب مشکلات ہیں۔ اگر ہم اس وقت انکار کرتے تو ہم باغی قرار دیئے جاتے اور پولیس کے افسر یہ رپورٹ کرتے کہ احمدی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور جب ہم نے ان کی بات مان لی تو ہم احمق اور بے وقوف قرار دیئے گئے اور کہا گیا کہ تم نے خود ہی یہ فیصلہ کیا ہے ہم نے تو کوئی ایسا حکم نہیں دیا۔ پس ہم اگر ایک حکم مان لیں تو احمق بنتے ہیں نہ مانیں تو باغی قرار پاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
دوسرا واقعہ
اب دوسرا واقعہ سن لو۔ ہم نے جو یہاں نئی آبادیاں قائم کی ہیں ان میں بعض جگہ علاقوں کے علاقے ہمارے اپنے ہیں اور ان محلوں کی گلیاں ہماری پرائیویٹ گلیاں ہیں جن پر گزرنے دنیا یا نہ دنیا ہمارے اختیار میں ہے۔ اس قسم کے ایک راستہ پر ایک پھاٹک ہم نے لگا لیا اور یہ کوئی نئی بات نہ تھی ہندو بھی اسی طرح اپنے محلوں میں راستوں پر حفاظت کے لئے پھاٹک لگا لیتے ہیں یہ پھاٹک جس کا میں نے ذکر کیا ہے اس راستہ پر لگایا گیا تھا جو مقبرہ بہشتی کو جاتا ہے۔ ہماری تحقیق اور ہمارے علم کے مطابق وہ پھاٹک ہماری زمین میں ہے اور جس راستہ پر وہ لگایا گیا ہے وہ ہمارا پرائیویٹ ہے نہ کہ سرکاری۔ مگر اس پھاٹک کے لگنے پر یک دم ایک شور پڑ گیا اور تمام احراری غیر احمدیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ احمدیوں نے ہمارے راستے بند کر دیئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ سڑکیں نہیں تھیں۔ اس پر پولیس کے اعلیٰ افسر یعنی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی چند مرتبہ آئے۔ بعض مجسٹریٹ بھی متعدد دفعہ آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا ظلم کیا گیا ہے۔ ایک افسر مجھ سے بھی ملا اور کہنے لگا یہ کیا غضب ہوا ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ میں نے کہا اس میں مشکل کیا ہے؟ پٹواری آپ کے پاس ہیں زمین کا نقشہ نکلوا لیجئے اگر یہ پھاٹک کسی اور کی زمین میں نکلے اور ایک منٹ کے لئے بھی ہماری جماعت اس کو اٹھانے میں دیر کرے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں گا۔ مگر اس کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔ ایک افسر آتا اور دھمکی دے کر چلا جاتا۔ پھر دوسرا آتا اور وہ دھمکی دے کر چلا جاتا۔ جب یہ شور بہت بڑھا تو میں نے صدر انجمن والوں سے پوچھا کہ یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اچھی طرح دیکھ بھال کر پھاٹک لگایا ہے وہ ہماری زمین میں ہے ڈسٹرکٹ بورڈ کی زمین میں نہیں ہے لیکن اگر ثابت ہو جائے کہ یہ سرکاری زمین میں ہے تو ہم اسی وقت پھاٹک اٹھا لیں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے افسروں کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ کوئی افسر آجائے تو وہ تحقیق کرکے دیکھ لے لیکن تحقیق کرنے کے لئے کوئی نہیں آتا۔ البتہ ضلع کا عملہ گھبرایا ہوا پھرتا ہے۔ حالانکہ اس کا فوجداری اور پولیس سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اس زمانہ میں مجھ سے بھی ایک اعلیٰ افسر نے کہا تھا کہ جو شور اس وقت ہو رہا ہے اس کے نتیجہ میں میں ڈرتا ہوں کہ حکومت سخت تجاویز اختیار کرنے پر مجبور ہو گی۔ میں نے کہا ہم تو اپنی طرف سے باامن رہنے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس پر بھی حکومت کا یہ خیال ہو تو ہم مجبور ہیں۔ اب مہینہ دو مہینہ ہوئے کہ ایک افسر یہاں آیا اور ڈسٹرکٹ کمشنر صاحب کے حکم سے لوکل کمیٹی کے پریذیڈنٹ سے وہ یہ دستخط لے کر گیا کہ پندرہ دن کے اندر اندر پھاٹک کو اٹھا دیا جائے۔ ڈسٹرکٹ بورڈ کے پریذیڈنٹ ہونے کے لحاظ سے ایک ڈپٹی کمشنر کو فوجداری اختیارات حاصل نہیں ہوتے۔ پھر یہاں نہ تحقیقات ہوئی اور نہ ہی تعیین ہوئی اور خود بخود یہ حکم دے دیا گیا کہ پندرہ دن کے اندر اندر اسے اٹھا دیا جائے۔ اس پر یہاں کے ایک مالک نے تحصیلدار صاحب کو لکھا کہ میر قاسم علی صاحب کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں اگر کوئی نوٹس دیا جانا ہے تو مالکان یا صدر انجمن کو دینا چاہئے۔ ہم میر قاسم علی صاحب لوکل پریذیڈنٹ کے اس وعدہ کے پابند نہیں ہو سکتے۔ اب وہ پندرہ دن بھی گزر گئے ہیں اور پھاٹک ابھی تک نہیں اٹھایا گیا۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا اپنی زمینوں میں پھاٹک نہیں لگائے جاتے؟ اگر تو کسی پبلک تھروفیئر FARE) (THOROUGH میں یہ پھاٹک روک ہوتا یا گورنمنٹ کا اس میں کوئی راستہ ملتا تب تو یہ مطالبہ کیا جا سکتا تھا کہ اس پھاٹک کو اٹھا لیا جائے۔ لیکن جبکہ وہ ہمارے نزدیک ہماری زمین میں واقع ہے اور ڈسٹرکٹ بورڈ نے ابھی تک اپنا حق ثابت نہیں کیا اور اگر اس کا حق ثابت بھی ہوا تو بھی صرف یہ ہو گا کہ وہ پھاٹک پانچ فٹ ورے لگ جائے گا۔ پبلک کو کوئی نیا راستہ نہ مل جائے گا۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ اسے اس قدر اہم فوجداری سوال کس طرح بنا دیا گیا اور کیوں اس واقعہ کی اطلاع پہنچتے ہی پولیس اور مجسٹریٹوں کے اندر ہیجان پیدا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ پس اس واقعہ سے بھی صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ ہمیں دق کرنے کی منظم کوشش کی جارہی تھی۔ اور اس کارروائی کا ہمیں چھیڑنے کے سوا کوئی منشاء نہ تھا ورنہ کجا ڈسٹرکٹ بورڈ کے چند فٹ کی زمین کا جھگڑا اور کجا حکومت کی دھمکیاں اور فوجداریاں۔
تیسرا واقعہ
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ ہمارے جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ء پر احراری غیر احمدیوں نے بھی اپنا ایک جلسہ کیا۔ ۲۸/ دسمبر کو ہمارا جلسہ ختم ہوا۔ اور ۲۹/ کو ان کا جلسہ ہوا۔ اس کے متعلق جیسا کہ قاعدہ ہے گورنمنٹ کو فکر ہوا کہ کہیں کوئی فساد نہ ہو جائے۔ چنانچہ مجسٹریٹ صاحب علاقہ آئے اور ناظر صاحب امور عامہ سے خواہش کی کہ آپ اپنے آدمیوں کو وہاں جانے سے روک دیں۔ ناظر صاحب نے وعدہ کیا کہ ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو روک دیں گے۔ چونکہ ہمارے جلسہ میں ۱۵۔ ۲۰ ہزار کے قریب آدمی باہر سے شامل ہوتے ہی اور چھ سات ہزار کے قریب قادیان کے رہنے والے ہوتے ہیں اور اتنے آدمیوں کو حکم سے آگاہ کرنا اور ان سے تعمیل کروانا بہت مشکل کام ہے اس لئے محکمہ کی طرف سے علاوہ لوگوں کو روکنے کے یہ تجویز بھی کی گئی کہ گلی کے دونوں طرف آدمی مقرر کر دیئے جائیں تاکہ جن احمدیوں کو وہ پہچانیں انہیں جلسہ میں نہ جانے دیں اور ایک آدمی کو مسجد کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تاکہ اگر کوئی بھول کر آہی جائے تو اسے واپس کر دیا جائے۔ یہ شخص۲۶۵ مرکزی محکمہ کا ایک کلرک تھا جو زیادہ احمدیوں سے واقف تھا پس جو احمدی وہاں جاتا اسے وہ صاحب کہہ دیتے کہ یہاں جانے کی آپ کو ممانعت ہے۔ اس کام کے دوران اس دوست نے جو دروازہ پر مقرر تھے معلوم کیا کہ احراریوں کی طرف سے چیلنج دیا جارہا ہے کہ فلاں بات کا جواب احمدی دیں اور اس پر انہوں نے ایک رقعہ ناظر دعوت و تبلیغ کو لکھا کہ بہتر ہو کسی مبلغ کو بھجوا دیا جائے اس پر ناظر صاحب نے مولوی محمد سلیم صاحب کو جو ہونہار نوجوان یونیورسٹی کے گریجوایٹ اور جماعت کے ہوشیار مبلغوں میں سے ایک مبلغ ہیں وہاں بھیج دیا جنہوں نے چیلنج کے جواب میں رقعہ لکھا کہ کیا ہم بول سکتے ہیں؟ اور جواب نفی میں ملنے پر وہ امن اور خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے آئے اسی عرصہ میں پولیس والوں نے معاً ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس جو اس وقت قادیان میں ہی تھے اپنا آدمی دوڑایا کہ احمدی حملہ کرکے آگئے ہیں آپ جلد آئیں گویا احمدی مبلغ کا رقعہ احمدیوں کا حملہ بن گیا۔ مجھ سے خود ایک ذمہ دار پولیس کے اعلیٰ افسر نے بیان کیا کہ آپ کی جماعت نے سخت نامعقولیت کی کیونکہ اس موقعہ پر کہ احرار کے لوگ کثرت سے آئے ہوئے تھے اور ہندوئوں اور سکھوں میں بھی آپ کے خلاف جوش ہے اگر فساد ہو جاتا تو نہ معلوم کیا ہو جاتا۔ ایسے مواقع پر مکان جلا دیئے جاتے اور محلے تباہ کر دیئے جاتے ہیں خیر اس واقعہ کے بعد یہ مشغلہ حکام کے ہاتھ آگیا اور اس پر کارروائی شروع ہو گئی اور آدمی پر آدمی آنا شروع ہو گیا کہ یہ کیا غضب ہو گیا! ہم نے انہیں کہا کہ آپ کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ احمدیوں کو اس جلسہ میں جانے سے روکا جائے۔ پھر کونسا طریق تھا جو ہم انہیں روکنے کے لئے اختیار کرتے۔ ۱۵ ہزار میں سے بے شک کافی حصہ اس دن واپس چلا گیا تھا مگر رمضان المبارک کی وجہ سے اور کچھ میری ملاقات کی وجہ سے پانچ چھ ہزار سے زائد مہمان ابھی یہاں موجود تھا سات ہزار کے قریب قادیان کے احمدی تھے ان دس بارہ ہزار آدمیوں کو روکنے کی آخر کیا تدبیر اختیار کی جاتی پھر آپ نے خود کہا تھا کہ احمدیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی وہاں نہ گیا۔ پھر اس میں فساد کی کیا صورت ہو سکتی ہے مگر ان دلائل کی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور یہی کہا گیا کہ اگر فساد ہو جاتا تو کئی خون ہو جاتے۔ ہزاروں آدمی جیل میں چلے جاتے اور مکانات جل جاتے وہاں تین ہزار آدمی جن میں ہندو اور سکھ بھی تھے جمع تھے جو سب آپ کے مخالف تھے اور فساد کا سخت خطرہ تھا حالانکہ تین ہزار آدمی اس مسجد میں بھی جس میں میں یہ خطبہ پڑھ رہا ہوں سما نہیں سکتا۔ اور وہ مسجد تو جہاں جلسہ ہو رہا تھا نہایت چھوٹی سی ہے اور ایک ہزار آدمی بھی اس میں نہیں آسکتا۔ گورنمنٹ کے پاس جو رپورٹ کی گئی اس کے متعلق خود ایک اعلیٰ افسر نے مجھ سے بیان کیا کہ اس رپورٹ میں بیان کیا گیا تھا کہ احمدی وہاں گئے اور انہوں نے فساد برپا کرنا چاہا۔ لیکن ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے وہاں جاکر فساد رفع دفع کیا۔ جب میں نے کہا کہ میری رپورٹ یہ ہے کہ سوائے ان چند آدمیوں کے جن کو اس امر کے لئے مقرر کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو وہاں جانے سے منع کریں اور سوائے مبلغ اور اس کے دو تین ساتھیوں کے وہاں کوئی نہیں گیا۔ اور نہ کوئی فساد ہوا تو اس افسر نے کہا کہ آخر اتنے بڑے افسر کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے اس کا یہی جواب دیا کہ بے شک انہیں جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ مگر میں بھی اپنے آدمیوں کی سچائی کو جانتا ہوں۔ اس لئے میں دوبارہ تحقیق کرائوں گا کہ یہ اختلاف کیونکر پیدا ہوا ہے۔
چنانچہ میں نے دوبارہ تحقیق کرائی اور ناظر متعلقہ نے بعد تحقیق رپورٹ کی ¶کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب کا اپنا ایک بھائی اس موقعہ پر قادیان میں اور ان کی مجلس میں موجود تھا اور اور معززین بھی وہاں موجود تھے۔ ان سے گواہی لے لی جائے کہ جو واقعہ ہم بیان کرتے ہیں وہی درست ہے۔
واقعہ صرف یہ ہے کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب کے پاس ایک سپاہی آیا اور اس نے بیان کیا کہ فساد کا خطرہ ہے وہ کوٹ پہن کر گئے مگر ابھی احراریوں کے جلسہ گاہ میں نہ پہنچے تھے کہ پھر ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ اب ضرورت نہیں رہی فساد کا اندیشہ نہیں ہے۔ کچھ عرصہ ہوا یہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب مجھ سے ملے تو میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور پوچھا کہ آپ نے ایسی رپورٹ کس طرح کی؟ جبکہ آپ جلسہ پر نہ گئے اور نہ کسی فساد کو رفع کیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نہ میں نے یہ رپورٹ کی اور نہ میں وہاں جلسہ پر گیا تھا۔ جبب یہ واقعہ ہوا ہی نہیں تو میں کس طرح غلط رپورٹ کر سکتا تھا۔
اب تعجب یہ کہ ایک ذمہ دار افسر تو میرے پاس آکر بیان کرتا ہے کہ جماعت نے اتنی نامعقولیت کی کہ قریب تھا وہاں خون ہو جاتے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب وہاں پہنچے تو انہوں نے فساد کو روکا۔ مگر وہ ڈپٹی صاحب کہتے ہیں کہ نہ کوئی فساد ہوا نہ میں وہاں گیا اور نہ میں نے ایسی کوئی رپورٹ کی۔ اب بتائو کہ ان مشکلات میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پہلے واقعہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس اور مجسٹریٹ کی تکذیب کرتے ہیں۔ اس واقعہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب سپرنٹنڈنٹ صاحب کی تکذیب کرتے ہیں۔ لیکن ہر غلطی کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے جس سے ہم تو یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے ساتھ فریب کیا جارہا تھا۔ کوئی نہ کوئی افسر ایسا حکومت پنجاب میں تھا جو یہ سب کھیل ہمیں ستانے اور دق کرنے کے لئے کھیل رہا تھا کیونکہ بڑے افسر تبھی ایک دوسرے کی تکذیب پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ واقعہ میں غلط بیانی سے کام لیا جارہا ہو۔
اب میں پھر اپنے مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہوں کہ اگر واقعہ ہی کوئی نہیں ہوا تو سرکاری افسروں نے ہم پر حرف گیری کیوں کی اور ہمیں ڈراوے اور دھمکیاں کیوں دی گئیں؟ کیا ایسے حکام کے ماتحت کوئی امن سے رہ سکتا ہے جن میں سے ایک ذمہ دار افسر ایک دوسرے ذمہ دار افسر پر جھوٹ کا الزام لگا رہا ہو اور جو وفادار رعایا کو ناحق دق کر رہے ہوں۔ میں حلفیہ شہادت دینے کے لئے تیار ہوں کہ میں نے ان دو سرکاری افسروں سے جو کچھ سنا وہی بیان کیا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان افسروں میں سے جس نے بھی جھوٹ بولا ہو گا گورنمنٹ اس سے پوچھے یا نہ پوچھے خدا تعالیٰ اس سے ضرور پوچھے گا۔
اسی سلسلہ میں ہم سے یہ بھی کہا گیا کہ احمدیوں نے وہاں شعر پڑھے اور احرار کے جلسہ میں شورش پیدا کرنی چاہی جس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر احمدی زمیندار بھی بکثرت آتے
‏tav.7.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
آتے ہیں اور ہمیشہ پنجابی ڈھولے فراغت کے وقتوں میں پڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے کچھ دوست اسی محلہ میں ایک احمدی کے مکان میں کچھ ڈھولے پڑھ رہے تھے جس پر پولیس نے ان کو روکا اور گو ان کا روکنا سراسر ناجائز تھا۔ وہ رک گئے مگر اس کا نام یہ رکھا گیا کہ احمدیوں نے جلسہ گاہ کے اندر یا قریب شعر پڑھ پڑھ کر جلسہ کو خراب کرنا چاہا۔
چوتھا واقعہ
چوتھا واقعہ یہ ہے کہ یہاں کی پولیس کی طرف سے رپورٹ کی گئی کہ ایک سرکاری افسر کی ڈیوٹی میں احمدیوں کی طرف سے رکاوٹ ڈالی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعہ یوں ہے کہ ڈاک خانہ کا ایک کلرک جس کا احراریوں سے بھی تعلق تھا اور احمدیوں سے بھی اسے اس کے ایک احمدی دوست نے کہا کہ یہ اچھی بات نہیں کہ ہم سے بھی تعلق رکھتے ہو اور احراریوں سے بھی۔ بس اس قدر بات کا کہنا ایک سرکاری افسر کے فرض منصبی میں رکاوٹ ڈالنا قرار دیا گیا۔ گویا احراریوں سے ملنا ڈاک خانہ کے فرائض میں سے ایک فرض ہے اور بابو کا یہ کام ہے کہ جہاں وہ منی آرڈر کرے وہاں احراریوں سے بھی ملے۔ اس رپورٹ پر پولیس دوڑی چلی آئی اور گھبراہٹ کا ایک عالم طاری ہو گیا۔ ہم الگ حیران کہ خدایا یہ کیا جرم ہو گیا گوہر الزام بعد میں غلط ہی نکلتا تھا۔ لیکن جماعت کی اصلاح پر نظر رکھتے ہوئے میں ہر دفعہ اپنے ہی آدمیوں پر ناراض ہوتا کہ آپ لوگ اعتراض کا موقعہ ہی کیوں دیتے ہیں۔ اس دفعہ بھی میں نے ایسا ہی کیا۔ گو حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک میری طبیعت میں بھی اس قدر اشتعال پیدا ہو چکا تھا کہ اگر جماعت کی ذمہ داری میرے سر پر نہ ہوتی تو میں جیل خانہ جانا پسند کرتا لیکن اس روز مرہ کی چھیڑ خانی کو برداشت کرنے سے انکار کر دیتا۔
بہرحال اس دفعہ پھر حکومت کی مشینری شدت کے ساتھ حرکت میں آئی اور میں نے بھی اپنی جماعت کے لوگوں کو ڈانٹنا شروع کیا کہ کیوں آپ لوگ سلسلہ کی عزت کے خیال سے اپنے جوشوں کو دبا کر نہیں رکھتے ذلت برداشت کرلو لیکن ان باتوں سے بچو جن سے سلسلہ کی ہتک ہوتی ہے۔
اس دفعہ ایک انسپکٹر صاحب پولیس تفتیش کے لئے مقرر کئے گئے۔ انہوں نے یہاں آکر بیان لئے اور ڈاک خانہ کے اس کلرک نے جس کی نسبت کہا گیا تھا کہ اسے اپنے فرائض منصبی سے روکا گیا ہے باوجود مخالفت کے صاف کہہ دیا کہ اسے ڈاک خانہ کے کام سے کسی نے نہیں روکا۔ صرف اس کے ایک دوست نے اس سے شکوہ کیا تھا کہ تم ہمارے بھی دوست بنتے ہو اور احرار سے بھی میل جول رکھتے ہو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ پولیس بیانات لے گئی اور ہم نے سمجھا کہ یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ مگر بعد میں بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ اوپر رپورٹ یہ کی گئی ہے کہ شکایات تو درست تھی لیکن غالباً کلرک کو احمدیوں نے ورغلا لیا ہے اس لئے وہ اب منکر ہو گیا ہے۔
اب اگر یہ رپورٹ درست ہے تو سمجھ لو کہ ہمارے لئے کس قدر مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔ کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اگر کوئی احمدی ہمارے حق میں شہادت دے تو اسے یہ کہ کر رد کر دیا جائے گا کہ یہ احمدی ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ اگر غیر احمدی ہمارے حق میں شہادت دے تو یہ کہا جائے گا کہ اسے احمدیوں نے ورغلا لیا ہے گویا ہمارے معاملہ میں صرف وہی گواہی سچی سمجھی جائے گی کہ جو ہمارے خلاف ہو۔ ان حالات میں ہمارے لئے اپنی عزت کی حفاظت کے لئے کیا صورت رہ جاتی ہے اور ہمارے لئے انصاف پانے کا کونسا ذریعہ باقی رہ جاتا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ابھی چند ماہ ہوئے ہائیکورٹ میں ایک مقدمہ پیش تھا۔ جج صاحب ایک انگریز تھے ان کے سامنے ایک فریق کے وکیل نے کہا کہ صاحب دوسرا فریق احمدی ہے اور گواہ بھی احمدی ہیں اس پر منصف مزاج جج نے اس کو اس دلیل کے پیش کرنے سے روک دیا کہ مسلمانوں کے مقدمہ میں مسلمانوں کی اور ہندوئوں کے مقدمہ میں ہندوئوں کی گواہی سنی جاتی ہے تو احمدیوں کے مقدمہ میں احمدیوں کی گواہی کیوں قبول نہ کی جائے گی۔ دوبارہ پھر اس امر کی طرف اشارہ کرنے پر فاضل جج نے کہا کہ میں نے مسل کا مطالعہ کیا ہے اور میرے نزدیک احمدی گواہوں نے عام گواہوں سے زیادہ سچی گواہی دی ہے اس لئے میں اس دلیل کو سننے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت کا عدالتی حصہ یہ رویہ اختیار کرتا ہے اور انتظامی وہ جو اوپر بیان ہوا۔ ع۔
ع
ببیں تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا۔
پانچواں واقعہ
جب گورنمنٹ کی طرف سے ہم پر اتنی مہربانیاں ہو رہی تھیں کہ کہیں تعمیر مسجد کا شاخسانہ کھڑا کرکے ہم پر یہ الزام لگایا جارہا تھا کہ ہم نے احراریوں پر حملہ کیا۔ کہیں پھاٹک کا واقعہ پیش کرکے بتایا جاتا تھا کہ احمدیوں نے سڑکیں روک لیں کہیں جلسہ غیر احمدیوں کے موقعہ پر رپورٹ کی جاتی تھی کہ ہزاروں خون ہونے کا احتمال تھا۔ کہیں ڈاک خانہ کے بابو کے فرائض منصبی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام ہم پر عائد کیا جاتا تھا اس وقت ایک ذمہ دار پولیس افسر نے مجھ سے بھی اور بعض دیگر کارکنان جماعت سے کہا کہ حکومت ہم سے پوچھتی ہے کہ کیوں احمدیوں کی اس قدر رعایت کی جاتی ہے۔ کیوں یہاں تعزیری چوکی مقرر کرنے کی سفارش نہیں کی جاتی۔ کوئی بتائے کہ آج تک کہیں بھی ایسا ہوا ہے کہ کسی نے سمال ٹائون کمیٹی کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمارت تعمیر کرنی شروع کر دی ہو کسی نے قانون شکنی کرکے دوسرے فریق کو دق کرایا ہو اور دھمکی پرامن فریق کو دی جائے کہ تم پر تعزیری چوکی قائم کرنے کا حکومت کو خیال ہے۔
چھٹا واقعہ
چھٹا واقعہ اس اندھیر گروی کا یہ ہے کہ کسی نے جھوٹی رپورٹ کر دی کہ بعض احمدیوں نے سکھوں کے ایک گائوں میں جاکر کہا ہے کہ حضرت باوا نانک علیہ الرحمتہ گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ میں نے جب یہ بات سنی تو مجھے طبعاً برا معلوم ہوا اور میں نے سمجھا کہ اگر کسی احمدی نے ایسا کہا ہے تو اس نے غلطی کی کیونکہ ہم حضرت باوا صاحب کی طرف جو امور منسوب کرتے ہیں وہ ان کے شبدوں میں موجود ہیں۔ مگر جہاں تک میرا علم ہے گو میں سکھوں کے مذہب کا زیادہ واقف نہیں ایسا کوئی شبد نہیں جس میں یہ ذکر ہو کہ باوا صاحب نے گائے کا گوشت کھایا پس اگر ایسا ہوا تو علاوہ اس کے کہ یہ ایک اشتعال انگیز فعل تھا خلاف واقعہ امر بھی تھا۔ پس کارکنوں نے فوراً تحقیقات کرائی تاکہ اگر کسی نے یہ غلطی کی ہے تو اس سے گرفت کی جائے لیکن معلوم ہوا کہ کسی احمدی نے یہ الفاظ نہیں کہے۔ ہاں انہیں یہ شکوہ تھا کہ باوا صاحب کو مسلمان کہا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ غرض اصل واقعہ بالکل کچھ اور نکلا۔ جس میں باوا صاحب کی ہرگز ہتک نہیں تھی مگر گورنمنٹ کے محکمہ نے یہ کارروائی کی کہ رپورٹ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ احمدیوں نے فی الواقعہ ایسا کہا تھا حالانکہ یہ بات تحقیقات سے غلط ثابت ہو چکی تھی پھر اندر ہی اندر کوئی کارروائی ہوتی رہی جس کے ظاہر کرنے پر نہ ہم تیار ہیں اور نہ اس میں کوئی فائدہ ہے۔ غرض صرف یہ تھی کہ سکھ قوم میں جوش پھیلے۔ حالانکہ اگر سکھوں کو اشتعال دلانے والی کوئی بات ہوتی تو میں خود احمدیوں کو سزا دیتا۔
ساتواں واقعہ
احراری اپنی مجلس میں ہماری جماعت پر طرح طرح کے اتہام لگاتے ہیں۔ گندی سے گندی گالیاں دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نہایت برے الفاظ میں یاد کرتے ہیں یہ رپورٹیں پولیس کی طرف سے جاتی ہیں۔ مگر گورنمنٹ کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس پر قدرتی طور پر ہمارے بعض نوجوانوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی ان کی تقریروں کے نوٹ لے لیا کریں۔ چنانچہ بعض نے ایسا کیا۔ وہ صرف نوٹ لیتے تھے زبانی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ ہمارے جلسوں میں بھی پولیس بھی اور دوسرے لوگ بھی باقاعدہ آتے ہیں اور نوٹ لیتے ہیں مگر ہم نے کبھی برا نہیں منایا۔ ایک دن تو غلطی سے پولیس والا اپنی وردی ہی میں آکر میرے خطبہ کو لکھنے کے لئے مسجد میں بیٹھ گیا۔ حالانکہ ایسے موقعوں پر مسجد میں ان کو وردی پہن کر آنے کا حکم نہیں۔
بہرحال ہمیں پتہ ہے کہ وہ ہماری تقریروں کے نوٹ لے جاتے ہیں بلکہ ہم خود تیار ہیں کہ اگر بعض نوٹ ان کے رہ جائیں تو وہ ہم سے پوچھ لیں۔ پس تقریروں کے نوٹ لینے میں کوئی حرج نہیں جلسہ سالانہ کے ایام میں سینکڑوں لوگ جن میں ہندو اور سکھ بھی ہوتے ہیں میری تقریروں کے نوٹ لیتے ہیں اور مجھے اس سے کبھی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ خوشی ہوتی ہے کہ لوگ ان باتوں کو دہرائیں گے اور یہ صاف بات ہے کہ اچھی بات کے نوٹ لئے جانے پر گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی اور جبکہ ہم قانون شکنی بھی نہ کر رہے ہوں تو کسی کے نوٹ لینے پر ہمیں کیا شکوہ ہو سکتا ہے پس ہمارے آدمیوں نے نوٹ لینے شروع کر دیئے۔ لیکن مجسٹریٹ صاحب نے ناظر امور عامہ اور لوکل پریذیڈنٹ کو یہ نوٹس دے دیا کہ گورنمنٹ کو اطلاع ملی ہے کہ احمدی وہاں جا کر نوٹ لیتے ہیں۔ آئندہ وہاں کوئی احمدی نہ جایا کرے۔ اگر کوئی جائے گا تو اس کو زیر دفعہ ۱۰۷ ضابطہ فوجداری گرفتار کیا جائے گا۔ حالانکہ صرف نوٹ لینا ایسا فعل نہیں ہے جو دفعہ ۱۰۷ کے ماتحت آئے اگر ایسا ہی ہو تو گورنمنٹ کو تمام کالجوں پر یہ لکھ کر لگا دینا چاہئے کہ آئندہ کوئی طالب علم نوٹ نہ لیا کرے۔ ورنہ اس پر دفعہ ۱۰۷ کا نفاذ کر دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جو نوٹ لئے گئے وہ نیک باتوں کے تھے یا بری باتوں کے۔ اگر نیک باتوں کے تھے تو اس پر اعتراض کیا اور اگر وہ بری باتیں تھیں تو گورنمنٹ اب تک خاموش کیوں رہی۔ ناظر صاحب امور عامہ تو اس دن یہاں تھے نہیں لوکل پریذیڈنٹ سے مجسٹریٹ کے اس تحریری نوٹس پر دستخط کروائے گئے۔
قانونی مشیروں کا مشورہ ہمیں یہی تھا کہ اس نوٹس کی خلاف ورزی کی جائے کیونکہ یہ نوٹس ناجائز اور قانون کے منشاء کے خلاف ہے۔ مگر میں نے کہا کہ چونکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں۔ اس لئے گو نہایت اعلیٰ درجہ کے قانون دانوں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو شامل کرتے ہوئے مجھے مشورہ دیا کہ ہم اس کی خلاف ورزی کریں کیونکہ ہائیکورٹ کے متواتر فیصلے موجود ہیں کہ اگر جائز کام کرتے ہوئے کسی کو اشتعال آتا ہے تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ اسے پکڑے جسے اشتعال آتا ہے نہ کہ جائز کام کرنے والے کو۔ مگر ہماری طرف سے پھر بھی اس نوٹس کا احترام کیا گیا۔ حالانکہ اگر دفعہ ۱۰۷ کا نفاذ جائز تھا تو احراریوں پر اس کا نفاذ ہونا چاہئے تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ نوٹس میں یہ بھی فقرہ نہیں لکھا گیا کہ تم اشتعال دلاتے ہو بلکہ فقرہ یہ ہے کہ تم نوٹ لیتے ہو۔ گویا تسلیم کیا گیا ہے کہ ہمارے آدمی صرف خاموشی سے نوٹ لیتے تھے اور مجسٹریٹ صاحب کی عجیب ذہنیت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس سے احرار کو فوری اور جائز جوش آنے کا احتمال ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کل مجسٹریٹ صاحب کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ احمدیوں کے کوٹ پہننے یا عمامہ باندھنے پر احراریوں کو اشتعال آتا ہے۔ تو کیا ثبوت کہ وہ کل کو ہمیں کوٹ پہننے اور عمامہ باندھنے سے نہیں روک دیں گے۔ ہماری کونسی بات ہے جس پر احراریوں کو اشتعال نہیں آتا وہ تو ہماری ہر بات کو دیکھ کر جلتے بھنتے رہتے ہیں۔
آج کل الیکشن ہے اس میں ووٹ دینے پر بھی انہیں اشتعال آتا ہے ہمارے مسلمان کہلانے پر بھی انہیں اشتعال آتا ہے ہم حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو مسیح موعود مانتے ہیں اور انہیں جوش آتا ہے ہم انہیں نبی تسلیم کرتے ہیں تو انہیں غصہ آجاتا ہے ہر ایک شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے ان کو حسد کی آگ میں جلانے کا موجب ہوتا ہے پھر کیا وہ ان سب باتوں سے ہم لوگوں کو دفعہ ۱۰۷ کے ماتحت روک دیں گے۔ آخر وہ کون سا مابہ الامتیاز ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جلسہ میں امن سے نوٹ لینے پر تو وہ نوٹس دے سکتے ہیں لیکن اوپر کی باتوں پر نہیں۔ پس اس نوٹس نے بتا دیا ہے کہ آئندہ کے لئے کسی قسم کی آزادی احمدی جماعت کو حاصل نہیں ہو گی کیونکہ حکومت نے اس نوٹس دینے والے کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ حالانکہ اس حد تک یہ معاملہ پہنچ چکا ہے پس ہم مجبور ہیں کہ یہ سمجھیں کہ کم سے کم اس ضلع کی حکومت احراری ہے اور یہ برطانیہ نہیں بلکہ اس کے بعض مجسٹریٹوں کے ذریعہ سے احرار حکومت کر رہے ہیں۔
آٹھواں واقعہ
آٹھواں واقعہ یہ ہے کہ قادیان کے کچھ غیر احمدی لوگ احراریوں کے برے رویہ سے تنگ آکر اور کچھ ہمارے آدمیوں کے کہنے پر کہ تمہارے تعلقات ہمارے ساتھ اچھے ہیں تم کیونکر ہماری نسبت احرار کی گالیوں کو برداشت کرتے ہو اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ وہ جمعہ الگ پڑھیں۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سے وہ لوگ اس محلہ کی مسجد میں جمعہ پڑھا کریں جو قادیان کے شمال کے آخری سرے پر ہے اور خوجوں والی مسجد کہلاتی ہے۔ مسجد ارائیاں جس میں احراری جمعہ پڑھتے ہیں وہ قادیان کے جنوب کی طرف ہے گویا دونوں ایک دوسرے سے مخالف سمت پر اور کافی فاصلہ پر ہیں اور ایک جگہ کی آواز دوسری جگہ تک نہیں پہنچ سکتی اور نہ ایک مسجد میں داخل ہونے والے دوسری مسجد میں داخل ہونے والوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ دونوں مسجدیں اس وقت غیر احمدیوں کے قبضہ میں ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے بعض اوقات خوجوں والی مسجد میں بھی جمعہ ہوتا رہا ہے۔ مگر اب کچھ عرصہ سے غالباً وہاں جمعہ نہیں ہوتا تھا۔ جن لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جمعہ الگ پڑھا جائے۔ ان کے متعلق احرار یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ وہ ان سے علیحدہ ہو جائیں۔ اس پر فوراً حکام کو تار دی گئی کہ احمدی ہماری مسجد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور مقامی پولیس نے بھی مجسٹریٹ علاقہ کو تار دی کہ احمدی مسجد پر فساد کر رہے ہیں۔ مجسٹریٹ صاحب قادیان آئے اور آتے ہی جمعہ پڑھنے والوں کو سختی سے روک دیا کہ وہ انہیں اس مسجد میں جمعہ نہیں پڑھنے دیں گے۔ اب دیکھو کس قدر دروغ بیانی سے اس واقعہ میں کام لیا گیا ہے نہ کسی احمدی نے حملہ کیا نہ احمدیوں نے مسجد سے کسی کو روکا۔ اور نہ جمعہ پڑھنے والے احمدی تھے مگر تار یہ دی گئی کہ احمدی فساد کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ اس موقعہ پر صرف دو احمدی تھے ایک نمبردار جس کی نسبت خود ہیڈ کانسٹیبل نے تسلیم کیا کہ وہ اسے خود مدد کے لئے لے گیا تھا اور دوسرا میونسپل کمیٹی کا کلرک جسے ہیڈ کانسٹیبل تسلیم کرتا ہے کہ وہ خالی کھڑا تھا اور یہ کہ اس نے تار لکھوانے میں اس سے مدد لی۔ اس واقعہ کا نام احمدیوں کا فساد رکھ دیا گیا۔ ہمارے جو آدمی اس موقعہ پر تھے ان کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر مجسٹریٹ صاحب نے ہیڈ کانسٹیبل سے پوچھا کہ کون کون احمدی وہاں تھے اور اس نے اوپر بیان شدہ دو آدمیوں کا ہی نام لیا اور تسلیم کیا کہ ان میں سے نمبردار پہلے وہاں موجود نہ تھا ہیڈ کانسٹیبل اسے خود ساتھ لے گیا تھا۔ پس پولیس کے آنے سے پہلے صرف میونسپل کمیٹی کے کلرک کا وہاں ہونا ثابت ہوا۔ اب اس ایک شخص کا وہاں اتفاقاً کھڑا ہونا احمدیوں کا فساد بن گیا۔ گویا اس ایک شخص میں فوجوں کی طاعت جمع تھی کہ اسے احرار کا سر کچلنے کے لئے احمدی جماعت نے وہاں بھجوایا تھا مگر مجسٹریٹ صاحب نے اس بیان سے تسلی نہیں پائی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بار بار ہیڈ کانسٹیبل سے کہا کہ ارے یہ احراری لوگ تو کہتے ہیں کہ بہت سے احمدی تھے کیا یہ یونہی نام لیتے ہیں بتا کون کون لوگ تھے۔مگر اس پر بھی اس نے یہی کہا کہ یہی دو احمدی تھے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اس تحقیق کے بعد مجسٹریٹ نے کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کیا کہ سنو میاں ہیڈ کانسٹیبل! یہاں مسجد میں کوئی احمدی داخل نہ ہو اگر کوئی وضو یا نہانے کے لئے بھی آئے تو اسے وہیں ہتھکڑی لگا لو۔ دیکھو نا خواہ کتنی بھی بڑی حیثیت کا احمدی ہو اسے ہتھکڑی لگا لینا پھر میں دیکھ لوں گا۔ اس سے مراد سوائے خلیفہ کے یا ناظروں کے اور کون ہو سکتا ہے؟ مگر کیا پچھلی ہسٹری باتی ہے کہ ان کی مسجدوں میں کبھی خلیفہ گیا۔ اگر نہیں تو سوائے اس کے کہ جماعت احمدیہ کی بلاوجہ آزاری کی جائے ان الفاظ کا اور کیا مطلب تھا۔ جہاں مجسٹریٹ کسی کی ہتک کرتے ہوں وہاں لوگوں کے اخلاق کہاں درست رہ سکتے ہیں۔ پھر اگر بڑی سے بڑی حیثیت سے مراد جماعت کا خلیفہ نہیں تو کیا ناظر مراد ہیں؟ مگر کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ وہاں ناظر جایا کرتے ہیں یا نائب ناظر جایا کرتے ہیں یا نائب ناظر نہ سہی مختلف صیغوں کے انچارج ہی وہاں جایا کرتے ہیں اگر وہ بتا دیں گے تو ہم ان کا حق سمجھ لیں گے کہ انہوں نے جو کچھ کہا درست کہا لیکن اگر ہمارے چھوٹے چھوٹے افسر بھی ان کی مسجدوں پر قبضہ کرنے کے جرم کے کبھی مرتکب نہیں ہوئے تو اسے احمدیوں کا حملہ قرار دینا اور کہنا کہ اگر بڑی سے بڑی حیثیت کا احمدی بھی آجائے تو اسے ہتھکڑی لگا لو سوائے دلازاری کے اور کیا مطلب رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ گورنمنٹ کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی گئی یعنی ڈپٹی کمشنر صاحب کو تفصیلی حالات لکھ دیئے گئے مگر انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ حالانکہ اس واقعہ میں ہیڈ کانسٹیبل کی بھی شرارت تھی کہ اس نے بلاوجہ احمدیوں کو ملوث کیا اور جھوٹی تار دی۔ جو خود ایک جرم ہے اور مجسٹریٹ کی بھی غلطی تھی کہ اس نے جماعت احمدیہ کی ہتک کی اور مسجد سے لوگوں کو روکا جس کا اسے کوئی حق نہیں پہنچتا۔ کئی ہائی کورٹ مساجد کے متعلق واضح فیصلے کر چکے ہیں پھر ان کے خلاف حکم دینے کا مجسٹریٹ کو کہاں سے حق پیدا ہو گیا تھا۔ مگر اسے بھی کوئی سرزنش نہیں ہوئی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس ہتک میں بعض اعلیٰ حکام کا ہاتھ تھا۔
وہ غیر احمدی جو جمعہ کے لئے اکٹھے ہوئے تھے ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ ہم احراریوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے۔ یہ لوگ محض شرارت کے لئے قادیان آئے ہیں۔ تو مجسٹریٹ نے کہا۔ میں تم کو اس مسجد میں جمعہ پڑھنے نہیں دوں گا کیونکہ اس سے فساد ہوتا ہے حالانکہ روکنا فساد کرنے والوں کو چاہئے تھا۔ پھر جبکہ یہ لوگ قادیان کے ایک دوسرے سرے پر نماز پڑھ رہے تھے تو فساد کا احتمال کس طرح ہو سکتا تھا۔ جب ان غریبوں نے کہا کہ ہم احراریوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے اور اس مسجد میں نماز پڑھنے کی آپ اجازت نہیں دیتے تو ہم کہاں جمعہ ادا کریں تو مجسٹریٹ نے کہا کہ کھیتوں میں جاکر پڑھو۔ انہوں نے کہا کہ کھیت تو احمدیوں کے ہیں تو انہیں کہا گیا کہ جہاں چاہو پڑھو مگر اس مسجد میں مت پڑھو حالانکہ وہ غریب آدمی ہیں وہ مسجد کے سوا اتنی جگہ کہاں سے لائیں مگر انہیں یہی کہا گیا کہ یا تو احراریوں کے ساتھ جمعہ ادا کرو یا کسی اور جگہ پڑھو مگر اس مسجد میں نہ پڑھو۔ اس کے بعد اس مسجد پر جمعہ کے دن پولیس کے آدمی متعین ہوئے کہ کسی کو جمعہ نہ پڑھنے دیں۔
ان واقعات سے ظاہر ہے کہ گورنمنٹ خود احراریوں کی مدد کر رہی ہے اور وہ دوسرے مسلمانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی احراریوں کے پیچھے نماز پڑھیں۔ کیونکہ قادیان کے وہ دوسرے مسلمان جو جمعہ کی قیمت سمجھتے ہیں جب جمعہ پڑھنے کے لئے مجبور ہوں گے تو سوائے اس کے ان کے لئے اور کوئی صورت نہیں ہو گی کہ وہ احراریوں کی مسجد میں جائیں اور اس طرح ہمارے مخالفوں کا منشاء پورا ہو کہ لوگوں کے دل ہمارے خلاف باتیں سن سن کر ہماری دشمنی کے خیالات سے بھر جائیں۔
غرض اس واقعہ سے ثابت ہے کہ گورنمنٹ کے بعض افسر لوگوں کو مجبور کرکے احرار کے ساتھ لگانا چاہتے ہیں کہ وہاں سے اشتعال پکڑ کر وہ فساد کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔
نواں واقعہ
نواں واقعہ بھی ایسا ہے کہ اس کا خیال کرکے حیرت آتی ہے اور حکومت کی خاموشی کو دیکھ کر یہی خیال کرنا پڑتا ہے کہ شائد اسے صحیح واقعات کی اطلاع نہیں دی گئی ورنہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قدر جھوٹ بولا جائے اور اس کی تردید نہ کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عجیب واقعہ ہے۔ ہم بالکل بے خبر بیٹھے تھے کہ ایک پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر قادیان آئے اور مجھ سے بھی ملنے آگئے انہوں نے دوران گفتگو میں مجھ سے ذکر کیا کہ رپورٹ ہوئی ہے کہ احمدیوں نے نیزے تیار کئے ہیں اور ایک نیزہ پولیس نے پکڑ کر بطور نمونہ بھجوایا بھی ہے۔ میں اس خبر کو سن کر حیران رہ گیا۔ کیونکہ مجھے اس کی کوئی اطلاع نہ تھی اور میں نے ناظر صاحب کار خاص سے جو اس وقت پاس تھے اس کی حقیقت پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ڈیرہ غازی خاں کا طالب علم نجاری کا کام یہاں سیکھتا ہے اس نے ایک لوہار دوست سے مل کر ایک کھڈ سٹک یہاں بنوائی تھی جسے یہاں کی پولیس نے نیزہ قرار دے کر رپورٹ کر دی کہ احمدی نیزے بنوا رہے ہیں اور پھر اپنے طور پر اوپر کے احکام کے ایماء سے اس کھڈسٹک کو زبردستی چھین کر اوپر بھجوا دیا کہ یہ نمونہ ان نیزوں کا ہے۔ اس گفتگو کے چند دن بعد میں یہ خبر اخبارات میں پڑھ کر حیران رہ گیا کہ قادیان سے نیزوں کی برآمد ہوئی ہے یہ خبر ایسوشی ایٹٹد پریس نے بذریعہ تار سب اخبارات کو ارسال کی تھی اور اس ایجنسی کو عموماً حکومت کی طرف سے خبریں مہیا کی جاتی ہیں۔ پس ہمیں اس بات پر یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ خبر حکومت ہی کے بعض افسروں کی طرف سے اسے ملی تھی۔ جس وقت مذکورہ بالا پولیس افسر نے اس کھڈسٹک کا مجھ سے ذکر کیا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ سب احمدی گھروں کی تلاشی لے کر دیکھ لیں کہ وہاں کس قدر اسلحہ ناجائز طور پر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یوں تو تلاشی نہیں لے سکتے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں جانتا ہوں آپ قانوناً تلاشی نہیں لے سکتے لیکن میں جب جماعت کی طرف سے اجازت دیتا ہوں تو پھر تو قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ مگر انہوں نے یہ جواب دیا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو آپ کی زبان سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے اسی طرح ان خیالی نیزوں کے ذکر پر سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور سے مرزا شریف احمد صاحب نے جب کہا کہ نیزہ نکلا ہے تو آپ مقدمہ کیوں نہیں چلاتے تو انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس کا لوہا مقررہ لمبائی سے چھوٹا ہے اس لئے وہ قانوناً نیزہ نہیں بلکہ کھڈ سٹک ہے مگر باوجود اس کے کہ ایک کھڈسٹک ایک ایسے شخص کے پاس تھی جس کا پیشہ ہی ایسی اشیاء تیار کرنا ہے اور باوجود اس کے کہ اس کھڈسٹک کا لوہا نیزہ کی تعریف میں نہیں آسکتا اور باوجود اس کے کہ وہ صرف ایک ہی نیزہ تھا اور باوجود اس کے کہ حکومت کو چیلنج کیا گیا کہ وہ مقدمہ چلائے اور اس نے مقدمہ نہیں چلایا اور باوجود اس کے کہ میں نے پولیس کو دعوت دی کہ وہ ہمارے گھروں کی تلاشیاں لے کر دیکھ لے کہ کیا نیزے ہمارے گھروں میں پوشیدہ ہیں اور انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔ سب ہندوستان میں یہ خبر مشہور کر دی گئی کہ قادیان سے نیزوں کی برآمد ہوئی ہے اور حکومت نے آج تک اس کی تردید نہیں کی ہر شخص جو واقعات سے آگاہ ہے جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے کہ قادیان سے نیزہ پکڑا گیا اور یہ اور بھی جھوٹ ہے کہ قادیان سے نیزوں کی برآمد ہوئی۔ قادیان میں ایک شخص کے پاس ایک کھڈسٹک تھی جو ظلماً اور تعدی سے بلاحق کے پولیس نے جبراً اس سے چھین لی اور پھر جھوٹ بول کر اس کا نام نیزہ رکھ دیا گیا۔ اور اس کے بعد جھوٹ بول کر ایک کھڈسٹک کو نیزے قرار دے دیا گیا یہ اس قدر صریح جھوٹ اور سفید جھوٹ ہے کہ انسانی فطرت اس کا خیال کرکے بھی گھن کھاتی ہے اس طرح ایک امن پسند اور قانون کی پابندی کرنے والی جماعت کو ذلیل کرنے کی کوشش کرکے حکومت کے نمائندوں نے ایک نہایت گندی مثال قائم کی ہے۔ ایک فساد کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اگر حکومت ہی جھوٹ پر اتر آئے تو دوسرے لوگ جو اخلاق میں کمزور ہیں کیوں اس گند میں مبتلا نہ ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسوشی ایٹٹد پریس کی خبر گورنمنٹ کے کسی افسر کی طرف منسوب نہیں لیکن جبکہ مقامی اور بیرونی حکام سے ہم نے اس خبر کو اس رنگ میں سنا ہے اور جبکہ گورنمنٹ نے اس کی تردید بھی نہیں کی تو ہم مجبور ہیں کہ اس خبر کو گورنمنٹ کے حلقوں سے نکلی ہوئی سمجھیں۔ لیکن میں حکومت کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر اس خبر میں صداقت ہے تو وہ ان آدمیوں کے نام شائع کرے جن کے پاس نیزے نکلے ہیں اور ان نیزوں کی تعداد شائع کرے اور پھر ہمیں اجازت دے کہ اس خبر کے شائع کرنے والوں کے خلاف ہم عدالتی چارہ جوئی کریں۔ اگر اس کے نتیجہ میں حکومت کے نمائندوں کو فتح ہو گئی تو ہمارا جھوٹ ثابت ہو جائے گا۔ ورنہ حکومت کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کے بعض کل پرزے اس وقت نہایت خراب اور گندے ہو گئے ہیں اور اسے پرانی مشینری کی طرح کامل صفائی اور مرمت کی ضرورت ہے اگر حکومت نے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا تو وہ یاد رکھے کہ آئندہ اس کی بات پر اعتبار کرنا لوگوں کے لئے مشکل ہو گا اور جوں جوں یہ بات لوگوں میں پھیلے گی۔ وہ حیران ہوں گے کہ حکومت نے اپنے افسروں سے اس قدر بڑا جھوٹ دیکھ کر کیوں کر خاموشی اختیار کی جبکہ اس کے برخلاف اگر حکومت سچ کی تائید کرے تو اس کی بدنامی نہیں بلکہ نیک نامی ہو گی اور ذلت نہیں بلکہ عزت ہو گی اور اس کی باتوں کا اعتبار پھر سے قائم ہو جائے گا۔
دسواں واقعہ
پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہم جو گورنمنٹ کی ہمیشہ سے اطاعت اور فرمانبرداری کرتے چلے آئے ہیں ہمارے متعلق گورنمنٹ کے عجیب و غریب خیالات میں گورنمنٹ پنجاب کے ایک ذمہ دار سیکرٹری نے سلسلہ کے ایک سیکرٹری سے کہا کہ آپ لوگ پیرالل گورنمنٹ یعنی متوازی حکومت قائم کر رہے ہیں اور اس کا ثبوت یہ دیا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ اپنی جماعت کے مقدمات سنتے ہیں۔ ہمارے سیکرٹری نے کہا کہ اس میں کیا غضب ہو گیا۔ گورنمنٹ تو آپ یہ اعلان کرتی رہتی ہے کہ لوگوں کو اپنے مقدمات کے آپ فیصلے کرنے چاہئیں عدالتوں میں نہ آنا چاہئے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو گورنمنٹ یہ کہتی ہے کہ اپنے مقدمات کا گھروں میں فیصلہ کرنا چاہئے۔ اور دوسری طرف وہ جماعت جو مقدمات کا اپنے گھروں میں فیصلہ کرتی ہے اس کے متعلق کہتی ہے کہ وہ پیرالل گورنمنٹ قائم کررہی ہے۔ یا تو گورنمنٹ یہ نہ کہتی کہ اپنے گھروں میں مقدمات کا فیصلہ کیا کرو یا پھر اس کی اجازت کے ماتحت گھروں میں جھگڑوں کا تصفیہ کرنے والوں پر یہ الزام نہیں لگانا چاہئے اگر یہ کہا جائے کہ ہم قابل دست اندازی پولیس والے فوجداری مقدمات سنتے ہیں تو یہ صریح غلط اور خلاف واقع ہے ہاں ہم یہ مشورہ ضرور دیتے ہیں کہ ہر جھگڑے کے متعلق سلسلہ کے کارکنوں سے مشورہ کرلو جو پولیس کے دائرہ میں آتے ہیں ان کو پولیس میں لے جانے کی وہ ہدایت کریں گے اور جن مقدمات کا گھر میں فیصلہ کر لینے کی قانون اجازت دیتا ہے۔ ان کا وہ گھر میں فیصلہ کر دیں گے۔ اور یہ جرم ہم ہی نہیں کرتے۔ سب اس جرم کے مرتکب ہیں۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے انگریز افسر بھی اس سے بچے ہوئے نہیں۔ بچے گھروں میں سے بلا پوچھے چیز اٹھا لیتے ہیں لفظاً یہ چوری ہے۔ نوکر کوئی چھوٹی موٹی چیز اٹھا لیتا ہے یہ بھی چوری ہے مگر کوئی ¶انگریز افسر بھی ایسا ہے جو یہ کہے کہ وہ اس پر پولیس کے ذریعہ سے کارروائی کرواتا ہے عام طور پر ایسے واقعات میں لوگ نوکروں کو جرمانہ کر دیتے ہیں اور بچوں کے ذرا کان کھینچ کر چھوڑ دیتے ہیں اس قسم کے مقدمات اور وہ بھی چوری کے نہیں بلکہ بچوں وغیرہ کی عام مارپیٹ کے مقدمات ہماری جماعت میں بھی سن لئے جاتے ہیں۔ پھر نامعلوم اس کا نام متوازی حکومت کس طرح رکھا گیا۔ اور کس محاروہ کے مطابق رکھا گیا اگر یہ الزام ہم پر درست ہے تو ہر انگریز جس کا لڑکا بغیر پوچھے چاکو لیٹ کھا گیا ہو یا ہر انگریز جس کے باورچی نے اس کی اجازت کے بغیر ایک انڈے کا استعمال کر لیا ہو اور اس نے اسے پولیس میں نہ بھیجا ہو متوازی حکومت قائم کرنے والا قرار پائے گا۔ اور اس نئی اصطلاح کے ماتحت ہر گھر میں ہی ایک متوازی حکومت کا پتہ چل جائے گا اور شاید نیزوں والی خبر کے اصول پر ایسوشی ایٹٹد پریس کو یہ تار دینے کا حق حاصل ہو جائے کہ ہندوستان میں ایک گہری سازش کا انکشاف ہوا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ اندر ہی اندر ہزاروں حکومت کو الٹنے والی سازشیں ہو رہی ہیں اور متوازی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں۔ مگر کیا یہ درست ہو گا؟ پھر باامن شہریوں پر ایسے الزام لگانے سے یقیناً حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی بلکہ کمزور ہوتی ہے اور لوگوں کا حکومت پر سے اعتبار اٹھتا ہے۔
دوسرا ثبوت ان صاحب نے ہماری متوازی حکومت کا یہ دیا کہ تم مقدمات کے تصفیہ کے لئے لوگوں کو بلاتے وقت سمن جاری کرتے ہو اور مدعی اور مدعا علیہ کے الفاظ لکھتے ہو حالانکہ سمن کے معنے بلانے کے ہیں اور مدعی اور مدعا علیہ ہماری عربی زبان کے الفاظ ہیں جو مسلمانوں ہی سے لئے گئے ہیں ہماری شریعت میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں پھر کیا اب ہماری اپنی لغت کے الفاظ استعمال کرنے سے بھی ہمیں روکا جائے گا۔ کوئی غور کرکے بتائے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے الفاظ لکھنے سے ہم متوازی حکومت قائم کرنے والے کس طرح بن گئے۔ جو سمن جاری کرنے کا الزام ہم پر لگایا گیا ہے اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو یہ لفظ ہی ہمارے ہاں استعمال نہیں ہوتا صرف غلطی سے چند کاغذات میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ورنہ ہماری قضاء کے محکمہ میں ہرگز یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا ہمارے ہاں طریق یہ ہے کہ سادہ چٹھی لکھی جاتی ہے اور جسے بلانا ہو اسے بلا لیا جاتا ہے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب انگریزی نوکری کرتے ہوئے آئے ہیں انہوں نے بعض مواقع پر غالباً سمن کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن وہ محکمہ قضاء میں نہیں بلکہ امور عامہ میں کام کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ خان صاحب نے ساری عمر انگریزی نوکری کی انہوں نے اگر سمن کا لفظ استعمال کر لیا تو کوئی الزام کی بات نہیں تھی۔ خصوصاً جبکہ سمن کے معنے بلانے کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں سمن کا لفظ نہیں ہوتا۔ پھر مدعی اور مدعا علیہ کے الفاظ ہماری اپنی زبان کے ہیں اگر ہم اپنی بولی نہ بولیں تو اور کیا کریں۔ پس ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان کے چند الفاظ استعمال کئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ ہم لوگوں کے مقدمات سنتے ہیں مگر ان کی مرضی سے کوئی مار کر نہیں اپنی جماعت میں شامل نہیں کرتا۔ پس جب وہ اپنی مرضی سے ہمارے سامنے مقدمات پیش کرتے ہیں اور ایسے مقدمات جن کے پرائیویٹ تصفیہ کی حکومت نے اجازت دے رکھی ہے۔ تو ان کا تصفیہ متوازی حکومت کس طرح کہلا سکتا ہے آئندہ کے لئے حکومت یہ فیصلہ کر دے کہ دیوانی مقدمات میں بھی سمجھوتے کرانے ناجائز ہیں اور معمولی چھیڑ چھاڑ اور معمولی مار پیٹ کے واقعات بھی ضرور گورنمنٹ کی عدالت میں لانے چاہئیں تو اس کے بعد ایک کیس بھی ہم سن جائیں تو وہ متوازی حکومت کا الزام ہم پر لگا سکتی ہے لیکن جب ایک طرف وہ مقدمات سننے کی اجازت دیتی ہے تو پھر دوسری طرف اس کا یہ الزام لگانا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتا اور لوگوں کو یہ الزام لگانے کا موقعہ ملتا ہے کہ حکومت اپنے اعلانات میں سچ سے کام نہیں لیتی۔
گیارھواں واقعہ
گیارھواں واقعہ یہ ہے کہ کہا گیا ۱۹۳۳ء میں دریائے بیاس پر احمدیہ کور کے بعض نوجوان ٹریننگ کے لئے گئے اور انہوں نے وہاں پر رائفل شوٹنگ کیا اور یہ بات اتنے وثوق سے بیان کی گئی کہ جماعت احمدیہ کے ایک سیکرٹری سے حکومت پنجاب کے ایک ذمہ دار افسر نے اس کا ذکر جماعت کے متعلق شبہ کے طور پر کیا۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹی رپورٹ اور بے بنیاد بات تھی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ قادیان کے کسی کانسٹیبل نے یہ رپورٹ کی۔ حالانکہ قادیان کے کانسٹیبل کا بیاس کے اس علاقہ سے جہاں ہمارے لوگ سیر کو جاتے ہیں۔ کوئی تعلق نہیں وہاں کا تھانہ الگ ہے جو سری گوبند پور ہے۔ اگر دریائے بیاس کے اس مقام پر رائفل شوٹنگ ہو تو تھانہ اتنا نزدیک ہے کہ وہاں اس کی آواز بھی پہنچ سکتی ہے اس کے علاوہ پولیس کے آدمی گشت بھی لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن وہاں کی پولیس کو تو کچھ پتہ نہ تھا۔ اور یہاں کی پولیس کے کانسٹیبل نے جھٹ رپورٹ کر دی۔ اس پر پولیس کے اعلیٰ افسروں نے مقامی سب انسپکٹر کے ذریعہ سے تحقیقات کرائی اور سب پر تحقیقات کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ رپورٹ بالکل جھوٹی تھی اور وہ اس امر کو تسلیم کر گئے مگر گورنمنٹ کے ذمہ دار افسر ڈیڑھ دو سال کے بعد سلسلہ کے ایک ذمہ دار افسر سے شکایت کرتے ہیں کہ تمہاری طرف سے دریائے بیاس پر رائفل شوٹنگ کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
بارھواں واقعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔ بارھواں واقعہ یہ ہے کہ جلسہ احرار کے موقعہ پر ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع گورداسپور ہرچو وال اترے ہوئے تھے۔ وہاں انہوں نے جماعت کے چند افراد کو بلوایا اور گفتگو میں جب میرا ذکر کرتے تو دی مرزا۔ دی مرزا۔ MIRZA) (THE کہہ کر ذکر کرتے۔ اس پر ہماری جماعت کے ایک سیکرٹری نے چند بار سننے کے بعد ان سے کہا کہ صاحب آپ ہندوستانی ہیں۔ اگر آپ انگریز ہوتے تو آپ کو معذور سمجھا جا سکتا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ان کو اپنا امام اور خلیفہ مانتے ہیں اور آپ کے ان کو صرف مرزا کہنے سے بڑا دکھ محسوس کرتے ہیں۔ خان صاحب فرزند علی صاحبؓ۔ میاں شریف احمد صاحبؓ اور سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ حلفیہ بیان دے سکتے ہیں کہ انہوں نے اس کے جواب میں کہا۔ میں اس کے متعلق آپ لوگوں کو کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا۔ آپ نے جو کچھ کہنا ہے کمشنر صاحب سے کہیں جس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہ ہو سکتا تھا کہ کمشنر صاحب نے انہیں اجازت دے رکھی ہے کہ وہ ہماری اور ہمارے سلسلے کی ہتک کریں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کے متعلق ایک اور موقعہ پر بھی دیکھا گیا ہے کہ جب وہ ہماری جماعت کے ذمہ دار افسروں سے ملنا چاہتے تو کہتے میں نے فرزند علی سے ملنا ہے۔ شریف احمد سے ملنا ہے۔ اخلاق کا برتائو کسی قانون کے ماتحت نہیں ہوتا۔ کون سا قانون ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ڈپٹی کمشنر کو مسٹر کہا کریں۔ ہمارے ہندوستانی ہمیشہ بات کرتے وقت صاحب یا جناب کہنے کے عادی ہیں پس اگر ان احساسات کو مدنظر نہ رکھا گیا اور یہ کھیل کھیلنی شروع کر دی گئی۔ تو ہماری جماعت سے بھی وہ توقع نہیں رکھ سکیں گے کہ ہم آداب کے ساتھ ان کا نام لیا کریں۔ اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہم اگر کوئی مرہٹہ ہو تو اس کو کہہ دیں او مرہٹے اور پنڈت ہو تو اوپنڈت۔ یا لالہ ہو۔ تو اولا لے کہہ دیں۔ پس اگر ہمارے جذبات کے ساتھ کھیل سکتے ہیں تو ہم بھی انہیں پنڈت اور لالہ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ کھیل اگر کھیلا گیا تو بڑا گندہ کھیل ہو گا اور اخلاق سے سخت گری ہوئی بات ہو گی اور اس کے نتائج ایسے خطرناک نکلیں گے کہ نہ صرف لوگوں کے اخلاق بگڑیں گے بلکہ گورنمنٹ کا نظام بھی اس سے خراب ہو گا۔
تیرھواں واقعہ
تیرھواں واقعہ یہ ہے کہ یہاں پر ایک احمدی کانسٹیبل متعین ہوا۔ مگر چند ہی دنوں کے بعد اسے یہاں سے بدل دیا گیا۔ احراریوں کے ہم مذہب کانسٹیبل یہاں ڈیڑھ ڈیڑھ سال سے کام کر رہے ہیں مگر انہیں تبدیل نہیں کیا جاتا۔ اول تو قادیان ہماری جماعت کا مرکز ہے اور چونکہ اس میں ہماری جماعت کی کثرت ہے اور ہماری وجہ سے ہی قادیان کو ترقی حاصل ہو رہی ہے۔ اس لئے ہم یہ مطالبہ کر سکتے تھے کہ جیسے ننکانہ صاحب میں سکھوں سے وعدہ کر لیا گیا ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک سکھ تھانیدار رہا کرے گا۔ اسی طرح ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے ہمیں ننکانہ صاحب میں مستقل طور پر سکھ تھانیدار کے مقرر ہونے کا کوئی رنج نہیں بلکہ ہم کہتے ہیں چشم ماروشن دل ماشاد۔ لیکن جس طرح ننکانہ صاحب سکھوں کا ایک مقدس مقام ہے اسی طرح ہمارا بھی یہ مقدس مقام ہے اور جس طرح وہاں کثرت سے سکھوں کی جائیدادیں ہیں اسی طرح یہاں بھی ہماری جماعت کی کثرت سے جائدادیں ہیں غرض وہ ساری باتیں جو ننکانہ صاحب میں سکھوں کو حاصل ہیں وہ احمدی افراد کو قادیان میں حاصل ہیں پس یہاں کم از کم پولیس کا ایک حصہ مستقل طور پر احمدی ہونا چاہئے تھا۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ ایک کانسٹیبل آیا اور اسے بھی فوراً تبدیل کر دیا گیا۔ جو صاف بتاتا ہے کہ احمدیہ جماعت پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔
چودھواں واقعہ
چودھواں واقعہ یہ ہے کہ اسی جلسہ۲۶۶ احرار کے موقعہ پر ایک تھانیدار نے رپورٹ کی کہ احمدی اپنا لٹریچر تقسیم کرتے ہیں ہم نے اپنی جماعت کو حکام کی خواہش پر ہدایت کر دی تھی کہ احرار کو جاکر لٹریچر نہ دیا جائے۔ پھر اس کے بعد یہ خیال کرتے ہوئے کہ چونکہ محلوں میں سے احراری گزرتے ہیں اس لئے اگر انہیں لٹریچر دیا گیا تو ممکن ہے اس سے بھی کوئی فتنہ کا دروازہ کھل جائے اس لئے محلوں میں بھی لٹریچر تقسیم کرنا منع کر دیا گیا تھا۔ مگر احراریوں کے دوستوں نے چونکہ فتنہ کھڑا کرنا تھا اس لئے انہوں نے یہ شکایت کی کہ احمدیہ لٹریچر تقسیم کیا گیا ہے اور اس کے ثبوت میں یہ بیان کیا گیا کہ ایک باوردی تھانیدار کو لٹریچر دیا گیا ہے اگر اسے درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو تھانیدار کو لٹریچر دینے سے احراریوں میں جوش کس طرح پھیل سکتا تھا۔ جب تک کہ وہ خود درپردہ احراری نہ ہو میں ہرگز نہیں سمجھ سکتا کہ گورنمنٹ پنجاب کا بھی یہ منشاء ہو کہ ہم لٹریچر تقسیم نہ کریں کیونکہ ہم ایک تبلیغی جماعت ہیں اور ہمیں تبلیغی لٹریچر کی تقسیم سے کسی صورت میں نہیں روکا جا سکتا۔ لیکن جب ان کی طرف سے کہا گیا کہ لٹریچر تقسیم کیا گیا ہے تو ہمارے آدمیوں نے کہا کہ ان لوگوں کو پیش کیجئے۔ جن کو لٹریچر تقسیم کیا گیا ہے اس پر ایک تھانیدار کو پیش کیا گیا کہ اسے لٹریچر دیا گیا ہے اور جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس نے لٹریچر دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ مجھے سید احمد نور صاحب کابلی نے لٹریچر دیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ خود مدعی نبوت ہیں اور معذور اور بیمار آدمی ہیں۔ پس ان کا کام ہماری طرف کس طرح منسوب کیا جا سکتا ہے۔ پھر ممکن ہے ان کا نام بھی یونہی لے لیا گیا ہو اور جسے لٹریچر قرار دیا گیا ہو وہ ان کی کسی دوائی کے ساتھ کوئی اشتہار ہو مگر بہرحال جب سلسلہ کے کارکنوں نے تحقیق کی تو ثابت ہوا کہ یہاں کے چوکیداروں کا جو دفعدار ہے ۔۔۔۔۔۔ اس نے کسی دکاندار سے جا کر لٹریچر مانگا کہ پولیس والے مانگتے ہیں اور اس نے آگے اس تھانیدار کو وہ لٹریچر دیا اور اس کا نام فساد کرنا رکھا گیا اور کہا گیا کہ اس سے احرار کیمپ میں فتنہ واقع ہو جائے گا۔ اس صورت میں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ تھانیدار احراری تھا اور فساد پر آمادہ۔
پندرھواں واقعہ
پندرھواں واقعہ یہ ہے کہ ہم نے متواتر اعلان کیا تھا کہ احرار کے جلسہ میں کوئی احمدی نہ جائے۔ اتفاقاً ایک احمدی ستکوہا کو جارہا تھا۔ ستکوہا کا راستہ احراریوں کے جلسہ گاہ کے ساتھ سے ہی جاتا ہے انہوں نے جونہی ایک احمدی کو جاتے دیکھا اسے فوراً پکڑ کر پولیس کے پاس لے آئے۔ سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ جو اس ڈیوٹی پر مامور تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے جونہی اس کو دیکھا میرے دل نے گواہی دی کہ یہ احمدی ضرور ہے اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ستکوہا کا باشندہ ہوں۔ پھر میں نے تھانیدار سے پوچھا ستکو ہے کو راستہ کہاں سے جاتا ہے؟ تو اس نے بے اختیار کہا کہ احراری کیمپ کے عین اوپر سے۔ اس پر میں نے بالا افسر کو توجہ دلائی کہ دیکھو یہ شخص اپنے گھر جارہا تھا اور خواہ مخواہ اس پر فتنہ کا الزام لگایا گیا اور یہ امر ان کی سمجھ میں آگیا۔ غرض ادھر تو اتنی شدت برتی جاتی تھی کہ کوئی احمدی اپنے گھر جاتا ہوا بھی احراری کیمپ کے پاس سے نہ گزرے اور ادھر یہ کوشش کی جارہی تھی کہ کسی طرح بعض احمدیوں کو وہاں بھجوایا جائے۔ میں نے اس خیال سے یہ حکم دے دیا تھا کہ اگر کوئی احمدی اس جلسہ میں گیا تو میں اس کو جماعت سے خارج کر دوں گا۔ میں جانتا تھا کہ یہ ایسا جرم نہیں جس سے کسی شخص کو جماعت سے خارج کیا جائے مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ اس موقعہ پر وہی شخص جائے گا جو منافق ہو گا اور اس کی غرض جماعت کو بدنام کرنا ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض مشتبہ آدمیوں کے متعلق رپورٹ آئی کہ وہ احراری کیمپ کی طرف گئے تھے جب مجھے ان کی اطلاع دی گئی تو میں نے ذمہ دار افسروں کو کہا کہ گو جماعت سے نکالنا میرے ہی اختیار میں ہے لیکن جب میں آپ کو اس بارہ میں اختیار دے چکا ہوں تو اپنے اختیار کو آپ برتیں۔ اس پر ذمہ دار کارکن جماعت نے انہیں جماعت سے خارج کر دیا۔ اس پر ان میں سے ایک شخص کے متعلق ایک مجسٹریٹ نے شکایت کی کہ میں نے اس شخص کو سرکاری کام پر بھیجا تھا لیکن اسے جماعت سے نکال دیا گیا ہے اس پر جو افسر بالا افسروں کے ساتھ مقرر تھے انہوں نے احتجاج کیا کہ ایک طرف آپ لوگ اس سختی سے ہمیں روکتے ہیں کہ احمدی وہاں نہ جائیں دوسری طرف آپ کے ماتحت احمدیوں کو بلا ہم سے پوچھے ادھر بھجواتے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنے نہیں کہ اس طرح ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض اس واقعہ نے بھی بتا دیا کہ ہمیں اس موقعہ پر بدنام کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔
سولہواں واقعہ
سولہواں واقعہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے ایک شخص نے گزشتہ دنوں ایک ٹریکٹ لکھا تھا اس کے الفاظ سخت تھے اور گو اس کے مقابلہ میں بیسیوں مثالیں اس امر کی نظر آتی ہیں کہ احمدیوں کو گندی سے گندی گالیاں دی گئیں اور ٹریکٹ اور اشتہاروں میں گالیوں کو شائع کیا گیا۔ مگر ہم نے اس ٹریکٹ کو فوراً ضبط کر لیا اور اس کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ حالانکہ دوسرے مسلمانوں نے آج تک اپنے کسی آدمی کے متعلق ایسا نہیں کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے اس احمدی پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے سزا دی گئی لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق سخت سے سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور گندی سے گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔ مگر کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور اگر توجہ کی بھی جائے تو معمولی وارننگ کر دی جاتی ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ قانون دو کیوں ہیں؟ ہمارے متعلق گند اچھالا جائے تو محض وارننگ کی جاتی ہے لیکن اگر ہمارا آدمی کوئی سخت لفظ لکھ دے تو اس پر مقدمہ کھڑا کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نتائج
یہ سولہ مثالیں ہیں جو میں نے پیش کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ۔
۱۔
ایک عرصہ سے جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش حکومت کے بعض افسران کی طرف سے کی جارہی ہے۔
۲۔
یہ کوشش چند ماہ سے بہت بڑھ گئی ہے۔
۳۔
ہمارے خلاف جو شکایات کی جاتی ہیں جب وہ جھوٹی ثابت ہو جاتی ہیں تو پھر بھی بعض اعلیٰ افسر تک انہیں دہراتے رہتے ہیں جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ اصل غرض ہمیں بدنام کرنا ہے نہ کہ حقیقت معلوم کرنا۔
۴۔
جماعت کے کارکنوں اور جماعت کو حتیٰ کہ خود امام جماعت احمدیہ کو بلاوجہ پریشان کیا جاتا ہے اور ان کا وقت ضائع کیا جاتا ہے۔
۵۔
ہمارے خلاف شرارت کرنے والے سرکاری ملازموں کے متعلق اول تو تحقیق ہی نہیں کی جاتی اگر تحقیق کی جاتی ہے تو پھر ان کے جھوٹے ثابت ہو جانے پر بھی ان کو سزا نہیں دی جاتی جس سے شرارتیوں کی جرات بڑھتی ہے۔
۶۔
ذمہ دار سرکاری افسر جماعت کے کارکنوں اور امام جماعت احمدیہ کی ہتک کرتے ہیں اور پھر اس پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے شک جاکر بالا افسروں سے کہہ دو۔
۷۔
پہلے سے ہم سے تعاون کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور جب ہم حکام کی بات تسلیم کر لیتے ہیں تو دوسرے افسر ہمارے اس فعل کی تخفیف کرتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے پر جھوٹ کا الزام لگا دیتے ہیں۔
۸۔
سرکاری محکموں میں اگر احمدی ہوں تو ان کے کاموں کو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔
پس ان امور سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب میں بعض ایسے افسر موجود ہیں جن کی غرض سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جماعت کو کمزور اور بدنام کیا جائے اب میں جماعت کے سامنے یہ مثالیں رکھ کر کہتا ہوں کہ کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے وہ امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے کارکن جماعت کے کاموں کو اسی سرگرمی سے کر سکتے ہیں جس سرگرمی سے انہیں کام کرنے چاہئیں۔ میں نے یہ تفصیل اس لئے بتائی ہے کہ شائد بعض لوگوں کے دل میں خیال گزرتا ہو کہ حکومت سے ایک غلطی ہوئی ہے اسے جانے دینا چاہئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے ایسے واقعات متواتر ہو رہے ہیں۔ اور میں نے اوپر صرف چند مثالیں بیان کی ہیں ورنہ اور بہت سے واقعات اوپر کے نتائج کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور یہ ایک لمبا سلسلہ ہے جو جماعت پر مصائب و مشکلات کے رنگ میں گزر رہا ہے<۔۲۶۷
دوسرا باب )فصل نہم(
قادیان میں >احراری تبلیغ کانفرنس< اور
حکومت پنجاب کا ظالمانہ حکم
حکومت پنجاب نے مرکز احمدیت میں مظالم کا جو سلسلہ جاری کر رکھا تھا وہ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں ایک نئی شکل اختیار کر گیا۔ جبکہ حکومت کے افسروں نے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے خلاف خصوصاً اور جماعت احمدیہ کے خلاف عموماً اپنے ناروا عزائم کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ احرار نے ۲۱۔ ۲۲۔ ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کی تاریخوں میں >قادیان تبلیغ کانفرنس< منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں شرکت کے لئے ملک بھر میں زبردست پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس جلسہ کے انعقاد میں ہندو ڈپٹی کمشنر جے ایم۔ شری نگیش کا بہت دخل تھا۔۲۶۸
شعبہ خاص کا قیام
اس تشویشناک ماحول میں صدر انجمن احمدیہ نے شعبہ خاص کے نام سے ایک اہم محکمہ قائم کر دیا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کو اس کا ناظم مقرر فرمایا۔۲۶۹ اس نئے شعبہ کا مقصد یہ تھا کہ ہر وقت صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور خطرناک حالات کا مقابلہ کرنے کی فوری اور موثر تدابیر کی جائیں۔ چوہدری ظہور احمد صاحب۲۷۰ آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کا بیان ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے یہ طے کیا کہ اس شعبہ کے سرگرم کارکنوں کو مقدمات میں الجھایا جائے اور ہر مقدمہ میں کسی ایک گمنام شخص کا نام بھی رکھ لیا جائے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا مقدمہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے خلاف دائر کیا گیا اور آپ کے ساتھ چوہدری ظہور احمد صاحب اور بعض دوسرے احمدی بھی شامل کئے گئے چونکہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے دینوی وجاہت و عظمت بھی عطا فرمائی تھی اور مارپیٹ کا جو الزام آپ پر لگایا گیا تھا اسے کوئی عقلمند تسلیم نہیں کر سکتا تھا اس لئے مجسٹریٹ نے حضرت میاں صاحبؓ کو سمن کرنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی اور آپ کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا۔ مگر دوسرے احمدیوں کے خلاف کئی ماہ تک مقدمہ چلتا رہا۔ بالاخر ایسے حالات رونما ہوئے کہ چوہدری ظہور احمد صاحب تو بری کر دیئے گئے اور دوسروں کو سزا دے دی گئی۔ اپیل ہوئی تو جج نے فیصلہ میں لکھا کہ مقدمہ کی شہادتوں کے مطابق اصل مجرم تو چوہدری ظہور احمد کو ظاہر کیا گیا ہے لیکن اسے مجسٹریٹ نے بری کر دیا اور دوسروں کو سزا دے دی۔ نیز استغاثہ کے ایک اہم گواہ کی نسبت لکھا۔A> IS HE ۔LIAR <HOPELESS یعنی وہ قطعی طور پر جھوٹا ہے۔
احراری حلقوں سے معلومات حاصل کرنے کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے ذمہ سالانہ جلسہ میں حضور کی حفاظت کا انتہائی نازک اور پیچیدہ انتظام بھی تھا مگر آپ نے اس کام کو ایسی عمدگی سے انجام دیا کہ کسی کو آخر وقت تک یہ علم نہ ہو سکا کہ حضور کس راستہ سے جلسہ گاہ میں تشریف لے جائیں گے۔ سٹیج پر ٹکٹوں کا انتظام اسی وقت سے جاری ہوا۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی بیدار مغزی اور فراست اور تدبر نے دشمن کی بہت سی چالیں ناکام بنا دیں۔
مرکزی پریس کی خاموشی
اگرچہ بیرونی احمدیوں کی طرف سے متواتر اطلاعیں آرہی تھیں کہ مخالفین مرکز احمدیت میں بڑا فساد برپا کرنا چاہتے ہیں مگر سلسلہ احمدیہ کا مرکزی پریس اس بارے میں بالکل خاموش رہا کہ جماعت میں تشویش پیدا نہ ہو۔ احمدی حضورؓ کی خدمت میں لکھتے کہ یہاں فتنہ کا زور بڑھ رہا ہے لیکن >الفضل< میں اس کا کچھ بھی ذکر نہیں ہوتا مگر حضور ان کو یہی جواب دیتے کہ آپ لوگ صبر سے کام لیں اور ہم پر اعتبار کریں کہ سلسلہ کی حفاظت کے لئے جو کچھ ہم کر رہے ہیں ٹھیک ہے غرص کہ ایک وقت تک نہ تو جماعت احمدیہ کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی اور نہ حکومت نے جماعت کو کوئی اطلاع دی۔۲۷۱
مولوی فرزند علی صاحبؓ کی کمشنر صاحب لاہور ڈویژن سے ملاقات
اسی دوران میں یہ واقعہ ہوا کہ خان صاحب حضرت مولوی فرزند علی صاحبؓ )ناظر امور عامہ( کو کمشنر لاہور ڈویژن کی چٹھی ملی کہ
مجھے ایک ضروری بات کے لئے کسی وقت آکر ملیں۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے شملہ میں ۱۷/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو ان سے ملاقات کی۔۲۷۲ جس کی تفصیل حضرت مولوی صاحبؓ کے الفاظ میں یہ ہے کہ >پوچھنے لگے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ احرار لوگ قادیان میں وسط اکتوبر میں ایک بڑا جلسہ کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے پوسٹر نکالا ہے۔ میں نے کہا مجھے پوسٹر کا تو علم نہیں یہ میں نے بہت عرصہ ہوا ہے سنا تھا کہ احرار نے جلسہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ مگر اس بات کی طرف صاحب بہادر کو توجہ دلائی کہ یہ محض ان لوگوں کی شرارت ہے ورنہ قادیان میں جلسہ کرنے کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگے کہ یہ تو میں سمجھتا ہوں کہ احرار کا ارادہ شرارت کا ہی ہو گا۔ مگر ہم کس طرح کسی گروہ کو مذہبی تبلیغ کرنے سے روک سکتے ہیں۔ میں نے کہا یہی دلیل ہمیشہ دی جاتی ہے ہمیں جلسوں میں برا بھلا کہا جاتا ہے اشتعال دلایا جاتا ہے۔ جمع ہونے والوں پر کسی طرح قابو نہیں ہوتا اس لئے ہمیں سخت خطرہ ہوتا ہے کہ ہمارے مقدس مقامات پر ۔۔۔۔۔۔۔ حملہ نہ کر دیا جائے۔ چنانچہ مزار مبارک حضرت اقدس مسیح موعود )علیہ الصلٰوۃ والسلام( کی چار دیواری کا سبب بیان کیا۔ اور بتایا کہ اگر جلسہ ہوا تو ہمیں خود حفاظتی کا انتظام کرنا ہو گا۔ کہنے لگے آپ بے شک ایسا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی طرف سے کسی قسم کی زیادتی نہ ہونی چاہئے۔ میں نے کہا۔ اس طرف سے آپ اطمینان رکھیں ہماری طرف سے نہ پیش قدمی ہو گی نہ زیادتی۔ اسلام کا قانون بھی ان کو بتایا کہ باوجود یہ کہ غنیم لشکر کے ساتھ چڑھائی کرکے آیا ہو ہمارے لئے پھر بھی یہی حکم ہے کہ جنگ اور حملہ کی ابتداء دشمن کی طرف سے ہونی چاہئے۔ پھر میں نے پہلی ملاقات کے تسلسل میں مجلس مشاورت کی روئداد میں سے وہ حصے سنائے جن میں حضور نے فرمایا تھا کہ احمدیہ کور سے جلسوں کے انتظامات کے لئے کام لیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ احمدیہ کور کبھی سرکار کے مقابلہ میں آئے گی تو یہ بدظنی نہیں تو اور کیا ہے؟ کہنے لگے ہمارا صرف یہ خیال ہے کہ ایک حد تک بے شک آپ کو اختیار ہے کہ آپ اپنی جماعت کا انتظام کریں۔ اس کے جھگڑے نپٹائیں۔ مگر ایسی چیزوں میں دخل نہ دیں جو سرکاری حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔ توجہ سے سنتے رہے اور پھر یہی مشورہ دیا کہ آپ حکام ضلع سے زیادہ ملتے رہا کریں تا ان کو آپ کا ہر پہلو معلوم ہوتا رہے۔ میں نے کہا میں دو دفعہ ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس دونوں سے ملا ہوں۔ ان کے کان ہمارے خلاف بھرے جارہے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ ہم ان کو چھوٹے افسر سمجھتے ہیں اور ان سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ میں نے ان کو دعوت دی ہے کہ قادیان میں قیام کریں اور ہم چاہتے ہیں کہ قادیان میں تھانہ بن جائے۔ تا ایک سینئر افسر وہاں رہ سکے۔ اس بات کو صاحب موصوف نے تسلیم کیا کہ حکام ضلع کہتے ہیں ہم کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ قادیان میں کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا ہمیں جو بات پوچھیں ہم اس کو راستبازی کے ساتھ بیان کریں گے کیونکہ ہر شخص احمدیت میں پاکیزگی نفس حاصل کرنے کے لئے شامل ہوتا ہے۔۲۷۳
ضلع گورداسپور سے احمدی بلوانے کی ہدایت
اس ملاقات کے بعد حالات نے جلد جلد پلٹے کھائے اور ۱۵/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے قریب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ کی خدمت میں بہت سے ایسے خطوط موصول ہوئے۔ جن میں ذکر تھا کہ احرار کانفرنس کے ایام میں فساد کا بہت خطرہ ہے اس پر حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ ناظم شعبہ خاص کو ہدایت فرمائی کہ اس موقعہ پر خود حفاظتی کے طور پر ضلع گورداسپور سے دو ڈھائی ہزار آدمی بلوا لیں۔ یہ ہدایت ساڑھے بارہ بجے کے قریب حضرت صاحبزادہ کو ملی۔
‏tav.7.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
مرزامعراج الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ سی آئی ڈی لاہورکی ملاقات
تین بجے کے قریب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حضور کی خدمت میں اطلاع دی کہ مرزا معراج الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ سی۔ آئی۔ ڈی لاہور کسی کام سے یہاں آئے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں اس پر حضرت امیرالمومنینؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کو کہلا بھیجا کہ آپ مرزا معراج الدین صاحب کو ساتھ لے آئیں۔ ان کے آنے پر حضور نے مرزا معراج الدین صاحب سے دریافت فرمایا کہ آپ کیسے تشریف لائے؟ انہوں نے جواب دیا میں سرکاری کام سے گورداسپور آیا تھا۔ خیال آیا کہ قادیان میں ہوتا جائوں اسی اثناء میں گفتگو کا رخ خود بخود احراریوں کی طرف پھر گیا۔
حضور نے پوچھا کہ آپ کس حیثیت سے گفتگو کر رہے ہیں؟ سپرنٹنڈنٹ سی۔ آئی۔ ڈی کی حیثیت سے یا مرزا معراج الدین صاحب کی حیثیت سے؟ انہوں نے یقین دلایا کہ میں محض ذاتی حیثیت سے ملنے آیا ہوں۔ حضور نے ان سے یہ بھی دریافت فرمایا کہ جب گورداسپور سے آپ کا تعلق نہیں تو وہاں کیسے آئے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مرکز کو فکر بہرحال ہوتی ہے اور میں دریافت احوال ہی کے لئے آیا تھا۔ حضور نے دوران گفتگو میں فرمایا کہ حکومت کی طرف سے ہماری مخالفت کی جارہی ہے۔ کہنے لگے کہ میں آپ کو اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ اس معاملہ میں حکومت بالکل نیوٹرل )غیر جانبدار( ہے۔
حضور نے بتایا کہ ہمارے یہاں تو یہ نہیں ہو رہا۔ بلکہ حکام کا ایک حصہ احرار کی طرفداری کر رہا ہے اس موقعہ پر حضور نے پھر ہنس کر پوچھا کہ کیا آپ سپرنٹنڈنٹ سی۔ آئی۔ ڈی کے طور پر تو گفتگو نہیں کر رہے؟ انہوں نے دوبارہ اس سے انکار کیا اور کہا کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ میری یہ ملاقات محض انفرادی نوعیت کی ہے۔ یہ جواب سن کر حضور نے مقامی حکام کے طرز عمل کا تفصیل سے تذکرہ کرنے کے بعد بالاخر فرمایا >ہم پر تو یہ اثر ہے کہ اس وقت اس علاقہ میں احرار کی حکومت ہے ان کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھا جاتا ہے اور ہمارے آدمیوں کے سچ کو بھی جھوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ آپ حکومت کو نیوٹرل بتاتے ہیں کاش وہ نیوٹرل ہوتی۔ لیکن وہ تو احرار کی مدد کر رہی ہے۔ اسے یا تو نیوٹرل رہنا چاہئے اور یا پھر ہمیں احراریوں کے رحم پر چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہئے۔ یہ کیا طریق ہے کہ ایک طرف تو وہ ہمارے ہاتھ باندھتی ہے اور دوسری طرف ان کو سر پر چڑھاتی ہے اور ہمیں قانون میں جکڑ کر ان کے آگے پھینکتی ہے۔ اگر وہ نیوٹرل نہیں رہ سکتی تو بے شک ان کے رحم پر ہمیں چھوڑ دے اور اگر احراری ہم سب کو بھی قتل کر دیں گے تو ہم کبھی حکومت کا شکوہ نہیں کریں گے<۔
مرزا معراج الدین صاحب نے کہا کہ میں خود اس مضمون کی طرف آنا چاہتا تھا۔ میں نے سنا ہے کہ آپ نے باہر سے کچھ آدمی بلوائے ہیں؟ اور ایک ایسی تحریر حضور کو دکھائی۔ حضرت اقدس نے جواب دیا کہ >میں نے ایسی ہدایت آج بارہ بجے دوپہر جاری کی ہے۔ آپ تک یہ کیسے پہنچ گئی؟< پھر حضرت مرزا شریف احمد صاحب سے پوچھا کہ آپ کے پاس میری ہدایت پہنچی ہے؟ اس پر انہوں نے جیب سے اصل ہدایت جس پر تاریخ اور وصولی کا وقت بھی درج تھا نکال کر دکھا دی۔ مرزا معراج الدین صاحب نے کہا کہ اگر میں اپنے طور پر سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ڈپٹی کمشنر صاحب سے مل کر پولیس کا خاطر خواہ انتظام کرا دوں تو کیا پھر بھی آپ کو باہر سے آدمی بلانے کی ضرورت ہو گی؟ حضور نے فرمایا کہ یہاں کی مقامی پولیس کو تو میں احراریوں سے بھی بدتر سمجھتا ہوں ان لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کو احراری قتل بھی کر دیں تو پولیس والے یہی کہیں گے کہ ان کے پچاس آدمی احرار پر حملہ آور ہوئے تھے اور انہوں نے خود حفاظتی کے طور پر قتل کر دیا ہے اور اس طرح ہمارے ہی آدمیوں کو گرفتار کریں گے انہوں نے کہا کہ میں یہ انتظام کرانے کی کوشش کروں گا کہ انگریز افسر یہاں رہے اور اس کے ساتھ آپ کا ایک آدمی رہے۔ آپ مرزا شریف احمد صاحب کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ میں ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس سے بات چیت کرلوں اور اگر وہ یہ تجویز منظور کرلیں تو آپ یہ حکم جاری نہ کریں۔
حضرت امیر المومنینؓ نے اس سے پوری طرح اتفاق کیا۔ اور حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو ان کے ساتھ جانے کے لئے ارشاد فرمایا۔ مگر شام کے وقت حضور کو اطلاع پہنچی کہ صاحبزادہ صاحب ابھی قادیان میں ہی ہیں۔ حضور نے صبح سویرے ہی ان کو بلوا بھیجا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے بتایا کہ معراج الدین صاحب کہہ گئے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کے ہاں آج شب میرا کھانا ہے۔ گیارہ بارہ بجے اگر کھانے سے فارغ ہوئے تو اس وقت کیا باتیں ہوں گی۔ میں خود ہی ان سے بات چیت کرکے آپ کو مطلع کردوں گا۔ اور جب آپ کو اطلاع پہنچ جائے کہ آپ کے حسب منشاء تسلی بخش انتظامات ہوگئے ہیں تو آپ باہر سے آدمی نہ بلائیں۔
اس کے ساتھ ہی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے یہ بھی عرض کیا کہ مرزا معراج الدین صاحب کے جانے کے بعد ایک غلطی معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ کہ قائم مقام ناظر امور عامہ نے ازخود ضلع گورداسپور کی بعض جماعتوں کے ذمہ کچھ تعداد لگائی ہے۔ کہ اتنے آدمی یہاں بھیج دیں۔ حضور نے فرمایا۔ یہ تو بڑی غلطی ہوئی ہے ناظر امور عامہ کو چاہئے تھا کہ جب اس کام کو ان کے صیغہ سے علیحدہ کرکے اس کے لئے ایک علیحدہ افسر مقرر ہوچکا ہے تو وہ خود دخل نہ دیتے۔ بہرحال حضور نے ارشاد فرمایا کہ مرزا معراج الدین صاحب کو اس غلطی کی فوراً اطلاع دی جائے۔
افسران حکومت کو ایک خصوصی اطلاع
یہ ہدایت دینے کے بعد حضورؓ فیروز پور تشریف لے گئے اور اسی تاریخ یعنی ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو ایک خاص شخص کے ذریعہ سے مرزا معراج الدین صاحب کو اس غلطی کی اطلاع کردی گئی اور یہ بھی لکھ دیا گیا کہ ان کے وعدہ کے مطابق انتظام ہوجانے پر یہ سرکلر منسوخ کردیا جائے گا۔
حضور ابھی فیروزپور ہی میں تھے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس قادیان میں آئے اور حضرت چودھری فتح محمد صاحبؓ سیال ایم۔ اے حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ سے مبادلہ خیالات کیا۔ اور آخر ان سے قطعی اور غیر مشتبہ الفاظ میں یہ کہ دیا گیا۔ کہ ہم جاری شدہ سرکلر منسوخ کردیں گے۔ یہ ۱۶۔ اکتوبر کی ڈاک کے جانے کے بعد کا واقعہ ہے پھر ۱۷۔ اکتوبر کو پہلی ڈاک میں جماعتوں کو بھی اس فیصلہ کی اطلاع دے دی گئی۔ اور صاحب ڈپٹی کمشنر اور دوسرے حکام کو بھی! اور بالوضاحت لکھ دیا گیا۔ کہ ہم اس موقعہ پر باہر سے کوئی احمدی نہیں بلائیں گے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ۱۷/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کی شام کو قادیان واپس تشریف لائے راستہ میں حضور انور سے کئی احمدیوں نے عرض کیا کہ ہمارے قادیان پہنچنے کی نسبت کیا ارشاد ہے۔ حضور نے سب کو یہی جواب دیا کہ ہمیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ پولیس کا انتظام کافی ہو گا۔ اس لئے ضرورت نہیں ہاں اگر پتہ لگا کہ گورنمنٹ خاطر خواہ انتظام نہیں کر رہی تو پھر اطلاع دے دی جائے گی۔
‏0] f[stحکومت پنجاب کا ظالمانہ حکم
آٹھ نو بجے حضور قادیان پہونچے اور کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر گیارہ بجے کے قریب بیٹھے تھے کہ کسی نے اطلاع دی کہ مجسٹریٹ صاحب علاقہ آئے ہیں۔ حضور نے مجسٹریٹ صاحب کو اندر بلا لیا۔ انہوں نے چیف سیکرٹری حکومت پنجاب )جی گاربٹ( کا یہ حکم نامہ نکال کر سامنے رکھ دیا۔
‏Criminal Punjab the of (d) (I) 3 Section Under Order
۔1932 ۔Act (Amendment) Law
‏ reasonable are there that satisfied is Government Punjab the saerWhe of Ahmad Mahmud Din ۔ud ۔Bashir Mirza you that believing for grounds Qadian to persons summoning been have Gurdaspur of district the in Qadian the of Tabligh Shoba the by convened conference the at present be to the about or on held be to Qadian near or at Islam ۔i۔Ahrar ۔i۔Majlis so in action your as where and inclusive 1934 October of 23rd to 21st Government Punjab the safety, or peace public the to prejudicial is doing Law Criminal Punjab the of (d) (I) 3 section under you directs won۔1932 Act (Amendment)
‏ authority your under or you by sent summons any revoke and cancel To (1)۔aforesaid dates the on Qadian at attend to person any to
‏ any summoning from 1934 October of 24th the after until abstain To (2)۔Qadian to persons or person
‏ or promoting from 1934 October of 24th the after until abstain To (3)۔Qadian in meeting any convening
‏ making from 1934 October of 24th the after until abstain To (4) and you by called person any of Qadian at reception the for stnarrangeme۔shelter and food with them providing from
۔1934 October of day 17th this hand my under Given
۔Sd
۔GARBETT ۔G
‏ the to Secretary Chief
‏Punjab of Government
۔1934 ۔10 ۔17
)ترجمہ( حکم زیر سیکشن ۳ )۱( (D) پنجاب کریمینل لاء امنڈمنٹ ایکٹ ۱۹۳۲ء۔ چونکہ پنجاب گورنمنٹ کو تسلی ہے اور چونکہ یہ باور کرنے کے لئے معقول قرائن موجود ہیں کہ تم میرزا بشیر الدین محمود احمد ساکن قادیان ضلع گورداسپور لوگوں کو قادیان بلا رہے ہو۔ اس غرض سے کہ وہ مجلس احرار کے شعبہ تبلیغ کی اس کانفرنس پر جو وہ ۲۱ لغایت ۲۳/ اکتوبر یا اس کے قریب قادیان یا اس کے قرب و جوار میں کرنا چاہتے ہیں موجود ہوں اور چونکہ تمہارا یہ فعل امن عامہ میں خلل ڈالنے والا ہے اس لئے گورنمنٹ پنجاب تمہیں زیر دفعہ ۳ )۱( (D) پنجاب کریمینل لاء امنڈمنٹ ایکٹ ۱۹۳۲ء ہدایت کرتی ہے کہ
)۱( تم ایسے تمام دعوت ناموں کو جو ان تاریخوں پر لوگوں کو قادیان بلانے کے لئے تم نے بھیجے ہیں یا تمہارے زیر حکم بھیجے گئے ہیں منسوخ کر دو۔
)۲( ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء تک کسی شخص یا اشخاص کو قادیان بلانے کی غرض سے کوئی دعوت نامہ مت بھیجو۔
)۳( ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء تک نہ کوئی جلسہ قادیان میں کرو نہ جلسہ کرنے میں ممد بنو۔
)۴( ۲۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء تک کسی ایسے شخص کو جسے تم نے بلایا ہو قادیان میں استقبال کرنے یا اس کے کھانے اور رہائش کا انتظام کرنے سے محترز رہو۔
آج مورخہ ۱۷/ اکتوبر ۱۹۳۴ء میرے دستخط سے جاری ہوا۔ دستخط جی گاربٹ چیف سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب<۔۲۷۴
حضرت امیر المومنینؓ کا باطل شکن جواب
حضور نے اس حکم نامہ پر حسب ذیل جواب مجسٹریٹ کو لکھ کر دے دیا۔
>مجھے گورنمنٹ کے حکم سے اطلاع ہوئی اور میں اپنے مذہب کے حکم اور سلسلہ کی روایات کی وجہ سے اس کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوں ورنہ یہ حکم ایسا غیر منصفانہ اور ناجائز ہے کہ ایک شریف آدمی کے لئے یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ ایک مہذب حکومت ایسا حکم کس طرح جاری کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس فتنہ کو دیکھ کر کہ احرار قادیان میں ایک جلسہ کر رہے ہیں اور وہ علی الاعلان سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ایک ہدایت دی تھی کہ جماعت احمدیہ کے کچھ لوگ سلسلہ کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے جمع کر لئے جائیں۔ لیکن اس ہدایت کے جاری کرنے کے دو گھنٹہ بعد مرزا معراج الدین صاحب سی۔ آئی۔ ڈی میرے پاس آئے۔ اور میں نے خود ان کو اس ہدایت سے اطلاع دی اور انہوں نے کہا کہ میں پورا انتظام پولیس کا کرا دوں گا۔ اس لئے آپ آدمی نہ بلوائیں اور ان کے کہنے کے مطابق اس ہدایت کا جاری کرنا منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک ایسی ہدایت جماعت کے کسی افسر نے بغیر میرے مشورہ کے پہلے سے جاری کی ہوئی ہے اور اسے بھی منسوخ کرکے جماعتوں کو ہدایت کر دی گئی کہ وہ آدمی نہ بھیجیں۔ میں کل فیروز پور گیا تھا مجھ سے راستہ میں بعض احمدیوں نے پوچھا کہ کیا انہیں احرار کے جلسہ پر قادیان آنے کی اجازت ہے اور میں نے انہیں اس سے منع کیا۔ حکومت سے ایسے تعاون کرنے کے بعد اس قسم کے حکم کا بھجوا دینا حکومت کے وقار کو کھونا ہے اور حکومت کی مضبوطی نہیں بلکہ کمزوری کا موجب ہے اور مجھے افسوس ہے کہ حکومت نے اس قسم کے حکم کو جاری کرکے اس اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے جو اس پر ملک معظم اور ان کی حکومت نے کیا تھا بہرحال چونکہ میرا مذہب مجھے وفاداری اور اطاعت کا حکم دیتا ہے میں اس حکم کی جس کی غرض سوائے تذلیل اور تحقیر کے کچھ نہیں پابندی کروں گا اور انشاء اللہ پوری طرح اس کی تعمیل کروں گا۔ باقی اس حکم کی نسبت آئندہ نسلیں خود فیصلہ کریں گی کہ اس کے دینے والے حق پر تھے یا نہ تھے۔ وافوض امری الی اللہ و ھو احکم الحاکمین۔ خاکسار مرزا محمود احمد<۔۲۷۵
>احرار تبلیغ کانفرنس< کے لئے پولیس کی بھاری جمعیت
ادھر حکومت پنجاب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو یہ ظالمانہ اور جابرانہ نوٹس دیا۔ ادھر احرار کانفرنس کے لئے پولیس کی ایک بھاری جمعیت بھجوا دی چنانچہ اخبار >سٹیٹسمین< (STETESMAN) نے ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں لکھا۔
>مجلس احرار قادیان ضلع گورداسپور میں والنٹیر جمع کرکے بھیج رہی ہے جہاں احمدیت کی مخالفت کے لئے احرار کانفرنس کر رہے ہیں۔ قادیان جماعت احمدیہ کا مرکز ہے اور دونوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے نقض امن کے خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے پنجاب گورنمنٹ نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ امرتسر سے ایک مجسٹریٹ دیوان ہرونش لال کو وہاں سپیشل ڈیوٹی پر متعین کیا گیا ہے۔ اور چار سو کی تعداد میں پولیس فورس بھیجی گئی ہے انسپکٹر جنرل پولیس اور کمشنر لاہور ڈویژن قادیان جا کر تمام انتظامات کا ملاحظہ کر آئے ہیں۔ ہر قسم کے اسلحہ جات حتیٰ کہ لاٹھیوں کا رکھنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ امرتسر اور بعض دیگر مقامات پر جب احمدیوں نے جلسہ کرنا چاہا تو احرار کی طرف سے فساد پیدا کیا جاتا رہا ہے اور ابھی گزشتہ موسم سرما کا ہی واقعہ ہے کہ امرتسر میں ایک درجن احمدیوں کو زخمی کر دیا تھا جبکہ وہ ایک جلسہ منعقد کر رہے تھے<۔ )ترجمہ(
احمدیوں کے >تبلیغ کانفرنس< میں جانے کی ممانعت
یہ کانفرنس اگرچہ جماعت احمدیہ کے خلاف کی جارہی تھی اور حکومت کے افسر اس کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ مگر جماعت احمدیہ نے اس موقعہ پر بھی قیام امن کی گزشتہ روایات قائم رکھتے ہوئے ارباب اقتدار سے تعاون کیا۔ حکومت کے افسروں نے حکم دیا کہ کسی احمدی کو احراری کانفرنس میں نہیں جانا چاہئے لہذا اس کے مطابق قادیان کے سب محلوں کے بورڈوں پر نہ صرف یہ تاکیدی ہدایت لکھ دی گئی بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم سے یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ اس ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والا شخص جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔۲۷۶
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے صبر و تحمل کا مطالبہ
۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو جمعہ تھا۔ اس روز حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے احرار کانفرنس کے باعث پیدا شدہ صورت حال پر
روشنی ڈالی اور جماعت سے صبر و تحمل کا مطالبہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>آپ لوگ احمدی کہلاتے ہیں۔ آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی چیدہ جماعت ہیں۔ آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آپ نے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رکھے ہیں اور آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ سے آپ لوگوں نے جنت کا سودا کر لیا۔ یہ دعویٰ آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر دہرایا۔ بلکہ آپ میں سے ہزاروں انسانوں نے اس عہد کی ابتداء میرے ہاتھ پر کی ہے کیونکہ وہ میرے ہی زمانہ میں احمدی ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ۔ تمہارے بیٹے۔ تمہاری بیویاں۔ تمہارے عزیز و اقارب۔ تمہارے اموال اور تمہاری جائدادیں۔ تمہیں خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری ہیں تو تمہارے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ ایک معمولی اعلان نہیں بلکہ اعلان جنگ ہو گا۔ ہر اس انسان کے لئے جو اپنے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری رکھتا ہے یہ اعلان جنگ ہو گا ہر اس شخص کے لئے جس کے دل میں نفاق کی کوئی بھی رگ باقی ہے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد الا ماشاء اللہ سوائے چند لوگوں کے سب سچے مومن ہیں اور اس وعدے پر قائم ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا اور اس وعدے کے مطابق جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے گا اسے کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے۔ خطبہ جمعہ میں بولنا تو منع ہے لیکن اگر امام اجازت دے تو انسان بول سکتا ہے۔ پس میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ اس وعدے پر قائم ہیں جو آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر کیا؟ )چاروں طرف سے یقیناً ہم قائم ہیں اور لبیک کی آوازیں بلند ہوئیں( اس کے بعد میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب آپ لوگ اپنی جانیں میرے ہاتھ پر فروخت کر چکے ہیں اپنے اموال میرے ہاتھ پر فروخت کر چکے ہیں تو اب ہر ایک وہ مطالبہ جو شریعت کے اندر کروں اس کے متعلق جماعت کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کو پورا کرے اور اگر کوئی اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتا تو وہ منافق ہے احمدی نہیں۔
اس کے بعد سب سے پہلا مطالبہ جو میں آپ لوگوں سے کرتا ہوں اور جس کی آزمائش کے بعد دوسرا مطالبہ کروں گا۔۲۷۷ یہ ہے کہ یہاں ایک جلسہ ہونے والا ہے۔ اس جلسہ کے متعلق مجھے یقینی طور پر اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ یہ لوگ کوئی شورش اور فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ پس میرا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اگر واقعہ میں وہ اطلاعات درست ہیں جو مجھے موصول ہوئیں تو میں اپنی جماعت کے ہر شخص کو یہ حکم دیتا ہوں کہ خواہ وہ مارا اور پیٹا جائے اپنا ہاتھ کسی پر مت اٹھائے اور اپنی زبان مت کھولے بلکہ اگر وہ قتل بھی کر دیا جائے تو بھی اس کا حق نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اٹھائے اور اس کا حق نہیں کہ وہ اپنی زبان ہلائے۔ اگر ایسی حالت میں کوئی بھائی پاس سے گزر رہا ہو تو میں اسے بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ہرگز اس کی مدد نہ کرے۔ ہاں فوٹو کے لئے کیمرے موجود ہونے چاہئیں۔ جن لوگوں کے پاس یہاں کیمرے ہیں وہ اپنے کیمروں کو تیار کر لیں اور جو باہر سے منگوا سکتے ہیں وہ باہر سے منگوا لیں۔ جہاں کہیں وہ کوئی ایسی حرکت دیکھیں جس سے انہیں معلوم ہو کہ پولیس اور اس کے افسر اپنے فرائض کو ادا نہیں کر رہے تو ان کا فرض ہو گا کہ وہ اس حالت کا فوٹو اتار لیں۔ ہاتھ مت ہلائیں۔ زبان مت کھولیں۔ بلکہ کیمرے تیار رکھیں اور جب دیکھیں کہ پولیس اور اس کے افسر اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہے یا احمدیوں پر ظلم و تعدی ہو رہا ہے تو فوراً اس حالت کا فوٹو اتار کر اسے محفوظ کر لیں<۔۲۷۸
اس خطبہ کے بعد مقامی حکام نے یہ انوکھا حکم بھی جاری کر دیا کہ احمدی اپنے پاس کیمرے نہ رکھیں ورنہ فساد ہو جائے گا۔ یہ حکم جیسا تھا ظاہر ہے لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جو ہر قیمت پر امن و امان کی فضا قائم کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے احمدیوں کو کیمروں کے استعمال کی بھی ممانعت فرما دی۔۲۷۹
احرار کی تبلیغ کانفرنس پر ایک نظر
احرار کانفرنس جس کی نسبت کئی ماہ سے اندر ہی اندر تیاریاں کی جارہی تھیں ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء سے لے کر ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۴ء تک جاری رہی یہ کانفرنس حدود قادیان سے باہر موضع رجاوہ۲۸۰ میں منعقد ہوئی اور اس کے لئے آریوں نے ڈی۔ اے وی سکول اس کا بورڈنگ اور متصل اراضیات بڑی فراخ دلی سے پیش کر دیں چنانچہ آریہ پریس نے فخریہ انداز میں لکھا کہ >ہم نے احراریوں کے لئے اپنی عمارتیں خالی کر دیں۔ کنواں کھول دیا اور ان کے بڑے بڑے راہنمائوں کو اپنے سکول میں ٹھہرایا<۔۲۸۱ کانفرنس میں شامل ہونے والوں کے اسٹیشن پر پہنچتے ہی پیادہ اور سوار پولیس انہیں اپنے پہرہ میں لے کر آریہ سکول تک پہنچا دیتی تھی۔۲۸۲ سید عطاء اللہ شاہ بخاری )صدر کانفرنس( بذریعہ لاری امرتسر سے سیدھے جلسہ گاہ میں پہنچے تھے۔۲۸۳ کانفرنس کے لئے ایک شامیانہ نصب تھا اور دکانوں اور رضا کاروں کے لئے چند چھولداریاں۔ اخبار >زمیندار< کی دکان بھی موجود تھی۔ جہاں ضمانت نمبر کے گٹھے رکھے ہوئے تھے ساتھ ہی >احسان< کی دکان تھی۔
اخبار >پیغام صلح< لاہور کے نامہ نگار خصوصی کا بیان ہے کہ >میں جلسہ گاہ کے احاطہ کے اندر داخل ہوا تو دیکھا تین چار جگہ رضا کار کھڑے نہایت گندے اور اخلاق سوز اشعار احمدیت کی مخالفت میں پڑھ رہے ہیں۔ ملا نے ان کی بدزبانی پر پھولے نہیں سماتے۔ چند آریہ اور سکھ بھی ان کی حرکتوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ میں نے اپنے مختصر قیام میں ایسے مناظر متعدد مرتبہ دیکھے اس کے علاوہ جلسہ گاہ میں قدم قدم پر احمدیت کے خلاف نہایت گندہ بازاری لٹریچر فروخت ہو رہا تھا<۔۲۸۴
>جلسہ گاہ میں پھر صبح والا نظارہ دکھائی دیا۔ہر طرف بدزبانی اور لفنگا پن کے اخلاق سوز نمونے نظر آئے۔ بازاری گیت` بیہودہ نعروں کی آوازیں چاروں طرف سے کانوں میں آرہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ جلسہ گاہ میں ایک پوسٹر تقسیم ہورہا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ چونکہ قادیانی اپنے جلسہ سالانہ پر سوال و جواب کا موقع نہیں دیتے۔ اس لئے کسی مرزائی کو جلسہ گاہ میں پوسٹر` اشتہارات اور پمفلٹ وغیرہ تقسیم کرکے ہمارے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہو گی اور اگر قادیان کے مختلف راستوں پر کسی احمدی نے کسی قسم کے اشتہارات تقسیم کئے یا زبانی بحث و مباحثہ کیا تو نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ احراریوں نے اس پوسٹر کی تقسیم پر ہی بس نہ کی بلکہ شوخ۲۵۸ کی دریدہ دہنی کے بعد مجلس احرار کے صدر مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی ایک زریں جبہ پہنے ہوئے تشریف لائے اور تقریر کی کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کسی قادیانی نے ہمارے ہاں آکر ٹریکٹ تقسیم کئے ہیں اس لئے میں بحیثیت صدر مجلس احرار ہند تمام مرزائیوں` مرزا محمود اور افسران پولیس کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہمارے احاطہ میں کوئی مرزائی نہ آئے ورنہ فساد ہو جائے گا۔ حبیب الرحمن صاحب کی اس حرکت سے اس نام نہاد تبلیغ کانفرنس کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے<۔۲۸۶
>جلسہ گاہ میں نماز کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میں ظہر کے وقت وہیں موجود تھا کسی احراری سرغنے کو نماز نہیں پڑھتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ باقی لوگوں نے بھی نماز کی طرف توجہ نہیں دی۔ جو نماز کے پابند تھے انہوں نے علیحدہ علیحدہ اپنی چھوٹی چھوٹی جماعتیں کرائیں۔ اکٹھی جماعت نہیں ہوئی<۔۲۸۷
مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری جن کے نام اشتہار میں دیئے گئے تھے کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ ¶جس کی وجہ انہوں نے >اہلحدیث< میں شائع کرا دی تھی۔۲۸۸
احرار کانفرنس میں آنے والوں میں کافی تعداد ان لوگوں کی تھی جنہیں قادیان دیکھنے کا شوق یہاں کھینچ لایا تھا۔ اگرچہ بہت کوشش کی گئی کہ لوگ احمدیوں کے پاس نہ جائیں ان کے دفاتر اور ادارے نہ دیکھیں حتیٰ کہ صدر کانفرنس نے بھی اس امر پر خاص زور دیا۔ لیکن اس کے باوجود بہت لوگ فرداً فرداً یا چھوٹی چھوٹی پارٹیوں میں مختلف اوقات میں آتے رہے کانفرنس کے ایام میں صبح سے لے کر شام تک سینکڑوں اشخاص کا سلسلہ کے دفاتر مساجد اور دوسرے مقامات مقدسہ میں تانتا لگا رہا۔۲۸۹ احمدی ہر آنے والے کا خیر مقدم کرتے اور ان کو تمام مقامات دکھاتے اور سلسلہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ بعض لوگوں کو سلسلہ کا لٹریچر بھی اپنی گرہ سے خرید کر دیا۔ بعض غیر احمدیوں نے خود بھی کتابیں خریدیں۔ کئی لوگوں کی زبان سے یہ بھی نکلا کہ ہم سنتے کیا تھے اور نکلا کیا ہے۔۲۹۰
بعض اصحاب نے مزید تحقیق کے لئے سالانہ جلسہ پر شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا۔۲۹۱ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں سے بعض ایسے خوش قسمت بھی تھے جن کی سعید فطرتیں انہیں کچھ عرصہ بعد جماعت احمدیہ میں کھینچ لائیں چنانچہ جماعت احمدیہ کے موجودہ مفتی مولانا ملک سیف الرحمن صاحب فاضل )سابق جنرل سیکرٹری انجمن سیف الاسلام نیلہ گنبد لاہور(۲۹۲ بھی انہیں خوش نصیبوں میں شامل ہیں۔۲۹۳
کانفرنس کا اہتمام کرنے والوں نے نہ صرف دور دور تک سے چندہ وصول کیا تھا بلکہ گرد و نواح کے دیہات میں گھوم کر دیہاتیوں سے آٹا دانہ دال وغیرہ جو کچھ ملا اکٹھا کر لیا مگر اس کے باوجود احرار کانفرنس کے پنڈال میں مسافروں کے کھانے وغیرہ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ تنور والوں کی چند ایک دکانیں ضرور تھیں۔ مگر پیسے خرچ کرنے کے باوجود خاطر خواہ کھانا میسر نہ آتا تھا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کا رخ کرتے اور وہاں سے کھانا کھاتے رہے۔ منتظمین لنگر خانہ ان سے آنے والے معزز مہمانوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کا پورا کرنے والا یقین کرتے اور ان کی خاطر تواضع میں مصروف رہتے۔ احرار کی طرف سے عام مہمانوں کے لئے سونے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اور چونکہ پولیس کی طرف سے رات کے وقت شہر میں آنا ممنوع تھا۔ اس لئے بہت سے لوگ شہر سے باہر احمدیوں کے اینٹوں کے بھٹوں پر آگ تاپ تاپ کر صبح کرتے رہے۔ بعض لوگ دور و نزدیک کے احمدی رشتہ داروں اور وافقوں کے یہاں قیام پذیر ہوئے۔۲۹۴
جماعت احمدیہ کے اس پر امن رویہ کے مقابل بعض شوریدہ سر لوگ اس موقعہ پر احمدیوں کے گھروں میں گھس آئے بلکہ خود حضور کی کوٹھی >دارالحمد< کے احاطے میں بھی داخل ہو گئے۔ مگر کسی نے ان سے کچھ نہ کہا حالانکہ کسی کے گھر میں داخل ہونے والوں پر قانونی گرفت کی جا سکتی تھی۔۲۹۵
جیسا کہ ذکر آچکا ہے اس موقعہ پر حکومت کی طرف سے پولیس کا خاصا انتظام تھا۔ چار سو کی تعداد میں پولیس متعین کی گئی جس کی نگرانی کے لئے پولیس افسروں اور دیگر حکام کا عملہ مقرر تھا۔ ایک دستہ سوار پولیس اور کئی دستے مسلح پولیس کے بھی تھے۔ مسٹر شری نگیش ڈپٹی کمشنر کا کیمپ )قادیان سے ۳۔ ۴ میل کے فاصلہ پر( ہر چووال میں تھا اور قادیان کے انتظام کی براہ راست نگرانی مسٹر بیٹ صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ہاتھ میں تھی۔۲۹۶
اشتعال انگیزی کا افسوسناک مظاہرہ
>تبلیغ کانفرنس< کے عمومی کوائف پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ >احرار تبلیغ کانفرنس< شروع سے لے کر آخر تک جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال پھیلانے کے لئے وقف رہی۔ چنانچہ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے )ہائیکورٹ کے جج کے الفاظ میں( >کئی ہزار کے مجمع میں پانچ گھنٹہ تک تقریر کی ۔۔۔۔۔۔۔ جس میں قادیانیوں ان کے رہنمائوں اور ان کی جماعت پردشنام آمیز گندی زبان میں شدید حملے کئے<۔۲۹۷ شاہ صاحب کی اس طویل تقریر کا خلاصہ سیشن جج گورداسپور کے الفاظ میں یہ تھا کہ >اس نے اس اجلاس میں ایک جوش انگیز خطبہ دیا۔ اس کی تقریر کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ بتایا گیا کہ حاضرین تقریر کے دوران میں باکل مسحور تھے ۔۔۔۔۔۔ اس کے دل میں مرزا اور اس کے معتقدین کے خلاف جو نفرت کے جذبات موجزن تھے ان پر پردہ ڈالنے کی اس نے کوشش نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی تقریر کے سات اقتباسات درج ہیں۔
۱۔
فرعونی تخت الٹا جارہا ہے۔ انشاء اللہ یہ تخت نہیں رہے گا۔
۲۔
وہ نبی کا بیٹا ہے۔ میں نبی کا نواسہ ہوں۔ وہ آئے تم سب چپ چاپ بیٹھ جائو۔ وہ مجھ سے اردو پنجابی فارسی میں ہر معاملہ میں بحث کرے۔ یہ جھگڑا آج ہی ختم ہو جائے گا۔ وہ پردے سے باہر آئے۔ نقاب اٹھائے۔ کشتی لڑے۔ مولیٰ علی کے جوہر دیکھے۔ وہ ہر رنگ میں آئے۔ وہ موٹر میں بیٹھ کر آئے۔ میں ننگے پائوں آئوں وہ ریشم پہن کر آئے۔ میں گاندھی جی کی کھلڑی کھدر شریف۔ وہ مزعفر۔ کباب۔ یا قوتیاں اور پلومر کی ٹانک وائن اپنے ابا کی سنت کے مطابق کھا کر آئے اور میں اپنے نانا کی سنت کے مطابق جو کی روٹی کھا کر آئوں۔
۳۔
یہ ہمارا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ برطانیہ کے دم کٹے کتے ہیں وہ خوشامد اور برطانیہ کے بوٹ کی ٹو صاف کرتا ہے۔ میں تکبر سے نہیں کہتا بلکہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھ کو اکیلا چھوڑ دو۔ پھر بشیر کے اور میرے ہاتھ دیکھو۔ کیا کروں لفظ تبلیغ نے ہمیں مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ یہ اجتماع سیاسی اجتماع نہیں ہے او مرزائیو! اگر باگیں ڈھیلی ہوتیں۔ میں کہتا ہوں اب بھی ہوش میں آئو۔ تمہاری طاقت اتنی بھی نہیں جتنی پیشاب کی جھاگ ہوتی ہے۔
۴۔
جو پانچویں جماعت میں فیل ہوتے ہیں وہ نبی بن جاتے ہیں ہندوستان میں ایک مثال موجود ہے کہ جو فیل ہوا وہ نبی بن گیا۔
۵۔
او مسیح کی بھیڑو! تم سے کسی کا ٹکرائو نہیں ہوا۔ جس سے اب سابقہ ہوا ہے یہ مجلس احرار ہے اس نے تم کو ٹکڑے کر دینا ہے۔
۶۔
او مرزائیو! اپنی نبوت کا نقشہ دیکھو۔ اگر تم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو نبوت کی شان تو رکھتے۔
۷۔
اگر تم نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو انگریزوں کے کتے تو نہ بنتے۔۲۹۸
کانفرنس میں سر فضل حسین صاحب اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے خلاف قرارداد بھی پاس کی گئی جو مشہور کانگریسی عالم >قومیت متحدہ< کے علمبردار اور >ملت از وطن است< کے حامی مولوی حسین احمد صاحب مدنی نے پیش فرمائی۔ اس قرارداد کے آخری فقرات یہ تھے۔
>اس کانفرنس کی رائے میں حکومت کے اس فیصلہ میں کہ وائسرائے کی مجلس منتظمہ میں مسلمانان ہند کے شدید احتجاج کے باوجود چودھری ظفر اللہ کو مقرر کیا جائے سر فضل کے مشورہ اور مساعی کو بڑا دخل ہے جو اسلام کے ساتھ کھلی ہوئی غداری ہے۔ یہ کانفرنس سر فضل حسین کے اس فعل کو نہایت نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کے خلاف اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے<۔۲۹۹
اس قرارداد کی تائید میں مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی نے کہا۔ >ہماری اس ساری مصیبت کا سبب میاں سر فضل حسین کی سیاست ہے میاں صاحب نے مختلف حیلوں سے مسلمانان ہند کی سیاست تباہ کی۔ اب وہ ان کا مذہب تاہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن مسلمان اب بیدار ہو چکے ہیں وہ میاں صاحب کو اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیں گے<۔10] [p۳۰۰
مولوی ظفر علی خان صاحب نے ایک لمبی اور پرجوش تقریر میں کہا کہ۔
>میں کونسلوں` میونسپلٹیوں اور اسمبلی میں داخلہ کا سخت مخالف ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے ادارہ میں مرزائی نظر نہ آئیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے ووٹوں پر کوئی ممبر مرزائی نہ ہو۔ ان دجالوں کا پورا پورا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ آج مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس میں مرزائیوں کی کثرت ہے۔ مسلم کانفرنس کا صدر سر فضل حسین مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا اور ظفر اللہ قادیانی کا تقرر کرنے والا ہے۔ مسلمانو! ان مار آستین جماعتوں سے بچو۔ اور ان فریب کار جماعتوں کو اپنا نمائندہ نہ سمجھو اور نہ یہ جماعتیں مسلمانوں کی نمائندہ ہو سکتی ہیں لہذا میں حکومت کو ان ستر ہزار فرزندان توحید کی طرف سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت صرف احرار ہے۔ اور کوئی نہیں ہو سکتی<۔۳۰۱
اخبار >سیاست< اور >تبلیغی کانفرنس<
اخبار >سیاست< نے احرار کانفرنس پر مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔
>تبلیغ کے معنے آج تک تو یہ سمجھے جاتے تھے کہ محبت اور آشتی سے دلائل پیش کرکے کسی کو اپنا ہم خیال بنایا جائے لیکن تبلیغ کے یہ معنے کہ کسی گروہ کو گالیاں دے کر مشتعل کیا جائے۔ اب احرار کی مہربانی سے واضح ہوئے ہیں۔ چونکہ ہم قادیان میں احرار کی تبلیغ کانفرنس کے انعقاد کو مفاد ملت کے خلاف سمجھتے تھے اور اس کو انتخاب اسمبلی کا پروپا غنڈہ جانتے تھے۔ لہذا اس کے اعلان میں ہم نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ ہمارا نمائندہ وہاں موجود تھا اور اس کی رپورٹ بھی موصول ہوئی۔ لیکن اس خیال سے کہ اس کی اشاعت احرار کی اکثر غلط بیانیوں کا پول کھول دے گی۔ اور ہم میں اور ان میں غیر ضروری کشمکش پیدا کر دے گی اس لئے اس کو بھی شائع نہیں کیا گیا۔ لیکن افسوس ہے کہ ہماری اس روش کی غلط تاویل کی جارہی ہے اور ہم یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ۔
)۱( قادیان میں جو کانفرنس تبلیغ کے نام سے منعقد ہوئی۔ اس میں احرار کے نامور لیڈروں کے سوا کوئی ذی عزت مسلمان شامل نہیں ہوا۔
)۲( حاضرین کی تعداد روز اول ۱۵ ہزار کے قریب تھی اس کے بعد حاضری بہت کم ہو گئی آخر میں ۵ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔۳۰۲
احمدیوں کی طرف سے صبر و تحمل کا بے مثال مظاہرہ
اگرچہ کانفرنس میں اشتعال انگیزیوں کی حد ہو گئی۔ مگر خدا کے فضل سے کانفرنس کے دوران قادیان میں کوئی ناگوار واقعہ پیش نہیں آیا جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>باوجود اشتعال انگیزی کے ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور سوائے شاذ و نادر کے یا سوائے کسی غلط فہمی کے پیدا ہو جانے کے ان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو میرے لئے موجب شرمندگی اور ان کے لئے موجب پریشانی ہو بے شک ہم ان دنوں میں نہتے تھے۔ بے شک حکومت نے اپنے زور اور طاقت سے باوجود اس کے کہ یہ ہمارا گھر تھا ہمیں خود حفاظتی کی تدابیر سے محروم کر دیا تھا۔ پھر بھی میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت کے سچے اور مخلص ممبر خدا تعالیٰ کے فضل سے شیر ہیں اور شیر بغیر ہتھیاروں کے ہی لڑا کرتا ہے میں نے سلسلہ کے مصالح کے لحاظ سے آپ کی زبانیں بند کر دی تھیں۔ آپ کے ہاتھ باندھ دیئے تھے۔ لیکن باوجود اس کے میں جانتا ہوں کہ آپ کے دل اخلاص اور اس محبت کے وفور کی وجہ سے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات اور سلسلہ سے ہے ایسے جوش سے پر تھے کہ جس کے سامنے دنیا کی کوئی دیوار اور کوئی قلعہ ٹھہر نہیں سکتا۔ آپ کی فرمانبرداری ذلت اور بے چارگی کی فرمانبرداری نہیں تھی بلکہ طاقت کے ساتھ فرمانبرداری تھی<۔۳۰۳
>تبلیغ کانفرنس< پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا حقیقت افروز تبصرہ
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو ایک پرشوکت خطبہ جمعہ میں کانفرنس پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ۔
>حقیقت یہ ہے کہ یہ تبلیغی جلسہ نہ تھا اور یہ ایسی واضح بات ہے کہ گورنمنٹ کے لئے بھی اس کا سمجھنا مشکل نہ تھا۔ کیونکہ اس کا حکم تھا اور اس نے ہم سے مطالبہ کیا تھا کہ کوئی احمدی ان کے جلسے میں نہ جائے اور تبلیغ ہمیشہ دوسروں کو کی جاتی ہے۔ اگر احمدیوں کو وہاں جانے کی ہی اجازت نہ تھی تو تبلیغ کسے کرنی تھی؟ حکومت کا ہم سے یہ مطالبہ کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ تبلیغی جلسہ نہ تھا۔ پھر جلسہ کی دوسری غرض تربیت ہوتی ہے تربیت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی بڑا عالم اس جگہ ہو یا وہ اس تحریک کا مرکز ہو۔ لوگ ایک وقت میں وہاں جمع ہوں اور اکٹھے فائدہ اٹھا سکیں۔ اور ایک مقررہ وقت پر آکر باتیں سن جائیں جیسا کہ ہمارا جلسہ سالانہ ہوتا ہے۔ یہاں خلیفہ وقت۔ دوسرے ذمہ دار کارکن اور لیڈر ہوتے ہیں جو جماعت کو اپنے اپنے خیالات تعلیمی سے مستفید کرتے ہیں۔ خلیفہ ساری جماعت تک نہیں پہنچ سکتا۔ علماء نہیں پہنچ سکتے۔ اس لئے ایک موقع پر سب لوگ آکر جمع ہو جاتے اور سن جاتے ہیں لیکن یہاں ان کا کوئی عالم نہ تھا سننے والے اور سنانے والے سب باہر سے آے تھے۔ اور اس صورت میں وہ زیادہ آسانی کے ساتھ لاہور یا امرتسر میں جلسہ کر سکتے تھے۔ لوگ یہاں امرتسر` لاہور` جالندھر وغیرہ شہروں سے آئے۔ بعض پشاور اور ملتان وغیرہ دور کے مقامات سے بھی محدود تعداد میں شریک ہوئے لیکن یہاں وہ کس کی تقریریں سننے آئے تھے۔ ماموں کشمیری کی۔ نورے کشمیری کی۔ عزیز کشمیری کی۔ قادیان کا کونسا وہ باشندہ ہے جس کی تقریریں سننے کے لئے آئے تھے مولوی عطاء اللہ صاحب امرتسر میں مولوی ظفر علی صاحب اور مولوی مظہر علی صاحب لاہور میں مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانہ میں رہتے ہیں۔ انہیں لوگوں نے تقریریں کیں اس لئے اس اجتماع کے لئے بہترین جگہ لاہور یا امرتسر ہو سکتی تھی۔ اگر وہاں جلسہ ہوتا تو ۲۰۔ ۲۵ ہزار لوگ بھی جمع ہو سکتے اور اس طرح تعلیم و تربیت بھی اچھی طرح ہو سکتی تھی۔ اور بہ نسبت قادیان کے رہائش اور طعام کا انتظام بھی بخوبی ہو سکتا تھا پس سوال یہ ہے کہ جب تقریریں کرنے والے اور سننے والے دونوں باہر سے آئے تو جلسہ یہاں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یہ ایک ایسی عام بات ہے کہ حکومت اسے بخوبی سمجھ سکتی ہے جس صورت میں لیکچرار اور سامعین دونوں باہر سے آئے اور جس صورت میں کہ انتظام کا بھی مقامی لوگوں پر انحصار نہ تھا- اس جلسہ کی غرض نہ تو تعلیمی ہو سکتی ہے نہ تبلیغی اور گورنمنٹ نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کیونکہ ہمیں وہاں جانے سے روک دیا گیا اور سننے سنانے والے دونوں باہر سے آئے پس ان لوگوں کا یہاں آنا سوائے فساد کے کسی اور غرض سے نہیں ہو سکتا۔ ہم جو جلسے کرتے ہیں وہ تبلیغی ہوتے ہیں ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ پولیس مقرر کرو کوئی ہماری تقریریں سننے نہ آئے۔ بلکہ ہمارا ڈھنڈورہ یہ ہوتا ہے کہ لوگو آئو اور سنو اور سمجھو لیکن ان کا ڈھنڈورہ یہ تھا کہ ہرگز نہ آئو۔ پس ہمارے جلسوں کے اغراض واضح ہیں مگر ان کا یہ حال تھا کہ ایک گائوں ستکوہاکو ایک احمدی نوجوان جارہا تھا۔ کیونکہ ستکوہا جانے کا وہی راستہ ہے اس کی جیب میں دو اشتہار تھے جنہیں دیکھ کر ان لوگوں نے جو قادیان فتح کرنے آئے تھے شور مچا دیا کہ یہ ٹریکٹ تقسیم کر رہا ہے۔ فرض کرو وہ شخص ٹریکٹ ہی تقسیم کرنے کے لئے گیا تھا لیکن اگر ان کی غرض تبلیغ ہوتی تو وہ اس پر اس قدر شور نہ مچاتے بلکہ خوش ہوتے کہ ایک آدمی آگیا ہے جسے ہم تبلیغ کر سکیں گے۔ مگر انہوں نے تو شور مچا دیا کہ کیوں آیا ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ کا حکم تھا اور اعلان تھا کہ وہ لوگ احمدیوں کے محلوں میں نہ آئیں لیکن ہماری طرف سے ایسا کوئی اعلان نہ تھا وہ لوگ برابر آتے رہے اور ہمارے سب آدمی مقرر تھے کہ آنے والوں کے ساتھ پھریں۔ انہیں اپنے ادارات دکھائیں اور حسب موقع تبلیغ بھی کریں پس یہ ثابت ہے کہ ان کا یہ جلسہ نہ تو تبلیغی تھا نہ تعلیمی۔ صرف فساد کے لئے تھا<۔۳۰۴
مجسٹریٹوں کی مجرمانہ خاموشی
اس سلسلہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حکومت کے بے انصاف افسروں کے رویہ پر سخت تنقید کی اور فرمایا۔
>پولیس تو صرف سوٹے کی طرح ہوتی ہے دماغ مجسٹریٹ ہوتے ہیں ان کے سامنے ہتک آمیز اور اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں۔ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام اور جماعت کے دوسرے لیڈروں کے متعلق بہت بدزبانی کی گئی۔ مگر انہوں نے ہرگز نہیں روکا۔ مذہبی حملوں کو اگر جانے بھی دیا جائے تو ذاتی حملے اس قدر تھے کہ مجسٹریٹوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے تھی۔ پولیس اور غیر جانبدار رپورٹروں کی رپورٹوں کو بھی اگر نظر انداز کر دیا جائے۔ تو بھی خود ان کے اخباروں میں تقریروں کے جو اقتباس شائع ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اشتعال انگیزی نہیں کی اور مجسٹریٹوں نے اپنے فرض کو ادا کیا ہے میں نے خود اخبار >احسان< یا >زمیندار< دونوں میں سے کسی ایک میں پڑھا ہے کہ صدر کانفرنس نے کہا کہ لائو مجھے اور مرزا بشیر الدین محمود کو ایک کمرے میں بند کر دو۔ اگر صبح تک وہ زندہ رہ جائے تو کہنا اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی مجسٹریٹ جس میں شرافت کی کوئی حس باقی ہے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اشتعال انگیزی نہیں۔ کیا یہ صریح قتل کی دھمکی نہیں؟ کیا یہ الفاظ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آسکتے تھے؟ مگر نہیں ان کے دل خوش تھے کہ احمدیوں کی ہتک کی جارہی ہے اور ان پر الزام لگائے جارہے ہیں۔ پھر مجھے حیرت ہے کہ وہی مجسٹریٹ سٹیشن پر یہ کہتا ہوا پایا گیا کہ دونوں فریق میں TOLERANCE )رواداری( نہیں ہے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواہ ہمیں مارتے گالیاں دیتے پھریں ہمیں انہیں اپنے گھروں میں لا کر ٹھہرانا چاہئے تھا۔ اور اپنے مقدس مقامات گرانے کے لئے ان کے حوالہ کر دینے چاہئے تھے تب ہم اس کے نزدیک روادار کہلا سکتے تھے۔ اگر کوئی شخص اس مجسٹریٹ کے منہ پر مکا مارے اور اس کے مکان پر جا کر اس کے ماں باپ کو گالیاں دے تو پھر میں دیکھوں کہ اس میں کتنی رواداری ہے<۔۳۰۵
حضرت امیر المومنینؓ کا درس اطاعت
اگرچہ کانفرنس کے دوران احمدیوں نے فرمانبرداری اور امن پسندی کا بے نظیر نمونہ دکھایا تھا مگر کانفرنس کے بعد سخت خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ جماعت کا کوئی فرد حضورؓ کی مسلسل تاکید کے باوجود کوئی خلاف آئین حرکت نہ کر بیٹھے۔ اس خدشہ کے پیش نظر حضورؓ نے ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ اول ہر شخص جو سلسلہ میں داخل ہے جس نے میرے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` آپ کے ذریعہ آنحضرت~صل۱~ کی اور ان کے ذریعہ خدا کی بیعت کی ہے وہ اپنی جان مال` عزت آبرو` اولاد` جائداد غرضیکہ ہر چیز خدا` رسول اور اس کے نمائندوں کے لئے قربان کر چکا ہے اور اب کوئی چیز اس کی اپنی نہیں۔ میں یہ کھول کر بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس کے دل میں بیعت کے اس مفہوم کے متعلق ذرہ بھی شبہ ہے وہ اگر منافق کہلانا نہیں چاہتا۔ تو وہ اب بھی بیعت کو چھوڑ دے جس بیعت میں نفاق ہو وہ کسی فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتی۔ بلکہ وہ ایک *** ہے جو اس کے گلے میں پڑی ہوئی ہے پس جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس نے میری بیعت کسی شرط کے ساتھ کی ہوئی ہے اور کوئی چیز اس کی اپنی باقی ہے اور اس کے لئے میری اطاعت مشروط ہے وہ میری بیعت میں نہیں اور میں تمام کے سامنے اور پھر اخباروں میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد ان لاکھوں لوگوں کو جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں رہتے ہیں صاف صاف الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں کوئی استثنیٰ باقی ہے تو میں اسے اپنی بیعت میں نہیں سمجھتا۔ میرا خدا گواہ ہے اور آپ لوگ جو سن رہے ہیں آپ بھی گواہ ہیں کہ میں نے یہ بات پہنچا دی ہے۔ کیا پہنچا دی ہے؟ )اس پر چاروں طرف سے آوازیں بلند ہوئیں کہ ہاں پہنچا دی ہے( میرا خدا گواہ ہے اور آپ لوگ مقر ہیں کہ میں نے یہ بات پہنچا دی ہے کہ مشروط بیعت کوئی بیعت نہیں۔ بیعت وہی ہے جس میں ہر چیز قربان کرنے کے لئے انسان تیار ہو۔ پس میرا ہر حکم جو خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت ہو اور جس کے خلاف کوئی نص صریح موجود نہ ہو اسے ماننا آپ کا فرض ہے جب اجتہاد کا معاملہ آجائے تو وہی اجتہاد صحیح ہو گا جو میرا ہے اور اس میں لازماً پابندی کرنا آپ کا فرض ہے سوائے اس کے کہ کوئی مجھے مشورہ دے دے باقی تعمیل میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا۔
دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں خدا` رسولﷺ~ اور اس کے نمائندوں کی اطاعت کا حکم ہے وہیں اولی الامر کی اطاعت بھی ضروری قرار دی گئی ہے اور ان کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے متواتر یہ تعلیم دی ہے۔ آپ کی کوئی کتاب نہیں جس میں آپ نے یہ حکم نہ دیا ہو اور میں جس قدم پر آپ لوگوں کو لے جانا چاہتا ہوں وہ ایسا جوش پیدا کر دینے والا ہے کہ ممکن ہے کسی کو حکومت کی اطاعت میں بھی کوئی شک پیدا ہو جائے۔ پس اگر کوئی اس سے آگے نکل جائے یا شبہ کرے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نافرمانی کرنے والا ہو گا۔ اگر ہمیں یہ قدم اٹھانا پڑا تو بالکل ممکن ہے ایک وقت تمہیں تلوار کی دھار پر چلنا پڑے۔ ایک طرف تو میری اطاعت کے متعلق ذرا سی خلش بیعت سے خارج کر دینے والی ہو گی اور دوسری طرف ذرا سا عدوان جو حکومت کی اطاعت سے برگشتہ کر دے تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیم سے منحرف کر دے گا۔ ان دونوں حدود کے اندر رہتے ہوئے تمہیں ہر قسم کی قربانی کرنی ہو گی اور سلسلہ کے وقار کو قائم کرنے کے لئے ہر ایک جدوجہد کرنی پڑے گی<۔۳۰۶
پھر فرمایا۔
>غرض دو فرمانبرداریاں ہیں جن کا میں مطالبہ کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک تو سای دنیا کو متحد کرنے والی ہے اور دوسری وقتی اور حالات کے مطابق بدلتی رہنے والی ہے۔ پہلی فرمانبرداری میری ہے جو خدا اور اس کے رسول کے ماتحت ہے کیونکہ میں صرف ہندوستان کے لوگوں کا ہی خلیفہ نہیں۔ میں خلیفہ ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کے لئے عرب` ایران` چین` جاپان` یورپ` امریکہ` افریقہ سماٹرا` جاوا اور خود انگلستان کے لئے۔ غرض کہ کل جہان کے لوگوں کے لئے میں خلیفہ ہواں۔ اس بارے میں اہل انگلستان بھی میرے تابع ہیں دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہیں سب کے لئے یہی حکم ہے کہ میری بیعت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوں لیکن دوسرا حکم وقتی ہے اور حالات کے ماتحت بدلتا رہتا ہے آج یہاں انگریزوں کی حکومت ہے اور اس کے وفادار ہیں لیکن کل یہ بدل گئی تو ہم اس نئی حکومت کے فرمانبردار ہوں گے اس کے بالمقابل خلافت نہیں بدل سکتی۔ اس وقت میں خلیفہ ہوں اور میری موت سے پہلے کوئی دوسرا خلیفہ نہیں ہو سکتا اور تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے میری ہی اطاعت فرض ہے۔ ہندوستانیوں پر بھی میری اطاعت ویسی ہی فرض ہے جیسے اہل ایران یا اہل امریکہ یا دنیا کے کسی دوسرے ملک کے رہنے والوں پر لیکن ان کے لئے انگریزوں کی اطاعت فرض نہیں۔ اہل افغانستان پر میری اطاعت فرض ہے مگر انگریزوں کی نہیں۔ بلکہ ان کی جگہ اپنی حکومت کی اطاعت فرض ہے۔ اسی طرح اہل امریکہ پر میری اطاعت فرض ہے مگر انگریزوں کی نہیں۔ اس اطاعت میں احمدی متفرق ہیں۔ لیکن میری اطاعت پر سب متفق ہیں۔ افغان` ایرانی` ڈچ` شامی` مصری وغیرہ اپنے اپنے ہاں کی حکومتوں کے مطیع ہیں مگر وہ مرکزی نقطہ جس پر سب متفق ہیں وہ میری اطاعت ہے اس میں جو تفرقہ کرتا ہے وہ فاسق ہے اور جماعت کا ممبر نہیں<۔۳۰۷
حکومت پنجاب کے غیر منصفانہ نوٹس کے خلاف حضرت امیر المومنینؓ کا زبردست احتجاج
احرار کانفرنس کے سلسلہ میں حکومت پنجاب نے جو بے انصافیاں کی تھیں ان میں سب سے نمایاں وہ جابرانہ اور ظالمانہ نوٹس تھا جو اس کے چیف سیکرٹری نے سیکشن ۳ )۱( (D) پنجاب کریمینل لاء
امنڈمنٹ ایکٹ ۱۹۳۲ء کے تحت جماعت احمدیہ کے مقدس قائد وراہ نما کو دیا۔ اس ایکٹ کی تمہید میں لکھا ہے کہ یہ سول نافرمانی اور حکومت برطانیہ کو تہ و بالا کر دینے والی تحریکات کو روکنے کے لئے ہے۔ گویا بالفاظ دیگر حکومت پنجاب نے یہ الزام لگایا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ سول نافرمانی کرنے یا حکومت برطانیہ کا تختہ الٹنے کی تحریک کرنے والے ہیں۔
حکومت کی یہ خلاف آئین اور تشدد آمیز کارروائی چونکہ آئندہ خطرناک فتنوں کا پیش خیمہ ہو سکتی تھی اور جماعت کے کسی افسر یا کسی کارکن کی کسی بات پر براہ راست خلیفہ وقت کو زیر الزام لانے کے لئے اسے ایک موثر بنیاد بنایا جا سکتا تھا۔ اس لئے کشتی احمدیت کے ناخدا اور خدا تعالیٰ کے اولوالعزم خلیفہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ہر قسم کے عواقب و خطرات سے بے نیاز ہر کر سینہ سپر ہو گئے اور حکومت پنجاب کے اس نوٹس پر زبردست احتجاج کیا۔
چنانچہ حضور نے ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو مرزا معراج الدین صاحب کے قادیان آنے اور قادیان میں احمدیوں کے بلوائے جانے سے متعلق سرکلر کی منسوخی وغیرہ کے واقعات بڑے شرح و بسط سے بیان کرنے کے بعد فرمایا۔
>ان واقعات سے ظاہر ہے کہ اول میں نے جو ہدایت آدمی بلانے کے لئے دی تھی اس کے ماتحت احکام جاری ہی نہیں ہوئے اور اجراء سے قبل ہی ہدایت منسوخ کر دی گئی۔ )۲( ہمیں حکومت نے کبھی بھی آدمی بلانے سے منع نہیں کیا۔ اس لئے سول نافرمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ )۳( جو دعوت جاری کی گئی وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناظر امور عامہ کی حیثیت سے تھی )۴( ناظر جتنے ہیں سب صدر انجمن کے ٹرسٹی ہیں اور اپنے اپنے محکمہ کے قانوناً بھی` اخلاقاً بھی` مذہباً اور ہمارے نظام کی رو سے بھی پورے پورے ذمہ دار ہیں حتیٰ کہ نظام سلسلہ انہیں یہاں تک ذمہ دار قرار دیتا ہے کہ اگر کوئی ناظر خلیفہ وقت کے مشورہ سے بھی کوئی کام کرے۔ تب بھی ذمہ دار وہی ہے مشورہ پرائیویٹ سمجھا جائے گا۔ اور یہاں تک حکم ہے کہ اگر ناظر کوئی پرائیویٹ مشورہ لے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ اور وہ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کر سکتا۔ ساری ذمہ داری اسی پر ہے سوائے اس کے کہ خلیفہ کا تحریری حکم اس کے پاس موجود ہو۔ بلکہ یہاں تک اس بارہ میں پابندی ہے کہ اگر کوئی ناظر غفلت سے تحریری حکم نہ لے اور اس فعل کو خلیفہ کی طرف منسوب کر دے تو وہ اعتماد کو توڑنے والا اور مستوجب سزا ہو گا۔ اور ان تمام مذہبی اور قانونی ذمہ داریوں کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ ناظر امور عامہ نے جو آرڈر دیا وہ اس کا ذاتی فعل تھا۔ مجھ سے اس میں مشورہ بھی نہیں کیا گیا تھا اور اگر کیا بھی جاتا تو بھی وہ بحیثیت ناظر کے نہیں بلکہ ذاتی فرو کی حیثیت سے ہوتا اور اگر کوئی نقصان ہو جاتا تو وہ میرا حوالہ بھی نہیں دے سکتا تھا۔ )۵( صدر انجمن ایک باقاعدہ رجسٹرڈ باڈی ہے اور وہ اس کے ماتحت براہ راست حکومت کے سامنے ذمہ دار ہے۔ )۶( یہ امر ثابت ہے کہ آدمی خود حفاظتی کے لئے بلائے گئے تھے اور اس جگہ پر جہاں ان کا آنا مذہبی فرض ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں آنے کی بار بار تاکید کی ہے۔ اور اس سے حکومت کا روکنا مذہبی مداخلت ہے۔ اس جگہ ان کے جن کو بلایا گیا مقدس مقامات ہیں اور ان کی حفاظت کے لئے انہیں اس وقت بلایا گیا جب دشمن ان کے خلاف شورش کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے تھے۔ )۷( جونہی حکام نے انتظامات کی مضبوطی کا یقین دلایا۔ انہیں کہہ دیا گیا کہ آدمی نہیں بلائے جائیں گے۔ )۸( ۱۶/ اکتوبر کو گورداسپور کے حکام کو اس کا علم ہو گیا تھا وہاں ٹیلیفون اور ٹیلیگراف دونوں موجود ہیں لیکن ۱۷ کو تین بجے کی گاڑی سے ایک سپیشل انسپکٹر یہ احکام لے کر لاہور سے چلتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بیس گھنٹے کے وقفہ کے باوجود حکام ضلع گورداسپور نے پنجاب گورنمنٹ کو مطلع نہیں کیا تا حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتی۔ ان کے لئے لازم تھا کہ ہمارے وعدہ کو حکام بالا تک پہنچا دیتے۔ )۹( حکومت کو علم تھا کہ سرکلر جاری کرنے والا ناظر ہے اور جیسا کہ مرزا معراج الدین صاحب نے بیان کیا وہ سرکلر یا اس کی نقل حکومت کے پاس پہنچ چکی تھی خواہ وہ قادیان سے گئی یا باہر سے۔ بہرحال حکومت کو اس کا علم تھا اور یہ بھی وہ جانتی تھی کہ اس کا جاری کرنے والا میں نہیں ہوں۔ )۱۰( اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ اس کا جاری کرنے والا میں ہی تھا یا اسے منسوخ کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا تب بھی یہ سول نافرمانی یا حکومت کو تہ و بالا کر دینے والا جرم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے پہلے کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر وغیرہ حکام کی خواہش یہ تھی لیکن حاکم کی خواہش اور حکم میں فرق ہوتا ہے کیا گورنمنٹ اس عام بات کو بھی نہیں سمجھ سکتی کہ یہ قانون حکام کی خواہش کو نہیں بلکہ ان کے احکام کو رد کرنے کے مواقع کے لئے وضع کیا گیا ہے اس حکم کے بعد اگر انکار کیا جاتا۔ تو یہ البتہ سول نافرمانی کہلا سکتی تھی لیکن ایس۔ پی یا ڈی۔ سی کی خواہش پر انکار کرنا سول نافرمانی نہیں۔ اس صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ تعاون نہیں کیا گیا۔ مگر یہ حکومت کو تہ و بالا کرنے والی کوئی صورت نہیں اور اگر حکومت ایسا ہی سمجھتی ہے تو پھر ہمارے یہ شکوک صحیح ہیں کہ یہاں حکومت احراریوں کی ہے یہاں لوگوں کو کسی سرکاری چھائونی یا پولیس پر حملہ کرنے کے لئے نہیں بلایا گیا تھا۔ اگر مان لیا جائے کہ وہ حملہ کے لئے ہی بلائے گئے تھے تو وہ حملہ احراریوں پر ہو سکتا تھا اور جب تک حکومت یہ قرار نہ دے لے کہ وہ احراری ہے اور جو ان پر حملہ کرتا ہے وہ حکومت پر حملہ کرتا ہے اس وقت تک یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہاں جو لوگ بلائے گئے وہ حکومت کو تہ وبالا کرنے کی غرض سے بلائے گئے تھے۔
ان تمام امور کی موجودگی میں حکومت پنجاب نے مجھے ایسا غیر منصفانہ نوٹس دیا اور ایسے قانون کے ماتحت دیا جس میں صاف لکھا ہے کہ یہ سول نافرمانی اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں کرنے والوں کے لئے ہے۔ پس حکومت نے سخت بے انصافی کی۔ جب اس نے )اول( اس شخص کو نوٹس دیا جس کی طرف سے سرکلر جاری نہیں ہوا تھا اور جاری کرنے والے کو نہ دیا۔ اگر حکومت ایسا نوٹس دینا ضروری سمجھتی تھی تو جس کے دستخط تھے اسے دیتی اور وہ بھی اس قانون کے مطابق نہ دیا جا سکتا تھا۔ جو سول نافرمانی کو روکنے کے لئے ہے۔
)۲(
گورنمنٹ نے بے انصافی کی اس وقت نوٹس دے کر جبکہ بیس گھنٹے پہلے اس کے ذمہ دار افسروں سے اس کی منسوخی کا وعدہ کیا جا چکا تھا۔ اور جبکہ عملاً اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا تھا حالانکہ قصور اس کے اپنے حکام کا تھا کہ کیوں انہوں نے فون یا تار سے بالا افسروں کو اطلاع نہ دی جبکہ گورداسپور میں یہ دونوں ذرائع میسر ہیں۔
)۳(
حکومت نے سخت بے انصافی کی جبکہ سول نافرمانی کا غلط الزام مجھ پر لگایا حالانکہ نہ کوئی حکم پہلے دیا گیا تھا اور نہ بعد میں دیا گیا۔
)۴(
حکومت نے بے انصافی کی اور سخت ظلم کیا۔ جب اس شخص پر سول نافرمانی کا غلط الزام لگایا کہ جس نے اور جس کی جماعت نے ہمیشہ سول نافرمانی اور اس قسم کی دوسری تحریکوں کی مخالفت کی ہے اور حکومت کا تختہ الٹ دینے کا الزام لگا کر ہماری سخت ہتک کی ہے۔
)۵(
حکومت نے سخت ناانصافی کی کہ احراریوں کا جن کا یہاں کوئی واسطہ اور کام نہ تھا یہاں آنا جائز قرار دیا اور احمدیوں کا جن کا یہ مقدس مقام ہے ان کے یہاں آنے کو موجب فساد قرار دیا۔ حالانکہ وہ اپنے گھر آرہے تھے اور احراری دوسرے کے گھر۔ اگر ایسا نوٹس دینے کی ضرورت تھی تو وہ احرار کو دیا جانا چاہئے تھا ہمیں ایسا نوٹس دینے کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ گھر والوں کو حکم دیتی ہے کہ اپنے گھر کی حفاظت کے لئے اکٹھے ہو کر نہ بیٹھیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ حملہ آوروں کو جمع ہونے کی اجازت دیتی ہے۔
)۶(
حکومت نے بے انصافی اور ظلم کیا جب اس نے ہمارے لئے اس قانون کو استعمال کیا۔ جو باغیوں اور انارکسٹوں کے لئے بنایا گیا ہے اور جسے پاس کرتے وقت حکومت نے ملک کے نمائندوں کو یقین دلایا تھا کہ اسے بڑی احتیاط سے استعمال کیا جائے گا۔ اگر یہ قانون احمدیوں پر اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے جمع ہونے پر چسپاں ہو سکتا ہے تو دنیا کی کون ایسی ہستی ہے جو اس سے باہر رہ سکتی ہے۔ کل کو حکومت کسی شخص کو مال روڈ پر چھینک مارنے سے روک سکتی ہے کہ کوئی راہ گیر سوچتا جارہا ہو گا اس کے خیالات میں انتشار پیدا ہو گا وہ جوش میں آکر لڑے گا۔ اس کا رشتہ دار آئیں گے ادھر تمہارے رشتہ دار جمع ہوں گے اور اس طرح قتل و غارت کا احتمال ہے۔ اس لئے
‏tav.7.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
لئے چلو جیل خانہ میں۔ کون سا ایسا انسان ہے جو اس قسم کے چکروں سے اس قانون کے ماتحت گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ خربوزے کھا کر بازاروں میں چھلکے پھینکنے والوں کو بھی پکڑا جا سکتا ہے کہ کسی کا پائوں پھسلے گا اس کے متعلقین لڑائی کریں گے اور اس طرح ملک میں بدامنی پیدا ہو گی۔ کیا کوئی معقول انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ صحیح استعمال ہے اس قانون کا اس کے لئے جس نے خود اس کے بنانے والوں سے بھی زیادہ قیام امن کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
)۷(
حکومت نے یہ نوٹس دے کر ایک امن پسند جماعت کی ہتک کی کیونکہ اس نے یہ قرار دیا کہ جو احمدی یہاں آئیں گے فساد کریں گے ۔۔۔۔۔
)۸(
حکومت نے ناانصافی کی جب اس نے اس رنگ میں ہمیں نوٹس دیا۔ حالانکہ گزشتہ مواقع کی طرح وہ اب بھی خواہش امداد کر سکتی تھی<۔۳۰۸
حکومت کے افسروں کا ہتک آمیز رویہ
اسی سلسلہ میں حضورؓ پرنور نے یہ بھی فرمایا کہ۔ >بعض افسروں نے اس دوران میں اس ہتک کے احساس کو اور بھی مضبوط کیا ہے۔ ایک افسر کو جب کہا گیا کہ یہ نوٹس خلیفہ کو کیوں دیا گیا؟ تو اس نے کہا۔ کیا خلیفہ حکومت کی رعایا نہیں۔ گویا رعایا ہونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ جس کی چاہو ہتک کرو۔ میں اس افسر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر حکومت کی رعایا ہونے کے یہی معنی ہیں تو کوئی شریف اور غیرت مند انسان اس کی رعایا ہونا پسند نہیں کرے گا۔ ہم تو برطانوی رعایا ہونے کا یہی مطلب سمجھا کرتے تھے کہ اس حکومت میں سب کی عزت محفوظ ہے کوئی کسی کی توہین اور ہتک نہیں کر سکتا۔ بلکہ رعایا کا ہر فرد برٹش ایمپائر کی عظمت کا حصہ دار ہے لیکن آج ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ خواہ تم پر کوئی غلط قانون ہی کیوں نہ استعمال کیا جائے رعایا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں اور اگر بولتے ہو تو تم باغی ہو۔ اگر رعایا ہونے کا یہی مطلب ہے تو حکومت کو چاہئے کہ دلیری سے اس کا اعلان کر دے کہ اے ہندوستان کے رہنے والو! تمہاری عزت خاک میں ملا دی جائے گی۔ اس صورت میں جو غیرت مند ہو گا وہ اس ملک سے نکل جائے گا۔ بجائے اس کے کہ ذلیل ہو کر یہاں رہے۔ ایک دوسرے افسر نے کہا کہ خلیفہ کے سوا اور کسے مخاطب کیا جاتا۔ کیا اس صورت میں یہ نہ کہا جاتا کہ کسی اور کو ذمہ دار قرار دے کر خلیفہ کی ہتک کی گئی ہے جس دوست سے کہا گیا اس نے کیا اچھا جواب دیا کہ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ اس قانون کی نافرمانی کی وجہ سے اگر کسی شخص کو قید کرنے کی نوبت آتی تو جماعت کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا کہ کسی اور کو یہ اعزاز دے کر خلیفہ کی ہتک کیوں کی گئی؟ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی افسر عقل سے ایسا کورا ہو سکتا ہے کہ وہ فی الواقع یہی بات سمجھ رہا ہو یہ تمسخر ہے اور جیسا کہ محاورہ ہے ہتک کے ساتھ زخم بھی پہنچایا گیا ہے۔ ایسا کرنے والوں کا یہی منشاء ہے کہ ہتک بھی کریں اور دلوں کو زخمی بھی کریں<۔
مظلومیت کی پکار
حکومت کے خلاف عقل و فہم نوٹس کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کے بعد حضورؓ نے بالاخر نہایت درد انگیز الفاظ میں فرمایا۔
>ہمارے نازک احساسات مجروح کئے گئے ہیں۔ ہمارے دل زخمی کر دیئے گئے ہیں۔ ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ مگر حکومت اور رعایا خواہ مخواہ ہماری مخالف ہے اور مسیح ناصری کا قول بالکل ہمارے حسب حال ہے کہ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے۔ مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں )مئی ۲۰/۸( پس اے احمدی جماعت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بنائے گا۔ تمہارا فرض ہے کہ اپنے لئے خدا کے فضل سے آپ گھر بنائو اس الہام میں یہی اشارہ ہے کہ یہ زمین اور آسمان تمہیں کانٹوں کی طرح کاٹیں گے۔ آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے ملک کا یا حکومت کا کہ ہم سے یہ دشمنی اور عناد کا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ کل پہرہ دینے والوں میں سے ایک خوش الحانی سے غالب کا شعر پڑھ رہا تھا ~}~
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں؟
میرے دل میں اس وقت یہ خیال گزرا کہ یہ ہمارے حسب حال ہے ہم کسی کے گھر پر حملہ آور نہیں ہوئے۔ حکومت سے اس کی حکومت نہیں مانگی۔ رعایا سے اس کے اموال نہیں چھینے۔ بلکہ اپنی مساجد ان کے حوالہ کر دیں۔ اپنی بیش قیمت جائدادیں ان کو دے کر ہم میں سے بہت سے لوگ قادیان میں آگئے کہ امن سے خدا کا نام لے سکیں۔ مگر پھر بھی ہم پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اور حکومت بھی ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں ان کے آگے پھینکنا چاہتی ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ جو ہم پر اس قدر ظلم کئے جاتے ہیں۔ گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم بے شک صابر ہیں۔ متحمل ہیں۔ مگر ہم بھی دل رکھتے ہیں اور ہمارے دل بھی درد کو محسوس کرتے ہیں۔ اگر اس طرح بلاوجہ انہیں مجروح کیا جاتا رہا تو ان دلوں سے ایک آہ نکلے گی جو زمین و آسمان کو ہلا دے گی۔ جس سے خدائے قہار کا عرش ہل جائے گا اور جب خدا تعالیٰ کا عرش ہلتا ہے تو اس دنیا میں ناقابل برداشت عذاب آیا کرتے ہیں<۔۳۰۹یہ خطبہ جمعہ کئی ہزار کے مجمع نے گوش ہوش بن کر سنا اور رقت اور سوز سے سامعین کی ہچکیاں بندھ گئیں۳۰۱ خدا کے حضور الحاح و زاری کا ایسا دردناک منظر چشم فلک نے بہت کم دیکھا ہو گا۔
سیدنا حضرت امیر المومنین کا ایک مکتوب میاں فضل حسین صاحب کے نام
میاں فضل حسین صاحب رکن ایگزیکٹو کونسل وائسرائے ہند کو حکومت پنجاب کے نوٹس وغیرہ کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے چوہدری ظفر اللہ
خاں کے ذریعہ سے حضور اقدس کی خدمت میں یہ مشورہ دیا کہ اس نازک معاملہ میں جلدی نہ کی جائے۔ نیز تحریک کی کہ اس وقت تک آپ اپنے خاص اعلان کو ملتوی رکھیں جب تک باہمی غلط فہمیوں کے دور کرنے کی کوشش نہ کر لی جائے۔ اس پر حضور انور نے میاں صاحب موصوف کے نام ۲/ نومبر ۱۹۳۴ء کو ایک مفصل خط لکھا جس میں تحریر فرمایا۔
>اگر جماعت اس فعل کو بلا احتجاج اور اصلاح چھوڑ دے تو امام جماعت احمدیہ کوئی کام کر ہی نہیں سکتا۔ سلسلہ کے ہر افسر کی غلطی پر اسے نوٹس ملے گا۔ ہر احمدی کی غلطی پر اسے نوٹس ملے گا۔ وہ تو صرف نوٹسوں کا ہدف بنا رہے گا۔ وہ اور کام نہ کر سکے گا۔ جماعت احمدیہ ہرگز اس امر کی مدعی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو یا اپنے امام کو حکومت کی رعایا ہونے کے مقام سے بالا سمجھتی ہے نہ میں بحیثیت امام جماعت احمدیہ اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھتا ہوں میرا نظریہ یہ ہے کہ مجھے دوسروں سے زیادہ قانون کا پابند ہونا چاہئے تاکہ میں دوسروں کے لئے نمونہ بنوں لیکن میں اس امر کا مدعی ضرور ہوں کہ قانونی نقطہ نگاہ سے مجھے صرف میرے فعل کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ دوسروں کے فعل کا ذمہ دار نہ قرار دیا جائے۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ دوسروں نے وہ فعل میرے کہنے پر کیا ہے پس جبکہ نوٹس میرے حکم کے بغیر تھا اور مجھے اس کا علم بھی بعد میں ہوا۔ پھر وہ ایک ایسے افسر کی طرف سے تھا جو جماعت کے نظام کے ماتحت آزادنہ طور پر ایسا حکم دے سکتا تھا اور حکومت کو اس کا علم تھا کہ نوٹس پر ایک ناظر کے دستخط ہیں۔ کیونکہ اس کے پاس سرکلر کی کاپی موجود تھی جیسا کہ مرزا معراج الدین صاحب نے مجھ سے ذکر کیا تھا۔ پس کیوں انہوں نے نوٹس صدر انجمن احمدیہ کے جو رجسٹرڈ باڈی ہے اس افسر کو نہ دیا جو اپنے محکمہ کا کامل ذمہ دار ہے اور اپنی ذمہ داری سے کبھی منکر نہ ہوا۔ چند ماہ ہوئے مجھے ایک سینیئر سب جج نے سمن کے ذریعہ سے ایک دیوانی کے مقدمہ میں بلوایا اور لکھا کہ صدر انجمن احمدیہ کے فلاں فلاں ریکارڈ آپ ساتھ لیتے آویں۔ میں حاضر عدالت ہوا۔ مگر ریکارڈ نہ لے گیا اور جب عدالت نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایا کہ میں ریکارڈ نہیں لایا اور بہ سوال وکیل کہا کہ مجھے اطلاع مل چکی تھی لیکن چونکہ نہ میں صدر انجمن احمدیہ کا ممبر ہوں نہ صدر نہ سیکرٹری اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ میں ریکارڈ لاتا اگر آپ کو ریکارڈ منگوانا تھا تو اس کے کسی افسر کو بلواتے اس پر وکیل مدعی نے کہا کہ آپ لا نہ سکتے تھے؟ میں نے جواب دیا کہ میں اس طرح لا سکتا تھا کہ جس طرح ہر احمدی کا ریکارڈ لا سکتا تھا۔ لیکن کیا عدالت ہر احمدی کا دیوانی مقدمہ میں ریکارڈ میرے ذریعہ منگوایا کرے گی۔ عدالت اور مدعی دونوں اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے اور مجھے ریکارڈ نہ لانے کے الزام سے بری قرار دیا۔ اب حکومت نے یہ طریق اختیار کیا ہے مگر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس اصل کو اگر جماعت تسلیم کرلے تو ہر دیوانی مقدمہ میں یا فوجداری مقدمہ میں ہر مجسٹریٹ مجاز ہو گا کہ بجائے صدر انجمن کے کارکنوں کو بلوانے کے مجھے بلوا لیا کرے۔ کیا اس طرح جماعت کا کام چل سکتا ہے؟ بلکہ اس اصل کو تسلیم کرکے کہ چونکہ صدر انجمن احمدیہ میرے حکم کے تابع ہے اس لئے اس کے خلاف نوٹس جاری کرنے کی جگہ مجھے نوٹس دیا جا سکتا ہے۔ ہر احمدی کے خلاف جو مقدمہ ہو اس کے بارہ میں مجھے بلوایا جا سکتا ہے۔
پس یہ ایک ایسی غلطی ہے جسے جماعت احمدیہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتی اور اس کا ازالہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ حکومت تسلیم کرے کہ اس سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ بجائے ناظر امور عامہ پر نوٹس سرو کرنے کے جن کے دستخطوں سے سرکلر کیا تھا امام جماعت احمدیہ پر نوٹس سرد کیا گیا اس صورت میں اختلاف صرف قانونی رہ جائے گا جسے کونسلوں میں اور باہمی مبادلہ خیالات سے دور کیا جا سکتا ہے مگر موجودہ پوزیشن تو یہ ہے کہ حکومت اس پر تو افسوس کرتی ہے کہ مجبوری کی حالت میں آپ کو نوٹس دینا پڑا اور یہ تسلیم نہیں کرتی کہ اس نے کسی کے جرم کو کسی کی طرف منسوب کرنے میں غلطی کی ہے۔ پس حکومت کا اظہار افسوس اصل مقصد کے لئے ہرگز مفید نہیں۔
اور بہت سی باتیں ہیں جو حل طلب ہیں لیکن اصولی سوال یہ ہے کہ میں آپ ہی کو ثالث تسلیم کر لیتا ہوں آپ حکومت اور میرے نقطہ نگاہ کو سن کر جو فیصلہ کریں۔ میں اسے منظور کر لوں گا۔ میں تو حکومت سے نہیں لڑنا چاہتا مگر حکومت اگر ہمیں ایک ایسے مقام پر کھڑا کر دے کہ جہاں کھڑے ہو کر جماعت کی ہستی ہی خطرہ میں پڑ جاتی ہو تو آپ فرمائیں میں کیا کروں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا پروگرام یہی ہے کہ پہلے حکومت پنجاب سے اپیل کروں گا۔ پھر حکومت ہند سے پھر حکومت انگلستان سے اگر کہیں داد خواہی نہ ہوئی پھر جو علاج ممکن ہوا کروں گا<۔
خط کے آخر میں حضور نے تحریر فرمایا۔
>میرے نزدیک حکومت سے اس بارہ میں ایک اور غلطی ہوئی ہے۔ اس نے احمدیوں کے لئے ایک نیا سوال پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ کہ کیا وہ خلیفہ کے حکم کے تابع ہیں یا اس حکم کے بھی جو خلیفہ کو حکومت کی طرف سے ملے؟ چنانچہ جب اس بارہ میں مشورہ کے لئے قانون دان جمع ہوئے تو پیر اکبر علی صاحب ایم۔ ایل۔ سی نے فوراً کہا تھا کہ میں نے خلیفہ کی بیعت کی ہے مسٹر گاربٹ کی تو نہیں کی۔ جب بھی یہ معلوم ہو گا کہ حکومت نے جبراً ایک حکم دلایا ہے تو ہم کبھی بھی اس کی اطاعت نہیں کریں گے۔ کیونکہ وہ خلیفہ کا حکم نہیں اور نہ وہ حکومت کا حکم ہے کیونکہ قانوناً ہمیں مخاطب نہیں کیا گیا۔ حکومت اگر تعاون سے کام کرتی تو یقیناً یہ سوال نہ پیدا ہوتا۔ اب اگر حکومت یہ طریق اختیار کرے گی۔ تو چونکہ جماعت کے خیالات کی رو ادھر منتقل ہو چکی ہے۔ وہ یقیناً ایسے حکم کو نہیں مانے گی اور حکومت کو اس سے ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں ہو گا<۔۳۱۱
حکومت پنجاب کی طرف سے غلطی کا اعتراف
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے زبردست احتجاج نے حکومت پنجاب کو بالاخر اپنی غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے ایک مفصل مضمون میں اعلان فرمایا۔
>حکومت پنجاب نے اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ جاری شدہ سرکلر کی ذمہ داری امام جماعت احمدیہ پر عائد نہیں ہوتی اور یہ کہ اگر حکومت کو نوٹس جاری کرنے کے وقت اس بات کا علم ہوتا کہ یہ سرکلر ناظر امور عامہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے تو وہ امام جماعت احمدیہ کو یہ نوٹس نہ دیتی کہ وہ اس سرکلر کو واپس لیں۔ بلکہ وہ اس شخص کو مخاطب کرتی جس کی طرف سے وہ سرکلر جاری ہوا تھا۔ حکومت نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ جو سرکلر جاری کیا گیا تھا وہ حکومت کے نوٹس سے قبل ہی منسوخ کیا جا چکا تھا اور یہ کہ اگر اسے اس منسوخی کا بروقت علم ہو جاتا تو پھر حکومت کی طرف سے کوئی نوٹس جاری ہی نہ کیا جاتا۔ اسی طرح حکومت نے اس امر کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس نوٹس سے یہ مراد ہرگز نہیں تھی کہ حکومت کے نزدیک امام جماعت احمدیہ نے سول نافرمانی یا کسی خلاف امن فعل کے ارتکاب کا ارادہ کیا ہے۔
حکومت پنجاب کی ان ۔۔۔۔۔۔۔ چٹھیوں کے علاوہ۳۱۲ نائب وزیر ہند نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد امام مسجد احمدیہ لنڈن کو جنہیں میں نے اس معاملہ میں حکومت برطانیہ کو توجہ دلانے کے لئے مقرر کیا تھا ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب اور اس کے افسروں نے اس معاملہ میں جو کچھ بھی کیا ہے اس کے کرتے وقت ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں یہ بھی خیال نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس سے جماعت احمدیہ کے جذبات کو ۔۔۔۔۔۔۔ کسی طرح ٹھیس لگے اور انہوں نے درد صاحب کو اس خط میں یہ یقین بھی دلایا ہے کہ حکومت کے اس فعل میں قطعاً کوئی غرض یا نیت نہ تھی کہ جماعت احمدیہ کی کسی قسم کی تحقیر ہو۔ یا اس کے امام کے احترام میں کسی قسم کا فرق آئے<۔۳۱۳
گورنر صاحب پنجاب کی طرف سے غلطی کا اعتراف
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں >اس زمانہ میں جب پہلی دفعہ یہاں )احرار کا۔ ناقل( جلسہ ہوا۔ جو ڈپٹی کمشنر تھا حکومت اس کی ہر بات کی تصدیق کرتی تھی اور ہر موقعہ پر یہی جواب دیتی تھی کہ ہمارا مقامی افسر یوں کہتا ہے مگر تھوڑے دنوں کے بعد اسے اقرار کرنا پڑا کہ وہ غلطی پر تھی۔ میں منالی میں تھا کہ مجھے گورنر کی چٹھی ملی کہ میں آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ملیں۔ میں ملا اور متواتر چار گھنٹہ تک گفتگو ہوئی۔ مجھ سے انہوں نے کہا کہ آپ ناراض کیوں ہیں؟ اور کس سے آپ کو شکایت ہے میں نے کہا کہ پہلے تو آپ سے شکایت ہے۔ انہیں یہ امید نہ تھی کہ میں کہوں گا آپ سے شکایت ہے۔ اس کے بعد گفتگو ہوتی رہی اور جب ہوتے ہوتے میں نے ڈپٹی کمشنر کے متعلق واقعات پیش کئے تو کئی جگہ انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ اس نے غلطی کی ہے۔ میں نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ پہلے تو آپ اس کی ہر بات تسلیم کرتے گئے اور اب مانتے ہیں کہ بعض دفعہ اسے غلط فہمی ہو گئی اور بعض دفعہ حکومت بالا نے اسے مجبور کر دیا<۔
نئے ڈپٹی کمشنر کی جدوجہد مصالحت
>اڑھائی سال کے بعد اس ضلع میں ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر انز آئے ان کی یہ خواہش تھی کہ میں گورنمنٹ سے جماعت احمدیہ کی صلح کرائوں وہ قادیان میں آئے۔ اور مجھ سے ملے بڑی لمبی چوڑی گفتگو ہوئی اور بعض باتیں ان سے طے ہوئیں مثلاً ایک یہ کہ وہ پرانا ریکارڈ نکال کر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ جماعت احمدیہ کی غلطی تھی۔ یا حکام ضلع۳۱۴ کی انہوں نے پہلے تو کہا تھا کہ یہ اتنا بڑا طومار ہے کہ اس کا پڑھنا مشکل ہے مگر جب میں نے کہا کہ بہرحال آپ اسے دیکھیں اور ان واقعات کے متعلق اپنی رائے قائم کریں۔ اس کے بغیر ہماری تسلی نہیں ہو سکتی۔ تو انہوں نے وعدہ کیا کہ آہستہ آہستہ وہ ان مسلوں کو پڑھیں گے بعض حالات کی وجہ سے ان کو جلد یہ ضلع چھوڑنا پڑا۔ مگر ہمارے ایک ذمہ دار افسر ان کے جانے سے پہلے جب ان سے ملے تو انہوں نے ان سے کہا کہ میں نے اس وقت تک تین چار کیس پڑھے ہیں ان کے متعلق میری رائے یہی ہے کہ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کی غلطی تھی اور آپ حق پر تھے۔ افسوس ہے کہ وہ زیادہ دیر اس ضلع میں نہ ٹھہر سکے ورنہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میں باقی کاغذات بھی پڑھ کر اپنی رائے دوں گا<۔۳۱۵
حکومت پنجاب کی جارحانہ پالیسی میں شدت
اگرچہ مسٹر بٹلر سابق نائب وزیر ہند نے حکومت ہند کی معرفت حکومت پنجاب کو توجہ دلائی تھی اور حکومت پنجاب نے نوٹس کے بارے میں غلط بیانی۳۱۶ کرکے اپنا پیچھا چھڑایا لیا۔ اس پر بھی جہاں تک احمدیت کے خلاف جارحانہ پالیسی کا تعلق تھا اس میں نہ صرف کوئی فرق نہیں آیا بلکہ اور بھی زیادہ شدت پیدا ہو گئی اور گورنر سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک برابر مخالفت میں سرگرم رہے اور جماعت احمدیہ کو باغی ثابت کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں انگریزی اقتدار کے خاتمہ تک جاری رہا چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مئی ۱۹۳۶ء میں ایک خطبہ جمعہ کے دوران بتایا کہ حکومت کی طرف سے یہ ہدایت جاری ہوئی کہ نہ سیدوں کو بھرتی کیا جائے نہ احمدیوں کو۔۳۱۷ اس کے بعد ۸/ ستمبر ۱۹۳۹ء کو خطبہ جمعہ میں بتایا۔
>سلسلہ کے مٹانے کے لئے بے شک حکومت کے بعض نمائندوں نے بہت کچھ زور لگایا بلکہ اب تک زور لگا رہے ہیں اور پنجاب گورنمنٹ بھی بعض مواقع پر درمیان میں کودتی رہی ہے اور اس وقت بھی ہمارے لئے امن نہیں اور اب بھی ہمارے مقدس مذہبی مقامات چھیننے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی زمانہ ایسا بھی آئے گا جب ہمیں انگریزی قوم کے ایک حصہ سے لڑنا پڑے گا مگر ہماری لڑائی مادی ہتھیاروں سے نہیں ہو گی بلکہ ویسی ہی ہو گی۔ جیسے آج کل احرار سے ہماری جنگ ہے کیونکہ اس وقت انگریزی قوم کے ایک حصہ کو جب یہ محسوس ہو گا کہ انگریز احمدیت میں داخل ہوتے جارہے ہیں تو وہ ہم سے فساد کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور ہمارا فرض ہو گا کہ ہم ان کا مقابلہ کریں۔ مگر وہ زمانہ ابھی دور ہے<۔۳۱۸
دوسرا باب )فصل دھم(
درد ناک مظالم کا نیا دور
احرار کانفرنس کے بعد سلسلہ احمدیہ کی تاریخ فتنوں اور ابتلائوں کے ایک نئے اور درد انگیز دور میں داخل ہوتی ہے۔
دلازار لٹریچر کی اشاعت
احرار نے اپنی نام نہاد تبلیغ کانفرنس میں احمدیوں کے داخلہ یا اشتہار کی تقسیم پر سخت پابندی لگا دی تھی لیکن سالانہ جلسہ ۱۹۳۴ء کے موقع پر انہوں نے نہایت دلازار اور گندہ اور اشتعال انگیز لٹریچر شائع کرکے قادیان میں تقسیم کیا۔ اس کے بعد ملتان اور جلال پور جٹاں سے بھی بکثرت ٹریکٹ شائع کئے گئے۔ یہ ٹریکٹ اگرچہ حکومت نے بعد کو ضبط کر لئے مگر بہت کچھ اشاعت کے بعد ان کی ضبطی فتنہ پردازوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف تھی۔4] f[st۳۱۹
انگریزی حکومت کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا زبردست انتباہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۴ء پر انگریزی حکومت کو انتباہ فرمایا کہ >حکومت کے افسروں کو پولیس اور سول کے
حکام کو اور احراریوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ باوجود ان اشتعال انگیزیوں کے جو وہ کر رہے ہیں ہم بالکل پرامن ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں جوش آتا ہے اور آئے گا مگر وہ دل میں ہی رہے گا۔ ہمیں غیرت آئے گی مگر وہ ظاہر نہ ہو گی۔ ہمارے قلوب ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے مگر زبانیں خاموش رہیں گی۔ ہاں ایک اور ہستی ہے جو خاموش نہ رہے گی وہ بدلہ لے گی اور ضرور لے گی حکومتوں سے بھی اور افراد سے بھی۔ کوئی بڑے سے بڑا افسر کوئی بڑے سے بڑا لیڈر۔ کوئی بڑے سے بڑا جتھا اور کوئی بڑی سے بڑی حکومت اس کی گرفت سے بچ نہ سکے گی۔ حکومت انگریزی بہت بڑی اور بہت طاقتور حکومت ہے مگر جو اس کے غدار اور فرض ناشناس حاکم ہیں انہیں وہ خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتی۔ وہ ایسے حکام کو بم کے گولوں سے بچانے کا انتظام کر سکتی ہے اور وہ احمدیوں نے چلانے نہیں۔ مگر ہیضہ` قولنج اور طاعون کے حملہ سے وہ کسی کو نہیں بچا سکتی۔ اور نہ کوئی اور طاقت ہے جو خدا کی گرفت سے بچا سکے۔ اگر یہی حالت جاری رہی اور کسی دن بددعا نکل گئی تو حکومت دیکھ لے گی کہ اپنے تمام سامانوں اور اپنی تمام حفاظتوں کے باوجود ان کو بچا نہ سکے گی۔ ہمارا خدا ظلم اور ناانصافی کرنے والوں کو دیکھ رہا ہے وہ ہمارے زخمی قلوب اور ان میں جو جذبات ہیں ان کو دیکھتا ہے پھر ہمارے صبر کو دیکھتا ہے آخر وہ ایک دن اپنا فیصلہ نافذ کرے گا۔ اور پھر دنیا دیکھ لے گی کہ کیا کچھ رونما ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا حکومت سے کوئی ٹکرائو نہیں۔ اس کا میدان عمل اور ہے اور ہمارا اور ہے لیکن اگر وہ خود ہم سے ٹکرائے گی تو اس کا وہی حال ہو گا جو کونے کے پتھر سے ٹکرانے والے کا ہوتا ہے<۔۳۲۰
متعصب ہندو سپرنٹنڈنٹ پولیس کا تقرر
جوں جوں جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی ایذا رسانیاں بڑھتی گئیں قادیان میں پولیس کی جمعیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا حتیٰ کہ سپاہیوں کی تعداد ایک سو پچیس تک پہنچ گئی۔ معمولی پولیس کے علاوہ ملٹری پولیس بھی رکھی گئی اور ۱۷/ جنوری ۱۹۳۵ء۳۲۱ کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انچارج پولیس قادیان کے طور پر ایک متعصب ہندو لالہ جواہر لال صاحب تعینات کر دیئے گئے۔
آل انڈیا نیشنل لیگ کا قیام
مظالم کا طوفان چونکہ بڑھتا جارہا تھا اور حکومت اس کے تدارک کے لئے نہ صرف مجرمانہ غفلت برت رہی تھی۔ بلکہ فتنہ پردازوں کی پیٹھ ٹھونکنے میں مصروف تھی۔ اس لئے جماعتی حقوق کی حفاظت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے لاہور میں ۲۵/ جنوری ۱۹۳۵ء کو آل انڈیا نیشنل لیگ کے نام سے ایک علیحدہ سیاسی انجمن قائم کی گئی۔۳۲۲ یہ قدم حکومت کی ظالمانہ روش کے نتیجہ میں مجبوراً اٹھایا گیا تھا اور اسی لئے حضرت اقدس نے بہت تامل کے بعد اس کی منظوری دی تھی۔ چنانچہ فرمایا۔
>میں جماعت کو سیاسیات بلکہ سیاسی امور کے مشابہ باتوں سے بھی روکتا رہا ہوں۔ لیکن موجودہ حکومت چونکہ صداقت اور راستی کے مقابلہ میں ایجی ٹیشن سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور ایک شخص کے ہاتھ پر خواہ دس کروڑ انسانوں نے بیعت کر رکھی ہو پھر بھی اس کی آواز کو ایک فرد واحد کی آواز قرار دے کر اس سے بے اعتنائی برتتی ہے اور جب کسی امر کی طرف توجہ دلائی جائے تو اس کی طرف سے یہی جواب دیا جاتا ہے کہ اس کے متعلق پبلک میں کوئی ایجی ٹیشن نہیں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر وہ جماعت جو یہ سمجھتی ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ اسے قانونی حد کے اندر رہتے ہوئے حکومت کے پاس اپنا معاملہ پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہئے اسے لازم ہے کہ وہ موجودہ انجمن سے الگ ایک ایسی انجمن بنائے جس میں کوئی سرکاری ملازم نہ ہو<۔۳۲۳
آل انڈیا نیشنل لیگ کا مرکزی دفتر لاہور میں قائم کیا گیا اور محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اس کے صدر مقرر ہوئے۔ نیشنل لیگ نے جماعت کو )محدود رنگ( میں ایک سیاسی پلیٹ فارم دیا جس سے سالہا سال تک جماعت کی بعض اہم قومی اور سیاسی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ لیگ نے جلسوں` جلوسوں اور دوسرے پرامن اور آئینی ذرائع سے ظلم و فساد کے خلاف موثر صدائے احتجاج بلند کی۔ اس انجمن کے ساتھ ایک ذیلی تنظیم کور کے نام سے بھی قائم کی گئی۔ جس کے ناظم جیش اور سالار اعظم چوہدری اسداللہ خان صاحب بار ایٹ لاء تجویز کئے گئے کور کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں اس کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے احمدی نوجوانوں میں تنظیم کی روح پھونک دی اور وہ جماعتی اور قومی معاملات میں پہلے سے زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ تفصیل اگلی جلد میں آرہی ہے۔
قادیان میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ
مسٹر جے۔ ایم شری نگیش )مرہٹہ( ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے احرار نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات میں ۳۰/ جنوری ۱۹۳۵ء سے دو ماہ کے لئے دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی۔ جس کی رو سے جلسوں کا انعقاد نیز پانچ سے زائد اشخاص کے جمع ہونے کی ممانعت کر دی گئی۔]10 [p۳۲۴ اور اس طرح احمدیوں سے اپنے مرکز میں بھی دو ماہ کے لئے آزادی تقریر کا حق سلب کر لیا گیا۔ مگر اس کے بالمقابل دوسروں کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ وہ جس طرح چاہیں فحش کلامی اور بدزبانی کا مظاہرہ کریں۔۳۲۵
دفعہ ۱۴۴ کے ظالمانہ نفاذ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور۳۲۶ نے مولوی قمر الدین صاحب فاضل )سیکرٹری نیشنل لیگ قادیان( کی طرف سے بعدالت سشن جج صاحب گورداسپور ایک مرافعہ بدیں مضمون پیش کیا کہ یہ حکم خلاف قانون اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات سے باہر ہے اس لئے آپ ہائیکورٹ سے سفارش کریں کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے۔ اس مرافعہ میں شیخ بشیر احمد صاحب مرزا عبدالحق صاحب اور چوہدری یوسف خان صاحب وکیل گورداسپور پیش ہوتے رہے۔ چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ ایم۔ اے اور بعض دوسرے اصحاب کی شہادتیں ہوئیں۔۳۲۷
شیخ بشیر احمد صاحب نے ۲۱/ فروری ۱۹۳۵ء کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کی عدالت میں دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کے خلاف مدلل اور فاضلانہ بحث کی۔۳۲۸]4 [rtf مگر سشن جج نے یہ درخواست منظور نہیں کی اس کے بعد اس حکم کے خلاف ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کی گئی۔ اور درخواست کنندہ کی طرف سے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء نے بحث کی۔ آخر ۲/ اپریل ۱۹۳۵ء کو ہائیکورٹ نے قادیان میں دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کو نادرست قرار دے دیا۔ اور فیصلہ دیا کہ قادیان کی ریونیو اسٹیٹ اور ملحقہ ریونیو اسٹیٹوں کے متعلق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا آرڈر مبہم اور ناقابل عمل تھا۔۳۲۹
پرائیویٹ مجالس میں پولیس کی بے جا مداخلت
دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کے ساتھ پولیس نے پرائیویٹ مجالس میں بھی مداخلت شروع کر دی۔ چنانچہ ۲۷/ فروری ۱۹۳۵ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں جماعت دہم کے طلباء کو الوداعی پارٹی دی گئی جس میں پولیس کے قریباً نصف درجن آدمی آدھمکے۔۳۳۰
ان دنوں حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ ایک مکان میں مستورات کو درس قرآن دیا کرتے تھے ایک دن درس کے وقت دو سپاہی اس مکان کے بالا خانہ میں چھپ کر بیٹھ گئے اور مستورات کو جھانکنے لگے۔۳۳۱]4 [rtf
۳/ اپریل ۱۹۳۵ء کو محلہ دارالرحمت کے بچوں کی انجمن >حزب اللہ< کا ایک پرائیویٹ مکان میں جلسہ تھا کہ پولیس کے باوردی اور بے وردی افسروں اور سپاہیوں کی ایک بھاری تعداد نواحی دیہات کے نمبرداروں ذیلداروں اور پٹواریوں کو ساتھ لے کر وہاں جا گھسی۔ بچوں نے عرض کیا کہ یہ ہمارا پرائیویٹ جلسہ ہے اور خالص مذہبی میٹنگ ہے۔ مگر پولیس نے فوراً علاقہ مجسٹریٹ کا ایک حکم پیش کر دیا جو زیر دفعہ کریمینل لاء امنڈمنٹ ایکٹ آف ۱۹۳۲ء کے تحت جاری کیا گیا تھا۔۳۳۲
اگلے روز ۶/ اپریل کو مجلس ارشاد کے ایک پرائیویٹ جلسہ میں بھی پولیس نے مداخلت کی۔ جس پر ایک احتجاجی قرار داد پاس کرنے کے بعد جلسہ برخاست کر دیا گیا۔ اسی روز جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کی ایک دینی انجمن >بزم احمد< کا جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں داخلہ بذریعہ ٹکٹ رکھا گیا تھا۔ کارروائی سے قبل ایک ہیڈ کانسٹیبل چار آدمیوں سمیت آموجود ہوئے جس کی وجہ سے یہاں بھی کارروائی بطور احتجاج بند کر دینی پڑی اور اسی دن >غرفتہ العلماء< میں مولوی فاضل کلاس کا درس دیا جارہا تھا کہ رات کے دس بجے ایک ہیڈ کانسٹیبل اور ایک کانسٹیبل )باوردی( ہتھکڑیاں لئے ایک نمبردار اور پٹواری سمیت مجسٹریٹ علاقہ کا آرڈر لے کر اندر داخل ہو گئے اور کہنے لگے کہ اپنی کارروائی سے آگاہ کرو۔ طلباء نے کہا کہ درس جاری ہے آپ بھی سن لیں۔ آخر وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر چل دیئے۔۳۳۳
۶/ اپریل ۱۹۳۵ء ہی کو چھوٹے بچوںں کی >بزم بشیر< کا ایک تبلیغی جلسہ ایک پرائیویٹ احاطہ میں منعقد ہوا جلسہ کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ہیڈ کانسٹیبل آگیا جس کی وجہ سے کارروائی احتجاجاً ملتوی کر دینا پڑی۔۳۳۴4] ft[r
ایک اشتعال انگیز پوسٹر
دفعہ ۱۴۴ کے دوران ایک حد درجہ اشتعال انگیز پوسٹر قادیان کی ایک عام گزرگاہ پر لگایا گیا جس میں احمدیوں کو قتل کرنے ان کے اموال کو زبردستی لوٹ لینے اور احمدی خواتین کو اغوا کر لینے کی تحریک کی گئی تھی۔ جماعت احمدیہ نے پوسٹر لکھنے والے شخص کا نام پولیس کو دیا مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔۳۳۵
دفعہ ۱۴۴ کی توسیع کے لئے ناجائز کوشش
۳۰/۲۹ مارچ ۱۹۳۵ء کی درمیانی رات کو ساڑھے ۹ بجے کے قریب جبکہ ۱۴۴ کی معیاد ختم ہو رہی تھی۔ قادیان کے ایک احراری نے محمد اسمعیل صاحب صدیقی کی دکان پر آکر پہلے گالی گلوچ کی اور پھر ہاتھا پائی پر اتر آیا اور بے تحاشہ شور مچانا شروع کر دیا۔ اگرچہ پولیس کی چوکی بالکل قریب ہی تھی مگر پولیس کا کوئی آدمی اس موقعہ پر نہ پہنچا۔ محمد اسمعیل صاحب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی )صدر نیشنل لیگ قادیان( کے ساتھ واقعہ کی اطلاع دینے چلے گئے۔ واپسی پر جب وہ اپنی دکان کی طرف آرہے تھے تو احراری انہیں دھکے دے کر ایک مکان کے اندر لے گئے اور دروازہ بند کرکے مارنا شروع کر دیا۔ اس پر بعض احمدی پولیس چوکی میں پہنچے اور بتایا کہ ان کی جان خطرہ میں ہے لیکن پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی۔۳۳۶
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے صبر کی درد مندانہ اپیل
حبس بے جا کے اس واقعہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جماعت احمدیہ قادیان کو صبر کی تلقین کی اور مندرجہ ذیل اعلان فرمایا۔
>تمام محلوں کے پریذیڈنٹوں کو اطلاع کی جاتی ہے کہ رات کو میاں محمد اسمعیل صاحب صدیقی سے جو لڑائی ہوئی ہے اور اس کے بعد انہیں ایک گھر میں بند کرکے جو بعض احرار نے مارا ہے اس )قسم( کے واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کوشش دفعہ ۱۴۴ کو لمبا کرنے کے لئے کی جاتی ہے احباب کو معلوم ہے کہ اس وقت حکومت کا ایک حصہ ہماری دشمنی پر تلا ہوا ہے اور ہمیں بدنام کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے ایسے موقعہ پر بہت احتیاط کی ضرورت ہے جب نگران ہی دشمنی پر تلے ہوئے ہوں تو خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ادنیٰ تدبر سے یہ امر معلوم ہو سکتا ہے کہ عین دفعہ ۱۴۴ کے خاتمے کے وقت اس قسم کی لڑائی کرانے کی کوشش بے وجہ نہیں ہو سکتی اور پھر ان لوگوں کی اس میں شمولیت جن کی دکانوں پر پولیس کے بہت سے سپاہی بیٹھتے ہیں اور بھی شبہ پیدا کرنے والی ہے۔
ان حالات میں میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور مار کھا کر بھی خاموش رہیں گالیاں سنیں اور پروا نہ کریں۔ بلکہ احرار اور ان کی پشت بننے والے حکام کی ان کوششوں کا جو وہ سلسلہ کو بدنام کرنے کے لئے کر رہے ہیں صبر اور تحمل کے ذریعہ سے ناکام کر دیں۔ بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن مومن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مشکل سے مشکل امتحان میں کامیاب ہو۔
عزیزو! یہ وقت ابتلاء کا ہے حکومت کا ایک حصہ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہمارے خلاف کھڑا ہے اور ہم کمزور ہیں لیکن ہمارا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہے ہمیں ذلیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ذلیل نہیں ہوں گے ذلیل وہ غدار حکام ہوں گے جو ملک معظم سے تنخواہ پاکر ان کی نمک ّ*** کر رہے ہیں یا احرار ہوں گے جو حریت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس وقت ظالموں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن رہے ہیں۔ تم صبر سے کام لو تو اللہ تعالیٰ بالا افسروں کے دل پر حقیقت کھول دے گا اور انشاء اللہ وہ اپنی ذمہ داری محسوس کرنے لگیں گے۔ تھوڑے دن میں ہی خدا تعالیٰ اپنا ہاتھ دکھائے گا اور دشمنوں کو ان کے ارادوں میں ناکام کر دے گا اور ہماری مظلومیت اور برائت کو ظاہر کر دے گا۔
پس صبر سے کام لو اور گالیوں اور مارپیٹ کا بدلہ زبان اور ہاتھ سے نہ لو بلکہ خدا تعالیٰ کے آگے فریاد کرو کہ اس وقت اس کے سوا کوئی تمہاری آواز سننے کو تیار نہیں<۔۳۳۷
احمدیوں کا منظم بائیکاٹ
حکومت کی متشدانہ پالیسی جہاں ۱۹۳۵ء کے شروع سے قادیان کے بارے میں سخت ہو گئی وہاں ساتھ ہی بیرونی احمدی جماعتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا۔ چنانچہ ۱۹۳۵ء کے آغاز میں ہی بیرونی احمدیوں کا ہر جگہ منظم صورت میں بائیکاٹ کیا جانے لگا۔۳۳۸
نہتے احمدیوں کو گرفتار کرانے کی کوشش
بائیکاٹ کے علاوہ نہتے احمدیوں کو گرفتار کرائے جانے کی جدوجہد بھی شروع کر دی گئی۔۳۳۹
بے ہودہ افواہیں
احرار نے عوام میں جذبات نفرت و حقارت پیدا کرنے کے لئے جھوٹی افواہیں بھی خوب پھیلائیں۔ مثلاً شروع فروری میں مضافات قادیان میں یہ افواہ مشہور کی کہ اچانک ایک دن ڈپٹی کمشنر صاحب قادیان پہنچے اور انہوں نے قادیان کے اردگرد فوج اور رسالہ کے پہرے مقرر کرکے خلیفہ ثانیؓ کی ضمانت لی۔۳۴۰ سٹھیالی ضلع گورداسپور میں یہ خبر مشہور کی گئی کہ )نعوذ باللہ( چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے احمدیت ترک کر دی ہے۔ وجہ یہ کہ مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے وائسرائے سے جاکر کہا کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ مسلمان وزیر مقرر کریں۔ آپ نے مرزائی مقرر کر دیا ہے یہ معلوم ہونے پر وائسرائے صاحب بہادر نے چودھری صاحب سے کہا یا تو احمدیت چھوڑ دو یا وزارت سے علیحدہ ہو جائو۔ اس پر چوہدری صاحب نے احمدیت چھوڑ کر وزیر بننا منظور کر لیا۔۳۴۱
ارتداد کی جھوٹی خبریں
اخبار >زمیندار< اور >احسان< کی طرف سے ان دنوں فسخ بیعت کی فرضی اور خود ساختہ فہرستوں کی باقاعدہ اشاعت کی جاتی تھی۔ اور اسے >قصر مرزائیت میں زلزلہ< سے تعبیر کیا جاتا تھا۔۳۴۲]text [tag
جماعت احمدیہ کی تباہی کی پیشگوئیاں
اب احراری لیڈروں کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے اس لئے ۱۹۳۵ء کے شروع میں وہ خاص طور پر یہ پیشگوئیاں کرنے لگے کہ احمدیت عنقریب مٹ جائے گی اور کوئی احمدی دیکھنے کو بھی نہیں ملے گا۔ صاحبزادہ سید فیض الحسن صاحب سجادہ نشین آلو مہار نے لدھیانہ میں کہا۔
>میں اس جگہ کھڑے ہو کر یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ منارہ قادیانی اس کے بانی اور اس کی جماعت کا نام و نشان تک مٹ جائے گا اور یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے<۔۳۴۳
ایک سرکردہ احراری لیڈر نے کہا۔
>ہم نے ایسا انتظام سوچا ہے اور اسے جلد جاری کرنے والے ہیں کہ ہم احمدیوں کو سیاسی طور پر اس قدر تنگ کر دیں گے کہ وہ پانچ سال کے اندر یا تو احمدیت کو چھوڑ دیں گے یا مٹ جائیں گے بڑے بڑے آدمی اس کام میں ہمارے ساتھ ہیں<۔۳۴۴
امیر شریعت احرار سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے سیالکوٹ میں تقریر کی کہ۔
>مرزائیت کے مقابلہ کے لئے بہت سے لوگ اٹھے۔ لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ میرے ہاتھوں سے تباہ ہو<۔۳۴۵
مصائب جھیلنے والی بعض جماعتوں اور افراد کا خصوصی تذکرہ
۱۹۳۵ء میں یوں تو پورے ملک کے احمدی مصائب و آلام سے دوچار تھے مگر بعض مقامات اور افراد پر فتنہ کا حملہ نہایت شدید رنگ میں ہوا۔ اس سلسلہ میں نہایت اختصار سے بعض واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔
وزیر آباد میں بابو محمد ابراہیم صاحب مسجد سے دھکے دے کر باہر نکال دیئے گئے۔ نیز ایک دوسرے احمدی شمیم حسن صاحب برسر بازار پیٹے گئے۔۳۴۶
۲۔
ڈیرہ دون میں ایک احمدی لڑکی کی نعش دفن کرنے میں سخت مزاحمت کی گئی۔۳۴۷
۳۔
بھدرواہ میں بعض احمدی علماء پر قاتلانہ حملہ ہوا۔۳۴۸
۴۔
مسانیاں )ضلع گورداسپور( کی ایک احمدی خاتون لاٹھیوں سے زدو کوب کی گئی اسی طرح دیال گڑھ اور موضع نت میں احمدیوں کے لئے جینا دوبھر کر دیا گیا۔۳۴۹
۵۔
حیدر آباد سندھ میں ایک احمدی مرزا امیر احمد صاحب پر ایک مشتعل ہجوم نے حملہ کر دیا۔۳۵۰
۶۔
لاہور کے ایک احمدی میاں قادر بخش صاحبؓ سنہری مسجد میں پیٹے گئے بدن کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے اور وہ گھسیٹتے گھسیٹتے مسجد کی سیڑھیوں تک لائے گئے جہاں سے وہ نیچے دھکیل دیئے گئے۔۳۵۱
۷۔
پنڈوری )ضلع گورداسپور( کے ایک احمدی عبدالکریم صاحب اپنی تعمیر کرائی ہوئی مسجد سے نکال دیئے گئے۔۳۵۲
۸۔
نارووال )ضلع سیالکوٹ( میں احمدیوں کے گھروں پر سنگباری کی گئی۔۳۵۳
۹۔
پنڈوری )ضلع جہلم( کے احمدیوں کے گھروں پر ساری رات خشت باری کی جاتی رہی۔ سید رسول شاہ صاحب نے حضور کی خدمت میں اسی کی اطلاع کی تو حضور نے یہ تحریر فرمایا۔ >میں آپ کو سوائے دعا کے اور کیا مشورہ دوں۔ قادیان کو بھی بعض حکام اور احرار نے ہمارے لئے کربلا بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو۔ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرے گا۔ بندے کیا حکام اور رعایا کیا ہمارے دشمن بن چکے ہیں۔ آسمان و زمین کے مالک کے سوا اب ہماری جماعت پر رحم کرنے والا کوئی نہیں<۔۳۵۴
۱۰۔
ایک مقام پر بہت سے شورش پسند ایک احمدی مبلغ کے مکان میں گالیاں دیتے داخل ہوئے اور کتابیں اور یسرنا القرآن کے قاعدے )جن میں قرآن مجید کی آیات لکھی ہوتی ہیں( زمین پر پھینک دیئے۔ ایک اور احمدی مبلغ کی تمام اشیاء جن میں کپڑے بھی تھے چھین لی گئیں اور ان کا چہرہ سیاہ کرکے ان کو گدھے پر بٹھایا گیا۔۳۵۵
۱۱۔
گکھڑ )ضلع گوجرانوالہ( میں ایک معمر احمدی اللہ دوایا صاحب ۵/ اپریل ۱۹۳۵ء کو وفات پا گئے ان کے غیر احمدی رشتہ داروں نے ان کی نعش عام قبرستان میں دفن ہونے سے روک دی۔ آخر ایک احمدی سلطان علی صاحب نے انہیں قبرستان کے پاس اپنی زمین میں دفن کیا۔۳۵۶
۱۲۔
پنڈی بھٹیاں )ضلع گوجرانوالہ( کے مشہور احمدی میاں محمد مراد صاحب برسر عام بار بار پیٹے گئے فحش گالیاں دی گئیں۔ پانی بند ہوا۔ پتھرائو کیا گیا۔ دھکے دے کر مسجد سے نکال دیئے گئے اور علی الاعلان قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔۳۵۷
۱۳۔
لدھیانہ مخالفت کا گڑھ تھا جہاں احمدی بچے تک پیٹے گئے اور احمدی خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ مئی ۱۹۳۵ء میں یہاں احمدیوں کے خلاف ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ایک مقرر نے یہاں تک کہا۔ >ہم قادیانیوں کو زندہ یا بیمار نہیں دیکھ سکتے۔ یہ دشمنان اسلام ہیں ہم انہیں تباہ و برباد دیکھنا چاہتے ہیں<۔۳۵۸
۱۴۔
سونگڑہ )اڑیسہ( کے احمدی زدوکوب کئے گئے ان کی فصلیں اور باغات کاٹ ڈالے گئے اور گھروں میں دن دہاڑے گھس کر مال لوٹ لیا گیا۔۳۵۹
۱۵۔
مڈھ رانجھہ )ضلع سرگودھا( کے ایک احمدی حاجی برخوردار صاحب کی نعش قبرستان میں دفن کرنے سے روک دی گئی۔۳۶۰
۱۶۔
بٹالہ کے ایک غریب احمدی دکاندار پر حملہ کیا گیا۔۳۶۱
۱۷۔
پشاور میں ۹/ جون ۱۹۳۵ء کو ایک احراری والنٹیر عبدالعزیز نے حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ کو گولی کا نشانہ بنانا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حضرت قاضی صاحبؓ بال بال بچ گئے۔۳۶۲
۱۸۔
منجن گڈھ )علاقہ میسور( میں ۱۶/ جون ۱۹۳۵ء کو ایک احمدی مبلغ کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے اور ایک ہزاروی مولوی نے ان کی کتابیں` کاغذ اور نقدی چھین لی۔۳۶۳
۱۹۔
میانجی خیل )علاقہ کوہاٹ( میں ایک مخلص احمدی یحییٰ الدین صاحب کو مخالفین نے مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ ٹانگ پر ایسا کاری زخم آیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے لنگڑے ہو گئے اس کے بعد جولائی ۱۹۳۵ء میں ایک دشمن کے ہاتھوں میں سخت مجروح ہوئے یہ حملہ رات کے بارہ بجے اس وقت کیا گیا جبکہ آپ سو رہے تھے اس حملہ میں مولوی صاحب موصوف کو ایک زخم سر پر آیا اور ایک چوٹ سینے پر لگی۔۳۶۴
۲۰۔
بنگلور شہر کے احمدی سید عبدالرزاق صاحب اتنے پیٹے گئے کہ آپ زمین پر گر پڑے۔۳۶۵
۲۱۔
گوجرہ میں تین احمدیوں میاں عبدالواحد صاحب پہلوان وغیرہ کے خلاف احراریوں نے دفعہ ۴۵۲ کے تحت مقدمہ دائر کر دیا جو کئی ماہ تک چلتا رہا۔۳۶۶
احراریوں کواشاعت اسلام کے لئے مالی وجانی قربانیوں کاچیلنج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۸/ مارچ ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں احرار کو چیلنج دیا کہ۔
>وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرنے والے ہیں۔ وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا درد احمدیوں کے دلوں میں نہیں۔ وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی اسلام کے دشمن اور رسول کریم~صل۱~ سے عناد رکھتے ہیں میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم چھپن ہزار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو آئیں اور غیر قوموں یعنی ہندوئوں اور عیسائیوں وغیرہ کو مسلمان بنانے کے لئے وہ بھی قربانیاں کریں اور ہم بھی قربانیاں کرتے ہیں وہ بھی آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کو لے کر اشاعت اسلام کے لئے جانی اور مالی قربانیاں کرکے دکھائیں اور ہم بھی اپنے چھپن ہزار افراد کو لے کر مالی اور جانی قربانیاں کرتے ہیں پھر دنیا پر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ کون اسلام کی محبت کے دعویٰ میں سچا ہے اور کون کاذب۔ کون اپنے مونہہ کی لاف و گزاف سے دنیا کو قائل کرنا چاہتا ہے اور کون عملی رنگ میں اسلام سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتا ہے<۔۳۶۷ مگر احرار کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی۔
>)عطاء اللہ بخاری< کے نام پر( جماعت احمدیہ پر مقدمہ
احرار کانفرنس سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی صدارت میں ہوئی تھی۔ حکومت کی طرف سے ان کی اشتعال انگیز تقریر پر زیر دفعہ ۱۵۳ الف تعزیرات ہند دیوان سکھ آنند صاحب سپیشل مجسٹریٹ گورداسپور مقدمہ چلایا گیا جو دراصل جماعت احمدیہ کے خلاف مقدمہ تھا چنانچہ اس دوران میں صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ منگوائے گئے۔۳۶۸ سلسلہ کے بزرگوں مثلاً حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۳۶۹ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ` خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ` خواجہ غلام نبی صاحبؓ ایڈیٹر >الفضل< ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم` مولوی فضل دین صاحب۳۷۰ پلیڈر کو بلا کر لمبی لمبی جرحیں کی گئیں۔
اس مقدمہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ بھی عدالت میں گواہی کے لئے بلائے گئے۔ حضورؓ کی شہادت۳۷۱ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷/ مارچ ۱۹۳۵ء کو تین روز تک جاری رہی۔
آخر جب مقصد حاصل ہو گیا اور بزعم خود احمدیت کے راز ہائے سربستہ کو حکومت اور احرار باہم مل کر افشاء کر چکے تو عدالت نے مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری کو چھ ماہ قید بامشقت کی سزا دی۔ لیکن فیصلہ کے ساتھ ہی بلا توقف ضمانت منظور کر لی گئی اس فیصلہ کے خلاف انہوں نے مسٹر جے۔ ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کی عدالت میں اپیل دائر کی۔ مسٹر کھوسلہ نے ملزم کے جرم کو محض اصطلاحی قرار دیتے ہوئے تابر خاستگی عدالت یعنی اندازاً پندرہ منٹ تک اپنی صحبت میں بیٹھنے کی سزا دی اور اپنے فیصلہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور اس کی بزرگ ہستیوں پر سخت شرمناک حملے کئے۔
یہ فیصلہ کیا تھا اکتوبر ۱۹۳۴ء کی احرار کانفرنس کا زیادہ بھیانک الفاظ میں خلاصہ اور گالیوں کا پلندہ اور اس کی کارروائی کی صحت پر مہر تصدیق۔ نیز اس امر کا اظہار تھا کہ احمدیہ جماعت درحقیقت حکومت کے اندر ایک اور حکومت ہے اور امن عامہ کے لئے خطرہ۔ احرار نے فیصلہ پڑھا اور اپنی دی ہوئی گالیاں عدالت کے قلم سے سن کر جامے میں پھولے نہ سمائے اسے لاکھوں کی تعداد میں مختلف زبانوں میں شائع کیا احرار کے ترجمان >مجاہد< کے نزدیک اس فیصلہ کی اصل نوعیت کیا تھی اس پر اس کی یہ شہادت کافی روشنی ڈالتی ہے۔ >کشمیر تحریک کے قریبی اوقات میں مرزا بشیر الدین کے دماغ میں کچھ ذرا سا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا۔ اور حکام صرف یہ چاہتے تھے کہ اگر اس جماعت کے منہ پر بھی ذرا ہلکی سی چپت لگ جائے تو نامناسب نہ ہو گا۔ میری اطلاع ہے کہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی بدولت یہ ہلکی سی چپت قادیانی جماعت کے منہ پر لگ چکی ہے<۔
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے لکھا۔
>حکومت کی پوزیشن بھی اس مقدمہ میں عجیب قابل رحم ہے ہر فریق حکومت کا شاکی ہے ۔۔۔۔۔۔ اخبار الفضل قادیان نے صاف صاف لکھ دیا کہ ہم مقدمہ کی ابتداء سے ہی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ مقدمہ عطاء اللہ شاہ کے خلاف نہیں چلایا گیا بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف چلایا گیا۔ )۲۶/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱( ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی عطاء اللہ شاہ کی تقریر سے جو نفرت بین الفریقین پیدا ہوئی ہے۔ وہ اس نفرت سے بہت کم ہے جو مقدمہ کے اجراء سے ہوئی ہے۔ جس کی مرتکب حکومت خود ہے<۔۳۷۲
مولوی صاحب نے ایک دوسرے شمارہ میں اس فیصلہ سے متعلق عوامی رائے یہ لکھی کہ >پبلک حیران ہے کہ یہ سزا کیا ہوئی بلکہ مذاق ہوا<۔۳۷۳
خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ نے اس فیصلہ کے سلسلہ میں ۲۱/ جون ۱۹۳۵ء کو گورنر صاحب پنجاب سے ملاقات کی۔ کہنے لگے کہ فیصلہ بہت خراب ہے مگر چونکہ جج نے جرم کو برقرار رکھا ہے۔ گو سزا کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ کر دی ہے اس لئے عام حالت میں گورنمنٹ اس میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتی۔ حضرت خان صاحبؓ نے کہا کہ جو سزا دی گئی ہے وہ جرم کے مقابلہ میں انتہائی مضحکہ خیز ہے اور جج نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر گندے اور توہین آمیز حملے کئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ خان صاحب نے کہا کہ ہم خوب سمجھتے ہیں کہ اگر آج تک گورنمنٹ نے ہم پر کسی طرح سے ہاتھ نہیں ڈالا تو اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ کا ہاتھ پڑ نہیں سکا۔ ورنہ ہمارے ساتھ گورنمنٹ کو کوئی رعائت کرنا مقصود نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس ملاقات میں ایک سے زیادہ دفعہ گورنر صاحب نے واضح کیا کہ آپ یاد رکھیں۔ اگر کوئی موقعہ آپ لوگوں نے ایسا دیا جس میں کسی قسم کی زیادتی کی گئی تو ہم ضرور گرفت کریں گے۔
مسٹر کھوسلہ نے ۶/ جون ۱۹۳۵ء کو یہ رسوائے عالم فیصلہ سنایا تھا۔ از روئے قواعد تاریخ فیصلہ کے دو ماہ بعد تک گورنمنٹ اس کے خلاف اپیل کر سکتی تھی کیونکہ گورنمنٹ اس مقدمہ میں مدعی تھی مگر گورنمنٹ نے جس کا ارادہ در پردہ جماعت احمدیہ کو عدالت میں بدنام کرنا تھا۔ صرف اپنے متعلق امور ہی پر عدالت عالیہ میں نگرانی دائر کی۔ اب ضرورت تھی کہ جماعت احمدیہ خود اپنی اور سلسلہ کے بزرگوں کی پوزیشن صاف کرنے کے لئے قانونی چارہ جوئی کرے۔ چنانچہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی طرف سے عدالت عالیہ لاہور میں اس غیر منصفانہ فیصلہ کے ایسے حصوں کے خلاف جن میں سلسلہ احمدیہ کی توہین کی گئی تھی۔۳۷۴ نگرانی دائر کی گئی اور شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے` ایل۔ ایل۔ بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اس مقدمہ کے پیروکار مقرر کئے گئے۔ مقدمہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مشہور قانون دان ڈاکٹر سرتیج بہادر سپرو بیرسٹرایٹ لاء الہ آباد ہائیکورٹ و سابق ممبر وائسرائے کونسل اس مقدمہ میں پیروی کے لئے بلائے گئے اور سلسلہ کے بہت سے بزرگ اور مخلص اصحاب اور کارکن رات دن نہایت محنت سے کام کرتے رہے۔۳۷۵ آخر ۱۱/ نومبر ۱۹۳۵ء کو آنریبل مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم جج عدالت لاہور نے اس نگرانی کا فیصلہ کیا جس میں مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بہت سے ایسے فقرے قلم زن کر دیئے جو سلسلہ احمدیہ اور بزرگان سلسلہ کی توہین کا موجب تھے۔ نیز مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے خلاف سخت ریمارکس دیئے اور لکھا کہ >مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کیوں ایسے جملوں کو قلمزد کرنے میں اس اختیار کا استعمال نہ کیا جائے جو اگرچہ شہادت پر مبنی ہیں لیکن وہ کسی شخص کے کیریکٹر پر حملہ ہیں یا امور زیر تنقیح سے انہیں کوئی واسطہ نہیں اور ایک عدالت نے خواہ مخواہ اپنا راستہ چھوڑ کر بے ضرورت انہیں اپنے فیصلہ کا حصہ بنا لیا ہے ۔۔۔۔۔۔ فیصلہ زیر بحث میں بعض جگہ ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن سے شبہ ہوتا ہے کہ آیا فاضل جج نے پورے طور پر منصفانہ نگاہ سے معاملہ پر غور بھی کیا ہے )یا نہیں( اس کا بہت سا حصہ مبالغہ آمیز ہے یہ بات بعض ان جملوں سے عیاں ہو جاتی ہے جن پر اعتراض کیا گیا ہے مثلاً فیصلہ کے ابتداء میں جہاں جج نے بعض باتیں بیان کی ہیں جو ان کی رائے میں امور زیر تنقیح سے تعلق رکھتی ہیں جج نے قادیانی مذہب کے متعلق >بدعتی< کا لفظ استعمال کیا ہے۔ قادیانیوں کے عقائد کی خوبیاں یا نقائص اس مقدمہ میں عدالت کے زیر غور نہ تھے اور نہ ہو سکتے تھے۔ پس اس قسم کی زبان کا استعمال افسوسناک ہے<۔۳۷۶
اس مقدمہ میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور` مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور` مولوی فضل دین صاحب پلیڈر قادیان` چوہدری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء ایم ایل سی لاہور` جناب پیر اکبر علی صاحب ایڈووکیٹ ایم۔ ایل۔ سی فیروزپور` مسٹر سلیم صاحب بیرسٹر لاہور` مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اور ڈاکٹر سرتیج بہادر سپروالہ آباد کی سعی اور محنت قابل شکریہ و امتنان تھی۔۳۷۷
حکومت پنجاب کا خفیہ سرکلر
اسی زمانہ میں جبکہ جماعت احمدیہ کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا حکومت پنجاب نے ایک خفیہ سرکلر جاری کیا کہ احمدی مشتبہ لوگ ہیں ان کی نگرانی رکھی جائے اس خفیہ سرکلر کا پتہ کس طرح لگا؟ اس بارے میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بیان ہے کہ >ایک ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ایک دوست کو جو اس کا بھی دوست تھا اس کی اطلاع دے دی کہ ایسی چٹھی آئی ہے کہ جماعت احمدیہ اب خراب ہو گئی ہے اس کا خیال رکھا جائے مگر جب ہم نے گورنمنٹ سے اس بارے میں دریافت کیا تو اس نے انکار کر دیا کہ ایسا کوئی سرکلر نہیں گیا۔ مگر خدا تعالیٰ جب پکڑتا ہے تو ایسا پکڑتا ہے کہ کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ اس نے ہمارے لئے یہ سامان کر دیا کہ راولپنڈی کے ایک تھانہ کی پولیس کا ایک ہیڈ کانسٹیبل ایک احمدیہ جماعت کے ہاں گیا اور کہا کہ جن لوگوں نے قادیان جانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے نام لکھوائیں۔ حکومت کی طرف سے یہ ہدایت آئی ہے کہ جو لوگ قادیان جانا چاہیں ان کی نگرانی کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جماعت نے مجھے اس کی اطلاع دی اور ہم نے حکومت کو لکھا کہ اب بتائو اس کا کیا جواب ہے؟ مگر اس کا کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا۔ وہ صرف یہ کہتے رہے کہ ہم نے کوئی ایسا آرڈر نہیں دیا اور آخر میں کہا کہ آپ اس معاملہ میں زیادہ زور نہ دیں اور بات کو ختم کر دیں۔ ہم نے اس بارہ میں ضلع میں بھی تحقیق کی اور معلوم ہوا کہ اس تھانہ میں خفیہ آرڈر آیا تھا تھانیدار اتفاق سے چھٹی پر تھا اور حوالدار انچارج تھا۔ وہ شراب کا عادی تھا اور نشہ کی حالت میں تھا ہدایت پرکانفیڈنشل لکھا ہوا تھا۔ لیکن اس نے نشہ کی حالت میں اس کا خیال نہ کیا اور جھٹ پروانہ لے کر وہاں جا پہنچا۔ آخر جب ہم نے بار بار اس کا جواب مانگا۔ تو چیف سیکرٹری نے کہا کہ بس اب اس بات کو چھوڑ دیں زیادہ تنگ نہ کریں اور اب اس سوال کا جواب نہ مانگیں تو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری ایسی مدد فرمائی کہ بار بار حکومت کو اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی<۔۳۷۸
مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء میں فتنہ انگیزی
۲۱۔ ۲۲۔ ۲۳/ اپریل ۱۹۳۵ء کو جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت تھی۔ اس موقعہ پر مخالفین نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز ایک ایسی مسجد بنالی جو احمدیوں کی گزرگاہ تھی اور جس کے اردگرد احمدیوں کے بکثرت مکان تھے۔ مشاورت کے ایام میں ایک امرتسری مولوی نے اسی مسجد میں سخت دلازار تقریر کی۔۳۷۹ جس میں غلط بیانی کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ مرزائی منارۃ المسیح پر چڑھ کر روزانہ کہتے ہیں >اشھد ان۳۸۰ مرزا رسول اللہ<۔]01 [p۳۸۱ پولیس نے ایک بہت بڑی جمعیت اس جگہ مقرر کر دی جو ان لوگوں کے لئے خاص طور پر تقویت کا موجب ہوئی۔۳۸۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے دشمنوں کی ناکامی کی حیرت انگیز پیشگوئی
ہندوستان کے مسلمان سیاسی لیڈر ابھی تک بظاہر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے بلکہ ان کا کثیر حصہ یہ اپیلیں کر رہا تھا کہ ہمیں فتنہ و فساد اور
‏tav.7.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
آپس کے تفرقہ سے بچنا چاہئے۔۳۸۳ اسی طرح اعلیٰ عہدہ داروں پر بھی سکوت طاری تھا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ طوفان مخالفت بڑھتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے خیال کیا کہ ہم پیچھے کیوں رہیں۔ اس خیال کا آنا تھا کہ پہلے سر مرزا ظفر علی صاحب سابق جج ہائیکورٹ لاہور نے ایک بیان شائع کر دیا۔ کہ >اگر حکومت مسلمانوں کے زائل شدہ اعتماد کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو مرزائیوں کو جداگانہ اقلیت قرار دینا چاہئے<۔ ان کے بعد ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب بھی میدان میں نکل آئے اور آخر میں علامہ عبداللہ یوسف علی صاحب )پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور نے( جو اس کشمکش سے ہمیشہ مجتنب رہا کرتے تھے جماعت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر دیا اس طرح احرار کی مخالفت وسط ۱۹۳۵ء میں نقطہ عروج تک پہنچ گئی۔ اور ملک کی تمام طاقتیں احمدیت کو کچلنے میں پوری طرح سرگرم عمل ہو گئیں اور احمدیوں کا ملک میں زندہ رہنا بالکل ناممکن نظر آنے لگا۔ اس خطرناک فضا میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۴/ مئی ۱۹۳۵ء کو مسجد اقصیٰ قادیان کے منبر پر ایک ولولہ انگیز خطبہ میں دشمنان احمدیت کی ناکامی کی واضح ترین لفظوں میں خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>میں تمام مخالفوں اور ان کے ہمنوائوں کو حضرت نوح علیہ السلام کے الفاظ میں ہی کہتا ہوں تم سارے مل جائو اور اپنی تمام تدابیر احمدیت کو کچلنے کے لئے اختیار کرو۔ قادیان کے ان منافقوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لو۔ جو کھلم کھلا تمہاری تائید کر رہے ہیں۔ اور ان منافقوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو جو نمازیں پڑھتے روزے رکھتے اور جماعت کے دیگر کاموں میں حصہ لیتے ہیں مگر اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں سلسلہ کے نظام پر ہنسی اڑاتے اور اس کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں تم سارے مل جائو اور دن اور رات منصوبے کرو اور اپنے منصوبوں کو کمال تک پہنچا دو اور اپنی ساری طاقتیں جمع کرکے احمدیت کو مٹانے کے لئے تل جائو پھر بھی یاد رکھو تم سب کے سب ذلیل و رسوا ہو کر مٹی میں مل جائو گے تباہ و برباد ہو جائو گے اور خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں اس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں۳۸۴ کے پائوں سے نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں اتنی ہی نمایاں مجھے ان کی موت دکھائی دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آج خدا یہ دکھانا چاہتا ہے کہ انسانی طاقتیں اس کے ارادہ کے سامنے ہیچ اور ذلیل ہیں آج خدا اپنی طاقت دکھانا چاہتا ہے اور اپنے جلال کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے میں تمام دشمنوں کے سامنے نڈر ہو کر کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا۔ اور ہر مخلص احمدی سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ وہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہے گا۔ اس لئے میں مخالفوں سے کہوں گا۔ وہ جتنی طاقتیں ہمارے خلاف جمع کرنا چاہتے ہیں ان سب کو جمع کر لیں اور متحدہ طور پر ہمارا مقابلہ کریں ہم خدا کے فضل سے ان سے ڈرتے نہیں بلکہ خوش ہیں کہ اس طرح خدا کی مخفی طاقتیں ظاہر ہوں گی اور لوگوں کو پتہ لگے گا کہ ہمارا سلسلہ انسانوں کا قائم کردہ نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ جس وقت یہ فتنہ دور ہو گا ہمارے مخالف اور اندرونی منافق و بازدہ چوہوں کی طرح مر جائیں گے اور دشمن کے ہاتھوں کو توڑ کر خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو نئی طاقت نئی عظمت اور نئی شہرت عطا کرے گا اور وہ شرفا ہندوئوں سکھوں اور عیسائیوں میں سے جو ناواجب طور پر ہم پر حملہ آور نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ ان کی اس نیکی کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کا انعام یا تو انہیں ہدایت کی صورت میں دے دے گا۔ اور یا دینوی ترقیات کے ذریعہ ان کی اس نیکی کا انہیں پھل دے گا<۔۳۸۵
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی ملاقات لارڈ ولنگڈن سے
۱۹۳۵ء کے وسط میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے وائسرائے ہند لارڈ ولنگڈن سے ملاقات کی جس کا تذکرہ حضرت
خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے درج ذیل الفاظ میں فرمایا۔
>مجھے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی یہ بات بہت ہی پیاری معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے لارڈ ولنگڈن سے ۱۹۳۵ء کی گرمیوں میں کہی جبکہ وہ ہندوستان کے وائسرائے تھے انہوں نے کہا۔ سر ایمرسن اپنے آپ کو بہت دور اندیش خیال کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ احمدیہ جماعت بوجہ اپنی تنظیم کے اور ایک امام کے تابع ہونے کے برطانوی حکومت کے لئے ایک ممکن خطرہ ہے اور اس خیال سے وہ احمدیہ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ تاریخ سے قطعاً ناواقف معلوم ہوتے ہیں یا کم سے کم انہوں نے تاریخ کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ جب کبھی کسی >شاہنشاہیت< نے کسی مذہب سے ٹکر لگائی ہے ہمیشہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ ایمپائر تباہ ہو گئی ہے۔ مگر مذہب تباہ نہیں ہوا اور سچی بات یہی ہے کہ ایمپائرز جب مذاہب سے ٹکراتی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کا قائم کیا ہوا کوئی مذہب آج تک دنیا سے نہیں مٹا نہ مٹ سکتا ہے<۔۳۸۶
جماعت احمدیہ کی عیدگاہ میں بے جا مداخلت
۱۶/ جون ۱۹۳۵ء۳۸۷ کا واقعہ ہے کہ جماعت احمدیہ قادیان کی عید گاہ میں صیغہ جائداد صدر انجمن احمدیہ کے زیر انتظام مزدور گڑھے پر کرنے کا کام کر رہے تھے کہ بہت سے احراری وہاں جمع ہو گئے اور انہوں نے مزدوروں سے کدالیں اور ٹوکریاں چھین لیں اور بعض احمدیوں کو زدوکوب بھی کیا۔ اس کے بعد اور مزدور بھیجے گئے جنہیں نئی ٹوکریاں اور کدالیں دی گئیں اتنے میں پولیس بھی انچارج چوکی کی زیر سرکردگی پہنچ گئی۔ مزدوروں نے ابھی مٹی کی دو ایک ٹوکریاں ہی ڈالی ہوں گی کہ احرایوں نے )جو پہلے حملہ کے بعد دور جا کھڑے ہوئے تھے( آگے بڑھنا شروع کر دیا ساتھ ہی انچارج پولیس سپاہیوں سمیت آگے بڑھے اور صدر انجمن احمدیہ کے مختار )منشی محمد الدین صاحب ملتانی کو نہایت گندی اور فحش گالیاں دیتے ہوئے ہتھکڑی لگا لی اور گولی چلانے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد مالکان دیہہ کے مختار عام کو بھی )جو ایک معمر بزرگ تھے اور اس موقعہ پر موجود تھے( ہتھکڑی پہنا دی ساتھ ہی ان چار نوجوانوں کو جو کیمرہ کے ذریعہ تصویر لینے کے لئے وہاں بھیجے گئے تھے گرفتار کر لیا گیا اور ان کے کیمرے ضبط کر لئے۔ مگر اس کے مقابل حملہ آور احراریوں میں سے صرف چار زیر حراست لئے گئے۔ اور پولیس نے یہ >کارنامہ< دکھانے کے بعد احمدیوں کو ہتھکڑی لگائے ہندو بازار میں سے گزارا دس بجے کے قریب مجسٹریٹ علاقہ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس پہنچ گئے مگر مظلوم احمدیوں کی کوئی دادرسی نہ ہوئی اور نہ انہیں اپنی عید گاہ کی مرمت کرنے کی اجازت مل سکی۔۳۸۸
عید گاہ میں گرفتار شدہ احمدی مجسٹریٹ صاحب علاقہ بٹالہ کے سامنے پیش کئے گئے جہاں سے وہ ضمانت پر رہا ہوئے اور بالاخر بے قصور ثابت ہو کر بری کر دیئے گئے۔ اس مقدمہ میں بھی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور` مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور اور مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔۳۸۹
جور و جفا کے واقعات میں اضافہ
‏]0 [rtfعید گاہ میں مداخلت کے بعد قادیان میں فتنہ نے بہت زور پکڑ لیا اور ۱۵/ جون کو بعض احراریوں اور ہندوئوں سے سنا گیا کہ اب احمدیوں کے گلے زبردستی پڑ جانا چاہئے۔ تا کسی طرح فساد ہو جائے۔ اس بناء پر خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ نے ۲۷/ جون ۱۹۳۵ء کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بٹالہ کیمپ` مقامی حکام اور صوبہ کے اعلیٰ حکام کو مطلع کیا کہ ہمیں بعض ذرائع سے یہ علم ہوا ہے کہ ہمارے پیارے امام اور دوسرے قابل احترام بزرگ ہستیوں نیز احمدی مستورات پر حملہ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔۳۹۰ اس کے بعد چند ہفتوں کے اندر اندر جو واقعات وقوع پذیر ہوئے ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
۱۔
ایک شام کو جبکہ مسجد نور میں ایک پبلک جلسہ ہو رہا تھا قادیان کے تمام احراری اور بعض ہندو سکھ عید گاہ میں جمع ہوئے ان کا ارادہ تھا کہ عید گاہ کی دیوار اور منبر کو گرا کر بعض فرضی قبریں بنا دی جائیں لیکن وقت پر اطلاع پہنچ جانے کی وجہ سے وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب نہ ہو سکے۔
۲۔
میاں عبداللہ صاحب کشمیری عرف عبدل کو جب معلوم ہوا کہ احراریوں کا منشا یہ ہے کہ احمدیہ عید گاہ اور دوسری احمدی عمارتیں گرا دی جائیں تو وہ مہتہ عبدالرزاق صاحب فوٹو گرافر کو ان عمارتوں کا فوٹو لینے کے لئے عیدگاہ میں لے گئے جہاں ایک احراری نے حملہ کر دیا کیمرہ تور ڈالا اور دونوں کو دھکے دیئے۔۳۹۱
۳۔
قادیان کے محلہ ریتی چھلہ کا ایک قطعہ مسجد کے لئے مخصوص کیا جا چکا تھا۔ اس لئے احمدیوں نے اس میں نماز پڑھنی شروع کر دی تھی۔ یہ دیکھ کر مخالف بھی اسی قطعہ کے قریب حصہ شاملات میں نماز پڑھنے لگے۔۳۹۲ اور ۴/ جولائی ۱۹۳۵ء کی رات کو ایک جلسہ میں دھمکی دی کہ ہم احمدیوں کے ان مقامات پر قبضہ کر لیں گے۔۳۹۳
۴۔
۷/ جولائی ۱۹۳۵ء کو احرار نے شاملات قصبہ پر اینٹیں ڈلوا کر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔۳۹۴
۵۔
۸/ جولائی ۱۹۳۵ء کو پونے تین بجے بعد دوپہر قادیان کے ایک احمدی خوشی محمد صاحب ولد نبی بخش صاحب مجروح کئے گئے اور ان کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے۔۳۹۵
‏]bus [tagحضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ پر قاتلانہ حملہ
کئی ہفتوں سے محسوس ہونے والا خطرہ آخر ۸/ جولائی ۱۹۳۵ء کو ظہور پذیر ہو گیا یعنی اس روز شام کے چھ بجے کے قریب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لخت جگر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب پر جبکہ آپ اپنے دفتر )نظامت خاص( سے اپنے مکان کی طرف بائسیکل پر تشریف لے جارہے تھے قاتلانہ حملہ کر دیا گیا۔ حملہ آور۳۹۶ قادیان کے ایک تکیہ کے فقیر کا بیٹا اور ایک آوارہ گرد شخص تھا۔ جس نے دھات کا سم چڑھی لاٹھی سے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ پر اچانک وار کر دیا اس بدبخت کا ارادہ قتل کرنے کا تھا مگر آپ چونکہ سائیکل پر تھے لٹھ گرتے گرتے آپ آگے نکل گئے اور لٹھ پشت پر پڑا۔ آپ فوراً اتر کر حملہ آور کی طرف ہوئے تو اس نے دوسری ضرب پھر سر پر ماری لیکن آپ نے اسے نہایت جانبازی اور بہادری کے ساتھ اپنے ہاتھ سے تھام لیا حملہ آور بھاگ گیا اور آپ خدا کے فضل و کرم سے معجزانہ طور پر بچ گئے ورنہ اس ظالم و سفاک نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔
اس المناک واقعہ کی خبر آگ کی طرح پہلے قادیان میں اور پھر سارے ملک میں پھیل گئی اور جس جس احمدی کے کانوں تک پہنچی دنیا اس کی نظروں میں تاریک ہو گئی۔ ہر جگہ کہرام مچ گیا بہتوں کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں اور وہ زار و قطار رونے لگے۔
قلم اس زبردست جوش اور ہیجان کا نقشہ کھینچنے سے قاصر ہے جو اس ظلم و ستم اور وحشت و بربریت کے نتیجہ میں احمدیوں کے قلوب میں پیدا ہو گیا۔ مگر ان قیامت خیز لمحات میں بھی جماعت احمدیہ نے اپنے محبوب آقا کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے صبر و ضبط اور تحمل و بردباری کا بے نظیر نمونہ دکھایا۔ حق یہ ہے کہ اگر حضرت امیر المومنینؓ کے فرمان مبارک کی وجہ سے احمدیوں کے ہاتھ جکڑے نہ ہوتے تو اس دن قادیان کی سرزمین میں سچ مچ خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔
قادیان میں فساد کرانے کے لئے شرمناک سازش
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ پر حملہ کوئی انفرادی نوعیت کا فعل نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی سکیم کا نتیجہ تھا جس کے پیچھے قادیان میں فساد کرانے کی سازش کار فرما تھی۔ جیسا کہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۲/ جولائی ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ۔
>وہ حملہ جو میاں شریف احمد صاحب پر کیا گیا ہے ہمیں عقل و جذبات کا توازن قائم رکھتے ہوئے اس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ یہ انفرادی فعل تھا یا سازش کا نتیجہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس فعل کی نوعیت بتاتی ہے کہ یہ فعل انفرادی نہیں تھا۔ نہ کوئی جھگڑا ہوا نہ فساد۔ اور نہ حملہ آور سے کوئی لین دین کا معاملہ تھا راستہ چلتے چلتے اس شخص نے حملہ کردیا۔ اب سوال یہ ہے اگر یہ فعل انفرادی نہ تھا تو پھر کیا یہ فعل صرف انگیخت کا نتیجہ تھا؟ یا سازش کا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ انسان کسی کو کہتا تو کچھ نہیں مگر ایسی جوش کی باتیں کرتا ہے کہ دوسرے کو خواہ مخواہ غصہ آجاتا ہے اور وہ کوئی ناروا حرکت کر بیٹھتا ہے۔ یہ تو ہے انگیخت اور سازش یہ ہے کہ کسی خاص آدمی کو خاص کام کے لئے متعین کر دیا جاتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اس فعل میں انگیخت ضرور تھی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ایام میں قادیان میں ایسی تقریریں کی گئیں جن میں بار بار سلسلہ کے ارکان اور مقدس مقامات پر حملہ کرنے کی تحریکیں کی گئی تھیں۔ ہمیں اس کی رپورٹیں برابر پہنچتی رہی ہیں اور اگر میں غلطی نہیں کرتا تو حکومت کے پاس بھی ضرور پہنچی ہوں گی کیونکہ اس کے ایجنٹ بھی یہاں موجود ہیں ان تقریروں میں صاف لفظوں میں ہمارے خاندان کا نام لے لے کر اور مقدس مقامات کا نام لے لے کر جوش دلایا گیا۔ پس اگر اس کے لئے کوئی باقاعدہ سازش نہ کی جاتی تو ان تقریروں کے نتیجہ میں بھی بہت حد تک اس قسم کے حملہ کا امکان تھا لیکن میں بتاتا ہوں کہ معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور یقیناً سازش کا نتیجہ ہے۔
آج سے دو ماہ پہلے سے مجھے اطلاعات مل رہی تھیں کہ احمدی زعماء پر عموماً اور مرزا شریف احمد صاحب پر خصوصاً حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ان رپورٹوں میں اس گلی کا ذکر بھی تھا۔ جہاں حملہ ہوا۔ پھر اس رپورٹ میں تجاویز تک بتا دی گئی تھیں۔ اور لکھا تھا کہ ایک تجویز تو یہ ہے کہ ایک آدمی لٹھ لے کر حملہ کر دے اور ایک تجویز یہ بھی تھی کہ عورتیں رستہ میں کھڑی ہو کر گالیاں دیں اور پھر چمٹ جائیں اور گھسیٹ کر اندر لے جائیں اور کہیں کہ ہم پر حملہ کیا گیا تھا۔ پہلے جب یہ رپورٹ پہنچی تو ہم نے اسے افواہ سمجھا لیکن جب مختلف ذرائع سے یہ خبر پہنچی تو اخبار >الفضل< میں ایک نوٹ دے دیا گیا اور ۲۷/ جون کو سرکاری افسروں کو بھی اس کی اطلاع دے دی گئی۔ چیف سیکرٹری` انسپکٹر جنرل پولیس اور مقامی حکام کو بھی اطلاع کر دی گئی اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ سازش تھی۔ ہماری اطلاعات میں گلی کا بھی ذکر تھا بلکہ کئی آدمیوں کا جو اس سازش میں حصہ لے رہے ہیں ساتھ ہی حملہ کے ذرائع کا بھی ذکر تھا اور غرض بھی بتائی گئی تھی کہ احمدی جوش میں آکر حملہ کریں گے۔ اس پر انہیں نیز ان کے ہمدرد حکام کو یہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ احمدیوں نے حملہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ اس طرح فساد کرا کے سیشن جج گورداسپور کے فیصلہ کے خلاف ہم جو اپیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے خلاف مواد مہیا کیا جائے اور چونکہ ہماری پہلی تاریخ میں اس قسم کی کوئی بات نہیں ملتی اور اس کی تائید میں کوئی دلیل نہیں اس لئے نئی دلیل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ پس اس حملہ کا اندازہ اس امر سے نہیں ہونا چاہئے کہ کرنے والا کون تھا اور جس پر کیا گیا وہ کون؟ بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کس ارادہ کے ماتحت یہ کیا گیا۔ یہ حملہ ایک معزز احمدی پر ایک ذلیل آدمی کی طرف سے ہونے کی وجہ سے ہی اس کی اہمیت نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس کا مقصد کیا تھا۔ اس کا مقصد یقیناً یہی تھا کہ قادیان میں فساد کرایا جائے لڑایا جائے اور جماعت احمدیہ کو بدنام کیا جائے۔ وہ لاٹھی جو چلائی گئی وہ اس غرض سے تھی کہ سینکڑوں ہزاروں جسموں پر لاٹھیاں پڑیں پس ان لاٹھیوں کی اہمیت اسی حملہ پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر اتفاقاً اس حملہ کے وقت اور احمدی ساتھ چل رہے ہوتے یا اگر خود مرزا شریف احمد صاحب ہی جوش میں آجاتے تو وہاں دوسرے احراری بھی بیٹھے تھے فوراً ایک قومی لڑائی بن جاتی اور پھر حکومت کے پاس رپورٹ چلی جاتی کہ اس طرح احمدیوں نے حملہ کیا اور بلوہ ہو گیا۔
میں تمہارے اندر یہ روح پیدا کرنا نہیں چاہتا کہ اگر کوئی شخص تم کو مارے بھی تو تمہارا بولنا مفاد سلسلہ کے لئے مضر ہے۔ جماعتوں میں لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں پیٹے بھی جایا کرتے ہیں اور قید بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کو نظر انداز کرکے میں جس پہلو کو لے رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس حملہ کی غرض یہ تھی کہ فساد کرکے جماعت احمدیہ کوبدنام کیا جائے۔ اور یہ ثابت کیا جائے کہ جماعت احمدیہ فساد کرتی ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ وہ دشمن جو ہمیں ذلیل کرنا چاہتا تھا دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو گیا۔ دشمن کی شدید انگیخت کے باوجود یہاں امن قائم رہا گویا صیاد نے جو جال ہمارے لئے بچھایا تھا وہ خود اس کا شکار ہو گیا۔ جب دنیا کے سامنے یہ بات آئے گی کہ اس حملہ سے پہلے ہمیں اس کی اطلاع تھی اور ہم نے حکومت کو اس کی اطلاع دے دی تھی جس نے قطعاً کوئی کارروائی نہیں کی۔ اور وہ یہ واقعات پڑھے گی کہ ایک ذلیل گدا گر جس کی ساری عمر احمدیوں کے ٹکڑوں پر بسر ہوئی ہے مرزا شریف احمد صاحب پر حملہ آور ہوا اور احمدی پھر بھی خاموش رہے تو وہ وقت تمہاری فتح کا ہو گا۔ ہماری جماعت تاریخی جماعت ہے آئندہ کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی جب تک جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ذکر نہ کرے یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے عنقریب دنیا پر چھا جانے والی ہے پس جو کچھ تم سے ہو رہا ہے اس کا بدلہ تاریخ لے گی۔ اور آج جو لوگ تمہارے حقوق تلف کر رہے ہیں ان کی نسلیں انہیں گالیاں دیں گی کیونکہ کون ہے جو اپنے آباء کی شرارتوں کا ذکر تاریخوں میں پڑھ کر شرمندہ نہیں ہوتا بے شک آج لوگ ہم پر ظلم کرکے ہنستے ہیں جس طرح رسول کریم~صل۱~ پر اونٹوں کی اوجھڑی ڈالنے والے ہنستے تھے۔ ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی اس حرکت کو ہزار سال تک یاد رکھاجائے گا۔ اور یہ ہمیشہ کے لئے ان کی ناک کاٹنے کا موجب ہو جائے گی آج بھی ہمارے دشمن اور بعض حکام خوش ہوتے ہیں اور اسے ایک کھیل سمجھتے ہیں مگر انہیں کیا معلوم ہے کہ یہ باتیں تاریخوں میں آئیں گی۔ بڑے سے بڑے مورخ کے لئے یہ ناممکن ہو گا کہ ان واقعات کو نظر انداز کر دے کیونکہ ان کے بغیر اس کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے گی۔ پڑھنے والے ان باتوں کو پڑھیں گے اور حیران ہوں گے ان لوگوں کی انسانیت پر جنہوں نے یہ افعال کئے اور حیران ہوں گے ان حکام کے رویہ پر جنہوں نے علم کے باوجود کوئی انتظام نہ کیا اور آنے والی نسلوں کی رائے ان کے خلاف ہو گی ان کی وہ چیز جس کے لئے انسان جان کی قربانی کر سکتا ہے یعنی نیک نامی برباد ہو جائے گی<۔۳۹۷
دوسرا باب )فصل یازدھم(
حادثہ شہید گنج اور احرار کا عبرتناک انجام
مخالفین احمدیت خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ہم احمدیوں کے خلاف ملک گیر شورش برپا کرنے اور بانی جماعت احمدیہ کے لخت جگر پر لاٹھی چلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب عنقریب احمدیت کا نام و نشان مٹا دیں گے کہ اچانک خدا کی بے آواز لاٹھی مسجد شہید گنج کے قضیہ کی شکل میں نمودار ہوئی اور ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ اور اس واقعہ نے ان کا سارا اثر و اقتدار خاک میں ملا کر رکھ دیا اور سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
لاہور کے ریلوے سٹیشن سے دہلی دروازے کی طرف جائیں تو ٹیکنیکل سکول کے عقب میں جہاں سے لنڈا بازار شروع ہوتا ہے ایک بہت پرانی مسجد تھی جسے عام طور پر مسجد شہید گنج کہا جاتا تھا۔ جب تک لاہور پر سکھوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ اس مسجد میں مسلمان باقاعدہ نماز ادا کیا کرتے تھے مگر اس کے بعد سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور اسی وقت سے یہ مسجد سکھوں کے قبضے میں چلی گئی تھی۔
جون ۱۹۳۵ء میں یکایک پنجاب کے مختلف حصوں سے سکھوں کے جتھے لاہور آنا شروع ہوئے اور ساتھ ہی شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ سکھ مسجد شہید گنج کو مسمار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں آہستہ آہستہ یہ خبر پایہ یقین تک پہنچ گئی تو مسلمان لیڈروں کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سرہربرٹ ایمرسن سے عرض کی کہ یہ مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں دے دی جائے اور جب تک اس تجویز پر باضابطہ عمل نہ ہو حکومت کو چاہئے کہ دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کر دے تا مسجد کا فوری انہدام رک جائے۔ گورنر پنجاب نے یہ بات ٹال دی۔ اس کے بعد مسلمانوں کے وفد نے سکھو لیڈروں سے گفتگو کی تو سکھوں نے کم از کم اس بارے میں مسلمانوں کو مطمئن کر دیا کہ جب تک شرومنی گورددارہ پر بندھک کمیٹی مسلمانوں کی اس تجویز پر اچھی طرح غور نہیں کرے گی اس وقت تک مسجد مسمار نہیں کی جائے گی۔۳۹۸
ابھی یہ گفت و شنید جاری تھی کہ ۸/ جولائی کی صبح کو سکھوں نے یکایک مسجد مسمار کر دی۔ اور اس کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور کی طرف سے شہر میں کرفیو آرڈر نافذ کر دیا گیا۔۳۹۹ جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں بظاہر نسبتاً سکون نظر آنے لگا- لیکن ۱۹/ جولائی کو حالات نے تشویشناک صورت اختیار کر لی۔ اس روز شاہی مسجد میں نماز جمعہ کے بعد مسلمانوں کا ایک جلوس شہر کی طرف روانہ ہوا۔ جو سرکاری بیان کے مطابق مسجد شہید گنج کی طرف جانا چاہتا تھا پولیس کی ایک بھاری جمعیت نے اسے روک لیا اور لاٹھی چارج کر دیا۔ تین چار دفعہ لاٹھی چارج کئے جانے کے باوجود جلوس منتشر نہ ہوا۔ بلکہ جلوس کے تمام آدمی زمین پر لیٹ گئے اور وہیں پڑے رہے۔ دیر کے بعد آگ بجھانے والے انجن سے پانی کی بوچھاڑ کی گئی اور پولیس نے کئی مسلمانوں کو گرفتار کرنا چاہا لیکن بعض افراد کے گرفتار ہونے کے بعد لوگوں نے مزاحمت شروع کی اور خود بخود پولیس کی لاریوں میں بیٹھنے لگے۔ آخر پولیس نے تنگ آکر گرفتار کرنا چھوڑ دیا۔ لوگوں نے لاریوں کے ٹائر پھاڑ دیئے غرض یہی صورت ساری رات قائم رہی۔ نہ جلوس منتشر ہوا۔ نہ صورت حال میں کوئی تبدیلی ہوئی۔
دوسرے دن ۲۰/ جولائی کو ریلوے کارخانوں میں تعطیل تھی۔ اس لئے جلوس میں بہت سے افراد کا اضافہ ہو گیا اور وہ آہستہ آہستہ دہلی دروازے کے بعد کوتوالی کے عین سامنے پہنچ گیا جہاں سے مسجد >شہید گنج< قریباً ڈیڑھ فرلانگ پر ہے۔ کوتوالی کے سامنے مقامی افسروں کی ایک تعداد پولیس کی ایک بڑی جمعیت کے ساتھ موجود تھی۔ لنڈا بازار کی طرف جانے والے راستے پر زبردست فوجی پہرہ تھا۔ ہر چند کوشش کی گئی مگر جلوس منتشر نہ ہوا بلکہ زخمیوں کو دیکھ کر اور بھی مشتعل ہو گیا۔ آخر پونے نو بجے گولی چلا دی گئی بہت سے مسلمان مجروح اور چار جاں بحق ہو گئے۔جس سے مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا۔۴۰۰
عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ احرار شہید گنج کے حادثہ خونین پر مسلمانوں کی قیادت کے فرائض انجام دیں گے لیکن عملاً ہوا یہ کہ مسلمانوں کا خون بہایا جاتا رہا۔ مگر احرای لیڈر اپنے دفتر میں جو )مسجد شہید گنج سے قریب ہی تھا( نہ صرف آرام سے بیٹھے رہے۔ بلکہ مسجد پر قربان ہو جانے والے مسلمانوں کو حرام موت۴۰۱ مرنے والا قرار دے دیا۔ اور اس افسوسناک طرز عمل کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ کانگریس کے پروگرام کے مطابق آئندہ )انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے تحت ہونے والے( ملکی انتخابات کے لئے راہ ہموار کر رہے تھے اور اس بارے میں پنجاب کے ہندوئوں اور سکھوں سے در پردہ گٹھ جوڑ کر چکے تھے۔ چنانچہ احراری لیڈروں نے >پسرور تبلیغ کانفرنس< میں صاف طور پر کہہ دیا کہ۔
>ہمارے سامنے قادیانیوں کی مخالفت اور کونسل کا پروگرام ہے۔ اس لئے ہم ایسی تحریک میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں جس سے شمولیت کے ساتھ ہی جیل کی ہوا کھانی پڑے اور یہ پروگرام ادھورے رہ جائیں۔ ہم غلام ہیں۔ ہماری مسجدیں کیسے آزاد رہ سکتی ہیں صبر سے کام لینا چاہئے۔ سکھ خود بخود مسجد حوالہ کر دیں گے<۔۴۰۲
اصل بات تو یہی تھی مگر حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے احراری لیڈروں نے کئی بہانے تراشے۔ مثلاً چودھری افضل حق صاحب نے کہا۔ >بحالات موجودہ ہندوستان کا آزاد ہونا آسان ہے۔ مگر مسجد کا واگزار ہونا مشکل ہے۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔ مسجد کی بحالی کے لئے انگریز کی گولی` سکھ کی کرپان` ہندو کے سرمایہ کا مقابلہ کرنا ہو گا<۔۴۰۳
پھر انگریزی عدالتوں کے احترام پر زور دیتے ہوئے کہا۔
>ہر چند مسجد کا معاملہ اور شریعت کا مسئلہ تھا تاہم انگریزی عدالتوں کا قانون گوارا کرکے یہ ظاہر کر دیا گیا کہ مسلمان اپنے تمام مذہبی احساسات کے باوجود غیر مسلم کے معاملہ میں غیر مسلم عدالتوں کے فیصلہ کا احترام کرنے کو بھی تیار ہیں۔ یہی اسلام کی ہمیشہ کی سپرٹ تھی اور خدا کے فضل سے اب بھی وہ قائم ہے<۔۴۰۴
نیز سول نافرمانی کو بے فائدہ قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ۔ >ایک سو ستر سال کے مخالفانہ قبضہ کو سول نافرمانی کے ذریعہ سے مسترد کرنے کی کوشش کرنا انگریزی حکومت میں صولت فاروقی کے خواب دیکھنے سے کم نہیں<۔۴۰۵
اس عذر پر مسلمانوں کی طرف سے پر زور سوال اٹھایا گیا کہ >اگر کشمیر کے معاملے میں سول نافرمانی ہو سکتی تھی تو مسجد شہید گنج کے لئے کیوں نہیں ہو سکتی<۔ اس کا جواب احراری لیڈر مولوی مظہر علی صاحب اظہر نے یہ دیا کہ ۔۔۔۔۔ >اگر ۹ کروڑ مسلمان بھی مسجد شہید گنج کے لئے سول نافرمانی کریں تو حکومت کا کام ہو گا۔ کہ وہ ان کی بات کو نہ مانیں۔ اگر ایک مرتبہ انگریزی حکومت اس اصول کی خلاف ورزی کرے تو اسے ہر حصہ ملک میں شدید ہنگامہ آرائیوں اور بغاوت و غدر کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اس لئے حکومت سے اس بارے میں کسی ہمدردی یا امداد کی توقع رکھنا ایک امید موہوم ہے<۔۴۰۶
مولوی مظہر علی صاحب اظہر کے دو اہم خطوط
‏]0 [rtfسکھوں اور ہندوئوں سے احرار لیڈروں کی سازش بعد کو مولوی مظہر علی صاحب اظہر کے مندرجہ ذیل دو خطوط سے بالکل ظاہر ہو گئی جو انہوں نے انہی دنوں چوہدری افضل حق صاحب کے نام گورداسپور سے لکھے تھے اور جن کا چربہ کا مریڈ محمد حسین صاحب امرتسری نے اشتہار کی شکل میں بکثرت شائع کر دیا تھا۔۴۰۷ ان اہم خطوط کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
پہلا خط: گورداسپور ۲۴/ جولائی ۱۹۳۵ء
برادر مکرم چودھری صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔
میں دورہ سے واپسی پر دفتر پہونچا۔ لیکن آپ موجود نہ تھے زبانی طور پر تمام واقعات مولوی محمد شفیع صاحب سے کہہ آیا تھا۔ غالباً انہوں نے تمام نشیب و فراز بیان کر دیئے ہوں گے۔ احتیاطاً دوبارہ عرض کرتا ہوں۔
۱۲/ جولائی کا شاھی مسجد کا اعلان بہت مفید ثابت ہوا ہے پبلک کا رجحان ہماری طرف پلٹ چکا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہر تیسرے چوتھے دن کے بعد ایسا ہی ہنگامہ خیز بیان شائع کر دیا جایا کرے۔ تاکہ مولوی ظفر علی خاں یا اس کی پارٹی سے عامتہ المسلمین کٹ جائیں۔ مکمل قبضہ و اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد یہ ایجی ٹیشن فوراً ختم کی جا سکتی ہے یہ مانا کہ مسجد کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ مگر اس میں حصہ لینے سے اگر کامیابی ہو بھی گئی تو نام ظفر علی خاں کا ہو گا۔ کیونکہ اس تحریک کا قائد وہی تسلیم کیا جا چکا ہے اور ہمارا اور مجلس کا وقار سخت خطرے میں پڑ جائے گا اور اکیلے ظفر علی خاں کی کامیابی بہت مشکل ہے۔
شاہ صاحب کو ہر ممکن طریقے سے یقین دلائیں کہ مسجد ایجی ٹیشن میں شامل ہونے سے جماعت فنا ہو جائے گی۔ انہیں مذہبی رنگ میں ہی قائل کیا جا سکتا ہے۔
مولانا حبیب الرحمن سے معلوم ہوا کہ اعلان پڑھنے کے بعد کچھ نرم ہو رہے ہیں اور انفرادی طور پر متعدد آدمیوں سے ایجی ٹیشن میں شامل ہونے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں۔ خدا کے لئے انہیں سمجھائیے۔ ان کی شمولیت سے ہماری تمام سکیم فیل ہو جائے گی۔
مجلس مشاورت کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکا۔ امید ہے کہ آپ نے حسب منشاء کارروائی کرا لی ہو گی۔ احقر مظہر علی اظہر<۔
دوسرا خط: گورداسپور ۸/ ستمبر ۱۹۳۵ء۔
برادر مکرم چودھری صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔
میں آپ کے اس خیال سے حرف بحرف متفق ہوں کہ پیر صاحب کی مخالفت نہ کی جائے کیونکہ اس وقت قوم ان کے ساتھ ہے۔ نیز یہ مسلمہ بات ہے کہ وہ سول نافرمانی نہیں کریں گے اس لئے ان کی حمایت کرنے میں ہی ہماری بہتری ہے۔
۱۵/ ستمبر کو پیر صاحب لاہور آرہے ہیں اپنے ورکرز کو ہدایت کر دیں کہ یہ جلسہ کامیابی سے ہونے دیں۔ نیز >مجاہد< میں نہایت تدبر کے ساتھ مخالفت بھی جاری رکھی جائے۔ اور اس جماعت میں اپنے آدمی بھی شامل کر دیئے جائیں۔ تاکہ ان کی ہر سرگرمی سے بھی اطلاع ہوتی رہے اور وقت آنے پر یہ عمارت فوراً گرائی جا سکے۔ مگر کوئی کچا آدمی ان کے نزدیک تک بھی نہ جانے دیا جائے۔ شاہ صاحب سے کہہ دیں کہ اپنی توجہات خاکساریت کی طرف زیادہ منعطف کریں۔ اس دشمن کا سد باب نہایت ضروری ہے۔
مسئلہ حجاز کے متعلق میرا مشورہ صرف اتنا ہے کہ سلطان کی براہ راست ہرگز مخالفت نہ کی جائے کیونکہ اس طرح یہ تحریک ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
یہ مانا کہ >اس کی< انگیخت میں اس کا بھی کوئی خاص فائدہ ہو گا۔ مگر ہمیں اس سے کیا۔ ہمارا مطلب پورا پورا حل ہو جائے گا۔ پبلک کی توجہ شہید گنج ایجی ٹیشن سے ہٹانے کا اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں ہو سکتا۔ نیز اگر سلطان حجاز پر کماحقہ اثر ہو گیا تو مالی مشکلات بھی حل ہو جائیں گی اور چندے کی مصیبت سے کچھ عرصہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے گی۔
ہاں یاد آیا۔ ۱۶/ ستمبر کا جلسہ اگر لاہور میں ہوتا تو بہتر تھا۔ اگر لاہور کے حالات موافق نہ ہوں تو اچھرہ میں ہی سہی۔ یہ جلسہ بہت مفید رہے گا۔ کیونکہ تمام نمائندگان کی موجودگی میں ہو گا۔ اور کمزور طبیعتیں بھی مضبوط ہو جائیں گی۔ ۱۶/ ستمبر کے اجلاس میں شمولیت کی کوشش کروں گا۔ والسلام۔
احقر مظہر علی اظہر
حکومت اور مجلس احرار
اس موقعہ پر حکوت احراریوں کی حمایت کے لئے کھلم کھلا میدان میں آگئی۔ اور لوگوں کو احرار کے خلاف کچھ کہنے یا لکھنے کی ممانعت کرنے لگی۔ اس حقیقت کے ثبوت میں اخبار سیاست کی مندرجہ ذیل خبر ملاحظہ ہو۔
>امرتسر ۹/ اگست۔ آج صبح ۸ بجے چودھری محمد حسین چیمہ سب انسپکٹر پولیس اے ڈویژن مسٹر عزیز ہندی کو کوتوالی لے گئے۔ جہاں سے مسٹر غلام قادر سٹی کوتوال امرتسر انہیں مسٹر وشن بھگوان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس لے گئے۔ دروان گفتگو میں مسٹر عزیز ہندی کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے تنبیہہ کی کہ مجلس احرار کے جلسہ میں جو آج بعد نماز جمعہ مسجد میاں خیر الدین مرحوم میں منعقد ہو رہا ہے کوئی گڑبڑ پیدا نہ ہو۔ مسٹر عزیز ہندی نے آپ سے فرمایا کہ ان کا مسلمانوں کی کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے اور نہ ہی جلسوں میں گڑبڑ سے ان کا کوئی سروکار ہے۔
ع
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
>سیاست<۔ کیا اب مجلس احرار کی ٹولی معاونت حکومت سے انکار کرنے کی جرات کرے گی؟ اور عامتہ المسلمین کے سامنے احرار کی مخالفت کرنے والے ہر فرد کو >قادیانی< کہہ کر اپنے سیاہ کارانہ افعال پر پردہ ڈالنے میں کوشاں ہو جائے گی؟ حکومت کے مندرجہ بالا حکم نے آج مجلس احرار اور حکومت کے تعلقات کا نقشہ دنیا کے سامنے کھینچ کر رکھ دیا ہے اور آج واگزاری مسجد کے مطالبہ پر دستخط نہ کرنے کا راز طشت ازیام ہو گیا ہے اور بالاخر مسلمان اس راز سے آگاہ ہو گئے ہیں<۔۴۰۸
اسی طرح اخبار >انقلاب< لاہور )۱۱/ اگست ۱۹۳۵ء( نے لکھا۔
>جب مسجد شہید گنج کا ہنگامہ جاری تھا مسلم پرنٹنگ پریس سے جہاں >انقلاب< چھپتا ہے کسی مسلمان نے ایک پوسٹر چھپوایا جس میں احرار اسلام کی عدم شرکت پر چوٹیں کی گئی تھیں اور حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی موجود نہ تھا۔ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہمارے پریس میں یہ پوسٹر ہماری اطلاع یا اجازت کے بغیر منیجر صاحب نے خود ہی چھاپ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہماری حیرت کی کچھ انتہا نہ رہی جب دوچار روز کے بعد مسٹر پرتاپ ڈپٹی کمشنر لاہور کی طرف سے ہمیں ایک عتاب نامہ موصول ہوا۔ جس میں درج تھا تم نے احرار کے خلاف فلاں پوسٹر شائع کیا ہے جو سخت قابل اعتراض ہے۔ خبردار! اگر آئندہ ان حضرات کے خلاف اپنے پریس میں کچھ چھاپا ۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ ہو ایک طرف دولتانہ پارٹی کے ساتھ اتحاد۔ دوسری طرف اکالی پارٹی کے ساتھ اتحاد۔ تیسری طرف ¶وزارتیں ڈپٹی کمشنر صاحب کا اس میں کوئی قصور نہیں<۔
مجلس احرار اور ہندو
یہ سب کارروائی چونکہ کانگریس کے ہندو لیڈروں کے پروگرام کے عین مطابق ہوئی تھی اسی لئے اخبار >ویر بھارت< نے مسجد شہید گنج کے بارے میں مجلس احرار کی روش کو سراہتے اور دوسرے مسلمانوں کی مذمت کرتے ہوئے لکھا۔
>کیا مسلمان لیڈروںں کو اس بات کا احساس ہے یا کم از کم ان لوگوں کو اپنی ذمہ داری کا کچھ احساس ہے جو ابھی تک یہ ہانک لگائے چلے جاتے ہیں کہ احرار نے غداری کی ہے۔ کیا ان لوگوں نے ابھی تک یہ محسوس نہیں کیا کہ احرار کا مشورہ نہ صرف مخلصانہ ہے بلکہ دانشمندانہ بھی ہے اور غداری احرار نے نہیں کی بلکہ ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے اپنے آپ کو خطرہ سے باہر رکھتے ہوئے عوام کو آگ میں دھکیل دیا۔ جنہوں نے عامتہ المسلمین کے جوش کو فرو کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اس جوش میں مزید ابال پیدا کئے اور جن میں سے بعض کی حالت اس وقت یہ ہے کہ وہ نہ خود آگے آتے ہیں نہ کوئی ذمہ داری لیتے ہیں نہ کوئی صحیح مشورہ دیتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی سب سے بڑی خدمت صرف یہی سمجھتے ہیں کہ مشورہ دینے والوں کی مذمت کریں<۔۴۰۹
اس کے علاوہ ڈاکٹر ستیہ پال صاحب نے لاہور میں تقریر کی کہ۔
>میں مجلس احرار کے کام سے بہت خوش ہوں اور انہیں مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے نہایت جرات اور استقلال سے اپنے ہم مذہبوں سے بھی قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر ٹکر لے لی۔ اور یہ سب سے بھاری قربانی ہے جو ہمارے احراری دوستوں نے سرانجام دی ہے اور مجلس احرار یقیناً ملک کے شکریہ کی مستحق ہے<۔۴۱۰
مجلس احرار اور مسلم عوام
‏]txet [tagمسجد شہید گنج کے قضیہ سے احراری حقیقت کے رخ سے نقاب اٹھ گیا حکومت اور ہندو کی پشت پناہی نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور انہوں نے احرار کو اصلی روپ میں دیکھ کر انہیں اس قدر پھٹکارا کہ تاریخ عالم ایسی ذلت اور بے آبروئی کی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہندو کش سے لے کر راس کماری تک اور آسام و بنگال سے لے کر کراچی اور بمبئی تک شاید ہی کوئی قابل ذکر بستی ہوگی جس کے بسنے والے مسلمانوں نے ان کے لئے سخت سے سخت الفاظ استعمال نہ کئے ہوں۔ یا کم ازکم ان سے بیزاری کا اظہار نہ کیا ہو۔
مسلم عوام کے اس ہمہ گیر احتجاجی مظاہرہ کا اندازہ کرنے کے لئے بطور مثال صرف چند خبریں ملاحظہ ہوں جو اس زمانہ کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔
اخبار >سیاست< لاہور )۲۷/ جولائی ۱۹۳۵ء( نے قصور شہر کے احراری جلسہ کی مندرجہ ذیل خبر شائع کی >قصور ۲۵/ جولائی۔ آج جامع مسجد قصور میں چند احراری لونڈوں نے جلسہ کرنے کی کوشش کی۔ مسلمان مسجد میں کافی تعداد میں جمع ہو گئے۔ لیکن جب مجلس احرار کے نمائندے اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لئے تقریر کرنے کو اٹھے تو عوام نے انہیں بے نقطہ گالیاں دینا شروع کر دیں کسی فرد واحد نے احراریوں کی تقاریر کا ایک لفظ تک نہ سنا اور سب نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ ہم چندہ خور دھوکے باز اور افتراق پیدا کرنے والے احراریوں کی زبان سے ایک لفظ تک سننا گوارا نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد نمائندگان احرار کو دھکے دے کر مسجد سے نکال دیا گیا۔ قصور میں احرار کے خلاف سخت غیظ و غضب کی فضا پھیلی ہوئی ہے۔ مسلمان بازاروں میں گروہ در گروہ کھڑے احرار کو گالیاں دے رہے ہیں۔ اس وقت یہاں مجلس احرار کے خلاف سخت ہیجان ہے<۔
۲۔
روزنامہ >حقیقت < لکھنئو۴۱۱]ind [tag نے ۲۴/ جولائی ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں لکھا۔
>عوام کی ذہنیتیں بھی عجیب طرفہ تماشہ ہوتی ہیں ابھی چند ہی روز ہوئے جب لاہور میں مجلس احرار کا طوطی بول رہا تھا۔ اور عطاء اللہ شاہ بخاری زندہ باد کے نعرے لگائے جارہے تھے یا آج یہ کایا پلٹ ہو گئی ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر انہی لوگوں کی زبان سے >مجلس احرار برباد< اور >عطاء اللہ شاہ بخاری مردہ باد< کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں۔ عام مسلمانوں کے طبائع میں یہ انقلاب محض اس وجہ سے ہو گیا کہ مجلس احرار نے مسجد شہید گنج کے معاملہ میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کے عام جلسے کرکے اس میں مجلس احرار کی مذمت کے ریزولیوشنز پاس کئے جارہے ہیں<۔
۳۔
اسی طرح روزنامہ >حق< لکھنئو نے لکھا۔
>پنجاب میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک آگ لگ گئی۔ وہ مسلمان جو ان کے چشم و ابرو کے اشارے پر اپنی عزیز ترین متاعہائے حیات کو قربان کرنے میں کبھی بخل نہیں کرتے تھے علی الاعلان ان کے خلاف صف بستہ ہو گئے وہی مسجد خیر الدین کو جس کے منبر پر مولانا کو خاص عزت و احترام کے ساتھ جگہ دی جاتی تھی اور جہاں ان کی تقریروں کو سننے کے لئے ہزارہا مسلمان رات و دن کے اوقات میں مجتمع ہو جایا کرتے تھے انہیں مسلمانوں نے ان کی وہ عزت و توقیر کی کہ جو بیان سے باہر ہے ان کی جماعت کے ایک مقرر کو ٹانگ پکڑ کر منبر سے کھینچ لیا گیا۔ وہیں شامیانے کی چوبیں نکال کر اسے ان لوگوں کے سروں پر ڈھا دیا گیا۔ ان کے دفتر پر پرجوش مسلمانوں نے یورش کی۔ ان کا جھنڈا پھاڑ ڈالا اور ان کے لئے >مردہ باد< کے نعرے لگائے گئے<۔۴۱۲
۴۔
اخبار >نوجوان افغان< )ہری پورہ ہزارہ( نے >احرار کی ناگفتہ بہ حالت< کے عنوان سے ۱۷/ اگست ۱۹۳۵ء کو یہ شذرہ لکھا۔
>مسجد شہید گنج کے قضیہ نامرضیہ نے جہاں دیگر بہت سے راز ہائے سربستہ کو طشت ازبام کر دیا ہے وہاں احراریوں کی منظم اور مقتدر جماعت کے اقتدار پر بھی کاری ضرب لگائی ہے وہ جماعت جو شب و روز مسلمانوں کی تنظیم و تبلیغ کے غم میں گھلی جاتی تھی اور قادیانیوں کی تکفیر اور سرکار پرستی کے نشر و اشاعت میں دن رات ایک کر دیا ہوا تھا آج ایسی قعر مذلت میں گر رہی ہے کہ اس کے نام سے کسی کو منسوب کرنا ذلت اور تحقیر کے مترادف ہے۔ وہ راہ نما جن کا ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں احترام کیا جاتا تھا۔ جلسوں اور جلوسوں کی شرکت کے لئے بڑے اہتمام کئے جاتے تھے آج مارے مارے پھرتے ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ جگہ بجگہ پھبتیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اور آوازے کسے جاتے ہیں بلکہ مجالس میں ان سے بعض ناشدنی حرکات کو بھی جائز تصور کیا جاتا ہے۔ احرار کے اقتدار کا زمانہ گزر گیا اور جماعت >خلافت< کی طرح ان کی زندگی کی گھڑیاں بھی ختم ہو گئیں۔ کونسلوں کی رکنیت اور وزارتوں کے خواب دیکھنے والے مسلمانوں کی نظروں میں اس قدر گر چکے ہیں کہ امیدواری کا نام تک لینا ان کے لئے مشکل ہو گیا ہے اگرچہ ہندو اور سکھ پریس کی امداد انہیں حاصل ہو چکی ہے اور ان کے ہر فعل کو نہایت مستحسن قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن ہر ایک شخص جانتا ہے کہ ہندو پریس کی نمائندگی کیا معنے رکھتی ہے اور نہ ہی ہندو پریس کا پراپیگنڈا احراری لیڈروں کے کھوئے ہوئے اقتدار کو قائم کر سکتا ہے۔ بلکہ برعکس اس کے ان کی حمایت احراریوں کے رہے سہے اقتدار کو بھی خاک میں ملا رہی ہے<۔
مجلس احرار اور مولوی ظفر علی خان صاحب
انہی مولوی ظفر علی خان صاحب نے جو احرار کے بانیوں میں تھے احرار کی کارستانیوں سے تنگ آکر ان کے خلاف باقاعدہ مورچہ قائم کر لیا اور احرار کے خلاف ہر وہ حربہ استعمال کرنے لگے جو احراری جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کرتے آرہے تھے۔
چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب >تاریخ احرار< میں لکھتے ہیں۔ >مولانا ظفر علی خاں اور ان کے رفقاء نے ہمارے خلاف غنڈہ گردی کی انتہاء کر دی چلنا پھرنا مشکل ہو گیا ہم پر تیزاب ڈالے گئے<۔۴۱۳
نیز لکھتے ہیں کہ۔ >احرار کہ جو مولانا ظفر علی خاں اور ان کے ساتھیوں سے اذیت پہنچی وہ ہر شخص کو معلوم ہے مولانا ظفر علی خاں اور اتحاد ملتی رفقا کے ہاتھوں جو صدمے پہنچے اس سے کوئی بے خبر نہیں۔ مسجد وزیر خاں میں سید عطاء اللہ شاہ کے قتل کی تدبیر ہوئی۔ صاحبزادہ فیض الحسن خاں` محمود علی خاں اور مجھ پر تیزاب ڈلوایا گیا۔ مولانا مظہر علی کے کپڑے پھاڑ ڈالے گئے۔ مولانا ظفر علی خاں کے اخبار نے حملہ آور لفنگوں کو غازی کا خطاب دیا۔ اور ہر موقعے پر غیر شریفانہ فعل کو سراہا۔ ایک مولانا ظفر علی خاں اور ان کے رفقاء پر کیا موقوف ہے ہندوستان کی سب سے بڑی شخصیتیں ہماری بے عزتی کے درپے تھیں<۔۴۱۴]ybod [tag
اسی طرح شورش صاحب کاشمیری کا بیان ہے کہ
>اس تاخت و تاراج میں مولانا کے قلم نے سب سے زیادہ مجلس احرار اور اس کے راہنمائوں کو زچ کیا۔ شہید گنج کے انہدام سے لے کر پاکستان کے قیام تک ایسی جلی کٹی سنائیں کہ پناہ بخدا۔ مولانا کی شاعری میں اس جاں گداز المیہ کی کوئی توجہیہ نہیں کی جس جماعت کے وہ کبھی راہنما تھے اس کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کیا۔ یا کرنا چاہا۔ مولانا نے جماعت احرار کو اس بے دردی سے کچلا کہ رفتہ رفتہ اسے کئی حادثوں کا شکار ہونا پڑا۔ منصور~رح~ شبلی~رح~ کے ایک پھول سے چلا اٹھا تھا مولانا نے احرار پر جو پتھرائو کیا وہ ایک تاریخی سانحہ ہے<۔۴۱۵
احرار کی نیو رکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ~}~
اگر اک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوئے
تو وہ اس عہد میں پنجاب کے احرار ہوئے
اور جب ڈھانا شروع کیا تو غیظ کا یہ عالم تھا۔
ہندوئوں سے ہے نہ سکھوں سے نہ سرکار سے ہے
گلہ رسوائی اسلام کا احرار سے ہے۔۴۱۶`۴۱۷
حضرت امامؓ جماعت احمدیہ کو مولوی ظفر علی خان صاحب کا خراج تحسین
مولوی ظفر علی خان صاحب نے صرف مجلس احرار کی تذلیل و تحقیر ہی نہیں کی بلکہ ان کی خلاف احمدیت سرگرمیوں پر بھی زبردست
تنقید کی اور جماعت احمدیہ کی تبلغی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا۔ چنانچہ احراری لیڈر مولوی مظہر علی صاحب اظہر اپنی کتاب >ایک خوفناک سازش< میں لکھتے ہیں۔
>مولوی )ظفر علی خاں( نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔ احمدیوں کی مخالفت کی آڑ میں احرار نے خوب ہاتھ رنگے۔ احمدیوں کی مخالفت کا احرار نے محض جلب زر کے لئے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ قادیانیت کی آڑ میں غریب مسلمانوں کی گاڑھے پسینہ کی کمائی ہڑپ کر رہے ہیں۔ کوئی ان احرار سے پوچھے۔ بھلے مانسو! تم نے مسلمانوں کا کیا سنوارا۔ کون سی اسلامی خدمت تم نے سرانجام دی ہے۔ کیا بھولے سے بھی تم نے تبلیغ اسلام کی۔ احراریو! کان کھول کر سن لو۔ تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے۔ مرزا محمود کے پاس قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا خاک دھرا ہے۔ تم میں ہے کوئی جو قرآن کے سادہ حرف بھی پڑھ سکے؟ تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا۔ تم خود کچھ نہیں جانتے تم لوگوں کو کیا بتائو گے مرزا محمود کی مخالفت تمہارے فرشتے بھی نہیں کر سکتے۔ مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے ایک اشارہ پر اس کے پائوں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے تمہارے پاس کیا ہے گالیاں اور بدزبانی۔ تف ہے تمہاری غداری پر۔ لاہور میں مسجد شہید ہوئی تم ٹس سے مس نہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوائے چند تنخواہ دار اور بھاڑے کے ٹٹوئوں کے تم کسی کو جیل خانہ نہیں بھجوا سکے۔ مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں مختلف علوم کے ماہر ہیں دنیا کے ہر ایک ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں حق بات کہنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ یہ میں ضرور کہوں گا کہ اگر تم نے مرزا محمود کی مخالفت کرنی ہے تو پہلے قرآن سیکھو۔ مبلغ تیار کرو عربی مدرسہ جاری کرو۔ قادیان میں دو چار مفسدہ پرداز بھیجنے سے کام نہیں چلتا یہ تو چندہ بٹورنے کے ڈھنگ ہیں۔ اگر مخالفت کرنی ہے تو پہلے مبلغ تیار کرو۔ غیر ممالک میں ان کے مقابلہ میں تبلیغ اسلام کرو ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا شرافت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزائیوں کو گالیاں دلوا دیں۔ کیا یہ تبلیغ اسلام ہے؟ یہ تو اسلام کی مٹی خراب کرنا ہے<۔۴۱۸
‏0] f[stمجلس احرار اور مسلم پریس
مسلم پریس نے آج تک کسی تحریک کے خلاف اتنی قوت و شدت اور جوش و خروش سے احتجاج نہیں کیا تھا جتنا احرار تحریک کے لئے کیا۔ اس زمانہ کے اخبارات احرار کے خلاف مضامین سے بھرے پڑے ہیں جن کا مجموعہ ایک ضخیم کتاب کا مقتضی ہے۔ مگر اس جگہ کثیر التعداد اخباروں میں سے ہم بطور نمونہ بعض کے صرف چند مختصر اقتباسات درج کرنے پر اکتفا کریں گے۔
اخبار >منادی< دہلی
۱۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے اخبار >منادی< )۲۶/ جولائی ۱۹۳۵ء( میں >احرار پر خدا کی مار< کے زیر عنوان لکھا۔
>میں نے اپنے روزنامچہ میں لکھا تھا کہ یہ مولوی خود سرکاری ہیں اور سرکار سے خفیہ تنخواہیں ان کو ملتی ہیں۔ آج خدا نے میرا بیان سچ کر دکھایا اور احرار اور ان کے مولویوں نے علانیہ سرکار کی حمایت اور مسلمانوں کے خلاف اپنے چہروں کی نقاب الٹ دی اور کھلم کھلا سرکار کی حمایت میں فتویٰ دے دیا۔ یہ خدا کی گرفت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ احرار کمیٹی کے بڑے بڑے اراکین جن کی حریت کی ملک میں دھوم تھی۔ آج لاہور کے مسلمانوں اور مسجد کے معاملہ میں دم بخود بیٹھے ہیں<۔]10 [p۴۱۹
اخبار >سیاست< لاہور
۲۔ اخبار >سیاست< )۶/ اگست ۱۹۳۵ء( نے لکھا۔
>مسجد شہید گنج کے معاملہ میں برادران احرار نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے اس کے بعد اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ جماعت احرار کا منشا صرف یہ ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں عام مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرکے کونسل کے اندر زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لاہور کے واقعہ نے بہت جلد مسلمانوں کو ہوشیار کر دیا۔ اب انہیں معلوم ہوتا جاتا ہے کہ >فتنہ قادیان< بھی الیکشن جیتنے ہی کی ایک چال تھی تاکہ اس ترکیب سے عام مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کی جائے اور جس امیدوار کی مخالفت کرنا ہو اس کے خلاف قادیانی ہونے کا الزام لگا دیا جائے۔ مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار سے زیادہ انہماک` خلوص اور جوش کے ساتھ کسی شخص نے بھی گزشتہ دس سال کے اندر تحریک قادیان کی مخالفت نہیں کی لیکن لاہور کے احراریوں نے مولانا کے متعلق بھی یہ مشہور کر دیا ہے کہ وہ بھی قادیان سے ساز باز رکھتے ہیں<۔۴۲۰
اسی اخبار نے ۱۳/ اگست ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں >احرار ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی غدار جماعت ہے< کے عنوان سے لکھا۔
>ٹھگوں کا یہ منظم گروہ جسے عرف عام میں >مجلس احرار< کہتے ہیں۔ سالہا سال سے غریب و خوش عقیدہ مسلمانوں کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہا تھا اور اپنی جادو بیانی میں شیوہ طرازی سے یہ لوگ فضا پر کچھ اس طرح مسلط ہو گئے تھے کہ عوام میں حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی ماند پڑگئی تھی۔ وقت سب سے بڑا منصف ہے اور وقت کا فیصلہ ہمیشہ غیر جانبدارانہ اور رعایت کی آلودگیوں سے پاک و صاف ہوتا ہے۔ چنانچہ وقت کی قہر مانی طاقتوں نے مسجد شہید گنج کی مسماری کی شکل میں مجلس احرار کے لئے دور حاضرہ کی سب سے شدید اور حقیقتاً سب سے زیادہ ایمان پرور آزمائش کھڑی کر دی اور آپ جانتے ہیں اس آزمائش کا نتیجہ کیا ہوا؟ عطاء اللہ شاہ بخاری کی طلاقت لسانی سکوت مطلق کی نیند سو گئی۔ مظہر علی اظہر کی مجاہد کیشی رو باہ بازی میں تبدیل ہو گئی۔ افضل حق کی >چودھریت< کسی گوشہ عافیت میں جا چھپی اور حبیب الرحمن کی بلند آہنگی خموشی مرگ سے ہمنوا ہو گئی۔ ان >سربکف مجاہدین< اور >خادمان دین متین< کی جگہ لاہور کی سرزمین ان نوجوانوں کے خون سے لالہ زار بن گئی جو گوشہ گمنامی میں پیدا ہوئے اور گوشہ گمنامی میں ہی زندگی بسر کرکے فلاح دارین کا مرتبہ حاصل کر گئے۔ ~}~
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
احرار اپنی برات میں آج اشتہارات و اعلانات شائع کر رہے ہیں لیکن ان کے ایک ایک لفظ سے نفس پروری و منافقت کی بو آرہی ہے۔ ان کے اعلان میں عورتوں کی طعن و تشنیع موجود ہے۔ لکھنئو کی بھٹیاریوں کی جنگ کا نقشہ باندھا گیا لیکن ان کا انداز تحریر جگہ جگہ ان کے جذبات کی غمازی کر رہا ہے۔ زخمی سانپ کی طرح غصہ و انتقام کے جذبات سے بے قرار ہو ہو کر اور پھن کو اٹھا اٹھا کر اب ہمارے گم کردہ راہ رہنمائوں کی یہ جماعت ہم پر حملہ کرنے کی تیار کر رہی ہے لیکن جس طرح زخمی سانپ کا سر کچل دینا ہی دانشمندی ہے اسی طرح ان گندم نما جو فروشوں کی قیادت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دینا صحیح قومی و ملی خدمت ہے۔ یہ لوگ اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے اور اپنی لیڈری کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنے کے لئے بے چین ہیں لیکن ہندوستان کے آٹھ کروڑ مسلمان اپنا فیصلہ صادر کر چکے ہیں اور قدرت کا نقیب باواز بلند منشائے ایزدی کو ظاہر کر چکا ہے کہ بدترین محسن کش احسان ناشناس احرار مٹ گئے اور حقیقتاً انہیں مٹ جانا چاہئے تھا۔
تم ۱۷/ جولائی ۱۹۳۵ء تک مسجد شہید گنج کو منہدم ہوتا دیکھتے رہے۔ مسلمانوں کے ناقابل بیان رنج و اندوہ کو محسوس کرتے رہے اور >غیر ذمہ دار لوگوں کی شرارتوں< کا باطمینان تمام تماشہ دیکھتے رہے۔ لیکن تم نے جو عوام کے معتمد علیہ تھے اس مصیبت کے وقت عوام کی کہاں تک رہنمائی و دلجوئی کی؟ عوام تم پر اعتماد کرنے کے عادی ہو چکے تھے اور لا محالہ اس تکلیف میں بھی انہیں منہ اٹھا کر تمہاری طرف دیکھنا چاہئے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لئے زیبا تھا کہ تم صوفوں پر لیٹے بجلی کے پنکھوں کی ہوا میں آرام سے ۲۷/ جولائی کی کانفرنس کے خواب دیکھنے میں مصروف رہتے؟ وہ وقت یقیناً ایسا تھا کہ سنگدل سے سنگدل مسلمان کو بھی میدان میں آکر بے گناہ جانوں کے تحفظ کی بے دریغ کوشش میں منہمک ہو جانا چاہئے تھا۔ تمہیں ظفر علی سے اختلاف تھا۔ تمہیں سید حبیب سے اختلاف ہو گا لیکن ان معصوم نوجوانوں سے کیا اختلاف تھا- جنہوں نے جوش تہور میں گریبان پھاڑ پھاڑ کر فوج کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائیں۔ یاد رکھو تمہاری تمام ریاضتیں اور عبادتیں تمہارے تمام اشتہارات و اعلانات اور تمہاری تمام دردمندانہ تقریریں اور اپیلیں خون شہید کے ایک قطرے کے سامنے ہیچ ہیں۔ ۲۰ اور ۲۱/ جولائی کو دہلی دروازہ کے باہر جو خون بہایا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو اور اس خون کے ایک ایک قطرے کا حساب تمہیں دینا ہو گا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کی آتش بیانی اور حبیب الرحمن کی خطابت بے کار ہے تم >مجاہد< جاری کرو یا لاہور کی دیواروں کو اپنے نامہ اعمال کی طرح اشتہارات سے سیاہ کر دو تمہارے دامن سے خون بے گناہ کے دھبے نہیں مٹ سکتے اور آئندہ نسلیں تمہیں انہی لفظوں میں یاد کریں گی جن لفظوں میں ہم آج میر جعفر )غدار بنگال( محمد صادق )غدار سرنگا پٹم( اور ابراھیم گاروی )غدار پانی پت( کو یاد کرتے ہیں۔ کونسل کی ممبری کے جن دلکش خوابوں نے تمہیں مسحور کر رکھا ہے ان کی تعبیر بھی یہی رو سیاہی و خجالت ہے جو آج تمہارے حصہ میں آگئی ہے۔ مسلمان ہزار سادہ لوح سہی لیکن تمہارا جادو اب ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا۔ تمہارے باطن کی سیاہی الم نشرح ہو چکی اور اب تمہاری عافت اسی میں ہے کہ خود بخود قیادت کے منصب بلند سے علیحدہ ہو کر کوئی اور ذریعہ معاش تلاش کرو ورنہ قدرت کا ہاتھ جب انتقام کے لئے بلند ہوا تو یاد رکھو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائو گے<۔۴۲۱
اخبار >الامان< دہلی
۳۔ اخبار >الامان< دہلی نے اپنے ۲۸/ جولائی ۱۹۳۵ء کے پرچہ میں لکھا۔
>لاہور میں روز ایک قیامت برپا ہوتی رہی اور شب و روز مسلمان بے چین و بے قرار رہے لیکن ان لوگوں نے مشورہ عالی سے عوام کو مطلع نہ کیا جبکہ گولیاں چل چکیں۔ لاٹھی چارج اچھی طرح ہو گیا۔ بہت سے مسلمان زخمی اور شہید بھی ہو گئے۔ صدہا گرفتار بھی ہو چکے اور سزائیں بھی پاچکے تو احراری سورما میدان میں آئے اور ایک بیان شائع کیا جس کا مقصد ظاہر تو یہ ہے کہ سول نافرمانی نہ کی جائے لیکن بہ باطن اول سے آخر تک سکھوں کی حمایت و تائید ہے ۔۔۔۔۔ اس بیان پر مولوی حبیب الرحمن` سید عطاء اللہ شاہ بخاری` مولوی دائود غزنوی` مولوی مظہر علی اظہر` چودھری افضل حق` شیخ حسام الدین اور ماسٹر محمد شفیع کے دستخط ہیں۔ یہ عرصہ سے مشہور ہو رہا تھا کہ احرار کی پشت پر بعض ایسے حکومت پرست سرکاری مسلمانوں کا ہاتھ ہے جو اپنی وزارت و اغراض کی خاطر ہندوئوں اور سکھوں سے سازباز کر رہے ہیں اور مسلم اکثریت کے مفاد کو ہندو سکھوں کے قدموں میں اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قربان کرنا چاہتے
‏tav.7.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
چاہتے ہیں۔ احرار کے بیان نے اس کی تصدیق پر مہر کر دی۔ یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ علی الاعلان مسجد شہید گنج کو قربان کر سکتے ہیں وہ آئندہ بھی ہر مسلم مفاد بلکہ مذہب کو بھی اغیار پر قربان کر سکتے ہیں<۔
رسالہ >اسلامی دنیا< )دہلی(
۴۔ دہلی کے رسالہ >اسلامی دنیا< )بابت ماہ جولائی ۱۹۳۵ء( نے لکھا۔
>مجلس احرار نے تو مسجد شہید گنج کے معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ غداری کی انتہا کر دی۔ عین اس وقت جب مسلمانوں کی قربانیوں کے نتائج برآمد ہونے والے تھے۔ مجلس احرار نے اپنے طرز عمل سے مسلمانوں میں افتراق پیدا کر دیا اور افتراق پیدا کر دینے کے بعد ان سکھوں کے بازو مضبوط کر دیئے جنہوں نے مسجد شہید گنج کو مسمار کرکے ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کر دیا۔ مجلس احرار جیسی افتراق انگیز انجمنوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے ہی غداروں کے ہاتھوں مسلمان ذلیل ہوئے ہیں۔ مجلس احرار کی اس غدارانہ روش کے بعد مسلمانوں کو معلوم ہو گیا کہ عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس احرار ان کوفیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جنہوں نے آل رسولﷺ~ کو اور عاشقان اسلام کو بلا کر یزید کے ہاتھوں شہید کرا دیا تھا۔ مجلس احرار کی حکومت پرستی اور سکھ دوستی کو دیکھتے ہوئے ہم ہندوستان کے نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ خدا کے لئے وہ انہیں اور ان لیڈروں کی لیڈری کا پردہ چاک کر دیں اور ان کو پلیٹ فارم سے نیچے گرا دیں۔ جو اسلام کو سربازار نیلام کر رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک غدار لیڈروں اور افتراق انگیز راہنمائوں کے اقتدار کو ختم کر دینا سب سے بڑی اسلام دوستی اور قوم پرستی ہے۔
مجلس احرار کے نزدیک نعوذ باللہ خانہ خدا اور قمار خانہ میں کوئی فرق نہیں۔ ان غداروں کے نقطہ خیال سے اگر خانہ کعبہ پر بھی مسجد شہید گنج کی طرح کسی کا غاصبانہ قبضہ ہو جائے اور وہ اسے ڈھا دے تو مسلمانوں کو خاموش رہنا چاہئے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے لئے تو ایسے نازک وقت میں خاموش رہنا ناممکن ہے۔ البتہ مجلس احرار جو کہ سکھوں اور حکومت کے ہاتھوں بکی ہوئی ہے۔ ضرور خاموش رہ سکتی ہے۔ عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کی مجلس احرار کے نزدیک مسجد کی شہادت بے معنی ہے لیکن ان لوگوں کے گھروں کو سکھوں نے کھود کر پھینک دیا ہوتا تو دنیا دیکھ لیتی کہ ان کی رواداری کس قدر طوفان برپا کرتی۔
مجلس احرار کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک مجلس احرار نہیں۔ اگر دس مجلس احرار بھی سکھوں کی پشت پناہی کے لئے کھڑی ہو جائیں گی تو مسلمان خاموش ہونے والے نہیں۔ مسلمان مسجد شہید گنج کو واپس لیں گے اور ضرور لیں گے اور انشاء اللہ آئینی جدوجہد میں رہتے ہوئے اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک مسجد مسلمانوں کو واپس نہیں کر دی جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ عطاء اللہ شاہ بخاری اس چیز کو سمجھ لیں کہ مسجد کبھی نہیں مٹائی جا سکتی۔ البتہ مجلس احرار ضرور مٹ سکتی ہے۔ مجلس احرار کے اس رویہ کو احراریوں کی موت سمجھنا چاہئے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ مجلس احرار کی اس سکھ دوستی نے مجلس احرار کو قطعی مردہ کر دیا ہے اور مسلمانوں نے سمجھ لیا ہے کہ مجلس احرار اور مہاسبھا دونوں میں کوئی فرق نہیں<۔
اخبار >مسلم گزٹ< کلکتہ
۵۔ مولانا وحید الدین صاحب سلیم نے اپنے اخبار >مسلم گزٹ< کلکتہ )۴/ اگست ۱۹۳۵ء میں( مقالہ افتتاحیہ لکھا کہ۔
>شہید گنج کی مسجد کی شورش تقریباً فرو ہو چکی ہے اور مسلمان احراریوں کے ہاتھوں کلیجہ پر صبر کی سل رکھ کر خاموش ہو بیٹھے ہیں۔ شہید گنج کی تحریک کو ایک طرف تو حکومت کے پریس افسروں اور سنسروں نے دبا دیا ہے اور دوسری طرف مجلس احرار کی قانونی موشگافیوں نے اس کا گلہ گھونٹ ڈالا ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ یہ مسئلہ اخبارات میں اچھالا جائے۔ آئے دن حکومت کے تنبیہی احکام اور امتناعی مراسلات پہنچا کرتے ہیں۔ اور اخبار والوں کی کم و بیش گو شمالی کر دی جاتی ہے اور اس کے باوجود پبلک جذبات اور امن عامہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم مجبور ہیں کہ صحیح حالات سے پبلک اور حکومت دونوں کو باخبر رکھیں اور اپنی صحیح رائے عالم آشکارا کر دیں۔
احراریوں کی گزشتہ خدمات ہمارے پیش نظر ہیں اور ہم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ گزشتہ خدمات کی بنا پر احراریوں کے موجودہ جمود و سکوت کو بھی مسلمان سراہنے لگیں اور ان کے ہر غلط اور لغو سے لغو اقدام پر آنکھ بند کئے چلنا شروع کر دیں<۔۴۲۲
اخبار >زمیندار< لاہور
۶۔ اخبار >زمیندار< )۷/ اگست ۱۹۳۵ء( نے >مجلس احرار کی مفسدہ پردازی< کے عنوان سے لکھا۔
>مسجد شہید گنج کی شہادت سے مسلمانوں کے قلوب داغدار ہو گئے اور ان میں کرب و اضطراب کی زبردست لہر پیدا ہو گئی۔ لیکن زعماء مجلس احرار اس سانحہ عظیم سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئے اور بدستور اپنے حجروں میں بیٹھے مراقبہ فرماتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ زعماء مجلس احرار کا فرض تھا کہ وہ اس وقت میدان میں آتے۔ مسلمانوں کی صحیح راہنمائی کرتے اور ان کے سامنے مناسب پروگرام پیش کرتے لیکن انہوں نے اس وقت بھی مسلمانوں کی کوئی راہنمائی نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا جوش و خروش ہی ان کا قائد بن گیا اور انہوں نے جلوس نکالے۔ پرامن ستیہ گرہ کیا اور اپنے سروں پر لاٹھیاں اور سینوں پر گولیاں کھائیں۔ زعماء مجلس احرار ان خونی مناظر کو دفتر احرار میں بیٹھ کر جو دہلی دروازے کے قریب ہی واقع ہے اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے لیکن ذرا ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ان کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں ٹپکا۔ ان کے سنگین دلوں پر کوئی چوٹ نہیں لگی۔ ان کے سینوں سے کوئی آہ سرد نہیں نکلی۔ بلکہ وہ اپنے دفتر میں یہ کہتے ہوئے سنے گئے دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ مسلمان دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ ~}~
میرا مرنا ان کے گھر شادی ہوا
خون کے چھاپے لگے دیوار پر
کثیر التعداد مسلمان زخمی اور شہید ہو گئے اور بیسیوں عورتیں بیوہ اور سینکڑوں بچے یتیم ہو گئے۔ مسلمانوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہر مومن قانت کا دل خون اور جگر پاش پاش ہو گیا۔ لیکن زعماء مجلس احرار کے پاس ان شہداء کی نذر کے لئے سوائے ایک خندہ دندان نما اور طعنہ جگر پاش کے کچھ بھی نہ نکلا۔
مسلمانان لاہور میں مجلس احرار کی اس صبر آزما اسلام کش اور انسانیت سوز روش کے خلاف ایک ہیجان عظیم پیدا ہو گیا اور اس پر ہر طرف سے گالیوں اور تبروں کی بارش ہونے لگی<۔
اخبار >اہلحدیث< امرتسر
۷۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار >اہلحدیث< میں لکھا۔
>احرار مسجد شہید گنج لاہور کی وجہ سے آج کل خاص و عام کے مورد عتاب ہیں۔ پبلک ان پر آوازے کستی ہے۔ ان کی تقریروں میں رخنہ اندازی ہوتی ہے۔ منہ سے ناملائم الفاظ کہتی ہے بلکہ ہاتھوں سے بھی ناشائستہ افعال کرتی ہے<۔۴۳۲
اخبار >سرپنچ< لکھنئو
۸۔ اخبار >سرپنچ< لکھنئو نے ۳۱/ اگست ۱۹۳۵ء کے پرچہ میں حسب ذیل اداریہ لکھا۔
>پنجاب کے امیر شریعت اور جماعت احرار کے ناخدا حضرت مولانا مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا اثر و اقتدار لاہور کی مسجد شہید گنج کے ساتھ کچھ ایسا شہید ہوا ہے کہ۔ ع
پھرتے ہیں میر خوار کچھ پوچھتا نہیں
پنجاب میں تو معاصرین >زمیندار<۔ >سیاست<۔ >احسان< اور >انقلاب< نے ان بزرگ و محترم کو کچھ اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ وہاں آپ کی دال گل ہی نہیں سکتی اور سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کا مشن کیا ہے۔ لیکن پنجاب کے باہر بھی آپ جس صورت سے عذر گناہ فرماتے پھرتے ہیں وہ بدتر از گناہ ہو جاتا ہے۔ مسجد کی شہادت کے وقت آپ کی اور آپ کی جماعت احرار کی مجرمانہ خاموشی ایسی چیز نہیں ہے جس کو آپ محض لفاظی میں اڑا کر یا مسلمانوں کو لسانی چھکائیاں دے کر ان کے ذہن سے نکال دیں وہ من حیث القوم اسی وقت آپ کی طرف سے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ جب آپ ایک ایسے نازک موقع پر ایسے اسلامی خودداری اور ناموس اسلام کے موقع پر اپنے خاموش رہنے اور اپنے کو خطرہ سے بچا کر گھر میں بیٹھ رہنے کے متعلق یا تو کوئی معقول جواز پیش کریں یا بااعلان کہہ دیں جلسہ عام میں اقبالی مجرم بن کر کہہ دیں کہ ہم میں ہمت مردانہ کا فقدان تھا۔ ہماری غیرت دینی جوش میں نہ آئی۔ ہم نے خانہ خدا کا انہدام اپنی رو پہلی سنہری مصلحتوں کے ماتحت جائز سمجھا تھا۔ ہم انتخابی مہم میں سکھوں کو اپنا مخالف بنانا نہیں چاہتے تھے۔ لہذا ہم نے خاموشی سے کام لیا۔
زمیندار اور احسان نے` سیاست اور انقلاب نے` حق اور حقیقت نے ان حضرات کے متعلق جو کچھ لکھا ہے بالکل صحیح لکھا ہے۔ یقیناً مسلمانوں کو جماعت احرار سے بہت کچھ توقعات تھیں اور جب مسلمان بے کسی و بے بسی کے ساتھ ایک طرف اپنی جان سے زیادہ عزیز مسجد کو منہدم ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف سینہ پر گولیاں کھا رہے تھے۔ اس وقت انہوں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر احراریوں کو ہر طرف دیکھا کہ یہ جانباز جماعت کہاں ہے مگر یہ جماعت گوشہ امن میں اپنے سالار یعنی امیر شریعت کے ساتھ پناہ گزین تھی۔ اس کی بلا پولیس کے ڈنڈے کھاتی۔ اپنے کو گولیوں کا نشانہ بناتی۔ اپنے کو گرفتاریوں کے لئے پیش کرتی اور اپنے کو قانونی زد میں لاکر مصائب کا شکار بنتی۔ اس جماعت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور آج پھر اپنے تقدس کا سکہ جمانے کے لئے ریش مقدس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے امیر شریعت آگے بڑھے ہیں اور ان مسلم اخبارات کے خلاف زہر اگلتے پھرتے ہیں مگر اب ان کی ان زہر چکانیوں کو سب سمجھ چکے ہیں اور ان کے قول و فعل میں ہر مسلمان کو ایک کھلا ہوا بعد محسوس ہو چکا ہے۔ اب امیر شریعت صاحب کے الفاظ میں کوئی وزن ان کی آواز میں کوئی اثر اور خود ان میں قطعاً کوئی جاذبیت باقی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ رد قادیانیت سے مولانا بخاری کو کبھی کسی نے نہیں روکا ہے- بلکہ جب تک وہ سنجیدگی بلکہ آدمیت کے ساتھ رد قادیانیت کی طرف متوجہ رہے ہر ایک کی آنکھوں کا تارہ بنے رہے مگر اب وہ چاہتے ہیں ہ اپنی تمام کمزوریوں کو اس پردہ میں چھپائیں چنانچہ آج کل بھی مولانا یہی کر رہے ہیں کہ آپ کے خلاف کسی نے ذرا بھی سر اٹھایا۔ آپ چیخنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ قادیانی ہے۔ کافر ہے اکفر ہے۔ جس وقت آپ مسجد شہید گنج کی شہادت کے سلسلہ میں اپنی مجرمانہ خاموشی پر غور فرماتے ہیں اور اپنی کمزوری کا احساس ¶کرتے ہیں تو اس وقت آپ کو جائے پناہ اسی آڑ میں ملتی ہے کہ آپ کی اس کمزوری کو جو اخبارات یا جو جماعتیں یا جو افراد نمایاں کر رہے ہیں ان کو فوراً قادیانی کہہ دیں اور عوام` جاہل اور ناسمجھ عوام کی ہمدردیاں اپنے ساتھ کر لیں<۔
رسالہ >قاسم العلوم< دیوبند
۹۔ رسالہ >قاسم العلوم< نے جو مدرسہ دیو بند کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا لکھا۔
>زیادہ افسوس اس جماعت پر ہے جس نے مسلمانوں کے اسلامی زندگی کے رہنما ہونے کے مدعی ہونے کے باوجود نہایت افسوس ناک طرز عمل اختیار کیا۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ جب ان مسلمانوں کی رگ غیرت شعائر اسلامی کی بے حرمتی پر بھی خون نہیں دیتی تو آخر وہ کس مرض کی دوا ہے۔ اس کا نصب العین محض اقتدار پسندی ہے۔ ہم مذہب کے نام پر تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قضیہ مسجد شہید گنج کے شہداء کے خون کا احترام کرتے ہوئے اپنی بقاء اور اسلامی شعائر کی حفاظت کے لئے کوئی صحیح راہ عمل تجویز کریں<۔۴۲۴
مجلس احرار اور مسلمان مورخ
۱۹۳۵ء کے اخبارات میں سے بعض اقتباسات درج کرنے کے بعد اب ہم زمانہ حال کے بعض مسلم مورخین کی تصانیف سے بعض ضروری بیانات کا ذکر کرتے ہیں۔
۱۔
جناب مرزا محمد صاحب دہلوی مصنف >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< حادثہ شہید گنج اور احرار کی مخالفت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>احرار کا اس سارے ہنگامہ میں کہیں پتہ نہ تھا۔ ہزاروں مسلمان جیل چلے گئے۔ سینکڑوں زخمی ہوئے اور بیسیوں شہید ہو گئے۔ لیکن احرار کا ان میں سے کسی میں بھی شمار نہ تھا۔ وہ جماعت جو ایجی ٹیشن ہی کرتے رہنے کے لئے پیدا ہوئی تھی۔ اس اہم اور نازک موقع پر کیوں پیچھے رہ گئی؟ اسلامی مفاد کی حفاظت کا دعویٰ اور اسلامی مفاد سے یہ غداری؟ مسلمانوں کے اس احتساب سے احرار چونکے۔ انہیں مغالطہ تھا کہ ان کی اسلامی خدمات ایسی اہم ہیں کہ شاید مسلمان ان سے محاسبہ نہ کریں گے لیکن جب سب طرف سے ان پر *** ملامت کی بوچھاڑ شروع ہوئی تو انہیں اپنی صفائی کرنی پڑی لیکن ان کی صفائی عذر گناہ بدتراز گناہ قرار دی گئی۔ اس لئے کہ انہوں نے مسجد شہید گنج کے اس سارے ہنگامے کو ایک فعل عبث قرار دیا اور جو مسلمان اس راہ میں شہید ہوئے تھے ان کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کر ڈالے۔ مسلمان اس شوریدہ سری کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احرار سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی نظروں سے گر گئے۔ اور پنجاب میں جہاں یہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی تمنا میں سکھوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے ان کی اس قدر بے وقعتی ہوئی کہ پھر انہیں دستور جدید کے انتخابات میں حصہ لینے کی جرات ہی نہ ہو سکی۔
اس ایک لغزش کے بعد احرار بحیثیت جماعت ختم ہو گئے اور خلافت کمیٹی کی طرح جس کا یہ کسی زمانہ میں ایک جزو تھے بے جان ڈہچر بن کر رہ گئے<۔۴۵۲ind] gat[
۲۔
جناب ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں۔
>جب مسجد کے گرائے جانے پر صوبے کے طول و عرض میں اضطراب کی لہر اٹھی تو خیال تھا کہ احرار حسب معمول مسلمانوں کی رہنمائی کریں گے لیکن خلاف توقع انہوں نے بالکل چپ سادھ لی اور جنبش تک نہ کی۔ بعد میں احرار لیڈروں نے اپنی اسی پراسرار خاموشی کی مختلف توجیہیں کرنے کی کوشش کی۔ کبھی کہا گیا کہ میاں فضل حسین کے ایماء سے مسجد گرائی گئی ہے تاکہ احرار اس تحریک میں حصہ لیں تو انہیں گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا جائے۔ کبھی کہا گیا کہ مسجد کا انہدام قادیان کے اشارے سے ہوا ہے تاکہ احرار کے قید و بند کا سامان آسانی سے مہیا ہو سکے۔ غرض کہ تاویل و توجہیہ کی مختلف صورتیں پیش کی جاتی رہیں جن پر عوام میں سے مشکل ہی سے کسی کو یقین آتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسجد شہید گنج کا انہدام مجلس احرار کے لئے پیام مرگ ثابت ہوا اور اس جماعت نے اگرچہ جولائی ۱۹۳۵ء کے بعد سے اب تک بیسیوں دفعہ سنبھلنے اور اپنا شیرازہ مجتمع کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن ان کوششوں میں ایک مرتبہ بھی تو اسے کامیابی نہیں ہوئی<۔۴۲۶
‏in] gat[۳۔
سید نور احمد صاحب سانحہ شہید گنج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>اس احساس کا ردعمل سب سے زیادہ احرار کے خلاف ہوا کیونکہ اسی جماعت سے لاہور کے عوام رہنمائی کی توقع کرتے تھے اور اس جماعت نے اس معاملہ میں یکسر پہلوتہی کی تھی۔ اس پہلوتہی کی وجہ کیا تھی؟ کیا احرار کے زعماء کو یہ خطرہ نظر آیا کہ اگر حکومت نے انہیں نظر بند یا گرفتار کر لیا تو آنے والے انتخاب کے سلسلہ میں ان کا سارا پروگرام درہم برہم ہو جائے گا؟ غالباً قیاس یہی تھا بہرحال جہاں تک مجلس احرار کا تعلق تھا اس ہنگامے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو مقبولیت اس جماعت نے چار پانچ سال کی محنت سے حاصل کی تھی وہ چند ہی دنوں میں ختم ہو گئی<۔۴۷۲
۴۔
جناب ملک عنایت اللہ صاحب نسیم سوہدردی )علیگ( رقم طراز ہیں۔
>مجلس احرر عوام میں مقبول ہو رہی تھی۔ مگر مسجد شہید گنج سے متعلق اس کا مشکوک کردار ہی اسے لے ڈوبا۔ احرار نے اس تحریک سے صرف اس لئے علیحدگی اختیار کر لی تھی کہ پنجاب میں ایک آدھ وزارت مل جانے کا موہوم خواب نظر آرہا تھا۔ تحریک سے اعراض کا دوسرا سبب یہ تھا کہ قیادت مولانا ظفر علی خاں کے ہاتھ میں تھی۔ حالانکہ مولانا صرف اس لئے آگے آئے تھے کہ مسلمان عوام کے لئے کوئی اور میدان میں نہیں آرہا تھا۔ بہرحال اس تحریک سے کنارہ کشی و مخالفت نے اگر حصول مسجد کو ناممکن بنایا اور سکھ مفاد کو فائدہ پہنچایا تو احرار پنجاب میں ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئے۔ اگرچہ تحریک پاکستان میں قائداعظم اور مسلم لیگ کو گالیاں دے کر ہندوئوں اور سکھوں کی اشیرباد حاصل کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی` مگر سوائے رسوائی اور ذلت کے احرار کے ہاتھ کچھ نہ آیا اور کل نفس ذائقہ الموت کی حسرت آفریں تصویر بن کر رہ گئے۔ فاعتبروایا اولی الابصار ۴۲۸
مجلس احرار اور احراری لیڈر
اگرچہ اخبارات و تصنیفات کے مندرجہ بالا حوالوں کے بعد اس موضوع پر مزید کچھ لکھنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے نزدیک یہ بتانے کی ابھی ضرورت باقی ہے کہ خود احراری لیڈروں کے دل پر اس حادثہ جانکاہ سے کیا گزری اور اس کیفیت کا اظہار انہوں نے کن الفاظ میں کیا؟
۱۔ اس تعلق میں >امیر شریعت احرار< عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا بیان ملاحظ ہو۔ انہوں نے ۳۰/ مارچ ۱۹۳۸ء کو دہلی دروازہ کے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ >دو اڑھائی برس تک جو پھندا )مسجد شہید گنج( آپ نے ہمارے گلے میں ڈالا ہے۔ نہ پھندا ہی نکلتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے<۔۴۲۹
>ڈکٹیٹر احرار< چودھری افضل حق صاحب >تاریخ احرار< میں لکھتے ہیں۔
>طوفانی مخالفت اٹھانے کے لحاظ سے بے حد موثر غوغا آرائی نے بے شک ہمارا ناطقہ بند کر دیا اور خدا کی زمین ہم پر تنگ کر دی گئی<۔۴۳۰
>حقیقت یہ ہے کہ ہر جماعت ہماری موت پر خوش تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ احرار سب میں گھرے کھڑے تھے۔ انہیں چو مکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی تھی۔ احرار لیڈروں کی برملا بے عزتی کی جاتی تھی۔ ان پر قاتلانہ حملے شروع ہو گئے تھے۔ صبر و سکون کی ہدایت کی جاتی تھی تا آنکہ پانی سر سے گزرنے لگا۔ ہمارے مخالفوں نے شرافت کے سارے آئین کو بالائے طاق رکھ دیا<۔۴۳۱
شورش کاشمیری شہید گنج کے حادثہ کے ردعمل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>احرار ہر حال میں ایک سیاسی طاقت بن چکے تھے۔ ایکا ایکی شہید گنج کے انہدام نے اس طاقت کو اس بری طرح برباد کیا کہ پھر وہ سنبھالے تو لیتے رہے لیکن سنبھل نہ سکے۔ جس تیزی سے وہ ابھرے تھے اسی سرعت سے انہیں پسپا ہونا پڑا<۔۴۳۲
ایک اور مقام پر تحریر کرتے ہیں۔
>مقدمہ لڑا گیا` کانفرنسیں ہوئیں< امیر ملت منتخب کئے گئے۔ غرض بہت جتن ہوتے رہے لیکن تحریک کا نتیجہ انتخاب پر ختم ہوا مسجد نہ ملی۔ البتہ احرار جو اس وقت تک مسلمانوں میں بے حد مقبول اور فعال گروہ سمجھے جاتے تھے اس تحریک میں حصہ نہ لے کر مسجد کے ملبے تلے آگئے اور اس بری طرح مسلمانوں کے عتاب کا شکار ہوئے کہ مسلم لیگ کے زمانہ شباب میں ان کا بڑھاپا خود بخود عود کر آیا<۔۴۳۳
ہندوستان کی مسلم سیاست سے بے دخلی
جیسا کہ ابتداء میں ذکر آچکا ہے کہ احرار سیاسی ہتھیاروں سے احمدیت کو مٹانے کا ادعا لے کر اٹھے تھے اور ان کی ۱۹۳۴ء کی ملک گیر شورش ان کے بقول ایک سیاسی جنگ تھی اور وہ اس سیاسی جنگ کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے اور کونسلوں تک جانے کے لئے مسجد شہید گنج کے معاملہ میں الگ رہے۔ لہذا مجلس احرار کی >کتاب زندگی< کا ورق نامکمل رہے گا اگر ہم بالاخبر یہ نہ بتائیں کہ ۱۹۳۷ء میں احرار مسلمانان ہند کی سیاسی برادری سے کس طرح خارج ہوئے۔
مسلم لیگ سے قطع تعلق
احرار لیڈروں نے قضیہ مسجد شہید گنج کے بعد >مسلم لیگ< کے دامن میں پناہ لے لی تھی۔ اور انتخاب جیتنے اور بعض دوسرے سیاسی مصالح کی وجہ سے اس کے >پارلیمنٹری بورڈ< میں بھی شامل ہو گئے تھے۔ مگر یہ شمولیت محض وقتی چیز تھی۔ کیونکہ احرار مسلم لیگ میں اپنی ذاتی اغراض اور دلی آرزوئوں کی تکمیل نہ ہوتے دیکھ کر اس سے بہت جلد کنارہ کش ہو گئے۔ اس واقعہ کی دلچسپ تفصیل ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔
>احراریوں تو مسلم لیگ کے پارلیمنٹری بورڈ میں شریک ہو گئے تھے لیکن کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے اس بورڈ سے جو توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ بظاہر پوری نہیں ہوئیں۔ انہیں سب سے بڑی غلط فہمی یہ تھی کہ جناح نے بمبئی کے تاجروں اور اودھ کے تعلقہ داروں سے کئی لاکھ روپے جمع کئے ہیں جو آئندہ الیکشن میں لیگی امیدواروں کے کام آئیں گے۔ اس مغالطے میں مبتلا ہو کر چودھری افضل حق صاحب اور مولانا حبیب الرحمن وغیرہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اس فنڈ سے کم از کم ایک لاکھ روپیہ پنجاب کے حصے میں ضرور آئے گا اور یہ ایک لاکھ روپیہ کی رقم جلسے جلوسوں کے علاوہ اخباری پراپا گنڈے پر خرچ ہو گی۔
احرار کا یہ بھی خیال تھا کہ ملک برکت علی` غلام رسول خان` خلیفہ شجاع الدین وغیرہ مصروف آدمی ہیں۔ انہیں ہائیکورٹ کی پریکٹس سے فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ پنجاب کا دورہ کریں اور شہر بشہر دھوم دھامی جلسے منعقد کرکے دھواں دار تقریروں کا جادو بکھیریں۔ ادھر احرار اس فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور سالہا سال سے ان کی زندگیاں انہی ہنگاموں کے لئے وقف ہو چکی تھیں۔ اس لئے ان کا اندازہ تھا کہ جناح کے فنڈ میں سے پنجاب کو جو ایک لاکھ روپیہ ملے گا اس کا بیشتر حصہ ان ہی کی مرضی اور صوابدید سے خرچ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ مسٹر جناح نے اپنی کسی تقریر یا کسی بیان میں اشاۃ" بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے پاس لاکھوں کا سرمایہ موجود ہے۔ لاکھوں کا کیا ذکر ان کے پاس تو چند ہزار کی رقم بھی نہ تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کو اپنی اپنی الیکشن کے مصارف خود برداشت کرنا ہوں گے۔
بہرحال جب احرار کو پتہ چلا کہ پارلیمنٹری بورڈ کے پاس کوئی رقم نہیں ہے تو انہوں نے سوچا کہ اپنے اپنے الیکشن پر اپنی ہی جیب سے خرچ کرنا پڑا تو پھر وہ آئندہ انتخابات میں جناح کا توسل کیوں اختیار کریں ۔۔۔۔۔۔۔ ان خیالات سے متاثر ہو کر چودھری افضل حق` مولوی مظہر علی اظہر اور مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں زود یا بدیر مسلم لیگ سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ کس مسئلہ کو مابہ النزاع قرار دے کر ہم سے علیحدگی اختیار کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد سب کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ اگر پارلیمنٹری بورڈ نے کسی شخص کی درخواست منظور کرکے اسے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا ہونے کی اجازت دے دی تو اس امیدوار کا فرض ہو گا کہ وہ پان سو روپے بورڈ کے فنڈ میں جمع کرائے۔
چودھری افضل حق نے اس مسئلے کی مزید وضاحت طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ >یہ پان سو روپے کس مقصد سے جمع کرائے جائیں گے<؟ غلام رسول خاں نے جواب دیا کہ >بورڈ کو تمام امیدواروں کی الیکشن کے سلسلے میں مختلف اقسام کے اشتہارات اور پمفلٹ طبع کرانے ہوں گے۔ پھر ان امیدواروں کی حمایت میں مسلم لیگ کے لیڈروں کو ان کے انتخابی حلقوں میں دورہ کرنا ہو گا۔ آخر ان کاموں کے لئے روپیہ کہاں سے آئے گا<؟
چودھری افضل حق بڑے زندہ دل آدمی تھے۔ کہنے لگے >واہ حضرت پان سو روپے صرف اشتہارات اور پمفلٹ کے لئے۔ الیکشن کا خرچ الگ۔ میں تو پان سو میں الیکشن بھی لڑ سکتا ہوں اور شادی بھی کر سکتا ہوں<۔
میں اتفاق سے چودھری صاحب کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ میں نے عرض کیا >نیکی اور پوچھ پوچھ۔ خدا کے لئے دونوں کام کیجئے<۔
احرار اس پان سو کی شرط پر بگڑ گئے اور چند روز کے بعد انہوں نے پارلیمنٹری بورڈ سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں مسلم لیگ اور احرار کا عارضی اتحاد ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا<۔۴۳۴
سر سکندر پارٹی کا سلوک مجلس احرار سے
سر سکندر حیات اور ان کے رفقاء ابھی تک احرار کو کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ چپکائے ہوئے تھے مگر مسلمانان پنجاب کی بدقسمتی سے میاں سر فضل حسین صاحب کا ۹/ جولائی ۱۹۳۶ء۴۳۵ کی رات انتقال ہو گیا اور یونینسٹ پارٹی کے اندر وہ باہمی چپقلش بھی ختم ہو گئی جو مدت سے سرسکندر اور میاں صاحب موصوف کے درمیان چلی آرہی تھی۔ اس لئے سکندر حیات خان کے لئے احرار سے راہ و رسم پیدا کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی اور وہ ۲۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو یونینسٹ پارٹی کے لیڈر منتخب کر لئے گئے۔۴۳۶ چنانچہ چودھری افضل حق صاحب لکھتے ہیں۔
>جب میاں صاحب فوت ہوئے تو سر سکندر کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ پہلے تو وہ لیگ سے وابستہ اس لئے ہو گئے تھے کہ مسلمانوں میں میاں صاحب کا کامیاب مقابلہ ہو سکے۔ ان دنوں احرار سے دلبستگی کی بظاہر وجہ یہی تھی لیکن اب انہیں آئینی کامیابی کے لئے میدان صاف نظر آیا اور مسٹر جناح کو دھتا دیا اور احرار کو بھی ٹھینگا دکھایا<۔۴۳۷
انتخابات ۱۹۳۷ء میں شکست فاش
سرسکندر حیات خان اور ان کی یونینسٹ پارٹی کی بے رخی کے باوجود احراری لیڈر سمجھتے تھے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہو چکا ہے اور مسجد شہید گنج کے واقعات ذہنوں سے اتر چکے ہیں۔ اس زعم میں وہ ۱۹۳۷ء کے انتخاب میں لنگر لنگوٹ کس کر باہر نکل آئے اور اپنے مخالف امیدواروں کو >مرزائی< یا >مرزائی نواز< مشہور کرکے ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے لگے جیسا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے >اہلحدیث< میں لکھا۔
>احرار کے جلسے میں جہاں اور باتوں کا ذکر آتا ہے وہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو امیدوار مرزائی ہو یا مرزائی نواز ہو اسے ووٹ نہ دو۔ مرزائی کی تعریف تو ظاہر ہے کہ جو شخص مرزا قادیانی کو مسیح موعود سمجھے۔ ہاں مرزائی نواز کی جامع مانع تعریف کی ضرورت تھی اس لئے کہا گیا۔ خواہ کوئی مولوی مسجد میں مرزائیوں کا رد کرے۔ جب تک وہ یہ نہ کہے کہ ہم احرار کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ وہ مرزائیوں کو کافر بھی کہے تاہم وہ مرزائی نواز ہے )سامعین جلسہ چوک لوہگڈھا ۔۔۔۔۔۔۔ احرار پارٹی اپنے مخالف رائے لوگوں کو اسلام سے خارج کہتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ احرار اپنے اعمال قبیحہ کی وجہ سے انسانیت سے بھی خارج ہیں<۔۴۳۸
مگر ان تمام سیاسی حربوں کے باوجود احرار کو شکست فاش ہوئی اور صوبہ پنجاب کے کسی حلقہ میں بھی ان کا کوئی امیدوار کامیاب نہ ہو سکا۔ اور تو اور بٹالہ کے حلقہ میں >آٹھ کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی< کا ادعا کرنے والوں اور >فاتح قادیان< کہلانے والوں کو احمدی امیدوار )چودھری فتح محمد صاحب سیال( سے بھی کم ووٹ ملے۴۳۹ امرتسر کو احرر اپنا مرکز سمجھتے تھے مگر اس میں ان کو منہ کی کھانا پڑی۔ حتیٰ کہ چودھری افضل حق صاحب جیسے جوڑ توڑ کے آدمی جن کے ذریعہ سے احرار نے ایک طرف پنجاب کے ہندوئوں اور سکھوں سے اور دوسری طرف سر سکندر حیات خان کے حامیوں سے معاہدہ (PACT) کیا تھا اور جو احرار کی انتخابی مہم کے لیڈر تھے اپنے ہی علاقہ گڑھ شنکر میں ہار گئے۔۴۴۰
چنانچہ خود ہی >تاریخ احرار< میں لکھتے ہیں۔
>میرا حلقہ انتخاب سر سکندر اور اس کے ساتھیوں کی توجہ کا مرکز رہا ۔۔۔۔۔۔ میرے حلقہ انتخاب میں سرگرمی رہی۔ میرے علاقہ کے امراء غیر راجپوت مجھ سے زیادہ خوش نہ تھے۔ انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ راجپوت قوم کا پہلے ہی زیادہ اثر ہے اگر یہ اس دفعہ کامیاب ہو گیا تو شاید حکومت پر قبضہ جما بیٹھے۔ اس لئے راجپوتوں کا اقتدار اور بڑھ جائے گا ۔۔۔۔۔۔ سر سکندر حیات خان نے لوگوں کو بڑے سبز باغ دکھائے۔ ہر نوجوان یہ سمجھتا کہ افضل حق کو نیچا دکھایا تو ڈپٹی ہوئے۔ علاوہ ازیں اعلیٰ ادنیٰ ہر ملازم کو خیال تھا اور برملا حوصلہ افزائی ہوتی تھی کہ افضل حق سرکار کا دشمن اور اس کا ساتھی حکومت کا باغی سمجھا جائے گا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ سر سکندر خود افضل حق کے خلاف دوڑا بھاگا پھرتا ہے۔
میری شکست کی سب سے موثر وجہ یہ ہوئی کہ لاہور کے لولے لنگڑوں کو مولانا ظفر علی خان اور مولانا عبدالقادر` ڈاکٹر محمد عالم کی جماعت اتحاد ملت نے اس غرض سے بھیجا تاکہ وہ علاقہ میں پھر کر لوگوں میں یہ پروپیگنڈا کریں کہ افضل حق نے مسجد شہید گنج گروائی اور اسی نے خود کھڑے ہو کر مسلمانوں پر گولی چلوائی۔ دیکھو اسی ظالم نے گولی چلوا کر ہمیں لولا لنگڑا کردیا۔ وہ دردناک لفظوں میں اپیل کرتے تھے۔ ایک دو پولنگ سٹیشنوں پر اس کا بہت برا اثر ہوا۔ ایک عام آگ سی لگ گئی۔ اسی طرح مجھے اس حلقہ سے شکست ہوئی۔ جہاں سے مجھے شکست کی امید نہ تھی۔ میری شکست یونینسٹ پارٹی کی بہت بڑی فتح تھی کیونکہ میں انتخابی مہم کا لیڈر تھا<۔۴۴۱
الیکشن ختم ہوا تو مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے >احرار کے امیدوار ناکام< کے عنوان سے >اہلحدیث< )۱۹۔ ۲۶/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۷۔ ۲۸( پر یہ تبصرہ شائع کیا۔
>ہر پارٹی میں چند امیدوار ناکام ہوئے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں مگر احرار کے تین امیدوار ایسے ہیں جن کا فیل ہونا سخت دلشکنی کا باعث ہے۔
اول شیخ حسام الدین بی اے بمقابلہ سیف الدین کچلو فیل ہوئے۔ ان کی بابت مولوی عطاء اللہ شاہ اپنی تقریروں میں کہتے تھے کہ امرتسر ہمارا مرکز ہے۔ اسی شہر میں ہمارا امیدوار اگر کامیاب نہ ہوا تو اہل قادیان ہمیں طعنہ دیتے ہوئے کہیں گے کہ احرار اپنے مرکز میں بھی ذلیل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا امیدوار حاجی محمد خان جو تحصیل بٹالہ میں قادیان کے اطراف سے کھڑے ہوئے تھے وہ بھی فیل ہو گئے۔
تیسرے امیدوار چودھری افضل حق جو جماعت احرار کے بڑے لیڈر ہیں جن کی دماغی قابلیت کو مخالفین بھی مانتے ہیں وہ بھی اپنے علاقہ ہوشیار پور میں فیل ہو گئے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی ناکام رہے ہوں گے۔ ہمیں علم نہیں۔ مگر ان امیدواروں کا فیل ہو جانا واقعی دلشکن ہے<۔
اس الیکشن میں بعض ایسے کامیاب نمائندے بھی تھے جن کی کامیابی اگرچہ احرار کی مرہون منت نہ تھی۔ مگر احرار نے ان کی اس موقعہ پر مدد کی تھی ایسے نمائندوں نے انتخاب جیتتے ہی احرار سے قطع تعلق کر لیا۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب ہی کا بیان ہے کہ۔
>کم از کم بارہ ممبر ایسے تھے جو احرار کی مدد سے کامیاب ہوئے تھے چونکہ وہ درمیانے اور اعلیٰ طبقے سے متعلق تھے اس لئے امراء کی آواز میں ان کے لئے زیادہ کشش تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احرار کے سب ممبر امراء کی کان نمک میں پڑ کر نمک ہو گئے اور احرار سے تعلق توڑ بیٹھے۔۴۴۲
یہ کیفیت صرف اسمبلی کے انتخابات میں ہی نہیں ہوئی بلکہ میونسپل الیکشنوں میں بھی ایسا ہی ہوا چنانچہ چودھری صاحب لکھتے ہیں۔
>یہ صورت حال صرف اسمبلی کے الیکشنوں میں ہی نہیں ہوئی بلکہ میونسپل انتخابات میں بھی یہی صورت درپیش ہوئی۔ لودھیانہ` جالندھر` لائل پور میں غریب اور درمیانہ طبقہ کے لوگوں نے احرار کے نام پر فتح پائی ۔۔۔۔۔۔ لیکن جونہی کامیاب ہوئے اور سوسائٹی میں ایک درجہ حاصل کرلیا پھر کرسی نشین ہو کر خاک نشین احرار کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے<۔۴۴۳
کانگریس کے ہاتھوں بے آبروئی
لیکن معاملہ یہیں تک ختم نہیں ہو جاتا۔ اگرچہ احرار اب بھی کانگرس کے نفس ناطقہ تھے تاہم اب کانگرسی لیڈروں نے ان کو آلہ کار بنانے کے باوجود ان کو مسلمانوں کا نمائندہ تسلیم کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ جناب اکرام قمر صاحب ایم اے۴۴۴ نے اس حقیقت پر حسب ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی تھی۔
>کانگرس ایک طرف تو چودھری افضل حق مرحوم جیسے محبت وطن کی بھی الگ تنظیم کے قیام کی کوشش کو معاف کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف ہندو مہاسبھا کے صدر شیام پرشاد مکر جی کو بنگال کا نمائندہ سمجھتی ہے۔ کیا احرار لیڈر اس امتیاز پر غور کریں گے؟ انہوں نے کانگرس کی تحریکوں میں ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کیں` صحتیں تباہ کیں۔ لیکن اس کا نتیجہ؟ وہ کانگرنس کے نزدیک مردود ہیں اور مہاسبھائی محبوب کانگرس تو ان سے مسلم حقوق کے متعلق بات چیت بھی کرنے کو تیار نہیں۔
۱۹۳۹ء کے اواخر میں جب دو احرار لیڈر دہلی پہنچے کہ گاندھی جی سے ہندو مسلم کے تصفیہ کے سلسلہ میں ملیں تو گاندھی جی نے یہ کہلا بھیجا کہ میرے پاس وقت نہیں۔ آخر یہ احرار لیڈر اسٹیشن پر پہنچے اور جس ڈبہ میں گاندھی جی واپس جارہے تھے اس میں سوار ہوئے تاکہ راستہ ہی میں باتیں ہو سکیں۔ میرے خیال میں ہر احرار لیڈر کو یہ معلوم ہو گا کہ گاندھی جی نے ان دونوں لیڈروں سے کیا کہا تھا۔ انہوں نے مسلم حقوق کے متعلق احرار سے بات کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ مسلم قوم آپ کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ مسلم لیگ کے ساتھ ہے۔ اس لئے ہندو مسلم مسئلہ کے متعلق جب بھی گفتگو ہو گی۔ مسلم لیگ سے ہی ہو گی ۔۔۔۔۔۔ اس سلوک کے باوجود احرار کانگرس سے چمٹے ہوئے ہیں اور اب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کو محض اس غرض سے صدر بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ مادتو کارہا سہا امتیاز بھی جاتا رہے کیا احرار اپنی اس مضحکہ خیز پوزیشن پر غور کریں گے؟ کانگرس انہیں مسلمانوں کی نمائندگی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں اور ان سے مسلم مسئلہ کے سلسلہ میں گفتگو کرنے پر بھی آمادہ نہیں وہ انہیں محض اپنے ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ جب احرار مسلم مسئلہ پیش کرتے ہیں تو گاندھی جی کہہ دیتے ہیں کہ مسلم قوم آپ کے ساتھ نہیں۔ اور جب مسلم لیگ سے گفتگو شروع کی جاتی ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ تم مسلمانوں کے نمائندہ نہیں کیونکہ احرار وغیرہ مسلم سجماعتیں بھی موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اندریں حالات احرار کی حالت پر افسوس بھی ہوتا ہے اور رحم بھی آتا ہے۔ ان کا کام لے دے کر اب کانگرس کے ایک مہرے کا رہ گیا ہے<۔۴۴۵
احرار کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی
الغرض حکومت اور کانگرس کی پشت پناہی کے باوجود سلسلہ احمدیہ سے ٹکر لینے کا خمیازہ احرار کو >مسجد شہید گنج< کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ خدا کے محبوب بندہ سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی پیشگوئی کے مطابق احرار کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی اور انتہائی جدوجہد کے باوجود آج تک واپس نہیں آسکی۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے ایک بار واضح لفظوں میں تسلیم کیا کہ۔
>جس نے رسول اللہﷺ~ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا وہ کبھی نہیں پھولا پھلا<۔۴۴۶
نیز ۱۶/ مئی ۱۹۳۵ء کو رام تلائی سیالکوٹ کے جلسہ عام میں یہ پیشگوئی کی کہ۔
>مرزائیت کے مقابلہ کے لئے بہت سے لوگ اٹھے۔ لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ میرے ہاتھوں سے تباہ ہو<۔۴۴۷
مگر اس پیشگوئی کا کیا حشر ہوا؟ اس کا جواب مشہور احراری لیڈر جناب شورش کاشمیری مدیر چٹان کے الفاظ میں یہ ہے کہ۔
>حقیقتہ< احراری اپنی تمام تر صلاحیتوں اور عظیم قربانیوں کے باوجود بدقسمت تھے ان کی مثال بدقسمت جرمن قوم کی سی ہے کہ جاں نثاری کے باوجود ہر معرکہ میں ہار ان کا نوشتہ تقدیر رہی ہے<۔۴۴۸`۴۴۹
اس کے مقابل خدا کا یہ اعجازی نشان ظاہر ہوا کہ اس کے ہاتھ سے لگایا ہوا احمدیت کا وہ پودہ جس کے مسل دینے کے لئے ارضی طاقتیں جمع ہو گئی تھیں۔ خدا کے فضل و کرم اور آسمانی افواج کی مدد سے نہ صرف پوری شان سے قائم رہا بلکہ عین اس وقت جب کہ اس کے بیخ و بن سے اکھیڑ پھینکنے کی کوششیں انتہا تک پہنچ گئیں` خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص کے تحت اور اس کے القاء سے احمدیت کے فتح نصیب۴۵۰ قائد سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک جاری فرمائی جس سے دنیا میں تبلیغ اسلام کے عالمگیر نظام کی بنیاد پڑی جس کی تفصیل پر انشاء اللہ اگلی جلد میں روشنی ڈالی جائے گی۔
واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین
دوسرا باب
حواشی
۱۔
ملخصاً خطبہ جمعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ مطبوعہ الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔
۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ ۱۵۔ ۱۶۔ ۱۷/ اپریل ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۷۹` ۱۸۰ مطبوعہ مارچ ۱۹۲۸ء طبع اول )مرتبہ شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے سیکرٹری مجلس مشاورت قادیان دارالامان(
۳۔
پرتاپ ۱۹/ مارچ ۱۹۲۶ء بحوالہ تاریخ انقلابات عالم جلد دوم صفحہ ۴۲۲۔
۴۔
ڈاکٹر ابواللیث صاحب صدیقی پی۔ ایچ۔ ڈی کے نزدیک ۱۸۵۷ء جنگ آزادی تو ضرور تھی لیکن وہ اس کو جہاد قرار دینے میں اس وجہ سے متامل ہیں کہ اگر ۱۸۵۷ء کے انقلاب کو انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کے جہاد کی تحریک قرار دے دیا جائے تو پھر اس تحریک کی عمومیت اور ہمہ گیری برقرار نہیں رہتی۔ )مقدمہ بر کتاب اسباب بغاوت ہند۔ صفحہ ۷۶ تصنیف سرسید احمد خاں مرحوم۔ ناشر اردو اکیڈمی سندھ مشن روڈ کراچی(
۵۔
نقش حیات >جلد دوم< میں مولانا حسین احمد صاحب مدنی نے اس ہنگامہ کو جہاد حریت سے موسوم کیا ہے۔ تحریک آزادی کے ان مجاہدین کے چشم دید واقعات راقم الدولہ ظہیر دہلوی شاگرد ذوق نے اپنی کتاب داستان غدر میں لکھے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ایک جگہ لکھا ہے۔ >ان غارت گروں میں وہ لوگ ہیں جو میرٹھ سے باغی ہوکر پلٹن اور سوار آتے ہیں اور ان کے ساتھ والے جو بدمعاش ہمراہ ہوئے ہیں اور ان کے شہر کے کولی` چمار` دھوبی` سقے` کنجڑے` قصاب` کاغذی محلہ کے کاغذی اور دیگر بدمعاشان شہر پہلوان بانڈی باز اٹھائی گیرے` جیب کترے وغیرہ وغیرہ سب رذیل ہیں کوئی شریف خاندانی ان کے ساتھ شامل نہیں ہیں۔ جو نیک معاش و اشراف ہیں وہ اپنے گھروں کے دروازے بند کئے بیٹھے ہیں ان کو یہ خبر تک نہیں کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ )صفحہ ۹(
اسی طرح شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے اپنی کتاب دہلی کی جاں کنی میں لکھا ہے۔ اس کتاب میں انگریزی فوج کے مظالم کا تذکرہ زیادہ آئے گا مگر اس موقعہ پر یہ اقرار کرنا قرین انصاف ہے کہ ہندوستانی فوج والوں اور دیسی باشندوں نے بھی غدر کے شروع میں سفاکی اور بے رحمی کو حد سے بڑھا دیا تھا اور ان کے ستم ایسے ہولناک تھے کہ ہر قسم کی سزا ان کے لئے جائز کہی جا سکتی ہے انہوں نے بے کس عورتوں کو قتل کیا انہوں نے حاملہ عورتوں کو ذبح کرنے سے دریغ نہ کیا انہوں نے دودھ پیتے بچوں کو اچھالا اور سنگین کی نوکوں پر روک کر بے زبانوں کو چھید ڈالا۔ وہ حاملہ عورتوں کے پیٹ میں تلواریں بھونک دیتے تھے غرض کوئی ظلم و ستم ایسا نہ تھا جو ان کے ہاتھ سے انگریزوں اور ان کے بیوی بچوں پر نہ ٹوٹا ہو۔ )دہلی کی جان کنی صفحہ ۲۲۔ ۲۳( ہندو پوربیوں کی سفاکیوں کا نقشہ نواب مرزا صاحب داغ دہلوی نے کیا خوب کھینچا ہے ~}~
غضب میں آئی رعیت` بلا میں شہر آیا
یہ پوربئے نہیں آئے خدا کا قہر آیا
زباں سے کہتے ہوئے دین دین آئے لعین
جو ماتا دین کوئی تھا تو کوئی گنگا دین
یہ جانتے ہی نہ تھے چیز کیا ہے دین متین
کئے ہیں قتل زن و بچہ کیسے کیسے حسین
روا نہ تھا کسی مذہب میں وہ جو کام کیا
غرض وہ کام کیا۔ کام ہی تمام کیا
۶۔
منقول از رسالہ ضیاء الاسلام مراد آباد )۶/۵ )بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۶۸ حاشیہ طبع ششم )مولفہ ملک فضل حسین صاحب(
۷۔
کاغذات پارلیمنٹ ۱۸۵۷ء بحوالہ ہندو راج کے منصوبے۔ صفحہ ۶۷ حاشیہ۔
۸۔
ظہیر دہلوی داستان غدر میں لکھتے ہیں کہ اس موقعہ پر بہادر شاہ ظفر نے سواران باغیہ سے کہا کہ۔ میرے باپ دادا بادشاہ تھے جن کے قبضہ میں ہندوستان تھا۔ سلطنت تو سو برس پہلے میرے گھر سے جا چکی تھی۔ میرے جدو آباء کے نوکر چاکر اپنے خاوندان نعمت کی اطاعت سے جداگانہ رئیس بن بیٹھے۔ میرے باپ دادا کے قبضہ سے ملک نکل گیا۔ قوت لایموت کو محتاج ہو گئے۔ خصوصاً میرے جد بزرگوار حضرت شاہ عالم بادشاہ غازی کو جب غلام قادر نمک حرام نے قید کرکے نابینا کیا ہے تو پہلے مرہٹوں کو طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے اس نمک حرام کو کیفر کردار کو پہنچایا حضرت بادشاہ کو قید سے چھڑایا چند سال مرہٹے بادشاہ کی جانب سے مختار رہے مگر بادشاہ کے صرف مطبخ کا بندوبست نہ کر سکے۔ لاچار ہو کر میرے دادا نے منجانب سلطنت برطانیہ رجوع کی اور انگریزوں کو بلوا کر اپنے گھر کا مختار فرمایا اور ملک ہندوستان ان کے تفویض کیا اور ان لوگوں نے حسب دلخواہ اخرجات شاھی کا بندوبست کر دیا اور ملک میں امن و امان کا ڈنکا بجا دیا۔ اس روز سے آج تک ہم لوگ بہ عیش و عشرت تمام بسر کرتے چلے آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں تو ایک گوشہ نشین آدمی ہوں۔ مجھے ستانے کیوں آئے۔ میرے پاس خزانہ نہیں کہ میں تم کو تنخواہ دوں گا میرے پاس فوج نہیں کہ میں تمہاری امداد کروں گا۔ میرے پاس ملک نہیں کہ تحصیل کرکے تمہیں رکھوں گا میں کچھ نہیں کر سکتا ہوں مجھ سے کسی طرح کی توقع استعانت کی نہ رکھو۔ تم جانو یہ لوگ جانیں۔ )داستان غدر صفحہ ۴۹۔ ۵۰ مطبع کریمی لاہور(
۹۔
کپتان ڈگلس۔
۱۰۔
مسٹر سمن فریزر۔
۱۱۔
بہادر شاہ کا مقدمہ )مولفہ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی( صفحہ ۱۳۳ تا ۱۳۹۔
۱۲۔
خواجہ حسن نظامی دہلوی کی مولفہ کتاب بہادر شاہ کا ¶مقدمہ کے صفحہ ۷۹ پر ایک گواہ کی شہادت درج ہے کہ >مجھے خیال ہے کہ جب فوجیں پہلے پہل میرٹھ سے آئیں تو ہندوئوں نے بادشاہ سے عہد کرا لیا کہ شہر میں گائو کشی نہ کی جائے اور یہ عہد برقرار رکھا گیا ۔۔۔۔۔۔ تمام ایام غدر تک دہلی میں اس عہد کے سبب ایک گائے بھی نہیں کاٹی گئی بقر عید کے موقعہ پر جبکہ مسلمان یقینی گائے کی قربانی کیا کرتے ہیں ایک بے چینی پھیل گئی تھی مگر مسلمانوں نے اس موقعہ پر بھی گائے کی قربانی نہیں کی۔
۱۳۔
تاریخ عروج عہد سلطنت انگلشیہ ہند صفحہ ۶۶۰ )مولفہ خان بہادر شمس العلماء محمد ذکاء اللہ خاں( ۱۹۰۴ء شمس المطابع دہلی ایضاً دہلی کی جان کنی صفحہ ۹۵۔ ۹۶ )از شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی(
۱۴۔
داستان غدر صفحہ ۹۸۔
۱۵۔
داستان غدر میں ہندوئوں کی سربراہی کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے مثلاً صفحہ ۶۵ پر لکھا ہے۔ پھاٹک سے باہر نکلا ہوں تو دیکھا کہ تین چار سوار کرتے پہنے اور دھوتیاں باندھے ہوئے سر سے ایک چھوٹا سا انگوچھہ لپٹا ہوا فقط ایک کرچ ڈاب میں اور وہ پیپل کے درخت کے سایہ میں نہر کی دیوار سے لگے کھڑے ہیں اور ہندو لوگ ان کی سربراہی کر رہے ہیں کوئی پوریاں لے آیا ہے کوئی مٹھائی کا دونہ لئے آتا ہے۔
۱۶۔
بہادر شاہ کا مقدمہ صفحہ ۲۳۴۔
۱۷۔
بہادر شاہ کا مقدمہ صفحہ ۲۴۰۔
۱۸۔
اسباب بغاوت ہند صفحہ ۱۰۴ تا ۱۰۹۔
۱۹۔
رسالہ اشاعتہ السنہ جلد ۶ نمبر ۶۰ صفحہ ۲۸۸۔ ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اسی شمارہ کے صفحہ ۲۹۴ حاشیہ پر اس انگریزی چٹھی کا متن شائع کیا جو جی۔ ڈی ٹریملٹ بنگال سول سروس کمشنر دہلی نے سید نذیر حسین صاحب دہلوی کو ان کے زیارت کعبہ پر جاتے وقت دی تھی اور جس میں لکھا تھا کہ مولوی صاحب موصوف دہلی کے ایک بڑے نامور عالم ہیں جنہوں نے مشکل وقتوں میں اپنی نمک حلالی گورنمنٹ پر ثابت کی ہے۔
۲۰۔
اشاعتہ السنہ جلد ۹ نمبر ۱ صفحہ ۱۶ )بابت ۱۳۵۳ھ بمطابق ۱۸۸۶ء۔
۲۱۔
اشاعتہ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۰ صفحہ ۴۹/ ۳۰۹` ۴۵/۳۱۰ )۱۸۸۶ء(
۲۲۔
ولادت ۱۸۴۲ء وفات ۱۹۱۸ء۔
۲۳۔
تاریخ اقوام عالم صفحہ ۶۳۹ )از مرتضیٰ احمد خاں ناشر مجلس ترقی ادب نمبر ۲ نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ لاہور(
۲۴۔
ترکوں کے ارمنوں پر فرضی مظالم صفحہ ۲۳ )شائع کردہ مجلس خلافت پنجاب(
۲۵۔
جب بغاوت کا مقدمہ چلا تو ہندوئوں نے بہادر شاہ ظفر اور مسلمانوں کے خلاف گواہیاں دیں۔ جس کی تفصیل کتاب بہادر شاہ کا مقدمہ میں ہمیں ملتی ہے۔ عدالت کی طرف سے سوال کیا گیا کہ انگریز گورنمنٹ کے برخلاف کیا ہندو اور مسلمانوں کے جذبات میں کچھ فرق تھا؟ اس کے جواب میں ایک ہندو گواہ جاٹ مل نے کہا۔ جی ضرور تھا۔ مسلمان متفقہ طور پر گورنمنٹ برطانیہ کو الٹ دینے کے درپے تھے۔ مگر بڑے بڑے ہندو تاجروں اور ساہوکاروں میں اس پر اظہار افسوس کیا جاتا تھا۔ )صفحہ ۳۵( اور تو اور بہادر شاہ ظفر کے سیکرٹری مکند لال نے اپنی گواہی میں کہہ دیا کہ جب باغی سواروں نے بادشاہ کے سامنے اس ارادہ کا اظہار کیا کہ ہندوستان کے تمام انگریز قتل کر دیئے جائیں گے تو بادشاہ نے کہا کہا گر ان کی یہی خواہش ہے تو انہیں آخریو قت تک ساتھ دینا ہو گا۔ اور اگر اس پر وہ رضا مند ہوں تو شوق سے چلے آئیں اور تمام انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں جب انہوں نے رضامندی ظاہر کی تو بادشاہ نے انہیں آنے دیا۔ )صفحہ ۸۶( جب اس سے پوچھا گیا کہ اس غدر سے قبل کیا مسلمانوں نے کبھی سازش کی تو اس نے جواب دیا جونہی باغی آئے مسلمان سفی الفور ان سے مل گئے کیا اس سے نہیں معلوم ہوتا کہ ان میں سے پہلے سے ربط و ضبط تھا۔ )صفحہ ۸۸(
۲۶۔
دہلی کی جاں کنی اور داستان غدر میں اس قتل عام کی دردناک تفصیل موجود ہے جسے پڑھ کر بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ دہلی میں سب سے زیادہ چیلوں کے کوچہ پر مصیبت آئی۔ اس محلہ میں بڑے بڑے شرفاء اور نامور علماء رہتے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ~رح~ و حضرت شاہ عبدالعزیز~رح~ محدث دہلوی کا گھرانا اسی محلہ میں آباد تھا۔ سرسید احمد خاں کا گھر بھی اسی محلہ کے ایک حصہ میں تھا منشی ذکاء اللہ خاں بھی اس محلہ کے باشندے تھے۔ منشی ذکاء اللہ خاں لکھتے ہیں کہ اس محلہ کی مصیبت کا سبب یہ ہوا کہ ایک مسلمان نے کسی انگریزی سپاہی کو زخمی کر دیا تھا۔ انگریزی کمان افسر نے حکم دیا کہ اس کوچہ کے تمام مردوں کو قتل کر دو یا گرفتار کرکے لے آئو۔ اس حکم کی تعمیل میں ایسی بے دردی ہوئی کہ محلہ میں کوئی مرد زندہ نہ بچا یا تو سپاہیوں نے گھروں میں گھس کر مار ڈالا یا گرفتار کرکے حاکم کے سامنے لے گئے حاکم نے حکم دیا کہ سب کو دریا کے کنارے لے جائو اور گولی مار دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ان لوگوں کو رسی سے باندھا گیا دریا کی ریتی میں قطار بنا کر کھڑا کیا گیا اور گولیوں کی باڑھ ان پر چلائی گئی جس سے )دو کے سوا( سب مر کر گر پڑے ان مقتولین میں دو چاند سورج بھی تھے۔ ایک مولانا امام بخش صبہائی جن کی فارسی دانی تمام ہندوستان میں مسلم تھی۔ مولانا صبہائی کے ساتھ ان کے کنبہ کے اکیس آدمی اس قطار میں مارے گئے۔ مقتولین میں دوسرے نامور شخص سید محمد امیر عرف میر پنجہ کش تھے جن کی خوشنویسی کا لوہا تمام ہندوستان مانتا تھا۔ اور ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حرف سونے چاندی کے عوض خریدے جاتے تھے۔ وہ بھکاری فقیروں کو ایک حرف لکھ کر دے دیتے جو ایک روپیہ کے نوٹ کی طرح ہر جگہ روپیہ کو بک جاتا تھا۔ افسوس کہ یہ صاحب کمال بھی دریا کی ریتی میں مارا گیا۔ شیفتہ کا شعر ہے۔ ~}~ دلی اب ہے تن بیجاں کیا خاک۔ جاں سے جا چکے جو لوگ تھے جان دہلی۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ جس شہر میں یہ بے رحمیاں ہو رہی تھیں اسی شہر میں ایسے رحمدل انگریز بھی تھے جو بے گناہوں کی حمایت کرتے تھے لاوارثوں کے وارث بن کر ان کی طرف سے حکام کے پاس سفارش لے جاتے تھے بیماروں اور زخمیوں کو ہسپتال بھجواتے اپنے پاس سے بھوکوں` محتاجوں کو کھانا دیتے اور کوشش کرتے تھے کہ حکام دہلی سے بے گناہ لوگوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہونے پائے۔ مگر ان کی کوشش دو وجہ سے اکثر ناکام رہتی تھی ایک تو یہ کہ اختیارات عموماً ان انگریزوں کے ہاتھ میں تھے جن کے بال بچے باغیوں کے ہاتھ سے بے گناہ مارے گئے تھے۔ اور ان کے گھروں کو لوٹا گیا تھا۔ اور ان کو رہ رہ کر اپنے گھروں کی تباہی اور اپنے بچوں اور عورتوں کا بے کسی و ظلم سے مارا جانا یاد آتا تھا۔ اور اس یاد کے سبب غم و غصہ عقل پر پردے ڈالتا تھا اور وہ حق و ناحق میں اچھی طرح تمیز نہ کر سکتے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ خود مخبروں نے سفاکی پر کمر باندھ لی تھی۔ غرض سب انگریز بے رحم نہیں تھے۔ سر جان لارنس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے کہ انہوں نے اس قیامت کے وقت دہلی اور ان کے شریف باشندوں کی اپنی زور دار تحریروں میں ہمیشہ حمایت کی مگر اس کے برعکس ہڈسن جیسے ظالم و سفاک انگریزوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کر سکتی جس نے مغل شہزادوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور ان کے سر کاٹ کر معزول بے جان اور بوڑھے بادشاہ کے سامنے رکھ دیئے کہ یہ آپ کی نذر ہے جو بند ہو گئی تھی اور جس کو جاری کرانے کے لئے آپ نے غدر میں شرکت کی تھی۔ )دہلی کی جان کنی۔ مولفہ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی دہلوی(
۲۷۔
شمس العلماء خواجہ حسن نظامی دہلوی لکھتے ہیں۔ تاوان جنگ لے کر صرف ہندو آباد کئے جاتے تھے اور مسلمانوں کو مارچ ۱۸۵۸ء تک شہر میں آباد ہونے کی اجازت نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ آخر مارچ ۱۸۵۸ء میں خدا کا نیک بندہ سر جان لارنس دہلی میں آیا۔ اور اس نے مسلمانوں کو بھی شہر میں آباد ہونے کی اجازت دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب مسلمان اپنے گھروں میں آباد ہوئے تو مکانوں میں نہ کوئی اسباب تھا اور نہ کواڑ تھے کیونکہ وہ بھی بڑے بے دردی سے ایندھن کی جگہ جلا دیئے گئے تھے مسلمانوں کی تباہی کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔ غدر کے ایک برس بعد مئی ۱۸۵۸ء میں مسلمانوں کی آبادی کا تخمینہ کیا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ سابقہ آبادی کے مقابلہ میں ایک چوتھائی بھی نہ تھے۔ )دہلی کی جاں کنی صفحہ ۸۳(
پھر لکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا سارا اسباب جو پرائز ایجنسی نے جمع کیا تھا وہ زیادہ ہندوئوں نے نیلام میں بہت ارزاں خریدا اور اس مال و اسباب کی دکانیں کھول کر خوب روپے کمائے۔ باغی مسلمانوں کے جو مکانات ضبط ہو کر نیلام ہوئے وہ سب کے سب ہندوئوں نے بہت سستے داموں میں خریدے جن کی قیمت اب پچاس گنی سے بھی زیادہ ہے۔ )صفحہ ۸۵(
۲۸۔
تحریک آزادی صفحہ ۱۱۰۔ ۱۱۱ )از مولانا ابوالکلام آزاد۔ ناشر مکتبہ ماحول ۹ بہادر شاہ مارکیٹ بند روڈ- کراچی(
۲۹۔
تاریخ احرار صفحہ ۲۴۸ تا ۲۴۹۔
۳۰۔
پاکستان اور اچھوت صفحہ ۹۲۔
۳۱۔
تاریخ احرار صفحہ ۹۱۔
۳۲۔
پاکستان اور اچھوت صفحہ ۷۹۔
۳۳۔
پاکستان اور اچھوت صفحہ ۸۱۔
۳۴۔
پاکستان اور اچھوت صفحہ ۴۷۔
۳۵۔
فرقہ وارانہ فیصلہ کا استدراج صفحہ ۴۷۔ ۴۸۔
۳۶۔
تاریخ احرار صفحہ د۔
۳۷۔
تاریخ احرار صفحہ ح۔
۳۸۔
اقبال اور سیاست ملی )از رئیس احمد صاحب جعفری( صفحہ ۱۳۰۔ ۱۳۱۔ ناشر اقبال اکیڈیمی کراچی۔
۳۹۔
مارشل لاء سے مارشل لاء تک صفحہ ۱۳۵۔
۴۰۔
حاشیہ اگلے دو صفحات پر ملاحظہ ہو۔
‏]1h [tag۴۱۔
ملاپ لاہور ۲۵/ مئی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ )بحوالہ ہندو راج کے منصوبے۔ صفحہ ۱۷۷ )مولفہ ملک فضل حسین صاحب(
۴۲۔
بحوالہ اخبار آریہ ویر ۲۵/ جنوری ۱۹۲۷ء از >الامان< ۲۳۔ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۱` بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۸۶` ۱۸۷۔
۴۳۔
>تیج< دہلی ۵/ مئی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۱۔ بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۷۹ )مولفہ ملک فضل حسین صاحب( ستمبر ۱۹۳۰ء طبع ششم۔
۴۴۔
>تیج< دہلی یکم مئی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱ )ایضاً صفحہ ۱۸۰(
۴۵۔
ہریجن مورخہ ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۸ء۔
۴۶۔
>ٹریبیون< و مدینہ بحوالہ تحریک پاکستان و نیشنلسٹ علماء صفحہ ۲۸۸ )از چوہدری حبیب احمد صاحب( ناشر البیان چوک انارکلی۔ طبع اول فروری ۱۹۶۶ء۔
۴۷۔
تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء صفحہ ۲۸۹۔
۴۸۔
تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ صفحہ ۲۷۵۔
۴۹۔
تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء صفحہ ۲۷۶۔
۵۰۔
بحوالہ الفضل ۱۷/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۴۔
‏tav.7.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
۵۱۔
بحوالہ تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء صفحہ ۶۷۱ )مولفہ چودھری حبیب احمد صاحب(
۵۲۔
خطبات ابوالکلام آزاد صفحہ ۳۱۷۔ ۳۱۹ )ناشر ایم ثناء اللہ خاں اینڈ سنز۔ ۲۶ ریلوے روڈ۔ لاہور۔
۵۳۔
جناب شورش کاشمیری لکھتے ہیں۔ پنجاب کے احرار جس میں جماعت احرار کے راہنما ہی نہیں بلکہ تحریک خلافت کے پنجابی راہ نما بھی شامل ہیں بعض اعتبارات سے مولانا ہی کی سیاسی تخلیق تھے۔ )ظفر علی خاں صفحہ ۶۷(
۵۴۔
اخبار >مجاہد< نے احرار کی تشکیل کا واقعہ ۱۹۳۰ء کا بتایا ہے جو غلط ہے یہ قطعی طور پر دسمبر ۱۹۲۹ء کا ہے۔ )ناقل(
۵۵۔
تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء صفحہ ۴۹۶۔ ۴۹۷۔
۵۶۔
پاکستان اور چھوت صفحہ ۲۴ تا ۲۶۔
۵۷۔
تاریخ احرار صفحہ ۹۳۔
۵۸۔
اخبار نیشنل کانگریس ۳/ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۱۔
۵۹۔
ملاپ ۵/ جون ۱۹۳۶ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر ۱۲/ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۵۔
۶۰۔
ایضاً
۶۱۔
تاریخ انقلابات عالم جلد دوم صفحہ ۴۰۷ )سید ابوسعید بزمی ایم۔ اے( ناشر۔ کتاب منزل لاہور طبع اول ۱۹۵۱ء۔
۶۲۔
نیشنل کانگریس لاہور ۱۷/ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۶۳۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۰۳۔
۶۴۔
تاریخ احرار صفحہ ی )از چودھری افضل حق صاحب( ناشر زمزم بک ایجنسی بیرون موری دروازہ لاہور۔
۶۵۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۳۸۔
۶۶۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۲۹۔ ۳۰ )مولفہ جناب شورش کاشمیری(
۶۷۔
زمیندار ۲۱/ جون ۱۹۳۶ء بحوالہ فسادات ۱۹۵۳ء کا پس منظر صفحہ ۲۷۔ ۲۸ )از ملک فضل حسین صاحب( ناشر ادارۃ المصنفین ربوہ۔
۶۸۔
بحوالہ پیغام صلح ۱۱/ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۶۹۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۶۳۔
۷۰۔
بحوالہ تحریک پاکستان و نیشنلسٹ علماء صفحہ ۴۹۶۔
۷۱۔
بحوالہ تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء۔ صفحہ ۱۰۱۴ تا ۱۰۱۶۔
۷۲۔
اخبار نیشنل کانگریس لاہور ۱۴/ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۷۳۔
زمزم لاہور ۳۰/ اپریل ۱۹۳۹ء بحوالہ سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۱۶۔
۷۴۔
ہفت روزہ ترجمان اسلام )لاہور( ۸/ دسمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۷۵۔
افسوس جناب آزاد صاحب نے اسی جنگ بربادی میں شامل نہ ہونے کی پاداش میں مسلمانوں کو مطعون کرتے اور ہندوئوں کو خراج عقدیت پیش کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ برٹش گورنمنٹ ایک کانسٹی ٹیوشنل گورنمنٹ تھی ۔۔۔۔۔ ملک آزاد ہوا اور انگلستان نے اپنا فرض ادا کر دیا لیکن دنیا یاد رکھے کہ جو کچھ ہوا اس قوم کی سرفروشی سے ہوا جو مسلم نہ تھی۔ پر جو مسلم تھے انہوں نے آزادی کی جگہ غلامی کی اور سر بلندی کی جگہ سجدہ مذلت کی کوشش کی ہندوستان کی ملکی نجات یقیناً ایک عظمت و عزت کی یادگار ہے لیکن اس عزت میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں اگر ملک کے قوانین کی ترمیم ہوئی نئے مفید قوانین بنائے گئے برباد کن محصولوں اور ٹیکسوں سے ¶انسانوں نے نجات پائی۔ تعلیم جبری اور عام ہوئی فوجی مصارف میں تخفیف ہوئی او سب سے آخر یہ کہ ملک کو حکومت خود اختیاری ملی تو صرف ہندوئوں` قابل عزت ہندوئوں مسلمانوں کے لئے تازیانہ عبرت ہندوئوں کی وجہ سے۔ کیونکہ انہوں نے پالٹیکس شروع کیا اور پھر پالٹیکس اسی کو سمجھا مگر مسلمانوں کے لئے تازیانہ عبرت ہندوئوں کی وجہ سے کیونکہ انہوں نے پالٹیکس شروع کیا اور پھر پالٹیکس اسی کو سمجھا مگر مسلمانوں نے اس کو مصیبت سمجھ کر کنارہ کشی کی اور جب شروع بھی کیا تو شیطان نے سمجھایا کہ گورنمنٹ کے آگے سجدہ کریں۔ یا اس کے آگے بھیک مانگنے کے لئے روئیں اور پھر مانگیں بھی تو اشرفی نہیں چاندی سونا نہیں لعل و جواہر نہیں بلکہ تانبے کا ایک زنگ آلود ٹکڑا یا سوکھی روٹی کے چند ریزے۔ )تحریک آزادی صفحہ ۱۶۔ ۱۷( )ناشر انور عارف مالک مکتبہ ماحول کراچی بار دوم نومبر ۱۹۵۹ء(مولوی محمد علی صاحب قصوری نے اپنی کتاب مشاہدات کابل و یاغستان کے صفحہ ۶۹ پر جناب مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کی نسبت لکھا ہے کہ۔
>ہم نے تو آزما کر دیکھا کہ اکثر تحریکیں لیڈروں کی ناعاقبت اندیشی یا بزدلی سے ناکام ہو گئیں ہندوستان میں ہم نے مسلمانوں کی مذہبی تنظیم کی تحریک اٹھائی مگر اس میں بھی غلطی یہ کی کہ مولانا ابوالکلام کو امام الہند بنا کر تمام تحریک ان کے بل بوتے پر کھڑی کی۔ لیکن عین وقت پر مولانا آزاد کی بزدلی نے تمام کھیل بگاڑ دیا اور وہ سارے کا سارا محل جس کی تعمیر پر لاکھوں روپیہ صرف ہوا تھا اور سینکڑوں مسلمانوں نے اسے اپنے خون سے سینچا۔ مولانا کی گریز پائی کی وجہ سے آن کی آن میں دھڑام سے نیچے آگرا۔
۷۶۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۹ )مرتبہ جناب آغا شورش کاشمیری(
۷۷۔
اخبار مجاہد لاہور ۱۱/ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔
۷۸۔
چمنستان )مجموعہ کلام مولوی ظفر علی خاں( صفحہ ۱۶۵۔
۷۹۔
صفحہ ۲۔
۸۰۔
صفحہ ۷۔ ۸۔
۸۱۔
پیغام صلح صفحہ ۲۸۔ ۲۹۔
۸۲۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کس طرح تحریک خلافت کے زمانے میں پوری ہوئی اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں یقیناً یہ ایک بڑا نشان ہے۔
۸۳۔
اشتہار ۱۲/ مارچ ۱۸۹۷ء )تذکرہ طبع دوم صفحہ ۳۰۲(
‏]1h [tag۸۴۔
تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۶ مطبوعہ ۱۹۰۳ء۔
۸۵۔
اخبار پرکاش لاہور ۲۶/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱۔
۸۶۔
اخبار آریہ گزٹ رشی بودھ نمبر ۲۵/۱۸ پھاگن ۱۹۸۶ بکرمی صفحہ ۴۱۔ ۴۲۔
۸۷۔
پرکاش ۲۳/ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۹۔
۸۸۔
آریہ سماجی تحریک کی مزید تفصیل کے لئے ملک فضل حسین صاحب کی مشہور و معروف کتاب ہندو راج کے منصوبے ملاحظہ ہو۔ مندرجہ بالا اقتباسات اسی قابل قدر اور فاضلانہ کتاب سے اخذ کئے گئے ہیں۔
۸۹۔
فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں )از چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار( صفحہ ۲۴۔ ناشر دارالتجلید اردو بازار۔ لاہور۔
۹۰۔
تحریک قادیان صفحہ ۲۰۹ )از مولانا سید حبیب صاحب مدیر سیاست(
۹۱۔
بدر ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳۰۲۔
۹۲۔
ہمارے فرقہ وارانہ فیصلے کا استدراج صفحہ ۱۰۳ تا ۱۰۵۔
۹۳۔
مولوی ثناء اللہ صاحب جیسے عالم نے بھی فتویٰ دیا کہ حکام وقت کے خلاف سول نافرمانی اسلام کے خلاف ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا۔ ہمارے ملک ہندوستان میں جو سول نافرمانی جاری ہوئی ہے اس کے بانی کانگریسی لیڈر گاندھی جی ہیں۔ ارباب سیاست سیاسی رنگ میں جو دل چاہے کریں ہمارا ان سے روئے سخن نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بحیثیت مذہب جانچتے ہیں تو سول نافرمانی کرکے جیل کی سزا بھگتنے کو شریعت مطہرہ کے خلاف پاتے ہیں۔ اہلحدیث ۶/ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۹۴۔
خلیفہ قادیان صفحہ ۱۵ )از ارجن سنگھ ایڈیٹر رنگین امرتسر( شائع کردہ راجپوت بک ایجنسی کٹڑہ جمیل سنگھ امرتسر۔
۹۵۔
خلیفہ قادیان )از ارجن سنگھ صاحب ایڈیٹر رنگین )امرتسر( صفحہ ۱۶۔ ۱۷۔
۹۶۔
یہ حقیقت اتنی واضح اور نمایاں تھی کہ چین کے ایک موقر روزنامہ دی کینٹن ڈیلی سن SUN) DAILY CONTON (THE نے ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں لکھا۔ ہندوستان میں رولٹ ایکٹ ایجی ٹیشن تحریک عدم تعاون اور کانگرس کی شورش کے زمانوں میں جماعت احمدیہ نے پورے جوش اور سرگرمی سے گورنمنٹ کی تائید کی اور حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی سرگرمیوں سے شمالی ہند کے مسلمانوں کو علیحدہ رکھنے والی زیادہ تر یہی جماعت تھی خلیفتہ المسیح جو اس جماعت کے امام ہیں اور جنہیں ان کے پیر و اپنا روحانی پیشوا یقین کرتے ہیں اس وقت واحد مسلمان لیڈر تھے جنہوں نے نہرو رپورٹ اور کانگریس کے عام رویہ کے خلاف مسلمانوں کے افکار کو منظم کرنے میں سب سے پہلے کامیاب قدم اٹھایا۔
۹۷۔
مولانا ظفر علی خاں صاحب کا مشہور شعر ہے۔ ~}~
ہندوئوں کو میں ملاتا ہوں مسلمانوں سے۔ کانگریس کی میں سفارت بھی کیا کرتا ہوں۔ ظفر علی خاں مولفہ جناب شورش کاشمیری( صفحہ ۱۹۷۔ ۱۹۸۔
اسی طرح گاندھی جی کی شان میں فرماتے ہیں۔ ~}~
گاندھی نے آج جنگ کا اعلان کر دیا
باطل سے حق کو دست و گریبان کر دیا
ہندوستاں میں ایک نئی روح پھونک کر
آزادی حیات کا سامان کر دیا
تن حق کیا نثار خلافت کے نام پر
سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا
پروردگار نے کہ وہ ہے منزلت شناس
گاندھی کو بھی یہ مرتبہ پہچان کر دیا
)ایضاً صفحہ ۱۹۲۔ ۱۹۱(
مولوی صاحب مذکور نے ۸/ اگست ۱۹۲۱ء کو راولپنڈی میں تقریر کی جس میں کہا۔
میں وہی کر رہا ہوں جو تلک اور گاندھی بتا رہے ہیں یہ اخلاقی قوت ان بزرگوں کی ہی کام کر رہی ہے یہ راز ساری اس شوریدہ سری کا ہے جس کو انگریز نہیں جانتے۔
پھر ہندو مسلم نام نہاد اتحاد کے سلسلہ میں کہا۔ پانچ سال پہلے اس اتحاد کا وہم و گمان بھی نہ تھا ہندو اور مسلمانوں کو گاندھی` لالہ لاجپت رائے` مالوی جی` موتی لال نہرو کے متعلق خیال ہے کہ یہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مگر کیا یہ پہلے نہ تھے کیا یہ قوت ان میں پہلے موجود نہ تھی میں کہتا ہوں کہ یہ آسمانی قوت ہے اب ہندو مسلمانوں میں تفرقہ نہیں پڑ سکتا ہندوئوں نے مہاتما گاندھی نے مسلمانوں پر جو احسان کئے ہیں ان کا عوض ہم نہیں دے سکتے۔ ہمارے پاس زر نہیں ہے جب جان چاہیں ہم حاضر ہیں<۔ )تقاریر مولانا ظفر علی خاں صفحہ ۵۹۔ ۶۱(
۹۸۔
زمیندار ۶/ ربیع الاول ۱۳۴۷ھ بمطابق ۲۳/ اگست ۱۹۲۸ء۔
۹۹۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۲۵ )از خان کابلی صاحب(
۱۰۰۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۹۱ )مصفنہ خان کابلی(
۱۰۱۔
الفضل ۲۷/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ کالم ۱۔ ۲۔
۱۰۲۔
‏]2h [tag تفصیل تاریخ احمدیت جلد ششم میں گزر چکی ہے۔
۱۰۳۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری چوہدری افضل حق صاحب کو ہمیشہ مہاتما جی کہا کرتے تھے جس کی وجہ شاہ جی کے سوانح نویس نے یہ لکھی ہے >جس طرح کانگریس میں مہاتما جی کا کوئی عہدہ نہیں لیکن اس کے باوجود کانگریس کا پروگرام انہی کی رائے سے متعین ہوتا ہے اسی طرح مجلس احرار میں چودھری افضل حق صاحب کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں لیکن وہی درجہ ہے جو کانگریس میں مہاتما جی کا ہے۔ )سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۷۰۔ از خان کابلی(
‏]1h [tag۱۰۴۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام کی طرف اشارہ ہے۔
۱۰۵۔
یاد رہے ان خانہ برباد رئوسا اور امراء کے سر خیل علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب تھے۔
۱۰۶۔
تاریخ احرار صفحہ ۳۷۔
۱۰۷۔
سیرت ثنائی )مولفہ عبدالمجید صاحب سوہدروی( میں ان کی نسبت لکھا ہے آپ طبعاً سیاسیات کی طرف زیادہ مائل ہیں پہلے احرار میں کام کرتے رہے پھر جمعیتہ علمائے ہند میں گئے۔ پھر کانگریس کے سیکرٹری بنے۔ الخ )صفحہ ۳۶۳ حاشیہ( یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جبکہ آپ کانگریس کے سرگرم کارکنوں میں تھے۔
۱۰۸۔
سہو کتاب ہے اصل دائود ہے۔
۱۰۹۔
تاریخ احرار صفحہ ۳۸۔
۱۱۰۔
ایضاً صفحہ ۱۶۳۔
۱۱۱۔
غلام احمد صاحب پرویز لکھتے ہیں کہ >احراریوں کی بھی یہی ٹیکنیک ہوا کرتی تھی کہ جونہی کسی نے ان کی مخالفت کی انہوں نے شور مچا دیا کہ یہ میرزائی ہے اور جب وہ بیچارا چیخا چلایا کہ مجھے مرزائیت سے کوئی واسطہ نہیں تو کہہ دیا میرزائی نہیں تو میرزائی نواز ضرور ہے۔ )مزاج شناس رسول صفحہ ۴۴۴۔ شائع کردہ ادارہ طلوع اسلام کراچی(
۱۱۲۔
مولانا ان دنوں لنڈن میں بغرض تبلیغ اسلام مقیم تھے۔ آپ نے اس خط کی نقل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھجوا دی تھی جو اب تک محفوظ ہے۔
۱۱۳۔
اہلحدیث یکم جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۵ کالم ۱۔ ۲۔
۱۱۴۔
>کشمیر< صفحہ ۱۶۵۔ ۱۶۶ )از جناب چراغ حسن حسرت( شائع کردہ قومی کتب خانہ ریلوے روڈ اشاعت اول ۱۵/ جنوری ۱۹۴۸ء۔
۱۱۵۔
تاریخ احرار صفحہ ۴۲۔
۱۱۶۔
>کشمیر< )از جناب چراغ حسن حسرت صفحہ ۱۶۵(
۱۱۷۔
>کشمیر< صفحہ ۱۶۵۔
۱۱۸۔
تاریخ احرار صفحہ ۷۹۔ ۸۰۔
۱۱۹۔
تاریخ احرار صفحہ ۶۷۔ ۶۸۔
۱۲۰۔
۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء کو پہلا روزہ تھا۔
۱۲۱۔
تاریخ احرار صفحہ ۶۹۔ ۷۰۔
۱۲۲۔
تاریخ احرار صفحہ ۷۴۔
۱۲۳۔
تاریخ احرار صفحہ ۸۱۔
۱۲۴۔
تاریخ احرار صفحہ ۸۰ تا ۸۴۔
۱۲۵۔
احراریات مصنفہ )ڈاکٹر( علم الدین صفحہ ۱۱ تا ۱۵۔
۱۲۶۔
جیسا کہ چوہدری افضل حق صاحب نے >تاریخ احرار< میں کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ >ہندو کشمیر میں چند وجوہات سے اپنے آپ کو مسلمان سے برتر سمجھتا ہے۔ راجپوتوں کا طبقہ ہے جو خون اور نسل کے اعتبار سے اپنے آپ کو حاکم گروہ تصور کرتا ہے دوسرا عام ہندو جو مسلمان سے چھوت کرنے کے باعث اپنے آپ کو فائق قیاس کرتا ہے اس لئے ہم نے تو اپنی طرف سے غریب عوام کے لئے جنگ لڑی ہے لیکن ریاست کا ہندو اپنے آپ کو عوام میں نہیں سمجھتا بلکہ حاکم گروہ کا جزو قیاس کرتا ہے اس لئے جب تک ہندو کے ذہن میں ایک بنیادی انقلاب نہ آجائے تب تک ریاست کشمیر میں عوام کا مسئلہ اور غریب کا سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم خوش ہیں کہ کشمیر میں حقیقی مسئلہ ہی مسلمانوں کا ہے صرف وہ ہی مخاطب ہونے کا مستحق ہے۔ وہاں غریب ہندو اس مزاج کا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دبائے رکھنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ )تاریخ احرار صفحہ ۸۴۔ ۸۵(
۱۲۷۔
تاریخ احرار صفحہ ۷۵۔
۱۲۸۔
>کشمیر< صفحہ ۱۶۸۔
۱۲۹۔
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا عقیدہ تھا کہ اخباروں نے آغاز سے اب تک بڑے بڑے جھوٹ گھڑے ہیں اگر اس جھوٹ کا بوجھ مائونٹ ایورسٹ پر پڑتا تو وہ بھی زمین میں دھنس چکی ہوتی۔ )کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۸ مولفہ جناب آغا شورش کاشمیری۔
۱۳۰۔
وفات ۔۔۔۔۔۔ ۱۹۶۶ء۔
۱۳۱۔
تحریک کشمیر )لاہور۔ اکتوبر ۱۹۳۱ء( سے اس غداری کا اصل سبب کیا تھا؟ اس بارے میں مولانا ظفر علی خاں صاحب کا مندرجہ ذیل قصیدہ کافی راہ نمائی کرتا ہے۔
>مہاراجہ ہری سنگھ فرمانروائے کشمیر سے خطاب<
اے جواں سال مہاراجہ کہ بزم کشمیر
گونجتی ہے ترے اخلاق کے افسانوں سے
اے کہ آراستہ ہے نامہ عظمت تیرا
بخت و دولت کے چمکتے ہوئے عنوانوں سے
ہے یہی میری تمنا کہ تشکر کی زباں
نہ کبھی عہدہ برآہو ترے احسانوں سے
پنجہ ظلم کو فریاد ترے عدل سے ہو
کہ وہ ہے دور غریبوں کے گریبانوں سے
تو ہو اس آہ جہاں سوز کی جیتی تاثیر
جو نکلتی ہے غریبوں کے سیہ خانوں سے
خود رعایا تری حاجب ہو ترے ایواں کی
تاکہ مظلوم ہراساں نہ ہوں دربانوں سے
نہ مسلماں کو برہمن سے رہے کوئی گلہ
نہ برہمن کو شکایت ہو مسلمانوں سے
گر مساجد سے ہو آوازہ تلطف کا بلند
تو مدارا کا پیام آئے صنم خانوں سے
ہندوئوں سے ہے یقیناً ترے گھر کی رونق
تیری طاقت ہے مگر آج مسلمانوں سے
جن کی دیوانگی سیزدہ صد سالہ کا جوش
داد لینے کو ہے آفاق کے فرزانوں سے
‏]1tp [tag یہ جنوں کیا ہے فقط اس مئے باقی کا سرور
جو چھلکتی ہے مساوات کے پیمانوں سے
وہ مساوات کہ ہے حاصل آزادی فکر
نئی تہذیب نے جو چھین لی انسانوں سے
شرط اسلام ہے تسلیم و رضا صلح و سلام
یہ سبق سکھ لے توحید کے دیوانوں سے
لطف شاہانہ ترا چھین لے گر دل ان کا
تجھ پہ قربان دلوں سے وہ ہوں اور جانوں سے
یہ وہ سر بیچنے والے ہیں کہ تو ان کا ہو
تو نہ کچھ بھی تجھے اندیشہ ہو بیگانوں سے
)نگارستان ظفر علی خاں صفحہ ۱۱۱۔ ۱۱۲(
۱۳۲۔
تحریک کشمیر کے دوران احمدیوں کے خلاف جنگ کرنے کی صحافتی نقطہ نگاہ سے بھی ایک خاص وجہ تھی جس کی تفصیل >زمیندار< کے نامہ نگار خصوصی مقیم سرینگر کے الفاظ میں یہ ہے کہ۔
>خاکسار راقم الحروف نے اپنے راز دار رفقائے کار سے مشورہ کیا کہ قادیانی ہمدردی اور تبلیغ کا اثر صرف ایک ہی طریق سے بے کار ثابت ہو سکتا ہے کہ چند اشخاص جا کر بشیر الدین محمود کو کہیں کہ کشمیر کے حالات الفضل میں چھپنے پر مسلمان معترض ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ محض پروپیگنڈا کرنے کی خاطر کیا جارہا ہے اس لئے تحریک کشمیر کے سلسلہ میں ایک علیحدہ اخبار کشمیر کمیٹی جاری کرے چنانچہ ایک وفد خفیہ طور پر گیا۔ کشمیر کمیٹی کے دیگر ارکان )جو دھوکہ سے اس میں شامل کر لئے گئے تھے( نے اس تجویز کو پسند کیا۔ لیکن حضرت خلیفہ صاحب نہ مانے۔ مدراس کے طویل دورہ سے جب مولانا ظفر علی خاں واپس تشریف لائے تو انہیں راقم الحروف کا وہ خط دکھایا گیا جس میں قادیانی پراپیگنڈا کا تار پود بکھیر کے رکھ دیا گیا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر مولانا نے زمیندار میں تلخ حقائق کا مقالات افتتاحیہ کے ذریعہ دریا بہا دیا )زمیندار قادیان نمبر اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۳( یہاں یہ بتانا بھی مناسب ہو گا کہ اخبار زمیندار نے اپنی ۲۸/ نومبر ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں ایک مضمون شائع کیا جس میں لکھا تھا کہ کشمیر کمیٹی نے عہدہ صدارت و سیکرٹری کو قادیانی اصحاب کے سپرد کرکے سخت غلطی کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزائیت سے ہندو ہو جانا بہتر ہے کہ دنیا کی بہت سی موجودہ تکالیف کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
۱۳۳۔
الفضل ۹/ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔ ۳۔
۱۳۴۔
بحوالہ الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۱۳۵۔
آغا عبدالکریم شورش کاشمیری مدیر چٹان سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ >شاہ صاحب کا سیاست کی نسبت نظریہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ کوئی شریر لفظ نہیں دیکھا یہ خدع و فریب کے ایک ایسے اجتماعی کاروبار کا نام ہے جس سے بابو لوگ اغراض کی دکان چمکاتے ہیں<۔ )صفحہ ۱۷(
۱۳۶۔
چوہدری افضل حق صاحب کا نظریہ یہ تھا کہ غلاموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور مسلمان کبھی غلام نہیں ہو سکتا اس لئے مسلمانوں کو جو دراصل مسلمان کہلانا چاہتے ہیں ملک کی جہد آزادی میں شامل ہو کر ہندوستان کو آزاد کرانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ )ملاپ ۶/ جون ۱۹۳۹ء(
۱۳۷۔
اہلحدیث ۲۹/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۳ کالم ۱۔ ۲۔
۱۳۸۔
اخبار آزاد۔ لاہور ۳۰/ اپریل ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۷ کالم ۱۔ ۲۔
۱۳۹۔
>احرار نمبر< ۲۷۔ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۱۷۔ ۱۸۔
۱۴۰۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۹۴۔
۱۴۱۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۲۱ )از خان کابلی(
۱۴۲۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۹۴ )از آغا شورش کاشمیری( پھکڑ بازی ان کی ایسی عادت ثانیہ بن گئی تھی کہ بعض اوقات اس کی زد میں خود بھی آجاتے تھے چنانچہ شاہ صاحب نے ۱۵/ مئی ۱۹۳۵ء کو لاہور کے ایک جلسہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف نہایت دلازار تقریر کی جس کا ایک فقرہ اخبار احسان میں یہ شائع ہوا کہ >خدا نے بخاری کو مرزائیوں کے اوپر دجال بنا کر بٹھا دیا ہے<۔ )بحوالہ الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۴(
۱۴۳۔
تبلیغ ہی کا فریضہ وہ ہے جس سے مجلس احرار نے ایسی مجرمانہ غفلت برتی کی چوہدری افضل حق صاحب کو لکھنا پڑا کہ >خدا نے مجلس احرار کو زبان آور لوگ دیئے ہیں جن کی تاثیر میں ڈوبی ہوئی تقریریں قلوب کو گرما دیتی ہیں لیکن میں نے سینکڑوں تقریروں میں اسلام کے محاسن اور خوبیاں بیان ہوتے سنی ہیں مگر کسی احراری لیڈر کو یہ کہتے نہیں سنا کہ مسلمانو! تم بھی اپنے دینی اور تبلیغی فرض کو ادا کرو اور غیر مسلموں میں اسلام کا تحفہ پیش کرو۔ احرار ہی ہیں جن کے متعلق عام گمان ہے کہ وہ اسلام کے بہترین مبلغ اور جادو بیان ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو دوسروں سے کیا توقع جن سے عمر بھر آواز نہیں سنی کہ مسلمانو اسلام کا تحفہ غیر مسلموں تک پہنچانا بڑی سعادت اور بہترین خدمت ہے۔ ہم نے ہزاروں تبلیغی جلسے کئے ہوں گے مگر کبھی کسی ایک میں بھی مسلمانوں سے براہ راست اپیل نہیں کی گئی کہ اپنی اپنی بستیوں کے غیر مسلم لوگوں میں اس دین کی جو دنیا میں بہترین پروگرام پیش کرتا ہے تبلیغ کریں۔ نتیجہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں میں کوئی تبلیغی حس نہیں۔ علماء` امراء اور صوفیاء موجود ہیں۔ مگر ان کی بھی اس طرف توجہ نہیں ہر ایک اپنی دکان چلانے میں مصروف ہے اور کاردین سے سب غافل ہیں۔ ننانوے فیصدی مسلمانوں کو جو صوم صلٰوۃ کے پابند ہیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ عمر میں ایک دفعہ کسی غیر مسلم کو تبلیغ دین کریں گویا یہ کوئی کام ہی نہیں<۔ )خطبات احرار جلد اول صفحہ ۷۴ مرتبہ شورش کاشمیری مطبوعہ ۱۹۴۴ء(
۱۴۴۔
اہلحدیث ۲۴/ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۴۵۔
خطبات احرار جلد اول صفحہ ۷۶ )مرتبہ شورش کاشمیری( مطبوعہ ۱۹۴۴ء۔
۱۴۶۔
اقبال اور سیاست ملی صفحہ ۳۱۱ )از سید رئیس احمد صاحب جعفری(
۱۴۷۔
بحوالہ الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۳۔
۱۴۸۔
الفضل ۹/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۱۴۹۔
الفضل ۷/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۲۔
۱۵۰۔
الموعود صفحہ ۱۷۸ تا ۱۸۲ )تقریر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
۱۵۱۔
ہمارے فرقہ وارانہ فیصلے کا استدراج۔ صفحہ ۱۲۱ )مصنفہ قائد احرار مولانا مظہر علی اظہر( ناشر مکتبہ احرار لاہور طبع اول جون ۱۹۴۴ء۔
۱۵۲۔
چراغ حسن صاحب حسرت نے اپنی کتاب مردم دیدہ )صفحہ ۱۵۴ تا ۱۵۶( میں مولوی ظفر علی خان صاحب کا یہ واقعہ لکھا ہے۔ >ایک دن زمیندار کے دفتر میں کسی نے کہا چین` جاپان` انگلستان` جرمنی اور فرانس کے لوگ مسلمان ہونے پر آمادہ ہیں۔ لیکن انہیں تبلیغ کون کرے؟ مولٰنا نے فرمایا۔ بات تو آپ نے ٹھیک کہی۔ اچھا سالک صاحب اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیجئے کہ اگر ہم ایک تبلیغی ادارہ کھول لیں تو کیسا ہے ذرا مہر صاحب کو بھی بلوائے ۔۔۔۔۔۔۔ آگئے مہر صاحب؟ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر یہاں لاہور میں ایک مرکزی تبلیغی ادارہ کھول لیا جائے اور اس کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلا دی جائیں تو یا حرج ہے؟ کوئی دس لاکھ روپیہ خرچ ہو گا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے؟ سات کروڑ۔ نہیں آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہو گی۔ اگر ہر مسلمان سے ایک ایک پیسہ وصول کیا جائے تو کتنے روپے ہوئے؟ ریاضی کا سوال تھا کسی سے حل نہ ہوا۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اتنے میں مولانا نے کہا آٹھ کروڑ پیسے ہوتے ہیں نا؟ آٹھ کروڑ کو ۶۴ پر تقسیم کیجئے ساڑھے بارہ لاکھ روپے ہوئے چلئے دس لاکھ ہی سہی۔ دس لاکھ بہت ہے یہ مرحلہ تو طے ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ تبلیغ کا کام کن کن لوگوں کے سپرد کیا جائے؟ لیکن مبلغ بھی چوٹی کے آدمی ہیں۔ مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد فرانس جرمنی وغیرہ میں تبلیغ کریں اور ڈاکٹر اقبال کو چین بھیج دیا جائے۔ سالک صاحب آپ اور مہر صاحب مل کر اخبار سنبھالئے۔ میں تو اب تبلیغ اسلام کا کام کروں گا کچھ دیر تو دفتر بھر میں سناٹا رہا۔ آخر ایک صاحب نے جی کڑا کرکے کہا کہ مولٰنا! اس میں کوئی شک نہیں کہ تجویز بہت خوب ہے لیکن روپیہ جمع کیسے ہو گا؟ آخر مسلمانوں سے دس لاکھ روپیہ جمع کرنے کے لئے بھی ایک لاکھ روپیہ چاہئے۔ آپ کہیں سے ایک لاکھ روپیہ کا انتظام کر دیجئے۔ باقی کام ہم سنبھال لیں گے۔ مولانا نے فرمایا۔ ہاں بھئی۔ یہی تو مشکل ہے۔ یہ کہہ کر منہ پھیر کر حقہ کی نے سنبھالی انگوٹھا انگشت شہادت پر نیم دائرہ بناتا گھومنے لگا اور اس تبلیغی ادارہ کے اجزا حقہ کے دھوئیں کے ساتھ فضا میں تحلیل ہر کر رہ گئے<۔
۱۵۳۔
اس زمانہ میں ہندو دماغ احمدیت کی نسبت کن منتقمانہ جذبات سے بھرا ہوا تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ اخبار ملاپ )۸/ مارچ ۱۹۳۳ء( نے جماعت احمدیہ کے کسی پوسٹر کا ذکر کیا جس میں لکھا تھا کہ >خلیفہ قادیان کرشن کا اوتار ہے<۔ یہ بات بے بنیاد تھی اور جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے خلاف۔ مگر اس پر اخبار آریہ ویر نے ۱۴۔ ۲۲/ مارچ ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ >مردہ ہیں ہندو جو اس قسم کی دلازاری کو برداشت کر لیتے ہیں اگر ان میں جان ہوتی تو جس وقت مرزا نے کرشن ہونے کا بیہودہ دعویٰ کیا تھا اسی وقت اس کا دماغ ٹھیک کر دیتے یا اب بھی ابو البشیر جیسے لوگوں کو آٹے دانے کے بھائو کا پتہ دے سکتے ہیں<۔ )بحوالہ الفضل ۲۶/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۳ کالم ۳(
۱۵۴۔
بحوالہ الفضل ۲۳/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۵۵۔
بحوالہ الفضل ۱۶/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔
۱۵۶۔
ترجمان اسلام لاہور )ہفت روزہ( ۲۲/ ستمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۲۔
۱۵۷۔
بحوالہ تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء۔ صفحہ ۳۳۷۔
۱۵۸۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جواب شکوہ میں لکھتے ہیں۔ ~}~
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو` بتائو تو مسلمان بھی ہو؟
اس سے بڑھ کر یہ کہ برصغیر کے مشہور صوفی حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی~رح~ نے موجودہ مسلمانوں کی نسبت یہ نظریہ قائم کیا۔ >اگر بالفرض اس زمانہ میں اصحاب نبی~صل۱~ موجود ہوتے تو اس زمانہ کے لوگوں کو کافر کہتے۔ اس لئے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے شریعت کی پیروی چھوڑ دی ہے<۔ )تذکرہ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی~رح~ اردو ترجمہ نافع السالکین صفحہ ۵۷ طبع اول مترجم صاحبزادہ محمد حسین صاحب للہی ناشر شعاع ادب مسلم مسجد چوک انارکلی لاہور(
اسی طرح چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار کو بھی اقرار ہے کہ >اگر پہلی صدی ہجری کا کوئی مسلمان کسی طور زندہ ہو کر موجودہ ہندوستان میں آئے تو وہ فوراً پکار اٹھے کہ یہاں کے اسی فیصدی مسلمان کافر ہیں اور انہوں نے محض سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو مسلمان کہلانا شروع کر دیا ہے<۔ )پاکستان اور اچھوت صفحہ ۱۹ و صفحہ ۸۶۔ مولفہ چودھری افضل حق صاحب مفکر احرار( ناشر مکتبہ اردو لاہور۔ طبع اول(
اسی طرح سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے مسلمانوں کی نسبت کہا۔ >ہم نے اسلام کے نام سے جو کچھ اختیار کر رکھا ہے وہ صریح کفر ہے ۔۔۔۔۔۔ میں کمیونزم سے کیوں ٹکرائوں۔ وہ کونسا اسلام ہے جس پر کمیونزم ضربیں لگا رہا ہے۔ ہمارا اسلام~}~
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا تو سارا نظام کفر ہے قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے<۔ )احرار کا آرگن آزاد ۹/ دسمبر ۱۹۴۹ء(
شاہ صاحب کے سیاسی پیر و مرشد اور امام الہند مولانا ابوالکلام صاحب آزاد نے تذکرہ میں مسلمانوں کے کفر و ضلالت کی یہ تفصیل لکھی ہے کہ۔
>یہودیوں کی مغضوبیت` نصاریٰ کی ضلالت` مشرکین کی بت پرستی` ائمہ مضلین کی کثرت` دجاجلہ فتن و دعاۃ بدعت کا احاطہ` اقتداء بغیر سنت ` اہتداء بغیر ہدیٰ الانبیاء` تفرق و تمذہب مثل یہود اور غلو و اطراء مثل نصاریٰ` فتنہ شبہات یونان اور فتنہ شہوات عجم` فتنہ تماثیل عبدۃ الاصنام اور فتنہ قبور عاکفین کنائس ان میں سے کوئی نحوست اور ہلاکی ایسی نہیں ہے جو مسلمانوں پر نہ چھا چکی ہو اور کوئی گمراہی نہیں جو اپنے کامل سے کامل اور شدید سے شدید درجہ تک اس امت میں بھی نہ پھیل چکی ہو۔ اہل کتاب نے گمراہی کے جتنے قدم اٹھائے تھے گن گن کر مسلمانوں نے بھی وہ سب اٹھائے حتیٰ کہ لود خلوا جحر ضب لدخلتموھا۔ کا وقت بھی گزر چکا اور آج ہم اپنی آنکھوں میں سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
وہ وقت بھی کب کا آچکا ہے کہ یلحق قبائل من امتی بالمشرکین اور حق تعبد من امتی الاوثان اور تعبد اللات و العزی ہماری جانیں اور ہماری روحیں اس صادق مصدوق پر قربان کہ واقعی اور سچ مچ مسلمان مشرکوں سے ملحق ہو گئے اور دین توحید کا دعویٰ کرنے والوں نے بت پرستی کی ساری ادائیں اور چالیں اختیار کر لیں اور جس لات اور عزیٰ کی پوجا سے دنیا کو نجات دلائی گئی تھی اس کی پوجا پھر سے شروع ہو گئی<۔ )تذکرہ صفحہ ۲۷۸ طبع دوم مولفہ مولانا ابوالکلام صاحب آزاد( ناشر کتابی دنیا لاہور(
بالاخر جناب سید ابو الاعلیٰ مودودی >امیر جماعت اسلامی< کی رائے بھی ملاحظہ ہو۔
>یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں۔ نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے<۔ )مسلمانان ہند کی سیاسی کشمکش صفحہ ۱۳۰ )مولفہ سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی( ناشر مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام پٹھانکوٹ(
>یہاں جس قوم کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے رطب دیا بس لوگوں سے بھری ہوئی ہے کیریکٹر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کافر قوموں میں پائے جاتے ہیں اتنے ہی اس قوم میں بھی موجود ہیں<۔ )ایضاً صفحہ ۱۶۰(
۱۵۹۔
زمیندار ۶/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۱۶۰۔
ہماری قومی جدوجہد صفحہ ۷۰ تا ۷۲ )مولفہ عاشق حسین صاحب بٹالوی( مطبوعہ جون ۱۹۳۳ء۔
۱۶۱۔
بحوالہ الفضل ۱۴/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۶۲۔
بحوالہ الفضل ۲۴/ مئی ۱۹۳۵ء۔
۱۶۳۔
الفضل ۲۴/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۶۴۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۴۴۔ ۱۴۳ )مولفہ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب(
۱۶۵۔
تاریخ احرار صفحہ ۶۰۔
۱۶۶۔
خطبات احرار صفحہ ۳۴۔ ۳۵۔
۱۶۷۔
ایضاً صفحہ ۲۰۔
۱۶۸۔
‏h2] [tag احراری لیڈروں کا مشترکہ بیان مطبوعہ روزنامہ ملاپ ۱۳/ اگست ۱۹۴۴ء بحوالہ فسادات ۱۹۵۳ء کا پس منظر۔ صفحہ ۹ )از ملک فضل حسین صاحب(
۱۶۹۔
اخبار افضل سہارنپور ۲۱/ ستمبر ۱۹۴۵ء بحوالہ فسادات ۱۹۵۳ء کا پس منظر صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۷۰۔
خطبات احرار صفحہ ۴۲۔
۱۷۱۔
اخبار آزاد تشکر نمبر۔ ۳۰/ اپریل ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۴ کالم ۲۔
۱۷۲۔
روزنامہ نوائے پاکستان لاہور ۷/ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۷۳۔
جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے انگریزی ایجنٹ اور انگریزی جاسوس قرار دیئے جانے کا تعلق ہے احرار نے اس الزام کو سب سے زیادہ اچھالا اور کانگریسی تکنیک کے عین مطابق اسے بہت ہوا دی۔ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب نے تاریخ احرار میں اس الزام کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ایک تحریر پر رکھی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ >بقول مرزا غلام احمد احمدیت برٹش حکومت کا خود کاشتہ پودا تھی<۔ )تاریخ احرار صفحہ ۱۶۵( حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب` کسی اشتہار` کسی خط بلکہ کسی تحریر میں ایسے الفاظ موجود نہیں۔ یہ محض غلط اور بہتان اور افترا ہے جو احمدیت کے خلاف سیاسی جنگ لڑنے والوں کی طرف سے آج تک بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ چوہدری افضل حق صاحب کے الفاظ میں اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ >جھوٹی خبروں کے اصرار اور تکرار کو بھی پروپیگنڈے کے فن کا اہم جز و قیاس کیا جاتا ہے<۔ )تاریخ احرار صفحہ ۶۱(
۱۷۴۔
آزاد کانفرنس نمبر ۲۶/ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳۰۔
۱۷۵۔
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اہلحدیث )۲۷/ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۳ کالم ۲( میں لکھا >کچھ شک نہیں کہ جہاد ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا تعلق افراد رعایا سے نہیں بلکہ حکومت سے ہے یعنی یہ کام حکومت اسلام کا ہے افراد اسلام کا نہیں پس شرط تو اس میں یہی ضروری ہے کہ بادشاہ اسلام ہو اس کے حکم سے جو جنگ ہو وہ جہاد ہے<۔
۱۷۶۔
نور الحق حصہ اول طبع اول۔
۱۷۷۔
حقیقتہ المہدی صفحہ ۱۹۔
۱۷۸۔
مکتوب حضرت مسیح موعودؑ بنام حضرت میر ناصر نواب صاحب مندرجہ رسالہ درود شریف مولفہ حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ فاضل ہلالپوری(
۱۷۹۔
آزاد ۳۰/ اپریل ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۴۔
۱۸۰۔
فتح اسلام صفحہ ۸۔
۱۸۱۔
مشاہدات کابل و یاغستان صفحہ ۴۰۔
۱۸۲۔
مشاہدات کابل و یاغستان صفحہ ۲۷۔ ۲۸ )از مولوی محمد علی قصوری(
۱۸۳۔
مولوی صاحب موصوف نے اس کتاب کے سرورق پر لکھا۔ >پنجاب کے نامور ہر دلعزیز لفٹنٹ گورنر سر چارلس ایچسن صاحب بہادر کے۔ سی۔ ایس۔ آئی وغیرہ وغیرہ نے اپنے نام نامی سے اس کا ڈیڈیکیٹ ہونا منظور فرمایا<۔
‏h1] gat[۱۸۴۔
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے تبلیغی کانفرنس قادیان کے خطبہ صدارت میں فرمایا۔ >میری صدارت میرے دوستوں کا عطیہ ہے ورنہ اس منصب کا حقدار مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار ہیں جنہوں نے روز اول سے مرزائیت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے۔ وہ اس فن میں ہمارے استاد ہیں<۔ )مدینہ بجنور یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ کالم ۲(
۱۸۵۔
بطور نمونہ چند تحریرات ملاحظہ ہوں۔
۱۔ ہندوستان دارالسلام اور دارالاسلام ہے جہاں دھڑلے سے مسجدوں میں اذانیں دی جاتی ہیں۔ جہاں پادریوں کے پہلو بہ پہلو اسلامی مناد اور واعظ تبلیغ دین مبین کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ جہاں پریس ایکٹ کے موجود ہونے پر لوگوں کو تحریر و تقریر کی وہ آزادی حاصل ہے جس نے ایک عالم کو متحیر بنا رکھا ہے جہاں تمام وہ اقتصادی و تمدنی و سیاسی برکتیں جو کسی آزاد قوم کو حاصل ہونی چاہئیں اعتدال آمیز حریت کے ساتھ انہیں حاصل ہیں مسلمان ایسی جگہ ایک لمحہ کے لئے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے۔ اس مذہبی آزادی اور امن و امان کی موجودگی میں بھی اگر کوئی بدبخت مسلمان گورنمنٹ سے سرکشی کی جرات کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان نہیں۔ )اخبار زمیندار لاہور ۱۱/ نومبر ۱۹۱۱ء(
۲۔ اگر خدانخواستہ گورنمنٹ انگلشیہ کی کسی مسلمان طاقت سے ان بن ہو جائے ۔۔۔۔۔ تو ایسی حالت میں میں مسلمانوں کو اسی طرح سرکار کی طرف سے جلتی آگ میں کود کر اپنی عقیدت مندی ثابت کرنی چاہئے جس طرح سرحدی علاقہ اور سمالی لینڈ کی لڑائیوں میں مسلمان فوجی سپاہیوں نے اپنے مذہبی اور قومی بھائیوں کے خلاف جنگ کرکے اس بات کا بارہا ثبوت دیا ہے کہ اطاعت اولی الامر کے اصول کے وہ کس درجہ پابند ہیں۔ )زمیندار ۱۲/ نومبر ۱۹۱۱ء(
۳۔ زمیندار اور اس کے ناظرین اور تمام وہ لوگ جو زمیندار لٹریری حلقہ اثر میں داخل ہیں گورنمنٹ برطانیہ کو سایہ خدا سمجھتے ہیں اور اس کی عنایات شاہانہ و الطاف خسر دانہ کو اپنی دلی ارادت اور قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرہ کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے۔ )۲۲/ نومبر ۱۹۱۱ء(
۴۔ اپنے بادشاہ کی اطاعت` حکومت وقت کی جاں نثاری` سلطنت ابد مدت برطانیہ کے ساتھ محبت کے وہ ضروری اوصاف بھی بدرجہ اتم موجود ہو جائیں جن کے بغیر ہندوستان کا مسلمان اطاعت اولی الامر کے الہامی معیار میں پورا اترنے کے باعث کامل مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ )زمیندار ۹/ نومبر ۱۹۱۱ء(
۵۔ خدایا یہ بے شک اسلامی حکومت ہے اس حکومت کا سایہ ہمارے سروں پر ابدالاً باد تک قائم رکھ۔ خدا ہمارے شہنشاہ جارج خامس قیصر ہند کے آزاد عمر و اقبال سے ہمیں مستفیض ہونے کا موقع دے۔ )زمیندار ۲/ اکتوبر ۱۹۱۱ء(
۶۔ بحیثیت جمعیتہ الالسلام کے آقا ہونے کے اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں امید کی کوئی روشن کرن نظر آتی ہے تو وہ حضور جارج خامس شاہنشاہ خلد اللہ ملکہم کی ذات بابرکات ہے جو دس کروڑ مسلمانوں کے آقا ہونے کے لحاظ سے ہماری دستگیری پر منجانب اللہ مامور کئے گئے ہیں۔ )زمیندار ۲۸/ جولائی ۱۹۱۱ء(
۷۔ ہمیں ہمارا پاک مذہب بادشاہ وقت کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ہم کو سرکار انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں ہر قسم کی دینی و دنیوی برکتیں حاصل ہیں۔
ہم پر از روئے مذہب گورنمنٹ کی اطاعت فرض ہے۔ ہم انگریزوں کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار ہیں۔ زبانی نہیں بلکہ جب وقت آئے گا تو اس پر عمل کرکے بھی دکھا دیں گے۔ )زمیندار یکم نومبر ۱۹۱۱ء(
مندرجہ بالا سات حوالے ظفر علی خاں کی گرفتاری )مولفہ خان کابلی( سے ماخوذ ہیں۔
۸۔ ہندوستان میں ہمارے دو بادشاہ ہیں ایک جارج خامس اور دوسرے محمد خامس۔ جارج خامس ہماری جان کے مالک ہیں لیکن محمد خامس کا قبضہ ہمارے دلوں پر ہے اور ہماری دلی تمنا ہے کہ دونوں تاجداروں کے تعلقات برادرانہ رہیں تاکہ ہماری جان حزیں ہمارے دل ناشاد سے الجھنے نہ پائے۔ )نقوش لاہور آپ بیتی نمبر صفحہ ۷۳۹(
مولانا ظفر علی خاں صاحب نے جارج خامس کی مدح میں ۱۹۱۲ء میں یہ قصیدہ بھی لکھا۔ ~}~
ہے شیریں نام ایسا بادشاہ جارج خامس کا
غدوئیت ہے زبانوں میں صداقت میں بیانوں میں
ودیعت ہے شہنشاہ کی عقیدت آفریں الفت
سروں میں اور سینوں میں دلوں میں اور جانوں میں
دلوں میں جو کچھ آئے ترجماں اس کی زبانیں ہوں
کہاں حاصل تھیں یہ آزادیاں اگلے زمانوں میں
یہ سچ ہے ہم مسلمانوں کو یہ نعمت میسر تھی
شمار اس کا ہے لیکن قرن اول کے نشانوں میں
نظر آئی تری ظل الہیٰ شاں دونوں کو
برہمن کو صنم خانہ میں مسلم کو اذانوں میں
سلامت قیصرہ کو اور قیصر کو خدا رکھے
یہی اک نغمہ جاں پرور ہے سب قومی ترانوں میں
ہمارے واسطے کیا کم یہی انعام و عزت ہے
کہ داخل ہو گئے قیصر کے ہم بھی مدح خوانوں میں
)ظفر علی خاں کی گرفتاری صفحہ ۱۸ )مرتبہ حبیب الرحمن عرف خان کابلی الافغانی مارچ ۱۹۳۷ء۔ ناشر دفتر ریفارم اسلام لیگ گلی وسن پورہ لاہور(
۱۸۶۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی دو نظموں کے چند اشعار سپرد قلم کرتے ہیں۔ لفٹنٹ گورنر پنجاب ولیم بل کی شان ہیں۔
زہے نشاط فراوان کہ اختر تقدیر
چمک رہا ہے ابھر کر مثال مہر منیر
وہ کون زیب و تخت صوبہ پنجاب
کہ جس کے ہاتھ نے کی قصر عدل کی تعمیر
حضور زینت محفل ہیں ناز ہے ہم کو
جھلک رہی ہے نصیبوں میں سبزی کشمیر
مزے سے سوتا ہے بے خوف دیدہ عالم
‏pt2] ga[t کہ تیرے عہد کا ہے خواب بھی نکو تعبیر
کوئی جو غور سے دیکھے تو امن کی ہے بہار
یہ درسگاہ` یہ محفل` یہ شان` یہ تعمیر
جو بزم اپنی ہے طاعت کے رنگ میں رنگیں
تو درسگاہ رموز وفا کی ہے تفسیر
اسی اصول کو ہم کیمیا سمجھتے ہیں
نہیں ہے غیر اطاعت جہان میں اکسیر
مدد جہان میں کرتے ہیں آپ ہم اپنی
غریب دل کے ہیں لیکن مزاج کے ہیں امیر
مگر حضور نے ہم پر کیا ہے وہ احساں
کہ جس کے ذوق سے شیریں ہوا لب تقریر
وہ لوگ ہم ہیں کہ نیکی کو یاد رکھتے ہیں
اسی سبب سے زمانے میں اپنی ہے توقیر
دعا نکلتی ہے دل سے حضور شاد رہیں
رہیں جہان میں عظمت طراز تاج و سریر
عججب طرح کا نظارہ ہے اپنی محفل میں
کہ جس کے حسن پہ نازاں ہے خامہ تحریر
ہوئے ہیں رونق محفل جناب ولیم بل
ضیائے مہر کی صورت ہے جس کی ہر تدبیر
‏]1tp [tag یہ علم و فضل کی آنکھوں کا نور ہیں واللہ
انہیں کی ذات سے حاصل ہے مہر کو تنویر
خدا انہیں بھی زمانے میں شاد کام رکھے
یہ وہ ہیں دہر میں جن کا نہیں عدیل و نظیر
قمر کے گرد ستارے ہیں ہم عناں کیا ہیں
ہے جس طرح کا شہنشہ اسی طرح کے وزیر
خوشا نصیب کہ یہ ہمرہ حضور آئے
ہماری بزم کی یک بار بڑھ گئی توقیر
بڑھے جہان میں اقبال ان مشیروں کا
کہ ان کی ذات سراپا ہے عدل کی تصویر
)سرود رفتہ صفحہ ۱۷۶۔ ۱۷۷۔ ترتیب و تحشیہ مولانا غلام رسول صاحب مہر( طبع اول ۱۹۵۹ء۔
ملک معظم حکومت برطانیہ کی شان میں اقبال نے جو قصیدہ ایک مشاعرہ میں سنایا تھا اس کے چند بند درج ذیل ہیں۔
اے تاجدار خطہ جنت نشان ہند
روشن تجلیوں سے تری خاوران ہند
محکم تیرے علم سے نظام جہان ہند
تیغ جگر شگاف تیری پاسبان ہند
ہنگامہ دغا میں مرا سر قبول ہو
اہل وفا کی نذر محقر قبول ہو
تلوار تیری دہر میں نقاد خیرد شر
بہروز` جنگ توز` جگر سوز` سینہ ور
رایت تری سپاہ کا سرمایہ ظفر
آزادہ` پرکشادہ` پری زادہ` یم سپر
سطوت سے تیری پختہ جہاں کا نظام ہے
ذرے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے
آزادی زبان و قلم ہے اگر یہاں
سامان صلح دیر و حرم ہے اگر یہاں
تہذیب کاروبار امم ہے اگر یہاں
خنجر میں تاب تیغ میں دم ہے اگر یہاں
‏12] [pجو کچھ بھی ہے عطائے شہ محترم سے ہے
آبادی دیار تیرے دم قدم سے ہے
وقت آگیا کہ گرم ہو میدان کار زار
پنجاب ہے مخاطب پیغام شہریار
اہل وفا کے جو ہر پنہاں ہوں آشکار
معمور ہو سپاہ سے پہنائے روزگار
تاجر کا زر ہو اور سپاہی کا زور ہو
غالب جہاں میں سطوت شاہی کا زور ہو
اخلاص بے غرض ہے صداقت بھی بے غرض
خدمت بھی بے غرض ہے اطاعت بھی بے غرض
عہد وفا و مہر و محبت بھی بے غرض
تخت شہنشہی سے عقیدت بھی بے غرض
لیکن مقال فطرت انساں ضرور ہے
ہندوستاں پہ لطف نمایاں ضرور ہے
جب تک چمن کی جلوہ گل پر اساس ہے
جب تک فروغ لالہ احمر لباس ہے
جب تک نسیم صبح عنادل کو راس ہے
جب تک کلی کو قطرہ شبنم کی پیاس ہے
قائم رہے حکومت آئیں اسی طرح
دبتا رہے چکور سے شاہیں اسی طرح
)ایضاً صفحہ ۵۵ تا ۵۷(
۱۸۷۔
بحوالہ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۸۸۔
اس اپیل پر جماعت احمدیہ کی مخالفت پر مشہور پادری احمد مسیح نے مولوی ظفر علی خاں کو لکھا۔ >جناب مولوی ظفر علی خان صاحب تسلیم! زمیندار نے جو قادیانی تحریک کی تردید کی ہے وہ ہم مسیحیان ہند کے لئے باعث صد سرور و بہجت ہے کیونکہ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ خداوند یسوع مسیح کلمتہ اللہ اور روح اللہ کا کوئی ثانی نہ ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ مرزائے قادیان نے ہمارے خداوند کا نام اختیار کرکے مسلمانوں کے ایک حصہ کو جو جادہ اسلام سے برگشتہ کر دیا ہے۔ شکر اور صد شکر ہے کہ اس کی تردید کرنے والے خود مسلمانوں میں پیدا ہو گئے ہیں جن کو ایک عرصہ سے ہم مسیحیان ہند خداوند کے سایہ میں لانے کے متمنی اور ساعی ہیں۔ )رسالہ المائدہ ماہ دسمبر ۱۹۳۴ء بحوالہ الفضل ۲۷/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۳(
۱۸۹۔
زمیندار ۲۶/ فروری ۱۹۳۳ء بحوالہ الفضل ۱۴/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۴۔
۱۹۰۔
زمیندار ۹/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۳ بحوالہ الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۱۹۱۔
بحوالہ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۱۹۲۔
بحوالہ بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز صفحہ ۷۲ تا ۷۴۔
۱۹۳۔
اشاعتہ السنہ جلد ۱۶ نمبر ۶ صفحہ ۱۶۸ حاشیہ۔
۱۹۴۔
تازیانہ عبرت مرتبہ مولوی کرم دین صاحب دبیر بار دوم صفحہ ۹۳۔ ۹۴۔
۱۹۵۔
ذکر حبیب صفحہ ۳۴۴۔ ۳۴۵ )مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ(
۱۹۶۔
الفضل ۱۱/ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۹۷۔
الفضل ۹/ نومبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔
۱۹۸۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۱۹۹۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۵۔
۲۰۰۔
اس سلسلہ میں تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ ۵۱۹ و صفحہ ۵۲۰ پر متعدد اقتباسات نقل ہو چکے ہیں۔
۲۰۱۔
یہ رپورٹیں محفوظ ہیں۔
۲۰۲۔
مراسلہ خان صاحب فرزند علی صاحبؓ بحضور سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ۔
۲۰۳۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حضور خان صاحب کا خط محررہ ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۳ء از شملہ۔
۲۰۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ کی خدمت میں خان صاحب فرزند علی صاحب کا خط محررہ ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۳ء از شملہ۔
۲۰۵۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حضور خان صاحب کا خط محررہ ۲۰/ اکتوبر ۱۹۳۳ء از شملہ۔
۲۰۶۔
ایضاً۔
۲۰۷۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ کا مکتوب محررہ ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۳ء۔
۲۰۸۔
>مارشل لاء سے مارشل لاء تک< صفحہ ۱۵۸۔ ۱۵۹ )از سید نور احمد صاحب( مولوی مظہر علی صاحب اظہر اس زمانہ کی نسبت خود لکھتے ہیں۔ >مجلس احرار کی مقبولیت عروج پر تھی<۔ )خوفناک سازش صفحہ ۳۳(
۲۰۹۔
صفحہ ۱۶۵۔
۲۱۰۔
>مارشل لاء سے مارشل لاء تک< صفحہ ۱۶۵۔
۲۱۱۔
>اقبال کے آخری دو سال< صفحہ ۲۵۵ ناشر و طابع اقبال اکاومی پاکستان کراچی۔ اشاعت اول اپریل ۱۹۶۱ء۔
۲۱۲۔
جناب مولوی مظہر علی صاحب اظہر )مشہور احراری لیڈر( نے اپنی کتاب >ہمارے فرقہ وارانہ فیصلے کے استدراج< صفحہ ۳۱ تا ۳۳ و ۴۶ میں ہندو کی سر فضل حسین سے دشمنی اور موصوف کی اسلامی خدمت کا تذکرہ کیا ہے جس کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مسلمانوں کے کتنے بڑے محسن کے خلاف احراری زعماء نے مورچہ قائم کیا مولانا ظفر علی خاں نے ان کی وفات پر ایک مرثیہ کہا تھا جس میں ان کے وجود کو اسلام کی محفل میں زیب اور زین تسلیم کیا تھا۔ )چمنستان صفحہ ۵(
۲۱۳۔
یہ لفظ رہ گیا ہے۔ )مرتب(
۲۱۴۔
ایضاً
۲۱۵۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۸۴۔ ۱۸۶۔
۲۱۶۔
تاریخ احرار ۱۶۵۔ ۱۶۶۔
۲۱۷۔
>سید عطاء اللہ شاہ بخاری~رح<~ صفحہ ۹۲ )از جناب شورش کاشمیری(
۲۱۸۔
منقول از الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۳۶ء۔
۲۱۹۔
اخبار زمیندار ۱۱/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۱۔ ۲۔
۲۲۰۔
>مارشل لاء اور مارشل لاء تک< صفحہ ۱۶۱۔
۲۲۱۔
خطبات احرار صفحہ ۳۸ )مرتبہ شورش کاشمیری( ناشر مکتبہ احرار لاہور۔ طبع اول مارچ ۱۹۴۴ء۔
۲۲۲۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۸۹۔
۲۲۳۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ تا ۱۳ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶ نومبر ۱۹۳۴ء۔
۲۲۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ایک غیر مطبوعہ تقریر فرمودہ جولائی ۱۹۳۸ء سے ماخوذ۔
۲۲۵۔
الفضل ۱۷/ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۲۶۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۴۵۔
۲۲۷۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۴ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔ ۳۔
۲۲۸۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۴۵۔
۲۲۹۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۳۰۔ ۳۱ ¶)از خان حبیب الرحمن کابلی( اشاعت جون ۱۹۴۰ء۔ ناشر ہندوستانی کتب خانہ نمبر ۶۳ ریلوے روڈ۔ لاہور
۲۳۰۔
الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۳۱۔
الفضل ۲۹/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ احراریوں نے اگلے سال اپنا سرخ جھنڈا قادیان کے سب سے بڑے ہندو ساہو کار لالہ بڈھامل کے مکان پر گاڑ دیا تھا۔
قادیان میں احرار کے دفتر کی بنیاد کس قماش کے لوگوں سے رکھی گئی اس کا اندازہ لگانے کے لئے ایک شخص غریب شاہ نامی کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے اس شخص کا ذکر عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمات میں کئی بار آتا ہے۔ بخاری صاحب کے وکیل نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے دوارن شہادت میں یہ سوال کیا کہ کیا آپ غریب شاہ سے واقف ہیں گویا یہ وہ شخص تھا جس نے قادیان میں احرار کی بنیاد رکھی اور یہ وہ پہلا احراری مجاہد ہے جسے آٹھ کروڑ مسلمانان ہند میں سے منتخب کرکے احرار نے قادیان بھیجا۔ اس شخص کی نسبت اخبار زمیندار نے اپریل ۱۹۳۵ء کی ایک اشاعت میں مجلس احرار کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دینے کی ناپاک کوشش اور غریب شاہ کی کرتوت کے عنوان سے حکیم فتح محمد سیوحانی کراچی کا مراسلہ شائع کیا۔ جس میں لکھا کہ یہ شخص جامع مسجد قادیان کی تعمیر کے لئے سات آٹھ ماہ سے سندھ کے مختلف شہروں میں پہنچ کر صدہا روپیہ بٹور چکا ہے اس کے پاس اردو اور انگریزی میں سندات تھیں ایک سند میں لکھا ہے کہ شعبہ تبلیغ مجلس احرار ہند کی طرف سے شخص مذکور کو مقرر کیا جاتا ہے۔ انگریزی سند میں علامہ سر اقبال اور دیگر عمائد اکابر پنجاب کے اسماء گرام بھی درج ہیں اس سے دفتر روزنامہ الوحید میں چلنے کو کہا گیا دفتر میں پہنچ کر یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ یہ شخص مسجد کے نام پر لوٹ رہا ہے اس سے حساب کتاب مانگا گیا مگر جواب ندارد بالاخر اعتراف جرم کرکے فرار ہونے کی کوشش کی اور حوالہ پولیس ہوا۔ )ملخصاً(
۲۳۲۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۴۸ )از خان حبیب الرحمن صاحب کابلی(
۲۳۳۔
ایضاً صفحہ ۴۸۔ ۴۹۔
۲۳۴۔
اشتہار بعنوان >حضرت امیر شریعت مجاہد ملت ضیغم اسلام مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا پیغام اپنے مخلصین و عقیدت مندان کے نام<۔
۲۳۵۔
الفضل ۱۷/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۳۶۔
الفضل ۲/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۳۷۔
روئداد جلسہ مجلس احرار اسلام قادیان صفحہ ۳۰۲ شائع کردہ سیکرٹری مجلس احرار قادیان مطبوعہ برقی پریس امرتسر۔
‏tav.7.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
۲۳۸۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری یہاں احرار کے چار مشہور الزامات اور ان کی نسبت مختصراً مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم جج ہائی کورٹ کے ریمارکس درج کئے جاتے ہیں۔ )۱( محمد امین مارا گیا مگر اقبالی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا۔ چیف سیکرٹری حکومت پنجاب کا حلفیہ بیان ظاہر کرتا ہے ہ یہ بات غلط ہے۔ )۲( جماعت احمدیہ کی اپنی عدالتیں ہیں۔ ہائیکورٹ کے ریمارکس اس کی نسبت یہ تھے۔ فوجداری مقدمات کی تحقیقات اس وقت تک قانونی نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض نہیں جب تک کہ وہ طرفین کی مرضی سے ناقابل دست اندازی پولیس اور قابل راضی نامہ جھگڑوں کا فیصلہ کریں۔ )۳( قادیان میں حکومت کا قانون مفلوج ہے۔ ہائیکورٹ نے اس کی نسبت یہ رائے ظاہر کی۔ اگر افسران پولیس اپنا فرض ادا نہیں کر رہے تھے تو بھی بیان کردہ واقعات ایسی شہادت نہیں جس سے ۔۔۔۔۔۔ اخذ کردہ نتائج نکالے جا سکیں کہ حکام مفلوج معلوم ہوتے تھے ظلم کا تدارک نہیں کیا گیا۔ اور یہ کہ قادیان کے مزعومہ معین مظالم کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔ )۴( احمدی ہونے کے لئے تشدد کیا گیا۔ اس الزام کی حقیقت جج ہائیکورٹ کے نزدیک یہ تھی کہ اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ سوائے ان لوگوں کے جو جماعت کو چھوڑ گئے ہوں یا ان سے لڑ بیٹھے ہوں اور کسی کو اس وجہ سے کہ وہ قادیانیوں میں شامل نہیں تھا ڈرایا دھمکایا گیا ہو۔
۲۳۹۔
روئداد مجلس احرار اسلام قادیان صفحہ ۴ شائع کردہ سیکرٹری مجلس احرار اسلام قادیان مطبوعہ برقی پریس امرتسر۔
۲۴۰۔
بحوالہ الفضل ۲۳/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۶۔
۲۴۱۔
سید حبیب صاحب نے تحریک قادیان میں لکھا۔ مولوی ظفر علی صاحب نے حال ہی میں تحریک قادیان کے خلاف جو ہنگامہ برپا کیا۔ سیاست اس سے علیحدہ رہا اس لئے کہ سیاست مولوی صاحب کے اس فعل کو خلوص نیت پر مبنی نہیں سمجھتا اور نہ موجودہ زمانہ کو ایسی ہنگامہ خیزی کے لئے مفید سمجھتا ہے تاہم ارادہ یہ تھا کہ جونہی مولوی ظفر علی صاحب کا پیدا کردہ ہنگامہ فرو ہو جائے تحریک قادیان کے متعلق گالی گلوچ سے بالکل مبرا چند ایسے مضامین سپرد قلم کئے جائیں جو کسی اصول پر مبنی ہوں اور برادران قادیان کو موقعہ دیا جائے کہ وہ ان کا جواب دیں تاکہ ان پر ان کی غلط روی اور دنیا پر ان کی تحریک کی حقیقت ظاہر ہو جائے۔
چنانچہ سید حبیب صاحب نے اس وعدہ کے مطابق اپنے اخبار سیاست میں جماعت احمدیہ کے خلاف نہایت سنجیدگی سے قلم اٹھایا اور متعدد مضامین لکھے جن کا جواب جماعت احمدیہ کی طرف سے چشمہ عرفان کے نام سے شائع شدہ موجود ہے اور ہر صاحب عقل و خرد کو دعوت ذکر دے رہا ہے۔
مولوی ظفر علی خاں صاحب کی روش پر شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے بھی سخت تنقید کی اور عوام اور علماء کو اتحاد کی طرف توجہ دلائی اخبار >زمیندار< نے یہ مخلصانہ دعوت قبول کرنے کی بجائے خواجہ صاحب ہی کو بدنام کرنا شروع کر دیا۔ جس پر انہوں نے اپنے اخبار عادل میں تحریر فرمایا۔
سنا ہے عادل کی تحریک اتحاد المسلمین سے برہم ہو کر لاہور کے ایک اخبار نے میرے خلاف فرضی خطوط شائع کرنے شروع کئے ہیں کہ قادیانیت کی حمایت کیوں کی؟ عادل اخبار ہندوستان کی سب اقوام کو ایک دل اور ملکی خدمات کے لئے متحد دیکھنے کا آرزو مند ہے ہندوئوں کے سب فرقوں اور مسلمانوں کے سب فرقوں کو ایک دل اور ملکی خدمت کے لئے متحد دیکھنے کا آرزو مند ہے ہندوئوں کے سب فرقوں اور مسلمانوں کے سب فرقوں کو اپنے عقائد پر قائم رہنے اور ان کو اچھا سمجھنے کا حق حاصل ہے۔ مگر ان کو یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ وہ ذاتی عقائد کے جھگڑوں سے ملکی محبت ملکی خدمت اور ملکی وحدت میں رخنہ اندازی کریں اور ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو قربان کر دیں۔
میں قادیانی فرقہ کے کسی چھوٹے بڑے عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتا لیکن ان کے غلط عقائد کی جوابدہی ہی خدا کے سامنے خود انہی کے ذمہ سمجھتا ہوں مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ خدا یا اس کے فرشتے مجھ سے قادیانیوں کے عقائد کی باز پرس کریں گے البتہ اگر میں اپنے عقائد کے خلاف مسلمان فرقوں سے موجودہ نازک زمانہ میں ان کے ذاتی اعتقاد کی نسبت جھگڑا کروں گا تو خدا کے سامنے اور خود اپنے ضمیر کے سامنے مسلمانوں کی سیاسی اخوت کے استحکام کو برباد کرنے والا مجرم بن جائوں گا اور اس کی باز پرس مجھ سے ضرور ہو گی اس لئے لاہور کے مذکورہ اخبار اور اس جیسے سب حملہ آور اصحاب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی روش تبدیل کر دیں ورنہ دنیا و آخرت میں ان کو شرمند ہونا پڑے گا۔
)روزنامہ عادل دہلی۔ مورخہ ۸/ مارچ ۱۹۳۳ء(
۲۴۲۔
اشتہار مشتہرہ مجلس دعوت و ارشاد ہزارہ۔
۲۴۳۔
جناب مرزا عبدالحق صاحب کے ایک غیر مطبوعہ مراسلہ سے ماخوذ۔
۲۴۴۔
الفرقان )دسمبر ۱۹۶۵ء( ربوہ صفحہ ۶۳ کالم ۱۔
۲۴۵۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۲۴۶۔
الفضل ۲۰/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۲۴۷۔
الفضل ۵/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۱۔ ۲۔
‏]1h [tag۲۴۸۔
الفضل ۶/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۶ و ۸۔
۲۴۹۔
الفضل ۲۳/ مارچ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۲۵۰۔
الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۲۵۱۔
الفضل ۱۱/ جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۲۵۲۔
الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۲۵۳۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۲۵۴۔
الفضل ۲۱/ جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔
۲۵۵۔
الفضل ۵/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔][۲۵۶۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنی تقریر نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر )صفحہ ۵۵ تا ۶۷( میں بعض ایسے لوگوں کی نشان دہی فرما دی ہے جنہوں نے اس دور ابتلاء میں جماعت احمدیہ کے بیرونی دشمنوں سے ساز باز کرکے فتنہ پیدا کرنا چاہا تھا۔
۲۵۷۔
الفضل ۱۶/ نومبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۲۵۸۔
رسالہ خالد ربوہ جنوری ۱۹۶۵ء صفحہ ۳۰۔ ۳۱۔
۲۵۹۔
الفضل ۳۰/ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲۔
۲۶۰۔
مکتوب خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ )محررہ۔ ۱۰/ فروری ۱۹۳۴ء( بحضور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ۔
۲۶۱۔
بریکٹ میں سنہ کا اضافہ مرتب کی طرف سے۔
۲۶۲۔
اخبار زمیندار )۷/ مارچ ۱۹۳۳ء( نے مولوی ظفر علی خان صاحب کی نسبت لکھا۔ >ان کے بشرے سے اس سپہ سالار کے فولادی عزم کا پتہ چلتا تھا جو اپنی فتح کو مقدرات سے سمجھتا ہو<۔
۲۶۳۔
زمیندار مر چکا ہے اور احمدیت خدا کے فضل سے زندہ ہے اور انشاء اللہ زندہ رہے گی۔
۲۶۴۔
روزنامہ زمیندار ۲۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۔
۲۶۵۔
چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف اشارہ ہے۔
۲۶۶۔
احرار تبلیغ کانفرنس کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔ )مرتب(
۲۶۷۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ تا ۱۸ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۲/ نومبر ۱۹۳۴ء(
۲۶۸۔
الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۲۶۹۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۲۷۰۔
چوہدری صاحب موصوف اس شعبہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے پرسنل اسسٹنٹ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ شعبہ خاص کے خاص معاونوں میں سے مولوی نذر احمد صاحب` مولوی عبداللطیف صاحب` مولوی ظفر محمد صاحب` سید عمر شاہ صاحب اور سید محمد محسن صاحب بالخصوص قابل ذکر ہیں۔
۲۷۱۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۲۷۲۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۶۔
۲۷۳۔
اصل رپورٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیحؑ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
۲۷۴۔
‏h2] g[ta حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۴۳ء پر بتایا کہ میں نے مجسٹریٹ کو لکھ دیا کہ یہ ظالمانہ حکم ہے اور اس طرح میری ہتک کی گئی ہے مجسٹریٹ صاحب سمجھے یہ موقع ان کو ممنون کرنے کا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ نے یہ کیا لکھ دیا ہے سوچ لیں میں نے کہا تم کو اس سے کیا۔ تم گورنمنٹ کو چٹھی لائے ہو۔ اب اس کا جواب لے جائو۔ پھر ہم چھ ماہ تک گورنمنٹ سے پوچھتے رہے کہ یہ حکم کس بناء پر جاری کیا گیا تھا۔ مگر کوئی جواب نہ دیا گیا آخر حکومت پنجاب کے چیف سیکرٹری نے کہا کہ ہم کافی ذلیل ہو چکے ہیں آپ آئندہ اس بات کو نہ اٹھائیں۔ )غیر مطبوعہ تقریر۔ فرمودہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۴۳ء سے اقتباس(
۲۷۵۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ تا ۹۔
۲۷۶۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۴ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۸۷۔
۲۷۷۔
تحریک جدید کی طرف اشارہ ہے جو حضور نے خاص القاء کے ماتحت جاری فرمائی اور جسکی تفصیل اگلی جلد میں آرہی ہے۔
۲۷۸۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
۲۷۹۔
الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۲۸۰۔
تفصیل گورداسپور تھانہ کاہنووان۔
۲۸۱۔
پریم پرچارک ۱۲/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ جلد ۱۱ نمبر ۶۔ اصلی پرچہ کا تراشہ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۲۸۲۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۸۳۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔
۲۸۴۔
پیغام صلح ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۴ صفحہ ۵۔
۲۸۵۔
ایک پنجابی شاعر جس نے کانفرنس میں نہایت دلازار نظمیں سنائیں۔
۲۸۶۔
پیغام صلح ۳/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔
۲۸۷۔
ایضاً صفحہ ۶ کالم ۳۔
۲۸۸۔
مولوی ثناء اللہ صاحب لکھتے ہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ ہم دونوں احرار کے جلسہ قادیان میں نہیں گئے تھے جس کی بابت ہمارا اعلان ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ہم وہ سارے الفاظ نقل کر دیتے ہیں۔
جلسہ قادیان )یعنی جلسہ احرار۔ ناقل( جو عنقریب ہونے والا ہے۔ لوگ میری شرکت کی بابت سوال کرتے ہیں۔ ان کو واضح ہو کہ بانیان جلسہ نے اپنی کسی مصلحت کے ماتحت نہ مجھ سے مشورہ لیا نہ دعوت دی۔ مولانا ابراہیم صاحب کے خط سے بھی ایسا ہی معلوم ہوا ہے۔ ان حالات میں ہماری شرکت نہ ہو گی۔ )اہلحدیث امرتسر صفحہ ۱۴۔ ۱۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء(
اس اعلان کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک لڑکا امرتسری ثناء اللہ نامی کراچی میں کلرک ہے۔ احرار نے اپنے اشتہار جلسہ کے مدعووین میں اس کو مولوی ثناء اللہ لکھا تھا۔ اس پر بعض احباب نے دریافت کیا۔ تو ہم نے یہ نوٹ شائع کیا۔ جس کا ہمیں افسوس ہے کیونکہ مولوی میر محمد صاحب بھانبڑی نے بعد جلسہ قادیان ہم کو بتایا کہ آپ کی عدم شرکت کی وجہ سے لوگ معہ امدادی چندہ کے واپس چلے گئے۔ واللہ اعلم۔ )اہلحدیث امرتسر ۲۴/ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۴ کالم ۳(
۲۸۹۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
۲۹۰۔
الحکم ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۲۹۱۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۔
۲۹۲۔
زمیندار ۴/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۱/ جولائی ۱۹۳۵ء کو انجمن سیف الاسلام )نیلہ گنبد لاہور( کا نیا انتخاب عمل میں آیا اور مولانا سیف الرحمن صاحب جنرل سیکرٹری مقرر کئے گئے۔
۲۹۳۔
قبول احمدیت کے تفصیلی حالات اگلی جلد میں آرہے ہیں۔][۲۹۴۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۲۹۵۔
الفضل ۱۷/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۲۹۶۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳ و الحکم ۲۸/ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔ ملک حبیب الرحمن صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز حال ربوہ کا بیان ہے۔ >غالباً ۱۹۳۶ء کی بات ہے جبکہ میں شجاع آباد میں تھا کہ ایک دفعہ جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سندھ تشریف لے جارہے تھے تو میں نے اپنے چند ایک دوستوں سے عرض کیا کہ وہ اسٹیشن پر چل کر حضور کی زیارت کریں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر چاند نرائن تھے جو ملتان کے رہنے والے تھے اور ان دنوں شجاع آباد سول ہسپتال کے انچارج تھے۔ جب میں نے بعض دوسرے دوستوں کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی حضور کی زیارت کرنے کو کہا۔ تو وہ ایک سرکاری کام کی وجہ سے خود نہ جا سکنے کا افسوس کرنے لگے۔ لیکن دوسرے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ان کے خلیفہ صاحب بھی بہت ہی نیک اور دھرماتما بزرگ ہیں میرے ایک ماموں صاحب پولیس میں تھانیدار ہیں جب ۱۹۳۴ء میں احرار نے قادیان میں ایک کانفرنس منعقد کی تو منجملہ دوسرے تھانیداروں کے وہ بھی وہاں ڈیوٹی پر تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک دن ان کے چند ایک دوستوں کو خیال پیدا ہوا کہ وہ حضرت صاحب کی زیارت کریں۔ چنانچہ یہ لوگ حضرت صاحب کے دولت خانہ پر پہنچے اور زیارت کی درخواست کی۔ جو منظور کر لی گئی۔ مصافحہ کرنے کے بعد ہم نے عرض کیا کہ ہمیں کچھ عرصہ خاموشی سے حضور اپنی صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ بخشیں۔ چنانچہ ہم کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے اور دوسرے اصحاب کو حضور سے ملاقات کرتے دیکھتے رہے اور رخصت کے وقت حضور سے عرض کیا کہ ہمیں کچھ نصیحت فرمائی جاوے۔ ان کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا۔ آپ لوگ ایک خدا کی پرستش کریں شرک نہ کریں۔ مخلوق خدا سے نیکی کریں۔ کسی پر ظلم نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔ حضور نے اختلاف مذاہب کا اشارۃ" بی ذکر نہیں کیا اور یہ امر ان کے لئے بہت خوشی کا باعث ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میرے ماموں )تھانیدار( صاحب کا بیان ہے کہ اگر حضرت صاحب ایک عام دنیادار پیر کی طرح ہوتے تو ضرور کہتے کہ مسلمان ہو جائو ورنہ دوزخ میں جائو گے حضرت صاحب کی صحبت میں بیٹھ کر اور حضور کے کلمات طیبات سن کر ان پولیس افسروں کو یقین ہو گیا کہ یہ انسان ایک بہت بڑا انسان اور خدا رسیدہ بزرگ ہے اور اسے زیر کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ )غیر مطبوعہ(
۲۹۷۔
فیصلہ ہائیکورٹ بمقدمہ سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری۔
۲۹۸۔
بحوالہ سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۳۸ تا ۴۰۔
۲۹۹۔
اخبار مدینہ بجنور یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ نمبر ۷۸ جلد ۳۲۔
۳۰۰۔
ایضاً صفحہ ۸۔
۳۰۱۔
تبلیغی کانفرنس قادیان کا پانچواں اجلاس۔ مدینہ بجنور یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸ نمبر ۷۸ جلد ۲۳۔
۳۰۲۔
بحوالہ الفضل ۸/ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵ کالم ۳۔
۳۰۳۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱ تا ۳۔
۳۰۴۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۳۰۵۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۳ کالم ۱۔ ۲۔
۳۰۶۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۰۷۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴۔
۳۰۸۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ تا ۱۱۔
۳۰۹۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۳۱۰۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۱۱۔
اس خط کی نقل دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں موجود ہے۔
۳۱۲۔
‏ BUTLER MR:
۳۱۳۔
الفضل ۲۰/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۱۴۔
صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ سالانہ )یکم مئی ۱۹۳۵ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۶ء( سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے حکومت پنجاب اور حکومت ہند دونوں کو اس طریق کے سلسلہ میں ایک آزاد کمیشن بٹھانے کی بھی تجویز کی گئی۔ مگر وہ قبول نہیں کی گئی چنانچہ لکھا ہے۔ >جماعت احمدیہ کی بعض شکایات بعض حکام کے خلاف گورنر بہادر پنجاب کی خدمت میں بصورت وفد پیش کرنے کے لئے چیف سیکرٹری صاحب پنجاب گورنمنٹ کو لکھا گیا۔ تا گورنر بہادر پنجاب کی خدمت میں درخواست کی جائے کہ ایک آزاد کمیشن بٹھایا جائے۔ جو جماعت احمدیہ کی شکایات پر غیر جانبدار ہو کر غور کرے مگر گورنمنٹ پنجاب نے ہر دو طریق کو منظور نہ کیا اس کے بعد نظارت ہذا )امور عامہ۔ ناقل( نے دوسرا قدم اٹھایا اور وہ یہ تھا کہ گورنمنٹ ہند یا تو خود جماعت احمدیہ کا وفد قبول کرے یا پنجاب گورنمنٹ کو ہدایت کرے کہ ہماری متذکرہ بالا صورتوں میں سے کسی صورت پر عملدرآمد کرے مگر گورنمنٹ ہند نے بھی ان ہر دو صورتوں میں سے کسی صورت کو قبول نہ کیا۔ اب تیسرا قدم جو نظارت ہذا کی طرف سے اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آنریبل وزیر ہند لنڈن کی خدمت میں تمام خط و کتابت جو نظارت ہذا اور گورنمنٹ پنجاب و ہند کے درمیان ہوئی اس کی نقول ارسال کرتے ہوئے درخواست کی گئی کہ وہ پنجاب گورنمنٹ یا گورنمنٹ ہند کو ہدایت کریں کہ ہماری شکایات کو مجوزہ طریق سے سن کر ان پر غور کرے<۔ )صفحہ ۱۶۴۔ ۱۶۵(
۳۱۵۔
‏h2] ga[t الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔
۳۱۶۔
الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۴۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۱۷۔
الفضل ۲۲/ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۳۱۸۔
الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵ کالم ۳۔ ۴۔
۳۱۹۔
الفضل ۶/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔ الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۳۵ء۔
۳۲۰۔
اخبار الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ تا ۷۔
۳۲۱۔
الفضل ۳/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۳۲۲۔
الفضل ۲۹/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
‏h1] g[ta۳۲۳۔
الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۳۲۴۔
الفضل ۳/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۳۲۵۔
الفضل ۷/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ دفعہ ۱۴۴ سے سکھ بھی عملاً مستثنیٰ تھے چنانچہ ۲۶/ جنوری ۱۹۳۵ء کو ہری سنگھ گیانی نے چند سکھوں اور احراریوں کے سامنے ایک اشتعال انگیز تقریر کی اور کہا۔ اس جگہ جسے دارالامان کہتے ہیں خونریزی ہو گی اور یہ ٹکر مرزائیوں کو مہنگی پڑے گی ایک افسر نے مجھے کہا ہے کہ احمدیوں کی گیڈر بھبکیاں ہیں یہ کچھ نہیں کر سکتے۔ )الفضل ۲۹/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۶ کالم ۳(
۳۲۶۔
اس مقدمہ کی تحریک بھی شیخ صاحب موصوف نے کی تھی جس کا تذکرہ خود سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔
۳۲۷۔
الفضل ۲۴/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۳۲۸۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۳۲۹۔
الفضل ۴۔ ۵/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔ مفصل فیصلہ الفضل ۱۱/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ پر شائع شدہ ہے۔
۳۳۰۔
الفضل ۳/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۲ کالم ۲۔
۳۳۱۔
الفضل ۸/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔
۳۳۲۔
الفضل ۷/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۳۳۳۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۳۳۴۔
الفضل ۱۱/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۴۔
۳۳۵۔
الفضل ۳/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۴۔
۳۳۶۔
الفضل ۳/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۳۳۷۔
الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۳۳۸۔
اس ظلم و ستم کا اندازہ کرنے کے لئے اخبار زمیندار اور احسان میں شائع شدہ چند خبریں ملاحظہ ہوں۔
۱۔ اخبار زمیندار )۱۵/ جنوری ۱۹۳۵ء( نے بنگہ میں قادیانیوں کا بائیکاٹ کے عنوان سے لکھا۔ ایک آدمی نے بیان دیا کہ کل عید کے دن شام کے چار بجے ایک ناواقف شخص نے ایک قصاب کی دکان سے گوشت خریدا۔ اتنے میں اس کا ایک رشتہ دار آگیا۔ اس نے آکر کہا کہ یہ دکان مرتد مرزائی کی ہے تم نے یہاں سے گوشت کیوں خریدا کیا عید گاہ میں جو معاہدہ کیا تھا۔ یاد نہیں۔ اس نے اپنی بے خبری ظاہر کی کیونکہ وہاں پہلے ایک مسلمان قصاب بیٹھا کرتا تھا اور گوشت واپس کر دیا۔ الحمدلل¶ہ مسلمانان بنگہ اپنے عہد کی پاسداری کر رہے ہیں۔
۲۔ احسان )۱۷/ جنوری ۱۹۳۵ء( میں دیال گڑھ میں مرزائیوں کا بائیکاٹ اور بھنگواں میں مرزائیت کے خلاف عملی جہاد کے عنوانوں کے تحت یہ نوٹ شائع ہوا۔ دیال گڑھ میں مرزائیوں سے کلیتہ بائیکاٹ کر دینے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا گیا جملہ حضار نے صمیم قلب سے تمام عملی تجاویز پر پابند رہنے کا وعدہ کیا اور بھنگواں سے متعلق لکھا۔ کئی روز سے مرزائیوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ مرزائیوں کے ساتھ حقہ پانی بند اور راہ و رسم کلیتہ ممنوع ہے۔ دیہہ ہذا کی انجمن کا فیصلہ ہے کہ خلاف ورزی کرنے والا پچاس روپیہ کے جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہو گا۔
۳۔ زمیندار ۱۹/ جنوری ۱۹۳۴ء نے گوجر خان کے ایک جلسہ کا ذکر کیا کہ >مولانا کی تقریر نے مسلمانان گوجر خان کی مردہ رگوں میںایک نئی روح پھونک دی۔ چنانچہ سب نے متفقہ طور پر عہد کیا کہ وہ آئندہ مرزائیوں سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں گے<۔
۴۔ احسان ۱۹/ جنوری ۱۹۳۴ء میں موضع پرجیاں ضلع جالندھر کے ایک جلسہ کی روئیداد شائع ہوئی کہ >تمام حاضرین جلسہ نے متفقہ طور پر مرزائیوں کا مقاطعہ کرنے کے متعلق قرار داد منظور کی<۔
۵۔ جموں کی نسبت ۲۰/ جنوری ۱۹۳۴ء کے احسان میں چھپا۔ شہر کے تمام مسلمانوں نے مرزائیوں سے سوشل بائیکاٹ کر دیا ہے۔
۳۳۹۔
مکرم مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس زمانہ میں احرار ملک کے طول و عرض میں بڑے وسیع پیمانے پر جلسے کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ ضلع لائلپور کے ایک شہر میں ان لوگوں نے ایک بہت بڑا جلسہ کیا۔ ہزارہا کی تعداد میں لوگ شامل ہوئے اور احمدیت کے خلاف خوب جی بھر کر گند اچھالا گیا۔ اس شہر میں صرف پانچ بالغ احمدی تھے۔ وہاں کے پولیس افسر نے مجھے بتایا کہ ایک روز چوہدری افضل حق صاحب` مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی اور سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری تینوں لیڈر میرے پاس تشریف لے آئے میں ان کی عظمت کا بہت قائل تھا۔ میں نے ان کی خوب آئو بھگت کی۔ مگر جب انہوں نے مجھے یہ کہا کہ یہاں کے پانچوں بالغ احمدیوں کو اس الزام میں گرفتار کر لو کہ انہوں نے ہمارے جلسہ میں گڑبڑ ڈالنے کی کوشش کی ہے تو میں سخت حیران ہوا کیونکہ مقامی افسر ہونے کی وجہ سے میں جانتا تھا کہ وہ نہایت ہی شریف لوگ ہیں اور اپنے گھروں میں سر چھپا کر بیٹھے ہوئے ہیں مگر میں ان لیڈروں کی ہر دلعزیزی کی وجہ سے انہیں مایوس بھی نہ کر سکا۔ اور بادل ناخواستہ معصوم اور بے گناہ احمدیوں کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ مگر میں دل میں اس قدر شرمسار اور پریشان تھا کہ مجھے نہ دن کو چین آتا تھا نہ رات کو اور میں سوچتا تھا کہ یا اللہ! یہ لوگ ہمارے مذہبی لیڈر ہیں جو سچ اور جھوٹ میں تمیز ہی نہیں کرتے چنانچہ میں اندر ہی اندر احمدیت کی سچائی کا قائل ہو گیا۔ اور جب تھوڑے عرصہ کے بعد میرا وہاں سے تبادلہ ہوا۔ تو دوسری جگہ پر پہنچتے ہی سب سے پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھا اور جماعت میں شامل ہو گیا۔ )رسالہ خالد ربوہ جنوری ۱۹۶۵ء صفحہ ۲۹۔ ۳۰(
۳۴۰۔
الفضل ۱۴/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۳۴۱۔
الفضل ۱۰/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۳۴۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۹۳۵ء۔
۳۴۳۔
زمیندار ۲/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ بحوالہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۴۴۔
الفضل ۷/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۳۴۵۔
‏h2] g[ta سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری از خان کابلی صفحہ ۱۰۰۔
۳۴۶۔
الفضل ۶/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔
۳۴۷۔
الفضل ۱۳/ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۳۴۸۔
الفضل ۳/ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۳۴۹۔
الفضل ۲/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ و الفضل ۱۹/ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۳۵۰۔
الفضل ۵/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۳۵۱۔
الفضل مارچ و مئی ۱۹۳۵ء۔
۳۵۲۔
الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔
۳۵۳۔
الفضل ۳۱/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۳۵۴۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۳۵۵۔
الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۳۵۶۔
الفضل ۱۱/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ ۴۔
۳۵۷۔
الفضل ۲۰/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۔ ۵۔ الفضل ۸/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔ تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو۔ تابعین اصحاب احمد جلد اول )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان(
۳۵۸۔
الفضل اپریل و مئی ۱۹۳۵ء۔
۳۵۹۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۳۶۰۔
الفضل ۱۵/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۴۔
۳۶۱۔
الفضل ۱۴/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۶۲۔
الحکم ۱۴/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۳۶۳۔
الفضل ۳/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۳۶۴۔
الفضل ۱۰/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۳۶۵۔
الفضل ۲۱/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۳۶۶۔
الفضل ۸/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹرایٹ لاء لائل پور مرکز کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے کہ انتقال فرما گئے آپ کے بعد شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے پیروی میں امداد فرمائی۔ آخر عدالت نے دو احمدیوں کو بری کر دیا اور پہلوان عبدالواحد صاحب کو قید کی مختصر سزا دی لیکن ہائیکورٹ میں اپیل ہونے پر وہ بھی بری کر دیئے گئے۔ )رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۵ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۵۳۔ ۱۵۴(
۳۶۷۔
الفضل ۱۹/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔
۳۶۸۔
‏]h2 [tag الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔ اس مقدمہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی بہت مدد کی چنانچہ لکھتے ہیں ہم نے مقدمہ میں احرار کو وہ مدد دی جو کسی نے نہیں دی نہ کوئی دے سکتا تھا۔ )اہلحدیث ۲۴/ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲(
۳۶۹۔
الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۔
۳۷۰۔
الفضل ۷/ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۳۷۱۔
تفصیل اگلی جلد میں آئے گی۔ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی نے ایک تقریر میں کہا۔ ہم نے آج تک قادیانیوں کے سلسلہ میں جو کیا اسے جانے دو ہمارا یہی کارنامہ کیا کم ہے ہ ہم نے عرب و عجم چین و ماچین شرق و غرب کے خلیفہ یعنی مرزا بشیر الدین محمود کو دیوان سکھانند کی عدالت میں لا کھڑا کیا۔ )احسان ۲۷/ مارچ ۱۹۳۵ء(
۳۷۲۔
اہلحدیث ۳/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۶ کالم ۲۔
۳۷۳۔
اہلحدیث ۱۴/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۵ کالم ۱۔
۳۷۴۔
فیصلہ ہائیکورٹ بمقدمہ سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری میں لکھا ہے ایک ماہ بعد کیپٹن مرزا شریف احمد صاحب برادر مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے درخواست نمبر ۲۲۵ دی اور اس میں فیصلہ کا ایک بڑا حصہ حذف کرنے کی اسی بناء پر درخواست کی کہ اس حصہ کا قائم رکھنا قانونی اختیارات کا غلط استعمال اور درخواست کنندہ کے حق میں بے انصافی ہے کیونکہ وہ فریق مقدمہ نہیں تھا اور اس کے لئے اپنی بریت میں سید عطاء اللہ کی گواہی کے خلاف شہادت پیش کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔ عرضی ۱۸۲ کے ساتھ چیف سیکرٹری حکومت پنجاب کی طرف سے ایک بیان حلفی بھی تھا جس میں سیشن جج کے عائد کردہ الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ اور صحیح واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ درخواست نمبر ۲۲۵ کے ساتھ بھی درخواست کنندہ کی طرف سے ایک بیان حلفی پیش کیا گیا ہے جس میں زیر اعتراض ریمارکس کی تغلیط کی گئی ہے اور فیصلے کو اس تقریر سے بھی زیادہ اشتعال انگیز بتایا ہے جس کی بناء پر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ )ترجمہ(
۳۷۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ )یکم مئی ۱۹۳۵ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۵۱۔ ۱۵۲(
۳۷۶۔
فیصلہ ہائیکورٹ بمقدمہ سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری۔
۳۷۷۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ )یکم مئی ۱۹۳۵ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۶ء( صفحہ ۱۵۱۔ ۱۵۲۔
۳۷۸۔
الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔ ۴ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۹/ جون ۱۹۳۹ء( ایضاً ۱۳/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔ ۶۔ الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۳۔
۳۷۹۔
الفضل ۲۴/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔
۳۸۰۔
اس افتراء پر لعنہ اللہ علی الکاذبین کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے مگر قارئین ذرا حضرت غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب فوائد فریدیہ کے ترجمہ فیوضات فریدیہ کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ ایک شخص )حضرت( خواجہ معین الدین چشتی~رح~ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اپنا مرید بنائیں فرمایا لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ )صفحہ ۸۳ ناشر مکتبہ معین الادب ڈیرہ غازی خان(
۳۸۱۔
الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۳۸۲۔
الفضل ۵/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۳۸۳۔
اپریل ۱۹۳۵ء میں مسلمانان ہند کے مشہور زعماء کی طرف سے برادران ملت سے اس بارہ میں ایک اپیل بھی شائع کی گئی تھی جو الفضل ۶/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ پر درج ہے۔
۳۸۴۔
یہ فقرہ جو خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی زبان مبارک سے نکلا آئندہ چل کر احمدیت کی صداقت کا زندہ وتابندہ نشان بن گیا۔ جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا۔ عجیب بات ہے کہ اس فقرہ میں دشمنوں کا لفظ تھا جس کے تحت احرار اور حکومت دونوں کے پائوں کے نیچے سے زمین کا نکلنا مقدر تھا۔ سو احرار مسلمانوں کی نگاہ میں سخت ذلیل ہوئے اور حکومت انگریزی کا اقتدار اس برصغیر میں ختم ہو گیا اور ہندوستان کی سرزمین اس کے مقبوضات سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی۔
۳۸۵۔
الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۳۸۶۔
الفضل ۴/ جون ۱۹۴۰ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۳۸۷۔
الفضل ۱۷/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ ۴۔
۳۸۸۔
الفضل ۵/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۳۸۹۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۵ء لغایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۵۳۔
۳۹۰۔
الفضل ۲۹/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔
۳۹۱۔
الفضل ۱۸/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۳۹۲۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ۲۔
۳۹۳۔
الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۹۴۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۹۵۔
الفضل ۱۰/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۹۶۔
اس بدطینت کا نام حنیفا۔ اور اس کے والد کا نام چوہڑ شاہ تھا کہتے ہیں جس روز یہ واردات ہوئی ڈھائی بجے سے لے کر وقوعہ کے وقت تک اسے احراری مسجد خوجیاں کے قریب لاٹھی لئے ہوئے دیکھا گیا اور بعض نے اس کے منہ سے اس قسم کے فقرات بھی سنے کہ جس کا میں انتظار کر رہا تھا وہ نہیں گزرتا۔ آج میں مر جائوں گا یا کسی کو مار دوں گا۔ اس کی مجھے انتظار ہے معلوم نہیں آج وہ کہاں چلا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ احراریوں نے وقوعہ کے بعد اسے ایک مکان میں رکھا جہاں اسے دودھ وغیرہ پلایا گیا اور رات کو وہ دینا نگر بھیج دیا گیا۔ تا وہاں کے کسی ذمہ دار آدمی سے جو احراریوں کا ہمدرد بتایا گیا یہ کہلا دیا جائے کہ وقوعہ کے وقت وہ قادیان میں موجود ہی نہ تھا بلکہ دینا نگر میں تھا۔
ایک افواہ یہ بھی سنی گئی کہ اسے مصنوعی زخم لگا کر یہ صورت بنانے کی کوشش کی گئی کہ گویا اس پر حملہ کیا گیا ہے وقوعہ کے بعد رات کو ایک ذمہ دار افسر کو ایک مقامی پولیس افسر سے یہ کہتے سنا گیا کہ تم کن باتوں میں پڑے ہوئے ہو ضرورت اس بات کی ہے کہ احمدیوں کو گرفتار کیا جائے جہاں احمدیوں کا مجمع دیکھو۔ انہیں گرفتار کر لو۔ )الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔ ۲(
۳۹۷۔
الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۳۹۸۔
ڈاکٹر اقبال کے آخری دو سال )مولفہ ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی( صفحہ ۵۹۱ تا ۵۹۵۔
۳۹۹۔
الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۲۔
۴۰۰۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۳۵ء۔
۴۰۱۔
اخبار زمیندار نے ۶/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳ کی اشاعت میں لکھا۔ ان مسلمانوں کو جو خالص اسلامی جذبہ سے سرشار ہو کر ۲۰ اور ۲۱ جولائی کو شہید ہوئے مردار اور حرام موت مرنے والے قرار دے چکنے کے بعد احراری مجاہد معرض وجود میں آیا ہے۔ دیکھئے یہ مجاہد کس کارزار میں اور کس مقصد کی خاطر جہاد کرتا ہے۔ )اخبار زمیندار ۶/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳(
۴۰۲۔
اخبار زمیندار ۸/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۴۰۳۔
اخبار مجاہد لاہور ۷/ اگست ۱۹۳۵ء۔
۴۰۴۔
اخبار مجاہد ۱۰/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۰۵۔
اخبار مجاہد ۷/ اگست ۱۹۳۵ء۔
۴۰۶۔
ایک خوفناک سازش۔ )از مظہر علی صاحب اظہر( صفحہ ۱۲۳۔ ۱۲۷۔
۴۰۷۔
الفضل ۲/ فروری و ۵/ فروری ۱۹۳۷ء میں ان خطوط کے چربے چھپ چکے ہیں۔
۴۰۸۔
روزنامہ سیاست ۱۲/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۴۰۹۔
بحوالہ روزنامہ زمیندار ۶/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۴۱۰۔
بندے ماترم ۱۳/ اکتوبر ۱۹۳۵ء۔
۴۱۱۔
ایڈیٹر انیس احمد عباسی۔
۴۱۲۔
روزنامہ حق لکھنئو ۲/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۴۱۳۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۷۶۔
۴۱۴۔
تاریخ احرار صفحہ ۶۲۶۔
۴۱۵۔
ظفر علی خاں صفحہ ۱۹۸۔
۴۱۶۔
ایضاً صفحہ ۱۹۸۔ ۱۹۹۔
۴۱۷۔
مولوی ظفر علی خان صاحب کی چمنستان اور نگارستان میں احرار کے خلاف متعدد نظمیں شائع شدہ ہیں جن میں سے ایک نظم جو نگارستان صفحہ ۲۳۱۔ ۲۳۲ میں موجود اور خاص طور پر قابل ذکر ہے اس نظم کا عنوان ہے احرار کا جنازہ۔
۴۱۸۔
خوفناک سازش صفحہ ۱۹۵۔ ۱۹۷ )مولفہ جناب مولوی مظہر علی صاحب اظہر(
۴۱۹۔
بحوالہ روزنامہ سیاست ۶/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔
۴۲۰۔
روزنامہ سیاست لاہور ۶/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۲۱۔
روزنامہ سیاست ۱۳/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۴۲۲۔
بحوالہ روزنامہ زمیندار ۱۱/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۴۲۳۔
اہلحدیث ۹/ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۵ کالم ۱۔
۴۲۴۔
جمادی الاول ۱۳۵۴ھ۔
۴۲۵۔
مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۱۶۹ تا ۱۷۳۔
۴۲۶۔
اقبال کے آخری دو سال صفحہ ۵۹۵۔
۴۲۷۔
مارشل لاء سے مارشل لاء تک صفحہ ۱۷۰` ۱۷۱۔
۴۲۸۔
>ظفر علی خاں اور ان کا عہد< صفحہ ۲۳۵ )از ملک عنایت اللہ صاحب نسیم )علیگ( ناشر اسلامک پبلشنگ ہائوس۔ ۲ شیش محل روڈ۔ نومبر ۱۹۸۲ء۔
۴۲۹۔ ][ >سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری< صفحہ ۱۰۸ )خان حبیب الرحمن خان کابلی(
۴۳۰۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۷۳ )از چودھری افضل حق صاحب(
۴۳۱۔
ایضاً صفحہ ۱۷۴۔
۴۳۲۔
>سید عطاء اللہ شاہ بخاری< صفحہ ۹۵ ایضاً صفحہ ۹۷۔ ۹۸۔
۴۳۳۔
رسالہ نقوش )لاہور نمبر( صفحہ ۱۵۴۲ فروری ۱۹۶۲ء شائع کردہ ادارہ فروغ اردو لاہور۔
۴۳۴۔
اقبال کے آخری دو سال صفحہ ۳۳۵ تا ۳۴۲۔
۴۳۵۔
الفضل ۱۲/ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔
۴۳۶۔
اقبال کے آخری دو سال صفحہ ۳۲۹۔
۴۳۷۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۸۵۔
۴۳۸۔
اہلحدیث ۱۵/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۵ کالم ۳۔
۴۳۹۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے فرمایا۔ >دوسری شکست احرار کو نمایاں طور پر یہ ملی کہ قادیان کے متعلق انہوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیا ہے اور قادیان کے علاقہ میں احمدیوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے ان کے اس دعویٰ کی تردید کا بھی سامان مہیا کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ جب الیکشن کا نتیجہ نکلا تو بے شک اہل سنت و الجماعت کا ایک نمائندہ )سید بدر محی الدین صاحبزادہ` سجادہ نشین بٹالہ۔ ناقل( کامیاب ہو گیا۔ مگر دوسرے نمبر پر احمدی نمائندہ تھا۔ تیسرے نمبر پر احراری )محمد خان۔ ناقل( اور چوتھے نمبر پر دوسرا سنی )میاں محمد سعید پنشنر پولیس۔ ناقل( اب اس نتیجہ کو احرار کہاں چھپا سکتے تھے۔ یہ پبلک کی آواز تھی جو ووٹوں کے ذریعہ ظاہر ہوئی اور اس نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو قادیان کے علاقہ میں کچل دیا گیا ہے بالکل بے معنی دعویٰ ہے۔ حقیقت اس میں کچھ نہیں۔ پس اس نتیجہ نے احرار کی آواز کو بالکل مدھم کر دیا۔ اس کے بعد قادیان کی فتح کا نقارہ بجتے کم از کم میں نے کبھی نہیں سنا۔ )الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔ ۳(
۴۴۰۔ پنجاب اسمبلی کی رکنیت کے لئے حلقہ گڑھ شنکر کی طرف سے دو امیداور تھے۔ چودھری افضل حق صاحب رکن رکین مجلس احرار اور رانا نصر اللہ خاں ہریانوی بی اے جن کی پشت پر مجلس اتحاد ملت کی تائید تھی۔ چودھری افضل حق صاحب کو اپنے حریف کے مقابلہ پر شکست فاش ہوئی۔ جس کا نقشہ مولوی ظفر علی خان صاحب کے چمنستان صفحہ ۹۷۔ ۹۸ خوب کھینچا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
۴۴۱۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۸۶۔ ۱۸۸۔
۴۴۲۔
تاریخ احرار صفحہ ۱۸۸۔
۴۴۳۔
ایضاً۔
۴۴۴۔
حال مدیر ھلال راولپنڈی۔
۴۴۵۔
>تحریک پاکستان اور نیشنلسٹ علماء< صفحہ ۴۲۰ تا ۴۲۲۔
۴۴۶۔
سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۷۶ مولفہ خان کابلی پبلشر ہندوستانی کتب خانہ۔ ۶۳/ ریلوے روڈ لاہور۔ طبع اول۔ جون ۱۹۴۰ء۔
۴۴۷۔ ][ ایضاً ۱۰۰۔
۴۴۸۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۶۲ مولفہ جناب شورش کاشمیری صاحب۔ مطبوعہ اردو پریس لاہور۔ طبع اول ستمبر ۱۹۵۶ء۔
۴۴۹۔
آپ نے چٹان ۲۵/ مارچ ۱۹۶۳ء میں احرار کی نسبت یہ لکھا ہے کہ >واقعہ یہ ہے کہ مجلس احرار بہ لحاظ جماعت تاریخ کے حوالے ہو چکی ہے اب اس کا ذہنی وجود تو بعض روایتوں اور حکایتوں کی وجہ سے ملک کے عوامی دماغ میں موجود ہے لیکن )۱( نہ اس کی کوئی تنظیم ہے۔ )۲( نہ اس کا مربوط شیرازہ ہے۔ )۳( نہ اس فضا میں اڑنے کے لئے اس کے پاس بال و پر ہیں<۔
۴۵۰۔
چودھری افضل حق صاحب نے اخبار مجاہد ۱۵/ اگست ۱۹۳۵ء میں لکھا تھا۔ >جس قدر روپے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج قادیان خرچ کر رہا ہے اور جو عظیم الشان دماغ اس کی پشت پر ہے وہ بڑی سے بڑی سلطنت کو پل بھر میں درہم برہم کرنے کے لئے کافی تھا<۔
 
Top