• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 8 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 8 ۔ یونی کوڈ

‏tav.8.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
تاریخ احمدیت
جلد ہفتم
تحریک جدید کی بنیاد سے لیکر خلافت جوبلی تک
)۱۹۳۴ء تا ۱۹۳۹ء(

مولفہ
دوست محمد شاہد
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت جلد ہشتم
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے امسال جلسہ سالانہ کے موقع پر خلافت ثانیہ کے بابرکت دور کی تاریخ کی چوتھی جلد احباب کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ یہ جلد ۱۹۳۴ء کے آخر سے لے کر ۱۹۳۹ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس جلد میں تین اہم واقعات کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ ۱۔ تحریک جدید کا اجراء` اس کی برکات اور نتائج` ۲۔ خدام الاحمدیہ کی تحریک اور ۱۹۴۷ء تک اس کی تاریخ` ۳۔ خلافت ثانیہ کی پچیس سالہ جوبلی۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے جو تحریکات اسلام کے غلبہ کے لئے جاری فرمائیں ان میں سے تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ کی تحریک نہایت ہی اہمیت رکھتی ہیں۔ تحریک جدید کے اجراء سے جماعت احمدیہ کے مشن مختلف ممالک میں قائم ہوئے اور جماعت کی ترقی تیز رفتاری سے غیر ممالک میں شروع ہو گئی اور اب مختلف ممالک میں محمد رسول اللہ~صل۱~ اور آپ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت رکھنے والے مخلصین کی ایسی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں جو اسلام کی راہ میں جانی اور مالی قربانیاں دینے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والی ہیں۔
اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے ہماری ایک نسل یا دو نسل کی قربانیاں مکتفی نہیں بلکہ اس امر کی ضرورت ہے کہ قیامت تک ہر ایک صدی میں ہماری نسلیں صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے والی` صحیح اسلام پر قائم رہنے والی اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے والی ہوں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہماری نسلوں کی صحیح تربیت کا انتظام نہ ہو اور اس اہم غرض کو پورا کرنے کے لئے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے خدام الاحمدیہ کی بابرکت تحریک جاری فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قیامت تک اس تحریک کے نتیجہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے جائیں جو صحیح اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والے اور اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے ہوں۔ آمین۔
مصنف کتاب مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نے رات دن محنت شاقہ کرکے کتاب کے مسودہ کو مکمل کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اجر عظیم عطا کرے اور دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خاکسار نے خود بھی اول سے آخر تک مسودہ کو پڑھا اور اس بات کو مدنظر رکھا کہ ہر زاویہ سے مضمون مکمل ہو۔ مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی` مکرم چودھری محمد صدیق صاحب فاضل انچارج خلافت لائبریری اور مکرم ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب نے اپنے قیمتی وقت کو خرچ کرکے مسودہ کو اول سے آخر تک پڑھا اور اپنے قیمتی مشورے سے نوازا۔ اسی طرح دیگر بزرگان نے بھی کتاب کے مختلف حصوں کو دیکھ کر اپنی قیمتی آراء سے آگاہ کیا۔ فجز اہم اللہ تعالیٰ۔ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر >الفضل< نے نہایت محنت سے کاپیوں اور پروفوں کو پڑھا اور مکرم قاضی منیر احمد صاحب اور لطیف احمد صاحب کارکنان ادارۃ المصنفین نے کتاب کے چھپوانے میں پوری جدوجہد کی۔ اسی طرح خلافت لائبریری کے جملہ کارکنان بالخصوص راجہ محمد یعقوب صاحب اور ملک محمد اکرم صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ جناب مبارک احمد صاحب ایمن آبادی` میر مبشر احمد صاحب طاہر` جناب عزیز احمد صاحب ایزنک سٹوڈیو لاہور` چوہدری محمد طفیل صاحب کھڑریانوالہ` جناب سیٹھ احمد حسین صاحب حیدر آبادی اور جناب ممتاز احمد صاحب آف اوکاڑہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے کتاب کے لئے تصاویر اور مواد مہیا فرمایا۔ اسی طرح دیگر دوست جنہوں نے مواد مہیا کرنے حوالہ جات نکالنے میں مدد کی` کتابت عمدگی سے کی اور اسے چھاپا سب ہی قابل شکریہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
خاکسار
ابوالمنیر نور الحق
منیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ
۱۷۔ دسمبر ۱۹۶۷ء
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی آٹھویں جلد
‏]c )[tagرقم فرمودہ مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(
الحمدلل¶ہ کہ تاریخ احمدیت کی آٹھویں جلد طبع ہو کر اشاعت کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس جلد میں ۱۹۳۴ء کے آخر سے لے کر ۱۹۳۹ء کے آخر تک کے واقعات درج ہیں۔ گویا اس جلد کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کی پہلی نصف صدی کی تاریخ کی تکمیل ہوتی ہے۔ خاکسار کو ابھی اس جلد کے مطالعہ کا موقعہ تو نہیں ملا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ تاریخی لحاظ سے اس جلد کی اہمیت کسی پہلی جلد سے کم نہیں۔
جلد ہفتم کے آخر میں ان افسوسناک اور عبرت انگیز واقعات کا ذکر ہے جو حکومت پنجاب اور مجلس احرار کی متفقہ مخالفت کے نتیجے میں سلسلہ احمدیہ کے لئے نازک صورت اختیار کر گئے۔ احرار کانفرنس کے دوران میں خاکسار انگلستان میں تھا۔ نومبر میں واپس لاہور پہنچا۔ ایک رات لاہور ٹھہر کر دوسری صبح قادیان حاضر ہوا اور اسی شام لاہور لوٹ آیا۔ تفصیلی واقعات کو علم خاکسار کو قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح ثانیؓ کی زبان مبارک سے حاصل ہوا۔ جناب میاں سر فضل حسین صاحب کا جو بھی پیغام حضورؓ کی خدمت میں پہنچا وہ خاکسار کے توسط سے نہیں پہنچا تھا۔ خاکسار اس وقت تک ابھی انگلستان میں تھا۔
قادیان سے واپسی کے دوسرے دن سرہربرٹ ایمرسن گورنر پنجاب کا پیغام خاکسار کو ملا کہ وہ خاکسار کی ملاقات کے متمنی ہیں۔ یہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی۔ گورنر صاحب نے تفصیل اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ خاکسار خاموشی سے سنتا رہا۔ جب وہ اپنا بیان ختم کر چکے جب بھی خاکسار خاموش رہا۔ انہیں توقع ہو گی کہ خاکسار اپنی طرف سے کسی رائے کا اظہار کرے اور خاکسار کوئی غرض لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا نہیں تھا۔ ان کی خواہش کی تعمیل میں حاضر ہو گیا تھا۔ خاکسار کو بالکل خاموش پاکر انہوں نے پھر اپنی پہلی تقریر کو مختصر طور پر دوہرایا اور آخر کہا میں تسلیم کرتا ہوں کہ احرار کو قادیان میں کانفرنسیں کرنے کی اجازت دینا غلطی تھی۔ انہوں نے اس موقعہ سے بہت بے جا فائدہ اٹھایا اور اسے صرف سلسلہ اور بانی سلسلہ کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا مرزا صاحب کے احساسات اور جذبات کو جو صدمہ پہنچا ہے اس کا بھی میں اندازہ کر سکتا ہوں۔ انہوں نے چند ہفتوں سے اپنے خطبات جمعہ میں اپنے رنج کا اظہار کرنا شروع کیا ہے جس کے ساتھ مجھے کسی قدر ہمدردی بھی ہے لیکن اب وہ بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ سلسلہ ختم کیا جائے۔
ظفر اللہ خان۔ تو مجھ سے آپ کیا چاہتے ہیں؟
سرہربرٹ ایمرسن۔ تم اپنا اثر استعمال کرکے اس قضیئے کو ختم کرا دو۔
ظفر اللہ خان۔ میں کس حیثیت سے اس معاملے میں دخل دے سکتا ہوں؟ آپ ابھی فرما چکے ہیں کہ جہاں تک سلسلے کا تعلق ہے آپ امام جماعت احمدیہ کے علاوہ کسی اور فرد کو کسی حیثیت سے بھی سلسلے کا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے۔ خاکسار کو جناب امام جماعت احمدیہ نے اپنی نمائندگی کرنے کا فخر نہیں بخشا۔
سرہربرٹ ایمرسن۔ تمہیں بہرصورت اس معاملے میں دلچسپی تو ہے اور تم ضرور چاہتے ہو گے کہ یہ قضیہ ختم ہو۔
ظفر اللہ خان۔ دلچسپی ہی نہیں میرے لئے یہ امر حددرجہ قلق کا موجب ہے کہ حکومت نے بلاوجہ امام جماعت اور سلسلے کی توہین کی سعی کی۔
سرہربرٹ ایمرسن۔ یہ تو بہت سنجیدہ الزام ہے۔
ظفر اللہ خان۔ واقعات شاہد ہیں۔ اس مرحلہ پر خاکسار نے واقعات پر مختصر تبصرہ کرکے الزام ثابت کرنے کی کوشش کی۔ سرہربرٹ نے بات تو تحمل سے سن لی۔ لیکن کہا آپ ضرورت سے زیادہ ذکی الحس ہو رہے ہیں۔ خاکسار نے کچھ جوش میں کہا۔ بجا ہے۔ جہاں ایسی اقدار اور ایسی ہستیوں کا تعلق ہو جو انسان ¶کو جان سے عزیز ہوں وہاں انسان کی نظر میں جنہیں ایسی کوئی وابستگی نہ ہو ضرورت سے زیادہ ذکی الحس نظر آتا ہے۔ اس مرحلے پر خاکسار اجازت لے کر رخصت ہوا۔
دوسرے دن گورنر صاحب نے پھر پیغام بھیج کر بلوایا اور کہا کہ کچھ تدبیر ہونی چاہئے۔ میں نے دریافت کیا۔ کیا تدبیر ہو؟ انہوں نے کہا تم مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر میری طرف سے کہو کہ وہ اپنا نقطہ نظر پبلک میں واضح کر چکے ہیں اور مجھے ان کے رنج میں ہمدردی ہے۔ اب خطبات کا یہ سلسلہ بند ہو جائے تو مناسب ہے۔ میں نے کہا میری نگہ میں حکومت کو کم سے کم یہ تو تسلیم کرنا چاہئے کہ نوٹس امام جماعت احمدیہ کے نام جاری نہیں ہونا چاہئے تھا بفرض محال اگر کوئی قانونی ذمہ داری تھی بھی تو وہ سلسلہ کے افسر کی تھی جس کی طرف سے چٹھیاں جاری ہوئی تھیں گورنر صاحب نے کہا ممکن ہے حکومت یہ بھی تسلیم کرلے لیکن اس بات کو ظاہر نہ کیا جائے۔
خاکسار حضرت خلیفہ المسیحؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو بات چیت گورنر صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔ حضورؓ کی خدمت اقدس میں گزارش کر دی۔ حضور نے فرمایا مجھے حکوت کو دق کرنا مراد نہیں۔ لیکن میں یہ تو نہیں کر سکتا کہ حکومت کی طرف سے خفیہ تسلی دیئے جانے پر یکایک خاموش ہو جائوں۔ مجھے تو سلسلے کا احترام اور وقار مطلوب ہے۔ اگر میں بغیر کسی اعلان یا اظہار کے خاموش ہو جائوں تو اس سے تو سلسلے کے وقار کو پہلے کی نسبت زیادہ صدمہ پہنچے گا۔ یہی فرض کیا جائے گا کہ حکومت نے مجھے دھمکی دے کر خاموش کر دیا۔ مجھے کم سے کم یہ تو کہنا ہو گا کہ حکومت نے ان امور میں میرا موقف تسلیم کر لیا ہے۔ خاکسار نے لاہور واپسی پر حضورؓ کا ردعمل گورنر صاحب کی خدمت میں گزارش کر دیا۔ گورنر صاحب نے اسے تسلیم کر لیا۔ آخر یہی قرار پایا کہ کہ متعلقہ سیکرٹری حضور کے منشاء کے مطابق حکومت کی طرف سے حضور کی خدمت میں چٹھی بھیج دے اور گورنر صاحب نے یہ بھی کہ دیا کہا گر مرزا صاحب چاہیں تو بے شک چٹھی شائع کر دیں۔ آخر یہ بات چھپی تو رہ نہیں سکتی۔ کوئی احراری نمائندہ کونسل میں سوال کرکے حقیقت معلوم کر سکتا ہے لیکن حضرت خلیفتہ المسیحؓ نے چٹھی شائع کرنا پسند نہ فرمایا۔ بظاہر تو یہ معاملہ یوں سلجھ گیا لیکن حکومت پنجاب کی طرف سے ایذادہی کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے سلسلے اور جماعت کو مخالفین کی ہر چال کے مقابل اپنی حفاظت اور نصرت سے نوازا۔ فالحمدلل¶ہ علٰے ذالک۔ احرار کانفرنسیں اور حکومت پنجاب کی مخالفانہ روش کو اللہ تعالیٰ نے ہر بلاکیں قوم را حق دادہ اند کے مطابق ایک گنج کرم کا موجب بنا دیا۔ ان حالات کے پیش آنے کے نتیجے میں حضرت خلیفہ المسیح ثانیؓ نے تحریک جدید کو جاری فرمایا جس کے شاندار مستقبل پر پچھلی ثلث صدی کی کامرانیاں شاہد ہیں۔ اللہم زد فزد۔
۱۹۳۹ء میں خلافت ثانیہ کی برکات پر ربع صدی کے عرصہ کی تکمیل ہونے کے پیش نظر حضرت خلیفہ المسیح ثانیؓ کی خدمت اقدس میں شکرانہ کے طور پر خلافت جوبلی منانے کی اجازت کی درخواست گزارش کی گئی۔ حضورؓ نے فرمایا خلافت جوبلی منانے میں تو شاید مجھے تامل ہوتا لیکن ۱۹۳۹ء ہی میں سلسلہ کے بھی پچاس سال پورے ہوں گے۔ اس لحاظ سے جوبلی منانے کی اجازت ہے اور اسی سلسلہ میں یہ ارشاد بھی فرمایا۔ سلسلہ کے سو سال پورے ہونے پر بڑی شان سے جوبلی منانا!
سلسلے کی تاریخ کا ہر سال کئی نشان لے کر آتا ہے جن کا محفوظ کرنا سلسلے کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے۔ تاکہ موجودہ اور آئندہ نسلیں ان نشانات سے سبق حاصل کریں اور اپنے ایمانوں کو تازہ اور مضبوط کریں اور ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا کے روح پرور شواہد کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں اور یعبدوننی لا یشر کون بی شیئا کا صحیح نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے جائیں۔ وما ترفیقنا الا باللہ العلی العظیم۔ ھو مولنا نعم المولی و نعم النصیر۔ واخردعونا ان الحمدللہ رب العالمین۔
خاکسار
ظفر اللہ خان
۱۵۔ دسمبر ۱۹۶۷ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود][پہلا باب )فصل اول(
تحریک جدید کی بنیاد` مخلصین جماعت کی بیمثال قربانیاں وقف زندگی کا وسیع نظام اور اس کے عالمی اثرات
تحریک جدید کا ماحول اور اس کی نسبت آسمانی بشارتیں
۱۹۳۴ء کا اختتام ایک ایسے عظیم الشان واقعہ کے آغاز سے ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی دینی و اشاعتی سرگرمیاں جو پہلے صرف چند ممالک تک محدود تھیں` عالمگیر صورت اختیار کر گئیں اور تبلیغ اسلام کا ایک زبردست نظام معرض وجود میں آیا۔ ہماری مراد تحریک جدید سے ہے جس کی بنیاد خدا تعالیٰ کی مشیت خاص اور اس کے القاء سے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ کے ہاتھوں عین اس وقت رکھی گئی جبکہ احراری تحریک اپنے نقطہ عروج پر تھی اور احرار اپنے خیال میں )معاذ اللہ( قادیان اور احمدیت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا فیصلہ کرکے قادیان کے پاس ہی اپنی کانفرنس منعقد کرنے والے تھے۔
تحریک جدید کی بنیاد کے وقت ماحول
چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ خود فرماتے ہیں۔ >یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لئے جمع ہو گئی ہیں۔ ایک طرف احرار نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک مٹا نہ لیں۔ دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے انہوں نے پوشیدہ بغض نکالنے کے لئے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے ان کی امداد کرنی شروع کر دی اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی۔ یہاں تک کہ ایک ہمارا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کے لئے گیا تو اسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا۔ ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے پندرہ سو روپیہ روزانہ ان کی آمدنی ہے۔ تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متاثر ہو کر ہمارے خلاف ہتھیار اٹھا لئے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کرایا گیا۔۔۔۔۔۔۔ ایسے وقت میں تحریک جدید کو جاری کیا گیا<۔۱
احرار شورش تو محض ایک بہانہ تھی
مگر احراری شورش تو محض ایک بہانہ تھی۔ تحریک جدید کی سکیم کا نافذ ہونا خدا کی ازلی تقدیروں میں سے تھا۔ جیسا کہ حضورؓ نے خود وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>حقیقت یہی ہے کہ احرار تو خدا تعالیٰ نے ایک بہانہ بنا دیا ہے کیونکہ ہر تحریک کے جاری کرنے کے لئے ایک موقعہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب تک وہ موقعہ میسر نہ ہو جاری کردہ تحریک مفید نتائج نہیں پیدا کر سکتی<۔۲
نیز فرمایا۔
>تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلیٰ انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ انتخاب نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کامیابیاں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک اہم کامیابی تحریک جدید کو عین وقت پر پیش کرکے مجھے حاصل ہوئی اور یقیناً میں سمجھتا ہوں جس وقت میں نے یہ تحریک کی وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا اور میری زندگی کی ان بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیاد رکھنے کی توفیق ملی۔ اس وقت جماعت کے دل ایسے تھے جیسے چلتے گھوڑے کو جب روکا جائے تو اس کی کیفیت ہوتی ہے<۔۳
تحریک جدید کا ذکر سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے کشف میں
تحریک جدید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا وہ کشف بھی پورا ہو گیا جس میں حضورؑ
کو غلبہ اسلام کے لئے پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک روحانی فوج دی گئی۔ چنانچہ حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں۔
>کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں۔ ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے۔ تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ تب میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا۔ جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا۔ اور اسے میں نے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے۔ وہ میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتون پر فتح پا سکتے ہیں۔ اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی کم من فئہ قلیلہ غلبت فئہ کثیرہ باذن اللہ پھر وہ منصور مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے خوشحال ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اس کے پہچاننے سے قاصر رکھا۔ لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے<۔۴
دوسری بشارتیں
اس کشف کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی تحریک جدید کے بابرکت ہونے کی نسبت بشارتیں ملیں۔
چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء کو فرمایا۔
>میں نے اللہ تعالیٰ سے متواتر دعا کرتے ہوئے اور اس کی طرف سے مبشر رویا حاصل کرتے ہوئے ایک سکیم تیار کی جس کو میں انشاء اللہ آئندہ جمعہ سے بیان کرنا شروع کروں گا۔ میں نے ایک دن خاص طور پر دعا کی تو میں نے دیکھا کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور میں قادیان سے باہر پرانی سڑک پر ان سے ملا ہوں۔ وہ ملتے ہی پہلے مجھ سے بغل گیر ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد نہایت جوش سے انہوں نے میرے کندھوں اور سینہ کے اوپر کے حصہ پر بوسے دینے شروع کئے ہیں۔ اور نہایت رقت کی حالت ان پر طاری ہے اور وہ بوسے بھی دیتے جاتے ہیں اور یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ میرے آقا! میرا جسم اور روح آپ پر قربان ہوں۔ کیا آپ نے خاص میری ذات سے قربانی چاہی ہے؟ اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر اخلاص اور رنج دونوں قسم کے جذبات کا اظہار ہو رہا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ اول تو اس میں چوہدری صاحب کے اخلاص کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ انشاء اللہ جس قربانی کا ان سے مطالبہ کیا گیا۔ خواہ کوئی ہی حالات ہوں وہ اس قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے یہ کہ ظفر اللہ خاں سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فتح ہے اور ذات سے قربانی کی اپیل سے متی نصر اللہ کی آیت مراد ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اپیل کی گئی تو وہ آگئی اور سینہ اور کندھوں کو بوسہ دینے سے مراد علم اور یقین کی زیادتی اور طاقت کی زیادتی ہے اور آقا کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ فتح و ظفر مومن کے غلام ہوتے ہیں اور اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اور جسم اور روح کی قربانی سے مراد جسمانی قربانیاں اور دعائوں کے ذریعہ سے نصرت ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں اور اس کے فرشتوں کی طرف سے ہمیں حاصل ہوں گی<۔۵
>اس کے علاوہ بیسیوں رئویا و کشوف اور الہامات اس تحریک کے بابرکت ہونے کے متعلق لوگوں کو ہوئے۔ بعض کو رئویا میں رسول کریم~صل۱~ نے بتایا کہ یہ تحریک بہت مبارک ہے۔ اور بعض کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے اور بعض کو الہامات ہوئے کہ یہ تحریک بہت مبارک ہے۔ غرض یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے بابرکت ہونے کے متعلق بیسیوں رئویا و کشوف اور الہامات کی شہادت موجود ہے<۔۶
خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک
تحریک جدید براہ راست خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک تھی۔ جو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے قلب مبارک پر ایسے رنگ میں یکایک القاء ہوئی کہ دنیا کی روحانی اور اسلامی فتح کی سب منزلیں اپنی بہت سی تفصیلات و مشکلات کے ساتھ حضورؓ کے سامنے آگئیں اور مستقبل میں لڑی جانے والی اسلام اور کفر کی جنگ کا ایک جامع نقشہ آپ کے دماغ میں محفوظ کر دیا گیا۔
‏body] g[taتحریک جدید کی ان نمایاں خصوصیات کا تذکرہ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے متعدد بار فرمایا۔ بطور مثال چند فرمودات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
>جب میں نے اس کے متعلق ارادہ کیا تو میں خود نہ جانتا تھا کہ کیا کیا لکھوں گا۔ مگر جوں جوں میں نوٹ لکھتا جاتا۔ خدا تعالیٰ وہ طریق اور وہ ذرائع سمجھاتا جاتا تھا جن سے احمدیت مضبوط ہو سکتی تھی<۔۷
۲۔
>میرے ذہن میں یہ تحریک بالکل نہیں تھی۔ اچانک میرے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک نازل ہوئی۔ پس بغیر اس کے کہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کا ارتکاب کروں میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک جدید جو خدا نے جاری کی میرے ذہن میں یہ تحریک پہلے نہیں تھی۔ میں بالکل خالی الذہن تھا۔ اچانک اللہ تعالیٰ نے یہ سکیم میرے دل پر نازل کی اور میں نے اسے جماعت کے سامنے پیش کر دیا۔ پس یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے<۔۸
۳۔
>اس سکیم میں بعض چیزیں عارضی ہیں۔ پس عارضی چیزوں کو میں بھی مستقل قرار نہیں دیتا۔ لیکن باقی تمام سکیم مستقل حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے القاء کے نتیجہ میں مجھے سمجھائی گئی ہے۔ میں نے اس سکیم کو تیار کرنے میں ہرگز غور اور فکر سے کام نہیں لیا اور نہ گھنٹوں میں نے اس کو سوچا ہے۔ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کی کہ میں اس کے متعلق خطبات کہوں۔ پھر ان خطبوں میں میں نے جو کچھ کہا وہ میں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر جاری کیا کیونکہ ایک منٹ بھی میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں کیا کہوں۔ اللہ تعالیٰ میری زبان پر خود بخود اس سکیم کو جاری کرتا گیا اور میں نے سمجھا کہ میں نہیں بول رہا بلکہ میری زبان پر خدا بول رہا ہے<۔۹
۴۔
>تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آئی تھی۔ اور جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا ہے اس وقت خود مجھے بھی اس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نیت اور ارادہ کے ساتھ میں نے یہ سکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی۔ کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی ان دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا پس میں نے چاہا کہ جماعت کو اس خطرے سے بچائوں۔ مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی اور روح القدس اور اس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا جبکہ روح القدس میرے دل پر اترا اور وہ میرے دماغ پر ایسا حاوی ہو گیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا گویا اس نے مجھے ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم ایک دنیا میں تغیر پیدا کر دینے والی سکیم میرے دل پر نازل کر دی اور میں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قرآنی نکتے مجھ پر پہلے بھی کھلتے تھے اور اب بھی کھلتے ہیں۔ مگر پہلے کوئی معین سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے میں واقف ہوں اور میں کہہ سکوں کہ اس اس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی۔ مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجینئر ایک عمارت بناتا اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہو گی؟ اس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے` کتنی کھڑکیاں ہوں گی` کتنے دروازے ہوں گے` کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی۔ اسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سے تفاصیل اور مشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں۔ دشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں۔ ان کی کوششوں کا مجھے علم ہے۔ اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میری آنکوں کے سامنے موجود ہیں۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو اس عظیم الشان مقصد کی طرف پھرا دے جس کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھیجا۔ پس پہلے میں صرف ان باتوں پر ایمان رکھتا تھا۔ مگر اب میں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا بلکہ میں تمام باتون کو دیکھ رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا۔ ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے<۔۱۰
۵۔
>تحریک جدید بھی القائی طور پر خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھائی ہے۔ جب میں ابتدائی خطبات دے رہا تھا مجھے خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ میں کیا بیان کروں گا۔ اور جب میں نے اس سکیم کو بیان کیا تو میں اس خیال میں تھا کہ ابھی اس سکیم کو مکمل کروں گا اور میں خود بھی اس امر کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس سکیم میں ہر چیز موجود ہے۔ مگر بعد میں جوں جوں سکیم پر میں نے غور کیا مجھے معلوم ہوا کہ تمام ضروری باتیں اس سکیم میں بیان ہو چکی ہیں اور اب کم از کم اس صدی کے لئے تمہارے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب اس میں موجود ہیں سوائے جزئیات کے کہ وہ ہر وقت بدلی جا سکتی ہیں۔
پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کے لئے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح مختصر الفاظ میں ایک الہام کر دیتا ہے اور اس میں نہایت باریک تفصیلات موجود ہوتی ہیں اسی طرح اس کا القاء بھی ہوتا ہے۔ اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے اسی طرح القاء بھی مخفی ہوتا ہے۔ بلکہ القاء الہام سے زیادہ مخفی ہوتا ہے۔ یہ تحریک بھی جو القاء الٰہی کا نتیجہ تھی پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانہ کے لئے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی کے لئے ضروری ہیں<۔۱۱
تحریک جدید کی نسبت پہلا اعلان
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ پر تحریک جدید کا القاء اکتوبر ۱۹۳۴ء میں منعقد ہونے والی نام نہاد >احرار تبلیغ کانفرنس< کے دوران ہوا۔
حضرت امیرالمومنینؓ اگر چاہتے تو کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہی اس کا اعلان فرما دیتے۔ مگر حضورؓ نے حیرت انگیز صبروتحمل اور بے نظیر ذہانت و فطانت کا ثبوت دیتے ہوئے اسے کانفرنس کے اختتام تک ملتوی کر دیا۔ البتہ ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو یعنی کانفرنس کے شروع ہونے سے صرف دو روز پیشتر اپنے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان ضرور فرما دیا کہ
>سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تو میں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کے لئے کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ مطالبہ احراری جلسہ کے ایام میں پیش کرنا نہیں چاہتا تاکہ اسے انتقامی رنگ پر محمول نہ کیا جا سکے اور تا وہ مطالبہ فتنہ کا کوئی اور دروازہ نہ کھول دے۔ اس کے بعد میں دیکھوں گا کہ آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اس قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جو قربانیاں اس وقت تک ہماری جماعت کی طرف سے ہوئی ہیں۔ وہ ان قربانیوں کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت نے کیں یا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کیں یا رسول کریم~صل۱~ کے صحابہ نے کیں۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانی کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہوکر ہمارے قدموں کو اس بلندی تک پہنچا دے جس بلندی تک پہچانے کے لئے حضرت مسیح موعو علیہ الصلٰوۃ والسلام دنیا میں مبعوث ہوئے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں میں سے بعض کو دوردراز ملکوں میں بغیر ایک پیسہ لئے نکل جانے کا حکم دیا گیا تو آپ لوگ اس حکم کی تعمیل میں نکل کھڑے ہوں گے۔ اگر بعض لوگوں سے ان کے کھانے پینے اور پہننے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تو وہ اس مطالبہ کو پورا کریں گے۔ اگر بعض لوگوں کے اوقات کو پورے طور پر سلسلہ کے کاموں کے لئے وقف کر دیا گیا تو وہ بغیر چون وچرا کئے اس پر رضامند ہو جائیں گے اور جو شخص ان مطالبات کو پورا نہیں کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا بلکہ الگ کردیا جائے گا<۔۱۲
تین فوری احکام
اس سلسلہ میں حضورؓ نے اسی خطبہ میں فوری طور پر تین احکام صادر فرمائے۔
پہلا حکم:۔
>ہر وہ شخص جس کے چندوں میں کوئی نہ کوئی بقایا ہے یاہر وہ جماعت جس کے چندوں میں بقائے ہیں وہ فوراً اپنے اپنے بقائے پورے کرے اور آئندہ کے لئے چندوں کی ادائیگی میں باقاعدگی کا نمونہ دکھلائیں<۔
دوسرا حکم:۔
>اس ہفتہ کے اندر اندر ہر وہ شخص جس کی کسی سے لڑائی ہو چکی ہے` ہر وہ شخص جس کی کسی سے بول چال بند ہے` وہ جائے اور اپنے بھائی سے معافی مانگ کر صلح کرلے اور اگر کوئی معافی نہیں کرتا` تو اس سے لجاجت اور انکسار کے ساتھ معافی طلب کرے اور ہر قسم کا تذلل اس کے آگے اختیار کرے۔ تاکہ اس کے دل میں رحم پیدا ہو اور وہ رنجش کو اپنے دل سے نکال دے اور ایسا ہو کہ جس وقت میں دوسرا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوں اس کوئی دو احمدی ایسے نہ ہوں جو آپس میں لڑے ہوئے ہوں۔ اور کوئی دو احمدی ایسے نہ ہوں جن کی آپس میں بول چال بند ہو۔ پس جائو اور اپنے دلون کو صاف کرو۔ جائو اور اپنے بھائیوں سے معافی طلب کرکے متحد ہو جائو۔ جائو اور ہر تفرقہ اور شقاق کو اپنے اندر سے دور کر دو تب خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہاری مدد کے لئے اتریں گے۔ آسمانی فوجیں تمہارے دشمنوں سے لڑنے کے لئے نازل ہوں گی اور تمہارا دشمن خدا کا دشمن سمجھا جائے گا۔ یہ دو نمونے ہیں جو میں اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ جس شخص کو یہ خطبہ پہنچے وہ اس وقت تک سوئے نہیں جب تک کہ اس حکم پر عمل نہ کرلے سوائے اس کے کہ اس کے لئے ایسا کرنا ناممکن ہو۔ مثلاً جس شخص سے لڑائی ہوئی ہو وہ گھر میں موجود نہ ہو یا اسے تلاش کے باوجود مل نہ سکا ہو یا کسی دوسرے گائوں یا شہر میں گیا ہوا ہو۔
جماعتوں کے سکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ میرے اس خطبہ کے پہنچنے کے بعد اپنی اپنی جماعتوں کو اکٹھا کریں اور انہیں کہیں کہ امیر المومنین کا حکم ہے کہ آج وہی شخص اس جنگ میں شامل ہو سکے گا جس کی اپنے کسی بھائی سے رنجش یا لڑائی نہ ہو اور جو صلح کرکے اپنے بھائی سے متحد ہو چکا ہو اور جب میں قربانی کے لئے لوگوں کا انتخاب کروں گا تو میں ہر ایک شخص سے پوچھ لوں گا کہ کیا تمہارے دل میں کسی سے رنجش یا بغض تو نہیں۔ اور اگر مجھے معلوم ہوا کہ اس کے دل میں کسی شخص کے متعلق کینہ اور بغض موجود ہے تو میں اس سے کہوں گا کہ تم بنیان مرصوص]ydob [tag نہیں۔ تمہارا کندھا اپنے بھائی کے کندھے سے ملا ہوا نہیں۔ بالکل ممکن ہے کہ تمہارے کندھے سے دشمن ہم پر حملہ کردے۔ پس جائو مجھ کو تمہاری ضرورت نہیں۔ یہ وہ کام ہیں جن کا پورا کرنا میں قادیان والوں کے ذمہ اگلے خطبہ تک اور باہر کی جماعتوں کے ذمہ اس خطبہ کے چھپ کر پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد تک فرض مقرر کرتا ہوں<۔
تیسرا حکم:۔
>مجھے فوراً جلد سے جلد ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو سلسلہ کے لئے اپنے وطن چھوڑنے کے لئے تیار ہوں۔ اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالنے کے لئے تیار ہوں اور بھوکے پیاسے رہ کر بغیر تنخواہوں کے اپنے نفس کو تمام تکالیف سے گزارنے پر آمادہ ہوں۔ پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو نوجوان ان کاموں کے لئے تیار ہوں وہ اپنے نام پیش کریں۔ نوجوانوں کی لیاقت کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یا تو وہ مولوی ہوں مدرسہ احمدیہ کے سندیافتہ یا کم سے کم انٹرنس پاس یا گریجوایٹ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرط یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازم نہ ہوں اور نہ ہی تاجر ہوں اور نہ طالب علم ہوں۔ صرف ایسے نوجوان ہوں جو ملازمت کی انتظار میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں<۔۱۳]ybod [tag
قربانی کا ماحول پیدا کرنے کا ارشاد
ان تین احکام کے بعد حضور نے جماعت کو یہ بھی بتایا کہ کوئی بڑی قربانی نہیں کی جا سکتی جب تک اس کے لئے ماحول نہ پیدا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں حضور کے الفاظ یہ تھے۔
>کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ماحول ٹھیک ہو اور اگر گردوپیش کے حالات موافق نہ ہوں تو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کے اندر نیکی کرنے کا مادہ بھی موجود ہوتا ہے اور جذبہ بھی` مگر وہ ایسا ماحول نہیں پیدا کرسکتے جس کے ماتحت صحیح قربانی کر سکیں۔ پس ماحول کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے۔ میرے ایک بچہ نے ایک دفعہ ایک جائز امر کی خواہش کی تو مین نے اسے لکھا کہ یہ بیشک جائز ہے مگر تم یہ سمجھ لو کہ تم نے خدمت دین کے لئے تو زندگی وقف کی ہوئی ہے اور تم نے دین کی خدمت کا کام کرنا ہے اور یہ امر تمہارے لئے اتنا بوجھ ہو جائے گا کہ تم دین کی خدمت کے رستہ میں اسے نباہ نہیں سکوگے اور یہ تمہارے رستہ میں مشکل پیدا کردے گا۔
تو میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ نیکیوں سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ماحول پیدا نہیں کرسکتے وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جب کہا کہ قربانی کریں گے تو کرلیں گے حالانکہ یہ صحیح نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ہزارہا لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم قربانی کے لئے تیار ہیں اور جنہوں نے نہیں لکھا اور بھی اس انتظار میں ہیں کہ سکیم شائع ہولے تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے۔ مگر میں بتاتا ہوں کہ کوئی قربانی کام نہیں دے سکتی جب تک اس کے لئے ماحول پیدا نہ کیا جائے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارا مال سلسلہ کا ہے۔ مگر جب ہر شخص کو کچھ روپیہ کھانے پر اور کچھ لباس پر اور کچھ مکان کی حفاظت یا کرایہ پر کچھ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ تو اس صورت میں اس کا یہ کہنا کیا معنیٰ رکھتا ہے کہ میرا سب مال حاضر ہے۔ اس قسم کی قربانی نہ قربانی پیش کرنے والے کو کوئی نفع دے سکتی ہے اور نہ سلسلہ کو ہی اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ سلسلہ اس کے ان الفاظ کو کہ میرا سب مال حاضر ہے کیا کرے جبکہ سارے مال کے معنے صفر کے ہیں۔ جس شخص کی آمد سو روپیہ اور خرچ بھی سو روپیہ ہے وہ اس قربانی سے سلسلہ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ پہلے خرچ کو سو سے نوے پر نہیں لے آتا۔ تب بیشک اس کی قربانی کے معنے دس فیصدی قربانی کے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ پس ضروری ہے کہ قربانی کرنے سے پیشتر اس کے لئے ماحول پیدا کیا جائے۔ اس کے بغیر قربانی کا دعیٰ کرنا ایک نادانی کا دعویٰ ہے یا منافقت۔
یاد رکھو کہ یہ ماحول اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ نہ ہوں۔ مرد اپنی جانوں پر عام طور پر پانچ دس فیصدی خرچ کرتے ہیں سوائے ان عیاش مردوں کے جو عیاشی کرنے کے لئے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ورنہ کنبہ دار مرد عام طور پر اپنی ذات پر پانچ دس فیصدی سے زیادہ خرچ نہیں کرتے اور باقی نوے پچانوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے اس لئے بھی کہ ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اور اس لئے بھی کہ ان کے آرام کا مرد زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ پس ان حالات میں مرد جو پہلے ہی پانچ یا دس یا زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس فیصدی اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں اور جن کی آمدنی کا اسی نوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے` اگر قربانی کرنا بھی چاہیں تو کیا کرسکتے ہیں جب تک عورتیں اور بچے ساتھ نہ دیں۔ اور جب تک وہ یہ نہ کہیں کہ ہم ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں کہ مرد قربانی کرسکیں۔
پس تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قربانی کے لئے پہلے ماحول پیدا کیا جائے۔ اور اس کے لئے ہمیں اپنے بیوی بچوں سے پوچھنا چاہئے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ اگر وہ ہمارے ساتھ قربانی کے لئے تیار نہیں ہیں تو قربانی کی گنجائش بہت کم ہے۔
مالی قربانی کی طرح جانی قربانی کا بھی یہی حال ہے۔ جسم کو تکلیف پہنچانا کس طرح ہو سکتا ہے جب تک اس کے لئے عادت نہ ڈالی جائے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو وقت پر نہیں جگاتیں۔ وقت پر پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتیں ان کے کھانے پینے میں ایسی احتیاط نہیں کرتیں کہ وہ آرام طلب اور عیاش نہ ہوجائیں وہ قربانی کیا کرسکتے ہیں عادتیں جو بچپن میں پیدا ہو جائیں وہ نہیں چھوٹتیں۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بہت بڑے ایمان سے دب جاتی ہیں۔ مگر جب ایمان میں ذرا بھی کمی آئے پھر عود کر آتی ہیں۔ پس جانی قربانی بھی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ متحد نہ ہوں۔ جب تک مائیں متحد نہیں ہوں گی تو وہ روز ایسے کام کریں گی جن سے بچوں میں سستی اور غفلت پیدا ہو۔ پس جب تک مناسب ماحول پیدا نہ ہو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا<۔۱۴
پہلا باب )فصل دوم(
تحریک جدید کے انیس مطالبات اور ملکی پریس
اب تمہیدی امور چونکہ بیان کئے جاچکے تھے۔ اس لئے حضور نے ۲۳۔ نومبر` ۳۰۔ نومبر اور ۷۔ دسمبر ۱۹۳۴ء کے تین خطبات میں اپنی سکیم تفصیلی طور پر جماعت کے سامنے رکھی اور اسے ۱۶۔ دسمبر ۱۹۳۴ء کے ایک مطبوعہ اعلان میں >تحریک جدید< کے نام سے موسوم فرمایا۔۱۵انیس مطالبات حضرت امیرالمومنینؓ کے اپنے الفاظ میں
>تحریک جدید کی سکیم انیس مطالبات پر مشتمل تھی۔ جن کی تشریح و توضیح ذیل میں خود سیدنا امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ مبارکہ میں درج کی جاتی ہے۔
پہلا مطالبہ:۔
>آج سے تین سال کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر احمدی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن۱۶ استعمال کرے گا۔ روٹی اور سالن یا چاول اور سالن یہ دو چیزیں نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہوں گے۔ لیکن روٹی کے ساتھ دو سالنوں یا چاولوں کے ساتھ دو سالنوں کی اجازت نہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ سوائے اس صورت کے کہ کوئی دعوت ہو یا مہمان گھر پر آئے۔ اس کے احترام کے لئے اگر ایک سے زائد کھانے تیار کئے جائیں تو یہ جائز ہوگا۔ مگر مہمان کا قیام لمبا ہو تو اس صورت میں اہل خانہ خود ایک ہی کھانے پر کفایت کرنے کی کوشش کرے یا سوائے اس کے کہ اس شخص کی کہیں دعوت ہو اور صاحب خانہ ایک سے زیادہ کھانوں پر اصرار کرے یا سوائے اس کے کہ اس کے گھر کوئی چیز بطور تحفہ آجائے۔ یا مثلاً ایک وقت کا کھانا تھوڑی مقدار میں بچ کر دوسرے وقت کے کھانے کے ساتھ استعمال کر لیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہمان بھی اگر جماعت کا ہو تو اسے بھی چاہئے کہ میزبان کو مجبور نہ کرے کہ ایک سے زیادہ سالن کے ساتھ مل کر کھائے۔ ہر احمدی اس بات کا پابند نہیں بلکہ اس کی پابندی صرف ان لوگوں کے لئے ہوگی جو اپنے نام مجھے بتا دیں ۔۔۔۔۔۔۱۷
لباس کے متعلق میرے ذہن میں کوئی خاص بات نہیں آئی۔ ہاں بعض عام ہدایات میں دیتا ہوں مثلاً یہ کہ جن لوگوں کے پاس کافی کپڑے ہوں۔ وہ ان کے خراب ہو جانے تک اور کپڑے نہ بنوائیں پھر جو لوگ نئے کپڑے زیادہ بنواتے ہیں۔ وہ نصف پر یا تین چوتھائی پر یا ۵/۴ پر آجائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ¶سب سے ضروری بات عورتوں کے لئے یہ ہوگی کہ محض پسند پر کپڑا نہ خریدیں ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ضرورت ہو تو خریدیں دوسری پابندی عورتوں کے لئے یہ ہے کہ اس عرصہ میں گوٹہ کناری فیتہ وغیرہ قطعاً نہ خریدیں ۔۔۔۔۔۔ تیسری شرط اس مد میں یہ ہے کہ جو عورتیں اس عہد میں اپنے آپ کو شامل کرنا چاہیں۔ وہ کوئی نیازیور نہیں بنوائیں گی اور جو مرد اس میں شامل ہوں وہ بھی عہد کریں کہ عورتوں کو نیازیور بنوا کر نہیں دیں گے۔ پرانے زیور کو تڑوا کر بنانے کی بھی ممانعت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں تو روپیہ کو کیوں خواہ مخواہ ضائع کریں خوشی کے دنوں میں ایسی جائز باتوں سے ہم نہیں روکتے۔ لیکن جنگ کے دنوں میں ایک پیسہ کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔ ہاں ٹوٹے ہوئے زیور کی مرمت جائز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ علاج کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اطباء اور ڈاکٹر سستے نسخے تجویز کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچواں خرچ سنیما اور تماشے ہیں۔ ان کے متعلق میں ساری جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال۱۸ تک کوئی احمدی کسی سنیما` سرکس` تھیٹر وغیرہ غرض کہ کسی تماشہ میں بالکل نہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھٹا شادی بیاہ کا معاملہ ہے۔ چونکہ یہ جذبات کا سوال ہے اور حالات کا سوال ہے اس لئے میں یہ حد بندی تو نہیں کر سکتا کہ اتنے جوڑے اور اتنے زیور سے زیادہ نہ ہوں۔ ہاں اتنا مدنظر رہے کہ تین سال کے عرصہ میں یہ چیزیں کم دی جائیں۔ جو شخص اپنی لڑکی کو زیادہ دینا چاہے وہ کچھ زیور` کپڑا اور باقی نقد کی صورت میں دے دے۔ ساتواں مکانوں کی آرایش و زیبائش کا سوال ہے اس کے متعلق بھی کوئی طریق میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہاں عام حالات مین تبدیلی کے ساتھ اس میں خودبخود تبدیلی ہو سکتی ہے۔ جب غذا اور لباس سادہ ہو گا تو اس میں بھی خودبخود لوگ کمی کرنے لگ جائیں گے پس میں اس عام نصیحت کے ساتھ کہ جو لوگ اس معاہدے میں شامل ہوں وہ آرایش و زیبائش پر خواہ مخواہ روپیہ ضائع نہ کریں` اس بات کو چھوڑتا ہوں۱۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آٹھویں چیز تعلیمی اخراجات ہیں۔ اس کے متعلق کھانے پینے میں جو خرچ ہوتا ہے` اس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں۔ جو خرچ اس کے علاوہ ہیں یعنی فیس یا آلات اور اوزاروں یا سٹیشنری اور کتابوں وغیرہ پرجو خرچ ہوتا ہے` اس میں کمی کرنا ہمارے لئے مضر ہوگا۔ اس لئے نہ تو اس میں کمی کی نصیحت کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے۔ پس عام اقتصادی حالات میں تغیر کے لئے میں ان آٹھ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں<۔۲۰
دوسرا مطالبہ:۔
>دوسرا مطالبہ جو دراصل پہلے ہی مطالبہ پر مبنی ہے یہ کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کا ۵/۱ سے ۳/۱ حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین سال تک بیت المال میں جمع کرائے۔ اس کی صورت یہ ہو کہ جس قدر وہ مختلف چندوں میں دیتے ہیں یا دوسرے ثواب کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں یا دارالانوار کمیٹی کا حصہ یا حصے انہوں نے لئے ہیں )اخبارات وغیرہ کی قیمتوں کے علاوہ( وہ سب رقم اس حصہ میں سے کاٹ لیں اور باقی رقم اس تحریک کی امانت میں صدر انجمن حمدیہ کے پاس جمع کرادیں۔۲۱
۔۔۔۔۔۔۔ یہ ضروری شرط ہے کہ آنے اس میں نہیں لئے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ تین سال کے بعد یہ روپیہ نقد یا اتنی ہی جائداد کی صورت میں واپس کر دیا جائے گا۔ جو کمیٹی میں اس رقم کی حفاظت کے لئے مقرر کروں گا اس کا فرض ہو گا کہ ہر شخص پر ثابت کرے کہ اگر کسی کو جائداد کی صورت میں روپیہ واپس کیا جارہا ہے تو وہ جائداد فی الواقعہ اس رقم میں خریدی گئی ہے۔ اس سب کمیٹی کے ممبر علاوہ میرے مندرجہ ذیل احباب ہوں گے۔ )۱( میرزا بشیر احمد صاحب )۲( چودھری ظفر اللہ خاں صاحب )۳( شیخ عبدالرحمن صاحب مصری )۴( مرزا محمد اشرف صاحب )۵( مرزا شریف احمد صاحب )۶( ملک غلام محمد صاحب لاہور )۷( چودھری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری )۸( چوہدری حاکم علی صاحب سرگودھا اور چودھری فتح محمد صاحب<۲۲
تیسرا مطالبہ:۔
>تیسرا مطالبہ میں یہ کرتا ہوں کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے اس وقت بڑی ضرورت ہے کہ وہ جو گندہ لٹریچر ہمارے خلاف شائع کررہا ہے اس کا جواب دیا جائے یا اپنا نقطہ نگاہ احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں پیدا کی جارہی ہیں انہیں دور کیا جائے۔ اس کے لئے بھی خاص نظام کی ضرورت ہے` روپیہ کی ضرورت ہے` آدمیوں کی ضرورت ہے اور کام کرنے کے طریقوں کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کام کے واسطے تین سال کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ فی الحال پانچ ہزار روپیہ کام کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہے۔ بعد میں دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور اگر اس سے زائد جمع ہو گیا تو اسے اگلی مدات میں منتقل کر دیا جائے گا۔ اس کمیٹی کا مرکز لاہور میں ہو گا اور اس کے ممبر مندرجہ ذیل ہوں گے۔ )۱( پیر اکبر علی صاحب )۲( شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور )۳( چودھری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹر لاہور )۴( ملک عبدالرحمن صاحب قصوری )۵( ڈاکٹر عبدالحق صاحب بھاٹی گیٹ لاہور )۶( ملک خدا بخش صاحب لاہور )۷( چودھری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری )۸( شیخ جان محمد صاحب سیالکوٹ )۹( مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور )۱۰( قاضی عبدالحمید صاحب وکیل امرتسر )۱۱( سید ولی اللہ شاہ صاحب )۱۲( شمس صاحب یا اگروہ باہر جائیں تو مولوی اللہ دتا صاحب۲۳ )۱۳( شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر لائل پور )۱۳( ۲۴ مولوی غلام حسین صاحب جھنگ )۱۴( صوفی عبدالغفور صاحب حال لاہور۔
اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ میری دی ہوئی ہدایات کے مطابق دشمن کے پروپیگنڈا کا بالمقابل پروپیگنڈا سے مقابلہ کرے۔ مگر اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ تجارتی اصول پر کام کرے۔ مفت اشاعت کی قسم کا کام اس کے دائرہ عمل سے خارج ہوگا۔
چوتھا مطالبہ:۔
>قوم کو مصیبت کے وقت پھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ مکہ میں اگر تمہارے خلاف جوش ہے تو کیوں باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں نہیں پھیل جاتے۔ اگر باہر نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ترقی کے بہت سے راستے کھول دے گا۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں بھی ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں کچلنا چاہتا ہے اور رعایا میں بھی ہمیں کیا معلوم ہے کہ ہماری مدنی زندگی کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے۔ قادیان بے شک ہمارا مذہبی مرکز ہے۔ مگر ہمیں کیا معلوم کہ ہماری شوکت و طاقت کا مرکز کہاں ہے۔ یہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں بھی ہو سکتا ہے اور چین` جاپان` فلپائن` سماٹرا` جاوا` روس` امریکہ غرض کہ دنیا کے کسی ملک میں ہو سکتا ہے۔ اس لئے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگ بلاوجہ جماعت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ کچلنا چاہتے ہیں تو ہمارا ضروری فرض ہو جاتا ہے کہ باہر جائیں اور تلاش کریں کہ ہماری مدنی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہمیں کیا معلوم ہے کہ کونسی جگہ کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ فوراً احمدیت کو قبول کرلیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ ہمارا پہلا تجربہ بتاتا ہے کہ باقاعدہ مشن کھولنا مہنگی چیز ہے۔ اس لئے پرانے اصول پر نئے مشن نہیں کھولے جا سکتے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ دو دو آدمی تین نئے ممالک میں بھیجے جائیں۔ ان میں سے ایک ایک انگریزی دان ہو اور ایک ایک عربی دان۔ سب سے پہلے تو ایسے لوگ تلاش کئے جائیں کہ جو سب یا کچھ حصہ خرچ کا دے کر حسب ہدایات جاکر کام کریں۔ مثلاً صرف کرایہ لے لیں آگے خرچ نہ مانگیں یا کرایہ خود ادا کر دیں۔ خرچ چھ سات ماہ کے لئے ہم سے لے لیں یا کسی قدر رقم اس کام کے لئے دے سکیں۔ اگر اس قسم کے آدمی حسب منشاء نہ ملیں تو جن لوگوں نے پچھلے خطبہ کے ماتحت وقف کیا ہے ان میں سے کچھ آدمی چن لئے جائیں جن کو صرف کرایہ دیا جائے اور چھ ماہ کے لئے معمولی خرچ دیا جائے اس عرصہ میں وہ ان ملکوں کی زبان سیکھ کر وہاں کوئی کام کریں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کریں اور سلسلہ کا لٹریچر اس ملک کی زبان میں ترجمہ کرکے اسے اس ملک میں پھیلائیں اور اس ملک کے تاجروں اور احمدی جماعت کے تاجروں کے درمیان تعلق بھی قائم کرائیں۔ غرض مذہبی اور تمدنی طور پر اس ملک اور احمدی جماعت کے درمیان واسطہ بنیں۔
پس میں اس تحریک کے ماتحت ایک طرف تو ایسے نوجوانوں کا مطالبہ کرتا ہوں جو کچھ خرچ کا بوجھ خود اٹھائیں ورنہ وقف کرنے والوں میں سے ان کو چن لیا جائے گا جو کرایہ اور چھ ماہ کا خرچ لے کر ان ملکوں میں تبلیغ کے لئے جانے پر آمادہ ہوں گے جو ان کے لئے تجویز کئے جائیں گے۔ اس چھ ماہ کے عرصہ میں ان کا فرض ہوگا کہ علاوہ تبلیغ کے وہاں کی زبان بھی سیکھ لیں اور اپنے لئے کوئی کام بھی نکالیں جس سے آئندہ گزارہ کر سکیں۔ اس تحریک کے لئے خرچ کا اندازہ میں نے دس ہزار روپیہ کا لگایا ہے۔ پس دوسرا مطالبہ اس تحریک کے ماتحت میرا یہ ہے کہ جماعت کے ذی ثروت لوگ جو سو سو روپیہ یا زیادہ روپیہ دے سکیں اس کے لئے رقوم دے کر ثواب حاصل کریں<۔۲۶
>ایسے نوجوان باقاعدہ مبلغ نہیں ہوں گے مگر اس بات کے پابند ہوں گے کہ باقاعدہ رپورٹیں بھیجتے رہیں اور ہماری ہدایات کے ماتحت تبلیغ کریں<۔۲۷
پانچواں مطالبہ:۔
>تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جس پر سو روپیہ ماہوار خرچ ہوگا اور اس طرح ۱۲۰۰ روپیہ اس کے لئے درکار ہے۔ جو دوست اس میں بھی حصہ لے سکتے ہوں وہ لیں۔ اس میں بھی غرباء کو شامل کرنے کے لئے میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے کے لئے پانچ پانچ روپے دے سکتے ہیں<۔۲۸
چھٹا مطالبہ:۔
>میں چاہتا ہوں کہ وقف کنندگان میں سے پانچ افراد کو مقرر کیا جائے کہ سائیکلوں پر سارے پنجاب کا دورہ کریں اور اشاعت سلسلہ کے امکانات کے متعلق مفصل رپورٹیں مرکز کو بھجوائیں۔ مثلاً یہ کہ کس علاقہ کے لوگوں پر کس طرح اثر ڈالا جاسکتا ہے۔ کون کون سے بااثر لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو احمدیت کی اشاعت میں خاص مدد مل سکتی ہے۔ کس کس جگہ کے لوگوں کی کس کس جگہ کی احمدیوں سے رشتہ داریاں ہیں کہ ان کو بھیج کر وہاں تبلیغ کرائی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پانچ آدمی جو سائیکلوں پر جائیں گے مولوی فاضل یا انٹرنس پاس ہونے چاہئیں۔ تین سال کے لئے وہ اپنے آپ کو وقف کریں گے۔ پندرہ روپیہ ماہوار ان کو دیا جائے گا۔ تبلیغ کا کام ان کا اصلی فرض نہیں ہو گا۔ اصل فرض تبلیغ کے لئے میدان تلاش کرنا ہو گا۔ وہ تبلیغی نقشے بنائیں گے۔ گویا جس طرح گورنمنٹ سروے (SURVEY) کراتی ہے وہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے پنجاب کا سروے کریں گے۔ ان کی تنخواہ اور سائیکلوں وغیرہ کی مرمت کا خرچ ملا کر سو روپیہ ماہوار ہو گا۔ اور اس طرح کل رقم جس کا مطالبہ ہے ۲/۲۷۱ ہزار بنتی ہے۔ مگر اس میں سے ساڑھے سترہ ہزار کی فوری ضرورت ہے<۔۲۹
‏tav.8.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
ساتواں مطالبہ:۔
>تبلیغ کی وسعت کے لئے ایک نیا سلسلہ مبلغین کا ہونا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ سرکاری ملازم تین تین ماہ کی چھٹیاں لے کر اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ ان کو وہاں بھیج دیا جائے جہاں ان کی ملازمت کا واسطہ اور تعلق نہ ہو۔ مثلاً گورداسپور کے ضلع میں ملازمت کرنے والا امرتسر کے ضلع میں بھیج دیا جائے` امرتسر کے ضلع میں ملازمت کرنے والا کانگڑہ یا ہوشیارپور کے ضلع میں کام کرے۔ گویا اپنی ملازمت کے علاقہ سے باہر ایسی جگہ کام کرے جہاں ابھی تک احمدیت کی اشاعت نہیں ہوئی۔ اور وہاں تین ماہ رہ کر تبلیغ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے اصحاب کا فرض ہو گا کہ جس طرح ملکانہ تحریک کے وقت ہوا` وہ اپنا خرچ آپ برداشت کریں۔ ہم اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ انہیں اتنی دور )نہ(۳۰ بھیجا جائے کہ اس کے لئے سفر کے اخرجات برداشت کرنے مشکل ہوں۔ اور اگر کسی کو کسی دور جگہ بھیجا گیا تو کسی قدر بوجھ ان اخراجات سفر کا سلسلہ برداشت کرے گا اور باقی اخراجات کھانے پینے پہننے کے وہ خود برداشت کریں۔ ان کو کوئی تنخواہ نہ دی جائے گی نہ کوئی کرایہ سوائے اس کے جسے بہت دور بھیجا جائے<۔۳۱
آٹھواں مطالبہ:۔
>ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں۔ جو تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں<۔۳۲
نواں مطالبہ:۔
>جو لوگ تین ماہ )نہ(]4 [stf۳۳ دے سکیں ۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگ جو بھی موسمی چھٹیاں یا حق کے طور پر ملنے والی چھٹیاں ہوں انہیں وقف کردیں۔ ان کو قریب کے علاقہ میں ہی کام پر لگا دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ زمینداروں کے لئے بھی چھٹی کا وقت ہوتا ہے۔ انہیں سرکار کی طرف سے چھٹی نہیں ملتی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے یعنی ایک موقعہ آتا ہے جو نہ کوئی فصل بونے کا ہوتا ہے اور نہ کاٹنے کا۔ اس وقت جو تھوڑا بہت کام ہو اسے بیوی بچوں کے سپرد کرکے وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کر سکتے ہیں۔ ہم ان کی لیاقت کے مطابق اور ان کی طرز کا ہی کام انہیں بتا دیں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے اعلیٰ نتائج رونما ہوں گے۔ مثلاً ان سے پوچھیں گے کہ تمہاری کہاں کہاں رشتہ داریاں ہیں اور کہاں کے رشتہ دار احمدی نہیں۔ پھر کہیں گے جائو ان کے ہاں مہمان ٹھہرو اور ان کو تبلیغ کرو<۔۳۴
دسواں مطالبہ:۔
>اپنے عہدہ یا کسی علم وغیرہ کے لحاظ سے جو لوگ کوئی پوزیشن رکھتے ہوں` یعنی ڈاکٹر ہوں` وکلاء ہوں` یا اور ایسے معزز کاموں پر یا ملازمتوں پر ہوں جن کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ مختلف مقامات کے جلسوں میں مبلغوں کے سوائے ان کو بھیجا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے طبقوں کے لوگ ہماری جماعت میں چار پانچ سو سے کم نہیں ہوں گے۔ مگر اس وقت دو تین کے سوا باقی دینی مضامین کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس وقت چودھری ظفر اللہ خان صاحب` قاضی محمد اسلم صاحب اور ایک دو اور نوجوان ہیں۔ ایک دہلی کے عبدالمجید صاحب ہیں جنہوں نے ملازمت کے دوران میں ہی مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ وہ لیکچر بھی اچھا دے سکتے ہیں۔ سرحد میں قاضی محمد یوسف صاحب ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں اگر اچھی پوزیشن رکھنے والا ہر شخص اپنے حالات بیان کرے اور بتائے کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو قبول کرکے کس قدر روحانی ترقی حاصل ہوئی اور کس طرح اس کی حالت میں انقلاب آیا۔ پھر ڈاکٹر یا وکیل یا بیرسٹر ہو کر قرآن اور حدیث کے معارف بیان کرے تو سننے والوں پر اس کا خاص اثر ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اگر لیکچروں کے معلومات حاصل کرنے اور نوٹ لکھنے کے لئے قادیان آجائیں تو میں خود ان کو نوٹ لکھا سکتا ہوں یا دوسرے مبلغ لکھا دیا کریں گے۔ اس طرح ان کو سہارا بھی دیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پرانے دوستوں میں سے کام کرنے والے ایک میر حامد شاہ صاحب مرحوم بھی تھے۔ ان کو خواجہ صاحب )خواجہ کمال الدین صاحب۔ ناقل( سے بھی بہت پہلے لیکچر دینے کا جوش تھا۔ اور ان کے ذریعہ بڑا فائدہ پہنچا۔ وہ ایک ذمہ دار عہدہ پر لگے ہوئے تھے۔ باوجود اس کے تبلیغ میں مصروف رہتے اور سیالکوٹ کی دیہاتی جماعت کا بڑا حصہ ان کے ذریعہ احمدی ہوا<۔۳۵
گیارھواں مطالبہ:۔
>دراصل خلیفہ کا کام نئے سے نئے حملے کرنا اور اسلام کی اشاعت کے لئے نئے سے نئے رستے کھولنا ہے مگر اس کے لئے بجٹ ہوتا ہی نہیں۔ سارا بجٹ انتظامی امور کے لئے یعنی صدر انجمن کے لئے ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی افتادی ہورہی ہے اور کوئی نیا رستہ نہیں نکلتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج سے دس سال قبل میں نے ریزرو فنڈ قائم کرنے کے لئے کہا تھا تاکہ اس کی آمد سے ہم ہنگامی کام کرسکیں۔ مگر افسوس جماعت نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا اور صرف ۲۰ ہزار کی رقم جمع کی۔ اس میں سے کچھ رقم صدر انجمن احمدیہ نے ایک جائداد کی خرید پر لگادی اور کچھ رقم کشمیر کے کام کے لئے قرض لے لی گئی اور بہت تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی۔ یہ رقم اس قدر قلیل تھی کہ اس پر کسی ریزرو فنڈ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ ہنگامی کاموں کے لئے تو بہت بڑی رقم ہونی چاہئے جس کی معقول آمدنی ہو۔ پھر اس آمدنی میں سے ہنگامی اخراجات کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو اسی فنڈ کی مضبوطی کے لئے لگا دیا جائے۔ تاکہ جب ضرورت ہو اس سے کام لیا جاسکے ۔۔۔۔۔ جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ہنگامی کاموں کے لئے بہت بڑی رقم خلیفہ کے ماتحت نہ ہو کبھی ایسے کام جو سلسلہ کی وسعت اور عظمت کو قائم کریں نہیں ہوسکتے<۔۳۶
‏sub] gat[بارھواں مطالبہ:۔
>وہ بیسیوں جو پنشن لیتے ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں خدا نے ان کو موقع دیا ہے کہ چھوٹی سرکار سے پنشن لیں اور بڑی سرکار کا کام کریں یعنی دین کی خدمت کریں ۔۔۔۔۔۔ تا ان سکیموں کے سلسلہ میں ان سے کام لیا جائے یا جو مناسب ہوں انہیں نگرانی کا کام سپرد کیا جائے<۔۳۷
تیرھواں مطالبہ:۔
>باہر کے دوست اپنے بچوں کو قادیان کے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں سے جس میں چاہیں تعلیم کے لئے بھیجیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ یہاں پڑھنے والے لڑکوں میں سے بعض جن کی پوری طرح اصلاح نہ ہوئی وہ بھی الا ماشاء اللہ جب قربانی کا موقع آیا تو یکدم دین کی خدمت کی طرف لوٹے اور اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ یہ ان کی قادیان کی رہائش کا ہی اثر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ قادیان میں پرورش پانے والے بچوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے اور سلسلہ کی محبت ان کے دلوں میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ خواہ ان میں سے کسی کی حالت کیسی ہی ہو جب دین کی خدمت کے لئے آواز اٹھتی ہے تو ان کے اندر سے لبیک کی سر پیدا ہو جاتی ہے الا ماشاء اللہ۔ لیکن اس وقت میں ایک خاص مقصد سے یہ تحریک کر رہا ہوں۔ ایسے لوگ اپنے بچوں کو پیش کریں جو اس بات کا اختیار دیں کہ ان بچوں کو ایک خاص رنگ اور خاص طرز میں رکھا جائے۔ اور دینی تربیت پر زور دینے کے لئے ہم جس رنگ میں ان کو رکھنا چاہیں رکھ سکیں۔ اس کے ماتحت جو دوست اپنے لڑکے پیش کرنا چاہیں کریں۔ ان کے متعلق میں ناظر صاحب تعلیم و تربیت سے کہوں گا کہ انہیں تہجد پڑھانے کا خاص انتظام کریں۔ قرآن کریم کے درس اور مذہبی تربیت کا پورا انتظام کیا جائے اور ان پر ایسا گہرا اثر ڈالا جائے کہ اگر ان کی ظاہری تعلیم کو نقصان بھی پہنچ جائے تو اس کی پروانہ کی جائے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی ظاہری تعلیم کو ضرور نقصان پہنچے اور نہ بظاہر اس کا امکان ہے۔ لیکن دینی ضرورت پر زور دینے کی غرض سے میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی دینی تعلیم و تربیت پر وقت خرچ کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ بھی جائے تو اس کی پروانہ کی جائے اس طرح ان کے لئے ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو ان میں نئی زندگی کی روح پیدا کرنے والا ہو<۔۳۸
چودھواں مطالبہ:۔
>بعض صاحب حیثیت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں ان سے میں کہوں گا کہ بجائے اس کے کہ بچوں کے منشاء اور خواہش کے مطابق ان کے متعلق فیصلہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے لڑکوں کے مستقبل کو سلسلہ کے لئے پیش کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ حالات میں جو احمدی اعلیٰ عہدوں کی تلاش کرتے ہیں وہ کسی نظام کے ماتحت نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہوا ہے بعض صیغوں میں احمدی زیادہ ہو گئے ہیں اور بعض بالکل خالی ہیں۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم ایک نظام کے ماتحت ہو۔ اور اس کے لئے ایک ایسی کمیٹی مقرر کر دی جائے کہ جو لوگ اعلیٰ تعلیم دلانا چاہیں وہ لڑکوں کے نام اس کمیٹی کے سامنے پیش کردیں۔ پھر وہ کمیٹی لڑکوں کی حیثیت` ان کی قابلیت اور ان کے رجحان کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ فلاں کو پولیس کے محکمہ کے لئے تیار کیا جائے۔ فلاں کو انجینئرنگ کی تعلیم دلائی جائے۔ فلاں کو بجلی کے محکمہ میں کام سیکھنے کے لئے بھیجا جائے۔ فلاں ڈاکٹری میں جائے۔ فلاں ریلوے میں جائے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ان کے لئے الگ الگ کام مقرر کریں تاکہ کوئی صیغہ ایسا نہ رہے جس میں احمدیوں کا کافی دخل نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے صوبوں میں یہ کمیٹی اپنی ماتحت انجمنیں قائم کرے جو اپنے رسوخ اور کوشش سے نوجوانوں کو کامیاب بنائیں۔ اس کام کے لئے جو کمیٹی میں نے مقرر کی ہے اور جس کا کام ہو گا کہ اس بارے میں تحریک بھی کرے اور اس کام کو جاری کرے۔ اس کے فی الحال تین ممبر ہوں گے جن کے نام یہ ہیں۔ )۱( چودھری ظفر اللہ خاں صاحب )۲( خان صاحب فرزند علی صاحب )۳( میاں بشیر احمد صاحب<۳۹
پندرھواں مطالبہ:۔
>وہ نوجوان جو گھروں میں بیکار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زیادہ دور نہ جانا چاہیں۔ وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں۔ مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیئے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے جو جانا چاہیں اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں<۔۴۰
سولھواں مطالبہ:۔
>جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت خلیفہ المسیح اولؓ میں بعض خوبیاں نہایت نمایاں تھیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ اس مسجد۴۱ میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میں چھوٹا سا تھا۔ سات آٹھ سال کی عمر ہوگی۔ ہم باہر کھیل رہے تھے کہ کوئی ہمارے گھر سے نکل کر کسی کو آواز دے رہا تھا کہ فلانے مہینہ آگیا ہے اوپلے بھیگ جائیں گے۔ جلدی آئو اور ان کو اندر ڈالو۔ حضرت خلیفہ اولؓ درس دے کر ادھر سے جارہے تھے۔ انہوں نے اس آدمی سے کہا کیا شور مچا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ کوئی آدمی نہیں ملتا جو اوپلے اندر ڈالے۔ آپ نے فرمایا تم مجھے آدمی نہیں سمجھتے۔ یہ کہہ کر آپ نے ٹوکری لے لی اور اس میں اوپلے ڈال کر اندر لے گئے۔ آپ کے ساتھ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہو گئے اور جھٹ پٹ اوپلے ڈال دیئے گئے۔ اسی طرح اس مسجد کا ایک حصہ بھی حضرت خلیفہ المسیح اولؓ نے بنوایا تھا۔ ایک کام میں نے بھی اسی قسم کا کیا تھا مگر اس پر بہت عرصہ گزر گیا۔
میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کا جو مطالبہ کررہا ہوں۔ اس کے لئے پہلے قادیان والوں کو لیتا ہوں۔ یہاں کے احمدی محلوں میں جو اونچے نیچے گڑھے پائے جاتے ہیں۔ گلیاں صاف نہیں۔ نالیاں گندی رہتی ہیں بلکہ بعض جگہ نالیاں موجود ہی نہیں ان کا انتظام کریں۔ وہ جو اوورسیر ہیں وہ سروے کریں۔ اور جہاں جہاں گندہ پانی جمع رہتا ہے اور جو اردگرد بسنے والے دس بیس کو بیمار کرنے کا موجب بنتا ہے اسے نکالنے کی کوشش کریں اور ایک ایک دن مقرر کرکے سب مل کر محلوں کو درست کرلیں۔ اسی طرح جب کوئی سلسلہ کا کام ہو مثلاً لنگرخانہ یا مہمان خانہ کی کوئی اصلاح مطلوب ہو تو بجائے مزدور لگانے کے خود لگیں اور اپنے ہاتھ سے کام کرکے ثواب حاصل کریں۔
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تو حروف پر انگلی بھی پھیرتے جاتے۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے قرآن کے حروف آنکھ سے دیکھتا ہوں اور زبان سے پڑھتا ہوں اور انگلی کو بھی ثواب میں شریک کرنے کے لئے پھیرتا جاتا ہوں۔ پس جتنے عضو بھی ثواب کے لئے کام میں شریک ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے۔ اور اس کے علاوہ مشقت کی عادت ہوگی ۔۔۔۔۔۔ یہ تحریک میں قادیان سے پہلے شروع کرنا چاہتا ہوں اور باہر گائوں کی احمدیہ جماعتوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور لپائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے۔ شغل کے طور پر لوہار` نجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ خندق کھودتے ہوئے آپ نے پتھر توڑے اور مٹی ڈھوئی۔ صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ اس وقت رسول کریم~صل۱~ کو جو پسینہ آیا۔ بعض نے برکت کے لئے اسے پونچھ لیا۔ یہ تربیت۔ ثواب اور رعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیز ہے جو لوگ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے` ان پر خاص اثر ہوگا<۔۴۲
سترھواں مطالبہ:۔
>جو لوگ بیکار ہیں وہ بیکار نہ رہیں۔ اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کرلیں۔ اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں۔ ریزروفنڈ کے لئے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کردیں۔ غرض کوئی شخص بیکار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہو<۔۴۳
اٹھارھواں مطالبہ:۔
>قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کریں۔ اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں لوگ مکان بنا چکے ہیں مگر ابھی بہت گنجائش ہے۔ جوں جوں قادیان میں احمدیوں کی آبادی بڑھے گی ہمارا مرکز ترقی کرے گا اور غیر عنصر کم ہوتا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یاد رکھو کہ قادیان کو خدا تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کا مرکز قرار دیا ہے۔ اس لئے اس کی آبادی ان ہی لائنوں پر چلنی چاہئے جو سلسلہ کے لئے مفید ثابت ہوں۔ اس موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے میری تاکید ہے کہ قادیان` بھینی اور ننگل کے سوا سردست اور کسی گائوں سے آبادی کے لئے زمین نہ خریدی جائے۔ ابھی ہمارے بڑھنے کے لئے بھینی اور ننگل کی طرف کافی گنجائش ہے<۔۴۴
انیسواں مطالبہ:۔
>دنیاوی سامان خواہ کس قدر کئے جائیں آخر دنیاوی سامان ہی ہیں۔ اور ہماری ترقی کا انحصار ان پر نہیں بلکہ ہماری ترقی خدائی سامان کے ذریعہ ہوگی اور یہ خانہ اگرچہ سب سے اہم ہے مگر اس میں نے آخر میں رکھا اور وہ دعا کا خانہ ہے۔ وہ لوگ جو ان مطالبات میں شریک نہ ہو سکیں۔ اور ان کے مطابق کام نہ کرسکیں۔ وہ خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ کام کر سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق دے اور ان کے کاموں میں برکت دے ۔۔۔۔۔۔ پس وہ لولے لنگڑے اور اپاہج جو دوسروں کے کھلانے سے کھاتے ہیں` جو دوسروں کی امداد سے پیشاب پاخانہ کرتے ہیں اور وہ بیمار اور مریض جو چارپائیوں پر پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی طاقت ہوتی اور ہمیں بھی صحت ہوتی تو ہم بھی اس وقت دین کی خدمت کرتے۔ ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت کرنے کا موقعہ پیدا کر دیا ہے۔ وہ اپنی دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور چارپائیوں پر پڑے پڑے خدا تعالیٰ کا عرش ہلائیں تاکہ کامیابی اور فتح مندی آئے۔ پھر وہ جو ان پڑھ ہیں اور نہ صرف ان پڑھ ہیں بلکہ کند ذہن ہیں اور اپنی اپنی جگہ کڑھ رہے ہیں کہ کاش ہم بھی عالم ہوتے۔ کاش ہمارا بھی ذہن رسا ہوتا اور ہم بھی تبلیغ دین کے لئے نکلتے۔ ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کا بھی خدا ہے جو اعلیٰ درجہ کی عبارت آرائیوں کو نہیں دیکھتا۔ اعلیٰ تقریروں کو نہیں دیکھتا بلکہ دل کو دیکھتا ہے وہ اپنے سیدھے سادھے طریق سے دعا کریں خدا تعالیٰ ان کی دعا سنے گا اور ان کی مدد کرے گا<۔۴۵text] [tag

عکس کے لئے

مطالبات تحریک جدید کا پس منظر
تحریک جدید کے مندرجہ بالا انیس مطالبات بیان کرتے وقت حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے مدنظر گیارہ مصالح تھیں۔ جن کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں:۔
>میں نے اس سکیم کے متعلق مجموعی طور پر اس کی وہ تفصیلات جو موجودہ حالات میں ضروری تھیں` سب بیان کر دی ہیں۔ اور اس میں میں نے مندرجہ ذیل امور مدنظر رکھے ہیں ۔۔۔۔۔
‏in] ga)[t۱(
>یہ کہ جماعت کے اندر اور باہر ایسا ماحول پیدا ہو جائے کہ جس سے جماعت کی ذہنیت اور اقتصادی حالت اچھی ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ پس اس سکیم میں اول تو میرے مدنظر یہ بات ہے کہ ذہنیت میں ایسا تغیر کروں کہ جماعت خدمت دین کے لئے تیار ہو جائے اور آئندہ ہمیں جو قدم اٹھانا پڑے۔ اسے بوجھ نہ خیال کیا جائے بلکہ بشاشت کے ساتھ اٹھایا جاسکے<۔
)۲(
>دوسری بات میرے مدنظر یہ ہے کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو یہ احساس کرا دیا جائے کہ اب وقت بدل چکا ہے۔ اس سکیم کا اثر سب پر ہی پڑے گا۔ جو شخص زیادہ کپڑے بنوانے کا عادی ہے۔ جب وہ جاکر اب اور کپڑا خریدنے لگا تو معاً اسے خیال آئے گا کہ اب ہماری حالت بدل گئی ہے۔ جب بھی بیوی سبزی ترکاری کے لئے کہے گی اور دو تین کے بجائے صرف ایک ہی منگوانے کو کہے گی تو فوراً اسے خیال آجائے گا کہ اب ہمارے لئے زیادہ قربانیاں کرنے کا وقت آگیا ہے<۔
)۳(
>تیسری بات میں نے یہ مدنظر رکھی ہے کہ جس قدر اطراف سے سلسلہ پر حملہ ہو رہا ہے سب کا دفعیہ ہو۔ اب تک ہم نے بعض رستے چن لئے تھے اور کچھ قلعے بنا لئے تھے۔ مگر کئی حملے دشمن کے اس لئے چھوڑ دیئے تھے کہ پہلے فلاں کو دور کرلیں پھر اس طرف توجہ کریں گے۔مگر اس سکیم میں اب میں نے یہ مدنظر رکھا ہے کہ حتی الوسع ہر پہلو کا دفعیہ کیا جائے<۔
)۴(
>چوتھی بات میں نے یہ مدنظر رکھی ہے کہ سلسلہ کی طرف سے پہلے ہم نے ایک دو رستے مقرر کر رکھے تھے اور انہی راہوں سے دشمن پر حملہ کرتے تھے اور باقی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیتے تھے کہ ابھی اور کی توفیق نہیں۔ مگر اب سکیم میں میں نے یہ بات مدنظر رکھی ہے کہ حملے وسیع ہوں اور بیسیوں جہات سے دشمن پر حملے کئے جائیں۔ ہمارے حملے ایک ہی محاذ پر محدود نہ ہوں بلکہ جس طرح دفاع کے لئے ہم مختلف طریق اختیار کریں اسی طرح حملہ کے لئے بھی مختلف محاذ ہوں<۔
)۵(
>پانچویں بات یہ ہے کہ مغربیت کے بڑھتے ہوئے اثر کو جو دنیا کو کھائے جاتا ہے اور جو دجال کے غلبہ میں ممد ہے اسے دور کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ اور جوں جوں وہ زائل ہوتا جائے گا اسلام کی محبت اور اس کا دخل بڑھتا جائے گا۔ اسی لئے میں نے ہاتھ سے کام کرنے اور ایک ہی سالن کھانے کی عادت ڈالنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ دونوں باتیں مغربیت کے خلاف ہیں<۔
)۶(
>چھٹی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے زیادہ جدوجہد کی جائے کیونکہ ہماری فتح اسی سے ہو سکتی ہے۔ اسی لئے دعا کرنا میں نے اپنی سکیم کا ایک جزو رکھا ہے اس کی غرض یہی ہے کہ ہماری تمام ترقیات اسی سے وابستہ ہیں اور جب ہمارے اندر سے غرور نکل جائے اس وقت اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ امن کی بنیاد ایسے اصول پر قائم ہو کہ انسانیت کے لحاظ سے سب برابر ہوں۔ اس سکیم میں میں نے یہ بات بھی مدنظر رکھی ہے کہ امیر و غریب کا بعد دور ہو<۔
)۷(
‏ind] ga[t >ساتویں بات اس سکیم میں میرے مدنظر یہ ہے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ افراد کو تبلیغ کے لئے تیار کیا جائے۔ پہلے سارے اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں وہ ایسے رنگ میں ہوتے ہیں کہ مبلغ نہیں بن سکتے۔ اول تو عام طور پر ہماری جماعت میں تبلیغ کا انحصار مبلغوں پر ہی ہوتا ہے۔ وہ آئیں اور تقریریں کر جائیں۔ ان کے علاوہ انصار اللہ ہیں مگر وہ اردگرد جاکر تبلیغ کر آتے ہیں۔ اور وہ بھی ہفتہ میں ایک بار اس سے تبلیغ کی عادت پیدا نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس اس سکیم میں یہ بھی مدنظر ہے کہ تبلیغ کا دائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جائے اور ایسے مبلغ پیدا کئے جائیں جو بغیر معاوضہ کے تبلیغ کریں<۔
)۸(
>آٹھویں بات اس سکیم میں میرے مدنظر یہ ہے کہ مرکز کو ایسا محفوظ کیا جائے کہ وہ بیرونی حملوں سے زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو جائے۔ اس بات کو اچھی طرح سوچنا چاہئے کہ ایک سپاہی اور جرنیل میں کتنا فرق ہے مگر یہ فرق ظاہر میں نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر آنکھوں کو لے لو۔ سپاہی اور جرنیل کی آنکھ میں کیا فرق ہے سوائے اس کے کہ سپاہی کی نظر تیز ہو گی اور جرنیل بوجہ بڑھاپے کے اس قدر تیز نظر نہ رکھتا ہو گا۔ اسی طرح دونوں کے جسم میں کیا فرق ہے؟ سوائے اس کے کہ سپاہی نوجوان اور مضبوط ہونے کی وجہ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے اور جرنیل اس قدر نہیں اٹھا سکتا یا سپاہی زیادہ دیر تک بھوک برداشت کر سکتا ہے اور جرنیل ایسا نہیں کر سکتا۔ مگر باوجود اس کے جرنیل کی جان ہزاروں سپاہیوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساری کی ساری فوج اسے بچانے کے لئے تباہ ہو جاتی ہے۔ نپولین کو جب انگریزوں اور جرمنوں کی متحدہ فوج کے مقابل میں آخری شکست ہوئی تو اس وقت اس کی فوج کے ایک ایک سپاہی نے اسی خواہش میں جان دے دی کہ کسی طرح نپولین کی جان بچ جائے کیونکہ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ اگر نپولین بچ گیا تو فرانس بھی بچ جائے گا ورنہ مٹ جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ تو بعض دفعہ بعض چیزوں کو ایسی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ ان کے مٹنے کے بعد شان قائم نہیں رہ سکتی۔ پس قادیان اور باہر کی اینٹوں میں فرق ہے۔ اس مقام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اسے عزت دیتا ہوں جس طرح بیت الحرم` بیت المقدس یا مدینہ و مکہ کو برکت دی ہے اور اب اگر ہماری غفلت کی وجہ سے اس کی تقدیس میں فرق آئے تو یہ امانت میں خیانت ہو گی۔ اس لئے یہاں کی اینٹیں بھی انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں اور یہاں کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اگر ہزاروں احمدیوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو پھر بھی ان کی اتنی حیثیت بھی نہ ہو گی جتنی ایک کروڑ پتی کے لئے ایک پیسہ کی ہوتی ہے۔ پس قادیان اور قادیان کے وقار کی حفاظت زیادہ سے زیادہ ذرائع سے کرنا ہمارا فرض ہے<۔
)۹(
>نویں بات اس میں میرے مدنظر یہ ہے کہ جماعت کو ایسے مقام پر کھڑا کر دیا جائے کہ اگلا قدم اٹھانا سہل ہو۔ میں نے اس سکیم میں اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ اگر آئندہ اور قربانیوں کی ضرورت پڑے تو جماعت تیار ہو اور بغیر مزید جوش پیدا کرنے والی تحریکات کرنے کے جماعت آپ ہی آپ اس کے لئے آمادہ ہو<۔
)۱۰(
>دسویں بات اس میں میں نے یہ مدنظر رکھی ہے کہ ہماری جماعت کا تعلق صرف ایک ہی حکومت سے نہ رہے۔ اب تک ہمارا تعلق صرف ایک ہی حکومت سے ہے سوائے افغانستان کے جہاں ہماری جماعت اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتی اور احمدی کام نہیں کر سکتے۔ باقی سب مقامات پر جہاں جہاں زیادہ اثر رکھنے والی جماعتیں ہیں مثلاً ہندوستان` نائجیریا` گولڈ کوسٹ` مصر سیلون` ماریشس وغیرہ مقامات پر وہ سب برطانیہ کے اثر کے نیچے ہیں۔ دیگر حکومتوں سے ہمارا تعلق نہیں سوائے ڈچ حکومت کے۔ مگر ڈچ بھی یورپین ہیں اور یورپینوں کا نطقہ نگاہ ایشیائی لوگوں کے بارہ میں جلدی نہیں بدلتا۔ ہمیں ایسی حکومتوں سے بھی لگائو پیدا کرنا چاہئے جن کی حکومت میں ہم شریک ہوں یا جو ہم پر حکومت کرنے کے باوجود ہمیں بھائی سمجھیں۔ مشرقی خواہ حاکم ہو مگر وہ محکوم کو بھی اپنا بھائی سمجھے گا۔ اسی طرح جنوبی امریکہ کے لوگ ہیں۔ انہوں نے بھی چونکہ کبھی باہر حکومت نہیں کی اس لئے وہ بھی ایشیائی لوگوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ پس اس سکیم میں میرے مدنظر ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم باہر جائیں اور نئی حکومتوں سے ہمارے تعلقات پیدا ہوں۔ تاکہ ہم کسی ایک ہی حکومت کے رحم پر نہ رہیں۔ یوں تو ہم خدا تعالیٰ کے ہی رحم پر ہیں۔مگر جو حصہ تدبیر کا خدا نے مقرر کیا ہے اسے اختیار کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اس لئے ہمارے تعلقات اس قدر وسیع ہونے چاہئیں کہ کسی حکومت یا رعایا کے ہمارے متعلق خیالات میں تغیر کے باوجود بھی جماعت ترقی کر سکے<۔
)۱۱(
>گیارھویں بات یہ مدنظر ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس درد میں ہماری شریک ہو سکیں۔ اللہ تعالٰی نے ہمیں یہ ایک نعمت دی ہے کہ ہمارے دلوں میں درد پیدا کر دیا ہے۔ گورنمنٹ نے جو ہماری ہتک کی۔ احرار نے جو اذیت پہنچائی اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ ہمارے دلوں میں درد کی نعمت پیدا کر دی اور وہی بات ہوئی جو مولانا روم نے فرمائی ہے کہ ~}~
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
یعنی ہر آفت جو مسلمانوں پر آتی ہے اس کے نیچے ایک خزانہ مخفی ہوتا ہے۔ پس یقیناً یہ بھی ایک خزانہ تھا۔ جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیا کہ جماعت کو بیدار کر دیا اور جو لوگ سست اور غافل تھے ان کو بھی چوکنا کر دیا۔ پس یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو دنیوی نگاہ میں مصیبت تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک رحمت تھا۔ اور میں نے نہیں چاہا کہ اس سے صرف موجودہ نسل ہی حصہ لے بلکہ یہ چاہا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس سے حصہ پائیں۔ اور میں نے اس سکیم کو ایسا رنگ دیا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس طریق پر نہیں جو شیعوں نے اختیار کیا بلکہ عقل سے اور اعلیٰ طریق پر جو خدا کے پاک بندے اختیار کرتے آئے ہیں اسے یاد رکھ سکیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس کے علاوہ اور بھی فوائد ممکن ہے اس میں ہوں مگر یہ کم سے کم تھے جو میں نے بیان کر دیئے ہیں۔ یا یوں کہو کہ یہ سکیم کا وہ حصہ ہے جو خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بتایا<۔۴۷
تحریک جدید جبری نہیں اختیاری سکیم ہے
تحریک جدید میں شمولیت شروع ہی سے اختیاری تھی۔ حضرت امیرالمومنینؓ نے سب حالات جماعت کے سامنے رکھ دیئے اور ساتھ ہی ان کا علاج بھی۔ اور یہ نہیں رکھا کہ جو حصہ نہ لے اسے سزا دی جائے بلکہ سزا اور ثواب کو خداتعالیٰ پر ہی چھوڑ دیا تا جو حصہ لے اسے زیادہ ثواب ملے۔ اس اصول کے مطابق حضور نے کارکنان جماعت کو واضح ہدایات دیں کہ مردوں پر زور نہ دیا جائے صرف وہی رقم بطور چندہ وصول کی جائے جو ۱۵۔ جنوری ۱۹۳۵ء تک آجائے یا اس کا وعدہ آجائے۔ نیز کارکنوں کو خاص طور پر تاکید فرمائی کہ روپیہ کی کمی کا فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کا امتحان کرنا چاہتا ہے۔ وہ غیور ہے اور کسی کے مال کا محتاج نہیں۔ چنانچہ حضورؓ نے واضح طریق پر فرمایا۔
>تحریک کو چلانے والے مندرجہ ذیل باتوں کو مدنظر رکھیں۔
مردوں پر زور نہ دیا جائے
‏]text )[tag۱( یہ کہ وہ صرف میری تجاویز کو لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس کے بعد مردوں پر اس میں شامل ہونے کے لئے زیادہ زور نہ دیں۔ ہاں عورتوں تک خبر چونکہ مشکل سے پہنچتی ہے اور باہر کی مشکلات سے ان کو آگاہی بھی کم ہوتی ہے۔ اس لئے رسول کریم~صل۱~ مردوں میں تو چندہ کے لئے صرف اعلان ہی کر دیتے تھے کہ کون ہے جو اپنا گھر جنت میں بنائے مگر عورتوں سے اصرار کے ساتھ وصول فرماتے تھے بلکہ فرداً فرداً اجتماع کے مواقع میں انہیں تحریک کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت نے ایک کڑا اتار کر دے دیا تو آپﷺ~ نے فرمایا دوسرا ہاتھ بھی دوزخ سے بچا۔ پس عورتوں کے معاملہ میں اجازت ہے کہ ان میں زیادہ زور کے ساتھ تحریک کی جائے مگر مجبور انہیں بھی نہ کیا جائے اور مردوں پر تو زور بالکل نہ دیا جائے۔ صرف ان تک میری تجاویز کو پہنچا دیا جائے اور جو اس میں شامل ہونے سے عذر کرے اسے ترغیب نہ دی جائے۔ کارکن تحریک مجھے دکھا کر اور اسے چھپوا کر کثرت سے شائع کرا دیں اور چونکہ ڈاک خانہ میں بعض اوقات چٹھیاں ضائع ہو جاتی ہیں اس لئے جہاں سے جواب نہ ملے دس پندرہ روز کے بعد پھر تحریک بھیج دیں اور پھر بھی جواب نہ آئے تو خاموش ہو جائیں۔ اسی طرح بیرونی جماعتوں کے سکرٹریوں کا فرض ہے کہ وہ میرے خطبات جماعت کو سنا دیں جو جمع ہوں انہیں یکجا اور جو جمع نہ ہوں ان کے گھروں پر جاکر۔ لیکن کسی پر شمولیت کے لئے زور نہ ڈالیں اور جو عذر کرے اسے مجبور نہ کریں<۔
نیز فرمایا۔
>تیسری بات یہ مدنظر رکھی جائے کہ ہندوستان کے احمدیوں کا چندہ پندرہ جنوری ۱۹۳۵ء تک وصول ہو جائے جو ۱۶۔ جنوری کو آئے یا جس کا ۱۵۔ جنوری سے پہلے پہلے وعدہ نہ کیا جاچکا ہو اسے منظور نہ کریں۔ پہلے میں نے ایک ماہ کی مدت مقرر کی تھی مگر اب چونکہ لوگ اس مہینہ کی تنخواہیں لے کر خرچ کر چکے ہیں۔ اس لئے میں اس میعاد کو ۱۵۔ جنوری تک زیادہ کرتا ہوں۔ جو رقم ۱۵۔ جنوری تک آجائے یا جس کا وعدہ اس تاریخ تک آجائے وہی لی جائے۔ زمیندار دوست جو فصلوں پر چندہ دے سکتے ہیں یا ایسے دوست جو قسط وار روپیہ دینا چاہیں وہ ۱۵۔ جنوری تک ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوں گے مگر وعدے ان کی طرف سے بھی ۱۵۔ جنوری تک آجانے ضروری ہیں۔جو رقم یا وعدہ ۱۶۔ جنوری کو آئے اسے واپس کر دیا جائے۔ ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے میعاد یکم اپریل تک ہے۔ جن کی رقم یا وعدہ اس تاریخ تک آئے وہ لیا جائے۔ اس کے بعد آنے والا نہیں۔ اس صورت میں جو لوگ اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وعدے اس تاریخ کے اندر اندر بھیج دیں۔ رقم فروری` مارچ` اپریل میں آسکتی ہے یا جو دوست بڑی رقوم دس بیس تیس چالیس کی ماہوار قسطوں میں ادا کرنا چاہیں یا اس سے زیادہ دینا چاہتے ہوں انہیں سال کی بھی مدت دی جاسکتی ہے۔ مگر ایسے لوگوں کے بھی وعدے عرصہ مقررہ کے اندر اندر آنے چاہئیں۔ اس میعاد کے بعد صرف انہی لوگوں کی رقم یا وعدہ لیا جائے گا جو حلفیہ بیان دیں کہ انہیں وقت پر اطلاع نہیں مل سکی مثلاً جو ایسے نازک بیمار ہوں کہ جنہیں اطلا نہ ہو سکے یا دوردراز ملکوں میں ہوں۔
پس کارکنوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعتوں پر ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ وہ امتیاز کرنا چاہتا ہے۔ اس کا منشاء یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو ثواب سے محروم رکھا جائے۔ پس جن کو خدا پیچھے رکھنا چاہتا ہے انہیں آگے کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ اور ہم کون ہیں جو اس کی راہ میں کھڑے ہوں۔ ہمارے مدنظر روپیہ نہیں بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ خدا کے دین کی شان کس طرح ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ غیرت والا ہے وہ کسی کے مال کا محتاج نہیں۔ یہ مت خیال کرو کہ دین کی فتح اس ۲/۲۷۱ ہزار روپیہ پر ہے اور کہ بعض لوگ اگر اس میں حصہ نہ لیں گے تو یہ رقم پوری کیسے ہوگی۔ جب اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ ضرور کردے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ روپیہ پورا نہ ہو تو وہ اس کے بغیر بھی کام کر دے گا۔ پس رقم کو پورا کرنے کے خیال سے زیادہ زور مت دو۔ کارکنوں کا کام صرف یہی ہے کہ تحریک دوسروں کو پہنچا دیں اور دس پندرہ دن کے بعد پھر یاد دہانی کردیں۔ اسی طرح جماعتوں کے سیکرٹری بھی احباب تک اس تحریک کو پہنچا دیں۔ یہ کسی کو نہ کہا جائے کہ اس میں حصہ ضرور لو۔ جو کہتے ہیں ہمیں توفیق نہیں انہیں مت کہو کہ حصہ لیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ جو باوجود توفیق کے اس میں حصہ نہیں لیتے ان کا حصہ اس پاک تحریک میں شامل ہو۔ اگر ایسا شخص دوسروں کے زور دینے پر حصہ لے گا تو وہ ہمارے پاک مال کو گندہ کرنے والا ہوگا۔ پس ہمارے پاک مالوں میں ان کے گندے مال شامل کرکے ان کی برکت کم نہ کرو<۔۴۸
ساڑھے تیرہ سو سال قبل کی تحریک
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اپنی سکیم کا نام >تحریک جدید< محض اس لئے رکھا تھا کہ بعض لوگوں کے لئے جدید چیز لذیذ ہوتی ہے۔ ورنہ اس تحریک کا مقصد دراصل جماعت احمدیہ کو اسلام کے عہد اول میں ساڑھے تیرہ سو سال پیچھے لے جانا تھا۔ اس اعتبار سے یہ ایک ایسی قدیم تحریک تھی جس کا لفظ لفظ قرآن مجید سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے حضورؓ نے اوائل ہی میں بتا دیا تھا کہ۔
>یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے۔ نہیں بلکہ اس کا ایک ایک لفظ میں قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں اور ایک ایک حکم رسول کریم کے ارشادات میں دکھا سکتا ہوں۔ مگر سوچنے والے دماغ اور ایمان لانے والے دل کی ضرورت ہے۔ پس یہ خیال مت کرو کہ جو میں نے کہا ہے وہ میری طرف سے ہے بلکہ یہ اس نے کہا ہے جس کے ہاتھ میں تمہاری جان ہے۔ میں اگر مر بھی جائوں تو وہ دوسرے سے یہی کہلوائے گا اور اس کے مرنے کے بعد کسی اور سے۔ بہرحال چھوڑے گا نہیں جب تک تم سے اس کی پابندی نہ کرائے۔ یہ پہلا قدم ہے اور اس کے بعد اور بہت سے قدم ہیں۔ یہ سب باتیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اور جب تم پہلی باتوں پر عمل کرلو گے تو پھر اور بتائی جائیں گی<۔۴۹
اسی مضمون کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان فرمایا کہ۔
>تحریک جدید کوئی نئی تحریک نہیں ہے بلکہ یہ وہ قدیم تحریک ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم~صل۱~ کے ذریعہ جاری کی گئی تھی۔ انجیل کے محاروہ کے مطابق یہ ایک پرانی شراب ہے جو نئے برتنوں میں پیش کی جارہی ہے۔ مگر وہ شراب نہیں جو بدمست کردے اور انسانی عقل پر پردہ ڈال دے بلکہ یہ وہ شراب ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے لا فیھا غول ولاھم عنھا ینزفون )الصفت: ع ۲( یعنی اس شراب کے پینے سے نہ تو سر دکھے گا اور نہ بکواس ہوگی کیونکہ اس کا سرچشمہ وہ الٰہی نور ہے جو محمد رسول اللہ~صل۱~ دنیا میں لائے<۔۵۰
تحریک جدید کے کامیاب ہونے کی عظیم الشان پیشگوئی
حضرت امیرالمومنینؓ نے ابھی تحریک جدید کے مطالبات سے متعلق خطبات کا سلسلہ جاری نہیں فرمایا تھا کہ حضورؓ نے تحریک جدید کے کامیاب ہونے کی واضح پیشگوئی فرمائی کہ۔
۱۔
>اگر تم سب کے سب بھی مجھے چھوڑ دو تب بھی خدا غیب سے سامان پیدا کردے گا۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہی اور جس کا نقشہ اس نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ نہ ہو۔ وہ ضرور ہوکر رہے گی۔ خواہ دوست دشمن سب مجھے چھوڑ جائیں۔ خدا خود آسمان سے اترے گا اور اس مکان کی تعمیر کرکے چھوڑے گا<۔۵۱
۲۔
>باوجودیکہ ہم نہ تشدد کریں گے اور نہ سول نافرمانی` باوجودیکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کریں گے` باوجود اس کے کہ ہم ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کریں گے جو احمدیت نے ہم پر عائد کی ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے جو خدا اور اس کے رسولﷺ~ نے ہمارے لئے مقرر کئے` پھر بھی ہماری سکیم کامیاب ہوکے رہے گی۔ کشتی احمدیت کا کپتان اس مقدس کشتی کو پرخطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچا دے گا۔ یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں جن کے سپرد الٰہی سلسلہ کی قیادت کی جاتی ہے ان کی عقلیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہوتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ سے نور پاتے ہیں اور اس کے فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی رحمانی صفات سے وہ موید ہوتے ہیں اور گو وہ دنیا سے اٹھ جائیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے جائیں مگر ان کے جاری کئے ہوئے کام نہیں رکتے اور اللہ تعالیٰ انہیں مفلح اور منصور بناتا ہے<۔۵۲
نیز فرمایا:۔
۳۔
>میں یقین رکھتا ہوں` خالی یقین نہیں بلکہ ایسا یقین جس کے ساتھ دلائل ہوں اور جس کی ہر ایک کڑی میرے ذہن میں ہے اور اس یقین کی بناء پر میں کہتا ہوں کہ گو جوشیلے لوگوں کو وہ سکیم پسند نہ آئے لیکن ہماری جماعت کے دوست اس سکیم پر سچے طور پر عمل کریں تو یقیناً یقیناً فتح ان کی ہے<۔۵۳
کمزور طبع احمدیوں کا اضطراب اور حضرت امیر المومنینؓ کا ایمان افروز جواب
جماعت احمدیہ کے مخلصین نے اس تحریک پر کس شاندار طریق سے لبیک کہا۔ اس کا ذکر اگلی فصل میں آرہا ہے۔ اس جگہ ہم بتانا چاہتے ہیں
کہ منافقین پر اس تحریک کا کیا ردعمل ہوا۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
>کئی نادان ہم میں ایسے بھی ہیں کہ جب تحریک جدید کے خطبات کا سلسلہ میں نے شروع کیا تو وہ اور قادیان کے بعض منافق کہنے لگ گئے کہ اب تو گورنمنٹ سے لڑائی شروع کر دی گئی ہے۔ بھلا گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے ان کی اتنی بات تو صحیح ہے کہ گورنمنٹ کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہے مگر اس لحاظ سے نہیں کہ گورنمنٹ بڑی ہے اور ہم چھوٹے بلکہ اس لحاظ سے کہ ہم بڑے ہیں اور گورنمنٹ چھوٹی اگر ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں اور یقیناً اسی کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں تو پھر اگر ہم مر بھی جائیں تو ہماری موت موت نہیں بلکہ زندگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی جماعتیں کبھی مرا نہیں کرتیں۔ حکومتیں مٹ جاتی ہیں۔ لیکن الٰہی سلسلے کبھی نہیں مٹتے۔ حکومت زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتی تھی کہ ہم میں سے بعض کو گرفتار کرلیتی یا بعض کو بعض الزامات میں پھانسی دے دیتی۔ مگر کسی آدمی کے مارے جانے سے تو الٰہی سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ الٰہی سلسلوں میں سے اگر ایک مرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ دس قائم مقام پیدا کر دیتا ہے<۔۵۴
تحریک جدید کا اثر غیروں پر
تحریک جدید کی تفصیلات >الفضل< کے ذریعہ منظر عام پر آئیں تو کئی غیر احمدی اصحاب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسے بہت پسند کیا۔ اور بعض غیر احمدی امراء کے گھرانوں نے اس کے بعض مطالبات اپنے ہاں رائج بھی کرلئے۔ اسی طرح ہندوئوں اور سکھوں کے متعدد خطوط موصول ہوئے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ تحریک جدید سے بہت متاثر ہیں اور اس کے ایک حصہ پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرجان ڈگلس ینگ نے اس تحریک کا ذکر سن کر اسے خوب سراہا۔ غرض کہ یہ تحریک اتنی مفید تھی کہ اغیار کو بھی اس کی خوبیاں نظر آئیں۔۵۵
تحریک جدید کا ذکر ملکی پریس میں
تحریک جدید کی اس سکیم کا چرچا ملکی پریس میں بھی ہوا۔ چنانچہ اخبار >انقلاب< لاہور نے ۴۔ دسمبر ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں یہ نوٹ شائع کیا کہ۔
>احمدیوں کے امام نے اپنے پیروئوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ تین سال تک سنیما` تھیٹر` سرکس وغیرہ ہرگز نہ دیکھیں۔ کھانے اور پہننے میں انتہائی سادگی اختیار کریں۔ بلا ضرورت نئے کپڑے نہ بنائیں۔ جہاں تک ہوسکے موجودہ کپڑوں میں ہی گزران کریں اور تبلیغ کے لئے چندہ دیں۔ عام مسلمانوں میں سے جن حضرات نے آج کل قادیانیوں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے انہیں چاہئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور عام مسلمانوں سے حلف لیں کہ وہ آئندہ سنیما نہ دیکھیں گے۔ تھیٹر نہ جائیں گے۔ سرکس کا تماشہ نہ دیکھیں گے۔ نیا کپڑا انتہائی مجبوری کے سوا نہ بنائیں گے۔ ایک وقت کے کھانے میں صرف ایک سالن پکا کے کھائیں گے اور تبلیغ اسلام کے لئے اتنا چندہ ہر مہینے ضرور دیں گے۔ مقابلہ اور مسابقہ اگر ایسے طریقے سے ہو کہ اس سے ملت کو فائدہ پہنچے تو سبحان اللہ کیا عجب ہے کہ جو مسلمان اپنے لیڈروں کے پیہم شور و غوغا کے باوجود اپنی اقتصادی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوئے وہ قادیانیوں کی ضد ہی سے اس طرف متوجہ ہو جائیں۔
لیکن ہمارے ہاں ضد دوسرے رستے پر بھی رواں ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے بعض ایسے حضرات بھی پیدا ہو جائیں جو قادیانیوں کے ترک سنیما کو بھی شیوہ احمدیت قرار دیں اور خود سنیما دیکھنا شروع کر دیں اور جو شخص سنیما دیکھنے سے انکار کرے اسے قادیانی مشہور کردیں کیونکہ من تشبہ بقوم فھو منھم۔ اگر قادیانی ایک وقت میں ایک سالن کے ساتھ روٹی کھائیں تو ہر مسلمان کم سے کم دو قسم کا سالن پکائے ورنہ تشبہ کی وجہ سے وہ بھی قادیانی سمجھا جائے گا۔ خدا کرے ایسی ضد پیدا نہ ہو جائے بلکہ اول الذکر مسابقت شروع ہو تاکہ مسلمانوں کو اقتصادی اعتبار سے فائدہ پہنچے<۔۵۶
ہندو اخبار >ملاپ< نے لکھا۔
>احمدی خلیفہ کا قابل تقلید حکم:۔ قادیانی احمدیوں کے خلیفہ صاحب نے اپنے پیروئوں کے نام یہ حکم جاری کیا ہے کہ وہ آئندہ تین سال تک سنیما۔ تھیٹر۔ سرکس وغیرہ ہرگز نہ دیکھیں اور کھانے پینے میں انتہائی سادگی اختیار کریں۔ بلا ضرورت کپڑے نہ بنائیں۔ جہاں تک ہوسکے موجودہ کپڑوں میں ہی گزران کریں اور تبلیغ کے لئے چندہ دیں یہ حکم بلاشک و شبہ قابل تقلید ہے خصوصاً ہندوئوں کے لئے جو وید پرچار کو بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں حالانکہ وید پرچار میں ہندوئوں کی زندگی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہندو بھی فیصلہ کرلیں کہ وہ اپنا روپیہ زیادہ تروید پر چارہی کے ذریعہ خرچ کریں گے<۔۵۷
پہلا باب )فصل سوم(
مطالبات تحریک جدید پر جماعت احمدیہ کی طرف سے اخلاص و قربانی کا شاندار مظاہرہ اور غیروں کا خراج|تحسین0] f[f
تحریک جدید کی سکیم اگرچہ انتہائی ناموافق اور ازحد پرخطر حالات میں جاری کی گئی تھی۔ مگر صورت حال جتنی نازک تھی اتنا ہی شاندار خیرمقدم اس کا جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا گیا۔ جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا۔
>جس جوش اور جس جذبہ اور ایثار کے ساتھ جماعت کے دوستوں نے پہلے سال کے اعلان کو قبول کیا تھا اور جس کم مائیگی اور کمزوری کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا وہ دونوں باتیں ایمان کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ۵۸]ydbo [tag اس بات کی شہادت دے رہی تھی کہ گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کو ایسی مشکلات سے ہی دوچار ہونا پڑا ہے۔ پس وہ بے بسی` بے کسی اور کم مائیگی بھی مومنوں کی جماعت سے ہماری جماعت کو ملاتی تھی اور وہ جوش اور وہ جذبہ اور ایثار جو جماعت نے دکھایا۔ وہ بھی ہمیں مومنوں کی جماعت سے ملاتا تھا۔ گویا ۱۹۳۴ء کا نومبر ایک نشان تھا سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں کے لئے` وہ ایک دلیل اور برہان تھا سوچنے اور غور کرنے والوں کے لئے کہ یہ جماعت خدا کی طرف سے ہے اور یہ ان ہی قدموں پر چل رہی ہے جن پر گزشتہ انبیاء کی جماعتیں چلتی چلی آئی ہیں<۔۵۹
مالی مطالبات اور جماعت احمدیہ
جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز جذبہ ایثار و قربانی کا اندازہ کرنے کے لئے ہم سب سے پہلے تحریک جدید کے مالی مطالبات کو لیتے ہیں۔ حضورؓ نے پہلے سال کے لئے ساڑھے ستائیس ہزار چندہ کا مطالبہ فرمایا تھا مگر جماعت نے ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصہ میں ۳۳ ہزار روپیہ نقد اپنے امام کے قدموں میں ڈال دیا اور ایک لاکھ سے زائد کے وعدے پیش کر دیئے۔ چنانچہ ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۵ء کو حضورؓ نے اعلان فرمایا کہ۔
>الحمدلل¶ہ رب العلمین کہ جماعت احمدیہ کے مخلصین نے میری مالی تحریک کا جو جواب دیا ہے وہ مخالفوں کی آنکھیں کھولنے والا اور معاونوں کی ہمت بڑھانے والا ہے چونکہ سب نیکیوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے میں اسی پاک ذات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں اپنی محبت کے اظہار کا ایک حقیر سا موقعہ دے کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔
چندوں کی تحریک ساڑھے ستائیس ہزار کی تھی اس کے متعلق اس وقت تک نقد تینتیس ہزار رقم آچکی ہے اور پندرہ جنوری سے پہلے ارسال شدہ وعدے کل ایک لاکھ چھبیس ہیں جو مطلوبہ رقم سے پونے چار گنے زیادہ ہیں اور ابھی بیرون ہند کے وعدے آرہے ہیں<۔۶۰
امانت فنڈ
امانت فنڈ۶۱ کی تحریک بھی جماعت میں بہت مقبول ہوئی اور مخلصین نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ ۲۶۔ جنوری ۱۹۳۵ء تک اس فنڈ میں پانچ ہزار کے قریب جمع ہوا۔۶۲ اور پھر جلد ہی ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار کے قریب آمد ہونے لگی۔۶۳
‏]ybod [tagامانت فنڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے ضمناً یہ بتانا ضروری ہے کہ >امانت فنڈ< کی تحریک نے احرار اور اس کے بعد دوسرے فتنوں کا سر کچلنے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
>امانت فنڈ کے ذریعہ احرار کو خطرناک شکست ہوئی ہے۔ اتنی خطرناک شکست کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شکست میں ۲۵ فیصدی حصہ امانت فنڈ کا ہے۔ لیکن باوجود اس قدر فائدہ حاصل ہونے کے دوستوں کا تمام روپیہ محفوظ ہے<۔
>غرض یہ تحریک ایسی اہم ہے کہ میں تو جب بھی تحریک جدید کے مطالبات پر غور کرتا ہوں ان میں سے امانت فنڈ کی تحریک پر میں خود حیران ہو جایا کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ امانت فنڈ کی تحریک الہامی تحریک ہے کیونکہ بغیر کسی بوجھ اور غیر معمولی چندہ کے اس فنڈ سے ایسے ایسے اہم کام ہوئے ہیں کہ جاننے والے جانتے ہیں وہ انسان کی عقل کو حیرت میں ڈال دینے والے ہیں<۔۶۴
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی دعائیں
حق یہ ہے کہ مالی مطالبات پر جماعتی اخلاص کا یہ غیر معمولی نمونہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خاص دعائوں کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ حضور خود بھی فرماتے ہیں۔
>میں نے جب تحریک جدید جاری کی تو میں نے جماعت کے دوستوں سے ۲۷ ہزار کا مطالبہ کیا تھا اور میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا نفس اس وقت مجھے یہ کہتا تھا کہ ۲۷ ہزار روپیہ بہت زیادہے ہے یہ جمع نہیں ہوگا میرا دل کہتا تھا کہ اس قدر روپیہ کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ چنانچہ گو میں یہی سمجھتا تھا کہ اتنا روپیہ جمع نہیں ہوسکتا۔ دینی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے تحریک کردی اور ساتھ ہی دعائیں شروع کر دیں کہ خدایا ضرورت تو اتنی ہے مگر جن سے میں مانگ رہا ہوں ان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے میں امید نہیں کرتا کہ وہ اس قدر روپیہ جمع کر سکیں تو خود ہی اپنے فضل سے ان کے دلوں میں تحریک پیدا کر کہ وہ تیرے دین کی اس ضرورت کو پورا کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت نے بجائے ستائیس ہزار کے ایک لاکھ دس ہزار کے وعدے پیش کر دیئے ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر وصولی بھی ہوگئی<۔۶۵
صدر مجلس احرار کا اقرار
دعائوں کی قبولیت کے اس نشان نے دشمنان احمدیت کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی صدر مجلس احرار نے ۲۳۔ اپریل ۱۹۳۵ء کو ایک تقریر کے دوران تحریک جدید کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا۔
>ہم میاں محمود کے دشمن ہیں وہاں ہم اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ دیکھو اس نے اپنی اس جماعت کو جو کہ ہندوستان میں ایک تنکے کی مانند ہے کہا کہ مجھے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ چاہئے۔ جماعت نے ایک لاکھ دے دیا ہے۔ اس کے بعد گیارہ ہزار کا مطالبہ کیا تو اسے دگنا تگنا دے دیا<۔۶۶
خدائی تصرف
مخلصین جماعت کی اس بے نظیر مالی قربانی میں خدا تعالیٰ کا ایک عجیب تصرف کارفرما تھا۔ جس کی تفصیل خود حضورؓ ہی کے الفاظ میں لکھنا ضروری ہے۔ حضور فرماتے ہیں۔
>اس وقت ہماری مالی حالت اتنی کمزوری تھی کہ تبلیغی ٹریکٹوں کی اشاعت تک سے ہم عاجز تھے۔ ایسے حالات میں میں نے تحریک جدید جاری کی اور اس کا ایک حصہ ریزرو فنڈ کا رکھا۔ جب میں نے اس کے لئے تحریک کی تو مجھے پتہ نہ تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں۔ اس وقت میں نے جو تقریر کی اس کے الفاظ کچھ ایسے مبہم تھے کہ جماعت نے سمجھا کہ تین سال کے لئے چندہ مانگ رہے ہیں۔ اور وہ اکٹھا دینا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مثلاً کسی کا ارادہ سو روپیہ سال میں دینے کا تھا تو اس نے تین سال کا چندہ تین سو روپیہ اکٹھا دے دیا۔ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے صحیح مفہوم سمجھا۔ مگر ایسے بھی تھے جنہوں نے غلط سمجھا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے ہوئے۔ جب دوسرے سال کے لئے تحریک کی گئی تو بعض لوگ کہنے لگے ہم نے تو تین سال کا اکٹھا چندہ دے دیا تھا اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ میں نے کہا یہ طوعی چندہ ہے آپ اب نہ دیں۔ مگر انہوں نے کہا ہم تکلیف اٹھائیں گے اور خواہ کچھ ہو اب بھی ضرور چندہ دیں گے۔ اسی طرح انہوں نے تین سال کے لئے جو اکٹھا چندہ دیا تھا دوسرے سال اس سے زیادہ دیا کیونکہ وہ مجبور ہوگئے کہ اپنے اخلاص کو قائم رکھنے کے لئے چندہ پہلے سے بڑھا کر دیں۔ بعض مخلص ایسے تھے۔ جنہوں نے اپنا سارا کا سارا اندوختہ دے دیا تھا۔ ایک نے لکھا۔ دوسرے سال میں نے شرم کی وجہ سے بتایا نہیں تھا۔ میں نے اپنی کچھ اشیاء بیچ کر چندہ دیا تھا۔ پھر تیسرے سال سب کچھ بیچ کر چندہ دے چکا ہوں۔ اب رقم کم کرنے پر مجبور ہوں۔ لیکن نویں سال میں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے کچھ رقم جمع کرنے کی توفیق عطا کی اس لئے پہلے کی طرح ہر سال کا چندہ بڑھا کر ادا کروں گا۔ دراصل جب میں تحریک جدید کے چندہ کا اعلان کر رہا تھا۔ خدا تعالیٰ ۲۵ لاکھ ریزرو فنڈ کی تحریک جو پہلے کی گئی تھی اسے کامیاب بنانے کی بنیاد رکھوا رہا تھا۔ میرا شروع سے ارادہ تھا کہ اس چندہ سے ریزرو فنڈ قائم کیا جائے جو تبلیغ اور سلسلہ کے دوسرے کاموں میں کام آئے۔ میں نے اس روپیہ سے زمین خریدی جو ساڑھے نو ایکڑ ہے اور تحریک جدید کی ملکیت ہے<۔۶۷
تحریک جدید کا خوشگوار اثر صدر انجمن احمدیہ کے چندوں پر
تحریک جدید کی ایک عجیب برکت یہ نازل ہوئی کہ جہاں اس سے پہلے جماعت احمدیہ کے عام چندوں کی رفتار کچھ عرصہ سے نسبتاً سست ہوچکی تھی اس میں بھی تیزی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں۔
>خدا تعالیٰ کی قدرت ہے۔ اس سے پہلے صدر انجمن احمدیہ ہمیشہ مقروض رہا کرتی تھی اور اسے اپنا بجٹ ہر سال کم کرنا پڑتا تھا۔ جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا تو ناظروں نے میرے پاس آآکر شکایتیں کین کہ اس تحریک کے نتیجہ میں انجمن کی حالت خراب ہوجائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو اور انتظار کرو اور دیکھو کہ حالت سدھرتی ہے یا گرتی ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ یا تو صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ دو اڑھائی لاکھ روپیہ کا ہوا کرتا تھا اور یا اس تحریک کے دوران میں چار پانچ لاکھ روپیہ تک جاپہنچا۔ ادھر جماعت نے تحریک جدید کی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سال کے اندر ہی مطالبہ سے کئی گنا زیادہ رقم جمع ہوگئی۔ جب میں نے پہلے دن جماعت سے ۲۷ ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا ہے تو واقعہ میں میں یہی سمجھتا تھا کہ میرے مونہہ سے یہ رقم تو نکل گئی ہے مگر اس کا جمع ہونا بظاہر بڑا مشکل ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کس قدر عظیم الشان فضل ہے کہ ۲۷ ہزار کیا اب تک ۲۷ ہزار سے پچاس گنے سے بھی زیادہ رقم آچکی ہے<۔۶۸
مالی مطالبات پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی جماعتیں
حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جس جماعت نے نہایت ہی اعلیٰ نمونہ پیش کیا وہ قادیان کی جماعت تھی۔ چنانچہ حضورؓ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
‏tav.8.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
>سب سے زیادہ قربانی کی مثال اور اعلیٰ نمونہ قادیان کی جماعت نے دکھایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کی احمدی آبادی سات ہزار کے قریب ہے۔ پنجاب میں احمدیوں کی آبادی سرکاری مردم شماری کے رو سے ۱۹۳۱ء میں ۵۶ ہزار تھی جو بہت کم ہے۔ لیکن اگر ہم اسی کو درست سمجھ کر آج ۷۰ ہزار بھی سمجھ لیں۔ تو گویا قادیان کی جماعت سارے پنجاب کا دسواں حصہ ہے۔ لیکن ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی تحریکات میں قادیان کی جماعت کی طرف سے پانچ ہزار روپیہ نقد اور وعدوں کی صورت میں آیا ہے اور ایسے ایسے لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اگرچہ مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر کم لیا ہے۔ مگر ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنی حیثیت اور طاقت سے زیادہ حصہ لیا ہے۔ بعض لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنا سارا اندوختہ دے دیا ہے۔ بعض ایسے ہیں جن کی چار چار پانچ روپیہ کی آمدنیاں ہیں اور انہوں نے کمیٹیاں ڈال کر اس میں حصہ لیا یا کوئی جائداد فروخت کرکے جو کچھ جمع کیا ہوا تھا وہ سب کا سب دے دیا ہے۔ باہر کی جماعتوں میں سے بعض کے جواب آئے ہیں اور بعض کے ابھی نہیں آئے اور نہ ہی آسکتے تھے۔ مگر بظاہر حالات معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کی جماعت بڑھ جائے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ قادیان کی جماعت نے حسب دستور اس موقعہ پر بھی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا ہے۔ باہر کی جماعتوں میں سے بھی بعض نے اخلاص کا عمدہ نمونہ دکھایا ہے اور بعض نے تو اتنی ہوشیاری سے کام لیا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ مثلاً لاہور چھائونی کی جماعت کا وعدہ قادیان کی جماعت کے وعدہ کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا۔ کوئی دوست یہاں سے خطبہ سن کر گیا اور اس سے سن کر دوست فوراً اکٹھے ہوئے اور تحریک میںشامل ہوگئے۔ اور جس وقت مجھے قادیان والوں کی رپورٹ ملی اسی وقت لاہور چھائونی کی مل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ سرسری اندازہ یہ ہے کہ چودہ دن کے اندر اندر پندرہ ہزار کے قریب وعدے اور نقد روپیہ آچکا ہے جس میں سے چار ہزار کے قریب نقد ہے اور ابھی جماعت کا بہت سا حصہ خصوصاً وہ لوگ جن کی آمدنیاں زیادہ ہیں خموش ہے یا اس انتظار میں ہے کہ جماعت کے ساتھ وعدہ بھجوائیں گے لیکن دوسری طرف متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے یا غرباء میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کے پاس پیسہ نہیں تھا اور انہوں نے چیزیں پیش کر دیں اور کہا کہ ہمارا اثاثہ لے لیا جائے اگرچہ ہم نے لیا نہیں۔ کیونکہ میرے اصل مخاطب امراء تھے۔ مگر اس سے اتنا پتہ تو لگ سکتا ہے کہ جماعت میں ایسے مخلصین بھی ہیں جو اپنی ہر چیز قربان کر دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس سلسلہ میں مجھے یہ شکایت پہنچی ہے کہ بعض جماعتوں کے عہدیدار لوگوں کو یہ کہہ کر خموش کر رہے ہیں کہ جلدی نہ کرو پہلے غور کرلو۔ گویا ان کے غور کا زمانہ ابھی باقی ہے۔ ڈیڑھ دو مہینہ سے میں خطبات پڑھ رہا ہوں اور تمام حالات وضاحت سے پیش کرچکا ہوں۔ لیکن ابھی ان کے غور کا موقعہ ہی نہیں آیا۔ یہ مشورہ کوئی نیک مشورہ نہیں یا سادگی پر دلالت کرتا ہے یا شاید بعض خود قربانی سے ڈرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے روکنا چاہتے ہیں کہ ان کی سستی اور غفلت پر پردہ پڑا رہے۔ کیا رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں جہاد کے موقعہ پر پہلے غور کیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ جلدی نہ کرو غور کرلو۔ قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فاستبقوا الخیرات یعنی دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اور جلدی کی کوشش کرو ۔۔۔۔۔۔۔ جماعتی لحاظ سے بعض مقامات سے مجھے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ جماعتیں اپنی لسٹیں اکٹھی بھجوائیں گی۔ گویا دیر اس وجہ سے ہے۔ ان جماعتوں پر یا ان کے افراد پر کوئی الزام نہیں۔ مگر ان میں سے بھی بعض مخلصین ایسے ہیں جنہوں نے اس دیر کو بھی برداشت نہیں کیا اور رقمیں بھیج دی ہیں اور جماعت کا انتظار بھی نہیں کیا۔ یہ گو معمولی باتیں ہیں۔ مگر روحانی دنیا میں یہی چیزیں ثواب بڑھا دینے کا باعث ہو جایا کرتی ہیں<۔۶۹
‏]bus [tagبیرونی ممالک سے تحریک جدید کے حق میں آواز
بیرونی ممالک میں سب پہلے بلاد عربیہ کے احمدیوں نے تحریک جدید پر لبیک کہا اور نہ صرف چندہ کے وعدے بھجوائے بلکہ ان کا ایک حصہ نقد بھی بھجوا دیا۔ چنانچہ شروع فروری ۱۹۳۵ء تک جماعت حیفا کی طرف سے چار سو شلنگ کے وعدے موصول ہوئے جن میں سے پچہتر شلنگ کی رقم بھی پہنچ گئی۔ علاوہ ازیں مدرسہ احمدیہ کبابیر )حیفا( کے احمدی بچوں نے بھی آٹھ شلنگ چندہ بھجوایا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جماعت احمدیہ حیفا کے افراد خصوصاً حیفا کے احمدی بچوں کے اس اخلاص اور قربانی کی بہت تعریف فرمائی۷۰ اور دعا دی کہ اللہ تعالیٰ ان بچوں کے اخلاص کو قبول کرے اور دنیا میں چمکنے والے ستارے بنائے کہ ان کی روشنی سے فلسطین ہی نہیں بلکہ سب دنیا روشن ہو اور یہ احمدیت کی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے اور دوسروں کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے والے ہوں۔ یہ بھی یوسفؑ کے بھائیوں کی طرح بضاعہ مزجاہ لائے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان سے بھی وہی سلوک کرے اور انہیں اسلام کا یوسف گم گشتہ ملا دے جسے یہ اپنے یعقوب )محمد~صل۱(~ کے پاس لاکر اپنی قوم کی گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرسکیں۔۷۱
بیرون ہند کی بعض اور مخلص جماعتیں
جماعت احمدیہ حیفا کے معاًبعد آبادان )ایران( عدن` لنڈن` بغداد` کمپالہ` زنجبار` دارالسلام` ٹانگا` نیروبی سربایا` جاوا` کولمبو کی طرف سے نہ صرف اخلاص و ایثار سے لبریز خطوط حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حضور پہنچے بلکہ چندہ کے وعدہ جات بھی ملے اور نقد رقوم بھی۔۷۲]txte [tag


عکس کے لئے
دوسرے مطالبات اور جماعت احمدیہ
جماعت احمدیہ نے تحریک جدید کے مالی جہاد میں پرجوش حصہ لینے کے علاوہ دوسرے مطالبات پر بھی شاندار طور پر لبیک کہا۔
سادہ زندگی
مثلاً تحریک جدید کا سب سے پہلا مطالبہ جو اسلامی تمدن کی عمارت میں بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے سادہ زندگی کا مطالبہ ہے۔ جماعت کے مخلصین نے اس مطالبہ کے مطابق کھانے` لباس` علاج اور سنیما وغیرہ کے بارے میں اپنے پیارے امام کی ہدایات کی نہایت سختی سے پابندی کی۔ کھانے کے تکلفات یکسر ختم کر دیئے۔ بعض نے چندے زیادہ لکھوا دیئے۔ اور دو دو تین تین سال تک کوئی کپڑے نہیں بنوائے۔۷۳
اکثر نوجوانوں نے سنیما` تھیٹر` سرکس وغیرہ دیکھنا چھوڑ دیا اور بعض جو کثرت سے اس کے عادی تھے اس سے نفرت کرنے لگے۔ الغرض حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی آواز نے جماعت میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست انقلاب برپا کردیا۔ جو دوسرے لوگوں کی نگاہ میں ایک غیر معمولی چیز تھی۔ چنانچہ اخبار >رنگین< )امرتسر( کے سکھ ایڈیٹر ارجن سنگھ عاجز نے لکھا کہ:۔۷۴
>احمدیوں کا خلیفہ ان کی گھریلو زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور وقتاً فوقتاً ایسے احکام صادر کرتا رہتا ہے جن پر عمل کرنے سے خوشی کی زندگی بسر ہوسکے۔ میں یہاں ان کے خلیفہ کے چند احکام کا ذکر کرتا ہوں جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ یہ جماعت کیوں ترقی کر رہی ہے۔
۱۔
خلیفہ نے حال ہی میں جو پروگرام اپنے پیروئوں کے سامنے رکھا ہے` ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہر بڑے یا چھوٹے امیر یا غریب کے دستر خوان پر ایک سے زیادہ کھانا نہ ہو۔ یہ حکم طبی اور اقتصادی پہلوئوں سے پرکھنے کے بعد شاندار نتائج کا ذمہ دار ثابت ہوسکتا ہے۔
یوں تو ہر ایک ریفارمر اور عقلمند اپنے پیروئوں کو اس قسم کا حکم دے سکتا ہے لیکن کونسا ریفارمر ہے جو دعویٰ سے کہہ سکے کہ اس کے سو فیصدی مرید اس کے ایسے حکم کی پوری پوری تعمیل کرنے کے لئے حاضر ہوں گے۔ صرف خلیفہ قادیان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ایسے مریدوں نے جن کے دستر خوانوں پر درجنوں کھانے ہوتے تھے اپنے خلیفہ کے حکم کے ماتحت اپنے رویہ میں فوری تبدیلی کرلی ہے اور آج کوئی شخص ثابت نہیں کرسکتا کہ کوئی احمدی اپنے خلیفہ کے اس آرڈر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
۲۔
خلیفہ کا حکم ہے کہ تین سال تک نئے زیور نہ بنوائے جائیں۔ بلا ضرورت کپڑا نہ خریدا جائے۔ عورتیں اپنے کپڑوں میں گوٹا` لیس فیتہ یا جھالر وغیرہ کا استعمال ترک کر دیں۔ حیرت ہے کہ اس حکم کے صادر ہوتے ہی تمام احمدی مرد اور عورتیں ہمہ تن گوش ہو جاتی ہیں اور اپنے خلیفہ کے اس اشارہ پر ان تمام چیزوں کو ترک کر دیتی ہیں۔ یہ اتنی بڑی قربانی ہے جس کا نتیجہ لازماً یہ ہے کہ یہ گروہ ہندوستان میں سب جماعتوں پر سبقت لے جاوے گا۔ جو لوگ جذبات پر قابو پانے اور جائز خواہشات کو بھی ترک کرنے پر قادر ہو سکتے ہیں وہ کبھی ناجائز خواہشات کا شکار نہیں ہو سکتے اور ظاہر ہے کہ خواہشات کی پیروی ہی انسان کے تنزل کا ذریعہ ہوتی ہے۔ پس احمدی اس بارہ میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔
اور ترک خواہشات کی سپرٹ ان کے خلیفہ نے جس تدبر اور دانائی سے ان کے اندر پھونک دی ہے وہ قابل صد ہزار تحسین و آفرین ہے اور ہندوستان میں آج صرف ایک خلیفہ قادیان ہی ہے جو سربلند کرکے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے لاکھوں مرید ایسے موجود ہیں جو اس کے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہیں۔ اور احمدی نہایت فخر سے کہتے ہیں کہ ان کا خلیفہ ایک نہایت معاملہ فہم` دور اندیش اور ہمدرد بزرگ ہے جس نے کم از کم ان کی دنیاوی زندگی کو بہشتی زندگی بنا دیا ہے اور اس کے عالیشان مشوروں پر عمل کرنے سے دنیا کی زندگی عزت و آبرو سے کٹ سکتی ہے<۔۷۵
تبلیغ کے لئے یک ماہی وقف
تبلیغ کے لئے یک ماہی وقف کے مطالبہ کا جو اب بھی بہت خوشکن تھا۔ ستمبر ۱۹۳۶ء تک تیرہ سو اصحاب نے اپنی چھٹیاں ملک میں رضا کارانہ تبلیغ کے لئے وقف کیں۔۷۶ اور شمالی اور وسطی ہند کے علاوہ جنوبی علاقہ مثلاً میسور` مدراس` کولمبو اور بمبئی میں بھی تبلیغی وفود نے کام کیا۔۷۷ ایسے اصحاب کو حضرت خلیفتہ المسیحؓ کی طرف سے تحریرات خوشنودی عطا کی جاتی تھیں۔۷۸
تبلیغ کے لئے ایک ایک ماہ وقف کرنے والوں میں قادیان کے لوگ ساری جماعت میں اول رہے۔۷۹
سہ سالہ وقف
مولوی فاضل بی۔ اے` ایف۔ اے اور انٹرنس پاس قریباً دو سو نوجوانوں نے اپنے آپ کو سہ سالہ وقف کے لئے پیش کیا۔۸۰
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے فرمایا۔
>یہ قربانی کی روح کہ تین سال کے لئے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا جائے اسلام اور ایمان کی رو سے تو کچھ نہیں۔ لیکن موجودہ زمانہ کی حالت کے لحاظ سے حیرت انگیز ہے ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کی مثال کسی ایک قوم میں بھی جو جماعت احمدیہ سے سینکڑوں گنے زیادہ ہو ملنی محال ہے<۔]4 [stf۸۱
پنشنر اصحاب کی طرف سے بقیہ زندگی وقف
کئی پنشنر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے حکم کی تعمیل میں آگے آئے اور مرکز میں کام کرنے لگے مثلاً خان صاحب فرزند علی صاحب` بابو سراجدین صاحب` خان صاحب برکت علی صاحب` ملک مولا بخش صاحب اور خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی وغیرہم۔ حضرت امیرالمومنینؓ نے اپنے ایک خطبہ میں بھی ان کی خدمات کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔۸۲
بیکار نوجوانوں سے مطالبہ
حضور کے اس مطالبہ کے تحت کہ بیکار نوجوان باہر غیر ممالک میں نکل جائیں` کئی نوجوان اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور نامساعد حالات کے باوجود غیر ممالک میں پہنچ گئے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیحؓ نے شروع ۱۹۳۵ء میں بتایا کہ۔
>رنگون سے ابھی ہماری جماعت کے دو دوستوں کا مجھے خط ملا ہے۔ ان میں سے ایک جالندھر کا رہنے والا ہے اور ایک اسی جگہ کے قریب کسی اور مقام کا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم آپ کی اسی تحریک کے ماتحت گھر سے پیدل چل پڑے اور اب پیدل چلتے ہوئے رنگون پہنچ گئے ہیں اور آگے کی طرف جارہے ہیں۔ کجا جالندھر کجا رنگون` پندرہ سو میل کا سفر ہے۔ لیکن انہوں نے ہمت کی اور پہنچ گئے۔ راستہ میں بیمار بھی ہوئے۔ لیکن دو ماہ بیمار رہنے کے بعد پھر چل پڑے۔ اب وہ سٹریٹ سیٹلمنٹس کے علاقہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تو ہمت کرکے کام کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کام کے راستے پیدا کئے ہوئے ہیں<۔۸۳
نیز فرمایا۔
>ایک نوجوان نے گزشتہ سال میری تحریک کو سنا۔ وہ ضلع سرگودھا کا باشندہ ہے۔ وہ نوجوان بغیر پاسپورٹ کے ہی افغانستان جاپہنچا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی۔ حکومت نے اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تو وہاں قیدیوں اور افسروں کو تبلیغ کرنے لگا اور وہاں کے احمدیوں سے بھی وہیں واقفیت بہم پہنچالی اور بعض لوگوں پر اثر ڈال لیا۔ آخر افسروں نے رپورٹ کی کہ یہ تو قید خانہ میں بھی اثر پیدا کررہا ہے۔ ملانوں نے قتل کا فتویٰ دیا۔ مگر وزیر نے کہا کہ یہ انگریزی رعایا ہے۔ اسے ہم قتل نہیں کرسکتے۔ آخر حکومت نے اپنی حفاظت میں اسے ہندوستان پہنچا دیا۔ اب وہ کئی ماہ کے بعد واپس آیا ہے۔ اس کی ہمت کا یہ حال ہے کہ میں نے اسے کہا کہ تم نے غلطی کی اور بہت ممالک تھے جہاں تم جاسکتے تھے اور وہاں گرفتاری کے بغیر تبلیغ کر سکتے تھے تو وہ فوراً بول اٹھا کہ اب آپ کوئی ملک بتادیں میں وہاں چلا جائوں گا۔ اس نوجوان کی والدہ زندہ ہے۔ لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار تھا کہ بغیر والدہ کو ملے کسی دوسرے ملک کی طرف روانہ ہو جائے۔ مگر میرے کہنے پر وہ والدہ کو ملنے جارہا ہے۔ اگر دوسرے نوجوان بھی اس پنجابی کی طرح جو افغانستان سے آیا ہے ہمت کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ روپیہ کے ساتھ مشن قائم نہیں ہو سکتے۔ اس وقت جو ایک دو مشن ہیں ان پر ہی اس قدر روپیہ صرف ہو رہا ہے کہ اور کوئی مشن نہیں کھولا جاسکتا۔ لیکن اگر ایسے چند نوجوان پیدا ہو جائیں تو ایک دو سال میں ہی اتنی تبلیغ ہو سکتی ہے کہ دنیا میں دھاک بیٹھ جائے اور دنیا سمجھ لے کہ یہ ایک ایسا سیلاب ہے جس کا رکنا محال ہے<۔۸۴
ہاتھ سے کام کرنے کا مطالبہ
ہاتھ سے کام کرنے کے مطالبہ پر جماعت کے افراد نے خاص توجہ دی۔ چنانچہ اس ضمن میں مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلبہ نے اولیت کا شرف حاصل کیا اور ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء کو قادیان کے اندرونی حصہ سے ایک ہزار شہتیریاں سالانہ جلسہ گاہ تک پہنچائیں۔۸۵ ۱۹۳۶ء سے اس مطالبہ کے تحت اجتماعی >وقار عمل< کا سلسلہ جاری کیا گیا جیسا کہ آگے ذکر آئے گا۔
قادیان میں تعمیر مکان کا مطالبہ
جہاں تک قادیان میں مکان بنانے کا تعلق تھا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جماعت کے طرز عمل پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے شروع ۱۹۳۶ء میں فرمایا۔
>جماعت نے اس معاملہ میں بہت کچھ کام کیا ہے۔ چنانچہ اب دو سو مکان سالانہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں بن رہا ہے اور بہت سے دوست زمینیں بھی خرید رہے ہیں<۔۸۶
مطالبہ دعا
جماعت احمدیہ اگرچہ ہمیشہ غلبہ حق کے لئے دعائوں میں مصروف رہتی تھی مگر تحریک جدید کے مطالبات کے ضمن میں حضور )ؓ( نے جو خاص تحریک فرمائی اس کی بناء پر جماعت میں خاص جوش پیدا ہو گیا اور احباب جماعت نے خدا تعالیٰ کے سامنے جبین نیاز جھکانے میں خاص طور پر زور دینا شروع کیا اور نمازوں میں عاجزانہ دعائوں کا ذوق و شوق پہلے سے بہت بڑھ گیا اور جماعت میں ایک نئی روحانی زندگی پیدا ہو گئی۔
پہلا باب )فصل چہارم(
خاندان مسیح موعودؑ کی قربانیاں
جس طرح دوسری احمدی جماعتوں میں قادیان کی مرکزی جماعت نے تحریک جدید کے چندہ اور دوسرے مطالبات کی تکمیل میں سب سے عمدہ نمونہ دکھایا۔ اسی طرح قادیان کی جماعت میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان تحریک جدید کی قربانیوں میں بالکل ممتاز اور منفرد تھا۔ چنانچہ حضرت ام المومنین رضے اللہ عنہا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ` حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ` حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور خاندان مسیح موعودؑ کے دوسرے افراد نے قربانیوں کی قابل رشک یادگار قائم کی۔۸۷
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کا وجود مجسم تحریک جدید بن گیا
خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں سب سے بڑھ کر جس شخصیت نے تحریک جدید کے مطالبات پر پوری شان سے عمل کرکے دکھایا وہ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی~رضی۲~ تھے جن کی پوری زندگی تحریک جدید کو کامیاب بنانے میں صرف ہوئی۔ حتیٰ کہ آپ کا مقدس وجود مجسم تحریک جدید بن گیا۔
۱۔
>۱۷` ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء سے لے کر آج تک سوائے چار پانچ راتوں کے میں کبھی ایک بجے سے پہلے نہیں سو سکا اور بعض اوقات دو تین چار بجے سوتا ہوں۔ بسا اوقات کام کرتے کرتے دماغ معطل ہو جاتا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب اسلام کا باطل سے مقابلہ ہے تو میرا فرض ہے کہ اسی راہ میں جان دے دوں اور جس دن ہمارے دوستوں میں یہ بات پیدا ہو جائے وہی دن ہماری کامیابی کا ہوگا۔ کام جلدی جلدی کرنے کی عادت پیدا کرو۔ اٹھو تو جلدی سے اٹھو۔ چلو تو چستی سے چلو کوئی کام کرنا ہو تو جلدی جلدی کرو اور اس طرح جو وقت بچے اسے خدا کی راہ میں صرف کرو۔ میرا تجربہ ہے کہ زیادہ تیزی سے کام کیا جاسکتا ہے میں نے ایک ایک دن میں سو سو صفحات لکھے ہیں اور اس میں گو بازوشل ہو گئے اور دماغ معطل ہو گیا۔ مگر میں نے کام کو ختم کرلیا۔ اور یہ تصنیف کا کام تھا جو سوچ کر کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے کام اس سے آسان ہوتے ہیں۔ اسی ہفتہ میں میں نے اندازہ کیا ہے کہ میں نے دو ہزار کے قریب رقعے اور خطوط پڑھے ہیں اور بہتوں پر جواب لکھے ہیں اور روزانہ تین چار گھنٹے ملاقاتوں اور مشوروں میں بھی صرف کرتا رہا ہوں۔ پھر کئی خطبات صحیح کئے ہیں۔ اور ایک کتاب کے بھی دو سو صفحات درست کئے ہیں بلکہ اس میں ایک کافی تعداد صفحات کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہے<۔۸۸
۲۔
>میرا کام سپاہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرا فرض یہی ہے کہ اپنے کام پر ناک کی سیدھ چلتا جائوں۔ اور اسی میں جان دے دوں۔ میرا یہ کام نہیں کہ عمر دیکھوں۔ میرا کام یہی ہے کہ مقصود کو سامنے رکھوں اور اسے پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اس یقین سے کھڑا ہوں کہ یہ مقصود ضرور حاصل ہو گا اور یہ کام پورا ہو کے رہے گا۔ یہ رات دن میرے سامنے رہتا ہے اور بسا اوقات میرے دل میں اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو میں دیوانہ ہو جائوں۔ اس وقت ایک ہی چیز ہوتی ہے جو مجھے ڈھارس دیتی ہے اور وہ یہ کہ میری یہ سکیمیں سب خدا کے لئے ہیں اور میرا خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا ورنہ کام کا اور فکر کا اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جائے گا اور میں مجنون ہو جائوں گا مگر اللہ تعالیٰ نفس پر قابو دیتا ہے۔ ظلمت میں سے روشنی کی کرن نظر آنے لگتی ہے اور چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی کے معاملات کو اللہ تعالیٰ امید اور خوشی سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ معاملہ شروع سے ہے<۔۸۹
۳۔
>یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے۔ مجھ پر بیسیوں راتیں ایسی آتی ہیں کہ لیٹے لیٹے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہونے لگا ہے اور میں اٹھ کر ٹہلنے لگ جاتا ہوں۔ غرض یہی نہیں کہ واقعات نہایت خطرناک پیش آرہے ہیں۔ بلکہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے۔ مجھے حضرت عمرؓ کا قول یاد آتا ہے۔ کسی نے ان سے کہا خالد کو آپ نے کیوں معزول کر دیا۔ آپ نے فرمایا تم اس کی وجہ پوچھتے ہو۔ اگر میرے دامن کو بھی پتہ لگ جائے کہ میں نے اسے کیوں ہٹایا تو میں دامن کو پھاڑ دوں۔ تو سلسلہ کے خلاف ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ جو میری ذات کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور جو کچھ میں بتاتا ہوں وہ بھی بہت بڑا ہے اور اس سے بھی نیند حرام ہو جاتی ہے اور میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نیند حرام کر دیا کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ شریعت کہتی ہے کہ اپنے جسم کا بھی خیال رکھو مگر پھر بھی مصروفیت ایسی ہے کہ جسمانی تکلیف کی کوئی پروا نہیں کی جاسکتی<۔۹۰
پھر فرمایا۔
>بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ تکلیف سے گھبرا جاتے ہیں یا کہیں زیادہ تنخواہ کی امید ہو تو چلے جاتے ہیں۔ بعض کام سے جی چراتے ہیں۔ بعض کام کے عادی نہیں ہوتے حالانکہ وقف کے معنی یہ ہیں کہ سمجھ لیا جائے اب اسی کام میں موت ہوگی نہ دن کو آرام ہو نہ رات کو نیند آئے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ حقیقی جوش سے کام کرنے والے کی نیند اکثر خراب ہو جایا کرتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی دفعہ چارپائی پر لیٹ کر کئی کئی گھنٹے فکر سے نیند نہیں آتی اور سلسلہ کے کاموں کے متعلق سوچنے اور فکر کرنے میں دماغ لگا رہتا ہے۔ پس کام کرنے والے کے لئے نیند بھی نہیں ہوتی۔ قرآن کریم نے جو کہا ہے کہ مومن سوتے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کی فکر میں ہی تھک کر سو جاتے ہیں۔ اس لئے نیند میں بھی ان کا دماغ دین کے کام میں لگا رہتا ہے<۔۹۱
اسی تعلق میں یہ بھی فرمایا۔
>یاد رکھو اس وقت ہم میدان جنگ میں ہیں اور میدان جنگ میں چلنا پھرنا برداشت نہیں کیا جا سکتا بلکہ دوڑنا چاہئے۔ اس وقت ضرورت تھی اس بات کی کہ جماعت احمدیہ کے بچے بچے کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی کہ ہم اسلام کے لئے قربان ہونے والی بھیڑیں اور بکریاں ہیں اور ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ ہماری گردنوں پر چھری چلا دی جائے۔ پھر انہیں رات اور دن یہ بتایا جاتا کہ مغرب کے مذبح پر اپنے آپ کو قربان نہیں کرنا بلکہ مغرب کو رسول کریم~صل۱~ کے دروازہ پر لاکر ذبح کرنا ہے<۔4] fts[۹۲
حضرت امیر المومنینؓ اور حضور کے اہل بیت کا بے نظیر مالی جہاد
تحریک جدید کے ریکارڈ کے مطابق حضور نے اپنی جیب خاص سے ۱۹ سال میں ایک لاکھ اٹھارہ ہزار چھ سو چھیاسی )۶۸۶`۱۸`۱( روپے چندہ
تحریک جدید میں عطا فرمائے۔ علاوہ ازیں اپنی ایک قیمتی زمین تحریک جدید کو مرحمت فرمائی جو تحریک جدید نے ایک لاکھ باون ہزار سات سو )۷۰۰`۵۲`۱( روپے میں فروخت کی۔ اس طرح حضورؓ کی طرف سے تحریک جدید کو کل دو لاکھ اکہتر ہزار تین سو چھیاسی )۳۸۶`۷۱`۲( روپے آمد ہوئی۔۹۳
حضورؓ کے اہل بیت نے بھی تحریک جدید میں سرگرم حصہ لیا۔ جو حضور کے فیض تربیت اور روحانی توجہ کا نتیجہ تھا۔۹۴
دیگر مطالبات میں مشعل راہ
حضرت امیرالمومنینؓ ذاتی طور پر کتنی سختی سے مطالبات تحریک جدید پر کاربند رہے` اس کا اندازہ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ )حرم حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ( کے درج ذیل بیان سے بخوبی لگ سکتا ہے۔ آپ تحریر فرماتی ہیں۔
>ڈلہوزی کا واقعہ ہے کہ آپ میز پر کھانا کھانے کے لئے تشریف لائے۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتی ہوں کہ آپ خاموشی سے بغیر کھانا کھائے اپنے کمرے میں چلے گئے ہیں۔ میں کچھ نہ سمجھ سکی کہ آپ کی ناراضگی کی وجہ کیا ہے؟ سب حیران تھے کہ اب پھر تمام دن فاقہ سے رہیں گے اور کام کی اس قدر بھرمار ہے کہیں آپ کو ضعف نہ ہو جائے۔ آخر میرے پوچھنے پر حضرت بڑی آپا جان )امی جان(نے بتایا کہ حضرت اقدسؓ نے اپنے کمرہ میں جاکر چٹ بھجوائی ہے کہ میں نے تحریک جدید کے ماتحت روکا ہوا ہے کہ میز پر صاف ایک ڈش ہوا کرے۔ آج میں نے ایک کی بجائے تین ڈش دیکھے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ میں کھانا ہرگز نہیں کھائوں گا<۔۹۵
لباس کے بارے میں حضورؓ نے یہاں تک کفایت شعاری کی کہ چار سال کے عرصہ میں قمیصوں کے لئے کپڑا نہیں خریدا اور تحریک جدید کے آغاز سے پہلے کی قمیصیں ہی سنبھال سنبھال کر کام چلایا۔ بطور تحفہ کوئی کپڑا آگیا تو اس سے چند قمیصیں بنوا کر گزارہ کرلیا۔۹۶
اس سے بڑھ کر یہ کہ اب انداز فکر میں یہ تبدیلی واقع ہو گئی کہ یہ خیال دامنگیر رہنے لگا کہ خرچ کس طرح کم کریں۔ اسی طرح برف کا استعمال شروع میں ترک کر دیا اور گرمیوں کی شدت کے باوجود سوڈے کی بوتل تک خرید کر پینا گوارا نہیں فرمایا۔۹۷ علاوہ ازیں دوسروں سے آنے والے تحائف کی نسبت بھی آپ نے ہدایت دے دی کہ وہ غریبوں کو بھجوا دیئے جایا کریں۔ چنانچہ انہیں دنوں خود ہی بتایا۔
>ہمارے گھر میں لوگ تحائف وغیرہ بھیج دیتے ہیں اور میں نے ہدایا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر جب وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک سے زیادہ چیزیں کیوں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی نے تحفت¶ہ بھیج دیا تھا۔ تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے تعلقات تو ساری جماعت سے ہیں اس لئے ہمارے ہاں تو ایسی چیزیں روز ہی آتی رہیں گی۔ اس لئے جب ایسی چیزیں آئیں تو کسی غریب بھائی کے ہاں بھیج دیا کرو۔ ضروری تو نہیں کہ سب تم ہی کھائو۔ اس سے غرباء سے محبت کے تعلقات بھی پیدا ہو جائیں گے۔ اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے انس ہوگا<۔۹۸
پھر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اپنے سب بچوں کو مستقل طور پر وقف فرما دیا اور اپنی جیب سے ان کے تعلیمی اخراجات ادا فرمائے اور اس کے بعد ان کو سلسلہ احمدیہ کے سپرد فرما دیا۔ چنانچہ حضور نے ایک بار فرمایا کہ۔
>میں نے اپنا ہر ایک بچہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ میاں ناصر احمد وقف ہیں اور دین کا کام کررہے ہیں۔ چھوٹا بھی وقف ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کس طرح دین کے کام پر لگایا جائے۔ اس سے چھوٹا ڈاکٹر ہے۔ وہ امتحان پاس کرچکا ہے اور اب ٹریننگ حاصل کر رہا ہے تا سلسلہ کی خدمت کرسکے )اس عرصہ میں دوسرے دونوں سلسلہ کے کام پر لگ چکے ہیں۔ الحمدلل¶ہ( باقی چھوٹے پڑھ رہے ہیں اور وہ سب بھی دین کے لئے پڑھ رہے ہیں۔ میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لئے وقف ہیں<۔۹۹
ہاتھ سے کام کرنے کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے حضورؓ نے >وقار عمل< کا نہایت پیارا طریق جاری فرمایا۔ اور اپنے ہاتھ سے مٹی کی ٹوکری اٹھا کر ایک عظیم الشان اسوہ پیش کیا۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ۔
>جب پہلے دن میں نے کہی پکڑی اور مٹی کی ٹوکری اٹھائی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور وہ دوڑے دوڑے آتے اور کہتے حضور تکلیف نہ کریں ہم کام کرتے ہیں اور میرے ہاتھ سے کہی اور ٹوکری لینے کی کوشش کرتے۔ لیکن جب چند دن میں نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا تو پھر وہ عادی ہو گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ یہ ایک مشترکہ کام ہے جو ہم بھی کر رہے ہیں اور یہ بھی کر رہے ہیں<۔۱۰۰
الغرض جماعت احمدیہ کے مقدس امام و قائد کی حیثیت سے حضور نے تحریک جدید کے احکام اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل طور پر نافذ کر دکھائے جو سلسلہ احمدیہ کے لئے ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیں گے۔
پہلا باب )فصل پنجم(
‏head] gat[دفتر تحریک جدید کا قیام اور اس کا ابتدائی ڈھانچہ
تحریک جدید جیسی عظیم الشان اور عالمی تحریک کے دفتر کا آغاز نہایت مختصر صورت اور بظاہر معمولی حالت میں ہوا۔ شروع میں اس کے لئے کوئی مستقل عمارت نہیں تھی۔ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ کی منظوری سے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری قادیان کا ایک کمرہ مخصوص کر دیا گیا تھا۔
پہلے واقف زندگی کارکن
تحریک جدید کے سب سے پہلے واقف زندگی کارکن مرزا محمد یعقوب صاحب۱۰۱4] f[rt تھے جن کو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے نومبر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے مختلف مطالبات پر لبیک کہنے والوں اور وقف زندگی کرنے والوں کی فہرستیں تیار کرنے کا کام سپرد فرما دیا۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت اپنے قلم سے تحریر فرمایا >وہ سب سے پرانے کارکن ہیں<۔۱۰۲
۲۷۔ جنوری ۱۹۳۵ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے شیخ یوسف علی صاحب )پرائیویٹ سیکرٹری( کو منظور شدہ واقفین کی نسبت ارشاد فرمایا۔
>وقف کنندگان سے کہیں کہ وقف کے صحیح معنوں کے مطابق انہیں دفتروں میں آج کل کام کرنا چاہئے کہ آج کل کام بڑھا ہوا ہے۔ مرزا محمد یعقوب صاحب تو پہلے ہی کام کرتے ہیں۔ دوسروں کو بھی چاہئے<۔
چونکہ تحریک جدید کے اعلان نے جماعت میں زبردست بیداری پیدا کر دی تھی اور عام جوش و خروش کی وجہ سے بیرونی ڈاک میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا اس لئے واقفین زندگی کے ہاتھ بٹانے کے باوجود دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے عملہ کو رات کے وقت بھی مسلسل کام کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ شیخ یوسف علی صاحب اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ >یہ سارا کام دفتر میں ہی تھا جس کے سبب کام پہلے سے دگنا ہو گیا۔ باوجود بعض واقفین سے کام لینے کے دفتر کے کارکنان کو علاوہ دفتر ٹائم کے راتوں کو بیٹھ کر کام کرنا پڑا اور ڈاک کی بروقت تعمیل میں پوری کوشش کی<۔۱۰۳
فنانشل سیکرٹری کا تقرر
جہاں تک تحریک جدید کے مالی مطالبات سے متعلق کام کا تعلق تھا یہ خدمت سیدنا حضرت امیرالمومنینؓ نے ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۴ء۱۰۴`۱۰۵ سے چودھری برکت علی خاں صاحب کو سپرد فرمائی اور ان کو فنانشل سیکرٹری مقرر کیا۔ چودھری برکت علی صاحب اس عہدہ پر قریباً ربع صدی تک فائز رہے۔ اور یکم اپریل ۱۹۵۸ء کو ریٹائر ہوئے۔ بعد میں یہ عہدہ >وکیل المال< کے نام سے موسوم ہوا۔
اپنے زمانہ عمل میں حضرت چودھری صاحبؓ نے اتنی محنت` اخلاص اور فرض شناسی سے کام کیا کہ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>چودھری برکت علی صاحب کو مہینوں رات کے ۱۲ بجے تک تحریک جدید کا کام کرنا پڑا۔ اسی طرح تحریک جدید کے دفتر کے کام کرنے کا وقت ۱۲ گھنٹے مقرر ہے۔ اس سے زیادہ ہو جائے تو ہو جائے کم نہیں کیونکہ یہ اقل مقدار ہے<۔۱۰۶
پھر فرمایا۔
>چودھری برکت علی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محنت` کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپرد کوئی کام کرکے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی<۔
نیز ارشاد فرمایا۔
>جہاں تک روپیہ جمع کرنے کا سوال ہے۔ میں چوہدری برکت علی خاں صاحب کے کام پر بہت ہی خوش ہوں۔ انہوں نے تحریک جدید میں حیرت انگیز طور پر روپیہ جمع کرنے کا کام کیا ہے<۔۱۰۷body] [tag
غرض کہ تحریک جدید کی تاریخ میں چودھری صاحب موصوف کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
دفتر فنانشل سیکرٹری کے ابتدائی متفرق کوائف
چودھری برکت علی صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ۔
>۲۳۔ نومبر ۱۹۳۴ء کو حضور نے ایک خطبہ کے ذریعہ تحریک جدید کا آغاز فرمایا اور اس کے دوسرے دن صبح ہی حضور لاہور تشریف لے جارہے تھے۔ احمدیہ چوک حضور کے انتظار میں کھچا کھچ احباب کرام سے بھرا ہوا تھا کہ حضور مسجد مبارک کی چھوٹی سیڑھیوں سے جو دفتر محاسب کے قریب کھلتی ہیں تشریف لائے۔ خاکسار دفتر محاسب کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ خاکسار نے السلام علیکم عرض کرکے مصافحہ کیا تو حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ آپ تحریک کا کام شروع کر دیں اور ایک ہزار احباب کے پتے نکالیں۔ خاکسار نے دل میں آمنا و صدقنا کہا۔ حضور لاہور سے جمعرات کے دن واپس تشریف لائے تو خاکسار نے ایک ہزار کی فہرست پیش کر دی ۔۔۔۔۔۔۔۔<
>اس تحریک کے وعدوں کے خطوط آرہے تھے۔ حضور نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کو حکم دیا کہ وہ ان کا حساب بنا کر پیش کریں۔ مگر دفتر جو حساب پیش کرتا وہ حضور کے اپنے ذہنی حساب سے نہ ملتا۔ اس پر ایک جمعرات کی نماز مغرب کے بعد خاکسار کو فرمایا کہ آپ وعدوں کے تمام خطوط دفتر سے لے کر ان کا حساب بنا کر کل دس بجے قبل جمعہ پیش کریں۔ میں اس بارہ میں اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ میں اسی وقت دفتر پہنچا۔ دیکھا تو میز پر خطوط پڑے تھے۔ دفتر والوں نے کہا۔ یہی سارے خط ہیں آپ لے لیں۔ میں نے گنے تو پانصد خطوط تھے۔ میں اسی وقت پہلے محلہ دارالسعتہ گیا۔ وہاںمیں نے خواجہ معین الدین صاحب اور قاری محمد امین صاحب کو ڈیڑھ ڈیڑھ سو خطوط دے کر کہا کہ آج ساری رات کام کرنا تا صبح ہی حساب مل جائے۔ انہوں نے خوشی سے کہا کہ جب تک ہم یہ کام پورا نہ کرلیں آرام نہ کریں گے اور دو سو خط میں نے اپنے واسطے رکھے صبح جب میں ان کے پاس پہنچا تو دونوں نے حساب تیار کر لیا ہوا تھا۔ مجھے دے دیا ۔۔۔۔۔۔ میں نے یکجائی حساب بنایا تو ساڑھے سولہ ہزار کے وعدے ہوئے۔ میں ساڑھے نو بجے محلہ دارالفضل سے اپنے گھر سے شہر کو آرہا تھا۔ خاں میر خاں صاحب حضور کے باڈی گارڈ ملے۔ انہوں نے کہا کہ حضور آپ کو یاد فرماتے ہیں۔ میں نے پیش ہو کر عرض کیا کہ حضور ساڑھے سولہ ہزار وعدوں کی میزان ہے۔ حضور نے فرمایا درست معلوم ہوتی ہے۔ میرے ذہنی حساب سے ملتی ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ حضور نے مطالبہ ساڑھے سترہ ہزار کا فرمایا تھا۔ کل اور آج کی ڈاک حضور کے پاس ہے اس میں ایک ہزار سے اوپر کے ہی وعدے ہوں گے۔ اس لئے ساڑھے سترہ ہزار کا اعلان فرمائیں۔ فرمایا میں نے جو حساب ابھی دیکھا نہیں اس کا اعلان کس طرح کر سکتا ہوں۔ میں نے جو دیکھ لیا ہے اس کا ہی اعلان کیا جاسکتا ہے۔ جو دیکھا نہیں اس کا اعلان نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ حضور نے خطبہ میں ساڑھے سولہ ہزار کا ہی ذکر فرمایا<۔
>اللہ تعالیٰ کا خاکسار پر کتنا بڑا فضل و احسان ہوا کہ مجھے ایک ساتھ چار کام کرنے کا موقعہ عطا فرمایا۔ کشمیر فنڈ اور دارالانوار کے کام کے لئے مجھے دو مددگار بھی مل گئے تھے۔ لیکن آڈیٹر اور تحریک جدید کا کام خاکسار اکیلا ہی کررہا تھا۔ حضور کی خدمت میں روزانہ رپورٹ پیش کرنے کے لئے حسابات بنانے اور خطوط کی منظوری کی روزانہ اطلاع دینے اور تحریک جدید کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد مزید تکمیل کے لئے دفتر کی پابندی کا سوال ہی نہ رہا اور نہ ہی میں نے ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۸ء اور پھر ۱۹۰۹ء سے اب تک اس کا خیال کیا کہ دفتر کا وقت ختم ہوگیا۔ چلو گھر چلیں۔ بلکہ یہ بات گھٹی میں پڑی ہوئی تھی کہ جب تک روزانہ کا کام ختم نہ ہو دفتر بند نہ ہو۔ اگر ضرورت پڑے تو گھر لے جاکر روزانہ کام ختم کرو۔ پس میں نے دفتر کے وقت کا خیال نہیں رکھا بلکہ روزانہ کام ختم کرنا اصول بنایا ۔۔۔۔۔۔۔۔<
>اتفاق کی بات ہے کہ تحریک جدید کا دفتر حضور کے قصر خلافت میں تھا۔ خاکسار تو رات کے دس بجے یا کبھی بارہ بجے تک کام کرتا مگر حضور ایک دو بجے تک عموماً اور بعض دفعہ ساری رات بھی کام کرتے اور نماز فجر پڑھانے کے لئے تشریف لے جاتے۔ جب خاکسار کا آقا ساری ساری رات کام کرتا تھا تو میرے لئے کیا عذر تھا کہ زیادہ وقت لگا کر کام پورا نہ کروں<۔
>حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جہاں وعدوں کے ہر خط پر رقم اور جزا کم اللہ احسن الجزاء اپنی قلم سے ارقام فرماتے وہاں اس کے متعلق اور بھی کوئی بات ہوتی تو اسے بھی خاکسار کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے لکھ دیتے تا خاکسار صحیح طریق اختیار کرسکے۔ اسی طرح عام ڈاک میں بھی ہر خط پر حضور کا نوٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی ہدایت کے لئے ہوتا۔ تحریک جدید کے خطوط کے نوٹ تو میں نے نہایت احتیاط سے محفوظ رکھے تھے کیونکہ خاکسار نے پانچویں سال میں ہی ارادہ کرلیا تھا کہ حضور کے ارشادات کسی نہ کسی طرح ضرور شائع کروں گا۔ انشاء اللہ مگر ع
مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ
وہ تمام ذخیرہ پاکستان آتے وقت ساتھ نہ لاسکا سوائے تحریک جدید کے رجسٹروں کے<۔۱۰۸
پھر لکھتے ہیں۔
>مجھے خوب یاد ہے کہ پہلے سال کے وعدوں کی آخری میعاد پندرہ جنوری ۱۹۳۵ء یعنی کل ڈیڑھ ماہ اور وعدوں کے خطوط ۲۳۔ جنوری تک آئے جن کی میزان ایک لاکھ دس ہزار ہوئی جو تحریک کے مطالبہ ۲/۲۷۱ سے چار گنا تھی۔ یہ جماعت کے اخلاص اور حضور کی دعائوں کا نتیجہ تھا۔ خاکسار جو روزانہ تفصیلی رپورٹ ¶دیتا تھا` ۲۳۔ جنوری کے بعد اسے خاکسار نے بند کر دیا اور یہ خیال کیا کہ اب صدر انجمن احمدیہ کے قواعد کے مطابق ہفتہ وار رپورٹ پیش کیا کروں گا۔ تین دن متواتر رپورٹ نہ ملنے پر حضور نے خاکسار کو بلا کر پوچھا کہ رپورٹ تین دن سے کیوں نہیں دی۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اب وعدے آچکے ہیں خاکسار آئندہ بہ طریق صدر انجمن احمدیہ ہفتہ وار رپورٹ پیش حضور کرے گا۔ اس پر فرمایا میرے ساتھ کام کرنے والے کو روزانہ رپورٹ مجھے پہنچا کر دفتر بند کرنا ہوگا۔
پس اس دن سے آج کا دن ہے کہ خاکسار بلا ناغہ تفصیلی رپورٹ روزانہ بہ توفیق الٰہی حضور اقدس کی خدمت میں پیش کرتا رہا ہے فالحمدلل¶ہ<۔۱۰۹
نیز تحریر کرتے ہیں کہ۔
>جنوری ۱۹۳۵ء کا ذکر ہے کہ تحریک جدید کے بارے میں ایک دوست کو میں نے خط لکھا۔ ایک لفظ مجھ سے نادانستہ ایسا لکھا گیا جس سے اس دوست نے میرے لہجہ کو حاکمانہ سمجھ کر حضور کی خدمت میں میری شکایت کی۔ اس وقت تحریک کی ساری خط و کتابت حضور کی خدمت میں آتی تھی۔ حضور نے خاکسار کو بلا کر پوچھا کہ کیا آپ نے کسی کو یہ لفظ لکھا تھا۔ میں نے معاً عرض کیا کہ حضور! لکھا تھا۔ اس پر حضور نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ۔
یہ تو حاکمانہ طریق ہے میرے ساتھ جس نے کام کرنا ہے اسے اسلامی شعار اختیار کرنا ہوگا کیونکہ میرا کام اسلام کا استحکام اور اس کا مضبوط کرنا ہے۔
پس اس دن سے میں نے حضور کے ارشادات کی روشنی میں تعمیل کرنا اپنا طریق بنایا<۔۱۱۰
اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ۔
>میں تین ماہ سے اکیلا ہی کام کررہا تھا کہ ایک دن حضور نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا ہے کہ آپ اکیلے ہی کام کرتے ہیں۔ آپ ایک کلرک رکھ لیں اسے تنخواہ میں تحریک جدید سے دوں گا۔ چنانچہ میں نے پٹیالہ کے ایک پوسٹل کلرک کو رکھ لیا وہ بڑے محنتی اور شوق سے کام کرنے والے تھے۔ میرے ساتھ بڑی رات تک کام کرتے تھے اور وہاں جاکر بیمار ہوکر وفات پاگئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے چودھری عبدالرحیم صاحب چیمہ۱۱۱ کو پندرہ روپے ماہوار پر رکھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے حافظہ ایسا عطا فرمایا ہے کہ وہ تحریک جدید کا دفتری کام اکثر یادداشت سے کرتے۔ بسا اوقات دوست دفتر میں آکر چوہدری صاحب سے اپنا حساب وعدہ و وصولی دریافت کرتے تو آپ زبانی ہی بتا دیتے اور اگر بعض اصرار کرتے کہ ریکارڈ دیکھ کر بتائو تو ان کو رجسٹر سے حساب دکھا کر مطمئن کر دیتے۔ بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب نے اپنے ہاتھ سے سارا ریکارڈ رکھا ہوتا تھا اور پھر آمدہ خطوط کے وعدوں کی منظوری دی ہوتی تھی۔ اور وہ کام کو نہایت سرگرمی اور تندہی سے پورا کرتے۔ دفتر بند نہ ہوتا جب تک کام ختم نہ کرلیتے۔ اگر کام زائد ہوا تو گھر لے جاکر پورا کرتے<۔۱۱۲
صیغہ امانت جائیداد
یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تحریک جدید کے مطالبہ ۲ کے مطابق جو رقوم باہر سے آتی تھیں ان کا حساب اور خرچ کا انتظام >صیغہ امانت جائیداد< کا فرض تھا۔ اس صیغہ کے سیکرٹری حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور انچارج دفتر حضرت مولوی فخر الدین صاحب آف گھوگھیاٹ تھے۔
تحریک جدید کا پہلا بجٹ )خرچ(
تحریک جدید کا پہلا بجٹ ۶/۲/۶۱۷۸۲ روپے کا تھا جس کی تفصیل صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ریزولیوشن ۱۷۸ مورخہ ۸۔ مئی ۱۹۳۵ء میں ملتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔
>رپورٹ ناظر اعلیٰ کہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تحریک جدید کا بجٹ ارسال فرمایا ہے جو کہ مبلغ ۶/۲/۶۱۷۸۲ روپیہ کا ہے۔ حضور کا ارشاد حسب ذیل ہے۔
>تحریک جدید کا بجٹ ارسال ہے۔ اسے صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ کے ساتھ شامل کرلیں۔ اس کے مطابق رقم اس مد سے خزانہ صدر انجمن میں داخل ہوتی رہے گی۔ یہ بجٹ یکم مئی ۱۹۳۵ء سے ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۶ء تک کا ہے۔ اس کے بلوں کے پاس ہونے کا یہ طریق مقرر کیا جائے کہ بلوں پر انچارج تحریک جدید کے دستخط ہوں۔ لیکن جیسے کہ زکٰوۃ کے بلوں کا قاعدہ ہے میرے تصدیقی دستخطوں کے ساتھ بل کو مکمل سمجھا جائے<۔۱۱۳
مستقل دفتر کا قیام اور اس کے پہلے انچارج
تحریک جدید کے دفتر کا مستقل صورت میں قیام آخر جنوری ۱۹۳۵ء میں ہوا جبکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی۱۱۴ کو انچارج تحریک جدید مقرر فرمایا اور قصر خلافت قادیان کے ایک کمرہ میں جو چوبی سیڑھیوں سے ملحق تھا` دفتر تحریک جدید قائم کیا گیا` جو کئی سال تک دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے اس کمرہ میں ہی رہا۔ بعد ازاں جب کام وسعت اختیار کر گیا تو حضرت سید ناصر شاہ صاحبؓ کے ایک حصہ مکان میں بیرونی مشنوں اور تجارتی شعبہ کا دفتر کھول دیا گیا۔ مگر جب یہ جگہ بھی ناکافی ثابت ہوئی تو حضرت شاہ صاحبؓ کے مکان سے متصل زمین میں تحریک جدید کی اپنی مستقل عمارت تعمیر کی گئی۱۱۵ جہاں ۱۹۴۷ء تک تحریک جدید کے مختلف شعبے مصروف عمل رہے۔
جناب مولوی عبدالرحمن صاحب انور ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۶ء تک تحریک جدید کے انچارج رہے۔ >مولوی صاحب موصوف نے گیارہ بارہ سال سوائے وکالت مال کے کام کے سارا کام اکیلے کیا۔ وہ ابتدائی تنظیم کی حالت تھی۔ کام میں تنوع نہ تھا لیکن ذمہ داری کا کام تھا اور مولوی صاحب نے اپنی استطاعت کے مطابق اچھا نبھایا<۔ جیسا کہ مجلس تحریک جدید نے ۱۲۔ مارچ ۱۹۵۱ء کو اپنی ایک خصوصی قرارداد )ب/۲۶۷( میں آپ کی شاندار خدمات کا اقرار کیا۔۱۱۶
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی زریں ہدایات
جناب مولوی عبدالرحمن صاحب انور کا بیان ہے کہ
>جب جنوری ۱۹۳۵ء میں حضورؓ نے مجھے انچارج تحریک جدید مقرر فرمایا تو حضور نے اپنے ساتھ کام کرنے کے ضمن میں بعض نہایت قیمتی ارشادات خود فرمائے جو میرے لئے اس سارے عرصہ میں مشعل راہ ہے ۔۔۔۔۔۔
۱۔
جب حضور کسی امر کے متعلق ہدایات دے رہے ہوں تو حضور کے کلام کو قطع نہ کیا جائے۔ بلکہ جب ساری بات ختم ہو جائے تو پھر اگر کسی امر کی تشریح کی ضرورت محسوس ہو تو صرف اس صورت میں کوئی بات دریافت کی جائے۔
۲۔
اگر میں چل رہا ہوں تو مجھ سے بات کرنے کی غرض سے میرے چلنے میں رکاوٹ نہ پیدا کی جائے کہ میرا راستہ روکا جاوے بلکہ ساتھ چلتے چلتے اپنی بات کی جائے۔
۳۔
ملاقات کے لئے جس قدر وقت لیا جائے اس وقت میں کام کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔ اگر مزید وقت کی ضرورت ہو تو یا تو اس وقت خاص اجازت لی جائے یا باقی کام کسی دوسرے وقت میں اجازت لے کر کیا جائے۔
۴۔
جس کام کے متعلق میں کہہ دوں کہ پھر پیش ہو تو اس کو جلدی ہی موقعہ حاصل کرکے پیش کر دیا جائے نہ یہ کہ دوبارہ پیش کرنے کے لئے ہفتے یا مہینے لگا دیئے جائیں۔
۵۔
اگر میں کسی کام کے متعلق کوئی ہدایت دوں کہ یہ کام اس طور پر کیا جائے تو جو سمجھ میں آئے اس کے مطابق فوراً ہی اس کام کا خاکہ پیش کر دیا جائے تاکہ مجھے تسلی ہو کہ صحیح لائنوں پر یہ کام کیا جارہا ہے یا کچھ غلط فہمی ہے اور اگر کوئی غلط فہمی ہو تو اس کی فوراً اصلاح کر دی جائے۔
۶۔
اگر ملاقات کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے نماز کا وقت آجائے تو فوراً مجھے یاد دلا دیا جائے کیونکہ بعد میں مجھے اس احساس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ احباب کو مسجد میں نماز کے لئے اس وجہ سے انتظار کرنا پڑا<۔4] [stf۱۱۷
اخراجات کے بنیادی اصول
مولوی عبدالرحمن صاحب انور کے بیان کے مطابق تحریک جدید کے ابتدائی عرصہ میں کئی سال تک یہی دستور رہا کہ کارکنان )کسی کام کے سرانجام پاجانے کے بعد اس پر( جس قدر اصل خرچ ہوتا اسے پیش کرتے تھے تاکہ قربانی کا جذبہ اور سلسلہ کے لئے کم از کم خرچ کرنے کا جذبہ قائم رہے۔۱۱۸
تحریک جدید کے ابتدائی زمانہ میں حضور نے انور صاحب کو ارشاد فرمایا کہ تم یہ فکر نہ کرو کہ روپیہ کہاں سے آئے گا روپیہ تو اللہ کے فضل سے جس قدر ضرورت ہو گی مہیا ہو جائے گا۔ تم یہ بتائو کہ اس کو کس کس کام پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے جو تجویز بہتر ہوا کرے اسے پیش کر دیا کرو۔۱۱۹
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ایک بار خود ارشاد فرمایا کہ۔
>تین چار سال سے ہم اس کوشش میں رہتے ہیں کہ بجٹ بڑھنے نہ دیں۔ لیکن اس کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم بجٹ کو مستقل حدود تک لے آئیں اور پھر مستقل خرچ کم رہے اور ہنگامی اخراجات کے لئے زیادہ رقوم رکھی جائیں چنانچہ تحریک جدید کا اسی لئے میں نے الگ فنڈ رکھا ہے اور اس میں عارضی خرچ زیادہ لیکن مستقل خرچ کم رکھا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کئی ممالک میں نئے مشن کھل گئے ہیں<۱۲۰
واقفین تحریک جدید کی تین اقسام
ابتدا میں نظام تحریک جدید کے تحت تین قسم کے واقفین تھے۔
۱۔
دفتر تحریک جدید کے عملہ میں کام کرنے والے۔
۲۔
واقفین کا ایک حصہ مدرسین کہلاتا تھا جن میں بعض مرکز سلسلہ میں متعین کئے گئے اور بعض بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے جہاد پر روزانہ کئے گئے۔ اول الذکر مبلغین اندرون ہند کے نام سے اور دوسرے مبلغین بیرون ہند کے نام سے پکارے جاتے تھے۔
۳۔
سروے سکیم میں کام کرنے والے واقفین۔
اس کے بعد جوں جوں تحریک جدید کا نظام پھیلتا گیا واقفین کو مختلف شعبوں میں لگایا جانے لگا۔
ابتدائی مبلغین کا انتخاب
سیدنا فضل عمر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:۔
>تحریک جدید کے پہلے مبلغین کے انتخاب کے وقت صرف دیکھا جاتا تھا کہ جرات کے ساتھ کام کرنے کا مادہ ہو۔ لیاقت کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس وقت ایسے آدمی کی ضرورت تھی۔ جو دلیری کے ساتھ آگ میں اپنے آپ کو ڈال دینے والا ہو۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو منتخب کرکے ہم نے بھیج دیا اور وہ مقصد حاصل بھی ہو گیا۔ ان میں سے بعض دینی علوم اور عربی سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھے۔ بلکہ بعض کا تقویٰ کا معیار بھی اتنا بلند نہ تھا۔ مگر اس وقت ہمیں صرف آواز پہونچانی تھی اور دشمن کو یہ بتانا تھا کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں۔ جو اپنا آرام و آسائش اپنا وطن۔ عزیز و اقارب۔ بیوی بچوں۔ غرضیکہ کسی چیز کی پروا نہ کرتے ہوئے نکل جائیں گے بھوکے پیاسے رہیں گے اور دین کی خدمت کریں گے کہ ایسی قوم کو جس میں ایسے نوجوان ہوں۔ مار دینا ناممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم نے یہ دکھا دیا۔ بعض نوجوان برائے نام گزارے لے کر اور بعض یونہی باہر چلے گئے اور اس طرح ہمارا خرچ بارہ مشنوں پر قریباً ایک مشن کے خرچ )کے( برابر ہے<۔۱۲۱
بیرونی مشنوں کے سیکرٹری
جب بیرونی ممالک سے ان نوجوانوں کی` تحریک جدید کے ابتدائی مشنوں کے قیام پر رپورٹیں آنا شروع ہوئیں اور انگریزی میں خط و کتابت کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضورؓ نے مولوی نور الدین صاحب منیر کو سیکرٹری فارن مشنر تجویز فرمایا۔۱۲۲
سیکرٹری تجارت و صنعت
اسی طرح تجارتی اور صنعتی رپورٹوں کی آمد پر حضرت اقدس کی ہدایت پر حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحبؓ گوہر سیکرٹری تجارت و صنعت مقرر ہوئے اور بیرونی ممالک سے مختلف اشیاء درآمد کی جانے لگیں۔۱۲۳
‏tav.8.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
پہلا باب )فصل ششم(
اندرون ملک میں تحریک جدید کی ابتدائی سرگرمیاں
تحریک جدید کے ابتدائی سہ سالہ دور میں اندرون ملک متعدد عظیم الشان کام انجام پائے جن کا ذیل میں بالاختصار تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اہم ٹریکٹوں کی اشاعت
اس دور میں تحریک جدید کی طرف سے سب سے پہلے حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے مندرجہ ذیل رقم فرمودہ ٹریکٹ بڑی کثرت سے شائع کئے گئے۔
>ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمدیہ جماعت<۔ >زلزلہ کوئٹہ بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا نشان ہے<۔۱۲۴ >مجلس احرار کا مباہلہ کے متعلق ناپسندیدہ رویہ<۔ >احرار خدا تعالیٰ کے خوف سے کام لیتے ہوئے مباہلہ کی شرائط طے کریں<۔ >زندہ خدا کے زندہ نشان<۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ٹریکٹوں کی اشاعت کا یہ سلسلہ جاری کرنے سے قبل اخبار >الفضل< میں حسب ذیل اہم اعلان شائع فرمایا۔
>برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
میں اپنے ایک خطبہ میں اعلان کر چکا ہوں کہ چند اشتہارات موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عنقریب شائع کئے جائیں گے۔ احباب کو ان کی اشاعت خاص توجہ سے کرنی چاہئے۔ پوسٹر عمدہ جگہوں پر لگانے چاہئیں اور چھوٹے اشتہار عقل اور سمجھ سے تقسیم کرنے چاہئیں۔ چونکہ جلد یہ سلسلہ شروع ہونے والا ہے میں پھر اس اعلان کے ذریعہ جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً مندرجہ ذیل امور کے متعلق انتظام کریں۔
۱۔
وہ جلد دفتر تحریک جدید میں اطلاع دیں کہ انہیں کس کس قدر پوسٹروں اور اشتہاروں کی ضرورت ہوا کرے گی۔
۲۔
ان کی جماعت یا اگر فرد ہے تو وہ کس قدر رقم کے اشتہار قیمت پر منگوانا چاہتا ہے )اشتہار صرف لاگت پر ملیں گے۔ کوئی نفع محکمہ ان سے نہیں لے گا( ہو سکتا ہے کہ اگر ضرورت زیادہ ہو اور جماعت پورے خرچ کی متحمل نہ ہو سکے تو کچھ حصہ قیمت پر اور کچھ مفت ارسال کیا جائے۔
۳۔
بنگال` سندھ اور صوبہ سرحد کی جماعتوں کو چاہئے کہ بنگالی` سندھی اور پشتو میں ان اشتہاروں کے تراجم شائع کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں ایک معقول حد تک دفتر تحریک جدید ان کی امداد کرے گا۔ مگر فیصلہ بذریعہ خط و کتابت ہونا چاہئے۔
۴۔
ہر جماعت یا فرد ان اشتہاروں کے چسپاں کرنے اور تقسیم کرنے کا انتظام فوراً کر چھوڑے۔
۵۔
ہر جماعت یا فرد کو اس امر کا انتظام رکھنا چاہئے کہ ہر اشتہار ایسے ہاتھ میں جائے جہاں اس کا فائدہ ہو اور اچھی جگہ پر پوسٹر چسپاں ہو۔ سارے پوسٹر ایک دن نہ لگائے جائیں کیونکہ بعض شریر دشمن انہیں پھاڑ دیتے ہیں بلکہ دو تین دن میں لگیں۔ تاکہ سب لوگ پڑھ سکیں۔
۶۔
اشتہاروں کی اشاعت کے بعد جماعت کے افراد ان کے اثر کا اندازہ لگاتے رہا کریں اور مرکز کو اس کی اطلاع دیتے رہا کریں تاکہ آئندہ اشتہاروں میں اس تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
۷۔
سب اطلاعات میرے نام یا سیکرٹری دفتر تحریک جدید کے نام ہوں۔ والسلام
خاکسار میرزا محمود احمد )خلیفہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ(۱۲۵
جناب مولوی عبدالرحمن صاحب انور کا بیان ہے کہ حضور کی طرف سے ان اشتہارات کا مضمون جمعرات کے روز عصر کے بعد ملنا شروع ہوتا تھا۔ جوں جوں حضور مضمون تحریر فرماتے دفتر تحریک جدید میں بھجوا دیتے اور ہدایت یہ تھی کہ ساتھ ہی ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بھی اس کو دیکھ لیں اور پھر کاتب کو کتابت کے لئے دے دیا جائے۔ اس طرح رات کے بارہ ایک بجے تک کتابت ختم ہوتی۔
ایک کاپی اشتہار کی صورت میں لکھوائی جاتی اور دوسری کاپی پمفلٹ کے طور پر۔ ٹریکٹ راتوں رات چھاپ دیئے جاتے اور صبح کی پہلی گاڑی سے خاص آدمی کے ذریعہ سے نماز جمعہ سے قبل بٹالہ` امرتسر` لاہور اور لائلپور تک پہنچا دیئے جاتے تھے۔
ٹریکٹوں کی تقسیم حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی باقاعدہ ہدایات اور نگرانی کے ماتحت ہوتی تھی۔ چنانچہ حضورؓ نے خود بتایا کہ۔
>تحریک جدید کا کام چونکہ براہ راست میرے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے میں اسی رنگ میں اس کے کام کی نگرانی کرتا ہوں اور جہاں نقص واقع ہو اپنی توجہ کا بیشتر حصہ اس کی طرف صرف کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کیا کرتا ہوں مثلاً ہم نے ٹریکٹ بھجوانے ہوں تو جن جماعتوں میں ٹریکٹوں کی زیادہ ضرورت ہوگی وہاں زیادہ ٹریکٹ بھی بھجوا دیئے جائیں گے اور جنہیں کم ضرورت ہوگی انہیں کم بھجوا دیئے جائیں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ سب کو یکساں بھجوا دیئے جائیں۔ اسی طرح اور امور میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کونسی جماعت کمزور ہے پھر جو جماعت کمزور ہو اس کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے<۔۱۲۶
کتابوں کی اشاعت
تحریک جدید کے پہلے سہ سالہ دور میں اشتہارات کے علاوہ بعض کتابیں بھی شائع کی گئیں مثلاً ۱۹۳۶ء میں >مناظرہ مہت پور< اور ۱۹۳۷ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے چھ خطبات >اعمال صالحہ< کے نام سے چھاپے گئے۔
اشاعت احمدیت پریس کے ذریعہ سے
تحریک جدید کے ان ابتدائی ایام میں تبلیغ احمدیت کا کام دو انگریزی` ایک اردو اور ایک سندھی اخبار کے ذریعہ سے لیا جاتا تھا۔۱۲۷ انگریزی اخبار >سن رائز< اور >مسلم ٹائمز< تھے جن کا تذکرہ کرتے ہوئے حضورؓ نے ایک بار فرمایا۔
>دو انگریزی اخبار ایک سن رائز لاہور سے اور ایک مسلم ٹائمز لنڈن سے شائع ¶ہوتے ہیں۔ ان میں سے بالخصوص سن رائز کی ضرورت اور اہمیت کو بہت محسوس کیا جارہا ہے۔ اور یہ پرچہ اگرچہ ہمیں قریباً مفت ہی دینا پڑتا ہے مگر فائدہ بہت ہے۔ امریکہ سے نو مسلمین نے لکھا ہے کہ یہ اخبار بہت ضروری ہے اور اسے پڑھ کر ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ بھی جماعت کا ایک حصہ ہیں۔ خصوصاً اس میں جو خطبہ جمعہ کا ترجمہ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے ایمانی ترقیات کا موجب ہے۔ پہلے ہم یوں سمجھتے تھے کہ جماعت سے کٹے ہوئے الگ تھلگ ہیں مگر اب خطبہ پہنچ جاتا ہے اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی گویا جماعت کا ایک حصہ ہیں<۔۱۲۸
نئی درسگاہیں
تحریک جدید کے انتظام کے ماتحت وافقین کے ذریعہ سے ملک کے آٹھ مقامات پر دینی درسگاہیں قائم کر دی گئیں جن میں بچوں اور بوڑھوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔۱۲۹
ملک کا تبلیغی سروے
جنوری ۱۹۳۵ء سے لے کر نومبر ۱۹۳۵ء تک صوبہ کے پانچ اضلاع کا مکمل تبلیغی سروے کیا گیا۔۱۳۰ جو اپنی نوعیت کی جدید چیز تھی۔
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر قصبات اور دیہات کا جائز لینے کے لئے دو قسم کے فارم چھپوائے گئے۔ قصبات کے کوائف معلوم کرنے کی غرض سے زرد رنگ کا دو ورقہ اور عام دیہات کے لئے صرف یک ورقہ۔ یہ کام سائیکلوں کے ذریعہ سے کیا جاتا تھا۔ ابتداء میں چار سائیکل سوار بھجوائے گئے ایک کے پاس اپنی ذاتی سائیکل تھی۔ دو سائیکلیں ھدیت¶ہ اور ایک سائیکل د فتر نے خرید کی تھی۔ ۱۱۔ جنوری ۱۹۳۵ء کو حضور نے تحریک فرمائی کہ سولہ سائیکلوں کی فوری ضرورت ہے۔۱۳۱ اس پر جماعت نے اس کثرت سے سائیکلیں بھیج دیں کہ آئندہ سائیکل نہ بھجوانے کی ہدایت کرنا پڑی۔ اس معاملہ میں جماعت احمدیہ دہلی سب جماعتوں پر سبقت لے گئی۔۱۳۲
اس تبلیغی سروے کی نوعیت و اہمیت کیا تھی؟ اس کی تفصیل حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی زبان مبارک سے سنئے حضور فرماتے ہیں۔
>میں نے مختلف اضلاع کی سروے کرائی ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں جن اضلاع کی سروے کرائی گئی ہے ان میں جو لوہار ترکھان یا پیشہ ور احمدی بیکار ہیں انہیں پھیلا دوں۔ تمام گائوں کے نقشے ہمارے پاس موجود ہیں اور ہر مقام کی لسٹیں ہمارے پاس ہیں جن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ان گائوں میں پیشہ وروں اور تاجروں کی کیا حالت ہے۔ اسی ذریعہ سے میں چاہتا ہوں کہ اپنی جماعت کے پیشہ ور بیکاروں کو ان علاقوں میں پھیلا دوں جہاں لوہار نہیں وہاں لوہار بھجوا دیئے جائیں۔ جہاں معمار نہیں وہاں معمار بٹھا دیئے جائیں جہاں حکیم نہیں وہاں حکیم بھجوا دیئے جائیں۔ اس سکیم کے ماتحت اگر ہماری جماعت مختلف علاقوں میں پھیل جائے تو جہاں ہمارے بہت سے تبلیغی مرکز ان علاقوں میں قائم ہو سکتے ہیں۔ وہاں لوگ بھی مجبور ہوں گے کہ احمدیوں سے کام لیں۔ اس طرح ان کی بیکاری بھی دور ہو گی اور تبلیغی مرکز بھی قائم ہو جائیں گے۔ بلکہ لکھے پڑھے لوگ کئی گائوں میں مدرسے بھی جاری کر سکتے ہیں چنانچہ ہمارے پاس ایسی بیسیوں لسٹیں موجود ہیں جہاں مدرسوں کی ضرورت ہے یا حکیموں کی ضرورت ہے یا کمپونڈروں کی ضرورت ہے مگر انہیں مدرس حکیم اور کمپونڈر نہیں ملتے۔ اسی طرح ہندوستان سے باہر بھی ہم بعض پیشہ وروں کو بھیجنا چاہتے ہیں جہاں بعض کام عمدگی سے کئے جاسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ غرض دنیا کے ایسے حصے جہاں تجارتی کام اعلیٰ پیمانے پر کئے جاسکتے ہیں` ہم نے معلوم کئے ہیں اور ہر جگہ کے نقشے تیار کئے ہیں۔ ان علاقوں میں تھوڑی سی ہمت کرکے ہم بیکاروں کو کام پر لگا سکتے ہیں اور بہت سے تبلیغی سینٹر قائم کرسکتے ہیں اور یہ کام ایسا اعلیٰ ہوا ہے کہ جس کی اہمیت ابھی جماعت کو معلوم نہیں اور گو یہ معلومات کا ذخیرہ ابھی صرف چند کاپیوں میں ہے۔ لیکن اگر یورپ والوں کے سامنے یہ کاپیاں پیش کی جائیں تو وہ ان کے بدلے لاکھوں روپے دینے کے لئے تیار ہو جائیں مگر افسوس ابھی ہماری جماعت نے اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھا` اسی طرح میں تجارتی طور پر مختلف مقامات کے نقشے بنوا رہا ہوں۔ اور اس امر کا پتہ لے رہا ہوں کہ چین اور جاپان اور دوسرے ممالک کے کس کس حصہ میں کون کونسی صنعت ہوتی ہے تاکہ ہم اپنی جماعت کے تاجروں یا ان لوگوں کو جو تجارت پیشہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان علاقوں میں پھیلا دیں<۔۱۳۳
مکیریاں مشن
تبلیغی جائزہ کی رپورٹیں موصول ہونے پر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے تحریک جدید کے زیر انتظام شروع ۱۹۳۵ء میں چار تبلیغی۱۳۴ مراکز قائم فرمائے جس میں مکیریاں )ضلع ہوشیار پور( اور ویرووال )ضلع امرتسر( کے مشن بالخصوص قابل ذکر ہیں۔
مکیریاں مشن کا قیام مختار احمد صاحب ایاز )پہلے امیر المجاھدین( کی کوششوں سے ہوا۔ مرکز کے لئے ایک احمدی مولوی محمد عزیز الدین صاحب سٹیشن ماسٹر ابن حضرت مولوی محمد وزیر الدین صاحبؓ )۳۱۳( نے اپنے مکان ہبہ کر دیا تھا۔ اس مشن کی ذیلی شاخیں حسب ذیل مقامات پر کھولی گئیں۔ چھنیان۔ بہبو وال۔ مہت پور۔۱۳۵
مکیریاں شہر تو مخالفت کا گڑھ تھا۔ مگر اردگرد علاقوں میں بھی مخالفین کی تکالیف بڑی صبر آزما تھیں حتیٰ کہ جیسا کہ میاں علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پور حلقہ مکیریاں کی روایت ہے کہ ایک بار احمدیوں کو زندہ جلا دینے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایاز صاحب موضع ڈگریاں میں عید پڑھنے کے لئے گئے۔ ان کے ساتھ حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ بھی تھے۔ ناگاہ انہیں پتہ چلا کہ جس مکان میں وہ جمع ہیں مخالفین اسے آگ لگا دینے کی سازش کررہے ہیں۔
اس پر سب احمدی چپکے سے باہر نکل گئے۔ ایاز صاحب کے بعد کیپٹن ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب اور حضرت چودھری غلام احمد صاحبؓ آف کریام۱۳۶ امیر المجاھدین مقرر ہوئے۔ راشد احمد صاحب۱۳۷ حال سپرنٹنڈنٹ وکالت مال اول کے بیان کے مطابق ڈاکٹر صاحب ایک گائوں بھنگالا میں چھڑیوں سے زدوکوب کئے گئے۔ بائیکاٹ اتنا سخت تھا کہ احمدی پانی تک سے محرم کر دیئے گئے اور ان کو ایک گوردوارہ سے پانی لینا پڑتا تھا۔ میاں علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پور متصل مکیریاں کا بیان ہے کہ چودھری فضل دین صاحب سہوتہ گائوں کے ایک احمدی تھے جن کی اعوان برداری نے ان کی فصل اٹھانے کی ممانعت کردی۔ یہ خبر مکیریاں پہنچی تو ڈاکٹر صاحب موصوف اور حضرت بابو فقیر علی صاحب` شیخ نور الدین صاحب` سید لال شاہ صاحب )آنبہ( اور بعض دوسرے مجاہدین درانتیاں لے کر اس گائوں میں پہنچے اور فصل کاٹنا شروع کردی۔ اعوان احمدی رضا کاروں کا یہ جذبہ اخوت و محبت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور بائیکاٹ ختم کرا دیا۔۱۳۸
کچھ عرصہ بعد جب چودھری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری امیر المجاہدین مقرر ہوئے تو مکیریاں شہر کے ذیلدار خوشحال محمد صاحب نے چودھری صاحب سے ربط ضبط کے باعث منادی کرا دی کہ احمدیوں کو کوئی تکلیف نہ دے۔ اس پر وہاں امن ہو گیا اور عام مسلمانوں نے سودا سلف دینا شروع کر دیا۔۱۳۹
۲۶` ۲۷` ۲۸۔ ستمبر ۱۹۳۶ء کو مہت پور میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے شیعہ عالم مرزا یوسف حسین صاحب سے مناظرہ کیا جس سے احمدیت کی دھاک بیٹھ گئی اور کئی لوگ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔
اس مشن میں حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ` ملک غلام نبی صاحب اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف کیمبلپور نے بھی امیر المجاہدین کے فرائض انجام دیئے۔ مجاہدین تحریک جدید میں سے جن اصحاب نے یہاں کام کیا۔ ان میں مولوی روشن الدین احمد صاحب بالخصوص قابل ذکر ہیں جو بارہ سال تک پیغام حق پہنچاتے رہے۔ مئی ۱۹۴۶ء میں آپ کویت جانے کے لئے قادیان آگئے اور مشن کا چارج مولوی حسام الدین صاحب نے سنبھالا۔۱۴۰
)مولوی محمد اسمعیل صاحب ذبیح مولوی فاضل کا ایک غیر مطبوعہ نوٹ۔(
>تحریک جدید کا مرکز مکیریاں یہ مرکز شروع تحریک جدید میں قائم کیا گیا تھا سب سے پہلے اس مرکز میں وہ نوجوان لگائے گئے جنہوں نے قادیان والوں کو مرکز رکھ کر اردگرد سروے کیا تھا۔ ان میں برادرم شیخ عابد علی صاحب اور برادرم بدر سلطان صاحب بھی تھے۔
مکیریاں میں محلہ تکھوا وال میں حضرت بابو عزیز الدین صاحب نے مرکز کے لئے اپنا مکان وقف کیا تھا تکھو وال مکیریاں اور اس کے نواح میں اعوانوں کے باون گائوں تھے۔ خود مکیریاں کا ذیلدار بھی اعوان تھا جو ہمارا بڑا مخالف تھا اس کا نام خوشحال تھا جو تقسیم کے بعد سرگودہا کے چک میں آباد ہوا۔
ابتداء میں مخالفوں نے پانی بند کردیا تو ایک رئیس خاندان کے ہری سنگھ نام سردار کے لڑکے دلیپ سنگھ نے اپنے ہاں سے پانی کا بندوبست کیا۔ مسلمان بڑی کمزور حالت میں تھے۔ تاہم ہماری مخالفت میں سب متحد تھے۔ مکیریاں سے تو جہاں تک مجھے یاد ہے ایک شخص تاج دین نے بیعت کی تھی۔ مگر اردگرد خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی احمدی ہوئے مہت پور میں باقاعدہ جماعت بن گئی۔
مشہور تاریخی مناظرہ مابین شیعہ و احمدی جماعت اس مہت پور میں ہوا تھا۔ جس کی ابتدائی روئیداد بڑی لمبی ہے میں اور مکرم بدر سلطان صاحب مہت پور میں رہتے تھے۔ جن لوگوں نے وہاں کام کیا ان میں واقفین زندگی کے نام یہ ہیں۔
مولوی منیر احمد صاحب انصاری۔ خاکسار محمد اسمعیل ذبیح۔ شیخ عابد علی صاحب۔ بدر سلطان صاحب۔ مولوی روشن دین احمد صاحب۔ مولوی اسمعیل صاحب مرحوم ابن حافظ ابراہیم صاحب۔
عارضی واقفین رخصتوں کو وقف کرنے والے احباب کے نام۔ )رفقائے مسیح موعودؑ(
۱۔
حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب وہاں ایک مشہور مقدمہ قتل میں ان سے دعا کرائی گئی تھی آپ نے قبل از وقت فرمایا تھا کہ فلاں کو یہ سزا ہوگی فلاں فلاں اپیل میں بری ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ واقعہ سارے علاقہ میں مشہور ہوگیا تھا۔
۲۔ حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام۔ ۳۔ حضرت چھجو خاں صاحب آف سٹروعہ۔ ۴۔ حضرت مولوی محمد علی صاحب ارائیں۔ ۵۔ ان کے صاحبزادے میاں اکبر علی صاحب۔ ۶۔ حضرت ڈاکٹر کپتان سید محمد حسین صاحب۔ ۷۔ حضرت چوہدری شاہ محمد صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس پٹیالہ ضلع گجرات ۸۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ زین العابدین )بحیثیت ناظر امور عامہ( عتیق الرحمان کے ارتداد کے سلسلہ میں دارالتبلیغ پر حملہ ہوا۔ شاہ صاحب چند دن کے لئے اس سلسلہ میں گئے تھے۔ ۹۔ حضرت بھائی عبداللہ صاحب قادیانی مزین حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ۱۰۔ مکرم بھائی محمود احمد صاحب حال سرگودہا۔ ۱۱۔ حضرت چوہدری محمد شریف صاحب وکیل ساہیوال۔ ۱۲۔ حضرت بابو فقیر علی صاحب۔ ۱۳۔ حضرت حکیم احمد الدین صاحب شاہدرہ۔
)دوسرے احباب( ملک غلام نبی صاحب والد جنرل اختر حسین صاحب و عبدالعلی صاحب )دو مرتبہ( چونکہ علاقہ اعوانوں کا تھا اس لئے ملک صاحب نے اپنے علاقہ سے احمدی اعوانوں کو تحریک کرکے وہاں بار بار بھجوایا۔ جن میں بعض نام یہ ہیں۔ ماسٹر محبوب صاحب۔ ماسٹر محمد جعفر صاحب۔ ماسٹر محمد حیات صاحب۔ مکرم میجر ستار بخش صاحب کیمبل پور۔ ماسٹر عبداللہ صاحب کانہوآں۔ ماسٹر فضل کریم مرحوم صاحب بوریوالہ۔ مولوی فضل الدین صاحب اجمیری۔ بابو عبدالرحیم صاحب اوورسیئر نوشہرہ ککے زئیاں سیالکوٹ۔ بابو فضل احمد صاحب بھینی بسواں۔ دیر ووال اور مکیریاں کے علاوہ ایک تیسرا مرکز بھی کھلا مگر تھوڑا عرصہ۔ وہ تھا بوستاں افغاناں ضلع گورداسپور اس میں واقفین زندگی مولوی محمد عبداللہ صاحب مرحوم اور مولانا محمد ابراہیم صاحب قادیانی حال درویش کام کرتے تھے۔ ان کے ذریعہ بوستان کا نمبردار محمد یعقوب خاں احمدی ہوئے تھے۔ عارضی واقفین میں بابو ملک محمد شفیع صاحب )نوشہروی( حال ربوہ۔ چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔ اے سابق مبلغ امریکہ یاد ہیں۔
ویرووال مشن
ویرووال )ضلع امرتسر( میں بھی تحریک جدید کا مرکز قائم کیا گیا۔ خواص پور` فتح آباد` میاں ونڈ` گوئند وال اور جلال آباد میں اس مرکز کی شاخیں تھیں۔
ویرووال کے علاقہ میں مکیریاں کے مقابل بہت زیادہ مخالفت کا زور تھا۔ اس لئے ابتدا میں بعض اوقات پندرہ سولہ مجاہد )یعنی تعطیلات وقف کرنے والے احمدی( یہاں بھجوائے جاتے رہے۔۱۴۱
حلقہ ویرووال میں یکے بعد دیگرے متعدد امیر المجاہدین مقرر کئے گئے جن میں سے مشہور و ممتاز یہ ہیں۔
۱۔
ڈاکٹر اعظم علی صاحب گجرات۔ آپ بڑے معاملہ فہم تھے اور انکسار و فروتنی سے مخالفوں کا دل موہ لیتے تھے۔
۲۔
حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب۔ آپ کے تقویٰ اور نیکی کا غیروں پر بھی گہرا اثر تھا۔
۳۔
حضرت میاں محمد یوسف خاں صاحب۔ آپ دن بھر کام کرتے اور روزانہ ذیلی مراکز کا دورہ کیا کرتے تھے۔
۴۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب۔
۵۔
عبدالمجید خاں صاحب آف ویرووال۔ آپ چھ سات سال کے لئے تقسیم ہند تک امیر المجاہدین رہے۔
ویرووال میں مخالفین کا بہت زور تھا۔ امرتسر وغیرہ سے بدگو اور شعلہ مزاج خطیب و مقرر یہاں بڑی کثرت سے بلوائے جاتے جو زبردست اشتعال پھیلاتے اور مقاطعہ جاری رکھنے کی تلقین کرتے رہتے تھے لیکن احمدی مبلغین کی پے درپے تقاریر اور مجاہدین تحریک جدید کے صبر و استقلال` خوش خلقی اور دعائوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کے فضل سے کئی خوش قسمت داخل احمدیت ہو گئے جن میں مہر اللہ دتہ صاحب )حال لائلپور( بھی تھے۔ اس علاقہ میں آریہ اور عیسائی جگہ جگہ پہنچ کر اسلام کے خلاف زہر چکانی کرتے اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے رہتے تھے۔ عامتہ المسلمین اس یلغار سے سہمے ہوئے تھے۔ جب احمدی مبلغوں کے ہاتھوں آریوں اور عیسائیوں کو شکست اٹھانا پڑی تو مسلمانوں کے حوصلے بھی بلند ہوگئے۔
ویرووال مشن
)خان عبدالمجید خاں صاحب آف ویرووال کے قلم سے ویرووال مشن سے متعلق ایک غیر مطبوعہ یادداشت مورخہ ۵۔ ستمبر ۱۹۶۶ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
۶۶/۹/۵ تحریر کنندہ خاکسار خان عبدالمجید خان آف ویرووال ایک دوست مہر اللہ دتہ صاحب۱۴۲ نے بیعت کی اور مولویوں نے بہت بڑی احرار کانفرنس منعقد کرکے` جس کی صدارت مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی اور دائود غزنوی صاحب نے کی اور بائیکاٹ کرنے کی تلقین کی۔ اس کے بعد جملہ حاضرین نے جو ویرووال کی تاریخ میں بلحاظ تعداد کے سب سے بڑا اجتماع تھا ہاتھ اٹھا کر ہمارے بائیکاٹ کا حلفی وعدہ کیا۔ چند روز تک یہ حالت رہی کہ بازاروں اور گلیوں میں کوئی ہم سے سلام و علیکم اعلانیہ یعنی ایک دوسرے کے سامنے نہیں کرتا تھا۔ اور اگر کوئی تعلق والا ملتا تو آگے پیچھے دیکھ لیتا کہ کوئی اسے دیکھتا تو نہیں۔ یہ حالت چند روز رہی۔ ہمارے ایک body]PERMANENT ga[t واقف زندگی شیخ عابد علی صاحب نے جو خود بھی کبڈی کے پلیئر تھے ویرووال کے چند نوجوان لیڈروں کو مل کر کبڈی کا میچ جماعت احمدیہ کے ساتھ مقرر کرلیا۔ انہوں نے دور دراز سے تمام ضلع کے بہترین کھلاڑی جمع کر لئے اور ہمارے ہاں قادیان کے اس زمانہ کے مشہور کھلاڑی خواجہ محمد امین صاحب۱۴۳ اور سید احمد صاحب۱۴۴ پسر حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب۔ چند دیگر کھلاڑیوں کو قادیان سے لے آئے۔ بہت بڑا مجمع ہو گیا اور مقابلہ شروع ہوا تو سید احمد صاحب نے اپنی پھرتی اور چابکدستی سے بہت سے غالباً ہندوئوں کے کھلاڑی مار گرائے اور ان کے سب سے بڑے پہلوان کھلاڑی کو خواجہ محمد امین صاحب نے قینچی مار کر گرا لیا۔ مخالفین کی شکست واضح ہو گئی اور اکابرین شہر نے بظاہر فساد کے خوف سے کھیل بند کرا دیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے واضح فتح عطاء کی اور مولویوں کی اس تدبیر کو بھی بالکل باطل کر دیا کہ ان احمدیوں سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ کبڈی کے کھیل نے بائیکاٹ بھی توڑ دیا اور انہیں واضح شکست بھی ہوگئی۔ فالحمد علی ذالک۔ یہ واقعہ اس غرض سے درج کر دیا ہے کہ شاید کسی علاقہ میں اس تدبیر سے مخالفین کا سحر توڑنے میں کسی وقت رہنمائی مل سکے۔
جس قدر دوست وہاں بطور واقف زندگی کے گئے تھے روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بہت سی منفرد خوبیوں کے مالک ہوتے تھے۔ کوئی فروتنی اور انکسار میں یکتا ہوتا اور کوئی تبلیغ کے وقت مخالفین کو بدزبانی پر تحمل و بردباری دکھانے میں بے مثال ہوتا اور کوئی تہجد کی ادائیگی اور دعا میں کوئی قرآن شریف کی باقاعدہ تلاوت اور درس و تدریس میں رفقائے حضرت مسیح موعود میں حضرت منشی سکندر علی صاحب` حضرت حکیم قطب الدین صاحب` حضرت ماسٹر غلام محمد صاحب اور حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور حضرت حکیم قطب الدین صاحب مفت علاج کرتے اور ادویہ مفت تقسیم کرتے تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر اعظم علی صاحب آف گوجرانوالہ )بعدہ ساکن گجرات( بھی ادویہ مفت تقسیم کرتے۔ ٹیکے مفت لگاتے اور معمولی اور ادنیٰ لوگوں کو حقہ خود بھر کر دیتے اور پلاتے تھے۔ بابو غلام محمد صاحب کلرک ڈاک خانہ بڑے تحمل اور بردباری سے مخالفوں کو مسکت جواب دیتے۔ بازاروں میں جہلاء انہیں تنگ کرتے` گالیاں دیتے مگر وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت نبی اکرم~صل۱~ کے اخلاق عالیہ کے ذکر میں ایک جگہ یہ شعر درج فرمایا ہے۔ ~}~
مے ریختند در رہ تو خارو بایں ہمہ
چوں گل شگفتہ بود رخ جاں فزائے تو
حضور~صل۱~ کے عالی مرتبت غلام کے غلاموں کی بھی ان حالات میں یہی روش تھی۔
ڈاکٹر محمد انور صاحب آف جڑانوالہ ایک دفعہ دوپہر کے وقت پیدل نو دس میل ایک نوجوان کو لے کر قادیان کو روانہ ہو گئے تھے جو یہ کہتا تھا کہ میں اسی وقت گھر والوں سے چھپ کرہی جاسکتا ہوں۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب چیف میڈیکل آفیسر ریلوے اور ڈاکٹر عبیداللہ صاحب آف لاہور ہومیوپیتھی اور مرزا غلام رسول صاحب ریڈر چیف کمشنر پشاور ایک تنگ و تاریک کچے مکان میں پڑے اور تبلیغ کی غرض سے اپنے وقف کا پورا عرصہ مجاہدہ مشقت سے گزار کر واپس تشریف لے گئے۔ ع
ہر گل را رنگ و بوئے دیگر است
سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو پوتے حضرت محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور جناب مرزا منیر احمد صاحب خلف الرشید حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی اپنی نوعمری اور طالب علمی کے ¶زمانہ میں وہاں تشریف لے گئے اور فتح آباد کے مشہور قصبہ میں قاضی محمد حنیف صاحب ضلعدار نہر کے ہاں فروکش ہوکر وقف کے ایام کی مشقت برداشت فرماتے رہے اور ایک رات خاکسار کے ہاں ویرووال ٹھہر کر غریب خانہ کو شرف برکت و عزت بخشا۔ مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب حال امیر شیخوپورہ اور محترم پیر صلاح الدین صاحب حال ڈپٹی کمشنر بھی وہاں غالباً ایک ایک ماہ وقف کرکے تبلیغ کے لئے نوعمری اور طالب علمی کے زمانہ میں تشریف لے گئے تھے۔ بدر سلطان صاحب حال انسپکٹر خدام الاحمدیہ` شیخ عابد علی صاحب` مولوی روشن دین صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم پسر حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب بطور مستقل مبلغ اور واقف زندگی کے متعین ہوئے تھے۔ اور باوجود شدید بائیکاٹ گالی گلوچ اور مارپیٹ کرنے کے نہایت صبر اور استقلال سے کام کرتے رہتے تھے۔ اور مولوی روشن دین صاحب کو دو تین دفعہ مارا گیا۔ ویرووال راجپوتاں کے ایک بدکردار نے انہیں شدید طور پر مارپیٹ کی۔ دو تین سال مار پیٹ کرنے کے بعد جب لوگ تھک گئے اور ہمارے مبلغین مجاہدین کے استقلال` صبر اور خوش خلقی نے انہیں گرویدہ کرنا شروع کردیا۔ اسی زمانہ میں ہم مکرم و محترم مولوی روشن دین صاحب سے الگ مذاقاً پوچھا کرتے تھے کہ مولوی صاحب اب آپ کو کیوں مار نہیں پڑتی تو آپ نے فرمایا کہ اب میں مارنے والے کی آنکھ پہچان لیتا ہوں۔ حضرت محترم جناب قاضی محمد عبداللہ صاحب جو ۳۱۳ میں سے ہیں بھی بطور امیر اسی مرکز میں تشریف لے گئے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ مہر اللہ دتہ کے متعلق فرمایا کہ انہیں حضرت نبی کریم~صل۱~سے محبت ہے اس لئے امید ہے کہ وہ احمدی ہو جائیں گے۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد وہ احمدی ہوگئے اور اب ان کے بیوی بچے اور بہن بھائی سب احمدی ہیں بفضلہ تعالیٰ۔ اور حضرت قاضی صاحب محترم کا اندازہ اور قیاس بالکل درست ثابت ہوا۔
ایک سب انسپکٹر پولیس مخالفین کی خفیہ حمایت کرتے رہتے تھے اور جب بھی ہمارا جلسہ ہوتا خواہ سیرۃ النبی~صل۱~ یا پیشوایان مذاہب کا وہ بالعموم منشی عبداللہ معمار صاحب کو امرتسر سے بلاکر مقابل پر جلسہ کرا دیتے اور ہمارے جلسہ میں حاضرین کی کمی لازماً ہو جاتی اور ہندو خصوصاً فساد وغیرہ سے ڈر کر چلے جاتے۔ ایک دفعہ ہم نے احتیاطاً اپنے جلسہ کی حفاظت وغیرہ کے لئے ایس۔ پی پولیس کو لکھ کر اپنے خرچ پر پولیس گارڈ منگوالی اور جلسہ کامیابی سے ہوتا رہا۔ یہ سب انسپکٹر پولیس تنزل ہوکر کچھ عرصہ کے بعد اے آیس آئی ہو گیا اور پھر جوانی میں ہی بیمار ہو کر ہسپتال میں مر گیا۔ اس کی عادت یہ تھی کہ ہمارا جلسہ خراب کر دیتا اور یونہی ملاقات اور دلجوئی کے طور پر اپنی بے تکلفی وغیرہ کے اظہار کے لئے خاکسار کے ہاں دوسرے تیسرے روز ملنے کے لئے آجاتا۔ ایک دفعہ سیرت پیشوایان مذاہب کا جلسہ اسی طرح خراب کرا دیا۔ ہندوئوں نے جب ہمارے مقابل پر جلسہ ہوتا دیکھا اٹھ کر چلے گئے۔ حضرت مولوی عبدالغفور صاحب نے بڑی پرجوش تقریر فرمائی اور سب انسپکٹر مذکور پر نام لئے بغیر غیض و غضب کا اظہار فرمایا۔ حضرت مولوی کا دل کیا دکھا کہ ان کی آواز نے عرش الٰہی کو ہلا دیا اور جلد ہی سب انسپکٹر مذکور تنزل ہو کر امرتسر لائن حاضر ہو گیا اور پھر جلد بیمار ہو کر عنفوان جوانی میں ہی ہسپتال میں راہی ملک عدم ہو گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ پیشوایان مذاہب کا جلسہ تھا۔ میدان جلسہ گاہ کے دوسرے سرے پر غیر احمدیوں نے منشی عبداللہ معمار صاحب کو بلا کر جلسہ شروع کرا دیا۔ ہندو فساد کے احتمال سے ڈر کر چلے گئے اور ہمارے حاضرین بہت تھوڑے رہ گئے۔ حضرت مولوی عبدالغفور صاحب مبلغ سلسلہ نے پرجوش تقریر کی جس میں اس ¶تھانیدار کے خلاف اشارۃ غیض و غضب کا اظہار بطور انذار تھا۔ اس کے بعد جلد ہی مذکور تھانیدار ڈی گریڈ ہو کر لائن حاضر امرتسر ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ یہ میدان بہت وسیع قصبے کے ایک طرف تھانہ کے سامنے تھا جس کے ایک طرف تھا نہ` دوسری طرف تھانیدار کا مکان اور جنوباً مسجد اہل حدیث تھی اور شمال کی طرف ایک تکیہ کا وسیع احاطہ تھا جہاں پہلے غیر احمدی جلسے کیا کرتے تھے اور پھر جب ہمارا جلسہ ہوا ہم نے جلسے کرنے شروع کر دیئے تھے۔ اسی میدان میں رات کے وقت اور دن کے وقت ہمارا سب سے بڑا مناظرہ ہوا تھا جس میں عبداللہ معمار ایسا ذلیل ہوا تھا کہ سال ڈیڑھ سال ویرووال میں نہیں آیا تھا۔ بولتے بولتے اس کا گلا بیٹھ گیا اور عبدالرحیم اشرف صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب )مقامی مدرس اہلحدیث( اس کی مدد کے لئے بعض دفعہ تقریر کرتے رہے۔
حضرت مصلح موعود~رح~ کے اس علاقہ میں مرکز قائم کرنے سے سارے علاقہ میں مذہبی زندگی کی رو چل گئی تھی۔ مسلمان خواہ ہمارے خلاف جمع ہوتے تھے لیکن ان میں اجتماعی زندگی` جلسے کرنے اور مذہبی گفتگو صبح شام کرنے کی رو چل گئی اور ان کی مردہ زندگی میں تبدیلی ہوگئی۔ آریوں نے ایک دفعہ شدھی شروع کی تھی اور ہمارے مبلغ حضرت مولوی محمد حسین صاحب کی ایک ہی تقریر سے جو ان کے مناظر دھرم بھکشو کے اعتراضات کے جواب میں کی گی تھی` شدھی کا تانا بانا ٹوٹ گیا اور مسلمان اتنے خوش تھے کہ ایک مخالف چار روپے ان کے کرائے کے طور پر دینے کے لئے آرہا تھا۔ جس کا خاکسار نے اس وقت کی مصلحت سے انکار کرکے واپس کرنا درست سمجھا۔ مگر اب یہ خیال آتا ہے کہ اگر قبول کرلیتا تو شاید اسی کی برکت سے اسے احمدیت نصیب ہو جاتی اور بعدہ مخالفت کی توفیق نہ ملتی۔ یہ عبدالرحیم اشرف صاحب ایڈیٹر المنبر کے تایا شیخ دین محمد تھے۔ انہی ایام میں مکتی فوج نے عیسائیوں کا ایک مرکز ہمارے علاقہ کے قریب بمقام رعیہ و بیاس قائم کیا اور ان کے ہیڈ ویرووال بھی آنے لگ گئے۔ مولوی عبدالرحیم اشرف صاحب حال ایڈیٹر المنبر کو خود تو جرات مقابلہ نہ ہوئی۔ ہمیں آگے کر دیا اور ہمارے ساتھ مناظرہ کرا دیا چنانچہ ہمارے مناظر حضرت ڈاکٹر عبدالرحمان صاحب آف موگا اور مکرم مولانا عبدالرحمن مبشر صاحب سے عیسائیوں کے اس وقت کے ایک بڑے مناظر سے دو مناظرے ہوئے اور انہیں ایسی شکست ہوئی کہ مکتی فوج نے یہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔ ہیڈ کوارٹر بھی چھوڑ دیا اور پھر کبھی نہ آئے لیکن یہ ناشکرے مسلمان لیڈر اور علماء مخالفت سے باز نہ آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اسلام اور علم کلام کی برکت کا کبھی زبانی بھی اعتراف نہ کیا۔
ہمارے مبلغین کرام جو ویرووال تشریف لے گئے ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں۔ حضرت مولانا ابراہیم صاحب بقاپوری` ملک مولوی محمد عبداللہ صاحب حال پروفیسر عربی و دینیات تعلیم الاسلام کالج` مولوی محمد شریف صاحب مبلغ۔ یہ تینوں بزرگ مرکز تحریک جدید قائم ہونے سے پہلے ایک دفعہ تشریف لے گئے تھے اور ویرووال میں سب سے پہلے غالباً انہی کی تقریریں ہوئی تھیں۔ حضرت مولوی محمد حسین صاحب مرکز قائم ہونے سے پہلے بھی اور بعدہ بیسیوں دفعہ مولوی عبدالغفور صاحب آف ہرسیاں بیسیوں دفعہ` مولانا محمد سلیم صاحب` مولوی دل محمد صاحب` مولوی غلام احمد صاحب فرخ` مولانا عبدالرحمن صاحب مبشر` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی` مولوی غلام مصطفیٰ صاحب )برادر مولوی غلام احمد صاحب آف بدوملہی( مولانا محمد یار صاحب عارف )سابق مبلغ انگلینڈ( حضرت مولانا واحد حسین صاحب گیانی۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال۔ مولانا عبدالرحیم صاحب نیر۔ حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری۔ سید مولوی احمد علی شاہ صاحب مربی لائل پور وغیرہ۔ ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب میجک لینٹرن پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب دیالگڑھی` جناب شیخ ناصر احمد صاحب )مبلغ سوئٹزرلینڈ( علاوہ ازیں ان علماء کے ساتھ بعض خاص دوست اور سلسلہ کے مخلصین فدائی جلسوں میں نظمیں پڑھتے یا شمولیت و امداد جلسہ کے لئے قادیان اور امرتسر سے تشریف لاتے رہے۔ مثلاً قاضی محمد منیر صاحب امیر امرتسر اور سید بہاول شاہ صاحب اکثر جلسوں میں شریک ہوتے` صدارت کرتے تھے مباہلہ میں شمولیت کے لئے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ حال مبلغ سوئٹزر لینڈ مع اپنی بیگم صاحبہ او مکرم مرزا برکت علی صاحب سیرت النبیﷺ~ کے جلسہ میں تقریر کے لئے ایک دفعہ تشریف لائے۔
اسماء امیر المجاہدین صاحبان حلقہ ویرووال
)۳ ماہ( چوہدری محمد لطیف صاحب سب جج۔ )۳ ماہ( ڈاکٹر اعظم علی خان صاحب )گجرات۔ گوجرانوالہ( انکسار اور فروتنی سے مخالفوں کا دل موہ لیتے تھے۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب )۳۱۳( تقویٰ اور نیکی کا خاص اثر تھا۔ )۳ ماہ( خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب لاہور۔ تمام دن کام میں گزارتے تھے۔ اور روزانہ ذیلی مراکز یعنی سب سینٹروں کا دورہ کرتے تھے ۴/۳ ماہ( ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب۔ چوہدری غلام محمد صاحب ساکن کڑیال ضلع امرتسر۔ خاکسار عبدالمجید خاں چھ سات سال امیر المجاہدین پارٹیشن تک بفضلہ رہا تھا۔ ابتداً بعض وقت ۱۶/۱۵ مجاہد بیک وقت بھی اس حلقے میں جاتے رہتے تھے۔
ماتحت مراکز یہ تھے۔ خواص پور۔ فتح آباد۔ میاں ونڈ گوئند وال۔ جلال آباد<۔
)خاکسار عبدالمجید خاں سابق امیر المجاہدین حلقہ ویرووال(
دارالصناعت
‏]0 [rtfاحمدی نوجوانوں میں صنعت و حرفت کا شوق پیدا کرنے کے لئے )محلہ دارالبرکات قادیان میں( دارالصناعت۱۴۵ قائم کیا گیا جس کا افتتاح حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۲۔ مارچ ۱۹۳۵ء کو فرمایا۔۱۴۶ اس موقعہ پر حضورؓ نے رندہ لے کر خود اپنے دست مبارک سے لکڑی صاف کی۔۱۴۷ اور آری سے اس کے دو ٹکڑے کرکے عملاً بتا دیا کہ اپنے ہاتھوں سے کوئی کام کرنا ذلت نہیں بلکہ عزت کا موجب ہے۔
دارالصناعت میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اور رہائش کا انتظام تحریک جدید کے ذمہ تھا۔ ابتدائی مسائل اور عقائد کی زبانی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ اس کے تین شعبے )نجاری` آہنگری اور چرمی(۱۴۸ تھے۔ حضرت خلیفہ المسیح ثانیؓ نے بابو اکبر علی صاحب کو )جو محکمہ ریلوے انسپکٹر آف ورکس کی اسامی سے ریٹائر ہو کر آے تھے( آنریری طور پر صنعتی کاموں کا نگران مقرر فرمایا۔۱۴۹ یہ صنعتی ادارہ ۱۹۴۷ء تک بڑی کامیابی سے چلتا رہا۔
بورڈنگ تحریک جدید
وسط ۱۹۳۵ء میں بورڈنگ تحریک جدید کا قیام ہوا۔ اس بورڈنگ کا بنیادی مقصد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ میں یہ تھا۔
>اسلامی اخلاق کی تفاصیل بچوں کو سمجھائی جائیں مثلاً سچ کی تعریف۔ سچ بولنے میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں اور پھر شریعت نے ان کے کیا کیا علاج رکھے ہیں۔ یہ باتیں سکھائی جانی چاہئیں<۔۱۵۰
حضور نے بورڈنگ کے قیام سے قبل مشاورت ۱۹۳۵ء میں اس بورڈنگ کے زیر غور اصولوں کی نسبت خاص طور پر وضاحت فرمائی کہ۔
>بعض احباب کو یہ غلطی لگی ہے کہ گویا تحریک جدید کے ماتحت کوئی علیحدہ سکول قائم کیا جارہا ہے۔ یہ نہیں بلکہ بورڈنگ قائم کیا گیا ہے۔ بعض نے اپنے بچوں کے متعلق یہ کہا ہے کہ انہیں قادیان میں تعلیم دلائیں خواہ ہائی سکول میں داخل کر دیں خواہ مدرسہ احمدیہ میں۔ مگر تحریک جدید کے ماتحت جداگانہ انتظام ہے وہ سکول نہیں بلکہ بورڈنگ ہے جو خاص طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ لڑکا چاہے مدرسہ احمدیہ میں پڑھے چاہے ہائی سکول میں پڑھے۔ مگر فی الحال ہائی سکول میں پڑھنے والوں کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے۔ اس انتظام کے ماتحت اپنے لڑکوں کو دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر میں یہ تحریر دیں کہ ہم نے اپنے فلاں بچہ کو اس تحریک کے ماتحت آپ کے سپرد کیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بچہ کے متعلق تحریک جدید والوں کو کلی اختیارات دیئے جائیں یعنی تربیت کے متعلق بچہ کے والد یا سرپرست کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ان سب بچوں کو ایک ہی قسم کا کھانا ملے گا سوائے اس کے کہ کوئی لڑکا ایسے علاقہ کا ہو جہاں روٹی کی بجائے چاول کھاتے ہیں اس کو چاول اور سالن دیں گے لیکن باقی سب کے لئے ایک ہی کھانا ہو گا اور انہیں ایک ہی رنگ میں رکھا جائے گا۔ کوئی نمایاں امتیاز ان میں نہ ہونے دیا جائے گا تاکہ غریب` امیر اور چھوٹے اور بڑے کا امتیاز انہیں محسوس نہ ہو۔ پس ان کا لباس بھی اور کھانا بھی قریب قریب ایک جیسا ہوگا۔ پھر ان کی دینی تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا۔ ہاں سکول میں پاس ہونے کے لئے سکول کی تعلیم بھی دلائی جائے گی۔ مگر یہ تعلیم دلانا مقصد نہ ہوگا بلکہ اصل مقصد دینی تعلیم ہوگی۔ بڑی عمر کے لڑکوں کو تہجد بھی پڑھائی جائے گی اور کسی ماں باپ کی شکایت نہ سنی جائے گی۔ یہ تو ہوسکے گا کہ لڑکے کو اس بورڈنگ سے خارج کر دیا جائے مگر یہ نہ سنا جائے گا کہ لڑکے کو یہ تکلیف ہے۔ اس کا یوں ازالہ کرنا چاہئے یا اس کے لئے یہ انتظام کیا جائے۔ اس بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ سے ہمارا عہد ہے کہ وہ ان بچوں میں باپ کی طرح رہے گا اور اگر لڑکوں میں سے کوئی ناروا حرکت کرے گا تو اس کی سزا خود لڑکے ہی تجویز کریں گے۔ مثلاً یہ کہ فلاں نے جھوٹ بولا اسے یہ سزا ملنی چاہئے۔
اس قسم کے اصول ہیں جو اس بورڈنگ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور ابھی میں غور کررہا ہوں۔ پس جو دوست اس تحریک کے ماتحت اپنے بچوں کو داخل کرنا چاہیں وہ تحریر دے جائیں۔ صرف یہاں کے کسی مدرسہ میں داخل کرا دینا کافی نہ ہوگا۔ اسی طرح انہیں بورڈنگ یا مدرسہ کے متعلق کوئی شکایت لکھنے کا حق نہ ہوگا۔ انہیں جو کچھ لکھنا ہو انچارج تحریک کو لکھیں۔ وہ اگر مناسب سمجھے گا تو دخل دے گا<۔۱۵۱
بورڈنگ کے قیام پر حضور نے اس کی نسبت بعض اہم ہدایات دیں مثلاً۔:
۱۔
طلباء کے جسمانی قویٰ اور حواس خمسہ کو ترقی دینے والی کھیلیں رائج کی جائیں۔
۲۔
قصور وار طالب علم کی سزا لڑکے ہی تجویز کریں۔
۳۔
‏]dni [tag کھانے کا انتظام بھی لڑکوں کے ہاتھ میں دیا جائے۔
۴۔
طلباء کی اخلاقی تربیت کی طرف توجہ دی جائے۔ مثلاً انہیں بتایا جائے کہ بدظنی اور نگرانی میں کیا فرق ہے؟ اور اس کے نہ جاننے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔
۵۔
لڑکوں کو اسلامی تاریخ سے آگاہ کیا جائے۔ ایسے چارٹ بنائے جائیں جن میں دکھایا جائے کہ پہلی صدی میں کہاں کہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ دوسری میں کہاں کہاں۔ تیسری صدی میں اسے کس قدر وسعت حاصل ہوئی حتیٰ کہ چودھویں صدی تک ساری کیفیت دکھائی جائے۔ اس طرح ہر طالب علم کے سینے میں ایک ایسا زخم لگے گا جو اسلام کی فتح سے ہی درست ہوگا۔
۶۔
یہ بھی ہدایت دی کہ >طلباء کے ہر کمرہ میں اس قسم کے نقشے ہوں جن سے ہمارے لڑکے یہ سمجھ سکیں کہ مسلمان پہلے کیا تھے اور آج کیا ہیں۔ جب تک ہم اپنے بچوں کے سینوں میں ایک آگ نہ بھر دیں گے اور جب تک ان کے دل ایسے زخمی نہ ہو جائیں گے جو رستے رہیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اسلام کی ترقی یہ چاہتی ہے کہ ایسی تاثیر پیدا ہو جو پرانی یاد کو تازہ رکھے اور پل بھر چین نہ لینے دے جب تک یہ نہیں ہوتا ہماری جدوجہد سخت کمزور رہے گی اور زیادہ شاندار نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔ یہ چیزیں ہیں جو تحریک جدید کے مرکز اور بورڈنگ میں کام کرنے والوں کو مدنظر رکھنی چاہئیں<۔۱۵۲
مولوی عبدالرحمن صاحب انور کا بیان ہے کہ حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے بورڈنگ کے افسروں کو یہ ہدایت بھی تھی کہ وہ بچوں کی نسبت یہ ریکارڈ رکھیں کہ ان کی طبیعت کا رجحان کن امور کی طرف ہے۔ تا جب وہ بورڈنگ سے فارغ ہوں تو ان کے والدین کو رپورٹ کی جائے کہ ان کے رجحان طبع کی وجہ سے فلاں لائن کا انتخاب کرنا زیادہ مفید و مناسب ہوگا۔
شروع میں ۳۶۔ ۱۵۳۳۷ طلبہ نے بورڈنگ میں داخلہ لیا۔ بچوں کی دینی تعلیم کے لئے ایک مولوی فاضل استاد۱۵۴ بطور ٹیوٹر مقرر کئے گئے۔ طلبہ اپنے علمی فرائض کے ساتھ باقاعدہ نماز باجماعت بلکہ تہجد بھی پڑھتے تھے۔ کھیتی باڑی کا کام سیکھنا بھی ان کے لئے لازمی تھا۔۱۵۵
مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء کے معاًبعد اس بورڈنگ کا قیام عمل میں آگیا اور حضرت مصلح موعود~رح~ نے حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو اس کا سپرنٹنڈنٹ مقرر فرمایا۔ حضرت صوفی صاحب ۲۸۔ جون ۱۹۳۵ء کو بی ٹی کرنے کے لئے علی گڑھ تشریف لے گئے تو قریباً دو سال ملک سعید احمد صاحب بی اے پسر حضرت ملک مولا بخش صاحب کو یہ خدمت سپرد ہوئی۔ ازاں بعد حضرت صوفی صاحب ہی ۱۹۴۶ء تک یہ خدمت سرانجام دیتے رہے۔۱۵۶`۱۵۷ بورڈنگ میں وقتاً فوقتاً مولوی عبدالخالق صاحب۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے` مولوی محمد اشرف صاحب` چودھری فضل احمد صاحب` چودھری فضل الرحمن صاحب` چودھری عبدالواحد صاحب` مولوی امام الدین صاحب ملتانی` مولوی محمد احمد صاحب جلیل` چودھری محمد اسمعیل صاحب خالد` ملک محمد شریف صاحب اور چودھری عصمت علی صاحب ٹیوٹر کے فرائض بجا لاتے رہے۔ اس زمانہ میں چودھری فضل احمد صاحب اور منشی فضل الٰہی صاحب خادم طفلاں مقرر تھے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سال میں کئی بار خود بورڈنگ میں تشریف لے جاتے اور طلباء سے گفتگو کرکے ان کے حالات دریافت فرماتے تھے۔۱۵۸ ایک دفعہ حضور ساتھ مٹھائی بھی لے گئے۔ بچوں کا ہجوم ہوگیا اور کارکنوں نے بچوں کو قطار میں کھڑا کرنا چاہا لیکن حضور نے فرمایا۔ بچوں کو اسی طرح آنے دو جس طرح وہ گھر میں اپنے والدین کے پاس آتے ہیں۔۱۵۹
یہ بورڈنگ سالہا سال تک تحریک جدید کی نگرانی میں جاری رہا۔ ۱۹۴۶ء سے اس کا انتظام نظارت تعلیم و تربیت صدر انجمن احمدیہ قادیان کے سپرد کر دیا گیا۔۱۶۰ اس بورڈنگ کی نسبت حضور کے بڑے عزائم تھے۔۱۶۱ چنانچہ حضور نے ۳۔ اگست ۱۹۳۸ء کو تقریر فرمائی کہ۔
>بدر کے موقع پر جب کفار نے اسلامی لشکر کا جائزہ لینے کے لئے آدمی بھیجے تو انہوں نے آکر کہا کہ سواریوں پر ہمیں آدمی نظر نہیں آتے بلکہ موتیں نظر آتی ہیں ان سے نہیں لڑنا چاہئے ورنہ ہماری خیر نہیں ہے جب نوجوانوں میں ہمیں یہ روح نظر آجائے گی اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اسلام کے لئے قربان ہونے کے منتظر بیٹھے ہیں اور پرتولے ہوئے اس بات کے منتظر ہیں کہ کفر کی چڑیا آے اور وہ اس پر جھپٹ پڑیں۔ اس دن ہم سمجھیں گے کہ تحریک جدید کا بورڈنگ بنانے کا جو مقصد تھا وہ حاصل ہوگیا<۔۱۶۲
ویدک یونانی دواخانہ دہلی
تحریک جدید کے قومی سرمایہ سے )زینت محل لال کنواں( دہلی میں >ویدک یونانی دواخانہ< قائم کیا گیا۔ دواخانہ جاری کرنے سے پہلے حضرت امیر المومنینؓ نے چند واقفین کو یونانی طب کی تعلیم دلائی اور خود بھی ویدک اور یونانی ادویہ سے متعلق قیمتی مشور دیئے۔۱۶۳
حکیم عبدالمجید صاحب ہلالپوری` حکیم محمد اسمعیل صاحب فاضل اس میں کام کرتے رہے۔ دواخانہ کے پہلے ناظم قریشی مختار احمد صاحب دہلوی اور دوسرے مولوی نور الدین صاحب منیر تھے۔ یہ دواخانہ ۱۹۳۹ء تک جاری رہا۔
‏]bus [tagقرآنی مجید کا انگریزی ترجمہ
تحریک جدید کی طرف سے ایک مناسب رقم انگریزی ترجمتہ القرآن کے لئے مخصوص کر دی گئی۔۱۶۴ اور اس کی ترتیب و تدوین کے لئے ۲۶۔ فروری ۱۹۳۶ء کو حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ انگلستان بھجوائے گئے۔ آپ ۹۔ نومبر ۱۹۳۸ء کو واپس قادیان تشریف لائے۔
۲۵ لاکھ کا ریزرو فنڈ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ۔
>میں نے آج سے کچھ سال پہلے ۲۵ لاکھ ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی۔ مگر وہ تو ایسا خواب رہا جو تشنہ تعبیر ہی رہا مگر اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے ذریعہ اب پھر ایسے ریزرو فنڈ کے جمع کرنے کا موقع بہم پہنچا دیا ہے اور ایسی جائدادوں پر یہ روپیہ لگایا جاچکا اور لگایا جارہا ہے جن کی مستقل آمد ۲۵۔ ۲۰ ہزار روپیہ سالانہ ہوسکتی ہے تا تبلیغ کے کام کو بجٹ کی کمی کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے<۔۱۶۵
یہ جائدادیں سندھ میں خرید کی گئیں جو حضور کا شاندار کارنامہ ہے۔ جون ۱۹۳۷ء سے محمد آباد اسٹیٹ میں تحریک جدید کی طرف سے باقاعدہ مرکزی دفتر کھول دیا گیا۔۱۶۶
پہلا باب )فصل ہفتم(
بیرونی ممالک میں تحریک جدید کی ابتدائی سرگرمیاں
تحریک جدید کا ایک اہم مقصد
تحریک جدید کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ احمدی تمام دنیا میں پھیل جائیں اور قریب سے قریب زمانہ میں دور سے دور علاقوں میں جاکر مراکز احمدیت قائم کر دیں۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے انہی دنوں میں ارشاد فرمایا۔
‏]ybod >[tagچونکہ نشر و اشاعت کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ مقدر ہو چکا ہے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت پھیلائے۔ اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بتا دیتا کہ احمدیت کی اشاعت کے لئے فلاں ملک موزوں ہے تو ہم سارے وہاں جاکر اکٹھے ہو جاتے اور باقی ممالک میں احمدیت پھیلانے سے غافل ہو جاتے۔ اس لئے آج خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں ہم جائیں اور دنیا میں گھوم کر وہ ملک تلاش کریں جو احمدیت کے لئے مثیل مدینہ کا کام دے اس مقصد کے ماتحت جب ہم دنیا کے تمام ممالک میں پھریں گے تو ہر ملک میں احمدیت کا بیج بوتے جائیں گے اس طرح خدا تعالیٰ کا یہ منشاء بھی پورا ہو جائے گا کہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت پھیلے اور آخر ہمیں وہ مقام بھی نظر آجائے گا جسے ہم تلاش کرنے کے لئے نکلے ہوں گے<۔۱۶۷
نیز ارشاد فرمایا۔
>روحانی جماعتوں کو ہمیشہ مختلف ملکوں میں اپنی تبلیغ کو پھیلا دینا چاہئے تاکہ اگر ایک جگہ مخالفت ہو۔ تو دوسری جگہ اس کمی کو پورا کیا جارہا ہو۔ جس طرح وہ آدمی زیادہ فائدہ میں رہتا ہے جس کے کئی ملکوں میں کھیت ہوں تااگر ایک ملک میں ایک کھیت کو نقصان پہنچے تو دوسرے ملکوں کے کھیت اس کی تلافی کردیں اور اس کے ضرر کو مٹا دیں۔ اسی طرح وہی دینی جماعتیں فائدہ میں رہتی ہیں جو مختلف ممالک اور مختلف جگہوں میں پھیلی ہوئی ہوں کیونکہ انہیں کبھی کچلا نہیں جاسکتا۔ پس اگر ہماری جماعت کے لوگ ساری دنیا میں پھیل جائیں گے تو وہ خود بھی ترقیات حاصل کریں گے اور ان کی ترقیات سلسلہ پر بھی اثر انداز ہوں گی اور جس جماعت کی آواز ساری دنیا سے اٹھ سکتی ہو اس کی آواز سے لوگ ڈرا کرتے ہیں اور جس جماعت کے ہمدرد ساری دنیا میں موجود ہوں اس پر حملہ کرنے کی جرات آسانی سے نہیں کی جاسکتی۔ پس مت سمجھو کہ موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے لئے فضا صاف ہوگئی۔ یہ خاموشی نہیں بلکہ آثار ایسے ہیں کہ پھر کئی شورشیں پیدا ہونے والی ہیں۔ اس لئے موجودہ خاموشی کے یہ معنے ہرگز مت سمجھو کہ تمہارا کام ختم ہوگیا۔ یہ فتنہ تو تمہیں بیدار کرنے کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔ اور اگر تم اب پھر سو گئے تو یاد رکھو کہ اگلی سزا پہلے سے بہت زیادہ سخت ہوگی۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پھیلائے۔ اگر تم دنیا میں نہ پھیلے اور سو گئے تو وہ تمہیں گھسیٹ کر جگائے گا اور ہر دفعہ کا گھسیٹنا پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ پس پھیل جائو دنیا میں` پھیل جائو مشرق میں` پھیل جائو مغرب میں` پھیل جائو شمال میں` پھیل جائو جنوب میں` پھیل جائو یورپ میں` پھیل جائو امریکہ میں` پھیل جائو افریقہ میں` پھیل جائو جزائر میں` پھیل جائو چین میں` پھیل جائو دنیا کے کونہ کونہ میں` یہاں تک کہ دنیا کا کوئی گوشہ` دنیا کا کوئی ملک` دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہ ہو جہاں تم نہ ہو۔ پس پھیل جائو جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم پھیلے۔ پھیل جائو جیسے قرون اولیٰ کے مسلمان پھیلے۔ تم جہاں جہاں جائو اپنی عزت کے ساتھ سلسلہ کی عزت قائم کرو۔ جہاں پھرو اپنی ترقی کے ساتھ سلسلہ کی ترقی کے موجب بنو۔ پس قریب سے قریب زمانہ میں دور سے دور علاقوں میں جاکر مراکز احمدیت قائم کرنا تحریک جدید کا ایک مقصد ہے<۔۱۶۸
حضور انور نے تحریک جدید کے اس بنیادی مقصد کے پیش نظر وقف کی درخواستیں پیش کرنے والے خوش قسمت اصحاب میں سے چند نوجوانوں کو بیرونی ممالک میں بھجوانے کے لئے منتخب فرمایا۔ یہ مجاہدین )جن کو تحریک جدید کا ہرا دل دستہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا( حسب ذیل تھے۔
مولوی غلام حسین صاحب ایاز` صوفی عبدالغفور صاحب` چودھری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی` صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز` حافظ مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری` چودھری حاجی احمد خاں صاحب ایاز` محمد ابراہیم صاحب ناصر` ملک محمد شریف صاحب آف گجرات` مولوی رمضان علی صاحب` مولوی محمد دین صاحب۔
ان نوجوانوں کے انتخاب کے دوران حضرت امیر المومنینؓ` حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ سے بھی کئی دن مشورہ فرماتے رہے۔ اور ریلوے کا تھرڈ کلاس کرایہ` جہاز کا ڈیک کرایہ اور ان کے لئے چھ ماہ کا الائونس منظور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ چھ ماہ کے اندر اندر اپنے اخراجات تجارت یا کسی اور ذریعہ سے خود برداشت کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح واجبی اخراجات پر یہ مجاہدین۱۶۹ تحریک مختلف ممالک کو روانہ ہوگئے۱۷۰ جنہوں نے سنگاپور )ملایا`( ہانگ کانگ )چین`( جاپان` ہنگری` پولینڈ` سپین` اٹلی` جنوبی امریکہ` البانیہ اور یوگوسلاویہ میں نئے مشن قائم کر دیئے اور بعض پہلے مشنوں کے استحکام کا موجب بنے۔
اس انتخاب کے وقت جن امور کا خیال رکھا گیا ان کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں۔
>تحریک جدید کے پہلے مبلغین کے انتخاب کے وقت صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ جرات کے ساتھ کام کرنے کا مادہ ہو۔ لیاقت کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ اس وقت ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو دلیری کے ساتھ آگ میں اپنے آپ کو ڈال دینے والا ہو۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو منتخب کرکے ہم نے بھیج دیا اور وہ مقصد حاصل بھی ہوگیا۔ ان میں سے بعض دینی علوم اور عربی سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھے بلکہ بعض کا تقویٰ کا معیار بھی اتنا بلند نہ تھا۔ مگر اس وقت ہمیں صرف آواز پہنچانی تھی اور دشمن کو یہ بتانا تھا کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں جو اپنا آرام و آسائش` اپنا وطن` عزیز و اقارب` بیوی بچوں` غرضکہ کسی چیز کی پروانہ کرتے ہوئے نکل جائیں گے۔ بھوکے پیاسے رہیں گے اور دین کی خدمت کریں گے ایسی قوم کو جس میں ایسے نوجوان ہوں مار دینا ناممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم نے یہ دکھا دیا۔ بعض نوجوان برائے نام گزارے لے کر اور بعض یونہی باہر چلے گئے۔ اور اس طرح ہمارا خرچ بارہ مشنوں پر قریباً ایک مشن )کے( برابر ہے<۔۱۷۱
پھر فرمایا۔
>جانی قربانی کے سلسلہ میں مبلغین کا ایک جتھا مختلف ممالک میں جاچکا ہے۔ لیکن وہ ایک ایسا جتھا تھا جس کی خاص طور پر تعلیم و تربیت نہیں کی گئی تھی۔ بہرحال اس کے ذریعہ ہمیں غیر ممالک کا اچھا خاصہ تجربہ ہو گیا ہے۔ اس جتھا کے افراد میں بعض کمزوریاں بھی معلوم ہوئی ہیں کیونکہ ان میں اکثر ایسے تھے جو دینی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ اور اگر کسی کو دینی تعلیم تھی تو دنیوی تعلیم کے لحاظ سے وہ کمزور تھا۔ لیکن بہرحال یہ ایک مظاہرہ تھا جماعتی قربانی کا اور یہ ایک مظاہرہ تھا اس بات کا کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی آواز ان کے کانوں میں آئے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اعلاء کلمہ اسلام کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس مظاہرہ کے ذریعہ دنیا کے سامنے ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت شاندار نمونہ پیش کیا ہے<۔۱۷۲
‏tav.8.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
تحریک جدید کے دو مجاہدوں کا قابل رشک مظاہرہ
اس مقام پر ہم تحریک جدید کے دور اول کے دو مجاہدوں یعنی ولیداد خان صاحبؓ اور عدالت خان صاحبؓ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے تبلیغ اسلام کی راہ میں جام شہادت نوش کیا۔
چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
>قریب ترین عرصہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت قابل رشک مظاہرہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ان پچیس تیس نوجوانوں میں سے جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں` ایک نوجوان تھوڑا ہی عرصہ ہوا غالباً پندرہ بیس دن یا مہینہ کی بات ہے کہ محض احمدیت کی تبلیغ کی وجہ سے اپنے علاقہ میں مارے گئے ہیں۔ اس نوجوان کا نام ولی داد خان تھا اور اس نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی تھی۔ افغانستان کے علاقہ میں ہم نے انہیں تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا۔ کچھ طب بھی جانتے تھے اور معمولی امراض کے علاج کے لئے دوائیاں اپنے پاس رکھتے تھے۔ کچھ مدت تک ہم انہیں خرچ بھی دیتے رہے۔ مگر پھر ہم نے انہیں خرچ دینا بند کر دیا تھا۔ ان کی اپنی بھی یہی خواہش تھی اور میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ اس علاقہ میں طب شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ جب لوگ مانوس ہو جائیں تو انہیں تبلیغ احمدیت کی جائے چنانچہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایسے مواقع بہم پہنچا دیئے کہ انہوں نے اس علاقہ میں لوگوں کو تبلیغ کرنی شروع کردی۔ کھلی تبلیغ سے تو ہم نے خود انہیں روکا ہوا تھا کیونکہ یہ وہاں قانون کے خلاف ہے۔ آہستہ آہستہ وہ تبلیغ کیا کرتے اور لوگوں کو نصیحت کیا کرتے کہ جب کبھی پنجاب میں جایا کرو` تو قادیان بھی دیکھ آیا کرو۔ رفتہ رفتہ جب لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ احمدی ہے تو انہوں نے گھر والوں پر زور دینا شروع کر دیا کہ تمہیں اس فتنہ کے انسداد کا کوئی خیال نہیں۔ تمہارے گھر میں کفر پیدا ہو گیا ہے اور تم اس سے غافل ہو۔ چنانچہ انہیں اس قدر برانگیختہ کیا گیا کہ وہ قتل کے درپے ہو گئے۔ مولوی ولیداد خاں چند دن پہلے ہندوستان میں بعض دوائیاں خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے جب دوائیاں خرید کر اپنے علاقہ کی طرف گئے تو انہی کے چچا زاد بھائی اور سالہ نے ان پر گولیوں کے متواتر تین چار فائر کرکے انہیں شہید کردیا۔
اسی طرح ایک اور نوجوان جو اس تحریک کے ماتحت چین میں گئے تھے وہ بھی فوت ہو گئے ہیں اور گو ان کی وفات طبعی طور پر ہوئی مگر ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ وہ موت بھی اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے۔ چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا مجھے ایسے حالات معلوم ہوئے جس سے پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں اس کی موت معمولی موت نہیں بلکہ شہادت کا رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس نوجوان نے بھی ایسا اخلاص دکھایا جو نہایت قابل قدر ہے۔
سب سے پہلے ۱۹۳۴ء میں جب میں نے یہ تحریک کی اور اعلان کیا کہ نوجوانوں کو غیر ممالک میں نکل جانا چاہئے تو یہ نوجوان جو عالباً دینیات کی متفرق کلاس میں پڑھتا تھا اور عدالت خاں اس کا نام تھا تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور کا رہنے والا تھا۔ میری اس تحریک پر بغیر اطلاع دیئے کہیں چلا گیا۔ قادیان کے لوگوں نے خیال کرلیا کہ جس طرح طالب علم بعض دفعہ پڑھائی سے دل برداشتہ ہوکر بھاگ جایا کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی بھاگ گیا ہے۔ مگر دراصل وہ میری اس تحریک پر ہی باہر گیا تھا مگر اس کا اس نے کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چونکہ ہمارے ہاں عام طور پر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ اور دوسرے شہداء کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے اسے یہی خیال آیا کہ میں بھی افغانستان جائوں اور لوگوں کو تبلیغ کروں۔ اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیر ممالک میں جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اسے پاسپورٹ مہیا کرنے کے ذرائع کا علم تھا۔ وہ بغیر پاسپورٹ لئے نکل کھڑا ہوا اور افغانستان کی طرف چل پڑا۔۱۷۳ جب افغانستان میں داخل ہوا تو چونکہ وہ بغیر پاسپورٹ کے تھا اس لئے حکومت نے اسے گرفتار کرلیا اور پوچھا کہ پاسپورٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ پاسپورٹ تو میرے پاس کوئی نہیں۔ انہوں نے اسے قید کردیا۔ مگر جیل خانہ میں بھی اس نے قیدیوں کو تبلیغ کرنی شروع کردی۔ کوئی مہینہ بھر ہی وہاں رہا ہوگا کہ افسروں نے رپورٹ کی کہ اسے رہا کردینا چاہئے ورنہ یہ قیدیوں کو احمدی بنالے گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کو ہندوستان کی سرحد پر لاکر چھوڑ دیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے مجھے اطلاع دی کہ میں آپ کی تحریک پر افغانستان گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ اب آپ بتائیں کہ میں کیا کروں۔ میں نے اسے کہا کہ تم چین میں چلے جائو۔ چنانچہ وہ چین گیا اور چلتے وقت اس نے ایک اور لڑکے کو بھی جس کا نام محمد رفیق ہے اور ضلع ہوشیارپور کا رہنے والا ہے تحریک کی کہ وہ ساتھ چلے۔ چنانچہ وہ بھی ساتھ تیار ہوگیا۔ اس کے چونکہ رشتہ دار موجود تھے اور بعض ذرائع بھی اسے میسر تھے اس لئے اس نے کوشش کی اور اسے پاسپورٹ مل گیا۔ جس وقت یہ دونوں کشمیر پہنچے تو محمدرفیق تو آگے چلا گیا مگر عدالت خاں کو پاسپورٹ کی وجہ سے روک لیا گیا اور بعد میں گائوں والوں کی مخالفت اور راہداری کی تصدیق نہ ہوسکنے کی وجہ سے وہ کشمیر میں ہی رہ گیا اور وہاں اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں نظر بچا کر چین چلا جائوں گا۔ مگر چونکہ سردیوں کا موسم تھا اور سامان اس کے پاس بہت کم تھا اس لئے کشمیر میں اسے ڈبل نمونیہ ہوگیا اور دو دن بعد فوت ہوگیا۔
ابھی کشمیر سے چند دوست آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے عدالت خاں کا ایک عجیب واقعہ سنایا جسے سن کر رشک پیدا ہوتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کے متعلق اسے کتنا یقین اور وثوق تھا- وہ ایک گائوں میں بیمار ہوا تھا جہاں کوئی علاج میسر نہ تھا۔ جب اس کی حالت بالکل خراب ہوگئی تو ان دوستوں نے سنایا کہ وہ ہمیں کہنے لگا کہ کسی غیر احمدی کو تیار کرو جو احمدیت کی صداقت کے متعلق مجھ سے مباہلہ کرلے۔ اگر کوئی ایسا غیر احمدی تمہیں مل گیا تو میں بچ جائوں گا اور اسے تبلیغ بھی ہو جائے گی ورنہ میرے بچنے کی اور کوئی صورت نہیں۔ شدید بیماری کی حالت میں یہ یقین اور وثوق بہت ہی کم لوگوں کو میسر ہوتا ہے کیونکہ ننانوے فیصدی اس بیماری سے مر جاتے ہیں۔ اور بعض تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وفات پاجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ایسی خطرناک حالت میں جبکہ اس کی یقینی موت کا ننانوے فیصدی یقین کیا جاسکتا تھا` اس نے اپنا علاج یہی سمجھا کہ کسی غیر احمدی سے مباہلہ ہوجائے اور اس نے کہا کہ اگر مباہلہ ہوگیا تو یقیناً خدا مجھے شفا دیگا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اس مرض سے مر جائوں۔ بہرحال اس واقعہ سے اس کا اخلاص ظاہر ہے۔ اسی طرح اس کی دور اندیشی بھی ثابت ہے کیونکہ اس نے ایک اور نوجوان کو خود ہی تحریک کی کہ میرے ساتھ چلو اور وہ تیار ہوگیا۔ اس طرح گو عدالت خاں فوت ہو گیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیج کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا` احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کر آگے بڑھنا شروع کر دیا اور مشرقی شہر کاشغر میں پہنچ گیا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی۔ حاجی جنود اللہ صاحب ان کا نام ہے۔ وہ اسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور تحقیق کرکے احمدیت میں شامل ہوگئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئیں اور اب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں۔ تو عدالت خاں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقہ میں پھیلانے کا موجب بن گئی۔
یہ ایسا علاقہ ہے جس میں احمدیت کی اشاعت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے ایسے خطرناک اور دشوار گزار رستے ہیں کہ ان کو عبور کرنا ہی بڑی ہمت کا کام ہے۔ حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ نے بتایا کہ رستہ میں ایک مقام پر وہ تین دن تک برف پر گھٹنوں کے بل چلتی رہیں۔ ایسے سخت رستوں کو عبور کرکے ہماری جماعت کے ایک نوجوان کا اس علاقہ میں پہنچنا اور لوگوں کو تبلیغ کرنا بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔
تو تحریک جدید کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے عدالت خاں کو پہلے یہ توفیق دی کہ وہ افغانستان جائے چنانچہ وہ افغانستان میں کچھ عرصہ رہا اور جب واپس آیا تو میری تحریک پر وہ چین کے لئے روانہ ہوگیا اور خود ہی ایک اور نوجوان کو اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ راستہ میں عدالت خاں کو خدا تعالیٰ نے شہادت کی موت دے دی۔ مگر اس کے دوسرے ساتھی کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آگے بڑھے اور مشرقی ترکستان میں جماعت احمدیہ قائم کردے۔ یہ دو واقعات شہادت بتاتے ہیں کہ گو یہ اپنی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوئے مگر ان کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول تھیں۔ چنانچہ ان دو آدمیوں میں سے ایک کو تو اللہ تعالیٰ نے عملی رنگ میں شہادت دے دی اور دوسرے کی وفات ایسے رنگ میں ہوئی جو شہادت کے ہم رنگ ہے<۔۱۷۴
تحریک جدیدکے پہلے تین سالہ دورکے شاندارنتائج پرایک نظر
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔:
>تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام کیا۔ اور ہم اسے فخر کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔ مورخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی<۔۱۷۵
حضرت امیر المومنینؓ نے اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمائی۔
>۱۹۳۴ء کے آخر میں جماعت میں جو بیداری ہوئی اس کے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام کیا اور ہم اسے فخر کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔ مورخ آئیں گے جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں۔ حکومت کے اس عنصر کو جو ہمیں مٹانے کے درپے تھا متواتر ذلت ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور احرار کو تو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ اب وہ مسلمانوں کے سٹیج پر کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سب دشمنوں کو ایسی سخت شکست دی ہے کہ حکام نے خود اس کو تسلیم کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔<
>اس کے علاوہ جو جماعت میں تبدیلی ہوئی وہ بہت ہی شاندار ہے۔ ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے جس میں امیر غریب ہر طبقہ کے لوگ ہیں۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو سات سات اور آٹھ آٹھ کھانے کھانے کی ¶عادت تھی اور جن کے دستر خوان پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھانے ہی کھانے پڑے ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تحریک جدید کے ماتحت سب نے ایک ہی کھانا کھانا شروع کردیا اور نہ صرف احمدیوں نے بلکہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں غیر احمدیوں نے بھی اس طریق کو اختیار کرلیا۔ میری ایک ہمشیرہ شملہ گئی تھیں انہوں نے بتایا کہ وہاں بہت سے رئوساء کی بیویوں نے مانگ مانگ کر تحریک جدید کی کاپیاں لیں اور کہا کہ کھانے کے متعلق ان کی ہدایات بہت اعلیٰ ہیں۔ ہم انہیں اپنے گھروں میں رائج کریں گے۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بعض غیر احمدیوں کے ساتھ ایک میس میں شریک تھے۔ تحریک جدید کے بعد جب انہوں نے دوسرا کھانا کھانے سے احتراز کیا اور دوسرے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس کی وجہ ان کو بتائی تو انہوں نے بھی وعدہ کیا کہ یہ بہت اچھی تحریک ہے ہم بھی آئندہ اس پر عمل کریں گے۔
پھر میں نے سنیما کی ممانعت کی تھی۔ اس بات کو ہمارے زمیندار دوست نہیں سمجھ سکتے کہ شہریوں کے لئے اس ہدایت پر عمل کرنا کتنا مشکل ہے۔ شہر والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے لئے سنیما کو چھوڑنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے موت قبول کرنا جن کو سنیما جانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ اسے زندگی کا جزو سمجھتے ہیں۔ مگر ادھر میں نے مطالبہ کیا کہ اسے چھوڑ دو اور ادھر ننانوے فیصدی لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اور پھر نہایت دیانتداری سے اس عہد کو نباہا اور عورت مرد سب نے اس پر ایسا عمل کیا کہ جو دنیا کے لئے رشک کا موجب ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں اس سے لاکھوں روپیہ بچ گیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس سے جو وقت بچا اس کی قیمت کا اندازہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔ یہ مطالبہ معمولی نہ تھا۔ لیکن جماعت نے اسے سنا اور پورا کر دیا اور اس سے فوائد بھی حاصل کئے۔ اس کے علاوہ کون نہیں جانتا کہ عورت کپڑوں پر مرتی ہے مگر ہزارہا عورتوں نے دیانتداری سے لباس میں سادگی پیدا کرنے کے حکم پر عمل کیا۔ یہ باتیں انفرادی قربانی اور قومی فتح کا ایک ایسا شاندار نمونہ ہیں جس کی مثال کم ملتی ہے۔ یہ قربانی معمولی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کی قربانی ہے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے اس میں فتوحات کا لمبا سلسلہ ہے۔
پھر کتنے نئے ممالک میں احمدیت روشناس ہوئی۔ کم سے کم دس پندرہ ممالک ایسے ہیں۔ کئی علاقوں میں گو احمدیت پہلے سے تھی مگر تحریک جدید کی جدوجہد کے نتیجہ میں اس کا اثر پہلے سے بہت وسیع ہوگیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا نے محسوس کرلیا کہ جماعت احمدیہ صرف مسلمانوں کے لشکر کا ایک بازو ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی منفردانہ حیثیت بھی رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ پہلے ہماری اس حیثیت سے دنیا واقف نہ تھی تحریک جدید کے نتیجہ میں ہی وہ اس سے آشنا ہوئی۔ مگر یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاصل ہوئیں۔ ہمارا مقصد نہیں ہمارا مقصد ان سے بہت بالا ہے اور اس میں کامیابی کے لئے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے<۔۱۷۶
‏sub] ga[tبعض ابتدائی تلخ تجربے
مگر ان شاندار نتائج کے ساتھ کچھ تلخ تجربات بھی ہوئے چنانچہ حضورؓ نے فرمایا۔
>ہم نے کئی نئے تجربے کئے ہیں۔ کئی نئے مشن قائم کئے گئے اور یہ نیا تجربہ تھا۔ میں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور باہر نکل جائیں اور یہ بھی نیا تجربہ تھا۔ دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ بھی نیا تجربہ تھا۔ پھر صنعتی اداروں کا اجراء بھی نیا تجربہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ان سب میں کم و بیش کامیابی ہوئی۔ سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور بیسیوں باہر نکل گئے۔ کوئی کہیں چلا گیا کوئی کہیں۔ بعض تین تین سال سے بمبئی اور کراچی میں بیٹھے ہیں۔ وہ کسی بیرونی ملک میں جانے کے ارادہ سے گھروں سے نکلے تھے۔ لیکن چونکہ اب تک کوئی صورت نہیں بن سکی اس لئے ابھی تک اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے والدین چٹھیاں لکھتے ہیں۔ مجھ سے بھی سفارشیں کراتے ہیں۔ مگر وہ یہی التجا کرتے ہیں کہ جو ارادہ ایک دفعہ کرلیا۔ اب اسے پورا کرنے کی اجازت دی جائے۔ بعض ان میں سے اتنی چھوٹی عمر کے ہیں کہ ابھی داڑھی مونچھ تک نہیں نکلی مگر اس راہ میں وہ ٹوکری تک اٹھاتے ہیں۔ پھر بعض نوجوان بیرونی ممالک میں پہنچ گئے ہیں اور وہاں بھی کئی نئے تجربے ہمیں حاصل ہوئے ہیں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے لئے مدنی طبع لوگوں کی تلاش کرنی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اب تک مختلف ممالک میں قریباً پندرہ مشن ہمارے قائم ہوچکے ہیں۔ امریکہ` اٹلی` ہنگری` پولینڈ` یوگوسلاویہ` )یہ مشن البانیہ کے لئے ہے۔ لیکن چونکہ البانوی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا تھا` وہ وہاں کام کررہا ہے( فلسطین` جاوا` سٹریٹ سیٹلمنٹ` جاپان` چین` افریقہ۔ ان میں کئی مبلغ ایسے ہیں جو ہمارے خرچ پر گئے ہیں۔ کئی اپنے خرچ پر گئے ہیں۔ بعض تجارتوں کے ذریعہ سے اچھے گزارے کررہے ہیں اور بہت خوش ہیں۔ بعض ابھی مشکلات میں ہیں اور مختلف ممالک کے متعلق بھی ہمیں نئے تجربے ہوئے ہیں۔ مشرقی ممالک میں سوائے جاوا` سماٹرا` اور سٹریٹ سیٹلمنٹ کے ہمیں ابھی کامیابی نہیں ہوئی۔ چین اور جاپان میں ابھی تک بالکل کامیابی نہیں ہوئی- بلکہ تازہ اطلاع جو آج ہی بذریعہ تار مجھے ملی ہے یہ ہے کہ جاپانی گورنمنٹ نے صوفی عبدالقدیر صاحب کو قید کرلیا ہے اور ضمناً میں ان کے لئے دعا کی تحریک بھی کرتا ہوں۔ اس کے متعلق ہم اب تحقیقات کرائیں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ لیکن بہرحال چوتھے سال کے ابتداء میں یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کا انذار ہے کہ سب حالات پر غور کرکے ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس قسم کی مشکلات بھی تبلیغ کے رستہ میں حائل ہوں گی۔
صوفی عبدالقدیر صاحب تحریک جدید کے تجارتی صیغہ کے نمائندہ تھے۔ گویا وہ باقاعدہ مبلغ نہیں تھے اور ابھی زبان ہی سیکھ رہے تھے اور اب تو ان کی واپسی کا حکم بھی جاری ہوچکا تھا کیونکہ دوسرے مبلغ یعنی مولوی عبدالغفور صاحب برادر مولوی ابوالعطاء صاحب وہاں جاچکے ہیں۔ تو تجارتی اغراض کے ماتحت جانے والے ایک احمدی کے لئے جب اس قدر مشکلات ہیں تو تبلیغ کے لئے جانے والوں کے لئے کس قدر ہوں گی۔ جہاں تک معلوم ہوسکا ہے ان پر الزام یہ لگایا گیا ہے کہ وہ جاپانی گورنمنٹ کے مخالف ہیں۔ اور یہ بھی ہمارے لئے ایک نیا تجربہ ہے۔ انگریز ہمیں کہتے ہیں کہ تم ہمارے خلاف ہو اور دوسری حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ تم انگریزوں کے خیر خواہ ہو۔
بہرحال یہ سب نئے تجربے ہیں جو ہمیں حاصل ہورہے ہیں اور ان سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس کس قسم کی رکاوٹیں ہمارے رستہ میں پیدا ہونے والی ہیں۔ پھر ایک نیا تجربہ یہ ہوا ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ہمارے مبلغ محمد ابراہیم صاحب ناصر کو اس بناء پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے قائل ہیں تو ہمیں ان مبلغوں کے ذریعہ سے نئی نئی مشکلات کا علم ہوا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جن سے جماعت کے اندر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ سادہ زندگی ہے۔ سنیما تھیڑوں وغیرہ کی ممانعت ہے۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا حکم ہے۔ اس سے قوم میں نئی روح پیدا ہوتی ہے<۔۱۷۷
‏head1] [tag۱۹۳۸ء کے پہلے فارم وقف زندگی کا نمونہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
و علی عبدہ المسیح الموعود
فارم معاہدہ وقف زندگی
میں اپنی ساری زندگی برضاء و رغبت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بغیر کسی قسم کی شرط کے وقف کرتا ہوں۔ اور دفتر تحریک جدید سے مندرجہ ذیل عہد کرتا ہوں۔
۱۔
اس عرصہ میں اگر میرے گزارہ کے لئے کوئی رقم مقرر کی جائے گی تو اسے انعام شمار کرتے ہوئے قبول کروں گا۔ اور کسی رقم کو بطور اپنے حق کے شمار نہیں کروں گا۔
۲۔
اس عرصہ میں جو صورت میری ٹریننگ کے لئے دفتر تحریک جدید کی طرف سے تجویز کی جاوے گی اس کی پورے طور پر پابندی کروں گا۔
۳۔
کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کام سے بھی جو میرے لئے تجویز کیا جاوے گا رو گردانی نہ کروں گا۔ بلکہ نہایت خندہ پیشانی اور اپنی پوری کوشش سے سرانجام دوں گا۔
۴۔
اگر میرے لئے بیرون ہند کوئی کام سپرد کیا جائے تو بخوشی اسے سرانجام دوں گا۔
۵۔
اگر میرے وقف کردہ عرصہ کے اندر دفتر تحریک جدید مجھے علیحدہ کردے تو اس میں مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن مجھے یہ اختیار نہ ہوگا عرصہ معہودہ میں اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ان فرائض سے علیحدہ کرسکوں جو میرے سپرد کئے گئے ہوں۔
۶۔
جس شخص کے ماتحت مجھے کام کرنے کے لئے کہا جائے گا اس کی کامل تابعداری کروں گا۔
دستخط ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تاریخ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مکمل پتہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے کوائف حسب ذیل ہیں۔
۱۔
عمر
۲۔
تعلیم دینوی و دینی
۳۔
کون کونسی زبانوں سے واقف ہیں اور ان زبانوں کی تحریر و تقریر کس حد تک مہارت ہے؟
۴۔
شادی شدہ ہیں یا بغیر شادی شدہ۔
۵۔
کیا اپنے حالات کے ماتحت مستقل طور پر کسی بیرون ہند ملک میں رہائش کرسکتے ہیں؟
۶۔
دیگر متفرق ضروری حالات۔
نوٹ۔ زائد امور کو فارم ہذا کی پشت پر بھی درج کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ فارم معاہدہ وقف زندگی کا نمونہ
‏c] g[taبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
و علیٰ عبدہ المسیح الموعود
میں اپنی ساری زندگی برضا و رغبت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بغیر کسی قسم کی شرط کے وقف کرتا ہوں۔
)۱(
میں ہر قسم کی خدمت کو جو میرے لئے تجویز کی جائے گی بغیر کسی معاوضہ کے ان ہدایات کے مطابق بجا لائوں گا جو میرے لئے تجویز ہوں گی۔
)۲(
میں کسی وقت بھی نظام سلسلہ کے خلاف عملاً یا قولاً کوئی حرکت نہیں کروں گا۔ بلکہ ہمیشہ جملہ ہدایات مرکزیہ کی پابندی کروں گا۔ اسی طرح نظام وقف تحریک جدید کا بھی پورا احترام کروں گا۔ اور لفظاً اور معناً اس کی اتباع کروں گا۔
)۳(
اگر میرے لئے یا میرے اہل و عیال کے گزارہ کے لئے کوئی رقم دفتر تحریک جدید کی طرف سے منظور کی جائے گی تو اسے بطور اپنے حق کے شمار نہیں کروں گا۔ بلکہ اسے انعام سمجھتے ہوئے قبول کروں گا۔
)۴(
جو صورت میری تعلیم یا تربیت کے لئے تجویز کی جائے گی اس کی پورے طور پر پابندی کروں گا۔
)۵(
کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کام سے بھی جو میرے لئے تجویز کیا جائے گا روگردانی نہیں کروں گا۔ بلکہ نہایت خندہ پیشانی اور پوری کوشش سے سرانجام دوں گا۔
)۶(
اگر میرے لئے کسی وقت کوئی سزا تجویز کی جائے گی تو بلا چون و چرا اور بلاعذر اسے برداشت کروں گا۔
)۷(
جب مجھے تحریک جدید کی طرف سے خواہ اندرون پاکستان یا بیرون پاکستان جہاں بھی مقرر کیا جائے گا وہاں بخوشی دفتر کی ہدایات کے مطابق کام کروں گا۔
)۸(
اگر کسی وقت مجھے کسی وجہ سے وقف سے علیحدہ کیا جائے گا تو اس میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن مجھے یہ اختیار نہ ہوگا کہ کسی وقت بھی اپنی مرضی سے اپنے آپ کو ان فرائض سے علیحدہ کرسکوں جو میرے سپرد کئے گئے ہوں گے۔
)۹(
میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ خواہ وہ مالی ہو یا جانی ہو۔ عزت کی ہو یا جذبات کی ہو۔
)۱۰(
جس شخص کے ماتحت مجھے کام کرنے کے لئے کہا جائے گا اس کی کامل تابعداری کروں گا۔
)۱۱(
میں نے فارم معاہدہ وقف زندگی کی جملہ شرائط کو خوب سوچ کر اور ان کی پابندی کا پورا عزم کرکے پر کیا ہے۔
نام
دستخط مکمل پتہ
تاریخ
فارم کوائف
۱۔
نام اور مکمل پتہ۔
۲۔
تاریخ پیدائش۔
۳۔
والد صاحب کا نام اور مکمل پتہ۔
۴۔
سرپرست کا نام اور مکمل پتہ۔
۵۔
تعلیم کیا ہے؟ کون کون سے امتحان کن مضامین میں` کس کس ڈویژن میں پاس کئے ہیں۔ نمبر حاصل کردہ۔
۶۔
اگر تعلیم جاری ہے تو کس کلاس میں پڑھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کس سکول یا کالج میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۔
کن مضامین میں زیادہ دلچسپی ہے۔
۸۔
دینی معلومات کس قدر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ دینیات اور سلسلہ کی کون کونسی کتب پڑھی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹۔
کیا پیدائشی احمدی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر نہیں تو تاریخ بیعت لکھیں۔
۱۰۔
مجرد ہیں یا شادی شدہ؟
۱۱۔
اگر شادی شدہ ہیں تو کتنے بچے ہیں۔ ان کی عمریں کیا کیا ہیں۔
۱۲۔
پیشہ کیا ہے؟
۱۳۔
اصل وطن کونسا ہے؟
۱۴۔
موجودہ مستقل رہائش کہاں ہے اور کتنے عرصہ سے۔
۱۵۔
گزارہ کی موجودہ صورت کیا ہے۔ اپنی/ والد یا سرپرست کی۔
۱۶۔
والد یا سرپرست کی ماہوار آمد کتنی ہے؟
۱۷۔
اگر خود برسر روزگار ہیں تو ماہوار آمد کتنی ہے؟
۱۸۔
ملازمت کی صورت میں کس قسم کے کام کا تجربہ ہے؟
۱۹۔
ملازمت کے علاوہ کس کام کا تجربہ ہے۔ صنعت کاروبار وغیرہ )تفصیل لکھیں(
۲۰۔
کیا کبھی تقریر کرنے کا موقع ملا ہے؟
۲۱۔
طبیعت کا ذاتی رجحان کس طرف ہے۔ جیسے زمینداری` تبلیغی` دفتری کام` تجارت وغیرہ۔
۲۲۔
کس مجلس خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ سے تعلق ہے؟
۲۳۔
کیا کسی مجلس کا کوئی عہدہ آپ کے سپرد تھا؟
۲۴۔
عام صحت کیسی رہتی ہے؟
۲۵۔
امیر جماعت یا پریذیڈنٹ کا مکمل پتہ۔
۲۶۔
اپنے خاندان کے چند معروف احمدی احباب کے نام و پتہ لکھیں۔ ان سے کیا رشتہ ہے؟
۲۷۔
کیا کبھی قادیان یا ربوہ میں قیام رہا ہے؟
)ا(
کب اور کتنے عرصے کے لئے۔
)ب(
کس سلسلہ میں۔
۲۸۔
انگریزی یا عربی یا کوئی غیر ملکی زبان جانتے ہو؟ کس حد تک۔
۲۹۔
کیا مضامین لکھتے رہے ہیں۔ کس زبان میں۔ کس قسم کے موضوع پر؟
۳۰۔
کیا کبھی کسی غیر ملک میں قیام رہا ہے۔ کتنا عرصہ ۔۔۔۔۔ کس غرض کے لئے؟
۳۱۔
کوئی خاص قابل ذکر امر۔
دستخط تاریخ][ نام و مکمل پتہ
مجاہدین بیرون ہند کے لئے ضروری ہدایات کی نقل
>۱۔
ہفتہ وار مکمل رپورٹ ڈائری کی صورت میں بلاناغہ بھیجا کریں۔ کہ یہ بھی ان کے فریضہ کا ایک ضروری حصہ ہے۔ ہر روز سونے سے پیشتر صبح سے شام تک کے حالات کو اپنی ڈائری میں درج کرلیا کریں۔ ڈائری اور رپورٹ باقاعدہ نہ بھیجنے سے ان کا نام واقفین کی لسٹ سے کاٹا بھی جاسکتا ہے۔
۲۔
ہر قسم کی معلومات دینی ہوں۔ دینوی ہوں۔ سیاسی ہوں۔ اقتصادی ہوں۔ مرکز کو بھجواتے رہیں۔
‏]ni [tag۳۔
تبلیغ کے قیمتی مواقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
۴۔
جو لوگ احمدی ہوں ان کا تعلق مرکز سے مضبوط کیا جاوے۔ اور ان کو باقاعدہ اور باشرح چندہ دینے والا بنایا جائے۔
۵۔
شائع شدہ لٹریچر کو نہایت احتیاط سے تقسیم کیا جائے اور مضامین کی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔
۶۔
ہندوستان کے احمدیوں اور مقامی احمدیوں میں باہمی تجارتی تعلقات کو قائم کیا جاوے۔
۷۔
کوشش کریں کہ جلد از جلد اپنے اخراجات کا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہو جائیں۔ تاکہ مرکز ان کے خرچ سے بے نیاز ہوکر دوسرے ممالک میں مشن قائم کرسکے اور کام کو اور وسیع کیا جائے۔
۸۔
جس قدر رقم چندوں میں وصول ہو۔ اس کا ۴/۳ مقامی اخراجات پر باقاعدہ طریق پر خرچ ہوسکے گا۔ جس کے لئے مرکز سے بجٹ کی منظوری حاصل کرنی ضروری ہوگی۔ باقی ۴/۱ حصہ مرکز میں بھجوانا ضروری ہوگا۔ تاکہ اس ملک کے لوگ دوسرے ممالک میں تبلیغ کے وسیع کام میں شامل ہوکر ثواب حاصل کرسکیں<۔ )مطالبات تحریک جدید صفحہ ۵۷۔ ۵۶(
نقل فارم وقف جائیداد و آمد
‏]bus [tagمعاہدہ وقف جائیداد
میں اپنی جائیداد اسلام اور احمدیت کی ضرورت کے لئے وقف کرتا ہوں۔ اور عہد کرتا ہوں کہ مطالبہ کے وقت وقف شدہ جائیداد میں سے جو جائیداد موجود ہوگی۔ اس پر جو حصہ رسدی مطلوبہ رقم بموجب ہدایات دفتر تحریک جدید۔ میرے ذمہ ڈالی جائے گی اسے ادا کردوں گا۔ میری وقف شدہ جائیداد کی موجودہ قیمت اندازاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روپے ہے۔
نوٹ۔ مکان اور زمین کی صورت میں یہ بھی لکھیں کہ کہاں واقع ہے۔ زیور کی صورت میں وزن بھی لکھیں۔
تفصیل جائیداد وقف شدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)مطالبات تحریک جدید صفحہ ۱۵۲
نقل معاہدہ وقف آمد
معاہدہ وقف آمد
میں اپنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہ کی آمد اسلام اور احمدیت کی ضرورت کے لئے وقف کرتا ہوں۔ اور عہد کرتا ہوں کہ مطالبہ کے وقت جو ماہوار آمد ہوگی اس کے حساب سے جو حصہ رسدی مطلوبہ رقم ہو حسب ہدایت دفتر تحریک جدید میرے ذمہ ڈالی جائے گی۔ میں اسے ادا کردوں گا۔ میری موجودہ ماہوار آمد بعد وضع وصیت و ٹیکس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روپے ہے۔
نوٹ۔ دو ماہ سے زائد آمد کا وقف قبول نہیں کیا جائے گا۔
تاریخ باقی تفصیل فارم کی پشت پر لکھیں۔
دستخظ: نام مع ولدیت:
موجودہ پتہ:
مستقل پتہ:
)مطالبات تحریک جدید صفحہ ۱۵۳(
پہلا باب )فصل ہشتم(
تحریک جدید کا دوسرا )ہفت سالہ( دور
۲۶۔ نومبر ۱۹۳۷ء کو تحریک جدید کا دوسرا ہفتہ سالہ دور شروع ہوا جو اپریل ۱۹۴۴ء تک جاری رہا۔
یہ دس سالہ دور )جو ۱۹۳۴ء سے شروع ہوا اور >دفتر اول<۱۷۸ کے نام سے موسوم کیا گیا( متعدد خصوصیات کا حامل تھا مثلاً چندہ تحریک جدید میں تخفیف` نئے مطالبات کا اضافہ` مستقل وقف زندگی کی تحریک` واقفین کی باقاعدہ ٹریننگ` سنیما کی مستقل ممانعت` دیہاتی مبلغین کی اہم سکیم` دنیا کی مشہور زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی تیاری` وقف زندگی کی وسیع تحریک` تحریک وقف جائداد وغیرہ۔
القاء الٰہی سے دس سالہ دور کا تقرر
‏text] gat[تحریک جدید کا جب سہ سالہ دور ختم ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے القاء الٰہی کے تحت اس دس سال تک ممتد فرما دیا۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں۔
>یہ عجیب بات ہے کہ متعدد دوستوں کی طرف سے مجھے چٹھیاں آچکی ہیں کہ میں اس تحریک کو تین سال میں ختم کرنے کی بجائے دس سال تک بڑھا دوں۔ میرا اپنا بھی خیال اس نئے سال سے اسی قسم کا اعلان کرنے کا تھا۔ پس ان تحریکوں کو جو بالکل میرے خیال سے تو اردکھا گئیں۔ مجھے یقین ہوا کہ یہ الٰہی القاء ہے<۔۱۷۹
‏0] [stfہفت سالہ دور مقرر کرنے کی حکمت
حضورؓ کے پیش نظر ہفت سالہ دور مقرر کرنے میں ایک بھاری حکمت مضمر تھی۔ چنانچہ فرمایا۔
>بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۲ء یا ۱۹۴۴ء تک کا زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ کی بعض موجودہ مشکلات جاری رہیں گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کردے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہو جائیں گے اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات ظاہر ہو جائیں گے کہ جن کے نتیجہ میں بعض مقامات کی تبلیغی روکیں دور ہو جائیں گی اور سلسلہ احمدیہ نہایت تیزی سے ترقی کرنے لگ جائے گا۔ پس میں نے چاہا کہ اس پیشگوئی کی جو آخر حد ہے یعنی ۱۹۴۴ء` اس وقت تک تحریک جدید کو لئے جائوں تا آئندہ آنے والی مشکلات میں اسے ثبات حاصل ہو<۔۱۸۰
یہ پیشگوئی آئندہ چل کر کس شان سے پوری ہوئی اس کی نسبت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
چندہ تحریک جدید میں تخفیف
۲۶۔ نومبر ۱۹۳۷ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے تحریک جدید کے دوسرے سات سالہ دور کا اعلان فرمایا۱۸۱4] ft[r اور اس دور کے لئے مالی قربانی کی نئی شرح تجویز کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>اس سال کے لئے میری تحریک یہی ہے کہ جتنا کسی شخص نے اس تین سالہ دور کے پہلے سال چندہ دیا تھا اتنا ہی چندہ اس سال دے۔ پھر میری سکیم یہ ہے کہ ہر سال اس چندہ میں سے دس فیصدی کم کرتے چلے جائیں گے یعنی جس نے اس سال سو روپیہ چندہ دیا ہے اس سے اگلے سال نوے روپے لئے جائیں گے پھر اس سے اگلے سال اسی روپے پھر تیسرے سال ستر روپے پھر چوتھے سال ساٹھ روپے پھر پانچویں سال پچاس روپے اور پھر یہ پچاس فیصدی چندہ باقی دو سال مسلسل چلتا چلا جائے گا<۔۱۸۲
مطالبات تحریک جدید میں اضافہ
دسمبر ۱۹۳۷ء میں حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے پانچ مزید مطالبات فرمائے جن سے مطالبات تحریک جدید کی تعداد چوبیس تک جاپہنچی۔ ان مطالبات کی تفصیل درج ذیل ہے۔
بیسواں مطالبہ: اپنی جائداد میں سے عورتوں کو ان کا شرعی حصہ ادا کریں۔
اکیسواں مطالبہ: عورتوں کے حقوق و احساسات کا خیال رکھیں۔][بائیسواں مطالبہ: ہر احمدی پورا پور امین ہوگا اور کسی کی امانت میں خیانت نہیں کرے گا۔
تئیسواں مطالبہ: مخلوق خدا کی خدمت کرو۔ اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور خود محنت کرکے اپنے گائوں وغیرہ کی صفائی کرو۔
چوبیسواں مطالبہ: ہر احمدی کو اپنے دل میں یہ اقرار کرنا چاہئے کہ آئندہ وہ اپنا کوئی مقدمہ جس کے متعلق گورنمنٹ مجبور نہیں کرتی کہ اسے سرکاری عدالت میں لے جایا جائے عدالت میں نہیں لے جائے گا بلکہ اپنے عدالتی بورڈ اور اپنے قاضی سے شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرائے گا اور جو بھی وہ فیصلہ کرے گا اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرے گا<۔۱۸۳
مطالبہ سادہ زندگی میں مستثنیات
اس دور میں حضور نے مطالبہ سادہ زندگی میں کچھ مستثنیات فرما دیں مثلاً حضور نے اجازت دے دی کہ عیدوں کی طرح جمعہ کو بھی دو کھانے کھائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح حضور نے یہ پابندی بھی اٹھا دی کہ >اگر اپنا ہی کوئی احمدی دوست مہمان ہو تو دستر خوان پر میزبان صرف ایک ہی کھانا کھائے< اب حضور نے اجازت دے دی کہ >اگر کوئی ایسا مہمان ہو جس کے لئے ایک سے زائد کھانے پکائے گئے ہوں تو اس صورت میں خود بھی دو کھانے کھانا جائز ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی غیر مہمان ہو۔ یہ نہ ہوکہ اپنے ہی رشتہ دار بغیر کسی خاص تقریب کے اکٹھے ہوں اور ان کے لئے )جمعہ کے استثناء کے علاوہ( ایک سے زائد کھانے تیار کرلئے جائیں اور خود بھی دو دو کھانے کھا لئے جائیں<۔ قبل ازیں حضور ایک استثناء گزشتہ سالوں میں کرچکے تھے اور وہ یہ کہ رسمی اور حکام کی دعوتوں میں ایک سے زیادہ کھانے کھانا یا کھلانا جو ملک کے رواج کیے مطابق ضروری ہوں جائز رکھے گئے۔۱۸۴
مستقل وقف کی تحریک
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حضور نے ابتداًء افراد جماعت کے سامنے صرف تین سال کے وقف کرنے کی تحریک فرمائی تھی۔ لیکن کام کی وسعت کے پیش نظر ۱۷۔ دسمبر ۱۹۳۷ء کو مستقل وقف زندگی کی تحریک کی اور ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ۔
>آئندہ جو لوگ اپنے آپ کو وقف کریں وہ یہ سمجھ کر کریں کہ اپنے آپ کو فنا سمجھیں گے اور جس کام پر ان کو لگایا جائے گا اس پر محنت اور عقل وعلم سے کام کریں گے۔ عقل اور علم کا اندازہ کرنا تو ہمارا کام ہے مگر محنت` اطاعت اور اخلاص سے کام کا ارادہ ان کو کرنا چاہئے اور دوسرے یہ بھی خیال کرلینا چاہئے کہ وقف کے یہ معنے نہیں کہ وہ خواہ کام کے لئے موزوں ثابت ہوں یا نہ ہوں ہم ان کو علیحدہ نہیں کریں گے یا سزا نہیں دیں گے۔ صرف وہی اپنے آپ کو پیش کرے جو سزا کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جن قوموں کے افراد میں سزا برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ ہلاک ہی ہوا کرتی ہیں۔ صحابہ کو دیکھو وہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سزا برداشت کرتے تھے اور خودبخود کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس وقف کرنے والوں کے لئے ان پانچوں اوصاف کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور بعد میں یہ نہ کہیں کہ اس وقت ہمیں نوکری مل سکتی تھی۔ پس وہی آگے آئے جس کی نیت یہ ہو کہ میں پوری کوشش کروں گا۔ لیکن اگر نکما ثابت ہوں تو سزا بھی بخوشی برداشت کرلوں گا< ۔۔۔۔۔۔
>مجھے امید ہے کہ ہمارے نوجوان ان شرائط کے ماتحت جلد از جلد اپنے نام پیش کریں گے تا اس سکیم پر کام کرسکیں جو میرے مدنظر ہے۔ ہم آدمی تو تھوڑے ہی لیں گے مگر جو چند آدمی سینکڑوں میں سے چنے جائیں گے وہ بہرحال ان سے بہتر ہوں گے جو پانچ سات میں سے چنے جائیں۔ پچھلی مرتبہ قریباً دو سو نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور مجھے امید ہے کہ اب اس سے بھی زیادہ کریں گے۔ جنہوں نے پچھلی مرتبہ اپنے آپ کو پیش کیا تھا وہ اب بھی کرسکتے ہیں بلکہ جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ بھی چاہیں تو اپنے نام پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی تین سال کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تین سال تو ہم جانتے نہیں۔ جب ایک دفعہ اپنے آپ کو پیش کردیا تو پھر پیچھے کیا ہٹنا ہے۔ ان کو بھی قانون کے ماتحت پھر اپنے نام پیش کرنے چاہئیں۔ کیونکہ پہلے ہمارا مطالبہ صرف تین سال کے لئے تھا۔ اور جو بھی اپنے آپ کو پیش کریں پختہ عزم اور ارادہ کے ساتھ کریں<۱۸۵
مستقل واقفین کی ٹریننگ
مندرجہ بالا تحریک کے نتیجہ میں تحریک جدید کے دور ثانی کو یہ عظیم خصوصیت حاصل ہوئی کہ کئی مخلص نوجوان مستقل طور پر اپنی زندگی وقف کرکے حضور کے قدموں میں آگئے اور حضور کی خصوصی توجہ اور تعلیم و تربیت اور دعائوں نے نہایت قلیل گزارہ پانے والی مستقل واقفین کی ایثار پیشہ` مخلص اور قربانی کرنے والے مجاھدوں کی ایک ایسی جماعت تیار کردی جس نے آئندہ چل کر اسلام اور احمدیت کی عظیم الشان اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں اور نہ صرف بیرونی دنیا میں مشن قائم کئے بلکہ مرکز میں نئے مبلغین کو تیار کرنے میں ہر ممکن جدوجہد کی جو حضور کی قوت قدسی کی دلیل اور شاندار کارنامہ ہے جس کو جتنا بھی سراہا جائے بہت کم ہے۔ ان واقفین نے قناعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عملی ثبوت پیش کیا۔ حضرت امیرالمومنینؓ انہی جانفروش واقفین کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
>میں تحریک جدید کے دور ثانی میں مستقل کام کی داغ بیل ڈالنے کے لئے مالی ۔۔۔۔۔ تحریک کے علاوہ کہ وہ بھی مستقل ہے` ایک مستقل جماعت واقفین کی تیار کررہا ہوں۔ دور اول میں میں نے کہا تھا کہ نوجوان تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دور ثانی میں وقف عمر بھر کے لئے ہے اور اب یہ واقفین کا ہرگز حق نہیں کہ وہ خودبخود کام چھوڑ کر چلے جائیں۔ ہاں ہمیں اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم انہیں کام کے ناقابل دیکھیں تو انہیں الگ کردیں۔ پس یہ سہ سالہ واقفین نہیں بلکہ جس طرح یہ دور مستقل ہے اسی طرح یہ وقف بھی مستقل ہے اور اس دور میں کام کی اہمیت کے پیش نظر میں نے یہ شرط عائد کردی ہے کہ صرف وہی نوجوان لئے جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں۔ اور جو نہ گریجوایٹ ہوں اور نہ مولوی فاضل` انہیں نہیں لیا جائے گا۔ کیونکہ ان لوگوں نے علمی کام کرنے ہیں۔ اور اس کے لئے یا تو دینی علم کی ضرورت ہے یا دنیوی علم کی۔ اس دور میں تین چار آدمیوں کو منہا کرکے کہ وہ گریجوایٹ نہیں کیونکہ وہ پہلے دور کے بقیہ واقفین میں سے ہیں` باقی سب یا تو گریجوایٹ ہیں یا مولوی فاضل ہیں۔ چنانچہ اس وقت چار گریجوایٹ ہیں اور چار ہی مولوی فاضل ہیں۔ کل غالباً بارہ نوجوان ہیں۔ چار ان میں سے غیر گریجوایٹ ہیں۔ مگر ہیں سب ایسے ہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محنت سے کام کرنے والے اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا منشاء ہے کہ ان میں سے بعض کو مرکز کے علاوہ باہر بھجوا کر اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے اور علمی اور عملی لحاظ سے اس پایہ کے نوجوان پیدا کئے جائیں جو تبلیغ` تعلیم اور تربیت کے کام میں دنیا کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کرسکیں بلکہ ان سے فائق ہوں۔ صرف انہیں مذہبی تعلیم دنیا ہی میرے مدنظر نہیں۔ بلکہ میرا منشاء ہے کہ انہیں ہر قسم کی دنیوی معلومات بہم پہنچائی جائیں اور دنیا کے تمام علوم انہیں سکھائے جائیں تا دنیا کے ہر کام کو سنبھالنے کی اہلیت ان کے اندر پیدا ہوجائے۔ ان نوجوانوں کے متعلق میری سکیم جیسا کہ میں گزشتہ مجلس شوریٰ کے موقع پر بیان کرچکا ہوں` یہ ہے کہ انہیں یورپین ممالک میں بھیج کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے۔ اور جب یہ ہرقسم کے علوم میں ماہر ہوجائیں تو انہیں تنخواہیں نہ دی جائیں بلکہ صرف گزارے دیئے جائیں اور ان کے گزارہ کی رقم کا انحصار علمی قابلیت کی بجائے گھر کے آدمیوں پر ہو جیسا کہ صحابہؓ کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا اور یوں انتظام ہو کہ جس کی بیوی ہوئی یا بچے ہوئے اسے زیادہ الائونس دے دیا۔ اور جس کے بیوی بچے نہ ہوئے اسے کم گزارہ دے دیا۔ یا کسی نوجوان کی شادی ہونے لگی تو اسے تھوڑی سی امداد دے دی<۔۱۸۶
مجاہدین تحریک جدید کو ان دنوں نہایت معمولی خرچ دیا جاتا تھا جس کی تفصیل خود حضور کے الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین زندگی ایسے تیار ہو جائیں جو علاوہ مذہبی تعلیم رکھنے کے ظاہری علوم کے بھی ماہر ہوں اور سلسلہ کے تمام کاموں کو حزم و احتیاط سے کرنے والے اور قربانی و ایثار کا نمونہ دکھانے والے ہوں۔ اس غرض کے لئے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ہمیں ان لوگوں کو گزارے بھی دینے پڑیں گے اور یہ گزارہ پندرہ روپے فی کس مقرر ہے۔ اگر ایک گریجوایٹ بھی ہو تو اسے بھی ہم پندرہ روپے ہی دیتے ہیں زیادہ نہیں اور یہ اتنا قلیل گزارہ ہے کہ بعض یتامیٰ و مساکین کے وظائف اسی کے لگ بھگ ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ گزارہ انہیں اتنا تھوڑا دیا جاتا ہے جتنا بعض یتامیٰ و مساکین کو بھی ملتا ہے وہ کام بھی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تمام زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ سردست ہمارا قانون یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی شادی ہوجائے تو اسے بیس روپے دیئے جائیں اور پھر بچے پیدا ہوں تو فی بچہ تین روپے زیادہ کئے جائیں اور اس طرح چار بچوں تک یہی نسبت قائم رہے۔ گویا ان کے گزارہ کی آخری حد بتیس روپے ہے مگر یہ بھی اس وقت ملیں گے جب ان کے گھروں میں چھ کھانے والے ہو جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ گزارہ کم ہے۔ اسی طرح بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں اور اسے جلد سے جلد دور کرنا چاہئے مگر فی الحال ہماری مالی حالت چونکہ اس سے زیادہ گزارہ دینے کی متحمل نہیں اس لئے ہم اس سے زیادہ گزارہ نہیں دے سکتے۔ اور انہوں نے بھی خوشی سے اس گزارہ کو قبول کیا ہے<۔۱۸۷
واقفین زندگی )تحریک جدید( کا پہلا گروہ
)از شیخ ناصر احمد صاحب بی اے سابق انچارج سوئٹزرلینڈ مشن(
۱۲۔ جنوری ۱۹۳۹ء کو خاکسار دارالواقفین میں آیا۔
ان دنوں واقفین کی منظوری کے لئے حضور نے ایک بورڈ مقرر فرمایا ہوا تھا۔ جس کے اراکین کے سامنے ہر واقف پیش ہوتا اور وہ مختلف سوالات کے ذریعہ اس کے رجحانات۔ قابلیتوں وغیرہ کا امتحان کرتے اس وقت تک دس نوجوان زندگیاں وقف کرکے دارالواقفین میں داخل ہوچکے تھے۔ جن کے اسماء گرامی ان کی تاریخ وقف کی ترتیب سے یہ ہیں۔
۱۔ مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر۔ ۲۔ مکرم چوہدری محمد شریف صاحب باجوہ
۳۔ مکرم چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر۔ ۴۔ مکرم ملک عطاء الرحمان صاحب۔
۵۔ مکرم میاں عبدالحی صاحب۔ ۶۔ مکرم قریشی محمد عالم صاحب۔
۷۔ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب۔ ۸۔ مکرم چوہدری غلام یاسین صاحب۔
۹۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ۱۰۔ مکرم مولوی نور الحق صاحب۔
بعد میں دو احباب کو بعض وجوہ کی بناء پر وقف سے فارغ کردیا گیا۔ خاکسار کو انٹرویو کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہونا پڑا۔ یہ جنوری ۱۹۳۹ء کے ابتدائی دنوں کا واقعہ ہے۔ حضور نے فرمایا کہ خاکسار کے متعلق حضور کا یہ ارادہ ہے کہ فی الحال ایک ماہ کے لئے تجربت¶ہ وقف میں لیا جائے اور پختہ فیصلہ اس میعاد کے گزرنے کے بعد کیا جائے۔ گو عملاً وہی پختہ فیصلہ تھا کیونکہ ایک ماہ کی مدت گزرنے کے بعد کوئی نیا فیصلہ نہ ہوا۔ حضور نے اس موقعہ پر دریافت فرمایا کہ خاکسار میں اطاعت کا مادہ کس حد تک ہے۔ نیز مثال کے طور پر فرمایا کہ اگر مینار کی بلندی سے چھلانگ لگانے کا حکم خاکسار کو دیا جائے تو کیا کوئی ہچکچاہٹ تو محسوس نہ ہوگی؟ حضور نے یہ بھی فرمایا کہ حضور واقفین کا اخلاقی معیار بہت بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی واقف کو خلاف واقعہ امر بیان کرنے کی اجازت نہیں۔ ہر ایک کو سچ کی پوری پابندی کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر فرمایا کہ ایک واقف نے ایک موقعہ پر ایک بات کہی جسے جھوٹ تو نہیں کہہ سکتے لیکن وہ حق بیانی کے اس معیار پر پوری نہ اترتی تھی جس کا تقاضا ایک واقف سے کیا جاتا۔ چنانچہ اس واقف کے اس فعل پر حضور نے اسے بطور تزکیہ نفس یہ حکم دیا کہ وہ ایک ماہ پیدل سفر کریں اور تبلیغ کرتے رہیں۔
اگست ۱۹۳۹ء میں حضور نے واقفین کو ارشاد فرمایا کہ قادیان سے پیدل کلو کا سفر کریں۔ گرمی کے مہینوں میں اپنا سارا سامان سر اور کندھوں پر اٹھا کر چلنا ایک مجاہدہ تھا جسے احباب نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں بخوشی برداشت کیا۔
اگست ۱۹۴۱ء کے مہینہ میں حضور کے ارشاد کے ماتحت ہم سفر ڈلہوزی کے لئے روزانہ ہوئے پٹھانکوٹ کے آگے کا سفر ہم نے پیدل کرنا تھا۔ یہ سفر ۱۹۳۹ء کے پہاڑی سفر کی نسبت آسان تھا ۶۔ اگست کو ۲۲۔ افراد کا ایک قافلہ مکرم مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی کی قیادت میں اس سفر پر روانہ ہوا۔ حضرت مصلح موعود کے چار صاحبزادگان مرزا خلیل احمد۔ مرزا حفیظ احمد۔ مرزا رفیع احمد اور مرزا وسیم احمد صاحبان بھی اس قافلہ میں شامل تھے۔ ۱۰۔ تاریخ کو ہم ڈلہوزی پہنچے۔ ایک سفر وہاں سے چمبہ تک بھی کیا۔ جہاں سے واپسی پر دس روز تک واقفین حضور کے مہمان رہے اور حضور کی کوٹھی بنام ۸ اوکس میں مقیم۔ سب واقفین یکم ستمبر کو واپس دارلامان پہنچے۔
۱۹۴۲ء میں ایک اور پہاڑی سفر پیش آیا۔ یہ کشمیر کا سفر تھا جو بوجہ بہت سے گونا گوں دلچسپ واقعات اور تجربات ہماری یادوں سے کبھی محو نہیں ہوسکتا۔ اس وفد کی امارت بھی حضور نے مکرم مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی کے سپرد فرمائی۔ پندرہ افراد پر مشتمل یہ قافلہ ۵۔ اگست کو قادیان سے روزانہ ہوا اور ۸۔ اگست کو جموں سے سرینگر کی جانب کا سفر پیدل شروع کیا۔ عام سڑک کے راستہ یہ فاصلہ ۲۰۳ میل ہے۔ لوگ ہمیں باورنہ کرتے کہ ہم سرینگر پیدل پہنچیں گے۔ بانہال کے درہ کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کے راستہ ہم ۲۰۔ اگست کو سری نگر پہنچے۔ سفر کا آخری حصہ کشتی میں کیا گیا۔ اور سری نگر کی سرزمین پر قدم رکھنے سے قبل دریائے جہلم کے پانی میں ہی ہمارا استقبال مکرم چوہدری اسداللہ خان بار ایٹ لاء نے کیا جو وہاں ایک ہوس بوٹ میں رہائش پذیر تھے۔ مورخہ ۲۔ ستمبر کو واپسی کا سفر شروع کیا۔ اور اسلام آباد سے ۳ کی صبح کو پیدل سفر شروع کرکے ۷ کی صبح کو ادہم پور پہنچ گئے۔ یہ سفر حیرت انگیز سرعت رفتاری سے کیا گیا۔ قادیان مورخہ ۸۔ ستمبر کو واپس وارد ہوئے۔
۱۹۴۳ء کا سالانہ سفر اپنی حیثیت میں نرالا تھا۔ دو دو واقفین کی پارٹیاں قادیان سے مختلف سمتوں میں پھیلا دی گئیں۔ ایک ماہ پیدل سفر اور سروے کا کام ان کے سپرد ہوا۔ خاکسار اس موقعہ پر چلتے چلتے کپورتھلہ اور پھر جالندھر تک پہنچا۔ اور پیدل ہی واپسی ہوئی۔ کپورتھلہ میں مکرم جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر وکیل نے جو ہماری عزت افزائی فرمائی۔ اور ہر طرح ہماری ضرورت کا خیال رکھا۔ اس کا بھی گہرا نقش ہمارے دلوں پر ہے۔ خداتعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں سے حصہ دیتا رہے۔ یہ سفر ۲۰۔ جولائی کو شروع ہوا اور ہم ۲۶۔ اگست کو واپس دارالامان پہنچے۔
۱۹۴۴ء میں جبکہ حضور ڈلہوزی تشریف فرما تھے حضور نے ہمیں وہاں یاد فرمایا۔ اور اس طرح واقفین بمعہ اساتذہ کرام )حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مرحوم۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔ مکرم مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور مکرم مولوی عبداللطیف صاحب پر مشتمل قافلہ ۲۔ جولائی کو ڈلہوزی کے لئے روانہ ہوا۔ اور قریباً ساڑھے تین ماہ کے قیام کے بعد ۱۱۔ اکتوبر کو واپس لوٹے۔
ڈلہوزی میں علاوہ تعلیم کے تبلیغی مساعی جاری کی گئیں۔ اور ڈلہوزی میں احمدیت کا چرچا ہوگیا۔
۱۹۴۵ء کے دوران میں واقفین کی یہ جماعت منتشر ہونا شروع ہوئی اور یہ مبلغین ¶حضور کی ہدایات کے مطابق مختلف بلاد عالم میں پھیلا دیئے گئے۔
۱۹۳۸ء اور ۱۹۴۵ء کا درمیانی عرصہ کس طرح گزرا ان سالوں میں کیا کیا دور واقفین کی زندگی پر آئے۔ ان کی تعلیم کے لئے کیا کیا اقدام اٹھائے گئے۔ ان کی تربیت کن متنوع طریقوں پر عمل میں آئی۔ ان امور کو بیان کرنا ایک مضمون کے احاطہ مقدرت سے باہر ہے۔ اس غرض کے لئے ایک بڑی کتاب تصنیف ہوسکتی ہے۔ اور یہ یقینی بات ہے کہ ان تمام واقعات کو جو واقفین کو پیش آئے۔ جمع کرنے سے آئندہ واقفین کے لئے بہت قیمتی معلومات کا ذخیرہ مہیا ہوگا۔ مختصر یہ کہ حضور نے ہمیں تفسیر القرآن۔ حدیث۔ فقہ۔ منطق۔ اصول حدیث۔ عربی۔ صرف نحو۔ ایلوپیتھی کی ابتدائی تعلیم۔ فارسی زبان` عربی ادب۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم دلائی۔ آخری سال میں واقفین کے بعض گروہ مختلف علوم۔ مثل تفسیر۔ حدیث۔ منطق۔ فلسفہ۔ تصوف۔ صرف نحو کی تعلیم کی تکمیل کرتے رہے ابتداء میں واقفین نے قرآن کریم کے سب الفاط کے مادوں کے معانی منجد سے تلاش کئے۔ جن اساتذہ کرام سے ہمیں تدریس کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے اسماء کی فہرست بھی ان سطور میں بیان کرنا آسان نہیں۔ بعض بزرگ یہ تھے۔ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مرحوم ان سے ہمیں سب سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق ملی۔ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم۔ مکرم مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ مکرم مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری۔ مکرم مولوی غلام نبی صاحب مصری۔ مکرم مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔
آخری زمانہ میں بائبل کی تعلیم کے لئے مکرم شیخ عبدالخالق صاحب کو مقرر کیا گیا۔ جن سے ہم نے بہت استفادہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقاریر کی مشق کے لئے ایک سلسلہ جاری کیا گیا۔ مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب علاوہ دوسری تعلیم کے اس مشق کے بھی نگران تھے۔ وقتاً فوقتاً ہمیں حضرت مصلح موعود شرف ملاقات بخشتے اور قیمتی اور ہم نصائح فرماتے۔ حضور کی ہدایت کے مطابق ہم نے فن تقریر میں مہارت پیدا کرنے کے لئے مضامین لکھنے شروع کئے۔ ہر واقف ہر ماہ ایک مضمون لکھتا ہے۔ جو بعد میں اخبارات میں سلسلہ کو اشاعت کے لئے بھجوایا جاتا۔
بعض اوقات حضور ہمارا امتحان بھی فرماتے۔ ایک موقعہ پر تو کورس کی سب کتب طلب فرمائی گئیں۔ اور حضور نے مختلف مضامین کا امتحان بعض اساتذہ کی موجودگی میں لیا۔ غرضیکہ حضور نے واقفین کی اس پود کی تیاری میں گہری دلچسپی لی۔ جو ہمارے لئے بڑے فخر کا موجب ہے۔
خدام الاحمدیہ کے کام میں واقفین پیش پیش رہے۔ قریباً جملہ انتظامی امور واقفین کے ہاتھوں میں تھے۔ جنہوں نے اپنے فرائض کو سالہا سال تک صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی زیر قیادت سرانجام دیا۔
مجلس رفقاء احمد کی بنیاد اور رسالہ >فرقان< کو چلانے کا کام واقفین نے ہی اپنے ذمہ لیا۔
اب وہ کلاسیں اور تربیتی مجلسیں۔ وہ تعلیمی اجتماعات۔ وہ تنظیمی ادارے واقفین کے اس پہلے گروہ کے لئے ختم ہیں۔ وہ میدان تربیت سے میدان کارزار میں چھلانگ لگاچکے ہوئے ہیں۔ انہیں غیر ممالک میں رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ وہ جو سالہا سال سے ایک ہی چھت کے تلے اکٹھے بھائیوں کی طرح رہے۔ جن میں باہمی شکر رنجیاں شاذ اور محض عارضی ہوتیں۔ اور بعد میں جذبات محبت کو بڑھاتی تھیں۔ اب وہ کئی سالوں سے آسمان کی چھت کے تلے دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیل چکے ہیں۔ وہ جو قریباً روزانہ پیارے آقا کی مجلس سے بہرہ اندوز ہوتے تھے۔ انہیں محبوب آقا کا چہرہ دیکھے ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے۔ اتنا لمبا عرصہ جو پہلے ان کی زندگیوں میں دوری اور جدائی کا عرصہ کبھی نہ آیا تھا۔ جو مقامات مقدسہ کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ آج ان کی جبینیں بیت مبارک میں ایک سجدہ بجالانے کو تڑپ رہی ہیں۔ جو کسی اہم مجلس` اجتماع یا جلسہ سے باہر نہ رہتے تھے۔ آج نہ وہ جمعہ کے اجتماعات میں اپنے آقا کے قریب ہوتے ہیں۔ نہ عیدین کے مواقع پر۔ نہ مشاورت کی تقریب پر نہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر نہ جلسہ سالانہ پر۔ یہ ساری ہی تقاریب جو سال کے مختلف مواسم میں آتی ہیں۔ ان کے اندر ایک ٹیس پیدا کرتی ہے۔ لیکن نہیں دوسری طرف وہ خوش بھی ہیں کہ انہیں یہ جدائی اور یہ دوری خدمت دین کی راہ میں پیش آئی ہے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش اور دعا یہی ہے کہ وہ اپنے کام کو خوش اسلوبی سے بجا لاسکیں۔ آمین۔ اللھم آمین۔
اس چمن واقفین کے ایک پرندہ نے چند ماہ سے یکایک چہچہانا بند کردیا ہے۔ اب اس کے نغمے یہ زمین والے نہیں سن سکتے۔ ہاں عرش معلیٰ پر اس کی محبت بھری آواز فرشتوں کو مسحور کررہی ہے وہ ہمارا پیارا مرزا منور احمد ہے۔ جو امریکہ میں تبلیغ کرتے کرتے شہادت کے مقام پر پہنچا۔
فرشتو! ہمارا سلام محبت اس پاک روح کو پہنچائو۔ اور خدا کے حضور ہماری اس خواہش کو بھی کہ ہمیں بھی خدمت دین کی راہ میں اپنا سب کچھ نثار کرنے کی توفیق ملے۔ آمین۔
یہ واقفین جو خطہ عالم پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے قریباً ہر ایک کو ہر نوع کی تکلیف و مصائب سے پالا پڑا ہے۔ زمانہ کے حوادث نے انہیں بہت سے اسباق دیئے ہیں۔ قادیان سے روانگی کے وقت انہیں جن مشکلات کا خیال تک نہ تھا۔ وہ انہیں پیش آئی ہیں۔ خدا کی مدد اور تائید بھی ہر لمحہ ان کے شامل حال رہی ہے۔ وہ اب آپ سے درخواست کرتے ہیں۔ کہ آپ ان کو اپنی خاص دعائوں میں یاد رکھیں۔ یا کبھی کبھی ان کے لئے خاص خاص دعائیں کریں۔ کہ خدا تعالیٰ ان کی راہنمائی فرمائے۔ انہیں مفید سے مفید طریق تبلیغ کے میدان میں استعمال کرنے کی توفیق دے۔ ان کی حقیرانہ مساعی میں برکت ڈالے اور انہیں وقف کے مقام کو سمجھنے اس کے مطالبات کو پورا کرنے اور ہر آن وقف کی راہ کو قائم رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین اللھم آمین۔
)الفضل ۲۳` ۲۵۔ جنوری ۱۹۴۹ء(
منتخب واقفین کے لئے ہدایات
منتخب واقفین کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ اور دفتر تحریک جدید کی طرف سے جو ہدایات وقتاً فوقتاً جاری کی جاتی رہیں ان کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
۱۔
محنت صحت سے نہیں ہوتی بلکہ بشاشت سے ہوتی ہے۔
۲۔
اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے رہنا چاہئے اور جب اپنے آپ میں محسوس ہوکہ اب میں فرائض معاہدہ کو ادا نہیں کرسکتا تو اسے اسی وقت علیحدہ ہو جانا چاہئے۔
۳۔
ترقی کرنے والی قومیں محض روزمرہ کے کام سے نہیں ترقی کرتیں کیونکہ اس کی غرض تو محض قومی زندگی قائم رکھنا ہوتی ہے اور یہ قلیل ترین چیز ہوتی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ کونسے کام ایسے ہیں کہ جن کو ہم نے بعد میں کرنا ہے دشمن کیا کررہا ہے۔ دنیا کس طرح ترقی کررہی ہے` ہمیں ان کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔
‏tav.8.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
۴۔
نوجوانوں میں یہ روح ہونی چاہئے کہ بغیر روپے کے کام کرنا ہے۔
۵۔
جب تک ہم نتیجہ کے ذمہ دار نہ بنیں` ترقی نہیں کرسکتے۔ لوگ اس مسئلہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ >کام انسان کرتا ہے نتیجہ خدا پیدا کرتا ہے< کلمہ الحکمہ اریدبہ الباطل۔ اسی طرح توکل سے بھی لوگوں نے غلط مفہوم لیا ہے۔
۶۔
انفرادی قربانی ضروری ہے تاکہ قوم سست نہ ہو۔ شکست خوردہ جرنیل اپنے آپ کو گولی مارلیتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام غلبہ حاصل کرنا ہے۔ شریعت میں بھی پیھے ہٹنے کی سزا جہنم ہے۔ کمی تعداد اور معذوریوں کا کوئی سوال نہیں ہے۔ پس جو کامیاب نہیں ہوتا اسے سزا بھگتنی چاہئے۔ اسی لئے یہ اصول رکھا گیا ہے کہ سزا لینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہم صحیح طور پر اپنی ذمہ داری کا اندازہ نہیں لگاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ کام نہیں کرتا بلکہ بھاگنے کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ ہر واقف زندگی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ خواہ حالات کس قدر سخت ہوں ناکامی کی ذمہ داری میری ہے۔
۷۔
بہادر وہ ہے جو ہر قسم کی قربانی کرسکے نہ کہ وہ جو خاص قسم کی قربانی کرسکے لیکن دوسری قسم کی قربانی نہ کرسکے۔
۸۔
وقت کی قربانی اہم ترین چیزوں میں سے ہے اور اس سے زیادہ قربانی وہ ہے جسے دنیا WASTEOFTIME کہتی ہے۔ دنیا اسے گناہ سمجھتی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جب یہ قربانی کے مقام پر کی جائے تو یہ اعلیٰ درجہ کی قربانی ہے۔ جیسے نمازی انتظار میں بھی نمازی ہے۔ بظاہر یہ وقت کا ضیاع ہے۔ اصل میں مقصود نماز کی عظمت کا اظہار ہے۔ پس مقصود کے لئے انتظار بڑی قربانی ہے۔ پس انتظار کا نام ضیاع وقت نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ یہ اس کے علم کو بڑھانے والی بات ہے کیونکہ علم اپنی اہمیت سے آتا ہے۔
۹۔
وقف سے ایک غرض یہ ہے کہ جھوٹ کو مٹایا جائے خواہ کس قدر چھوٹا سے چھوٹا ہو۔ کوئی بھی جھوٹ اگر ثابت ہوا تو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ وقف ٹوٹ سکتا ہے اور جماعت میں اعلان ہوسکتا ہے۔ خواہ دین کی خاطر ہی ہو۔ سچ بولنے سے انکار کیا جاسکتا ہے لیکن سچ کے خلاف بیان کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ ہاں اسلامی عدالت میں گواہی سے انکار نہیں ہوسکتا۔ سرکاری عدالت میں )شرع کی رو سے( ایسا ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں سرکاری سزا برداشت کرنے کے لئے بھی اسے تیار رہنا چاہئے۔
واقفین کو بھی یہی کیریکٹر جماعت میں پیدا کرنا چاہئے کیونکہ سلسلہ کا فائدہ جھوٹ سے وابستہ نہیں۔ اسلام کی بنیاد قولوا قولا سدیدا پر ہے۔
اس حد تک اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ جو کبھی جھوٹ بولے وہ خود آکر کہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے` میرا وقف منسوخ کریں اور پھر سزا برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔
۱۰۔
عقل اس وقت کمزور ہوتی ہے جب انسان مشکلات کے وقت اپنے دماغ پر پورا زور نہیں دیتا۔ اور عذر تلاش کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ ورنہ اگر مشکلات کے وقت عقل سے کام لیا جائے اور دماغ پر زور ڈالا جائے تو اس کا صحیح حل جلدی ہی مل سکتا ہے<۔۱۸۸
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کا اظہار خوشنودی
واقفین نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے مقدور بھر کوشش کی کہ حضرت امیرالمومنینؓ کی ہدایات پر پوری طرح عمل پیرا ہوں۔ چنانچہ حضور نے واقفین کی قربانی` خلوص اور محنت شاقہ پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>ضروری ہے کہ وہ نوجوان جو بغیر روپیہ کے کام کرنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بعض نوجوان ہمیں ایسی ہی روح رکھنے والے دیئے ہوئے ہیں چنانچہ ان واقفین زندگی میں ایک وکیل ہیں۔۱۸۹ ان کے والد کئی مربعوں کے مالک ہیں اور وہ اپنے علاقہ کے رئیس اور مرکزی اسمبلی کے ووٹروں میں سے ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں مگر ہم انہیں بیس روپے ہی دیتے ہیں اور وہ خوشی سے اسے قبول کرلیتے ہیں۔ حالانکہ زمیندار ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اپنے علاقہ میں انہیں رسوخ حاصل ہے۔ اگر وہ وکالت کرتے سو ڈیڑھ سو روپیہ ضرور کمالیتے۔ بلکہ ہوشیار آدمی تو آج کل کے گرے ہوئے زمانہ میں بھی دو اڑھائی سو روپیہ کما لیتا ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا اور قلیل گزارے پر ہی وقف کیا اور میں تو اس قسم کے وقف کو بغیر روپیہ کے کام کرنا ہی قرار دیتا ہوں کیونکہ جو کچھ ہماری طرف سے دیا جاتا ہے وہ نہ دیئے جانے کے برابر ہے۔ اسی طرح اور کئی گریجوایٹ ہیں جو اپنی ذہانت کی وجہ سے اگر باہر کہیں کام کرتے تو بہت زیادہ کمالیتے مگر ان سب نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کی ہے۔ پس گو تحریک جدید کے واقفین ایک قلیل گزارہ لے رہے ہیں مگر عقلاً انہیں بغیر گزارہ کے ہی کام کرنے والے سمجھنا چاہئے کیونکہ ان کے گزارے ان کی لیاقتوں اور ضرورتوں سے بہت کم ہیں<۔۱۹۰
نصاب کی تشکیل
دورثانی کے ان واقفین کی تعلیم کی تکمیل کے لئے ان کی قابلیتوں اور آئندہ ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر نصاب تجویز کئے جاتے رہے۔ حضورؓ کا منشاء مبارک دراصل شروع میں زیادہ لمبی تعلیم دلانے کا نہ تھا بلکہ جلد بیرونی ممالک میں بھجوانے کا تھا۔ چنانچہ کئی ایک پاسپورٹ تیار کروائے گئے کہ اچانک دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوگئی۔ اب حضورؓ نے مناسب سمجھا کہ ان واقفین کی مختلف لائنوں میں تربیت کی جائے۔ حضور نے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کے ساتھ مشورہ کے بعد مختلف لائنیں مثلاً حدیث` فقہ` تفسیر` منطق و فلسفہ` تصوف مقرر فرمادیں اور فرمایا کہ طلبہ کو کہیں کہ ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنی اپنی لائن منتخب کرلیں۔۱۹۱ لیکن چونکہ عربی علوم کی کتب پڑھنے کے لئے بنیادی علم صرف و نحو کا حاصل کرنا ضروری تھا۔ اس لئے حضورؓ نے اس علم کا حاصل کرنا ہر واقف کے لئے ضروری قرار دیا۔ چنانچہ صرف و نحو کی ابتدائی کتب سے لے کر انتہائی کتب تک سب واقفین کو پڑھنا پڑیں۔ لیکن اس کے لئے کلاسز نہیں بنائی گئیں بلکہ نصاب تجویز کردیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ ہر واقف اساتذہ سے مدد لے کر اپنی اپنی ذہنی استعداد کے مطابق جلد سے جلد نصاب ختم کرے۔ بقیہ علوم کے لئے باقاعدہ کلاسز ہوتی رہیں۔
صرف میں قانونچہ۱۹۲ کھیوالی مصنفہ مولوی خان ملک صاحب کا زبانی یاد کرنا لازمی تھا۔ اسی طرح آخری کتاب فصول اکبری کا امتحان پاس کرنا تھا۔ نحو میں نحو میر سے لے کر قافیہ تہذیب التوضیح اور شرح ملاجامی تک سب کتب درساً پڑھائی گئیں اور امتحان پاس کرنے کے لئے کڑی شرائط رکھی گئیں تاکہ ٹھوس بنیادوں پر علمی قابلیت پیدا ہو۔
واقفین کے اساتذہ
دور ثانی کے واقفین کو وقتاً فوقتاً مندرجہ ذیل اساتذہ نے تعلیم دی۔
۱۔ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ )جلالین۔ بیضاوی اور نحو( ۲۔ مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی )۱۹۴۰ء سے۔ حدیث۔ فقہ۔ نحو۔ کتب مسیح موعودؑ( ۳۔ مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری )صرف و نحو۔ قانونچہ۔ فصول اکبری۔ کافیہ شافیہ۔ تہذیب التوضیح۔ فقہ و کنز۔ قدوری۔ شرح وقایہ۔ ہدایہ( ۴۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ )تصوف( ۵۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری )علم معانی( ۶۔ صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب قدسی )مقدمہ ابن خلدون( ۷۔ مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری )فارسی( ۸۔ مولوی ارجمند خاں صاحب )فقہ( ۹۔ شیخ عبدالخالق صاحب نومسلم فاضل۱۹۳ )۱۹۴۲ء سے( )رد عیسائیت( ۱۰۔ قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی )قرآن شریف۔ صرف و نحو( ۱۱۔ مولوی سکندر علی صاحب ہزاروی۱۹۴ )فقہ۔ اصول فقہ( ۱۲۔ پیر عبدالعزیز شاہ صاحب لکھیوال متصل ساہیوال ضلع سرگودھا۱۹۵ )منطق وفلسفہ۔ صرف و نحو۔ ترمذی شریف( ۱۳۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی )صرف و نحو( ۱۴۔ مولوی محمد احمد صاحب جلیل۱۹۶ )حدیث۔ ادب( ۱۵۔ ملک سیف الرحمن صاحب۱۹۷ )قرآن کریم باترجمہ۔ فصول اکبری(( ۱۶۔ خان صاحب ڈاکٹر عبداللہ صاحب۱۹۸ پنشنر مرحوم )طب(۱۹۹ ۱۷۔ پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد )انگریزی( ۱۸۔ محمد سرور صاحب ایم۔ اے۲۰۰ )انگریزی( ۱۹۔ مولوی محمد اسرائیل صاحب بالا کوٹ۔ )غیر احمدی عالم(
دارالمجاھدین
واقفین کی خصوصی تربیت و تعلیم کے لئے ۱۹۳۸ء۲۰۱ میں )بابو محمد سعید صاحب۲۰۲ پوسٹ ماسٹر کے مکان واقعہ دارالفضل میں( باقاعدہ دارالمجاھدین کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں کچھ عرصہ واقفین قیام پذیر رہے۔ ازاں بعد ماسٹر شیخ مبارک اسماعیل صاحب۲۰۳ کی کوٹھی میں اور پھر ۱۹۴۰ء میں ڈاکٹر حاجی خاں صاحب کی کوٹھی واقع دارالانوار میں منتقل ہوا جہاں واقفین کی رہائش اور تعلیم دونوں کا انتظام تھا۔ یہ دارالمجاہدین ہجرت ۱۹۴۷ء تک قائم رہا۔
واقفین میں مجاہدانہ سپرٹ پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے نزدیک ہر واقف مجاہد تھا۔ اسی لئے حضور نے واقفین کی ٹریننگ میں خاص طور پر یہ امر ملحوظ رکھا کہ مجاہدین تحریک جدید اپنا بلند مقام پہچانیں اور تحریک جدید کو مجاہدانہ معاہدہ سمجھتے ہوئے جہاد کی روح کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>ہر واقف مجاہد ہے اور مجاہد پر اللہ تعالیٰ نے بہت ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔ ان کو پورا کرنے والا ہی مجاہد کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا مقابلہ تو ان قوموں سے ہیے جن کے نوجوانوں نے چالیس چالیس سال تک شادی نہیں کی اور اپنی زندگیاں لیبارٹریوں میں گزار دیں اور کام کرتے کرتے میز پر ہی مرگئے اور جاتے ہوئے بعض نہایت مفید ایجادیں اپنی قوم کو دے گئے۔ مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے کہ جن کے پاس گولہ بارود اور دوسرے لڑائی کے ہتھیار نہ رہے تو انہوں نے امریکہ سے ردی شدہ بندوقیں منگوائیں اور انہی سے اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ انگلستان والوں نے کہا کہ بے شک جرمن آجائے ہم اس سے سمندر میں لڑیں گے۔ اگر سمندر میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر اس سے سمندر کے کناروں پر لڑیں گے اور اگر سمندر کے کناروں پر لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم اس سے شہروں کی گلیوں میں لڑیں گے اور اگر گلیوں میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم گھروں کے دروازوں تک مقابلہ کریں گے۔ اور اگر پھر بھی مقابلہ نہ کرسکے تو پھر کشتیوں میں بیٹھ کر امریکہ چلے جائیں گے مگر اس سے جنگ کرنا ترک نہیں کریں گے۔ ہمارا مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے کہ جہاں ان کو کھڑا کیا جائے وہ وہاں سے ایک قدم بھی نہ ہلیں سوائے اس کے کہ ان کی لاش ایک فٹ ہماری طرف گرے تو گرے لیکن زندہ انسان کا قدم ایک فٹ آگے پڑے پیچھے نہ آئے۔ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے اور یہی لوگ ہیں جو قوموں کی بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم~صل۱~ کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کفن بردوش ہے منھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی راہ میں اپنی جانیں دے دی ہیں اور کچھ انتظار کررہے ہیں۔ یہ وقف ہے جو دنیا میں تغیر پیدا کیا کرتا ہے<۔۲۰۴
واقفین میں مجاہدانہ روح اور سپاہیانہ انداز پیدا کرنے کے لئے حضور نے متعدد وسائل اختیار فرمائے۔
اول۔ واقفین کے لئے قطعی ہدایت تھی کہ وہ دارالواقفین میں رہیں۔ شادی شدہ واقفین کو ہفتہ میں صرف ایک بار یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو گھر جانے کی اجازت تھی اور مجرد واقفین تھوڑے سے وقت کے لئے ہفتہ میں دو بار گھر جاسکتے تھے اور مہینہ میں ایک رخصت گھر گزار سکتے تھے۔
دوم۔ واقفین روزانہ ڈائری لکھنے کے پابند تھے۔ ڈائری میں خاص طور پر یہ ذکر کیا جانا ضروری تھا کہ انہوں نے کتنی نمازیں باجماعت ادا کی ہیں۲۰۵ اور کس مسجد میں؟ نیز یہ کہ تلاوت قرآن مجید کتنے دن کی ہے؟
سوم۔ واقفین ہر پندرہ روز کے بعد عموماً ایک مرتبہ حضرت اقدسؓ کی خدمت میں اجتماعی طور پر حاضر ہوتے تھے۔ اس طرح حضور کو براہ راست نگرانی کرنے اور طلبہ کو فیض حاصل کرنے کا موقعہ میسر آتا رہتا تھا۔ حضور وقتاً فوقتاً مختلف علوم و فنون میں واقفین کا خود بھی امتحان لیتے۔
چہارم۔]ybod [tag چونکہ وہ زمانہ واقفین کی عملی ٹریننگ کا تھا اس لئے ان کی خاص توجہ سے نگہداشت کی جاتی تھی۔ کسی غلطی کو نظر انداز نہیں کیا جاتا تھا اور اس پر گرفت ہوکر سزا دی جاتی تھی جیسے معین وقت کے لئے اعتکاف بیٹھنا` مقاطعہ یا خرچ کے بغیر لمبا پیدل سفر یا سب کے سامنے معافی مانگنا۔۲۰۶
حضورؓ کا نظریہ اس بارہ میں یہ تھا کہ جب تک کسی قوم کے افراد کو سزا برداشت کرنے کی عادت نہ ہو۔ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔
پنجم۔ حضور نے بار بار واقفین پر یہ حقیقت فرمائی>وقف کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کام سپرد ہو اسے کیا جاوے اسے دین ہی دین سمجھیں<
ششم۔ مجلس خدام الاحمدیہ نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے اس مجلس کے کاموں میں واقفین کی شرکت لازمی قرار دی گئی تھی۔
ہفتم۔ حضور شعار اسلامی کی خاص طور پر پابندی کرنے کا ارشاد فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ نے واضح ہدایت دے رکھی تھی۔
>واقفین اپنے سر کے بال اس طرح رکھیں کہ اس کے کسی حصہ کے بال دوسرے حصہ کے بالوں سے چھوٹے بڑے بالکل نہ ہوں۔ خواہ سارے بال چھوٹے ہوں خواہ سارے بال بڑے ہوں۔ لیکن یکساں ہوں< پھر فرمایا >داڑھی مومنوں والی ہو< اور اس کی تشریح دوسرے موقعہ پر یوں فرمائی۔
>ایسی داڑھی ہو کہ دیکھنے والے کہیں کہ یہ داڑھی ہے۔ باقی رہا یہ کہ کتنی ہو اس کے متعلق کوئی پابندی نہیں ۔۔۔۔۔۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کے حکموں کی اطاعت کی جائے۔ اور ایسے رنگ میں کی جائے کہ لوگوں کو نظر آئے کہ اطاعت کی ہے<۔
ہشتم۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے واقفین میں جفاکشی اور مشقت کی عادت پیدا کرنے کے لئے اگست ستمبر ۱۹۳۹ء میں قادیان سے کلو تک پیدل سفر کروایا۔ واقفین کو اپنا سامان )بستر کپڑے وغیرہ( خود اٹھانے اور کھانا وغیرہ پکانے کا سب کام راستے میں اپنے ہاتھوں سے ہی سرانجام دینے کی ہدایت تھی۔ صرف راشن اور برتن اٹھانے کے لئے باربرداری کے انتظام کی اجازت تھی۔ اس سفر میں چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ امیر سفر تھے۔۲۰۷ اس کے بعد واقفین نے زیر امارت مکرم مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی ۱۹۴۰ء میں ڈلہوزی کی طرف اور ۱۹۴۱ء میں چنبہ کی طرف پیدل سفر کیا۔ اگلے سال ۱۹۴۲ء میں مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل بدوملہوی ہی کی زیر قیادت مجاہدین کا قافلہ قادیان سے جموں تک بذریعہ ریل پہنچا۔ جہاں سے پیدل چل کر ۲۰۔ اگست کو سرینگر پہنچا۔۲۰۸ سرینگر سے واپسی پر شدید بارش اور راستہ کی خرابی کے باوجود واقفین نے سرینگر سے جموں تک کا سفر دورات اور ڈیڑھ دن میں پیدل طے کیا۔
اسی طرح ۱۹۴۴ء اور ۱۹۴۵ء میں بھی واقفین نے مکرم مولوی صاحب موصوف کی قیادت میں پھر ڈلہوزی کا پیدل سفر کیا اور وہاں کچھ عرصہ قیام کیا جہاں تعلیم کے لئے اساتذہ کرام بھی تشریف لے گئے ہوئے تھے۔۲۰۹
نہم۔ یہ زمانہ چونکہ واقفین کی ٹریننگ اور تربیت کا تھا۔ اس لئے حضورؓ نے جماعت کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
>آج نوجوانوں کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہورہا۔ مگر جب قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔ درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کردیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگر ابھی یہ جذبہ ان کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہوکہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے ان کو اٹھا لیا ہے اور صور اسرافیل ان کے سامنے پھونکا جارہا ہے۔ جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف ان پرہورہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں۔ جب وہ کہے بیٹھ جائو تو سب بیٹھ جائیں جب کہے کھڑے ہو جائو تو سب کھڑے ہو جائیں۔ جس دن یہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہوجائے گی اس دن جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا اور اسے توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دنیا میں اسلام کا پرچم پھر نئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا<۔۲۱۰4] [rtf
سنیما کی مستقل ممانعت
حضور نے ابتدا میں سنیما کی ممانعت تین سال کے لئے کی تھی مگر پھر اس کی توسیع دس سال تک کردی جس کے بعد سنیما کو مستقل طور پر ممنوع قرار دے دیا اور ارشاد فرمایا کہ۔
>بعض لوگوں کے منہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ سنیما کی ممانعت دس سال کے لئے ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ برائی کا تعلق دس سال یا بیس سال سے نہیں ہوتا۔ جس چیز میں کوئی خرابی ہو وہ کسی معیاد سے تعلق نہیں رکھتی۔ اس طرح سے تو میں نے صرف آپ لوگوں کی عادت چھڑا دی ہے۔ اگر میں پہلے ہی یہ کہہ دیتا کہ اس کی ہمیشہ کے لئے ممانعت ہے تو بعض نوجوان جن کے ایمان کمزور تھے۔ اس پر عمل کرنے میں تامل کرتے۔ مگر میں نے پہلے سال تین سال کے لئے ممانعت کی اور جب عادت ہٹ گئی تو پھر مزید سات سال کے لئے ممانعت کردی اور اس کے بعد چونکہ عادت بالکل ہی نہیں رہے گی اس لئے دوست خود ہی کہیں گے کہ جہنم میں جائے سنیما` اس پر پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟<۲۱۱
پھر فرمایا۔
>سنیما کے متعلق میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی بدترین *** ہے) اس نے سینکڑوں شریف گھرانے کے لوگوں کو گویا اور سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنا دیا ہے۔ میں ادبی رسالے وغیرہ دیکھتا رہتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ سنیما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مضامین میں ایسا تمسخر ہوتا ہے اور ان کا اخلاق اور ان کا مذاق ایسا گندہ ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ سنیما والوں کی غرض تو روپیہ کمانا ہے نہ کہ اخلاق سکھانا۔ اور وہ روپیہ کمانے کے لئے ایسے لغو اور بیہودہ افسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شرفاء جب ان میں جاتے ہیں تو ان کا مذاق بھی بگڑ جاتا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا بھی جن کو وہ سنیما دیکھنے کے لئیے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور سنیما ملک کے اخلاق پر ایسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں میرا منع کرنا تو الگ رہا اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی روح کو خودبخود اس سے بغاوت کرنی چاہئے<۲۱۲
اپریل ۱۹۴۳ء میں حضور کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی کہ بعض نوجوان سمجھتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین نے تاریخی تصاویر دیکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ۔
>جو شخص کہتا ہے کہ میں نے ہسٹاریکل پکچرز دیکھنے کی اجازت دی ہے وہ کذاب ہے۔ میں نے ہرگز ایسا نہیں کہا ۔۔۔۔۔۔ میں نے جو اجازت دی ہے وہ یہ ہے کہ علمی یا جنگی اداروں کی طرف سے جو خالص علمی پکچرز ہوتی ہے مثلاً جنگلوں` دریائوں کے نقشے یا کارخانوں کے نقشے یا جنگ کی تصاویر جو سچی ہوں ان کے دیکھنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ علم ہے<۔۲۱۳
مزید فرمایا کہ
>جغرافیائی اور تاریخی فلم سے مراد سچی فلم ہے۔ جھوٹی فلم کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ تاریخی فلم ایسی ہے جیسے سان فارنسسکو کے جاپان کے معاہدہ کی مجلس کی فلم ہوگی۔ جغرافیائی سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ پر جاکر یا مثلاً جادا جاکر وہاں کے جنگلوں دریائوں کی فلم لے۔ جھوٹی فلم خواہ جغرافیائی ہو خواہ تاریخی ناجائز ہے۔ مثلاً نپولین کی جنگوں کی کوئی شخص فلم بنائے تو یہ جھوٹی ہوگی۔ باوجود نام نہاد تاریخی فلم ہونے کے وہ ناجائز ہوگی<۔۲۱۴
وقف زندگی برائے سکیم دیہاتی مبلغین
ایک لمبے تجربہ کے بعد حضرت امیرالمومنینؓ نے جب دیکھا کہ ہم اتنے مبلغ تیار نہیں کرسکتے جو دنیا کی ضرورت کو پورا کرسکیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضور کے دل میں دیہاتی مبلغین کی سکیم ڈالی۲۱۵ اور حضور نے ۲۹۔ جنوری ۱۹۴۳ء کو تیسری قسم کا وقف )برائے دیہاتی مبلغین( جاری کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ
>میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دو قسم کے مبلغ ہونے چاہئیں۔ ایک تو وہ جو بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جاکر تبلیغ کرسکیں۔ لیکچر اور مناظرے وغیرہ کرسکیں۔ اپنے ماتحت مبلغوں کے کام کی نگرانی کرسکیں۔ اور ایک ان سے چھوٹے درجہ کے مبلغ دیہات میں تبلیغ کے لئے ہوں۔ جیسے دیہات کے پرائمری سکولوں کے مدرس ہوتے ہیں ایسے مبلغ دیہات کے لوگوں میں سے ہی لئے جائیں۔ ایک سال تک ان کو تعلیم دے کر موٹے موٹے مسائل سے آگاہ کردیا جائے اور پھر ان کو دیہات میں پھیلا دیا جائے اور جس طرح پرائمری کے مدرس اپنے اردگرد کے دیہات میں تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں اسی طرح یہ اپنے علاقہ میں تبلیغ کے ذمہ دار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں ایک سال میں موٹے موٹے دینی مسائل مثلاً نکاح` نماز` روزہ` حج` زکٰوۃ` جنازہ وغیرہ کے متعلق احکام سکھا دیئے جائیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیا جائے` کچھ احادیث پڑھائی جائیں` سلسلہ کے ضروری مسائل پر نوٹ لکھا دیئے جائیں۔ تعلیم و تربیت کے متعلق ان کو ضروری ہدایات دی جائیں اور انہیں سمجھا دیا جائے کہ بچوں کو کس قسم کے اخلاق سکھانے چاہئیں اور اس غرض سے انہیں ایک دو ماہ خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کا موقع بہم پہنچایا جائے اور یہ سارا کورس ایک سال یا سوا سال میں ختم کراکے انہیں دیہات میں پھیلا دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سکیم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے اور اپنے اپنے ہاں کے ایسے نوجوانوں کو جو پرائمری یا مڈل پاس ہوں اور لوئر پرائمری کے مدرسوں جتنا ہی گزارہ لے کر تبلیغ کا کام کرنے پر تیار ہوں فوراً بھجوا دیں تا ان کے لئے تعلیم کا کورس مقرر کرکے انہیں تبلیغ کے لئے تیار کیا جاسکے<۲۱۶
چونکہ جنگ کا زمانہ تھا اور گرانی بہت تھی اس لئے ابتداء میں صرف پندرہ۲۱۷ واقفین منتخب کئے گئے جن کی ٹریننگ باقاعدہ ایک کلاس کی شکل میں جنوری ۱۹۴۵ء۲۱۸ تک جاری رہی۔ انہیں علماء سلسلہ کے علاوہ خود سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ بھی تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ حضورؓ نے مجلس مشاورت )منعقدہ ۷` ۸` ۹۔ اپریل ۱۹۴۴ء( میں بتایا کہ۔
>میں دیہاتی مبلغین کو آج کل تعلیم دے رہا ہوں۔ یہ لوگ مدرس بھی ہوں گے اور مبلغ بھی۔ چھ مہینہ تک یہ لوگ فارغ ہو جائیں گے۔ پندرہ بیس ان کی تعداد ہے<۔۲۱۹
ٹریننگ کا دور ختم ہوا تو ان میں سے چودہ۲۲۰ کو فروری ۱۹۴۵ء سے پنجاب کے مختلف دیہاتی علاقوں میں متعین کردیا گیا۔
دیہاتی مبلغین کے وقف کی یہ سکیم بہت کامیاب رہی اور حضور نے دیہاتی مبلغین کی نسبت اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔ کئی جماعتیں ایسی تھیں جو کہ چندوں میں سست تھیں اب ان میں بیداری پیدا ہوگئی۔ پہلے سال صرف پندرہ آدمی اس کلاس میں شامل ہوئے تھے اور پچھلے سال پچاس شامل ہوئے<۔۲۲۱
دیہاتی مبلغین کی تیسری کلاس ۱۹۴۷ء میں کھولی گئی جس میں ۵۳ واقفین داخل کئے گئے۔ ابھی پڑھائی کا گویا آغاز ہی تھا کہ ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر طلبہ قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے رہ گئے اور صرف چھ پاکستان آئے جنہیں تکمیل تعلیم کے بعد تبلیغ پر لگا دیا گیا۔۲۲۲
اس کے بعد آئندہ کے لئے یہ شرط عائد کردی گئی کہ صرف غیر شادی شدہ لئے جائیں گے نیز یہ کہ ان کو صرف دوران تعلیم میں وظیفہ دیا جائے گا اور تعلیم کے بعد دو برس تک کسی الائونس کے بغیر مفوضہ کام کرنا ہوگا۔ چنانچہ ان شرائط کے مطابق چوتھی کلاس جون ۱۹۴۸ء سے لاہور میں جاری کی گئی۔۲۲۳ اور جب واقفین دور تعلیم مکمل کرچکے تو وہ اپنے اپنے حلقوں میں بھجوا دیئے گئے۔ اس طرح دیہاتی مبلغین کے چار گروپ بن گئے۔ جن کی تعداد ۱۹۵۲ء میں انسٹھ تک جاپہنچی۔۲۲۴ ۲۸۔ مارچ ۱۹۵۴ء۲۲۵ کو سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کے ارشاد پر مولانا ابوالعطاء صاحب اور میاں غلام محمد صاحب اختر پر مشتمل ایک بورڈ مقرر کیا گیا جس نے دیہاتی مبلغین کا امتحان لیا اور قابل مبلغین کا انتخاب کرکے نظارت اصلاح و ارشاد صدر انجمن احمدیہ میں بطور معلم رکھ لیا گیا اور باقی فارغ کر دیئے گئے۔۲۲۶body] [tag
وقف جائیداد اور وقف آمد کی اہم تحریک
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۱۰۔ مارچ ۱۹۴۴ء کو جماعت سے وقف جائیداد اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں وقف آمد کا مطالبہ فرمایا۲۲۷ اور ساتھ ہی وضاحت بھی فرمائی کہ۔
>یہ وقف ۔۔۔۔۔۔ اس صورت میں ہوگا کہ ان کی جائیداد ان ہی کے پاس رہے گی اور آمد بھی مالک کی ہوگی اور وہی اس کا انتظام بھی کرے گا ہاں جب سلسلہ کے لئے ضرورت ہوگی۔ ایسی ضرورت جو عام چندہ سے پوری نہ ہوسکے تو جتنی رقم کی ضرورت ہوگی اسے ان جائیدادوں پر بحصہ رسدی تقسیم کر دیا جائے گا<۔۲۲۸
اس مطالبہ کے اعلان سے قبل نہ صرف حضرت امیرالمومنینؓ نے اپنی جائیداد وقف فرما دی بلکہ حضور کا منشاء مبارک معلوم ہوتے ہی چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اور نواب مسعود احمد خاں صاحب نے اپنی جائیدادیں اپنے آقا کے حضور پیش کردیں۔ جس کا ذکر خود حضور نے بایں الفاظ فرمایا۔
>میں سب سے پہلے اس غرض کے لئے اپنی جائیداد وقف کرتا ہوں۔ دوسرے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ہیں انہوں نے بھی اپنی جائیداد میری اس تحریک پر دین کی خدمت کے لئے وقف کردی ہے۔ بلکہ انہوں نے مجھے کہا آپ جانتے ہیں آپ کی پہلے بھی یہی خواہش تھی اور ایک دفعہ آپ نے اپنی اس خواہش کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا کہ میری جائیداد اس غرض کے لئے لے لی جائے۔ اب دوبارہ میں اس مقصد کے لئے اپنی جائیداد پیش کرتا ہوں۔ تیسرے نمبر پر میرے بھانجے مسعود احمد خاں صاحب ہیں انہوں نے کل سنا کہ میری یہ خواہش ہے تو فوراً مجھے لکھا کہ میری جس قدر جائیداد ہے اسے میں بھی اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کرتا ہوں<۔۲۲۹
حضور نے اس وقف کے لئے ایک کمیٹی تشکیل فرمائی جس کے ذمہ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس وقت فلاں ضرورت کے لئے وقف جائیدادوں سے کتنی رقم لی جائے۔
نومبر ۱۹۴۴ء تک قریباً ایک کروڑ روپیہ مالیت کی جائیدادیں وقف ہوئیں۔۲۳۰
وقف زندگی کی وسیع تحریک
حضرت اقدسؓ کی دوربین نگاہ نے قبل از وقت دیکھ لیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر ہمیں فوری طور پر تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دینا پڑے گی۔ اس لئے حضورؓ نے ۲۴۔ مارچ ۱۹۴۴ء کو وقف زندگی کی پرزور تحریک فرمائی۔۲۳۱ اور ارشاد فرمایا کہ۔
>میرا اندازہ ہے کہ فی الحال دو سو علماء کی ہمیں ضرورت ہے تب موجودہ حالات کے مطابق جماعتی کاموں کو تنظیم کے ماتحت چلایا جاسکتا ہے لیکن اس وقت واقفین کی تعداد ۳۰۔ ۳۵ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ گریجویٹوں اور ایم۔ اے پاس نوجوانوں کی بھی کالج کے لئے ضرورت ہے تا پروفیسر وغیرہ تیار کئے جاسکیں۔ ایسے ہی واقفین میں سے آئندہ ناظروں کے قائم مقام بھی تیار کئے جاسکیں گے۔ آگے ایسے لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ناظروں کا قائم مقام بنایا جاسکے۔ میری تجویز ہے کہ واقفین نوجوانوں کو ایسے کاموں پر بھی لگایا جائے اور ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی جائے کہ وہ آئندہ موجودہ ناظروں کے قائم مقام بھی ہوسکیں۔ پس ایم۔ اے پاس نوجوانوں کی ہمیں ضرورت ہے<۔۲۳۲
نوجوانان احمدیت کا شاندار اخلاص
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی اس تحریک پر نوجوانان احمدیت خدمت دین کے لئے دیوانہ وار آگے بڑھے اور اپنی زندگیاں وقف کیں۔ اخلاص و محبت کا یہ ایسا شاندار نظارہ تھا کہ اس نے غیر مسلموں تک کو متاثر کیا۔ چنانچہ اخبار >پرکاش< )جالندھر( نے لکھا۔
>آپ احمدیت` تحریک قادیان کی طرف دھیان دیں اور آنکھیں کھولیں۔ قادیان میں بڑے سے بڑے احمدی نے اپنے لخت جگروں کو احمدیت کی تبلیغ کے لئے وقف کردیا ہے اور اس پیشہ کو بڑی آدر کی درشٹی سے دیکھا جاتا ہے۔ تحریک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے کیونکہ ان کے لیڈر عالم باعمل ہیں اور سپرٹ مخلصانہ ہے<۔۲۳۳
غیر احمدی نوجوانوں پر تحریک وقف کا اثر
اس تحریک کا غیر احمدی نوجوانوں پر کیا اثر ہوا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے صرف ایک مکتوب درج کیا جاتا ہے۔ ایک غیر احمدی دوست اقبال احمد صاحب زبیری بی اے بی ٹی )علیگ( نے حضور کی خدمت میں لکھا:۔
>حضرت امیرالمومنین السلام علیکم۔ آپ کی جماعت میں ایک صاحب بنام مبارک احمد صاحب میرے ہم پیشہ دوست ہیں۔ میرا اور موصوف کا قریباً دو ڈھائی سال سے ساتھ ہے اور ہمارے درمیان بہت گہرے اور مخلصانہ تعلقات قائم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ موصوف کے ساتھ دو جمعہ کی نمازوں میں شریک ہوا جبکہ علاوہ وقتاً فوقتاً الفضل پڑھنے کے آپ کا دیا ہوا خطبہ میں نے سنا۔ وہ خطبے جو میں نے سنے ان میں سے دو قابل ذکر ہیں۔ ایک جو ہندوستان اور برطانیہ کے مابین مصالحت کے متعلق تھا اور دوسرا جس میں آپ نے جماعت کے لوگوں سے زندگی وقف کردینے کے لئے خدا اور اس کے رسول کی راہ میں تاکید فرمائی ہے۔ مبارک احمد صاحب نے تو آپ کی آواز پر فوراً لبیک کہا اور ان کا خط اور درخواست غالباً اس وقت آپ کے زیر غور ہوگی۔ میں آپ کی جماعت کا باقاعدہ رکن تو اس وقت نہیں ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کی خدمت کسی نظام کے ماتحت کرنے میں مجھے عذر بھی نہیں<۔
مجاہدین تحریک جدید کے لئے اسناد
تحریک جدید کے ابتدائی دس سال ختم ہوئے تو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دفتر اول کے مجاہدین کو اپنے دستخط سے مطبوعہ اسناد۲۳۴ عطا فرمائیں۔
اشاعت لٹریچر
دور ثانی میں تحریک جدید کی طرف سے مندرجہ ذیل لٹریچر شائع کیا گیا۔
۱۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام
>۔SPLIT THE ABOUT TRUTH <THE ۔2
۳۔ انقلاب حقیقی
‏(1939) AIIND OUTSIDE COMMUNITY AHMADIYYA OF PROGRESS SHOWING ALBUM ۔4
۵۔ >تفسیر کبیر< جلد سوم )دسمبر ۱۹۴۰ء(
۶۔ سیر روحانی )۱۹۴۱ء( ۷۔ نظام نو )۱۹۴۳ء(
تحریک جدید کے دس سالہ دور پر ایک نظر
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ تحریک جدید کے پہلے دس سالوں کی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
>تحریک جدید کے پہلے دور کی میعاد دس سال تھی ۔۔۔۔۔۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قربانی کی توفیق دی ہے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس نے اس عرصہ میں جو چندہ اس تحریک میں دیا وہ تیرہ۔ چودہ لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اس روپیہ سے جہاں ہم نے اس دس سال کے عرصہ میں ضروری اخراجات کئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ریزروفنڈ بھی قائم کیا ہے اور اس ریزروفنڈ کی مقدار ۲۸۰ مربع زمین ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک سو مربع زمین ایسی ہے جس میں سے کچھ حصہ خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ کچھ حصہ گو خریدا تو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے۔ اسے اگر شامل کرلیا جائے تو کل رقبہ ۳۸۰ مربعے ہو جاتا ہے۔ اس دوران میں تحریک جدید کے ماتحت ہمارے مبلغ جاپان میں گئے۔ تحریک جدید کے ماتحت چین میں مبلغ گئے` سنگاپور میں گئے۔ اور اس تحریک کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے سپین` اٹلی` ہنگری` پولینڈ` البانیہ` یوگوسلاویہ اور امریکہ میں بھی مبلغ گئے اور ان مبلغین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور سلسلہ سے لاکھوں لوگ روشناس ہوئے<۔۲۳۵
پہلا باب )فصل نہم(
دفتر دوم سے لیکر دفتر سوم تک
)مئی ۱۹۴۴ء تا نومبر ۱۹۶۵ء
دفتر دوم کا آغاز
مئی ۱۹۴۴ء میں دفتر دوم شروع ہوا۔ حضور نے دفتر دوم کیے مجاہدین کے لئے تین شرائط مقرر فرمائیں۔
۱۔
چندہ ایک ماہ کی آمد کے برابر ہو۔
۲۔
وہ انیس سال تک چندہ دیئے جائیں اور آمد کے مطابق ہر سال اس میں اضافہ کریں۔
۳۔
آمد کے بند ہو جانے یا ملازمت سے علیحدگی کی صورت میں فوراً دفتر تحریک جدید کو اطلاع دیں۔ دفتر ان کے حالات کا جائزہ لے کر چندہ کی رقم مقرر کردے گا۔10] [p۲۳۶
اس سلسلہ میں حضورؓ نے دفتر ثانی کے ہر مجاہد کو ایک خاص ارشاد یہ فرمایا کہ۔
>وہ عہد کرے کہ نہ صرف آخر تک وہ خود پوری باقاعدگی کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیتا رہے گا بلکہ کم سے کم ایک آدمی ایسا ضرور تیار کرے گا جو دفتر دوم میں حصہ لے اور اگر وہ زیادہ آدمی تیار کرسکے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے<۔۲۳۷
فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام
۱۱۔ مئی ۱۹۴۴ء کو تحریک جدید کے سرمایہ سے قادیان میں >فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ< کے تحقیقاتی ادارہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اور اس کا افتتاح ۱۹۔ اپریل ۱۹۴۶ء کو ہندوستان کے مشہور سائنسدان سرشانتی سروپ بھٹناگر نے کیا۔ انسٹی ٹیوٹ نے تین سال کے قلیل عرصہ میں بیرونی ممالک سے لیبارٹری کا قیمتی سامان فراہم کرنے کے علاوہ سائنس کے مستند اور تازہ لٹریچر پر مشتمل ایک مثالی لائبریری قائم کردکھائی۔
اخبار >انقلاب< )لاہور( ۲۰۔ اپریل ۱۹۴۶ء` روزنامہ >سٹیسمین< )دہلی۔ کلکتہ( )مئی ۱۹۴۶ء( اور لنڈن کے مشہور سائنسی رسالہ <NATURE> نے ۸۔ جون ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح پر نہایت زوردار تبصرے شائع کئے اور مذہب و سائنس کی ہم آہنگی کے لئے جماعت احمدیہ کی اس شاندار کوشش کو بہت سراہا۔۲۳۸`۲۳۹
معاہدہ >حلف الفضول< کا احیاء
۱۲۔ جولائی ۱۹۴۴ء کو حضورؓ نے الہام الٰہی کی بناء پر معاہدہ حلف الفضول کا احیاء فرمایا۔۲۴۰ نیز بتایا کہ۔
>یہ ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا۔ جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل نام کے آدمی تھے۔ اس لئے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں۔ اور اس معاہدہ کا مطلب یہ تھا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گے اور اگر کوئی ان پر ظلم کرے گا تو ہم اس کو روکیں گے۔۲۴۱
جنگ عظیم )ثانی( کا اثر تحریک جدید پر
یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی جو ۱۰۔ اگست ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔ اس دوران میں چھ سال تک بیرونی ممالک میں کوئی نیا مشن قائم نہ کیا جاسکا۔ اور جو مشن جنگ سے پہلے قائم ہوچکے تھے وہ بھی اپنی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور ہوگئے۔
مشہور زبانوں میں لٹریچر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس جنگی زمانہ میں اپنی پوری قوت تحریک جدید کی بنیادیں مضبوط کرنے اور تبلیغی لٹریچر کی تیاری میں صرف فرما دی۔۲۴۲ چنانچہ اس عرصہ میں دوسرے اہم امور کے علاوہ حضور نے دنیا کی مشہور زبانوں انگریزی` روسی` جرمن` فرانسیسی` اطالوی` ڈچ` ہسپانوی اور پرتگیزی میں قرآن مجید کا ترجمہ کرایا۔ انگریزی تفسیر القرآن کا کام تو قادیان میں ہورہا تھا۔ باقی زبانوں کے تراجم مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ انگلستان کی نگرانی میں لنڈن میں پناہ گزین غیر ملکی ادیبوں نے مکمل کئے۔
حضور نے ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۴ء کو تراجم قرآن کریم کے ساتھ اور دوسرے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کی نہایت اہم سکیم رکھی اور اس غرض کے لئے بارہ کتابوں کا سیٹ تجویز فرمایا۔ جس کا دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں میں ترجمہ ہونا ضروری تھا۔ ان بارہ کتابوں میں سے نو یہ تھیں۔ ۱۔ اسلامی اصول کی فلاسفی۔ ۲۔ مسیح ہندوستان میں۔ ۳۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔ ۴۔ رسول کریم~صل۱~ کی سوانح عمری۔ ۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح۔ ۶۔ ترجمہ احادیث۔ ۷۔ پرانے اور نئے عہد نامہ میں سے رسول کریم~صل۱~ کے متلعق پیشگوئیاں۔ ۸۔ پرانے اور نئے عہد نامہ کی روشنی میں توحید۔ ۹۔ نظام نو۔ یہ سیٹ انگریزی ممالک کے لئے تھا۔ جہاں تک عربی ممالک کا تعلق ہے حضورؓ کا منشاء تھا کہ اور قسم کا سیٹ تجویز ہونا چاہئے۔
اس کے علاوہ حضور نے نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹوں اور اشتہاروں کی اشاعت کا پروگرام اس سکیم میں شامل کیا۔4] fts[۲۴۳
اس عظیم الشان جدوجہد کا واحد مقصد یہ تھا کہ جونہی مادی اور سیاسی جنگ بند ہو تبلیغی اور روحانی جنگ کا آغاز کردیا جائے۔۲۴۴ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا۔
>لڑائی کا بگل تو جب اللہ تعالیٰ چاہے گا بجے گا۔ پریڈ کا بگل بجا دیا گیا ہے اور چاہئے کہ اسلام کا درد رکھنے والوں میں یہ بگل ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے کا موجب ہو۔ وقت آگیا ہے کہ جن نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں وہ جلد سے جلد علم حاصل کرکے اس قابل ہو جائیں کہ انہیں اسلام کی جنگ میں اسی طرح جھونکا جاسکے جس طرح تنور میں لکڑیاں جھونکی جاتی ہیں۔ اس جنگ میں وہی جرنیل کامیاب ہوسکتا ہے جو اس لڑائی کی آگ میں نوجوانوں کو جھونکنے میں ذرا رحم نہ محسوس کرے اور جس طرح ایک بھڑبھونجا چنے بھونتے وقت آموں اور دوسرے درختوں کے خشک پتے اپنے بھاڑ میں جھونکتا چلا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا اسی طرح نوجوانوں کو اس جنگ میں جھونکتا چلا جائے۔ اگر بھاڑ میں پتے جھونکنے کے بغیر چنے بھی نہیں بھن سکتے تو اس قسم کی قربانی کے بغیر اسلام کی فتح کیسے ہوسکتی ہے؟
پس اس جنگ میں وہی جرنیل کامیابی کا منہ دیکھ سکے گا جو یہ خیال کئے بغیر کہ کس طرح مائوں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں نوجوانوں کو قربانی کے لئے پیش کرتا جائے۔ موت اس کے دل میں کوئی رحم اور درد پیدا نہ کرے۔ اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا جھنڈا اس نے دنیا میں گاڑنا ہے اور سنگدل ہوکر اپنے کام کو کرتا جائے۔ جس دن مائیں یہ سمجھیں گی کہ اگر ہمارا بچہ دین کی راہ میں مارا جائے تو ہمارا خاندان زندہ ہو جائے گا جس دن آپ یہ سمجھنے لگیں گے کہ اگر ہمارا بچہ شہید ہوگیا تو وہ حقیقی زندگی حاصل کر جائے گا اور ہم بھی حقیقی زندگی پالیں گے وہ دن ہوگا جب محمد مصطفیٰ~صل۱~ کیے دین کو زندگی ملے گی<۔۲۴۵
بیرونی تبلیغ اور خصوصی تعلیم کیلئے واقفین کا اہم انتخاب
یکم فروری ۱۹۴۵ء کا دن تحریک جدید میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز حضور نے دارالواقفین کے تمام مجاھدین کو قصر خلافت میں شرف باریابی بخشا۔ ازاں بعد حضور نے بائیس واقفین کو بیرونی ممالک میں بھجوانے اور نو واقفین کو تفسیر` حدیث` فقہ اور فلسفہ و منطق کی اعلیٰ تعلیم۲۴۶ دلانے کے لئے منتخب فرمایا تاوہ سلسلہ کے بزرگ علماء کے قائم مقام بن سکیں۔ اس موقعہ پر حضور نے اپنے دست مبارک سے جو تحریر بطور یادداشت لکھی وہ ایک نہایت قیمتی یادگار ہے جس کا عکس بھی اس مقام پر دیا جارہا ہے۔۲۴۷حضورؓ نے جن واقفین کو ممالک غیر کی تبلیغ کے لئے تجویز فرمایا ان کے نام یہ ہیں۔
)عرب ممالک( مولوی رشید احمد صاحب چغتائی۔ مولوی نور احمد صاحب منیر۔ چوہدری شریف احمد صاحب۔ )ایران( مولوی صدر الدین صاحب` شیخ عبدالواحد صاحب۔ )سپین( مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر` چوہدری محمد اسحاق صاحب ساقی۔ )جنوبی امریکہ( مولوی منور احمد صاحب` چودھری غلام رسول صاحب۔ )اٹلی( مولوی محمد عثمان صاحب` محمد ابراہیم صاحب خلیل` )جرمنی( مولوی عبداللطیف صاحب` شیخ ناصر احمد صاحب` مولوی غلام احمد صاحب بشیر۔ )انگلستان( چودھری مشتاق احمد صاحب صاحب باجوہ۔ چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ۔ حافظ قدرت اللہ صاحب۔ )شمالی امریکہ( چودھری خلیل احمد صاحب ناصر` چوہدری غلام یٰسین صاحب` مرزا منور احمد صاحب۔ )فرانس( ملک عطاء الرحمن صاحب` مولوی اللہ دتا صاحب۔۲۴۸
حصول تعلیم خاص کے لئے مندرجہ ذیل واقفین منتخب کئے گئے۔
مولوی نور الحق صاحب۲۴۹
)تفسیر(
ملک سیف الرحمن صاحب۲۵۰
)فقہ(
مولوی محمد صدیق صاحب۲۵۱
)حدیث(
مولوی محمد احمد صاحب جلیل۲۵۲
)حدیث(
مولوی محمد احمد صاحب ثاقب۲۵۳
)فقہ(
مولوی غلام باری صاحب سیف۲۵۴
)حدیث(
حکیم محمد اسمعیٰل صاحب۲۵۵
)منطق و فلسفہ(
حافظ بشیرالدین عبیداللہ صاحب۲۵۶
)تفسیر(
ملک مبارک احمد صاحب۲۵۷
)منطق و فلسفہ(

ازاں بعد مولوی خورشید احمد صاحب شاد۲۵۸ بھی اس زمرہ میں شامل کر لئے گئے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے آپ کو حدیث شریف کی خصوصی تعلیم کا ارشاد فرمایا۔
مندرجہ بالا واقفین مئی ۱۹۴۷ء میں فارغ التحصیل ہوئے جس کا ذکر خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۶۔ جون ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ میں کیا۔ چنانچہ فرمایا۔
>مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علماء اب ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ جماعت کو یکدم مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کا علمی معیار قائم نہ رہ سکے۔ چنانچہ اس کے لئے میں نے آج سے تین چار سال قبل نئے علماء کی تیاری شروع کردی تھی۔ کچھ نوجوان تو میں نے مولوی صاحب )یعنی حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ۔ ناقل( سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے۲۵۹ اور کچھ باہر بھجوا دیئے تاکہ وہ دیوبند وغیرہ کے علماء۲۶۰ سے ظاہری علوم سیکھ آئیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کی بات ہے کہ ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے۔ جب وہ واپس آگئے تو مولوی صاحب فوت ہوگئے<۔۲۶۱
حضرت اقدس نے مرکز میں ان واقفین کی واپسی پر ان کو دوسرے واقفین کے پڑھانے پر مقرر فرما دیا۔ نیز ارشاد فرمایا کہ فقہ پڑھنے والے دوسروں کو فقہ کی اور حدیث پڑھنے والے دوسروں کو حدیث کی تعلیم دیں۔ چنانچہ یکم رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ مطابق ۱۹۔ جولائی ۱۹۴۷ء تک تدریس کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد واقفین کو ایک ماہ کی رخصت دی گئی۔ اسی دوران میں ملک تقسیم ہوگیا اور ان کو ہجرت کرکے پاکستان آنا پڑا۔
خاندانی وقف کی تحریک
۵۔ جنوری ۱۹۴۵ء کو حضرت امیرالمومنینؓ نے فرمایا۔
>تحریک جدید کے پہلے دور میں میں نے اس کی تمہید باندھی تھی۔ مگر اب دوسری تحریک کے موقعہ پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ دینا لازم کرتا ہے۔ اسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لئے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لئے وقف کرے گا<۔۲۶۲
اپنے پیارے آقا کے اس ارشاد پر کئی مخلصین نے اپنے بچوں کو وقف کیا اور کررہے ہیں۔
بیرونی ممالک کی تبلیغ تحریک جدید کے دائرہ عمل میں
فروری ۱۹۴۵ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے بیرون ہند کے جملہ مشن تحریک جدید کے سپرد فرما دیئے جس کے مطابق ۱۴۔ فروری ۱۹۴۵ء کو صدر انجمن احمدیہ قادیان نے حسب ذیل ریزولیوشن پاس کیا۔
>رپورٹ ناظر صاحب اعلیٰ کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ` تحریک کے مدارس اور مشن جو ہندوستان میں ہیں اپنے انتظام میں لے لے اور فلسطین` انگلستان اور امریکہ کے مشن تحریک جدید کے سپرد کردے<۔
اخراجات کی تقسیم کی یہ صورت ہوکہ صدر انجمن احمدیہ بیرون ہند کے مذکورہ بالا مشنوں کا منظور شدہ بجٹ بعد وضع اخراجات سکول و مشن ہائے تحریک جو صدر انجمن کو ملیں گے نکلوا کر تحریک جدید کو دے دیا کرے۔ جوں جوں ان )فلسطین` انگلستان` و امریکہ( کے علاقوں کی آمد بڑھتی جائے گی اس قدر انجمن ان اخراجات سے آزاد ہوتی جائے گی<۔۲۶۳
تحریک >وقف تجارت<
۵۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو حضور نے وقف تجارت کی تحریک فرمائی جس کا مقصد تجارت کے ذریعہ تبلیغی سنٹر قائم کرنا تھا۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>وہ نوجوان جو فوج سے فارغ ہوں گے اور وہ نوجوان جو نئے جوان ہوئے ہیں اور ابھی کوئی کام شروع نہیں کیا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی وقف کریں۔ ایسے رنگ میں نہیں کہ ہمیں دین کے لئے جہاں چاہیں بھیج دیں چلے جائیں گے بلکہ ایسے رنگ میں کہ ہمیں جہاں بھجوایا جائے ہم وہاں چلے جائیں گے۔ اور وہاں سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت تجارت کریں گے۔ اس رنگ میں ہمارے مبلغ سارے ہندوستان میں پھیل جائیں گے۔ وہ تجارت بھی کریں گے اور تبلیغ بھی<۔۲۶۴
وقف تجارت کے تحت واقفین تجارت کو مختلف مقامات پر متعین کیا گیا جہاں سے وہ دفتر کی ہدایات کے ماتحت تجارت کرتے اور اپنی باقاعدہ رپورٹیں بھجواتے تھے۔ اس وقف کے تحت سرمایہ واقفین خود لگاتے تھے۔۲۶۵`۲۶۶
حضرت مصلح موعود کا مکتوب فنانشل سیکرٹری تحریک جدید کے نام
حضرت مصلح موعود نے ۳۔ جولائی ۱۹۴۵ء کو چوہدری برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری تحریک جدید کے نام حسب ذیل مکتوب اپنے قلم
مبارک سے تحریر فرمایا۔




خاتمہ جنگ اور مجاہدین تحریک جدید کی روانگی
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قبل از وقت پیشگوئی فرمائی تھی کہ۔
>تحریک جدید کا اجراء جن اغراض کے ماتحت الٰہی تصرف سے ہوا تھا اس کی وجہ سے میں سمجھتا تھا کہ تحریک جدید کا پہلا دور جب ختم ہوگا تو خدا تعالیٰ ایسے سامان بہم پہنچائے گا کہ تحریک جدید کی اغراض کو پورا کرنے میں جو روکیں اور موانع ہیں خدا تعالیٰ ان کو دور کردے گا اور تبلیغ کو وسیع کرنے کے سامان بہم پہنچا دے گا اور چونکہ تبلیغ کے لئے یہ سامان بغیر جنگ کے خاتمہ کے میسر نہیں آسکتے اس لئے میں سمجھتا تھا کہ ۱۹۴۴ء کے آخر یا ۱۹۴۵ء کے شروع تک یہ جنگ ختم ہوجائے گی<۔۲۶۷
چنانچہ ۱۵۔ اگست ۱۹۴۵ء کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے اور جنگ ختم ہوگئی۔ اب چونکہ تبلیغی رستے بھی کھلنے شروع ہوگئے تھے اس لئے مجاہدین تحریک جدید بیرونی ممالک میں روانہ کئے جانے لگے۔ چنانچہ اس سال سولہ مبلغین۲۶۸ قادیان سے عازم ممالک بیرون ہوئے جن میں سے نو مجاہدین دسمبر ۱۹۴۵ء میں ایک قافلہ کی صورت میں انگلستان بھجوائے گئے۔ جنہوں نے لنڈن میں کچھ عرصہ ٹریننگ کے بعد یورپ کے اطراف و جوانب میں نئے مشن کھولے یہ یہ قافلہ مندرجہ ذیل مبلغین پر مشتمل تھا۔
‏tav.8.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ۔ حافظ قدرت اللہ صاحب۔ ملک عطاء الرحمن صاحب۔ چودھری اللہ دتا صاحب۔ چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر۔ چودھری محمد اسحاق صاحب ساقی۔ مولوی محمد عثمان صاحب۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل۔ مولوی غلام احمد صاحب بشیر۔۲۶۹body] g[ta
تحریک جدید کی رجسٹریشن
۱۸۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو تحریک جدید کی رجسٹریشن ہوئی اور اس تاریخ سے اس کا پورا نام >تحریک جدید انجمن احمدیہ< رکھا گیا۔ تحریک جدید کے آرٹیکلز اینڈ میمورنڈم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے مرتب کئے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ابتدائی ممبر یہ مقرر ہوئے۔:
۱۔
مولوی عبدالرحمن صاحب انور انچارج دفتر تحریک جدید قادیان۔
۲۔
مولوی بہائو الحق صاحب ایم۔ اے وکیل الصنعت و الحرفت جدید قادیان۔][۳۔
خواجہ عبدالکریم صاحب بی۔ ایس۔ سی وکیل التجارت تحریک جدید قادیان۔
۴۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان۔
۵۔
مولوی عبدالمغنی صاحب وکیل التبشیر )برائے ممالک ایشیاء و افریقہ( تحریک جدید قادیان۔
۶۔
خان بہادر نواب چودھری محمد دین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر۔
۷۔
شیخ بشیر احمد صاحب بی اے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ لاہور۔
ازاں بعد کچھ وقفہ سے حضور کے ارشاد سے ان ڈائریکٹروں میں درج ذیل اصحاب کا اضافہ کیا گیا۔
۸۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس وکیل التبشیر )برائے ممالک یورپ و امریکہ( تحریک جدید قادیان۔
۹۔
چودھری برکت علی خاں صاحب وکیل المال تحریک جدید قادیان۔
۱۰۔
حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب وکیل الطباعتہ تحریک جدید قادیان۔۲۷۰
مجلس تحریک جدید کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم سے ۱۷۔ مئی ۱۹۴۷ء کو مجلس تحریک جدید کا قیام عمل میں آیا جس کا کام تحریک جدید سے متعلق امور پر باہمی مشورہ سے فیصلے کرنے اور ان کو حضور کی خدمت میں منظوری کے لئے بھجوانا تھا۔ ۱۶۔مارچ ۱۹۴۷ء کو حضرت اقدس کے حکم سے اس مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ کے صدر مولوی جلال الدین صاحب شمس اور سیکرٹری مولوی عبدالرحمن صاحب انور تجویز کئے گئے۔
خصوصی ممبران کا تقرر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۳۰۔ اگست ۱۹۴۷ء کو تحریک جدید کے بعض خصوصی ممبران مقرر کرتے ہوئے ہدایت دی کی۔
>میں یکم مارچ ۱۹۴۸ء تک مولوی نور الحق صاحب۲۷۱` چوہدری محمد شریف صاحب پلیڈر منٹگمری` مرزا مظفر احمد آئی۔ سی۔ ایس` مولوی سیف الرحمن صاحب` مولوی محمد صدیق صاحب فاضل ساکن قادیان اور سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو تحریک جدید انجمن کے ممبر مقرر کرتا ہوں۔ ان کے اختیارات دوسرے ممبروں کے مطابق ہوں گے اور ان کا کورم حقیقی کورم سمجھا جائے گا۔ خاکسار
مرزا محمود احمد۴۷/۸ ۳۰<
تقسیم ہند اور تحریک جدید
۱۹۴۷ء میں جماعت کے کثیر حصہ کو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ یہ زمانہ تحریک جدید کے لئے بہت صبر آزما تھا۲۷۲ کیونکہ تقسیم ملک کی وجہ سے نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ ان حالات میں تحریک جدید کے دفاتر نہایت کس مپرسی کے عالم میں جو دھامل بلڈنگ لاہور میں قائم کئے گئے تھے۔ آمد میں یکایک کمی واقع ہوگئی۔ اور اخرجات بے تحاشہ بڑھ گئے اور بیرونی مشنوں کو امداد دینے کا سلسلہ بھی وقتی طور پر معطل ہوگیا۔ مگر تحریک جدید کے مجاہدین نے اس موقعہ پر غیر معمولی صبروتحمل اور وفا شعاری کا ثبوت دیا اور بیرونی مشن بھی جلد ہی اپنے پائوں پر کھڑے ہوگئے۔
تحریک جدید کی پاکستان میں رجسٹریشن
مجلس تحریک جدید کی طرف سے رجسٹریشن کے لئے رجسٹرار صاحب جائنٹ سٹاک کمپنیز مغربی پنجاب پاکستان کے نام ۱۴۔ فروری ۱۹۴۸ء کو درخواست دی گئی جس کی منظوری ۱۹۔ فروری ۱۹۴۸ء کو موصول ہوئی اور مجلس تحریک جدید پاکستان میں بھی رجسٹرڈ ہوگئی جو شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور اور مولوی عبدالرحمن صاحب انور کی۲۷۳ کوششوں کا نتیجہ تھا۔
‏sub] ga[tجامعہ المبشرین کا قیام
تقسیم ملک سے پہلے قادیان میں جامعہ احمدیہ ہی ایک ادارہ تھا جہاں سے مبلغین فارغ التحصیل ہوکر مختلف مشنوں میں متعین ہوتے تھے۔ پاکستان بننے پر ۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جامعہ احمدیہ کے علاوہ جامعہ المبشرین ربوہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کا سٹاف اکثر و بیشتر ان واقفین پر مشتمل تھا جو ۱۹۴۷ء میں علوم اسلامیہ کی خصوصی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ اس ادارہ کا مقصد یہ تھا کہ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں اور دیگر واقفین زندگی کی تعلیم کا انتظام کرے اور ان کو تبلیغی ٹریننگ دے۔ جامعہ المبشرین سالہا سال تک مستقل ادارہ کی صورت میں قائم رہنے کے بعد ۷۔ جولائی ۱۹۵۷ء کو جامعہ احمدیہ میں مدغم کر دیا گیا۔
تحریک جدید کے مستقل شعبوں کیلئے حضرتخلیفتہ المسیح الثانیؓ کا دستور العمل
فروری ۱۹۵۰ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے قلم مبارک سے تحریک جدید کے مختلف شعبوں کے لئے ایک مفصل دستور العمل تجویز
فرمایا۔ جس کی تفصیل خود حضورؓ کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔
حضور نے تحریر فرمایا۔
>تحریک جدید کے سردست مندرجہ ذیل وکلاء ہوں۔
وکالت مال: )۱( وکیل المال اول )۲( وکیل المال ثانی )۳( وکالت جائیداد۔
وکیل المال اول چوہدری برکت علی صاحب` وکیل ثانی قریشی عبدالرشید صاحب ہوں گے۔ تیسرا وکیل تجویز کیا جائے گا۔ اس کا کام بجٹ بنانا` اس کی نگرانی کرنا` روپیہ جمع کرنا` مبادلہ زر کے ماہرین کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا` جائیداد کی نگرانی` امانت اور جائز بنکنگ کے طریقوں کا رائج کرنا۔
وکالت دیوان: اس وکالت کااصل کام مجلس وکالت کے سیکرٹری کا ہوگا۔ مجلس بلوانا` اس کی کارروائی کا ریکارڈ کروانا` مختلف وکالتوں میں تعاون قائم رکھوانا اور ادارہ جاتی مجالس بلوانا۔ یعنی مجلس وکالت کے علاوہ جب ضرورت ہو` جب کام خراب ہورہا ہو` تعاون میں کمی آئے یا ترقی کی تجاویز کا تقاضا ہو تو ایک سے زیادہ وکلاء کو بلوا کر کوئی ایسی سکیم تیار کروانا جس میں ایک سے زیادہ وکلاء کی شمولیت کی ضرورت ہو۔ وکالتوں کے لئے عملہ کا فیصلہ کہ اتنا درکار ہوگا اور اتنے اتنے عرصہ کے بعد اس کے بدلنے کی ضرورت ہوگی وغیرہ وغیرہ اور حسب ضرورت نئے آدمی لینا اور ان کی تعلیم و تربیت )کرنا( اس وکالت کا ایک نائب وکیل الدیوان ہوگا جس کے سپرد کام کا ایک حصہ ہوگا۔ اس وکالت پر سردست دو افسر ہوں گے۔ )۱( مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرانے تجربہ کی وجہ سے ورنہ جس علم کی اس میں ضرورت ہے وہ ان کو نہیں۔ دوسرا وکیل میں مقرر کروں گا۔ نائب وکیل محمد شریف خالد صاحب۔
وکالت تعلیم: اس وکالت کا کام تعلیمی انتظام نصاب بنوانا۔ کالج کی نگرانی۔ وقتی تعلیم کورس تیار کروانا تاکہ مبلغین کی تعلیم کی ترقی تاعمر جاری رہے۔ اس وکالت کا کام یہ ہوگا کہ جلد سے جلد علماء سے مشورہ کرکے۔
اول۔
کالج کی تعلیم کا کورس اور اس کی جماعتوں کا انتظام کرے۔
)۲(
دیہاتی مبلغین کی تعلیم کا کورس تیار کرے۔
)۳(
انگریزی دان مبلغین کی تعلیم کا کورس تیار کرے۔
)۴(
یہ فیصلہ کرے کہ مبلغین کو ساری عمر میں کتنے کورس پاس کروانے ضروری ہیں اور کس کس قسم کے یعنی علاوہ خالص تعلیمی کے انتظامی` تحقیقی` تبلیغی` سیاسی وغیرہ اور پھر ان کے کورس تجویز کرے اور کورس بنوائے۔ ہر اک جماعت کا پہلے سے کورس تیار ہونا چاہئے۔
)۵(
دیہاتی مبلغوں کے لئے کورس تجویز کرے اور کورس تیار کروائے اور شق اول کی طرح ان کی عمر بھر کی ترقی کے لئے کورس تیار کروائے۔ اس کام پر میاں عبدالرحیم احمد صاحب مقرر ہوں گے۔
وکالت تجارت: اس کا کام )۱( تجارتی مہارت کے آدمی تیار کرنا )۲( مبادلہ زر کے قواعد جمع کرنا )۳( درآمد و برآمد اور تجارت کے قوانین مہیا کرنا اور سلسلہ کے لئے مفید معلومات کا جمع کرنا )۴( جماعت )کی( تجارت کی ترقی کی کوشش )۵( سلسلہ کی تجارت کی نگرانی اور ترقی )۶( تجارت کے ذریعہ سے سلسلہ کی آمد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا )۷( تمام دنیا کی جماعتوں کو تجارتی زنجیر میں متحد کرنا۔ غرض تجارتی طور پر دنیا بھر میں احمدیت کو فائق کرنا اس کا کام ہوگا۔ مفصل سکیم یہ ناظر )وکلاء( بنائیں اور مجلس وکالت کے مشورہ کے بعد مجھ سے مشورہ لیں۔ اس پر عباس احمد خاں مقرر ہوں گے۔
وکالت صنعت: اس وکالت کا کام سلسلہ میں صنعت و حرفت کی ترقی` نئے نئے صنعت کے ادارے جاری کرنا اور صنعت کے ماہرین پیدا کرنا` تمام دنیا کی جماعت میں صنعتی تعاون پیدا کرنا اور اشتراک عمل کی تجاویز نکالنا۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی نگرانی وغیرہ وغیرہ۔ اس وکالت پر مرزا مبارک احمد صاحب مقرر ہوں گے جب وہ فارع ہوں گے۔
وکالت قانون: اس کا کام انکم ٹیکس کی نگرانی` بیرونی جماعتوں کے لئے صحیح قانون عمل بنوانا تا سب جماعتیں ایک مقررہ نظام کے مطابق چلیں۔ حسب ضرورت قانونی مشورہ دینا` مجلس کے تمام کاموں کو صحیح قانونی طور پر چلانے کی ذمہ داری` قواعد اور قوانین کے الفاظ کی درستی۔ اس وکالت کا کام )صدر انجمن کے اشتراک سے( چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب اور چوہدری بہائو الحق صاحب کے سپرد ہوگا۔ گو چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب ابھی باہر ہیں مگر چونکہ یہاں آتے رہتے ہیں انہیں ابھی سے اس وکالت پر مقرر کرکے مقررہ مجلس میں شامل کیا جائے۔ اس لئے گویا دو وکیل ہوں گے۔ )۱( چوہدری بہائو الحق صاحب )۲( چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب۔
وکالت تبشیر: اس وکالت کے سپرد بیرونی مشنوں کا کام ہوگا۔ ان کے لئے کام کی سکیم ان کے اداروں کی تنظیم کے قواعد بنانا اور ان کا تبادلہ اور کام پر لگوانا` لٹریچر مہیا کرنا` لائبریریاں مہیا کرنا۔ ان کے کام کی نگرانی` کام کی وسعت کی سکیمیں بنانا` نئے مشنوں کی سکیم` بیرونی ملکوں میں مساجد کی تعمیر` سکولوں کی تعمیر اور اجراء سردست اس کے دو وکلاء ہوں گے یعنی ایک مولوی عبدالمغنی خان صاحب اور ایک دوسرا۔ اصل میں اس کا ایک وکیل اور چار نائب کیل ہوں گے۔ جن کے سپرد )۱( پاکستان کے مبلغوں کا کام )۲( افریقی اور عالم اسلامی کے مشن )۳( یورپ اور امریکہ کے مشن )۴( ایشیائی ممالک کے مشن کے کام ہوں گے۔ وکیل تبشیر نگران اعلیٰ ہوگا۔
اس محکمہ کے سپرد خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ کا کام کروانا اور لٹریچر کی مناسب تقسیم سے تبلیغ کا کام بھی ہوگا جو ہر علاقہ کے نائب کے سپرد اس کے علاقہ کے لئے ہوگا۔
وکالت اشاعت: اس کا کام رسالوں اخباروں کی نگرانی` پروگرام کے ماتحت شائع کرنا` لٹریچر تیار کروانا` مہیا کرنا` اس کی ضرورت اور اسے آمد کا ذریعہ بنانا۔ اسے ایک مصنفین کا عملہ ملے گا۔ جو کام کی نوعیت کے لحاظ سے بدلتا بھی رہے گا اور تمام عملہ وکالت اس کام کے لئے اس کے ماتحت اس طرح ہوگا کہ وہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ تصنیف کا کام لے۔
تمام وکالتوں کو دو ماہ کے اندر اندر اپنا اگلے سال کا پروگرام تیار کرلینا چاہئے اور پھر اس سے اگلے تین ماہ میں اگلے تین سال کا پروگرام اور پھر سہ ماہی چارٹ بنا کر اپنے اپنے کمروں میں لگا لینا چاہئے اور ہر سہ ماہ کے بعد رپورٹ کرنی چاہئے کہ کیا انہوں نے اپنا پروگرام تیار کرلیا ہے۔
ان امور کو مجلس وکالت ریزولیوشن کے ذریعہ سے پاس کرے اور یہ ریزولیوشن بھی کرے کہ آئندہ کوئی جرم بغیر سزا کے نہیں چھوڑا جائے گا۔ ہر امر کے متعلق مجلس وکالت یا اس کا مقرر کردہ کمیشن یہ فیصلہ کرے گا کہ غلطی ہوئی ہے یا نہیں اور اگر ہوئی ہے تو اس کی ضرور سزا دی جائے گی جس کی مقدار ایک دن گزارہ کی ضبطی سے لے کر ایک ماہ تک کے گزارہ کی ضبطی تک ہوگی۔ اگر مالی نقصان کسی وکیل یا دوسرے عملہ سے ہوگا تو اس نقصان کی حد تک رقم وصول کی جاسکے گی۔ سنگین جرموں میں مقاطعہ اور منسوخی وقف کی سزا دی جائے گی۔ مگر بہرحال کسی غلطی کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑا جائے گا۔ معافی کی درخواست خلیفہ وقت سے ہوسکتی ہے جو معاف کرنے کا حق رکھیں گے<۔۲۷۴
تحریک جدید کا بجٹ مجلس مشاورت میں
قبل ازیں مجلس مشاورت میں صرف صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ پیش ہوتا تھا مگر ۱۹۵۱ء سے تحریک جدید کا مطبوعہ بجٹ بھی پیش کیا جانے لگا۔
وقف زندگی سے متعلق نئے اصول
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۵۲ء میں فیصلہ فرمایا کہ وقف کے سلسلہ میں مندرجہ زیل امور بھی مدنظر رکھنے چاہئیں۔
اول۔
وقف ایک سے زیادہ اولاد والوں میں سے کسی ایک کا ہو۔ ہم دوسروں کا رستہ بند نہیں کرتے وہ بھی وقف کرسکتے ہیں مگر ایسے قواعد ضرور ہونے چاہئیں کہ مجبوری کے وقت وہ آسانی سے فارغ کئے جاسکتے ہوں۔
)۲(
وقف صرف بالغ مرد کا ہو۔ اکیس سال سے پہلے کے وقف آئندہ نہ لئے جائیں اور گزشتہ وقفوں کو بھی فارغ کرنے کا راستہ کھلا رکھا جائے تاکہ وقف لڑکے کا ہو باپ کا نہ ہو اور اس میں نمائش نہ ہو بالکل حقیقت ہو۔
)۳(
اکیس سال سے پہلے جن کو وظائف دیئے جائیں جیسے جامعہ احمدیہ وغیرہ میں تعلیم پانے والوں کو دیئے جاتے ہیں وہ بطور قرض ہوں جو وقف کی صورت میں وقف کے اندر مدغم ہو جائیں اور غیر وقف کی صورت میں وہ صرف قرضہ ہو جو حسب شرائط و معاہدہ وصول کرلیا جائے۔
)۴(
سابق واقفین جن کی تعلیم پر سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوا ہے وہ بھی محکمہ کے قواعد کے مطابق رقم واپس کرکے فارغ ہوسکتے ہیں۔
)۵(
جو والدین اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ امیدواران وقف کی لسٹ میں رہیں۔ جب وہ اکیس سال کے ہوجائیں تو ان سے دوبارہ پوچھا جائے کہ آیا وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے وقف کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ وقف نہ ہونا چاہیں تو ان کو فارغ کر دیا جائے اور اگر وقف ہونا چاہیں تو ان کا وقف قبول کرلیا جائے<۔۲۷۵
اورئینٹیل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کمپنی کا قیام
۲۰۔ اپریل ۱۹۵۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر >اورئینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کمپنی< کے نام سے ایک اہم ادارہ قائم کیا گیا۔ اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ عربی انگریزی اور دیگر زبانوں میں قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ اس ادارہ کے قیام سے تراجم قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر میں معتدبہ اضافہ ہوا اور ہورہا ہے۔۲۷۶
‏0] fts[ربوہ میں دفاتر تحریک جدید کی عمارت کی تعمیر
ربوہ میں سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۳۱۔ مئی ۱۹۵۰ء۲۷۷ کو دفاتر تحریک جدید کی مستقل عمارت کی بنیاد رکھی اور ۱۹۔ نومبر ۱۹۵۳ء۲۷۸ کو اس کا افتتاح فرمایا۔
تحریک جدید میں شمولیت کی خاص تحریک
سالانہ جلسہ ۱۹۵۳ء کے موقعہ پر سیدنا المصلح الموعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ۔
>تحریک جدید اب جس نازک دور میں سے گزررہی ہے وہ اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر احمدی یہ فیصلہ کرے کہ اس نے بہرحال اس تحریک میں حصہ لینا ہے حتیٰ کہ کوئی جماعت بھی ایسی نہ ہو جن کے سارے کے سارے افراد تحریک میں شامل نہ ہوں<۔۲۷۹
کتاب >پانچ ہزاری مجاھدین< کی اشاعت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۳۸ء میں اعلان فرمایا کہ۔
>چونکہ تحریک جدید میں چندہ دینے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پانچ ہزار والی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں اس لئے ان کی قربانی کی یاد قائم رکھنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا جائے گا کہ۔
۱۔
ان فہرستوں کو ایک جگہ جمع کرکے اور ساتھ تحریک جدید کی مختصر سی تاریخ لکھ کر چھاپ دیا جائے گا۔ اور دفتر تحریک جدید تمام احمدیہ لائبریریوں میں یہ کتاب مفت بھیجے گا۔
۲۔
جب دس سال ختم ہو جائیں گے تو اس فنڈ کی آمد کا ایک معمولی حصہ چندہ دینے والوں کی طرف سے صدقہ کے طور پر سالانہ غرباء پر خرچ کیا جائے گا۔
۳۔
مرکز میں ایک اہم لائبریری قائم کی جائے گی اور اس کے ہال میں ان تمام لوگوں کے نام لکھ دیئے جائیں گے<۔۲۸۰
حضور کے مندرجہ بالا ارشاد کی تعمیل میں چودھری برکت علی خاں صاحبؓ۲۸۱ نے انتہائی محنت و عرقریزی کا ثبوت دیتے ہوئے جون ۱۹۵۹ء میں پانچ ہزاری مجاھدین کی مکمل فہرست شائع کردی۔
اس فہرست میں جو بڑی تقطیع کے ۴۸۶ صفحات پر مشتمل ہے` برصغیر پاک و ہند کے علاوہ بالترتیب عدن` انڈونیشیا` مشرقی و مغربی افریقہ` ماریشس فلسطین` شام` لبنان` عراق` مسقط` چین` ایران` مصر` انگلستان` سپین` جرمنی` فرانس اور امریکہ وغیرہ ممالک کے جملہ مجاہدین اور ان کی ادا شدہ رقوم کا مفصل اندراج کیا گیا ہے۔ دوسرا ایڈیشن اس کا تلخیص و اضافہ کے ساتھ چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل اعمال اول نے یکم نومبر ۱۹۸۵ء کو شائع کیا جو چھوٹے سائز پر ہے اور اس کے کل ۳۰۶ صفحات ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مجاہدین تحریک کے بلند مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
>مبارک ہیں وہ جو بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ ان کا نام ادب و احترام سے اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور خدا تعالیٰ کے دربار میں یہ لوگ خاص عزت کا مقام پائیں گے کیونکہ انہوں نے تکلیف اٹھا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور ان کی اولادوں کا خداتعالیٰ خود متکفل ہوگا اور آسمانی نور ان کے سینوں سے ابل کر نکلتا رہے گا اور دنیا کو روشن کرتا رہے گا<۔۲۸۲
چندہ تحریک کے لئے نئی اقل ترین شرح
حضور نے شروع میں تحریک کے مالی جہاد میں شرکت کے لئے اقل ترین شرح پانچ روپیہ مقرر فرمائی تھی مگر ۱۸۔ مارچ ۱۹۶۴ء کو حضور کی منظوری سے کم سے کم شرح دس روپے قرار دے دی گئی۔
تفسیر القرآن انگریزی کی تکمیل
جولائی ۱۹۵۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی منظوری سے تفسیر القرآن انگریزی کا کام مستقل طور پر تحریک جدید کے سپرد کردیا گیا اور یہ اہم کام بخیر و خوبی پایہ تکمیل تک پہنچا۔ چنانچہ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مشاورت ۱۹۶۳ء کے نمائندگان کو اطلاع دی کہ۔
>میں دوستوں کو بشارت دینا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کی انگریزی تفسیر جو آج سے اکیس سال پہلے شروع ہوئی تھی اور جس کے ابتدائی حصہ میں مجھے بھی کچھ خدمت کا موقعہ ملا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی اس کام کو کرتے رہے ہیں۔ درد صاحب مرحوم بھی یہ کام کرتے رہے ہیں۔ گو زیادہ کام ملک غلام فرید صاحب کے ذمہ رہا ہے اور اب تو کلیتہ ان کے ذمہ ہے۔ اس تفسیر کا آخری حصہ جو باقی تھا اب مکمل ہوکر آگیا ہے اور اس طرح خدا کے فضل سے یہ کام تکمیل کو پہنچ گیا ہے<۔۲۸۳
مرکز سلسلہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ کی ابتدائی فہرست
تحریک جدید کے زیر انتظام ۱۹۶۸ء تک مرکز سلسلہ میں تعلیم حاصل کرنے والے خوش نصیب طلباء کی ایک ابتدائی فہرست درج ذیل ہے۔
نمبرشمار نام
ملک
تاریخ آمد
تاریخ فراغت
کیفیت
۱ محمد زہدی صاحب
ملائشیا
۱۳۔ مئی ۱۹۴۴ء
۷۔ نومبر ۱۹۱۸ء
۲ محمد عبداللہ پاشا صاحب
مالا بار
۱۳۔ جون ۱۹۴۴ء
مدرسہ احمدیہ پاس کیا۔
۳ عبد الشکور کنزے صاحب
جرمنی
۱۰۔ جنوری ۱۹۴۹ء
)مرتد ہوگئے(
۴ رشید احمد صاحب
امریکہ
۲۴۔ دسمبر ۱۹۴۹ء

۵ علی چینی صاحب
چین
۱۶۔ جنوری ۱۹۵۰ء

۶ ابراہیم عباس صاحب
سوڈان )خرطوم(
۳۔ مارچ ۱۹۵۰ء
تاریخ ولادت ۱۹۱۹ء
۷ محمد سلیم الجابی صاحب
شام
یکم اپریل ۱۹۵۰ء
تاریخ پیدائش ۲۶۔ فروری ۱۹۲۸ء
۸ عثمان چینی صاحب
چین
۲۰۔ اگست ۱۹۵۰ء

۹ محمد ابراہیم چینی صاحب
چین
۲۱۔ اگست ۱۹۵۰ء
دوسری بار ۵۔ جون ۱۹۵۴ء کو داخل ہوئے۔
۱۰ محمد ادریس چینی صاحب
چین
۲۱۔ اگست ۱۹۵۰ء

۱۱ رضوان عبداللہ صاحب
‏io2] gat[ حبشہ
۳۔ دسمبر ۱۹۵۰ء
۲۶۔ اگست ۱۹۵۳ء کو چناب میں تیرتے ہوئے شہید ہوئے۔
۱۲ صالح شبیبی صاحب
جاوا
یکم جنوری ۱۹۵۱ء

۱۳ بختیار ذکریا صاحب
سماٹرا
۲۲۔ جولائی ۱۹۵۱ء

۱۴ عارف نعیم صاحب
سائپرس
۱۱۔ نومبر ۱۹۵۱ء

۱۵ زہر الاسلام صاحب
‏io2] gat[ انگلستان
۲۲۔ مارچ ۱۹۵۲ء

۱۶ علی امین خلیل صاحب
سیرالیون
۱۵۔ اپریل ۱۹۵۲ء

۱۷ محمود عبداللہ محمد الشیوطی
عدن
۲۶۔ مئی ۱۹۵۲ء
۱۶۔ نومبر ۱۹۵۲ء
دوبارہ داخلہ ۲۳۔ ستمبر ۱۹۵۷ء
۱۸ مسٹر پی۔ ای۔ وی ایم اسماعیل صاحب۔ برما
۲۹۔ ستمبر ۱۹۵۲ء
۷۔ دسمبر ۱۹۵۴ء
۱۹ ابراہیم محمد ابوبکر ابن الحاج محمد ابوبکر۔ حبشہ
۲۹۔ ستمبر ۱۹۵۲ء

۲۰ احمد سپرجا صاحب
جاوا
اکتوبر ۱۹۵۲ء

۲۱ عبداللہ ابوبکر ابن ابوبکر اسماعیل۔ SOMALILAND
یکم نومبر ۱۹۵۲ء

۲۲ سعید عبداللہ ابن عبداللہ ورسمہ۔ SOMALILAND
یکم نومبر ۱۹۵۲ء

۲۳ رحیم بخش صاحب
برٹش گی آنا
۱۹۵۲ء

۲۴ عبدالشکور ریش صاحب۔ A۔S۔U
۱۵۔ جنوری ۱۹۵۳ء

۲۵ منصور احمد صاحب
انڈونیشیا
۵۔ جون ۱۹۵۴ء

۲۶ ادریس احمد صاحب
چینی
۵۔ جون ۱۹۵۴ء

۲۷ عبدالوھاب بنآدم صاحب
افریقہ
‏]3oi [tag ۵۔ جون ۱۹۵۴ء
شاھد
۲۸ بشیر بن صالح صاحب
افریقہ
۵۔ جون ۱۹۵۴ء

۲۹ علی صالح صاحب
بٹورا۔ افریقہ
یکم نومبر ۱۹۵۶ء
۳۔ دسمبر ۱۹۵۹ء
۳۰ یوسف عثمان صاحب
بٹورا۔ افریقہ
یکم نومبر ۱۹۵۶ء
۱۲۔ مارچ ۱۹۶۸ء
شاہد
۳۱ محمدعبداللہ شیوطی صاحب
عدن
۲۳۔ ستمبر ۱۹۵۷ء

۳۲ محی الدین شاہ صاحب
سماٹرا
یکم نومبر ۱۹۵۸ء
۲۔ جولائی ۱۹۶۲ء
۳۳ محمد ابراہیم صاحب
سنگاپور
یکم دسمبر ۱۹۶۰ء

۳۴ ظفر احمد ولیم صاحب
آئرش
۱۰۔ اپریل ۱۹۶۱ء

۳۵ عبدالرحمن افریقی صاحب
افریقہ
۱۴۔مئی ۱۹۶۱ء
۱۱۔ نومبر ۱۹۶۲ء
۳۶ احمد سعید دائودا صاحب
غانا
۲۳۔ مئی ۱۹۶۲ء
۱۰۔ جنوری ۱۹۶۵ء
شہادۃ الاجانب
۳۷ اے۔ ایس دائودا صاحب
سیر الیون
۲۳۔ مئی ۱۹۶۲ء
شہادۃ الاجانب
۳۸ احمد شمشیر سوکیہ صاحب
ماریشس
۶۔ نومبر ۱۹۶۲ء ۱۹۶۲ء
۲۸۔ جولائی ۱۹۶۶ء
شہادۃ الاجانب
۳۹ عبدالغنی کریم صاحب
پاڈانگ انڈونیشیا
۱۴۔ اکتوبر ۱۹۶۳ء
۱۷۔ جنوری ۱۹۷۱ء
تعلیم مکمل کی
۴۰ عبدالرئوف فجی صاحب
فجی
۱۹۔ نومبر ۱۹۶۳ء
۸۔ دسمبر ۱۹۶۹ء
۴۱ سفنی ظفر احمد صاحب
انڈونیشیا
۱۸۔ اگست ۱۹۶۴ء
۳۰۔ اپریل ۱۹۷۵ء
شاہد
۴۲ حسن بصری صاحب
انڈونیشیا
۱۸۔ اگست ۱۹۶۴ء
دوسری بار ۱۸۔ جولائی ۱۹۶۶ء میں آئے۔
۴۳ عبدالقاہر صاحب
ترکستان
۳۔ ستمبر ۱۹۶۴ء
۱۳۔ فروری ۱۹۶۵ء
جامعہ چھوڑ کر چلے گئے
۴۴ یوسف یاسن صاحب
کماسی۔ غانا
۳۔ اکتوبر ۱۹۶۴ء
یکم نومبر ۱۹۷۲ء
شاہد
۴۵ عبدالواحد بن دائود صاحب
غانا۔ افریقہ
۳۔ اکتوبر ۱۹۶۴ء
۱۲۔ دسمبر ۱۹۷۱ء
شہادۃ الاجانب
۴۶ احمد یوشیدا صاحب جاپانی
جاپان
‏]3io [tag ۲۔ مارچ ۱۹۶۵ء
۲۶۔ جون ۱۹۶۶ء
عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے فارغ
۴۷ عبدالمالک صاحب افریقی
غانا۔ افریقہ
۱۲۔ ستمبر ۱۹۶۵ء
۲۲۔ جنوری ۱۹۷۰ء
شہادۃ الاجانب
۴۸ لقمان ادریس صاحب
جاکرتا۔ انڈونیشیا
۱۹۔ مئی ۱۹۶۶ء
۱۰۔ اپریل ۱۹۶۷ء
خود چھوڑ کر چلے گئے
۴۹ ذوالکفلی لوبس صاحب
جاکرتا۔ انڈونیشیا
۱۹۔ مئی ۱۹۶۶ء
‏io4] gat[ ۱۴۔ ستمبر ۱۹۶۹ء
شہادۃ الاجانب
۵۰ سیوطی عزیز صاحب
جاکرتا۔ انڈونیشیا
۱۹۔ مئی ۱۹۶۶ء
۱۲۔ دسمبر ۱۹۷۱ء
شہادۃ الاجانب
۵۱ محمد عبدی روبلے صاحب
تنزانیہ۔ افریقہ
۸۔ اکتوبر ۱۹۶۶ء
۱۲۔ دسمبر ۱۹۷۱ء
۵۲ جلیل احمد صاحب تلیجو
ماریشس
۱۹۔ ستمبر ۱۹۶۷ء
۳۰۔ مارچ ۱۹۷۱ء
شہادۃ الاجانب
۵۳ منیر الاسلام صاحب
انڈونیشیا
۱۶۔ ستمبر ۱۹۶۸ء

)ریکارڈ جامعہ احمدیہ ربوہ سے ماخوذ(
ماہنامہ >تحریک جدید<
اگست ۱۹۶۵ء سے مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ کی ادارت میں ماہنامہ >تحریک جدید< جاری ہوا جو تحریک جدید کا مرکزی ترجمان اور اس کی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہے۔
تحریک جدید کی مطبوعات دفتر دوم میں
اس دور میں دفتر تحریک جدید کی طرف سے حسب ذیل لٹریچر شائع کیا گیا۔
۱۔ اسلام کا اقتصادی نطام )۱۹۴۵ء( ۲۔ تفسیر کبیر جلد ششم جزو چہارم حصہ اول )۱۹۴۵ء( ۳۔ تفسیر کبیر حصہ دوم )۱۹۴۶ء( ۴۔ تفسیر کبیر جلد اول جزو اول )۱۹۴۸ء( ۵۔ اسلام اور ملکیت زمین )۱۹۵۰ء( ۶۔ تفسیر کبیر جلد ششم جزو چہارم حصہ سوم )۱۹۵۰ء( ۷۔ کمیونزم اینڈ ڈیماکریسی (COMMUNISM DEMOCRACY) AND چار عدد )۵۱۔ ۱۹۵۰ء( ۸۔ تشریح الزکٰوۃ )۱۹۵۱ء(
‏ ANJUMAN JADID ۔I۔ TAHRIK OF ASSOCIATION OF ARTICLES AND MEMORANDUM ۔(1959)9 ۔PAKISTAN AHMADIYYA
‏]sub [tagوکالت مال کی مطبوعات
۱۔ خلاصہ مطالبات تحریک جدید ۲۔ اکناف عالم میں تبلیغ اسلام )۱۹۵۸ء( ۳۔ تحریک جدید کے کام پر ایک نظر )۱۹۵۹( ۴۔ افریقہ میں تبلیغ اسلام )۱۹۶۰ء( ۵۔ تحریک جدید اور اس کے تقاضے )۱۹۶۱ء( ۶۔ تحریک جدید کے کام کی وسعت )۱۹۶۳ء( ۷۔ سادہ زندگی )۱۹۶۵ء( ۸۔ تحریک جدید دفتر سوم کے اجراء کے متعلق حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثالث کی زریں ہدایات )۱۹۶۶ء( ۹۔ مجاھدہ )۱۹۶۶ء( ۱۰۔ تحریک جدید کے ذریعہ اکناف عالم میں اشاعت اسلام )۱۹۶۷ء( ۱۱۔ تحریک جدید کی برکات )مضمون حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ( )جولائی ۱۹۶۳ء( ۱۲۔ معاونین خاص مسجد سوئٹزرلینڈ کے لئے کم از کم تین سو روپیہ دینے والوں کی فہرست )مارچ ۱۹۶۳ء( ۱۳۔ اسلام اور عیسائیت )تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۴ء حضرت المصلح الموعودؓ )جون ۱۹۶۴ء( ۱۴۔ جاننے کی باتیں )متفرق ارشادات حضرت المصلح الموعودؓ( )اکتوبر ۱۹۶۱ء( ۱۵۔ JADID۔I۔TAHRIK )انگریزی ترجمہ تقریر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ( )جون ۱۹۶۴ء( ۱۶۔ تحریک جدید کے مالی جہاد میں روح مسابقت کیوں ضروری ہے؟ )۱۹۶۶ء( ۱۷۔ خشکی اور سمندر میں فساد اور اس کا علاج )خطبہ حضرت المصلح الموعودؓ( )۱۹۶۴ء( ۱۸۔ تحریک جدید کا دفتر سوم اور لجنات اماء اللہ کا فرض )مضمون حضرت صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ )جولائی ۱۹۶۷ء(
دفتر سوم کا اجراء
حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۲۔ اپریل ۱۹۶۶ء کو تحریک جدید کے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ یہ دفتر یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا۔
>۱۹۶۴ء میں دفتر دوم کے بیس سال پورے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت حضرت مصلح موعودؓ بیمار تھے اور غالباً بیماری کی وجہ سے ہی حضور کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجراء کردیا جائے لیکن اس کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کیا جائے گا۔ کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے۔ اس طرح یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۶۶ء تک ایک سال بنے گا۔ میں اس لئے ایسا کررہا ہوں تاکہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کی طرف منسوب ہو ۔۔۔۔۔۔۔ دوران سال نومبر کے بعد جو نئے لوگ تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دینا چاہئے<۔۲۸۴
مجاہدین دفتر سوم کو نصیحت
دفتر سوم اور اس کے بعد شامل ہونے والے مجاہدین کو حضرت سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۴۷ء میں نصیحت فرمائی۔
>دفتر سوم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھائیں جو دفتر چہارم والوں کے لئے قابل رشک ہو اور دفتر چہارم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھائیں جو دفتر پنجم والوں کے لئے قابل رشک ہو اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے یہاں تک کہ قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے<۔۲۸۵
زاں بعد ۱۹۴۸ء میں ارشاد فرمایا کہ۔:
>دور اول تین لاکھ اسی ہزار تک پہنچا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اسے پانچ لاکھ تک پہنچا دیں تو پھر تیسرے دور والوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اسے آٹھ لاکھ تک پہنچا دیں گے اور اس سے اگلے دور والے اسے دس بارہ لاکھ تک پہنچا دیں گے۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ہم بیرونی ممالک میں تبلیغ کا جال بچھا دیں گے اور اس کے ذریعہ اسلام کا قلعہ ہر ملک میں قائم کردیں گے<۔۲۸۶
دوسرا باب )فصل دہم(
تحریک جدید کے نظام کی موجودہ وسعت` مخلصین احمدیت کی مالی اور جانی قربانیوں پر ایک نظر` تبلیغ اسلام سے متعلق تحریک جدید کی عظیم الشان خدمات` غیروں کی آراء اور تحریک جدید کا شاندار مستقبل
تحریک جدید کا موجودہ مرکزی نظام
تحریک جدید انجمن احمدیہ کا مرکزی نظام اس وقت )۱۹۶۷ء میں( مندرجہ ذیل شعبوں پر مشتمل ہے۔ وکالت علیا۔ وکالت دیوان۔ وکالت تبشیر۔ وکالت زراعت۔ وکالت قانون۔ وکالت تعلیم و صنعت۔ وکالت مال۔ صیغہ امانت۔ دفتر آبادی۔ آڈیٹر۔
وکالت علیا چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور حافظ عبدالسلام صاحب وکیل اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ۱۹۶۲ء سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اس منصب پر فائز ہیں۔
وکالت دیوان مولوی عبدالرحمن صاحب انور` چوہدری فقیر محمد صاحب ریٹائرڈ ڈی ایس پی اور حافظ عبدالسلام صاحب اس شعبہ کے نگران )یعنی وکیل الدیوان( رہ چکے ہیں۔ اب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الدیوان کے بھی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
وکالت تبشیر ان دنوں وکالت تبشیر کا شعبہ بھی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی نگرانی میں کام کررہا ہے۔ صاحبزادہ صاحب سے قبل مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ )وکیل التبشیر برائے ممالک یورپ و امریکہ( مولوی عبدالمغنی خان صاحبؓ )وکیل التبشیر برائے افریشیائی ممالک( مولوی عبدالرحمن صاحب انور )وکیل التبشیر ثانی برائے عربی ممالک و انڈونیشیا( ملک عمر علی صاحبؓ کھوکھر رئیس۲۸۷ )وکیل التبشیر( اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ )وکیل التبشیر( یہ خدمت بجا لاتے رہے ہیں۔
وکالت زراعت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے بعد اب میاں عبدالرحیم احمد صاحب وکیل الزراعت ہیں۔
وکالت قانون شروع میں چوہدری بہائو الحق صاحب اور چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب دونوں اصحاب وکیل القانون مقرر کئے گئے تھے۔ مگر اب سالہا سال سے چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب ہی اس عہدہ پر فائز ہیں۔
وکالت تعلیم اس وقت میاں عبدالرحیم صاحب وکیل التعلیم ہیں۔ حافظ قدرت اللہ صاحب اور چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب بھی یہ خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔
وکالت صنعت حضرت خان صاحب ذوالفقار علی خاں صاحبؓ اور مولوی بہائو الحق صاحب اس شعبہ کے نگران رہ چکے ہیں۔
وکالت مال اس شعبہ کے ابتدائی وکلاء کی فہرست یہ ہے۔
۱۔ چوہدری برکت علی صاحب )وکیل المال اول( ۲۔ قاضی محمد رشید صاحبؓ )وکیل المال ثانی( ۳۔ قریشی عبدالرشید صاحب )وکیل المال ثانی( ۴۔ حافظ عبدالسلام صاحب شملوی )وکیل المال اول( ان دنوں چوہدری شبیر احمد صاحب )وکیل المال اول( اور حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال ثانی کے فرائض بجا لارہے ہیں۔
صیغہ امانت اس صیغہ میں بالترتیب مندرجہ ذیل اصحاب نے کام کیا۔
حضرت بابو فخر الدین صاحب )سیکرٹری امانت`( چوہدری سلطان احمد صاحب بسرا۔ سید محمد حسین شاہ صاحب` حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحبؓ۔
ان دنوں صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب اس صیغہ کے افسر ہیں۔
دفتر آبادی ملک محمد خورشید صاحب ریٹائرڈ ایس۔ ڈی۔ او` چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیر۲۸۸` چوہدری عطاء محمد صاحب` قریشی عبدالرشید صاحب` حسن محمد خان صاحب عارف اور ملک بشارت احمد صاحب سیکرٹری تعمیر رہ چکے ہیں۔ ان دنوں حافظ عبدالسلام صاحب سیکرٹری کے فرائض ادا کررہے ہیں۔
‏]body [tagدفتر آڈیٹر چودھری برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری تحریک جدید` قریشی عبدالرشید صاحب` ملک ولایت خاں صاحب کے بعد اب چودھری ناصر الدین صاحب آڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تحریک جدید کی مجموعی آمد
قیام تحریک جدید ۱۹۳۴ء سے لے کر ۳۱۔ دسمبر ۱۹۶۶ء تک تحریک جدید کی مجموعی آمد تین کروڑ چھیاسی لاکھ تہتر ہزار روپیہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
نمبرشمار
نام چندہ
رقم
کیفیت
‏]1l [tag۱
چندہ تحریک جدید اندرون ملک
۰۰۔ ۹۰۳۳۴۰۰
۲
چندہ مساجد ممالک بیرون جو پاکستانی جماعتوں نے پیش کیا
۰۰۔ ۱۰۱۴۳۰۰
اس چندہ میں لندن مسجد کا چندہ شامل نہیں جو ۴۔۱۹۲۵ء میں صرف احمدی مستورات کے چندہ سے تعمیر کروائی گئی تھی۔ اس کا حساب دستیاب نہیں ہوسکا۔ یہ رقم جو یہاں ظاہر کی گئی ہے۔ امریکہ` ہالینڈ` جرمنی` سوئٹزرلینڈ اور ڈنمارک کی مساجد کی تعمیر کے لئے جمع ہوئی۔ اس میں بھی چار لاکھ روپیہ احمدی مستورات کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جن کے ذمہ ہالینڈ اور ڈنمارک کی مساجد کا خرچ لگایا گیا تھا۔
۳
آمد خالص از جائیداد وغیرہ اندرون ملک
۰۰۔۹۳۶۱۳۰۰
۴
چندہ جات تحریک جدید و چندہ عام وغیرہ بیرون ملک
۰۰۔ ۵۲۷۷۰۰۰
۵
آمد خالص از جائیداد` پریس و تعلیمی ادارہ جات بیرون ملک
۰۰۔ ۱۳۹۸۷۰۰۰
مشن ہائے بیرون کی آمد ۴۶۔ ۱۹۴۵ء کے بجٹ سے تحریک جدید کو ملنی شروع ہوئی۔
میزان )تین کروڑ چھیاسی لاکھ تہتر ہزار روپے۲۸۹(
۰۰۔ ۳۸۶۷۳۰۰۰
تحریک جدید کی بدولت قائم ہونے والے بیرونی مشن
تحریک جدید کے ذریعہ سے مندرجہ ذیل مشن قائم ہوئے۔
نمبرشمار نام ملک
سال قیام مشن
نمبرشمار نام ملک
سال قیام مشن
۱۔ سنگاپور )ملایا(
۱۹۳۵ء
۱۷۔ لبنان
۲۷۔ اگست ۱۹۴۹ء
۲۔ ہانگ کانگ )چین(
"][ ۱۸۔ جرمنی )بذریعہ تحریک جدید(
۱۹۴۹ء
۳۔ جاپان
"
۱۹۔ سیلون )بذریعہ تحریک جدید(
۱۹۵۱ء
۴۔ سپین
۱۹۳۶ء
۲۰۔ ٹرینیڈاڈ
"
۵۔ ہنگری
"
۲۱۔ برما
۱۹۵۳ء
۶۔ البانیہ
"
۲۲۔ سوئٹزرلینڈ
۱۹۵۵ء
۷۔ یوگوسلاویہ
"
۲۳۔ ڈنمارک
۱۹۵۶ء
۸۔ ارجنٹائن
"
۲۴۔ لائبیریا
"
۹۔ اٹلی
۱۹۳۷ء
۲۵۔ ڈچ گی آنا
"
۱۰۔ پولینڈ
"
۲۶۔ فجی آئی لینڈ
۱۹۶۰ء
۱۱۔ سیرالیون
۱۳۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء
۲۷۔ ایوری کوسٹ
۱۹۶۱ء
۱۲۔ سپین
۱۹۴۶ء
۲۸۔ گیمبیا
"
۱۳۔ عدن
"
۲۹۔ تنزانیہ
"
۱۴۔ بورنیو
"
۳۰۔ کینیا
"
۱۵۔ ہالینڈ
۱۹۴۷ء
۳۱۔ ٹوگولینڈ
۱۹۶۲ء
۱۶۔ عمان )اردن(
۳۔ مارچ ۱۹۴۸ء

اس وقت )۱۹۶۷ء میں( تحریک جدید کے زیر انتظام مندرجہ ذیل ممالک میں مرکزی مشن چل رہے ہیں۔ جہاں قریباً سوا سو پاکستانی اور مقامی مبلغین تبلیغ اسلام میں سرگرم عمل ہیں۔ ان مرکزی مشنوں کی آگے متعدد شاخیں موجود ہیں۔۲۹۰یورپ: انگلستان` سپین` ہالینڈ` سوئٹزرلینڈ` مغربی جرمنی` سکنڈے نیویا۔
امریکہ: )شمالی امریکہ( مرکزی دارالتبلیغ واشنگٹن
)جنوبی امریکہ( ٹرینیڈاڈ۔ برٹش گی آنا۔
مغربی افریقہ: نائیجیریا` غانا` سیرالیون` لائبیریا` آئیوری کوسٹ` گیمبیا۔۲۹۱
مشرقی افریقہ: یوگنڈا` کینیا` تنزانیہ۔
جنوبی افریقہ: )جزائر( ماریشس۔
مشرق وسطی: فلسطین۲۹۲` شام` عدن۔
مشرق بعید: انڈونیشیا` سنگاپور` ملائیشیا` بورنیو` فجی۔
درج ذیل ممالک میں اگرچہ مشن قائم ہیں مگر ان دنوں مرکز کی طرف سے مبلغین متعین نہیں۔
لبنان` جنوبی افریقہ` برما` سیلون` جاپان` فلپائن۔
ان کے علاوہ دنیا کے متعدد مقامات پر احمدی پائے جاتے ہیں مثلاً
ایران` کویت` ٹوگولینڈ` مسقط` بحرین` ارجنٹائن` سوڈان` عراق` مصر` دوبئی` ہانگ کانگ` کانگو` قبرص` آسٹریا` آسٹریلیا` ترکی۔۲۹۳
یہ وہ ممالک ہیں جن سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے ورنہ احمدی تو )روس کے سوا( دنیا کے قریباً ہر ایک خطہ میں پائے جاتے ہیں۔ )کتاب کے جدید ایڈیشن کے دوران روس میں بھی جماعت احمدیہ قائم ہوچکی ہے۔ مولف(
بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا شرف پانے والے واقفین تحریک جدید
اب ذیل میں ان واقفین تحریک جدید کی مکمل فہرست دی جاتی ہے جنہوں نے براہ راست تحریک جدید کے زیرانتظام بیرونی ممالک میں
تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کیا یا ادا کررہے ہیں۔
نوٹ: قیام تحریک جدید سے قبل یا صدر انجمن احمدیہ کے کارکن کی حیثیت سے اعلائے کلمتہ اللہ کا شرف پانے والے مجاہدین اسلام۲۹۴ کا مفصل ذکر بیرونی مشنوں کی مستقل تاریخ میں کیا جاچکا ہے۔
نمبر شمار
نام
تاریخ ولادت
تاریخ تقرری
کیفیت
۱
چوہدری محمد شریف صاحب
۱۰۔ اکتوبر ۱۹۱۳ء
۹۔ جنوری ۱۹۳۵ء
فلسطین معہ شام۔ گیمبیا۔ )گیمبیا کے پہلے مبلغ(
۲
مولوی امام الدین صاحب ملتانی
نومبر ۱۹۱۳ء
۲۷۔ جنوری ۱۹۳۵ء
سنگاپور۔ انڈونیشیا
۳
مولوی روشن دین احمد صاحب
۱۹۱۴ء
۳۔ فروری ۱۹۳۵ء
مسقط مشن کے پہلے مبلغ۔ کینیا
۴
ملک محمد شریف صاحب گجراتی
۳۔ فروری ۱۹۳۵ء
سپین اور اٹلی مشن کے پہلے مبلغ
۵
صوفی عبدالغفور صاحب
۱۹۳۵ء
چین مشن کے پہلے مبلغ۔ امریکہ
۶
چوہدری محمد اسحٰق صاحب سیالکوٹی
۵۔ ستمبر ۱۹۱۶ء
۱۰۔ فروری ۱۹۳۵ء
ہانگ کانگ
۷
مولوی غلام حسین صاحب ایاز
)جامعہ احمدیہ کے ریکارڈ
۲۰۔ فروری ۱۹۳۵ء
سنگاپور مشن کے پہلے مبلغ۔

کے مطابق( یکم مئی
بورنیو میں دفن کئے گئے۔

۱۹۰۵ء۲۹۶

۸
شیخ عبدالواحد صاحب
۱۵۔ دسمبر ۱۹۱۵ء
۷۔ مارچ ۱۹۳۵ء
ہانگ کانگ۔ ایران۔ فجی۔
۹
حافظ عبدالغفور صاحب
۱۳۔ مئی ۱۹۱۳ء
۷۔ مارچ ۱۹۳۵ء
جاپان )تحریک جدید کے اس مشن کے پہلے مبلغ
)برادر خورد مولانا ابوالعطاء صاحب(

مبلغ صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی اے ہیں(
۱۰
ملک عزیز احمد صاحب کنجاہی
۲۳۔ ستمبر ۱۹۱۵ء
۷۔ مارچ ۱۹۳۵ء
انڈونیشیا۔ اسی ملک میں مزار ہے۔
۱۱
مولوی رمضان علی صاحب
۱۲۔ اگست ۱۹۱۳ء۲۹۷]4 [rtf
۷۔ مارچ ۱۹۳۵ء
ارجنٹائن مشن کے پہلے مبلغ
۱۲
مولوی محمد دین صاحب
۷۔ مارچ ۱۹۳۵ء
البانیہ اور یوگوسلاویہ مشن کے پہلے مبلغ


افریقہ جاتے ہوئے رستہ میں شہادت پائی۔
۱۳
سید شاہ محمد صاحب۲۹۸
۱۵۔ جولائی ۱۹۱۳ء
۱۰۔ مارچ ۱۹۳۵ء
انڈونیشیا
۱۴
حاجی احمد خاں صاحب ایاز
۱۹۔ مئی ۱۹۳۵ء
ہنگری` پولینڈ` چیکوسلواکیہ مشن کے پہلے مبلغ
۱۵
مولوی نورالدین صاحب منیر
۱۶۔ ستمبر ۱۹۱۵ء
یکم جولائی ۱۹۳۵ء
مشرقی افریقہ
۱۶
محمد ابراہیم صاحب ناصر
۴۔ اکتوبر ۱۹۱۲ء
جولائی ۱۹۳۵ء
ہنگری
۱۷
ولی داد خاں صاحب
۱۷۔ مئی ۱۹۰۴ء
دسمبر ۱۹۳۵ء
افغانستان میں شہید کردیئے گئے۔
۱۸
مولوی نذیر احمد صاحب مبشر
۱۵۔ اگست ۱۹۰۹ء
۲۔ فروری ۱۹۳۶ء
غانا۔ سرالیون
۱۹
چودھری خلیل احمد صاحب ناصر
۱۹۱۷ء
۱۳۔ مارچ ۱۹۳۷ء
امریکہ
۲۰
مولوی عبدالخالق صاحب
۱۵۔ فروری ۱۹۱۰ء
اگست ۱۹۳۷ء
غانا۔ ایران۔ مشرقی افریقہ۔
۲۱
ملک عطاء الرحمن صاحب
۱۹۳۷ء )تاریخ پیشکش(
فرانس
۲۲
مرزا منور احمد صاحب
۲۰۔ اپریل ۱۹۱۹ء
۲۱۔ جنوری ۱۹۳۸ء
امریکہ )امریکہ میں فوت ہوئے وہیں

)تاریخ پیشکش(
مزار ہے(
۲۳
چودھری کرم الٰہی صاحب ظفر
۳۰۔ دسمبر ۱۹۱۹ء
یکم مئی ۱۹۳۸ء
دور جدید میں سپین مشن کے پہلے مبلغ
۲۴
میاں عبدالحی صاحب
۲۸۔ فروری ۱۹۲۰ء
‏wf4] ga[t یکم مئی ۱۹۳۸ء
سنگاپور۔ انڈونیشیا۔
۲۵
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری
۱۵۔ جون ۱۹۱۵ء
۱۰۔ جولائی ۱۹۳۸ء
فلسطین۔ انگلستان۔ سیرالیون۔ لائبیریا۔ سنگاپور
۲۶
چوہدری غلام یٰسین صاحب
یکم مارچ ۱۹۱۵ء
۱۷۔ اگست ۱۹۳۸ء
امریکہ
۲۷
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ
۳۰۔ دسمبر ۱۹۱۱ء
۱۲۔ ستمبر ۱۹۳۸ء
انگلستان۔ سوئٹزرلینڈ
‏]1fw [tag۲۸
شیخ ناصر احمد صاحب
۸۔ مارچ ۱۹۱۹ء
۱۲۔ جنوری ۱۹۳۹ء
سوئٹزرلینڈ
۲۹
مولوی صدر الدین صاحب
۱۹۱۸ء
۲۲۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء
ایران
۳۰
چوہدری عبداللیف صاحب بی۔اے
۱۹۳۸ء میں عمر ۲۲ سال
۲۰۔ جنوری ۱۹۴۰ء
تحریک جدید کے جرمنی مشن کے پہلے مبلغ
۳۱
حافظ قدرت اللہ صاحب
۲۲۔ فروری ۱۹۱۷
۲۸۔ اپریل ۱۹۴۰ء
ہالینڈ۔ انڈونیشیا۔
۳۲
مولوی غلام احمد صاحب بشیر
۱۹۱۷ء
۲۲۔ جولائی ۱۹۴۲ء
ہالینڈ
۳۳
مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر
نومبر ۱۹۴۴ء میں
یکم اگست ۱۹۴۳ء
مشرقی افریقہ` ماریشس` فلسطین

۲۴ سال عمر

۳۴
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی
۲۷۔ جولائی ۱۹۱۹ء
۱۳۔ اپریل ۱۹۴۴ء
فلسطین` اردن` لبنان
۳۵
ملک احسان اللہ صاحب
۱۹۔ جنوری ۱۹۱۹ء
۳۰۔ اپریل ۱۹۴۴ء
مغربی و مشرقی افریقہ
۳۶
حافظ بشیرالدین عبیداللہ صاحب
۱۷۔ ستمبر ۱۹۲۰ء
۲۶۔ مئی ۱۹۴۴ء
ماریشس` مشرقی افریقہ` سیرالیون


فرنچ گنی )مغربی افریقہ(
۳۷
چوہدری عطاء اللہ صاحب
۱۹۳۸ء میں ۲۳ سال عمر
۲۶۔ مئی ۱۹۴۴ء
فرانس۔ غاغا )مغربی افریقہ(
۳۸
چوہدری احسان الہی صاحب جنجوعہ
۱۵۔ فروری ۱۹۲۳ء
۱۶۔ جون ۱۹۴۴ء
سیرالیون۔ نائجیریا۔ غانا
۳۹
مولوی نورمحمد صاحب نسیم سیفی
۱۶۔ مئی ۱۹۱۷ء
۲۷۔ جولائی ۱۹۴۴ء
نائجیریا
۴۰
چوہدری محمد اسحاق صاحب ساقی
۵۔ اگست ۱۹۴۴ء
سپین )ٹرینیڈاد مشن کے پہلے مبلغ10]( [p۲۹۹
۴۱
مولوی نورالحق صاحب انور
۲۰۔ دسمبر ۱۹۲۰ء
۱۴۔ اگست ۱۹۴۴ء
مشرقی افریقہ` امریکہ` فجی
۴۲
مولوی محمد عثمان صاحب
۱۹۲۳ء
۲۔ ستمبر ۱۹۴۴ء
اٹلی` سیرالیون
۴۳
صوفی محمد اسحاق صاحب
یکم مارچ ۱۹۲۳ء
۷۔ ستمبر ۱۹۴۴ء
سیرالیون` لائبیریا` )مشن کے پہلے


‏wf5] [tag مبلغ( غاغا۔ یوگنڈا۔ کینیا۔
۴۴
مولوی عبدالحق صاحب ننگلی

سیرالیون` غاغا
۴۵
مولوی نذیر احمد صاحب رائے ونڈی
۱۴۔ اپریل ۱۹۲۶ء
۲۳۔ نومبر ۱۹۴۴ء
سیرالیون
۴۶
شیخ نوراحمد صاحب منیر
۱۹۔ اکتوبر ۱۹۱۹ء
۶۔ فروری ۱۹۴۵ء
لبنان` نائیجیریا۔
۴۷
ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل
۲۳۔ فروری ۱۹۰۲ء
۱۴۔ فروری ۱۹۴۵ء
اٹلی` سیرالیون )فری ٹائون(
۴۸
چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ
۲۰۔ اپریل ۱۹۱۹ء
۳۔ اپریل ۱۹۴۵ء
انگلستان
۴۹
مولوی بشارت احمد صاحب بشیر
۲۴۔ جنوری ۱۹۲۴ء
۵۔ اپریل ۱۹۴۵ء
غانا۔ سیرالیون
۵۰
مولوی بشارت احمد صاحب نسیم
قریباً ۱۹۲۳ء
اپریل ۱۹۴۵ء
غانا۔ ملائیشیا۔
۵۱
‏wf2] gat[ مولوی محمد منور صاحب
۱۳۔ فروری ۱۹۲۳ء
۱۸۔ اگست ۱۹۴۵ء
مشرقی افریقہ
۵۲
قریشی محمد افضل صاحب
۵۔ اکتوبر ۱۹۱۴ء
۱۹۴۵ء
نائجیریا۔ غانا۔ آئیوری کوسٹ۔
۵۳
مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری
۶۔ ستمبر ۱۹۰۸ء
۱۹۴۵ء
انڈونیشیا۔ عراق )۱۹۲۶ء میں سماٹرا روانہ


ہوئے اور ۱۹۴۵ء سے تحریک جدید کے
‏]wf1 [tag

ماتحت کام شروع کیا(
۵۴
مولوی عبدالقادر صاحب ضیغم
۲۲۔ ستمبر ۱۹۲۲ء
۱۶۔ فروری ۱۹۴۶ء
امریکہ
۵۵
مولوی جلال الدین صاحب قمر
۵۔ مئی ۱۹۲۳ء
۵۔ مارچ ۱۹۴۶ء
مشرقی افریقہ` فلسطین
۵۶
سید ولی اللہ صاحب
۵۔ مارچ ۱۹۴۶ء
مشرقی افریقہ
۵۷
عنایت الل¶ہ صاحب خلیل
اندازاً ۱۹۱۴ء
۵۔ مارچ ۱۹۴۶ء
مشرقی افریقہ
۵۸
حکیم محمد ابراہیم صاحب
۱۹۲۲ء
۲۱۔ مارچ ۱۹۴۶ء
مشرقی افریقہ
۵۹
مولوی نذیر احمد صاحب علی
۱۰۔ فروری ۱۹۰۵ء
غانا۔ سیر الیون مشن کے پہلے


مبلغ۔ سیرالیون میں مدفون ہیں۔
۶۰
میر ضیاء اللہ صاحب
‏wf3] g[ta
۲۹۔ اپریل ۱۹۴۶ء
مشرقی افریقہ )ت۳۰۰(
۶۱
بشیر احمد آرچرڈ صاحب
۷۔ مئی ۱۹۴۶ء
انگلستان` برٹش گی آنا` گلاسگو
آف انگلستان

۶۲
چوہدری شکر الٰہی صاحب۳۰۱
۲۰۔ مارچ ۱۹۲۰ء
۱۲۔ جون ۱۹۴۶ء
امریکہ۳۰۱ )ارتداد کے
‏wf1] g[ta

)بعد عبرتناک موت مرے(
۶۳
مولوی محمد سعید صاحب انصاری
۲۰۔ مارچ ۱۹۱۶ء
۱۵۔ جون ۱۹۴۶ء
سنگاپور۔ انڈونیشیا۔ ملایا۔
۶۴
مولوی محمد زہدی صاحب
۷۔ نومبر ۱۹۱۸ء
۲۵۔ جون ۱۹۴۶ء
انڈونیشیا۔ سنگاپور )قادیان سے(
)آف ملایا(

مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا(
۶۵
‏wf2] [tag مولوی عبدالکریم صاحب
۲۶۔ جون ۱۹۴۶ء
سیرالیون
۶۶
سید احمد شاہ صاحب
۱۰۔ اکتوبر ۱۹۱۸ء
۲۹۔ جون ۱۹۴۶ء
نائیجیریا۔ سیرالیون
۶۷
مولوی محمد صادق صاحب لاہوری
۱۹۲۴ء
۱۵۔ جولائی ۱۹۴۶ء
سیرالیون )ت(
۶۸
قریشی مقبول احمد صاحب
۳۰۔ جون ۱۹۲۲ء
۲۰۔ جولائی ۱۹۴۶ء
لنڈن )آئیوری کوسٹ مشن کے
‏]1fw [tag
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
پہلے مبلغ( امریکہ
‏tav.8.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
۶۹
چوہدری عنایت اللہ صاحب
یکم جنوری ۱۹۲۰ء
جولائی ۱۹۴۶ء
مشرقی افریقہ
۷۰
مولوی صالح محمد صاحب
۱۲۔ فروری ۱۹۰۲ء
۱۵۔ ستمبر ۱۹۴۶ء
غانا )ت(
۷۱
‏]2wf [tag مولوی عبدالرحمن خان صاحب
یکم جنوری ۱۹۱۵ء
۱۵۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء
لنڈن )ت(
۷۲
مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم
یکم اکتوبر ۱۹۲۲ء
۱۲۔ دسمبر ۱۹۴۶ء
غانا
۷۳
مولوی غلام احمد صاحب مبشر
۱۹۲۶ء
۱۹۴۶ء
عدن مشن کے بانی
۷۴
مولوی عبدالکریم صاحب شرما
۲۶۔ جولائی ۱۹۱۹ء
۲۸۔ اگست ۱۹۴۷ء
مشرقی افریقہ
۷۵
سید جواد علی صاحب
۱۹۲۴ء
۲۔ اکتوبر ۱۹۴۸ء
امریکہ
۷۶
شیخ نصیرالدین احمد صاحب
۱۵۔ مارچ ۱۹۲۳ء
۱۵۔ جون ۱۹۴۹ء
سیرالیون` نائیجیریا۔
۷۷
مولوی ابوبکر ایوب صاحب
۱۳۔ اکتوبر ۱۹۰۸ء
جون ۱۹۵۰ء
انڈونیشیا` ہالینڈ )پہلے صدر انجمن احمدیہ


کے تحت خدمات بجالاتے رہے(
۷۸
سید منیر احمد صاحب باہری
۱۲۔ اگست ۱۹۲۹ء
۳۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء
برما )تحریک جدید کے برما مشن


کے پہلے مبلغ(
۷۹
مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر
۲۸۔ مارچ ۱۹۲۸ء
۳۱۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء
سیلون۔ ماریشس


مشرقی افریقہ۔
۸۰
مولوی فضل الٰہی صاحب انوری
۱۶۔ اپریل ۱۹۲۷ء
یکم دسمبر ۱۹۵۰ء
غانا۔ جرمنی )فرانکفورٹ(
۸۱
مرزا محمد ادریس صاحب
۱۵۔ اکتوبر ۱۹۲۹ء
۱۵۔ مارچ ۱۹۵۲ء
بورنیو` یوگنڈا۔
۸۲
مولوی عبدالقدیر صاحب شاہد
۱۹۲۵ء
یکم مئی ۱۹۵۲ء
غانا` سیرالیون
۸۳
قریشی فیروز محی الدین صاحب
یکم مئی ۱۹۵۲ء
سنگاپور` غانا` نائجیریا۔
‏]1fw [tag۸۴
عبداللطیف صاحب پریمی
۲۴۔ جون ۱۹۲۷ء
یکم مئی ۱۹۵۲ء
غانا )ت(
۸۵
مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری
اکتوبر ۱۹۲۸ء
یکم مئی ۱۹۵۲ء
سیرالیون` غانا۔
۸۶
مولوی مبارک احمد صاحب ساقی
۷۔ دسمبر ۱۹۳۰ء
یکم مئی ۱۹۵۲ء
نائیجیریا` لائبیریا۔ انگلستان
۸۷
میر مسعود احمد صاحب
یکم ستمبر ۱۹۲۷ء
یکم مئی ۱۹۵۲ء
ڈنمارک
۸۸
صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب
۵۔ مارچ ۱۹۲۷ء
یکم جولائی ۱۹۵۲ء
انڈونیشیا
۸۹
حکیم عبدالرشید صاحب ارشد
۲۱۔ اپریل ۱۹۲۱ء
نومبر ۱۹۵۰ء
انڈونیشیا
۹۰
مولود احمد خاں صاحب
۷۔ مارچ ۱۹۲۵ء
یکم اپریل ۱۹۵۳ء
لنڈن
۹۱
چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ
۶۔ اگست ۱۹۲۸ء
‏wf4] g[ta یکم اپریل ۱۹۵۳ء
سیرالیون` جرمنی۔
۹۲
قاضی مبارک احمد صاحب
۱۹۔ فروری ۱۹۳۲ء
یکم اپریل ۱۹۵۳ء
سیرالیون` غانا` ٹوگولینڈ۔
۹۳
بشیر احمد صاحب رفیق
۱۲۔ ستمبر ۱۹۳۱ء
یکم دسمبر ۱۹۵۳ء
انگلستان
۹۴
خلیل احمد صاحب اختر
۱۸۔ اکتوبر ۱۹۳۱ء
یکم دسمبر ۱۹۵۳ء
انگلستان
۹۵
عبدالشکور صاحب کنزے )جرمن(
۱۵۔ ستمبر ۱۹۱۹ء
۱۳۔ دسمبر ۱۹۵۴ء
امریکہ` جرمنی۳۰۲
۹۶
صالح الشبیبی صاحب )جاوی(
نومبر ۱۹۲۱ء
۱۲۔ اپریل ۱۹۵۵ء
انڈونیشیا )غیرملکی(
۹۷
مولوی نظام الدین صاحب مہمان
۱۵۔ جولائی ۱۹۲۷ء
یکم نومبر ۱۹۵۵ء
سیرالیون
۹۸
سید کمال یوسف صاحب
۱۹۳۳ء
یکم جنوری ۱۹۵۶ء
ڈنمارک مشن کے پہلے مبلغ
۹۹
مولوی محمد بشیر صاحب شاد
۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء
۲۶۔ فروری ۱۹۵۶ء
سیرالیون` نائیجیریا )مغربی افریقہ(
۱۰۰
رشید احمد صاحب اسحاق
۱۵۔ جون ۱۹۳۳ء
۲۶۔ فروری ۱۹۵۶ء
ڈچ گی آنا )م(
۱۰۱
امری عبیدی صاحب
۲۵۔ اپریل ۱۹۵۶ء
ٹانگانیکا )وفات یافتہ(
۱۰۲
منیرالدین احمد صاحب
۱۲۔ اگست ۱۹۲۸ء
۱۲۔ جون ۱۹۵۶ء
کینیا )مشرقی افریقہ(
۱۰۳
ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق
۹۔ مارچ ۱۹۲۶ء
۲۔ ستمبر ۱۹۵۶ء
تنزانیا )مشرقی افریقہ(
۱۰۴
چوہدری ناصر احمد صاحب
۱۴۔ اکتوبر ۱۹۳۳ء
۲۹۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء
سیرالیون
۱۰۵
غلام نبی صاحب شاہد
۳۰۔ جنوری ۱۹۳۰ء
۲۸۔ نومبر ۱۹۵۶ء
سیرالیون` غانا۔
۱۰۶
منیر احمد صاحب عارف
۲۔ جنوری ۱۹۲۹ء
۲۸۔ نومبر ۱۹۵۶ء
برما` نائیجیریا۔
۱۰۷
مولوی عبدالرشید صاحب رازی
مئی ۱۹۳۲ء
۲۸۔ نومبر ۱۹۵۶ء
غانا` تنزانیا۔
۱۰۸
مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل
۳۰۔اکتوبر ۱۹۳۳ء
۲۸۔ نومبر ۱۹۵۶ء
ہالینڈ
۱۰۹
حافظ محمد سلیمان صاحب
اپریل ۱۹۳۰ء
۲۸۔ نومبر ۱۹۵۶ء
تنزانیا )مشرقی افریقہ( کینیا۔
۱۱۰
سردار مقبول احمد صاحب ذبیح
۳۱۔ اگست ۱۹۳۱ء
۲۸۔ نومبر ۱۹۵۶ء
یوگنڈا )مشرقی افریقہ(
۱۱۱
محمد اسحاق صاحب خلیل
۲۸۔ جون ۱۹۳۵ء
۲۲۔ جنوری ۱۹۵۷ء
نائیجیریا )م(
۱۱۲
عبدالرحمن صاحب سیلونی
۲۲۔ اپریل ۱۹۳۰ء
۱۳۔ فروری ۱۹۵۷ء
سیلون` تنزانیا۔
۱۱۳
محمد حنیف صاحب یعقوب
یکم اکتوبر ۱۹۲۶
۳۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء
ٹرینیڈاڈ
۱۱۴
میرغلام احمد صاحب نسیم
۱۵۔ اگست ۱۹۳۱ء
۶۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء
سیرالیون` گی آنا )جنوبی امریکہ(
۱۱۵
مولوی رشیداحمد صاحب سرور
۱۳۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء
۶۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء
تنزانیا )مشرقی افریقہ(
۱۱۶
اقبال احمد صاحب غصنفر
۱۸۔ اپریل ۱۹۳۲ء
۶۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء
سیرالیون
۱۱۷
صلاح الدین خان صاحب بنگالی
دسمبر ۱۹۳۲ء
۶۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء
ہالینڈ
۱۱۸
شیخ نذیر احمد صاحب بشیر
۲۰۔ دسمبر ۱۹۳۲ء
۲۸۔ نومبر ۱۹۵۷ء
لنڈن
۱۱۹
عبدالعزیز صاحب جمن بخش
۲۔ فروری ۱۹۳۵ء
۱۹۵۷ء
ڈچ گی آنا
آف ڈچ گی آنا

۱۲۰
بشیر احمد صاحب شمس گجراتی
‏]3fw [tag فروری ۱۹۳۵ء
۲۰۔ اپریل ۱۹۵۸ء
نائیجیریا۔ جرمنی۔
۱۲۱
امین اللہ خاں صاحب سالک
۲۶۔ مئی ۱۹۳۶ء
۲۰۔ اپریل ۱۹۵۸ء
امریکہ
۱۲۲
مرزا لطف الرحمن صاحب انور
۱۵۔ فروری ۱۹۲۹ء
۲۵۔ جون ۱۹۵۸ء
جرمنی` غانا` ٹوگولینڈ


مشن کے پہلے مبلغ
۱۲۳
منیرالدین صاحب یحییٰ فضلی
۳۔ جولائی ۱۹۳۶ء
۱۷۔ اگست ۱۹۵۹ء
جرمنی
۱۲۴
مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی
۲۵۔ اکتوبر ۱۹۰۱ء
۱۰۔ دسمبر ۱۹۵۹ء
گیمبیا )عارضی وقف(
۱۲۵
محمود عبداللہ شبوطی صاحب عدنی
۲۴۔ مئی ۱۹۳۴ء
۴۔ فروری ۱۹۶۰ء
عدن
۱۲۶
مولوی نصیراحمد خاں صاحب
۱۰۔ اپریل ۱۹۳۰ء
۱۶۔ مئی ۱۹۶۰ء
لبنان` غانا` سیرالیون۔
‏wf1] g[ta۱۲۷
عبدالوہاب بن آدم صاحب
۱۸۔ جنوری ۱۹۳۸ء
یکم جون ۱۹۶۰ء
غانا )جامعہ احمدیہ ربوہ سے
آف افریقہ

شاہد کا امتحان پاس کیا(
۱۲۸
مسعود احمد صاحب جہلمی
یکم اپریل ۱۹۳۴ء
۴۔ جولائی ۱۹۶۰ء
جرمنی
۱۲۹
میجر راجہ عبدالحمید صاحب
۱۹۱۳ء
۱۳۔ ستمبر ۱۹۶۰ء
امریکہ )سہ سالہ وقف(
‏]wf1 [tag۱۳۰
چوہدری رحمت خاں صاحب
اندازاً ۱۸۹۹ء
یکم اکتوبر ۱۹۶۰ء
انگلستان )سہ سالہ وقف(
۱۳۱
مولوی عبدالمالک خان صاحب فاضل
۲۵۔ نومبر ۱۹۱۱ء
جون ۱۹۶۱ء
غانا )صدر انجمن احمدیہ سے آپ کی خدمات


تین سال کے لئے مستعار لی گئیں(
۱۳۲
چوہدری رشید الدین صاحب
دسمبر ۱۹۳۴ء
روانگی جون ۱۹۶۱ء
نائیجیریا )۱۹۶۱ء میں تحریک نے آپ کی خدمات


تین سال کیلئے صدر انجمن سے مستعار لیں(
۱۳۳
حاجی فیض الحق خاں صاحب
۲۔ اکتوبر ۱۸۹۶ء
۱۰۔ نومبر ۱۹۶۱ء
نائیجیریا )سہ سالہ وقف(
۱۳۴
سید محمد ہاشم صاحب بخاری
یکم جنوری ۱۸۹۷ء
۲۵۔ فروری ۱۹۶۲ء
غانا اور سیرالیون میں رہے۔ )پیدائشی

‏wf3] [tag
صحابی ہیں( )سہ سالہ وقف(
۱۳۵
سید دائود احمد صاحب انور
۱۶۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء
۴۔ جون ۱۹۶۲ء
غانا
۱۳۶
قاضی نعیم الدین احمد صاحب
۱۵۔ جولائی ۱۹۴۰ء
یکم جولائی ۱۹۶۲ء
کینیا )مشرقی افریقہ(
۱۳۷
چوہدری عبدالرحمن خانصاحب بنگالی
یکم دسمبر ۱۹۴۰ء
یکم مارچ ۱۹۶۳ء
امریکہ
۱۳۸
قاضی عبدالسلام صاحب
۱۶۔ مارچ ۱۹۶۳ء
کینیا )مشرقی افریقہ(
۱۳۹
مولوی عبدالحمید صاحب
۱۹۰۱ء
۳۰۔ مئی ۱۹۶۳ء
غانا )مغربی افریقہ( )سہ سالہ وقف(

)کراچی سے روانگی(
۱۴۰
مولوی عبدالشکور صاحب
۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء
۲۹۔ جولائی ۱۹۶۳ء
سیرالیون
۱۴۱
محمد عثمان صاحب چینی
‏]3fw [tag ۱۳۔ دسمبر ۱۹۲۵ء
یکم نومبر ۱۹۶۴ء
سنگاپور
۱۴۲
محمد عیسیٰ صاحب ظفر
۴۔ اپریل ۱۹۳۹ء
۱۲۔ جون ۱۹۶۵ء
کینیا )مشرقی افریقہ(
۱۴۳
دائود احمد صاحب حنیف
۳۔ فروری ۱۹۴۳ء
۱۲۔ جون ۱۹۶۵ء
سیرالیون` گیمبیا` مغربی افریقہ۔
۱۴۴
احمد شمشیر صاحب سوکیہ
۳۔ مئی ۱۹۳۳ء
۲۸۔ جولائی ۱۹۶۶ء
ماریشس` کینیا )شہادت الاجانب کی
آف ماریشس

ڈگری جامعہ احمدیہ ربوہ سے حاصل کی(
۱۴۵
قریشی مبارک احمد صاحب
۵۔ اپریل ۱۹۳۸ء
۷۔ اگست ۱۹۶۶ء
غانا۔
۱۴۶
لئیق احمد صاحب طاہر
۷۔ اپریل ۱۹۴۳ء
۷۔ اگست ۱۹۶۶ء
انگلستان
۱۴۷
مولوی بشیراحمد صاحب اختر
۳۔ نومبر ۱۹۴۲ء
۷۔ اگست ۱۹۶۶ء
کینیا )مشرقی افریقہ(
تحریک جدید کے طبی مشن
چند سالوں سے افریقہ کے ممالک میں احمدی ڈسپنسریاں کھولی گئی ہیں جن میں مندرجہ ذیل واقف زندگی ڈاکٹر کام کرچکے ہیں یاکررہے ہیں۔ ڈاکٹر کرنل محمد یوسف صاحب نائیجیریا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب )سیرالیون نائیجیریا( ڈاکٹر شاہ نواز صاحب۳۰۳ )سیرالیون( ڈاکٹر محمد اکرم صاحب ورک )سیرالیون(
تحریک جدید کے بیرونی مدارس
ممالک غیر میں اب تک ۵۷ سکول اور کالج قائم کئے جاچکے ہیں جن میں ہزاروں طلبہ دینی و دنیوی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ درسگاہیں زیادہ تر نائیجیریا` غانا اور سیرالیون میں ہیں۔۳۰۴ اکثر سکولوں میں مقامی اساتذہ کام کررہے ہیں۔ لیکن سیکنڈری سکولوں میں پاکستانی اساتذہ مقرر ہیں۔ ان مدارس میں جن واقفین تحریک جدید کو کام کرنے کا موقعہ میسر آیا ان کے اسماء یہ ہیں۔
سید سفیر الدین صاحب )غانا`( نذیر احمد صاحب ایم ایس سی )غانا`( سمیع اللہ صاحب سیال )سیرالیون`( سعود احمد خاں صاحب دہلوی )غانا`( چودھری محمود احمد صاحب )یوگنڈا(
بیرونی مساجد
تحریک جدید کے ریکارڈ کے مطابق )۱۹۶۷ء تک( مندرجہ ذیل ممالک میں احمدیہ مساجد تعمیر ہوچکی ہیں۔
یورپ: انگلستان )مسجد فضل لنڈن` جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے ۱۹۲۴ء میں رکھا(
ہالینڈ )چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ۹۔ دسمبر ۱۹۵۵ء کو اس کا افتتاح فرمایا(
جرمنی )ہیمبرگ جس کا افتتاح چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے ۲۲۔ جون ۱۹۵۷ء کو فرمایا(
فرانک فورٹ۔
سوئٹزر لینڈ۔ )مسجد محمود زیورچ جس کی بنیاد حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے ۲۵۔ اگست ۱۹۶۲ء کو رکھی اور چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ۲۲۔ جون ۱۹۶۳ء کو افتتاح فرمایا(
ڈنمارک۔ >)مسجد نصرت جہاں< جس کا افتتاح حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۱۔ جولائی ۱۹۶۷ء کو فرمایا(
نوٹ: انگلستان` ہالینڈ اور ڈنمارک کی مساجد خالصت¶ہ احمدی مستورات کے چندہ سے تیار ہوئی ہیں۔
امریکہ: ۳
افریقہ: نائیجیریا ۲۵۔ سیرالیون ۳۵۔ غانا ۱۶۳۔ کینیا ۳۔ تنزانیا ۲۔ یوگنڈا ۵۔ گیمبیا ۱۔
مشرق وسطی: فسلطین ۱۔
مشرق بعید: انڈونیشیا ۵۱۔
ایشیاء: )باستثناء برصغیر پاک و ہند( برما ۱
بیرونی رسائل و جرائد
تحریک جدید کے زیر انتظام بیرونی ممالک میں مندرجہ ذیل رسائل و اخبارات جاری ہیں۔
اخبار احمدیہ )ماہوار` دارالسلام مشرقی افریقہ(
۔1
اخبار احمدیہ )ہفت روزہ` لنڈن(
۔2
)زیورچ جرمنی(
۔Islam Der ۔3
)کوپن ہیگن` ڈنمارک(
‏ Islam Aktiv ۔4
)انگریزی نائیجیریا(
‏ Truth The ۔5
انگریزی )بو۔ سیرالیون(
‏ Crescent African The ۔6
انگریزی )نیروبی(
‏ Times African East ۔7
انگریزی )ٹرینیڈاڈ(
‏ Ahmadiyyat ۔8
سنہالیز۔ انگریزی )کولمبو(
‏ Massage The ۔9
انگریزی )جیسلٹن(
‏ Peace The ۔10
)جکارتا۔ انڈونیشیا(
‏ Islam Sinar ۔11
انگریزی )کیپ ٹائون جنوبی افریقہ(
‏ Asr ۔Al ۔12
" " "
‏ Bushra ۔Al ۔13
عربی )عدن(
‏]eng [tag Islam ۔Al ۔14
برمی )برما(
‏ Huslira ۔Al ۔15
انگریزی )لنڈن(
‏ Heral Muslim ۔16
فجئین` انگریزی )فجی(
‏ Islam ۔17
انگریزی )برٹش گی آنا(
‏ Ahmadiyyat ۔18
ڈچ )ہیگ۔ ہالینڈ(
‏ Islam ۔19
انگریزی ماہنامہ )سالٹ پانڈ` غاغا(
‏ Guidance ۔20
یوگنڈا۔ فینٹی لوگنڈی )مشرقی افریقہ(
‏ Islam of Voice ۔21
سواحیلی )دارالسلام مشرقی افریقہ(
‏ Mungu Ya Penzi Ma ۔22
)کولمبو(
‏Doothan Satya ۔23
وکالت تبشیر کی اہم مطبوعات
تبلیغ اسلام کی عالمگیر مہم میں لٹریچر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور بیرونی مبلغین کو میدان جہاد میں ہر جگہ لٹریچر کی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ تو وہ اپنے مشنوں میں ہی تیار کرتے ہیں لیکن اس کا بیشتر حصہ مرکز میں تیار کیا جاتا ہے۔ مشنوں کے شائع شدہ لٹریچر کا ذکر تو ان کے حالات میں بالتفصیل کیا جارہا ہے۔ اس جگہ تحریک جدید کے مرکزی شعبہ وکالت تبشیر کی مطبوعات درج کی جاتی ہیں۔
عربی لٹریچر
کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام
مکتوب احمد مواھب الرحمن حمامہ البشری
تحفہ بغداد الخطاب الجلیل الاستفتاء
الاسلام التعلیم
کتب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ
لم اعتقد بالاسلام؟
الاسلام والادیان الاخری
کتب دیگر بزرگان سلسلہ
حیات احمد )از حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحبؓ
موسس الجماعہ الاحمدیہ والا نکلیز )از حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ۔ ترجمہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ(
المودودی فی المیزان )السید منیر الحصنی امیر جماعت احمدیہ دمشق(
القول الصریح فی ظھور المہدی والمسیح )مولانا نذیر احمد صاحب مبشر(
اردو لٹریچر
‏body] >[tagتحریک جدید کے بیرونی مشن< )تقریر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء(
>اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں< ") " " " " " " " " " ۱۹۵۷ء(
>موجودہ زمانہ ایک روحانی مصلح کا متقاضی ہے<
>جماعت احمدیہ کا پچہترواں جلسہ سالانہ ۔۔۔۔۔ مختصر کوائف ۱۹۶۷ء
فارسی لٹریچر
>پیام احمدیت< )از حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
انگریزی لٹریچر
‏ (ENGLISH)
‏Quran Al
‏commentary and translation English with Quran yloH The
‏Translation English with Quran Holy The
‏Beauty of gems Forty
‏Islam of Teachings
‏Man of Conditions Moral the on Teachings Islamic
‏Beneificent the of Favours
‏removed standing Misunder A
‏Christianity of review A
‏Teachings Our
‏will The
‏Christianity of Review A
‏India in Jesus
‏Christianity of Fountain
‏sin of bondage of rid get to How
‏Split the About Truth The
‏Islam True the or Ahmadiyyat
‏Ahmadiyyat to Invitation
‏Revolution lRea The
‏Islam of order World new The
‏Islam in Believe I Why
‏Ahmadiyyat is What
‏woman of Librator The Muhammad,
‏Society Islamic of Structure Economic The
‏Movement Ahmadiyya
‏Muhammad of Life
‏Quran Holy the of study the to Introduction
‏Democracy and Communism
‏Tayyaba ۔i ۔Seerat
‏Pearls Scattered
‏Training Spirtual and Moral
‏Spirituality of Pillars Two
‏Movement Ahmadiyya of Future
‏Communism and Islam
‏Nabuwwat ۔i۔ Khatm About Truth
‏Maknoon ۔i۔Durr
‏Beauty and Charm of Mirror
‏March the on Islam
‏Missions Foreign Our
‏Africa in Islam
‏Islam of propagation The
‏Communism Towards Islam of Attitude
‏Islam of Preaching The
‏Atonement of Doctrine Christian The
‏God of Existence The
‏￿Die Jesus Did Where
‏(Illustrated) Jadid ۔i۔Tahrik
‏Religion Bahaee and Babee
‏Kashmir in Jesus
‏Islam of Primer
‏Islam of Interpretation An
‏Nabiyyin Khatamun of Meaning
‏Jesus of Tomb The
‏Islam on View Woman`s Christian A
‏SAWAHILEE:
‏Moja Kosa Kuondoa
‏Nyingine Dini Na Uislamu
‏GERMAN:
‏Translation German with Quran Holy The
‏DUTCH:
‏Translation Dutch with Quran Holy The
‏FRENCH:
‏Islam of Teachings the of Philosophy
‏CHINA:
‏Islam of Teachings the of Philosophy
غیروں کی آراء تحریک جدید کی تبلیغی مساعی سے متعلق
تحریک جدید کے شاندار تبلیغی کارنامہ پر اپنوں اور بیگانوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر چونکہ تحریک جدید کے قائم ہونے والے مشنوں کے تفصیلی حالات پر آئندہ اپنے اپنے مقام پر روشنی ڈالی جارہی ہے اور ان آراء کا اصل موقعہ وہی مقامات ہیں۔ لہذا اس جگہ بطور نمونہ صرف چند اقتباسات پر اکتفاء کرنا مناسب ہوگا۔
الحاج عبدالوہاب عسکری
الحاج عبدالوہاب عسکری ایڈیٹر >السلام البغدادیہ< اپنی کتاب >مشاھد اتی تحت سماء الشرق< میں جماعت احمدیہ کی نسبت لکھتے ہیں۔
>وخد ماتھم للدین الاسلامی من وجھہ التبشیر فی جمیع الاقطار کثیرہ وان لھم دوائر منتظمہ یدیرھا اساتذہ وعلماء ۔۔۔۔۔۔۔ وھم یحتھدون بکل الوسائل الممکنہ لاعلاء کلمہ الدین ومن اعمالھم الجبارہ الفروع التبشیریہ والمساجد التی اسسوھا فی مدن امریکا و افریقیا و اوربا فھی السنہ ناطقہ مما قاموا ویقومون بہ من خدمات ولا شک ان للاسلام مستقبل باھر۳۰۵ علی یدھم<۳۰۶
)ترجمہ( دین اسلام کے لئے ان کی تبلیغی خدمات بہت زیادہ ہیں اور ان کے ہاں بہت سے انتظامی شعبے ہیں۔ جنہیں بڑے بڑے ماہرین اور علماء دین چلاتے ہیں۔ اور وہ دین اسلام کی سربلندی کے لئے تمام ممکن ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے کوشاں ہیں اور ان کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک عظیم کام یورپ` امریکہ` اور افریقہ کے مختلف شہروں میں تبلیغی مراکز اور مساجد کا قیام ہے اور یہ مراکز و مساجد ان کی عظیم خدمات کی منہ بولتی تصویر ہیں جو وہ پہلے اور اب بجالارہے ہیں۔ اور اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان کے ہاتھوں اسلام کا ایک تابناک مستقبل مقدر ہوچکا ہے۔
انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا
>انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا< مطبوعہ ۱۹۴۷ء کے صفحہ ۷۱۱۔ ۷۱۲ پر جماعت احمدیہ کے عالمگیر تبلیغی نظام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
‏ services the enlisting in succeeded community the of sections these "Both as active unceasingly are who men, sacrificing ۔self devoted, of an control They ۔pamphleteers and controversialists propagandists, Mauritius Africa, West India, in only not activity, missionary extensive persuading towards directed mainly are efforts their (where Java and Berlin, in also but sect), Ahmadiyya the join to religionists ۔co their to efforts special devoted have missionaries Their ۔London and Chicago of measure considerable a achieved have and converts European winning as Islam of presntation a such give they literature their In ۔success an received have who persons attract to calculated consider they and Muslims, ۔non attract only not thus dan lines, modern on education win but Controversialists, Christian by Islam on made attacks the rebut rationalist or agnostic under come have who Muslims faith the to back
"۔influences
‏Pages 12, Volume Edition, Fourteenth Britannica, Encyclopaedia 712(The۔711
)ترجمہ( احمدیہ جماعت کے دونوں گروہ نہایت مخلص اور ایثار پیشہ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ لوگ اشتہارات` رسائل اور مناظرات کے ذریعہ مسلسل اشاعت کا کام کررہے ہیں ان کا ایک وسیع تبلیغی نظام ہے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ` ماریشس اور جاوا میں بھی )جہاں ان کی کوششیں بالخصوص اس غرض کے لئے وقف ہیں کہ ان کے ہم مذہب لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوجائیں( اس کے علاوہ برلن` شکاگو اور لندن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں ان کے مبلغین نے خاص جدوجہد کی ہے کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں اور اس میں انہیں معتدبہ کامیابی بھی ہوئی ہے۔ ان کے لٹریچر میں اسلام کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے باعث کشش ہے اور اس طریق پر نہ صرف غیرمسلم ہی ان کی طرف کھنچے آتے ہیں بلکہ ان مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا موجب ہیں جو مذہب سے بیگانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ ان کے مبلغین ان حملوں کا بھی دفاع کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر کئے ہیں۔
جامعہ ازہر کا ترجمان >الازھر<
جامعہ الازہر کے ترجمان >الازھر< نے جولائی ۱۹۵۸ء کے شمارہ میں مغربی افریقہ میں تحریک جدید کی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>ولھم نشاط بارزفی کافہ النواحی و مدار سھم ناجحہ بالرغم من ان تلامیذھا لایدینون جمیعا بمذھبھم<
‏body] gat[یعنی جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں۔ ان کے مدارس بھی کامیابی سے چل رہے ہیں باوجود یکہ ان کے مدراس کے تمام طلباء ان کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے۔۳۰۷
روزنامہ >برنرٹکبلٹ< سوئٹزر لینڈ
سوئٹزرلینڈ کا روزنامہ برنرٹکبلٹ (BERNERTAGBLATT) نے اپنی ۱۱۔جون ۱۹۶۱ء کی اشاعت میں لکھا۔
>اس دوران میں یہ جماعت )احمدیہ( دنیا کے اور بہت سے حصوں میں بھی پھیلی گئی ہے جہاں تک یورپ کا تعلق ہے لندن` ہمبرگ` فرانکفورٹ` میڈرڈ` زیورچ اور سٹاک ہالم میں اب اس جماعت کے باقاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں۔ امریکہ کے شہروں میں سے واشنگٹن` لاس اینجیلیز` نیو یارک` پٹسبرگ اور شکاگو میں بھی اس کی شاخیں موجود ہیں۔ اس سے آگے گرنیاڈا` ٹرینیڈاڈ اور ڈچ گیانا میں بھی یہ لوگ مصروف کار ہیں۔ افریقی ممالک میں سے سیرالیون` گھانا` نائیجیریا` لائبیریا اور مشرقی افریقہ میں بھی ان کی خاصی جمعیت ہے۔ مشرقی وسطی اور ایشیا میں سے مسقط` دمشق` بیروت` ماریشس` برطانوی شمالی بورنیو` کولمبو` رنگون` سنگاپور اور انڈونیشیا میں ان کے تبلیغی مشن کام کررہے ہیں۔ دوسری عالمگیر جنگ سے قبل ہی قرآن کا دنیا کی سات مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ چنانچہ اب تک ڈچ` جرمن اور انگریزی میں پورے قرآن مجید کے تراجم عربی متن کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح عنقریب روسی ترجمہ بھی منظر عام پر آنے والا ہے۔ اس جماعت کا نصب العین بہت بلند ہے یعنی یہ کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام بنی نوع انسان کو ایک ہی مذہب کا پابند بناکر انہیں باہم متحد کردیا جائے۔ وہ مذہب احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہے اس کے ذریعہ یہ لوگ پوری انسانیت کو اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک کرکے دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ بالاخر بنی نوع انسان اسلام کی آغوش میں آکر مسلمان ہو جائیں گے۔
یہ جماعت خود اور اس کا مولد و مسکن سے نکل کر پوری دنیا پر اس قدر مضبوطی سے پھیل جانا نوع انسان کی روحانی تاریخ کے عجیب و غریب واقعات میں سے ایک عجیب و غریب واقعہ اور نشان ہے۔ )ترجمہ(۳۰۹
پروفیسر سٹینکو ایم ووجیکا صدر شعبہ فلسفہ ولکیز کالج امریکہ
امریکہ کی ریاست پنسلوانیہ میں ولکیز کالجCOLLEGE) (WILKES کے شعبہ فلسفہ کے صدر پروفیسر سٹینکو ایم ووجیکا VUJIKA) ۔M (STANKO نے انگلستان کے جریدہ >ایسٹرن ورلڈ< WORLD) (EASTERN میں لکھا۔
>قادیان گروپ کو آج بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد سے ربوہ اس گروپ کا )ثانوی( مرکز ہے جو مغربی پاکستان میں واقع ہے۔ اس گروپ کی قیادت ۱۹۱۴ء سے بانی سلسلہ احمدیہ کے فرزند مرزا بشیر الدین )محمود احمد( کے ہاتھ میں ہے۔ بالعموم آپ کے پیرو آپ کو احتراماً >حضرت صاحب< کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ ہمیشہ ہی ایک اولوالعزم لیڈر اور زرخیز دماغ مصنف واقع ہوئے ہیں۔ اپنے والد کی طرح آپ کو بھی دعویٰ ہے کہ آپ تعلق باللہ کے ایک خاص مقام پر فائز ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک جگہ اپنے متعلق ذیل کی عبارت لکھی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو کچھ لکھا ہے سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ لکھا ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔
>خداتعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو میرے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور بیسیوں موقعوں پر اپنے تازہ کلام سے مجھے مشرف فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کا کوئی علم نہیں جو اسلام کے خلاف آواز اٹھاتا ہو اور اس کا جواب خداتعالیٰ مجھے قرآن شریف سے ہی نہ سمجھا دیتا ہو<۔ )دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی(
>۔۔۔۔۔۔۔۔ ربوہ میں سب سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ بیرونی مشنوں کو کنٹرول کرنے والے دفتر )وکالت تبشیر( میں دیکھنے میں آتا ہے۔ احمدیوں نے اپنے آپ کو اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کے مقصد کے لئے دل و جان کے ساتھ وقف کررکھا ہے۔ اسلام کی اشاعت کو وہ ہر مسلمان کا بنیادی فرض تصور کرتے ہیں۔ ربوہ میں باقاعدہ ایک مشنری کالج )جامعہ احمدیہ( ہے جو بیرونی ممالک کے لئے مبلغین تیار کرتا ہے اور اسی طرح بیرونی ممالک سے آنے والے نو مسلموں کو اسلامی علوم سے بہرہ ورکرتا ہے۔ بیرونی مشنوں کو کنٹرول کرنے والا دفتر نشر و اشاعت کے میدان میں بھی انتہائی طور پر سرگرم واقع ہوا ہے۔ انگریزی ماہنامہ >دی ریویو آف ریلیجنز< کے علاوہ جسے اس کے باقاعدہ اور مستقل آرگن کی حیثیت حاصل ہے` یہ اس قدر کثیر تعداد میں کتابیں` چھوٹے چھوٹے رسالے اور پمفلٹ شائع کرتا ہے کہ جنہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ یہ تمام لٹریچر اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دنیا دونوں کے نقطہ نظر سے شائع کیا جاتا ہے اور مقصد اس کی اشاعت سے یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو احمدیت کا حلقہ بگوش بنایا جائے<۔
>احمدیوں کا یہ مطمح نظر کہ وہ مغرب کی عیسائی دنیا کو اپنے مخصوص اسلام کا حلقہ بگوش بنا کر ہی دم لیں گے بظاہر ایک دیوانے کی بڑ نظر آتا ہے۔ مسلانوں کی ایک چھوٹی سی تنظیم جس کا مرکز پاکستان میں ہے اور جو اپنے محدود وسائل سے کام لے کر مغرب کے متمول اور ذی ثروت ممالک میں تبلیغ اسلام کی انتہائی گراں بار ذمہ داری کو نبھانے میں کوشاں ہے اس کی اس قسم کی توقعات بظاہر مایوس کن دکھائی دیتی ہیں۔ بایں ہمہ یہ اس زبردست یقین اور جذبہ و جوش کی آئینہ دار ضرور ہیں` جس سے یہ لوگ مالا مال ہیں۔ اس مقصد کے حصول میں ابھی انہیں ایک معتدل حد تک کامیابی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے تبلیغی مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ یورپ میں بھی انگلستان` فرانس` اٹلی` سپین` ہالینڈ` جرمنی` ناروے` اور سویڈن میں ان کے باقاعدہ مشن ہیں۔ جنوبی امریکہ کے ممالک میں سے یہ لوگ ٹرینیڈاڈ` برازیل اور کاسٹاریکا میں موجود ہیں۔ اسی طرح ایشیائی ¶ممالک میں سے سیلون` برما` ملایا` فلپائن` انڈونیشیا` ایران` عراق اور شام میں بھی ان کے مبلغ مصروف کار ہیں۔ افریقی ممالک میں سے مصر` زنجبار` نٹال` سیرالیون` گھانا` نائیجیریا` مراکش اور ماریشس میں بھی ان کی جماعتیں قائم ہیں۔
>سیرالیون کی نئی جمہوریہ مغربی افریقہ میں احمدیہ تحریک کے لئے ایک منتخب خطہ کی حیثیت رکھتی ہے اپنے پاکستانی مرکز کی رہنمائی میں اس تحریک نے اس چھوٹی سی مملکت کے اندر خاصا اثر و نفوذ حاصل کرلیا ہے۔
>۔۔۔۔۔۔۔۔ احمدیت اپنے آپ کو زمانہ جدید کی ایک اسلامی تحریک کے طور پر پیش کرتی ہے اور اس امر کی دعویدار ہے کہ وہ دنیا کے ہر حصے میں نبردآزما ہوتے ہوئے اسلام کے ایک نئے علمبردار کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا کہ اب تک اس تحریک میں کتنے لوگ داخل ہوچکے ہیں` مشکل ہے۔ تاہم احمدیوں کے اپنے اندازہ کے مطابق پاکستان اور ہندوستان میں ہی ان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے<۔
>ایک مذہبی فرقے کے لئے بلحاظ تعداد اس کے افراد کا کم ہونا یا اس کے معتقدات کی مخصوص نوعیت جو دوسروں کے لئے پورے طور پر قابل فہم نہ ہو` نقصان کا موجب نہیں ہوا کرتی۔ ایسے فرقے صدیوں تک زمانے کے حالات سے نبردآزما رہنے کے انداز سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ مذاہب کی تاریخ ایسے چھوٹے چھوٹے فرقوں کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے زمانہ کے اتار چڑھائو اور اکثریت کے دبائو کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ہستی کو برقرار رکھا۔ اس بات کا امکان ہے کہ احمدیت بھی مستقبل میں اس طرح نمایاں طور پر پھلے پھولے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ اسلامی دنیا مغرب کی لادینی ثقافت کے زیراثر آجانے کے باعث ادھر ادھر بھٹک رہی ہے۔ احمدیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کی تحریک اسلام کو اس طور سے پیش کرتی ہے کہ جو دنیائے جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پھر وہ اسلام کی آخری فتح کے بارے میں نہایت درجہ پراعتماد ہیں۔ ایسی صورت میں احمدیت ان نئی نسلوں کے لئے دلکش اور جاذب نظر ثابت ہوسکتی ہے جو اصلاح حال کے پیش نظر نئے انداز فکر کی تلاش میں سرگرداں ہیں<۔۳۱۰ )ترجمہ(
اخبار >دی وین گارڈ< گیمبیا
گیمبیا کے ایک اخبار >دی وین گارڈ< (THEVANGUARD) نے اپنے ایک اداریہ میں لکھا۔
>آس فرقہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب )علیہ السلام( نے اس فرقہ کی بنیاد قادیان میں ۱۸۸۹ء میں رکھی تھی اس وقت سے لیکر اب تک یہ فرقہ ساری دنیا میں پھیل چکا ہے اور اسلام کی ترقی کے لئے تبلیغی اور تعلیمی کوششوں میں پہلے سے بہت زیادہ مصروف ہے<۔
>اپنے گھر کے پاس نگاہ دوڑا کر دیکھئے۔ سیرالیون` غانا اور نائیجیریا میں یہ فرقہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوچکا ہے جہاں اس کے تعلیمی ادارے باقاعدگی کے ساتھ ہزاروں مسلمانوں کو انگریزی اور عربی کی تعلیم دے رہے ہیں<۔۳۱۱
مسٹر ایم جے آغا آف جنجہ مشرقی افریقہ
کتاب >مذہبی تحریکات ہند< کے مولف مسٹر ایم۔ جے آغا` AGHA) ۔J ۔(Mآف جنجہ )مشرقی افریقہ( لکھتے ہیں۔
>احمدی جماعت کے موجودہ سربراہ میاں محمود صاحب نے دیگر ممالک میں بھی مشن قائم کئے۔ اور احمدی مخلصین نے غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے نام پر دل کھول کر مالی قربانیاں پیش کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں تیزتر کردیں۔ چنانچہ گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے مشن عیسائی مبلغین کے مقابلے میں محدود ذرائع کے باوجود اچھا کام کررہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اہلسنت و الجماعت کے لوگ سواد اعظم کی حیثیت سے پچاس کروڑ کی تعداد میں ہیں` وسیع ذرائع اور وسائل کے باوجود ان کے دل میں تبلیغ اسلام کا کبھی خیال نہیں آیا<۔
مسٹر ایم۔ جے آغا تحریک جدید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>اس شعبہ میں ایسے تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں جو مروجہ علوم کے علاوہ دینی تعلیم کی بھی واقفیت رکھتے ہیں اور مغربی ممالک میں عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کو بحیثیت دین پیش کرتے ہیں۔ واقعی یہ بڑا کٹھن اور صبرآزما کام ہے جس کے لئے جانی اور مالی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ لیکن احمدی لوگ بڑی توجہ اور جذبہ کے ساتھ اس فریضہ کی ادائیگی میں حصہ لیتے ہیں۔ جس سے بیرونی ممالک میں مسجدیں` مدرسے اور تبلیغی مرکز قائم کئے جاتے ہیں اور قرآن مجید کے تراجم مختلف زبانوں میں شائع کرکے تقسیم کئے جاتے ہیں۔
عیسائی مبلغین کے مقابلے میں احمدیہ فرقہ کی تبلیغی مساعی قابل داد ہیں کیونکہ ان کے ذرائع عیسائیوں کے مقابلے میں بہت کم اور بالکل محدود ہیں۔ مسلمانوں میں سوائے مصری اور چند ایک دیگر تبلیغی جماعتوں کے اشاعت اسلام کا کام بہت کم ادارے انجام دے رہے ہیں اور جو کررہے ہیں۔ ان میں احمدی جماعت پیش پیش ہے<۔۳۱۲
اخبار >المنبر< لائل پور
مدیر ہفت روزہ >المنبر< لائل پور لکھتے ہیں۔
)پہلا اقتباس( >تحریک جدید< نام ہے ایک منظم جدوجہد کا جو آج سے اٹھائیس سال پہلے مرزا محمود احمد صاحب نے قادیان سے شروع کی تھی۔ اس تحریک کے پہلے سال پنجاب میں تین اہم مراکز قائم کئے تھے جن میں قادیانی وکلاء` ڈاکٹر` علماء` طبیب اور عام کاروباری حضرات ہفتے اور مہینے وقف کرکے مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی سرتوڑ کوشش کیا کرتے تھے۔
یہ تحریک ابتداء میں ایک محدود مدت کے لئے شروع ہوئی تھی۔ جب اس کے ۹ یا ۱۰ برس ختم ہوگئے تو مرزا محمود صاحب نے اعلان کردیا کہ اب یہ تحریک دائمی ہوگی چنانچہ اب اٹھائیسویں برس کا افتتاح ربوہ میں جماعت انصاراللہ کے اجتماع میں کیا گیا۔
اس تحریک کے تحت پاکستان` ہندوستان` جرمنی` افریقہ اور دوسرے مسلم و غیر مسلم ممالک میں قادیانی مراکز قائم ہیں اور وہ رات دن اس کوشش میں مصروف ہیں کہ عیسائیوں` مسلمانوں اور دوسری اقوام کو قادیانی بنائیں۔
یہ لوگ اس کام کے لئے زندگیاں وقف کرتے ہیں۔ اپنی اولادیں وقف کرتے ہیں۔ کتابیں چھاپتے ہیں۔ ٹریکٹ شائع کرتے ہیں۔ جلسے کرتے ہیں۔ قریہ قریہ بستی بستی گھوم پھر کر قادیانیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔
ہمیں ذاتی طور پر علم ہے کہ ۱۹۵۳ء میں جب ہائیکورٹ میں پنجاب کے فسادات کی انکوائری ہورہی تھی تو مسلمان جماعتیں اور افراد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ثابت کرنے کے لئے مرزا غلام احمد صاحب کی کتابوں` خلیفہ محمود صاحب کی تحریروں سے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے ثبوت پیش کررہے تھے۔ ٹھیک انہی دنوں قادیانی جماعت کے ذمہ دار حضرات نے ہائیکورٹ اور انکوائری عدالت کے سربراہ جسٹس محمد منیر صاحب اور اس وقت کے گورنر جنرل مسٹر غلام محمد مرحوم کی خدمت میں قرآن مجید کا جرمنی یا ڈچ ترجمہ پیش کیا تھا جو اس زمانہ میں شائع ہوا تھا اور اس بناء پر مسٹر محمد منیر صاحب بار بار مسلمانوں کے نمائندوں سے سوال کیا کرتے کہ آپ لوگوں نے قرآن مجید کے کتنے تراجم غیر ملکی زبانوں میں کئے ہیں۔ اور آپ کا نظم غیر مسلم اقوام کو اسلام سے آشنا کرنے کے لئے کیا کچھ کررہا ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ قادیانی حضرات پراپیگنڈے کے بڑے ماہر ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ مرزا غلام احمد سے قادیان کے وکیل المال تک ہر شخص مبالغے سے اپنی کوششوں کا ذکر کرتا ہے اور یہ بھی واقع ہے کہ قادیانی جماعت کا اندرونی نظم شدید انتشار کا شکار ہے۔ لیکن کیا اس سچی حقیقت کا انکار ممکن ہے کہ قادیانی جماعت کا بجٹ لاکھوں کا ہوتا ہے اور ابھی جو آپ نے ملاحظہ کیا کہ ربوہ میں انصاراللہ کے اجتماع میں چند گھنٹوں میں ۸۸۱۹۱ کی خطیر رقم کے وعدے ہوئے اور یہ ساری رقم صرف ہوگی عیسائیوں اور مسلمانوں کو قادیانی بنانے پر۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغی جماعت ہر سال سینکڑوں افراد کو غیر مسلم ممالک میں بھیجتی ہے اور ابھی جماعت اسلامی کے سربراہ کار مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے افریقہ جانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر حکومت نے انہیں جانے کی اجازت نہ دی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسا ہوا لیکن ذرا سوچئے! اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد سوا آٹھ کروڑ۔ اور قادیانیوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو تین لاکھ ہوگی۔ اگر اس جماعت کے شعبہ کے لئے چند گھنٹوں میں نوے ہزار کے قریب روپے کے وعدے ہو جاتے ہیں تو اس کے بالمقابل دو سو گنا اکثریت کا بجٹ اشاعت اور دعوت اسلام کے لئے کتنا ہونا چاہئے اور یہ واضح رہے کہ یہ بجٹ صرف تحریک جدید کا ہے۔ قادیانیوں کی مرکزی جماعت کا بجٹ تقریبا ۳۰/۲۵ لاکھ روپے کا ہوتا ہے<۔۳۱۳
)دوسرا اقتباس( قبل ازیں مدیر >المنبر< ایک اور اشاعت میں لکھتے ہیں۔
>قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدوجہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں۔ تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلینﷺ~ کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں<۔۳۱۴
)تیسرا اقتباس( مدیر >المنبر< مزید لکھتے ہیں۔
>تحریک جدید جس کا آغاز ۱۹۳۴ء میں اس سے ہوا تھا کہ مرزا محمود نے ساڑھے ستائیس ہزار روپے )تقریباً ۹ ہزار سالانہ( کا مطالبہ جماعت سے کیا تھا۔ اس کے جواب میں قادیانی امت نے تین سال کے عرصے میں تین لاکھ ترپن ہزار روپے پیش کئے۔ ابتداء میں یہ تحریک دس سال کے لئے تھی۔ ۱۹۴۴ء میں مزید نو سال کے لئے اس تحریک کو وسیع کردیا گیا۔ لیکن ۱۹۵۳ء میں جب >اینٹی قادیانی تحریک< کا دور بیت چکا تو مرزا محمود نے نئے ولولوں کے ساتھ اعلان کیا >میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں تحریک جدید کو اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک تمہارا سانس قائم ہے< )المصلح ۱۱۔ نومبر ۱۹۵۳ء( چنانچہ اس تحریک کا گزشتہ سال کا بجٹ اڑتیس لاکھ روپے سے بھی زائد ہے۔
اس تحریک میں چندہ دینے والوں کی تعداد بائیس ہزار کے قریب ہے جو مستقل سالانہ چندہ ادا کرتے ہیں اور خواہ کتنے ہی ہنگامی اور وقتی چندے انہیں دینا پڑیں تحریک جدید کا چندہ اس سے متاثر نہیں ہوتا اس تحریک میں فی کس چندہ کی مقدار بیس تیس سے سو ڈیڑھ سو روپے تک سالانہ ہے<۔۳۱۵
)چوتھا اقتباس( یہی اخبار لکھتا ہے کہ۔
>قادیانی مالیاتی نظام تین حصوں پر مشتمل ہے۔
۱۔
وقتی اور ہنگامی چندے
۲۔
مستقل چندے
۳۔
وقف جائدادیں
وقتی اور ہنگامی چندوں کا سلسلہ لامتناہی اور طویل سے طویل تر ہے۔ مساجد کی تعمیر` مختلف ممالک کے دارالتبلیغ` کسی خاص سفر کے لئے چندہ` کسی ملکی مسئلے کے لئے خاص فنڈ` بعض تعلیمی اسکیموں کے لئے خاص رقوم` تراجم قرآن مجید کے نام پر اپیل` الغرض ہر مسئلہ` ہر عنوان پر تحریک ہوتی ہے اور جماعت اس پر لبیک کہتی ہے۔
ان وقتی چندوں کی مقدار` چند ہزار سے لاکھوں تک ہوتی ہے اور یہ تحریکات تقریباً سال بھر کسی نہ کسی عنوان سے جاری رہتی ہیں۔ ایک ختم تو دوسری شروع` دوسری جاری ہے تو تیسری کا آغاز` اس ضمن میں یہ بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ مرزا محمود آنجہانی نے جو نفسیاتی محرکات ان تحریکات کے لئے تجویز کئے وہ بے حد کامیاب رہے۔ مثلاً کسی ملک کی مسجد کے لئے اعلان کردیا کہ اس کا تمام بار صرف عورتوں پر پڑے گا۔ اور بعض اوقات تین چار لاکھ کی رقم سب کی سب عورتوں نے مہیا کی۔
بعض تحریکات صرف کسانوں اور زمینداروں کے لئے` بعض مالی مطالبات صرف تاجروں سے` اور بعض کا تقاضا صرف ملازمین سے وغیرہ<۳۱۶
یہ ہے وہ نظام تحریک جدید جس کا آغاز احراری مخالفت کے تیزوتند طوفان میں ایک نہایت کمزور سے بیج کی شکل میں ہوا۔ اور جو اب خدا کے فضل و کرم سے ایک تناور درخت بن چکا ہے اور جس کی شاخیں نہایت تیزی سے دنیا کے کناروں تک پھیلتی نظر آرہی ہیں۔ حق جوئی کے پرندے اس کے سائے تلے آرام کرتے اور اس کے شیریں اثمار سے مستفید ہورہے ہیں۔
پہلے سلطنت برطانیہ کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا مگر اب جماعت احمدیہ بھی خدا کے فضل سے مشرق و مغرب کے دور دراز علاقوں میں پھیل رہی ہے اور اب اس کے متعلق بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا۔ وذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء فالحمدللہ علی ذالک۔
‏0] [stfتحریک جدید دائمی قربانیوں کی تحریک ہے
تحریک جدید کے ان حیرت انگیز نتائج کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں ذرہ بھر تامل نہیں کہ اس وقت تک جو کچھ بھی انجام پاچکا ہے وہ ایک خوشکن بنیاد سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ جیسا کہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار فرمایا تھا۔ ~}~
ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی
آغاز تو میں کردوں انجام خدا جانے
ابھی ان کوششوں سے کفر و اسلام کی جنگ کا آغاز ہوا ہے اور دنیا کو روحانی طور پر فتح کرنے کے لئے جماعت کو بے شمار قربانیاں پیش کرنا مقدر ہے جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے شروع ہی سے جماعت کو اس حقیقت سے بخوبی آگاہ کردیا تھا۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا۔
>اس تحریک کی غرض عارضی نہیں ہے وہ وقت آرہا ہے جب ہمیں ساری دنیا کے دشمنوں سے لڑنا پڑے گا۔ دنیا سے میری مراد یہ نہیں کہ ہر فرد سے لڑنا پڑے گا کیونکہ ہر قوم اور ہر ملک میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں میرا مطلب یہ ہے کہ تمام ممالک میں ہمارے لئے رستے بند کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ پس ہماری جنگ ہندوستان تک محدود نہ رہے گی بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ہمیں اپنے پیدا کرنے والے اور حقیقی بادشاہ کی طرف سے جنگ کرنی ہوگی۔ اگر تو احمدیت کوئی سوسائٹی ہوتی۔ تو ہم یہ کہہ کر مطمئن ہوسکتے تھے کہ ہم اپنے حلقہ اثر کو محدود کرلیں گے اور جہاں جہاں احمدی ہیں وہ سمٹ کر بیٹھ جائیں گے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ جو بات اس کی طرف سے آئی ہے اسے ساری دنیا میں پہنچائیں اور ہم نے اسے پہنچانا ہے۔ ہمارا پروگرام وہ نہیں جو ہم خود تجویز کریں بلکہ ہمارا پروگرام ہمارے پیدا کرنے والے نے بنایا ہے<۔۳۱۷][پھر فرمایا۔
>تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے جو شخص قطرہ سے ڈرتا ہے وہ سمندر میں کب کودے گا<۔۳۱۸
جماعت کو انتباہ
اسی طرح حضورؓ نے جماعت کے مخلصین کو متنبہ کرتے ہوئے واضح لفظوں میں بتایا کہ۔
‏tav.8.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
تحریک جدید کی بنیاد سے لے کر خلافت جوبلی تک
>جس دن ہم میں وہ لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے کہا دور اول بھی گزر گیا` دور دوم بھی گزر گیا` دور سوم بھی گر گیا` دور چہارم بھی گزر گیا` دور پنجم بھی گزر گیا` دور ششم بھی گزر گیا` دور ہفتم بھی گزر گیا` اب ہم کب تک اس قسم کی قربانیاں کرتے چلے جائیں گے آخر کہیں نہ کہیں اس کو ختم بھی تو کرنا چاہئے۔ وہ اقرار ہوگا ان لوگوں کا کہ اب ہماری روحانیت سرد ہوچکی ہے اور ہمارے ایمان کمزور ہوگئے ہیں<۔
>ہم تو امید رکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے یہ دور غیر محدود دور ہوں گے اور جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے اسی طرح تحریک جدید کے دور بھی نہیں گنے جائیں گے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ تیری نسل گنی نہیں جائے گی اور حضرت ابراہیمؑ کی نسل نے دین کا بہت کام کیا یہی حال تحریک جدید کا ہے۔ تحریک جدید کا دور چونکہ آدمیوں کا نہیں بلکہ دین کے لئے قربانی کرنے کے سامانوں کا مجموعہ ہے۔ اس لئے اس کے دور بھی اگر نہ گنے جائیں تو یہ ایک عظیم الشان بنیاد اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کی ہوگی<۔۳۱۹
قربانیوں کی ابدی ضرورت پر حضرت امیر المومنینؓ کا پرشوکت فرمان
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے محض اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ آپ نے دائمی قربانیوں کی اہمیت نمایاں کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا کہ۔
>یہ یاد رکھو کہ آمد کی زیادتی کے ہرگز یہ معنیٰ نہیں کہ کسی وقت تم اپنے چندوں سے آزاد ہوجائو گے۔ یا کوئی وقت جماعت پر ایسا بھی آئے گا جب تم سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ میں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میں مرجائوں گا اور پھر اور لوگ اس جماعت کے خلفاء ہوں گے۔ میں نہیں جانتا اس وقت کیا حالات ہوں گے اس لئے ابھی سے تم کو نصیحت کرتا ہوں تاکہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے۔ اگر کوئی خلیفہ ایسا آیا جس نے سمجھ لیا کہ جماعت کو زمینوں سے اس قدر آمد ہورہی ہے` تجارتوں سے اس قدر آمد ہورہی ہے` صنعت و حرفت سے اس قدر آمد ہورہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اور قربانی کی کیا ضرورت ہے۔ اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کردی جائے تو تم یہ سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ خلافت ختم ہوگئی اور کوئی اسلام کا دشمن پیدا ہوگیا۔ جس دن تمہاری تسلی اس بات پر ہوجائے گی کہ روپیہ آنے لگ گیا ہے اب قربانی کی کیا ضرورت ہے۔ اس دن تم سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی بھی ختم ہوگئی۔ میں نے بتایا ہے کہ جماعت روپیہ سے نہیں بنتی بلکہ آدمیوں سے بنتی ہے اور آدمی بغیر قربانی کے تیار نہیں ہوسکتے۔ اگر دس ارب روپیہ آنا شروع ہوجائے تب بھی ضروری ہوگا کہ ہرزمانہ میں جماعت سے اس طرح قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے جس طرح آج کیا جاتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیا جائے۔ کیونکہ ابھی بڑی بڑی قربانیاں جماعت کے سامنے نہیں آئیں۔ پس چاہئے کہ اگر ایک ارب پونڈ خزانہ میں آجائے تب بھی خلیفہ وقت کا فرض ہوگا کہ ایک غریب کی جیب سے جس میں ایک پیسہ ہے دین کے لئے پیسہ نکال لے اور ایک امیر کی جیب میں سے جس میں دس ہزار روپیہ موجود ہے دین کے لئے دس ہزار نکالے کیونکہ اس کے بغیر دل صاف نہیں ہوسکتے۔ اور بغیر دل صاف ہونے کے جماعت نہیں بنتی اور بغیر جماعت کے بننے کے خداتعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی۔ وہ روپیہ جو بغیر دل صاف ہونے کے آئے وہ انسان کے لئے رحمت نہیں بلکہ *** کا موجب ہوتا ہے۔ وہی روپیہ رحمت کا موجب ہوسکتا ہے جس کے ساتھ انسان کا دل بھی صاف ہو اور دینوی آلائشوں سے مبرا ہو۔
پس مت سمجھو کہ اگر کثرت سے روپیہ آنے لگا تو تم قربانیوں سے آزاد ہوجائو گے۔ اگر کثرت سے روپیہ آگیا تو ہمارے ذمہ کام بھی تو بہت بڑا ہے۔ اس کے لئے اربوں روپیہ کی ضرورت ہے۔ بلکہ اگر اربوں ارب روپیہ آجائے تو پھر بھی یہ کام ختم نہیں ہوسکتا۔ روپیہ ختم ہوسکتا ہے مگر یہ کام ہمیشہ بڑھتا چلا جائے گا۔
پس کسی وقت جماعت میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ اب کثرت سے روپیہ آنا شروع ہوگیا ہے قربانیوں کی کیا ضرورت ہے` اب چندے کم کردیئے جائیں اس سے زیادہ کسی جماعت کی موت کی اور کوئی علامت نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی موت کے فتوے پر دستخط کردے پس مت سمجھو کہ ان زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ کی آمد کے بعد چندے کم کردیئے جائیں گے۔
اگر یہ روپیہ ہماری ضرورت کے لئے کافی ہو جائے تب پھر تمہارے اندر ایمان پیدا کرنے کے لئے` تمہارے اندر اخلاص پیدا کرنے کے لئے` تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کے لئے` تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کردیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا` یہ سلسلہ پر ظلم ہوگا۔ یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہوگا<۔۳۲۰
خلفاء کو وصیت
حضور نے نہ صرف جماعت کو قربانی کی طرف متوجہ کیا بلکہ آئندہ آنے والے خلفاء کو وصیت فرمائی کہ۔
>جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کرلیں اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے<۔۳۲۱
تحریک جدید کا شاندار مستقبل
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو عالم رویا میں دکھایا گیا کہ۔
>ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح پیچ کھاتا ہے مشرق کوجارہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ہے<۔۳۲۲
یہ دراصل اس عظیم الشان روحانی انقلاب کا ایک منظر ہے جو مستقبل میں جلد یا بدیر تحریک جدید کے ذریعہ سے رونما ہونے والا ہے اور جس کے نتیجہ میں تحریک جدید کی پانچہزاری فوج کا لاکھوں تک پہنچنا اور پھر دنیا کے مغربی نظاموں کی جگہ اسلام کے نظام نو کی تعمیر مقدر ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے ایک بار بالصراحت فرمایا تھا۔
>جب ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نام کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اسلام کے جلال اور اس کی شان کے اظہار کے لئے اپنی ہر چیز قربان کردیں گے تو ہمیں ان تبلیغی سکیموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہوگی اس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کا ہی فرض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے۔ جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتا ہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں۔ کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلغ چاہئیں۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ بیس بیس لاکھ تک مبلغین کی تعداد پہنچا کر میں سو جایا کرتا ہوں۔ میرے اس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلی میں ہوں۔ مگر مجھے اپنے خیالات اور اندازوں میں اتنا مزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دور ہوجاتی ہے۔ میں کبھی سوچتا ہوں کہ پانچ ہزار مبلغ کافی ہوں گے۔ پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزار کی ضرورت ہے۔ پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں جاوا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے` سماٹرا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے` چین اور جاپان میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے۔ پھر میں ہر ملک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلغ بھی تھوڑے ہیں اس سے بھی زیادہ مبلغوں کی ضرورت ہے یہاں تک کہ بیس بیس لاکھ تک مبلغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اپنے ان مزے کی گھڑیوں میں میں نے بیس بیس لاکھ مبلغ تجویز کیا ہے۔ دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہوجائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے۔ لوگ بے شک مجھے شیخ چلی کہہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے ان خیالات کا خداتعالیٰ کی پیدا کردہ فضا میں ریکارڈ ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے ان خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کردے گا۔ آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سو سال کے بعد اگر خداتعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے ان ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلغ تیار کردے گا۔ پھر الل¶ہ تعالیٰ کسی اور بندے کو کھڑا کردے گا جو مبلغوں کو دو لاکھ تک پہنچا دے گا۔ پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہوجائے گا جو میرے اس ریکارڈ کو دیکھ کر مبلغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا۔ اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے بیس لاکھ مبلغ کام کررہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہرچیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بے وقوفی ہوتی ہے۔ میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہوچکے ہیں اور زمانہ سے مٹ نہیں سکتے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں<۔۳۲۳
پہلا باب
حواشی
۱۔
تقریر فرمودہ ۲۷۔ ستمبر ۱۹۴۳ء )غیر مطبوعہ(
۲۔
الفضل ۸۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰ )تقریر فرمودہ ۲۶۔ دسمبر ۱۹۳۵ء(
۳۔
ایضاً
۴۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۹۷ تا ۹۹ حاشیہ۔
۵۔
الفضل ۱۸۔ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵ کالم ۲ و ۳۔
‏h1] [tag۶۔
الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵ کالم ۲ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵۔ دسمبر ۱۹۳۹ء(
۷۔
تقریر فرمودہ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۳ء )غیر مطبوعہ(
۸۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۴۲ء۔
۹۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء مطبوعہ الفضل ۲۶۔ فروری ۱۹۶۱ء۔
۱۰۔
الفضل ۷۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ کالم ۱۔ ۲۔
۱۱۔
الفضل ۲۶۔ فروری ۱۹۶۱ء صفحہ ۴ )فرمودہ ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء(
۱۲۔
الفضل ۲۳۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۲ و ۳۔
۱۳۔
الفضل ۱۸۔ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۔
۱۴۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ و ۵۔
۱۵۔
الفضل ۱۶۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۔
۱۶۔
حضرت فضل عمرؓ کی یہ تحریک ہمیں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی ملتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوالحسن علی بن محمد بن عبدالکریم الجزری )ابن اثیر( نے >اسد الغابہ< میں حضرت عمرؓ کے حالات میں یہ واقعہ لکھا ہے۔
>عن ابی حازم قال دخل عمر بن الخطاب علی حفصہ ابنتہ فقدمت الیہ مزقا باردا وصبت فی المرق زیتا فقال ادمان فی اناء واحد لا اذوقہ حتی القی اللہ عزوجل )جلد چہارم صفحہ ۶۲ مصری( یعنی حضرت ابوحزمؓ سے مروی ہے کہ ایک بار حضرت عمر ابن الخطابؓ اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ کے ہاں تشریف لائے۔ حضرت حفصہؓ نے سالن میں زیتون کا تیل ڈال کر پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک وقت میں دو دو سالن!! خدا کی قسم میں اسے کبھی نہیں کھائوں گا۔
۱۷۔
حضورؓ نے اس مطالبہ کی مزید تشریح ۷۔ دسمبر ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں بھی فرمائی۔ یہ خطبہ ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء کے الفضل میں شائع شدہ ہے۔
۱۸۔
جیسا کہ آئندہ مفصل ذکر آرہا ہے حضور نے بعد کو سنیما کی مستقل ممانعت فرما دی اور ارشاد فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میرا منع کرنا تو الگ رہا اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی روح کو خودبخود اس کی بغاوت کرنی چاہئے۔ )الفضل ۱۲۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۳(
۱۹۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سادہ زندگی کی اس سکیم کا سب سے زیادہ اثر براہ راست قادیان کے دوکانداروں پر پڑنے والا تھا۔ اس لئے حضورؓ نے حسب ذیل تجاویز فرمائیں۔
)۱( قادیان کے احمدی جہاں تک ہوسکے یہاں کے دکانداروں ہی سے سودا سلف خریدیں اور دکاندار زیادہ بکری پر تھوڑے منافع کا اصول پیش نظر رکھیں اور سستا سودا خریدنے کی کوشش کیا کریں۔
)۲( بیرونی احمدی جو جلسہ سالانہ یا مجلس شوریٰ پر آتے ہیں وہ بھی اگر ایسی چیزیں جو آسانی سے ساتھ لے جاسکیں یہاں سے خرید لیں یا کپڑے وغیرہ یہاں سے بنوالیا کریں تو قادیان کے دکانداروں کی بکری زیادہ ہوسکتی ہے۔
اس ضمن میں حضور نے خاص طور پر چوہدری نصراللہ خاں صاحبؓ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا۔
چوہدری نصراللہ صاحب مرحوم کئی دفعہ اپنے کپڑے یہاں سے بنوایا کرتے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ آپ رہتے سیالکوٹ میں ہیں اور کپڑے یہاں سے بنواتے ہیں یہ کیا بات ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے دوہرا ثواب مجھے مل جاتا ہے۔ اس سے قادیان میں روپیہ کے چلن میں زیادتی ہوجاتی ہے اور بھائی کو فائدہ بھی پہنچ جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں۔ اگر چودھری صاحب مرحوم کے نقش قدم پر چلنے والے چند سو دوست بھی پیدا ہوجائیں تو قادیان کے دکانداروں کا نقصان ہی دور نہیں ہوسکتا بلکہ انہیں فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے۔ )الفضل ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵(
‏]h1 [tag۲۰۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰ تا صفحہ ۱۲۔ اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور نے ان آٹھ قربانیوں کی نسبت ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرمادی کہ جہاں یہ باتیں دوسرے گھروں کے لئے اختیاری ہیں وہاں ہمارے اپنے گھروں میں لازمی ہوں گی۔ قرآن کریم میں حکم ہے۔ یاایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوہ الدنیا الایتہ۔ پس اس حکم کے ماتحت ایک نبی کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے میں بھی اپنے بیوی بچوں کے لئے ان باتوں کو لازمی قرار دیتا ہوں۔
۲۱۔
اس چندہ کا نام امانت تحریک جائداد رکھا گیا۔ )الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹(
۲۲۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۲۔ ۱۳۔ اس سب کمیٹی نے فروری ۱۹۳۵ء میں کام شروع کردیا۔ حضرت مولوی فخرالدین صاحب پنشنر متوطن گھوگھیاٹ ضلع شاہ پور اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ )الفضل ۲۲۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۳۔
یعنی مولانا ابوالعطاء صاحب )ناقل(
۲۴۔
نقل مطابق اصل۔
۲۵۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء کالم ۲` ۳۔ اس چندہ کا نام پراپیگنڈا فنڈ رکھا گیا )الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ کالم ۲(
۲۶۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۳ و ۱۴۔
۲۷۔
چندہ کی یہ مد تبلیغ بیرون ہند کے نام سے موسوم کی گئی۔
۲۸۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء۔ یہ تحریک سکیم خاص کے نام سے موسوم ہوئی۔
۲۹۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۴ء چندہ کی اس مد کو تبلیغی سروے کا نام دیا گیا۔ )الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء(
۳۰۔
یہ لفظ جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے` چھپنے سے رہ گیا ہے۔ )مرتب(
۳۱۔
‏h2] ga[t الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔
۳۲۔
ایضاً۔
۳۳۔
جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے یہ لفظ سہواً رہ گیا ہے۔ )ناقل(
۳۴۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۔
۳۵۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۔
۳۶۔
ایضاً صفحہ ۹ کالم ۱ و ۲۔
۳۷۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰۔
۳۸۔
ایضاً کالم ۱۔ ۲۔
۳۹۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۴۰۔ ][ ایضاً صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۴۱۔
مسجد اقصیٰ قادیان )ناقل(
۴۲۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۱۔
۴۳۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۱ کالم ۳۔
۴۴۔
ایضاً صفحہ ۱۲۔
۴۵۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۲۔
۴۶۔
اس خطبہ کے علاوہ حضورؓ نے ۲۶۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر خاص طور پر اسی موضوع پر مفصل تقریر فرمائی جو اخبار الفضل ۸۔ فروری` ۱۵۔ فروری` ۱۲۔ مارچ` ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۵ء میں بالاقساط شائع ہوئی۔
۴۷۔
الفضل ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۶ تا ۸ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۷۔ دسمبر ۱۹۳۴ء(
۴۸۔
الفضل ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۹ و ۱۰۔
۴۹۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء مطبوعہ الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔
۵۰۔
الفضل ۱۶۔ جون ۱۹۵۹ء صفحہ ۲ )تقریر فرمودہ ۳۱۔ جولائی ۱۹۳۸ء(
۵۱۔
الفضل ۱۱۔ نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۵۲۔
الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۲۔
۵۳۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۴۔ جنوری ۱۹۳۵ء مطبوعہ الفضل ۱۷۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۵۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۱۔ ۲۲۔
۵۵۔
الفضل ۳۱۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴ کالم۔ الفضل ۱۱۔ جولائی ۱۹۳۹ء صفحہ ۵ کالم ۳ و ۴۔ الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۵۶۔
انقلاب لاہور ۴۔ دسمبر ۱۹۳۴ء۔
۵۷۔
روزنامہ ملاپ ۵۔ دسمبر ۱۹۳۴ء۔
۵۸۔
یعنی کم مائیگی۔ )ناقل(
۵۹۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۶۰۔
الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۱۔
مطالبہ امانت فنڈ کے علاوہ مالی مطالبات کی چار مدات میں پہلے سال بتفصیل ذیل آمد ہوئی۔ ۱۔ گندے لٹریچر کا جواب )۳۷۵۰۰ روپے( ۲۔ تبلیغ بیرون ہند )۳۲۴۴۳ روپے( ۳۔ تبلیغ خاص )۲۲۹۶۱ روپے( ۴۔ تبلیغ سروے سکیم )۱۷۴۴۴ روپے( یہ چاروں مدیں حضور کے ارشاد پر چندہ تحریک جدید سے موسوم کی گئیں۔ )کتاب تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین مرتبہ چودھری برکت علی خانؓ صفحہ ۱۰۔
۶۲۔
‏h2] gat[ الفضل ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۵ء۔
۶۳۔
الفضل ۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۶۴۔
الفضل ۱۸۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ و الفضل ۴۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۴۔
۶۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۰۳ و ۱۰۴۔
۶۶۔
الفضل ۲۶۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۴۔ جماعت احمدیہ کی شاندار مالی قربانی کے مقابل عوام نے دس کروڑ مسلمانان ہند کی نمائندگی کے دعویداروں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس کی فقط ایک مثال کافی ہے۔ ۱۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت احرر نے مسجد خیرالدین امرتسر میں ایک تقریر کی۔ الفضل کے نامہ نگار خصوصی کے بیان کے مطابق بخاری صاحب نے کہا۔ مسلمانو! میں تم کو چھوڑنے کا نہیں ہوں۔ مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا بلکہ مرکر بھی نہیں چھوڑوں گا کیونکہ مرنے کے بعد میرا بیٹا تم سے چندہ لے گا جب میں تم کو نہ اس جہان میں چھوڑنے والا ہوں نہ اس جہان میں تو پھر تمہیں چندہ دینے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے )یہ کہہ کر انہوں نے حاضرین کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ مگر ان کے کاسئہ گدائی میں کسی نے ایک حبہ تک نہ ڈالا( پھر کہا بولتے کیوں نہیں۔ چپ کیوں ہوگئے۔ کیسے ڈھیلے کرو۔ لوگوں نے اٹھ کر جانا شروع کردیا۔ )الفضل ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۴(
۶۷۔
تقریر فرمودہ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۳ء )غیر مطبوعہ تقریر شعبہ زود نویسی میں موجود ہے(
۶۸۔
الفضل ۱۶۔ فروری ۱۹۴۴ء صفحہ ۷۔
۶۹۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴۔ دسمبر ۱۹۳۴ء )الفضل ۲۰۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔ ۶(
۷۰۔
اسی ضمن میں حضورؓ نے حیفا کی انجمن طلبہ جماعت احمدیہ کا ایک خط بھی شائع فرمایا جس میں اسٰمعیل احمد )پریذیڈنٹ( موسیٰ اسعد )سیکرٹری( اور عبدالجلیل حسین )خزانچی( کے دستخط تھے۔
۷۱۔
الفضل ۷۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ و ۴۔
۷۲۔
الفض ۱۲۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔ بیرونی جماعتوں کے بعض غرباء نے اس موقعہ پر اخلاص و ایثار کے قابل تقلید نمونے دکھائے مثلاً بیرون ہند کی ایک خاتون نے دو برس تک چکی پیس کر تحریک جدید کا وعدہ پورا کیا۔ )الفضل ۱۲۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۱۔ ۲(
۷۳۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۶۔
۷۴۔
الفضل ۱۲۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۲۔][۷۵۔
سیر قادیان صفحہ ۱۷۔ ۲۰ )از ارجن سنگھ عاجز ایڈیٹر اخبار رنگین امرتسر(
۷۶۔
الفضل ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۶ء۔
۷۷۔
الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۳۶ء۔
۷۸۔
الفضل ۹۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔ الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ اور الفضل ۱۱۔ مارچ ۱۹۳۶ء میں فہرستیں ملاحظہ ہوں۔
۷۹۔
الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۴۔
۸۰۔
الفضل ۲۲۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۸۔
۸۱۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۵۔
۸۲۔
الفضل ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۸۳۔
الفضل ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ ۴۔
۸۴۔
الفضل ۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۸۵۔
الفضل ۱۶۔ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۶۔
الفضل ۱۵۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۸۷۔
چندہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین۔
۸۸۔
الفضل ۱۲۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۸۹۔
‏]2h [tag الفضل ۱۲۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۹۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۰۔ ۹۱۔
۹۱۔
الفضل ۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰۔
۹۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۳۔ ۲۴۔
۹۳۔
تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین صفحہ ۵۶ )مرتبہ چودھری برکت علی خاں صاحبؓ شائع کردہ تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ جون ۱۹۵۹ء۔
۹۴۔
ایضاً
۹۵۔
الفضل ۲۶۔ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ب کالم ۲۔ ۳۔ حضرت سیدہ ¶مہر آپا صاحبہ کا مزید کہنا ہے کہ ہم لوگ اس تحریک کے بعد ایک ہی ڈش دستر خوان پر رکھا کرتے تھے۔ لیکن بعض اوقات وہ ڈش جب پسند نہ ہوتا کبھی نمک مرچ میں یا پکنے میں کمی بیشی رہ جاتی تو ہم لوگ صرف اس خیال سے احتیاطاً ایک کی بجائے دو ڈش حضرت اقدس کے لئے کرلیتے کہ اگر ایک چیز ناپسند ہوئی تو دوسری سامنے رکھ دیں گے۔ مقصد یہ تھا کہ حضور کچھ نہ کچھ کھالیں۔
۹۶۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۶۔
۹۷۔
الفضل ۱۲۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۹۸۔
الفضل ۱۷۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۹۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء صفحہ ۷۵۔ مشاورت ۱۹۵۴ء میں حضور نے مزید فرمایا آخر میرے تیرہ بیٹوں نے زندگیاں وقف کی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے وقف چھوڑا تو میں نے ان کی شکل نہیں دیکھنی۔ میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۴ء صفحہ ۷۲(
۱۰۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۷۴۔
۱۰۱۔
)ولادت ۱۹۰۴ء( آپ نے نومبر ۱۹۳۴ء کو اپنے والد مرزا محمد اشرف صاحب )محاسب صدر انجمن احمدیہ( کے توسط سے وقف زندگی کی درخواست پیش کی جو حضور نے قبول فرمالی۔ ۱۱۔ نومبر ۱۹۳۴ء سے آپ نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کام شروع کیا اور ۲۰۔ نومبر ۱۹۳۴ء سے آپ تحریک جدید کے باقاعدہ کارکن قرار پائے۔
۱۰۲۔
حضورؓ نے یہ الفاظ حافظ عبدالسلام صاحب )حال وکیل المال ثانی( کے ایک مکتوب محرر ۲۲۔ جولائی ۱۹۵۲ء پر رقم فرمائے۔ اصل خط وکالت دیوان کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۱۰۳۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۴ء لعایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۰۳۔
۱۰۴۔
اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۲۳۲ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے ناشر احمدیہ بکڈپو ربوہ ضلع جھنگ پاکستان طبع اول اگست ۱۹۶۰ء۔
۱۰۵۔
اس سلسلہ میں ناظر صاحب بیت المال کی طرف سے الفضل ۱۶۔ دسمبر ۱۹۹۳۴ء صفحہ ۲ کالم ۲ پر حسب ذیل اعلان شائع ہوا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حال کے خطبات میں جو مالی مطالبات مختلف رنگوں میں احباب جماعت سے کئے گئے ہیں۔ ان کے متعلق تحریک اور خط و کتابت اور حساب کتاب رکھنے کا کام چوہدری برکت علی خاں صاحب سرانجام دیں گے جو آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ہیں۔
۱۰۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۰۔ ۹۱۔
۱۰۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۹۵۔ ۹۶۔
۱۰۸۔
اصحاب احمد جلد ہفتم طبع اول صفحہ ۲۳۲ تا صفحہ ۲۳۶ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے( ناشر احمدیہ بکڈپو ربوہ طبع اول اگست ۱۹۶۳ء۔
۱۰۹۔
" " " صفحہ ۲۳۵ ") " " (" " "
۱۱۰۔
" " " صفحہ ۳۳۴۔ ۲۳۵ ") " " (" " "
۱۱۱۔
‏]2h [tag تحریک جدید میں تقرری ۶۔ مئی ۱۹۳۵ء۔
۱۱۲۔
اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۲۳۵۔ ۲۳۶۔
۱۱۳۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ریزولیوشن نمبر ۱۷۸ مورخہ ۸۔ مئی ۱۹۳۵ء۔
۱۱۴۔
ابن حضرت مولوی عبداللہ صاحب بوتالویؓ ولادت ۳۱۔ مئی ۱۹۰۸ء۔
۱۱۵۔
الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۸۔
۱۱۶۔
اس عبارت کے بعد جو اوپر متن میں وادین کے درمیان درج کی گئی ہے یہ الفاظ بھی تھے کہ تحریک جدید مولوی صاحب کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور بطور اظہار تشکر ان کے لئے /-۷۵ روپے ماہوار پنشن تا عمر مقرر کرتی ہے اور اس امر کا اظہار کرنا چاہتی ہے کہ تحریک جدید اور اس کا نام سے تعلق رکھنے والے تمام افراد ان کی خدمات کا اقرار کرتے ہیں۔
۱۱۷۔
الفرقان حضرت فضل عمر نمبر دسمبر ۱۹۶۵ء و جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۶۱۔ ۶۲۔
۱۱۸۔
ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۸۔
۱۱۹۔
ماہنامہ خالد ربوہ جولائی ۱۹۶۲ء صفحہ ۱۶۔ ۱۷۔
۱۲۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء صفحہ ۶۸۔
۱۲۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحہ ۷۶۔
۱۲۲۔
ماہنامہ تحریک جدید ربوہ اگست ۱۹۶۵ء صفحہ ۷۔
۱۲۳۔
ایضاً صفحہ ۷۔ ۸۔
۱۲۴۔
یہ ٹریکٹ اردو کے علاوہ بنگالی` سندھی` انگریزی` تامل اور ملیالم زبانوں میں بھی شائع کیا گیا تھا اور بیرونی ممالک میں بھی اس کی اشاعت کی گئی تھی۔ )الفضل ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ و الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء(
۱۲۵۔
الفضل قادیان دارالامان ۲۹۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۱۲۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۱۸۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔
۱۲۸۔
الفضل ۱۱۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۳۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔
۱۳۰۔
الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء۔ اس عرصہ میں چھٹے ضلع کی ایک تحصیل کے ساٹھ )۶۰( گائوں میں بھی جائزہ لیا جاچکا تھا۔
۱۳۱۔
الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۱۳۲۔
الفضل ۱۴۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۳۳۔ ][ تقریر فرمودہ ۲۶۔ دسمبر ۱۹۳۵ء مطبوعہ الفضل ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۴۔
۱۳۴۔
الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔ ان مشنوں میں واقفین کو برائے نام گزارہ ملتا تھا اور باقی دوست بعض ایام وقف کرکے تشریف لے جاتے تھے )الفضل ۱۱۔ دسمبر ۱۹۳۷ء( تحریک جدید کے پرانے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشن دھاریوال میں قائم کیا گیا تھا اور ایک کراچی میں بھی۔
۱۳۵۔
علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پور حلقہ مکیریاں حال احمد نگر کا بیان ہے کہ شروع میں وہ مجاھدین کا کھانا پکانے کے لئے روزانہ اپنے گائوں سے آتے تھے۔
۱۳۶۔
تحریک جدید کے پرانے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ فروری ۱۹۳۵ء میں آپ امیرالمجاہدین کے طور پر یہاں خدمت بجالارہے تھے۔
۱۳۷۔
آپ مارچ ۱۹۳۵ء میں احمدی ہوئے تھے۔ مئی ۱۹۳۵ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کو غیر احمدی بچوں کو پڑھانے کے لئے مکیراں بھجوا دیا۔ ان دنوں مختار احمد صاحب ایاز امیر المجاہدین تھے۔ چند روز بعد ایاز صاحب کی رخصت ختم ہوگئی تو کیپٹن سید محمد حسین صاحب جو وہاں موجود تھے امیرالمجاہدین مقرر کئے گئے۔
۱۳۸۔
بیان میاں علی محمد صاحب ساکن گھسیٹ پور متصل مکیریاں حال احمد نگر ضلع جھنگ۔
۱۳۹۔
مکرم چودھری محمد صدیق صاحب ایم۔ اے واقف زندگی انچارج خلافت لائیبریری ربوہ کا بیان ہے کہ ۱۹۳۵ء میں مکیریاں کے مشن میں مجھے بھی تبلیغ کا موقعہ ملا اور بہبووال چھنیاں مقام تعین کیا گیا۔ عموماً جمعہ کے روز ہفتہ وار رپورٹ کے لئے مکیریاں آنا پڑتا تھا۔ مکیریاں میں شروع شروع میں بڑی مخالفت تھی اور کنوئوں سے پانی بھرنا بھی بند کردیا گیا تھا۔ اس لئے مشن ہائوس کے صحن میں ہی کنواں کھود لیا گیا تھا اور اسی سے پانی لیا جاتا تھا۔ ایک دن مغرب کی نماز باجماعت ہورہی تھی کہ مخالفین نے باہر سے گوبر کی پاتھیوں کی بوچھاڑ شروع کردی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سب نمازیوں کو بچالیا۔ جب مکیریاں میں سخت مخالفت تھی تو اس وقت ایک ہمسایہ عورت مسماۃ کریم بی بی نے احمدی احباب کی ہر رنگ میں مدد کی اور ایک حد تک مخالفین کا مقابلہ بھی کیا۔ بعد میں اس کی اولاد میں سے ایک لڑکے دین محمد کو احمدیت کی قبولیت کی توفیق ملی اور وہ قادیان میں آگئے۔
مکیریاں کا مشن ہائوس حضرت مولوی محمد وزیرالدین صاحبؓ کا تھا جو ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے۔ میرے ماموں محمد عزیز الدین صاحبؓ )ابن مولوی محمد وزیرالدین صاحبؓ( سٹیشن ماسٹر نے اپنی وصیت )جو کہ ۵/۱ کی تھی( میں وہ مکان صدر انجمن احمدیہ قادیان کو دے دیا تھا اور اسی میں یہ مشن قائم کیا گیا تھا۔
۱۴۰۔
مکیریاں مشن میں حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹیؓ۔ ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب حال سرگودھا۔ حضرت مولوی امام الدین صاحبؓ )والد ماجد خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ( کو بھی کام کرنے کا موقعہ ملا۔
۱۴۱۔
بعض مجاہدین۔ حضرت منشی سکندر علی صاحب` حضرت قطب الدین صاحب` بابو غلام محمد صاحب` ڈاکٹر محمد انور صاحب )جڑانوالہ( ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چیف میڈیکل آفیسر ریلوے` ڈاکٹر عبیداللہ صاحب آف لاہور )ہومیو( مرزا غلام رسول صاحب ریڈر چیف کمشنر پشاور` ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب` مرزا منیر احمد صاحب` چودھری انور حسین صاحب )حال امیر جماعت احمدیہ ضلع شیخوپورہ` پیر صلاح الدین صاحب )حال ایڈیشنل کمشنر ملتان(
۱۴۲۔
ہجرت کے بعد فیصل آباد میں وفات پائی۔
۱۴۳۔
حال سمبڑیال ضلع سیالکوٹ )ناقل(
۱۴۴۔
حال ربوہ )ناقل(
۱۴۵۔
یہ کارخانہ ٹھیکیدار عبدالرحمن صاحب کے مکان واقع دارالبرکات میں جاری کیا گیا تھا اور مستری شیر محمد صاحب ڈسکوی لوہارا سکھانے اور مستری نذیر محمد صاحب لاہوری بڑھئی کا کام سکھانے کے لئے مقرر کئے گئے۔ شروع میں چھ لڑکے داخل کئے گئے تھے۔ )الفضل ۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۱۴۶۔
الفضل ۵۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰۔
۱۴۷۔
ایضاً۔
۱۴۸۔
دارالصناعت کے بعض ابتدائی کارکن` ملک سعید احمد صاحب )سپرنٹنڈنٹ( حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی )سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ( چودھری عصمت علی صاحب` منشی فضل الٰہی صاحب` ماسٹر جلال الدین صاحب قمر` ملک احمد خان صاحب ریحان۔
۱۴۹۔
ماہنامہ تحریک جدید ربوہ اگست ۱۹۶۵ء۔
۱۵۰۔
الفضل ۱۷۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰۔ بورڈنگ کی غرض کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الفضل ۲۵۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔
۱۵۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۶ و ۱۷ و الفضل ۲۵۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔
۱۵۲۔
الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۵۳۔
الفضل ۱۳۔ اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ ۳۔
۱۵۴۔
الفضل یکم جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۴۔
۱۵۵۔
الفضل ۱۹۔ جون ۱۹۳۶ء۔
۱۵۶۔
مزید تفصیل کے لئے سالانہ رپورٹس صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۳۵ء تا ۱۹۴۶ء۔
۱۵۷۔
ایضاً۔
۱۵۸۔
افتتاح کے بعد پہلی بار حضورؓ ۲۵۔ جولائی ۱۹۳۵ء کو بورڈنگ میں تشریف لائے۔ بچوں کو شرف مصافحہ بخشا۔ مختصر امتحان لیا اور ان کی تعلیمی و جسمانی ترقی کے لئے قیمتی ہدایات دیں۔ )الفضل ۳۰۔ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲(
۱۵۹۔
ماہنامہ خالد ربوہ جنوری ۱۹۶۲ء صفحہ ۲۲۔
۱۶۰۔
مطالبات تحریک جدید طبع چہارم صفحہ ۱۱۰ )مرتبہ مولوی عبدالرحمن صاحب انور ناشر دفتر تحریک جدید قادیان۔ تاریخ اشاعت دسمبر ۱۹۴۶ء(
۱۶۱۔
حضور نے ایک بار اس منشاء مبارک کا اظہار بھی فرمایا تھا کہ میرے مدنظر تعلیم الاسلام ہائی سکول` مدرسہ احمدیہ اور نصرت گرلز سکول تینوں کے ساتھ بورڈنگ تحریک جدید کا قیام بھی ہے۔ )الفضل ۲۵۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۲(
۱۶۲۔
الفضل ۱۳۔ اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ ۵۔
۱۶۳۔
الفضل ۱۱۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۶۴۔
الفضل ۱۱۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔ ۲۔
۱۶۶۔
عملہ محمد آباد اسٹیٹ کے بعض ابتدائی کارکن۔ سردار عبدالرحمن صاحب` ملک گل محمد صاحب خوشاب` بابو عنایت اللہ صاحب` چوہدری رحمت علی صاحب مسلم` منشی جلال احمد صاحب` چوہدری بشارت احمد صاحب` منشی سلطان احمد صاحب` منشی شیر جنگ صاحب` مولوی غلام صادق صاحب مدرس۔
۱۶۷۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵۔ مارچ ۱۹۳۵ء )الفضل ۲۹۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۳(
۱۶۸۔
الفضل ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۱۶۹۔
ان مجاہدین کی ٹریننگ بالکل مختصر تھی۔ پڑھائی مسجد مبارک میں ہوتی تھی )مولوی محمد احمد صاحب جلیل کے بیان کے مطابق( مفتی فضل الرحمن صاحب ۱۹۳۵ء میں طب پڑھایا کرتے تھے۔ ازاں بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۶۔ مئی ۱۹۳۵ء کو جلیل صاحب کی نسبت ارشاد فرمایا کہ انہیں قرآن اور دینیات پڑھانے پر مقرر کر دیا جائے۔
۱۷۰۔
ماہنامہ تحریک جدید )اگست ۱۹۶۵ء صفحہ ۷ کالم ۲(
۱۷۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۸ء صفحہ ۷۶۔
۱۷۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۷۳۔
اس واقعہ کا ذکر حضورؓ نے الفضل ۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔ ۹ پر بھی فرمایا تھا۔
۱۷۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔ ۸۔
۱۷۵۔
الفضل ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۶۔
۱۷۶۔
الفضل ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۶ تا ۸۔
۱۷۷۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۷ء مطبوعہ الفضل ۱۸۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۷۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یکم دسمبر ۱۹۴۴ء کو ارشاد فرمایا۔
>میرے نزدیک تحریک جدید کا دوسرا حصہ جس میں نئے حصہ لینے والے شامل ہوں اس کے لئے الگ رجسٹر کھولا جائے جس کا نام دفتر ثانی رکھ دیا جائے۔ پہلے دس سالوں سے جو لوگ حصہ لیتے آرہے ہوں ان کے نام جس رجسٹر میں درج ہوں اس کا نام دفتر اول رکھ دیا جائے<۔ )الفضل ۶۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۳ کالم ۲(
۱۷۹۔
الفضل ۴۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۳ کالم ۴۔
۱۸۰۔
الفضل ۱۳۔ جنوری ۱۹۳۸ء۔
۱۸۱۔
الفضل ۴۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۵۔
۱۸۲۔
ایضاً صفحہ ۱۳ کالم ۱۔
۱۸۳۔
انقلاب حقیقی صفحہ ۱۲۵ تا ۱۲۸ )لیکچر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی جلسہ سالانہ ۱۹۳۷ء(
۱۸۴۔
الفضل ۱۱۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔ ۳۔
۱۸۵۔
الفضل ۲۲۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۱۸۶۔
الفضل ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۱۸۷۔
الفضل ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۰۔
۱۸۸۔
مطالبات تحریک جدید مرتبہ مولوی عبدالرحمن صاحب انور وکیل الدیوان تحریک جدید قادیان طبع چہارم صفحہ ۸۳۔ ۸۶۔
۱۸۹۔
یعنی چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ )ناقل(
۱۹۰۔
الفضل ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۱۹۱۔
اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۱۴۷۔
۱۹۲۔
چونکہ قانونچہ پنجابی میں تھا اس کے قوانین کا مختصر سا خلاصہ اردو میں لکھوایا گیا جو مکرم مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری نے مرتب کیا اور وہی کورس میں رکھا گیا۔
۱۹۳۔
۱۹۴۲ء سے آپ نے تعلیم دینا شروع کی۔
۱۹۴۔
غیر احمدی عالم تھے جنہیں باقاعدہ تنخواہ پر استاد رکھاگیا تھا۔
۱۹۵۔
بیعت ۱۹۴۰ء۔ قریب ڈھائی سال تک پڑھاتے رہے۔
۱۹۶۔
آپ متعلم بھی تھے اور معلم بھی۔
‏h1] gat[۱۹۷۔
ایضاً۔
۱۹۸۔
والد ماجد میاں بشیر احمد صاحب سابق امیر جماعت کوئٹہ۔
۱۹۹۔
حضور کے ارشاد کے ماتحت جملہ واقفین کے لئے ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب کی کتاب مخزن حکمت ہر دو جلد کا مطالعہ بھی لازمی قرار دیا گیا۔
۲۰۰۔
ابن مکرم ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب آف مشرقی افریقہ۔
۲۰۱۔
الفضل ۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۹ کالم ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۸ء کے اوائل سے واقفین کی پڑھائی شروع ہوچکی تھی۔
۲۰۲۔
‏h2] g[ta یہ مکان دارالفضل میں چودھری غلام حسین صاحب مرحوم والد ماجد چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے مکان کے جانب جنوب واقع تھا۔
۲۰۳۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے بھتیجے تھے۔ یہ کوٹھی ریتی چھلہ سے بھینی بانگر کی طرف جانے والے راستہ پر واقع ہے۔ اس کوٹھی میں صرف چندہ ماہ دارالواقفین رہا ہے۔
۲۰۴۔
الفضل ۳۰۔ جنوری ۱۹۴۶ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۲۰۵۔
نماز باجماعت کی پابندی واقفین کے لئے اس قدر ضروری تھی کہ حضور نے جامعہ احمدیہ کے بعض طلبہ کو نماز میں غفلت کے باعث وقف سے فارغ فرما دیا اور بعض طلبہ کا وقف اس وجہ سے قبول نہیں فرمایا کہ وہ نماز باجماعت میں سست پائے گئے۔ )ملاحظہ ہو ریکارڈ وکالت دیوان تحریک جدید ربوہ(
۲۰۶۔
مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ حضور واقفین زندگی کا اعزاز و اکرام نہیں فرماتے تھے۔ حق یہ ہے کہ حضور کا واقفین سے محبت و شفقت کا سلوک اپنی مثال آپ تھا۔ حضور کی طرف سے دفتر تحریک جدید کو واضح ارشاد تھا کہ واقفین زندگی کو معزز الفاظ سے مخاطب کیا جائے۔ واقفین کا جو اکرام و اعزاز حضور فرماتے تھے وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ ۱۹۴۴ء کے قریب حضور نے یہ اعلان فرمایا کہ میں آئندہ صرف اپنے افراد خاندان ہی کا نکاح پڑھوں گا۔ مگر اس اعلان سے واقفین کو مستثنیٰ رکھا۔ چنانچہ حضور نے مولوی نورالحق صاحب )ابوالمنیر( واقف زندگی کا خطبہ نکاح پڑھتے ہوئے ۱۰۔ اپریل ۱۹۴۴ء کو ارشاد فرمایا >میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میں سوائے اپنے عزیزوں کے اور کسی کا نکاح نہیں پڑھائوں گا۔ مگر چونکہ یہ واقف زندگی ہیں اور اس وجہ سے میرے عزیزوں میں شامل ہیں اس لئے میں اس نکاح کا اعلان کررہا ہوں<۔ )الفضل ۲۲۔ جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۴(
۲۰۷۔
مجاہدین کی یہ پارٹی ۷۔ ستمبر ۱۹۳۹ء کو واپس قادیان پہنچی )الفضل ۹۔ ستمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۲۰۸۔
الفضل ۶۔ ستمبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۵۔ حاشیہ۔ ۱۹۴۲ء میں کشمیر کا پیدل سفر کرنے والے واقفین۔ مرزا منور احمد صاحب۔ ملک سیف الرحمن صاحب۔ مولوی محمد صدیق صاحب۔ شیخ عبدالواحد صاحب۔ چودھری غلام یٰسین صاحب۔ شیخ ناصر احمد صاحب۔ میاں عبدالحی صاحب۔ مولوی محمد احمد صاحب جلیل۔ چودھری خلیل احمد صاحب ناصر۔ حافظ قدرت اللہ صاحب۔ چودھری محمد شریف صاحب۔ ملک عطاء الرحمن صاحب۔ مولوی صدر الدین صاحب۔ چودھری کرم الٰہی صاحب ظفر۔ چودھری عبداللطیف صاحب۔
اس سفر میں مجاہدین کے خورونوش کے سامان اور برتنوں کی باربرداری کی خدمت میاں نظام الدین صاحب نے بخوشی سرانجام دی۔
۲۰۹۔
ڈلہوزی میں مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی کے علاوہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ۔ مکرم مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری اور مکرم پیر عبدالعزیز صاحب بھی واقفین کی تعلیم کے لئے تشریف لے گئے تھے۔
۲۱۰۔
الفضل ۷۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷۔ مارچ ۱۹۳۹ء(
۲۱۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۵(
۲۱۲۔
الفضل ۱۲۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳۔ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۸۔ دسمبر ۱۹۴۴ء(
۲۱۳۔
الفضل ۲۵۔ اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۱۴۔
الفضل ۲۵۔ ستمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۱۵۔
الفضل ۳۰۔ جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
۲۱۶۔
الفضل ۴۔ فروری ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۔
۲۱۷۔
الفضل ۳۰۔ جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۱۸۔
‏]h2 [tag رپورٹ سالانہ ۱۹۴۴ء و ۱۹۴۵ء صفحہ ۹۶۔
۲۱۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء صفحہ ۲۳۔
۲۲۰۔
اولین دیہاتی مبلغین معہ حلقہ جات۔ ۱۔ مولوی عبدالمجید صاحب منیب )دھاریوال( ۲۔ مولوی غلام رسول صاحب )غازی کوٹ( ۳۔ حکیم احمد دین صاحب )بھینی میلواں( ۴۔ ماسٹر مہدی شاہ صاحب )اجنالہ( ۵۔ مولوی شیر محمد صاحب )میادی نانو( ۶۔ مولوی عطاء اللہ صاحب )عینو والی( ۷۔ خواجہ خورشید احمد صاحب )مغلپورہ( ۸۔ مولوی رحیم بخش صاحب )جوڑہ ضلع لاہور( ۹۔ سید محمد امین شاہ صاحب )کتھووالی( ۱۰۔ سید علی اصغر شاہ صاحب )ہیلاں گجرات( ۱۱۔ حافظ ابوذر صاحب )روڈہ سرگودھا( ۱۲۔ مولوی جمال الدین صاحب )پھلردان سرگودہا( ۱۳۔ حافظ بشیر الدین صاحب )ایمن آباد( ۱۴۔ مولوی شیخ محمد صاحب )دنیا پور ملتان( )رپورٹ سالانہ ۴۵۔ ۱۹۴۴ء صفحہ ۹۴(
۲۲۱۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷۔ جنوری ۱۹۴۷ء )مطبوعہ الفضل ۳۰۔ جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۴ کالم ۱(
۲۲۲۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۴۸۔ ۱۹۴۷ء صفحہ ۶۔
۲۲۳۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۴۹۔ ۱۹۴۸ء صفحہ ۹۔
۲۲۴۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن پاکستان بابت سال ۵۲۔ ۱۹۵۱ء صفحہ ۲۴۔
۲۲۵۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۱۹۵۴ء۔
۲۲۶۔
حضورؓ کا ارشاد تھا کہ اگر وہ فارغ شدہ مبلغ چاہیں تو وہ دیہات میں امام بن سکتے ہیں تبلیغ کریں تو دس روپے ماہوار الائونس مل سکتا ہے۔
۲۲۷۔
الفضل ۱۴۔ مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۲۔ ۱۳۔
۲۲۸۔
الفضل ۳۱۔ مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳۔
۲۲۹۔
الفضل ۱۴۔ مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۲۔ ۱۳۔
۲۳۰۔
الفضل ۳۔ نومبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔
۲۳۱۔
الفضل ۳۱۔ مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۵۔
۲۳۲۔
الفضل ۳۱۔ مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔ ۷۔ اس تحریک کے مطابق ۱۸۔ دسمبر ۱۹۴۴ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مندرجہ ذیل واقفین کا حسب ذیل دفتروں میں تقرر فرمایا۔
۱۔ مولوی نورالدین صاحب منیر بی اے )دفتر پرائیویٹ سیکرٹری( ۲۔ مرزا بشیر احمد بیگ صاحب بی۔ اے )دفتر دعوت و تبلیغ( ۳۔ چوہدری عزیز احمد صاحب بی۔ اے )دفتر محاسب( ۴۔ چودھری عبدالباری صاحب بی۔ اے )دفتر بیت المال( ۵۔ مولوی برکات احمد صاحب بی۔ اے )دفتر امور عامہ( ۶۔ چودھری عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے )دفتر تعلیم و تربیت( )کالجوں اور سکولوں کے کام کے لئے(
۲۳۳۔
پرکاش ویکلی جالندھر شہر ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۷ء بحوالہ الفضل ۱۰۔ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ اور )عزت و احترام( درشٹی )نگاہ(
۲۳۴۔
یہ اسناد چودھری انور احمد صاحب کاہلوں حال مشرقی پاکستان نے کلکتہ میں تین رنگوں میں نہایت دیدہ زیب طبع کرائی تھیں۔
۲۳۵۔
الفضل ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۔ ۲ و الفضل ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۳۶۔
الفضل ۲۸۔ مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۲۔
۲۳۷۔
الفضل ۲۸۔ اگست ۱۹۵۹ء صفحہ ۸ )خطبہ فرمودہ ۲۸۔ اگست ۱۹۴۵ء(
۲۳۸۔
ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا مفصل ذکر ۱۹۴۶ء کے حالات میں آرہا ہے۔
۲۳۹۔
افسوس ۱۹۴۷ء کی تقسیم ملک سے حالات یکسر بدل گئے اور لیبارٹری اور لائیبریری دونوں جماعت سے چھن گئیں۔ تقسیم ملک کے بعد لاہور میں ماڈل ٹائون کے قریب ایک اجڑا ہوا کارخانہ الاٹ کروا کر اسی میں ریسرچ کا کام جاری کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ربوہ میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی اپنی مستقل عمارت بھی تعمیر ہوگئی۔
۲۴۰۔
الفضل ۲۲۔ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۔
۲۴۱۔
حلف الفضول میں شمولیت کی ضروری شرائط مطالبات تحریک جدید طبع چہارم صفحہ ۱۵۷ و ۱۵۸ پر موجود ہیں۔
۲۴۲۔
الفضل ۲۷۔ اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۔
۲۴۳۔
ایضاً۔
۲۴۴۔
ایضاً۔
۲۴۵۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۵۔ مئی ۱۹۴۴ء مطبوعہ الفضل ۲۰۔ مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۳ و ۴۔
۲۴۶۔
حضرت اقدس قبل ازیں ۲۴۔ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنی اس سکیم کا تذکرہ خطبہ جمعہ میں فرما چکے تھے۔ )الفضل ۳۱۔ مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۳(
۲۴۷۔
اصل تحریر حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ کے پاس محفوظ ہے۔
۲۴۸۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس فیصلہ میں حضور نے بعد ازاں خفیف سی تبدیلیاں بھی کیں جیسا کہ موجودہ باب کی آخری فصل میں ذکر آئے گا` چودھری شریف احمد صاحب جن کا نام عرب ممالک کے لئے تجویز کیا گیا تھا` باہر نہیں بھجوائے گئے تھے۔
۲۴۹۔
)ابوالمنیر( نورالحق صاحب ابن منشی عبدالحق صاحب کاتب۔ ولادت ۱۷۔ دسمبر ۱۹۱۸ء۔ تاریخ قبولیت وقف ۵۔ ستمبر ۱۹۳۸ء )حال پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ و منیجنگ ڈائرکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ(
۲۵۰۔
ولادت ۱۱۔ نومبر ۱۹۱۴ء۔ بیعت ۱۹۳۶ء۔ تاریخ قبولیت وقف یکم مارچ ۱۹۳۹ء )حال پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ و مفتی سلسلہ احمدیہ(
۲۵۱۔
ولادت ۵۔ مارچ ۱۹۱۶ء۔ تاریخ قبولیت وقف ۷۔ جون ۱۹۳۸ء )سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ حال انچارج خلافت لائیبریری ربوہ۔ آپ یکم فروری ۱۹۴۵ء کو بلاد عربیہ کے لئے منتخب ہوئے مگر حضورؓ نے وہاں سے قلمزن کرکے بعد میں خصوصی تعلیم کی جماعت واقفین میں شامل فرما دیا۔
۲۵۲۔
ولادت ۵۔ جولائی ۱۹۱۱ء` تاریخ قبولیت وقف ۲۹۔ مئی ۱۹۳۷ء۔
۲۵۳۔
ولادت ۱۵۔ مئی ۱۹۱۷ء` تاریخ قبولیت وقف مئی ۱۹۳۹ء )حال پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ(
۲۵۴۔
ولادت یکم اکتوبر ۱۹۲۰ء` تاریخ قبولیت وقف ۱۴۔ ستمبر ۱۹۴۲ء۔
۲۵۵۔
ولادت ۱۹۰۸ء` تاریخ قبولیت وقف ۳۔ مارچ ۱۹۴۷ء۔
۲۵۶۔
‏]2h [tag ولادت ۲۰۔ ستمبر ۱۹۲۰ء` تاریخ قبولیت وقف ۲۰۔ مئی ۱۹۴۴ء۔
۲۵۷۔
ولادت ۲۲۔ اپریل ۱۹۲۲ء` تاریخ وقف ۱۹۴۳ء۔
۲۵۸۔
ولادت ۲۴۔ ستمبر ۱۹۲۰ء` تاریخ قبولیت وقف ۱۹۴۳ء )سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ(
۲۵۹۔
مولوی نورالحق صاحب )ابوالمنیر( اور حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب کی طرف اشار ہے۔ )مرتب(
۲۶۰۔
جن اساتذہ سے ان واقفین نے تحصیل علم کیا ان کے نام یہ ہیں۔
مولوی شریف اللہ صاحب مدرس مدرسہ فتح پوری )استاذ مسلم شریف( شیخ الحدیث مولوی ابراہیم صاحب بلیانوی` تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو اکابر علماء دیوبند صفحہ ۱۵۵۔ ۱۵۸ مولفہ حافظ محمد اکبر شاہ صاحب بخاری ناشر ادارہ اسلامیات لاہور۔ اس کتاب کے صفحہ ۱۳۶۔ ۱۴۰ میں مولوی رسول خان صاحب ہزاروی کے حالات بھی درج ہیں۔ مدرسہ فتح پوری دہلی )استاذ بخاری` ہدایہ` اصول شاشی` مسلم الثبوت( مولوی مفتی محمد مسلم صاحب دیوبندی شیخ الحدیث جامعہ ڈابھیل۔ مولوی حافظ مہر محمد صاحب صدر المعلمین المدرستہ الحنفیہ اچھرہ لاہور )استاذ ابودائود منطق و فلسفہ( مولوی سید میرک شاہ صاحب کاشمیری لاہور )استاذ مسلم شریف( مولوی شہاب الدین صاحب خطیب مسجد چوبرجی کوارٹرز لاہور۔ مولوی رسول خان صاحب سرحدی پرنسپل اورنٹیل کالج حال شیخ التفسیر والفقہ جامعہ اشرفیہ لاہور )استاذ حدیث و اصول فقہ( مولوی محمد بخش صاحب دیوبندی لاہور )استاذ حدیث(
۲۶۱۔
الفضل ۱۱۔ جون ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۲۶۲۔
الفضل ۱۰۔ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۵۔
۲۶۳۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۴۵ء۔
۲۶۴۔
الفضل ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۵۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء( نیز الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء و ۷۔ نومبر ۱۹۴۵ء۔
۲۶۵۔
الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۴ کالم ۴۔
۲۶۶۔
فارم وقف معاہدہ وقف تجارت و صنعت کے لئے ملاحظہ ہو مطالبات تحریک جدید طبع چہارم صفحہ ۸۷۔ ۸۹ مرتبہ مولوی عبدالرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید۔ اشاعت دسمبر ۱۹۴۶ء نیز ضمیمہ کتاب ہذا۔
۲۶۷۔
الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۴۴ء صفحہ ۲۔
۲۶۸۔
الفضل ۱۸۔ دسمبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ و ۲۔
۲۶۹۔
ایضاً۔
۲۷۰۔
‏]h2 [tag ریزولیوشن تحریک جدید ۱۶۔ مارچ ۱۹۴۷ء
۲۷۱۔
یعنی مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب )حال پروفیسر جامعہ احمدیہ و مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ۔ ناقل(
۲۷۲۔
ان ایام میں چونکہ تحریک جدید کی مالی حالت مخدوش ہوگئی تھی اس لئے حضور نے ارشاد فرمایا کہ کسی واقف کو فارغ نہیں رہنا چاہئے بلکہ کوئی نہ کوئی کام کرکے آمد پیدا کرنی چاہئے خواہ چنے اور آلو ہی کیوں نہ فروخت کرنے پڑیں چنانچہ واقفین نے اس کی تعمیل کی۔
۲۷۳۔
محترم انور صاحب نومبر ۱۹۴۷ء میں قادیان میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کو پاکستان بلوایا اور ارشاد فرمایا کہ تحریک جدید کی رجسٹریشن اور دفاتر کا انتظام کریں۔
۲۷۴۔
نقل ریزولیوشن نمبر ۱۴۴ غ۔ م )تحریک جدید( ۱۶۔ فروری ۱۹۵۰ء۔
۲۷۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۹۔ ۵۰۔
۲۷۶۔
مطبوعات کے لئے ملاحظہ ہو کمپنی کی مطبوعہ CATALOGUE )ضخامت ۲۲ صفحات( اس کمپنی میں ۶۰۔ ۱۹۵۹ء سے محترم حافظ عبدالسلام صاحب شملوی چیئرمین کی حیثیت سے اور ۱۹۶۴ء سے مولوی نورالدین صاحب منیر )نائب وکیل التصنیف للتبشیر( مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات بجالارہے ہیں۔ ۱۹۶۰ء سے اب تک ملک بشارت احمد صاحب کے ذمہ کمپنی کی مینجری کے فرائض ہیں۔
۲۷۷۔
الفضل ۳۔ جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۔
۲۷۸۔
الفضل ۲۷۔ نومبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۳۔
۲۷۹۔
روزنامہ المصلح کراچی ۱۳۔ جنوری ۱۹۵۴ء صفحہ ۴۔
۲۸۰۔
الفضل ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۲۸۱۔
اس کام میں چوہدری عبدالرحیم صاحب چیمہ )وکالت مال( نے بھی پوری تندہی سے ان کا ہاتھ بٹایا۔
۲۸۲۔
تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین صفحہ ۱۵۔
۲۸۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۳ء )منعقدہ ۲۲۔ ۲۳۔ ۲۴۔ مارچ ۱۹۶۳ء( صفحہ ۹۔ ۱۰(
۲۸۴۔
الفضل ۲۷۔ اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۲۸۵۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۵ کالم ۱ و خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۷ء۔
۲۸۶۔
الفضل ۵۔ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم ۱ و خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶۔ نومبر ۱۹۴۸ء۔
۲۸۷۔
‏]2h [tag آپ نے یہ کام رضاکارانہ طور پر انجام دیا۔
۲۸۸۔
قائم مقام سیکرٹری )ولادت مئی ۱۹۱۵ء بیعت فروری ۱۹۳۹ء` قبولیت وقف یکم جنوری ۱۹۴۶ء` وطن سیالکوٹ مٹھے کلاں( ۲۰۔ جولائی ۱۹۵۰ء سے آپ افسر تعمیرات کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔
۲۸۹۔
وکالت مال کے ریکارڈ سے ماخوذ۔
۲۹۰۔
یہ سطور اگست ۱۹۶۷ء میں لکھی جارہی ہیں۔ )مولف(
۲۹۱۔
علاوہ ازیں ٹوگولینڈ میں مشن قائم تھا جو بند ہے۔
۲۹۲۔
یہ مشن جو ۱۹۲۵ء سے تبلیغ اسلام کا فریضہ بجالارہا ہے تقسیم ہند ۱۹۴۷ء کے بعد براہ راست صدر انجمن احمدیہ قادیان )بھارت( کی نگرانی میں کام کررہا ہے۔
۲۹۳۔
ہندوستان کی احمدی جماعتیں براہ راست مرکز احمدیت قادیان کے ماتحت تبلیغ اسلام کا فریضہ بجالارہی ہیں۔
۲۹۴۔
مثلاً حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ` حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی اے بی ٹی )مبلغ انگلستان( حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ )مبلغ انگلستان و امریکہ`( مولوی مبارک علی صاحب بی اے بی ٹی )مبلغ انگلستان و جرمنی( حضرت الحاج مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ )مبلغ انگلستان و مغربی افریقہ( حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے )مبلغ جرمنی و انگلستان( حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اےؓ )مبلغ انگلستان( حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ۔ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ` صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی اے` مولوی محمد یار صاحب عارف )مبلغ انگلستان( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ )مبلغ بلاد عربیہ و غربیہ و انگلستان( حکیم فضل الرحمن صاحبؓ )مبلغ نائیجیریا( حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ )مبلغ ماریشس( حضرت حافظ عبیداللہ صاحبؓ )مبلغ ماریشس( حضرت مولوی حافظ جمال احمد صاحبؓ )مبلغ ماریشس`( حضرت مولوی محمد دین صاحب )مبلغ امریکہ( حضرت صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالیؓ )مبلغ امریکہ( مولانا ظہور حسین صاحب فاضل )مبلغ روس( حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ )مبلغ ایران( مولانا ابوالعطاء صاحب )مبلغ فلسطین و مصر( مولانا محمد سلیم صاحب )مبلغ فلسطین و مصر( شیخ محمود احمد صاحب عرفانیؓ )مبلغ مصر( مولانا رحمت علی صاحبؓ )مبلغ انڈونیشیا( مولوی محمد صادق صاحب سماٹری )مبلغ انڈونیشیا( شیخ مبارک احمد صاحب )مبلغ مشرقی افریقہ(
۲۹۵۔
یہ فہرست اگست ۱۹۶۷ء میں مرتب ہوئی۔
۲۹۶۔
مولوی غلام احمد صاحب فرخ کے نزدیک آپ ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے۔ )الفضل ۲۰۔ فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ کالم ۱(
۲۹۷۔
۲۵۔ مئی ۱۹۶۶ء کو پاکستان تشریف لائے۔ ۳۔ مئی ۱۹۶۷ء سے لندن میں مقیم ہیں۔
۲۹۸۔
وفات ۱۶۔ مئی ۱۹۸۴ء۔
۲۹۹۔
جماعت سے بے تعلق ہیں۔
۳۰۰۔
یعنی تاجر مبلغ۔
۳۰۱۔
وفات سے قبل جماعت مبائعین سے بالکل منحرف ہوگئے تھے اور نہایت عبرتناک رنگ میں لقمہ اجل ہوئے۔
۳۰۲۔
جماعت سے الگ ہوچکے ہیں۔
۳۰۳۔
عارضی واقف۔
۳۰۴۔
ان کے علاوہ ماریشس` گی آنا` فلسطین` جزائر غرب الہند` لائبیریا` کینیا` یوگنڈا` انڈونیشیا` اور فجی میں بھی خال خال احمدیہ سکول پائے جاتے ہیں۔
۳۰۵۔
نقل مطابق اصل >مستقبلا باھرا< چاہئے۔
۳۰۶۔
مشاھداتی تحت سماء الشرق تالیف الدکتور الحاج عبدالوھاب العسکری صاحب جریدہ السلام البغدادیہ مطبوعہ ۱۹۵۱م مطابق ۱۳۷۰ھ دارالحدیث للطباعہ والنشر والتالیف۔
۳۰۷۔
بحوالہ الفضل ۱۶۔ فروری ۱۹۵۷ء۔
۳۰۸۔
جزائر غرب الہند کا ایک جزیرہ )مولف(
۳۰۹۔
بحوالہ ماہنامہ انصاراللہ فروری ۱۹۶۲ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۳۱۰۔
بحوالہ ماہنامہ انصاراللہ بابت ماہ فروری ۱۹۶۲ء صفحہ ۴۲۔ ۴۴۔
۳۱۱۔
بحوالہ رسالہ تحریک جدید بابت ستمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۱۴۔
۳۱۲۔
مذہبی تحریکات ہند شائع کردہ پاکستان ایسوسی ایشن پوسٹ بکس نمبر ۱۵۳۰ نیروبی کینیا۔ انجمن اسلامیہ دارالسلام۔ انجمن حمایت اسلام نیروبی )تاریخ اشاعت دسمبر ۱۹۵۹ء( پاکستان میں کتاب ملنے کا پتہ۔: تبلیغی مرکز ریلوے روڈ نمبر ۷ لاہور۔
۳۱۳۔
ہفت روزہ المنبر لائلپور ۲۳۔ نومبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۱۔
۳۱۴۔
المنیر لائلپور ۲۔ مارچ ۱۹۵۶ء۔
۳۱۵۔
ہفت روزہ المنبر لائلپور ۱۱۔ اگست ۱۹۶۷ء صفحہ ۸۔
۳۱۶۔
ہفت روزہ المنبر لائلپور ۱۱۔ اگست ۱۹۶۷ء صفحہ ۷۔
۳۱۷۔
الفضل ۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۳۱۸۔
الفضل ۳۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۳۱۹۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۱۔ ۲ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲۔ فروری ۱۹۳۵ء(
۳۲۰۔
الفضل ۷۔ اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۳۲۱۔
الفضل ۱۷۔ فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۲۔
۳۲۲۔
الحکم ۱۷۔ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۔
۳۲۳۔
الفضل ۲۸۔ اگست ۱۹۵۹ء صفحہ ۶۔ ۷ )تقریر فرمودہ ۲۸۔ اگست ۱۹۴۵ء(
‏tav.8.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
دوسرا باب )فصل اول(
عراق میں شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے لیکر
سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
خلافت ثانیہ کا بائیسواں )۲۲( سال۱
)جنوری ۱۹۳۵ء تا دسمبر ۱۹۳۵ء بمطابق رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ تا شوال ۱۳۵۴ھ(
تحریک جدید کے کارناموں پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد اب ہم واقعاتی ترتیب کے پیش نظر ۱۹۳۵ء کی طرف پلٹتے ہیں۔
عراق میں شیخ احمد فرقانی کی المناک شہادت
جنوری ۱۹۳۵ء کے وسط میں عراق کے ایک نہایت مخلص احمدی حضرت شیخ احمد فرقانی کا سانحہ شہادت پیش آیا جس کی اطلاع ایک احمدی عرب نوجوان الحاج عبداللہ صاحب۲ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پہنچی۔ چنانچہ انہوں نے ۱۰۔ شوال ۱۳۵۳ھ )مطابق ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۵ء( کو عریضہ لکھا کہ آج بغداد سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ شیخ احمد فرقانی جو عرصہ دس سال سے احمدیت کی وجہ سے مخالفین کے ظلم و ستم برداشت کرتے آرہے تھے اور جن کا عراقیوں نے بائیکاٹ کر رکھا تھا` شہید کردیئے گئے ہیں۔ انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون۔ آپ بغداد سے قریباً دو سو میل کے فاصلہ پر لواء کرکوک گائوں میں بودوباش رکھتے تھے۔ جب میں بغداد میں تھا تو وہ کئی ہفتے میرے پاس آکر رہے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بے حد محبت اور اخلاص رکھتے تھے۔ حضور کے فارسی و عربی اشعار سنکر وجد میں آجاتے اور زاروقطار رونے لگتے تھے۔۳
حضرت امیرالمومنینؓ کا سفر گورداسپور اور اخلاص و فدائیت کے ایمان افروز منظر
اس سال کے ناقابل فراموش واقعات میں سے سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے وہ دو سفر ہیں جو حضور نے مولوی سید عطاء اللہ
شاہ صاحب بخاری کے مقدمہ میں شہادت کے لئے مارچ ۱۹۳۵ء کے آخری ایام میں اختیار فرمائے تھے۔ ان تاریخی سفروں کے تفصیلی حالات اخبار >الحکم< )قادیان( کے نامہ نگار کے الفاظ میں درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
پہلا سفر:
>عطاء اللہ بخاری کے مقدمہ میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ کے نام بھی بطور گواہ صفائی سمن تقسیم کیا گیا تھا جو حضور کے بلند مقام کو دیکھتے ہوئے خود ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس مقیم قادیان نے بمع انچارج صاحب چوکی قادیان تقسیم کیا۔
حضور کی روانگی کی خبر معلوم ہونے پر قادیان اور نواح کے احمدیوں میں اس امر کا شدید جوش موجزن تھا کہ وہ اپنے امام کے ساتھ جائیں اور انہیں اندیشہ تھا کہ منتظمین ان کو روک نہ دیں۔ اس لئے لوگ بار بار پوچھتے تھے کہ کیا ہم کو جانے دیا جائے گا یا نہیں۔ لوگوں کے اس جوش کا احساس کرتے ہوئے ذمہ دار افسروں نے احباب جماعت کو روکنا پسند نہیں کیا۔ جانے والوں کی کثرت دیکھ کر نیشنل لیگ نے ۸۰۰ آدمیوں کے لئے سپیشل ٹرین ریزرو کروانے کا انتظام کیا۔
۲۳ کی صبح قادیان میں ایک غیر معمولی صبح تھی۔ چونکہ حضرت اقدس نے موٹرکار کے ذریعہ جانا تھا اس لئے نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت نے حضور کی کار کی حفاظت کے لئے سائیکلوں پر جانے کی خواہش کی جو منظور کرلی گئی۔
سائیکلسٹوں کی پندرہ پارٹیاں ترتیب دی گئیں جو حضور کی کار کے ساتھ تھیں۔ ڈیڑھ سو کے قریب یہ نوجوان تھے۔ صبح ۸ بجے حضور کی کار شاندار طریق سے روانہ ہوئی۔ بائیسکل سوار آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں حضور کی کار کو گھیرے ہوئے تھے۔
سپیشل ٹرین ۷ بجکر ۴۲ منٹ پر روانہ ہونے والی تھی` ہزارہا کی تعداد میں احمدی اس وقت اسٹیشن کے اندر باہر کھڑے تھے۔ ہر شخص کے چہرے پر اس امر کی خوشی اور مسرت جھلک رہی تھی کہ اس کو اپنے آقا کی معیت کا شرف حاصل ہوگا۔ چونکہ نیشنل لیگ نے بحیثیت مجموعی گاڑی کا کرایہ ادا کر دیا تھا اور ہر محلہ کیلئے ایک خاص ٹکٹ جاری کردیئے تھے جن پر نظارت امور عامہ کی مہر تھی اور ان پر نمبر لکھ دیئے گئے تھے تاکہ ریلوے والوں کو مسافروں کی گنتی میں کسی قسم کی دقت نہ ہوسکے۔
گاڑی ٹھیک سات بج کر ۴۵ منٹ پر روانہ ہوئی۔ گاڑی میں اس قدر بھیڑ تھی کہ بہت سے لوگ گورداسپور تک کھڑے کھڑے اور بہت سے اوپر تختوں پر بیٹھ کر گئے۔
روانگی کے وقت ہر ایک کمرے میں لوگوں نے رقت سے دعائیں کیں۔ الغرص دعائوں کے ساتھ گاڑی روانہ ہوئی۔ قادیان سے چل کر بٹالہ سٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی۔ پولیس نے ریلوے لائن پر گاڑی کی حفاظت کے لئے باوردی سپاہی کھڑے کئے ہوئے تھے۔ سٹیشن پر سب انسپکڑان پولیس کے علاوہ رائے صاحب پنڈت جواہر لال صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خود باوردی موجود تھے۔ بٹالہ میں گاڑی کے انجن کا رخ تبدیل کیا گیا اور گاڑی گورداسپور روانہ ہوئی جہاں گاڑی ۹ ببج کر ۴۵ منٹ پر پہنچ گئی۔
جماعت کا یہ بے پناہ ہجوم نہایت پرامن طریق سے جلوس کی شکل میں نکلا۔ پہلے اس سڑک کی طرف گیا۔ جہاں سے حضرت اقدس نے تشریف لانا تھا۔ جلوس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے پرانے صحابی اور بڑے بڑے بوڑھے اور بعض نابینا لوگ بھی موجود تھے۔ ان کے اخلاص کی اس حالت کو دیکھ کر میرے دل میں ایک قسم کی رقت پیدا ہوتی تھی۔ اس جلوس کو سینکڑوں لوگ اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر دیکھ رہے تھے۔ جلوس مختلف سڑکوں سے گزر کر اس جگہ پہنچا۔ جہاں سے حضرت کی موٹر گزرنے والی تھی مگر افسوس کہ موٹر دوچار منٹ پہلے گزرگئی۔ آخرش یہ جلوس چودھری شیخ محمد نصیب صاحب کی کوٹھی پر پہنچا جہاں حضرت اقدس قیام فرما تھے۔
ناظر صاحب ضیافت جناب میر محمد اسحاق صاحب دو دن پہلے سے بمع اپنے ایک خاص سٹاف کے یہاں موجود تھے۔ ان کے انتظام نے گورداسپور میں سالانہ جلسہ کی جھلک دکھا دی۔
میر صاحب خاص قابلیتوں اور خوبیوں کے آدمی ہیں۔ انتظامی معاملات کو وہ اس حسن و خوبی سے سرانجام دیتے ہیں کہ دیکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ کام بالکل ہلکا اور آسان ہے۔ میر صاحب نے ان تمام مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ایسے موقعوں پر اور ایسی معاندانہ حالتوں میں پیش آجایا کرتی ہیں` سارا سامان لنگر خانہ قادیان سے گورداسپور بھجوا دیا تھا۔ اسی )۸۰( دیگیں اور سینکڑوں بالٹیاں` لوٹے` آبخورے` چٹائیاں` تھالیاں` پیالے` رکابیاں` لیمپیں` پانی کے حمام` الغرض ہر قسم کا سامان بافراط مہیا کردیا گیا تھا۔
کوٹھی کے وسیع میدان میں دریاں اور چٹائیاں بچھا کر اس پر دسترخوان بچھا دیئے گئے تھے۔ کوٹھی کے سامنے کی طرف ایک چاندنی کا پردہ لگا دیا گیا تھا اور کئی ہزار آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے چاندنیاں۴ تان دی گئی تھیں۔
کوٹھی کے گرد نوجوان لڑکوں کا پہرہ اس لئے لگا دیا گیا تھا تاکہ کوئی سامان وغیرہ چرا نہ سکے جو بافراط ہرجگہ پھیلا پڑا تھا۔
احباب کے پہنچنے سے پہلے کھانا پک کر تیار ہوچکا تھا۔ کھانے میں صرف پلائو پکوایا گیا تھا جو ہر طرح سے عمدہ اور مرغوب الطبع تھا۔
میر صاحب کے سٹاف میں مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل` مولوی ارجمند خاں صاحب مولوی فاضل اور مفتی فضل الرحمن صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ والنٹیئر اور معاونین نہایت اخلاص سے کھانا کھلاتے تھے اور سب مہمانوں سے شریفانہ برتائو کرتے تھے۔ اس سارے سٹاف کی نگرانی میر صاحب خود کررہے تھے۔
اس تقریب پر بہت دور دور سے مہمان آئے تھے۔ بٹالہ` امرتسر` لاہور` شیخوپورہ` گجرات` فیروزپور` گوجرانوالہ` ملتان کے علاوہ کشمیر اور سرحد تک کے لوگ موجود تھے۔ فخر قوم چودھری ظفراللہ خاں صاحب` پیر اکبر علی صاہب ممبر کونسل` خان بہادر شیخ رحمت اللہ خاں صاحب` چودھری عبداللہ خاں صاحب` چودھری اسداللہ خاں صاحب` چودھری شکراللہ خاں صاحب` سید انعام اللہ شاہ صاحب مالک و ایڈیٹر دور جدید` سید دلاور شاہ صاہب سابق ایڈیٹر مسلم آئوٹ لک` خاں عبداللہ خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ۔ لیفٹینٹ سردار نذر حسین صاحب` مستری حاجی موسیٰ صاحب نیلہ گنبد` شیخ محمد حسین صاحب ملتان` خاں بہادر غلام محمد خاں صاحب آف گلگت` خواجہ محمد شان صاحب آف سرینگر` مسٹر غلام محمد صاحب اختر آف لاہور وغیرہ وغیرہ قابل ذکر احباب موجود تھے۔
قادیان سے تو سات آٹھ سو احباب گئے جن میں سے چند احباب کا ذکر خاص طور پر کردینا مناسب ہوگا۔
چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے ناظر اعلیٰ` حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت مرزا شریف احمد صاحب` مرزا گل محمد صاحب` خان صاحب فرزند علی خاں صاحب ناظر امور عامہ` جناب میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت` جناب شیخ یوسف علی صاحب اسسٹنٹ ناظر امور عامہ` مولانا جلال الدین شمس صاحب اسسٹنٹ ناظر تبلیغ` مولوی عبدالمغنی صاحب ناظر بیت المال` خان صاحب برکت علی خاں صاحب` میرزا عبدالغنی صاحب گورنمنٹ پنشنر کینیا کالونی` مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ` مولانا شیر علی صاحب بی۔ اے` ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے ایڈیٹر ریویو` جناب میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر >فاروق< جناب خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر >الفضل`< شیخ محمود احمد عرفانی ایڈیٹر >الحکم< و پریذیڈنٹ نیشنل لیگ قادیان` مولانا نیر صاحب` مولانا محمد الدین صاحب ہیڈ ماسٹر` چودھری غلام محمد صاحب پریذیڈنٹ سمال ٹائون کمیٹی` شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ` ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب میڈیکل آفیسر قادیان` مولوی غلام مجتبیٰ صاحب پریذیڈنٹ لوکل کمیٹی قادیان` مولوی فضل الدین صاحب` ملک عبدالرحمن صاحب خادم وکیل گجرات` صاحبزادہ ابوالحسن صاحب قدسی` مہاشہ فضل حسین صاحب وغیرہ وغیرہ آٹھ سو احباب موجود تھے۔
گورداسپور میں اس موقع کے لئے حکومت نے لاہور اور امرتسر سے بہت سی ایڈیشنل پولیس منگوائی ہوئی تھی جس نے کچہری کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اور کچہری کے ایک خاص حصے پر جس طرف حضرت اقدس کی موٹر نے کھڑا ہونا تھا کسی شخص کو جانے نہیں دیتی تھی۔
احمدیہ پبلک کو یہ سنکر سخت مایوسی ہوئی کہ پولیس نے لوگوں کو کچہری کے کمپونڈ میں جمع ہونے سے روک دیا ہے۔ باوجود اس کے ہزارہا انسان سٹیشن سے کچہری آنے والی سڑک پر کھڑے تھے۔ میرے دل پر ایک رقت آمیز حالت طاری ہوئی جبکہ میں نے اس زمرے میں بعض نابینا اور سخت کمزور بڈھوں کو دیکھا جو فرط محبت سے چلے آئے تھے اور اپنے آقا کے انتظار میں کھڑے تھے۔
حضرت اقدس ٹھیک وقت مقررہ پر کچہری کے کمپونڈ میں پہنچ گئے تھے جب ان کی موٹر جاکر رک گئی تو اس وقت پولیس نے فوراً اس طرف کے راستے روک دیئے۔ پولیس کے چند سپاہی کچہری کے احاطہ میں پھر رہے تھے اور اگر کسی جگہ کوئی اجتماع ہوجاتا تو اسے روک دیتے اور منتشر کر دیتے تھے۔
سی۔ آئی۔ ڈی کے آدمی بھی نمایاں طور پر نظر آتے تھے خصوصاً آغا رشید صاحب سب انسپکٹر سی۔ آئی۔ ڈی بہت واضح طور پر چکر کاٹ رہے تھے۔
احرار کے متعلق معلوم ہوا کہ ۲۲۔ مارچ کو بروز جمعہ مولوی عطاء اللہ بخاری نے خطبہ جمعہ گورداسپور میں پڑھا اور کہا کہ اگر میں زندہ بچ کر آگیا تو میں تم کو تمہارے مکانوں میں آکر ملوں گا۔ تمہارے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مدرسے بنائوں گا اور یہ کروں گا اور وہ کروں گا۔ احراریوں کی طرف سے کئی ایک مولانے آئے ہوئے تھے۔ جن میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی اور مولوی کرم الدین صاحب ساکن بھیں ضلع جہلم بھی تھے۔ مولوی کرم الدین نے اس مقدمہ میں آکر حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک اور مماثلت پوری کردی اور وہ یہ کہ جس طرح کرم الدین کے مقدمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عزت سے نوازا اور ہزاروں آدمیوں کے سامنے کرم الدین کو ذلیل کیا حالانکہ وہ آپ کی ذلت دیکھنے کا متمنی تھا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتا دیا کہ وہ سلسلہ اب کس طرح بڑھا اور پھلا پھولا ہے اور کس طرح آج اس دن کی نسبت بیسیوں گنا زیادہ لوگ جمع ہیں۔ جس طرح کرم الدین نے آکر ہم پر یہ ثابت کردیا کہ وہ اور عطاء اللہ ایک ہی ہیں اسی طرح مسیح موعودؑ اور خلیفتہ المسیح ایک ہی ہیں۔ احمدیوں کو جب معلوم ہوا تو وہ جوق در جوق اس شخص کو دیکھنے جاتے تھے جس کے سبب خدا کے برگزیدہ مسیح کی صداقت کے بیسیوں نشان ظاہر ہوئے اور خداتعالیٰ کے مامور و مرسل کے دشمنوں کی صف اول میں لڑا اور ناکام و نامراد ہوا۔ مولانا انور صاحب بوتالوی نے اس کی تصویر۵ بھی لی۔ تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے باعث عبرت ہو۔
احراری کہلانے والوں میں ایک طبقہ ایسے لفنگوں کا تھا جو کوشش کرتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح احمدیوں کے گلے پڑے مگر پولیس نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا۔ ہندوئوں اور سکھ معززین کی ایک بڑی جماعت حضرت امیرالمومنین کو دیکھنے کے لئے بے قرار تھی اور وہ پوری بے قراری سے کئی گھنٹے انتظار میں کھڑی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت امیرالمومنین جب عدالت کے کمرے میں داخل ہوئے` دیوان سکھ آنند صاحب سپیشل مجسٹریٹ نے حضور کا پورا احترام کیا اور حضور کو کرسی پیش کی۔ حضور کے ساتھ حسب ذیل حضرات کو اندر جانے کا شرف حاصل ہوا۔ جناب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب` چودھری اسداللہ خان صاحب` پیر اکبر علی صاحب ممبر کونسل` شیخ بشیر احمد صاحب` مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے وکیل` چودھری نصیر الحق صاحب بی۔ اے وکیل` ایڈیٹر صاحب الفضل` ملک عبدالرحمن صاحب خادم ۔۔۔۔۔۔۔
حضور کا عدالت سے نکلنا تھا کہ ہزاروں انسانوں کا جم غفیر جو عدالت کے سامنے جمع تھا` پروانہ وار اپنے آقا و مرشد کی موٹر کے گرد جمع ہوگیا اور وہ دیوانہ وار حضور کی موٹر کے ساتھ دوڑنے لگا۔
عدالت سے لے کر شیخ محمد نصیب کی کوٹھی تک تقریباً پون میل کا فاصلہ ہوگا۔ وہ تمام خدام سے بھرا ہوا تھا۔ ان لوگوں کی اپنے امام کو دیکھ کر یہ حالت ہورہی تھی کہ وہ بے اختیار مسرت اور خوشی سے بھر جاتے تھے۔ ان کے چہروں پر سینکڑوں عیدوں کی خوشی ظاہر ہورہی تھی۔ ہر شخص بڑھ بڑھ کر السلام علیکم کا ہدیہ پیش کررہا تھا۔ حضور اپنے خدام کو دیکھ کر مسرت کا اظہار فرماتے اور بار بار وعلیکم السلام فرماتے۔
کیمپ میں داخل ہو کر حضور نے کھانا تناول فرمایا اور پھر نماز باجماعت ادا فرمائی۔ کوٹھی کا وسیع پنڈال نمازیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور سب کے سب لوگ اپنے آقا کے ساتھ اپنے مالک حقیقی کے حضور سربسجود ہوگئے۔ نماز کے بعد پھر حضور عدالت کو تشریف لے گئے۔
کیمپ میں ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے حاضرین کے وقت کو مفید کام میں لگانے اور تبلیغی اغراض کے لئے ایک جلسہ منعقد کیا جس میں متعدد نظموں کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایک عالمانہ تقریر کی جس میں ہزارہا کی حاضری تھی اور سامعین نے مولانا کی تقریر کو بہت توجہ سے سنا اور فائدہ حاصل کیا۔
احرار گورداسپور کی وسعت اخلاق کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے گورداسپور کے سقوں کو پانی بہم پہنچانے سے روک دیا اور وہ ایسے وقت میں پانی سے انکار کرکے چلے گئے جبکہ بہتیرے لوگ ابھی کھانا کھارہے تھے اور ہزارہا بندگان خدا نے ابھی وضو کرنا تھا۔ مگر منتظمین کی جواں ہمتی قابل داد ہے کہ انہوں نے بیسیوں والنٹیئر لگا کر پولیس لائن کے کنوئیں سے پانی بھرلیا۔ حضور نے دوبارہ پانچ بجے عدالت سے واپس آنا تھا۔ پانچ بجے سے پیشتر ہی احباب جوق در جوق عدالت کی طرف جانے لگ گئے اور پہلے کی طرح حضور کی موٹر کے ساتھ ہزارہا مشتاقان دید دوڑتے ہوئے کیمپ تک آئے۔ حضور نے کیمپ میں داخل ہوکر اپنے خدام میں تقریر فرمائی اور پیش آمدہ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
>مومنوں کو مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ہم دنیا پر غالب آئیں گے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نبی کے ماننے والوں پر زلزلے آئیں گے۔ اگر کہا جاتا کہ نبی کے ماننے والوں کے لئے پھولوں کی سیج بچھائی جائے گی۔ تب تو کہا جاسکتا تھا کہ ہمیں مشکلات کیوں پیش آتی ہیں مگر جبکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ انبیاء کی جماعتوں کو کانٹوں پر گزراتا ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم پر بھی مشکلات آئیں گی` مصائب آئیں گے۔ مگر آخر کامیابی ہمارے لئے ہے۔ آپ لوگ عبادتیں کریں` دعائیں مانگیں اور خداتعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کریں<۔
آخر میں اس موقعہ پر آنے والے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا۔
>میں سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ان کا بھی جو آج آئے ان کا بھی جو پھر آئیں گے۔ میں تمام سفر میں دعا کرتا آیا ہوں کہ خداتعالیٰ ان تمام دوستوں پر جو آج آئے اپنے خاص خاص فضل نازل فرمائے اور ان پر بھی فضل نازل کرے جو پرسوں آئیں گے<۔
۶ بجے کے بعد سپیشل ٹرین قادیان کو روانہ ہوئی اور حضور بذریعہ موٹر قادیان تشریف لائے جس سڑک سے موٹر گزری وہاں جاتے اور آتے ہوئے پولیس کا انتظام تھا<۔۶
دوسرا سفر:
>مقدمہ کی دوسری تاریخ ۲۵۔ مارچ تھی۔ دشمنان سلسلہ کا خیال تھا کہ پہلے دن تو احمدی سپیشل ٹرین لے کر آگئے ہیں۔ اب کہاں آئیں گے اور حضرت امیرالمومنین کو شاید اس دفعہ تنہا آنا پڑے گا۔ مگر جماعت میں اس قدر جوش تھا کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ اگر ایک ماہ تک بھی ہم کو اسی طرح آنا پڑے گا تو ہمارے اخلاص و محبت میں کمی نہیں آئے گی۔ جماعت کے اس اخلاص کو دیکھ کر اور پرزور مطالبہ کو سن کر نیشنل لیگ کو ریلوے کو پھر تار دینی پڑی کہ گاڑی بھیجی جائے۔
چونکہ گاڑی کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ساڑھے چھ بجے روانہ ہوگی اس لئے جماعت کے افراد اور قریب قریب کی جماعتوں کے سینکڑوں آدمی علی الصبح سٹیشن پر پہنچ گئے تھے۔
سٹیشن کا نظارہ بڑا دلفریب تھا۔ سینکڑوں آدمیوں کا اجتماع سٹیشن پر ۔۔۔۔۔۔ سالانہ جلسہ کی شان کا منظر پیدا کررہا تھا۔ الفضل فروخت کرنے والے لڑکوں کی آوازیں ساکنین قادیان کے کانوں کو بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ یہ وہ بستی تھی جہاں کسی زمانہ میں معمولی خوردو نوش کی اشیاء تک میسر نہ آتی تھیں۔ آج یہ حالت ہے کہ قادیان ہفتہ وار اخباروں کے علاوہ روزانہ اخبار کی اشاعت کا مرکز بنا ہوا ہے اور دیگر شہروں کی طرح ہم سن رہے ہیں کہ لڑکے شور مچارہے ہیں >آج کا تازہ پرچہ الفضل< ہماری یہ کامیابیاں دشمنوں کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹک رہی تھیں۔ دور دور تک لوگوں کی قطاریں افواج در افواج اور جوق در جوق سٹیشن کی طرف آرہی تھیں۔
روانگی کا جب وقت آیا تو عازمین گورداسپور نے دعائوں کے لئے ہاتھ اٹھائے اور نہایت خشوع اور خضوع سے بارگاہ ایزدی میں گڑگڑانے لگے۔ دعا کے ساتھ فدایان کو لے کر یہ گاڑی گورداسپور کو پونے آٹھ بجے روانہ ہوئی گاڑی اس قدر کھچا کھچ بھری ہوئی تھی کہ بہت سے لوگوں کو گورداسپور تک بیٹھنے کی جگہ نہ ملی۔
بٹالہ میں پہنچ کر گاڑی نے انجن کا رخ بدلنا تھا۔ اس لئے چند منٹ کا گاڑی کا قیام کرنا تھا۔ اس لئے سینکڑوں کی تعداد میں احباب گاڑی سے اتر کر ٹہلنے لگے۔ جس سے تمام سٹیشن بھر گیا۔ اس نظارہ کو دیکھنے کے لئے بہت سے غیراحمدی بھی سٹیشن پر جمع ہوگئے تھے جو پلیٹ فارم کے باہر سے دیکھ رہے تھے۔
حسب معمول اس دفعہ بھی جلوس کی شکل میں یہ قافلہ گورداسپور میں داخل ہوا۔ اور کیمپ میں جاکر اور کھانا کھاکر لوگ جوق در جوق عدالت کی طرف چل دیئے اور اس وقت تک وہیں کھڑے رہے۔ جب تک امیرالمومنین واپس تشریف نہیں لائے۔ حضور کی واپسی پر آج بھی مشتاقان زیارت موٹر کے ساتھ دوڑے اور حضور کے دیکھنے سے سب کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہریں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔
حضور نے کیمپ میں آکر کھانا تناول فرمایا اور ہزارہا آدمیوں کو ساتھ لے کر نماز پڑھی۔ حضور دو بجے پھر تشریف لے گئے۔ آج بھی حضور کے جانے کے بعد ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی زیر صدارت حسب معمول جلسہ ہوا۔ جس میں مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ظہور حسین صاحب نے تقریریں کیں۔ مولانا شمس نے حضرت مسیح موعودؑ کی مسیح ناصری سے مماثلت پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ پہلے مسیح پر متوازی حکومت قائم کرنے کا الزام تھا۔ جیسے وہ الزام غلط تھا ویسے ہی یہ الزام غلط ہے۔ مگر اس الزام نے ایک اور مماثلت کو ثابت کردیا۔
حضور کی واپسی کے وقت تک تمام مشتاقان دید پھر عدالت سے لے کر کیمپ تک جمع ہوگئے اور حضور کا پرجوش طریق سے استقبال کررہے تھے۔ حضور نے واپسی پر چند الفاظ میں تقریر فرمائی جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے حضور نے فرمایا کہ۔:
آج شہادت تو ختم ہوچکی ہے مگر پھر پرسوں کی تاریخ جرح کے لئے مقرر ہوئی ہے۔ احباب کو اس تکلیف سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ کیونکہ ان کے مقابلہ میں جو انعامات اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمائے ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں۔ اگر وہ انعامات انسان کے سامنے رکھ دیئے جائیں تو انسان یہی کہے گا کہ اے میرے رب میری تو صرف یہی خواہش ہے کہ میں زندہ کیا جائوں اور پھر تیری راہ میں مارا جائوں۔ پھر زندہ کیا جائوں اور پھر تیری راہ میں مارا جائوں اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہے۔
تقریر کے بعد آپ نے احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا اور پھر فرمایا کہ چونکہ اب گاڑی کا وقت بہت تنگ ہوچکا ہے اس لئے میں سب دوستوں کو جانے کی اجازت دیتا ہوں۔
اس کے بعد حضور بذریعہ موٹر واپس تشریف لے گئے اور سائیکل سوار والنٹیرز آگے اور پیچھے تھے اور خدام بذریعہ ریل واپس آگئے۔
چونکہ ۲۷۔ مارچ کو حضور نے سرکاری وکیل کی مکرر جرح کے لئے تشریف لانا تھا اس لئے احباب ۲۷ کو حضور کی معیت میں گورداسپور آنے اور حضور کے ساتھ رہنے کے لئے پرجوش جذبہ لیکر واپس آئے<۔۷
تیسرا سفر:
>تیسری مرتبہ حضور ۲۷ مارچ کو شہادت کے لئے تشریف لے گئے۔ اس سفر کے حالات بھی بالکل پہلے ہی دو سفروں جیسے تھے مگر ان میں حسب ذیل اضافہ کیا جاتا ہے۔
فدائیان احمدیت کی عزت افزائی
آج کے روز حضرت اقدس نے اپنے خدام کی عزت افزائی کے لئے بذریعہ ریل جانا منظور فرمایا۔ حضور بھی تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سوار تھے اور اس طرح تمام احمدی مسافروں کو جو تیسرے درجے کا سفر کرتے ہیں عزت کو بڑھا دیا اور اب ہماری جماعت کے کسی غریب مسافر کو افسوس نہ ہوگا کہ وہ کیوں تیسرے درجے میں سفر کرتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ اس کے سید و مولیٰ اپنے فدائیوں کے ساتھ تیسرے درجے میں سفر فرماچکے ہیں۔ حضور خدام کے اس زبردست جلوس میں گورداسپور کے سٹیشن سے کیمپ میں وارد ہوئے جہاں تھوڑی دیر قیام فرما کر حضور عدالت میں تشریف لے گئے۔ آج پہلے ہی وقت میں حضور فارغ ہوگئے۔
جلسہ
نماز ظہر کے بعد ۳ بجے کوٹھی کے وسیع احاطہ میں زیر صدارت ناظر صاحب تبلیغ جلسہ ہوا۔ اس جلسہ کا پروگرام جناب مرزا عبدالحق صاحب نے انجمن احمدیہ گورداسپور کی طرف سے چھاپ کر شائع کردیا ہوا تھا اس پروگرام کے ماتحت مولوی محمد نذیر صاحب مولوی فاضل نے پیشگوئیوں پر اعتراضات کے اصولی جواب اور مولانا شمس صاحب نے حبیب الرحمن لدھیانوی کے ان اعتراضات کا جواب دیا جو ایک روز قبل گورداسپور میں اپنی ایک تقریر کے دوران میں سلسلہ احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئے تھے۔ ۵ بجے حضرت امیرالمومنین جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور ایک عظیم الشان تقریر ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیا مذکورا کے حقائق و معارف سے پر ارشاد فرماتے ہوئے احمدیت کی سچائی کو ایسے طریق سے پیش کیا جو ہر شخص کے ذہن نشین ہوگیا۔ آج کے جلسہ میں گورداسپور کے ہندو` سکھ` عیسائی معززین کثرت سے شریک ہوئے ۶ بجے حضور نے تقریر ختم فرمائی اور دعا پر جلسہ ختم ہوا۔
بیعت کرنے والے
ان تین ایام میں ۹۰ اشخاص داخل سلسلہ حقہ ہوئے۔ اللھم زد فزد )امین(
ریلوے میں نظارت امور عامہ کے ٹکٹ اور چیکر
نظارت امور عامہ نے تین روز تک اپنی طرف سے ٹکٹ جاری کئے جن پر نمبر دے دیئے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کس قدر آدمی سفر کررہے ہیں اور اس امر کے معلوم کرنے کے لئے کہ کوئی بغیر ٹکٹ سفر نہ کرے خاص طور پر ٹکٹ چیک کرنے کے لئے آدمی مقرر کر رکھے تھے۔ اس طرح یہ سفر نہایت خیروخوبی سے ۲۷۔ مارچ کی شام کو ختم ہوگیا۔ احرار یا ان کے معاونین نے جو سازش سلسلہ کے خلاف کی تھی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کو اس میں منہ کی کھانی پڑی۔ الحمدللہ رب العلمین۔۸
سفر گورداسپور سے متعلق غیروں کے تاثرات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے مندرجہ بالا سفر احمدیت کی صداقت کا زبردست نشان تھے جسے دیکھ کر سنجیدہ طبع اور روشن خیال غیر احمدی بلکہ غیر مسلم اصحاب بھی بزبان حال و قال پکار اٹھے کہ احرار نے جس جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا ادعا کر رکھا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوچکی ہے اور احرار کی مخالفت اس کی قوت و شوکت میں اضافہ ہی کا موجب بنی ہے۔ اس تعلق میں بعض تاثرات کا ذکر کیا جانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ایک مسلمان اخبار نویس کا تبصرہ
ایک مسلمان اخبار نویس نے لکھا۔
>احرار یہ سمجھتے ہیں یا کم ازکم دوسروں پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ احمدیت کو بہت جلد فنا کردیں گے۔ چنانچہ وہ اسی قسم کے اعلانات شائع کرکے مسلمانوں سے کافی روپیہ جمع کررہے ہیں پچھلے دنوں قادیان میں جو احرار کانفرنس ہوئی اس کا مقصد بھی یہی ظاہر کیا جاتا تھا اور عوام کو یہ بتلایا جاتا تھا کہ قادیان میں احرار کی ایک کانفرنس ہوتے ہی احمدی قادیان کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور ہندوستان سے احمدیت کا قلع قمع ہوجائے گا۔ لیکن بقول شخصے۔ ~}~
ما درچہ خیالیم و فلک درجہ خیال
احرار کے تمام منصوبے بگڑ گئے۔ احرار کانفرنس کے صدر امیر شریعت پنجاب` شیر خلافت` ضیغم کانگریس بانی احرار کانفرنس مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے خلاف حکومت نے دو گروہوں کے درمیان منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ چلایا۔ مولوی صاحب موصوف پر فرد جرم عائد ہوگیا۔ انہوں نے میرزا صاحب قادیان والا کو صفائی کی شہادت میں پیش کیا۔ تین دن تک خلیفہ صاحب کی گواہی ہوتی رہی اور تینوں دن گورداسپور میں احمدیوں کا کثیر اژدھام رہا۔ شہر میں` کچہری میں` سڑکوں پر جدھر دیکھو احمدی ہی احمدی نظر آتے تھے۔ احمدیوں کے مخالفوں میں سے کئی خلیفہ صاحب کی زیارت کے لئے آتے رہے اور ان کی نورانی شکل دیکھ کر محو حیرت ہوجاتے تھے۔ احمدیوں کے انتظامات` ان کی تنظیم اور باہمی اتحاد کے نظارے دیکھ کر اکثر لوگ بے حد متاثر ہوئے۔ شہر اور مضافات میں خلیفہ صاحب کی گواہی اور ان کے اعلیٰ اخلاق کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ ہم نے خود گورداسپور پہنچ کر تمام حالات کا بچشم خود مطالعہ کیا اور دیکھا کہ غیر احمدی مسلمان خلیفہ صاحب سے ان کے مریدوں کی عقیدت دیکھ کر بے حد متاثر ہورہے تھے اور ہر طرف احمدیوں کی تنظیم` اتحاد` خلوص اور دینداری کا تذکرہ تھا۔
خلیفہ صاحب ہرروز گواہی سے فارغ ہوکر شیخ محمد نصیب صاحب کی کوٹھی کے احاطہ میں ایک مختصر سا لیکچر دیتے رہے۔ آخری دن کی گواہی کے بعد جلسہ نہایت شاندار تھا۔ ہزاروں احمدیوں کے علاوہ جلسہ گاہ میں غیر احمدی مسلمان ہندو اور سکھ صاحبان بھی موجود تھے جہاں میرزا صاحب نے ایک شاندار تقریر فرمائی۔ غرض مسلمانوں کے خیالات میں احمدیوں کے متعلق بڑی حد تک تبدیلی واقع ہوگئی اور احرار نے احمدیوں کے خلاف مسلمانوں کے دلوں میں جو نفرت پیدا کر رکھی تھی وہ بڑی حد تک رفع ہوگئی۔ چنانچہ اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ احمدیوں کے متعلق احراری پراپیگنڈا کی تہہ میں کچھ ذاتی اغراض ہیں ورنہ یہ لوگ باقاعدہ نمازیں پڑھتے ہیں۔ شکل و صورت سے پکے مسلمان دکھائی دیتے ہیں۔ آپس میں محبت جو مسلمانوں کی خصوصیت ہے ان لوگوں میں نظر آتی ہے درآنحالیکہ دوسرے مسلمان اس نعمت سے بڑی حد تک محروم ہوچکے ہیں۔
الغرض یہ تمام باتیں ہم نے اپنے کانوں سے سنیں اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ احرار نے قادیان میں جلسہ کرکے اور پھر مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب نے خلیفہ صاحب کو شہادت میں طلب کرکے احمدیوں کو بہت زیادہ تقویت پہنچائی ہے۔ احمدیوں کے متعلق پڑھے لکھے مسلمانوں کی رائے پہلے کی نسبت بہت اچھی ہوچکی ہے اور اکثر تعلیم یافتہ نوجوان احمدیت کے متعلق ریسرچ میں لگ ئے ہیں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شہادت کے تینوں دنوں میں کوئی ایک سو کے قریب غیر احمدی مسلمانوں نے بیعت کی۔ احمدیوں کو اس کامیابی پر بہت فخر ہے۔ چنانچہ چند احمدیوں نے بخاری صاحب کو امرتسر ریلوے اسٹیشن پر صاف صاف کہہ دیا کہ آپ کی مساعی ہمارے لئے عمدہ پھل لارہی ہیں اور ہم آپ کے شکرگزار ہیں۔ جس کے جواب میں مولوی صاحب نے فرمایا۔ ہمیں بھی سلسلہ احمدیہ سے کوئی عداوت نہیں` ہاں ہم جہاد کے متعلق مرزا صاحب کی تعلیم کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اگر خلیفہ صاحب اس میں ترمیم کردیں تو باقی باتوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے<۹
اخبار >احسان< کا نوٹ
اخبار >احسان< )لاہور( نے ۲۵۔ مارچ ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>خلیفہ قادیان کے ایک ہزار مرید سپیشل ٹرین میں آئے۔ اور چار ہزار کے قریب اشخاص ادھر ادھر سے جمع ہوگئے۔ سب سے زیادہ تعداد لاہور سے آئی۔ مرزائی کیمپ میں کھانے کا وسیع پیمانہ پر انتظام تھا<۔۱۰
ایک سکھ صحافی کا تبصرہ
سردار ارجن سنگھ ایڈیٹر اخبار >رنگین< نے اپنی کتاب >خلیفہ قادیان< میں >خلیفہ قادیان کا استقبال< کے زیر عنوان لکھا۔
>یہ بات تو ظاہر ہے کہ مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ آٹھ کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندہ ہیں۔ برخلاف اس کے خلیفہ قادیان کے تابعدار ایک لاکھ کے قریب ہوں گے۔ مگر ناظرین یہ سنکر حیران ہوں گے کہ ان تاریخوں پر جبکہ خلیفہ صاحب شہادت دینے کے لئے آتے رہے۔ گورداسپور میں احمدیوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہوتی تھی۔ جبکہ دوسرے مسلمان شاید ایک سو بھی موجود نہ ہوتے تھے۔ اس سے خلیفہ صاحب اور مولوی صاحب کے اثر کا موازنہ ہوسکتا ہے کہ ایسی جماعت جس کے ارکان سارے پنجاب میں پچپن ہزار بیان کئے جاتے ہیں اپنے خلیفہ کے درشنوں کے لئے دس ہزار کی تعداد میں حاضر ہوتے ہیں اور اس جماعت کے جس کے ارکان صرف گورداسپور میں ہی دس ہزار سے زائد ہیں ایک سو بھی جمع نہیں ہوئے۔ حالانکہ مقدم الذکر صرف گواہ کی حیثیت میں آتے ہیں اور دوسرے بزرگ پر مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کا دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے اور خلیفہ صاحب کے مرید ان کے حقیقی جان نثار اور سچے دل سے وفادار ہیں۔
یہ منظر سبق آموز تھا۔
اس منظر کے دیکھنے سے دل پر ایک خاص اثر ہوتا تھا۔ میں خود آخری روز وہاں موجود تھا۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ آخر اس شخص نے پہلی جون میں کون سے ایسے کرم کئے ہیں جن کے صلہ میں اسے یہ عقل کو حیران کرنے والا عروج حاصل ہوا ہے۔ میں ہی اس نظارہ کو دیکھ کر حیران نہ تھا۔ بلکہ میں نے دیکھا کہ غیر احمدی مسلمان بھی )یہ( اثر لے رہے تھے۔ میں نے بازار میں لوگوں کو باتیں کرتے سنا کوئی ظاہر اشان و شوکت کی تعریف کرتا تھا کوئی مریدوں کی عقیدت کو سراہ رہا تھا۔ کوئی جماعت کی تنظیم کی داد دیتا تھا۔ کوئی کہتا تھا آخر یہ گروہ عبادت میں اور اس کے احکام کی پیروی میں امتیاز رکھتا ہے۔ الغرض میں نے دیکھا کہ غیر احمدی مسلمانوں میں سے بہت سے تعریفیں کررہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دلوں پر خاص اثر ہورہا ہے۔
آخر یہ کیوں؟
میں حیران تھا کہ اپنے جیسے انسان کا درشن پانے کے لئے یہ ہزارہا انسان جو سرگردان پھر رہے ہیں کیا یہ تمام غلطی یا جعل سازی کا شکار ہورہے ہیں جبکہ ان کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے اور ان میں بڑے بڑے تجربہ کار اور جہاندیدہ بزرگ بھی موجود ہیں۔
میں سوچتا تھا کہ کیا جھوٹ اور فریب سالہا سال تک پھل لاسکتا ہے پچاس سال سے زائد عرصہ ہوا جبکہ اس فرقہ کے بانی نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اگر وہ محض فریب کار تھا تو کیا فریب میں یہ طاقت ہے کہ وہ نصف صدی تک بڑھتا اور پھولتا چلا جائے یقیناً دھوکا بازی اور فریب کاری کی تو صرف اتنی ہی حیثیت ہوتی ہے کہ ~}~
‏]tpoe [tagاگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند
لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ تیسرا دور آتا ہے اور ہر دور میں پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ یہ گروہ بڑھتا اور پھولتا جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جماعت کے دعاوی میں ضرور سچائی ہے اور اس گروہ کو بالضرور واہگوروجی کی شکتی حاصل ہے<۔
احرار غور کریں
>احراری بھی ایک مذہبی جماعت ہیں۔ ان کا بھی ایک امیر شریعت ہے جس کے ہاتھ پر لوگ اسی طرح بیعت کرتے ہیں جس طرح خلیفہ قادیان کے ہاتھ پر۔ پھر احرار اپنے آپ کو سچائی کے پاسبان سمجھتے ہیں اور قادیانی جماعت کو غلط راہ پر قرار دیتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ احراری امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کے دلوں میں اپنے امیر کے لئے نہ وہ قربانی کا جذبہ ہے اور نہ ہی وہ عقیدت ہے جو خلیفہ قادیان کے مریدوں کے دلوں میں ہے۔ کیا کبھی احرار نے غور کیا ہے کہ اس کا کیا کارن ہے کہ ان کی سچائی )جسے وہ خود سچائی قرار دیتے ہیں( وہ رنگ نہیں لارہی جو بقول احرار خلیفہ قادیان کا دجل و فریب رنگ لارہا ہے۔ کیا آج کل ایشور نے اپنا اصول بدل دیا ہے؟ اور کیا ~}~
صداقت آمد و باطل رواں شد
طلوع شمس شد شپر نہاں شد
کا کلیہ بدل گیا ہے` ہرگز نہیں۔ واہگوروجی کے نیم اٹل ہیں۔ خدا کے قاعدے کبھی نہیں بدلتے اور میں تو میرزاجی کے اس کتھا کی تائید کرتا ہوں۔ کہ ~}~
کبھی نصرت نہیں ملتی درمولا سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
اس لئے اس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ احمدیہ تعلیم کے اندر کچھ ایسی کشش ضرور موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف کھینچے آرہے ہیں اور خلیفہ قادیان میں کوئی ایسے جو ہر یقیناً ہیں جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور پھر لطف یہ ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ اس جماعت میں شامل ہوجاتا ہے وہ دیوانہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ جن لوگوں کو خلیفہ صاحب کے مذہبی عقائد سے اختلاف ہے وہ بھی آپ کی سیاسی رہنمائی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر مثلاً خواجہ حسن نظامی جو مسلمانوں کے سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ مذہبی گورو بھی ہیں خلیفہ صاحب سے سیاسی مل ورتن کے حق میں ہیں۔ اسی طرح میاں سر فضل حسین وغیرہ بہت سے اسلامی سیاستدان احمدیوں سے تعاون کررہے ہیں مگر احراریوں سے کو اپریشن کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں چنانچہ احمدی مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ کانفرنس کے ممبر ہیں۔ اور یہ جماعت بھی مسلم لیگ کانفرنس کے اصولوں کی حامی ہونے کے علاوہ ہر قسم کی مدد کرتی رہتی ہے۔ الغرض سوائے جماعت احرار کے تمام مسلمان سیاستدان احمدیوں سے مذہبی عقیدوں میں اختلاف رکھنے کے باوجود ان سے تعاون کے حق میں ہیں اور خلیفہ قادیان بے شک مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے اندر اس قدر رسوخ پیدا کرلیا ہے<۔۱۱
انجمن حمایت اسلام اور جماعت احمدیہ
انجمن حمایت اسلام )لاہور( ایک مشہور قومی ادارہ ہے جس کی بنیاد جمادی الاول ۱۳۰۱ھ مطابق مارچ ۱۸۸۴ء میں رکھی گئی۔۱۲ اس قومی ادارہ سے جماعت احمدیہ کے بزرگوں کا ابتداء ہی سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ جیسا کہ >تاریخ احمدیت< جلد چہارم )طبع اول( صفحہ ۱۰۴۔ ۱۰۶ میں تفصیل آچکی ہے۔ خلافت ثانیہ کے اوائل سے ۱۹۳۵ء تک انجمن سے احمدیوں کے مراسم برابر قائم رہے اور وہ اس کے پلیٹ فارم پر قومی و تعلیمی خدمات بجالاتے چلے آرہے تھے مگر ۱۹۳۵ء میں احراری تحریک کے زیر اثر انجمن حمایت اسلام کی مستقل پالیسی میں یہ تغیر واقع ہوا کہ اس خالص تعلیمی انجمن کے سٹیج پر اختلافی مسائل کا چرچا کرکے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف ریزولیوشن پاس کیا گیا۔۱۳ یہ واقعہ کس افسوسناک ماحول اور ہلڑبازی کے ہنگامہ میں ہوا۔ اس کی تفصیل مشہور معاند احمدیت مولوی ثناء اللہ صاحب کے قلم سے پڑھئے۔ لکھتے ہیں۔
>انجمن حمایت اسلام لاہور کا جلسہ ہمیشہ امن و امان سے ہوتا تھا کیونکہ اس میں اسلام کے امور عامہ پر تقریریں ہوتی تھیں۔ مگر اس دفعہ پروگرام میں خلاف معمول مضامین مخصوصہ پر تقریریں بھی درج تھیں مثلاً ختم نبوت وغیرہ۔ ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ ختم نبوت بھی اسلام کے امور عامہ میں سے ہے۔ مگر چونکہ پنجاب میں فرقہ قادیانیہ ختم نبوت کا قائل نہیں اس لئے لازم تھا کہ تقریر میں اس فریق کا ذکر یا اشارہ ہوتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خیر یہ تو ایک معمولی بات تھی جو آئی گئی ہوگئی۔ خاص قابل ذکر بات جو ہوئی وہ یہ ہوئی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں نے آوازے کسنے شروع کردیئے کہ وائسرائے کی اگزکٹو کونسل میں چودھری ظفراللہ خاں احمدی کے ممبر ہونے کے خلاف جلسہ انجمن میں رزلیوشن پاس کیا جائے۔ لیکن کارکنان انجمن مذکور اپنے اصول کے ماتحت اس سے انکاری رہے۔ حاضرین جلسہ )مسلمانوں( کا جم غفیر اس امر پر مصر تھا۔ ۲۲۔ اپریل کو بعد دوپہر مغرب تک جلسے میں یہی شور محشر رہا۔ آخرکار وہی جماعت مولوی ظفر علی خاں آف زمیندار کو لے آئی اور سٹیج پر تقریر کرا کر اپنے حسب منشاء رزولیوشن پاس کرالیا۔ کیا یہ رزولیوشن انجمن کا ہوگا یا پبلک کا اس کا فیصلہ انجمن کی روئداد کرے گی<۔۱۴
اخبار >سیاست< )۱۴۔ مئی ۱۹۳۵ء( نے اس افسوسناک کارروائی کی ذمہ داری صدر انجمن حمایت اسلام علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب پر ڈالی اور یہ رائے دی کہ۔
>علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب امت مرحومہ کے ایسے فرد ہیں جن کے وجود پر ہر مسلمان فخر و ناز کرسکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے احتیاج اور اس سے زیادہ حاشیہ نشینوں کے گمراہ مشورہ نے سر موصوف کو ایسے راستہ پر لگا دیا ہے جو ڈاکٹر کو کعبہ مفاد ملت کے خلاف لے جارہا ہے۔ آپ انجمن کے صدر ہیں۔ چاہئے یہ تھا کہ جلسہ انجمن کی بربادی سے آپ آزردہ خاطر ہوتے اور جن لوگوں نے یہ حماقت کی تھی ان کو ڈانٹ بتاتے اور یوں ملت مرحومہ پر واضح کردیتے کہ آپ احرار کی فتنہ آرائی کو معیوب سمجھتے ہیں اور آپ کو انجمن کی عزت کا لحاظ ہے۔ آپ سے خصوصاً یہ توقع اس وجہ سے بے جا نہ تھی کہ آپ بحیثیت صدر یہ کرسکتے تھے کہ احرار کی شرارتوں کے مظاہرہ اول کے بعد فی الفور انجمن کی کونسل کا جلسہ بلا کر ارکان انجمن سے کہہ دیتے کہ ہماری رائے میں احرار کا مطالبہ جائز ہے۔ آپ اس قسم کا ریزولیوشن قبول کرلیں اور خود پیش کردیں۔ یوں سر اقبال بہ یک وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی انجمن کی مناسب رہنمائی بھی کرتے اور فتنہ و فساد بھی بند ہوجاتا۔ لیکن افسوس ہے کہ علامہ اقبال نے اس جرات سے کام نہ لیا۔ اور منہ میں گھنگھنیاں ڈالے انجمن کی رسوائی کا تماشہ دیکھا کئے۔ جلسہ کے بعد جب یہ سوال پیش ہوا کہ مولانا ظفر علی صاحب کی تحریک پر جو قرارداد انجمن کے پلیٹ فارم سے چودھری ظفر اللہ خاں کے خلاف منظور ہوئی ہے۔ اس کی تائید یا تردید کی جائے تو ڈاکٹر صاحب نے پھر اپنی اخلاقی کمزوری کا مظاہرہ کیا اور دلیری سے یہ کہنا مناسب نہ جانا کہ احرار کی حرکت مناسب تھی یا غیر مناسب بلکہ خود خاموش رہنا پسند کیا اور ارکان انجمن کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔ میں کہتا ہوں اور ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ علامہ اقبال کی شخصیت و اہمیت کے رہنما کا فرض تھا کہ وہ قوم کی علیٰ رئوس الاشہاد رہنمائی کرتا اور اگر احرار کی تحریک صحیح تھی تو اس کی تائید کرتا اور اگر معیوب تھی تو اس کی مخالفت کرتا لیکن علامہ اقبال نے ایسا نہ کیا<۔۱۵
مجلس مشاورت میں حضرت امیر المومنینؓ کا احمدی نوجوانوں اور احمدی بچوں سے عہد لینا
اس سال ۱۹` ۲۰` ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۵ء کو قادیان میں مجلس مشاورت کا انعقاد ہوا۔ اس مجلس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت امیرالمومنینؓ
نے اپنی افتتاحی تقریر میں یہ وضاحت فرمائی کہ۔
>اس وقت ہم جنگ کے میدان میں کھڑے ہیں اور جنگ کے میدان میں اگر سپاہی لڑتے لڑتے سو جائے تو مر جاتا ہے۔ ہمارے سامنے نہایت شاندار مثال ان صحابہ کی ہے جن کے مثیل ہونے کے ہم مدعی ہیں۔ ایک دفعہ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا` یہ جھنڈا وہ لے جو اس کا حق ادا کرے۔ ایک صحابی نے کہا یارسول اللہ~صل۱~ مجھے دیں۔ آپ نے اس کو دے دیا۔ جنگ میں جب اس کا ہاتھ کاٹا گیا جس سے اس نے جھنڈا تھاما ہوا تھا تو اس نے دوسرے ہاتھ سے تھام لیا اور جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو لاتوں میں لے لیا۔ اور جب ٹانگیں کاٹی گئیں تو منہ میں پکڑلیا۔ آخر جب اس کی گردن دشمن اڑانے لگا تو اس نے آواز دی۔ دیکھو مسلمانو اسلامی جھنڈے کی لاج رکھنا اور اسے گرنے نہ دینا۔ چنانچہ دوسرا صحابی آگیا۔ اور اس نے جھنڈا پکڑلیا۔ آج ہمارے جھنڈے کو گرانے کی بھی دشمن پوری کوشش کررہا ہے اور سارا زور لگارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں جو جھنڈا دے گئے ہیں` اسے گرا دے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہیں اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو پائوں میں پکڑلیں اور اگر اس فرض کی ادائیگی میں ایک کی جان چلی جائے تو دوسرا کھڑا ہوجائے اور اس جھنڈے کو پکڑلے۔ میں ان نمائندوں کو چھوڑ کر ان بچوں اور نوجوانوں سے جو اوپر بیٹھے سن رہے ہیں` کہتا ہوں۔ ممکن ہے یہ جنگ ہماری زندگی میں ختم نہ ہو گو اس وقت لوہے کی تلوار نہیں چل رہی۔ لیکن واقعات کی` زمانہ کی اور موت کی تلوار تو کھڑی ہے۔ ممکن ہے یہ چل جائے۔ تو کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اس جھنڈے کو گرنے نہ دو گے؟ )اس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا( ہمارے زمانہ کو خدا اور اس کے رسولوں نے آخری زمانہ قرار دیا ہے اس لئے ہماری قربانیاں بھی آخری ہونی چاہئیں۔ ہمیں خداتعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے چنا ہے۔ اور ہم خداتعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں۔ ہمیں دنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہئے۔ صحابہؓ ہمارے ادب کی جگہ ہیں۔ مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے۔ پس ہمارا مقابلہ ان سے ہے جنہوں نے رسول کریم~صل۱~ کے دوش بدوش جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم ان کی بے حد عزت کرتے اور توقیر کرتے ہیں۔ لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ان کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ کریں<۔10] p[۱۶
دوسرا باب )فصل دوم(
ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب کا بیان جماعت احمدیہ کی نسبت
سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام کی ہنگامہ آرائی کے چند روز بعد ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب نے ۳۔ مئی ۱۹۳۵ء کو ایک طویل بیان دیا جو اخبار >زمیندار< اور >احسان< میں شائع ہوا۔ اس بیان میں آپ نے مطالبہ کیا کہ حکومت جماعت احمدیہ کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے۔ اس عجیب و غریب مطالبہ کی معقولیت ثابت کرنے کے لئے مسئلہ ختم نبوت کی خود ساختہ۱۷ فلسفیانہ تشریح کا سہارا لیکر اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ۔
>میرے نزدیک ۔۔۔۔۔۔۔ بہائیت قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے<۔۱۸
نیز لکھا۔
>ہندوستان میں حالات بہت غیرمعمولی ہیں۔ اس ملک کی بیشمار مذہبی جماعتوں کی بقاء اپنے استحکام کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیونکہ جو مغربی قوم یہاں حکمران ہے اس کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ مذہب کے معاملہ میں عدم مداخلت سے کام لے۔ اس پالیسی نے ہندوستان ایسے ملک پر بدقسمتی سے بہت برا اثر ڈالا ہے جہاں تک اسلام کا تعلق ہے یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ مسلم جماعت کا استحکام اس سے کہیں کم ہے جتنا حضرت مسیحؑکے زمانہ میں یہودی جماعت کا رومن کے ماتحت تھا۔ ہندوستان میں کوئی مذہبی سٹے باز اپنی اغراض کی خاطر ایک نئی جماعت کھڑی کرسکتا ہے اور یہ لبرل حکومت اصل جماعت کی وحدت کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرتی بشرطیکہ یہ مدعی اسے اپنی اطاعت اور وفاداری کا یقین دلا دے اور اس کے پیرو حکومت کے محصول ادا کرتے رہیں<۔۱۹
اخبار >سیاست< کا اداریہ
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے اس بیان پر مسلم پنجاب کے مقتدر اور بااثر اخبار >سیاست< نے ۱۴` ۱۵۔ مئی ۱۹۳۵ء کی اشاعتوں میں حسب ذیل اداریہ لکھا۔
>سراقبال اگر چاہتے تو جو زبان انہوں نے استعمال کی ہے اس سے بہتر زبان استعمال کرسکتے تھے۔ لیکن خیر یہ ان کے اختیار کی بات ہے کہ وہ اظہار جذبات میں اعتدال سے کام لیں یا نہ لیں` مجھے اور دوسرے مسلمانوں کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ علامہ اقبال کا استدلال کہاں تک حق بجانب ہے۔
علامہ ممدوح کے اس بیان میں ختم نبوت کے متعلق جو کچھ موجود ہے` سیاست اس کا موید ہے اور اس کو آب زر سے لکھنے کے قابل سمجھتا ہے۔ علامہ ممدوح نے اس بیان میں حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ثانیہ اور حضرت مھدی علیہ السلام کے ظہور کا انکار کیا ہے اور اس کو مجوسیوں یہودیوں اور نصرانیوں کا خیال ظاہر کرکے لکھا ہے کہ جاہل مولویوں نے ان عقائد کو اغیار سے لے کر عام کر دیا جس کی وجہ سے اسلام میں فتنے پیدا ہوچکے اور ہورہے ہیں۔ >سیاست< نے اس پر لکھا کہ اگر علامہ اقبال علمائے احناف وغیرہ کو بلاکر ان کے روبرو اپنا نظریہ پیش کریں اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہو جائے کہ نزول مسیح و ظہور مہدی محض ڈھکوسلہ ہی ڈھکوسلہ ہے تو اس سے تحریک قادیان کو اس قدر ضرر پہنچے گا کہ احرار کی فتنہ آرائی` افتراق پروری` نفاق انگیزی` چندہ بازی اور دشنام طرازی سے ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ تعجب ہے کہ سالہا سال سے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں جنگ عقائد جاری ہے۔ لیکن علامہ اقبال سے آج تک یہ بن نہیں پڑا کہ وہ ایک رسالہ یا مضمون لکھتے یا لیکچر ہی دے کر یہ کہتے کہ مسیح موعود و مہدی کی آمد کا خیال ہی شریعت حقہ سے بیگانہ ہے۔ لیکن اب بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ میں علامہ اقبال سے بمنت عرض کروں گا کہ وہ ملت مرحومہ کے دل سے اس خیال باطل کو نکالنے کے لئے عملی تدابیر اختیار فرما کر عنداللہ ماجور و عند الناس مشکور ہوں۔
علامہ اقبال نے اپنی تحریر زیر بحث میں حکومت پر مرزائیت نوازی کا الزام لگایا ہے۔ >سیاست< حکومت سے مطالبہ کرچکا ہے اور اس مطالبہ کی اب تجدید کرتا ہے کہ وہ اس خیال کی تردید یا تصدیق کرے اس لئے کہ علامہ ممدوح کی اعلیٰ حیثیت کے مسلمان کی طرف سے ایسا الزام لگنے کے بعد حکومت کی خاموشی مجرمانہ ہوگی۔ علامہ ممدوح نے اپنے بیان میں رائج الوقت آزادی عقائد کو مضر بتایا ہے۔ لہذا >سیاست< نے آپ سے بہ ادب التجا کی ہے کہ آپ براہ نوازش فرمائیں کہ آپ انگریزوں سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ آزادی عقائد پر کون کونسی پابندیاں عقائد کریں تاکہ مرزائی فرقہ کی طرح کے مختلف گروہ پیدا ہی نہ ہوسکیں۔ تاہم >سیاست< نے بہ ادب علامہ اقبال کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا تھا کہ چکڑالوی اور مرزائی فرقہ کے علاوہ ملت میں جس قدر فرقے نمودار ہوئے وہ سب ہندوستان سے اور انگریزوں کی حکومت کے حلقہ اثر سے باہر پیدا ہوئے لہذا حکومت حاضرہ کی روش کو افتراق بین المسلمین کا سبب قرار دینا کچھ صحیح نظر نہیں آتا۔
علامہ اقبال نے اس بیان میں احرار کی موجودہ شرارت کے جواز کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ ختم نبوت سے انکار کی وجہ سے مسلمانوں میں جو اختلاف پیدا ہوا ہے یہ ہر پہلے اختلاف سے بدتر ہے اگرچہ شیعہ اور سنی` حنفی اور وہابی اور دوسرے ایسے جھگڑوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی رائے سے مجھے اختلاف ہے اور میں آپ سے عرض کرسکتا ہوں کہ شیعہ اور سنی اور حنفی اور وہابی اس طرح یکجا نماز نہیں پڑھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ازدواج قائم نہیں کرتے جیسے احمدی اور غیر احمدی۔ تاہم اس دلیل کو ترک کرکے میں علامہ ممدوح سے استصواب کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ کیوں چودھری ظفراللہ خاں کے تقرر کے بعد ان کی محبت ختم رسل )فداہ ابی و امی( میں جوش آیا اور کیوں اس سے پہلے وہ اس میدان میں نہ اترے حالانکہ اس فتنہ کی عمر کشمیر کمیٹی اور چودھری صاحب کے تقرر سے کوئی تیس سال کے قریب زیادہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ چودھری صاحب کے رکن پنجاب کونسل منتخب ہونے کے وقت یا ان کے سائمن کمیٹی کا ممبر منتخب ہونے پر یا ان کے اول مرتبہ سر فضل حسین کی جگہ مقرر ہونے پر یا مرزائیوں کی متعدد دیگر تحریکات کے زمانہ میں آپ نے اس گروہ کے خلاف علم جہاد بلند نہ کیا؟
علامہ اقبال کا مطالعہ بہت وسیع ہے وہ مرزائیوں کی سیاسی مخالفت کے جواز میں اتحاد ملت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اگر بالفرض اس بات سے قطع نظر بھی کرلی جائے کہ احمدیوں کے سیاسی لحاظ سے علیحدہ ہونے کے بعد پنجاب کی وہ مسلم اکثریت جس کے لئے ہم گزشتہ دس سال سے لڑرہے ہیں برباد ہو جائے گی اور اس کے بعد شیعہ علیحدہ نیابت کے اس مطالبہ کو جو وہ گزشتہ پانچ سال سے پیش کررہے ہیں` زیادہ قوت سے پیش کرکے ملت کی صف میں مزید انتشار کا باعث ہوجائیں گے۔ میں علامہ ممدوح سے یہ پوچھنے کی جرات کرتا ہوں کہ وہ تاریخ عالم میں سے مجھے ایک مثال ایسی بتا دیں جس سے یہ ثابت ہوکہ جب کسی امت میں ایک دفعہ عقیدہ کا اختلاف پیدا ہوچکا ہو تو پھر وہ تبلیغ یا بحث یا مقاطعہ یا مجادلہ یا تشدد سے مٹ گیا ہو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکیں گے۔ بلکہ دنیا جانتی ہے کہ بدھ مت والوں اور برہمنوں نے ہندوستان میں اور رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ عیسائیوں نے یورپ میں اور خوارج اور شیعہ اور سنی مسلمانوں نے شام` عراق اور عرب میں اختلاف عقائد کی وجہ سے ایک دوسرے کو قتل کرنے` برباد کرنے اور زندہ جلا دینے کے بعد اگر کسی اصول پر صلح کی تو وہ اصول یہی تھا کہ انہوں نے اختلاف عقاید کو گوارا کرلیا۔ اگر تاریخ کا یہ سبق ناقابل انکار ہے تو کیا یہ حقیقت اندوہناک نہیں کہ علامہ اقبال کا سا بلند پایہ مسلمان ملت کو مجادلہ مقاطعہ کا سبق دیتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اختلاف عقیدہ کو بحث و مباحثہ کے لئے ترک کرکے سیاسی لحاظ سے متحد ہوجائو۔ اور لطف یہ کہ علامہ ممدوح مسلمانوں کو افتراق کی دعوت دیتے ہوئے خود مرزائیوں سے سیاسی طور پر اتحاد پیدا کررہے ہیں۔ چونکہ مقالہ امروزہ طویل ہوگیا ہے لہذا میں اس بحث کو اشاعت فردا میں مکمل کروں گا۔ و باللہ التوفیق<۲۰
اخبار >سیاست< نے اپنے دوسرے اداریہ میں لکھا کہ۔
>مجھے اس حقیقت کو الم نشرع کرنا ہے کہ جہاں تک مرزائیوں کی تکفیر کا تعلق ہے کوئی غیر مرزائی مسلمان ایسا نہیں جو علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال سے متفق نہ ہو۔ میں اپنی کتاب >تحریک قادیان< میں صاف لکھ چکا ہوں اور مقدمہ گورداسپور میں مرزائی جماعت کے موجودہ خلیفہ صاحب نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ غیر مرزائی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور شرع اسلام کی وجہ سے جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے وہ خود کافر ہوتا ہے۔ لہذا مرزائی جماعت کے کافر ہونے میں نہ کوئی شک ہوسکتا ہے اور نہ شبہ اور نہ کوئی شک و شبہ موجود ہی ہے۔ اور اس معاملہ میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی ہمنوائی کا فخر حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس تکفیر کا مسلمانوں کے باہمی تمدنی معاشرتی اور اخلاقی تعلقات پر کیا اثر ہونا چاہئے۔ کیا ہمیں مرزائیوں سے وہی سلوک کرنا چاہئے جو ہم عیسائیوں اور ہندوئوں اور سکھوں سے کرتے ہیں یا مرزائی اور عام مسلمانوں میں جو قضیہ تکفیر موجود ہے اس کو وہی حیثیت دینا چاہئے جو شیعہ` سنی` حنفی` وہابی` مقلد` غیر مقلد` بریلوی` بدایونی` دیوبندی اور چکڑالوی وغیرہ کے باہمی شغل تکفیر کو حاصل ہے۔ علامہ اقبال احرار کی موجودہ فتنہ پروری کی آج حمایت کررہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔ مرزائیت کم و بیش گزشتہ تیس سال سے موجود ہے اور اس طویل عرصہ میں ~}~
ہر کہ رمز مصطفیٰ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
کا نعرہ لگانے والے علامہ اقبال کا طرز عمل وہی رہا ہے جس کی تائید و حمایت کی وجہ سے آج میرے ایسے مسلمان مورد طعن ہورہے ہیں۔ کوئی عطاء اللہ شاہ بخاری` کوئی حبیب الرحمن` کوئی افضل حق یا کوئی مظہر علی اگر اس روش کے حامیوں کو مرزائی کہدے یا اگر ایسا نہ کرسکے تو وظیفہ خوار قادیان کہہ کر بدنام کرے تو وہ قابل معافی ہے اس لئے کہ اسے روٹی کما کر کھانا ہے۔ اس کی ہردلعزیزی کا اساس عوام کی گمراہی ہے۔ وہ رسوائی کو شہرت سمجھ کر اس پر مرتا ہے اور اس کی تعلیم اور اس کا اخلاق بلند نہیں۔ لیکن علامہ اقبال کی شخصیت` علمیت` ہردلعزیزی` شرافت` نجابت` قابلیت اور بلند اخلاق و شہرت کا حامل اگر وہ بات کہے جو ملت کے لئے برباد کن ہو تو یقیناً ہمیں حق حاصل ہوتا ہے کہ ہم ملت کے مستقبل کا ماتم کریں اور نوحہ کریں کہ جن سے امید ہدایت تھی وہی ملت کو گمراہ کرکے تباہی و بربادی کی طرف لے جارہے ہیں۔
یہ حقیقت کہ تیس سال کی طویل میعاد تک علامہ اقبال کا مسلک مرزائیوں کے متعلق وہی رہا جو آج ہم نے اختیار کررکھا ہے` ناقابل انکار ہے۔ علامہ صاحب نے آج سے پہلے کبھی یہ اعلان نہیں کیا۔ کہ مرزائی ختم نبوت کے دشمن ہیں لہذا یا معاشر المسلمین تم ان سے آگاہ رہو بلکہ اس کے برعکس سیاسی` علمی` تمدنی اور معاشرتی مجالس میں ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر یعقوب بیگ اور علامہ اقبال یکساں بطور مسلمان انجمن حمایت اسلام کے رکن رہے اور علامہ نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔ مسلم لیگ و مسلم کانفرنس میں چودھری ظفر اللہ خاں اور علامہ اقبال یکساں بطور مسلمان ممبر بنے رہے۔ علامہ صاحب نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ چودھری صاحب مسلم لیگ کے صدر ہوئے۔ عوام میں سے بعض نے اعتراض بھی کیا۔ علامہ صاحب نے نہ صرف کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ معترضین کی تائید بھی نہیں کی اور خود چودھری صاحب کے ماتحت لیگ کے ممبر بنے رہے۔ علامہ ممدوح لیگ اور کانفرنس کے صدر رہے لیکن آپ نے کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ ان مجالس میں قادیانی بھی بطور مسلمان شامل ہوتے ہیں۔ قادیان سے ان جماعتوں کو علامہ صاحب کی صدارت میں مالی امداد ملی مگر علامہ صاحب نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ پنجاب کونسل میں چودھری ظفراللہ خاں اور علامہ اقبال دونوں مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے پہلو بہ پہلو کام کرتے رہے اور سائمن کمیٹی کے لئے جب چودھری صاحب کو بطور مسلمان ممبر منتخب کیا گیا تو علامہ صاحب نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اور انتہا یہ ہے کہ جب حکومت نے گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نیابت کے لئے علامہ اقبال اور چودھری ظفراللہ خاں صاحب کو بہ حیثیت مسلمان چنا تو نہ صرف علامہ اقبال نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ لندن میں چودھری صاحب کے دوش بدوش کام کرتے رہے۔ حال ہی میں چودھری صاحب کے بھائی مسلمانان سیالکوٹ کی طرف سے کونسل کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ سیالکوٹ علامہ اقبال کا وطن ہے لیکن علامہ ممدوح نے ہرگز کوئی سعی اس بات کی نہیں کہ کی وہاں کے مسلمان اسداللہ خاں جیسے غیر مسلم کو اپنا نمائندہ منتخب نہ کریں۔
لیکن شاید کہا جائے کہ گزشتہ راصلٰوۃ آئندہ را احتیاط` جو کچھ ہوا وہ غلط تھا۔ آئندہ علامہ صاحب ایسا نہ کریں گے۔ اول تو ممدوح کی حیثیت کے بلند فرد کے متعلق یہ عذر ہرگز عذر معقول نہیں کہلا سکتا۔ تاہم اگر بغرض دلیل اس کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو علامہ اقبال کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ حال ہی میں لندن میں جوبلی کے موقعہ پر جو جماعت اس غرض سے قائم ہوئی ہے کہ برطانیہ اور دنیائے اسلام کے تعلقات بہتر ہوتے چلے جائیں اس میں علامہ اقبال اور چودھری ظفر اللہ خاں دونوں بطور مسلمان شامل ہیں۔ یہ لیگ کی خبر رائٹر نے دس مئی کو دی اور وہ گیارہ مئی کے اخبارات میں شائع ¶ہوئی۔ اس کے ممبر یا برطانیہ کے لارڈ ہوسکتے ہیں اور یا مسلمان۔ کوئی غیر مسلم غیر انگریز اس کا رکن نہیں ہوسکتا۔ اس میں جو لوگ بحیثیت مسلمان شامل ہیں ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
)۱( سر آغا خاں )شیعہ( )۲( امیرعبداللہ والی شرق اردن )سنی( )۳( سابق ولی عہد ایران )شیعہ( )۴( نواب چھتاری )حنفی( )۵( سرعزیز الدین احمد )سنی( )۶( سر محمد اقبال )سنی( )۷( سر عبدالصمد خاں )شیعہ( )۸( چودھری ظفراللہ خاں )قادیانی( )۹( سرسلطان احمد )شیعہ( )۱۰( سرعبدالقادر )سنی( )۱۱( حاجی عبداللہ ہارون )آغا خانی( )۱۲( سرحشمت اللہ )سنی( )۱۳( نواب لوہارو )سنی( )۱۴( حاجی علی رضا )سنی(
سوال یہ ہے کہ اس انجمن میں چودھری ظفراللہ خاں کس حیثیت سے شامل ہوئے؟ وہ انگریز ہونے کے مدعی نہیں ہیں کہ انگریز ہوسکتے ہیں نہ انگریز ہیں اور اس انجمن میں کوئی شخص جو انگریز نہ ہو شامل ہو نہیں سکتا جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو۔ چودھری صاحب اگر مسلمان نہیں ہیں تو علامہ صاحب نے ان کے ساتھ ممبر بننا کیوں قبول کیا۔ اور اگر آپ ناواقفیت کا عذر بنائیں تو آپ دس مئی سے لے کر آج تک اس جماعت سے علیحدہ کیوں نہیں ہوگئے۔ میں کہتا ہوں کہ چودھری صاحب کی معیت میں اس جماعت کی رکنیت قبول کرکے علامہ صاحب نے تسلیم کرلیا ہے کہ باہمی نزاع تکفیر کے باوجود جس طرح عام مفاد ملت کی خاطر سنی` شیعہ` حنفی` وہابی` بریلوی` دیوبندی مل کر کام کرنے پر تیار ہیں۔ اسی طرح مرزائی اور غیر مرزائی مسلمان بھی اتحاد عمل پر آمادہ ہیں اور یہی وہ بات ہے جو ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان قبول کریں اور اپنا اصول عمل بنائیں۔
علامہ صاحب سے تکفیر مرزائیت میں اتفاق کرنے کے بعد میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جہلاء خود غرض اشخاص اس دلیل کو رد کردیں تو اور بات ہے۔ مگر مجھے امید ہے کہ علامہ صاحب کی علمیت کا سچا مسلمان اس دلیل پر غور کرے گا۔ میرا استدلال یہ ہے کہ نبوت کو لاکھ بڑھائیں۔ پھر بھی توحید باری سے بالاتر نہیں لے جاسکتے۔ اگر ایسا کریں تو اللہ تعالیٰ کی توحید کے علمبردار اول جناب محمد مصطفیٰﷺ~ فداہ ابی و امی ہم سے خفا ہو جائیں گے اور اگر توحید رسالت سے بالاتر ہے تو علامہ اقبال خدائی کے دعویدار آغا خاں کے ساتھ اتحاد عمل کرتے ہوئے کس طرح مرزائیوں سے اتحاد عمل کو ناروا اقرار دے سکتے ہیں<۔۲۱
روزنامہ >حق< لکھنو کا ادارتی نوٹ
اخبار >سیاست< کے علاوہ روزنامہ >حق< )لکھنو( نے ۲۷۔ جون ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں حسب ذیل لیڈنگ آرٹیکل شائع کیا۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
‏tav.8.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
مسلمانوں کا مایہ صدناز شاعر اب سے کچھ دن قبل مسلمانوں کا نیر اقبال بن کر مطلع پنجاب پر چمکا اور مسلمانوں کو جو تعلیم دی وہ شعر مندرجہ عنوان میں پیش کی گئی ہے۔ وہی اقبال جو فرقہ بندی کو مہلک اور ذات پات کے امتیاز کو موت سمجھتا تھا` آج کچھ اور کہہ رہا ہے۔ ایک طرف اس کا مندرجہ بالا شعر ہے اور دوسری طرف اس کا وہ بیان جو حال ہی میں اس نے جماعت احمدیہ قادیان کے متعلق اخبارات کو دیا ہے۔ ان دنوں پیغاموں میں جو اجتماع ضدین ہے اس کو دیکھ کر ہم حیران ہیں کہ اس شعر کہنے والے اقبال کو اقبال سمجھیں یا اس بیان دینے والے اقبال کو اقبال۔ شاعر اقبال نے اپنے شعر میں ہم کو پنپنے کے لئے فرقہ بندی اور ذات پات کے امتیاز سے مجتنب رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ اور اب لیڈر اقبال نے ہم کو یہ سیاسی مشورہ دیا ہے کہ ہم قادیان کی جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں اور حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ قانونی حیثیت سے بھی احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھے۔
ہم کو ڈاکٹر سر محمد اقبال سے اس حد تک پورا پورا اتفاق ہے کہ عام مسلمانوں اور احمدیوں میں اعتقادات کا بہت بڑا اختلاف ہے اور اگر اس اختلاف کو شدت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو بعض صورتوں میں مذہبی اعتبار سے احمدی جماعت اور عام مسلمانوں کے درمیان اتحاد عمل ناممکن سا نظر آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ احمدیوں کو قطع نظر کرکے کیا اسی قسم کے اختلاف اہل سنت اور اہل تشیع میں کارفرما نہیں ہے؟ کیا یہی تضاد اہلسنت کی مختلف العقیدہ جماعتوں میں نہیں ہے۔ وہابی اور حنفی` بریلوی اور دیوبندی` اسی طرح مختلف اسکول ہر ہر جماعت میں موجود ہیں۔ ان میں کی ہر شاخ دوسری شاخ کو اپنے نقطہ نظر سے مرتد اور کافر گردانتی ہے اور بقول مدبرین فرنگ کے یہ تو مسلمانوں کا ایک عام مشغلہ ہے کہ ان میں کا ہرفرد دوسرے کو نہایت آسانی کے ساتھ کافر کہہ دیتا ہے۔ خیر یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون کافر۔ لیکن اس تمام اختلاف کو دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ محفوظ صورت یہی ہے کہ ہم ہرکلمہ گو کو مسلمان سمجھیں جو خدا کو ایک اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کو اس کا محبوب اور رسول سمجھتا ہو۔ اگر مسلمان کی تعریف صرف یہی تسلیم کرلی جائے تو جس طرح ایک حنفی کو` ایک وہابی کو` ایک مقلد کو` ایک غیرمقلد کو` ایک دیوبندی کو اور ایک بریلوی کو مسلمان کہا جاسکتا ہے اسی طرح احمدیوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور کسی کو غیر مسلم کہنے کا ہم کو حق ہی کیا ہے جب وہ خود اس پر مصر ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ہم اس کو مسلمان نہ بھی سمجھیں تو ہمارے اس نہ سمجھنے سے کیا ہوسکتا ہے اس کا مذہب خود اس کے قول سے تسلیم کیا جائے گا۔
بہرحال ہم اس تمام بحث کو ان کے دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی بجائے اس کے محض سیاسی پہلو کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے یہ کتر و بیونت کس حد تک مفید یا مضرت رساں ہے۔ ہماری ملکی سیاسیات کا موجودہ دور وہ اہم اور نازک دور ہے کہ ہر جماعت خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں` اپنی شیرازہ بندی اپنی تنظیم اور اپنے تحفظ کی فکر میں ہمہ تن مصروف ہے۔ ہندو ہیں کہ اچھوتوں کو اپنے میں ملانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اچھوت ان میں سے نہیں۔ ان کو اس کا بھی احساس ہے کہ اچھوتوں سے ملنا دھرم کو مٹی میں ملانا ہے۔ مگر آج ضرورت نے اسی حرام کو حلال کردیا ہے اور وہ اچھوت جن کا سایہ تک ناپاک سمجھا جاتا تھا اور جن کو دیکھ کر ایک کراہت سی ہوتی تھی آج ہندوئوں کی سرآنکھوں پر جگہ پارہے ہیں۔ اور وہی ہندو جوان ناپاک اچھوتوں کو دیکھ کر حقارت اور تنفر کے ساتھ >چھی چھی چھی< کہا کرتے تھے` آج ان کو اپنے سر چڑھا رہے ہیں۔ ان کو اپنی برادریوں میں برابر کی جگہ دے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کھارہے ہیں۔ ان سے >روٹی بٹی< کے تعلقات پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ حالانکہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بغیر اچھوتوں کو ملائے ہوئے اکثریت میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے اس فرض سے غافل نہیں ہیں کہ اگر اس وقت انہوں نے اچھوتوں کو چھوڑ دیا تو ممکن ہے کہ ان کو مسلمان یا کوئی اور اقلیت اپنا لے اور ان کو ملا کر اکثریت بن جائے۔ ایک طرف تو یہ احتیاط ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی یہ لاپروائی بلکہ سیاسی بدبختی ہے کہ ان میں بجائے تنظیم کے ایک پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ عام مسلمانوں کا کیا سوال جبکہ مسلمانوں کے لیڈران کو باہمی تفرقہ سازی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ ~}~
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھنے اور قانونی حیثیت سے ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیئے جانے کی تحریک ہی کو دیکھ لیجئے کہ یہ سیاسی اعتبار سے کس قدر ناسمجھی` عاقبت نااندیشی اور تدبر کے منافی تحریک ہے۔ اور اسی تحریک سے مسلمانوں کے سیاسی فقدان کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ احمدیوں کو اپنے سے علیحدہ نہ کرکے ہم بہرحال کسی نقصان میں نہیں بلکہ فائدے میں ہیں۔
اول تو ہماری تعداد بڑھی ہوئی ہے۔ دوسرے ان کے ووٹروں سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تیسرے سب سے بڑی بات یہ کہ اس کا فیصلہ بالکل ہماری مرضی پر ہے کہ ہم کسی احمدی کو کسی مجلس قانون ساز میں منتخب ہونے دیں یا نہ ہونے دیں۔ لیکن احمدیوں کو اپنے حلقہ سے جدا کرنے کے بعد ہم کو سب سے پہلا نقصان تو یہ پہنچے گا کہ ہماری جماعت کا ایک عنصر گویا ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ ہماری اقلیت اور بھی اقل ہوکر رہ جائے گی۔ اور گویا ہم خود اپنے ووٹروں کو اپنے ہاتھ سے دیں گے۔ اس کے علاوہ احمدیوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد ان کی نشستیں بالکل علیحدہ ہوجائیں گی اور وہ مجالس قانون ساز میں بغیر روک ٹوک کے جاسکیں گے۔ آج اگر وہ جانا چاہیں تو ان کو آپ کی مدد کی ضرورت ہوگی لیکن علیحدگی کی صورت میں وہ بلاشرکت غیرے اپنی نشستوں کے مالک ہوں گے۔ اور ان کو مجالس قانون ساز میں جانے سے کوئی بھی نہ روک سکے گا۔ صرف پنجاب ہی کے صوبہ کو لے لیجئے جہاں سے یہ تحریک اٹھی ہے اور اس کے بعد اندازہ کیجئے کہ یہ تحریک کس قدر بے محل اور غلط ہے۔ پنجاب میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مسلم اکثریت ہے اور مسلمانوں نے حکومت کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ پنجاب کی مسلم اکثریت کو آئینی طور پر تسلیم کرے۔ چنانچہ حکومت نے ایک نشست کی زیادتی سے مسلم اکثریت تسلیم کرلی ہے۔ ہندو اور سکھ متفقہ طور پر مسلم اکثریت قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ چنانچہ راجندر پرشاد اور مسٹر جناح کی گفتگوئے مصالحت بھی ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے اسی بناء پر بیکار قرار دی گئی اور اس سمجھوتہ کو اسی وجہ سے مسترد کیا گیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیاجارہا ہے کہ احمدیوں کو ان سے علیحدہ کرکے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ پنجاب کے مسلمان جو ۵۶ فیصدی ہیں۔ صرف اسی صورت میں اکثریت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ جب احمدی بھی ان میں شامل رہیں ورنہ دس فیصدی پنجاب کے احمدی اگر نکل گئے تو مسلمان صرف ۴۶ فیصدی رہ جاتے ہیں اور پھر سکھ` ہندو اور احمدی مل کر اکثریت میں آجاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کیا مسلمان اپنے پیر پر خود کلہاڑی نہیں مار رہے ہیں کہ اچھے خاصے اکثریت میں ہوتے ہوئے اپنے کو اقلیت میں ڈال رہے ہیں اور اپنی اس کوشش پر خود ہی پانی پھیر رہے ہیں جو سالہا سال سے جاری تھی۔ حکومت نے جدید اصلاحات کے ماتحت ۵۱ نشستیں مسلمانوں کی رکھی ہیں۔ ان میں سے دو نشستیں احمدیوں کو ضرور مل جائیں گی اور کسی وقت ان کی جماعت کا وزیر ہوجانا بھی بعید از امکان نہیں ہے گویا اس طرح احمدی تو نہایت فائدہ میں رہیں گے۔ البتہ اگر نقصان پہنچے گا تو ان کو ہی جو آج اپنے لئے یہ تباہی کے سامان مہیا کررہے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ احمدیوں اور عام مسلمانوں میں مذہبی طور پر اتحاد عمل ناممکن ہے۔ لیکن سیاسی طور` جس طرح ایک حنفی` ایک شیعہ کو انگیز کرسکتا ہے۔ جس طرح ایک دیوبندی ایک بریلوی کو برداشت کرسکتا ہے کیا احمدی جماعت سے سیاسی تعلقات بھی اسی طرح نہیں رہ سکتے؟ ہم کو امید ہے کہ مسلمان اس تحریک پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔۲۲
حضرت امیر المومنینؓ کا بصیرت افروز تبصرہ )خطبہ جمعہ میں(
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے حیرت انگیز بیان پر ۲۴۔ مئی ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت بصیرت
افروز تبصرہ کیا۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>ڈاکٹر سر اقبال کا بیان ۔۔۔۔۔۔۔ پڑھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی۔ کیونکہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ۱۹۳۱ء میں جب کشمیر کمیٹی کا آغاز ہوا` شملہ میں زور دے کر مجھے اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جو کشمیریوں کی آئینی امداد کے لئے قائم کی گئی تھی۔ حالانکہ وہ خالص اسلامی کام تھا۔
پس اس وقت تو ہم مسلمان تھے۔ لیکن آج کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ اسلامی جماعت ہی نہیں۔ اگر جماعت احمدیہ اسلامی جماعت نہیں تو کیوں ۱۹۳۱ء میں سراقبال نے زور دے کر مجھے ایک اسلامی کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا۔ کیا ۱۹۳۱ء میں مجھے پریذیڈنٹ بنانے والے انگریزوں کے ایجنٹ تھے جو آج کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کی حمایت کی وجہ سے یہ سلسلہ ترقی کررہا ہے؟
اس وقت میری پریذیڈنٹی پر زور دیتے والے دو ہی شخص تھے` ایک خواجہ حسن نظامی صاحب اور دوسرے ڈاکٹر سراقبال۔ خواجہ صاحب تو اس موقع پر ہماری جماعت کے خلاف بولے نہیں۔ اس لئے ان کے متعلق میں کچھ نہیں کہتا۔ لیکن ڈاکٹر سر اقبال چونکہ ہمارے خلاف بیان دے چکے ہیں اس لئے ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ۱۹۳۱ء میں انہوں نے کیوں ایک اسلامی کمیٹی کا مجھے پریذیڈنٹ بنایا؟ اب کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو عام مسلمانوں میں اثر و اقتدار کشمیر کمیٹی میں کام کرنے کی وجہ سے ہی حاصل ہوا۔ حالانکہ اس کمیٹی کی صدارت ڈاکٹر صاحب کے زور دینے کی وجہ سے مجھے ملی۔
پس کیوں ۱۹۳۱ء میں انہوں نے احمدیوں کو مسلمان سمجھا؟ اور کیوں اب آکر انہیں محسوس ہوا کہ جماعت احمدیہ کو مسلمانوں میں سے الگ کر دینا چاہئے؟ یا تو انہیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ اس وقت ہماری حمایت کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے وہ روپے لے کر آئے تھے جو ان کی جیب میں اچھل رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شامل کرکے ان کی طاقت کو توڑ دیں اور یا یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ اس وقت احمدیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور اب جوکہہ رہے ہیں کہ انگریزوں نے احمدیوں کو طاقت دی تو غلط کہہ رہے ہیں۔ آخر ہمارے عقائد بدلے تو نہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال کو اپنی رائے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بلکہ وہی عقائد ہم اب رکھتے ہیں جو ۱۹۳۱ء میں اور اس سے پہلے تھے۔ مگر ۱۹۳۱ء میں تو ہم ڈاکٹر سراقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیڈر` ان کے نمائندہ اور ان کے راہ نما ہوسکتے تھے اور ڈاکٹر اقبال میری صدارت پر زور دے سکتے اور میری صدارت میں کام کرسکتے تھے۔ لیکن اب ہمیں سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رکھنے تک کے لئے تیار نہیں۔ ۱۹۳۱ء میں تو ہمارے اسلام کا ڈاکٹر اقبال صاحب کو یہاں تک یقین تھا کہ جب یہ سوال پیش ہوا کہ وہ کمیٹی جو انتظام کے لئے بنائی جائے گی اس کے کچھ اور ممبر بھی ہونے چاہئیں اور ممبروں کے انتخاب کے متعلق بعض قواعد وضع کرلینے چاہئیں تو ڈاکٹر سر اقبال نے کہا کوئی قوانین بنانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں صدر صاحب پر پورا پور اعتماد ہے۔ اور ہمیں چاہئے کہ ہم ممبروں کے انتخاب کا معاملہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔ وہ جسے چاہیں رکھیں جسے چاہیں نہ رکھیں۔
پھر ہنس کر کہا میں تو نہیں کہتا لیکن اگر سارے ممبر آپ نے احمدی ہی رکھ لئے تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ ان لوگوں نے کمیٹی کے تمام ممبر احمدی بنالئے۔ اس لئے آپ ممبر بناتے وقت احتیاط کریں اور کچھ دوسرے مسلمانوں میں سے بھی لے لیں اور سارے ممبر احمدی نہ بنائیں۔ لیکن آج سر اقبال کو یہ نظر آتا ہے کہ احمدی مسلمان۲۳ ہی نہیں حالانکہ اس عرصہ میں کوئی نئی بات ہمارے اندر پیدا نہیں ہوئی۔
پھر مجھے تعجب ہے کہ ہماری مخالفت میں اس حد تک یہ لوگ بڑھ گئے ہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال جیسے انسان جو مسلمانوں کی ایک جماعت کے لیڈر` فلاسفر` شاعر اور نہایت عقلمند انسان سمجھے جاتے ہیں۔ انگریزی حکومت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے احمدیوں کو کیوں پنپنے دیا؟ شروع میں ہی اس تحریک کو کیوں کچل نہ دیا؟ کیونکہ ان کے نزدیک اگر نئی تحریکات کا مقابلہ نہ کیا جائے تو اس طرح اکثریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ پس ان کے نزدیک حکومت کا فرض تھا کہ احمدیت کو کچل دیتی۔ بلکہ انہیں شکوہ ہے کہ انگریزوں نے تو اتنی بھی عقلمندی نہ دکھائی جتنی روما کی حکومت نے حضرت مسیح ناصری کے وقت میں دکھائی تھی۔ انہوں نے اتنا تو کیا کہ حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکا دیا۔ گو یہ دوسری بات ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے انہیں بچالیا۔
اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ رومی حکومت نے جب حضرت مسیح ناصریؑ کو صلیب پر لٹکایا تو اس نے ایک جائز` مستحسن اور قابل تعریف فعل کیا اور اچھا کیا جو یہودیوں کے شوروغوغا کو سنکر عیسائیت کے بانی پر ہاتھ اٹھایا۔
یا تو ان لوگوں کو اتنا غصہ آتا ہے کہ اگر ہم حضرت مسیح ناصری کو وفات یافتہ کہہ دیں تو ان کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے یا اب احمدیت کی مخالفت میں عقل اس قدر ماری گئی ہے کہ کہا جاتا ہے حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکانے کا فعل جو رومیوں نے کیا وہ بہت اچھا تھا گو پورا اچھا کام نہیں کیا کیونکہ وہ بچ رہے۔ ان کا فرض تھا کہ اگر حضرت مسیح ناصری آسمان پر چلے گئے تھے تو رومی انہیں آسمان سے کھینچ لاتے اور اگر کشمیر چلے گئے تھے تو وہاں سے پکڑ لاتے اور ان کے سلسلہ کا خاتمہ کردیتے۔ تاکہ یہود کے اتحاد ملت میں فرق نہ آتا۔ مگر انگریزوں سے تو بہرحال وہ زیادہ عقلمند تھے کہ انہوں نے اپنی طرف سے انہیں صلیب پر لٹکا دیا اور اب ڈاکٹر سر اقبال کو شکوہ ہے کہ انگریزوں نے اتنی جرات بھی نہ دکھائی اور بناوٹی طور پر بھی حضرت مرزا صاحب کو سزا نہ دی۔۲۴
یہ بیان ہے جو ڈاکٹر سر اقبال نے دیا اور مسلمان خوش ہیں کہ کیا اچھا بیان ہے۔ حالانکہ اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہوسکتے کہ جیسے رومیوں نے حضرت مسیح ناصریؑ سے سلوک کیا تھا ویسا ہی سلوک انگریزوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کرنا چاہئے تھا۔ اگر اس فقرہ سے ہزاروں حصہ کم بھی کسی احمدی کے منہ سے نکل جاتا تو ایک طوفان مخالفت برپا ہوجاتا اور احراری شور مچانے لگ جاتے کہ مسیح ناصریؑ کی توہین کر دی گئی لیکن اب چونکہ یہ الفاظ اس شخص نے کہے ہیں جو ان کا لیڈر ہے اس لئے اگر وہ رومیوں کے مظالم کی تعریف بھی کرجائیں تو کہا جاتا ہے واہ وا! کیا خوب بات کہی!! احمدی رسول کریم~صل۱~ کی تعریف کریں تو آپ کی ہتک کرنے والے قرار پائیں۔ اور یہ حضرت مسیحؑ کی کھلی کھلی توہین کریں تو آپ کی عزت کرنے والے سمجھے جائیں۔
یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حصہ ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں نجات اس کے لئے ناممکن ہوگئی ہے۔ وہ ہماری دشمنی میں ہرچیز کو توڑنے کے لئے تیار ہیں۔ وہ ہماری عداوت میں اسلام پر تبر چلانے` رسول کریم~صل۱~ کی عزت پر تبر چلانے اور پہلے انبیاء کی عزتوں پر تبر چلانے کے لئے بھی تیار ہیں اور صرف اس ایک مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کچل دی جائے۔ لیکن جیسے اسلام اور رسول کریم~صل۱~ اور پہلے انبیاء ¶پر جوتبر چلائے جائیں گے وہ رائیگاں جائیں گے۔ اسی طرح پر وہ تبر جو جماعت احمدیہ پر چلایا جائے گا۔ آخر چکر کھاکر انہی کے پائوں پر پڑے گا اور جماعت احمدیہ کو ایک ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا<۔۲۵
حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز تبصرہ )مضمون کی صورت میں(
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ میں تبصرہ کرنے کے بعد >ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمدیہ جماعت( کے عنوان سے ایک نہایت
محققانہ مضمون بھی تحریر فرمایا جو >الفضل< ۱۸۔ جولائی ۱۹۳۵ء میں چھپنے کے علاوہ ٹریکٹ کی شکل میں بھی شائع ہوا۔ اس قیمتی مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمدیہ جماعت
سرمحمد اقبال صاحب کو کچھ عرصہ سے میری ذات سے خصوصاً اور جماعت احمدیہ سے عموماً بغض پیدا ہوگیا ہے اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ یا تو کبھی وہ انہی عقائد کی موجودگی میں جو ہماری جماعت کے اب ہیں جماعت احمدیہ سے تعلق موانست اور مواخات رکھنا برا نہیں سمجھتے تھے یا اب کچھ عرصہ سے وہ اس کے خلاف خلوت اور جلوت میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں ان وجوہ کے اظہار کی ضرورت محسوس نہیں کرتا جو اس تبدیلی کا سبب ہوئے ہیں جس نے ۱۹۱۱ء کے اقبال کو جو علی گڑھ کالج میں مسلمان طلباء کو تعلیم دے رہا تھا کہ >پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں<۲۶ ۱۹۳۵ء میں ایک دوسرے اقبال کی صورت میں بدل دیا جو یہ کہہ رہا ہے کہ۔
>میرے نزدیک قادیانیت سے بہائیت زیادہ ایماندارانہ ہے کیونکہ بہائیت نے اسلام سے اپنی علیحدگی کا اعلان واشگاف طور پر کردیا۔ لیکن قادیانیت نے اپنے چہرے سے منافقت کی نقاب الٹ دینے کے بجائے اپنے آپ کو محض نمائشی طور پر جزواسلام قرار دیا اور باطنی طور پر اسلام کی روح اور اسلام کے تخیل کو تباہ و برباد کرنے کی پوری پوری کوشش کی<۔
)زمیندار ۵۔ مئی ۱۹۳۵ء(
یعنے ۱۱ء کی احمدیہ جماعت آج ہی کے عقائد کے ساتھ صحابہؓ کا خالص نمونہ تھی لیکن ۱۹۳۵ء کی احمدیت بہائیت سے بھی بدتر ہے۔ اس بہائیت سے جو صاف لفظوں میں قرآن کریم کو منسوخ کہتی ہے۔ جو واضح عبارتوں میں بہاء اللہ کو ظہور الٰہی قرار دیتے ہوئے رسول کریم~صل۱~ پر ان کو فضیلت دیتی ہے گویا ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے نزدیک اگر ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کی رسالت کو منسوخ قرار دیتا` قرآن کریم سے بڑھ کر تعلیم لانے کا مدعی ہوتا` نمازوں کو تبدیل کردیتا اور قبلہ کو بدل دیتا ہے اور نیا کلمہ بناتا اور اپنے لئے خدائی کا دعویٰ کرتا ہے حتیٰ کہ اس کی قبر پر سجدہ کیا جاتا ہے تو بھی اس کا وجود ایسا برا نہیں مگر جو شخص رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبین قرار دیتا` آپ کی تعلیم کو آخری تعلیم بتاتا` قرآن کریم کے ایک ایک لفظ ایک ایک حرکت کو آخر تک خداتعالیٰ کی حفاظت میں سمجھتا ہے۔ اسلامی تعلیم کے ہرحکم پر عمل کرنے کو ضروری قرار دیتا ہے اور آئندہ کے لئے سب روحانی ترقیات کو رسول کریم~صل۱~ کی فرمانبرداری اور غلامی میں محصور سمجھتا ہے وہ برا اور بائیکاٹ کرنے کے قابل ہے۔
دوسرے لفظوں میں سرمحمد اقبال صاحب مسلمانوں سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ جو شخص رسول کریم~صل۱~ کی رسالت کو منسوخ کرے۔ قرآن کریم کے بعد ایک نئی کتاب لانے کا مدعی ہو۔ اپنے لئے خدائی کا مقام تجویز کرے اور اپنے سامنے سجدہ کرنے کو جائز قرار دے۔ جس کے خلیفہ کی بیعت فارم میں صاف لفظوں میں لکھا ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے` وہ بانی سلسلہ احمدیہ سے اچھا ہے جو اپنے آپ کو خادم رسول اکرم~صل۱~ قرار دیتے ہیں۔ اور قرآن کریم کی اطاعت کو اپنے لئے ضروری قرار دیتے ہیں اور کعبہ کو بیت اللہ اور کلمہ کا مدار نجات سمجھتے ہیں۔ کیونکہ بہائی تو رسول کریم~صل۱~ کی ذات پر اور قرآن کریم پر حملہ کرتے ہیں۔ لیکن احمدی سرمحمد اقبال اور ان کے ہمنوائوں کو روحانی بیمار قرار دے کر انہیں اپنے علاج کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ان کے ایمان کی کمزوریوں کو ان پر ظاہر کرتے ہیں۔ بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا۔
سر محمد اقبال صاحب اس عذر کی پناہ نہیں لے سکتے کہ میرا صرف مطلب یہ ہے کہ بہائی منافق نہیں اور احمدی منافق ہیں۔ کیونکہ اول تو یہ غلط ہے کہ بہائی کھلے بندوں اپنے مذہب کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر سر محمد اقبال یہ دعویٰ کریں تو اس کے صرف یہ معنی ہوں گے کہ بیسویں صدی کا یہ مشہور فلسفی ان فلسفی تحریکات تک سے آگاہ نہیں جن سے اس وقت کے معمولی نوشت و خواند والے لوگ آگاہ ہیں۔ سرمحمد اقبال کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہائی اپنی کتب عام طور پر لوگوں کو نہیں دیتے بلکہ انہیں چھپاتے ہیں۔ وہ ہر ملک میں الگ الگ عقائد کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ امریکہ میں صاف لفظوں میں بہاء اللہ کو خدا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی ممالک میں اس کی حیثیت ایک کامل ظہور کی بتاتے ہیں۔ وہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھ لیتے ہیں۔ ویسا ہی وضو کرتے ہیں اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے ہیں جتنی کہ مسلمان۔ لیکن الگ طور پر وہ صرف تین نمازوں کے قائل ہیں اور ان کے ہاں نماز پڑھنے کا طریق بھی اسلام سے مختلف ہے۔
پھر یہ بھی درست نہیں کہ احمدی منافق ہیں اور لوگوں سے اپنے عقائد چھپاتے ہیں۔ اگر احمدی مداہنت سے کام لیتے تو آج سرمحمد اقبال کو اس قدر اظہار غصہ کی ضرورت ہی کیوں ہوتی احمدی ہندوستان کے ہر گوشے میں رہتے ہیں۔ دوسرے فرقوں کے لاکھوں کروڑوں مسلمان ان کے حالات سے واقف ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے` رسول کریم~صل۱~ کی بتائی ہوئی نماز کے مطابق نماز پڑھنے والے` روزے رکھنے والے` حج کرنے والے اور زکٰوۃ دینے والے ہیں۔ وہ کون سی بات ہے جو احمدی چھپاتے ہیں اور سرمحمد اقبال کے پاس وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے انہوں نے یہ معلوم کیا کہ احمدیوں کے دل میں کچھ اور ہے مگر ظاہر وہ کچھ اور کرتے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ تو اس قدر محتاط تھے کہ جب ایک صحابی نے ایک شخص کو جس نے عین اس وقت کلمہ پڑھا تھا جب وہ اسے قتل کرنے لگے تھے` قتل کر دیا۔ اور عذر یہ رکھا کہ اس نے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ھل شققت قلبہ کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا ہے؟ لیکن ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب آج دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ قوم جس کے افراد نے افغانستان میں اپنے عقائد چھپانے پسند نہ کئے لیکن جان دے دی` ساری کی ساری منافق ہے اور ظاہر کچھ اور کرتی ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہے۔
اگر یہ الزام کوئی ایسا شخص لگاتا جسے احمدیوں سے واسطہ نہ پڑا ہوتا تو میں اسے معذور سمجھ لیتا۔ لیکن سر محمد اقبال معذور نہیں کہلا سکتے۔ ان کے والد صاحب مرحوم احمدی تھے۔ ان کے بڑے بھائی صاحب شیخ عطا محمد صاحب احمدی ہیں۔ ان کے اکلوتے بھتیجے شیخ محمد اعجاز احمد صاحب سب جج احمدی ہیں۔۲۷ اسی طرح ان کے خاندان کے اور کئی افراد احمدی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی صاحب حال ہی میں کئی ماہ ان کے پاس رہے ہیں۔ بلکہ جس وقت انہوں نے یہ اعلان شائع کیا ہے اس وقت بھی سرمحمد اقبال صاحب کی کوٹھی وہ تعمیر کرا رہے تھے۔ کیا سرمحمد اقبال صاحب نے ان کی رہائش کے ایام میں انہیں منافق پایا تھا یا خود اپنی زندگی سے زیادہ پاک زندگی ان کی پائی تھی۔ ان کے سگے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب ایسے نیک نوجوان ہیں کہ اگر سرمحمد اقبال غور کریں تو یقیناً انہیں ماننا پڑے گا کہ ان کی اپنی جوانی اس نوجوان کی زندگی سے سینکڑوں سبق لے سکتی ہے۔ پھر ان شواہد کی موجودگی میں ان کا کہنا کہ احمدی منافق ہیں اور وہ ظاہر میں رسول کریم~صل۱~ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن دل سے رسول کریم~صل۱~ کے دین کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟
میں تمام ان شریف مسلمانوں سے جو اسلام کی محبت رکھتے ہیں` درخواست کرتا ہوں کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس صورت حالات پر غور کریں جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے اعلان نے پیدا کردی ہے اور دیکھیں کہ کیا اس قسم کے غیظ و غضب کے بھرے ہوئے اعلان مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنائیں گے یا خراب کریں گے اور سوچیں کہ ایک شخص جو اپنے احمدی بھائی کو بلوا کر اس سے اپنی کوٹھی بنواتا ہے دوسرے مسلمانوں کو ان کے بائیکاٹ کی تعلیم دیتا ہے کہاں تک لوگوں کے لئے راہنما بن سکتا ہے اور اسی طرح وہ شخص جو رسول کریم~صل۱~ کی ذات پر کھلا حملہ کرنے والے کو اچھا قرار دیتا ہے اور اپنے ایمان پر اعتراض کرنے والے کو ناقابل معافی قرار دیتا ہے کہاں تک مسلمانوں کا خیر خواہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کاش سرمحمد اقبال اس عمر میں ان امور کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ذکر الٰہی اور احکام اسلام کی بجاآوری کی طرف توجہ کرتے اور پیشتر اس کے کہ توبہ کا دروازہ بند ہوتا` اپنے نفس کی اصلاح کرتے تا خداتعالیٰ ان کو موت سے پہلے صداقت کے سمجھنے کی توفیق دیتا اور وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے سچے متبع کے طور پر اپنے رب کے حضور میں پیش ہوسکتے۔ واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ<۲۸`۲۹
ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا ردعمل
حضرت امیرالمومنینؓ کا مدلل مضمون اور آپ کے بیان فرمودہ حقائق کے رد میں ڈاکٹر صاحب موصوف کو آخر دم تک قلم اٹھانے کی جرات نہ ہوسکی۔ البتہ انہوں نے اپنے فلسفیانہ انداز میں احمدیت پر تنقید ضرور جاری رکھی۔ خصوصاً پنڈت جواہر لال نہرو کے دو مضامین۳۰ کے جواب میں )جو کلکتہ کے رسالہ >ماڈرن ریویو< میں شائع ہوئے تھے( انہوں نے احمدیت پر زبردست نکتہ چینی کی۔
ایک ضمنی بات
یہاں ضمناً یہ بتانا شاید غیر مناسب نہ ہوگا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال شعر و سخن اور فلسفہ دانی میں ایک بلند پایہ شخصیت کے حامل تھے مگر جہاں تک اسلامی نظریات و مبادیات کا تعلق ہے۔ انہیں خود مسلم تھا کہ۔
>میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں<۔۳۱
اسی تعلق میں ایک بار انہوں نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ کو خط میں لکھا۔
>میں جو اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خداتعالیٰ نے مجھ کو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسول کی میں کوئی خدمت کرسکتا<۳۲
اس کے مقابل جہاں تک عمل کا تعلق ہے` ان کا اپنا اعتراف ہے کہ ~}~
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا۳۳
اسی طرح ایک بار انہوں نے اپنی عملی زندگی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ
>میں تو قوال ہوں میں گاتا ہوں تم ناچتے ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی تمہارے ساتھ ناچنا شروع کردوں<۳۴
انہوں نے ایک اور موقعہ پر یہ بھی اعتراف کیا کہ
>اگر میں اپنی پیش کردہ تعلیمات پر عمل بھی کرتا تو شاعر نہ ہوتا بلکہ مہدی ہوتا<۳۵
علامہ احسان اللہ خاں تاجور نے اپنے رسالہ >شاہکار< میں لکھا ہے کہ
>علامہ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔ میں کمال قابلیت کے ساتھ طاقت گفتار کی بہ نسبت روح کردار بہت کم ہے<۳۶
بلکہ امیر شریعت احرار مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری تو صاف کہا کرتے تھے کہ
>اقبال کا قلم تمام عمر صحیح رہا اور قدم اکثر و بیشتر غلط<۳۷
ڈاکٹر صاحب کے بعض عجیب و غریب نظریات
عقیدہ و عمل کی اسی امتزاجی کیفیت کا نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال نے احمدیوں کو ختم نبوت اور اسلام کا باغی ثابت کرنے کے لئے پنڈت نہرو کے جواب میں بعض ایسے نظریات پیش کردیئے جن کی تغلیط بعد کو خود ان کے مداحوں کو کرنا پڑی۔ مثلاً انہوں نے یہ نظریہ اختراع کیا کہ غلام قوموں کے انحطاط کے نتیجہ میں الہام جنم لیتا ہے۔ اسی خیال کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں یوں باندھا ہے۔ ~}~
محکوم۳۸ کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز
جناب حافظ اسلم صاحب جیرا جپوری نے اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔
>یہ خالص شاعرانہ استدلال ہے۔ غالب کی طرح جس نے کہا ~}~
کیوں رد قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
>جس طرح مگس کی قے کہہ دینے سے شہد کی لطافت اور شیرینی میں فرق نہیں آسکتا۔ اسی طرح حکومت کی نسبت سے الہام بھی اگر حق ہو تو غارت گر اقوام نہیں ہوسکتا۔ خود حضرت عیٰسی علیہ السلام رومی سلطنت کے محکوم تھے جن کی نسبت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے۔ ~}~
فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا
نبی عفت و غمخواری و کم آزاری
بلکہ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام محکوم اقوام ہی میں معبوث کئے گئے جس کے خاص اسباب و علل تھے ۔۔۔۔۔۔۔ دراصل نبوت کی صداقت کا معیار حاکمیت یا محکومیت پر نہیں ہے۔ بلکہ خود الہام کی نوعیت پر ہے<۔4] fts[۳۹
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے اس جوابی مضمون میں سے بطور نمونہ یہ صرف ایک مثال پیش کی گئی ہے ورنہ انہوں نے اس نوع کی لغزشیں کھائی ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اس واضح حقیقت کا تفصیلی جائزہ لینے کے لئے اخبار >الفضل )قادیان( کا چودہ قسطوں پر مشتمل سلسلہ مضامین مطالعہ کرنا ضروری ہے۔۴۰
جو ۱۹۳۶ء کے وسط اول میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے جواب میں شائع کیا گیا اور جس میں ان کے بیان پر اس خوبی` جامعیت اور مدلل رنگ میں روشنی ڈالی گئی کہ بس دن ہی چڑھ گیا۔ اور سر محمد اقبال اور ان کے مداحوں پر ہمیشہ کے لئے حجت تمام ہوگئی۔
مسئلہ وفات مسیحؑ کی معقولیت کا واضح اقرار
بالاخر یہ بتانا از بس ضروری ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے جہاں جماعت احمدیہ کے خلاف بہت سے فلسفیانہ اعتراضات کئے ہیں وہاں آپ جماعت احمدیہ کے بنیادی عقیدہ وفات مسیح کے بارے میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ۔
>جہاں تک میں اس تحریک کا مفہوم سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک فانی انسان کی مانند جام مرگ نوش فرماچکے ہیں نیز یہ کہ ان کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا ایک مثیل پیدا ہوگا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے<۔۴۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اظہار مسرت ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ایک خیال پر
اس واضح اقرار حق کے علاوہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے ایک نہایت اہم اور قیمتی نکتہ بھی بیان فرمایا جو ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ۔
>بانی احمدیت کے الہامات کی اگر دقیق النظری سے تحلیل کی جائے تو یہ ایک ایسا موثر طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ سے ہم اس کی شخصیت اور اندرونی زندگی کا تجزیہ کرسکیں گے اور مجھے امید ہے کہ کسی دن نفسیات جدید کا کوئی متعلم اس کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے گا<۴۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اس خیال پر ازحد خوشی ہوئی اور حضور نے ایک بار اس تجویز کا پرجوش خیرمقدم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>مجھے اس حوالہ کو پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ماھر نفسیات بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات کا تجزیہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کرے گا اور صحیح تجزیہ کرے گا تو وہ لازماً احمدیت کی صداقت کا قائل ہو جائے گا پس یہ نصیحت علامہ اقبال مرحوم کی ہمارے لئے نہایت ہی مفید ہے۔ اگر کوئی شخص غلط تجزیہ کرے گا تو ہماری زبان اور قلم سلامت ہیں۔ ہم جواب دیں گے اور بتائیں گے کہ یہ تجزیہ تمہارا غلط ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم تو کہیں گے کاش بہت سے ایسے لوگ کھڑے ہوں۔ اگر ایسے لوگ کھڑے ہوں گے تو وہ یقیناً احمدی جماعت کی تائید کرنے والے ہوں گے اور ہماری ترقی کا موجب ہوں گے۔ اور اگر وہ تعصب سے کام لیں گے تو پھر بھی ہمارے لئے کامیابی ہی کی صورت نکلے گی۔ کیونکہ ہم ان کی کمزوریاں ظاہر کریں گے اور دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ ہمارا مقابلہ کرنے والا خواہ کسی رنگ میں بھی پیش ہو وہ صداقت سے دور ہوتا ہے اور بنیادی کمزوریوں میں مبتلا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک جو باتیں ایک رنگ میں ہمارے فائدہ کی ہوں ان پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اور ایسے لوگوں کا ممنون ہونا چاہئے جو کہ دانستہ یا نادانستہ سچائی کے معلوم کرنے کے لئے ایک رستہ کھولتے ہیں<۔۴۳
دوسرا باب )فصل سوم(
مجاہدین تحریک جدید کا بیرونی ممالک میں جانے والا پہلا قافلہ
۶۔ مئی ۱۹۳۵ء کا دن تاریخ احمدیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس روز تحریک جدید کے ماتحت بیرونی ممالک میں جانے والے
مجاہدین کا پہلا قافلہ جو مندرجہ ذیل مبلغین پر مشتمل تھا قادیان سے روانہ ہوا۔
۱۔ مولوی غلام حسین صاحب ایاز )سنگاپور( ۲۔ صوفی عبدالغفور صاحب )چین(
۳۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز )جاپان(۴۴`۴۵]ydob [tag
دارالتبلیغ سٹریٹس سیٹلمینٹ
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سنگاپور` ملاکا اور پنیانگ کی ریاستوں میں تبلیغ اسلام کے لئے مولانا غلام حسین صاحب ایاز۴۶ کو روانہ فرمایا۔ روانگی کے وقت آپ کو صرف اخراجات سفر دیئے گئے۔ آپ ایک لمبے عرصہ تک خود آمد پیدا کرکے گزارہ کرتے اور مشن چلاتے رہے۔
ایاز صاحب نے سنگاپور میں پہنچتے ہی اس خطہ زمین کے مذہبی اور تجارتی حالات کا جائزہ لیا۴۷]4 [rtf اور ساتھ ہی دیوانہ وار تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف ہوگئے۔ یہاں آپ کو شدید مخالفت کا سامنا ہوا۔ مگر آپ مجنونانہ رنگ میں مصروف جہاد رہتے۔
آپ کی کوششوں کا پہلا ثمرہ حاجی جعفر صاحب بن حاجی وانتار صاحب۴۸ تھے جو جنوری ۱۹۳۷ء۴۹ میں آپ کی تبلیغ سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری سابق انچارج سنگاپور مشن کا بیان ہے کہ۔
>سنگاپور میں قیام جماعت کے ابتدائی ایام میں مکرم حاجی صاحب مرحوم نے حضرت مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی معیت میں سلسلہ کی خاطر بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ دو تین مرتبہ بعض معاندین کی طرف سے زدوکوب اور ماریں بھی کھائیں مگر خدا کے فضل سے ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ ایک مرتبہ بعض مخالف لوگوں کی انگیخت پر دو اڑھائی سو مسلح افراد نے آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ اور اپنے ایک عالم کو ساتھ لاکر حاجی صاحب مرحوم سے اسی وقت احمدیت سے منحروف ہونے کا مطالبہ کیا اور بصورت دیگر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکی دی۔ حاجی صاحب مرحوم نے اسی وقت اونچی آواز سے تشہد پڑھ کر اعلان کیا کہ میں کس بات سے توبہ کروں۔ میں تو پہلے ہی خدا کے فضل سے ایک سچا مسلمان ہوں۔ اور اگر میں نے کسی گناہ سے توبہ کرنی بھی ہو تو بندوں کے سامنے نہیں بلکہ میں اللہ کے سامنے اپنے سب گناہوں کی معافی مانگتا ہوا اس سے ملتجی ہوں کہ وہ مجھے معاف کرے۔ جب اس کے باوجود مجمع مشتعل رہا۔ اور مکان میں گھس کر جانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا۔ تو مرحوم مومانہ جرات اور ہمت سے ایک چھرا ہاتھ میں لے کر اپنے مکان کی حدود میں اپنا دروازہ روک کر کھڑے ہوگئے اور ببانگ دہل یہ اعلان کردیا کہ مرنا تو ہر ایک نے ایک ہی مرتبہ ہے۔ کیوں نہ سچائی کی خاطر بازی لگا دی جائے۔ اب اگر تم میں سے کسی باپ کے بیٹے میں جرات ہے کہ بری نیت سے میرے مکان میں گھسنے کی کوشش کرے تو آگے بڑھ کر دیکھ لے کہ اس کا کیا حشر ہوگا۔
مکان کی دوسری سمت سے حاجی صاحب مرحوم کا بہادر لڑکی باہر نکل آئی اور ہاتھوں میں ایک مضبوط ملائی تلوار نہایت جرات سے گھماتے ہوئے اس نے بھی سارے مجمع کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا کہ میرے والد جب سے احمدی ہوئے ہیں۔ میں نے ان میں کوئی خلاف شرع یا غیر اسلامی بات نہیں دیکھی۔ بلکہ ایمان اور عملی ہر لحاظ سے وہ پہلے سے زیادہ پکے مسلمان اور اسلام کے شیدائی معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ احمدیت نے انہیں اسلام سے مرتد کردیا ہے۔ پس اگر آپ لوگوں میں سے کسی نے میرے باپ پر حملہ کرنے کی جرات کی یا ناجائز طور پر ہمارے گھر کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو وہ جان لے کہ اس کی خیر نہیں۔ اگرچہ میں عورت ہوں۔ تاہم تم یاد رکھو کہ حملے کی صورت میں میں اس تلوار سے تین چار کو مار گرانے سے پہلے نہیں مروں گی۔ اب جسکا جی چاہے آگے بڑھ کر اپنی قسمت آزمالے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس مشتعل مجمع پر ایسا رعب طاری کیا کہ باوجود اس کے کہ لوکل ملائی پولیس کے بعض افراد وہاں کھڑے قیام امن کے بہانے مخالفین احمدیت کی کھلی تائید کررہے تھے۔ پھر بھی مجمع میں سے کسی فرد کو بھی مکرم حاجی صاحب کے گھر میں گھسنے یا حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ آخر جب کافی وقت گئے تک وہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو حاجی صاحب مرحوم نے ان کو مخاطب کرکے کہا۔ کہ میں خدا کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے بھی مسلمان تھا اور قبول احمدیت کے بعد تو زیادہ پکے طور پر مسلمان ہوگیا ہوں کیونکہ احمدیت اسلام ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس پر مخالفین شرمندہ ہوکر آہستہ آہستہ منتشر ہوگئے<۔۵۰
ایاز صاحب ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو سنگاپور سے ملایا کی ریاست جوہور میں تشریف لے گئے۔ اور جوہور )دارالسلطنت( رنگم` پنتیان کچیل` باتو پاہت` موار` کوتاتینگی` بنوت وغیرہ شہروں کا تبلیغی دورہ کیا اور انگریزی اور ملائی زبان میں ٹریکٹ تقسیم کئے۔ دس روز بعد آپ نے ریاست ملاکا میں قدم رکھا۔ اور اس کے بعض مشہور شہروں مثلاً جاسین` آلور گاجا` مرلیمون` ستامپین اور تنجونگ تک پیغام احمدیت پہنچایا۔ ۲۱۔ اپریل کو آپ ملاکا سے روانہ ہوکر >نگری سمبیلن< کے شہر سرمبان SEREMBAN میں پہنچے۔ ۲۴۔ اپریل کو ایف` ایم ایس کے مرکز کوالالمپور تشریف لے گئے۔۵۱
سنگاپور میں احمدیت کا بیج بویا جاچکا تھا جو آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا اور سعید روحیں کھینچی آرہی تھیں۔ کامیابی کے یہ ابتدائی آثار دیکھ کر وسط ۱۹۳۷ء میں ملایا میں مخالفت کا بازار گرم ہوگیا۔ پہلے ایک پندرہ روزہ اخبار >ورتا ملایا< نے کھلم کھلا مخالفت کی۔۵۲ پھر علاقہ کے علماء نے آپ کی نسبت واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ اس ضمن میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا بیان ہے کہ۔
>۱۹۳۸ء یا ۱۹۳۹ء میں سنگاپور کی جامع مسجد میں )جسے مسجد سلطان کہا جاتا ہے( ایک عالم کا ہماری جماعت کے خلاف لیکچر تھا مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز ۔۔۔۔۔۔۔ بھی وہاں تشریف لے گئے۔ مولوی )عبدالعلیم صاحب صدیقی( نے دوران تقریر میں کہا کہ مرزائیوں کا قرآن اور ہے۔ وہ نہیں ہے جو کہ حضرت سیدنا محمد~صل۱~ پر اترا تھا۔ اس پر مکرم مولانا غلام حسین صاحب ایاز نے بڑی جرات سے کھڑے ہوکر سب کے سامنے اپنے بیگ سے قرآن کریم نکالا اور صدیقی صاحب کو چیلنج کیا کہ دیکھو یہ ہے ہمارا قرآن آپ اپنا قرآن نکال کر مقابلہ و موزانہ کرلیں اگر ذرہ بھر زیر زبر کا بھی فرق ہو تو بے شک ہمیں ملزم یا کافر قرار دے لیں ورنہ اس قسم کی غلط بیانیاں کرتے ہوئے خدا کا خوف کریں۔ اس مولوی نے مجمع کو ہمارے خلاف پہلے ہی مشتعل کر رکھا تھا۔ بجائے چیلنج قبول کرنے کے اس نے پبلک کو ہمارے خلاف مزید اشتعال دلایا اور کہا کہ یہ شخص کافر مرتد ہے اس کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ کوئی ہے جو کہ مسلمانوں کو اس سے نجات دلائے۔ اس پر مجمع میں سے بعض لوگوں نے مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو سخت مارا اور گھسیٹ کر مسجد سے باہر نیچے پھینک دیا وہ مسجد اوپر ہے اور نیچے تہہ خانہ یا کمرے وغیرہ ہیں۔ چنانچہ مولوی صاحب مرحوم کو سخت چوٹیں آئیں۔ کمر پر شدید چوٹ آئی اور سر پر بھی جس سے آپ نیچے گرتے ہی بے ہوش ہوگئے۔ آپ کے ساتھ ایک احمدی دوست محمد علی صاحب تھے انہوں نے بھاگ کر پولیس کو اطلاع دی۔ چنانچہ پولیس مولوی صاحب کو کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہاں سے اٹھاکر ہسپتال لے گئی۔ جہاں پر آپ کو کئی گھنٹوں کے بعد ہوش آیا اور ہفتہ عشرہ ہسپتال میں رہنا پڑا۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ کو مخالفت کی وجہ سے بعض دشمنوں نے چلتی بس سے دھکا دے کر باہر بازار میں پھینک دیا تھا جس سے آپ کے منہ اور سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچالیا<۔۵۳
یکم ستمبر ۱۹۳۷ء کو آپ ملایا کی ایک ریاست سلانگور میں تشریف لے گئے۔۵۴ اور پہلے کوالالمپور اور پھر کلانگ میں ٹھہرے۔ کلانگ میں پانچ اشخاص )جن میں حافظ عبدالرزاق بھی تھے( مشرف باحمدیت ہوئے۔ جنوری ۱۹۴۰ء تک یہاں پندرہ احمدیوں پر مشتمل ایک جماعت پیدا ہوگئی۔۵۵body] gat[
یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی تو جاپان نے دو تین ماہ کے اندر اندر مانچوکو اور شمالی چین کے علاوہ فلپائن` ہندچینی` تھائی لینڈ` ملایا` سنگاپور` جاوا` بورنیو` سیلبیس` نیوگنی اور بحرالکاہل کے بہت سے جزیروں کو اپنے زیراقتدار کرلیا۔
یہ ایام سنگاپور مشن اور مولوی ایاز صاحب کے لئے انتہائی صبر آزما تھے۔ خصوصاً جاپانیوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کی وجہ سے آپ پر بہت سختیاں کی گئیں اور خرابی صحت کے باعث سر اور ڈاڑھی کے بال قریباً سفید ہوگئے۔۵۶ آپ اس دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ >اس زمانہ میں بڑی رقت اور گداز سے دعائیں کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا مجھ سے یہ سلوک تھا کہ اکثر دفعہ بذریعہ کشف اور الہام دعا کی قبولیت اور آئندہ کامیابی کے متعلق مجھے بشارات مل جاتی تھیں اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی توجہ کی برکت تھی<۔۵۷
اس زمانہ میں آپ نے سرفروشانہ جہاد تبلیغ اور خدمت خلق کا جو نہایت اعلیٰ اور قابل رشک نمونہ دکھایا اس کا کسی قدر اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں تین چشم دید شہادتیں درج کی جاتی ہیں۔
پہلی شہادت: پہلی شہادت محمد نصیب صاحب عارف کی ہے جو سنگاپور میں جنگی قیدی رہے۔ عارف صاحب نے ہندوستان واپس آکر اپنے مشاہدات الفضل ۱۹۔ دسمبر ۱۹۴۵ء میں شائع کرائے۵۸ جن میں لکھا۔
>سنگاپور کے مبلغ مولوی غلام حسین ایاز بھی ان پرجوش مجاہدین میں سے ایک ہیں جن کا قابل رشک اخلاص اور تبلیغی انہماک ایک والہانہ رنگ رکھتا ہے۔ جاپان کے گزشتہ ساڑھے تین سالہ ملایا پر قبضہ کی وجہ سے جناب مولوی صاحب کی مساعی جمیلہ جماعت کے سامنے نہیں آسکیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب موصوف گزشتہ دس سال سے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے سنگاپور میں مقیم ہیں اور تحریک جدید کے ابتدائی مجاہدوں میں سے ہیں۔ اور تبلیغ کے ساتھ اپنے اخراجات کے لئے بھی آپ صورت پیدا کرتے ہیں۔ صرف پہلے چھ ماہ کا خرچ دفتر تحریک جدید نے دیا تھا۔
مارچ ۱۹۴۱ء میں جب یہ عاجز سنگاپور پہنچا۔ تو چند دوستوں کے ساتھ دارالتبلیغ میں گیا۔ مولوی صاحب نے اپنی تبلیغی مساعی کا ذکر جس رنگ میں کیا۔ وہ انگشت بدنداں کر دینے والا تھا۔ کس طرح انکو احمدیت کی تبلیغ کے لئے تکالیف سہنی پڑیں۔ مخالفین نے دارالتبلیغ پر خشت باری کرنا شروع کردی جس کے نتیجہ میں مولوی صاحب کو کئی کئی دن مکان کے اندر بند رہنا اور خوارک اور دیگر ضروریات کے لئے تنگ ہونا بہت تکالیف کا باعث ہوا۔ چند ماہ بعد یہ عاجز ملایا میں کوالالمپور کے مقام میں تھا۔ ایک دن اپنے ڈپو کا چندہ حکیم دین صاحب اکونٹنٹ کو دینے گیا۔ تو آپ نے بتایا۔ اس مخالفت کے نتیجہ میں پولیس نے گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بلیک شیٹ میں آپکا نام سب سے اوپر لکھوایا ہوا تھا۔ کس قدر افسوسناک بات تھی کہ احمدیت کا ایک مجاہد اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اپنے وطن سے بے وطن ہوکر جن لوگوں کی اصلاح کے لئے ان کے پاس جاتا ہے وہ اسے انتہائی تکالیف پہنچانے کے درپے ہوگئے۔ ان مخالفین کا کیا حشر ہوا۔ وہ مولوی صاحب خود بیان کیا کرتے تھے کہ سنگاپور مفتوح ہونے پر ایسے تمام لوگ جو میرے مخالف شر اور فتنہ و فساد پر آمادہ رہتے تھے ایک ایک کرکے مختلف جرموں کی پاداش میں جاپانیوں کے ہاتھوں سزا یاب ہوئے۔
سنگاپور میں لڑائی کے دوران میں مولوی صاحب کے لئے خداتعالیٰ نے ایک خاص نشان دکھایا۔ گولہ باری کے ایام میں مولوی صاحب نے لوگوں سے کہہ دیا کہ آپ میرے گھر میں بمباری کے وقت آجایا کریں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس خطرناک وقت میں مولوی صاحب کے اردگرد کے مکانات کو کافی نقصان پہنچا۔ اور کافی لوگوں کی اموات ہوئیں۔ مگر آپ کا گھر محفوظ رہا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کہ >آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے<۔ برابر پوری ہوتی رہی۔ پھر ایک اور تائید اور خدائی مدد نازل ہوئی کہ ایک جاپانی افسر مولوی صاحب کے مکان کے سامنے موٹر سائیکل سے گرگیا۔ اس کو شدید ضربات آئیں۔ جناب مولوی صاحب اس کو اٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے۔ تیمارداری اور مرہم پٹی کی اور اس کو اس کے کیمپ میں پہنچانے کا بندوبست کیا۔ اس پر وہ جاپانی افسر مولوی صاحب کو اپنی طرف سے پروانہ دے گیا کہ آپ سنگاپور میں جس طرح چاہیں رہیں۔ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی۔
خداتعالیٰ کی قدرت کا یہ عجیب کرشمہ تھا کہ جاپانی حکومت کے قبضہ کے دوران میں کسی مخالف کو سراٹھانے کی جرات نہ ہوسکی۔ حالات کے سدھر جانے سے آپکو اپنی مالی حالت درست کرنے کا بھی موقعہ مل گیا۔ اور اوائل ۴۳ء میں آپ نے تین بادبانی کشتیاں تجارت کے لئے خرید لیں۔ جن کا نام >احمد<۔ >نور< اور >محمود< رکھا۔ ان سے مولوی صاحب کو کافی مدد حاصل ہوئی۔ مگر چونکہ جنگ کی وجہ سے ملک کی اقتصادی حالت پر اثر پڑرہا تھا۔ یہ کام زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ ۴۳ء اور ۴۴ء مولوی صاحب کے لئے مالی لحاظ سے بہت کٹھن تھے۔ اس عرصہ میں جہاں ملک میں اشیاء خورد و نوش کی کمی واقع ہوگئی تھی۔ مولوی صاحب کو بھی کافی حد تک ان تکالیف میں سے گزرنا پڑا۔ مگر آپ نے نہایت صبر اور تحمل سے یہ عرصہ گزرا۔ بلکہ تبلیغی اور تنظیمی کاموں میں زیادہ وقت دینا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۴۵ء میں مولوی صاحب کی حالت خداتعالیٰ کے فضل سے پھر بہتر ہونی شروع ہوگئی۔ ہم لوگ نظر بندی کی حالت میں ان کے حالات سے اتنے آگاہ نہیں تھے۔ مگر خداتعالیٰ کی غیبی امداد سے انہوں نے تمام احمدی جنگی قیدیوں کی مدد کیلئے مختلف کیمپوں میں تقسیم کرنے کے لئے ۲۰۰۰ ہزار ڈالر کی رقم روانہ فرمائی۔ اس وقت واقعی ہم لوگوں کو روپیہ کی بڑی ضرورت تھی۔ وہ روپیہ ہم کو پہنچنے نہ پایا تھا۔ اور ہم اس کے خیال میں ہی اپنی مشکلات کا حل سوچ رہے تھے کہ صلح ہوگئی۔ اور وہ رقم مولوی صاحب کو واپس لوٹا دی گئی۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء فی الدارین خیراً۔
جناب مولوی صاحب نے اس عرصہ میں اپنی تبلیغ جاری رکھی اور جماعت کی تنظیم کا کام بھی کرتے رہے۔ سینکڑوں ملائی اس وقت احمدیت کی آغوش میں آچکے ہیں۔ آپ کی انتھک کوششیں احمدیت کا نام محض خداتعالیٰ کے فضل سے اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعائوں کے طفیل پھیلا رہی ہیں۔ جناب مولوی صاحب کو ایک عرصہ گھر سے جدا ہوئے ہوگیا ہے مگر چلتے وقت جب ہم نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ تو آپ نے فرمایا۔ >حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی یہاں سے ہلانا اپنے لئے معصیت سمجھتا ہوں<۔ آپ نے احمدی دوستوں کی واپسی پر انہیں اتنا بھی نہ کہا۔ کہ میرا فلاں پیغام میرے گھر والوں کو پہنچا دینا۔ بلکہ کہا تو یہ کہا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو میرا سلام دینا اور یہاں کی میری تبلیغی مساعی کے لئے دعا کی درخواست کرنا<۔۵۹
دوسری شہادت: دوسری شہادت یونس صاحب فاروق کی ہے جو ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۶ء کو مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز کے ذریعہ سے احمدیت سے مشرف ہوئے اور تقریباً پانچ ماہ سنگاپور میں رہنے کے بعد واپس ہندوستان آئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے نام ایک مفصل مکتوب میں لکھا کہ۔
>جب میں رخصت سے واپس لوٹا تو خوش نصیبی سے میرا یونٹ سنگاپور چلا گیا تھا۔ اس وجہ سے مجھے بھی سنگاپور آنے کا موقع مل گیا۔ اور بالکل حسن اتفاق سے ایک روز جبکہ میں اونان روڈ پر ٹہل رہا تھا اور ملایا کے مسلمانوں کی حالت پر افسوس کررہا تھا۔ یکایک میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا۔ جماعت احمدیہ قادیان سنگاپور۔ اندر گیا۔ تو دیکھا جناب مولوی غلام حسین صاحب ایاز بیٹھے تلاوت کررہے تھے۔ اس پر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ فوراً مولوی صاحب سے ملا۔ اپنے حالات سنائے ان کے حالات پوچھے اور اس کے بعد تقریباً روزانہ وہاں جانا شروع کردیا۔ اور وہاں سے سلسلہ کی کتابیں لیکر پڑھنے
‏tav.8.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
مسلمانوں کا مایہ صدناز شاعر اب سے کچھ دن قبل مسلمانوں کا نیر اقبال بن کر مطلع پنجاب پر چمکا اور مسلمانوں کو جو تعلیم دی وہ شعر مندرجہ عنوان میں پیش کی گئی ہے۔ وہی اقبال جو فرقہ بندی کو مہلک اور ذات پات کے امتیاز کو موت سمجھتا تھا` آج کچھ اور کہہ رہا ہے۔ ایک طرف اس کا مندرجہ بالا شعر ہے اور دوسری طرف اس کا وہ بیان جو حال ہی میں اس نے جماعت احمدیہ قادیان کے متعلق اخبارات کو دیا ہے۔ ان دنوں پیغاموں میں جو اجتماع ضدین ہے اس کو دیکھ کر ہم حیران ہیں کہ اس شعر کہنے والے اقبال کو اقبال سمجھیں یا اس بیان دینے والے اقبال کو اقبال۔ شاعر اقبال نے اپنے شعر میں ہم کو پنپنے کے لئے فرقہ بندی اور ذات پات کے امتیاز سے مجتنب رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ اور اب لیڈر اقبال نے ہم کو یہ سیاسی مشورہ دیا ہے کہ ہم قادیان کی جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں اور حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ قانونی حیثیت سے بھی احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھے۔
ہم کو ڈاکٹر سر محمد اقبال سے اس حد تک پورا پورا اتفاق ہے کہ عام مسلمانوں اور احمدیوں میں اعتقادات کا بہت بڑا اختلاف ہے اور اگر اس اختلاف کو شدت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو بعض صورتوں میں مذہبی اعتبار سے احمدی جماعت اور عام مسلمانوں کے درمیان اتحاد عمل ناممکن سا نظر آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ احمدیوں کو قطع نظر کرکے کیا اسی قسم کے اختلاف اہل سنت اور اہل تشیع میں کارفرما نہیں ہے؟ کیا یہی تضاد اہلسنت کی مختلف العقیدہ جماعتوں میں نہیں ہے۔ وہابی اور حنفی` بریلوی اور دیوبندی` اسی طرح مختلف اسکول ہر ہر جماعت میں موجود ہیں۔ ان میں کی ہر شاخ دوسری شاخ کو اپنے نقطہ نظر سے مرتد اور کافر گردانتی ہے اور بقول مدبرین فرنگ کے یہ تو مسلمانوں کا ایک عام مشغلہ ہے کہ ان میں کا ہرفرد دوسرے کو نہایت آسانی کے ساتھ کافر کہہ دیتا ہے۔ خیر یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون کافر۔ لیکن اس تمام اختلاف کو دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ محفوظ صورت یہی ہے کہ ہم ہرکلمہ گو کو مسلمان سمجھیں جو خدا کو ایک اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کو اس کا محبوب اور رسول سمجھتا ہو۔ اگر مسلمان کی تعریف صرف یہی تسلیم کرلی جائے تو جس طرح ایک حنفی کو` ایک وہابی کو` ایک مقلد کو` ایک غیرمقلد کو` ایک دیوبندی کو اور ایک بریلوی کو مسلمان کہا جاسکتا ہے اسی طرح احمدیوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور کسی کو غیر مسلم کہنے کا ہم کو حق ہی کیا ہے جب وہ خود اس پر مصر ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ہم اس کو مسلمان نہ بھی سمجھیں تو ہمارے اس نہ سمجھنے سے کیا ہوسکتا ہے اس کا مذہب خود اس کے قول سے تسلیم کیا جائے گا۔
بہرحال ہم اس تمام بحث کو ان کے دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی بجائے اس کے محض سیاسی پہلو کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے یہ کتر و بیونت کس حد تک مفید یا مضرت رساں ہے۔ ہماری ملکی سیاسیات کا موجودہ دور وہ اہم اور نازک دور ہے کہ ہر جماعت خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں` اپنی شیرازہ بندی اپنی تنظیم اور اپنے تحفظ کی فکر میں ہمہ تن مصروف ہے۔ ہندو ہیں کہ اچھوتوں کو اپنے میں ملانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اچھوت ان میں سے نہیں۔ ان کو اس کا بھی احساس ہے کہ اچھوتوں سے ملنا دھرم کو مٹی میں ملانا ہے۔ مگر آج ضرورت نے اسی حرام کو حلال کردیا ہے اور وہ اچھوت جن کا سایہ تک ناپاک سمجھا جاتا تھا اور جن کو دیکھ کر ایک کراہت سی ہوتی تھی آج ہندوئوں کی سرآنکھوں پر جگہ پارہے ہیں۔ اور وہی ہندو جوان ناپاک اچھوتوں کو دیکھ کر حقارت اور تنفر کے ساتھ >چھی چھی چھی< کہا کرتے تھے` آج ان کو اپنے سر چڑھا رہے ہیں۔ ان کو اپنی برادریوں میں برابر کی جگہ دے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کھارہے ہیں۔ ان سے >روٹی بٹی< کے تعلقات پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ حالانکہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بغیر اچھوتوں کو ملائے ہوئے اکثریت میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے اس فرض سے غافل نہیں ہیں کہ اگر اس وقت انہوں نے اچھوتوں کو چھوڑ دیا تو ممکن ہے کہ ان کو مسلمان یا کوئی اور اقلیت اپنا لے اور ان کو ملا کر اکثریت بن جائے۔ ایک طرف تو یہ احتیاط ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی یہ لاپروائی بلکہ سیاسی بدبختی ہے کہ ان میں بجائے تنظیم کے ایک پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ عام مسلمانوں کا کیا سوال جبکہ مسلمانوں کے لیڈران کو باہمی تفرقہ سازی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ ~}~
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھنے اور قانونی حیثیت سے ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیئے جانے کی تحریک ہی کو دیکھ لیجئے کہ یہ سیاسی اعتبار سے کس قدر ناسمجھی` عاقبت نااندیشی اور تدبر کے منافی تحریک ہے۔ اور اسی تحریک سے مسلمانوں کے سیاسی فقدان کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ احمدیوں کو اپنے سے علیحدہ نہ کرکے ہم بہرحال کسی نقصان میں نہیں بلکہ فائدے میں ہیں۔
اول تو ہماری تعداد بڑھی ہوئی ہے۔ دوسرے ان کے ووٹروں سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تیسرے سب سے بڑی بات یہ کہ اس کا فیصلہ بالکل ہماری مرضی پر ہے کہ ہم کسی احمدی کو کسی مجلس قانون ساز میں منتخب ہونے دیں یا نہ ہونے دیں۔ لیکن احمدیوں کو اپنے حلقہ سے جدا کرنے کے بعد ہم کو سب سے پہلا نقصان تو یہ پہنچے گا کہ ہماری جماعت کا ایک عنصر گویا ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ ہماری اقلیت اور بھی اقل ہوکر رہ جائے گی۔ اور گویا ہم خود اپنے ووٹروں کو اپنے ہاتھ سے دیں گے۔ اس کے علاوہ احمدیوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد ان کی نشستیں بالکل علیحدہ ہوجائیں گی اور وہ مجالس قانون ساز میں بغیر روک ٹوک کے جاسکیں گے۔ آج اگر وہ جانا چاہیں تو ان کو آپ کی مدد کی ضرورت ہوگی لیکن علیحدگی کی صورت میں وہ بلاشرکت غیرے اپنی نشستوں کے مالک ہوں گے۔ اور ان کو مجالس قانون ساز میں جانے سے کوئی بھی نہ روک سکے گا۔ صرف پنجاب ہی کے صوبہ کو لے لیجئے جہاں سے یہ تحریک اٹھی ہے اور اس کے بعد اندازہ کیجئے کہ یہ تحریک کس قدر بے محل اور غلط ہے۔ پنجاب میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مسلم اکثریت ہے اور مسلمانوں نے حکومت کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ پنجاب کی مسلم اکثریت کو آئینی طور پر تسلیم کرے۔ چنانچہ حکومت نے ایک نشست کی زیادتی سے مسلم اکثریت تسلیم کرلی ہے۔ ہندو اور سکھ متفقہ طور پر مسلم اکثریت قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ چنانچہ راجندر پرشاد اور مسٹر جناح کی گفتگوئے مصالحت بھی ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے اسی بناء پر بیکار قرار دی گئی اور اس سمجھوتہ کو اسی وجہ سے مسترد کیا گیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیاجارہا ہے کہ احمدیوں کو ان سے علیحدہ کرکے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ پنجاب کے مسلمان جو ۵۶ فیصدی ہیں۔ صرف اسی صورت میں اکثریت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ جب احمدی بھی ان میں شامل رہیں ورنہ دس فیصدی پنجاب کے احمدی اگر نکل گئے تو مسلمان صرف ۴۶ فیصدی رہ جاتے ہیں اور پھر سکھ` ہندو اور احمدی مل کر اکثریت میں آجاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کیا مسلمان اپنے پیر پر خود کلہاڑی نہیں مار رہے ہیں کہ اچھے خاصے اکثریت میں ہوتے ہوئے اپنے کو اقلیت میں ڈال رہے ہیں اور اپنی اس کوشش پر خود ہی پانی پھیر رہے ہیں جو سالہا سال سے جاری تھی۔ حکومت نے جدید اصلاحات کے ماتحت ۵۱ نشستیں مسلمانوں کی رکھی ہیں۔ ان میں سے دو نشستیں احمدیوں کو ضرور مل جائیں گی اور کسی وقت ان کی جماعت کا وزیر ہوجانا بھی بعید از امکان نہیں ہے گویا اس طرح احمدی تو نہایت فائدہ میں رہیں گے۔ البتہ اگر نقصان پہنچے گا تو ان کو ہی جو آج اپنے لئے یہ تباہی کے سامان مہیا کررہے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ احمدیوں اور عام مسلمانوں میں مذہبی طور پر اتحاد عمل ناممکن ہے۔ لیکن سیاسی طور` جس طرح ایک حنفی` ایک شیعہ کو انگیز کرسکتا ہے۔ جس طرح ایک دیوبندی ایک بریلوی کو برداشت کرسکتا ہے کیا احمدی جماعت سے سیاسی تعلقات بھی اسی طرح نہیں رہ سکتے؟ ہم کو امید ہے کہ مسلمان اس تحریک پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔۲۲
حضرت امیر المومنینؓ کا بصیرت افروز تبصرہ )خطبہ جمعہ میں(
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے حیرت انگیز بیان پر ۲۴۔ مئی ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت بصیرت
افروز تبصرہ کیا۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>ڈاکٹر سر اقبال کا بیان ۔۔۔۔۔۔۔ پڑھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی۔ کیونکہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ۱۹۳۱ء میں جب کشمیر کمیٹی کا آغاز ہوا` شملہ میں زور دے کر مجھے اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جو کشمیریوں کی آئینی امداد کے لئے قائم کی گئی تھی۔ حالانکہ وہ خالص اسلامی کام تھا۔
پس اس وقت تو ہم مسلمان تھے۔ لیکن آج کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ اسلامی جماعت ہی نہیں۔ اگر جماعت احمدیہ اسلامی جماعت نہیں تو کیوں ۱۹۳۱ء میں سراقبال نے زور دے کر مجھے ایک اسلامی کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا۔ کیا ۱۹۳۱ء میں مجھے پریذیڈنٹ بنانے والے انگریزوں کے ایجنٹ تھے جو آج کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کی حمایت کی وجہ سے یہ سلسلہ ترقی کررہا ہے؟
اس وقت میری پریذیڈنٹی پر زور دیتے والے دو ہی شخص تھے` ایک خواجہ حسن نظامی صاحب اور دوسرے ڈاکٹر سراقبال۔ خواجہ صاحب تو اس موقع پر ہماری جماعت کے خلاف بولے نہیں۔ اس لئے ان کے متعلق میں کچھ نہیں کہتا۔ لیکن ڈاکٹر سر اقبال چونکہ ہمارے خلاف بیان دے چکے ہیں اس لئے ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ۱۹۳۱ء میں انہوں نے کیوں ایک اسلامی کمیٹی کا مجھے پریذیڈنٹ بنایا؟ اب کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو عام مسلمانوں میں اثر و اقتدار کشمیر کمیٹی میں کام کرنے کی وجہ سے ہی حاصل ہوا۔ حالانکہ اس کمیٹی کی صدارت ڈاکٹر صاحب کے زور دینے کی وجہ سے مجھے ملی۔
پس کیوں ۱۹۳۱ء میں انہوں نے احمدیوں کو مسلمان سمجھا؟ اور کیوں اب آکر انہیں محسوس ہوا کہ جماعت احمدیہ کو مسلمانوں میں سے الگ کر دینا چاہئے؟ یا تو انہیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ اس وقت ہماری حمایت کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے وہ روپے لے کر آئے تھے جو ان کی جیب میں اچھل رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں شامل کرکے ان کی طاقت کو توڑ دیں اور یا یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ اس وقت احمدیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور اب جوکہہ رہے ہیں کہ انگریزوں نے احمدیوں کو طاقت دی تو غلط کہہ رہے ہیں۔ آخر ہمارے عقائد بدلے تو نہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال کو اپنی رائے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بلکہ وہی عقائد ہم اب رکھتے ہیں جو ۱۹۳۱ء میں اور اس سے پہلے تھے۔ مگر ۱۹۳۱ء میں تو ہم ڈاکٹر سراقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیڈر` ان کے نمائندہ اور ان کے راہ نما ہوسکتے تھے اور ڈاکٹر اقبال میری صدارت پر زور دے سکتے اور میری صدارت میں کام کرسکتے تھے۔ لیکن اب ہمیں سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رکھنے تک کے لئے تیار نہیں۔ ۱۹۳۱ء میں تو ہمارے اسلام کا ڈاکٹر اقبال صاحب کو یہاں تک یقین تھا کہ جب یہ سوال پیش ہوا کہ وہ کمیٹی جو انتظام کے لئے بنائی جائے گی اس کے کچھ اور ممبر بھی ہونے چاہئیں اور ممبروں کے انتخاب کے متعلق بعض قواعد وضع کرلینے چاہئیں تو ڈاکٹر سر اقبال نے کہا کوئی قوانین بنانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں صدر صاحب پر پورا پور اعتماد ہے۔ اور ہمیں چاہئے کہ ہم ممبروں کے انتخاب کا معاملہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔ وہ جسے چاہیں رکھیں جسے چاہیں نہ رکھیں۔
پھر ہنس کر کہا میں تو نہیں کہتا لیکن اگر سارے ممبر آپ نے احمدی ہی رکھ لئے تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ ان لوگوں نے کمیٹی کے تمام ممبر احمدی بنالئے۔ اس لئے آپ ممبر بناتے وقت احتیاط کریں اور کچھ دوسرے مسلمانوں میں سے بھی لے لیں اور سارے ممبر احمدی نہ بنائیں۔ لیکن آج سر اقبال کو یہ نظر آتا ہے کہ احمدی مسلمان۲۳ ہی نہیں حالانکہ اس عرصہ میں کوئی نئی بات ہمارے اندر پیدا نہیں ہوئی۔
پھر مجھے تعجب ہے کہ ہماری مخالفت میں اس حد تک یہ لوگ بڑھ گئے ہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال جیسے انسان جو مسلمانوں کی ایک جماعت کے لیڈر` فلاسفر` شاعر اور نہایت عقلمند انسان سمجھے جاتے ہیں۔ انگریزی حکومت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے احمدیوں کو کیوں پنپنے دیا؟ شروع میں ہی اس تحریک کو کیوں کچل نہ دیا؟ کیونکہ ان کے نزدیک اگر نئی تحریکات کا مقابلہ نہ کیا جائے تو اس طرح اکثریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ پس ان کے نزدیک حکومت کا فرض تھا کہ احمدیت کو کچل دیتی۔ بلکہ انہیں شکوہ ہے کہ انگریزوں نے تو اتنی بھی عقلمندی نہ دکھائی جتنی روما کی حکومت نے حضرت مسیح ناصری کے وقت میں دکھائی تھی۔ انہوں نے اتنا تو کیا کہ حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکا دیا۔ گو یہ دوسری بات ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے انہیں بچالیا۔
اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ رومی حکومت نے جب حضرت مسیح ناصریؑ کو صلیب پر لٹکایا تو اس نے ایک جائز` مستحسن اور قابل تعریف فعل کیا اور اچھا کیا جو یہودیوں کے شوروغوغا کو سنکر عیسائیت کے بانی پر ہاتھ اٹھایا۔
یا تو ان لوگوں کو اتنا غصہ آتا ہے کہ اگر ہم حضرت مسیح ناصری کو وفات یافتہ کہہ دیں تو ان کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے یا اب احمدیت کی مخالفت میں عقل اس قدر ماری گئی ہے کہ کہا جاتا ہے حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکانے کا فعل جو رومیوں نے کیا وہ بہت اچھا تھا گو پورا اچھا کام نہیں کیا کیونکہ وہ بچ رہے۔ ان کا فرض تھا کہ اگر حضرت مسیح ناصری آسمان پر چلے گئے تھے تو رومی انہیں آسمان سے کھینچ لاتے اور اگر کشمیر چلے گئے تھے تو وہاں سے پکڑ لاتے اور ان کے سلسلہ کا خاتمہ کردیتے۔ تاکہ یہود کے اتحاد ملت میں فرق نہ آتا۔ مگر انگریزوں سے تو بہرحال وہ زیادہ عقلمند تھے کہ انہوں نے اپنی طرف سے انہیں صلیب پر لٹکا دیا اور اب ڈاکٹر سر اقبال کو شکوہ ہے کہ انگریزوں نے اتنی جرات بھی نہ دکھائی اور بناوٹی طور پر بھی حضرت مرزا صاحب کو سزا نہ دی۔۲۴
یہ بیان ہے جو ڈاکٹر سر اقبال نے دیا اور مسلمان خوش ہیں کہ کیا اچھا بیان ہے۔ حالانکہ اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہوسکتے کہ جیسے رومیوں نے حضرت مسیح ناصریؑ سے سلوک کیا تھا ویسا ہی سلوک انگریزوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کرنا چاہئے تھا۔ اگر اس فقرہ سے ہزاروں حصہ کم بھی کسی احمدی کے منہ سے نکل جاتا تو ایک طوفان مخالفت برپا ہوجاتا اور احراری شور مچانے لگ جاتے کہ مسیح ناصریؑ کی توہین کر دی گئی لیکن اب چونکہ یہ الفاظ اس شخص نے کہے ہیں جو ان کا لیڈر ہے اس لئے اگر وہ رومیوں کے مظالم کی تعریف بھی کرجائیں تو کہا جاتا ہے واہ وا! کیا خوب بات کہی!! احمدی رسول کریم~صل۱~ کی تعریف کریں تو آپ کی ہتک کرنے والے قرار پائیں۔ اور یہ حضرت مسیحؑ کی کھلی کھلی توہین کریں تو آپ کی عزت کرنے والے سمجھے جائیں۔
یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حصہ ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں نجات اس کے لئے ناممکن ہوگئی ہے۔ وہ ہماری دشمنی میں ہرچیز کو توڑنے کے لئے تیار ہیں۔ وہ ہماری عداوت میں اسلام پر تبر چلانے` رسول کریم~صل۱~ کی عزت پر تبر چلانے اور پہلے انبیاء کی عزتوں پر تبر چلانے کے لئے بھی تیار ہیں اور صرف اس ایک مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کچل دی جائے۔ لیکن جیسے اسلام اور رسول کریم~صل۱~ اور پہلے انبیاء ¶پر جوتبر چلائے جائیں گے وہ رائیگاں جائیں گے۔ اسی طرح پر وہ تبر جو جماعت احمدیہ پر چلایا جائے گا۔ آخر چکر کھاکر انہی کے پائوں پر پڑے گا اور جماعت احمدیہ کو ایک ذرہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا<۔۲۵
حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز تبصرہ )مضمون کی صورت میں(
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ میں تبصرہ کرنے کے بعد >ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمدیہ جماعت( کے عنوان سے ایک نہایت
محققانہ مضمون بھی تحریر فرمایا جو >الفضل< ۱۸۔ جولائی ۱۹۳۵ء میں چھپنے کے علاوہ ٹریکٹ کی شکل میں بھی شائع ہوا۔ اس قیمتی مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
ڈاکٹر سر محمد اقبال اور احمدیہ جماعت
سرمحمد اقبال صاحب کو کچھ عرصہ سے میری ذات سے خصوصاً اور جماعت احمدیہ سے عموماً بغض پیدا ہوگیا ہے اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ یا تو کبھی وہ انہی عقائد کی موجودگی میں جو ہماری جماعت کے اب ہیں جماعت احمدیہ سے تعلق موانست اور مواخات رکھنا برا نہیں سمجھتے تھے یا اب کچھ عرصہ سے وہ اس کے خلاف خلوت اور جلوت میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں ان وجوہ کے اظہار کی ضرورت محسوس نہیں کرتا جو اس تبدیلی کا سبب ہوئے ہیں جس نے ۱۹۱۱ء کے اقبال کو جو علی گڑھ کالج میں مسلمان طلباء کو تعلیم دے رہا تھا کہ >پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں<۲۶ ۱۹۳۵ء میں ایک دوسرے اقبال کی صورت میں بدل دیا جو یہ کہہ رہا ہے کہ۔
>میرے نزدیک قادیانیت سے بہائیت زیادہ ایماندارانہ ہے کیونکہ بہائیت نے اسلام سے اپنی علیحدگی کا اعلان واشگاف طور پر کردیا۔ لیکن قادیانیت نے اپنے چہرے سے منافقت کی نقاب الٹ دینے کے بجائے اپنے آپ کو محض نمائشی طور پر جزواسلام قرار دیا اور باطنی طور پر اسلام کی روح اور اسلام کے تخیل کو تباہ و برباد کرنے کی پوری پوری کوشش کی<۔
)زمیندار ۵۔ مئی ۱۹۳۵ء(
یعنے ۱۱ء کی احمدیہ جماعت آج ہی کے عقائد کے ساتھ صحابہؓ کا خالص نمونہ تھی لیکن ۱۹۳۵ء کی احمدیت بہائیت سے بھی بدتر ہے۔ اس بہائیت سے جو صاف لفظوں میں قرآن کریم کو منسوخ کہتی ہے۔ جو واضح عبارتوں میں بہاء اللہ کو ظہور الٰہی قرار دیتے ہوئے رسول کریم~صل۱~ پر ان کو فضیلت دیتی ہے گویا ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے نزدیک اگر ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کی رسالت کو منسوخ قرار دیتا` قرآن کریم سے بڑھ کر تعلیم لانے کا مدعی ہوتا` نمازوں کو تبدیل کردیتا اور قبلہ کو بدل دیتا ہے اور نیا کلمہ بناتا اور اپنے لئے خدائی کا دعویٰ کرتا ہے حتیٰ کہ اس کی قبر پر سجدہ کیا جاتا ہے تو بھی اس کا وجود ایسا برا نہیں مگر جو شخص رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبین قرار دیتا` آپ کی تعلیم کو آخری تعلیم بتاتا` قرآن کریم کے ایک ایک لفظ ایک ایک حرکت کو آخر تک خداتعالیٰ کی حفاظت میں سمجھتا ہے۔ اسلامی تعلیم کے ہرحکم پر عمل کرنے کو ضروری قرار دیتا ہے اور آئندہ کے لئے سب روحانی ترقیات کو رسول کریم~صل۱~ کی فرمانبرداری اور غلامی میں محصور سمجھتا ہے وہ برا اور بائیکاٹ کرنے کے قابل ہے۔
دوسرے لفظوں میں سرمحمد اقبال صاحب مسلمانوں سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ جو شخص رسول کریم~صل۱~ کی رسالت کو منسوخ کرے۔ قرآن کریم کے بعد ایک نئی کتاب لانے کا مدعی ہو۔ اپنے لئے خدائی کا مقام تجویز کرے اور اپنے سامنے سجدہ کرنے کو جائز قرار دے۔ جس کے خلیفہ کی بیعت فارم میں صاف لفظوں میں لکھا ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے` وہ بانی سلسلہ احمدیہ سے اچھا ہے جو اپنے آپ کو خادم رسول اکرم~صل۱~ قرار دیتے ہیں۔ اور قرآن کریم کی اطاعت کو اپنے لئے ضروری قرار دیتے ہیں اور کعبہ کو بیت اللہ اور کلمہ کا مدار نجات سمجھتے ہیں۔ کیونکہ بہائی تو رسول کریم~صل۱~ کی ذات پر اور قرآن کریم پر حملہ کرتے ہیں۔ لیکن احمدی سرمحمد اقبال اور ان کے ہمنوائوں کو روحانی بیمار قرار دے کر انہیں اپنے علاج کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ان کے ایمان کی کمزوریوں کو ان پر ظاہر کرتے ہیں۔ بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا۔
سر محمد اقبال صاحب اس عذر کی پناہ نہیں لے سکتے کہ میرا صرف مطلب یہ ہے کہ بہائی منافق نہیں اور احمدی منافق ہیں۔ کیونکہ اول تو یہ غلط ہے کہ بہائی کھلے بندوں اپنے مذہب کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر سر محمد اقبال یہ دعویٰ کریں تو اس کے صرف یہ معنی ہوں گے کہ بیسویں صدی کا یہ مشہور فلسفی ان فلسفی تحریکات تک سے آگاہ نہیں جن سے اس وقت کے معمولی نوشت و خواند والے لوگ آگاہ ہیں۔ سرمحمد اقبال کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہائی اپنی کتب عام طور پر لوگوں کو نہیں دیتے بلکہ انہیں چھپاتے ہیں۔ وہ ہر ملک میں الگ الگ عقائد کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ امریکہ میں صاف لفظوں میں بہاء اللہ کو خدا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی ممالک میں اس کی حیثیت ایک کامل ظہور کی بتاتے ہیں۔ وہ اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھ لیتے ہیں۔ ویسا ہی وضو کرتے ہیں اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے ہیں جتنی کہ مسلمان۔ لیکن الگ طور پر وہ صرف تین نمازوں کے قائل ہیں اور ان کے ہاں نماز پڑھنے کا طریق بھی اسلام سے مختلف ہے۔
پھر یہ بھی درست نہیں کہ احمدی منافق ہیں اور لوگوں سے اپنے عقائد چھپاتے ہیں۔ اگر احمدی مداہنت سے کام لیتے تو آج سرمحمد اقبال کو اس قدر اظہار غصہ کی ضرورت ہی کیوں ہوتی احمدی ہندوستان کے ہر گوشے میں رہتے ہیں۔ دوسرے فرقوں کے لاکھوں کروڑوں مسلمان ان کے حالات سے واقف ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے` رسول کریم~صل۱~ کی بتائی ہوئی نماز کے مطابق نماز پڑھنے والے` روزے رکھنے والے` حج کرنے والے اور زکٰوۃ دینے والے ہیں۔ وہ کون سی بات ہے جو احمدی چھپاتے ہیں اور سرمحمد اقبال کے پاس وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے انہوں نے یہ معلوم کیا کہ احمدیوں کے دل میں کچھ اور ہے مگر ظاہر وہ کچھ اور کرتے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ تو اس قدر محتاط تھے کہ جب ایک صحابی نے ایک شخص کو جس نے عین اس وقت کلمہ پڑھا تھا جب وہ اسے قتل کرنے لگے تھے` قتل کر دیا۔ اور عذر یہ رکھا کہ اس نے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ھل شققت قلبہ کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا ہے؟ لیکن ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب آج دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ قوم جس کے افراد نے افغانستان میں اپنے عقائد چھپانے پسند نہ کئے لیکن جان دے دی` ساری کی ساری منافق ہے اور ظاہر کچھ اور کرتی ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہے۔
اگر یہ الزام کوئی ایسا شخص لگاتا جسے احمدیوں سے واسطہ نہ پڑا ہوتا تو میں اسے معذور سمجھ لیتا۔ لیکن سر محمد اقبال معذور نہیں کہلا سکتے۔ ان کے والد صاحب مرحوم احمدی تھے۔ ان کے بڑے بھائی صاحب شیخ عطا محمد صاحب احمدی ہیں۔ ان کے اکلوتے بھتیجے شیخ محمد اعجاز احمد صاحب سب جج احمدی ہیں۔۲۷ اسی طرح ان کے خاندان کے اور کئی افراد احمدی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی صاحب حال ہی میں کئی ماہ ان کے پاس رہے ہیں۔ بلکہ جس وقت انہوں نے یہ اعلان شائع کیا ہے اس وقت بھی سرمحمد اقبال صاحب کی کوٹھی وہ تعمیر کرا رہے تھے۔ کیا سرمحمد اقبال صاحب نے ان کی رہائش کے ایام میں انہیں منافق پایا تھا یا خود اپنی زندگی سے زیادہ پاک زندگی ان کی پائی تھی۔ ان کے سگے بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب ایسے نیک نوجوان ہیں کہ اگر سرمحمد اقبال غور کریں تو یقیناً انہیں ماننا پڑے گا کہ ان کی اپنی جوانی اس نوجوان کی زندگی سے سینکڑوں سبق لے سکتی ہے۔ پھر ان شواہد کی موجودگی میں ان کا کہنا کہ احمدی منافق ہیں اور وہ ظاہر میں رسول کریم~صل۱~ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن دل سے رسول کریم~صل۱~ کے دین کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟
میں تمام ان شریف مسلمانوں سے جو اسلام کی محبت رکھتے ہیں` درخواست کرتا ہوں کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس صورت حالات پر غور کریں جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے اعلان نے پیدا کردی ہے اور دیکھیں کہ کیا اس قسم کے غیظ و غضب کے بھرے ہوئے اعلان مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنائیں گے یا خراب کریں گے اور سوچیں کہ ایک شخص جو اپنے احمدی بھائی کو بلوا کر اس سے اپنی کوٹھی بنواتا ہے دوسرے مسلمانوں کو ان کے بائیکاٹ کی تعلیم دیتا ہے کہاں تک لوگوں کے لئے راہنما بن سکتا ہے اور اسی طرح وہ شخص جو رسول کریم~صل۱~ کی ذات پر کھلا حملہ کرنے والے کو اچھا قرار دیتا ہے اور اپنے ایمان پر اعتراض کرنے والے کو ناقابل معافی قرار دیتا ہے کہاں تک مسلمانوں کا خیر خواہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کاش سرمحمد اقبال اس عمر میں ان امور کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ذکر الٰہی اور احکام اسلام کی بجاآوری کی طرف توجہ کرتے اور پیشتر اس کے کہ توبہ کا دروازہ بند ہوتا` اپنے نفس کی اصلاح کرتے تا خداتعالیٰ ان کو موت سے پہلے صداقت کے سمجھنے کی توفیق دیتا اور وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے سچے متبع کے طور پر اپنے رب کے حضور میں پیش ہوسکتے۔ واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ<۲۸`۲۹
ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا ردعمل
حضرت امیرالمومنینؓ کا مدلل مضمون اور آپ کے بیان فرمودہ حقائق کے رد میں ڈاکٹر صاحب موصوف کو آخر دم تک قلم اٹھانے کی جرات نہ ہوسکی۔ البتہ انہوں نے اپنے فلسفیانہ انداز میں احمدیت پر تنقید ضرور جاری رکھی۔ خصوصاً پنڈت جواہر لال نہرو کے دو مضامین۳۰ کے جواب میں )جو کلکتہ کے رسالہ >ماڈرن ریویو< میں شائع ہوئے تھے( انہوں نے احمدیت پر زبردست نکتہ چینی کی۔
ایک ضمنی بات
یہاں ضمناً یہ بتانا شاید غیر مناسب نہ ہوگا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال شعر و سخن اور فلسفہ دانی میں ایک بلند پایہ شخصیت کے حامل تھے مگر جہاں تک اسلامی نظریات و مبادیات کا تعلق ہے۔ انہیں خود مسلم تھا کہ۔
>میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں<۔۳۱
اسی تعلق میں ایک بار انہوں نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ کو خط میں لکھا۔
>میں جو اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خداتعالیٰ نے مجھ کو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسول کی میں کوئی خدمت کرسکتا<۳۲
اس کے مقابل جہاں تک عمل کا تعلق ہے` ان کا اپنا اعتراف ہے کہ ~}~
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا۳۳
اسی طرح ایک بار انہوں نے اپنی عملی زندگی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ
>میں تو قوال ہوں میں گاتا ہوں تم ناچتے ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی تمہارے ساتھ ناچنا شروع کردوں<۳۴
انہوں نے ایک اور موقعہ پر یہ بھی اعتراف کیا کہ
>اگر میں اپنی پیش کردہ تعلیمات پر عمل بھی کرتا تو شاعر نہ ہوتا بلکہ مہدی ہوتا<۳۵
علامہ احسان اللہ خاں تاجور نے اپنے رسالہ >شاہکار< میں لکھا ہے کہ
>علامہ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔ میں کمال قابلیت کے ساتھ طاقت گفتار کی بہ نسبت روح کردار بہت کم ہے<۳۶
بلکہ امیر شریعت احرار مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری تو صاف کہا کرتے تھے کہ
>اقبال کا قلم تمام عمر صحیح رہا اور قدم اکثر و بیشتر غلط<۳۷
ڈاکٹر صاحب کے بعض عجیب و غریب نظریات
عقیدہ و عمل کی اسی امتزاجی کیفیت کا نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال نے احمدیوں کو ختم نبوت اور اسلام کا باغی ثابت کرنے کے لئے پنڈت نہرو کے جواب میں بعض ایسے نظریات پیش کردیئے جن کی تغلیط بعد کو خود ان کے مداحوں کو کرنا پڑی۔ مثلاً انہوں نے یہ نظریہ اختراع کیا کہ غلام قوموں کے انحطاط کے نتیجہ میں الہام جنم لیتا ہے۔ اسی خیال کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں یوں باندھا ہے۔ ~}~
محکوم۳۸ کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز
جناب حافظ اسلم صاحب جیرا جپوری نے اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔
>یہ خالص شاعرانہ استدلال ہے۔ غالب کی طرح جس نے کہا ~}~
کیوں رد قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
>جس طرح مگس کی قے کہہ دینے سے شہد کی لطافت اور شیرینی میں فرق نہیں آسکتا۔ اسی طرح حکومت کی نسبت سے الہام بھی اگر حق ہو تو غارت گر اقوام نہیں ہوسکتا۔ خود حضرت عیٰسی علیہ السلام رومی سلطنت کے محکوم تھے جن کی نسبت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے۔ ~}~
فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا
نبی عفت و غمخواری و کم آزاری
بلکہ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام محکوم اقوام ہی میں معبوث کئے گئے جس کے خاص اسباب و علل تھے ۔۔۔۔۔۔۔ دراصل نبوت کی صداقت کا معیار حاکمیت یا محکومیت پر نہیں ہے۔ بلکہ خود الہام کی نوعیت پر ہے<۔4] fts[۳۹
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے اس جوابی مضمون میں سے بطور نمونہ یہ صرف ایک مثال پیش کی گئی ہے ورنہ انہوں نے اس نوع کی لغزشیں کھائی ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اس واضح حقیقت کا تفصیلی جائزہ لینے کے لئے اخبار >الفضل )قادیان( کا چودہ قسطوں پر مشتمل سلسلہ مضامین مطالعہ کرنا ضروری ہے۔۴۰
جو ۱۹۳۶ء کے وسط اول میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے جواب میں شائع کیا گیا اور جس میں ان کے بیان پر اس خوبی` جامعیت اور مدلل رنگ میں روشنی ڈالی گئی کہ بس دن ہی چڑھ گیا۔ اور سر محمد اقبال اور ان کے مداحوں پر ہمیشہ کے لئے حجت تمام ہوگئی۔
مسئلہ وفات مسیحؑ کی معقولیت کا واضح اقرار
بالاخر یہ بتانا از بس ضروری ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے جہاں جماعت احمدیہ کے خلاف بہت سے فلسفیانہ اعتراضات کئے ہیں وہاں آپ جماعت احمدیہ کے بنیادی عقیدہ وفات مسیح کے بارے میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ۔
>جہاں تک میں اس تحریک کا مفہوم سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک فانی انسان کی مانند جام مرگ نوش فرماچکے ہیں نیز یہ کہ ان کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا ایک مثیل پیدا ہوگا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے<۔۴۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اظہار مسرت ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ایک خیال پر
اس واضح اقرار حق کے علاوہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے ایک نہایت اہم اور قیمتی نکتہ بھی بیان فرمایا جو ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ۔
>بانی احمدیت کے الہامات کی اگر دقیق النظری سے تحلیل کی جائے تو یہ ایک ایسا موثر طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ سے ہم اس کی شخصیت اور اندرونی زندگی کا تجزیہ کرسکیں گے اور مجھے امید ہے کہ کسی دن نفسیات جدید کا کوئی متعلم اس کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے گا<۴۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اس خیال پر ازحد خوشی ہوئی اور حضور نے ایک بار اس تجویز کا پرجوش خیرمقدم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>مجھے اس حوالہ کو پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ماھر نفسیات بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات کا تجزیہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں کرے گا اور صحیح تجزیہ کرے گا تو وہ لازماً احمدیت کی صداقت کا قائل ہو جائے گا پس یہ نصیحت علامہ اقبال مرحوم کی ہمارے لئے نہایت ہی مفید ہے۔ اگر کوئی شخص غلط تجزیہ کرے گا تو ہماری زبان اور قلم سلامت ہیں۔ ہم جواب دیں گے اور بتائیں گے کہ یہ تجزیہ تمہارا غلط ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم تو کہیں گے کاش بہت سے ایسے لوگ کھڑے ہوں۔ اگر ایسے لوگ کھڑے ہوں گے تو وہ یقیناً احمدی جماعت کی تائید کرنے والے ہوں گے اور ہماری ترقی کا موجب ہوں گے۔ اور اگر وہ تعصب سے کام لیں گے تو پھر بھی ہمارے لئے کامیابی ہی کی صورت نکلے گی۔ کیونکہ ہم ان کی کمزوریاں ظاہر کریں گے اور دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ ہمارا مقابلہ کرنے والا خواہ کسی رنگ میں بھی پیش ہو وہ صداقت سے دور ہوتا ہے اور بنیادی کمزوریوں میں مبتلا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک جو باتیں ایک رنگ میں ہمارے فائدہ کی ہوں ان پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اور ایسے لوگوں کا ممنون ہونا چاہئے جو کہ دانستہ یا نادانستہ سچائی کے معلوم کرنے کے لئے ایک رستہ کھولتے ہیں<۔۴۳
دوسرا باب )فصل سوم(
مجاہدین تحریک جدید کا بیرونی ممالک میں جانے والا پہلا قافلہ
۶۔ مئی ۱۹۳۵ء کا دن تاریخ احمدیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس روز تحریک جدید کے ماتحت بیرونی ممالک میں جانے والے
مجاہدین کا پہلا قافلہ جو مندرجہ ذیل مبلغین پر مشتمل تھا قادیان سے روانہ ہوا۔
۱۔ مولوی غلام حسین صاحب ایاز )سنگاپور( ۲۔ صوفی عبدالغفور صاحب )چین(
۳۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز )جاپان(۴۴`۴۵]ydob [tag
دارالتبلیغ سٹریٹس سیٹلمینٹ
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سنگاپور` ملاکا اور پنیانگ کی ریاستوں میں تبلیغ اسلام کے لئے مولانا غلام حسین صاحب ایاز۴۶ کو روانہ فرمایا۔ روانگی کے وقت آپ کو صرف اخراجات سفر دیئے گئے۔ آپ ایک لمبے عرصہ تک خود آمد پیدا کرکے گزارہ کرتے اور مشن چلاتے رہے۔
ایاز صاحب نے سنگاپور میں پہنچتے ہی اس خطہ زمین کے مذہبی اور تجارتی حالات کا جائزہ لیا۴۷]4 [rtf اور ساتھ ہی دیوانہ وار تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف ہوگئے۔ یہاں آپ کو شدید مخالفت کا سامنا ہوا۔ مگر آپ مجنونانہ رنگ میں مصروف جہاد رہتے۔
آپ کی کوششوں کا پہلا ثمرہ حاجی جعفر صاحب بن حاجی وانتار صاحب۴۸ تھے جو جنوری ۱۹۳۷ء۴۹ میں آپ کی تبلیغ سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری سابق انچارج سنگاپور مشن کا بیان ہے کہ۔
>سنگاپور میں قیام جماعت کے ابتدائی ایام میں مکرم حاجی صاحب مرحوم نے حضرت مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی معیت میں سلسلہ کی خاطر بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ دو تین مرتبہ بعض معاندین کی طرف سے زدوکوب اور ماریں بھی کھائیں مگر خدا کے فضل سے ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ ایک مرتبہ بعض مخالف لوگوں کی انگیخت پر دو اڑھائی سو مسلح افراد نے آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ اور اپنے ایک عالم کو ساتھ لاکر حاجی صاحب مرحوم سے اسی وقت احمدیت سے منحروف ہونے کا مطالبہ کیا اور بصورت دیگر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکی دی۔ حاجی صاحب مرحوم نے اسی وقت اونچی آواز سے تشہد پڑھ کر اعلان کیا کہ میں کس بات سے توبہ کروں۔ میں تو پہلے ہی خدا کے فضل سے ایک سچا مسلمان ہوں۔ اور اگر میں نے کسی گناہ سے توبہ کرنی بھی ہو تو بندوں کے سامنے نہیں بلکہ میں اللہ کے سامنے اپنے سب گناہوں کی معافی مانگتا ہوا اس سے ملتجی ہوں کہ وہ مجھے معاف کرے۔ جب اس کے باوجود مجمع مشتعل رہا۔ اور مکان میں گھس کر جانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا۔ تو مرحوم مومانہ جرات اور ہمت سے ایک چھرا ہاتھ میں لے کر اپنے مکان کی حدود میں اپنا دروازہ روک کر کھڑے ہوگئے اور ببانگ دہل یہ اعلان کردیا کہ مرنا تو ہر ایک نے ایک ہی مرتبہ ہے۔ کیوں نہ سچائی کی خاطر بازی لگا دی جائے۔ اب اگر تم میں سے کسی باپ کے بیٹے میں جرات ہے کہ بری نیت سے میرے مکان میں گھسنے کی کوشش کرے تو آگے بڑھ کر دیکھ لے کہ اس کا کیا حشر ہوگا۔
مکان کی دوسری سمت سے حاجی صاحب مرحوم کا بہادر لڑکی باہر نکل آئی اور ہاتھوں میں ایک مضبوط ملائی تلوار نہایت جرات سے گھماتے ہوئے اس نے بھی سارے مجمع کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا کہ میرے والد جب سے احمدی ہوئے ہیں۔ میں نے ان میں کوئی خلاف شرع یا غیر اسلامی بات نہیں دیکھی۔ بلکہ ایمان اور عملی ہر لحاظ سے وہ پہلے سے زیادہ پکے مسلمان اور اسلام کے شیدائی معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ احمدیت نے انہیں اسلام سے مرتد کردیا ہے۔ پس اگر آپ لوگوں میں سے کسی نے میرے باپ پر حملہ کرنے کی جرات کی یا ناجائز طور پر ہمارے گھر کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو وہ جان لے کہ اس کی خیر نہیں۔ اگرچہ میں عورت ہوں۔ تاہم تم یاد رکھو کہ حملے کی صورت میں میں اس تلوار سے تین چار کو مار گرانے سے پہلے نہیں مروں گی۔ اب جسکا جی چاہے آگے بڑھ کر اپنی قسمت آزمالے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس مشتعل مجمع پر ایسا رعب طاری کیا کہ باوجود اس کے کہ لوکل ملائی پولیس کے بعض افراد وہاں کھڑے قیام امن کے بہانے مخالفین احمدیت کی کھلی تائید کررہے تھے۔ پھر بھی مجمع میں سے کسی فرد کو بھی مکرم حاجی صاحب کے گھر میں گھسنے یا حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ آخر جب کافی وقت گئے تک وہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو حاجی صاحب مرحوم نے ان کو مخاطب کرکے کہا۔ کہ میں خدا کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے بھی مسلمان تھا اور قبول احمدیت کے بعد تو زیادہ پکے طور پر مسلمان ہوگیا ہوں کیونکہ احمدیت اسلام ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس پر مخالفین شرمندہ ہوکر آہستہ آہستہ منتشر ہوگئے<۔۵۰
ایاز صاحب ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو سنگاپور سے ملایا کی ریاست جوہور میں تشریف لے گئے۔ اور جوہور )دارالسلطنت( رنگم` پنتیان کچیل` باتو پاہت` موار` کوتاتینگی` بنوت وغیرہ شہروں کا تبلیغی دورہ کیا اور انگریزی اور ملائی زبان میں ٹریکٹ تقسیم کئے۔ دس روز بعد آپ نے ریاست ملاکا میں قدم رکھا۔ اور اس کے بعض مشہور شہروں مثلاً جاسین` آلور گاجا` مرلیمون` ستامپین اور تنجونگ تک پیغام احمدیت پہنچایا۔ ۲۱۔ اپریل کو آپ ملاکا سے روانہ ہوکر >نگری سمبیلن< کے شہر سرمبان SEREMBAN میں پہنچے۔ ۲۴۔ اپریل کو ایف` ایم ایس کے مرکز کوالالمپور تشریف لے گئے۔۵۱
سنگاپور میں احمدیت کا بیج بویا جاچکا تھا جو آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا اور سعید روحیں کھینچی آرہی تھیں۔ کامیابی کے یہ ابتدائی آثار دیکھ کر وسط ۱۹۳۷ء میں ملایا میں مخالفت کا بازار گرم ہوگیا۔ پہلے ایک پندرہ روزہ اخبار >ورتا ملایا< نے کھلم کھلا مخالفت کی۔۵۲ پھر علاقہ کے علماء نے آپ کی نسبت واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ اس ضمن میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا بیان ہے کہ۔
>۱۹۳۸ء یا ۱۹۳۹ء میں سنگاپور کی جامع مسجد میں )جسے مسجد سلطان کہا جاتا ہے( ایک عالم کا ہماری جماعت کے خلاف لیکچر تھا مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز ۔۔۔۔۔۔۔ بھی وہاں تشریف لے گئے۔ مولوی )عبدالعلیم صاحب صدیقی( نے دوران تقریر میں کہا کہ مرزائیوں کا قرآن اور ہے۔ وہ نہیں ہے جو کہ حضرت سیدنا محمد~صل۱~ پر اترا تھا۔ اس پر مکرم مولانا غلام حسین صاحب ایاز نے بڑی جرات سے کھڑے ہوکر سب کے سامنے اپنے بیگ سے قرآن کریم نکالا اور صدیقی صاحب کو چیلنج کیا کہ دیکھو یہ ہے ہمارا قرآن آپ اپنا قرآن نکال کر مقابلہ و موزانہ کرلیں اگر ذرہ بھر زیر زبر کا بھی فرق ہو تو بے شک ہمیں ملزم یا کافر قرار دے لیں ورنہ اس قسم کی غلط بیانیاں کرتے ہوئے خدا کا خوف کریں۔ اس مولوی نے مجمع کو ہمارے خلاف پہلے ہی مشتعل کر رکھا تھا۔ بجائے چیلنج قبول کرنے کے اس نے پبلک کو ہمارے خلاف مزید اشتعال دلایا اور کہا کہ یہ شخص کافر مرتد ہے اس کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ کوئی ہے جو کہ مسلمانوں کو اس سے نجات دلائے۔ اس پر مجمع میں سے بعض لوگوں نے مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو سخت مارا اور گھسیٹ کر مسجد سے باہر نیچے پھینک دیا وہ مسجد اوپر ہے اور نیچے تہہ خانہ یا کمرے وغیرہ ہیں۔ چنانچہ مولوی صاحب مرحوم کو سخت چوٹیں آئیں۔ کمر پر شدید چوٹ آئی اور سر پر بھی جس سے آپ نیچے گرتے ہی بے ہوش ہوگئے۔ آپ کے ساتھ ایک احمدی دوست محمد علی صاحب تھے انہوں نے بھاگ کر پولیس کو اطلاع دی۔ چنانچہ پولیس مولوی صاحب کو کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہاں سے اٹھاکر ہسپتال لے گئی۔ جہاں پر آپ کو کئی گھنٹوں کے بعد ہوش آیا اور ہفتہ عشرہ ہسپتال میں رہنا پڑا۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ کو مخالفت کی وجہ سے بعض دشمنوں نے چلتی بس سے دھکا دے کر باہر بازار میں پھینک دیا تھا جس سے آپ کے منہ اور سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچالیا<۔۵۳
یکم ستمبر ۱۹۳۷ء کو آپ ملایا کی ایک ریاست سلانگور میں تشریف لے گئے۔۵۴ اور پہلے کوالالمپور اور پھر کلانگ میں ٹھہرے۔ کلانگ میں پانچ اشخاص )جن میں حافظ عبدالرزاق بھی تھے( مشرف باحمدیت ہوئے۔ جنوری ۱۹۴۰ء تک یہاں پندرہ احمدیوں پر مشتمل ایک جماعت پیدا ہوگئی۔۵۵body] gat[
یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی تو جاپان نے دو تین ماہ کے اندر اندر مانچوکو اور شمالی چین کے علاوہ فلپائن` ہندچینی` تھائی لینڈ` ملایا` سنگاپور` جاوا` بورنیو` سیلبیس` نیوگنی اور بحرالکاہل کے بہت سے جزیروں کو اپنے زیراقتدار کرلیا۔
یہ ایام سنگاپور مشن اور مولوی ایاز صاحب کے لئے انتہائی صبر آزما تھے۔ خصوصاً جاپانیوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کی وجہ سے آپ پر بہت سختیاں کی گئیں اور خرابی صحت کے باعث سر اور ڈاڑھی کے بال قریباً سفید ہوگئے۔۵۶ آپ اس دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ >اس زمانہ میں بڑی رقت اور گداز سے دعائیں کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا مجھ سے یہ سلوک تھا کہ اکثر دفعہ بذریعہ کشف اور الہام دعا کی قبولیت اور آئندہ کامیابی کے متعلق مجھے بشارات مل جاتی تھیں اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی توجہ کی برکت تھی<۔۵۷
اس زمانہ میں آپ نے سرفروشانہ جہاد تبلیغ اور خدمت خلق کا جو نہایت اعلیٰ اور قابل رشک نمونہ دکھایا اس کا کسی قدر اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں تین چشم دید شہادتیں درج کی جاتی ہیں۔
پہلی شہادت: پہلی شہادت محمد نصیب صاحب عارف کی ہے جو سنگاپور میں جنگی قیدی رہے۔ عارف صاحب نے ہندوستان واپس آکر اپنے مشاہدات الفضل ۱۹۔ دسمبر ۱۹۴۵ء میں شائع کرائے۵۸ جن میں لکھا۔
>سنگاپور کے مبلغ مولوی غلام حسین ایاز بھی ان پرجوش مجاہدین میں سے ایک ہیں جن کا قابل رشک اخلاص اور تبلیغی انہماک ایک والہانہ رنگ رکھتا ہے۔ جاپان کے گزشتہ ساڑھے تین سالہ ملایا پر قبضہ کی وجہ سے جناب مولوی صاحب کی مساعی جمیلہ جماعت کے سامنے نہیں آسکیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب موصوف گزشتہ دس سال سے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے سنگاپور میں مقیم ہیں اور تحریک جدید کے ابتدائی مجاہدوں میں سے ہیں۔ اور تبلیغ کے ساتھ اپنے اخراجات کے لئے بھی آپ صورت پیدا کرتے ہیں۔ صرف پہلے چھ ماہ کا خرچ دفتر تحریک جدید نے دیا تھا۔
مارچ ۱۹۴۱ء میں جب یہ عاجز سنگاپور پہنچا۔ تو چند دوستوں کے ساتھ دارالتبلیغ میں گیا۔ مولوی صاحب نے اپنی تبلیغی مساعی کا ذکر جس رنگ میں کیا۔ وہ انگشت بدنداں کر دینے والا تھا۔ کس طرح انکو احمدیت کی تبلیغ کے لئے تکالیف سہنی پڑیں۔ مخالفین نے دارالتبلیغ پر خشت باری کرنا شروع کردی جس کے نتیجہ میں مولوی صاحب کو کئی کئی دن مکان کے اندر بند رہنا اور خوارک اور دیگر ضروریات کے لئے تنگ ہونا بہت تکالیف کا باعث ہوا۔ چند ماہ بعد یہ عاجز ملایا میں کوالالمپور کے مقام میں تھا۔ ایک دن اپنے ڈپو کا چندہ حکیم دین صاحب اکونٹنٹ کو دینے گیا۔ تو آپ نے بتایا۔ اس مخالفت کے نتیجہ میں پولیس نے گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بلیک شیٹ میں آپکا نام سب سے اوپر لکھوایا ہوا تھا۔ کس قدر افسوسناک بات تھی کہ احمدیت کا ایک مجاہد اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اپنے وطن سے بے وطن ہوکر جن لوگوں کی اصلاح کے لئے ان کے پاس جاتا ہے وہ اسے انتہائی تکالیف پہنچانے کے درپے ہوگئے۔ ان مخالفین کا کیا حشر ہوا۔ وہ مولوی صاحب خود بیان کیا کرتے تھے کہ سنگاپور مفتوح ہونے پر ایسے تمام لوگ جو میرے مخالف شر اور فتنہ و فساد پر آمادہ رہتے تھے ایک ایک کرکے مختلف جرموں کی پاداش میں جاپانیوں کے ہاتھوں سزا یاب ہوئے۔
سنگاپور میں لڑائی کے دوران میں مولوی صاحب کے لئے خداتعالیٰ نے ایک خاص نشان دکھایا۔ گولہ باری کے ایام میں مولوی صاحب نے لوگوں سے کہہ دیا کہ آپ میرے گھر میں بمباری کے وقت آجایا کریں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس خطرناک وقت میں مولوی صاحب کے اردگرد کے مکانات کو کافی نقصان پہنچا۔ اور کافی لوگوں کی اموات ہوئیں۔ مگر آپ کا گھر محفوظ رہا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کہ >آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے<۔ برابر پوری ہوتی رہی۔ پھر ایک اور تائید اور خدائی مدد نازل ہوئی کہ ایک جاپانی افسر مولوی صاحب کے مکان کے سامنے موٹر سائیکل سے گرگیا۔ اس کو شدید ضربات آئیں۔ جناب مولوی صاحب اس کو اٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے۔ تیمارداری اور مرہم پٹی کی اور اس کو اس کے کیمپ میں پہنچانے کا بندوبست کیا۔ اس پر وہ جاپانی افسر مولوی صاحب کو اپنی طرف سے پروانہ دے گیا کہ آپ سنگاپور میں جس طرح چاہیں رہیں۔ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی۔
خداتعالیٰ کی قدرت کا یہ عجیب کرشمہ تھا کہ جاپانی حکومت کے قبضہ کے دوران میں کسی مخالف کو سراٹھانے کی جرات نہ ہوسکی۔ حالات کے سدھر جانے سے آپکو اپنی مالی حالت درست کرنے کا بھی موقعہ مل گیا۔ اور اوائل ۴۳ء میں آپ نے تین بادبانی کشتیاں تجارت کے لئے خرید لیں۔ جن کا نام >احمد<۔ >نور< اور >محمود< رکھا۔ ان سے مولوی صاحب کو کافی مدد حاصل ہوئی۔ مگر چونکہ جنگ کی وجہ سے ملک کی اقتصادی حالت پر اثر پڑرہا تھا۔ یہ کام زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ ۴۳ء اور ۴۴ء مولوی صاحب کے لئے مالی لحاظ سے بہت کٹھن تھے۔ اس عرصہ میں جہاں ملک میں اشیاء خورد و نوش کی کمی واقع ہوگئی تھی۔ مولوی صاحب کو بھی کافی حد تک ان تکالیف میں سے گزرنا پڑا۔ مگر آپ نے نہایت صبر اور تحمل سے یہ عرصہ گزرا۔ بلکہ تبلیغی اور تنظیمی کاموں میں زیادہ وقت دینا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۴۵ء میں مولوی صاحب کی حالت خداتعالیٰ کے فضل سے پھر بہتر ہونی شروع ہوگئی۔ ہم لوگ نظر بندی کی حالت میں ان کے حالات سے اتنے آگاہ نہیں تھے۔ مگر خداتعالیٰ کی غیبی امداد سے انہوں نے تمام احمدی جنگی قیدیوں کی مدد کیلئے مختلف کیمپوں میں تقسیم کرنے کے لئے ۲۰۰۰ ہزار ڈالر کی رقم روانہ فرمائی۔ اس وقت واقعی ہم لوگوں کو روپیہ کی بڑی ضرورت تھی۔ وہ روپیہ ہم کو پہنچنے نہ پایا تھا۔ اور ہم اس کے خیال میں ہی اپنی مشکلات کا حل سوچ رہے تھے کہ صلح ہوگئی۔ اور وہ رقم مولوی صاحب کو واپس لوٹا دی گئی۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء فی الدارین خیراً۔
جناب مولوی صاحب نے اس عرصہ میں اپنی تبلیغ جاری رکھی اور جماعت کی تنظیم کا کام بھی کرتے رہے۔ سینکڑوں ملائی اس وقت احمدیت کی آغوش میں آچکے ہیں۔ آپ کی انتھک کوششیں احمدیت کا نام محض خداتعالیٰ کے فضل سے اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعائوں کے طفیل پھیلا رہی ہیں۔ جناب مولوی صاحب کو ایک عرصہ گھر سے جدا ہوئے ہوگیا ہے مگر چلتے وقت جب ہم نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ تو آپ نے فرمایا۔ >حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت کے بغیر ایک قدم بھی یہاں سے ہلانا اپنے لئے معصیت سمجھتا ہوں<۔ آپ نے احمدی دوستوں کی واپسی پر انہیں اتنا بھی نہ کہا۔ کہ میرا فلاں پیغام میرے گھر والوں کو پہنچا دینا۔ بلکہ کہا تو یہ کہا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو میرا سلام دینا اور یہاں کی میری تبلیغی مساعی کے لئے دعا کی درخواست کرنا<۔۵۹
دوسری شہادت: دوسری شہادت یونس صاحب فاروق کی ہے جو ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۶ء کو مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز کے ذریعہ سے احمدیت سے مشرف ہوئے اور تقریباً پانچ ماہ سنگاپور میں رہنے کے بعد واپس ہندوستان آئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے نام ایک مفصل مکتوب میں لکھا کہ۔
>جب میں رخصت سے واپس لوٹا تو خوش نصیبی سے میرا یونٹ سنگاپور چلا گیا تھا۔ اس وجہ سے مجھے بھی سنگاپور آنے کا موقع مل گیا۔ اور بالکل حسن اتفاق سے ایک روز جبکہ میں اونان روڈ پر ٹہل رہا تھا اور ملایا کے مسلمانوں کی حالت پر افسوس کررہا تھا۔ یکایک میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا۔ جماعت احمدیہ قادیان سنگاپور۔ اندر گیا۔ تو دیکھا جناب مولوی غلام حسین صاحب ایاز بیٹھے تلاوت کررہے تھے۔ اس پر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ فوراً مولوی صاحب سے ملا۔ اپنے حالات سنائے ان کے حالات پوچھے اور اس کے بعد تقریباً روزانہ وہاں جانا شروع کردیا۔ اور وہاں سے سلسلہ کی کتابیں لیکر پڑھنے
‏tav.8.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
پڑھنے لگا۔ بہت ہی جلد اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی اور خادم نے اپنے آقا کے ہاتھ اپنے آپ کو بیع کردیا۔ اور اب نہ صرف اپنی زندگی بلکہ ہرچیز جو اس عاجز سے متعلق ہے احمدیت کے لئے وقف ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ جناب مولوی غلام حسین صاحب ایاز مبلغ سنگاپور کی جدوجہد کا میرے دل میں بہت اثر ہوا موصوف نے خدمت دین میں اتنی محنت اٹھائی ہے کہ قبل از وقت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ جب مجھے آنجناب کی اصل عمر کا پتہ چلا۔ تو میں متحیر ہوگیا۔ کیونکہ ظاہری حالت سے آپ ۵۵ سال سے کم عمر کے نہیں معلوم ہوتے۔ اور ہمیشہ بیمار رہنے کے باوجود تبلیغی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ صبح ۴ بجے سے لے کر رات کے گیارہ بارہ بج جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں موصوف کو گھڑی بھر کی بھی فرصت نہیں ملتی کہ ذرا آرام کرلیں۔ دن بھر کبھی تو سلسلہ کے لٹریچر کا ملائی زبان میں ترجمہ ہورہا ہے۔ کبھی مضمون تیار ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ دن بھر سوالات اور اعتراضات کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اور ان کو سمجھانے میں گھنٹوں مغززنی کرنی پڑتی ہے۔ ملایا کے احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت بھی خود ہی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ لوگوں کے گھروں میں جاکر بھی تبلیغ کی جاتی ہے۔
یہاں احمدیت کے خلاف بہت سخت پروپیگنڈا کیا گیا۔ اور اکثر لوگ ایسے سخت دشمن ہیں کہ جنگ سے پہلے کے زمانہ میں اکثر اوقات وعظ کے لئے اپنی مسجد یا اپنے گھر پر بلا کر مولوی صاحب کو بڑی بے رحمی سے زدوکوب بھی کرتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے چن چن کر جاپانیوں کے ہاتھوں سب کو ٹھکانے لگا دیا۔ اور احمدیت کو تبلیغ کے لئے راستہ صاف کردیا۔ مولوی صاحب کے جاپانی قبضہ کے زمانہ کے کارنامے معجزات سے کم نہیں۔
میری ایک غیر احمدی حکیم سے شہر میں ملاقات ہوئی۔ احمدیت کا مخالف ہونے کے باوجود مولوی صاحب کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ کہتا تھا۔ جاپانیوں کے زمانہ میں جبکہ کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ جاپانیوں کے خلاف اپنے گھر میں بھی کسی قسم کی بات کرے۔ ایسے خطرناک وقت میں مولوی صاحب A۔N۔I کے کیمپ میں جاکر جاپانیوں کے خلاف کاروائیاں کرتے۔ دنیا حیران ہے کہ مولوی صاحب جاپانیوں کے ہاتھ سے بچ کیسے گئے؟ حالانکہ جاپانیوں کی عادت ہی نہیں تھی کہ کسی معاملہ کی تحقیقات کرتے۔ ان کے پاس تو رپورٹ پہنچنے کی دیر ہوتی۔ کہ فوراً گرفتاری عمل میں آتی اور بلا پرسش سرکاٹ کر شارع عام پر کھمبے سے لٹکا دیا جاتا۔ اسی طرح احمدیت کے اشد مخالفین کا صفایا ہوا۔ اور ایسے ہی حالات میں مولوی صاحب کے خلاف ہرروز رپورٹیں پہنچتی رہتی تھیں۔ اور ہر وقت جاپان ملٹری پولیس اور ۔D۔I۔C مولوی صاحب کے پیچھے لگی رہتی۔ مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو قبل از وقت اطمینان دلا دیا تھا۔ کہ وہ پکڑے نہیں جائیں گے اور مولوی صاحب نے اکثر لوگوں سے جن میں غیر احمدی بھی ہیں کہہ دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے گرفتاری سے بچائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اور اکثر لوگ جو احمدیت کے مخالف تھے احمدیت کی صداقت کے قائل ہوگئے۔ خصوصاً مولوی صاحب کے بہت سے معتقد ہوگئے۔ اور بعضوں نے بیعت بھی کرلی۔ ملایا کے عام مسلمانوں کی حالت دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے۔ یہ لوگ دین سے اتنی دور جاپڑے ہیں کہ بظاہر حالت درست ہونے کی امید نہیں۔ مذہب کی موٹی سے موٹی بات بھی انہیں معلوم نہیں۔ جو لوگ کچھ تھوڑا بہت جانتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ عیاشی کی یہ حالت ہے کہ شاید یورپ بھی مات کھا جائے۔ سنیما کے ایسے شوقین کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو۔ تو پروا نہیں سنیما ضرور دیکھیں گے۔ طرفہ یہ کہ عورتیں مردوں سے بہت آگے بڑھی ہوئی ہیں۔ اور خدا جانے مردوں کی غیرت کہاں چلی گئی ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوتا دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں۔ نہ صرف چپ رہتے ہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں۔ غریب عورتیں پیٹ کی خاطر اپنا سب کچھ بیچتی ہیں۔ اور جو آسودہ ہیں وہ عیاشی کی خاطر۔ بہرحال میں تو کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی مسلمان کہلانے والا خطہ زمین سارے کا سارا اسلام سے اتنی دور جاسکتا اور اتنا غافل ہوسکتا ہے۔ وہ سارا مذہب اسی بات میں سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی مخالفت کی جائے اور بس۔
ان حالات میں مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی تبلیغی سرگرمیاں دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی مولوی صاحب مایوس نہیں ہوئے۔ اور جناب مولوی صاحب کی انتھک کوششوں کا نتیجہ دیکھ کر ماننا پرتا ہے کہ یہ بھی ایک احمدیت کا معجزہ ہے۔ ایسے ماحول میں سے لوگوں کا احمدیت قبول کرنا۔ اور پھر مخلص احمدی بننا تقویٰ اور طہارت میں ایک مثال قائم کردینا۔ بلکہ فرشتہ خصلت انسان بن جانا اور دین کے لئے بڑی بڑی جانی اور مالی قربانیاں کرنا یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ مولوی صاحب نے نہ صرف یہ کہ یہاں جماعت قائم کی۔ بلکہ اس کی تنظیم اور تربیت میں بھی کمال کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ جب ہندوستانی فوجیں یہاں آئیں۔ تو مولوی صاحب کو اپنے فوجی دوستوں کی تربیت کا بھی خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ آپ نے اخبارات میں اشتہارات وغیرہ دیکر تمام احمدی فوجی دوستوں سے تعلق قائم کیا۔ اور ہر اتوار کو سب کی میٹنگ مقرر کی۔ جس میں سوائے ان لوگوں کے جن کی ڈیوٹی ہوتی۔ باقی سب دارالتبلیغ میں جمع ہو جاتے اور مختلف پہلوئوں سے احمدیت پر روشنی ڈالی جاتی۔ اور کوشش کی جاتی کہ ہر احمدی ضرور کچھ نہ کچھ تقریر کرے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ سب کو تقریر کرنے کی مشق ہوتی بلکہ ہمارے ایمان میں بھی ترقی ہوتی<۔۶۰
تیسری شہادت: تیسری شہادت ایک غیر از جماعت دوست جناب کیپٹن سید ضمیر احمد صاحب جعفری بی۔ اے سول لائن جہلم کی ہے۔ آپ نے جون ۱۹۴۶ء میں جماعت احمدیہ کو مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے ایک خط لکھا کہ۔
>میں حال ہی میں مشرق بعید سے آیا ہوں ملایا جاوا وغیرہ میں آپ کے سلسلہ کی طرف سے مولوی غلام حسین صاحب ایاز تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ ۱۹۴۵ء میں جب اتحادی فوجوں کے ساتھ ہم ملایا میں پہونچے۔ تو مولوی صاحب غالباً تنہا تھے۔ مگر ۱۹۴۷ء میں مولوی عبدالحیی اور شاید دو ایک اور کارکن بھی پہنچ گئے تھے۔ جہاں تک مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی ذات کا تعلق ہے۔ ان کے خلاف میں ایک بات بھی نہیں کہہ سکتا۔ اپنے منصب کو وہ انتہائی ایثار و خلوص اور خاصے سلیقہ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ بلکہ جن دشواریوں اور نامساعد حالات میں سے وہ گزر رہے تھے۔ اگر اس پر غور کیا جائے تو ان کے استقلال حوصلہ اور ہمت پر حیرت ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ اس کام کو ایک فریضہ ایمانی سمجھ کر کررہے ہیں۔ میں جس طرف سلسلہ کی توجہ بطور خاص دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں صرف ایسے مبلغین بھیجے جائیں۔ جو علوم دینی کے ساتھ ساتھ جدید علم و کمالات سے بھی بہرہ اندوز ہوں۔ تاکہ وہ دوسرے ملکوں کی مخصوص فضاء میں اپنے لئے دائرہ کار پیدا کرسکیں۔ اور اپنے مقصد میں زیادہ موثر و کامیاب ثابت ہوں۔ علاوہ ازیں جو مشن بھی دوسرے ملکوں میں کھولا جائے اسے مالی لحاط سے مفلوک الحال نہ رکھا جائے ۔۔۔۔۔۔ مبلغین یا جماعت کے بیرونی نمائندوں کیلئے علم جدید کی ضرورت کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ تقسیم پنجاب کے زمانہ میں جب مولوی غلام حسین صاحب ایاز مشرق بعید میں قادیان کے متعلق وہاں کی رائے عامہ کو متاثر کرنا چاہتے تھے۔ تو ان بے چاروں کو محض اس لئے کہ انہیں انگریزی میں زیادہ دسترس نہ تھی )یہ ان کے لئے باعث توہین نہیں( یا ان کے سٹاف میں کوئی اس ڈھب کا شخص موجود نہ تھا۔ بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تو حسن اتفاق سمجھئے کہ ان دنوں اتحادی فوجوں کے ساتھ بہت سے پاکستانی مسلمان افسر بھی وہاں تھے۔ ان میں سے چند ایک احمدی دوست بھی تھے جن کی امداد سے مشرق بعید میں قادیان کا بہت کچھ چرچا ہو بھی گیا۔ ورنہ بڑا مشکل تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ضمناً میں یہاں ایک ذاتی تاثر کا ذکر کروں۔ جس پر مجھے اب بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ ممکن ہے آپ کے قارئین بھی اسے دلچسپی کا موجب پائیں۔ بیرون ملک جانے سے پیشتر احمدیت کے متعلق کوئی خیال آتے ہی میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ان کے مبلغین کے لئے تو مزے ہی مزے ہیں۔ دیس دیس کی سیر اور فارغ البالی کی زندگی۔ آدمی کو یہ دو چیزیں مل جائیں تو اور کیا چاہئے۔ مگر ملایا میں مولوی غلام حسین ایاز کو دیکھ کر میری اس خوش فہمی کو سخت دھکا لگا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ خاص محنت و مشقت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اتنی مشقت اگر وہ اپنے وطن میں کریں تو کہیں بہتر گزر بسر کرسکتے ہیں<۔۶۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اظہار خوشنودی
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مولانا غلام حسین صاحب ایاز کی عظیم الشان قربانیوں اور ان کے شاندار نتائج کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>ایسے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنی شروع ہوگئی ہے جہاں پہلے باوجود کوشش کے ہمیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ ملایا میں یا تو یہ حالت تھی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات کو مار مار کر گلی میں پھینک دیا اور کتے ان کو چاٹتے رہے اور یا اب جو لوگ ملایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مال دار ہوٹلوں کے مالک اور معزز طبقہ کے ستر اسی کے قریب دوست احمدی ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ روزبروز ترقی کررہا ہے<۔۶۲
مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی دوبارہ روانگی
مولانا غلام حسین صاحب ایاز جو ۶۔ مئی ۱۹۳۵ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تھے پندرہ برس بعد ۲۴۔ نومبر ۱۹۵۰ء کو ربوہ میں تشریف لائے۔۶۳ اس کے بعد آپ ۸۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو دوبارہ سنگاپور میں اعلائے کلمتہ الحق کے لئے بھجوائے گئے۔۶۴ کچھ عرصہ سنگاپور میں مقیم رہنے کے بعد بورنیو میں متعین کئے گئے۔
وفات
مولانا غلام حسین صاحب ایاز ذیابیطس کے مریض تھے۔ یہ بیماری یہاں آکر اکتوبر ۱۹۵۹ء کے دوسرے ہفتہ میں یکایک بڑھ گئی۔ ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء۶۵ کو رات کو بخیریت تھے۔ صرف معمولی سی تھکاوٹ کی شکایت تھی۔ آدھی رات کے بعد جب حسب معمول نماز تہجد کے لئے چارپائی سے اٹھے تو دھڑام سے زمین پر گر پڑے۔ آپ کی اہلیہ صاحبہ۶۶ جو ساتھ کے کمرے میں سورہی تھی آواز سنکر وہ فوراً اٹھیں اور آکر دیکھا کہ زمین پر پڑے ہیں۔ انہوں نے ساتھ کے ہمسایہ کو آواز دی جو احمدی تھا۔ اس نے آکر چارپائی پر ڈالا۔ اور اس کے بعد جلد ایمبولینس منگوا کر ہسپتال پہونچایا۔ اتفاق سے ڈاکٹر وہی تھا۔ جن کو آپ تبلیغ کیا کرتے تھے۔ اس نے بڑی محبت` ہمدردی اور تندہی سے علاج کیا۔ مگر افاقہ نہ ہوا۔ اور تقریباً ۳۶ گھنٹے بیہوش رہنے کے بعد ۱۸/۶۷۱۷ اکتوبر ۱۹۵۹ء کی درمیانی شب کو اپنے مولا کے ہاں پہونچ گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
سنگاپور میں کام کرنیوالے دوسرے مجاہدین احمدیت کی خدمات
مولانا غلام حسین صاحب ایاز کے قیام سنگاپور کے دوران مندرجہ ذیل مجاہدین بغرض تبلیغ بھجوائے گئے۔
۱۔
مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری )برادر مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری( روانگی ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۶ء۔۶۸
۲۔
مولوی شاہ محمد صاحب ہزاروی )روانگی ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۶ء(۶۹ آپ چند ماہ تک سنگاپور میں تبلیغی فرائض بجا لانے کے بعد ۱۹۳۷ء میں جاوا منتقل ہوگئے۔۷۰
۳۔
مولوی امام الدین صاحب ملتانی۔ آپ ۱۹/ ۱۸۔ جون ۱۹۴۶ء کو قادیان سے روانہ ہوکر ۶۔ جولائی ۱۹۴۶ء کو سنگاپور پہنچے۔ ٹرانسپورٹ کی مشکلات کی وجہ سے ان دنوں آپ نے ایک نیوی فلیگ شپ نرابدا نامی میں بطور دھوبی ملازم ہوکر کام کیا اور سنگاپور پہنچ گئے۔ چونکہ جنگ نئی نئی ختم ہوئی تھی اور سنگاپور میں ابھی بے شمار جاپانی قیدی ہونے کی وجہ سے افراتفری اور نظام درہم برہم تھا۔ اس وجہ سے وہاں ان دنوں تبلیغی حالات اچھے نہ تھے۔ مرکز کے ساتھ خط و کتابت اور مالی امداد باقاعدہ نہیں تھی اس لئے لوکل طور پر ہی ادھر ادھر کے کام کرکے ضروریات زندگی پوری کرنی پڑتی رہیں۔ اور ساتھ ساتھ تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا گیا۔
وہاں کے بعض احمدی ملازمین کی مدد سے مالاباری ہندوستانیوں میں تبلیغ سے چار افراد نے بیعت کی۔ جو بہت مخلص ہیں۔ آپ ۱۹۴۶ء سے لے کر دسمبر ۱۹۴۹ء تک مولوی غلام حسین صاحب ایاز کی قیادت میں جماعتی امور سرانجام دیتے رہے۔ اور اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد کے ماتحت آپ سنگاپور سے شروع جنوری ۱۹۵۰ء میں پاڈانگ )انڈونیشیا( روانہ ہو کر ۱۶۔ فروری ۱۹۵۰ء کو جاکارتا پہنچے اور انڈونیشیا مشن میں منتقل ہوگئے۔
۴۔
چوہدری محمد احمد صاحب )ستمبر ۱۹۴۶ء تا جنوری ۱۹۴۹ء(
۵۔
مولوی محمد سعید صاحب انصاری )۳۔ دسمبر ۱۹۴۶ء تا مارچ ۱۹۴۸ء۔ جنوری ۱۹۶۱ء تا جون ۱۹۶۲ء(۷۰
۶۔
میاں عبدالحیی صاحب۔
جناب مولوی محمد سعید صاحب انصاری تحریر فرماتے ہیں۔
>میں تحریک جدید میں بطور مبلغ ۱۹۴۶ء میں شامل ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں سنگاپور میں وصیت کی۔ سنگاپور میں میرا قیام مارچ ۱۹۴۸ء تک رہا۔ اس عرصہ میں مجھے صرف دو تین بار الائونس ملا۔ کیونکہ وہاں کے حالات ہی ایسے تھے۔ جب کبھی الائونس ملا میں نے شرح کے مطابق حصہ وصیت وہاں کی لوکل جماعت میں باقاعدگی سے ادا کیا۔ مارچ ۱۹۴۸ء سے دسمبر ۱۹۴۹ء تک میں انڈونیشیا میں رہا۔ ان دنوں انڈونیشین اور ولندیزیوں میں جنگ ہورہی تھی ہماری جماعت کا بیشتر حصہ شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں میں چلا گیا تھا اس سارے عرصہ قیام میں مجھے نہ لوکل جماعت سے کوئی ایک پیسہ ملا اور نہ مرکز کی طرف سے کوئی رقم موصول ہوئی۔ خدا جانتا ہے کہ یہ سارا عرصہ کتنی مشکل سے گزرا۔ بعض سکھوں سے قرض لینا پڑا جو بورنیو جاکر ادا کیا اس کے بعد ۱۹۵۰ء میں میرا تبادلہ بورنیو ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ میں نے تحریک جدید سے مارچ ۱۹۴۸ء سے دسمبر ۱۹۴۹ء تک الائونسوں کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے اس معاملہ کو پرانا کہہ کر الائونسوں کی ادائیگی سے معذرت کردی۔ چونکہ واقف زندگی )اس زمانہ میں( اپنے حق کے لئے بھی زور نہیں دے سکتا تھے لہذا مجھے خاموش ہونا پڑا۔ لیکن انڈونیشیا میں سکھوں سے لئے ہوئے قرض کو کئی ماہ تک ادا کرتا رہا۔ ۶۶/۷/۹ محمد سعید انصاری<۷۱
مولانا محمد صادق صاحب کے کارنامے
۷۔ مولانا محمد صادق صاحب )۱۵۔ دسمبر ۱۹۴۹ء تا مارچ ۹/۸ مارچ ۱۹۵۷ء۔ ۳۔ دسمبر ۱۹۵۸ء تا ۱۸۔ اگست ۱۹۶۲ء۷۲
آپ کے ابتدائی زمانہ قیام میں سنگاپور اور ملایا میں سخت مخالفت اٹھ کھڑی ہوئی۔ جس پر آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر سنگاپور سے پنانگ تک کا وسیع تبلیغی دورہ کیا اور قریباً ایک سو علماء سے ملاقات کی۔ آپ کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ قریباً نوے فیصدی علماء نے اقرار کیا کہ ہم احمدیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ خادم اسلام یقین کرتے ہیں اور انہیں کافر کہنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمیں پہلے احمدیت کے عقائد کے متعلق دھوکہ دیا گیا تھا۔ جن کی وضاحت اب ہم پر ہوچکی ہے۔۷۳
مکرم مولوی صاحب موصوف کا ۲۳۔ جولائی ۱۹۵۱ء کو ریاست سلانگور کے ہشام الدین عالم شاہ کی موجودگی میں علماء ریاست سے باقاعدہ ڈھائی گھنٹہ تک مباحثہ ہوا۔ اس اہم مباحثہ کی روداد مکرم مولوی محمد صادق صاحب کے قلم سے درج کی جاتی ہے۔
>جرام JERAM )ریاست سلانگور( میں جماعت قائم ہونے کی وجہ سے ریاست میں کافی مخالفت ابھر چکی تھی اور چونکہ نکاح کرانا۔ مقبرہ میں دفن کرنے کی اجازت دینا بڑے افسروں کے اختیار میں ہوتا ہے اس لئے ہم نے سلطان سلانگور سے اپنے عقائد بیان کرتے ہوئے درخواست کی وہ ہماری جماعت کو اسلامی قرار دے کر لوگوں کے فتنہ کا سدباب کریں۔ سلطان موصوف نے اس درخواست کو درخور اعتناء جانا۔ اور بیس احمدی دوستوں کو دعوتی خطوط بھیج کر بلایا اور مجھے بھی بذریعہ تار جرام پہنچنے کا حکم جاری کردیا۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ریاست کے تمام بڑے بڑے علماء کو بلایا جاچکا ہے۔ دس بجے تو سلطان نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ آج ہم ایک نئے مذہب کی تحقیق کے لئے جمع ہوئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ خود ہی اس کی تحقیق کریں۔ سلطان کے ارشاد پر میں نے اپنی ابتدائی تقریر میں حاضرین کو بتایا کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ بلکہ وہ حقیقی اسلام ہی ہے۔ پھر سلطان نے علماء کے اشارے پر یہ ارشاد کیا کہ میں اپنے عقائد ذرا تفصیل سے بیان کروں۔ میں نے بیان کیا کہ جماعت احمدیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتی ہے۔ ۲۔ آنحضرت~صل۱~ کے بعد غیر تشریعی نبی آسکتا ہے اور جماعت احمدیہ مانتی ہے کہ امت محمدیہ کے مسیح موعود حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں۔ اس پر ایک عالم نے اٹھ کر کہا کہ آنحضرت~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ کیونکہ نبی اکرم~صل۱~ خاتم النبین ہیں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ اگر اس کا مطلب کسی نبی کا نہ آسکنا ہے تو پھر ان سے دریافت فرمائیں کہ یہ لوگ نبی اللہ عیسیٰؑ کے آنے کے قائل ہیں یا نہیں۔
علماء نے کہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق نبی اللہ کا لفظ دکھایا جائے۔ میں نے مشکٰوۃ سے مطلوبہ حوالہ دکھا دیا اور علماء نے اسے دیکھ کر تسلیم بھی کرلیا۔ مگر قاضی القضاء کو اصرار تھا کہ نبی اللہ آنے والا عیسیٰ ہی ہوگا۔ کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا۔ یہ بحث ختم ہوئی۔ تو مجھے کہا گیا کہ میں غیر تشریعی نبی کے آسکنے کے دلائل قرآن کریم سے پیش کروں۔ سب سے پہلے میں نے الیواقیت و الجواہر سے خاتم النبین کے معنے بیان کئے کہ آپ تمام تشریعی انبیاء کو ختم کرنے والے ہیں۔ جسے دوسرے علماء نے بھی تسلیم کیا۔ پھر تھوڑی بحث و تمحیص کے بعد جب ابھی قرآنی دلائل کا سلسلہ شروع بھی نہ ہوا تھا۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ ہمیں تاریخ مرزا صاحب۔ عقاید۔ دوسروں کے اختلافات۔ دعاوی اور معجزات کے متعلق پرچہ لکھ کر بھیج دیا جائے۔ تاکہ ہم اس پر مزید غور کرسکیں۔ اس کے لئے ۳۰۔ جولائی سے ۱۴ دن تک کا وقت مقرر کیا گیا۔ اور اس پر چودہ دن کا عرصہ تنقید کے لئے مقرر ہوا۔ اس کے بعد علماء نے سلطان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں نماز جمعہ بڑی مسجد میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ پڑھنے کا حکم صادر فرمائیں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ یہ لوگ ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کافر اور جھوٹا کہتے ہیں۔ اگر یہ انہیں سچا مان لیں تو ہم بخوشی اس کے لئے تیار ہیں۔ اور چونکہ آپ نے اب احمدیت کے متعلق تحقیق شروع کی ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ فی الحال اس سوال کو نہ اٹھایا جائے۔ اس پر ڈائرکٹر مذہبیات نے کچھ جرح قدح کی۔ لیکن سلطان نے یہی حکم دیا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا جماعت بدستور عمل و عبادت میں مشغول رہے۔ اس کے بعد سلطان کے ساتھ سب علماء نے بشمول ہمارے کھانا کھایا۔ اور ۲ بجے کے قریب ہم رخصت ہوئے۔ مطلوبہ پرچہ لکھ کر ۳۔ اگست کو شیخ الاسلام کی خدمت میں ارسال کر دیا گیا۔ یہ پرچہ بیس صفحات پر مشتمل تھا۔ )لیکن افسوس کہ علماء کی طرف سے تاحال اس کا جواب موصول نہیں ہوا<(۷۴
۲۴۔ ۲۵ ستمبر ۱۹۶۰ء کو مکرم مولوی محمد صادق صاحب نے ایک پراٹسٹنٹ پادری میتھیو فینلے )YALNFI (MATHEW سے مسئلہ الوہیت مسیح اور مسئلہ کفارہ پر مناظرہ کیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے اس مباحثہ میں اسلام کو ایسی شاندار کامیابی نصیب ہوئی کہ ایک مشہور مصنف شیخ علوی بن شیخ الہادی )عرب( نے اخبار میں لکھا کہ میں ستر برس کا ہوچکا ہوں مجھے معلوم نہیں کہ مسلمانوں نے کبھی اس طرح عیسائیوں کو مباحثہ میں شکست فاش دی ہو۔ یہی نہیں عیسائی مناظر پادری میتھیوفینلے نے جماعت احمدیہ سنگاپور کے پریذیڈنٹ عبدالحمید صاحب سالکین سے درخواست کی کہ یہ مباحثہ شائع نہ کیا جائے۔ پھر یونیورسٹی آف ملایا کے مسلم طلبہ نے اس مباحثہ کے ریکارڈ لئے۔۷۵
مولانا محمد صادق صاحب کی طرف سے بنیادی لٹریچر تیار کیا گیا۔ چنانچہ آپ نے سنگاپور اور ملایا میں مندرجہ ذیل کتابیں تصانیف کیں جو شائع ہوچکی ہیں۔
۱۔
ترجمہ قرآن مجید )غیر مطبوعہ( بزبان انڈونیشیا( یہ اہم کام تبلیغ و تعلیم اور مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک سال )نومبر ۱۹۵۲ء تا ۲۲۔ دسمبر ۱۹۵۳ء( میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔
۲۔
سچائی۔ قریباً ۱۲۰ صفحات کی کتاب۔
۳۔
>بیان احمدیت< ۱۹۵۵ء میں ملایا اور سنگاپور میں احمدیت کے خلاف یکے بعد دیگرے تین چار کتب شائع ہوئیں جن کے جواب میں آپ نے یہ کتاب شائع کی جس میں اختلافی مسائل پر سیرکن بحث کرنے کے علاوہ سینکڑوں اعتراضات کے جواب بھی دیئے۔ پورے ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
۴۔
ارکان ایمان ۳۶ صفحات فلسکیپ سائز۔
۵۔
اسلامی نمازیں جس میں تمام اسلامی نمازوں کا مفصل ذکر درج ہے۔ قریباً ۸۰ صفحات فلسکیپ سائز۔
مولانا صاحب کے ذریعہ انڈونیشیا اور ملایا میں سینکڑوں نفوس کو ہدایت نصیب ہوئی جن میں سے انکو اسمٰعیل بن عبدالرحمن صاحب ساکن جوہور جوشاہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۷۶
دوسرے مجاہدین کی سرگرمیاں
۸۔ قریشی فیروز محی الدین صاحب )۱۱۔ جنوری ۱۹۵۳ء تا ۲۱۔ مارچ ۱۹۵۶ء( قریشی صاحب نے اپنے سہ سالہ قیام میں ملک کے بعض کثیر الاشاعت انگریزی اخبارات میں مضامین لکھ کر اسلام کی ترجمانی کی۔ اس خدمت کا ملک کے مسلمان اہل علم طبقہ پر اچھا اثر ہوا۔
۹۔
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری )۳۔ مئی ۱۹۶۲ء تا ۹۔ ستمبر ۱۹۶۶ء(
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ساڑھے چار سال تک انچارج مشنری کے فرائض بجا لاتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے کئی مقابلے کئے۔۷۷ سنگاپور رہ کرشنن مشن کے سمپوزیم میں اسلام کی نمائندگی کی۔۷۸ مسجد سنگاپور کی تجدید کرائی۔۷۹ نیز مندرجہ ذیل بادشاہوں اور دیگر نامور شخصیتوں کو قبول اسلام کی دعوت دی اور پیغام حق پہنچا کر قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی لٹریچر پیش کیا۔
۱۔ پرنس فلپ آف انگلینڈ۔ ۲۔ تھائی لینڈ کے شاہ بہانویں اور ان کی ملکہ۔
۳۔ بیلجیم کے شاہ بائو ڈوین )اول( ۴۔ انگلینڈ کے ڈیوک آف گلاسٹر۔
۵۔ چرچ آف انگلیند کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری۔
۶۔ سکم کے بادشاہ اور ان کی رانی۔ ۷۔ جاپان کے شاہنشاہ۔
۸۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم۔ ۹۔ ملایا کے شاہنشاہ یا سلطان اعظم نیگ دی اگونگ۔
۱۰۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم۔ ۱۱۔ ملیشیا کے وزیراعظم تنکو عبدالرحمن۔
۱۲۔ سنگاپور کے وزیراعظم اور دیگر سب وزراء۔ ۱۳۔ الحاج امین الحسینی چیف مفتی آف فلسطین۔
۱۴۔ پرنس سہانوک ہیڈ آف کیمبوڈیا سٹیٹ۔۸۰
فروری ۱۹۶۶ء میں ملائیشیا کے ایک جامعہ ازہر کے تعلیم یافتہ ملائی عالم استاد فوزی نے ایک کتاب بعنوان >مذاہب عالم< شائع کی جس میں صریح افترا پردازی سے کام لیتے ہوئے جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بہت زہر اگلا۔ اس کتاب کے جواب میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج سنگاپور نے ایک خط شائع کیا جس میں استاد فوزی کے تمام الزامات کا مسکت جواب دینے کے علاوہ ان کو متنازعہ فیہ امور اور اختلافی مسائل پر مناظرہ کا چیلنج بھی دیا گیا اور یہ بھی پیشکش کی گئی کہ ہمارے خلاف اپنے دعاوی ثابت کرنے کی صورت میں انہیں ۱۰۰۰ ہزار ڈالر انعام کے طور پر پیش کیا جائے گا اور پانچ علماء کے ساتھ سنگاپور آنے جانے اور رہائش کے خرچ کی ادائیگی کی ذمہ داری بھی لی گئی۔ مگر باوجود کئی تحریری یا دوہانیوں کے وہ مقابل پر نہ آئے۔
مولوی محمد صدیق صاحب کے بعد مولوی محمد عثمان صاحب چینی ۱۹۶۶ء میں بھجوائے گئے ہیں۔ جو اب تک سنگاپور میں مصروف تبلیغ ہیں۔
دارالتبلیغ سنگاپور غیروں کی نظر میں
مبلغین احمدیت نے علمی و تبلیغی طور پر کہاں تک سنگاپور کو متاثر کیا ہے؟ اس کا جواب ملایا یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر زین العابدین بن احمد کی مندرجہ ذیل رپورٹ سے باسانی اخذ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا۔
>آج سے تیس سال قبل جماعت احمدیہ کے اصول و عقائد زیر بحث آئے اور ملایا کے پریس میں ان کی مذمت کی گئی۔ لیکن اب ملایا کے تعلیم یافتہ مسلمان ان سنجیدہ نظریات و تشریحات سے کم تعصب روا رکھتے ہیں۔ جو اعتدال پسند احمدیوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ احمدیوں کے خیالات اور نظریات کو اپنا رہے ہیں۔ مگر احمدی کہلانے سے گریز کرتے ہیں۸۱ )ترجمہ(
دارالتبلیغ جاپان کا قیام
صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز ۴۔ جون ۱۹۳۵ء کو کوبے (Kobe) )جاپان( میں پہنچے۔۸۲ صوفی صاحب کا شروع میں بہت سا وقت جاپانی زبان سیکھنے میں صرف ہوا مگر آہستہ آہستہ آپ ملک کے مختلف حلقوں میں اثر و نفوذ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کوبے (Kobe) کالج آف کامرس۔ کینڈین اکیڈمی` اوساکا انگلش سپیکنگ سوسائٹی اور بعض دوسری سوسائیٹیوں میں آپ کے لیکچر ہوئے اور کئی جاپانی شخصیتوں سے تعارف پیدا کیا۔۸۳ اور آپ کے ذریعہ ایک تعلیم یافتہ جاپانی بھی داخل احمدیت ہوا۔۸۴ حکومت جاپان کو آپ کی نسبت شروع سے بعض سیاسی نوعیت کے شکوک تھے۔ جاپانی پولیس کی طرف سے آپ کی کڑی نگرانی کی گئی۔ آپ زیرحراست لے لئے گئے۔ لیکن تحقیقات مکمل ہونے پر آزاد کر دئے گئے۔۸۵
قیام جاپان کے دوران آپ نے آنحضرت~صل۱~ کی سوانح اور اسلامی تعلیمات و عبادات اور اس کی حکمتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی تصنیف کرنی شروع کی جس کے قریباً تیرہ سو صفحات کا جاپانی میں رف ترجمہ بھی ہوچکا تھا اور ایک پبلشر کے ساتھ حق تصنیف کی فروخت سے متعلق بات چیت بھی ہورہی تھی کہ آپ کو واپس بلا لیا گیا۔۸۶ اور آپ ۱۲۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو قادیان پہنچ گئے۔۸۷
صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز جاپان میں ہی مصروف تبلیغ تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۰۔ جنوری ۱۹۳۷ء۸۸ کو مولوی عبدالغفور صاحب` برادر خورد مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کو روزانہ فرمایا اور ان کو اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر دیں۔
>۱۔
سب سے پہلے آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ تحریک جدید کے ماتحت جارہے ہیں۔ جس کے مبلغوں کا اقرار یہ ہے کہ وہ ہر تنگی ترشی برداشت کرکے خدمت اسلام کا کام کریں گے۔ اور تنخواہ دار کارکن نہیں ہوں گے۔ بلکہ کوشش کریں گے کہ جلد سے جلد خود کما کر اسلام کی خدمت کرنے کے قابل ہوں۔ اس وقت جو مبلغ وہاں ہیں وہ تحریک جدید کے مبلغ نہیں بلکہ انہیں عارضی طور پر دعوۃ و تبلیغ سے لیا گیا ہے۔ اس لئے اس بارہ میں آپ کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ آپ کے لئے سردست ایک گزارہ کا انتظام کیا جائے گا۔ جیسا کہ چین` سپین` ہنگری وغیرہ کے مبلغوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ کو بھی کوشش کرنی چاہئے اور ہم بھی کوشش کریں گے کہ آپ وہاں سے اپنے گزارہ کے قابل خود رقم پیدا کرسکیں۔ اور اس کا آسان طریق یہ ہے کہ جاپان اور ہندوستان میں تحریک جدید کی معرفت کوئی تجارتی سلسلہ قائم کیا جائے مگر اس سے بھی پہلے آپ کو جاپانی زبان سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ کے سامنے ہنگری اور سپین کے مبلغوں کا شاندار کام رہنا چاہئے۔ جنہوں نے آپ کی نسبت زیادہ مشکلات میں اور ان ممالک کے لحاظ سے کم خرچ پر وہاں نہایت اعلیٰ کام کیا ہے اور اعلیٰ طبقہ میں احمدیت پھیلائی ہے۔
۲۔
آپ کو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنا چاہئے۔ جس سے سب نصرت آتی ہے اور قرآن کا مطالعہ اور اس کے مضامین پر غور پر مداومت اختیار کرنی چاہئے۔ اسی طرح کتب سلسلہ اور اخبارات سلسلہ کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے۔
۳۔
باہر جانے والوں کو اپنا کام دکھانے کے لئے بعض دفعہ تصنع کی طرح رغبت ہو جاتی ہے اس سے بچنا چاہئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہمیشہ مدنظر رہے۔
۴۔
نیک عمل نیک قول سے بہتر ہے اور عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے بہتر ہے اور نیک ارادہ ان دونوں امور میں انسان کا ممد ہوتا ہے۔
۵۔
نماز کی پابندی اور جہاں تک ہوسکے باجماعت اور تہجد جب بھی میسر ہو۔ انسان کے ایمان اور اس کے عمل کو مضبوط اور قوی کرتے ہیں۔
۶۔
اللہ نور السموت و الارضط ہے۔ پس محبت الٰہی کو سب کامیابیوں کی کلید سمجھنا چاہئے جو خداتعالیٰ سے والہانہ محبت رکھتا ہے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوتا۔ مگر خیالی محبت نفع نہیں دیتی۔ محبت وہی ہے جو دل کو پکڑلے۔
۷۔
اسلام کے لئے ترقی مقدر ہے۔ اگر ہم اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو یہ ہمارا قصور ہے۔ یہ کہنا کہ یہاں کے لوگ ایسے ہیں اور ویسے ہیں صرف نفس کو دھوکا دینا ہوتا ہے۔
۸۔
تبلیغ میں سادگی ہو۔ اسلام ایک سادہ مذہب ہے۔ خواہ مخواہ فلسفوں میں نہیں الجھنا چاہئے۔
۹۔
ضروری نہیں کہ جو ہنسے وہ حق پر ہو یا عقلمند ہو۔ بہت باتیں جن پر پہلے ہنسا جاتا ہے بعد میں سننے والے کے دل کو مسخر کرلیتی ہیں۔ پس جدید علوم کے ماہروں کے تمسخر پر گھبرانا نہیں چاہئے۔ اور نہ ہر بات کو اس لئے رد کردینا چاہئے کہ ہمارے آباء نے ایسا نہیں لکھا۔ سچائی کے ضامن آباء نہیں۔ قرآن کریم ہی ہے۔ پس ہر امر کو قرآن کریم پر عرض کرنا چاہئے۔
۱۰۔
دعا ایک ہتھیار ہے جس سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ سپاہی بغیر ہتھیار کے کامیاب نہیں ہوسکتا۔
۱۱۔
غریبوں کی خدمت اور رفاہ عام کے کاموں کی طرف توجہ مومن کے فرائض میں داخل ہے۔
۱۲۔
مبلغ سلسلہ کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اس ملک کے سب حالات سے سلسلہ کو واقف رکھنا چاہئے۔ خواہ تمدنی ہوں` علمی ہوں` سیاسی ہوں` مذہبی ہوں۔
۱۳۔
جس ملک میں جائے وہاں کے حالات کا گہرا مطالعہ کرے اور لوگوں کے اخلائق اور طبائع سے واقفیت بہم پہنچائے۔ یہ تبلیغ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے۔
۱۴۔
رپورٹ باقاعدہ بھجوانا خود کام کا حصہ ہے۔ جو شخص اس میں سستی کرتا ہے۔ وہ درحقیقت کام ہی نہیں کرسکتا۔
۱۵۔
نظام کی پابندی اور احکام کی فرمانبرداری اور خطاب میں آداب اسلام کا حصہ ہے۔ اور ان کو بھولنا اسلام کو بھولنا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور سفر میں کامیاب کرے۔ خیریت سے جائیں اور خیریت سے آئیں اور خداتعالیٰ کو خوش کردیں<۔۸۹
مولوی عبدالغفور صاحب پونے پانچ سال تک فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے۔
دارالتبلیغ ہانگ کانگ )چین( کا قیام
چین میں پہلا احمدیہ مشن صوفی عبدالغفور صاحب بھیروی نے قائم کیا جو ۲۷۔ مئی ۱۹۳۵ء10] [p۹۰ کو ہانگ کانگ پہنچے اور متعدد سال تک فریضہ تبلیغ بجا لانے کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے۔ آپ کے زمانہ میں جماعت احمدیہ چین کی داغ بیل پڑی۔ سب سے پہلے چینی احمدی )جس کی اطلاع مرکز میں پہنچی( لی اونگ کنگ فنگ۔ FUNG KING LEUNG تھے۔ جو قصبہ SHOW KAWAI ضلع SANTAK صوبہ KWANTEENG کے باشندہ تھے۔۹۱
صوفی صاحب موصوف نے دوران قیام میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا چینی ترجمہ۹۲ کرایا جس سے اشاعت احمدیت میں پہلے سے زیادہ آسانی پیدا ہوگئی۔
صوفی صاحب کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم سے ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء کو شیخ عبدالواحد صاحب فاضل چین روانہ ہوئے۔۹۳ شیخ صاحب نے >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے چینی ترجمہ کی اشاعت کے علاوہ بعض تبلیغی پمفلٹ بھی بکثرت شائع کئے۔۹۴ آپ کے ذریعہ بھی کئی سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں۔۹۵ آپ ۶۔ مارچ ۱۹۳۹ء]10 [p۹۶ کو واپس مرکز میں پہنچے۔
شیخ عبدالواحد صاحب ابھی چین میں اشاعت احمدیت کا فرض ادا کررہے تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے چوہدری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی کو ۲۷۔۹۷ ستمبر ۱۹۳۷ء کو چین روانہ فرمایا اور اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نصائح لکھ کر دیں۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
اللہ تعالیٰ کی محبت سب اصول سے بڑا اصل ہے۔ اسی میں سب برکت اور سب خیر جمع ہے۔ جو سچی محبت اللہ تعالیٰ کی پیدا کرے وہ کبھی ناکام نہیں رہتا اور کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا۔ نمازوں کو دل لگا کر پڑھنا اور باقاعدگی سے پڑھنا۔ ذکر الٰہی۔ روزہ۔ مراقبہ یعنی اپنے نفس کی حالت کا مطالعہ کرتے رہنا سونا کم۔ کھانا کم۔ دین کے معاملات میں ہنسی نہ کرنا نہ سننا۔ مخلوق خدا کی خدمت۔ نظام کا ادب و احترام اور اس سے ایسی وابستگی کہ جان جائے اس میں کمی نہ آئے۔ اسلام کے اعلیٰ اصول ہیں۔
قرآن کریم کا غور سے مطالعہ علم کو بڑھاتا ہے اور دل کو پاک کرتا ہے اور دماغ کو نور بخشتا ہے۔ سلسلہ کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ ضروری ہے۔
خدا کے رسولﷺ~ اور مسیح موعودؑ اس کے خادم کی محبت خداتعالیٰ کی محبت کا ہی جزو ہے۔ نہ محمد~صل۱~ جیسا کوئی نبی گزرا ہے۔ نہ مسیح موعودؑ جیسا نائب~صل۱~۔
تقویٰ اللہ ایک اہم شے ہے۔ مگر بہت لوگ اس کے مضمون کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔
سلسلہ کے مفاد کو ہر دم سامنے رکھنا۔ بلند نظر رکھنا۔ مغلوبیت سے انکار اور غلبہ اسلام اور احمدیت کے لئے کوشش ہماری زندگی کا نصب العین ہونے چاہئیں<۔۹۸
خاکسار مرزا محمود احمد<
چوہدری محمد اسحٰق صاحب قریباً ساڑھے تین سال تک چین میں احمدیت کا نور پھیلاتے رہے اور اپریل ۱۹۴۱ء۹۹ کو قادیان آگئے۔
حضرت امیرالمومنین کا پہلا سفر سندھ
سیدنا حضرت امیرالمومنینؓ نے اراضیات سندھ کے معائنہ کی غرض سے پہلا سفر ۱۹۳۵ء میں کیا۔ حضور ۹۔۱۰۰ مئی ۱۹۳۵ء کو بعد نماز عصر قادیان سے روانہ ہوئے۔ حضور کے عہد خلافت میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ حضورؓ سندھ کی طرف تشریف لے گئے۔ اس سفر میں حضرت امیرالمومنینؓ کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے ناظر تعلیم و تربیت۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ۔ حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ حضرت مرزا محمد اشرف صاحب ناظم جائیداد پہلے ہی سندھ پہنچ گئے تھے۔۱۰۱
حضرت امیرالمومنینؓ ۱۱۔ مئی ۱۹۳۵ء کو ڈھائی بجے )بعد دوپہر( جھڈو اسٹیشن پر اترے۔ اور تھوڑی دیر آرام فرمانے کے بعد اسٹیشن کی انتظارگاہ میں ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں اور شام کے ۶ بجے حضور کا قافلہ دو پارٹیوں میں احمد آباد۱۰۲ اسٹیٹ کی طرف روانہ ہوا۔ حضور نے گھوڑے پر سوار ہونا پسند فرمایا۔ گھوڑوں پر حضور کے ہمراہ چوہدری غلام احمد صاحب منیجر احمد آباد اسٹیٹ` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور بعض اور اصحاب تھے۔ ایک پارٹی جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحب` چودھری محمد سعید صاحب خلف الرشید خان بہادر حضرت نواب چودھری محمد دین صاحب` حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری پر مشتمل تھی` موٹرکار میں بیٹھی۔ ایک جگہ موٹر ٹھہرا کر حضور سے عرض کی گئی کہ اگر اجازت ہو تو احمد آباد پہلے پہنچ کر منتظر احباب کو اطلاع کردی جائے کہ حضور گھوڑے پر تشریف لارہے ہیں۔ حضور نے اجازت تو دے دی لیکن حضور موٹر سے پہلے پہنچ گئے۔ احمد آباد اسٹیٹ کے دوستوں نے خوبصورت گیٹ بنایا ہوا اور راستہ سجایا ہوا تھا۔ حضور جونہی احمد آباد میں پہنچے احباب نے اللہ اکبر کے نعروں سے حضور کا استقبال کیا۔۱۰۳
حضور نے اس سفر میں اراضیات سندھ کا معائنہ فرمایا۔ ۱۷۔ مئی ۱۹۳۵ء کو حیدر آباد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور بینٹ ہال میں پبلک لیکچر دیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ بڑی رواں تقریر فرماتے تھے لیکن حیدرآباد میں حضور نے جو لیکچر دیا اس کے دوران دو ایک سیکنڈ کے لئے حضور کی زبان مبارک میں عجیب طرح لکنت ظاہر ہوئی جسے سب سندھی احمدیوں نے محسوس کیا۔]4 [stf۱۰۴
سندھ سے واپس قادیان تشریف لے جاتے ہوئے جن احمدی جماعتوں نے حضور کا استقبال کیا ان میں سلسلہ احمدیہ کے مطبوعہ ریکارڈ میں صرف جماعت احمدیہ ضلع ملتان کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ اخبار الفضل ۲۴۔ مئی ۱۹۳۵ء میں لکھا ہے۔
>۱۹۔ مئی بروز اتوار ایک بجے دن حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا علاقہ سندھ سے قادیان دارالامان کی واپسی پر ملتان سے گزر ہوا۔ جماعت احمدیہ ملتان کے چھوٹے بڑے۔ بچے بوڑھے اور جوان تمام شوق زیارت کے لئے ملتانی چھائونی سٹیشن پر جمع تھے۔ بعض بیرونی جماعتوں کے دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ اخوند محمد افضل خان صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ ڈیرہ غازی خاں باوجود پیرانہ سالی اور علالت اور ضعف کے ایک روز پیشتر ہی آگئے تھے۔ احمدی احباب کے علاوہ ملتان کے ہندو۔ عیسائی اور مسلم اکابر بھی شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے کافی تعداد میں جمع تھے۔ ان میں اکثر وکلاء۔ پروفیسران تھے۔ گاڑی ٹھیک وقت پر پہنچی اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ پر نگاہ پڑتے ہی اللہ اکبر کے نعرے فضاء میں گونج اٹھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی از راہ شفقت گاڑی کے دروازہ میں آکر کھڑے ہوگئے۔ جس رعب و تمکنت اور جلال کے ساتھ آپ رونق افروز ہوئے اس کی کیفیت صرف تصور میں آسکتی ہے۔ حضور نے اپنے غلاموں کو شرف مصافحہ بخشا۔ اور اس امر کی اطلاع ملنے پر کہ بعض غیر احمدی اور ہندو معززین بھی شرف دیدار کے منتظر ہیں۔ آپ سیکنڈ کلاس کے ویٹنگ روم میں تشریف لے آئے۔ جہاں سب کا آپ سے باری باری تعارف کرایا گیا۔ وکلاء میں سے غلام قادر خاں صاحب۔ رحیم بخش صاحب آزاد۔ پیرزادہ عطاء محمد صاحب۔ محمد ابراہیم صاحب شمی۔ لالہ رامچندر صاحب۔ مسٹر آرتھر اے اور پروفیسر صاحبان میں سے چودھری صادق محمد صاحب ایم۔ اے۔ مسٹر مبارک احمد صاحب ایم۔ اے۔ گوپال داس صاحب کھنہ ایم۔ اے۔ مسٹر دیسراج صاحب پوری ایم۔ اے قابل ذکر ہیں۔ لالہ رام پرتاپ صاحب اے۔ ایس۔ آئی ڈبلیو بھی تھے۔ ان کے علاوہ دیگر شرفاء بھی تھے جنہیں ذوق دیدار و ملاقات سٹیشن پر کشاں کشاں کھینچ لایا تھا۔ احباب نے پھولوں کے ہار حضور کے گلے میں ڈالے۔ آپ اور آپ کے رفقاء سفر کی برف اور بوتلوں سے تواضع کی۔ چونکہ گاڑی یہاں دس منٹ کے لئے ٹھہرتی ہے۔ اس لئے یہ قلیل وقت مصافحوں اور تعارف میں صرف ہوگیا۔ گاڑی نعروں کے درمیان روانہ ہوئی۔ ہجوم بفضلہ اچھا خاصہ تھا۔ اور دوستوں نے جس بے تابانہ اخلاص` کمال شوق اور کیف آور وارفتگی و شفتگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ تحریر میں نہیں آسکتا۔ بعض احباب نے خانیوال تک معیت کی سعادت سے بہرہ اندوز ہونے اور چلتی گاڑی میں کھانا کھلانے کی غرض سے جو پہلے سے تیار تھا۔ ٹکٹ لے لئے تھے۔ جن میں اخوند محمد افضل خان صاحب۔ شیخ فضل الرحمن صاحب اختر پریذیڈنٹ۔ چوہدری اعظم علی صاحب سب جج۔ شیخ محمد حسین صاحب۔ وائس پریذیڈنٹ۔ ملک شیر محمد صاحب۔ خان بہادر ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب۔ پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے۔ میاں قادر بخش صاحب۔ میاں اللہ دتا صاحب۔ مسٹر بشیر احمد صاحب ٹکٹ کلکٹر قابل ذکر ہیں۔ حضرت امیرالمومنین اور آپ کے رفقاء کو گاڑی میں کھانا کھلایا گیا۔ قریباً ایک گھنٹہ کی مسافت کے بعد کراچی میل خانیوال پہنچی۔ جہاں مقامی اور محمود آباد اسٹیٹ کے احمدی احباب کو جم غفیر تھا۔ اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہوئی۔ حضور نے اول احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر گفتگو فرماتے رہے۔ ملتان سے جو خدام ہمراہ آئے تھے انہیں الوداعی مصافحہ کی عزت بخشی۔ چند منٹ کے بعد گاڑی روانہ ہوئی۔ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے۔ یہ امر نوٹ کرلینے کے قابل ہے کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے بائیس سالہ عہد خلافت میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ حضور کا اس لائن سے گزر ہوا۔۱۰۵
قادیان میں ورود
حضرت امیرالمومنینؓ ۱۹۔ مئی ۱۹۳۵ء بوقت دس بجے شب بخیر و عافیت قادیان دارالامان واپس تشریف لائے۔ مقامی جماعت نے قادیان سے باہر استقبال کیا اور حضور نے اپنے خدام کو شرف مصافحہ بخشا۔۱۰۶
کوئٹہ میں ہولناک زلزلہ اور مصیبت ]0 [stfزدگان کی وسیع پیمانے پر امداد
۱۹۳۵ء میں خداتعالیٰ کا قہری نشان ۳۱۔ مئی کو پونے تین بجے صبح کے وقت کوئٹہ کے خوفناک زلزلہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جس نے
زلزلہ بہار کو بھی مات کردیا۔ جیسا کہ اخبار >پرتاپ< لاہور )۶۔ جون ۱۹۳۵ء( نے لکھا۔ >یہ زلزلہ نہ صرف بلوچستان بلکہ ہندوستان کی تاریخ میں مہیب ترین ہے۔ اپریل ۱۹۰۴ء میں دھرم سالہ جو زلزلہ آیا اس نے بھی بہت تباہی مچائی تھی ۱۹۳۴ء میں بہار میں زلزلہ آیا۔ بہار کا زلزلہ بڑا ہولناک تھا اور اس کے حالات پڑھ کر ہم حیران ہوتے تھے لیکن کوئٹہ کے زلزلہ نے انہیں مات کر دیا ہے<۔۱۰۷
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۳۔ جون ۱۹۳۵ء کو ایک اہم مضمون لکھا۔ جس میں جماعت احمدیہ کو فوری توجہ دلائی کہ کوئٹہ کے مصیبت زدگان کی امداد کے سلسلہ میں ان پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا۔
>احباب اخبارات میں پڑھ چکے ہوں گے کہ کوئٹہ میں ایک شدید زلزلہ آیا ہے۔ جس سے قریباً اسی فیصدی آبادی تباہ ہوگئی ہے۔ یہ ایک تازہ نشان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا۔ جنہوں نے بوضاحت شدید زلزلوں کی خبر دیکر دنیا کو پہلے سے جگا دیا تھا۔ مگر افسوس کہ لوگ اب تک نہیں جاگے لیکن جہاں یہ زلزلہ ایک نشان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صداقت کا۔ وہاں اس کے صدمہ سے بچنے والے لوگوں کی ہمدردی اور ان کی خدمت کی اہم ذمہ داری بھی جماعت احمدیہ پر پڑتی ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم مصیبت زدوں کی غیر معمولی خدمت کرکے دنیا پر ثابت کردیں کہ ہم دنیا کی ہمدردی اور اس کی خیر خواہی کو اپنا ذاتی فرض سمجھتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اسے پورا کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ میں نے اس وقت خدمت کرنے کے لئے ایک ڈاکٹر۔ دو کمپونڈر اور ایک سیکرٹری کو کوئٹہ روانہ کردیا ہے۔ اور ان کے ساتھ بہت سا سامان مرہم پٹی وغیرہ کا بھی بھیجا گیا ہے۔ اور ان لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نہ صرف جماعت احمدیہ کے حاجتمند احباب کی مدد کریں۔ بلکہ تمام مذاہب و ملت کے لوگوں کی حتی الوسع امداد کریں۔ اسی سلسلہ میں میں احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جس رنگ میں بھی اس کام میں امداد کرسکتے ہیں۔ امداد سے دریغ نہ کریں۔ جو ڈاکٹر اس وقت وہاں پہنچ سکتے ہوں سلسلہ کے نظام کے تحت وہاں پہنچ کر کام کریں۔ جو ڈسپنسر اور کمپائونڈر وقت دے سکتے ہوں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کریں اور جو لوگ مزدوری وغیرہ کا کام کرسکتے ہیں وہ بھی اپنے آپ کوپیش کریں کیونکہ ملبہ وغیرہ اٹھانے کا بھی بہت بڑا کام ہے۔ ممکن ہی اس کوشش سے بھی کئی جانیں بچ جائیں۔ گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ بعض لوگ دو۔ دو ہفتہ بھی ملبوں کے نیچے سے زندہ نکل آئے ہیں۔ ان لوگوں کے سوا جو کام کے لئے وہاں جاسکتے ہوں دوسرے احباب سے میں یہ خواہش کرتا ہوں کہ وہ دل کھول کر چندہ دیں<۔۱۰۸
جماعت احمدیہ نے اپنے پیارے امام کی آواز پر پورے خلوص سے لبیک کہا اور ہندوستان اور بیرونی ممالک کے احمدیوں نے مصیبت زدگان کی امداد کے لئے ہزاروں روپے پیش کردیئے۔۱۰۹
یہاں اس خدائی تصرف کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ جہاں اس زلزلہ کے نتیجہ میں کوئٹہ کی آبادی کا اسی یا نوے فیصدی حصہ لقمہ اجل ہوا وہاں خدا کے خاص فضل و عنایت سے جماعت احمدیہ کوئٹہ کا نقصان صرف ۱۲ فیصدی کے قریب تھا۔ اور اکثر احمدی گھرانے بالکل محفوظ و مصئون رہے۔ خداتعالیٰ کی طرف سے احمدیوں کی یہ خصوصی حفاظت ایک خارق عادت بات تھی اور عقل و بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایک عظیم الشان نشان۔۱۱۰
لندن سے >مسلم ٹائمز< کا اجراء
۱۹۳۵ء میں امام مسجد لنڈن مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے >دی مسلم ٹائمز< کے نام سے ایک انگریزی اخبار جاری کیا۔ یہ اخبار جس کا پہلا پرچہ ۶۔ جون۱۱۱ ۱۹۳۵ء کو شائع ہوا۔ انگلستان میں یہ پہلا اسلامی اخبار تھا جو جاری کیا گیا۔ یہ رسالہ ۱۹۳۷ء تک نکلتا رہا۔ فرینکفورٹ کی ایک مرکزی لائبریری میں اس کا مجلد فائل موجود ہے۔
لنڈن سے رسالہ >الاسلام< )انگریزی( کا اجرا
)سیدنا( حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب` مرزا ظفر احمد صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب نے یورپ کو اسلامی
‏tav.8.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
تعلیم سے روشناس کرانے اور اس کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لئے >الاسلام< کے نام سے ایک سہ ماہی انگریزی رسالہ لنڈن۱۱۲ سے جاری فرمایا۔ اس رسالہ کی زبان فصیح اور شستہ اور ظاہری صورت نہایت عمدہ تھی۔ اور رسالہ صوری و معنوی دونوں اعتبار سے معیاری تھا۔ الاسلام کا پہلا شمارہ جون ۱۹۳۵ء میں چھپا جس میں اسلامی جنگوں کی نسبت ایک سیر حاصل مضمون شائع ہوا۔۱۱۳ دوسرے نمبر میں مسئلہ نبوت پر مبسوط اور مدلل رنگ میں روشنی ڈالی گئی۔۱۱۴ یہ رسالہ ۱۹۳۸ء تک جاری رہا۔ رسالہ کے اجراء پر حسب ذیل سرکلر جاری کیا گیا جس سے اس کے مقاصد پر خوب روشنی پڑتی ہے۔
‏MOSQUE LONDON THE
۔ROAD MELROSE 63
‏Telephone:
۔1935 yrauanaJ 15th
‏ 1551 PUTNEY
18۔W۔S ۔LONDON
‏Brother, Dear
‏ work propaganda and Press, the of age the is this know, Well You As Messiah, Promised the why is That ۔agency its through done be best can to God by sent was who him) upon be God of blessings and peace (May vast a us to bequeathed Islam, of propagation the of work the complete۔religion of field the in knowledge of treasure
‏ the of ever, than more us, convinced has England in stay brief Our eht consequently, and, Press the of importance and power enormous more become has English in literature suitable producing of necessity۔us to imperative
‏ supply, to therefore decided have God, in trusting undersigned, the We, our as far as need felt much that country, this in sojourn our during have we shape, practical it give To ۔allow capacity and means limited own our at here, from magazine quarterly small a start to humbledecided our of memento living a be to prove may it that so Expense,
۔country this in Islam of cause the, to service
‏ pages twentyeight of consist should magazine this that proposed is It ۔Religions> of <Review the of that than smaller little a being size its solid of full article, page ۔twenty a be will there number each In pages five or four remaining The ۔work research on based information under present at is title Its ۔comments and notes to devoted be will۔consideration
‏ Mirza and Ahmad, Said Mirza by assisted it, edit will Ahmad Nasir fixedMirza is subscription annual The ۔Manager its as act will Ahmad Zafar۔3/ at
‏ are magazine a running of responsibilities the know, undoubtedly you As interest our as But ۔ourselves like students for especially onerous, very God grace, His through that hope we limelight, for nor pecuniary not is us enable shortcomings, and weaknesses our of spite in will, Almighty in Islam propagate to ours of effort humble this success to bring to۔Materialism of centre the
‏ by us help will you that hope the ni letter this you sending are We and attached to here list the of out subject one least at chossing۔journal quarterly our for thereon articles, or article, and writing
‏ in influence your use would you if also it appreciate should We۔subscribers us getting
‏Faith the in Yours
۔AHMAD NASIR MIRZA
۔AHMAD MUZAFFAR MIRZA
۔AHMAD ZAFAR MIRZA
۔AHMAD SAID MIRZA
اس عرضداشت کے ساتھ ہی مضمون نگار حضرات کی خدمت میں حسب ذیل سرکلر بھجوایا گیا۔
۔words 9000 than more contain not should article The ۔1
۔it with given be should bibliography Complete ۔2
۔given be must references Full ۔3
‏ teaching the of guidance and light the in written be must article The ۔4۔Messiah promised the of
‏ roughly then and studied be should view of point Western The۔ 5
۔discussed
‏ autoritative and authentic contain must articles The۔ 6
۔only information۔comprehensive and relevant concise, ,feirb be must It ۔7
۔avoided be should assertions Vain ۔8
۔discussed duly be should idea the of development and origin The ۔9
‏SUBBJECTS OF LIST
۔Salvery ۔1
۔Interest ۔2
۔Polygamy ۔3
۔women of Position ۔4
۔affairs International and Islam ۔5
۔Labour and Islam۔6
۔Capitalism and Islam ۔7
۔War and Islam۔8
۔Government of Form Islamic۔9
۔Prophethood ۔10
۔Divorce ۔11
۔Science and malsI ۔12
۔Spiritualism and Islam ۔13
۔Mormnism and Islam ۔14
۔Theosophy and Islam ۔15
۔Swedenborgianism and Islam ۔16
۔Purdah ۔17
۔Science Christian and Islam ۔18
۔Fasting ۔19
۔Nimaz ۔20
۔Hajj ۔21
۔Zakat ۔22
۔Sacrifice ۔23
۔Angels ۔24
۔death after Life ۔25
۔Ethics Islamic ۔26
۔Islamic and Christian Jewish, ۔Messiah The ۔27
۔Islam of spread The ۔28
۔wars Islamic ۔29
۔peace World ۔30
‏￿Cross the on die Jesus Did ۔31
۔Marriage ۔32
۔Control Birth and Islam ۔33
۔Quran Holy The ۔34
۔Hadith The ۔35
۔Fiqah ۔36
۔Revelation and Reason ۔37
۔Agnosticism and Islam ۔38
۔Materialism ۔39
۔culture Islamic ۔40
۔inheritance of law Islamic ۔41
۔economics Islamic ۔42
۔Advent Second The ۔43
۔Movement Ahmadiyya The ۔44
۔Judiciary Islamic The ۔45
۔Arts Fine and Islam ۔46
۔Movement Ahmadiyya the ni spilt The ۔47
۔Will of Freedom and Islam ۔48
۔Evolution ۔49
۔God of conception Islamic The ۔50
حجاز کے ولی عہد مسجد فضل لنڈن میں
۱۲۔ جولائی ۱۹۳۵ء کو حجاز کے ولی عہد شہزادہ امیر سعود مسجد فضل لنڈن میں تشریف لائے۔ امام مسجد لنڈن حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے آپ کے اعزاز میں ایک دعوت استقبالیہ دی جس میں امریکہ برازیل` میکسیکو اور عرب کے سفراء کے علاوہ سرعبدالقادر اور پروفیسر گب جیسی نامور شخصیتیں بھی شامل ہوئیں۔ امیر سعود دو گھنٹے تک مسجد میں موجود رہے اور انگریز نو مسلموں سے عربی زبان میں نماز سنکر اور ان کی دستی تحریریں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔۱۱۵
اس تقریب کا برطانوی پریس کے علاوہ عربی اور ہندوستانی اخبارات میں بھی چرچا ہوا۔ اس طرح مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر ان کے نہ آنے کا عمدگی کے ساتھ ازالہ ہوگیا۔۱۱۶
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ پر حضرت امیرالمومنین کی حلفیہ شہادت
ایک صاحب حاجی ضیاء اللہ صاحب )مالک پنجاب سوپ فیکٹری لاہور( نے حضرت امیرالمومنینؓ سے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ پر حلفیہ
شہادت دینے کا مطالبہ کیا۔ جس پر حضور نے تحریر فرمایا کہ۔
>مکرمی السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ میں آپ کے خط کے جواب میں حلفیہ تحریر کرتا ہوں کہ وہ خدا جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کے قبضہ میں میری جان ہے اور جو دلوں کا بھید جانتا ہے میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے نزدیک وہ نبوت جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دعویٰ ہے اسلام کے لئے یا آنحضرت~صل۱~ کے لئے ہتک کا موجب نہیں بلکہ اسلام کی مضبوطی کا موجب ہے اور آنحضرت~صل۱~ کی عظمت بڑھانے کا۔ اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی نبوت نہ صرف قرآن کریم اور حدیث شریف سے ثابت ہے بلکہ مجھے خود اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رویاء و کشوف اس پر یقین دلایا ہے۔
والسلام خاکسار مرزا محمود احمد<۱۱۷
سعودی حکومت کا غیر مسلم کمپنی سے معاہدہ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بصیرت افروز بیان
۱۵۔ مارچ ۱۹۳۵ء کو جلالت الملک سلطان عبدالعزیز ابن سعود۱۱۸ اور ان کے ولی عہد پر طواف کعبہ کے دوران بعض یمنی عربوں نے قاتلانہ حملہ کردیا جس پر شاہ کے حفاظتی دستہ نے حملہ آوروں کو گولیوں سے ہلاک کردیا۔
۱۱۹ اس پر بعض مسلمان اخباروں نے حرم پاک میں عربوں کے قتل پر سخت احتجاج کیا۔ اور اسے >سرزمین حجاز میں یزیدیت< سے تعبیر کیا۔۱۲۰ مخالفت پورے زوروں پر تھی کہ خبر آئی کہ جلالت الملک نے ایک غیر مسلم کمپنی۱۲۱]4 [rtf کو کان کنی کا ٹھیکہ دینے کے لئے ایک معاہدہ طے کرلیا ہے۔
اگرچہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ نہیں تھا۱۲۲ مگر خصوصاً مجلس احرار نے سلطان المعظم اور انکی حکومت کے خلاف مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے جلسے کئے اور اخباروں میں بدگوئی۱۲۳ سے کام لیتے ہوئے سخت زہریلا پراپیگنڈا کیا اور بالاخر اسے ایک خالص مذہبی مسئلہ قرار دے کر مخالفت کا ایک وسیع محاذ کھول دیا۔۱۲۴ جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ احرار لیڈر شریف حسین دالئی مکہ کے شکست کھا جانے کے بعد سعودی حکومت کے بھی مخالف تھے۔ اور ابن سعود کو سرمایہ دارانہ ماحول کا پرورش یافتہ بتا کر بدنام کرتے رہتے تھے۔۱۲۵
احرار کی اس افسوسناک روش کی نسبت کلکتہ کے مسلم روزنامہ اخبار ہند نے حسب ذیل مضمون شائع کیا۔
>یہ واقع ہے کہ مولانا اسمٰعیل غزنوی سالہا سال سے شاہ ابن سعود کے ہاں آمدورفت رکھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مولانا غزنوی کے اسی تعلق کی وجہ سے ان کے بعض رفیقوں کو مخصوص ذاتی شکائتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اور چونکہ ان کی شکائتیں دور نہ ہوسکیں۔ اور چونکہ وہ مجلس احرار میں بہت رسوخ رکھتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے مولانا اسمعیل غزنوی اور حکومت حجاز سے انتقام لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ مجلس احرار ملک بھر میں حکومت حجاز کے خلاف ایجی ٹیشن کرے اور اس طرح حکومت حجاز کو مجبور کردے کہ وہ مذکورہ بالا شکایتیں دور کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
اپنی اس اطلاع کا ذکر ہم نے اشارۃ پچھلے مضمون میں کیا تھا۔ مگر اس پر زور نہیں دیا تھا۔ کیونکہ ہمیں اس پر پورا یقین نہیں تھا۔ لیکن اب >مجاہد< کا افتتاحیہ دیکھ کر ہمیں بڑی حد تک اپنی اطلاع کی صحت پر بھروسہ ہوگیا ہے۔ کیونکہ >مجاہد< نے اپنے اس افتتاحیہ میں حد درجہ تدلیس و تلبیس سے کام لیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ پس پردہ کوئی اور ہی حقیقت موجود ہے۔ >مجاہد< کے افتتاحیہ کا لب لباب یہ ہے کہ مجلس احرار اب تک جزیرۃ العرب کی حقیقی صورت حال سے واقف نہ تھی۔ لیکن اب اسے یقین سے معلوم ہوگیا ہے کہ شاہ ابن سعود انگریزوں کے زیر اثر ہیں اور یہ کہ عرب کے خارجی معاملات پر برطانیہ کا قبضہ ہے اور انگریز مدبر سلطان کو معاہدوں کے جال پھنسا کر داخلی مسائل پر قابض ہورہے ہیں۔ اور یہ کہ جنگ یمن و نجد برطانیہ ہی کے اشارے سے ہوئی تھی۔ اور شاہ ابن سعود کی فتح محض برطانیہ کی قوت سے ہوئی۔ اور یہ کہ امام یمن انگریزوں کے یا اٹلی کے یا کسی اور اجنبی قوت کے زیر اثر نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ الزامات۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مجلس احرار اور اس کے آرگن >مجاہد< کے پاس اپنے ان دعووں کی تائید میں کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں؟ اگر دلیل ہے تو پیش کرنا چاہئے۔ اس افتتاحیہ میں تو ان تمام الزاموں کی بنیاد اسی معاہدے کو بتایا گیا ہے جو کان کنی کے ٹھیکہ سے متعلق حکومت حجاز نے کیا ہے مگر ہمیں یہ بھی تو بتایا جائے کہ اس معاہدے میں کونسی دفعہ ایسی ہے جس کی بنا پر یہ تمام الزام تراش لئے گئے ہیں۔ ہم مجلس احرار اور اس کے آرگن کو چیلنج دیتے ہیں کہ وہ اس معاہدے میں کوئی ایسا لفظ بھی دکھا دے جس سے حجاز کی آزادی کو ذرا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہو یا جس سے شبہ بھی ہوسکے کہ شاہ ابن سعود انگریزوں کے زیر اثر آگئے ہیں۔ >مجاہد< کے افتتاحیہ نے ہمیں یقین دلا دیا ہے کہ اس کو اور مجلس احرار کو عرب کے معاملات اور شاہ ابن سعود کی تاریخ سے کچھ بھی واقفیت نہیں ہے۔ کیونکہ اگر واقفیت ہوتی تو اس قسم کی بہکی بہکی باتیں نہ کہی جاتیں<۔۱۲۶
ایک بار سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے بیان دیا کہ >جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ میں وہ دن سیاہ ترین دن تھا جس دن وہاں سے تیل دریافت ہوا دولت نے انہیں برباد کردیا ہے<۔۱۲۷
سعودی مملکت کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں کا مقصد کیا تھا؟ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اخبار >اہلحدیث< میں لکھا۔
>رنج اس لئے ہے کہ عرب کے پہاڑوں سے اگر یہ چیزیں مل گئیں تو حکومت نجدیہ کو بڑی قوت حاصل ہوگی جو ان برادران اسلام کو ناگوار ہے<۔۱۲۸
مرکز اسلام کے سربراہ کی نسبت اشتعال انگیزیوں کا یہ افسوسناک طریق دیکھ کر سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو سخت صدمہ پہنچا اور حصور نے ۳۰۔ اگست ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں سلطان ابن سعود کے معاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>آج سے کئی سال پہلے جب لارڈ چیمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے تھے۔ مسلمانوں میں شور پیدا ہوا کہ انگریز بعض عرب رئوسا کو مالی مدد دیکر انہیں اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں۔ یہ شور جب زیادہ بلند ہوا تو حکومت ہند کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم عرب رئوسا کو کوئی مالی مدد نہیں دیتے۔ مسلمان اس بات پر خوش ہوگئے کہ چلو خبر کی تردید ہوگئی۔ لیکن میں نے واقعات کی تحقیقات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ گو ہندوستان کی حکومت بعض عرب رئوسا کو مالی مدد نہیں دیتی مگر حکومت برطانیہ اس قسم کی مدد ضرور دیتی ہے۔ چنانچہ ساٹھ ہزار پونڈ ابن سعود کو ملا کرتے تھے اور کچھ رقم شریف حسین کو ملتی تھی۔ جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے لارڈ چیمسفورڈ کو لکھا کہ گو لفظی طور پر آپ کا اعلان صحیح ہے مگر حقیقی طور پر صحیح نہیں۔ کیونکہ حکومت برطانیہ کی طرف سے ابن سعود اور شریف حسین کو اس قدر مالی مدد ملتی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کرسکتے۔ ان کا جواب میں مجھے خط آیا )وہ بہت ہی شریف طبیعت رکھتے تھے( کہ یہ واقعہ صحیح ہے۔ مگر اس کا کیا فائدہ کہ اس قسم کا اعلان کرکے فساد پھیلایا جائے۔ ہاں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ عرب کو اپنے زیر اثر لائے۔
پس ہم ہمیشہ عرب کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ جب ترک عرب پر حاکم تھے تو اس وقت ہم نے ترکوں کا ساتھ دیا۔ جب شریف حسین حاکم ہوا تو لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مگر ہم نے کہا اب فتنہ و فساد کو پھیلانا نامناسب نہیں۔ جس شخص کو خدا نے حاکم بنا دیا ہے اس کی حکومت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ تاکہ عرب میں نت نئے فسادات کا رونما ہونا بند ہوجائے۔ اس کے بعد نجدیوں نے حکومت لے لی تو باوجود اس کے کہ لوگوں نے شور مچایا کہ انہوں نے قبے گرا دیئے اور شعائر کی ہتک کی ہے اور باوجود اس کے ہمارے سب سے بڑے دشمن اہلحدیث ہی ہیں ہم نے سلطان ابن سعود کی تائید کی۔ صرف اس لئے کہ مکہ مکرمہ میں روز روز کی لڑائیاں پسندیدہ نہیں حالانکہ وہاں ہمارے آدمیوں کو دکھ دیا گیا۔ حج کیلئے احمدی گئے تو انہیں مارا پیٹا گیا۔ مگر ہم نے اپنے حقوق کے لئے بھی اس لئے صدائے احتجاج کبھی بلند نہیں کی کہ ہم نہیں چاہتے ان علاقوں میں فساد ہوں۔ مجھے یاد ہے مولانا محمد علی صاحب۱۲۹ جب مکہ مکرمہ کی موتمر سے واپس آئے تو وہ ابن سعود سے سخت نالاں تھے۔ شملہ میں ایک دعوت کے موقع پر ہم سب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے تین گھنٹے اس امر پر بحث جاری رکھی وہ بار بار میری طرف متوجہ ہوتے اور میں انہیں کہتا کہ مولانا آپ کتنے ہی ان کے ظلم بیان کریں جب ایک شخص کو خداتعالیٰ نے حجاز کا بادشاہ بنادیا ہے تو میں تو یہی کہوں گا کہ ہماری کوششیں اب اس امر پر صرف ہونی چاہئیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں فساد اور لڑائی نہ ہو۔ اور جو شورش اس وقت جاری ہے وہ دب جائے اور امن قائم ہوجائے تاکہ ان مقدس مقامات کے امن میں خلل واقع نہ ہو۔ ابھی ایک عہد نامہ ایک انگریز کمپنی اور ابن سعود کے درمیان ہوا ہے۔ سلطان ابن سعود ایک سمجھدار بادشاہ ہیں۔ مگر بوجہ اس کے کہ وہ یورپین تاریخ سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے۔ وہ یورپین اصطلاحات کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔ ایک دفعہ پہلے جب وہ اٹلی سے معاہدہ کرنے لگے تو ایک شخص کو جو ان کے ملنے والوں میں سے تھے میں نے کہا کہ تم سے اگر ہوسکے تو میری طرف سے سلطان ابن سعود کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ معاہدہ کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں۔ یورپین قوموں کی عادت ہے کہ وہ الفاظ نہایت نرم اختیار کرتی ہیں مگر ان کے مطالب نہایت سخت ہوتے ہیں۔ اب وہ معاہدہ جو انگریزوں سے ہوا شائع ہوا ہے اور اس کے خلاف بعض ہندوستانی اخبارات مضامین لکھ رہے ہیں میں نے وہ معاہدہ پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بعض غلطیاں ہوگئی ہیں اور اس معاہدہ کی شرائط کی رو سے بعض موقعوں پر بعض بیرونی حکومتیں یقیناً عرب میں دخل دے سکتی ہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر میرے دل کو سخت رنج پہنچا۔ حالانکہ انگریزوں سے ہمارا تعاون ہے اور ہم اس کا ذکر کرنے سے کبھی ڈرے نہیں۔ سوائے حکومت پنجاب کے کہ اس نے دو تین سال سے خود ہمارے تعاون کو ٹھکرا دیا ہے۔ باقی انگریزی حکومت سے ہم نے ہمیشہ تعاون کیا ہے اور ہمیشہ تعاون کرتے رہیں گے جب تک وہ خود حکومت پنجاب کی طرح ہمیں دھتکار نہ دے۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم انگریزوں سے تعاون رکھتے ہیں اور باوجود اس کے کہ میں انگریزی حکومت کے ڈھانچہ کو دنیا کے لئے مفید ترین طرز حکومت سمجھتا ہوں جس میں اصلاح کی گنجائش ضرور ہے مگر وہ توڑنے کے قابل شے نہیں ہے۔ پھر بھی انگریز ہوں یا کوئی اور حکومت عرب کے معاملہ میں ہم کسی کا لحاظ نہیں کرسکتے۔ اس معاہدہ میں ایسی احتیاطیں کی جاسکتی تھیں کہ جن کے بعد عرب کے لئے کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہتا۔ مگر بوجہ اس کے کہ سلطان ابن سعود یوروپین اصطلاحات اور بین الاقوامی معاملات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے الفاظ میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور اس میں انہوں نے عام مسلمانوں کا طریق اختیار کیا ہے۔ مسلمان ہمیشہ دوسروں پر اعتبار کرنے کا عادی ہے حالانکہ معاہدات میں کبھی اعتبار سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ سوچ سمجھ کر اور کامل غور و فکر کے بعد الفاظ تجویز کرنے چاہئیں گو میں سمجھتا ہوں یہ معاہدہ بعض انگریزی فرموں سے ہے۔ حکومت سے نہیں۔ اور ممکن ہے جس فرم نے یہ معاہدہ کیا ہے اس کے دل میں بھی دھوکا بازی یا غداری کا کوئی خیال نہ ہو۔ مگر الفاظ ایسے ہیں کہ اگر اس فرم کی کسی وقت نیت بدل جائے تو وہ سلطان ابن سعود کو مشکلات میں ڈال سکتی ہے۔ مگر یہ سمجھنے کے باوجود ہم نے اس پر شور مچانا مناسب نہیں سمجھا۔ کیونکہ ہم نے خیال کیا کہ اب سلطان کو بدنام کرنے سے کیا فائدہ۔ اس سے سلطان ابن سعود کی طاقت کمزور ہوگی اور جب ان کی طاقت کمزور ہوگی تو عرب کی طاقت بھی کمزور ہوجائے گی۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ دعائوں کے ذریعہ سے سلطان کی مدد کریں اور اسلامی رائے کو ایسا منظم کریں کہ کوئی طاقت سلطان کی کمزوی سے فائدہ اٹھانے کی جرات نہ کرسکے<۔۱۳۰
مقبولین الٰہی کے دل سے نکل ہوئی دعائیں اور آہیں عرش کو ہلا دیتی ہیں اور خظرات کے منڈلاتے ہوئے سیاہ بادل چھٹ جاتے ہیں اور مطلع صاف ہو جاتا ہے۔ یہی صورت یہاں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے سرزمین عرب کو نہ صرف اس معاہدہ کے بداثرات سے بچا لیا بلکہ ملک عرب کی کانوں سے اس کثرت کے ساتھ معدنیات برآمد ہوئیں کہ ملک مالا مال ہوگیا۔ اس حقیقت کی کسی قدر روداد مولانا محی الدین الو ائی ایم۔ اے الازہر کی کتاب >عرب دنیا< میں موجود ہے۔
جناب ظفر انصاری صاحب کا مکتوب
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں )۷۔ اگست ۱۹۳۵ء(
احرار کی ہنگامہ آرائی کے دوران جناب ظفر انصاری صاحب نے حضرت مصلح موعود کی فرصت میں حسب ذیل مکتوب لکھا۔
لاہور
۱۹۳۵۔۸۔۷
قبلہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ نصرہ
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ:۔
بارگاہ ایزدی میں آپ کی درازی عمر کے لئے دست بدعا ہوں۔ راقم الحروف ایک ۲۰ سالہ نوجوان ہے۔ میرے رشتہ دار کانگرس اور احرار جیسی محض روپیہ اکٹھا کرنے والی جماعتوں میں رہے ہیں۔ میرے والد صاحب کانگرس میں ایک سال قید رہے۔ میرے ماموں صاحب مشہور قومی کارکن ہیں اور احرار میں قید ایک سال کی کاٹ چکے ہیں اگرچہ اب مجلس سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ مگر علامہ مشرقی کی تحریک میں مل گئے ہیں۔
اعلیٰ حضرت صاحب یہ سب مجلسیں صرف روپیہ اکٹھا کرنا چاہتی ہیں۔ خدا کی قسم ان کے دلوں میں ملک کا درد ذرا بھر نہیں۔ جتنا ملک اپنا وطن اپنا کرتے ہیں اتنے ہی بے حیا ہوتے ہیں۔ میں ان کی پرائیویٹ زندگی سے بھی خوب واقف ہوں۔ سید عطاء اللہ شاہ صاحب سے بہ انسان بلحاظ کیریکٹر نہیں دیکھا سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
میں ان مجلسوں کو دور ہی سے سلام بھیجتا ہوں۔ میرا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ان میں گفتار ہی گفتار ہے چوش کردار آپ کی جماعت سا نہیں۔ کشمیر کی تحریک کے سلسلہ میں ہزاروں کو شہید کرایا۔ کتنے بچوں کو یتیم کرایا یہ بھیڑئے ہیں۔ میں ان کا منہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ اپنی داستان مصیبت کسی لیڈر سے کہو تو میں اس کے منہ پر تھوک دوں گا یہی حال کانگرسی لیڈروں کا ہے۔ خود تو فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں اور غریب مزدوروں کو کہتے ہیں آزادی مل جانے پر تمہیں عیش ملے گی۔ میری یہ باتیں دل سے نکلی ہوئی ہیں۔ جب ان کی یہ حالت دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں۔ اے ہندوستان غلام رہ۔ ان کتوں سے ملک کو صاف کردے۔ آپ جناب کو سب حال معلوم ہے۔
پہلے میں دوسروں کی دیکھا دیکھی نعوذ باللہ نقل کو کفر نباشد جناب کو بھی محض و تشنیع کرتا تھا۔ حالانکہ آپ کی کوئی تصنیف نہیں پڑھی تھی بخدا جتنے دوسرے لوگ زاں دراز و تصع ہوئے ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر نہیں دیکھتے۔ جب غور کی تو معلوم ہوا کہ ہندوستان بھر میں صرف آپ کی جماعت جو کہتی ہے کرتی ہے۔ اور کیا لکھوں۔ میں سچے دل سے کہہ رہا ہوں۔ میں آپ سے کی اپنی داستان مصیبت بیان کرتا ہوں۔ آپ یہ خیال کریں کہ کوئی بہتر مل گیا ہوگا یا برا ہوگا تو میں ناراض ہوں گا۔ خدا کی قسم میں آپ کی جماعت کو دیکھ کر اس کا اتفاق دیکھ کر اس بات کا قائل ہوگیا ہوں الناس علی دین ملوکہم میں ایف ایس سی تک تعلیم یافتہ ہوں۔ سچ کہہ دوں کہ مجھے علم حاصل کرنے کا بڑا شوق ہے۔ میرے والد صاحب کا کانگریس نامراد میں قید ہوجانا میری امیدوں پر پانی پھیرا جانا ہوگیا۔ میرے رشتہ داروں نے میری شادی کردی حالانکہ میں زندگی کے میدان میں صرف خود کو ہی سنبھال نہ سکتا تھا۔ والد صاحب مجھے مجبور کرتے ہیں کہ تم میری اخبار نیر اسلام لاہور میں کام کرو اس کے ایڈیٹر ہوجائو۔ مگر میرا دل اس اخبار کی پالیسی سے تنگ آگیا ہے خواہ مخواہ دوسروں پر حملہ کرنا ان کا کام ہے۔ اب مجبور ہوں کہ کیا کروں۔ اگرچہ عرائض نویسی پاس ہوں مگر ناتجربہ کار ہوں واقفیت بہت کم ہے۔ دو بھائی بعمرہ ۱۰ سالہ ۸ سالہ طالب علم ۸ جماعت اور ایک بہن ایک بیوی ایک بچہ ہے کیا کروں۔ میں خود تو نہ لکھتا ڈر تھا کہ کوئی دشمن نہ دیکھ لے جب معلوم ہوا کہ آپ کے ہاں ڈاک کا سخت مکمل انتظام ہے تو لکھا۔ خدا کی قسم زیر آسمان سب سے پہلے آپ کی طرف توجہ کی ہے۔ تمام مجلسیں کمائو ہیں۔ ان سے امید بھلائی کرنا خدا سے انکاری ہے۔ خط بہت جلدی میں لکھا ہے۔ بے ربطگی عبارت اور اغلاط کا خیال نہ فرماتے ہیں۔ امید ہے حضور مجھے پتہ ذیل پر کوئی بہتر سبیل سوچ کر جواب موقف سے سرفراز فرما دیں گے۔ ظفر انصاری معرفت ورش لعل معرفت لالہ ریسراج کوہل انسپکٹر پک متصل گوالمنڈی لاہور۔
نوٹ:۔ مجھے تیوار کے روز مورخہ ۱۲/۱۱ اگست کو جواب باداب مل جائے تو میری خوشیوں کا اضافہ ہوگا۔ ہاں عرائض نویس کا کام ۴ سال کہا ہے۔ سنا ہے حضرت مرزا صاحب بھی یہی کام کرتے تھے۔ کوئی اور سبیل نکالیں مجھے مندرجہ بالا تاریخ تک جواب مل جائے کیونکہ میں نے لاہور سے باہر چلا جانا ہے۔ )آپ کے بعد کہنے کو کہنا مجھ پر حرام ہے( آپ کا ادنیٰ غلام ظفر انصاری لاہور۔
دوسرا باب )فصل چہارم(
احرار کا احمدیت پر دوبارہ حملہ اور ناکامی
جب احرار نے دیکھا کہ خداتعالیٰ نے ان کی حقیقت کو ظاہر کرکے انہیں مسلمانوں کی نظروں میں گرا دیا ہے تو انہوں نے دوبارہ مقبول ہونے کے لئے احمدیت پر ایک بار پھر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اخبار >مجاہد< نے لکھا۔
>مسلمانو! ۔۔۔۔۔ اگر اپنے دشمن قادیانی کو برباد کرنا ہے تو تمام اختلافات مٹا کر مرزائیت کی بربادی کے لئے متحد ہوجائو<۔۱۳۱ نیز لکھا۔ >ہندوستان کی ننگی قوم مسلم کے لئے مجلس احرار اسلام ایک رحمت کی چادر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ واقعات لاہور کے چند غرض مند دیوانوں نے شور مچا دیا کہ چادر تو چھلنی ہوچکی۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ نے ایک لقمہ فریب کھایا اور سمجھے کہ ہم نے بھی چادر میں سوارخوں کو دیکھا ہے اور سب نے مل کر شور کیا کہ چادر کو پھاڑ ڈالو ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کا ہنگامی جوش اور جذبات کے زیر اثر ہوکر چھوٹے چھوٹے مفروضہ سوراخوں میں اسے تبدیل کرنا کہاں کی اسلام دوستی ہے۔ نئی تو مل نہیں سکتی اور پرانی کو بھی پھاڑ ڈالو۔ افسوس اس عقل اور فہم پر<۔۱۳۲
دو جھوٹے الزامات کی تشہیر
اب احرار نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے بہتان تراشی کا نیا سلسلہ شروع کیا اور دو الزامات کی خاص طور پر تشہیر کی۔
اول۔body] g[ta یہ کہ احمدی رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرتے ہیں اور آنحضرت~صل۱~ کے درجہ کو بانی سلسلہ احمدیہ کے درجہ سے )نعوذباللہ( ادنیٰ سمجھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ احمدیوں کے نزدیک قادیان کی بستی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے افضل ہے۔
چنانچہ شیخ حسام الدین۱۳۳ صاحب نے منصوری میں مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی صدارت میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ >اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے تو مرزائی لوگ اس کی کوئی پروانہ کریں گے۔ بلکہ خوش ہوں گے<۔۱۳۴][حضرت امیرالمومنین کا پرشوکت جواب
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان الزامات کے جواب میں ۳۰۔ اگست ۱۹۳۵ء کو ایک پرجلال خطبہ جمعہ دیا جس میں آنحضور~صل۱~ سے جماعت احمدیہ کی محبت و شیدائیت کا واضح ثبوت دیتے ہوئے فرمایا۔
>ہمارے عقائد بالکل واضح ہیں اور ہماری کتابیں بھی چھپی ہوئی موجود ہیں ان کو پڑھ کر کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرتے ہیں ہاں دشمن یہ کہہ سکتا ہے کہ گو الفاظ میں یہ لوگ رسول کریم~صل۱~ کی عزت کرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں آپ کا ادب نہیں۔ مگر اس صورت میں ہمارا یہ پوچھنے کا حق ہوگا کہ وہ کونسے ذرائع ہیں جن سے کام لیکر انہوں نے ہمارے دلوں کو پھاڑ کر دیکھ لیا اور معلوم کرلیا کہ ان میں حقیقتاً رسول کریم~صل۱~ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی ہتک کے جذبات ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر احمدی بالفرض عام مسلمانوں کے سامنے رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرنے سے اس خیال سے بچتے ہیں کہ اس طرح مسلمان ناراض ہو جائیں گے تو ہندوئوں۔ سکھوں اور عیسائیوں کے سامنے تو وہ نڈر ہوکر رسول کریم~صل۱~ کی نعوذ باللہ ہتک کرتے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس میں کہتا ہوں تصفیہ کا آسان طریق یہ ہے کہ ہندوئوں سکھوں اور عیسائیوں میں سے ایک ہزار آدمی چنا جائے اور وہ موکد بعذاب حلف اٹھا کر بتائیں کہ احمدی عام مسلمانوں سے رسول کریم~صل۱~ کی عزت و عظمت کے متعلق زیادہ جوش رکھتے ہیں یا کم۔ اگر ایک ہزار سارے کا سارا یا اس کا بیشتر حصہ۔ کیونکہ ایک دو جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔ یہ گواہی دے کہ اس نے احمدیوں کو رسول کریم~صل۱~ کی عزت کرنے والا اور آپ کے نام کو دنیا میں بلند کرنے والا پایا تو اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو اپنے فعل پر شرمانا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جو ہمارے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرتے ہیں وہ بار بار ہمارے متعلق اس اتہام کو دوہرا کر خود رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی کو گالی دینے کا ایک طریق یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ دوسرے کی طرف گالی منسوب کرکے اس کا ذکر کیا جائے ۔۔۔۔۔۔ پس اگر یہ تصفیہ کا طریق جو میں نے بیان کیا ہے۔ اس پر مخالف عمل نہ کریں تو میں کہوں گا ایسے اعتراض کرنے والے درحقیقت رسول کریم~صل۱~ کی خود ہتک کرتے ہیں گو اپنے منہ سے نہیں بلکہ ہماری طرف ایک غلط بات منسوب کرکے<۔۱۳۵
جہاں تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نسبت احمدیوں کے عقیدہ کا تعلق ہے حضور نے واضح لفظوں میں اعلان فرمایا کہ۔
>خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا تو الگ رہی ہم تو یہ بھی پسند نہیں کرسکتے کہ خانہ کعبہ کی کسی اینٹ کو کوئی شخص بدنیتی سے اپنی انگلی بھی لگائے اور ہمارے مکانات کھڑے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک ہمیں قادیان محبوب ہے اور بے شک ہم قادیان کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں مگر خدا شاہد ہے خانہ کعبہ ہمیں قادیان سے بدر جہا زیادہ محبوب ہے۔ ہم اللہ تعالٰی سے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا وہ دن نہیں لاسکتا۔ لیکن اگر خدانخواستہ کبھی وہ دن آئے کہ خانہ کعبہ بھی خطرہ میں ہو اور قادیان بھی خطرہ میں ہو اور دونوں میں سے ایک کو بچایا جاسکتا ہو تو ہم ایک منٹ بھی اس مسئلہ پر غور نہیں کریں گے کہ کس کو بچایا جائے بلکہ بغیر سوچے کہہ دیں گے کہ خانہ کعبہ کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے۔ پس قادیان کو ہمیں خداتعالیٰ کے حوالہ کر دینا چاہئے<۔
>ہم سمجھتے ہیں کہ مکہ وہ مقدس مقام ہے جس میں وہ گھر ہے جسے خدا نے اپنا گھر قرار دیا اور مدینہ وہ بابرکت مقام ہے جس میں محمد~صل۱~ کا آخری گھر بنا جس کی گلیوں میں آپ چلے پھرے اور جس کی مسجد میں اس مقدس نبی نے جو سب نبیوں سے کامل نبی تھا اور سب نبیوں سے زیادہ خدا کا محبوب تھا۔ نمازیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں اور قادیان وہ مقدس مقام ہے جس میں محمد~صل۱~ کی صفات مقدسہ کا خداتعالیٰ نے دوبارہ حضرت مرزا صاحب کی صورت میں نزول کیا۔ یہ مقدس ہے باقی سب دنیا سے مگر تابع ہے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے۔
پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے تو احمدی خوش ہوں گے وہ جھوٹ بولتا ہے وہ افتراء کرتا ہے اور وہ ظلم اور تعدی سے کام لے کر ہماری طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو ہمارے عقائد میں داخل نہیں اور ہم اس شخص سے کہتے ہیں لعنہ اللہ علی الکاذبین<۔
>ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خدا مکہ اور مدینہ کی حفاظت کررہا ہے۔ کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ظاہری طور پر ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اس وقت انسانی ہاتھ کو بھی حفاظت کے لئے بڑھایا جائے۔ لیکن اگر خدانخواستہ کبھی ایسا موقعہ آئے تو اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خداتعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کے ماتحت جماعت احمدیہ کس طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے۔ ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں۔ ہم ان مقامات کو خداتعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا خدا اس شخص کو اندھا کردے گا۔ اور اگر خداتعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہاتھ اس بدبیں آنکھ کو پھوڑنے کے لئے آگے بڑھیں گے ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سے آگے ہوگا<۔۱۳۶
احرار کو مباہلہ کا چیلنج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان الزمات کی تردید پر اکتفا نہ کرتے ہوئے احرار کو ہر دو امور کے تصفیہ کے لئے مباہلہ کا چیلنج بھی دیا۔ چنانچہ فرمایا۔
>دوسرا طریق یہ ہے کہ ان مخالفین میں سے وہ علماء جنہوں نے سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو پانچ سو یا ہزار میدان میں نکلیں ہم میں سے بھی پانچ سو یا ہزار میدان میں نکل آئیں گے۔ دونوں مباہلہ کریں اور دعا کریں کہ وہ فریق جو حق پر نہیں خداتعالیٰ اسے اپنے عذاب سے ہلاک کرے ہم دعا کریں گے کہ اے خدا تو جو ہمارے سینوں کے رازوں سے واقف ہے۔ اگر تو جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں واقعی رسول کریم~صل۱~ کی عظمت و محبت نہیں۔ اور ہم آپ کو سارے انبیاء سے افضل و برتر یقین نہیں کرتے اور نہ آپﷺ~ کی غلامی میں نجات سمجھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ~صل۱~ کا ایک خادم اور غلام نہیں جانتے۔ بلکہ درجہ میں آپﷺ~ کو رسول کریم~صل۱~ سے بلند سمجھتے ہیں۔ تو اے خدا ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو اس جہاں میں ذلیل و رسوا کر اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک کر۔ اس کے مقابلے میں وہ دعا کریں کہ اے خدا ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ احمدی رسول کریم~صل۱~کی ہتک کرتے آپ کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور آپ کے درجہ کو گرانے اور کم کرنے کی ہر وقت کوشش کرتے ہیں۔ اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو تو اس دنیا میں ہمیں اور ہمارے بیوی بچوں کو ذلیل و رسوا کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک کر یہ مباہلہ ہے جو ہمارے ساتھ کرلیں اور خدا پر معاملہ چھوڑ دیں۔ پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں ایسے علماء کا اکٹھا کرنا جو ہمارے سلسلہ کی کتب سے واقفیت رکھتے ہوں۔ آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندہ کہلانے والوں کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ بلکہ معمولی بات ہے اور ہم تو ان سے بہت تھوڑے ہیں۔ مگر پھر بھی ہم تیار ہیں کہ پانچ سو یا ہزار کی تعداد میں اپنے آدمی پیش کریں۔ شرط صرف یہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ اپنی طرف سے پیش کریں وہ ایسے ہوں جو حقیقت میں ان کے نمائندہ ہوں اگر وہ جاہل اور بے ہودہ اخلاق دانوں کو اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بشرطیکہ وہ یہ تسلیم کرلیں کہ وہ ان کی طرف سے نمائندہ ہیں۔ ہاں احرار کے سرداروں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس میں شامل ہوں۔ مثلاً مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب شامل ہوں۔ مولوی حبیب الرحمن صاحب شامل ہوں۔ چودھری افضل حق صاحب شامل ہوں۔ مولوی دائود غزنوی صاحب شامل ہوں۔ اور ان کے علاوہ اور لوگ جن کو وہ منتخب کریں شامل ہوں۔ پھر کسی ایسے شہر میں جس پر فریقین کا اتفاق ہو یہ مباہلہ ہو جائے۔ مثلاً گورداسپور میں ہی یہ مباہلہ ہوسکتا ہے۔ جس مقام پر انہیں خاص طور پر ناز ہے یا لاہور میں اس قسم کا اجتماع ہوسکتا ہے۔ ہم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو اگر ہم رسول کریم~صل۱~ پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں۔ آپ کو خاتم النبین نہ سمجھتے ہوں آپ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں۔ اس کے مقابلے میں وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم~صل۱~پر ایمان نہیں رکھتے نہ آپ کو دل سے خاتم النبین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ~صل۱~ کی توہین کرنے والے ہیں۔ اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر غذاب نازل کر۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون سا فریق اپنے دعویٰ میں سچا ہے۔ کون رسول کریم~صل۱~ سے حقیقی عشق رکھتا ہے اور کون دوسرے پر جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہوگی کہ عذاب انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور ایسے سامانوں سے ہو جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاسکیں<۔۱۳۷
خانہ کعبہ کی حرمت و عظمت کا فیصلہ کرنے کے لئے بھی حضور نے دعوت مباہلہ دی چنانچہ فرمایا۔
>اس کے لئے بھی وہی تجویز پیش کرتا ہوں جو پہلے امر کے متعلق پیش کرچکا ہوں کہ اس قسم کا اعتراض کرنے والے آئیں اور ہم سے مباہلہ کرلیں ہم کہیں گے کہ اے خدا مکہ اور مدینہ کی عظمت ہمارے دلوں میں قادیان سے بھی زیادہ ہے ہم ان مقامات کو مقدس سمجھتے اور ان کی حفاظت کے لئے اپنی ہرچیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن اے خدا اگر ہم دل سے یہ نہ کہتے ہوں بلکہ جھوٹ اور منافقت سے کام لیکر کہتے ہوں اور ہمارا اصل عقیدہ یہ ہو کہ مکہ اور مدینہ کی کوئی عزت نہیں یا قادیان سے کم ہے تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر غذاب نازل کر اس کے مقابلہ میں احرار اٹھیں اور وہ یہ قسم کھا کر کہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ احمدی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے دشمن ہیں۔ اور ان مقامات کا گرنا اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جانا احمدیوں کو پسند ہے۔ پس اے خدا اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے اور احمدی مکہ و مدینہ کی عزت کرنے والے ہیں تو تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر۔ وہ اس طریق فیصلہ کی طرف آئیں اور دیکھیں کہ خدا اس معاملہ میں اپنی قدرت کا کیا ہاتھ دکھاتا ہے لیکن اگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں تو یاد رکھیں۔ جھوٹ اور افترا دنیا میں کبھی کامیاب نہیں کرسکتا<۔۱۳۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے نمائندگان کا تقرر اور چیلنج کی مزید وضاحت
اس چیلنج کے شائع ہونے پر اگرچہ بعض احراری مقرر قادیان آکر تقریر کرگئے کہ ہم مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر خود مجلس احرار
کے لیڈروں نے کوئی اور قدم نہیں اٹھایا۔ تب حضور نے اس خیال سے کہ شاید احرار کو یہ برا معلوم ہو کہ اخبار میں اعلان کر دیا گیا ہے اور ہمیں تحریراً مخاطب نہیں کیا گیا۔ ۶۔ ستمبر ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں اپنی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ` چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹر اور مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل مبلغ جماعت احمدیہ کو اپنا نمائندہ مقرر کردیا کہ ان سے احرار کے نمائندے ضروری امور کا تصفیہ کرلیں اور تصفیہ شرائط کے پندرہ روز کے بعد مباہلہ ہو جائے۔ تا مباہلہ کرنے والوں کو بروقت اطلاع دی جاسکے۔۱۳۹
نمائندگان کے تقرر کے ساتھ ہی حضور نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ۔
>میری طرف سے چیلنج بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے کوئی معقول آدمی رد کرسکے ان کا مرکز لاہور ہے اور میں نے تسلیم کرلیا ہے کہ ہم وہاں آجائیں گے گورداسپور پر انہیں بہت فخر ہے اور میں نے کہہ دیا ہے کہ ہم وہاں آجائیں گے۔ پھر ہم نے ان پر دوسرے مسلمانوں میں سے کسی خاص شخصیت کو پیش کرنے کی قید نہیں لگائی۔ جماعت احمدیہ کا امام مباہلہ میں شامل ہوگا۔ اس کے بھائی ہوں گے۔ صدر انجمن کے ناظر ہوں گے اور تمام بڑے بڑے ارکان ہوں گے ان کے علاوہ پانسو یا ہزار دوسرے معزز افراد جماعت بھی ہوں گے۔ احرار کے متعلق میں نے صرف یہ کہا ہے کہ احرار کے پانچ لیڈر یعنی مولوی مظہر علی صاحب اظہر` چودھری افضل حق صاحب` مولوی عطاء اللہ صاحب` مولوی دائود غزنوی صاحب اور مولوی حبیب الرحمن صاحب ہوں گے گویا ہم ان سے جو مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ پابندی اپنے اوپر لگاتے ہیں۔ ان میں خلیفہ کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی خلافت باقی ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے خلیفہ ہوگا اور ذمہ دار ارکان ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے مرد ممبر ہوں گے اور اس کے مقابلہ میں ان کے صرف پانچ لیڈر میں نے ضروری رکھے ہیں۔ باقی جن کو بھی وہ اپنا نمائندہ بنا کر لائیں گے۔ ہم ان کو مان لیں گے۔ اس مباہلہ میں تقریروں کا بھی اتنا سوال نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ واقعات ہیں اور صرف پندرہ منٹ اپنے عقیدہ کے بیان کے لئے کافی ہیں۔ پندرہ منٹ میں ہم اپنا عقیدہ بیان کردیں گے اور اتنے ہی عرصہ میں وہ کہہ سکتے ہیں جو یہ کہتے ہیں غلط ہے۔ حقیقتاً یہ ایسا نہیں مانتے اس میں دلائل وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں۔ لمبی تفصیلات کی ضرورت مسائل میں ہوتی ہے۔ لیکن یہ مباہلہ واقعہ کے متعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں احمدی رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کرتے ہیں اور مکہ مکرمہ کی عزت نہیں کرتے۔ اور ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے۔ باقی رہے مباہلہ میں شامل ہونے والے آدمی سو ہم نے کسی چھوٹی موٹی جماعت کو چیلنج نہیں دیا بلکہ آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ جماعت کو دیا ہے۔ اور اتنی بااثر جماعت پانسو یا ہزار آدمی ایک محلہ سے جمع کرسکتی ہے۔ ہاں اپنی جماعت کے دوستوں کی سہولت کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ مباہلہ کے دن کے فیصلہ کا اعلان پندرہ روز پہلے ضرور ہو جانا چاہئے کیونکہ ہماری جماعت کے دوست دور دور سے اس میں شامل ہونے کی خواہش کریں گے اس لئے جس وقت ¶ان کا آدمی ہمارے آدمی سے گفتگو کرے اور ضروری امور کا تصفیہ ہو جائے اس کے پندرہ روز بعد مباہلہ ہو<۔۱۴۰
اخبار >پرکاش< اور دعوت مباہلہ
مشہور آریہ اخبار >پرکاش< )لاہور( نے >مباہلہ کا چیلنج< کے زیر عنوان لکھا کہ۔:
>مرزائیوں اور احراریوں کے درمیان کشیدگی اس انتہا تک پہنچ گئی ہے کہ وہ اب ایک دوسرے کو مباہلہ کا چیلنج دینے لگ پڑے ہیں۔ احراریوں کی تو خدا جانے لیکن مرزائیوں نے پہل کردی ہے۔ چنانچہ خلیفہ قادیانی نے ۱۳۔ اگست کو احراریوں کو ذیل کے الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج دیا ہے۔
>ہم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو۔ اگر ہم رسول کریم~صل۱~ پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں۔ آپ کو خاتم النبین نہ سمجھتے ہوں۔ آپ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں اس کے مقابلہ میں وہ احرار قسم کھا کر کہیں کہ ہم یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم~صل۱~ پر ایمان نہیں رکھتے۔ نہ آپ کو دل سے خاتم النبین سمجھتے ہیں اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ کی توہین کرنے والے ہیں۔ اے خدا! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر عذاب نازل کر۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کونسا فریق اپنے دعویٰ میں سچا ہے۔
دیکھئے احراری خلیفہ صاحب کا مذکورہ چیلنج منظور کرتے ہیں۔ یا اسے اسی طرح شیر مادر کی طرح پی جاتے ہیں۔ جس طرح آنجہانی منشی غلام احمد قادیانی کا مباہلہ کا چیلنج مولوی ثناء اللہ پی گئے تھے<۔۱۴۱
)اخبار پرکاش لاہور ۱۵۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم اول(
آریہ اخبار کا یہ قیاس درست ثابت ہوا۔ چنانچہ کہ جس طرح ۱۹۰۷ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے چیلنج مباہلہ کو مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے منظور نہ کیا تھا۔ اسی طرح احراری لیڈروں نے بھی بالاخر مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ راہ فرار اختیار کرلی جیسا کہ آئندہ صفحات سے واضح ہو جائے گا۔
شرائط مباہلہ میں تغیر و تبدل کی پیشکش
حضرت امیرالمومنین چونکہ دل سے چاہتے تھے کہ کسی طرح احرار میدان مباہلہ میں آجائیں اور ملک میں فیصلہ کن مباہلہ۱۴۲ ہو جائے۔ لہذا آپ نے اپنی شرائط پر اصرار کرنے کی بجائے اعلان کر دیا کہ۔
>میں ہرگز اس بات کا مدعی نہیں کہ جو شرطیں مباہلہ کے متعلق میری طرف سے پیش کی گئی ہیں ان میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ میرے نزدیک دوسرے فریق کو کامل حق ہے کہ وہ اعتراض کرکے مثلاً ثابت کردے کہ فلاں شرط شریعت کے خلاف ہے یا فلاں شرط ناممکن العمل ہے یا فلاں شرط جو پیش کی گئی ہے اس سے بہتر فلاں شرط ہوسکتی ہے۔ یہ تینوں حق احرار کو حاصل ہیں اور اگر وہ کسی وقت بھی ثابت کردیں کہ میری پیش کردہ شرائط شریعت کے خلاف ہیں یا عملی لحاظ سے ناممکن ہیں یا ان سے بہتر شرائط فلاں فلاں ہیں تو میں ہر وقت ان شرائط میں تغیر و تبدل کرنے کے لئے تیار ہوں<۔۱۴۳
مباہلہ ٹالنے کے لئے احرار کا ناپسندیدہ رویہ
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا چیلنج جماعت احمدیہ کی طرف سے بڑے بڑے پوسٹروں اور پمفلوں کی صورت میں بکثرت شائع کیا جارہا تھا۔۱۴۴ اور حضور کے نمائندگان خطوں پر خط احرار لیڈروں کے نام لکھ رہے تھے مگر احرار لیڈر مباہلہ پر آمادگی کا پراپیگنڈا کرنے کے باوجود تصفیہ شرائط کے بارے میں بالکل چپ سادھے بیٹھے تھے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ گاہے گاہے کسی مولوی کے نام کے ساتھ لمبے چوڑے القاب درج کرکے اسے قادیان بھجوا دیتے جو مسجد ارائیاں میں ساٹھ ستر افراد کے درمیان کھڑے ہوکر کہہ جاتا کہ >مرزائی< فرار کر گئے۔ حالانکہ نہ شرائط کا تصفیہ کیا نہ تاریخ مباہلہ کی تعیین ہوئی اور نہ نمائندگان جماعت کو کوئی تحریری جواب دیا گیا۔۱۴۵
‏]body [tagجماعت احمدیہ کی طرف سے جب احرار کو بار بار تصفیہ شرائط کرکے میدان مباہلہ میں آنے کے لئے للکارا گیا تو انہوں نے مباہلہ سے گریز کے لئے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ )حضرت خلیفتہ المسیح کی واضح تصریحات کے باوجود( ایک تو یہ مشہور کردیا کہ امام جماعت احمدیہ دوسرے احمدیوں کو تو پیش کرتے ہیں مگر خود مباہلہ کرنے پر آمادہ نہیں۔ دوسرے یہ کہا کہ مباحثہ کے لئے قادیان کی بجائے لاہور یا گورداسپور کی تعین کیوں کی جاتی ہے؟
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی چونکہ احرار کو بھاگنے کا کوئی موقعہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس لئے حضور نے صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ۔
>مباہلہ میں شامل ہونے والا اول وجود میرا ہوگا اور سب سے پہلا مخاطب میں اس دعوت مباہلہ کا اپنے آپ کو ہی سمجھتا ہوں اور نہ صرف میں خود مباہلہ میں شامل ہوں گا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تمام بالغ اولاد جو آسانی سے جمع ہوسکتی ہے اس مباہلہ میں شامل ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ پس اس معاملہ میں یہ کہنا کہ میں اپنے آپ کو الگ رکھتا ہوں لوگوں کو دھوکہ و فریب میں مبتلا کرنا ہے۔ میرا وجود سب سے مقدم ہے اور میں سب سے پہلے اس مباہلہ میں شامل ہوں گا<۔]10 [p۱۴۶
باقی رہا قادیان میں مباہلہ کئے جانے کا احراری مطالبہ تو حضور نے پوری فراخدلی سے یہ اجازت دے دی کہ۔
>میرا اس میں کوئی حرج نہیں بے شک وہ قادیان آکر ہم سے مباہلہ کرلیں<۔۱۴۷
بلکہ یہ بھی فرمایا کہ۔
>اگر قادیان میں مباہلہ کرنے کا شوق ہو تو وہ خوشی سے قادیان تشریف لے آئیں بلکہ ہماری زیادہ خواہش یہ ہے کہ وہ ہمارے ہی مہمان بنیں ہم ان کی خدمت کریں گے انہیں کھانا کھلائیں گے ان کے آرام اور سہولت کا خیال رکھیں گے اور پھر ان کے سارے بوجھ اٹھا کر انشاء اللہ ان سے مباہلہ بھی کریں گے<۔۱۴۸
احرار لیڈروں کا مطالبہ اور اس کا جواب
احرار لیڈروں کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی تقریر مباہلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وہ تحریرات پڑھیں گے جن میں ان کے نزدیک رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کی گئی ہے اور پھر قسم کھا کر کہیں گے کہ ان سے اگر رسول کریم~صل۱~کی ہتک ثابت نہیں ہوتی تو ان پر عذاب نازل ہو۔
حضرت امیرالمومنین نے اس مطالبہ کی معقولیت کو تسلیم کرتے ہوئے فرمایا۔
>میرے نزدیک یہ بالکل درست بات ہے اور ان کا حق ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس قسم کی تحریریں پڑھیں۔ بیس پچیس منٹ میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی تحریرات پڑھ سکتے ہیں جن سے ان کے خیال میں رسول کریم~صل۱~ کی ہتک ثابت ہوتی ہے۔ ہم بیس پچیس منٹ میں ان تحریروں کا جواب دے دیں گے یا ایسی تحریریں پڑھ دیں گے جن سے ان کی پیش کردہ تحریروں کی تشریح ہوتی ہو۔ پس یہ ان کا حق ہے جسے ہم تسلیم کرتے ہیں۔ وہ انہی تحریرات کو سامنے رکھ کر مگر ان کے سیاق و سباق کو ساتھ ملا کر موکد بعذاب قسم کھا سکتے ہیں۔ مگر یہ ضروری ہے کہ تحریریں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہوں کسی اور احمدی کی نہ ہوں۔ کیونکہ اور احمدیوں سے بعض دفعہ غلطی بھی ہوجاتی ہے اور پھر ان غلطیوں کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے لیکن بہرحال دوسروں کی تحریر حجت نہیں ہوسکتی صرف وہی تحریریں پیش ہونی چائیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی ہوں۔ کیونکہ ان کے متعلق ایک لحظہ کے لئے بھی ہمیں یہ خیال نہیں آسکتا کہ ان میں رسول کریم~صل۱~کی ہتک کی گئی ہے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی باتیں خود اپنے کانوں سے سنیں۔ آپ کے طریق عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کی پاکیزہ زندگی کا روز و شب مشاہدہ کیا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریرات پڑھی جائیں۔ یا نہ پڑھی جائیں۔ ہم تو ہر تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جن کو ظاہر ہونے کا موقعہ نہیں ملا ہر وقت قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رسول کریم~صل۱~ کی توہین نہیں کی۔ بھلا ان آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی کوئی شبہ رہ سکتا ہے۔ منشی روڑے خان صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور صحابی گزرے ہیں کپورتھلہ میں تحصیلدار تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے مولوی ثناء اللہ صاحب کپورتھلہ یا کسی قریب کے مقام پر گئے تو ان کے دوست انہیں بھی مولوی صاحب کی تقریر سنانے لے گئے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی تقریر میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر اعتراضات کئے تو منشی روڑے خاں صاحب کے ساتھی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بعد میں انہیں کہا آپ نے دیکھا مرزا صاحب پر کیسے کیسے اعتراض پڑتے ہیں منشی صاحب کہنے لگے تم ساری عمر اعتراض کرتے رہو میں نے تو اپنی آنکھوں سے مرزا صاحب کو دیکھا ہے انہیں دیکھنے کے بعد اور ان کی سچائی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد میں کس طرح تمہاری باتیں مان سکتا ہوں۔ ہماری جماعت میں ابھی تک سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے آپ کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس عشق کا معائنہ کیا جو آپ کو رسول کریم~صل۱~ کی ذات سے تھا۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جن کے دلوں میں رسول کریم~صل۱~ سے محبت اور عشق کی لہریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام اور آپ کی قوت قدسیہ سے پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد اگر ساری دنیا بھی متفق ہو کر یہ کہتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کی تو بجز اس کے ہمارا کوئی جواب نہیں ہوسکتا کہ لعنہ اللہ علی الکاذبین۔ اور ہم ہر وقت ہر میدان میں یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ خدا تعالیٰ کی شدید سے شدید *** ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر نازل ہو۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شمہ بھر بھی رسول کریم~صل۱~ کی ہتک کی ہو یارسول کریم~صل۱~ کی ہتک کو کبھی برداشت کیا ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر رسول کریم~صل۱~ کا کوئی عاشق اس امت میں پیدا ہوا ہو۔ پس اس کے لئے ہمیں کسی قسم کی شرط کی ضرورت نہیں۔ لمبی بحثیں کرنے کی حاجت نہیں۔ اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے پڑھنا چاہتے ہیں تو بیس پچیس منٹ اس کے لئے کافی ہیں اور اتنا وقت انہیں دے دیا جائے گا۔ اور اتنے ہی وقت میں ہم جواب دے دیں گے اور اگر وہ زیادہ وقت کی خواہش کریں تو جس قدر مناسب وقت کی ضرورت ہو ان کو دے دیا جائے گا اور اسی قدر وقت میں ہم جواب دے دیں گے<۔۱۴۹
مباہلہ میں شرکت کے لئے احمدیوں کا جوش و خروش
احمدیوں کی طرف سے مباہلہ میں شریک ہونے کا جو بے پناہ ذوق و شوق دیکھنے میں آیا وہ ایک فقید المثال مظاہرہ تھا۔ مخلصین جماعت کے کانوں تک جونہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی آواز اعلان مباہلہ کی نسبت پہنچی۔ انہوں نے دیوانہ وار تار دیئے کہ ہمیں اس مباہلہ میں شریک ہونے کی ضرور سعادت بخشی جائے۔۱۵۰ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے آخری ہفتہ تک قریباً ایک ہزار احمدیوں کی درخواستیں حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں پہنچ چکی تھیں جن میں نہایت ہی اخلاص بلکہ لجاجت سے درخواست کی گئی تھی کہ مباہلین میں ان کو بھی شرکت کا موقعہ عطا کیا جائے۔ درخواست کرنے والے ۱۵۲۷ احمدیوں کی ابتدائی فہرستیں انہی دنوں اخبار الفضل میں شائع کردی گئی تھیں۔۱۵۱
احرار کا صداقت مسیح موعودؑ پر مباہلہ کا چیلنج اور اس کی منظوری
احرار لیڈروں نے جماعت احمدیہ کا یہ ولولہ اور جذبہ دیکھا تو بہت پریشان خاطر ہوئے اور انہوں نے ادعا کیا کہ وہ صداقت مسیح موعودؑ پر
بھی مباہلہ کریں گے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے احرار کا یہ چیلنج بھی منظور کرلیا۔ اور نہایت تحدی کے ساتھ اعلان فرمایا کہ۔
>یہ مباہلہ بھی ضرور ہو مگر اس سے علیحدہ ہو وہ اس کے لئے دوسرے پانسو آدمی لائیں اور ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہاں لیڈر وہی ہوں۔ ان کے وہی پانچوں لیڈر ایک مباہلہ میں شامل ہوں اور وہی دوسرے میں۔ ادھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے مرد ممبر اور ناظر دونوں میں شریک ہوں گے اور پانچ پانچ سو آدمی دونوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کوئی ایسی چیز نہیں جس پر مباہلہ کرنے سے ہمیں گریز ہو۔ ہم آپ کی صداقت پر جہاں وہ چاہیں قسم کھانے کو تیار ہیں۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی ہم نے اسلام کی صداقت سمجھی ہے۔ ورنہ جس رنگ میں یہ مولوی اسلام کو پیش کرتے ہیں اس رنگ میں کون معقول شخص مان سکتا ہے۔ جو نامعقول یہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم~صل۱~ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کو دیکھا اور نعوذباللہ اس پر عاشق ہوگئے۔ ایسے بیوقوفوں کے بتائے ہوئے اسلام کو کون مان سکتا ہے۔ خداتعالیٰ کا بتایا ہوا اسلام تو وہ ہے جو رسول کریم~صل۱~ کی عصمت کو ثابت کرتا ہے جو صحیح احادیث میں ہے۔ مگر کون ہے جو ہمیں قرآن کریم کی طرف لایا۔ صحیح احادیث کی طرف لایا۔ یا تازہ نشانات کی طرف لایا۔ یہ سب کچھ ہمیں مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ سے ملا۔ اور اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ ہم آپ کی صداقت کے متعلق مباہلہ کرنے سے ایک منٹ کے لئے بھی پس و پیش کرسکتے ہیں۔ ہم اس کے لئے تیار ہیں اور ہر میدان میں تیار ہیں۔ لیکن احرار اس کے لئے علیحدہ پانسو آدمی لائیں۔ ہم بھی علیحدہ لائیں گے اور اس طرح دو مباہلے ہوں تالیھلک من ھلک عن بینہ و یحی من حی عن بینہ کا نظارہ دنیا دیکھ لے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ خالی مسجد ارائیاں میں تقریر کرنے سے کام نہیں چل سکتا وہ باقاعدہ شرائط طے کریں۔ بلکہ میں نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ مجھے اپنی پیش کردہ شرائط پر اصرار نہیں۔ انہیں اگر کوئی شرط بوجھل معلوم ہوتی ہو تو اسے پیش کریں۔ میں چھوڑنے کو تیار ہوں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ مباہلہ ہو ایسے رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ کا زندہ نشان دنیا کو نظر آجائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ لسمیع علیم اس میں بتایا ہے کہ جب بھی مومن اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں گے وہ ضرور ان کی دعائوں کو سنے گا۔ پس میں احرار کو پھر ایک دفعہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس پیالہ کو ٹالنے کی کوشش نہ کریں۔ شرائط طے کرلیں۔ کسی شرط پر انہیں اگر اعتراض ہو تو اسے پیش کریں اور اس طرح فیصلہ کرکے مباہلہ کرلیں<۔۱۵۲
تصفیہ شرائط کئے بغیر تاریخ مباہلہ کا تقرر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے بار بار تصفیہ شرائط پر زور دینے کا ردعمل یہ ہوا کہ احرار نے یکطرفہ کارروائی کرکے تصفیہ شرائط کئے بغیر تاریخ مباہلہ مقرر کرلی۔ چنانچہ مولوی مظہر علی صاحب اظہر سیکرٹری و نمائندہ مجلس احرار کی طرف سے ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو حضور کے نام سیالکوٹ سے تار آیا کہ مجلس احرار کی جانب سے مباہلہ کی تاریخ ۲۳۔ نومبر مقرر کی گئی ہے۔۱۵۳ حضور کو اس تار سے بہت تعجب ہوا کہ خطوط کا جواب تک نہیں دیا جاتا` شرائط کے متعلق کچھ لکھا نہیں جاتا اور ایک ماہ سے زائد عرصہ کے بعد جس کام کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے اس کی اطلاع بذریعہ تار دی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ اطلاع ایک رجسٹری خط کے ذریعہ سے بھی آسکتی تھی۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے احرار پر اتمام حجت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فریق ثانی کی حیلہ گری اور ٹال مٹول کے باوجود ان پر اتمام حجت کی غرض سے مناسب سمجھا کہ ان سے دوبارہ
پوچھ لیا جائے کہ تصفیہ شرائط کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ چنانچہ ناظر دعوت و تبلیغ کی طرف سے مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کو جواب بھجوایا گیا کہ
‏tav.8.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
>اگر آپ مباہلہ پر واقعی تیار ہیں تو پہلے شرائط کا تصفیہ کرلیں۔ اخبار >الفضل< کے جن پرچوں میں ان ہماری مجوزہ شرائط کا ذکر ہے وہ آپ کی مزید واقفیت کے لئے آپ کو بھجوائے جارہے ہیں۔ انہیں ملاحظہ فرما کر اپنی رائے سے ہمارے مقرر کردہ نمائندگان کو مطلع فرمائیں۔ شرائط و تاریخ و مقام مباہلہ وغیرہ کا تعین ہمیشہ فریقین کی رضامندی سے ہوتا ہے۔ پس آپ اگر ہماری پیش کردہ شرائط کو بکلی مانتے ہیں تو بھی اور اگر کسی میں ترمیم کے خواہش مند ہیں تو پھر بھی جماعت احمدیہ کے مقرر کردہ نمائندگان سے گفت و شنید کرکے فیصلہ کا صحیح طریق اختیار فرمائیں۔ محض اپنی طرف سے ایک تاریخ مقرر کرکے تار دے دینا کوئی نتیجہ نہیں پیدا کرسکتا<۔۱۵۴
اب بظاہر خیال کیا جاتا تھا کہ اس مکتوب کے بعد احرار کوئی اعتراض نہیں اٹھائیں گے لیکن ہوا یہ کہ اگرچہ اخبار >مجاہد< میں مجمل طور پر یہ ضرور شائع کردیا گیا کہ ہمیں سب شرطیں منظور ہیں اور ہم ضرور مباہلہ کریں گے۔ لیکن اس گول مول اعلان کے باوجود مجلس احرار نے اب بھی باقاعدہ تحریری جواب سے بالکل پہلو تہی اختیار کی جسے مباہلہ۱۵۵ جیسے انتہائی ذمہ داری کے معاملہ میں کوئی سنجیدہ کوشش کی بجائے محض ایک مذاق یا استہزاء کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ خصوصاً اس لئے کہ اس اعلان سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی پیش فرمودہ ہر اہم شرط بالکل مبہم` مشکوک اور مشتبہ ہوکے رہ گئی مثلاً۔
اول۔]ydbo [tag اس اخباری اعلان سے اس پر کوئی روشنی نہیں پڑتی تھی کہ جماعت احمدیہ پانچ سو افراد تیار کرے یا ہزار نیز احرار کے مباہلین کی تعداد کتنی ہوگی؟
دوم۔ اس مجمل اعلان میں اس بات کی بھی کوئی وضاحت نہیں تھی کہ مقام مباہلہ کونسا ہوگا؟ لاہور` گورداسپور یا قادیان۔
سوم۔ مباہلہ کے وقت کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔
چہارم۔ ایک اہم بات یہ تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے شرائط مباہلہ میں یہ درج تھا کہ طرفین کے نمائندے جب ضروری امور کا تصفیہ کرلیں گے تو تاریخ مباہلہ مقرر کی جائے گی جو اس تصفیہ کے پندرہ دن بعد کی ہونی چاہئے۔ اس کے دو ہی معنے بنتے تھے یا یہ کہ تاریخ مباہلہ خود حضرت خلیفہ المسیح مقرر کریں گے یا طرفین کی منظوری سے اس کا تعین ہوگا۔ لیکن احرار کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک طرف مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے یہ اعلان کیا کہ سب شرائط منظور ہیں مگر دوسری طرف از خود تاریخ مباہلہ معین کردی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا حلفی بیان
احرار کی یہ ناقابل فہم روش دیکھ کر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو ایک پمفلٹ لکھا۔ جس میں مسلمانان ہند کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ >میں امید کرتا ہوں کہ سب حق پسند احباب اب معاملہ کو سمجھ گئے ہوں گے اور وہ احرار پر زور دیں گے کہ مباہلہ کی تفصیلی شرائط جماعت احمدیہ کے نمائندوں سے طے کرکے تاریخ کی تعیین کریں اور اس طرح خالی اخباری گھوڑے دوڑا کر اس نہایت اہم امر کو ہنسی مذاق میں نہ ٹلائیں۔۱۵۶
یہی نہیں حضور نے اسی پمفلٹ میں احرار کے جواب کا انتظار کئے بغیر مندرجہ ذیل حلفیہ اعلان شائع فرما دیا کہ۔
>میں اس خدائے قہار و جبار۔ مالک و مختار۔ معز و مذل۔ محی اور ممیت کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میرا اور سب جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت یہ عقیدہ ہے )اور اگر کوئی دوسرا شخص اس کے خلاف کہتا ہے تو وہ مردود ہے ہم میں سے نہیں( کہ رسول کریم~صل۱~ افضل الرسل اور سید دلد آدم تھے۔ یہی تعلیم ہمیں بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دی ہے اور اسی پر ہم قائم ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کی امت اپنے آپ کو جانتے ہیں اور سب عزتوں سے زیادہ اس عزت کو سمجھتے ہیں۔ بے شک ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا کا مامور اور مرسل اور دنیا کے لئے ہادی سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کو جو کچھ ملا وہ رسول کریم~صل۱~ کے طفیل۔ اور آپ~صل۱~ کی شاگردی سے ملا تھا۔ اور آپ کی بعثت کا مقصد صرف اسلام کی اشاعت اور قرآن کریم کی عظمت کا قیام اور رسول کریم~صل۱~ کے فیضان کو جاری کرنا تھا اور جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔ ~}~
ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم
یک قطرہ زبحر کمال محمدﷺ~ است
ایں آتشم ز آتش مہر محمدی ست
وایں آب من زآب زلال محمدﷺ~ است
آپ جو نور دنیا میں پھیلاتے تھے وہ رسول کریم~صل۱~ کے نور کا ایک شعلہ تھا اور بس۔ آپ رسول کریم~صل۱~ سے جدانہ تھے اور نہ ان کے مدمقابل اور اسی طرح یہ کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دنیا کے دوسرے سب مقامات سے جن میں قادیان بھی شامل ہے افضل اور اعلیٰ ہیں اور ہم احمدی بحیثیت جماعت ان دونوں مقامات کی گہری عزت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور انکی عزت پر اپنی عزت کو قربان کرتے ہیں اور آئندہ کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں خدائے واحد و قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس اعلان میں کوئی جھوٹ نہیں بول رہا۔ میرا دل سے یہی ایمان ہے اور اگر میں جھوٹ سے یا اخفاء یا دھوکہ سے کام لے رہا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ۔
اے خدا! ایک جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے اس قسم کا دھوکا دینا نہایت خطرناک فساد پیدا کرسکتا ہے۔ پس اگر میں نے اوپر کا اعلان کرنے میں جھوٹ` دھوکے یا چالبازی سے کام لیا ہے تو مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر *** کر۔ لیکن اگر اے خدا میں نے یہ اعلان سچے دل سے اور نیک نیتی سے کیا ہے تو پھر اے میرے رب یہ جھوٹ جو بانی سلسلہ احمدیہ کی نسبت میری نسبت اور سب جماعت احمدیہ کی نسبت بولا جاتا ہے تو اس کے ازالہ کی خود ہی کوئی تدبیر کر اور اس ذلیل دشمن کو جو ایسا گندہ الزام ہم پر لگاتا ہے یا تو ہدایت دے یا پھر اسے ایسی سزا دے کہ وہ دوسروں کے لئے عبرت کا موجب ہو۔ اور جماعت احمدیہ کو اس تکلیف کے بدلے میں جو صرف سچائی کو قبول کرنے کی وجہ سے دی جاتی ہے عزت کامیابی اور غیر معمولی نصرت عطا کر کہ تو ارحم الراحمین ہے اور مظلوموں کی فریاد کو سننے والا ہے۔ اللھم امین۔
اے سننے والو۔ سنو! کہ میں نے اپنی طرف سے قسم کھالی ہے اور قسم کھاکر اس عقیدے کا اعلان کردیا جس پر میں اول دن سے قائم ہوں۔ اب احرار یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں مباہلہ سے گریز کرتا ہوں۔
میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ مباہلہ ہو یا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اس میری قسم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو نصیب ہوگی اور پیش آمدہ ابتلائوں یا آئندہ آنے والے ابتلائوں سے ان کو نقصان نہ پہنچے گا بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل ہوگی۔ بے شک ابتلا خداتعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کے لئے ضروری ہیں مگر اصل شے نتیجہ ہے جو ہمیشہ ان کے حق میں اچھا اور ان کے دشمن کے حق میں برا ہوتا ہے۔ اور اب بھی خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سے یہی سلوک ہوگا<۔۱۵۷
ناظر دعوت و تبلیغ کو سند نمائندگی
اگرچہ اس حلفیہ بیان نے حق بالکل واضح کر دیا تھا اور احراری لیڈروں کے لئے راہ فرار اختیار کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ تاہم حضرت امیرالمومنین نے شرائط مباہلہ کے تصفیہ کا معاملہ فی الفور طے کرنے کے لئے اپنی طرف سے ناظر صاحب و تبلیغ کو سند نمائندگی لکھ دی۔ چنانچہ لکھا۔
>مکرمی ناظر صاحب دعوت و تبلیغ
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ میری طرف سے اس غرض کے لئے نمائندے ہیں۔ آپ جلد سے جلد احرار کے نمائندہ سے شرائط طے کرکے مباہلہ کی تاریخ کا اعلان کردیں۔ والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی<۱۵۸
یہ سند ناظر صاحب دعوت و تبلیغ نے ۳۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو سیکرٹری صاحب مجلس احرار کو بھی بھجوا دی اور ساتھ ہی ان کے نام مفصل چٹھی لکھی جس کے آخر میں تحریر کیا کہ۔
>اگر آپ مباہلہ سے گریز نہیں کررہے اور سنجیدگی سے مباہلہ کرنے کے خواہاں ہیں تو آپ وقت اور مقام مقرر کرکے مجھے اطلاع دیں جہاں پر میں آپ سے شرائط طے کرنے کے لئے حاضر ہو جائوں اور پھر شرائط ضبط تحریر میں لاکر اس پر فریقین کے نمائندوں کے دستخط ہو جائیں اور پھر متفقہ طور پر مباہلہ کے انعقاد کی تاریخ مقرر کرکے اعلان کردیا جائے<۔۱۵۹
احرار کی طرف سے تحریف اورمباہلہ کے نام پر قادیان میں ہنگامہ کھڑا کرنے کی تیاریاں
اس خط کے جواب میں مجلس احرار نے اپنے گزشتہ رویہ کو اور بھی ناخوشگوار بنالیا اور بجائے صحیح طریق اختیار کرنے کے تحریف سے کام
کام لینا شروع کردیا چنانچہ مسٹر مظہر علی صاحب اظہر )جنرل سیکرٹری احرار( نے چنیوٹ )ضلع جھنگ( میں بیان کیا کہ >میں نے قادیان جاکر کہا تھا کہ مباہلہ قادیان میں ہونا چاہئے اور مرزا صاحب کی صداقت پر ہونا چاہئے۔ اور مرزا محمود نے تسلیم کرلیا ہے<۔۱۶۰ اسی طرح سید فیض الحسن صاحب سجادہ نشین آلو مہار صدر مجلس احرار پنجاب نے بھی اپنی تقریر چنیوٹ میں کہا کہ >مرزا محمود نے مجلس احرار کو چیلنج دیا ہے کہ آئو مجھ سے مرزا کی نبوت پر قادیان آکر مباہلہ کرو زعمائے احرار نے مرزا محمود کے اس چیلنج کو قبول کرلیا ہے<۔۱۶۱
ظاہر ہے کہ یہ دونوں بیانات واقعہ کے صریحاً خلاف اور غلط بیانیوں پر مبنی تھے۔ کیونکہ
۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے چیلنج اس امر کا دیا تھا کہ وہ آنحضرت~صل۱~ سے عقیدت و محبت کا فیصلہ کرنے کے لئے لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کرلیں۔
۲۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے دعویٰ سے متعلق مباہلہ کے چیلنج کو حضرت خلیفتہ المسیح کی طرف منسوب کیا۔ حالانکہ یہ چیلنج خود احرار کی طرف سے تھا۔
۳۔
صدر مجلس نے کہا کہ مرزا محمود نے قادیان آکر مباہلہ کرنے کا چیلنج دیا۔ حالانکہ یہ تجویز احرار کی تھی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے تو احرار کے اصرار پر قادیان کو مقام مباہلہ قرار پانے کی اجازت دی تھی۔
۴۔
جنرل سیکرٹری صاحب احرار کے فقرہ سے یہ متر شح ہوتا تھا کہ گویا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تسلیم کرلیا ہے کہ مباہلہ قادیان میں ہی ہونا چاہئے۔ اور بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے متعلق ہی ہونا چاہئے نہ کہ آنحضرت~صل۱~ کی ہتک کے الزام کے متعلق۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ گویا حضور نے اصل بنائے مباہلہ کو ترک کردیا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط تھا۔ حضور نے کبھی بنائے مباہلہ کو نظر انداز نہیں ہونے دیا بلکہ اس کے برعکس یہ واضح اعلان فرمایا کہ ہم احرار سے صداقت مسیح موعودؑ پر بھی مباہلہ کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ مباہلہ پہلے مباہلہ سے الگ ہو اور اس کے لئے الگ پانچسو آدمیوں کی تعداد دونوں فریقوں کی طرف سے پیش کی جائے۔۱۶۲
احرار کی یہ حرکت بہت افسوسناک تھی۔ مگر ان خدا ناترس لوگوں نے مزید ظلم وستم یہ کیا کہ مباہلہ کے نام پر قادیان میں ہنگامہ برپا کرنے کی تیاریاں شروع کردیں اور تصفیہ شرائط سے گریز کرکے ملک بھر میں یہ عام تحریک کرنے لگے کہ لوگ ۲۳۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو ہزاروں کی تعداد میں قادیان پہنچیں اور تو اور خود صدر مجلس احرار پنجاب نے چنیوٹ کانفرنس میں بیان دیا۔ >۲۳۔ نومبر کو زعمائے احرار اور ہزاروں مسلمان قادیان کے میدان مباہلہ میں پہنچ جائیں گے<۔10] p[۱۶۳ اس اعلان سے یہ بات واضح طور پر کھل گئی کہ احرار مباہلہ نہیں ہنگامہ کی تجویزیں سوچ رہے تھے۔ اس خیال کی مزید تائید مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کے مندرجہ ذیل بیان سے بھی ہوگئی کہ >پانچ سو اور ہزار کی شرط خود مرزا صاحب کی عائد کردہ ہے ہمارے نمائندے ہزار سے بھی بہت زیادہ ہوں گے<۔۱۶۴
جناب مظہر علی صاحب اظہر نے محض نمائندوں کو غیر معین اور کثیر تعداد کا ذکر کرنے کے علاوہ اپنے اس بیان میں مباہلہ کی درپردہ اغراض خود اپنے قلم سے بے نقاب کر ڈالیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھا۔
>مجلس مباہلہ کا انتظام جس طرح مرزا محمود فرمائیں ہمیں منظور ہوگا فقط یہ احتیاط چاہئے کہ مباہلین کو دیکھنے والے لوگوں کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے<۔۱۶۵
نظارہ بینوں کے لئے روک نہ ہونے کے مطالبہ سے بھی معلوم ہوتا تھا کہ احرار کے مدنظر مباہلہ نہیں فساد ہے۔ ورنہ مباہلہ میں نہ کوئی لمبی چوڑی تقریر ہونی تھی اور نہ میدان مباہلہ کوئی تماشہ گاہ ہے کہ اس کے دیکھنے کے لئے لوگوں کو تحریک کی جائے۔
چنانچہ امیر مجلس احرار قادیان کی طرف سے انہی دنوں قادیان کے نواحی علاقہ میں ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں لکھا۔
>پچھلے سال قادیان میں جو کانفرنس ہوئی تھی اس میں نصف لاکھ کے قریب مسلمان جمع ہوئے تھے حالانکہ کانفرنس کا پہلا سال تھا۔ اس سال انشاء اللہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان قادیان میں جمع ہونے والے ہیں<۔۱۶۶
اس اشتہار نے جو عین مباہلہ کی گفتگو کے دوران تقسیم کیا گیا یہ حقیقت پوری طرح واضح کردی کہ احرار کا قادیان میں آنا مباہلہ کے لئے نہیں محض ہنگامہ بپا کرنے کے لئے ہے۔
احراری کارروائی کا پس منظر
اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ احرار کے اس قسم کے ٹال مٹول سے مطلب کیا تھا۔ دراصل بات یہ تھی کہ حکومت پنجاب نے احمدی اور احراری کشیدگی کے پیش نظر اپنے سرکلر نمبر سی ۱۶۷۳۴۷ ایس ایس بی مورخہ ۲۔ جولائی ۱۹۳۵ء کے ذریعہ احرار کو ۱۹۳۵ء میں قادیان کانفرنس کرنے سے روک دیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا چیلنج پڑھا تو انہوں نے سوچا کہ مباہلہ تو خیر دیکھا جائے گا اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر ہم حکومت سے برسر پیکار ہوئے بغیر قادیان میں کانفرنس کرلیں گے۔ کیونکہ مباہلہ کا چیلنج جماعت احمدیہ کی طرف سے ہے اور ہم ان کے بلائے پر جائیں گے اس لئے حکومت بھی ہم کو روکے گی نہیں۔ چنانچہ یہ امر دل میں رکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ بغیر اس کے کہ شرائط تحریر میں آئیں ہم مباہلہ کو منظور کرلیں۔ جب شرائط طے نہ ہوئی ہوں گی تو کئی باتیں عین موقعہ پر ایسی نکل آئیں گی جن کی بناء پر مباہلہ سے انکار کیا جاسکے گا۔ ہاں اس بہانہ سے قادیان میں کانفرنس کا موقعہ مل جائے گا۔
تاریخ مباہلہ سے متعلق اس قدر عرصہ پہلے اعلان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ حضرت خلیفتہ المسیح کی یہ شرط مانتے کہ شرطیں طے ہونے کے بعد تاریخ مقرر کی جائے تو اس صورت میں انہیں ہنگامہ اور کانفرنس کے لئے لوگوں کو جمع کرنا مشکل ہوتا۔ اب انہوں نے قریباً ڈیڑھ ماہ پہلے آپ ہی تاریخ مقرر کردی تا اس عرصہ میں لوگوں کو آمادہ کرکے کانفرنس کی تیاری مکمل کرلیں۔۱۶۸
گو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی نگاہ دوربین شروع ہی سے معاملہ کی تہہ تک پہنچ چکی تھی۔ مگر اب تو احرار کے درپردہ عزائم ان کی زبانوں اور قلموں پر آگئے تھے۔ لہذا اب جبکہ اصل معاملہ کھل کر سامنے آگیا حضور یہ کبھی گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ آپ کی مخلصانہ دعوت مباہلہ کو ہنگامہ آرائی کا ذریعہ بنا لیا جائے یا اس کے نام پر کانفرنس کی طرح ڈالی جائے۔
چنانچہ حضور نے ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو مفصل کوائف و حالات سے پبلک کو آگاہ کردیا اور حکومت اور احرار دونوں کے لئے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کر دیا کہ۔
>میں صاف لفظوں میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم قادیان میں مباہلہ کے لئے تیار ہیں۔ مگر کانفرنس کے لئے نہیں۔ اگر احرار کو فی الواقع مباہلہ منظور ہے تو۔
۱۔
شرائط طے کرلیں۔
۲۔
پھر ایک تاریخ بتراضی طرفین مقرر ہو جائے۔ جس کی اطلاع حکومت کو بغرض انتظام دے دی جائے گی۔
۳۔
اگر وہ قادیان میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو جو عام دعوت انہوں نے دی ہے اس کو عام اعلان کے ذریعہ سے واپس لیں۔
۴۔
مجلس احرار ہمیں یہ تحریری وعدہ دے کر مباہلہ کے دن اور اس سے چار دن پہلے اور چار دن بعد کوئی اور جلسہ یا کانفرنس سوائے اس مجلس کے جو مباہلہ کے دن بغرض مباہلہ منعقد ہوگی۔ وہ منعقد نہیں کریں گے۔ اور نہ جلوس نکالیں گے اور نہ کوئی تقریر کریں گے۔ اور یہ تحریر >مجاہد< میں بھی شائع کر دی جائے۔
۵۔
یہ کہ ان کی طرف سے مباہلہ کرنے والوں کے سوا جن کی فہرست ان کو پندرہ دن پہلے دینی ہوگی کوئی شخص باہر سے نہ تحریری نہ زبانی بلایا جائے گا۔ نہ وہ )اس صورت میں کہ انہیں ہماری ضیافت منظور نہ ہو( کسی کی رہائش کا یا خوراک کا جماعتی حیثیت میں یا منفردانہ حیثیت میں مذکورہ بالا نو ایام میں انتظام کریں گے<۔۱۶۹
۶۔
مباہلہ کی جگہ پر مباہلہ کرنے والوں اور منتظمین اور پولیس کے سوا اور کسی کو جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اگر وہ مذکورہ بالا باتوں پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہر حق پسند شخص تسلیم کرے گا کہ احرار کی نیت مباہلہ کی نہیں۔ بلکہ اس بہانے سے قادیان میں کانفرنس کرنے کی ہے۔
پس میں یہ واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں ہم قادیان میں نہیں بلکہ گورداسپور یا لاہور میں مباہلہ کریں گے۔ وہاں وہ بے شک جس قدر آدمیوں کو چاہیں بلالیں۔ گو اس صورت میں بھی مباہلہ کرنے والوں کے علاوہ دوسرے آدمیوں کو میدان مباہلہ میں آنے کی اجازت نہ ہوگی۔ میرے اس اعلان کے بعد بغیر شرائط طے کئے کے اور بغیر ایسی تاریخ کے مقرر کئے کے جو دونوں فریق کی رضامندی سے ہو اگر احرار ۲۳۔ نومبر یا اور کسی تاریخ کو قادیان آئیں۔ تو اس کی غرض محض کانفرنس ہوگی نہ کہ مباہلہ اور اس صورت میں اس کی ذمہ داری یا تو حکومت پر ہوگی یا احرار پر۔ جماعت احمدیہ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہ ہوگی<۔۱۷۰
عوام کو قادیان میں جمع کرنے کا پراپیگنڈا
اس اعلان کا بھی احرار نے کوئی جواب نہ دیا مگر اپنی گزشتہ روایات کے مطابق اعلان پر اعلان جاری رکھے کہ مسلمان کثیر تعداد میں ۲۳۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو قادیان پہنچ جائیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے صدر آل انڈیا نیشنل لیگ کے نام سے اخبارات میں یہ اعلان بھی کرایا کہ انہیں حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے تار موصول ہوا ہے جس میں ۲۳۔ نومبر کو قادیان میں مباہلہ ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔ حالانکہ اس قسم کا کوئی تار صدر کو قادیان سے نہیں بھیجا گیا اور نہ اس وقت تک مباہلہ منعقد ہوسکتا تھا جب تک احرار شرائط کا تصفیہ نہ کرلیں جس کے لئے وہ قطعی طور پر تیار نہیں تھے۔ یہ جعلی تار اصل میں پروپیگنڈا کی کڑی تھا جو ان کی طرف سے لوگوں کو قادیان میں جمع کرنے کے لئے کیاجارہا تھا۔۱۷۱
۵۔ نومبر ۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے کہ مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور مولوی حبیب الرحمن صاحب ہوڑہ ایکسپریس پر امرتسر آرہے تھے۔ بھوماں وڈالہ ضلع امرتسر کے ایک احمدی محمد عبدالحق صاحب مجاہد۱۷۲ نے جو انہی کے کمرہ میں بیٹھے تھے بخاری صاحب سے دریافت کیا کہ مباہلہ کے لئے کونسا وقت مقرر ہوا ہے؟ انہوں نے جواب دیا >بے وقت ہی مباہلہ ہوگا اور سارا دن ہوگا<۔ مجاہد صاحب نے دوبارہ پوچھا کہ مباہلہ کے شرائط طے ہوچکے ہیں؟ بخاری صاحب نے بتایا کہ >بے شرط مباہلہ ہوگا<۔۱۷۳
اس پرائیویٹ مجلس کے چند روز بعد بخاری صاحب نے ۱۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو مسجد خیرالدین امرتسر میں فیض الحسن صاحب سجادہ نشین آلو مہار شریف کی صدارت میں تقریر کی جس میں کہا >لوگ پوچھتے ہیں کہ مباہلہ ہوگا یا نہیں میاں سنو! ہمیں مباہلہ سے کیا۔ ہو یا نہ ہو۔ میں تو صرف کہتا ہوں کہ تم قادیان چلو اور کچھ نہ پوچھو۔ وہاں جمعہ پڑھیں گے۔ کھائیں گے ٹینٹوں میں بیٹھیں گے۔ گائیں گے۔ سوئیں گے۔ جلسہ کریں گے۔ تقریریں کریں گے۔ مرزا محمود کی دعوت کھائیں گے۔ مرزائی گندے` نجس پلید ہیں ان سے گھن آتی ہے۔ بدبو آتی ہے )اس پر کسی منچلے نے سوال کیا >جب مرزائی اتنے نجس ہیں تو پھر ان کی دعوت کیسے کھائو گے< اس پر بخاری صاحب نے کہا( میاں تم سیاسیات کو نہیں سمجھتے ابھی کچے ہو۔
مرزا محمود نے ہمیں مباہلہ کی دعوت تو دی ہے مگر دیکھو ہم اسے کیسا خراب کریں گے۔ شرائط شرائط کہتا ہے۔ شرائط کیا بلا ہوتی ہیں۔ ہم شرائط کو نہیں جانتے ہم نے اگر مباہلہ کیا تو بے شرائط کریں گے اب تم چیں کرو پیں کرو ہم تم کو چھوڑنے کے نہیں۔ رضاکار تیار ہو جائیں۔ باوردی جائیں جمعرات تک پہنچ جائو ۔۔۔۔۔۔ والنٹیئر اور رضاکار تیار ہو جائیں۔ جمعہ قادیان جا پڑھو۔ مباہلہ ہو یا نہ ہو اس سے غرض نہ رکھو۔ شرائط کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مرزائیوں کے اب آخری دن ہیں۔ مباہلہ کریں یا نہ کریں ہم ان کو مٹا دیں گے۔ پچاس سال انہوں نے موجیں کرلی ہیں<۔۱۷۴
حق کی فتح
مندرجہ بالا تفصیلات سے ظاہر ہے کہ احراری زعماء کی طرف سے بے شرائط مباہلہ کا اعلان احمدیت کی شاندار فتح تھی جس سے انعقاد مباہلہ کے بغیر ہی حق و باطل میں فیصلہ ہوگیا۔
چنانچہ حضرت امیرالمومنین نے ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو فرمایا۔
>اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اتنا یقین ہوتا کہ سمجھتے ہم سچے ہیں اور مباہلہ کرسکتے ہیں تو جس طرح میں نے قسم کھا کر مباہلہ کرہی دیا ہے۔ یہ لوگ بھی اسی طرح کیوں نہ کردیتے۔ وہ اخباروں میں اعلان کررہے ہیں کہ احمدی مباہلہ سے ڈر گئے۔ حالانکہ میں نے پہلے ہی قسم کھالی تھی اور کیا ڈرنے والا پہلے ہی قسم کھالیا کرتا ہے۔ جو الزام وہ لگاتے تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کے مطابق الفاظ میں میں نے قسم شائع کردی ہے۔ تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مباہلہ سے ڈر گئے ہیں۔ اسی طرح اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کی نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم~صل۱~ سے افضل سمجھتے تھے۔ بلکہ آپ پر ایمان نہ رکھتے تھے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت آپ کے دل میں نہ تھی اور آپ چاہتے تھے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نعوذ باللہ من ذالک اینٹ سے اینٹ بج جائے )نصیب دشمناں( اور یہ کہ جماعت احمدیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے تو کیوں احرار کے لیڈروں نے میرے الفاظ کے مترادف الفاظ میں بالمقابل قسم شائع نہیں کر دی۔ اگر وہ بھی قسم کھاتے تو لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ وہ بھی مباہلہ کے لئے تیار ہیں۔ یا پھر پیش کردہ شرائط ہی شائع کردیتے اور لکھ دیتے کہ ہمیں یہ منظور ہیں<۔۱۷۵
حکومت پنجاب کا نوٹس
حکومت پنجاب کے بعض افسر احرار کے اس عذر کی بناء پر کہ ہمیں خود امام جماعت احمدیہ نے قادیان آنے کی دعوت دی ہے اس لئے ہمارے قادیان جانے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے احرار کے حق میں تھے اور اس قضیہ میں >غیر جانبدار< رہنا چاہتے تھے۔ مگر جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خود احرار کے اشتہارات سے ثابت کر دکھایا کہ احرار مباہلہ کا نام لے کر درپردہ کانفرنس اور ہنگامہ آرائی کے لئے آرہے ہیں تب ان کا نظریہ بھی بدل گیا اور حکومت پنجاب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی گرفت پر اپنے بنائے ہوئے قانون کے احترام پر مجبور ہوگئی۔۱۷۶ اور اس نے ۱۶۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو ایک نوٹس جاری کر دیا جس میں ۲۔ جولائی ۱۹۳۵ء کے فیصلہ کی روشنی میں ۲۲۔ ۲۳۔ نومبر کو قادیان میں اجتماع پر بھی پابندی لگا دی اور لکھا کہ >اگر مجلس احرار اور احمدیہ جماعت کے نمائندے حکومت کو بصورت تحریر یقین دلا دیں کہ اجتماع کی غرض و غایت کی نوعیت پر فریقین کا اتفاق ہو چکا ہے تو اس صورت میں حکومت اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرسکتی ہے<۔۱۷۷
احرار کی درخواست اور حکومت کا جواب
یہ نوٹس ملنے پر جناب مظہر علی صاحب اظہر جنرل سیکرٹری احرار نے چیف سیکرٹری صاحب پنجاب کو ایک درخواست بھیجی جس میں یہ عذر تراشا کہ ہم لوگ قادیان میں جمعہ پڑھنے کے لئے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ قادیان میں جمعہ پڑھنے کی کوئی خاص وجہ احرار کے لئے نہ تھی۔ خصوصاً ایسے لیڈروں کے لئے جن میں سے بعض تارک نماز مشہور تھے۔ تاہم مسٹر اظہر نے اپنی درخواست میں لکھا کہ >مجلس احرار کی یہ منشاء نہیں ہے کہ قادیان میں کسی غرض کے پیش نظر کوئی کانفرنس منعقد کی جائے۔ سردست اس کا مقصد وحید یہ ہے کہ نماز جمعہ قادیان میں ادا کی جائے جس کے بعد وہ پرامن طریق سے واپس ہو جائیں گے۔ ہاں اگر احرار کو پھر مباہلہ کی دعوت دی گئی اور اس کے متعلق فریقین نے شرائط طے کرلیں تو اس صورت میں مباہلہ بھی کر لیا جائے گا<۔
مگر حکومت پنجاب نے جمعہ کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ فساد سے بچنے کے لئے دو ٹوک جواب دیا کہ مجوزہ صورت میں بھی امن عامہ میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے حکومت اس اجتماع سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرسکتی۔۱۷۸
رکن ادارہ اخبار >احسان< کا ایک نوٹ
اجتماع کی ممانعت کے باعث اگرچہ احرار کے ارمان دل ہی میں رہ گئے مگر انہوں نے مباہلہ سے چھٹکارا پاجانے پر سکھ کا سانس لیا اور وہ پیالہ جسے وہ ٹالنے کے لئے عجیب و غریب عذرات کا سہارا لیتے آرہے تھے حکومت پنجاب کی مہربانی سے ٹل گیا۔ سچ ہے جان بچی لاکھوں پائے۔ اخبار >احسان< لاہور کے ادارہ تحریر کے ایک رکن ابوالعلاء صاحب چشتی نے احرار کی باطنی کیفیت کا نقشہ بڑے جامع الفاظ میں کھینچا تھا انہوں نے لکھا۔ >میں مرزا بشیرالدین محمود احمد نہیں جس سے مباہلہ کرنے کا نام سن کر رہنمایان احرار کے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے<۔۱۷۹
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا دلچسپ تبصرہ
عالم اہلحدیث جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی اپنے اخبار >اہلحدیث< میں احرار کے طرز عمل پر ایک نہایت دلچسپ تبصرہ کیا تھا۔ جو انہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے۔
>احراری اب کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ قادیانی گروہ کے ساتھ مسائل کا فیصلہ علماء کی طرف سے ہوچکا ہمارا مقابلہ ان کے ساتھ سیاسی رنگ میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پس احرار اور قادیان کا اختلاف بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ مسلم لیگ اور ہندومہا سبھا کا ہے۔ اس لئے >حسب اصول< تقسیم کار احرار کو دوسری تبلیغی انجمنوں سے اپنا کام ممتاز کرلینا چاہئے یعنی منقولی مباحثے اور مباہلے دوسری انجمنوں اور اشخاص کے سپرد کردیں۔ احرار ان باتوں میں دخل نہ دیں جیسے مسلم لیگ کے ممبر ہندوئوں سے تناسخ وغیرہ مضامین پر بحث نہیں کرتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ احرار اہل قادیان کے دھوکے میں آجاتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو مباہلے کی دعوت قبول نہ کرتے۔ خیر گزشتہ را صلٰوۃ آئندہ را احتیاط<۔۱۸۰
مولوی صاحب نے >اہل حدیث< کی ایک اور اشاعت میں یہ نوٹ دیا کہ۔
>مباہلہ احرار/ قادیان کے متعلق ہم نے اپنی رائے محفوظ رکھی تھی۔ آج ہم اسے ظاہر کرتے ہیں ہم دیکھتے تھے کہ جو شرطیں قادیانیوں نے پیش کی تھیں وہ تو معمولی تھیں۔ ان کے علاوہ بعض اور شرائط ضروری تھیں جو احرار کی طرف سے ہونی چاہئے تھیں<۔
احرار کا احتجاجاً جمعہ نہ پڑھنے کا اعلان
احرار نے کس طرح میدان مباہلہ سے فرار اختیار کیا؟ اس کی تفصیل تو بیان ہوچکی ہے۔مگر بالاخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حکومت نے جب محض امن عامہ کے خیال سے جمعہ کے اجتماع پر احراری لیڈروں کے قادیان جانے پر پابندی لگا دی تو احرار نے اس سرکاری نوٹس کی بناء پر اعلان کردیا کہ وہ نماز جمعہ ادا ہی نہیں کریں گے اور ۲۲۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو قادیان کی مسجد احرار میں نماز جمعہ نہیں پڑھی گئی۔ اس عجیب و غریب احتجاج پر بھی مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ایک نوٹ شائع کیا جو لائق مطالعہ ہے۔ آپ نے لکھا۔
>شہر امرتسر میں عام طور پر شہرت ہے کہ قادیان کے مسلمانوں کو نماز جمعہ )مورخہ ۲۲۔ نومبر( ادا کرنے سے حکومت نے روک دیا ہے۔ ہم نے اشتہار مندرجہ پرچہ ہذا بصفحہ )۶( قادیان میں تقسیم کرنے کو دو آدمی بھیجے تھے انہوں نے اسی روز واپس آکر بتایا کہ اسلامی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کو اس قدر لوگ آئے ہوئے تھے کہ ان کی تعداد مرزائیوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ پولیس کا انتظام کافی تھا۔ کسی نے نماز جمعہ پڑھنے سے منع نہیں کیا۔ صرف مولوی عنایت اللہ صاحب امام مسجد نے چند کلمات شکایت متعلقہ حکومت کہہ کر اعلان کر دیا کہ چونکہ ہمارے بزرگ خصوصاً امیر شریعت کو قادیان میں آنے سے روکا گیا ہے۔ اس لئے ہم بطور احتجاج نماز جمعہ نہیں پڑھتے تم لوگ )حاضرین( اکیلے اکیلے نماز ظہر پڑھ لو۔ چنانچہ سب نے اپنی اپنی نماز ظہر پڑھ لی۔ مذہبی تعلیم کے لحاظ سے یہ واقعہ ہم نے تعجب سے سنا۔ ہمیں شبہ ہوا کہ ہمارے مخبروں کو شاید حقیقت حال کا علم نہ ہوا ہو۔ ہم اسی شش و پنج میں تھے کہ احرار کا اخبار >مجاہد< مورخہ ۲۴۔ نومبر دیکھنے میں آیا تو اس میں بھی مندرجہ ذیل اقتباس ملا۔
حسب دستور مسلمان اپنی مسجد میں جمع ہوئے مگر آج پیش آمدہ حالات کی بناء پر بالاتفاق یہ قرار پایا کہ حکومت کی متشددانہ پالیسی نے چونکہ نماز جمعہ کے لئے امن کی شرط کو مفقود کردیا۔ اس لئے فریضہ جمعہ ادا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ہر ایک مسلمان نے علیحدہ علیحدہ نماز ظہر ادا کی۔
یہ فقرات پڑھ کر ہمیں اصل حقیقت منکشف ہوگئی۔ کہ نماز جمعہ کا ترک حکومت کے منع سے نہیں ہوا۔ بلکہ حکومت نے جو چند اکابر احرار کو قادیان میں جانے سے روک دیا تھا۔ اس خفگی میں نماز جمعہ کو ترک کیا گیا۔ اس لئے ہم اپنے قصور علم کا اعتراف کرتے ہوئے اس فعل )ترک نماز جمعہ( سے برات کا اعلان کرتے ہیں کہ یہ فعل شرعی ہدایت کے ماتحت نہیں ہوا چونکہ احرار سیاسی جماعت ہے ان کے خیال میں سیاست کے رو سے شاید جائز ہو۔ اللھم غفرانا<۔۱۸۲
>زندہ خدا کا زندہ نشان<
مولوی عبدالغفار صاحب غزنوی نے فتویٰ دے رکھا تھا کہ >کسی خاص جگہ نماز پڑھنا ضروری نہیں۔ لیکن جب اس جگہ پر پابندی عائد کر دی جائے تو نماز پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ قادیان میں جاکر نماز جمعہ ادا کرے<۔۱۸۳
اس فتویٰ کی تعمیل میں >امیر شریعت احرار< مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری ۶۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کا جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان روانہ ہوئے مگر حکم امتناعی کو توڑنے کے سبب جینتی پورہ اسٹیشن پر گرفتار کر لئے گئے۔ اور عدالت گورداسپور سے چار ماہ قید کی سزا پائی۔۱۸۴
یہ واقعہ بظاہر ایک معمولی واقعہ تھا مگر جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۲۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کے ایک مضمون میں بالتفصیل بتایا۔ >اسے احمدیت کی صداقت پر زندہ خدا کا ایک زندہ نشان قرار دینا چاہئے۔ وجہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو عالم رویاء میں >امیر شریعت احرار< کے دوبارہ حملہ اور پھر چار ماہ کے لئے قید ہونے کا نظارہ وسط نومبر ۱۹۰۲ء میں دکھایا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔
>ایک مقام پر میں کھڑا ہوں تو ایک شخص آکر چیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا۔ پھر دوسری بار حملہ کرکے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے۔ مگر میں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جاسکتا۔ اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑلیا۔ مگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے اتنے میں ایک اور شخص آگیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اس نے بھی اسے پکڑلیا۔ میں جانتا تھا کہ موخرالذکر ایک مومن متقی ہے۔ پھر اسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اسے جاتے ہی ۴ یا ۶ یا ۹ ماہ کی ¶قید کا حکم دے دیا<۔۱۸۵
نظر بندی سیاسی لیڈروں کی لیڈری چمکانے کا ہمیشہ ایک موثر ذریعہ رہا ہے۔ مگر امیر شریعت احرار کے معاملہ میں نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ چنانچہ بشیر احمد صاحب جنرل سیکرٹری تحفظ مساجد و اوقاف امرتسر نے ایک ٹریکٹ میں صاف صاف لکھا کہ:۔
>یہ صرف احرار دوستوں کی ایک شطرنج کی چال ہے کہ اپنے آپ کو گرفتار کرا کر قوم کے سامنے ایک نئی ایجی ٹیشن کی صورت پیدا کرکے چندہ جمع کیا جائے۔ کیونکہ آج کل چندہ کی کمی ہوچکی ہے اور دوسرے مسجد شہید گنج کے بارے میں احرار کا وقار قوم کے دلوں سے اٹھ چکا ہے اب چندہ آئے تو کس طرح۔ اب مسلمان اتنے سادہ لوح نہیں ہیں وہ اپنے لیڈر اور غیر لیڈر میں تمیز کر سکتے ہیں۔ >امیر شریعت< کو یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ جمعہ کی نماز قصبہ میں نہیں ہوسکتی جبکہ شہر کی جامع مسجد افضل و بہتر ہے۔ بار بار قادیان قادیان کی رٹ لگانا اور ایجی ٹیشن پیدا کرکے غریب اور جاہل مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنانا اور گورنمنٹ کو تنگ کرنا یہ کسی عقلمند لیڈر کا کام نہیں۔ محض قادیان میں فساد پیدا کرنا اور پبلک کو اپنی طرف متوجہ کرنا تاکہ جو شخص مسجد شہید گنج کے معاملہ میں بہت سے پارٹ ادا کر چکا ہے اس کی وزارت کے لئے رائے عامہ کو متوجہ کیا جائے اور الیکشن میں کامیاب کرایا جائے۔ بس یہ ہے احرار کا اصل مقصد و مدعا<۔۱۸۶
دوسرا باب )فصل پنجم(
حبشہ )ابی سینیا( میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی تبلیغی خدمات
اسلام کی نورانی شعاعیں براعظم افریقہ کے جس خطہ پر سب سے پہلے پڑیں وہ حبشہ )ابی سینیا( کا ملک ہے۔ عہد نبوی کے مکی دور میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکالیف انتہاء کو پہنچ گئیں۔ اور قریش کے مظالم ناقابل برداشت ہوگئے۔ تو آنحضرت~صل۱~ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ نیز فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل و منصف ہے اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔۱۸۷ چنانچہ اس ارشاد نبوی کے مطابق ماہ رجب ۵ھ )مطابق نومبر۔ دسمبر ۶۲۶ء( میں گیارہ صحابہ اور چار صحابیات حبش کی طرف ہجرت کر گئے۔ ان مظلوم مہاجرین میں سے حضرت عثمانؓ بن عفان اور ان کی حرم حضرت رقیہؓ )بنت الرسولﷺ~ ~صل۱(~ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف۔ حضرت زبیرؓ ابن العوام۔ حضرت ابو حذیفہؓ بن عتبہ۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر۔ حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد اور ان کی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہم کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۱۸۸ حبشہ کی حکومت نے مہاجرین کو پورا پورا امن دیا اور ان کی تبلیغ سے نہ صرف نجاشی مسلمان ہوگیا بلکہ بعض عمائد مملکت بھی اسلام لے آئے۔ حکومت حبشہ کا یہ ایسا عظیم الشان احسان ہے کہ ملت اسلامیہ اسے قیامت تک فراموش نہیں کرسکتی۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اسی جذبہ تشکر سے لبریز ہوکر اگست ۱۹۳۵ء میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ابن حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ سابق مہر سنگھ کو حبشہ جانے اور اہل حبشہ کی خدمت کرنے کا ارشاد فرمایا۔
یہ وہ ایام تھے جبکہ اٹلی اور حبشہ کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اہل حبشہ بری طرح پسپا ہورہے تھے اور ان کی جنگی امداد کے علاوہ طبی امداد کی بھی بہت ضرورت تھی۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے خرچ پر ابی سینیا گئے۔۱۸۹4] ft[r اور اپنی جان کو جوکھوں۱۹۰ میں ڈال کر انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کا بہترین ثبوت دیا اور ایک لمبا عرصہ تک نہ صرف طبی بلکہ تبلیغی خدمات بجا لاتے رہے۔ چنانچہ ذیل میں ڈاکٹر صاحب ہی کے الفاظ میں ان کے زمانہ قیام کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ۔
>حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو تحریک جدید کے ماتحت وقف کرنے پر علی گڑھ خط لکھا کہ ابی سینیا )حبشہ( میں جاکر طبی خدمات سرانجام دینے اور تبلیغ کرنے کے لئے روانہ ہوجائیں۔ اگست ۱۹۳۵ء میں خاکسار قادیان پہنچ کر حضور سے فیض یاب ملاقات ہوا۔
حضور کے ضروری ارشاد گرامی یہ تھے۔ ریڈ کراس ہسپتالوں میں جو جنگ کے میدان میں ابی سینیا میں کام کررہے ہیں اپنے آپ کو پیش کریں۔ رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں صحابہ کرام کی ہجرت ایبے سینیا کے ملک میں ہوئی تھی۔ اہل حبشہ کے آباء و اجداد کے اس نیک سلوک کی وجہ سے عالم اسلامی ان کا ممنون رہا ہے۔ اس کے عوض ہمیں اس مصیبت کے وقت ان کے بیمار اور زخمیوں کی مدد کرنی چاہئے۔
۱۔
خاکسار عدیس ابابا اپنے خرچ پر پہنچا۔ خاکسار کی بیوی بھی حضور سے خط لکھوا کر میرے نام لے آئیں کہ آپ کی اہلیہ ساتھ جانا چاہتی ہیں ان کو ساتھ لے جائیں۔ اگر جنگ شروع ہو جائے اور یہ ساتھ نہ جاسکیں تو انہیں سمالی لینڈ یا عدن رہنے کا انتظام کرا دیں۔ سو ایسا ہی کیا گیا۔ جنگ شروع ہوئی۔ اٹلی کے فوجیوں کے ہوائی حملوں سے بے اندازہ نقصان جانی و مالی ہوا۔
مسٹرڈ گیس GAS MUSTARD پھینکی گئی۔ گولہ باری کیے ذریعہ بے دردی سے جانیں تلف کی گئیں۔ خاکسار عین میدان شمالی محاذ پر متعین تھا۔ روانہ کئی سو زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا پڑتی تھی۔ دیکھتے دیکھتے جانیں تلف ہوتی تھیں۔ قیامت کا منظر سامنے تھا۔ قرآن کریم کی پیشگوئیاں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں فوج میں بیان کرکے واضح کیا جاتا رہا کہ مسیح موعود کا ظہور ہو چکا ہے اور سچائی ثابت ہوچکی ہے۔ لوگوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ۳۶۔۱۹۳۵ء میں جنگ جاری رہی۔ عالمی ریڈ کراس سوسائٹی INTERNATIONALREDCROSS(SOCIETY) کی طرف سے اخباروں میں خاکسار کا نام >ڈاکٹر احمد آف انڈیا< کے نام سے شائع ہوتا رہا۔ اخبار >ہندوستان ٹائمز< میں میرا فوٹو بھی چھپا تھا۔ اور قادیان کا نام بھی۔ ہندوستان کی طرف سے صرف خاکسار ہی ایک ڈاکٹر تھا۔ جو ملک حبشہ میں جنگ کے دوران کام کے لئے بھیجا گیا۔
ایبے سینیا کا بادشاہ ہیل سلاسی یکم مئی ۱۹۳۶ء کو فرار ہوکر انگلستان چلا گیا۔ اٹلی کے ملک حبشہ پر قبضہ کرنے پر مزید ۶ ماہ خاکسار وہاں مقیم رہ کر عدیس ابابا کی مساجد میں تبلیغ کرتا رہا۔ مساجد میں جمعہ کے روز خاکسار لکچر کرتا اور پیغام احمدیت و اسلام عربی زبان میں پہنچاتا۔ بسا اوقات خاکسار کو مساجد ہی سے بزور نکال باہر کیا جاتا رہا۔ ایک فاضل رکن جامعتہ الازہر شیخ محمد بدیوی مصری جو حکومت مصر کی طرف سے عدیس ابابا جامع میں مقرر تھا۔ چند روز کے بحث مباحثہ کے بعد اور میرے کہنے پر استخارہ کرنے کے بعد حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کی بیعت تحریری سے مشرف ہوا۔ اس نے خواب میں رسول کریم~صل۱~ و مسیح موعودؑ کو دو کرسیوں پر بیٹھے دیکھا اور رسول کریم~صل۱~ کو اپنی طرف مخاطب ہو کر سنا کہ مسیح موعودؑ کو قبول کرلو۔ اس دوران میں السید عبدالحمید ابراہیم مصری )جو جامعتہ الازہر کے فارغ التحصیل ہیں( کے ساتھ مقابلہ ہوتا۔ تو شیخ محمد بدیوی صاحب مجھے بلا لیا کرتے تھے۔ خطبہ الہامیہ میری طرف سے دئے جانے پر انہوں نے بھی دعویٰ مسیح موعودؑ کو قبول کرلیا۔ ۱۹۳۶ء کے بعد ۱۹۳۷ء میں مصر جاکر بیعت کا خط مولوی محمد سلیم صاحب کو لکھ دیا۔ اور داخل جماعت احمدیہ ہوگئے۔
نیز السید عبدالحمید بعد میں قادیان اور ربوہ آکر حضرت صاحب کی ملاقات سے مشرف ہوئے۔
۲۔
ستمبر ۱۹۳۶ء میں خاکسار ایبے سینیا سے چلا گیا اور فلسطین اور مصر و شام کے ممالک میں تبلیغ اور سیاحت اور پریکٹس کے لئے چلا گیا۔ چند ماہ وہاں رہ کر پھر ۱۹۳۷ء میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کینیا جانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ وہاں جاکر میڈیکل سروس میں داخل ہو جائوں سو ۱۹۳۹ء تک خاکسار وہاں رہا۔ ۱۹۴۰ء میں خاکسار کو حاجیوں کے جہاز ایس ایس رحمانی میں میڈیکل آفیسر مقرر کیا گیا۔ بمبئی` جدہ` کراچی وغیرہ کئی بار آنا جانا پڑا۔ حج کرنے کا بھی موقعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عنایت کیا۔ عربی میں مہارت کافی ہوگئی۔ مکہ معظمہ میں اور عرفات` منیٰ`مزدلفہ` مکہ معظمہ` جدہ۔ غرضیکہ ہر جگہ عربوں اور دیگر علماء کو تبلیغ کرنے کا موقعہ بہ کثرت ملتا رہا۔ اور علاج معالجہ کا موقعہ ملتا رہا۔ خاکسار کا طریق اکثر یہی رہا کہ قرآن کریم کی آیات ہر مسئلہ پر اور کتب عربی حضرت مسیح موعودؑ کی تشریحات اکثر بیان کرنے پر مداومت اختیار کرتا تھا۔ جس کا بہت جلد اثر دیکھا جاتا رہا۔
۳۔
ڈلہوزی میں ۴۲۔ ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۳ء تک خاکسار پریکٹس کرتا رہا۔ جہاں حضور نے ایک روز سیر پر جاتے ہوئے فرمایا۔ ایبے سینیا کے بادشاہ کو لکھو کہ میں نے دوران جنگ ایبے سینیا میں کام کیا ہے۔ اس لئے تم مجھے کوئی عہدہ دو تاکہ میں دوبارہ مریضوں کو ]ksn [tagایبے سینیا کے ہسپتالوں میں مقرر ہونے پر خدمت کرسکوں خاکسار حضور سے بشارات لیکر دوبارہ عدن اور حبشہ چلا گیا۔
۴۔
عدن میں ۱۹۴۳ء۔ ۱۹۴۴ء میں سرکاری ملازمت سول ہسپتال میں کرتا رہا۔ وہاں بھی مساجد میں جب عرب علماء کا درس ہوتا تھا خاکسار وہاں جاکر بیٹھ جایا کرتا تھا اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری کردیتا۔ کئی موقعہ پر کافر۔ ملعون۔ قادیانی۔ کذاب کے خطاب سے یاد کیا جاتا اور کئی دفعہ وہاں کی مساجد سے نکالا جاتا۔ ایک دن کثرت سے عربوں اور سومالیوں نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا۔ تاکہ خاکسار کو کالعدم کر دیا جائے۔ اسی اثناء میں سی آئی ڈی کا آدمی میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور انگریزی میں کہنے لگا کہ >ہم کو حکم ہوا ہے کہ آپ کو اپنے گھر سلامتی کے ساتھ پہرے کے اندر پہنچا دیں۔ کیونکہ پبلک مسجد کے اندر اور باہر ڈنڈے اور چاقو لیکر کھڑی ہے ان کی نیت آج آپ کے متعلق خطرناک ہے<۔ میں نے کہا کہ گورنمنٹ کی حکم عدولی میں نہیں کرسکتا بہت اچھا۔ سو وہ مجھے پہرے کے اندر میرے گھر لے آیا۔ نو آبادیات و محمیات عدن میں دورہ کرنے کے لئے مجھے بھیجا گیا جہاں بیماریاں اور موتیں بکثرت ہورہی تھیں۔ وہاں جاکر گائوں گائوں میں ظہور مسیح موعودؑ پر عربی زبان میں تقریریں کرتا رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر بکثرت مشہور ہوگئی۔ حسب معمول تصنیفات حضرت مسیح موعودؑ بکثرت تقسیم کرتا تھا۔ جس سے پھر مخالفت کا بازار گرم ہوگیا۔ جس پر علماء عدن نے ایک میمورنڈم لکھ کر گورنر عدن کو بھیجا کہ ڈاکٹر نذیر احمد کو میڈیکل سروس سے نکال دیا جائے۔ نوجوانوں پر قادیانیت کا اثر ہورہا ہے۔ سلطان شبوطی میرا ڈسپنسر تھا۔ وہ احمدیت کی طرف مائل ہوگیا۔ بعد میں مولوی غلام احمد صاحب مبشر کے آنے پر سلطان شبوطی اور عبداللہ محمد شبوطی دونوں احمدی ہوگئے۔ فالحمدللہ علی ذالک۔
عدن میں ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے میری سرگرمیاں دیکھ کر مجھے مبارکباد دی کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ عدن میں جب مجھے ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا تو خواب دیکھا کہ میں حضرت صاحب کے ارشاد پر ایبے سینیا )جو قرب ہی ایک روزہ کے راستہ پر تھا( جارہا ہوں۔ حضور نے میری خواب پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جلدی ایبے سینیا چلے جائیں۔ چنانچہ خاکسار ۱۹۴۴ء میں دوبارہ ایبے]body [tag سینیا چلا گیا اور حضرت صاحب کی بات پوری ہوئی کہ خاکسار کو ایکٹنگ سول سرجن (ACTINGCIVILSURGEON) کے عہدہ پر کئی سال متعین کیا گیا۔ وہاں پہنچنے پر ہیل سلاسی۱۹۱ شاہ حبشہ سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ اس کے محل میں اس کو کتب دے کر تبلیغ اسلام انگریزی زبان میں کی گئی۔ اور پرانا تعلق ہجرت اصحاب النبیﷺ~ ~صل۱~ کا بیان کرکے یاد دلایا گیا۔
۵۔
۱۹۴۴ء سے ۱۹۵۳ء تک ۹ سال برابر سینکڑوں مباحثات کئے اور دس ہزار کے قریب اشتہار کتب۔ رسائل۔ کتب حضرت مسیح موعودؑ عربی )مثلاً اعجاز المسیح` لجتہ النور` حمامتہ البشریٰ` تحفہ بغداد` التبلیغ( دیباچہ قرآن انگریزی اور قرآن کریم کی تفسیر انگریزی بڑے سائز کی تقسیم کی گئی۔ اکثر مفت دی گئیں۔ سکولوں اور کالجوں میں جاکر تبلیغ کی گئی۔۱۹۲ اور سکول کے لڑکوں نے میرے ہاں برابر ہسپتال میں آنا شروع کیا۔ چالیس آدمیوں نے جو مختلف گائوں کے رہنے والے تھے ایک دن بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے۔۱۹۳
حبشہ میں ڈبرا برہان کے شہر کے ایک لڑکے رضوان عبداللہ احمدی کو میں نے واقف زندگی کے طور پر ربوہ تعلیم کے لئے ہوائی جہاز پر بھیجا۔ جو ربوہ میں تعلیمی اور عربی اور دینی ماحول میں بہت مقبول ہوگئے لیکن بدقسمتی سے ۲۔ ۳ سال تعلیم جامعہ احمدیہ میں حاصل کرتے ہوئے دریائے چناب میں لڑکوں کے ساتھ وضو کرتے ہوئے پائوں کے پھسل جانے سے غرقاب ہوکر شہید ہوئے مقبرہ بہشتی ربوہ میں ان کی قبر موجود ہے۔۱۹۴
ایک رمضان میں ڈبرا برہان شہر کی جامعہ مسجد میں جاکر میں نے تبلیغ شروع کردی۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ ساری مسجد بھر گئی۔ وہاں کے عربی ملاں نے لوگوں کو اکسایا اور خاکسار پر حملہ کیا گیا اور یکدم دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ میری تائید میں اور دوسرا میرے بالمقابل۔ آخر مجھے مسجد میں سے نکلنا پڑا۔ قتل قتل کے نعرے لگے۔ بازار تک مجھے دھکیلتے ہوئے لے گئے۔ عربی میں آوازے کستے رہے کہ آج اس ہندی قادیانی کا خاتمہ اور خون بہا دیا جائے گا۔
ساری رات میرے ایک دوست کا مکان جس میں مجھے پناہ لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ گھیرے میں رکھا گیا۔ دوسرے روز میں مصلحتاً لباس بدل کر واپس سٹیشن پر پہنچا اور ٹکٹ لیکر واپس اپنی ڈیوٹی پر ڈبرا برہان پہنچ گیا۔ میں اپنے گھر بتا کر گیا تھا کہ چند روز موجب ارشاد حضرت صاحب تبلیغ کے لئے بیرونی مقام پر جاتا ہوں جو مخالفت کا گڑھ ہے وہاں قتل بھی کر دیا کرتے ہیں۔ اگر میں وہاں خدانخواستہ قتل بھی ہوگیا تو تم کو اللہ تعالیٰ ہاجرہ جیسی عزت قرب الٰہی میں بخشے گا۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔
۶۔
۹ سال کے بعد حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے کارڈ لکھا کہ صرف ایک ماہ کے لئے پاکستان چھٹی پر تم کو آنے کی اجازت ہے۔ سو فروری ۱۹۵۳ء میں خاکسار پہلی بار ربوہ آیا۔ حضور نے فرمایا کہ واپس ایبے سینیا جائو۔ شاہ حبشہ کو ہمارا لٹریچر پہنچے گا۔ تم اسے پہنچانے کا بندوبست کرنا۔ جولائی میں وہاں کے پادریوں نے شکایات کیں کہ احمدیت کا نفوذ بڑھ رہا ہے۔ اس ڈاکٹر کو ملک سے باہر نکال دیا جائے۔ سو مجھے حضرت امیرالمومنین نے تار دی (BETTERPROCEEDTONAIROBI) کہ نیروبی چلے جائو۔ خاکسار ۱۹۵۳ء میں نیروبی پہنچا اور ۱۹۶۰ء میں وہاں سے ولایت مزید تعلیم کے لئے چلا گیا۔ جس کے حصول کے بعد کامیاب ہوکر جلسہ سالانہ قادیان و ربوہ ۱۹۶۲ء میں پہنچا<۔۱۹۵
حضرت امیرالمومنین کی شادی
۲۰۔ ستمبر ۱۹۳۵ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے خوشی اور شادمانی کا دن تھا۔ کیونکہ اس روز حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا عقد )حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ سول سرجن کی دختر نیک اختر( سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر ہوا۔۱۹۶ اعلان نکاح حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کیا۔۱۹۷
حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے ۲۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو بوقت ۱۱ بجے دن قادیان اور مضافات کے بعض دیہات کے قریباً ڈیڑھ ہزار اصحاب کو مسجد اقصیٰ میں دعوت ولیمہ۱۹۸ دی گئی۔ جس کیے لئے دعوت نامہ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحبؓ نے جاری کیا۔ جو ایک چھوٹے سے دبیزی کاغذ پر دیدہ زیب مگر سادہ طریق پر چھپا ہوا تھا۔ اس دعوت نامہ کا متن ذیل میں دیا جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی صاحب
السلام علیکم رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
حضرت امیر المومنین امام جماعت احمدیہ خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے لئے ۲۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء بروز بدھ بوقت ۱۱ بجے دن کے مسجد اقصیٰ میں تشریف لا کر ممنون فرما دیں اور یہ دعوت کارڈ ہمراہ لیتے آویں۔
الداعی خاکسار )ڈاکٹر( محمد طفیل خان۔ ۳۵/۱۰/۱
نئے مہمان خانہ کی بنیاد
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو صبح سات بجے مہمان خانہ )قادیان( کی پرانی عمارت کے ساتھ نئے مہمان خان کا سنگ بنیاد رکھا۔۱۹۹ حضرت بابو سراج دین صاحب نے جو ان دنوں نظارت ضیافت میں آنریری کارکن تھے۔ اس مہمان خانہ کے لئے ایک ہزار روپیہ کا عطیہ دیا جس کا ذکر خود حضرت امیر المومنینؓ نے مجلس مشاورت میں فرمایا۔۲۰۰
‏tav.8.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
آل انڈیا نیشنل لیگ کور قادیان کی ابتدائی سرگرمیاں
نیشنل لیگ کور کا مختصر تذکرہ >تاریخ احمدیت< جلد ہفتم )طبع اول( )صفحہ ۵۲۳( میں کیا جاچکا ہے۔ اس خالص سیاسی ادارہ نے )جو ۱۹۳۲ء۲۰۱ میں قائم ہونے والی احمدیہ کور کی بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا اور آل انڈیا نیشنل لیگ۲۰۲ کور کی ذیلی تنظیم کی حیثیت رکھتا تھا(حفاظت مرکز کی نہایت عمدہ خدمات انجام دیں۔
مثلاً وسط نومبر ۱۹۳۵ء میں جب احرار مباہلہ کے بہانہ سے قادیان میں آنا چاہتے تھے نیشنل لیگ کور کے سپرد مقامات مقدسہ اور تمام شعائر اللہ کی حفاظت کا کام کیا گیا۔ یہ انتظام قریباً چار دن تک جاری رہا۔ اور اس میں کور کے تمام افسر اور رضاکار دونوں شب و روز مصروف رہے جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ >پچھلے چار دنوں میں جو کام آپ لوگوں کو مرکز سلسلہ کی حفاظت کے لئے کرنا پڑا ہے میں اس کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔۔ خوشنودی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس نیت اور غرض کے ماتحت آپ لوگوں نے یہ کام کیا ہے۔ اسی نیت اور غرض کے مطابق اللہ تعالیٰ آپ سے نیک سلوک فرمائے<۔۲۰۳
علاوہ ازیں والنٹیر کور نے ۲۔ دسمبر ۱۹۳۵ء سے جمعہ کے دوران حضرت امیرالمومنین کے پہرہ کا انتظام براہ راست اپنے ذمہ لے لیا جو سالہا سال تک باقاعدگی سے جاری رہا۔ ۲۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کو فیصلہ کیا گیا کہ سالانہ جلسہ پر کور کے رضاکار` مسجد مبارک` قصر خلافت` بہشتی مقبرہ` مردانہ جلسہ گاہ` زنانہ جلسہ گاہ اور خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے مقرر کئے جائیں۔ رضاکاروںں نے یہ خدمت اتنے خلوص اور جانفشانی سے ادا کی کہ حضرت امیرالمومنینؓ نے ۳۰۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کو اسپر مبارکباد دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ >اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کور کا کام قریب ترین عرصہ میں شروع ہوا ہے۔ اتنے قریب کے وقت میں شروع ہوا ہے کہ اتنے عرصہ میں ایک سپاہی کو بندوق پکڑنے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ کجا یہ کہ اسے کسی خدمت پر مقرر کیا جائے۔ مگر باوجود اس کے اس موقعہ پر جس محنت` جس جانفشانی اور جس سرگرمی سے نیشنل لیگ کور کے ممبروں نے کام کیا ہے۔ چھوٹوں اور بڑوں نے کیا ہے۔ افسروں اور ماتحتوں نے کیا ہے۔ وہ اس قابل ہے کہ کور کو مبارکباد دی جائے۔ اور کور اس بات کی مستحق ہے کہ جماعت اس کے لئے دعا کرے۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس تنظیم کے ماتحت جس کی مشق کا پوری طرح کور کو ابھی موقعہ نہیں ملا جلسہ سالانہ کے موقعہ پر کور کے تھوڑے سے آدمیوں نے اتنا کام کرکے دکھایا ہے جو پہلے بہت سے لوگ نہ کرسکتے تھے۔ جلسہ گاہ میں میرے جانے کے وقت رستہ کو صاف رکھنا اور ہجوم کو روکنا قریباً ناقابل حل سوال ہوچکا تھا۔ مگر اب کے والنٹیرز کور نے ایسی عمدگی سے اسے حل کیا ہے کہ کسی ایک موقعہ پر بھی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ اور شکایت کا پیدا ہونا تو الگ رہا۔ شکایت کا امکان بھی پیدا نہیں ہوا۔ اس موقعہ پر جس نوعیت کا کام تھا اس کے لحاظ سے کور پر اس قدر بوجھ پڑا جو انتہائی تھا۔ لیکن میں خوش ہوں کہ اس موقعہ پر کور نے ہمت` دیانت اور استقلال سے کام کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کور کا یہ حسن انتظام جس کی میں نے تعریف کی ہے اور جو تعریف کے قابل ہے۔ اس میں بڑی بات یہی ہے کہ کور کے ممبروں کو محسوس کرا دیا گیا ہے کہ افسر کی اطاعت ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں میں پھر خوشنودی کا اظہار کرتا ہوں کہ کور نے اعلیٰ درجہ کا کام کیا۔ اور دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ اسے اور زیادہ خوبی سے کام کرنے کی توفیق دے<۔۲۰۴`۲۰۵
مبلغین کو اہم ہدایات
۱۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء کو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے طلباء نے احمدیہ انٹر کالجیئیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے ممبروں کو جامعہ احمدیہ کے صحن میں دعوت دی۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مبلغین کو نہایت اہم ہدایات دیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا کہ۔
>قرآن کریم سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص جماعت کو دین کی خدمت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ولتکن منکم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون )سورہ آل عمران ع ۱۱( اور دوسری طرف فرماتا ہے۔ کنتم خیر امہ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر سارے مومنوں کا فرض ہے کہ دعوت الی الخیر کریں تو ایک خاص جماعت کا ہونا ضروری ہے اور یہ لازمی چیز ہے۔ کوئی فوج اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کا ایک حصہ خاص کام کے لئے مخصوص نہ ہو اور تمام نیچر میں یہی بات نظر آتی ہے کہ ایک ذرہ مرکزی ہوتا ہے۔ مذہبی تبلیغ کے لئے بھی ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جو اپنے اردگرد کو متاثر کرسکے اور دوسروں سے صحیح طور پر کام لے سکے۔ یہی غرض مبلغین کی ہے۔ لیکن عام طور پر خود مبلغین نے بھی ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیت کے سپاہی ہیں اور کام انہیں خود کرنا ہے۔ مگر جو یہ سمجھتا ہے وہ سلسلہ کے کام کو محدود کرتا ہے۔ ہم خدمت دین کے لئے کس قدر مبلغ رکھ سکتے ہیں۔ اس وقت ساٹھ ستر کے قریب کام کررہے ہیں جن کا جماعت پر بہت بڑا بوجھ ہے اور چندے کا بہت بڑا حصہ ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے مگر وہ کام کیا کرتے ہیں۔ اگر کام کرنے والے صرف وہی ہوں تو سلسلہ کی ترقی بند ہو جائے۔ ان کے ذریعہ سال میں صرف دو تین سو کے قریب لوگ بیعت کرتے ہیں۔ اور باقی جن کی تعداد کا اندازہ دس بارہ ہزار کے قریب ہے جماعت کے لوگوں کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ رہے مباحثات جو مبلغین کو کرنے پڑتے ہیں۔ یہ اسی وقت تک ہیں جب تک ہمارے ملک کے لوگوں کے اخلاق کی اصلاح نہیں ہوتی۔ مباحثات پبلک کے اخلاق کی خرابی کی وجہ سے کرنے پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا یہ مقصد نہیں کہ علماء مباحثات کے لئے پیدا کریں بلکہ علماء کی غرض یہ ہے کہ وہ آفیسرز کی طرح ہوں جو اپنے اردگرد فوج جمع کریں اور اس سے کام لیں۔ یا اس گڈریئے کی طرح جس کے ذمہ ایک گلے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ اور یہ کام دس بیس مبلغ بھی عمدگی سے کرسکتے ہیں۔ جب تک ہمارے مبلغ یہ نہ سمجھیں۔ اس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ مبلغ کے معنے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرنے والا۔ مگر صرف یہ معنی نہیں۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرانے والا۔ رسول کریم~صل۱~ سے بڑھ کر کون مبلغ ہوسکتا ہے؟ مگر آپﷺ~ کس طرح تبلیغ کیا کرتے تھے؟ اس طرح کہ شاگردوں سے کراتے تھے۔ صحابہؓ میں آپﷺ~ نے ایسی روح پھونک دی کہ انہیں اس وقت تک آرام نہ آتا تھا جب تک خدا تعالیٰ کی باتیں لوگوں میں نہ پھیلا لیں۔ پھر صحابہؓ نے دوسروں میں یہ روح پھونکی اور انہوں نے اوروں میں اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے اس بات کو بھلا دیا۔ تب خداتعالیٰ نے اس روح کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھیجا۔ اس طرح اب رسول کریم~صل۱~ ہی تبلیغ کررہے ہیں۔ پس علماء کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کریں جو دوسروں کو تبلیغ کرنے کے قابل ہوں۔ وہ خدمت گزاری اور شفقت علی الناس کا خود نمونہ ہوں۔ اور دوسروں میں یہ بات پیدا کریں۔ مگر عام طور پر مبلغ لیکچر دے دینا یا مباحثہ کرلینا اپنا کام سمجھتے ہیں اور خیال کرلیتے ہیں کہ ان کا کام ختم ہوگیا۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہورہا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ علماء بیکار رہتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ تقریر کرنے یا مباحثہ کرنے کے بعد مبلغ کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ کچھ آرام کرے۔ کیونکہ بولنیے کا کام مسلسل بہت دیر تک نہیں کیا جاسکتا۔ بولنے میں زور لگتا ہے اور تقریر کے بعد انسان نڈھال ہو جاتا ہے۔ مبلغ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہرروز کئی کئی گھنٹے تقریر کرے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو چند ماہ کے بعد اس سل ہو جائے گی اور وہ مر جائے گا۔ پھر روزانہ کہاں اس قدر لوگ مل سکتے ہیں جو اپنا کام کاج چھوڑ کر تقریریں سننے کے لئے جمع ہوں۔ پس یہ کام چونکہ ایسا نہیں جو مسلسل جاری رہ سکے اس لئے لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے کہ مبلغ فارغ رہتے ہیں حالانکہ ان حالات میں ان کا فارغ رہنا قدرتی امر ہے۔ دراصل انہوں نے اپنے فرض کو سمجھا نہیں۔ وہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہمارے پاس کوئی آیا ہی نہیں تو ہم سمجھائیں کسے؟ اس وجہ سے ہم فارغ رہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے کہ ان کا کام صرف تقریر کرنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کے اخلاق کی تربیت کرنا ہے۔ انہیں تبلیغ کرنے کے قابل بنانا ہے۔ اور پھر وہ اپنا تصنیف کا شغل ساتھ رکھیں۔ جہاں جائیں لکھنے پڑھنے میں مصروف رہیں۔ کوئی ادبی مضمون لکھیں۔ کسی مسئلے کے متعلق تحقیقات کریں۔ ضروری حوالے نکالیں۔ تاریخی امور جمع کریں۔ تو پھر انکے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ فارغ رہتے ہیں۔ یہ تاریخی مختلف کام ہیں جن کی طرف ہمارے مبلغین کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی مبلغ کہیں جاتا اور وہاں تصنیف کا شغل بھی جاری رکھتا۔ تو لوگ یہ نہ کہتے وہ فارغ رہا۔ بلکہ یہی کہتے کہ لکھنے میں مصروف رہا۔ مگر مبلغین کو اس طرف توجہ نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ تصنیف کا کام نہیں ہورہا۔ ممکن ہے اس وقت بھی یہاں بعض مبلغ ہوں مگر دعوت چونکہ ان کی طرف سے ہے جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں۔ اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہی طریق اختیار نہ کریں جو ان سے پہلوں نے کیا۔ اور جس کی وجہ سے نو حصے کام ضائع ہوا اور صرف ایک حصہ ہورہا ہے۔ اس طرح جماعت کی ترقی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو مبلغ اپنے اوقات کی حفاظت نہیں کرتے اور انہیں صحیح طور پر صرف نہیں کرتے وہ جماعت کے لئے ترقی کا موجب نہیں بن سکتے۔ جو لوگ آئندہ مبلغ بننے والے ہیں وہ اپنے اوقات کی پوری طرح حفاظت کرنے کا تہیہ کریں۔ ان کا کام صرف اپنے منہ سے تبلیغ کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا۔ ان کے اخلاق کی تربیت کرنا۔ ان کو دین کی تعلیم دینا۔ ان کے سامنے نمونہ بن کر قربانی اور ایثار سکھانا اور انہیں تبلیغ کے لئے تیار کرنا ہے گویا ہمارا ہر ایک مبلغ جہاں جائے وہاں دینی اور اخلاقی تعلیم کا کالج کھل جائے۔ کچھ دیر تقریر کرنے اور لیکچر دینے کے بعد اور کام کئے جاسکتے ہیں۔ مگر متواتر بولا نہیں جاسکتا کیونکہ گلے سے زیادہ کام نہیں لیا جاسکتا۔ مگر باقی قویٰ سے کام لے سکتے ہیں۔ میں تقریر کرنے کے بعد لکھنے پڑھنے کا کام سارا دن جاری رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس میں مبلغین کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنا کام اب جو سمجھا ہوا ہے۔ وہ ان کا کام نہیں ہے۔ یہ بہت چھوٹا اور محدود کام ہے۔ افسر کا کام یہ نہیں ہوتا کہ سپاہی کی جگہ بندوق یا تلوار لے کر خود لڑے۔ بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ سپاہیوں کو لڑائے۔ اسی طرح مبلغ کا کام یہ ہے کہ جماعت کو تبلیغ کا کام کرنے کے لئے تیار کرے اور ان سے تبلیغ کا کام کرائے۔ اس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی ہوسکتی ہے پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح جماعت کی تربیت کی طرف مبلغین کو توجہ کرنی چاہئے۔ جماعت کے بیکاروں کے متعلق تجاویز سوچنی چاہئیں۔ بیاہ شادیوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ غرض جس طرح باپ کو اپنی اولاد کے متعلق ہر بات کا خیال ہوتا ہے۔ اسی طرح مبلغین کو جماعت سے متعلق ہر بات کا خیال ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ جماعت کے لئے باپ یا بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں<۔۲۰۶
بعض جلیل القدر صحابہؓ کا انتقال
۱۹۳۵ء میں سترہ جلیل القدر صحابہ انتقال فرما گئے۔ جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ سرساوی نعمانی )وفات ۳۔ جنوری ۱۹۳۵ء( بعمر اسی سال۔۲۰۷ نہایت مخلص اور قدیم صحابہ میں سے تھے۔ >تذکرہ المہدی< )حصہ اول و دوم( >مخمس<۔ >علم القرآن<۔ >قاعدہ عربی<۔ >پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے فیصلہ کا ایک طریق<۔ >سراج الحق<۔ )حصہ اول تا پنجم( آپ کی علمی یادگاریں ہیں۔
۲۔
حضرت ملک الطاف خاں صاحبؓ )وفات درمیانی شب ۱۵` ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۵ء۲۰۸ متوطن موضع ترناب تحصیل چار سدہ ضلع پشاور( ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال سے قبل شرف بیعت حاصل کیا۔ صاف کشف و الہام بزرگ تھے۔ احمدیت کی خاطر بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ان کی وفات پر لکھا کہ >ہمارے سلسلہ کا ایک ولی چل بسا<۔۲۰۹
۳۔
حضرت مولوی احمد الدین صاحبؓ متوطن ہسولہ تحصیل چکوال ضلع جہلم۔ مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہونے کے علاوہ سلسلہ احمدیہ کے سرگرم کارکن اور عالم باعمل اور اشاعت احمدیت کے لئے حقیقی تڑپ رکھنے والے تھے )تاریخ وفات ۲۷۔ مارچ ۱۹۳۵ء(۲۱۰]din [tag
۴۔
حضرت ماسٹر ہدایت اللہ صاحب والد ماجد حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ لاہور )تاریخ وفات ۲۳۔ فروری ۱۹۳۵ء بعمر ۷۸ سال( قدیم صحابہ میں سے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے ان کا اخلاص قابل رشک تھا۔۲۱۱
۵۔
حضرت ملک محمد حسین صاحبؓ بیرسٹر نیروبی )تاریخ وفات ۴۔ اپریل ۱۹۳۵ء( غالباً ۱۸۸۷ء میں رہتاس ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کے ہم مکتب تھے۔ اندازاً ۱۹۱۳ء میں افریقہ تشریف لے گئے۔ ان کا شمار نیروبی کے ممتاز ترین بیرسٹروں میں ہوتا تھا۔ ۱۹۲۳ء میں لیجسلیٹو کونسل کے ممبر نامزد ہوئے اور میونسپل کمشنر کی حیثیت سے قوم و ملت کی شاندار خدمات انجام دیں۔۲۱۲
۶۔
حضرت سید معراج الدین صاحبؓ نیروبی )تاریخ وفات ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۵ء( ۵۔ ۱۹۰۴ء میں احمدیت قبول کی۔ ۱۸۹۷ء میں افریقہ تشریف لے گئے۔ ۱۹۱۱ء میں حج سے مشرف ہوئے۔ مالی مشکلات کے باوجود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہر تحریک پر بڑے خلوص کے ساتھ لبیک کہنے اور مالی قربانیوں میں مقامی جماعت کے ہر فرد سے بڑھ کر حصہ لیتے تھے۔۲۱۳
۷۔
حضرت میاں دوست محمد صاحبؓ نیروبی )مئی ۱۹۳۵ء( حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ نے آپ کی وفات پر لکھا۔ >آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر پروانہ وار فدا تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کافی عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں حاضر رہے۔ آپ اس وقت بھی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی معیت میں تھے جبکہ لیکھرام پشاوری نے حضور کو بار بار آکر سلام کیا اور حضور نے جواب نہ دیا۔ مجھے جب کبھی اس بزرگ بھائی کی صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ ملتا۔ ایک خاص لطف اور سرور حاصل ہوتا<۔۲۱۴
۸۔
چوہدری سردار خان صاحبؓ ساکن چک چہور نمبر ۱۱۷ ضلع شیخوپورہ )تاریخ وفات ۱۰۔ مئی ۱۹۳۵ء(۲۱۵
۹۔
حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ ساکن تلونڈی جھنگلاں )تاریخ وفات ۲۔ ستمبر ۱۹۳۵ء(۲۱۶ind] ga[t آپ ان جلیل القدر صحابہ میں سے تھے جن کو زمانہ دعویٰ ماموریت سے بھی قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت و ملاقات کے کئی قیمتی مواقع میسر آئے۔ بیعت سے قبل حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔
۱۰۔
حضرت میراں بخش صاحبؓ ساکن شیخ پور ضلع گجرات )تاریخ وفات ۲۳۔ اگست ۱۹۳۵ء( پچاسی سال زندگی پائی۔۲۱۷
۱۱۔
حضرت چوہدری مہرالدین صاحبؓ )ساکن موضع بوبک )متر( ظفر وال ضلع سیالکوٹ )تاریخ ولادت ۱۸۷۶ء` تاریخ وفات ۶۔ ستمبر ۱۹۳۵ء( آپ ۱۹۰۲ء میں داخل احمدیت ہوئے۔ مخالفین نے آپ کو بہت تکالیف پہنچائیں۔ تبلیغ کی خاص دھن تھی۔ ویرکا نارووال ریلوے لائن کھلنے سے پہلیے آپ اکثر سال میں دو تین بار پیدل چل کر قادیان جایا کرتے تھے۔ دعائوں سے خاص شغف تھا اور اولاد کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔۲۱۸
۱۲۔
شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر امیر جماعت احمدیہ لائل پور )تاریخ وفات درمیانی شب ۱۲/۱۱۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے مگر بیعت خلافت ثانیہ دسمبر ۱۹۳۳ء میں کی۔ بیعت کرنے کے بعد آپ کی زندگی میں ایک ایسا زبردست تغیر اور حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوگئی کہ اگر آپ کو ابدال کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مرکز کی طرف سے آنے والے ہر مبلغ یا کارکن کی مہمان نوازی اور آرام پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔۲۱۹
۱۳۔
حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ )تاریخ وفات ۱۲۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء بعمر ۷۵ سال( مرحوم نو مسلم تھے۔ ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ نہایت خوش بیان واعظ` عابد و زاہد اور مستجاب الدعوات تھے۔ آپ کی عمر کا بیشتر حصہ تبلیغ احمدیت کے لئے وقف رہا۔۲۲۰
۱۴۔
حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ )تاریخ وفات ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء بعمر ۹۰ سال( متوطن سروہ ضلع میرٹھ ۳۱۳ صحابہ کبار میں شمولیت کا فخر حاصل تھا۔ رئویاء صالحہ اور کشوف سے مشرف تھے۔ دہلی میں انتقال کیا اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے۔۲۲۱
۱۵۔
حضرت مرزا اسماعیل بیگ صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم خدام میں سے تھے۔ )تاریخ وفات ۲۷۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء(۲۲۲
۱۶۔
حضرت شیخ عبدالرحمن صاحبؓ مسکین فرید آبادی )تاریخ وفات ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء(۲۲۳
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ زبان مبارک سے ذکر خیر
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ کے بعد فرمایا۲۲۴ اور پچھلے عشرہ میں جماعت احمدیہ کے بعض اچھے مخلص فوت ہوگئے ہیں۔ جن میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ ہیں۔ ایک ہمارے شیخ غلام احمد صاحب واعظ تھے جن کا انتقال اسی ہفتہ ہوا۔ پھر شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر لائل پور کا انتقال ہوا ہے۔ انہیں مبایعین کی جماعت میں داخل ہوئے گو ابھی ڈیڑھ سال ہی ہوا تھا مگر وہ بھی صحابی تھے۔ اور بیعت خلافت کے بعد انہوں نے حیرت انگیز تبدیلی پیدا کرلی تھی اور جماعت کے کاموں میں بہت قربانی کرنے لگ گئے تھے اور روزانہ اخلاص میں بڑھتے چلے جارہے تھے۔ خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب بھی وفات پاگئے ہیں۔ وہ گو صحابی نہیں تھے بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے عہد خلافت میں انہوں نے بیعت کی۔ مگر نہایت مخلص تھے اور ہمیشہ جماعت کے کاموں میں حصہ لیتے تھے۔ ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ صاحبہ بھی وفات پاگئی ہیں۔ وہ بھی سلسلہ سے گہرا اخلاص رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ اور پسماندگان پر اپنے فضل کا ہاتھ رکھے۔ منشی فیاض علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ۳۱۳ میں ان کا نام تھا۔ فوت ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
‏body] [tagان موتوں کے ساتھ ساتھ یہ خیال ہر شخص کے دل میں اٹھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ روزبروز کم ہوتے جارہے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں کہ وہ اسی رنگ میں رنگین ہو جائیں جس رنگ میں یہ لوگ رنگین تھے۔ وہ سلسلہ کے لئے قربانیاں کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایسے انابت اور توجہ کریں کہ اس انابت کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے۔ اور ان کا ایمان صرف خشک ایمان نہ رہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی طرح انہیں تر ایمان حاصل ہو<۔۲۲۵
احمدیت اور سیاسیات عالم
۲۵` ۲۶` ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۵ء میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ قادیان میں منعقد ہوا۔ جس میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لاکر تین بار خطاب فرمایا۔ )۱( اپنی افتتاحی تقریر میں اسلام اور احمدیت کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی کا تذکرہ فرمایا۔۲۲۶ )۲( دوسرے دن کی تقریر میں تحریک جدید کے مقاصد پر بالتفصیل روشنی ڈالی۔۲۲۷ )۳( تیسرے دن کے اختتاحی خطاب میں بڑی شرح و بسط سے بیان فرمایا کہ احمدیت دنیا کی سیاسیات میں کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے؟۲۲۸
اس مضمون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا۔ >حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا الہام ہے کہ >بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے<۔ اس کے مطابق ہمیں یقین ہے کہ بادشاہ احمدیت میں داخل ہوں گے۔ لیکن جب وہ بادشاہ آئیں گے تو انہیں کون بتائے گا تمہارے کیا فرائض ہیں۔ اگر آج ہم قرآنی تعلیم سے اخذ کرکے وہ فرائض اپنی کتابوں میں نہیں لکھ دیں گے جو بادشاہوں اور حکومتوں کے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دینوی بادشاہوں کی نقل کریں گے۔ اور اس کا نتیجہ بجز تباہی کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ پس آپ لوگوں میں سے ہر ایک کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدیت کس قسم کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ تاجب بادشاہت آئے اور اس وقت کے بادشاہ کسی اور رنگ میں کام کرنا چاہیں تو فوراً ان کو بتا دیا جائے کہ یوں حکومت کرو۔ ہم تمہیں وہ باتیں قرآن مجید سے اخذ کرکے بتاتے ہیں جن کے ماتحت تمہارے لئے کام کرنا ضروری ہے۔۲۲۹]ydob [tag
اس تفصیل کے بعد حضور نے لیگ آف نیشنز اور اسکی ناکامی کے اسباب بتائے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں امن عالم کے ذرائع پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ اور آخر میں اسلامی لیگ آف نیشنز کا خاکہ رکھنے کے بعد نصیحت فرمائی کہ وہ یہ خیالات دنیا میں پھیلائیں تا اسلام اور احمدیت کی برتری ثابت ہو۔۲۳۰
۱۹۳۵ء کی عیدالفطر اور حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز خطبہ
۱۹۳۵ء کے سالانہ جلسہ کے معاًبعد ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کو عیدالفطر منائی گئی۔ قادیان میں خلقت کے اژدہام کا یہ عالم تھا کہ عیدگاہ کے نہایت
وسیع میدان کے علاوہ دور دور تک احمدی ہی احمدی نظر آتے تھے۔ اس موقعہ پر شہر سے دور مقام پر لائوڈ سپیکر کا انتظام ممکن نہیں تھا اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خطبہ کے الفاظ دوسروں تک پہنچانے کے لئے سلسلہ احمدیہ کے نوجید علماء حسب ذیل نقشہ کے مطابق متعین فرمائے۔۲۳۱
حضرت امیرالمومنینؓ جو فقرہ ارشاد فرماتے۔ وہ مولوی محمد سلیم صاحب بلند آواز سے دوہراتے۔ اور ان سے سن کر مولوی دل محمد صاحب۔ قریشی محمد نذیر صاحب۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز۔ مولوی محمد اعظم صاحب اور مولوی احمد خاں صاحب نسیم باواز بلند کہتے اور ان کے بعد ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور مولوی محمد شریف صاحب دوہراتے۔ اس طرح حضور کی تقریر تمام مجمع میں گونج جاتی۔
حضرت امیرالمومنینؓ نے قریباً نصف گھنٹہ تک خطاب فرمایا اور جماعت کو نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے تعلقات کی بنیاد محبت پر رکھو۔۲۳۲ اس پرمعارف خطبہ کی جذب و تاثیر کا یہ عالم تھا کہ بیسیوں اصحاب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اور مجمع پر رقت کی کیفیت طاری تھی۔۲۳۳
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دوسرا باب )فصل ششم(
۱۹۳۵ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
۱۔ ۱۵`۱۶۔ جنوری ۱۹۳۵ء کی درمیانی شب کو صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کے ہاں صاحبزادی آصفہ بیگم صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۲۳۴
۲۔
۲۶/ ۲۵۔ جولائی ۱۹۳۵ء کی درمیانی شب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حرم اول میں صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب کی ولادت ہوئی۔۲۳۵
۳۔
۳۱۔ اگست ۱۹۳۵ء کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں صاحبزادی امتہ الوحید بیگم کی ولادت ہوئی۔۲۳۶
۴۔
۲۴۔ ستمبر ۱۹۳۵ء کو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ہاں محترمہ سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے صاحبزادی امتہ الرئوف پیدا ہوئیں جو حضرت امیر المومنین~رضی۱~ کی پہلی نواسی` حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی پہلی پوتی اور حضرت ام المومنینؓ کی پہلی پڑپوتی تھی۔۲۳۷
۵۔
۱۹۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو حضرت نواب محمد عبداللہ صاحبؓ کے مشکوئے معلیٰ میں میاں شاہد احمد خان صاحب پیدا ہوئے۔۲۳۸
۶۔
۳` ۴۔ نومبر ۱۹۳۵ء کی درمیانی شب کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہاں امتہ اللطیف بیگم صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۲۳۹
‏sub] g[taسنگ بنیاد
اس سال سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے مندرجہ ذیل اصحاب کے مکانات کا سنگ بنیاد رکھا۔
مرزا عبدالغنی صاحب پنشنر کینیا۔ )۳۰۔ جنوری ۱۹۳۵ء۔ محلہ دارالبرکات(۲۴۰
مسجد دارالبرکات )۱۸۔ فروری ۱۹۳۵ء(۲۴۱
سلطان احمد صاحب مہاجر۔ )۱۸۔ فروری ۱۹۳۵ء۔ دارالبرکات(۲۴۲
حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ )۱۸۔ فروری ۱۹۳۵ء۔ دارالفضل(۲۴۳
حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب )۱۱۔ مارچ ۱۹۳۵ء۔ دارالانوار(۲۴۴
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب۔ )۱۲۔ اپریل ۱۹۳۵ء۔ دارالانوار(۲۴۵
ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب۔ )۶۔ مئی ۱۹۳۵ء۔ دارالبرکات(
وٹرنری اسسٹنٹ سرجن پاکپٹن )حال واقف زندگی تحریک جدید ربوہ(
میاں اللہ دتہ صاحب ماہل پوری سپاہی پنشنر )۶۔ مئی ۱۹۳۵ء۔ دارالبرکات(۲۴۶
مکان ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب زاہدان )۴۔ جون ۱۹۳۵ء۔ دارالبرکات(۲۴۷
مسجد دارالسعتہ۔ )۳۰۔ ستمبر ۱۹۳۵ء(۲۴۸
مکان بابو اللہ بخش صاحب کسٹم آفیسر پشاور۔ )۲۱۔ نومبر ۱۹۳۵ء۔ دارالرحمت(۲۴۹
گوردوارہ پٹنہ صاحب کی تعمیر کے لئے امداد
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے ایک وفد نے جو سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< اور مولانا جلال الدین صاحب شمس پر مشتمل تھا۔ ۲۲۔ فروری ۱۹۳۵ء کو کرنل سردار رگھبیر سنگھ صاحب سردار ڈیوڑھی و سیکرٹری گوردوارہ پٹنہ صاحب کمیٹی کو مبلغ پانسو روپیہ کی رقم گوردوارہ پٹنہ صاحب کی تعمیر کے لئے دی۔۲۵۰
اخبار >پرتاپ< )۲۷۔ فروری ۱۹۳۵ء( نے اس واقعہ کی خبر درج ذیل الفاظ میں شائع کی۔
>پٹیالہ ۲۴۔ فروری` ۲۲۔ فروری کو امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے ایک ڈیپوٹیشن نے کرنل سردار رگھبیر سنگھ صاحب سیکرٹری گوردوارہ کمیٹی سے ملاقات کی اور گوردوارہ کی تعمیر کیلئے ۵۰۰ روپیہ چندہ دیا۔ چندہ کو منظور کرتے ہوئے کرنل رگھبیر سنگھ نے کہا کہ اس رقم کی امداد سے سکھوں اور احمدیوں کے تعلقات جو پہلے ہی خوشگوار ہیں زیادہ بہتر ہو جائیں گے۔ ڈیپوٹیشن نے ہزہائینس شری مہاراجہ صاحب بہادر آف پٹیالہ سے بھی جو کمیٹی کے پریذیڈنٹ ہیں ملاقات کی۔ انہوں نے احمدیہ جماعت کی اس سپرٹ کی بہت تعریف کی۔ اور کہا کہ آج کل کے فرقہ وارانہ کشیدگی کے دنوں میں اس قسم کی ہمدردانہ امداد بداعتمادی اور شکوک کو جو مختلف جماعتوں میں پائے جاتے ہیں دور کردے گی<۲۵۱
اس خبر پر سکھ اخبار >شیر پنجاب< نے یہ تبصرہ کیا کہ۔
>جو لوگ احمدیوں کی تنظیم` ان کی سرگرمیوں اور مختلف تحریکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ سب ان کی )یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ناقل( قوت عظیم` اسلامی لٹریچر سے نہایت وسیع واقفیت` علم و فضل اور اپنی جماعت کی قیادت کے لئے غیر معمولی تدبر و دانشمندی کے قائل ہیں اور سکھوں کے ایک نہایت متبرک و مقدس گوردوارہ کی عمارت کی تعمیر کے لئے پانسو روپیہ چندہ کی یہ رقم جہاں غیر مسلم ہمسایوں سے آپکے اخلاص اور رواداری کا ایک ثبوت سمجھا جائے گا۔ وہاں اس میں آپ کی مسلمہ معاملہ فہمی اور دانشمندی کا راز بھی مضمر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس فیاضانہ چندہ کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ خالصہ پنتھ آپ کے اس اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور جب کوئی موقعہ آیا سکھ بھی احسان کا بدلہ احسان اور نیکی کا بدلہ نیکی میں دیں گے<۔۲۵۲
برما مشن کا قیام
مارچ ۱۹۳۵ء میں مولانا احمد خاں صاحب نسیم )حال ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد( تبلیغ احمدیت کے لئے برما تشریف لے گئے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے ان کو روانگی کے وقت نصیحت فرمائی کہ وہ زیادہ تر تبلیغ میں توجہ زیر آبادی۲۵۳ لوگوں کی طرف کریں۔۲۵۴ چنانچہ آپ نے اس بارے میں خاص طور پر جدوجہد فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپکی کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈالی اور کامیابی بخشی۔ جب آپ ابتدا میں برما پہنچے تھے۔ زیر آبادیوں میں صرف تین یا چار احمدی موجود تھے۔ مگر ۱۹۳۹ء میں یہ تعداد سو سے بھی زیادہ ہوگئی۔ اور یمیدن اور بسین میں بڑی بڑی جماعتیں قائم ہوگئیں۔ شامل احمدیت ہونے والوں میں عربی عالم` انگریزی دان اور زیر آبادی قوم کے لیڈر بھی تھے۔۲۵۵ موپلین شہر میں آپ نے ایک مناظرہ کیا جس کے بعد ۱۸۔ افراد داخل احمدیت ہوئے۔ اسی طرح یمیدن میں چند دنوں میں ہی ساٹھ آدمیوں نے بیعت کرلی۔ قیام برما کے دوران آپ نے برمی زبان میں ایک کتاب >فیصلہ آسمانی< کے نام سے شائع کی۔ جو تبلیغی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوئی۔ برما میں آپ کو اپنی تبلیغی مہمات میں جن مخلص احمدیوں کے خاص طور پر تعاون حاصل رہا۔ ان کے نام یہ ہیں۔ )۱( عبدالقادر کٹی مالا باری )۲( ایم محمود صاحب یمیدن )۳( ڈاکٹر غلام قادر صاحب حال چک چہور مغلیاں نمبر ۱۱۷ ضلع شیخوپورہ )۴( ٹی پی محمد صاحب )۵( ڈاکٹر محمد صدیق صاحب )۶( شیخ محمد سعید صاحب بی اے ایل ایل بی ابن میاں محمد ابراہیم صاحب چنیوٹی کانپور )۷( میاں محمد افضل صاحب گوجرانوالہ۔ )۸( اے کے این پیر محمد صاحب )۹( ایم ایل مرے کار صاحب )۱۰( برکت علی خان صاحب کنٹریکٹر لگوئی )۱۱( کوکوے صاحب )۱۲( کوکو جی صاحب )۱۳( محمد ابراہیم صاحب برمی )۱۴( عبدالغنی صاحب )۱۵( ماسٹر عاشق علی صاحب۔۲۵۶
مولانا احمد خاں نسیم صاحب دسمبر ۱۹۳۹ء میں برما سے واپس قادیان آگئے۔
اس کے علاوہ دو اور کتابیں بھی آپ نے شائع کیں جن میں سے >فیصلہ قرآنی< بہت مشہور ہوئی۔ اس کتاب نے مخالفین پر احمدیت کا رعب بٹھا دیا۔ یہ کتاب ایک تامل اخبار۲۵۷ کے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ اور اس کا ترجمہ کرا کے تامل زبان میں شائع کی گئی تھی۔۲۵۸
آپ کے بعد مولوی محمد سلیم صاحب برما بھجوائے گئے۔ مولوی صاحب موصوف ۱۳۔ اپریل ۱۹۴۰ء سے لے کر دسمبر ۱۹۴۰ء تک برما مشن کے انچارج مبلغ رہے۔۲۵۹`۲۶۰
اخبار >البشریٰ< )حیدر آباد سندھ( کا اجراء
اسلامی ایشیا میں سندھ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی مسلمان سے پوشیدہ نہیں۔ اس سرزمین کو ضیاء احمدیت سے منور کرنے کے لئے ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب اخوند۲۶۱ نے سندھی زبان میں حیدرآباد سندھ سے >البشریٰ< نامی ایک پندرہ روزہ اخبار نکالنا شروع کیا۔ جس کا پہلا پرچہ یکم مئی۲۶۲ ۱۹۳۵ء کو شائع ہوا۔ اخبار کے روح رواں ڈاکٹر صاحب موصوف ہی تھے۔ مگر سرکاری ملازم ہونے کے باعث ان کی بجائے مرزا امیر احمد صاحب کا نام بطور مدیر لکھا جاتا تھا۔
البشریٰ اگرچہ صرف چھ ماہ۲۶۳ تک جاری رہ سکا۔ مگر اس نے تھوڑے عرصہ میں سندھی صحافت اور عوام دونوں پر گہرا اثر ڈالا۔ اور اس کے مضامین کو خاصی اہمیت دی جانے لگی تھی۔
لکھنو میں احمدیہ دارالتبلیغ اور احمدیہ دارالمطالعہ کا افتتاح
۹۔ اگست ۱۹۳۵ء کو جماعت احمدیہ لکھنو کے دارالتبلیغ اور دارالمطالعہ کا افتتاح کیا گیا۔ اس تقریب پر مولوی محمد عثمان صاحب لکھنوی کی
صدارت میں ساڑھے سات بجے شام ایک جلسہ بھی منعقد ہوا۔۲۶۴
سرگودھا میں مذہبی کانفرنس
جماعت احمدیہ سرگودھا کے زیر انتظام ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کی شام کو ایک مذہبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے۔ اور احمدی نمائندہ کے علاوہ شیعہ` سناتن دھرم` سکھ` آریہ سماج کے مقررین نے >کامل انسان بننے کے لئے میرا مذہب کیا راہ نمائی کرتا ہے< کے موضوع پر تقریریں کیں۔ سامعین کی تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی۔ کانفرنس توقع سے بڑھ کر کامیاب ہوئی۔۲۶۵
فرید کوٹ میں مذہبی کانفرنس
۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو آریہ سماج کی طرف سے فرید کوٹ میں بھی ایک مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے >مجھے میرا مذہب کیوں پیارا ہے< کے مضمون پر لیکچر دئے۔ کانفرنس میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے اسلام کی خوبیاں بیان کیں۔ اگرچہ وقت بہت تھوڑا تھا مگر حضرت مولوی صاحبؓ نے نہایت عمدگی سے اپنے موضوع پر روشنی ڈالی۔ تمام مسلمان دوران تقریر بار بار سبحان اللہ کہتے رہے اور تقریر کے خاتمہ پر نعرہ تکبیر بلند کیا۔۲۶۶
۱۹۳۵ء کی نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل کتب سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئیں جن سے احمدی لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ہوا۔
۱۔
اسلام اور غلامی SLAVERY> AND <ISLAM )مولفہ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۲۔
حدیث HADETH THE )از حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اے۔ امام مسجد لنڈن۔
۳۔
ابنائے فارس۔ )تالیف صوفی عبدالقدیر صاحب(
۴۔
>مفتاح القرآن< )شائع کردہ کتاب گھر قادیان(
۵۔
تحفتہ النصاریٰ )مصنفہ چوہدری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ۔ پاکپتن(
۶۔
حضرت مسیح موعودؑ کے انعامی چیلنج )مرتبہ مولانا عبدالرحمن صاحب انور(
۷۔
بستان احمد )حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خاندان کی پرمعارف نظموں کا دلکش مجموعہ(
۸۔
عقائد احمدیہ )مرتبہ سید بشارت احمد صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن(
۹۔
>احمدیت کا پیغام< )لیکچر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب(
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
۱۹۳۵ء میں جماعت احمدیہ کے مبلغین کو متعدد مقامات پر غیراز جماعت مسلمانوں اور غیر مسلموں سے مناظرے کرنا پڑے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
۱۔ مباحثہ تاروا علاقہ بنگال۔ یہاں ۹۔ فروری ۱۹۳۵ء کو مولانا محمد سلیم صاحب فاضل اور مولانا ظل الرحمن صاحب بنگالی نے غیر احمدی علماء سے مباحثہ کیا۔ جس کے بعد تیرہ افراد احمدی ہوگئے۔۲۶۷
۲۔ مباحثہ دہلی۔ ۹۔ مارچ ۱۹۳۵ء کو انجمن سیف الاسلام دہلی کے سالانہ جلسہ پر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا مولوی سعداللہ صاحب سے مناظرہ ہوا۔ موضوع بحث یہ تھا کہ >اہل سنت والجماعت کے موجودہ عقائد کی رو سے حضرت نبی کریم~صل۱~ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے یا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی؟ >مناظرہ اس درجہ کامیاب تھا کہ دوسرے دن سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کو اپنی تقریر میں کہنا پڑا کہ آئندہ قادیانیوں کے ساتھ ہرگز مناظرے نہ کئے جائیں۔۲۶۸
۳۔ مباحثہ نتھو پور )متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیارپور( اس مقام پر چوہدری محمد شریف صاحب فاضل حال مبلغ گیمبیا نے مولوی نور حسن صاحب گرجاکھی سے تینوں اختلافی مسائل پر مناظرہ کیا۔ سامعین نے دلائل کی رو سے احمدیت کی فتح تسلیم۔۲۶۹
۴۔ مباحثہ مشرقی بنگال ۱۸` ۱۹۔ مارچ ۱۹۳۵ء کو مشرقی بنگال میں مولانا محمد سلیم صاحب فاضل اور برہمن بڑیہ کے مدرسہ عربیہ کے صدر المدرسین مولوی تاج الاسلام کے مابین قریباً چودہ گھنٹے تک عربی زبان میں مناظرہ ہوا۔ غیر احمدی عالم چونکہ چند جملے کہہ کر بیٹھ جاتے تھے۔ اس لئے اکثر وقت احمدی مناظر ہی کو بولنا پڑا۔ دوران مباحثہ مولوی تاج الاسلام صاحب نے کہا کہ مجھے کوئی جواب نہیں دیئے گئے۔ مگر غیر احمدی صدر صاحب نے اقرار کیا کہ جواب تو آگیا ہے۔ ہاں آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو یہ اور بات ہے۔4] fts[۲۷۰
۵۔ مباحثہ نواں شہر دوآبہ۔ انجمن اسلامیہ نواں شہر و کریام کا سالانہ جلسہ ۱۲/ ۱۱۔ اپریل ۱۹۳۵ء کو منعقد ہوا۔ جس میں غیر احمدی علماء نے سخت بدزبانی کی۔ جلسہ کے اختتام پر جماعت احمدیہ کی طرف سے چوہدری محمد شریف صاحب فاضل اور احرار کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے مناظرہ کیا۔ شرفاء نے احراری مناظر کے لاجواب ہونے اور بداخلاق ہونے کا برملا اقرار کیا۔ اور ایک دوست داخل سلسلہ احمدیہ بھی ہوئے۔۲۷۱
‏body] ga[t۶۔ مباحثہ کوہاٹ۔ مولانا چراغ دین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے ۲/۳۔ مئی ۱۹۳۵ء کو ماسٹر نظام الدین صاحب کوہاٹی کے ساتھ مسئلہ وفات و حیات مسیح پر مباحثہ کیا جس کا پبلک پر اچھا اثر ہوا۔۷۲۷۲۔ مباحثہ بستان افغاناں۔ چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے ۲۶۔ مئی ۱۹۳۵ء کو باغ موضع مصطفیٰ پور میں مولوی محمد شفیع صاحب سنکھتروی سے صداقت مسیح موعودؑ پر مناظرہ کیا۔ سکھ اور ہندو دوستوں اور منصف مزاج مسلمانوں نے احمدی مناظر کے دلائل کی داد دی۔۲۷۳
۷۔ مباحثہ سمرالہ ضلع لدھیانہ۔ ۱۱/۱۰ ۔ اگست ۱۹۳۵ء کو احمدی عالم مولوی غلام مصطفیٰ صاحبؓ فاضل نے مولوی عبدالقادر صاحب روپڑی سے تینوں اختلافی مسائل پر مناظرہ کیا۔ سنجیدہ طبقہ نے برملا تسلیم کیا کہ احمدی مولوی صاحبؓ ایک جید عالم ہیں۔ اور روپڑی صاحب تو کوئی نئی اور ٹھوس بات پیش ہی نہیں کرسکے اور محض تضیع اوقات کرتے رہے ہیں۔۲۷۴
۸۔ مباحثہ اجنالہ )ضلع سرگودھا( یہاں ۱۷۔ اگست ۱۹۳۵ء کو احرار کی حمایت میں پادری میلا رام صاحب نے >حیات مسیح< پر لیکچر دیا۔ اور بعد میں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب سے مناظرہ کیا جس میں عیسائیوں کو سخت ناکامی ہوئی۔ یہ صورت دیکھ کر احرار نے احمدیوں پر حملہ کردیا۔۲۷۵
۹۔ مباحثہ لائل پور۔ اجنالہ میں مباحثہ کے دوسرے دن )۱۸۔ اگست کو( پادری میلارام لائل پور آگئے اور انہوں نے احراریوں کے زیر انتظام منعقدہ جلسہ میں الوہیت مسیح` کفارہ` اور تثلیث کے موضوع پر تقریریں کیں۔ اور حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراضات کئے۔ جن کی حقیقت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب نے واضح کی۔ اگلے دن پھر پادری صاحب کا لیکچر ہوا۔ جس کا مسکت و مدلل جواب جناب قاضی صاحب نے دیا۔ مناظرہ ختم ہوا۔ تو احراریوں نے دھکے دینے اور پتھر پھینکنے شروع کر دئے۔۲۷۶
۱۰۔ مباحثہ بیگو سرائے ضلع مونگھیر۔ اگست ۱۹۳۵ء میں مولوی نصیر الدین صاحب۲۷۷ وکیل پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ بیگو سرائے کا مولوی نظام الدین صاحب مبلغ سلسلہ امارت شرعیہ پھولواری )بہار( سے مسئلہ حیات و وفات مسیح پر ایک مناظرہ ہوا۔ مولوی نظام الدین صاحب احمدی عالم کی پیش کردہ دلیل وفات مسیح کا رد کرنے سے بالکل قاصر رہے۔ جس پر سامعین میں سے مولوی عبدالعزیز صاحب مدرس مدرسہ دربھنگہ` مولوی یحییٰ صاحب مدرس مدرسہ دارالسلام اور مولوی محمد سافق صاحب مدرس لکھینہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے مناظر صاحب نے کافی تردید نہیں کی۔ اس لئے ہم لوگوں کو جواب دینے کی اجازت دی جائے۔ لیکن غیر احمدی صدر مولوی منظور احسن صاحب نے شرائط مباحثہ کی بناء پر صاف کہہ دیا کہ اس جلسہ میں آپ لوگوں کی طرف سے صرف مولوی نظام الدین صاحب مناظر کو گفتگو کرنے کا حق ہے۔ اس جلسہ میں برہمی پیدا ہوگئی اور مباحثہ ختم کردیا گیا۔۲۷۸
۱۱۔ مباحثہ مجیٹھ )ضلع امرتسر( ۲۸۔ ستمبر ۱۹۳۵ء کو موضع مجیٹھ میں آریہ سماج سے مناظرہ ہوا۔ مسلمانوں کی طرف سے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل اور آریوں کی طرف سے پنڈت بدھ دیو جی میرپوری پیش ہوئے۔ موضوع یہ تھا کہ >کیا وید ایشوری گیان ہے؟< مبلغ اسلام جب سنسکرت زبان میں وید پڑھتا تو لوگ حیرت و استعجاب سے ہمہ تن گوش ہوکر سنتے اور سر دھنتے تھے۔ بعض کہتے قادیان میں ہر ایک علم اور زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مرزا صاحب نے علوم و فنون کے دریا بہا دیئے ہیں۔ مبلغ اسلام کی قابلیت۔ متانت اور سنجیدگی کی سب نے تعریف کی۔ بعض غیراحمدی معززین نے یہاں تک کہا عرصہ سے آریوں نے ہمیں تنگ کر رکھا تھا۔ ہمارے مولوی تو آپس کی تکفیر بازی میں مشغول رہتے تھے۔ آج خدا نے آپ کو بھیج کر ہماری امداد کی ہے اور اسلام کو فتح عظیم بخشی ہے۔۲۷۹
۱۲۔ مباحثہ چمبہ۔ ۱۵/۱۴۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو مولوی غلام مصطفیٰ صاحبؓ فاضل کا سائیں لال حسین صاحب اختر سے مسئلہ حیات و وفات مسیح اور صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ چمبہ کے بعض غیر مسلم اور مسلم معززین مثلاً لالہ سوہن لال صاحب اور لالہ بنسی لعل صاحب` مرزا رحیم بیگ صاحب اور مسٹر غلام محی الدین صاحب نے تحریری طور پر اعتراف کیا کہ احمدی مناظر کامیاب رہا۔۲۸۰
۱۳۔ مباحثہ شیخوپورہ۔ ۲۷۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو شیخوپورہ میں ایک اہم ¶مناظرہ ہوا۔ جس میں مولوی محمد سلیم صاحب نے مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی سے اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی نے مولوی احمد الدین صاحب گکھڑوی سے کامیاب بحث کی۔ مخالفین نے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے مناظرہ کے بعد احمدیوں پر کنکر اور مٹی کے ڈھیلے پھینکے۔ جس پر مخالفت پارٹی کے پریذیڈنٹ مولوی امین الحق صاحب نے خود آکر اس بداخلاقی کے مظاہرہ پر معافی مانگی اور اس ناواجب سلوک پر سخت ندامت اور شرمندگی کا اظہار کیا۔۲۸۱
ان مباحثات کے علاوہ ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۵ء کو جماعت احمدیہ وزیرآباد کے ایک وفد نے جس کے امیر )جماعت وزیرآباد کے سیکرٹری( چوہدری شاہ محمد صاحب تھے۔ کرم آباد میں مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر >زمیندار< سے دلچسپ گفتگو کی۔ اور ان کو زبردست دلائل سے بالکل لاجواب کردیا۔ یہ گفتگو چوہدری شاہ محمد صاحب نے کی تھی۔ جس کی تفصیل خود چوہدری صاحب نے >)الفضل< ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔ ۷( میں بھی شائع کرادی تھی۔
نو مبائعین
۱۹۳۵ء میں بیعت کرنے والوں کی تعداد ۱۹۳۴ء کے مقابل کہیں زیادہ تھی جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس سال چھ سات سو )آنریری( مبلغین نے ایک ایسے ماحول میں جبکہ مخالفین نے خطرناک اشتعال پیدا کردیا تھا۔ دیوانہ وار تبلیغ کا فریضہ ادا کیا۔ اس سال کے ممتاز نو مبایعین میں سے ضلع ملتان کے رئیس ملک عمر علی صاحب کھوکھر بھی تھے۔۲۸۲ جس کا ذکر خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ جمعہ ۶۔ جنوری ۱۹۳۵ء میں کیا۔ اور ان کا نام بتائے بغیر فرمایا۔
>ہماری جماعت میں بھی بیسیوں لوگ ایسے داخل ہوئے ہیں۔ جو محض دشمنوں کی کتابیں پڑھ کر احمدیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ ابھی مجھے ایک شخص کا خط آیا ہے۔ میں ان کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ایک رئیس ہیں۔ انہوں نے بھی یہی لکھا ہے۔ کہ میں ہمشہ اخبار >زمیندار< پڑھا کرتا تھا۔ اس کے متواتر پڑھنے کے نتیجہ میں مجھے خیال آیا۔ کہ اگر احمدی اتنے برے ہیں تو ان کی کتابیں بھی تو مزید معلومات کے لئے دیکھنی چاہئیں۔ اس پر جب میں نے سلسلہ کی کتابیں پڑھیں تو ہدایت مل گئی۔ میں نے دیکھا ہے۔ ہفتہ دو ہفتہ میں ایک دو آدمی ضرور دشمنوں کی وجہ سے ہمارے سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں<۔۲۸۳
علاوہ ازیں حضور نے ایک دوسرے موقعہ پر فرمایا۔
>صوبہ سرحد میں ہرسو احمدیوں میں سے ایک دو ایسے ہیں۔ جو چوٹی کے خاندانوں میں سے ہیں۔ پنجاب میں تو کوئی ایک دو ہوں گے۔ جیسے نواب محمد علی خاں صاحب یا ملک عمر علی صاحب<۔۲۸۴
‏tav.8.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
شیخ احمد فرقانی کی شہادت سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۵ء تک
دوسرا باب
حواشی
۱۔
تاریخ احمدیت جلد ہفتم میں دراصل خلافت ثانیہ کے اکیسویں سال تک کے حالات محفوظ کئے جاچکے ہیں لیکن اس جلد کے صفحہ ۱۰۰ پر عنوان خلافت ثانیہ کا بیسواں سال درج ہونے سے رہ گیا ہے اور صفحہ ۱۵۱ سے اگرچہ اکیسویں سال کے حالات شروع ہوتے ہیں مگر عنوان میں اکیسویں سال کی بجائے بیسواں سال لکھا گیا ہے جو سہو ہے۔ )مرتب(
۲۔
یہ نوجوان ایک لمبا عرصہ قادیان میں علم دین سیکھنے کے بعد ان دنوں اپنے وطن میں مصروف تبلیغ تھے۔
۳۔
الفضل ۱۴۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۔ حضرت احمد الفرقانی رحمتہ اللہ علیہ نے >مصائب الانبیاء و الابرار علی ایدی السفلہ والاشرار< کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جو چھپ نہ سکی۔ اس کتاب کا ایک قیمتی اقتباس مولانا ابوالعطاء صاحب نے اپنے رسالہ >البشریٰ< )ربیع الثانی ۱۳۵۴ھ مطابق جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۶۔ ۲۷( میں شائع کردیا تھا۔
۴۔
چاندنی: شامیانہ` سائبان )جامع اللغات(
۵۔
محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۳۴ پر یہ تصویر شائع کردی ہے۔
۶۔
الحکم ۲۸۔ مارچ` ۱۷۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۷۔
الحکم ۲۸۔ مارچ` ۷۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۸۔
الحکم ۲۸۔ مارچ` ۷۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۹۔
الفضل قادیان مورخہ ۵۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰۔
۱۰۔
بحوالہ الفضل ۲۱۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۱۔
خلیفہ قادیان صفحہ ۲۰ تا ۲۴۔
۱۲۔
انجمن حمایت اسلام کے اغراض و مقاصد یہ تھے کہ۔
۱۔ معترضین اصول مذہب مقدس اسلام کے جواب تحریری یا تقریری تہذیب کے ساتھ دینے اور اس مقدس مذہب کے اصول کی حمایت اور اشاعت کرنی۔
۲۔ مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی اور دنیوی تعلیم کا انتظام کرنا تاکہ غیر مذہب والوں کی تعلیم کے اثر سے محفوظ رہیں ۳۔ لاوارث` مفلس` یتیم مسلمان بچوں کی پرورش اور تربیت کا انتظام کرنا اور مفلس مسلمان بچوں کی تعلیم میں حتی الوسع امداد دینا تاکہ وہ غیر مذہب والوں کے پنجے میں پڑ کر دین اور ایمان سے ہاتھ دھو کر عذاب آخرت کے مستحق نہ بنیں۔
۴۔ اہل اسلام کو اصلاح طرز معاشرت و تہذیب اخلاق اور تحصیل علوم دینی و ونیوی اور باہمی اتفاق اور اتحاد کا شوق دلانا اور ان کی بہتری اور ترقی کے وسائل کو پیدا کرنا اور تقویت دینا۔
۵۔ اہل اسلام کو گورنمنٹ کی وفاداری اور نمک حلالی کے فوائد سے آگاہ کرنا۔
۶۔ ان مقاصد کی تکمیل کے واسطے واعظوں کے تقرر اور رسالے کے اجراء وغیرہ وسائل کو عمل میں لانا۔
اس انجمن کے قواعد میں سرفہرست یہ قاعدہ تھا کہ۔
>اہل اسلام کے ہر فرقے کا آدمی خواہ وہ کہیں ہو اس انجمن کا ممبر ہوسکتا ہے<
)ماہواری رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور مطابق اپریل` مئی و جون ۱۸۹۸ء سرورق صفحہ ۲(
۱۳۔
۱۹۳۵ء میں فرقہ پرستی اور تعصب کا جو زہر پھیلایا گیا اس کا نتیجہ اگلے ہی سال )۱۹۳۶ء میں( انجمن حمایت اسلام کی رکنیت سے احمدیوں کے اخراج کی صورت میں نمودار ہوا )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اخبار ¶پیغام صلح لاہور ۲۰۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۔ ۳۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۱` ۱۱۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۲( انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے ایک سرگرم ممبر نے کسی زمانہ میں واقعی ٹھیک کہا تھا کہ یہی ایک نرالی انجمن ہے جہاں اس کے خادموں کو یوں بے قدری اور ذلت سے نکالا جانا تجویز کیا جاتا ہے۔ )ماہوار رسالہ انجمن حمایت اسلام بابت ماہ محرم الحرام ۱۳۲۸ھ مطابق جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱(
۱۴۔
ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر ۳۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۱۵۔
الفضل/ قادیان ۱۸۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔ ۹ کالم ۲۔ ۴۔
۱۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۹۲۔ ۹۳۔
۱۷۔
اقبال صاحب کے تصور ختم نبوت پر انہی دنوں جناب حقانی صاحب ایم۔ اے پروفیسر علامہ سید عبدالقادر صاحب بھاگلپوری اور جناب امیر عالم صاحب پٹیالوی نے نہایت قابل قدر معرکتہ الاراء اور فاضلانہ مضامین لکھے تھے جو الفضل )۱۹۳۵ء( میں شائع ہوئے۔ اسی طرح ریویو آف ریلیجنز انگریزی جون ۱۹۳۵ء میں بھی ایک اہم مقالہ شائع ہوا۔ سید ابوالاعلٰے صاحب مودودی ڈاکٹر سر محمد اقبال اور ان کے ہمنوائوں کے نظریہ ختم نبوت کی تغلیط کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ جو لوگ ختم نبوت کی یہ توجیہہ کرتے ہیں کہ انسانی شعور کو اس کی ضرورت نہیں رہی تو وہ دراصل سلسلہ نبوت کی توہین اور اس پر حملہ کرتے ہیں۔ اس تعبیر کے معنیٰ یہ ہیں کہ صرف ایک خاص شعوری حالت تک ہی اس ہدایت کی ضرورت ہے جو نبی لاتے ہیں۔ اس کے بعد انسان نبوت کی رہنمائی سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ )رسالہ ترجمان القرآن لاہور بابت ستمبر ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۳۱ جلد ۴۲ نمبر ۶(
۱۸۔
سر محمد اقبال صاحب کا دعویٰ ہے کہ اسلامی حقائق و معارف میں نے مولانا رومی~رح~ سے حاصل کئے ہیں مگر انہوں نے ختم نبوت کے جس فلسفیانہ تخیل کی بناء پر قادیانیت کو بہائیت کے مقابل اسلام کا باغی قرار دیا وہ تخیل مولانا رومی~رح~ کے نقطہ نگاہ سے بالکل مختلف ہے۔ مولانا روم نے تو ختم نبوت کی تفسیر ہی یہ فرمائی ہے کہ۔ ~}~
ختم ہائے کابنیا بگذاشتند۔ آں بدین احمدی برداشتند۔ قفل ہائے ناکشادہ ماندہ بود۔
از کف انا فتحنا برکشود۔ بہر ایں خاتم شدست او کہ بجود۔ مثل اونے بود نے خواہند بود۔
چونکہ درصنعت برداستاد دست۔ نے تو گوئی ختم صنعت برتوہست )مثنوی دفتر ششم(
علامہ سید عاشق حسین صاحب سیماب اکبر آبادی نے ان اشعار کو اردو نظم میں یوں ڈھالا ہے۔ ~}~
تاچلے گو راہ ختم مرسلاں۔ ٹوٹ جائے لب کی یہ مہرگراں۔ اگلے نبیوں نے جو مہریں چھوڑ دیں۔
دین احمد نے وہ مہریں توڑ دیں۔ بے کھلے تھے قفل مدت سے پڑے۔ اب وہ سب انا فتحنا سے کھلے۔
ختم یوں پیغمبری ان پر ہوئی۔ کوئی ان سا تھا نہ پھر ہوگا کوئی۔ کرتا ہے استاد جب صنعت کوئی۔
کہتے ہیں بس ختم ہے صنعت گری۔ )الہام منظوم ترجمہ اردو مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ دفتر ششم` علامہ سید عاشق حسین صاحب سیماب اکبر آبادی صفحہ ۱۹۔ ناشران ملک دین محمد اینڈ سنز اشاعت منزل لاہور(
۱۹۔
حرف اقبال صفحہ ۱۱۶۔ ۱۱۷۔ مولفہ لطیف احمد شروانی ایم۔ اے ناشر ایم ثناء اللہ خاں ۲۶۔ ریلوے روڈ لاہور۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب برطانوی حکومت کی تعریف و توصیف اور اطاعت و وفاداری جس جذبہ شوق اور جوش و خروش سے فرماتے رہے اس کے بکثرت نمونے باقیات اقبال )مرتبہ سید عبدالواحد صاحب معینی ایم۔ اے آکسن( میں ملتے ہیں۔ اس کتاب میں ملکہ وکٹوریہ )صفحہ ۷۲( سرمیکورتھ ینگ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب )صفحہ ۹۷( جارج پنجم )صفحہ ۲۰۶( سر مائیکل اور وائر گورنر پنجاب )صفحہ ۲۱۶( جشن فتح جنگ عظیم اول )صفحہ ۲۳۷( سائمن کمشن )صفحہ ۲۴۰( کی نسبت شاعر مشرق کے خیالات و افکار اور مراثی و قصائد خاص طور پر قابل مطالعہ ہیں۔ ان کے چند نمونے تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحہ ۴۰۵ تا ۴۰۷ پر بھی درج ہیں۔
۲۰۔
اخبار سیاست لاہور بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۱۸۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔
۲۱۔
بحوالہ الفضل قادیان ۲۲۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۲۲۔
الفضل یکم جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔
۲۳۔
سرمحمد اقبال جن مسلمانوں سے جماعت احمدیہ کو الگ کرکے اقلیت قرار دینا چاہتے تھے ان کی نسبت موصوف کا عقیدہ یہ تھا کہ
)۱( اگر نبی کریمﷺ~ بھی دوبارہ پیدا ہوکر اس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں تو غالباً )اس( ملک کیے لوگ ۔۔۔۔۔۔۔ حقائق اسلامیہ کو نہ سمجھ سکیں۔ )مکاتیب اقبال صفحہ ۵۳ بحوالہ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ صفحہ ۱۲۴ )مولفہ قاضی احمد میاں اختر جوناگڈھی(
)۲( ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین اور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔ )مکاتیب اقبال حصہ اول صفحہ ۲۳۔ ۲۴ بحوالہ اقبال کا تنقیدی جائزہ صفحہ ۲۰۔ ۱۲۱(
)۳( ہندوستان کے مسلمان اس عربی اسلام کو بہت کچھ فراموش کرچکے ہیں اور عجمی اسلام ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ )روزگار فقیر جلد دوم صفحہ ۱۶۲(
علامہ اقبال نے اسلام سے ناآشنا مسلمانوں کے لئے یہ دعا بھی کی کہ
کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ~صل۱~ پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں۔ )اقبال نامہ حصہ اول صفحہ ۴۱ مرتبہ شیخ عطاء اللہ صاحب ایم۔ اے(
۲۴۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک اور مضمون یہ بھی لکھا کہ چونکہ ایمسٹرڈم میں یہودی بے انتہا اقلیت میں تھے اس لئے وہ سپائنوزا کو محرک انتشار اور قوم میں موجب اختلاف تصور کرتے تھے۔ علیٰ ہذا القیاس ہندوستانی مسلمان بھی تحریک قادیانیت کو جو تمام دنیائے اسلام کو کافر سمجھتی ہے اور ان کا معاشرتی بائیکاٹ کررہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سپائنوزا کی مابعد الطبیعات کے مقابلہ میں ہزاہا درجہ زیادہ خطرناک اور مہلک خیال کرتی ہے۔
ایک سیاسی مبصر نے اس نظریہ پر یہ دلچسپ تبصرہ کیا کہ ڈاکٹر اقبال اور ان کے ہمنوائوں کو یہود سے یہ خود تجویز کردہ مماثلت مبارک ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر اقبال اور ان کے ہم خیال مسلمان روئے زمین کے تمام مذاہب کے پیروئوں کو کافر نہیں کہتے اور ان سے معاشرتی بائیکاٹ نہیں ہوئے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیا غیر مسلموں کو یہ حق حاصل ہے کہ اسلام کو دنیا میں انتشار پیدا کرنے کا موجب اور ڈاکٹر اقبال اور ان کے ہم خیالوں کو اس کا مجرم قرار دیں۔ )الفضل ۲۰۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۵ کالم ۴(
۲۵۔
الفضل ۳۰۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ و ۵ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴۔ مئی ۱۹۳۵ء(
۲۶۔
یاد رہے علامہ اقبال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضور کو جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑا دینی مفکر بھی سمجھتے تھے۔ )ملاحظہ ہو رسالہ انڈین اینٹی کودیری جلد ۲۹ ستمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۲۳۹ جس کا عکس اس کتاب میں موجود ہے(
۲۷۔
ملاحظہ ہو ذکر اقبال )از سالک( روزگار فقیر )از فقیر سید وحید الدین(
یاد رہے علامہ اقبال نے اپنے بالغ بچوں کے اولیا کے بارے میں جو وصیت نامہ تحریر کیا اس میں شیخ اعجاز احمد صاحب کا نام بطور ولی لکھا۔ )روزگار فقیر جلد ۲ صفحہ ۵۶(
۲۸۔
الفضل قادیان ۱۸۔ جولائی ۱۹۳۵ء۔
۲۹۔
جناب عبدالحکیم صاحب شملوی کا بیان ہے کہ۔
>۱۹۳۱ء کا واقعہ ہے۔ مولانا شوکت علی` نواب صاحب بھوپال کے مہمان تھے اور نہان ہائوس شملہ میں نواب صاحب کے کیمپ میں مقیم تھے۔ میں ان سے ملنے گیا۔ وہاں مولانا کی ملاقات کے لئے سر محمد اقبال بھی تشریف لائے۔ مولانا چونکہ وہاں موجود نہ تھے` سر محمد اقبال سے میری باتیں ہوتی رہیں۔ دوران گفتگو میں میرے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا۔ فی الحقیقت اگر آج کوئی خدمت اسلام کررہا ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو حق رکھتے ہیں کہ مسلمان کہلائیں۔ ان میں میں سب باتیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی پاتا ہوں۔ غیور اور پکے مسلمان ہیں۔ آپس میں محبت اور ایثار سے کام لیتے ہیں۔
اس پر میں نے انہیں بتایا کہ ایک دفعہ مولانا محمد علی نے فرمایا تھا۔ اگر مجھے دس آدمی احمدیوں کا سا اخلاص اور سچائی رکھنے والے مل جائیں تو میں ہندوستان کے مسلمانوں کی تنظیم کرسکتا ہوں۔ افسوس یہ ہے کہ جس کے سپرد ہم کوئی کام کرتے ہیں وہ خود مختار بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس پر سر اقبال نے کہا۔ مولانا نے صحیح کہا ہے۔ یہی حال آج مسلمانوں کا ہے۔ وہ اس قدر خود سر ہیں کہ دوسرے کی بات ماننے کو ہرگز تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان روزبروز اپنی اس خود سری کے باعث انحطاط کی طرف جارہے ہیں۔
یہ تو ایک ملاقات کا ذکر ہے۔ ورنہ سر اقبال کو میں جب بھی ملا انہیں احمدیت کا بے انتہا مداح پایا۔ چونکہ سر اقبال کا لڑکا آفتاب احمد میرا ہم جماعت تھا۔ میں نے اس کا حال پوچھا تو کہنے لگے میں نے اسے قادیان پڑھنے کے لئے بھیجا تھا تا دین سیکھ لے مگر وہ وہاں نہ رہا۔
جو شخص اپنے بچے کو قادیان تربیت کے لئے بھیجتا ہے لازماً وہ دل میں احمدیت کی قیمت جانتا ہے۔ اب احراریوں کے دبائو یا اپنے لئے مسلمانوں کے اندر کوئی جگہ بنانے کے لئے مخالفت پر آمادہ ہو جائے تو اور بات ہے۔ )الفضل قادیان ۲۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۴(
۳۰۔
پنڈت جی نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے پہلے بیان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر اسلام کے ایک بنیادی عقیدہ ختم نبوت کے انکار سے قادیانی خارج از اسلام ہوگئے ہیں تو آغا خاں کو مسلمان قرار دینے کی وجہ کیا ہے؟ پنڈت جی سوشلسٹ خیال کے سیاسی لیڈر تھے۔ جماعت احمدیہ کے مذہبی یا سیاسی افکار سے تو ان کو کوئی ہمدردی تھی نہیں ہاں دوستانہ تعلقات کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر صاحب سے زیادہ قریب تھے۔
سید رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں۔
اقبال بھی جواہر لال کے بارے میں بڑی اچھی رائے رکھتے تھے۔ کشمیریت کے اشتراک سے قطع نظر وہ ان کے اخلاص` بے باکی` جوش کار` حب وطن` ذہانت` قابلیت` فراست` ہرچیز کے معترف تھے۔ )اقبال اور سیاست ملی صفحہ ۱۳۰۔ ۱۳۱(
خود علامہ اقبال نے ۶۔ نومبر ۱۹۳۳ء کو بیان دیا کہ میں پنڈت جواہر لال نہرو کے خلوص اور صاف گوئی کی ہمیشہ سے قدر کرتا رہا ہوں۔ )اقبال اور سیاست ملی ناشر اقبال اکیڈیمی کراچی` صفحہ ۲۸۱(
ڈاکٹر صاحب ابتدائی زندگی میں وطنیت اور قومیت متحدہ کے زبردست مداح اور علمبردار تھے )اقبال اور سیاست ملی صفحہ ۳۸۷ از مولانا رئیس احمد جعفری( دوسرے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کانگرس کی آلہ کار جماعت احرار نے کر رکھا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس کی تائید فرما رہے تھے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے ۲۱۔ جون ۱۹۳۶ء کو پنڈت جی کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا کہ۔
میرے محترم پنڈت جواہر لال آپ کے خط کا جو مجھے کل ملا` بہت بہت شکریہ۔ آپ کے مقالات پڑھ کر آپ کے مسلمان عقیدت مند خاصے پریشان ہوئے۔ ان کو یہ خیال گزرا کہ احمدی تحریک سے آپ کو ہمدردی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال مجھے خوشی ہے کہ میرا تاثر غلط ثابت ہوا۔ مجھ کو خود دینیات سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے مگر احمدیوں سے خود انہی کے دائرہ فکر میں نپٹنے کی غرض سے مجھے بھی دینیات سے کسی در جی بہلانا پڑا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے یہ مقالہ اسلام اور ہندوستان کے ساتھ بہترین نیتوں اور نیک ترین ارادوں میں ڈوب کر لکھا۔ میں اس باب میں کوئی شک و شبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ یہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔ لاہور میں آپ سے ملنے کا جو موقعہ میں نے کھویا اس کا سخت افسوس ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ مجھے ضرور مطلع فرمائیں کہ آپ پھر پنجاب کب تشریف لارہے ہیں۔ شہری آزادیوں کی انجمن کے بارے میں آپ کی جو تجویز ہے اس سے متعلق خط آپ کو ملایا نہیں ۔۔۔۔۔۔
آپ کا مخلص محمد اقبال )کچھ پرانے خط حصہ اول مرتبہ جواہر لال نہرو صفحہ ۲۹۳ ناشر مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی(
اس خط سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے احمدیوں کے خلاف جو کچھ لکھا اس کی حیثیت دینیات سے دل بہلاوا کی تھی اور پنڈت نہرو جی کے مضمون کا اصلی مقصد دراصل احمدیوں کی تائید کرنا ہرگز نہیں تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے خود لکھا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر پنڈت جی کا جماعت احمدیہ کے حق میں لکھنے کی درپردہ اغراض کیا تھیں۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ پنڈت جی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ وہ مسلمانوں میں بالواسطہ طور پر یہ تاثر قائم کرنا چاہتے تھے کہ احمدیوں کے خلاف مجلس احرار کی تحریک سے کانگرس کو کوئی دلچسپی نہیں۔ حالانکہ یہ تحریک کانگرس ہی کے اشارہ پر اٹھائی گئی تھی۔ جیسا کہ جلد ہفتم میں تفصیلاً بتایا جاچکا ہے۔ ۲۔ پنڈت جی مسلم لیگ کی آئینی و مالی حیثیت کو کمزور کرنا چاہتے تھے کہ اگر احمدی غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں کے لیڈر آغا خاں بھی علامہ اقبال کے فلسفہ ختم نبوت کی رو سے یقیناً دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے ان کو بھی ملت سے باہر کردینا چاہئے۔ اس کے بعد اگلا قدم شاید قائداعظم محمد علی جناح کے خلاف اٹھایا جاتا۔ اسماعیلی فرقہ کے عقائد کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ڈاکٹر زاہد علی کی کتاب ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اس کتاب میں یہاں تک لکھا ہے کہ اسماعیلیوں کے ساتویں امام مولانا محمد بن اسماعیل سابع المتممین` خاتم الائمہ` قائم الاتماء ` سابع الرسل` سابع النطقاء کہے جاتے ہیں۔ آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدی کے ظاہر کو معطل کردیا۔ آپ نے محمد المصطفیٰ کے دور کو پورا کیا اور آپ سے ساتواں دور شروع ہوا۔ )مفہوم مقدمہ صفحہ ۴(
۳۱۔
مکتوب بنام پروفیسر صوفی غلام مصطفیٰ صاحب تبسم )اقبال نامہ حصہ اول صفحہ ۴۶۔ ۴۷۔ ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور(
۳۲۔
روزگار فقیر جلد دوم صفحہ ۱۸۸ )مولفہ فقیر سید وحید الدین` طابع و ناشر طبع اول نومبر ۱۹۶۴ء(
۳۳۔
بانگ درا صفحہ ۳۳۶۔
۳۴۔
اقبالیات کا تنقیدی جائزہ صفحہ ۱۱۷۔ ۱۱۸ )مولفہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی۔ ناشر اقبال اکیڈیمی کراچی ۱۹۶۵ء( اقبال مرحوم کا ایک شعر ہے۔ ~}~
لوگ کہتے ہیں مجھے` راگ کو چھوڑو اقبال
راگ ہے دین میرا راگ ہے ایمان میرا
)باقیات اقبال صفحہ ۵۰۴(
۳۵۔
ذکر اقبال صفحہ ۳۵۸ )مولفہ مولانا عبدالمجید سالک( اس نقطہ نگاہ سے اقبالیات کے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کو باقیات اقبال کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس سے ان کو اس عظیم فلسفی شاعر کا نفسیاتی تجزیہ کرنے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔ مولوی ظفر علی خاں صاحب کا کہنا ہے کہ~}~
مانگ کر احباب سے رجعت پسندی کی کدال
قبر آزادی کی کھودی کس نے سراقبال نے
کہہ رہے تھے ڈاکٹر عالم یہ افضل حق سے
قوم کی لٹیا ڈبودی کس نے سراقبال نے
)ظفر علی خاں صفحہ ۱۹۷ از شورش(
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے ۳۰۔ دسمبر ۱۹۱۵ء کو لاہور سے مہاراجہ کشن پرشاد شاد )وزیراعظم ریاست حیدرآباد( کے نام ایک مکتوب لکھا تھا جس سے علامہ موصوف کی افتاد طبع کا خوب پتہ چلتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
لندن میں ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا تم مسلمان ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ تیسرا حصہ مسلمان ہوں۔ وہ حیران ہوکر بولے` کس طرح؟ میں نے عرض کیا کہ رسول اکرمﷺ~ فرماتے ہیں۔ مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں۔ نماز` خوشبو اور عورت۔ مجھے ان تینوں میں سے صرف ایک پسند ہے۔ مگر اس تخیل کی داد دینی چاہئے کہ نبی کریمﷺ~ نے عورت کا ذکر دو لطیف ترین چیزوں کے ساتھ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت نظام عالم کی خوشبو ہے اور قلب کی نماز۔ ایک معصومہ پنجاب میں رہتی ہے۔ میں نے کبھی اسے دیکھا نہیں مگر سنا جاتا ہے کہ حسن میں لاجواب ہے اور اپنے گزشتہ اعمال سے تائب ہو کر پردہ نشینی کی زندگی بسر کرتی ہے۔ چند روز ہوئے اس کا خط مجھے موصول ہوا کہ مجھ سے نکاح کرلو۔ تمہاری نظم کی وجہ سے تم سے غائبانہ پیار رکھتی ہوں اور میری توبہ کو ٹھکانے لگا دو۔ دل تو یہی چاہتا تھا کہ اس کارخیر میں حصہ لوں مگر کمر میں طاقت ہی نری کافی نہیں اس کے لئے دیگر وسائل بھی ضروری ہیں۔ مجبوراً مہذبانہ انکار کرنا پڑا۔ اب بتائیے کہ آپ کا نسخہ کیسے استعمال میں آئے؟ مگر میں آپ کی ولایت کا قائل ہوں کہ آپ نے ایسے وقت میں یہ نسخہ تجویز تجویز فرمایا کہ مریض کی طبیعت خود بخود ادھر مائل تھی۔ نسخہ مجھے دل سے پسند ہے مگر اس کو کسی اور وقت پر استعمال میں لائوں گا جب حالات زیادہ مساعد ہوں۔ فی الحال سرکار کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ قادر توانا سرکار کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ کے مریدوں میں داخل ہو کر تثلیثی مذہب کو خیرباد کہہ کر پنجتنی ہو جائوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ درگاہ۔ محمد اقبال۔
)سہ ماہی اردو شمارہ اپریل ۱۹۶۷ء کراچی۔ بحوالہ ہفت روزہ لاہور ۲۸۔ اگست ۶۷ صفحہ ۶(
یہ تو ایام شباب کی بات ہے جہاں تک جناب موصوف کے آخری دور حیات کا تعلق ہے` اقبال کے بڑے عقیدت مند اہل قلم جناب شورش کاشمیری صاحب مدیر چٹان کی کتاب نورتن )صفحہ ۵۱۔ ۵۲۔ ۵۳( کا مطالعہ کافی ہوگا۔
۳۶۔
شاہکار ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰۔
۳۷۔
ہفت روزہ عادل ۲۳۔ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۔ ان حقائق کے باوجود بعض حلقوں نے غالباً کسی خاص منصوبہ اور مصلحت کے تحت اقبال کے معاملے میں ازحد غلو سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ اور ان کو پیغمبر گلشن رسول چمن )ہفت روزہ قندیل ۲۴۔ اپریل ۱۹۵۶ء نظم عبدالکریم نمبر۲( کلیم وقت )گفتنی و ناگفتنی صفحہ ۲۲۶( پیغمبر پیغمبر۔ حق۔ نبی۔ محمد موسیٰ کف۔ )اقبال ایرانیوں کی نظر میں۔ اور خدا جانے کیا کیا القاب و خطابات دینے لگے ہیں۔ آغا عبدالکریم شورش کاشمیری نے بجا لکھا ہے کہ علامہ اقبال ۔۔۔۔۔۔۔ کو مسلمانوں کی بے پناہ عقدیت لے ڈوبی )ہفت روزہ عادل لاہور ۲۳۔ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۲( اس بے پناہ عقیدت کا نتیجہ کس رنگ میں برآمد ہوا ہے اس کا جواب پروفیسر یوسف سلیم چشتی کے الفاظ میں یہ ہے کہ >اقبال کو اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ جسے دیکھو آلات جراحی لئے مرحوم کے کلام کا پوسٹ مارٹم کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں نے اقبال کے کلام کو ذہنی تفریح اور دماغی ورزش کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ )شرح بال جبریل صفحہ ۲۴۳ ناشر عشرت پبلشنگ ہائوس ہسپتال روڈ لاہور( بقول شورش کاشمیری مسلمانوں نے علامہ اقبال سے جو عقیدت استوار کی ہے اس کا رشتہ دماغی نہیں قلبی ہے اور ظاہر ہے کہ دل کی محبت ہمیشہ اندھی ہوتی ہے۔ مسلمان اقبال کے نام سے محبت کرتے ہیں لیکن اقبال کے کلام کو صرف گاتے یا گواتے ہیں۔ ع۔ مرایا راں غزل خوانے ثمراند۔ )عادل ۲۳۔ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ ۲( نیز یار لوگوں نے اقبال کو اپنے مقاصد و اغراض کا محور بنا لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے یہاں اپنے آپ کو اقبال کا اجارہ دار بنانا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی اکثریت جھوٹی ہے۔ یہ لوگ اقبال کا مطالعہ کئے بغیر اقبال پر گفتگو کرتے ہیں )چٹان ۸۔ مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۱۵ کالم ۱۔ ۲( دراصل یہ سب نتائج غلو کے نتیجہ میں پیدا ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے جب مئی ۱۹۳۵ء میں احمدیت کے خلاف پہلا بیان دیا تو اخبار الفضل )قادیان( نے واضح الفاظ میں لکھا جو لوگ سر موصوف کے حالات سے تھوڑی بہت بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ شعر و شاعری کے لحاظ سے تو ان کی قدر کی جاسکتی ہے لیکن مذہب کے بارے میں ان کی رائے قطعاً کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ )الفضل ۱۰۔ مئی ۱۹۳۵ء نمبر ۱۶۰ صفحہ ۱ کالم ۱( اور اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اقبال کی شاعری ناقدین کی زد میں ہے۔ ملاحظہ ہو اقبالیات کا تنقدی جائزہ )مولفہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی( اقبال کی شاعری )مولفہ مولانا عبدالمالک صاحب آروی مطبوعہ نظامی پریس بدایوں( اقبال اس کی شاعری اور پیغام )مولفہ شیخ اکبر علی ایڈووکیٹ۔ ناشر کمال پبلشرز نمبر ۲۶ مال روڈ لاہور( اقبال نئی تشکیل )مولفہ ابوظفر حیدر آبادی(
۳۸۔
مولانا سید رئیس احمد صاحب جعفری نے خود علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی شان محکومیت کا نقشہ نہایت واضح الفاظ میں کھینچا ہے۔ فرماتے ہیں۔ اس دور میں اس طوفان خیز اور ہنگامہ آفریں دور میں اقبال کا کیا حال تھا۔ وہ کیا کررہے تھے وہ کس طرف تھے۔ آزادی کے شیدائیوں اور ملت کے مجاھدوں کے ساتھ یا قوم کے دشمنوں یا ملک کے غداروں کے ساتھ۔ واقعات و حقائق بڑے بے مروت اور غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے سچی اور کھری بات کہتے ہیں۔ حقائق کی زبان سے واقعات کا بیان یہ ہے کہ اقبال نہ صرف تحریک خلافت کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اس سے اصولی اختلاف رکھتے تھے اور اس لئے اس سے اسی طرح الگ اور غیر متعلق تھے جس طرح ایک مخالف ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں عین اس زمانہ میں جب لوگ ملازمتوں پر لات مار رہے تھے۔ سرکاری اسکولوں` کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بائیکاٹ کررہے تھے۔ سرکاری عدالتوں کا مقاطع کررہے تھے۔ سرکاری خطابات واپس کررہے تھے` اقبال کو سر کا خطاب دیا گیا۔ اور انہوں نے اسے قبول بھی کرلیا۔ جس پر کسی دل جلے نے یوں فقرہ چست کیا۔ ع سرکار کی دہلیز پہ سر ہوگئے اقبال۔ )اقبال اور سیاست ملی صفحہ ۲۷۳۔ ۲۷۴(
۳۹۔
نوادرات صفحہ ۱۲۳۔ ۱۲۴۔
۴۰۔
ملاحظہ ہو الفضل ۲۰۔ فروری` ۲۵۔ فروری` ۲۷۔ فرور` ۲۸۔ فرور` ۱۵۔ مارچ` ۱۹۔ مارچ` ۲۲۔ مارچ` ۲۴۔ مارچ` ۷۔ اپریل` ۹۔ مئی` ۲۱۔ مئی` ۶۔ جون` ۱۶۔ جون` ۲۳۔ جون ۱۹۳۶ء۔ علاوہ ازیں ریویو آف ریلیجنز انگریزی مارچ ۱۹۳۶ء کے شمارہ خصوصی پر
‏MOVEMENT" AHMADIYYA THE AND IQBAL MOHAMMAD ۔"DR
کے زیر عنوان ایک معرکتہ الاراء مضمون شائع ہوا۔
۴۱۔
مرزائیت کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں شاعر اسلام مفکر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال مدظلہ العالی کا بصیرت افروز بیان صفحہ ۲۲۔ ناشر سیکرٹری شعبہ اشاعت و تبلیغ مسجد مبارک برانڈرتھ روڈ لاہور۔ ۱۷۔ فروری ۱۹۳۶ء۔
۴۲۔
حرف اقبال صفحہ ۱۴۱۔ ۱۴۲۔
۴۳۔
الفضل ۱۳۔ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۔
۴۴۔
الفضل ۸۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۴۔
۴۵۔
الفضل ۱۶۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۶۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدیم صحابی حضرت میاں غلام قادر صاحب )بیعت ۹۲۔ ۱۸۹۱ء( کے فرزند اکبر اور مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ احمدیہ حیدرآباد کے بڑے بھائی۔
۴۷۔
ملاحظہ ہو آپ کا مضمون مطبوعہ الفضل ۹۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۴۸۔
وفات ۱۹۶۶ء بعمر ۷۷ سال )الفضل ۱۳۔ فروری ۱۹۶۶ء صفحہ ۴ کالم ۲(
۴۹۔
الفضل ۱۸۔ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸۔ اگرچہ اس سے قبل بھی چار پانچ اشخاص بیعت کرچکے تھے۔ مگر ملائی قوم میں بیعت کا اولین شرف آپ ہی کو نصیب ہوا۔
۵۰۔
الفضل ۱۳۔ فروری ۱۹۶۶ء صفحہ ۴۔
۵۱۔
الفضل ۱۴۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۷۔
۵۲۔
الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۶۔
۵۳۔
مکتوب مورخہ یکم جولائی ۱۹۶۴ء )از مقام احمدیہ مسلم مشن ۱۱۶/ ۱۱۱ اونن روڈ ROAD) (ONAN سنگاپور ۱۵(
۵۴۔
الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ ریاست سلانگور سنگاپور سے قریباً تین سو میل کے فاصلہ پر ہے۔
۵۵۔
اخبار فاروق ۱۴۔ فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۱۔
۵۶۔
الفضل ۲۳۔ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۵۷۔
الفضل ۲۰۔ فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۵۸۔
اس سلسلہ میں آپ کا ایک مضمون الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۶۰ء میں بھی شائع شدہ ہے۔
۵۹۔
الفضل ۱۹۔ دسمبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۵۔ ۴ جلد نمبر ۳۳۔ الفضل نمبر ۲۹۶۔
۶۰۔
الفضل ۱۷۔ جون ۱۹۴۶ء۔ ۱۶۔ رجب ۱۳۶۵ھ جلد ۳۴ صفحہ ۵۔ ۴۔ الفضل نمبر ۱۴۰۔
۶۱۔
الفضل ۲۔ جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۴۔
۶۲۔
الفضل ۲۲۔ جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۳۔ الفضل ۱۶۔ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ پر نئے مبائعین کی فہرست بھی ملاحظہ ہو۔
۶۳۔
الفضل ۳۔ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ مولانا غلام احمد صاحب فرخ تحریر فرماتے ہیں کہ سنگاپور سے پندرہ سال کے بعد جب واپس ربوہ آئے تو اپنی آمد کی معین تاریخ اور اس وقت کی کسی کو بھی اطلاع نہ دی بلکہ کراچی میں جہاز سے اتر کر گاڑی پر سوار ہوگئے اور جمعہ کے روز ربوہ میں اس وقت پہنچے جب حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی خطبہ ارشاد فرما رہے تھے آپ مسجد میں پہنچے اس وقت چونکہ سادہ قسم کی ملائی لباس آپ کے زیب تن تھا اس لئے اکثر احباب نے آپ کو پہچانا بھی نہیں بالاخر معلوم ہوا کہ آپ غلام حسین ایاز مبلغ سنگاپور و ملایا ہیں۔ جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے اطلاع کیوں نہ دی تو جواب دیا کہ میں نے پسند نہ کیا کہ دوست میری خاطر تکلیف اٹھا کر اسٹیشن پر جمع ہوں۔ )الفضل ۲۰۔ جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵(
۶۴۔
الفضل ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۱۔
۶۵۔
الفضل ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۳۔
۶۶۔
محترمہ امتہ الرفیق صاحبہ۔
۶۷۔
الفضل ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۶۸۔
الفضل ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۔
۶۹۔
الفضل ۱۰۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۹ میں آپ کا ایک مضمون موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓ کا منشا مبارک یہ تھا کہ صرف چند ہفتے تک سنگاپور قیام پذیر رہیں۔
۷۰۔
ماہنامہ الفرقان )ربوہ( ستمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۲۔ خالد جنوری ۱۹۶۴ء صفحہ ۳۲۔
۷۱۔
مسل وصیت نمبر ۱۰۶۹۰ مولوی محمد سعید صاحب انصاری بحوالہ خلاصہ رپورٹ نمبر ۴۲۔
۷۲۔
۴۔ فروری ۱۹۶۰ء کو سنگاپور سے ملایا۔ )کوالالمپور( میں تبدیل کئے گئے۔
۷۳۔
ماہنامہ الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۶۵ء و جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۵۸ کالم ۲۔
۷۴۔
الفضل ۲۰۔ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۵۔ اخبار نمبر ۱۲۰۔
۷۵۔
ماخوذ از مکتوب مولانا محمد صادق صاحب محررہ مورخہ ۲۶۔ اپریل ۱۹۶۴ء۔
۷۶۔
ایضاً۔
۷۷۔
الفضل ۱۲۔ جنوری ۱۹۶۵ء صفحہ ۳۔
۷۸۔
الفضل ۱۳۔ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۳۔
۷۹۔
تعمیر مسجد کے لئے احمد حسن علائو الدین صاحب نے ۳۲۰ ڈالر دیئے۔ )الفضل ۲۲۔ جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۴( ایک اور مخلص احمدی وارتم بن مارتھا نے تقریباً ڈیڑھ ہزائی ملائی ڈالر کا اندوختہ جو انہوں نے فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے جمع کررکھا تھا مسجد کی تجدید کے لئے پیش کردیا۔ )الفضل ۱۸۔ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۱(
۸۰۔
ملاحظہ ہو الفضل ۲۹۔ جنوری ۱۹۶۴ء۔ الفضل ۲۰۔ جنوری ۱۹۶۵ء۔ الفضل ۱۱۔ جنوری ۱۹۶۶ء۔ الفضل ۲۷۔ جون ۱۹۶۶ء۔ الفضل ۲۹۔ اپریل ۱۹۶۶ء۔
۸۱۔
‏]a2hgne 30[tag Page 1953 Sept Culture> islamic on <Colloquiom
۸۲۔
الفضل ۷۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۳۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۶ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۱۶ تا ۱۲۰۔
۸۴۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۷ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۴۵ تا ۱۴۶۔
۸۵۔
ایضاً۔
۸۶۔
ایضاً صفحہ ۱۴۶۔ ۱۴۷۔
۸۷۔
الفضل ۱۳۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۸۔
الفضل ۱۲۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۔
۸۹۔
الفضل ۲۷۔ ستمبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔
۹۰۔
البم شائع کردہ تحریک جدید ۱۹۳۹ء۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱۔ مئی ۱۹۳۵ء میں ان کے پہنچنے کا ذکر فرمایا تھا۔ )الفضل ۴۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲(
۹۱۔
الفضل ۱۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۹۲۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۵ء میں خود اس کا ذکر فرمایا۔ )الفضل ۱۹۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۳(
۹۳۔
الفضل ۱۸۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۔
۹۴۔
الفضل ۲۳۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۰۔
۹۵۔
چین میں اشاعت اسلام سے متعلق آپ کا ایک معلومات افزا مقالہ ریویو آف ریلیجنز اردو )جولائی و اکتوبر ۱۹۳۹ء( میں شائع شدہ ہے۔
۹۶۔
الفضل ۸۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۹۷۔
الفضل ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۔
۹۸۔
الفضل قادیان ۳۰۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۴۔
‏]1h [tag۹۹۔
الفضل ۱۰۔ اپریل ۱۹۴۱ء۔
۱۰۰۔
الفضل ۱۱۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۰۱۔
الفضل ۱۱۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱ حضرت ڈاکٹر صاحب کا نام اس حوالہ میں موجود نہیں تاہم جیسا کہ اگلی روداد سے ظاہر ہے آپ کو بھی اس سفر میں حضور کا ہمرکاب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
۱۰۲۔
جھڈو اسٹیشن سے ۱۶ میل دور۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۸۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۱۰۴۔
ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب اخوند سندھی )حال میڈیکل آفیسر فضل عمر ہسپتال ربوہ( کے مضمون شائع شدہ الفضل ۷۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ سے ملخصاً۔
۱۰۵۔
الفضل ۲۴۔ مئی ۱۹۳۵ء جلد ۲۲۔ الفضل ۱۷۲ صفحہ ۲۔
۱۰۶۔
الفضل ۲۱۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۰۷۔
بحوالہ الفضل ۹۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۰۸۔
الفضل ۵۔ جون ۱۹۳۵ء نمبر ۱۸۱ جلد ۲۲ صفحہ ۱۔
۱۰۹۔
تفصیلی فہرستیں الفضل ۱۹۳۵ء میں چھپ گئی تھیں۔
۱۱۰۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ کا مفصل مضمون مطبوعہ الفضل ۳۔ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔ اس کے علاوہ مستونگ کے ایک احمدی خاندان کے بچنے کا واقعہ الفضل ۲۷۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ پر مذکور ہے۔ یاد رہے ان دنوں چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت کوئٹہ تھے۔
۱۱۱۔
الفضل ۴۔ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۱۱۲۔
الاسلام کے ایک پرچہ کی قیمت پانچ پنس تھی اور اس کی اشاعت کا پتہ یہ تھا۔
‏LONDON 18 ۔W۔S ۔ROAD MALROSE 63 MOSQUE LONDON
۱۱۳۔
الفضل ۲۱۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۴۔
۱۱۴۔
ایضاً الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۳۔
۱۱۵۔
الفضل ۱۶۔ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۱۱۶۔
یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ایک بار الفضل کے ایک سیاسی نامہ نگار نے جلالت الملک ابن سعود سے مکہ معظمہ میں ملاقات کی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی نسبت فرمایا کہ تبلیغ اسلام میں مدد دینا ہمارا کام ہے۔ سلطان نے سورت کے ایک اہلحدیث کی شکایت پر )کہ احمدی ایک اور نبی کے ماننے والے ہیں( صاف جواب دیا کہ یہ شرک فی النبوۃ کرتے ہوں گے۔ مگر یہاں تو شرک فی التوحید کرنے والے بھی آتے ہیں؟ پھر احمدیوں کو مکہ سے نکالنے کی تجویز پر کہا کہ کیا یہ عبدالعزیز کے باپ کا گھر ہے جس سے میں نکال دوں؟ یہ خدا کا گھر ہے۔ )الفضل ۲۴۔ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۳۔ ۴(
۱۱۷۔
الفضل ۲۸۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۸۔
ولادت نومبر ۱۸۸۰ء۔ وفات ۱۹۔ نومبر ۱۹۵۳ء۔
۱۱۹۔
سوانح حیات سلطان ابن سعود صفحہ ۲۱۷۔ ۲۱۸ )مرتبہ سردار محمد حسنی بی۔ اے۔ ناشر منیجر سلسلہ مشاہیر اسلام جالندھر شہر(
۱۲۰۔
شیعہ اخبار مجریہ یکم جون ۱۹۳۵ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر ۷۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۵۔
۱۲۱۔
دی سعودین عریبین مائیننگ سنڈیکیٹ لمیٹڈز ان کارپورٹیڈ ان انگلینڈ۔ )اہلحدیث امرتسر ۱۷۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۸(
۱۲۲۔
اخبار کرزن گزٹ )دہلی( نیے ۱۵۔ جنوری ۱۹۰۵ء کی اشاعت میں حمیدیہ حجاز ریلوے کے زیر عنوان یہ خبر شائع کی۔ حمید یہ حجاز ریلوے لین کمیٹی نے فرانس و بلجیم و جرمنی کے مشہور تاجروں کو معدنیات کا اجارہ دینے کا قصد کیا۔ حجاز ریلوے کے راستے میں معدنیات ملتی ہیں۔ چونکہ اس وقت اور کوئی نکالنے والا نہیں اس سب سے شاید اہل یورپ کو اجارہ دینا پڑے۔ صفحہ ۹۔
۱۲۳۔
اہلحدیث ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۶ کالم ۱۔
۱۲۴۔
مجاہد ۱۴۔ مئی ۱۹۳۶ء بحوالہ اہلحدیث ۲۹۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۔
۱۲۵۔
چوہدری افضل حق تاریخ احرار میں لکھتے ہیں۔ ابن سعود کا سارے عرب میں طوطی بولنے لگا خشک قسم کا وہابی تھا مکے مدینے میں قدم رکھا تو بھونچال لے آیا۔ قبوں کو گرا کر ہموار کردیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم شریف حسین کے دیں بدر ہونے پر خوش تھے کہ غدار اپنے انجام کو پہنچا۔ مگر قبے گرانے کے متعلق متذبذب تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب قبے اور مقبرے سرمایہ داروں کی سنگدلی کا نتیجہ ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر نبی کریم کی قبر اصل حال میں ہوتی تو اس زیارت سے سرمایہ داروں کے خلاف مسلمانوں کی نفرت قائم رہتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جبکہ مسلمان عوام کے دل و دماغ کی ساخت سرمایہ داری مشین میں تیرہ سو برس ڈھلکر بدل گئی تو ابن سعود کا ظہور ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیچارہ ابن سعود بھی سرمایہ دارانہ ماحول کا پرورش یافتہ تھا اسے خود اسلام کا منشاء معلوم نہ تھا۔ اس نے چند قبے گرائے مگر خود شاہانہ بسر اوقات کرنے لگا۔ )صفحہ ۲۲ تا صفحہ ۲۴(
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مفکر احرار نے آنحضرت~صل۱~ کی قبر مبارک کے پختہ مقبرہ کو سرمایہ داری کی سنگ دلی کا نتیجہ قرار دینے میں حقائق کی صریح تغلیط کی ہے۔ تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ مقبرہ بنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ۵۵۷ھ میں عیسائیوں نے آنحضرت~صل۱~ کے جسد اطہر کو نکال کر اس کی بے حرمتی کرنے کی سازش کی تھی جس پر سلطان نور الدین نے اس کے اردگرد گہری خندق کھدوا کے اس میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا۔ اور محض تحفظ کے خیال سے اس پر گنبد تعمیر کیا گیا۔ )ملاحظہ ہو کتاب مرۃ الحرمین جلد اول تالیف ابراہیم رفعت پاشا صفحہ ۴۷۴۔ طبع اول ۱۳۴۴۔ ۱۹۲۵ مطبع دارالکتب المصریہ بالقاہرہ(
۱۲۶۔
بحوالہ الفضل قادیان مورخہ ۲۲۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔
۱۲۷۔
مولانا مودودی سے ملاقات صفحہ ۳۶ )از جناب رفیق ڈوگر صاحب عوامی پرنٹرز لاہور سن اشاعت ۱۹۸۵ء(
۱۲۸۔
اہلحدیث امرتسر ۲۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔
۱۲۹۔
مولانا محمد علی جوہر مراد ہیں۔ )ناقل(
۱۳۰۔
الفضل قادیان ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۱۳۱۔
مجاہد لاہور ۱۱۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲` ۳` ۴۔
۱۳۲۔
ایضاً صفحہ ۵ کالم ۴۔
۱۳۳۔
اخبار زمیندار ۱۹۳۵ء سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے ان دنوں افتراء پردازیوں کی خاص مہم جاری کر رکھی تھی۔ بطور ثبوت صرف ایک جلسہ کی رپورٹ ملاحظہ ہو۔ لکھا ہے ۳۰۔ جولائی )۱۹۳۵ء( کو بروز چہار شنبہ ساڑھے نو بجے شام رام تلائی )امرتسر( میں احرار امرتسر نے ایک جلسہ کیا۔ احرار میں سے شیخ حسام الدین بی۔ اے نے تقریر کی۔ تقریر کیا تھی افترا پردازیوں کا ایک انوکھا مجموعہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ احرار اگر اپنا کھویا ہوا وقار قائم کرنے کی فکر میں ہیں تو اس کے لئے انہیں اس قسم کی کذب آفرینی نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس سے تو ان کے وقار کو اور بھی دھکا لگے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ حسام الدین پر واضح رہنا چاہئے کہ شیشہ کے مکان میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنا نہایت ہی غلط قدم ہے۔ )زمیندار لاہور ۴۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ بعنوان امرتسر احرار کی فتنہ پردازی(
۱۳۴۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۱۳۵۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۳۶۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ تا صفحہ ۹۔
۱۳۷۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۱۳۸۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ و ۴۔
۱۳۹۔
الفضل ۱۹۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۔
۱۴۰۔
الفضل ۱۹۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۴۱۔
بحوالہ الفضل ۲۳۔ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۵۔
۱۴۲۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۱۴۳۔
ایضاً صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۴۴۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء۔
۱۴۵۔
الفضل ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۱۴۶۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ و ۶۔
۱۴۷۔
ایضاً صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۴۸۔
ایضاً صفحہ ۷ کالم ۴۔
۱۴۹۔
روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۶۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۵۰۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۱۵۱۔
ملاحظہ ہو الفضل از ۲۴۔ اکتوبر تا ۱۶۔ نومبر ۱۹۳۵ء۔
۱۵۲۔
الفضل قادیان مورخہ ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۱۵۳۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۱۵۴۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۱۵۵۔
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے لکھا۔ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ میں چونکہ عاجزی کے ساتھ خدا سے فیصلہ طلب کیا جاتا ہے اس لئے کسی فریق کو مبادی میں الجھنا مناسب نہیں ہوتا اور نہایت صبر و سکون کے ساتھ محض دعا کی جاتی ہے۔ )اہلحدیث ۸۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶(
۱۵۶۔
الفضل ۲۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔
۱۵۷۔
الفضل ۲۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔
۱۵۸۔
الفضل ۱۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۱۵۹۔
الفضل ۱۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۱۶۰۔
اخبار مجاہد )لاہور( ۶۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ بحوالہ الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۱۔
ایضاً۔
۱۶۲۔
مضمون حضرت خلیفتہ المسیح الثانی )الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲(
۱۶۳۔
اخبار مجاہد ۶۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ )بحوالہ الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲(
۱۶۴۔
اخبار مجاہد ۵۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ بحوالہ الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۶۵۔
اخبار مجاہد ۵۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ بحوالہ ۱۰۔ نومبر الفضل ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۶۶۔
بحوالہ الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۴۔
۱۶۷۔
الفضل ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۱۶۸۔
الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۱۶۹۔
الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔ ۴ کالم ۱ و ۴۔
۱۷۰۔
ایضاً۔
۱۷۱۔
الفضل ۱۴۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۷۲۔
حال گنج مغلپورہ لاہور۔
۱۷۳۔
الفضل ۱۲۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔
۱۷۴۔
الفضل ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۲ تا ۳۔ ۴۔
۱۷۵۔
الفضل ۱۹۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۱۷۶۔
الفضل ۱۸۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۲۔ ۳۔
۱۷۷۔
‏]2h [tag الفضل ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۱۷۸۔
الفضل ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۱۷۹۔
احسان یکم نومبر ۱۹۳۵ء )بحوالہ الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱(
۱۸۰۔
اہلحدیث امرتسر ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۳۔
۱۸۱۔
اہلحدیث ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۱۸۲۔
اہلحدیث امرتسر ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۳۔ ۱۴۔
۱۸۳۔
اخبار پرتاپ ۸۔ دسمبر ۱۹۳۵ء بحوالہ اخبار الفضل ۲۰۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۴۔
۱۸۴۔
اخبار اہلحدیث امرتسر ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔ ۳۔
۱۸۵۔
البدر مورخہ ۲۸۔ نومبر و ۵۔ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۷۔ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۵۳۔ یاد رہے کہ مشہور معبر حضرت ابن سیرین~رح~ کے نزدیک ٹوپی اتارنے کی تعبیر یہ ہے کہ مفارہ لرئیسہ یعنی حاکم وقت سے کشیدگی تعلقات اور پگڑی کی تعبیر میں لکھتے ہیں۔ قوہ الرجل و تاجہ و ولایتہ یعنی اس سے آدمی کی طاقت اور اس کی بادشاہت و حکومت مراد ہوتی ہے۔ )تعبیر نامہ حضرت محمد بن سیرین~رح~ برحاشیہ کتاب تعطیر الانام جلد اول صفحہ ۱۰۳۔ ۱۰۴(
۱۸۶۔
بحوالہ الفضل ۲۰۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۔
۱۸۷۔
ابن ہشام وطبری و سیرت خاتم النبین حصہ اول صفحہ ۱۹۲ )مولفہ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ( حبشہ کا ملک جو انگریزی میں ایتھوپیا یا ابی سینیا کہلاتا ہے۔ براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ آنحضرت~صل۱~ زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی جس کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا اور عہد نبوی کے نجاشی کا ذاتی نام اصحمہ تھا۔
‏h1] g[ta۱۸۸۔
ابن سعد۔ ابن ہشام زرقانی بحوالہ سیرت خاتم النبین حصہ اول صفحہ ۱۹۳۔
۱۸۹۔
الفضل ۹۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۱۹۰۔
اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی ایک رپورٹ مطبوعہ الفضل ۱۳۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ قابل مطالعہ ہے۔
۱۹۱۔
۹۔ جنوری ۱۹۴۵ء کو ڈاکٹر صاحب نے پہلی بار شاہ ابی سینیا ہیل سلاسی سے ملاقات کی اور حضرت مسیح موعودؑ کے ظہور کی خوشخبری ان تک پہنچائی۔ )الفضل ۲۰۔ فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۱ کالم ۴/۳(
۱۹۲۔
ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے )جو ان دنوں شمالی مغربی ابی سینیا کے دارالسلطنت گواندر مقام پر تھے( عیدالفطر کے موقعہ پر مسلمانان حبشہ کے سامنے حضرت مسیح موعودؑ کی آمد اور حضور کے نشانات پر لیکچر دیا۔ نیز بتایا کہ اس علاقہ میں جو جھیل تانا کے قریب واقعہ ہے اور دریائے نیل ارزق کا منبع ہے جس کی پچھلے زمانوں میں کسی کو خبر نہیں تھی یا خبر تھی تو شاذ و نادر کسی کو اسے دیکھنے کا موقعہ ملا ہوگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اپنا نشان ظاہر کیا کہ پانچ آدمیوں کو جن میں عرب اور حبشی مسلمان شامل ہیں خوابوں میں دیکھایا کہ مسیح مہدی ہندوستان کی زمین میں ظاہر ہوگیا ہے۔ ان لوگوں کے نام جنہیں خوابیں آئی ہیں یہ ہیں۔
)۱( الشیخ عمر حسین سوڈانی حبشی عربی کے اچھے عالم ہیں۔ )۲( علی حکیم عبدہ نوجوان حبشی مسلمان نہایت مخلص عربی کے عالم اور تاجر ہیں۔ )۳( السید حسین الحراضی عرب تاجر ہیں۔ )۴( السعید اسماعیل موٹر ڈرائیور۔ )۵( سراج عبداللہ۔
خوابیں مختلف اوقات میں مختلف رنگوں میں آئیں۔ مثلاً کثرت سے لوگ خوشیاں منارہے ہیں۔ باغ اور وسیع زرخیز زمین ہے۔ عیسائی اور مسلمان ہر دو کہہ رہے ہیں کہ الحمدلل¶ہ ہماری زندگی میں مسیح مہدی ظاہر ہوگیا۔ ایک نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت ہیلی سلاسی کا دربار ہے اور وسیع میدان میں کثرت سے لوگ جمع ہیں۔ میں دو سفید گھوڑوں کی گاڑی پر سوار ہوں اور کہہ رہا ہوں۔ ظھر المھدی ظھر من شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر۔ )الفضل ۱۲۔ جنوری ۱۹۴۶ء صفحہ ۶ کالم ۴/۳(
۱۹۳۔
بیعت کرنے والوں میں ہرر شہر کے تین دوست بھی تھے جو جنوری ۱۹۴۷ء میں داخل سلسلہ ہوئے۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے ان اصحاب کی بیعت کی مرکز میں اطلاع دیتے ہوئے یہ رپورٹ بھی بھجوائی کہ چند روز کا واقعہ ہے کہ ہمارے مذکورہ بالا تین نو مبایعین غلطی سے غیر احمدی لوگوں کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے چلے گئے۔ میں نے انہیں پیغام بھیجا کر غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ وہ سنتے ہی میرے پاس چلے آئے۔ اس سے ہمارے مخالفین میں اشتعال پیدا ہوگیا اور مجھ پر محکمہ قضا میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا کہ میں نے انکے دو ہرری مسلمان چرالئے ہیں اور کہ ان کی نماز کی ہتک کی ہے۔ آخر مجھے بلایا گیا اور لوگوں کے سامنے تحقیقات شروع ہوئی۔ جب ہمارے خلاف مبالغہ آمیز اور جھوٹی شہادتیں ہوئیں تو حاضرین میں سے ہی دو عرب بول اٹھے اور قاضی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ عیسیٰ کو آسمان پر زندہ مانتے ہو جو رسول اللہ~صل۱~ کی ہتک ہے واقعی آپ لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ )الفضل ۷۔ مارچ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴ کالم ۳ و ۴(
اوائل ۱۹۵۲ء کا واقعہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ سے قید خانہ میں دس آدمی بیعت کرکے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جو بیعت کے دوسرے روز ہی رہا ہو گئے۔ )الفضل ۶۔ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۱۹۴۔
تاریخ وفات ۲۶۔ اگست ۱۹۵۳ء۔
۱۹۵۔
غیر مطبوعہ مکتوب سے ماخوذ۔
‏]h1 [tag۱۹۶۔
الحکم ۲۱۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۳۔
۱۹۷۔
پورا خطبہ الفضل ۲۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ و ۲ پر چھپ چکا ہے۔
۱۹۸۔
الفضل ۴۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۹۹۔
الفضل ۵۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۰۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۳۶۔
۲۰۱۔
ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ ۶۶۔
۲۰۲۔
جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ ۵۲۲ میں مذکور ہے نیشنل لیگ کے اولین صدر محترم شیخ بشیر احمد صاحب بی اے ایڈووکیٹ تھے قادیان نیشنل لیگ کے صدر شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور پہلے سیکرٹری مولوی ظفر محمد صاحب مولوی فاضل اور دوسرے چوہدری ظہور احمد صاحب تھے۔
۲۰۳۔
الفضل ۲۶۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۲۰۴۔
الفضل ۲۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۵۔
۲۰۵۔
یاد رہے کہ ۱۳۔ نومبر ۱۹۳۵ء سے ۹۔ دسمبر ۱۹۳۵ء تک حاجی احمد خاں صاحب ایاز )مبلغ ہنگری اور یوگوسلاویہ( نے سالار جیش کی حیثیت سے کام کیا۔ اور ۱۰۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کو مرزا گل محمد صاحب سالار جیش اور سید احمد صاحب افسر جیش بنائے گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۶۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کے خطبہ جمعہ میں حاجی احمد خاں ایاز کی فرض شناسی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔ ہماری مساجد کے سارے پریذیڈنٹوں کو نیشنل لیگ کے ایک سالار جیش نے شکست دے دی اور ساتھ ہی اس احمدی لڑکے نے ثابت کر دیا ہے کہ جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسے نوجوان موجود ہیں کہ جب کام کا وقت آئے تو خواہ حالات کچھ ہوں وہ کام پورا کرکے دکھا سکتے ہیں۔ مجھے اس امر کا خیال کرکے کہ ہمارے نوجوانوں میں وہ روح موجود ہے کہ اگر اسے ابھارا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں ایسے افراد موجود ہیں جو ہر قربانی کرکے کام کو پورا کردیں گے۔ اس قدر خوشی ہوتی ہے کہ جیسے کہتے ہیں۔ فلاں شخص کو بادشاہت مل گئی۔ الخ۔ )الفضل ۱۲۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۲(
۲۰۶۔
روزنامہ الفضل قادیان ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ و ۶۔
۲۰۷۔
الفضل ۶۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۲۰۸۔
الفضل ۲۰۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۲۰۹۔
الحکم ۲۱۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۱۔
۲۱۰۔
الفضل ۱۳۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۱۱۔
الفضل ۲۶۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۲۱۲۔
الفضل ۱۹۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۱ و ۲۔
۲۱۳۔
الفضل ۱۶۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۲۱۴۔
الفضل ۲۵۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۸۔
۲۱۵۔
الفضل ۲۵۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۴۔
۲۱۶۔
الفضل ۵۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔ )صفحہ ۹۔ ۱۱( میں حضرت مولوی صاحبؓ کے خود نوشت سوانح شائع شدہ ہیں۔ آپ کے لڑکے محمد عبداللہ صاحب` عبدالرحیم صاحب` ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب اور عبدالقدیر صاحب ہیں جو ان دنوں نواب شاہ )سندھ( میں رہتے ہیں۔
۲۱۷۔
الفضل ۲۶۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۲۱۸۔
الفضل ۱۴۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔ آپ کے لڑکے کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب سابق درویش قادیان )حال ربوہ چوہدری نذیر احمد صاحب )مرحوم۔ وفات ۶۔ ستمبر ۱۹۳۵ء( چوہدری محمد احمد صاحب واقف زندگی )دفتر محاسب ربوہ( لیفٹیننٹ نور احمد صاحب۔ چوہدری ظہور احمد صاحب سی ایم اے کراچی۔
۲۱۹۔
الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵۔
۲۲۰۔
الفضل ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے الحکم )۱۴/۷۔ اکتوبر اور ۲۸/۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء( میں آپ کی مفصل سوانح شائع کردی تھی۔
۲۲۱۔
الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۲۲۲۔
الفضل ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۲۳۔
الفضل ۱۷۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۲۴۔
ملاحظہ ہو الفضل ۲۴۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰۔
۲۲۵۔
الفضل ۲۴۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۱ و ۲۔
۲۲۶۔
الفضل ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔ ۳۔
۲۲۷۔
الفضل ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ و ۲۔
۲۲۸۔
الفضل ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ و ۲۔
۲۲۹۔
الفضل ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۲۳۰۔
اس پرمعارف تقریر کا ملخص الفضل ۲۹۔ دسمر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔ ۲ پر موجود ہے جس کے سرسری مطالعہ سے باسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اصل تقریر کس شان کی ہوگی۔
۲۳۱۔
الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۴۔
۲۳۲۔
‏]2h [tag خطبہ کا مکمل متن الفضل ۴۔ جنوری ۱۹۳۶ء میں شائع شدہ ہے صفحہ ۱۔
۲۳۳۔
الفضل ۲۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔
۲۳۴۔
الفضل ۲۰۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۲۳۵۔
الفضل ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۳۶۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۳۷۔
الحکم ۲۱۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۴۔
۲۳۸۔
الحکم ۲۱` ۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔
۲۳۹۔
الفضل ۶۔ نومبر ۱۹۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ )تاریخ احمدیت جلد سوم( میں آپ کی تاریخ ولادت ۵۔ نومبر ۱۹۳۵ء درج ہے جو سہو ہے(
۲۴۰۔
الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۴۱۔
الفضل ۲۱۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۴۲۔
ایضاً۔
۲۴۳۔
ایضاً
۲۴۴۔
الفضل ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم۔
۲۴۵۔
الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۔
۲۴۶۔
الفضل ۸۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۴۔
‏]h1 [tag۲۴۷۔
الفضل ۶۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۴۸۔
الفضل ۳۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۲۴۹۔
الفضل ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۴۔
۲۵۰۔
الفضل ۸۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۲۵۱۔
بحوالہ اخبار نور قادیان ۳۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۲۵۲۔
بحوالہ الفضل ۸۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۲۵۳۔
شاہ شجاع بادشاہ افغانستان کے عہد حکومت )۱۸۰۳ء تا ۱۸۱۶ء۔ ۱۸۳۹ تا ۱۸۴۱( کے دوران جو مسلمان برما میں آباد ہوئے ان کو برما میں زیر آباد کہتے ہیں۔
۲۵۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے آپ کو برما میں جاتے ہی سب سے پہلی اور اہم ہدایت یہ موصول ہوئی کہ رپورٹ باقاعدہ آنی چاہئے۔ چنانچہ آپ نے اس کی تعمیل کی برمی احمدیوں کے چندوں کی نسبت حضور نے نسیم صاحب کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ تنتیس فیصدی چندہ برما میں خرچ کرسکتے ہیں۔ باقی رقم مرکز میں بھیجی جائے۔
۲۵۵۔
مثلاً مونکوالے القاسم جن کے مضامین اخبارات سلسلہ میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔
۲۵۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۸۔ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۵۱۔ ۱۵۵۔
۲۵۷۔
اخبار کے مالک کا نام ایم اے کریم غلام GHULAM) KARIM ۔A۔(M تھا۔
۲۵۸۔
محترم نسیم صاحب تامل زبان نہیں جانتے تھے۔ اس لئے پہلے آپ نے ایک تامل جاننے والے سے اخبار کے مضمون کا انگریزی ترجمہ کرایا۔ پھر اسے پیش نظر رکھ کر مسودہ تیار کرکے ایک دوسرے دوست سے اسے تامل میں منتقل کرایا۔
۲۵۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۱۔ ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۱۔
۲۶۰۔
جون ۱۹۵۳ء میں مجاہد تحریک جدید سید منیر احمد صاحب باہری نے برما مشن کا احیاء کیا جس کی تفصیل ۱۹۵۳ء کے واقعات میں آئے گی۔
۲۶۱۔
متوطن مٹیاری تعلقہ ھالہ ضلع حیدرآباد سندھ حال فضل عمر ہسپتال ربوہ۔
۲۶۲۔
الفضل ۴۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷۔
۲۶۳۔
ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب کا بیان ہے کہ تحریک جدید نے دو سو روپے دئے۔ لیکن خریداری کے نہ ہونے کے سبب اخبار بند ہوگیا۔
۲۶۴۔
الفضل ۱۴۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ کالم ۴۔
۲۶۵۔
الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۲۶۶۔
الفضل ۸۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۲۶۷۔
الفضل ۲۱۔ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۶۸۔
الفضل ۱۹۔ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰۔
۲۶۹۔
الفضل ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۲۷۰۔
الحکم ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۲۔
۲۷۱۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۲۷۲۔
الفضل ۱۱۔ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۷۳۔
الفضل ۴۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۴۔
۲۷۴۔
الفضل ۱۷۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۲۷۵۔
الفضل ۱۲۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۲۷۶۔
الفضل ۱۲۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم ۲ و ۳۔
۲۷۷۔
۳۰۔ جولائی ۱۹۵۹ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کے فرزند محمد نور عالم صاحب ایم اے کلکتہ نے آپ کے مختصر حالات زندگی اخبار بدر )قادیان( بابت ۲۱۔ جولائی ۱۹۶۱ء میں شائع کردئے ہیں۔
۲۷۸۔
الفضل ۱۵۔ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۲۷۹۔
الفضل ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۲۸۰۔
الفضل ۳۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶۔
۲۸۱۔
الفضل ۶۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۲۸۲۔
الفضل ۱۹۔ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۔ ۹ ولادت یکم فروری ۱۹۱۴ء وفات ۱۰۔ مئی ۱۹۶۴ء۔ کھوکھر خاندان کے چشم و چراغ تھے امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود زمانہ طالبعلمی ہی سے نہایت متواضع مہمان نواز` علم نواز اور پابند صوم و صلٰوۃ تھے۔ احمدی ہونے کے بعد یہ صفات اور بھی نمایاں ہوگئیں۔ قادیان کے محلہ دارالانوار میں اپنی شاندار کوٹھی بنوائی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی آپ پر بہت شفقت فرماتے۔ حضور کے ماموں حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی بیٹی محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ ان سے بیاہی گئیں۔ ملک صاحب موصوف کچھ عرصہ تک وکیل التبشیر بھی رہے اور اپنے ذاتی خرچ پر یورپ کا تبلیغی دورہ بھی کیا۔ سالہا سال تک ضلع ملتان کے امیر جماعت رہے۔ اپنے علاقہ میں اکیلے احمدی تھے اور ضلع ملتان میں احمدیت کے ایک ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ مبلغین سلسلہ کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ علمی کتب جمع کرنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ ذاتی مطالعہ نہایت وسیع تھا۔ بڑے بڑے افسروں کو بے دھڑک تبلیغ کر لیتے تھے۔ صاحب رئویاء بھی تھے۔ چنانچہ بتایا کرتے تھے کہ ۱۹۴۴ء میں جبکہ میں کلکتہ میں تھا۔ مجھے خواب آیا کہ حضرت خلیفہ ثانیؓ کا مقام بلند ہوگیا ہے۔ میں فوراً قادیان واپس پہنچا اور حضور کی زبان سے وہ اعلان سنا جس میں حضورؓ نے اپنے مصلح موعود ہونے کا انکشاف فرمایا تھا۔ اسی طرح انہیں قبل از وقت بتایا گیا کہ محمد ایوب خاں پاکستان کے صدر بنیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ )تفصیل کے لئے الفضل ۱۵۔ مئی ۱۹۶۴ء صفحہ ۳۔ ۴` ۲۔ جون ۱۹۶۴ء صفحہ ۴۔ ۸ اور ۱۱۔ نومبر صفحہ ۴ ملاحظہ ہو(
۲۸۳۔
الفضل ۲۷۔ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۲۸۴۔
الفضل ۹۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
‏tav.8.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا تئیسواں سال
تیسرا باب )فصل اول(
ہنگری` پولینڈ` چیکوسلواکیہ` سپین` اٹلی` البانیہ اور یوگوسلاویہ میں احمدی مشنوں کا قیام اور ۱۹۳۶ء کے دیگر ضروری واقعات
خلافت ثانیہ کا تیئیسواں سال
)جنوری ۱۹۳۶ء تا دسمبر ۱۹۳۶ء بمطابق شوال ۱۳۵۴ھ تا شوال ۱۳۵۵ھ(
دارالتبلیغ ہنگری` پولینڈ` چیکوسلواکیہ
تحریک جدید کے زیر انتظام یورپ میں سب سے پہلا احمدیہ مشن اس سال کے آغاز میں ہنگری میں قائم ہوا۔ ہنگری مشن کے پہلے مبلغ چودھری حاجی احمد خاں صاحب ایاز بی اے` ایل ایل بی تھے۔ جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے ۱۶۔۱ جنوری ۱۹۳۶ء کو قادیان سے روانہ ہوئے۔ اور ۲۱۔ فروری ۱۹۳۶ء کو بوڈاپسٹ )دارالحکومت ہنگری( میں پہنچے۔۲ روانگی سے ایک روز قبل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایاز صاحب کو اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل الفاظ لکھ کر دیئے۔
عکس کے لئے
>مکرم ایاز صاحب۔
السلام علیکم و رحتہ اللہ وبرکاتہ`
اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت دے اور آپ جس مقصد یعنی تبلیغ کے لئے جارہے ہیں۔ اس میں خاص کامیابی عطا فرمائے۔ اور آپ کو اس ملک میں اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کا ذریعہ بنائے۔ اور حافظ و ناصر ہو۔ والسلام۔
خاکسار مرزا محمود احمد ۳۶/۱/۱۵
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس و محبوب خلیفہ کی ان دعائوں کو شرف قبولیت بخشا۔ چنانچہ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ۔
>آپ کی تبلیغی سرگرمیاں بہت خوشکن ہیں۔ خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی بلند ہمتی میں اور اضافہ کرے اور دین کے لئے بیش از پیش خدمات کا موقعہ دے<۔۳
خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت یہ بھی ہوئی کہ ہنگری کے پریس نے آپ کی آمد پر طویل مضامین اور زوردار نوٹ شائع کرکے ملک کے گوشہ گوشہ تک یہ دھوم مچا دی کہ جماعت احمدیہ کے یہ مبلغ ہمارے ملک کو مسلمان کرنے کا عزم لئے ہوئے آئے ہیں۔ ہنگری کے پریس میں جب اسلام کا بار بار ذکر آیا تو رسالہ SZEKCLYSEG نے >مسلم ڈیلی گیٹ کے نام کھلی چٹھی< شائع کی جس میں لکھا کہ >ہم مذہب سے کوئی سروکار نہیں اور ہم اسلامی پروپیگنڈا کا اتنا شور برداشت نہیں کرسکتے<۔ اس پر ایاز خاں صاحب نے ہنگری کے تین لیڈروں سے اس رسالہ کے ایڈیٹر کے نام چٹھیاں لکھوائیں اور اپنے مضامین کی چند کاپیاں اور اخباریں بھی بھیج دیں۔ مگر رسالہ کے ایڈیٹر نے اپنا نمائندہ بھیجا کہ ایاز خاں سے کہہ دے کہ ہم صرف آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتے تھے ورنہ ہم بھی اسلام کے دوست ہیں۔۴
حاجی احمد خاں صاحب ایاز نے ہنگری کے طول و عرض میں پیغام اسلام پہنچانے کے لئے )پریس سے رابطہ قائم کرنے کے علاوہ( مندرجہ ذیل ذرائع بھی اختیار کئے۔
لیکچرز۔ انفرادی ملاقاتیں۔ لٹریچر کی اشاعت۔ دعوتیں اور مباحثات۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی دعائوں کی برکت سے ایک نہایت قلیل عرصہ کے اندر ہنگری میں ایک مسلم جماعت پیدا ہوگئی۔ ہنگری کے سب سے پہلے احمدی ڈاکٹر AVAR SIULUJ]ybod [tag )کتھولک عیسائی( تھے جنہوں نے ۱۰۔ اپریل ۱۹۳۶ء کو اپنا بیعت نامہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھجوایا اور ان کا اسلامی نام محمد احمد ظفر رکھا گیا۔۵
ڈاکٹر جولیس ایوار کے بعد ایک سال کے اندر اندر پینتیس سے زائد افراد جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے۔ جن میں قاسم ابن ابو زید دمشقی۶ )عرب فوج کے ایک افسر( خالد سٹیفن پونگو۷ )سیکرٹری انجمن احمدیہ بوڈاپسٹ( مسٹر ISTVAN body]FOYTA g[ta ملک ہنگری کی سب سے منظم سوسائٹی UNIM TURAK کے جنرل سیکرٹری معہ اہل و عیال۸` میڈیم KULAJTA ARAMLNA بوسنیا اور ہرزوگونیا کے ایک سابق گورنر کی بیٹی(۹ KOSTYAL )کونٹ خاندان کے ایک فرد( لیفٹیننٹ LAJOS NAGY۱۰ )کواپریٹو سوسائٹی کے انسپکٹر( لیفٹیننٹ NAGYHASSAN۔ORBANBALA )اسلامی نام مصطفیٰ ایک پرجوش نو مسلم(۱۱ مولوی محمد اسماعیل صاحب )نائب مفتی مسلمانان ہنگری( مسٹر HABIBE ISTRAH KALLA )فرانس میں گورنمنٹ ہنگری کے سابق ریڈیو ڈائریکٹر(۱۲ سید گل آغا احمد صاحب تاجر۔ آوڑنچ عبداللہ صاحب سوداگر لیڈر مسلمانان ہنگری۱۳ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۱۴
حاجی احمد خاں صاحب ابھی ہنگری میں ہی مقیم تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم سے مولوی محمد ابراہیم صاحب ناصر )جو قادیان سے امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ مگر امریکی حکومت نے ان کے داخلہ پر پابندی لگا دی تھی( ۳۔ جنوری ۱۹۳۷ء کو لنڈن۱۵ سے روانہ ہوکر بوڈاپسٹ پہنچے اور ۱۱۔ فروری ۱۹۳۷ء کو بوڈاپسٹ مشن کا چارج لے لیا۔۱۶ اور حاجی احمد خاں صاحب پولینڈ چلے گئے۔۱۷
اس ملک کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بولوینا )پولینڈ( کے مفتی اعظم ڈاکٹر یعقوب۱۸ شنکیفتش جب مارچ ۱۹۳۷ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو انہوں نے قادیان پہنچ کر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حضور مسلمانان پولینڈ کے حالات بھی رکھے جس پر حضور نے حاجی احمد خاں صاحب کو ہنگری سے پولینڈ روانہ ہونے کی ہدایت بھجوائی۔۱۹
حاجی احمد خاں صاحب بوڈاپسٹ سے روانہ ہوکر ۲۲۔ اپریل ۱۹۳۷ء کو پولینڈ کے دارالسلطنت وارسا میں وارد ہوئے جہاں آپ تین دن ہوٹل میں رہے مگر کوئی موزوں مکان کرایہ پر نہ ملا۔ آخر وارسا سے سات میل پر ایک نئی بستی میں ایک کمرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔4] [stf۲۰
پولینڈ میں آپ کے ذریعہ پروفیسر احمد نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی۔۲۱
آپ کی آمد کا یہاں بھی خوب چرچا ہوا۔ چنانچہ ملک کے سب سے مشہور اور ہردلعزیز روزنامہ MOIVY OZER KURJER کی ۱۹۔ مئی ۱۹۳۷ء کی اشاعت میں آپ کا مفصل۲۲ بیان شائع ہوا باقی اخباروں نے >مجاہد اسلام کی وارسا میں آمد< کی خبر اسی نامی اخبار سے اخذ کرکے شائع کی اور اخبار >کرچر پورینی< اور وارسا کے مشہور روزنامہ PROANNY SEXPRES نے اپنی ۱۴۔ اگست ۱۹۳۷ء کی اشاعت میں نوٹ بھی لکھے۔۲۳
وارسا میں اٹھارہ افراد نے احمدیت قبول کی مگر پولینڈ کے پادریوں کی انگیخت کے باعث آپ کو پولینڈ چھوڑ کر جنوری ۱۹۳۸ء میں چیکوسلواکیہ میں آنا پڑا جہاں آپ نے تبلیغ کرنا شروع کردی۔ لیکن چونکہ حکومت نے ویزا میں توسیع کرنے سے انکار کردیا۔۲۴ اس لئے آپ ۲۶۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو واپس قادیان آگئے۔۲۵
ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ حاجی احمد خاں صاحب ایاز کے بعد مولوی محمد ابراہیم صاحب ناصر نے دارالتبلیغ بوڈاپسٹ کا چارج سنبھالا۔
مولوی محمد ابراہیم صاحب ناصر نے اپنے زمانہ قیام میں جماعت احمدیہ بوڈاپسٹ کی تربیت و استحکام کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی و وسعت کے لئے پوری جدوجہد کی۔ جماعت کے ہفتہ وار اجلاس میں قرآن کریم اور حدیث شریف کا درس جاری کیا۔ نومسلموں کے لئے قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کا بندوبست کیا۔ بکثرت تبلیغی خطوط لکھے ملک کی مختلف سوسائیٹیوں میں شرکت کی` انفرادی ملاقاتیں کیں۔ بوڈاپسٹ آنے والے سیاحوں تک پیغام حق پہنچایا۲۶ اور ان کو اسلامی لٹریچر دیا۔ تبلیغی جلسے منعقد کئے۔ اور تبلیغی لیکچروں کا سلسلہ جاری کرنے کے علاوہ یوم التبلیغ منانے کا اہتمام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوششوں میں بہت برکت ڈالی اور آپ کے ذریعہ سے کئی۲۷ سعید روحیں داخل احمدیت ہوئیں مثلاً ابراہیم درائتو )پہلی جنگ میں معزز عہدہ پر ممتاز افسر( ڈرنچ عاطف بوسینیا اور ان کے بھائی ٹیلوسر۔ جارج بویو۔ باسچ بیگو اور مع اہلیہ مریم اور )انکی تبلیغ سے حسن بہادر اور عباس عبداللہ تبریزی` پروفیسر اندرے فودر )رائیل فزیکل ٹریننگ کالج اور فوج میں کپتان(۲۸
آپ نے اپنے زمانہ قیام میں ایک ماہر مترجم سے سلسلہ احمدیہ کے مندرجہ ذیل لٹریچر کا ہنگری زبان میں ترجمہ بھی کرایا۔۲۹ >اسلامی اصول کی فلاسفی<۔ >لیکچر لاہور<۔ >تفسیر پارہ اول<۔ >تحفہ شہزادہ ویلز<۔ >احمدیت یعنی حقیقی اسلام<۔
‏women> of librator the <Mohammad
مولوی محمد ابراہیم صاحب ناصر قریباً پونے دو برس تک تبلیغ کے فرائض ادا کرنے کے بعد ۲۲۔ نومبر ۱۹۳۸ء کو واپس مرکز احمدیت میں تشریف لائے۔۳۰
تیسرا باب )فصل دوم(
دارالتبلیغ ارجنٹائن )جنوبی امریکہ(
شمالی امریکہ میں جماعت احمدیہ کا مشن ۱۹۲۰ء سے قائم تھا اور جماعت احمدیہ کے مخلص اور ایثار پیشہ مبلغین وہاں اشاعت اسلام کی مہم تیز کرنے میں مصروف تھے۔ مگر اس کے برعکس جنوبی امریکہ کا وسیع و عریض خطہ تبلیغی لحاظ سے بالکل خالی پڑا تھا۔ جہاں اب تک کسی احمدی مبلغ نے قدم تک نہیں رکھا تھا۔ اس سال ۱۹۳۶ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یہاں بھی اسلام و احمدیت کا جھنڈا گاڑنے کا فیصلہ کیا اور اس کی تکمیل کے لئے مولوی رمضان علی صاحب کو منتخب فرمایا۔ مولوی صاحب موصوف۳۱ ۲۵۔ جنوری ۱۹۳۶ء کو قادیان سے روانہ ہوئے۔ اور شب و روز تبلیغ میں منہمک رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل سے ۱۹۳۹ء تک ارجنٹائن میں مقیم تیس شامی آپ کے ذریعہ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔۳۲ اس کے بعد جنگ چھڑ گئی اور تبلیغی سرگرمیاں محدود کرنا پڑیں۔
جنگ کے بعد ۱۹۴۵ء میں آپ نے جنوبی امریکہ کے مغربی علاقوں یعنی مندوزا اور سان جوان شہروں اور ان کے ماحول میں تبلیغی دورہ کیا اور لوگوں کو احمدیت سے متعارف کیا۔ ان کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا جس پر مندوزا نامی شہر کے مشہور اخبار حریت LALIBORTAD نے >مسلم مبلغ صوبہ کے دروازہ پر< کے عنوان سے ایک مفصل نوٹ لکھا۔۳۳ مولوی رمضان علی صاحب گو اب تحریک جدید کے مبلغ نہیں مگر اب بھی اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ ساتھ پیغام احمدیت پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں۔
‏]body [tag
تیسرا باب )فصل سوم(
دارالتبلیغ سپین و اٹلی
مسلمانوں نے )۷۱۱ء تا ۱۴۹۲ء( قریباً آٹھ سو برس تک نہایت شان و شوکت سے حکومت کی۔ مگر بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازبیلہ کے اس مشترکہ فرمان کے بعد کہ کوئی مسلمان اسپین میں نہیں رہ سکتا۔ ہسپانوی مسلمان نہایت بے دردی اور سفاکی سے ختم کر دئے گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اسپین کی اس سرزمین پر از سر نو لوائے اسلام لہرانے کے لئے یکم فروری ۱۹۳۶ء کو ملک محمد شریف صاحب گجراتی کو قادیان سے روانہ فرمایا۳۴ ملک صاحب ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو سپین کے دارالسلطنت میڈرڈ میں وارد ہوئے۔
ملک صاحب نے زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ میڈرڈ کے مختلف اشخاص تک پیغام حق پہنچانا شروع کردیا۔ ۱۵۔ مئی ۱۹۳۶ء کو آپ نے صدر جمہوریہ سپین کو انکی کامیابی پر مبارکباد کا خط لکھا۔ جس میں حضرت مسیح موعود کی آمد کا بھی ذکر کر دیا۔۳۵ ازاں بعد جلد ہی ملکی حالات نے یکایک پلٹا کھایا اور اسپین میں بدامنی کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ مگر آپ بدستور تبلیغ اسلام میں مصروف رہے اور چند ماہ کے اندر ہی سپین میں احمدیت کا بیج بونے میں کامیاب ہوگئے یعنی بعض سعید روحیں حلقہ بگوش اسلام ہوگئیں۔۳۶ چنانچہ سب سے پہلے کونٹ غلام احمد صاحب اور پھر مرزا آغا عزیز صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔۳۷ نومبر ۱۹۳۶ء میں اسپین قیامت خیز جنگ کا میدان بن گیا اور بمباری اور توپوں کے گولوں نے سر بفلک عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل کردیں۔ ملک صاحب جس مکان میں رہتے تھے اس کے اردگرد اکثر مکانات پیوند خاک ہوگئے۔ اور لوگ اپنا مال و متاع چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ مگر خدا نے احمدی مجاہد کو بالکل محفوظ رکھا۔ جب حالات خطرناک صورت اختیار کرگئے۔ تو برطانوی سفیر نے آپ کو سفارت خانہ میں بلایا اور دو دن گزارنے کے بعد دوسری برٹش رعایا کے ساتھ آپ بھی حکماً میڈرڈ سے لنڈن بھیج دیئے گئے۔ قریباً ایک ہفتہ لنڈن میں گزارنے کے بعد بحری جہاز سے جبرالٹر روانہ ہوئے۔ مگر جبرالٹر اترتے ہی حکومت کی خاص پابندیوں کے باعث اسی جہاز میں واپس ہونا اور فرانس کی ایک بندرگاہ میں اترنا پڑا۔ جہاں آپ نے قریباً ایک ماہ تک قیام کیا اور اعلائے کلمتہ اللہ میں مصروف رہے۔ اسی دوران حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے اٹلی چلے جانے کا ارشاد موصول ہوا۔ جس پر ملک صاحب ٹولون سے بذریعہ گاڑی اٹلی کے دارالسلطنت روما میں تشریف لے گئے۔ روما سے آپ کی سب سے پہلی رپورٹ جو مرکز میں پہنچی۔ وہ ۲۵۔ جنوری ۱۹۳۷ء کی لکھی ہوئی تھی۔۳۸
مجاہد سپین و اٹلی کے خود نوشت حالات
دارالتبلیغ سپین اور دارالتبلیغ اٹلی کے مختصر ابتدائی واقعات لکھنے کے بعد اب ہم ملک محمد شریف صاحب مجاہد سپین و اٹلی کے قلم سے ان ممالک میں تبلیغ اسلام و احمدیت کے ایمان افروز حالات درج کرتے ہیں۔ ملک صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
سپین کی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے میڈرڈ شہر کی تھیئو سافیکل سوسائٹی کے ممبر صاحبان کے علاوہ انفرادی طور پر جن چیدہ چیدہ انسانوں تک پیغام احمدیت پہنچانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے بخشی۔ ان میں سے قابل ذکر یونان کی ایک بہت بڑی شخصیت LOGOTHETE ANTONIO COUNT نامی تھے۔ آپ کا نام حضرت مسیح موعودؑ کے نام پر ہی کونٹ غلام احمد رکھا گیا۔ آپ میڈرڈ شہر کی بار ایسوسی ایشن کے صدر اور یونانی شہریت رکھتے تھے۔ آپ کی اہلیہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے نعمت ایمان سے مالا مال کیا۔ آپ کا اسلامی نام آمنہ رکھا گیا۔ خانہ جنگی کے دوران کمیونسٹ خیال کے اکابرین ہر اس انسان کی تلاش میں تھے جو کسی نہ کسی طریق پر خدا پر ایمان رکھتا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میڈرڈ شہر میں آباد خدا پر ایمان رکھنے والے انسانوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ اور مجبوراً کونٹ غلام احمد صاحب کو سپین سے نکلنا پڑا عرصہ کے بعد البانیہ پہنچے جہاں اپنی عمر کا باقی ماندہ حصہ بسر کرکے عین اس وقت آپ کی وفات ہوئی جبکہ میں جنگ عالمگیر ثانی کے دوران دشمن کے قیدی کیمپوں میں بے کسی کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا۔ آپ کی اہلیہ آمنہ کو میڈرڈ کی پولیس نے گرفتار کرکے ہر روز ڈرائو دھمکائو کے ساتھ گولی سے اڑا دینے کی دھمکیاں دیں۔ اور یہی بتایا جاتا رہا کہ اگلی صبح آپ کو گولی مار کر اڑا دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ غیر متوقع رنگ میں آپ کو رہا کردیا گیا۔
میڈرڈ شہر میں بمباری اس شدت سے ہوتی تھی کہ لوگ ہر لمحہ آہ و زاری ہی کرتے سنائی دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اسی کے حضور سوز و گداز کے ساتھ دعائوں کا سلسلہ جاری تھا چنانچہ دو مرتبہ اللہ تعالیٰ نے خارق عادت طور پر موت کے منہ سے بچایا اور اعلائے کلمتہ اللہ کو جاری رکھنے کی توفیق بخشی۔ جوں جوں بمباری زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی چلی جارہی تھی ہر کسی کی گھبراہٹ اور تشویش میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ انگریزی سفیر مقیم میڈرڈ نے حالات کی حد درجہ نزاکت کے پیش نظر مجھے سفارت خانہ میں بلا کر اس بات کا مشورہ دیا کہ میں جان کی حفاظت کی خاطر سپین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلا جائوں گا۔ مگر میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور آپ سے دریافت کیا کہ آپ خود ایسے دردناک حالات کے پیش نظر اس ملک کو چھوڑ کر کیوں نہیں چلے جاتے؟ اس پر جواب ملا کہ وہ انگریزی حکومت کے حکم کے بغیر کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ میں نے جواباً بتایا کہ جب آپ چند پونڈوں کے لالچ سے اپنی جان کو مصیبت میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں تو مجھے اتنا ہی ذلیل سمجھتے ہیں کہ میں موت کے ڈر سے اس ملک سے چلا جائوں۔ بعینہ اس حالت میں جبکہ یہاں آیا ہی مرنے کے لئے ہوں۔ اس پر آپ نے میری عمر پوچھی۔ اور یہ معلوم کرکے کہ تیئیس سال کی عمر میں اتنی قربانی کی روح موجود ہے۔ مزید پوچھا کہ یہ روح ¶آپ کے اندر کس نے پیدا کی ہے۔ میں نے نہایت عاجزی سے بتایا کہ اسلام اور احمدیت نے۔ میڈرڈ کی صورت حالات جب حددرجہ نازک ہوگئی۔ تو برطانوی حکومت نے حکماً ہر فرد کو سپین سے نکال کر جنگی بحری جہازوں کے ذریعہ فرانس اور دیگر ممالک میں بھیج دیا۔ چنانچہ مجھے بھی فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پر آکر پناہ لینی پڑی جہاں سے لنڈن گیا اور لنڈن سے سمندر کے راستہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق ۲۱۔ جنوری ۱۹۳۷ء کو اٹلی کے دارالسلطنت روما میں پہنچا۔ روما شہر میں میری ملاقات کونٹ غلام احمد صاحب سے ہوئی۔ آپ باوجود ضعیف العمری کے میرے مکان پر آیا کرتے جو چھٹی منزل پر واقع تھا۔ سپین کی مسلسل اور خطرناک بمباری کے دوران میرے پائوں میں بم کے ٹکڑے ایسے موجود تھے جنہیں نکلوانے کے لئے کئی ماہ ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا۔ جونہی اللہ تعالیٰ نے شفاء بخشی۔ زبان سیکھنے اور تبلیغ احمدیت کے کام کی طرف متوجہ ہوا۔ ۱۹۴۰ء تک ہر قسم کے صبر آزما حالات کا مقابلہ کرکے اور چند باوقار اور خلیق انسانوں کو حلقہ بگوش احمدیت کرنے کے بعد جنگ عالمگیر ثانی کے نتیجہ میں دشمن کے قیدی کیمپوں میں ایام زندگی ۱۹۴۴ء تک گزارنے پر مجبور ہوا۔ روما کے معزز اور باوقار احمدی دوستوں میں سے خود کونٹ غلام احمد صاحب۔ پروفیسر یقین صاحب اور ڈاکٹر انور صاحب کے والد بشیر احمد صاحب مرحوم اور خود ڈاکٹر انور صاحب قابل ذکر ہیں جو اپنے اخلاص اور محبت کی وجہ سے اس قابل ہیں کہ تاریخ احمدیت میں ان کے نام محفوظ رہیں۔ دشمن کے قیدی کیمپ میں جانے سے پہلے ایطالیہ میں تیس کے قریب انسانوں نے احمدیت قبول کی تھی مگر قید کے چہار سالہ عرصہ میں ہر کسی پر طرح طرح کے مصائب آئے۔ جنگ عالمگیر ثانی کی دردناک تکالیف اور ایک دوسرے سے دوری نے رہی سہی تنظیم کو نقصان پہنچایا۔ تاہم جہاں کہیں بھی احمدی موجود تھے۔ نور ایمان کی چنگاری ہمیشہ انکے اندر روشن رہی۔ قید کے چہار سالہ عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے تبلیغ احمدیت کا کام جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ چنانچہ میری پہلی بیوی سلیمہ خاتون کے علاوہ یوگوسلاویہ کے تین افراد کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ احمدیت قبول کریں۔ ان میں برادرم توفیق Claicic صاحب خاص طور پر اپنے اخلاص اور ایثار کی وجہ سے قابل ذکر ہیں۔ قیدی کیمپ میں بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار احسانات مجھ عاجز پر کئے۔ چنانچہ پندرہ مختلف اقوام کی نمائندگی کے فرائض سرانجام دئے اور آخر کار حسن سلوک اور احسانات کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے اپنی ہر دلعزیزی کے نتیجہ میں سینکڑوں مصیبت زدہ قیدی ساتھیوں کی جانیں بچانے کی توفیق ملی۔ اتحادی اقوام کے سپاہیوں کے ایطالوی شہر فلارنس میں داخلہ کے موقعہ پر انہوں نے ہندوستانی کمانڈ تک مجھے پہنچایا۔ میری احمدی بیوی سلیمہ خاتون نے بھی قید کی خطرناک گھڑیوں میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ اور ہر قسم کے غموم و ہموم میں شریک حال رہی۔ ہندوستانی افواج کی بہتری و بہبودی کے کاموں میں نمایاں طور پر حصہ لینے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی۔ چنانچہ انڈین آرمی ایجوکیشن لیکچرر کے طور پر انکے ساتھ فلارنس یونیورسٹی میں کام کرتا رہا۔ اسی اثنا میں جماعت کے بعض اکابرین نے خدا کی دی ہوئی توفیق سے میری خبر گیری کی اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تک میرے حالات پہنچائے۔ ہندوستانی افواج کے ہمراہ جنگ میں کام آئے ہوئے سپاہیوں کی لاشیں جگہ بہ جگہ سے حاصل کرکے انہیں دفنانے کے کام میں مصروف تھا تو دائیں آنکھ پر سخت چوٹ آئی اور سر میں گہرا زخم ہوگیا۔ اس کے نتیجہ میں دائیں آنکھ ہمیشہ کے لئے کمزور ہوگئی۔ ایطالیہ میں ایک اتحادی کمشن اس وقت موجود تھا۔ اس کے ساتھ اپریل ۱۹۴۷ء تک باحسن وجوہ نہایت کامیابی کے ساتھ کام کیا۔ اسی اثناء میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو مجاہدین )یعنی ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل اور مولوی محمد عثمان صاحب فاضل( کو ایطالیہ کے لئے نامزد کرکے خاکسار کو ازسر نو ایطالیہ کے لئے امیر مقرر کیا۔ ایطالیہ کے حالات کے پیش نظر سسلی کے علاقہ میں تبلیغ احمدیت کی غرض سے ان ہر دو مجاہدین کو body]MESSINA gat[ کے شہر میں بھیجا۔ تا اس حصہ زمین کے ان انسانوں تک یہ پیغام پہنچایا جاسکے جو ایک وقت میں مسلمان تھے۔ اور پالیرمو نامی شہر اسلامی تہذیب کا مرکز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہم سب کو اس بات کی توفیق بخشی کہ فریضہ تبلیغ کو حتی المقدور بجا لائیں۔ MESSINA شہر کے دورہ کے موقعہ پر جبکہ وہاں کی مقامی حکومت نے ہر دو مبلغین کو ۲۴ گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا تھا۔ مقامی بالائی حکام سے مل کر اور انہیں گزشتہ اسلامی شوکت اور شان کی یاد دلا کر اور ان کے اس رنگ میں اپنے ساتھ رشتہ کے تصور کے نتیجہ میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حکم کی تنسیخ کے کام میں کامیابی ہوگئی۔ اس موقعہ پر دو ایمان افروز واقعات قابل ذکر ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ مسینہ کی بندرگاہ کے قریب ایک پرانے زمانے کی یادگار کے سامنے جو ایک مسجد سے مشابہت رکھتی تھی۔ میں نے کھڑے ہوکر اسلامی دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے سوزوگداز سے دعا کی تو ایک بھاری مجمع کو وہاں پر کھڑے پایا۔ میں نے ایطالوی زبان میں ہی حاضرین سے پوچھا کہ یہ کیا یادگار ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ یہ پرانے زمانے کی ایک مسجد ہے۔ اس پر رقت کے ساتھ میں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ دور ایک مبارک دور تھا۔ اور آپ میں سے غالباً اب کسی کو بھی یاد نہیں کہ آپ کے آباء و اجداد مسلمان تھے۔ کاش آپ میں سے کوئی ایک ہی اس زمانہ کی یاد تازہ کرکے اسلام کی طرف متوجہ ہو؟ اس پر ایک نوجوان آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں اس بات کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ اسے سلسلہ کے عقائد اور اسلام کی ترقی کے حالات سے واقف کیا گیا تو اس نے اسلام قبول کرکے اپنا نام >محمود< رکھنا پسند کیا۔ دوسرے نوجوانوں پر اس کا گہرا اثر تھا اور اس نوجوان کے ذریعہ وہاں پر ہماری تبلیغ کے انتظامات ہوتے رہے۔ MESSINA شہر کی میونسپل کمیٹی کے قریب پہنچے تو وہاں پر ایک فوٹو گرافر کی دوکان تھی۔ جس کے اندر جاکر دریافت کیا کہ فوٹو تیار کرکے جلدی دے دیں گے۔ اس پر یہ فوٹو گرافر ایک عجیب انداز میں ٹکٹکی لگائے کھڑا ہوگیا اور میرے بار بار اصرار پر کہ فوٹو لے لیں حرکت میں نہ آیا۔ آخرکار کہنے لگا۔ فوٹو بعد میں لے لیں گے مجھے آپ سے کچھ دریافت کرنا ہے۔ عرصہ ہوا میں نے اور میری بوڑھی والدہ نے ایک ہی رات ایک ہی خواب دیکھی۔ جس میں ایک جلیل القدر انسان حاضرین سے مخاطب ہو کر اسلام کی خوبیاں بتا رہے تھے۔ آپ کے اردگرد اکثر اشخاص موجود تھے مگر ان میں سے دو کی شکلیں مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ ایک کا چہرہ گول اور موٹے نقش تھے اور دوسرے انسان کا چہرہ بہت نورانی تھا۔ اور ان ہر سہ اشخاص کے قریب چوتھے مقام پر آپ موجود تھے۔ باتوں باتوں میں اس جلیل القدر انسان نے آپ کی طرف اشارہ کرکے یہ کہا کہ اگر ایطالیہ میں آپ لوگوں کو اسلام سمجھنے کی ضرورت ہو تو اس شخص سے اپنا رابطہ قائم کرلیں۔ آپ چاہیں تو میں اپنی والدہ صاحبہ کو بھی یہیں بلا لیتا ہوں تا وہ بھی اس خواب کی تصدیق کردیں۔ چنانچہ آپ کی والدہ صاحبہ بھی وہیں پہنچ گئیں اور اس طریق پر آپ نے بھی اسی بات کی تصدیق کی جو فوٹو گرافر صاحب نے بتائی تھی۔ میں نے سلسلہ کا البم کھول کر سب سے پہلے انہیں حضرت مسیح موعودؑ کا فوٹو دکھایا جس کے بارہ میں انہوں نے یہ بتایا کہ یہی وہ جلیل القدر انسان تھے۔ بعد ازاں میں نے حضرت خلیفہ اولؓ کا فوٹو دکھایا تو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ آپ ہی گول چہرے والے اور موٹے نقشوں والے ہیں۔ اس کے بعد حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی کی فوٹو دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ یہی وہ انسان ہیں۔ جن کا چہرہ بہت نورانی تھا۔][بعد ازاں جلدہی اٹلی کا مشن بند کر دیا گیا اور ہر دو مجاہدین کو واپس مرکز میں بلا لیا گیا۔ گو میں نے بدستور اٹلی میں اپنی رہائش جاری رکھی۔ اور روزی کے ذرائع پیدا کرکے ۱۹۴۹ء میں ہوائی جہاز کے ذریعہ پاکستان پہنچا۔ جہاں ایک سال ٹھہرنے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح المصلح الموعود سے ازسر نو ملاقات کرکے اور ہدایات لے کر واپس ایطالیہ پہنچا۔ جہاں باوجود مشکل اور ناموافق حالات کے ۱۹۵۵ء تک فریضہ تبلیغ کو بجالاتا رہا ۔۔۔۔۔۔ اس دس سالہ عرصہ میں امان اللہ خاں سابق بادشاہ افغانستان` شاہ ایران` ملکہ الزبتھ اور ان کے خاوند پرنس فلپ اور ڈاکٹر احمد سکارنو تک پیغام احمدیت پہنچانے کا موقعہ ملا۔ اسی طرح ایطالوی جماعت کے سب سے پہلے صدر انیریکودے تکولا صاحب سے اور چند سال بعد دوسرے صدر گرونکی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ نیز امریکہ` انگلستان` مراکو` لیبیا` سومالیہ` مشرقی افریقہ` آسٹریلیا` جنوبی افریقہ` سینیگال` ماریشس` سپین` ٹرکی` ایران` البانیہ` یوگوسلاویہ` ہنگری اور سوئٹزرلینڈ کے زائرین تک جماعتی اور انفرادی رنگ میں ملاقاتیں کرکے پیغام احمدیت پہنچانے کی توفیق ملتی رہی۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک<

تیسرا باب )فصل چہارم(
حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کا سفر انگلستان
اس سال کے اوائل کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ۲۶۔ فروری ۱۹۳۶ء۳۹ کو انگلستان تشریف لے گئے اور ساڑھے تین سال تک قیام فرما رہنے کے بعد ۹۔ نومبر ۱۹۳۸ء۴۰ کو قادیان میں واپس تشریف لائے۔ حضرت مولانا شیر علی صاحب نے بڑھاپے کے باوجود یہ لمبا سفر صرف ترجمتہ القرآن انگریزی کی تکمیل کے لئے اختیار فرمایا۔ جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی فرمایا کہ >مولوی شیر علی صاحب اس غرض کے لئے ولایت جارہے ہیں تاکہ وہاں جاکر وہ قرآن کریم کے ترجمہ کی انگریزی زبان کے لحاظ سے مزید نگرانی کرسکیں۔ اس بات کی قرآن مجید کے نوٹوں کے لئے بھی ضرورت ہے۔ مگر ترجمہ کے لئے زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ ترجمہ میں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اگر تحت اللفظ ترجمہ کیا جائے تو زبان بگڑ جاتی ہے۔ اور اگر زیادہ واضح کیا جائے تو وہ ترجمہ کی حد سے نکل کر تفسیر بن جاتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ ماہر اہل زبان اصحاب سے اس بارے میں مشورہ لے لیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ترجمہ دیکھ کر کسی جگہ کوئی ایک ہی لفظ ایسا بتا دیں جو ایک فقرہ کا قائم مقام ہوسکے اور اس طرح ترجمہ مختصر ہونے کے باوجود زیادہ مطالب پر حاوی ہو جائے یا کوئی زبان کی غلطی ہو تو اسے دور کریں۔ یہ کام جس وقت ہو جائے گا۔ اس کے بعد بقیہ کام ہمارے لئے سہل ہو جائے گا<۔
اس کام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا۔ >یہ کام ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اندر بہت بڑی ذمہ داری رکھتا ہے۔ دنیا میں قرآن کریم کے ترجمے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی غرض تعلیم ہوا کرتی ہے۔ مگر اس میں ایک زائد غرض بھی ہے اور وہ یہ کہ اپنے مستقبل کو خطرات سے بچایا جائے۔ ورنہ اگر مغربی ممالک میں اسلام پھیلتا چلا جائے اور اس کے مسائل مشتبہ ہوتے جائیں تو ڈر ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والے عیسائی اسی طرح اسلام کو بگاڑ دیں جس طرح انہوں نے عیسائیت کو بگاڑا۔ پس ضرورت ہے کہ مغربیت اور اسلام کے درمیان ایسی دیوار حائل کر دی جائے جیسے ذوالقرنین نے دیوار بنائی کہ جس کے اوپر سے چڑھ کر کوئی مخالف نہ آسکے۔ ہاں اس کے دروازوں سے اجازت لے کے صحیح راستہ سے آنا چاہے تو آجائے۔ یعنی مغرب کا کوئی شخص اسلامی احکام سے بغاوت نہ کرسکے اور نہ اس کے احکام کو بگاڑ سکے۔ بلکہ اسلام کے متعلق جو کچھ کہے اور جس تعلیم کو وہ قرآن کریم کی طرف منسوب کرے۔ اس کے کہنے اور منسوب کرنے کی شریعت اسے اجازت دیتی ہو۔ اس اہم کام کے لئے مولوی صاحب جارہے ہیں<۔۴۱
ایک احمدی خاتون کی بے نظیر بہادری
فروری ۱۹۳۶ء کا واقعہ ہے کہ ایک احمدی بھائی بشیر احمد صاحب لدھیانوی سینٹری انسپکٹر لیہ ضلع مظفر گڑھ کی عدم موجودگی میں دو مسلح ڈاکوئوں نے رات کے وقت ان کے مکان میں گھس کر مال و اسباب لوٹنا چاہا۔ اور تلوار دکھا کر ان کی اہلیہ صاحبہ اور ان کے بچوں کو قتل کی دھمکی دی۔ مگر ان کی اہلیہ صاحبہ نے نہایت بہادری سے ڈاکوئوں کا مقابلہ کیا اور ان کی سازش ناکام بنادی۔۴۲
بھائی بشیر احمد صاحب کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں جب اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تو حضور نے اس پر اپنے قلم سے تحریر فرمایا۔ >گو یہ خطرہ تھا۔ مگر آپ کی اہلیہ نے جس بہادری سے اور عقلمندی سے کام کیا ہے۔ وہ اس واقعہ کو ایک مبارک واقعہ بنا دیتا ہے۔ میری طرف سے بھی انہیں مبارک باد دے دیں<۔۴۳
تیسرا باب )فصل پنجم(
جائز اور پرامن ذرائع سے صحیح اسلامی حکومت کے قیام کا ارشاد مبارک
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ شروع خلافت سے اس جہاد میں پوری قوت سے سرگرم عمل تھے کہ جن معاملات میں حکومت وقت اجازت دیتی ہے
ان میں اسلامی تعلیم اور اسلامی نظام جاری کیا جائے۔ اس سلسلہ میں غیروں کی نگاہ میں کئی دفعہ بدنام کئے گئے اور آپ کے خلاف یہ جھوٹا پراپیگنڈا کیا گیا کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مگر حضور نے اس طعنے کی ذرہ بھی پروا نہ کی اور برابر اپنے کام میں مصروف رہے۔ یہ امر چونکہ جماعت احمدیہ کے بنیادی اغراض و مقاصد میں شامل تھا۔ اس لئے حضور نے ۱۳۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو خاص اسی موضوع پر نہایت پرجوش خطبہ ارشاد فرمایا جس میں واضح اعلان فرمایا کہ۔ >ہم کھلے طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا پر قائم کرکے رہیں گے )انشاء اللہ تعالیٰ( ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ تلوار اور فتنہ و فساد کے زور سے ہم اسلامی حکومت قائم نہیں کریں گے بلکہ دلوں کو فتح کرکے اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ کیا کوئی خیال کرسکتا ہے کہ اگر آج میرے بس میں یہ ہو کہ میں انگلستان کے تمام لوگوں کو مسلمان بنا دوں` وہاں کے وزراء کو اسلام میں داخل کردوں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو میں مسلمان بناکر وہاں اسلامی حکومت قائم کردوں۔ تو میں اپنے اس اختیار سے کام لینے سے انکار کروں گا۔ میں تو ایک منٹ کی دیر بھی نہیں لگائوں گا۔ اور کوشش کروں گا کہ فوراً ان لوگوں کو مسلمان بنا کر انگلستان میں اسلامی حکومت قائم کردوں۔ لیکن چونکہ یہ میرے بس کی بات نہیں اس لئے میں نہیں کرسکتا۔ ورنہ میں اس بات سے انکار تو نہیں کرتا کہ میرے دل میں یہ خیال ہے اور یقیناً میرے دل کی خواہش ہے کہ ہمارے بادشاہ بھی مسلمان ہو جائیں۔ وزراء بھی مسلمان ہو جائیں۔ پارلیمنٹ کے ممبر بھی مسلمان ہو جائیں اور برطانیہ کے تمام باشندے بھی مسلمان ہو جائیں۔ اس میں اگر دیر ہے تو اس لئے نہیں کہ میری یہ خواہش نہیں کہ وہ مسلمان ہوں۔ بلکہ اس لئے دیر ہے کہ ان کو مسلمان کرنا میرے اختیار میں نہیں۔ اور اس وجہ سے وہاں اسلامی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے میرے دل میں تو اتنی برداشت خواہش ہے کہ اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگاسکتا۔ اور اپنی اس خواہش کا میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اور اگر میں انکار کروں اور میرے دل میں اسلامی حکومت کے قائم کرنے کی خواہش نہ ہو تو اسلام کے احکام کے وہ حصے پورے کس طرح ہوسکتے ہیں جن کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی شخص پسند کرے گا کہ اس کا گھر ادھورا رہے؟ اگر کوئی شخص اپنے مکان کے متعلق یہ پسند نہیں کرسکتا کہ وہ ادھورا رہے تو خداتعالیٰ کے گھر کے متعلق وہ یہ امر کب پسند کرے گا۔ اس میں کیا شک ہے کہ جب تک تمام دنیا مسلمان نہیں ہوتی اور خود حکومت اسلامی حکومت نہیں ہو جاتی۔ اس وقت تک اسلام کی عمارت کانی رہتی ہے۔ اور اپنی عمارت کا کانا ہونا کون پسند کرسکتا ہے؟ جب ہر شخص اپنی عمارت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہے تو کب کوئی عقلمند ہم سے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ہم اسلام کی عمارت کو کانا رکھنا پسند کریں گے۔ اگر انگریز عیسائی ہی رہیں۔ یہودی یہودی ہی رہیں۔ ہندو ہندو ہی رہیں۔ تو اسلامی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہوسکتی۔ ہاں اس کے قائم کرنے کا ایک طریق ہے اور اس طریق کے ذریعہ ہی دنیا میں ہمیشہ کام ہوا کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کانا ہو۔ اور وہ کسی دوسرے سوجاکھے کی آنکھ نکال کر اپنے کانے پن کو دور کرنا چاہے تو سارے لوگ اسے بیوقوف ہی سمجھیں گے۔ کیونکہ دوسرے کی آنکھ نکال کر اس کا کانا پن دور نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی بے وقوف یہ سمجھے کہ چند انگریزوں کو مار کر یا فتنہ و فساد پیدا کرکے وہ اسلامی حکومت قائم کرسکے گا۔ تو وہ حماقت کا ارتکاب کرتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس یہ طریق بالکل نادرست ہے اور میں ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا ہوں۔ لیکن جائز اور پرامن طریق سے اسلامی حکومت قائم کرنا ہماری دلی خواہش ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ آگ ہونی چاہئے کہ ہم موجودہ طرز حکومت کی بجائے حکومت اسلامی قائم کریں۔ یہ طبعی خواہش ہے اور میرے دل میں ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اور میں نے اس خواہش سے کبھی انکار نہیں کیا۔ ہاں میرے اور عام لوگوں کے ذرائع میں اختلاف ہے۔ میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے تبلیغی اور پرامن ذرائع اختیار کرتا ہوں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اس کے قائم کرنے کا طریق مار پیٹ اور جبروتشدد ہے۔ بہرحال یہ خواہش تو جب پوری ہوگی ہوگی اور یقیناً ایک دن پوری ہوگی۔ دنیا کی مخالفتیں اور دشمنوں کی روکیں مل کر بھی اس میں حائل نہیں ہوسکتیں<۔۴۴
مسجد محلہ ریتی چھلہ قادیان کا افتتاح
قادیان کے محلہ ریتی چھلہ )دارالفتوح( کی مسجد جس کی تعمیر ۱۹۳۵ء میں حکام کی جنبہ داری کے باعث رکی ہوئی تھی۔ اس سال )حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب کی زیر نگرانی( پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو اس میں نماز عصر پڑھا کر مسجد کا افتتاح فرمایا۔۴۵
قادیان میں اجتماعی وقار عمل کے بابرکت سلسلہ کا آغاز
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے تحریک جدید کا اعلان کرتے ہوئے سولہواں مطالبہ یہ فرمایا تھا کہ احمدی اپنے ہاتھ سے کام کریں اور سب سے پہلے اہل قادیان پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ محلوں اور گلیوں کو درست کرکے ثواب حاصل کریں۔
اس عظیم الشان مقصد کے پیش نظر قادیان میں اجتماعی وقار عمل کے اہم سلسلہ کا آغاز ہوا جو تقسیم ہند تک جاری رہا۔ اس ضمن میں سب سے پہلا اجتماعی وقار عمل جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بنفس نفیس شمولیت فرمائی ۲۸۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو )بوقت پانچ بجے شام( احمدیہ سپلائی کمپنی اور سٹار ہوزری کے اس قریبی رستہ پر منایا گیا جو پرانے اڈہ کو جاتا ہے اور جس کے قرب و جوار میں زیادہ آبادی ہندوئوں اور غیر احمدیوں کی تھی اور جہاں ایک کافی گہرا اور خاصہ لمبا چوڑا گڑھا تھا۔ جس میں قریباً سارا سال پانی بھرا رہتا تھا۔ اور فضاء سخت متعفن ہو جاتی تھی۔ حضرت امیرالمومنینؓ آخر وقت تک ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک گشت کرکے نہ صرف زیادہ سرگرمی اور زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرنے کی ہدایات دیتے رہے بلکہ حضور نے متعدد بار خود کدال لیکر مٹی کھودی۔ ٹوکریوں میں بھری اور پھر مٹی کی بھری ہوئی ٹوکری کافی فاصلہ سے اٹھا کر گڑھے میں ڈالی۔ اگرچہ کام کے لئے وقت بہت تھوڑا اور سامان ناکافی تھا۔ لیکن حضور کی موجودگی اور پھر کام میں خدام کے ساتھ شمولیت نے بڑوں ہی میں نہیں چھوٹے بچوں میں بھی خاص ہمت اور جوش پیدا کردیا۔ اور وہ اپنی جھولیوں میں مٹی ڈال کر لئے جاتے رہے۔ مٹی ڈھونے کا طریق یہ تھا کہ کام کرنے والوں کو گڑھے سے لیکر جوہڑ تک تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر دو قطاروں میں کھڑا کیا گیا۔ ایک قطار بھری ہوئی ٹوکریاں ہاتھوں ہاتھ گڑھے تک پہنچاتی اور دوسری قطار خالی ٹوکریاں اسی طرح واپس پھیر دیتی جنہیں فوراً بھر کر پھر روانہ کر دیا جاتا۔۴۶
اس پہلے وقار عمل کے بعد جس نے عہد صحابہ کی سادہ زندگی اور سادہ معاشرت کی یاد تازہ کردی۔ اس اجتماعی مظاہرہ کا ایک سلسلہ جاری کردیا گیا۔ جو تقسیم ہند ۱۹۴۷ء تک پوری شان سے چلتا رہا۔ ابتداء میں یہ کام صدر انجمن احمدیہ کی لوکل انجمن کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ مگر بعد کو اسے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر انتظام کر دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ جوش و خروش اور دلچسپی پیدا ہوگئی اور کام میں نظم و ضبط اور باقاعدگی کا ایک خاص رنگ پیدا ہوگیا اور قادیان کی متعدد سڑکیں درست طور پر بن گئیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا ایک ولولہ انگیز ارشاد
حضرت امیرالمومنینؓ نے مجلس مشاورت اجلاس اول )منعقدہ ۱۰`۱۱`۱۲۔ اپریل ۱۹۳۶ء( میں جماعت کو صنعت و حرفت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ ولولہ انگیز بیان دیا کہ >میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہوں۔ میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کہ کاش یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہو۔ اور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں۔ اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں۔ کاش یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں۔ میں پچھلے دنوں کراچی گیا۔ تو اپنے دوستوں سے کہا۔ کاش کوئی دوست جہاز نہیں تو کشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے۔ اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اس میں بیٹھ کر کہہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے۔ دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا۔ کاش کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتداء چھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے۔ یہ ہیں میرے ارادے۔ اور یہ ہیں میری تمنائیں۔ ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں مگر یہ کام ترقی نہیں کرسکتا جب تک ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اس کے لئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے۔ دنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کرچکی ہے۔ اس لئے احمدی جو اشیاء اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی۔ مگر باوجود اس کے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خریدے<۔۴۷4] [rtf
مبلغین کو نہایت اہم نصائح
اس سال حضور نے مبلغین احمدیت کو مختلف مواقع پر نصائح فرمائیں۔ چنانچہ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میں ارشاد فرمایا کہ۔
>مبلغ ایسے ہونے چاہئیں جن میں دین کی روح دوسروں کی نسبت زیادہ قوی اور طاقتور ہو۔ اور وہ دین کے لئے ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار ہوں۔ وہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لٹو کی طرح چکر لگائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں وہ تیز طرار مبلغ نہیں چاہئیں جو خم ٹھونک کر میدان مباحثہ میں نکل آئیں اور کہیں کہ آئو ہم سے مقابلہ کرلو۔ ایسے مبلغ آریوں اور عیسائیوں کو ہی مبارک ہوں۔ ہمیں تو وہ چاہئیں جن کی نظریں نیچی ہوں۔ جو شرم و حیاء کے پتلے ہوں۔ جو اپنے دل میں خوف خدا رکھتے ہوں لوگ جنہیں دیکھ کر کہیں یہ کیا جواب دے سکیں گے۔ ہمیں ان مبلغوں کی ضرورت نہیں جو مباحثوں میں جیت جائیں۔ بلکہ ان خادمان دین کی ضرورت ہے جو سجدوں میں جیت کر آئیں۔ اگر وہ مباحثوں میں ہار جائیں تو سو دفعہ ہار جائیں۔ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے کہ زبانیں چٹخارہ لیں مگر ہمارے حصہ میں کچھ نہ آئے۔ سر جنبش کریں اور ہم محروم رہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اس میں بیرونی جماعتوں کا بھی قصور ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ فلاں مبلغ کو بھیجا جائے۔ فلاں کا آنا کافی نہیں۔ کیونکہ وہ چٹخارہ دار زبان میں بات نہیں کرسکتا۔ یہ صحیح ہے۔ مگر لیڈر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو پیچھے چلائے۔ نہ کہ لوگ جدھر چاہیں اسے لے جائیں۔ جو شخص تقوی و طہارت پیدا کرتا ہے۔ جو قلوب کی اصلاح کرتا ہے وہی حقیقی مبلغ ہے جو یہ سمجھے کہ میں نوکر ہوں اور جو وہاں جائے جہاں اسے حکم دیا جائے۔ ایسے مبلغ کو ہم نے کیا کرنا ہے۔ جسے اگر کہیں اس سے اچھی نوکری مل گئی تو وہاں چلا جائے گا۔ ہمیں وہ مبلغ چاہئیں جو اپنے آپ کو ملازم نہ سمجھیں بلکہ خداتعالیٰ کے لئے کام کریں اور اسی سے اجر کے متمنی ہوں۔ جو ایسا نہیں کرتا۔ وہ ہمارا مبلغ نہیں۔ بلکہ ہمارے دشمن کا مبلغ ہے۔ وہ شیطان کا مبلغ ہے کیونکہ اس کو تقویت دے رہا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کون سے مبلغ رکھے ہوئے تھے۔ یہ تو گندگی اور نجاست ہے جسے زمانہ کی اس مجبوری کی وجہ سے کہ آریوں اور عیسائیوں نے اس قسم کے لوگ رکھے ہوئے ہیں۔ جن کا مقصد اسلام کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان کے مقابلہ کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جس وقت کوئی شخص پاخانہ میں جاکر بیٹھتا ہے تو وہ اس کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ وہ تو مجبوری کا وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح تبلیغ کے لئے ایسا انتظام تو ایک مصیبت ہے اور ایک مجبوری ہے۔ پس مبلغوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ گزارہ لینے میں عیب نہیں مگر گزارہ کے لئے کام کرنا عیب ہے۔ مبلغ وہ ہے کہ اسے کچھ ملے یا نہ ملے۔ اس کا فرض ہے کہ تبلیغ کا کام کرے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانے مبلغ مثلاً مولوی غلام رسول صاحب وزیرآبادی۔ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری۔ انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا۔ جبکہ ان کی کوئی مدد نہ کی جاتی تھی اور اس کام کی وجہ سے ان کی کوئی آمد نہ تھی۔ اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کرکے بتا دیا کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضہ کے کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر ان کی آخری عمر میں گزارے دیئے جائیں تو اس سے ان کی خدمات حقیر نہیں ہوجاتیں۔ بلکہ گزارہ کو ان کے مقابلہ میں حقیر سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ جس قدر انکی امداد کرنی چاہئے۔ اتنی ہم نہیں کررہے۔ ۔۔۔۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر مبلغ اپنے آپکو خلیفہ سمجھتا ہے۔ اور خیال کرتا ہے کہ یہ اس کا حق ہے۔ جو اس کے جی میں آئے سنائے اور جو نہ چاہے نہ سنائے حالانکہ وہ بانسری ہے۔ جس کا کام یہ ہے کہ جو آواز اس میں ڈالی جائے اسے باہر پہنچائے۔ اگر مبلغ یہ سمجھتے کہ وہ ہتھیار ہیں میرا۔ نہ کہ دماغ ہیں جماعت کا۔ تو وہ میرے خطبات لیتے اور جماعت میں ان کے مطابق تبلیغ کرتے۔ اور اس طرح اس وقت تک عظیم الشان تغیر پیدا ہوچکا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ مبلغین کا کام یہ ہے کہ خلافت کی ہر آواز کو خود سنیں اور سمجھیں۔ پھر ہر جگہ اسے پہنچائیں<۔۴۸
تیسرا باب )فصل ششم(
دارالتبلیغ البانیہ و یوگوسلاویہ
البانیہ یورپ کا ایک آزاد ملک ہے جس کے اکثر باشندے حنفی مسلمان ہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس ریاست میں اشاعت احمدیت کے لئے مولوی محمد الدین صاحب کو ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۶ء کو قادیان سے روانہ فرمایا۔۴۹
مولوی صاحب موصوف جماعتی پروگرام کے مطابق مختلف ممالک میں ٹھہرتے ہوئے دو ماہ کے لمبے سفر کے بعد البانیہ کے دارالسلطنت ٹیرانیہ میں پہنچے۔
البانیہ میں آپ کو تین ماہ تک قیام کرنے کا موقعہ ملا۔ اس عرصہ میں آپ نے احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام یہاں پہلے ہی اخباروں` رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ پہنچ چکا تھا لیکن لوگ پوری حقیقت سے اچھی طرح آگاہ نہ تھے۔ جن لوگوں کو احمدیہ لٹریچر کے مطالعہ کا موقعہ ملا۔ ان میں سے ایک البانوی خاندان مولوی صاحب کے ذریعہ سے حلقہ بگوش احمدیت ہوگیا۔ اس طرح البانیہ میں احمدیت کی داغ بیل پڑگئی۔ نیز احمدیت کے کئی مداح پیدا ہوگئے۔۵۰
آپ کو تین ماہ کے بعد مقامی ملائوں کی شرارت کے باعث مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا۔۵۱ آپ مرکزی ہدایت پر بلگراد )یوگوسلاویہ( تشریف لے گئے تا وہاں سے البانیہ کے سرحدی ملحقہ علاقوں پر اثر و نفوذ ڈال سکیں۔ چنانچہ آپ نے یہاں آکر پیغام حق پہنچانا شروع کردیا۔ جولائی ۱۹۳۷ء میں آپ علاقہ >کوسوا< میں گئے جو البانیہ کے ساتھ ملتا ہے مگر یوگوسلاویہ کے ماتحت تھا۔ اس سفر میں بوڈاپسٹ کے مخلص احمدی شریف دتسا صاحب بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے سب سے پہلے ان کے گائوں >متروویسلا< میں قیام کرکے تبلیغ کی۔۵۲]ydob [tag یوگوسلاویہ میں خدا کے فضل و کرم سے تیس نفوس۵۳ نے احمدیت قبول کی۔۵۴
یہ سلسلہ اشاعت حق جاری تھا کہ آپ کو یوگوسلاویہ سے بھی نکلنا پڑا۔ اور آپ ۵۔ جون ۱۹۳۸ء کو بلغاریہ میں آگئے اور صوفیہ میں ایک ماہ تک احمدیت کی منادی کرتے رہے۔ بعد ازاں اٹلی کے صدر مقام روما میں پہنچے۔۵۵ اسی دوران میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور آپ کو اٹلی سے مصر میں آنا پڑا۔ جہاں کچھ عرصہ اعلائے کلمتہ اللہ کا فریضہ بجا لانے کے بعد ۱۴۔ مارچ ۱۹۴۱ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے۔۵۶
مولوی محمد الدین صاحب کے مزید تبلیغی حالات اور دردناک شہادت کا واقعہ
مولوی محمد الدین صاحبؓ کے برادر اکبر ملک محمد مستقیم صاحب بی اے` ایل ایل بی ایڈووکیٹ ساہیوال رقمطراز ہیں کہ۔
>مولوی محمد الدین صاحب ابن ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب اس پہلی صف کے مجاہدین میں سے تھے۔ جنہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ۱۹۳۵ء کی آواز پر لبیک کہا اور تین سال کے لئے غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے پیش کیا۔ شرط حضور کی یہ تھی کہ مجاہدین خود غیر ممالک میں اخراجات کے کفیل ہوں گے۔
مولوی محمد الدین صاحب کے لئے ملک البانیہ تجویز کیا گیا۔ جس کا فرمانروا اس وقت ایک نوجوان احمد زوغو تھا۔ اس کی تربیت مغربی طرز پر ہوئی تھی۔ اس لئے اس کے خیالات کچھ آزاد تھے اور مذہبی واقفیت کم تھی۔ لوگ سرحدی علاقہ کے پٹھانوں کی مانند تھے۔ اور تمام ملک پہاڑی ہے۔ کچھ حصہ میدانی ہے۔ اس لئے باوجود مسلمانوں کے جفاکش ہونے کے علم دین کی طرف توجہ نہیں تھی۔ یورپین ملک ہونے کے لحاظ سے بھی ذرائع سفر۔ سڑک و سواری کالعدم تھے۔
۱۹۳۶ء میں مولوی صاحبؓ سلسلہ کی کتب کا ایک بکس جو ہر مجاہد کے سپرد کی جاتا تھا۔ تاکہ ہر ملک میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر پہنچ کر محفوظ ہو جائے لیکر البانیہ کے دارالخلافہ ٹیرانہ میں پہنچے۔ اور ایک مقامی ہوٹل TIRANA میں قیام کیا۔ حالات کا جائزہ لیا۔ اور رفتہ رفتہ تبلیغی مہمات پر جانا شروع کیا۔
جب مولوی صاحب نے مساجد و ملاقات میں سلسلہ گفتگو شروع کیا اور مباحثات اور مناظرات کے پہلو سے گریز کیا۔ تو اولین سوال کہ >اب اسلام کی زندگی کے لئے تبلیغ اسلام ضروری ہے< پر لوگوں نے بزور شمشیر فتح اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ مولوی صاحب نے شمشیر قلم اور قرآن پر زور دیا۔ جو ان کی جنگجو طبیعت کے مناسب نہ تھا۔ اختلاف پیدا ہوا۔ اور بعض نے پولیس میں جاکر رپورٹ کر دی کہ نووارد مسلمان تو ضرور ہے۔ لیکن جہاد سیف کا قائل نہیں۔ اور لوگوں میں اس کے خلاف خیالات کا اظہار کرتا ہے۔
اچانک ایک روز پولیس نے مولوی صاحب کو ہمراہ لیکر طویل گفتگو کی اور نقل و حرکت پر پابندی لگادی اور کہا کہ افسران بالا کے احکام کا انتظار کریں۔ چند دنوں بعد پولیس نے مولوی صاحب کو البانیہ سے یوگوسلاویہ کی سرحد میں داخل کردیا۔ مولوی صاحب کچھ کتابیں اور کپڑے لے جاسکے۔
اب مولوی صاحب نے یوگوسلاویہ کے دارالخلافہ بیلگراڈ کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر حضرت صاحبؓ کی خدمت میں اطلاع بھجوائی اور عزیز و اقارب کو بھی خطوط لکھے۔ مرکز سے ہدایت بھجوائی گئی کہ آپ اب سرحد کے قریب یعنی البانیہ اور یوگوسلاویہ کے خط فاضل کے علاقہ میں تبلیغ کی کوشش کریں۔ یہاں مولوی صاحب کا قیام قدرے لمبا ہوا۔ بیلگراڈ کے خطوط امید افزا ہوتے اور یقین سے پر۔ کہ احمدیت کا ایک دن جھنڈا اس ملک میں ضرور لہرائے گا۔ یہ علاقہ مدتوں تک مسلمان حکمرانوں کے زیر اثر رہا ہے اور مسلمانوں کی آبادی بھی کافی ہے۔ مساجد بھی ہیں۔ اس پرامن ماحول سے فائدہ اٹھا کر مولوی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح اور پیغام صلح کا ترجمہ شائع کرکے برسر بازار فروخت کے لئے پیش کیا۔ قیمت کچھ مقرر نہ کی۔ جو لینے والا چاہے ادا کرے اور بیشک مفت لے جائے۔ مگر کسی نے ایک بھی نسخہ بلا قیمت نہ اٹھایا۔ اور اس قدر رقم وصول ہوئی کہ مولوی صاحب نے ایک احمدی دوست جن کا نام شریف وتسا تھا` کے مشورہ سے ایک نیک نام شخص کے ساتھ چائے کی دوکان میں شرکت کرلی۔ جس سے یہ فائدہ ہوا کہ مولوی صاحب اپنے ملاقاتیوں کو اکثر یہاں ملتے` اور چائے سے خاطر تواضع کرتے اور تبلیغ بھی کرتے۔ شریف وتسا صاحب بیلگراڈ میونسپل کمیٹی کے ممبر تھے اور ان کا چھوٹا بھائی فوج میں لفٹیننٹ تھا۔ یہ پہلا احمدی مخلص خاندان تھا جس کی مولوی صاحب کو صحبت و رفاقت حاصل ہوئی۔ اب مولوی صاحب نے دورے شروع کردئے۔ مرکز سے دس دس دن باہر گزارتے۔ مساجد میں شب باش ہوتے۔ کم کھاتے اور عبادت و ریاضت میں اکثر وقت صرف ہوتا۔ چنانچہ ایک مرگی والے مریض کو شہد دینے سے بہت حد تک شفا ہوئی جس سے مولوی صاحب کی شہرت ہونے لگی۔ اور لوگ مولوی صاحب سے دم کرانے آتے۔ یہ لوگ بھی بڑے توہم پرست ہیں۔ تعویذ۔ گنڈا۔ دھاگا۔ دم۔ جادو۔ وغیرہ کے قائل ہیں۔ ماہ رمضان میں پورا ماہ مسجد میں اعتکاف کی وجہ سے لوگوں سے واقفیت کا میدان پھیل گیا۔ اور لوگ توجہ سے وعظ سنتے اور اسلام کی ترقی کی خوشخبری پر انکے چہرے دمک اٹھتے۔
حالات نے یکدم یوں پلٹا کھایا کہ البانیہ کی پولیس کے کاغذ بیلگراڈ پولیس کے پاس پہنچ گئے۔ مولوی صاحب اس وقت مرکز سے باہر تھے۔ پولیس کو شبہ کی تقویت کی گنجائش نکل آئی اور انہوں نے بار بار چکر لگانے شروع کئے اور جب مولوی صاحب کو یوگوسلاویہ کی پولیس نے ملک سے ۲۴ گھنٹے کے اندر نکلنے کا نوٹس دیا تو دوستوں کو بہت افسوس ہوا۔ شریف وتسا صاحب اور ان کا بھائی اس سیاسی معاملہ میں کچھ مدد نہ کرسکتے تھے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے ان کو الگ رہنے کی ہدایت کی اور صرف یہ کہا کہ اگر آپ میرے شریک کار سے میری رقم نکلوا دیں تو سفر کی آسانی رہے گی۔ ہوا یہ کہ وہ شخص پولیس کی آمد دیکھ کر سب کچھ فروخت کرکے دوکان بند کرکے بھاگ گیا۔ وقت ختم ہورہا تھا۔ مولوی صاحب نے بازار میں کھڑے ہوکر سوائے ایک اوور کوٹ COAT OVER کے سب اشیاء مملوکہ فروخت کردیں اور اپنی جائے رہائش پر آگئے۔ ۲۴ گھنٹے گزر گئے۔ پولیس نے مولوی صاحب کو ہمراہ لیکر یونان کی سرحد میں داخل کر دیا اور واپس آگئی۔ اس طرح مولوی صاحب بلاکسی خرچ کے یونان میں منتقل کر دئے گئے۔
اس وقت ایک جہاز اٹلی جانے کے لئے بندرگاہ میں لنگرانداز تھا۔ یہاں سے مولوی صاحب جہاز کے عملہ والوں سے گفت و شنید کے ذریعہ کم کرایہ پر ٹکٹ خریدا اور اٹلی چلے گئے۔ وہاں احمدیت کے مبلغ ملک محمد شریف صاحب پہلے سے مقیم تھے۔ ان سے ملاقات ہوگئی اور سابقہ کوفت دور ہوئی اور نئی سرگزشت کا آغاز ہوا۔ ان تمام حالات سے قادیان میں حضرت صاحب کو باخبر کیا۔
اس اثناء میں شریف وتسا صاحب کا روم میں مولوی صاحب کو خط ملا۔ کہ وہ سیر کے لئے آرہے ہیں۔ جب وہ آئے تو ایک معقول رقم ہمراہ لائے جو انہوں نے مولوی صاحب کے شریک کار سے وصول کی تھی۔ مولوی صاحب نے مجھے لکھا کہ رقم اس قدر تھی کہ مجھ پر حج فرض ہوگیا۔ اور میں نے عزم بیت اللہ کرلیا۔ اس سال حکومت اٹلی نے ایک جہاز میں حاجیوں کے لئے یہ سہولت بہم پہنچائی کہ انہیں ارض حجاز میں بلا کرایہ پہنچایا جائے گا۔ اس طرح زیارت مکہ مکرمہ کا بندوبست ہوگیا۔ اور مولوی صاحب حج سے تین ماہ قبل حجاز میں وارد ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں ایک معمولی مکان کرایہ پر لیکر بیت اللہ کے فیوض سے اپنے دامن و گریبان کو بھرنا شروع کردیا۔ ماہ رمضان کا سارا وقت اور اعتکاف مسجد حرام میں گوشہ نشین رہے۔ ایام حج میں جلالتہ الملک شاہ سعود کے ہندوستانی ملاقاتیوں کے ترجمان کے فرائض ادا کئے اور شاہ ممدوح نے ایک جبہ عطاء کیا۔ جو مولوی صاحب اکثر وہاں پہنتے اور اس کی تصویر مجھے روانہ کی۔
حج کے بعد مولوی صاحب نے اپنے واقفوں` شناسائوں اور ملنے والوں سے گفتگو شروع کی۔ وعظ و نصیحت ہوتی رہی۔ ایک روز کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی کہ ہندی اور عرب لوگ اکثر اس ہندی مولوی کے پاس آتے ہیں۔ یہ انگریزوں کا جاسوس معلوم ہوتا ہے۔ پھر کیا تھا۔ پولیس نے فوراً مولوی صاحب کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ یہ جیل حیوانوں کے لئے بھی موزوں نہ تھی چہ جائیکہ اس میں انسانوں کی بسر اوقات ہوتی تھی۔ کھانا کم اور ردی ملتا تھا۔ اور وہ بھی بے قاعدہ۔ جیل کے قیدیوں کو کوڑے بھی ننگے بدن پر مارے جاتے تھے۔ اور لوگوں کے چلانے کی آواز جیل کے کونوں تک سنائی دیتی تھی۔ مولوی صاحب نے لکھا اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف سے اس مار آور برہنگی سے محفوظ رکھا۔ ایک ہفتہ کے بعد ہندوستانی وائس قونصل سید لال شاہ صاحب مقیم جدہ کی طرف سے کوشش پر رہائی حاصل ہوئی اور مولوی صاحب واپس قادیان تشریف لائے۔ بڑے مطمئن تھے اور کبھی شکوہ روزگار نہ کیا۔ اور دوبارہ باہر جانے کے لئے اپنے تئیں پیش کیا۔ قادیان آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی اور ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا نام جمال الدین رکھا۔۵۷body] g[ta
۱۸۔ نومبر۵۸ ۱۹۴۲ء کو مولوی صاحب نے دوبارہ بحری سفر اختیار کیا۔ انہیں سلسلہ کی طرف سے ڈربن )جنوبی افریقہ( میں بھیجا گیا تھا۔ یہ اٹالین جہاز >ٹلاوا< بمبئی کی بندرگاہ سے ۱۸۔ نومبر ۱۹۴۲ء کو روانہ ہوا۔ اس زمانہ میں جرمن آبدوزیں بحرہند اور بحر روم میں بکثرت گشت کررہی تھیں۔ آنے جانے والے جہازوں پر حملہ کرتی تھیں۔ جہاز خواہ مسافروں کا ہو۔ یا مال سے لدا ہو۔ بلاتمیز جو ان کی زد میں آتا تھا۔ تار پیڈو سے تباہ کر دیا جاتا تھا۔ انگریزوں کا اسقدر نقصان ہوا تھا کہ انہوں نے امریکہ کو امداد کے لئے پکارا اور جنگی امداد کے ذریعہ جنگ کو جاری رکھا۔
تین روز کے سفر کی ایک رات اچانک جرمن آبدوز سطح پر نمودار ہوئی اور تار پیڈو اس جہاز پر مارا۔ جس سے جہاز وسط سے دوہرا ہوگیا۔ اور پھر غرق ہوگیا۔ بہت تھوڑے مسافر بچائے جاسکے لیکن مولوی صاحب کا کچھ پتہ نہ چلا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
حضرت امام جماعت احمدیہ کا پیغام مذہبی کانفرنس لکھنو کیلئے
وسط ۱۹۳۶ء میں لکھنئو کے مقام پر ایک مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے قلم مبارک سے ایک مختصر مگر جامع پیغام بھجوایا۔ جس میں بتایا کہ اسلام خدا تعالیٰ کا مذہب ہے۔ اور اس میں سب قوموں کی بہتری کا سامان ہے۔۶۰
احمدیوں کو ہندوستان سے نکالنے کا منصوبہ
مسجد شہید گنج کے معاملہ میں اسلامی مفاد کو پامال کرنے کے بعد احرار مسلمانان ہند کی نظروں میں گرچکے تھے اور ساتھ ہی احمدیت کو مٹانے کا وہ سارا طلسم جو ان لوگوں نے جمہور مسلمانوں پر کر رکھا تھا۔ دھواں بن کر اڑ چکا تھا۔ اس ناکامی سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے احراری اصحاب احمدیت کی مخالفت میں اور زیادہ تیز ہوگئے۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب )صدر مجلس احرار( نے ۱۵۔ جون ۱۹۳۶ء کو لاہور کے ایک پبلک جلسہ میں )جو اندرون موچی دروازہ چوک نواب صاحب میں منعقد ہوا( یہاں تک کہہ ڈالا کہ۔
>مسلمانو! مسجد شہید گنج کا خیال چھوڑ دو۔ وہ تمہیں موجودہ حالات میں نہیں مل سکتی۔ ہمارے رسول ۱۳ سال تک مکہ میں رہے اور اپنی آنکھوں سے خانہ خدا کی بے حرمتی دیکھا کئے لیکن آپ نے کبھی کافروں سے یہ نہ کہا کہ مجھے اس میں نماز پڑھنے دو۔ یا اس کو بتوں سے پاک کردو۔ کیونکہ آپ سیاست سمجھتے تھے۔ تم میں اس وقت طاقت نہیں کہ بزور حاصل کرسکو۔ اس لئے انتظار کرو کہ وہ وقت آجائے
‏tav.8.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا تئیسواں سال
آجائے جب تم طاقتور ہو جائو گے اور حکومت حاصل کرلو گے۔ تو ایک شہید گنج کیا ہزاروں شہید گنج تمہارے قبضے میں آجائیں گے۔ مرزائیوں کو ہندوستان سے نکال دو۔ پھر دیکھو ملک میں کیسا امن ہوتا ہے<۔۶۱
اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا کیا سازشیں کی گئیں؟ ان کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں۔
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی ولایت سے تشریف آوری اور مراجعت
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب جو ۶۔ ستمبر ۱۹۳۴ء کو ولایت تشریف لے گئے تھے۔ اس سال لنڈن سے روانہ ہوکر ۲۔ جولائی ۱۹۳۶ء
کو بمبئی اور ۴۔ جولائی ۱۹۳۶ء کو قادیان میں تشریف لائے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس روز صبح سویرے ہی بذریعہ موٹر امرتسر تشریف لے گئے۔ اور امرتسر اسٹیشن پر آپ کا استقبال کیا۔ اور اسی گاڑی سے قادیان پہنچے۔ جہاں مقامی جماعت کی طرف سے پرخلوص استقبال کیا گیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو ہار پہنائے گئے۔۶۲
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ الاحد( ڈھائی ماہ قادیان میں قیام پذیر رہنے کے بعد ۱۷۔ ستمبر ۱۹۳۶ء کو دوبارہ ولایت روانہ ہوگئے۔۶۳
میاں سر فضل حسین صاحب کی المناک وفات
ایک ایسے وقت میں جبکہ مسلمانان پنجاب نہایت ہی نازک مرحلوں میں سے گزر رہے تھے اور ہندوستان میں نیا سیاسی دور شروع ہونے والا تھا۔ ملک سر میاں فضل حسین صاحب ایسے مخلص اور مدمغ سیاسی لیڈر سے محروم ہوگیا۔ میاں صاحب موصوف عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے۔ مگر انہوں نے مسلمانان پنجاب کو منظم کرنے اور دیگر اقوام کا تعاون حاصل کرنے میں اپنی صحت کی کوئی پروا نہ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آخر ۹۔ جولائی ۱۹۳۶ء کی رات کے ساڑھے دس بجے ہندوستان کے اس جلیل القدر مسلم مدبر اور سیاستدان کا انتقال ہوگیا۔۶۴
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۱۰۔ جولائی ۱۹۳۶ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے سے قبل مختصر تقریر کی جس میں سر میاں فضل حسین صاحب کی وفات کو الٰہی نشان قرار دیتے ہوئے بتایا کہ۔
>موت تو سر میاں فضل حسین صاحب کی جولائی میں مقدر تھی اور پہلے عہدہ سے علیحدگی کے بعد ان کے لئے بظاہر کوئی چانس اور موقع ایسا نہ تھا جس میں وہ پھر کوئی عزت حاصل کرسکتے۔ مگر ان کے دشمنوں نے چونکہ انہیں >مرزائیت نو از کہہ کہکر ذلیل کرنا چاہا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کی غیرت میں انہیں عزت دی اور عزت دینے کے بعد انہیں وفات دی۔ اس کے لئے خداتعالیٰ نے کتنے ہی غیر معمولی سامان پیدا کئے۔ چنانچہ پنجاب کے وزیرتعلیم سر فیروز خاں نون کے انگلستان جانے کا بظاہر کوئی موقع نہ تھا۔ اور جن کو اندرونی حالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ آخری وقت تک سر فیروز خاں صاحب نون کے ولایت جانے کے متعلق کوئی یقینی اطلاع نہ تھی بعض اور لوگوں کے لئے گورنمنٹ آف انڈیا اور ولایتی گورنمنٹ بھی کوشش کررہی تھی۔ اور اگر سر فیروز خان پنجاب میں ہی رہتے تو اب سر فضل حسین صاحب بغیر کسی عہدہ کے حاصل کرنے کے دنیا سے رخصت ہو جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بتانا چاہتا تھا کہ جو شخص احمدیت کی خاطر اپنے اوپر کوئی اعتراض لیتا ہے۔ ہم اسے بھی بغیر عزت دئے فوت نہیں ہونے دیتے۔ پس غیر معمولی حالات میں سر فیروز خاں صاحب نون ولایت گئے اور سر میاں فضل حسین صاحب وزیر تعلیم مقرر ہوگئے۔ اور چند دنوں کے بعد ہی وفات پاگئے۔ ۱۸۔ جون کو وہ پنجاب کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تھے اور ۹۔ جولائی کو فوت ہوگئے۔ گویا صرف تین ہفتے وہ اس عہدہ پر فائز رہے۔ میرے نزدیک یہ بھی خدائی حکمت اور خدائی مکر تھا جو دشمنوں کو یہ بتانے کے لئے اختیار کیا گیا کہ تم تو اس کے دشمن ہو اور چاہتے ہو کہ اسے ذلیل کرو۔ لیکن ہم اس کو بھی ذلیل نہیں ہونے دیں گے جو گو احمدی نہیں مگر احمدیت کی وجہ سے وہ لوگوں کے مطاعن کا ہدف بنا ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں برسر اقتدار کیا اور اس قدر عزت دی کہ ان کی وفات سے چند دن پہلے ہی ایک ہندو اخبار نے اس بات پر مضمون لکھا تھا کہ ہندوستان میں اس وقت کون حکومت کررہا ہے اس نے لکھا کہ گو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ انگریز حکومت کررہے ہیں یا وائسرائے حکومت کررہا ہے یا گورنر حکومت کررہا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ اصل میں تمام ہندوستان پر سر میاں فضل حسین حکومت کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب تھا ان لوگوں کو جو کہتے تھے کہ میاں سر فضل حسین نے چونکہ گورنمنٹ ہند میں ایک احمدی کو وزارت پر مقرر کرایا ہے۔ اور وہ مرزائیت نواز ہیں۔ اس لئے ہم انہیں ذلیل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتا دیا۔ جو شخص احمدیت کی خاطر اپنے نفس پر کوئی تکلیف برداشت کرے گا۔ وہ گو احمدی نہ ہو۔ ہم اسے بھی ذلیل نہیں ہونے دیں گے<۔۶۵
مجلس انصار سلطان القلم کا قیام
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو طالب علمی کے زمانہ ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاکیزہ علم کلام اور مقدس لٹریچر سے گہری شیفتگی اور وابستگی رہی ہے۔ اسی طبعی جوش اور فطری جذبہ کے تحت آپ نے ۱۴۔ ستمبر ۱۹۳۶ء کو مولانا ابوالعطاء صاحب۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد اور بعض دوسرے اہل قلم احمدی دوستوں کو اپنی کوٹھی النصرۃ میں مدعو کیا اور ایک مبارک تجویز پیش کی۔ آپ نے فرمایا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ علم کلام کی بکثرت اشاعت کرنا۔ مغربی فلاسفروں کے اعتراضات کے جواب لکھنا اور مختلف مذاہب کی پوری تحقیق کرنا اور اسلامی اصول کو علمی روشنی میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہمارا اہم ترین فرض ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس بارہ میں تحقیقات پر مبنی اور ٹھوس معلومات پر مشتمل لٹریچر احمدیت کے نقطہ نگاہ سے مہیا کریں اور اس کو اکناف عالم میں پھیلائیں۔
اس مبارک اور قیمتی تجویز پر تمام حاضرین نے لبیک کہا اور اس کی تکمیل کے لئے ایک مجلس >انصار سلطان القلم< کے نام سے قائم کی گئی۔ جس کے صدر مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل اور سیکرٹری شیخ محبوب عالم صاحب خالد بی اے )آنرز( منتخب ہوئے۔
مجلس کے معرض وجود میں آنے کے بعد عام اجلاس میں قرار پایا کہ اس کا ہر ممبر کم از کم ہر ماہ ایک مضمون اخبار الفضل کے لئے لکھے۔ نیز فیصلہ کیا گیا کہ علمی اور دینی سوالات کے مختصر جوابات اخبارات میں بھجوائے جایا کریں۔۶۶ یہ مجلس غالباً ۱۹۳۸ء تک مفید کام کرتی رہی۔ پھر یہ خدام احمدیہ کے شعبہ تعلیم میں مدغم کردی گئی۔۶۷
حضرت امیرالمومنینؓ کی کار پر حملہ
حضرت مرزا شریف احمد صاحب پر حملہ کا زخم ابھی تازہ ہی تھا کہ ۱۷۔ ستمبر ۱۹۳۶ء کو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی کار پر ایک بدقماش نے حملہ کردیا۔ اس المناک حادثہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اپنے لخت جگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اسٹیشن پر الوداع کہہ کر سات بجے شام کے قریب جب بذریعہ موٹر اپنے گھر تشریف لارہے تھے تو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی گلی میں جب موٹر پہنچی تو کسی بد باطن معاند نے ایک پتھر زور سے حضور کی کار پر پھینکا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پتھر موٹر کی چھت پر لگا۔ موٹر فوراً ٹھہرالی گئی۔ اور چند منٹ تک ادھر ادھر حملہ آور کی تلاش کی گئی مگر کوئی دکھائی نہ دیا۔ اس کے بعد حضور موٹر پر ہی سوار ہوکر گھر تشریف لے گئے۔
یہ واقعہ اگرچہ نہایت درجہ اہم اور روح فرسا تھا۔ مگر بطور احتجاج تھانہ میں اس کی کوئی اطلاع نہ دی گئی۔ کیونکہ ان دنوں حکومت پنجاب کے افسروں کی آنکھیں بدلی ہوئی تھیں۔ اور پولیس کے بہرے کانوں پر جماعت کی مسلسل چیخ و پکار کا کوئی اثر نہ تھا۔ اور نہ وہ احرار کی بڑھتی ہوئی شرارتوں اور ان کی انتہائی کمینہ حرکات کا کوئی مناسب تدارک کرتی تھی۔۶۸]ydob [tag
اس واقعہ پر قدرتی طور پر پوری جماعت احمدیہ میں زبردست جوش و خروش پیدا ہوگیا اور مخلصین نے حضور کی خدمت میں متواتر خطوط اور تاروں سے اپنے بے پناہ جذبات عقیدت و فدائیت کا ثبوت دیا۔۶۹
واقعہ کی تفصیلات حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے مقدس الفاظ میں
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۲۵۔ ستمبر ۱۹۳۶ء کے خطبہ جمعہ میں اس واقعہ پر بالتفصیل روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ۔
>جبکہ ہم سٹیشن سے واپس آرہے تھے تو اس گلی میں جو شیخ یعقوب علی صاحب کی گلی کہلاتی ہے ان کے گھر کے قریب جب موٹر گزر رہا تھا تو اس کی چھت پر قریباً اسی جگہ جہاں میں بیٹھا تھا مگر ذرا بائیں طرف بائیں کندھے کے اوپر کے قریب کوئی چیز زور سے گری۔ اس کے اندر اچھی زور کی طاقت تھی کیونکہ موٹر کی چھت پر کپڑا ہوتا ہے۔ اور اس کے اور لکڑی کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ مگر وہ چیز اس زور سے گری کہ کپڑے سمیت چھت سے آلگی۔ اور چھت کانپی اور یوں معلوم ہوا کہ اس میں سے کچھ ذرے بھی گرے ہیں۔ حالانکہ اس کے نیچے بھی کپڑا ہوتا ہے۔ اس کے گرنے پر میں نے ڈرائیور سے کہا۔ وہ موٹر ٹھہرائے۔ تا دیکھا جائے کہ کیا بات ہے۔ مگر چونکہ موٹر کی رفتار تیز ہوتی ہے اور موٹر چلانے والا ارادہ کے باوجود اسے یک دم نہیں روک سکتا۔ اس لئے اسے موٹر کو روکنے میں کچھ دیر لگی۔ تب میں نے دوبارہ اسے کہا کہ موٹر کو جلدی کھڑا کرو۔ چنانچہ اس نے موٹر کو کھڑا کیا۔مگر وہ اندازاً دس پندرہ گز کے فاصلہ پر جاکر کھڑی ہوئی۔ اور جس جگہ وہ ٹھہری وہاں میاں فیروز الدین صاحب پٹواری کا مکان ہے۔ وہ باہر رہتے ہیں مگر ان کا گھر یہیں ہے۔ لیکن وقوعہ اس مکان سے دس یا پندرہ یا بیس گز پرے کا ہونا چاہئے یا اس سے کم و بیش۔ کیونکہ چلتی ہوئی موٹر کے فاصلہ کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ فاصلہ پانچ دس گز سے پندرہ بیس گز تک ہوسکتا ہے۔ موٹر کے ٹھہر جانے پر میں نے اس کے پائدان پر کھڑے ہو کر چھت کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو چیز گری تھی اس کا اس حصہ چھت پر کوئی نشان نہ تھا۔ جس کے متعلق مجھے خیال تھا کہ اس پر کوئی چیز پھینکی گئی ہے۔ البتہ اس کے اگلے حصہ پر جو بالکل قریب زمانہ میں مرمت کرایا گیا تھا۔ تین چار یا پانچ۔ میں صحیح نہیں کہہ سکتا مگر متعدد جگہ سے کپڑا پھٹا ہوا تھا۔ مگر ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ عزیزم ناصر احمد۷۰ دو تین ہفتہ پہلے جب اپنی پھوپھی سے ملنے کے لئے ڈلہوزی گئے تھے تو وہاں سے واپسی پر پہاڑ سے کچھ پتھر گرے تھے۔ یہ کپڑا ان پتھروں سے پھٹا تھا۔ اور یہ نشان ان ہی پتھروں کے ہیں۔ پس یہ نشانات پھینکی ہوئی چیز کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے تھے۔ بعد میں میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ دیکھ لیں کہ آیا یہ سارے نشانات بھی پرانے ہیں یا ان میں سے کوئی نیا نشان بھی ہے۔ انہوں نے خود تو مجھے اپنی تحقیق کی اطلاع نہیں دی۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ دیکھنے پر وہ سب نشانات پرانے ہی معلوم ہوئے ہیں۔ بہرحال وہ نشان اس وقت کے خیال کے مطابق زیر بحث نہیں آسکتے۔ اس امر کا اندازہ کہ جو چیز پھینکی گئی تھی وہ کس زور سے گری تھی۔ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب میں نے موٹر کے روکنے کے لئے کہا کہ دیکھیں کیا چیز موٹر پر پھینکی گئی ہے۔ تو اس وقت ہمراہیوں میں سے ایک نے کہا کہ ٹائر برسٹ ہوا ہے۔ جن لوگوں نے ٹائر برسٹ ہوتے سنا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کی اچھی بلند آواز ہوتی ہے۔ خیر موٹر کے کھڑا ہونے پر بعض دوست اتر کر اس گھر کے اندر گھس گئے جس کے آگے کار ٹھہری تھی۔ اور اس کی چھت پر چڑھ کر حملہ آور کو دیکھنے لگے۔ حالانکہ چھت پر چڑھتے چڑھتے حملہ آور دور تک نکل جاسکتا ہے۔ پہلے مجھے شبہ ہوا کہ ان دوستوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اسی گھر سے چیز پڑی ہے۔ او اس پر میں نے دوسرے دوستوں سے کہا کہ یہ ان کی غلطی ہے۔ موٹر تو آگے آچکی ہے۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس کی چھت پر چڑھ کر یہ دیکھنے گئے تھے کہ شاید اس چیز کا پھینکنے والا نظر آجائے۔ اس کے بعد چاروں طرف تلاش کی گئی مگر چیز پھینکنے والے کا کوئی پتہ نہ لگا۔ یہ چیز ایک تو بائیں طرف کی گلی سے پھینکی جاسکتی تھی یا اس سے پہلے ایک کھولہ ہے وہاں سے پھینکی جاسکتی تھی۔ اور ایک مکان ہے جو مقفل ہے اس مقفل مکان سے بھی چیز پھینکی جاسکتی تھی بشرطیکہ یہ سازش ہو۔ کیونکہ جو لوگ جرائم کی حقیقت سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ مجرموں کو گھروں میں داخل کرکے باہر سے تالا لگا دیا جاتا ہے اور اس طرح جرم کا سراغ لگنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ تحقیق کرنے والے جب وہاں سے گزرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس جگہ سے تو یہ جرم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہاں قفل لگا ہوا ہے۔ پھر جب وہ پتہ لگانے سے مایوس ہو جاتے ہیں تو گھنٹہ دو گھنٹہ کے بعد لوگ آتے ہیں اور تالا کھول کر مجرم کو نکال لے جاتے ہیں۔ اگر یہ فعل کسی سازش کا نتیجہ تھا تو ممکن ہے کہ اس فعل کا ارتکاب اس مقفل گھر ہی سے ہوا ہو۔ لیکن مقفل گھر کو کھولنا قانون کے خلاف ہے۔ اور پولیس ہی ایسا کرسکتی تھی جو وہاں موجود نہ تھی۔ تلاش کے وقت بھی میں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ممکن ہے اس گھر سے چیز پھینکی گئی ہو۔ بہرحال جب لوگ تلاش کرچکے اور انہیں کوئی آدمی نظر نہ آیا تو کسی ہمارے دوست نے کہا کہ تلاش تو کرو کہ وہ چیز جو گری ہے کیا اور کہاں ہے؟ اس وقت تک سب لوگ اسے یقینی طور پر پتھر سمجھ رہے تھے۔ اور مجھے بھی اس وقت تک یہ خیال نہیں آیا تھا کہ اگر پتھر ہوتا تو نشان چھت پر لگ جاتا۔ اس لئے غالباً یہ کوئی اور شے ہے۔ )گو بعض صورتوں میں نشان نہیں بھی ہوسکتا لیکن سو میں سے ننانوے دفعہ پتھر کا نشان ہونا چاہئے( اس لئے میں نے بھی اس دوست کی تائید کی۔ اور کہا کہ اس چیز کو تلاش کرو۔ مگر چونکہ مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ اس لئے ایک آدھ منٹ کے بعد ہی میں نے کہہ دیا کہا اب چلو۔ ہاں ایک بات رہ گئی جو یہ ہے کہ میرے پیچھے جو سائیکلسٹ آرہے تھے۔ ان سے جب میں نے دریافت کیا کہ تم کو معلوم ہے وہ چیز کس طرف سے آئی تھی تو انہوں نے دائیں طرف سے اس کا آنا بتایا )یعنی شامل سے آتے ہوئے جو دائیں طرف ہے یعنی مغرب کی سمت( ہم جو موٹر میں تھے۔ دھماکے سے ہمارا بھی یہی اندازہ تھا کہ وہ چیز شمال مغربی سمت سے آگری ہے۔ اس کی تصدیق سائیکلسٹوں نے بھی کی جنہوں نے یہ بیان کیا کہ انہوں نے خود ادھر سے ایک چیز آتی ہوئی دیکھی ہے جسے وہ ایک ہاتھ کے برابر پتھر سمجھتے تھے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ چونکہ مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔ میں دوستوں کو ساتھ لے کر موٹر میں سوار ہوگیا اور مزید تحقیق ترک کردی گئی۔
میری غرض وہاں ٹھہرنے سے صرف اتنی تھی کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے تو ہمیں علم ہو جائے کہ وہ کون شخص ہے اور دوسرے میں اسے نصیحت بھی کروں کہ ایسی فضول باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس قسم کے واقعات درحقیقت انبیاء کی جماعتوں سے ہونے لازمی ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اسی دن کا جس دن یہ وقوعہ ہوا۔ یہ بھی واقعہ ہے جس کی رپورٹ مجھے پہنچی کہ وہی >حنیفا< جس نے میاں شریف احمد صاحبؓ پر لاٹھی سے وار کیا تھا۔ اس سے ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایک شخص نے معانقہ کیا۔ اور میاں شریف احمد صاحبؓ پر حملہ کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ نے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے۔ سب مسلمان آپ کو غازی سمجھتے ہیں۔ اس واقعہ کو اگر موٹر کے وقوعہ سے ملایا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگ اسی حرکت کے لئے دوسروں کو تیار کرنے کی کوششیں کررہے تھے۔ کیونکہ جب ایسے کاموں کی تعریف کی جائے اور کہا جائے کہ آپ تو اس کام کی وجہ سے غازی بن گئے ہیں۔ تو کئی نوجوانوں کو خیال آجاتا ہے کہ ہم بھی غازی بننے کی کوشش کریں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ پہلا غازی تو چھپتا پھرتا تھا اور پھر پولیس اس کی نگرانی کرتی رہی اور اب بھی اس وقوعہ کے بعد پولیس اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ پولیس کو اگر حفاظت کی ضرورت نظر آتی ہے تو صرف اس غازی کی۔ اس سے گورنمنٹ کو کچھ ایسی محبت ہے کہ وہ عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے۔ اور یہاں کی پولیس کا تو اس سے لیلیٰ مجنوں والا تعلق ہے۔ جب بھی کوئی واقعہ ہو دوڑ کر وہ اس کے گرد جمع ہوجاتی ہے کہ ہمارے اس محبوب کو کوئی نقصان نہ پہنچاوے۔ حالانکہ عقلمند احمدی کی تو جوتی بھی اس پر پڑنے سے شرمائے گی۔ ایسے ذلیل آدمی کا مقابلہ کرکے کسی نے کیا لینا ہے۔ آخر یہ بھی تو انسان کو دیکھنا پڑتا ہے کہ میرے مقابلہ میں ہے کون<۔۷۱
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ایک عظیم الشان تقریر
۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو بورڈران تحریک جدید کی طرف سے صوفی مطیع الرحمن صاحب ایم اے بنگالی اور پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر ایم اے کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی گئی۔ دونوں مجاہدین اعلائے کلمہ حق کے لئے بیرون ملک تشریف لے جارہے تھے۔ غالباً یہ پہلا موقعہ تھا کہ تحریک جدید کے طلباء کے ایڈریس کے دوران حضرت خلیفتہ الثانی بھی رونق افروز ہوئے۔ حضور نے اس موقعہ پر ایک نہایت روح پرور خطاب فرمایا۔ جس میں تفصیل کے ساتھ مغربی ممالک کے احمدی مبلغین کو نہایت ضروری اور اہم ہدایات دیں اور بتایا کہ ہمارے لئے خوشی کا دن وہ ہوگا جب مغربیت کی روح کچل دی جائے گی اور اسلام نئے سرے سے دنیا پر غالب آجائے گا حضور نے تاکیدی ہدایت فرمائی کہ اشاعت دین کے لئے کبھی مداہنت سے کام نہ لو اسلامی تعلیم پر مضبوطی سے کاربند رہو اور جو لوگ اسلام قبول کریں ان میں اسلام کی حقیقی روح پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ جو شخص مغربیت کی روکا مقابلہ نہیں کرتا وہ دین کی خاطر ہرگز حقیقی قربانی نہیں کرسکتا۔
حضور نے اس پرشوکت تقریر میں تحریک جدید کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ احمدیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس تحریک کو اچھی طرح سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے کیونکہ یہ تحریک القائے ربانی کے تحت جاری کی گئی ہے اور جماعتی ترقی کے تمام بنیادی اصول اس میں موجود ہیں۔ چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ۔
>میں نے اس سکیم کو تیار کرنے میں ہرگز غور اور فکر سے کام نہیں لیا۔ اور نہ گھنٹوں میں نے اس کو سوچا ہے۔ خداتعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کی کہ میں اس کے متعلق خطبات کہوں۔ پھر ان خطبوں میں میں نے جو کچھ کہا وہ میں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر جاری کیا۔ کیونکہ ایک منٹ بھی میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں کیا کہوں۔ اللہ تعالیٰ میری زبان پر خود بخود اس سکیم کو جاری کرتا گیا۔ اور میں نے سمجھا کہ میں نہیں بول رہا بلکہ میری زبان پر خدا بول رہا ہے۔ اور یہ صرف اس دفعہ ہی میرے ساتھ معاملہ نہیں ہوا۔ بلکہ خلافت کی ابتداء سے خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ میں نے قرآن شریف کی شاید پانچ سات یا دس آیات پر ان کے معانی معلوم کرنے کے لئے ایسا غور کیا ہوگا جسے لوگ غور کہتے ہیں۔ ورنہ ان آیات کو مستثنیٰ کرتے ہوئے میں نے قرآن کریم پر کبھی غور نہیں کیا۔ اور اگر قرآن کریم کے مطالب معلوم کرنے کے لئے اس پر غور کرنا نیکی ہے تو میں اس نیکی سے قریباً محروم ہی ہوں۔ کیونکہ قرآن کریم کی آیات کے معانی کے متعلق ہمیشہ مجھ پر القاء ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا مفہوم مجھ پر کھول دیتا ہے۔ اور جس چیز کو میں خود نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ آپ ہی مجھے سمجھا دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ اب یوں کہو اور اب یوں کہو۔ غرض قرآنی معارف کے متعلق مجھے کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ قرآن کے معارف سمجھاتا ہے۔ اس پر بعض لوگ اعتراض کہ پھر آپ لغت کیوں دیکھتے تھے۔ اور ممکن ہے کہ میرے متعلق بھی بعض لوگ یہ اعتراض کریں۔ اس لئے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ لغت قرآنی معارف معلوم کرنے کے لئے نہیں دیکھی جاتی۔ بلکہ مختلف معانی معلوم کرنے کے لئے دیکھی جاتی ہے اور اصل چیز معارف ہیں نہ کہ معانی۔ پس قرآنی معارف کے لئے مجھے کبھی غور نہیں کرنا پڑا الا ماشاء اللہ جن آیات پر مجھے غور کرنا پڑا ہے۔ وہ بہت ہی محدود ہیں۔ اسی طرح اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہی سلوک کیا اور اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ جس صداقت کا اس سکیم کے ذریعہ میں نے اظہار کیا ہے وہ میرا کام نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا کام ہے اور اس کا فخر مجھ کو نہیں بلکہ محمد~صل۱~ کو ہے جنہوں نے ہمیں خداتعالیٰ تک پہنچایا۔ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہے جو پھر ہمیں اس کے دروازہ تک لے گئے اور اگر میں نے اس پر کچھ وقت خرچ کیا۔ تو وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک پیغامبر ہو۔ جو کسی دوسرے کا پیغام لوگوں تک پہنچا دے میں نے بھی ایک پیغامبر کی حیثیت میں آپ لوگوں تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے آسمان سے فرشتے اتر کر مجھ پر ایک بات ظاہر کر دیتے ہیں اور وہی چیز جو دنیا کے لئے عقدہ لاینحل ہوتی ہے میرے لئے ایسی ہی آسان ہو جاتی ہے جیسے شیریں اور لذیذ پھل کھانے میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ بسا اوقات القائی طور پر مجھے آیات بتلائی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس آیت کو فلاں آیت سے ملا کر پڑھو تو مطلب حل ہو جائے گا۔ اسی طرح تحریک جدید بھی القائی طور پر خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھائی ہے۔ جب میں ابتدائی خطبات دے رہا تھا۔ مجھے خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ میں کیا بیان کروں گا اور جب میں نے اس سکیم کو بیان کیا تو میں اس خیال میں تھا کہ ابھی اس سکیم کو مکمل کروں گا اور میں خود بھی اس امر کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس سکیم میں ہر چیز موجود ہے مگر بعد میں جوں جوں اس سکیم پر میں نے غور کیا مجھے معلوم ہوا کہ تمام ضروری باتیں اس سکیم میں بیان ہوچکی ہیں اور اب کم از کم اس صدی کے لئے تمہارے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ سوائے جزئیات کے وہ ہر وقت بدلی جاسکتی ہیں۔ پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کے لئے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح مختصر الفاظ میں ایک الہام کردیتا ہے اور اس میں نہایت باریک تفصیلات موجود ہوتی ہیں اسی طرح اس کا القا بھی ہوتا ہے۔ اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے بلکہ القاء الہام سے زیادہ مخفی ہوتا ہے یہ تحریک بھی جو القاء الٰہی کا نتیجہ تھی پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانہ کے لئے اس میں اتنا مواد جمع کردیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی کے لئے ضروری ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اس تحریک کی اہمیت کو سمجھ لو تو گو دنیا اس بات کو نہ سمجھے مگر تمہارے اندر اسلام کی آئندہ فتوحات کا حل نظر آئے گا۔ اور اگر تمہارے ٹیوٹر۔ تمہارے سپرنٹنڈنٹ تمہارے انچارج اور تمہارے استاد تقوی شعار ہوں اور وہ حکمتوں کو سمجھنے والے ہوں تو وہ تمہارے ذریعہ لڑکے پیدا نہیں کریں بلکہ بدری صحابہؓ کی طرح زندہ موتیں پیدا کریں گے اور تم اسلام کے لئے ایک ستون اور سہارا بن جائو گے۔ کتنا عظیم الشان کام ہے جو تمہارے سامنے ہے تم جو اتنی معمولی سی بات پر خوش ہو جاتے ہو کہ فلاں جگہ کبڈی کا میچ تھا جس میں ہم جیت گئے یا فٹ بال کے میچ میں اگر اچھی کک لگاتے ہو تو اسی پر پھولے نہیں سماتے۔ ذرا خیال تو کرو کہ تم جن کو یہ کہا جاتا ہے کہ سادہ زندگی بسر کرو کہ جن کو کہا جاتا ہے کہ نہ اچھا کھانا کھائو نہ اچھا کپڑا پہنو تمہیں اس بات کے لئے تیار کیا جارہا ہے کہ تم کفر اور مداہنت کی ان زبردست حکومتوں کو جنہوں نے اسلام کو دبایا ہوا ہے کچل کر رکھ دو۔ تم فلسفہ اور اباحت اور منافقت کی ان حکومتوں کو جنہوں نے خدائی الہام کو مغلوب کیا ہوا ہے۔ ریزہ ریزہ کردو۔ کیا تم نہیں سمجھ سکتے۔ یہ کتنا عظیم الشان کام ہے۔ جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے بچپن میں قوت واہمہ چونکہ زیادہ تیز ہوتی ہے اس لئے تم اس کو یوں سمجھ لو کہ اگر کبھی اتفاقاً شام کے وقت تم دودھ پینے کے لئے نکلو۔ تمہیں دودھ کی دکان پر یہ نظارہ نظر آئے گا کہ ایک مشہور ڈاکو کسی آدمی کو ماررہا ہے۔ فرض کرو جسے مارا جارہا ہے وہ تمہارا بھائی ہے یا کوئی اور رشتہ دار۔ تم چھوٹے سے بچے ہو۔ آٹھ یا دس سال تمہاری عمر ہے اور وہ مضبوط اور علاقہ کا مشہور ڈاکو ہے جب تم دیکھتے ہو کہ وہ تمہارے کسی عزیز پر حملہ آور ہے تو تم جوش محبت میں اس پر حملہ کر دیتے ہو۔ اور تمہارے چھوٹے سے بازوئوں میں اس وقت ایسی طاقت آجاتی ہے کہ تم اس ڈاکو کو مار لیتے ہو تو غور کرو اس وقت تمہارے دل میں کتنا فخر پیدا ہوگا اور تم کس طرح لوگوں کو جگا جگا کر یہ نہ بتائو گے کہ فلاں ڈاکو کو آج ہم نے مار دیا۔ پھر تم سوچو کہ اگر ایک ڈاکو کے مارنے پر تم اس قدر فخر کرسکتے ہو تو ان لاکھوں ڈاکوئوں کے مارنے پر جو اسلام کی متاع پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ فلسفیوں کی فلسفیت کو کچلنے پر ان اباحت والوں کی اباحت اور ان مداہنت والوں کی مداہنت کو صفحہ عالم سے نابود کرنے پر جو اسلام ایسے قیمتی عزیز کے کمزور جسم کو دبا رہے اور اس کے گلے کو گھونٹ رہے ہیں۔ تمہارے دل میں کس قدر فخر پیدا ہوگا اور کس خوشی اور سرور سے تم اپنی گردن اونچی کرکے کہو گے کہ آج ہم نے شرک اور کفر کو نابود کردیا۔ یہ چیز ہے جس کو اپنے سامنے رکھنا تمہارا فرض ہے۔ تم بورڈر نہیں بلکہ تم خداتعالیٰ کے سپاہی ہو اور تمہیں اس لئے تیار کیا جاتا ہے کہ تم خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دو<۔ )مکمل تقریر الفضل ۱۹۔ فروری تا ۲۸۔ فروری ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی(
تیسرا باب )فصل ہفتم(
‏sub] ga[tبعض جلیل القدر صحابہؓ کا انتقال
۱۹۳۶ میں مندرجہ ذیل جلیل القدر صحابہ کا انتقال ہوا۔
۱۔
حضرت سید ناصر شاہ صاحب قادیانی۔ )تاریخ وفات یکم جنوری ۱۹۳۶ء(۷۲ ایک نہایت مخلص صحابی جن کا تذکرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے آسمانی نشان کے گواہ کی حیثیت سے تتمہ حقیقتہ الوحی کے صفحہ ۱۵۷۔ ۱۵۸ پر فرمایا ہے۔ نزول المسیح کی طباعت روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے معرض التواء میں تھی۔ آپ کو خواب میں تحریک ہوئی۔ چنانچہ رخصت لیکر قادیان آئے اور ۲۵۰ روپے حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں پیش کردیئے اور درخواست کی کہ اس کتاب کی اشاعت کے جملہ اخراجات میں ادا کروں گا۔ ان کی یہ درخواست حضور نے منظور فرمالی۔۷۳
۲۔
حضرت شیخ نور احمد صاحب سابق مختار عام حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ۔ )تاریخ وفات ۲۹۔ جنوری ۱۹۳۶ء(۷۴
۳۔
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آنریری جنرل سیکرٹری انجمن اشاعت اسلام لاہور۔ )تاریخ وفات ۱۲۔ فروری ۱۹۳۶ء(۷۵ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مرحوم کے برادر زادہ مرزا مسعود بیگ صاحب کو حسب ذیل تعزیت نامہ لکھا۔
>عزیزم مکرم مرزا مسعود بیگ صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ` آپ کا خط ملا۔ میں سندھ گیا ہوا تھا۔ وہی خط پھرتا پھراتا کوئی آٹھ دس دن بعد ملا۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کا بہت افسوس ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ میری طرف سے اپنی والدہ صاحبہ اور دیگر عزیزوں کو بھی ہمدردی کا پیغام پہنچا دیں۔ مجھے آپ سب لوگوں کے صدمہ سے دلی ہمدردی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم پر اپنا فضل فرمائے۔ اور پسماندگان کو بھی اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھے۔ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعوے کے ابتداء میں ایمان لائے تھے۔ اس لئے جب سے ہوش سنبھالا انہیں جانتا تھا اتنے لمبے تعلق کی وجہ سے افسوس کا احساس اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ یوں بھی باوجود اختلاف کے انہوں نے تعلق رکھا۔ اور ہمیشہ ملتے رہتے تھے۔ مگر سوائے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونے کے اور کیا چارہ ہے<۔۷۶
۴۔
چودھری مولا بخش صاحب نمبردار چک ۳۵ جنوبی ضلع سرگودھا )تاریخ وفات ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء(۷۷ آپ کو ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف نصیب ہوا۔ بڑے عابد انسان تھے۔۷۸
۵۔
عصمت اللہ صاحب )والد بزرگوار ڈاکٹر محمد اشرف صاحب( للہ ضلع جہلم )تاریخ وفات ۱۷۔ مئی ۱۹۳۶ء(۷۹
۶۔
بابو محمد عبداللہ صاحب ٹھیکیدار بھٹہ قادیان )تاریخ وفات ۱۴۔ مئی ۱۹۳۶ء10]( p[۸۰
۷۔
حاجی محمد یوسف صاحب زرگر امام الصلٰوۃ جماعت احمدیہ پنڈی چری )تاریخ وفات ۲۸۔ مئی ۱۹۳۶ء( اپنے علاقہ میں احمدیت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے۔۸۱
۸۔
حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی مہاجر قادیان )تاریخ وفات ۱۷۔ جولائی ۱۹۳۶ء(۸۲
۹۔
چوہدری غلام رسول صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ )تاریخ وفات ۸۔ اگست ۱۹۳۶ء(۸۳
۱۰۔
حضرت حاجی احمد جی صاحب داتہ ہزارہ )تاریخ وفات ۳۱۔ اگست ۱۹۳۶ء( ۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی۔ تہجد گزار اور عابد و زاہد بزرگ تھے۔ اپنے مکان کے ساتھ ہی مسجد تعمیر کی۔ چندوں کی ادائیگی میں خاص التزام فرماتے تھے۔۸۴
۱۱۔
میرزا یوسف علی خان صاحب پشاوری )تاریخ وفات ۲۸۔ ستمبر ۱۹۳۶ء( تبلیغ احمدیت کا بے حد جوش ولولہ اور شوق تھا۔ بہت نڈر۔ غیور اور دلیر احمدی تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ہم جماعت ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔۸۵
۱۲۔
لیفٹنٹ سردار محمد ایوب خاں بہادر او بی ای اے ڈی سی پنشنر ممبر ڈسٹرکٹ بورڈ مراد آباد متوطن شاہ جہانپور )تاریخ وفات ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر ۱۹۰۲ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔۸۶
۱۳۔
حاجی عبدالعزیز صاحب سیالکوٹی والد ماجد ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب بٹ پرنسپل طبیہ کالج علی گڑھ۔ )تاریخ وفات ۹۔ نومبر ۱۹۳۶ء( ۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے حلقہ غلامی میں آئے۔۸۷
۱۴۔
بابا اللہ داد صاحب متوطن مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ )تاریخ وفات درمیانی شب ۱۱/۱۰۔ نومبر ۱۹۳۶ء(۸۸
۱۵۔
میاں امام الدین صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ )تاریخ وفات ۱۰۔ دسمبر ۱۹۳۶ء(۸۹
ان بزرگ صحابہ کے علاوہ اس سال حسب ذیل مخلصین احمدیت نے بھی وفات پائی۔
)۱( خان بہادر شیخ آصف زمان خان صاحب ڈپٹی کلکٹر گونڈہ شاہجہانپور۹۰ )۲( مولوی عبدالقادر صاحب کٹی مالابار آف۹۱ کنانور )۳( شیخ غلام قادر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پٹھانکوٹ۹۲ )۴( حافظ سید عبدالمجید صاحب امیر جماعت احمدیہ منصوری۔۹۳ )۵( شیخ جان محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ۔۹۴
تیسرا باب )فصل ہشتم(
مشترکہ دعائیں کرنے کا فرمان
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ہمیشہ جماعت احمدیہ کو دعائیں کرنے کی تحریک فرماتے رہتے تھے۔ ۱۱۔ دسمبر ۱۹۳۶ء کو جمعہ کا مبارک دن اور رمضان کا پچیسواں روزہ تھا۔ اس روز حضور کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ رمضان کے مبارک ایام اب قریب الاختتام ہیں۔ ہمیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی صورت یہ اختیار کرنی چاہئے کہ آج اور کل کی دو راتوں میں ایسی دعائیں کی جائیں جو مشترکہ ہوں۔ چنانچہ حضور نے خطبہ جمعہ میں جماعت کو اس امر کی طرف زوردار طریق پر توجہ دلائی اور دو راتوں کے لئے مندرجہ ذیل دو مشترکہ دعائیں تجویز فرمائیں۔
پہلی دعا۔ الٰہی تیرا عفو تام اور توبہ نصوح ہمیں میسر ہو۔ اور نہ صرف ہمیں میسر ہو بلکہ ہمارے خاندان کو ہمارے ہمسایوں کو` ہمارے دوستوں کو` ہمارے عزیزوں کو اور رشتہ داروں کو اور ہماری تمام جماعت کو` یہ نعمت میسر آجائے۔ خدایا ہم تیرے عاجز و خطاکار اور گنہگار بندے ہیں۔ ہم سخت کمزور اور ناتواں ہیں۔ جالوں اور پھندوں میں ہم نے اپنے آپ کو پھنسا رکھا ہے۔ ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں اور ہماری نجات کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ تیرا عفو تام ہم پر چھا جائے۔ اور آئندہ کے لئے وہ توبہ نصوح ہمیں حاصل ہو جائے جس کے بعد کوئی ذلت اور کوئی تنزل نہیں ہے<۔۹۵
دوسری دعا۔ >اے خدا تو کامل ہے۔ ہر تعریف سے مستغنی ہے۔ ہر عزت سے مستغنی ہے۔ ہر شہرت سے مستغنی ہے۔ تجھے اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ تیرے بندے تجھ پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں۔ ان کے مان لینے سے تیری شان میں کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ اور ان کے نہ ماننے سے تیری شان میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ مگر ہمارے رب! گو تو محتاج نہیں لیکن دنیا تیرے نور کی محتاج ہے۔ اور ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تیری صفات دنیا پر جلوہ گر ہوں۔ اور تیرا نور عالم پر پھیلے اور تمام بنی نوع انسان تجھ پر ایمان لائیں اور تیری بادشاہت دنیا میں قائم ہو۔ اے خدا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غریب بندوں کی خاطر دنیا پر رحم فرما۔ اپنی خالقیت کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ مخلوق پر ترحم اور شفقت کرنے کے لئے انہیں وہ راستہ دکھا۔ جو انہیں تیرے قرب تک پہنچانے والا ہو۔ اور جس کے نتیجہ میں تیری بادشاہت دنیا پر قائم ہو جائے۔ تا بنی نوع انسان تیرے نور سے منور ہو جائیں۔ ان کے دل روشن ہو جائیں` ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور ان کے ذہن تیز ہو جائیں<۔۹۶
حضور نے مندرجہ بالا دعائوں کا تذکرہ کرتے ہوئے احباب جماعت کو یہ بھی تلقین فرمائی کہ۔
>سال میں سے کم از کم ایک دن تم خداتعالیٰ کے سامنے اپنے گناہوں پر روئو اور خوشی کی چیز اس سے کوئی نہ مانگو۔ اس سے روپیہ نہ مانگو۔ اس سے پیسہ نہ مانگو۔ اس سے دولت نہ مانگو۔ اس سے صحت نہ مانگو۔ اس سے قرضوں کا دور ہونا نہ مانگو۔ اس سے اعزاز نہ مانگو۔ اس سے اکرام نہ مانگو۔ پھر یہی مانگو کہ خدایا تیرا عفو تام ہمیں حاصل ہو۔ اور توبہ نصوح ہمارے لئے میسر ہو جائے۔ اس دعا کو مختلف رنگوں میں مانگو۔ مختلف طریقوں سے مانگو۔ مختلف الفاظ میں مانگو۔ اپنے لئے مانگو۔ اپنی بیویوں کے لئے مانگو۔ اپنے بچوں کے لئے مانگو۔ اپنے دوستوں کے لئے مانگو۔ اپنے ہمسائیوں کے لئے مانگو۔ اپنے شہر والوں کے لئے مانگو۔ اور پھر ساری جماعت کے لئے مانگو۔ مگر چیز ایک ہو۔ بات ایک ہو۔ رنگ ایک ہو۔ سر ایک ہو۔ تال ایک ہو۔ اور جو کہو اس کا خلاصہ یہ ہو۔ ہم تیرا عفو تجھ سے ہی چاہتے ہیں۔ پس اس عفو سے مانگو۔ اس غفار سے مانگو۔ اس ستار سے مانگو۔ اس تواب سے مانگو۔ اور اگر تم اس سے رحمانیت مانگو۔ تو اسی لئے کہ وہ تمہیں اپنا عفو تام اور توبہ نصوح دے اور اگر رحیمیت مانگو تو بھی اسی لئے کہ وہ تمہیں اپنا عفو تام اور توبہ نصوح دے<۔۹۷
ایڈورڈ ہشتم کی تخت شاہی سے دستبرداری پر حضرت امیرالمومنینؓ کے تاثرات
شاہ ایڈورڈ ہشتم نے رسم تاجپوشی کی تقریب پر مذہبی رسوم کی ادائیگی سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر آرچ بشپ آف کنٹر بری اور مذہب سے دلچسپی
رکھنے والے برطانیہ کے بعض دوسرے مذہبی خیال کے وزراء بھی اس تقریب میں شمولیت سے دستکش ہوگئے۔ بشپ بریڈ فورڈ نے کہا کہ بادشاہ کو مذہب کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔ یہ اندرونی کشمکش اندر ہی اندر جاری تھی کہ بادشاہ معظم نے ایک مطلقہ خاتون مسسز سمپسن سے شادی کرنا چاہی تو برطانوی نظام کلیسا میں سخت زلزلہ برپا ہوگیا۔ اور پادریوں نے شور مچا دیا کہ بادشاہ کا یہ فعل ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ کیونکہ جس عورت کا پہلا خاوند زندہ ہو وہ ہماری ملکہ کیونکر ہوسکتی ہے۔ بعض نادانوں نے تو یہاں تک کہا کہ بادشاہ چاہیں تو پرائیویٹ تعلقات اس عورت سے رکھ سکتے ہیں۔ لیکن شادی کرکے مطلقہ عورت کو عزت بخشنا ان کے لئے جائز نہیں۔
دراصل بادشاہ کو یہ یقین ہوچکاتھا کہ اگر تخت پر رہتے ہوئے میں نے شادی کی تو ملک میں فساد ضرور ہوگا۔ گو اکثریت میرے ساتھ ہوگی۔ لیکن پھر بھی ایک زبردست اقلیت مقابلہ پر کھڑی ہو جائے گی۔ اور اسی طرح بعض نو آبادیاں بھی شورش پر آمادہ ہو جائیں گی۔ بادشاہ نے آخری جدوجہد یہ کی کہ وزراء سے کہہ دیا کہ آپ لوگوں کو ایک مطلقہ عورت کے ملکہ ہونے پر ہی اعتراض ہوسکتا ہے۔ سو میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ ایک خاص قانون بنا دیا جائے کہ میری بیوی ملکہ نہ ہوگی۔ لیکن وزارت نے اس سے بھی انکار کیا۔ پس صورت حالات یہ پیدا ہوگئی کہ ایک طرف تو اس مشکل کا واحد حل کہ بادشاہ کی بیوی ملکہ نہ ہو۔ وزارت نے مہیا کرنے سے انکار کردیا۔ دوسری طرف بادشاہ دیکھ رہے تھے کہ میرے سامنے وہ چیزیں ہیں۔ ایک طرف ملک نہیں بلکہ ملک کی ایک اقلیت کی خواہش ہے کہ ایک مطلقہ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئے۔ اور دوسری طرف یہ سوال کہ ایک عورت جو مجھ سے شادی کے لئے تیار ہے اور جس سے شادی کا میں وعدہ بھی کرچکا ہوں۔ اس کو اس وجہ سے چھوڑ دوں کہ چونکہ تو مطلقہ ہے اس لئے میرے ساتھ شادی کے قابل نہیں۔ ایک طرف ایک اقلیت ہے جسے قانون کوئی حق نہیں دیتا۔ اور دوسری طرف ایک ایسے وجود کو زیر الزام لاکر چھوڑنا ہے جسے قانون شادی کا حق بخشتا ہے۔ یقیناً ایسی صورت میں بادشاہ کے لئے ایک ہی راستہ کھلا تھا کہ وہ اس کا ساتھ دیتے جس کے ساتھ قانون تھا۔ لیکن چونکہ ایسا کرنے میں ملک میں فساد کا اندیشہ تھا۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس عورت کی بے عزتی نہیں ہونے دوں گا جس سے میں نے وعدہ کیا ہے۔ اور میں ملک میں فساد بھی نہیں ہونے دوں گا۔ پس ان دونوں صورتوں کے پیدا کرنے کے لئے میں وہ قدم اٹھائوں گا جس کے اٹھانے کے لئے غالباً بہت سے لوگ تیار نہ ہوں گے۔ یعنی میں بادشاہت سے الگ ہو کر ملک کو فساد سے اور اپنی ہونے والی بیوی کو ذلت سے بچالوں گا۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
برطانوی بادشاہ ملکی قانون و آئین کے اعتبار سے محافظ عیسائیت (DEFENDEROFtheFAITH) تسلیم کیا جاتا ہے۔ لہذا تاجدار برطانیہ کی دستبرداری کے اس موقعہ سے جو ۱۰۔ دسمبر ۱۹۳۶ء کو ہوا نہ صرف انگلستان میں بلکہ دنیا بھر کی برطانوی مقبوضات میں ایک تہلکہ مچ گیا اور آرچ بشپ آف کنٹربری۹۸ نے اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے محض عورت سے محبت ہی کا ردعمل بتایا جس سے متاثر ہو کر اخبار الفضل نے ۱۹۔ دسمبر ۱۹۳۶ء میں ایک افتتاحیہ بھی شائع کردیا۔ مگر چونکہ اصل حقائق یہ نہیں تھے۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حکومت برطانیہ کے اس تازہ انقلاب کا حقیقی پس منظر بتانے کے لئے ایک مفصل مضمون ۲۰۔ دسمبر ۱۹۳۶ء کو لکھا جو الفضل ۲۲۔ دسمبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا۔ مضمون کے آخر میں حضور نے تحریر فرمایا کہ۔
>اس واقعہ سے ہمارے آنحضرت~صل۱~ کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے۔ اور آپ پر لگائے جانے والے اعتراضوں میں سے ایک اعتراض دور ہوا ہے۔ پیشگوئی تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں عیسائیت آپ ہی آپ پگھلنی شروع ہو جائے گی۔ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ مسیحیت کی نمائندہ حکومت میں یعنی دنیا کی اس واحد حکومت میں جس کے بادشاہ کو محافظ عیسائیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے تغیرات پیدا ہورہے ہیں کہ اس کے ایک نہایت مقبول بادشاہ نے مسیحیت کی بعض رسوم ادا کرنے سے اس وجہ سے انکار کردیا کہ وہ ان میں یقین نہیں رکھتا۔ اور اعتراض جس کا ازالہ ہے یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے طلاق کو جائز قرار دیا۔ اور مطلقہ عورتوں سے شادی کی۔ کیونکہ دنیا نے دیکھ لیا کہ طلاق کی ضرورت اب اس شدت سے تسلیم کی جاتی ہے۔ اور مطلقہ عورت کی عزت کو جبکہ وہ اخلاقی الزام سے متہم نہ ہو۔ اس صفائی سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ بادشاہ اس سوال کو حل کرنے کے لئے اپنی بادشاہت تک کو ترک کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔
ایک برطانوی مسلمان کا دل اس وقت کس طرح خوشی سے اچھل رہا تھا جبکہ وہ گزشتہ واقعات کے پڑھتے ہوئے یہ دیکھتا تھا کہ عیسائیت کے خلاف وہی نہیں بلکہ اس کا بادشاہ بھی لڑرہا ہے۔ اور اسلام کے کمینہ دشمن کے اعتراض کو وہی دور نہیں کررہا بلکہ اس کا مسیحی کہلانے والا بادشاہ بھی اس اعتراض کی لغویت ثابت کرنے کے لئے اپنے تخت کو چھوڑنے کو تیار ہے۔
پادری سمجھتے ہیں کہ وہ اس جنگ میں کامیاب رہے ہیں لیکن ایڈورڈ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی کیونکہ وہ پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی۔ یہ بیج بڑھے گا۔ اور ایک دن آئے گا کہ انگلستان نہ صرف اسلامی تعلیم کے مطابق طلاق کو جائز قرار دے گا بلکہ دوسرے مسائل کے متعلق بھی وہ اسلامی تعلیم کے مطابق قانون جاری کرنے پر مجبور ہوگا۔ بادشاہ آخر کیا ہوتا ہے؟ ملک اور قوم کا خادم۔ اور خادم اپنے آقا کے لئے جان دیا ہی کرتے ہیں۔ ایڈورڈ نے اپنی قربانی دے کر آئندہ عمارت کی پہلی اینٹ مہیا کی ہے۔ اس کے بعد دوسری اینٹیں آئیں گی۔ اور ایک نئی عمارت تیار ہوگی جس پر انگلستان بجا طور پر فخر کرسکے گا۔
خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ شاہ ایڈورڈ کے آخری ایام حکومت میں ان کے خیالات کی روکس طرف کو جاری تھی لیکن جو کچھ واقعات سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ یہی ہے کہ وہ خیال کرتے تھے کہ مجھے اپنے ملک کے مذہب سے پوری طرح یا جزوی طور پر اختلاف ہے۔ بعض بڑے پادریوں کو مجھ سے شدید اختلاف پیدا ہوچکا ہے۔ جب وہ ایک ایسے امر سے مجھے روک رہے ہیں جس کی قانون اجازت دیتا ہے تو کل وہ مجھ سے اور کیا کچھ مطالبہ نہ کریں گے۔ اس وقت ملک میرے ساتھ ہے۔ ممکن ہے کل کوئی ایسا سوال پیدا ہو کہ ملک بھی میرے خلاف ہو۔ پھر ان حالات میں کیوں ملک کی ایک اقلیت کی خاطر میں اپنے وعدہ کو ترک کروں اور ایک عورت کو دنیا بھر میں اس الزام سے مطعون کروں کہ دیکھو یہ وہ عورت ہے جس سے ایڈورڈ نے اس وجہ سے شادی نہ کی۔ کہ وہ مطلقہ تھی۔ پس کیوں نہ میں اس جھگڑے کا آج ہی خاتمہ کردوں اور ملک کو آئندہ فسادات سے بچالوں۔ اس کے برخلاف وہ پادری جو سابق بادشاہ کی مخالفت کررہے تھے ان کے خیالات کی رو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بادشاہ مذہب عیسویت سے متنفر معلوم ہوتا ہے۔ آج موقعہ ہے۔ آئرلینڈ اور کینیڈا کیتھولک مذہب کے زور کی وجہ سے مسئلہ طلاق میں تعصب رکھتے ہیں۔ اگر اس وجہ سے ہم بادشاہ کا مقابلہ کریں تو جن دو نتائج کے نکلنے کا امکان ہے۔ دونوں ہمارے حق میں مفید ہوں گے۔ اگر بادشاہ دب گئے تو آئندہ کو ہمارا رعب قائم ہو جائے گا۔ اور اگر بادشاہ تخت سے الگ ہوگئے۔ تو ہمارے راستہ سے ایک روک دور ہو جائے گی۔
خیالات کی ان دونوں روئوں کا مقابلہ کرلو۔ اور پھر سوچ لو کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ >آہ )ایڈورڈ ہشتم پر( کس قدر افسوس ہے۔ آہ کس قدر افسوس ہے<۔ یا یہ کہنا درست ہے کہ ان پادریوں پر جنہوں نے ایسے حالات پیدا کردئے کہ ایک خادم قوم اور مخلص بادشاہ کو باوجود اس کے کہ قانون اس کے حق میں تھا` تخت سے علیحدہ ہونا پڑا۔ افسوس ہے۔ آہ کس قدر افسوس ہے۔
خلاصہ یہ کہ بادشاہ کے ساتھ بعض لوگوں کا )انگلستان کا نہیں( جھگڑا وہ نہیں تھا جو بعض ناواقف لوگ سمجھتے ہیں بلکہ مذہب اور قانون کے احترام کا جھگڑا تھا۔ بادشاہ اپنے منفرد مذہب پر اصرار کرتے تھے۔ اور پادری قومی مذہب پر۔ )حالانکہ قومی مذہب مذہب نہیں۔ سیاست ہے جبکہ اس کا اثر اصولی مسائل پر بھی پڑتا ہو( اور بادشاہ قانون کا احترام کرتے ہوئے قانون پر عمل کرنے کو تیار تھے لیکن ان کے مخالفوں کا یہ اصرار تھا کہ یہ قانون دکھاوے کے لئے ہے۔ عمل کرنے کے لئے نہیں۔ قانون طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر مذہب نہیں۔ بادشاہ چونکہ مسیحیت کے کلی طور پر یا جزوری طور پر قائل نہ رہے تھے۔ انہوں نے قانون پر زور دیا۔ جو ان کی ضمیر کی آواز کی تصدیق کرتا تھا۔ اور آخر ملک کو فساد سے بچانے کے لئے تخت سے دست برداری دے دی۔
بعض احباب جو ایک حد تک واقعات کی تہہ کو پہنچے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ زندہ باد ایڈورڈ۔ یہ بھی درست ہوگا مگر میں تو ان حالات کے محرکات کو دیکھتے ہوئے یہی کہتا ہوں۔
محمدﷺ~ زندہ باد! زندہ باد محمدﷺ~ ~)صل۱<(~۹۹
مولوی محمد علی صاحب کو مباحثہ کی واضح دعوت اور ان کا گریز0] f[rt
جناب مولوی محمد علی صاحب )امیر انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور( نے اخبار >پیغام صلح< )۱۹۔ نومبر ۱۹۳۶ء( میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ >وہ )یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ناقل( خود اپنی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک فیصلہ کن بحث کے لئے قدم اٹھائیں<۔
اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مولانا ابوالعطاء صاحب کو ارشاد فرمایا کہ۔:
>میری طرف سے اعلان کردیں کہ میں خود محمد علی صاحب سے نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بحث کروں گا۔ انہیں چاہئے کہ اس کے لئے فریقین کے حق میں مساوی شروط کا تصفیہ کرلیں۔ بحث میں خود کروں گا۔ انشاء اللہ<۔
مولانا ابوالعطاء صاحب نے ۱۱۔ دسمبر ۱۹۲۶ء کو حضور کا یہ اعلان ایک مفصل نوٹ اور جلی قلم کے ساتھ الفضل میں شائع کرا دیا۔
اس کے چند روز بعد حضرت امیرالمومنینؓ نے اپنے قلم سے مزید وضاحتی تحریر لکھ دی کہ۔
>میں تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے مولوی ابوالعطاء صاحب سے کہا تھا کہ میں مسئلہ نبوت میں مولوی محمد علی صاحب سے خود مباحثہ کرنے کو تیار ہوں۔ آپ ان سے شرطیں طے کریں۔ سو معقول شرائط جن میں کوئی لغویت یا کھیل کا پہلو نہ ہو۔ جب بھی طے ہو جائیں تو مجھے مولوی صاحب سے مباحثہ کرنے میں کوئی عذر نہیں۔ الا ان یشاء اللہ۔ مباحثہ کی غرض اگر ایک جماعت تک حق کی آواز کا پہنچانا ہو۔ تو اس میں مجھے عذر ہی کیا ہوسکتا ہے عذر تو اسی صورت میں ہوتا ہے جب مباحثہ کو کھیل یا فساد کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ والسلام۔
خاکسار مرزا محمود احمد<۔۱۰۰
مولوی محمد علی صاحب جنہوں نے خود ہی فیصلہ کن بحث کی خواہش ظاہر فرمائی تھی مسئلہ نبوت پر گفتگو کرنے سے یہ کہکر گریز اختیار کیا کہ اول بحث مسئلہ تکفیر المسلمین پر ہونی چاہئے۔ کیونکہ دونوں جماعتوں کا اختلاف اسی مسئلہ پر شروع ہوا تھا۔ تکفیر اختلاف کی اصل ہے۔ اور مسئلہ نبوت اس کی فرع<۔۱۰۱
>مسئلہ تکفیر کو اول لیا جائے۔ اور مسئلہ نبوت کو اس کے بعد<۔۱۰۲
نیز کہا کہ >دونوں جماعتوں میں جو یہ اختلاف ہوا۔ تو جڑ مسئلہ کفر و اسلام ہے<۔
یاد رہے کہ یہ وہی مولوی محمد علی صاحب تھے جو ۱۹۱۵ء سے متواتر یہ کہتے آرہے تھے کہ۔
>ہمارے درمیان جو اختلاف مسائل ہے۔ اس کی اصل جڑ مسئلہ نبوت ہے۔ اگر ہمارے احباب محض اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی اور سلسلہ کی خیر خواہی کو مدنظر رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیں تو اس کی راہ نہایت آسان ہے<۔۱۰۳
یہی نہیں۔ انہوں نے حلفیہ اعلان بھی کیا کہ۔
>میں تم کو خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آئو سب سے پہلے ایک بات کا فیصلہ کرلو اور جب تک وہ فیصلہ نہ ہو جائے۔ دوسرے معاملات کو ملتوی رکھو۔ اصل جڑ سارے اختلاف کی صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قسم نبوت کا ¶مسئلہ ہے<۔۱۰۴
مولوی محمد علی صاحب کے اس جدید موقف پر کہ >جڑ مسئلہ کفر و اسلام ہے<۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایسے معاند احمدیت کو اپنے اخبار اہلحدیث )۱۵۔ جنوری ۱۹۳۷ء( میں لکھنا پڑا کہ۔
>اتنا ضرور کہتے ہیں کہ ان دونوں مضمونوں میں سے مسئلہ نبوت اصل ہے اور تکفیر اسکی فرع ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خلیفہ قادیان اصولی بات کرتا ہے۔ اور لاہوری امیر جماعت کسی مخفی غرض سے اس کو ٹال رہے ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ کفر مرتب ہے انکار نبوت پر۔ پس بحث کا اصل مدار نبوت پر ہونا چاہئے۔ اس لئے ہم مناظرانہ حیثیت سے مولوی محمد علی صاحب کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس موقعہ کو غنیمت سمجھیں اور نبوت مرزا پر بحث کو ٹال نہ دیں<۔۱۰۵
مگر جناب مولوی محمد علی صاحب آخر دم تک اپنے انکار پر اصرار کرتے رہے!!
‏tav.8.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا تئیسواں سال
تیسرا باب )فصل نہم(
۱۹۳۶ء کے متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں خوشی کی تقریب
۸۔ مئی ۱۹۳۶ء کو بعد نماز عصر حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند ارجمند میاں محمد احمد خان صاحب کا عقد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کی دختر نیک اختر امتہ الحمید بیگم صاحبہ کے ساتھ پندرہ ہزار روپیہ مہر پر ہوا۔ خطبہ نکاح حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا۔۱۰۶
میجر ممتاز یا ورالدولہ بہادر قادیان میں
حیدرآباد دکن کے ایک معزز نواب میجر ممتاز یاورالدولہ ۲۸۔ فروری ۱۹۳۶ء کو مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت حیدر آباد دکن کے ساتھ قادیان تشریف لائے۔ حضرت امیرالمومنینؓ کی ملاقات اور قادیان کے مرکزی اداروں سے بہت متاثر ہوئے۔ اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ >یہاں کے جملہ کاروبار میں اخلاص و ایثار و للہیت کار فرما ہے<۔۱۰۷
مذہبی کانفرنس میں احمدی مبلغ کی تقریر
۶۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو آریہ سماج جموں کے زیر انتظام ایک مذہبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں مہاشہ محمد عمر صاحب نو مسلم مولوی فاضل نے بھی تقریر کی جو بہت پسند کی گئی۔ موضوع یہ تھا۔ >مجھے میرا دھرم کیوں پیارا ہے<۔۱۰۸
نئے تحقیقاتی کمیشن کا تقرر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میں مرکزی دفاتر کے نقائص دور کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا۔ )۱( حضرت میر محمد اسماعیل صاحب صدر )سول سرجن گوجرانوالہ( )۲( راجہ علی محمد صاحب )افسر مال لاہور )۳( پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے )گورنمنٹ کالج لاہور( )۴( شیخ عبدالحمید صاحب آڈیٹر لاہور۔ )۵( ملک غلام محمد صاحب رئیس لاہور )۶( چودھری عطاء محمد صاحب نائب تحصیلدار ہوشیارپور۔ )۷( میاں غلام محمد صاحب اختر سیکرٹری )سٹاف وارڈن لاہور(۱۰۹
اس کمیشن نے سالہا سال تک بڑی محنت و کاوش سے کام کیا اور بہت مفید خدمات انجام دیں۔
آل اڑیسہ ریلیجس کانفرنس
سری رام کرشناجی کی صد سالہ سالگرہ کے موقعہ پر اڑیسہ کے ہندوئوں نے ۱۱` ۱۲۔ اپریل ۱۹۳۶ء کو ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی۔ جس میں مولانا ظہور حسین صاحب نے اسلام کی کامیاب نمائندگی کی اور >اسلام عالمگیر مذہب ہے< کے عنوان پر نہایت عمدہ لیکچر دیا۔۱۱۰
پارلیمنٹ آف ریلیجنز بمبئی][شری رام کرشنا مشن بمبئی نے ۷`۸` ۹۔ مئی ۱۹۳۶ء کو بمبئی میں ایک پارلیمنٹ آف ریلیجنز کا انعقاد کیا۔ جس میں مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد یار صاحب عارف نے حصہ لیا۔ اور اسلام کو احمدیہ نقطہ نگاہ سے پیش کیا۔ تقریر کے خاتمہ پر صدر جلسہ جیاکار نے کہا۔ >آج ہمیں کئی ایسی باتوں کا علم ہوا ہے جو اس سے پہلے ہمیں معلوم نہیں تھیں۔ تحریک احمدیت کے فاضل لیکچرار نے اسلام کی جو تعلیم پیش کی ہے۔ اس کی اس وقت تمام دنیا کو ضرورت ہے۔ یعنی باہمی رواداری اور مذہبی اختلافات کو برداشت کرنا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ایک ایسی پارلیمنٹ کی مستقل طور پر تشکیل کی جاسکے۔ اور پبلک نہایت شریفانہ طور پر ایک دوسرے کے مذہبی خیالات سنے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔۱۱۱
ہانسی مذہبی کانفرنس
جون ۱۹۳۶ء میں تبلیغ کمیٹی کے زیر اہتمام ہانسی میں ایک مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم۔ گیانی واحد حسین صاحب اور دو دیوبندی علماء نے تقریریں کیں۔ محترم ملک صاحب کی تقریر خاص طور پر پسند کی گئی۔۱۱۲
‏]bsu [tagرسالہ >تعلیم الدین< کا اجرا
حکیم محمد عبداللطیف صاحب گجراتی نے )مولانا ابوالعطاء صاحب کی نگرانی میں( جولائی ۱۹۳۶ء سے ایک ماہوار رسالہ >تعلیم الدین< کے نام سے جاری کیا جس کا مقصد احمدی بچوں` خواتین` نئے احمدیوں اور نو مسلموں کو علوم دین سے آگاہ کرنا تھا۔ یہ رسالہ جو نہایت محنت سے مرتب ہوتا تھا۔ نومبر ۱۹۳۷ء تک جاری رہا۔
قادیان میں دو خاص درسوں کا اجرا
نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے قادیان میں ۱۵۔ اگست سے لے کر ۱۵۔ ستمبر ۱۹۳۶ء تک درس قرآن اور درس عربی صرف و نحو کا خاص انتظام کیا گیا۔ یہ سب درس مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مسجد اقصیٰ میں دیتے تھے۔۱۱۳ باقاعدہ شامل ہونے والوں کی تعداد ۲۳ تھی۔ درس کے اختتام پر امتحان بھی لیا گیا۔ اور قرآن مجید کے امتحان میں مولوی محمد اعظم صاحب بوتالوی اور چودھری فقیر محمد صاحب قادیان اور صرف و نحو میں ملک سعید احمد صاحب بی اے )ابن حضرت ملک مولا بخش صاحب( اول آئے۔۱۱۴
مسجد احمدیہ برہمن بڑیہ بنگال کا سنگ بنیاد
خان بہادر ابوالہاشم خان صاحب امیر پراونشل انجمن احمدیہ بنگال نے ۹۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو برہمن بڑیہ میں مسجد احمدیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ مسجد کے لئے حضرت مولانا سید عبدالواحد صاحب کے ورثاء نے مفت جگہ پیش کی۔۱۱۵
کوچہ چابک سواراں لاہور کی متنازع مسجد کی نسبت ہائیکورٹ کا فیصلہ
عرصہ تین چار سال سے مسجد کوچہ چابک سواراں لاہور کا مقدمہ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان ماتحت عدالتوں میں چل رہا تھا۔
‏body2] gat[سشن کورٹ نے فیصلہ کیا کہ احمدی اس مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں کرسکتے۔ اس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی گئی۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ نے آدھ گھنٹہ تک نہایت قابلیت سے ثبوت دعویٰ میں اپنے دلائل پیش کئے آخر ۱۲۔ نومبر ۱۹۳۶ء کو ہائیکورٹ نے احمدیوں کے حق میں ڈگری دے دی۔ اور یہ متنازع مسجد بالاخر احمدیوں کو مل گئی۔ اور اس کے امام سید دلاور شاہ صاحب بخاری مقرر کئے گئے۔۱۱۶
قادیان میں ٹیلیفون کا افتتاح
قادیان میں ٹیلیفون لگانے کا کام ۱۴۔ دسمبر ۱۹۳۶ء کو مکمل ہوگیا۔ اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے گفتگو کے ساتھ اس کا افتتاح فرمایا۔۱۱۷
مبلغین سلسلہ کی بیرونی ممالک کو روانگی`
اس سال )۱۹۳۶ء میں( پندرہ مبلغین بیرونی ممالک میں پیغام حق پہنچانے کے لئے بھجوائے گئے۔ جن مجاہدین کے اسماء یہ ہیں۔
)۱( مولوی محمد سلیم صاحب فلسطین۔ )تاریخ روانگی ۴۔ جنوری ۱۹۳۶ء(۱۱۸ )۲( مولوی عبدالواحد صاحب سماٹرا )تاریخ روانگی ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء( )۳( مولوی شیخ عبدالواحد صاحب چین۔ ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء۔۱۱۹ )۴( حاجی احمد خاں صاحب ایاز ہنگری ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء۔ )۵( مولوی محمد رمضان صاحب ارجنٹائن ۲۵۔ جنوری ۱۹۳۶ء۔۱۲۰ )۶( مولانا جلال الدین صاحب شمس لنڈن روانگی یکم فروری ۱۹۳۶ء۔ )۷( مولوی نذیر احمد صاحب )مغربی افریقہ۔ تاریخ روانگی یکم فروری ۱۹۳۶ء( )۸( مولوی نذیر احمد صاحب مبشر )مغربی افریقہ۔ تاریخ روانگی یکم فروری ۱۹۳۶ء(۱۲۱ )۹( ملک محمد شریف صاحب سپین یکم فروری ۱۹۳۶ء )۱۰( ملک عزیز احمد صاحب۱۲۲ جاوا۔ یکم فروری ۱۹۳۶ء۔ )۱۱( مولوی محمد الدین صاحب البانیہ۔ تاریخ روانگی ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۶ء۔ )۱۲( مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری )سنگاپور تاریخ روانگی ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۶ء( )۱۳( مولوی سید شاہ محمد صاحب )سنگاپور۔ جاوا۔ سماٹرا۔ تاریخ روانگی ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۶ء(۱۲۳ )۱۴( صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی )امریکہ۔ تاریخ روانگی ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء( )۱۵( مولوی محمد ابراہیم صاحب ناصر )امریکہ۔ ہنگری۔ تاریخ روانگی ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء(۱۲۴
بیرونی مبلغین کی واپسی
مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مبشر بلادعربیہ ۲۴۔ فروری ۱۹۳۶ء کو۔۱۲۵ اور مولانا رحمت علی صاحب مبلغ جاوا ۳۔ دسمبر ۱۹۳۶ء کو قادیان میں واپس تشریف لائے۔۱۲۶
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
فلسطین مشن۔ وسط ۱۹۳۶ء میں فلسطین کے حالات نہایت مخدوش ہوگئے۔ اور عربوں اور یہودیوں۔ اور سول اور فوجی پولیس کے درمیان بار بار تصادم ہوا۔ اور لمبی ہڑتال جاری رہی جس کے نتیجہ میں فسادات بڑھ گئے۔ اور کئی لوگ قتل یا مجروح ہوئے۔ اس موقعہ پر جماعت ہائے احمدیہ فلسطین نے ہنگامی چندہ جمع کرکے مستحقین کی حتی الوسع مالی امداد کی۔۱۲۷
انگلستان مشن۔ ورلڈ فیلو شپ آف فیتھس کے زیر اہتمام قبل ازیں شکاگو اور نیویارک میں پہلی مذہبی کانفرنس ۱۹۳۳ء میں۔ دوسری ۱۹۳۴ء میں اور تیسری کانفرنس جولائی ۱۹۳۶ء میں بمقام لندن منعقد ہوئی- جس میں مولانا عبدالرحیم صاحب درد امام مسجد لنڈن نے دعا کرانے کے علاوہ عیسائی مذہب کے نمائندہ کے مضمون سے متعلق بحث کا افتتاح بھی فرمایا۔۱۲۸
مولانا جلال الدین صاحب شمس نے بھی اس کی متعدد نشستوں میں شرکت کی اور مہاراجہ بڑودہ` سرہربرٹ سیمیوئل` سرآرنلڈ سٹیور اور حافظ وہبہ قونصل حکومت سعودیہ سے ملاقات کی۔ اس موقعہ پر احمدیوں نے دو سو کے قریب اشتہارات اور ٹریکٹ تقسیم کئے۔]4 [stf۱۲۹
مغربی افریقہ مشن۔ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ مغربی افریقہ نے اپریل ۱۹۳۶ء میں ایک لمبا تبلیغی دورہ کیا جو کم و بیش سات سو میل پر مشتمل تھا۔۱۳۰
۱۹۳۶ء کی نئی مطبوعات
اس سال شائع ہونے والے اہم لٹریچر کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔
>محامد خاتم النبینﷺ<~ )حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس اور اثر انگیز تحریرات کا روح پرور مجموعہ مرتبہ حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحبؓ ہلال پوری(
۲۔
نبراس المومنین باترجمہ )سو احادیث النبیﷺ~ معہ ترجمہ از مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل(
۳۔
>ہندی ترجمہ قرآن مجید< )از جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< قادیان۔ اس ترجمہ کے پورے اخراجات سلطان دکن اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع نے ریاست حیدرآباد کی طرف سے عطاء کئے۔۱۳۱
۴۔
>پوترجیون< )آنحضرت~صل۱~ کی گورمکھی زبان میں سیرت طیبہ۔ مولفہ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< قادیان(۱۳۲
۵۔
مناظرہ مہت پور۔ )تحریری مناظرہ جو مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل اور مرزا یوسف حسین صاحب کے درمیان ہوا(
۶۔
عاقبتہ المکذبین حصہ اول )افغانستان میں مظلوم احمدیوں پر مظالم کی درد انگیز داستان اور اس کے عبرتناک نتائج۔ تالیف حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ ہوتی مردان(
۷۔
>ذکر حبیبؑ<۔ )حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے قلم سے زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان افروز حالات پر مشتمل ایک نہایت اہم تالیف(
۸۔
>بائیبل کی بشارات بحق سرور کائنات<۔ )مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ(
۹۔
>جماعت احمدیہ و احرار<۔ )تالیف ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف موگا(
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
مباحثہ بہبو وال چھنیاں مکیریاں ضلع ہوشیارپور۔ یہاں ۳۰ و ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۶ء کو تینوں مسائل پر جماعت احمدیہ کا اہلسنت و الجماعت سے مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر اور غیر احمدیوں کی طرف سے حافظ عبدالعزیز صاحب مناظر تھے۔ شرفاء نے جماعت احمدیہ کے دلائل کی برتری تسلیم کی۔۱۳۳
مباحثہ تاروآ )بنگال( اس مقام پر قریشی محمد حنیف صاحب قمر میرپوری )سائیکل سیاح( کا مولوی تاج الاسلام صاحب سے مناظرہ ہوا۔ جو بہت کامیاب رہا۔۱۳۴
مباحثہ کوٹلی ضلع میرپور )کشمیر( کوٹلی میں احمدی مبلغ مولوی محمد حسین صاحب نے ۲۸` ۲۹۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو ہرسہ متنازعہ مسائل پر ایک عالم اہلحدیث سے مناظرہ کیا۔ جس کے بعد ہندو اصحاب نے کہا کہ صداقت احمدیوں کے پاس ہے۔ دوسرے لوگ محض ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں۔۱۳۵
مباحثہ موضع پدیندار )علاقہ کٹک( ۳۔ اپریل ۱۹۳۶ء کو مولوی ظہور حسین صاحب فاضل نے کئی غیراحمدی علماء سے مناظرہ کیا۔ متعدد غیر احمدی اصحاب نے واضح لفظوں میں اقرار کیا کہ احمدیوں کے پیش کردہ دلائل کا جواب ہمارے مولوی نہیں دے سکے۔۱۳۶
‏body] g[taمباحثہ ہیرو شرقی )ضلع ڈیرہ غازیخاں( ۲۶۔ اپریل ۱۹۳۶ء کو ہیرو شرقی میں آٹھ گھنٹہ کے قریب نہایت کامیاب مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مناظر تھے۔ اور غیر احمدیوں کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختر۔۱۳۷ دوسرے دن مباہلہ بھی کیا گیا۔۱۳۸
مباحثہ گوجرانوالہ۔ مولانا ابوالعطاء صاحب نے ۲۰۔ جون ۱۹۳۶ء کو عبداللہ معمار صاحب سے >مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ< کے موضوع پر شاندار مناظرہ کیا۔ مخالفین احمدیت نے بھی احمدی مناظر کی شرافت و نجابت` علمیت` سنجیدگی اور وسیع حوصلگی کا اقرار اور آپ کے طرز کلام پر خوشی کا اظہار کیا۔۱۳۹
مباحثہ بھرت )ضلع لائل پور( موضع بھرت چک نمبر ۴۳۸ میں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے مولوی محمد شفیع صاحب سنکھتروی سے حیات و وفات مسیح اور مسئلہ صدق مسیح موعودؑ پر دو مناظرے کئے۔ تیسرا مناظرہ ختم نبوت پر مقرر تھا۔ مگر مولوی محمد شفیع صاحب کو میدان میں آنے کی ¶جرات نہ ہوسکی۔۱۴۰
مناظرہ مہت پور )ضلع ہوشیارپور( ۱۹۳۵ء کا مشہور )تحریری( مناظرہ مہت پور میں احمدیوں اور شیعوں کے مابین ہوا۔ جو یکم اکتوبر سے لیکر ۱۴۔ اکتوبر برابر چار روز تک جاری رہا۔ احمدی مناظر مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے اور مناظر انجمن اثنا عشریہ جناب مرزا یوسف حسین صاحب۔ موضوع بحث حسب ذیل تھے۔
)۱( صداقت دعویٰ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مہدی موعود۔ )۲( متعہ النساء۔ )۳( ختم نبوت۔ )۴( تعزیہ داری۔ یہ یادگار مناظرہ دسمبر ۱۹۳۶ء میں جماعت احمدیہ اور شیعہ اثنا عشریہ مہت پور کے مشترکہ خرچ پر شائع کردیا گیا۔۱۴۱ اس مناظرہ میں نمائندگان فرقہ اثنا عشریہ حسب ذیل تھے۔
سید احمد علی شاہ صاحب۔ فدا حسین صاحب۔ عطا محمد صاحب پریذیڈنٹ اثنا عشری۔
نمائندگان جماعت احمدیہ کے نام یہ ہیں۔ مولوی عبدالرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب ذبیح۔ چوہدری کمال الدین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ مہت پور۔ مناظرہ کے بعد موافق و مخالف سب کی زبان پر یہی چرچا تھا کہ احمدی مناظر غالب آگئے اور یہ کہ شیعہ مناظر صاحب اپنے مذہب ہی سے ناواقف ہیں۔۱۴۲
مباحثہ بمبئی۔ بمبئی میں ۱۶۔ ستمبر سے ۳۔ اکتوبر تک جماعت احمدیہ کا آریہ سماج سے تحریری مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد یار صاحب عارف نے۔ اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت ایدھیا پرشاد صاحب نے پرچے لکھے۔ مناظرہ کے دو موضوع تھے۔ اول حدوث روح و مادہ۔ دوم عالمگیر مذہب اسلام ہے یا ویدک دھرم؟۱۴۳ بعض )سناتن دھرمی( ہندوئوں نے کھلم کھلا کہا کہ پنڈت صاحب کے مقابل احمدی مناظر نے اپنی الہامی کتاب کی زیادہ خوبیاں بیان کی ہیں۔ اس لئے وہ غالب رہا ہے۔ انہیں خیالات کا اظہار بعض آریہ صاحبان نے بھی کیا۔۱۴۴
مباحثہ گوکھووال )ضلع لائل پور(۔ ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو گھووال میں تینوں اختلافی مسائل پر احمدیوں اور سنیوں کے مابین ایک معرکتہ الاراء مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی` مولوی دل محمد صاحب اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم مناظر تھے۔ اہلسنت و الجماعت کی طرف سے مولوی محمد شفیع صاحب سنکھتروی اور سائیں لال حسین صاحب اختر نے بحث کی۔
مناظرہ میں ناکام ر ہنے کے بعد غیر احمدی اصحاب نے عیسائیوں کو انگیخت کی کہ وہ احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیں۔ چنانچہ انہوں نے مناظرہ کا چیلنج دیا۔ جو فوراً منظور کرلیا گیا۔ اور اگلے روز ۱۲۔ اکتوبر کو صداقت مسیح موعودؑ اور الوہیت مسیح ناصریؑ پر مناظرہ ہوا۔ پہلے موضوع میں مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی` اور دوسرے میں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب امیر جماعت احمدیہ لائل پور مناظر تھے۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری میلا رام پیش ہوئے۔ اس مناظرہ کے بعد ایک صاحب )منشی محمد دین صاحب( جو غیر احمدیوں کے بانی مناظرہ کے چچا اور ان کے سرگرم ممبر تھے جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے۔۱۴۵
مباحثہ سنگرور )ریاست جنید( ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۶ء کو سنگرور میں جماعت احمدیہ کا غیر مبائعین کے ساتھ ایک نہایت کامیاب مناظرہ ہوا۔ زیر بحث موضوع یہ تھے )۱( کیا قرآن مجید اور احادیث نبویہ~صل۱~ کی رو سے آنحضرت~صل۱~ کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری ہے؟ )۲( کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم نے اور غیر مبائعین کی طرف سے مولوی عمر الدین صاحب شملوی نے نمائندگی کی۔
اس مناظرہ میں مولوی عمرالدین صاحب شملوی کی بدحواسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوران مناظرہ میں ایک معزز غیر احمدی مولوی ظفر احسن صاحب نے کہا کہ مولوی عمر الدین صاحب شملوی معقول آدمی تھا آج معلوم نہیں کیا ہوگیا ہے کہ الٹی سیدھی باتیں کررہا ہے۔ مناظرہ میں بعض دوسرے غیر مبائع مبلغ بھی مولوی صاحب موصوف کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔ جو بعض اوقات انکی بے علمی پر بے اختیار ہنس پڑتے تھے۔۱۴۶
ملک سیف الرحمن صاحب کی بیعت
۱۹۳۶ء میں جن خوش قسمت افراد کو قبول حق کی توفیق ملی۔ ان میں )سلسلہ احمدیہ کے موجودہ مفتی( مولانا ملک سیف الرحمن صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ذیل میں ہم ملک صاحب موصوف کے ایک مکتوب۱۴۷ کا ایک اقتباس درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جس سے آپ کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے واقعات پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے۔ آپ نے لکھا۔
>خاکسار اپنے علاقہ کے ایک معزز نقشبندی خاندان کا رکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔ خاکسار پچھلے سالوں میں بغرض تعلیم لاہور میں مقیم رہا۔ اثنائے قیام میں احمدیت کی مخالفت کا اتفاق ہوا۔ اس عرض کے لئے حلقہ نیلہ گنبد لاہور میں ایک انجمن سیف الاسلام نامی بنائی گئی جس کی سیکرٹری شپ کی خدمات خاکسار کے سپرد کی گئیں۔ چونکہ اس وقت احرار نے احمدیت کے خلاف بہت کچھ شور مچارکھا تھا۔ اور اس شوروغوغا کے آغاز کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول تھی۔ اس لئے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انجمن کے ماتحت جلسے اور ٹریکٹ وغیرہ شائع کرکے احمدیت کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ نیلہ گنبد کے بعض احمدیوں کو حلقہ کے لوگوں نے تنگ کرنا شروع کیا۔ اگر احمدی مسجد کے سامنے والے گرائونڈ میں کوئی تبلیغی جلسہ کرنا چاہتے تو انجمن کی طرف سے اسے درہم برہم کرنے کی ہر جائز و ناجائز کوشش کی جاتی۔ اس اثناء مں بعض احمدی دوستوں نے خاکسار کو احمدیت کے اصول میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دی۔ چونکہ خاکسار کے لئے اس صورت میں احمدیت کی مخالفت کا یہ پہلا موقع تھا۔ اس لئے اس ترغیب پر خاکسار نے کسی قدر گہری نظر سے عقائد احمدیت اور اس کی ترقی اور احراری کوشش کے مفید یا غیر مفید نتائج کے متعلق غور و خوض شروع۱۴۸ کردیا۔ احرار کانفرنس منعقدہ قادیان میں شمولیت کی تیاری کی گئی۔ اور اس طرح قادیان اور اس کی ترقی کو پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بہشتی مقبرہ اور لوگوں کے پھیلائے ہوئے اتہامات کو دیکھا اور کسی قدر تعجب آیا۔ مگر پھر >حالات مملکت خویش خسرواں دانند< کے پیش نظر اپنے دل کو جہالت کا طعنہ دے کر >حامیان دین و مفتیان شرع متین< کی صداقت کا معتقدر رہنے پر مجبور کیا مگر تابکے! دل متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ اس حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مزار مبارک پر جاکر عجز و انکسار کے ساتھ دربار خداوندی میں دیدہ پرنم سے اس طرح دعا شروع کی۔ خدا! تو جو علیم و خبیر ہے اور دلوں کے ہرسربستہ راز کو جانتا ہے اور اپنے بندوں کی دعائوں کی سنتا ہے۔ ہدایت کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ آج تیرا ایک گنہگار بندہ بھی تجھ سے ایک درخواست کرنے کی جرات کرتا ہے۔ ربنا تقبل منا ط انک انت السمیع العلیم اے خدائے قدوس! یہ شخص جس کے قائم کردہ سلسلہ کو مٹانے کے لئے آج ہم قادیان کی سرزمین میں آئے ہیں۔ اس کے متعلق دو ہی باتیں متصور ہوسکتی ہیں۔ اگر یہ سچا ہے تو اس زمانہ میں تیرا سب سے پیارا اور سب سے زیادہ محبوب ہے۔ پس میرے گناہوں کی پاداش میں اس کے فیوض سے مجھے محروم نہ رکھیو۔ اور اگر یہ جھوٹا ہے۔ تو ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذب ط کی وعید خداوندی کی رو سے اس زمانہ کا )خاکم بدہن( بدترین شخص اور سب سے بڑا ظالم ہے۔ سو اس کے شرور سے مامون و محفوظ رکھیو۔ سبحانک لا علم لنا الا ماعلمتنا ط انک انت العلیم الحکیم آنکھیں پراشک ہوگئیں۔ دوستوں سے نظر بچا کر آنسو پونچھ دئے اور بات کو ادھر ادھر ٹلا دیا۔ دعاء کے بعد جلسہ گاہ میں واپس آیا اور >علماء کرام کی پرمعارف تقریریں< سنیں۔ رات گزاری۔ اور دوسرے دن لوگوں کے ساتھ فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے واپس لاہور چلا آیا۔ دن` دنوں کے بعد ہفتے` ہفتوں کے بعد مہینے گزرتے گئے۔ >امیر شریعت< صدر احرار کانفرنس پر سرکار کی طرف سے مقدمہ چلائے جانے کی افواہیں ادھر ادھر مشہور ہونے لگیں۔ آخر ایک صبح اخبار میں بدیں عنوان >مولٰنا< کی گرفتاری کی خبر پڑھی۔ >امیر شریعت< حضرت مولٰنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ منصوری سے گرفتار کر لئے گئے۔ سرکار کی >قادیانیت نواز پالیسی< پر اظہار غیظ و غضب کے لئے بعد نماز عشاء بیرون دہلی دروازہ ایک >عظیم الشان< جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ جلسے کی کارروائی دیکھنے کے لئے لوگ جوق در جوق آنے شروع ہوئے۔ خاکسار بھی >اسلام کی فتح< کی دعائیں کرتا ہوا شامل جلسہ ہوا۔ >علماء اسلام و رہنمایان احرار< نے لوگوں کو تسلیاں دیں۔ اسلام کی فتح اور کفر کی شکست کی پیشگوئیاں کی گئیں۔ مقدمہ لڑنے کا ریزولیوشن پاس کیا۔ مقدمہ کے اخراجات کے پیش نظر چندہ کی اپیل کی گئی۔ انجمن سیف الاسلام کی طرف سے بھی ہر جمعہ مسجد نیلہ گنبد میں اس اپیل کی یاددہانی کرائی جاتی اور چندہ اکٹھا کرکے جو کبھی بیس روپیہ اور کبھی تیس روپیہ ہوتا دفتر مجلس احرار میں بھیج دیا جاتا۔ >حضرت امیر شریعت< ضمانت پر رہا ہوکر لاہور تشریف لائے۔ اہالیان شہر نے >مجاہد اسلام< کا شاندار استقبال کیا۔ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے حضرت< نے بڑے زور سے پیشگوئی کی کہ لوگو! اب قادیانیت کے آخری سانس ہیں۔ اس کا جنازہ میرے کندھوں پر اٹھے گا۔ اس کا آسمان پر فیصلہ ہوچکا ہے۔ عنقریب قادیانیت کا قلعہ پاش پاش ہو جائے گا۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اصول جنگ سے واقفیت رکھنے والے >جرنیل اسلام< کے ان بلند بانگ دعاوی سے کسی قدر متعجب ہوئے۔ مگر پھر دل کو سمجھایا اور >امیر شریعت کی< >زبان مبارک< سے کہے ہوئے کلمات کے حرف بحرف پورا ہونے کی دعائیں کرتے ہوئے گھر واپس آئے۔ رمضان مبارک کا مہینہ تھا۔ جمعتہ الوداع کو تاریخ مقدمہ تھی۔ جلسوں اور اخبارات کے ذریعہ اپیل کی گئی کہ لوگ کثرت کے ساتھ جمعتہ الوداع کے موقع پر گورداسپور پہنچیں اور اپنے >مجاہد< کی شان و شوکت کے اظہار کے لئے زبردست مظاہرہ کریں۔ بہاولپور سے مقدمہ بہاولپور کے بیانات کی نقلیں لیکر جامعہ عباسیہ کے ایک پروفیسر صاحب بھی آئے۔ چونکہ خاکسار ان کا شاگرد رہ چکا تھا اس لئے وہ مجھے بھی اپنے ہمراہ گورداسپور لے گئے۔ تاریخ مذکورہ پر محترمی جناب خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر >الفضل< نے بطور گواہ پیش ہونا تھا۔ چونکہ وقت بہت تھوڑا تھا اور ابھی اعتراضات کا مسودہ پوری طرح تیار نہیں ہوا تھا۔ اس لئے کرایہ پر لائے ہوئے >علماء کرام< کو کہا گیا کہ رات کے اندر اندر مسودہ مکمل کر دیا جائے۔ خاکسار نے بھی اعتراضات کے جمع کرانے میں اپنی قدر و طاقت کے مطابق حصہ لیا۔ غرض رات بھر بیدار رہ کر اعتراضات کا مسودہ تیار کرلیا گیا۔ مگر غفلت شعار وکیل نے سستی کی اور وہ مسودہ کا مطالعہ نہ کرسکا۔ اس لئے دوسرے دن مجسٹریٹ کی عدالت میں گواہ پر وہ اعتراضات نہ ہوسکے اور آئیں بائیں میں وقت ختم ہوگیا۔ جمعتہ الوداع کے عظیم الشان اجتماع پر لوگوں سے امیر شریعت تسلیم کرنے کی بیعت لی گئی۔ جس کی ضرورت ان الفاظ میں بیان کی گئی کہ خلیفہ محمود اپنے مریدوں کے بل بوتے پر سرکار کو مرعوب کئے ہوئے ہے تم بھی میرے مرید بن جائو۔ تاکہ میں اپنے آپ کو عدالت میں ممتاز صورت میں پیش کرسکوں۔ یہاں صرف دستی بیعت کرجائو۔ گھر جاکر خدا کی راہ میں تین پیسے )۔(/ کی قربانی کرکے بذریعہ کارڈ بیعت کی اطلاع بھیج دینا۔ بڑے زور شور سے بار بار اس کے لئے وعدے لئے گئے۔ وعدہ وفائی کے اجر اور بے وفائی کے زجر کا زبردست وعظ کیا گیا۔ چونکہ خاکسار کو >امیر شریعت< کی ہمراہی کا پہلی دفعہ اتفاق ہوا تھا۔ اس لئے اپنے آپ کو سعادت مند سمجھتے ہوئے شنیدہ کے بود مانند دیدہ کے خیال سے اس موقع سے متمتع ہونے کا ارادہ کیا۔ تاکہ اشغال امیر کو حرز جان بنا کر ان پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کی جائے۔
آنکھوں نے کچھ دیکھا۔ دل نے جو عقیدت کے پرپیچ جال میں اسیر ہوچکا تھا۔ آنکھوں کو دھوکا خوردہ قرار دیا اور وجد کے عالم میں جھوم جھوم کر گانے لگا۔~}~
بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
بعد فراغت کسی قدر تذبذت کی حالت میں واپس لاہور آیا اور تحریک احرار کے نتائج کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار کرنے لگا۔ >امیر شریعت< کے بلند بانگ دعاوی ایک خاص امید کے ساتھ اخبارات کے کالم دیکھنے پر مجبور کرتے۔ نظریں عاشق بے تاب کی طرح جو اپنے گم شدہ محبوب کی تلاش میں نہایت بے صبری کے ساتھ جلدی جلدی نظر جما جما کر ادھر ادھر مجنونانہ وار دیکھتا ہے اسلام کی فتح اور کفر کی شکست کی خبریں تلاش کرتیں۔ مگر یہاں کوئی ہوتی تو نظر آتی۔ بڑے بڑے زبردست >قادیانیت شکن` عنوان۔ مگر اندر طبل بلند بانگ کا نظارہ۔ آخر ایک پریشانی اور اضطراب کے عالم میں ینقلب الیک البصر خاسا وھو حسیر کی حالت طاری ہوکر آئندہ کی امید میں اخبار کا ورق ہاتھ سے گر پڑتا۔ اور >لا تقنطو من رحمہ اللہ< کی یاد پریشانی کو مبدل بہ مسرت کردیتی۔
اس اثناء میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ دفاتر پنجاب یونیورسٹی کے احاطہ میں ایک مسجد تھی۔ جس میں ادھر ادھر سے احمدی جمع ہوکر نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ دفاتر کے غیر احمدی ملازمین نے احرار کے شوروغوغا سے متاثر ہو کر انجمن کے دفتر میں ایک آدمی بھیجا کہ جمعہ پڑھانے کے لئے ہمیں ایک آدمی دیا جائے جو احمدیت کے عقائد کی تردید بھی کرسکے۔ اور ساتھ ہی چند آدمی جمعہ کے موقعہ پر ہمراہ لے آئے۔ تاکہ احمدی اگر فساد کرنا چاہیں تو موقعہ پر کام آئیں۔ چنانچہ خاکسار حسب تجویز جمعہ پڑھانے کے لئے گیا۔ احمدی جب جمعہ پڑھنے کے لئے آئے تو وہ خاموش ہوکر سامنے کے گراسی پلاٹ میں چلے گئے۔ اور انتظار کرنے لگے کہ جب غیر احمدی جمعہ پڑھ لیں تو پھر ہم بھی مسجد میں پڑھ لیں گے۔ لیکن اختتام جمعہ کے بعد بعض شرارت پسند ملازمین نے کہا کہ مولوی صاحب! ابھی احمدی باہر انتظار میں بیٹھے ہیں اس لئے آپ وعظ شروع کردیں تاکہ وہ ناامید ہوکر چلے جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ غرض اس طرح متواتر خاکسار جمعہ پڑھانے جاتا رہا۔ اور اس طرح احمدیوں کو وہاں جمعہ پڑھانے سے روک دیا گیا۔ لیکن اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ چونکہ خاکسار کو ہر جمعہ تقریر کرنی پڑتی اور راہ ہدایت کی بڑے زور شور سے تلقین کی جاتی مگر ۔۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اندر ہی اندر ضمیر نے ملامت کرنی شروع کی۔ آخرکار حالت یہاں تک پہنچی کہ تقریر کرتے کرتے یاایھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا عنداللہ ان تقولو امالا تفعلون کا مضمون آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ اور عالم اضطراب میں تقریر رک جاتی اور ایک لفظ کہنا محال ہو جاتا۔ اس حالت کو دوسرے بھی محسوس کرتے اور کہتے آپ پہلے تو بہت اچھی تقریر کرتے تھے مگر اب یہ کیا رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے- اس اثر کے پیش نظر خاکسار نے عملی حالت کے سدھار کی جانب توجہ کی۔ مگر اس دشوار گزار وادی میں داخل ہوتے ہی گھبراہٹ اور اضطراب نے قدم پکڑ لئے اور ایک قدم آگے بڑھانا محال ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دہریت کے خیالات مردار خوار گدھ کی طرح سر پر منڈلانے لگے۔ اپنی طاقت اور رسائی کے مطابق اپنے ہم عقیدہ بدرقہ اور رہنما کی تلاش کی۔ مگر ہر طرف سے یہی جواب آیا کہ اس پرفتن زمانہ کے شرور سے محفوظ رہنے کے لئے اولیاء اللہ نے کنج گمنامی اختیار کرلیا ہے۔ ایک احمدی دوست۱۴۹ نے مشورہ دیا کہ چند شروط کے ساتھ حضرت امیرالمومنین کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے عریضہ تحریر کرو۔ چنانچہ اس کی تجویز کردہ شرائط کے ساتھ گو وہ خاکسار کو ناپسند تھیں ایک عریضہ حضور کی خدمت میں تحریر کردیا۔ جس کا جواب سیکرٹری صاحب کی طرف سے یہ آیا کہ >حضور نے بعد ملاحظہ عریضہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ طریق نہ آنحضرت~صل۱~ کا ہے اور نہ ہمارا۔ اس کے لئے آپ کسی اور کو تلاش کریں<۔ یہ جواب پاکر ایک زبردست نکتہ سمجھ میں آیا مگر اس کے ساتھ اپنی بدقسمتی پر رنج بھی ہوا۔ کیونکہ بعض قسمت والوں کی خطا بھی ان کی سعادت اور کامیابی کا موجب بن جاتی ہے۔ اگرچہ یہ جواب بعد میں ایک زبردست پیشگوئی ثابت ہوا۔ کیونکہ آسمان پر ان شرائط کے خلاف فیصلہ ہوچکا تھا جیسا کہ بعد میں ظہور میں آیا۔ اگر دعا کی جاتی تو اس کے یہ معنے ہوتے کہ خدا کے بندوں کی دعائیں نعوذ باللہ لغو بھی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہی دنوں خاکسار نے تعلیم کو ملتوی کرکے لاہور میں ایک متوسط درجہ کا ہوٹل جاری کیا۔ انتظامی نقص کی وجہ سے قریباً ہزار روپیہ بندہ پر قرض ہوگیا اور خسارہ پاکر مجبوراً اس کو بند کرنا پڑا۔ اس طرح مزید پریشانی کا ایک اور سبب پیدا ہوگیا۔ ادھر یہ حالات رونما تھے ادھر مسجد شہید گنج کا شاخسانہ شروع ہوگیا۔ اصحاب فیل کی طرح احرار کی تمام کوششیں ھباء منثورا ہوگئیں۔ اتنی عزت کے بعد یکلخت انتہائی ذلت۔ آنکھیں رکھنے والوں کے لئے سرمہ عبرت ثابت ہوئی۔ کہاں احمدیت کو فنا کرنے کے دعاوی اور کہاں یہ انتہائی ناکامی۔ سمجھنے والے اس راز کو سمجھ گئے۔ احرار نے لاکھ ہاتھ پائوں مارے مگر ہوا وہی جس کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ ہر جتن کیا مگر بگڑی بات بنائے نہ بنی۔ صاف سامان نظر آنے لگا۔~}~
قادر کے کاروبار نمودار ہوگئے
کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہوگئے
جب جماعت احمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۳۵ء کی تیاریاں شروع ہوئیں اور اشتہارات کے ذریعے تاریخ انعقاد اعلان کیا گیا تو مذکورہ بالا احمدی دوست نے خاکسار کو بھی اس مبارک تقریب سے مستفید ہونے کی ترغیب دی۔ چنانچہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے تاریخ مقررہ پر خاکسار قادیان پہنچ گیا۔ جلسہ کی کارگزاری` دعائوں کے رقت انگیز نظارے` حضور کی پراثر تقریریں اور عید الاضحیہ کا پرمعارف خطبہ ایسے امور نہ تھے جو متلاشی حق کے لئے کفایت نہ کرتے۔ دل میں صداقت کا نور چمکا اور بعد از نماز ظہر]4 [stf۱۵۰ مسجد مبارک میں حضور کے دست مبارک پر گزشتہ گناہوں سے توبہ اور آئندہ ذنوب سے بچنے کی کوشش کا اقرار کرتے ہوئے جماعت احمدیہ میں شمولیت کی سسعادت حاصل کی<۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۵۱
تیسرا باب
حواشی
۱۔
الفضل ۱۸۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۔
مجاہد ہنگری )مولفہ حاجی احمد خاں صاحب ایاز( صفحہ ۳۲۔ شائع کردہ شیخ الہیٰ بخش رحیم بخش احمدیاں بک سیلرز و پبلشرز گجرات طبع اول ۱۹۳۸ء۔
۳۔
الفضل ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۴۔
الفضل ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۴۔
۵۔
الفضل ۳۱۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ کالم ۴۔ قبل ازیں آپ ٹیونس میں ایک فرانسیسی ہسپتال میں کام کرچکے تھے۔ اور متعدد زبانوں )مثلاً جرمن۔ فرانسیسی۔ اطالوی۔ لاطینی اور ہنگری( کے ماہر تھے۔ الفضل ۱۷۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۶۔
الفضل ۱۷۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۸۔
۷۔
الفضل ۳۰۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۹۔
۸۔
الفضل ۱۷۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۷ کالم ۱ و ۲۔
۹۔
الفضل ۱۷۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۷ کالم ۲ و ۳۔
۱۰۔
الفضل ۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۸۔
۱۱۔
الفضل یکم دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۷ کالم ۴۔
۱۲۔
الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۹ کالم ۴۔
۱۳۔
الفضل ۲۸۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۴۔
۱۴۔
الفضل ۳۔ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۱۵۔
جماعت احمدیہ بوڈاپسٹ کے حالات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو حاجی احمد خاں صاحب ایاز کی کتاب >مجاہد ہنگری< صفحہ ۱۱۸۔ ۱۲۱۔
۱۶۔
الفضل ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۶۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب ناصر کی پہلی رپورٹ الفضل ۲۶۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۶۔ ۸ میں چھپی۔
۱۷۔
الفضل ۴۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۱۸۔
الفضل ۲۳۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۹۔
مجاہد ہنگری صفحہ ۱۲۲۔
۲۰۔
الفضل ۱۶۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۲۱۔
‏]2h [tag الجیریا کے باشندے اور چار سال سے پولینڈ میں عربی کے پروفیسر تھے جرمنی` فرانسیسی اور پولش زبانوں کے ماہر ہیں۔ الفضل ۱۶۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۲۲۔
بیان کا ترجمہ الفضل ۲۹۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۵ پر چھپ چکا ہے۔
۲۳۔
الفضل ۱۸۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۴۔
البم شائع کردہ تحریک جدید )۱۹۳۹ء(
۲۵۔
الفضل ۲۹۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱ و ۲۔
۲۶۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ و ۷۔ الفضل ۲۸۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۹` ۱۰۔ الفضل ۱۲۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ و ۸۔
۲۷۔
۱۱۔ فروری ۱۹۳۷ء کو آپ نے انچارج مشن کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اور فروری کے اختتام تک دس افراد نے احمدیت قبول کرلی۔ )الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۱(
۲۸۔
الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ ایضاً ۱۲۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ و ۱۷۔ ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ ۴۔
۲۹۔
تراجم کے سلسلہ میں سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ نے نیروبی سے خاص امدادی رقوم بھجوائی تھیں۔
‏]1h [tag۳۰۔
الفضل ۲۵۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۱۔
الفضل ۲۸۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ آپ کا تبلیغی سرگرمیوں کا پہلا مرکز بونس آئرز تھا۔
۳۲۔
البم شائع کردہ تحریک جدید )۱۹۳۹ء( ارجنٹائن کی ابتدائی رپورٹوں کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۷۔
۳۳۔
اس نوٹ کا ترجمہ الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۳ و ۴ میں شائع شدہ ہے۔
۳۴۔
الفضل ۴۔ فروری ۱۹۳۶ء۔
۳۵۔
الفضل ۶۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۷۔
۳۶۔
الفضل ۲۶۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۸ و ۹ اور ۲۷۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۸۔
۳۷۔
الفضل ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۸۔ تاریخ بیعت آغا صاحب ۲۱۔ ستمبر ۱۹۳۶ء۔
۳۸۔
تفصیلی رپورٹ الفضل ۱۶۔ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ و ۹ پر شائع شدہ ہے۔
۳۹۔
الفضل ۲۸۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۴۰۔
الفضل ۱۱۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۔
۴۱۔
الفضل ۲۹۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۵ و ۶۔
۴۲۔
واقعہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۔ مارچ ۱۹۳۶ء کالم ۱ و ۲۔
۴۳۔
الفضل ۳۔ مارچ ۱۹۳۶ء۔ اس واقعہ کا ذکر ملک کے ہندو مسلم پریس میں بھی نہایت قابل تعریف رنگ میں کیا گیا اور خاتون موصوفہ کی بہادری کی داد دی گئی۔ اخبار >بندے ماترم< )۷۔ مارچ ۱۹۳۶ء( نے اس واقعہ کی تفصیلات اس عنوان سے شائع کی کہ لیہ میں ایک عورت کی بے نظیر بہادری۔ ڈاکوئوں سے مقابلہ۔ سخت زخمی ہو جانے پر بھی خنجر ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ )بحوالہ الفضل ۱۳۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ کالم ۴( پنجاب پولیس نے بہادری کے اعتراف میں سیکنڈ کلاس سرٹیفکیٹ اور پچاس روپے نقد بطور انعام دیئے۔ نیز شیخ شبیر احمد صاحب آزاد جرنلسٹ مرید کے نے جماعت احمدیہ مرید کے کی طرف سے چاندی کا ایک خوبصورت میڈل بطور انعام دیا۔ )الفضل ۳۰۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۳(
۴۴۔
روزنامہ الفضل ۱۸۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ و ۴۔
۴۵۔
الفضل ۲۶۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔
۴۶۔
الفضل یکم اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔
۴۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۲۹ و ۱۳۰۔
۴۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۴ تا ۲۷۔
۴۹۔
الفضل ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۰۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۵۰۔
۵۱۔
البم شائع کردہ تحریک جدید صفحہ ۴۔
۵۲۔
الفضل ۱۲۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ و ۹۔
۵۳۔
بلگراڈ میں سب سے پہلے خوش قسمت جن کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ وہ ایک ذی ثروت و وجاہت دوست انور نامی تھے جو البانین` ٹرکی` جرمن` فرنچ` اطالین اور گریس زبان جانتے تھے۔ آپ کے بعد دوسرے نمبر پر ایک ترک نجم دین صاحب نے بیعت کی جو ٹرکی فوج کے ایک بہت بڑے عہدہ پر رہ چکے تھے اور ان دنوں لکڑی کے ایک بہت بڑے کارخانے میں کام کرتے تھے۔ )الفضل ۲۱۔ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۲(
۵۴۔
البم شائع کردہ تحریک جدید ۱۹۳۹ء۔ ابتدائی تین ماہ میں دو اشخاص نے بیعت کی اور عجیب بات ہے کہ دونوں پر صداقت احمدیت بذریعہ خواب منکشف ہوئی تھی۔ )الفضل ۱۷۔ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۵(
۵۵۔
الفضل ۲۴۔ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۰۔
۵۶۔
الفضل ۱۶۔ مارچ ۱۹۴۱ء صفحہ ۲۔
۵۷۔
یہ بچہ اب بالغ ہے اور کراچی میں جہازوں کے محکمہ میں بجلی کی ٹریننگ حاصل کررہا ہے۔
۵۸۔
آپ کی قادیان سے روانگی ۱۶۔ نومبر ۱۹۴۲ء کو ہوئی۔ )الفضل ۱۸۔ نومبر ۱۹۴۲ء(
۵۹۔
غیر مطبوعہ مکتوب )یکم اکتوبر ۱۹۶۷ء(
۶۰۔
پیغام کا متن الفضل ۲۶۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ میں شائع شدہ ہے۔
۶۱۔
الفضل ۱۹۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے احرار نے بعد میں ۱۹۴۹ء تک کا عرصہ معین کیا۔ )ملاحظہ ہو خطبات احرار صفحہ ۳۷ مرتبہ شورش صاحب کاشمیری طبع اول مارچ ۱۹۴۴ء(
۶۲۔
الفضل ۷۔ جولائی ۱۹۳۶ء۔
۶۳۔
الفضل ۱۹۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۔
۶۴۔
الفضل ۱۲۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۴۔
۶۵۔
الفضل ۱۲- جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱`۲`۳۔
۶۶۔
الفضل ۲۵۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔ چوہدری عبدالمجید صاحب بی اے۰آنرز( اسسٹنٹ ایڈیٹر >الفضل< )قادیان( بھی اس کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔
۶۷۔
الفضل ۲۵۔ اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۔
۶۸۔
‏h2] ga[t الفضل ۱۹۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۹۔
الفضل ۳۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۔
۷۰۔
یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ناقل(
۷۱۔
الفضل ۳۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ تا ۵۔
۷۲۔
الفضل ۴۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۲۔
۷۳۔
الحکم ۲۱۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۶۔ اور الحکم ۲۸۔ جنوری ۱۹۳۶ء میں لکھا ہے کہ حضرت شاہ صاحبؓ نے ہزار یا ڈیڑھ ہزار کی رقم حضور اقدس کی خدمت میں پیش کی تھی۔ )صفحہ ۱۱ کالم ۳( مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو )الفضل ۲۱۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۶(
۷۴۔
الفضل ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۷۵۔
اخبار پیغام صلح لاہور ۱۵۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۴۔
۷۶۔
الفضل ۱۳۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۲۱۔ جون ۱۹۹۳۶ء صفحہ ۶ و پیغام صلح ۱۵۔ فروری ۱۹۳۶ء۔
۷۷۔
الفضل ۱۹۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۷۸۔
الفضل ۲۷۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۵ کالم ۳ و ۴۔
۷۹۔
الفضل ۲۱۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۰۔
الفضل ۱۷۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۔
۸۱۔
الفضل ۷۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۸۔
۸۲۔
الفضل ۱۹۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ مفصل حالات الحکم ۱۴` ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ و ۷۔ الحکم ۷۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ پر شائع شدہ ہیں۔
۸۳۔
الفضل ۶۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۸۴۔
الفضل ۶۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ و ۸۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰۔
۸۵۔
مفصل حالات حضرت قاضی محمد یوسف صاحب آف ہوتی مردان نے الفضل ۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ پر شائع کر دئے تھے۔
۸۶۔
الفضل ۲۴۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۸۷۔
الفضل ۱۲۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۸۔
الفضل ۱۳۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۹۔
الفضل ۵۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۔
۹۰۔
والد ماجد میجر عارف زمان خان صاحب حال ناظر امور خارجہ تاریخ وفات ۲۹۔ مئی ۱۹۳۶ء )الفضل ۳۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۲(
۹۱۔
تاریخ وفات جون ۱۹۳۶ء۔ مالابار کے پہلے احمدی تھے۔ آپ ۱۹۰۱ء میں داخل سلسلہ ہوئے۔ مگر زندگی میں حضرت مسیح محمدی کی زیارت نہ کرسکے۔ )الفضل ۲۸۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۴ کالم ۳(
۹۲۔
والد ماجد مولانا عبدالمجید صاحب سالک۔ عبدالرئوف صاحب ساحر و عبدالجلیل صاحب عشرت تاریخ وفات ۵۔ جولائی ۱۹۳۶ء۔ آپ کے فرزند جناب عبدالجلیل صاحب عشرت آپکے مختصر سوانح الفضل ۱۰۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ اور الفضل ۲۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۸ پر شائع کرا چکے ہیں۔
۹۳۔
تاریخ وفات ۲۸۔ اگست ۱۹۳۶ء )حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۰۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ الفضل ۵۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۹۴۔
تاریخ وفات یکم ستمبر ۱۹۳۶ء )الفضل ۵۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲(
۹۵۔
الفضل ۳۱۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۱ و ۲۔
۹۶۔
الفضل ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ ۴۔
۹۷۔
الفضل ۱۳۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۲ و ۳ و ۴۔
۹۸۔
چنانچہ آرچ بشپ کنڑبری نے ایڈورڈ ہشتم کی دستبرداری کو اصول کی بجائے محض ذاتی خوشی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا۔ ایڈورڈ ہشتم کو خدا کی طرف سے ایک اعلیٰ اور مقدس امانت ملی تھی۔ مگر انہوں نے یہ امانت دوسروں کے حوالہ کر دینے کے لئے اپنی مخصوص صاف بیانی سے کام لیا۔ وہ ہر اقدام ذاتی خوشی کے حصول کے لئے کررہے تھے۔ یہ امر افسوسناک اور حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے اس قسم کے مقصد کے پیش نظر اتنی بڑی امانت کو چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ آہ کس قدر افسوس ہے۔ آہ کس قدر افسوس ہے۔
۹۹۔
الفضل ۲۲۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۴ و ۵۔ اس عنوان کے تحت مندرج سب حالات الفضل دسمبر ۱۹۳۶ء سے ماخوذ ہیں۔
۱۰۰۔
الفضل ۲۰۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۔
۱۰۱۔
پیغام صلح ۱۵۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۱۰۲۔
پیغام صلح ۱۵۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۰۳۔
پیغام صلح ۲۳۔ دسمبر ۱۹۳۶ء۔
۱۰۴۔
ٹریکٹ مسئلہ نبوت کاملہ تامہ اور جزئی نبوت میں فرق صفحہ ۱۔
۱۰۵۔
ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر ۱۵۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۵ کالم ۲ و ۳۔
۱۰۶۔
الفضل ۱۰۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ خطبہ نکاح الفضل ۱۴۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۴ تا ۶ پر شائع ہوچکا ہے۔
۱۰۷۔
الفضل ۴۔ مارچ ۹۳۶ء صفحہ ۲ و ۷۔
۱۰۸۔
الفضل ۱۳۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۶۔
۱۰۹۔
الفضل ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۰۔
الفضل ۲۲۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۱۱۱۔
الفضل ۲۱۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۱ و ۲۔
۱۱۲۔
الفضل ۱۶۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۳۔
الفضل ۷۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔ و الفضل ۱۸۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ و الفضل ۱۸۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۳۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰۔
۱۱۵۔
الفضل ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۶۔
الفضل ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۷۔
الفضل ۱۶۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔
۱۱۸۔
الفضل ۷۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۔
۱۱۹۔
الفضل ۱۸۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۰۔
الفضل ۲۸۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۱۔
آپ کا سفر مغربی افریقہ کے حالات ریویو آف ریلیجنز اردو مارچ ۱۹۴۷ء میں شائع شدہ ہیں۔
۱۲۲۔
الفضل ۴۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۳۔
الفضل ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۴۔
الفضل ۲۳- اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ آپ کو حکومت امریکہ کی طرف سے ملک میں داخلہ کی اجازت نہ ملی۔ اس لئے حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے بذریعہ تار لندن میں حکم ملا کہ بوڈاپسٹ چلے جائیں )الفضل ۱۶۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ و الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۹(
۱۲۵۔
الفضل ۵۔ دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۲۶۔
الفضل ۲۶۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۶۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۵ کالم ۴۔
۱۲۸۔
الفضل ۹- اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۹۔
۱۲۹۔
الفضل ۹۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۹۔
۱۳۰۔
الفضل ۲۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۱۳۱۔
حیات عثمانی صفحہ ۳۰۸ و ۳۰۹ )از حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی( ایڈیٹر سالار بمبئی و سیاح بلاد عربیہ و غربیہ۔ مطبوعہ حیدرآباد۔
۱۳۲۔
گیانی ہیرا سنگھ صاحب درد ایڈیٹر پھلواڑی نے اپنے رسالہ )شمارہ اگست ۱۹۳۷ء( میں اسپر ریویو کرتے ہوئے لکھا۔ ایڈیٹر صاحب نور کی تیارہ کردہ شری حضرت محمد صاحب ~)صل۱(~ کی سیرت عالیہ کو میں نے پڑھا ہے اور اس کی اکثر باتوں نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا ہے۔ اور میرے کئی ایک شکوک دور ہو گئے ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے جو حضرت محمد صاحب جی ~)صل۱(~ کے ازواج مطہرات اور آپ کے اخلاق حسنہ کے متعلق لکھا ہے۔ وہ حصہ بہت ہی دلچسپ اور بنی نوع انسان کے لئے قیمتی ہدایات سے لبریز ہے۔ میری رائے میں اس قابل قدر کتاب کو جو بھی غور سے اور خالی الذہن ہوکر پڑھے گا۔ اس کے دل میں یقیناً شری حضرت محمد صاحب جی ~)صل۱(~ کے لئے ادب` احترام اور محبت کا جذبہ پیدا ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اور وہ نہ صرف حضرت محمد صاحب جی ~)صل۱(~ کے اسوہ حسنہ اور مقدس تعلیم ہی کی تعریف کرے گا۔ بلکہ بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور ہمدردی کے متعلق اسلامی اصولوں سے واقف ہوکر مسلمانوں سے محبت` رفاقت اور دوستی پیدا کرنے کا آرزو مند رہے گا۔ )گورمکھی سے ترجمہ( بحوالہ اخبار نور ۱۷۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ اول(
۱۳۳۔
الفضل ۷۔ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ کالم ۱ و۲۔
۱۳۴۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ و ۴۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۱ و ۲۔
۱۳۶۔
الفضل ۲۹۔ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۴۔
۱۳۷۔
الفضل یکم مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۴۔
۱۳۸۔
تفصیل الفضل ۱۹۔ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۵ و ۷ پر مندرج ہے۔
۱۳۹۔
الفضل ۲۷۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۹۔
۱۴۰۔
الفضل ۲۹۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
‏h1] [tag۱۴۱۔
پرچے صاف نہ پڑھے جاسکتے تھے لیکن چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر بی اے سیالکوٹی` حافظ سلیم احمد صاحب اٹاوی اور قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی کی محنت و کاوش کے نتیجہ میں سب پرچے نقل مطابق اصل شائع ہوگئے۔
۱۴۲۔
الفضل ۷۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۴۳۔
الفضل ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱ و ۲۔
۱۴۴۔
الفضل ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۴۵۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۸۔
۱۴۶۔
‏h2] gat[ الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۹ و ۱۰ و الفضل ۲۱۔ نومبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۱ و ۱۲۔
۱۴۷۔
ملک صاحب نے یہ خط حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۶ء کو لکھا تھا۔
۱۴۸۔
ملاحظہ ہو اخبار )زمیندار لاہور( ۴۔ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۴۔
۱۴۹۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مراد ہیں۔ )ناقل(
۱۵۰۔
یہ یکم جنوری ۱۹۳۶ء کا دن تھا۔
۱۵۱۔
اصل خط محفوظ ہے۔
‏tav.8.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
چوتھا باب )فصل اول(
عراق میں عالمگیر جنگ کے خوفناک اثرات سے بچنے کے لئے دعائوں کی خاص تحریک سے لیکر احیائے شریعت و سنت کے پرجلال اعلان تک
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
)جنوری ۱۹۳۷ء تا دسمبر ۱۹۳۷ء بمطابق شوال ۱۳۵۵ھ تا شوال ۱۳۵۶ھ(
حضرت امیرالمومنین کا نئے سال کے لئے اہم پیغام
۱۹۳۷ء کا آغاز جمعہ کے مبارک دن سے ہوا۔ اس روز سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اپنے پرمعارف خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کے نام ایک اہم پیغام دیا جس میں حضور نے فرمایا۔
>جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کے تمام مطالب اور اس کی تمام تعلیمات کو زندہ کرے خواہ وہ مذہب اور عقیدہ کے متعلق ہوں یا اخلاق کے متعلق ہوں یا اصول تمدن اور سیاسیات کے متعلق ہوں یا اقتصادیات اور معاملات کے متعلق ہوں۔ کیونکہ دنیا ان سارے امور کے لئے پیاسی ہے اور بغیر اس معرفت کے پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ خدا نے اسی موت کو دیکھ کر اپنا مامور بھیجا ہے اور وہ امید رکھتا ہے کہ اس مامور کی جماعت زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیم کو قائم کرے گی اور جس حد تک اسے عمل کرنے کا موقعہ ہے وہ خود عمل کرے گی اور جن امور پر اسے ابھی قبضہ اور تصرف حاصل نہیں ان کو اپنے اختیار میں لانے کی سعی اور کوشش کرے گی۔
یاد رکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کرسکتے۔ پس اس پر خوش مت ہو کہ تلوار سے جہاد آجکل جائز نہیں یا یہ کہ دینی لڑائیاں بند کر دی گئی ہیں۔ لڑائیاں بند نہیں کی گئیں۔ لڑائی کا طریقہ بدلا گیا ہے۔ اور شاید موجودہ طریقہ پہلے طریق سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ تلوار سے ملک کا فتح کرنا آسان ہے۔ لیکن دلیل سے دل کا فتح کرنا مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس آرام سے مت بیٹھو کہ تمہاری منزل بہت دور ہے اور تمہارا کام بہت مشکل ہے اور تمہاری ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ لوگوں کو خداتعالیٰ کا حکم ہے کہ قرآن کی تلوار لے کر دنیا کی تمام حکومتوں پر ایک ہی وقت میں حملہ کردیں اور یا اس میدان میں جان دے دیں یا ان ملکوں کو خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کریں۔ پس چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف مت دیکھو اور اپنے مقصود کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو اور ہر احمدی خواہ کسی شعبہ زندگی میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہو۔ اس کو اپنی کوششوں اور سعیوں کا مرجع صرف ایک ہی نقطہ رکھنا چاہئے کہ اس نے دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے<۔۱
ایک خوفناک عالمگیر جنگ کی خبر اور جماعت احمدیہ کی دعائوں کی خاص تحریک
۱۹۳۷ء کا زمانہ سیاسی اعتبار سے پوری دنیا کے لئے سخت سیاسی خلفشار اور تشویش و اضطراب کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔
لیگ آف نیشنز کا بین الاقوامی ادارہ اپنے مقصد کی تکمیل میں ناکام ہوچکا تھا۔ جرمنی` اٹلی` اور جاپان دنیا بھر میں چھا جانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ان حالات میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جماعت احمدیہ کو قبل از وقت انتباہ بھی کیا اور دعائوں کی خاص تحریک بھی کی۔ چنانچہ حضور نے ۸۔ جنوری ۱۹۳۷ء کے خطبہ جمعہ میں عالمی سیاسیات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا۔
>اس زمانہ میں پھر دنیا میں شدید تغیرات پیدا ہورہے ہیں اور عنقریب شدید لڑائی لڑی جانے والی ہے جو انگریزوں اور جرمنوں کی گزشتہ جنگ سے بھی سخت ہوگی۔ یہ اس وقت تک اس وجہ سے رکی ہوئی ہے کہ انگریز ابھی تیار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حالات ایسے ہیں کہ انگریز اس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتے۔ چین اور افغانستان وغیرہ ممالک ممکن ہے بچ جائیں مگر انگلستان کا ان اثرات سے محفوظ رہنا محال ہے۔ اس لئے دوستوں کو خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ آئندہ جو سامان لڑائی یا فتنہ کے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اور ہمارے تعلق رکھنے والی اقوام کے لئے ان سے بچنے کے سامان بھی کردے۔ بے شک تم مسولینی کی طرح گھونسہ نہیں دکھا سکتے۔ ہٹلر کی طرح تلوار نہیں چمکا سکتے مگر دعائیں تو کرسکتے ہو اور پھر اپنے آپ کو منظم کرسکتے ہو کیونکہ منظم قوم کو ہر ایک اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انگریزوں کے بعض افراد سے ہمیں شکوہ ہے اور جب تک ازالہ نہ ہو جائے وہ دور نہیں ہوسکتا۔ مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ انگریز قوم کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہیں کہ اس کی تباہی کے بعد ہم نقصان سے نہیں بچ سکتے۔ اس لئے یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کو ایسے رستہ پہ چلائے۔ جو انہیں تباہی کی طرف نہ لے جانے والا ہو<۔۲
ترکی اور فرانس کا تنازعہ
فرانس نے شام کے بعض علاقے )اسکندرونہ وغیرہ( ترکی سے ہتھیا لئے ہوئے تھے۔ ترکی نے فیصلہ کیا کہ اگر فرانس اس کے علاقے واپس نہیں کرے گا` یا لیگ آف نیشنز کی معرفت کوئی مناسب سمجھوتہ نہ ہوا ہو تو ہم بزور شمشیر علاقے لے لیں گے۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے س مرحلہ پر ترکی حکومت سے اپنی ہمدردیوں کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔
>ترک ایک ایسی قوم ہے جس نے اسلام کے کئی پہلوئوں کو ترک کر دیا ہے مگر باوجود اس کے لا الہ الا اللہ کی صدائیں اب بھی ان کی مسجدوں سے آتی ہیں۔ اب بھی ان کی نمازوں میں خداتعالیٰ کا کلام پڑھا جاتا ہے۔ اب بھی وہ سبحان اللہ` الحمدلل¶ہ` انشاء اللہ` اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہتے ہیں۔ اگر بعض باتوں میں وہ غلطی پر ہیں تو اسلام کی بعض باتوں پر وہ قائم بھی ہیں۔ اس لئے ان کے دکھوں کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ تمام اختلافات کے باوجود یہ ہو نہیں سکتا کہ ترک دکھ میں ہوں اور ایک مسلمان کہلانے والا تکلیف محسوس نہ کرے۔ اس لئے ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اگر ترک بہرحال لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور انہیں طاقت دے۔ ان کی مثال یورپین حکومتوں میں ایسی ہی جیسے بتیس دانتوں میں زبان کی اور ایک بالشتئے کی جو پہلوان سے لڑائی پر آمادہ ہو۔ اس لئے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اول تو ان کو لڑائی سے بچائے اور اگر وہ لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو ان کی مدد کرے۔ ایک فرانسیسی محمد رسول اللہﷺ~ کا منکر ہے اور ترک قائل۔ بے شک ترک کی حکومت سے محمد رسول اللہ~صل۱~ کی پوری حکومت قائم نہ ہو لیکن ادھوری حکومت بھی بالکل نہ ہونے سے بہتر ہے۔ پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اگر لڑائی سے انہیں نقصان پہنچنا ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے ان کو بچالے اور اگر اسی طرح ان کے حقوق حاصل ہو سکتے ہوں تو انہیں ہمت دے اور نہیں تو ہم ان کی دعا سے تو مدد کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ضرورت کے موقعہ پر چندے وغیرہ بھی دے سکتے ہیں<۔۳
>ہمیں ترکوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔ آخر وہ اسلام کے نام لیوا ہیں۔ اگر لڑنا ان کے لئے مضر ہو۔ تو اللہ تعالیٰ انہیں لڑائی سے بچالے اور اگر مفید ہو تو ان کے ہاتھوں میں طاقت و قوت عطا کرے۔ اور ان کے دشمنوں کے ہاتھوں کو شل کردے تا یہ بہادر قوم جو سینکڑوں سال سے مسیحی دنیا کے تعصب کا شکار ہورہی ہے۔ اسلام کے نام کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا نہ ہو<۔۴
اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور مخالف حالات کے باوجود اس علاقہ کے متعلق ترکی اور فرانس میں معاہدہ ہوگیا کہ اسے ایک خودمختار حکومت کی حیثیت سے داخلی امور میں کامل آزادی دی جائے گی۔۵
سنسکرت سیکھنے کے بعد مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب کی واپسی
مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب آف بگول جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل مولوی فاضل تھے۔ ایک بار ان کے سامنے کسی آریہ نے احمدی مبلغین سے یہ مطالبہ کیا کہ تم پہلے وید پڑھ کر سنائو۔ پھر آریہ دھرم پر اعتراض کرو۔ اس پر انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو یا تو وید پڑھنے کی قابلیت حاصل کروں گا یا اسی راہ میں جان دے دوں گا۔۶ مولوی صاحب موصوف یہ عزم کرکے بنارس گئے۔ پہلے ہندی سیکھی۔ پھر ڈیڑھ سال میں پرتھی اور مدھما دو امتحان دیئے۔ پہلے امتحان میں سب سے اول آئے اور دوسرے میں سیکنڈ ڈویژن لے کر پاس ہوئے۔ گویا صرف تین برس میں ہندی بھی سیکھی اور ساتھ ہی سنسکرت کے تینوں امتحان کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کرکے >کاویہ تیرتھ< کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد نیشنل یونیورسٹی بنارس میں جس کا نام >ودیا پیٹھ< ہے ویدک لٹریچر پڑھنے کے لئے داخل ہوئے اور مزید تین سال پنڈت ردردیو شاستری وید شرومنی سے پڑھ کر >وید بھوشن< کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے طور پر ویدک دھرم کا بہت سا لٹریچر مثلاً براہمن گرنتھ` دھرم سوتر` ثروت سوتر اور دھرم شاستر وغیرہ پڑھا۔ اور ستیارتھ پرکاش ۱۴ سمولاس کے جواب میں >آسمانی پرکاش`< >وید مقدس اور قرآن کریم< دو کتابیں لکھیں۔۷
مولوی صاحب موصوف ساڑھے سات سال تک محنت شاقہ کرتے رہے۸ اور آخر سنسکرت کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے مئی ۱۹۳۷ء میں قادیان واپس تشریف لے آئے۔۹
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مولوی صاحب کے اس جذبہ ایمانی اور خدمت دینی کی بہت تعریف کی اور فرمایا۔
>انہوں نے اپنے ہم عمروں اور ہمجولیوں کے لئے ایک نہایت ہی عمدہ مثال قائم کی ہے۔ اگر ہمارے دوسرے نوجوان بھی اس بات کو مدنظر رکھیں کہ آرام طلبی اور باتیں بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ کام کرنے سے حقیقی عزت حاصل ہوتی ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں مختلف زبانوں کے ماہر نہایت سہولت کے ساتھ مہیا ہوسکتے ہیں<۔۱۰
اس ضمن میں مزید فرمایا۔
>میں جماعت کے نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو جوش اور ولولہ مولوی عبداللہ صاحب نے سنسکرت کی تعلیم کے حصول کے لئے دکھایا ہے` اسے وہ بھی اپنے اندر پیدا کریں۔ پھر میں یہ دعا کرتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب نے نہایت کمزور صحت کی حالت میں جو تعلیم حاصل کی ہے وہ دوسروں کے لئے بھی مفید ہو اور صدقہ جاریہ کا کام دے<۔
مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب سالہا سال تک جامعہ احمدیہ کی سنسکرت کلاس کو پڑھاتے رہے۔ اور آخر ۹۔ دسمبر ۱۹۴۷ء کو انتقال فرما گئے۔۱۱
شکارپور سندھ میں فساد
۲۱۔ مئی ۱۹۳۷ء کو شکارپور )سندھ( میں شدید ہندو مسلم فساد رونما ہوگیا۔ فساد کی وجہ یہ ہوئی کہ بعض ہندوئوں نے ایک مسجد میں گھس کر قرآن کریم کے اوراق جلا دیئے۔ چونکہ ہندوئوں کا یہ فعل سخت اشتعال انگیز تھا اس لئے فرقہ وار فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ جس میں ایک ہندو ہلاک اور متعدد مجروح ہوئے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جو ان دنوں تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے کراچی میں تشریف رکھتے تھے۔ اس فساد کے متعلق مفصل بیان دیا۔ جس میں فرمایا کہ
‏body] gat>[اس قسم کے حادثات ہر سوسائٹی کے لئے خواہ اس کا معیار تمدن کچھ ہو` سخت افسوس ناک ہیں۔ اگر کسی ہندو نے قرآن کریم کو جلایا ہے تو یہ بہت رنج دہ امر ہے لیکن اگر کوئی مسلمان فرقہ وار فساد برپا کرنے کی غرض سے ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا تو یہ اور بھی زیادہ قابل مذمت بات ہوتی۔ اس قسم کے فرقہ وار تصادم کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے حالات میں ایک عجیب تطابق پایا جاتا ہے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ایسے تمام واقعات کی تہہ میں ایک ہی نفسیاتی کیفیت کام کررہی ہے۔ بنابریں اس مرض کا علاج معلوم کرنا چنداں مشکل نہیں<۔
بیان جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا۔
>ایک مذہبی انسان کی حیثیت سے میرے نزدیک سب سے اہم چیز اس مسئلہ کا اخلاقی پہلو ہے۔ اگر ہندو اور مسلم عوام پر یہ بات پوری طرح واضح کر دی جائے کہ اس قسم کے جرم کا ارتکاب افراد ہی کرتے ہیں اور اگر بعض حالات میں سزا کی ضرورت محسوس ہو تو جرم کا ارتکاب کرنے والا ہی سزا کا مستحق سمجھا جائے نہ کہ اس کی قوم کے سارے افراد` تو مجھے یقین ہے کہ اس قسم کے فسادات میں بہت کچھ کمی واقع ہو جائے گی۔ اس طرح قدرتی طور پر ایک طرف مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو جو لوگوں کو برانگیختہ کرکے فسادات برپا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اپنی مفسدانہ حرکات کا موقعہ نہ ملے گا اور دوسری طرف عوام زیادہ ہوشیار اور بیدار ہو جائیں گے اور بجائے اس کے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے کے ہم مذہبوں کے خلاف اپنے جوش ناراضگی کا اظہار کرکے اپنے آپ کو تسکین دیں` وہ حقیقی مجرم کی تلاش کی طرف زیادہ توجہ دیں گے<۔۱۲
چوتھا باب )فصل دوم(
مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل کی اسیری اور رہائی
‏0] ft[rایک عرصہ سے قادیان کے پرانے قبرستان کا مقدمہ چل رہا تھا۔ ۱۶۔ جون ۱۹۳۷ء کو سشن جج گورداسپور نے اس کا فیصلہ سنایا۔ جس میں مولانا عبدالرحمن صاحب مدرس مدرسہ احمدیہ کو چار ماہ قید سخت یا ایک سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی۔ مولانا صاحب نے جرمانہ ادا کرنے کی بجائے جیل خانہ میں جانے کو ترجیح دی اور آپ قید کر دیئے گئے۔۱۳ مگر ۹۔ جولائی ۱۹۳۷ء کو جب جرمانہ بذریعہ قرقی وصول کرلیا گیا تو آپ اسی روز جیل سے رہا ہو کر ساڑھے پانچ بجے شام کی ٹرین سے قادیان گئے جہاں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور دوسرے احباب جماعت نے آپ کا استقبال کیا۔۱۴
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے مولانا صاحب کی اس قربانی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا- >میرے نزدیک ہماری جماعت میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ اس حالت کے خلاف پروٹسٹ کرتے ہوئے جو بدقسمتی سے نظام حکومت میں پیدا ہوگئی ہے` ہماری جماعت کا ایک فرد جیل خانہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس بات کو مدنظر رکھ کر قبرستان کے مقدمہ میں جو ملزم تھے` ان کو مشورہ دیا تھا کہ اگر بطور سزا جرمانہ ہو تو ادا نہ کریں اور قید قبول کریں۔ ہاں اگر حکام خود جرمانہ لے لیں تو اور بات ہے۔ خداتعالیٰ کے منشا کے ماتحت باقی سارے ملزمین تو رہا ہوگئے اور صرف مولوی عبدالرحمن صاحب باقی رہ گئے جن کو موقعہ مل گیا کہ جیل میں چلے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔ رسول کریم~صل۱~ نے اس قسم کی خواہشات سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ احمدی جیل خانہ میں جائیں۔ لیکن یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر موقعہ ملے تو ڈرنا نہیں چاہئے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نقش ثانی بہتر ہوگا نقش اول سے۔ جوں جوں اس کے موقعے پیش آتے رہیں بلا اپنی کسی خواہش اور تمنا کے جو کوئی مصیبت میں گھر جائے اسے بجائے بزدلی دکھانے کے ایسی بہادری دکھانی چاہئے کہ لوگ سمجھ لیں احمدی بزدل نہیں ہوتے۔ ایسے ہی موقعے جرات اور بہادری دکھانے کے ہوتے ہیں<۔۱۵
حضرت امیرالمومنین کا کھلا چیلنج اخبار >احسان< کو
اخبار >احسان< )لاہور( نے اپنے ایک مفتریانہ نوٹ میں یہ ادعا کیا تھا کہ قادیانی دعویٰ حب رسول میں جھوٹے ہیں۔ اس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اخبار >احسان< میں کھلا چیلنج دیا کہ۔
>اگر وہ سچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں میں رسول کریم~صل۱~ کی ہم سے زیادہ عزت ہے تو میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے علماء کو تیار کریں اور تراضی فریقین سے ایک تاریخ مقرر کرکے وہ بھی رسول کریم~صل۱~ کی عظمت پر مضامین لکھیں اور ایک مضمون رسول کریم~صل۱~ کی عظمت پر میں بھی لکھوں گا۔ پھر دنیا خودبخود دیکھ لے گی کہ ان کے دس بیس لکھے ہوئے مضامین میرے ایک مضمون کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں اور رسول کریم~صل۱~ کے فضائل اور آپ کے محاسن میں بیان کرتا ہوں یا وہ مولوی بیان کرتے ہیں<۔۱۶
اخبار >احسان< اور ان کے ہم مشرب علماء کو یہ چیلنج قبول کرکے مرد میدان بننے کی جرات نہ ہوسکی۔
گیسٹ ہائوس کی تعمیر
قادیان دارالامان میں پچھلے کئی سالوں سے نامور مسلمانوں اور حکومت کے افسروں کی آمدورفت کا سلسلہ خاص طور پر جاری ہوگیا تھا۔ اس لئے حضرت امیرالمومنینؓ نے ۲۷۔ مئی ۱۹۳۴ء کو ہدایت فرمائی` کہ آنے والے مہمانوں کے لئے ایک گیسٹ ہائوس کا انتظام ہونا چاہئے نیز فرمایا۔ فی الحال کسی سرمایہ دار سے انجمن کی اراضی )واقعہ دارالانوار( میں عمارت تیار کراکے اس کا کرایہ ادا کیا جائے اور جب انجمن کو ضرورت ہو تو یہ عمارت فک کرالی جائے۔۱۷
عمارت کے ابتدائی انتظام مکمل ہوگئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے گیسٹ ہائوس کا سنگ بنیاد ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۷ء کو رکھا۔۱۸
گیسٹ ہائوس ۱۹۳۸ء کے شروع میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس کی نگرانی کے فرائض بابو سراجدین صاحب معاون ناظر ضیافت اور سید سردار حسین شاہ صاحب افسر تعمیر صدرانجمن احمدیہ نے انجام دیئے۔۱۹ اور تعمیر عمارت کے لئے مندرجہ ذیل مخلصین نے قرض دیا۔ ۱۔ میاں اللہ رکھا صاحب ریٹائرڈ ریلوے ڈرائیور وزیر آباد۔ ۲۔ چودھری بشارت علی صاحب پوسٹماسٹر جالندھر۔ ۳۔ ماسٹر خیرالدین صاحب ہیڈ ماسٹر امرائوتی ملک برار۔۲۰
چوتھا باب )فصل سوم(
ایک اندرونی فتنہ کا خروج
مخالف احمدیت تحریکیں جو احراری شورش کے زمانہ میں بری طرح ناکام و نامراد اور پسپا ہوچکی تھیں۔ ۱۹۳۷ء میں دوبارہ پوری قوت و طاقت کے ساتھ جمع ہوگئیں اور انہوں نے قادیان میں ایک اندرونی فتنہ کھڑا کرکے براہ راست سلسلہ احمدیہ کے نظام خلافت پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک بہت بڑا دور ابتلاء تھا۔ جس میں ۱۹۱۴ء` ۱۹۲۷ء اور ۳۵۔ ۱۹۳۴ء میں اٹھنے والے سب فتنے متحد ہوکر ایک نئی شکل میں جماعت احمدیہ کے خلاف برسر پیکار ہوگئے تھے۔
فتنہ کا بانی اور اس کے ابتدائی حالات
اس اندرونی فتنہ کی بنیاد شیخ عبدالرحمن صاحب )سابق لالہ شنکرداس( کے ذریعہ سے رکھی گئی۔ یہ صاحب ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرکے داخل احمدیت ہوئے اور جیسا کہ انہوں نے ۲۴۔ اگست ۱۹۳۵ء کو حلفیہ شہادت دی۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کے متفقہ عقیدہ کے مطابق حضور کو دوسرے تمام نبیوں کی طرح نبی یقین کرتے تھے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نبوت سے متعلق شیخ صاحب موصوف کی حلفیہ شہادت مندرجہ ذیل ہے۔
>میں حضرت صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ کا احمدی ہوں یعنی ۱۹۰۵ء میں بیعت کی تھی۔
میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی طرح کا نبی یقین کرتا تھا اور کرتا ہوں جس طرح خدا کے دیگر نبیوں اور رسولوں کو یقین کرتا ہوں۔ نفس نبوت میں میں نہ اس وقت کوئی فرق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں۔ لفظ استعارہ اور مجاز اس وقت میرے کانوں میں کبھی نہیں پڑے تھے۔ بعد میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتب میں یہ الفاظ جن معنوں میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ میرے عقیدہ کے منافی نہیں۔ ان معنوں میں میں اب بھی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو علیٰ سبیل المجاز ہی نبی سمجھتا ہوں یعنی بغیر شریعت جدید کے نبی اور نبی کریم~صل۱~ کی اتباع کی بدولت اور حضور کی اطاعت میں فنا ہوکر حضور کا کامل بروز ہوکر مقام نبوت کو حاصل کرنے والا نبی۔ میرے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیدہ تھا۔
عبدالرحمن مصری
ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ
۲۴۔ اگست ۱۹۳۵ء<
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی حلفیہ شہادت کا عکس
عکس کے لئے
۲۶۔ جولائی ۱۹۱۳ء کو شیخ صاحب حضرت سیدنا محمودؓ کی ذاتی جدوجہد اور آپ کی تحریک >انصار اللہ< کے خرچ پر حصول تعلیم کے لئے مصر بھیجے گئے۔ مصر میں قیام کے عرصہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ نے شیخ صاحب کو ایک مکتوب میں یہ تحریر فرمایا کہ
>تمہیں وہاں سے کسی شخص سے قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ جب تم واپس قادیان آئو گے تو ہمارا علم قرآن پہلے سے بھی انشاء اللہ بڑھا ہوا ہوگا۔ اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود سے قرآن پڑھ لینا<۔۲۱
علاوہ ازیں خود شیخ صاحب بھی اس یقین پر قائم تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے بعد پوری جماعت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی کی مقدس شخصیت ہر اعتبار سے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے قیام مصر کے دوران حضرت سیدنا محمودؓ کے حضور ایک مکتوب میں لکھا کہ۔
>جس طرف حضرت خلیفتہ المسیح یا آپ مجھے لگائیں گے میں تو وہی کام کروں گا۔ میں نے اپنا معاملہ اپنی مرضی پر نہیں رکھا ہوا۔ دین اسلام کی خدمت کرنا میری غرض ہے۔ اس غرض کے مناسب کام کو تجویز کرنا میں نے اپنی عقل اور فکر پر نہیں چھوڑا ہوا بلکہ آپ کے سپرد ہے۔ کیونکہ میں کامل یقین پر پہنچا ہوا ہوں۔ جس کام پر آپ لگائیں گے وہ دینی خدمت ہے۔ دین کا جوش اور غم جو آپ کو ہے اور کسی کو نہیں اور نہ ہی میں آپ کے سوا کسی کو اس کا اہل پاتا ہوں۔ اس لئے میں نے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور جہاں تک میری مقدرت میں ہے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کا ہاتھ بٹائوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے مدرسہ احمدیہ میں اس واسطے کام نہیں شروع کیا تھا کہ روپیہ کمائوں بلکہ ایک دینی خدمت تھی اور یہ دینی خدمت بھی تب تک ہی دینی خدمت ہے جب تک کہ آپ کا وجود باوجود اس مدرسہ میں ہے کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ اگر آپ کا تعلق اس مدرسہ سے نہو تو کیا انجمن اس مدرسہ کی طرف توجہ کرلے گی جیسی کہ اب کرتی ہے۔ انجمن کو تو اس مدرسہ کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی۔ یہ تو آپ کی وجہ سے قائم ہے اور اگر آپ کسی وجہ سے اپنا تعلق اس سے ہٹالیں اور اسی غرض کو کسی اور ذریعہ سے پورا کرنا چاہیں تو پھر کیا میں اس حالت میں جبکہ پانچ سال کے لئے اپنے آپ کو قید میں ڈال چکا ہوں گا` اپنے آپ کو آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں اور آپ کے ساتھ مل کر کام کرسکتا ہوں۔ باقی رہا یہ کہ انجمن اس صورت میں مدد دینے سے انکار کردے گی۔ تو پھر میں تو انجمن کے حکم سے یہاں آیا نہیں اور نہ انجمن کے لئے یہ سفر میں نے اختیار کیا ہے اور نہ انجمن کے لئے علم پڑھ رہا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ<
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے مکتوب کا چربہ
عکس کے لئے
شیخ مصری صاحب کی بیعت خلافت ثانیہ
شیخ صاحب موصوف مصر میں ہی تھے کہ ۱۳۔ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ انتقال فرما گئے اور ۱۴۔ مارچ ۱۹۱۴ء کو خلافت ثانیہ کا قیام عمل میں آیا جس پر شیخ صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں مندرجہ ذیل بیعت نامہ لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم وآلہ مع التسلیم
سیدی و مرشدی! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہمارے پیارے محسن خلیفتہ المسیح الاول کی وفاۃ کا صدمہ جو احمدی قوم کے دلوں پر ہوا وہ تو واقعی بیان سے باہر ہے خصوصاً ہم دور افتادوں کے لئے تو ہمیشہ افسوس ہی رہے گا کہ پھر زندگی میں زیارت بھی نصیب نہ ہوئی۔ سوائے انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون کے کیا کہہ سکتے ہیں۔ اللھم اعلی مقامہ و اکرم مثواہ و الحقہ بالرفیق الاعلی۔ امین۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو فتنہ سے محفوظ رکھے اور قوم کو اپنے محض فضل و کرم سے اپنی پناہ میں لے کر اس ابتلا سے پار اتار دے جو کہ بعض نادانوں نے قوم کے راستے میں لا ڈالا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے عہد کو مبارک عہد ثابت کرے اور الٰہی نصرتوں اور رحمتوں اور برکتوں کا عہد ہو۔ آمین۔ آپ کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے اور آپ کو کامیابی کے اعلیٰ اوج پر پہنچائے۔
میں اس امر کے اظہار سے رک نہیں سکتا کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اور اپنی خاص عنایت سے یہ خلعت خلافت آپ کو پہنائی ہے ورنہ دشمنوں نے تو ناخنوں تک زور لگایا تھا کہ کسی طرح یہ ٹل جاوے۔ ان کی مدت مدید کی کوششوں کو خدا نے ملیامیٹ کردیا۔ اور آخر خدائی ارادہ ہی غالب آیا۔ بھلا خالق کے آگے خلق کی کیا پیش جاتی ہے۔ اللہ کریم ہمیشہ فتح اور نصرۃ اور کامیابی کو آپ کا حلیف بنا دیوے` آمین۔
میں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے آنے سے پہلے ہی میرے دل میں آپ کے ساتھ ایسی ہی ارادتمندی ڈال دی تھی جس کا آج میں کھلے طور پر اظہار کرتا ہوں۔ میں نے آپ کی فرمانبرداری کو پہلے سے ہی اپنا شعار بنایا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس پر تاموت قائم رکھے اور جس بیعت کا اقرار آپ کے ہاتھ پر آج کرنے لگا ہوں` اللہ تعالیٰ اس پر استقامت عطا فرمادے اور وفاداری کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دے۔ امید ہے کہ عاجز کی بیعت کو قبولیت کا شرف بخشیں گے۔ بیعت کے الفاظ کو یہاں دوہرا دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ<
عکس بیعت نامہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری
عکس کے لئے چار صفحات

حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ پر آسمانی انکشاف
۱۹۱۵ء میں جب شیخ عبدالرحمن صاحب >مصری< بن کر واپس آئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو بذریعہ رویاء۲۲ خبر دی گئی کہ شیخ صاحب کا خیال رکھنا یہ مرتد ہو جائیں گے۔ چنانچہ اسی بناء پر حضور نے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے۔۲۳
مگر اس آسمانی انکشاف کے باوجود جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میر عباس علی صاحب سے متعلق الہام >اصلہا ثابت و فرعھا فی السماء<۲۴ کے ساتھ ان کے ارتداد کی بھی مدتوں قبل اطلاع دی گئی۔۲۵ مگر حضورؑ نے ان سے اس وقت تک اپنا مخلصانہ تعلق قائم رکھا جبتک کہ وہ خود کھلم کھلا معاندین سلسلہ کی صف میں نہیں چلے گئے۔ اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ بھی شیخ صاحب کو سلسلہ سے وابستہ رکھنے کے لئے سلسلہ کی خدمات کے مواقع بہم پہنچاتے رہے حتیٰ کہ دوسرے فرائض کے علاوہ ایک لمبے عرصہ تک مدرسہ احمدیہ کی ہیڈ ماسٹری بھی ان کے سپرد رہی۔
مصری صاحب اور غیر مبائعین
اس دوران میں انہوں نے بار بار اپنی تقریروں اور تحریروں میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے خلیفہ برحق ہونے اور حضور کی برکت سے قادیان کے پاکیزہ اور روحانیت سے لبریز ماحول کی شہادت دی۔ مثلاً ۱۹۲۲ء میں مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
)ا(
>قربان جائوں اس مولیٰ کریم کے جس نے باوجود کسی اہم ضرورت کے پیش نہ آنے کے محض اپنے ایک پیارے کی جسے اس نے اپنے ہاتھ سے خلیفہ بنایا عزت رکھنے اور اس کے مقابلہ میں اس کے دشمن )مولوی محمد علی صاحب( کو اس کے اس خلاف اصول حملہ میں بھی ناکامی و نامرادی کا منہ دکھانے کے لئے احمدی لٹریچر میں پہلے سے ہی سامان رکھ دیا ہوا ہے<۔۲۶
)ب(
>آپ حضرت مسیح موعودؑ کے اس شعر کا غور سے مطالعہ کریں۔ ~}~
غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے
بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے
اور سمجھیں کہ جس کو خدا عزت دیتا ہے اس کو بندے ہرگز نہیں گرا سکتے۔ پس آپ جو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کی عزت کو گھٹانے میں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھتے رہے ہیں اس سے آپ سمجھ لیں کہ یہ عزت خدا کی طرف سے ملی ہے اور مقابلہ سے توبہ کرکے حضور کے دامن سے وابستہ ہو جائیں۔ تاکہ آپ بھی ان برکات سے حصہ لے سکیں جو حضور کے شامل حال ہیں<۔۲۷
اسی طرح انہوں نے ۱۹۳۵ء میں قادیان کے ایک پبلک جلسہ میں لیکچر دیا کہ
>یاد رکھو دنیا میں ہر وہ قریہ جس میں کوئی نبی بھیجا جاتا ہے ام القریٰ ہوتا ہے۔ کیونکہ اور تمام بستیوں نے اس کی چھاتیوں سے علم و عرفان کا دودھ پینا ہوتا ہے۔ پس قادیان میں بچوں کو بھیجنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ قادیان سلسلہ کا مرکز ہے اور اسے خدا نے دنیا کے لئے ام القریٰ قرار دیا ہے چونکہ ان بچوں نے قادیان رہ کر احمدیت کی چھاتیوں سے دودھ پیا ہوگا۔ اس لئے الا ماشاء اللہ ہر طالب علم بیرونی طالب علموں کے مقابلہ میں خدمت دین کے لئے زیادہ جوش و خروش رکھے گا۔ یہاں ماحول نہایت پاکیزہ ہے اور فضا دینی رنگ میں رنگین ہے۔ پھر یہاں جو طالب علم آتے ہیں وہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز کی صحبت سے فیض حاصل کرسکتے ہیں۔ حضور کے خطبات سن سکتے ہیں۔ درسوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ دیگر ممالک میں جانے والے مبلغین کی روانگی اور آمد کی تقریبوں میں شریک ہوتے ہیں اور اس طرح ان کے دلوں میں یہ جوش پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی خدمت سلسلہ کریں۔ یہ سب چیزیں باہر مفقود ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ کی ایک کثیر جماعت یہاں موجود ہے۔ بیرونی جماعتوں میں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہیں مگر وہ پھیلے ہوئے ہیں اور ان سے روحانی فوائد حاصل کرنا مشکل ہے۔ مگر قادیان میں مجموعی طور پر ایک ایسی جماعت موجود ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دیکھا اور آپ سے براہ راست فیضان حاصل کیا۔ پس جو طالب علم یہاں آئیں گے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں<۔۲۸
مصری صاحب کے بنیادی عقیدہ میں تبدیلی
یہ طویل اقتباسات نقل کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک ایسے شخص کی نسبت جو ۱۹۱۴ء سے ۱۹۳۵ء تک حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے منجانب اللہ خلعت خلافت عطا کئے جانے اور قادیان کے پاکیزہ اور خدانما ماحول کا چرچا کرتا آرہا ہو کسی کے واہمہ میں بھی نہیں آسکتا تھا وہ خلیفہ وقت اور مرکز سلسلہ سے برگشتہ ہوسکتا ہے۔ مگر خدائی نوشتے پورے ہوکر رہتے ہیں۔ آخر وہی ہوا جس کی خبر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو ۱۹۱۵ء میں دی گئی تھی یعنی مصری صاحب پر یکایک یہ راز کھلا کہ >انبیاء اور مشائخ کی وفات کے بعد صرف پہلا خلیفہ ہی خدائی انتخاب ہوتا ہے۔ باقی منتخب شدہ خلفاء آیتہ استخلاف کے ماتحت نہیں آتے اور متنازعہ فیہ خلافت پہلی خلافت نہیں ہے بلکہ دوسری خلافت ہے اور اس لئے یہ آیتہ استخلاف کے ماتحت نہیں آسکتی اور جب یہ خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں ہوتی تو اس کا انتخاب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا<۔۲۹
مصری صاحب کے سب و شتم سے لبریز تین خطوط
اس نظریہ پر بنیاد رکھ کر انہوں نے ۱۰` ۱۴ اور ۲۳۔ جون ۱۹۳۷ء کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو سب وشتم سے بھرے ہوئے پے در پے تین خطوط لکھے جن میں دیگر ناشائستہ اور ناملائم باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ
>میں آپ سے الگ ہوسکتا ہوں لیکن جماعت سے علیحدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ جماعت سے علیحدگی ہلاکت کا موجب ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے اور چونکہ دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لائے ہوئے صحیح عقائد و تعلیم پر قائم ہو بجز اس جماعت کے جس نے آپ کو خلیفہ تسلیم کیا ہوا ہے اس لئے میں دو راہوں میں سے ایک کو ہی اختیار کرسکتا ہوں۔ یا تو میں جماعت کو آپ کی صحیح حالت سے آگاہ کرکے آپ کو خلافت سے معزول کراکر نئے خلیفہ کا انتخاب کرائوں۔ اور یہ راہ پراز خطرات ہے اور یا جماعت میں آپ کے ساتھ مل کر اس طرح رہوں جس طرح میں نے اوپر بیان کیا ہے<۔
>پس اگر آپ توبہ کرنے کے لئے تیار نہیں تو مجھے آپ اپنی بیعت سے علیحدہ سمجھ لیں کیونکہ میں ایسے آدمی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ میں جماعت کا باقاعدہ فرد ہوں۔ جماعت سے میں الگ نہیں ہوسکتا۔ آپ کی بیعت کا جوا اپنی گردن سے اتارنے کی یہ بھی وجہ ہے کہ میں آزاد ہوکر جماعت کو دوسرے خلیفہ کے انتخاب کی طرف جلد توجہ دلاسکوں<۔
>اگر آپ اس توبہ پر راضی ہوں تو میں آپ کا خادم ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ رہوں گا۔ ورنہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے میں آپ کے ساتھ قطعاً نہیں رہ سکتا۔۳۰
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا ایمان افروز جواب
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مصری صاحب کی چٹھیوں کا مندرجہ ذیل جواب ارسال فرمایا۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مکرم شیخ صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ
آپ کے تین خط ملے۔ پہلے خط۳۱ کا مضمون اس قدر گندہ اور گالیوں سے پرتھا کہ اس کے بعد آپ کی نسبت یہ خیال کرنا کہ آپ بیعت میں شامل ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہیں بالکل خلاف عقل تھا۔ پس میں اس فکر میں تھا کہ آپ کو توجہ دلائوں کہ آپ خداتعالیٰ سے استخارہ کریں کہ اس عرصہ میں آپ کا دوسرا خط ملا جس میں فخرالدین ملتانی صاحب کی طرف سے معافی نامہ بھجوانے کا ذکر تھا۔ میں اس معافی نامہ۳۲ کی انتظار میں رہا مگر وہ ایک غلطی کی وجہ سے میری نظر سے نہیں گزرا۔ اور کل دس گیارہ بجے اس کا علم ہوا۔ اور اسی وقت ان کو اس کی اطلاع کردی گئی۔ اس کے چند گھنٹہ بعد آپ کا تیسرا خط ملا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک آپ کی تسلی نہ کی گئی تو آپ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ سو میں اس کا جواب بعد استخارہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنیٰ ہے جب سے آپ کے دل میں وہ گند پیدا ہوا ہے جو آپ نے اپنے خطوں میں لکھا ہے۔ آپ خداتعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں۔ خداتعالیٰ اب بھی آپ کو توبہ کی توفیق دے۔ پھر جب سے آپ نے میرے خط میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اسی وقت سے آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں۔ لیکن اگر آپ کو میری تحریر کی ہی ضرورت ہے۔ تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خداتعالیٰ کے نزدیک تو ان خیالات کے پیدا ہونے کے دن سے ہی جماعت احمدیہ سے خارج ہیں اور ان خطوط کے بعد جو حال میں آپ نے مجھے لکھے ہیں۔ میں بھی آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں۔ آپ نے مجھے بہت سی دھمکیاں دی ہیں۔ میں ان کا جواب کچھ نہیں دیتا۔ میرا معاملہ خدا کے سپرد ہے اگر میں اس کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں۔ اگر وہ الہامات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میرے بارہ میں ہوئے ہیں اور وہ بسیوں خوابیں جو اس بارہ میں مجھے آئی ہیں اور وہ سینکڑوں خوابیں۳۳ جو دوسروں کو آئی ہیں درست ہیں تو خداتعالیٰ باوجود آپ کے ادعا رسوخ و اثر کے آپ کو ناکام کرے گا۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔
خاکسار مرزا محمود احمد
)۲۴۔ جون ۱۹۳۷ء(۳۴
جماعت احمدیہ کے خلاف مصری صاحب کی خفیہ تنظیم
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی کا یہ مکتوب >الفضل< ۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء کے صفحہ ۱ پر شائع ہوا۔ جس کے بعد مصری صاحب نے ۲۷۔ جولائی ۱۹۳۷ء کو اپنی جعلی خود ساختہ اور نام نہاد امارت کا ڈھونگ رچا کر فریمسینوں کی طرح ایک خفیہ تنظیم جماعت کے خلاف قائم کرلی۔ جس کا ذکر حضرت مسیح موعود کے ایک الہام میں ملتا ہے کہ >فریمیسن مسلط نہیں کئے جائیں گے تا اس کو ہلاک کریں۳۵ >مصری صاحب نے خفیہ تنظیم کی تشکیل کے بعد مخالف اشتہاروں اور پوسٹروں کی وسیع پیمانہ پر اشاعت شروع کردی۔ اس موقعہ سے دشمنان احمدیت۳۶ نے خوب فائدہ اٹھایا اور ہررنگ میں اس فتنہ کی پشت پناہی کی۔ خصوصاً غیر مبائع اصحاب نے مصری صاحب کے عائد کردہ فحش اور ناپاک الزامات کی تشہیر میں خاص طور پر حصہ لیا بلکہ >پیغام صلح< مصری صاحب کے فتنہ کو ہوا دینے کے لئے تو وقف ہی ہوگیا۔۳۷
مولوی محمد علی صاحب کی پشت پناہی
اگرچہ مشہور غیر مبائعین میں سے قریباً سب نے مصری صاحب کی تائید میں مضامین لکھے مگر بالخصوص امیر غیر مبائعین مولوی محمد علی صاحب نے اخبار >پیغام صلح< میں لمبے لمبے مکتوب شائع کئے جن میں ایک طرف حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی شان میں دلازار طریق پر دل کھول کر حملے کئے اور دوسری طرف مصری صاحب کے تقدس اور شرافت و بزرگی کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہوئے ان کے اس تازہ >کارنامے< کی بیحد داد دی حتیٰ کہ >خلیفہ قادیان کی افسوسناک جسارتوں کا عبرت انگیز انجام< >میاں صاحب حسن بن صباح کے نقش قدم پر< کے دوہرے عنوان سے لکھا۔
>شیخ صاحب اس بارے میں واقعی مستحق مبارکباد ہیں<۳۸
پھر لکھا۔
>پیر پرستی کے بت کو توڑنے والے ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں<۳۹
اخبار >پیغام صلح< نے جہاں مصری صاحب کی نسبت یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ >ان کا زہد و اتقاء مسلمہ ہے<۴۰ وہاں مولوی محمد علی صاہب نے یہاں تک لکھ ڈالا کہ
>شیخ عبدالرحمن صاحب مصری مجھ سے ملے ہیں۔ بار بار ملتے رہتے ہیں۔ بہت قریب رہے ہیں اور رہتے ہیں۔ میں نے ان میں اس قدر شرافت دیکھی ہے جس کے نمونے دنیا میں کم نظر آتے ہیں<۔۴۱`۴۲
جناب مصری صاحب کی تعلیاں اور بلند بانگ دعاوی
اس تفصیل سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مصری صاحب تنہا نہیں تھے بلکہ سب مخالفین احمدیت خصوصاً غیر مبائعین ان کی پشت پر تھے۔ اسی لئے مصری صاحب کو بھی اپنے ہمدردوں اور مددگاروں کے بل بوتے پر یقین کامل تھا کہ جماعت احمدیہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا وہ کام جو احرار سے نہ ہوسکا ان کے ہاتھوں ضرور سرانجام پاجائے گا۔ اور انہوں نے جماعت سے الگ ہوتے ہی بڑی بڑی تعلیاں اور دعوے کرنا شروع کر دیئے چنانچہ کہا۔
>مستریوں کے متعلق تو اس قسم کے عذر گھڑلئے گئے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا یا ان کی لڑکی پر سوت کے لانے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر یہاں اس قسم کا کوئی عذر بھی نہیں چل سکتا۔ اس کے اخلاص میں کوئی دھبہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کی بات کو جماعت مستریوں کی طرح رد نہیں کرے گی۔ بلکہ اس پر اسے کان دھرنا پڑے گا اور وہ ضرور دھرے گی<۔۴۳
اسی طرح لکھا۔
>مجھے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے احسانوں سے کامل یقین ہے کہ وہ آپ کے مقابلہ میں میری ضرور مدد فرمائے گا اور وہ دن ضرور لائے گا جس میں اس تمام جھوٹے پراپیگنڈے کے پردے چاک کردے گا۔ جو میرے خلاف کیا جارہا ہے اور جماعت پر روشن کردے گا کہ میں جو آپ کے خلاف اٹھا ہوں محض نیک نیتی اور محض خداتعالیٰ کے لئے اٹھا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں الحق یعلوا ولا یعلی۔ وہ دن آئے گا اور انشاء اللہ ضرور آئے گا جب جماعت جاء الحق و زھق الباطل کہتی ہوئی اس حقیقت پر قائم ہو جائے گی جو شریعت اسلامی نے خلفاء کے مقام اور ان کے اور امت کے اختیارات اور حقوق کے متعلق بتائی ہے اور یہ کہ آپ خلافت کے اہل نہیں اور جس حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے<۔۴۴
پھر لکھا۔
>میں نے جو قدم اٹھایا ہے محض خدا کے لئے اٹھایا ہے اور جماعت کے اندر ایک بہت بڑا بگاڑ مشاہدہ کرکے جو بہت سے لوگوں کو دہریت کی طرف لے جاچکا ہے اور بہتوں کو لے جانے والا ہے۔ اس کی اصلاح کی ضرورت محسوس کرکے بلکہ اس کو ضروری جان کر اٹھایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری آواز آج نہیں تو کل` کل نہیں تو پرسوں سنی جاوے گی۔ اور ضرور سنی جاوے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ کیونکہ وہ آواز اپنے اندر حق رکھتی ہے اور حق کبھی دبایا نہیں جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے قبل بھی لوگ اٹھے اور ناکام رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اپنی کامیابی پر خداتعالیٰ کی مدد اور نصرت اور تائید کے ساتھ پورا یقین ہے کیونکہ میں اس کی ذات پر بھروسہ کرکے اسی کے پیارے مسیح موعود کی لائی ہوئی تعلیم اور اس کی بنائی ہوئی مقدس جماعت میں جو بگاڑ پیدا ہوکر اسے تباہی کے گڑھے کی طرف لے جانے والا ہے۔ اس کی اصلاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں<۔۴۵
عجیب و غریب اور نام نہاد >مصلح<
بیسیوں صدی کا یہ عجیب و غریب >مصلح< تھا جو کل تک غیر مبائعین کو >خوارج< کے نام سے موسوم کرتا آرہا تھا` اب خلافت ثانیہ سے وابستہ احمدیوں کو ان کے عقائد و تعلیم کو صحیح سمجھنے کے باوجود بھی خوارج قرار دینے۴۶ اور اس کے کثیر حصہ کو دہریہ بھی ثابت کرنے لگا۔ بایں ہمہ مصری صاحب ایک طرف غیر مبائعین سے ملے ہوئے تھے اور دوسری طرف >خوارج< اور >دہریہ< لوگوں سے نہ صرف خلیفہ وقت کے خلاف تحقیقاتی کمیشن۴۷ بٹھانے کا مطالبہ کررہے تھے بلکہ ان کو انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر کرنے کی بھی تلقین کررہے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے پمفلٹ >جماعت کو خطاب< کے صفحہ ۴ پر لکھا۔
>دوستو اٹھو اور خوف کی چادر اتار کر مومنانہ دلیری سے کام لیتے ہوئے تحقیق شروع کردو۔ خلیفہ کی اجازت کی اس میں قطعاً ضرورت نہیں۔ خلیفہ اور خاکسار کا مقدمہ جماعت کے سامنے پیش ہے۔ جماعت کا فرض ہے کہ وہ فریقین کے بیانات سنکر انصاف کے ساتھ اپنا فیصلہ دے<۔
مصری صاحب کی طرف سے مقدمات
مصری صاحب نے اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کے کسی موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا حتیٰ کہ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے خلاف اعانت قتل تک کے مقدمات اور استغاثے تک دائر کئے۔۴۸ پہلے ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جو خارج کردیا گیا۔ پھر اس کی اپیل عدالت سشن میں کی۔ جسے عدالت سشن نے بھی خارج کردیا اور لکھا کہ مستغیث کو چونکہ مرزا صاحب سے دشمنی ہے اتنے عرصہ میں وہ جھوٹے گواہ تیار کرسکتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے استغاثہ مجسٹریٹ علاقہ کی عدالت میں دائر کیا جو وہ بھی خارج کردیا گیا۔۴۹
مصری صاحب کے مقدمات میں احراری اور غیر مبائع وکلاء کی اعانت
مصری صاحب کی اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں فریقین کی ضمانتیں ہوئیں۔ مصری صاحب کے مقدمات میں احراری اور غیر مبائع وکلاء نے ان
کی پوری پوری اعانت کی۔ جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین کے مندرجہ ذیل مکتوب سے ثابت ہے جو مولوی صاحب موصوف نے ڈلہوزی سے ۲۶۔ اگست ۱۹۳۷ء کو حافظ محمد حسن صاحب چیمہ وکیل گجرات کے نام تحریر کیا۔
~بسم۴~
‏Salam ۔us۔ Dar
1937۔8۔26 DALHOUSIE
اخویم مکرم حافظ صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کو قادیان کے حالات کا کم و بیش علم تو ہوگا۔ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری پر ضمانت کا مقدمہ ہے۔ یعنی دونوں طرف کے چار چار۵۰ آدمیوں سے ضمانت طلب کی گئی ہے۔ اور دو پیشیاں ہوچکی ہیں۔ اب ۲` ۳۔ ستمبر کو پیشی ہے۔ ان کا کام اس وقت احراری وکیل شریف حسین کررہا ہے۔ ہماری جماعت کی طرف سے اگر ان کی امداد اس موقعہ پر ہو جائے تو نہایت موزوں ہے اگر ۳۔ تاریخ کو بحث کی کارروائی کی امید ہوئی تو وہ آپ کے پاس اپنا کیس سمجھانے کے لئے یکم ستمبر کو پہنچ جائیں گے اور پھر آپ ۳۔ ستمبر کو ان کی پیشی کرائیں۔
یہ لوگ سخت بیکسی کی حالت میں ایک زبردست طاقت کا مقابلہ کررہے ہیں اور ان پر جو ظلم ہورہا ہے اور جس طرح ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ وہ خود آپ سے ملیں گے تو بیان کریں گے ان حالات میں ان مظلومین کی امداد کار ثواب ہے۔ جواب سے بواپسی اطلاع دیں۔
والسلام
)مولوی محمد علی صاحب کے اصل مکتوب کا چربہ اگلے صفحات پر دیا گیا ہے(
محمد علی
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے پرشوکت حلفیہ بیان
اگرچہ مولوی عبدالرحمن صاحب مصری نے خداتعالیٰ سے بالکل بے خوف ہوکر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے خلاف عداوت اور دشمنیکی حد کردی مگر حضورؓ نے ان کی تسلی۵۱ کے لئے قسموں کا اعلان کرکے ان پر ہر رنگ میں حجت تمام کردی۔ چنانچہ حضور نے ۱۲۔ نومبر ۱۹۳۷ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>وہ مجھے کہتے ہیں کہ اگر وہ الزامات جو وہ مجھ پر لگاتے ہیں` جھوٹے ہیں تو میں موکد بعذ اب قسم کھائوں حالانکہ مستریوں کے مقابلہ میں بھی میں نے کہا تھا اور اب بھی میں کہتا ہوں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کے لئے جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق بتائے گئے ہیں` قسموں وغیرہ کا مطالبہ جائز نہیں۔ بلکہ ایسے مطالبہ پر قسم کھانا بھی اس حکمت کو باطل کردیتا ہے جس کے لئے خداتعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے ہاں جس پر الزام لگایا گیا ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اختیار ہے کہ جب وہ مناسب سمجھے الزام لگانے والے کو مباہلہ کا چیلنج دے۔ لیکن چونکہ وساوس و شبہات میں مبتلا رہنے والا انسان خیال کرسکتا ہے کہ شاید میں نے قسم سے بچنے کے لئے اس قسم کا عقیدہ تراش لیا ہے اس لئے کم سے کم اس شخص کی تسلی کے لئے جو جانتا ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ میں کہتا ہوں کہ میں اس خدائے قادر توانا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھاکر شدید لعنتوں کا
انسان مورد بن جاتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ قرآن کریم کی اس بارہ میں وہی تعلیم ہے جو میں نے بیان کی ہے اور اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر *** ہو۔
پھر ایک اور سوال ہے جو شیخ عبدالرحمن مصری کی طرف سے کیا گیا تھا اور آج بھی کیا جارہا ہے کہ خلیفہ معزول ہو سکتا ہے اور وہ اس بناء پر مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے خلافت سے الگ ہو جانا چاہئے یا یہ کہ جماعت کو چاہئے کہ مجھے اس عہدہ سے الگ کردے۔ میں اس دعویٰ کے جواب میں بھی اس قادر و توانا خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خداتعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس میں آ سے ۲۲۔ ۲۳ سال پہلے مجھے رئویا کے ذریعہ یہ بتا دیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ علیحدہ ہوسکتا ہو تو اسے علیحدہ کر دیا جائے مگر تو اس بوجھ کو ہٹا نہیں سکے گا اور یہ کام تجھے بہرحال نباہنا پڑے گا۔ اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر *** ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ابھی خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ چکا ہوں کہ میں اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں۔ وہ بھی ایسی ہی قسم لکھ کر شائع کردیں۔ پھر خودبخود فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر۔ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کرچکا ہوں اور اب پھر اللہ تعالیٰ کے وعید لعنہ اللہ علی الکاذبین کے ماتحت کہتا ہوں کہ جیسا کہ خداتعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے` میں اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوں اور میرے لئے عزل ہرگز جائز نہیں۔ اگر حوادث میرے سامنے آئیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ میرے لئے بعض اندھیرے مقدر ہیں۔ اور اگر وہ ساری کی ساری جماعت کو بھی مجھ سے برگشتہ کرلیں۔ تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے موت نہیں دے گا جب تک وہ پھر ایک زبردست جماعت میرے ساتھ پیدا نہ کردے۔ دنیا میں فریب کاریاں بھی ہوتی ہیں+ دنیا میں دھوکے بھی ہوتے ہیں۔ دنیا میں وسوسہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں۔ دنیا میں ابتلاء بھی آتے ہیں۔ اور ان تمام چیزوں کے ذریعہ لوگ ٹھوکریں کھاتے اور حق سے منحرف ہوتے ہیں۔ مگر مجھے بندوں پر یقین نہیں۔ مجھے اپنے خدا پر یقین ہے۔ اس خدا نے اس وقت جبکہ مجھے خلافت کا خیال تک بھی نہ تھا` مجھے خبر دی تھی ان الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامہ کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص میری بیعت کا اقرار کرے گا وہ قیامت تک میرے منکروں پر غالب رہے گا۔ یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور پوری ہوتی رہے گی۔ اگر اس الہام کے سنانے میں میں جھوٹ بولتا ہوںں تو خدا کی مجھ پر ***۔ میری خلافت
‏tav.8.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
خلافت کے بارہ میں ایک بار نہیں۔ دو بار نہیں۔ اتنی بار خداتعالیٰ نے مجھے خبردی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اب بھی جب یہ فتنہ اٹھا تو میں نے جلدی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں۔ اور خداتعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ >میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کردوں]01 [p۵۲ گا<۔۵۳
اسی تعلق میں یہ بھی بتایا کہ۔
>ان کے بعض دوستوں نے مجھے چٹھیاں لکھی ہیں۔ جن میں سے ایک نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ جو سلوک آپ ہم سے کررہے ہیں کیا یہ نبیوں والا سلوک ہے یا غیر نبیوں والا۔ ان کی مراد اس سلوک سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ مقاطعہ ہے جو ان کا کیا گیا ہے۔ میں اس سوال کے جواب میں پوری دیانتداری کے ساتھ اس علم کی بناء پر جو خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے حاصل ہے` یہ کہتا ہوں کہ جو سلوک میں نے ان سے کیا ہے وہ نبیوں والا سلوک ہے` غیر نبیوں والا نہیں۔ میں نے ان کا کوئی بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ان کی ضرورتوں کے پورا کئے جانے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ میری یہ ہدایت تھی کہ جو ضروریات زندگی سکھوں` ہندوئوں اور غیراحمدی دکانداروں سے میسر نہ آسکتی ہوں وہ احمدی دکانداروں کی طرف سے دے دی جائیں۔ لیکن چونکہ بعد میں انہوں نے بغیر ثبوت کے جماعت احمدیہ کی طرف مظالم منسوب کرنے شروع کردیئے۔ اور اس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا کہ اگر کسی احمدی دکاندار سے وہ مثلاً دودھ لے جائیں اور اس سے اتفاقاً ان کے کسی بچہ کو قراقر ہو جائے یا مٹھائی سے پیٹ درد ہو جائے تو وہ یہ شور مچانا شروع کردیں کہ ہمیں زہر ملا کر دیا گیا ہے اور اس طرح جماعت کے افراد کو بعض الزامات کے نیچے لائیں اس لئے میں نے امور عامہ کو حکم دیا ہے کہ ایسے دکاندار مقرر کر دیئے جائیں جن سے وہ سودا لے سکیں لیکن خود انہوں نے اس حکم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اور میں آج بھی اس امر کے لئے تیار ہوں کہ ان کی ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دکاندار مقرر کردوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس احتیاط کی اس لئے بھی ضرورت تھی کہ انہوں نے شروع سے ہی یہ طریقہ رکھا ہوا تھا کہ مخفی طور پر لوگوں پر اثر ڈالنے کی کوشش کرتے تھے اور آخر میں تو انہوں نے اخبارات میں بھی یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے اور ان کے نام صیغہ راز میں رکھے جائیں گے۔ پھر صرف اعلان پر بس نہیں۔ وہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں اب تک کررہے ہیں۔ اور اس کے یقینی ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور وہ ایسے واضح ثبوت ہیں کہ جب ان کو ظاہر کیا گیا۔ تو ان کے لئے ان باتوں کا انکار کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ایسی صورت میں ہمارا فرض تھا کہ ہم ان سے بول چال اور لین دین وغیرہ کے تعلقات رکھنے کے راستہ کو ایک قاعدہ کے ماتحت لاکر اس فتنہ کو دور کرتے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ احتیاطیں مخفی پروپیگنڈا کے متعلق تھیں۔ ورنہ ظاہر پراپیگنڈا سے اگر شرافت کی حد کے اندر ہو میں نے کبھی نہیں روکا۔ چنانچہ جو اشتہارات وہ بورڈوں پر چسپاں کرتے رہے ہیں ان کے متعلق کیا میں نے کبھی یہ اعلان کیا ہے کہ لوگ انہیں نہ پڑھیں۔ بلکہ ایک دفعہ انہوں نے بورڈ پر اشتہار لگایا تو غالباً مولوی ابوالعطاء صاحب کی چٹھی مجھے آئی کہ لوگ اسے پڑھنے کے لئے بہت جمع ہوگئے۔ اور وہ اسے پڑھ کر غیظ و غضب سے بھر گئے جس سے فساد کا خطرہ ہے۔ مناسب ہے کہ ایک اعلان کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کے اشتہارات پڑھنے سے روک دیا جائے۔ مگر میں نے اس کا یہی جواب دیا کہ اس قسم کی ممانعت میں پسند نہیں کرتا کیونکہ اس کے یہ معنی لئے جائیں گے کہ میں لوگوں کو تحقیق سے روکتا ہوں۔ میں دلائل اور صحیح طریق تبلیغ کا مخالف نہیں ہوں۔ میں تو خود ہمیشہ ہی حق کا متلاشی رہا ہوں اور یہی میری روح کی غذا ہے۔ اگر وہ دلائل سے مجھ پر غالب آسکتے ہیں تو شوق سے آجائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ وہ ناجائز کارروائیاں کرتے ہیں جو کسی مذہب میں بھی جائز نہیں۔ اور چونکہ وہ تہذیب اور شرافت اور اسلامی احکام سے تجاوز کرکے ایسی حرکات کے مرتکب ہیں۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی جماعت کے احباب کو ان کے ایسے تعلقات سے روکیں جو فساد کا موجب ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جس قدر احکام سلسلہ کی طرف سے اس قسم کے نافذ کئے گئے جن میں دوسروں سے بول چال کی ممانعت تھی تو وہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق تھے جن کے افعال میں سازش کا رنگ پایا جاتا تھا۔ ورنہ اگر کسی کے افعال میں سازش نہ ہو اور وہ علی الاعلان ہم سے الگ ہوکر کسی اور گروہ میں شامل ہو جائے تو ہم اس سے کبھی بولنا منع نہیں کرتے۔ غیر مبائعین میں ہی آج کل کئی ایسے لوگ ہیں جو پہلے ہماری جماعت میں تھے مگر پھر بعد میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ لیکن ہم نے ان کے متعلق یہ اعلان نہیں کیا کہ ان سے کوئی شخص گفتگو نہ کرے۔ ڈاکٹر سید محمد طفیل صاحب` میاں غلام مصطفیٰ صاحب` مولوی محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ` یہ پہلے میری بیعت میں شامل تھے مگر پھر غیر مبائعین کی طرف چلے گئے اور ہم نے ان کے مقاطعہ کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ بلکہ میں خود ان میں سے بعض سے ملتا رہا ہوں۔ اسی طرح اور بھی کئی آدمی ہیں جو پہلے ہمارے ساتھ تھے پھر ادھر شامل ہوگئے۔ مگر ہم نے کبھی لوگوں کو ان سے ملنے سے نہیں روکا۔ ہم صرف انہی سے تعلقات رکھنے ممنوع قرار دیتے ہیں جو سلسلہ کے خلاف خفیہ سازشیں کرتے ہیں۔ چنانچہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے اپنے خط میں تسلیم کیا ہے کہ وہ دو سال سے خفیہ تحقیق میرے خلاف کررہے تھے اور اس بارہ میں لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ اگر جس دن انہیں میرے متعلق شبہ پیدا ہوا تھا اور میرے خلاف انہیں کوئی بات پہنچی تھی اس دن وہ میرے پاس آتے اور کہتے کہ میرے دل میں آپ کے متعلق یہ شبہ پیدا ہوگیا ہے تو میں یقیناً انہیں جواب دیتا اور اپنی طرف سے ان کو اطمینان دلانے اور ان کے شکوک کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتا۔ چنانچہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے دیانت داری سے اپنے شکوک پیش کرکے ان کا ازالہ کرنا چاہا اور میں ان پر ناراض نہیں ہوا۔ بلکہ میں نے ٹھنڈے دل سے ان کی بات کو سنا اور آرام سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر پہلے دن ہی جب انہوں نے میرے متعلق کوئی بت سنی تھی میرے پاس آتے اور مجھ سے کہتے کہ میں نے فلاں بات سنی ہے مجھے اس کے متعلق سمجھایا جائے۔ تو جس رنگ میں بھی ممکن ہوتا میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا۔ اور گو تسلی دینا خدا کا کام ہے میرا نہیں۔ مگر اپنی طرف میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن انہوں نے تقویٰ کے خلاف طریق اختیار کیا اور پھر ہر قدم جو انہوں نے اٹھایا وہ تقویٰ کے خلاف اٹھایا۔ چنانچہ جب انہوں نے یہ شور مچانا شروع کردیا کہ مجھ پر جماعت کی طرف سے کئی قسم کے مظالم کئے جارہے ہیں۔ تو اس کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا۔ جس کے ممبر مرزا عبدالحق صاحب اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر تھے۔ مرزا عبدالحق صاحب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے گہرے دوست تھے۔ مگر انہوں نے مرزا عبدالحق صاحب کے متعلق کہہ دیا کہ یہ خلیفہ کے اپنے آدمی ہیں۔ اور انہیں چونکہ جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں اس لئے فیصلہ میں وہ خلیفہ کی طرفداری کریں گے۔ اور میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر کہ وہ بھی ان کے دوستوں میں سے تھے` ان کے متعلق انہوں نے یہ کہا کہ مجھے ان کے فیصلہ پر اس لئے تسلی نہیں کہ ان کی مرزا گل محمد صاحب نے جو خلیفہ کے چچا کے بیٹے ہیں` ایک ضمانت دی ہوئی ہے۔ اب اگر احمدیوں کے ایمان اتنے کمزور ہیں کہ ان میں سے کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ مجھے جماعت کی طرف سے مقدمات ملتے ہیں` اگر میں نے جماعت کے خلاف فیصلہ کیا تو مقدمات ملنے بند ہو جائیں گے۔ اور کوئی اس لئے صحیح فیصلہ نہ کرے کہ میرے چچا کے بیٹے نے ان کی ایک ضمانت دی ہوئی ہے تو ایسے لوگوں کے اندر شامل رہنے سے فائدہ کیا ہے۔ میں نے تو نہایت دیانتداری سے ان دونوں کو ان کا دوست سمجھ کر اس فیصلہ کے لئے مقرر کیا تھا۔ مگر انہوں نے اس کمیشن کے سامنے اس لئے اپنے مطالبات پیش کرنے سے انکار کردیا کہ یہ دونوں ہمارے زیر اثر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مصری صاحب کے اسی ساتھی نے جس کے خط کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں` یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے سازش کرکے مستریوں پر حملہ کروایا تھا۔ پھر آپ نے سازش کرکے محمد امین کو قتل کروایا اور اب فخر الدین کو مروا دیا ہے اور اس کے بعد آپ ہمیں مروانے کی فکر میں ہیں۔ مجھے اس قسم کے اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ ہر غلط الزام کا جواب دینے کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ لکھنے والے نے آئندہ کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے اور میں کسی کو قلق اور اضطراب میں رکھنا نہیں چاہتا ہوں اس لئے میں ان کے وسوسہ کو دور کرنے اور ان کے خدشات کو مٹانے کے لئے وہ بات کہتا ہوں جس کی مجھے عام حالات میں ضرورت نہیں تھی۔ اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میں نے کسی کو پٹوانا اور قتل کروانا تو الگ رہا آج تک سازش سے کسی کو چپیڑ بھی نہیں لگوائی۔ کسی پر انگلی بھی نہیں اٹھوائی۔ اور نہ میرے قلب کے کسی گوشہ میں یہ بات آئی ہے کہ میں خدانخواستہ آئندہ کسی کو بھی قتل کروائوں یا قتل تو الگ رہا ناجائز طور پر پٹوا ہی دوں۔ اگر میں اس قسم میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی *** مجھ پر اور میری اولاد پر ہو۔ ان لوگوں نے میری صحبت میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔ اگر یہ لوگ تعصب سے بالکل ہی عقل نہ کھو چکے ہوتے تو یہ ان باتوں سے شک میں پڑنے کی بجائے خود ہی ان باتوں کو رد کردیتے۔ خداتعالیٰ نے مجھے ظالم نہیں بنایا۔ اس نے مجھے ایک ہمدرد دل دیا ہے۔ جو ساری دنیا عمر کے غموں میں گھلتا رہا ہے اور گھل رہا ہے۔ ایک محبت کرنے والا دل جس میں سب دنیا کی خیرخواہی ہے۔ ایک ایسا دل جس کی بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ اور اس کی اولاد اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد اس کے بندوں کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کریں۔ ان امور میں مجبوریوں یا غلطیوں کی وجہ سے کوئی کمی آجائے تو آجائے مگر اس کے ارادہ میں اس بارہ میں کبھی کمی نہیں آتی<۔
اس خطبہ کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ۔
>میں پھر شیخ صاحب سے اخلاص اور خیرخواہی سے کہتا ہوں کہ جس جس رنگ میں خداتعالیٰ کی قسم کھانا میرے لئے ممکن تھا میں نے قسمیں کھالی ہیں اور ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ میں نے ان کی باتوں کو سنا اور صبر کیا کہ دوسرے لوگ اس حد تک صبر نہیں کرسکتے۔ مگر وہ یقین رکھیں اور اگر وہ یقین نہیں کریں گے تو زمانہ ان کو یقین دلا دے گا۔ اور اگر انہیں اس دنیا میں یقین نہ آیا تو مرنے کے بعد انہیں اس بات کا یقین آجائے گا کہ انہوں نے مجھ پر وہ بدترین ظلم کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ انسان دنیا میں کسی پرسکتا ہے۔ انہوں نے ان حربوں کو استعمال کیا ہے جن حربوں کے استعمال کی اسلام اور قرآن اجازت نہیں دیتا۔ میں نے آج تک خداتعالیٰ کے فضل سے کبھی دیدہ دانستہ دوسرے پر ظلم نہیں کیا۔ اور اگر کسی ایسے شخص کا مقدمہ میرے پاس آجائے جس سے مجھے کوئی ذاتی رنجش ہو تو میرا طریق یہ ہے کہ میں ہر وقت یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ الٰہی یہ میرے امتحان کا وقت ہے تو اپنا فضل میرے شامل حال رکھ۔ ایسا نہ ہو کہ میں فیل ہوجائوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی کوئی رنجش اس فیصلہ پر اثر انداز ہو جائے اور میں انصاف کے خلاف فیصلہ کردوں۔ پس میں ہمیشہ دعا کرتا رہتا ہوں تا خدا تعالیٰ مجھے انصاف کی توفیق دے۔ اور میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے ہمیشہ انصاف کی توفیق دی ہے۔ میں نے شدید سے شدید دشمنوں کی بھی کبھی بدخواہی نہیں کی۔ میں نے کسی کے خلاف اس وقت تک قدم نہیں اٹھایا جب تک شریعت مجھے اس قدم کے اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ پس وہ تمام الزامات جو وہ مجھ پر مارپیٹ اور قتل وغیرہ کے سلسلہ میں عائد کرتے ہیں` سب غلط اور بے بنیاد ہیں۔ بلکہ بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے تو میں نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ یہ شریعت کے خلاف فعل ہے۔ ان باتوں کا کبھی دل میں خیال بھی نہ لانا چاہئے۔
اگر اس قدر یقین دلانے کے باوجود بھی وہ اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں تو میرے پاس ان کے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں اور میں خداتعالیٰ سے ہی اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا! اگر تو نے مجھے عہدہ خلافت پر قائم کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھوں اور میری زبان کو بند کیا ہوا ہے تو پھر تو آپ ان مظالم کا جواب دینے کے لئے آسمان سے اتر` نہ میرے لئے بلکہ اپنی ذات کے لئے` نہ میرے لئے بلکہ اپنے سلسلہ کے لئے<۔۵۴
مصری صاحب کی ناکامی اور نظام خلافت کی کامیابی کی عظیم الشان پیشگوئی
اس خطبہ سے بھی چار ماہ قبل جبکہ مصری فتنہ کا آغاز ہوا تھا اور مصری صاحب اور ان کے ساتھی اور مددگار یہ دعوے کررہے تھے کہ وہ خلافت
ثانیہ کو کچل کر رکھ دیں گے` حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے خدا تعالیٰ کی متواتر بشارتوں کے تحت کھلے لفظوں میں پیشگوئی فرمائی کہ ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ذلیل و خوار ہوگا چنانچہ ۲۵۔ جون ۱۹۳۷ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>جو ایمان خداتعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے اور جو خبریں خداتعالیٰ نے مجھے دیں اور اپنے وقت پر پوری ہوئیں` ان کو دیکھتے ہوئے میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ کسی میدان میں خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے شکست نہیں ہوسکتی<۔
>پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم سے سچا ¶ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہو جائے گا<۔۵۵
مولوی محمد علی صاحب کو خصوصی انتباہ
اپنی کامیابی کی خبر دینے کے علاوہ حضور نے فتنہ پردازوں۵۶ کی نسبت بتایا کہ ان کے لئے ذلت و رسوائی مقدر ہے خصوصاً مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے صریح لفظوں میں پیشگوئی فرمائی کہ۔
>مولوی صاحب نے اپنے طریق کو نہ بدلا تو میں انہیں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کرنے کے سامان پیدا کررہے ہیں۔ لوگ خداتعالیٰ کو خوش کرنے کی تدابیر کرتے ہیں اور وہ اس کو ناراض کرنے کے حیلے ڈھونڈ رہے ہیں اور اگر وہ اس طریق سے باز نہیں آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ذلت کے سامان کرے گا<۔۵۷
مصری صاحب کی نظریاتی اور اخلاقی شکست
خدا تعالیٰ کے خلیفہ برحق نے اپنی زبان مبارک سے تبشیر و انذار پر مشتمل جو خبریں عین شدید مخالفت کے ایام میں دی تھیں۔ وہ لفظاً لفظاً پوری ہوئیں۔ اور جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے پیشگوئی فرمائی تھی اللہ تعالیٰ نے حضور کو واپس نہیں بلایا جب تک ایک ایسی زبردست جماعت آپ کے ساتھ پیدا نہیں کردی جو آج خلافت کے زیر سایہ اسلام کا جھنڈا بلند کئے ہوئے دنیا کے چپہ چپہ میں تلیغ دین کررہی ہے اور یہ سب برکات اسی خلافت کے طفیل نازل ہورہی ہیں جس کو صفحہ ہستی سے معدوم کردینے کے لئے مصری صاحب اور ان کے ساتھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے اور بالاخر ناکامی کے بعد ۱۹۴۰ء میں کھلم کھلا منکرین خلافت میں جا ملے۔ ع پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
غیر مبائعین میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ جماعت احمدیہ اور خود وہ اس غلطی میں مبتلا چلے آرہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے۔۵۸ حضور کا اصل مقام نبوت کا نہیں بلکہ محدثیت کا ہے بالفاظ دیگر انہوں نے بالواسطہ طور پر تسلیم کرلیا کہ ان کا پہلے خلیفہ کو معزول کرکے نئے خلیفہ کے انتخاب کا ہنگامہ کھڑا کرنا سراسر باطل تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام )ان کے نئے عقیدہ کے مطابق( نہ نبی تھے اور نہ آپ کے بعد کسی خلافت کی ضرورت تھی۔
اس نظریاتی شکست کے علاوہ مصری صاحب کی یہ رسوائی کچھ کم باعث عبرت نہیں ہے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی مبشر اولاد اور آپ کے خاندان کو بدنام کرنے کے لئے اٹھے تھے مگر خود ان ہی کی اولاد ان کے لئے موجب فضیحت بن گئی۔۵۹ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ نے سچ فرمایا تھا کہ >محمود مسیح موعود کا بیٹا ہے۔ اس پر جو زبان تیز کرے گا وہ یاد رکھے کہ محمد حسین نے ایسا کیا اور اس کی اولاد گندی ہوگئی<۔۶۰
مولوی محمد علی صاحب کا عبرتناک انجام
باقی رہے جناب مولوی محمد علی صاحب )جو مصری صاحب کی شرافت و متانت کو بے مثال قرار دیتے ہوئے ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے اور جن کو مصری صاحب حدیث کے موعود >منصور< قرار دیتے تھے( سو وہ اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے جب تک خود مصری صاحب نے ان کے خلاف وہی حربے استعمال نہیں کئے جو وہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے خلاف استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ خود مولوی محمد علی صاحب نے ۵۔ جولائی ۹۵۱ء کے ایک سرکلر میں لکھا۔
>جب سے میں گزشتہ بیماری کے حملہ سے اٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ اور شیخ مصری میرے خلاف پراپیگنڈا میں اپنی پوری قوت صرف کررہے ہیں اور ہر ایک تنکے کو ایک پہاڑ بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اور نہ صرف وہ میری بیماری سے پورا فائدہ اٹھارہے ہیں بلکہ ان امور کے متعلق مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کرکے میری بیماری کو بڑھا رہے ہیں۔ اور یہ امر واقع ہے کہ میری بیماری پھر ان احباب کی مہربانی سے بڑھ گئی ہے<۔
نیز لکھا۔
>جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی ہے اور امیر جماعت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا ہے<۔
اس سرکلر کے بعد مولوی صاحب موصوف نے ۱۳۔ اگست ۱۹۵۱ء کو اپنے >دکھوں کی داستان< لکھی جس میں اپنے خلاف باغیانہ تحریک کی تفصیلات پر بالتفصیل روشنی ڈالنے کے بعد لکھا کہ۔
>ایک طرف دن رات میرے خلاف مشورے ہوتے رہتے ہیں اور احمدیہ بلڈنگس سے یہ پراپیگنڈا ہوتا رہتا ہے کہ میں کیا کیا قواعد کی خلاف ورزیاں کررہا ہوں اور میری وجہ سے یہ جماعت نکمی ہوچکی ہے۔ اور ان کے دلوں میں کوئی دینی جذبہ نہیں رہا۔ دوسری طرف میں کوئی بات کہوں تو اس کے ماننے سے انکار کیا جاتا ہے<۔۶۱
مصری صاحب کی یہ مخالفت مولوی محمد علی صاحب کے لئے بالاخر جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ اپنے >دکھوں کی داستان< لکھنے کے ٹھیک دو ماہ بعد ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو اس جہان فانی سے چل بسے۔ چنانچہ ان کی بیگم صاحبہ نے ۲۹۔ نومبر ۱۹۵۱ء کو اپنی ایک چٹھی میں لکھا۔
>مفسدوں نے مخالفت کا طوفان برپا کردیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ طرح طرح کے بیہودہ الزام لگائے۔ یہاں تک بکواس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کرلیا ہے<۔
>ان تفکرات نے آپ کی جان لے لی۔ سب ڈاکٹر یہی کہتے تھے کہ اس غم کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی جان گئی<۔
>ایک وصیت لکھ کر شیخ میاں محمد صاحب کو بھیج دی کہ یہ سات آدمی جو اس فتنہ کے بانی ہیں اور جن کے دستخط سے یہ سرکلر نکلے تھے اور جن کا سرغنہ مولوی صدر دین ہے` میرے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھائیں۔ چنانچہ اس پر عمل ہوا<۔
>حضرت عثمان کی طرح آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے رب سے جاملے<۔
>اسلام کی تاریخ یہی ہے کہ کلمہ گو مسلمانوں نے ہی اپنے محسنوں اور لیڈروں کو قتل کیا ہے<۔
>یہ سچ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ مگر جو قتل کرے وہ تو قاتل کہلاتا ہے جس طرح لیاقت علی کا وقت مقرر تھا مگر مارنے والا قاتل کہلایا<۔۶۲
محترمہ بیگم صاحبہ مولوی محمد علی مرحوم کے ایک اھم مکتوب کا عکس
)متعلقہ مولوی صدرالدین صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری وغیرہ(
عکس کے لئے][
چوتھا باب )فصل چہارم(
دارالتبلیغ سیرالیون کا قیام
سیرالیون مغربی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔ جہاں احمدیت کی آواز )بذریعہ لٹریچر( ۱۹۱۵ء میں پہنچی اور سب سے پہلے امام موسیٰ گابر (GABBER) کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس کے بعد یہاں فروری ۱۹۲۱ء میں حضرت محمد عبدالرحیم صاحب نیر کے ہاتھوں دوبارہ احمدیت کا بیج بویا گیا۔ مولوی نذیر احمد )علی( صاحب نے اس بیج کی اپنے خون سے آبیاری کی اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری اور ان کے بعد دوسرے مجاہدین تحریک جدید اس کی نشوونما کے لئے مصروف سعی و جدوجہد رہے۔
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کی آمد
امیرالمومنین حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر مولانا عبدالرحیم صاحب نیر ۱۹۔ فروری ۱۹۲۱ء کو لندن سے سیرالیون پہنچے۔ اور ۲۱۔ فروری کو سیرالیون سے گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے۔ اپنے مختصر قیام کے دوران آپ نے سیرالیون میں بڑی جرات سے پیغام احمدیت پہنچایا جس کی تفصیل خود حضرت مولانا صاحب کے قلم سے درج کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں۔
>جہاز ایٹی پر )جوالڈرڈ میٹرلائن کے بہترین جہازوں میں سے ایک ہے( آلہ بے تار پیام رسانی موجود تھا۔ اس خدمتگار مبلغ اسلام سے کام لیکر جہاں عاجز نے حضرت امام المتقین کے حضور دعا کی درخواست بھیجی وہاں ایک پیغام مسٹر خیرالدین افسر تعلیم مسلمانان سیرالیون کے نام بھی ارسال کردیا۔ مسٹر موصوف نے اس پیغام کی حتی الوسع اشاعت کی اور مختلف اقوام کے سردار و امام ایک درجن کی تعداد میں )اپنے زرق برق لباس اور عباو عمامے پہنے ایک وزنی نقرئی ڈھول گلے میں ڈالے ہوئے( سٹیم لانچ میں تختہ جہاز پر اس غریب کے استقبال کے واسطے آگئے۔ علیک سلیک۔ اھلاً و سھلاً مرحباً پہلے گفتگو عربی میں ہوئی اور الحمدلل¶ہ کہ تختہ جہاز پر سوڈانی اور طرابلس مسافروں کے ساتھ لسان فرقان میں گفتگو کا اتفاق ہونے کے باعث عربی میں کلام کرنے کی مشق ہوگئی تھی۔ اس لئے کوئی دقت پیش نہ آئی اور خدائے مسیح کا ایک نشان یہ بھی ہے۔ کہ وہ مختلف زبانوں میں کلام کریں گے۔ اس کے مطابق اس نے مجھے ایسی توفیق دی۔ کہ میں اس پر خود حیران تھا۔ کنارہ بحر پر موٹریں موجود تھیں۔ ان میں سوار کرا` جلوس نکال` مجھے ایک خوبصورت مسجد میں پہنچایا گیا` جہاں پندرہ ہزار مسلمانوں کے قائم مقام موجود تھے۔ میں نے اپنے مشن کی اغراض زبان انگریزی میں بیان کیں۔ استقبال کا شکریہ ادا کیا۔ اور اخویم خیرالدین نے اس کا مقامی انگریزی میں )جو( کبوتر انگریزی ENGLISH PIGEAN کہلاتی ہے ترجمہ کرکے حاضرین کو میرا مطلب سمجھایا اس کے جواب میں چیف الفا یعنی بوڑھے خاص امام نے میری آمد کو رسول اللہﷺ~ کے بعد مصلحین و مجددین کی آمد کے وعدہ سے مطابقت دیکر میرا شکریہ ادا کیا۔ یہ ۱۹۔ فروری کی صبح تھی۔ ایک عالیشان انگریزی وضع کی فرودگاہ میں مجھے اتارا گیا۔ اور ہر قسم کے آرام کا سامان بہم پہنچایا گیا۔ ۲۰۔ فروری کو تقریروں کا انتظام کیا گیا۔ اور اس کے لئے اطلاعات شائع کی گئیں۔ مساجد آراستہ کی گئیں۔ سرکاری اسلامی مدارس میں جھنڈیاں وغیرہ لگا کر ان کو مزین کیا گیا۔ اور اپنے رنگ میں مسلمانوں نے اظہار خوشی کیا۔ پہلے ایک مسجد میں ۸ بجے پھر دوسرے مدرسہ میں بارہ بجے اور پھر شام کو تیسرے مدرسہ میں ۶ بجے۔ تین تقریریں کی گئیں پہلے دو میں اخویم خیرالدین ترجمان رہے۔ ور مرد و عورتوں نے ادب و احترام و محبت سے ان تقاریر کو سنا۔ تقریر سے اول ایک نوجوان نے نہایت سریلی آواز سے نعتیہ اشعار عربی میں پڑھے۔ ہر چار اشعار کے بعد ایک مصرع سب حاضرین ایک آواز سے پڑھتے تھے۔ عجیب سماں تھا۔ ان مجالس میں رکشا کی سواری پر جانا ہوا۔ سرخ عباء والے امام رکشا کے آگے اور سفید عبا پوش لوگ رکشا کے پیچھے نوجوان طلباء دو رویہ صف بستہ کھڑے نظر آتے تھے۔ میں نے اپنی تقریروں میں برابر مسیح پاک کی آمد کا ذکر کیا۔ اور آمنا کے سوا کوئی آواز مخالف نہیں سنی۔ مالکی امام کو علیحدہ تبلیغ کی۔ اس نے اقرار ایمان کیا۔ شام کی تقریر مسیحی لوگوں کے لئے تھی۔ اور وہ توجہ سے سنی گئی۔ چونکہ سیرالیون میں دو مسیحی کالج ہیں۔ دو بشپ رہتے ہیں اور ۱۱۸ پادری قیام رکھتے ہیں۔ اس لئے مسیحی مجمع تعلیم یافتہ افریقیوں کا تھا۔ تقریر کے بعد سلسلہ سوالات و جوابات شروع ہوا۔ اور مسلمان خوش اور مسیحی متفکر نظر آئے۔ ۲۱۔ فروری کو مسیحی حکام سے ملاقات کرکے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف سرکار کو توجہ دلائی۔ اور میں خوشی سے اس امر کا اظہار کرتا ہوں۔ کہ حکام بالا دست نے میری حوصلہ افزائی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانان سیرالیون کی خواہش کی تھی اور میں اور ٹھہروں۔ مگر جہاز ۲۱۔ تاریخ کو تیسرے پہر روانہ ہونا تھا۔ اس لئے ٹھہرنا ممکن نہ تھا جہاز ران کمپنی کے منیجر نے پوری کوشش سے جہاز پر بروٹوفسٹ کلاس میں انتظام کردیا۔ اور میرے میزبان مسلمان سیرالیون کی ایک جماعت مجھے تختہ جہاز پر چھوڑنے آئی- جزاہم اللہ۔ میری روانگی سے قبل اخویم خیرالدین نے جو کئی برس سے سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ مگر بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح ثانی کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اور اس طرح سیرالیون کا واحد اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان احمدی ہوگیا<۔۶۳
حضرت نیر صاحبؓ تو اس سفر کے بعد پھر کبھی سیرالیون تشریف نہیں لے گئے البتہ حکیم فضل الرحمن صاحبؓ تین بار یہاں آئے اور کئی لوگ ان بزرگوں کے ذریعہ سے احمدی ہوئے۔ جن میں سے بعض نائیجیریا چلے گئے۔ بعض فوت ہوگئے اور بعض الگ ہوگئے۔ حتیٰ کہ ۱۹۳۷ء میں سیرالیون میں اس زمانہ کے صرف دو احمدی رہ گئے اور غیر مبائعین کے پراپیگنڈا کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف سیرالیون کی فضا بہت مکدر ہوگئی۔
سیرالیون میں دارالتبلیغ قائم کرنے کا فیصلہ
ان حالات میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۳۷ء کے وسط میں دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ کو ہدایت فرمائی کہ مغربی افریقہ کے دوسرے ممالک میں بھی تبلیغی مراکز کھولے جائیں اور سالٹ پانڈ )گولڈ کوسٹ( سے ان کی نگرانی کی جائے۔ اس پر سب سے پہلے سیرالیون کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔
مولوی نذیر احمد صاحب کی روانگی
اس فیصلہ کے مطابق مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ انچارج مغربی افریقہ نے دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ کا کام مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کو سپرد کرکے ۱۰۔ اکتوبر۶۴ ۱۹۳۷ء کو روانہ ہوئے اور ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو سیرالیون کے دارالحکومت فری ٹائون میں پہنچے اور اس ملک میں دارالتبلیغ کی بنیاد رکھدی۔
دارالتبلیغ کے ابتدائی حالات
مولوی نذیر احمد صاحب کا بیان ہے کہ۔
>یہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ غیر مبائعین کے پراپیگنڈا کے اثر کے ماتحت فری ٹائون کے غیر احمدیوں نے ۶۰ پونڈ جمع کرکے اس عرض سے لاہور بھیجے ہوئے ہیں کہ وہاں سے ایک مبلغ ان کی امداد کے لئے بھیجا جائے۔ میں نے یہاں آتے ہی پرائیویٹ ملاقاتوں کے ذریعہ جملہ غلط فہمیوں کو جو ہمارے خلاف پیدا کی گئی تھیں دور کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں بعض لوگ جماعت میں داخل ہونے شروع ہوگئے۔ مخالفین کے حوصلے اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ خودبخود ان کی طرف سے لوکل اخبارات میں ختم نبوت کے متعلق مضامین شائع ہونے شروع ہوگئے۔ ہماری طرف سے نہایت تفصیل سے جواب دیئے گئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مخالفین نے جماعت کی ترقی دیکھکر لوگوں کو یہ کہکر بددل کرنا چاہا۔ کہ اگر احمدیت میں صداقت ہے تو آل مسلم کانگرس کے علماء کو پہلے قائل کیا جائے میں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر کانگرس کے ایک جلسہ میں احمدیت کے متعلق لیکچر کے لئے وقت مانگا۔ اگرچہ علماء نہ چاہتے تھے کہ حق ظاہر ہو۔ مگر ان کے لئے انکار کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ میرے لئے ایک دن مقرر کر دیا گیا۔ بفضلہ تعالیٰ جملہ مخالفین اس دن جمع ہوگئے۔ اور میں نے نہایت تفصیل سے وفات مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ پر ۲/۱ ۱ گھنٹہ تک لیکچر دیا۔ بعد میں یہ لیکچر مرتب کرکے ایک اخبار میں بھی شائع کرادیا گیا۔ اس میں پیغامی فتنہ کا بھی تفصیل سے ذکر تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آب مخالفت اور بائیکاٹ کا ہتھیار استعمال ہونے لگا۔ لیکن ہم نے ایک احمدی کے مکان پر ہفتہ وار لیکچروں کا سلسلہ جاری کردیا اور پوسٹروں اور لوکل اخبارات کے ذریعہ لیکچروں کا اعلان کرتے رہے اور انفرادی تبلیغ بھی بدستور ہوتی رہی۔ MEMORIAL WILBERFORCE ہال میں بھی جو فری ٹائون کا سب سے بڑا اور مشہور ہال ہے۔ چار لیکچر دیئے گئے۔ اور دو دفعہ لوکل BROACASTING سٹیشن کے ذریعہ ان لیکچروں کا اعلان کروایا گیا۔ اسی طرح ایک عیسائی دوست کے مکان پر بھی ہفتہ وار لیکچروں کا سلسلہ جاری رہا۔ علاوہ افریقن لوگوں کے شامی لوگ بھی بعض لیکچروں میں کثرت سے آتے۔ اور سوالات کا جواب حاصل کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتاب استفتاء شامی اصحاب کو پڑھنے کے لئے دی گئی۔ اور سات کاپیاں فروخت بھی ہوئیں۔ اسی طرح >احمدیت حقیقی اسلام< اور >تحفہ شہزادہ ویلز< نہایت کثرت سے فروخت کی گئیں۔ اور پڑھنے کے لئے عاریتاً دی گئیں۔ حکومت کے اعلیٰ حکام کو شہزادہ ویلز کی چند کاپیاں تحفہ دی گئیں( یہاں سے بعض لوگوں نے ہمارے مضامین میں جواب کے لئے لاہور بھیجے وہاں سے دو مضمون آئے۔ اور لوکل اخبارات میں شائع ہوئے۔ جن کا جواب ہماری طرف سے فوراً شائع کرا دیا گیا( غیر مبائع مولوی غلام نبی مسلم صاحب بی۔ اے۔ منشی فاضل ۱۹۔ فروری ۱۹۳۸ء کو یہاں پہنچے تھے۔ مگر فضاء میں اپنے خلاف دیکھ کر اس قدر پریشان ہوئے کہ ۲۶۔ مارچ ۱۹۳۸ء کو لاہور سے اجازت لئے بغیر ہی یہاں سے قرضہ لیکر ہندوستان واپس چلے گئے۔ ہمارے پاس ۱۹۰۱ء سے لیکر ۱۹۱۴ء تک کے انگریزی ریویو موجود تھے۔ جن کے ذریعہ پیغام منافقت طشت ازبام ہوگئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی اکثر کتب موجود تھیں۔ ان کو کہا چھپا سکتے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ اخباری مناظرہ بند کرو ۔۔۔۔۔۔۔ ایک تقریب ان کی فوری واپسی کی یہ بھی ہوئی کہ لوکل غیر احمدیوں سے وہ عربی میں بالکل گفتگو نہ کرسکتے تھے۔ گویا جنہیں اسلام سکھلانے کے لئے آئے تھے۔ علوم دینیہ میں ان سے کمتر ثابت ہوئے۔ آخر بی۔ اے تک عربی لی ہوئی تھی۔ ایک دو فقرے تو بولتے مگر انی مھین من اراد اھانتک اور وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا کے اٹل قانون نہ ٹوٹ سکتے تھے نہ ٹوٹے<۔۶۵
مولوی صاحب کی ان تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ میں پہلے ہی سال احمدیوں کی تعداد دو سے بڑھ کر تیس تک پہنچ گئی۔۶۶ یہ غیر معمولی تائید و نصرت دیکھ کر آپ نے شمالی صوبہ کے دورے شروع کر دئے اور لیکچروں` ملاقاتوں اور لٹریچر کی تقسیم سے جہاں میدان تبلیغ میں وسعت پیدا ہوگئی وہاں جماعت میں روزبروز اضافہ ہونے لگا۔۶۷ جون ۱۹۳۹ء سے آپ نے سیرالیون کے جنوبی صوبہ میں بھی تبلیغ احمدیت کا آغاز کردیا۔ اس سلسلہ میں آپ پہلے صوبہ کے ایک دارالحکومت >بو< میں تشریف لے گئے اور چھ لیکچر دئے۔ دو لیکچر مساجد میں` ایک عربک سکول میں اور تین مقامی چیف کی عدالت میں۔ ان لیکچروں میں آپ نے اسلام و احمدیت کی صداقت اور عیسائیت کا بطلان واضح کیا۔ ہر لیکچر کے بعد پبلک کو سوالات کا موقعہ دیا گیا۔ پبلک جلسوں کے علاوہ مسلم زعماء کو پرائیویٹ ملاقاتوں میں اور عوام کو مساجد میں قبول احمدیت کی دعوت دی۔ نیز انگریز ڈسٹرکٹ کمشنر اور پراونشل کمشنر سے ملاقات کرکے انکو جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا۔ بو سے چالیس میل کے فاصلہ پر بائو ماہوں نامی ایک قصبہ ہے جو سونے کی کانوں کے لئے بہت مشہور ہے اور دور دراز علاقوں کے ہزاروں لوگ یہاں کانوں میں کام کرتے ہیں۔ آپ نے اس قصبہ میں دو ماہ تک تبلیغ کی۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے سو کے قریب احمدیوں پر مشتمل ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بو اور بائو ماہوں کے علاوہ آپ نے گوراما` وانڈو` سمبارو اور بلاما نامی ریاستوں کا بھی تبلیغی دورہ کیا۔ اور کئی رئوساء اور چیف حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور اشاعت اسلام کے کام میں مولوی صاحب کی مدد کرنے لگے۔ ان رئوساء میں سے پیرامونٹ چیف صلاح الدین۔ پیرامونٹ چیف بائیو۔ پیرامونٹ چیف سار سار انڈوپائے۔ رئیس پیرامونٹ چیف خلیل گامانگا۔ پیرامونٹ چیف لحائے بانیاں لا ہائے بایاں۔ خاص طور پر قابل ذکر تھے<۔۶۸
چونکہ دوسرے افریقی ممالک کی طرح یہاں بھی عیسائی سکول مسلمانوں میں کفر و ارتداد پھیلانے کا موثر ذریعہ بنے ہوئے تھے اور مسلمانوں کا مستقبل اپنے مدارس نہ ہونے کی وجہ سے سراسر تاریک ہورہا تھا اس لئے مولوی نذیر احمد صاحب نے ۱۹۳۹ء میں روکو پرمیں پہلا احمدیہ مسلم سکول قائم کیا جو بہت جلد ترقی کرگیا۔
اس شاندار کامیابی سے عیسائی لوگ بوکھلا اٹھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ نہ صرف اس سکول کی عمارت بھی بن گئی۔ بلکہ عمائد مملکت نے اس کی گرانٹ کی بھی منظوری دے دی۔۶۹
دوسرا اہم کام جماعت کے استحکام کے لئے یہ انجام پذیر ہوا کہ ابتدا میں احمدی مبلغین پر یہ پابندی تھی کہ وہ جہاز سے اترنے سے پہلے ۶۰ پونڈ بطور ضمانت پولیس کے پاس جمع کرائیں۔ مولوی صاحب کی کوشش سے سیرالیون کے گورنر صاحب نے بہت جلد یہ پابندی اٹھادی۔ اس طرح حکومت سیرالیون نے جماعت احمدیہ کی مستقل حیثیت تسلیم کرلی۔۷۰
مقامی مبلغین
سیرالیون کے مقامی باشندوں میں اشاعت احمدیت کے لئے مقامی مبلغین تیار کئے جانے ضروری تھے۔ اس اہم ضرورت کی طرف بھی مولوی نذیر احمد صاحب نے ابتدا ہی سے توجہ شروع کردی تھی۔ چنانچہ آپ نے ۱۹۳۸ء میں شیخ عمر جاہ۷۱ کو مارچ ۱۹۴۰ء میں الفا ابراہیم۷۲ زکی کو اپریل ۱۹۴۰ء میں مسٹر عقیل۷۳ تیجان کو۔ ستمبر ۱۹۴۱ء میں مسٹر محمد کمانڈا۷۴ بونگے کو۔ فروری ۱۹۴۲ء میں الفا سوری باہ۷۵ بنگورا کو اور ۱۹۴۳ء میں الفا فوڈے صالحو۷۶ کو لوکل مبلغ مقرر کیا۔۷۷
ان ابتدائی مخلص مبلغوں کے بعد مندرجہ ذیل لوکل مبلغ وقتاً فوقتاً خدمت دین کے لئے میدان عمل میں آئے۔
الفا موسیٰ سووا )۱۹۴۸ء(۔ الفا عباس کمارا )۱۹۶۲ء(۔ الفا داودا کمارا )۱۹۶۲ء( الفا ابراہیم باہ )۱۹۶۲ء(۔ الفا فودامے کورمہ )۱۹۶۲ء(
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا ورود
سیرالیون کی وسیع تبلیغی ضروریات کے پیش نظر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کے ماتحت مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری لنڈن۷۸ سے ۸۔ مارچ ۱۹۴۰ء کو یہاں پہنچے۔ اور آتے ہی مولوی نذیر احمد صاحب کے دوش بدوش تبلیغ احمدیت کرنے لگے۔
مرکزی مبلغین کا پہلا اجتماعی دورہ
تبلیغ احمدیت کے اس سلسلہ میں یہ دونوں مجاہد پہلی بار ۱۴۔ مارچ ۱۹۴۰ء کو فری ٹائون سے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوئے اور روکوپر۔ روباتھ کامبا` روسینو` لوٹی` میں پیغام احمدیت پہنچانے کے بعد ۳۔اپریل ۱۹۴۰ء کو روکو پر سے واپس فری ٹائون پہنچے۔ جہاں اپنے چند روزہ قیام میں بعض اہم تعلیمی فرائض انجام دینے کے بعد ۲۳- اپریل ۱۹۴۰ء کو جنوبی مینڈے (MENDE)۷۹ پراونس کی طرف روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے صوبہ کے مرکز >بو< میں انفرادی تبلیغ کی۔ پھر ایک گائوں ڈانبارا میں گئے جہاں صرف چار روزہ تبلیغ سے چودہ نفوس پر مشتمل نئی جماعت قائم ہوگئی۔ ڈانبارا سے مویابو آئے یہاں اور بیٹے فوکے باشندوں تک پیغام حق پہنچایا۔۸۰
ریاست گورامہ کے مرکزی قصبہ ٹونگے میں جب جماعت کا قیام ہوا تو وہاں کے مسلمان علماء اور عیسائی پادریوں نے مل کر جون ۱۹۴۰ء کو احمدیوں کو تنگ کرنا شروع کردیا جس پر یہ دونوں مبلغ بیماری کی حالت میں ۱۶ میل پیدل پہاڑی سفر کرکے وہاں پہنچے۔ مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک امریکن عیسائی پادری مسٹر لیڈر LEADER) (MR سے ایسا زبردست مناظرہ کیا کہ وہ میدان مباحثہ سے بھاگ نکلے۔
بائو ماہوں کے ذیلی مرکز کی مضبوطی اور عیسائیوں کی پسپائی
سیرالیون میں اب تک جو جماعتیں قائم ہوچکی تھیں ان سب میں بائوماہوں کی جماعت باقی سب جماعتوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور مخلص تھی۔ لیکن باہر سے جاکر آباد ہونے کی وجہ سے انہیں قانوناً وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو اس ریاست کے اصل باشندوں کو حاصل تھے۔ ریاست کا قائم مقام پرامونٹ چیف عبدالرحمن احمدیت کا شدید مخالف تھا۔ جو احمدیوں کو مختلف طریق سے پریشان کرتا رہتا تھا۔ کبھی بلاوجہ کسی احمدی کو جرمانہ کردیتا اور کبھی احمدی مبلغ کے اخراج کے لئے حکومت سے سازباز کرتا جس کے پیچھے دراصل عیسائیوں اور غیر احمدیوں کی منظم سازش کارفرما تھی۔ مگر اس کے باوجود چیف کو گورنمنٹ کے فیصلہ کے سامنے جھکنا پڑا۔ اور اس نے بالاخر احمدیہ دارلتبلیغ اور احمدیہ سکول کے لئے ۲۰۰ x ۴۰۰ فٹ زمین ایک پونڈ سالانہ کرایہ پر دے دی اور ۱۹۴۱ء میں روکوپر اس ریاست کے قصبہ بائوماہوں میں دوسرا احمدیہ سکول کھول دیا گیا۔ اور مسٹر عمر جاہ جماعتی تبلیغ و تربیت کے علاوہ سکول میں کام کرنے پر مقرر کر دیئے گئے۔۸۱ اگرچہ سکول قائم ہوچکا تھا مگر ریاست لونیاں (LUNYA) کے پیرامونٹ چیف کی مخالفت بدستور قائم رہی۔ اور مسٹر گامینارا )ڈسٹرکٹ کمشنر( نے احمدی مبلغین سے صاف طور پر کہہ دیا کہ اگر ریاست کے مقامی حکام احمدیت کو پسند نہیں کرتے تو احمدیوں کو بائوماہوں سے اپنا مرکز اٹھانا پڑے گا۔ مگر مبلغین احمدیت نے اس دھمکی کی ذرہ بھر پرواہ نہ کی اور اپنا کام جاری رکھا۔ چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کئی ماہ تک یہاں مقیم رہے اور آپ نے احمدیہ مسجد اور احمدیہ سکول کی پہلی عمارتوں کو گرا کر نئی اور زیادہ وسیع عمارتیں تیار کرائیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی مشن سکول جو وہاں دس سال سے چل رہا تھا مقابلہ کی تاب نہ لاکر بند ہوگیا۔ اور یونائیٹڈ بریدرن مشن MISSION) BRETHERN (UNITED ناکام ہوگیا۔۸۲
سیرالیون کا ملک گیر تبلیغی سروے
مولوی نذیر احمد صاحب کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے بھی ایک چٹھی ملی جس میں حضور نے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ سیرالیون میں جماعت کی ترقی کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ اگر صحیح طریق سے کوشش کی جائے تو بہت جلد سارے سیرالیون میں احمدیت پھیل سکتی ہے۔ مولوی صاحب کو حضور کا یہ ارشاد پڑھ کر بہت ہی فکر اور قلق ہوا۔ مولوی محمد صدیق صاحب اس وقت ضلع کینما کے قصبہ بلاما)A(BLAM میں مقیم تھے۔ آپ فوراً >بو< سے بلاما مشورہ کے لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ حضور ہمارے کام سے مطمئن معلوم نہیں ہوتے اور مجھے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کام کی موجودہ رفتار ملک میں کوئی مذہبی ہل چل پیدا نہیں کررہی حالانکہ سچائی کا بیج بونے کے لئے ایک تہلکہ اور ہنگامہ برپا کر دینے کی ضرورت ہے۔ مگر ہم چند ایک جگہ جماعتیں قائم کرکے سمجھ بیٹھے ہیں کہ بہت کام ہوچکا ہے۔ اور اس طرح ہم کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مولوی محمد صدیق صاحب نے عرض کیا جو آپ فرمائیں میں حاضر ہوں۔ چنانچہ اسی ہفتہ جماعت کے دس پندرہ مخلصین کو بلا کر ایک میٹنگ کی گئی اور جملہ حالات کا جائزہ لیا گیا۔ بالاخر علاوہ دیگر تجاویز کے ایک تجویز یہ قرار پائی کہ سردست دونوں مبلغین میں سے کوئی بھی ایک مقام پر لمبا عرصہ قیام نہ کرے اور کسی جگہ کو اپنا مرکز نہ بنائے۔ بلکہ کچھ عرصہ کے لئے سارے سیرالیون کو سروے اور EXPLORE کرکے ایسے علاقے ڈھونڈے جائیں جو احمدیت کے لئے زرخیز ثابت ہوں۔
چنانچہ اس کے بعد حضور کو مفصل رپورٹ اور دعا کے لئے لکھ کر یہ پروگرام بنایا گیا کہ مولوی نذیر احمد صاحب سیرالیون کے شمالی سرے سے جنوبی سرے تک اور مولوی محمد صدیق صاحب مشرقی سرے سے مغربی سرے تک سارے ملک کا ایسے طور پر دورہ کریں کہ ہر قصبہ اور ہر بڑے گائوں میں ٹھہر کر تبلیغ کی جائے۔ چنانچہ اگلے چھ سات ماہ ان مجاہدین نے دو دو افریقن طالبعلموں کے ساتھ متواتر لمبے دوروں میں گزارے جس کے نتیجہ میں محض خدا کے فضل و کرم سے ملک کے مختلف حصوں میں آٹھ دس نئی جماعتیں قائم ہوگئیں جو ترقی پذیر ہیں۔ چنانچہ علاقہ ٹونگیا TONGIA اور اس کے اردگرد کی مخلص جماعتیں انہیں مبارک ایام کی یادگار ہیں۔4] fts[۸۳
مگبورکا اور بومیں مخالفت کے باوجود ذیلی مراکز کاقیام
بائوماہوں سے مشن کے اٹھائے جانے کے عظیم خطرہ کے پیش نظر مبلغین سیرالیون نے اس دوران مگبورکا اور بو میں علی الترتیب ٹمنی اور مینڈے قوموں کے لئے مراکز قائم کرنے کی بھی جدوجہد کی تھی۔ مگر چونکہ بائوماہوں میں احمدیت کے مقابلہ میں عیسائیت کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور عیسائیوں کے یوبی مشن کو اپنا مشن اور سکول بند کردینا پڑا تھا اس لئے عیسائی مشنریوں نے انتہائی کوشش کرکے مالک زمین اور پیرامونٹ چیف کو اس بات پر رضامند کرلیا کہ مگبورکا میں احمدیوں کے قدم نہ جمنے پائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری حکمت عملی سے نہ صرف زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بلکہ خود کوشش کرکے احمدی اور غیر احمدی دوستوں سے دو سو تیس پونڈ کے قریب جمع کرکے احمدیہ مسجد اور احمدیہ دارالتبلیغ کی عمارتیں مکمل کردیں۔۸۴
جنوبی صوبہ کے دارالخلافہ >بو< میں مرکز قائم کرنے میں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں بھی سب عیسائی فرقے احمدیوں کی مخالفت میں متحد ہوگئے اور بو کے پیرامونٹ چیف اور ریاستی حکام جو احمدیہ مرکز کے لئے ایک وسیع قطعہ کی پیشکش کرچکے تھے زمین دینے سے بالکل مکرگئے۔۸۵
مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک قطعہ زمین حاصل کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ کمشنر کی طرف رجوع کیا۔ کمشنر صاحب کے سامنے بھی چیف اور اس کے ساتھیوں نے اجارہ نامہ لکھنے سے انکار کردیا۔ اور )عیسائی( چیف نے تو یہ بھی تسلیم کیا کہ پادریوں نے اسے خفیہ طور پر کہا ہے کہ احمدیت۔ عیسائیت کا رد کرتی ہے اس لئے احمدیوں کو زمین نہ دو۔ ڈسٹرکٹ کمشنر کے سمجھانے پر یہ لوگ اجارہ نامہ لکھنے پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن ایک مخالف نے شرارت سے کہہ دیا کہ نقشہ میں احمدی مبلغ نے اصل زمین سے زائد زمین شامل کرلی ہے۔ ڈسٹرکٹ کمشنر نے حکم دیا کہ طرفین موقعہ پر جاکر پڑتال کریں۔ آخر ایک عرصہ کے بعد یکم مئی ۱۹۴۳ء کو چیف کے نمائندے اور زمین کے مالکوں نے زمین اجارہ پر دینا منظور کرلی مگر جب ڈسٹرکٹ کمشنر کے پیش ہوئے تو چیف نے کہہ دیا کہ ہم آدھی زمین دیں گے۔ اور ساتھ ہی مالکان زمین نے بھی یہ جھوٹ بول دیا کہ ہم نے تو صرف آدھی زمین دینا منظور کیا تھا۔ ڈسٹرکٹ ¶کمشنر نے چیف کو دو دن کی مہلت دی۔ جس پر چیف نے اسی روز سارے قطعہ کی منظوری دے دی۔۸۶ اور ۱۹۴۴ء میں احمدیہ سکول اور دارالتبلیغ تعمیر کر دیئے گئے۔
یہ دونوں عمارتیں اور زمین شہر سے دور ہونے کی وجہ سے مسجد کے لئے موزوں نہیں تھیں اس لئے مسجد کے لئے شہر کے اندر کوئی مناسب قطعہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن پیرامونٹ چیف کو اصرار تھا کہ مسجد شہر سے دور بنائی جائے تا شہر میں احمدیت نہ پھیل سکے۔ آخر آنریبل چیف الحاج المامی سوری کی کوشش سے یہ عقدہ حل ہوا۔ اور >بو< کے پیرامونٹ چیف نے شہر کے اندر زمین دے دی۔ مولوی نذیر احمد صاحب نے مسجد کا نقشہ تیار کرکے محکمہ صحت سے تعمیر مسجد کی منظوری حاصل کرلی۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک غیر احمدی عالم کا مکان تھا جس نے مسجد کی مخالفت کی تاہم چیف نے مسجد کی اجازت دے دی۔ لیکن اجازت ملنے کے بعد مسجد کی بنیاد رکھنے پر ازسر نو جھگڑا کھڑا کر دیا گیا۔ چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب کا بیان ہے کہ۔
>مسجد احمدیہ بو کی بنیاد رکھی گئی۔ جس پر بو کے پیرامونٹ چیف نے بہت جھگڑا کیا۔ اور محض اس بہانے پر کہ مسجد کی تعمیر شروع کرتے وقت ہم نے اس سے اجازت نہیں لی۔ اور کہ احمدی اس کی اور اس کے غیر احمدی علماء کی عزت نہیں کرتے۔ اور کہ باوجود اس کے حکم کے احمدیوں نے گزشتہ عید کی نماز غیر احمدیوں سے علیحدہ پڑھی۔ وہ اس قصبہ میں کسی احمدیہ عمارت کی اجازت نہیں دے سکتا اور اس طرح اپنی پولیس کے چند آدمی بھجوا کر عین اس وقت جبکہ ہم بنیادیں کھود کر لکڑی کی دیواریں کھڑی کررہے تھے ہم کو حکماً وہاں مسجد تعمیر کرنے سے منع کردیا۔ اس پر میں چند احمدیوں سمیت اس سے گفتگو کرنے کے لئے گیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے چیف کو اور ہمارے دیگر دشمنوں کو ناکامی کا مونہہ دکھانا تھا۔ اس لئے مسجد کا وہ نقشہ جو ہیلتھ آفیسر اور ڈی۔ سی اور خود چیف کا پاس کردہ تھا اور سب کے اس پر دستخط تھے ہمارے پاس موجود تھا۔ اور جب کافی بحث وغیرہ کے بعد چیف نے مسجد کی اجازت نہ دی تو میں نے بھری مجلس میں نقشہ نکال کر سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے ہاتھ سے ہم کو تحریری طور پر اس نقشے پر دستخط کرکے اجازت دے چکے ہیں اور دوسرے افسروں کے بھی قانونی طور پر دستخط موجود ہیں۔ اب کیوں انکار کیا جاتا ہے۔ پہلے تو وہ کہنے لگا کہ مجھے اس نقشہ کا علم ہی نہیں اور کہ ہم نے جھوٹے طور پر بنالیا ہے۔ پھر کہا اچھا صبح وہ اپنے کلرک سے پوچھے گا۔ اور اگر یہ نقشہ واقعی اصل ہوا تو ہم مسجد بنانے کی اجازت دے دیں گے۔ چنانچہ دوسرے دن صبح آٹھ بجے ہی اس نے اجازت دے دی۔ اور ہم نے اسی دن مسجد تعمیر کرنا شروع کردی۔ جملہ احمدی مرد` عورتیں اور بچے ہر جمعہ اور بعض دفعہ دوسرے دنوں میں بھی کام کرتے رہے۔ مکرم چوہدری محمد احسان الٰہی صاحب نے اللہ تعالیٰ کی اس عبادت گاہ کی تیاری میں خاص جانفشانی اور غیر معمولی محنت سے کام لیا۔ محراب کے اندرونی حصے کو ہندوستانی طرز کا بنانے میں اور پھر مسجد کے باہر کی چھوٹی چار دیواری کھڑی کرنے میں انہوں نے خاص مہارت سے کام کیا۔ مسٹر علی مصطفیٰ اور دیگر احباب نے بھی متواتر خوب اور مشقت سے کام کیا<۔۸۷
اس طرح خدا کے فضل سے مگبورکا اور بو میں شاندار احمدیہ مراکز کی تکمیل سے احمدیت کے قدر سیرالیون میں مضبوطی سے قائم ہوگئے اور ملک میں احمدیت کے وسیع اثر و نفوذ کی راہیں کھل گئیں۔
بو احمدیہ سکول کے لئے کیسے مناسب موقع پر عمدہ زمین میسر آگئی؟ یہ بھی ایک ایمان افروز واقعہ ہے جس کی تفصیل مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں۔
>جب الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ` ۱۹۳۷ء میں سیرالیون میں تشریف لائے۔ اس زمانہ میں یہ حال تھا۔ کہ اسی بو شہر میں جس کمرے میں ہم رہتے تھے اس کی لمبائی چوڑائی ۸ x ۱۰ سے زیادہ نہیں تھی اور سارا شہر کیا عیسائی اور کیا مسلمان۔ کیا چھوٹے اور کیا بڑے۔ سب ہمارے مخالف تھے۔ عیسائی اور مالکی مسلمان اس شہر کے چیف کو اکثر اکساتے رہتے تھے کہ ہمیں وہ اپنے شہر یعنی بو میں جگہ نہ دے۔ لیکن خداتعالیٰ نے احمدیت کے قدموں کو سیرالیون میں جمانا تھا۔ اس نے خود ہی ایسے سامان پیدا کردیئے کہ ان مخالفین نے شہر کے چیف سے مل کر ایک دن مقرر کیا۔ جس میں احمدیوں کا غیر احمدیوں اور عیسائیوں کے ساتھ فیصلہ کن مباحثہ ہو۔ اور اگر احمدی ہار جائیں تو انہیں اس شہر سے نکال دیا جائے اور کوئی جگہ نہ دی جائے۔ دراصل یہ ایک سکیم تھی جو احمدیت کے خلاف بنائی گئی۔ لیکن مکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین کے مطابق یہ سکیم مخالفین احمدیت ہی کے خلاف پڑگئی- جب مباحثہ کا دن آیا۔ لوکل چیف نے محترم الحاج نذیر احمد صاحب علی کو جتلا دیا تھا کہ اگر تم جیت گئے تو تمہیں جگہ دوں گا ورنہ ¶تمہیں کوئی جگہ نہیں مل سکے گی۔ اور تم اس شہر سے نکال دیئے جائو گے۔ چنانچہ ہم نے دعائیں اور تیاری کرنی شروع کی۔ جس جگہ مباحثہ ہونا تھا وہ یہاں کی نیٹو (NATIVE) عدالت تھی۔ وقت مقررہ پر ہم نے اپنی عربی- انگریزی کتب اور بڑی بڑی حدیثیں اور تفسیریں لے جاکر عدالت کے ایک طرف اپنی میزیں لگا کر رکھ دیں۔ جب سب لوگ جمع ہوئے تو ہمارے مخالف جو یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم بھی شاید دوسرے علماء کی طرح صرف روپیہ کمانے اور اکٹھا کرنے کے لئے آئے ہیں۔ اور روپیہ اکٹھا کرکے چلے جائیں گے۔ گھبرا گئے۔ اور ازحد خوفزدہ اور مرعوب ہوگئے۔ اتنے خائف ہوئے کہ چیف نے بھری کورٹ میں ان سے ایک ایک کرکے پوچھنا شروع کیا کہ تمہیں احمدیوں کے خلاف کیا شکایات ہیں۔ تو یکے بعد دیگرے انہوں نے اٹھ اٹھ کر کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں احمدیت کے خلاف کوئی شکایت نہیں۔ وہ ہمارے بھائی اور دوست ہیں۔ سب سے پہلے یہاں کے ایک پادری ولسن نے اٹھکر کہا کہ مجھے حاجی نذیر احمد کے خلاف کوئی شکایت نہیں۔ بلکہ درحقیقت حاجی صاحب میرے گہرے اور ذاتی دوست ہیں۔ حالانکہ درحقیقت وہ ہمارا سخت مخالف تھا۔ اور ایڑی چوٹی کا زور لگارہا تھا کہ کسی طرح ہمارے قدم یہاں نہ جمیں۔ اس کے بعد ایک مسلمان عالم جس کا نام سیدی ابراہیم تھا۔ اس نے اٹھ کر کہا کہ ہم تو مسلمان ہیں اور یہ بھی مسلمان۔ بلکہ یہ تو اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان کے خلاف کیا شکایت ہوسکتی ہے۔ میں نے ہی تو ان کو ٹھہرنے کی جگہ دی ہوئی ہے اور میرے ہی ہاں یہ رہتے ہیں۔ اگر مجھے کوئی شکایت ہوتی تو ایسا کیوں کرتا۔ اس پر چیف کو بہت غصہ آیا۔ اور اس نے برسر عام اٹھ کر کہا کہ >تم لوگوں نے مجھے احمدیوں کے خلاف اکسایا اور تم روزانہ میرے کان بھرتے رہے کہ یہ ایسے ہیں ویسے ہیں۔ انہیں یہاں اس شہر میں جگہ نہ دی جائے۔ اور ان کے قدم نہ جمنے پائیں۔ اور تمہارے ہی کہنے پر میں نے آج مباحثہ کی صورت پیدا کی تاکہ مجھ پر حقیقت حال کھل جائے اور احمدیوں کو جب تم شکست دے دو گے تو انہیں جگہ نہ دینے کے لئے میرے پاس ایک عذر ہو جائے گا۔ لیکن جب وقت آیا تو تم سب چپ ہوگئے ہو۔ تم نے مجھے آج اس قدر شرمندہ کیا ہے کہ میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اس لئے آج ہی اس مقام پر کھڑے کھڑے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں احمدیوں کو خود اپنی زمیں میں سے اپنے شہر میں بہترین جگہ دوں گا۔ اور اب کوئی چیز بھی مجھے اس سے نہیں روک سکتی۔ چنانچہ اس نے ہمیں موجودہ احمدیہ سنٹرل سکول کی زمین دی۔ جو اب واقعہ میں شہر کا سنٹر بنتا جارہا ہے۔ اور بہت بڑی زمین ہے۔ اس وقت سے خداتعالیٰ نے اس شہر کے لوگوں کو ایسا زیر کیا ہے۔ کہ اب تک کسی مخالف کو بالمقابل سر اٹھانے کا موقعہ نہیں مل سکا۔ اور خداتعالیٰ نے ہہاری پوزیشن مضبوط ترین بنادی ہے۔ اور اب موجودہ وقت میں ہمارے پاس اس شہر میں ایک زمین کی بجائے دو زمینیں ہیں۔ جن میں ہمارا سکول۔ مشن ہائوس احمدیہ مسجد۔ لائبریری اور
‏tav.8.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
اور پرنٹنگ پریس کی عمارات کھڑی ہیں<۔۸۸
سیرالیون کے احمدیوں پر مظالم کا پہلا دور
ابھی مگبور کا اور بو کے مراکز زیر تعمیر ہی تھے کہ اکتوبر ۱۹۴۳ء میں جماعت ہائے ہانگا` پوئے ہوں۔ مانو کوٹو ہوں` ٹونگیا اور کویا کو انکے چیفوں اور لوکل نمبرداروں کی طرف سے سخت اذیت پہنچانی شروع کردی گئی۔ تقریباً آٹھ احمدیوں کو ٹونگیا میں صرف احمدیت کی وجہ سے آٹھ پونڈ جرمانہ کیا گیا اور دو دن قید میں رکھا گیا۔ ایک دن ان احمدی روزہ داروں کو روزہ کی حالت میں صبح سے شام تک سورج کی تپش میں رکھ کر سزا دی گئی اور آئندہ کے لئے قانون بنا دیا گیا کہ کوئی احمدی مسجد یا گھر میں نماز ادا نہ کرے۔ اسی طرح ایک افریقن احمدی مبلغ کو تین پونڈ جرمانہ کرنے کے علاوہ ان کو بالکل برہنہ کر دیا گیا اور ہاتھ پائوں باندھ کر ساری رات قید رکھا گیا۔ ہانگا اور پوٹے سون میں بھی نماز کی ممانعت کے علاوہ ۶ پونڈ جرمانہ کیا گیا۔
ٹونگیا کے امام اور دیگر مخلصین کی آنکھوں میں پسی ہوئی مرچیں ڈالی گئیں۔ بعض کو رمضان میں بحالت روزہ کئی کئی گھنٹے تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑا رکھا گیا۔ پانگوما <PANGUMA> کے بعض احمدیوں کو گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر ان سے احمدیت سے توبہ کرانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بعض سے بیگار کے کام اور شدید محنت کے اور ادنیٰ درجہ کے کام کئی روز تک لئے جاتے رہے۔ بعض احباب کو ناقابل ادا جرمانے کئے گئے۔ بعض کی بیویاں ان سے چھین لی گئیں۔ بعض کو ان کے آبائی گائوں سے نکال کر انکی جائداد پر قبضہ کیا گیا۔ بعض کو لوکل عہدوں سے ہٹا کر ذلت آمیز سلوک کیا جاتا رہا۔
مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک طرف حضور کی خدمت میں ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۳ء کو بذریعہ تار دعا کی درخواست کی اور دوسری طرف مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو کینما ڈی سی اور چیفوں کے پاس ان ظالمانہ کارروائیوں کے انسداد وغیرہ کے لئے روانہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مہم کامیاب رہی۔ اور دسمبر ۱۹۴۳ء کے آخر میں تمام احمدی قیدی نہ صرف آزاد ہوئے اور آزادانہ طور پر احمدیت پر عمل کرنے لگے۔ بلکہ تمام جرمانے بھی حکومت نے واپس دلا دیئے۔۹۰
سیرالیون کے احمدیوں پر مظالم کا دوسرا دور
اگرچہ ان تکالیف کا تو ازالہ ہوگیا مگر اگلے سال )۱۹۴۵ء( میں مظالم کا دوسرا دور شروع ہوا۔ چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے سیرالیون سے رپورٹ بھجواتے ہوئے لکھا۔
>سیرالیون کی بعض احمدی جماعتوں کو ان علاقوں کے پیرامونٹ چیف بہت تنگ کررہے ہیں اور ہرممکن کوشش سے اپنے علاقے کے جملہ احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کررہے ہیں۔ ایک علاقہ کے احمدیوں کو طرح طرح کے جھوٹے الزامات اور جھوتی گواہیوں کے ذریعہ نہ صرف ضلع کے حکام کے سامنے بدنام کیا جارہا ہے۔ بلکہ قید بھی کیا جارہا ہے۔ میرے وہاں مقرر کردہ امام الفاہم سنوسی پر یہ جھوٹا الزام لگا کر کہ اس نے چیف اور اس کے علاقہ کے ایک بت کی جس کی وہ پوجا کرتے ہیں۔ اور ہر طرح سے اس سے ڈرتے بھی ہیں۔ احمدیہ مسجد میں وعظ کے دوران میں ہتک کی ہے۔ ان کو دو ہفتہ تک ننگا کرکے اور پائوں میں بیڑیاں ڈال کر قید میں رکھا گیا۔ جب میں نے ڈی۔ سی صاحب کے ہاں شکایت کی تو جھوٹ اور دیگر بہانوں سے اور ادنیٰ ملازموں کو رشوت دیکر مقدے کی نوعت بدل دی۔ اور ڈی۔ سی کو وہاں کی جماعت اور ان کے امام سے بدظن کردیا۔ تاکہ ڈی۔ سی انہیں زیادہ سختی کرنے کا اختیار دے۔ میں نے ڈی۔ سی کے ہاں اپیل کی ہے۔ اور تمام حالات سے انہیں دوبارہ آگاہ کیا ہے۔ لیکن چیف بھی اپنے طور پر کوشش کررہا ہے کہ احمدیت کو اپنی چیفڈم سے نکال دے۔ اور اس نے ڈی۔ سی کو درخواست دی ہے کہ وہ ہرگز احمدیت اپنے علاقہ میں نہیں چاہتا اور کہ اس کے آدمی یا تو احمدیت سے انکار کردیں یا وہ ان کو وہاں سے نکال دے گا۔ اور احمدیوں کا مشن ہائوس اپنے قصبہ میں کرلے گا۔ ڈی۔ سی نے یہ جواب دیا کہ وہ باقاعدہ ایک درخواست بناکر اور تمام وجوہ اس امر کی لکھ بھیجے۔ پھر وہ اپنی رائے لکھنے کے بعد ڈویژنل کمشنر کی منظوری کیلئے بھیج دے گا۔ چیف اور اس کے لوگوں نے اپنے بت جس کو وہ >شیطان <(DAVIL) کہتے ہیں کے سامنے شراب پی کر وعدہ کیا ہے۔ کہ وہ احمدیت کو وہاں سے نکال دے گا۔ اور یہ قانون بنا دیا جائے کہ آئندہ اس کی چیفڈم کا جو شخص بھی یہ کہے گا کہ لوکل شراب حرام ہے یا کہ میں اب شراب نہیں پیئوں گا۔ اسے پانچ شلنگ جرمانہ کیا جائے گا۔ ان معاملات کو میں ایک دفعہ ڈویژنل کمشنر کے سامنے بھی تفصیل سے پیش کرچکا ہوں۔ مگر انہوں نے کوئی خاص توجہ نہیں کی۔ اب دوبارہ پیش کررہا ہوں۔ اسی طرح ایک اور چیفڈم میں وہاں کا چیف وہاں کے نئے احمدیوں کو نہایت سخت اذیت پہنچارہا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس علاقہ کے ڈی۔ سی صاحب نے احمدیوں اور چیف کے درمیان ایک مقدمے کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں دیا۔ اور آئندہ چیف کو ہدایت کی کہ ان کے مذہب میں مداخلت نہ کرے۔ پھر بھی اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ اور اب دوسرے حیلوں سے تنگ کررہا ہے۔ اگر احمدی ایک دفعہ گائوں میں اپنے طریق پر باجماعت نماز پڑھیں تو چھ شلنگ جرمانہ کرنے کے علاوہ سزا بھی دیتا ہے۔ اور چیف کے خلاف کوئی گواہی دینا نہ پسند کرتا ہے اور نہ جرات کرتا ہے۔ اس لئے جب بھی ان تکالیف کی رپورٹ احمدی میرے ذریعے یا بذات خود وہاں کے ڈی۔ سی سے کرتے ہیں۔ تو وہ فوراً کہہ دیتا ہے یہ سب جھوٹ ہے۔ اور کہ وہ ان سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ اور چونکہ ڈی۔ سی کو چیفوں کی عزت قائم رکھنے کا ہمیشہ خیال رہتا ہے۔ اس لئے چیف کی بات کا بغیر تحقیق کے اعتبار کر لیا جاتا ہے۔ اب یہ چیف ایسی تکلیفیں دے رہا ہے۔ چونکہ وہاں کے احمدی نئے تھے۔ ان میں سے سات۔ آٹھ نے بظاہر تکالیف اور مشکلات سے ڈر کر احمدیت سے انکار کردیا ہے۔ لیکن بعض اب تک صبروتحمل سے برداشت کررہے ہیں۔ اس بارے میں میں تین بار خود اس علاقہ میں جاچکا ہوں۔ حالانکہ میرے ہیڈکوارٹر سے بہت دور ہے۔ اور ڈویژنل کمشنر صاحب کو بہ تفصیل توجہ دلاچکا ہوں۔ مگر اب تک ہمارے یہ بھائی تکالیف میں چلے آتے ہیں۔ میں نے ڈویژنل کمشنر صاحب کو کہا تھا کہ احمدیوں کو مذہبی آزادی دلانے کے علاوہ انہیں اپنی مسجد بنانے کے لئے چھوٹی سی جگہ دلوائی جائے۔ کیونکہ ان کی تعداد پہلے بیس کے قریب تھی۔ اور وہ کسی کمرے میں اکٹھے نماز نہ پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے چیف کو لکھ دیا کہ احمدیوں کو گائوں سے ایک میل دور مشن یا مسجد بنانے کے لئے جگہ دی جائے تاکہ احمدیوں اور غیراحمدیوں میں جھگڑا نہ ہوسکے۔ چیف نے ایسا ہی کیا۔ لیکن چونکہ جگہ دور اور جنگل میں تھی۔ اور مسجد کے لئے نامناسب اس لئے ہمارے آدمی بیچارے بے بس ہوکر رہ گئے۔ چیف کی طرف سے تکالیف اسی طرح جاری ہیں۔ اب یہ معاملہ بھی ایک دفعہ پھر ڈویژنل کمشنر صاحب کے ہاں اپیل کے رنگ میں پیش کررہا ہوں۔ اور انہوں نے اگر کوئی مناسب کارروائی نہ کی۔ تو آگے اپیل کروں گا۔ ہمیں آجکل یہاں جملہ عمارتیں شروع کررکھی ہیں کی وجہ سے سخت مالی مشکلات ہیں اور مشن تقریباً ۱۳۰ پونڈ کا مقروض ہے۔ اس کے علاوہ سکولوں کے بارے میں مخلص کارکن` مخلص ٹیچروں اور مخلص لوکل مبلغوں کی کمی ہمارے کام میں آج کل سخت رخنہ انداز ہے<۔۹۱
اسی ضمن میں مولوی صاحب کی ایک دوسری رپورٹ ملاحظہ ہو۔ آپ نے لکھا کہ۔
>عرصہ زیر رپورٹ میں تین پیرامونٹ چیفوں کی طرف سے جماعتوں کو احمدیت کی وجہ سے تکالیف پہنچائی گئیں۔ باڈو کی جماعت کو عیدالفطر کے موقعہ پر ان کے چیف نے غیراحمدی امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔ مگر انہوں نے انکار کردیا۔ جس پر چیف نے بعض کو قید کی سزا دی اور بعض کو جرمانہ کردیا۔ اسی طرح بو کے چیف نے بھی ایسی ہی حرکت کرنی چاہی اور عیدالفطر کے موقعہ پر غیراحمدی امام کے پیچھے نماز ادا نہ کرنے پر احمدیوں کو قید کرنا چاہا۔ مگر احمدیوں نے فوراً ڈی۔ سی کو اطلاع کردی اور ڈی۔ سی صاحب نے چیف کو پیغام بھیجا کہ وہ مذہبی امور میں جماعت کو کسی امر پر مجبور نہ کرے۔ اسی طرح بادو کا معاملہ بھی خاکسار نے اس ضلع کے ڈی۔ سی کے ہاں پیش کیا۔ اس نے گو فیصلہ احمدیوں کے حق میں دیا۔ مگر ایسے رنگ میں کہ احمدی چیف سے دبے رہیں۔ اور چیف کی ظاہری پوزیشن پر کوئی حرف نہ آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن بعد پھر اسی چیف نے احمدی امام کو پکڑ کر چودہ دن جیل میں ڈالے رکھا۔ میں نے پھر ڈی سی کے ہاں رپورٹ کی۔ مگر ڈی سی صاحب نے عمداً کوئی توجہ نہ کی۔ میں نے پھر لکھا اور یاددہانی کرائی مگر انہوں نے کوائی جواب نہ دیا۔ اب سہ بارہ یہ معاملہ ڈویژنل کمشنر کے ہاں پیش کیا گیا ہے۔ جس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ اسیطرح نانوا کی احمدی جماعت کو بھی ابھی تک سخت تکالیف دی جارہی ہیں۔ بذریعہ قید اور جرمانوں او دوسرے کئی طریقوں سے احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مگر سوائے چند ایک کے باقی بفضلہ تعالیٰ اب تک احمدیت پر قائم ہیں اور صبر سے سب کچھ برداشت کررہے ہیں<۔۹۲
احباب جماعت کو وقف عارضی کی تحریک
لوکل مبلغین کی کمی اور تبلیغی و تربیتی کام کو وسیع کرنے کے لئے ۱۹۴۵ء میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے سیرالیون کے مخلص احمدیوں کو تبلیغ کے لئے ایک ایک ماہ وقف کرنے کی تحریک شروع کی جس پر پہلے سال بیس احمدیوں نے لبیک کہا۔ اس۹۳ کے بعد یہ تعداد ہرسال بڑھتی رہی۔ چنانچہ ۱۹۵۱ء میں سیرالیون کے چھتیس احمدیوں نے نہایت جوش و اخلاص سے حصہ لیا۔ اور ان کے ذریعہ اس سال اکتیس افراد بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوئے۔ جس پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اظہار خوشنودی فرمایا۔ اگلے سال ۱۹۵۲ء میں قریباً اسی احمدیوں نے ایک ایک ماہ وقف کیا۔۹۴
یہ تبلیغی خصوصیت سارے مغربی افریقہ میں تنہا سیرالیون کے احمدیوں کو حاصل ہے کہ وہاں ۱۹۴۵ء سے اب تک وقف عارضی کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے اور بہت مفید نتائج پیدا کررہا ہے۔
مولوی نذیر احمد علی صاحب کی المناک وفات
مولوی نذیر احمد صاحب سیرالیون مشن کا چارج مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو دیکر واپس قادیان کو روانہ ہوگئے۔ آپ کے بعد ایک عرصہ تک مولوی محمد صدیق صاحب انچارج مبلغ کے فرائض بجالاتے رہے۔۹۵ مولوی نذیر احمد صاحب ۱۲۔ فروری۹۶ ۱۹۴۵ء کو قادیان پہنچے۔ جہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کو پورے مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ نامزد کرکے اعلان فرمایا کہ آئندہ ان کا نام مولوی نذیر احمد علی ہوگا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت پر مولوی صاحب موصوف ۲۶۔ نومبر ۱۹۴۵ء کو قادیان سے پھر عازم مغربی افریقہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ قریشی محمد افضل صاحب` صوفی محمد اسحٰق صاحب اور مولوی عبدالحق صاحب ننگلی بھی تھے۔۹۷ مبلغین کا یہ وفد ۲۶۔ فروری ۱۹۴۶ء کو فری ٹائون پہنچ گیا۔۹۸ مولوی نذیر احمد علی صاحب دوسرے مبلغین کو سیرالیون میں متعین کرکے خود پورے مغربی افریقہ کی تبلیغی مہمات پر کنٹرول کرنے کے لئے ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۶ء کو گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ ربوہ سے ۱۹۵۴ء میں آخری بار سیرالیون آئے اور ایک لمبی بیماری کے بعد سیرالیون کے شہربو میں ۱۹۔ مئی ۱۹۵۵ء کو رحلت۹۹ فرما گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ مغربی افریقہ کی سرزمین کے پہلے جاں نثار مبلغ تھے جو میدان تبلیغ میں شہید ہوئے۔ ~}~
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
مولوی صاحب )ؓ( کی سیرالیون میں شہادت کے ضمن میں یہ امر خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ نے ۲۶۔ نومبر ۱۹۴۵ء کو قادیان سے مغربی افریقہ روانہ ہوئے ہوئے ایک ایڈریس کے جواب میں فرمایا تھا۔
>آج ہم خداتعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے۔ جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اور اس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا۔ پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہوگا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لئے ہماری جانیں صرف ہوئیں اسے وہ پورا کریں<۔۱۰۰
دارالتبلیغ سیرالیون مولوی محمد صدیق صاحب کے عہد امارت میں
مولوی صاحبؓ کی دوبارہ روانگی کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حکم دیا۔ کہ مبلغ سال میں ایک دو دفعہ ضرور کسی ملک میں
جمع ہوکر مجلس شوریٰ منعقد کیا کریں۔ اس ارشاد کی تعمیل میں پہلی مجلس شوریٰ ۳۔ مئی ۱۹۴۶ء کو بو میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری امیر و انچارجمشن سیرالیون کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں جماعت احمدیہ کی تعلیمی و تربیتی ترقی کے ذرائع` مشن کی آمد بڑھانے اور اخراجات سے متعلق ایک معین طریق کار طے کیا گیا۔ اس پہلی شوریٰ میں یہ بھی قرار پایا کہ مبلغوں کو اہم مقامات پر متعین کیا جائے۔ اور ہر چھ ماہ کے بعد ان کی تبدیلی کی جائے۔ چنانچہ چوہدری احسان۱۰۱ الٰہی صاحب جنجوعہ کے سپرد جماعتوں کا دورہ کیا گیا اور صوفی محمد اسحٰق صاحب۱۰۲ مولوی عبدالحق صاحب۱۰۳ ننگلی اور چوہدری نذیر احمد صاحب۱۰۴ رائے ونڈی بالترتیب علاقہ فری ٹائون` روکوپر` بوسے بیلاہول اور بوئیدد` مگبورکا` مٹوٹوکا` مشنز اور اضلاع مکینی اور ٹونکولیلی کے حلقوں میں متعین کئے گئے۔۱۰۵ عیسائیت کے خلاف مجاہدین احمدیت کی سرگرمیاںیکایک اتنی تیز ہوگئیں کہ امریکن مشن کے پادری مسٹر ڈیوڈ کار نے انہیں دنوں اخبار ریسینٹ افریقن )بابت فروری ۱۹۴۷ء( میں لکھا۔
>موجودہ حالات میں یہ بہتر ہوگا کہ ان لوگوں )یعنی سیرالیون کے باشندوں کو( اسلام کی طرف جھکائو کے باعث اب چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ یہ پہلے سے اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ اسلام نے ایک اعلیٰ ضابطہ پیش کیا ہے۔ اور اخلاقی اعتبار سے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ عیسائیت اسلام کی مضبوط بنیادوں کے خلاف کیوں دائمی لیکن نتیجہ ناکام جنگ جاری رکھے۔ اس نوعیت کی جنگ اب تک جاری ہے اور دونوں طرف سے تعلیماتی جدوجہد کا دبائو انتہائی درجہ پر ہے۔ کیونکہ کچھ عرصہ سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ جو اسلامی کمک یہاں پہنچی ہے۔ روکو پرکے نواحی علاقہ میں اس جماعت کی مضبوط مورچہ بندی ہوگئی ہے۔ اور اب عیسائیت کے مقابلہ پر تمام تر کامیابی اسلام کو نصیب ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر اس مقابلہ کی صف آرائی کے نتیجہ میں تھوڑا عرصہ ہوا کہ کامبیا میں امریکن )عیسائی( مشن کو بند کرنا پڑا ہے<۔۱۰۶
عیسائی مشنوں کو کھلا چیلنج
۱۹۴۸ء کے لگ بھگ سیرالیون کے ایک امریکن مشن نے )جسے ان دنوں MISSION C۔B۔U کہا جاتا تھا اور آج کل BMISSION۔U۔E کہلاتا ہے( ایک کتابچہ CATECHISM CHRISTIAN کا دوسرا ایڈیشن بکثرت شائع کیا۔ اس کتابچہ میں اسلام کے متعلق شدید زہر افشانی اور غلط بیانیاں کی گئیں تھیں اور آنحضرت~صل۱~ کے متعلق نہایت نازیبا اور دل آزار الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ احمدی مجاہدین نے سیرالیون کے تمام مسلمان فرقوں کو اس دل آزار کتابچہ کے نقصانات سے بروقت آگاہ کیا۔ مگر انہوں نے تو صرف حکومت کے سامنے اس کتابچہ کی ضبطی کا سوال اٹھایا۔ لیکن سیرالیون مشن کے مبلغ انچارج مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے فوری طور پر مرکز سے مشورہ کے بعد ایک مدلل جواب بعنوان۔MISSION> C۔B۔U TO CHALLENGE <A تیار کیا۔ جو چھپوا کر ملک کے طول و عرض میں کئی ہزار کی تعداد میں ہر طبقہ میں شائع کیا گیا۔
اس رسالہ میں نہ صرف یوبی سی مشن کو بلکہ سیرالیون میں اس وقت موجودہ تمام عیسائی مشنوں کے سربراہوں کو چیلنج کیا گیا کہ وہ یا تو ایسی دل آزار کتب کی اشاعت سے باز رہیں اور یا پھر جماعت احمدیہ کے نمائندگان سے ایک فیصلہ کن پبلک مناظرہ اسلام اور عیسائیت کے موازنہ پر کرلیں تاکہ پبلک پھر خود فیصلہ کرسکے کہ درحقیقت کونسا مذہب عالمگیر اور سچا ہے۔ لیکن کسی عیسائی مشن کے سربراہ یا نمائندہ کو نہ صرف یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ بلکہ یو۔ بی۔ سی مشن نے اپنے کتابچہ کی آئندہ اشاعت بھی خود ہی بالکل بند کردی۔
آرچ بشپ اف کنٹربری کو دعوت مقابلہ
فروری ۱۹۵۱ء میں چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ اعلیٰ ڈاکٹر فشرFisher) ۔(Dr آرچ بشپ آف کنٹربری چرچ آف انگلینڈ کے جملہ مشنوں اور چرچوں کے معائنہ کے لئے سیرالیون آئے تو دارالتبلیغ سیرالیون کی طرف سے انہیں بھی قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی کتب تحفت¶ہ دینے کے علاوہ ایک کھلے خط کے ذریعہ تفصیلی طور پر اسلام کی تبلیغ کی گئی۔ اور سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا ایک چیلنج بنام سربراہان مذاہب عالم مطبوعہ در دیباچہ قرآن کریم پیش کرکے انہیں اور ان کے گیارہ ہمراہی یورپین پادریوں کو اس چیلنج کو قبول کرنے اور مقابلہ کے لئے نکلنے کی دعوت و ترغیب دی گئی۔
آرچ بشپ صاحب کے نام یہ کھلا خط بعد میں چھپوا کر بھی سارے مغربی افریقہ میں کئی سال تک تقسیم کیا جاتا رہا۔ مگر کسی عیسائی پادری کو اسلام کے مقابل پر آکر اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔
سیرالیون میں تبلیغی جہاد کرنے والے دوسرے مبلغین
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سیرالیون میں اسلام اور عیسائیت کی تبلیغی جنگ کو فیصلہ کن مراحل تک پہنچانے کے لئے یہاں پے درپے مبلغین بھجوائے جن کے نام یہ ہیں۔
)۱( مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سندھی۔۱۰۷ )۲( مولوی محمد صادق صاحب لاہوری۔۱۰۸ )۳( مولوی محمد ابراہیم صاحب۱۰۹ خلیل۔ )۴( مولوی محمد عثمان صاحب۔۱۱۰ )۵( مولوی عبدالکریم صاحب۔۱۱۱ )۶( مولوی محمد صدیق صاحب۱۱۲ گورداسپوری۔ )۷( مولوی محمود احمد صاحب۱۱۳ چیمہ۔ )۸( ملک خلیل احمد صاحب اختر۔۱۱۴ )۹( قاضی مبارک احمد صاحب۔۱۱۵ )۱۰( ملک غلام نبی صاحب۔۱۱۶ )۱۱( مولوی محمد بشیر صاحب۱۱۷ شاد۔ )۱۲( مولوی محمد اسحاق صاحب خلیل۔۱۱۸ )۱۳( قریشی محمد افضل صاحب۔۱۱۹ )۱۴( سید احمد شاہ صاحب۔۱۲۰ )۱۵( مولوی مبارک احمد صاحب ساقی۔۱۲۱ )۱۶( شیخ نصیرالدین احمد صاحب۔۱۲۲ )۱۷( میر غلام احمد صاحب نسیم۔۱۲۳ )۱۸( مولوی عبدالقدیر صاحب۔۱۲۴]ybod [tag )۱۹( مولوی اقبال احمد صاحب غضنفر۔۱۲۵
سیرالیون کی سالانہ احمدیہ کانفرنسوں کیلئے حضرت امیرالمومنین کے خصوصی پیغامات
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے سیرالیون کی احمدیہ کانفرنسوں کے لئے اپنی زندگی میں تین اہم پیغام بھجوائے جن سے اس ملک کے مبلغین اور
دوسرے احمدیوں کی روح عمل میں بہت اضافہ ہوا۔ اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں پہلے سے بھی بڑھ گئیں۔
پہلا پیغام
جماعت احمدیہ سیرالیون کی تیسری سالانہ کانفرنس ۱۳ تا ۱۶ دسمبر ۱۹۵۱ء کو منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے لئے حضور نے مندرجہ ذیل پیغام بذریعہ تار ارسال فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران جماعت احمدیہ ملک سیرالیون
السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ
یہ پیغام میں آپ کے ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ ھش کے جلسہ سالانہ کے لئے بھجوارہا ہوں۔ آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے۔ لیکن آپ کا ملک چاروں طرف سے ایسے علاقوں سے گھرا ہوا ہے۔ جو کہ احمدیت سے ناآشنا ہیں۔ پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہو جاتے ہیں۔ پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور اپنی کوشش کو بڑھائیں اور نہ صرف اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ بلکہ لائبیریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو ادا کریں گے تو آپ کیلئے آخرت میں بہت ثواب جمع ہو جائے گا۔ اور اس دنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر سچے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اخلاص اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کرے<۔
خاکسار )دستخط( مرزا محمود احمد
خلیفتہ المسیح الثانی ۵۱۔۱۲۔۳<۱۲۶
دوسرا پیغام
۵`۶`۷۔ دسمبر ۱۹۵۳ء کو پانچویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یہ مختصر مگر جامع پیغام بھیجا کہ۔
‏YOU> WITH GOD WORK AND <UNITED یعنی متحد ہوکر کام کرو۔ خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔۱۲۷
تیسرا پیغام
دسمبر ۱۹۵۸ء میں حضور نے تیسرا روح پرور پیغام بھیجا۔ جس کا متن حسب ذیل ہے۔
>برادران جماعت احمدیہ سیرالیون
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں نے سنا ہے کہ آپ کی کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ احباب تو چاروں طرف سے آئیں گے ہی۔ مگر خالی احباب کا جمع ہونا مفید نہیں ہوتا۔ جب تک ان کے اندر للہیت اور اخلاص پیدا نہ ہو۔ پس آپ لوگ اس کا انتظام کریں کہ مبلغین اخلاص اور للہیت کے پیدا کرنے کی تلقین کریں۔ اور جماعت جس جوش کے ساتھ آئے اس سے سینکڑوں گنا زیادہ جوش کے ساتھ واپس جائے تاکہ ملک کے چپہ چپہ میں احمدیت پھیل جائے۔
آپ کا ملک بہت وسیع ہے۔ ابھی اس میں اشاعت حق کی بہت ضرورت ہے۔ جلدی اس طرف توجہ کریں اور ملک کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کریں تاکہ آپ لوگ اسلامی دنیا میں ایک مفید عنصر ثابت ہوسکیں۔ خالی سیرالیون اسلامی دنیا میں کوئی نقش نہیں چھوڑ سکتا جبکہ پہلے وہ ایک عقیدہ پر قائم نہ ہو۔ اور پھر باقی مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر اسلام کی خدمت کرے۔
پس اس مقصد کو آپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اور اس کے لئے جدوجہد کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین۔ والسلام
خاکسار۔ مرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی۔ یکم دسمبر ۱۹۵۸ء<۱۲۸
جیسا کہ ان پیغامات سے بھی واضح ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی توجہ سیرالیون کی طرف ہمیشہ خاص طور پر رہی اور آپ اس دن کو دیکھنے کے متمنی تھے جبکہ سیرالیون کے باشندوں کی اکثریت احمدیت کی آغوش میں آجائے گی چنانچہ حضور نے مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری کی ایک چٹھی )مرقومہ ۲۹۔ مارچ ۱۹۵۳ء( پر ارشاد فرمایا۔
>تبلیغ کو وسیع کریں بہت سست رفتار ہے۔ اب تک پانچ سات لاکھ آدمی وہاں ہو جانا چاہئے تھا۔ ان ملکوں کی حالت عرب کی طرح ہے پاکستان کی طرح نہیں<۔ اسی طرح مولوی محمد صدیق صاحب کی ایک اور رپورٹ پر ارشاد فرمایا۔ >ہم تو خواہش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جلد از جلد سارا سیرالیون احمدی ہو جائے<۔ )خط ۱۹۔ مئی ۱۹۵۵ء( بنام مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری(
اس ارشاد کے چند ماہ بعد مولوی صاحب موصوف کی ایک تبلیغی رپورٹ حضور نے ملاحظہ فرمائی اور حضور نے ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو تحریر فرمایا۔ >تقریرں کی اطلاع تو آجاتی ہے۔ یہ کب اطلاع آئے گی کہ سیرالیون کے اکثر آدمی احمدی ہوگئے ہیں<۔
ماہنامہ افریقن کریسنٹ کا اجرا اور نذیر مسلم پریس کا قیام
مئی اور جولائی ۱۹۵۵ء کے دو مہینے دارالتبلیغ سیرالیون کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ مئی ۱۹۵۵ء میں مشن کی طرف سے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی ادارت میں ماہنامہ >دی افریقن کریسنٹ< )TNECSCRE AFRICAN (THE جاری۱۲۹ کیا گیا جو ابتک جاری ہے اور مغربی افریقہ کے مسلمانوں میں بیداری کا موثر ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔ جولائی ۱۹۵۵ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی مبارک خواہش کی تعمیل اور مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ کی یادگار میں بو کے مقام پر >نذیر مسلم پریس< خرید کیا گیا۔۱۳۰ اور سیرالیون کے ایک مخلص اور مخیر دوست الحاج سید علی روجز صاحب نے اپنا ایک عالیشان مکان جو اس وقت ایک ہزار پونڈ سے بھی زیادہ مالیت کا تھا۔ پریس کے لئے وقف کردیا۔۱۳۱ روجز صاحب قبل ازیں پریس کے لئے گیارہ سو پونڈ کا گرانقدر عطیہ بھی پیش کرچکے تھے۔۱۳۲
پریس کا قیام ایک غیر معمولی نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی زبان مبارک سے تحریر کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ حضور فرماتے ہیں۔
>سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے۔ اس کے متعلق ہمارے مبلغ۱۳۳ نے لکھا۔ کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا۔ دو چار پرچوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے۔ لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہا۔ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کررہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا۔ کیونکہ پادری برا مناتے ہیں۔ چنانچہ اخبار چھپنا بند ہو گیا تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کردیا ہے اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے۔ یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا۔ اب چونکہ ہم نے انکار کردیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پریس نہیں اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیحؑ کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے۔ اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے۔ وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو ¶سخت تکلیف محسوس ہوئی۔ میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کرکے اتنی رقم جمع کردیں کہ ہم اپنا پریس خرید سکیں۔ اس سلسلہ میں میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تاکہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے۔ میں اس کی طرف جارہا تھا کہ خداتعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گائوں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آگیا۔ اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا۔ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں۔ میں نے کہا اس طرف ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کردیا ہے۔ اگر مسیحؑ کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے۔ وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گائوں سے ہوکر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لاکر مجھے دے دیئے۔ پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا۔ گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اس نے رقم دے دی اور کہا میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پریس دے دیا ہے۔ جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اس وقت تک اٹھارہ سو پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہوچکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے۔ یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کردی وہ دریا کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا ادھر سے ادھر بہہ رہا ہے۔ اگر یہ دریا یکدم اپنا رخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف الٹا بہنا شروع کردے تو یہ ممکن ہے۔ لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہوگیا پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہوگئی<۔۱۳۴
عیسائی پادریوں کو ایک اور چیلنج
فروری ۱۹۵۹ء کے شروع میں انگلینڈ سے عیسائی پادریوں کا ایک وفد سیرالیون آیا۔ وفد نے فری ٹائون میں دعویٰ کیا کہ وہ لنگڑے لولے اور اندھے لوگوں کو یسوع مسیح کے طفیل تندرست کرسکتے ہیں۔ بعض لوگوں نے جو اندرونی طور پر ان سے ملے ہوئے تھے اعلان بھی کردیا کہ انہیں ان پادریوں کی دعائوں کی وجہ سے معجزانہ طور پر شفا ملی ہے۔ احمدیہ مشن سیرالیون کی طرف سے ایک پمفلٹ میں وفد کے لیڈر پادری سکادرن کو چیلنج کیا گیا کہ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم ان کے سامنے بیس لنگڑے لولے اور اندھے پیش کرتے ہیں۔ وہ ان کو تندرست کرکے دکھائیں مگر پادری صاحب جواب دینے کی بجائے پمفلٹ شائع ہونے کے اگلے روز ہی سیرالیون کو خیرباد کہہ گئے<۔۱۳۵
سیرالیون کے جشن آزادی میں شیخ بشیر احمد صاحب )سابق جج ہائیکورٹ لاہور( کی شمولیت
سیرالیون کا ملک قریباً ۱۶۰ سال تک برطانوی تاج کے ماتحت رہنے کے بعد ۲۷۔ اپریل ۱۹۶۱ء کو آزاد ہوا۔ اس تقریب پر حکومت سیرالیون
نے جہاں دوسری مذہبی جماعتوں اور مشنوں کے نمائندوں کو مدعو کیا۔ وہاں جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں بھی ایک خاص نمائندہ بھجوانے کا دعوت نامہ ارسال کیا جس پر مرکز احمدیت کی طرف سے مکرم جناب شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل بی )سابق جج ہائیکورٹ لاہور( بطور نمائندہ سیرالیون تشریف لے گئے اور تقریبات آزادی میں شامل ہوئے۔۱۳۶
شیخ صاحب موصوف ۲۲۔ اپریل ۱۹۶۱ء کو فری ٹائون پہنچے اور ۲۳۔ اپریل ۱۹۶۱ء کو آپکی ملاقات سیرالیون مسلم کانگرس کے جنرل سیکرٹری الحاج جبرئیل سیسے سے ہوئی اور اسلام و احمدیت کے موضوع پر تبادلہ خیالات کیا۔ وہ آپ کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے۔ اسی روز آپ سیرالیون نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ آنریبل مصطفیٰ سنوسی سے ملے۔ ۲۴۔ اپریل ۱۹۶۱ء کو میئر آف فری ٹائون۔ RAHMAN) F۔A (MR وزیراعظم سیرالیون اور آنریبل کانڈبورے منسٹر آف ورکس اور آنریبل مسٹر وائی ڈی سیسے اور آنریبل پیرامونٹ چیف بو اور پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ ہر ایک نے احمدیہ جماعت اور احمدی مجاہدین کی انتھک کوششوں کی تعریف کی اور شیخ صاحب کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے۔ ۲۵۔ اپریل ۱۹۶۱ء کو سیرالیون کے چیف جسٹس ABANKACOKER)۔JUSTICES۔body](MR ga[t نے آپ کو ایک پارٹی میں مدعو کیا۔ اس پارٹی میں آپ نے سیرالیون کے ججوں اور بیرونی ممالک کے ججوں سے تبادلہ خیالات کیا۔۱۳۷ ۲۷۔ اپریل ۱۹۶۱ء کو آپ نے حکومت سیرالیون کے تمام وزراء اور بیرونی نمائندوں )جن میں ایک روسی نمائندے بھی شامل تھے( سے ملاقات کی۔ شیخ صاحب نے نصف گھنٹہ تک اشتراکیت اور اسلامی اصولوں پر گفتگو کی۔ ۲۸۔ اپریل ۱۹۶۱ء کو آپ نے مسلمانوں کے نام ایک پیغام ریکارڈ کرایا جو اسی شام نشر ہوا۔ اسی روز فری ٹائون مشن کی طرف سے آپ کے اعزاز میں ایک پارٹی دی گئی۔ جس میں مسلم کانگرس کے صدر الحاج بخاری اور بعض دوسرے معززین شریک ہوئے۔ محترم شیخ صاحب کافی دیر تک ان سے تبادلہ خیالات کرتے رہے اور سوالوں کے جوابات دیتے رہے۔
یکم مئی ۱۹۶۱ء کو آپ نے برٹش کونسل ہال میں تبلیغی لیکچر دیا۔ اس اہم لیکچر کی خبر ریڈیو سیرالیون پر نشر ہوئی اور اخبار >ڈیلی میل< میں بھی اس پر ایک نوٹ شائع ہوا۔ ۳۔ مئی ۱۹۶۱ء کو آپ نے وزیراعظم سیرالیون سے ملاقات کی اور تعلیمی و مذہبی امور پر بات چیت کی۔ اس گفتگو کے بعد آپ کی ملاقات گورنر جنرل سیرالیون سے ہوئی۔ گورنر جنرل آپ کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔
غرضیکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے قیام سیرالیون کے دوران حکومت کے اعلیٰ طبقوں تک حق کی آواز پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ شیخ بشیر احمد صاحب دینی و تبلیغی خدمات بجالانے کے بعد ۴۔ مئی ۱۹۶۱ء کو سیرالیون سے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے۔ اور حج بیت اللہ کے بعد ۳۱۔ مئی ۱۹۶۱ء کو لاہور تشریف لے آئے۔
مشن ہائوس
دارالتبلیغ سیرالیون کی تاریخ پر روشنی ڈالنے کے بعد ہم اس کے بعض دوسرے اہم کوائف بیان کرتے ہیں۔ سیرالیون میں دو مقامات پر مشن ہائوس قائم ہیں۔
)۱( بو۔ )۲( فری ٹائون )دو مشن ہائوس ہیں ایک مسجد سے ملحق اور ایک نیا ماڈل ٹائون میں جس کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے ۱۹۶۵ء میں رکھا(
سیرالیون کے احمدیوں کی تعداد
تازہ اعداد و شمار کے مطابق سیرالیون میں احمدیوں کی تعداد ۱۰ ہزار کے قریب ہے۔ منظم جماعتوں کی تعداد اور ان کے نام یہ ہیں۔
فری ٹائون۔ بو۔ روکوپر۔ مگبورکا۔ بواجے بو۔ باڈو۔ قالہ۔ بلاما۔ سیرابو۔ دالیہون۔ لیوما۔ مماجو۔ جمی باغبو۔ بانداجمہ سودا۔ پوٹے ہوں۔ مانو کوٹو ہوں۔ کینما۔ بوابو۔ ٹاتینا ہوں۔ بونگو۔ مونگیرے۔ بیچائون۔ موبمیاٹونگیا۔ پانگوما۔ موینڈو۔ مابائو ماں۔ بائوماہوں۔ جالہ۔ مینڈے وا۔ تیاما۔ لاء گو۔ پایند رائے بو۔ کونیا۔ ہانگا۔ موئی۔ بونگور۔ بائوماں۔ مسیائوں۔ پنگوروفالا۔ تونگوفیلڈ۔ گیہوں۔ باٹیما۔ سگمبیاں۔ ڈارو۔ بمبائوں۔ کامبا۔ کامارو۔ مانووا۔ تومبوما۔ میکہ یپیہما۔ بالاہوں۔ جامہ۔ لیمی۔ ڈانڈابو۔ ٹوبانڈا۔ یونی بانا۔ کمرابائی۔ ماٹوٹوکا۔ مکابو۔ مکالی۔ ماسنگبی پیلے۔ شنیگی۔ روٹی فونک۔ کبالہ۔ ماحبوما<۔
احمدیہ مساجد
سیر الیون کے مندرجہ ذیل مقامات پر احمدیہ مساجد تعمیر ہوچکی ہیں۔
فری ٹائون۔ بو۔ باڈو۔ فالا۔ بالاہوں۔ سپرابو۔ پوٹے ہوں۔ مانکوٹوہوں۔ بوابو۔ تانپتائوں۔ بونگوڈوہوں۔ بلاما۔ بو اجے بو اور لیٹر۔
تعلیمی ادارے
آج کل سیرالیون میں مندرجہ ذیل احمدیہ سکول کامیابی سے چل رہے ہیں۔
۱۔
بور احمدیہ پرائمری سکول۔ یہ سکول ۱۹۴۶ء میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے ذریعہ جاری ہوا۔ VI STD تک اس میں تعلیم دی جاتی ہے۔
۲۔
مگوبر کا سکول۔ یہ بھی مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے ذریعہ شروع ہوا۔ STDVI تک اس میں تعلیم دی جاتی ہے۔
۳۔
روکوپر احمدیہ پرائمری سکول۔ یہ الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم کے ذریعہ ۱۹۳۸ء میں شروع ہوا۔ اور VI STD تک اس میں تعلیم دی جاتی ہے۔
۴۔
فری ٹائون پرائمری سکول۔ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے ذریعہ ۱۹۵۸ء میں شروع ہوا۔ اور اس میں VI STD تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
۵۔
سکا عثمانی پرائمری سکول۔ یہ ملک غلام نبی صاحب کے ذریعہ سے ۱۹۵۹ء سے شروع ہوا۔ اور STDV تک اس میں تعلیم دی جاتی ہے۔
۶۔
بائو ماہوں پرائمری دوبارہ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی کے ذریعہ ۱۹۵۹ء میں شروع ہوا۔
۷۔
بو اجے بو پرائمری سکول۔ یہ مولوی شیخ نصیرالدین احمد صاحب کے ذریعہ ۱۹۶۰ء میں شروع ہوا۔
۸۔
لونسر پرائمری سکول ۱۹۶۰ء میں شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے وقت شروع ہوا۔
‏]ni [tag۹۔
۴۷ میل۱۳۸ پر واقع پرائمری سکول۔ یہ ۱۹۶۰ء میں شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے وقت شروع ہوا۔
۱۰۔
مسلائی سوکو پرائمری سکول۔ ۱۹۶۰ء میں شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے وقت شروع ہوا۔
۱۱۔
کبالہ سکول مولوی عبدالقدیر صاحب شاہد کے ذریعہ قائم ہوا۔
۱۲۔
سرپکولیا پرائمری سکول۔ ملک غلام نبی صاحب کے ذریعہ ۱۹۶۲ء میں شروع ہوا۔
۱۳۔
رکن احمدیہ پرائمری سکول ۱۹۶۲ء میں مولوی بشارت احمد صاحب بشیر امیر و انچارج سیرالیون کے ذریعہ شروع ہوا۔
۱۴۔
روسینو احمدیہ پرائمری سکول ۱۹۶۲ء میں مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کے ذریعہ شروع ہوا۔
۱۵۔
بلاما۔ احمدیہ پرائمری سکول ۱۹۶۲ء میں مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کے ذریعہ شروع ہوا۔
۱۶۔
ٹینائوں احمدیہ پرائمری سکول ۱۹۶۲ء میں مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کے ذریعہ شروع ہوا۔
۱۷۔
فری ٹائون احمدیہ سیکنڈری سکول ۱۹۶۴ء میں مولوی بشارت احمد صاحب بشیر امیر و مبلغ انچارج کے ذریعہ قائم ہوا۔
۱۸۔
بو احمدیہ سیکنڈری سکول ۱۹۶۰ء میں شیخ نصیرالدین احمد صاحب کے ذریعہ قائم ہوا۔ اور اس وقت سے لے کر جولائی ۱۹۶۲ء تک وہ خود ہی پرنسپل رہے اس کے بعد جولائی ۱۹۶۲ء سے ستمبر ۱۹۶۳ء تک چوہدری سمیع اللہ سیال صاحب۱۳۹ ایم۔ اے پرنسپل رہے۔ آپ کے بعد ستمبر ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۷ء تک مرزا حنیف احمد صاحب۱۴۰ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی کی زیر قیادت چلتا رہا۔ اس سکول میں محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کے علاوہ جناب منور احمد صاحب ایم۔ ایس۔ سی۔ جناب حمید اللہ ظفر صاحب ایم۔ اے۔ جناب مرزا ناصر احمد صاحب بی۔ اے` بی۔ ایڈ۔ جناب رشید احمد صاحب ایم۔ اے اور مبارک احمد علی صاحب بی۔ ایس۔ سی اور سجاد حیدر صاحب بھی کام کررہے ہیں یا کرچکے ہیں۔
سیرالیون کے بعض مخلصین
جماعت سیرالیون کے مخلص ترین احمدیوں کے نام درج ذیل ہیں۔
۱۔ پاہ ساتنگی بکرے آف روکوپر ضلع کابیا۔ ۲۔ السید حسن محمد ابراہیم ۱۹۳۹ء میں بائوموہوں میں احمدیت قبول کی۔ ۳۔ الحاج علی روجز آف بو۔ ۴۔ پا سعید و بنگورا آف بو۔ ۵۔ السید امین خلیل سکیکی پیلی۔ سیرالیون مشن کی ابتدائی مشکلات اور تنگی کے وقت انہوں نے سلسلہ کی ہزاروں روپیہ کے ساتھ مدد کی۔ ہر وقت ان کو اسلام کی مدد کے لئے تیار پایا) خداتعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔ ۶۔ السید مصطفیٰ حدرج آف پیلی۔ ۷۔ پا کالی سانکو آف مگبورکا۔ ۸۔ مصطفیٰ آدم آف مگبورکا۔ ۹۔ پیرامونٹ چیف الحاج المامی مسعوری آف مکالی۔ ۱۰۔ پا سنفا آدم آف مگبورکا۔ ۱۱۔ پیرامونٹ چیف ناصر الدین گامانگا آف بو اجے بو۔ ۱۲۔ پا۔۱۴۱ ٹی۔ بی کولہکا آف باڈو۔ ۱۳۔ چیف۔ وی۔ دی کالوں یہ وہ چیف ہیں۔ جنہوں نے قرآن مجید کا مینڈے زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ۱۴۔ پا علی مانسر آف فری لوئون۔ ۱۵۔ پا عمارا کانو فری ٹائون۔ ۱۶۔ بائی ٹورے فری ٹائون۔ ۱۷۔ امام عبداللہ کول۔ ۱۸۔ مسٹر محمد بشیر آف فری ٹائون۔ ۱۹۔ مسٹر ایم۔ ایس دین آف فری لوئون۔ ۲۰۔ الفا عمارا اوریس آف مہاجو۔ ۲۱۔ مسٹر عبدل گامانگا آف بو اجے بو۔ ۲۲۔ الفا الحسینی فیکا امام آف سیرابو۔ ۲۳۔ محمد عبداللہ امام باڈو۔ ۲۴۔ حاجی سیسے آف پون بانا۔ ۲۵۔ الفا یحییٰ کمارا آف ردکوپر۔ ۲۶۔ پا وانڈی کروماپا صالحو کونے پا سنسی کمارا۔ میڈم ٹونگیار۔
لٹریچر
دارالتبلیغ سیرالیون کی طرف سے مینڈے زبان میں مندرجہ ذیل لٹریچر طبع ہوچکا ہے۔
)۱( لائف آف محمد۔ تالیف حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم۔ )۲( >میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں< )ترجمہ مینڈے مضمون سیدنا خلیفہ المسیح الثانیؓ( )۳( نماز۔ ترجمہ پارہ اول قرآن مجید۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل پمفلٹ بھی شائع ہوئے۔
‏ )۱( MISSION C۔B۔U TO CHALLENGE A )مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری(
‏]ind [tag
‏)۲( ARCHBISHOP THE TO LETTER COMPLIMENTARY <A CANTERBURY> OF )مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری(
‏)۳( KNOW> TO WANT YOU <DO ") " " " ("
‏)۴( ISLAM> IS <WHAT )مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل(
‏)۵( CATECHISM> <MUSLIM )مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل(
اسلامک بکڈپو
مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے ۱۹۶۳ء میں ایک بک شاپ >اسلامک بکڈپو< کے نام سے جاری کی جس میں سٹیشنری اور سکول کی کتابوں کے علاوہ سلسلہ کی ضروری کتب موجود رہتی ہیں۔
فروغ احمدیت کے اسباب میں خدائی نشانات کا نمایاں حصہ
ملک سیرالیون میں احمدیت کی اشاعت و فروغ کے اسباب و محرکات میں مبلغین احمدیت کی مجاہدانہ جدوجہد احمدیان سیرالیون کی قربانیاں اور مصائب۱۴۲ و مشکلات کا مردانہ وار اور مومنانہ روح سے مقابلہ` ان کا ذاتی کردار اور نمونہ اور جماعت کی تعلیمی درسگاہوں کو خدا کے فضل سے بہت عمل دخل ہے۔ مگر اس ملک میں احمدیت کی ترقی میں شروع ہی سے قبولیت دعا۔ رویاء و کشوف کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ ان آسمانی نشانات کا سلسلہ حیرت انگیز طور پر وسیع ہے۔ اور اب تک جاری ہے بطور نمونہ چند ایمان افروز واقعات کا بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔
پہلا واقعہ
مولوی نذیر احمد علی صاحب ۱۹۳۹ء کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>بائوماہوں سے ۴۰ میل کے فاصلہ پر پہاڑی علاقہ میں ایک ریاست واقع ہے۔ جسے گوراما کہتے ہیں۔ ریاست کے رئیس اعلیٰ یعنی CHIEF PARAMOUNT ٹونگے نامی گائوں میں رہتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے ٹونگے کو ریاست کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ ستمبر کے مہینہ میں خاکسار بائوماہوں سے چار مزدوروں کے ہمراہ جنہوں نے میرا سامان اٹھایا ہوا تھا۔ پیدل ٹونگے پہنچا۔ بائوماہوں کے چند مخلصین بھی میرے ہمراہ تھے۔ چیف کا نام بایو(BAYO) ہے۔ جو پہلے مشرک اور نیم عیسائی تھا اور دس سال کے عرصہ سے عیسائی مبلغین اس کے ہاں کام کررہے تھے۔ یہ چیف ایک نہایت پرانی اور خطرناک بیماری میں مبتلا تھا جس کے علاج پر وہ ہزاروں روپیہ برباد کرچکا تھا۔ میں نے یہاں آکر بہت سے لیکچر دیئے۔ لیکن چیف ہمیشہ اپنی بیماری کا قصہ چھیڑ دیتا اور اس ملک کے علماء کے طریق کے مطابق مجھ سے کسی موثر تعویز کا مطالبہ کرتا اور کہتا کہ جس قدر بھی خرچ ہو وہ ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ میں نے اسے احمدیت کی دعوت دی اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کے لئے لکھنے کا وعدہ کیا چنانچہ اس نے نہایت اخلاص سے احمدیت قبول کی اور ابھی ہمارا خط حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پہنچا بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غیر معمولی فضل سے نہایت معمولی سی دوا کے ذریعہ جو میرے پاس موجود تھی اسے شفاء عطاء کردی۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔۱۴۳
دوسرا واقعہ
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری تحریر فرماتے ہیں۔
>۱۹۴۰ء میں سیرالیون مغربی افریقہ کے ایک عیسائی نوجوان GAMANGA۔K جو کہ اپنی ریاست کے شاہی خاندان کے فرد تھے۔ اسلام قبول کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ ۱۹۴۲ء میں ان کی ریاست کے نواب یعنی اس نوجوان کے چچا کے فوت ہونے پر وہ خود اس عہدہ کے حصول کے لئے بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور مجھ سے اپنی کامیابی کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی۔ میں نے انہیں کہا کہ ہم اس شرط پر سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت عالیہ میں دعا کے لئے عرض کریں گے اور خود بھی دعا کریں گے کہ آپ پختہ عہدہ کریں کہ آپ گزشتہ نوابوں کے تتبع میں چار سے زیادہ ایک وقت میں بیویاں نہیں رکھیں گے۔ اور اپنے علاقہ کے عیسائیوں کا مقابلہ کرکے اسلام پھیلانے اور مضبوط کرنے میں ہماری مدد کریں گے اور اپنے قصبہ میں مسجد اور اسلامیہ سکول ریاست کے خرچ پر تعمیر کریں گے۔ چنانچہ ان کے یہ شرطیں قبول کرلینے پر خاکسار نے حضور پرنور کی خدمت میں مفصل طور پر عرض کیا کہ حضور ان کی کامیابی کے لئے دعا فرمائیں۔ نیز لوکل احباب میں بھی دعا کی تحریک کی۔ حضور کی طرف سے الیکشن کے ایک ہفتہ قبل جواب ملا کہ >ہم نے دعا کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے گا انشاء اللہ تعالیٰ<۔ میں نے گامانگا صاحب کو قبل از وقت اطلاع دیدی اور ان کی تسلی کے لئے حضور کی طرف سے آمدہ چٹھی بھی دکھا دی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے باوجود سخت مخالف حالات کے وہ سات امیدواروں کو شکست دیکر اپنی ریاست کے نواب یا چیف منتخب ہوگئے<۔۱۴۴
تیسرا واقعہ
روکوپر کے ایک احمدی دوست الفا احمد کمارا کا بیان ہے کہ۔
>۱۹۳۶ء میں جبکہ میں روکوپر سے منتقل ہوکر رونو بنو نامی گائوں میں رہائش رکھتا تھا۔ ایک رات نماز تہجد کے بعد کچھ دیر کے لئے لیٹ گیا اس حالت میں کیا دیکھتا ہوں کہ دو شخص سفید ریش لمبے لمبے چوغوں میں ملبوس جنکے سروں پر عمامے ہیں۔ میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مشرق سے آئے ہیں اور تمہیں یہ بشارت دیتے ہیں کہ جس مہدی کا دیر سے انتظار تھا وہ ظاہر ہوچکا ہے۔ سو اٹھ اور اپنے اصل گائوں میں جاکر لوگوں کو یہ خوشخبری سنا اور انہیں نماز کی پابندی کی تلقین کر۔ اگر لوگوں نے اس بات پر کان نہ دھرا تو وہ خدائی سزا کے مستوجب ہوں گے اس پر میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے چار سال بعد الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم تشریف لائے جنہیں دیکھتے ہی الفا شیخنا امام مسجد نے کہا کہ مسٹر احمد آپکی خواب پوری ہوگئی۔ کیونکہ الحاج مولوی نذیر احمد صاحب مرحوم کا لباس و پیغام بعینہ وہی ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا۔ اس موقعہ پر نہ صرف خاکسار کو بلکہ ایک کثیر تعداد کو ہدایت نصیب ہوئی اور خداتعالیٰ نے قبل از وقت اس عاجز کو مہدی علیہ السلام کے ظہور کی خبر سے نواز کر ایک گرانقدر احسان کیا۔ الحمدلل¶ہ علیٰ ذالک<۔۱۴۵
چوتھا واقعہ
مگبورکا کے ایک احمدی دوست پاسانفا تولا پر عجیب رنگ میں رویاء کے ذریعہ احمدیت کی صداقت کا انکشاف ہوا۔ چنانچہ ان کا بیان ہے۔ کہ
>ایک موقعہ پر جبکہ میں بائوماں نامی گائوں میں رہائش رکھتا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں وہاں کی مالکیہ مسجد کے اردگرد سے گھاس اکھاڑ رہا ہوں اور کچھ دیر کے بعد کچھ تھکان محسوس کرنے پر میں مسجد کے قریب ہی ایک پام کے درخت تلے کچھ سستانے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ اسی اثنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کی جانب سے ایک سفید رنگ کے اجنبی دوست ہاتھ میں قرآن کریم اور بائیبل پکڑے میری طرف آرہے ہیں۔ میرے قریب پہنچ کر سب سے پہلے ہدیہ السلام علیکم پیش کیا اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ جس مسجد کے اردگرد سے میں گھاس صاف کررہا تھا اس کا امام کون ہے۔ میں اسے ملنا چاہتا ہوں۔ اس پر میں نے آپ سے چند منٹ کی رخصت لی اور امام کو بلانے کے لئے چلا گیا۔ جس کا نام الفا تھا۔ ہماری دونوں کی واپسی پر ہم یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئے کہ مسجد کے باہر ایک سایہ دار کھڑکی تیار ہوچکی ہے اور وہ اجنبی شخص خود امام کی جگہ پر محراب میں کھڑا ہے۔ ہمیں دیکھتے ہی اس نے حکم دیا کہ ہم اس سایہ دار جگہ میں بیٹھ کر اسے قرآن کریم سنائیں۔ اس کے بعد ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ اجنبی دوست مسجد سے نکل کر ہمارے پاس آئے اور امام سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں تمہیں صحیح طریق نماز سے آگاہ کرنے آیا ہوں۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی اور صبح ہوتے ہی میں نے اس کا ذکر اپنے مسلمان دوستوں سے کردیا۔ )یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیرالیون میں تمام مالکی مسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماز ادا کرتے ہیں جیسے ہمارے ملک میں شیعہ صاحبان پڑھتے ہیں( اس خواب کے قریباً ایک ہفتہ بعد صبح کے وقت میں نے اپنا کدال لیا اور اپنی مالکیہ مسجد کا گردو نواح صاف کرنے لگا۔ قریباً نصاف گھنٹہ کے کام کے بعد میں نے کچھ تھکان محسوس کی اور قریب ہی ایک پام کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علی مرحومؓ تشریف لارہے ہیں۔ آپ نے قریب آنے پر مجھے السلام علیکم کہی اور رہائش کے لئے جگہ وغیرہ دریافت کی۔ میرے لئے یہ ایک نہایت ہی تعجب انگیز بات تھی کہ جو خواب میں ابھی چند یوم پہلے دیکھ چکا تھا بعینہ آج پوری ہورہی تھی۔ یعنی الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحومؓ ہی وہ دوست تھے جو مجھے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سو میرے لئے ایسے مہمان کی خدمت ایک خوش قسمتی تھی۔ لہذا میں نے آپ کو کسی اور کے پاس جانے کی اجازت نہ دی بلکہ اپنا گھر خالی کرکے رہائش کے لئے پیش کردیا۔ اس کے بعد میں اپنے مسلمان دوستوں کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ پورا ہوگیا۔ یعنی وہ دوست تشریف لے آئے ہیں اور میرے گھر میں تشریف رکھتے ہیں اس کے بعد میری اور الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم کی تبلیغ پر اس گائوں کے اکثر مسلمانوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس وقت سے بفضل تعالیٰ احمدی ہوں<۔۱۴۶
پانچواں واقعہ
موضع بلاما (BLAMA) کے ایک احمدی الفا فوڈے موسیٰ کروما تحریر کرتے ہیں۔
>جبکہ میں ابھی عین جوانی کی حالت میں تھا اور پنڈمبو (PENDEMBU) نامی گائوں میں رہائش رکھتا تھا۔ ایک روز دوپہر کے وقت جبکہ میں قیلولہ کررہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت وجہیہ شکل فرشتہ صورت انسان میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں ہی وہ مہدی ہوں جس کی فی زمانہ مسلمانوں کو انتظار ہے۔ اس پر میں نے سوال کیا کہ کیا آپ فی الواقعہ صحیح کہہ رہے ہیں کہ آپ ہی موعود مہدی ہیں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہاں میں سچ کہتا ہوں کہ میں ہی مہدی موعود ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ ہم نے اپنے علماء سے سنا ہوا ہے کہ مہدی علیہ السلام کے وقت مسلمانوں اور کفار کے درمیان جنگ ہوگی سو آج سے میں آپ کے سپاہیوں میں شامل ہوتا ہوں اور اس راستہ میں اگر میرا باپ بھی حائل ہوا تو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ میرے اس اقرار پر حضرت مہدی علیہ السلام نے سوال کیا کہ کیا تم نے صدق دل سے یہ اقرار مجھ سے کیا ہے؟ جس کا جواب میں نے اثبات میں دیا اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس رویاء پر ایک کافی لمبا عرصہ گزر گیا۔ مگر مہدی کے ظہور کی کوئی خبر موصول نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ آہستہ آہستہ یہ خواب بھی میرے ذہن سے محو ہوگئی۔ کچھ مدت کے بعد میں پنڈمبو سے منتقل ہو کر بلاما چلا آیا اور وہاں کے پیرامونٹ چیف کے کمپائونڈ میں رہائش اختیار کرلی۔ اس گائوں میں میری رہائش پر ابھی چند ہی سال گزرے تھے کہ الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علی اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری بلاما تشریف لائے اور لوگوں کو ظہور مہدی علیہ السلام کی بشارت دی۔ میں اس وقت وہاں موجود نہیں تھا بلکہ چند یوم کے لئے کسی ذاتی کام کے ضمن میں بو کے قریب ایک چھوٹے سے گائوں میں مقیم تھا۔ جب یہ مبشرین بلاما پہنچے وہاں سے الفا موسیٰ کمارا نے فوراً میری ایک بیوی میرے پاس بھیجی تاکہ مجھے تمام حالات سے آگاہ کرسکے۔ چنانچہ میری بیوی نے مکمل واقعات سے مجھے مطلع کیا اور حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کی خبر سنتے ہی میں نے بجائے بلاما جانے کے وہاں ہی خداتعالیٰ کے حضور دعا شروع کردی کہ اے خداوند تعالیٰ تیری ذات عالم الغیب ہے۔ سو اگر ان لوگوں کا پیغام واقعی صداقت پر مبنی ہے اور مہدی علیہ السلام فی الواقع ظہور فرماچکے ہیں۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے تو خود ہی میری راہنمائی فرما۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ میں اس سعادت سے محروم رہ کر منکرین میں داخل ہو جائوں۔ چند یوم متواتر میں نے یہ دعا کی اس پر ایک رات کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص جس کے ہاتھ لمبے لمبے ہیں اور برائون رنگ کا چوغہ پہنے ہوئے۔ میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے۔ میں مہدی ہوں اور تم اپنی پہلی خواب کو یاد کرو جبکہ تم نے صدق دل سے میرے ساتھ عہد کیا تھا کہ آج سے تم میرے سپاہیوں میں داخل ہورہے ہو۔ سو اس وعدے کو مت بھولو۔ اس کے بعد اس شخص کے ہاتھ لمبے ہوتے چلے گئے اور میں ان سے دور ہوتا چلا گیا اور آخر ان میں اور مجھ میں کافی فاصلہ ہوگیا مگر ان کا ہاتھ ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد مجھے کامل انشراح صدر حاصل ہوگیا اور مزید تحقیق کی ضرورت پیش نہ آئی اور صبح ہوتے ہی سیدھا بلاما گیا اور الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علیؓ اور مولوی محمد صدیق صاحب سے مل کر احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی<۔۱۴۷
دارالتبلیغ سیرالیون کی اسلامی خدمات دوسروں کی نظر میں
دارالتبلیغ سیرالیون کے قیام کی تاریخ نامکمل رہے گی اگر ہم بالاخر یہ نہ بتائیں کہ احمدیہ دارالتبلیغ سیرالیون کی شاندار دینی و ملی خدمات اور اس کے عظیم الشان مذہبی اور علمی انقلاب کی نسبت دوسروں کے تاثرات کیا ہیں؟ اس ضمن میں ضروری آراء بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ آنریبل ایم۔ ایس مصطفیٰ وزیر زراعت و معدنیات نے بیان دیا کہ۔
>گو میں مالکی سکول آف تھاٹ کا مسلمان ہوں اور احمدی نہیں ہوں۔ مگر ان احمدی مبلغین کی مساعی کو دیکھ کر اور ان کی بے لوث قربانیوں کی وجہ سے ہمیشہ ان کا مداح رہا ہوں۔ اور جس رنگ میں بھی میں ان کے اس مقدس کام میں ان کا ہاتھ بٹا سکتا ہوں بٹاتا رہا ہوں۔ افسوس ہے مسلمان سیرالیون کے اس سیکشن کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستہ میں مخالفانہ روڑے اٹکاتے ہیں<۔
>یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اس خطہ سیرالیون میں اسلامی نور کی شعاعوں کو تیز تر کرکے ہمیں جگا دیا ہے۔ یہ لوگ تقریباً عرصہ ۲۰ سال سے مصائب و مشکلات برداشت کرتے ہوئے اس ملک کی دینی اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے میں مشغول ہیں۔ آپ نے فرمایا پھر یہ امر بھی قابل قدر و ستائش ہے کہ ان
‏tav.8.23
اریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
نوجوان مشنریوں کی انتھک خدمات صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں اور انہیں تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ ہر ایک کا بھلا چاہتے اور خدمت خلق کا جذبہ ان کے ہر کام اور سکیم میں نمایاں نظر آتا ہے۔ تعلیمی لحاظ سے اس ملک کے سینکڑوں بچے ان کے سکول میں پڑھکر اور ان کے زیر تربیت رہ کر بہترین شہری بن چکے ہیں اور ملک کے ہر شعبہ اور محکمہ میں پائے جاتے ہیں<۔ )ترجمہ(۱۴۸
۲۔ پیرامونٹ۱۴۹ چیف آف بونے سیرالیون کی احمدیہ کانفرنس )منعقدہ ۱۳ تا ۱۵۔ دسمبر ۱۹۵۷ء( کو خطاب کرتے ہوئے کہا۔
>آپ سب لوگ اس امر کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں ایک کیتھولک چرچ کا عیسائی ممبر ہوں۔ مگر اس کے باوجود وہ کونسی چیز ہے جو مجھے اکثر اوقات جماعت احمدیہ کے مختلف اجتماعوں میں رواں دواں کھینچ لے آتی ہے۔ یہ چیز سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ آپ لوگ ایک فعال جماعت ہیں اور جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور میں ایک ایسا انسان ہوں جو قول سے زیادہ عمل کو حیثیت اور وقعت دیتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خوش ہوں کہ یہ جماعت یعنی جمات احمدیہ میرے شہر اور میری چیفڈم میں ترقی کررہی ہے۔ احمدیہ مبلغین کا میں اس وجہ سے بہت احترام کرتا ہوں کہ وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بہترین استاد ثابت ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ یہ دونوں زبانیں ہمارے ملک میں روبہ ترقی ہیں<۔ )ترجمہ(۱۵۰
۳۔ سیرالیون گورنمنٹ کے وزیرآباد کاری اور پبلک ورکس آنریبل چیف کانڈے بورے۔
>ہر وہ انسان جو کسی دوردراز کے ملک سے کسی دور دراز ملک میں جاتا ہے اس کے مدنظر کچھ وجوہ اور مقاصد ضرور ہوتے ہیں۔ بلکہ ہر اجنبی جو کسی دوسرے مقام سے آتا ہے۔ اس کی آمد کے لئے کوئی نہ کوئی وجہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ احمدیہ مشنری جنہیں آج ہم اپنے درمیان دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک خاص غرض اور خاص مقصد کے پیش نظر یہاں آئے۔ وہ غرض اور مقصد کیا تھی؟ وہ اسلام کی اس ملک میں ڈگمگاتی ہوئی کشتی کی ناخدائی تھی۔ دیکھنے اور سننے والوں نے دیکھا اور سنا۔ بعض نے ان پر ہنسنا شروع کردیا اور شدید مخالفت کی۔ بعض نے ایک حد تک توجہ بھی دی لیکن محض سننے کی حد تک اور بعض نے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا کیونکہ اس وقت کہ جب ان کے پہلے احمدیہ مشنری الحاج نذیر احمد علی صاحبؓ مرحوم نے سرزمین سیرالیون پر قدم رکھا۔ یہ زمین عیسائیت سے انتہائی طور پر متاثر تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام کو عیسائیت کے مقابل پر دیکھنا یا کھڑا کرنا اب ناممکن اور محال ہے لیکن چند اسلام کے محبوں نے اس مبلغ کی دعوت پر توجہ دی اور لبیک کی صدا بلند کی۔ آج کچھ بہت عرصہ نہیں گزرا کہ وہی احمدیت یا حقیقی اسلام جس کے متعلق اس وقت یعنی آج سے تقریباً بیس سال قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایک چھوٹا سا پودا ہے جو چند یوم کے بعد اپنی موت خود مرجائے گا- وہی پودا آج پنپ رہا ہے اور اپنی جڑوں کو اس مضبوطی سے سرزمین سیرالیون میں پیوست کرچکا ہے کہ اب خطرناک سے خطرناک آندھی بھی اس کو اکھاڑنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ آپ نے فرمایا احمدیت نے ان چند سالوں میں باوجودمخالفت کی آندھیوں اور نامساحد حالات کے جو غیر معمولی اور حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ یہ اس امر کا پیش خیمہ ہے کہ ایک بڑا انقلاب جلد ہی احمدیت کے ذریعہ اس ملک کی کایا پلٹ دینے والا ہے اور وہ وقت کوئی بہت دور نہیں جب سیرالیون کا ہر فرد لوائے احمدیت کے نیچے کھڑا ہوکر اسلام اور توحید کا نعرہ بلند کررہا ہوگا۔ گو آج اس دعویٰ کو مجنون کی بڑھی سمجھا جائے گا اور اس پر طاقتور عیسائی مشن ہنسی اڑائیں گے<۔ )ترجمہ(۱۵۱
>میں عام احمدیوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میرے ذریعہ میرے خاندان اور قبیلے کے کئی آدمی احمدی ہوئے ہیں۔ میرے قبیلے کے ان لوگوں میں احمدیت نے جو اخلاقی تبدیلی اور مذہبی دلچسپی پیدا کی ہے وہ یقیناً حیرت انگیز ہے۔ میں نے کئی بار عام مجالس میں اس امر کا ذکر کیا ہے۔ حتیٰ کہ بعض عام جلسوں میں جہاں کہ بعض نے احمدیت کے خلاف بھی تقریریں کیں۔ میں نے اس بات کو احمدیت کی صداقت میں پیش کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ احمدی کوئی برا کام تو نہیں کررہے ہیں۔ آخر تم میں سے جو چند لوگ نکل کرکے ان سے مل گئے ہیں۔ وہ چور۔ ڈاکو۔ جھوٹے تو نہیں بن گئے۔ ان کی اخلاقی حالت تو پہلے سے اچھی نظر آرہی ہے۔ جو لوگ ان سے معاملہ کرتے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ان کا معاملہ منصفانہ اور نیکیوں والا ہے۔ اگر احمدی حضرت مرزا صاحب کو نبی کہتے ہیں تو ہمارا کیا بگاڑتے ہیں آخر ہمارے لوگوں کی حالت کو سدھارتے ہی ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ فریٹون کے احمدیوں کی اکثریت ٹمنی لوگوں کی ہے )یعنی ان کے اپنے قبیلہ کے لوگ( اور یہ عجیب بات ہے کہ میری کورٹ میں ہر قسم کے لوگوں کے خلاف مقدمات پیش ہوتے ہیں مگر اب تک کہ مجھے آپ لوگوں کا چیف بنے تیرہ سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ میرے پاس کبھی کسی ٹمنی احمدی کے خلاف کوئی مقدمہ آج تک نہیں آیا۔ حالانکہ بطور ٹمنی میری چیف کورٹ میں میرے اور میرے ورزاء کے پاس سینکڑوں مقدمات پیش ہوئے ہیں کیا اس کا صاف یہ مطلب نہیں کہ احمدی چونکہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور نہ کسی پر زیادتی کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں کورٹ میں نہیں لایا جاتا۔ آخر اگر دوسرے ٹمنی لوگوں میں سے کئی چوریاں کرتے۔ ڈاکے مارتے ۔ جھوٹ بولتے۔ حرام مال کھاتے۔ بیویوں سے بدسلوکی کرتے اور دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں تو احمدیہ جماعت کے افراد کیوں ان باتوں میں ملوث نہیں ہوتے۔ یہ امر واضح کرکے ہمیشہ احمدیت کی مخالفت کرنے والوں سے کہتا ہے کہ اگر تم احمدی نہیں ہونا چاہتے تو نہ ہو مگر تمہیں چاہئے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ تمہیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ عملاً تمہاری مدد ہے اور وہ ہمارے لوگوں کی عملی اصلاح کررہے ہیں۔ انسان کا انجام بخیر اس کے اعمال نے کرنا ہے۔ مسلمان کے اس اسلام کا کیا فائدہ جو دن رات احمدیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن اعمال اس کے کافروں سے بھی بدتر ہوں۔ ہمارا مخالفت کرنا تب ہی ہمیں فائدہ دے سکتا ہے جبکہ ہم اپنے آپ کو اپنے اعمال اور اخلاق کے لحاظ سے بھی احمدیوں سے بالاتر ثابت کرسکیں گے مگر معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے اور اخلاقی لحاظ سے ہم میں اور ان میں بہت فرق ہے<۔ )ترجمہ(۱۵۲
۴۔ وزیر خزانہ آنریبل مصطفیٰ سنوسی جبرئیل سیسے صدر مسلم ریفارمیشن سوسائٹی۔
>جماعت احمدیہ دنیا میں اسلام کی ترقی اور اس کے غلبہ کی علمبردار ہے اور خاص طور پر سیرالیون میں جماعت احمدیہ نے جو خدمات مسلمانوں میں دینی روح اور تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلہ میں سرانجام دی ہیں ان کی وجہ سے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ احمدیہ جماعت کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں<۔۱۵۳
>سیرالیون کے لوگوں پر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے ذریعہ ہی اسلام کی حقیقت روشن ہوئی ہے اس لئے یہاں کے لوگ احمدیہ مشن کے بے حد شکرگزار ہیں<۔ )ترجمہ(۱۵۴
۵۔ آنریبل مصطفیٰ سنوسی۔ سابق ڈپٹی پرائم منسٹر سیرالیون نے اپنے ایک اور بیان میں کہا۔
>احمدیت کے ذریعہ ہی درحقیقت یہاں پر اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں۔ حضرت مولانا نیر صاحب جیسے اسلام کے نڈر سپاہیوں نے عیسائیت کو شکست فاش دی۔ میں اس حقیقت کے برملا اظہار سے نہیں رک سکتا کہ پاکستانی احمدی مبلغین نے باوجود تکالیف اور مصائب کے اسلام کی خاطر عظیم الشان قربانیاں کی ہیں۔ ہمارے یہ پاکستانی بھائی ہندوستانی تاجروں کی طرح کسی تجارت اور دولت کی غرض سے نہیں آئے۔ انہوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دینی لٹریچر مہیا کرکے ہمیں حقیقی اسلام سے روشناس کرایا ہے<۔ )ترجمہ(۱۵۵
۶۔ سیسل نارتھ کاٹ COTT) NORTH (CECIL کا ایک مقالہ اخبار >پاکستان ٹائمز< )۱۱۔ دسمبر ۱۹۶۰ء( میں شائع ہوا جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔
>مغربی افریقہ کے ممالک کی آزادی نے ساحلی علاقوں میں اسلام کے حق میں ترقی کی ایک نئی روح پیدا کردی ہے۔ اسلام افریقن لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے کیونکہ افریقہ میں یہ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ گویا یہ افریقہ کی کالی اقوام کا ہی مذہب ہے۔ عیسائیت کے برخلاف اسلام انسانی کمزوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر نئے آنے والے کو سہولت سے اپنے اندر سمولیتا ہے۔ کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیم کے پیش نظر اس کو رسمی قباحتوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ اس ضمن میں سیرالیون اور مغربی نائیجیریا دو اہم علاقے ہیں۔ سیرالیون بھی اگلے اپریل میں آزاد ملکوں کی برادری میں شامل ہو جائے گا۔ مغربی نائیجیریا تو وہ علاقہ ہے جہاں عیسائیت کا ماضی نہایت شاندار روایات کا حامل رہا ہے لیکن اب انہی دو علاقوں میں اسلام کو نمایاں ترقی حاصل ہورہی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ سیرالیون تو احمدی مسلمانوں کی منتخب سرزمین ہے۔ جہاں وہ پاکستان سے آئے ہوئے منظم مشنوں کے ماتحت نہایت مضبوط حیثیت میں سرگرم عمل ہیں۔ احمدیہ جماعت اس مقصد کو لے کر کھڑی ہوئی ہے کہ اسلام کو عیسائیت کے مقابلہ میں موجودہ دنیا کی راہ نمائی کے لئے پیش کرے اور یہ عیسائیت کے لئے ایک چیلنج ہے اور اب تو انہوں نے سیرالیون میں باقاعدہ ڈاکٹری مشن کھولنے کا بھی عزم کرلیا ہے اور وہاں احمدیہ سکولوں کی تعداد بھی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ باوثوق ذرائع سے آمدہ اطلاعات کے مطابق مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اسلام عیسائیت کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ ترقی کررہا ہے۔ نائیجیریا کا وسیع شمالی علاقہ اسلام کا گڑھ بن چکا ہے جو باوجود عیسائی مشنوں کی سالہا سال کی کوششوں کے مذہبی اعتبار سے ناقابل تسخیر اسلامی ملک ثابت ہوا ہے بلکہ خود جنوب کے جنگلاتی علاقہ میں جہاں عیسائی مشنر نہایت مضبوط ہیں۔ وفود بھیج کر اسلامی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور اب نائیجیریا کے آزاد ہو جانے پر ان دونوں بڑے مذاہب کے ایسے تصادم کا امکان ہے جو اب تک کہیں اور رونما نہیں ہوا ہے کیونکہ یہاں اسلام اور عیسائیت نہایت جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کمربستہ ہیں۔ تاکہ ان قبائل کو اپنے زیر اثر لائیں جو کسی مذہب سے وابستہ نہیں بلکہ توہماتی شرکت میں مبتلا ہیں۔ اس مقابلہ کے نتیجہ پر ہی افریقہ کے مستقبل کا انحصار ہے<۔۱۵۶
۷۔ مسٹر عبداللہ بیٹ سیرالیون نے کہا۔
>مجھے وہ وقت خوب یاد ہے کہ جب حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر مرحوم کا مبارک قدم سرزمین سیرالیون میں پڑا۔ اس وقت یہ اندازہ لگانا محال امر تھا کہ ایک دن احمدیت یہاں پر اتنی مضبوط ہو جائے گی انہوں نے بتایا کہ مولانا نیر صاحب مرحوم کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم ہوگئے مگر ان کا قیام بہت عارضی تھا۔ تاہم وہ احمدیت کا بیج لیکر آئے جن کے بعد مکرم فضل الرحمن صاحب حکیم مرحوم نے اس بیج کی آبیاری کی۔ مگر اس ملک میں مکرم الحاج نذیر احمد صاحب علی مرحوم کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی کیونکہ وہی پہلے مبلغ ہیں جنہوں نے یہاں پر مستقل قیام کیا۔ انہوں نے احمدیت کی خاطر بہت مصائب و مشکلات برداشت کیں۔ حتیٰ کہ اس کی خاطر اپنی جان بھی اس ملک میں قربان کرکے تبلیغ کے میدان میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ ان احمدی مبلغین نے یہاں آکر عیسائیت کو للکارا اور انہیں دلائل کے میدان میں شکست فاش دی۔ اس سے قبل ہمارے دل میں کبھی وہم نہ گزر سکتا تھا کہ عیسائیت کے خلاف کوئی مسلمان بھی بولنے کی جرات رکھتا ہے۔ مسلمانوں میں سے اکثر عیسائیت کی طرف مائل ہوتے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ احمدی مبلغین کی آمد سے حالات میں تبدیلی ہوئی اور عیسائیت کو شکست ہونے لگی اور اسلام ہر میدان میں کامیاب ہوتا چلا گیا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو زیادہ سے زیادہ قوت اور طاقت عطا فرمائے تاکہ جلد از جلد اسلام کی برتری دوسرے ادیان پر ثابت ہو<۔۱۵۷
۸۔ >ورلڈ کرسچن ڈائجسٹ< DIGEST) CHRISTIAN (WORLD میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا AFRICA> WEST IN PROGRESS <ISLAM >یعنی مغربی افریقہ میں اسلام کی ترقی<۔ مضمون نگار نے لکھا کہ۔
>عیسائی مشنریوں نے مغربی افریقہ کے وسیع و عریض ساحلی علاقہ میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج چرچ نے اس علاقے میں آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے سے انکار کر دیا ہے؟ کیا تیز تر مشنری جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی اور کیا اس علاقہ میں عیسائیت کو زندہ رکھنے کے لئے اس جدوجہد سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا؟ کیا اسلام کی روز افزوں ترقی اور اس سارے علاقے کو بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لینے کے اسلامی چیلنج کا ہمارے پاس کوئی موثر اور موزوں جواب ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پورے غور و فکر اور سوچ بچار کے محتاج ہیں اور ضروری ہے کہ حقائق کی روشنی میں ان کا جواب معلوم کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن مجھے سیرالیون روانہ ہونا تھا۔ عین اسی روز وہاں اسلام کا پہلا میڈیکل مشنری وارد ہوا۔ اخبارات میں اس کی آمد کی خبروں کو جگہ دی گئی اور اس طرح ملک بھر میں اس کی آمد کا بہت چرچا ہوا۔ اس ملک میں اسلام کے پہلے میڈیکل مشنری کی آمد نتیجہ ہے اس دور رس پالیسی کا جو اسلام کو سربلند کرنے اور پھیلانے کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ نے اختیار کررکھی ہے۔ جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہے اور اس کی کوششوں کے نتیجے میں وہاں اسلام ترقی کررہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیرالیون ایک عجیب و غریب ملک ہے۔ اس میں اسلام اور عیسائیت کے علاوہPAGANISM کے پیرو بھی پائے جات ہیں۔ اندرون ملک میں بسنے والے قبائل زیادہ تر مسلمان ہیں۔ کرسچین کونسل کا اندازہ ہے کہ اس ملک میں عیسائی پانچ فیصد سے بھی کم ہیں۔ کیا آزاد سیرالیون بھی مغربی افریقہ کے دوسرے آزاد ملکوں کی طرح اسلام کی آغوش میں چلا جائے گا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح گھانا میں بھی جماعت احمدیہ سرگرم عمل ہے۔ مگر سیرالیون میں اس کی کوشش زیادہ نمایاں ہے۔ گھانا کے شمالی علاقے کے لوگ مذہبی ہیں اس لئے وہاں تھوڑی سی کوشش بھی اسلام کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا موجب ہوسکتی ہے۔ نائیجیریا میں اسلام کی طاقت زیادہ ہے اور وہاں اسلام بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ یوروبہ نسل کے لوگ جنہوں نے ایک صدی قبل عیسائیت کو خوش آمدید کہا تھا اب بڑی تیزی سے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ صرف ابادان شہر میں ہی تقریباً چھ صد مساجد پائی جاتی ہیں۔ شمالی نائیجیریا میں چرچ کی انتہائی کوشش کے باوجود اسلام کی طاقت ناقابل تسخیر دکھائی دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرنچ مغربی افریقہ سیرالیون اور مغربی نائیجیریا میں اسلام عیسائیت کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ترقی کرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہمہ گیر اجتماعیت کا حامی ہے اور افریقن لوگ اس قسم کی اجتماعیت کے شدت سے دلدادہ ہیں۔ اسلامی تعلیم میں اخوت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں۔ علاوہ ازیں اسلام تعداد ازدواج کی بھی اجازت دیتا ہے۔ لہذا لوگ اس کو پسند کرتے ہیں اور بڑی آسانی سے اس کی آعوش میں چلے جاتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک امیر و غریب اور ایک متمدن شہری اور بادیہ نشین میں کوئی فرق نہیں۔ بحیثیت انسان سب ایک ہیں اور یکساں سلوک کے مستحق۔ برخلاف اس کے عیسائیت ان چیزوں کو پیش تو کرتی ہے لیکن عمل اس کا ان کے بالکل برعکس ہے۔ برطانوی دور حکومت میں یہ باور کیا جاتا تھا کہ افریقہ آہستہ آہستہ عیسائیت کی آغوش میں آجائے گا۔ مگر اب افریقن باشندے اپنے خیالات انداز فکر اور انداز زیست کے لحاظ سے بالکل آزاد ہیں۔ اب وہ جو مذہب چاہیں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں افریقہ میں عیسائیت کے پنپنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ سوائے اس کے کہ خود افریقہ کے باشندے اپنی ہمت سے چرچ کو سنبھال لیں<۔۱۵۸
۹۔ نائب وزیراعظم سیرالیون کی ایک تقریر۔
>جماعت احمدیہ کا وجود اس ملک میں اسلام کے لئے ایک بہت بڑی طاقت کا موجب ہے۔ اس جماعت نے اسلام کی جس طرح خدمت کی ہے۔ صدیوں سے کسی نے نہیں کی۔ جماعت کا لٹریچر اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتا ہے اور ایک معمولی لکھا پڑا آدمی اس سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس ملک میں اسلام صدیوں سے ہے۔ مگر اسلام کو ایسی شکل میں پیش کیا گیا جو ناقابل عمل نہیں تو کم از کم مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ مگر جماعت احمدیہ نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرکے ملک و ملت کی بہت خدمت کی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں فری ٹائون کے ایک سکول میں طالب علم تھا تو جماعت احمدیہ کا مبلغ فری ٹائون میں آیا۔ لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ مگر اس کے علم و فضل کی اس قدر دھاک بیٹھ گئی کہ لوگ اس کے علم و فضل کا اقرار برملا کرنے لگے۔ اس کے ایک ہاتھ میں قرآن تھا تو دوسرے میں بائیبل اور وہ دونوں کا مقابلہ کرکے قرآن کی فضیلت اس طرح ثابت کرتا تھا کہ کوئی عیسائی پادری اس کا جواب نہ دے سکتا تھا۔ احمدیہ مشن نے اسلام پر نیا لٹریچر پیدا کرنے کے علاوہ قرآن مجید کے تراجم کرکے دنیا پر خصوصاً مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ ہم نوجوان جنہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی ہے اور وہ بھی عیسائی سکولوں میں ہمارے لئے اسلام کا سمجھنا بہت ہی مشکل تھا۔ اگر ہمیں اسلام کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے ہوئی ہے اور آج ہم بڑے سے بڑے اسلام دشمن کو اسلام کی صداقت کے بارہ میں چیلنج کرسکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں طالب علم تھا ایک عیسائی نے اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں اسلام پر ناروا حملے کئے گئے تھے۔ میں نے چیلنج کو قبول کیا اور جواب دینے کی تیاری میں مشغول ہوا۔ عیسائیوں کے اعتراضات کا مکمل جواب احمدیہ مشن کی کتابوں میں موجود تھا۔ میں نے مشن کی کتابیں لیکر اس کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا۔ میں احمدیہ مشن کی اسلامی خدمات کا دل و جان سے معترف ہوں اور جہاں بھی مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اس کا اعتراف کیا ہے اور جہاں بھی گیا ہوں احمدیہ مشن کو خدمت دین کرتے ہوئے پایا ہے۔ امریکہ` جرمنی` اٹلی` انگلینڈ` غانا` نائیجیریا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ میں مشن کو یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی امکانی مدد مجھ سے ہوسکی میں کروں گا- کیونکہ یہ مشن اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور حفاظت کے لئے لڑرہا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے کام کرنے کا وسیع میدان ہے آپ کو چاہئے کہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔ آپ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرکے مشن کی مدد کرنی چاہئے۔ تا اسلام کا بول بالا ہو۔ حضرت خدیجہ کا نمونہ عورتوں کے سامنے ہے۔ بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرکے عورتیں بہت بڑا ¶کام کرسکتی ہیں۔ میں اپنا نمونہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میرا کرسچن سکولوں میں تعلیم پانے کے باوجود تہہ دل سے مسلمان رہنا صرف اس وجہ سے ہے کہ میری والدہ نے میری صحیح رنگ میں اور دینی ماحول میں تربیت کی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان بچے جب سیکنڈری سکولوں میں پہنچتے ہیں تو وہ اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی بچپن میں صحیح رنگ میں تربیت نہیں ہوتی۔ اس سرزمین میں اسلام گزشتہ صدی میں بڑے نازک دور سے گزرا۔ ایک گورنر نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائیں اور بعض مسلمان قبیلوں کو فری ٹائون سے باہر بھجوانے کا حکم صادر کیا۔ انہوں نے اپیل کی مگر وہ نہ سنی گئی آخر وہ گورنر چھٹی گیا اور وہیں فوت ہوگیا۔ جب اس کی جگہ پر دوسرا گورنر آیا تو اس نے کہا اسلام ایک اچھا مذہب ہے اور اس طرح کونسل نے اپنا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ فری ٹائون میں تاحال مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اب آپ آسانی سے تبلیغ کرسکتے ہیں مگر مجھے وہ وقت یاد ہے جب کہ تبلیغ کی اجازت نہ تھی اور مسلمان کہلانا بھی مشکل تھا۔ دو ماہ ہوئے لیگوس )نائیجیریا( میں عیسائیوں کی ایک بہت بڑی میٹنگ ہوئی جس میں یہ سوال بھی زیر بحث آیا کہ مغربی افریقہ میں اسلام کیوں ترقی کررہا ہے۔ بڑی بحث کے بعد میٹنگ ہوئی جس میں یہ سوال بھی زیر بحث آیا کہ مغربی افریقہ میں اسلام کیوں ترقی کررہا ہے۔ بڑی بحث کے بعد میٹنگ کے ممبر اس نتیجہ پر پہنچے کہ احمدی مبلغین سیاست میں نہیں الجھتے اور اپنی سرگرمیوں کو خالص مذہبی امور تک محدود رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بخوبی اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ غانا کی مثال لے لیجئے جہاں کی سیاسی حالت مختلف ہے۔ مگر وہاں پر بھی احمدی بڑے آرام سے اپنا کام کرتے جارہے ہیں۔ میں نے تمام غانا کا سفر کیا ہے اور دیکھا ہے کہ احمدی مبلغین اپنے کام میں شب و روز مشغول ہیں۔ سالٹ پانڈ میں احمدیہ مسجد ہے اور اس کے مقابلہ میں چرچ بھی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے درمیان ایک جرمن احمدی بیٹھا ہوا ہے۔ جرمن قوم بڑی ہوشیار ہے انہوں نے سائنس میں بہت ترقی کی ہے ان کا اسلام کی طرف مائل ہونا بھی اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے۔ احمدیہ مشن مسلمانوں کے لئے لڑرہا ہے اور انکو جو گمراہ ہوچکے ہیں راہ راست پر لانے کی دن رات کوشش میں ہے۔ میں آپ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اس کارخیر میں مشن کا ہاتھ بٹائیں اسلام میں نجات ہے۔ آپ پوری طرح مسلمان بن جائیں اور اپنی اولادوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ مسلمان رہیں۔ تعلیم کے میدان میں احمدیہ مشن نہایت ہی اچھا کام کررہا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ان کی امداد کریں۔ تاوہ آپ کے بچوں کو اسلامی تعلیم سے مزین کرسکیں۔ احمدیوں کی دیکھا دیکھی اب بعض دوسرے لوگ بھی مجالس منعقد کررہے ہیں اور سکول بھی کھولنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ احمدیہ مشن ان سب کا پیشرو ہے<۔ )ترجمہ(۱۵۹
چوتھا باب )فصل پنجم(
‏]bsu [tagحضرت امیرالمومنینؓ کا سفر سندھ و بمبئی
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے گلے میں )لگاتار لمبی تقاریر کرنے اور خطبات دینے کی وجہ سے( منرمن تکلیف ہوگئی تھی اور سالہا سال سے کاسٹک استعمال کرایا جارہا تھا۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ کاسٹک لگانا چھوڑ دیا جائے۔ ورنہ گلے کا گوشت بالکل جل جائے گا۔ ڈاکٹری رائے میں چونکہ اس مرض کے لئے سمندر کا سفر خاص طور پر مفید ہوتا ہے۔۱۶۰ اس لئے حضور اس سال بمبئی تشریف لے گئے۔ چنانچہ حضور ۳۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قادیان سے بذریعہ موٹر لاہور پہنچے۔۱۶۱ جہاں نیشنل لیگ کے ایک اجتماع سے خطاب فرمایا۔۱۶۲ اور دوسرے روز ۴۔ اکتوبر کو صبح ساڑھے نو بجے کراچی میل کے ذریعہ سندھ روانہ ہوئے۔۱۶۳
۱۳۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو ناصر آباد اسٹیٹ سے روانہ ہو کر ۱۵۔ اکتوبر کو ۹ بجے صبح کراچی پہنچے اور ۹ بجے شام >وارسی لونا< نامی بحری جہا سے روانہ ہوکر ۱۶۔ اکتوبر کی صبح کو بمبئی میں وارد ہوئے۔4] fts[۱۶۴
بمبئی میں حضور ڈیڑھ ہفتہ کے قریب فروکش رہے اور ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو >سناوتی< جہاز پر سوار ہوکر صبح نو بجے کراچی پہنچے۔۱۶۵ اور ۳۔ نومبر ۱۹۳۷ء کو سفر سے واپس قادیان تشریف لے آئے۔۱۶۶
اس سفر میں پہلے تو گلے کی تکلیف بڑھ گئی مگر بعد میں نمایاں فائدہ ہوا اور روزانہ دوائیں لگانے کی جو ضرورت محسوس ہوتی تھی اس میں بہت کمی آگئی۔۱۶۷
روایات صحابہ محفوظ کرنے کی اہم تحریک
سلسلہ احمدیہ کے قیام کو ۱۹۳۷ء میں اڑتالیس سال اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وصال مبارک پر انتیس سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ اس لمبے عرصہ کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے کثیر التعداد صحابہ رحلت فرما گئے اور اس تشویش انگیز صورت حال کو دیکھ کر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جماعت کو ۱۹۔ نومبر ۱۹۳۷ء کے خطبہ جمعہ۱۶۸ میں باقی ماندہ صحابہ کی روایات کے محفوظ کرنے کی خاص تحریک فرمائی چنانچہ فرمایا۔
‏]ydbo >[tagحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ۱۹۰۸ء کی ابتداء میں ہوئی ہے اور اس وقت جن لوگوں کی عمر پندرہ سال کی سمجھی جائے کیونکہ یہی کم سے کم عمر ہے جس میں بچہ سمجھ رکھتا ہے تو ایسے لوگوں کی عمر بھی اب ۴۴ سال ہوگی جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سال اور جماعت میں رہ سکتے ہیں اور بظاہر آج سے ۲۰۔ ۲۵ سال بعد شائد ہی کوئی صحابی جماعت کو مل سکے۔ ایسا صحابی جس نے حضور کی باتوں کو سنا اور سمجھا ہو۔
میں سمجھتا ہوں رسول کریم~صل۱~ کی زندگی اور سیرت کے حالات کی کتابیں اور ¶احادیث اگر جمع کی جائیں تو تین چار سو ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔ جن میں سے ہر ایک جلد پانسو صفحات کی ہوگی اگر ایسی تین سو جلدیں بھی ہوں تو یہ ڈیڑھ لاکھ صفحات ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض صحابہ کرامؓ نے اتنا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ آج ہمیں بہت ہی کم یہ خیال آسکتا ہے کہ کاش رسول کریم~صل۱~ کی فلاں بات ہمیں معلوم ہوتی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حالات و اقوال اور واردات کا بہت ہی کم حصہ محفوظ ہوا ہے۔ میں نے بارہا دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ جو بات کسی کو معلوم ہو وہ لکھا دے اور دوسروں کو سنا دے۔ مگر افسوس کہ اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے اور اگر کسی نے توجہ کی بھی ہے تو ایسی طرز پر کہ اس کا نتیجہ صفر کے برابر ہے۔ پس ۔۔۔۔۔۔۔ میں دوستوں بالخصوص نظارت تالیف و تصنیف اور تعلیم کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ اس قسم کا کام ہے کہ اس میں سے بہت سا ہم ضائع کرچکے ہیں۔ اور اس کے لئے ہم خدا کے حضور کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اب جو باقی ہے اسے ہی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ ہمارا سالانہ بجٹ تین لاکھ کا ہوتا ہے۔ مگر اس میں ایک ایسا آدمی نہیں رکھا گیا جو ان لیکچروں اور تقریروں کو جو صحابہ۱۶۹ کریں۔ قلمبند کرتا جائے اب بھی اگر ایسا انتظام کر دیا جائے تو جو کچھ محفوظ ہوسکتا ہے اسے کیا جاسکتا ہے اور اس میں سے سال دو سال کے بعد جو جمع ہو شائع ہوتا رہے اور باقی لائبریریوں میں اور لوگوں کے پاس بھی محفوظ رہے۔ میں سمجھتا ہوں اب بھی جو لوگ باقی ہیں وہ اتنے ہیں کہ ان سے چالیس پچاس فیصدی باتیں محفوظ ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ایک بہت بڑے مصنف بھی تھے۔ اس لئے آپؑ کی کتابوں میں بھی بہت کچھ آچکا ہے۔ لیکن جو باتیں صحابہ کو معلوم ہیں اگر ان کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا گیا تو ہم ایک ایسی قیمتی چیز کھو بیٹھیں گے جو پھر کسی صورت میں بھی ہاتھ نہ آسکے گی۔ میں کئی سال سے اس امر کی طرف توجہ دلارہا ہوں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا<۔۱۷۰
حضور کے اس فرمان مبارک پر حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر تالیف و تصنیف نے حافظ بشیر احمد صاحب مولوی فاضل جالندھری کا انتخاب روایات صحابہ جمع کرنے کے لئے کیا۔ لیکن حافظ صاحب بھی اس کام کا چارج لینے نہ پائے تھے کہ ۲۔ مئی ۱۹۳۸ء کو اچانک انتقال کرگئے اور عارضی طور پر یہ کام ملک محمد عبداللہ صاحب مولوی فاضل کے سپرد کیا گیا۔ ملک صاحب آخر اگست ۱۹۳۸ء تک یہ کام سرانجام دیتے رہے۔ انہوں نے صحابہ کرامؓ سے روایات حاصل کرکے ان کو اخبار >الفضل< میں شائع بھی کرانے کا اہتمام کیا اور تبرکات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فہرست بھی مرتب کی۔ اسی اثناء میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے قادیان کے تمام محلہ جات کا بار بار دورہ کرکے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اسم وار فہرست سن بیعت کے لحاظ سے مرتب کی۔۱۷۱
ملک محمد عبداللہ صاحب کے بعد شیخ عبدالقادر صاحبؓ )سابق سوداگر مل( مبلغ کراچی نے ستمبر ۱۹۳۸ء سے اس اہم کام کا چارج لیا اور اس کے لئے اپنے سب اوقات وقف کردئے اور نہ صرف بذریعہ ڈاک ہی روایات منگوائیں بلکہ بٹالہ` امرتسر` لاہور اور سیالکوٹ وغیرہ علاقوں کے دورے کرکے روایات کا ایک نہایت قیمتی ذخیرہ فراہم کرکے ان کو رجسٹروں کی صورت میں نقل کرانا شروع کردیا اور اصل کے ساتھ ساتھ مقابلہ بھی جاری رکھا۔ اس کے ساتھ ہی شیخ صاحب موصوف تبرکات مسیح موعودؑ کی فہرستوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرکے اخبار الفضل میں شائع کرنے لگے۔۱۷۲
جناب شیخ عبدالقادر صاحب ۴۔ جون ۱۹۴۰ء تک یہ قومی خدمت بجالاتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے سینکڑوں صحابہ۱۷۳ کی روایات تیرہ رجسٹروں کی صورت میں محفوظ کرلیں۔۱۷۴
شیخ صاحبؓ کے بعد ۴۔ جون۱۷۵ ۱۹۴۰ء کو دوبارہ ملک عبداللہ صاحب مولوی فاضل نے اس کام کا چارج لیا۔ آپ نے قریباً ڈھائی ماہ کام کیا اور ۱۵۰ صفحات پر مشتمل روایات حاصل کرکے درج رجسٹر کیں ازاں بعد ۱۵۔ اگست ۱۹۴۰ء کو یہ فریضہ مہاشہ ملک فضل حسین صاحب مہاجر کے سپرد کیا گیا۔۱۷۶
مہاشہ صاحب نے پہلے سالوں کی جمع شدہ روایات پر نظر ثانی اور مناسب تحقیق کے بعد ان میں سے بعض الفضل` الحکم` رسالہ ریویو آف ریلیجنز۱۷۷ اور مصباح میں شائع کراکے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں محفوظ کردیں۔۱۷۸
‏tav.8.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
رجسٹر >روایات صحابہ< کے راویوں کی فہرست
نوٹ: راویوں میں صحابہ کرام بھی ہیں اور دوسرے حضرات بھی ہیں جن میں سے بعض کی نشان دہی لفظ >ت< سے کی گئی ہے۔
رجسٹر نمبر ۱
نمبرشمار
نام راوی
صفحہ رجسٹر
۱
شیخ عبدالکریم صاحب کراچی
۱
۲
محمد اکبر صاحب محلہ قدیر آباد ملتان
۴
۳
ملک رسول بخش صاحب سب اوورسیر ڈیرہ غازی خان
۸
۴
شیخ صاحبدین صاحب سیکرٹری تبلیغ گوجرانوالہ
۱۰
۵
چوہدری بدر دین صاحب مبلغ قادیان
۱۳
۶
منشی سکندر علی صاحب بھینی بانگر متصل قادیان
۱۶
۷
چوہدری غلام حسین صاحب چک ش/۹۸ ضلع سرگودھا
۳۱
۸
مخدوم محمد صدیق صاحب گھوگھیاٹ )زیارت ۳۔ ۱۹
۲۴
۹
حاجی غلام احمد صاحب کریام ضلع جالندھر
۲۶
۱۰
حافظ ملک محمد صاحب مسجد احمدیہ لاہور
۳۱
۱۱
ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب میڈیکل پریکٹیشنر قلعہ صوبا سنگھ ضلع سیالکوٹ
۳۳
۱۲
حکیم احمد الدین صاحب شاہدرہ موجد >طب جدید< شاہدرہ
۳۶
۱۳
مولوی مہردین صاحب لالہ موسیٰ ضلع گجرات
۳۹
۱۴
فضل احمد صاحب پٹواری ضلع گورداس ننگل
۴۸
۱۵
شیخ قدرت اللہ صاحب نابھہ سٹیٹ
۵۰
۱۶
ڈاکٹر محمدالدین صاحب انچارج ہاسپٹل بنوں
۵۳
۱۷
چوہدری فتح محمد صاحب سکنہ بھینی بانگر متصل قادیان
۵۵
۱۸
‏rav2] g[ta مستری فقیر محمد صاحب قادر آباد متصل قادیان
۵۸
۱۹
مستری روڑا صاحب قادر آباد متصل قادیان
۶۰
۲۰
خواجہ غلام نبی صاحب چکوال
۶۱
۲۱
میاں عطاء اللہ صاحب بھمیاں ضلع ہوشیارپور
۶۳
۲۲
شیخ ڈاکٹر احمد الدین صاحب وڈالہ بانگرحال محمود آباد سندھ
۶۵
۲۳
حاجی محمد عبداللہ خان صاحب شکار ماچھیاں ضلع گورداسپور
‏rav3] [tag ۶۷
۲۴
چوہدری علی محمد صاحب گوندل چک ش/۹۹ ضلع سرگودہا
۶۹
۲۵
" غلام رسول صاحب گوندل چک ش/۹۹ ضلع سرگودہا
۷۱
۲۶
" میاں خان صاحب گوندل چک ش/۹۹ ضلع سرگودہا
۷۲
۲۷
" غلام محمد صاحب گول چک ش/۹۹ ضلع سرگودہا
۷۳
۲۸
نظام الدین صاحب سب پوسٹماسٹر نبی پور
۷۵
‏]rav1 [tag۲۹
چوہدری غلام سرور صاحب چک L۔۲/۵۵
۷۷
۳۰
مولوی غلام محمد صاحب پھیروچچی ضلع گورداسپور
۸۲
۳۱
شیخ زین العابدین صاحب برادر شیخ حامد علی صاحب تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور
۸۷
۳۲
مرزا دین محمد صاحب لنگر وال )ت(
۹۳
۳۳
حکیم اللہ دتہ صاحب شاہ پور ضلع گورداسپور
۱۰۰
۳۴
میر عنایت علی صاحب لدھیانہ
۱۰۷
۳۵
اہلیہ میر عنایت علی صاحب
۱۲۸
۳۶
چوہدری باغ محمد صاحب شاہ پور ضلع گورداسپور
۱۳۰
۳۷
گلاب خان صاحب پنشنر شہر سیالکوٹ
۱۳۳و۱۲۲
۳۸
شیر خاں صاحب شہر سیالکوٹ
۱۳۷
۳۹
عنایت اللہ صاحب " "
۱۳۹
۴۰
نور محمد صاحب امیرپور ضلع ملتان
۱۴۶
‏rav1] gat[۴۱
سلطان علی صاحب پھیرو چچی ضلع گورداسپور
۱۵۳
۴۲
میاں نظام الدین صاحب نظام اینڈکو سیالکوٹ شہر
۱۵۶
۴۳
محمد علی صاحب شاہ عالمی دروازہ لاہور
۱۵۷
۴۴
میاں محمد یوسف صاحب مزنگ لاہور
۱۶۰
۴۵
شیخ محمد حسین صاحب اسلامیہ پارک لاہور
۱۶۲
۴۶
شیخ عطاء اللہ صاحب " "
۱۶۴
‏]1var [tag۴۷
شیخ محب الرحمن صاحب دہلی دروازہ لاہور
۱۶۹
۴۸
سید ولایت شاہ صاحب قادیان۔ افریقہ
۱۷۳
۴۹
ڈاکٹر عمرالدین صاحب گجرات ملازم افریقہ
۱۷۸
۵۰
قریشی شیر محمد صاحب امین جماعت احمدیہ نیروبی افریقہ
۱۸۵
۵۱
میاں محمد علی صاحب ولد گامے خاں شکار ماچھیاں ضلع امرتسر
۱۹۰
۵۲
میاں عزیز دین صاحب چانگریاں ضلع سیالکوٹ
۱۹۲
۵۳
مولوی عبدالرحمن صاحب کپورتھلہ
۱۹۵
۵۴
منشی خدا بخش صاحب بھاگو ارائیں
۲۱۸
۵۵
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ
۲۱۷و۲۲۷
۵۶
مولوی علی شیر صاحب زیرہ
۲۱۹
۵۷
شیخ محمد حیات صاحب موگہ
۲۲۰
۵۸
میاں جی عبدالرحمن صاحب جالندھر چھائونی
۲۲۵
رجسٹر نمبر ۲
۱
بقیہ روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ
۱
۲
چوہدری اللہ بخش صاحب کٹڑہ خزانہ بازار سورج کنڈ امرتسر
۱۲
۳
مولوی عبیداللہ صاحب بھوئے وال ضلع امرتسر حال لائل پور
۱۹
۴
محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ بنت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی
۲۱
۵
میاں شیر محمد صاحب تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور
۲۵
۶
میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ بنگلہ
۲۶
۷
میاں نظام دین صاحب ینگری تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر
۶۱
۸
ڈاکٹر سلطان علی صاحب ممباسہ افریقہ
۶۸
۹
میاں عبدالعزیز صاحب گلی آسا ملتانیاں گوجرانوالہ
۶۹
۱۰
چوہدری بشیر احمد صاحب ایڈیشنل جج مطالبہ خفیفہ دہلی متوطن چہور کاہلواں تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ
۷۰
۱۱
حکیم دین محمد صاحب دارالرحمت حال کراچی
۷۱
۱۲
خان زادہ امیر اللہ خان صاحب موضع اسمٰعیلیہ سب آفس کالو خاں ضلع مردان
۷۳
۱۳
چوہدری کرم دین صاحب کھاریاں )والد حاجی احمد خان صاحب ایاز بی۔ اے` ایل ایل۔ بی
۸۰
۱۴
مولا داد صاحب پنشر سارچور ضلع ہوشیارپور
۸۴
۱۵
نیاز اللہ خاں صاحب شاہجہان پور حال فیض آباد
۸۶
۱۶
میاں غلام حسین صاحب نمبردار سیالکوٹی عارف والا ضلع منٹگمری
۸۸
۱۷
قاصی قمر الدین صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت جماعت احمدیہ شکار ڈاکخانہ دھاریوال ضلع گورداسپور
۹۵
۱۸
میاں محمد اسداللہ خان صاحب رتجہ کلاں حال امرتسر سٹیشن رائل ہوٹل دکان نمبر ۲
۱۰۵
۱۹
ڈاکٹر عبداللہ صاحب مشرقی افریقہ
۱۰۷
۲۰
چوہدری غلام احمد خان صاحب ایڈووکیٹ و میونسپل کمشنر و امیر جماعت احمدیہ پاک پٹن )ت(
۱۱۳
۲۱
حافظ مولوی عبدالسمیع صاحب امروہی
۱۲۱
۲۲
میاں جمال الدین صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور
۱۳۱
۲۳
عطاء اللہ صاحب چک نمبر ۱۶۳ ملتان
۱۳۴
۲۴
عبدالمجید خاں صاحب پنشنر پالم پور
۱۳۵
۲۵
میاں عبداللہ صاحب جنڈوساہی تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ
۱۳۷
رجسٹر نمبر ۳
۱
جناب برکت علی صاحب مرزا پنجاب سپورٹ امین آباد لکھنئو
۱
۲
میاں غلام رسول صاحب ولد میاں چراغ دین صاحب گوجرانوالہ
۴
۳
قاضی عبدالقادر صاحب ولد قاضی نور علی صاحب
۸
۴
خواجہ محمد شریف صاحب ڈھینگرہ ہائوس گوجرانوالہ
۹
۵
‏]2var [tag میاں اللہ بخش صاحب کلرک ڈاک خانہ راولپنڈی ڈویژن گوجرانوالہ
۱۰
۶
میاں میراں بخش صاحب محلہ احمدپورہ "
۱۳
۷
سردار کرم داد خان صاحب دوالمیال
۱۸
۸
بقیہ روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب
۲۰
۹
میان نواب خاں صاحب ہرانا تحصیل پنڈی کھیپ
۲۳
۱۰
میاں فضل کریم صاحب درزی اندرون دروازہ ٹھاکر سنگھ گوجرانوالہ
۳۶
۱۱
منشی احمد دین صاحب محلہ کشمیری سیالکوٹ
۳۸
۱۲
سید سیف اللہ شاہ صاحب ساکن بیج بیاڑہ تحصیل و ضلع اسلام آباد کشمیر
۴۱و۸۹
۱۳
خان صاحب سید ضیاء الحق صاحب ضلع کٹک
۵۶
۱۴
میاں رحمت اللہ صاحب سنگرور ریاست جنید
۵۸
۱۵
میاں اللہ دتا صاحب ترگڑی ضلع گوجرانوالہ
۶۱
۱۶
حامد حسین خان صاحب مراد آباد
۶۳
۱۷
محمد عبداللہ صاحب رامداس ضلع شاہ پور
۷۰
۱۸
مولوی فتح علی صاحب دوالمیال ضلع جہلم
۷۳
۱۹
میاں فضلدین صاحب تیجہ کلاں ضلع گورداسپور
۷۴
۲۰
مستری علی احمد صاحب نائی والا ضلع سیالکوٹ
۷۷
۲۱
شیخ قدرت اللہ صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ نابھہ
۷۹
۲۲
‏]2vra [tag دولت خاں صاحب بیری ضلع گورداسپور
۸۳
۲۳
دلیداد خاں صاحب مراڑہ تحصیل نارووال
۸۴
۲۴
میاں عبداللہ صاحب بھوانی گڈھ پٹیالہ
۸۶
۲۵
میاں نورالدین صاحب کھاریاں گجرات
۸۸
۲۶
ماسٹر محمد پریل صاحب کمال ڈیرہ سندھ
۹۲
۲۷
میاں غلام محمد صاحب تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور
۹۴
۲۸
‏]2vra [tag میاں احمد دین صاحب ڈنگہ ضلع گجرات
۹۵
۲۹
میاں عظیم صاحب حاجی کماند ضلع ڈیرہ غازی خاں
۹۷
۳۰
میاں نظام صاحب >نظام اینڈ کو< سیالکوٹ
۹۸
۳۱
میاں عبدالعزیز صاحب جلال پور سرگودہا
۱۰۹
۳۲
میاں فضلدین صاحب نمبردار پیرو شاہ ضلع گورداسپور
۱۱۰
۳۳
میاں غلام رسول صاحب چانگریاں تحصیل سیالکوٹ
۱۱۱][۳۴
میاں شکر الٰہی صاحب نبی پور ضلع گورداسپور
۱۱۳
۳۵
مرزا ابر بیگ صاحب لنگروال ضلع گورداسپور
۱۱۸
۳۶
حکیم اللہ دتا صاحب موضع شاہ پور امرگڑھ
۱۱۹
۳۷
چوہدری عبدالحکیم صاحب گھاکڑ چیماں تحصیل وزیرآباد
۱۲۱
۳۸
میاں محمد اکبر صاحب غازی ڈیرہ غازی خاں
۱۲۶
۳۹
چوہدری فضلداد صاحب چک ۱۴۶ کھیوہ ضلع لائلپور
۱۳۰
۴۰
میاں عبداللہ صاحب گلاں والی گورداسپور
۱۳۳
۴۱
میاں محمد یحییٰ خان صاحب شاہ آباد ضلع ہردوئی
۱۳۴
۴۲
میاں تصدیق حسین صاحب ہوجن ضلع شاہ پور
۱۴۰
۴۳
پیر فیض احمد صاحب رنمل ضلع گجرات
۱۴۲
۴۴
حافظ عبدالعلی صاحب ضلع شاہ پور
۱۴۴
۴۵
فہرست صحابہ کرام )۳۶( جماعت احمدیہ سیالکوٹ شہر
۱۴۸
۴۶
میاں عبدالعزیز صاحب )المغل( مبارک منزل لاہور
۱۵۰
۴۷
منشی عبداللہ صاحب اسلام آباد سیالکوٹ
۱۵۴
۴۸
مولوی الف دین صاحب " "
۱۵۶
۴۹
مہر غلام حسین صاحب اراضی یعقوب "
۱۵۸
۵۰
مستری غلام قادر صاحب شہر "
۱۶۰
۵۱
میاں مراد بخش صاحب راجپوت چوہان احمدنگر
۱۶۱
۵۲
میاں نظام دین صاحب وچھو کی تحصیل پسرور
۱۶۲
۵۳
میاں عبدالرحمن صاحب معلم صدر بازار محلہ ۲۲ جالندھر
۱۶۴
۵۴
میاں غلام محمد صاحب پوہلہ مہاراں۔ سیالکوٹ
۱۷۰
۵۵
منشی سربلند خان صاحب ہیڈمنشی دفتر نہر ڈویژن مظفر گڑھ
۱۷۸
۵۶
میاں امیر دین صاحب گجراتی
۱۸۵
۵۷
میاں اللہ دتا صاحب بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خاں
۱۹۳
۵۸
شیخ محمد شفیع صاحب سیٹھی محلہ خواجگاں جہلم
۱۹۶
۵۹
میاں علی محمد صاحب ککھانوالی ضلع سیالکوٹ
۲۰۲
۶۰
چوہدری عبدالعزیز صاحب نوشہرہ ککے زئیاں ضلع سیالکوٹ
۲۱۳
۶۱
روایات مولوی برہان دین صاحب جہلمیؓ
۲۲۰
۶۲
ملک نیاز محمد صاحب راہوں ضلع جالندھر حال محلہ دارالفضل قادیان
۲۲۶
رجسٹر نمبر ۴
۱
میاں محمد فضل خان صاحب ولد قائم دین صاحب محلہ دارالفضل قادیان
۱
۲
ڈاکٹر نعمت خان صاحب ولد امان خان صاحب سکنہ ریاست نادون حال دارالفضل قادیان
۲
۳
مولوی محمد عبدالعزیز صاحب آف بھینی شرقپور ولد مولوی محمد عبداللہ صاحب صحابی حال دارالرحمت قادیان
۷
۴
سید محمود عالم صاحب ولد سید تبارک حسین صاحب حال خزانچی صدر انجمن احمدیہ قادیان
۲۵
۵
مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ ولد شیخ برکت علی صاحب سکنہ فیض اللہ چک حال محلہ باب الابواب قادیان
۴۳
۶
میان اللہ دتا صاحب ولد میاں مکھن خان صاحب ماہل پورہ ضلع ہوشیارپور حال قادیان
۴۹
۷
چراغ دین صاحب ولد میاں صدر دین صاحب قادیان
۵۵
۸
حکیم اللہ بخش صاحب ولد شاہ دین صاحب دربان ڈیوڑھی حضرت ام المومنین صاحبہ سکنہ ببے حال دارالبرکات قادیان
۶۰
۹
حافظ محمد امین صاحب ولد میاں علم الدین صاحب سکنہ نکودور ضلع کیمل پور حال محلہ ناصر آباد قادیان
۶۸
۱۰
چوہدری عبدالحکیم صاحب ولد چوہدری شرف دین صاحب سکنہ موضع عادل گڑھ تحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ حال دارالبرکات قادیان
۷۹
۱۱
مدد خان صاحب ولد راجہ فتح محمد خان صاحب سکنہ باڑی پورہ کشمیر حال انسپکٹر بیت المال قادیان
۸۲
۱۲
علائو الدین صاحب زرگر ولد میاں معراج دین صاحب عمر لاہور۔ حال قادیان
۱۰۰
۱۳
محمد یعقوب صاحب ولد محمد اکبر صاحب سکنہ بٹالہ حال دارالرحمت قادیان
۱۰۵
۱۴
مستری اللہ دتا صاحب ولد صدر دین صاحب بھانبڑی حال دارالفضل قادیان
۱۰۶
۱۵
سید بہاول شاہ صاحب ولد سید شیر محمد صاحب سکنہ مکووال ضلع انبالہ حال دارالفضل قادیان
‏]3var [tag ۱۰۷
۱۶
دین محمد صاحب ولد میراں بخش صاحب سکنہ مکووال تحصیل روپڑ ضلع انبالہ حال دارالفضل قادیان
۱۱۸
۱۷
حافظ محمد ابراہیم صاحب ولد نادر علی صاحب سکنہ مکووال۔ حال قادیان
۱۲۰
۱۸
خلیل الرحمن صاحب چھبر ولد نیک عالم صاحب ساکن پنجیڑی تحصیل بھمبر )ریاست جموں(
۱۲۱
۱۹
حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی ولد حافظ محمد حسین صاحب وزیرآباد حال قادیان
۱۲۹
۲۰
مرزا محمد شفیع صاحب ولد حمید مرزا صاحب سکنہ دہلی محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان
۱۳۴
۲۱
خان صاحب منشی برکت علی صاحب ولد محمد فاضل صاحب جوائنٹ ناظر بیت المال قادیان
۱۳۶
۲۲
محمد اسمٰعیل صاحب ولد مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں حال قادیان
۱۵۰
۲۳
ابوبکر یوسف صاحب ولد محمد جمال یوسف صاحب سکنہ پٹن ریاست بڑودہ حال قادیان
۱۶۰
۲۴
‏]2rav [tag خدابخش صاحب ولد چوہدری پیر بخش صاحب سکنہ سیالکوٹ صدر بازار حال قادیان
۱۶۳
۲۵
قریشی ولی محمد باقرخانی والا ولد شاہ محمد صاحب حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۶۴
۲۶
شیخ اصغر علی صاحب ولد شیخ بدرالدین صاحب سکنہ ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ
۱۶۵
۲۷
مہر دین صاحب ولد رحیم بخش صاحب سکنہ قادیان
۱۷۳
۲۸
مرزا قدرت اللہ صاحب ولد مولوی ہدایت اللہ صاحب کوچہ چابک سواراں لاہور حال دارالفضل قادیان
۱۷۴
۲۹
عبداللہ خان صاحب ولد عبدالغفار صاحب سکنہ سیدگاہ خوست افغانستان۔ حال قادیان
۱۷۸
۳۰
ڈاکٹر مرزا محمود بیگ ولد مرزا محمد بیگ صاحب سکنہ قادیان
۱۷۹
۳۱
محمد علی صاحب ولد نظام الدین صاحب ننگل خورد حال سکنہ قادیان
۱۸۰
۳۲
حکیم عبدالرحمن صاحب ولد عبداللہ فضل دین صاحب۔ قادیان
۱۸۱
۳۳
مرزا احمد بیگ صاحب ولد مرزا بڈھا بیگ صاحب۔ قادیان
۱۸۱
۳۴
عبدالقادر صاحب مہتہ ابن بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سکنہ قادیان دارالامان
۱۸۳
رجسٹر نمبر ۵
۱
سردار کرم داد خاں ابن ولی داد خاں صاحب ساکن جمالی بلوچاں ضلع شاہ پور حال دارالفضل قادیان
۱
۲
محمد ابراہیم صاحب ولد محمد بخش صاحب دارالعلوم قادیان
۴
۳
ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب مبلغ سلسلہ قادیان
۸
۴
محمد شریف صاحب ولد میراں بخش صاحب ریتی چھلہ قادیان
۱۱
۵
ماسٹر محمد علی صاحب۔ اظہر ولد غلام قادر صاحب سکنہ ملسیاں ضلع جالندھر
۱۲
۶
چراغ محمد صاحب ولد چوہدری امیر بخش صاحب کھارہ
۱۵
۷
عبداللہ صاحب حاجی ڈومیلی ریاست کپورتھلہ حال دارالرحمت قادیان
۱۶
۸
غلام محمد صاحب زرگر ولد محمد قاسم صاحب سکنہ بیگو والا ضلع سیالکوٹ
۱۸
۹
مرزا عبدالکریم صاحب ولد مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم سکنہ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ
۲۰
۱۰
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ولد نبی بخش صاحب سکنہ بیجا ضلع لدھیانہ حال قادیان
۲۱
۱۱
مرزا مہتاب بیگ صاحب ولد مرزا محمد علی صاحب محلہ کشمیری سیالکوٹ
۲۹
۱۲
عمر دین صاحب حجام ولد احمد یار صاحب سکنہ حال قادیان
۳۲
۱۳
علی گوہر صاحب ولد میاں منگل صاحب سکنہ کوٹلی ڈولہ شاہ ضلع امرتسر حال قادیان
۳۵
۱۴
کریم الدین صاحب ٹیچر گورنمنٹ سکول ولد چوہدری امیر بخش صاحب سکنہ سیالکوٹ
۳۸
۱۵
منظور احمد صاحب ولد مولوی محمد دلپذیر صاحب بھیرہ حال قادیان
۳۹
۱۶
صوفی نبی بخش صاحب ولد میاں عبدالصمد صاحب محلہ میاں قطب دین راولپنڈی حال قادیان
‏]3var [tag ۴۱
۱۷
محمد قاسم صاحب ولد عطر دین صاحب دروازہ ہاتھی کوچہ حاجی امرتسر۔ حال قادیان
۴۴
۱۸
نظام الدین صاحب ٹیلر ولد میاں محمد علی محلہ ملاحاں جہلم حال قادیان
۴۵
۱۹
اللہ یار صاحب ولد گلاب دین بلہووال ضلع گورداسپور حال قادیان
۵۰
۲۰
امام دین صاحب ولد محمد صدیق صاحب سیکھواں ضلع گورداسپور
۵۴
۲۱
منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ولد میاں امام دین صاحب اوجلہ ضلع گورداسپور
۶۹
۲۲
ملک نادر خاں صاحب ولد ملک جہان خاں موضع سرکال کر ضلع جہلم
۷۲
۲۳
حکیم رحمت اللہ صاحب ولد حکیم محمد بخش جاگووال جٹاں ضلع گورداسپور
۷۴
۲۴
لال دین صاحب ولد شیخ امام الدین صاحب محلہ ٹبہ سیالکوٹ حال قادیان
۷۵
۲۵
نورمحمد صاحب ولد منشی فتح محمد صاحب پنشنر موچی پورہ ضلع ملتان
۷۶
۲۶
شاہ محمد صاحب قریشی ولد غلام قادر صاحب مسجد فضل قادیان
۸۰
۲۷
ملک خاں بادشاہ ولد گل بادشاہ سکنہ )درگئی( خوست افغانستان۔
۸۲
۲۸
حکیم قطب الدین صاحب ولد غلام حسین صاحب سکنہ چندھڑ ضلع گوجرانوالہ حال قادیان
۸۳
۲۹
عبدالرزاق صاحب ولد میاں رحیم بخش صاحب سیالکوٹ حال قادیان
۸۸
۳۰
شیخ اللہ بخش صاحب ولد مراد بخش صاحب سکنہ بنوں
۹۴
۳۱
محمد حسین خاں ٹیلر ماسٹر ولد خدا بخش۔ گوجرانوالہ
۹۷
۳۲
عبدالحق صاحب ولد عبداللہ فضل دین قادیان
۱۰۴
۳۳
عبداللہ صاحب ولد چنڈو۔ قادیان
۱۰۵
۳۴
میاں بابو صاحب ولد پھمن سکنہ ماہل پور ضلع ہوشیارپور
۱۰۶
۳۵
ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی قادیان
۱۰۷
۳۶
سید علی احمد صاحب ولد سید نیاز احمد صاحب ضلع انبالہ
۱۰۹
۳۷
خیرالدین صاحب ولد سراج دین صاحب سکنہ کوٹ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان
۱۱۰
۳۸
غلام نبی صاحب ولد محکم دین صاحب موضع جھادڑیاں )پٹیالہ(
۱۱۳
۳۹
شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ولد شیخ محمد علی صاحب۔ قادیان
۱۱۴
۴۰
مفتی محمد صادق صاحب ولد مفتی عنایت اللہ صاحب سکنہ بھیرہ۔ حال قادیان
۱۱۵
۴۱
خواجہ عبدالرحمن صاحب کارکن دفتر الفضل قادیان
۱۱۷
۴۲
رحمت خان صاحب ولد چوہدری سوہنے خاں صاحب سکنہ سڑوعہ حال قادیان
۱۲۲
۴۳
غلام حیدر صاحب ولد میاں خدابخش صاحب سکنہ احمدنگر ضلع گوجرانوالہ۔ حال دارالرحمت قادیان
۱۲۳
۴۴
قریشی امیر احمد صاحب ولد حکیم سردار محمد صاحب سکنہ بھیرہ
۱۲۵
۴۵
محمد شریف خاں صاحب ولد عبدالقادر خان صاحب سکنہ لدھیانہ
۱۳۱
۴۶
ضمیر علی صاحب ولد محمد علی صاحب مسجد اقصیٰ قادیان
۱۳۲
۴۷
محمد حمید الدین صاحب احمدی ولد بابو فضل دین سکنہ مکیری ضلع شاہ پور۔ حال قادیان
۱۳۳
۴۸
احمد نور صاحب کابلی ولد اللہ نور کابلی۔ حال قادیان
۱۳۵
۴۹
نظام دین صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر ولد دوست علی نبی پور ضلع گورداسپور۔ حال قادیان
۱۳۷
۵۰
محمد وارث صاحب ولد پیر بخش صاحب سکنہ بھڑی شاہ رحمن حال حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۴۱
۵۱
عبداللہ صاحب ولد حاکم دین مسجد فضل قادیان
۱۴۲
۵۲
پیراندتہ صاحب ولد دین محمد حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۴۳
۵۳
محمد ابراہیم صاحب ولد نظام دین سکنہ سڑوعہ ضلع ہوشیارپور۔ حال قادیان
۱۴۵
۵۴
نظام دین ولد کریم بخش عرف میاں کالو سکنہ سڑوعہ ضلع ہوشیارپور۔ حال قادیان
۱۴۶
۵۵
محمد شریف خان صاحب ٹیوٹر محلہ دارالعلوم قادیان
۱۴۷
۵۶
سکندر علی صاحب ولد چوہدری ولیداد صاحب نمبردار مکھن کلاں حال بھینی بانگر۔ قادیان
۱۴۸
۵۷
عبدالکریم احمدی بٹالوی مہاجر قادیان سکنہ عثمان پور ریاست جنید تحصیل سنگرور
۱۵۵
۵۸
عبدالعزیز صاحب احمدی مبلغ علاقہ بیٹ بیاس
۱۵۸
۵۹
محمد رحیم الدین سکنہ حبیب والا تحصیل رامپور ضلع بجنور حال دارالرحمت قادیان
۱۶۰
۶۰
عطا محمد صاحب ولد چوہدری نتھے خان صاحب سکنہ بھوڑ ڈاک خانہ خاص لدھیانہ حال قادیان
۱۶۶
۶۱
غلام حٰم صاحب ولد میاں محمد بخش صاحب سکنہ رسول پور تحصیل کھاریاں ضلع گجرات حال قادیان
۱۶۹
۶۲
چوہدری عبدالرحیم صاحب ولد سردار چندرسنگھ صاحب سکنہ سورسنگھ ضلع لاہور حال قادیان
۱۷۳
۶۳
محمد صادق صاحب جہلمی ولد میاں نظام الدین صاحب سکنہ جہلم حال قادیان
۱۸۱
۶۴
قاضی محمد ظہور دین صاحب اکمل ولد قاضی امام دین صاحب فیض سکنہ گولیکی ضلع گجرات حال قادیان
۱۸۲
رجسٹر نمبر ۶
۱
چوہدری اللہ بخش صاحب ولد چوہدری فضلدین صاحب سکنہ سپن وال اتلے ضلع سیالکوٹ
۱
۲
فقیر علی صاحب ولد شیخ سلطان بخش صاحب سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور
۳
۳
مرزا عمر بیگ صاحب ولد مرزا امیر بیگ سکنہ قادیان
۵
۴
نتھو راجپوت ولد گھلا راجپوت حلقہ مسجد فضل قادیان۔
۶
۵
فضل الٰہی صاحب ولد مولوی کرم دین سکنہ احمد آباد جہلم
۸
۶
نورمحمد صاحب ولد غلام دین صاحب قادرآباد متصل قادیان
۱۰
۷
میاں جان محمد صاحب ولد میاں عبدالعزیز سکنہ ہیلاں ضلع گجرات
۱۱
۸
‏]2var [tag محمد شاہ صاحب ولد عبداللہ شاہ صاحب للوڑی کلاں ضلع لدھیانہ
۱۶
۹
محمد جمیل صاحب ولد میاں میراں بخش صاحب ننگل باغباناں۔ قادیان
۲۱
۱۰
غلام رسول صاحب ولد حاجی محمد صاحب متوطن درگئی علاقہ خوست افغانستان۔
۲۳
۱۱
مولوی امام دین صاحب فیض ولد بدر الدین صاحب گولے کی ضلع گجرات
۲۵
۱۲
رحیم دین صاحب ولد جمال دین صاحب سکنہ مالیرکوٹلہ
۳۲][۱۳
چراغ دین صاحب ولد محمد بخش سکنہ قادرآباد متصل قادیان
۳۵
۱۴
علی احمد ولد چوہدری رحیم بخش صاحب کٹڑہ خزانہ امرتسر
۳۹
۱۵
محمد دین صاحب ولد چراغ دین مرحوم سکنہ چھرماکٹا نے ہوشیارپور حال قادیان
۴۰
۱۶
عبیداللہ صاحب ولد حکیم عمر بخش صاحب سکنہ بقاپور ضلع گوجرانوالہ
۴۲
۱۷
محمد رحیم الدین صاحب صحابی نمبر ۳۰۲ ولد کریم الدین صاحب حبیب والا ضلع بجنور
۴۳
۱۸
فیروز دین ولد مرزا امام دین سکنہ قادیان
۴۴
۱۹
شیر محمد صاحب دلدتے خاں سکنہ خاں فتا ضلع گورداسپور
۴۵
۲۰
محمدی ولد بھاگو قادرآباد متصل قادیان
۴۷
۲۱
اللہ دتا صاحب ولد میراں بخش صاحب سکنہ ننگل باغباناں متصل قادیان
۴۸
۲۲
نورمحمد صاحب ولد عبداللہ موضع بسرائے۔ قادیان
‏]3vra [tag ۴۹
۲۳
محمد اسمٰعیل صاحب ولد جمال دین صاحب سکنہ کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیارپور
۵۰
۲۴
عبدالحق صاحب ولد سردار علی سکنہ میانی بھیرہ حال قادیان
۵۱
۲۵
ممتاز علی صاحب صدیقی ولد خان صاحب حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب سکنہ رامپور سٹیٹ ضلع مراد آباد حال قادیان
۵۳
۲۶
مستری دین محمد صاحب ولد مستری امام دین صاحب سکنہ کھٹالے تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیارپور
۵۶
۲۷
امیردین صاحب ولد بہاری صاحب سکنہ بہادر حسین ضلع گورداسپور
۵۸
۲۸
منشی عبدالخالق صاحب ولد مولوی محمد حسین صاحب صحابی نمبر ۳۱۳ سکنہ پریم جیت پورہ۔ کپورتھلہ
۵۹
۲۹
قطب الدین صاحب ولد حامد علی صاحب حلقہ مسجد فضل قادیان
۶۳
۳۰
مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے سابق مبلغ انگلستان
۶۵
۳۱
شیخ محمد اسمٰعیل صاحب ولد شیخ مسیتا صاحب سرساوہ ضلع سہارنپور۔ حال قادیان
۶۶
۳۲
چوہدری امیر احمد صاحب ریٹائرڈ سب انسپکٹر اشتمال اراضی ولد چوہدری سکندر خان صاحب سکنہ ایرانہ تحصیل و ضلع ہوشیارپور حال قادیان
۹۹
۳۳
عبدالرحیم صاحب ولد قادر بخش صاحب بوٹ میکر و جلد ساز۔ قادیان
۱۶۶
۳۴
غلام صاحب ولد محمد نامدار صاحب سکنہ مکھن کلاں کلانور )گورداسپور(
۱۷۱
۳۵
عبدالستار صاحب ولد عبداللہہ سکنہ کلو سوہل ضلع گورداسپور
۱۷۵
۳۶
دیانت خان صاحب دلدامان خاں صاحب سکنہ نادون ضلع کانگڑہ حال قادیان
۱۹۶
۳۷
مرزا محمد شریف صاحب ولد مرزا دین محمد صاحب سکنہ لنگر وال ضلع گورداسپور۔ حال قادیان
۱۹۸
۳۸
مرزا عبداللہ بیگ صاحب ولد مرزا بوٹا بیگ صاحب سکنہ قادیان
۲۰۱
۳۹
عبداللہ صاحب المعروف )عبدل( ولد گلاب سکنہ قادیان
۲۰۳
‏rav1] g[ta۴۰
امین اللہ صاحب ولد محمد بخش سکنہ ملہیاں ضلع امرتسر۔ حال دارالرحمت قادیان
۲۰۷
۴۱
محمد ابراہیم صاحب ولد میاں محمد اکبر صاحب سکنہ بٹالہ حال قادیان
۲۰۹
۴۲
مرزا محمد افضل صاحب ولد مرزا محمد جلال الدین صاحب سکنہ بلانی ضلع گجرات
۲۲۴
۴۳
میاں بھاگ صاحب ولد محمد بخش صاحب کمہار سکنہ حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۲۲۷
۴۴
محمد یوسف صاحب ولد احمد دین صاحب سکنہ مالیرکوٹلہ۔ حال دارالرحمت قادیان
۲۲۹
۴۵
چوہدری نظام الدین صاحب ولد میاں نبی بخش صاحب سکنہ ڈیرہ بابانانک حال دارالرحمت قادیان
۲۳۰
۴۶
مولوی محمود احمد صاحب عرفانی قادیان
۲۳۵
۴۷
محمد عبداللہ صاحب جلد ساز ولد محمد اسمٰعیل مالیر کوٹلہ۔ قادیان
۲۳۶
۴۸
مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد فضل لنڈن ولد مولوی امام الدین صاحب سیکھوانی )قادیان(
۲۴۳
۴۹
چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ولد چوہدری نصراللہ خان صاحب۔ سیالکوٹ
۲۴۴
۵۰
خان محمد علی خان صاحب ولد خان غلام محمد خان صاحب رئیس۔ مالیر کوٹلہ۔ قادیان
۲۵۴
۵۱
فضل احمد صاحب ولد شیخ علی بخش صاحب سکنہ بٹالہ ضلع گورداسپور
۲۶۸
۵۲
نوراحمد خان صاحب ولد چوہدری بدر بخش صاحب قوم راجپوت سڑوعہ۔ قادیان
۲۷۱
۵۳
‏]2var [tag محمد رشید خان مہمند گلی دلیپ سنگھ گوجرانوالہ حال دارالرحمت قادیان
۲۷۵
۵۴
ماسٹر عبدالرئوف صاحب بھیروی پنشنر قادیان
۲۷۶
۵۵
چوہدری غلام محمد صاحب موضع ڈھپئی ڈاکخانہ کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ حال ہیڈماسٹر گرلز سکول۔ قادیان
۲۸۶
۵۶
سید حسن شاہ صاحب ولد فضل شاہ صاحب ساکن موضع مدینہ ضلع گجرات حال قادیان
۲۸۷
۵۷
علی گوہر صاحب دوکاندار لوہا۔ قادیان
۲۸۹
۵۸
سید محمود عالم صاحب موضع سرسا ڈاکخانہ جہاں آباد ضلع گیا۔ حال قادیان
۲۹۰
۵۹
عطا محمد صاحب ولد میراں بخش صاحب سکنہ شرقپور ضلع شیخوپورہ
۲۹۲
۶۰
حافظ نبی بخش صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور
۲۹۷
۶۱
چوہدری سلطان بخش صاحب نمبردار بگا ضلع امرتسر
۳۰۵
۶۲
فضل الٰہی صاحب ریٹائرڈ پوسٹ مین قادیان
‏rav3] gat[ ۳۱۱
۶۴ /۶۳
سراج بی بی صاحبہ اہلیہ بدرالدین احمد بن منشی فرزند علی خاں صاحب
۳۱۶
۶۵
سیٹھی غلام نبی صاحب۔ قادیان
۳۳۱
۶۶
مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ولد عبدالعلی خاں ریاست رام پور حال قادیان
۳۳۷ تا ۳۷۹
رجسٹر نمبر ۷
۱
پیرافتخار احمد صاحب ولد صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی
۱
۲
میاں فضل دین صاحب ولد میاں محمد بخش صاحب سکنہ کالا افغاناں ضلع گورداسپور
۱۲
۳
خیرالدین صاحب ولد محمد بخش صاحب قادرآباد۔ متصل قادیان
۲۳
۴
احمد دین صاحب ولد جانا صاحب قادرآباد متصل قادیان
۲۵
۵
جلال الدین صاحب ولد کالو صاحب " "
۲۷
۶
فضل الدین صاحب ولد ہیرا صاحب " "
۲۸
۷
چراغ دین صاحب ولد فضل الدین صاحب " "
۲۹
۸
برکت علی صاحب ولد مانا صاحب۔ قادرآباد متصل قادیان
۳۰
۹
نتھا صاحب ولد دین محمد صاحب " "
۳۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۰
کھیڑا صاحب ولد بھاگو صاحب " "
۳۲
۱۱
جان محمد صاحب ولد عبدالغفار صاحب ڈسکوی محلہ دارالبرکات قادیان
۳۳
۱۲
میاں محمد الدین صاحب ولد میاں نور الدین صاحب کھاریاں ضلع گجرات حال حلقہ مسجد مبارک قادیان
۴۳
۱۳
احمد دین صاحب ولد حیات محمد صاحب گولیکی ضلع گجرات۔ حال دارالبرکات قادیان
۵۰
۱۴
لبھو صاحب ولد نامدار صاحب حجام محلہ دارالانوار قادیان
۵۱
۱۵
منشی محمد حسین صاحب کاتب ولد میاں نبی بخش صاحب قادیان۔
۵۲
۱۶
مولوی قمر الدین صاحب ولد میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی
۵۷
۱۷
مرزا غلام اللہ صاحب۔ قادیان
۵۸
۱۸
ماسٹر نذیر حسین صاحب ولد حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ لاہور
۶۰
۱۹
صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ولد مرزا سلطان احمد صاحب قادیان
۷۷
۲۰
جناب شیر محمد صاحب ساکن خان فتہ۔ قادیان
۸۰
۲۱
پیر رشید احمد صاحب ارشد ولد پیر محمد رمضان صاحب گولے کی ضلع گجرات
۸۳
۲۲
رحمت اللہ صاحب شاکر ولد حافظ نور محمد صاحب سکنہ فیض اللہ چک حال قادیان
۸۴
۲۳
ماسٹر محمد دین صاحب ولد گھسیٹا صاحب بلڑوالی لاہور حال قادیان
۸۵
۲۴
دین محمد صاحب ولد میاں عمر دین صاحب تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ
۸۵
۲۵
محمد لطیف صاحب ولد چوہدری محمد حسین صاحب سب جج ریٹائرڈ
۸۵
۲۶
مستری عبدالسجان صاحب ولد چوہدری رحمن میر صاحب محلہ سمیان لاہور حال قادیان
۸۶
‏]1vra [tag۲۷
مستری عبدالحکیم صاحب ولد مستری عمر بخش صاحب ساکن سیالکوٹ حال قادیان
۸۷
۲۸
چوہدری نبی بخش صاحب ولد چوہدری دولو صاحب بھینی بانگر متصل قادیان
۸۸
۲۹
ماسٹر عبدالرئوف صاحب ولد غلام محمد صاحب ساکن بھیرہ حال قادیان
"
۳۰
میاں محمد حسین صاحب ولد میاں محمد بخش صاحب بٹالوی
۹۵
۳۱
چوہدری بدرالدین صاحب ولد چوہدری کندد خان صاحب ¶راہوں ضلع جالندھر حال کارکن نظارت دعوت و تبلیغ قادیان
۹۸
۳۲
عبدالرحمن صاحب نو مسلم ولد انگر صاحب ریاست ٹونک راجپوتانہ
۱۰۰
۳۳
چوہدری نوراحمد خان صاحب ولد چوہدری بدر بخش صاحب ساکن سڑوعہ ضلع ہوشیارپور حال دارالفضل قادیان
"
۳۴
مرزا مبارک بیگ ولد مرزا اکبر بیگ صاحب کلانور ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۰۱
۳۵
ماسٹر محمد اللہ داد صاحب ولد چوہدری محمد بخش صاحب سابق گجراں تحصیل شکرگڑھ ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۰۳
۳۶
حکیم عبدالرشید صاحب قریشی ولد حکیم شہاب الدین صاحب سابق لدھے کی سمہ قصور تحصیل و ضلع لائل پور
۱۰۸
۳۷
میاں عبدالواحد ولد حاجی غلام محمد صاحب بٹالوی حال دارالفضل قادیان
۱۱۱
۳۸
چوہدری غلام قادر صاحب ولد چوہدری فخرالدین صاحب سابق سیالکوٹ حال دارالفضل قادیان
۱۱۲
۳۹
‏]2vra [tag مرزا منظور احمد صاحب ولد مرزا غلام اللہ صاحب قادیان
۱۱۵
۴۰
میاں خلیل الرحمن صاحب ولد میاں ابراہیم صاحب جہلم۔ پنڈوری
۱۱۶
۴۱
چوہدری غلام مجتبیٰ صاحب ولد محمد بخش صاحب رسول پور تحصیل کھاریاں ضلع گجرات معاون ناظر امور عامہ
۱۱۶
۴۲
حکیم قریشی محمد فیروز دین صاحب ولد حکیم قریشی چراغ علی صاحب علی پور تحصیل کبیر والا ضلع ملتان
۱۱۸
۴۳
ماسٹر الل¶ہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر ولد میاں عبدالستار صاحب سابق قلعہ دیدار سنگھ ضلع گوجرانوالہ حال دارالرحمت قادیان
۱۱۹
۴۴
نظام الدین صاحب ولد فضل الدین صاحب لاہور حال محلہ دارالعلوم قادیان
۱۲۲
۴۵
خیرالدین صاحب ولد نظام الدین صاحب سابق تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور
۱۲۳
۴۶
فرمان علی صاحب ولد پیر بخش صاحب سکنہ رہتاس ضلع جہلم حال محلہ دارالرحمت قادیان
۱۳۴
۴۷
‏rav2] gat[ ڈاکٹر محمد بخش صاحب ولد میاں کالے خان صاحب کھیڑانوالی ریاست کپورتھلہ حال محلہ دارالرحمت قادیان
۱۲۶
۴۸
مستری رحیم بخش صاحب ولد مستری صدرالدین صاحب بھانبڑی ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۲۷
۴۹
میاں محمد یعقوب صاحب ولد میاں سراج الدین صاحب سابق لاہور حال دارالرحمت قادیان
۱۲۸
۵۰
میاں عبدالسمیع صاحب ولد منشی عبدالرحمن صاحب سابق ریاست کپورتھلہ۔ حال محلہ دارالفضل قادیان
‏rav3] gat[ ۱۲۹
۵۱
الحاج مولوی چوہدری غلام حسین صاحب ولد میاں گل محمد صاحب سابق پی۔ ای۔ ایس پنشنر جھنگ حال دارالفضل قادیان )ت(
۱۳۱
۵۲
محمد عبداللہ صاحب ولد مولوی رحیم بخش صاحب سابق تلونڈی جھنگلاں۔ حال دارالرحمت قادیان
۱۳۳
۵۳
جناب محمد اسمٰعیل صاحب ولد فخرالدین صاحب سابق سیالکوٹ۔ حال دارالفضل قادیان
۱۳۲
۵۴
میاں نبی بخش صاحب ولد میاں جھنڈا صاحب ساکن بلڑوال ضلع امرتسر۔ حال حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۳۶
۵۵
مرزا محمد حسین صاحب ولد مولوی محمد اسمٰعیل صاحب ترگڑی ضلع گوجرانوالہ۔ حال دارالرحمت قادیان
۱۳۷
۵۶
ڈاکٹر احسان علی صاحب ولد ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر۔ قادیان
۱۳۹
۵۷
میاں رحیم بخش صاحب ولد محمد ولایت صاحب پھنانوالہ ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۴۰
۵۸
جناب نبی بخش صاحب ولد جیوا صاحب۔ قادرآباد متصل قادیان
۱۴۱
۵۹
مرزا نذیر علی صاحب ولد مرزا احمد علی صاحب حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۴۲
۶۰
جناب محمد رمضان صاحب ولد عیدے خان صاحب موضع چانگریاں ضلع سیالکوٹ۔ حال دارالفضل قادیان
۴۳
۶۱
سید ولایت شاہ صاحب ولد سید حسین علی شاہ صاحب کوٹلی ننگل متصل گورداسپور۔ حال دارالرحمت قادیان
۱۴۴
۶۲
جناب محمد رمضان صاحب ولد بڈھا صاحب سابق ترگڑی ضلع گوجرانوالہ۔ حال قادیان
۱۴۵
۶۳
ماسٹر مولا بخش صاحب ولد عمر بخش صاحب سابق موضع منیلا تحصیل روپڑ ضلع انبالہ۔ حال دارالانوار قادیان
۱۴۶
۶۴
جناب عبداللہ صاحب ولد اللہ بخش صاحب سابق بھینی ضلع رہتک حال دارالرحمت قادیان
۱۴۷
۶۵
ماموں خان صاحب ولد کالو خان صاحب سابق ماچھیواڑہ تحصیل سمرالہ ضلع لدھیانہ حال حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۴۹
۶۶
میاں اللہ رکھا صاحب ولد میاں امیر بخش صاحب سابق نارووال ضلع سیالکوٹ حال دارالرحمت قادیان
۱۵۱
۶۷
جناب عبداللہ صاحب ولد غلام الدین صاحب سابق گوکھووال ضلع لائلپور۔ حال ریتی چھلہ قادیان
۱۵۲
‏tav.8.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
۶۸
جناب خیرالدین صاحب ولد مستقیم صاحب سابق دو جودال ضلع امرتسر حال ناصرآباد قادیان
۱۵۳
۶۹
ملک حسن محمد صاحب ولد ملک امیر بخش صاحب سابق سمبڑیال ضلع سیالکوٹ حال قادیان
۱۶۲
۷۰
جناب نور الٰہی صاحب ولد احمد دین صاحب سابق بھیرہ حال قادیان
۱۶۵
۷۱
ملک شادی خان صاحب ولد ملک امیر بخش صاحب سابق سیکھواں حال دارالرحمت قادیان
۱۶۹
۷۲
جناب بدرالدین صاحب ولد گل محمد صاحب سابق مالیر کوٹلہ حال دارالرحمت قادیان
۱۷۰
۷۳
حکیم عطا محمد صاحب ولد حافظ غلام محمد صاحب موتی بازار لاہور حال حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۷۴
۷۴
میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی
۱۸۰
۷۵
جناب نظام الدین صاحب سابق موضع نبی پور متصل ضلع گورداسپور
۱۸۶
۷۶
جناب عبدالرشید صاحب ولد نواب صاحب سابق کالو خورد تحصیل و ضلع کیملپور علاقہ چھچھ حال مالا کنڈ ایجنسی
۱۹۲
۷۷
قاضی محمد یوسف صاحب ولد قاضی محمد صدیق صاحب ہوتی مردان حال مقیم شہر پشاور )کوچہ گلباد شاہ علاقہ جہانگیر پورہ(
۱۹۳
۷۸
ماسٹر عبدالعزیز صاحب ساکن نوشہرہ تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ
‏]rav3 [tag ۲۰۳
۷۹
منشی نور احمد صاحب جہلم
۲۰۴
۸۰
میاں غلام حسن صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت محمود آباد تحصیل جہلم
۲۰۶
۸۱
چوہدری محمد عالم صاحب جہلم
۲۰۹
۸۲
مستری کرم الٰہی صاحب محمود آباد تحصیل جہلم
۲۱۰
۸۳
میاں عبدالرحمن صاحب " "
۲۱۱
۸۴
سید اخترالدین احمد صاحب کٹکی محلہ کوسمی سونگھڑا۔ ضلع کٹک اڑیسہ
۲۱۳
۸۵
میاں معراج الدین صاحب پہلوان محلہ پٹرنگاں لاہور
۲۱۵
۸۶
حافظ عبدالعلی صاحب ولد مولوی نظام الدین صاحب متوطن ادرحمہ ضلع شاہ پور حال مقیم سرگودہا
۲۱۷
۸۷
شیخ محمد افضل صاحب نزد سبزی منڈی پٹیالہ
۲۱۸
۸۸
حاجی محمد صدیق صاحب پٹیالوی حال وائسرائے ہائوس نئی دہلی
۲۲۵
۸۹
سید ناظر حسین صاحب ساکن کالو والی سیداں ضلع سیالکوٹ
۲۲۶
۹۰
جناب سلطان علی صاحب قریشی۔ گولیکی ضلع گجرات
۲۲۷
۹۱
محمد فاضل صاحب ولد نور محمد صاحب سکنہ کبیر والا ضلع ملتان
۲۲۸
۹۲
حکیم محمد عبدالجلیل صاحب بھیروی حال قلعہ شیخوپورہ
۲۴۳
۹۳
ڈاکٹر عطر دین صاحب وٹرنری انسپکٹر بمبئی ۱۱
۲۴۴
۹۴
مستری نظام دین صاحب چانگریاں ضلع سیالکوٹ
۲۴۷
۹۵
منشی کظیم الرحمن صاحب ولد منشی شیخ حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ ریاست کپورتھلہ
۲۵۲
۹۶
بابو اکبر علی صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر آف ورکس اکبر منزل قادیان
۲۵۷
۹۷
شیخ عبدالوہاب صاحب نومسلم
۲۶۴
۹۸
چوہدری حکم دین صاحب ولد چوہدری نبی بخش صاحب سابق دیالگڑھ حال دارالرحمت قادیان
۲۶۸
۹۹
حافظ صوفی غلام محمد صاحب ولد میاں دل محمد صاحب سابق مچھرالہ تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ حال دارالرحمت قادیان
۶۲۹
۱۰۰
احمد اللہ خان صاحب ولد قدرت اللہ خان صاحب سابق شاہجہان پور۔ حال قادیان
۳۲۹
۱۰۱
میاں اللہ دین صاحب ولد میاں احمد دین صاحب سابق شاہدرہ۔ حال قادیان
۳۳۱
۱۰۲
سلطان احمد صاحب ولد چوہدری نور علی صاحب سابق بہادر تحصیل و ضلع گورداسپور حال دارالبرکات قادیان
۳۳۲
۱۰۳
شیخ غلام مرتضیٰ صاحب ولد شیخ عمر بخش صاحب سابق وڈالہ بانگر تحصیل و ضلع گورداسپور حال دارالعلوم قادیان
۳۳۶
۱۰۴
محمد اسٰمیل صاحب ولد محمد اکبر صاحب سابق بٹالہ حال حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۳۴۱
۱۰۵
مولوی برکت علی صاحب ولد میاں امیر بخش صاحب سابق بھیوا وال ضلع ہوشیارپور حال دارالفضل قادیان
۳۴۷
۱۰۶
والدہ قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی ولد عبدالرحیم صاحب بھٹی۔ کوٹ قاضی
۳۴۸
۱۰۷
ماہی صاحب ولد محمدی صاحب ننگل باغباناں
۳۵۱
۱۰۸
فضل الٰہی صاحب ولد محمد بخش صاحب قادرآباد متصل قادیان
۳۵۳
۱۰۹
محمد حسن صاحب تاج ولد مولوی تاج محمد صاحب سابق لدھیانہ حال دارالرحمت قادیان
۳۵۴
۱۱۰
حامد حسین خاں صاحب ولد محمد حسین صاحب سابق مراد آباد حال قادیان
۳۵۷
۱۱۱
جناب حاکم علی صاحب سابق چک پنیار ضلع گجرات و چک نمبر ۹ شمالی سرگودہا حال قادیان
۳۶۲
۱۱۲
جناب حکیم ہدایت اللہ صاحب پنڈوری کھنگور سڑیاں ضلع ہوشیارپور
۳۶۶
۱۱۳
رحمت علی شاہ صاحب ولد فتح علی شاہ صاحب بھینی بانگر ضلع گورداسپور
۳۶۸
۱۱۴
ملک عزیز احمد صاحب دارالفضل قادیان
۳۷۱
۱۱۵
خطوط سیدنا المسیح الموعود بنام سید ناصر شاہ صاحب
۳۷۵
۱۱۶
‏rav2] gat[ محمد رشید خان صاحب اسٹیشن ماسٹر رشکئی رشید منزل دارالرحمت قادیان
۳۸۱
۱۱۷
جناب اللہ دتہ صاحب ہیڈماسٹر قادیان
۳۹۷
۱۱۸
ڈاکٹر قاضی لعل دین صاحب پنشنر سابق ہوشیارپور حال قادیان
۴۰۵
۱۱۹
میر مہدی حسین صاحب۔ قادیان
۴۰۸
۱۲۰
میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلمی۔ قادیان
۴۱۰
۱۲۱
میاں امام الدین صاحب سیکھوانی قادیان
۴۲۰
۱۲۲
میاں نورمحمد صاحب سابق کوئٹہ۔ بلوچستان
۴۳۳
۱۲۳
میر مہدی حسین صاحب۔ قادیان
۴۳۶
۱۲۴
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب قادیان
۴۳۹
۱۲۵
مفتی فضل الرحمن صاحب "
۴۴۳
۱۲۶
ملک غلام حسین صاحب رہتاسی دارالرحمت قادیان
۴۶۰
رجسٹر نمبر ۸
۱
‏]2var [tag مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری۔ قادیان
۱ تا ۷۵
۲
میاں رحمت اللہ صاحب سابق طفل و الاحال ریتی چھلہ قادیان
۷۵
۳
قاضی نور محمد صاحب دارالرحمت قادیان
۷۶
۴
بھائی محمود احمد صاحب " "
۸۰
۵
صوفی غلام محمد صاحب بی۔ ایس سی بی ٹی ٹیچر ہائی سکول قادیان
۸۳
۶
سید شاہ عالم صاحب قادیان
۸۴
۷
بابا محمد حسن صاحب "
۸۸
۸
میاں روشن دین صاحب "
۹۳
۹
ملک غلام حسین صاحب رہتاسی قادیان
۹۵
۱۰
سید حسن شاہ صاحب ناصرآباد قادیان
۱۰۰
۱۱
میاں وزیر محمد صاحب سکنہ رہتاس حال "
۱۰۳
۱۲
علی محمد صاحب گوکھووال ضلع لائل پور حال ریتی چھلہ قادیان
۱۰۴
‏rav1] ga[t۱۳
ماہی کمہار صاحب حلقہ مسجد فضل قادیان
"
۱۴
میاں بڈھا صاحب " "
۱۰۵
۱۵
میاں صدرالدین صاحب " "
۱۰۶
۱۶
شیخ احمد دین صاحب ڈنگوی حال "
۱۰۸
۱۷
خان بہادر غلام محمد صاحب بھیروی حال حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۱۰
۱۸
ملک نور خان صاحب سکنہ سروالا حال کارکن دفتر بیت المال قادیان
‏]rav3 [tag ۱۱۵
۱۹
مفتی فضل الرحمن صاحب بھیروی۔ قادیان
۱۲۱
۲۰
مستری خدا بخش صاحب عرف مومن جی پٹیالوی دارالرحمت قادیان
۱۲۷
۲۱
مولوی محمد جی صاحب سکنہ کوکھنگ ضلع ایبٹ آباد حال دارالفضل قادیان
۱۳۶
۲۲
میاں فضل محمد صاحب سکنہ ہرسیاں ضلع گورداسپور حال قادیان
۱۳۶
۲۳
ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر قادیان
۱۴۹
‏]1vra [tag۲۴
میاں محمد یٰسین صاحب موٹر ڈرائیور حضرت نواب محمد علی خاں سکنہ گوہدپور ضلع سیالکوٹ حال دارالعلوم قادیان
۱۶۸
۲۵
رحمت اللہ صاحب دامن دارالبرکات قادیان
۱۶۹
۲۶
چوہدری مولا بخش صاحب ننگل باغباناں متصل قادیان
۱۷۰
۲۷
بھائی شیر محمد صاحب تاجر قادیان
۱۸۱
۲۸
بابو فقیر علی صاحب ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر دارالبرکات قادیان
‏rav3] gat[ ۱۸۱
۲۹
ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پٹیالوی انچارج نور ہسپتال قادیان
۱۸۶
۳۰
میاں فضل الدین عبداللہ حجام قادیان
۲۰۲
۳۱
مرزا افضل بیگ صاحب ساکن قصور ضلع لاہور حال محلہ دارالرحمت قادیان
۲۰۹
۳۲
میر مہدی حسین صاحب ساکن موضع سید کھڑی تحصیل راجپورہ علاقہ ریاست پٹیالہ
۲۱۴
۳۳
چوہدری حاکم دین صاحب شادیوال ضلع گجرات حال دارالفضل قادیان
۲۱۸
۳۴
مرزا عمر دین صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ حال حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۲۱۹
۳۵
میاں محمد شفیع صاحب اوورسیر پی ڈبلیو ڈی ڈیرہ اسٰمعیل خاں متوطن اوجلہ متصل گورداسپور
۲۲۱
۳۶
میاں عبدالرحیم صاحب قادیان
۲۲۲
۳۷
مولوی فخرالدین صاحب گھوگھیاٹ سیکرٹری امانت جائداد تحریک جدید۔ قادیان
۲۳۳
۳۸
میاں سلطان احمد صاحب گھوگھیاٹ ضلع شاہ پور
۲۳۷
۳۹
قاری غلام یٰسین صاحب سکنہ رسول پور تحصیل کھاریاں ضلع گجرات حال دارالسعتہ قادیان
۲۳۸
۴۰
میاں گوہر دین صاحب قادرآباد متصل قادیان
۲۴۶
۴۱
شیخ مہر دین صاحب دارالصناعت
۲۵۱
۴۲
میاں حشمت اللہ خاں سکنہ بدایوں حال دارالعلوم قادیان
۲۵۳
۴۳
منشی محمد اسٰمعیل صاحب سابق ملہیاں ضلع امرتسر حال محلہ دارالرحمت قادیان
۲۵۵
۴۴
مولوی کرم الٰہی صاحب سکنہ کھارا متصل قادیان
۲۵۷
۴۵
حکیم عبدالغنی صاحب سابق دوسوہہ ضلع ہوشیارپور حال کارکن نظارت بیت المال قادیان
۲۶۰
۴۶
میاں کرم الٰہی صاحب سکنہ بھیرہ حال قادیان
۲۶۴
۴۷
میاں محمد اکبر علی صاحب سکنہ بہادر ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۲۶۶
۴۸
ملک فضل الدین صاحب سکنہ دھرم کوٹ بگا ضلع گورداسپور حال حلقہ مسجد فضل قادیان
۲۶۸
۴۹
مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی محلہ دارالرحمت قادیان
۲۶۹
۵۰
چوہدری کریم بخش صاحب سکنہ پنجگرائیں تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ
۲۷۱
۵۱
چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکر ضلع ہوشیارپور فنانشل سیکرٹری تحریک جدید قادیان
۲۷۷
۵۲
امتہ العزیز بیگم صاحبہ بیوہ حکیم دین محمد صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ حال محلہ دارالعلوم قادیان
۲۸۰
۵۳
جیون بی بی صاحبہ آف گوجرانوالہ حال نواں پنڈ احمد آباد قادیان
۲۸۳
۵۴
میاں غلام حیدر صاحب ساکن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ۔ حال دارالفضل قادیان
۲۸۳
۵۵
مولوی حکیم انوار حسین صاحب شاہ آبادی
۲۸۴
۵۶
مولوی فخر الدین صاحب پنشنر گھوگھیاٹ حال محلہ دارالفضل قادیان
۲۸۸
‏]1var [tag۵۷
میاں محمد اسٰمعیل صاحب سیالکوٹی محلہ دارالفضل قادیان
۲۹۵
۵۸
بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی متوطن کنجروڑ دتاں تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور حال قادیان
۲۹۶
رجسٹر نمبر ۹
۱
مفتی چراغ دین صاحب بٹالہ
۱۱
۲
میاں عبدالعزیز صاحب )المعروف
۱۵۔۳۔۱
مغل( لاہور
۲۵۶
۳
میاں خیرالدین سراج صاحب سکنہ لودھیانہ حال دارالرحمت قادیان
۵۸
۴
میاں عبداللہ خان صاحب سکنہ مالوکے بھگت ضلع سیالکوٹ
۶۴
۵
ملک خدابخش صاحب لاہور
۶۶ الف
۶
روایات بابو غلام محمد صاحب ثانی۔ لاہور
۶۸` ۱۴۰` ۲۱۰
۷
محب الرحمن صاحب کپورتھلوی لاہور
۸۴
۸
میر مسعود احمد صاحب سیالکوٹ
۹۹
۹
قاضی محبوب عالم صاحب لاہور
۱۲۰`۱۳۲` ۲۰۰`۲۳۰
۱۰
بابو فقیر اللہ صاحب ولد منشی غلام محمد صاحب پنشنر
۱۳۱
۱۱
میاں محمد شریف صاحب ریٹائرڈ ای اے سی لاہور
۱۷۳
۱۲
قاضی عبدالغفور صاحب ساکن جھانسی حال راولپنڈی
۱۷۶
۱۳
میاں معراج الدین صاحب عمر لاہور
۱۷۹
۱۴
میاں اللہ یار صاحب ٹھیکیدار متوطن بلہووال ضلع گورداسپور حال قادیان
۱۹۰
۱۵
روایات سید محمد شاہ صاحب شاہ مسکین
۲۴۰
۱۶
روایات حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ لاہور
۲۴۴
۱۷
سید محمد اشرف صاحب لاہور
۳۰۰
۱۸
مرزا محمد صادق صاحب لاہور
۳۰۶
رجسٹر نمبر ۱۰
۱
مولانا غلام رسول صاحب فاضل راجیکی
۱
۲
‏]2var [tag شیخ عبدالغفور صاحب تاجر کتب گجرات
۲۰
۳
میاں ہاشم خاں صاحب گجرات
۲۱
۴
میاں شرف الدین صاحب راجیکی ضلع گجرات )برادر مولانا غلام رسول صاحب راجیکی(
۲۲
۵
ڈاکٹر علم الدین صاحب کڑیانوالہ ضلع گجرات
۴۱
۶
ملک برکت علی صاحب گجرات )والد ماجد ملک عبدالرحمن صاحب خادم(
۴۷
۷
میاں امیرالدین صاحب بافندہ گجرات
‏]3vra [tag ۶۰
۸
چوہدری احمد دین صاحب وکیل "
۶۶
۹
ملک عطاء اللہ صاحب گجرات
۷۹
۱۰
میاں رحیم بخش صاحب گجرات
۸۲
۱۱
میاں غلام محمد صاحب بافندہ محلہ باغبانپورہ گوجرانوالہ
۱۰۳
۱۲
خلیفہ نظام الدین صاحب سیالکوٹی حال گوجرانوالہ
۱۰۴
۱۳
میاں کرم الٰہی صاحب جراح گوجرانوالہ
۱۰۵
۱۴
شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگرا "
۱۰۶
۱۵
چوہدری عبدالعزیز صاحب گلی آسا ملتانیاں "
۱۰۷
۱۶
شیخ محمد اسٰمعیل صاحب " "
۱۰۹
۱۷
میاں محمد ابراہیم صاحب " "
۱۱۱
۱۸
خواجہ محمد شریف صاحب ولد شیخ صاحب دین صاحب گلی آساملتانیاں گوجرانالہ
۱۱۶
۱۹
میاں میرا بخش صاحب ٹیلر ماسٹر گلی آسا ملتانیاں گوجرانوالہ
۱۱۷
۲۰
حکیم عبدالرحمن صاحب گلی آسا ملتانیاں "
۱۲۱
۲۱
منشی غلام حیدر صاحب قادیانی گلی آسا ملتانیاں گوجرانوالہ
۱۲۵
۲۲
میاں فیروز الدین صاحب سیالکوٹ
۱۲۷
۲۳
میاں محمد عبداللہ صاحب محلہ کوچہ حسین شاہ سیالکوٹ
۱۳۴
۲۴
میاں گلاب الدین صاحب محلہ حکیم حسام الدین سیالکوٹ
۱۳۶
۲۵
میاں اللہ دتہ صاحب ولد میاں قمرالدین ورک محلہ حکیم حسام الدین سیالکوٹ
۱۳۷
۲۶
میاں شیخ مہرالدین صاحب محلہ حکیم حسام الدین سیالکوٹ
۱۴۰
۲۷
میاں محمد نواز خان صاحب ساکن ڈیرہ اسٰمعیل خاں حال سیالکوٹ
۱۴۱
۲۸
حافظ محمد شفیع صاحب محلہ جنڈانوالہ سیالکوٹ
۱۴۴
۲۹
میاں عبدالعزیز صاحب محلہ حکیم حسام الدین "
۱۵۱
۳۰
میاں نبی بخش صاحب " "
۱۵۲
۳۱
مستری محمد الدین صاحب " "
۱۵۳
۳۲
میاں عمر الدین صاحب محلہ اراضی یعقوب "
۱۵۶
۳۳
میاں مہر عمر الدین صاحب " "
۱۵۷
۳۴
میاں میراں بخش صاحب " "
۱۵۸
۳۵
حاجی عبدالعظیم صاحب " "
‏]3var [tag ۱۶۱
۳۶
چوہدری محمد الدین صاحب ٹیلر ماسٹر " "
۱۶۲
۳۷
مہر غلام حسین صاحب "
۱۶۷
۳۸
منشی احمد دین صاحب "
۱۷۶
۳۹
حسین بی بی صاحبہ زوجہ مستری غلام قادر صاحب سیالکوٹی محلہ اراضی یعقوب سیالکوٹ
۱۷۸
۴۰
میاں محمد شریف صاحب گوندل زرگر " "
۱۷۹
۴۱
میاں محمد امام الدین صاحب موضع پکا گڑھا تحصیل سیالکوٹ
۱۸۰
۴۲
میاں رحیم بخش صاحب چونڈہ ضلع سیالکوٹ
۱۸۳
۴۳
عالم بی بی صاحبہ بنت مستری کرم الٰہی صاحب چونڈہ ضلع سیالکوٹ
۱۹۳
۴۴
چوہدری حسن محمد صاحب " "
۱۹۴
۴۵
" رسول بخش صاحب " "
۱۹۵
۴۶
" نبی بخش صاحب " "
۲۰۱
۴۷
میاں امام الدین صاحب " "
۲۰۵
۴۸
چوہدری رحمت خان صاحب " "
۲۰۶
۴۹
سردار بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری محمد حسین صاحب سکنہ تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ
۲۰۷
۵۰
میاں اللہ رکھا صاحب نوشہرہ ککے زئیاں ضلع سیالکوٹ
۲۱۴
۵۱
میاں عبداللہ صاحب موضع کھیوا "
۲۱۵
۵۲
" موسیٰ خان صاحب " "
۲۱۶
۵۳
" جلال الدین صاحب " "
۲۱۷
۵۴
مولوی محمد عبداللہ صاحب " "
۲۱۸
۵۵
چوہدری نوابدین صاحب صابو بھنڈیار "
۲۳۵
۵۶
" محمد علی صاحب گھٹیالیاں " "
۲۳۵
۵۷
سید نذیر حسین صاحب " "
۲۳۷
‏rav1] ga[t۵۸
حسین کاشمیری صاحب " "
۲۵۲
۵۹
چوہدری مہتاب الدین صاحب " "
۲۵۴
۶۰
" شاہ محمد صاحب " "
۲۵۵
۶۱
میاں گلاب الدین صاحب " "
۲۵۶
۶۲
چوہدری حیات محمد صاحب " "
۲۵۷
۶۳
میاں بدرالدین صاحب " "
۲۵۸
۶۴
‏ "]rav2 [tag سندر حسین صاحب کمہار سکنہ چندر کے ضلع سیالکوٹ
۲۶۱
۶۵
چوہدری اللہ بخش صاحب منگولے ضلع سیالکوٹ
۲۶۳
۶۶
میاں سیف اللہ صاحب چندرکے "
۲۶۴
۶۷
" فضل الدین صاحب منگولے "
۲۶۵
۶۸
" محمد اسحٰق صاحب " "
۲۶۶
۶۹
" نصراللہ خان صاحب نمبردار " "
۲۶۷
۷۰
چوہدری حاکم دین صاحب میانوالی خانانوالی ضلع سیالکوٹ
۲۶۸
۷۱
چوہدری عبداللہ خان صاحب داتا زید کا "
۲۷۰
۷۲
" غلام حسین صاحب گھٹیالیاں "
۲۷۰
۷۳
میاں محمد رشید صاحب سکنہ ڈلہ حال گھنوکے ضلع سیالکوٹ
۲۷۵
۷۴
میاں طالب دین صاحب " "
۲۷۶
‏]1var [tag۷۵
چوہدری جیون خان صاحب " "
۲۷۷
۷۶
بقیہ روایات میاں فضل احمد صاحب پٹواری حلقہ گورداس ننگل
۲۷۸
۷۷
میاں اللہ یار صاحب ٹھیکیدار
۲۸۰
۷۸
چوہدری محمد دین صاحب قلعہ صوبا سنگھ ضلع سیالکوٹ
۲۸۸
۷۹
" عبدالرحیم صاحب " "
۲۸۹
۸۰
دیوان شاہ صاحب ڈوگر باجوہ متصل نارووال حال قلعہ صوباسنگھ ضلع سیالکوٹ
۲۹۰
۸۱
منشی نورمحمد صاحب ہرسیاں ضلع گورداسپور
۲۹۱
۸۲
حضرت مولانا محمد اسٰمعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان۔ ہلال پور تحصیل بھلوال
۲۹۲
۸۳
ماسٹر عبدالرئوف صاحب بھیروی سابق ہیڈ کلرک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان
۲۹۴
۸۴
حضرت مولانا شیر علی صاحب قادیان
۲۹۷
۸۵
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب قادیان
۳۰۷
۸۶
میاں فتح دین صاحب ساکن ستوکے ضلع لاہور
۳۰۹
۸۷
سید مہدی حسین صاحب قادیان
"
۸۸
ملک غلام حسین صاحب رہتاسی دارالرحمت قادیان
۳۱۰
۸۹
میاں خدا بخش صاحب مومن جی پٹیالوی دارالرحمت قادیان
۳۴۴
۹۰
شیخ محمد اسٰمعیل صاحب سرساوی قادیان
۳۴۵
۹۱
شیخ عطاء محمد صاحب سابق پٹواری ونجواں ضلع گورداسپور
۳۵۵
۹۲
ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان
۳۵۷
۹۳
حضرت مولانا سرور شاہ صاحب
۳۵۹
۹۴
مولوی حکیم نظام الدین صاحب ساکن موضع کھیرانوالی متصل کپورتھلہ
۳۶۲
۹۵
میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی
۳۶۵
رجسٹر نمبر ۱۱
۱
‏]2var [tag بابا رحیم بخش صاحب ساکن قصبہ سنور محلہ تبواں ارائیاں دربان غربی ڈیوڑھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی
۱
۲
شیخ مشتاق حسین صاحب لاہور
۴
۳
میاں امام الدین صاحب سیکھوانی محلہ دارالرحمت قادیان
۵
۴
حاجی محمد موسیٰ صاحب نیلہ گنبد لاہور
۷
۵
مستری اللہ رکھا صاحب ترگڑی ضلع گوجرانوالہ حال لاہور
۲۰
۶
چوہدری عبدالقادر صاحب سکنہ سجووال تحصیل گڑھ شنکر ضلع ہوشیارپور
۲۱
۷
ماسٹر ودہاوے خاں صاحب شریف پورہ امرتسر
۲۵
۸
میاں عبدالرشید صاحب ولد میاں چراغ دین صاحب لاہور۔ چیف ڈرافٹمین پی۔ ڈبلیو۔ ڈی سنٹر ہال ورکشاپ امرتسر
۲۸
۹
میاں عبدالغفار صاحب جراح بازار قلعہ بھنگیاں امرتسر
۳۸
۱۰
میاں محمد اسٰمعیل صاحب حجام بازار حکیماں امرتسر
۴۴
۱۱
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب ولد شیخ غلام قادر صاحب سکنہ بٹالہ حال امرتسر کوٹ ککے زئیاں
۴۵
۱۲
میاں شرف الدین صاحب سکنہ نوشہرہ پنواں حال کٹڑہ خزانہ گلی مسجد والی امرتسر
۴۶
۱۳
شیخ زین العابدین صاحب تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور
۴۷
۱۴
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب قادیان
۷۷
۱۵
ملک غلام حسین صاحب رہتاسی قادیان
۸۹
۱۶
‏]rav2 [tag میاں محمد دین صاحب ولد میاں نورالدین صاحب ضلع گجرات
۱۰۰
۱۷
سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب قادیان
۱۳۹
۱۸
مرزا برکت علی صاحب متوطن پٹی ضلع لاہور حال قادیان
۱۴۴
۱۹
اللہ بخش صاحب ولد حاجی نبی بخش صاحب قادیان
۱۴۵
۲۰
ماسٹر محمد طفیل صاحب محلہ دارالفضل "
۱۵۴
۲۱
ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہرسنگھ سکنہ ڈومیلی تحصیل پھگواڑہ ریاست کپورتھلہ حال دارالفضل قادیان
۱۵۷
۲۲
میاں عبدالرزاق صاحب سیالکوٹی حال قادیان
۱۵۸
۲۳
شیخ محمد اسٰمعیل صاحب سرساوی "
۱۶۴
۲۴
مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری
۱۶۵
۲۵
مولوی خاں ملک صاحب کھیوالی ضلع جہلم
۱۶۶
۲۶
ملک غلام حسین صاحب رہتاسی خادم المسیح دارالرحمت قادیان
۱۷۰
۲۷
چوہدری عبدالرحیم صاحب محلہ دارالرحمت "
۱۷۵
۲۸
میاں وزیر محمد خاں صاحب منی پور آسام
۱۷۹
۲۹
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب
۱۸۲
۳۰
شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر >نور<
۱۹۷
۳۱
چوہدری نعمت اللہ خاں صاحب گوہر سکنہ پٹھور ضلع لدھیانہ
۲۰۱
۳۲
ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب
۲۰۶
۳۳
صوفی عطاء محمد صاحب راہوں ضلع جالندھر
۲۰۷
۳۴
میاں محمد حسین صاحب آف دھرم سالہ
۲۱۲
۳۵
مولوی عزیز دین صاحب پٹی ضلع لاہور
۲۱۳
۳۶
سید محمد قاسم صاحب سکنہ شاہجہان پور
۲۲۰
۳۷
حکیم چراغ دین صاحب سکنہ جوڑا ضلع گجرات )ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب کے دادا جان ناقل(
۲۲۲
۳۸
‏]2rav [tag مرزا غلام نبی صاحب سکنہ پنڈی لالہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات
۲۲۵
۳۹
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب کھاریاں
۲۲۷
۴۰
میاں محمد اسحٰق صاحب سکنہ کھریپڑ ضلع لاہور
۲۲۸
۴۱
میاں فتح دین صاحب سکنہ رتنے والا ضلع "
۲۲۹
۴۲
میاں فتح محمد صاحب سکنہ سرشت پور ضلع ہوشیارپور
۲۳۱
۴۳
میاں نور محمد صاحب سکنہ ونجواں حال امرتسر
۲۳۲
۴۴
میاں محمد دین صاحب سکنہ سید والا ضلع شیخوپورہ
۲۳۳
۴۵
میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل لاہور
۲۳۴
۴۶
حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی۔ قادیان
۲۳۶
۴۷
مولوی عبدالرحیم صاحب نیر قادیان
۲۴۹` ۳۰۱` ۳۱۲
۴۸
مولوی فضل الٰہی صاحب دارالرحمت قادیان
۲۵۹
۴۹
شیخ غلام قادر صاحب سکنہ تھہ غلام نبی حال "
۲۶۴
۵۰
میر مہدی حسین صاحب قادیان
۲۶۶ و ۲۸۲
۵۱
ملک غلام حسین صاحب رہتاسی قادیان
۲۷۸
۵۲
میر حسین صاحب قریشی "
۳۰۰
۵۳
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب "
۳۰۵
۵۴
چوہدری عبدالرحیم صاحب "
۳۰۶
۵۵
صوفی نبی بخش صاحب دارالرحمت]81 [p "
۳۱۵
۵۶
منشی امام الدین صاحب پٹواری "
۳۱۶
۵۷
شیخ مشتاق حسین صاحب سکنہ گوجرانوالہ حال لاہور
۳۲۹
۵۸
حکیم سید محمد ثناء اللہ صاحب نظامی سکنہ پھلور ضلع جالندھر۔ حال محلہ قاضیاں قادیان
۵۹
میاں غلام قادر صاحب متوطن سنگڑوعہ ضلع جالندھر
۳۳۶
۶۰
مبارک علی صاحب قریشی سکنہ لوہیاں ضلع "
‏]3var [tag ۳۳۹
۶۱
حکیم شیخ محمد صاحب سکنہ دہرانوالہ داروغیاں
۳۴۰
۶۲
حافظ عبدالعلی صاحب برادر حضرت مولانا شیر علی صاحب سرگودہا
۳۴۷
۶۳
چوہدری فقیر محمد صاحب سکنہ محمود آباد ضلع جہلم
۳۴۸
۶۴
میاں محمد ظہورالدین صاحب سکنہ ڈولی کہار آگرہ
۳۵۰
۶۵
خان صاحب سید غلام حسین صاحب وٹرنری ڈاکٹر بھیرہ ضلع شاہ پور
۳۷۱
۶۶
میاں امام الدین صاحب ملک پور جٹاں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات
۳۷۳
رجسٹر نمبر ۱۲
۱
حافظ نبی بخش صاحب متوطن فیض اللہ چک حال دارالفضل قادیان
۱
۲
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ
۵
۳
چوہدری محمد عبداللہ صاحب سکنہ گوکھووال ضلع لائلپور
۷
۴
شیخ نورالدین صاحب تاجر کتب قادیان )متوطن دھرم کوٹ رندھاوا(
۹
۵
مولوی عبدالرحیم صاحب نیر
۱۲
۶
حکیم عبدالصمد خاں صاحب دہلوی
۱۳
۷
میاں خیرالدین صاحب سکنہ ڈھاڑیوال متصل اجنالہ
۲۲` ۲۵
۸
میاں غلام محمد صاحب ساکن بٹالہ
۲۴۔ ۴۸
۹
شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی
۲۶۔ ۴۹
۱۰
سید دلاور شاہ صاحب آف لاہور
۵۱
۱۱
چوہدری بڈھا صاحب سکنہ رجوعہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات
۵۳
۱۲
میاں محمد اسٰمعیل صاحب سیکھوانی
۵۵
۱۳
ڈاکٹر محمد منیر صاحب آف امرتسر
۵۶
۱۴
حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونی
۵۸
۱۵
ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحب شاہجہانپوری
۸۸
۱۶
میاں غلام حسن صاحب بھٹی سکنہ فتاکپور تحصیل کبیر والا ضلع ملتان
۹۲
۱۷
میاں ڈاکٹر محمد اشرف صاحب سرجن سکنہ علی وال ضلع گجرات
۹۷
۱۸
شیخ عبدالکریم صاحب ولد شیخ غلام محمد صاحب جلد ساز۔ کراچی
۱۱۴
۱۹
میاں محمد شریف صاحب کشمیری سکنہ پکھیوال ضلع گورداسپور
۱۱۵
۲۰
میاں محمد صدیق صاحب پٹیالوی حال دہلی
۱۲۲
۲۱
مولانا محمد ابوالحسن صاحب سکنہ کالا ماڑ کوہ سلیمان ضلع ڈیرہ غازی خاں
۱۲۶
۲۲
میاں جان محمد صاحب المعروف جندوڈا صاحب سکنہ بستی بزدار تحصیل سنگھڑ ضلع ڈیرہ غازی خاں
۱۲۷
۲۳
میاں اللہ بخش صاحب بستی بزدار ضلع ڈیرہ غازی خاں
۱۲۸
۲۴
میاں اللہ دتا صاحب سکنہ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ
۱۳۱
۲۵
بابو عبدالعزیز صاحب اور سیرگلی آسا ملتانیاں گوجرانوالہ
۱۳۴
۲۶
بابو محمد عبداللہ صاحب سنگیلر سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور
۱۳۵
۲۷
بقیہ روایات حضرت مولانا راجیکی صاحب
۱۳۸
۲۸
منشی سلطان عالم صاحب سکنہ گوہڑیالہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات
۱۴۳
۲۹
چوہدری حاکم علی صاحب چک پنیار ضلع گجرات
۱۴۷` ۱۵۶
۳۰
میاں قطب الدین صاحب لودی ننگل ضلع گورداسپور
۱۴۸
۳۱
میاں حیات محمد صاحب سکنہ دیروالہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ
۱۴۹
۳۲
ڈاکٹر سید محمد حسن شاہ صاحب سکنہ سرانوالی ضلع سیالکوٹ
۱۵۰
۳۳
سید تاج حسین صاحب بخاری ہیڈماسٹر۔ نمبر ۳۱۰ ج۔ ب سکول براستہ گوجرہ ضلع لائلپور
۱۵۲
۳۴
میاں الٰہی بخش صاحب سابق چٹھی رساں گنڈا سنگھ والا
۱۵۴
۳۵
حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی
۱۵۸ و ۱۷۰
۳۶
میاں عبدالعزیز صاحب ولد میاں عدل الدین صاحب سابق شکار ماچھیاں ضلع گورداسپور حال محلہ دارالعلوم قادیان
۱۶۸
۳۷
مولوی محمد اسٰمعیل صاحب سکنہ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ
۱۷۸
۳۸
میاں صوبہ صاحب " "
۱۸۱
۳۹
روایات میاں سوہنے خان صاحب سکنہ مٹیانہ ڈاکخانہ راجے پور ضلع ہوشیارپور
۱۹۳
۴۰
شیخ غلام حسین صاحب لودھیانوی سیکرٹری مال دہلی
۲۰۲
۴۱
میاں جان محمد صاحب سکنہ علاقہ تیراہ
۲۰۶
۴۲
مائی کاکو صاحبہ سکنہ سیکھواں
۲۰۹
۴۳
ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک بازید چک حال افریقہ
۲۱۱
۴۴
بابو شاہ عالم صاحب سکنہ جہلم
۲۲۸
۴۵
میاں محمد حنیف صاحب ضلعدار نہر محبوب منزل امرتسر
۲۲۹
۴۶
حکیم نواب علی صاحب فاروقی
۲۳۱
۴۷
بابو عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ انبالہ
۲۳۷
۴۸
میاں عبدالرحیم صاحب سکنہ انبالہ )برادر حقیقی بابو عبدالرحمن صاحب انبالوی(
۲۶۴
۴۹
مرزا قدرت اللہ صاحب دارالفضل قادیان
۲۶۵` ۲۹۱
۵۰
مولوی جلال الدین صاحب کھریپڑ ضلع لاہور
۲۷۰
۵۱
منشی محبوب عالم صاحب لاہور
۲۸۳
۵۲
میاں عبدالحمید صاحب انبالوی )پسر بابو عبدالرحمن صاحب(
۲۸۴
۵۳
حاجی میراں بخش صاحب انبالوی تاجر چرم بازار سبزی منڈی انبالہ شہر
۲۸۶
۵۴
میاں کریم بخش صاحب قصبہ ٹینڈہ فیکشن ریاست پٹیالہ
۲۸۹
۵۵
میاں عبدالعزیز صاحب سکنہ چک سکندر ڈاکخانہ کھاریاں ضلع گجرات
۲۹۲
۵۶
شیخ عطاء اللہ صاحب نو مسلم اسلامیہ پارک پونچھ روڈ مزنگ لاہور
۲۹۶
۵۷
میاں عبدالمجید صاحب سکنہ قصبہ آنولہ ضلع بانس بریلی(
۳۱۱
۵۸
خانزادہ امیر اللہ خاں صاحب سکنہ اسماعیلیہ تحصیل صوابی ضلع مردان
۳۱۵
۵۹
مولوی فضل الٰہی صاحب دارالبرکات قادیان
۳۲۲
رجسٹر نمبر ۱۳
۱
چوہدری غلام محمد صاحب سکنہ گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ
۱
۲
چوہدری غلام احمد صاحب سکنہ چک نمبر ۱۰۲ R۔۶ ڈاکخانہ فقیر والی ضلع بہاول نگر اصل سکونت تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور
۳
۳
میاں مولا بخش صاحب لوہار سکنہ بھیرہ
۴
۴
مسماۃ طالع بی بی اہلیہ مستری کرم الدین صاحب بھیرہ
۷
۵
مولوی امیر الدین صاحب سکنہ گجرات
۸
۶
مرزا محمد اکرم بیگ صاحب ولد مرزا جیون بیگ صاحب
۱۰
۷
ملک عطاء محمد صاحب گجراتی
۱۱
۸
مستری علی احمد صاحب سکنہ کھیوہ والی ضلع گوجرانوالہ
۱۲
۹
مولوی عبیداللہ صاحب قریشی سکنہ لائلپور
۱۳
۱۰
حکیم عبدالعزیز صاحب سکنہ گوجرہ
۱۴۔ ۱۵
۱۱
میاں عبدالعزیز صاحب گوجرہ
۱۲
حکیم دین محمد صاحب اکونٹنٹ ملٹری اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ متوطن راہوں۔ ضلع جالندھر حال محلہ دارالفضل قادیان۔
۲۰
۱۳
میاں محمد دین صاحب سکنہ تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور )برادر اصغر حافظ حامد علی صاحب(
۸۴
۱۴
میاں علی بخش صاحب سکنہ رہتاس ضلع جہلم
۸۵
۱۵
مولوی محمد اسٰمعیل صاحب سکنہ بھڈال ضلع سیالکوٹ
۸۷
۱۶
چوہدری کرم الٰہی صاحب سکنہ تلونڈی کھجور والی ضلع گوجرانوالہ
۹۰
۱۷
حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری
۹۲
۱۸
چوہدری عبداللہ خاں صاحب سکنہ بہلولپور ضلع لائلپور
۹۵
۱۹
میاں محمد اسٰمعیل صاحب سکنہ پرتھی پور ریاست کپورتھلہ حال چک ۳۰ چودھری والا ضلع نواب شاہ
۱۰۴
۲۰
میاں جیوا صاحب سکنہ مانگا ضلع سیالکوٹ حال ریاست بہاولپور
۱۰۵
۲۱
میاں پیر بخش صاحب سکنہ بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خاں
۱۰۶
۲۲
حسن رہاستی صاحب
۱۰۷
۲۳
میاں اللہ دتا صاحب سکنہ بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خاں
۱۰۸
۲۴
میاں محمد عظیم صاحب ساکن موضع حاجی کمال ضلع ڈیرہ غازی خاں
۱۱۱
۲۵
میاں حسن الدین صاحب سکنہ بوچھال کلاں ضلع جہلم
۱۱۲
۲۶
میاں غوث محمد صاحب سکنہ ہرسیاں ضلع گورداسپور
۱۱۳
۲۷
چوہدری بھنبے خاں صاحب سکنہ سڑوعہ ضلع ہوشیارپور
۱۱۴
۲۸
شیخ نیاز محمد خاں صاحب انسپکٹر پولیس سندھ ولد محمد بخش سکنہ گوجرانوالہ حال دارالرحمت قادیان
۱۱۵
۲۹
میاں غلام حسن صاحب سکنہ محمود آباد ضلع جہلم
۱۳۱
۳۰
میاں میاں خان صاحب سکنہ چک نمبر ۹۹ شمالی ضلع سرگودہا
۱۳۲
۳۱
منشی نور احمد صاحب سکنہ محمود آباد ضلع جہلم
۱۳۳
۳۲
میاں نور محمد صاحب سکنہ دوالمیال
۱۳۴
۳۳
" علی حیدر صاحب " "
۱۳۵
‏rav1] [tag۳۴
حاجی غلام محمد صاحب " "
۱۳۷
۳۵
میاں کرم الدین صاحب سکنہ چکوال "
۱۳۸
۳۶
" احمد علی صاحب سکنہ دوالمیال " "
۱۳۹
۳۷
حضرت مفتی محمد صادق صاحب
۱۴۱
۳۸
ملک علی حیدر صاحب سکنہ دوالمیال ضلع جہلم
۱۴۲
۳۹
چوہدری غلام سرور صاحب سکنہ چک نمبر ۵۵/۲۔ ایل تحصیل اوکاڑہ ضلع ساہیوال
۱۴۳
۴۰
میر عنایت علی شاہ صاحب سکنہ محلہ صوفیاں لودھیانہ
۱۴۹
۴۱
میاں محمد سلطان صاحب سکنہ لودھراں ضلع ملتان
۱۵۱
۴۲
میاں عنایت اللہ صاحب سکنہ نارووال ضلع سیالکوٹ
۱۵۵
۴۳
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب
۱۵۷
۴۴
ملک عبدالرحمن صاحب سکنہ پیر کوٹ ثانی ضلع گوجرانوالہ
۱۶۰
۴۵][ ملک گل محمد صاحب دارالعلوم۔ ربوہ
۱۶۵
۴۶
مولوی محمد عظیم صاحب سکنہ حاجی کمال ضلع ڈیرہ غازی خان
۱۶۸
۴۷
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب نو مسلم محلہ دارالرحمت قادیان
۱۶۹
۴۸
میاں احمد خان صاحب ولد میاں باز خان صاحب سکنہ ڈیریوالہ ضلع گورداسپور
۱۷۰
۴۹
چوہدری فیض احمد صاحب نمبردار ڈیریوالہ ضلع گورداسپور
۱۷۲
۵۰
‏]2rav [tag ملک برکت علی صاحب ولد نذیر بخش صاحب قوم راجپوت کھوکھر
۱۷۳
۵۱
مستری فقیر محمد صاحب قادر آباد متصل قادیان
۱۷۶
۵۲
عبدالمجید خان صاحب ولد غلام حسین خان قوم پٹھان ساکن قصبہ آنو ضلع بانس بریلی
۱۷۹
۵۳
حاجی محمد الدین صاحب سکنہ تہال تحصیل کھاریاں ضلع گجرات
۱۸۲
۵۴
ملک محمود خان صاحب رئیس بیار تحصیل مردان ضلع پشاور
۱۸۲
‏]1var [tag ۵۵
منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ
۱۸۸
۵۶
قریشی شیخ محمد صاحب چٹھی رساں قادیان
۳۹۴
۵۷
قاضی محمد عالم صاحب سکنہ کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ
۴۰۱
۵۸
بقیہ روایات چوہدری حاکم علی صاحب قادیان
۴۰۸
۵۹
جمن خان صاحب سکنہ بلم گڑھ ضلع گوڑ گائون
۴۱۱
۶۰
نظام الدین ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر سکنہ نبی پور ضلع گورداسپور
۴۱۳
۶۱
میاں محمد صاحب احمدی بہبل چک ضلع گورداسپور
۴۱۷
۶۲
خان صاحب عبداللہ خان صاحب رہانہ ضلع ہوشیارپور
۴۲۲
۶۳
منشی عبدالسمیع صاحب سکنہ امروھہ ضلع مراد آباد
۴۲۵
۶۴
میاں خیر الدین صاحب دری باف مرحوم قادیان
۴۳۳
۶۵
مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم قادیان
۴۳۸
۶۶
مرزا عبداللہ بیگ صاحب قادیان
۴۳۹
۶۷
چوہدری فتح محمد صاحب ایم۔ اے سیال
"
۶۸
میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی
۴۴۰
رجسٹر نمبر ۱۴
۱
بقیہ روایات میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی
۱
۲
حاجی محمد عبداللہ صاحب شکار ماچھیاں ضلع گورداسپور
۳۵
۳
محمد بخش صاحب ساکن پتھنان والا
۳۷
۴
چوہدری غلام محمد صاحب بی۔ اے ہیڈماسٹر نصرت گرلز ہائی سکول قادیان
۳۹
۵
میاں عطاء اللہ صاحب ساکن بھمیاں ہوشیارپور
۳۹
۶
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناطر امور عامہ و خارجہ قادیان
۴۰
۷
حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان۔ موضع سلطان سیداں عرف گھنڈی پیراں ضلع مظفر آباد ریاست کشمیر۔
۵۵
۸
چوہدری محمد عظیم صاحب نائب تحصیلدار شیخوپورہ متوطن تلونڈی عنایت اللہ خان ضلع سیالکوٹ
۱۳۷
۹
منشی محمد الدین صاحب و اصلباتی نویس کھاریاں۔ حال قادیان
۱۳۸
۱۰
ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ساکن کوٹ رندھاوا۔ حال قادیان
۲۰۲
۱۱
حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب۔ مستری قطب الدین صاحب بھیروی۔
۲۳۳ و ۳۵۲
۱۲
پیر حاجی احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ہوشیارپور
۲۳۸
۱۳
میاں عطاء اللہ صاحب ساکن بڑہانوں تحصیل راجوری صوبہ جموں کشمیر
۲۴۲
۱۴
ملک غلام محمد صاحب ولد ملک بسو صاحب لاہور
۲۴۴
۱۵
میر مہدی حسین صاحب قادیان
۲۴۵
۱۶
ڈاکٹر عطر دین صاحب امیر جماعت احمدیہ بمبئی
۲۴۹
۱۷
ڈاکٹر انوار حسین صاحب میونسپل کمشنر بلب گڑھ ضلع گوڑ گائوں
۲۵۲
‏b] [frame۱۸
ملک عبدالعزیز صاحب ساکن اڑہا ضلع مونگھیر
۲۵۳
۱۹
حکیم عبدالعزیز خاں صاحب ملک طبیہ عجائب گھر قادیان
۲۰
بابا فضل محمد صاحب ہرسیانوالے قادیان
۲۷۵
۲۱
مسماۃ بڈھو ساکن دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداسپور
۲۸۸
۲۲
مولوی محمد عثمان صاحب ساکن قصبہ نادون ضلع ہردوئی حال رحمت منزل احاطہ خام فقیر محمد خاں لکھنئو][ ۲۹۰
۲۳
پیر محمد عبداللہ صاحب گولیکی۔ گجرات
۲۹۱
۲۴
شہامت خاں صاحب ساکن نادون حال قادیان
۲۹۶
۲۵
منشی عبدالسمیع صاحب امروہہ
۲۹۹
۲۶
منشی محمد ابراہیم صاحب کلرک قادیان
۳۰۶
۲۷
حکیم مولوی قطب الدین صاحب "
۳۱۶
۲۸
میاں وزیر خاں صاحب غوری بلب گڑھ حال قادیان
‏rav3] [tag ۳۵۶
۲۹
مرزا غلام رسول صاحب ریڈر جوڈیشنل کمشنر پشاور
۳۶۶
۳۰
منشی محمد علی صاحب پٹواری سنور۔ پٹیالہ
۳۶۸
۳۱
منشی عبدالرحمن صاحب سنور
۳۶۹
‏tav.8.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
قادیان کے صحابہ کی فہرست
)جو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی نگرانی میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ نے مرتب فرمائی(
نمبر شمار
اسماء گرامی
ولدیت
متوطن
سن بیعت
سن زیارت][الف
سیدنا امیر المومنین حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثانی میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب


ب
صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے


ج
صاحبزادہ حضرت میرزا شریف احمد صاحب


د
جناب میرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے
خاں بہادر مرزا سلطان احمد صاحب
قادیان ضلع گورداسپور
۱۹۰۵۔ ۱۹۰۴
۱۸۹۷ء
ہ
جناب میرزا رشید احمد صاحب
" "
"
پیدائشی احمدی ۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
و
حضرت ڈاکٹر محمد اسٰمعیل صاحب
حضرت میر ناصر نواب صاحب
"
۲ سال کی عمر میں پیدائش ۱۸۸۱ء
ز
حضرت میر محمد اسحاق صاحب
"
دہلی حال قادیان
پیدائشی احمدی ۸۔ ستمبر ۱۸۹۰ء
۱۸۹۰ء
ح
حضرت نواب محمد علی خاں صاحب


ط
حضرت نواب عبدالرحمن خاں صاحب


ی
حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب


ک
حضرت نواب عبدالرحیم خاں صاحب

‏]qad5 [tag
ل
حضرت مولوی شیر علی صاحب بی۔ اے


م
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد امام مسجد لنڈن


ن
حضرت مولوی جلال الدین صاحب نائب " "


س
مرزا گل محمد صاحب
میرزا نظام الدین صاحب
قادیان
‏qad5] ga[t ۱۹۱۴ء
۱۹۰۶ء
۱
حضرت مفتی محمد صادق صاحب
مفتی عنایت اللہ صاحب مرحوم
بھیرہ ضلع شاہ پور حال قادیان دارالامان
دسمبر ۱۸۹۰ء یا جنوری ۱۸۹۱ء
دسمبر ۱۸۹۰ء یا جنوری ۱۸۹۱ء
۲
چوہدری برکت علی خاں صاحب
چوہدری میراں بخش صاحب
محلہ کوٹلہ طرف میانہ گڑھ شنکر ضلع ہوشیارپور حال آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۳
چوہدری امیر محمد خاں صاحب
چوہدری سکندر خان صاحب
اہرانہ تحصیل و ضلع ہوشیارپور حال معاون آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۴
مرزا محمد شفیع صاحب
حمید مرزا صاحب
دہلی حال محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۳ء
۵
پیر جی مظہر حق صاحب )مظہر الحق احمد(
پیر جی افتخار احمد صاحب
قادیان دارالامان کارکن دفتر محاسب صدر انجمن احمدیہ
پیدائشی ۱۸۵۸ء
۱۸۹۴ء
۶
سید محمود عالم صاحب
سید تبارک حسین صاحب
موضع رسہ ڈاکخانہ جہان آباد پرگنہ بھلادسہ ضلع گیا۔ بہار حال کا رکن خزانچی صدر انجمن احمدیہ
۔
۱۹۰۷ء
۷
محمد حمید الدین صاحب
بابو فضل الدین صاحب
مکیریاں ضلع ہوشیارپور حال کارکن دفتر محاسب صدر انجمن احمدیہ
۴۔ جنوری ۱۸۹۹ء
۱۹۰۵ء
۸
منشی عبدالرحیم صاحب نو مسلم سابق پنڈت کشن لعل
پنڈت رلیارام صاحب
بنوڑ ڈاک خانہ خاص پٹیالہ حال کارکن نظارت بیت المال صدر انجمن احمدیہ
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۹
منشی شیخ کظیم الرحمن صاحب
منشی شیخ حبیب الرحمن صاحب مرحوم
حاجی پورہ ڈاکخانہ پھگواڑہ۔ کپورتھلہ حال کارکن بیت المال صدر انجمن احمدیہ قادیان
پیدائشی ۱۸۹۳ء
۱۹۰۴ء
۱۰
ملک نور خاں صاحب
‏qad3] [tag ملک فتح خان صاحب
سروالہ ڈاکخانہ تحصیل و ضلع کیملپور حال کارکن دفتر بیت المال صدر انجمن احمدیہ قادیان
۱۸۹۹ء
۱۸۹۹ء
۱۱
حکیم عبدالغنی صاحب
سید عظیم شاہ صاحب
قصبہ دوسوہہ ضلع ہوشیار پور کارکن بیت المال "
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۱۲
مولوی فخر الدین صاحب
مولوی قطب الدین صاحب
گھوگھیاٹ ضلع شاہ پور سیکرٹری امانت جائیداد تحریک جدید قادیان
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۱۳
میاں سلطان احمد صاحب
مولوی قطب الدین صاحب
گھوگھیاٹ ضلع شاہ پور
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۱۴
منشی عبدالسمیع صاحب
منشی عبدالرحمن صاحب
کپورتھلہ ریاست حال قادیان محلہ دارالفضل
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۱۵
بابو فضل احمد خاں صاحب
شیخ علی بخش صاحب
بٹالہ ضلع گورداسپور حال کارکن دفتر سیکرٹری احمد آباد سنڈیکیٹ قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۷ء
۱۶
چوہدری بدر الدین صاحب
چوہدری کندو خان صاحب
راہوں ضلع جالندھر حال کارکن دفتر نظارت دعوۃ تبلیغ
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۱۷
حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب
سید محمد حسن شاہ صاحب
سلطان سیداں عرف گھنڈی چیراں ڈاکخانہ گہوڑی تحصیل و ضلع مظفرآباد۔ حال پرنسپل جامعہ احمدیہ و سیکرٹری مجلس کار پرداز مصالح قبرستان قادیان
‏qad5] [tag ۱۸۹۳ء
۱۸۹۴ء
۱۸
میاں عبدالرحیم صاحب بوٹ میکر وجلد ساز
میاں قادر بخش صاحب
مالیر کوٹلہ ریاست حال قادیان دارالامان محلہ دارالرحمت
۱۹۰۷ء بیعت قلبی تھی رشتہ داروں نے خوف کی وجہ سے ظاہری بیعت نہ کرنے دی تھی۔
۱۹۰۷ء
۱۹
مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل جنرل پریذیڈنٹ قادیان
شیخ برکت علی صاحب
فیض اللہ چک ضلع گورداسپور حال جنرل پریذیڈنٹ قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۳ء
۱۹۰۳ء
۲۰
ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب
مولوی حکیم قطب الدین صاحب
جگید کوٹ تحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ حال مالک احمدیہ نیشنل میڈیکل ہال قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۶ء
۱۹۰۴ء
۲۱
بھائی شیر محمد صاحب
میراں بخش صاحب
دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور حال تاجر قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۲۲
قاری غلام مجتبیٰ صاحب
مولوی محمد بخش صاحب مرحوم
رسولپور تحصیل کھاریاں ضلع گجرات حال معاون ناظر امور عامہ سلسلہ عالیہ احمدیہ قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۲۳
ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب
سید نبی بخش صاحب
بیجہ تحصیل سمرالہ لدھیانہ حال دارالامان قادیان
۱۹۰۰ء
۱۹۰۱ء
۲۴
شیخ اللہ بخش صاحب
شیخ مراد بخش صاحب
بنوں صوبہ سرحد حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۵
بابو فقیر علی صاحب
میاں شادی صاحب
کوٹلہ چاملان ضلع گورداسپور حال ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر دارالبرکات قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۶
مولوی محمد اسٰمعیل صاحب فاضل
مولوی محمد بخش صاحب
ہلالپور ضلع شاہ پور حال پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان
۱۹۰۸ء
۱۹۰۸ء
۲۷
ماسٹر مولا بخش صاحب
عمر بخش صاحب
منیلا تحصیل روپڑ ضلع انبالہ حال ریٹائرڈ مدرس مدرسہ احمدیہ محلہ دارالانوار قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۵ء
۲۸
حاجی ابوبکر یوسف صاحب
محمد جمال یوسف
پٹن ریاست بڑووہ حال قادیان دارالامان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۲۹
بھائی مدد خاں صاحب
فتح محمد خان صاحب
باڑی پورہ ریاست کشمیر حال انسپکٹر بیت المال قادیان
۱۸۹۶ء
۱۹۰۴ء
۳۰
ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب
رحیم بخش صاحب
پٹیالہ ریاست حال انچارج نور ہسپتال و فیملی ڈاکٹر خاندان مسیح موعودؑ قادیان۔
۱۹۰۱ء
۱۹۰۵ء
۳۱
صوفی محمد یعقوب صاحب
غلام بنوری شاہ صاحب
کڑی افغاناں گورداسپور حال نور ہسپتال قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۳۲
فضل دین عبداللہ حجام
محمد بخش صاحب
قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۳۳
شیخ غلام قادر خان صاحب
شیخ الٰہی بخش صاحب
تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور حال قادیان کارکن لنگرخانہ
۱۸۹۲
۱۸۹۲ء
۳۴
میاں عبدالرحیم صاحب باورچی
میاں محمد بخش صاحب
قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۳۵
منشی عبدالخالق صاحب
مولوی محمد حسین صاحب
رمجیت پور کپورتھلہ ریاست حال کارکن ضیافت
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۳۶
‏qad2] ga[t میاں محمد الدین صاحب
میاں نورالدین صاحب
کھاریاں ضلع گجرات حال قادیان
۱۸۹۴ء
۱۸۹۵ء
۳۷
مرزا محمد اشرف صاحب
منشی جلال الدین صاحب
بلانی ضلع گجرات حال قادیان
۱۸۹۵ء
۱۹۰۴ء
۳۸
محمد وزیر خاں صاحب
لال محمد خاں صاحب
بلب گڑھ ضلع دہلی حال قادیان دارالامان
۱۸۹۲ء
۱۸۹۳ء
۳۹
شیخ نورالدین صاحب
شیخ میراں بخش صاحب
دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور حال قادیان
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۴۰
شیخ محمد اسٰمعیل صاحب سرساوی
شیخ مسیتا صاحب
سرساوہ ضلع سہارنپور حال قادیان
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۴۱
ڈاکٹر محمد افضل صاحب
مرزا فضل بیگ صاحب
قصور ضلع لاہور حال دارلامان قادیان محلہ دارالرحمت
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۴۲
چوہدری علی احمد صاحب
چوہدری رحیم بخش صاحب
کٹڑہ خزانہ امرتسر حال " "
۱۸۹۶ء پیدائشی احمدی
۱۹۰۲ء۔ ۱۹۰۵
۴۳
سید حسن شاہ صاحب
سید فضل شاہ صاحب
مدینہ گجرات حال مہاجر ناصرآباد قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۴۴
مستری لال دین صاحب
شیخ امام الدین صاحب
شہر سیالکوٹ محلہ بٹہ حال محلہ ریتی چھلہ "
۱۹۰۳ء
۱۹۰۴
۴۵
چوہدری خدا بخش صاحب سیالکوٹی
چوہدری پیر بخش صاحب
صدر بازار سیالکوٹ " "
۱۸۹۸ء
۱۹۰۳ء
۴۶
ملک حسن محمد صاحب
ملک امیر بخش صاحب
سمبڑیال ضلع سیالکوٹ حال حلقہ مسجد مبارک "
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۴۷
میاں عبدالعزیز صاحب
میاں امام الدین صاحب
اوجلہ متصل گورداسپور حال " "
‏]5daq [tag ۱۸۹۲ء
۱۸۹۲ء
۴۸
میر مہدی حسین صاحب
میر فرزند علی صاحب
سید کھیڑی علاقہ راجپورہ ریاست پٹیالہ حال "
۱۸۹۳ء
۱۹۰۰ء
۴۹
مولوی قطب الدین صاحب
مولوی غلام حسن صاحب
چندھڑ تحصیل و ضلع گوجرانوالہ مہاجر قادیان دارالامان بیعت بدوملہی سیالکوٹ سے
۱۸۹۲ء
۱۸۹۲ء
۵۰
شیخ احمد دین صاحب
شیخ علی محمد صاحب مرحوم
ڈنگہ ضلع گجرات حال مہاجر قادیان دارالامان
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۵۱
مفتی فضل الرحمن صاحب
مفتی شیخ عبداللہ صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور حال " "
۱۸۹۱ء
۱۸۹۱ء
۵۲
مولوی محمد جی صاحب فاضل
میر محمد زمان خان صاحب
داتہ ضلع ہزارہ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۰ء
۱۹۰۳ء
۵۳
مرزا مہتاب بیگ صاحب
‏qad3] ga[t مرزا محمد علی صاحب
شہر سیالکوٹ محلہ کشمیری حال قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۵۴
سید محمد علی شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال
سید امیر علی شاہ صاحب
کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیارپور حال قادیان محلہ دارالبرکات
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۵۵
قریشی امیر احمد صاحب
قریشی حکیم سردار محمد صاحب
بھیرہ میانی ضلع شاہ پور حال محلہ دارالبرکات قادیان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۵۶
نور محمد صاحب
منشی فتح محمد صاحب پنشنر تحصیلدار موچی پورہ ڈاکخانہ کہروڑ پکا ضلع ملتان
موضع جہلن ضلع گوجرانوالہ
۶۔ جنوری ۱۹۰۶ء
۲۲۔ دسمبر ۱۹۰۱ء
۵۷
حکیم محمد فیروز الدین صاحب قریشی کارکن انسپکٹر بیت المال
حکیم چراغ علی قریشی
موضع علی پور تحصیل کبیروالا ضلع ملتان حال قادیان کارکن انسپکٹر بیت المال
۱۹۰۵ء
۱۹۰۸ء
۵۸
خان صاحب منشی برکت علی صاحب
محمد فاضل صاحب
پتہ سابق۔ ملازم دفتر ڈائریکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس شملہ حال قائم مقام ناظر بیت المال سلسلہ عالیہ احمدیہ قادیان دارالامان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۵۹
قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب
مولانا امام الدین صاحب فیض
پتہ سابق گولیکی ضلع گجرات حال " "
۱۸۹۷ء
۱۹۰۴ء
۶۰
مولانا امام الدین صاحب فیض
مولانا بدر الدین صاحب
" " " "
۱۸۹۷ء۔ ۱۸۹۶ء
۱۸۹۷ء
۶۱
افتخار احمد صاحب
احمد جان صاحب
سابق لدھیانہ حال " "
۱۸۸۹ء
۱۸۸۹ء
۶۲
قاضی نور محمد صاحب
قاضی علی محمد صاحب
قادیان دارالامان
فروری ۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۶۳
نظام الدین صاحب ٹیلر
میاں محمد ولی صاحب
پتہ سابق جہلم محلہ ملاحاں حال قادیان محلہ دارالرحمت
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۶۴
عبدالرحمن نو مسلم ڈاکٹر دکاندار
انگد صاحب
ٹونک ریاست راجپوتانہ حال قادیان حلقہ مسجد فضل
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۶۵
محمد عبداللہ جلد ساز
محمد اسٰمعیل صاحب جلد ساز
ریاست مالیر کوٹلہ " " "
۱۵۔ مئی ۱۹۰۲ء
اپریل ۱۹۰۳ء
۶۶
خان بہادر مولوی غلام محمد صاحب
میاں خدا بخش صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور " " "
دسمبر ۱۸۹۱ء
دسمبر ۱۸۹۱ء
۶۷
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے
ملک نورالدین صاحب
کنجاہ ضلع گجرات حال ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز انگریزی قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۸ء
۶۸
بابا محمد حسن صاحب
چوہدری کرم دین صاحب
اوجلہ متصل گورداسپور حال قادیان دارالامان
۱۸۹۵ء
‏]6daq [tag ۱۸۹۵ء
۶۹
ماسٹر عبدالرئوف صاحب
غلام محمد صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور " "
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۷۰
ملک غلام حسین صاحب رہتاسی
ملک کرم بخش صاحب
رہتاس ضلع جہلم حال قادیان محلہ دارالرحمت
۱۸۹۰ء۔ ۱۸۹۱ء تحریری
دسمبر ۱۸۹۲ء
۷۱
مولوی کرم الٰہی صاحب
امیر صاحب
کھارہ متصل قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۷۲
شیخ غلام مرتضیٰ صاحب
شیخ عمر بخش صاحب
سابق سکنہ وڈالہ بانگر تحصیل و ضلع گورداسپور حال معرفت یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح الثانی قادیان
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۷۳
غلام محمد صاحب بی ایس سی بی ٹی ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ تحریک جدید
میاں محمد الدین صاحب
موضع حقیقہ کھاریاں ضلع گجرات حال قادیان
پیدائشی۔ پیدائش ۱۹۔ اکتوبر ۱۸۹۸ء
۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک قادیان میں تعلیم پاتا رہا۔
۷۴
محمد یحییٰ خاں صاحب
مولوی انوار حسین خاں صاحب
شاہ آباد ضلع ہردوئی حال کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری۔ قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۴ء
۱۹۰۴ء
۷۵
نور احمد خاں صاحب
چوہدری بدر بخش صاحب
موضع سڑوعہ ضلع ہوشیارپور حال محلہ دارالفضل قادیان و کارکن دفتر بہشتی مقبرہ قادیان
۱۹۰۲۔ ۱۹۰۳
۱۹۰۵
۷۶
عطاء محمد صاحب کارکن دفتر بہشتی مقبرہ
چوہدری نتھے خاں
ساکن پٹھور ڈاکخانہ خاص ضلع لدھیانہ حال کارکن دفتر بہشتی مقبرہ قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۷ء
۷۷
مولوی غلام نبی صاحب
محکم دین صاحب
ریاست پٹیالہ تحصیل سرہند تھانہ کھحانوں موضع چھائوڑیاں حال محلہ دارالفضل قادیان
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۷۸
مرزا عمر بیگ صاحب پریذیڈنٹ حلقہ مسجد اقصیٰ
مرزا امیر بیگ صاحب مرحوم
قادیان۔ حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۷۹
چوہدری فتح محمد خان صاحب سیال ایم۔ اے
چوہدری نظام الدین صاحب
جوڑہ۔ قصور۔ لاہور حال قادیان محلہ دارلانوار بیجہ ڈاکخانہ کھنہ تحصیل سمرالہ۔ لودھیانہ حال شہر قادیان دارالامان
۱۸۹۹ء
۱۸۹۹ء
۸۰
سید محمد اسٰمعیل صاحب سپرنٹنڈنٹ دفاتر صدر انجمن احمدیہ
سید نبی بخش صاحب
بیجہ ڈاکخانہ کھنہ تحصیل سمرالہ۔ لودھیانہ حال شہر قادیان دارالامان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۸۱
قادری غلام یٰسین صاحب
محمد بخش صاحب
رسولپور تحصیل کھاریاں۔ گجرات حال دارالسعتہ قادیان
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۸۲
حکیم عطاء محمد صاحب
حافظ غلام محمد صاحب
موتی بازار لاہور حال قادیان حلقہ مسجد فضل
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۸۳
مولوی نطام الدین صاحب
‏]3dqa [tag عبدالکریم صاحب
کپورتھلہ ریاست۔ کھیرانوالی موضع حال قادیان حلقہ مسجد مبارک
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۸۴
محمد حسین خان صاحب ٹیلر المعروف مرزا محمد حسین
خدا بخش صاحب
گوجرانوالہ۔ حال قادیان محلہ دارالرحمت
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۸۵
چوہدری کریم الدین صاحب
چوہدری امیر بخش صاحب مرحوم
ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ اسلام پور محلہ گورنمنٹ پنشنر حال قادیان دارالرحمت
۱۸۹۶ء
۱۸۹۶ء
۸۶
منشی کرم علی صاحب کاتب
حکیم حاجی کرم الٰہی صاحب
لمبانوالی ضلع و تحصیل گوجرانوالہ حال قادیان محلہ دارالبرکات شرقی
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۸۷
حکیم رحمت اللہ صاحب
حکیم محمد بخش صاحب
جوگودال جٹاں ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
دسمبر ۱۹۰۷ء
دسمبر ۱۹۰۷ء
۸۸
حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی
میاں کرم الدین صاحب
راجیکی ضلع گجرات حال مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ " "
۱۳۱۴ھ۔ ۱۸۹۷ء
۱۳۱۶ھ۔ ۱۸۹۹ء
۸۹
بھائی محمود احمد صاحب
حکیم پیر بخش صاحب
ڈنگہ ضلع گجرات حال دارالرحمت "
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۹۰
حاجی مفتی گلزار محمد صاحب
مفتی محمد بخش صاحب
بٹالہ محلہ مفتیاں حال " "
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۹۱
چوہدری حکم الدین صاحب
چوہدری نبی بخش صاحب
دیالگڑھ۔ بٹالہ۔ گورداسپور " "
۱۹۰۲ء
۱۹۰۳ء
۹۲
میاں امام الدین صاحب سیکھوانی
میاں محمد صدیق صاحب
سیکھواں ضلع " " "
۱۸۹۰ء۔ ۱۸۹۱ء
۱۸۹۰ء۔ ۱۸۹۱ء
۹۳
ملک نادر خان صاحب دوکاندار
ملک جہان خان صاحب
سرکال کسر ضلع جہلم حال " "
۱۸۹۷ء][ ۱۹۰۱ء
۹۴
خدا بخش صاحب مستری )مومن جی(
مستری کریم بخش صاحب
پٹیالہ ریاست " " "
۱۹۰۳ء
۱۹۰۴ء
۹۵
بابو غلام حیدر صاحب پنشنر
میاں خدا بخش صاحب
احمد انگر ضلع گوجرانوالہ " "
۱۹۰۳ء
۱۹۰۴ء
۹۶
مرزا مبارک بیگ صاحب
مرزا اکبر بیگ صاحب مرحوم
کلانور ضلع گورداسپور " "
فروری ۱۹۰۶ء
فروری ۱۹۰۶ء
۹۷
ماسٹر محمد حسن صاحب تاج
مولوی تاج محمد صاحب
لدھیانہ حال دارالرحمت "
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۹ء
۱۹۰۴ء
۹۸
ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب
نظام الدین صاحب
سڑوعہ ضلع ہوشیارپور " "
۱۹۰۳ء
۱۹۰۴ء
۹۹
ماسٹر اللہ دتہ صاحب
میاں عبدالستار صاحب
قلعہ دیدار سنگھ ضلع گوجرانوالہ " "
۱۸۹۸ء
۱۹۰۰ء
۱۰۰
ڈاکٹر محمد بخش صاحب
میاں کالیخاں صاحب
کھیرانوالی ریاست کپورتھلہ " "
۱۹۰۳ء
۱۹۰۴ء
۱۰۱
منشی محمد اسٰمعیل صاحب )محکمہ نہر(
میاں محمد بخش صاحب
ملہیاں ڈاکخانہ جنڈیالہ گرو ضلع امرتسر " "
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۰۲
میاں خیرالدین صاحب لدھیانوی
غلام قادر صاحب
لدھیانہ محلہ ڈھولیوال حال دارالرحمت "
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۰۳
بابو محمد ایوب احمد صاحب
مولوی محمد علی صاحب مرحوم
بدوملہی ضلع سیالکوٹ " "
۱۹۰۲ء
۱۸۹۸ء
۱۰۴
سید ولایت شاہ صاحب
سید حسین علی شاہ صاحب
کوٹلی ننگل متصل و ضلع گورداسپور " "
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۱۰۵
میاں محمد یعقوب صاحب )میاں فیملی( لاہور
میاں سراجد الدین صاحب مرحوم
لاہور۔ حال دارالرحمت "
پیدائشی احمدی ۱۹۰۰ء
۱۹۰۴ء
۱۰۶
میاں تاج الدین صاحب " "
میاں عمرالدین صاحب
لاہور حال دارالعلوم "
۱۸۹۱ء
۱۸۹۱ء
۱۰۷
حکیم مشتاق احمد صاحب
علی محمد صاحب
توت نکا ضلع کیمل پور حال دارالرحمت "
۱۸۹۳ء
۱۸۹۳ء
۱۰۸
ماسٹر عبدالعزیز خاں صاحب مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان
نبی بخش صاحب
ایمن آباد محلہ ککے زئیاں ضلع گوجرانوالہ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۴ء
۱۰۹
حافظ صوفی غلام محمد صاحب
ولی محمد صاحب
مچھرالہ تحصیل ننکانہ ضلع شیخوپورہ حال دارالرحمت قادیان
۱۸۹۵ء
۱۸۹۳ء
۱۱۰
ماسٹر محمد الدین صاحب ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول
‏]qad3 [tag گھسیٹا صاحب
لاہور۔ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۱۱۱
سید منظور علی شاہ صاحب
سید محمد علی شاہ صاحب
قادیان۔ حلقہ مسجد فضل
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۷ء
۱۹۰۳ء۔ ۱۹۰۴ء
۱۱۲
ماسٹر محمد اللہ داد صاحب
چوہدری محمد بخش صاحب
ممکا گجراں تحصیل شکرگڑھ ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۷ء
۱۱۳
ماسٹر محمد علی صاحب۔ اظہر مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان
مولوی غلام قادر صاحب
ملسیاں ضلع جالندھر۔ حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۱۱۴
میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں
سندہی خان صاحب
ہرسیاں ضلع گورداسپور حال دارالفضل قادیان
دسمبر ۱۸۹۶ء
۱۸۹۷ء
۱۱۵۔۲۸۹
محمد فضل خاں صاحب
قائم دین صاحب
چنگا بنگیال تحصیل گوجر خاں ضلع راولپنڈی حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۱ء یا تحریری ۱۹۰۲ء
۱۹۰۷ء۔ دستی
۱۱۶
میر قاسم علی صاحب
میر عصمت اللہ صاحب
دہلی حال دارالفضل قادیان
۷۔ مارچ ۱۹۰۲ء
جولائی ۱۹۰۲ء
۱۱۷
حکیم عبدالصمد صاحب
حکیم عبدالغنی صاحب
" " " "
۱۹۰۵ء تحریری
۱۹۰۷ء دستی و زیارت
۱۱۸
مولوی ابو البشارت عبدالغفور صاحب فاضل
میاں فضل محمد صاحب
ہرسیاں ضلع گورداسپور حال دارالفضل قادیان
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۸ء
۱۹۰۷ء یا ۱۹۰۸ء
۱۱۹
چوہدری غلام محمد صاحب بی۔ اے ہیڈ ماسٹر نصرت گرلز ہائی سکول
چوہدری محمد دیوان صاحب
ڈھپئی ڈاکخانہ کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۱۲۰
میاں عبدالرزاق صاحب سیالکوٹی
میاں رحیم بخش صاحب
شہر سیالکوٹ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۲۱
چوہدری غلام حسین صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز
میاں گل محمد صاحب
جھنگ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۱ء میں ایمان بالغیب لاکر احمدی ہوا۔ تحریری بیعت ۱۹۰۸ء میں کی۔ دستی بیعت ۱۹۱۲ء میں ۱۹۰۰ء اندازاً صحیح نہیں بتاسکے۔
۱۹۰۸ء میں بمقام لاہور اس سے پہلے کی تفصیل علیحدہ درج ہے۔
۱۲۲
مستری عبدالحکیم صاحب سیالکوٹی
مستری عمر بخش صاحب
سیالکوٹ شہر حال " "
۱۹۰۰ء اندازاً صحیح نہیں بتاسکے۔
۱۹۰۲ء اندازاً
۱۲۳
مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی
مولوی محمد الدین صاحب
بوتالہ سردار جھنڈا سنگھ تحصیل و ضلع گوجرانوالہ حال سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ دارالصناعت
۱۹۰۰ء
۱۹۰۵ء
۱۲۴
صوفی نبی بخش صاحب
میاں عبدالصمد صاحب
شہر راولپنڈی محلہ میاں قطب الدین حال دارالبرکات قادیان
‏qad5] [tag ۱۸۹۳ء
۱۸۸۶ء
۱۲۵
چوہدری عبدالحکیم صاحب ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر
چوہدری شرف الدین صاحب
گکھڑ چیماں تحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ حال دارالبرکات متصل سٹیشن قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۲۶
محمد ابراہیم صاحب بقاپوری
صدرالدین صاحب مرحوم
بقاپور ضلع گجرانوالہ حال دارالفضل "
فروری ۱۹۰۵ء۔ دستی بیعت
۱۸۹۱ء
۱۲۷
رحمت اللہ صاحب شاکر
حافظ نورمحمد صاحب
فیض اللہ چک ضلع گورداسپور حال دارالعلوم "
پیدائشی احمدی پیدائش ۱۹۰۱ء
۱۹۰۶ء زیارت۔
۱۲۸
)بھائی( مرزا برکت علی صاحب
مرزا ناصر علی صاحب
سید میٹھا لاہور و پٹی ضلع لاہور حال دارالعلوم قادیان
۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء دستی
۱۹۰۱ء ۔ ۱۹۰۲ء
۱۲۹
قاضی رشید احمد ارشد
پیر محمد رمضان صاحب
گولیکی ضلع گجرات حال دارالرحمت "
۲۵۔ مئی ۱۹۰۸ء
۲۵۔ مئی ۱۹۰۸ء
۱۳۰
بابو محمد ابراہیم صاحب ریٹائرڈ کلرک سپلائی ٹرانسپورٹ
محمد بخش صاحب
گوہدپور ضلع سیالکوٹ حال دارالعلوم قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۱۳۱
ڈاکٹر محمد طفیل خاں
منشی محمد علی خان صاحب
بٹالہ نور منزل دارالفضل قادیان
۱۹۰۰ء۔ ۱۹۰۱ء
۱۸۹۹ء
۱۳۲
چراغ دن صاحب چپڑاسی مدرسہ احمدیہ
صدرالدین صاحب
قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۳۳
غلام رسول صاحب افغان
حاجی محمد صاحب
درگئی۔ خوست حال قادیان دارالامان
۱۹۰۲ء تحریری
۱۹۰۴ء
۱۳۴
میاں محمد عبدالرحمن صاحب ٹھیکیدار
میاں محمد بخش صاحب
سیالکوٹ شہر۔ دارالبرکات قادیان
۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء
۱۸۸۴ء۔ ۱۸۸۵ء
۱۳۵
حاجی عبداللہہ صاحب نو مسلم
بیلاسنگھ
ڈومیلی ریاست کپورتھلہ حال دارالرحمت "
۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء
۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء
۱۳۶
ڈاکٹر احسان علی صاحب
ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر
قادیان محلہ دارالعلوم
پیدائشی احمدی ۴۔ مئی ۱۹۰۵ء قادیان میں
۱۹۰۸ء۔ زیارت
۱۳۷
نبی بخش صاحب
جیوا
قادرآباد متصل قادیان )نواں پنڈ(
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
‏]1daq [tag۱۳۸
عبداللہ خان صاحب افغان
عبدالغفار خان صاحب افغان
سید گاہ۔ علاقہ کوست )یہ گائوں حضرت شہید مرحوم کا گائوں ہے صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ( حال قادیان دارالامان
۱۹۰۲ء تحریری
۱۹۰۵ء
۱۳۹
مولوی عبدالعزیز صاحب
حکیم شہاب الدین صاحب
لدھیکے تحصیل و ضلع لاہور حال محلہ دارالانوار
۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء۔ دستی
۱۹۰۱ء
۱۴۰
پیر جی منظور محمد صاحب
حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم
لدھیانہ۔ پیدائش حال قادیان دارالعلوم
۲۔ فروری ۱۸۹۲ء
۔
۱۴۱
مولوی اللہ بخش صاحب دربان
میاں شاہدین صاحب
ببے ہالی ضلع گورداسپور متصل گورداسپور حال قادیان۔ دربان ڈیوڑھی حضرت ام المومنینؓ
۱۹۰۵ء
۱۸۸۰ء زمانہ تصنیف براہین احمدیہ
۱۴۲
شیخ فقیر علی صاحب دربان
شیخ سلطان علی صاحب
قادیان۔ دربان ڈیوڑھی حضرت امی جان سیدہ ام مرزا ناصر احمد صاحب
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۱۴۳
مولوی قمر الدین صاحب فاضل
مولوی خیرالدین صاحب
سیکھواں ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
مئی ۱۹۰۰ء۔ پیدائشی احمدی
۱۹۰۷ء۔ ۱۹۰۸ء
۱۴۴
سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ و خارجہ
حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب
رعیہ ضلع سیالکوٹ سہالہ ضلع راولپنڈی حال دارالانوار قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۱۴۵
حکیم شیخ عبدالرحمن صاحب زرگر لدھیانوی
لالہ نرائن داس صاحب
شیرپور تحصیل سمرالہ ضلع لدھیانہ حال قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۸۹۹ء
۱۸۹۹ء
۱۴۶
ملک مولا بخش صاحب ریٹائرڈ کلرک آف کورٹ
ملک سلطان بخش صاحب
امرتسر۔ کوچہ وکیلاں کٹڑہ جمیل سنگھ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۱۴۷
میاں رحیم بخش صاحب )مولا بخش(
محمد ولائت صاحب
پھنانوالہ ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۸۹۵ء تخمیناً پیدائشی احمدی
۱۸۹۵ء تخمیناً
۱۴۸
میاں نذیر محمد صاحب )میاں فیملی(
میاں غلام محمد صاحب
لاہور حال دارالفضل قادیان
پیدائش ۱۸۸۷ء
۱۹۰۴ء
۱۴۹
حافظ محمد امین صاحب
میاں علم دین صاحب
نکودر ڈاک خانہ فتح جنگ ضلع کمیلپور حال ناصرآباد قادیان
۱۸۹۷ء
۱۸۹۵ء
۱۵۰
میاں خیردین صاحب کشمیری
میاں نظام دین علی کشمیری
تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۴ء تخمیناً ۱۹۰۵ء
۱۹۰۴ء۔ ۱۹۰۵ء
۱۵۱
میاں نبی بخش صاحب کمہار
میاں جھنڈا صاحب
بلہڑوال ضلع امرتسر حال حلقہ مسجد اقصیٰ "
۱۸۹۷ء تخمیناً
۱۸۹۷ء
۱۵۲
میاں دین محمد صاحب مکہار دوکاندار
میان عمر دین صاحب
" " حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۱۵۳
بابو عبدالواحد خان صاحب ٹھیکیدار بھٹہ
حاجی غلام محمد صاحب
بٹالہ حال دارالفضل "
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۵۴
میاں اللہ یار صاحب ٹھیکیدار
گلاب دین صاحب
بلہووال متصل علیوال ضلع گورداسپور حال حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۸۸۹ء
۱۸۸۹ء
۱۵۵
میاں صدرالدین صاحب کمہار
میاں رحیم بخش صاحب
قادیان " "
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۱۵۶
میاں چوہدری نظام الدین صاحب ٹیلر
" نبی بخش صاحب
ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۶ء
۱۸۹۵ء
۱۵۷
چوہدری حاکم دین صاحب دوکاندار
چوہدری احمد دین صاحب
شادیوال ضلع گجرات حال دارالفضل "
۱۹۰۴ تحریری
۱۹۰۸ء دستی بمقام لاہور
۱۵۸
مستری اللہ رکھا صاحب بیکر
میاں امیر بخش صاحب
نارووال ضلع سیالکوٹ حال دارالرحمت "
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۱۵۹
چوہدری علی محمد صاحب امیر حلقہ ریتی|چھلہ
چوہدری غلام دین صاحب مرحوم
گوکھووال ضلع گورداسپور و لائل پور حال حلقہ مسجد ریتی چھلہ قادیان
پیدائشی احمدی۔ ۱۸۹۵ء تخمیناً
‏qad6] g[ta ۱۹۰۵ء
۱۶۰
بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب
سردار چندا سنگھ صاحب
سرسنگھ ضلع لاہور حال دارالرحمت قادیان
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۱۶۱
شیخ فرمان علی صاحب
شیخ پیر بخش صاحب
رہتاس ضلع جہلم " "
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۶۲
مولوی محمد اسٰمعیل صاحب سیالکوٹی
چوہدری فخرالدین صاحب
سیالکوٹ شہر حال دارالفضل "
۱۹۰۰ء
۱۸۹۳ء
۱۶۳
مرزا محمد حسین صاحب چٹھی مسیح
مولوی محمد اسٰمعیل صاحب مرحوم چٹھی مسیح
سکنہ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء دستی بیعت
۱۶۴
چوہدری نبی بخش صاحب چپڑاسی
چوہدری دولو صاحب
بھینی بانگر متصل قادیان
پیدائشی احمدی۔ ۱۸۹۹ء
۱۹۰۷ء
۱۶۵
مرزا عبدالکریم صاحب دوا ساز
مولوی محمد اسٰمعیل صاحب مرحوم چٹھی مسیح
سکنہ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ حال محلہ دارالعلوم قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۱۶۶
بھائی غلام قادر صاحب
فخرالدین صاحب
سیالکوٹ حال قادیان دارالفضل
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۶۷
میاں مہردین صاحب کمہار
میاں رحیم بخش صاحب
قادیان۔ حلقہ مسجد فضل
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۶۸
میاں عبداللہ بوڑی صاحب
جھنڈو
" "
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۱۶۹
بابو محمد جمیل صاحب
میاں میراں بخش صاحب مرحوم
ننگل باغباناں متصل قادیان
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۱۷۰
بابو فتح محمد صاحب شرما
مولوی کرم الٰہی صاحب
چوک تھانہ گوجرانوالہ حال کلرک جنرل پوسٹ آفس کراچی شہر
پیدائشی احمدی۔ ۱۹۰۴ء پیدائش
۱۹۰۸ء
۱۷۱
سردار کرم داد خان صاحب
ولیداد خان صاحب
جمالی بلوچاں ضلع شاہ پور حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۷۲
رحمت علی شاہ صاحب
فتح علی شاہ صاحب
سڑوعہ ضلع ہوشیارپور حال بھینی بانگر متصل قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۷۳
سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور
سردار بسنت سنگھ صاحب
ضلع امرتسر حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
‏qad1] g[ta۱۷۴
میاں خیرالدین صاحب
میاں محمد بخش صاحب
قادر آباد متصل قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۱۷۵
چوہدری سلطان احمد صاحب
چوہدری محمد علی صاحب
بہادر ضلع گورداسپور حال دارالبرکات قادیان
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۱۷۶
مستری اللہ دتہ صاحب
میاں صدر دین صاحب
بھانبڑی ضلع " حال دارالفضل "
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۱۷۷
مولوی عبیداللہ صاحب بسمل مرحومؓ
میاں مظہر جمال نقشبندی مجددی خلیفہ میاں امام علی شاہ صاحب رتڑ چھتڑ
امرتسر " "
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۷۸
مرزا قدرت اللہ صاحب
مرزا ہدایت اللہ صاحب
محلہ چابک سواراں لاہور حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۱۷۹
محمد رمضان صاحب
عیدے خان صاحب
چانگریاں ضلع سیال کوٹ " " "
۱۹۰۳ء تحریری
۱۹۰۴ء زیارت۔ دستی بیعت
۱۸۰
حافظ محمد ابراہیم صاحب
میاں نادر علی صاحب
مکووال ضلع انبالہ " " "
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۸۱
منشی غلام محمد صاحب مدرس
محمد نامدار صاحب
مکھن کلاں کلانور گورداسپور " " "
۲۹۔ مارچ ۱۹۰۲ء
۱۸۹۷ء
۱۸۲
سید محمد شاہ صاحب
عبداللہ شاہ ¶صاحب
للوری کلاں ضلع لدھیانہ
۱۹۰۵ء
۱۹۰۲ء
۱۸۳
محمد حسن صاحب رہتاسی
منشی گلاب خان صاحب
رہتاس ضلع جہلم " " "
۱۸۹۵ء
۱۸۹۵ء
۱۸۴
شیخ اصغر علی صاحب پنشنر
شیخ بدر الدین صاحب
ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ " " "
۱۸۹۶ء
۱۸۹۶ء
۱۸۵
میاں جان محمد صاحب
میاں عبدالعزیز صاحب
‏]qad4 [tag ہیلان ضلع گجرات " " "
۱۸۹۹ء تحریری
۱۹۰۴ء۔ دستی زیارت
۱۸۶
سردار محمد خاں صاحب
ولیداد خاں صاحب
جمالی بلوچاں ضلع شاہ پور " " "
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۱۸۷
چوہدری غلام حسن صاحب
چوہدری صوبے خان صاحب
چک نمبر ۱۰۵ علیا آباد جھنگ برانچ ضلع لائل پور حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۸۸
چوہدری محمد لطیف صاحب ریٹائرڈ سب جج
چوہدری محمد حسین
تلونڈی عنایت خاں ڈاکخانہ پسرور ضلع سیالکوٹ
پیدائشی ۱۸۹۶ء
۱۹۰۵ء
۱۸۹
مرزا منظور احمد صاحب
مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم
قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۹۰۱ء
۱۹۰۷ء
۱۹۰
شیخ محمود احمد صاحب عرفانی
شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی
قادیان دارالامان
پیدائشی احمدی ۲۸۔ اکتوبر ۱۸۹۷ء
‏qad6] g[ta ۱۹۰۳ء
۱۹۱
شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی
شیخ محمد علی صاحب
"
۱۸۹۳ء دستی بیعت
۱۸۹۲ء
۱۹۲
مستری دین محمد صاحب
امام الدین صاحب
کھٹانے تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیارپور حال محلہ ریتی چھلہ قادیان
۱۸۹۹ء
۱۸۹۹ء
۱۹۳
میاں بدرالدین صاحب مالیرکوٹلی
گل محمد صاحب
مالیر کوٹلہ ریاست حال دارالرحمت قادیان
‏qad5] ga[t ۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۱۹۴
میاں محمد یوسف صاحب "
احمد دین صاحب
مالیر کوٹلہ حال قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۱۹۵
مستری عبدالسجان صاحب
رحمان میر صاحب
محلہ سمیاں لاہور حال قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۱۹۶
مولوی عبدالستار صاحب
عبداللہ صاحب
سوہل ضلع گورداسپور حال مسجد اقصیٰ "
۱۸۹۲ء
‏]6qad [tag ۱۸۹۲ء
۱۹۷
چوہدری محمد اسٰمعیل صاحب
چوہدری جمال الدین صاحب
کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور حال دارالفضل "
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۱۹۸
سید بہاول شاہ صاحب
سید شیر محمد صاحب
مکووال تحصیل روپڑ ضلع انبالہ "
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
‏tav.8.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
۱۹۹
میاں دین محمد صاحب دھوبی
میراں بخش صاحب
" " " حال دارالبرکات "
۱۹۰۲ء
۱۹۰۴ء
۲۰۰
منشی دیانت خان صاحب
مان خان صاحب
نادون ضلع کانگڑہ "]qad4 [tag دارالفضل "
۱۸۹۶ء
۱۸۹۶ء
۲۰۱
چوہدری اللہ بخش صاحب
چوہدری فضل دین صاحب
سین وال اتلے نارووال ضلع سیالکوٹ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۲۰۲
بھاگ شاہ صاحب
میاں جیوا صاحب
امرتسر " " "
۱۹۰۳ء تحریری
۱۹۰۴ء
۲۰۳
احمد دین صاحب
مانا صاحب
قادر آباد )نواں پنڈ( متصل قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۰۴
فضل دین صاحب
ہیرا صاحب
" " " "
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۲۰۵
فضل الٰہی صاحب
محمد بخش صاحب
" " " "
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۸ء
۱۹۰۸ء
۲۰۶
برکت علی صاحب
مانا صاحب
" " " "
" " ۱۹۰۰ء
۱۹۰۸ء
۲۰۷
چراغ دین صاحب
فضل دین صاحب
" " " "
" " ۱۹۰۰ء
۱۹۰۸ء
۲۰۸
جلال الدین صاحب
کالو مرحوم صاحب
" " " "
" " ۱۹۰۰ء
۱۹۰۸ء
۲۰۹
محمد دین صاحب )مہندی( سقہ
عیداسقہ صاحب
قادیان دارالامان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۱۰
فضل دین صاحب )پھجا(
‏qad3] g[ta جیوا صاحب
ڈھپئی ضلع گورداسپور حال قادیان دارالامان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۲۱۱
سیٹھی خلیل الرحمن صاحب
میاں ابراہیم صاحب مرحوم
جہلم پنڈوری حال دارالرحمت قادیان
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۸ء
۱۹۰۳ء بمقام جہلم
۲۱۲
جان محمد )چٹھی رساں(
میاں نبی بخش صاحب
قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۲۱۳
پیر عبدالمجید صاحب
پیر اکبر علی شاہ صاحب
کوٹلی پیراں تحصیل شاہدرہ ضلع شیخوپورہ حال قادیان محلہ دارالانوار
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۲۱۴
میاں اللہ دتہ )گھسیٹا( صاحب
میراں بخش
ننگل باغباناں متصل قادیان حال قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۱۵
منشی امام الدین صاحب
حکم الدین صاحب
قلعہ درشن سنگھ ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۸۹۴ء۔ ۱۸۹۵ء
۱۸۸۸ء
۲۱۶
محمد الدین گھڑی ساز
مستری چراغ الدین
چھری کھٹانے ضلع ہوشیارپور حال حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۲۱۷
مرزا نذیر علی صاحب
مرزا محمد علی صاحب مرحوم
قادیان۔ حال حلقہ مسجد " "
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۹ء
۱۹۰۷ء
۲۱۸
مرزا اسلام اللہ صاحب
مرزا غلام اللہ صاحب
‏18] [p " " " "
۱۸۹۹ء
۱۸۹۹ء
۲۱۹
قریشی شاہ محمد صاحب
قریشی غلام قادر صاحب
" " " فضل "
۱۸۹۰ء
۱۸۹۰ء
۲۲۰
منشی امیر محمد صاحب
لٹھے خان صاحب
کھارہ متصل قادیان حال کلرک اخبار الفضل "
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۲۲۱
مولوی محمد حسین صاحب احمدی مبلغ
میاں محمد بخش صاحب مرحوم
‏qad4] g[ta بٹالہ حال دارالرحمت قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۳ء
۱۹۰۱ء
۲۲۲
منشی محمد حسین صاحب کاتب
میاں نبی بخش صاحب مرحوم
قادیان دارالامان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۲۲۳
ڈاکٹر منظور احمد صاحب
مولوی محمد دلپذیر صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور حال دارالعلوم قادیان
۱۹۰۸
۱۹۰۸ء
۲۲۴
مرزا محمد شریف صاحب
مرزا دین محمد صاحب
لنگروال ضلع گورداسپور
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۲۵
چوہدری عبدالرحیم صاحب
قاضی ضیاء الدین قاضی کوٹی
قاضی کوٹ ضلع گجرانوالہ حال حلقہ ریتی چھلہ قادیان
پیدائشی احمدی ۱۳۰۰ ہجری
۱۹۰۰ء
۲۲۶
سید محمد عبداللہ صاحب
سید عزیز الرحمن صاحب
بریلی۔ حال دارالفضل قادیان
پیدائشی احمدی ۱۹۰۱ء
۱۹۰۷ء
۲۲۷
ماسٹر نور الٰہی صاحب ڈرائننگ ماسٹر
میاں احمد دین صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۲۴۳
ممتاز علی صاحب صدیقی
ذوالفقار علی خان صاحب
رامپور ریاست مراد آباد حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۴ء
۲۴۴
میاں خیر دین صاحب
میاں سراج الدین صاحب
ڈسکہ ضلع سیالکوٹ حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۲۴۵
حشمت اللہ خان صاحب
نعمت اللہ خان صاحب
بدایوان۔ حال دارالعلوم قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۴۶
ماسٹر نعمت اللہ خان صاحب گوہر
نتھے خان صاحب
پٹھور۔ تحصیل جگرائوں ضلع لدھیانہ حال دارالبرکات۔ قادیان

۲۴۷
بابا رحیم بخش صاحب سنوری )عرف کریم بخش(
اسلام خان صاحب
سنور۔ ریاست پٹیالہ حال قادیان دارالامان )نور ہسپتال(
۱۸۸۹ء
۱۸۸۶ء۔ ۱۸۸۷ء
۲۴۸
گوہر دین صاحب مستری
بھاگو
قادرآباد )نواں پنڈ( متصل قادیان حال دارالامان قادیان
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۲۴۹
عبداللہ صاحب
میاں خدا بخش
گلان والی۔ ضلع گورداسپور
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۲۵۰
میاں احمد دین صاحب نیازی
غلام مصطفیٰ
شاہدرہ ضلع شیخوپورہ حال حلقہ ریتی چھلہ قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۵۱
میاں محمد حیات صاحب پنشنر جمعدار
میاں نظام الدین صاحب
چک جانی تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم
۱۸۹۳ء۔ تحریری
۱۹۰۳ء دستی
۲۵۲
محمد دین صاحب
جمال دین صاحب
قلعہ صوبہ سنگھ تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ حال بدوملہی ضلع سیالکوٹ
۸۔ جون ۱۹۰۳ء
۸۔ جون ۱۹۰۳ء
۲۵۳
میاں روشن دین صاحب
میاں مطیع اللہ صاحب
چندرکے منگولے ضلع سیالکوٹ حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۲۵۴
ملک شادی خان صاحب
ملک امیر بخش صاحب
سیکھواں ضلع گورداسپور " "
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۵۵
ماسٹر محمد علی صاحب بی۔ اے بی ٹی کارکن نظارت تعلیم
چوہدری نتھے خان صاحب
ہٹھور ضلع لدھیانہ حال دارالفضل "
۱۹۰۵ء
۱۹۰۷ء
۲۵۶
میاں بھاگ صاحب کمہار
میاں محمد بخش کمہار
قادیان حال حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۲۵۷
بڈھا تیلی صاحب
فتا صاحب
" " " فضل "
۱۸۹۲ء
۱۸۹۲ء
۲۵۸
قطب الدین صاحب
حامد علی صاحب
" " " " "
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۲۵۹
منشی عبدالکریم صاحب
یوسف علی صاحب
سنگرور۔ عثمان پور " "
۱۸۹۷ء۔ تحریری
۱۹۰۲ء
۲۶۰
سید علی احمد صاحب
سید نیاز احمد صاحب
رجاولی۔ ضلع انبالہ حال دارالعلوم و دارالفضل۔ قادیان
ستمبر ۱۹۰۷ء
ستمبر ۱۹۰۷ء
۲۶۱
مولوی خیر دین صاحب
میاں مستقیم صاحب
دو رجووال ضع امرتسر حال ناصر آباد قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۲۶۲
محمد علی صاحب
نظام الدین صاحب
ننگل خورد متصل قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۲۶۳
عبداللہ صاحب دوکاندار
میاں محمد بخش صاحب
قادیان حال قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۲۶۴
منشی محمد اسمٰعیل صاحب
میاں محمد اکبر صاحب مرحوم
بٹالہ " " " "
پیدائشی احمدی۔ ۱۸۹۸ء
۱۸۹۸ء
۲۶۵
میاں محمد وارث صاحب
پیر بخش صاحب
بھڑی شاہ رحمن حال " " "
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۶۶
میاں غلام محمد صاحب زرگر
میاں محمد قاسم صاحب
بیگووالہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان
۱۸۹۵ء
۱۸۹۵ء
۲۶۷
ڈاکٹر فضل کریم صاحب
چوہدری بوٹے خان صاحب
بدھن تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۲۶۸
ماہی کمہار صاحب
عمرا کمہار صاحب
قادیان حلقہ مسجد فضل
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۶۹
میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی
میاں محمد صدیق صاحب
سیکھواں۔ گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۸۸۹ء
۱۸۸۹ء
۲۷۰
میاں بابو صاحب
پھمن صاحب
ماہل پور ضلع ہوشیارپور حال احمد آباد متصل "
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۷۱
میاں عبداللہ صاحب مالی
میاں حکم دین صاحب
قادیان حلقہ مسجد فضل
۱۸۹۲ء
۱۸۹۲ء
۲۷۲
مستری فضل دین صاحب
نہال چند صاحب
کالا افغاناں۔ ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۲۷۳
منشی سکندر علی صاحب پنشنر مدرس مدرسہ تعلیم الاسلام
چوہدری ولیداد صاحب
مکھن کلاں ضلع گورداسپور حال بھینی بانگر متصل قادیان
مارچ ۱۹۰۲ء
مارچ ۱۹۰۲ء
۲۷۴
ماسٹر ماموں خان صاحب
میاں کالو خان صاحب
ماچھیواڑہ ضلع لدھیانہ حال قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۹۰۴ء۔ تحریری
۱۹۰۶ء۔ دستی
۲۷۵
ملک عبدالحق صاحب
ملک غلام رسول صاحب
کنجاہ ضلع گجرات حال ناصرآباد قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۲۷۶
قاضی دین محمد صاحب
قاضی علی محمد صاحب
قادیان حال قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
‏]5daq [tag ۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۲۷۷
چراغ دین صاحب
محمد بخش صاحب
قادر آباد )نواں پنڈ( متصل قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۷۸
مرزا ضمیر علی صاحب
مرزا محمد علی صاحب
قادیان حال قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
احمدی پیدائشی۔ پیدائش ۱۹۰۱ء
۱۹۰۷ء
۲۷۹
مرزا عمر دین صاحب
مرزا بوٹا بیگ صاحب
" " " "
۱۸۹۷ء
‏]qad6 [tag ۱۸۹۷ء
۲۸۰
امام الدین صاحب )چنے فروش(
پیراندتہ صاحب
" " " "
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۲۸۱
خواجہ عبدالرحمن صاحب
خواجہ محمد شادی خان صاحب
لنگروال ضلع گورداسپور
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۲۸۱ )الف(
مرزا اکبر بیگ صاحب
مرزا دین محمد صاحب
لنگروال ضلع گورداسپور
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۲۸۲
عبدالحق صاحب دوکاندار
عبداللہ فضل دین صاحب
قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۸۳
محمد رمضان سابق دوکاندار حال ملازم حضرت میر محمد اسحٰق صاحب
بڈھا صاحب
ترگڑی ضلع گورداسپور حال قادیان
۱۹۰۷ء۔ تحریری
مئی ۱۹۰۸ء
۲۸۴
میاں عبداللہ صاحب ہندوستانی ٹوپی فروش
میاں اللہ بخش صاحب
بینی ضلع روہتک حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۸۵
قریشی دل محمد صاحب بیکر باقرخانی
قریشی شاہ محمد صاحب
قادیان حلقہ مسجد فضل
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۸ء
۱۹۰۶ء
۲۸۶
عبدالمجید خان صاحب
غلام حسین خان صاحب
قصبہ آنوالہ ضلع بانس بریلی حال حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۲۸۷
میاں پیراندتہ صاحب کمہار
میاں دین محمد صاحب
قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۲۸۸
بابو محمد عبداللہ صاحب اوورسیر
مولوی رحیم بخش صاحب
تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور حال دارالرحمت قادیان
پیدائشی احمدی۔ پیدائش فروری ۱۹۰۴ء
۱۹۰۷ء
۲۸۹
بابو محمد فضل خان صاحب
میاں قائم الدین خان صاحب
چنگا بنگیاں ضلع راولپنڈی حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۱ء/۱۹۰۲ء تحریری
۱۹۰۷ء دستی
‏]1daq [tag۲۸۹ )الف(
مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل بدوملہی
مولوی عبدالحق صاحب
بدوملہی ضلع سیالکوٹ حال دارالرحمت قادیان
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۹۰۰ء
۱۹۰۶ء
۲۹۰
مولوی عبدالحق صاحب
میاں امام الدین صاحب مرحوم
بدوملہی ضلع سیالکوٹ
۱۸۹۳ء
۱۸۹۳ء
۲۹۱
مولوی غلام رسول صاحب
" "
" "
"
"
۲۹۳
چوہدری رحت خاں صاحب بیکر
چوہدری سوہنے خان صاحب
سڑوعہ۔ ضلع ہوشیارپور حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۳ء۔ تحریری
۱۹۰۵ء۔ دستی
۲۹۴
قریشی عبدالحق صاحب
قریشی سردار علی صاحب
میانی بھیرہ ضلع شاہ پور حال دارالرحمت "
۱۸۹۸ء۔ پیدائشی احمدی
۱۸۹۸ء
۲۹۵
ماسٹر محمد شریف خان صاحب
مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی
لدھیانہ۔ حال دارالرحمت قادیان
۱۸۹۸ء
۱۹۰۷ء
۲۹۶
مستری رحیم بخش صاحب
صدر دین صاحب
بھابنڑی ضلع گورداسپور " "
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۲۹۷
بابو اکبر علی صاحب ریٹائرڈ ورک انسپکٹر ریلویز
چوہدری امیر علی صاحب
اپل ساہنسی ضلع گجرانوالہ حال دارالعلوم
۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء
۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء
۲۹۸
مولوی فضل الدین صاحب
مولوی الہ دین صاحب
نون ضع گجرات حال دارالرحمت "
۱۹۰۲ء
۱۹۰۱ء
۲۹۹
مستری عمر دین
بھاگو صاحب
قادرآباد )نواں پنڈ( متصل قادیان حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۷ء
۱۹۰۷ء
۳۰۰
حافظ نبی بخش صاحب
شیخ کریم بخش صاحب
فیض اللہ چک دارالفضل قادیان
تخمیناً ۹۲۔۱۸۹۱ء
تخمیناً ۱۲۹۶ھ ۱۸۷۷ء
۳۰۱
‏]2daq [tag میاں فضل دین صاحب دوکاندار
میاں عیدا صاحب
دھرم کوٹ بگہ ضع گورداسپور حال حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۳۰۲
محمد شریف صاحب )خواجہ( کشمیری دوکاندار سبزی
میاں میراں بخش صاحب
قادیان۔ حال حلقہ ریتی چھلہ قادیان
پیدائشی احمدی۔ ۱۸۹۸ء
۱۹۰۶ء
۳۰۳
محمد عبدالعزیز صاحب
مولوی محمد عبداللہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام
‏qad4] ga[t قوم راجپوت کھوکھر ساکن بھینی ڈاکخانہ شرق پور
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۳۰۴
محمد قاسم احمد صاحب
عطرالدین صاحب
امرتسر۔ دروازہ ہاتھی کوچہ مکل حاجی حال قادیان محلہ دارالرحمت
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۳۰۵
حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی
حافظ محمد حسین صاحب
وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ حال دارالعلوم قادیان
۱۸۹۷ء
۱۸۸۶ء
۳۰۶
مستری امین اللہ صاحب
محمد بخش صاحب احمدی
ملہیاں ضلع امرتسر حال دارالرحمت "
۱۸۹۹ء
۱۸۹۹ء
۳۰۷
احمد نور صاحب کابلی
اللہ نور صاحب کابلی
قرم۔ خوست اریوب قلعہ جدوان حال دارالامان قادیان
۱۸۹۸ء
۱۹۰۲ء
۳۰۸
میاں نور محمد صاحب
غلام دین صاحب
قادرآباد )نواں پنڈ( متصل قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۳۰۹
‏]2qad [tag میاں رحیم دین صاحب باورچی حضرت نواب صاحب
جمال الدین صاحب
مالیر کوٹلہ حال قادیان دارالعلوم
۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء
۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء
۳۱۰
منشی عبدالحق صاحب کاتب
حکیم چراغ الدین صاحب
جوڑہ کرنالہ ضلع گجرات حال دارالعلوم قادیان
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۳۱۱
ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر فیض عام میڈیکل ہال
مولوی عبدالغنی صاحب نو مسلم مرحوم
امرتسر حال دارالعلوم قادیان

۳۱۲
محمد یٰسین صاحب موٹر ڈرائیور حضرت|نواب صاحب
بابو محمد ابراہیم صاحب
گوہدپور ضلع سیالکوٹ حال دارالعلوم قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۳۱۳
میاں محمد اسمٰعیل صاحب سیکھوانی
میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی
سیکھواں ضلع گورداسپور
پیدائشی احمدی۔ ۱۸۹۷ء
۱۹۰۴ء
۳۱۴
خان صاحب حامد حسین خان صاحب
‏]qad3 [tag خان صاحب محمد حسین خان صاحب
حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۳۱۵
مرزا فیروز الدین صاحب
مرزا امام الدین صاحب
قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۷ء
۱۹۰۶ء
۳۱۶
منشی فیض احمد صاحب بھٹی کاتب الفضل
چوہدری محمد الدین صاحب مرحوم بھٹی
معراجکے چٹھے ضلع گجرانوالہ حال دارالبرکات قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۹ء
‏]6dqa [tag ۱۹۰۴ء
۳۱۷
میاں احمد دین صاحب
میاں حیات محمد صاحب مرحوم
گولیکی ضلع گجرات حال " "
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۳۱۸
میاں علائو الدین صاحب جیولر میاں|فیملی
میاں معراج الدین صاحب عمر
لاہور حال دارالرحمت قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۸ء تخمیناً
۱۹۰۴ء
۳۱۹
ڈاکٹر نعمت خان صاحب پنشنر
امان خان صاحب
نارون ضلع کانگڑہ حال دارالفضل قادیان
۱۸۹۶ء تحریری
۱۹۰۰ء
۳۲۰
میاں محمد شفیع صاحب اوورسیر
میاں عبدالعزیز صاحب
اوجلہ متصل گورداسپور حال قادیان
۱۸۹۹ء
۱۸۹۵ء
۳۲۱
بابا شیر محمد صاحب
دتے خاں صاحب
خاں فتا ضلع گورداسپور " دارالعلوم قادیان
۱۸۹۴ء
۱۸۹۴ء
۳۲۲
مولوی فضل الٰہی صاحب
مولوی کرم دین صاحب
پنڈددادنخان ضلع جہلم حال دارالبرکات "

۳۲۳
کرم الٰہی صاحب
میاں محمد الدین صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور حال دارالعلوم "
پیدائشی احمدی۔ ۱۹۰۱ء
۱۹۰۶ء
۳۲۴
ملک خان بادشاہ مہاجر
گل بادشاہ صاحب
درگئی۔ خوست حال قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۲ء
۳۲۵
ڈاکٹر مرزا محمود بیگ صاحب
مرزا محمد بیگ صاحب مرحوم
قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۳۲۶
چوہدری مبارک احمد صاحب ہیڈکلرک دفتر ایجنسی سرجن شمالی وزیرستان۔ میرام شاہ
چوہدری امان اللہ خاں سکنہ بہلول پور ضلع سیالکوٹ
بہلول پور ضلع سیالکوٹ حال میرام شاہ

۳۲۷
قاضی تاج الدین صاحب
مولوی غلام رسول صاحب
ادھوالی ضع گوجرانوالہ حال دارالانوار قادیان
۱۸۹۵ء
۱۸۹۵ء
۳۲۸
میاں نور محمد صاحب )سی بی(
عبداللہ صاحب
بسرا۔ متصل قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۳۲۹
میاں نتھو صاحب راجپوت
گھلا )راجپوت(
قادیان حلقہ مسجد فضل قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۳۳۰
مولوی عبیداللہ صاحب رانجھا
حکیم عمر بخش صاحب المعروف عمرالدین قوم جٹ رانجھا
ساکن چنڈیاں تحصیل و ضلع لاہور ڈاکخانہ جلو حال دارالفضل قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۷ء
۳۳۱
مستری مہر دین صاحب
مستری گوہر دین صاحب
قادرآباد متصل قادیان حال دارالفضل قادیان

۳۳۲
منشی محمد ابراہیم صاحب
میاں محمد اکبر صاحب مرحوم
بٹالہ ضلع گورداسپور حلقہ مسجد اقصیٰ "

۳۳۳
مرزا صالح علی صاحب
مرزا صفدر بیگ صاحب
مالیر کوٹلہ حال " " "

۳۳۴
مرزا احمد بیگ صاحب
مرزا بڈھا بیگ مرحوم
قادیان دارالامان
تخمیناً ۱۸۸۹ء
تخمیناً ۱۸۸۰ء
۳۳۵
منشی رحمت اللہ صاحب واثق
منشی کرم علی صاحب کاتب
حال دارالبرکات قادیان
پیدائشی احمدی ۱۹۰۳ء
۱۹۰۷ء
۳۳۶
میاں محمد صادق صاحب جہلمی
میاں نظام الدین صاحب
جہلم " دارالفضل "
۱۹۰۳ء
۱۹۰۳ء
۳۳۷
حکیم عبدالرحمن صاحب
میاں عبداللہ فضل دین صاحب
قادیان دارالامان
پیدائشی احمدی ۱۹۰۲ء
۱۹۰۸ء
۳۳۸
میاں شیخ محمد صاحب چٹھی رسان
میاں غلام قادر صاحب
" حلقہ مسجد اقصیٰ قادیان
۱۹۰۳ء
۱۸۹۳ء
۳۳۹
ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن صاحب
چوہدری عبدالرحیم صاحب
قادیان
پیدائشی احمدی ۱۹۰۲ء
۱۹۰۷ء
۳۴۰
مہتہ عبدالقادر صاحب قادیانی
عبدالرحمن قادیانی
"
پیدائشی احمدی ۱۹۰۴ء
۱۹۰۴
۳۴۱
چوہدری شریف احمد صاحب
چوہدری محمد ابراہیم صاحب
گوہدپور ضلع سیالکوٹ حال دارالعلوم قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۹۹ء
۱۹۰۷ء
۳۴۲
" عبدالرحمن صاحب کشمیری
شادی صاحب کشمیری
قادیان۔ حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء
۳۴۳
محمد رحیم الدین صاحب تین سو تیرہ میں نمبر ۳۰۲
کریم الدین صاحب
ضلع بجنور۔ حبیب والا۔ حال دارالرحمت قادیان
تحریری۔ جون ۱۸۹۴ء
اگست ۱۸۹۶ء
۳۴۴
حکیم اللہ دتہ صاحب
نظام الدین صاحب
موضع شاہ پور امر گڑھ ضلع گورداسپور
دستی۔ ۱۹۰۲ء
۱۸۹۸ء
‏]1daq [tag۳۴۵
فضل دین صاحب )عرف فجا( کشمیری
نظام الدین دفعدار مرحوم
قادیان حلقہ مسجد اقصیٰ
۱۹۰۴ء
۱۸۹۰ء
۳۴۶
محمد یعقوب صاحب
محمد اکبر صاحب مرحوم
بٹالہ ضلع گورداسپور حال قادیان دارالرحمت
پیدائشی احمدی۔ ۱۸۹۸ء
۱۹۰۸ء
۳۴۷
ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔ اے )مہرسنگھ(
سردار شیخ سوندا سنگھ صاحب
ڈومیلی۔ ضلع جالندھر حال دارالفضل قادیان

۳۴۸
مولوی عبدالرحیم صاحب نیر
مولوی حافظ حکیم محمد سلیمان
اکونہ۔ ضلع بہرانچ " " "
۱۹۰۱ء
۱۹۰۱ء
۳۴۹
مرزا محمد افضل صاحب
مرزا محمد جلال الدین صاحب مرحوم
بلانی ضلع گجرات حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۴ء
۱۹۰۳ء
۳۵۰
ماسٹر خلیل الرحمن صاحب
نیک عالم صاحب
پنجیڑی براستہ جہلم ریاست جموں حال دارالرحمت قادیان

۳۵۱
ذوالفقار علی خاں صاحب
عبدالعلی خاں صاحب
ریاست رام پور ساکن حال قادیان دارالامان
۱۹۰۰ء
۱۹۰۴ء
۳۵۲ + ۱۵=
عبدالرحمن صاحب قادیانی
مہتہ گوراندتہ مل صاحب موہیال
کنجروڑ دتاں۔ ضلع گورداسپور حال قادیان دارالامان
۱۳۱۲ھ۔ ۱۸۹۵ء
۱۳۱۲ھ۔ ۱۸۹۵ء
وصیت نمبر ۱۴۹ فہرست ۳۱۳ میں ۱۰۱
۱۵ = نمبرات ابجد اراکین خاندان مسیح موعود و متعلقین
۳۶۸/۱ غلطی سے دو نمبر مثلاً ۲۸۱ نمبر دو مرتبہ ہے۔ اور ۱۱۵ دو مرتبہ درج ہوا۔ ۱۱۵ پر بھی یہی نام ہے
۳۶۷/۱)۔( اور ۲۸۹ پر بھی وہی۔ اس طرح ایک نمبر کم ہوگیا۔ کل نمبر ۳۶۷ ہوئے ہیں۔
۳۶۸
سید شاہ عالم صاحب
حافط سید صوفی محمد حسین صاحب مرحوم
بریلی حال قادیان دارالامان
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۲۳۔ اکتوبر ۱۸۹۹ء
۱۹۰۵ء
۳۶۹
مولوی جان محمد صاحب
مولوی عبدالغفار صاحب
ڈسکہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان دارالبرکات
۳۔ مئی ۱۹۰۱ء
دسمبر ۱۹۰۰ء
۳۷۰
میاں وزیر محمد صاحب
۔
رہتاس ضلع جہلم
۱۸۹۳ء
۱۸۹۳ء
۳۷۱
بابو مولا بخش صاحب
چوہدری بڈھا صاحب
ننگل باغباناں
پیدائشی
تخمیناً ۱۹۰۳ء
۳۷۲
محمد اکبر علی صاحب
مولوی محمد علی صاحب
موضع بہادر ضلع گورداسپور حال قادیان محلہ دارالرحمت
"
۱۹۰۴ء
۳۷۳
کپتان محمد دین صاحب
خان صاحب امام الدین خاں
بٹالہ حال کھارہ متصل قادیان
۱۸۹۸ء۔ تحریری
۱۹۰۰ء
۳۷۴
شیخ مہر دین صاحب
شیخ فضل الٰہی صاحب
سیالکوٹ شہر قادیان دارالصناعت تحریک جدید
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۳۷۵
سید محمود شاہ صاحب
۔
کلانور
۔
۔
۳۷۶
ماسٹر نذیر حسین صاحب
حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیٰسی لاہور
سابقہ۔ لاہور بیرون دہلی دروازہ حال محلہ دارالعلوم غربی برلب سڑک قادیان
پیدائشی احمدی۔ پیدائش ۱۸۹۲ء
۱۹۰۰ء
۳۷۷
گلزار محمد صاحب
شیخ عطاء محمد صاحب مرحوم
چنیوٹ ضلع جھنگ حال معرفت میاں شمس دین فیروز دین صاحب
جنوری ۱۹۰۸ء
‏qad6] g[ta ۱۹۰۸ء
۳۷۸
میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل
میاں چراغ دین صاحب
لاہور لنگے منڈی بیرون دہلی دروازہ لاہور
۱۸۸۹ء
۱۸۸۹ء
۳۷۹
خان بہادر شیخ رحمت اللہ صاحب ریٹائرڈ
شیخ امیر اللہ صاحب
سیالکوٹ حال دارالعلوم قادیان
۱۹۰۵ء
۱۹۰۵ء
۳۸۰
شیخ احمد اللہ صاحب
شیخ الٰہی بخش صاحب
چھائونی " " "
‏qad5] [tag
۳۸۱
ملک نورالدین صاحب
ملک الٰہی بخش صاحب
کنجاہ ضلع گجرات حال دارالفضل قادیان
۱۸۹۷ء
۱۸۹۷ء
۳۸۲
مرزا محمد ابراہیم صاحب
مرزا عبداللہ بیگ صاحب
ملتان حال دارالعلوم "
۱۹۰۷ء
۱۹۰۶ء
۳۸۳
لبھو صاحب
نامدار صاحب
قادیان۔ دارالانوار
۱۹۰۴ء
۱۹۰۴ء
۳۸۴
میاں خیر دین صاحب
میاں وزیرا صاحب
ننگل باغباناں حال قادیان
۱۹۰۳ء
۱۸۹۳ء
۳۸۵
حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب
حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب
ڈسکہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان حلقہ دارالانوار قادیان
۱۸۹۹ء یا ۱۹۰۰ء
۱۹۰۵ء یا ۱۹۰۶ء
۳۸۶
چوہدری بشیر احمد صاحب
چوہدری غلام احمد صاحب مرحوم
چہور کاہلواں تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ حال ایڈیشنل جج مطالبہ دہلی

۳۸۷
میاں چوہدری علی حسن صاحب
میاں احمد بخش صاحب
سنور۔ ریاست پٹیالہ۔ حال دارالامان قادیان
پیدائشی احمدی ۱۸۸۰ء
۱۸۸۴ء یا ۱۸۸۵ء
۳۸۸
میاں محمد اسداللہ صاحب
مولوی عزیز بخش صاحب
تیجہ کلاں تحصیل بٹالہ حال دارالرحمت قادیان
۱۹۰۳ء
۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء
۳۸۹
اخوند محمد اکبر صاحب
اخوند رحیم بخش خان صاحب
محلہ مسجد فضل "
۱۹۰۴ء
۳۹۰
شیخ محمد حسین صاحب قانونگو پنشنر
شیخ غلام حیدر صاحب
" " "
۱۹۰۶ء
۳۹۱
میاں عبدالعزیز صاحب
میاں عدل الدین صاحب
شکار ماچھیاں ضلع گورداسپور حال محلہ دارالعلوم قادیان
۱۹۰۶ء
۱۹۰۶ء
۳۹۲
میاں محمد وارث صاحب
‏]qad3 [tag میاں پیر بخش صاحب
بھڑی شاہ رحمان ضلع گجرانوالہ حال قادیان دارالامان
۱۸۹۴ء۔ ۱۸۹۵ء
۱۹۰۲ء اندازاً
۳۹۳
حکیم محمد چراغ الدین صاحب
عبدالکریم صاحب
جوڑہ کرنانہ ضلع گجرات حال محلہ دارالعلوم قادیان
۱۹۰۲ء
۱۹۰۳ء بمقام جہلم
جہاں تک ہمارا علم ہے یہ فہرست مکمل ہے۔ )دستخط حضرت( مرزا شریف احمد۔ ۴۵/۳/۳۰
عکس کے لئے
نوٹ:]2ydob [tag ۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ میں صحابی کی تعریف یہ ہے کہ >جس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہو اور پھر ارتداد نہیں کیا خواہ درمیان میں کسی قدر کمزور کیوں نہ ہوگیا ہو وہ یقیناً صحابی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں<۔
)الفضل ۲۴۔ فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۲(
۲۔ مندرجہ بالا رجسٹر میں صحابہ کرامؓ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ )ناقل(
حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے احیاء شریعت و سنت میں سرگرم ہو جانے کا پرجلال اعلان اور عالمگیر اسلامی انقلاب کی بشارت
خداتعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء اپنے آسمانی آقا کے وعدوں اور بشارتوں پر غیر متزلزل اور مستحکم ایمان رکھتے` اور اپنے مولیٰ پر توکل کرتے ہوئے تمکین دین کا پھریرا لہراتے ہوئے آگے ہی
آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس حقیقت و صداقت کا ایک روح پرور نظارہ سالانہ جلسہ ۱۹۳۷ء پر دیکھنے میں آیا۔ ان ایام میں >مصری فتنہ<۱۷۹ پورے عروج پر تھا۔ مگر خداتعالیٰ کے موعود و برحق خلیفہ سیدنا محمودؓ نے سالانہ جلسہ پر جمع ہونے والے احمدیوں کو احیاء سنت کے لئے سرگرم عمل ہونے کا حکم دیتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ احمدیت کے ذریعہ سے مستقبل میں عالمگیر اسلامی انقلاب برپا ہونا مقدر ہے اور دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں احمدیوں کو عطا ہونے والی ہیں۔
یہ عظیم الشان بشارت حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنی ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء کی معرکتہ الاراء اور اپنے اندر >الہامی رنگ رکھنے والی<۱۸۰ پرشوکت تقریر کے آخر میں سنائی جو >انقلاب حقیقی< کے اہم موضوع پر تھی اور جس کے ابتداء میں حضور نے دنیا کی مشہور تمدنی۱۸۱ اور مذہبی۱۸۲ تحریکات کی خصوصیات پر بالتفصیل روشنی ڈالنے کے بعد اعلان فرمایا۔
>اب وقت آگیا ہے کہ ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور احیاء سنت و شریعت کے لئے سرگرم عمل ہو جائے۔ جب تک میں نے اعلان نہ کیا تھا لوگوں کے لئے کوئی گناہ نہیں تھا۔ مگر اب جبکہ امام اعلان کرتا ہے کہ احیاء سنت شریعت کا وقت آگیا ہے کسی کو پیچھے رہنا جائز نہیں ہوگا اور اب اگر سستی ہوئی تو کبھی بھی کچھ نہ ہوگا۔ آج گو صحابہ کی تعداد ہم میں قلیل رہ گئی ہے۔ مگر پھر بھی یہ کام صحابہ کی زندگی میں ہی ہوسکتا ہے اور اگر صحابہ نہ رہے تو پھر یاد رکھو کہ یہ کام کبھی نہیں ہوگا<۔۱۸۳
اس اعلان کے بعد حضور نے اسلامی تمدن کے متعلق بطور نمونہ دس احکام بیان فرمائے اور احمدیوں سے عہد لیا کہ وہ >اپنی جائیداد سے اپنی لڑکیوں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو وہ حصہ دے گا جو خدا اور اس کے رسولﷺ~ نے مقرر کیا ہے<۔۱۸۴
‏tav.8.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
اس کے علاوہ حضورؓ نے احیاء شریعت و سنت کے پہلے مرحلہ کے طور پر عورتوں کے حقوق` امانت` خدمت خلق اور احمدی دارالقضاء کی طرف رجوع کرنے کے متعلق تاکیدی ہدایات دیں اور فرمایا۔
>بے شک آج ہم وہ کام نہیں کرسکتے جو حکومت اور بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر وہ باتیں جو ہمارے اختیار میں ہیں۔ ان پر آج سے ہی عمل شروع ہو جانا چاہئے<۔۱۸۵
حضور نے تقریر کے آخر میں یہ بشارت دی کہ۔
>دنیا میں انسان جب ایک سبق یاد کرلیا کرتا ہے تو استاد اسے دوسرا سبق دیتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جب تم اس سبق کو یاد کرلو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا اور کہے گا جب تم نے ان تمام احکام اسلام کو جاری کر دیا۔ جن کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں تھی۔ تو آئو اب میں حکومتیں بھی تمہارے سپرد کرتا ہوں تا جو چند احکام شریعت کے باقی ہیں ان کا بھی عالم میں نفاذ ہو۔ اور اسلامی تمدن کی چاروں دیواریں پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں۔ پس اگر تم میری ان باتوں پر عمل شروع کردو۔ تو اللہ تعالیٰ حکومتوں کو بھی تمہارے سپرد کردے گا اور جو حکومتیں اس کے لئے تیار نہیں ہوں گی اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کر دے گا اور اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جائو اور ان کا تختہ الٹ کر حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دو جو میرے اسلام کو دنیا میں رائج کررہے ہیں<۔۱۸۶
بعض جلیل القادر صحابہ کا انتقال
۱۹۳۷ء میں جو بزرگ صحابہ انتقال فرما گئے۔ ان کے نام نامی یہ ہیں۔ )۱( شیخ نواب الدین صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ چانگڑیاں ضلع سیالکوٹ )تاریخ وفات ۱۱۔ جنوری ۱۹۳۷ء بعمر ۷۵ سال(۱۸۷
)۲( حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کپورتھلوی )تاریخ وفات ۲۶۔ جنوری ۱۹۳۷ء بعمر ۹۸ سال قریباً(۱۸۸ قدیم ترین صحابہ میں سے تھے بیعت اولیٰ کے موقعہ پر پہلے ہی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف۱۸۹ ہوئے۔
)۳( حضرت ماسٹر نواب الدین صاحب بی اے بی ٹی )تاریخ وفات ۲۰۔ فروری ۱۹۳۷ء(۱۹۰ نہایت مخلص اور پرجوش بزرگ تھے۔
)۴( حکیم مرزا خدا بخش صاحب غیر مبائع مولف >عسل مصفیٰ< )تاریخ وفات ۵۔ اپریل ۱۹۳۷ء(۱۹۱
)۵( حضرت بابا میر اسلام صاحب افغان )تاریخ وفات ۲۰/۱۹ مئی ۱۹۳۷ء بعمر ۱۰۶ سال(۱۹۲
)۶( حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب )تاریخ وفات ۲۳۔ جون ۱۹۳۷ء( آپ کا شمار جماعت احمدیہ کے ممتاز اہل کشوف و الہام میں ہوتا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں بیعت مسیح موعودؑ سے مشرف ہوئے۔ ۲۵ برس تک رعیہ ضلع سیالکوٹ میں سینئر سب اسسٹنٹ سرجن کے عہدہ پر ملازم رہے۔ ۱۹۲۰ء میں پنشن لینے کے بعد قادیان آگئے اور مستقل طور پر رہائش اختیار کرلی۔۱۹۳ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے آپکی وفات پر آپکے بیٹے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ کو ایک تعزیت نامہ لکھا۔ جس میں تحریر فرمایا کہ >وہ ایک نہایت ہی پاک نفس انسان تھے جن کا وجود سراسر برکت تھا۔ ایسے وجود دنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہر ایک کے محسن اور سب کے خیر خواہ تھے۔ ان کی برکت سے اور ان کی دعائوں سے ایک دنیا فیض حاصل کررہی تھی<۔ ۔۔۔۔۔۱۹۴
)۷( حضرت مولوی نور احمد صاحب لودی ننگل )تاریخ وفات ۲۴۔ جون ۱۹۳۷ء( بیعت کرنے کا عجیب واقعہ سنایا کرتے تھے۔ فرماتے میں نے دیکھا کہ ایک آدمی عطر فروخت کررہا ہے۔ میں نے بھی ایک پیکٹ لیا۔ جب کھولا تو اس میں ایک اور پیکٹ تھا۔ حتیٰ کہ کئی ایک پیکٹ کھولنے کے بعد ایک شیشی نکلی۔ جس کے کھولنے سے سارا جہان معطر ہوگیا۔ جب پڑھا تو شیشی پر مرقوم تھا۔ >براہین احمدیہ< اس لطیف خواب پر آپ حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی میں آگئے۔ بہت متبحر عالم تھے۔ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ کسی حدیث کی ضروری پڑی۔ اس پر حضورؑ نے ایک سانڈنی سوار گورداسپور سے لودی ننگل بھیجا کہ ان کو لے آئو۔ قاصد جونہی ان کے پاس پہنچا اور آپ اسی وقت چل دئے۔ عصر کی نماز گائوں سے باہر ادا کی اور آدھی رات کے بعد آپ گورداسپور پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر مطلوبہ حدیث پیش کردی۔
حضرت مولوی صاحب کے ذریعہ لودی ننگل` تیجہ کلاں` کھوکھر اور چھچھریالہ میں احمدی جماعتیں قائم ہوئیں۔ آپ تینتالیس برس تک تبلیغ احمدیت میں منہمک رہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا۔ سطروں کی سطریں زبانی سنا دیتے تھے کوئی کام دعا کے بغیر شروع نہ کرتے بہت مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔۱۹۵
)۸( حضرت میاں شادی خاں صاحب ساکن ننگل باغباناں متصل قادیان تاریخ وفات )۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء بعمر۱۹۶ ۸۶ سال(
)۹( حضرت بابا محمد کریم صاحب متوطن علاقہ خوست )تاریخ وفات ۲۶۔ جولائی ۱۹۳۷ء بعمر ۶۰ سال(۱۹۷
)۱۰( کپتان اللہ داد خاں صاحب آف کھاریاں )تاریخ وفات ۹۔ اگست ۱۹۳۷ء( ۸۶۔ ۱۹۸۵ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے طفیل معمولی سپاہی سے ترقی کرتے کرتے کپتان کے عہدہ تک پہنچے۔۱۹۸
)۱۱( میاں محمد اسماعیل صاحب مالیر کوٹلوی )تاریخ وفات ۲۹۔ اگست ۱۹۳۷ء بعمر ۸۰ سال(۱۹۹مندرجہ بالا صحابہ کے علاوہ مندرجہ ذیل مخلصین سلسلہ کا بھی وصال ہوا۔
۱۔ سیٹھ غلام محمد ابراہیم صاحب )تاریخ وفات ۱۷۔ اپریل ۱۹۳۷ء(۲۰۰
۲۔ میر مہدی حسین صاحب مالک احمدیہ فرنیچر سٹور دہلی۔ )تاریخ وفات ۲۹۔ اپریل ۱۹۳۷ء(۲۰۱
۳۔ حکیم محمد احمد ابوطاہر صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ )تاریخ وفات ۴۔ ستمبر ۱۹۳۷ء(۲۰۲
چوتھا باب )فصل ششم(
بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں خوشی اور مسرت کی تقاریب
‏text] [tag۱۔ ۳۱۔ مارچ ۱۹۳۷ء کو حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ کے فرزند صاحبزادہ میاں محمد احمد خاں صاحب کے مشکوئے معلیٰ میں میاں حامد احمد خاں کی ولادت ہوئی۔۲۰۳
۲۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ہاں ۱۷۔ اپریل بروز ہفتہ دو بجے دوپہر مرزا انس احمد صاحب کی ولادت باسعادت ہوئی۔۲۰۴ اس تقریب پر حضرت خان ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر نے ایک قصیدہ لکھا۔ جس کے چند اشعار یہ تھے۔ ~}~
اک شگوفہ ہے نیا باغ مسیحا میں کھلا
جس کی خوشبو سے معطر ہے دماغ گردوں
ابن ناصر کی ولادت ہے عجب مژدہ خبر
برکات اس کی زمیں کے لئے ہیں گونا گوں
حق نے اب حضرت محمودؓ کو پوتا بخشا
میں بھی یہ ہدیہ تبریک نہ کیوں پیش کروں
ہو یہ فرزند سعید اور خدا کا محبوب
اس سے لے عقل و خرد آکے ہر اک افلاطوں
نور اسلام کو پھیلائے یہ دنیا بھر میں
عاشق احمد کا ہو محمودؓ کا ہو یہ مجنوں
علم توحید کا گنجینہ ہو اس کا سینہ
دل ہو عرفان الٰہی سے لباب سیحوں۲۰۵
۳۔ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب )خلف الرشید حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ( کے ہاں ۱۲۔ مارچ ۱۹۳۷ء کو میاں ادریس احمد صاحب پیدا ہوئے۔۲۰۶
۴۔ ۱۳`۱۲۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کی درمیانی شب کو مرزا رشید احمد صاحب )خلف الصدق حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؓ( کے ہاں مرزا سلیم احمد صاحب تولد ہوئے۔۲۰۷
۵۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آئی سی ایس کے امتحان میں ساتویں نمبر پر پاس ہوئے۔ نامزدگی کے موقعہ پر جو سات مسلمان امیدوار منتخب کئے گئے ان میں آپ کا تیسرا درجہ تھا۔ کل نمبر ۱۰۰۹ حاصل کئے۔۲۰۸
۶۔ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بی اے بیرسٹرایٹ لاء )ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ( چار سال انگلستان رہ کر بار ایٹ لاء LAW) AT (BAR کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ۶۔ دسمبر ۱۹۳۷ء کو ساڑھے نو بجے صبح کی گاڑی سے واپس تشریف لائے۔ اس موقعہ پر استقبال کے لئے خاندان حضرت مسیح موعود~ع۱~ اور مقامی جماعت کے علاوہ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ بھی اسٹیشن پر رونق افروز تھے۔۲۰۹
نمائندہ سلطان مسقط قادیان میں
مسٹر عبدالمنعم نمائندہ سلطان مسقط ۵۔ جنوری ۱۹۳۷ء کو قادیان تشریف لائے۔۲۱۰
اڑیسہ پراونشل انجمن احمدیہ کا پہلا جلسہ
۲۱۔ مارچ ۱۹۳۷ء کو اڑیسہ پراونشل انجمن احمدیہ کا پہلا تنظیمی جلسہ کٹک میں منعقد ہوا۔ جس میں مرکز سے مولوی ظہور حسین صاحب نے بطور نمائندہ شرکت فرمائی۔ اڑیسہ کے مختلف مقامات مثلاً سونگڑہ` کیرنگ` کندرا پاڑا` پوری تگریا` بالیسر` سری پار` سیرلو خوردہ سے عہدیداران پراونشل اور دیگر مہمان ۵۳ کی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں ایک سکیم بھی مرتب کی گئی اور عہدیداران کے فرائض واضح کئے گئے۔۲۱۱
پروفیسر جان کلارک آرچر قادیان میں
پروفیسر کلارک آرچر جویل (YALE) یونیورسٹی امریکہ میں شعبہ مذاہب کے پروفیسر تھے اور ان دنوں پنجاب میں آئے ہوئے تھے ۱۷۔ جون ۱۹۳۷ء کو قادیان آئے۔ حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے شرف ملاقات بخشا اور ان سے مختلف اسلامی مسائل پر گفتگو فرمائی۔ پروفیسر صاحب دفاتر دیکھنے کے بعد شام کی گاڑی سے واپس چلے گئے۔۲۱۲
سنگ بنیاد
حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے یکم اکتوبر ۱۹۳۷ء کو سید بشیر احمد صاحب کارکن نظارت دعوت و تبلیغ کے مکان کی محلہ دارالانوار میں بنیاد رکھی۔۲۱۳
‏sub] ga[tحضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کا خطاب لندن
۳۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو پانچ بجے شام مسجد فضل لندن میں ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا عبدالرحیم صاحب درد منعقد ہوا۔ جس میں حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے تحریک احمدیت کی تاریخ اور ترقی HISTORY (THE MOVEMENT) AHMADIYYA THE OF PROGRESS AND کے موضوع پر ایک نہایت معلومات افزوز خطاب فرمایا۔ جس کا مکمل متن >دی مسلم ٹائمز< ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ تا ۸ میں اشاعت پذیر ہوا۔
مذاہب عالم کانفرنسوں میں احمدی مبلغوں کی تقریریں
بمبئی:۔ آل فیتھس لیگ FAITHS (ALL LEAGUE) بمبئی کا پہلا اجلاس ناسک میں ۱۹۳۳ء میں اور دوسرا اس سال ۲۴` ۲۵` ۲۶۔ اپریل ۱۹۳۷ء بمبئی میں منعقد ہوا۔ جس میں مبلغ اسلام حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ نیر نے انگریزی میں >اسلام ایک احمدی کے نقطہ نگاہ سے< کے موضوع پر تقریر فرمائی جو بہت پسند کی گئی اور تعلیم یافتہ طبقہ نے یہاں تک کہا کہ ہم نے پہلی مرتبہ اسلام سے متعلق ایسی تقریر سنی ہے۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ نیر لیگ کی سب جیکٹ کمیٹی کے ممبر بھی منتخب کئے گئے اور آپ کے دو ریزولیوشن بھی کانفرنس میں بالاتفاق رائے پاس ہوئے۔ پہلے ریزولیوشن کا مفہوم یہ تھا کہ تمام مذاہب کے نمائندے اپنے وعظوں کو صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے تک محدود کردیں اور دوسرے مذاہب پر ہرگز حملہ نہ کریں۔ حضرت نیر صاحبؓ نے دوسرا ریزولیوشن یہ پیش کیا کہ ہندو اصحاب رسول اللہ~صل۱~ کی سیرۃ کے جلسوں میں اور مسلمان دوسرے بانیاں مذاہب کے جلسوں میں شرکت کرکے صلح و محبت کا ماحول پیدا کریں۔۲۱۴text] [tag
سرگودھا:۔ ۲۵۔ اپریل ۱۹۳۷ء کو >سناتن دھرم سبھا< سرگودھا کے زیر انتظام بھی ایک مذہبی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے )ابوالبشارت( مولوی عبدالغفور صاحبؓ فاضل نے مقررہ موضوع >انسانی زندگی کا مدعا کیا ہے< پر اپنا مضمون پڑھا۔۲۱۵
سہارنپور:۔ ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو آریہ سماج سول لائن سہارنپور کی طرف سے ایک مذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ماسٹر محمد حسن صاحب آسان۲۱۶ دہلوی اور مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں جن سے پبلک بہت متاثر ہوئی۔
وچھو والی لاہور:۔ سناتن دھرم سبھا وچھو والی لاہور نے ۲۶۔ نومبر ۱۹۳۷ء کو ایک مذاہب کانفرنس کا انتظام کیا جس میں نمائندہ جماعت احمدیہ مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے تقریر فرمائی۔۲۱۷
دو مخلصین کی عیادت
جماعت احمدیہ کے دو مخلص کارکن حضرت مولوی غلام رسول صاحب وزیرآبادی اور ملک فضل حسین صاحب منیجر احمدیہ بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان بعارضہ فالج بیمار تھے۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ ۱۵۔ جون ۱۹۳۷ء کو حضرت مولوی صاحبؓ کی عیادت کے لئے نور ہسپتال۲۱۸ میں اور ۲۱۔ جون ۱۹۳۷ء کو ملک صاحب کے مکان )واقع محلہ دارالفضل( پر تشریف لے گئے۔۲۱۹
مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی
اس سال مندرجہ ذیل مبلغین بیرونی ممالک میں روانہ کئے گئے۔
۱۔
مولوی عبدالغفور صاحب )تاریخ روانگی ۹۔ جنوری۲۲۰ ۱۹۳۷ء برائے جاپان(
۲۔
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری )تاریخ روانگی ۵۔ مئی۲۲۱ ۱۹۳۷ء برائے حیفا(۲۲۲
۳۔
مولانا رحمت علی صاحبؓ )تاریخ روانگی ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۷ء برائے جاوا(۲۲۳
۴۔
چودھری محمد اسحاق صاحب )تاریخ روانگی ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۷ء برائے چین(۲۲۴4] [rtf
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
بلاد عربیہ مشن:۔ مولوی محمد سلیم صاحب مبشر بلاد اسلامیہ نے اوائل ماہ فروری ۱۹۳۷ء میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ` اور دو احمدی دوستوں کی رفاقت میں شرق اردن کا تبلیغی سفر کیا۔ سفر کے دوران امیر عبداللہ والئے شرق اردون سے >شونہ<۲۲۵ کے مقام پر ملاقات کی۔ نیز عمان میں احمدیت کا پیغام پہنچایا اور واپسی پر بیت المقدس میں مسلمانوں اور عیسائیوں سے دلچسپ بحث کی۔۲۲۶
مغربی افریقہ مشن:۔ سالٹ پانڈ )مغربی افریقہ( میں پندرہ ہزار روپیہ سے احمدیہ دارالتبلیغ کی تعمیر ہوئی جس کا افتتاح مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے ۱۸۔ فروری ۱۹۳۷ء کو فرمایا۔ دارالتبلیغ کی شاندار عمارت زیادہ تر حکیم فضل الرحمن صاحبؓ کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔۲۲۷
جاوا مشن:۔ جماعت احمدیہ برانچ بٹاویہ نے ۱۲۰۰ گلڈر خرچ کرکے اپنے سرمایہ سے ایک مسجد اور کلب ہائوس تعمیر کیا جس سے تبلیغی جلسوں میں بہت آسانیاں ہوگئیں۔ حضرت امیرالمومنین نے مسجد کا نام >مسجد الہدایت< تجویز فرمایا۔۲۲۸
مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری نے ۱۲۔ جولائی ۱۹۳۷ء کو جماعت گارت )جاوا( کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔۲۲۹ اگست ۱۹۳۷ء میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ملایا زبان کا ترجمہ اشاعت پذیر ہوا۔۲۳۰
جماعت احمدیہ پاڈانگ کے ایک مخلصن رکن ڈمنگ صاحب ڈاٹو مواجہ ۱۳۔ نومبر ۱۹۳۰ء کو ۶۵ سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ مرحوم مولوی رحمت علی صاحب کے ہاتھ پر داخل احمدیت ہوئے تھے اور سماٹرا میں سابقون میں شمار کئے گئے۔ اخلاص کی وجہ سے جماعت سماٹرا میں نہایت عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے غایت درجہ عقیدت ومحبت تھی۔ ۱۹۲۹ء میں اپنے اہل و عیال سمیت مولانا رحمت علی صاحب کے ہمراہ قادیان تشریف لائے اور جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے مکہ شریف گئے اور حکومت مکہ نے ان کو جیل میں ڈال دیا تو اس وقت آپ نے ایمان کی مضبوطی اور پختگی کا شاندار نمونہ پیش کیا۔ جماعت پاڈانگ کئی سال سے متفقہ طور پر آپ کو پریذیڈنٹ بنانے کی کوشش کرتی مگر آپ یہی چاہتے کہ کوئی دوسرا پریذیڈنٹ ہو۔ لیکن ۱۹۳۷ء میں جب حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے آپ کا تقرر ہوا تو سر تسلیم خم کرلیا۔ مگر اس انتخاب پر ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ آپ انتقال کرگئے۔۲۳۱
جاوا میں ایک شہر چانجر ہے جس سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ >پچت< نامی ہے۔ جہاں کے لوگ اپنے آپ کو محققین کہتے تھے اور ان کے لیڈر کا نام پیر ابوبکر تھا۔ ملک عزیز احمد صاحب مبلغ جاوا کو شروع ۱۹۳۷ء میں ابوبکر کے ایک معتمد مرید مسٹر ویرانا سے ملاقات کا موقعہ ملا جنہوں نے دوران گفتگو میں کہا کہ جو کچھ آپ بتاتے ہیں بالکل درست ہے اور میرے پیر صاحب نے ۱۹۲۸ء میں ایک رات ۲ بجے کے قریب مجھے خاص طور پر یاد فرمایا اور کہا کہ سنو۔ یہ علم جو ہم پکڑے ہوئے ہیں اصل نہیں ہے۔ اصل علم جو تمام امت اسلام کے لئے ہے وہ امام مہدی لائے گا اور امام مہدی ہندوستان میں لاہور کے قریب آچکا ہے اس کا نام >احمد< ہے۔ لوگ ان کے مریدوں کی بہت مخالفت کررہے ہیں۔ ان کی جماعت ہم سے یہاں ملے گی اور وہ سچی جماعت ہوگی۔۲۳۲
۱۹۳۷ء کی نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل لٹریچر شائع کیا گیا۔
)۱(
>بشارت احمد< )پروفیسر محمد الیاس صاحب برنی ناظم دارالترجمہ عثمانیہ کی کتاب >قادیانی مذہب< کا مدلل و مفصل جواب جو سید بشارت احمد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد دکن نے شائع کیا(
)۲(
>مباحثہ راولپنڈی< )مابین جماعت احمدیہ و غیر مبائعین(
)۳(
>اہل پیغام کے بعض خاص کارنامے< )تالیف منیف حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ ہلالپوری پروفیسر جامعہ احمدیہ(
)۴(
>وید مقدس اور قرآن کریم< )تالیف مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحبؓ فاضل سنسکرت(
)۵(
>آسمانی پرکاش< بجواب >ستیارتھ پرکاش< )از مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحبؓ(
)۶(
>تحقیق جدید متعلقہ قبر مسیح< )حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی سفر مسیح پر ایک فاضلانہ تصنیف(
)۷(
پہلا پارہ جامع صحیح مسند بخاری~رح~۔ )ترجمہ و شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ(
)۸(
>احمدیہ البم< )شائع کردہ حضرت مولانا عبدالرحیمؓ صاحب درد ایم اے۔ امام مسجد لنڈن۔ اکتیس نہایت عمدہ اور جاذب نظر تصویروں پر مشتمل پہلا مطبوعہ احمدیہ البم(
اندرون ملک کے بعض مشہور مناظرے
۱۔ مباحثہ خانقاہ ڈوگراں۔ شروع ۱۹۳۷ء میں یہاں جماعت احمدیہ کا شیعہ اصحاب سے مناظرہ ہوا۔ پہلا مناظرہ اصحاب ثلاثہ کے مومن ہونے اور ان کی خلافت پر تھا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ماسٹر غلام احمد صاحب سلہو کی اور شیعوں کی طرف سے سید عبدالغنی صاحب مناظر تھے۔ ماسٹر صاحب نے تیئیس ثبوت قرآن مجید سے پیش کئے۔ شیعہ مناظر نے چند اعتراض کئے جن کا جواب دیا گیا۔ شیعہ مناظر صاحب نے اپنے موقف کی تائید میں صرف دو ثبوت پیش کئے جنہیں احمدی مناظر نے قرآن مجید ہی سے غلط ثابت کردکھایا۔ شیعہ مناظر صاحب چونکہ صرف پانچ منٹ بول کر بیٹھ جاتے تھے اس لئے پبلک کے اصرار پر ان کا بقیہ وقت ماسٹر صاحب کو دے دیا جاتا۔ دو گھنٹے کے اس مناظرہ کے بعد صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر تین گھنٹہ مناظرہ مقرر تھا لیکن شیعہ مناظر پندرہ منٹ کی پہلی اور دس منٹ کی دوسری تقریر کے دلائل کی تاب نہ لاکر اپنے ہمجولیوں سمیت میدان مناظرہ سے بھاگ نکلے۔
مناظر کے بعد بہت سے لوگوں نے احمدیوں کو مبارکباد دی اور ایک گریجوئیٹ نے تو یہ بھی کہا کہ میں نے ایسے واضح دلائل آج تک نہیں سنے۔ پہلے میں کچھ مذبذب تھا مگر آج تو یقین ہوگیا کہ خلفاء ثلاثہ واقعی خدا کے مقرر کردہ اور اس کے برگزیدہ خلیفے تھے۔۲۳۳
۲۔ مباحثہ دہلی۔ ۶۔ مارچ ۱۹۳۷ء کو مولوی ابوالعطاء صاحب کا >ختم نبوت< کے موضوع پر انجمن سیف الاسلام دہلی کے ایک عالم کے ساتھ مناظرہ ہوا۔ مولوی صاحب موصوف کی فصاحت و بلاغت سے لبریز مدلل تقاریر کا پبلک پر بہت عمدہ اثر تھا۔ مولوی ابو الوفا شاہجہانپوری نے مناظرہ میں ناکامی دیکھ کر مولوی ابوالعطاء صاحب اور دوسرے احباب جماعت پر لاٹھیوں سے حملہ کرادیا۔ کئی احمدیوں کو شدید ضربیں آئیں اور لاٹھیاں تو اکثر دوستوں اور علماء سلسلہ کے بھی لگیں۔ شرفائے دہلی نے احمدیوں کے صبر و تحمل کی بہت تعریف کی اور انجمن سیف الاسلام والوں کو *** ملامت۔ رات کے وقت سناتن دھرمیوں کا انجمن والوں سے مناظرہ تھا مگر انہوں نے کہہ دیا کہ جہاں ایسے اخلاق کا مظاہرہ ہو وہاں ہم جانا نہیں چاہتے۔۲۳۴
۳۔ مباحثہ کراچی۔ کراچی میں مولوی ابوالعطاء صاحب نے ۲۸` ۲۹۔ مارچ ۱۹۳۷ء کو پنڈت رامچندر صاحب آریہ مناظر سے مسئلہ تناسخ اور حدوث روح مادہ پر مناظرہ کیا۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندوئوں` آریوں اور سکھوں نے بھی احمدی مناظر کے زور دار دلائل کی از حد تعریف کی اور کھلم کھلا اقرار کیا کہ پنڈت صاحب موصوف مولوی صاحب موصوف کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکے اور نہ دے سکتے تھے کیونکہ وہ ایسے مسائل کی حمایت میں کھڑے تھے جو غیر فطرتی تھے اور سلیم الفطرت انسان کا کانشنس یہ خلاف عقل عقائد قبول کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوسکتا۔۲۳۵
۴۔ ضلع ڈیرہ غازی خاں۔ مارچ ۱۹۳۷ء میں احمدی مناظرین )چوہدری محمد شریف صاحب` مولوی ظفر محمد صاحب` مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر اور ڈاکٹر عبدالرحمن صاحبؓ موگا نے سائیں لال حسین صاحب اختر سے ڈیرہ غازی خاں` بستی بزدار اور جام پور میں کامیاب مناظرے کئے۔۲۳۶4] ftr[
۵۔ مباحثہ ملتان۔ ملتان شہر میں ۴۔ اپریل ۱۹۳۷ء کو صبح سے لے کر ظہر تک جماعت احمدیہ اور جمعیتہ احناف ملتان کے درمیان جمعیتہ کی جلسہ گاہ میں صداقت حضرت مسیح موعودؑ پر مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب مناظر تھے اور جمعیتہ احناف کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختر!! حسب قاعدہ مدعی ہونے کے باعث احمدی مناظر کی پہلی اور آخری تقریر تھی۔ اسی طرح دوسرے شرائط مناظرہ میں ایک شرط تہذیب و متانت کی تھی۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں قرآن مجید` احادیث اور دیگر معقول اور ٹھوس دلائل سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صداقت واضح کی اور آخر وقت تک نہایت ہی سنجیدگی` متانت اور فاضلانہ پیرایہ میں اپنا مضمون نبھاتے رہے۔ مگر فریق ثانی قرآنی معیاروں کی طرف آنے کی بجائے دروغ بیانی` تحریف و تلبیس` بدزبانی اور اشتعال انگیزی پر اتر آیا اور گالیاں دینے میں حد کردی اور جب احمدی مناظر کی آخری تقریر کا وقت آیا تو فریق مخالف کے پریذیڈنٹ صاحب اور ان کے ساتھی اٹھ کھڑے ہوئے اور محفل مناظرہ درہم برہم ہوگئی۔ احمدیوں نے اس خلاف ورزی کی جانب توجہ دلائی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ آخر بعض پولیس افسروں کے کہنے پر احمدی اصحاب جلسہ گاہ سے باہر آگئے۔ اس مناظرہ میں حاضرین کی تعداد قریباً دو تین ہزار ہوگی۔۲۳۷
۶۔ مباحثہ لائل پور۔ قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے لائل پور میں ۱۱` ۱۲۔ اپریل ۱۹۳۷ء کو پادری میلارام صاحب سے >صداقت مسیح موعود< اور >الوہیت مسیح ناصری< پر مناظرے کئے۔ غیر احمدی اصحاب نے احمدی مناظر کو مبارک باد پیش کی اور ان کے گلے میں ہار ڈالے۔۲۳۸
۷۔ مباحثہ جھنگ مگھیانہ۔ ۲۰` ۱۹۔ اپریل ۱۹۳۷ء کی درمیانی شب کو آریہ سماج مگھیانہ کے چیلنج پر میونسپل کمیٹی جنگ مگھیانہ کے باغ میں آریہ سماج اور جماعت احمدیہ کے درمیان ایک معرکتہ الاراء مناظرہ ہوا۔ زیر بحث موضوع مسئلہ تناسخ تھا۔ احمدیوں کی طرف سے قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مناظر تھے اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت چرنجی لال صاحب پریم۔ مناظرہ سوا نو بجے شب سے سوا بارہ بجے شب تک نہایت پرسکون ماحول میں جاری رہا۔ مناظرہ کے خاتمہ پر مسلمانوں نے احمدی مناظر کو مبارک باد دی۔۲۳۹
۸۔ مباحثہ جہلم۔۔ جہلم میں جماعت احمدیہ اور آریہ سماج کے درمیان ۲۵` ۲۶۔ اپریل ۱۹۳۷ء کو تین مناظرے ہوئے۔ پہلے مناظرہ میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے اور آریوں کی نمائندگی پنڈت سست دیو صاحب نے کی۔ موضوع یہ تھا کہ >کیا وید الہامی کتاب ہے<۔ مہاشہ صاحب کی طرز گفتگو اور سنسکرت کی علمی قابلیت نے سامعین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ دوسرا مناظرہ >کیا قرآن مجید کامل الہامی کتاب ہے<۔ کے مضمون پر تھا۔ جو مولوی ابوالعطاء صاحب نے کیا۔ آپ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ۱۲ دلائل قرآن مجید سے پیش کئے۔ آریہ مناظر صاحب کو ان میں سے ایک دلیل بھی توڑنے کی جرات نہ ہوسکی۔ مناظروں کے اختتام پر مسلمان` ہندو اور سکھ سب کی زبان پر احمدی مناظر کی کامیابی اور آریہ مناظر کی کھلی شکست کے چرچے تھے۔ حتیٰ کہ خود آریہ صاحبان نے اپنے مناظر کی کمزوری اور احمدی مناظر کی کامیابی کا اقرار کیا۔
پنڈت سست دیو صاحب آریہ مناظر چونکہ دونوں مناظروں میں زک اٹھا چکے تھے اس لئے آریوں نے اپنا خاص قاصد لاہور بھیجا جو پنڈت چرنجی لال صاحب کو بلا لائے جنہوں نے >مسئلہ تناسخ< پر مناظرہ کیا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب نے نظریہ تناسخ کے رد میں قریباً چالیس عقلی اور علمی دلائل پیش کئے۔ ان مناظروں میں سامعین کی تعداد قریباً ۲ ہزار تک رہی۔ مناظروں کے خاتمہ پر اسلام کی فتح اور آریوں کی شکست پر مسلمانوں کی طرف سے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا گیا۔ بعض مسلمان معززین نے یہاں تک اقرار کیا کہ ان کے دل میں حضرت مرزا صاحبؑ کی عزت گھر کر گئی ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ انکا زبردست معجزہ ہے کہ انکے پیرو مخالفین اسلام کی کچلیاں توڑنے میں مصروف ہیں اور ہر میدان میں فتح حاصل کررہے ہیں۔۲۴۰
۹۔ مباحثہ راولپنڈی نمبر ۱:۔ راولپنڈی کے غیر مبائعین کا ایک جلسہ ۱` ۲۔ مئی ۱۹۳۷ء کو منعقد ہوا۔ ۲۔ مئی کو میر مدثر شاہ صاحب پشاوری نے تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی ۱۹۰۱ء سے قبل کی تحریرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت اقدسؑ نے اپنے تئیں مجازی نبی اور امتی نبی قرار دیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ آپ محدث ہیں۔ تقریر کے بعد ایک گھنٹہ سوال و جواب کے لئے تھا۔ جماعت احمدیہ راولپنڈی کی طرف سے اس موقعہ پر قاضی محمد نذیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تحریرات کی روشنی میں مدثر شاہ صاحب کی تقریر پر متعدد اعتراضات کئے جنہیں سن کر میر مدثر شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان گستاخی اور تمسخر پر اتر آئے اور احراریوں کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے عجیب قسم کی حرکات کرنے لگے اور پبلک نے پورے طور پر محسوس کرلیا کہ میر صاحب جماعت احمدیہ کے مطالبات کا جواب دینے سے سراسر قاصر رہے ہیں۔۲۴۱body] gat[
۱۰۔ مباحثہ راولپنڈی نمبر ۲:۔ راولپنڈی میں پہلے زبانی مباحثہ کے بعد غیر مبائعین سے ۲۰۔ جون سے لیکر ۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء تک ایک فیصلہ کن تحریری مناظرہ بھی ہوا۔ یہ مناظرہ ماسٹر دیوان چند صاحب سیکرٹری برہمو سماج کے ہال میں منعقد ہوا اور اس میں مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے جماعت احمدیہ کی طرف سے اور مولوی اختر حسین صاحب گیلانی اور مولوی عمرالدین۲۴۲ صاحب شملوی نے غیر مبائعین کی جانب سے بطور مناظر شرکت کی۔ مناظرہ کے دوران قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے جماعت احمدیہ راولپنڈی کی طرف سے پریذیڈنٹ کے فرائض انجام دئے۔ آپ کے علاوہ حضرت مولوی محمد اسٰمعیل صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ` مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا اور چودھری خلیل احمد صاحب ناصر بھی بطور معاون موجود رہے۔ مضامین زیر بحث یہ تھے۔ )۱( پیشگوئی مصلح موعود )۲( مسئلہ خلافت و انجمن )۳( مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام )۴( مسئلہ کفر و اسلام روزانہ تمام دن پرچے لکھے جاتے اور رات کے وقت نو بجے سنائے جاتے تھے۔۲۴۳
یہ عظیم الشان مناطرہ بعد کو مشترکہ اخراجات پر >مباحثہ راولپنڈی< کے نام سے شائع کر دیا گیا۔
۱۱۔ مباحثہ سنگرور۔ سنگرور میں ۱۷` ۱۸` ۱۹۔ جولائی کو تینوں اختلافی مسائل پر مناظرے ہوئے جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد یار صاحب عارف سابق مبلغ انگلستان نے اور اہلسنت و الجماعت کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختر نے بحث کی۔
بہت سے غیر احمدی معززین اور غیر مسلم شرفاء نے جماعت احمدیہ کے فاضل مناظر کی فاضلانہ تقریروں کی داد دی اور فریق ثانی کی بداخلاقی اور بدزبانی کا کھلا اعتراف کیا۔۲۴۴
چوتھا باب
حواشی
۱۔
الفضل ۸۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۲۔
الفضل ۲۳۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفہہ ۶۔ ۷۔
۳۔
الفضل ۲۳۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۴۔
الفضل ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۹۔
۵۔
الفضل ۱۹۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۔
الفضل ۷۔ مئی ۱۹۳۷ء۔
۷۔
ایضاً۔
۸۔
الفضل ۴۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۔
تقریر فرمودہ ۱۷۔ جون ۱۹۳۷ء مطبوعہ الفضل ۲۳۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۴۔
۱۰۔
ایضاً۔
۱۱۔
الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۴۸ء صفحہ ۴۔
۱۲۔
الفضل ۲۵۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۳۔
الفضل ۱۸۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۴۔
الفضل ۱۱۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۵۔
الفضل ۳۱۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۶۔
الفضل ۲۷۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۴ کالم ۱۔
۱۷۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۴ء صفحہ ۷۴۔
۱۸۔
الفضل ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۹۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۳۸ء صفحہ ۴۸۔
۲۰۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۱۹۳۸ء۔
۲۱۔
یہ خط الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۱ کالم ۱ میں شائع شدہ ہے۔
۲۲۔
اس خواب کے گواہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے علاوہ اڑیسہ کے ایک احمدی نیز ماسٹر چراغ الدین صاحب مدرس فارسی گورنمنٹ ہائی سکول قلعہ شیخوپورہ بھی تھے۔ جنہوں نے ۱۹۱۵ء میں خود حضور سے یہ خواب سنی۔ )الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۱` نیز >الفضل< یکم دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۳(
۲۳۔
تقریر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۷ء مطبوعہ >الفضل< ۱۴۔ اگست ۱۹۶۴ء۔
۲۴۔
ترجمہ۔ اس کی جڑ زمین میں محکم ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں۔ )مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ ۴(
۲۵۔
مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ ۱۵` ۷۲` ۷۳` تذکرہ طبع دوم صفحہ ۶۰` ۱۲۴۔
۲۶۔
الفضل ۲۷۔ فروری` ۲۔ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۳۔
۲۷۔
الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۲۲ء۔
۲۸۔
الفضل ۲۔ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳۔
۲۹۔
پمفلٹ کیا تمام خلیفے خدا ہی بناتا ہے صفحہ ۲ )از شیخ عبدالرحٰن صاحب مصری(
۳۰۔
پمفلٹ جماعت کو خطاب صفحہ ۲ )از شیخ عبدالرحمن صاحب مصری(
۳۱۔
اس خط کا پہلا ہی فقرہ یہ تھا کہ الفتنہ نائمہ لعن اللہ من ایقظہا یعنی فتنہ سورہا ہے خدا کی *** ہو اس پر جو جگاتا ہے۔ اس فقرہ میں فتنہ کو جگانے والے کے الفاظ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف اشارہ تھا۔ پس جو شخص خط کو شروع ہی *** سے کرتا ہے اس کے پورے خط میں کیا مضمون ہوگا اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔
۳۲۔
ان صاحب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے غیر مبائعین کے خلاف بدزبانی کرنے سے بار بار روکا مگر نہ صرف وہ باز نہ آئے بلکہ نظام خلافت اور نظام سلسلہ کے خلاف اندر ہی اندر منافرت پھیلانا شروع کر دی۔ تحقیقات پر جرم ثابت ہوا اور شروع جون ۱۹۳۷ء میں جماعت سے خارج کر دیئے گئے۔ )الفضل ۹۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۱( لیکن اعلان اخراج کے بعد انہوں نے حضور کی خدمت میں اپنا معافی نامہ لکھا جو الفضل ۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۳۔ ۴ میں بھی شائع کر دیا گیا۔ اس معافی نامہ میں انہوں نے اپنی سرکشانہ لغزشوں اور بے جا اتہاموں کا اقرار اور اپنے متمروانہ افعال پر ندامت و خجالت کا اظہار کرتے ہوئے غیروں سے تعلق رکھنے کو بے غیرتی اور دیوثی قرار دیا اور لکھا کہ اسے ایک رئویا ہوا ہے جس میں اسے بتایا گیا کہ وہ غلطی پر ہے اور اسے اپنے افعال شنیعہ سے توبہ کرنی چاہئے۔ یہ رئویا اتنا واضح تھا کہ خود ان کے اقرار کے مطابق ان کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور کبر و غرور توڑ دیا۔ اور ثلج قلب اور انشراح صدر حاصل ہوگیا۔ مگر اس رئویا کے باوجود اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے متنبہ کئے جانے کے باوجود اور یہ سمجھنے کے باوجود کہ اس پاک سلسلہ کے علمبردار کے مقابلہ میں ناپاک مخالفین کی امداد کرنے والے کے ایمان اور دین پر تف ہے۔ پھر بھی انہوں نے مصری صاحب سے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ناپاک اور اشتعال انگیز اشتہاروں اور پمفلٹوں کا ایک طویل سلسلہ جاری کر دیا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور نظام سلسلہ کے خلاف مفروضہ مظالم کی داستانیں پھیلا کر قادیان اور اس کے ماحول میں خاص طور پر ایک خطرناک کشیدگی کی فضا پیدا کردی۔ ملتانی صاحب نے انہیں دنوں ایک قلمی اشتہار فحش کا مرکز بورڈ پر چسپاں کیا۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو شرمناک گالیاں دی گئی تھیں۔ اس اشتہار سے مشتعل ہوکر قادیان کے ایک قلعی گرمیاں عزیز احمد نے ۷۔ اگست ۱۹۳۷ء کو ملتانی صاحب کو چاقو سے زخمی کر دیا اور جیسا کہ انہوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب گورداسپور کی عدالت میں بیان دیا۔ ان کی نیت قاتلانہ حملہ کی نہ تھی بلکہ اس سے غرض یہ تھی کہ وہ ایسے گندے اشتہار شائع کرنے سے باز رہے۔ لیکن بدقسمتی سے چاقو کا زخم کاری ثابت ہوا اور ملتانی صاہب ۱۳۔ اگست ۱۹۳۷ء کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ )پیغام صلح ۱۸۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۶۔ ۷( اور میاں عزیز احمد قلعی گر بھی ۸۔ جون ۱۹۳۸ء کو پھانسی دے دیا گیا۔ میاں عزیز احمد کی نعش قادیان میں آئی تو اگرچہ حضورؓ نے دوسروں کو اس کا جنازہ پڑھنے کی اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا۔
>اگر قانون اجازت دے تو شریعت اس میں ہرگز روک نہیں کیونکہ گنہ کے بعد اول توبہ دوم سزا شرعی یا قانونی اگر مل جائے تو ایسے شخص کا جنازہ پڑھنا منع نہیں ہے۔ ہاں چونکہ میاں عزیز احمد صاحب کا فعل بہرحال گنہ ہے` جنازہ کی کوئی ایسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ اسے قومی رنگ دیا جائے<۔
۳۳۔
الفضل ۱۹۳۷ء میں یہ اکثر خوابیں چھپ گئی تھیں جن کے پڑھنے سے خداتعالیٰ کا حیرت انگیز تصرف نظر آتا ہے کہ ان دنوں جبکہ مصری صاحب اپنے اخلاص و فدائیت کا بظاہر نمونہ سمجھے جاتے تھے اور جماعت میں ان کو ہر جگہ عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا` خداتعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت بکثرت رئویا دکھائی گئیں کہ مصری صاحب خلافت سے الگ ہونے والے ہیں۔
۳۴۔
الفضل ۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۳۵۔
الحکم ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۷` تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۲۴۔
۳۶۔
مصری صاحب اور ان کے ساتھی ادعا تو یہ کرتے تھے کہ وہ احمدی ہیں۔ مگر ان لوگوں کی احمدیت دشمنی یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ فخرالدین صاحب ملتانی کے طرف سے احمدیت کی مخالف اخبار زمیندار میں قادیان میں نیا امیرالمومنین منتخب کرلیا گیا۔ خلیفہ بشیر کو تخت سلطنت سے علیحدہ ہو جانے کا حکم کے پورے صفحہ کے عنوان سے ایک لمبا تار شائع کرایا کہ قادیان ۲۸۔ جولائی مجلس احمدیہ مرزائیوں کی اس جماعت کا نام ہے جنہوں نے قادیان کے موجودہ خلیفہ )موسیوبشیر( کے ساتھ رشتہ وفا توڑڑ دیا ہے۔ اس جماعت نے ۲۷۔ جولائی کو ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کرکے فیصلہ کیا کہ شیخ عبدالرحمن مصری امیر جماعت کی امارت کو جملہ ارکان نے قبول کرلیا ہے اس لئے ان کے امیر ہونے کا اعلان کر دیا جائے۔ مجلس امیر جماعت کے اس مطالبہ کی تائید کرتی ہے کہ حضرت امیر نے مرزا بشیر کے خلاف جو الزامات عائد کئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی جانچ پڑتال اور تفتیش کی غرض کے پیش نظر ایک آزاد کمیشن کا تقرر فی الفور عمل میں لے آیا جائے۔ اگر یہ الزامات صحیح ہوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیا خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔ اور جب جدید خلیفہ کا انتخاب عمل میں آجائے تو مجلس احمدیہ کو توڑ دیا جائے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جو حضرات خفیہ طور پر مجلس احمدیہ کے دائرہ رکنیت میں شامل ہوں ان کے اسماء گرامی صیغہ راز میں رکھے جائیں<۔ )زمیندار مورخہ ۲۹۔ جولائی ۱۹۳۷ء بحوالہ الفضل ۳۱۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۲( اس تار کا خلاصہ بڑے طمطراق سے اخبار پیغام صلح لاہور نے ۳۰۔ جولائی ۱۹۳۷ء کے ایشوع میں بھی شائع کیا۔
۳۷۔
بطور نمونہ پیغام صلح کے صرف چند عنوانات ملاحظہ ہوں۔ قادیانی خلیفہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کا بدترین دشمن ہے` قادیانی خلافت کے بازار تقدس میں کھوٹے سکے` ظالم مظلوم نما` قادیانی جذبہ خون آشامی کا نیا رخ` خلیفہ قادیان کی تعلیاں اور ان کے مریدوں کی اشتعال انگیزیاں۔ )پیغام صلح مورخہ ۳۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۳` ۹۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۳` ۱۸۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۳` ۳۰۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۳` ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۳(
۳۸۔
پیغام صلح ۹۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۳۹۔
پیغام صلح ۱۸۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۵۔
۴۰۔
پیغام صلح ۲۱۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۴۱۔
پیغام صلح ۶۔ اگست ۱۹۴۲ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۴۲۔
یہاں یہ لکھنا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے ایک بار خطبہ جمعہ میں یہ کہا کہ قادیان میں جو کچھ خلیفہ صاحب کے متعلق کہا جاتا ہے جو اندرونی الزامات خود مریدوں کی طرف سے شائع ہوئے ہیں` ہم نے کبھی ان کو شائع نہیں کیا۔ )پیغام صلح ۲۸۔ اپریل ۱۹۴۲ء صفحہ ۱۰ کالم ۱( یہ خطبہ سن کر خان بہادر میاں محمد صادق صاحب ریٹائرڈ ایس۔ پی سابق آنریری جنرل سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے مولوی صاحب موصوف کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا۔ آپ نے خلیفہ صاحب قادیان کے خلاف الزامات کی تشہیر میں ہمیشہ اخلاقی اور مالی مدد کی ہے۔ رقم بلا تفصیل سے جو مدد حکیم عبدالعزیز کو آپ کی طرف سے اس کام کے لئے دی جاتی رہی اس سے آپ حلفاًکبھی انکار نہیں کرسکتے۔ اس کے مقابل اعلانات میں آپ جھوٹ بولتے ہیں کہ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ چنانچہ اسی پیغام صلح )۲۸۔ اپریل( میں بھی آپ نے پھر وہی جھوٹ بولا ہے۔ کیا کسی متقی اور شریف آدمی کے لئے مناسب ہے۔ )رسالہ فرقان قادیان مئی ۱۹۴۲ء صفحہ ۳۳(
۴۳۔
اشتہار جماعت کو خطاب صفحہ۲ )از شیخ عبدالرحمن صاحب مصری(
۴۴۔
پمفلٹ بڑا بول صفحہ ۲۔ ۱ )از شیخ عبدالرحمن صاحب مصری(
۴۵۔
پمفلٹ جماعت احمدیہ کی خدمت میں ایک دردمندانہ اپیل صفحہ ۲ )از شیخ عبدالرحمن صاحب مصری(
۴۶۔
شیخ مصری صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو خطاب کرتے ہوئے لکھا۔ حضرت نبی کریم~صل۱~ کے بعد ایک گروہ خوارج کا نکلا۔ جس نے خلفاء کی بیعت کا یہ کہتے ہوئے کہ الطاعہ للہ والامر شوری بیننا انکارکر دیا اسی طرح آنجناب~صل۱~ کے بروز کے بعد آپ نے اس کے خلیفہ کی بیعت سے یہی کہہ کر انکار کر دیا۔ )الفضل ۳۰۔ جنوری ۱۹۲۲ء صفحہ ۹(
اس عقیدہ کے برعکس مصری صاحب نے نظام خلافت سے بغاوت کے بعد ینگ اسلام )یکم فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۷( میں لکھا۔ میں اس بات کو دیکھ کر ہمیشہ دریائے حیرت میں غرق رہتا ہوں کہ کس طرح وہ جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بعد اس لئے چھوڑ گئے تھے کہ وہ اسلام کو از سر نو زندہ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس طرح بجائے حقیقی مسلمانوں کی اقتداء کرنے کے خوارج کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ )اس تعلق میں مولانا سید احمد علی صاحب کا مضمون شائع شدہ فاروق ۷۔ اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۷۔ ۸( قابل مطالعہ ہے اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا بہت ہی لطیف ہے اور جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ حوالوں کو یاد رکھیں )فاروق ۲۸۔ اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۸ کالم ۳(
۴۷۔
اس مطالبہ کی شرعی حیثیت کے تعلق میں الفضل ۷۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا ایک اہم مضمون قابل دید ہے۔
۴۸۔
مقدمات کی روداد کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو اخبار الفضل نومبر ۱۹۳۷ء تا فروری ۱۹۳۸ء۔
۴۹۔
الفضل ۱۸۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۵۰۔
اسماء مبائعین جن کی ضمانتیں طلب کی گئیں۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب` حضرت میر محمد اسحٰق صاحب` مولانا ابوالعطاء صاحب۔
۵۱۔
یہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ایک رئویا لکھنا مناسب ہوگا۔ حضور نے فرمایا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی عبدالرحمن صاحب مصری کا ذکر آیا ہے اور میرے دل میں ان کے لئے دعا کی تحریک بڑے زور سے ہوئی میں اس وقت چارپائی پر قبلہ رخ بیٹھا تھا۔ فوراً سجدہ میں گرگیا اور نہایت عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہ انہیں ہدایت دے۔ اس دعا کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ دعا قبول ہوگئی ہے۔ اس پر میں نے سجدہ سے سراٹھایا اور میرے دل میں یقین تھا کہ اب شیخ صاحب کھچے ہوئے وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔ میں نے دائیں اور بائیں دیکھا لیکن وہ نظر نہیں آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ٹہل رہا ہوں کہ اتنے میں شیخ صاحب وہاں آگئے اور عقیدت کے ساتھ مجسے مصافحہ کیا اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تائب ہوگئے ہیں۔ )الفضل ۹۔ مارچ ۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲(
قطع نظر اس کے کہ اس خواب کی اصل تعبیر کیا ہے` یہ حقیقت بالکل نمایاں ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے قلب صافی میں مصری صاحب کے لئے ذاتی طور پر ہمیشہ محبت کے جذبات موجزن رہے۔ و لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا۔
۵۲۔
الفضل ۳۰۔ جولائی ۱۹۳۷ء۔
۵۳۔
الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۵۴۔
الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ تا ۱۲۔
۵۵۔
الفضل ۹۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۸۔
۵۶۔
چنانچہ حضور نے ۲۳۔ جولائی ۱۹۳۷ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔ جس قسم کے گندے اعتراض وہ کررہے ہیں اور جس قسم کے ناپاک حملوں کے کرنے کی ان کی طرف سے اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں` اگر وہ ان پر مصر رہے اور اگر انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے توبہ نہ کی تو میں کہتا ہوں احمدیت کیا اگر ان کے خاندانوں میں حیا بھی باقی رہی تو وہ مجھے کہیں بلکہ میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ جس قسم کے خلاف اخلاق اور خلاف حیا وہ حملے کررہے ہیں اس کے نتیجہ میں اگر ان کے خاندان فحش کا مرکز بن جائیں تو اسے بعید از عقل نہ سمجھو۔ )الفضل یکم اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱(
۵۷۔
الفضل ۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۔
۵۸۔
ملخصاً از تقریر مولوی شیخ عبدالرحمن صاحب مصری مطبوعہ پیغام صلح ۸۔ جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۵۹۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مصری صاحب کے ایک رشتہ دار چودھری عنایت اللہ صاحب مبلغ مشرقی افریقہ کا مضمن مطبوعہ اخبار بدر قادیان ۶۔ اگست ۱۹۶۴ء و رسالہ الفرقان ربوہ مئی و جون ۱۹۶۵ء صفحہ ۹۸۔ ۱۰۰۔
۶۰۔
الفضل قادیان ۱۸۔ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳۔
۶۱۔
حضرت امیر مرحوم کے دکھوں کی داستان صفحہ ۱۶۔ ناشر مولوی عبدالوہاب احمدیہ بلڈنگس برانڈرتھ روڈ لاہور۔
۶۲۔
بحوالہ رسالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب میں ناشر ناظر اصلاح و ارشاد ربوہ۔
۶۳۔
الفضل ۱۸۔ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۶۴۔
الفضل ۱۴۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۴۔
۶۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ۔ یکم مئی ۱۹۳۷ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۳ تا ۵۵۔
۶۶۔
ایضاً صفحہ ۵۵۔
۶۷۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ۔ یکم مئی ۱۹۳۹ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۹۶۔ ۹۷۔
۶۸۔
الفضل ۱۴۔ مارچ ۱۹۴۰ء صفحہ ۶۔
۶۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۔ یکم مئی ۱۹۳۹ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۹۷ و الفضل ۶۔ اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
‏tav.8.29
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چوبیسواں سال
۷۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ۔ یکم مئی ۱۹۳۸ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۰۰۔
۷۱۔
اب فوت ہوچکے ہیں۔
۷۲۔
تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے بہت سی مشکلات اور مصائب برداشت کیں۔ حتیٰ کہ ایک بار قید بھی ہوئے۔ مگر نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا۔ آج کل اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
۷۳۔
اب شینگے احمدیہ سکول کے ہیڈماسٹر ہیں۔
۷۴۔
الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب کے ساتھ بطور ترجمان کام کرتے رہے۔ ان دنوں فری ٹائون پرائمری سکول کے ہیڈماسٹر اور جماعت احمدیہ سیرالیون کے جنرل سیکرٹری ہیں۔
۷۵۔
اب تک تبلیغ سلسلہ میں نہایت اخلاص سے مصروف ہیں۔
۷۶۔
ایضاً۔
۷۷۔
صدر انجمن احمدیہ قادیان کی ایک مطبوعہ رپورٹ )بابت یکم مئی ۱۹۴۱ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۲ء صفحہ ۲۶( سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں شیخ علی مانسری اور مسٹر عبدالباری نامی احمدی افریقن بھی تبلیغ پر مقرر تھے۔ موخر الذکر روکو پر سکول کے ہیڈماسٹر بھی رہے ہیں۔
۷۸۔
آپ ۲۴۔ فروری ۱۹۴۰ء کو لنڈن سے عازم سیرالیون ہوئے۔ رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۹ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۹۷۔
۷۹۔
قبیلہ اور زبان کا نام۔
۸۰۔
الفضل ۶۔ اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۶۔
۸۱۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ۔ یکم مئی ۱۹۴۰ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۴۲۔ ۴۳۔
۸۲۔
الفضل ۲۵۔ نومبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۸۳۔
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے خود نوشت حالات سے ماخوذ۔
۸۴۔
الفضل ۲۵۔ نومبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۴۔ ۵۔ دارالتبلیغ کی تعمیر کے دنوں میں مگبورکا میں مخالفت کا زور بڑھ گیا۔ حتیٰ کہ ایک روز ایک بدبخت نے مولوی محمد صدیق صاحب پر حملہ کرکے ان کی آنکھیں ضائع کرنا چاہیں۔ لیکن ناکام رہا۔ )الفضل ۱۸۔ مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۲(
۸۵۔
الفضل ۲۵۔ نومبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۸۶۔
الفضل ۱۰۔ ستمبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔
۸۷۔
الفضل ۲۹۔ جون ۱۹۴۵ء صفحہ ۳ کالم ۱۔ ۲۔
۸۸`۸۹۔
الفضل ۶۔ مارچ ۱۹۵۸ء صفحہ ۳۔ ۴۔
مگبورکا میں بھی مخالفت کے دوران خدائی نصرت کا ایک عجیب نظارہ دیکھنے میں آیا۔ ۱۹۴۴ء کی بات ہے کہ۔
>ایک شامی عرب نے اس بات پر بگڑ کر کہ اس کے لڑکے کے ساتھ جو احمدیہ سکول میں پڑھتا ہے۔ افریقن کالے لڑکوں کے مقابلہ میں امتیازی سلوک کیوں نہیں کیا جاتا۔ مخالفت شروع کر دی۔ ہمارے مبلغ نے اسے بتایا کہ یہ ہم سے نہیں ہوسکتا کہ سفید اور کالے میں فرق کیا جائے۔ مگر اس نے اپنے لڑکے سکول سے نکال لئے اور بعض دوسرے شامیوں سے بھی ایسا ہی کرایا اور مخالفت شروع کر دی۔ ایک دفعہ اس نے ہمارے مبلغین کو سر بازار گالیاں دیں اور حملہ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ مگر انہوں نے صبر سے کام لیا اور خداتعالیٰ سے دعا کرتے رہے۔ ایک دن اس نے شامیوں کی ایک مجلس میں کہا کہ اب ہم ایک قلیل عرصہ میں احمدیت کو یہاں سے نکال دیں گے اور اس سکول کو برباد کر دیں گے۔ مگر احمدی احباب ان لوگوں کے مقابل میں کمزور تھے اور مخالفین کا بڑا جتھا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اپنے بندوں کے لئے ظاہر ہوئی اس کی غیرت نے جوش مارا اور وہ شخص جو مدت سے بڑے دعوے کرتا تھا خداتعالیٰ کی گرفت کا شکار ہوگیا۔ اس کا وہی لڑکا جو اس نے احمدیہ سکول سے اٹھا لیا تھا تپ محرقہ کا شکار ہوکر مر گیا۔ اور اس کا بڑا لڑکا سرکاری مال کی چوری کے الزام میں پکڑا گیا۔ اور اسے بچانے کی تگ و دو کے سلسلہ میں اسے قریباً ایک ہزار پونڈ صرف کرنا پڑا۔ مگر پھر بھی اسے تیرہ ماہ قید سخت اور رہا ہونے کے بعد اخراج از ملک کی سزا ہوئی۔ ایک موقع پر ایک شامی نے سفارش کی کہ اس کے سب سے چھوٹے لڑکے کو پھر سکول میں داخل کرلیا جائے۔ مگر احمدی مبلغین نے یہ شرط پیش کی کہ وہ خود اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ اس بات سے بگڑ کر اس نے ریلوے سٹیشن مگبور کا پر پھر احمدیوں کا برا بھلا کہا اور بدزبانی کی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے غریب بندوں کے لئے اس قدر غیرت دکھائی کہ وہ فری ٹائوں پہنچتے ہی جہاں وہ جارہا تھا بغیر لائسنس کے سونا فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا اور اٹھارہ تولہ سونا بھی جو اس کے قبضہ میں تھا ضبط کرلیا گیا۔ عدالت میں مقدمہ چلا جہاں سے سونے کی ضبطی کے علاوہ اسے جرمانہ کی سزا ہوئی۔ اس کے بعد اس پر ناجائز ذخیرہ اندوزی کے جرم میں بھی مقدمہ چلایا گیا اور اب اس کا سٹور بھی ضبط کرلیا گیا<۔ الفضل ۲۰۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۹۰۔
الفضل ۲۸۔ ستمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔
۹۱۔
الفضل ۱۲۔ مئی ۱۹۴۵ء صفحہ ۵ کالم ۱` ۲ ۳۔
۹۲۔
روزنامہ الفضل قادیان دارالامان ۲۔ اگست ۱۹۴۵ء۔
۹۳۔
ایضاً۔
۹۴۔
الفضل ۲۔ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ کالم ۳۔ ۴۔
۹۵۔
آپ پاکستان میں پہلی بار ۱۶۔ ستمبر ۱۹۵۲ء کو تشریف لائے۔
۹۶۔
الفضل ۱۳۔ فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۲۔
۹۷۔
الفضل ۲۷۔ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۹۸۔
الفضل ۶۔ جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۹۹۔
مرض الموت کے کوائف اور سیرالیون مشن کے دیگر حالات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ تابعین اصحاب احمد جلد چہارم )مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
۱۰۰۔
الفضل ۲۷۔ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۲۔ مولوی نذیر احمد علی صاحب کی وفات کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے نسیم سیفی صاحب کو مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ مقرر فرمایا۔ آپ ۱۹۶۴ء تک اس منصب پر فائز رہے اور ۱۹۶۴ء میں پاکستان واپس تشریف لائے۔
۱۰۱۔
چوہدری صاحب ۱۶۔ جون ۱۹۴۴ء کو قادیان سے روانہ ہو کر نومبر ۱۹۴۴ء میں سیرالیون پہنچے پھر جون ۱۹۴۷ء میں نائیجیریا منتقل کر دیئے گئے وسط ۱۹۴۸ء میں آپ کا تبادلہ گولڈ کوسٹ میں کردیا گیا۔ ۱۹۴۹ء میں آپ دوبارہ سیرالیون بھیج دیئے گئے۔ جہاں کچھ عرصہ تبلیغی خدمات بجا لانے کے بعد نیروبی اور یوگنڈا )مشرقی افریقہ( سے ہوتے ہوئے نومبر ۱۹۵۱ء میں ربوہ آگئے۔
۱۰۲۔
۲۸۔ فروری ۱۹۴۶ء کو سیرالیون تشریف لائے۔ یہاں آپ فری ٹائون مشن کے انچارج بنائے گئے اور اہم دینی خدمات ادا کرنے کے بعد ۱۱۔ فروری ۱۹۵۲ء کو روانہ ہو کر ۱۶۔ اپریل ۱۹۵۲ء کو واپس ربوہ میں پہنچے۔
۱۰۳۔
سیرالیون میں آمد ۲۸۔ فروری ۱۹۴۶ء۔
۱۰۴۔
۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو سیرالیون میں پہنچے اور ۱۹۵۳ء میں واپس پاکستان میں آئے۔
۱۰۵۔
الفضل ۲۸۔ جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۱۰۶۔
الفضل ۷۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۴ و تابعین اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۱۹۹۔
۱۰۷۔
۲۷۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو سیرالیون پہنچے فروری ۱۹۴۹ء میں گولڈ کوسٹ منتقل کئے گئے۔ دوبارہ جون ۱۹۶۲ء میں مرکز سے سیرالیون بھیجے گئے اور جماعت احمدیہ سیرالیون کے امیر اور انچارج مبلغ کے فرائض انجام دینے کے بعد ۱۹۶۷ء کو واپس ربوہ آگئے۔
۱۰۸۔
جون ۱۹۴۸ء میں سیرالیون پہنچے اور ۱۹۵۶ء تک جماعتی نظام کے تحت مشن کے تجارتی شعبہ کے انچارج رہے۔
۱۰۹۔
۳۔ مارچ ۱۹۴۸ء کو فری ٹائون پہنچے اور یکم مارچ ۱۹۵۰ء کو مرکز میں آئے دوبارہ ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو روانہ کئے گئے اور ۲۲۔ دسمبر ۱۹۵۶ء کو ربوہ میں پہنچے۔ الفضل ۸۔ فروری ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔ الفضل ۲۵۔ مئی ۱۹۴۹ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ الفضل ۵۔ اگست ۱۹۴۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۰۔
۸۔ جنوری ۱۹۴۹ء کو سیرالیون میں وارد ہوئے۔ )الفضل ۸۔ فروری ۱۹۴۹ء صفحہ ۵( واپسی ۶۔ ستمبر ۱۹۶۲ء کو ہوئی۔
۱۱۱۔
روانگی ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء )الفضل ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۵۰ء(واپسی یکم فروری ۱۹۵۵ء۔
۱۱۲۔
پہلی بار روانگی ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۵۲ء۔ واپسی ۲۲۔ دسمبر ۱۹۵۶ء۔ دوبارہ روانگی ۹۔ دسمبر ۱۹۵۹ء۔ واپسی ۲۳۔ دسمبر ۱۹۶۲ء۔ آپ سیرالیون مشن کے امیر اور انچارج مبلغ کے عہدہ پر بھی ممتاز رہے۔
۱۱۳۔
روانگی ۲۷۔ جنوری ۱۹۵۵ء )الفضل ۲۹۔ جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۱( واپسی ۱۸۔ دسمبر ۱۹۵۸ء۔
۱۱۴۔
روانگی ۲۷۔ جنوری ۱۹۵۵ء )الفضل ۲۹۔ جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۱( واپسی ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء۔
۱۱۵۔
روانگی ۲۷۔ جنوری ۱۹۵۵ء )الفضل ۲۹۔ جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۱( واپسی ۲۳۔ جولائی ۱۹۵۸ء۔
۱۱۶۔
پہلی بار روانگی ۲۳۔ دسمبر ۱۹۵۶ء واپسی ۹۔ فروری ۱۹۶۱ء۔ دوسری بار روانگی ۲۰۔ مار ۱۹۶۲ء۔ واپسی ۱۹۶۴ء۔
۱۱۷۔
روانگی ۲۱۔ فروری ۱۹۵۸ء واپسی ۹۔ جون ۱۹۶۱ء۔
۱۱۸۔
روانگی ۲۱۔ فروری ۱۹۵۸ء۔
۱۱۹۔
روانگی ۵۔ اپریل ۱۹۵۸ء واپسی ۹۔ فروری ۱۹۶۱ء۔
۱۲۰۔
روانگی ۱۲۔ اپریل ۱۹۵۸ء واپسی ۲۷۔ فروری ۱۹۶۰ء۔
۱۲۱۔
روانگی ۶۔ ستمبر ۱۹۵۸ء واپسی ۹۔ مارچ ۱۹۶۰ء۔
۱۲۲۔
اکتوبر ۱۹۵۸ء میں نائیجیریا سے سیرالیون پہنچے۔ ۱۹۶۲ء تک سیرالیون میں مصروف تبلیغ رہے۔
۱۲۳۔
روانگی ۱۹۔ نومبر ۱۹۶۰ء واپسی ۲۱۔ دسمبر ۱۹۶۳ء۔
۱۲۴۔
روانگی ۱۸۔ جون ۱۹۶۱ء واپسی ۲۔ دسمبر ۱۹۶۲ء۔
۱۲۵۔
پہلی بار روانگی ۲۰۔ جولائی ۱۹۶۱ء واپسی ۲۱۔ ستمبر ۱۹۶۴ء۔ دوبارہ روانگی ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۶۷ء۔
۱۲۶۔
الفضل ۴۔ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۲۷۔
المصلح ۱۱۔ فروری ۱۹۵۴ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۲۸۔
الفضل ۲۰۔ فروری ۱۹۵۹ء صفحہ ۳ کالم ۲` ۳۔
۱۲۹۔
اخبار کے اجراء پر سیرالیون گورنمنٹ کے وزیر مواصلات ورسل ورسائل آنریبل ایم۔ ایس مصطفیٰ سنوسی نے اس کے ایڈیٹر کے نام حسب ذیل پیغام بھیجا۔ میں آپ کو اور آپ کے احمدیہ مشن کو اس شاندار اور عظیم القدر کام پر جسکا بیڑا آپ نے سارے مغربی افریقہ میں عموماً اور سیرالیون میں خصوصاً اٹھایا ہے۔ ہدیہ مبارکباد پیش کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کرتا ہوں۔ افریقن کریسنٹ کا اجراء آپ کے کام میں جو آپ تعلیمی اور مذہبی میدان میں سرانجام دے رہے ہیں ایک گرانقدر اضافہ کا موجب ہوا ہے اور سیرالیون کے ایک گروہ عظیم کی دیرینہ خواہش اور ضرورت کی تکمیل کا پیش خیمہ ہے۔ اس اخبار کا مقصد چونکہ محض اشاعت اسلام اور اس کی صحیح اور اصلی تعلیم سے لوگوں کو آشنا کرنا اور ملک کی عام خدمت ہے لہذا مجھے امید واثق ہے کہ یہ اخباری دنیا میں اور عوام کی نظروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
خداتعالیٰ آپ کے اس نئے فریضہ میں جس کی ذمہ داری آپ نے اٹھائی ہے۔ برکت ڈالے اور متلاشی حق والوں کے دل آپ کی اخلاقی اور مالی امداد کے لئے کھول دے۔ خداتعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ اسے استقلال اور مداومت سے جاری رکھ سکیں۔ )دستخط ایم۔ ایس مصطفیٰ( )ترجمہ منقول از اخبار الفضل ربوہ ۱۶۔ نومبر ۱۹۵۵ء(
۱۳۰۔
الفضل ۱۵۔ نومبر ۱۹۵۵ء صفحہ ۳۔
۱۳۱۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۴ کالم ۳۔ ان کی قربانی اور اخلاص کا انداز اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انہوں نے یہ مکان وقف کیا تو اس وقت ان کی اپنی رہائش کے لئے کوئی دوسری رہائش گاہ موجود نہیں تھی مگر اس کے بعد خداتعالیٰ نے انہیں ایک نیا مکان بنانے کی توفیق عطا فرمادی۔
۱۳۲۔
الفضل ۶۔ ستمبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۱۳۳۔
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج مراد ہیں۔
۱۳۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا انصاراللہ سے خطاب مورخہ ۲۷۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء۔ روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۶۔ مارچ ۱۹۵۷ء۔
۱۳۵۔
الفضل ۳۰۔ اگست ۱۹۵۹ء صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۳۔
۱۳۶۔
الفضل ۱۸۔ جون ۱۹۶۱ء صفحہ ۳ کالم ۴۔
۱۳۷۔
الفضل ۱۸۔ جون ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۔
۱۳۸۔
اس مقام کا انگریزی میں نام ہی >۴۷ <MILE ہے۔
۱۳۹۔
روانگی از ربوہ ۲۴۔ اکتوبر ۱۹۶۰ء واپسی یکم جولائی ۱۹۶۳ء۔
۱۴۰۔
پہلی بار روانگی از ربوہ۔ ۱۴۔ جولائی ۱۹۶۳ء۔
۱۴۱۔
پاپا کا لفظ احتراماً سیرالیون میں جناب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
۱۴۲۔
جن جماعتوں نے احمدیت کی خاطر بہت مصائب اور مشکلات برداشت کیں ان کے نام درج ذیل ہیں۔ ۱۔ جماعت مانووا ضلع کیلاہوں۔ ۲۔ جماعت پوٹے ہوں ضلع کینما۔ ۳۔ جماعت مانو کوٹوہوں ضلع کینما۔ ۴۔ جماعت جوئی ضلع کینما۔ ۵۔ جماعت باڈو ضلع کینما۔ ۶۔ بوابواٹا نینائوں ضلع کینما۔ جماعت بوا اور پائوماہوں ضلع بو۔
۱۴۳۔
اخبار الفضل ۲۲۔ ستمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۴۔
۱۴۴۔
آج کل مذکورہ بالا چیف آنریبل ناصر الدین کے گاما نگاجے پی ایم بی ای سیرالیون پارلیمنٹ کے ممبر اور سیرالیون کیBOARD MARKETTING AND ME PLO کے ڈائریکٹر ہیں اور جماعت احمدیہ سیرالیون کے پریذیڈنٹ بھی آپ خدا کے بفضل سے نہایت مخلص نوجوان ہیں۔ ناصرالدین ان کا نام حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ہی رکھا تھا۔
۱۴۵۔
الفضل ۱۱۔ جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۳ کالم ۱۔ ۳۔
۱۴۶۔
الفضل ۱۱۔ جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۳ و ۴ کالم ۴۔ ۱۔
۱۴۷۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۱ و ۸-
۱۴۸۔
بحوالہ الفضل ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۴۹۔
الفضل ۱۲۔ مارچ ۱۹۵۸ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۵۰۔
نام۔ چیف ہوٹانگوا۔
۱۵۱۔
الفضل ۱۹۔ جنوری ۱۹۵۸ء صفحہ ۳۔
۱۵۲۔
الفضل ۱۹۔ جنوری ۱۹۵۸ء صفحہ ۴۔
‏]1h [tag۱۵۳۔
الفضل ۱۲۔ دسمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۳۔
۱۵۴۔
ایضاً۔ الفضل ۹۔ اپریل ۱۹۶۵ء صفحہ ۴۔
۱۵۵۔
الفضل ۹۔ فروری ۱۹۶۵ء صفحہ ۴۔
۱۵۶۔
الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔
۱۵۷۔
الفضل ۳۔ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۴۔
۱۵۸۔
بحوالہ رسالہ انصاراللہ ربوہ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۱۔ ۴۳۔
۱۵۹۔
بحوالہ بدر قادیان دارالامان ۱۴۔ فروری ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۔
۱۶۰۔
سیرروحانی )تقریر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء( صفحہ ۷ و ۸ طبع اول اپریل ۱۹۴۱ء طبع دوم صفحہ اول۔
۱۶۱۔
الفضل ۵۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۲۔
ایضاً الفضل ۵۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۱۶۳۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۶۴۔
الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۵۔
الفضل ۳۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۶۔
الفضل ۵۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۷۔
سیرروحانی جلد اول صفحہ ۸ طبع اول اپریل ۱۹۴۱ء۔
۱۶۸۔
حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۷ء پر دوبارہ یہ تحریک فرمائی )رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان یکم مئی ۱۹۳۸ء تا ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۳۰(
۱۶۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے نزدیک صحابی کی تعریف۔ جس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہو اور پھر ارتداد نہیں کیا خواہ درمیان میں کس قدر کمزور ہوگیا ہو۔ وہ یقیناً صحابی ہے اس میں کوئی شک نہیں<۔ ۰الفضل ۲۴۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱(
۱۷۰۔
الفضل ۲۶۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ و ۳۔
۱۷۱۔
یہ فہرست جو خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔ ضمیمہ کتاب میں شامل کر دی گئی ہے۔
۱۷۲۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۸ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۳۰۔ ۲۳۲۔
۱۷۳۔
جن صحابہ کی روایات محفوظ کی گئیں ان کی مکمل فہرست ضمیمہ کتاب میں موجود ہے۔ )موجودہ ایڈیشن میں یہ شامل متن کردی گئی ہے(
۱۷۴۔
ملاحظہ ہو رجسٹر >روایات صحابہ< جلد ۱۳۔ ان رجسٹروں کے مجموعی صفحات ۳۸۱۳ ہیں۔
۱۷۵۔
ایضاً۔
۱۷۶۔
ایضاً۔
۱۷۷۔
ملاحظہ ہو رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۴۲ء۔
۱۷۸۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۴۲ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۴۴` ۴۵۔
۱۷۹۔
یعنی مصری پارٹی کا فتنہ جس کی تفصیلات پر حضور نے ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۷ء کی تقریر میں بڑی شرح و بسط سے روشنی ڈالی اور اس کی نسبت حضرت مسیح موعودؑ کے متعدد الہامات بیان فرمائے اور بتایا کہ الہام الٰہی میں خوارج کا ایک گروہ پیدا ہونے کی خبر موجود تھی جو پوری ہوگئی۔ اس وضاحت کے بعد حضور نے خوارج کی فتنہ انگیزیوں کی تفصیل بتائی۔ اور خوارج اور مصری پارٹی میں عقائد کے لحاظ سے تیرہ زبردست مشابہتیں اور تاریخی لحاظ سے پانچ مشابہتیں بیان فرمائیں۔ حضرت امیرالمومنینؓ کی اس معرکتہ الاراء تقریر نے اس فتنہ کا تار و پود بکھیر کے رکھ دیا اور جماعت احمدیہ پہلے سے بھی زیادہ عقیدت و الفت کے ساتھ یقین کی اس مستحکم چٹان پر قائم ہوگئی کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اسے معزول نہیں کرسکتی۔ )مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو۔ الفضل ۱۴۔ اگست ۱۹۶۴ء صفحہ ۳ تا ۲۳۔ اگست ۱۹۶۴ء(
۱۸۰۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے کتاب >انقلاب حقیقی< کی نسبت فرمایا کہ >اس کتاب کے بعض حصے ایسے ہیں جو اپنے اندر الہامی رنگ رکھتے ہیں<۔ )الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۶ کالم ۲(
۱۸۱۔
یعنی آرین تحریک۔ رومن تحریک۔ ایرانی تحریک۔ بابلی تحریک۔ مغربی تحریک۔
۱۸۲۔
حضرت آدمؑ۔ حضرت نوحؑ۔ حضرت ابراہیمؑ۔ حضرت موسیٰؑ۔ حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے دور مذہبی۔
۱۸۳۔
انقلاب حقیقی طبع اول صفحہ ۱۱۳۔
۱۸۴۔
ایضاً صفحہ ۱۲۵۔ حضرت امیرالمومنینؓ نے ۱۹۳۹ء کے سالانہ جلسہ پر اس عہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ >بعض زمینداروں نے شاندار نمونہ دکھایا ہے مگر لاکھوں کی جماعت میں یہ مثالیں بہت کم ہیں۔ )الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۷ کالم ۱( ایضاً الفضل ۴۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۱۸۵۔
انقلاب حقیقی صفحہ ۱۲۹۔
‏]1h [tag۱۸۶۔
انقلاب حقیقی طبع اول صفحہ ۱۳۱ و ۱۳۲۔ حضرت امیرالمومنین کا یہ لیکچر دوبارہ کتابی شکل میں شائع کیا جاچکا ہے۔ )الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۶(
۱۸۷۔
الفضل ۱۵۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۱۸۸۔
الفضل ۲۸۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۸۹۔
ملاحظہ ہو بیان حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی مطبوعہ تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحہ ۱۷۲۔ مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۷۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۔
۱۹۰۔
الفضل ۲۳۔ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ الفضل ۱۶۔ مارچ ۱۹۳۷ء میں ان کے ایک مباحثہ کے کوائف درج ہیں جو انہوں نے ۲۴۔ ۱۹۲۳ء میں غیر مبائعین سے کیا اور جس سے ان کے گہرے مطالعہ` حاضر جوابی اور حکمت عملی کا پتہ چلتا ہے۔
۱۹۱۔
اخبار پیغام صلح ۷۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۹۲۔
الفضل ۲۲۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۹۳۔
الفضل ۲۵۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۹۴۔
الفضل ۲۰۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ و ۹۔
۱۹۵۔
الفضل ۲۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ و ۹۔
۱۹۶۔
الفضل ۲۹۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۱۹۷۔
الفضل ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۹۸۔
الفضل ۲۱۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۱۹۹۔
الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۰۰۔
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے ماموں ۱۹۲۰ء کے قریب داخل احمدیت ہوئے بہت ہی مخلص تھے` تہجد گزار اور سلسلہ کے فدائیوں میں سے تھے ۷۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ )الفضل ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۲(
۲۰۱۔
الفضل ۲۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ جماعت دہلی کے مخلص اور جوشیلے احمدی تھے۔ ان کے والد میر احمد حسن صاحب )صحابی حضرت مسیح موعودؑ( نے مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے مریدوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھائیں۔ کئی بار ماریں کھائیں۔ )الفضل ۷۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۹(
۲۰۲۔
الفضل ۹۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ مرحوم اواخر ۱۹۱۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ سلسلہ کے ساتھ محبت اور خدمات کے اعتبار سے آپ مخلصین کی ¶صف اول میں تھے۔ کئی بار قادیان تشریف لاکر کافی عرصہ قیام کرتے رہے۔ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے حد اخلاص و عقیدت رکھتے تھے۔ )الفضل ۱۰۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۲۰۳۔
الفضل ۲۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۲۰۴۔
الفضل ۲۰۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ الفضل ۲۵۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۰۵۔
الفضل ۲۷۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۔
۲۰۶۔
الفضل ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
‏h1] [tag۲۰۷۔
الفضل ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۰۸۔
الفضل ۴۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۰۹۔
الفضل ۸۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۱۰۔
الفضل ۷۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۲۱۱۔
الفضل ۶۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۲۱۲۔
الفضل ۱۹۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ پروفیسر مذکور نے ۱۳۔ جولائی ۱۹۳۷ء کو ناظر اعلیٰ صاحب کے نام شکریہ کا ایک مکتوب لکھا جو الفضل ۲۳۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ پر شائع ہوچکا ہے۔
۲۱۳۔
الفضل ۳۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۔
۲۱۴۔
الفضل یکم مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۱۵۔
الفضل ۴۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۱۶۔
الفضل ۹۔ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۳۔ اخبار الفضل میں آسان کی بجائے احسان چھپ گیا ہے۔ جو سہو ہے۔
۲۱۷۔
الفضل ۸۔ دسمبر ۱۹۳۷ء۔
۲۱۸۔
الفضل ۱۷۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۱۹۔
الفضل ۲۳۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۲۰۔
الفضل ۱۲۔ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۔ آپ ۵۔ مارچ ۱۹۳۷ء کو کوبے )جاپان( میں پہنچ گئے۔ )الفضل ۷۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۲(
۲۲۱۔
الفضل ۶۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۲۲۔
آپ نے قادیان سے حیفا تک کے حالات الفضل ۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ پر شائع کرا دئے تھے۔
۲۲۳۔
الفضل ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۲۴۔
الفضل ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۲۵۔
بیت المقدس سے عمان کی راہ میں واقع ہے۔
۲۲۶۔
الفضل یکم اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۵ تا ۸۔
۲۲۷۔
الفضل ۹۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۲۸۔
الفضل ۴۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۸۔
۲۲۹۔
الفضل ۲۹۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۲۔
۲۳۰۔
الفضل ۲۵۔ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۲۳۱۔
الفضل ۱۹۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۲۳۲۔
الفضل ۲۳۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۳۳۔
الفضل ۱۸۔ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۷۔
۲۳۴۔
الفضل ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۔
۲۳۵۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۳ و ۴۔
۲۳۶۔
الفضل یکم اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۹۔
۲۳۷۔
الفضل ۹۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۲۔
۲۳۸۔
الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۳۹۔
الفضل ۲۷۔ اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۷۔
۲۴۰۔
الفضل ۶۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰۔
۲۴۱۔
قاضی محمد نذیر صاحب کے اعتراضات کی تفصیل اخبار الفضل ۱۳۔ مئی ۱۹۳۷ء صفحہ ۷ و ۸ پر چھپی ہوئی موجود ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
۲۴۲۔
مسئلہ نبوت پر مناظرہ آپ نے کیا تھا۔
۲۴۳۔
اس مناظرہ کے ستائیس شرائط تھیں جن پر عنایت اللہ صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ اور مرزا غلام ربانی صاحب سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام راولپنڈی نے دستخط کئے۔ )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مباحثہ راولپنڈی صفحہ الف۔ ج(
۲۴۴۔
الفضل ۲۵۔ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰۔
‏tav.8.30
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا پچیسواں سال
پانچواں باب )فصل اول(
مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد سے >سیر روحانی< کے پرمعارف لیکچروں کے آغاز تک
خلافت ثانیہ کا پچیسواں سال
)جنوری ۱۹۳۸ء تا دسمبر ۱۹۳۸ء بمطابق شوال ۱۳۵۶ھ تا ذی قعدہ ۱۳۵۷ھ(
مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام اور اس کی ابتدائی دس سالہ مختصر تاریخ
حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی نے اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص کے ماتحت عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے جن عظیم الشان تحریکات کی بنیاد
رکھی ان میں سے نہایت شاندار نہایت اہم اور مستقبل کے اعتبار سے نہایت دور رس نتائج کی حامل تحریک مجلس خدام الاحمدیہ ہے جس کا قیام ۱۹۳۸ء کے آغاز میں ہوا۔ حضور کو اپنے عہد خلافت کی ابتداء ہی سے احمدی نوجوانوں کی تنظیم و تربیت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی کیونکہ قیامت تک اعلائے کلمتہ اللہ اور غلبہ اسلام کے لئے ضروری تھا کہ ہر نسل پہلی نسل کی پوری قائم مقام ہو اور جانی اور مالی قربانیوں میں پہلوں کے نقش قدم پر چلنے والی ہو اور ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تربیت اس طور پر ہوتی رہے کہ وہ اسلام کا جھنڈا بلند رکھیں۔
حضرت امیرالمومنین نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف انجمنیں قائم فرمائیں مگر ان سب تحریکوں کی جملہ خصوصیات مکمل طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور حضرت امیرالمومنین کی براہ راست قیادت غیر معمولی توجہ اور حیرت انگیز قوت قدسی کی بدولت مجلس خدام الاحمدیہ میں تربیت پانے کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایسے مخلص اور ایثار پیشہ اور دردمند دل رکھنے والے اور انتظامی قابلیتیں اور صلاحتیں رکھنے والے مدبر دماغ میسر آگئے جنہوں نے آگے چل کر سلسلہ احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آئندہ بھی ہم خداتعالیٰ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نسل میں ایسے لوگ پیدا کرتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس مجلس کی بنیاد رکھتے ہوئے پیشگوئی فرمائی تھی کہ۔
>میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے )دشمن کے(۱ ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا۔ ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اس کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور درحقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے ،،،،،،،،،، بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے )کو( دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج نوجوانوں کی ٹریننگ کا زمانہ ہے اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہورہا۔ مگر جب قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔ درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے<۔۲
خدام الاحمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مجلس خدام الاحمدیہ کی تاسیس کے زمانہ میں واضح لفظوں میں اس کی غرض و غائیت یہ بیان فرما دی تھی۔
>میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولادوں کے دلوں میں۔ یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے۔ ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔ اگر ایک یا دو نسلوں تک یہ تعلیم محدود رہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے<۔۳
مجلس خدام الاحمدیہ کی داغ بیل
مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خصوصی اجازت اور شیخ محبوب عالم صاحب ایم۔ اے کی دعوت پر قادیان کے مندرجہ ذیل دس نوجوان ان کے مکان )متصل بورڈنگ مدرسہ احمدیہ( پر جمع ہوئے۔
)۱( مولوی قمر الدین صاحب )۲( حافظ بشیر احمد صاحب )۳( مولانا ظہور حسین صاحب )۴( مولوی غلام احمد صاحب فرخ )۵( مولوی محمد صدیق صاحب )۶( سید احمد علی صاحب )۷( حافظ قدرت اللہ صاحب )۸( مولوی محمد یوسف صاحب )۹( مولوی محمد احمد صاحب جلیل )۱۰( چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر۔
ان احباب نے صدارت کے لئے مولوی قمر الدین صاحب کا اور سیکرٹری کے لئے شیخ محبوب عالم صاحب خالد کا انتخاب کیا- ان نوجوانوں نے خداتعالیٰ کے فضل و نصرت پر بھروسہ رکھتے ہوئے تائید خلافت میں کوشاں رہنے اور اس کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف سینہ سپر ہونے کا عزم کیا۔
اس مجلس کی بنیاد چونکہ حضرت امیرالمومنین کی اجازت سے رکھی جارہی تھی اس لئے حضور ہی سے اس کا نام رکھنے کی درخواست کی گئی۔ حضور نے ۴۔ فروری ۱۹۳۸ء کو اس تنظیم کو >مجلس خدام الاحمدیہ< کے نام سے موسوم فرمایا اور فروری اور مارچ میں قادیان کے مختلف حلقوں میں اس کی شاخیں قائم کر دی گئیں۔ اس دوران میں مجلس کا کام یہ تھا کہ اس کے ارکان قرآن و حدیث` تاریخ` فقہ اور احمدیت و اسلام کے متعلق کتب دینیہ کا مطالعہ کرتے اور مخالف احمدیت و خلافت فتنوں کے جواب میں تحقیق و تدقیق کرتے۔ ان دنوں شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری کا فتنہ برپا تھا۔ چنانچہ مجلس نے یکے بعد دیگرے دو ٹریکٹ شیخ مصری صاحب کے اشتہاروں کے رد میں لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ پہلا ٹریکٹ >شیخ مصری صاحب کا صحیح طریق فیصلہ سے فرار< کے عنوان سے شائع ہوا۔ دوسرے کا عنوان >روحانی خلفاء کبھی معزول نہیں ہوسکتے< تھا۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ارکان مجلس کی ان ابتدائی علمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب بنائیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ لجنات اماء اللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نوجوانوں کی انجمنیں قائم کریں۔ قادیان میں بعض نوجوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہوا تو انہوں نے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کر دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے خاص طور پر انہیں یہ ہدایت دی ہے کہ جن لوگوں کی شخصیتیں نمایاں ہوچکی ہیں ان کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے تا انہیں خود کام کرنے کا موقعہ ملے ہاں دوسرے درجہ یا تیسرے درجہ کے لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے تا انہیں خود کام کرنے کی مشق ہو اور قومی کاموں کو سمجھ سکیں اور انہیں سنبھال سکیں۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس وقت تک انہوں نے جو کام کیا ہے اچھا کیا ہے اور محنت سے کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ شروع میں وہ بہت گھبرائے انہوں نے ادھر ادھر سے کتابیں لیں اور پڑھیں اور لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاں بات کا کیا جواب دیں۔ مضمون لکھے اور بار بار کاٹے مگر جب مضمون تیار ہوگئے اور انہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے<۔۴
اپریل ۱۹۳۸ء میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مسلسل خطبات کے ذریعہ قادیان اور باہر کی جماعتوں میں اس مجلس کے قیام کا ارشاد فرمایا۔ قبل ازیں مجلس کا کام صرف عملی حد تک تھا۔ مگر اب اس کا پروگرام مندرجہ ذیل تجویز ہوا۔
۱۔
اپنے ہاتھ سے روزانہ اجتماعی صورت میں آدھ گھنٹہ کام کرنا۔
۲۔
درس و تدریس۔
۳۔
تلقین پابندی نماز۔
۴۔
بیوگان معذوروں اور مریضوں کی خبر گیری۔
۵۔
تکفین و تدفین اور تقاریب میں امداد وغیرہ۔
اس بنیادی پروگرام کے ساتھ ساتھ حضرت امیرالمومنینؓ نے جماعت کے نوجوانوں کو انسداد آوارہ گردی اور فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ فرمایا۔
ان ابتدائی مراحل سے گزرے کے بعد بالاخر خدام الاحمدیہ کا مستقل لائحہ عمل حسب ذیل قرار پایا اور اسی کے مطابق مجلس کا کام بھی مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا۔
۱۔
سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں کی تنظیم۔
۲۔
سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں میں قومی روح اور ایثار پیدا کرنا۔
۳۔
اسلامی تعلیم کی ترویج و اشاعت۔
۴۔
نوجوانوں میں ہاتھ سے کام کرنے اور صاف ماحول میں ¶رہنے کی عادت پیدا کرنا۔
۵۔
نوجوانوں میں مستقل مزاجی پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
۶۔
نوجوانوں کی ذہانت کو تیز کرنا۔
۷۔
نوجوانوں کو قومی بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کے لئے ان کی ورزش جسمانی کا اہتمام۔
۸۔
نوجوانوں کو اسلامی اخلاق میں رنگین کرنا۔ )مثلاً سچ۔ دیانت اور پابندی نماز وغیرہ(
۹۔
قوم کے بچوں کی اس رنگ میں تربیت اور نگرانی کہ ان کی آئندہ زندگیاں قوم کے لئے مفید ثابت ہوسکیں۔
۱۰۔
نوجوانوں کو سلسلہ کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے کی ترغیب و تحریص۔
۱۱۔
نوجوانوں میں خدمت خلق کا جذبہ۔
۱۲۔
نوجوانان سلسلہ کی بہتری کے لئے حتی الوسع ہر مفید بات کو جامہ عمل پہنانا۔
عہدہ داران مرکزیہ
جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے پہلے سال کی صدارت کے لئے مولانا قمر الدین صاحب اور سیکرٹری شپ کے لئے شیخ محبوب عالم صاحب خالد کا انتخاب ہوا اور چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نائب سیکرٹری مقرر ہوئے۔ نومبر ۱۹۳۸ء میں سیکرٹری شپ کے فرائض چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر کے سپرد ہوئے اور اسسٹنٹ سیکرٹری سید مختار احمد صاحب ہاشمی منتخب ہوئے اور رضاکارانہ طور پر دفتری فرائض بجالانے لگے۔
دوسرے سال انتخاب میں حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے نام صدارت کا قرعہ پڑا اور چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر سیکرٹری تجویز کئے گئے۔
قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا مرکزی دفتر چوہدری علی محمد صاحب کے مکان میں )متصل ریتی چھلہ( قائم کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے بڑے بازار میں سید محمد اسماعیل صاحبؓ )برادر حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ( کی دکانوں کے چوبارہ میں اور پھر قصر خلافت کی طرف جانے والی گلی کے کونہ میں واقع منور بلڈنگ۵ کے چوبارہ میں بھی رہا۔ اور ازاں بعد اسے گیسٹ ہائوس )دارالانوار( میں منتقل کر دیا گیا۔
سید مختار احمد صاحب ہاشمی کا بیان ہے کہ خدام الاحمدیہ کے ابتدائی ایام میں حضور نے ہدایت دے رکھی تھی کہ جب بھی ہمیں کسی معاملہ میں کوئی دقت پیش آے تو ہم حضور سے مل سکتے ہیں اور راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ حضور کی اس اجازت سے کئی مرتبہ استفادہ کرکے ہدایات حاصل کی جاتی رہیں۔ ایک مرتبہ حضور نے نصیحت فرمائی کہ نوجوانوں کو غلط قیاس آرائی سے بچایا جائے۔ مثلاً اگر حکم دیا جائے کہ خدام فلاں جگہ جمع ہو جائیں مگر وقت مقررہ پر آندھی آجائے یا بارش ہونے لگے تو کوئی خادم یہ قیاس نہ کرے کہ اس آندھی یا بارش میں کون آئے گا؟ بہرحال خواہ کچھ ہو خادم کو وقت مقررہ پر ضرور پہنچ جانا چاہئے اور اگر وہاں اس کے سوا کوئی نہیں آئے تب بھی خادم مقررہ وقت تک وہاں ٹھہرا رہے اس طرح نوجوان غلط اجتہاد سے بچ جائیں گے۔
شروع شروع میں دفتری ذمہ داریاں اکثر و بیشتر سید مختار احمد صاحب ہاشمی کے سپرد تھیں اور آپ انہیں نہایت محنت و عرقریزی سے نبھاتے آرہے تھے مگر ایک سال کے بعد کام اس قدر وسیع ہوگیا کہ مرکزی دفتر کے لئے ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو ایک باتنخواہ محرر کی اسامی کے لئے قرارداد پاس کی گئی جس پر سید عبدالباسط۶ صاحب ۱۸۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے وابستہ ہوئے جو اپنی محنت خلوص اور استقلال کی بدولت یکم فروری ۱۹۴۸ء کو معتمد تجویز ہوئے اور ۱۵۔ ستمبر ۱۹۴۹ء کو نائب معتمد مقرر کئے گئے اور اٹھائیس برس تک مجلس کی اہم خدمات بجالاتے رہے۔ آپ کے علاوہ ۳۱۔ جولائی ۱۹۴۳ء کو ایک نئے کارکن ملک فضل دین صاحب کا اضافہ ہوا جو آج تک دفتری کام کررہے ہیں۔
دستور اساسی و قواعد و ضوابط
اس دوران میں مجلس عاملہ مرکزیہ نے دو مہینہ کی محنت سے اپنا دستور اساسی۷ تیار کیا جسے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے شرف منظوری عطا فرمایا اور مجلس کا نظم و ضبط انہیں قواعد و ضوابط کی بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ ان قواعد کے لحاظ سے ہر سال دسمبر کے پہلے ہفتہ میں مجالس عاملہ حلقہ ہائے قادیان اور مجلس عاملہ مرکزیہ کے اراکین صدر و جنرل سیکرٹری کے لئے دو دو ناموں کے تعین کی جانے لگی۔ اور ان اسماء کو مجلس کے سالانہ اجتماع میں تمام اراکین کے سامنے پیش کیا جاتا جو کثرت رائے سے صدر و جنرل سیکرٹری کا انتخاب کرتے۔ مجلس کا انتخاب حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں پیش کیا جاتا۔ حضور کی منظوری کے بعد صدر مجلس مختلف شعبہ جات کے لئے مہتمم خود نامزد کرتے جس سے مجلس عاملہ مرکزیہ کی تشکیل ہوتی۔ چنانچہ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی راہنمائی سے خدام الاحمدیہ کے کام کو مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر شعبہ کے چلانے کے لئے ایک مہتمم مقرر ہوتا رہا۔
شعبہ وقار عمل۔ شعبہ خدمت خلق۔ شعبہ تبلیغ۔ شعبہ تربیت و اصلاح۔ شعبہ تعلیم۔ شعبہ اطفال۔ شعبہ صحت جسمانی۔ شعبہ تجنید۔ شعبہ مال۔ شعبہ اشاعت۔ شعبہ اعتماد۔۸
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ابتدائی عہد صدارت میں کام کرنے والے مہتممین
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب فروری ۱۹۳۹ء سے لے کر اکتوبر ۱۹۴۹ء تک صدر مجلس اور بعد ازاں نومبر ۱۹۵۴ء تک نائب صدر۹ نمبر ۱ منتخب کئے گئے۔ آپ نے اپنے
زمانہ صدارت کے ابتدائی دس سالوں میں ۱۹۴۷ء تک وقتاً فوقتاً جن خدام کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا عہدیدار مقرر فرمایا ان کی فہرست یہ ہے۔
نمبر شمار
نام عہدہ ۳۹۔ ۱۹۳۸ء
۱۔
نائب صدر مولوی ظہور حسین صاحب
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت محبوب عالم صاحب خالد۔ خلیل احمد صاحب ناصر
۳۔
نائب معتمد نذیر احمد صاحب ریاض۔ غلام احمد صاحب فرخ۔
۴۔
فنانشل سیکرٹری چوہدری محمد شریف صاحب بی۔ اے
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۰۔ ۱۹۳۹ء
۱۔
نائب صدر مولانا قمر الدین صاحب فاضل
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت خلیل احمد صاحب ناصر
۳۔
نائب معتمد سید مختار احمد صاحب ہاشمی
۴۔
مہتمم مال مولوی ظہور حسین صاحب
۵۔
" وقار عمل چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ
۶۔
" محاسب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ
۷۔
نگران۔ امین مجالس خدام الاحمدیہ قادیان راجہ محمد اسلم صاحب بی۔ اے۔ چوہدری محمد شریف صاحب باجوہ
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۱۔ ۱۹۴۰ء
۱۔
نائب صدر مرزا منصور احمد صاحب
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت خلیل احمد صاحب ناصر
۳۔
نائب معتمد مرزا منیر احمد صاحب۔ حافظ قدرت اللہ صاحب
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح ملک عمر علی صاحب
۵۔
مہتمم مال مرزا منور احمد صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال مولوی قمر الدین صاحب
۷۔
مہتمم ذہانت و صحت جسمانی مرزا منصور احمد صاحب
۸۔
" خدمت خلق مولوی سیف الرحمن صاحب
۹۔
" وقار عمل شیخ ناصر احمد صاحب
۱۰۔
" اطفال محبوب عالم صاحب خالد
۱۱۔
" تجنید ملک عطاء الرحمن صاحب
۱۲۔
مہتمم عمومی ملک عطاء الرحمن صاحب
۱۳۔
" تعلیم مشتاق احمد صاحب باجوہ
۱۴۔
" محاسب ملک عطاء الرحمن صاحب
۱۵۔
نگران۔ امین مجالس خدام الاحمدیہ قادیان
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۲۔ ۱۹۴۱ء
۱۔
نائب صدر مرزا منصور احمد صاحب
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت خلیل احمد صاحب ناصر
۳۔
نائب معتمد حافظ قدرت اللہ صاحب
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ
۵۔
مہتمم مال ملک عطاء الرحمن صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال ماسٹر محمد ابراہیم صاحب
۷۔
مہتمم ذہانت و صحت جسمانی چوہدری غلام یٰسین صاحب][۸۔
" خدمت خلق شیخ ناصر احمد صاحب
۹۔
" وقار عمل مرزا منور احمد صاحب
۱۰۔
" اطفال محبوب عالم صاحب خالد
۱۱۔
" تجنید مرزا مبارک احمد صاحب
۱۲۔
" تعلیم چوہدری عبداللطیف صاحب
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۳۔ ۱۹۴۲ء
۱۔
نائب صدر مرزا منصور احمد صاحب
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت خلیل احمد صاحب ناصر
۳۔
نائب معتمد سعید احمد صاحب فاروقی
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح مولوی نورالحق صاحب انور
۵۔
مہتمم مال ملک عطاء الرحمن صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال مرزا مبارک احمد صاحب
۷۔
مہتمم ذہانت و صحت جسمانی چوہدری غلام یٰسین صاحب
۸۔
" خدمت خلق ملک سیف الرحمن صاحب
۹۔
" وقار عمل شیخ ناصر احمد صاحب
۱۰۔
" اطفال محبوب عالم صاحب خالد
۱۱۔
" تجنید چوہدری عبداللطیف صاحب
۱۲۔
" تبلیغ و اصلاح و ارشاد ۔
۱۳۔
مہتمم عمومی مرزا منصور احمد صاحب
۱۴۔
" تنفیذ مرزا منصور احمد صاحب
۱۵۔
" تعلیم مشتاق احمد صاحب باجوہ
۱۶۔
" محاسب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۴۔ ۱۹۴۳ء
۱۔
‏]dni [tag نائب صدر مرزا منصور احمد صاحب
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت خلیل احمد صاحب ناصر
۳۔
نائب معتمد مولوی محمد صدیق صاحب
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح محبوب عالم صاحب خالد۔ مولوی ناصر الدین صاحب
۵۔
مہتمم مال ابوالمنیر نورالحق صاحب۔ مرزا منور احمد صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال چوہدری ولی محمد صاحب
۷۔
مہتمم ذہانت و صحت جسمانی چوہدری غلام یٰسین صاحب
۸۔
" خدمت خلق میاں عباس احمد خان صاحب۔ کرم الٰہی صاحب ظفر۔
۹۔
" وقار عمل چوہدری غلام حسین صاحب
۱۰۔
" اطفال مشتاق احمد صاحب باجوہ۔ مولوی محمد حفیظ صاحب ضیاء
۱۱۔
" تجنید چوہدری عبداللطیف صاحب
۱۲۔
" تنفیذ حافظ قدرت اللہ صاحب
۱۳۔
" تعلیم ملک عطاء الرحمن صاحب
۱۴۔
" محاسب مرزا مبارک احمد صاحب][نمبرشمار
نام عہدہ ۴۵۔ ۱۹۴۴ء
۱۔
نائب صدر چودھری خلیل احمد صاحب ناصر
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت ملک عطاء الرحمن صاحب
۳۔
نائب معتمد شیخ ناصر احمد صاحب
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح چوہدری غلام یٰسین صاحب
۵۔
مہتمم مال مرزا منور احمد صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال مولوی ناصر الدین محمود صاحب
۷۔
‏ind] ga[t مہتمم ذہانت و صحت جسمانی مرزا منصور احمد صاحب
۸۔
" خدمت خلق مولوی محمد صدیق صاحب
۹۔
" وقار عمل چوہدری ظہور احمد صاحب
۱۰۔
" اطفال مشتاق احمد صاحب باجوہ
۱۱۔
" تجنید حافظ قدرت اللہ صاحب
۱۲۔
مہتمم عمومی محبوب عالم صاحب خالد
۱۳۔
" تنفیذ چوہدری غلام یٰسین صاحب
۱۴۔
" تعلیم خلیل احمد صاحب ناصر
‏]in [tag۱۵۔
" محاسب چوہدری بشیر احمد صاحب رائے ونڈی
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۶۔ ۱۹۴۵ء
۱۔
نائب صدر چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت ملک عطاء الرحمن صاحب
۳۔
نائب معتمد مرزا رفیع احمد صاحب
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح چوہدری غلام یٰسین صاحب
۵۔
مہتمم مال مرزا منور احمد صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال صوفی بشارت الرحمن صاحب
۷۔
مہتمم ذہانت و صحت جسمانی سید فضل احمد صاحب
۸۔
" خدمت خلق چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر
۹۔
" وقار عمل شیخ ناصر احمد صاحب
۱۰۔
" اطفال چوہدری محمد علی صاحب
۱۱۔
" تجنید چوہدری ظہور احمد صاحب
۱۲۔
" تبلیغ و اصلاح و ارشاد میاں عباس احمد خان صاحب
۱۳۔
مہتمم عمومی ملک عطاء الرحمن صاحب
۱۴۔
" تنفیذ غلام احمد صاحب بشیر
۱۵۔
" تعلیم مشتاق احمد صاحب باجوہ
۱۶۔
" محاسب عبدالرحمن صاحب ناصر
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۷۔ ۱۹۴۶ء
۱۔
نائب صدر چوہدری غلام یٰسین صاحب
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت عباس احمد خان صاحب۔ مرزا رفیع احمد صاحب
۳۔
نائب معتمد مرزا رفیع احمد صاحب۔ چوہدری عزیز احمد صاحب
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح شیخ مبارک احمد صاحب
۵۔
مہتمم مال چوہدری عبدالباری صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال چوہدری محمد علی صاحب
۷۔
مہتمم ذہانت و صحت جسمانی مرزا مبارک احمد صاحب
۸۔
" خدمت خلق ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب
۹۔
" وقار عمل چوہدری ظہور احمد صاحب
۱۰۔
" اطفال محبوب عالم صاحب خالد
۱۱۔
" تجنید مرزا بشیر احمد بیگ صاحب
۱۲۔
" تبلیغ و اصلاح و ارشاد مرزا منور احمد صاحب
۱۳۔
مہتمم عمومی چوہدری غلام یٰسین صاحب
۱۴۔
" تنفیذ ملک عزیز الرحمن صاحب
۱۵۔
" تعلیم صوفی بشارت الرحمن صاحب
۱۶۔
" محاسب چوہدری عزیز احمد صاحب
نمبرشمار
نام عہدہ ۴۸۔ ۱۹۴۷ء
۱۔
نائب صدر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب
۲۔
معتمد و مہتمم اشاعت چوہدری ظہور احمد صاحب
۳۔
نائب معتمد مرزا بشیر احمد بیگ صاحب
۴۔
مہتمم تربیت و اصلاح مرزا منور احمد صاحب
۵۔
مہتمم مال چوہدری عزیز احمد صاحب
۶۔
مہتمم ایثار و استقلال مشتاق احمد صاحب ظہیر
۷۔
" خدمت خلق ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب
۸۔
" وقار عمل محبوب عالم صاحب خالد
۹۔
" تجنید مرزا مبارک احمد صاہب
۱۰۔
" تبلیغ و اصلاح و ارشاد مرزا رفیع احمد صاحب
۱۱۔
مہتمم عمومی چوہدری عبدالباری صاحب
۱۲۔
" تعلیم چوہدری محفوظ الرحمن صاحب
خدمت خلق
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشادات کے ماتحت شعبہ خدمت خلق کو شروع ہی سے مجلس خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل میں کلیدی اور بنیادی حیثیت دی جاتی تھی کیونکہ جماعت احمدیہ کے قیام کی ایک اہم غرض بنی نوع انسان کی خدمت تھی۔
قادیان اور بیرون قادیان کے خدام کی افرادی اور اجتماعی مساعی مختلف الاقسام تھیں جن کی تفصیل بہت زیادہ طویل ہو جائے گی مختصر یہ کہ مقامی اور بیرونی مجالس اس زمانہ میں جو کام کرتی تھیں ان کو حسب ذیل موٹی موٹی شقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔
بلاتفریق مذہب و ملت ناداروں` معذوروں` بیوائوں اور غرباء کی نقدی` سامان خورد نوش اور ملبوسات وغیرہ سے امداد۔
۲۔
بیوائوں` بیماروں اور ان احباب کی جو چلنے پھرنے سے عاری ہوں خبرگیری۔ ان کو سودا سلف لاکر دینا اور حتی المقدور خدمت کرنا۔
۳۔
مسافرں کی راہنمائی۔ ان کے لئے ریزگاری مہیا کرنا۔ ان کا سامان اٹھا کر منزل مقصود تک لے جانا۔
۴۔
انسداد امراض کے لئے تدابیر کرنا۔ مثلاً عام گزرگاہوں اور نالیوں کی صفائی۔ مکھی` مچھر تلف کرنے کی کوشش۔
۵۔
غرباء کے لئے محلوں سے آٹا اکٹھا کرکے ان کی امداد کرنا۔
۶۔
جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت پر مہمانوں کی خدمت۔ کھانا کھلانا اور حتی المقدور دوسری ضروریات بہم پہنچانا۔
۷۔
شادی بیاہ کی تقاریب کے انتظامات۔
۸۔
آتش زدگیوں کے مواقع پر اپنی خدمات پیش کرنا۔
۹۔
بچوں کی گمشدگی پر ان کی ممکن ذرائع سے تلاش۔
۱۰۔
تجہیز و تکفین کے انتظامات میں امداد۔ ناداروں کے لئے کفن وغیرہ مہیا کرنا اور پسماندگان کی امداد۔
۱۱۔
غیر مذاہب کی سوسائیٹیوں اور جلسوں میں رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کرنا۔
۱۲۔
اپنی جماعت کے جلوں میں انتظامات کرنا اور دوسرے کاموں میں امداد دینا۔
مجلس کا بیج
آغاز کار ہی میں اراکین مجلس خدام الاحمدیہ کے لئے ایک امتیازی بیج بنوایا گیا جس کی زمین سیاہ تھی اور اس کے نقوش میں منارۃ المسیح تھا۔ جس کے اوپر ایک جھنڈا لہرا رہا تھا جس پر کلمہ طیبہ مندرج تھا۔ ساتھ ہی ہلال کے ستارے کے نشان ثبت تھے۔ ہلال کے ساتھ واستبقوا الخیرات کے الفاظ نقش تھے بیج پر >رکن خدام الاحمدیہ< بھی لکھا ہوا تھا۔
مجلس کا پہلا شہید حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری
حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری مجلس خدام الاحمدیہ کے بالکل ابتدائی ارکان میں سے تھے اور نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ مجلس کے پروگرام کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ حلقہ وار مجالس کے قیام کے بعد آپ مجلس خدام الاحمدیہ دارالرحمت کے زعیم مقرر ہوئے۔ آپ نے نہایت ہی جوش اور اخلاص کے ساتھ مجلس کے لئے انتھک محنت کی اور اس سرگرمی کے دوران ۲۔ مئی ۱۹۳۸ء کو خدام الاحمدیہ کا اجتماعی کام کرتے ہوئے دماغ کی رگ پھٹ جانے سے وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
‏]body [tagحافظ صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کے پہلے شہید تھے جنہوں نے اپنے خون سے نوجوانان احمدیت کی اس تنظیم کی آبیاری کی۔ چنانچہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس سانحہ کا مندرجہ ذیل الفاظ میں تذکرہ فرمایا۔
>حافظ بشیر احمد۱۰ حافظ قرآن۔ جامعہ کے فارغ التحصیل۔ وقف کنندہ۔ خدام الاحمدیہ کے مخلص کارکن اور ان نوجوانوں میں سے تھے جن کے مستقبل کی طرف سے نہایت اچھی خوشبو آرہی تھی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ اور تھی۔ اس نے انہیں خدام الاحمدیہ کے لئے ایک مثال اور نمونہ بنانا تھا۔ جس جماعت کے بنتے ہی اس کے کارکنوں کو شہادت کا موقعہ مل جائے۔ اس کے مستقبل کے شاندار ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا اور اس کے عزت مند افراد اپنی روایات قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرے رہتے ہیں۔ پس یہ موت تکلیف دہ تو ہے لیکن اس کے پیچھے خداتعالیٰ کی ایک حکمت کام کرتی نظر آرہی ہے<۔۱۱
خدام الاحمدیہ کا عہد نامہ
مجلس کے ابتدائی دور میں ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے احمدی نوجوانوں کے لئے ایک عہد تجویز فرما دیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے۔
اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ )ایک مرتبہ( میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور ملی مفاد کی خاطر اپنی جان مال اور عزت کی قربانی کی پرواہ نہیں کروں گا۔ )تین بار<(
جون ۱۹۴۲ء میں حضور نے عہد نامہ کے اردو الفاظ میں حسب ذیل ترمیم فرمائی۔
>میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان مال اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہوں گا<۔۱۲
اس کے بعد حضور نے ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء۱۳ کو عہد نامہ میں کچھ ترمیم کی اور اس کی آخری صورت یہ تھی۔
اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ
واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ ط
میں اقرار کرتا ہوں کہ دینی` قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان` مال` وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا۔
اسی طرح خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گا۔ اور خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا<۔۱۴
پہلا سالانہ اجتماع اور حضرت امیرالمومنین کی نصائح
مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع ۲۵۔ دسمبر ۱۹۳۸ء۱۵ کو ۳ بجے بعد دوپہر مسجد نور میں منعقد ہوا جس میں صرف حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ہی نے خطاب فرمایا اور خدام کو نہایت بیش قیمت پند و نصائح فرمائیں۔ جن کا ملخص یہ تھا کہ۔
قومی ترقی کا تمام تر انحصار نوجوانوں پر ہوتا ہے اگر کسی قوم کے نوجوان ان روایات کے صحیح طور پر حامل ہوں جو اس قوم میں چلی آتی ہوںں تو وہ قوم ایک لمبے عرصہ تک زندہ رہ سکتی ہے۔ لیکن اگر آئندہ پود نکمی ہو تو قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی بلکہ جو ترقی حاصل ہوچکی ہو وہ بھی تنزل سے بدل جاتی ہے۔ اس ضمن میں حضور نے نظام سلسلہ کی کامل پابندی کی طرف اور ان امور مشقیہ کی طرف نوجوانوں کو توجہ دلائی جن کا خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل میں ذکر ہے۔ اور نوجوانوں کو نصیحت فرمائی کہ۔ )۱( احمدیت کے متعلق اپنے دلوں میں جذبہ احترام پیدا کریں۔ )۲(استقلال کا مادہ پیدا کریں۔ )۳( محنت کی عادت ڈالیں۔ )۴( اجتہادات اور قیاسات سے کام لینے سے اجتناب کریں۔ )۵( وسعت نظر پیدا کریں اور حالات حاضرہ سے گہری واقفیت حاصل کریں۔ )۶( دیانت کی روح پیدا کی جائے۔ )۷( خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لیا جائے۔ )۸( سچائی کو اختیار کیا جائے۔ )۹( اپنے مقصود کو ہر وقت اپنے سامنے رکھا جائے۔ )۱۰( اپنے آپ کو کام کے نتائج کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ )۱۱( اگر کوئی قصور ہو جائے تو سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہیں۔ )۱۲( اس امر کو سمجھا جائے کہ جو شخص قوم کے لئے فنا ہوتا ہے وہ فنا نہیں ہوتا اور یہ کہ جب تک قوم زندہ ہے اس وقت تک ہی حقیقی زندگی باقی ہے۔ پس قومی زندگی کے قیام کے مقابلہ میں انفرادی قربانی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ )۱۳( صرف اپنی اصلاح نہ کی جائے بلکہ اپنے ماحول کی بھی اصلاح کی جائے۔ )۱۴( عقل سے کام لیا جائے۔ )۱۵( اطاعت کا مادہ اپنے اندر پیدا کیا جائے۔ )۱۶( ہمیشہ یہ خیال رکھا جائے کہ جماعت کا قدم ترقی کی طرف ہی بڑھے۔۱۶
خدام الاحمدیہ سے متعلق حضرت امیرالمومنینؓ کا اہم سلسلہ خطبات
۱۹۳۹ء کے نصف اول میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خدام الاحمدیہ کی اہمیت و ضرورت اور خدام کے فرائض کے متعلق خطبات جمعہ کا
ایک نہایت اہم اور خصوصی سلسلہ جاری فرمایا اور مندرجہ ذیل تاریخوں کو خطبات جمعہ ارشاد فرمائے۔
۳۔ فروری ۱۹۳۹ء۔۱۷ ۱۰۔ فروری ۱۹۳۹ء۔۱۸ ۱۷۔ فروری ۱۹۳۹ء۔۱۹ ۲۴۔ فروری ۱۹۳۹ء۲۰ ۳۔ مارچ ۱۹۳۹ء۔۲۱ ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۹ء۔۲۲body] [tag ۱۷۔ مارچ ۱۹۳۹ء۔۲۳
یہ سب خطبات مجلس خدام الاحمدیہ کی اہمیت و ضرورت کو واضح کرتے ہیں اور جماعت کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذیل میں بطور نمونہ ۳۔ فروری ۱۹۳۹ء کے خطبہ جمعہ کا صرف ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے۔
>قوموں کی کامیابی کے لئے کسی ایک نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی جو پروگرام بہت لمبے ہوتے ہیں وہ اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جبکہ متواتر کئی نسلیں ان کو پورا کرنے میں لگی رہیں۔ جتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہو اگر اتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے نہ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت میں مکمل نہیں ہوسکتے اور اگر وہ مکمل نہ ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ پہلوں نے اس پروگرام کی تکمیل کے لئے جو محنتیں کوششیں اور قربانیاں کی ہیں وہ بھی سب رائگاں گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی ہے<۔۲۴
وقار عمل
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے نومبر ۱۹۳۹ء میں جماعت احمدیہ کے لئے جو لائحہ عمل تجویز فرمایا اس میں ایک اہم امر یہ تھا کہ ہر احمدی اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالے اور کسی کام کو حقیر نہ سمجھے۔ اس بات کے پیش نظر حضور نے ۳۔ فروری ۱۹۳۹ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کردیں جس میں ساری جماعت مل کر اپنے ہاتھ سے اجتماعی کام کرے۔۲۵ خدام الاحمدیہ نے اس اجتماعی کام کی شکل کو وقار عمل کے نام سے موسوم کیا۔
اگرچہ وقار عمل کا مبارک سلسلہ جس میں حضور انور بھی بہ نفس نفیس شمولیت فرماتے تھے پہلے سے جاری تھا مگر حضور کے ارشاد کی تعمیل میں وقار عمل کو عروج تک پہنچانے کا سہرا خدام الاحمدیہ کے سر ہے۔ اس سلسلہ میں خدام الاحمدیہ کے تحت ۳۰۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو قادیان میں پہلا اجتماعی وقار عمل ہوا جو دارالرحمت اور دارالعلوم کی سڑک کے درمیان منایا گیا۔ جس کے بعد ہر دو ماہ کے بعد اس کا باقاعدہ انتظام جاری کر دیا گیا۔۲۶
شروع شروع میں مجلس کو کام کرانے کے لئے مختلف محلوں سے کدالیں اور ٹوکریاں جمع کرنی پڑتیں جیسا کہ مجلس کے دوسرے صدر حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ( نے فرمایا کہ >ابتداء میں خدام الاحمدیہ کے پاس سامان نہیں ہوتا تھا۔ ہم محلے میں مختلف دوستوں سے کدالیں۔ ٹوکریاں وغیرہ جمع کرتے اور ان پر نشانی لگالیتے اور وقار عمل کے بعد پھر انہیں واپس پہنچا دیتے تھے اس لئے وقار عمل کے بعد کئی گھنٹے تک مجھے وہاں ٹھہرنا پڑتا تھا تاکہ کوئی چیز ضائع نہ ہو۔ اس سے عزت اور اعتماد قائم رہتا ہے اگر کوئی چیز ضائع ہو جاتی یا ٹوٹ جاتی تو ہم اس کی قیمت ادا کر دیتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ خداتعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ کئی سو کدالیں اور کئی سو ٹوکریاں جو وقار عمل کے لئے ضروری تھیں خدام الاحمدیہ نے خود خریدلیں<۔۲۷
ان دنون مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان میں وقار عمل منانے کا جو بے پناہ جذبہ موجزن تھا وہ اپنی مثال آپ تھا جس کا نقشہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور تالیف >سلسلہ احمدیہ< میں بایں الفاظ کھینچا۔
>حضرت خلیفتہ المسیح کی ہدایت یہ ہے کہ >خدام الاحمدیہ< ہر دوسرے مہینہ ایک دن ایسا منایا کرے جس میں قادیان کے سارے احمدی مرد )یعنی بچے۔ جوان اور بوڑھے( بلا امتیاز حیثیت اکٹھے ہوکر کسی قسم کے رفاہ عام کے کام میں اپنے ہاتھ سے مزدوروں کی طرح کام کیا کریں اور اس وقت ہر غریب و امیر افسر و ماتحت اور نوکر و آقا اور خورد و کلاں اپنے سارے امتیازات کو ایک طرف رکھ کر مزدور لباس میں حاضر ہو جایا کرے۔ چنانچہ یہ دن باقاعدہ منایا جاتا ہے اور اس دن کا نظارہ بہت ہی روح پرور ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دن سب لوگ بلا امتیاز اور بلا تفریق ایک ہی کام میں ہاتھ ڈال کر اسلامی مساوات کی روح کو زندہ کرتے ہیں۔ اگر آقا کے ہاتھ میں ٹوکری ہوتی ہے تو نوکر کسی سے مٹی کھودتا ہے اور اگر آقا مٹی کھودتا ہے تو نوکر ٹوکری اٹھائے پھرتا ہے اور غریب اور امیر اور افسر و ماتحت سب مٹی کے اندر لت پت نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹہ تک جاری رہتا ہے اور پھر اس عمل محبت کو روحانیت کا خمیر دینے کے لئے ایک گھنٹی بجتی ہے اور سب لوگ کام سے ہاتھ کھینچ کر خدا کے دربار میں دعا کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور یہاں پھر وہی محتاج و غنی کی مساوات اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ یہ سلسلہ کئی لحاظ سے بہت مفید ثابت ہورہا ہے۔
اول۔ اس طرح ہر شخص کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اور مغرور انسان اس مکروہ جذبہ سے رہائی پاتا ہے کہ بعض کام میری شان سے نیچے ہیں۔
دوم۔ آپس میں اخوت و مساوات اور اختلاط کی روح ترقی کرتی ہے اور سوسائٹی کے مختلف طبقات میں کسی قسم کی ناگوار خلیج حائل ہونے نہیں پاتی۔
سوم۔ بعض مفید قومی یا شہری کام آنریری طریق پر بغیر کسی خرچ کے سرانجام پا جاتے ہیں اور پھر جب کبھی خود حضرت خلیفتہ المسیح اس مبارک تقریب میں شریک ہو جاتے ہیں اور گردوغبار سے ڈھکے ہوئے ادھر ادھر ٹوکری اٹھائے پھرتے نظر آتے ہیں تو پھر تو یہ وقار عمل کا سبق دنیا کے سارے سبقوں میں سے زیادہ گہرا اور زیادہ دیرپا نقش پیدا کر دیتا ہے<۔۲۸
ابتداء میں وقار عمل کا طریق اگرچہ قادیان میں جاری ہوا مگر جلد ہی ملک کی دوسری مجالس نے بھی اس کی طرف جوش و خروش سے توجہ دینا شروع کردی۔
وقارعمل اور خواجہ حسن نظامی دہلوی
خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے مجلس خدام الاحمدیہ دہلی کے ایک اجتماعی وقار عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا۔
>آج دہلی کی قادیانی جماعت کے چالیس افراد خدمت خلق کے لئے آئے تھے۔ مجھ سے پوچھا کہیں کا راستہ صاف کرنا ہو تو بتا دیجئے۔ میں نے اپنے مسافر خانہ کا راستہ خود جاکر بتایا اور ان لوگوں نے مزدوروں کی طرح پھاوڑے لے کر راستہ صاف کیا۔ ان میں وکیل بھی تھے اور بڑے بڑے عہدوں کے سرکاری نوکر بھی تھے اور مرزا صاحب کے قرابت دار بھی تھے۔ ان کے اس مظاہرے کا درگاہ کے زائرین اور حاضرین پر بہت اثر ہوا۔ ایک صاحب نے کہا کہ پراپیگنڈا کے لئے یہ کام کررہے ہیں۔ میں نے کہا حضرت سلطان المشائخؓ نے فرمایا ہے جو شخص ظاہرداری کے لئے خدمت کرتا ہے اس کو ایک اجر ملتا ہے اور جو محض خدا کی رضاء کے لئے خدمت خلق کرتا ہے اس کو دو اجر ملتے ہیں۔ درگاہوں سے اعتقاد رکھنے والے اپنی ذات کے لئے مجاہدے کرتے ہیں۔ اس قسم کے مجاہدے جن کا تعلق عوام کی آسائش سے ہو بہت کم دیکھے جاتے ہیں<۔۲۹ )منادی ۱۶۔ ستمبر ۱۹۴۱ء(
تعلیم ناخواندگان کا انتظام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۳۹ء کے شروع میں مجلس خدام الاحمدیہ کو ناخواندگان کا شمار کرنے اور ان کی تعلیم کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔۳۰4] f[rt چنانچہ مجلس نے دو دو تین تین افراد کی جماعتیں بناکر حسب لیاقت مختلف اوقات میں کلاسنر ترتیب دیں۔ مجلس کو شروع شروع میں معلمین کے حصول میں بہت دقتیں پیش آئیں۔ اور جب معلمین مل جاتے تو اکثر متعلمین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے سے احتراز کرتے اور پڑھانے والے کو متعلمین کے کھیتوں اور ان کے کام کی جگہوں میں پہنچ کر پڑھانا ہوتا۔ ناداروں کے لئے قاعدے تختیاں قلمیں اور دواتیں تک مہیا کی گئیں۔ محلہ دارالصحت۳۱ قادیان کے ان پڑھوں کے لئے اعزازی اور رضاکار استادوں کے علاوہ باتنخواہ معلم کا تقرر بھی کیا گیا۔ بعض ایسے متعلمین بھی تھے جو نہایت ذوق و شوق اور محنت کے ساتھ خود اساتذہ کے پاس پہنچ کر اسباق لیتے مگر پیرانہ سالی کے باعث وہ جلدی بھول جاتے اور دوسرے دن پھر وہی سبق پڑھانا پڑتا۔
قادیان کی مقامی مجالس کے علاوہ انبالہ کیرنگ` جہلم` برہمن بڑیہ` نواب شاہ سندھ` دہلی` لودھراں` جمشید پور` عارف والا` ملتان` کریام اور جہلم میں بھی تعلیم ناخواندگان کا سلسلہ جاری کیا گیا۳۲ جو دوسری مجالس تک آہستہ آہستہ ممتد ہوتا چلا گیا۔
حضرت صدر مجلس کے بیرونی دورے
مجلس خدام الاحمدیہ کا نظام چونکہ روز بروز وسعت پکڑتا جارہا تھا اس لئے ملک بھر کی مجالس کو منظم اور انکی نگرانی کرنے کے لئے ضرورت تھی کہ صدر محترم بیرونی مقامات پر تشریف لے جائیں۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء۳۳ کو بہ نفس نفیس کاٹھ گڑھ تشریف لے گئے۔ پھر ۴۲۔ ۱۹۴۱ء میں بعض مجالس کا دورہ فرمایا جس سے ان مجالس میں خاطر خواہ بیداری پیدا ہوگئی۔۳۴4] f[rt
دوسرا سالانہ اجتماع
مجلس کا دوسرا سالانہ اجتماع بھی ۲۵۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کو مسجد نور سے متصل میدان۳۵ میں منعقد ہوا جس کے پہلے اجلاس میں چوہدری حاجی احمد خان صاحب ایاز` چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی` پیر صلاح الدین صاحب بی اے` ایل ایل۔ بی اور مولوی قمر الدین صاحب نے تقاریر کیں اور حضرت صدر محترم نے بھی تقریریں فرمائیں۔ دوسرے اجلاس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک بصیرت افروز خطاب10] p[۳۶ فرمایا جس کا ملخص یہ تھا کہ۔
>اگر کام کوئی کرنا چاہتے ہو تو واقعات کی دنیا میں قیاسات سے کام لینا چھوڑ دو۔ جسے کوئی کام سپرد کیا جائے وہ جب تک خود نہ دیکھ لے کہ ہوگیا ہے۔ یا جس نے خود کیا ہے وہ نہ بتادے کہ وہ خود کر آیا ہے۔ تسلی پالینا اول درجہ کی نالائقی اور حماقت ہے۔ کام کی نگرانی ایسے رنگ میں کرنی چاہئے کہ اس کے ساتھ ولی تعلق اور محبت ظاہر ہو۔
دیکھو! بچہ جب ماں کی آنکھوں سے اوجھل ہو تو اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور یہ اس کی انتہائی محبت کا تقاضا ہوتا ہے۔ اسی طرح تمہارے ذمہ جو کام کیا جائے اس کے متعلق تمہیں اس وقت تک اطمینان نہیں ہونا چاہئے جب تک اس کو تکمیل تک نہ پہنچالو۔ پھر کسی بات کے متعلق یہ خیال نہ کرو کہ ہو نہیں سکتی۔ کام تجویز کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ یہ ناممکن تو نہیں اور طاقت سے زیادہ بوجھ تو نہیں ڈال رہے اور جب ایک دفعہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرلو کہ فلاں کام مفید ہے اور اسے کرنا ضروری ہے تو پھر یہ خیال مت کرو کہ کوئی اور کرے گا یا نہیں۔ کوئی تمہارے ساتھ چلے گا یا نہیں۔ تم یہ تہیہ کرلو کہ اسے ضرور کرنا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ لوگ فلاں بات مانتے نہیں یہ اول درجہ کی بزدلی ہے۔ تمہیں لوگوں سے کیا واسطہ۔ اگر وہ کام اچھا ہے تو تم اکیلے ہی اس کو شروع کر دو۔ یہ صحیح توکل ہے اور اس کے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی۔ پس ہمارے نوجوان اس توکل سے کام لیں کہ جب کا اچھا ہے تو ہم نے اسے ضرور کرنا ہے۔ خواہ کوئی ہمارے ساتھ ملے یا نہ ملے۔ پس کام سے پہلے پوری احتیاط سے سوچ لو اور وہ کام اپنے یا کسی دوسرے کے ذمہ نہ لگائو جو جانتے ہو کہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جب اطمینان کرلو کہ کام اچھا ہے اور ہوسکتا ہے تو پھر دوسروں پر نگاہ نہ رکھو۔ اسی طرح جب دیکھو کہ کوئی کام ضروری ہے اور اچھا ہے لیکن نفس کہتا ہے کہ تم اسے نہیں کرسکتے تو اسے کہو کہ تو جھوٹا ہے اور اس کام میں لگ جائو۔ خدا تمہاری مدد کے لئے دوسروں کے دلوں میں الہام کرے گا اور تم ضرور کامیاب ہوکر رہو گے<۔۳۷۱
لوائے خدام الاحمدیہ کی تیاری اور پرچم کشائی
جیسا کہ چھٹے باب میں تفصیلی ذکر آرہا ہے سلسلہ احمدیہ کے پچاس سالہ قیام اور خلافت ثانیہ پر پچیس سال مکمل ہونے پر جلسہ ۱۹۳۹ء پر خلافت جوبلی منائی گئی۔ اس تقریب سعید پر جہاں لوائے احمدیت بنانے اور اس کے بلند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا وہاں مجلس خدام الاحمدیہ نے بھی فیصلہ کیا کہ لوائے احمدیت کے ساتھ ساتھ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے نشان کے طور پر لوائے خدام الاحمدیہ بھی تیار کیا جائے اور اسے بلند کیا جائے۔ جس کے متعلق جملہ مساعی مجلس کے مخلص اور محنتی کارکن ملک عطاء الرحمن صاحب مجاہد تحریک جدید کی مرہون منت تھیں۔ یہ ایک لمبا مرحلہ تھا جس کی ہر منزل دقت طلب تھی۔
لوائے خدام الاحمدیہ کا ڈیزائن مجلس عاملہ مرکزیہ نے پاس کیا۔ جس کی ڈرائینگ ملک صاحب موصوف نے کی۔ سب سے مشکل معاملہ کپڑے پر ہر دو طرف یکساں نقوش چھپوانے کا تھا۔ ہندوستان کے مختلف کپڑا بنانے والے کارخانوں کو لکھا گیا۔ مگر کوئی بھی اس کام کے لئے تیار نہ ہوا۔ آخر ملک صاحب نے لاہور کی ایک فیکٹری میں اپنی نگرانی میں یہ کام کرایا۔
لوائے خدام الاحمدیہ ۱۸ فٹ لمبا اور نو فٹ چوڑا تھا۔ جس کے ایک تہائی حصہ میں لوائے احمدیت کے نقوش تھے بقیہ حصہ تیرہ سیاہ و سفید دھاریوں پر مشتمل تھا۔ لہرانے کی تقریب کے لئے ۵۶ فٹ لمبا چیل کے تین درختوں کا ڈنڈا تیار کروایا گیا اور اس کو بھی سیاہ و سفید دھاریوں میں روغن کیا گیا۔ لوائے خدام الاحمدیہ کے لئے جلسہ سالانہ کی سٹیج کے بائیں طرف لوائے احمدیت سے ذرا پیچھے ہٹ کر پلیٹ فارم تیار کرایا گیا۔
نوجوانان احمدیت کے محبوب مقدس رہنما حضرت سیدنا فضل عمر نے لوائے احمدیت کے بعد لوائے خدام الاحمدیہ کے بلند کرنے اور لہرانے کی رسم ادا فرمائی کیونکہ خدام الاحمدیہ بھی ایک ایسی تنظیم ہے جو امٹ ہے جو احمدیت کے ساتھ ساتھ انشاء اللہ قائم رہے گی اور نوجوانوں کو ہمیشہ ہی نظام و اطاعت۔ ایثار و استقلال- مکارم اخلاق اور ادائیگی حقوق اللہ و حقوق العباد کا سبق دیتی رہے گی۔ اس موقعہ پر خدام الاحمدیہ نے بھی ایک عہد دوہرایا جسکا مسودہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے تیار فرمایا۔ اس عہد نامہ کے الفاظ دہرانے کا شرف چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مجاہد تحریک جدید کو حاصل ہوا۔ جس کے ساتھ ساتھ تمام اراکین بھی اس کے الفاظ دہراتے گئے۔ عہد کی عبارت حسب ذیل ہے۔
اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ
واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ ط
میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور ملی مفاد کی خاطر اپنی جان مال اور عزت کی پروا نہیں کروں گا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ اپنی جان مال اور عزت کو قربان کردوں گا اور اس صداقت کی عزت کو قائم رکھوں گا جس کے ظاہری نشان کے طور پر یہ جھنڈا اس وقت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نصب کررہے ہیں۔ اور جو علامت ہے ان تمام نیکیوں کی جو احمدیت دنیا میں رائج و راسخ کرنا چاہتی ہے اور جو نشانی ہے ان تمام خوبیوں کی جو حضور خدام الاحمدیہ کے ذریعہ خدام میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور میں ہرممکن کوشش کروں گا کہ یہ جھنڈا سب دنیا کے جھنڈوں کے اوپر لہراتا رہے اور کبھی اسے شکست نہ دیکھنی پڑے<۔
حفاظت لوائے احمدیت
حضرت امیرالمومنینؓ نے لوائے احمدیت اور لوائے خدام الاحمدیہ کے لہرانے کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ آج سے کل نماز جمعہ تک خدام الاحمدیہ اس کی حفاظت کریں اور ہر وقت کم از کم بارہ خدام اس کے پہرہ پر رہیں۔ حضور نے چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر کو خدام کے پہلے گروہ کے انتخاب کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حسب ذیل اراکین کا تقرر
‏tav.8.31
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا پچیسواں سال
تقرر لوائے احمدیت کے پہلے محافظین کے طور پر ہوا۔
۱۔ میرزا منصور احمد صاحب ۲۔ میرزا دائود احمد صاحب ۳۔ میرزا منور احمد صاحب ۴۔ میاں عباس احمد خان صاحب ۵۔ سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی ۶۔ سیٹھ محمد معین الدین صاحب حیدرآبادی ۷۔ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ۸۔ سعید احمد صاحب فاروقی ۹۔ مولوی دل محمد صاحب مبلغ ۱۰۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز ۱۱۔ شیخ ناصر احمد صاحب ۱۲۔ ملک عمر علی صاحب ۱۳۔ چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر ۱۴۔ مولوی عبدالکریم صاحب شرما ۱۵۔ مولوی محبوب عالم صاحب خالد ۱۶۔ حافظ قدرت اللہ صاحب ۱۷۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر۔۳۸
صدر محترم حافظ میرزا ناصر احمد صاحب اور چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے پہرہ کی نگرانی کی۔ اس کے بعد اراکین کا انتخاب کرکے ہر چار گھنٹہ کے لئے علیحدہ علیحدہ گروپ بنا دیئے گئے۔ اس پہرہ کے دوران میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب لوائے احمدیت کے اردگرد پہرہ دینے والے محافظین سب کے سب خاندان مسیح موعودؑ کے درخشندہ و تابندہ گوہر تھے۔ جن کی فہرست حسب ذیل ہے۔
۱۔ میرزا مبارک احمد صاحب ۲۔ میرزا منور احمد صاحب ۳۔ میرزا مظفر احمد صاحب ۴۔ میرزا حمید احمد صاحب ۵۔ میرزا منیر احمد صاحب ۶۔ میرزا مبشر احمد صاحب ۷۔ میرزا مجید احمد صاحب ۸۔ میرزا ظفر احمد صاحب ۹۔ میرزا منصور احمد صاحب ۱۰۔ میاں مسعود احمد خان صاحب ۱۱۔ میاں عباس احمد خان صاحب ۱۲۔ میرزا مبارک احمد صاحب ابن میرزا عزیز احمد صاحب
نگران۔ حضرت صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ صدر مجلس خدام الاحمدیہ
صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود کی اس فہرست میں میرزا دائود احمد صاحب اور میاں محمد احمد خان صاحب کا نام نہیں ہے کیونکہ بارہ کی تعداد پوری ہوگئی تھی مگر وہ اور دوسرے صاحبزادگان دوسرے اوقات میں بھی پہرہ دیتے رہے۔ بلکہ پہرہ کے شروع سے لیکر آخر تک خاندان مسیح موعود کا کوئی نہ کوئی فرد محافظین کی قیادت کے فرائض ادا کرتا رہا۔ یہ گویا اس امر سے عبارت تھا کہ وہ مقدس بار امانت جو ابنائے فارس کے سپرد کیا گیا ہے انشاء اللہ وہ اس کے پوری طرح حامل رہیں گے۔ ہاں وہی خزینہ ایمان و عرفان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ثریاء سے لائے تھے۔ یہ اس کے محافظین ہیں اور قیامت تک اس نعمت ایمان کو صفحہ ارض پر بتوفیق ایزدی قائم و راسخ رکھیں گے۔ انشاء اللہ۔
دوسرے دن نماز جمعہ کے بعد لوائے احمدیت حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی زیر ہدایت صدر انجمن احمدیہ کے دو ناظروں )خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر بیت المال اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ( کے سپرد کرکے رسید لے لی گئی جو حضور کی خدمت میں چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے اسی دن پیش کی۔ حضور نے فرمایا۔ میں نے دیکھ لی ہے اب دفتر خدام الاحمدیہ میں بطور سند رکھ لی جائے<۔ رسید حسب ذیل تھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
آج بروز جمعہ بتاریخ ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۹ء۔ ۲۹۔ ماہ صلح ۱۳۱۸ ھجری شمسی ہم نے حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت صدر انجمن احمدیہ کے ریزولیوشن کے مطابق صدر مجلس الاحمدیہ سے لوائے احمدیت تین بجکر پینتیس منٹ پر وصول پایا۔
دستخط۔ )سید( زین العابدین )ولی اللہ شاہ( ناظر امور عامہ ھ ش ۱۳۱۸/۱۲/۲۹
دستخط۔ )خان صاحب( فرزند علی عفی عنہ ناظر بیت المال ھ ش ۱۳۱۸/۱۲/۲۹
کاتب محمد اعظم حیدر آباد دکن۔۳۹
انعامی علم خدام الاحمدیہ کی تیاری
خلافت جوبلی کی مبارک تقریب پر مجلس خدام الاحمدیہ نے ایک انعامی علم بھی تیار کروایا۔ یہ علم ہر سال اس مجلس کو دیا جاتا ہے جس کا کام سب مجالس سے ممتاز ہوتا ہے۔ ۱۹۴۶ء تک جن مجالس کو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے یہ یادگار جھنڈا مرحمت فرمایا ان کے نام یہ ہیں۔
مجلس کیرنگ اڑیسہ )۱۹۳۹ء( مجلس گوجرانوالہ )۱۹۴۰ء( مجلس چک ۹۹ شمالی سرگودہا )۱۹۴۱ء( مجلس دارالرحمت قادیان )۱۹۴۲ء(۴۰
مجلس لاہور )۱۹۴۳ء( مجلس دارالبرکات قادیان )۱۹۴۴ء( مجلس حلقہ مسجد مبارک قادیان )۱۹۴۵ء( مجلس کراچی )۱۹۴۶ء تا ۱۹۵۱ء(
اس جھنڈا کی نسبت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور ملک عطاء الرحمن صاحب مہتمم لوائے خدام الاحمدیہ نے اپنے دستخط سے مندرجہ ذیل ہدایات جاری کیں۔
۱۔
یہ جھنڈا )خلافت جوبلی علم انعامی( ہر سال سب سے پیش پیش رہنے والی مجلس حاصل کرسکے گی۔
۲۔
جو مجلس یہ جھنڈا انعام کے طور پر حاصل کرے گی اس کے لئے لازمی ہوگا کہ ۲۵۔ نومبر تک اس کو مرکز میں پہنچا دے۔
۳۔
جھنڈے کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری اس عرصہ کے لئے جب تک یہ جھنڈا اس کے پاس رہے گا اس مجلس پر ہوگی جو اس کو انعام کے طور پر حاصل کرے گی۔
۴۔
جو مجلس انعام کے طور پر اس جھنڈے کو حاصل کرے گی اس جھنڈے کو لے جانے اور واپس مرکز میں پہنچانے کے تمام اخراجات کی متحمل ہوگی۔
۵۔
علم انعامی پر اس کو حاصل کرنے والی مجلس کا نام چاندی کی ایک تختی پر لکھوا کر لگایا جائے گا جس کے اخراجات اس مجلس کے ذمہ ہوں گے۔
۶۔
جھنڈے کو کسی عمارت پر نہ لگایا جائے۔ اس طرح اس کے خراب ہونے کا احتمال ہے۔
۷۔
جب کبھی جھنڈے کو بلند کیا جائے سب خدام کا اس موقعہ پر کھڑا ہوکر عہد دہرانا ضروری ہے۔
۸۔
جھنڈے کو ہر تین ماہ کے بعد نہایت احتیاط کے ساتھ کسی خادم سے دھلوا کر دھوپ میں سکھایا جائے۔۴۱
مرزا ناصر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۹ء ھش ۱۳۹۸/۱۲/۲۸
ملک عطاء الرحمن مہتمم لوائے خدام الاحمدیہ ھش ۱۳۱۸/ ۱۲/ ۲۸
کتب حضرت مسیح موعودؑ کا امتحان
خدام الاحمدیہ کے تیسرے سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پرمعارف کتب کے امتحان کا سلسلہ بھی جاری کر دیا گیا۔ ابتداء میں مندرجہ ذیل کتب کے امتحانات لئے گئے۔
کشتی نوح۔ ضرورۃ الامام۔ لیکچر سیالکوٹ۔۴۲ فتح اسلام۔ توضیح مرام۔ لیکچر لاہور۔۴۳ تجلیات الٰہیہ۔ برکات الدعا۔ شہادت القرآن۔ سراج منیر۔ ضیاء الحق۔۴۴
خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی لازمی تجنید
۲۶۔ جولائی ۱۹۴۰ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ >آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہوگا۔ ہر وہ احمدی جسکی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے۔۴۵ نیز اعلان فرمایا کہ >ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ برس کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں اور اطفال الاحمدیہ کے نام سے ان کی جماعت بنائی جائے<۔۴۶ حضور کی ہدایت تھی کہ خدام کی تجنید کے لئے احباب سے زبردستی فارم پر نہ کروائے جائیں بلکہ صرف اطلاع پہنچانے تک ہی اکتفاء کیا جائے۔ اس ارشاد کی تعمیل میں مجلس مرکزیہ کے نمائندے ہر محلہ کی مسجد میں ایک معین وقت میں )جس کا اعلان نمازوں کے وقت میں کردیا جاتا( حاضر رہتے اور اگرچہ حضور کی طرف سے ایک فوری بھرتی کے لئے پندرہ دن کی معیاد مقرر تھی لیکن ایک قلیل تعداد کے سوا بقیہ سب نوجوان ابتدائی دو تین روز ہی میں مجلس کے رکن بن گئے۔۴۷
علاوہ ازیں مجلس نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے لئے قادیان کے ۸۰۴ بچوں کے ۷۵ گروپ بنائے۔ ان پر مانیٹر مقرر کئے اور انہیں مربیوں کے سپرد کیا۔ مجلس نے اطفال کے متعلق ذیلی قواعد کا تفصیلی ڈھانچہ بھی تیار کیا اور بچوں کے لئے تربیتی نصاب بھی۔ نیز خدام کی طرح اطفال الاحمدیہ کا بیج یعنی امتیازی نشان بھی تیار کرایا۔ جس پر نقوش تو وہی تھے جو خدام الاحمدیہ کے بیج کے تھے مگر یہ ذرا چھوٹا اور بیضوی شکل کا بنایا گیا تھا اور اس پر >امیدوار رکن مجلس خدام الاحمدیہ< کے الفاظ کندہ تھے۔ پہلے سال قادیان سے باہر مندرجہ ذیل مقامات پر بھی مجالس اطفال قائم ہوگئیں۔ بھیرہ۔ سیالکوٹ چھائونی و شہر۔ جہلم۔ سید والا۔ لائل پور۔ ملتان۔ لودھراں۔ کریام۔ کاٹھ گڑھ۔ شملہ۔ کیرنگ۔ یادگیر دکن۔ محمود آباد ضلع جہلم۔ کنری سندھ۔ لاہور۔ شکار ماچھیاں۔ دھلی۔ مونگھیر۔ برہمن بڑیہ۔ شاہ پور۔ امرگڑھ۔ ننگل۔ امرتسر۔ گوجرانوالہ۔ نیروبی )مشرقی افریقہ(۴۸
مجلس خدام الاحمدیہ کی قانونی و دستوری حیثیت نظام جماعت میں
شملہ کے ایک دوست کی طرف سے ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۰ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں استفسار کیا گیا کہ کیا امیر جماعت
خدام الاحمدیہ سے کوئی کام نہیں لے سکتا؟ حضرت امیرالمومنین نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ >ہاں یہ درست ہے مجلس خدام الاحمدیہ کا نظام میں نے الگ بنا دیا ہے اور ان کا الگ مرکز قائم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ نوجوان اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں۔ ان میں خود کام کرنے کی اور اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی عادت پیدا ہو جائے۔ امیر جماعت مجلس کے نظام میں دخل نہیں دے سکتا۔ اگر وہ کوئی خامی دیکھے تو مجلس کے مرکز میں رپورٹ کرسکتا ہے۔ اگر اسے کوئی کام لینا ہو تو مجلس کو حکم نہیں دے سکتا۔ البتہ جماعتی کاموں )مثلاً جلسے وغیرہ( کے متعلق مجلس کو Request )یعنی گزارش( کرسکتا ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کو ایسے کاموں میں تعاون کرنا چاہئے کیونکہ وہ بنائی ہی اس غرض کے لئے ہے۔ اگر وہ تعاون نہ کرے گی تو اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گی نیز امیر کسی فرد جماعت سے بحیثیت فرد ہونے کے کام لے سکتا ہے نہ بحیثیت رکن ہونے کے۔ ایک شخص جماعت کا سیکرٹری ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کا رکن بھی ہے۔ جب جماعتی کام ہوگا اسے بہرحال مجلس کے کام پر جماعتی کام کو مقدم رکھنا ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص گورنمنٹ کا ملازم ہو تو اسے بہرحال پہلے گورنمنٹ کا کام کرنا ہوگا<۔۴۹]2body [tag
ایک اور موقعہ پر فرمایا۔ >ہر احمدی جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔ ہر احمدی جو چالیس سال سے اوپر ہے وہ انصاراللہ کا ممبر ہے اور ہر احمدی جو چالیس سال سے نیچے یا چالیس سال سے اوپر ہے وہ مقامی انجمن کا بھی ممبر ہے اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے مقامی ممبر نہیں ہیں بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کے مجموعے کا نام مقامی انجمن ہے<۔۵۰
جہاں تک خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا تعلق ہے سیدنا حضرت امیرالمومنینؓ نے مجلس کے ابتدائی ایام میں ہی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ >کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں۔ پروگرام تحریک جدید کا ہی ہوگا اور تم تحریک جدید کے والنٹیئر ہوگے۔ تمہارا فرض ہوگا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو۔ تم سادہ زندگی بسر کرو۔ تم دین کی تعلیم دو۔ تم نمازوں کی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرو۔ تم تبلیغ کے لئے اوقات وقف کرو<۔۵۱
سالانہ جلسہ پر ذیلی دفتر
جلسہ سالانہ ۱۹۴۰ء سے جلسہ گاہ کے سامنے مجلس مرکزیہ کا ایک ذیلی دفتر بھی کھولا جانے لگا۔ اس دفتر سے جلسہ پر آنے والے احباب سے براہ راست رابطہ ممکن ہوگیا۔۵۲
تیسرا سالانہ اجتماع
خدام الاحمدیہ کا تیسرا سالانہ اجتماع ۶` ۷۔ فروری ۱۹۴۱ء کو مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بعض دقتوں کے باعث یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے لئے جلسہ سالانہ کے علاوہ کوئی اور دن مقرر کئے جائیں۔ اس اجتماع میں مندرجہ ذیل مقامات کے خدام نے شرک کی۔
سیالکوٹ شہر۔ گوجرانوالہ۔ فیروزپور شہر۔ صوبہ سرحد۔ شملہ۔ ملتان۔ امرتسر۔ دہلی۔ جموں۔ جالندھر۔ بہاولپور۔ گجرات۔ جہلم۔ شاہ پور۔ ہوشیارپور۔ سیالکوٹ چھاونی۔ داتہ زید کا۔ نوشہرہ چھائونی۔ کاٹھ گڑھ۔ بٹالہ۔ بنگہ۔ تہال )ضلع گجرات( دوالمیال ضلع جہلم۔ فیروزپور چھائونی۔ پشاور شہر۔ کیمبل پور۔ نرائن گڑھ۔ شاہدرہ۔ نیروبی۔
۶۔ فروری ۱۹۴۰ء کو صبح ساڑھے نو بجے سالانہ اجتماع کا پہلا اجلاس ہوا۔ جس میں تین مقامی مقررین )شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر۔ مولوی دل محمد صاحب مولوی فاضل اور خلیل احمد صاحب ناصر( کے علاوہ بیرونی مجالس کے تین قائدین کرام )پیر صلاح الدین صاحب قائد مجلس فیروزپور۔ میاں محمود احمد صاحب قائد مجلس لاہور۔ سید بہاول شاہ صاحب قائد مجلس امرتسر( نے تقاریر کیں۔ ان تقاریر میں مجلس کے لائحہ عمل کے مختلف حﷺ پر روشنی ڈالی گئی۔ سالانہ کار گزاری کے جستہ جستہ واقعات کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ صدر اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے آخر میں ایک بصیرت افروز اور ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں خدام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔
نماز ظہر کے بعد دوسرا اجلاس منعقد ہوا جس میں سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قریباً سوا دو گھنٹے تک نہایت ہی ایمان افروز اور پرمعارف تقریر فرمائی اور خدام کو مفید اور قیمتی ہدایات سے مستفید فرمایا۔ تیسرا اجلاس رات کو بعد نماز عشاء منعقد ہوا جس میں اراکین مجلس سے خدام الاحمدیہ کے کاموں میں پیش آنے والی دقتوں کے متعلق مشورے کئے گئے۔ یہ اپنی طرز کا پہلا اجتماع تھا۔ اراکین نے بے تکلفی کے ساتھ اپنی آراء کا اظہار کیا اور خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل کو کامیاب تر بنانے کے لئے مفید مشور دیئے۔
دوسرے دن صبح نو بجے سے بارہ بجے تک خدام الاحمدیہ کے ورزشی مقابلے ہوئے۔ یہ خدام الاحمدیہ کی تاریخ میں پہلا موقعہ تھا جب کہ باہر کے نمائندگان ورزشی اجتماع میں شریک ہوئے۔ حضرت سیدنا امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی از راہ حوصلہ افزائی شرکت فرمائی۔ حضور انور نے مختلف کھیلوں میں اول۔ دوم۔ سوم رہنے والے کھلاڑیوں کو انعامات تقسیم فرمائے۔۵۳
دکانوں کی نگرانی کا فرض
۵۔ جون ۱۹۴۲ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ قادیان میں اس امر کی نگرانی رکھیں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی دوکان کھلی نہ رہے۔۵۴
چوتھا سالانہ اجتماع اور مجلس لاہور کے ایک خادم کا قابل تعریف فعل
مجلس خدام الاحمدیہ کا چوتھا سالانہ اجتماع ۱۷۔ ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء کو منعقد ہوا۔ اس اجتماع کے لئے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی کوٹھی
کے شمالی جانب واقع دارالشکر کے غربی میدان کا انتخاب کیا گیا۔ مقام اجتماع میں تمام رہائشی خیمے اور دفاتر نصب کئے گئے۔ عین وسط میں چھتیس چھتیس فٹ کی دو سڑکیں ایک دوسری کو قطع کرتی ہوئی بنائی گئیں جن کے مرکز میں لوائے خدام الاحمدیہ لہرا رکھا تھا۔ چوک کے قریبی بلاکوں پر ہسپتال۔ دفتر سپلائی سٹور۔ دفتر خوارک اور مرکزی کارکنوں کے خیمے تھے۔ مقام اجتماع میں داخلہ کے لئے مشرق کی طرف دروازہ بنایا گیا جس کے دونوں طرف خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل سے متعلق حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کپڑے کے موزون بورڈوں پر لکھے ہوئے آویزاں کئے گئے۔ اس دروازہ کے قریب ہی مرکزی دفتر خدام الاحمدیہ اور انکوائری آفس کے خیمے نصب تھے۔ مقام اجتماع کے اردگرد خدام کے پہرہ کا چوبیس گھنٹے باقاعدہ انتظام رہا دفتر مرکزیہ کے ساتھ خدام کو وقت سے مطلع کرتے رہنے کے لئے گھنٹہ بھی نصب کیا گیا۔ جس پر ہر نصف گھنٹہ کے بعد وقت کا اعلان ہوتا رہا۔
اس دفعہ کھانے کا انتظام خدام الاحمدیہ نے اس صورت میں کیا کہ قادیان کے ہر خادم کے گھر سے وقت مقررہ پر مجلس اطفال الاحمدیہ کے اراکین خادم اور اس کے ایک مہمان کا کھانا لے آتے۔ قادیان کی تمام مجالس میں باہر سے آنے والی مجالس کو ان کی میزبانی کے لئے باقاعدہ تقسیم کردیا گیا تھا۔ انتظام کو سہولت سے چلانے کے لئے اطفال الاحمدیہ کے خیمے بھی مقام اجتماع میں ہی نصب تھے۔ اس اجتماع میں مندرجہ ذیل مقامات سے خدام شریک ہوئے۔ بگول` سیکھواں و نجواں۔ پھیر و چیچی۔ دھرم کوٹ بگہ۔ تلونڈی جھنگلاں۔ ہرسیاں۔ لودھی ننگل۔ پیر وشاہ۔ خان فتح۔ سارچور۔ اٹھوال۔ تیجہ کلاں۔ شکار ماچھیاں۔ سیالکوٹ شہر۔ داتہ زیدکا۔ گٹھیالیاں۔ امرتسر۔ لاہور۔ جالندھر۔ کریام۔ ہوشیارپور۔ مکیریاں۔ گوجرانوالہ۔ گجرات۔ لائل پور۔ دنیا پور ضلع ملتان۔ حیدرآباد دکن۔ کراچی۔ دہلی۔ خیرپور سندھ۔ شملہ۔ سیدوالا۔ بہلول پور ضلع لائلپور۔ ڈلہوزی۔ بمبئی۔ پشاور۔ بریلی۔۵۵
اس اجتماع کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں شامل ہونے والے خدام میں سے مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے ایک رکن مرزا محمد سعید صاحب ابن مرزا محمد شریف بیگ صاحب نے لاہور سے قادیان آتے ہوئے مجلس کے جھنڈا کی حفاظت کے لئے شجاعت و بہادری کا شاندار نمونہ دکھایا اور دوسرے خدام بھائیوں کے سامنے شعائر اللہ کے تحفظ کی قابل تقلید مثال قائم کی۔ اس اجمال کی تفصیل خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے۔ حضور نے ۲۳۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے خدام جب جلسہ میں شمولیت کے لئے آرہے تھے تو اس وقت جبکہ ریل سٹیشن سے نکل چکی تھی اور کافی تیز ہوگئی تھی ایک لڑکے سے جس کے پاس جھنڈا تھا ایک دوسرے خادم نے جھنڈا مانگا۔ وہ لڑکا جس نے اس وقت جھنڈا پکڑا ہوا تھا ایک چھوٹا بچہ تھا۔ اس نے دوسرے کو جھنڈا دے دیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے جھنڈا پکڑلیا ہے۔ مگر واقعہ یہ تھا کہ اس نے ابھی جھنڈے کو نہیں پکڑا تھا۔ اس قسم کے واقعات ہو جاتے ہیں۔ گھروں میں بعض دفعہ دوسرے کو کہا جاتا ہے کہ پیالی یا گلاس پکڑائو اور دوسرا برتن اٹھا کر دے دیتا ہے اور یہ خیال کرلیتا ہے کہ اس نے پیالی یا گلاس کو پکڑلیا ہوگا۔ مگر اس نے ابھی ہاتھ نہیں ڈالا ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برتن گر جاتا ہے۔ اسی طرح جب اس سے جھنڈا مانگا گیا اور اس نے جھنڈا دوسرے کو دینے کے لئے آگے بڑھا دیا تو اس نے خیال کیا کہ دوسرے نے جھنڈا پکڑلیا ہوگا۔ مگر اس نے ابھی پکڑا نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جھنڈا ریل سے باہر جاپڑا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ چھوٹا لڑکا جس کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا فوراً نیچے کودنے لگا۔ مگر وہ دوسرا لڑکا جس نے جھنڈا مانگا تھا اس نے اسے فوراً روک لیا اور خود نیچے چھلانگ لگا دی۔ لاہور کے خدام کہتے ہیں ہم نے اسے اوندھے گرے ہوئے دیکھ کر سمجھا کہ وہ مر گیا ہے۔مگر فوزاً ہی اٹھا اور جھنڈا کو پکڑلیا اور پھر ریل کے پیچھے دوڑ پڑا۔ ریل تو وہ کیا پکڑسکتا تھا بعد میں کسی دوسری سواری میں بیٹھ کر اپنے قافلہ سے آملا۔ میں سمجھتا ہوں اس کا یہ فعل نہایت ہی اچھا ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ خدام الاحمدیہ نے اس کے لئے انعام مقرر کیا تھا اور تجویز کیا تھا کہ اسے ایک تمغہ دیا جائے۔ مگر اس وقت یہ روایت میرے پاس غلط طور پر پہنچی تھی اس لئے میں نے وہ انعام اسے نہ دیا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہ ہے کہ جھنڈا اس کے ہاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ دوسرے کے ہاتھ سے گرا تھا۔ پہلے مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ اسی کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا۔
بہرحال یہ ایک نہایت ہی قابل تعریف فعل ہے۔ خدام الاحمدیہ سے ہمیشہ اس بات کا اقرار لیا جاتا ہے کہ وہ شعائر اللہ کا ادب و احترام کریں گے۔ اسی طرح قومی شعار کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اس اقرار کو پورا کرنے میں لاہور کے اس نوجوان نے نمایاں حصہ لیا ہے اور میں اس کے اس فعل کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا اس نوجوان کا نام مرزا سعید احمد ہے اور اس کے والد کا نام مرزا شریف احمد ہے۔ بظاہر یہ سمجھا جائے گا کہ اس نوجوان نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا مگر جہاں قومی شعار کی حفاظت کا سوال ہو وہاں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور درحقیقت وہی لوگ عزت کے مستحق سمجھتے جاتے ہیں جو اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی جان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کی جانیں دنیا میں سب سے زیادہ سستی اور بے حقیقت سمجھی جاتی ہں۔ آخر غلام قومیں کون ہوتی ہیں؟ وہی لوگ غلام بنتے ہیں جو اپنی جانوں کو قربان کرنے سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مر نہ جائیں۔ وہ ایک وقت کی موت قبول نہیں کرتے تو خداتعالیٰ انہیں بعض دفعہ صدیوں کی موت دے دیتا ہے<۔۵۶
اختلافی مسائل کے لئے ہفتہ تعلیم و تلقین
وسط ۱۹۴۱ء سے مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصاراللہ کی مشترکہ مساعی سے احباب جماعت کو اختلافی مسائل سے آگاہ کرنے کے لئے تعلیم و تلقین کے خاص ہفتے منانے کا انتظام شروع ہوا۔ اس سلسلہ میں پہلا ہفتہ مسئلہ نبوت کے لئے ۲۴۔ مئی سے ۳۰۔ مئی ۱۹۴۱ء میں اور دوسرا ہفتہ ۲۲ تا ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء میں منایا گیا جو مسئلہ خلافت کی تعلیم و تلقین کے لئے مخصوص تھا۔۵۷ اس کے بعد ۹۔ نومبر ۱۹۴۲ء کو تیسرا ہفتہ منایا گیا جس کا موضوع تلقین پیشگوئی مصلح موعود تھا۔۵۸ ۱۹۴۳ء کے ہفتہ تعلیم و تلقین کے حسب ذیل موضوع تھے۔ )۱( اقتداء نماز غیر احمدیاں )۲( رشتہ ناطہ غیر احمدیاں )۳( جنازہ غیر احمدیاں۔۵۹
دفتر مجلس مرکزیہ کی بنیاد
۱۰۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بعد نماز عصر دارالانوار میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دفتر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔۶۰
عمارت کے لئے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ نے آٹھ کنال کا قطعہ زمین بطور عطیہ دیا۔ جس کی قیمت ان دنوں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔۶۱]ydbo [tag نقشہ کی تیاری کے سلسلہ میں قاضی عبدالمجید صاحب اور قاضی محمد رفیق صاحب نے گہری دلچسپی لی۔۶۲ یہ عمارت مکمل ہوگئی تو مجلس کا دفتر جو گیسٹ ہائوس میں کھلا ہوا تھا اس میں منتقل کر دیا گیا جو قادیان سے ہجرت )۱۹۴۷ء( تک قائم رہا۔
مہتممین کے دوروں کا آغاز
۴۳۔ ۱۹۴۲ء میں ملک عطاء الرحمن صاحب بنگال بھجوائے گئے۔ آپ نے ڈیڑھ ماہ تک تمام بڑی بڑی جماعتوں کا دورہ کرکے مجالس خدام الاحمدیہ کا قیام اور سابقہ مجالس کا احیاء کیا۔ اسی سال چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے سندھ کی مجالس کا معائنہ اور احیاء کیا۔۶۳
بزم حسن بیان کا قیام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام >حسن بیان<۶۴ سے تفائول کے ساتھ سالانہ جلسہ ۱۹۴۳ء پر بزم حسن بیان کا افتتاح کیا گیا۔ یہ بزم تقریری مشق کے لئے قائم کی گئی تھی۔۶۵
>الطارق< کا اجراء
جنوری ۱۹۴۵ء سے مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے >الطارق< کے نام سے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا جس کی حیثیت مجلس کے گزٹ کی سی تھی جس میں صدر مجلس اور مہتممین مرکزیہ کی طرف سے ضروری ہدایات و اطلاعات شائع ہوتی تھیں۔ یہ سلسلہ پانچ نمبروں کی اشاعت کے بعد بند کر دیا گیا۔۶۶
مخالفین احمدیت کی طرف سے مجلس خدام الاحمدیہ کو خراج تحسین
مجلس احرار کے اخبار >زمزم< )۲۳۔ جنوری ۱۹۴۵ء( نے مجلس خدام الاحمدیہ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>ایک ہم ہیں کہ ہماری کوئی بھی تنظیم نہیں اور ایک وہ ہیں جن کی تنظیم در تنظیم کی تنظمیں ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ آوارہ منتشر اور پریشان ہیں۔ ایک وہ ہیں کہ حلقہ در حلقہ محدود و محصور اور مضبوط اور منظم ہیں۔ ایک حلقہ احمدیت ہے اور اس میں چھوٹا بڑا` زن و مرد` بچہ بوڑھا ہر احمدی مرکز نبوت پر مرکوز و مجتمع ہے مگر تنظیم کی ضرورت اور برکات کا علم و احساس ملاحظہ ہو کہ اس جامع و مانع تنظیم پر بس نہیں۔ اس وسیع حلقہ کے اندر متعدد چھوٹے چھوٹے حلقے اور بناکر ہر فرد کو اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ہل نہ سکے۔ عورتوں کی مستقل جماعت لجنہ اماء اللہ ہے۔ اس کا مستقل نظام ہے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر اس کا جداگانہ سالانہ جلسہ ہوتا ہے۔ خدام الاحمدیہ نوجوانوں کا جدا نظام ہے۔ پندرہ تا چالیس سال کے ہر فرد جماعت کا خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا ضروری ہے۔ الفضل ۴۴/۱۲/۲۱۔ چالیس سال سے اوپر والوں کا مستقل ایک اور حلقہ ہے۔ انصاراللہ جس میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان تک شامل ہیں۔ میں ان واقعات اور حالات میں مسلمانوں سے صرف اس قدر دریافت کرتا ہوں کہ کیا ابھی تمہارے جاگنے اور اٹھنے کا وقت نہیں آیا؟ تم نے ان متعدد مورچوں کے مقبلہ میں کوئی ایک بھی مورچہ لگایا؟ حریف نے عورتوں تک کو میدان جہاد میں لاکھڑا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک ہماری ذلت و رسوائی اور میدان کشاکش میں شکست و پسپائی کا ایک بہت بڑا سبب یہی غلط معیار شرافت ہے<۔۶۷
پہلی دینیات کلاس
۱۹۴۵ء کے اوائل میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے شعبہ تعلیم کے زیر اہتمام میڑک کا امتحان دینے والے طلباء کے لئے قادیان میں دینیات کلاس کھولی گئی جو ۲۰۔ اپریل ۱۹۴۵ء سے لے کر ۱۰۔ مئی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔ کلاس کے منتظم صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم۔ اے تھے اور نائب مولوی صدر الدین صاحب مولوی فاضل۔ پڑھائی آٹھ بجے سے لے کر بارہ بجے تک تعلیم الاسلام کالج میں ہوتی تھی اور عام لیکچر بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں ہوتے تھے۔ مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری۔ مولوی نور الحق صاحب انور اور مولوی بشارت احمد صاحب سندھی نے قرآن مجید۔ صرف و نحو اور حدیث پڑھائی۔ دینیات کلاس کے طلباء کو بعض دوسرے فاضل اصحاب کے علاوہ مندرجہ ذیل بزرگوں نے بھی خطاب فرمایا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری۔ حضرت مولوی خیرالدین صاحب سیکھوانی۔ حضرت سردار عبدالرحمن صاحبؓ سابق مہر سنگھ۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب۔
طلباء ظہر سے عصر تک کا وقت مسجد مبارک میں گزارتے اور مرکزی لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتے۔ شریک کلاس ہونے والے طلباء کی تعداد پچیس تھی اور ان کی رہائش کا انتظام مہمان خانہ میں کیا گیا تھا۔ آخری روز )۱۰۔ مئی ۱۹۴۵ء( حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے طلباء کو بعد نماز عصر مسجد مبارک میں شرف ملاقات بخشا اور قیمتی نصائح کیں اور ارشاد فرمایا کہ ان طلباء کے لئے ۲۴ گھنٹوں کا پروگرام ہونا چاہئے تھا جس میں ہر کام کے اوقات مقرر ہوتے۔ ان ایام میں ان طلباء کو سخت اور مسلسل محنت کرنے کی مشق کرائی جانی چاہئے تھی۔
اس سلسلہ میں حضور نے تفصیلی ہدایات دیں۔ اسی طرح فرمایا کہ باہر سے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کم از کم سو طالب علم باہر سے آنا چاہئے تھا۔ آئندہ سال بہت پہلے تحریک شروع ہونی چاہئے یہ سب طلباء ایک جگہ رہیں۔ تین چار نگران ہر وقت ان کے ساتھ رہیں اور اپنے عمل سے ان پر نیک اثر ڈالیں۔۶۸]body [tag
اس پہلی کلاس کے بعد خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مستقل طور پر تعلیم و تربیت کا یہ اہم طریق رائج کر دیا جو اب تک بدستور جاری ہے۔
پہلی تعلیم القرآن کلاس
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشادات پر دینیات کلاس کے بعد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور نظارت تعلیم و تربیت کے اشترک سے ۱۹۴۵ء میں پہلی تعلیم القرآن کلاس بھی شروع کی گئی جو ۲۵۔ اگست سے ۲۵۔ ستمبر تک جاری رہی۔ نمائندگان کی تعداد ۷۳ تھی جو حسب استعداد دو جماعتوں میں تقسیم کر دیئے گئے۔ ہر ایک جماعت تعداد کے لحاظ سے دو دو فریقوں میں منقسم تھی اور قرار پایا کہ جماعت اول کو پانچ سپارے تک ترجمہ پڑھایا جائے اور جماعت دوم کو دس پارے تک۔ کلاس کے طلباء کو مولوی تاج الدین صاحب فاضل لائلپوری۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری۔ قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری اور قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی نے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور صرف و نحو کی تعلیم مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی` مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی اور مولوی شریف احمد صاحب امینی نے دی۔ اور طبی خدمت کے لئے خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب میڈیکل انچارج تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ تعلیم القرآن کمیٹی کے سیکرٹری چوہدری عبدالسلام صاحب اختر تھے اور نمائندگان کی رہائش اور دیگر متعلقہ امور کی نگرانی کے فرائض مولوی شریف احمد صاحب امینی نے انجام دیئے۔
حضور کی خدمت میں جب تعلیم القرآن کلاس کے انتظامات اور روزانہ اسباق کی رپورٹ پیش ہوئی تو حضور نے اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا کہ۔
>جزاکم اللہ تعالیٰ یہ انتظام بہت مناسب ہے اور ہر سال ہونا چاہئے اور بڑھاتے جانا چاہئے<۔۶۹]ydob [tag
حضرت امیرالمومنین کی طرف سے نئے ہفت سالہ دور کا پروگرام
۱۹۴۵ء میں چونکہ مجلس خدام الاحمدیہ اپنی زندگی کے سات سال مکمل کرچکی تھی اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اس سال کے سالانہ اجتماع پر اس کے زشتہ ہفت سالہ دور کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ کے سات سالوں کے لئے ایک جامع مانع اور تفصیلی پروگرام پیش فرمایا جس کا خلاصہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے۔
وقار عمل:۔ ۱۔ قادیان کی عدم صفائی اور محلوں کے گند کو دور کرنے کی طرف توجہ دے کر ہمیں اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ قادیان ایک نہایت صاف ستھرا مقام بن جائے۔ اس کی سڑکیں ہموار ہوں اور گھروں کا کوڑا کرکٹ سڑکوں پر پھینکا ہوا نظر نہ آئے )جس سے مکھی اور مچھر کثرت سے پیدا ہوتے ہیں جن سے وبائی امراض پھیلتے ہیں(
۲۔ یہ ضروری ہے کہ روزانہ کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے یہ کام >عمل اجتماعی< کے رنگ میں ہو۔ خواہ دو دو تین تین خدام مل کر کام کریں۔ مگر کریں روزانہ۔ اس عمل اجتماعی کا بیشتر حصہ وقار عمل کی نوعیت کا ہو۔ محلہ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ خدام محلہ محلہ کی صفائی کے ذمہ دار ہوں اور جو مجالس اس کام میں سبقت لے جائیں انہیں انعام دیا جائے اور مقابلہ کی روح پیدا کی جائے۔
۳۔ قادیان میں برسات کے پانی کے نکاس کی طرف توجہ دی جائے اوورسیروں سے مشورہ کرکے ایک تفصیلی پروگرام بنایا جائے جس کے مطابق کام ہو۔
۴۔ ایسے کام اس غرض کے مدنظر کئے جائیں کہ کسی خادم میں تکبر کا شائبہ باقی نہ رہے اور اس کا نفس مرجائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر ایک کام کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔
۵۔ خدمت خلق:۔ یتامیٰ۔ بیوگان اور مساکین کی خبرگیری خدام و اطفال اپنا اولین فرض قرار دیں اور بیماروں کو دوا وغیرہ لاکر دینا۔ ضرورت مند احباب کے مکانوں کی لپائی وغیرہ کرنا اور ایسے گھرانوں میں جس کے مرد کام کاج کے لئے باہر گئے ہوئے ہوں سودا سلف لاکر دینا خدام و اطفال کی ذمہ داریوں میں سے ہے اور خدام کو چاہئے کہ قومی کاموں کے علاوہ جہاں تک ہوسکے انفرادی کام بھی کریں اور غریبوں یتیموں اور بیوائوں کے کام کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔
۶۔ تربیت و اصلاح:۔ نماز باجماعت کی سختی سے نگرانی کی جائے۔
۷۔ جو خدام نماز باجماعت کے عادی نہ ہوں انہیں پہلے خدام کے عہدہ دار سمجھائیں۔ پھر محلہ کے پریذیڈنٹ اور دوسرے دوست انہیں سمجھائیں اور پھر مرکز کی وساطت سے حضور کے سامنے ان کے نام پیش کئے جائیں۔
۸۔ خدام و اطفال کے سامنے وقتاً فوقتاً اخلاق کے متعلق بحث آتی رہنی چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ کون کون سے اعمال ہیں جو آج کل عام ہیں اور درحقیقت اسلامی نقطہ نگاہ سے برے ہیں اور کونسے اعمال ہیں جو برے سمجھتے جاتے ہیں اور وہ درحقیقت اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق ہیں۔
۹۔ اسلامی اخلاق پر چھوٹی چھوٹی کتابیں اور رسالے تصنیف کئے جائیں جن میں اصول اخلاق پر بحث ہو۔
۱۰۔ خدام و اطفال کو یہ کتابیں اور رسالے بار بار پڑھائے جائیں تا یہ باتیں ان کے ذہن نشین ہو جائیں۔
۱۱۔ ایسی اخلاقی کمزوری جس سے دوسروں کو بھی نقصان پہنچتا ہو اور اس کے نقصان کا دائرہ وسیع ہو تو اس کے انسداد کے متعلق شریعت کا حکم ہے کہ اسے فوراً روکا جائے اور اس کے کرنے والے کو سزا دی جائے۔
۱۲۔ مجالس خدام الاحمدیہ اپنے حلقوں میں اخلاقی نگرانی کا کام کسی مقامی عہدہ دار کے سپرد کریں۔
۱۳۔ تبلیغ:۔ مجالس میں تبلیغی سیکرٹری مقرر کئے جائیں جو خدام کو تبلیغ کی طرف متوجہ رکھیں اور انہیں تحریک کریں کہ وہ تبلیغ کے لئے کچھ نہ کچھ وقت دیا کریں۔
۱۴۔ تبلیغ کرنے والوں سے دریافت کیا جائے کہ وہ رشتہ داروں میں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں یا دوسرے لوگوں میں اس دوسری صورت میں ان سے معلوم کیا جائے کہ انہیں ہندوئوں میں تبلیغ کرنے کا شوق ہے یا سکھوں میں یا یہودیوں میں یا عیسائیوں میں اور ہر گروہ کو ان کے مناسب حال معلومات بہم پہنچائی جائیں اور دلائل وغیرہ نوٹ کروا دیئے جائیں۔
۱۵۔ جو نوجوان تبلیغ کے لئے جائیں ان پر جس قسم کے اعتراضات ہوں خواہ وہ معقول ہوں یا غیر معقول منطقی ہوں یا جاہلانہ ان کو تبلیغی رجسٹروں میں درج کیا جائے۔
۱۶۔ قیادتیں ان اعترضات کو ہر تین ماہ کے بعد مرکز میں بھجوا دیں۔
۱۷۔ مرکز ان اعتراصات کے جوابات شائع کرنے کا انتظام کرے۔
۱۸۔ یہ کام اس طریق پر کیا جائے کہ ہر مضمون کے متعلق پاکٹ بکیں بن جائیں اور لوگوں کے متعدبہ حصہ کے مرضوں کی تشخیص ہو جائے اور اس بات کا علم ہوتا رہے کہ آج کل دشمن کس پہلو سے حملہ کرنا چاہتا ہے۔
۱۹۔ تعلیم خدام و اطفال تعلیم کی طرف خاص توجہ دیں۔
۲۰۔ مجالس اپنے حلقوں میں ایک ایک سیکرٹری مقرر کریں جو دس سال سے بیس سال کے خدام و اطفال کی فہرست تیار کرے اور نوٹ کرے کہ اس میں سے کتنے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور کتنے تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ اس عمر کے جو خدام و اطفال تعلیم حاصل نہ کررہے ہوں ان کے والدین کو توجہ دلائی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں۔ بوقت ضرورت مرکز سے بھی ایسے والدین پر دبائو ڈلوایا جائے۔
۲۱۔ طلبہ خدام و اطفال کی نگرانی کی جائے کہ سٹڈی کے وقت گلیوں میں نہ پھیریں۔
۲۲۔ اس نگرانی کے لئے کچھ خادم ہر روز مقرر کئے جائیں جو سٹڈی کے وقت گلیوں میں پھرنے والے طلبہ خدام و اطفال سے پوچھیں کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ )اس سے طلبہ میں آوارگی کی عادت نہ رہے گی۔ اور وہ پڑھائی میں بھی زیادہ دلچسپی لیں گے(
۲۳۔ سٹڈی کے وقت آوارگی کرنے والوں سے باز پرس کی جائے۔
۲۴۔ گو مدرسے جاری کرنا خدام الاحمدیہ کا کام نہیں مگر تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کرنا ان کا فرض ہے پس مجالس نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں۔ عام تعلیم کے ساتھ دلچسپی پیدا کرنے اور عام طور پر نوجوانوں کے اندر دینی تعلیم کا شوق پیدا کرنے کی انتہائی کوشش کریں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سمجھتے ہیں کہ اگر خدام الاحمدیہ پوری محنت اور کوشش سے کام کریں تو دو تین سال میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد پہلے کی نسبت دگنی تگنی ہوسکتی ہے۔
۲۵۔ مجالس ایسے طریق سوچتی رہیں جن کی وجہ سے خدام میں تعلیم کا شوق ہمیشہ روبہ ترقی رہے۔
۲۶۔ یہ سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے اس لئے خدام الاحمدیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد سائنس کے ابتدائی اصولوں سے واقف ہو جائے اور ابتدائی اصول اس کثرت کے ساتھ جماعت کے سامنے دہرائے جائیں کہ ہمارے نائی اور دھوبی بھی یہ بات جانتے ہوں کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنا ہوا ہے یا یہ کہ آگ آکسیجن لیتی اور کاربن چھوڑتی ہے اور اگر اسے آکسیجن نہ ملے تو بجھ جاتی ہے۔ پس یہ ضروری ہے کہ جہاں ہمارے دوست دینی علوم سے واقف ہوں وہاں انہیں کچھ نہ کچھ سائنس کے ابتدائی اصول سے بھی واقفیت ہو۔
۲۷۔ ذہانت و صحت جسمانی:۔ نوجوانوں کی صحتوں کو درست کرنے کی انتہائی کوشش کی جانی چاہئے یہ نہ ہو کہ جوانی آنے سے پہلے ہی ان پر بڑھاپے کا زمانہ آجائے۔ بڑھاپے کے زمانہ میں بھی وہ نوجوانوں والی صحت رکھتے ہوں۔ صحت کی درستی کے لئے عام ورزشوں کے علاوہ ایسے کام تجویز کئے جائیں جو محنت کشی کے ہوں۔ جن سے ان کی ورزش ہو اور ن کے جسم میں طاقت پیدا ہو۔ مثلاً سائیکل چلانا اور اس کی مرمت وغیرہ کرنا۔ موٹر چلانا جاننا اور موٹر کی مرمت وغیرہ گھوڑے کی سواری وغیرہ وغیرہ۔
۲۸۔ خدام کو یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے کہ یہ مشینوں کا زمانہ ہے اور آج کل مشینوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی ہے۔ پس انہیں مشینری کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
۲۹۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ کو لوہارا۔ ترکھانا اور بھٹی وغیرہ کا کام بھی بطور ایک شغل (HOBBY) سیکھنا چاہئے۔
۳۰۔ بچوں کو انجینئرنگ کی طرف مائل کرنے والی کھیلیں کھلائی جائیں۔ مثلاً لوہے کے چھوٹے چھوٹے پرزوں سے چھوٹی چھوٹی مشینیں بنانا اور پل وغیرہ بنانا۔
عام ہدایات
۳۱۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی معین صورت میں ہمارے سامنے آسکیں۔ اس کے لئے گزشتہ ریکارڈ کا محفوظ رکھنا ضروری ہے جس سے یہ اندازہ ہوسکے کہ پچھلے سال سے اس سال نمازوں میں کتنے فی صدی ترقی ہوئی تعلیم میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔ اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔ کتنے خدام پچھلے سال باہر کی مجالس سے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے آئے اور کتنے اس سال آئے۔
۳۲۔ قیادتوں میں بھی ایسا ریکارڈ رکھا جائے جس کی رپورٹ اجتماع کے موقعہ پر سنی جائے۔
۳۳۔ تمام مجالس کا آپس میں مقابلہ کیا جائے کہ تبلیغی طور پر کونسی مجلس اول ہے۔ تعلیم میں کونسی۔ وقار عمل میں کونسی وغیرہ وغیرہ۔ جو مجالس روبہ ترقی نہ ہوں ان کی مرض کی تشخیص کرکے اس کا کوئی علاج سوچا جائے۔
۳۴۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آئندہ ایسے نتائج دیکھا کریں گے۔
۳۵۔ بے کاروں کو کام پر لگانے کی کوشش کی جائے اور بہترین کام وہ ہے جو وقف کے ماتحت ہو۔ وقف تجارت وقف ہی کی ایک قسم ہے جو ہمہ خرما وہمہ ثواب کا مصداق ہے۔
۲۶۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہمارا طرہ امتیاز ہونا چاہئے<۔۷۰
مجلس کا شائع کردہ دس سالہ لٹریچر
مجلس خدام الاحمدیہ نے ۱۹۳۸ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک حسب ذیل لٹریچر شائع کیا۔۷۱
تحریک قیام خدام الاحمدیہ۔ دستور اساسی و قواعد و ضوابط۔ مشعل راہ۔ رپورٹ ہائے خدام الاحمدیہ سال اول تا پنجم۔ ہدایات تعلیم۔ قوانین صحت۔ >اخلاق احمد<۔۷۲ >شمائل احمد<۔۷۳ >ہمارے نغمے< )کلام محمد صدیق صاحب ثاقب زیروی( ہمارا نظام۔ ہمارا کام۔ ذرائع اصلاح۔ دور خسروی )کلام محمد صدیق صاحب ثاقب زیروی( >خدام الاحمدیہ کے نئے سات سالہ دور کا پروگرام< )تقریر سیدنا المصلح الموعود فرمودہ ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء4]( fts[۷۴
یہ ہے ایک مختصر سا خاکہ مجلس خدام الاحمدیہ کی ان دس سالہ سنہری خدمات کا جو احمدی نوجوانوں کی اس عالمی تنظیم نے تقسیم ہند سے قبل انجام دیں اور جو آزادی ملک کے بعد مجلس کی نشاۃ ثانیہ` تنظیم اور موجوہ عروج و ارتقاء کے منازل تک پہنچانے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔
قیام پاکستان کے بعد یہ مجلس کن مراحل میں سے گزری اور آج اسے دنیا کے موجودہ دینی اور اخلاقی نقشہ میں کتنی اہمیت و وسعت حاصل ہوچکی ہے؟ اس کی تفصیلات دور پاکستان کی تاریخ میں آرہی ہیں۔
پانچواں باب )فصل دوم(
حضرت فضل عمر کی بیش قیمت نصائح
میاں عبدالرحیم صاحب احمد صاحب علی گڑھ میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ۳۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو انہوں نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں نوٹ بک پیش کرکے درخواست کی کہ از راہ شفقت اس پر اپنے قلم مبارک سے نصیحت تحریر فرمائیں۔ حضور نے ان کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا۔ مندرجہ ذیل نصائح تحریر فرمائیں۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سب سے مقدم ایمان باللہ و ایمان بالرسل و ایمان بالبعث ہے کہ یہ تینوں انسان کے لئے ماضی حال اور مستقبل کے کفیل اور راہنما ہیں بعد کی دونوں چیزیں اول کی تابع اور مخلوق ہیں لیکن انسانی عقل کی راہنمائی اور اس پر نیک اثر ڈالنے میں نہایت گہرا نفوذ رکھتی ہیں۔
۲۔ ایمان کی مضبوطی محبت سے ہوتی ہے جس نے ایمان کو محبت پر قائم کیا اس نے حسن ظنی اور امید کو پالیا اور جس نے حسن ظن کو پالیا اس نے اپنے خیالات کی پاکیزگی کا گویا بیمہ کرالیا اور جس نے امید کو پالیا اس نے گویا دوں ہمتی اور اخلاق رذیلہ سے نجات حاصل کرلی اور اپنی ترقی کے لئے ایک شاہ راہ تیار کرلیا۔
۳۔ سچائی حلم اور استقلال عملی زندگی کے اعلیٰ جوہر ہیں جب یہ جوہر انسان کو حاصل ہو جائیں اس کے اعمال کی درستی میں کوئی شک نہیں رہتا۔
۴۔ تعاون۔ اطاعت اور ایثار قومی زندگی کی تعمیر کے سامان ہیں جس نے ان کو حاصل کرلیا اس نے اپنے لئے قومی زندگی اور اجتماعی حیات کا سرمایہ جمع کرلیا وہ نہ صرف اپنے وجود کے لئے مبارک ہوا بلکہ اس نے بعثت انبیاء کی غرض کو بھی پورا کیا اور اس سے زیادہ مبارک کون ہے جس نے خداتعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ اپنا ارادہ ملا دیا اور نئی زمین و آسمان کے بنانے میں ہاتھ بٹایا۔
۵۔ اقتصاد اور اس کے ساتھ ضرورت کے موقعہ پر خرچ سے دریغ نہ کرنا انسان کی اقتصادی زندگی کے لئے ضروری عمود ہیں۔ اقتصادی زندگی کی چھت ان دو اقدار پر کھڑی ہے جس نے ایک کو چھوڑا اور دوسرے کو لیا وہ ایسا ہی ہے جس نے دونوں کو چھوڑا۔
۶۔ اور سچ تو یہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے ہی ملتا ہے انسان ارادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو توڑ دیتا ہے۔ پس انسان کرے تو بھی ڈرے اور نہ کرے تو بھی ڈرے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہے کہ وہی سب سامان پیدا کرنے والا ہے اور سب ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل دینے والا ہے۔
والسلام۔ خاکسار
۳۸/۔۱/۳۔ مرزا محمود احمد<۷۵
قادیان سے ہجرت کی نسبت ایک اہم خط و کتابت
۲۶۔ پریل ۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ >تذکرہ< کا مطالعہ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچے کہ جماعت احمدیہ کو کبھی قادیان چھوڑنا پڑے گا۔ اس انکشاف پر آپ نے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں مندرجہ ذیل خط لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج کل میں تذکرہ کا کسی قدر بغور مطالعہ کررہا ہوں۔ مجھے بعض الہامات وغیرہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید جماعت احمدیہ پر یہ وقت آنے والا ہے کہ اسے عارضی طور پر مرکز سلسلہ سے نکلنا پڑے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت حال غالباً گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی۔ اگر میرا یہ خیال درست ہو تو اس وقت کے پیش نظر ہمیں کچھ تیاری کرنی چاہئے مثلاً مذہبی اور قومی یادگاروں اور شعائر اللہ کی حفاظت کا انتظام وغیرہ تاکہ اگر ایسا وقت مقدر ہے تو جماعت کے پیچھے ان کی حفاظت رہے اور نشانات محفوظ رہیں۔ اسی طرح دوسری باتیں سوچ رکھنی چاہئیں۔
فقط۔ والسلام
)دستخط( خاکسار مرزا بشیر احمد ۳۸/۴//۷۶۲۶
اس خط پر حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل نوٹ تحریر فرمایا۔
>عزیزم مکرم السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں تو بیس سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھی۔ ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کررہا تھا کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیں جن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہوسکے۔ اسی طرح چاروں کونوں پر دور دور مقامات پر مستقل زمین دوز نشانات رکھے جائیں جن کا راز مختلف ممالک میں محفوظ کر دیا جائے تاکہ اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے تو ان کو ازسرنو اپنی اصل جگہ پر تعمیر کیا جاسکے۔ پاسپورٹوں کا سوال بھی اس پر مبنی تھا۔
)دستخط( مرزا محمود احمد )خلیفتہ المسیح(
اس میں جو فقرہ ہے کہ پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا۔ اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ انہی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے حکم دیا تھا کہ تمام خاندان کے اور سلسلہ کے بڑے بڑے کارکنوں کے غیرممالک کے پاسپورٹ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں تاکہ جب ہجرت کا وقت آئے پاسپورٹ بنوانے پر وقت نہ لگے۔ اسی طرح اسی وقت سے میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ایک سٹ سلسلہ کی کتب کا سات آٹھ مختلف ملکوں میں بھجوا کر لٹریچر محفوظ کرلیا جائے۔
)دستخط( مرزا محمود احمد )خلیفتہ المسیح(
۲۲۔ مئی ۱۹۳۸ء<۷۷
حضرت امیرالمومنینؓ کا سفر سندھ اور صداقت احمدیت کا عجیب نشان
حسب سابق اس سال بھی سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے سفر سندھ اختیار کیا۔ حضور ۲۷۔ اپریل۷۸ ۱۹۳۸ء کو قادیان سے بذریعہ ٹرین
روانہ ہوئے اور ایک ماہ کے بعد ۳۰۔ مئی۷۹ ۱۹۳۸ء کو بوت ۲/۱ ۱۲ بجے شب واپس قادیان میں تشریف لائے۔
سفر سندھ سے واپس آتے ہوئے احمدیت کی صداقت کا ایک عجیب آسمانی نشان ظاہر ہوا۔ اور وہ یہ کہ جب حضور کی گاڑی )کراچی میل( لودھراں کے اسٹیشن پر پہنچی تو دوسرے اسٹیشنوں کی طرح یہاں بھی حضور کی زیارت کے لئے بہت سے احمدی موجود تھے جو گاڑی کے پہنچنے پر مصافحہ کرنے لگے۔ اسی دوران گاڑی میں سوار ملتان کے ایک ہندو رئیس لالہ کلیان داس صاحب نے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب سے )جو اس وقت حضرت امیرالمومنین کے کمپارٹمنٹ میں دریچہ کے قریب کھڑے تھے( حضور سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ حضور کی اجازت پر یہ صاحب گاڑی کے اندر تشریف لائے اور گفتگو کرنے کی بجائے دیر تک خاموش رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نگاہ پڑی تو دیکھا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ کچھ دیر تک تو رقت کی یہ کیفیت طاری رہی مگر آخر انہوں نے تفصیل کے ساتھ اپنا ایک کشفی واقعہ بیان کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں چار سال ہوئے` کربلا معلیٰ` نجف اشرف` کوفہ` کاظمین اور بغداد شریف وغیرہ زیارتوں پر گیا تھا۔ بغداد شریف میں حضرت سلمان فارسیؓ کی درگاہ میں پہنچا تو مجھے بہت شانتی نصیب ہوئی اور میں نے کھڑے ہوکر اور آنکھیں بند کرکے دعا کی تو مجھے حضرت سلمان فارسی کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس کے بعد میں نے ایران` بلوچستان اور ہندوستان کا ¶چپہ چپہ دیکھا مگر مجھے اس جیسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی شکل نظر نہیں آئی۔ مگر آج جو میں نے حضور کو خانپور اسٹیشن میں دیکھا تو مجھے حضرت سلمان فارسیؓ کی زیارت کا واقعہ یاد آگیا۔ حضور کی شکل بالکل ویسی ہے جیسی مجھے سلمان فارسی کے مزار پر نظر آئی تھی۔ اس بیان کے بعد لالہ کلیاں داس صاحب نے اگلے سٹیشن پر حضور سے رخصت چاہی۔ حضور نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ مگر وہ ہاتھ کی بجائے پائوں کی طرف جھکے اور حضور کے منع کرتے کرتے پائوں چوم لئے اور کہا کہ ہاتھ تو اوروں کے لئے ہے` میرے لئے تو پائوں ہے اور یہ کہہ کر گاڑی سے اتر گئے۔۸۰
لالہ صاحب اس واقعہ کے قریباً ایک ماہ بعد ۲۷۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو قادیان بھی گئے اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کے ہاں قیام کیا اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ملاقات سے بھی مشرف ہوئے قادیان کی روحانی فضا نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ چنانچہ انہوں نے خود تسلیم کیا کہ۔
>قادیان میں میں نے جو کچھ دیکھا اس کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک پاک بستی ہے۔ لوگ محبت کرنے والے اور خلیق ہیں۔ ہر طرف نیکی کا ہی چرچا ہے<۔۸۱
علماء سلسلہ کے فرائض
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۰۔ جون ۱۹۳۸ء کے خطبہ جمعہ میں علماء سلسلہ احمدیہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
>ایک طرف یہ علماء کا فرض ہے کہ اسلام نے دینوی معاملات کے متعلق جو وسطی تعلیم پیش کی ہوئی ہے اسے جماعت کے دوستوں پر اچھی طرح واضح کریں۔ صرف وفات مسیح یا ختم نبوت یا صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسائل پر تقریریں کردینا ان کے لئے کافی نہیں۔ بلکہ ان کا یہ بھی کام ہے کہ وہ اسلام کے تمدنی اور اقتصادی احکام کا مطالعہ کریں۔ ان پر غور کریں اور جماعت کے دوستوں تک انہیں پہنچائیں اور جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ مثلاً مجلس خدام الاحمدیہ کے جو ممبر ہیں وہ اگر چاہیں تو اس سلسلہ میں بہت مفید کام کرسکتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے مطالبات کو اور ان تمام مسائل کو جو ان مطالبات کی بنیاد ہیں اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر انہیں لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کردیں۔ اسی طرح اسلام کے جو مسائل تفقہہ سے تعلق رکھتے ہیں` ان کا مطالعہ کریں اور انہیں پھیلائیں۔ خالی یہ مسائل نہیں کہ وضو میں اتنی بار ہاتھ دھونا چاہئے یا اتنی بار کلی کرنی چاہئے بلکہ وہ مسائل جن کا تعلق تفقہہ سے ہے انہیں نکالیں اور لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ اسی طرح اسلام کے جو اقتصادی احکام ہیں ان کا پہلے خود مطالعہ کریں۔ پھر یہ سوچیں کہ دیگر مذاہب کے احکام پر اسلام کے ان حکموں کو کیا کیا فضیلتیں حاصل ہیں اور جب وہ اپنے معلومات کو مکمل کرلیں تو لوگوں کو ان مسائل سے آگاہ کریں اور مختلف جگہوں میں لیکچر دے کر ہر احمدی کو اس سے واقف کریں اور اسے بتائیں کہ اسلام میں کیسی اعلیٰ تعلیم موجود ہے۔ اگر وہ اس رنگ میں جدوجہد کرکے تمام جماعت کو اسلامی مسائل سے آگاہ کر دیں تو یقیناً جماعت کا ایک کثیر حصہ ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ کیونکہ میرا تجربہ جماعت کے متعلق یہ ہے کہ اس میں ایمان کی روح کی کمی نہیں۔ جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ عربی نہیں جانتے اور اسلامی تعلیم کا بیشتر حصہ عربی میں ہے اس لئے وہ اسلام کی تعلیم سے ناواقف رہتے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ اسلام کی ان امور کے متعلق کیا تعلیم ہے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سو میں سے پچانوے نقصان اٹھا کر بھی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے۔ کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجود ہے۔ جس چیز کی کمی ہے وہ علم ہے<۔۸۲
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا سفر مصر
اس سال کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۹۔ جون ۱۹۳۸ء کو اپنے لخت جگر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو عربی اور زرعی تعلیم میں ترقی کے لئے مصر روانہ فرمایا۔۸۳]ttex [tag
حضور کے الفاظ میں اس اہم سفر کی غرض و غایت یہ تھی کہ۔
>عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ چونکہ انگریزی تعلیم میں لگ گئے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اب پھر عربی کا میلان تازہ ہو جائے۔ میاں ناصر احمد بھی جو اپنی عربی کی تعلیم کے بعد انگریزی تعلیم کی تکمیل کے لئے انگلستان گئے تھے واپس آرہے ہیں اور وہ بھی عربی کے ساتھ دوبارہ مس پیدا کرنے کے لئے مصر میں ٹھہریں گے اور میاں مبارک احمد صاحب بھی وہاں جارہے ہیں۔ دونوں بھائی وہاں آپس میں بھی عربی میں بات چیت کریں گے وہاں کے علمی مذاق کے لوگوں سے بھی ملیں گے۔ لائبریریوں کو دیکھنے کا موقعہ بھی ان کو ملے گا اور اس طرح زبان عربی کے ساتھ مس اور ذوق پھر تازہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ مصر میں کاٹن انڈسٹری کے ماہرین موجود ہیں اور وہاں کپاس خاص طور پر کاشت کی جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ اس کا بھی مطالعہ کریں<۔۸۴
‏tav.8.32
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا پچیسواں سال
حضرت امیرالمومنینؓ کی زریں نصائح
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے صاحبزادہ صاحب کو اپنے قلم مبارک سے جو زریں نصائح لکھ کر دیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ حضور نے تحریر فرمایا کہ۔
>عزیزم مبارک احمد سلمک اللہ تعالیٰ
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ خیریت سے لے جائے اور خیریت سے لائے اور اپنی رضامندی کی راہ پر چلنے کی توفیق دے تمہارا سفر تو عربی اور زراعت کی تعلیم اور ترقی کے لئے ہے۔ لیکن چھوٹے سفر میں اس بڑے سفر کو نہیں بھولنا چاہئے جو ہر انسان کو درپیش ہو۔ جرنیل جرنیلوں کے` مدبر مدبروں کے` بادشاہ بادشاہوں کے حالات پڑھتے رہتے ہیں تاکہ اپنے پیشروئوں کے حالات سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر تم لوگ اہلبیت نبویﷺ~ کے حالات کا مطالعہ رکھو تو بہت سی ٹھوکروں سے محفوظ ہو جائو۔ انسان کا بدلہ اس کی قربانیوں کے مطابق ہوتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں` یہ نہ ہوگا کہ لوگ تو قیامت کے دن اپنے اعمال لے کر آئیں اور تم وہ غنیمت کا حال جو تم نے دنیا کا حاصل کیا ہے۔ اے میرے صحابہ تم کو بھی اپنے اعمال ہی لاکر خدا کے سامنے پیش کرنے ہوں گے۔ اہلبیت نبویﷺ~ کو جو عزت آج حاصل ہے وہ رسول کریم~صل۱~ کی اولاد ہونے کے سبب سے نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر جو قربانیاں کی ہیں` ان کی وجہ سے ہے۔
۱۔
تم اب بالغ جوان مرد ہو۔ میرا یہ کہنا کہ نماز میں باقاعدگی چاہئے ایک فضول سی بات ہوگی۔ جو خداتعالیٰ کی نہیں مانتا وہ بندہ کی کب سنتا ہے۔ پس اگر تم میں پہلے سے باقاعدگی ہے تو میری نصیحت صرف ایک زائد ثواب کا رنگ رکھے گی اور اگر نہیں تو وہ ایک صدا بصحرا ہے۔ مگر پھر بھی میں کہنے سے نہیں رک سکتا کہ نماز دین کا ستون ہے۔ جو ایک وقت بھی نماز کو قضا کرتا ہے دین کو کھو دیتا ہے اور نماز پڑھنے کے یہ معنے ہیں کہ باجماعت ادا کی جائے۔ اچھی طرح وضو کرکے ادا کی جائے` ٹھہر کر سوچ کر اور معنوں پر غور کرتے ہوئے ادا کی جائے اور اس طرح ادا کی جائے کہ توجہ کلی طور پر نماز میں ہو اور یوں معلوم ہو کہ بندہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ جہاں دو مسلمان بھی ہوں ان کا فرض ہے کہ باجماعت نماز ادا کریں بلکہ جمعہ بھی ادا کریں۔ اور نماز سے قبل اور بعد ذکر کرنا نماز کا حصہ ہے جو اس کا تارک ہو وہ نماز کو اچھی طرح پکڑ نہیں سکتا اور اس کا دل نماز میں نہیں لگ سکتا۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا نمازوں کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سبحان اللہ اور الحمدلل¶ہ پڑھا جائے اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر۔ یہ سو دفعہ ہوا۔ اگر تم کو بعض دفعہ اپنے بڑے نماز کے بعد اٹھ کر جاتے نظر آئیں تو اس کے یہ معنی نہیں بلکہ وہ ضرورتاً اٹھتے ہیں اور ذکر دل میں کرتے جاتے ہیں الا ماشاء اللہ۔
تہجد غیر ضروری نماز نہیں۔ نہایت ضروری نماز ہے۔ جب میری صحت اچھی تھی اور جس عمر کے تم اب ہو اس سے کئی سال پہلے سے خداتعالیٰ کے فضل سے گھنٹوں تہجد ادا کرتا تھا۔ تین تین چار چار گھنٹہ تک اور رسول کریم~صل۱~ کی اس سنت کو اکثر مدنظر رکھتا تھا کہ آپﷺ~ کے پائوں کھڑے کھڑے سوج جاتے تھے۔
رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا جو مسجد میں نماز کا انتظار کرتا اور ذکر الٰہی میں وقت گزارتا ہے وہ ایسا ہے جیسے جہاد کی تیاری کرنے والا۔
۲۔
اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں۔ وہ لم یلد ولم یولد ہے۔ اس کا تعلق ہر ایک سے اس احساس کے مطابق ہوتا ہے جو اس کے بندے کو اس کے متعلق ہو۔ جو اس سے سچی محبت رکھتا ہے وہ اس کے لئے اپنے نشانات دکھاتا ہے اور وہ اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی قلعہ کوئی فوج انسان کو ایسا محفوظ نہیں کرسکتا جس قدر کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امداد۔ کوئی سامان ہر وقت میسر نہیں آسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہر وقت میسر آتی ہے۔ پس اسی کی جستجو انسان کو ہونی چاہئے جسے وہ مل گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ جسے وہ نہ ملی اسے کچھ بھی نہ ملا۔
۳۔
زیادہ گفتگو دل پر زنگ لگا دیتی ہے۔ رسول کریم~صل۱~ جب مجلس میں بیٹھتے ستر دفعہ استغفار پڑھتے۔ اسی وجہ سے کہ مجلس میں لغو باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور یہ آپ کا فعل امت کی ہدایت کے لئے تھا نہ کہ اپنی ضرورت کے لئے۔ جب آپ اس قدر احتیاط اس مجلس کے متعلق کرتے تھے جو اکثر ذکر الٰہی پر مشتمل ہوتی تھی تو اس مجلس کا کیا حال ہوگا جس میں اکثر فضول باتیں ہوتی ہوں۔ یہ امور عادت سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں ہمارے بچے جب بیٹھتے ہیں لغو اور فضول باتیں کرتے ہیں۔ ہم لوگ اکثر سلسلہ کے مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے اس وجہ سے بغیر پڑھے ہمیں سب کچھ آتا تھا۔ انسان کی مجلس ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں شامل ہونے والا جب وہاں سے اٹھے تو اس کا علم پہلے سے زیادہ ہو نہ یہ کہ جو علم وہ لے کر آیا ہو اسے بھی کھوکر چلا جائے۔
۴۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ یا اسلام کی تبلیغ کرنا دوسروں کا ہی کام نہیں ہمارا بھی کام ہے اور دوسروں سے بڑھ کر کام ہے۔ پس سفر میں` حضر میں تبلیغ سے غافل نہ ہوں۔ رسول کریمﷺ~ فداہ جسمی و روحی فرماتے ہیں۔ تیرے ذریعہ سے ایک آدمی کو ہدایت کا ملنا اس سے بڑھ کر ہے ایک وادی کے برابر تجھ کو مال مل جائے۔
۵۔
بنیادی نیکیوں میں سے سچائی ہے۔ جس کو سچ مل گیا اسے سب کچھ مل گیا۔ جسے سچ نہ ملا اس کے ہاتھوں سے سب نیکیاں کھوئی جاتی ہیں۔ انسان کی عزت اس کے واقفوں میں اس کے سچ کی عادت کے برابر ہوتی ہے۔ ورنہ جو لوگ سامنے تعریف کرتے ہیں پس پشت گالیاں دیتے ہیں اور جس وقت وہ بات کررہا ہوتا ہے لوگوں کے منہ اس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن دل تکذیب کررہے ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ برا حال کس کا ہوگا کہ اس کا دشمن تو اس کی بات کو رد کرتا ہی ہے مگر اس کا دوست بھی اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے زیادہ قابل رحم حالت کس کی ہوگی۔ اس کے برخلاف سچے آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے دوست اس کی بات مانتے ہیں اور اس کے دشمن خواہ منہ سے تکذیب کریں لیکن ان کے دل تصدیق کررہے ہوتے ہیں۔
۶۔
انسانی شرافت کا معیار اس کے استغناء کا معیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجا منھم کبھی دوسرے کی دولت پر نگہ نہ رکھے اور کبھی کسی کا حسد نہ کرے۔ جو ایک دفعہ اپنے درجہ سے اوپر نگہ اٹھاتا ہے اس کا قدم کہیں نہیں ٹکتا۔ اگلے جہان میں تو اسے جہنم ملے گی ہی وہ اس جہان میں بھی جہنم میں رہتا ہے۔ یعنی حسد کی آگ میں جلتا ہے یا سوال کی غلاظت میں لوٹتا ہے۔ کیسا ذلیل وجود ہے وہ کہ اکیلا ہوتا ہے تو حسد اس کے دل کو جلاتا ہے اور لوگوں میں جاتا ہے تو سوال اس کا منہ کالا کرتا ہے۔ انسان اپنے نچلوں کو دیکھے کہ وہ کس طرح اس سے تھوڑا رکھ کر قناعت سے گزارہ کررہے ہیں اور اس پر شکر کرے جو خداتعالیٰ نے اسے دیا ہے اور اس کی خواہش نہ کرے جو اسے نہیں ملا۔ اس کے شکر کرنے سے اس کا مال ضائع تو نہیں ہوتا۔ ہاں اسے دل کا سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور طمع کرنے سے دوسرے کا مال اسے نہیں مل جاتا۔ صرف اس کا دل جلتا اور عذاب پاتا ہے۔ جس طرح بچہ بڑوں کی طرح چلے تو گرتا اور زخمی ہوتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے سے زیادہ سامان رکھنے والوں کی نقل کرتا اور گرتا اور زخمی ہوتا ہے اور چند دن کے جھوٹے دوستوں کی واہ واہ کے بعد ساری عمر کی ملامت اس کے حصہ میں آتی ہے اور انسان کو ہمیشہ اپنے ذرائع سے کم خرچ کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے کیونکہ اس کے ذمہ دوسرے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور امداد بھی ہے۔ ان کا حصہ خرچ کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ کل کو اس کا حال کیا ہوگا؟
۷۔
جفاکشی اور محنت ایسے جوہر ہیں کہ ان کے بغیر انسان کی اندرونی خوبیاں ظاہر نہیں ہوتیں اور جو شخص اس دنیا میں آئے اور اپنا خزانہ مدفون کا مدفون چھوڑ کر چلا جائے اس سے زیادہ بدقسمت کون ہوگا؟
۸۔
ہر شخص جو باہر جاتا ہے اس کے ملک اور اس کے مذہب کی عزت اس کے پاس امانت ہوتی ہے اگر وہ اچھی طرح معاملہ نہ کرے تو اس کی عزت نہیں بلکہ اس کے ملک اور مذہب کی عزت برباد ہوتی ہے۔ لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن عرصہ دراز تک وہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے ہندوستانی دیکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایسے خراب ہوتے ہیں۔ ہم نے احمدی دیکھے ہوئے ہیں وہ ایسے خراب ہوتے ہیں۔
۹۔
مسافر کو جھگڑے سے بہت بچنا چاہئے۔ اس سے زیادہ حماقت کیا ہوگی کہ دوسرا شخص تو جھگڑا کرکے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور یہ ہوٹلوں میں جھگڑے کے تصفیہ کا انتظار کرتا ہے۔ مسافر تو اگر جیتا تب بھی ہارا اور اگر ہارا تب بھی ہارا۔
۱۰۔
غیر ملکوں کے احمدی ہزاروں بار دل میں خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی قادیان جانے کی توفیق ملے کہ وہاں کے بزرگوں کے تقویٰ اور اچھے نمونہ سے فائدہ اٹھائیں اور خصوصاً اہلبیت کے ساتھ ان کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ وہ اپنے گھروں کو ایمان کے حصول کے لئے چھوڑنا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس آنا چاہتے ہیں۔ سخت ظلم ہوگا اگر ہم ان کے پاس جاکر ان کے ایمانوں کو ضائع کریں اور ان کی امیدوں کو سراب ثابت کریں۔ ہمارا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ سمجھیں کہ ہماری امید سے بڑھ کر ہمیں ملا نہ یہ کہ ہماری امید ضائع ہوگئی۔
۱۱۔
ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی چغلیاں کرتے ہیں۔ مومن کو چغلی سننے سے پرہیز چاہئے اور سن کر یقین کرنے سے توکلی اجتناب واجب ہے جو دوسرے کی نسبت عیب بغیر ثبوت کے تسلیم کرلیتا ہے` خداتعالیٰ اس پر ایسے لوگ مسلط کرتا ہے جو اس کی خوبیوں کو بھی عیب بتاتے ہیں۔ مگر چاہئے کہ چغلی کرنے والے کو بھی ڈانٹے نہیں بلکہ محبت سے نصیحت کرے کہ اگر آپ کا خیال غلط ہے تو بدظنی کے گناہ سے آپ کو بچنا چاہئے اور اگر درست ہے تو اپنے دوست کے لئے دعا کریں تا اسے بھی فائدہ ہو اور آپ کو بھی اور عفو سے کام لو کہ خدا تمہارے گناہ بھی معاف کرے۔
۱۲۔
تم کو مصر فلسطین اور شام کے احمدیوں سے ملنا ہوگا۔ ان علاقوں میں احمدیت ابھی کمزور ہے۔ کوشش کرو کہ جب تم لوگ ان ممالک کو چھوڑو تو احمدی بلحاظ تعداد کے زیادہ اور بلحاظ نظام کے پہلے سے بہتر ہوں اور تم لوگوں کا نام ہمیشہ دعا کے ساتھ لیں اور کہیں کہ ہم کمزور تھے اور کم تھے۔ فلاں لوگ آئے اور ہم طاقتور بھی ہوگئے اور زیادہ بھی ہوگئے اور ان پر رحم کرے اور انہیں جزائے خیردے۔ مومن کی مخلصانہ دعا ہزاروں خزانوں سے قیمتی ہوتی ہے۔
۱۳۔
جمعہ کے پابندی جماعت کے ساتھ خواہ کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو ادا کرنے کی اور دن میں کم سے کم ایک نماز اجتماعی جگہ پر پڑھنے کی اگر وہ دور ہو ورنہ جس قدر زیادہ توفیق مل سکے کوشش کرنی چاہئے اور جماعتوں میں جمعہ کی اور ہفتہ واری اجلاسوں اور نماز باجماعت کی خاص تلقین کرنی چاہئے۔
۱۴۔
رسول کریم~صل۱~ ہر اجتماع کے موقعہ پر دعا فرماتے تھے۔ اللھم رب السموت السبع وما اظلن و رب الارضین السبع وما اقللن و رب الشیاطین وما اضللن و رب الریاح وماذرین فانا نسئلک خیر ھذہ القریہ و خیر اھلہا و خیر مافیھا و نعوذبک من شرھذہ القریہ وشر اھلہا و شرمافیھا۔ اللھم بارک لنا فیھا و ارزقنا جناھا وحببنا الی اھلہا و حبب صالحی اھلہا الینا۔ یعنی اے ساتوں آسمانوں کے رب اور جن چیزوں پر آسمانوں نے سایہ کیا ہوا ہے اور اے ساتوں زمینوں کے رب اور جن کو انہوں نے اٹھایا ہوا ہے اور اے شیطانوں کے رب اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں اور ہوائوں کے رب اور جن چیزوں کو وہ کہیں سے کہیں اڑا کر لے جاتی ہیں۔ ہم تجھ سے اس بستی کی اچھی چیزوں اور اس کے بسنے والوں کے حسن سلوک اور جو چیز بھی اس میں ہے اس کے فوائد طلب کرتے ہیں اور بستی کی بدیوں اور اس کے رہنے والوں کی بدسلوکیوں اور اس میں جو کچھ بھی ہے اس کے نقصانات سے پناہ طلب کرے ہیں۔ اے اللہ ہمارے لئے اس بستی کی رہائش کو بابرکت کردے اور اس کی خوشحالی سے ہمیں حصہ دے اور اس کے باشندوں کے دل میں ہماری محبت پیدا کر اور ہمارے دل میں اس کے نیک بندوں کی محبت پیدا کر۔ آمین۔
یہ دعا بہت جامع اور ضروری ہے۔ ریل میں داخل ہوتے وقت` کسی شہر میں داخل ہوتے وقت` جہاز میں بیٹھتے اور اس سے اترتے وقت خلوص دل سے یہ دعا کرلینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شرارت سے حفاظت کا موجب ہوتی ہے۔
۱۵۔
مصر میں انگریزی اور فرانسیسی کا عام رواج ہے مگر تم عربی سیکھنے جارہے ہو` پورا عہد کرو کہ عرب سے سوائے عربی کے اور کچھ نہیں بولنا خواہ کچھ ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ ورنہ سفر بیکار جائے گا۔ ہاں وہاں کی خراب عربی سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر غیر تعلیم یافتہ طبقہ سے زراعت کی اغراض یا اور کسی غرض سے گفتگو کی ضرورت ہو تو خود بولنے کی ضرورت نہیں۔ ساتھ ترجمان رکھ لو عربی پڑھ تو چکے ہی ہو۔ تھوڑی سی محنت سے زبان تازہ ہو جائے گی۔
۱۶۔
اپنے ساتھ قرآن کریم` اس کے نوٹ` جو درس تم نے لکھے ہیں اور میری شائع شدہ تفسیر رکھ لو۔ کام آئے گی۔ یہ علوم دنیا میں اور کہیں نہیں ملتے۔ بڑے سے بڑا عالم ان کی برتری کو تسلیم کرے گا اور انشاء اللہ احمدیت کے علوم کا مصدق ہوگا۔
۱۷۔
ایک منجد` کتاب الصرف اور کتاب النحو ساتھ رکھو اور جہاز میں مطالعہ کرتے جائو کیونکہ لمبے عرصہ تک مطالعہ نہ رکھنے کی وجہ سے زبان میں بہت نقص آجاتا ہے۔
۱۸۔
شریعت کا حکم ہے جہاں بھی ایک سے زیادہ آدمی رہیں اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کریں تافتنہ کا سدباب ہو۔
استودعک اللہ وکان اللہ معک اینماکنت
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد<
پانچواں باب )فصل سوم(
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی انگلستان سے روانگی اور بلاد عربیہ میں قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یورپ کے حالات اور مدبرین یورپ کے افکار و خیالات کا قریبی مطالعہ کرنے کے لئے اپنے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو
انگلستان بھجوایا تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے آپ پہلی بار ۶۔ ستمبر ۱۹۳۴ء کو لنڈن تشریف لے گئے اور ۴۔ جولائی ۱۹۳۶ء کو موسمی رخصتوں پر قادیان آئے اور دوبارہ ۱۷۔ ستمبر ۱۹۳۶ء کو عازم ولایت ہوئے اور اپنے دینی مقاصد میں ہر طرح کامیاب و کامران ہونے کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۲۱۔ جولائی۸۵4] [rtf کو لنڈن سے روانہ ہوئے۔
جماعت احمدیہ انگلستان نے آپ کی روانگی سے دو روز قبل آپ کے اعزاز میں الوداعی ڈنر پارٹی دی۔ جس میں مسٹر محمد حارث نے حسب ذیل ایڈریس پڑھا۔
>مخلصانہ ایڈریس
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
رنج و انددہ اور مسرت و انبساط کے مشترکہ جذبات کے ساتھ ہم ممبران جماعت احمدیہ برطانیہ آپ کی ہندوستان کو روانگی کے موقعہ پر آپ کی خدمت میں الوداعی ایڈریس پیش کرتے ہیں۔ یہ موقعہ ہمارے لئے اس وجہ سے موجب خوشی ہے کہ آپ جس مقصد کے حصول کے لئے یہاں آئے تھے اسے حاصل کرنے کے بعد کامیاب و کامران اپنے وطن جارہے ہیں۔ آپ یہاں اس لئے آئے تھے کہ مغرب کے بہترین دماغوں کے خیالات و افکار کا براہ راست علم حاصل کریں اور برطانیہ کی اول درجہ کی یونیورسٹیوں میں سے ایک میں چار سال تک مطالعہ کرکے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے اس موقعہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ جہاں آپ کو مغرب کے فضلاء کے ساتھ براہ راست میل جول کے مواقع اکثر ملتے رہے ہیں۔
تعلیمی ترقی
لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ نے اپنے مطالعہ کو یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دوسرے ممالک اور مغرب کے دوسرے تعلیمی مراکز کی سیاحت کا جو بھی آپ کو موقعہ ملا اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر اپنے دامن علم کو مالا مال کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح آپ نے مغرب کے سوشل` پولٹیکل` اقتصادی اور مذہبی سوالات کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ مغربی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے متعلق آپ نے جو وسیع معلومات حاصل کی ہیں اور مغربی اقوام کے مخصوص کیریکٹر کے متعلق جو وسعت نظر آپ نے پیدا کی ہے اور ان کی مجالس وغیرہ کے متعلق جو واقفیت بہم پہنچائی ہے وہ ہمیں یقین ہے کہ ان عظیم الشان فرائض کی بجاآوری میں آپ کے لئے بہت ممد و معاون ہوگی جو مستقبل قریب میں آپ کے سپرد ہونے والے ہیں۔
جرمن زبان کا مطالعہ
علاوہ ازیں اس موقعہ سے آپ نے ایک اور فائدہ بھی اٹھایا ہے یعنی انگریزی میں پرافیشنی حاصل کرنے کے علاوہ آپ نے یورپ میں ایک اور اہم زبان یعنی جرمن کا بھی خاص طور پر مطالعہ کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ آپ کے معلومات میں مغرب کے بڑے بڑے لیڈروں کے آراء و افکار کے اضافہ کا موجب ہوگی بلکہ آپ کو ان لوگوں سے ان کی اپنی زبان میں اپیل کرنے کے قابل بنا دے گی۔
وقت کا صحیح استعمال
ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے یہاں پر قیام کے دوران میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا ہے اور دور حاضرہ کی تمام دنیا کے رہنما حضرت احمد علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک قابل قدر فرزند کی حیثیت سے آپ کے سامنے جو عظیم الشان کام ہے اس کے لئے بخوبی تیار ہوکر واپس جارہے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ آپ یہاں کسی نئی صداقت کی تلاش میں نہیں آئے تھے بلکہ اس غرض سے مغرب کا مطالعہ کرنے آئے تھے تاکہ ان لوگوں کو صداقت کے سرچشمہ کی طرف لانے کے طریق اور ذرائع معلوم کرسکیں۔ ہم یورپ میں آپ کی آمد کو یہاں کے لوگوں کے لئے ایک نیک فال سمجھتے ہیں۔ ان ممالک میں آپ کی آمد بتاتی ہے کہ مغربی اقوام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بھلائی چاہتا ہے اور اس لئے اس نے اپنے مقدس پیغمبر کے موعود فرزندوں میں سے ایک کو ان لوگوں کی برائیوں اور ان کے عوارض کے مطالعہ کے لئے بھیجا تا جب موقعہ آئے تو وہ ان کے لئے صحیح علاج تجویز کرسکے۔
سچے احمدی کا نمونہ
آپ کی یہاں آمد سے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ آپ نے ہمارے سامنے ایک سچے احمدی کا نمونہ پیش کیا ہے۔ ہم میں سے جن کو حضرت احمد علیہ الصلٰوۃ والسلام یا حضور کے بلند مرتبت بیٹے یعنی جماعت کے موجودہ امام کو دیکھنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی۔ آپ نے ان کے سامنے ایک ایسا نمونہ رکھ دیا ہے کہ جس سے وہ اصل کا صحیح تصور کرسکتے ہیں۔
جدائی کا صدمہ
اب کہ آپ ہم سے رخصت ہورہے ہیں ہمیں آپ کی جدائی کا سخت صدمہ ہوگا کیونکہ اب ہم اس وجود کو جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت تھی اپنے درمیان نہ پائیں گے۔ آپ کی محبت آمیز یاد ہمارے دلوں میں تازہ رہے گی اور اگر ہم آپ کے کیریکٹر کے نہایت نمایاں خوبصورت خدوخال کی نقل کرنے میں کامیاب ہوسکیں تو اسے اپنی خوش بختی سمجھیں گے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آپ کچھ عرصہ ہم میں رہے اور یقین رکھتے ہیں کہ اس سے آپ کو جماعت احمدیہ کے برطانوی حلقہ کے ساتھ خاص دلچسپی پیدا ہوگئی ہوگی اور اس وجہ سے ہمیشہ اس کی خیرخواہی کا آپ کو خیال رہے گا اور اس کی روحانی ترقی کے لئے آپ ہمیشہ دعا فرماتے رہیں گے۔ اگر مغرب اس وجہ سے خوش قسمت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا پوتا ایک لمبے عرصے تک وہاں رہا تو گریٹ بریٹن کو اس سے بین خصوصیت حاصل ہے۔
دعا
اب جبکہ آپ ہم سے رخصت ہورہے ہیں ہم غمگین مگر پرخلوص قلوب کے ساتھ آپ کو الوداع کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ آپ کو اسلام کی تاریخ میں زریں اور نمایاں خدمات کی توفیق دے۔
ہم ہیں آپ کے مخلص
ممبران جماعت احمدیہ گریٹ بریٹن<۸۶
ایڈریس کے جواب میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے موزون الفاظ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے نہایت اختصار کے ساتھ اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار فرمایا۔ آپ کے بعد چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے بھی مختصر تقریریں کیں۔۸۷
حضرت صاحبزادہ صاحب کو ۲۱۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو گیارہ بجے وکٹوریہ اسٹیشن )لندن( پر اپنی دعائوں سے الوداع کیا۸۸ اور آپ ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو قاہرہ تشریف لائے۔۸۹جماعت احمدیہ` مصر کی طرف سے آپ کا اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا قاہرہ اسٹیشن پر شاندار استقبال کیا گیا بلکہ السید احمد علمی اور السید محی الدین الحصنی اور بعض دوسرے مخلصین تو پورٹ سعید میں جہاز پر بھی تشریف لے گئے۔
صاحبزادگان والا تبار نے اقامت مصر کے دوران جماعت احمدیہ کی تربیت اور زیر تبلیغ دوستوں تک پیغام حق پہنچانے کے علاوہ مشہور مصری زعماء سے بھی ملاقاتیں کیں۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے شیخ الازھر مصطفیٰ المراغی سے ملاقات کی اور ان کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت کا ذکر کرکے ایمان لانے کی ترغیب دی اور حضور کے صدق پر قرآن مجید سے واضح دلائل و براہین دیئے۔ لیکن افسوس شیخ صاحب نے بجائے علمی رنگ میں جواب دینے کے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا کہ آپ عجمی ہیں اور ہم >صواحب لغہ القران< ہیں۔ قرآن ہماری زبان میں اترا ہے۔ اس لئے ہم اس کے معنے بہتر سمجھتے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی ملاقات میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی مساعی اور ان کے شاندار نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ۔
>آج اسلام اگر ترقی کرسکتا ہے تو اس کے ذریعہ صرف یہ ہے کہ دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچایا جائے اور ہر مسلمان والہانہ طور پر ہر غیر مسلم کو آنحضرت~صل۱~ کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کرے۔ اس کے بعد ان سے پوچھا کہ آپ نے غیر مسلموں میں تبلیغ کا کیا پروگرام بنایا ہے وہ جواباً کہنے لگے کہ سید جمال الدین افغانی مرحوم )مصر کے ایک مشہور عالم( سے کسی نے سوال کیا کہ تم چین و جاپان کے لوگوں کو جن کی تعداد دنیا کے اکثر حصوں سے زیادہ ہے` کیوں جاکر تبلیغ نہیں کرتے اور کیوں انہیں مسلمان نہیں بنالیتے تو سید جمال الدین صاحب نے جواب دیا کہ میں ان میں جاکر انہیں کیا کہوں کس چیز کی طمع دلائوں جو ان کے پاس نہیں ہے اور اسلام قبول کرنے سے انہیں کیا مل جائے گا۔ اگر انہیں یہ کہوں کہ اسلام قبول کرو تم تعداد میں ترقی کرو گے` مال میں ترقی کرو گے یا سیاست میں ترقی کرو گے یا تم ایک آزاد مستقل امت ہونے کا انعام پائو گے یا تمہارا علم زیادہ ہوگا اور عقل تیز ہوگی تو چونکہ یہ سب چیزیں ان کو اب بھی حاصل ہیں۔ اس لئے وہ مجھے جواب دے سکتے ہیں کہ جن چیزوں کی خاطر تم ہمیں اسلام کی دعوت دیتے ہو وہ ہمارے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ لہذا اگر میں جاپان و چین میں جاکر تبلیغ کروں تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا بلکہ وہ بالعکس کہہ سکتے ہیں۔ اگر اسلام امتوں کو آزاد کراتا ہے اور ترقی و علم و برتری عطا کرتا ہے تو کیوں تم مسلمان اس طرح ذلیل حالت میں ہوتے۔ اس کے بعد کہنے لگے یہی جواب ہمارا آج ہے۔ اگر ہم یورپ میں جاکر تبلیغ کریں تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ بحمداللہ بغیر اسلام حاصل ہے ہمیں اسلام کی ضرورت نہیں ہے۔
سیدی حضرت صاحبزادہ صاحب نے جواباً فرمایا اسلام کا مقصد صرف یہ عارضی ترقی نہیں بلکہ اسلام تو ابدی زندگی پیش کرتا ہے۔ جو دنیا میں بھی ابدی ہے اور عالم ثانی میں بھی ابدی۔ جن ترقیات روحانی کو اسلام پیش کرتا ہے۔ یہ دنیاوی معمولی ترقیات ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہیں پھر نہایت واضح صورت میں اسلامی انعامات بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ اگر آپ کا یہ نظریہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو اسلامی تاریخ اس سے موافقت نہیں کرتی کیونکہ آنحضرت~صل۱~ کی بعثت کے زمانے میں بھی مثلاً روم اور عجم کی قومیں بہت ترقی یافتہ اور مستقل آزاد حکومتیں تھیں پھر ان کو کیوں صحابہ کرامؓ نے اسلام کا پیغام پہنچایا؟
اس ملاقات کا ذکر مصر کے تقریباً تمام بڑے بڑے روزناموں نے کیا۔۹۰4] ftr[
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی آمد اور قاہرہ میں اقامت کے دوران مصری احمدیوں نے انتہائی اخلاص` محبت اور خوشی کا ایمان افروز مظاہرہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پوتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہرممکن جدوجہد کی۔
صاحبزادگان قریباً تین ماہ تک مصر میں قیام فرمارہے اور جماعت قاہرہ کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی ذریت مقدسہ اور سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے جلیل القدر فرزندوں کو براہ راست قریب سے دیکھنے کی سعادت میسر آئی جس سے ان کے اندر نہایت اعلیٰ تبدیلی پیدا ہوئی اور سلسلہ سے اخلاص و محبت میں اور بھی ترقی کرگئے۔
اگرچہ اہل فلسطین کی بھی دلی خواہش تھی کہ وہ ان بزرگ وجودوں کی زیارت کرسکیں مگر نامساعد حالات کے باعث وہ محروم رہے۔۹۱
ہندوستان کو روانگی
مصر میں تین ماہ تک مقیم رہنے اور بلاد اسلامیہ کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا مبارک احمد صاحب پورٹ سعید سے بذریعہ بحری جہاز عازم بمبئی ہوئے۔ اسی جہاز میں حضرت مولوی شیرعلی صاحب` مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بھی انگلستان سے واپس تشریف لارہے تھے۔ پانچ بزرگوں پر مشتمل یہ مقدس قافلہ ۷۔ نومبر ۱۹۳۸ء۹۲ کو ساحل بمبئی پر وارد ہوا اور بمبئی سے بذریعہ ریل ۹۔ نومبر ۱۹۳۸ء کو بٹالہ اسٹیشن پر پہنچا۔ جہاں اس کا شاندار استقبال کیا گیا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ بہ نفس نفیس بذریعہ کار ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ریلوے اسٹیشن بٹالہ پر تشریف لے گئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ اور بہت سے دیگر اصحاب قادیان سے پہنچ گئے تھے نیز بٹالہ اور اس کے قرب و جوار کے دیہات سارچور` اٹھوال` لودی ننگل` دھرمکوٹ بگہ` دنجواں` پارووال` لنگروال` تیجہ کلاں` کھوکھر` قادیان راجپوتاں` دیال گڑھ` تھہ غلام نبی` بہبل چک` فیض اللہ چک` چھچھریالہ` وڈالہ بانگر` خاں فتاح` شاہ پور کے احمدی احباب صبح ہی صبح اپنے معزز مہمانوں کے استقبال کے لئے آگئے تھے۔ ان میں سے بعض جماعتیں بارہ بارہ` چودہ چودہ میل کے فاصلہ پر سے آئیں اور اس طرح ایک بہت بڑا اجتماع ہوگیا۔ گاڑی ٹھیک وقت پر پہنچی۔ جس کے پہنچنے پر نعرہ ہائے تکبیر` حضرت امیرالمومنین` حضرت مولوی شیر علی صاحب` مولانا درد صاحب اور صاحبزادگان >زندہ باد< کے نعرے بلند کئے گئے۔
گاڑی میں سے سب سے پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب اور آپ کے بعد بالترتیب حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد` صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اترے۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سب کے ساتھ معانقہ فرمایا اور ہر ایک کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے۔ حضور کے بعد جناب مولوی عبدالمغنی صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ نے سب کے ساتھ معانقہ فرمایا اور حضرت امیرالمومنینؓ اور قافلہ کے جملہ ممبران کو ہار پہنائے۔ اس کے بعد اہل قافلہ نے تمام اصحاب کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر حضرت امیرالمومنینؓ` حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور جناب ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ گاڑی جب قادیان اسٹیشن پر پہنچی تو نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے گئے۔ حضرت امیرالمومنین کے گاڑی سے اترنے کے بعد ارکان قافلہ اسی ترتیب سے اترے جس سے بٹالہ اسٹیشن پر اترے تھے۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ اور حضرت نواب عبداللہ خاں صاحب نے ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور پلیٹ فارم پر موجود بہت سے اصحاب سے مصافحہ کرنے کے بعد باہر تشریف لائے۔ جہاں سب اصحاب نے مصافحہ کیا۔ مصافحہ کے ختم ہونے تک حضرت امیرالمومنین پلیٹ فارم پر ہی رونق افروز رہے۔ پھر حضور کے ہمراہ ارکان قافلہ قصبہ میں آگئے اور مسجد مبارک میں نفل ادا کرنے کے بعد بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے۔ جہاں حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعا کی پھر اپنے گھروں کو تشریف لے گئے۔۹۳
ولایت سے آنے والے قافلہ کے اعزاز میں دعوت اور حضرت امیرالمومنین کا خطاب
۱۱۔ نومبر ۱۹۳۸ء کو جامعہ احمدیہ` مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلبہ نے ولایت سے آنے والے قافلہ کو چائے کی
دعوت دی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک مبسوط تقریر فرمائی اور احباب جماعت کو مبلغین سلسلہ سے متعلق فرائض کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ اپنی پیاری اولاد کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>مولوی شیر علی صاحب دو اڑھائی سال کام کرنے کے بعد واپس آئے ہیں۔ مولوی صاحب ایسے کام کے لئے باہر بھیجے گئے تھے جو اس وقت جماعت کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس کام کا مشکل حصہ یعنی ترجمہ کا کام پورا ہوچکا ہے۔ اب دوسرا کام نوٹوں کا ہے جو لکھے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں یورپ میں جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو واپس بلا لیا جائے تاکہ وہ یہاں آکر کام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ جنگ کی صورت میں رستے بند ہو جائیں۔ پس دوستوں کی بہترین دعوت تو یہ ہے کہ مولوی صاحب جلد سے جلد اس کام کو ختم کریں تاکہ یہ ایک ہی اعتراض جو مخالفین کی طرف سے جماعت پر کیا جاتا ہے کہ اس جماعت نے ابھی تک ایک بھی قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ شائع نہیں کیا دور ہو جائے اور ہماری انگریزی تفسیر شائع ہو جائے۔
درد صاحب ایک لمبے عرصہ کے بعد واپس آئے ہیں۔ ۱۹۳۳ء کے شروع میں وہ گئے تھے اور اب ۱۹۳۸ء کے آخر میں واپس آئے ہیں۔ ان دنوں سالوں کا درمیانی فاصلہ پونے چھ سال کا بنتا ہے اور پونے چھ سال کا عرصہ انسانی زندگی میں بہت بڑے تغیرات پیدا کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ باپ کی عدم موجودگی میں اولاد کی تربیت میں نقص پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے اخلاق پر برا اثر پڑ جاتا ہے۔ بعض دفعہ گھر سے ایسی تشویشناک خبریں موصول ہوتی ہیں جو انسان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ عام لوگ ان مشکلات کو نہیں سمجھتے جو ایک مبلغ کو پیش آتی ہیں۔ بسااوقات مبلغ کو ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو عام لوگ نہیں کرسکتے۔ بلکہ اکثر اوقات اسے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو دوسروں کے لئے ناممکن ہوتی ہیں۔ جماعت کے کئی آدمی ان قربانیوں کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اعتراض کر دیتے ہیں۔ اگر وہ ان قربانیوں کی حقیقت کا اندازہ لگائیں تو وہ مبلغوں کے ممنون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض ہمارے مبلغ جو خدمت دین کے لئے باہر جاتے ہیں` ان کا جماعت پر بہت بڑا حق ہے۔ نادان ہے جماعت کا وہ حصہ جو ان کے حقوق کو نہیں سمجھتا۔ یورپ کے لوگ ایسے لوگوں کو بیش بہا تنخواہیں دیتے اور ان کے لئے ہر قسم کے آرام و آسائش کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ جب ان کے ڈپلومیٹ یعنی سیاسی حکام اپنے ملکوں میں واپس آتے ہیں تو ملک ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ فرانس کے AMBASSADOR کی تنخواہ وزیراعظم کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ مگر جب وہ اپنے ملک میں آتا ہے تو اہل ملک اس کی قربانیوں کی اس قدر تعریف کرتے ہیں اور اس کے اس قدر ممنون ہوتے ہیں کہ گویا وہ فاقے کرتا رہا ہے اور بڑی مشکلات برداشت کرنے کے بعد واپس آیا ہے اور دور جانے کی کیا ضرورت ہے` ہندوستان کے وائسرائے کو دیکھو کہ اس کے کھانے اور آرام و آسائش کے اخراجات خود گورنمنٹ برداشت کرتی ہے اور بیس ہزار روپیہ ماہوار جیب خرچ کے طور پر اسے ملتے ہیں۔ وہ پانچ سال کا عرصہ ہندوستان میں گزارتا ہے اور اس عرصہ میں بارہ لاکھ روپیہ لے کر چلا جاتا ہے۔ صرف لباس پر اس کو اپنا خرچ کرنا پڑتا ہے یا اگر کسی جگہ کوئی چندہ وغیرہ دینا ہو تو دے دیتا ہے ورنہ باقی تمام اخراجات گورنمنٹ برداشت کرتی ہے لیکن باوجود اس کے جب وہ اپنے ملک کو واپس جاتا ہے تو اس کی قربانیوں کی تعریف میں ملک گونج اٹھتا ہے اور ہر دل جذبہ تشکر و امتنان سے معمور ہوتا ہے اور یہ جذبہ ان میں اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ گویا ان کے جذبات کا پیالہ چھلکا کہ چھلکا۔ یہی گر ہے قومی ترقی کا جب کسی قوم میں سے کوئی فرد ایک عزم لیکر کھڑا ہوتا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری قوم میری قدر کرے گی۔ بے شک دینی خدمت گزاروں کو اس کی پروا نہیں ہوتی لیکن اگر اس کی قوم اس کی قربانیوں کی پروا نہیں کرتی تو یہ اس قوم کی غلطی ہے۔ بے شک ایک مومن کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے اور پھر ایک ایسی قوم کا نمائندہ جو اپنے آپ کو نیک کہتی ہے وہ تو ان خیالات سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس کو صرف اپنی ہی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے مگر اسلام نے جہاں فرد پر ذمہ داریاں رکھی ہیں۔ وہاں قوم پر بھی ذمہ داریاں رکھی ہیں۔ جس طرح کسی فرد کا حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی پروا نہ کرے اسی طرح قوم کا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی پروا نہ کرے۔ قوم کے فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ قوم نے میری قربانیوں کی پروا نہیں کی۔ اور اگر وہ یہ خیال اپنے دل میں لایا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے یہ کام کیا ہے خداتعالیٰ کے لئے نہیں کیا۔ پس فرد کے دل کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے اور نہ فکر کے کسی حصہ میں کہ قوم نے میری قربانیوں کی پروا نہیں کی یا جیسا کہ میری خدمت کرنے کا حق تھا وہ اس نے ادا نہیں کیا۔ ایسا آدمی اپنے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرد پر ذمہ داریاں عائد کی ہیں اسی طرح قوم پر بھی ذمہ داریاں رکھی ہیں اور وہ یہ کہ قوم اس فرد کی خدمات اور قربانیوں کی قدر کرے کیونکہ قوم بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے جیسے فرد<۹۴
جماعت کو ان کے فرائض منصبی کی طرف توجہ دلانے کے بعد صاحبزادگان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
>،،،،،،،،، ہماری سب عزتیں احمدی ہونے کی وجہ سے ہیں اور کوئی امتیاز ہم میں نہیں۔ بعض کاموں کی مجبوریوں کے لحاظ سے ایک افسر بنا دیا جاتا ہے اور دوسرا ماتحت ورنہ حقیقی امتیاز ہم میں کوئی نہیں۔ حقیقی بڑائی خدمت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں سے ہونا یا میرا بیٹا ہونا یہ تو مانگا ہوا چوغہ ہے۔ تمہارا فرض ہے کہ تم خود اپنے لئے لباس مہیا کرو۔ وہ لباس جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یعنی لباس التقوی ذلک خیر۔ تقویٰ کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھر سے وہ آواز اٹھائی جس کے سننے کے لئے تیرہ سو سال سے مسلمانوں کے کان ترس رہے تھے اور وہ فرشتے نازل ہوئے جن کے نزول کے لئے جیلانی` غزالی اور ابن العربیؓ کے دل للچاتے رہے مگر ان پر نازل نہ ہوئے۔ گو بیشک یہ بہت بڑی عزت ہے مگر اس کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ایک طفیلی چیز ہے۔ دنیا کے بادشاہوں کی اولاد اپنے باپ دادوں کی عزتوں کو اپنی عزت کہتے ہیں۔ حالانکہ دراصل وہ ان کے لئے عزت نہیں ہوتی بلکہ *** ہوتی ہے۔ رسول کریم~صل۱~ سے کسی نے پوچھا کہ کون لوگ زیادہ اشرف ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا کہ جو تمہارے اندر اشرف ہیں بشرطیکہ ان میں تقویٰ ہو۔ تو رسول کریم~صل۱~ نے بھی پہلی قسم کی عزت کو تسلیم فرمایا ہے مگر حقیقی عزت وہی تسلیم فرمائی ہے جس میں ذاتی جوہر بھی مل جائے۔
پس تم اپنے اندر ذاتی جوہر پیدا کرو۔ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا خیال رکھو۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا فرد ہونے کی وجہ سے تمہیں کوئی امتیاز نہیں۔ امتیاز خدمت کرنے میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل نازل فرمایا۔ تم بھی اگر خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر بھی اپنا فضل نازل کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ع
منہ از بہر ماکرسی کہ ماموریم خدمت را
یعنی میرے لئے کرسی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہوں۔ اسی طرح تم بھی کرسیوں پر بیٹھنے کے متمنی نہ بنو بلکہ ہر مسکین اور غریب سے ملو اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پائوں سے زمین پر بیٹھ کر کانٹا بھی نکالنا پڑے تو تم اسے اپنے لئے فخر سمجھو۔ خود تقویٰ حاصل کرو اور جماعت کے دوستوں سے مل کر ان کو فائدہ پہنچائو اور جو علم تم نے سیکھا ہے وہ ان کو بھی سکھائو۔
۔۔۔۔۔۔۔ پس میں تم کو مل کر تربیت کرنے کے لئے کہتا ہوں۔ جماعت میں بعض کمزور دوست بھی ہوتے ہیں۔ ان میں اسلام کی حقیقی روح کا پیدا کرنا بہت ہی ضروری کام ہے جماعت کو علوم دینیہ سے واقف کرنا` عرفان الٰہی کی منازل سے آگاہ کرنا` خدمت خلق` محبت الٰہی اور اسلام کی حکمتوں کا بیان کرنا بہت بڑا کام ہے اسی طرح جماعت میں ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا بھی ایک ضروری کام ہے۔ یہ ایسے کام ہیں جن سے تم لوگوں کی نظروں میں معزز ہو جائو گے۔ جماعت میں کئی آدمی اخلاق کے لحاظ سے کمزور ہیں ان کو اخلاق کی درستی کی تعلیم دو۔ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جو تحریک جماعت میں ہوتی ہے اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم دوہرے اجر کے مستحق ہوگے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم اس دین کو قبول کرلو تو تم کو دوہرا اجر ملے گا اور اگر اعراض کرو گے تو پھر عذاب بھی دوہرا ہے۔ پس تمہارا تعلیم کے بعد واپس آنا تم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔ تم لوگوں کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش کرو اور لوگوں کو سچائی کی تلقین کرو اور جماعت سے جہالت دور کرو اور اپنے فرائض کی طرف جلد سے جلد توجہ کرو۔ میں اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔ صرف خدا کا رحم ہی ہے جو میرے کام بھی آسکتا ہے اور تمہارے کام بھی آسکتا ہے<۔۹۵
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب جامعہ احمدیہ کے سٹاف میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی انگلستان سے واپسی کے بعد ان کو جامعہ احمدیہ کے نوجوانوں
کی تعلیم و تربیت کے اہم کام پر مقرر فرمایا اور آپ ۲۷۔ نومبر ۱۹۳۸ء سے جامعہ احمدیہ کے سٹاف میں شامل ہوگئے۔۹۶اور قریباً پانچ ماہ بعد حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کی ریٹائرمنٹ پر یکم مئی ۱۹۳۹ء۹۷ کو اس مرکزی درسگاہ کے پرنسپل مقرر کئے گئے جہاں آپ اپریل ۱۹۴۴ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔۹۸ آپ کے زمانہ میں جامعہ احمدیہ نے ہر لحاظ سے نمایاں ترقی کی۔ آپ کے تربیت یافتہ بہت سے >جامعی< شاگرد اس وقت سلسلہ احمدیہ کی اہم خدمات دینیہ بجالارہے ہیں۔
احرار کے پائوں تلے سے زمین نکل جانے کا حیرت انگیز اعتراف
جماعت احمدیہ کے خلاف ۱۹۳۴ء کی احراری شورش اور اس کے عبرتناک انجام کی تفصیل جلد ہفتم )طبع اول( میں آچکی ہے۔ اس مقام
پر اس کا اعادہ کئے بغیر صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۴۔ مئی۹۹ ۱۹۳۵ء کو یہ پرجلال پیشگوئی فرمائی تھی کہ >زمین ہمارے دشمنوں کے پائوں سے نکل رہی ہے< اس اہم آسمانی خبر کا پہلا ظہور ۱۹۳۵ء کے حادثہ شہید گنج میں اور دوسرا ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں ہوا۔ جس کے بعد بھی متعدد ایسے حالات پیش آئے کہ ۳۹۔۱۹۳۸ء میں احرار کے موافق اور مخالف حلقے برملا پکار اٹھے کہ احرار کے پائوں تلے سے واقعی زمین نکل چکی ہے۔ چنانچہ اخبار >احسان< )لاہور( نے اپنے ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کے شمارہ میں لکھا۔
>پنجاب والوں نے کانگرس کی تجاویز کا نہایت کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ شہید گنج کی تحریک جسے احرار نے جو کانگرس کے اشاروں پر ناچتے ہیں` چلایا تھا۔ کچھ عرصہ تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سکندری وزارت کی جڑیں کھوکھلی کردے گی۔ لیکن سرسکندر نے انہیں انہی کے دائوں پر مارا۔ وہ ایک دلیرانہ بیان لے کر قوم کے سامنے آئے جس سے احراریوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور یہ ایسی تدبیر تھی کہ جس پر کانگرسی لیڈروں نے بھی انہیں مبارکباد کے تار بھیجے<۔۱۰۰
اگلے سال ۱۹۳۹ء میں ایک غیر مسلم صحافی ارجن سنگھ عاجز نے اشتہار دیا کہ۔
>تھوڑا عرصہ ہوا کہ مرزا بشیرالدین محمود امام جماعت مرزائیہ نے پیشین گوئی کی تھی کہ میں دیکھتا ہوں کہ >احراریوں کے پائوں تلے سے زمین نکلتی جارہی ہے<۔ یہ پیشن گوئی آج بالکل پوری ہورہی ہے۔ مخالفین غور سے توجہ فرماویں۔
بھرتی کے سلسلہ میں سارے ہندوستان کے خلاف احرار نے مخالفت کا جو بیڑا اٹھایا تھا۔ اس پر جب حکومت نے ایکشن لیا اور چند احراری لیڈروں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا تو احراریوں کی یہ حالت ہوئی کہ >سچ مچ ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی< سرخ قمیضیں اتار کر پھاڑ کر نالیوں میں پھینک دی گئیں اور آگ میں بھی جلا دی گئیں۔ چنانچہ آج امرتسر میں ایک بھی سرخ قمیض نظر نہیں آتی۔ کئی گرفتار شدہ احراریوں نے تحریری معافی مانگ کر رہائی حاصل کی اور کئی جن کی پولیس تلاش کررہی ہے` مفرور ہیں۔ چوہدری افضل حق صاحب کی گرفتاری پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا لیکن ایک دوکان بھی بند نہ ہوئی۔ یہ ہے احرار کی کامیابی کا ایک نمونہ۔ اب یوں نظر آتا ہے کہ شہر امرتسر میں کبھی کوئی احراری تھا ہی نہیں اور نہ کوئی لال قمیض<
)المشتہر ارجن سنگھ عاجز ایڈیٹر اخبار رنگین امرتسر صفحہ ۱(۱۰۱
پانچواں باب )فصل چہارم(
‏]0 [stfقادیان کے ماحول میں زبردست تبلیغی مہم
۱۹۳۸ء کو یہ بھاری خصوصیت حاصل ہے کہ اس سال سے قادیان اور اس کے مضافات میں تبلیغ پر خاص توجہ دی جانے لگی اور اس کے لئے چودھری فتح محمد صاحب سیال )ناظر اعلیٰ( کی زیر نگرانی ضلع گورداسپور میں وسیع پیمانہ پر سرگرمیاں شروع کر دی گئیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا تبلیغی مرکز سٹھیالی اور دوسرا کلانور اور تیسرا چودھریوالہ میں قائم کیا گیا۔۱۰۲ اس کے بعد جگہ جگہ مراکز قائم کر دیئے گئے اور نگران اعلیٰ چودھری فتح محمد صاحب سیال کے ساتھ مولانا احمد خاں صاحب نسیم تحصیل بٹالہ کے اور مولوی دل محمد صاحب تحصیل گورداسپور کے انچارج بنائے گئے اور دیہاتی مبلغین۱۰۳ کے علاوہ جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلبہ اور قادیان کے دوسرے مخلص اور سرگرم احمدی بڑی کثرت سے تشریف لے جانے اور گائوں گائوں میں پیغام احمدیت پہنچانے لگے۔۱۰۴ اس مہم میں آنریری خدمت دین کرنے والوں میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مرزا شریف احمد صاحب` حضرت میر محمد اسحٰق صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ` چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب۱۰۵ میاں نواب عباس احمد خاں صاحب۱۰۶ مہتمم تبلیغ خدام الاحمدیہ اور چودھری نذیر احمد صاحب بھنگواں۱۰۷ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب جو ان دنوں صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے` نہ صرف ضلع گورداسپور کے اکثر دیہات کے جلسوں میں شرکت فرماتے تھے4] f[st۱۰۸ بلکہ دوسرے احمدیوں کو بھی باہر جانے کی خصوصی تحریک کرتے تھے چنانچہ تبلیغ کی رپورٹ ۴۳۔۱۹۴۲ء کے مطابق اس سال آپ کی تحریک پر ۳۳ مجاہدین تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے۔
تبلیغ مقامی کی توسیع کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مرزا شریف احمد صاحب` چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب` نواب محمد الدین صاحب` سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد دکن` میرزا مظفر احمد صاحب` پیر اکبر علی صاحب` شیخ اعجاز احمد صاحب سب جج` سیٹھ محمد اعظم صاحب` نواب اکبر یار جنگ بہادر` چودھری فقیر محمد صاحب` ڈاکٹر میجر غلام احمد صاحب` مرزا منصور احمد صاحب` خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب` خان صاحب منشی برکت علی صاحب` چودھری نعمت اللہ خاں صاحب بیگم پور` اخوند محمد اکبر صاحب اور دوسرے مخلصین باقاعدگی سے مالی امداد فرماتے رہے۔
ان سب مخلصانہ کوششوں کے بہت شاندار نتائج برآمد ہوئے۔ کئی مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوگئیں اور جہاں احمدیوں کی تعداد کم تھی وہاں بکثرت احمدی ہونے لگے اور یدخلون فی دین اللہ افواجا کی ایک ابتدائی جھلک نظر آنے لگی جیسا کہ پانچ برسوں کی درج ذیل مختصر کار گزاری سے عیاں ہوسکتا ہے۔
مئی ۱۹۳۸ء تا
۱۲۱ دیہات میں دورہ کیا گیا۔ چار اشتہارات اور پانچ ٹریکٹوں کی اشاعت کی گئی۔ ۵۵
۳۰۔ اپریل ۱۹۳۹ء
جلسے منعقد کئے گئے۔ ۵۰۰ کے قریب احباب نے قبول احمدیت کی اور ۲۵ نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
یکم مئی ۱۹۳۹ء تا
قادیان کے ۱۰۸ احباب نے تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ روز وقف کئے۔ چار ابتدائی
۳۰۔ اپریل ۱۹۴۰ء
مدارس جاری کئے گئے۔ چار ٹریکٹ بارہ ہزار کی تعداد میں شائع کئے گئے۔ ۴۰ مئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اور ساڑھے پانچ سو افراد نے بیعت کی۔
یکم مئی ۱۹۴۰ء تا
اس سال ایک ہزار پانچ سو پچاس افراد احمدیت میں شامل ہوئے۔ پچیس نئی
۳۰۔ اپریل ۱۹۴۱ء
جماعتیں قائم ہوئیں اور نو جماعتوں کی تعداد پہلے سے دو چند ہوگئی۔
یکم مئی ۱۹۴۱ء تا
اس سال پندرہ سو چوالیس دوست حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔
۳۰۔ اپریل ۱۹۴۲ء
یکم مئی ۱۹۹۴۲ء تا
اس سال کے نو مبائعین کی تعداد ۸۴۰ تھی۔ صیغہ مقامی تبلیغ نے اب اپنی
۳۰۔ اپریل ۱۹۴۳ء
سرگرمیاں قریبی اضلاع مثلاً امرتسر` سیالکوٹ` جالندھر` ہوشیارپور اور کپورتھلہ میں بھی شروع کردیں۔
۱۹۴۶ء کے قریب مقامی تبلیغ کے انچارج مولانا احمد خاں صاحب نسیم بنائے گئے۔ مگر آپ کو اپنے فرائض کی بجاآوری میں تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ پورا مشرقی پنجاب فسادات کے شعلوں کی لپیٹ میں آگیا اور آپ ۲۹۔ ستمبر ۱۹۴۷ء۱۰۹ کو زیر دفعہ ۳۹۶۔ ۳۹۷ آئی پی سی گرفتار کر لئے گئے اور نظربندی کی مسلسل ناقابل بیان اور دردناک تکالیف برداشت کرنے کے بعد بالاخر ۱۱۔ اپریل ۱۹۴۸ء کو رہا کئے گئے۔۱۱۰
نوجوان علماء کو حضرت امیرالمومنینؓ کی قیمتی نصائح
جماعت احمدیہ کے ایک مشہور و معروف اور ممتاز عالم دین نے >الفضل< ۲۱۔ جون و ۲۷۔ جون اگست ۱۹۳۸ء میں مسئلہ قتل انبیاء کے متعلق مضمون لکھے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں کئے گئے۔ یہ مسلک چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدہ و مسلک کے بالکل خلاف تھا۔ اس لئے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۲۶۔ اگست`۱۱۱ ۲۔ ستمبر اور ۹۔ ستمبر ۱۹۳۸ء کو تین مفصل خطبات جمعہ دئے جن میں تاریخ` انجیل` اقوام عالم اور احادیث کی متفقہ شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظریہ کی تائید میں پیش کی اور نوجوان علماء کو نصیحت فرمائی کہ۔
>صحابہؓ کی موجودگی میں نئے علماء کو یہ ہرگز کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے استنباط اور اجتہاد کریں۔ اگر دنیا نے اپنے استنباط اور اجتہاد سے یہ کام لینا تھا تو کسی نبی کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ہمارا حق ہے کہ اگر کوئی اختلاف ہو تو ہم اس کو نپٹائیں اور صحیح طریق جماعت کے سامنے پیش کریں اور نئے علماء کا بھی یہ فرض ہے کہ جب کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آجائے تو وہ اسے مجلس صحابہ کے سامنے پیش کریں۔ بے شک وہ خود اس امر کا اختیار نہیں رکھتے کہ صحابہ کی ایک مجلس قائم کریں مگر وہ سلسلہ کی وساطت سے ایسا کرسکتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اختلافی مسئلہ میرے سامنے رکھیں۔ اگر میں اس کے متعلق ضرورت سمجھوں گا تو خودبخود صحابہ کو جمع کرلوں گا۔ اور اس طرح جو بات طے ہوگی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے عین مطابق ہوگی۔ اگر ہم یہ طریق اختیار کریں تو آئندہ کے لئے بالکل امن ہو جائے گا اور کوئی ایسا اختلاف پیدا نہیں ہوگا۔ جو جماعت کی گمراہی کا موجب ہو لیکن اگر ہر شخص اپنے طور پر ایسے مسائل پر رائے زنی کرنا شروع کردے۔ جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھلے حوالے موجود ہوں اور ایسا استدلال پیش کرے۔ جو ان کو رد کرتا ہو تو آئندہ نسلوں کے لئے بڑی مشکل پیش آئے گی اور وہ حیران ہوں گی کہ ہم کونسا مسلک اختیار کریں لیکن اگر نئے مسائل یا اختلافی مسائل ہمارے سامنے پیش کئے جائیں اور ہم اس بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ کریں۔ تو اگلے لوگ بہت سی گمراہیوں سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ ان کے سامنے وہ فیصلے ہوں گے جو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متفقہ ہوں گے یا ایسے فیصلے ہوں گے۔ جن پر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثریت کا اتفاق ہوگا- اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے کوئی مسئلہ صاف ہو جائے تو پھر صحابہ کے فیصلوں کی ضرورت نہیں لیکن اگر کتابوں میں کوئی بات وضاحت سے نہ ملے یا اختلاف ہو جائے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی روایات اور ان کے ان تاثرات کو دیکھنا پڑے گا جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے رکھتے چلے آرہے ہیں اور جو سنت کے قائم مقام ہیں<۔۱۱۲ پھر فرمایا۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے` دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے۔ اس لئے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ بے شک بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ تفصیلات کا ان میں ذکر نہیں اور ان باتوں کے متعلق ہمیں ان دوسرے لوگوں سے پوچھنا پڑتا ہے۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صحبت اٹھائی ہے اور اگر ان سے بھی کسی بات کا علم حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم قیاس کرتے اور اس علم سے کام لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے۔ مگر باوجود اس کے میرا اپنا طریق یہی ہے کہ اگر مجھے کسی بات کے متعلق یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی تحریر اس کے خلاف ہے تو میں فوراً اپنی بات کو رد کر دیتا ہوں اسی مسجد میں ۱۹۲۲ء یا ۱۹۲۸ء کے درس القران کے موقع پر میں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا۔ مگر جب میں وہ تمام نوٹ لکھوا چکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی یا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے۔میں نے اس حوالہ کو دیکھ کر اسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ میں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو جو کچچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنی کاپیوں میں سے کاٹ ڈالیں چنانچہ جو لوگ اس وقت میرے درس میں شامل تھے وہ گواہی ے سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس اس وقت کی کاپیاں موجود ہوں تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے عرض کے متعلق نوٹ لکھوا کر بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ اس کے خلاف ہے۔ اسے کاپیوں سے کٹوا دیا اور کہا کہ ان اوارق کو پھاڑ ڈالو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کے خلاف لکھا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
پس یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکم` عدل ہیں اور آپ کے فیصلوں کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں۔ ہم آپ کے بتائے ہوئے معارف کو قائم رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے دوسرے معانی کرسکتے ہیں مگر اسی صورت میں کہ ان میں اور ہمارے معانی میں تناقض نہ ہو<۔۱۱۳
‏tav.8.33
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا پچیسواں سال
پانچواں باب )فصل دوم(
حضرت امیرالمومنین کا سفر حیدرآباد دکن
۱۹۳۸ء کا ایک نہایت اہم اور ناقابل فراموش واقعہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا سفر حیدرآباد ہے۔
حضور کا یہ مبارک سفر ایک رئویا کی بناء پر تھا اور اس کی غرض و غایت یہ تھی کہ ریاست حیدرآباد جو مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد مسلمانان ہند کی تہذیب و تمدن اور علم و فن کا سب سے بڑا مرکز تھی۔ وہاں کے حالات کا جائزہ لیا جائے اور عام مسلمانوں کی بہبود اور جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ کی عملی تدابیر سوچی جائیں۔
حضرت امیرالمومنینؓ کا مکتوب سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے نام
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ قادیان سے یکم اکتوبر ۱۹۳۸ء۱۱۴ کو روانہ ہوئے اور روانگی سے قبل ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۸ء کو سیٹھ
عبداللہ الہ دین صاحب امیر جماعت احمدیہ سکندر آباد کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔
>قادیان۔ ضلع گورداسپور
پنجاب
۳۸۔ ۹۔ ۲۷
مکرمی سیٹھ صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
۔۔۔۔۔۔۔۔ مدت سے میرا ارادہ حیدرآباد آنے کا تھا۔ کیونکہ میرے نزدیک کسی جگہ کو دیکھنے کے بعد وہاں کے کام کی اہمیت کا زیادہ اثر ہوتا ہے لیکن کچھ تو کم فرصتی کی وجہ سے اور کچھ وہاں کے سیاسی حالات کی وجہ سے اور کچھ اس خیال سے کہ وہ علاقہ دور ہے۔ اخراجات زیادہ ہوں گے میں آنے سے رکا رہا۔
لیکن اب حالات اس طرف کے ایسے ہوگئے ہیں۔ شاید مجھے ان علاقوں کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس دفعہ سندھ سے میں حیدرآباد ہوتا آئوں۔ مجھے اس کا زیادہ خیال اس لئے بھی ہوا ہے کہ جو رویاء میں نے حیدرآباد کے متعلق دیکھی تھی اس میں ایک حصہ یہ تھا کہ میں پہلے حیدرآباد کا معائنہ کرنے گیا ہوں اور پھر میں نے آکر فوج کو حملہ کا حکم دیا ہے۔ اس سے میں سمجھتا ہوں کہ پہلے ایک سرسری معائنہ حیدرآباد کا ضروری ہے۔
اس لئے اگر ہوسکا تو میں انشاء اللہ سندھ سے حیدرآباد کی طرف روانہ ہوں گا۔ پروگرام یہ ہے پندرہ بمبئی ورود ۱۶۔ ۱۷۔ ۱۸۔ ۱۹ بمبئی قیام` ۱۹ کو ہوائی جہاز کے ذریعہ سے حیدرآباد` ساڑھے چھ بجے ورود حیدر آباد ۲۰۔ ۲۱۔ ۲۲۔ حیدر آباد قیام` ۲۲ کی شام کو سات بجے دہلی جانے والی گاڑی سے پنجاب کی طرف رجوع۔
میرے ساتھ ایک میری بیوی مریم صدیقہ` لڑکی امتہ القیوم اور ہمشیرہ مبارکہ بیگم ہوں گی۔ چھ سات دوسرے ہمراہی ہوں گے یہ لوگ ریل سے سفر کرکے بمبئی سے حیدرآباد پہنچیں گے۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا سفر صرف غیر رسمی رہے یعنی کوئی لیکچر وغیرہ یا شور نہ ہو۔ اگر بعض خاص آدمیوں سے ملاقات کی ضرورت سمجھی گئی تو جماعت کے مشورہ سے میں ان کو ملنے کا موقعہ دے دوں گا۔ اس سے زیادہ نہیں۔
میرا پروگرام یہ ہوگا جس کے متعلق آپ مذکورہ دوستوں سے مشورہ کرکے تفصیلات طے کرلیں۔ )۱( حیدرآباد کا موٹر میں ایک عام چکر جس سے اس کی عظمت اس کے علاقہ کی وسعت` آبادی کی طرز وغیرہ کا علم ہو جائے۔ )۲( علمی اداروں کا دیکھنا )۳( تاریخی یادگاروں کا دیکھنا )۴( موجودہ ترقی یا جدوجہد کا معائنہ۔
آپ اس مشورہ میں اگر چاہیں تو نواب اکبر یار جنگ صاحب کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ ایک مجلس ایسی رکھی جاسکتی ہے جس میں سب جماعت کے دوست جمع ہوں اور میں انہیں مختصر ہدایات دوں جمعہ کا دن اس دوران میں آئے گا۔ وہ لازماً میں مسجد میں پڑھوں گا اور جماعت سے ملاقات ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ مجھے مردوں کے ساتھ پھرنا ہوگا اس لئے عورتوں کی سیر کا الگ انتظام کر دیا جائے یعنی روزانہ پروگرام طے ہو کر پہلے بتا دیا جائے کہ عورتیں اپنا وقت اس طرح خرچ کریں گی اور میرا پروگرام اس اس طرح ہوگا۔
تحریک جدید نے جہاں کھانے کے متعلق سادگی پیدا کردی ہے وہاں میرے جیسے بیمار کے لئے مشکلات بھی پیدا کردی ہیں ایک کھانے کی وجہ سے۔ سوائے خاص حالات کے چاول میں نہیں کھاسکتا روٹی کھاتا ہوں کیونکہ چاول کم پچتے ہیں۔ اگر ایک سالن ہماری پنجابی طرز کا پک سکے اور تنور کی یا توے کی چپاتی مل سکے تو مجھے سہولت رہے گی۔ حیدرآباد کی طرف پیاز کی کثرت اور میٹھا اور کھٹا کھانے میں ملا دیتے ہیں جو میرے معدے کے لئے سخت مضر ہوتا ہے اور مجھے بہت جلد ایسے کھانوں سے بخار ہو جاتا ہے۔ گو مجھے کھانے کے متعلق یہ ہدایت دینے سے شرم محسوس ہوتی ہے مگر چونکہ میری صحت سخت کمزور ہے اور میری زندگی درحقیقت ایسی ہے جیسے ربڑ کی گریا میں پھونک مار کر بٹھا دیتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ کی پھونک ہی کچھ زندہ رکھے جاتی ہے اس وجہ سے مجھے باوجود حیا کے یہ امر لکھنا پڑا۔
میں پرسوں سندھ جارہا ہوں۔ اس بارے میں اگر کوئی اور بات آپ نے پوچھنی ہو تو ناصرآباد )کنجیجی( ضلع میرپور خاص سندھ کے پتہ پر خط لکھیں۔
بمبئی ہم جہاز کے ذریعہ سے آئیں گے` میرے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری کے علاوہ صرف چند معاون کار ہوں گے شائد کوئی دوست قادیان سے میری ہدایت کے مطابق آجائیں۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد<۱۱۵
قادیان سے بمبئی تک
حضرت اقدس قادیان سے بذریعہ ٹرین ۳۔ اکتوبر۱۱۶ ۱۹۳۸ء کو سندھ پہنچے اور اراضی سندھ کا معائنہ فرمانے اور ضروری ہدایات دینے کے بعد ۲۳۔ اکتوبر۱۱۷ ۱۹۳۸ء کو لاہور میل سے کراچی وارد ہوئے اور اسی روز بحری جہاز سے روانہ ہو کر ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء۱۱۸ کو بمبئی پہنچے بندرگاہ پر جماعت احمدیہ بمبئی نے اپنے امیر حضرت سیٹھ اسٰمعیل آدم صاحب اور مقامی مبلغ مولانا ابوالعطاء صاحب کی قیادت میں حضور کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ بمبئی میں اس وقت امیر جماعت حضرت سیٹھ اسٰمعیل آدم صاحب تھے اور انہوں نے ہی ایک محلہ میں رہائش کے لئے ایک بالا خانہ کرایہ پر حاصل کیا تھا۔ حضور پہلے روزہ بارہ بجے رات تک مجلس میں نماز مغرب و عشاء جمع کرنے کے بعد گفتگو فرماتے رہے اس میں ایک سابق گورنر پنجاب سرایمرسن کا واقعہ بھی بیان فرمایا تھا جو کہ حضور کے وصال کے بعد اخبار بدر میں ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کے ایک مضمون میں شائع ہوچکا ہے۔ وہاں حضرت سیٹھ صاحب نے اپنے مکان پر حضور اور حضور کے رفقاء کی دعوت بھی فرمائی تھی۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی بھتیجی بمبئی میں ہی مقیم تھیں۔ ان کے خاندان نے دعوت کی۔ جائے قیام سے غالباً دس بارہ میل دور ان کی جائے رہائش تھی۔ وہ موٹروں میں سارے قافلہ کو اپنے ہاں لے گئے۔
جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کا بیان ہے کہ۔
>بمبئی میں حضور نے ایک بار خود ہی ایک ہوائی جہاز کے پانچ ٹکٹ خرید کئے۔ چار اپنے خاندان کے لئے اور ایک میرے لئے۔ وہاں ایسے ہوائی جہاز کا انتظام غالباً کسی کمپنی کی طرف سے تھا جو مختصر وقت میں بمبئی کی سیر کراتی تھی۔ صرف پانچ ہی سیٹیں اس میں تھیں۔ میں ہوا باز کے پاس کی سیٹ پر تھا اور حضور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ پیچھے تشریف فرما تھے۔ تیرہ صد پچاس فٹ تک جہاز نے اڑان کی تھی اور نصف گھنٹہ کے قریب صرف ہوا تھا۔ ہوائی جہاز اڈہ تک اور واپسی پر مکرم شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب )جو اس وقت بمبئی کے مبلغ تھے ساتھ تھے<۔۱۱۹
حیدرآباد دکن میں آمد اور مصروفیات
حضور چند دن تک بمبئی میں فروکش رہنے کے بعد بذریعہ ریل ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو بوقت دوپہر روانہ ہو کر ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء بروز پنجشنبہ صبح ۲/۱ ۸ بجے حیدرآباد کے مضافاتی ریلوے اسٹیشن بیگم پیٹھ پر رونق افروز ہوئے۔
جماعت احمدیہ حیدرآباد نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی آمد کے سلسلہ میں نہایت وسیع پیمانے پر ریاستی روایات کے تحت شاندار انتظامات حضرت سیٹھ محمد غوث صاحبؓ کے زیر انتظام کئے تھے۔ حضور کے مکتوب موصولہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی ہدایات کی روشنی میں اس امر کو پیش نظر رکھا گیا تھا کہ سارے شہر کی سیر ہو جائے جس سے حضور کو حیدرآباد کے تاریخی و اسلامی شہر کی عظمت اور اس کی وسعت کا ایک اندازہ ہو جائے اور اس کے علاوہ حیدرآباد کے علمی اداروں اور تاریخی یادگاروں اور حالیہ صنعتی ترقی کے معاینہ کا بھی موقعہ مل جائے۔ حضور کی اس سیر کا انتظام سیٹھ محمد اعظم صاحب کے سپرد تھا اور حضور کی اس ہدایت پر کہ حضور کے ساتھ جو خواتین تھیں ان کی سیر کا علیحدہ انتظام کیا جائے اس کے انچارج سیٹھ محمد معین الدین صاحب۱۲۰ مقرر کئے گئے تھے۔ حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کے چھوٹے خان بہادر احمد الہ دین صاحب المخاطب نواب احمد نواز جنگ بہادر جو اگرچہ سلسلہ بیعت میں شامل نہ تھے لیکن حضور سے بے حد عقیدت رکھتے تھے انہوں نے حضور کے قیام بمبئی کے دوران تحریری طور پر درخواست کی تھی کہ حضور سکندرآباد میں جو حیدرآباد ہی کا ایک حصہ ہے ان کی کوٹھی پر ان کے معزز مہمان کے طور پر قیام فرمادیں جس کو حضور نے قبول فرما لیا تھا۔
حضور کے ورود مسعود کی اطلاع ریاست حیدرآباد کے اضلاع کے احباب کو دے دی گئی تھی اور وہ کثیر تعداد میں حیدرآباد پہنچ گئے تھے۔ ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو جب حضور حیدرآباد کے مضافاتی ریلوے اسٹیشن بیگم پیٹھ پر رونق افروز ہوئے تو وہاں جماعت ہائے احمدیہ کے صرف نمائندہ اصحاب نیز حیدرآباد و سکندر آباد کے بعض اور مخصوص احباب موجود تھے جن میں سے بعض حضور کے خویش و اقارب تھے۔ حضور کے ریل سے اترتے ہی احمدیہ گروپ نے سلامی دی اور نعرہ تکبیر سے سارا سٹیشن گونج اٹھا۔ اس کے بعد مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد نے حضور کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور اسی رنگ میں اظہار اخلاص مقامی خواتین نے ان خواتین محترم کے ساتھ کیا جو حضور کی معیت میں تشریف لائی تھیں۔ احباب جماعت پلیٹ فارم پر خط مستقیم کی صورت میں استادہ تھے۔ حضور بکمال شفقت و مہربانی ہر ایک سے مصافحہ کرتے گئے۔ ساتھ ساتھ مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد ہر ایک کا مختصر تعارف بھی کراتے گئے۔ اسٹیشن کا بیرونی احاطہ موٹروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حلقہ خدام میں جب حضور سٹیشن سے باہر تشریف لائے تو اس موقعہ کا فوٹو لیا گیا۔ حضور اہلبیت اور کارکنوں کی معیت میں موٹروں میں سوار ہوکر نواب احمد نواز جنگ بہادر کی کوٹھی موسومہ الہہ دین بلڈنگ سکندرآباد تشریف لائے۔ جہاں حضور نے چار روز قیام فرمایا۔
پہلے روز کی مصروفیات
پہلے روز حضور کی مصروفیات میں شہر کی وسعت کا معائنہ۱۲۱ اور آپ کی قیام گاہ پر معززین کی ملاقات رہی۔ شام کو حضور نے جناب عبداللہ الہہ دین صاحب امیر جماعت احمدیہ سکندرآباد کے تعمیر کردہ احمدیہ جوبلی ہال واقع افضل گنج میں جماعت ہائے احمدیہ سلطنت آصفیہ کے دو سو سے زائد احباب جماعت سے ملاقات فرمائی۔ بعد ادائے نماز مغرب و عشاء سید حسین صاحب ذوقی نے نہایت رقت آمیز لہجہ میں ایک سلام )منظوم( حضور کی خدمت میں عرض کیا۔ اس کے بعد حضور نے جماعت کے ساتھ لمبی دعا فرمائی اور مجلس برخاست ہوئی۔ یہاں سے حضور مع خدام جناب سیٹھ محمد غوث صاحب سیکرٹری بیت المال کے شہر والے مکان پر دعوت طعام میں تشریف لے گئے جہاں اپنے خدام سے عام ملکی حالات پر تبادلہ خیال فرماتے رہے اور پھر حضور الہہ دین بلڈنگ سکندرآباد تشریف لے گئے۔
دوسرے روز کی مصروفیات
دوسرے روز دوپہر تک عام ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر ایک بجے زبدۃ الحکماء حکیم میر سعادت علی صاحب کے مکان چوک اسپان پر تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد مولوی سید بشارت احمد صاحب کے ہاں >بشارت منزل< پر حضور تشریف لے گئے جہاں جماعت کی جانب سے حضور کی دعوت کا انتظام کیا گیا تھا اور جس میں علاوہ بلدہ کے اضلاع کی جماعتوں کے احباب بھی شریک تھے۔ اثناء تناول طعام میں جناب سید حسین صاحب ذوقی نے نظم >خوش آمدید< سنائی۔۱۲۲ جناب ہرمز صاحب ایک حیدرآبادی شاعر نے قطعات مدحیہ عرض کئے جس میں حضور کی اس دعوت میں شرکت کی برجستہ تاریخ حیدرآباد کے سرکاری سال )فصلی( کی برآمد کی۔ مصرع تاریخ ہے۔
>مکان بشارت میں محمود مہماں<
۱۳۳۸ فصلی
خطبہ جمعہ و نکاح
دعوت طعام کے بعد حضور کا فوٹو عہدہ داران جماعت کے ساتھ لیا گیا۔ جس کے بعد حضور نماز جمعہ کے لئے مکان انجمن موسومہ >احمدیہ لیکچر ہال< واقع بیبی بازار تشریف لے گئے۔ جہاں ایک ہزار مردوں اور عورتوں کا مجمع تھا۔ احباب جماعت کے علاوہ شہر کے رئوساء` نواب` جاگیردار و دیگر معززین بصد شوق و اخلاص تشریف لائے۔ حضور نے ایک دل ہلا دینے والا حقائق و معارف سے لبریز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں صحابہ رسول اللہ~صل۱~ کی جانثاریوں` قربانیوں کا نقشہ نہایت دلکشن و دردانگیز پیرایہ میں کھینچا اور اسی جذبہ کو کامیابی و کامرانی کی کنجی قرار دیا۔ اس کے بعد اپیل کی کہ اب بھی حب رسولﷺ~ کے جذبہ کی ضرورت ہے۔ اپنے اعمال کو ہمیشہ دیکھ لیا کرو کہ آیا وہ رسول اللہ~صل۱~ کی تعلیم کے مطابق ہیں یا نہیں۔ کچھ اس انداز میں یہ خطبہ ارشاد ہوا کہ سامعین بے تاب ہوگئے اور بعض کی چیخیں نکل گئیں اور وہ زار و قطار رونے لگے۔ نماز جمعہ و عصر جمع کرائی گئیں۔ اس کے بعد حضور نے تین اصحاب کے نکاحوں کا ایک مشترکہ خطبہ پڑھا جس میں پھر خطبہ جمعہ کے خیالات کا عکس جلوہ گر ہوا۔ آپ نے تبلیغ کے متعلق اس قدر پراثر پیرایہ میں سامعین کو مخاطب فرمایا کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں ہوسکتا۔ آپ نے گمراہ مخلوق کو خداتعالیٰ کے گمشدہ بچے قرار دیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ مجھے سب سے بڑھ کر متاثر کرتا ہے جب میں سنتا ہوں کہ کسی کا بچہ گم ہوگیا۔ اگر کسی کا بچہ فوت ہوجائے تو ہوسکتا ہے کہ اسے چند دن کے بعد صبر آجائے لیکن بچہ گم ہو جانے کا واقعہ اس قدر دردناک ہوتا ہے کہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔ یہ خیالات سامنے ہوتے ہیں کہ نہ معلوم وہ کس بے درد کے ہاتھ لگ گیا۔ معلوم نہیں وہ کس درجہ مصیبت و آفت میں مبلتا ہوگا۔ شاید وہ مار کھارہا ہو یا بیمار ہو۔ اس کی بے کسی پر کسی دم نہ ماں کو چین آتا ہے نہ باپ کو۔ حضرت نبی کریم~صل۱~ نے فرمایا اس سے بڑھ کر قلق خداتعالیٰ کو اپنے بچھڑے ہوئے بندوں کے متعلق ہوتا ہے جب گمشدہ بچہ ماں باپ کو مل جاتا ہے تو ان کی خوشی کا کیا کہنا۔ اس سے بہت بڑھ کر خوشی خداتعالیٰ کو ہوتی ہے جب اس کا ایک بندہ اس سے آکر ملتا ہے۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تعلیم خدا سے ملنے کا ذریعہ ہے۔ جو اس تعلیم سے آلگا وہ خدا سے ملا۔ پس تم اٹھو` بیدار ہو` کوشش کرو کہ خدا کی بھٹکی ہوئی مخلوق کو اس کے آستانہ پر لاڈالو اور خداوند تعالیٰ کی خوشنودی کے وارث بنو۔
اس خطبہ کے آخر میں حضور نے تحریک فرمائی کہ احباب جماعت ایک ایک ماہ کے لئے اپنے اوقات وقف کریں اور یہ واقفین ریاست کے مختلف اضلاع میں پہنچیں اور حضور کے خطبہ کی روشنی میں تبلیغ کریں اور سب سے زیادہ زور اتحاد بین المسلمین پر دیں۔
اس اثر انگیز خطبہ کے دوران ہر شخص نے جان لیا کہ یہی نصب العین اس کے لمحات زندگی کا بہترین سرمایہ ہے۔ جن غیر احمدی اکابر نے ان خطبات کو سنا وہ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ ہمیں بڑا مغالطہ تھا۔ احمدیوں کی زبان سوائے آنحضرت~صل۱~ کے ذکر کر کسی اور کا گن گاتی ہی نہیں۔ ہم باور نہ کریں گے کہ یہ جماعت اسلام سے ہٹی ہوئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عین اسلام ہے۔ ان باتوں کا چرچا وہ اپنے اور دوست احباب سے بھی کرنے لگے اور ایک عام خوشگوار رو چل پڑی۔
حضور نے خطبہ نکاح کے بعد درجن سے زائد زیر تبلیغ اصحاب کی بیعت لی۔ ان کے علاوہ اس بیعت میں وہ اصحاب بھی شامل ہوئے جنہیں حضور کے ہاتھ پر بیعت کا شرف اب تک حاصل نہیں ہوا تھا۔ احمدیہ ہال رنگا رنگ کی جھنڈیوں سے مزین تھا اور ایک سرخ رنگ کے کپڑے پر >اے آمدنت باعث آبادی ما< و >اھلاً و سھلاً و مرحباً< کے الفاظ لکھے تھے۔
نواب اکبر یار جنگ بہادر کی طرف سے عصرانہ
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد نواب اکبر یار جنگ بہادر کی بیرون شہر کوٹھی واقع عنبر پٹھہ پر حضور تشریف لے گئے جہاں حضور کے اعزاز میں نہایت وسیع پیمانہ پر پرتکلف عصرانہ دیا گیا اور شب میں دعوت طعام بھی تھی۔ احمدیہ لیکچر ہال سے حضور کے تشریف لے جانے کے بعد اسی مقام پر ایک اور عصرانہ کا انتظام تھا۔ جس میں جملہ احمدی مستورات نے حضور کے اہل بیت کا پرخلوص خیر مقدم کیا۔ جناب حکیم میر سعادت علی صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے ایک مدحیہ نظم سنائی جسے فریم میں مزین کرکے پیش کیا گیا۔
عمائدین حیدرآباد کا اجتماع
نواب اکبر یار جنگ بہادر کی طرف سے دی گئی دعوت میں عمائدین سلطنت و عہدہ داران ذی شان و امراء جاگیر داران و دیگر معززین و وکلائے ہائیکورٹ وغیرہ کی کثیر تعداد مدعو تھی جن میں قابل ذکر یہ ہیں۔
)۱( سریمین السلطنت مہاراجہ کشن پرشاد بہادر )۲( نواب فخر یار جنگ بہادر صدر المہام فنانس )۳( نواب کاظم یار جنگ بہادر چیف سیکرٹری پیشی اعلیٰ حضرت حضور نظام )۴( نواب رحمت یار جنگ بہادر کمشنر پولیس )۵( نواب صمد یار جنگ بہادر معتمد فوج۱۲۳ )۶( نواب عسکر نواب جنگ بہادر معتمد و مشیر قانونی سرکار عالی )۷( رائے بہادر بششیر ناتھ صاحب جج ہائیکورٹ )۸( نواب ناظر یار جنگ بہادر جج ہائیکورٹ )۹( دیوان بہادر کشٹما چاری سابق مشیر قانونی )۱۰( نواب بہادر یار جنگ بہادر صدر مجلس اتحاد المسلمین )۱۱( نواب دوست محمد خاں صاحب جاگیردار )۱۲( مولوی سید ابوالحسن صاحب قیصر مددگار صدارت العالیہ )۱۳( سید سراج الحسن صاحب ترمذی وکیل ہائیکورٹ )۱۴( مولوی ابوالحسن سید علی صاحب معتمد مجلس اتحاد المسلمین )۱۵( محمد یامین صاحب زبیری ایڈووکیٹ )۱۶( اکبر علی صاحب اخبار صحیفہ دکن وغیرہم۔
ان اصحاب سے ہندوستان کے سیاسی و معاشی و زرعی مسائل پر حضور کی گفتگو ہوتی رہی۔ ہر مسئلہ پر حضور کی وسیع معلومات` اصابت رائے` انوکھے طرز استدلال و برمحل لطائف و ظرائف سے حاضرین مجلس ششدر و حیران ہوئے۔ کئی گھنٹوں کی مصروفیت کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور حضور اپنی فرودگاہ کو تشریف لے جاتے ہوئے سیٹھ محمد غوث صاحب کی بیرون شہر کی کوٹھی پر تشریف لے گئے اور وہاں سے چائے نوشی کے بعد گیارہ بجے شب واپس الہہ دین بلڈنگ پہنچے۔
تیسرے روز کی مصروفیات
تیسرے روز حضور نے اپنے رشتہ داروں میں اپنا کافی وقت صرف فرمایا۔ حیدرآباد و سکندرآباد کے اطراف و جوانب کے مقامات ملاحظہ فرمائے۔ حضور نے حیدرآباد کے صنعتی علاقے اور عثمانیہ یونیورسٹی کی زیر تعمیر عمارات بھی دیکھیں۔
اس کے بعد حضور اپنے عزیزان مرزا حسین احمد بیگ صاحب اور نواب مرزا مقصود احمد خاں صاحب کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر حضور سیٹھ مومن حسین صاحب سیکرٹری امور خارجہ کے مکان واقع سعیدآباد پر چند منٹ ٹھہرے۔ یہاں سے حضور نواب اکبر یار جنگ بہادر کی کوٹھی پر تشریف لائے۔ حضور نے سیٹھ محمد اعظم صاحب کو ارشاد فرمایا تھا کہ وہ نواب رحمت یار جنگ بہادر کمشنر پولیس سے حضور کی ملاقات کا انتظام کریں۔ چنانچہ سیٹھ صاحب موصوف نے اس ملاقات کا انتظام کیا تھا اور نواب رحمت یار جنگ بہادر نواب اکبر یار جنگ بہادر کی کوٹھی پر آکر حضور سے ملے۔ حضور نے ان سے ریاست کے حالات سے واقفیت حاصل کی اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے مسائل پر تخلیہ میں ان سے گفتگو فرمائی اور مشور دیئے۔ دوپہر کا کھانا جناب مکرم فدا حسین خاں صاحب شاہجہان پوری کی انور منزل واقع کاچی گوڑہ پر تناول فرمایا۔ جہاں بہت سے معززین اور تمام اقرباء حضور مدعو تھے۔ اختتام طعام کے بعد مولوی غلام یزدانی صاحب ناظم آثار قدیمہ و جناب مرزا مقصود احمد خاں صاحب و نواب اکبر یار جنگ بہادر و مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب انسپکٹر جنرل عدالتہائے حکومت نظام سے حضور مصروف گفتگو رہے۔
طبقات الارض` خواص زرعی` نسلوں کے ارتقاء` شاعری کے حسن و قبح وغیرہ پر نقادانہ بحث رہی۔ اس کے بعد حضور نے فدا حسین خاں صاحب کے ایک اور مکان دارالارشاد کو ملاحظہ فرمایا۔ جس کو صاحب موصوف سلسلہ کے لئے وقف کرچکے تھے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب کی طرف سے دعوت
حضور چار بجے چائے نوشی کے لئے ملک کے ممتاز ادیب جناب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب انسپکٹر جنرل عدالت ہائے حکومت نظام کے ہاں تشریف لے گئے۔ حضرت ام المومنینؓ کی طرف سے حضور کے رشتہ میں بعض ماموں حیدرآباد میں معزز عہدوں پر فائز تھے مثلاً مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب مرحوم جو اس وقت انسپکٹر جنرل عدالتہائے حکومت نظام تھے اور بعد میں وہ جج ہائیکورٹ ہوکر پنشن یاب ہوئے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب نثر نگار ہونے کے علاوہ اعلیٰ شاعر بھی تھے۔ ان کے ہاں دعوت کے موقعہ پر انہوں نے آنحضرت~صل۱~ کے متعلق اپنی ایک نعت خود خوش الحانی سے سنائی۔ اس کے بعد حضور کے ارشاد پر عطا محمد صاحب )پہریدار( خادم نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسٰمعیل صاحب کی مشہور نعت >علیک الصلوہ علیک السلام< خوش الحانی سے سنائی<۔۱۲۴
چوتھے روز کی مصروفیات
چوتھے روز علی الصبح بعد نماز فجر قبل ناشتہ آپ مع متعلقین و خدام تاریخی مقامات کے معائنہ کے لئے روانہ ہوئے۔ قلعہ گولکنڈہ۱۲۵ و شاہان قطب شاہی کے مقبرے ملاحظہ فرمائے۔ سلطان قلی قطب شاہ کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ اس کے بعد حضور بالاحصار )قلعہ کی انتہائی بلندی( پر چڑھ گئے اور موجودہ الوقت خدام کے ساتھ لمبی دعا کی۔ قلعہ کے محل وقوع` مضبوطی و برمحل موزون فوجی ضروریات کا اس کی تعمیر میں جو لحاظ رکھا گیا ہے اس کے معائنہ سے حضور بہت متاثر ہوئے۔ اس معائنہ سے فارغ ہوکر حضور عثمان ساگر تشریف لے گئے جو شہر حیدرآباد سے گیارہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں حضور کے میزبان جناب خان بہادر احمد الہہ دین المخاطب نواب احمد نواز صاحب او۔ بی۔ ای کی جانب سے ضیافت کا اعلیٰ پیمانہ پر اہتمام تھا بعد معائنہ تالاب آپ اپنی قیامگاہ پر تشریف لائے جہاں احباب بکثرت ملاقات کے منتظر تھے۔ ملاقاتوں سے فارغ ہوکر آپ نے مدرسہ آصفیہ ملک پیٹھ کا معائنہ فرمایا جس کے بانی نواب ممتاز یار الدولہ بہادر ہیں۔ ایک مرتبہ قادیان شریف بھی تشریف لے گئے تھے۔ حضور نے مدرسہ کی عمارات اور اس کے محل وقوع و طالب علموں کی آسائش کے انتظامات ملاحظہ فرما کر انتہائی پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور مدرسہ کی وزیٹر بک میں تعریفی کلمات بھی تحریر فرمائے۔ دوپہر کے وقت والدہ نواب منظور جنگ بہادر کی دعوت طعام سے فراغت حاصل کرکے واپس ہوئے۔
زنانہ میں بعض خواتین کی حضور نے بیعت لی۔ پھر خان بہادر جناب احمد الہہ دین صاحب او۔ بی۔ ای کا کارخانہ برف سازی اور اس کی مشینری کو ملاحظہ فرمایا۔ اس کے بعد بعض حاضر الوقت خدام کی معیت میں حضور کا فوٹو لیا گیا۔ بعد نماز مغرب حضور عازم اسٹیشن نامپلی )حیدرآباد( ہوئے۔
واپسی
بوقت روانگی اسٹیشن نامپلی )حیدرآباد( پر جماعت حیدرآباد` سکندرآباد و اضلاع کے کثیر احباب موجود تھے۔ بعض دوست ریاست میسور سے بھی حیدرآباد پہنچ گئے تھے۔ ان کے علاوہ غیر از جماعت مسلمانوں کا خاصہ مجمع بھی جوش و خروش کے ساتھ حضور کی ملاقات کے لئے بے تاب تھا۔ مصافحہ کے لئے ایک پر ایک سبقت کررہا تھا۔ جب جامع بے قابو ہونے کے درجہ تک پہنچنے لگا تو مولوی بشارت احمد صاحب کی درخواست پر حضور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور دیر تک مصروف دعا رہے۔ اس کے بعد جناب اعظم علی خان صاحب وکیل و معتمد انجمن اتحاد المسلمین ضلع پربھنی نے جنہوں نے حضور کے اسٹیشن میں داخلہ کے وقت مسلمانان حیدرآباد کی جانب سے حضور کو پھولوں کے ہار زیب گلو کئے تھے خواہش کی کہ حضور اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے مسلمانان حیدرآباد کے نام کوئی پیغام دیں۔
حضرت امیرالمومنینؓ کا پیغام مسلمانان حیدرآباد دکن کے نام
اس پر حضور نے نامپلی سٹیشن )حیدرآباد( پر ایک اہم پیغام دیا جو حیدرآباد دکن کے تمام روزناموں میں بھی چھپ گیا تھا۔
اخبار >رہبر< دکن ۲۶۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء نے اس کا متن درج ذیل الفاظ میں شائع کیا۔ حضور نے فرمایا۔
>میں آج اس بلدہ سے جارہا ہوں۔ ایک صاحب نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں اس موقعہ پر کوئی پیغام مسلمانان حیدرآباد کے نام دوں۔ اس مختصر سے وقت میں میں ایک ضروری بات کی طرف تمام احباب کو توجہ دلاتا ہوں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے۔ اس جگہ کی حالت میں نے خود کسی قدر دیکھی ہے اور بہت سے لوگوں کی زبان سے سنا ہے جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ کام جو ہمارے آبائو اجداد نے اشاعت اسلام کے بارہ میں کیا تھا` آج مسلمان اس سے غافل ہیں بلکہ اختلافات کا شکار ہورہے ہیں۔ آج مسلمان قلت میں ہیں۔ ان کے پاس اسباب نہایت محدود ہیں۔ اور ان کا مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو بہت بڑی اکثریت رکھتے ہیں اور جن کی تنظیم نہایت اچھی ہے۔ اگر ان حالات میں بھی مسلمان یک جہتی سے کھڑے نہ ہوئے تو قریب زمانہ میں ان کی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس لئے اپنی جماعت سے بھی اور دوسرے فرقہ والے دوستوں سے بھی میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ ان حالات میں اتحاد و اتفاق کی قیمت کو سمجھیں اور اختلافات کو اپنی تباہی کا ذریعہ نہ بنائیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ایسے حالات میں سے گزررہے ہیں جن میں جانور بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چڑیاں آپس میں لڑتی ہیں لیکن جب کوئی بچہ انہیں پکڑنا چاہتا ہے تو لڑائی چھوڑ کر الگ الگ اڑ جاتی ہیں۔ اگر چڑیاں خطرہ کی صورت میں اختلاف کو بھول جاتی ہیں تو کیا انسان اشرف المخلوقات ہوکر خطرات کے وقت اپنے تفرقہ و اختلاف کو نظر انداز نہیں کرسکتا؟ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں میں موجودہ وقت میں یہ احساس بہت کم پایا جاتا ہے۔
اسلام جس کی عظمت کو اس کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں اور جس کی تعلیم کے ارفع و اعلیٰ ہونے کو مخالف بھی مانتے ہیں اس کی اشاعت و نصرت سے مونہہ پھیر کر ذاتی اختلافات میں وقت ضائع کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ موجودہ خطرات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ مسلمان باہمی اختلاف کو ایسا رنگ دیں جس سے اسلام کے غلبہ اور ترقی میں روک پیدا ہو۔ سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ پرچم اسلام کو بلند رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کریں۔ جنوبی ہند میں ہمارے بزرگوں نے اسلام کی شوکت کو قائم کیا۔ اس زمانہ میں ہمارا فرض ہے کہ اس عظمت کو دوبارہ قائم کریں اور اس کے لئے تمام مسلمانوں کی متحدہ کوشش نہایت ضروری ہے۔
پس اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں تحریک کرتا ہوں کہ ہندوستان کے جنوب میں مرکز اسلام کی حفاظت کے لئے جملہ مسلمان مل کر کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو<۔۱۲۶
حضور انور کا یہ پیغام عام طور پر گہری دلچسپی سے پڑھا گیا۔ حیدرآبادی مسلمانوں کی ایک سیاسی انجمن کے روح رواں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ مسلمانوں کی آج کی مصیبت میں اگر کوئی کام دے سکتے ہیں تو وہ احمدی ہیں جو امام جماعت احمدیہ کے تحت پورے منظم اور حالات سے باخبر ہیں۔ اس پیغام کے بعد ریل نے سیٹی دی۔ حضورؓ >اللہ اکبر< و >امیرالمومنین زندہ باد< کے فلک بوس نعروں میں براستہ بلہار شاہ آگرہ کے لئے روانہ ہوئے۔ بعض احباب دور ایک جنکشن قاضی پیٹھ تک الوداع کہنے کے لئے آئے تھے۔ جہاں حضور نے نماز مغرب و عشاء جمع کروا کر پڑھائیں۔
خصوصی خدمت بجالانے والے مخلص
دوران قیام میں حضور کے ہمراہ مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد` سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب امیر جماعت احمدیہ سکندر آباد` حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی` شیخ محمود احمد صاحب عرفانی` سیٹھ محمد اعظم صاحب` سیٹھ معین الدین صاحب نیز مختلف مواقع پر دیگر خدام میں سے سیٹھ محمد غوث صاحب سیکرٹری بیت المال` نواب اکبر یار جنگ بہادر` مولوی فضل حق خاں صاحب ناظم عدالت ضلع` نواب غلام احمد خاں صاحب وکیل ہائیکورٹ` عبدالقادر صاحب صدیقی سیکرٹری دعوۃ و تبلیغ` مولوی حیدر علی صاحب سیکرٹری تالیف و تصنیف` مولوی محمد لقمان صاحب اور جناب حکیم میر سعادت علی صاحب بھی ساتھ رہے۔
خدام الاحمدیہ کے رضاکار
حضور کے استقبال و انتظامات آمدورفت کے لئے خدام الاحمدیہ کے رضاکاروں کے انتظام زیرنگرانی مولوی محمد لقمان صاحب )حال لائل پور( کیا گیا تھا۔
ان خدام کے ذمہ یہ بھی ڈیوٹی تھی کہ شب و روز حضور کی قیامگاہ پر باری باری پہرہ دیں۔ ڈاکٹر میر احمد سعید صاحب سالار احمدیہ کور نے باوردی حضور کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دیئے۔ ابوحامد صاحب ان کے مددگار تھے۔۱۲۷ جیسا کہ پیچھے ذکر کیا جاچکا ہے۔
ریاست حیدرآباد کی ایک اہم خصوصیت
ریاست حیدرآباد کو ایک یہ خصوصیت حاصل ہے کہ حضرت ام المومنینؓ کے کئی ایک رشتہ دار دہلی اور لوہارو سے ہجرت کرکے وہاں آباد ہوگئے ہیں اور جہاں وہاں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ ان میں سے مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب )انسپکٹر جنرل عدالتہائے حکومت حیدرآباد( نواب منظور جنگ بہادر )کلکٹر( نواب مرزا مقصود احمد خاں صاحب )گورنمنٹ کنٹریکٹر( مرزا منصور احمد خاں صاحب` مرزا حسین احمد بیگ صاحب جج ہائیکورٹ` مرزا سلیم بیگ صاحب` مرزا رفیق بیگ صاحب اور فدا حسین خاں صاحب سے ملاقات کے لئے حضور ان کے مکانوں پر تشریف لے گئے اور ان سب لوگوں نے حضور کے اعزاز میں پرتکلف دعوتیں دیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر غلام یزدانی صاحب ناظم آثار قدیمہ جو بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے اور مرزا نصیر احمد بیگ صاحب بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے تھے۔ ان میں سے سوائے فدا حسین خاں صاحب کے دوسرے تمام اصحاب جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
حضور کا پروگرام حیدرآباد میں تین دن ٹھہرنے کا تھا۔ چنانچہ تیسرے دن شام کی ٹرین سے روانگی کے لئے سیٹوں کی ریزرویشن ہوچکی تھی اس لئے مرزا سلیم بیگ صاحب کی دعوت کے لئے کوئی وقت نہ تھا۔ اس پر مرزا سلیم بیگ صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ بزرگوں سے سنا تھا کہ آپ ہمارے رشتہ دار ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر آپ کو اپنے ایک عزیز کی دعوت قبول کرنا ہوگی خواہ اس کے لئے ایک دن اور قیام کرنا پڑے۔ اس پر حضور نے نہایت خوشی سے اپنے قیام کی مدت میں ایک دن کا اضافہ کرکے اور ریزرویشن منسوخ کروا کر مرزا سلیم بیگ صاحب کی دعوت کو منظور فرمایا۔ اس طرح حضور نے اپنے ننھیالی رشتہ داروں کے جذبات و احساسات کا خاص خیال رکھا اور دوسروں کے لئے نمونہ قائم فرمایا۔
حضور نے حیدرآباد کے قیام کے دوران میں حیدرآباد کی تہذیب و تمدن` وہاں کے لوگوں کے اخلاقی` شائستگی` مہمان نوازی اور رواداری` ان کے لباس` رہن سہن` نفاست و صفائی اور شہر حیدرآباد کی عمارتوں کی خوبصورتی کی جو اسلامی فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے` بڑی تعریف فرمائی۔ ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو جمعہ کا دن تھا۔ اس دن نماز جمعہ کے وقت حضور شہر کی مرکزی مسجد )مکہ مسجد( کے آگے سے گزرے اور وہاں سینکڑوں موٹر کاروں کو کھڑے دیکھ کر اور یہ معلوم کرکے کہ یہ ان لوگوں کی کاریں ہیں جو نماز جمعہ ادا کرنے آئے ہیں بڑی خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ امراء اور صاحب حیثیت لوگوں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا یہ شوق بہت قابل تعریف ہے۔
حیدرآباد سے آگرہ تک
حیدرآباد سے رخصت ہو کر حضرت امیرالمومنینؓ آگرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کا بیان ہے کہ آگرہ سے ایک دو سٹیشن قبل حضور نے فرمایا کہ چونکہ تاج محل کو چاندنی میں دیکھنا ہی اصل دیکھنا ہوتا ہے اس لئے بہت جلد ٹیکسی کا انتظام کرنا چاہئے۔ چنانچہ وہاں اترتے ہی خاکسار نے انتظام کردیا۔ حضور مع خاندان تاج محل کو تشریف لے گئے اور خاکسار ایک ہوٹل میں سامان لے گیا اور حضور کے ارشاد کے مطابق کھانے کا آرڈر دیا اور پھر تاج محل پہنچ گیا۔ پھر وہاں حضور قلعہ دیکھنے تشریف لے گئے۔ وہاں اتفاقاً بشیر احمد صاحب سکھروی )جو وہاں کاروبار کرتے تھے اور قادیان میں تعلیم پائی تھی( اور حضرت بابو اکبر علی صاحب انسپکٹر ورکس )والد کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب( کو علم ہوگیا اور وہ اور مکرم سیٹھ اللہ جوایا صاحب آگرہ )جو آج کل ملتان میں مہاجر ہیں( قلعہ میں آگئے اور قلعہ کے دیکھنے تک ساتھ رہے۔
پھر ہوٹل سے کھانا لیا اور حضور مع تمام قافلہ فتح پور سیکری ٹیکسیوں پر گئے اور ایک مسلمان بھی ساتھ لیا جو اس دوران میں ان لوگوں کے معمول کے مطابق ہر طرح کے قصے بیان کرتا رہا۔ وہاں دیوان خاص وغیرہ کی عمارت کے اوپر ہی کھانا کھایا گیا۔ حضور نے حضرت سلیم چشتی~رح~ کے مزار پر دعا فرمائی اور مزار سے باہر نکل کر حضور کے فرمان پر ان مجاوروں کو چند روپے خاکسار نے دیئے۔ وہاں سے فارغ ہو کر حضور ہوٹل میں تشریف لائے۔ ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائیں جس میں مقامی احباب بھی شامل ہوئے اور ایک یا دو احباب نے بیعتیں بھی کیں۔ مجھے ارشاد فرمایا کہ پہلے جاکر حضور اور حضور کے خاندان کے لئے سیکنڈ کلاس میں سیٹیں دہلی کے لئے ریزرو کرالوں۔ اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر نے جو مسلمان تھا وعدہ کیا اور گاڑی آنے پر حضور کے حسب منشاء انتظام کردیا۔۱۲۸
دھلی میں آمد
حضرت امیرالمومنینؓ آگرہ سے روانہ ہو کر ۲۵۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو بوقت ساڑھے آٹھ بجے شب دھلی تشریف لائے۔ جماعت احمدیہ دھلی و شملہ نے نئی دہلی کے اسٹیشن پر حضور پرنور کا استقبال کیا۔ حضور نے گاڑی سے اتر کر تمام احباب کو جو ایک لمبی قطار میں کھڑے تھے` شرف مصافحہ بخشا اور پھر آنریبل چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی معیت میں ڈاکٹر ایس۔ اے لطیف صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے۔ جہاں ڈاکٹر صاحب موصوف نے حضور پرنور کی دعوت طعام کا انتظام کررکھا تھا۔ اس دعوت میں پچاس کے قریب غیر احمدی معززین شہر اور اتنی تعداد میں احمدی بھی مدعو تھے۔ یہاں حضور نے نواح دھلی کے سرسپور گائوں کے پچیس آدمیوں کی )معہ اہل و عیال( بیعت لی۔۱۲۹]txet [tag حضور نے اس موقعہ پر بیعت کرنے والوں کو نماز سمجھ کر ادا کرنے کی تاکید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جھوٹ کسی حالت میں بھی نہیں بولنا چاہئے۔ یہ خطرناک بیماری ہے۔ بعد ازاں حضور اپنے قیام کے لئے آنریبل چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے۔۱۳۰
۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو حضور نے نماز جمعہ پڑھائی۔ اسی روز شام کو خواجہ حسن نظامی صاحب کے ہاں دعوت ہوئی اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء~رح~ کے قریب مسجد نواب خاں دوراں میں حضور کا ایک گروپ فوٹو بھی کھینچا گیا جس میں حضور کے ہمراہ چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب` شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی` مسز سروجنی نیڈو وغیرہ عمائد ومعززین موجود تھے۔
خواجہ حسن نظامی صاحب کے بعد خان بہادر اکبر علی صاحب کے ہاں دعوت تھی جس میں بہت سے معززین شہر مدعو تھے۔
حضور کی ان ملاقاتوں کا دہلی کے معززین پر خاص اثر ہوا اور کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں بھی داخل ہوئے۔۱۳۱
دھلی سے روانگی
۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کی شب کو حضور فرنٹیر میل سے روانہ ہوئے۔ اسٹیشن پر الوداع کہنے کے لئے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب` خان بہادر محمد سلیمان صاحب` خان صاحب ایس۔ سی حسنین` شیخ رحمت اللہ صاحب انجینئر` جناب جوش ملیح آبادی` خان بہادر کے۔ ایم حسن` شیخ اعجاز احد صاحب سب جج` چودھری بشیر احمد صاحب سب جج` چودھری نصیر احمد صاحب بی اے ایل ایل بی` ڈاکٹر ایس۔ اے لطیف صاحب اور احباب جماعت دھلی و شملہ حاضر تھے۔۱۳۲
قادیان میں تشریف آوری
حضرت امیرالمومنینؓ دہلی سے روانہ ہوکر اگلے روز ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو مع خدام بخیریت دارالامان تشریف لائے۔۱۳۳
تبلیغی نقطہ نگاہ سے سفر کے تاثرات
یہ سفر دور خلافت ثانیہ کے ان تمام مشہور اور کامیاب سفروں میں نمایاں اور منفرد شان رکھتا ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے زمانہ خلافت کے دوران اندرون ملک میں اختیار کئے اور جن کے دائمی نقوش تبلیغی اور علمی دونوں اعتبار سے حضور کے قلب و دماغ پر زندگی بھر قائم رہے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے تبلیغی نقطہ نگاہ سے سفر حیدرآباد و دہلی کی نسبت حسب ذیل تاثرات کا اظہار فرمایا۔
>میرے دل پر ان گالیوں کی وجہ سے ایک ناخوشگوار اثر تھا جو احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے ہمیں ملتی رہی ہیں اور اب بھی مل رہی ہیں کیونکہ گالیاں فتح اور شکست سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ گرا ہوا آدمی زیادہ گالیاں دیا کرتا ہے۔ بہرحال میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمانوں نے اس موقعہ پر ہمارے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا اور مجھے ان کی طرف سے رنج تھا۔ شاید میرا گزشتہ سفر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اسی غرض کے لئے تھا کہ تامیری طبیعت پر جواثر ہے وہ دور ہو جائے۔ میں نے اس سفر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ میرا وہ اثر کہ مسلمان شرفاء بھی اس گند میں مبتلا ہیں اس حد تک صحیح نہیں جس حد تک میرے دل پر اثر تھا۔ مجھے اس سفر میں ملک کا ایک لمبا دورہ کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ پہلے میں سندھ گیا۔ وہاں سے بمبئی گیا۔ بمبئی سے حیدرآباد گیا اور پھر حیدر آباد سے واپسی پر دہلی سے ہوتے ہوئے قادیان آگیا۔ اس طرح گویا نصف ملک کا دورہ ہو جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران میں شرفاء کے طبقہ کے اندر میں نے جو بات دیکھی ہے۔ اس سے جو میرے دل میں مسلمانوں کے متعلق رنج تھا وہ بہت کچھ دور ہوگیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ شریف طبقہ اب بھی وہی شرافت رکھتا ہے جو شرافت وہ پہلے رکھا کرتا تھا اور ان خیالات سے جو احرار نے پیدا کرنے چاہے تھے وہ متاثر نہیں بلکہ ان کی گالیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہت کچھ ہمدردی رکھتا ہے۔ اگر مجھے یہ سفر پیش نہ آتا تو شاید یہ اثر دیر تک میرے دل پر رہتا۔ اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس سفر کا موقع دیا اور وہ اثر جو میرے دل پر تھا کہ اتنے گند میں مسلمانوں کا شریف طبقہ کس طرح شامل ہوگیا وہ اس سفر کی وجہ سے دور ہوگیا۔ حیدرآباد میں میں نے دیکھا کہ جس قدر بھی بڑے آدمی تھے الا ماشاء اللہ۔ تھوڑے سے باہر بھی رہے ہوں گے۔ وہ ان پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے جو میرے اعزاز میں وہاں دی گئیں۔ ان لوگوں میں وزراء بھی تھے` امراء بھی تھے اور نواب بھی تھے۔ چنانچہ نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے جو پارٹی دی اس میں بہت سے نواب شامل ہوئے اور سارے سو دو سو کے قریب معززین ہوں گے جو ان کی ٹی پارٹی میں شامل ہوئے۔ اسی طرح دوسری جگہوں میں بھی میں نے دیکھا کہ شرفاء` آفیسرز` ججز اور بڑے بڑے امراء ان دعوتوں میں شریک ہوتے رہے اور میں دیکھتا رہا کہ ان کے دلوں میں یہ احساس ہے کہ احرار کی طرف سے ہم پر سخت مظالم توڑے گئے ہیں بلکہ بہتوں نے بیان بھی کیا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں جماعت احمدیہ مسلمانوں کی خیرخواہی کے لئے بہت کچھ کررہی ہے۔ اسی طرح دہلی میں جو ایک دو تقریبات ہوئیں ان میں میں نے دیکھا کہ شہر کے ہر طبقہ کے لوگ اور بڑے بڑے رئوساء شامل ہوتے رہے۔ مسلمانوں میں سے زیادہ اور ہندوئوں اور سکھوں میں سے قلیل اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس شخص کے اعزاز میں کوئی تقریب پیدا کی جائے گی اس میں وہی لوگ زیادہ بلائے جائیں گے جو اس کے ہم مذہب ہوں گے۔ پس ان دعوتوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوئے اور ان کی باتوں سے میں نے معلوم کیا کہ درحقیقت احرار کا یہ دعویٰ کہ ان کا مسلمانوں پر بہت بڑا اثر ہے اور یہ کہ وہ گند جسے شرافت برداشت بھی نہیں کرسکتی مسلمانوں کے دلوں میں گھر کرچکا ہے یہ بالکل غلط ہے۔ اور اس طرح میرے ان خیالات کا ازالہ ہوا جو شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوچکے تھے اور میں نے سمجھا کہ اگر ان ایام میں مسلمان خاموش رہے تھے تو محض مخالفت کی ہیبت کی وجہ سے نہ اس وجہ سے کہ احرار کا ان کے دلوں پر کوئی اثر ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بدظنی کے گناہ سے بچالیا۔ مجھے پرسوں اترسوں ہی حیدرآباد سے ایک معزز آدمی کا خط ملا ہے۔ وہ لکھتا ہے میں خود آپ سے ملنا چاہتا تھا کہ دیکھوں تو جس شخص کی اس قدر تعریف اور اس قدر مذمت ہوتی ہے وہ ہیں کیسے۔ خیالات ہر شخص کے مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے لحاظ سے جو چاہے آپ کے متعلق کہہ لیا جائے۔ مگر اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آپ کے اخلاق اور آپ کی محبت ناقابل اعتراض اور قابل تقلید ہے یہی اثر میں سمجھتا ہوں عام طور پر دوسرے لوگوں کے دلوں پر بھی تھا اور بجائے اس کے کہ وہ اس گند سے متاثر ہوتے سوائے چند لوگوں کے باقی تمام شرفاء صورت حالات کو حیرت سے دیکھتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ ہم معلوم کریں یہ کیسی جماعت ہے اور اس کا امام کیسا شخص ہے۔ پس احرار کے گند سے مسلمانوں کے شریف طبقہ میں صرف تجسس پیدا ہوا۔ ایک رو تحقیق کی پیدا ہوئی۔ اس سے زیادہ انہوں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ اسی طرح میرے یہاں پہنچنے پر دو چار دن کے بعد ایک مشہور مسلمان لیڈر نے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے سر کا خطاب بھی ملا ہوا ہے مجھے لکھا کہ میں آپ کے سفر کے حالات اخبار میں غور سے پڑھتا رہا ہوں اور میں اس دورہ کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں حالانکہ ان کا اس سفر سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ نہ وہ ان شہروں میں سے کسی ایک میں رہتے تھے جہاں میں گیا۔ نہ وہ ان علاقوں کے باشندے ہیں ایک دور دراز کے علاقہ میں وہ رہتے ہیں اور مسلمانوں کے مشہور لیڈر ہیں مگر انہوں نے بھی اس دورہ کی کامیابی پر مبارکباد کا خط لکھنا ضروری سمجھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرفاء کے دلوں میں ایک کرید تھی اور بجائے اس گند سے متاثر ہونے کے شریف طبقہ ایک تجسس کی نگاہ سے تمام حالات کو دیکھ رہا تھا اور اندرونی طور پر وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں ان حالات میں مسلمانوں کے متعلق میری بدظنی گناہ کا موجب تھی اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس سفر کا موقع دے دیا تا وہ خیال جو ایک شکوہ کے رنگ میں مسلمان شرفاء کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوچکا تھا کہ انہوں نے وہ امید پوری نہیں کی جو ان پر مجھے تھی وہ دور ہو جائے۔ چنانچہ مجھ پر اس سفر نے یہ ثابت کر دیا کہ میرا پہلا خیال غلط تھا اور درحقیقت ان کی خاموشی صرف ہیبت کی وجہ سے تھی ورنہ شریف دل میں شریف ہی تھے اور وہ اس گند کو پسند نہیں کرتے تھے جو احرار کی طرف سے اچھالا گیا<۔۱۳۴
مادی یادگاروں سے عالم روحانی کا انکشاف
جہاں تک علمی پہلو کا تعلق ہے اس سفر کو یہ خصوصیت حاصل ہوئی کہ حیدرآباد دکن اور آگرہ کی قدیم تاریخی یادگاروں اور عمارتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد جب حضور نے دھلی میں غیاث الدین تغلق کا تعمیر کردہ قلعہ ملاحظہ فرمایا تو حضور پر گوتم بدھ کی طرح عالم روحانی کے انکشاف کی ایسی زبردست تجلی ہوئی کہ آپ کی زبان پر بے ساختہ جاری ہوگیا۔
>میں نے پالیا۔ میں نے پالیا<
‏]body [tagاس ایمان افروز واقعہ کی تفصیلات خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے مبارک الفاظ میں درج کرنا ضروری ہے۔ حضور فرماتے ہیں۔
>حیدرآباد میں میں نے بعض نہایت ہی اہم تاریخی یادگاریں دیکھیں جن میں سے ایک گولکنڈہ کا قلعہ بھی ہے۔ یہ قلعہ ایک پہاڑ کی نہایت اونچی چوٹی پر بنا ہوا ہے اور اس کے گرد عالمگیر کی لشکر کشی کے آثار اور اہم قابل دید اشیاء ہیں۔ یہاں کسی زمانہ میں قطب شاہی حکومت ہوا کرتی تھی اور اس کا دارالخلافہ گولکنڈہ تھا۔ یہ قلعہ حیدرآباد سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ایک نہایت اونچی چوٹی پر بڑا وسیع قلعہ بنا ہوا ہے۔ یہ قلعہ اتنی بلند چوٹی پر واقعہ ہے کہ جب ہم اس کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھتے چلے گئے تو حیدرآباد کے وہ دوست جو ہمیں یہ قلعہ دکھانے کے لئے اپنے ہمراہ لائے تھے اور جو گورنمنٹ کی طرف سے ایسے محکموں کے افسر اور ہمارے ایک احمدی بھائی کے عزیز ہیں انہوں نے کہا کہ اب آپ نے اسے کافی دیکھ لیا ہے آگے نہ جائیے۔ اگر آپ گئے تو آپ کو تکلیف ہوگی۔ چنانچہ خود تو انہوں نے شریفے لئے اور وہیں کھانے بیٹھے گئے۔ مگر ہم اس قلعہ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ جب میں واپس آیا تو میں نے دریافت کیا کہ مستورات کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اوپر گئی ہیں۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آگئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تم کیوں گئی تھیں؟ وہ کہنے لگیں۔ انہوں نے ہمیں روکا تو تھا اور کہا تھا کہ اوپر مت جائو اور حیدرآبادی زبان میں کوئی ایسا لفظ بھی استعمال کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اوپر گئے تو بڑی تکلیف ہوگی مگر ہمیں تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ شاید حیدرآبادی دوستوں کو تکلیف ہوتی ہو تو خیر ہم وہاں سے پھر پھرا کر واپس آگئے۔ یہ قلعہ نہایت اونچی جگہ پر ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت شاندار اور اسلامی شان و شوکت کا ایک پرشوکت نشان ہے۔ اس قلعہ کی چوٹی پر میں نے ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ وہاں ہزاروں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک مسجد اس سٹیج کے چوتھے یا پانچویں حصہ کے برابر تھی۔ پہلے تو میں نے سمجھا کہ یہ مقبرے ہیں مگر جب میں نے کسی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سب مسجدیں ہیں اور اس نے کہا کہ جب عالمگیر نے اس جگہ حملہ کیا ہے تو اسے ریاست کو فتح کرنے کے لئے کئی سال لگ گئے اور مسلسل کئی سال تک لشکر کو یہاں قیام کرنا پڑا۔ اس وجہ سے اس نے نمازیوں کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ہزاروں مسجدیں بنا دیں۔ مجھے جب یہ معلوم ہوا تو میرا دل بہت ہی متاثر ہوا اور میں نے سوچا کہ اس وقت کے مسلمان کس قدر باجماعت نماز ادا کرنے کے پابند تھے کہ وہ ایک ریاست پر حملہ کرنے کے لئے آتے ہیں مگر جہاں ٹھہرتے ہیں وہاں ہزاروں مسجدیں بنا دیتے ہیں تاکہ نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔
اس طرح آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے۔ وہاں کا تاج محل دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کا قلعہ` فتح پور سیکری اور سلیم چشتی صاحب جو خواجہ فریدالدین صاحب گنج شکر پاکپٹن کی اولاد میں سے تھے` ان کا مقبرہ عالم ماضی کی کیف انگیز یادگاریں ہیں۔ میں نے ان میں سے ایک ایک چیز دیکھی اور جہاں ہمیں یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ اسلامی بادشاہ نہایت شوکت و عظمت کے ساتھ دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں وہاں یہ دیکھ کر رنج و افسوس بھی ہوا کہ آج مسلمان ذلیل ہورہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔
فتح پور سیکری کا قلعہ درحقیقت مغلیہ خاندان کے عروج کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔ چند سال کے اندر اندر اکبر کا اس قدر زبردست قلعہ اور شہر تیار کردینا جس کے آثار کو اب تک امتداد زمانہ نہیں مٹا سکا` بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اتنا وسیع قلعہ ہے کہ دوربین سے ہی اس کی حدوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ خالی نظر سے انسان اس کی حدوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا اور اب تک اس کے بعض حصے بڑے محفوظ اور عمدگی سے قائم ہیں۔ یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کو بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی حاصل تھی ورنہ چند سالوں کے اندر اندر اکبر اس قدر وسیع شہر اور اتنا وسیع قلعہ ہرگز نہ بناسکتا۔ مغلیہ خاندان کے جو قلعے میں نے دیکھے ہیں ان میں سے درحقیقت یہی قلعہ کہلانے کا مستحق ہے ورنہ آگرہ کا قلعہ اور دلی کا قلعہ صرف محل ہیں۔ قلعہ کا نام انہیں اعزازی طور پر دیا گیا ہے۔ قلعہ کی اغراض کو دکن کے قلعے زیادہ پورا کرتے ہیں اور یا پھر فتح پور سیکری کے قلعہ میں جنگی ضرورتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ دہلی میں میں نے جامع مسجد دیکھی۔ دہلی کا قلعہ دیکھا۔ خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء~رح`~ کا مزار دیکھا۔ منصور اور ہمایوں کے مقابر دیکھے قطب صاحب کی لاٹ دیکھی حوض خاص دیکھا۔ پرانا قلعہ دیکھا۔ جنتر منتر دیکھا۔ تغلق آباد اور اوکھلا بند دیکھا۔ ہم نے ان سب چیزوں کو دیکھا اور عبرت حاصل کی۔ اچھے کاموں کی تعریف کی اور لغو کاموں پر افسوس کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی ترقی کا خیال کرکے دل میں ولولہ پیدا ہوتا تھا اور ان کی تباہی کو دیکھ کر رنج و افسوس پیدا ہوتا تھا جن لوگوں نے ہمت سے کام لیا ان کے لئے دل سے آفرین نکلتی تھی اور جنہوں نے آثار قدیمہ کی تحقیق کی۔ بعض گڑی ہوئی عمارتوں کو کھودا۔ پرانے سکوں کو نکالا اور جو آثار ملے انہیں محفوظ کردیا۔ ان کے کاموں کی ہم تعریف کرتے تھے۔
ان میں سے بعض مقامات میرے پہلے بھی دیکھے ہوئے تھے جیسے دہلی اور آگرہ کے تاریخی مقامات ہیں۔ مگر بعض اس دفعہ نئے دیکھے اور ہر ایک مقام سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہم نے لطف اٹھایا۔ میں نے اپنے ظرف کے مطابق۔ میرے ساتھیوں نے اپنے ظرف کے مطابق` اور مستورات نے اپنے ظرف کے مطابق۔ یوں تو ہر جگہ میری طبیعت ان نشانات کو دیکھ دیکھ کر مرضی میں گم ہو جاتی تھی۔ میں مسلمانوں کے ماضی کو دیکھتا اور حیران رہ جاتا کہ انہوں نے کتنے بڑے بڑے قلعے بنائے اور وہ کس طرح ان قلعوں پر کھڑے ہوکر دنیا کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کرسکے۔ مگر آج مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ پھر میں ان کے حال کو دیکھتا اور افسردہ ہو جاتا تھا۔ لیکن تغلق آباد کے قلعے کو دیکھ کر جو کیفیت میرے قلب کی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ قلعہ غیاث الدین تغلق کا بنایا ہوا ہے اور اس کے پاس ہی غیاث الدین تغلق کا مقبرہ بھی ہے۔ یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے۔ خاصہ اوپر چڑھ کر اس میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ جہاں تک ٹوٹے پھوٹے آثار سے میں سمجھ سکا ہوں اس کی تین فصیلیں ہیں۔ اور ہر فصیل کے بعد زمین اور اونچی ہو جاتی ہے۔ جب ہم اس پر چڑھے تو میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا الہام ہے کہ >نواب مبارکہ بیگم<۔ اسی طرح میری چھوٹی بیوی اور امتہ الحی مرحومہ کے بطن سے جو میری بڑی لڑکی ہے وہ بھی میرے ہمراہ تھیں۔ ہمشیرہ تو تھک کر پیچھے رہ گئیں۔ مگر میں` میری ہمراہی بیوی اور لڑکی ہم تینوں اوپر چڑھے اور آخر ایک عمارت کی زمین پر پہنچے جو ایک بلند ٹیکرے پر بنی ہوئی تھی۔ یہاں سے ساری دہلی نظر آتی تھی۔ اس کا قطب مینار` اس کا پرانا قلعہ` نئی اور پرانی دہلی اور ہزاروں عمارات اور کھنڈر چاروں طرف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے اور قلعہ ان کی طرف گھور رہا تھا۔ میں اس جگہ پہنچ کر کھڑا ہوگیا۔ اور پہلے تو اس عبرتناک نظارہ پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو تمام دھلی پر بطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے وہ کس قدر اولوالعزم` کس قدر باہمت اور کس قدر طاقت و قوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی عظیم الشان یادگاریں قائم کیں۔ وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اور کس شان کے ساتھ یہاں مرے۔ مگر آج ان کی اولادوں کا کیا حال ہے۔ کوئی ان میں سے بڑھئی ہے` کوئی لوہار ہے` کوئی معمار ہے` کوئی موچی ہے اور کوئی میراثی ہے۔ میں انہی خیالات میں تھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور میں کہیں کا کہیں جاپہنچا۔
سب عجائبات جو سفر میں میں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا` میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوگیا۔ اور آگرہ اور حیدرآباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کرکے سامنے سے گزرنے لگے۔ آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کرکے خود غائب ہوگئے۔ میں اس محویت کے عالم میں کھڑا رہا` کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہوگیا کہ یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابا جان دیر ہوگئی ہے۔ میں اس آواز کو سنکر پھر اسی مادی دنیا میں آگیا۔ مگر میرا دل اس وقت رقت انگیز جذبات سے پرتھا` نہیں وہ خون ہورہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے۔ مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہوا تھا۔ میں افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ میں نے پالیا۔ میں نے پالیا!
جب میں نے کہا >میں نے پالیا۔ میں نے پالیا<! تو اس وقت میری وہی کیفیت تھی۔ جس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے گیا کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی جبکہ وہ خداتعالیٰ کا قرب اور اس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور وہ بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ بدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اس کے نیچے سے نکلا اور اس کے سر کے پار ہوگیا مگر محویت کی وجہ سے اس کو اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنالیا۔ اصل بات یہ ہے کہ بدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا۔ یہاں تک کہ خدا نے اس پر یہ راز کھول دیا۔ تب گوتم بدھ نے یک دم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا >میں نے پالیا۔ میں نے پالیا<۔ میری کیفیت بھی اس وقت یہی تھی جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار میں نے کہا۔ >میں نے پالیا۔ میں نے پالیا<۔ اس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم چلی آرہی تھی۔ اس نے کہا۔ ابا جان آپ نے کیا پالیا؟ میں نے کہا میں نے بہت کچھ پالیا۔ مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتاسکتا۔ میں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو جلسہ سالانہ پر بتائوں گا کہ میں نے کیا پایا۔ اس وقت تم بھی سن لینا<۔۱۳۵
‏tav.8.34
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا پچیسواں سال
پانچواں باب )فصل ششم(
>سیرروحانی< کے پرمعارف اور علمی لیکچروں کا آغاز
حضور انورؓ نے اپنے وعدہ کے مطابق اسی سال >سیرروحانی< کے عنوان سے سالانہ جلسہ ۱۹۳۸ء پر علمی لیکچروں کے ایک مبارک سلسلہ کا آغاز فرما دیا جو ۱۹۵۸ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور بعد ازاں کتابی صورت میں چھپ کر اپنوں اور بیگانوں میں بے حد مقبول ہوا۔۱۳۶
حضور نے اس سلسلہ کے پہلے لیکچر کی ابتداء میں فرمایا۔
>آج میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ میں نے وہاں کیا پایا اور وہ کیا تھا جسے میری اندرونی آنکھ نے دیکھا۔
>میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ میں نے اس وقت وہاں دیکھا وہ وہی تھا جو میں آج بیان کروں گا۔ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے جو نظارے گزرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو راز مجھ پر کھولا گیا وہ تفصیل کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے اور کئی گھنٹوں میں بھی بیان نہیں ہوسکتی مگر چونکہ فکر میں انسان جلدی سفر طے کرلیتا ہے` اس لئے اس وقت تو اس پر چند منٹ شاید دس یا پندرہ ہی خرچ ہوئے تھے۔ پس جو انکشاف اس وقت ہوا وہ بطور بیج کے تھا اور جو کچھ میں بیان کروں گا وہ اپنے الفاظ میں اس کی ترجمانی ہوگی اور اس کی شاخیں اور اس کے پتے اور اس کے پھل بھی اپنی اپنی جگہ پر پیش کئے جائیں گے۔ اب میں قدم بقدم آپ کو بھی اپنے اس وقت کے خیالات کے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتا ہوں<۔۱۳۷
اس وضاحت کے بعد حضور نے بتایا کہ میں نے اس سفر میں سولہ چیزیں دیکھی ہیں۔ )۱( قلعے` )۲( مقابر` )۳( مساجد` )۴( مینار` )۵( نوبت خانے` )۶( باغات` )۷( دیوان عام` )۸( دیوان خاص` )۹( نہریں` )۱۰( لنگر خانے` )۱۱( دفاتر` )۱۲( کتب خانے` )۱۳( مینا بازار` )۱۴( جنتر منتر` )۱۵( سمندر` )۱۶( محکمہ آثار قدیمہ۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان مادی اشیاء میں سے ایک ایک چیز کو لیا اور پھر قرآن مجید کے عالم روحانی میں اس کے مشابہ اور مماثل امور کو نہایت وجد آفرین طریق اور اثر انگیز پیرایہ سے بیان فرمایا اور ثابت کیا کہ حضور پر کھلنے والی نئی دنیا کے عظیم الشان آثار قدیمہ اس سفر میں دکھائی دینے والے آثار قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار ہیں۔ اس روحانی دنیا کے جنتر منتر انسانی طاقت سے بالا` اس کی روحانی نہریں عدیم المثال` اس کے سمندر بے کنار` اس کے محلات عالیشان` اس کے لنگر خانے جاری` اس کے دیوان عام` دیوان خاص` بازار` کتب خانے اور دفاتر عدیم النظیر` اس کے مینار بے انتہا بلند اور پرشکوہ` اس کی مساجد غیر محدود اور وسیع و عریض` اس کے مقبرے دلوں کو ہلا دینے والے اور اس کی قرآنی نوبت خانے دنیوی نوبت خانوں سے زیادہ شاندار ہیں جن سے پانچوں وقت خدائے واحد کی بادشاہت کا پرہیبت اور پرجلال اعلان کیا جاتا ہے۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے >سیر روحانی< کی علمی تقریروں میں ایسے ایسے قرآنی حقائق و معارف کے دریا بہا دیئے` اور اتنے بے شمار نکات معرفت بیان فرمائے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے اور دل اس یقین سے لبریز ہو جاتا ہے کہ خدا نے علوم ظاہری و باطنی کے پر کئے جانے کی جو پیشگوئی اپنے مقدس مسیح موعودؑ کو عطا فرمائی تھی` وہ پوری شان و شوکت سے پوری ہوئی۔
>سیرروحانی< کے بے شمار کمالات میں سے یہ تھا کہ سلطان البیان حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے چہاں خدا کی دی ہوئی توفیق سے تفسیر قرآن اور تاریخ اسلام کے امتزاج سے اسلامی حقائق بالکل نئے اور اچھوتے رنگ میں پیش فرمائے وہاں اپنی شان خطابت سے ان حقائق کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھا اور ان میں روحانی زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی۔ اس حقیقت کے ثبوت میں >سیرروحانی< کا صرف ایک اقتباس درج کرنا کافی ہوگا۔
حضورؓ نے ۲۸۔ دسمبر ۱۹۵۳ء کو عالم روحانی کے نوبت خانہ کا بالتفصیل تذکرہ کرنے کے بعد پرجلال لب و لہجہ میں ارشاد فرمایا۔
>اس نوبت خانہ سے جو یہ نوبت بجی` یہ کیا شاندار نوبت ہے۔ پھر کیسی معقول نوبت ہے وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں۔ ٹوں` ٹوں` ٹوں۔ ٹیں` ٹیں` ٹیں۔ اور یہ کہتا ہے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر! اشھد ان لا الہ الا اللہ! اشھد ان محمدا رسول اللہ! حی علی الصلٰوۃ! حی علی الفلاح!! کیا معقول باتیں ہیں۔ کیسی سمجھ دار آدمیوں کی باتیں ہیں۔ بچہ بھی سنے تو وجد کرنے لگ جائے اور ان کے متعلق کوئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جائے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ٹوں` ٹوں` ٹوں۔ ٹیں` ٹیں۔ ٹیں۔ مگر افسوس! کہ اس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کردیا۔ یہ نوبت خانہ حکومت کی آواز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا اور اس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہوا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور ان میں سے بھی ننانوے فیصدی صرف رسماً اٹھک بیٹھک کرکے چلے جاتے ہیں۔ تب اس نوبت خانہ کی آواز کا رعب جاتا رہا۔ اسلام کا سایہ کھچنے لگ گیا۔ خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی۔
اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے۔ اور تم کو` ہاں تم کو` ہاں تم کو` خداتعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!!! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجائو کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھردو۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھردو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خداتعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خداتعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے۔ اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں۔ سیدھے آئو اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جائو۔ محمد رسول اللہﷺ~ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے` تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمدﷺ~ رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسول اللہﷺ~ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خداتعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے۔ پس میری سنو! اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔ میری آواز نہیں۔ میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔ تم میری مانو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو! خدا تمہارے ساتھ ہو!! خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پائو اور آخرت میں بھی عزت پائو<۔۱۳۸
پانچواں باب )فصل ہفتم(
جلیل القدر صحابہؓ کا انتقال
۱۹۳۸ء میں مندرجہ ذیل بزرگ داغ مفارقت دے گئے۔
۱۔ صوفی محمد یوسف صاحبؓ متوطن مالیر کوٹلہ )بیعت نومبر ۱۹۰۵ء وفات ۸۔ فروری ۱۹۳۸ء(۱۳۹ ۲۔ حضرت حاجی محمد خان صاحبؓ ساکن بستی وریام کملانہ )بیعت دسمبر ۱۹۰۰ء وفات ۳۰۔ مارچ ۱۹۳۸ء(۱۴۰ مرحوم فارسی کے عالم تھے اور اپنے علاقہ میں امانت و دیانت اور حق گوئی میں مشہور تھے۔ آپ کا نیک نمونہ دیکھ کر آپ کی برادری کے اکثر لوگ داخل احمدیت ہوئے اور جھنگ کے ضلع میں بستی وریام کملانہ احمدیوں کی بستی سمجھی جانے لگی۔۱۴۱ ۳۔ حضرت مولوی عبدالحمید صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ سکندرآباد دکن )وفات اپریل ۱۹۳۸ء(۱۴۲ ۴۔ شیخ جان محمد صاحب وزیرآبادی )وفات ۲۷۔ اپریل ۱۹۳۸ء(۱۴۳ ۵۔ حضرت حسین بی بی صاحبہؓ والدہ ماجدہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب )بیعت ۱۹۰۴ء وفات ۱۶۔ مئی ۱۹۳۸ء(۱۴۴ نہایت عابدہ و زاہدہ اور ملہمہ خاتون تھیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کے مزار کا کتبہ اپنے قلم سے تحریر فرمایا جو یہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
حسن بی بی بنت چوہدری الٰہی بخش صاحب مرحوم
زوجہ حاجی چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم
سال پیدائش ۱۸۶۳ء سال بیعت ۱۹۰۴ء
تاریخ وفات ۱۶۔ مئی ۱۹۳۸ء بروز شنبہ
>چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم کی زوجہ۔ عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ` صاحبہ کشف و رئویا تھیں۔ رئویا کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شناخت نصیب ہوئی اور اپنے مرحوم شوہر سے پہلے بیعت کی۔ پھر رئویا کے ذریعہ ہی سے خلافت ثانیہ کی شناخت کی اور مرحوم خاوند سے پہلے بیعت خلافت کی۔ دین کی غیرت بدرجہ کمال تھی اور کلام حق کے پہنچانے میں نڈر تھیں۔ غرباء کی خبرگیری کی صفت سے متصف اور غریبانہ زندگی بسر کرنے کی عادی۔ نیک اور ودود والدہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے شوہر کو جو نہایت مودب مخلص خادم سلسلہ تھے اپنے انعامات سے حصہ دے اور اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کی اولاد کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین۔
مرزا بشیر الدین محمود احمد<۱۴۵
۶۔ حضرت صوفی رحمت اللہ صاحبؓ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گنج مغلپورہ لاہور )وفات ۴۔ جون ۱۹۳۸ء(۱۴۶ ۷۔ نور جان صاحبہؓ تائی صاحبہ مرزا سلام اللہ بیگ صاحب )وفات ۴۔ جون ۱۹۳۸ء(۱۴۷ ۸۔ میاں نبی بخش صاحبؓ ساکن بٹالہ )وفات ۲۔ جولائی ۱۹۳۸ء بعمر ۱۱۱ سال(۱۴۸ ۹۔ چوہدری دین محمد صاحبؓ کمپونڈر شفاخانہ وزیرآباد )وفات ۵۔ جولائی ۱۹۳۸ء بعمر ۶۹ سال(۱۴۹ ۱۰۔ حضرت مولوی محمد ابوالحسن صاحبؓ بزدار )تاریخ وفات ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء(۱۵۰ ۱۱۔ چراغ بی بی صاحبہؓ اہلیہ محترمہ حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحب امرتسری )وفات ۱۶۔ نومبر ۱۹۳۸ء(۱۵۱ ۱۲۔ حضرت پیر شمس الدین صاحبؓ گولیکی ضلع گجرات )بیعت غالباً ۱۹۰۳ء وفات ۱۰۔ دسمبر ۱۹۳۸ء بعمر سو سال( گولیکی کے خاندان پیرزادگان میں سب سے معمر بزرگ جن کو قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔۱۵۲ ۱۳۔ سید گل حسن صاحبؓ متوطن پنج وڑیاں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات )وفات ۵۔ دسمبر ۱۹۳۸ء(۱۵۳ ۱۴۔ حضرت حکیم احمد دین صاحبؓ شاہدرہ۔ موجد طب جدید )وفات ۲۲۔ دسمبر ۱۹۳۸ء(]4 [stf۱۵۴ ۱۵۔ حضرت مولانا حکیم عبداللہ صاحب بسمل۱۵۵ نے انتقال کیا )تاریخ وفات ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۸ء( بعمر ۱۰۰ سال۔ ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حقیقی چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کی بیٹی مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری کی اہلیہ اور محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ مسماۃ عمر بی بی صاحبہؓ۔۱۵۶ سید عبدالمجید صاحبؓ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ منصوری۔۱۵۷ چوہدری شیخ احمد صاحبؓ سیکرٹری تعلیم و تربیت شملہ۔۱۵۸ خان صاحب فقیر محمد صاحب ایگیزیکٹو انجینئر آف چارسدہ۔۱۵۹ خان بہادر محمد علی خان۱۶۰ صاحبؓ احمد نگر ضلع کوہاٹ اور ڈاکٹر غلام علی صاحبؓ ساکن چہور ضلع لائلپور۱۶۱ نے بھی اسی سال وفات پائی۔
حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے بعض وفات یافتگان کا ذکر خیر
یہ عجیب بات ہے کہ اس سال مئی میں یکے بعد دیگرے کئی اصحاب انتقال کرگئے۔ غموں کے اس اجتماع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے
ایک مضمون تحریر فرمایا۔ جس میں لکھا۔
>یوں تو مئی کا مہینہ ہمارے لئے ہمیشہ ہی ایک بڑے رنج و غم کی یاد کو تازہ کر دیتا ہے لیکن اس سال کی مئی میں یہ خصوصیت ہے کہ اس غم پر مشتمل تازہ واقعات کا بھی اجتماع ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جن مرحومین کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ہر ایک خاص رنگ رکھتا تھا۔
چوہدری عبدالقادر صاحب مرحوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری۱۶۲ عبدالقادر صاحب پلیڈر ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے بڑے افراد سلسلہ کے سخت مخالف تھے اور ہیں۔ نوجوانی میں احمدی ہوئے اور سب مخالفتوں کا خاموش مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پختہ ایمان کا ثبوت دیا۔ باوجود ایک مکروہ پیشہ سے تعلق رکھنے کے ایک نیک اور سعید نوجوان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو بخشش سے ڈھانپ لے۔
خان فقیر محمد خان صاحب مرحوم
۔۔۔۔۔۔ خان صاحب فقیر محمد خان صاحب مرحوم وہی ہیں جنہوں نے آج سے چند سال پہلے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ ہماری دو والدہ تھیں اور ہر ایک سے دو دو بیٹے ہیں۔ ہم نے انصاف سے کام لیا ہے اور ہر ایک والدہ کا ایک ایک بیٹا احمدیوں کو دے دیا ہے اور ایک ایک بیٹا سنیوں کو۔ گویا روپے میں سے آٹھ آٹھ آنے ہم نے دونوں میں تقسیم کر دیئے ہیں۔ اور میں نے اس پر انہیں جواب دیا تھا کہ خدائی سلسلے اس تقسیم پر خوش نہیں ہوتے بلکہ وہ تو سارا ہی لیا کرتے ہیں۔ وہ اس وقت اپنے اہل و عیال سمیت ولایت جارہے تھے ان کو خدا نے انگلستان میں ہی ہدایت دی اور وہیں سے بیعت کا خط لکھ دیا اور لکھا۔ آپ کی بات کس قدر جلد پوری ہوگئی۔ میں تیسری چونی آپ کے پاس بیعت کے لئے آتا ہوں۔ دعا کریں چوتھی چونی یعنی بقیہ بھائی بھی احمدی ہو جائے۔ انہوں نے پہلا چندہ اسی دن بھجوایا اور پھر نہایت استقلال سے دینی خدمت میں حصہ لیتے رہے۔ گزشتہ سال ان کے اکلوتے لڑکے عزیز کیپٹن ڈاکٹر نثار احمد کا لڑائی میں گولی لگنے سے انتقال ہوگیا۔ اب ایک سال کے بعد وہ چھت کے گرنے کی وجہ سے وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہمارا لائوڈ سپیکر عرصہ تک ان کی روح کے لئے ثواب کا ذریعہ بنا رہے گا اور اس کی گونج میں ان کی آواز ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی۔
چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب کی والدہ صاحبہ کی وفات
آخر میں عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کی وفات کی خبر آئی ہے۔
مرحومہ کا اخلاص
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحومہ کے خاوند چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم ایک نہایت مخلص اور قابل قدر احمدی تھے اور انہوں نے سب سے پہلے میری آواز پر لبیک کہی اور اپنی زندگی وقف کی اور قادیان آکر میرا ہاتھ بٹانے لگے۔ اس لئے ان کے تعلق کی بناء پر ان کی اہلیہ کا مجھ پر اور میری وساطت سے جماعت پر ایک حق تھا۔ پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی حصہ سے ہی رشد و سعادت کے جوہر دکھائے ہیں اور شروع ایام خلافت سے ہی مجھ سے اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ مرحومہ ان کی والدہ تھیں اور اس تعلق کی بناء پر بھی ان کا مجھ پر حق تھا لیکن باوجود اس کے کہ اکثر عورتوں کا تعلق طفیلی ہوتا ہے یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی کے سبب سے ہوتا ہے مرحومہ اس مستثنیٰ عورتوں میں سے تھیں جن کا تعلق براہ راست اور بلاکسی واسطہ کے ہوتا ہے۔ وہ اپنے مرحوم خاوند سے پہلے سلسلہ میں داخل ہوئیں۔ ان سے پہلے انہوں نے بیعت خلافت کی اور ہمیشہ غیرت و حمیت کا ثبوت دیا۔ چندوں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینا۔ غرباء کی امداد کا خیال رکھنا ان کا خاص امتیاز تھا۔ دعائوں کی کثرت اور اس کے نتیجہ میں سچی خوابوں کی کثرت سے خداتعالیٰ نے ان کو عزت بخشی تھی۔ انہوں نے خوابوں سے ہی احمدیت قبول کی اور خوابوں سے ہی خلافت ثانیہ کی بیعت کی<۔۱۶۳
قادیان میں ۱۹۳۸ء کی عیدالفطر
۲۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء کو عیدالفطر تھی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قادیان میں نماز عید حسب معمول عیدگاہ میں پڑھائی۔ چونکہ دس ہزار کے قریب مجمع تھا اس لئے حضور نے اس دفعہ بھی خطبہ ارشاد فرمانے سے قبل حسب ذیل خاکہ کے مطابق بعض احباب کو مقرر فرما دیا جو باری باری مجمع تک آواز پہنچاتے تھے۔۱۶۴
اگلے سال )۱۹۳۹ء( سے عیدگاہ میں بھی لائوڈ سپیکر نصب کیا جانے لگا اور آئندہ کے لئے عارضی انتظام کی ضرورت نہ رہی۔

عکس کے لئے

سالانہ جلسہ قادیان ایک سکھ ودوان کی نظر میں
ایک سکھ سردار دھرم اننت سنگھ صاحب پرنسپل خالصہ پرچارک ودیالہ ترنتارن ۳۸۔۱۹۳۷ء کے دو سالانہ جلسوں پر قادیان آئے اور حضرت امیرالمومنین کی تقریر اور زیارت سے بہت محظوظ ہوئے اور اپنے خیالات کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا۔
>اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ مختصر الفاظ میں انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے تو میرا جواب یہ ہوگا کہ نیک بننا اور نیکوں کی زیارت کرنا۔ ہزہولی نس مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب آف قادیان ان خوش قسمت اور بلند ہستیوں میں سے ہیں جو اپنی زندگی میں اس اصول پر عمل کرتے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب کی زیارت کرنا اور آپ کے ارشادات کو سننا ایک سعادت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض مخصوص لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ کرسمس کے ایام میں جبکہ لوگ بکثرت دریائوں` پہاڑوں` عمارتوں` دوسری بے جان چیزوں اور بے معنی نظاروں کو دیکھنے پر اپنا وقت پیسہ اور قوت عمل ضائع کرتے ہیں خداتعالیٰ کے بعض مخصوص بندے قادیان کو بھاگتے ہیں تا ان بابرکت مسرتوں سے لطف اندوز ہوسکیں جو تمام مذاہب کے نیک اور مخلص لوگوں کے لئے آئندہ زندگی میں مقدر ہیں۔ میں نے جماعت احمدیہ کے دو سالانہ جلسے یعنی ۱۹۳۷ء و ۱۹۳۸ء کے دیکھے ہیں۔ وہاں میں نے خوبی ہی خوبی دیکھی ہے۔ میں نے کسی کو تمباکو نوشی کرتے۔ فضول بکواس کرتے۔ لڑتے جھگڑتے۔ بھیک مانگتے۔ عورتوں پر آوازے کستے۔ دھوکا بازی کرتے۔ لوٹتے اور لغو طور پر ہنستے نہیں دیکھا۔ شرابی۔ جواری۔ جیب تراش۔ اس قسم کے بدمعاش لوگ قادیان کی احمدی آبادی میں قطعاً مفقود ہیں۔ یہ کوئی معمولی اور نظر انداز کرنے کے قابل خصوصیت نہیں۔ کیا یہ بات اس وسیع براعظم کے کسی اور مقدس شہر میں نظر آسکتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ میں بہت مقامات پر پھرا ہوں اور پورے زور کے ساتھ ہر جگہ یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ بجلی کے زبردست جینریٹر کی طرح قادیان کا مقدس وجود اپنے سچے متبعین کے قلوب کو پاکیزہ علوم سے منور کرتا ہے اور قادیان میں احمدیوں کی قابل تقلید زندگی اور کامیابی کا راز یہی ہے۔
حضرت مرزا صاحب ایسی روانی کے ساتھ پانچ سے نو گھنٹوں تک بولتے ہیں کہ ہندوستان یا اس سے باہر اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں میں نے مرزا صاحب کی تقریر سنی۔ جو آپ نے کھڑے ہوکر پانچ گھنٹہ کی اور سامعین جن میں میں خود بھی شامل تھا بت بنے سنتے رہے اور نہایت غور کے ساتھ آپ کے مسکراتے ہوئے چہرہ مبارک کو دیکھتے رہے۔
جلسہ کی تمام تقریریں مذہبی ہوتی ہیں۔ جن کا استدلال قرآن مجید سے کہا جاتا ہے لیکن ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جو بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی دوسرے کے لئے دلازار ہو۔ اسلام کا بول بالا ہوتا ہے مگر دوسرے مذاہب کی تحقیر کرکے نہیں۔ حضرت مرزا صاحب اور آپ کے خدام کی مہمان نوازی۔ باقاعدگی` اخلاص اور دوسری خوبیاں یقیناً بے نظیر ہیں۔ جتنا عرصہ میں قادیان میں رہا۔ میرے دل میں وہی جذبات پیدا ہوتے رہے جو ہمارے روحانی پیشوا نے ان الفاظ میں بیان فرمائے ہیں کہ۔
>وہی واحد لاشریک سب میں موجود ہے۔ نانک اسے دیکھتا اور خوش ہوتا ہے<۔۱۶۵
پانچواں باب )فصل ہشتم(
۱۹۳۸ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
السید عبدالحمید خورشید قادیان میں
مصر کے پہلے احمدی السید عبدالحمید خورشید ۳۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو قادیان دارلامان تشریف لائے۔۱۶۶ اور قریباً ڈیڑھ ماہ تک مرکز احمدیت کی برکات سے مستفید ہوکر ۱۳۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو اپنے وطن روانہ ہوگئے۔۱۶۷
مسجد اقصیٰ میں لائوڈ سپیکر )آلہ نشر الصوت( کی تنصیب
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کے پیش نظر ۳۔ دسمبر ۱۹۳۷ء کو مسجد اقصیٰ میں لائوڈ سپیکر لگانے کی تاکید فرمائی۔ جس پر صوبہ سرحد کے خان صاحب فقیر محمد خان صاحب نے اپنے آقا کا منشاء مبارک اپنے خرچ سے پورا کردیا اور حضور نے پہلی بار ۷۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو اس آلہ کے ذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۱۶۸ جس میں ثابت کیا کہ آلہ نشر الصوت نے عقیدہ شرک پر کاری ضرب لگائی ہے۔۱۶۹
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ نومسلم کی قید اور رہائی
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب نو مسلم )سابق مہر سنگھ( نے سکھ لٹریچر کی روشنی میں صداقت اسلام پر کئی کتابیں لکھی تھیں اس سلسلہ میں آپ نے ایک تبلیغی ٹریکٹ >بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کا دین و دھرم< بھی لکھا۔ جس کی بناء پر آپ کو سکھ مجسٹریٹ علاقہ بھائی جسونت سنگھ نے ۲۲۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو زیر دفعہ ۱۸۔ ایکٹ ۲۳۔ ۱۹۳۱ء چھ ماہ قید بامشقت اور ایک سو روپیہ جرمانہ )عدم ادائیگی کی صورت میں ڈیڑھ ماہ مزید سخت قید( کی سزا دی۔ سزا کا حکم حضرت ماسٹر صاحب نے نہایت بشاشت اور خوشی کے ساتھ سنا اور جب ہتھکڑی پہنائی گئی تو انہوں نے اسے چوما اور جیل خانہ جاتے ہوئے نوجوانان احمدیت کو پیغام دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کی جو صداقت پیش کی ہے۔ وہ دنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں۔۱۷۰text] [tag حضرت ماسٹر صاحب اس کے بعد پہلے گورداسپور جیل میں رہے پھر میانوالی جیل کی طرف منتقل کر دیئے گئے۔
اخبار >ریاست< کا نوٹ
مجسٹریٹ علاقہ کا یہ فیصلہ اس درجہ نافہم اور غیرمعقول تھا کہ سکھ شرفاء کے حلقوں میں بھی اسے حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھا گیا۔ چنانچہ مشہور سکھ صحافی سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے جریدہ >ریاست< )۱۷۔ جنوری ۱۹۳۸ء( میں >گورو نانک کو مسلمان کہنا جرم ہے؟< کے عنوان سے حسب ذیل لیڈنگ آرٹیکل لکھا۔
>گورونانک ایک ایسی مقدس شخصیت اور صلح کی پالیسی کے بزرگ تھے کہ ہندو ان کو ہندو کہتے ہیں اور مسلمان اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ تاریخی واقعہ ہے کہ گورونانک صاحب کے انتقال پر ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جھگڑا پیدا ہوگیا ہندو آپ کے جسم کو جلانا چاہتے تھے اور مسلمان اسلامی طریقہ کے ساتھ دفن کرنا۔ آخر آپ کے جسم کی چادر کے کپڑے کو آدھا مسلمانوں نے لیا اور آدھا ہندوئوں نے اور دونوں نے اپنے رسم و رواج کے مطابق دفن کیا اور جلایا۔ گورونانک کی اس ہر دل عزیز پوزیشن میں جبکہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی آپ کو اپنا سمجھتے ہیں۔ بٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک مجسٹریٹ کا فیصلہ تعجب اور حیرانی کے ساتھ پڑھا جائے گا جس میں اس مجسٹریٹ نے ایک مسلمان ماسٹر عبدالرحمن کو چھ ماہ قید کی سزا اس جرم میں دی ہے کہ آپ نے ایک پمفلٹ >بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کا دین و دھرم< میں گورونانک کو مسلمان ظاہر کیا تھا۔ اس فیصلہ کی نقل ہمارے پاس موجود نہیں اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سزا کی تائید میں مجسٹریٹ نے کیا دلائل دی ہیں مگر اس صورت میں کہ الزام وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا تو اس مجسٹریٹ کی کوتہ نظری میں کسی شک کی گنجائش نہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آج وہ پادری بھی اس مسلمان ملزم کی طرح ہی مجرم ہیں جو مہاتما گاندھی کو انتہائی نیک اور پارسا ہونے کے باعث عیسائیوں سے تشبیہہ دیتے ہیں کیونکہ اس مقدمہ کے ملزم ماسٹر عبدالرحمن صاحب نے بھی اگر گورونانک کو مسلمان کہا تو اس لئے کہ آپ اسلام کو حق و صداقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اور آپ کے خیال میں گورونانک انتہائی نیک اور مقدس ہونے کے باعث مسلمانوں کی صفات رکھتے ہوئے مسلمان تھے۔
اگر ماسٹر عبدالرحمن نے اپنے خیال کے مطابق گورونانک کو مسلمان لکھا تو آپ نے گورونانک کی توہین نہیں کی بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی عزت و احترام پیدا کرنے کی کوشش کی اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس صورت میں ماسٹر عبدالرحمن گورونانک کی توہین کرنے کے کیونکر مجرم ہوئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ماسٹر عبدالرحمن اس فیصلہ کی اپیل کریں اور صحیح پوزیشن بتاتے ہوئے اعلیٰ عدالت سے بری ہوں کیونکہ قانوناً اور اصولاً ماسٹر عبدالرحمن کو مجرم قرار دینا ایک تمسخر انگیز فیصلہ ہے اور اس فیصلہ کے مطابق ہر وہ شخص جو دوسری اقوام کے بزرگوں کو بزرگ سمجھے مجرم قرار دیا جاسکتا ہے<۔
اخباار >اہلحدیث< کا تبصرہ
اسی طرح جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اخبار >اہلحدیث< میں لکھا۔
قادیان کے ایک مصنف کو سزائے قید اور جرمانہ۔ قادیان میں ایک صاحب ماسٹر عبدالرحمن نو مسلم ہیں جنہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام >بابا نانک کا دین و دھرم< ہے۔ چونکہ مصنف مذکور اس سے پہلے سکھ قوم میں تھا اس لئے اس نے اپنی تحقیق کے ماتحت بابا نانک کو مسلمان لکھ دیا۔ ہم ان کی تحقیق پر تنقید نہیں کرتے صرف اتنا کہتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ دراصل مرزا صاحب کی تصنیفات پر مبنی ہے۔ عرصہ ہوا مرزا صاحب قادیانی نے بصورت رسالہ >ست بچن< یہی آواز اٹھائی تھی۔ مرزا صاحب سے جو کچھ بن پڑا انہوں نے اپنے دعویٰ پر اس رسالے میں دلائل دیئے ہیں جن کو آپ گورونانک جی کے مسلمان ہونے کے ثبوت میں کافی سمجھتے تھے۔ اس وقت حکومت کی طرف سے ان کو کوئی باز پرس نہیں ہوئی اور نہ وہ کتاب ضبط ہوئی۔ اب جو رسالہ دین دھرم شائع ہوا تو مصنف مذکور پر مقدمہ چلایا گیا۔ جس کے نتیجہ میں مصنف مذکور کو چھ ماہ قید سخت اور سو روپیہ جرمانہ ہوا۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ گورنمنٹ نے مصنف مذکور پر مقدمہ کیوں چلایا۔ ایک تو یہ کہ اس مضمون کے اصل موجد مرزا صاحب قادیانی تھے جن سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مصنف مذکور نے بابانانک جی کی ہتک نہیں کی بلکہ اپنے عندیہ میں ان کی بڑی عزت کی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اسلام ایک معزز مذہب ہے۔ اس کی تائید میں ہم ایک اقتباس >آریہ مسافر< لاہور سے نقل کرکے گورنمنٹ کے سامنے رکھتے ہیں جو یہ ہے۔
>حضرت محمد صاحب نے آریہ برہم چاریوں کی طرح چوبیس سال کی عمر میں شادی کی حضرت صاحب کا جیون )سوانح عمری( آریہ برہمنوں کی مانند نہایت سادہ اور فقیرانہ تھا<۔
کیا گورنمنٹ ایسا لکھنے والے پر بھی مقدمہ چلائے گی؟ ۔۔۔۔۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے۔ >نہیں<۔ تو پھر اس میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ اس لئے ہم اس سزا کو کسی صحیح قانون پر مبنی نہیں سمجھتے۔ امید ہے کہ محکمہ اپیل اس پر غور کرکے ہمیں راہ راست دکھلائے گا<۔۱۷۱
اپیل کا فیصلہ اور رہائی
اس مقدمہ کی اپیل سشن جج صاحب گورداسپور کی عدالت میں دائر کی گئی جس کا فیصلہ ۱۶۔ مارچ ۱۹۳۸ء کو سنا دیا گیا۔ فاضل جج نے قید کی اسی قدر سزا کافی قرار دی جو حضرت ماسٹر صاحب بھگت چکے تھے اور جرمانہ سو کی بجائے پچاس روپے کردیا۔۱۷۲ چنانچہ جرمانہ کی ادائیگی کے بعد آپ رہا کر دیئے گئے اور ۲۲۔ مارچ ۱۹۳۸ء کو قادیان تشریف لے آئے۔۱۷۳
حضرت ماسٹر صاحب نے اسیری کا زمانہ کس قدر صبر استقلال اور جوش ایمانی کے رنگ میں گزارا اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگ سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو )جو ملاقات کے لئے میانوالی جیل میں گئے تھے( یہ پیغام دیا کہ اگر کسی احمدی کو میری قید و بند کے باعث اشتعال آئے تو وہ گورمکھی سیکھ کر تبلیغ احمدیت کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرلے۔
صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب کی وفات کا المناک حادثہ
صاحبزادہ مرزا سعید احمد مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پڑپوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے بہت سعید الفطرت شریف مزاج ہوشیار اور ہونہار فرزند تھے۔ آپ ۶۔ ستمبر ۱۹۳۴ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی رفاقت میں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان گئے۔ جہاں انہوں نے ۱۹۳۶ء میں لنڈن یونیورسٹی سے بی۔ اے کی سند حاصل کرنے کے علاوہ آئی۔ سی۔ ایس کا امتحان بھی دیا اور اچھے نمبروں پر پاس ہوگئے۔ بعد ازاں بیرسٹری کے متعدد امتحانات پاس کئے مگر عمر نے وفا نہ کی اور آپ لنڈن میں ہی ۱۲` ۱۳۔ جنوری ۱۹۳۸ء کی درمیانی شب کو انتقال کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔۱۷۴
مرزا سعید احمد صاحب کی تشویشناک علالت کی اطلاع ملنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بذریعہ ہوائی جہاز ۱۰۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو لنڈن پہنچے اور ہسپتال میں اپنے لخت جگر کے پاس تشریف لے گئے۔ مرزا سعید احمد صاحب پر غنودگی سی طاری تھی۔ اسی حالت میں انہوں نے اپنے پیارے اباجان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور کہا۔ اباجی فکر نہ کرنا۔ بس یہی آخری الفاظ تھے۔۱۷۵
مرحوم کا تابوت ۱۲۔ فروری ۱۹۳۸ء کو سوا آٹھ بجے شب کی گاڑی سے قادیان پہنچا- اگلے روز پونے دس بجے صبح کے قریب حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے وسیع صحن میں نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم بچوں کے قبرستان کے ملحقہ قطعہ میں سپرد خاک کر دیئے گئے۔۱۷۶ اللھم ادخلہ فی جنتک النعیم۔
حضرت امیر المومنین کا خطاب احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کو
۴۔ فروری ۱۹۳۸ء کو احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے چھپن طلباء قادیان آئے۔ اس موقعہ پر ایسوسی ایشن مختلف کالجوں کے غیر احمدی طلبہ
کو بھی ساتھ لائی۔ ۵۔ فروری کو اس تنظیم کی ٹیموں نے کرکٹ اور فٹ بال کے میچے کھیلے۔ ۶۔ فروری ۱۹۳۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کو ایک خطاب فرمایا جو تین گھنٹہ تک جاری رہا۔ یہ وفد اسی شام کی گاڑی واپس لاہور چلا گیا۔ ان دنوں اس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب تھے۔۱۷۷
سنگ بنیاد
اس سال حضور نے دو مکانات کی بنیاد اپنے دوست مبارک سے رکھی۔ )۱( ۱۶۔ مارچ ۱۹۳۸ء کو شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے نائب ناظر امور عامہ کے مکان کی درالعلوم ہیں۔۱۷۸ اور )۲( ۷۔ جون ۱۹۳۸ء کو میاں عبدالرحیم صاحب زرگر کے مکان کی بنیاد محلہ دارالرحمت ہیں۔۱۷۹
احمدیہ دارالتبلیغ کلکتہ میں کانگرسی لیڈر مسٹر سرت چندر بوس کا لیکچر
کلکتہ میں اشاعت احمدیہ کو فروغ دینے کے لئے نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر حیدرآباد دکن نے ۵۔ مارچ ۱۹۳۸ء کو احمدیہ دارالتبلیغ کا
افتتاح کیا۔ اس تقریب پر شری یت سنت کمار رائے صاحب چودھری میئر آف کلکتہ کی زیر صدارت البرٹ ہال میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں نواب صاحب موصوف کے علاوہ مسٹر آرڈ شیرڈین شا۔ مسز نرا پراوا چکرورتی۔ پروفیسر ادھمکاری اور خان بہادر چودھری ابوالہاشم خان صاحب امیر بنگال پراونشل ¶احمدیہ ایسوسی ایشن نے بھی تقریریں کیں اور روزنامہ >امرت بازار پتر کا< )مجریہ ۶۔ مارچ ۱۹۳۸ء( نے افتتاح کی کارروائی شائع کی۔۱۸۰ اگلے روز ۶۔ مارچ ۱۹۳۸ء کو بابو سبھاش چندر بوس صدر آل انڈیا کانگرس کے بھائی مسٹر سرت چندربوس نے انگریزی میں لیکچر دیتے ہوئے کہا۔
>میرے لئے یہ بات بہت بڑے فخر اور عزت کا موجب ہے کہ آپ نے مجھے اس جلسہ کی صدارت کی دعوت دی اور جہاں میں اس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہاں بلا تامل یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بہت بڑی جھجک محسوس کررہا ہوں۔ جماعت احمدیہ میں بکثرت ایسے اہل علم۔ قربانی کرنے والے اور ایثار پیشہ اصحاب موجود ہیں۔ جن کی متواتر سرگرمیوں کے باعث آپ کی جماعت کے بانی کی تبلیغ زمین کے آخری کناروں تک پہنچ چکی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد ) علیہ الصلٰوۃ والسلام ( نے متواتر مذہبی اتحاد کی تلقین فرمائی۔ میرے نزدیک اس ہمہ گیر وسعت خیال اور تلاش حق کے لئے اس آمادگی کی سب سے بہترین مثال آپ کی وہ تعلیم ہے جس میں آپ نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ہر زمانہ اور دنیا کی ہر قوم کو الہام الٰہی سے نوازا گیا ہے۔ آپ نے اسلامی عقیدہ کی تشریح کرتے ہوئے اس امر کو واضح فرمایا کہ قرآن کریم الہام کے متعلق کسی قسم کی قید کو تسلیم نہیں کرتا۔ نہ وقت کی قید کو اور نہ اس فرد کی قومیت کی قید کو جسے خداتعالیٰ اپنے مکالمہ کے لئے منتخب کرے۔ پس آپ کا نظریہ یہ تھا کہ تمام لوگوں پر کسی نہ کسی زمانہ میں الہام لہیٰ کے دروازے کھولے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ جماعت احمدیہ کے عقائد کی وسعت نظر اور ہمہ گیری کی ایک اور مثال اسلامی مسئلہ جہاد کے متعلق آپ کے بانی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیم میں ملتی ہے۔ ہم غیر مسلموں کے لئے یہ مسئلہ دارالحرب اور دارالاسلام کی یہ تقسیم مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان مستقل تنازعہ کا یہ تصور ہمیشہ سے ناقابل فہم اور پریشان کن رہا ہے۔ ہندو مذہب اپنے اندر ایک ہمہ گیر اور وسیع اپیل رکھتا ہے۔ یہ روحانی صداقت کو کسی ایک فرقہ یا قوم کے اجارہ میں متصور نہیں کرتا۔ ہمارے نزدیک تمام انسان یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن جس رنگ میں ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی مذہبی جماعت کے لوگ یعنی مسلمان مسئلہ جہاد کو پیش کرتے ہیں اس سے ہمیں ہمیشہ تعجب ہوتا ہے۔ لیکن آپ کی جماعت کے بانی )علیہ الصلٰوۃ والسلام( نے جو کہ صلح اور آشتی کی تعلیم پر بہت زور دیتے رہے ہیں جہاد کو ایک اعلیٰ اخلاقی سطح پر پہنچا دیا۔ چنانچہ آپ نے اس امر کی اشاعت فرمائی کہ جہاد جسے دوسرے مسلمان غیر مسلموں سے جنگ کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں وہ فی الحقیقت اس کوشش کا نام ہے جو حق و انصاف کے لئے کی جائے اور اس سے مراد وہ سعی اور جنگ ہے جو ہر قسم کی برائی کے خلاف عمل میں لائی جائے۔
جہاد کی اس تشریح سے آپ نے دارالحرب یعنی جنگ و جدال کی دنیا کے اندوہناک تصور کا خاتمہ کر دیا ہے اور تمام دنیا کو دارالسلام )صلح و آشتی کی دنیا( میں تبدیل کر دیا ہے۔ فی الحقیقت جماعت احمدیہ کی تعلیم اپنی نوعیت میں دورہ حاضرہ کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔ بانی جماعت احمدیہ نے جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ گزشتہ پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث ہوئے ہیں اور وہی مہدی معہود اور مسیح موعود نیز عیٰسی زماں ہیں تو میرے خیال میں اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ ہر زمانہ کے لئے ایک نبی ہونا چاہئے جو صداقت ازلی کو اس زمانہ کی ضروریات کی روشنی میں دوبارہ دنیا کے سامنے واضح کرے اور اسے اس فریسیانہ تنگ ظرفی سے پاک کردے جو مرور زمانہ سے تمام مذاہب کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اس نقطہ نگاہ سے وہ لوگ بھی جو خواہ آپ کی جماعت کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہوں جماعت احمدیہ کے بانی کو دل سے ایک سچا اور بہت بڑا نبی تسلیم کرسکتے ہیں۔ بہرحال خالص دینوی اور تاریخی زاویہ نگاہ سے یہ امر تمام دنیا کو مسلم ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد )علیہ الصلٰوۃ والسلام( کی تحریک دور حاضرہ میں اسلام کی ایک بہت بڑی اصلاحی تحریک ہے جس میں خیروبرکت کی لاانتہا قوتیں پنہاں ہیں۔ ہم صدق دل سے اس کی ترقی کے خواہاں ہیں<۔۱۸۱
مسجد اقصیٰ کی توسیع
چونکہ قادیان کی آبادی ہر سال تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مسجد اقصیٰ کی توسیع کی ہدایت فرمائی اور ۱۲۔ اپریل ۱۹۳۸ء کو دس بجے صبح جنوبی جانب کے نئے حصہ کی بنیاد رکھی۔ اس تقریب کی خبر اخبار >الفضل< نے مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کی۔
>حضور سوا نو بجے ہی تشریف لے آئے اور توسیع مسجد کا نقشہ ملاحظہ فرمانے کے بعد دیر تک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے گفتگو فرماتے رہے۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب۔ جناب مولوی عبدالمغنی خان صاحب اور جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی ہمراہ تھے۔ مقامی احباب کثیر تعداد میں اس مبارک تقریب پر جمع تھے۔ دس بجے کے قریب حضور نے مغربی کو نہ میں خشت بنیاد رکھی۔ بنیاد کے لئے چند چھوٹی اینٹیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی تھیں مسجد اقصیٰ کی چھت کی ایک برجی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لائی گئی تھیں بنیاد رکھنے کے وقت حضور کے ارشاد سے حافظ محمد رمضان صاحب نے باواز بلند قرآن کریم کی وہ دعائیں بار بار دہرائیں جو حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھتے وقت اللہ تعالیٰ سے کیں۔ اس کے بعد حضور نے مجمع سمیت لمبی دعا فرمائی<۔۱۸۲
طہران کا ایک زرتشتی سیاح قادیان میں
۳۔ مئی ۱۹۳۸ء کو ایک زرتشتی ایرانی سیاح منوچہر آرین صاحب )جو ایگریکلچر انجینئر اور سند یافتہ ہوا باز تھے( مرکز احمدیت دیکھنے کے لئے قادیان آئے۔۱۸۳ اور مرکز احمدیت کے خالص اسلامی ماحول سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔۱۸۴
دو عیسائی مشنری قادیان میں
۲۳۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو دو پادری مسٹر پریخا ایم۔ اے اور مسٹر فرانسس جو بالترتیب ہسپانیہ اور بلجئیم کے اصل باشندے تھے قادیان کی زیارت کے لئے آئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔۱۸۵
مذہبی کانفرنس کراچی
۳۔ ستمبر ۱۹۳۸ء کو آریہ سماج کراچی کی مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں مولیٰنا غلام احمد صاحب فرخ نے محاسن اسلام پر تقریر کی۔ کانفرنس کے صدر لائل پور کے مشہور ہندو وکیل تھے جنہوں نے دوبارہ آپ کا شکریہ ادا کیا اور کہا احمدی بھائیوں کی یہ کوشش ایک نہ ایک دن ضرور ہندوستان میں خوشگوار فضا پیدا کر دے گی۔۱۸۶
قبر مسیح کا اعلان یورپ میں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ۱۴۔ جون ۱۹۰۲ء کو ارشاد فرمایا کہ یورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفحے کا ہو تاکہ سب اسے پڑھ لیں۔ اس کا مضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے جو واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہوگئی ہے۔ اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کرلے۔ اس قسم کا اشتہار ہو جو بہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جائے<۔۱۸۷
امام الزمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل میں مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے اس سال >مسیح کی قبر ہندوستان میں< کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا۱۸۸ جس میں مقبرہ مسیح کا فوٹو بھی دیا۔ اس اشتہار کی دارالتبلیغ لنڈن کی طرف سے وسیع پیمانہ پر اشاعت کی گئی۔۱۸۹
سید محمود اللہ شاہ صاحب )مقیم نیروبی( کا خط اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا جواب
۱۹۳۸ء کے آخر میں سید محمود اللہ شاہ صاحب نے نیروبی سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا۔
>سیدی المحسن پیارے آقا و مولیٰ فدا کم روحی و قلبی و ایدکم اللہ بنصرہ العزیز
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
ہمشیرہ عزیزہ محترمہ کا خط آیا ہے کہ عزیزان مسعود و داود پر مبلغ سو روپے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں۔ اس لئے حضور سے عرض کرتا ہوں کہ انہیں مبلغ سو روپیہ مرحمت فرما دیں۔ میں انشاء اللہ العزیز دسمبر کے آخر میں بھیج دوں گا۔ کوشش تو کروں گا کہ پہلے ہی ارسال خدمت کردوں اور اگر نہ ہوسکا تو اس ماہ کے آخر میں مقررہ رقم کے ساتھ ہی بنک کی معرفت انتظام کروں گا انشاء اللہ العزیز۔
میں حضور کے ارشاد کا منتظر ہوں کہ آیا حضور نے قطعی فیصلہ فرمالیا ہے کہ مارچ کے آخر میں تشریف لائیں گے۔ مجھے اگر حضور مطلع فرماویں تو میں تمام انتظامات متعلقہ مکمل کروں۔ میں نہایت ادب سے درخواست کرتا ہوں کہ حضور اپنا ارادہ تبدیل نہ فرماویں اور ضرور اس ملک کو یمن و سعادت بخشیں۔
میں نے کل ایک امریکہ کا رسالہ دیکھا اس میں ایک لمبا مضمون تھا china and <Muslim close> must اس سے وہاں کے مسلمانوں کی اتعداد اور ان کے فرقے اور انکی سیاسی اور فوجی حالت` ان کی ابتدائی تاریخ اور ان کی موجودہ تنظیم اور پھر مرکزی حکومت چین` جاپان اور روس کی باہمی جدوجہد ان مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی` اور وہاں کے مسلمانوں کی اہم خصوصیات اور خوبیاں۔ غرضیکہ بہت ضروری معلومات مندرج تھیں۔ میں کوشش کروں گا کہ یہ مضمون حضور کی خدمت اقدس میں پہنچائوں۔ اگر کامیابی نہ ہوئی تو پھر میں امریکہ آرڈر بھیج کر اس کا مستقل خریدار بن جائوں گا اور یہ کاپی حضور کی خدمت میں ارسال کردوں گا۔ اس کا نام Asia ہے۔
حضور نے اپنے مرحمت نامے میں فرمایا تھا کہ عنقریب تمہاری واپسی کے متعلق تمہیں ناظر صاحب لکھیں گے مگر مجھے ابھی تک وہاں سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔
عزیزم عبداللہ مصطفیٰ صاحب آج کمپالہ حصول ملازمت کی کوشش کے لئے جارہے ہیں۔ حضور ان کے لئے دعا فرماویں۔ اور مجھ عاجز نابکار کے لئے بھی لل¶ہ دعا فرماویں۔
حضور کا غلام نعلین
خاکسار محمود
جواب
سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس کے جواب میں حسب ذیل مراسلہ رقم فرمایا۔
۳۸۔۱۲۔۱۲c/ ۲۹۹ نہایت مخفی
پیارے محمود اللہ سلمکم اللہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`۔ آپ کا خط ملا روپیہ انشاء اللہ مریم بیگم کو دے دوں گا۔
میرے آنے کے متعلق جو آپ نے پوچھا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ میرا انشاء اللہ اگلے سال آنے کا پختہ ارادہ ہے سوال وقت کا ہے مئی کے آخر تک تو آنا ناممکن ہے اس لئے بعد کے وقت کے متعلق فیصلہ کرنا ہے صرف ڈیرھ دو ماہ وہاں رہ سکتے ہیں۔ بعض کا مشورہ ہے کہ پندرہ جون )یا اس کے قریب( بمبئی سے چلا جائے اور ستمبر کے پہلے ہفتہ میں واپسی ہو کیونکہ اس طرح جہاز کی تکلیف سے بہت حد تک نجات ہوجاتی ہے اور کہتے ہیں کہ یہ موسم اچھا ہوتا ہے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ آپ کی موجودگی میں وہاں کا دورہ ہو جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہاں کے حالات پر غور کرکے وہاں احمدی آبادی خاص انتظام کے ماتحت بڑھائی جائے اور ایک دو سال میں سینکڑوں اور آدمی وہاں بھجوا دیئے جائیں اور اس سکیم کا فیصلہ وہیں ہوسکتا ہے دوسرے میرا ارادہ ہے کہ وہاں تجارت اور زراعت کا کام بھی شروع کیا جائے یعنی ایسے لوگ بھجوائے جائیں جو یہ کام کریں۔ سو ان امور پر غور کرنے کے لئے وہاں کا سفر ضروری ہے وہ علاقہ ایسا ہے کہ اگر ہم زور دیں تو انشاء اللہ ملک جلد احمدی ہوسکتا ہے صرف جماعت کی تعداد کو دوسرے ہندوستانی مسلمانوں سے بڑھانے کی دیر ہے کہ راستہ بالکل صاف ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔
آپ کے آنے کے متعلق اطلاع میں دیر اس لئے ہوئی کہ آپ کی آخری خط میں تھا کہ آپ کو رخصت فلاں وقت ملے گی جس سے میں سمجھا کہ آپ عارضی طور پر آنا چاہتے ہیں۔ اس لئے میں نے پہلے آپ سے پوچھنا مناسب سمجھا تاکہ بعد میں غلط فہمی نہ ہو۔ سو آپ اس بارہ میں اطلاع دیں۔ عارضی آنا تو چنداں مفید نہ ہوگا عزیزم کریم بار بار اس ملک میں واپس آنے کے لئے لکھ رہے ہیں اگر یہاں کی تعلیم ان کے لئے مفید ہوسکے تو میں اس سوال پر غور کرسکتا ہوں مگر آپ کے مشورہ کی پہلے ضرورت ہے۔
والسلام
خاکسار
)دستخط( مرزا محمود احمد
مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب قادیان میں
مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب ۱۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء کی شام کو قادیان آئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کو دعوت طعام دی۔ اگلے روز دوپہر کا کھانا حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کے ہاں تناول فرمایا اور نواب محمد عبداللہ خاں صاحب نے دعوت عصرانہ دی۔ آپ سوا چھ بجے شام کی ٹرین سے واپس روانہ ہوئے` حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور دوسرے کئی احباب الوداع کے لئے اسٹیشن پر تشریف فرما تھے۔۱۹۰
‏0] ft[sخاندان مسیح موعودؑ میں خوشی کی تقاریب
۶۔ دسمبر ۱۹۳۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے نکاحوں کا اعلان فرمایا۔۱۹۱
دعوت ولیمہ میں شمولیت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بابو عبدالحمید صاحب آڈیٹر نے ۲۱۔ دسمبر ۱۹۳۸ء کو اپنے لڑکے جناب عبدالمجید صاحب کی دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا۔ جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی شمولیت فرمائی۔۱۹۲
مباہلہ کمال ڈیرہ سندھ
۱۹۔ دسمبر ۱۹۳۷ء کو کمال ڈیرہ )ضلع نواب شاہ سندھ( میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان مباہلہ ہوا۱۹۳ جس کا نتیجہ ایک سال کے اندر اندر یہ نکلا کہ فریق مخالف کے دس مباہلین کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ہوگئے۔ ایک شخص جو مخالفت میں بہت سرگرم اور نمایاں حصہ لیتا تھا مر گیا۔ باقیوں کو جانی` مالی اور عزت و آبرو کے لحاظ سے غیر معمولی حوادث پیش آئے۔ اس کے مقابل مباہلہ کرنے والے سب احمدی زندہ و سلامت رہے اور غیر احمدی رئیس نے جو دوران مباہلہ میں فریقین کے صدر تھے احمدیت قبول کرلی اور اس کے علاوہ تین اور احمدی ہوگئے۔ اس طرح سندھ میں احمدیت کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان ظاہر ہوا۔۱۹۴
مبلغین احمدیت کی روانگی اور آمد
۱۹۳۸ء میں مندرجہ ذیل مبلغین بیرونی ممالک کو روانہ کئے گئے۔
۱۔
مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا )تاریخ روانگی ۲۱۔ مارچ ۱۹۳۸ء(۱۹۵4] [rtf
۲۔
مولوی محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ )تاریخ روانگی ۷۔ ستمبر ۱۹۳۸ء(۱۹۶
اس سال حسب ذیل مبلعین تبلیغ اسلام کا فریضہ بجا لانے کے بعد مرکز احمدیت میں واپس تشریف لائے۔
۱۔ مولوی محمد سلیم صاحب بلاد عربیہ )تاریخ آمد ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۸ء(۱۹۷ ۲۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز مبلغ جاپان )تاریخ آمد ۱۲۔ جولائی ۱۹۳۸ء(۱۹۸ ۳۔ حاجی احمد خان صاحب ایاز مبلغ ہنگری و یوگوسلاویہ )تاریخ آمد ۲۶۔ جولائی ۱۹۳۸ء(۱۹۹
نئی مطبوعات
جماعت احمدیہ کی طرف سے ۱۹۳۸ء میں شائع ہونے والی مطبوعات کی فہرست یہ ہے۔
۱۔
قواعد و ضوابط صدر انجمن احمدیہ قادیان )مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ۔ مرزا محمد شفیع صاحب(
۲۔
>امام المتقین< )منظوم پنجابی تالیف ڈاکٹر مولوی منظور احمد صاحب خلف الرشید مولوی حاجی محمد دلپذیر صاحبؓ بھیروی(
۳۔
>میری والدہ< )چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے قلم سے انکی والدہ ماجدہ حسین بی بی صاحبہؓ کے ایمان افروز حالات(
۴۔
>سلسلہ عالیہ احمدیہ< )مولفہ مولوی محمد شریف صاحب فاضل مبلغ بلاد عربیہ(
۵۔
دوسرا پارہ جامع سند صحیح بخاری )ترجمہ و شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب(
۶۔
>تفہیمات مثنوی معنوی< )مولفہ منشی گلاب الدین صاحب پنشنر کلانوری(
۷۔
>تاثرات قادیان< )مرتبہ ملک مہاشہ فضل حسین صاحب(
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
۱۹۳۸ء میں مناظروں کی تعداد گزشتہ سالوں کی نسبت کم رہی۔ اس سال کے چند مشہور کامیاب مناظرے مندرجہ ذیل مقامات پر ہوئے۔
مباحثہ دھلی:۔
دہلی میں مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری نے ۲۔ اپریل ۱۹۳۸ء کی شام کو ایک آریہ سماجی پنڈت سے >ضرورت قرآن مجید< پر مناظرہ کیا۔۲۰۰ ایک معزز غیر احمدی نے مناظرہ کی کامیابی پر مولوی صاحب کو تحریری مبارکباد بھیجی اور اپنے مکتوب میں لکھا کہ:۔
>جناب کا مناظرہ آریہ سماج سے بمقام دہلی جلسہ میں ہوا تھا جس میں بندہ بھی شامل تھا۔ یعنی جلسہ گاہ میں بغرض سماع مناظرہ حاضر ہوا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ جناب نے دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے اعداء اسلام کو مرعوب کیا اور دنیا پر یہ روشن اور واضح کر دیا کہ قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب منزل من اللہ ہے کہ جوہر ضرورت انسانی کی مکتفی اور ضامن ہے میں جناب کو اس کامیابی پر تہ دل سے ہدیہ مبارکباد پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ افسوس کہ میں حاضر خدمت دہلی میں نہ ہوسکا۔ اگر زندگی نے وفا کیا تو ممکن ہے کہ جناب کی زیارت اور خیالات سے میں مستفید ہو سکوں فی الحال اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ میں فی الحال آپ کے خیالات کا جو بہ نسبت مرزا صاحب ہیں مخالف ہوں۔ جس کے متعلق تبادلہ خیالات کا متمنی اور متقاضی ہوں۔ علاوہ ازیں جو >ضرورت قرآن کریم< پر آپ نے دلائل قائم کئے تھے کیا وہ آپ مجھے ارسال فرما کر ممنون فرمائیں گے؟<۲۰۱
مباحثہ کراچی:۔
کراچی میں اس سال بھی ۱۷۔ ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۸ء کو جماعت احمدیہ کا آریہ سماج سے دو موضوع پر مناظرہ ہوا۔
)۱( >کیا وید دھرم عالمگیر ہے< )مابین مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل و پنڈت رام چندر صاحب(
)۲( >کیا اسلام عالمگیر مذہب ہے<۔ )مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل و پنڈت رام چندر صاحب(
آریہ سماجی مناظر کو ان مناظروں میں شکست فاش ہوئی۔ جس کی خفت پر پردہ ڈالنے کے لئے آریوں نے احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے موضوع پر مناظرہ کا چیلنج دے دیا۔ اس پر مولوی ابوالعطاء صاحب نے اعلان فرمایا کہ ہاں ہم ہر وقت تیار ہیں۔ آپ آج ہی اس وقت اور اسی پنڈال میں کرلیجئے اور پنڈت لیکھرام سے متعلق بحث کے لئے بھی تیار رہئے۔۲۰۲ مگر آریوں کو مرد میدان بننے کی جرات نہ ہوسکی۔
مباحثہ لکھنو:۔
جون ۱۹۳۸ء میں مولوی عبدالمالک خان صاحب اور پندت و دیانند صاحب آف کانشی کا چھائونی لکھنو میں مناظرہ ہوا۔ موضوع بحث تھا >کیا ویدک دھرم ایشوری دھرم ہے؟< مولوی صاحب نے ثابت کیا کہ آریہ دھرم اب ایک بجھا ہوا چراغ` مرجھایا ہوا پھول اور اجڑا ہوا بستان ہے جس کی پیروی میں اب خدا سے شرف مکالمہ و مخاطبہ پانا ممکن نہیں۔ آریہ مناظر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لاتعلق اور بے بنیاد اعتراضات شروع کر دیئے جس پر مسلمانوں نے کہا کہ وہ اس طرح مسلمانوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی کوشش صرف اس لئے کررہے ہیں کہ ان کے پاس فاصل احمدی مقرر کے دلائل کا کوئی جواب نہیں۔ بالاخر مجمع کے پرزور مطالبہ پر پنڈت جی نے اپنے لاجواب ہونے کا اقرار کیا اور دو گھنٹہ بعد مناظرہ ختم ہوا اور مسلمان جناب مولوی صاحب کو نہایت عزت و تکریم سے ایک مکان پر لے گئے جہاں آپ کی شربت وغیرہ سے تواضع کی اور آپ کا شکریہ ادا کیا۔۲۰۳
مباحثہ نبی سرروڈ سندھ:۔
۲۱` ۲۲۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو بمقام نبی سرروڈ )سندھ( ضلع تھرپارکر جمعیتہ العلماء تھرپارکر اور جماعت احمدیہ احمد آباد کے درمیان مناظرہ ہوا۔ ۲۱۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو مولوی شیخ عبدالقادر صاحب فاضل نومسلم نے >وفات مسیح< پر اور ۲۲۔ جولائی ۱۹۳۸ء کو قریشی محمد نذیر صاحب فاضل نے >صداقت مسیح موعودؑ< پر مناظرہ کیا۔ جمعیتہ العلماء کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب معمار امرتسری پیش ہوئے۔
معمار صاحب نے دوران مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان مبارک میں نہایت گستاخانہ کلمات کہے مگر چیلنج دینے کے باوجود احمدی مناظر کے قرآنی دلائل کا رد نہ کرسکے۔۲۰۳
مباحثہ شملہ:۔
ستمبر ۱۹۳۸ء میں مولوی ابوالعطاء صاہب نے >قدامت روح و مادہ< اور پیشگوئی متعلقہ لیکھرام کی نسبت پنڈت رام چندر دہلوی اور پنڈت چرنچی لال پریم سے بحث کی۔
تمام پبلک بلکہ خود آریہ سماجیوں نے مولانا صاحب کی متانت اور شائستگی کا کھلے بندوں اقرار کیا۔ دوسرا مضمون نازک تھا۔ کمال حکمت سے انہوں نے ساری بات کہہ دی لیکن ایسے الفاظ میں کہ دلازاری نہ ہونے پائے۔۲۰۴
مباحثہ لالہ موسیٰ:۔
لالہ موسیٰ میں ۲۴` ۲۵۔ ستمبر ۱۹۳۸ء کو تین اختلافی مسائل پر مناظرے ہوئے۔ ایک مناظرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ظہور احمد صاحب پیش ہوئے۔
دوسرا مناظرہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی نے کیا۔ مدمقابل سے مولوی محمد شفیع صاحب نے بحث کی۔
تیسرا مناظرہ مولوی محمد سلیم صاحب نے کیا۔
ان مناظروں کا غیر احمدی پبلک پر بہت اچھا اثر تھا۔ کئی لوگوں نے تسلیم کیا کہ ہمارے مولویوں کے پاس ٹھٹھے اور مخول کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مناظرہ کے آخر میں غیر احمدی مولویوں نے ایک غیر احمدی کو کھڑا کر دیا کہ تم کہو میں احمدیت سے توبہ کرتا ہوں۔ حالانکہ وہ شخص احمدی ہی نہیں تھا۔ نہ اس نے کبھی بیعت کی تھی۔۲۰۶
‏tav.8.35
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ پچیسواں سال
مباحثہ ویرووال
اکتوبر ۱۹۳۸ء میں دیرووال میں مولوی محمد سلیم صاحب نے مسئلہ >وفات و حیات مسیح علیہ السلام< اور >آخری فیصلہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری< کے موضوع پر اور مولوی دل محمد صاحب نے مسئلہ >نبوت اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام< پر مناظرے کئے۔
غیر احمدیوں کے مناظر عبداللہ صاحب معمار امرتسری تھے۔ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں دونوں نے مناظرہ میں فتح پر احمدیوں کو مبارک باد دی۔ بالخصوص شیعہ اصحاب نے نہایت واضح الفاظ میں احمدیوں کی کامیابی کا اقرار کیا۔۲۰۷
مباحثہ سندھ:۔
صوبہ سندھ کے مبلغ قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی نے صوبہ بھر میں بکثرت لیکچر دیئے تھے اور اس کے نتیجہ میں سندھ کی احمدیہ جماعتیں بھی تبلیغ میں سرگرم عمل ہوگئی تھیں۔ یہ بیداری دیکھ کر غیر احمدیوں نے جماعت احمدیہ سندھ سے مناظرہ کی طرح ڈالی اور باہر سے متعدد علماء بلائے۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے دو مناظرے ہوئے۔
ان مناظروں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو نمایاں کامیابی عطا فرمائی جس کا واضح اقرار شیعہ حضرات نے بھی کیا۔ مخالفین احمدیت نے فساد برپا کرنے کی ہرچند کوشش کی مگر کوئی موقعہ میسر نہیں آیا۔ یہ دیکھ کر غیر احمدی علماء صاحبان خود آپس میں الجھ پڑے اور جمعیتہ العلماء کے تیس چالیس علماء راتوں رات واپس تشریف لے گئے۔۲۰۸
غرض اللہ تعالیٰ نے حق کا بول بالا کیا اور انی مھین من اراد اھانتک کا نظارہ ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔
پانچواں باب
حواشی
۱۔
ناقل
۲۔
الفضل ۷۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۳۔
الفضل ۱۷۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۳ کالم ۱۔ ۲۔
۴۔
الفضل ۱۰۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۔
۵۔


۶۔
آپ کی ولادت حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے عہد خلافت میں ۲۸۔ جولائی ۱۹۱۳ء کو ہوئی۔ )بدر ۱۴۔ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۵( اور لمبا عرصہ سلسلہ کی خدمت کرنے کے بعد ۲۳۔ اپریل ۱۹۶۷ء کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
۷۔
مجلس کے اولین دستور اساسی کا ایک حصہ الفضل ۵۔ نومبر ۱۹۳۹ء میں شائع شدہ ہے۔
۸۔
رپورٹ مجلس خدام الاحمدیہ سال اول و دوم سے ملخصاً۔
۹۔
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ اجتماع ۱۹۴۹ء پر اعلان فرمایا کہ آئندہ مجلس کا صدر میں خود ہوں گا۔
۱۰۔
حافظ صاحب مرحوم ۸۔ اپریل ۱۹۱۲ء کو صوفی علی محمد صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ لاہور چھائونی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ ناظر بیت المال کی چھوٹی ہمشیرہ تھیں- آپ نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کیا۔ ۱۹۲۴ء میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۳۴ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کرکے مبلغین کلاس میں شامل ہوگئے اور یکم اگست ۱۹۳۶ء کو مبلغ کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ وفات سے صرف دو روز قبل آپ ایک تبلیغی دورے سے واپس آئے۔ ۲۔ مئی ۱۹۳۸ء کی صبح کو قریباً چار بجے بیدار ہوئے۔ نماز فجر ادا کی۔ بعد ازاں خدام الاحمدیہ کے دیگر ممبروں کے ساتھ نالیوں کی درستی کا کام شروع کر دیا۔ اسی اثناء میں درد سر کی شکایت ہوئی جو لحظہ بلحظہ شدت اختیار کرتی گئی حتیٰ کہ بے ہوشی طاری ہوگئی۔ اس پر آپ کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ہر ممکن تدابیر کے باوجود پونے نو بجے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ )شیخ خورشید احمد صاحب حال اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل کے مضمون مطبوعہ الفضل ۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۶۔ ۷ سے ملخصاً(
۱۱۔
‏h2] g[ta رپورٹ خدام الاحمدیہ سال اول صفحہ ۳۸۔
۱۲۔
الفضل ۷۔ جون ۱۹۴۲ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۳۔
الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا ۱۲۔ جون ۱۹۶۱ء کا منظور شدہ دستور اساسی مجلس خدام الاحمدیہ۔
۱۵۔
یاد رہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ اجتماع ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو کیا جائے مگر چونکہ اس کے دو ایک دن بعد ماہ رمضان شروع ہونے والا تھا اس لئے یہ اجتماع سالانہ جلسہ پر کرنا پڑا۔ )الفضل ۲۸۔ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۳(
۱۶۔
روزنامہ الفضل قادیان ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۸ء۔
۱۷۔
مطبوعہ الفضل ۱۷۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۱۸۔
مطبوعہ الفضل ۱۱۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۱۹۔
مطبوعہ الفضل ۱۵۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ و ۵۔
۲۰۔
مطبوعہ الفضل ۱۷۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔
۲۱۔
مطبوعہ الفضل ۲۱۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۲۲۔
مطبوعہ الفضل ۲۸۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۲۳۔
‏h2] [tag مطبوعہ الفضل ۷۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔
۲۴۔
الفضل ۱۷۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ و ۳۔
۲۵۔
الفضل ۱۷۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۲۶۔
مطبوعہ رپورٹ خدام الاحمدیہ سال اول و دوم صفحہ ۷۔
۲۷۔
الفضل ۲۔ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۸۔
سلسلہ احمدیہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ ۴۲۵۔ ۴۲۶۔
۲۹۔
بحوالہ رپورٹ خدام الاحمدیہ سال چہارم صفحہ ۱۲ تا ۱۳۔
۳۰۔
الفضل ۲۹۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۳۱۔
قادیان کے نومسلم خاکروبوں کے محلہ کا نام۔
۳۲۔
مطبوعہ رپورٹ خدام الاحمدیہ سال اول و دوم صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔ شائع کردہ جنرل سیکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تعلیم ناخواندگان سے متعلق کے ریکارڈ کا ایک حصہ دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ میں محفوظ ہے۔
۳۳۔
الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۹۔
۳۴۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال چہارم صفحہ ۴۴۔ ۴۵۔
۳۵۔
الفضل ۱۹۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔ )اعلان >مجلس خدام الاحمدیہ کا دوسرا سالانہ اجتماع<
۳۶۔
مطبوعہ رپورٹ سال اول و دوم صفحہ ۲۸ و ۲۹۔
۳۷۔
الفضل ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔۲` اصل تحریر غیر مطبوعہ ہے اور خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۳۸۔
جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی کے بیان کے مطابق۔
۳۹۔
رپورٹ مجلس خدام الاحمدیہ سال اول و دوم ۴۔ فروری ۱۹۳۸ء تا فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۳۱ تا ۳۳۔
۴۰۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۶۔ دسمبر ۱۹۴۲ء کو اپنی تقریر سے قبل مجلس دارالرحمت کے زعیم بابو غلام حسین صاحب کو علم انعامی عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس محلہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ کام میں اول رہی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس مجلس کے ممبر اس جھنڈے کے احترام رکھنے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی زندگیوں کو احمدیت کے مطابق بناکر یہ ثابت کردیں گے کہ وہ واقعی اس انعامی جھنڈے کے مستحق تھے اور انتخاب غلط نہ تھا۔ )الفضل ۲۸۔ فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۳ کالم ۴(
۴۱۔
بحوالہ خدام کی ذمہ داریاں مطبوعہ دسمبر ۱۹۵۰ء۔
۴۲۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال سوم صفحہ ۱۷۔
۴۳۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال چہارم صفحہ ۱۷۔
۴۴۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال پنجم صفحہ ۹۔
۴۵۔
الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۴۶۔
الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۸ء کے مطابق ۲۲۔ اپریل ۱۹۳۸ء سے مجلس خدام الاحمدیہ میں احمدی بچوں کی شاخ کھل چکی تھی اور ۱۹۳۸ء کے ابتداء میں مندرجہ ذیل مجالس اطفال قائم ہوئیں۔ دارالرحمت۔ دارالفضل۔ مسجد مبارک اور محلہ دارالبرکات قادیان۔ وزیرآباد۔ فیروزپور۔ کریام۔ سرگودہا۔ نیروبی۔ )شعبہ اطفال کے پہلے قواعد الفضل ۱۱۔ جون ۱۹۴۰ء صفحہ ۶ پر شائع شدہ۔
۴۷۔
رپورٹ سال سوم )مطبوعہ( صفحہ ۷۔ ۸۔
۴۸۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال سوم صفحہ ۲۰ و ۲۱۔
۴۹۔
روزنامہ الفضل قادیان ۲۵۔ ستمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۔
۵۰۔
الفضل ۳۰۔ جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ ۳ کالم ۱ و ۲۔
۵۱۔
الفضل ۱۰۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۰ کام ۳۔
۵۲۔
رپورٹ مجلس خدام الاحمدیہ سال سوم صفحہ ۳۲۔
۵۳۔
خدام الاحمدیہ کی رپورٹ سال سوم صفحہ ۲۸۔ ۲۹۹ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۸۔ فروری ۱۹۴۱ء صفحہ ۳۱۔
۵۴۔
الفضل ۷۔ جون ۱۹۴۲ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۵۵۔
الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۵۔
۵۶۔
الفضل ۲۶۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۴ و ۵۔
۵۷۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال چہارم صفحہ ۴۴۔
۵۸۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال پنجم صفحہ ۹۔
۵۹۔
روزنامہ الفضل ۲۶۔ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۶۰۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال پنجم صفحہ ۱۵ و الفضل ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۱۔
۶۱۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال چہارم صفحہ ۳۷۔ تعمیر دفتر میں نمایاں حصہ لینے والوں کے نام۔ سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب۔ شیخ محمود الحسن صاحب آئی۔ سی۔ ایس۔ سیٹھ محمد اعظم صاحب و سیٹھ معین الدین صاحب۔ خان صاحب نعمت اللہ صاحب۔ ملک عبدالرحمن صاحب قصور۔ محمد الدین صاحب پال سیالکوٹ۔
۶۲۔
رپورٹ خدام الاحمدیہ سال پنجم صفحہ ۱۵۔
۶۳۔
الفضل یکم فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۶۴۔
تذکرہ طبع دوم صفحہ ۵۱۶ و الحکم جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۴۔ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲۔
۶۵۔
الفضل ۲۶۔ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۷ کالم ۱ و ۲۔
۶۶۔
یہ قیاساً لکھا گیا ہے کیونکہ دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ریکارڈ میں >الطارق< کا پانچواں ٹریکٹ ہی موجود ہے۔
۶۷۔
بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان ۱۸۔ اپریل ۱۹۴۵ء صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۶۸۔
الفضل ۲۶۔ مئی ۱۹۴۵ء صفحہ ۵۔
۶۹۔
الفضل ۸۔ ستمبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۶۔
۷۰۔
خدام الاحمدیہ کے نئے سات سالہ دور کا پروگرام صفحہ ۳۸ یا ۴۲ ناشر نشر و اشاعت قادیان۔
۷۱۔
پوسٹر۔ رپورٹ فارم۔ پرچہ جات اور سندات وغیرہ اس کے علاوہ تھیں۔
۷۲۔
یہ دونوں کتابچے جو حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت ¶کے ایمان افروز حالات پر مشتمل تھے شعبہ اطفال کی طرف سے شائع کئے گئے۔
۷۳۔
ایضاً۔
۷۴۔
اس مرکزی لٹریچر کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ لائل پور کے سیکرٹری ملک حسن محمد صاحب نے >اسلام کی پیاری اور دلربا تعلیم< کے نام سے ایک دفعہ ورقہ ٹریکٹ بھی شائع کیا تھا۔
۷۵۔
رسالہ انصار اللہ ربوہ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۲۲۔ ۲۳۔
۷۶۔
بحوالہ الفضل ۲۵۔ مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۴۔
۷۷۔
بحوالہ الفضل ۲۵۔ مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۷۸۔
الفضل ۲۹۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۷۹۔
الفضل یکم جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۰۔
الفضل ۷۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۸۱۔
الفضل ۳۰۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ لالہ صاحب نے اپنے سفر قادیان کے تاثرات و مشاہدات قلمبند کرکے قادیان بھجوا دیئے تھے جو >الفضل< ۲۲۔ اگست ۱۹۳۸ء صفحہ ۵ پر شائع شدہ ہیں۔
۸۲۔
الفضل ۱۷۔ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۸۳۔
الفضل یکم جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۴۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۴۔
۸۵۔
الفضل ۷۔ اگست ۱۹۳۸ء صفحہ ۳ کالم ۱۔ قیام انگلستان کے دوران آپ جرمنی اور ناروے سے بھی تشریف لے گئے۔
۸۶۔
الفضل ۷۔ اگست ۱۹۳۸ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۷۔
ایضاً۔
۸۸۔
الفضل ۷۔ اگست ۱۹۳۸ء صفحہ ۳۔
۸۹۔
الفضل ۳۰۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۹۰۔
الفضل ۷۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۹۱۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۳۸ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۔۷
۹۲۔
الفضل ۹۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔
۹۳۔
الفضل ۱۱۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱ تا ۳۔
۹۴۔
الفضل ۷۔ اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲- ۳۔
۹۵۔
الفضل ۹۔ اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۹۶۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۹۷۔
الفضل ۳۔ مئی ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۹۸۔
اس عرصہ میں آپ حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی۔ اے کے ریٹائر ہونے کے بعد )۳۰۔ اکتوبر ۱۹۴۰ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر بھی رہے۔ )الفضل ۲۔ نومبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۵(
۹۹۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ ۵۳۷۔
۱۰۰۔
اخبار احسان لاہور ۸۔ اکتوبر۱۹۳۸ء بحوالہ الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۱۰۱۔
بحوالہ الفضل ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۔
۱۰۲۔
الفضل ۲۰۔ مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۶۔
۱۰۳۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۳۔ ۱۹۴۲ء صفحہ ۶۔
۱۰۴۔
۴۳۔ ۱۹۴۲ء میں قادیان کی تبلیغ مقامی میں تیس مبلغین مصروف عمل تھے۔ بعض مقامی مبلغین کے نام۔ مولوی احمد خاں صاحب نسیم` مولوی سید احمد علی صاحب` مولوی عبدالرحیم صاحب عارف` مولوی غلام احمد صاحب ارشد` مولوی محمد منشی خان صاحب` مولوی میر ولی صاحب ہزاروی` حکیم اللہ بخش صاحب` مولوی عبدالعزیز صاحب` ماسٹر محمد رمضان صاحب` سید احمد شاہ صاحب۔ )بحوالہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۴۳۔ ۱۹۴۲ء صفحہ ۵(
۱۰۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۴۱ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۲ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۱۰۶۔
شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنی کتاب سیرت ام المومنین حصہ دوم میں لکھا ہے کہ صاحبزادہ عباس احمد خاں سلمہ اللہ تعالیٰ علاقہ سری گوبند پور میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے۔ ان کا ہیڈ کوارٹر ماڑی بچیاں نامی گائوں میں تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہ امیر ابن امیر کا نونہال جو ناز و نعمت کے گہوارے میں پرورش پائے ہوئے تھا۔ دھوپ کی بھی پروا نہ کرتا ہوا گائوں گائوں شوق تبلیغ میں پھرتا رہتا تھا اور کبھی اگر کھانا نہ ملا تو صرف چنے چبا کر گزارہ کر لیا کرتا تھا۔ یہ بات ایک ایسے گھرانے کے نونہال میں جو ہمیشہ متنعمانہ زندگی بسر کرنے کا عادی ہو نہیں پیدا ہوسکتی جب تک وہ خاندان اور خصوصاً والدین ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کے عادی نہ ہوں۔ میاں عباس احمد کا یہ جذبہ اور یہ شوق خان محمد عبداللہ خاں صاحب اور صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحبہ کی اپنی ذاتی پاکیزگی اور دینداری کا نتیجہ ہے۔ )سیرت ام المومنین حصہ دوم صفحہ ۴۹(
۱۰۷۔
الفضل ۶۔ جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ ۵۔
۱۰۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ یکم مئی ۱۹۴۰ء تا ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۴۔
۱۰۹۔
‏ DIARY QADIAN مولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب۔
۱۱۰۔
الفضل ۱۳۔ اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۱۔
مفصل خطبات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۸ء` ۱۰۔ ستمبر ۱۹۳۸ء` ۱۷۔ ستمبر ۱۹۳۸ء۔
۱۱۲۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔ ۳۔
۱۱۳۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۶۔ ۱۷۔
۱۱۴۔
اس سفر میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ` حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ حضور کے ہمراہ تھیں۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے )مولف اصحاب احمد( پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے شامل سفر تھے اور خان میر خان صاحب اور میاں عطا محمد صاحب ننگلی پہرہ دار کے طور پر بمبئی سے حیدرآباد تک کے سفر اور وہاں کے قیام میں مولانا ابوالعطاء صاحب )مبلغ بمبئی( بھی حضور کے ساتھ رہے۔
۱۱۵۔
اصل مکتوب حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے ورثاء کے پاس محفوظ ہے۔
۱۱۶۔
الفضل ۵۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۷۔
الفضل ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۸۔
الفضل ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۹۔
مکتوب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے بنام مولف محررہ ۱۵۔ جولائی ۱۹۶۷ء۔
۱۲۰۔
فرزند حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب مرحوم۔
۱۲۱۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کا بیان ہے کہ الہہ دین بلڈنگ میں پہنچنے کے بعد حضور نے دو کاروں میں حیدرآباد دکن کے شہر کا چکر لگایا۔ ہمیشہ وہاں حضور والی کار میں حضرت سید بشارت احمد صاحب وکیل` حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت سیٹھ عبداللہ الہہ دین صاحب اور سیٹھ محمد اعظم صاحب لازماً ساتھ ہوتے تھے۔ شہر کے چکر میں خاکسار اور دیگر بعض احباب دوسری کار میں تھے۔ حضور نے ایک دفعہ رئویا دیکھی تھی کہ حضور نے اس شہر کا چکر لگایا ہے اور معائنہ کیا ہے اس بناء پر حضور نے یہ چکر لگایا تھا۔
۱۲۲۔
یہ نظم الحکم ۷۔ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۲ پر چھپ گئی تھی۔
۱۲۳۔
خسر جنرل اعظم خاں )پاکستان(
۱۲۴۔
مکتوب محررہ ۱۵۔ جولائی ۱۹۶۷ء۔
۱۲۵۔
ملک صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وہاں قلعہ گولکنڈہ وغیرہ کے دیکھنے کے وقت اور ایک تالاب کے پاس تفریح کے وقت بلکہ ایسے تمام مواقع پر ہم ساتھ ہوتے تھے۔ قلعہ گولکنڈہ کی سیر کے موقعہ پر مکرم مولوی محمد اسمٰعیل صاحب وکیل یادگیر جو مدرسہ احمدیہ کے تعلیم یافتہ تھے گلے میں پانی کی چھاگل لئے ہر وقت خدمت کے لئے ساتھ ہوتے تھے۔
۱۲۶۔
الفضل ۱۰۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۷۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۶ تا ۸ اور سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی کی یادداشتوں سے ماخوذ۔
۱۲۸۔
مکتوب محررہ ۱۵۔ جولائی ۱۹۶۷ء۔
۱۲۹۔
نذیر احمد صاحب ہومیو گنگا پور چک ۵۴۱ اپنے مکتوب مورخہ ۴۔ جنوری ۱۹۵۸ء میں لکھتے ہیں۔ خاکسار موضع سرسپور صوبہ دہلی کا مہاجر ہے اور میں نے ۱۹۳۴ء میں بیعت کی تھی۔ اسی وقت سے مخالفت شروع ہوگئی اور میرے گھر والوں نے بغیر کسی پیسہ روپیہ دیئے گھر سے الگ کر دیا تھا۔ خاکسار نے مزدوری یا پھیری وغیرہ کرکے اپنا گزارہ کیا اور گھر والوں کو تبلیغ کرتا رہا۔ چار سال کی قربانی اور دعائوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھر والوں کے دلوں میں احمدیت کی سچائی ظاہر کردی اور جس وقت حضور دہلی آئے۔ ۱۹۳۸ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے موقع پر میرے والد صاحب اور میرے بھائیوں نے اور بھائیوں کی بیویوں اور رشتہ داروں نے حضور کے ہاتھ پر دہلی پہنچ کر ڈاکٹر عبداللطیف صاحب کی کوٹھی میں بیعت کرنے کی اللہ تعالیٰ سے توفیق پائی۔ اس وقت حضور کھانا کھاچکے تھے۔ مگر اس وقت تک کھانے کے برتن اٹھائے نہیں تھے۔ دہلی کے بڑے بڑے امراء اور عہدیدار دعوت میں شامل تھے اور سب کی موجودگی میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بیعت لی تھی۔
۱۳۰۔
الفضل ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۳۱۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۳۲۔
ایضاً۔
۱۳۳۔
ایضاً۔
۱۳۴۔
الفضل ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۴ و ۵۔
۱۳۵۔
سیر روحانی جلد اول طبع اول صفحہ ۸ تا ۱۲ )نیا ایڈیشن صفحہ ۲ تا ۶( تقریر جلسہ سالانہ ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء۔
۱۳۶۔
حضور کے یہ یادگار لیکچر تین جلدوں میں شائع ہوئے۔ پہلی جلد میں ۱۹۳۸ء` ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء کے لیکچر شامل تھے جن میں عالم روحانی کے آثار قدیمہ` جنتر منتر` سمندر` مساجد` قلعے` مقبرے` میناربازار کا لطیف نقشہ کھینچا گیا تھا۔ دوسری جلد ۱۹۴۸ء` ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کی تقریروں پر مشتمل تھی اور اس میں دنیائے روحانیت کے مینار` دیوان عام اور دیوان خاص کی سیر کرائی گئی تھی۔ تیسری جلد میں مندرجہ ذیل مضامین پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ عالم روحانی کا نوبت خانہ )تقریر ۱۹۵۳ء( عالم روحانی کے دفاتر )تقریر ۱۹۵۴ء( عالم روحانی کی نہریں )تقریر ۱۹۵۵ء( قرآنی باغات )تقریر ۱۹۵۶ء( عالم روحانی کے لنگر خانے )تقریر ۱۹۵۷ء( روحانی عالم کے کتب خانے )تقریر ۱۹۵۸ء(
۱۳۷۔
سیرروحانی طبع اول صفحہ ۱۲۔ ۱۳ )طبع ثانی صفحہ ۷(
۱۳۸۔
سیرروحانی جلد سوم صفحہ ۲۸۵ )تقریر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ برموقع جلسہ سالانہ ۲۸۔ دسمبر ۱۹۵۳ء(
۱۳۹۔
الفضل ۱۰۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ یاد رہے کہ اس مضمون میں صوفی صاحبؓ کی بیعت کا سن کر ۱۹۰۴ء لکھا ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ آپ نے لیکچر لدھیانہ نومبر ۱۹۰۵ء کے موقعہ پر بیعت کی تھی۔
۱۴۰۔
الفض ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۱۴۱۔
الفض ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۱۴۲۔
الفض ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۸ء۔
۱۴۳۔
اخبار پیغام صلح لاہور ۳۰۔ اپریل ۱۹۳۸ء۔
۱۴۴۔
الفضل ۱۸۔ مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۔
۱۴۵۔
اصحاب احمد جلد یازدہم مولفہ صلاح الدین صاحب ملک ایم۔ اے قادیان دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۴۶۔
الفضل ۷۔ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۴۷۔
الفضل ۷۔ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۴۸۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۴۹۔
الفضل ۱۲۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۵۰۔
)حالات زندگی( الحکم ۱۴۔ فروری تا ۷۔ مارچ ۱۹۳۹ء میں شائع شدہ ہیں۔
۱۵۱۔
الفضل ۱۹۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۵۲۔
حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے الفضل ۷۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۔ ۷ میں حضرت پیر صاحبؓ کے سوانح شائع کرا دیئے تھے۔
۱۵۳۔
الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۴ میں آپ کے حالات زندگی چھپ چکے ہیں۔
۱۵۴۔
الفضل ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۵۵۔
مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۷` ۱۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء تا ۷۔ مئی ۱۹۳۹ء۔
۱۵۶۔
تاریخ سن بیعت ۱۹۲۱ء سن وصیت ۱۹۳۱ء تاریخ وفات ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۸ء` الفضل ۲۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲( آپ کے حالات کے لئیے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا مضمون مطبوعہ )الفضل ۱۱۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۴۔ ۵ ملاحظہ ہو
۱۵۷۔
وفات ۱۹۔ اپریل ۱۹۳۸ء )الفضل ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱( حافظ سید المجید صاحب منصوری مرحوم کے چھوٹے بھائی سید فضل الرحمن صاحب فیضی کمرشل ہائوس منصوری نے ان کے حالات زندگی اخبار الفضل ۲۱` ۲۳` ۲۴` ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۸ء میں شائع کرا دیئے تھے۔
۱۵۸۔
وفات ۷` ۸۔ اپریل ۱۹۳۸ء۔ حالات زندگی کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۶۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۷۔
۱۵۹۔
وفات ۴۔ مئی ۱۹۳۸ء الفضل ۷۔ مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۰۔
وفات )۱۳۔ جون ۱۹۳۸ء و الفضل ۱۶۔ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۲( کوہاٹ کے ایک رئیس افغان خاندان بنگش سے تعلق رکھتے تھے۔ سرحد میں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ پر فائز رہے۔ بہت منکسر المزاج انسان تھے اور معمولی سے معمولی احمدی کو دیکھ کر ان کا دل باغ باغ ہوجاتا تھا۔ آپ کو خاص یادگار مسجد احمدیہ کوہاٹ ہے جس کے لئے اپنی زمین دی۔ اور ایک متوفہ بیٹی کے زبور فروخت کرکے روپیہ مہیا کیا اور ایک کثیر رقم نقد میں دی۔ )الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ ۴(
۱۶۱۔
وفات ۹۔ جولائی ۱۹۳۸ء و الفضل ۱۴۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۸ کالم ۲۔
۱۶۲۔
اس مضمون میں حضور نے اول نمبر پر حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری کا ذکر فرمایا تھا۔ اس ضمن میں حضور نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے حالات میں درج کئے جاچکے ہیں۔
۱۶۳۔
روزنامہ الفضل قادیان ۲۲۔ مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۶۴۔
الفضل ۲۷۔ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۱۶۵۔
روزنامہ الفضل ۲۸۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔
۱۶۶۔
روزنامہ الفضل ۶۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۶۷۔
روزنامہ الفضل ۱۵۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۶۸۔
الفضل ۹۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۹۔
الفضل ۱۳۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۔ ۴۔
۱۷۰۔
روزنامہ الفضل ۱۴۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔
۱۷۱۔
اہلحدیث صفحہ ۱۵ کالم ۱ مورخہ ۲۱۔ جنوری ۱۹۳۸ء۔
۱۷۲۔
الفضل ۱۸۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ ۴۔
۱۷۳۔
الفضل ۲۴۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۷۴۔
مرحوم کے تفصیلی حالات قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور امام مسجد لنڈن حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے اپنے قلم سے تحریر فرمائے تھے جو الفضل ۲۵۔ جنوری ۱۹۳۸ء اور ۱۵۔ فروری ۱۹۳۸ء میں شائع شدہ ہیں۔ انگریز نو مسلم نٹل بلال کے تاثرات کے لئے ملاحظہ ہو۔ الفضل ۵۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔
۱۷۵۔
الفضل ۲۵۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۷۶۔
الفضل ۱۵۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔
۱۷۷۔
الفضل ۸۔ فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۷۸۔
روزنامہ الفضل ۱۹۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
‏h1] ga[t۱۷۹۔
الفضل ۹۔ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۸۰۔
روزنامہ الفضل ۱۱۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۸۱۔
روزنامہ الفضل قادیان ۲۳۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۳۔
۱۸۲۔
روزنامہ الفضل قادیان ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔
۱۸۳۔
الفضل ۵۔ مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۸۴۔
اس ضمن میں ان کا فارسی مکتوب الفضل ۷۔ مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ پر شائع شدہ ہے۔
۱۸۵۔
الفضل ۲۹۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۔
‏]1h [tag۱۸۶۔
الفضل ۱۸۔ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۸۷۔
الحکم ۱۰۔ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۔ ملفوظات جلد سوم صفحہ ۲۹۲۔
۱۸۸۔
اشتہار کا متن الفضل یکم جنوری ۱۹۳۹ء میں شائع شدہ ہے۔
۱۸۹۔
اشتہار کی اشاعت کے بعض معاونین خاص۔ میاں غلام محمد صاحب اختر۔ شیخ مسعود احمد صاحب۔ ایس۔ ڈی او بھما۔ سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآباد دکن حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب ریٹائرڈ سول سرجن قادیان۔ ڈاکٹر محمد الدین صاحب بنوں۔ منشی عبدالعزیز صاحب قادیان۔ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب۔ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب )الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۳ کالم ۴` ۴۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ` و ۸۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۱۹۰۔
الفضل ۲۲۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم و الفضل ۲۴۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۹۱۔
الفضل ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۔
۱۹۲۔
الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۹۳۔
مباہلہ میں شامل ہونے والے احمدیوں کا نام۔ ماسٹر محمد پریل صاحب۔ محمد شفیع صاحب۔ عمرالدین صاحب۔ شمس الدین صاحب۔ مٹھا خان صاحب۔ بڈھل خان صاحب۔ غلام محمد صاحب۔ حاجی ولی محمد صاحب۔ اللہ ڈنہ صاحب۔ محمد موہیل صاحب۔ غیر احمدی مباہلین۔ ملا دوس محمد صاحب۔ محرم صاحب۔ محمد عثمان صاحب۔ محمد پریل صاحب۔ غلام حسین صاحب۔ غلام محمد صاحب۔ اللہ بخش صاحب۔ نبی بخش صاحب۔ عطاء محمد صاحب۔ محمد الیاس صاحب۔ )الفضل ۱۲۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۵ کالم ۳۔ ۴(
۱۹۴۔
الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔ ۴۔
۱۹۵۔
الفضل ۲۳۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۹۶۔
الفضل ۹۔ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۹۷۔
الفضل ۱۲۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۱۹۸۔
الفضل ۱۴۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۹۹۔
الفضل ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۲۰۰۔
الفضل ۱۲۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۲۰۱۔
روزنامہ الفضل قادیان ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۴۔
۲۰۲۔
الفضل ۲۶۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۲۰۳۔
الفضل ۲۱۔ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۲۰۴۔
الفضل ۶۔ اگست ۱۹۳۸ء صفحہ ۷۔
۲۰۵۔
الفضل ۱۸۔ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۰۶۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۸۔
۲۰۷۔
الفضل ۹۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۵ کالم ۴۔
۲۰۸۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۴۰۔ ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۸۔
‏tav.8.36
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چھبیسواں سال
چھٹا باب )فصل اول(
قضیہ فلسطین میں عربوں کی پرزور حمایت سے لیکر خلافت جوبلی کے جلسہ تک
خلافت ثانیہ کا چھبیسواں سال
)جنوری ۱۹۳۹ء تا دسمبر ۱۹۳۹ء بمطابق ذی قعدہ ۱۳۵۷ھ تا ذی قعدہ ۱۳۵۸ھ(
مسئلہ فلسطین کا پس منظر
فلسطین کو یہودیت کا مرکز بنانے کی موجودہ تحریک انیسویں صدی کے آخر )۱۸۹۷ء( میں شروع ہوئی۔ اس سال ہرزل نے عالمی صیہونی انجمن کی بنیاد ڈالی اور بیل کے مقام پر طے پایا کہ فلسطین میں یہودیوں کا ایک وطن بنایا جائے۔ صیہونی تحریک کے لیڈروں نے پہلے تو سلطان ترکی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ یہودی وطن کے قیام کی اجازت دی جائے مگر ترکی حکومت نے انکار کردیا۔ ۱۹۰۳ء میں حکومت برطانیہ نے تجویز پیش کی کہ یہودی کینیا )افریقہ( کو اپنا وطن بنالیں۔ لیکن یہودی رضامند نہ ہوئے۔ ۱۹۱۴ء میں جب پہلی عالمگیر جنگ چھڑی تو یہودیوں نے جرمنی اور برطانیہ دونوں سے جوڑ توڑ شروع کر دئے۔ جنگ عظیم کے دوران حالات نے پلٹا کھایا۔ ترک جنگ میں اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا ساتھ دے رہے تھے۔ ادھر برطانیہ کو عربوں کی )جو اس وقت ترکی حکومت سے مطمئن نہ تھے( ضرورت محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے حسین شریف مکہ کو پیغام بھیجا کہ اگر فلسطین کے عربوں نے جنگ میں ان کا ساتھ دیا تو ترکوں کے عربی مقبوضات آزاد کر دیئے جائیں گے۔ ان مقبوضات میں فلسطین بھی شامل تھا۔ عرب برطانیہ کے دائو میں آگئے اور انہوں نے اسے منظور کرلیا اور جنگ میں ترکوں کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ کرنل لارنس کی زیر ہدایت اور عربوں کی مدد سے جنرل ایلن بی نے ۱۹۱۷ء میں ترکوں کو شکست دیکر یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ صیہونی تحریک کے لیڈر بھی خاموش نہیں بیٹھے تھے۔ فلسطین کو اپنا قومی گھر بنانے کی پرانی خواہش از سرنو تازہ ہوگئی۔ ادھر جنگ کے مصارف کی وجہ سے انگریزوں کو یہودی سرمایہ کی سخت ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسی سال برطانوی وزیر امور خارجہ لارڈ بالفور (LORD FOUR) BAL اور یہودی لیڈر لارڈ روتھ سچائیلڈ SCHILD) ROTH DROL( کے مابین ایک خفیہ معاہدہ ہوا جس کے ذریعہ طے پایا کہ یہودی جنگ میں برطانیہ کی مدد کریں۔ اس کے عوض برطانیہ اختتام جنگ پر فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنا دے گا۔ یہ معاہدہ ۱۹۲۰ء یعنی اختتام جنگ کے ایک سال بعد تک خفیہ رکھا گیا۔ جنگ کے بعد تھوڑے عرصہ تک سکون رہا۔ ۱۹۲۰ء میں فلسطین کی باگ دوڑ مجلس اقوام کی زیرنگرانی برطانیہ کے سپرد ہوئی۔
عربوں کو کامل یقین تھا کہ عنقریب فلسطین ایک آزاد ملک ان کے سپرد کر دیا جائے گا۔ مگر ۱۹۲۰ء میں انہیں پہلی بار محسوس ہوا کہ برطانیہ کسی صورت میں بھی ان کو فلسطین کے اقتدار سونپنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ اس عرصہ میں یہودی لوگ کافی تعداد میں فلسطین پہنچ چکے تھے اور اس وقت سے ہی علاقہ میں گڑبڑ شروع ہوگئی تھی۔ یہودی علانیہ طور پر فلسطین کو اپنا ملک بنانے پر مصر تھے۔ عرب جو پہلے ہی مضطرب بیٹھے تھے اور بھڑک گئے۔ یہودیوں کی بڑھتی ہوئی درآمد نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور ملک میں فسادات کا دور دورہ شروع ہوگیا۔
۱۹۲۴ء میں حالات انتہائی نازک حالت تک پہنچ گئے۔ بغاوت فرو کرنے کے لئے انگریز فوجیں منگائی گئیں اور وقتی طور پر ہنگاموں پر قابو پالیا گیا مگر ۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۶ء میں دوبارہ شدید فسادات اٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت کچھ مالی و جانی نقصان ہوا۔ برطانوی مدبرین کا خیال تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد عرب اور یہودی شیر و شکر ہو جائیں گے لیکن اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی۔ پندرہ سال کے کشت و خون کے بعد جب حالات قابو سے باہر نظر آنے لگی تو برطانیہ نے نومبر ۱۹۳۶ء میں لارڈ پیل PEEL) (LORD کی صدارت میں ایک شاہی کمیشن نامزد کر دیا۔ جس نے حالات کا مطالعہ کرکے جولائی ۱۹۳۷ء میں اپنی رپورٹ اور اپنی سفارشات پیش کردیں۔ پیل کمیشن نے اعتراف کیا کہ عرب اور یہودی دونوں سے وعدہ خلافی اور ناانصافی کی گئی ہے۔ جس کا حل اس نے یہ پیش کیا کہ ملک کے حصے بخرے کر دئے جائیں۔ ایک علاقہ جو سب سے زرخیز اور تجارتی مرکز تھا اور جس میں وہاں کی صرف ایک ہی کارآمد بندرگاہ حیفا بھی شامل تھی یہودیوں کے حوالے کر دیا جائے اور فلسطین کا بیشتر حصہ جو عموماً ریتلا صحرا اور بنجر ہے عربوں کو دے دیا جائے نیز سفارش کی کہ باقی مقامات مقدسہ یروشلم اور درمیانی علاقہ پر انگریزی حکومت کی عملداری رہے۔ عرب اور یہود دونوں نے اس تجویز کی سخت مذمت کی اور فلسطین میں یکایک فریقین کی طرف سے ملک گیر اور منظم فسادات اٹھ کھڑے ہوئے۔ عربوں کا نشانہ پہلے تو یہودی ہوا کرتے تھے مگر پھر انگریزی فوجوں پر یورش شروع کر دی گئی۔ متعدد برطانوی فوجی بیڑے حیفا اور جافا پہونچ گئے اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ حریب پسند عرب لیڈر گرفتار کئے گئے۔ مجلسیں توڑ دی گئیں اور عرب دیہات نہ صرف تغریری چوکیوں سے زیر بار کر دیئے گئے بلکہ ہوائی جہازوں سے ان پر گولہ باری کی گئی۔
ان حالات نے صورت حال بدل دی۔ ملک کے حصے بخرے کرنے کی سکیمیں وقتی طور پر معرض التواء میں پڑگئیں اور پیل کمیشن کی رپورٹ پر غور کرنے کے لئے ایک اور کمیشن )وڈہڈ کمیشن( مقرر ہوا۔ مگر عرب نہ مطمئن ہوسکتے تھے نہ ہوئے۔ اب برطانوی حکومت نے مفاہمت کے لئے ایک نئی تجویز سوچی اور وہ یہ کہ لنڈن میں عربوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ کانفرنس کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ کانفرنس فروری ۱۹۳۹ء میں بمقام لنڈن منعقد ہوئی جس میں سعودی عرب` مصر اور عراق کے مندوبین نے شرکت کی۔ مگر یہ بھی ناکام ہوگئی۔ )مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا۔ زیر لفظ (ZIONISM)
قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ
قضیہ فلسطین کے پس منظر پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم بتاتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور حضور کی قیادت میں احمدیہ پریس۱ سلسلہ احمدیہ کے مبلغین بلاد عربیہ و غربیہ کی تمام ہمدردیاں شروع سے ہی مسئلہ فلسطین کے بارے میں مسلمانان عالم کے ساتھ تھیں اور وہ یہودیوں کے ناپاک عزائم کو سخت نفرت و حقارت سے دیکھتے اور ان کی سازشوں کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے سخت خطرہ سمجھتے اور عرب مفادات اور مطالبات کی ترجمانی کا کوئی موقعہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔ ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۹ء کو عید الاضحیہ کی تقریب تھی۔ اس موقعہ پر امام مسجد لنڈن مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ نے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے فلسطین میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر سخت تشویش کا اظہار فرمایا۔۲
اس اہم جلسہ کی رپورٹ لنڈن کے ایک بااثر اور مقتدر اخبار سائوتھ ویسٹرن سٹار نے اپنی ۳۔ فروری ۱۹۳۹ء کی اشاعت میں یہ لکھی کہ۔
>عید الاضحیٰ کی تقریب پر جو عید قربان ہے مسجد احمدیہ لنڈن میں ایک جلسہ ہوا۔ لیفٹنٹ کرنل سر فرانسس ینگ ہسبنڈ کے سی۔ ایس۔ آئی۔ کے۔ سی۔ آئی۔ ای صدر تھے۔ امام مسجد مولوی جلال الدین صاحب شمس نے قیام امن کی کوشش کے لئے وزیراعظم برطانیہ کو خراج تحسین ادا کیا۔ نیز مسئلہ فلسطین پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی تعداد کے لحاظ سے یہودیوں کا عربوں سے بڑھ جانے اور اس طرح ان پرچھا جانے کا خیال عربوں کے لئے نہایت خوفناک ہے اور وہ اسے کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ جو نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں ان کو اور حکومت کو چاہئے کہ اس مسئلہ پر اخلاص اور غیر جانبدارانہ رنگ میں غور کریں اور اس کا کوئی حل تلاش کریں کیونکہ اگر آج اس کا کوئی حل نہ ملا تو پھر کبھی نہیں ملے گا۔
اس موقعہ پر بہت سے معززین جمع تھے۔ مسلمان` ہندو` عیسائی۔ غرض کہ ہر قوم کے مرد و عورتیں موجود تھیں۔ حاضرین میں سے سر ٹیلیفورڈوائو اور سرفنڈلیئر سٹوارٹ۔ میجر جنرل جے` ایچ بیتھ۔ سر آرتھروائو کوپ )سابق ہائی کمشنر فلسطین( کائونٹس کار لائل۔ ریورنڈ ایس ہاپکنسن۔ ریورینڈ مسٹر سٹیونسن ڈاکٹر ومس ہاتھربی اور کیپٹن عطاء اللہ آئی` ایم` ایس شامل تھے<۔۳
مسجد احمدیہ لنڈن میں شہزادہ امیر فیصل )مملکت کے موجودہ سربراہ( اور دیگر عرب ممالک کے نمائندوں کی تشریف آوری
عید کے چند روز بعد برطانوی حکومت نے ماہ فروری ۱۹۳۹ء میں قضیہ فلسطین کے تعلق میں جب عرب ممالک کی ایک نمائندہ کانفرنس کا انعقاد کیا تو مولانا جلال الدین صاحب شمس امام
مسجد لنڈن نے اس اجتماع کو غنیمت سمجھتے ہوئے مکہ مکرمہ کے وائسرائے اور فلسطین۔ عراق۔ یمن کے نمائندوں کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں شہزادہ امیر فیصل اور شیخ ابراہیم سلیمان رئیس النیابتہ العامہ اور شیخ حافظ وہبہ اور عونی بیک الہادی اور القاضی علی العمری اور القاضی محمد الشامی وغیرہ مندوبین کانفرنس کے علاوہ لنڈن کے اکابر اور ریٹائرڈ افسران۔ مختلف ممالک کے چھ سفراء اور پارلیمنٹ کے ممبر اور نائٹ۔ جرنیل۔ میجر اور بڑے بڑے عہدیدار اور اہل منصب اور معزز ہندوستانیوں میں سے ہائی کمشنر فار انڈیا۔ سردار بہادر موہن سنگھ آف راولپنڈی )ممبر کونسل فار انڈیا( وغیرہ دو سو کے قریب مہمان شامل ہوئے۔ اس تقریب پر حضرت امیرالمومنینؓ نے امیر فیصل اور دوسرے عرب نمائندگان کے نام بذریعہ تار برقی مندرجہ ذیل پیغام بھیجا۔ )جو مولانا شمس صاحب نے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سنایا(
>میری طرف سے ہزرائل نس امیر فیصل اور فلسطین کانفرنس کے ڈیلیگیٹوں کو خوش آمدید کہیں اور ان کو بتا دیں کہ جماعت احمدیہ کامل طور پر ان کے ساتھ ہے اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی عطا کرے اور تمام عرب ممالک کو کامیابی کی راہ پر چلائے اور ان کو مسلم ورلڈ کی لیڈر شپ عطا کرے۔ وہ لیڈر شپ جو ان کو اسلام کی پہلی صدیوں میں حاصل تھی<۔
سعودی عرب کے وزیر نے امیر فیصل کی طرف سے جوابی تقریر کی اور پورے عالم اسلام کی یگانگت اور اتحاد پرزور دیا<۔۴
امیر فیصل اور دوسرے نمائندوں نے اس موقعہ پر نو مسلموں سے قرآن مجید سنا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ امیر فیصل نے فرمایا۔ میرا خیال تھا کہ چھوٹی سی مسجد ہوگی اور یہ بعد میں بڑی کی گئی ہے۔ مولانا شمس صاحب نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ابتداء ہی سے اتنی بڑی بنائی گئی تھی۔ عرب نمائندے دارالتبلیغ دیکھ کر بھی خوش ہوئے۔ مولانا شمس صاحب نے امیر فیصل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تالیفات میں سے منن الرحمن اور التبلیغ اور بعض اپنی عربی کتب مثلاً توضیح مرام۔ میزان الاقوام اور دلیل المسلمین خوبصورت جلدیں بنوا کر بطور ہدیہ پیش کیں۔ جو انہوں نے شکریہ اور مسرت کے ساتھ قبول کیں اور جاتے ہوئے ورٹنگ بک میں اپنے قلم سے یہ الفاظ لکھ گئے:۔
>لاثبات عندیتی و شکری لحضرہ الامام و اعجابی بذ کائہ فیصل<۔
اس شاندار تقریب کے فوٹوگرافرز نے متعدد فوٹو لئے جو سنڈے ایکسپریس اور سوتھ ویسٹرن سٹار اور ومبلڈن برونیوز اور ونڈز ورتھ بادونیوز میں بھی شائع ہوئے۔۵
قضیہ فلسطین کو آئندہ چل کر کن مراحل میں سے گزرنا پڑا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور حضور کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے مسلمانان فلسطین کی تائید میں کس طرح آواز بلند کی اس کی تفصیل اگلی جلدوں میں آئے گی۔ مگر یہاں ضمناً یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں جماعت احمدیہ یہود کی سرگرمیوں کو عالم اسلام کے لئے ہمیشہ خطرہ عظیم سمجھتی رہی ہے وہاں مجلس احرار اسلام کے عمائد اکابر کا ۱۹۳۹ء میں یہ واضح نظریہ تھا۔ کہ
>ہم خطرات کے شمار کے قائل نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کے لئے اور اسلام کے لئے کوئی خطرہ نہیں اسلام خدا کا پسندیدہ دین ہے وہ اس لئے دنیا میں آیا ہے کہ تمام دنیا کے مذاہب پر غالب ہو۔ رسول اللہ~صل۱~ کی بعثت کا مقصد اسلام کا غلبہ مجموعی تھا۔ یہ غلبہ اپنی قدرتی رفتار کے ساتھ جاری ہے۔ اس رفتار کو نہ کوئی شخص روک سکتا ہے اور نہ وہ رکنے والی ہے۔ اس لئے اسلام کی زندگی کے سامنے نہ ایک خطرہ ہے نہ خطرے۔ اسی طرح ملت اسلامیہ بھی زندہ رہنے اور نہ صرف زندہ رہنے بلکہ غالب ہوکر رہنے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ افراد میں ردوبدل ہو۔ ہوسکتا ہے کہ قبائل و اقوام میں تغیر و انقلاب ہو لیکن ملت بحیثیت مجموعی >خیر امت< ہے۔ اور وہ باقی۔ برقرار اور قائم رہے گی۔ جس طرح بنی امیہ کے زوال نے بنی عباس کو جگہ دی۔ بنی عباس نے فاطمیین کو جانشین بنایا۔ اور فاطمیین کا علم عثمانیوں نے سنبھال لیا۔ اسی طرح ملت میں بھی مختلف قومیں اٹھتی اور بیٹھتی رہیں گی۔ اسلام لئے نہ اسلام کو خطرہ ہے نہ مسلمانوں کو۔ لیکن اگر ان حضرات کے طرز استدلال کو قبول کرلیا جائے جو خدا کی دو مغضوب قوموں سے خدا کے پسندیدہ دین اور خدا کی منعم علیہ قوم کے لئے خطروں کے سوا اور کچھ نہیں دیکھتے تو ہم عرض کریں گے کہ خطرہ نہ یہود سے ہے نہ ہنود سے بلکہ >خطرہ< خود ان نیک دل اور سادہ لوح تیمارداروں سے ہے جو ملت اسلامیہ کے مرد بیمار کے مداوا کے لئے مسلم لیگ اور اس کے رہنمائوں کی جدوجہد اور عملی پروگرام میں آس لگائے بیٹھے ہیں<۔۶
ولیداد خان صاحب کی شہادت
افغانستان کی سنگلاخ زمین ابتداء ہی سے شہدائے احمدیت کے خون سے لالہ زار بنتی آرہی تھی۔ چنانچہ اس سال بھی ۱۵۔ فروری ۱۹۳۹ء کو مجاہد تحریک جدید ولیداد خان صاحب نے اپنے خون سے اس ملک کی آبیاری کی۔
ولیداد خاں صاحب ایک لمبا عرصہ دارلامان میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ پھر وہ تحریک جدید کے سلسلہ میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیحؓ کے ارشاد پر اپنے گائوں )واقع علاقہ خوست( میں )جو ان دنوں برطانوی اور افغانی گورنمنٹ کے حد فاصل پہاڑ کی چوٹی پر واقع اور بالکل آزاد علاقہ تھا( تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے اپنے چچازاد بھائی خالیداد خاں کی لڑکی سے نکاح کیا۔ اور خداتعالیٰ نے ایک بچہ بھی دیا۔ لڑکے کی عمر ابھی ڈیڑھ ماہ کی ہوئی تھی کہ ان کے برادران نسبتی نے اس ننھے معصوم بچہ کو جس کا نام فضل داد تھا قتل کردیا اور پھر ان کو بھی غالباً چوتھے دن ۱۵۔ فروری ۱۹۳۹ء کو نہایت بیدردی اور بے رحمی سے تین گولیوں کا نشانہ بناکر شہید کر دیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم تین دن تک بے گورو کفن رہے۔ اس کے بعد ظالموں نے انکی نعش مبارک کہیں پھینک دی۔۷
مجلس ناصرات الاحمدیہ کا قیام
فروری ۱۹۳۹ء میں احمدی بچیوں کے لئے >مجلس ناصرات الاحمدیہ< کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا۔ جس کی صدر محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ`` سیکرٹری صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ )بنت حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( اور اسسٹنٹ سیکرٹری طاہرہ بیگم صاحبہ مقرر ہوئیں۔۸
مجلس ناصرات الاحمدیہ کا قیام صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ہوا۔ چنانچہ صاحبزادی صاحبہ کا بیان ہے کہ۔
>جب میں دینیات کلاس میں پڑھتی تھی۔ میرے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ جس طرح خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے لجنہ اماء اللہ قائم ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کے لئے بھی کوئی مجلس ہونی چاہئے۔ چنانچہ مکرم محترم ملک سیف الرحمن صاحب کی بیگم صاحبہ اور مکرم محترم حافظ بشیر الدین صاحب کی بیگم صاحبہ اور اسی طرح اپنی کلاس کی بعض اور بہنوں سے اس خواہش کا اظہار کیا اور ہم سب نے مل کر لڑکیوں کی ایک انجمن بنائی۔ جس کا نام حضرت اقدس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری سے ناصرات الاحمدیہ رکھا گیا۔
شروع میں تو اس کے اجلاس بھی ہمارے اسکول میں ہی ہوتے رہے اور اسکول کی طالبات ہی اس کی ممبر رہیں لیکن میری شادی کے بعد جب میں سندھ چلی گئی تو اس مجلس کا انتظام لجنہ اماء اللہ نے سنبھال لیا اور اس کے زیرانتظام اس مجلس کے امور سرانجام پاتے رہے<۔۹
حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ کی زبردست تائید
حضرت امیرالمومنین اپنے زمانہ خلافت کے ابتدا ہی سے مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت سمجھتے تھے اور اس کی
بجائے کانگرس سے وابستگی مسلم مفادات سے بے اعتنائی کے مترادف قرار دیتے تھے۔ چنانچہ جولائی ۱۹۳۹ء کا واقعہ ہے کہ منڈی بوریوالہ ضلع ملتان کے ایک دوست چوہدری محمد اکبر صاحب نے ۱۴۔ جولائی ۱۹۳۹ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تحریر کیا۔ کہ
>ہمارے علاقہ میں یقین کیا جاتا ہے کہ )مسلم( لیگ کی قوت دولتانوں اور لنگڑیانوں کی قوت کے مترادف ہے۔ جب تک ان کو شکست نہ ہو ہم آباد کار اٹھ نہیں سکتے۔ اگر یہاں ہم نے کانگرس کو تقویت دی اور کانگرس کامیاب ہوگئی تو یقیناً کانگرس ہمارے مفاد کا خیال رکھے گی اور اگر یہاں کانگرس فیل بھی ہوگئی پھر بھی دولتانوں کو ہماری قدر کرنی پڑے گی اور اگر ہم الگ الگ رہے تو ہمیں کوئی بھی نہیں پوچھے گا<۔۱۰
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس خط پر اپنے قلم مبارک سے جو الفاظ رقم فرمائے وہ احمدیت اور مسلم لیگ دونوں کی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ حضورؓ نے تحریر فرمایا کہ۔
>مجھے آپ کے متعلق ذاتی واقفیت نہیں۔ بہتر ہوتا آپ کسی واقف احمدی سے لکھواتے بہرحال مجھے تو مسلمانوں کے فائدہ سے ہمدردی ہے کسی خاص پارٹی سے نہیں لیکن یہ یقینی ہے کہ کانگرس مسلمانوں کی دشمن ہے۔ اگر چھوٹے فائدوں کے لئے مسلمان کانگرس سے ملیں گے تو قومی طور پر ذلیل ہو جائیں گے ہم نے کانگرس سے خط و کتابت کرکے دیکھا ہے۔ کانگرس کا ارادہ مسلمانوں کے حق میں ہرگز اچھا معلوم نہیں دیتا۔ اس صورت میں اس سے ملنا اچھا نہیں۔ ہاں آپ مقامی مسلم لیگ بنالیں اس میں اپنے ممبر زیادہ کرلیں۔ آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس مسلم لیگ کی طرف سے بے شک مسلمان کھڑے ہوں۔ مسلمان اکٹھے بھی رہیں گے اور کانگرس کو بھی طاقت حاصل نہ ہوگی اس صورت میں بھی مالدار لوگ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے<۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا مکتوب مبارک آل انڈیا مسلم لیگ اور
نیشنل کانگرس کی نسبت
عکس کے لئے
مسلمانان چمبہ پر مظالم کے خلاف احتجاج
چمبہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ریاست ہے جو ریاست جموں کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس ریاست میں ہندو لوگ بھاری اکثریت میں آباد تھے اور مسلمانوں کی آبادی سات فیصدی کے قریب تھی جو اہل کشمیر کی طرح ہمیشہ غیر زراعت پیشہ متصور ہوتے تھے اور وہ )خاص اجازت کے سوا( جو عام طور پر نہیں دی جاتی تھی زمین خریدنے کے بھی مجاز نہیں تھے۔ حتیٰ کہ مسلمان کسی مسلمان سے بھی سرکاری اجازت نامہ کے بغیر زمین کی خرید و فروخت نہیں کرسکتے تھے اور ہندو سے زمین کا مل جانا تو قریباً ناممکن تھا۔ اس کے برعکس ہندو لوگ مسلمانوں سے قانوناً خرید سکتے تھے اور اس کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک اور پابندی یہ تھی کہ حدود ریاست میں کوئی شخص قبول اسلام نہیں کرسکتا تھا۔ حد یہ ہے کہ جہاں ہر اچھوت کے لئے ہندو دھرم قبول کرنے یا عیسائی بننے کے دروازے ہر وقت کھلے تھے مگر اسے حدودریاست میں اسلام لانے کی اجازت نہ تھی۔ غرضیکہ غریب مسلمان ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور خصوصاً احمدیان چمبہ کو بہت تکالیف پہنچائی جارہی تھیں۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ حالات پہنچے تو حضور نے چوہدری غلام احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی مشیر قانونی اور مولوی ظہور الحسن صاحب فاضل کو چمبہ بھجوایا۔۱۱ اور باشندگان چمبہ کو مشورہ دیا کہ وہ ریذیڈنٹ کو اپنی شکایات و مطالبات بھجوائیں اور خاص طور پر مندرجہ ذیل مطالبات اس میں شامل کریں کہ۔
۱۔
شہر چمبہ میں میونسپل کمیٹی قائم کی جائے۔
۲۔
زمینداروں کو زمین کا مالک قرار دیا جائے۔
۳۔
زمینداروں کو ان کی زمین پر پیدا شدہ درخت کاٹنے اور فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔
۴۔
سیاسی قیدی شیخ علام نبی صاحب کو رہا کیا جائے۔
۵۔
ایک غیر جانبدار تحقیقاتی کمیٹی جس میں غیرسرکاری ممبروں کی اکثریت ہو قائم کی جائے جو رعایا کی شکایات سنکر ان کے تدارک کے لئے تجاویز پیش کرے۔
مسلمانان چمبہ نے حضور کی ان ہدایات کی روشنی میں اپنے مطالبات مرتب کرکے ریذیڈنٹ کو بھجوا دیئے جو ریذیڈنٹ نے مطالعہ کے بعد حکام ریاست کے پاس ارسال کر دیئے۔ حکام ریاست مطالبات پڑھ کر غضبناک ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں پر ناجائز رعب ڈال کر میموریل کے خلاف اور اپنے حق میں دستخط کروانے کی مہم شروع کر دی۔ جس پر غلام احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی نے ریذیڈنٹ کو تار دینے کے علاوہ حکومت ہند کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کو اطلاع دی اور اخبارات سے درخواست کی کہ وہ حکام چمبہ کے خلاف آواز اٹھائیں اور چمبہ کے مسلمانوں کو لکھا کہ وہ احتیاطاً اپنی شکایات کے ثبوت مہیا کریں۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کا آرگن روزنامہ >الفضل< نے کئی بار اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور سخت احتجاج کیا۔
اس مرحلہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے چوہدری غلام احمد صاحب کو ہدایت فرمائی کہ۔
>میرے نزدیک خاموشی مناسب نہیں۔ ہندوئوں سے ان شکایات کا ذکر ضرور کردینا چاہئے<۔۱۲
حضرت امیرالمومنینؓ کا سفر دھرمسالہ
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی تبدیلی آب و ہوا کے لئے بذریعہ کار ۵۔ اگست ۱۹۳۹ء کو دھرم سالہ تشریف لے گئے۔۱۳ جہاں سے ۱۲۔ اگست ۱۹۳۹ء کو منالی گئے۔۱۴ اور پھر ۲۰۔ اگست کو واپس دھرم سالہ پہنچے۔۱۵ اور پھر چند روز قیام فرما رہنے کے بعد ۲۹۔ اگست ۱۹۳۹ء کو قادیان دارالامان میں رونق افروز ہوئے۔۱۶
اگست ۱۹۳۹ء میں قبولیت دعا کا پہلا نشان
سفر منالی میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا ایک ایمان افروز نشان کا ظہور ہوا۔ جس کی تفصیل حضرت خلیفتہ المسیحؓ کی زبان مبارک سے درج کی جاتی ہے۔ فرمایا۔
>عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب منالی جارہے تھے۔ ہم بھی دھرمسالہ سے انہیں کے لئے دوسرے موٹر میں گئے۔ جب پالم پور تک انہیں چھوڑ کر واپس آرہے تھے۔ راستہ میں موٹر خراب ہوگئی۔ اور ڈرائیور نے بتایا کہ پٹرول پہونچانے والی نلکی بیچ میں سے ٹوٹ گئی ہے۔ بارش تیز ہورہی تھی اور ساتھ مستورات تھیں۔ قریباً شام کا وقت تھا اور منزل سے قریباً ۲۲ میل دور تھے اور وہ بھی پہاڑی سفر کہ جو مرد بھی دو میل فی گھنٹہ مشکل سے چل سکے اور آدھ آدھ میل تک کوئی ایسی جگہ نہ تھی۔ جہاں آبادی ہو۔ میں نے سامنے دیکھا تو ایک جھونپڑی سی نظر آئی جو بعد میں معلوم ہوا کہ دوکان ہے۔ میں نے دل میں دعا کی کہ وہاں تک ہی پہنچ جائیں۔ شاید وہاں سے کوئی صورت پیدا ہوسکے۔ میں نے دعا کی کہ یا الٰہی یہ حالت ہے ہم تو چل بھی سکتے ہیں۔ باہر بھی سوسکتے ہیں مگر ساتھ پردہ دار مستورات ہیں تو کوئی صورت پیدا کردے۔ اس سامنے کے مکان تک پہونچ جائیں۔ اتنے میں موٹر میں اصلاح ہوگئی اور وہ چل پڑی اور ہم دل میں بہت خوش ہوئے۔ لیکن عین اس دوکان کے سامنے جاکر وہ پھر کھڑی ہوگئی۔ جس تک پہنچنے کے لئے میں نے دعا کی تھی میں نے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو خداتعالیٰ نے کس طرح عین اس جگہ لاکر کھڑا کر دیا ہے جہاں کے متعلق میں نے دل میں دعا کی تھی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہماری موٹر جاکر ایسی جگہ رکی کہ جو اس دوکان کے دروازہ کے دونوں سروں کے عین درمیان تھی۔ نہ ایک فٹ ادھر نہ ایک فٹ ادھر۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ سامان بھی کردیا کہ وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک لاری بھی کھڑی ہے۔ حالانکہ وہ جنگل تھا ہم نے دریافت کیا تو لاری والے نے بتایا کہ ہم پر مقدمہ ہے اور جوابدہی کے لئے افسر کے پاس جارہے ہیں۔ مالک گائوں میں گیا ہوا ہے اور وہ اس کا منتظر ہے۔ ہم نے اسے کچھ امید دلائی اور کچھ لالچ دیا کہ اگر ہماری موٹر ٹھیک نہ ہو تو لاری کے ساتھ باندھ کر ہمیں گھر پہنچا دے یا کم سے کم کسی قصبہ تک جہاں موٹر ٹھیک ہوسکے اور اگر ٹھیک ہو جائے تو احتیاطاً ساتھ چلے کہ پھر موٹر کے دوبارہ خراب ہونے کی صورت میں ہماری مدد کرے۔ اول تو وہ نہ مانا لیکن قریباً ایک گھنٹہ تک مرمت کرنے کے بعد جب موٹر درست ہوا تو وہ ڈرائیور بھی ساتھ چلنے پر رضامند ہوگیا۔ وہ علاقہ کچھ میدانی تھا اور چڑھائی کم تھی لیکن جب ہم اسجگہ پہنچے جہاں سے دھرم سالہ کی چڑھائی شروع ہوتی ہے اور تیرہ میل سفر باقی رہ گیا تو اس نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔ ہم نے اسے بہت امید دلائی انعام کا لالچ دیا۔ مالک کی ناراضگی کی صورت میں اس کے پاس سفارش کرنے کو کہا۔ مگر وہ آمادہ نہ ہوا وہ کہنے لگا کہ آپ کی موٹر ٹھیک چل رہی ہے اب کیا حرج ہے۔ آپ اکیلے چلے جائیں۔ میں نے پھر دعا کی کہ یا الٰہی پھر جنگل کا جنگل ہی رہا۔ رات کا وقت تھا اگر موٹر خراب ہوگئی تو دوسری سواری ملنے کی امید بھی نہیں کیونکہ وہاں رات کے وقت موٹروں اور لاریوں کا چلنا منع ہے۔ میں نے دعا کی اور میرے یہی الفاظ تھے کہ اب انسانی حد تو ختم ہوگئی۔ اب تو ہی اپنے فضل سے انتظام فرما۔ یہ دعا کرکے میں نے موٹر چلانے کا اشارہ کیا۔ قریب ترین جگہ وہاں سے لوئر دھرمسالہ تھی جو سات میل تھی۔ ہماری موٹر ٹھیک چلتی رہی جب لوئر دھر مسالہ پہونچے تو میں نے عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب سے جو میرے ساتھ تھے کہا۔ کہ چلو دیکھیں شاید کوئی دوسری موٹر مل جائے تو اسے ساتھ لے چلیں۔ وہاں موٹر وغیرہ نہیں ہوتے مگر جب گئے تو دیکھا کہ اتفاق سے وہاں ایک موٹر موجود ہے اور معلوم ہوا کہ صبح اس نے کوئی سواری لے جانی ہے۔ اس لئے پٹھانکوٹ سے آئی ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا تو ڈرائیور نے کہا کہ بہت اچھا میں اپردھرمسالہ تک چھوڑ آتا ہوں۔ اس وقت دوسری موٹر کے لینے کا خیال اس لئے ہوا کہ ہماری موٹر پر سواریاں زیادہ تھیں۔ خیال تھا کہ سواریاں کم ہو جائیں گی تو ہماری موٹر کا خطرہ دور ہو جائے گا۔ مگر جب سواریاں تقسیم کرکے چلنے لگے تو معلوم ہوا کہ موٹر کا وہ پرزہ جو تکلیف دے رہا تھا پھر ٹوٹ گیا ہے اور اب ہماری موٹر کے چلنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس پر سب سواریاں کرایہ کی موٹر پر سوار ہوگئیں اور ہم آرام سے گھر پہونچ گئے۔ یہ خداتعالیٰ کا کتنا بڑا فضل تھا کہ عین اس وقت آکر موٹر خراب ہوئی جب دوسری سواری میسر آگئی اور ایسی خراب ہوئی کہ وہ تین دن میں جاکر درست ہوئی مگر ہم بخیریت گھر پہنچ گئے تو دیکھو اگر ایک بات ہو تو اسے اتفاق کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس کو کس طرح اتفاق کہا جاسکتا ہے کہ پہلے عین اس جگہ پر پہونچا کر موٹر خراب ہوتی ہے۔ جس کے لئے میں نے دعا کی تھی اور وہاں جنگل میں ایک لاری بھی کھڑی ہوئی مل جاتی ہے۔ جسے ساتھ لے کر ہم بقیہ سفر پورا کرنے کے لئے چل کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ لاری والا ہمیں جواب دیتا ہے اور اصل چڑھائی شروع ہوتی ہے۔ میں پھر دعا کرتا ہوں اور نہایت سخت چڑھائی پر موٹر بالکل آرام سے چڑھ جاتی ہے لیکن جب راستہ میں ایک اور شہر آتا ہے تو وہاں غیر متوقع طور پر پھر ایک موٹر مل جاتی ہے اور اس موٹر کے مل جانے پر بھی ہماری موٹر بری طرح خراب ہو جاتی ہے لیکن ہم تکلیف سے بچ جاتے ہیں اور دوسری موٹر میں سوار ہو کر گھر پہونچ جاتے ہیں۔ غرض مومن تو دعائوں کی قبولیت کے نشان ہرروز دیکھتا ہے<۔۱۷
قبولیت دعا کا دوسرا نشان
اگست ۱۹۳۹ء میں قبولیت دعا کا ایک اور نشان بھی ظاہر ہوا۔ جس کا ذکر سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے حسب ذیل الفاظ میں فرمایا۔
>نماز استسقاء احمدیوں۱۸ نے ادا کی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کچھ بارش ہوگئی اس کے بعد دوسروں نے بھی ضد کی وجہ سے نما پڑھنا چاہی۔ مگر چونکہ انہوں نے یہ کہا کہ ہم احمدیوں کے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں ان کی نہ سنی گئی۔ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کی دعا بھی سن لیتا۔ مجھے بعض احمدیوں کی طرف سے بھی ایسے خطوط ملے کہ غیر احمدیوں نے دعا کی ہے اور ہندوئوں نے بھی جگ وغیرہ کیا ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی دعا نہ سنے۔ مجھے اس سے تکلیف ہوئی اور جب مجھے غیر احمدیوں اور ہندوئوں کی نسبت یہ معلوم ہوا کہ وہ کہتے ہیں کہ اب احمدی تو دعا کرچکے۔ اب ہم دعا کریں گے اور ہماری دعائوں سے بارش ہوگی تو مجھے اس سے بھی تکلیف ہوئی اور میں نے دل میں کہا کہ افسوس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی دینی نعمت سے تو محروم تھے ہی۔ مگر دنیوی نعمتوں کا دروازہ کھلا تھا۔ جسے انہوں نے اس طرح بند کرلیا۔ جب مجھے اس کی اطلاع ہوئی تو میں نے کہا کہ چونکہ انہوں نے مقابلہ کا رنگ اختیار کیا ہے۔ اس لئے اب انکی دعا نہیں سنی جائے گی اور تین روز تک تو بارش نہیں ہوگی۔ جب میں واپس آیا تو رستہ میں مجھے مولوی ابوالعطاء صاحب ملے۔ میں نے دریافت کیا کہ احرار نے ۲۶۔ تاریخ کو دعا کی تھی۔ اب تک بارش تو نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا نہیں ہوئی۔ میں نے کہا خیر اب تین دن گزر گئے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کا انتظار تھا۔ اب ہو جائے گی میں نے اسی وقت آسمان کی طرف نگاہ کرکے دعا کی کہ الٰہی تیرا بارش کا قانون تو عام ہے۔ وہ خاص بندوں سے تعلق نہیں رکھتا۔ مگر بعض اوقات دل میں امید پیدا ہوجاتی ہے جو اگر پوری نہ ہو تو بعض اوقات ابتلاء پیدا ہوتا ہے اور اگر پوری ہو جائے تو تقویت ایمان کا موجب ہوتا ہے اور میں نے دعا کی کہ ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر بارش ہو۔ رات کو میں نے انتظار کیا صبح دس بجے کے قریب میں اندر بیٹھا تھا کہ روشندانوں پر چھینٹے پڑنے کی آواز آئی بالکل معمولی ترشح تھا۔ میں نے دعا کی کہ خدایا ایسی بارش تو کافی نہیں۔ مخلوق کو تو ایسی بارش کی ضرورت ہے جس سے لوگ سیراب ہوں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میں باہر نکلا کہ باہر جو دفتر کے آدمی صفائی کررہے تھے انہیں دیکھوں کہ کام ختم کرچکے ہیں یا نہیں۔ میں نے دور ایک چھوٹی سی بدلی دیکھی اور دعا کی کہ خدایا اسے بڑھا دے اور پھیلا دے اور پندرہ منٹ کے بعد میں نے دیکھا کہ بارش شروع ہوگئی اور پانی بہنے لگا۔ تو یہ ایک نشان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے<۔۱۹
ترکستان کے پہلے احمدی خاندان کی ہجرت
اب تک ترکستان کے علاقہ میں احمدیت کی آواز نہ پہنچی تھی۔ مگر مجاہد تحریک جدید محمد رفیق صاحب کی تبلیغ سے ۱۹۳۸ء میں احمدیت کا بیج بویا گیا اور سب سے پہلے کاشغر کے ایک نوجوان حاجی جنود اللہ صاحب۲۰ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جو اپنے وطن سے چل کر چینی ترکستان اور کشمیر کے برفانی اور دشوار گزار کوہستانی علاقے طے کرتے ہوئے ستمبر ۱۹۳۸ء میں وارد قادیان ہوئے اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حاجی صاحب موصوف کی اپنے وطن سے روانگی ایسے موسم میں ہوئی۔ جب برف پگھلنی شروع ہوگئی تھی۔ آپ پیدل چلتے ہوئے کئی بار گلے تک برف میں دھنس گئے۔ ان خطرات اور مصائب کے علاوہ کئی ماہ کے اس لمبے سفر کے اخراجات اور راہداری اور پاسپورٹ کے ملنے میں تکالیف کو برداشت کرکے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے آخر منزل مقصود تک پہنچ گئے۔
حاجی صاحب کے ساتھ ان کی معمر والدہ اور ہمشیرہ بھی آنا چاہتی تھیں۔ لیکن پاسپورٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رک گئیں۔ حاجی صاحب کے وارد قادیان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور حضرت امیرالمومنینؓ کی دعائوں کی برکت سے ان کو بھی پاسپورٹ مل گیا اور وہ بھی ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو ایک دوسرے قافلہ کے ہمراہ قادیان کے لئے روانہ ہوگئیں اور بذریعہ تار اپنی روانگی کی اطلاع حاجی صاحب کو دی۔ اس پر حاجی صاحب قادیان سے براہ کشمیر گلگت کی طرف روانہ ہوگئے۔
حاجی صاحب قادیان سے گلگت تک چودہ پندرہ روز کا سفر آٹھ نو روز میں طے کرکے پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی والدہ و ہمشیرہ کرایہ کشوں کی سستی اور غفلت کے باعث ترکستان سے آنے والے پہلے قافلہ سے رہ گئی ہیں۔ اس بات کے معلوم ہونے پر آپ گلگت سے روانہ ہوگئے۔ تیسری منزل طے کررہے تھے کہ راستہ میں آپ کو وہ دوسرا قافلہ ملا۔ جس میں آپ کی والدہ اور ہمشیرہ سفر کررہی تھیں۔ حاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اس قافلہ کو میں نے دیکھا تو خیال کیا کہ ممکن ہے یہ وہی قافلہ ہو جس کے ہمراہ میری والدہ اور ہمشیرہ آرہی ہیں اور جب آپ نے قافلہ کے افراد پر نگاہ ڈالی تو پہاڑ کی چوٹی پر دو سیاہ برقعہ پوش سوار نظر آئے۔ جن کے گھوڑوں کی لگامیں دو کرایہ کشوں نے تھامی ہوئی تھیں۔ قافلہ کے نزدیک پہنچنے پر جب انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی ان کی والدہ اور ہمشیرہ ہی ہیں۔ یہ ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۸ء کی تاریخ اور عیدالفطر کا مبارک دن تھا۔ مگر جب آپ گلگت پہنچے تو معلوم ہوا کہ کشمیر کی طرف جانے کا راستہ برف باری کی وجہ سے بند ہوچکا ہے۔ آپ نے گلگت میں دس روز قیام کیا اس کے بعد اپنی والدہ و ہمشیرہ کو لے کر گیارہ دن میں چترال پہنچے یہ تمام سفر بھی گھوڑوں پر کیا گیا۔
چترال میں پانچ چھ روز ٹھہرنے کے بعد بذریعہ لاری مالا کنڈ اور درگئی کی طرف چل پڑے اور جب اشرت نام ایک پڑائو تک پہنچے تو پشاور کی طرف سے آنے والے ایک سرکاری افسر سے معلوم ہوا کہ برف باری کی وجہ سے دیر اور درگئی کا راستہ سخت خطرناک اور ناقابل عبور ہے۔ نیز اس افسر نے کہا کہ میں ایک سو قلی کے ساتھ بڑی مشکل سے پہنچا ہوں۔ آپ کے قافلہ میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں راستہ میں پچیس پچیس فٹ برف پڑی ہے اور پیدل چلنے کے سوا چارہ نہیں۔ اس لئے آپ واپس دروش چلیں۔ وہاں سے آپ کے جانے کے لئے جلال آباد والے راستہ سے انتظام کر دیا جائے گا۔
آخر پچیس میل واپس ہوکر دروش نامی پڑائو میں آٹھہرے لیکن پندرہ روز تک انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ کسی دوسرے راستہ سے جانے کا امکان نہیں اور بہرصورت واپسی والے راستہ ہی کو طے کرنا پڑے گا۔
آخری اسی راستہ پر دوبارہ چل کھڑے ہوئے اور پہلے اسرات اور پھر چھ میل کا سفر پیدل برف پر طے کرکے شام زیارت نامی پڑائو پر پہنچے۔ اگلے دن کا سفر نہایت ہی مشکل تھا کیونکہ چھ سات میل کی چڑھائی تھی اور برف نے راستہ کو زیادہ دشوار گزار بنا دیا تھا لیکن سوائے اس کے کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ آخر علی الصبح تین قلیوں اور حاجی صاحب کی مدد سے ان کی والدہ اور ہمشیرہ نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ دوسرے افراد قافلہ کے ساتھ بھی بیس بائیس قلی تھے۔ برف بہت گہری تھی۔ بصد مشکل صبح سے لیکر ظہر تک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ راستہ میں حاجی صاحب کی والدہ کئی دفعہ برف سے پھسل کر گر پڑیں۔ ان کی ہمشیرہ بھی اور خود حاجی صاحب بھی لیکن اس خطرہ کے پیش نظر کہ کہیں موسم زیادہ خراب نہ ہوجائے اور مزید برفباری نہ شروع ہو جائے۔ یہ مسافت طے کی۔
حاجی جنود اللہ صاحب کا بیان ہے کہ اس سے زیادہ سخت دن ہم پر کم آیا ہوگا۔ آخر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا اور آگ جلا کر گرمی حاصل کی پھر تمام قافلہ نو میل کی اترائی کی طرف روانہ ہوا۔ جس طرح چڑھائی سخت مشکل تھی۔ اسی طرف برف پر جو ڈھلوان تھی اس میں اترنا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ حاجی صاحب کی والدہ صاحبہ اب چلنے سے بالکل عاجز آگئیں اس لئے قلیوں نے ان کو اٹھا اٹھا کر اتارنا شروع کیا۔ جوں جوں رات قریب ہوتی جاتی تھی۔ خطرہ بڑھتا جاتا تھا۔ آخر جوں توں کرکے بخیریت و عافیت رات کو اگلی منزل گوجر پڑائو پہنچ گئے لیکن رات کو حاجی صاحب کی والدہ کو سفر کی بے حد تکلیف کی وجہ سے بخار` سردی اور تمام بدن میں دردیں شروع ہوگئیں۔ اور بعد کا سفر مشکل نظر آنے لگا۔ حاجی صاحب رات بھر اپنی والدہ صاحبہ کی تیمارداری میں مصروف رہے۔ صبح تک ان کی طبیعت قدرے بحال ہوگئی اور وہ تھوڑا بہت سفر کرنے کے قابل ہوگئیں۔
گوجر پڑائو سے چل کر دو تین میل کے فاصلہ پر گھوڑے کی سواری مل گئی۔ جس پر حاجی صاحب کی والدہ سوار ہوگئیں اور اس کے بعد تھوڑی دور جانے پر ہمشیرہ کے لئے بھی سواری کا انتظام ہوگیا۔ سامان وغیرہ قلیوں نے اٹھایا ہوا تھا۔ اس روز کا سفر نسبتاً آرام سے ہوا اور عصر کے وقت یہ قافلہ ریاست دیر میں پہنچا۔ یہاں رات آرام سے بسر کرکے صبح ۱۲۔ جنوری کو لاری پر درگئی پہنچ گئے۔ وہاں سے ریل پر سوار ہوکر ۱۳۔ جنوری کو امرتسر آپہنچے اور ۱۴۔ جنوری کی صبح قادیان دارالامان میں وارد ہوئے۔۲۱
اس کے بعد ۲۷۔ ستمبر ۱۹۳۹ء کو حاجی صاحب کے بڑے بھائی حکیم سید آل احمد صاحب اور حکیم صاحب کے بیٹے امان اللہ خاں۲۲ بھی انہیں دشوار گزار رستوں سے گزرتے ہوئے قادیان آپہنچے اور حضرت خلیفہ المسیحؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی اور پھر یہ خاندان قادیان میں ہی رہائش پذیر ہوگیا۔ مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں اسے دوسرے احمدیوں کے ساتھ ہی پاکستان میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ پاکستان آکر حاجی جنود اللہ صاحب نے سرگودھا میں بودوباش اختیار کرلی اور حکیم سید آل احمد صاحب مسجد احمدیہ راولپنڈی )واقع مری روڈ( کے ایک کمرہ میں مقیم ہوگئے۔ جہاں آپ کا ۱۷۔ دسمبر ۱۹۵۸ء کو انتقال ہوا۔ اور موصی نہ ہونے کے باوجود محض اپنے تقویٰ پرہیزگاری اور دین داری کے سبب حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے۔۲۳]body [tag
حضرت خلفیتہ المسیح الثانی کی بمبئی ریڈیو سے تقریر
۲۵۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو ساڑھے آٹھ بجے شام بمبئی ریڈیو سٹیشن سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی انگریزی تقریر >ہستی باری تعالیٰ< پر مقرر تھی۔ حضور ۲۳۔ اکتوبر کو قادیان سے بذریعہ کار لاہور تشریف لے گئے تا اپنی تقریر لاہور ریڈیو سٹیشن سے ریکارڈ کرائیں۔ حضور تقریر فرمارہے تھے کہ مشین کا ایک پرزہ بیکار ہوگیا۔ اس پر ریڈیو والوں نے تقریر کا مسودہ بمبئی بھجوا دیا اور حضور کی یہ تقریر ایک اور صاحب نے پڑھ کر سنائی اور حسب پروگرام بمبئی ریڈیو اسٹیشن سے نشر کی گئی۔
)الفضل ۲۵۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲(
حضور نے اپنی پرمعارف تقریر میں وجود باری تعالیٰ کے سات دلائل فرمائے۔ یہ دلائل سائینٹفیک انداز میں تھے اور قرآن مجید کی روشنی میں دیئے گئے تھے اور بہت اثر انگیز تھے۔ جن سے عہد حاضر کے فلاسفروں کے غلط نظریات کی واضح تردید ہوتی تھی۔
اس تقریر کا مکمل متن انگریزی رسالہ >ریویو آف ریلیجنز< )قادیان( مارچ ۱۹۴۰ء کے صفحہ ۱۲۳۔ ۱۳۱ میں شائع ہوا۔
تقریر سے متعلق ابتدائی اردو مسودہ جو آپ ہی کے قلم مبارک سے لکھا ہوا ہے اور چودہ صفحات پر مشتمل مگر ناتمام ہے اور اصل انگریزی متن سے مختلف ہے خلافت لائبریری میں موجود ہے۔ اس نامکمل مسودہ کے ابتدائی حصہ میں دہریت کے علمبردار فلاسفروں کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے وجود پر دو دلائل پیش کئے گئے ہیں۔
پہلی دلیل۔ انسان کی پیدائش کے بعد جسمانی ارتقاء بند ہوگیا ہے اور دماغی ارتقاء شروع ہوگیا ہے۔ اگر ان کی پیدائش ایک بالا ارادہ ہستی کے ذریعہ سے نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
دوسری دلیل۔ >موسیٰؑ` عیسیٰؑ` کرشن` رامچندر` زرتشت` محمد علیہم الصلٰوۃ والسلام ایسے وجود ہیں جنہوں نے اپنی پاکیزگی کو سورج سے زیادہ سے واضح کردیا ہے یہ سب لوگ ایک خدا کی شہادت دیتے ہیں جس نے ان سے کلام کیا اور اپنے وجود کو ان کے لئے ظاہر کیا<۔
قریشی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی پر قاتلانہ حملہ اور معجزانہ شفایابی
احمدآباد )کاٹھیاوار( کی احمدیہ جماعت تین نفوس پر مشتمل تھی۔ جن میں شیخ رحمت اللہ صاحب کاٹھگڑھی سب سے پرانے اور غریب احمدی
تھے۔ اس کے مقابل قصبہ میں اٹھارہ ہزار سرحدی پٹھان بودوباش رکھتے تھے۔ جن کے ملائوں نے احمدیوں کو کافر اور واجب القتل قرار دیکر قصبہ میں سخت اشتعال پیدا کردیا۔ ان کافرگروں نے ایک بار حکیم شیخ رحمت اللہ صاحب سے کہا کہ یا توبہ کرو یا ہمارے ساتھ مباحثہ کرلو۔ حکیم صاحب نے قادیان میں اطلاع دی جس پر مرکز کی طرف سے قریشی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی روانہ کردئے گئے جو ۱۲۔ نومبر ۱۹۳۹ء کو احمدآباد پہنچے اور ۱۵۔ نومبر ۱۹۳۹ء کو شوکت میدان میں مناظرہ قرار پایا۔ مگر قریشی صاحب جب مقررہ وقت پر شوکت میدان کے ہوٹل میں پہنچے تو ایک شخص نے آپ کے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا۔۲۴ اور ناف کے قریب بائیں جانب چھ انچ گہرا زخم ہوگیا۔ آپ خود ہی بھاگے ہوئے شوکت میدان سے تھانہ میں گئے۔ جہاں سے آپ ہسپتال پہنچا دئے گئے۔ پہلے پٹی باندھی گئی پھر اپریشن کیا گیا۔ تین روز تک حالت سخت تشویشناک رہی۔
قادیان سے ایک تو حکومت بمبئی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ احمدآباد کو توجہ دلائی گئی۔ دوسرے قادیان سے ملک عبدالعزیز صاحب اور حکیم فیروز دین صاحب مولوی صاحب کی تیمارداری کے لئے احمدآباد بھیجے گئے۔ یہ اصحاب ۱۷۔ نومبر ۱۹۳۹ء کو احمدآباد پہنچے اور اطلاع دی کہ اگرچہ پہلے تین روز زندگی کی کوئی امید نہیں تھی۔ مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے بزرگوں کی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی حالت خطرہ سے باہر ہے۔۲۵
قریشی صاحب موصوف اکیس روز تک سول ہسپتال میں صاحب فراش رہنے کے بعد ۹۔ دسمبر۲۶ ۱۹۳۹ء کو قادیان تشریف لے آئے۔ جہاں آپ کے زخم خدا کے فضل وکرم سے جلد جلد مندمل ہونے لگے اور آپ شفایاب ہوکر بدستور خدمت سلسلہ میں مصروف ہوگئے۔
‏0] f>[stیوم پیشوایان مذاہب< کی بنیاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً مذہبی نفرت و حقارت اور کشیدگی کم کرنے کے لئے ۱۹۲۸ء میں سیرت النبیﷺ~ کے مبارک جلسوں کی بنیاد رکھی تھی۔ جو عوامی فضا کو درست کرنے اور مسلم و غیر مسلم حلقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت ممدو معاون ثابت ہوئی۔ اس سلسلہ میں حضور نے دوسرا قدم قیام امن و اتحاد عالم کے لئے یہ اٹھایا کہ اپریل ۱۹۳۹ء کی جماعت مجلس شوریٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ایک دیرینہ خواہش کے مدنظر آئندہ کے لئے پیشوایان مذاہب کی سیرت بیان کرنے کے لئے بھی سال میں ایک دن مقرر فرما دیا۔ اور ہدایت فرمائی کہ اس دن تمام لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیان یا اپنے بانی مذہب کے حالات اس موقعہ پر بیان کریں۔۲۷
اس فیصلہ کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر میں پہلا یوم پیشوایان مذہب نہایت جوش و خروش سے ۳۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کو منایا گیا۔۲۸ اور بہت سے غیر مسلم معززین نے ان جلسوں میں شمولیت کی اور بعض جگہ تو خود غیرمسلموں نے جلسوں کا انتظام کیا اور اشتہار وغیرہ شائع کرائے۔ اور حضرت امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس جلسہ کی بناء رکھ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔۲۹ غرض یہ جلسے ہر طرح کامیاب رہے اور آئندہ کے >جلسہ سیرت النبیﷺ<~ کی طرح ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ان کا انعقاد ہونے لگا۔ جو اب تک کامیابی سے جاری ہے۔
جلیل القدر صحابہؓ کا انتقال
۱۹۳۹ء میں وفات پانے والے جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت میاں محمد سعید صاحب سعدی خلف الصدق حضرت میاں چراغ الدین صاحب رئیس لاہور۔ )وفات ۳۔ جنوری ۱۹۳۹ء(۳۰
۲۔
چوہدری محمد حیات خاں صاحب تمیم متوطن حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ۔ )بیعت فروری ۱۸۹۲ء بمقام سیالکوٹ تاریخ وفات ۷۔ جنوری ۱۹۳۹ء بعمر ۷۰ سال(۳۱
۳۔
حضرت اخوند محمد افضل خاں صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ ڈیرہ غازی خاں )تاریخ بیعت اکتوبر ۱۹۰۱ء۔ تاریخ وفات ۲۱۔ جنوری ۱۹۳۹ء(۳۲
۴۔
میاں کریم بخش صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ )تاریخ وفات ۲۵۔ جنوری ۱۹۳۹ء بعمر ۸۵ سال(۳۳
۵۔
حضرت منشی امام الدین صاحب )والد ماجدہ چوہدری ظہور احمد آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ اور برادر نسبتی حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی( ولادت ۱۸۶۳ء قبول احمدیت ۱۸۹۴ء۔ وفات ۲۶۔ جولائی ۱۹۳۹ء۔۳۴
اللہ تعالیٰ کے فضل اور آپ کی تبلیغ اور کوشش سے ضلع گورداسپور میں تین نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ )۱( تلونڈی جھنگلاں۔ )۲( لوہ چپ )۳( قلعہ گلانوالی۔ ان جماعتوں میں سے تلونڈی جھنگلاں )ضلع گورداسپور( کی جماعت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عہد مبارک میں ایک اشاعتی ادارہ >انجمن اشاعت اسلام< کے نام سے قائم ہوا تھا۔ جس کے سرپرست حضرت اقدس علیہ السلام۔ پریذیڈنٹ حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ خلیفتہ المسیح الاول اور وائس پریذیڈنٹ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ تھے۔ اس ادارہ کے حﷺ خریدنے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔ )الحکم ۱۷۔ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ سطر ۹۔ ۱۰(حضرت منشی صاحب ایک عظیم الشان نشان کے گواہ بھی تھے۔ چنانچہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۴۶ پر مندرجہ ذیل روایت درج فرمائی ہے۔
>منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی والے مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷ کی پیشی دھاریوال میں مقرر ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور محمد بخش تھانیدار کہتا ہے کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے۔ اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ >میاں امام الدین! اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا< اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہوگئی۔ اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا۔ اور آخر اسی نامعلوم بیماری میں وہ دنیا سے گزر گیا<۔
۶۔
راجہ اکبر خاں صاحب )متوطن بلانی ضلع گجرات۔ تاریخ وفات ۱۲۔ اگست ۱۹۳۹ء۔ نہایت متواضع اور منکسر المزاج بزرگ تھے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان مبارک میں بے ادبی کا لفظ قطعاً نہیں سن سکتے تھے۔ مخالفین میں احمدیت کا ذکر بڑی دلیری سے کرتے تھے۔ ایک خواب کی بناء پر اپنے ہاتھ سے ماہوار چندہ ادا کیا۔ اور کہا یہ میرا آخری چندہ ہے اس کے بعد میں اپنے ہاتھ میں چندہ نہیں دے سکوں گا۔ اپنے اکلوتے بچے )محمد شریف صاحب( کے لئے وصیت کی کہ اسے پڑھنے کے لئے قادیان بھیج دینا۔۳۵
۷۔
میاں مولا بخش صاحب دارالرحمت قادیان )سن بیعت ۱۸۹۱ء۔ تاریخ وفات ۲۶۔ ستمبر ۱۹۳۹ء بعمر ۸۵ سال(۳۶ تبلیغ احمدیت کا بہت جوش رکھتے اور نہایت احسن طرز پر پیغام حق پہنچاتے تھے۔
۸۔
حکیم حاجی عبدالخالق صاحب متوطن ڈیرہ غازی خاں )تاریخ وفات ۷۔ نومبر ۱۹۳۹ء( مولانا ابوالعطاء صاحب کے الفاظ میں۔ >جماعت ڈیرہ غازی خاں کے روح رواں` عبادت گزار` ملنسار` تبلیغ کے لئے سرگرم احمدی تھے<۔۳۷
۹۔
بابا شبرات علی صاحب بھاگلپوری )حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی ڈیوڑھی کے دربان( تاریخ وفات ۹۔ نومبر ۱۹۳۹ء بعمر ۹۵ سال۔۳۸
علاوہ ازیں صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے والدہ مولانا غلام احمد صاحب فرخ )تاریخ وفات ۱۵۔ جنوری ۱۹۳۹ء(۳۹ اور خلافت اولیٰ کے مبائعین میں سے مولوی شیخ علی محمد صاحب ساکن شام چوراسی ضلع ہوشیارپور۴۰ کا بھی اس سال وصال ہوا۔
‏tav.8.37
تاریخ احمدیت۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چھبیسواں سال
چھٹا باب )فصل دوم(
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی طرف سے خلافت جوبلی منانے کی تحریک
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۷ء کے موقعہ پر احباب جماعت کے
سامنے یہ تحریک رکھی کہ ۱۹۳۹ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے مبارک عہدہ خلافت پر پچیس سال کا عرصہ ہو جائے گا جو خداتعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔ جس کی شکر گزاری کا عملی ثبوت دینے کے لئے ہمیں اپنے پیارے امام ہمام اور محبوب آقا کے حضور تین لاکھ کی حقیر سی رقم بطور شکرانہ پیش کرنی چاہئے۔ جسے حضور جہاں پسند فرمائیں خرچ کریں۔۴۱
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خلافی جوبلی سے متعلق یہ اہم تحریک مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش فرمائی۔
>قریباً دو سال کا عرصہ گزرا۔ میرے دل میں یہ تحریک ہوئی کہ جس طرح دنیاوی نظام رکھنے والے لوگ اپنے نظام پر ایک عرصہ گزر جانے کے بعد خوشی اور مسرت کے اظہار کی کوئی صورت پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی کامیاب دینی نظام پر ایک عرصہ گزرنے پر اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار کریں۔ اس وقت شہنشاہ جارج پنجم کی جوبلی کا موقع تھا۔ اس کے بعد حضور نظام حیدرآباد اور سرآغا خاں کی جوبلی آئی۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بے شک بادشاہ بھی اور حکومتیں بھی اگر وہ عمدہ طریق پر چلائی جارہی ہوں۔ نعمت ہوتی ہیں اور اعلیٰ لیڈر بھی نعمت ہوتے ہیں لیکن ہمیں سب سے بڑھ کر قیمتی نعمت ملی ہوئی ہے۔ اس کے لئے ہمیں بھی خداتعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ اس نعمت کو عطا ہوئے پچیس سال ہونے کو آئے ہیں اور وہ نعمت خلافت ثانیہ ہے۔ خلافت ثانیہ ۱۹۱۴ء میں خداتعالیٰ نے قائم کی اور مارچ ۱۹۳۹ء کو اس پر پچیس سال پورے ہو جائیں گے۔ اس خیال سے میرے دل میں جوش پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور نمونہ کے طور پر اور اس نعمت کے شکریہ کے طور پر ہماری طرف سے بھی نذرانہ پیش ہونا چاہئے۔ اس وقت مالی رنگ میں میرے ذہن نے ایک تجویز سوچی اور وہ یہ تھی کہ جماعت میں اس کے متعلق ایک تحریک کی جائے۔ میں نے اس وقت یہ تحریک اپنے بعض دوستوں کی خدمت میں پیش کی تاکہ وہ اس میں خصوصیت کے ساتھ حصہ لیں۔ وہ تحریک یہ ہے کہ ہم ایک ایسی رقم جمع کریں جو کم از کم پہلے ایک وقت میں جماعت نے جمع نہ کی ہو اور وہ رقم مارچ ۱۹۳۹ء میں یا اس کے قریب کسی مناسب موقع پر مثلاً اس سال کی مجلس مشاورت پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی جائے اور حضور سے درخواست کی جائے کہ یہ جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کا اظہار ہے۔ حضور اس کو جس طرح پسند فرمائیں خرچ کریں۔
اس رقم کا اندازہ میں نے تین لاکھ روپیہ کیا ہے۔ میں نے اس رقم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک حصہ میں نے اپنے دوستوں کے لئے چھوڑا ہے اور اس کی مقدار ایک لاکھ روپیہ ہے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ ایک عام تحریک کرکے جماعت کے دوسرے احباب سے دو لاکھ روپیہ جمع کیا جائے۔ پہلا حصہ تو اسی وقت شروع کر دیا گیا تھا اور دوستوں نے توقع سے بڑھ کر اس میں حصہ لیا اور بعض نے مجھے لکھا کہ ان کے ذہن میں بھی یہ بات موجود تھی کہ کسی رنگ میں خلافت ثانیہ کی نعمت کے متعلق اظہار شکر کیا جائے۔ لیکن ان کے ذہن میں کوئی تجویز نہیں آئی تھی کہ کس رنگ میں اظہار شکر کیا جائے۔ جب میں نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی کوئی تحریک حضور کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہئے جس میں جماعت مخاطب ہو تو حضور نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے مجھے اس امر کی اجازت دی کہ میں اسے جماعت کے سامنے پیش کروں اور میں اس کے متعلق فخر اور خوشی محسوس کرتا ہوں کہ اس قسم کی تحریک کو جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی مجھے سعادت حاصل ہوئی۔
تحریک کے پہلے حصہ کے متعلق شرط یہ ہے کہ جو دوست کم سے کم ایک ہزار روپیہ کی رقم اپنے ذمہ لیں اور وعدہ کریں کہ وہ اتنے عرصہ کے اندر ادا کردیں گے۔ وہ شریک ہوں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ مارچ ۱۹۳۹ء تک اس کی ادائیگی ہوتی رہے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے ان پر اور بھی بہت سی مالی ذمہ داریاں ہیں اور خصوصاً وہ تحریک جو خود حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جاری فرمائی ہے۔ اس کا پورا کرنا جماعت کا فرض اولین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس تحریک کو قبل از وقت پیش کررہا ہوں۔ تاکہ سہولت سے رقم فراہم کی جاسکے۔ جن لوگوں نے پہلے سال وعدے کئے تھے۔ وہ گزشتہ دو سالوں میں ادائیگی کرتے رہے ہیں اور جو احباب اب وعدہ کریں۔ وہ باقی ماندہ عرصہ میں انہیں پورا کریں گے۔ پہلی تحریک پر ۸۵ ہزار کے وعدے آچکے ہیں اور کچھ رقم ادا بھی کی گئی ہے۔ یہ رقم خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں داخل ہوتی رہی ہے کیونکہ میں نے تحریک کی تھی کہ روپیہ یہاں ہی بھیجا جائے۔ میرا ارادہ تھا کہ میں تفصیل کے ساتھ اس کے متعلق بیان کرتا۔ لیکن اب میں مختصراً پہلے حصہ کے متعلق تحریک کرتا ہوں کہ جن اصحاب کو خداتعالیٰ توفیق دے۔ وہ ایک ہزار کی رقم اپنے ذمہ لیں اور بیت المال میں مارچ ۱۹۳۹ء تک یعنی پندرہ ماہ کے عرصہ میں بھجوا دیں۔ تحریک کا دوسرا حصہ عام ہے اور دو لاکھ روپیہ کی فراہمی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وقت اس کو بھی میں پیش کرتا ہوں تاکہ احباب جماعت مارچ ۱۹۳۹ء تک اس رنگ میں جو عشقیہ رنگ ہے اور جس میں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے جو عظیم الشان نعمت انہیں دی ہے اس پر ۱۹۳۹ء کے مارچ میں پورے پچیس سال ہوجائیں گے۔ اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کے طور پر دو لاکھ روپیہ کی رقم پیش کریں۔ بے شک باقی تحریکوں کا بوجھ بھی ہے جن کا پورا کرنا ان کے لئے لازمی ہے لیکن احمدی جماعت جسے اس نعمت کا احساس ہے اور اس محبت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اسے خلافت سے ہے۔ اگر اس تحریک پر لبیک کہے تو پندرہ ماہ میں اس رقم کا جمع کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ پس جو احباب وعدہ لکھائیں۔ وہ دفتر محاسب میں اقساط ادا کریں وہیں حساب رکھا جائے گا۔ احباب انفرادی حیثیت میں بھی اور جماعتی طور پر بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ جماعتوں کے جو نمائندے یہاں موجود ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ جماعتوں میں جاکر اس کی تحریک کریں<۔۴۲
اس کے بعد ۲۷۔ اپریل ۱۹۳۸ء کو چودھری صاحب موصوف نے اس تحریک کی خصوصیت و اہمیت پر تقریر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ >خلافت جوبلی فنڈ کو چونکہ میرے نام سے ایک گونہ تعلق ہے۔ خصوصاً اس لئے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اس تحریک کو جماعت کے سامنے پیش کرنے کی مجھے اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ لہذا اس کے متعلق میں ایک دو باتیں خصوصیت سے بیان کردیتا ہوں۔
یہ عجیب اتفاق ہے اور یہ خداتعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ آئندہ سال ہمیں وہ تین نوع کی خوشیوں کا موقع عطا فرمانے والا ہے۔ دو تو پہلے بھی میرے ذہن میں تھیں لیکن تیسری نوع کی خوشی کا بعد میں علم ہوا۔ پہلی خوشی تو یہ ہے کہ خلافت ثانیہ کا عہد مبارک آئندہ مارچ یعنی ۱۹۳۹ء میں پچیس سال کا ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ دوسری یہ کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمر کے پچاس سال بھی آئندہ سال پورے ہوں گے۔ کیونکہ ۱۲۔ جنوری ۱۸۸۹ء آپ کی پیدائش کا دن ہے اور پچاس سال بھی جوبلی کا موقع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک تیسری بات بھی ہے۔ جس کی طرف مولوی جلال الدین صاحب شمس نے اپنے ایک مضمون میں جو الفضل میں شائع ہوچکا ہے۔ توجہ دلائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ سال خود سلسلہ کے قیام پر بھی پچاس سال پورے ہو جائیں گے۔
ہمارے ذہن میں تو پچیس سالہ جوبلی ہی تھی لیکن یہ حسن اتفاق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے اخلاص کی قبولیت اور اس کے متعلق خوشنودی کا اظہار ہے کہ ہمارے لئے ایک کی بجائے تین جوبلیاں آنے والی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کے لئے جو پہلا اشتہار دیا۔ اس کی تاریخ ۱۲۔ جنوری ۱۸۸۹ء ہے اور اسے ایک رنگ میں سلسلہ کی ابتداء سمجھنا چاہئے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کے لئے پہلا اشتہار فرمایا یعنی ۱۲۔ جنوری ۱۸۸۹ء کو۔ اسی روز حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی پیدائش ہوئی۔ غرض ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ تین مواقع خوشی کے عطا فرمائے ہیں۔ ان کے شکرانہ کے طور پر ہمیں کم از کم تین لاکھ روپیہ جمع کرکے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا چاہئے<۔۴۳
مخلصین کی شاندار قربانی
جوبلی فنڈ کی اس تحریک پر مخلصین جماعت نے خلافت سے عقیدت و محبت اور ایثار و قربانی کا ایسا شاندار نمونہ دکھایا کہ اغیار بھی عش عش کر اٹھے۔ دنیا بھر کی احمدی جماعتوں میں سے قادیان کی مقامی احمدی جماعت نے اور افراد جماعت میں سب سے زیادہ چندہ خود چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے دیا۔۴۴
جوبلی منانے کے لئے مشورہ
یہ تو خلافت جوبلی فنڈ کے جمع کئے جانے کا ذکر ہے۔ جہاں تک جوبلی کی تقریب کے انعقاد کا تعلق ہے۔ اس کی تفصیلات طے کرنے میں بڑی حزم و احتیاط اور بار یک نظری سے کام لیا گیا۔ تا اس موقعہ پر جذبات تشکر و امتنان کے اظہار کا طریق خالص دینی ہو۔
اس اہم مقصد کے پیش نظر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ۹۔ فروری ۱۹۳۹ء کے الفضل میں ایک مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں احباب جماعت سے یہ مشورہ طلب کیا گیا کہ خلافت جوبلی کب اور کس رنگ میں منائی جائے؟ اس مضمون پر احمدی دوستوں نے کثرت کے ساتھ اپنے مشورے اور تجاویز مرکز میں بھجوائیں۔
>سب کمیٹی تکمیل پروگرام جوبلی< کی تشکیل
یہ پہلا مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوچکا تو ۲۶۔۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو جلسہ خلافت جوبلی کے پروگرام کی تشکیل و تکمیل کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی۔ جس کے صدر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور ممبر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحبؓ ناظر دعوۃ و تبلیغ اور سیکرٹری مولانا عبدالرحیمؓ صاحب درد تھے۔ جو تجاویز احباب کی طرف سے موصول ہوئی تھیں۔ وہ سب کمیٹی کے سپرد کردیں گئیں۔
اس کمیٹی نے ۲۹۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو اپنا پہلا اجلاس کیا۔ بالاخر ۲۵ تجاویز پاس کیں جو مشاورت ۱۹۳۹ء میں نظارت علیا کی سب کمیٹی کے سامنے رکھی گئیں۔
مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء میں سب کمیٹی نظارت علیا کی رپورٹ
سب کمیٹی نظارت علیاء نے کچھ ترمیم کے ساتھ ان پچیس تجاویز میں سے اکیس تجاویز کی سفارش کرتے ہوئے مجلس مشاورت میں حسب ذیل رپورٹ پیش کی۔
سب کمیٹی کے سامنے ایک دوسری رپورٹ >رپورٹ سب کمیٹی تکمیل پروگرام جوبلی< کے زیر عنوان پیش ہوئی۔ جو ایک سب کمیٹی کی مرتب کردہ ہے جو ۲۹۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو منعقد ہوئی اور جس کے صدر حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ۔ سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے۔ اور ممبران حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مولوی عبدالمغنی خاں صاحبؓ تھے۔
اس سب کمیٹی نے اس امر کے متعلق تجاویز پیش کی ہیں کہ خلافت جوبلی کو کب اور کس طرح منایا جائے۔ اس رپورٹ پر بھی ہماری سب کمیٹی نے شروع سے آخر تک پورا غور کیا اور اس میں مناسب تغیر و تبدل کے ساتھ کمیٹی ہذا مندرجہ ذیل تجاویز عرض کرتی ہے۔
)۱( جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کو جوبلی کے لئے مخصوص کردیا جائے۔ تا جماعت دو سفروں کی تکلیف اور دوہرے اخراجات کے بوجھ سے بچ جائے اور زمیندار احباب اور ملازمت پیشہ اصحاب ہر دو کو سہولت بھی رہے۔ )۲( جوبلی کا جلسہ قادیان میں نہایت شاندار اور وسیع پیمانے پر ہونا چاہئے اور اس میں شرکت کے لئے ہندوستان کے مختلف حصوں سے بلکہ ممکن ہو تو بیرونی ممالک سے بھی کثیر تعداد میں غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب اور نمائندگان پریس کو قادیان آنے کی دعوت دی جائے اور یہ بھی کوشش کی جائے کہ احمدی احباب اس جلسے میں زیادہ سے زیادہ شریک ہوں۔ اس کے لئے یہ بھی مناسب ہوگا کہ ہندوستان میں کسی اور جگہ اس تقریب پر جلسہ وغیرہ نہ کیا جائے۔ )۳( اس تقریب پر >الفضل< کا ایک خاص جوبلی نمبر بھی نکالا جائے جس میں خلافت سے تعلق رکھنے والے مسائل پر بحث ہو اور خلافت ثانیہ کی برکات پر بھی مناسب مضامین ہوں اور کچھ حصہ سلسلے کے متعلق عام تبلیغی اور عملی مضامین کا بھی ہو اور اگر ممکن ہو تو اس >جوبلی نمبر< میں مناسب تصاویر بھی درج کی جائیں۔ )۴( صدر انجمن احمدیہ سے سفارش کی جائے کہ اس جلسہ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصنیفات` )جو تصنیفات اس وقت نایاب ہوں( انہیں دوبارہ طبع کرا کر شائع کیا جائے۔ تاکہ اس قیمتی خزانہ میں سے کوئی حصہ نایاب نہ رہے اور سلسلہ کی تبلیغ میں ایک نئی جان پیدا ہو جائے اور تقطیع مقرر کر دی جائے۔ جس کے مطابق آئندہ تمام کتب چھپا کریں۔ )۵( قادیان میں ایک مکمل لائبریری کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ صادق لائبریری میں کچھ قیمتی کتابیں موجود تو ہیں لیکن ان کو حفاظت سے رکھنے اور ان کو استعمال کرنے کی جگہ کا مناسب انتظام نہیں ہے اور سائنس` فلسفہ` اقتصادیات اور مغربی تحریکات اور اخبارات اور رسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے اس کی ترقی اور توسیع نہایت ضروری ہے کیونکہ قادیان ایک بہت بڑا علمی مرکز ہے۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اس ضمن میں ایک تجویز کی ہے جسے صدر انجمن احمدیہ منظور کرچکی ہے۔ اگر وہ اسی سال اس کام کو شروع کرسکیں تو بہت مناسب ہوگا۔ یعنی لائبریری کی اپنی عمارت کا سنگ بنیاد اس موقعہ پر رکھ دیا جائے۔ )۶( سلسلہ عالیہ احمدیہ کی پچاس سالہ ترقیات کا ایک چارٹ نظارت دعوۃ و تبلیغ کو تیار کرانا چاہئے۔ تاکہ ایک طرف تو سلسلہ کا ریکارڈ محفوظ ہو اور دوسری طرف سعید روحیں سلسلہ کی ترقیات پر یکجائی نظر ڈال سکیں اور اس طرف کھچی آئیں۔ یہ چارٹ اگر سہ رنگا ہو تو بہت اچھا ہوگا۔ تو بہت اچھا ہوگا یعنی ایک رنگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ترقیات کو دکھائے` دوسرا حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے زمانے کو اور تیسرا خلافت ثانیہ کی برکات کو۔
)۷( جماعت احمدیہ کا کوئی مناسب جھنڈا مقرر کیا جائے۔ جسے باقاعدہ طور پر جلسہ جوبلی کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے نصب کرانے کی درخواست کی جائے۔
)۸( اس تقریب پر ایک پاکیزہ مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے۔ جس میں سلسلہ کے چیدہ شعراء۔ سلسلہ احمدیہ` اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور خلافت کی برکات کے متعلق اپنے اشعار پڑھ کر سنائیں۔
)۹( سب کمیٹی تیار کنندہ خلافت جوبلی پروگرام کی ایک تجویز یہ ہے کہ اس موقع پر قادیان میں ایک عظیم الشان جلوس بھی نکالا جائے۔ جس میں ہر جماعت کا علیحدہ علیحدہ دستہ ہو اور ہر دستے کا علیحدہ علیحدہ جھنڈا ہو۔ جس پر مناسب عبارت لکھی ہوئی ہو اور اس جلوس میں حمد اور مدح کے گیت گائے جائیں اور مناسب موقعوں پر مختصر تقریریں ہوں اور جلوس کسی مناسب جگہ اور مناسب رنگ میں حضرت اقدس کے سامنے سے گزرے۔
مگر کمیٹی ہذا کے خیال میں جلوس والے حصہ تجویز میں بعض عملی دقتیں ہیں۔ اس لئے کمیٹی ہذا یہ تجویز کرتی ہے کہ بیرونی جماعتیں اپنے اپنے مقام سے ہی حتی الامکان جلوس کی صورت میں روانہ ہوں اور قادیان میں ریلوے سٹیشن پر مرکز کی طرف سے استقبال کے لئے کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ ریلوے اسٹیشن سے کسی مخصوص مقام تک احباب جلوس کی صورت میں ہی آئیں۔ علاوہ ازیں کمیٹی ہذا یہ بھی تجویز کرتی ہے کہ اگر ممکن ہو تو دہلی` پشاور اور ملتان` وغیرہ مقامات سے سپیشل گاڑیاں چلوائی جائیں۔ جوکہ براہ راست قادیان تک آئیں اور راستہ میں آنے والی جماعتیں ان سپیشل گاڑیوں پر سوار ہوں۔
)۱۰( اس تقریب پر ایک رات معین کرکے قادیان کی تمام مساجد۔ منارۃ المسیح۔ بہشتی مقبرہ۔ قصر خلافت اور سلسلے کی دیگر پبلک عمارات پر چراغاں کیا جائے اور پبلک بھی اپنے اپنے گھروں میں چراغاں کرے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانے میں بھی بعض خوشی کے مواقع پر ہوا ہے۔ یہ چراغاں خوشی کے طبعی اظہار کے علاوہ تصویری زبان میں اس بات کی بھی علامت ہوگا کہ جماعت کی دلی خواہش اور کوشش ہے کہ اللہ تعالیٰ سلسلے کے نور کو بہتر سے بہتر صورت میں اور جلد سے جلد دنیا کے تمام کناروں تک پہنچائے۔
)۱۱( مرکزی لجنہ اماء اللہ بھی اپنا ایک جلسہ منعقد کرے اور اس کے ساتھ صنعتی نمائش بھی ہو۔
)۱۲( حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی سالانہ دو تقریروں کے علاوہ باقی تقریریں مندرجہ ذیل مضامین پر ہوں اور ہر ایک تقریر کا جدا جدا مضمون ہو۔
شان محمود۔ نظام خلافت۔ برکات خلافت سلسلہ عالیہ احمدیہ۔
)۱۳( ہر ایک جماعت کو چاہئے کہ اپنا اپنا جھنڈا یعنی ماٹو تیار کرکے اپنے ہمراہ لائے۔ تا تمام اطراف عالم میں تبلیغ ہو اور سلسلے کا تنظیمی رعب قائم ہو۔
)۱۴( اس تقریب پر جلسے سے پہلے یا بعد وقار سلسلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی جسمانی کھیلوں کی نمائش یا ورزشی مقابلے بعض ادارے اپنی طرف سے کرنا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔
)۱۵( ہوسکے تو جلسہ اور جلوس وغیرہ کی ایک مناسب فلم تیار کروائی جائے جو تبلیغی لحاظ سے مفید ہوسکے لیکن اس پر ہماری طرف سے کچھ خرچ نہ ہو بلکہ کسی بیرونی کمپنی وغیرہ کو دعوت دیکر کوئی انتظام کروایا جائے۔
)۱۶( کوشش کی جائے کہ اس تقریب پر قادیان سے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ایک مختصر تقریر ساری دنیا میں ریڈیو کے ذریعہ براڈ کاسٹ کروائی جائے۔
)۱۷( اس تقریب پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں مندرجہ ذیل ایڈریس پیش کئے جائیں۔
)ا( تمام جماعت ہائے احمدیہ ہندوستان کی طرف سے )ب( لجنہ اماء اللہ کی طرف سے )ج( صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے۔ )د( خدام الاحمدیہ و نیشنل لیگ کی طرف سے )ہ( بلاد عربیہ کی طرف سے )و( بلاد عجم کی طرف سے )ز( یورپ و امریکہ کی طرف سے )ح( مشرقی افریقہ کی طرف سے )ط( مغربی افریقہ کی طرف سے )ی( جزائر شرق الہند کی طرف سے۔
)نوٹ( یہ ضروری ہوگا کہ ایڈریس پڑھنے والا اسی ملک کا احمدی ہو جس کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جائے۔
)۱۸( خلافت جوبلی فنڈ کے جمع شدہ روپے کا چیک حضور کی خدمت میں پیش کیا جائے کہ حضور اس روپے کو جس مصرف اور جس رنگ میں پسند ہو۔ خرچ فرمائیں۔
)۱۹( اوپر کے تمام اور دیگر انتظامات متعلقہ جوبلی کے سرانجام دینے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کی جائے جس کے ممبر حسب ذیل اصحاب ہوں۔
)۱( مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب صدر )۲( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب )۳( ناظر دعوۃ و تبلیغ )حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحبؓ۔ ناقل( )۴( ناظر ضیافت )حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ۔ )ناقل( )۵( مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے سیکرٹری۔
)۲۰( اوپر کی سب کمیٹی کا بجٹ مندرجہ ذیل ہونا چاہئے۔
چراغاں ۳۰۰ روپیہ۔ جلوس ۱۰۰ روپیہ۔ کاسٹک ایڈریس ۲۰۰ روپیہ۔ پروگرام وغیرہ ۲۰۰ روپیہ۔ جھنڈا ۱۰۰ روپیہ۔ متفرق ۲۵۰ روپیہ۔ میزان= ۱۱۵۰ روپے
)۲۱( اس رقم کی فراہمی کے لئے خاص اپیل کی جائے۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؑ کی طرف سے ارشاد
مجلس مشاورت میں رپورٹ پیش ہونے پر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے فرمایا۔
>جو تجاویز اس وقت سب کمیٹی کی طرف سے پیش ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض سفارشات کا رنگ رکھتی ہیں۔ بعض ایسی ہیں جن کا تعلق شوریٰ سے نہیں ہے۔ ان کے متعلق شوریٰ سے مشورہ لینا فائدہ مند نہیں۔ وہ تو محکموں کو بھجوا دینی چاہئیں۔ مثلاً >الفضل کا خاص نمبر< یا یہ کہ >تصنیفات شائع کی جائیں< یا >قادیان میں ایک اپ ٹو ڈیٹ لائبریری ہو<۔ اس تجویز کی صدر انجمن احمدیہ پہلے منظور دے چکی ہے۔ ہم نے اگر یہاں اس کو پاس کردیا۔ تو صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے جھٹ اس کا بجٹ آجائے گا۔ اس لئے اس کو سفارش تک محدود کیا جائے۔
>پچاس سالہ< ترقیات کے چارٹ کی تجویز۔ یہ بھی صدر انجمن احمدیہ بنوائے۔ لجنہ اماء اللہ کا جلسہ اور صنعتی نمائش کی تجویز پر بحث کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح تجویز ۱۴۔ ۱۷۔ ۱۹۔ ایسی ہیں کہ یہ مشورہ یا سفارش تک تعلق رکھتی ہیں۔ پس یہ کہہ دیا جائے کہ یہ >سفارشات شوریٰ پیش کرتی ہے<۔ میں پہلے صرف ان کو لیتا ہوں جو سفارش کا رنگ رکھتی ہیں۔ شوریٰ کو ان کے فیصلہ سے تعلق نہیں۔ میں پھر بتا دیتا ہوں کہ وہ تجاویز یہ ہیں۔ )۱( الفضل کا خاص نمبر۔ )۲( نایاب کتب کی اشاعت کا انتظام )۳( پچاس سالہ ترقیات کا چارٹ )۴( تمام احباب کی رہائش کا انتظام نظارت کرے )۵( مشاعرہ )۶( لجنہ اماء اللہ کا جلسہ ہو )۷( ہر جماعت کا جھنڈا ہو )اس کو میں نے کاٹ دیا ہے( )۸( جسمانی کھیلیں<۔۴۵
لوائے احمدیت سے متعلق تجویز کی منظوری
اس وضاحت کے بعد حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیحؑ نے خلافت جوبلی سے متعلق سب کمیٹی کی ہر ضروری تجویز پر خدام سے مشورہ کرکے فیصلے فرمائے۔ چنانچہ احمدیت کے جھنڈے کی نسبت فرمایا۔
>یہ تو ثابت ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کا جھنڈا قائم رکھا جاتا تھا۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ اب تک ترکوں کے پاس رسول کریم~صل۱~ کا جھنڈا موجود ہے۔ یہ صحیح ہو یا نہ ہو۔ بہرحال ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کے پاس جھنڈا قائم رہا۔ اس لئے اس زمانہ میں بھی جو ابھی احمدیت کا ابتدائی زمانہ ہے۔ ایسے جھنڈے کا بنایا جانا اور قومی نشان قرار دینا جماعت کے اندر خاص قومی جوش کے پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے پیسہ پیسہ یا دھیلہ دھیلہ کرکے مخصوص صحابہ سے ایک مختصر سی رقم لیکر اس سے روئی خریدی جائے اور صحابیات کو دیا جائے کہ وہ اس کو کاتیں اور اس سوت سے صحابی درزی کپڑا تیار کریں۔ اسی طرح صحابہ ہی اچھی سی لکڑی تراش کر لائیں۔ پھر اس کو باندھنے کے بعد جماعت کے نمائندوں کے سپرد کیا جائے کہ یہ ہمارا پہلا قومی جھنڈا ہے۔ پھر آئندہ اس کی نقل کروالی جائے۔ اس طرح جماعت کی روایات اس سے اس طرح وابستہ ہو جائیں گی کہ آئندہ آنے والے لوگ اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہوں گے<۔۴۶
مشاعرہ کی ممانعت
سب کمیٹی نظارت علیاء نے >خلافت جوبلی< پر مشاعرہ کی سفارش کی تھی۔ جس کی اجازت حضور نے نہیں دی۔ چنانچہ فرمایا۔
>موجودہ حالات میں میری رائے یہی ہے کہ مشاعروں میں تکلف زیادہ پایا جاتا ہے اور اس لئے بجائے اس کے عام تحریک کر دینی چاہئے کہ دوسعت شعر کہیں۔ اور اسی رنگ میں اعلان کر دینا چاہئے اور اس طرح جو نظمیں آئیں ان کو تقریروں کے دوران میں ہی پڑھنے کا موقع دے دیا جائے۔ ان نظموں کو پہلے دیکھ بھی لینا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ بلاوجہ لمبی نہ ہوں۔ خلاف ادب مضامین ان میں نہ ہوں۔ خلاف علم نہ ہوں اور صرف وہی نظمیں پڑھنے کی اجازت دی جائے جو دینی جوش کے ماتحت کہی گئی ہوں<۔۴۷
چراغاں کی مشروط منظوری
حضرت امیرالمومنینؓ نے >خلافت جوبلی< پر چراغاں کی اجازت دیتے ہوئے فیصلہ صادر فرمایا۔
>میری خلافت کی جوبلی جو منائی جارہی ہے۔ یہ کوئی انفرادی تقریب نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ میں نظام سلسلہ کی ایک کڑی ہوں اور میرے خلیفہ ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ مجلس بھی جماعت کی نمائندہ ہے۔ اس لئے روپیہ ایسے طور پر خرچ کرنا چاہئے کہ ضائع نہ ہو اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ حیوانی جذبات پورے کرنے کا سامان نہ ہو۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے اندر کشش رکھتی ہیں اور چراغاں بھی ایسی ہی چیزوں میں سے ایک ہے۔ شادی بیاہ کے مواقع پر لوگ چراغاں کرتے ہیں اور اس موقعہ پر اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ مہمان آئے ہوتے ہیں۔ سامان بکھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے اس موقعہ پر اس کا فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر اس تقریب پر اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ اس لئے اس تحریک کو یوں بدل دیا جائے کہ منارہ پر روشنی کا انتظام کر دیا جائے۔ منارہ پر جو بڑے لیمپ ہیں وہ روشن کردیئے جائیں۔ اور ان کے نیچے چھوٹے لیمپ لگا دیئے جائیں۔ تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نشان بھی پورا ہو۔ اس طرح فضول خرچی بھی نہیں ہوگی۔ ایک ایسی تقریب جو اپنی نوعیت کی پہلی تقریب ہے ہمیں ایسے رنگ میں منانی چاہئے کہ اس میں کوئی بات فضول نہ ہو۔
اگرچہ جیسا کہ میں نے بتاتا ہے۔ بعض اوقات عبث کام بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شاہی جوبلیوں کے مواقع پر چراغاں کیا ہے۔ کیونکہ سارے ملک میں یہ کیا گیا تھا۔ اور اس وقت اگر آپ ایسا نہ کرتے تو سیاسی رنگ میں یہ قابل اعتراض بات ہوتی۔ پس ضرورت کے موقعہ پر بے شک جائز ہے۔ اس وقت چونکہ ضرورت تھی۔ آپ نے ایسا کر دیا۔
پس میں یہی فیصلہ کرتا ہوں کہ منارۃ المسیح پر روشنی کا انتظام کر دیا جائے۔ تا اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی روشنی کو جو بڑھایا ہے۔ اس کا ظاہری طور پر بھی اظہار ہو جائے۔ باقی اس موقعہ پر صدقہ خیرات کردیا جائے اور چونکہ قادیان کے غریب احمدی تو لنگرخانہ سے کھانا کھائیں گے ہی۔ اس لئے جہاں جو صدقہ کیا جائے وہ غیر احمدیوں بلکہ ہندوئوں اور سکھوں کو بھی دیا جائے<۔۴۸
‏]sub [tag
جلوس کی نسبت فیصلہ
حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں جلوس کی اجازت مرحمت فرمائی۔
>میرا خیال ہے جلوس کا سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے بھی آیا ہے۔ اور آپؑ نے اسے پسند فرمایا ہے کہ اس سے لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہزاروں احمدی ہوچکے ہیں۔ اس طرح کے جلوس صحابہ سے یہ بھی ثابت ہیں کہ ہجوم کرکے بعض موقعہ پر چلتے تھے۔ عید کے متعلق ہی رسول کریم~صل۱~ کا ارشاد ہے کہ ایک رستہ سے جائو اور دوسرے سے آئو۔ اس سے بھی ایک جلوس کی صورت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپﷺ~ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہان تک ہوسکے۔ اکٹھے آئو۔ جائو۔ اس سے دشمنوں پر رعب ہوتا ہے اور ان کو یہ دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے کہ سلسلہ کو کتنی ترقی ہوچکی ہے اور ویسے جلوس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں جلوس کا طریق غلط ہے۔ اسے تماشا بنا لیا جاتا ہے۔ بجائے سنجیدہ بنانے کے` میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہجوم اپنے طور پر چلتا جائے اور ہر شخص اپنی پسند کے مطابق شعر پڑھے یا سنے۔ بناوٹ اور تصنع کی کوئی ضرورت نہیں<۔
۔پس میں سب کمیٹی کی تجویز کو اس شرط پر منظور کرتا ہوں کہ وقار اسلامی کو مدنظر رکھا جائے۔ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے احمدیت کی شوکت کا اظہار ہو اور ایسا نہ ہو جس سے اس کے وقار کو صدمہ پہنچے<۔۴۹
فلم بنانے کے خلاف فیصلہ
جہاں تک اس سفارش کا تعلق تھا کہ جلسہ خلافت جوبلی پر کسی فلم کمپنی کو دعوت دی جائے کہ وہ جلسہ کی فلم لے۔ حضور نے یہ سفارش بالکل مسترد کردی۔ مگر ساتھ ہی فرمایا۔ >اس تجویز کو میں رد کرتا ہوں۔ مگر اس کے باوجود میں بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ میرا یہ فیصلہ اس بنیاد پر ہے کہ فلم لئے جانے کی کوئی چیز ہی اس تقریب میں نہ ہوگی۔ پھر اگر ہوبھی تو کسی کمپنی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ آکر اس جماعت کی کسی تقریب کی فلم تیار کرے۔ جس نے جاکر اس کو دیکھنا ہی نہیں۔ فلم کمپنیوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اصل کھیل سے پہلے کوئی حصہ علمی یا اخباری رکھ دیتے ہیں اور اس وقت بعض لوگ سگریٹ پیتے اور چاکلیٹ کھاتے ہیں اور کچھ اسے دیکھ بھی لیتے ہیں جن کو اس سے کوئی دلچسپی ہو۔ اگر تو احمدیوں نے جاکر دیکھنا ہو تو کوئی کمپنی فلم تیار کرسکتی ہے۔ وہ سمجھے گی کہ کیا ہوا۔ اگر ہزار روپیہ خرچ ہوگیا تو ہزارہا کی آمد بھی توہوگی۔ مگر ہم نے جب دیکھنا ہی نہیں تو کیا ہم کسی سے کہیں گے کہ آپ تشریف لائیں اور فلم تیار کریں۔ مگر ہم دیکھیں گے نہیں بلکہ دوسروں کو بھی نصیحت کریں گے کہ آپ کے پاس نہ پھٹکیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی انشورینس کمپنی قادیان میں آکر اپنا دفتر کھول دے۔ اس لئے یہ بات ہی غلط ہے کہ کوئی کمپنی آکر فلم تیار کرے گی<۔۵۰
>سب کمیٹی تکمیل پروگرام جوبلی< کی زبردست جدوجہد
خلافت جوبلی کمیٹی نے دوران سال میں اپنے متعدد اجلاس کئے اور ہر امر پر پورے غور و مشورہ کے بعد جملہ امور کا انتظام کیا۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب چونکہ قادیان سے بلکہ ہندوستان سے بھی باہر تشریف لے گئے تھے۔ اس لئے وہ تمام اجلاسوں میں شریک نہیں ہوسکے۔ مگر ان کے منشاء کے ماتحت ان کی عدم موجودگی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صدارت کے فرائض نہایت عمدگی سے سرانجام دیتے رہے۔ حضرت امیرالمومنین نے بعد میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کو بھی اس کمیٹی کا ممبر مقرر فرما دیا تھا۔
لوائے احمدیت کا اہتمام
کمیٹی کے سامنے جو کام درپیش تھے۔ ان میں سب سے اہم >لوائے احمدیت< کا تیار کرنا تھا۔ جس کے متعدد پہلو قابل غور تھے۔ اول جھنڈے کے ڈیزائن` یعنی شکل کا فیصلہ۔ دوم صحابہ اور صحابیات حضرت مسیح موعودؑ سے اس کے اخراجات کے لئے چندہ وصول کرنا۔ سوم ان سے کپڑا تیار کرانا۔ چہارم جھنڈے کی لمبائی چوڑائی وغیرہ کا فیصلہ کرکے اس کو بنوانا۔ پنجم پول تیار کرانا۔ ششم جھنڈے کا نصب کرنا۔ ہفتم اس کا لہرانا۔ چونکہ یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے کمیٹی کے لئے بالکل نئی قسم کا تھا۔ اس لئے ہر مرحلہ پر اور آخر وقت تک کمیٹی کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا رہا۔ جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
اس سلسلہ میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک کمیٹی مقرر فرما دی تھی جس کے ممبران حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ اور حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تھے۔ اس کمیٹی نے نومبر میں اپنی رپورٹ تیار کرکے بھیجی۔ جو حضور کی خدمت مبارک میں پیش کی گئی اور بالاخر حضور نے جھنڈے کی ایک معین شکل منظور فرمالی۔
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح~ع۱~ کے فیصلہ مشاورت کی تعمیل میں کمیٹی نے صحابہ کرام سے چندہ کی اپیل کی اور اس فنڈ میں دفتر محاسب کے پاس تیئیس روپے آٹھ آنے تین پیسے جمع ہوئے۔ لیکن یہ محسوس کیا گیا کہ اخراجات اس سے بہت زیادہ ہوں گے۔ نیز معلوم ہوا کہ بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوگئی ہے کہ ایک پیسہ سے زیادہ چندہ نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے مزید روپے کے لئے دوبارہ اپیل شائع کی گئی اور ایک خاص محصل کے ذریعہ کوشش کی اور قادیان اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں ان دنوں جو صحابہ موجود تھے۔ ان سے خاص طور پر چار آنے تک کی رقم فراہم کی اور بعض نے اس سے بھی زیادہ رقم عطا فرمائی۔ اس طرح ایک سو تیس روپے کے قریب جمع ہوگیا۔
روئی کی خرید کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ایسی کپاس مل جائے` جسے صحابیوں نے کاشت کیا ہو تو بہت اچھا ہو۔ چنانچہ حضور کو اطلاع ملی کہ سندھ میں اس قسم کی کپاس موجود ہے۔ گو وہاں سے تو ایسی کپاس نہ مل سکی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس مبارک خواہش کو اور طرح پورا فرما دیا۔ اور وہ اس طرح کہ میاں فقیر محمد صاحب امیر جماعت احمدیہ و نجواں ضلع گورداسپور جو صحابی ہیں` قادیان تشریف لائے اور کچھ سوت حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ارشاد کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے بیج بویا اور پانی دیتا رہا اور پھر چنا اور صحابیوں سے دھنوایا اور اپنے گھر میں اس کو کتوایا ہے۔ یہ سوت پہنچنے پر مولانا عبدالرحیم صاحب درد سیکرٹری خلافت کمیٹی نے امیر جماعت احمدیہ ونجواں کو پیغام بھیجا کہ ان کے پاس اگر ان کی کاشت کی ہوئی روئی میں سے کچھ اور ہو تو وہ بھی بھجوا دیں۔ جس پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کے ذریعے مزید آٹھ دس سیر روئی قادیان پہنچ گئی۔ جو مولانا درد صاحب نے حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ جنرل سیکر ٹری لجنہ اماء اللہ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھیج دی کہ وہ صحابیات کے ذریعہ حضرت اقدسؓ کے ارشاد کے ماتحت اس روئی کا سوت طیار کروالیں۔ چنانچہ انہوں نے نہایت مستعدی کے ساتھ دار مسیح موعودؑ میں صحابیات سے سوت کتوا دیا۔ جس سے صحابی بافندگان۵۱ کے ذریعے قادیان اور تلونڈی میں کپڑا بنوایا گیا۔
جھنڈے کا سائز کیا ہو؟ اس امر کی نسبت کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ کپڑا اٹھاہ فٹ لمبا اور ۹ فٹ چوڑا ہو۔ اس فیصلہ کے مطابق تیار شدہ کپڑے کو مطلوبہ سائز میں بدلنے میں صحابی درزیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔
مگر ابھی اس کپڑے کے اوپر جھنڈے کی شکل نقش کروانا باقی تھا۔ اس اہم کام کے لئے ملک عطاء الرحمان صاحب مجاہد تحریک جدید نے بہت دوڑ دھوپ کی اور شاہدرہ سے اس کام کو تکمیل تک پہنچایا نیز حضرت صاحبزادہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مجلسی اور ذاتی دونوں لحاظ سے بہت دلچسپی لی۔
جھنڈے کے پول کے معاملہ میں ممبران کمیٹی کو بہت غور و خوض کرنا پڑا۔ ایک لمبی بحث کے بعد آخر یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ پائپ کرائے پر لیکر کام چلایا جائے کیونکہ لکڑی ۶۲ فٹ لمبی` خوبصورت اور سیدھی ملنا مشکل تھی۔ اور اس کے کھڑے کرنے کا سوال بہت ٹیڑھا تھا۔ گو وقت بہت تھوڑا تھا لیکن بابو اکبر علی صاحبؓ کی کوشش سے یہ کام خیر و خوبی سے انجام پاگیا۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔۵۲
چھٹا باب )فصل سوم(
خلافت جوبلی سے متعلق ابتدائی تجاویز اور ان کے عملی جامہ پہنانے کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم یہ بیان کرتے ہیں کہ جلسہ خلافت جوبلی کی تقریب کس طرح شاندار طریق سے مگر سادہ` پروقار اور خالص اسلامی ماحول میں منائی گئی۔
منارۃ المسیح پر چراغاں
خلافت جوبلی کی تقریب کی خوشی میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے صرف منارۃ المسیح پر چراغاں کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس لئے منارۃ المسیح کو چوٹی سے لیکر پہلی منزل تک بجلی کے قمقموں سے مرصع کیا گیا اور گو دوسرے ایام میں بھی تھوڑے تھوڑے وقت کے لئے یہ قمقمے روشن کئے جاتے رہے لیکن ۲۷۔ دسمبر کو رات بھر مینار جگمگاتا رہا۔ جس نے قادیان کی فضاء کو سچ مچ بقعہ نور بنادیا۔
جماعت وار جلسہ گاہ میں جانے کا نظارہ
۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کی صبح سے خلافت جوبلی کی مبارک تقریب کا پروگرام شروع ہوا۔ تمام جماعتیں ساڑھے نو بجے اپنی اپنی فرودگاہ سے جلسہ گاہ کی طرف آنے لگیں۔ ہر جماعت کے ساتھ اس کا جھنڈا تھا جسے دو آدمی اٹھائے ہوئے تھے` اور جس پر اس جماعت کا نام اور بعض دعائیہ فقرات لکھے تھے۔ اس طرح مختلف علاقوں اور مختلف ممالک کی جماعتیں درثمین کے اشعار پڑھتی اور خداتعالیٰ کی حمد کے گیت گاتی ہوئی جلسہ گاہ میں پہنچیں۔ تمام جھنڈے جلسہ گاہ کی گیلریوں کے اوپر کے حصہ میں کھڑے کر دیئے گئے۔ ایسے جھنڈوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب تھی۔
۱۰ بجکر ۵۰ منٹ پر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ سٹیج پر )جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کی جلسہ گاہ کے برابر۵۳ تھا( تشریف لائے۔ اس وقت سٹیج کا سائبان اتار دیا گیا۔ تاکہ تمام مجمع آسانی سے اس موقعہ کا نظارہ کرسکے۔ حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ سابق مبلغ ماریشس نے تلاوت قرآن کریم کی اور حافظ شفیق احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور نظم >آمین< کا ایک حصہ خوش الحانی سے پڑھ کر سنایا۔
سپاس نامے
اس کے بعد حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کئے گئے۔ جناب چودھری بشیر احمد صاحب سب جج نام لیتے۔ اور ایڈریس پڑھنے والے صاحب حضور کی خدمت میں پیش ہوکر ایڈریس پڑھتے۔ اس موقعہ پر حسب ذیل اصحاب نے اپنے اپنے حلقہ کی طرف سے اپنے پیارے امام کے حضور نہایت ہی مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا۔
)۱( حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر اعلیٰ نے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اردو میں ایڈریس پیش کیا۔ )۲( آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جماعت ہائے ہندوستان کی طرف سے اردو میں ایڈریس پیش کیا۔ )۳( جناب پروفیسر عطاء الرحمن صاحب ایم اے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ تعلیم آسام نے جماعت ہائے آسام کی طرف سے انگریزی میں ایڈریس پیش کیا۔ )۴( خان بہادر چودھری ابوالہاشم خان صاحب ایم اے نے جماعت ہائے احمدیہ بنگال کی طرف سے انگریزی میں ایڈریس پیش کیا۔ )۵( حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری نے جماعت ہائے صوبہ بہار کی طرف سے اردو میں ایڈریس پیش کیا۔ )۶( حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ نے جماعت ہائے صوبہ سرحد کی طرف سے اردو میں۔ )۷( جناب مولوی عبدالمنان صاحب عمر خلف حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے احمدیوں کی طرف سے انگریزی میں۔ )۸( جناب شیخ محمود احمد صاحبؓ عرفانی سیکرٹری آل انڈیا نیشنل لیگ نے لیگ کی طرف سے اردو میں۔ )۹( چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر بی اے جنرل سیکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ نے خدام الاحمدیہ کی طرف سے اردو میں۔ )۱۰( السید عبدالعزیز دمشقی نے بلاد عربیہ کی جماعتوں کی طرف سے عربی میں۔ )۱۱( مسٹر غلام حسین افریقی نے جماعت ہائے مشرقی افریقہ کی طرف سے سواحلی میں۔ )۱۲( حاجی جنود اللہ صاحب ترکستانی نے چینی ترکستان کی طرف سے ترکستانی میں۔ )۱۳( مسٹر محمد زہدی صاحب سنگاپوری نے جماعت ہائے سنگاپور اور ملایا کی طرف سے ملایا میں۔ )۱۴( مولوی احمد سدوسی صاحب سماٹری نے جزائر شرق الہند کی طرف سے سماٹری میں ایڈرس پیش کیا۔۵۴
صوبہ سرحد کے احمدیوں کا سپاسنامہ
یہ تمام ایڈریس روئیداد جماعت خلافت جوبلی میں شائع شدہ ہیں۔ جن کا نقل کرنا غیر ضروری بھی ہے اور باعث طوالت بھی۔ اس لئے بطور نمونہ صوبہ سرحد اور ہندوستان کے احمدیوں کے ایڈریس درج کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
والسلام علی احمد المسیح الموعود
سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفتہ المسیحؑ ایدک اللہ بنصرہ العزیز۔
ہم احمدیان صوبہ سرحد )جو ہندوستان کے شامل مغرب میں رہتے ہیں( آج اس جگہ حاضر ہوکر حضور کی خلافت جوبلی یا خلافت ثانیہ پر پچیس سال کا زمانہ دراز گزرنے پر جو کامیابی اور کامرانی سے گزرا۔ خدا کا شکر بجالاتے ہیں اور حضور کو تہ دل سے مبارکباد عرض کرتے ہیں۔ بے شک وہ قابل ستائش ہے جس نے حضور کو اس دوران میں نہ صرف سلسلہ کے اندرونی فتنوں اور سازشوں کی سرکوبی کا موقعہ بخشا۔ بلکہ سلسلہ کے باہر دنیا میں بھی اس کی عزت اور وقار کو قائم کیا اور حضرت احمدﷺ~ کے نام اور پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچانے میں بامراد کیا۔ فالحمدللہ علی ذالک<۔۵۵
جماعت احمدیہ ہندوستان کا سپاسنامہ
اس تقریب پر ہندوستان کے احمدیوں کی طرف سے )خلافت جوبلی کے محرک( حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مندرجہ ذیل سپاس نامہ پڑھ کر سنایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ایڈریس بخدمت حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز
منجانب جماعت ہائے احمدیہ ہندوستان بتقریب خلافت جوبلی
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
یہ خاکسار حضور کی خدمت میں اس نہایت مبارک اور پراز مسرت تقریب پر جب کہ حضور اپنے عہد خلافت کے پچیس سال پورے فرمارہے ہیں۔ جماعت ہائے احمدیہ ہندوستان کی طرف سے دلی مبارکباد پیش کرتا ہے۔
سیدنا! ہمارے لئے یہ خوشی کا دن حقیقتاً ایک عید کا دن ہے کیونکہ جس طرح اسلام کی عیدیں عبادتوں اور قربانیوں کے بعد منائی جاتی ہیں۔ اسی طرح حضور کی خلافت کے پچیس سالہ زمانہ نے جو خدا کی نصرتوں اور اس کے نشانوں اور حضور کی قیادت میں جماعت کی قربانیوں اور دینی سرگرمیوں سے معمور ہے۔ ہمارے لئے خوشی کی عید کو ممکن اور جائز کردیا ہے۔ یہ خوشی حقیقتاً حضور کی خوشی ہے کیونکہ اسے پچیس سالہ دور میں جو شاندار ترقیات جماعت کو نصیب ہوئی ہیں اور جو خدمت حضور نے رضائے الٰہی اور اعلائے کلمتہ اللہ کی سرانجام دی ہے۔ وہ حقیقتاً حضور ہی کے انفاس قدسیہ کی برکت سے ہے۔ مگر خادم اپنے آقا سے الگ نہیں اور دراصل آقا کی عید ہی خادم کی حقیقی عید ہوتی ہے۔
سیدنا! حضور کی تربیت کے ماتحت ہمارے دلوں میں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ اسلامی عید دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ بندہ اس توفیق پر جو خداتعالیٰ نے اسے ماضی میں خدمت اور قربانی کی عطاء فرمائی۔ اپنے دل میں ایک غیر معمولی خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اس احساس کو آئندہ کی خدمات اور قربانیوں کے لئے اپنے دل میں ایک بیج کے طور پر جگہ دیتا ہے اور یہ بیج اس طرح سے ایک عہد کا رنگ رکھتا ہے کہ وہ آئندہ اپنے خالق و مالک کے رستہ میں بیش از پیش قربانی اور خدمت کا نمونہ دکھائے گا پس جہاں ہم گزشتہ پر حضور کی خدمت میں مبارکباد عرض کرتے ہیں۔ وہاں آئندہ کے متعلق حضور سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ حضور دعا فرمائیں کہ جماعت کی تاریخ کا ابتدائی پچاس سالہ دور اور حضور کی خلافت کا پچیس سالہ زمانہ جماعت کی آئندہ قربانیوں اور ترقیات کے لئے بطور ایک بیج کے ہو جائے اور آئندہ ترقیات کے ساتھ اس کی وہی نسبت ہو۔ جو ایک چھوٹے سے بیج کو ایک شاندار درخت کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔
سیدنا! اس مبارک تقریب پر جو جذبات عشق و وفا ہمارے دلوں میں اس وقت موجزن ہیں ہم الفاظ میں ان کے اظہار کی طاقت نہیں پاتے۔ ~}~
قلم را آں زباں نبود کہ سر عشق گوید باز
ورائے حد تقریر است شرح آرزو مندی
لیکن ہمارے قلوب کی کیفیت کا اندازہ وہ شخص کرسکتا ہے کہ جس کی آنکھوں کے سامنے ایک طرف اس حالت کی تصویر موجود ہو۔ جو آج سے پچیس سال قبل جماعت کی تھی اور دوسری طرف اس کے سامنے اس حالت کی تصویر بھی موجود ہو۔ جو خدا کے فضل سے آج جماعت کی ہے اور وہ ان خطرات سے بھی واقف ہو۔ جو اس عرصہ میں جماعت کو پے در پے پیش آتے رہے ہیں اور ان دعائوں اور قربانیوں سے بھی آگاہ رکھتا ہو۔ جو حضور نے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے اور احمدیت کے کمزور اور نازک پودے کی حفاظت اور آبپاشی کی خاطر فرمائیں۔
سیدنا! اس پچیس سالہ دور میں کوئی دن بلکہ کوئی لحظہ جماعت پر ایسا نہیں گزرا۔ کہ جس میں وہ حضور کی قیادت کی برکات سے متمتع نہ ہوئی ہو۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ خود جماعت بھی پورے طور پر ان خطرات کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ جن سے حضور نے جماعت کی حفاظت کا انتظام فرمایا۔ اور نہ ہی وہ پورے طور پر ان برکتوں اور نعمتوں پر آگاہی رکھتی ہے جو حضور کی خلافت کے دوران اسے حاصل ہوئی۔
سیدنا! حضور کی خلافت صرف تبلیغی اور تربیتی برکات سے ہی مزین نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر رنگ کی برکات اور ہر میدان کے فضائل اور حسنات سے نوازا ہے۔ ہم اس بات کے اظہار کی طاقت نہیں پاتے کہ ہمارے دلوں میں کس قدر انبساط اور امتنان کی لہریں موجزن ہوتی ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا سردار اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید کے ساتھ قیادت کے ہر میدان کا شہسوار ہے۔ وہ معرفت الٰہی اور تقویٰ اللہ کا ایک زبردست مجسمہ ہے۔ وہ نور قرآن اور علوم دین کا ایک وسیع سمندر ہے۔ وہ احکام اسلام اور شریعت کی باریک در باریک حکمتوں کا ایک کامل استاد ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا اس زمانہ میں یہ شعر اسی کے لئے کہا گیا ہے کہ ~}~
از رموز شرع و حکمت باہزاراں اختلاف
نکتہ ہرگز نہ شد فوت از دل دانائے تو
سیدنا! ابتدائے ایام خلافت سے ہی حضور نے نظام جماعت کی بنیاد ایسے اسلوب پر رکھی۔ جو اعلیٰ سے اعلیٰ دماغوں کے لئے باعث رشک و عبرت اور وابستگان خلافت کے لئے باعث ناز و فخر ہے۔ سیاسیات دینیہ اور ملکیہ میں حضور نے ہر موقعہ پر نہ صرف جماعت کی بلکہ تمام ملک کی وہ رہنمائی فرمائی جن پر اغیار بھی صدق دل سے شاہد ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اگر دینوی میدان میں بھی مدبران اور سیاست دان ان اصولوں پر کاربند ہوتے۔ جن کی حضور نے آج سے ۱۵ سال قبل تلقین فرمائی تھی تو دنیا اس خطرناک مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ جاتی۔ جس کا وہ آج شکار بن رہی ہے۔ غرض چمنستان حیات انسانی کا کوئی قطعہ ایسا نہیں۔ جس کی آبپاشی کا سامان اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے فضل و رحم کے ساتھ حضور کے ذریعہ نہ فرمایا ہو۔ وہ لوگ جو خداتعالیٰ سے محبت کرتے اور اس کے قرب کی تڑپ اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ وہ اس چشمہ سے سیراب ہورہے ہیں اور اس چشمہ کی دعوت عام ہے کہ جو چاہے آئے اور اپنی پیاس کو بجھائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کی وہ قومیں بھی جو ابھی تک اس چشمہ کے حیات بخش پانی سے محروم ہیں۔ جلد یا بدیر اس سے شادابی حاصل کریں گی۔
سیدنا! ہماری نظر میں وہ وسعت نہیں اور نہ ہمارے قلم میں وہ طاقت ہے کہ حضور کے فضائل کے کسی پہلو کو بھی پورے طور پر بیان کرسکیں۔ کیونکہ~}~
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چین بہار تو بداماں گلہ دارو
مگر ہم اس مبارک موقعہ پر حضور کی اس حسین روحانی تصویر کو جو ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں جاگزین ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے لانے کی تڑپ بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے ہم ان پیارے الفاظ کو اس جگہ دہرانے کی اجازت چاہتے ہیں جو خداوند علیم و خبیر نے اپنے برگزیدہ مسیحؑ کی زبان پر حضور کی نسبت حضور کی ولادت سے بھی پہلے جاری فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے فرمایا۔
>تجھے بشارت ہو کہ ایک وجہیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام تجھے ملے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سنت ذہین و فہیم اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مظھر الاول و الاخر۔ مظھر الحق والعلا کان اللہ نزل من السماء۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہے۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی ۔۔۔۔۔۔ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔
۔۔۔۔>اے فخر رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ز راہ دور آمدہ<
آخر میں ہم پھر حضور کی خدمت میں اپنی دلی مبارکباد عرض کرتے ہیں اور حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے اور ہمیں اپنی رضاء کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سے وہ کام لے جو اس کی خوشی کا موجب ہو اور پھر وہ ہم پر ایسا خوش ہو کہ اس کے بعد ہم اور ہماری نسلیں قیامت تک اس کی خوشی اور رضا کی وارث رہیں۔ اور اے ہمارے پیارے امام! ہم حضور کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو ایک لمبی اور بامراد زندگی عطا کرے۔ بیش از پیش ترقیات دکھاوے اور حضور کے آنے والے زمانہ کو گزرے ہوئے زمانہ کی نسبت بھی زیادہ مقبول اور زیادہ مبارک اور زیادہ شاندار بناوے۔ امین اللھم امین۔ ہم ہیں حضور کے خادمان۔ جماعت ہائے احمدیہ ہندوستان۔
۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۹ء۵۶
مقامی ہندوئوں کا اظہار اخلاص
اس موقعہ پر قادیان کے باشندہ لالہ داتا رام صاحب سیٹھ ابن لالہ ملاوا مل صاحب نے اپنے خاندان کی طرف سے حضور کے پچیس سالہ عہد خلافت کے متعلق مبارکباد پیش کی۔ اور سیٹھ وزیر چند صاحب آف >پیارے دی ہٹی< صرافاں قادیان نے اپنے خاندان کی طرف سے حضرت امیرالمومنینؓ کی خدمت میں مبارکباد عرض کرتے ہوئے چاندی کی خوشنما پلیٹ میں ایک چاندی کی انگوٹھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام الیس اللہ بکاف عبدہ لکھا تھا بطور تحفہ پیش کی۔ انہوں نے یہی تحفہ جناب چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کو بھی دیا۔
عربی۔ افریقی۔ ملائی۔ سماٹری اور ترکستانی نمائندگان اپنے اپنے وطنی لباسوں میں ملبوس تھے اور اس طرح مختلف ممالک اور مختلف تمدن کے لوگوں کا حضرت امیرالمومنینؓ کے حضور نذر عقیدت پیش کرنا نہایت روح پرور نظارہ تھا۔
بیرونی جماعتوں کی طرف سے مبارکباد کے تار
اس کے بعد حسب ذیل بیرونی جماعتوں کی طرف سے مبارک باد کے تار سنائے گئے۔
‏tav.8.38
تاریخ احمدیت۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چھبیسواں سال
)۱( مولوی جلال الدینؓ صاحب شمس امام مسجد احمدیہ لنڈن کا تار جماعت احمدیہ لنڈن کی طرف سے۔ )۲( صوفی مطیع الرحمان صاحبؓ ایم اے کا تار امریکہ کی احمدی جماعتوں کی طرف سے۔ )۳( حکیم فضل الرحمان صاحبؓ کا تار جماعت ہائے احمدیہ نائیجیریا کی طرف سے۔ )۴( جناب عبدالغفور صاحب کڑک کا تار جماعت احمدیہ زنجبار کی طرف سے۔ )۵( جماعت ہائے مشرقی افریقہ کا تار۔ )۶( ڈاکٹر احمد الدین صاحب کا تار جماعت ٹانگا نیکا کی طرف سے۔ )۷( جماعت احمدیہ سیلون کا تار۔ )۸( جماعت احمدیہ ڈچ ایسٹ انڈیا کا تار۔ )۹( جماعت احمدیہ یوگنڈا کا تار۔ )۱۰( جماعت احمدیہ قاہرہ )مصر( کا تار۔ )۱۱( جماعت احمدیہ برما کا تار۔۵۷
سپاسناموں کے جواب میں حضرت امیرالمومنینؓ کی تقریر
اس کے بعد ۱۲ بجکر ۴۰ منٹ سے ایک بجکر ۳۰ منٹ تک سیدنا حضرت امیرالمومنینؓ نے ان ایڈریسوں کے جواب میں ایک نہایت ایمان افروز اور روح پرور تقریر فرمائی جس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔ حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
>میں جب سے تقریر کے میدان میں آیا ہوں اور جب سے مجھے تقریر کرنے یا بولنے کا موقعہ ملا ہے میں نے شروع دن سے یہ بات محسوس کی ہے کہ ذاتی بناوٹ کے لحاظ سے تقریر کرنا میرے لئے بڑا ہی مشکل ہوتا ہے اور میری کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جسے اردو میں گھبرا جانا کہتے ہیں اور انگریزی میں NERVOUS ہو جانا کہتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اپنی دماغی کیفیت کے لحاظ سے میں ہمیشہ نروس ہو جاتا ہوں یا گھبرا جاتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی تقریر کی اور اس کے لئے کھڑا ہوا۔ تو آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا اور کچھ دیر تک تو حاضرین مجھے نظر نہ آتے تھے اور یہ کیفیت تو پھر کبھی پیدا نہیں ہوئی لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک خاص وقت میں جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا۔ میرے دل میں اضطراب سا پیدا ہو جاتا ہے لیکن وہ حالت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک کہ بجلی کا وہ کنکشن قائم نہیں ہوتا۔ جو شروع دن سے کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا ہو جایا کرتا ہے۔ اور جب یہ دور آجاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے مقرر اور لسان جو اپنی اپنی زبانوں کے ماہر ہیں۔ میرے سامنے بالکل ہیچ ہیں اور میرے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہیں۔ جب میں پہلے پہل تقریر کے لئے کھڑا ہوا اور قرآن کریم سے آیات پڑھنے لگا تو مجھے الفاظ نظر نہ آتے تھے اور چونکہ وہ آیات مجھے یاد تھیں۔ میں نے پڑھ دیں۔ لیکن قرآن گو میرے سامنے تھا۔ مگر اس کے الفاظ مجھے نظر نہ آتے تھے اور جب میں نے آہستہ آہستہ تقریر شروع کی تو لوگ میری نظروں کے سامنے سے بالکل غائب تھے۔ اس کے بعد یکدم یوں معلوم ہوا کہ کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا اتصال ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ جب میں نے تقریر ختم کی۔ تو حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ تقریر سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے قران کریم کے جو معارف بیان کئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ میں نے بڑی بڑی تفاسیر پڑھی ہیں اور میری لائبریری میں بعض نایاب تفاسیر موجود ہیں۔ مگر یہ معارف نہ مجھے پہلے معلوم تھے اور نہ میں نے کہیں پڑھے ہیں۔ سو جب دوران تقریر میں وہ کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے۔ تو میں محسوس کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے وہ کل دبائی گئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ میرے دماغ میں ایسے معارف نازل کرے گا کہ جو میرے علم میں نہیں ہیں اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قرآن شریف پڑھاتے ہوئے بھی وہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ آج بھی وہ کیفیت شروع ہوئی تھی۔ مگر اس وقت جو ایڈریس پڑھے گئے ہیں۔ ان کو سن کر وہ دور ہوگئی۔ ایک دفعہ آنحضرت~صل۱~ گھر سے باہر تشریف لائے تو دو شخص آپس میں لڑرہے تھے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر کے متعلق بتایا تھا کہ وہ کونسی رات ہے۔ مگر ان کی لڑائی کو دیکھ کر مجھے بھول گئی۔ اس طرح مجھ پر بھی وہ کیفیت طاری ہوئی تھی۔ مگر اس کے بعد ایڈریس شروع ہوئے۔ ان میں سے بعض ایسی زبانوں میں تھے کہ نہ میں کچھ سمجھ سکا اور نہ آپ لوگ۔ اور میں نے محسوس کیا کہ یہ بناوٹ ہے۔ اور منتظمین دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم میں ایسی ایسی زبانیں جاننے والے لوگ موجود ہیں اور اس ظاہرداری کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایسا برا اثر ہوا کہ وہ کیفیت جاتی رہی۔ ہم لوگ تو اپنے جذبات کو دبانے کے عادی ہیں اور جن لوگوں نے بڑے کام کرنے ہوتے ہیں۔ ان کو یہ مشق کرنی پڑتی ہے۔ سرکاری افسروں کو دیکھ لو۔ مثلاً تحصیلدار اور تھانیدار وغیرہ ہیں۔ سب قسم کے لوگ ان کے پاس آتے اور باتیں کرتے ہیں۔ اور وہ سب کی باتیں سنتے جاتے ہیں۔ لیکن اس مجلس میں ایسے لوگ بھی تھے۔ جو جذبات کو دبانے کے عادی نہیں۔ اس لئے ان میں ایک بے چینی سی تھی اور وہ بھاگ رہے تھے اور یہ نظارہ میرے لئے تکلیف دہ تھا اور اس وجہ سے وہ کیفیت دور ہوگئی۔ گو اب میں اگر اس مضمون کو بیان کرنا شروع کردوں۔ تو وہ بٹن پھر دب جائے گا۔ مگر پہلے جو کچھ میرے ذہن میں تھا۔ وہ اب یاد نہیں آسکتا۔ بہرحال مجھے کچھ کہنا چاہئے۔ اور اس کارروائی کے متعلق جہاں تک دینوی عقل کا تعلق ہے۔ میں اب بھی بیان کرسکتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر ایک نمائندہ نے وعدہ کیا تھا کہ تین منٹ کے اندر اندر اپنا ایڈریس ختم کردے گا۔ لیکن سوائے اس ایڈریس کے جو سرحد۵۸ کی جماعتوں کی طرف سے پیش کیا گیا اور کسی نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ پھر وہ جس طرح پیش کیا گیا ہے۔ اس میں حقیقی اسلامی سادگی کا نمونہ نظر آتا ہے اور اس لئے میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ محض چھاپ لینے کو میں سادگی کے خلاف نہیں سمجھتا۔ باقی جو ایڈریس پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سادگی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ حقیقی سادگی وہ ہوتی ہے جسے انسان ہر جگہ اور ہمیشہ نباہ سکے۔ اور اس کی قدردانی کے طور پر میں ان سے وعدہ کرتا ہوں کہ ان کا سارا ایڈریس پڑھوں گا۔ جب سے یہ خلافت جوبلی کی تحریک شروع ہوئی ہے۔ میری طبیعت میں ہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میں سوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تحریک منائیں تو پھر جو لوگ برتھ ڈے یا ایسی ہی دیگر تقاریب مناتے ہیں۔ انہیں کس طرح روک سکیں گے۔ اب تک اس کے لئے کوئی دلیل میری سمجھ میں نہیں آسکی۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی رسوم جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں جن کو مٹانے کے لئے احمدیت آئی ہے۔
ہماری کامیابی اور فتح یہی ہے کہ ہم دین کو اسی طرح دوبارہ قائم کردیں جس طرح رسول کریم~صل۱~ اسے لائے تھے۔ اور ایسے رنگ میں قائم کردیں کہ شیطان اس پر حملہ نہ کرسکے۔ اور کوئی کھڑکی اور کوئی روشندان اور کوئی در اس کے لئے کھلا نہ رہنے دیں اور جب سے یہ تقریب منانے کی تحریک شروع ہوئی ہے۔ میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی ایسا روشندان تو نہیں کھول رہے کہ جس سے شیطان کو حملہ کا موقعہ مل سکے اور اسی لحاظ سے مجھے شروع سے ہی ایک قسم کا انقباض سا رہا ہے کہ میں نے اس کی اجازت کیوں دی اور اس کے متعلق سب سے پہلے انشراح صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحبؓ شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوا۔ جس میں لکھا تھا کہ اس وقت گویا ایک اور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کی بجائے سلسلہ سے منسوب ہوسکتی ہے اور اس وجہ سے مجھے خود بھی اسی خوشی میں شریک ہونا چاہئے۔ دوسرا انشراح مجھے اس وقت پیدا ہوا۔ جب درثمین سے وہ نظم پڑھی گئی جو آمین کہلاتی ہے۔ اس کو سن کر مجھے خیال آیا کہ یہ تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔ جو اس میں بیان کی گئی ہے اور اس کا منانا اس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری ۲۵ سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے بلکہ اس لئے کہ خداتعالیٰ کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے۔ نامناسب نہیں اور اس خوشی میں میں بھی شریک ہوسکتا ہوں اور میں نے سمجھا کہ گو اپنی ذات کے لئے اس کے منائے جانے کے متعلق مجھے انشراح نہ تھا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لحاظ سے انشراح ہوگیا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم~صل۱~ نے ایک مرتبہ ایک صحابی کے متعلق فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ اس کے ہاتھ میں کسریٰ کے کڑے ہیں۔ چنانچہ جب ایران فتح ہوا۔ اور وہ کڑے جو کسریٰ دربار کے موقعہ پر پہنا کرتا تھا۔ غنیمت میں آئے تو حضرت عمرؓ نے اس صحابی کو بلایا اور باوجودیکہ اسلام میں مردوں کے لئے سونا پہننا ممنوع ہے۔ آپ نے اسے فرمایا کہ یہ کڑے پہنو۔ حالانکہ خلفاء کا کام قیام شریعت ہوتا ہے نہ کہ اسے مٹانا۔ مگر جب اس صحابی نے یہ کہا کہ سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہنو۔ ورنہ میں کوڑے لگائوں گا۔ اس طرح میں نے یہ خیال کیا کہ گو یہ کڑے مجھے ہی پہنائے گئے ہیں۔ مگر چونکہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اس لئے میرے دل میں جو انقباض تھا۔ وہ دور ہوگیا اور میری نظریں اس مجلس سے اٹھ کر خداتعالیٰ کی طرف چلی گئیں اور میں نے کہا۔ ہمارا خدا بھی کیسا سچا خدا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ جب یہ پیشگوئی کی گئی۔ اس وقت میری ہستی ہی کیا تھی۔ پھر وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب ہمارے نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ آپ کو پتہ ہی نہیں۔ یہ لڑکا کیسا نالائق ہے۔ پڑھتا لکھتا کچھ نہیں۔ اس کا خط کیسا خراب ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بلایا۔ میں ڈرتا اور کانپتا ہوا گیا کہ پتہ نہیں کیا فرمائیں گے۔ آپؑ نے مجھے ایک خط دیا کہ اسے نقل کرو۔ میں نے وہ نقل کرکے دیا۔ تو آپؑ نے حضرت خلیفہ اولؓ کو جج کے طور پر بلایا اور فرمایا۔ میر صاحب نے شکایت کی ہے کہ یہ پڑھتا لکھتا نہیں اور کہ اس کا خط بہت خراب ہے۔ میں نے اس کا امتحان لیا ہے۔ آپ بتائیں کیا رائے ہے۔ لیکن جیسا امتحان لینے والا نرم دل تھا۔ ویسا ہی پاس کرنے والا بھی تھا۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے عرض کیا کہ حضور میرے خیال میں تو اچھا لکھا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ ہاں اس کا خط کچھ میرے خط سے ملتا جلتا ہی ہے اور بس ہم پاس ہوگئے۔ ماسٹر فقیراللہ صاحب جواب پیغامیوں۵۹ میں شامل ہیں۔ ہمارے استاد تھے اور ہمیں حساب پڑھایا کرتے تھے جس سے مجھے نفرت تھی۔ میری دماغی کیفیت کچھ ایسی تھی جو غالباً میری صحت کی خرابی کا نتیجہ تھا۔ کہ مجھے حساب نہیں آتا تھا۔ ورنہ اب تو اچھا آتا ہے۔ ماسٹر صاحب ایک دن بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری شکایت کروں گا کہ تم حساب نہیں پڑھتے اور جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ بھی دیا۔ میں بھی چپ کرکے کمرہ میں کھڑا رہا۔ حضورؑ نے ماسٹر صاحب کی شکایت سن کر فرمایا کہ اس نے دین کا کام ہی کرنا ہے۔ اس نے کون سی کسی دفتر میں نوکری کرنی ہے۔ مسلمانوں کے لئے جمع تفریق کا جاننا ہی کافی ہے۔ وہ اسے آتا ہے یا نہیں۔ ماسٹر صاحب نے کہا۔ وہ تو آتا ہے۔ اس سے پہلے تو میں حساب کی گھنٹیوں میں بیٹھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا مگر اس کے بعد میں نے وہ بھی چھوڑ دیا۔ اور خیال کرلیا کہ حساب جتنا آنا چاہئے تھا مجھے آگیا تو یہ میری حالت تھی۔ جب یہ >آمین< لکھی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے دعائیں کی کہ اسے دین کی خدمت کی توفیق عطا کر۔ دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ سب بی اے اور ایم اے لائق نہیں ہوتے لیکن جو لائق ہوتے ہیں۔ وہ ان ہی میں سے ہوتے ہیں۔ سارے وکیل لائق نہیں ہوتے۔ مگر جو ہوتے ہیں وہ ان ہی میں سے ہوتے ہیں۔ سب ڈاکٹر خداتعالیٰ کی صفت شافی کے مظہر نہیں ہوتے مگر بہترین ڈاکٹر ان ہی میں سے ہوتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹری کے امتحان پاس کئے ہوں۔ ہر زمیندار مٹی سے سونا نہیں بناسکتا۔ مگر جو بناتے ہیں وہ ان ہی میں سے ہوتے ہیں۔ ترکھانوں میں سے نہیں۔ ہر ترکھان اچھی عمارت نہیں بناسکتا مگر جو بناتے ہیں وہ ترکھانوں میں سے ہی ہوتے ہیں۔ لوہاروں میں سے نہیں۔ پھر ہر انجینئر ماہر فن نہیں۔ مگر جو ہوتا ہے وہ ان ہی میں سے ہوتا ہے۔ ہر معمار دہلی اور لاہور کی شاہی مسجد اور >تاج محل< نہیں بناسکتا۔ مگر ان کے بنانے والے بھی معماروں میں سے ہوتے ہیں۔ کپڑا بننے والوں میں سے نہیں ہوتے۔ پس ہر فن کا جاننے والا ماہر نہیں ہوتا مگر جو ماہر نکلتے ہیں وہ ان ہی میں سے ہوتے ہیں۔ مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعا کی۔ اس وقت میں ظاہری حالات کے لحاظ سے اپنے اندر کوئی بھی اہلیت نہ رکھتا تھا لیکن اس وقت اس آمین کو سن کر میں نے کہا کہ خداتعالیٰ نے آپؑ کی دعائیں سن لیں۔ جب یہ دعائیں کی گئیں۔ میں معمولی ریڈریں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ مگر اب خداتعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ میں کسی علم کی کیوں نہ ہو۔ انگریزی کی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں۔ اور گو میں انگریزی لکھ نہیں سکتا۔ مگر بی اے اور ایم اے پاس شدہ لوگوں کی غلطیاں خوب نکال سکتا ہوں۔ دینی علوم میں میں نے قرآن کریم کا ¶ترجمہ حضرت خلیفہ اولؓ سے پڑھا ہے اور اس طرح پڑھا ہے کہ اور کوئی اس طرح پڑھے تو کچھ بھی نہ سیکھ سکے۔ پہلے تو ایک ماہ میں آپ نے مجھے دو تین سپارے آہستہ آہستہ پڑھائے اور پھر فرمایا۔ میاں آپ بیمار رہتے ہیں۔ میری اپنی صحت کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ آئو کیوں نہ ختم کردیں اور مہینہ بھر میں سارا قرآن کریم مجھے ختم کرادیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل تھا۔ پھر کچھ ان کی نیت اور کچھ میری نیت ایسی مبارک گھڑی میں ملیں کہ وہ تعلیم ایک ایسا بیج ثابت ہوا جو برابر بڑھتا جارہا ہے۔ اس طرح بخاری آپؓ نے مجھے تین ماہ میں پڑھائی اور ایسی جلدی جلدی پڑھاتے کہ باہر کے بعض دوست کہتے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں اگر کوئی سوال کرتا۔ تو آپؓ فرماتے پڑھتے جائو۔ اللہ تعالیٰ خود سب کچھ سمجھا دے گا۔ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو کریدنے کی بہت عادت تھی اور ان کا دماغ بھی منطقی تھا۔ وہ درس میں شامل تو نہیں تھے۔ مگر جب مجھے پڑھتے دیکھا تو آکر بیٹھنے لگے اور سوالات دریافت کرتے ان کو دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور میں نے اسی طرح سوالات پوچھنے شروع کر دیئے۔ ایک دو دن تو آپؓ نے جواب دیا اور پھر فرمایا۔ تم بھی حافظ صاحب کی نقل کرنے لگے ہو۔ مجھے جو کچھ آتا ہے وہ خود بتادوں گا۔ بخل نہیں کروں گا اور باقی اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا اور میں سمجھتا ہوں۔ سب سے زیادہ فائدہ مجھے اسی نصیحت نے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا۔ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ میرے ہاتھ آگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا سمجھایا ہے کہ میں غرور تو نہیں کرتا مگر خداتعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہے کہ میں کوئی کتاب یا کوئی تفسیر پڑھ کر مرعوب نہیں ہوتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ ملا ہے ان کو نہیں ملا۔
بیس بیس جلدوں کی تفسیریں ہیں۔ مگر میں نے کبھی ان کو بالاستیعاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ان کے مطالعہ میں مجھے کبھی لذت محسوس نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کے چھوٹے سے لفظ میں ایسے مطالب سکھا دیتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں۔ میں ان کتابوں کے مطالعہ میں کیوں وقت ضائع کروں اور کبھی کوئی مسئلہ وغیرہ دیکھنے کے لئے ان کو دیکھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس مقام سے بہت دور کھڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطاء کیا ہے۔ اور یہ سب اس کا فضل ہے۔ ورنہ بظاہر میں نے دنیا میں کوئی علم حاصل نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اپنی زبان تک بھی صحیح نہیں سیکھی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کو قبول کرکے اس نے مجھے ایک ایسا گر بتا دیا کہ جس سے مجھے ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت حاصل ہو جاتی ہے۔ میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ میں تو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک ہتھیار کی مانند ہوں۔ اور میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی چیز چاہئے اور اس نے مجھے نہ دی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اس سے ہر اندھیرا دور ہو۔ دشمنوں کی طرف سے مجھ پر کئی حملے کئے گئے۔ اعتراضات کئے گئے اور کہا کہ ہم خلافت کو مٹا دیں گے اور یہی وہ اندھیرا تھا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے دور کردیا اور خلافت جوبلی کی تقریب منانے کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا۔ وہ اس وقت یہ نظم سن کر دور ہوگیا اور میں نے سمجھا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا اظہار ہورہا ہے۔ دشمنوں نے کہا کہ ہم جماعت کو پھرالیں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اور بھی زیادہ لوگوں کو لائیں گے اور جب ہم روشنی کرنا چاہیں تو کوئی اندھیرا رہ نہیں سکتا اور اس طرح اس تقریب کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا۔ وہ یہ نظارہ دیکھ کر دور ہوگیا۔ ورنہ مجھے تو شرم آتی ہے کہ میری طرف یہ تقریب منسوب ہو۔ مگر ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے ذریعہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ اگر وہ نہ کرتا تو نہ مجھ میں طاقت تھی اور نہ آپ میں نہ میرے علم نے کوئی کام کیا اور نہ آپ کی قربانی نے۔ جو کچھ ہوا۔ خدا کے فضل سے ہوا اور ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور نشان دکھایا۔ دنیا نے چاہا کہ ہمیں مٹا دیں مگر خداتعالیٰ نے نہ مٹایا اور یہ نظارہ دیکھ کر میرے دل میں جو انقباض تھا۔ وہ سب دور ہوگیا۔ اس لئے جن دوستوں نے اس تقریب پر اپنی انجمنوں کی طرف سے ایڈریس پڑھے ہیں۔ مثلاً چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب۔ پروفیسر عطاء الرحمن صاحب۔ حکیم خلیل احمد صاحب۔ چوہدری ابوالہاشم خان صاحب۔ حاجی جنود اللہ صاحب۔ اسی طرح دمشق۔ جاوا۔ سماٹرا اور علی گڑھ اور بعض دوسری جگہوں کے دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پھر بعض ہندو صاحبان نے بھی اس موقعہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور ان سب کو جزاکم اللہ احسن الجزاء کہتا ہوں۔ اور یہ ایسی دعا ہے کہ جس میں سارے ہی شکریئے آجاتے ہیں۔ پس میں ان دوستوں کا اور ان کے ذریعہ ان کی تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جزاکم اللہ احسن الجزاء کہتا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی کے اور جو دن باقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دین کی خدمت۔ اسلام کی تائید اور اس کے غلبہ اور مضبوطی کے لئے صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاجب اس کے حضور پیش ہونے کا موقعہ ملے تو شرمندہ نہ ہوں اور کہہ سکوں کہ تو نے جو خدمت میرے سپرد کی تھی۔ تیری ہی توفیق سے میں نے اسے ادا کردیا۔ پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنے فضل نازل کرے اور نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم میں سے جس کے دل میں بھی کوئی کمزوری ہو اسے دور کرے۔ اخلاص میں مضبوط کرے اور ہماری زندگیوں کو اپنے لئے وقف کردے۔ ہماری زندگیوں کو بھی خوشگوار بنائے اور ہماری موتوں کو بھی۔ تاجب جنتی سنیں تو خوش ہوں کہ اور پاکیزہ روحیں ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لئے آرہی ہیں<۔
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی ایک مختصر تقریر
حضور کی تقریر کے بعد حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ سٹیج پر تشریف لائے اور کہا کہ پروگرام میں اس وقت میری کوئی تقریر نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم آمین کے جو ابھی پڑھی گئی ہے ایک شعر کے متعلق میں مختصراً کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت جماعت کی طرف سے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک حقیر سی رقم پیش کی جانے والی ہے جس سے حضورؑ کی وہ دعا کہ >دے اس کو عمرو دولت< کی قبولیت بھی ظاہر ہوگئی۔ آج ہم حضور کی خلافت پر ۲۵ سال گزرنے پر حضور کی خدمت میں حقیر سی رقم پیش کرتے ہیں اور میں آنریبل چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ تشریف لاکر یہ رقم حضور کی خدمت میں پیش کریں۔
چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی طرف سے چیک دیا جانا
اس کے بعد جناب چوہدری صاحب نے چیک کی صورت میں یہ رقم۶۰ پیش کی اور عرض کیا کہ حضور اسے قبول فرمائیں اور جس رنگ میں پسند فرمائیں اسے استعمال کریں اور حضور مجھے اجازت دیں کہ میں دوستوں کے نام پڑھ کر سنادوں۔ جنہوں نے اس فنڈ میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ تا حضور خصوصیت سے ان کے لئے دعا فرمائیں اور حضور کی اجازت سے جناب چوہدری صاحب نے وہ نام پڑھ کر سنائے۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی دوسری تقریر
بعدہ حضور نے فرمایا۔
>میں نے جو کہا تھا کہ جس وقت آمین پڑھی جارہی تھی۔ میرے دل میں ایک تحریک ہوئی تھی۔ وہ دراصل یہی مصرعہ تھا۔ جس کا ذکر میر صاحبؓ نے کہا ہے۔ مگر چونکہ ابھی تک وہ رقم مجھے نہ دی گئی تھی۔ اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ پہلے ہی اس کا ذکر کروں اس کے لئے میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری حقیقی دولت تو دین ہی ہے۔ دین کے بغیر دولت کوئی چیز نہیں۔ اور اگر دین ہو۔ اور دولت نہ ہو تو بھی ہم خوش نصیب ہیں۔ مجھے یہ علم پہلے سے تھا کہ یہ رقم مجھے اس موقعہ پر پیش کی جائے گی اور اس دوران میں میں یہ غور بھی کرتا رہا ہوں کہ اسے خرچ کس طرح کیا جائے۔ لیکن بعض دوست بہت جلد باز ہوتے ہیں اور وہ اس عرصہ میں مجھے کئی مشورے دیتے رہے کہ اسے یوں خرچ کیا جائے اور فلاں کام پر صرف کیا جائے۔ یہ بات مجھے بہت بری لگتی تھی کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ ایک طرف اس کا نام تحفہ رکھا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف اس کے خرچ کرنے کے متعلق مجھے مشورے دیئے جارہے ہیں۔ اگر یہ تحفہ ہے تو اس سے مجھے اتنی تو خوشی حاصل ہونی چاہئے کہ میں نے اسے اپنی مرضی سے خرچ کیا ہے۔ بہرحال میں اس امر پر غور کرتا رہا ہوں کہ اسے کس طرح خرچ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ اس سے برکات خلافت کے اظہار کا کام لیا جائے۔ یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کے خلفاء اس کام کے کرنے والے تھے۔ جو آپ کے اپنے کام تھا۔ یعنی یتلوا علیھم ایاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمہ۔ قرآن کریم میں رسول کریم~صل۱~ کے چار کام بیان کئے گئے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان بیان کرتا ہے۔ ان کا تزکیہ کرتا۔ ان کو کتاب پڑھاتا اور حکمت سکھاتا ہے۔ کتاب کے معنے کتاب اور تحریر کے بھی ہیں اور حکمت کے معنی سائنس کے بھی ہیں اور قرآن کریم کے حقائق و معارف اور مسائل فقہ کے بھی ہیں۔ پھر میں نے خیال کیا کہ خلیفہ کا کام استحکام جماعت بھی ہے۔ اس لئے اس روپیہ سے یہ کام بھی کرنا چاہئے۔ بے شک بعض کام جماعت کر بھی رہی ہے۔ مگر یہ چونکہ نئی چیز ہے۔ اس سے نئے کام ہونے چاہئیں اور اس پر غور کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ ابھی کچھ کام اس سلسلہ میں ایسے ہیں کہ جو نہیں ہورہے۔ مثلاً یہ نہیں ہورہا کہ غیرمسلموں کے آگے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے کہ وہ اس طرف متوجہ ہوں۔ چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ یہ سلسلہ پہلے ہندوستان میں اور پھر بیرونی ممالک میں شروع کیا جائے اور اس غرض سے ایک چار یا آٹھ صفحہ کا ٹریکٹ لکھا جائے۔ جسے لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں چھپوا کر شائع کیا جائے۔ اس وقت تک ان زبانوں میں تبلیغی لٹریچر کافی تعداد میں شائع نہیں ہوا۔ اردو کے بعد میرا خیال ہے۔ سب سے زیادہ اس ٹریکٹ کی اشاعت ہندی میں ہونی چاہئے۔ ابھی تک یہ سکیم میں نے مکمل نہیں کی۔ فوری طور پر اس کا خاکہ ہی میرے ذہن میں آیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کم سے کم ایک لاکھ اشتہار یا ہینڈبل وغیرہ اذان اور نماز کی حقیقت اور فضیلت پر شائع کئے جائیں۔ تا ہندوئوں کو سمجھایا جاسکے کہ جس وقت آپ لوگ مساجد کے سامنے سے باجہ بجاتے ہوئے گزرتے ہیں تو مسلمان یہ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات معقول رنگ میں ان کے سامنے پیش کی جائے کہ مسلمان تو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ اس وقت ڈھول کے ساتھ ڈم ڈم کا شور کرتے ہیں۔ آپ سوچیں کہ کیا یہ وقت اس طرح شور کرنے کے لئے مناسب ہوتا ہے۔ جب یہ آواز بلند ہورہی ہو کہ خداتعالیٰ سب سے بڑا ہے تو اس وقت چپ ہو جانا چاہئے یا ڈھول اور باجہ کے ساتھ شور مچانا چاہئے تو ان کو ضرور سمجھ آجائے گی کہ ان کی ضد بے جا ہے اور اس طرح اس سے ہندو مسلمانوں میں صلح و اتحاد کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔ تعلیم یافتہ غیر مسلم اب بھی ان باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس طرح میں نے جلسہ ہائے سیرت کی جو تحریک شروع کی ہوئی ہے۔ اسے بھی وسعت دینی چاہئے۔ یہ بھی بہت مفید تحریک ہے اور سیاسی لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ بابو بین چندر پال کانگرس کے بہت بڑے لیڈروں میں سے ہیں۔ انہوں نے ان جلسوں کے متعلق کہا تھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے بہترین تجویز ہے اور میں ان جلسوں کو سیاسی جلسے کہتا ہوں۔ اس لئے کہ ان کے نتیجہ میں ہندو مسلم ایک ہو جائیں گے اور اس طرح دونوں قوموں میں اتحاد کا دروازہ کھل جائے گا۔ میرا ارادہ ہے کہ ایسے اشتہار ایک لاکھ ہندی میں۔ اک لاکھ گورمکھی میں پچاس ہزار تامل میں۔ اور اسی طرح مختلف زبانوں میں بکثرت شائع کئے جائیں اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام کے موٹے موٹے مسائل غیر مسلموں تک پہنچا دیئے جائیں۔ اشتہار ایک صفحہ دو صفحہ یا زیادہ سے زیادہ چار صفحہ کا ہو اور کوشش کی جائے کہ ہر شخص تک اسے پہنچا دیا جائے اور زیادہ نہیں تو ہندوستان کے ۳۳ کروڑ باشندوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک اشتہار پہنچ جائے۔ یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوگی اسی طرح میرا ارادہ ہے کہ ایک چھوٹا سا مضمون چار یا آٹھ صفحات کا مسلمانوں کے لئے لکھ کر ایک لاکھ شائع کیا جائے۔ جن میں مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپؑ کے دعاوی سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ آپؑ نے آکر کیا پیش کیا ہے۔ تا لوگ غور کرسکیں۔ پہلے یہ کام چھوٹے پیمانہ پر ہوں۔ مگر کوشش کی جائے کہ آہستہ آہستہ ان کو وسیع کیا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اس کی آمد میں سے خرچ ہوتا رہے۔ اور سرمایہ محفوظ رہے جیسے تحریک جدید کے فنڈ کے متعلق میں کوشش کررہا ہوں۔ تا کسی سے پھر چندہ مانگنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اس میں دینی تعلیم جو خلفاء کا کام ہے۔ وہ بھی آجائے گی۔ پھر آرٹ اور سائنس کی تعلیم نیز غرباء کی تعلیم و ترقی بھی خلفاء کا اہم کام ہے۔ ہماری جماعت کے غرباء کی اعلیٰ تعلیم کے لئے فی الحال انتظامات نہیں ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کند ذہن لڑکے جن کے ماں باپ استطاعت رکھتے ہیں تو پڑھتے جاتے ہیں۔ مگر ذہین بوجہ غربت کے رہ جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ایک یہ بھی ہے کہ ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس رقم سے اس کا بھی انتظام کیا جائے اور میں نے تجویز کی ہے کہ اس کی آمد سے شروع میں فی الحال ہر سال ایک ایک وظیفہ مستحق طلباء کو دیا جائے۔ پہلے سال مڈل سے شروع کیا جائے۔ مقابلہ کا امتحان ہو اور جو لڑکا اول رہے اور کم سے کم ستر فی صدی نمبر حاصل کرے۔ اس انٹرنس تک بارہ روپیہ ماہوار وظیفہ دیا جائے۔ اور پھر انٹرنس میں اول دوم اور سوم رہنے والوں کو تیس روپیہ ماہوار جو ایف اے میں یہ امتیاز حاصل کریں۔ انہیں ۴۵ روپے ماہوار اور پھر جو بی اے میں اول آئے۔ اسے ۶۰ روپے ماہوار دیا جائے اور تین سال کے بعد جب اس فنڈ سے آمد شروع ہو جائے تو احمدی نوجوانوں کا مقابلہ کا امتحان ہو اور پھر جو لڑکا اول آئے۔ اسے انگلستان یا امریکہ میں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تین سال کے لئے امداد دی جائے۔ اس طرح غرباء کی تعلیم کا انتظام ہو جائے گا۔ اور جوں جوں آمد بڑھتی جائے گی۔ ان وظائف کو ہم بڑھاتے رہیں گے۔ کئی غرباء اس لئے محنت نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم آگے تو پڑھ نہیں سکتے۔ خواہ مخواہ کیوں مشقت اٹھائیں لیکن اس طرح جب اس کے لئے ترقی کا امکان ہوگا تو وہ محنت سے تعلیم حاصل کریں گے۔ مڈل میں اول رہنے والوں کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے۔ وہ صرف تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء کے لئے ہی مخصوص ہوگا۔ کیونکہ سب جگہ مڈل میں پڑھنے والے احمدی طلباء میں مقابلہ کے امتحان کا انتظام ہم نہیں کرسکتے۔ یونیورسٹی کے امتحان میں امتیاز حاصل کرنے والا خواہ کسی یونیورسٹی کا ہو۔ وظیفہ حاصل کرسکے گا۔ ہم صرف زیادہ نمبر دیکھیں گے۔ کسی یونیورسٹی کا فسٹ سیکنڈ اور تھرڈ رہنے والا طالب علم بھی اسے حاصل کرسکے گا اور اگر کسی بھی یونیورسٹی کا کوئی احمدی طالب علم یہ امتیاز حاصل نہ کرسکے تو جس کے بھی سب سے زیادہ نمبر ہوں۔ اسے یہ وظیفہ دے دیا جائے گا۔ انگلستان یا امریکہ میں حصول تعلیم کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے۔ اس کے لئے ہم سارے ملک میں اعلان کرکے جو بھی مقابلہ میں شامل ہونا چاہیں۔ ان کا امتحان لیں گے اور جو فسٹ رہے گا۔ اسے یہ وظیفہ دیا جائے گا۔ انگلستان یا امریکہ میں حصول تعلیم کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے۔ اس کے لئے ہم سارے ملک میں اعلان کرکے جو بھی مقابلہ میں شامل ہونا چاہیں۔ ان کا امتحان لیں گے۔ اور جو بھی فسٹ رہے گا۔ اسے یہ وظیفہ دیا جائے گا۔ یزکیھم کے ایک معنے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے کے بھی ہیں۔ اور اس طرح اس میں اقتصادی ترقی بھی شامل ہے۔ اس کی فی الحال کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں۔ مگر میرا ارادہ ہے۔ کہ انڈسٹریل تعلیم کا کوئی معقول انتظام بھی کیا جائے۔ تا پیشہ وروں کی حالت بھی بہتر ہوسکے۔ اسی طرح ایگریکلچرل تعلیم کا بھی ہو۔ تا زمینداروں کی حالت بھی درست ہوسکے۔ خلفاء کا ایک کام میں سمجھتا ہوں۔ اس عہدہ کا استحکام بھی ہے۔ میری خلافت پر شروع سے ہی پیغامیوں کا حملہ چلا آتا ہے۔ مگر ہم نے اس کے مقابلہ کے لئے کماحقہ توجہ نہیں کی۔ شروع میں اس کے متعلق کچھ لٹریچر پیدا کیا تھا۔ مگر اب وہ ختم ہوچکا ہے۔ پس اس فنڈ سے اس قوم کی ہدایت کے لئے بھی جدوجہد کی جانی چاہئے اور اس کے لئے بھی کوئی سکیم میں تجویز کروں گا۔ ہماری جماعت میں بعض لوگ اچھا لکھتے ہیں۔ میں نے الفضل میں ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت کی جائے گی۔
پس یہ خلفاء کے چار کام ہیں اور انہی پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ پہلے اسے کسی نفع مند کام میں لگا کر ہم اس سے آمد کی صورت پیدا کریں گے اور پھر اس آمد سے یہ کام شروع کریں گے۔ ایک تو ایسا اصولی لٹریچر شائع کریں گے کہ جس سے ہندو` سکھ اسلامی اصول سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ اب تک ہم نے ان کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کی۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی ہدایت مقدر ہے۔ مثلاً آپ کا ایک الہام ہے کہ >آریوں کا بادشاہ< ایک ہے۔ >جے سنگھ بہادر اے ردر گوپال تیری مہماگیتا میں ہے<۔ مگر ہم نے ابھی تک ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ پس اب ان کے لئے لٹریچر شائع کرنا چاہئے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ اتنا مختصر ہو کہ اسے لاکھوں کی تعداد میں شائع کرسکیں۔ پھر ایک حصہ مسلمانوں میں تبلیغ و خرچ کیا جائے۔ ایک آرٹ` سائنس` انڈسٹری اور زراعت وغیرہ کی تعلیم پر اور ایک حصہ نظام سلسلہ پر دشمنوں کے حملہ کے مقابلہ کے لئے۔ آہستہ آہستہ کوشش کی جائے کہ اس کی آمد میں اضافہ ہوتا رہے اور پھر اس آمد سے یہ کام چلائے جائیں اس روپیہ کو خرچ کرنے کے لئے یہ تجویزیں ہیں۔ اس کے بعد میں جھنڈے کے نصب کرنے کا اعلان کرتا ہوں منتظمین اس کے لئے سامان لے آئیں۔
جھنڈا نصب کرنے کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کانگرس کی رسم ہے لیکن اس طرح تو بہت سی رسمیں کانگرس کی نقل قرار دینی پڑیں گی۔ کانگرسی جلسے بھی کرتے ہیں۔ اس لئے یہ جلسہ بھی کانگرس کی نقل ہوگی۔ گاندھی جی دودھ پیتے تھے۔ دودھ پینا بھی ان کی نقل ہوگی اور اس اصل کو پھیلاتے پھیلاتے یہاں تک پھیلانا پڑے گا کہ مسلمان بہت سی اچھی باتوں سے محروم رہ جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کانگرس کی نقل نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ نے خود جھنڈا باندھا اور فرمایا کہ یہ میں اسے دوں گا جو اس کا حق ادا کرے گا۔ پس یہ کہنا کہ یہ بدعت ہے۔ تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ جھنڈا لہرانا ناجائز نہیں۔ ہاں البتہ اس ساری تقریب میں ایک بات کو برداشت نہیں کرسکا اور وہ ایڈریسوں کا چاندی کے خولوں وغیرہ میں پیش کرنا ہے۔ اور چاہے آپ لوگوں کو تکلیف ہو۔ میں حکم دیتا ہوں کہ ان سب کو بیچ کر قیمت جوبلی فنڈ میں دے دی جائے۔ پس جھنڈا رسول کریم~صل۱~ سے ثابت ہے اور لڑائی وغیرہ کے مواقع پر اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے تو جہاد سے ہی منع کردیا ہے۔ پھر جھنڈے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر میں کہوں گا کہ اگر لوہے کی تلوار کے ساتھ جہاد کرنے والوں کے لئے جھنڈا ضروری ہے تو قرآن کی تلوار سے لڑنے والوں کے لئے کیوں نہیں؟ اگر اب ہم لوگ کوئی جھنڈا معین نہ کریں گے تو بعد میں آنے والے ناراض ہوں گے اور کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ ہی جھنڈا بناجاتے تو کیا اچھا ہوتا۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ایک مجلس میں یہ سنا ہے کہ ہمارا ایک جھنڈا ہونا چاہئے۔ جھنڈا لوگوں کے جمع ہونے کی ظاہری علامت ہے اور اس سے نوجوانوں کے دلوں میں ایک ولولہ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
>لوائے ما پنہ ہر سعید خواہد بود<
یعنی میرے جھنڈے کی پناہ ہر سعید کو حاصل ہوگی اور اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا جھنڈا نصب کریں۔ تاسعید روحیں اس کے نیچے آکر پناہ لیں۔ یہ ظاہری نشان بھی بہت اہم چیزیں ہوتی ہیں۔ جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ ایک اونٹ پر سوار تھیں۔ دشمن نے فیصلہ کیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں تا آپ نیچے گر جائیں اور آپؓ کے ساتھی لڑائی بند کردیں لیکن جب آپ کے ساتھ والے صحابہؓ نے دیکھا کہ س طرح آپؓ گر جائیں گی تو گو آپؓ دین کا ستون نہ تھیں۔ مگر بہرحال رسول کریم~صل۱~ کی محبت کی مظہر تھیں۔ اس لئے صحابہؓ نے اپنی جانوں سے ان کے اونٹ کی حفاظت کی اور تین گھنٹہ کے اندر اندر ستر جلیل القدر صحابہ کٹ کر گرگئے۔ قربانی کی ایسی مثالیں دلوں میں جوش پیدا کرتی ہیں۔ پس جھنڈا نہایت ضروری ہے اور بجائے اس کے کہ بعد میں آکر کوئی بادشاہ اسے بنائے یہ زیادہ مناسب ہے کہ یہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں اور موعودہ خلافت کے زمانہ میں بن جائے۔ اگر اب کوئی جھنڈا نہ بنے تو بعد میں کوئی جھنڈا کسی کے لئے سند نہیں ہوسکتی۔ چینی کہیں گے ہم اپنا جھنڈا بناتے ہیں اور جاپانی کہیں گے اپنا اور اس طرح ہر قوم اپنا اپنا جھنڈا ہی آگے کرے گی۔ آج یہاں عرب۔ سماٹری۔ انگریز سب قوموں کے نمائندے موجود ہیں۔ ایک انگریز نو مسلمہ آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ایڈریس بھی پیش کیا ہے۔ جاوا۔ سماٹرا کے نمائندے بھی ہیں۔ افریقہ کے بھی ہیں۔ انگریز گویا یورپ اور ایشیا کے نمائندے ہیں۔ افریقہ کا نمائندہ بھی ہے۔ امریکہ والوں کی طرف سے بھی تار آگیا ہے اور اس لئے جو جھنڈا آج نصب ہوگا۔ اس میں سب قومیں شامل سمجھی جائیں گی اور وہ جماعت کی شوکت کا نشان ہوگا اور یہی مناسب تھا کہ جھنڈا بھی بن جاتا۔ تابعد میں اس کے متعلق کوئی اختلاف پیدا نہ ہوں۔ پھر یہ رسول کریم~صل۱~ کی سنت بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر کو بھی پورا کرتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا تھا کہ مسیح دمشق کے منارہ شرقی پر اترے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہزاروں روپیہ خرچ کرکے وہ منارہ بنوایا۔ تارسول کریم~صل۱~ کی بات ظاہری رنگ میں بھی پوری ہو اور خداتعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ جھنڈا بنانے کی توفیق دی کہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ کا ایک شعر ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوتا ہے اور اس وجہ سے کہ ہم لوگوں کو باطن کا بھی خیال رہے اور یہ محض ظاہری رسم ہی نہ رہے۔ میں نے ایک اقرار نامہ تجویز کیا ہے۔ پہلے میں اسے پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔ اس کے بعد میں کہتا جائوں گا اور دوست اسے دہراتے جائیں۔ اقرار نامہ یہ ہے۔
>میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے۔ اسلام اور احمدیت کے قیام اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لئے ہرممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے<۔۶۱
اللھم امین۔ اللھم امین۔ اللھم امین۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
لوائے احمدیت بلند کیا گیا
اس کے بعد پروگرام کا وہ حصہ شروع ہوا۔ جو سلسلہ کی تاریخ میں نہایت ¶اہمیت رکھتا ہے اور جماعت احمدیہ میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے کا خاص ذریعہ ہے۔ یعنی جماعت احمدیہ کے جھنڈے کو بلند کرنا جیسا کہ پہلے تفصیلی ذکر آچکا ہے۔ جھنڈا سیاہ رنگ کے کپڑے کا تھا جس کے درمیان منارۃ المسیح۔ ایک طرف بدر اور دوسری طرف ہلال کی شکل سفید رنگ میں بنائی گئی تھی۔ کپڑے کا طول اٹھارہ فٹ اور عرض نو فٹ تھا اور اسے بلند کرنے کے لئے سٹیج کے شمال مشرقی کونہ کے ساتھ باسٹھ فٹ بلند آہنی پول پانچ فٹ اونچا چبوترہ بناکر نصب کیا گیا تھا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ سٹیج سے اتر کر ۲ بجکر ۴ منٹ پر اس چبوترہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تمام احباب ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم کی دعا پڑھتے رہے۔ یہ دعا پڑھتے ہوئے اور اس نظارہ سے متاثر ہو کر بہتوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور تمام مجمع پر رقت طاری ہوگئی۔ حضرت امیرالمومنینؓ بھی رقت انگیز آواز میں ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ باواز بلند پڑھ رہے تھے۔ لپٹے ہوئے پھریرے کے کھلنے کے بعد حضور نے نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان جھنڈے کی رسی کو کھینچا اور جھنڈا اوپر کو بلند ہونا شروع ہوا اور نعرہ ہائے تکبیر کے دوران میں پوری بلندی پر پہنچ گیا۔
قدرت الٰہی کا ایک عجیب کرشمہ
جھنڈے کے بلند ہوتے وقت ہوا بالکل ساکن تھی اور جھنڈا اوپر تک اس طرح لپٹا ہوا گیا کہ اس کے نقوش نظر نہ آسکتے تھے لیکن اس کے اوپر پہنچتے ہی ہوا کا ایک ایسا جھونکا آیا کہ تمام جھنڈا کھل کر لہرانے لگا۔ اور تھوڑی دیر کے بعد جب تمام مجمع نے اچھی طرح دیکھ لیا تو ہوا پھر تھم گئی۔
لوائے احمدیت بلند کرنے کے بعد جماعت سے اقرار
اس تقریب کی تکمیل کے بعد حضورؓ سٹیج پر تشریف لائے اور احباب جماعت سے وہ اقرار نامہ لیا۔ جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔۶۲
مجلس خدام الاحمدیہ کا جھنڈا
ازاں بعد حضور نے ۲ بجکر ۱۲ منٹ پر مجلس خدام الاحمدیہ کا جھنڈا بلند فرمایا۔ اس کے لئے بھی سٹیج کے شمال مغربی کونہ کے ساتھ لکڑی کا پول چبوترہ بنا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ یہ جھنڈا سیاہ رنگ کے کپڑے کا تھا۔ جس پر چھ سفید دھاریاں تھیں۔ درمیان میں منارۃ المسیح۔ ایک طرف بدر اور دوسری طرف ہلال کا نشان تھا۔
احمدیہ جھنڈے کی حفاظت کا انتظام
اس کے بعد حضورؓ نے فرمایا۔ اس وقت سے اس جھنڈے کی حفاظت کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ بارہ آدمیوں کا پہرہ مقرر کرے اور کل نماز جمعہ کے دو ناظروں کے سپرد کردے۔ جو اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ وہ نہایت مضبوط تالہ میں رکھیں جس کی دو چابیاں ہوں اور وہ دونوں ملکر اسے کھول سکیں۔
۲ بجکر ۲۵ منٹ پر اس اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔۶۳
حضرت امیرالمومنینؓ مردانہ جلسہ میں لوائے احمدیت اور لوائے خدام الاحمدیہ لہرانے کے بعد زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور دعا کرتے ہوئے خواتین جماعت احمدیہ کا جھنڈا اپنے دست مبارک سے لہرایا۔ جھنڈے کا بانس ۳۵ فٹ لمبا اور اس کا کپڑا پونے چار گز لمبا اور سوا دو گز چوڑا تھا۔ جس پر لوائے احمدیت کے علاوہ کھجور۶۴ کے تین درخت بھی تھے۔ جن کے نیچے چشمہ تھا۔ اس جھنڈے کے نقوش ریشم کے مختلف رنگ کے دھاگوں کے تھے۔ جو مشین سے کاڑھے گئے تھے۔ کپڑا سیاہ ساٹن کا تھا۔۶۵
‏]j1 [tagجماعت احمدیہ کو نظام خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کیلئے دعائیں کرنیکی وصیت
حضرت امیرالمومنینؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۹ء پر لوائے احمدیت کی پرچم کشائی کے علاوہ ۲۸` ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کو >خلافت راشدہ< کے عنوان پر
ایک معرکتہ الاراء تقریر فرمائی۔ جس میں اسلامی نظام خلافت پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی اور اس پر وارد کئے جانے والے اعتراضات کے مفصل اور مسکت جوابات دینے کے بعد جماعت احمدیہ کو نظام خلافت کی قدر کرنے اور اس کے دائمی طور پر قائم رہنے کی ہمیشہ دعائیں کرتے رہنے کی وصیت فرمائی۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا۔
>جہاں تک خلافت کا تعلق میرے ساتھ ہے اور جہاں تک اس خلافت کا ان خلفاء کے ساتھ تعلق ہے۔ جو فوت ہوچکے ہیں۔ ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے۔ ان کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے اور میرے ساتھ نشانات خلافت کا معجزاتی تعلق ہے۔ پس میرے لئے اس بحث سے کوئی حقیقت نہیں کہ کوئی آیت میری خلافت پرچسپاں ہوتی ہیں یا نہیں۔ میرے لئے خداتعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور اس کے زندہ معجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور کوئی شخص نہیں جو میرا مقابلہ کرسکے۔ اگر تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا موجود ہے جو میرا مقابلہ کرنے کا شوق اپنے دل میں رکھتا ہو تو وہ اب میرے مقابلہ میں اٹھ کر دیکھ لے۔ خدا اس کو ذلیل اور رسوا کرے گا۔ بلکہ اسے ہی نہیں۔ اگر دنیا جہان کی تمام طاقتیں مل کر بھی میری خلافت کو نابود کرنا چاہیں گی۔ تو خدا ان کو مچھر کی طرح مسل دے گا اور ہر ایک جو میرے مقابلہ میں اٹھے گا۔ گرایا جائے گا۔ جو میرے خلاف بولے گا۔ خاموش کرایا جائے گا اور جو مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود ذلیل و رسوا ہوگا۔
پس اے مومنوں کی جماعت! اور اے عمل صالح کرنے والو! میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خداتعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر کرو۔ جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی۔ خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہوگئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے۔ چاہے تو بند کردے۔ پس خلیفہ کے بگڑنے کا سوال نہیں۔ خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جائو گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو اور خداتعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو۔ بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ تم دعائوں میں لگے رہو۔ تاقدرت ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا رہے۔ تم ان ناکاموں اور نامرادوں اور بے علموں کی طرح مت بنو۔ جنہوں نے خلافت کو رد کردیا۔ بلکہ تم ہر وقت ان دعائوں میں مشغول رہو کہ خدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے۔ تا اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور شیطان اس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جائے<۔
‏]bsu [tagقدرت ثانیہ کے نزول کے لئے ہمیشہ دعائوں میں مشغول رہو
>تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرت ثانیہ کے لئے دعائوں کی جو شرط لگائی ہے۔ وہ کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی میں اس ارشاد کا یہ مطلب تھا کہ میرے زمانہ میں تم یہ دعا کرو کہ تمہیں پہلی بار خلافت نصیب ہو اور پہلی خلافت کے زمانہ میں اس دعا کا یہ مطلب تھا کہ الٰہی اس کے بعد ہمیں دوسری خلافت ملے اور دوسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں تیسری خلافت ملے اور تیسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں چوتھی خلافت ملے۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری شامت اعمال سے اس نعمت کا دروازہ تم پر بند ہو جائے۔
پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائوں میں مشغول رہو اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی۔ دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور رہو گے۔ کیونکہ خدا کا وعدہ ہے۔ جو اس نے ان الفاظ میں کیا کہ وعداللہ الذین امنوا منکم و عملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض۔ مگر اس کو بھی یاد رکھو کہ من کفر بعد ذلک فاولک ھم الفاسقون خدا تمہارے ساتھ ہو اور ابدالاباد تک تم اس کی برگزیدہ جماعت رہو<۔۶۶
آنحضرت~صل۱~ کی ایک اہم وصیت کی وسیع اشاعت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خلافت جوبلی کے اس تاریخی جلسہ پر آنحضرت~صل۱~ کی وہ آخری وصیت بڑی کثرت سے شائع فرمائی جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام )فداہ ابی و امی و روحی و جنانی( نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ کے مجمع میں فرمائی تھی اور ارشاد فرمایا تھا کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان بھائی تک یہ فرمان پہنچا دے۔ چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اس کی تعمیل میں ایک پمفلٹ شائع کیا۔ جس میں تحریر فرمایا کہ۔
وصیہ الرسولﷺ~
>برادرم!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`۔
رسول کریم~صل۱~ نے حجتہ الوداع میں جب کہ آپﷺ~ کی وفات قریب آگئی۔ بطور وصیت سب مسلمانوں کو جمع کرکے فرمایا۔nsk] gat[ ان دماء کم و اموالکم )اور ابی بکرۃ کی حدیث میں ہے۔ واعراضکم( حرام علیکم کحرمہ یومکم ھذا فی شھرکم ھذا فی بلدکم ھذا۔ اس شہر میں اس مہینہ میں اس دن کو اللہ تعالیٰ نے جو حفاظت بخشی ہے۔ )حج کے ایام کی بات ہے( وہی تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں )اور ابی بکرۃ کی روایت کے مطابق تمہاری عزتوں( کو خداتعالیٰ نے حفاظت بخشی ہے۔ یعنی جس طرح مکہ میں حج کے مہینہ اور حج کے وقت کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح پرامن بنایا ہے۔ اسی طرح مومن کی جان اور مال اور عزت کی سب کو حفاظت کرنی چاہئے۔ جو اپنے بھائی کی جان۔ مال اور عزت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ گویا وہ ایسا ہی ہے جیسے حج کے ایام اور مقامات کی بے حرمتی کرے۔
پھر آپﷺ~ نے دو دفعہ فرمایا کہ جو یہ حدیث سنے۔ آگے دوسروں تک پہنچا دے۔ میں اس حکم کے ماتحت یہ حدیث آپ تک پہنچاتا ہوں۔ آپ کو چاہئے کہ اس حکم کے ماتحت آپ آگے دوسرے بھائیوں تک مناسب موقع پر یہ حدیث پہنچا دیں۔ اور انہیں سمجھا دیں کہ ہر شخص جو یہ حدیث سنے۔ اسے حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے بھائی تک اس کو پہنچاتا چلا جائے۔ والسلام۔
خاکسار۔ مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح~ع۱<~۶۷
جلسہ خلافت جوبلی کے انتظامات
>جلسہ خلافت جوبلی< کے انتظامات حسب ذیل تین مقامات پر کئے گئے۔ )۱( اندرون قصبہ )۲( محلہ دارالعلوم اور )۳( محلہ دارالفضل میں۔ دارالعلوم کے کچن سے حسب معمول محلہ دارالرحمت کے مہمانوں کے لئے اور دارالفضل کے کچن سے محلہ دارالبرکات کے مہمانوں کو کھانا دیا جاتا رہا۔ اندرون قصبہ کے لنگر خانہ میں ۳۷ دارالعلوم میں ۵۰ اور دارالفضل میں ۲۶ تنوروں پر دن رات روٹیاں پکائی جاتیں۔ ان انتظامات کے علاوہ محلہ دارالانوار میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ماتحت خاص انتظام بھی تھا۔
عام انتظامات کی صورت یہ تھی کہ افسر جلسہ سالانہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ تھے۔ ان کے ماتحت ہر سہ مقامات پر تین ناظم تھے۔ یعنی اندرون قصبہ حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ۔ دارالعلوم میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور دارالفضل میں مکرم ماسٹر علی محمد صاحب ان کے ساتھ متعدد نائب اور پھر ان کے معاون تھے۔
پہرہ کا انتظام نیشنل لیگ کور کے سپرد تھا۔ مقامی نیشنل لیگ کور کے والنٹیئرز اپنے سالار اعظم چوہدری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء اور سالار جیش جناب مرزا گل محمد صاحب کے ماتحت کام کرتے تھے۔ مختلف راستوں پر آنے جانے والے مہمانوں کو راستہ بتانا جلسہ گاہ میں جانے کے لئے مستورات اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ راستے مقرر کرنا اور حضرت امیرالمومنینؓ کے جلسہ گاہ میں تشریف لے جانے اور واپس آنے کے وقت پہرہ کا انتظام ان کے سپرد تھا۔
انکوائری آفس ہر سہ مقامات پر علیحدہ علیحدہ تھے۔ جو چوبیس گھنٹے کھلے رہتے اور مہمانوں کو ہر قسم کی معلومات بہم پہنچاتے۔ گم شدہ اشیاء اور بچوں کی نگہداشت رکھتے۔ نیز پرائیویٹ مکانات میں مہمانوں کو پہنچاتے تھے۔
طبی انتظام۔ حسب دستور نور ہسپتال کے علاوہ مدرسہ احمدیہ۔ بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور محلہ دارالفضل میں طبی امداد کا انتظام تھا۔
مہمانوں کی تعداد
سخت گرانی اور مالی مشکلات کے باوجود اس مقدس تقریب پر مہمانوں کی تعداد سال گزشتہ کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ ۱۹۳۸ء میں مہمانوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب تھی جو جلسہ جوبلی پر قریباً چالیس ہزار تک پہنچ گئی۔

چھٹا باب )فصل چہارم(
جلسہ خلافت جوبلی پر اکابر ملک کے پیغامات
جلسہ خلافت جوبلی کی مفصل روداد بیان کی جاچکی ہے۔ اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ ملک کے غیر احمدی اور غیر مسلم حلقوں کی طرف سے اس تقریب پر کیا ردعمل ہوا؟
اس ضمن میں سب سے پہلے ہم ذیل میں بعض معززین و اکابر قوم و ملت کے وہ پیغامات درج کرتے ہیں جو ان کی طرف سے جشن جوبلی پر پہنچے۔
۱۔
آنریبل خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب لاء ممبر گورنمنٹ ہند دہلی: نے پیغام دیا۔
>میں امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں ان کے موجودہ ذی شان عہدہ میں پچیس سال کامیابی سے گزرنے کی تقریب پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
مجھے امام جماعت احمدیہ کے ساتھ مسلمانوں کے عام مفاد کے سلسلہ میں تعلق کا موقع ملتا رہا ہے۔ مسلمانوں کی عام بہبودی اور ترقی کے سوال سے آپ کی گہری دلچسپی کا میرے دل پر بہت بھاری اثر ہے <!
۲۔
میجر نواب ممتاز یاورالدولہ بہادر آف حیدرآباد دکن نے پیغام دیا کہ:۔
>امام جماعت احمدیہ قادیان کی سلور جوبلی پر میں اپنی طرف سے دلی پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں<۔
۳۔
جناب خان بہادر سیٹھ احمد الہ دین صاحب آف سکندر آباد نے پیغام دیا کہ:۔
>میں نے مسلمانوں کی مختلف فرقہ واری اختلافات سے ہمیشہ اپنے آپ کو الگ رکھا اور ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ مسلمانوں کے لئے توحید` رسالت اور قرآن کے مشترکہ مسائل میں سب کچھ ہے لیکن احمدی جماعت اور اس کی کوششوں سے احمدی نہ ہونے کے باوجود مجھے ابتداء سے ہمدردی رہی ہے۔ خود میرے بڑے بھائی سیٹھ عبداللہ الہ دین` اللہ ان کی عمر میں برکت دے` احمدیت کے ایک عملی مبلغ ہیں۔ میں اس جماعت کی اشاعت و تبلیغ کی مساعی کو دیکھ کر خصوصیت کے ساتھ بہت پسند کرتا ہوں اور اس میں حتی الامکان امداد کرتا رہتا ہوں۔ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی مجھ پر خاص توجہ اور عنایت ہے اور ان کی عملی زندگی` وسیع النظری اور خداپرستی نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا۔ اپنے والد کے منصب خلافت کو ادا کرتے ہوئے پچیس سال کی تکمیل میں ان کو اور جماعت احمدیہ کو دل سے مبارک باد دیتا ہوں<۔
۴۔
سرڈگلس ینگ بالقابہ چیف جسٹس ہائی کورٹ لاہور نے پیغام دیا کہ۔
>میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو ان کی خلافت پر پچیس سال گزرنے کی تقریب پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میں جماعت احمدیہ کے افراد کو جوڈیشنل محکمہ میں ملازم رکھتے ہوئے ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے ان کی دیانت داری کے خلاف کبھی کسی کی طرف سے اشارۃ و کنایتہ بھی شکایت نہیں پہنچی۔<۔
۵۔
آنریبل کنور سرجگدیش پرشاد بہادر ایجوکیشنل ممبر گورنمنٹ آف انڈیا دہلی: نے پیغام دیا کہ:۔ >میں جماعت احمدیہ کے ذی شان امام کی جوبلی کی تقریب پر نیک دعائوں اور تمنائوں کا ہدیہ پیش کرتا ہوں<۔۶۸
شمس العلماء خواجہ حسن نظامی اور خلافت جوبلی
جلسہ خلافت جوبلی کے انعقاد کی ابھی تیاریاں ہورہی تھیں کہ شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ۲۴۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کے اخبار >منادی< میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ۱۹۳۸ء کے مشہور سفر دہلی کا گروپ فوٹو شائع کیا اور اس کے نیچے یہ نوٹ شائع کیا:۔
>یہ تصویر درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے قریب مسجد نواب خاں دوراں خاں میں گزشتہ سال لی گئی تھی۔ جس میں قادیانی جماعت کے خلیفہ صاحب اور چوہدری سر محمد ظفراللہ خاں صاحب اور بلبل ہندوستان سروجنی نائیڈو صاحبہ شریک ہوئی تھیں۔ سامنے نواب خاں دوراں کا مزار ہے جو نادر شاہ ایرانی کی لڑائی میں بمقام پانی پت شہید ہوئے تھے اور جن کے پوتے حضرت خواجہ میر درد~رح~ کی اولاد میں وہ خاتون ہیں جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی والدہ ہیں۔ آج کل مرزا صاحب کی خلافت کی پچیس سالہ جوبلی قادیان میں ہورہی ہے اور میں اپنے تعلقات کی یادگار میں جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے میرے تھے اور ان کے فرزند اور خلیفتہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے ہیں اور مرزا صاحب نے اپنی خلافت کے پچیس سالہ ایام میں اسلام کی اور مسلمانوں کی بڑی بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ اور سر محمد ظفراللہ خاں جیسے خادم اسلام اور مسلمین افراد تیار کئے ہیں۔ اس لئے میں یہ تصویر اپنی جماعت اور ناظرین منادی کی معلومات کے لئے اور جوبلی کی خوشی میں دل سے شریک ہونے کے لئے شائع کرتا ہوں۔ حسن نظامی<۶۹
جلسہ خلافت جوبلی کا ذکر ملکی پریس میں
خلافت جوبلی کی روح پرور تقریب پر احمدیوں کے علاوہ غیر مبائع`۷۰ غیر احمدی۷۱ اور غیر۷۲ مسلم معززین کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی حیرت انگیز قیادت اور احمدیوں کی اپنے محبوب امام سے بے نظیر فدائیت و عقیدت کے نظارے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے۔ اس سلسلہ میں بعض اخبارات کے تاثرات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
)۱( اخبار >پارس< )۱۱۔ جنوری ۱۹۴۰ء( نے لکھا۔
>گو تعصب کے باعث ملک کے مسلم اور غیر مسلم اخبارات نے قادیان کے گزشتہ عظیم الشان اجتماع اور جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن جنہوں نے اس سالانہ تقریب کو بچشم خود دیکھا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ جماعت احمدیہ کی تنظیم` اپنے پیشوا میں اس کی عقیدت اور مذہبی اصولوں پر عمل قابل رشک ہے<۔۷۳
)۲( اخبار >اہلحدیث< امرتسر نے ۱۲۔ جنوری ۱۹۴۰ء کی اشاعت میں بعنوان >قادیان میں سالانہ جلسہ اور سلور جوبلی< حسب ذیل نوٹ دیا۔
>قادیان میں اس دفعہ جلسہ بڑی دھوم دھام سے ہوا۔ جس کی تیاری بڑے زور شور سے ہورہی تھی۔ روپیہ بھی کافی جمع ہوا۔ آدمی بھی۔ بہ تعداد پرچیاں لنگر خانہ >بقول خلیفہ صاحب< ۲۶ ہزار کا شمار تھا۔ اس کی تہ میں یہ راز ہے کہ قادیان سے تاکید پر تاکید شائع ہوئی تھی کہ ہر احمدی اپنے پاس سے بھی کرایہ دیکر ایک دو مسلمانوں کو ساتھ لائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جلسہ سے واپسی کے وقت حسب معمول دور دراز کے مرزائی صاحبان دفتر اہلحدیث میں تشریف لاتے رہے۔ جن سے معلوم ہوا کہ مسلمان )غیر مرید مرزا( جلسہ میں کثرت سے آئے تھے۔ ان کو مریدان مرزا اپنے خرچ سے لائے تھے تاکہ وہ اچھا اثر لیکر جائیں اور ساتھ ہی جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہو جائے<۔۷۴
افریقہ کے ایک غیراحمدی دوست کے تاثرات
اس تاریخی جلسہ میں دوسرے غیراحمدی دوستوں کے ساتھ افریقہ کے ایک غیراحمدی دوست شیدا صاحب بھی شامل ہوئے تھے۔ جنہوں نے جوبلی دیکھنے کے بعد اپنے دلی خیالات و جذبات کا اظہار حسب ذیل الفاظ میں کیا۔
>چند احمدی دوستوں کی ایماء پر میں جلسہ خلافت جوبلی میں شرکت کی غرض سے ۲۷۔ دسمبر کی شام کو قادیان پہنچا۔ اس وقت حضرت امیر جماعت جلسہ میں تقریر فرما رہے تھے۔ میں پنڈال میں اختتام تقریر تک موجود رہا۔ ۲۸` ۲۹۔ دسمبر کو بھی تقریروں سے محظوظ ہوتا رہا۔ حضرت امیر سلسلہ کی تقاریر سننے کا خاص طور پر آرزومند تھا۔ کیونکہ میں ان کی ایک شاندار تقریر سے جو لاہور بریڈلا ہال میں آپ نے شاید ۱۹۱۹ء میں فرمائی تھی۔ مسرور ہوچکا تھا۔ جو بین الاقوامی اتحاد پر کی گئی تھی اور پسند خاص و عام تھی۔
۲۹۔ کی شام کی ٹرین سے میں لاہور واپس آگیا۔ تمام اجلاس خدا کے فضل و کرم سے حد درجہ کامیاب اور پرشکوہ تھے۔ انتظام کے لحاظ سے بھی ہرچیز قابل داد تھی۔ میں ایک غیراحمدی ہوں۔ مدت سے افریقہ میں رہتا ہوں۔ ہاں میرے احمدی احباب کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ قادیان سے واپسی پر میں اپنے دل میں جماعت احمدیہ کی تنظیم اور اس کی اسلامی خدمات خصوصاً حضرت امیر سلسلہ کی تبلیغی سرگرمیوں کی نسبت بہت سے تاثرات لیکر آیا ہوں۔ اسی سلسلہ میں جشن خلافت جوبلی پر میں نے چند اشعار کہے ہیں۔ جو درج ذیل کرتا ہوں:۔ ~}~
دو روز قادیاں میں رہا ہے میرا قیام
دیکھا رو پہلی جوبلی کا خوب اہتمام
اس جشن جوبلی کے لئے آئے شوق سے
ہر صوبہ و دیار کے افراد خاص و عام
عیسائی ہندو سکھ و مسلماں پہ مشتمل
ہر فرقہ و عقیدہ کا مجمع تھا لا کلام
جلسے میں یوں تو سارے مقرر تھے باخبر
لیکن امیر سلسلہ کرتے تھے دل کو رام
روحانیت کے پھول بکھرتے تھے ہر طرف
ہوتے تھے اہل جلسہ سے جسدم وہ ہم کلام ۔۔۔۔ الخ۷۵
‏tav.8.39
تاریخ احمدیت۔ جلد ۷
خلافت ثانیہ کا چھبیسواں سال
چھٹا باب )فصل پنجم(
۱۹۳۹ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں پرمسرت تقاریب
۱۔ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی تقریب شادی کوٹھی دارالسلام قادیان میں ۲۲۔ جنوری ۱۹۳۹ء کو بعد نماز عصر عمل میں آئی۔۷۶ آپ کا نکاح صاحبزادی طیبہ بیگم صاحبہ )دختر نیک اختر حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحبؓ( سے ہوا تھا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۲۵۔ جنوری ۱۹۳۹ء کو اپنے فرزند ارجمند کی دعوت ولیمہ دی۔
اس دعوت میں تیرہ سو کے قریب نفوس شامل ہوئے۔ )۱( قادیان کے تمام وہ اصحاب مدعو تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔ )۲( مدرسہ احمدیہ۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے سٹاف۔ )۳( دفاتر کے اکثر کارکن۔ )۴( واقفین تحریک جدید۔ )۵( محلہ دارالفضل سے پچاس۔ محلہ دارالرحمت سے پچاس۔ محلہ مسجد مبارک سے پچاس۔ محلہ دارالبرکات سے تیس۔ محلہ دارالعلوم سے تیس۔ محلہ ریتی چھلہ سے بیس۔ محلہ مسجد فضل سے بیس۔ محلہ مسجد اقصیٰ سے دس۔ دارالانوار سے پانچ دارالسعتہ سے پانچ۔ ناصر آباد سے دس اصحاب مدعو تھے۔ ان کے علاوہ تمام محلوں کے غرباء اور مساکین نیز دارالصحت کے کچھ نو مسلم بھی بلائے گئے تھے۔ )۶( مہمان خانہ کے بہت سے مہمان۔ )۷( مقامی سرکاری اداروں کے ملازمین۔ )۸( بھینی۔ ننگل۔ قادرآباد۔ احمد آباد اور کھارا کے بعض اصحاب۔ )۹( بعض غیر احمدی اصحاب۔
دعوت کا انتظام حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی کوٹھی دارالحمد کے صحن میں کیا گیا تھا۔
کھانا کھلانے کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی اپنے خدام میں بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔ کھانے کے بعد دعاء کی گئی۔ اس کے بعد یہ مبارک تقریب ختم ہوئی۔ دعوت کے منتظم اعلیٰ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل )جٹ( تھے۔۷۷
۲۔ ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی دختر نیک اختر صاحبزادی امتہ اللہ بیگم صاحبہ کا نکاح پیر صلاح الدین صاحب )خلف الرشید پیر اکبر علی صاحب( کے ساتھ اڑھائی ہزار روپیہ مہر پر پڑھا۔ اگلے روز )۱۶۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو( تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔
۷۔ مئی ۱۹۳۹ء کو صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی شادی ہوئی۔۷۸
۳۔ ۱۱۔ مئی ۱۹۳۹ء کو حضرت امیرالمومنین نے بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کا نکاح سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ )بنت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب( کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا اور نہایت پرمعارف خطبہ۷۹ ارشاد فرمایا۔۸۰
۴۔ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کو حضور نے مسجد نور میں مندرجہ ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا۔
۱۔
صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ بنت حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ کے ساتھ گیارہ سو روپیہ مہر پر۔
۲۔
صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ابن قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحبؓ کے ساتھ گیارہ سو روپیہ مہر پر۔
۳۔
صاحبزادہ مرزا دائود احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے ساتھ پندرہ ہزار )۱۵۰۰۰( روپیہ مہر پر۔
۴۔
خان مسعود احمد خاں صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا نکاح صاحبزادی طیبہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کے ساتھ بعوض پندرہ ہزار روپیہ )۱۵۰۰۰( مہر پر۔۸۱
دو مبارک تقاریب
۹۔ فروری ۱۹۳۹ء کو طلباء جامعہ احمدیہ قادیان نے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلالپوری پروفیسر جامعہ کے ریٹائر ہونے اور حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے ان کی بجائے پروفیسر مقرر ہونے اور شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ کی کامیاب مراجعت کی تقریب میں دعوت چائے دی۔ جس میں حضرت مصلح موعود نے بھی شرکت فرمائی۔ طلباء نے تینوں حضرات کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا اور انہوں نے مختصر جوابات دیئے۔ آخر میں حضور نے خطاب فرمایا۔ اس کے بعد ۱۲۔ فروری ۱۹۳۹ء کو حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب نے حضرت مولانا شیر علی صاحب` حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے اعزاز میں دعوت طعام دی جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی۔۸۲
سنگ بنیاد
اس سال ۲۹۔ جنوری ۱۹۳۹ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے محلہ دارالعلوم میں ڈاکٹر احمد دین صاحب آف ٹانگا نیکا۸۳ کے مکان کی اور ۸۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو محلہ دارالبرکات میں ڈاکٹر محمد شفیع صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ کے مکان کی بنیاد رکھی۔۸۴
مسجد فضل لنڈن میں مذاہب کانفرنس
۸۔ جنوری ۱۹۳۹ء کو مسجد احمدیہ لنڈن میں سر فیروز خاں نون )کے سی آئی ای ہائی کمشنر فار انڈیا( کے زیر صدارت ایک مذہبی کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں اسلام عیسائیت اور یہودیت کے نمائندوں نے معزز اور تعلیم یافتہ انگریزوں کے ایک بہت بڑے مجمع میں >امن عالم< کے موضوع پر مقالے پڑھے۔ اسلام کی نمائندگی مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے فرمائی اور >امن عالم اور اسلام< کے موضوع پر ایک پرمغز مقالہ پڑھا۔۸۵
اس کانفرنس کا ذکر ولایت اور ہندوستان کے مقتدر اور بااثر اخبارات نے بھی کیا اور بعض نے تقریروں کی تفصیل شائع کی۔۸۶
سیٹھ محمد غوث صاحب کی دختر کا نکاح
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۰۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو سیٹھ محمد غوث صاحب حیدرآباد دکن کی دختر امتہ الحفیظ بیگم کا نکاح چودھری خلیل احمد صاحب ناصر بی۔ اے مجاہد تحریک جدید سے پڑھا۔ اور خطبہ نکاح میں ارشاد فرمایا۔ کہ
>سیٹھ محمد غوث صاحب پرانے احمدی ہیں۔ ان کے تعلقات میرے ساتھ نہایت مخلصانہ ہیں۔ ان کے بچوں کے تعلقات بھی بہت اخلاص پر مبنی ہیں۔ ان کی بچیوں کے تعلقات میری بچیوں سے نہایت گہرے ہیں۔ غرض ان کے تعلقات ہمارے خاندان سے ایسے ہیں کہ گویا وہ ہمارے ہی خاندان کا حصہ ہیں۔ ان کی بچیوں کو میں اپنی بچیاں سمجھتا ہوں۔ اس لئے نکاح گویا ہمارے ہی خاندان میں ہے<۔۸۷
قادیان میں روسی ترک عالم موسیٰ جاراللہ اور الاستاذ عبدالعزیز ادیب مدیر >رابطہ اسلامیہ< کی تشریف آوری
وسط اپریل ۱۹۳۹ء میں عالم اسلام کے دو مشہور عالم قادیان کی شہرت سنکر مرکز احمدیت میں تشریف لائے۔ ۱۔ حاجی موسیٰ جاراللہ۔۸۸
۲۔ الاستاذ عبدالعزیز ادیب مدیر ماہنامہ >رابطہ اسلامیہ< دمشق۔
علامہ موسیٰ جاراللہ نہ صرف قادیان کے مقامی اداروں اور باالخصوص مرکزی لائبریری میں نایات کتابیں دیکھ کر بہت خوش]01 [p۸۹ ہوئے۔ بلکہ آپ پر جماعت احمدیہ کے عقائد و تعلیمات کا بھی گہرا اثر ہوا۔ جس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ آپ نے تین سال بعد فروری ۱۹۴۲ء میں >کتاب حروف اوائل السور< شائع فرمائی جس میں آیت وآخرین منہم )الجمعہ ع( کی یہ تفسیر لکھی کہ۔
>ومعنی ھذہ الایہ الکریمہ الثالثہ ھو الذی بعث فی الامین رسولا من الامین و بعث فی اخرین رسلامن اخرین فکل امہ لھا رسول من نفسھا۔ وھولاء الرسل ھم رسل الاسلام فی الامم۔ مثل انبیاء بنی اسرائیل ھم رسل التوراتہ فی بنی اسرائیل<۔۹۰
یعنی اس تیسری آیت کریمہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ خدا جس نے امیوں میں سے رسول بھیجا۔ آخرین میں سے بھی اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے گا۔ کیونکہ ہر امت کے رسول اس میں سے برپا ہوتے ہیں۔ اور یہ رسول جن کی یہاں پیسگوئی کی گئی ہے وہ اسلام کے رسول ہیں جو امت مسلمہ میں مبعوث ہوں گے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء تھے۔ جو بنی اسرائیل میں قیام تورات کی خاطر بھیجے گئے تھے۔
اسی طرح علامہ موسیٰ جاراللہ نے اس کتاب کے صفحہ ۱۲۱ پر جماعت احمدیہ کے نظریہ معراج کی تائید کرتے ہوئے لکھا۔
>کل ذلک فی الواقعہ فی الیقظہ فی عالم المثال فی اوسع عالم من عوالم اللہ یقول الصرفیہ فی تحقیق المعراج تجسدت کمالاتہ الانسانیہ علی شکل بدنہ و تجسدت کمالاتہ الروحیہ الحیریہ علی شکل البراق فکان کل ما کان فی الیقظہ واقعہ واعظم ماکان ھو معراجہ الروحانی فان طی المسافہ شی ء سھل طبعی قد وقع لافراد۔ اما قطع کل درجات النبوہ و کل مدارج الکمالات الانسانیہ و الملکیہ فی زمن یسیرفلم یکن الا لصاحب القران الکریم۔ تقدم فیہ النبی نبی الاسلام علی کل انبیاء کل الامم و امھم فی الصلوہ وقام فی الوسط متقابلین کل یری وجہ الاخر وکان الاسراء و امھم فی الصلوہ وقام فی الوسط متقابلین کل یری وجہ الاخر وکان الاسراء تمثیلا لما سیقع فی مستقبل الایام من اجتماع کل الامم تحت لواء بنی الاسلام و رسول السلام<۔۹۱
ترجمہ:۔ یعنی اسراء کا پورا واقعہ بیداری میں اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ جہانوں میں سب سے وسیع مثالی جہان میں ہوا۔ صوفیاء کرام کی معراج کے بارے میں یہ تحقیق ہے کہ آنحضرت~صل۱~ کے انسانی کمالات حضور کے بدن کی صورت میں اور روحانی کمالات براق کی شکل میں متجسم ہوئے اور یہ سارا واقعہ بیداری میں ہوا اور اہم ترین بات یہ ہے کہ حضور کا یہ معراج روحانی تھا کیونکہ مسافت کا طے کرنا نہایت ہی آسان بات اور کئی افراد کا تجربہ شدہ امر ہے۔ لیکن جملہ مقامات نبوت کا طے کرلینا اور سب انسانی کمالات کا تھوڑے سے عرصہ میں پالینا آنحضرت~صل۱~ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکا۔ حضور تمام امتوں کے انبیاء پر سبقت لے گئے اور نماز میں ان کے امام بنے اور وسط میں اس طور پر کھڑے ہوئے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔ تمثیل اسراء کے ذریعہ سے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سب بتا دئے گئے اور خبر دی گئی کہ دنیا کی تمام قومیں بالاخر نبی کریم~صل۱~ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں گی۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا قادیان میں ورود
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرجان ڈگلس ینگ جو پنجاب سکائوٹس کے ہائی کمشنر بھی تھے۔ پنجاب کا دورہ کرتے ہوئے ۱۶۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو قادیان تشریف لائے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے صاحب موصوف سے چودھری ظفراللہ خاں صاحب کی کوٹھی بیت الظفر میں ملاقات فرمائی۔ اس موقعہ پر چوہدری محمد ظفراللہ صاحب کی قائم مقامی میں چودھری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء نے ضیافت کا انتظام کیا۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی شرکت فرمائی۔
صاحب موصوف قادیان کے بعض مقامات اور ادارے دیکھنے کے بعد اسی روز دو بجے بعد دوپہر واپس تشریف لے گئے۔۹۲
ترکی ہوا باز کی آمد
علامہ موسیٰ جاراللہ` الاستاذ عبدالعزیز اور چیف جسٹس کے علاوہ جو شخصیتیں اس سال قادیان میں آئیں ان میں ترکی کے مشہور ہوا باز لیفٹیننٹ سیف الدین بے اور ترکی فوج کے ڈاکٹر محمد سلیم بے بھی تھے جو ۸۔ نومبر ۱۹۴۹ء کو قادیان تشریف لائے۔۹۳
۱۲۔ نومبر کی شام کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان مہمانوں کو دعوت طعام دی۔۹۴
مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی اور مراجعت
اس سال مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ۴۔ جون ۱۹۳۹ء کو عازم مشرقی افریقہ ہوئے۔۹۵ اور شیخ عبدالواحد صاحب فاضل مبلغ ہانگ کانگ تبلیغی فرائض بجالانے کے بعد ۶۔ مارچ۹۶ ۱۹۳۹ء کو اور مولوی رحمت علی صاحب مجاہد جاوا اور ۲۱۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کو واپس تشریف لائے۔۹۷
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
۱۔ ماریشس مشن:۔ مازو احمد ابراہیم اچھا صاحب )پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ماریشس( حج بیت اللہ شریف سے مشرف ہونے کے بعد ۲۳۔ فروری۹۸ ۱۹۳۹ء کو قادیان میں تشریف لائے اور برکات مرکز سے فیض یاب ہونے کے بعد شروع مارچ ۱۹۳۹ء میں ڈاکٹر محمد احسان صاحب۹۹ کو )جو قبل ازیں ایک عرصہ تک ماریشس میں آنریری طور پر تبلیغ احمدیت کا فریضہ کامیابی سے بجالاتے رہے تھے( اپنے ہمراہ لیکر ماریشس کے لئے روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کے سپرد پورٹ لوئیس کی بندرگاہ پرورس و تدریس اور دیگر تبلیغی کام کئے گئے۔ اسی اثناء میں آپ کو اپنے والد حکیم مہربان علی صاحب کے انتقال پرملال کی اطلاع پہنچی اور آپ کو مجبوراً اپنے وطن واپس آنا پڑا۔۱۰۰ جماعت احمدیہ ماریشس نے آپ کی روانگی پر ایڈریس پیش کیا۔ جس میں اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
>جناب ڈاکٹر صاحب! آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ چھوٹے بڑے ہندو` سکھ` مسلم وغیرہ سے ملاقاتیں کرکے آپ نے اپنا حق ادا کیا۔ اس کے علاوہ جب سے آپ آئے ہیں۔ آپ نے پائی میں جمعہ کی نماز پڑھائی ہے۔ ان تمام کاموں میں جو امر زیادہ قابل تحسین ہے وہ یہ کہ آپ اپنی گرہ سے کرایہ خرچ کرکے جمعہ پڑھانے کے لئے جاتے رہے۔ نیز ہم ممنون ہیں کہ آپ نے خدام الاحمدیہ کے ممبروں میں ایک نئی روح پھونک دی اور اپنے فرائض سے آگاہ کیا۔ جماعت احمدیہ ماریشس آپ کی مساعی جمیلہ پر آپ کو مبارکباد دیتی ہے<۔۱۰۱
۲۔ ایک غیر احمدی عالم مولوی عبدالعلیم صاحب )میرٹھی( نے ماریشس میں احمدیت کے خلافت بہت بدزبانی کی اور کہا کہ میں نے ہندوستان میں ڈاکٹر سر محمد اقبال اور الیاس برنی سے مل کر احمدیت مٹا ڈالی ہے اور اب کوئی شخص اس جماعت میں داخل نہیں ہوتا اور ان کا خلیفہ )معاذاللہ( روتا پھرتا ہے۔ مولوی صاحب کی تعلیاں دیکھ کر ان کے ایک مالدار ذی اثر عقیدتمند نے ایک جلسہ اور جلوس کا انتظام کیا جس میں گورنر کو بھی دعوت دی۔ مگر جب سارے انتظامات مکمل ہوگئے تو جلوس کی روانگی سے چند منٹ پہلے خبر آگئی کہ جلسہ کا بانی مبانی ملک عدم کا روانہ ہوچکا ہے۔ اس پر تمام مجمع روتا ہوا منتشر ہوگیا۔۱۰۲ غرض مولوی عبدالعلیم جنہوں نے حضرت امیرالمومنین کے متعلق کذب بیانی کی تھی خداتعالیٰ کی طرف سے ان کے سمیت تمام مجمع کو رلایا گیا۔ جو ماریشس میں احمدیت کی صداقت کا ایک واضح نشان تھا۔
۳۔ جاوا مشن:۔ اس سال سے احمدیت گارت )جاوا( اور اردگرد کے دیہات میں بڑی تیزی سے ترقی کرنے لگی۔ خاص طور پر نقشبندی فرقہ کے متعدد لوگ داخل احمدیت ہوئے جن کے ذریعہ مبلغ جاوا مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری کو معلوم ہوا کہ بقول مشائخ اہل طریقہ سلطان الاولیاء حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مریدوں کو ۲۰ مراقبے بطور وصیت لکھ کر دیئے ہیں جن کو یاد کرنے اور ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کی تاکید کرگئے۔ پھر انہوں نے وہ تمام مراقبے تفصیل کے ساتھ بتا دیئے۔ تیرھواں مراقبہ یہ بیان کیا کہ۔
المراقبہ المحبوبیہ الذاتیہ وھی حقیقہ المحمدیہ۔ اور اس کی دلیل میں وما محمد الا رسول ط والی قرآنی آیت لکھی ہے اور چودھواں مراقبہ المراقبہ المحبوبیہ الصوفیہ وھی حقیقہ الاحمدیہ ہے۔ اور اس کی دلیل میں ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ط والی قرآنی آیت لکھی ہے۔ جب وہ تمام مراقبے بیان کرچکے تو مولوی عبدالواحد صاحب نے ان سے کہا کہ آپ تمام اخوان اہل طریقہ کو ہماری مسجد میں جمع کریں۔ میں ان مراقبوں سے احمدیت کی صداقت واضح کروں گا۔ چنانچہ تمام اہل طریقہ مسجد احمدیہ میں جمع ہوئے اور مولوی صاحب موصوف نے تین گھنٹہ تک بذریعہ لیکچر ان مراقبوں کی تشریح کی اور ان کی روشنی میں احمدیت کی صداقت کو بیان کیا اور بتایا کہ کوئی شخص طریقتہ المحمدیہ پر چلنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ وفات مسیحؑ کا قائل نہ ہو۔ کیونکہ اس مراقبہ کی دلیل وما محمد الا رسول ط قد خلت من قبلہ الرسل ط بتائی گئی ہے۔ جس میں بلا استثناء آنحضرت~صل۱~ سے قبل تمام انبیاء کے فوت ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اس مراقبہ کو نمبر ۱۳ پر رکھ کر تیرھویں صدی کی طرف اشارہ کیا گیا جبکہ حیات مسیحؑ کا عقیدہ مسلمانوں کی گمراہی کا خصوصیت سے موجب ہوا۔
پھر اس گمراہی سے بچنے کے لئے چودھواں مراقبہ وہ رکھا جس کا نام الطریقتہ الاحمدیتہ ہے اور اس میں بتایا گیا کہ چودھویں صدی میں ایک غیر تشریعی نبی احمد )علیہ السلام( مبعوث ہوگا۔ جو لوگوں کی اصلاح کرے گا کیونکہ مراقبہ کی صداقت میں آیت ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ط کو پیش کیا گیا ہے۔
غرض مولوی عبدالواحد صاحب نے بالترتیب تمام مراقبوں سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت واضح کی۔ اس وقت قریباً چار پانچ صد اصحاب کا مجمع تھا۔ تقریر کے اختتام پر ۲۵ اشخاص نے بیعت کی۔ اور اس کے بعد ہر جمعہ کو تین چار آدمی اس فرقہ کے داخل سلسلہ ہونے لگے۔۱۰۳
۲۔ گارت کے علاوہ وسطی جاوا میں بھی احمدیت کی ترقی ہوئی اور مجاہد تحریک جدید شاہ محمد صاحب کے ذریعہ پوروکرتو کے مقام پر ایک مخلص جماعت کا قیام عمل میں آیا۔۱۰۴
مغربی افریقہ مشن:۔ مغربی افریقہ کے احمدی مبلغین نے ۱۹۳۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زلازل سے متعلق پیشگوئیاں بذریعہ اشتہار شائع کی تھیں اور ان کو ملک میں بکثرت تقسیم کیا تھا۔ اس انداز کے کچھ عرصہ بعد وسط مئی ۱۹۳۹ء میں ایک حاجی صاحب مغربی افریقہ میں وارد ہوئے جنہوں نے گائوں گائوں پھر کر پراپیگنڈا کیا کہ اگر امام مہدی آگیا ہے تو زلزلہ کیوں نہیں آتا! خدا کی قدرت! ۲۲۔ جون ۱۹۳۹ء کو ساڑھے سات بجے شام کو گولڈ کوسٹ میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جس سے جانی اور مالی لحاظ سے بھاری نقصان ہوا۔ زلزلہ کے بعد گولڈ کوسٹ کے عیسائیوں بلکہ مشرکوں کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ جماعت احمدیہ نے قبل از وقت بذریعہ اشتہار زلزلے کی خبر دی تھی اور عوام کو احمدیہ لٹریچر سے خاص طور پر دلچسپی پیدا ہوگئی۔۱۰۵
امریکہ مشن:۔ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی ایم۔ اے نے کنساس کا تبلیغی دورہ کیا۔ اس شہر میں ۳۱۔ مئی ۱۹۳۹ء سے ۱۳۔ جون ۱۹۳۹ء تک روزانہ لیکچر ہوئے جو غیر مسلموں میں بہت مقبول ہوئے۔۱۰۶
مصر مشن:۔ )۱( مصر میں ایک عرصہ سے احمدیت کی نسبت جمود اور تعطل کی سی کیفیت جاری تھی کہ اس سال ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے مصری پریس نے احمدیوں کی مخالفت یا موافقت میں لکھنا شروع کردیا۔۱۰۷ واقعہ یہ ہوا کہ ان دنوں دو البانوی طالب علم جن کا تعلق )فریق لاہور سے تھا( الازہر میں داخل تھے۔ دوران تعلیم انہوں نے >تعالیم الاحمدیہ< اور >الاحمدیہ کما عرفناھا< کے نام سے دو رسالے شائع کردئے۔ جس پر شیخ الازہر محمد مصطفیٰ المراغی نے احمدیوں سے متعلق ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کردی جس کے صدر شیخ عبدالمجید اللبان عمید کلیہ اصول دین قرار پائے اور شیخ ابراہیم الجبالی` شیخ محمد فتاح الحنان` شیخ محمود آلسی اور شیخ محمد العدوی۔ یہ چار علماء رکن مقرر ہوئے۔ یہ اطلاع ہندوستان میں پہنچی تو پروفیسر محمد الیاس برنی صاحب صدر شعبہ معاشیات جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن نے کمیٹی کے علماء کے علاوہ اخبار الفتح کے مالک و مدیر سید محب الدین الخطیب سے رابطہ قائم کرکے احمدیت کے خلاف مواد عربی میں ترجمہ کرا کے بھیجا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مصری اخبارات )الفتح۔ الادستور( میں احمدیت کے خلاف بحث چل نکلی۔ تحقیقاتی کمیٹی )لجنتہ التحقیق( نے کیا فتویٰ صادر فرمایا؟ اس کی نسبت پروفیسر محمد الیاس برنی صاحب تحریر کرتے ہیں۔
لجنتہ التحقیق نے ہر طرح خوب تحقیق کی۔ اور تحقیق پختہ ہو جانے پر دونوں قادیانی البانوی طلبہ کو کلیہ اصول دین سے خارج کردیا کہ مسلمانوں کے سوا اور کوئی اس کلیہ میں تعلیم نہیں پا۱۰۸ سکتے<۔ اس فیصلہ کے بہت جلد بعد شیخ الازہر محمد مصطفیٰ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
۲۔ احمد آفندی حلمی جو جماعت احمدیہ مصر کے ابتدائی مخلص ارکان میں سے تھے اور ۱۹۳۰ء میں داخل احمدیت ہوئے تھے خلیفہ وقت کی زیارت کے لئے ۵۔ اگست ۱۹۳۹ء کو قاہرہ سے قادیان تشریف لائے۔۱۰۹ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور دوسرے بزرگان سلسلہ سے ملاقات کرنے اور مرکز احمدیت کے فیوض سے متمتع ہونے کے بعد ۲۶۔ اگست ۱۹۳۹ء کو عازم مصر ہوگئے۔۱۱۰ احمد حلمی کا یہ سفر ان کے اندر ایک تغیر عظیم پیدا کرنے کا موجب ہوا اور وہ جماعتی کاموں میں پہلے سے بھی زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ ان کی والدہ ایک اعلیٰ پایہ کی تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور ہمیشہ احمدی مبلغوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتی رہتی تھیں۔ مگر اب صرف ان کے اندر غیر معمولی تبدیلی دیکھ کر کسی بحث و مباحثہ کے بغیر از خود داخل احمدیت ہوگئیں۔۱۱۱
فلسطین مشن:۔ اس سال فلسطین کے دہشت انگیزوں )ثوار( نے بعض فلسطینی احمدیوں کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا۔ مگر چند ایام ہی گزرے تھے کہ ان ظالموں کا لیڈر قتل کر دیا گیا۔۱۱۲
۱۹۳۹ء کی نئی مطبوعات
۱۹۳۹ء میں خلافت جوبلی کے باعث متعدد نئی علمی کتابیں شائع کی گئیں جن سے احمدیہ لٹریچر میں شاندار اضافہ ہوا۔
اس سال کی سب سے نمایاں کتاب >سلسلہ احمدیہ< تھی جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تصنیف فرمائی۔ جس میں آپ نے اختصار مگر نہایت جامعیت سے سلسلہ احمدیہ کی پچاس سالہ تاریخ کے علاوہ اس کے مخصوص عقائد اور اس کی غرض و غایت پر مستند معلومات کا ایک بیش بہا ذخیرہ جمع کردیا۔ اس اہم تصنیف نے جماعت کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کیا۔ خصوصاً غیر احمدی اور غیر مسلم محققین اور نو احمدیوں اور نوعمر پیدائشی احمدیوں کو تحریک احمدیت سے روشناس کرانے میں بہت مفید ثابت ہوئی۔
>سلسلہ احمدیہ< کے علاوہ ۱۹۳۹ء میں مندرجہ ذیل کتب بھی شائع ہوئیں۔
)۱( >خلافت حقہ< )تصنیف لطیف حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ( )۲( >فضل عمر کے زریں کارنامے< )مولفہ مولوی ظفر اسلام صاحب مرحوم( )۳( >فضل عمر< )انگریزی۔ مولفہ صوفی عبدالقدیر صاحب سابق مبلغ جاپان( )۴( >سیرت سیدالانبیاء< )از مولوی عبدالقادر صاحبؓ فاضل نو مسلم۔ سابق سوداگر مل( )۵( >خطبات النکاح< جلد اول۔ جلد دوم )سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے روح پرور خطبات مرتبہ ملک فضل حسین صاحب( )۶( >خطبات عیدین< جلد اول )سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ایمان افروز خطبات مرتبہ ملک فضل حسین صاحب( )۷( >تمدن اسلام< )ملک محمد عبداللہ صاحب فاضل( )۸( >بشارات رحمانیہ< جلد اول )مرتبہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر( )۹( >ایک عزیز کے نام خط< )از چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب( )۱۰( >احمدیہ البم انگریزی< )شائع کردہ تحریک جدید قادیان( )۱۱( >خلیل احمد< )مولفہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل دیال گڑھی( )۱۲( >حفاظت ریش< )حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ( )۱۳( >تاثرات قادیان< )مولفہ ملک فضل حسین صاحب( )۱۴( >شاہان اسلام کی رواداریاں< )مولفہ ملک فضل حسین صاحب( )۱۵( >نجات المسلمین۔ )۱۶( تفسیر سورہ کوثر )پمفلٹ مرتبہ مولانا ابوالعطاء صاحب( )۱۷( >احمدیت کی پہلی کتاب< )مولفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم سابق امیر المجاہدین علاقہ ملکانہ( )۱۸( ٹریکٹ >آسمانی آواز<۱۱۳ )مرتبہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر(
اخبارات و رسائل کے خاص نمبر
مندرجہ بالا لٹریچر کے علاوہ مرکز احمدیت سے نکلنے والے جملہ اخبارات و رسائل نے بلکہ رسالہ مپینزی یا منگو )مشرقی افریقہ( نے بھی خلافت جوبلی کی خوشی میں نہایت قیمتی مضامین پر مشتمل نمبر شائع کئے۔ جن سے سلسلہ احمدیہ کی ترقیات اور خلافت کی برکات و فتوحات کا نہایت دلکش نقشہ اپنوں اور بیگانوں کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
اس سال مندرجہ ذیل مقامات پر اہم مناظرے ہوئے جن میں خداتعالیٰ کے فضل سے احمدیہ علم کلام کو فتح نصیب ہوئی۔
۱۔ مباحثہ پونچھ:۔ ۹۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو پونچھ میں احمدیوں اور اہل حدیث کا مسئلہ >وفات مسیحؑ< پر ایک مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب مبلغ تھے اور غیراحمدیوں کی طرف سے مولوی محمد بخش صاحب۔ غیر احمدی اور غیر مسلم شرفاء نے مولوی محمد بخش صاحب کی شکست کا اعتراف کیا۔۱۱۴
۲۔ مباحثہ ڈیریوالہ:۔ ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے موضع ڈیریوالہ ضلع گورداسپور میں ایک احراری مولوی صاحب )محمد حیات نامی( سے ختم نبوت اور صداقت مسیح موعودؑ پر مناظرہ کیا۔ احمدی مناظر کے پیش کردہ دلائل فریق ثانی آخر تک نہ توڑسکا۔۱۱۵
۳۔ مباحثہ انبالہ:۔ ۲۹۔ مئی ۱۹۳۹ء کو مولوی ابوالعطاء صاحب نے پادری عبدالحق صاحب سے مسجد احمدیہ انبالہ میں مناظرہ کیا۔ آپ نے دوران بحث بائیبل سے حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے عینی گواہوں کا مطالبہ کیا اور بائیبل سے حضرت مسیح کی صلیبی موت سے نجات اور کفارہ کی عدم ضرورت پر اس قدر عقلی محالات وارد کئے کہ پادری صاحب پوری بحث میں صرف چند سطحی باتوں میں محصور ہوکر رہ گئے۔ ایک غیر احمدی دوست نے اس مباحثہ کی نسبت یہ رائے قائم کی۔ کہ
>پادری عبدالحق صاحب مولوی ابوالعطاء صاحب کے مطالبہ عینی گواہاں برصلیبی موت مسیح کو آخر وقت تک پورا نہ کرسکا اور دیگر سوالات کا بھی معقول جواب نہ دے سکا اس لئے کامیابی کا سہرا مولوی ابوالعطاء اللہ دتا صاحب کے سربندھا<۔۱۱۶
۴۔ مباحثہ لودھراں:۔ قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی نے ۱۸۔ اگست ۱۹۳۹ء کو احرار کانفرنس لودھراں کے موقع پر غیر احمدی علماء سے دو گھنٹے تک تبادلہ خیالات کیا جس میں غیر احمدی علماء کی طرف سے بہت بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا اور کئی غیر احمدی معززین نے اس بات کا عین مجمع میں اقرار کیا کہ احمدی نہایت شرافت سے گفتگو کرتے ہیں۔ مناظرہ کے خاتمہ پر ایک سرکاری افسر نے احراری علماء کی نسبت کہا کہ ان لوگوں نے آج اسلام کو بہت بدنام کیا ہے اور بہت گندی باتیں منہ سے نکالی ہیں۔ یہ لوگ ہماری مستورات کی موجودگی میں ناشائستہ حرکات کرتے رہے۔ کیا ہم ان سے یہ اسلام سیکھنے آئے تھے۔ ہمارے لئے احمدی جماعت ہی قابل عزت ہے اور ہم ایسے علماء پر احمدیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک احراری مولوی صاحب کے یہ کہنے پر کہ ابتداء احمدیوں نے کی ہے صاحب موصوف نے کہا ہرگز نہیں ابتداء اور انجام سب تمہاری طرف سے ہوا۔۱۱۷
۵۔ مباحثہ منڈی ملوٹ )ضلع فیروزپور( ۲۸` ۲۹۔ ستمبر ۱۹۳۹ء کو مولوی ابوالعطاء صاحب نے سائیں لال حسین صاحب اختر سے تینوں اختلافی )وفات مسیح` مسئلہ نبوت اور صداقت مسیح موعودؑ( مسائل پر مناظرہ کیا۔ مناظرہ کے دوران غیر احمدی مناظر اور صدر نے گالیاں دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ہندوئوں نے باواز بلند کہا کہ غیر احمدی مولوی گالیوں پر اتر آئے ہیں آپ ان کی گالیوں کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ مگر احمدی مناظر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعلیم کے عین مطابق آخر وقت تک متانت و شائستگی سے بحث جاری رکھی۔۱۱۸
نئے مبائعین
۱۹۳۹ء میں بہت سے افراد داخل احمدیت ہوئے۔ خصوصاً جلسہ خلافت جوبلی کے موقعہ پر سینکڑوں اصحاب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہوئے۔۱۱۹ جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قوت قدسی اور روحانی جذب و کشش کا واضح نتیجہ اور سلسلہ احمدیہ کی حقانیت کا بھاری ثبوت تھا۔
چھٹا باب )فصل ششم(
۱۹۳۹ء میں سلسلہ احمدیہ کا مرکزی نظام
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قیام خلافت ثانیہ کے بالکل ابتدائی ایام میں )جبکہ انجمن کا خزانہ خالی تھا اور منکرین خلافت نظام خلافت کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے( ۱۲۔ اپریل ۱۹۱۴ء کو پیشگوئی فرمائی تھی کہ۔
>خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا۔ میرا خدا قادر ہے جس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے۔ وہی مجھے اس سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق اور طاقت دے گا۔ کیونکہ ساری طاقتوں کا مالک تو وہ آپ ہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کے لئے بہت روپیہ کی ضرورت ہے بہت آدمیوں کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے؟ کیا اس سے پہلے ہم اس کے عجائبات قدرت کے تماشے دیکھ نہیں چکے؟ یہ جگہ جس کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اس کے مامور کے باعث دنیا میں شہرت یافتہ ہے اور جس طرح پر خدا نے اس سے وعدہ کیا تھا ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ روپیہ اس کے کاموں کی تکمیل کے لئے اس نے آپ بھیج دیا اس نے وعدہ کیا تھا۔ ینصرک رجال نوحی الیھم تیری مدد ایسے لوگ کریں گے جن کو ہم خود وحی کریں گے۔ پس میں جبکہ جانتا ہوں کہ جو کام میرے سپرد ہوا ہے یہ اسی کا کام ہے اور میں نے یہ کام خود اس سے طلب نہیں کیا۔ خدا نے خود دیا ہے۔ تو وہ ان ہی رجال کو وحی کرے گا جو مسیح موعودؑ کے وقت وحی کیا کرتا تھا۔ پس میرے دوستو! روپیہ کے معاملہ میں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔ وہ آپ سامان کرے گا۔ آپ اپنی سعادت مند روحوں کو میرے پاس لائے گا جو ان کاموں میں میری مددگار ہوں گی<۔۱۲۰
یہ خدائی بشارت خلافت ثانیہ کی پہلی ربع صدی میں انتہائی مخالفت حالات کے باوجود جس شان و شوکت سے پوری ہوئی اس کا کسی قدر اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سلسلہ احمدیہ کا مرکزی نظام جو خلافت ثانیہ کے آغاز میں مختصر پیمانہ میں جاری تھا خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے خلافت ثانیہ کے پہلے پچیس سالہ عہد خلافت میں ہی حیرت انگیز طور پر وسعت پکڑ گیا۔ جس کا کسی قدر اندازہ ۱۹۳۹ء کے مرکزی نظام )صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید( کے مختلف شعبوں پر ایک نظرے ڈالنے سے باسانی ہوسکے گا۔
صدر انجمن احمدیہ
۱۹۳۹ء میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کی ہندوستان میں ۶۸۷ شاخیں موجود تھیں اور اس کے حسب ذیل مرکزی صیغے قائم تھے۔
۱۔
نظارت علیا:۔۱۲۱ )ناظر اعلیٰ حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ سیال(
۲۔
نظارت دعوۃ و تبلیغ:۔۱۲۲ )ناظر حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحبؓ(
۳۔
‏ind] g[ta نظارت تعلیم و تربیت:۔۱۲۳ )ناظر۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ(
۴۔
نظارت بیت المال:۔۱۲۴ )ناظر۔ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ(
۵۔
سیکرٹری مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ:۔ )حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ(
۶۔
نظارت تالیف تصنیف:۔ )ناظر۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ(
۷۔
نظارت امور خارجہ:۔۱۲۵ )ناظر۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ(
۸۔
نظارت امور عامہ:۔۱۲۶ )ناظر۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ(
۹۔
نظارت ضیافت:۔۱۲۷ )ناظر۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ(
۱۰۔
صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری:۔ )ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
۱۱۔
صیغہ محاسب:۔ )محاسب مرزا محمد شفیع صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر ڈاک خانہ جات(
۱۲۔
صیغہ آڈیٹر:۔ )افسر چوہدری برکت علی خاں صاحبؓ(
۱۳۔
صیغہ امانت:۔ )افسر خاں صاحب منشی برکت علی خاں صاحبؓ شملوی(
۱۴۔
محکمہ قضاء:۔ )انچارج مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل( قاضی صاحبان` حضرت میر محمد اسحٰق صاحب` مولانا ارجمند خان صاحب` مولانا ظہور حسین صاحب` حضرت صوفی غلام محمد صاحب` مبلغ ماریشس مولانا تاج الدین صاحب` مرزا عبدالحق صاحب بی۔اے` ایل ایل۔ بی` مرزا برکت علی صاحب۔
۱۵۔
صیغہ افتاء:۔ )انچارج۔ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ( )مفتی سلسلہ۔ حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحبؓ ہلال پوری(
۱۶۔
نظامت جائیداد:۔۱۲۸ )ناظم۔ ملک مولا بخش صاحبؓ ریٹائرڈ کلرک آف کورٹ(
تحریک جدید
صدر انجمن کے بعد اب ذرا تحریک جدید کی وسعت پر ایک نظر ڈالئے۔ ۱۹۳۹ء تک تحریک جدید کے مندرجہ ذیل شعبے قائم ہوچکے تھے۔
۱۔
دفتر تحریک جدید:۔ )انچارج مولوی عبدالرحمن صاحب انور(
۲۔
دفتر فنانشل سیکرٹری:۔ )فنانشل سیکرٹری چوہدری برکت علی خاں صاحب(
۳۔
صیغہ امانت جائیداد تحریک جدید: )سیکرٹری قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ( اور انچارج دفتر۔ مولوی بابو فخر الدین صاحب(
۴۔
دفتر تجارت:۔ )حضرت خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب گوھر(
۵۔
بورڈنگ تحریک جدید:۔ )وارڈن خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب۔ سپرنٹنڈنٹ صوفی غلام محمد صاحب بی۔ ایس۔ سی۔(
۶۔
دارالصناعت:۔ )نگران۔ بابو اکبر علی صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر آف ورکس
۷۔
بورڈنگ دارالصناعت:۔ )سپرنٹنڈنٹ مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی(۱۲۹
‏]sub [tagخلافت ثانیہ کے پہلے پچیس سالہ عہد میں اموال کی ترقی
خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت غیر مبائع اصحاب خزانہ قریباً خالی چھوڑ کر گئے تھے۔ مگر ۱۹۳۹ء۔ ۱۹۳۸ء میں صدر۱۳۰ انجمن کی سالانہ آمد تین لاکھ اٹھائیس ہزار دو صد ستاسی تھی۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
گوشوارہ آمد ۴۰۔ ۱۹۳۹ء نظارت بیت المال قادیان
)باستثناء صیغہ جات تجارتی(
مدات
بجٹ
آمد
کمی
بیشی
چندہ عام
۱۰۴۰۰۰
۹۶۲۸۳
۷۷۱۷
۔
چندہ مستورات
۲۵۰۰
۱۶۷۸
۸۲۲
۔
حصہ آمد
۱۲۵۰۰۰
۱۳۶۲۵۵
۔
۱۱۲۵۵
میزان
۲۳۱۵۰۰
۲۳۴۲۱۶
۔
۲۷۱۶
حصہ جائیداد بہشتی مقبرہ
۹۰۰۰
۱۲۷۷۵
۔
۳۷۷۵
اشاعت اسلام
۱۵۰۰][ ۹۸۳
۵۱۷
۔
جلسہ سالانہ
۳۰۰۰۰
۱۹۲۴۶
۱۰۷۵۴
۔
زکٰوۃ
۵۰۰۰
۳۷۳۸
۱۲۶۲
۔
صدقات
۹۰۰۵
۸۷۲۵
۲۸۰
۔
دیگر چندے
۶۱۲۴
۷۳۲۸
۔
۱۲۰۴
میزان
۶۰۶۲۹
۵۲۷۹۵
۷۸۳۴
۔
چندہ خاص توسیع مساجد وغیرہ
۳۵۰۰۰
۵۷۴۰
۲۹۲۶۰
۔
)توسیع مساجد(
۔
۳۹۳۷
۔
۳۹۳۷
میزان جملہ چندہ ہائے مع چندہ خاص
۳۲۷۱۲۹
۲۹۶۶۸۸
۳۰۴۴۱
۔
واپسی قرضہ
۱۶۰۰
۲۴۰۸
۔
۸۰۸
گرانٹ سرکاری
۱۳۰۵۷
۱۲۸۸۶
۱۷۱
۔
فیس
۱۷۱۵۰
۱۵۵۹۶
۱۵۵۴
۔
متفرق
۱۰۲۴
۷۰۹
۳۱۵
۔
میزان آمد صیغہ جات
۳۲۸۳۱
۳۱۵۹۹
۱۲۳۲
۔
میزان کل


آمد چندہ و آمد صیغہ جات
۳۵۹۹۶۰
۳۲۸۲۸۷
۳۱۶۷۳
۔۱۳۱
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ۱۴۔ مارچ ۱۹۱۴ء کو مسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے اور اس طرح ۱۳۔ مارچ ۱۹۳۹ء کو آپ کی خلافت پر ۔۔۔۔۔ ہاں کامیاب و کامران مظفر و منصور` مبارک و مسعود` شاہد و مشہود` عامر و معمور خلافت پر پچیس سال کا عرصہ پورا ہوگیا۔
صداقت اور خدمت کی شان عرصوں اور زمانوں کی قید سے بالا ہے اور شہید امت سلطان فتح علی ٹیپو رحمتہ اللہ علیہ کے بقول >گیڈر کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی ہے<۔۱۳۲ مگر ان پچیس برسوں کا کیا کہنا۔ جس کے ایک ایک دن کی ایک ایک ساعت اسلام و احمدیت کی خدمت` بنی نوع انسان کی ہمدردی اور حق و صداقت کی اشاعت کے لئے وقف رہی۔ یہ ایک نہایت مبارک دور تھا۔ جسکے پہلے سال جماعت احمدیہ انشقاق و افتراق اور تشتت اور ادبار کی پرخطر اور عمیق وادیوں میں گھری ہوئی پائی گئی۔ مگر جس کے پچیسویں سال میں وہ عظمت و شوکت کے بلند اور پرشکوہ مینار تک جا پہنچی اور یہ سب کامیابیاں` کامرانیاں اور فتوحات خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اس کمزور نحیف اور بیمار انسان کو نصیب ہوئیں۔ جو خود اپنے ہی بعض ساتھیوں کی نگاہ میں حقیر اور ناچیز سمجھا جاتا تھا اور جمہوریت کے دلدادہ مغربیت کے خوگر محض غیروں میں مقبول ہونے کی خاطر اسے بچہ کہہ کر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے مگر اس بچہ کے ہاتھوں ہر جہاندیدہ اور ہر تجربہ کار کو شکست فاش ہوئی۔ فرزانے ہار گئے اور دیوانوں کی جیت ہوئی۔ کوئی دقیقہ اس کو ناکام بنانے کے لئے اٹھا نہیں رکھا گیا اور کوئی حملہ نہیں جو اس کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے کی خاطر نہیں کیا گیا۔ مگر جونہی دشمن خدا کے اس بندہ کو شکست دینے کا یقین کرلیتا آسمان سے اس کی فتح کے شادیانے بجا دیئے جاتے اور نصرتوں کی فوج اس کی مدد کے لئے اتر آتی اور یہ اس لئے ہوا تا دنیا کو یقین ہو کہ فضل عمر کی خلافت۔ خلافت حقہ ہے۔ جس کا محافظ خود عرش کا خدا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کی مقدس قبا پر ہاتھ ڈال سکے۔ کوئی نہیں جو اس کی تقدیروں کو بدل دے اور یہی وہ اٹل حقیقت تھی جس کا اعلان حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اوائل خلافت میں ہی کردیا تھا۔ چنانچہ حضور نے ۲۱۔ مارچ ۱۹۱۴ء کو ایک ٹریکٹ شائع کیا جس میں تحریر فرمایا۔
>میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی انسان سے خلافت کی تمنا نہیں کی اور یہی نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بنا دے۔ یہ اس کا اپنا فعل ہے۔ یہ میری درخواست نہ تھی۔ میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یہ خداتعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جھکا دیں۔ میں کیونکر تمہاری خاطر خداتعالیٰ کے حکم کو رد کردوں۔ مجھے اس نے اسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا تھا۔ گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اسے کیونکر پسند آگیا۔ لیکن جو کچھ بھی ہو اس نے مجھے پسند کرلیا اور اب کوئی انسان اس کرتہ کو مجھ سے نہیں اتارسکتا جو اس نے مجھے پہنایا ہے۔ یہ خدا کی دین ہے۔ اور کونسا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے۔ خداتعالیٰ میرا مددگار ہوگا۔ میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے۔ میں کمزور ہوں مگر میرا آقا بڑا توانا ہے۔ میں بلا اسباب ہوں مگر میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے۔ میں بے مددگار ہوں مگر میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائے گا۔ )انشاء اللہ( میں بے پناہ ہوں مگر میرا محافظ وہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی پناہ کی ضرورت نہیں<۔۱۳۳
واخرد دعوانا ان الحمدللہ رب العلمین
)خدائے عزوجل کی دی ہوئی توفیق اور محض اس کے فضل و عنایت سے جماعت احمدیہ کے پہلے پچاس سالہ دور کی تاریخ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی(
چھٹا باب
حواشی
۱۔
بطور نمونہ الفضل ۲۷۔ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ اور الفضل ۴۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۶۔ الفضل ۳۰۔ ستمبر ۱۹۳۷ء کے نوٹ ملاحظہ ہوں۔
۲۔
یاد رہے کہ ۱۹۱۴ء میں فلسطینی یہودی آبادی صرف نوے ہزار تھی۔ مگر ۱۹۱۸ء سے ۱۹۳۶ء تک کے عرصہ میں جو یہودی بیرونی ممالک سے یہاں آکر آباد ہوئے ان کی تعداد قریباً دو لاکھ اسی ہزار تھی۔ )انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ (ZIONISM)
۳۔
)ترجمہ( بحوالہ الفضل ۴۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔
۴۔
الفضل ۱۶۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۵۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۹۔ ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۶۔ ۵۷۔
۶۔
مجلس احرار اور مسلم لیگ مولفہ شیخ نظام الدین صاحب نائب صدر مجلس احرار حلقہ باغبانپورہ لاہور۔
۷۔
الفضل ۲۶۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔
۸۔
الفضل ۵۔ جولائی ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۹۔
خط صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ )بیگم میاں عبدالرحیم احمد صاحب(
۱۰۔
مکتوب محررہ ۱۴۔ جولائی ۱۹۳۹ء۔
۱۱۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۰۔ ۱۹۳۹ء۔
۱۲۔
غلام احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی کے مکتوب مرقومہ ۱۷۔ اگست ۱۹۳۹ء و ۲۴۔ اگست ۱۹۳۹ء سے ماخوذ۔
۱۳۔
الفضل ۸۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۴۔
الفضل ۱۵۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۵۔
الفضل ۲۶۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۶۔
الفضل ۳۱۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۷۔
الفضل ۹۔ ستمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۸۔
قادیان کے احمدیوں کی طرف اشارہ ہے۔ )ناقل(
۱۹۔
الفضل ۹۔ ستمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۔
۲۰۔
حاجی جنود اللہ صاحب کا شغر کے ایک ایسے مقتدر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جس کا شمار وہاں کے چوٹی کے سربرآوردہ اور معزز خاندانوں میں ہوتا تھا۔ مگر کمیونزم کے اثر و اقتدار کی وجہ سے جہاں دوسرے مسلمان تباہ حال ہوئے۔ وہاں اس خاندان کی ظاہری شان و شوکت بھی خاک میں مل گئی۔ )الفضل ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۴(
۲۱۔
روزنامہ الفضل قادیان ۲۸۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۲۲۔
آپ جلدی ایک قافلہ کے ہمراہ واپس چلے گئے۔
۲۳۔
الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۴۔
۲۴۔
اخبار الفضل )۲۲۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱( پر اس حادثہ کی تفصیلات میں لکھا ہے کہ۔
>معلوم ہوا ہے ایک پٹھان کا اس واردات میں ہاتھ ہے اور اس واردات کا منصوبہ ان لوگوں نے پہلے باندھا ہوا تھا۔ حکیم رحمت اللہ صاحب کو بھی انہوں نے یہ کہہ کر مناظرہ میں ہم حقیقت معلوم کرکے تمہارے ساتھ ہو جائیں گے۔ دھوکہ دیا۔ اس دھوکے میں آکر حکیم صاحب نے مناظرہ کا ارادہ کیا اور شوکت میدان میں مناظرہ قرار پایا۔ پاس کے ایک ہوٹل میں جس کا نام بسم اللہ ہے۔ اس کے متعلق بات چیت ایک ہندوستانی مولوی سے ہورہی تھی کہ چند پٹھان وہاں پہنچے۔ مولوی محمد نذیر صاحب نے پوچھا۔ مناظرہ کی اجازت لی گئی ہے یا نہیں؟ اور کیا حفظ امن کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ ہجوم زیادہ ہونے پر سب لوگ ہوٹل سے باہر آگئے اور باہر آنے پر یہ حادثہ ہوگیا۔ حملہ آور ایک گجراتی نوجوان ہے۔ یہاں حکیم صاحب کے علاوہ صرف دو اور احمدی ہیں۔ جن کو قتل کی دھمکی دی گئی ہے۔
۲۵۔
الفضل ۲۲۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۲۶۔
الفضل ۱۵۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۹۵۔ ۹۶ )منعقدہ ۷` ۸` ۹۔ اپریل ۱۹۳۹ء(
۲۸۔
اس تقریب پر ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز اردو کا ایک خاص نمبر بھی شائع کیا گیا۔ جو بہت بلند پایہ مضامین پر مشتمل تھا۔
۲۹۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۱۹۴۰ء۔ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۶۷۔
۳۰۔
الفضل ۲۲۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۳۱۔
ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ۔ آپ کے فرزند )۱( چوہدری ہارون رشید صاحب۔ )۲( چوہدری بشارت حیات صاحب۔ )۳( میجر محمد اسلم حیات صاحب۔ )۴( چوہدری خالد رشید صاحب۔
۳۲۔
حضرت مولوی محمد عثمان صاحبؓ سابق امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خاں نے ان کی سوانح الفضل ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ پر شائع کر دی تھی۔
۳۳۔
الفضل ۱۵۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۴۔
الفضل ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱ )چوہدری ظہور احمد صاحب نے آپ کے حالات الفضل ۱۷۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔ ۵ میں شائع کر دئے تھے۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
۳۵۔
الفضل ۱۲۔ ستمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۔
۳۶۔
الفضل ۲۸۔ ستمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ تفصیلی حالات زندگی کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۰۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔
۳۷۔
الفضل ۱۶۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۳۸۔
الفضل ۱۱۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۹۔
الفضل ۱۴۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۴۰۔
تاریخ وفات ۱۸۔ جون ۱۹۳۹ء بعمر ۸۰ سال تقریباً۔ )الفضل ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۶(
۴۱۔
یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی کا موجب ہوگا کہ غیر مبائع اخبار پیغام صلح نے ابتداء میں تو چوہدری صاحب کی اس تحریک کو قادیانی پیر پرستی کا نیا کارنامہ سے تعبیر کیا۔ )پیغام صلح ۸۔ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۵( مگر اگلے مہینہ خود امیر غیر مبائعین جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے نے ۲۵۔ فروری ۱۹۳۸ء کو اپنی خود ساختہ انجمن کی سلور جوبلی منانے اعلان کردیا۔ )پیغام صلح ۱۲۔ مارچ ۱۹۳۸ء صفحہ ۵( اور پھر یہ جوبلی اسی سال دسمبر ۱۹۳۸ء میں بڑی دھوم دھام سے منائی۔
۴۲۔
الفضل ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۲۸` ۲۹۔
۴۳۔
الفضل یکم مئی ۱۹۳۸ء صفحہ ۵۔
۴۴۔
خلافت جوبلی فنڈ میں حصہ لینے والے مخلصین کی فہرستیں اخبار الفضل قادیان کے مندرجہ ذیل شماروں میں شائع شدہ ہیں۔ ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۸ء۔ ۲۹۔ اپریل ۱۹۳۸ء۔ ۱۵۔ جون ۱۹۳۸ء۔ ۱۹۔ جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۸ و ۹۔ نیز ۲۵۔ مارچ ۱۹۳۹ء۔
۴۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۶ تا ۵۱۔
۴۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۸۹۳۹ء صفحہ ۶۳۔
۴۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۷` ۶۸۔
۴۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۷۵ و ۷۶۔
۴۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۷۰ و ۷۱۔
۵۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۵۔
۵۱۔
ان میں سے ایک بزرگ میاں خیرالدین صاحبؓ دری باف تھے۔ جو وفات پاچکے ہیں۔
۵۲۔
روئیداد جلسہ خلافت جوبلی مرتبہ مولانا عبدالرحیم صاحبؓ درد ایم اے سیکرٹری خلافت جوبلی۔ ناشر منیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان۔
۵۳۔
الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۸۔
۵۴۔
الفضل ۳۔ جنوی ۱۹۴۰ء صفحہ ۸۔
۵۵۔
روئیداد جلسہ جوبلی صفحہ ۲۶۔
۵۶۔
روئیداد جلسہ خلافت جوبلی صفحہ ۳۹ تا ۴۲۔
۵۷۔
الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۸۔
۵۸۔
روئیداد خلافت جوبلی میں سرحد کی بجائے غلطی سے ہندوستان کا لفظ شائع ہوگیا تھا۔ )الفضل ۷۔ جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۵ کالم ۳(
۵۹۔
حضرت ماسٹر صاحبؓ نے ۱۰۔ مارچ ۱۹۴۴ء کو بیعت خلافت ثانیہ کرلی۔ )ناقل(
۶۰۔
یہ رقم دو لاکھ ستر ہزار کے قریب تھی۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۰۵۔ ۱۰۷(
۶۱۔
روئیداد جلسہ خلافت جوبلی صفحہ ۹ تا ۲۴۔
۶۲۔
‏h2] gat[ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے لوائے احمدیت اپنے دست مبارک سے ۲ بجکر ۱۰ منٹ پر رسی سے باندھا۔ دو بجکر گیارہ منٹ پر بلند کرنا شروع کیا اور حضورؓ کے ہاتھوں کی تین مرتبہ کی جنبش سے دو بجکر بارہ منٹ پر جھنڈا پول کی اونچائی تک پہنچا۔ اس دوران میں حضور ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ط پڑھتے رہے اور تمام مجمع کو پڑھتے رہے کا ارشاد فرمایا اور دو بجکر ۳ منٹ پر حضورؓ نے جھنڈے کی رسی کو ستون سے باندھنا شروع کیا اور ۲ بجکر ۱۵ منٹ پر باندھ چکے۔ الفضل ۵۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
نوٹ:۔ الفضل میں تیس لکھا گیا ہے اصل میں تین معلوم ہوتا ہے۔
۶۳۔
الفضل ۲۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۸ و ۹۔
۶۴۔
یہ جھنڈا افسوس ۱۱۔ اپریل ۱۹۴۸ء میں لاہور سے ربوہ کے درمیان گاڑی میں کہیں کھو گیا۔ اس کا نقشہ سید عبدالباسط صاحب نے بنوا کر دیا تھا۔ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے پاس محفوظ ہے اور ضمیمہ ۵۶ پر بھی موجود ہے۔
۶۵۔
الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۶۔
خلافت راشدہ صفحہ ۲۶۶ تا ۲۷۰ تقریر دلپذیر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ برموقعہ جلسہ سالانہ ۲۸` ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۹ء بمقام قادیان۔ ناشر۔ الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ۔
۶۷۔
الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۷۔
۶۸۔
الحکم ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۶۹۔
بحوالہ الفضل ۵۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۔
۷۰۔
مثلاً حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری )جنہوں نے جنوری ۱۹۴۰ء میں بیعت خلافت کرلی۔ جیسا کہ اگلی جلد میں آرہا ہے۔ مرزا معصوم بیگ صاحب۔
۷۱۔
مثلاً ابوظفر نازش صاحب رضوی۔ ڈاکٹر مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب ڈویژنل آفیسر برما ریلویز۔ فقیر محمد خورشید صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ضلع جھنگ۔ سید اقبال حسین صاحب ایڈووکیٹ لکھنو اور سید خورشید حسن صاحب ریٹائرڈ ج لکھنو۔ ڈاکٹر ایچ۔ ایس ملک آف کراچی۔ ملک محمد خاں صاحب نمائندہ جناب پیر لال بادشاہ صاحب آف مکھڈ۔ چوہدری جلال الدین صاحب عنبر آف نارووال ممبر لیجسلیٹو اسمبلی۔
۷۲۔
سردار پریتم سنگھ صاحب ایم۔ اے۔ بھائی دھرمانند جی۔ پرنسپل خالصہ کالج ترنتارن SCHRVPT ۔S۔W آف سنگھاپور۔ ڈاکٹر جیون داس آف امرتسر۔ بھائی پرتاپ سنگھ آف امرتسر )الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۰(
۷۳۔
بحوالہ الفضل ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۷۴۔
اہلحدیث امرتسر ۱۲۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۶ کالم ۲۔
۷۵۔
بحوالہ الفضل ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۷۶۔
الفضل ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۷۷۔
روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۲۷۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۷۸۔
الفضل ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ الفضل ۷۔ مئی ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۷۹۔
مفصل خطبہ الفضل ۳۔ مئی ۱۹۶۱ء صفحہ ۲ پر شائع شدہ ہے۔
۸۰۔
الفضل ۱۳۔ مئی ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۸۱۔
الفضل ۳۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۷۔
۸۲۔
الفضل ۱۱ و ۱۴۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔ طلباء جامعہ احمدیہ کا ایڈریس اور اس کا جواب الفضل ۱۲۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۳ و ۴ پر شائع ہوا۔
۸۳۔
الفضل ۳۱۔ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۴۔
الفضل ۱۰۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۵۔
مقالہ کا ترجمہ ریویو آف ریلیجنز اردو اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۱ تا ۵۱ میں موجود ہے۔
۸۶۔
ایضاً۔
۸۷۔
الحکم ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحح ۲ کالم ۲۔
۸۸۔
سید رئیس احمد جعفری جیسے مایہ ناز ادیب و مورخ نے آپ کو ایک روسی عالم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ علامہ موسیٰ جار اللہ روس کے ان ارباب فضل و کمال اصحاب زہد و تقویٰ سند نشان علم و فضل میں سے تھے جن پر نہ صرف روس کو بلکہ عالم اسلام کو ناز تھا۔ )دیدو شنید صفحہ ۴۲۔ مولفہ رئیس احمد جعفری ناشر کتاب منزل کشمیری بازار لاہور۔ بار اول ۱۹۴۸ء((
۸۹۔
الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۹۰۔
کتاب فی حروف اوائل السور ناشر لاہور بیت الحکمتہ ۱۷۔ فروری ۱۹۴۲ء صفحہ ۳۳۔
۹۱۔
ایضاً صفحہ ۱۲۱۔
۹۲۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۔
۹۳۔
الفضل ۱۱۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۹۴۔
الفضل ۱۴۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۔
۹۵۔
الفضل ۱۲۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۹۶۔
الفضل ۸۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۹۷۔
الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۹۸۔
الفضل ۲۶۔ فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۹۹۔
ولادت ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۰۵ء بمقام ساڈھورا ضلع انبالہ۔ ڈاکٹر صاحب پہلی بار غالباً ۱۹۲۲ء میں ماریشس تشریف لے گئے۔ جہاں آپ اپنے طبی فرائض ادا کرنے کے علاوہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب اور حضرت مولوی عبیداللہ صاحب کا ہاتھ بٹاتے۔ آپ اندازاً تین سال تک تبلیغ و تربیت کا کام بھی کرتے رہے۔ اور ۸۔ اپریل ۱۹۲۵ء کو واپس ہندوستان آگئے۔
۱۰۰۔
تاریخ واپسی ۱۰۔ جون ۱۹۳۹ء۔
۱۰۱۔
انگریزی سے ترجمہ )الفضل ۱۴۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ کالم ۴(
۱۰۲۔
الفضل ۶۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۰۳۔
روزنامہ الفضل ۱۳۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۱۰۴۔
الفضل ۴۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۵۔
الفضل ۵۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔ ۴۔ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے قلم سے اس واقعہ کی تفصیل برہان ہدایت )مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر فاضل( کے صفحہ ۱۳۷ تا صفحہ ۱۴۰ پر بھی درج ہے۔
۱۰۶۔
الفضل ۸۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۔
۱۰۷۔
الفضل ۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۰۸۔
مقدمہ قادیانی مذہب صفحہ ۱۲۶۔ ۱۲۷۔
۱۰۹۔
الفضل ۸۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۰۔
الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۱۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ۔ از یکم مئی ۱۹۳۹ء لغایت ۳۰۔ اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۰۴۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۸۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۔ ۷ ملخصاً۔
۱۱۳۔
اس ٹریکٹ کا اردو کے علاوہ انگریزی` سندھی اور بنگالی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۰۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۱۱۵۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۶۔
الفضل ۹۔ جون ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۱۱۷۔
الفضل ۵۔ ستمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۷۔
۱۱۸۔
الفضل ۲۴۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۔
‏]1h [tag۱۱۹۔
فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳۔ فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۸۔ ۱۵۔ فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۔ ۲۳۔ فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۶۔
۱۲۰۔
منصب خلافت صفحہ ۱۸۔ ۱۹ طبع اول )تقریر حضرت خلیفہ ثانیؓ فرمودہ ۱۲۔ اپریل ۱۹۱۴ء بمقام قادیان۔
۱۲۱۔
نائب ناظر۔ حضرت خان صاحب منشی برکت علی صاحبؓ۔ ہیڈ کلرک۔ قاضی عبدالرحمن صاحب۔ سپرنٹنڈنٹ۔ سید محمد اسمٰعیل صاحبؓ۔
۱۲۲۔
معاون ناظر۔ مرزا عبدالغنی صاحب۔ انچارج شعبہ نشر و اشاعت و ترقی اسلام۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ۔ مہتمم نشر و اشاعت۔ گیانی عباداللہ صاحب و خلیفہ صلاح الدین صاحب )مرحوم( ہیڈ کلرک پیر خلیل احمد صاحب )مرحوم(
۱۲۳۔
انسپکٹر تعلیم و تربیت۔ مولوی قمر الدین صاحب فاضل۔ ہیڈ کلرک۔ نظارت تعلیم و تریت۔ چوہدری ظہور احمد صاحب۔
۱۲۴۔
نائب ناظر بیت المال۔ حضرت منشی برکت علی صاحب۔ معاون ناظر بیت المال۔ بابو عبدالعزیز صاحب۔ ہیڈ کلرک بیت المال۔ منشی عبدالرحیم صاحب نو مسلم۔
۱۲۵۔
ہیڈکلرک نظارت امور خارجہ۔ قریشی رشید احمد صاحب ارشد۔ احمدیہ کمپنی انڈین ٹیرٹوریل فورس کے افسر۔ مرزا دائود احمد صاحب۔
۱۲۶۔
معاون ناظر۔ شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے )مرحوم( ہیڈ کلرک۔ منشی کظیم الرحمن صاحب۔ نگران شعبہ تنفیذ۔ میاں حامد حسین خان صاحب۔ نگران شعبہ رشتہ ناطہ۔ بابو فقیر علی صاحب۔ انچارج کار خاص۔ مولوی نذر احمد صاحب۔ )مشیر قانونی( مولوی فضل الدین صاحب وکیل۔
۱۲۷۔
پرنسل اسسٹنٹ۔ حاجی سراج الدین صاحب ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر۔
۱۲۸۔
مختار عام۔ منشی محمد الدین صاحب ملتانی۔ افسر تعمیرات۔ سید سردار حسین صاحب )مرحوم( )بحوالہ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۰۔ ۱۹۳۹ء(
۱۲۹۔
الحکم ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۸ سے ملخصاً۔
۱۳۰۔
تحریک جدید` خدام الاحمدیہ` انصار اللہ` لجنہ اماء اللہ وغیرہ عظیم الشان تنظیموں کی آمد اس میں شامل نہیں ہے۔
۱۳۱۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۴۰۔ ۱۹۳۹ء صفحہ ۹ و ۱۰۔
۱۳۲۔
تاریخ سلطنت خداداد میسور صفحہ ۳۰۳ )مولفہ محمود بنگلوری ناشر پبلشرز یونائیٹڈ چوک انارکلی لاہور طبع سوم(
۱۳۳۔
پمفلٹ >کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے۔< صفحہ ۶۔ ۷ مورخہ ۲۱۔ مارچ ۱۹۱۴ء مطبوعہ اللہ بخش سٹیم پریس قادیان۔
 
Top