• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تذکرہ۔ الہامات و کشوف و رؤیا حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانیؑ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تذکرہ۔ الہامات و کشوف و رؤیا حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانیؑ ۔ یونی کوڈ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
تَذْکِرَہ
یعنی
وحیِ مقدّس
و
رؤیا و کشوف حضرت مسیح موعُودعلیہ الصّلٰوۃ والسّلام
زمانہ تحصیلِ علم
(ا1)رَأَیْتُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَّاَنَا غُلَامٌ حَدِیْثُ السِّنِّ کَاَنِّیْ فِیْ بَیْتٍ لَطِیفٍ نَّظِیْفٍ یُذْکَرُ فِیْھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ فَقُلْتُ اِیُھَاالنَّاسُ اَمْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمّ ۔ فَاَشَارُوْااِلٰی حُجْرَۃٍ ۔ فَدَخَلْتُ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ ۔ فَبَشَ بِیْ حِیْنَ وَافَیْتُہٗ ۔ وَحَیَّانِیْ بِاَحْسَنِ مَاحَیَّیْتُہٗ ۔ وَمَااَنْسٰی حُسْنَہٗ وَجَمَالَہٗ وَمَلَاحَتَہٗ وَتَحَنُّنَہ م اِلٰی یَوْمِیْ ھٰذَا ۔ شَغَفَنِیْ حُبًّاوَّجَذَبَنِیْ بِوَجْہٍ حَسِیْنٍ ۔ قَالَ مَاھٰذِا بِیَمِنْنِکَ یَااَحْمَدُ ۔ فَنَظَرْتُ فَاِذَا کِتِابٌ بِیَدِی الْیُمْنٰی وَخَطَرَ بِقَلْبِیْ
1 (ترجمہ از مرتب) اوائل ایامِ جوانی میں ایک رات میں نے (رؤیا میں) دیکھا کہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں ۔ جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور ﷺ کہاں تشریف فرما ہیں۔ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اُس کے اندر چلا گیا۔ اور جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو حضور ﷺبہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ کی پُر شفقت و پُر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کرلیا۔ اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس وقت آپ نے مجھے فرمایا ۔ اے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے ۔ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے
اَنَّہٗ مِنْ مُّصَنَّفَاتِیْ ۔ قُلْتُ یَارَسُوْلِ اللّٰہِ کِتَابٌ مِّنْ مُّصَنَّفَاتِیْ ۔ قَالَ مَااسْمُ کِتابِکَ فَنَظَرْتُ اِلَی الْکِتَابِ مَرَّۃً اُخْرٰی وَاَنَا کَالْمُتَحَیِّرِیْن ۔ فَوَجَدْتُّہٗ یُشَابِہُ کِتَابًا کَانَ فِیْ دَارِ کُتُبِیْ وَاسْمُہٗ قُطْبِیٌّ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِسْمُہٗ قُطْبِیٌّ ۔ قَالَ اَرِنِیْ کِتَابَکَ الْقُطْبِیَّ فَلَمَّا اَخَذَہٗ وَمَسَّتْہُ یَدُہٗ فَاِذَاھِیَ ثَمَرَۃٌ لَّطِیْفَۃٌ تَسُرُّالنَّاظِرِیْنَ ۔ فَشَقَّقَھَا کَمَایُشَقَّقُ الثَّمَرُ فَخَرَجَ مِنْھَاعَسَلٌ مُّصَفَّی کَمَآءٍ مُّعِیْنٍ ۔ وَرَاَیْتُ بِلَّۃَ الْعَسَلِ عَلٰی یِدِہِ الْیُمْنٰی مِنَ الْبَنَانِ اِلَی الْمِرْ فَقِ کَانَ الْعَسَلُ یَتَقَاطَرُمِنْھَا ۔ وَکَاَنَّہٗ یُرِیْنِیْ اِیَّاہُ لِیَجْعَلَنِیْ مِنَ الْمُتَعَجِّبِیْنَ ۔ ثُمَّ اُلْقِیَ فی قَلْبِی اَنَّ عِنْدَاُسْکُفَّۃِ الْبِیْتِ مَیِّتٌ قَدَّرَاللّٰہُ اِحْیَاءَ ہٗ بِھٰذِہِ الثَّمَرَۃِ وَقَدَّرَ اَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُحْیِیْنَ ۔ فَبَیْنَمَااَنَافِیْ ذٰلِکَ الْخیَیْالِ فَاِذَاالْمَیِّتُ جَآءَ نِیْ حَیّاً وَّھُوَیَسْعٰی وَقَامَ وَرَآءَ ظَھْرِیْ وَفِیْہِ ضُعْفٌ کَاَنَّہٗ مِنَ الْجِآئِعِیْنَ ۔ فَنَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیَّ مُتَبَسِّمًاوَّ جَعَلَ الثّمَرَۃَ قِطْعَاتٍ وَّاَکَلَ قِطُعَۃً مِّنْھَاوَاٰ تَانِیْ کُلَّ صَابَقِیَ وَالْعَسَلُ یَجْرِیْ مِنّ الْقِطْعَاتِ کُلِّھَاوَقَالَ یَااَحْمَدُ اَعْطِہٖ قِطْعَۃً مِّنْ ھٰذِہٖ لِیَاْکُلَ وَیَتَقَوّٰی فَاَعْطَیْتُہٗ فَاَخَذَیَاکُلُ عَلٰی مَقَامِہٖ کَالْحَرِیْصِیْنَ ۔ ثُمَّ رَاَیْتُ اَنَّ کُرْسِیَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسِلَّمَ قَدْرُفِعَ حِتّٰی قَرُبِ مِنَ السَّقْفِ وَرَاَیْتُہٗ فِاِذِاوَجْھُہٗ یَتَلَأ لَاُ ۔ کَاَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ذَرَّتَاعَلَیْہِ
اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی۔ میں نے عرض کیا۔ حضور ﷺ یہ میری ایک تصنیف ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا۔اس کتاب کا کیا نام ہے۔ تب میں نے حیران ہوکر کتاب کو دوبارہ دیکھا تو اسے اس کتاب کے مشابہ پایا جو میرے کتب خانہ میں تھی اور جس کا نام قطبی ہے۔ میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ اس کا نام قطبی ہے۔ فرمایا اپنی یہ کتاب قطبی مجھے دکھا۔جب حضور ﷺ نے اسے لیا تو حضو ر ﷺ کا مبارک ہاتھ لگتے ہی وہ ایک لطیف پھل بن گیا۔جو دیکھنے والوں کیلئے پسندیدہ تھا۔جب حضور ﷺنے اسے چیرا۔ جیسے پھلوں کو چیرتے ہیں تو اس سے بہتے پانی کی طرح مفّا شہد نکلا۔ اور میں نے شہد کی طراوت آنحضرت ﷺ کے داہنے ہاتھ پر انگلیوں سے کہنیوں تک دیکھی اور شہد حضور ﷺ کے ہاتھ سے ٹپک رہا تھا۔ اور آنحضرت ﷺ گویا مجھے اس لئے وہ دکھا رہے ہیں تا مجھے تعجب میں ڈالیں۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مردہ پڑا ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور یہی مقدر ہے کہ نبی کریم ﷺ اس کو زندگی عطا کریں۔ میں اسی خیال میں تھا کہ دیکھا کہ اچانک وہ مُردہ زندہ ہوکر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا اور میرے پیچھے کھڑا ہوگیا مگر اس میں کچھ کمزوری سی تھی گویا وہ بھوکا تھا تب نبی کریم ﷺ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس پھل کے ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا ان میں سے حضور ﷺنے خود کھایا اور باقی سب مجھے دے دیئے ان سب ٹکڑوں سے شہد بہہ رہا تھا۔ اور فرمایا۔ اے احمد! اس مُردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے۔ میں نے دیا تو اس نے حریصوں کی طرح اسی جگہ ہی اسے کھانا شروع کردیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺکی کرسی اونچی ہوگئی ہے‘ حتیٰ کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ ﷺ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج
وَکُنْتُ اَنْظُرُ اِلَیْہِ وَعَبَرَالِّیْ جَارِیَۃٌ ذَوْقًاوَّوَ جْدًا ۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَاَنَامِنَ الْبَاکِیْنَ۔ فَاَلْقَی اللّٰہُ فِیْ قَلْبِیْ اِنَّ الْمَیِّتَ ھُوَالْاِسْلَامُ ۔ وَسَیُحْیِیْہِ اللّٰہُ عَلٰی یَدِیْ بِفُیُوْضٍ رُوْحَانِیَّۃٍ مِّنْ رُّسُوْلِ اللّٰہِ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَایُدْ رِیْکُمْ لَعَلَّ الْوَقْتَ قَرِیْبٌ فَکُوْنُوْامِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ وَفِیْ ھٰذِہِ الرُّؤْیِا رَبَّانِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیِدِہٖ وَکَلَامِہٖ وُاَنْوَارِہٖ وَھَدِیَّۃِ اَثْمَارِہٖ ۔1
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 548، 549)
(ب) ’’اِس اَحقر نے 1864 ء2یا 1865 عیسوی میں یعنی اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حِصّہ میں ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھا، جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اوراُس وقت اِس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اِس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پُوچھا کہ تُو نے اِس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام مَیں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اَب اِس اشتہاری کتاب3 کے تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اورمستحکم ہے۔ جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس10 ہزارروپیہ کا اِشتہار دیاگیا ہے۔
غرض آنحضرتؐ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اورجب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجنابؐ کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اورخوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدرِ تربُوزتھا۔ آنحضرت ﷺنے جب اُس میوہ کو تقسیم کرنے کیلئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہدنکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے
اور چاند کی شعاعیں پڑرہی ہیں۔ میں آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور ذوق اور وجد کی و جہ سے میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہوگیا۔ اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مُردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا۔ اور تمہیں کیا پتہ شاید یہ وقت قریب ہو اس لئے تم اس کے منتظر رہو۔ اور اسرؤیامیں آنحضرت ﷺ نے اپنے دست ِ مبارک سے‘ اپنے پاک کلام سے اپنے انوار سے اور اپنے (باغِ قدس کے) پَھلوں کے ہدیہ سے میری تربیت فرمائی تھی۔
1 یہ رویاء براہین احمدیہ میں بھی مذکور ہے مگر اس میں اس کے شروع کا اور آخر کا حصہ اس تفصیل سے بیان نہیں ہؤا۔ اِس لئے اسے آئینہ کمالاتِ اسلام میں سے لیکر درج کیا گیا ہے۔ (مرتّب)
2 یہ تاریخ غالباً سرسری طورپر ایک موٹے اندازہ کی بناء پر لکھی گئ ہے کیونکہ یہ رؤیا حضور کے زمانہ آغازِ جوانی کا ہے جبکہ آپ ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھے جس کے بعد کچھ عرصہ آپ سیالکوٹ تشریف فرمارہے۔ اورتریاق القلوب صفحہ 57 سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ تیجاسنگھ صاحب کی وفات (جو 1862 میں ہوئی تھی۔ دیکھئے کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب)کا واقعہ انہی ایام کا ہے جب حضور سیالکوٹ میں رہتے تھے۔ پس یہ رؤیا دراصل 1864 سے کئی سال قبل کا ہے۔ واللہ علم بالصّواب۔ (مرتّب)
3 براہین احمدیہ (مرتّب)
بھر گیا۔ تب ایک مُردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا۔ آنحضرتؐ کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا۔ اور یہ عاجز آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔
پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا۔ اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی۔ اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھاچکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی۔ اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں‘ ایسا ہی آنحضرت ﷺ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی۔ کہ جو دین ِ اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔ تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھُل گئی۔ وَالْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ ذٰلِک۔‘‘
)براہین احمدیہ حصہ سوم۔ صفحہ 248،249۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر1(
نوجوانی کے زمانہ میں
’’ وَرَاَیْتُ فِیْ غُلَوَآئِ شَبَابِیْ وَ عِنْدَ دَوَاعِی التَّصَابِیْ کَاَنِّیْ دَخَلْتُ فِیْ مَکَانٍ۔ وَفِیْہِ حَفَدَتِیْ وَخَدَمِیْ۔فَقُلْتُ طَھِّرُوْا فِرَاشِیْ۔ فَاِنَّ وَقْتِیْ قَدْ جَآئَ۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ۔ وَخَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ۔ وَذَھَبَ وَھْلِیْ اِلٰی اَنَّنِیْ مِنَ الْمَائِتِیْنَ۔1‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 548)
1861ء (تخمیناً)
’’مجھے یاد ہے کہ شاید چونتیس برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ شیطان سیاہ رنگ اور بدصورت کھڑا ہے۔ اوّل اس نے میری طرف توجہ کی۔ اور میں نے اس کو منہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ دُور ہو اَے شیطان۔ تیرا مجھ میں حصہ نہیں۔ اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف گیا اور اس کو اپنے ساتھ کرلیا۔ اور جس کو اپنے ساتھ کرلیا اس کو میں جانتا تھا۔ اتنے میں آنکھ کھُل گئی۔
اسی دن یا اس کے بعد اس شخص کو مرگی پڑی۔ جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ شیطان نے اس کو ساتھ کرلیا تھا اور
1 (ترجمہ از مرتّب) میں نے ایک دفعہ اوائل ایام جوانی میں اور جب کہ کھیل کود کے اسباب کی طرف طبائع کا میلان ہوتا ہے‘ رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک مکان کے اندر داخل ہوا ہوں جس میں میرے خادم اور نوکر چاکر موجود ہیں۔میں نے انہیں کہا کہ میرے مکان کو درست اور میرے بستر کو پاک و صاف کرو۔کیونکہ اب میرا وقت آگیا ہے۔اس کے بعدمیری آنکھ کھُل گئی۔ اس وقت مجھ پر اپنی جان کے متعلق خطرہ و اندیشہ کی حالت طاری ہوئی۔اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اب میری موت کا وقت آگیا ہے خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ ’’فان وقتی قد جَآءَ‘‘سے حضور نے اس وقت یہ تعبیر لی تھی کہ میرے مرنے کا وقت آگیا ہے۔مگر جیسا کہ بعد کے حالات سے ظاہر ہوا ‘ اس سے مراد یہ تھی کہ میری بعثت کا وقت آگیا ہے اور اس کی تائید آپ کے دوسرے الہام بخرام کے وقت ِتو نزدیک رسید سے بھی ہوتی ہے۔واللہ اَ علم بالصّواب۔
صرع کی بیماری میں گرفتار ہوگیا۔ اِس سے مجھے یقین ہوا کہ شیطان کی ہمراہی کی تعبیر مرگی ہے۔‘‘
(معیار المذاہب حاشیہ صفحہ 18‘ ملحقہ رسالہ نورالقرآن مطبوعہ اپریل 1896 ء)
1862ء
’’ لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے را جہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر ان کو اطلاع دی کہ وہ را جہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے۔ فوت ہوگئے ہیں اور انہو ں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا۔ اورجب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹرمکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہئے کیونکہ وہ کل بٹا لہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیا کہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔ اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے دیکھو صفحہ 256۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 57، روحانی خزائن جلد نمبر 1حصہ سوم صفحہ 284)
1865ء (قریباً)
’’تیس برس کا عرصہ ہوا کہ مجھے صاف صاف مکاشفات کے ذریعہ سے اُن1کے حالات دریافت ہوئے تھے۔ اگر میں جزماً کہوں تو شاید غلطی ہو۔ مگر میں نے اُسی زمانہ میں ایک دفعہ عالمِ کشف میں اُن سے ملاقات کی۔ یا کوئی ایسی صورتیں تھیں جو ملاقات سے مشابہ تھیں۔ چونکہ زمانہ بہت گذر گیا ہے۔ اس لئے اصل صورت اُس کشف کی میرے ذہن سے فرو ہوگئی ہے۔‘‘
(ست بچن طبع اوّل صفحہ 29 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 141)
1865ء (قریباً)
’’چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن میری موت کی تمنا کریں گے۔ تا یہ نتیجہ نکالیں کہ جھوٹا تھا تبھی جلدی مر گیا۔ اس لئے پہلے ہی سے اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:۔
ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْ قَرِیْباً مِّنْ ذَالِکَ۔ اَوْتَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْناً۔ وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْداً۔
یعنی تیری عمر اَسّی برس کی ہوگی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا۔ اور یہ الہام قریباً پینتیس برس سے ہوچکا ہے۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 29، 30 وضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 19 طبع اوّل، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 66)
1 باوا نانک رحمتہ اللہ علیہ۔ (مرتّب)
1868ء
’’ یک مقدمہ میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا۔ اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اِس مقدمہ میں ڈگری ہوجائے گی۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ1 کوکہ جو قادیان میں موجود ہے بتلا دی۔
پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ مع اپنے چند گواہوں کے عدالت میں حاضر ہوا۔ اور اِس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔
اس خبر کو سنتے ہی وہ آریہ تکذیب اور استہزاء سے پیش آیا۔ اُس وقت جس قدر قلق اور کرب گذرا ‘ بیان میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہِ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو۔ اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہوا۔ کہ جو آ ہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہوگیا۔ اور وہ یہ تھا:۔
ڈگری ہوگئی ہے۔ مسلمان ہے!
یعنی کیا تو باور نہیں کرتا۔ اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے؟
آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری2 ہی ہوئی تھی۔ اور فریق ثانی نے حکم سننے میں دھوکہ کھایا تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم طبع اوّل صفحہ 551، 553 حاشیہ درحاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 658، 659)
1868ء
’’ایک مرتبہ جب انہوں3 نے اس ضلع4 میں وکالت کا امتحان دیا۔ تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے اُن کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کُل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے۔ فیل ہوجائیں گے۔ مگر سب میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں پاس ہوجاؤ گے۔ اور یہ خبر میں نے تیس 30کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختاری کاری کا امتحان دیا تھا فیل کئے گئے
1 لالہ شرمپت (تریاق القلوب صفحہ 37، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 206) (مرتّب)
2 حاکم مجوز نے جس کا نام حافظ ہدایت علی تھا صرف مدعا علیہ کے بیان پر کہ ہمیں حسب ِفیصلہ صاحب کمشنر درخت کاٹ لینے کا حق حاصل ہے مقدمہ کو خارج کردیا اور مدعا علیہ کو حکم سنا کر معہ اس کے گواہوں کے رخصت کردیا۔اس پر انہوں نے گاؤں میں آکر مشہور کردیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے۔لیکن جب وہ عدالت کے کمرہ سے نکل گئے تو اس وقت مِثل خواں نے جو اتفاقاً باہر گیا ہوا تھا حاکم کو کہا کہ آپ نے اس مقدمہ میں دھوکہ کھایا ہے اور جو فریق ثانی نے نقل روبکار صاحب کمشنر پیش کی ہے وہ حکم تو فنانشل صاحب کے حکم سے منسوخ ہوچکا ہے اور اس نے روبکار دکھلا دی۔تب ہدایت علی کی عقل نے چکر کھایا اور اسی وقت اپنی روبکار پھاڑ دی اور ڈگری کی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 143 ، 144)
3 لالہ بھیمؔ سین صاحب وکیل سیالکوٹ (مرتّب) 4 سیالکوٹ (مرتّب)
اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہوگئے.....اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔ دیکھو صفحہ 256۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 57 ، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 256)
1868ء(قریباً)
’’ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بھائی غلام قادر صاحب سخت بیمار ہیں۔ سو یہ خواب بہت سے آدمیوں کو سنایا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ سخت بیمار ہوگئے۔
تب میں نے ان کیلئے دعا شروع کی۔ تو دوبارہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے ایک بزرگ فوت شدہ اُن کو بلا رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیربھی موت ہوا کرتی ہے چنانچہ ان کی بیماری بہت بڑھ گئی۔ اور وہ ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے۔ اس پر مجھے سخت قلق ہوا۔ اور میں نے ان کی شفا ء کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی.......سو جب میں نے دعا میں مشغول ہوا تو میں نے کچھ دنوں کے بعد خواب میں دیکھا کہ برادرمذکورپورے تندرست کی طرح بغیر سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں۔ چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو شفاء بخشی اور وہ اس واقعہ کے بعد پندرہ برس تک زندہ رہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 217 ، روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 595 )
1868ء(تخمیناً)
’’ایک شخص سہج رام نام امرتسر کی کمشنری میں سر رشتہ دار تھا اور پہلے وہ ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کا سر رشتہ دار تھا۔ اور وہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث کیا کرتا تھا۔ اور دین ِ اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا۔ اور ایسا اتفاق ہوا کہ میرے ایک بڑے بھائی تھے۔ انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا۔ اور امتحان میں پاس ہوگئے تھے۔ اوروہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے۔ اور نوکری کے امیدوار تھے۔ ایک دن میں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا ۔ جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ اُلٹانا چاہا۔ تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرادو۔ میں نے اُس سے کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں۔ اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا۔ کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہوگیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی۔ بعد اس کے میں نیچے اترا۔ اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی نوکری کے بارہ میں باتیں کررہے تھے۔ میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہوجائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے۔ ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مارکر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مار تے ہو۔ دوسرے یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اُسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اِس دنیا سے گذر گیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 296 ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 309 )
1868 ء یا 1869 ء
(ا) ’’1868 یا 1869 میں بھی ایک عجیب الہام اُردو میں ہوا تھا ..... اور تقریب اِس
1 میرزا غلام قادر صاحب کی وفات 1883 ء میں ہوئی تھی۔ (کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب) (مرتّب)
الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔ جب نئے نئے مولوی ہوکر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو اُن کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کیلئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا۔ چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔
پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کرلیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل ِ اعتراض ہو۔ اس لئے خاص اللہ کیلئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند ِ کریم نے اپنے الہام اور مخا طبت میں اسی ترکِ بحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
تیرا خدا تیر ے اس فعل سے راضی ہوا۔ اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
پھر بعد اُس کے عالم ِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔
چونکہ خا لصاً خدا اور اس کے رسول کیلئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا۔ اس لئے اس محسن ِ مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ صفحہ 520 ، 521 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ، روحانی خزائن ، جلد نمبر1 صفحہ621 ، 622 )
(ب) مجھے اللہ جل شانہ‘ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا۔ اور مجھے اس نے فرمایا کہ
’’میں تجھے برکت پر برکت دوں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ1 تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
(برکات الدعاء صفحہ 30 طبع اوّل2، روحانی خزائن جلد نمبر6 صفحہ 35)
(ج) ’’یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے۔ اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی۔
پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور چھ سات سے کم نہ تھے۔ ‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 38 مورخہ 24 اکتوبر 1902 ء صفحہ 10 کالم نمبر 2 ، 3)
1 عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اورکہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جوأ اُٹھائیں گے اورخداانہیں برکت دے گا۔ (تجلیاتِ الٰہیہ حاشیہ صفحہ 21 طبع اوّل)
2 ( نیز تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 21 ، روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 409 ، 420)
(د) 1 اِ نِّیْ رَاَ یْتُ فِیْ مُبَشِّرَۃٍ اُرِیْتُھَا جمَاعَۃً مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ وَالْمُلُوْکِ الْعَادِ لِیْنَ الصَّالِحِیْنَ۔ بَعْضُھُمْ مِنْ ھٰذَا الْمُلْکِ وَبَعْضُہُمْ مِنَ الْعَرَبِ وَبَعْضُہُمْ مِنْ فَارِسَ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادِ الشَّامِ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ اَرْضِ الرُّوْمِ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادٍ لَّا اعْرِفُھَا۔ ثُمَّ قِیْلَ لِیْ مِنْ حَضْرَۃِ الْغَیْبِ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآءِ یُصَدِّ قُوْ نَکَ وَ یُؤْ مِنُوْنَ بِکَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ وَیَدْ عُوْنَ لَکَ۔ وَاُعْطِیْ لَکَ بَرَکَاتٍ حَتّٰی یَتَبَرَّکَ الْمُلُوْکُ بِثِیَا بِکَ وَ اُدْ خِلُھُمْ فِی الْمُخْلِصِیْنَ ھٰذَا رَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ وَاُلْھِمْتُ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ۔‘‘
(لُجّہّ النّور صفحہ 3 ،4 روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 339 ، 340 )
1870ء
)ا) ’’عرصہ تخمیناًبارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہندو 2صاحب کہ جو اَب آریہ سماج قادیان کے ممبر اور صحیح و سلامت موجود ہیں۔ حضرت خاتم الرّسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا...... اس ہندو صاحب کا ایک عزیز 3کسی ناگہانی پیچ میں آکر قید ہوگیا۔ اور اُس کے ہمراہ ایک اور ہندو 4بھی قید ہوا۔ اور اُن دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گذرا۔ اُس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اُس آریہ صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اِسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلاسکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے.........تب میرے دل میں خدا کی طرف سے یہی جوش ڈالا کہ خدا اُس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے۔ اور میں نے دعا کی کہ اے خداوند ِ کریم۔ تیرے نبی کریم کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے۔ اور تیرے نشانوں اور پیشین گوئیوں سے جو تُونے اپنے رسول پر ظاہر فرمائیں۔ سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لاجواب ہوسکتا ہے۔ اور تو ہربات پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں۔
1 (ترجمہ از مرتب) میں نے ایک مبشر خوا ب میں مخلص مومنوں اور عادل اور نیکوکار بادشاہوں کیایک جماعت دیکھی۔ جن میں سے بعض اسی ملک (ہند ) کے تھے اور بعض عرب کے۔ بعض فارس کے اور بعض شام کے بعض روم کے۔ اور بعض دوسرے بلاد کے تھے۔ جن کو میں نہیں جانتا۔ اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اورتیرے لئے دعائیں کریں گے۔ اور میں تجھے بہت برکتیں دوں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا۔ یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علّام کی طرف سے مجھے ہوا۔
2 لالہ شرمپت (مرتّب)
3 لالہ بشمبر داس (مرتّب)
4 خوشحال چَند نامی (مرتّب)
تب خدا نے جو اپنے سچے دین ِ اسلام کا حامی ہے۔ اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت چاہتا ہے۔ رات کے وقت رؤیا میں کُل حقیقت مجھ پر کھول دی۔ اور ظاہر کیا کہ تقدیرِ الٰہی میں یوں مقدر ہے کہ اس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ِ ماتحت میں پھر واپس آئے گی۔ اور پھر اس عدالت ِ ماتحت میں نصف قید اُس کی تخفیف ہوجائے گی۔ مگر بَری نہیں ہوگا۔ ۔ اور جو اُس کا دوسرا رفیق ہے۔ وہ پوری قید بھُگت کر خلاصی پائے گا۔ اور بَری وہ بھی نہیں ہوگا۔
پس میں نے اس خواب سے بیدار ہوکر اپنے خداوند ِ کریم کا شکر کیا۔ جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا۔ اور اسی وقت میں نے یہ رؤیاایک جماعت کثیر کو سنا دیا۔ اور اُس ہندو صاحب کو بھی اُسی دن خبر کردی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ سوم صفحہ 251 ، 252 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1 ، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 277 ، 279 )
(ب) ’’ بشمبر داس بقید ایک سال مقید ہوگیا تھا۔ اور اس کے بھائی شرمپت نام نے جو سرگرم آریہ ہے۔ مجھ سے دعا کی التجا کی تھی۔ اور نیز یہ پوچھا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ میں نے دعا کی اور کشفی نظر سے میں نے دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیا ہوں جہاں اس کی قید کی مثل تھی۔ میں نے اس مثل کو کھولا۔ اور برس کا لفظ کاٹ کر اس کی جگہ چھ مہینے لکھ دیا۔
اور پھر الہام الٰہی سے بتلایا۔ کہ مثل چیف کورٹ سے واپس آئیگی۔ اور برس کی جگہ چھ مہینے رہ جائے گی۔ لیکن بَری نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے یہ تمام کشفی واقعات شرمپت آریہ کو جو اَب تک زندہ موجود ہے۔ نہایت صفائی سے بتلادیئے۔
اور جب میں نے بتلایا ۔ بعینہٖ وہ باتیں ظہور میں آگئیں۔ تو اُس نے میری طرف لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندے ہو۔ اس لئے اس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کردیں۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 35 طبع اوّل ، روحانی خزائن جلد نمبر 12 صفحہ 37)
1870ء (تخمیناً)
(ا) ’’ اِس رؤیاصادقہ میں کہ ایک کشفِ صریح کی قسم تھی۔ یہ معلوم کرایا گیا تھا۔ کہ ایک کھتری ہندو بشمبر داس نامی جو اَ ب تک قادیان میں بقیدِ حیات موجو دہے۔ مقدمہ فوجداری سے بَری نہیں ہوگا۔ مگر آدھی قید تخفیف ہوجائے گی۔ لیکن اُس کا دُوسرا ہم قید خوشخال نامی کہ وہ بھی اب تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا۔ سو اس جزوِ کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسب پیشگوئی ایں عاجز مثل مقدمۂ مذکورہ واپس آئی۔ تو متعلقین مقدمہ نے اُس واپسی کو بریت پر حمل کرکے گاؤں میں یہ مشہور کردیا کہ دونوں ملزم جرم سے بَری ہوگئے ہیں۔ مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی۔ اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو تیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گاؤں میں آگئے ہیں۔ سو چونکہ یہ عاجز اعلانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا۔ کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بَری نہیں ہوں گے۔ اِس لئے جو کچھ غم اور قلق اور کرب اس وقت گذرا سو گذرا۔ تب خدا نے کہ جو اس عاجز بندہ کا ہریک حال میں حامی ہے۔ نماز کےا وّل یا عین نمازمیں بذریعہ الہام یہ بشارت دی
لَاتَخَفْ1 اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی
اور پھر فجر کو ظاہر ہوگیا کہ وہ خبر بَری ہونے کی سراسر جُھوٹی تھی اورانجام کار وہی ظہور میں آیا کہ جو اِس عاجز کو خبر دی گئی تھی۔ جس کو شرمپت نامی ایک آریہ اور چنددوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 550 ، 551 حاشیہ در حاشیہ نمبر 4 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 657 ، 658 )
(ب) ’’جب بشمیر داس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نمازِ عشاء کے وقت جب مَیں اپنی بڑی مسجد میں تھا،علی محمدنام ایک مُلّاں ساکن قادیان نے جو اَب تک زندہ اورہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظورہوگئی اور بشمبرداس بَری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اس خوشی کا ایک جوش برپا ہے۔ تب اس غم سے میرے پر وہ حالت گذری جس کو خدا جانتا ہے۔ اُس غم سے میں محسوس نہیں کرسکتا تھا کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا۔ تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی۔ جب میں سجدہ میں گیا۔ تب مجھے یہ الہام ہوا:۔
لَاتَحْزَنْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی
یعنی غم نہ کر تجھ کو ہی غلبہ ہوگا۔
تب میں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی۔ اور حقیقت یہ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ بشمبرداس بَری کیا گیا ہے۔‘‘ (قادیان کے آریہ اور ہم ۔ صفحہ 28 ، 29 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 657 ، 658 )
1871ء( تخمیناً)
’’تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا۔ جب میں تپ سے سخت بیمار ہوا۔ اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی۔ کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اس اثناء میں مجھے الہام ہوا:۔
وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ 2
(الحکم جلد 6 نمبر 28 مؤرخہ10 اگست1902 ء صفحہ11 کالم نمبر 2)
1872ء (تخمیناً)
فرمایا کہ ’’ شاید کوئی تیس برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے بھی ایک خواب دیکھا۔ کہ اَب جس مقام پر مدرسہ کی عمارت ہے ‘ وہاں بڑی کثرت سے بجلی چمک رہی ہے۔ بجلی چمکنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ وہاں آبادی ہوگی۔‘‘
(البدؔرجلد 1 نمبر8 مورخہ 19 دسمبر 1902 ء صفحہ 58 کالم نمبر 3)
1 (ترجمہ از مرتّب) خوف مت کر تُو ہی غالب رہے گا۔
2 مسجد اقصٰی (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اور جو وجود لوگوں کے لئے نفع رساں ہو وہ زمین پر زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے۔
1872 ء (تخمیناً)
’’تخمیناً دس برس کا عرصہ ہوا ہے جو میں نے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا۔ اور مسیح نے اور میں نے ایک جگہ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا۔ اور کھانے میں دونوں ایسے بے تکلف اور بامحبت تھے کہ جیسے دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں اور جیسے قدیم سے دو رفیق اور دلی دوست ہوتے ہیں اور بعد اُس کے اسی مکان میں جہاں اَب یہ عاجز اس حاشیہ کو لکھا رہا ہے۔ میں اور مسیح اور ایک اور کامل اور مکمل سید آلِ رسول دالان میں خوشدلی سے ایک عرصہ تک کھڑے رہے اور سید صاحب کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ اُس میں بعض افراد خاصۂ اُمّتِ محمدیہ کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اور حضرت ِ خداوند تعالیٰ کی طرف سے اُن کی کچھ تعریفیں لکھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سید صاحب نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسیح کو اُمّت ِ محمدیہ کے اُن مراتب سے اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ جو عنداللہ اِن کیلئے مقرر ہیں۔ اور اُس کاغذ میں عبارت تعریفی تمام ایسی تھی کہ جو خالص خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ سو جب پڑھتے پڑھتے وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا۔ اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا۔ تب اِس عاجز کا نام آیا۔ جس میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ عبارت تعریفی عربی زبان میں لکھی ہوئی تھی:۔
ھُوَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ و تَفْرِیْدِیْ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔
یعنی وہ مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید۔ سو عنقریب لوگوں میں مشہور کیا جائے گا۔
یہ اخیر فقرہ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاس اسی وقت بطورِ الہام بھی القا ہوا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 253 ، 254 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 طبع اوّل روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 280 281)
1872 ء (تخمیناً)
’’ایک دفعہ میں نے باوا نانک صاحب کو خواب میں دیکھا کہ اُنہوں نے اپنے تئیں مسلمان ظاہر کیا ہے1اور میں نے دیکھا کہ ایک ہندو ان کے چشمہ سے پانی پی رہا ہے۔ پس میں نے اس ہندو کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمے سے پانی پیو۔ تیس برس کا عرصہ ہوا ہے۔ جبکہ میں نے یہ خواب یعنی باوا نانک صاحب کو مسلمان دیکھا۔ اسی وقت اکثر ہندوؤں کو سنایا گیا تھا۔ اور مجھے یقین تھا کہ اس کی کوئی تصدیق پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ ایک مدت کے بعدوہ پیشگوئی بکمال صفائی پوری ہوگئی۔ اور تین سو برس کے بعد وہ چولہ ہمیں دستیاب ہوگیا کہ جو ایک صریح دلیل
1 ’’میری خواب میں جو باوا نانک صاحب نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اس سے یہی مراد تھی کہ ایک زمانہ میں ان کا مسلمان ہونا پبلک پر ظاہر ہوجاءے گا چنانچہ اِس امر کے لیے کتاب سَت بچن تصنیف کی گئی تھی اور یہ جو مَیں نے ہندوؤں کو کہا کہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمہ سے پانی پیؤاس سے یہ مراد تھی کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اہلِ ہنوداورکّھوں پر اِسلام کی حقانیت صاف طور سے کُھل جائے گی اورباوا صاحب کا چشمہ جس کو حال کے سکّھوں نے اپنی کم فہمی سے گدلا بنا رکھا ہے وہ میرے ذریعہ صاف کیا جائے گا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 205 طبع اوّل، روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 583)
باوا صاحب کے مسلمان ہونے پر ہے۔ یہ چولہ جو ایک قسم کا پیراہن ہے بمقام ڈیرہ نانک 1 باوا نانک صاحب کی اولاد کے پاس بڑی عزت اور حرمت سے بطور تبرک محفوظ ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 203 ، 204 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 581 ، 582)
(ب) ’’یہ بھی یاد رہے کہ میں نے دو مرتبہ باوا نانک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور اُن کو اس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اُسی نور سے روشنی حاصل کی ہے۔ فضولیاں اور جھوٹ بولنا مُردار خواروں کا کام ہے۔ میں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے۔ اسی و جہ سے میں باوا نانک صاحب کو عزت کی نظرسے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اس چشمے سے پانی پیتے تھے۔ جس سے ہم پیتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اُس معرفت سے بات کررہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے۔‘‘ (از اشتہار مورخہ 18 اپریل 1897 ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 396 )
1872 ء (تخمیناً(
’’مارٹن کلارک والے مقدمہ سے قریباً پچیس سال پہلے میں ایک دفعہ خواب دیکھ چکا تھا کہ میں ایک عدالت میں کسی حاکم کے سامنے حاضر ہوں اور نماز کا وقت آگیا ہے۔ تو میں نے اُس حاکم سے نماز کے لئے اجازت طلب کی۔ تو اُس نے کشادہ پیشانی سے مجھے اجازت دے دی۔
چنانچہ اِس کے مطابق اس مقدمہ میں عین دورانِ مقدمہ میں جبکہ میں نے کپتان ڈگلس سے نماز کے لئے اجازت چاہی تو اس نے بڑی خوشی سے مجھے اجازت دے دی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 210 ، روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 588)
1872ء (قریباً)
’’میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ بٹالہ کے مکانات میں ایک حویلی ہے۔ اس میں ایک سیاہ کمبل پر میں بیٹھا ہوں اور لباس بھی کمبل کی ہی طرح کا پہنا ہوا ہے۔ گویا کہ دنیا سے الگ ہوا ہوں۔ اتنے میں ایک لمبے قد کا شخص آیا اور مجھے پوچھتا ہے کہ مرزا غلام ؔاحمد مرزا غلام مرتضیٰ کا بیٹا کہاں ہے؟ میں نےکہا کہ میں ہوں۔ کہنے لگا کہ میں نے آپ کی تعریف سنی ہے کہ آپ کو اسرار دینی اور حقائق اور معارف میں بہت دخل ہے۔ یہ تعریف سن کر ملنے آیا ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا۔ اس پر اُس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے۔ ایک آنکھ اُوپر تھی اور ایک نیچے۔ اور اس کے منہ سے حسرت بھرے یہ الفاظ نکل رہے تھے:۔
’’ تہیدستانِ عشرت را ‘‘
اس کا مطلب میں نے یہ سمجھا۔ کہ یہ مرتبہ انسان کو نہیں ملتا۔ جب تک کہ وہ اپنے اوپر ایک ذبح اور ایک موت وارد نہ کرے۔اس مقام پر عرب 2صاحب نے حضرت کا یہ شعر پڑھا۔ جس میں یہ کلمہ منسلک تھا
2 ضلع گورداسپور (مرتب) 2 ابوسعید صاحب ( مرتّب)
کہ مے خواہدنگارِ من تہید ستانِ عشرت را ‘‘ 1
(البدر جلد 2 نمبر 3 مورخہ 6 فروری 1903 ء صفحہ 19 کالم نمبر 3 والحکم جلد 7 نمبر3 مورخہ 24 جنوری 1903 ء صفحہ 8 کالم نمبر1)
1873 ء (تخمیناً)
’’میں مرزا صاحب (والد صاحب) کے وقت میں زمینداروں کے ساتھ ایک مقدمہ پر امرتسر میں کمشنر کی عدالت میں تھا۔ فیصلہ سے ایک دن پہلے کمشنر زمینداروں کی حمایت رعایت کرتا ہوا اور ان کی شرارتوں کی پروا نہ کرکے عدالت میں کہتا تھا کہ یہ غریب لوگ ہیں۔ تم ان پر ظلم کرتے ہو۔ اس رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ انگریز ایک چھوٹے سے بچہ کی شکل میں میرے پاس کھڑا ہے۔ اور میں اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہوں۔
صبح کو جب ہم عدالت میں گئے۔ تو اُس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی۔ کہ گویا وہ پہلا انگریز ہی نہ تھا۔ اُس نے زمینداروں کو بہت ہی ڈانٹا۔ اور مقدمہ ہمارے حق میں فیصلہ کیا۔ اور ہمارا سارا خرچہ بھی ان سے دلایا۔‘‘
(الحکم جلد5 نمبر22مؤرخہ 17 جون 1901ء صفحہ 3)
1874 ء (قریباً)
’’میں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا۔ جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اُس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا2 ، وہ نان اُس نے مجھے دیا اور کہا کہ
یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کیلئے ہے۔
یہ اس زمانہ کی خواب ہے۔ جبکہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا۔ اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی۔ مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنادیا ہے۔ اور اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیٰحدہ ہوکر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آآباد ہوئے ہیں۔
اور نان سے میں نے یہ تعبیر کی تھی کہ خدا ہمارا ‘ اور ہماری جماعت کا آپ متکفل ہوگا۔ اور رزق کی پریشانگی ہم کو پراگندہ نہیں کرے گی۔
چنانچہ سالہائے دراز سے ایسا ہی ظہور میں آرہا ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 206، 207 ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 585)
1 (ترجمہ از مرتّب) کیونکر میرا محبوب آرام طلبی کی زندگی سے الگ رہنے والے لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔
2 اور بہت بڑا تھا گویا چارنان کے مقدار پر تھا۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 277۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 290)
1874 ء (قریباً)
’’ مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے کہ جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے ۔ اور اُس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں۔ اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے۔ اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت اُن کا خون نالی میں گرے۔ اور باقی حصہ اُن کے وجود کا نالی سے باہر رہے۔ اور نالی شرقاً غرباً واقع ہے۔ بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف سے رکھے گئے ہیں۔ اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے۔ اور اُن تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھُری ہے۔ جوہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے۔ اور آسمان کی طرف اُن کی نظر ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں۔ اور میں اس میدان میں شمالی طرف پھر رہا ہوں۔ اور دیکھتا ہوں۔ کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں۔ بھیڑوں کے ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں۔ محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے۔ تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی:۔
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُ کُمْ
یعنی ان کو کہدے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے۔ اگر تم اس کی پرستش نہ کرواور اس کے حکموں کو نہ سنو۔
اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا۔ کہ ہمیں اجازت ہوگئی۔ گویا میرے منہ کے الفاظ خدا کے لفظ 1 تھے۔ تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فی الفور اپنی بھیڑوں پر چُھریئیں پھیر دیں۔ اور چھُریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک درد ناک( طور پر) تڑپنا شروع کیا۔ تب اُن فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں۔ اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے بھیڑیں ہی ہو۔
میں نے اس کی یہ تعبیر کی۔ کہ ایک سخت وبا ہوگی۔ اور اس سے بہت سے لوگ اپنی شامت اعمال سے مریں گے۔ اور میں نے یہ خواب بہتوں کو سنادی جن میں سے اکثر لوگ اب تک زندہ ہیں اور حلفاً بیان کرسکتے ہیں۔
پھر ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور پنجاب اور ہندوستان اور خاص کر امرتسر اور لاہور میں اس قدر ہیضہ پھُوٹا کہ لاکھوں جانیں اس سے تلف ہوئیں اور اس قدر موت کا بازار گرم ہوا۔ کہ مُردوں کو گاڑیوں پر لادکر لے جاتے تھے اور مسلمانوں کا جنازہ پڑھنا مشکل ہوگیا۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 60 ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 263 ، 264)
’’فطرتاًبعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے۔ اسی طرح میری روح اور سید القادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے۔ جس پر کشوفِ2 صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے۔ اِس
1 حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں:۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے میں نے جو آواز دی تو انہوں نے سمجھا کہ حکم ہوگیا۔ اور جو آواز آسمان سے آنی تھی وہ میں نے کہی۔ ‘‘ (البدر جلد1نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903 ء صفحہ 90)
2 اس جگہ ان کشوف کا تفصیلی ذکر نہیں ہے بلکہ ان کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ (مرتب)
بات پر تیس برس کے قریب زمانہ گذر گیا ہےکہ جب ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کرلیا ہے۔ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی۔ جس کی عمر قریباً اَسّی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اور ساتھ اُن کے ایک اور بزرگ تھے۔ اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی۔ اور پھر مسجد کے باہر صحن میں نکل آئے۔ اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی۔ اتنے میں مشرق کی طرف ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا۔ تب اُس ستارہ کو دیکھ کر سید عبدالقادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا۔ السَّلام علیکم اور ایسا ہی اُن کے رفیق نے السَّلام علیکم کہا۔ اور وہ ستارہ میں تھا۔ اَلْمُؤْمِنْ یَرٰی وَیُرٰی لَہ‘ ۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 65 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 224)
1875 ء (تخمیناً)
’’ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نمازِ مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غَیبتِ حِس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی۔ ایک عجیب عالم ظاہر ہوا۔ کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسے بسُرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی پیغمبرِخدا ﷺ و حضرت علی و حَسَنَین و فاطمہ زَہراء رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔
پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے۔ جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی 2 وہ تفسیر تجھ کودیتا ہے۔فالحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 503 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598 ، 599 نیز دیکھئے تحفہ گولڑویہ صفحہ 31)
1 کتاب البریّہ کے صفحہ 166 حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضرت مسیح موعود علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے والد ماجد رحمتہ اللہ علیہ کی وفات سےکِسی قدر قبل کا ہے۔ (مرتّب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی بعض تفصیلات جو دوسری جگہ بیان فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ (مرتب)
(الف) ’’ رَاَیْتُ اَنَّ عَلِیّاً رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُرِیْنِیْ کِتَاباً وَّ یَقُوْلُ ھٰذَا تَفْسِیْرُ الْقُرْاٰنِ اَنَا اَلَّفْتُہ‘ وَاَمَرَنِیْ رَبِّیْ اَنٰ اَعْطِیَکَ۔ فَبَسَطْتُّ اِلَیْہِ یَدِیْ وَاَخَذْتُہ‘۔ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرٰی وَیَسْمَعُ وَلَا یَتَکَلَّمُ وَکَاَ نَّہ‘ حَزِیْنٌ لِّاَ جَلِ بَعْضِ اَحْزَانِیْ۔ وَرَاَ یْتُہ‘فَاِذَا الْوَجْہُ ھُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ رَاَیْتُ مِنْ
1876ء (قریباً)
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کازمانہ ٔ وفات بہت نزدیک تھا‘ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا۔ اور اُس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی
قَبْلُ اَنَارَتِ الْبَیْتُ مِنْ نُّورِہٖ۔ فَسُبْحَانَ اللّٰہِ خَالِقِ النُّوْرِ وَالنُّوْرَانِیِّیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 550۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 550)
(ترجمہ ازمرتب) میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھے ایک کتاب دکھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی تفسیر ہے جس کو میں نے تالیف کیا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو دوں۔ تب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے مگر آپ بولتے نہیں تھے۔ گویا آپ میرے بعض غموں کی وجہ سے غمگین تھے۔ اور میں نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کا وہی چہرہ تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ آپ کے نور سے گھر روشن ہوگیا۔ پس پاک ہے وہ خدا جو نور اور نورانی وجودوں کا خالق ہے۔
(ب) ’’فَاَ عْطَانِیْ تَفْسِیْرَ کِتَابِ اللّٰہِ الْعَلَّامِ وَقَالَ ھٰذَا تَفْسِیْرِیْ۔ وَالْاٰنَ اُوْلِیْتَ فَھُنِّیْتَ بِمَا اُوْتِیْتَ فَبَسَطْتُّ یَدِیْ وَاَخَذْتُ التَّفْسِیْرَوَشَکَرْتُ اللّٰہَ الْمُعْطِیَ الْقَدِیْرَ۔ وَوَجَدْتُّہ‘ ذَاخَلْقٍ قَوِیْمٍ وَّخُلْقٍ صَمِیْمٍ وَّمُتَوَاضِعاً مُّنْکَسِرًا وَّمُتَھَلِّلاً مُّنَوَّرًا۔ وَاَقُوْلُ حَلْفًا اَ نَّہ‘ لَاقَانِیْ حِبّاً وَّ اَلْفاً۔ وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّہ‘ یَعْرِفُنِیْ وَعَقِیْدَ تِیْ وَیَعْلَمُ مَا اُخَالِفُ الشِّیْعَۃَ فِیْ مَسْلَکِیْ وَمَشْرَبِیْ وَلٰکِنْ مَا شَمَخَ بِاَنْفِہٖ عَنْفًا وَّ مَانَاٰ بِجَانِبِہٖ اَنْفًا بَلْ وَافَانِیْ وَصَا فَانِیْ کَا لْمُحِبِّیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ۔ وَاَظْھَرَ الْمُحَبَّۃَ کَالْمُصَافِیْنَ الصَّادِقِیْنَ۔ وَکَانَ مَعَہُ الْحُسَیْنُ بَلِ الْحَسَنَیْنِ وَسَیِّدُ الرُّسُلِ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔ وَکانَتْ مَعَھُمْ فَتَاۃ’‘ جَمِیْلَۃً صَالِحَۃ’‘ جَلِیْلَۃ’‘ مُّبَارَکَۃ’‘ مُّطَھَّرَۃ’‘ مُّعَظَّمَۃ’‘مُؤَقَّرَۃ’‘ بَاھِرَۃُ النُفُوْرِ ظَاھِرَۃُ النُّوْرِ۔ وَوَجَدْ تُّھَا مُمْتَلَأَ ۃً مِّنَ الْحُزْنِ وَلٰکِنْ کَانَتْ کَاتِمَۃً۔ وَاَلْقِیَ نِیْ رُوْ عِیْ اَنَّھَا الزَّھْرَائُ فَاطِمَۃُ فَجَا ئَ تْنِیْ وَاَنَا مُضْطَجِع’‘ فَقَعَدَتْ وَوَضَعَتْ رَاْسِیْ عَلٰی فَخِذِ ھَاوَتَلَطَّفَتْ۔ وَرَاَیْتُ اَنَّھَا لِبَعْضِ اَخْزَا نِیْ تَحْزُنُ رَتَصْجَرُ وَتَتَحَنَّنُ وَتَقْلَقُ کَاُمَّھَاتٍ عِنْدَ مَصَائِبِ الْبَنِیْنَ۔ فَعُلِّمْتُ اَنِّیْ نَزَلْتُ مِنْھَا بِمَنْزِلَۃِ الْاِبْنِ فِیْ عِلْقِ الدِّیْنِ۔ وَخَطَرَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ حُزْنَھَا اِشَارَۃ’‘ اِلٰی مَاسَآرٰی ظُلْماً مِّنَ الْقَوْمِ وَاَ ھْلِ الْوَطَنَ وَالْمُعَادِیْنَ۔ ثُمَّ جَآئَ نِیْ الْحَسَنَانِ وَکَانَا یُبْدِاٰنِ الْمَحَبَّۃَ کَا لْاِخْوَانِ۔ وَوَافَیَانِیْ کَا لْمُوَاسِیْنَ۔ وَکَانَ ھٰذَاکَشْفاً مِّنْ کُشُوْفِ الْیَقْظَۃِ وَقَدْ مَضَتْ عَلَیْہِ بُرْھَۃ’‘ مِّنْ سِنِیْنَ۔‘‘
(سِرّالخلافۃ صفحہ 34 ، 35 ۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358 ، 359 )
(ترجمہ از مرتّب) پس (حضرت علیؓ نے) مجھے کتاب اللہ کی تفسیر دی۔ اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب آپ اس کے مستحق ہیں۔ آپ کو اس کتاب کا ملنا مبارک ہو۔ پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر تفسیر لے لی۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو خوب تنومند اور اعلیٰ اخلاق کا مالک پایا۔ متواضع ‘ منکسرالمزاج چمکتے ہوئے روشن چہرے والا۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ اور میرے
کی پیشوائی کے لئے رکھنا سُنّتِ خاندانِ نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت ِ اہل ِ بیت رسالت کو بجا لاؤں۔
سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا..... اور ِاس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی..... اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش دولستان طور پر نظر آتے تھے۔ جن کا بیان کرنا بالکل طاقت ِ تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے۔ جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا۔ اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔
میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا۔ اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا اُن کو نہیں پہچان سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے۔
غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے۔ وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے..... لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے۔ اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا..... یاد رہے کہ میں نے کشف ِ صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجالانا چھوڑدیا۔ اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ 164 ۔ 167 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 197۔ 200 حاشیہ)
دل میں ڈالا گیا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیںاور آپ کو میرے عقیدہ کا بھی علم ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیںکہ میرا مسلک اور مشرب شیعوں کے مخالف ہے لیکن آپ اسے بُرا نہیں مناتے بلکہ آپ مجھ سے مخلص محبوں کی طرح ملے۔ اور بڑی محبت کا اظہار کیا۔ آپ کے ساتھ حسنین اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک خوبصورت عورت بھی جو صالحہ ‘ عالی مرتبہ ‘ نیک سیرت اور باوقار تھی جس کے چہرہ سے نور ٹپک رہا تھا اور میں نے اس کو غم سے بھرا ہوا پایا جسے وہ چھپا رہی تھی۔ میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بی بی فاطمۃ الزاہراء ہیں آپ میرے پاس آئیں۔ میں لیٹا ہوا تھا آپ بیٹھ گئیں اور میرا سر اپنی ران پر رکھا اور شفقت فرمانے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ میرے بعض غموں کی و جہ سے آپ غمگین اور پریشان تھیں جیسے مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب کے وقت پریشان ہوتی ہیں۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ میری حیثیت دینی تعلق کے لحاظ سے بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ کے غم میں اس ظلم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہل ِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والا ہے۔ پھر حسنین میرے پاس آئے اور دونوں مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کا اظہار کرتے تھے اور شفیق ہمدردوں کی طرح مجھے ملے۔ اور یہ کشف بیداری والے کشوف میں سے تھا جس پر کئی سال گذر چکے ہیں۔
1876ء
’’ایک دفعہ میں نے فرشتوں کو انسانوں کی شکل پر دیکھا۔ یاد نہیں کہ دو تھے ‘ یا تین۔ آپس میں باتیں کرتے تھے۔ اور مجھے کہتے تھے کہ تُو کیوں اس قدر مشقت اُٹھاتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہوجائے۔ میں نے سمجھا کہ یہ جو 6ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے1۔‘‘
(البدرجلد1 نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903 ء صفحہ 90 ۔ الحکم جلد 7 نمبر2 مورخہ 17 جنوری 1903 ء صفحہ 5)
جون1876ء
’’ جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا۔ کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔میں اُس وقت لاہور میں تھا۔ جب مجھے یہ خواب آیا تھا۔ تب میں جلدی سے قادیان میں پہنچا۔ اور اُن کو مرضِ زحیر میں مبتلا پایا۔ لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہوجائیں گے۔ کیونکہ مرض کی شدت کم ہوگئی تھی۔ اور بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے۔ دوسرے دن شدتِ دوپہر کے وقت ہم سب عزیز اُن کی خدمت میں حاضر تھے۔ کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کرلو۔ کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی۔ میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا۔ اور ایک نوکر پیر دبانے لگا۔ کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھے الہام ہوا۔
وَالسَّمَآئِ وَالطَّا رِقِ 2
یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاء و قدر کا مبدء ہے۔ اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا۔
اور مجھے سمجھا یا گیا۔ کہ یہ الہام بطور عزا پُرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہوجائے گا۔ ..... اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے۔3 ‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ159 ۔ 162 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 192۔ 195)
جون 1876 ء
’’جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہ‘ کی طرف سے یہ الہا م ہوا۔ جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ تو بشریت کی و جہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں۔ پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا۔ تب اُسی وقت یہ دوسرا الہام ہؤا:۔
1 اس مقام پر حضرت اقدس نے اپنا واقعہ مجاہدہ اور ششماہی روزہ کا بیان فرمایا ..... (اور) فرمایا:۔
’’ان روزوں کو میں نے مخفی طور پر رکھا۔ بعض دفعہ اظہار میں سلب ِ رحمت کا اندیشہ ہوتا ہے۔‘‘
(البدر جلد1 نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903ء صفحہ 90)
2 دیکھو ذکر ِ حبیب ؑ مؤ لفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 224(مرتّب)
3 حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات 3 جون 1876ء کو ہوئی تھی۔ (مرتّب)
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَہ‘
یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے۔ اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا۔ اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا۔ پس مجھے اُس خدا ئے عز وجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کرکے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا۔ میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفّل نہیں ہوگا۔‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ161، 162 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 194، 195 حاشیہ)
1876 ء
’’بعض اوقات خواب یاکشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہوکر مثل انسان نظر آتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غفراللہ لہ‘ جو ایک معزز رئیس اور اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے۔ انتقال کرگئے۔ تو اُن کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں مَیں نے دیکھی۔ جس کا حُلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اُس نے بیان کیا۔ کہ میرا نام رانی ہے۔ اور مجھے اشارات سے کہا۔ کہ میں اس گھر کی عزت اور وجاہت ہوں اور کہا کہ میں چلنے کو تھی مگر تیرے لئے رہ گئی۔‘‘ 1
(ازالہ اوہام صفحہ 213 ۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 205، 206)
’’رؤیا میں عورت سے مراد اقبال اور فتح مندی اور تائید ِ الٰہی ہوتی ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 24 مؤرخہ14 جون1906 ء صفحہ2 کالم نمبر 3)
1876 ء
’’ انہیں دنوں میں مَیں نے ایک نہایت خوبصورت مرد دیکھا۔ اور میں نے اسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو۔ تب اُس نے اشارہ سے میرے پر ظاہر کیا۔ کہ میں تیرا بخت ِ بیدار ہوں۔
اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تُو عجیب خوبصورت آدمی اُس نے یہ جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 213، 214 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 206)2
1877 ء
’’ مرز ا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائیداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی۔ اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتح یابی کا یقین رکھ کر جواب دہی میں مصروف ہوئے۔ میں نے جب اس بارہ میں دعا کی۔ تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے
1 دیکھئیے الحکم جلد 8 نمبر 22 مورخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 12
2 البدر جلد 3 نمبر 27 مورخہ 16 جولائی 1904ء صفحہ 4 و الحکم جلد 8 نمبر 22 مورخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 12
الہام ہوا کہ
اُجِیْبُ 1 کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِک
پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کرکے کھول کر سنادیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتح یاب نہ ہوگے۔ اس لئے اس سے دست بردار ہوجانا چاہئے۔ لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کرکے اور اپنی فتح یابی کو متیقن خیال کرکے میری بات کی قدر نہ کی۔ اور مقدمہ کی پیروی شروع کردی۔ اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہوگئی۔ لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے بر خلاف کس طرح ہوسکتا تھا۔ بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 212 ، 213۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 590، 591)
1877ء
’’ میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا۔ مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ243، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 254)
’’اُردو میں بھی الہام ہوا تھا جو یہی2فقرہ ہے۔ اس الہام میں جس قدر خدا نے اپنے عاجز بندہ کو عزت دی ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ ایسا فقرہ مقام محبت میں استعمال ہوتا ہے اورخاص شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 243 روحانی خزائن جلد 22صفحہ254)
1877ء
’’ تخمیناً پندرہ یاسولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا۔ یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو۔کہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا۔ اور امرتسر میں رہتا تھا اور اُس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں، بھیجا، اور اُس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا۔ اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت ِ مذہب کی و جہ سے افروختہ ہوا۔ اور اتفاقاً اُس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا۔ کہ کسی علیٰحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی۔ اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رُو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ
1 انجامِ آتھم صفحہ 181۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 181 میں یہ الہام یُوں مرقوم ہے یَا اَحْمَدُ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآ ئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآئِکَ۔ (مرتّب)
2 ’’یہی ‘‘ کے لفظ سے مراد اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِکَ کا ترجمہ ہےجسے حضورؑنے حقیقۃالوحی کے صفحہ 243، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 254کے متن میں درج فرمایا ہے اوروہیں سے لے کر یہاں درج کیا گیا ہے۔ (مرتّب)
تک قید1ہے۔ سو اس نے مخبر بن کر افسرانِ ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا۔
اور قبل اس کے جو مجھے اِس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو۔رؤیامیں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے۔
غرض میں اِس جرم میں صدر ضلع گورداسپور ہ میں طلب کیا گیا۔ اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا۔ اُنہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اِس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا۔ رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا۔ اور نیز بطور تسلی دہی کےکہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پرفیصلہ ہوجائے گا۔ اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریّت ہوجائے گی۔ ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے۔ اور کوئی طریق ِ رہائی نہیں۔ مگر میں نے اُن سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جو ہو گا سو ہوگا۔تب اُسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور میرے مقابل پر ڈاک خانجات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے۔ اور میں نے اِس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا۔ مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بد نیتی سے یہ کام نہیں کیا۔ بلکہ میں نے اِس خط کو اس مضمون سے کچھ علیٰحدہ نہیں سمجھا۔ اور نہ اِس میں کوئی نج کی بات تھی۔ اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اِس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا۔ اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانجات نے بہت شور مچایا۔ اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا۔ مگر اِس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو۔ نو کرکے اُس کی سب باتوں کو ردّ کردیتا تھا۔ انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا۔ تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی۔ اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا۔ اچھا آپ کیلئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا۔ اور اپنے محسن ِ حقیقی کا شکر بجالایا۔ جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی۔ اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اُس بلا سے مجھ کو نجات دی۔
میں نے اُس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا۔ کیا
1 ڈاکخانہ یا یہ قانون آجکل نہیں ہے لیکن جس زمانہ کا یہ واقعہ ہے اُس زمانہ میں یہ قانون تھا۔ دیکھئیے 1866ء کے ایکٹ نمبر 14 دفعہ 12، 56 اور نیز گورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفیکیشن نمبر 2424 مورخہ 7دسمبر 1877ء دفعہ 43 (مرتّب)
کرنے لگا ہے۔ تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے۔ خیر ہے۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 297، 299۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 297 ، 299)
1877ء (تخمیناً)
’’ایک پرانا الہام کوئی تیس سال کا جو پہلے حضرت نے کئی دفعہ سنایا ہے۔ اور آج پھر سنایا......
فَا رْ تَذَّا عَلیٰ1 اٰثَا رِ ھِمَا وَوُھِبَ لَہ‘ الْجَنَّۃُ
اتنے میں طاقت بالا اس کو کھینچ کر لے گئی یہودا اسکریوطی۔‘‘
(بدر جلد 6نمبر 4 مؤرخہ 24 ؍جنوری 1907ء صفحہ3 و الحکم جلد 11نمبر 3 مؤرخہ 24 ؍جنوری 1907ء صفحہ 1 حاشیہ )
1877ء (قریباً)
’’ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَ لُّوْنَ الدُّ بُرَ
یعنی آریہ مذہب کا انجام یہ ہوگا کہ خدا اُن کو شکست دے گا اور آخر وہ آریہ مذہب سے بھاگیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اور آخر کالعدم ہوجائیں گے۔ یہ الہام مدت دراز کا ہے جس پر قریباً تیس برس کا عرصہ گذرا ہے جس سے اس جگہ کے ایک آریہ یعنی لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی تھی۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ167، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 607)
1878ء (قریباً)
’’عرصہ قریباً پچیس برس کا گذرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رؤیاہوا۔ کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں۔ اور اسی چار پائی پر بائیں طرف مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں۔ اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی۔ کہ میں مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاردوں۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف کھسکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اُتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہوگئے جن میں سے ایک کا نام خیرائتی تھا۔ وہ تینوں بھی زمین پر بیٹھ گئے۔ اور مولوی عبداللہ بھی زمین پر تھے۔ اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔ تب میں نے اُن سب سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم سب آمین کہو۔ تب میں نے یہ دعا کی:۔
رَبِّ 2 اَذْھِبْ عَنِّی الرِّ جْسَ وَطَھِّرْ نِیْ تَطْھِیْراً
اس دعا پر تینوں فرشتوں اور مولوی عبداللہ نے آمین کہی۔ اس کے بعد وہ تینوں فرشتے اور مولوی عبداللہ آسمان کی اُڑ گئے اور میری آنکھ کھل گئی۔
1- (ترجمہ از مرتب) پھر وہ دونوں پچھلے پاؤں واپس لوٹ گئے اور اس کو جنت عطا کی گئی۔
2- (ترجمہ از مرتب) اے میرے ربّ مجھ سے ناپاکی کو دُور رکھ اور مجھے بالکل پاک کردے۔
آنکھ کھلتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ مولوی عبداللہ کی وفات قریب1ہے۔ اور میرے لئے آسمان پر ایک خاص فضل کا ارادہ ہے۔ اور پھر میں ہر وقت محسوس کرتا رہا کہ ایک آسمانی کشش میرے اندر کام کررہی ہے۔ یہان تک کہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ وہی ایک ہی رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی۔ اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوگئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہوسکتی تھی2۔
مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبداللہ غزنوی اس نور کی گواہی کے لئے پنجاب کی طرف کھنچا تھا۔ اور اس نے میری نسبت گواہی دی۔ اور اس گواہی کو حافظ محمد یوسف اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بھی بیان کیا۔ مگر پھر دنیا کی محبت اُن پر غالب آگئی۔
اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا *** کا کام ہے کہ مولوی عبداللہ نے میرے خواب میں میرے دعویٰ کی تصدیق کی۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ قسم جھوٹی ہے تو اے قادر خدا مجھے ان لوگوں کی ہی زندگی میں جو مولوی عبداللہ صاحب کی اولاد یا اُن کے مرید یا شاگرد ہیں۔ سخت عذاب سے مار۔ ورنہ مجھے غالب کر اور ان کو شرمندہ یا ہدایت یافتہ۔ مولوی عبداللہ صاحب کے اپنے منہ کے یہ لفظ تھے کہ آپ کو آسمانی نشانوں اور دوسرے دلائل کی تلوار دی گئی ہے ۔ اور جب میں دنیا پر تھا۔ تو امید کرتا تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا۔ یہ میری خواب ہے۔ اِلْعَنْ مَنْ کَذَبَ وَاَ یِّدْ مَنْ صَدَقَ۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ236، 238 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 614، 616)
1878ء (تخمیناً)
’’ اور انہی 3دنوں میں شاید اس رات سے اوّل یا اس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام
شیر علی
ہے۔ اُس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں۔ اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی۔ اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے۔ اور ایک مصفا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا۔ مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا۔ اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنادیا ہے۔ اوریہ عمل کرکے پھر وہ شخص غائب ہوگیا۔
1- مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات بروز منگل 15؍ ربیع الاوّل 1298 ھ مطابق 15؍ فروری 1881ء کو ہوئی۔ دیکھو اشاعۃ السنّۃ نمبر1،4 جلد4(مرتب)
2- یہ خواب تریاق القلوب صفحہ 94،95، روحانی خزائن جلد15 صفحہ 351، 352میں بھی درج ہے۔(مرتب)
3- یعنی جب رؤیا مذکورہ بالا دیکھا تھا۔ (مرتّب)
اور میں اُس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہوگیا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 95 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 352)
1878ء
’’ایک دفعہ ایک طالب العلم انگریزی خوان ملنے کو آیا۔ اُس کے رُو برو ہی یہ الہام ہوا:۔
دِس اِز مائی اَینیمی 1
یعنی یہ میرا دشمن ہے۔
اگرچہ معلوم ہوگیا تھا۔ کہ یہ الہام اُسی کی نسبت ہے۔ مگر اُسی سے یہ معنے بھی دریافت کئے گئے۔ اور آخر وہ ایسا ہی آدمی نکلا۔ اور اُس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 481حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 572، 573)
1879ء
’’تین سال کے قریب عرصہ گذر اہوگا۔ کہ میں نے اسی2 کتاب کے لئے دعا کی۔ کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں۔ تب..... الہام شدید الکلمات....... ان لفظوں میں ہوا :۔
بالفعل نہیں
........اور پھراُسی کے مطابق....... لوگوں کی طرف سے عدم توجہی رہی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 225 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 572، 573)
1880ء
’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا۔ یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرےوارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورۃ یٰسین سنائی جب تیسری مرتبہ سورۃ یٰسین سنائی گئی۔ تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اَب وہ دنیا سے گذر بھی گئے۔ دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار د مبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔ سولہ دن برابر ایسی حالت رہی۔ اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا۔ وہ آٹھویں دن راہی ملک ِ بقا ہوگیا۔ حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی۔ جیسی میری۔ جب بیماری کا سولہواں دن چڑھا تو اُس دن بکلی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورۃ یٰسین سنائی گی۔ اور تمام عزیزوں خے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔ تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے:۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِ ہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ
1- This is my enemy 2- براہین احمدیہ (مرتّب)
اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا۔ کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو۔ ہاتھ ڈال۔ اور یہ کلماتِ طیبہ پڑھ۔ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر۔ کہ اس سے تو شفاء پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا۔ اور میں نے اُسی طرح عمل کرنا شروع کیا۔ جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں درد ناک جلن تھی۔ اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر۔ تا اس حالت سے نجات ہو۔ مگر جب وہ عمل شروع کیا۔ تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفع ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے۔ اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی۔ اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا:۔
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّ لْنَا عَلٰی عَبْدِ نَا فَاْ تُوْا بِشِفَآئٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ
یعنی اگر تمہیں اُس نشان میں شک ہو۔ جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا۔ تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفاء پیش کرو۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ37، 38 ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 208، 209)
1880ء (تخمیناً)
’’کوئی 25، 26سال کا عرصۃ گذرا ہے۔ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا تھا۔ تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 23 مؤرخہ 01؍ ستمبر 5091ء صفحہ 3)
1880ء (تخمیناً)
(ا) ’’سردار حیات خان (جج1)ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہوگیا تھا۔ میرےبڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لئے دعا کرو۔ میں نے دعا کی۔ تو مجھے دکھا یا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہوا عدالت کررہا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو معطل ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا کہ اُس جہان میں معطل نہیں ہوا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہوجائے گا۔ چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی۔ اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر32 مؤرخہ10؍ ستمبر1902 ء صفحہ 6 کالم نمبر 3)
1 نواب سردار محمد حیات خان صاحب جج تھے جن پر گورنمنٹ کی طرف سے کئی الزام قائم کئے گئے تھے اورانہیں معطّل کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس موقع پر مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے ان کے لئے دُعا کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسّلام سے کہا۔ چنانچہ جب حضورؑنے ان کے لئے دُعا کی تو حضورؑ کو اُن کے متعلق بذریعہ کشف یہ بشارت ملی۔ (مرتّب)
(ب) ’’سردار محمد حیات خاں..............جو گورنمنٹ کے حکم سے ایک عرصہ دراز تک معطل رہے۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے زیادہ کچھ عرصہ گذرگیا ہوگا کہ جب طرح طرح کی مصیبتیں اور مشکلیں اور صعوبتیں اِس معطلی کی حالت میں اُن کو پیش آئیں۔ اور گورنمنٹ کا منشاء بھی کچھ بر خلاف سمجھا جاتا تھا اُنہیں دنوں میں اُن کے بَری ہونے ی خبر ہم کو خواب میں ملی۔ اور خواب میں مَیں نے اُن کو کہا۔ کہ تم کچھ خوف مت کرو خدا ہر یک چیز پر قادر ہے وہ تمہیں نجات دے گا۔ چنانچہ یہ خبر اِنہیں دنوں میں بیسیوں ہندؤں اور آریوں اور مسلمانوں کو سنائی گئی۔ جس نے سنا بعید از قیاس سمجھا اور بعض نے ایک امرِ محال خیال کیا۔ اور میں نے سنا ہے کہ اُنہیں ایام میں محمد حیات خان صاحب کو بھی یہ خبر کسی نے لاہور میں پہنچادی تھی۔ سو الحمدللہ والمنت کہ یہ بشارت بھی جیسی دیکھی تھی ویسی ہی پوری ہوئی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 252 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 279، 280)
1880ء
’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِ ھَا نَتَکَ۔یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ یہ ایک نہایت پُر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے۔ جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے۔ اور جس کسی نے اس سلسلہ کو تذلیل کرنے کی کوشش کی۔ وہ خود ذلیل اور ناکام ہوا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 189 ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 567)
1881ء
’’ ایک بزرگ... جن کا نامِ نامی عبداللہ غزنوی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے اِس بزرگ کو خواب میں اُن کی وفات1کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت میں بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلح ہونے کی حالت میں کھڑے2ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کرکے اُن سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے۔ اُس کی تعبیر فرمائیے۔ میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار3میرے ہاتھ ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان
1 حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات بروز منگل 15؍ ربیع الاوّل1298 ھ مطابق 15؍ فروری1881ء کو ہوئی۔ دیکھئے اشاعۃ السنّۃ نمبر جلد 4، نمبر 1، 2۔ (مرتب)
2 حضور نزول المسیح میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’وہ ایک بازار میں کھڑے ہیں جو ایک بڑے شہر کا بازار ہے اور پھر میں ان کے ساتھ ایک مسجد میں گیا ہوں۔ اور اُن کے ساتھ ایک گروہ کثیر ہے اور سب سپاہیانہ شکل پر نہایت جسیم مضبوط وردیاں کسے ہوئے اور مسلح ہیں۔ اور اُنہیں میں سے ایک مولوی عبداللہ صاحب ہیں کہ جو ایک قوی اور جسیم جوان نظر آتے ہیں۔ وردی کسے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے اور تلوار میان میں لٹک رہی ہے۔ اور میں دل میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لو گ ایک عظیم الشان حکم کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اور میں خیال کرتا ہوں کہ باقی سب فرشتے ہیں مگر تیاری ہولناک ہے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 238۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 616)
3 اس تلوار کی تعریف میں حضور کے الفاظ آئینہ کمالات اسلام میں یوں ہیں ولہ برق و لمعا ن یخرج منہ نورکقطراتٍ
تک پہنچی ہوئی ہے۔ جب میں اُس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اُس سے قتل ہوجاتے ہیں۔ اور جب میں بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزارہا دشمن اُس سے مارے جاتے ہیں۔
تب حضرت عبداللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس میری خواب کو سن کر بہت خوش ہوئے اور بشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات و امارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا۔ اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کاکام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار و برکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا۔ اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کرہزار ہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدا ئے تعالیٰ الزام و اسکاتِ خصم کرے گا۔ اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کردے گا۔ پھر بعد اس کے اُنہوں نے فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں امیدوار تھا کہ خدائے تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا۔ پھر حضرت عبداللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے۔ جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چُستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں۔ جو بہت جلد آنے والا ہے.........یہ رؤیاصالحہ جو درحقیقت ایک کشف کی قسم ہے۔ استعارہ کے طور پر اُنہیں علامات پر دلالت کررہی ہے۔ جو مسیح کی نسبت ہم ابھی بیان کر آئے ہیں۔ یعنی مسیح کا خنزیروں کو قتل کرنا اور علی العموم تمام کفّار کو مارنا اِنہیں معنوں کی رُو سے ہے کہ وہ حجت ِ الٰہی اُن پر پوری کرے گا۔ اور بیّنہ کی تلوار سے ان کو قتل کرے گا۔ واللہ اعلم با لصواب۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ83۔92حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 3، صفحۃ 143، 147 حاشیہ)
1881ء (قریباً)
(ا) ’’خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے۔ اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک ایذا کے وقت ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے۔ اور اس بارے میں الہام یہ ہے:۔
متنا زلۃ حیناً بعد حین۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 576۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 576) (ترجمہ از مرتّب) اور وہ نہایت چمکدار ہے۔ اس سے نور اس طرح نکل رہا ہے۔ گویا قطرے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اُتر رہے ہیں۔ اور حضور نزول المسیح میں فرماتے ہیں۔’’اور اس تلوار میں سے ایک نہایت تیز چمک نکلتی ہے جیسا کہ آفتاب کی چمک ہوتی ہے اور میں اسے کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں طرف چلاتا ہوںاور ہر ایک وار سے ہزار ہا آدمی کٹ جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلوار اپنی لمبائی کی و جہ سے دنیا کے کناروں تک کام کرتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہی ہے مگر قوت آسمان سے اور میں ہر ایک دفعہ اپنے دائیں اور بائیں طرف اس تلوار کو چلاتا ہوں اور ایک مخلوق ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرتی جاتی ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ238، 239۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 616، 617)
’’یکے پائے من مے بوسید و من مے گفتم کہ حجرِ اسود منم‘‘
(اربعین نمبر 4 صفحہ 15 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 444۔ 445)
(ب) ’’ایک پُرانا الہام قریباً پچیس سال کا:۔
’’شخصے پائے من بوسید ومن گفتم کہ سنگِ اسود منم‘‘1
(الحکم جلد10نمبر 37 مؤرخہ 24 ؍اکتوبر1906ء صفحہ 1)
1881ء (تخمیناً)
’’عرصہ تخمیناً اٹھارہ برس کا ہوا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر چند آدمیوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں سے اس بات کی خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ
اِنَّا نُبَشِّرُ کَ بِغُلَامٍ حَسِیْنٍ۔
یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کرنے کی خوشخبری دیتے ہیں۔
میں نے یہ الہام ایک شخص حافظ نور احمد امرتسری کو سنایا۔ جو اب تک زندہ ہے اوربباعث میرے دعویٰ مسیحیت کے مخالفوں میں سے ہے اور نیز یہی الہام شیخ حامد علی جو میرے پاس رہتا تھا سنایا۔ اور دو ہندوؤں کو جو آمدورفت رکھتے تھے۔ یعنی شرمپت اور ملاوا مل ساکنانِ قادیان کو بھی سنایا۔ اور لوگوں نے اس الہام سے تعجب کیا۔ کیونکہ میری پہلی بیوی کو عرصہ بیس سال سے اولاد ہونی موقوف ہوچکی تھی۔ اور دوسری کوئی بیوی نہ تھی لیکن حافظ نور احمد نے کہا کہ خدا کی قدرت سے کیا تعجب کہ وہ لڑکا دے۔ اس سے قریباً تین برس بعد .....دہلی میں میری شادی ہوئی اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا۔ اور تین اور عطا کئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 34، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 200،201)
1881 ء(تخمیناً)
اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِ یْجَتِیْ
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر4صفحہ 558 ۔روحانی خزائن جلد1صفحہ 666)
ترجمہ: میرا شکر کر کہ توُ نے میری خدیجہ کو پایا۔
’’یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا..... اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھااور نیز یہ اس طرف اشارہ تھاکہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہوگی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ146،147 ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 524، 525)
1 (ترجمہ از مرتب) ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما۔ اور میں نے (اُسے) کہا کہ حجرِ اسود میں ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ قَالَ الۡمُعَبِّرُوۡنَ اَنَّ الۡمُرَادَ مِنَ الۡحَجۡرِ ا لَاسۡوَدِ فِیۡ عِلۡمِ الرُّؤۡ یَا الۡمَرۡءِ الۡعَالِمُ الْفَقِیْہُ الۡحَکِیۡمُ۔‘‘
(الا ستفتاء عربی صفحہ 41)ترجمہ از مرتب:۔ معبرّین (خوابوں کی تعبیر بیان کرنے والے علماء) نے کہا ہے کہ علم رؤیا میں حجرِ اسود سے مراد عالم‘فقیہ اور حکیم ہوتا ہے۔
1881 ء(قریباً)
قریباً اٹھارہ برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے :۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ 1
ترجمہ:۔ وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے‘ کیا۔ اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا ۔ جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکّب ہے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 64، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ272، 273)
1881 ء(قریباً)
ایک مرتبہ مسجد میں بوقتِ عصر یہ الہام ہواکہ
میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا۔ اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی۔
اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
ہر چہ باید نو عروسی راہماں ساماں کنم
وانچہ مطلوبِ شما باشد عطائے آں کنم2
اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے۔ چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی تعلق بخشا۔ سو قبل از ظہور یہ تمام الہام لالہ شرمپت کو سنا دیا گیا۔ پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خداتعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی۔ یعنی
1 ’’ صہر اور نسب اس الہام میں ایک ہی جَعَلَ کے نیچے رکھے گئے ہیں اور ان دونوں کو قریباً ایک ہی درجہ کا امر قابل ِ حمد ٹھہرایا گیا ہے اور یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ جس طرح صہر یعنی دامادی کو بنی فاطمہ سے تعلق ہے اسی طرح نسب میں بھی فاطمیت کی آمیزش والدات کی طرف سے ہے اور صہر کو نسب پر مقدم رکھنا اسی فرق کے دکھلانے کے لئے ہے کہ صہر میں خالص فاطمیت اور نسب میں اس کی آمیزش ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 19 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 117)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ ان اخراجات کی مجھ میں طاقت نہیں۔ تب یہ الہام ہوا کہ ؎
ہرچہ باید نو عروسی راہماں ساماں کنم
وانچہ درکارِ شما باشد عطائے آں کنم
یعنی جو کچھ تمہیں شادی کیلئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 235، 236۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 247)
نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب ......... بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلقِ قرابت اِس عاجز کو پیدا ہوا۔ اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرّہ بھی فکر کرنا نہ پڑا اور اب تک اُسی اپنے وعدہ کو پورے کئے چلا جاتا ہے۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ43، 44 روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 383، 384)
1881ء (قریباً)
’’اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیاگیا تھا جودہلی میں ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی.....اور جیسا کہ لکھا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندانِ سیادت میں میری شادی ہوگئی......سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا۔ اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا۔ جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے۔ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہربانو تھا۔ اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ64،65 ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 273، 275)
1881ء (قریباً)
’’تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گذرا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنۃ کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نے مجھ سے دریافت کی کہ آجکل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اُس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ
بِکْرٌ وَّ ثَیِّبٌ
جس کے یہ معنی ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کئے۔ کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا۔ ایک بِکر ہوگی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بِکر کے متعلق تھا۔ پورا ہوگیا۔ اور اس وقت بفضلہٖ تعالیٰ چار پسر اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کی انتظار1ہے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 34، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 201)
1 خاکسار کی رائے میں یہ الہام الٰہی اپنے دونوں پہلوؤں سے حضرت اُمّ المو منین کی ذات میں ہی پورا ہوا ہے جو بِکر یعنی کنواری آئیں اور ثَیِّب یعنی بیوہ رہ گئیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
1881ء
(ا) ’’ایک ہندو آریہ .......ایک مدت سے بہ مرضِ دق مبتلا تھا اور رفتہ رفتہ اُس کی مرض انتہا کو پہنچ گئی۔ اور آثار مایوسی کے ظاہر ہوگئے۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر اور اپنی زندگی سے ناامید ہوکر بہت بے قراری سے رویا۔ میرا دل اُس کی عاجزانہ حالت پر پگھل گیا۔ اور میں نے حضرتِ احدیت میں اُس کے حق میں دُعا کی۔ چونکہ حضرتِ احدیت میں اُس کی صحت مقدر تھی اِس لئے دُعا کرنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا:۔
قُلْنَا یَا نَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا
یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ توُ سرد اور سلامتی ہوجا۔ چنانچہ اُسی وقت اُس ہندو اور نیز کئی اور ہندوؤں کو کہ جو اَب تک اس قصبہ میں موجود ہیں اور اِس جگہ کے باشندہ ہیں اُس الہام سے اطلاع دی گئی۔ اور خدا پرکامل بھروسہ کرکے دعویٰ کیا گیا۔ کہ وہ ہندو ضرور صحت پاجائے گا۔ اور اس بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا۔ چنانچہ بعد اِس کے ایک ہفتہ نہیں گذرا ہوگا کہ ہندو مذکور اُس جاں گداز مرض سے بکلّی صحت پاگیا۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ227، 228 حاشیہ در حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 252، 253)
(ب) ’’ملاوامل کو دق کی بیماری ہوگئی۔ جب وہ خطرہ کی حالت میں پڑگیا۔ تو اُس کے لئے دعا کی گئی۔ الہام ہوا:۔
قُلْنَا یَا نَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا
یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہوجا۔
1881ء
’’پھر خواب میں دکھایا گیا کہ میں نے اس کو قبر سے نکال لیا ہے۔ یہ الہام اور خواب دونوں قبل از وقوع اس کو بتلائے گئے۔‘‘ (شحنہ ٔ حق صفحہ 42۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 381)
1881ء
’’جب پہلے الہام1کے بعد....... ایک عرصہ گذر گیا۔ اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح دقتیں پیش آئیں۔ اور مشکل حد سے بڑھ گئی۔ تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند ِ کریم نے یہ الہام کیا:۔
ھُزِّ 1 اِلَیْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَا قِطْ عَلَیْکَ رُطَبًا جَنِیًّا 3
1 ’’بالفعل نہیں‘‘ صفحہ31، (مرتّب)
2 یعنی کھجور کے تنا کو ہلا ۔ تیرے پرتازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ (نزول المسیح صفحہ 161۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 539)
3 یہ حضرت مریم کو اس وقت وحی ہوئی تھی جب ان کا لڑکا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوا تھا اور وہ کمزور ہوئی تھیں۔ اور خدا تعالیٰ نے اسی کتا ب براہین احمدیہ میں میرا نام بھی مریم رکھا اور مریم صدیقہ کی طرح مجھے بھی حکم دیا کہ وَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ۔ دیکھو صفحہ 242۔ براہین احمدیہ۔ پس یہ میری وحی یعنی ھُزِّ اِلَیْکَاس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہ صدیقیت کا جو حمل تھا۔ اس سے بچہ پیدا ہوا۔ جس کا نام عیسیٰ رکھا گیا اور جب تک وہ کمزور رہا صفاتِ مریمیہ اس کی پرورش کرتی رہیں۔ اور جب وہ اپنی طاقت میں آیا۔ تو اس کو پکارا گیا۔ یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِنّیٓ ۔دیکھو صفحہ 556 براہین احمدیہ۔ یہ وہی وعدہ تھا جو سورۃ تحریم میں کیا
سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا...... اِس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرتِ احدیت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد ...... جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اُس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا مدد پہنچ گئی۔ فا لحمد لِلّٰہِ علٰی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 225، 226حاشیہ در حاشیہ نمبر1، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 250، 251)
1881ء
’’ایک دن صبح کے وقت کچھ تھوڑی غنودگی میں یکدفعہ زبان پر جاری ہو:۔
عبداللہ خاں ڈیرہ اسمٰعیل خاں
چنانچہ چند ہندو کہ جو اُس وقت میرے پاس تھے اور ابھی تک اسی جگہ موجود ہیں اُن کو بھی اُس سے اطلاع دی گئی اور اُسی دن شام کو جو اتفاقاً اُنہیں ہندوؤں میں سے ایک شخص1ڈاک خانہ کی طرف گیا۔ تو وہ ایک صاحب عبداللہ2خاں نامی کا ایک خط لایا۔ جس کے ساتھ ہی کسی قدر روپیہ بھی آیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 226، 227 حاشیہ در حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 251، 252)
1881ء
’’ایک دفعہ کشفی طور پر مجھے للع للعہ44 یا للعہ40 روپیہ دکھائے گئے اور پھر یہ الہام ہوا کہ:۔
ماجھے خاں کا بیٹا اور شمس الدین پٹواری ضلع لاہور بھیجنے والے ہیں
پھر بعد اس کے کارڈ آیا جس میں لکھا تھا۔ کہ للعہ40 ماجھے خان کے بیٹے کی طرف سے ہیں۔ اورلعہ4 ؍یاے5 ؍ شمس الدین پٹواری کی طرف سے ہیں۔ پھر اسی تشریح سے روپے آئے۔ (نزول المسیح صفحہ 202۔ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 580)
’’محرّم 1299ہجری کی پہلی3یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کے لئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں۔ اُسی رات ایک4آریہ صاحب نے ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مددِکتاب کے لئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے۔ اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اُسی وقت اُن کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ
گیا۔ اور ضرور تھا کہ اس وعدہ کے موافق اس امت میں سے کسی کا نام مریم ہوتا۔ اور پھر اس طرح پر ترقی کرکے اُس سے عیسیٰ پیدا ہوتا اور وہ ابن ِ مریم کہلاتا سو وہ میں ہوں وحی ھُزِّیْ اِلَیْکِ مریم کو بھی ہوئی۔ اور مجھے بھی۔ مگر باہم فرق یہ ہے کہ اُس وقت مریم ضعف ِبدنی میں مبتلا تھی۔ اور میں ضعف ِ مالی میں مبتلا تھا۔‘‘ (نزول المسیح 163۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 541)
1 بشنداس برہمن (مرتّب)
2 ای ۔ اے۔ سی۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان (مرتّب)
3 مطابق 23/24 نومبر 1881ء
4 لالہ شرمپت (مرتّب)
بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں اُنیس حصے جھوٹ مل گیا ہے۔ اور یہ اُسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دین ِ اسلام سے خارج ہو۔ شاید اُن کو گراں ہی گذرا ہوگا مگر بات سچی تھی۔ جس کی سچائی پانچویں یا چھٹی محرم میں ظہور میں آگئی۔ یعنی پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپیہ جن کو جونا گڑھ سے شیخ محمد بہاؤالدین صاحب مدارالمہام ریاست نے کتاب کے لئے بھیجا تھا۔ کئی لوگوں اور ایک آریہ کے رُوبرو پہنچ گئے۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ255،256 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 284)
1882ء
’’ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحْيٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 صفحہ 502۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 284)
’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْيٖ کوتلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اِس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا:۔
ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ
یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔
اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبت ِ رسول ہے۔ سو وہ اِس شخص میں متحقّق ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر3 صفحہ503۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598)
1882ء
’’وَکُنْتُ1 ذَاتَ لَیْلَۃٍ اَکْتُبُ شَیْئًا۔ فَنِمْتُ بَیْنَ ذَالِکَ فَرَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ وَجْھُہ‘ کَالْبَدْرِالتَّآمِّ فَدَ نَامِنِّیْ کَاَنَّہ‘ یُرِیْدُ اَنْ یُّعَا نِقَنِیْ فَکَانَ مِنَ الْمُعَانِقِیْنَ وَرَاَیْتُ اَنَّ الْاَنْوَارَ قَدْ سَطَعَتْ مِنْ وَّجْھِہٖ وَنَزَ لَتْ عَلَیَّ۔ کُنْتُ اَرَا ھَا کَا لْاَ نْوَارِ الْمَحْسُوْسَۃِ حَتّٰی اَیْقَنْتُ اَنِّیْ اُدٰرِکُمَابِالْحِسِّ لَابِبَصَرِ الرُّ وْحِ وَمَا رَاَیْتُ اَ نَّہُ انْفَصَلَ مِنِّیْ بَعْدَ الْمُعَانَقَۃِ
1 (ترجمہ از مرتب) اور ایک رات میں کچھ لکھ رہا تھا۔ کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا اس وقت میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا آپ کا چہرہ بدرِ تام کی طرح درخشاں تھا۔ آپ میرے قریب ہوئے اور میں نے ایسا محسوس کیا۔ کہ آپ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا اور میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں اور میرے اندر داخل ہوگئیں۔ میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوںاور اس معانقہ کے بعد
وَمَا رَاَیْتُ اَنَّہ‘ کَانَ ذَاھِبًا کَا لذَّاھِبِیْنَ۔ ثُمَّ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ فُتِحَتْ عَلَیَّ اَبْوَابُ الْاِلْھَامِ وَخَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 550۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 550)
مارچ 1882ء
یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ۔ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِن اللّٰہَ رَمٰی۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآ ؤُ ھُمْ۔ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْ ٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ 1 قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَا طِلُ اِنَّ الْبَا طِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَتَبَا رَکَ
(ترجمہ *) 1 اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تُونے چلایا۔ یہ تُو نے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا۔ تاکہ تُو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے۔ کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں۔اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں کہہ حق آیا۔ اور باطل بھاگ گیا اور باطل بھاگنے والا ہی تھا۔ہر ایک برکت محمد ﷺ کی طرف سے ہے۔ پس بڑا مبارک وہ
نہ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ مجھ سے الگ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر الہام الٰہی کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اور میرے رب نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔ یَآ اَحْمَدُ بَا رَکَ اللّٰہُ فِیْکَ الخ
☆ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی کتب سے لیا گیا ہے۔ (مرتّب)
1 ای اول تائب الی اللّٰہ بامراللّٰہ فی ھٰذا الزمان۔ او اول من یؤمن بھذا الامر۔ واللّٰہ اعلم۔
(براہین احمدیہ صفحہ حصہ سوم صفحہ 239 حاشیہ نمبر1 ۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 265)
(ترجمہ از مرتب) یعنی اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اس کی طرف سب سے پہلا رجوع کرنے والا یا یہ کہ اس فرمان الٰہی پر سب سے پہلے ایمان لانے والا۔
(ا) مجھ کو یاد ہے کہ ابتدائے وقت میں جب میں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین کے صفحہ 238 میں مندرج ہے۔ یا احمد بارک اللّٰہ فیک(تا) وانا اول المؤمنین۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 109 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 109)(ب) ’’ناگہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یکدفعہ شام کے قریب ..........مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہوکر یہ وحی ہوئی۔‘‘ (نصرۃ الحق صفحہ51۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 66) (ج) جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا ‘ اورچودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدّد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہواکہ الرحمٰن علّم القرآن (تا) وانا اوّل المؤ منین۔‘‘ )کتاب البریہّ صفحہ 168حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 201) (د) اس الہام کے رُو سے خدا نے مجھے علومِ قرآنی عطا کئے ہیں اور میرا نام اوّل المؤمنین رکھا اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھردیا ہے اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں۔‘‘(ضرورۃ الامام صفحہ 13۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 502)
مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ ھُوَالَّذِیْ ٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘عَلَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ1۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ ظَلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِیْرٌ۔ اِنَّاکَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ یَقُوْلُوْنَ اَ نّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۔ وَ اَعَانَہ‘عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔ اَفَتَاْ تُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۔ ھَیْھَاتَ لِمَاتُوْعَدُوْنَ۔ مِنْ ھٰذَا الّذِیْ ھُوَ مَھِیْنٌ۔ وَّلَا یَکَا دُیُبِیْنُ۔ جَا ھِلٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۔ قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُم اِنْ کُنْتُمْ
ہے جس نے تعلیم دی۔ اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے۔ تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔ تا اس دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے۔خدا کی باتوں کو ٹال نہیں سکتا۔ان پر ظلم ہوا۔ اور خدا ان کی مدد کرے گا۔اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم کافی ہیں۔اور لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا۔ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا۔یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تو انسان کا قول ہےاور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اے لوگو کیا تم ایک فریب دیدہ و دانستہ میں پھنستے ہو۔جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے۔ اس کا ہونا کب ممکن ہے۔پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے۔ یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے۔ کہہ اس پر دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو یعنی مقابلہ کرکے دکھلاؤ۔ یہ
1 ’’اَیْ لَیُظْھِرَدِیْنَ الْاِسْلَامِ بِالْحُجَجِ الْقَاطِعَۃِ وَالْبَرَاھِیْنِ السَّاطِعَۃِ عَلٰی کُلِّ دِیْنٍ مَاسِوَاہُ ۔ اَیْ یَنْصُرُ اللّٰہَ الْمُؤْمِنِیْنَ الْمَظْلُوْمِیْنَ بِاِ شْرَاقِ دِیْنِنِھِمْ وَاِتْمَامِ حُجَّتِھِمْ۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 239 حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ265)
(ترجمہ از مرتّب) یعنی اللہ تعالیٰ دینِ اسلام کو دلائلِ قاطعہ اوربراہینِ ساطعہ کے ساتھ دیگر تمام ادیان پر غالب کرکے اور اس کی حُجّت دوسرے لوگوں پر قائم کرکے مظلوم مومنوں کی نصرت فرمائے گا۔ اِس وحیِ الٰہی کی تفسیر رسالہ اربعین نمبر 2 کے صفحات 10،11 اور 13 پر بیان ہوئی ہے اور اس کے ظہور کی تفصیل تریاق القلوب کے صفحات 47، 54 پر درج ہے۔ (مرتّب)
2 21 کا ترجمہ سہواً رہ گیا ہے۔ (ترجمہ از مرتّب) اور یہ بولنا بھی نہیں جانتا۔
صَادِقِیْنَ۔ ھٰذَا مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ۔ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ۔ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُوْمِنِیْنَ۔ اَنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَبِّکَ۔ فَبَشِّرْ وَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْ نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ ھَلْ اُنَبِّئْکُمْ عَلٰ مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ 1 مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ 1 مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ رَبِّ لَاتَذَرْنِیْ فَرْدًاوَّاَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْن۔ وَقُلِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ وَلَا تَقُوْلٓنَّ لِشَیْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذَالِکَ غَدًا۔ وَیُخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اِنَّکَ بِاَ عْیُنِنَا۔ سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ
یہ مرتبہ تیرے رب کی رحمت سے ہے۔ وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ تاکہ لوگوں کے لئے نشان ہو۔ تو خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔پس تو خوشخبری دے۔ا ور خدا کے فضل سے تو دیوانہ نہیں ہے۔کہہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تاخدا بھی تم سے محبت رکھے۔ وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم کافی ہیں۔کہہ کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کن لوگوں پر شیطان اُترا کرتے ہیں۔ ہر ایک کذاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں۔
اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خد اکی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرو گے یا نہیں۔میرے ساتھ میرا رب ہے عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے رب مجھے دکھلا کہ تُو کیونکر مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔ اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تُو خیرالوارثین ہے۔ اے میرے رب اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ ور اُن کو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لئے عمل میں مشغول رہو۔ اور میں بھی عمل میں مشغول ہوں۔پھر دیکھو گے کہ کس کے عمل میں قبولیت پید اہوتی ہے2۔اورتُو کِسی کام کے متعلق یہ بات ہرگز نہ کہہ کہ مَیں کل اسے ضرور کروں گا۔ اللہ کے سوا تجھے اوروں سے ڈراتے ہیں۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نے تیرانام متوکل رکھا ہے۔خدا
1۔ یہ فقرہ دو مرتبہ فرمایا گیا .... اس میں ایک شہادت سے مراد کسوفِ شمس ہے اور دوسری شہادت سے مراد خسوفِ قمر ہے۔ ‘‘ (اربعین نمبر3 صفحہ 27 ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 415، 416)
2۔ (ترجمہ از مرتب) اور تُو کسی کام کے متعلق یہ بات ہرگز نہ کہہ کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔
عَرْشِہٖ۔ نَحْمَدُکَ وَ نُصَلِّی۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطَفِئُوْ انُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ۔ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ اِذَاجَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَلْفَتْحُ وَانْتَھٰٓی اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَآ۔ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا۔ وَقَالُوْآ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِ بًا۔ وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَ لَا النَّصٰارٰی۔ وَخَرَقُوْالَہ‘ بَنِیْن وَبَنَاتٍ م بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد’‘۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘کُفُوًا اَحَدٌ۔ وَیَمکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُالْمَاکِرِیْن۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَافَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوْا الْعَزْمِ۔ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ۔ وَاِمَّانُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَ فَّیَنَّک ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ اِنِّیْ مَعَکَ
عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے۔ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا۔ جب تک پورا نہ کرلے اگرچہ منکر کراہت کریں۔ ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے۔ جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا۔ تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا1۔میری پہلے کی رؤیاکی حقیقت ہے۔ جسے میرے رب نے پورا کرکے سچا ثابت کردیا۔2اور کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک بناوٹ ہے۔کہہ خدا نے یہ کلا م اتارا ہے پھر ان کو لہو ولعب کے خیالات میں چھوڑ دے۔ کہہ اگر میں نے افتراء کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔ اور افتراء کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہے۔ پادری لوگ اور یہودی صفت مسلمان تجھ سے راضی نہیں ہوں گے۔اور خدا کے بیٹے اور بیٹیاں انہوں نے بنا رکھی ہیں ۔1ان کو کہدے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے۔ نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا۔ اور نہ کوئی اس کا ہم کفو۔اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا۔3ایک فتنہ برپا ہوگا پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔اور خدا سے اپنے صدق کا ظہور مانگ۔اور ہم قادر ہیں کہ تیری موت سے پہلے کچھ ان کو اپنا کرشمہ قدرت دکھا دیں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں یا تجھ کو وفات دیویں۔ اور خدا ایسا نہیں ہے کہ جن میں تو ہے 4
1۔ (ترجمہ از مرتّب) یہ میری پہلے کی رؤیا کی حقیقت ہے جسے میرے ربّ نے پورا کرکے سچا ثابت کردیا۔
2۔ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) 57بغیر کسی ثبوت کے 3۔ (بقیہ ترجمہ از مرتب) 59 اور اللہ تعالیٰ سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔
حضور رسالہ دافع البلاء میں اس الہام کا ترجمہ یہ فرماتےہیں کہ’’ عیسائی لوگ ایذارسانی کے لئے مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے‘‘ (دافع البلاء صفحہ 21۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 241)
4۔’’ ای ما کان اللّٰہ لیعذّ بھم بعذاب کامل وانت ساکن فیھم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 241حاشیہ نمبر 1۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 267)
(ترجمہ از مرتّب) یعنی ان کے اندر تمہاری موجودگی کی حالت میں اللہ تعالیٰ ان پر کامل عذاب ہرگز نہیں بھیجے گا۔
وَکُنْ مَّعَی اَیْنَمَاکُنْتَ۔ کُنْ مَّعَ 1 اللّٰہِ حَیْثُمَا کُنْتَ۔ اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَا فْتِخَارًا لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ۔ وَلَا تَیْئَسْ مِن رَّوْحِ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ یَاْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَکً فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ وَّقَرَّبْنَاہُ نَجِیّاً۔ اَشْجَعُ النَّاسِ۔ وَلَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقاً بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ۔ اَنَارَ اللّٰہُ بُرْھَانَہٗ۔ یَآ اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا۔ یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہ‘عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ۔ 2 وَ وَجَدَکَ ضَآ لًّافَھَدٰی۔ وَنَظَرْنَآ اِلَیْکَ وَقُلْنَایَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ۔ خَزَا ئِنُ3 رَحْمَۃِ رَبِّکَ۔ یَآ اَیُّھَا الْمُدَّ ثِّرُقُمْ فَاَ نْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ یَا اَحْمَدُ یَتِمُّ اسْمُکَ
ان کو عذاب کرے۔میں تیرے ساتھ ہوں سو تو ہر ایک جگہ میرے ساتھ رہ تُو جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ۔تم لوگ جدھر بھی رُخ کروگے اُدھر ہی اللہ تعالٰ کی توجّہ ہوگی۔ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے نکالے گئے ہو۔تم مومنوں کا فخر ہو اور تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو۔ خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے۔وہ مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گےگہرے ہوجائیں گے۔ اور اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے۔خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ہم ایک کھلی کھلی فتح تجھ کو عطا کریں گے۔ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اس کو ایک ایسا قرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے۔اور اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو وہیں سے جاکر اس کو لے لیتا۔خدا اس کی حجت روشن کرے گا۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا۔اور ہم نے
1 (ترجمہ از مرتّب) تُو جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ۔ تم لوگ جدھر بھی رُخ کروگے اُدھر ہی اللہ تعالٰ کی توجّہ ہوگی۔
2 (ترجمہ از مرتّب) اور اس نے تجھے طالبِ ہدایت پایا پس اس نے تیری رہنمائی کی۔
3 (ترجمہ از مرتّب) تیرے رب کی رحمت کے (ہرقسم کے) خزانے (تجھے دیئے جائیں گے) اے کپڑا اوڑھنے والے اُٹھ اور (لوگوں کو آنے والے خطرات سے) ڈرا اور اپنے ربّ کی بڑائی بیان کر۔
وَلَا یَتِمُّ اسْمِیْ1۔ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ۔ وَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ۔ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ الصَّلٰوۃُ ھُوَ الْمُرَبِّیْ۔ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ فَاکْتُبْ وَلْیُطْبَعْ وَلْیُرْسَلْ فِی الْاَرضِ۔ خُذُواالتَّوْحِیْدَاالتَّوْحِیْدَیَآاَبْنَآئَ الْفَارِسِ۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ٓااَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَبِّھِمْ۔ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ مَّآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔ وَلَا تُصَعِرْلِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَاتَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔
تیری طرف نظر کی۔ اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا۔ ۔اے احمدتیرا نام پورا ہوجائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا2۔ اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی۔ وہ خدا حقیقی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں3۔ توحید کو پکڑو۔ توحید کو پکڑو۔اے فارس کے بیٹو۔اور تُو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے۔سو ان کو وہ وحی سنا دے جو تیری طرف سے تیرے رب سے ہوئی۔اور یاد رکھ کہ وہ زمانہ آتاہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے۔ سو تیرے پر واجب ہے کہ تو ان سے بدخلقی نہ کرے۔ اور تجھے لازم ہے کہ ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے
1۔(الف) ای انت فان فینقطع تحمید ک۔ ولاینتہی محامد اللّٰہ۔ فانھا لاتعد ولا تحصی۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ242 بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 267)
(ترجمہ از مرتب)یعنی تم چونکہ فانی ہو۔ اس لئے تمہاری تحمید محدود ہے مگر اللہ تعالیٰ کے محامد غیر متناہی ہیں۔ کیونکہ وہ بے شمار اور بے انتہاء ہیں۔
(ب) وَاِذَا اَنَا رَالنَّاسَ بِنُوْرِ رَبِّہٖ اَوْبَلَّغَ الْاَمْرَبِقَدرِ الْکِفَایَۃِ فَحِیْنَئِذٍیَّتِمُّ اسْمُہ‘وَیَدْعُوْہُ رَبُّہ‘وَیُرْ فَعُ رُوْحُہ‘اِلٰی نُقْطَتِہِ النَّفْسِیَّۃِ۔
(ترجمہ) اور جب خلقت کو اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن کر چکا یا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کردیا پس اس وقت اس کا نام پورا ہوجاتا ہے اور اس کا رب اس کو بُلاتا ہے اور اس کی روح اس کے نقطۂ نفسی کی طرف اُٹھائی جاتی ہے۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ 10روحانی خزائن جلد نمبر16 صفحہ 41)
2۔ تو دنیا میں ایسے طور پر رہ کہ گویا تو ایک غریب الوطن بلکہ ایک راہرو ہے۔ اور صالح اور راستباز لوگوں میں سے ہو۔ اور نیکی کی تحریک کر۔ اور بُری باتوں سے روک۔ اور محمدؐ اور محمدؐ کی آل پر درود بھیج۔ درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے۔ میں تجھے رفعت دے کر اپنا خاص قرب بخشنے والا ہوں۔
3 (ترجمہ از مرتب) پس تُو لکھ اور اسے چھپوایا جائے اورتمام دُنیا میں بھیجا جائے۔
اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَآ اَدْرَاکَ مَآاَصحَابُ الصُّفَّۃِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِن الدَّمْعِ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ۔رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ اَمْلُوْا۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ238تا242 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 265 تا 268)
1882ء
’’براہین کے صفحہ 242میں مرقوم ہے...... وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ....... اور اس کے بعد الہام ہوا:۔
وَوَسِّعُ مَکَا نَکَ
یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے
اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا بہت ہجوم ہوجائے گا یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہوجائے گا۔ پس تُو نے اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا۔ اورلوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا۔ سبحان اللہ یہ کس شان کی پیش گوئی ہے اور آج سے 17 برس پہلے اس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی۔ اس سے کیسا علم غیب خدا کا ثابت ہوتاہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ63، 64 روحانی خزائن جلد نمبر12 صفحہ 73)
تیرے حجروں میں آکر آباد ہوں گے۔ وہی ہیں جو خدا کے نزدیک اصحاب الصُفّہ1کہلاتے ہیں اور تُو کیا جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہوں گے جو اصحاب الصفہ کے نام سے موسوم ہیں۔ وہ بہت قوی الایمان ہوں گے۔ تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود2بھیجیں گے۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی۔ جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے۔ سو ہم ایمان لائے۔ان تمام پیش گوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی۔
1۔ ’’خدا تعالیٰ نے انہی اصحاب الصفہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا ہے اورجو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ کہ یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا۔ اُس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔ اور یہ ایک پیش گوئی عظیم الشان ہے۔ اور ان لوگوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھروں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑیں گے۔ اور میری ہمسائیگی کے لئے قادیان میں بود و باش کریں گے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ60 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 262، 263)
2 انسانی عادت اور اسلامی فطرت میں داخل ہے کہ مومن کسی ذوق کے وقت اور کسی مشاہدہ کرشمہ قدرت کے وقت درود بھیجتا ہے۔ سو اس یُصَلُّوْنَ عَلَیکَ کے فقرہ میں اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو ہر دم پاس رہیں گے وہ کئی قسم کے نشان دیکھتے رہیں گے۔ پس ان نشانوں کی تاثیر سے بسا اوقات ان کے آنسو جاری ہوجائیں گے۔ اور شدت ذوق اور رقت سے بے اختیار دُرود ‘ ان کے منہ سے نکلے گا۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آرہا ہے۔ اور یہ پیش گوئی بار بار ظہور میں آرہی ہے۔‘‘ (اربعین نمبر2 صفحہ 5 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 350)
1882ء یا اس سے قبل
’’ایک مرتبہ اس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۂ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی ہی خوبصورت اوردلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے۔ سُرخ سُرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اس قدر لدا ہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں۔ اور جب یہ عاجز اس سورۃ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کرکے اوپر کی طرف اُڑتے ہیں۔ اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سُندر اور تروتازہ اور خوشبودار ہیں۔ جن کے اُوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطر ہوجاتا ہے۔ اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں۔ کہ جو اپنی بے مثل لذتوں کی کشش سے دنیا و مافیہا سے نہایت درجہ نفرت دلاتے ہیں۔
اس مکاشفہ سے معلوم ہوا۔ کہ گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ نمبر11صفحہ 332 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 395، 396 حاشیہ نمبر11)
1882ء
’’کچھ عرصہ گذرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی۔ جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا....... اِس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت ِ احدیت میں دعا کی جائے۔ تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے۔ اور دوسرے مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اُسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے۔ تب یہ الہام ہوا:۔
دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ فِیْ شَآئِلٍ مِّقْیَاسٍ۔
دن وِل یُو گو ٹو امرت سر.1
یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اُٹھاتی ہے۔ تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے۔ ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے۔ اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرت سر بھی جاؤ گے۔
تو جیسا اس پیش گوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورۂ بالا کے روبرو وقوع میں آیا۔ یعنی حسب منشاء پیش گوئی دس دن تک ایک خر مہرہ نہ آیا۔ اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے۔ اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے۔ اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوگیا۔ جس کی امید نہ تھی۔ اور اُسی روز کہ جب دس دن کے گذرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب
1 Then will you go to Amirtsar
وغیرہ کا روپیہ آیا۔ امرت سر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالت ِ خفیفہ امرت سر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اُسی روز ایک سمن آگیا۔‘‘
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 468،470حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 559، 561(
1882ء
’’کچھ عرصہ ہوا.........ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں۔ بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں۔ اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے......چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر اُنہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارے میں اُن کے دل میں تھی1 مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی۔ اس لئے دل میں بہت رنج گذرا۔ ہر چند معقول طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا۔ آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی۔ اور اُن کو قبل از ظہور پیش گوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بہ پایہ ٔ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیش گوئی خداوند ِ کریم ظاہر فرما دے جس کو تم بچشمِ خود دیکھ جاؤ۔
سو اُس رات اِس مطلب کے لئے قادرِ مطلق کی جناب میں دعا کی گئی۔ علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا۔ جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے۔ اس خط میں انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے:۔
آئی ایم کو ٔرلر2
اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے:۔
ھٰذَا شَا ھِدٌ نَّزَّاغٌ
اور یہی الہام حکایتہ عنِ الکاتب القا کیا گیا۔ اور پھر وہ حالت جاتی رہی۔
چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلےعلی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اُس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھر اُسی وقت ایک انگریزی خوان سے اُس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے۔ تو معلوم ہوا۔ کہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ میں جھگڑنے والا ہوں۔ سو اُس مختصر فقرہ سے یقینا یہ معلوم ہوگیا۔ کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے اور ھٰذَا شَاھِدٌ نَّزَّاعٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اُس کے یہ معنے کھلے کہ کاتب ِ خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے۔
اُسی دن حافظ نور احمد صاحب بہ باعث ِ بارش باران امرت سر جانے سے روکے گئے۔ اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے اُن کا روکا جانا بھی قبولیت ِ دعا کی ایک جزتھی۔ تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی
1 کہ الہام انسان کے دماغی خیالات ہی کا نام ہے۔ (مرتّب)
2 I am quarreler
پیش گوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اُس تمام پیش گوئی کا مضمون ان کو سنا دیا گیا۔ شام کو اُن کے روبرو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرتسر سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالت ِ خفیفہ میں نالش کی ہے۔ اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے۔ اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا۔ اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذَا شَاھِدٌ نَّزَّاغٌ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ ان معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین ِ کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہوگی بباعث و ثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل ِ قدر ہونے کی و جہ سے سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی۔ اور اسی نیت سے مہتمم مذکور نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا۔
اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور امرت سرجانے کا سفر پیش آیا۔ وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا۔ سو وہ پہلی پیش گوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُوبرو پوری ہوگئی۔ یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا۔ روپیہ آگیا۔ اور امرت سر بھی جانا پڑا۔ فا لحمدللّٰہ علی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 471۔ 474حاشیہ در حاشیہ نمبر3روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 562۔565)
1882ء
’’ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ
آج حاجی ارباب محمد لشکر خاں کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے
یہ پیش گوئی بھی بدستورِ معمول اُسی وقت چند آریوں کو بتلائی گئی اور یہ قرار پایا کہ اُنہیں میں سے ڈاک کے وقت کوئی ڈاک خانہ میں جاوے۔ چنانچہ ایک آریہ ملاوامَل نامی اُس وقت ڈاک خانہ میں گیا اور یہ خبر لایا کہ ہوتی مردان سے دس عہ روپے آئے ہیں۔اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ دس عہ روپیہ ارباب سرور خاں نے بھیجے ہیں۔ چونکہ ارباب کے لفظ سے اتحادِ قومی مفہوم ہوتا تھا۔ اس لئے اُن آریوں کو کہا گیاکہ ارباب میںدونوں صاحبوں کی شراکت ہونا پیش گوئی کی صداقت کے لئے کافی ہے۔ مگر بعض نے اُن میں سے اس بات کو قبول نہ کیا۔ اور کہا کہ اتحادِ قومی شے دیگر ہے اور قرابت شے دیگر۔ اور اس انکار پر بہت ضد کی۔ ناچار ان کے اصرار پر خط لکھنا پڑا۔ اور وہاں سے یعنی ہوتی مردان سے کئی روز کے بعد ایک دوست منشی الٰہی بخش نامی نے جو اُن دنوں ہوتی مردان میں اکونٹنٹ تھے خط کے جواب میں لکھا کہ ارباب سرور خاں ارباب محمد لشکر خاں کا بیٹا ہے۔ چنانچہ اُس خط کے آنے پر سب مخالفین لاجواب اور عاجز رہ گئے۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 474،475 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 565،566)
30دسمبر 1882ء
(الف) ’’ایک عجیب کشف سے جو مجھ کو30 ؍دسمبر 1882ء بروز شنبہ یک دفعہ ہوا۔ آپکے1شہر2کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص3نامعلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی جو باشندۂ لدھیانہ ہے۔ اس عالمِ کشف میں اس کا تمام پتہ و نشان سکونت بتلادیا۔ جو اَب مجھ کو یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لدھیانہ اور اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا:۔
سچا ارادتمند 4 اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَافِی السَّمَآءِ
یعنی اس کی ارادت ایسی قوی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان ہے۔
(از مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 4خط بنام میر عباس علی صاحب)
(ب) میں نے قریب صبح کے کشف کے عالم میں دیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا۔ اس پر لکھا ہے۔ کہ
’’ایک ارادتمند لدھیانہ میں ہے۔‘‘
پھر اس کے مکان کا پتہ مجھے بتلایا گیا اور نام بھی بتلایا گیا جو مجھے یاد نہیں۔ اور پھر اس کی ارادت اور قوت ایمانی کی یہ تعریف اسی کاغذ میں لکھی ہوئی دکھائی۔
’’ اَصْلُھَا ثَا بِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ‘‘
1 میر عبّاس علی صاحب لدھیانوی 2 لدھیانہ
3 ’’لدھیانہ میں ایک صاحب میر عباس علی نام تھے۔ جو بیعت کرنے والوں میں داخل تھے۔ چند سال تک انہوں نے اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ ان کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک دفعہ الہام ہوا۔اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْ عُھَا فِی السّمآءِ۔ اس الہام سے صرف اس قدر مطلب تھا کہ اس زمانہ میں وہ راسخ الاعتقاد تھے۔ سو ایسے ہی انہوں نے اس زمانہ میں آثار ظاہر کئے کہ ان کے لئے بجز میرے ذکر کے اور کوئی ورد نہ تھااور ہر ایک میرے خط کو نہایت درجہ متبرک سمجھ کر اپنے ہاتھ سے اس کی نقل کرتے تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے اور اگر ایک خشک ٹکڑا بھی دستر خوان کا ہو تو متبرک سمجھ کر کھاجاتے تھے اور سب سے پہلے لدھیانہ سے وہی قادیان میں آئے تھے ایک مرتبہ مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا کہ عباس علی ٹھوکر کھائے گا۔ اور برگشتہ ہوجائے گا۔ وہ میرا خط بھی اُنہوں نے میرے ملفوظات میں درج کرلیا۔ بعد اس کے جب اُن کی ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے مجھ کو کہا۔ کہ مجھ کو اس کشف سے جو میری نسبت ہوا بڑا تعجب ہوا۔ کیونکہ میں تو آپ کے لئے مرنے کو تیار ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ کے لئے مقدر ہے وہ پورا ہوگا۔ بعد اس کے جب وہ زمانہ آیا۔ کہ میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ تو وہ دعویٰ اُن کو ناگوار گذرا۔ اوّل دل ہی دل میں پیچ تاب کھاتے رہے۔ بعد اس کے مباحثہ کے وقت جو مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے لدھیانہ میں میری طرف سے ہوا تھا۔ اور اس تقریب سے چند دن اُن کو مخالفوں کی صحبت بھی میسر آگئی تو نوشتہ ٔ تقدیر ظاہر ہوگیا۔ اور وہ صریح طور پر بگڑ گئے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 294۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 307)
4 (ترجمہ از مرتّب) اس کی جَڑ زمین میں مُحکم ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون شخص ہے مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید خداوند ِ کریم آپ1 ہی میں وہ حالت پیدا کرے یا کسی اور میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(مکتوب مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 18؍ جنوری 1883ء بنام نواب علی محمد خان صاحب جھجرؓ)
(مندرجہ الفضل جلد2نمبر90مؤرخہ12؍ جنوری 1915ء صفحہ 8کالم نمبر1)
1883ء
’’ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حالِ صداقت و نجابت ِ آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظرِ کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا۔ شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ17 فروری1883ء مطابق8؍ربیع الاوّل1300ھ۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ6)
1883ء
’’ جس روز آپ2کا خط آیا۔ اسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں۔ اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ3؍مارچ1883ء ۔مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ6)
1883ء3
’’وقت ملاقات ایک گفتگو کے اثناء میں بہ نظر کشفی آپ4کی حالت ایسی معلوم ہوئی۔ کہ کچھ دل میں انقباض5 ہے۔
اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے۔ حضرت احدیت کی نظر میں درست نہیں تو اس پر الہام ہوا:۔
قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ 2
.....اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ مگر بہت سی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اس کو دور کردے۔ مگر تعجب
1 مراد نواب علی محمد خان صاحب جھجر۔(مرتب)
2 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔(مرتب)
3 کتاب حیات احمد جلد 2نمبر2 صفحہ 66سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اوائل1883ء کا مکاشفہ ہے واللہ اعلم۔(مرتب)
4 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔(مرتب)
5 اس کشف کے مطابق میر عباس علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کے وقت برگشتہ ہوگئے اور اس حالت پر اُن کا انجام ہوا۔ اس مکتوب کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 22؍ستمبر1883ء کے مکتوب میں بھی اُنہیں اس آنے والے ابتلاء سے آگاہ کیا تھاجس کے الفاظ یہ ہیں:۔
’’خدا وند کریم آپ کی تائید میں رہے اور مکر وہاتِ زمانہ سے بچاوے۔ اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلاء کو چاہتا ہے سو اس ابتلاء سے آپ بچ نہیں سکتے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 65)
6 (ترجمہ از مرتب) کہہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔
نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے۔ جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے‘ تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اس گھر کی وضع قطع میں بعض اُمور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں اس لئےمناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں۔ اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب نہ ہوں۔ تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے۔ یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے۔ جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دُور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رفیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا۔ وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَالَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۔ 1
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ15 مکتوب بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی)
1883ء
’’ پنڈت شیو نارائن نے جو برہمو سماج کا ایک منتخب معلّم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سوم2 کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کردیا۔ چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریہ ہے ڈاک خانہ بھیجا گیا تا گواہ رہے۔ وہی ہندو اُس خط کو ڈاک خانہ سے لایا۔ پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو۔ خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی۔ اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا۔ اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان آکر اُس کی تصدیق کرلو۔ کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں۔ ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہوجائے گا۔‘‘
( از مکتوب3؍مارچ1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 6، 7)
اپریل 1883ء
’’ ایک دفعہ اپریل1883ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی۔ اور ......اُس روپیہ کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا.......اور ابھی پانچ روز نہیں گذرے تھے جو پینتالیس روپیہ کا منی آرڈر جہلم سے آگیا۔ اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اُسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خداوند عالم الغیب نے اُس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ475، 476 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 567، 568)
1883ء
’’ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالی شان حاکم یا بادشاہ کاایک خیمہ لگا ہوا ہے۔ اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہورہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ د فتر کا عہدہ رکھتا ہے۔ اور جیسے د فتروں میں مثلیں ہوتی ہیں۔ بہت سی مثلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ د فتر کی طرح
1 الکھف : 68-69 2 مراد براہین احمدیہ حصّہ سوم (مرتّب)
ہے۔ اتنے میں ایک اردلی دوڑتا آیا۔ کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو۔
پس یہ رؤیابھی دلالت کررہی ہے کہ عنایات الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں۔ اور یقین کامل ہے کہ اس قوتِ ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہوگئے ہیں۔ پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتّع کرے گا۔ کہ ہر ایک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 19،20)
1883ء
’’ چند روز ہوئے کہ خداوند کریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا.......
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْ نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یُوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔1
اور یہ آیت کہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یُوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ بار بار الہام ہوئی۔اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے۔ اور اس قدر ‘ زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہوگئی اس سے یقینا معلوم ہواکہ خداوند کریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا۔ اوران کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے۔ اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی۔ یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلّف نہیں کرے گا۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 12؍ جون1883ء ۔مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ24)
12جون 1883
’’آج قبل تحریر اس خط کے یہ الہام ہوا:۔
کَذَابَ عَلَیْکُمُ الْخَبِیْثُ۔ کَذَابَ عَلَیْکُمُ الْخِنْزِیْرُ۔ عِنَایَتُ اللّٰہِ حَافِظُکَ۔ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَریٰ۔ اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَبَرَّا اَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْد اللّٰہِ
1 (ترجمہ از مرتب) کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ اور میں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ کہہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے۔ اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔
وَجِیْھًا 1
ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی2اِس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو۔ مگر عنایت الٰہی حافظ ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 12؍ جون1883ء مکتوباتِ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 23)
1883 یا اس سے قبل
’’کئی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا کہ
وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 28)
1883 یا اس سے قبل
’’کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدر آباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ لکھا ہے.....پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدر آباد سے خط آگیا۔ اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 477 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 568، 569)
1 (ترجمہ از مرتب) تم پر اس ناپاک نے جھوٹ باندھا ہے۔ تم پر اس خنزیر نے جھوٹ باندھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری نگہبان ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں۔ میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بَری ثابت کیا۔ اور وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے۔
2 (نوٹ از مرتب) یہ اس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے جو مارٹن کلارک نے اگست 1897ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کھڑا کیا تھا۔ چنانچہ حضور اقدس تحریر فرماتے ہیں:۔’’اس مقدمہ کے ذریعہ سے جو خون کے الزام کا مقدمہ تھا۔ وہ الہامی پیش گوئی پوری ہوئی جو براہین احمدیہ میں اس مقدمہ سے 20 برس پہلے درج تھی اور وہ الہام یہ ہے:۔
فَبَرَّاَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا۔
یعنی خدا اس شخص کو اس الزام سے جو اس پر لگایا جائے گا بَری کردے گا کیونکہ وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے۔ سو یہ خدا تعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجود یکہ قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کرلیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب تھے ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت وکیل تھے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب مع اپنی تمام جماعت آئے اور جنگ احزاب کی طرح ان قوموں نے بالاتفاق میرے پر چڑھائی کی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے سب کو ذلیل کیا اور مجھے بَری کیا.........تا وہ بات پُوری ہو جس کی طرف اس الہامی پیش گوئی میں اشارہ تھا کہ بَرَّ اَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ200، 201 روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 578،579)
1883 یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اوّل یہ الہام ہوا:۔
آئی لَوْ یُو1
یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔
پھر یہ الہام ہوا:۔
آئی ایم وِد یُو2
یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں۔
پھرالہام ہوا:۔
آئی شیل ہیلپ یُو3
یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔
پھر الہام ہوا:۔
آئی کین وہٹ آئی وِل ڈُو3
یعنی میں کرسکتا ہوں جو چاہوں گا۔
پھر اس کے بعد بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہام ہوا:۔
وِی کین وَہٹ وِی وِل ڈُو 4
یعنی ہم کرسکتے ہیں جو چاہیں گے۔
اور اُس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے۔ جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے اور باجود پُر دہشت ہونے کے پھر اُس میں ایک لذت تھی جس سے رُوح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی۔ اور یہ انگریز ی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ480،481 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 571، 572)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ صبح کے وقت بہ نظر کشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ
1. I love you. 2. I am with you.
3. I shall help you. 4. I can what I will do 5. We can what we will do.
سے آئے ہیں اور اخیر پر اُن کے لکھا تھا:۔
آئی ایم بائی عیسٰے 1
یعنی میں عیسٰے کے ساتھ ہوں
چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دو ہندو آریہ کو بتلایا گیا جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دین اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپواکر بھیجے گا چنانچہ اُسی روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا۔ جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ481، 482 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 573، 575)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کسی امر میں جو دریافت طلب تھا خواب میں ایک درم نُقرہ جو بشکل بادامی تھا اِس عاجز کے ہاتھ میں دیا گیا۔ اُس میں دو سطریں تھیں۔ اوّل سطر میں یہ فقرہ لکھا تھا:۔
یس آئی ایم ہیپی2
اور دوسری سطر جو خطِ فارق ڈال کر نیچے لکھی ہوئی تھی وہ اُسی پہلی سطر کا ترجمہ تھا۔ یعنی یہ لکھا تھا کہ
ہاں میں خوش ہوں‘‘
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 482،483 حاشیہ در حاشیہ نمبر1روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 574،575(
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کچھ حزن اور غم کے دن آنے والے تھے کہ ایک کاغذ پر بہ نظر کشفی یہ فقرہ انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا گیا:۔
لائف آف پین 3
یعنی زندگی دُکھ کی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ483 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 575)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ بعض مخالفوں کے بارہ میں جنہوں نے عنادِ دلی سے خواہ نخواہ قرآن شریف کی توہین کی تھی اور عداوتِ ذاتی سے جس کا کچھ چارہ نہیں، دین ِ متین اسلام پر بے جا اعتراضات اور بیہودہ تعرضات کئے
1. I am by Isa. 2. Yes, I am happy.
3. Life of pain.
تھے۔ دو فقرے انگریزی کے الہام ہوئے:۔
گاڈ اِز کمنگ بائی ہز آرمی1۔ ہی اِز وِد یُو ٹو کِل اینیمی2
یعنی خدا تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے۔ وہ دشمن کو مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 483، 484حاشیہ در حاشیہ نمبر 3روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 576، 577(
1883ء
’’ بُوْرِکْتُ یَآ اَحْمَدُ وَکَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقّاً فِیْکَ
اے احمد تو مبارک کیا گیا ہے اور خدا نے جو تجھ میں برکت رکھی ہے۔ وہ حقانی طور پر رکھی ہے۔‘‘
شَاْنُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ
تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ نزدیک ہے
اِنِّیْ رَاضٍ مِّنْکَ۔ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ۔
میں تجھ سے راضی ہوں۔ میں تجھے اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں۔ زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہیں جیسے وہ میرے ساتھ ہیں۔
ھُوّ کا ضمیر واحد بتاویل مافی السمٰوات وا لارض ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطفات اور برکاتِ الٰہیہ ہیں۔ جو حضرت خیرالرسل کی متابعت کی برکت سے ہرایک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتی ہیں۔ اور حقیقی طور پر مصداق اِن سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور دوسرے سب طفیلی ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 684تا 884 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ
تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ میں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا۔
1- God is coming by his army.
2 – He is with you to kill enemy.
نوٹ: انگریزی زبان میں لفظ بائی byبمعنی togather with اورin company withیعنی معیّت اور ساتھ ہونے کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے
Dialect Dictionary by Joseph wright P.470
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفُ بَیْنَ النَّاسِ۔
تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید1۔ سو وہ وقت آگیا۔ جو تیری مدد کی جائے۔ اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا جائے۔
ھَلْ اَتَی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّ ھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔
کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گذرا کہ تیرا دنیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرہ نہ تھا۔ یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا یعنی کچھ بھی نہ تھا۔
یہ گذشتہ تلطفات و احسا نات کا حوالہ ہے۔ تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ۔ یَنْقَطِعُ اٰبَآوئُ کَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ۔
سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں۔ جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے۔ اُس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا۔ تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہوجائے گا۔ یعنی بطور مستقبل اُن کا نام نہیں رہے گا۔ اور خدا تجھ سے ابتداء شرف اور مجد کرے گا۔
نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَاُحْیِیْتُ بِا لصِّدْقِ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ۔ نُصِرْتَ وَقَالُوْ لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ
تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا۔ اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا اے صدیق۔ تو مدد کیا گیا۔ اور مخالفوں نے کہا کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ یعنی امدادِ الٰہی اُس حد تک پہنچ جائے گی کہ مخالفوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور اُن کے دلوں پر اِس مستولی ہوجائے گی اور حق آشکارا ہوجائے گا۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ
اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے۔ جب تک وہ خبیث اور طیب میں صریح فرق نہ کرلے۔
وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ
اور خدا اپنے امر پر غالب ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
1۔ ’’فرمایا کہ میرے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ شخص بہ منزلہ توحید کے ہوتا ہے جو کہ ایسے زمانہ میں آوے جبکہ توحید کی حقارت اور بے عزتی ہوتی ہے۔ اور شرک کی عظمت اور قدر کی جاتی ہو اس شخص مامورشدہ کو توحید کی پیاس ایسی لگائی جاتی ہے کہ وہ تمام اپنے اغراض اور مقاصد کو ایک طرف رکھ کر توحید کے کام کرنے میں خود ایک مجسم توحید ہوجاتا ہے اس کے اٹھنے بیٹھنے اور حرکت اور سکون اور ہر ایک قول و فعل اس توحید کی لو اُسے لگی ہوتی ہے۔ دنیا میں لوگوں نے اپنے مقاصد کو بُت بنارکھا ہے مگر جب تک خدا کسی کو یہ سوز و گداز توحیدکے واسطے نہ لگائے تب تک نہیں لگ سکتا جیسے لوگ اولاد اور اپنی دوسری اغراض کے لئے بے قرار ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض خود کشیاں کرلیتے ہیں۔ اسی طرح وہ توحید کے لئے بے قرار ہوتا ہے کہ خدا کی خواہشات اس کی توحید اور عظمت اور جلال غالب آویں۔ اس وقت کہا جاتا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْ حِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ۔‘‘
(البدر جلد 2نمبر12 مؤرخہ10؍اپریل1903ء صفحہ91 کالم نمبر2)
اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔
جب مدد اور فتح الٰہی آئے گی اور تیرے رب کی بات پوری ہوجائے گی تو کفار اس خطاب کے لائق ٹھہریں گے کہ یہ وہی بات ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔
اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ اِنِّیْ جَا عِلٌ فِی الْاَرْضِ
یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا۔ سو میں نے آدم کو پیدا کیا۔ میں زمین پر کرنے والا ہوں۔یہ اختصاری کلمہ ہے یعنی اس کو قائم کرنے والا ہوں۔ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ِ ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے........بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے۔ اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مراد نہیں۔ بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے سلسلہ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہو کر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے۔ گویا وہ روحانی زندگی کے رُو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیش گوئی ہے۔ جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اُس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 489 تا 493حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 581 تا 586)
1883ء
’’ پھر بعد اِس کے اُس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا:۔
دَنٰی فَتَدَ لّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی
جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے۔ الہام ہوئی۔ تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تأمل تھا۔ اور اسی تأمل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی۔ اور اُس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔ کہ دنو ّسے مُراد قربِ الٰہی ہے...... اور تَدَلّٰی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تخلق باخلاق اللہ حاصل کرکے اُس ذاتِ رحمن و رحیم کی طرف شفقتہً علی العباد عالمِ خلق کی طرف رجوع کرے اور چونکہ کمالات د نو ّکے کمالات تدلّی سے لازم و ملزوم ہیں۔ پس تدلّی اُسی قدر ہوگی جس قدر د نو ّہے اور دنّو کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفاتِ الٰہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو۔ اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلّیت اور بے تواہم حالیّت و محلیّت اپنے تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ اُس میں ظہور فرمائے۔ اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کے نفخ کی ماہیّت ہے اور یہی تخلق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے۔ اور جب کہ تدلّی کی حقیقت کو تخلق باخلاق اللہ لازم ہوا۔ اور کمالیّت فی التخلق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور اُن کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کا بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہوجانا اِس حد تک پہنچ جائے۔ جس پر زیادت متصور نہیں اس لئے داصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا۔ کہ وہ کامل طور پر روبخدا بھی ہو۔ اور پھر کامل طور پر روبخلق بھی۔ پس وہ اُن دونوں قوسوں الوہیّت اور انسانیت میں ایک وتر کی طرح واقعہ ہے۔ جودونوں سے
تعلق کامل رکھتا ہے....... پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک حالت اور نیت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا۔ ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجودِ قدیم ہے اور ایک اُس کے بندوں کی طرف جو وجودِ محدث ہے۔ اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے۔ اب اُس دائرہ کے درمیان میں انسان بوجہ دنو ّاور تدلّی کے دونوں طرف اتصال محکم کرکے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کرلیتا ہے۔ جیسے ایک وتر دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے پہلے اس کو دنو ّ اور قربِ الٰہی کی خلقت خاص عطا کی جاتی ہے۔ اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے۔ پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور نفس جامع التعلّقین انسان کامل کا اُن دونوں قوسوں میں قابِ قوسَین کی طرح ہوتا ہے۔ اور قاب عرب کے محاورہ میں کمان کے چِلّہ پر اطلاق پاتا ہے۔
پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے۔ پھر اُترا یعنی خلقت پر۔ پس اپنے اس صعود اور نزول کی و جہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہوگیا۔
اور چونکہ اُس کا روبخلق ہونا چشمہ ٔ صافیہ تخلق باخلاق اللہ سے ہے۔ اس لئے اُس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کی عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت العباد کی و جہ سے اِس قدر بندوں کی طرف رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے۔ پس جبکہ سالک سیرالی اللہ کرتا کرتا اپنی کمال سیر کو پہنچ گیا۔ تو جہاں خدا تھا وہیں اُس کو لوٹ کر آنا پڑا۔ پس اِس و جہ سے کمال دُنو ّ یعنی قربِ تام اُس کی تدلّی یعنی ہبوط کا موجب ہوگیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ493 تا 496 حاشیہ در حاشیہ نمبر3
روحانی خزائن جلد نمبر1صفحہ 586 تا 590 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
1883ء
’’ یُحْیِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ
زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو
یَآ اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَامَرْیَمُ اسْکُنْ 1 اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَآ اَحْمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ
اے آدم۔ اے مریم۔ اے احمد تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے۔ جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔
1۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان الہامات کی تشریح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔’’مریم سے مریم اُمّ عیسیٰ مراد نہیں اور نہ آدم سے آدم ابو البشر مراد ہے اور نہ احمد ؐ سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والسلام مراد ہیں۔ اور ایساہی ان الہامات کے تمام مقامات
اس آیت میں بھی روحانی آدم کا و جہ تسمیہ بیان کیا گیا۔ یعنی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بلاتوسط اسباب ہے۔ ایسا ہی روحانی آدم میں بلا توسط ِ اسباب ظاہر یہ نفخ روح ہوتاہے۔
اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیہم السلام سے خاص ہے۔ اور پھر بطور تبعیت اور وراثت کے بعض افراد خاصہ امت ِ محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 496, 497 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1، صفحہ 590، 591(
1883ء
(الف) فَاَجَآ 1 ءَ ھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قَالَتْ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
(کشتی نوح صفحہ 47، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
(ب) ’’ میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اُسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا:۔
بقیہ حاشیہ: میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں۔ اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر ایک جگہ یہی عاجز مراد ہے۔ اب جبکہ اس جگہ مریم کے لفظ سے مؤنث مراد نہیں بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے۔ یعنی یا مریم اسکن کہا جائے..........اور زوج کے لفظ سے رفقاء اور قرباء مراد ہیں زوج مراد نہیں ہے۔ اور لغت میں یہ لفظ دنوں طور پر اطلاق پاتا ہے۔ اور جنت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتح یابی اور سرور اورا ٓرام پر بولا جاتا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ82 ، 83مکتوب مؤرخہ 12؍فروری 1884ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
1 کشتی نوح میں جو 1902ء کی تصنیف ہے حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:۔’’اس جگہ ایک اور الہام کا بھی ذکر کرتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ میں نے وہ الہام اپنے کسی رسالہ یا اشتہار میں شائع کیا ہے یا نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ صدہا لوگوں کو میں نے سنایا تھا اور میری یادداشت کے الہامات میں موجود ہے اور وہ اس زمانہ کا ہے جبکہ خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا۔ اور پھر نفخ روح کا الہام کیا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فا جاء ھا المخاض الٰی جذع النخلۃ قالت یا لیتنی متّ قبل ھٰذا وکنت نسیًا منسیًّا یعنی پھر مریم کو مراد اِس عاجز سے ہے دروزہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔ یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا جنہوں نے تکفیر و توہین کی۔ اور گالیاں دیں۔ اور ایک طوفان برپا کیا۔ تب مریم نے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتی۔ اور میرا نام و نشان باقی نہ رہتا۔ یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتداء میں مولویوں کی طرف سے بہ ہیئت مجموعی پڑا۔ اور وہ اس دعویٰ کی برداشت نہ کرسکے۔ اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا۔ تب اُس وقت جو کرب اور قلق ناسمجھوں کا شوروغوغا دیکھ کر میرے دل پر گذرا۔ اس کا اس جگہ خداتعالیٰ نے نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ‘‘
(کشتی نوح صفحہ 47، 48۔ روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
فَاَجَآئَ ہُ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قَالَ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد۔ مگر صرف نام کے مسلمان ہیں۔
بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہوجانا تھا۔ اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی۔ جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں۔ تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتا۔ اور بھولا بسرا ہوجاتا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ53 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 68، 69(
1883ء
’’اور اس کے متعلق اور بھی الہام تھے۔ جیسا:۔
لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَّمَاکَانَتْ اُمَّکِ بَغِیًّا۔
...اور لوگوں نے کہا۔ کہ اے مریم۔ تُو نے یہ کیا مکروہ اور قابل ِ نفرین کام دکھلایا جو راستی سے دُور ہے۔ تیرا باپ1 اور تیری ماں تو ایسے نہ تھے۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ 48، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
1883ء
پھر بعد2اس کے فرمایا:۔
نُصِرْتَ وَقَا لُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ
تو مدد دیا گیا اور انہوں نے کہا کہ اب کوئی گریز کی جگہ نہیں۔
اِنَّ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہ‘
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے اُن کا ایک مرد فارسی الاصل نے ردّ لکھا ہے۔ اُس کی سعی کا خدا شاکر ہے۔
1۔ اس الہام پر مجھے یاد آیا۔ کہ بٹالہ میں فضل شاہ یا مہر شاہ نام ایک سید تھے جو میرے والد صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے اور بہت تعلق تھا۔ جب میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی کسی نے ان کو خبر دی تو وہ بہت روئے اور کہا کہ ان کے والد صاحب بہت اچھے آدمی تھے یعنی یہ شخص کس پر پیدا ہوا۔ ان کا باپ تو نیک مزاج اور افتراء کے کاموں سے دُور اور سیدھا اور صاف دل مسلمان تھا۔ ایسا ہی بہتوں نے کہا کہ تم نے اپنے خاندان کو داغ لگایا کہ ایسا دعویٰ کیا۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ48 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51، 52)
2۔ یعنی الہام’’نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْ قِ ‘‘ براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 496 حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 591 (مرتّب)
کِتَابُ الْوَلِیِّ 1 ذُو الْفَقَارِ عَلِیٍّ
ولی کی کتاب علیؓ کی تلوار کی طرح ہے۔ یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی ہے۔ اور جیسے علیؓ کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کاردکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی۔
اور یہ بھی ایک پیش گوئی ہے کہ جو کتاب2کی تاثیراتِ عظیمہ اور برکات عمیمہ پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 497حاشیہ در حاشیہ نمبر 3، حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ 591 ، 592)
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
وَلَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُرَیَّا لَنَا لَہ‘
اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہوتا۔ یعنی زمین سے بالکل اُٹھ جاتا۔ تب بھی شخص مقدم الذکر اُس کو پالیتا۔
یَکَا دُزَیْتُہ‘ یُضِیْٓ ئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔
عنقریب ہے کہ اُس کا تیل خود بخود روشن ہوجائے۔ اگرچہ آگ اُس کو چھو بھی نہ جائے۔
اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌسَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّ بُرَ۔ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً
1۔ (الف) ’’ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گذرگیا۔ کہ جب ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ‘ کے ہاتھ میں تھی مگر خدا تعالیٰ پھر ذوالفقار اس امام کو دیدے گا۔ اِس طرح پر کہ اُس کا چمکنے والاہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار کرتی تھی۔ سو وہ ہاتھ ایسا ہوگا کہ گویا وہ ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ‘ ہے۔ جو پھر ظاہر ہوگئی ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سلطان القلم ہوگا اور اُس کی قلم ذوالفقار کاکام دے گی۔ (نعمت اللہ ولی) یہ پیش گوئی کہ (ید ِبیضاء کہ با اوتابندہ۔ باز باذوالفقار مے بینم۔ مرتب) بعینہٖ اِس عاجز کے اُس الہام کا ترجمہ ہے جو اِس وقت سے دس برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکا ہے۔ اور وہ یہ ہے:۔کتاب الولی ذوالفقار علی۔یعنی کتاب اس ولی کی ذوالفقار علی کی ہے۔ یہ اِس عاجز کی طرف اشارہ ہے اِسی بناء پر بارہا اِس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے چنانچہ براہین احمدیہ کے بعض دیگر مقامات میں اِسی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
(نشانِ آسمانی صفحہ15۔ روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ 375)
(ب) ’’یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہرگز بیکار نہ بیٹھیں۔ مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہے جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اُسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے۔ اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی و جہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘
( الحکم جلد ۵ نمبر 22 مؤرخہ 17؍ جون1901ء صفحہ 2)
2۔ براہین احمدیہ (مرتّب)
یُّعْرُضُوْا وَیَقُوْلُوْاسِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔ وَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُھُمْ۔ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ عَلَیْھِمْ۔ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔ وَلَوْ اَنَّ قُراٰنًاسُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ۔
کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔ جواب دینے پر قادر ہیں۔ عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی۔ اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں توکہتے1 ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے۔ حالانکہ اُن کے دل اُن نشانوں پر یقین کر گئے ہیں۔ اور دلوں میں اُنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں اور یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو ان پر نرم ہوا۔ اور اگر تو سخت دل ہوتا۔ تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے۔ اور تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اگرچہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے۔
یہ آیات ان بعض لوگوں کے حق میں بطور الہام القاء ہوئیں۔ جن کا ایسا ہی خیال اور حال تھا۔ اور شاید ایسے ہی اور لوگ بھی نکل آویں۔ جو اس قسم کی باتیں کریں۔ اور بدرجہ ٔ یقین کامل پہنچ کر پھر منکر رہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 497 ، 498حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ592 ، 593)
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ2 وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِا لْحَقِّ نَزَلَ۔ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ‘۔ وَکَانَ3 اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔
یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اِس الہام پُر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اُتارا ہے۔ اور ضرورتِ حقہّ کے ساتھ اتارا ہے۔ اور بضرورتِ حقہ ّ اُترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی۔ کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا۔
یہ آخری فقرات اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی
1۔ (ترجمہ از مرتّب) اس سے اِعراض کرتے۔ اور
2۔ ’’اس الہام پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیش گوئی کے پہلے لکھا گیا تھا...... اَب ایک نئے الہام سے یہ بات بپایہ ٔ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدائے تعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے تو اُس پہلے الہام کے معنے بھی اس سے کھل گئے.....اس کی تفسیر یہ ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنْ مِنْ دِمَشْقَ بِطَرَفٍ شَرْقِیٍ عِنْدَالَمَنَارَۃِ الْبَیْضَآءِ ۔
کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 73, 75 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 138، 139)
3۔ ازالہ اوہام میں یہ فقرہ یُوں ہے وَکَانَ وَعْدَ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً (ازالہ اوہام صفحہ 73)
حدیث......میں ارشاد فرما چکے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ اپنے کلامِ مقدس میں ارشاد فرما چکا ہے۔ چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہوچکا ہے اور فرقانی اشارہ اِس آیت میں ہے۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ498 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 593)
1883ء
’’جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیان میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا۔ اُس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر1میرے قریب بیٹھ کربآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں۔ اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا۔کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَا ہُ قَرِیْباً مِّنَ الْقَادِیَانِ تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے تب انہوں نے کہا۔ کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شایدقریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا۔ کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے۔ مکہ اور مدینہ اور قادیان۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 76، 77 روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 140)
1883ء
پھر بعد اس2کے جو الہام ہے وہ یہ ہے:
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِوُلْدِاٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِیْنَ
اور درُود بھیج محمدؐ اورآلِ محمدؐ پر جو سردارہے آدم کے بیٹوں کا اورخاتم الانبیاء ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اورتفضّلات اورعنایات اُسی کے طفیل سے ہیں اُسی سے محبّت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ ...اور ایسا ہی الہام متذکّرہ بالا میں جا آلِ رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اِس میں بھی یہ سِرّ ہے کہ افاضہء انوارِالٰہی میں محبّتِ اہلِ بَیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اورجو شخص حضرتِ احدیّت کے مقرّبین میں داخل ہوتا ہے وہ اِنہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اورتمام علوم ومعارف میں اُن کا وارث ٹھہرتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 502، 503 حاشیہ درحاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1۔ صفحہ 597، 598)
1۔ ’’اس میں یہ بھید مخفی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا۔ کہ اُن کے نام سے اس کشف کی تعبیر کو بہت کچھ تعلق ہے۔ یعنی اُن کے نام میں جو قادر کا لفظ آتا ہے اِس لفظ کو کشفی طور پیش کرکے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قادرِ مطلق کا کام ہے۔ اِس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے عجائبات قدرت اسی طرف پر ہمیشہ ظہور فرما ہوتے ہیں۔ کہ وہ غریبوں اور حقیروں کو عزت بخشتا ہے اور بڑے بڑے معززوں اور بلند مرتبہ لوگوں کو خاک میں ملادیتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 77، 78 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 141 حاشیہ)
2۔ یعنی الہام ’’وَکَانَ اَمْرَاللٰہِ مَفْعُوْلَّا‘‘ مندرجہ صفحہ59 گذشتہ (مرتّب)
1883ء
’’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غُربت اور انکسار اور توکّل اور ایثاراور آیات اور انوار کے رُو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے۔ اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دوپھل ہیں اور بحدّی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے۔ اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادمِ دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے۔ اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 499 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 593، 594)
1883ء
1 وَمِنْ جُمْلَتِھَا اِلْھَامٌ اٰخَرُ خَاطَبَنِیْ رَبِّیْ فِیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ خَلَقْتُکَ مِنْ جَوْھَرِ عِیْسٰی وَاِنَّکَ وَعِیْسٰی مِنْ جَوْھَرٍ وَّاحِدٍوَکَشَئ ءٍ وَّاحِدٍ 2
(حما متہ البشریٰ صفحہ14۔ روحانی خزائن جلد نمبر7 صفحہ 192)
1883ء
(الف) ’’اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اِس عاجز نے اِس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اُس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اِس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے اُن میں سے کہا۔ کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد کی طرف بھیجے تھے۔ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 502 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 598)
(ب) ’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا۔ کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے نہیں مل سکتیں۔ جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے۔ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے۔ اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل
1۔ (نوٹ از مرتب) اس الہام کو یہاں اس لئے درج کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی جگہ حمامتہ البشریٰ میں تحریر فرماتےہیں کہ یہ الہام براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے کا ہے۔
2۔ (ترجمہ از مرتب) اور منجملہ ان کے ایک اور الہام بھی درج ہے جس میں مجھے اللہ مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میں نے تجھ کو عیسیٰ کے جوہر سے پیدا کیا ہے۔ اور تُو اور عیسیٰ ایک ہی جوہر سے اور ایک ہی شَی کی مانند ہو۔‘‘
ہوئے اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔‘‘1
(حقیقتہ الوحی صفحہ128 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 131)
1883ء
پھر بعد اس2کے الہام ہوا۔
اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔
تو سیدھی راہ پر ہے۔ پس جو حکم کیا جاتا ہے۔ اُس کو کھول کر سنا اور جاہلوں سے کنارہ کر۔
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔ وَ قَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنَّ ھٰذَا لَمُکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ۔ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔
اور کہیں گے کہ کیوں نہیں اُترا یہ کسی بڑے عالم فاضل پر۔ اور3شہروں میں سے اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھ کو کہاں سے ملا۔ یہ تو ایک مکر ہے جو تم نے شہر میں باہم مل کر بنالیا ہے۔ تیری طرف دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے۔ یعنی تو اُنہیں نظر نہیں آتا۔
تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ
ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے اُمت ِ محمدیہ میں کئی اولیاء کامل بھیجے۔ پر شیطان نے اُن کے توابع کی راہ کو بگاڑ دیا۔ یعنی طرح طرح کی بدعات مخلوط ہوگئیں۔ اور سیدھا قرآنی راہ اُن میں محفوظ نہ رہا۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا۔ وَمَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہ‘۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘فَعَلَیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ۔
کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو سو میری پیروی کرو۔ یعنی اتباع رسول مقبول کرو۔ تاخدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اور جو شخص خدا کے لئے ہوجائے۔ خدا اُس کے لئے ہوجاتا ہے۔ کہہ اگر میں نے یہ افترا کیا ہے۔ تو میرے پر جرم شدید ہے۔
اِنَّکَ الْیُوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّ نْیَاوَالدِّیْنِ۔ وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔
آج تو میرے نزدیک بامرتبہ اور امین ہے۔ اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے۔ اور تو مدد دیا گیا ہے۔
1۔ (ترجمہ ازمرتّب) یہ برکات اس درود کی و جہ سے ہیں جو تونے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا تھا۔
2۔ یعنی الہام صَلّ علٰی محمّد ٍ الخ ۔ (مرتب)
3۔ نقل مطابق اصل۔ لفظ ’د و ‘ چاہئے تھا۔ (مرتب)
یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَمْشِیْ اِلَیْکَ
خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔
اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔
خبردار ہو خدا کی مدد نزدیک ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا۔ یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے۔ مقاماتِ معرفت اور یقین تک لَدُنّی طور پر پہنچایا۔
خَلَقَ اٰ دَمَ فَاَ کْرَمَہ‘
پیدا کیا آدم کو پس اکرام کیا اُس کا۔
جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۔
جری اللہ نبیوں کے حُلّوں میں۔
اس فقرہ الہام کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد اور ہدایت اور موردِ وحی الٰہی ہونے کا دراصل حُلّۂ انبیاء ہے اور اُن کے غیر کو بطور مستعار ملتا ہے اوریہ حُلّۂ انبیاء اُمّتِ محمدیہ کے بعض افراد کو بغرضِ تکمیل ِناقصین عطا ہوتا ہے اور اُسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عُلَمَآئُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآئِ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں۔ پر نبیوں کاکام اُن کے سپرد کیا جاتا ہے۔
وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ فَاَ نْقَذَکُمْ مِنْھَا۔
اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارے پر۔ سو اُس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا۔
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَ عَلَیْکُمْ 1 وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَا فِرِیْنَ حَصِیْرًا۔
خدا یتعالیٰ کا ارادہ اِس بات کی طرف متوجہ ہے۔ جو تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا۔ تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے........
تُوْبُوْ وَاَصْلِحُوْ وَاِلَی اللّٰہِ تَوَجَّھُوْا وَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ
توبہ کرو اور فسق اور فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو۔ اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اور اُس پر توکّل کرو۔ اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو۔ کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دُور ہوجاتی ہیں۔
بُشْرٰی لَکَ یَآ اَحْمَدِیْ۔ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ۔
1۔ حضرت اقدس نے اس الہام کو اربعین نمبر2 کے صفحہ 5 پر اور اس کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی بحوالہ براہین احمدیہ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ درج فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عَلَیْ کا لفظ سہو کتابت ہے۔(مرتب)
خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمدؐ۔ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگا یا ہے۔1
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذَالِکَ اَزْکٰی لَھُمْ۔
مومنین کو کہہ کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں۔ اور اپنی سترگاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں۔ یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہریک مومن کے لئے منہیات سے پرہیز کرنا اور اپنے اعضاء کو ناجائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے۔ اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے........
وَاِذْا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔
اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں۔ تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔ اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے۔ کہ تاسب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ وَکَانَ کَیْدُھُمْ عَظِیْمًا۔
اور جو لوگ اہل ِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوگئے ہیں۔ یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کرلیا ہے۔ اور اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے۔ کہ اُن کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی۔ اوراُن کا مکر ایک بھارا مکر تھا۔
یہ اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے آیا ت سماوی اور دلائل ِ عقلی سے اِس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کیا ہے۔ وہ اتمامِ حجت کے لئے نہایت ضروری تھا۔ اور اس زمانہ کے سیاہ باطن جن کو جہل اور خبث کے کیڑے نے اندر ہی اندر کھا لیا ہے‘ ایسے نہیں تھے جو بجز آیاتِ صریحہ و براہین قطعیہ اپنے کفر سے باز آجاتے۔ بلکہ وہ اُس مکر میں لگے ہوئے تھے کہ تا کسی طرح باغِ اسلام کو صفحۂ زمین سے نیست و نابود کردیں۔
اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیَا میں اندھیر پڑ جاتا
یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ان آیات بیّنات کی نہایت ضرورت تھی۔ اور دنیا کے لوگ جو اپنے کفر
1 مکتوب مؤرخہ 13ستمبر1883ء بنام میر عباس علی صاحب میں اس الہام کو ذکر کرکے اس کے بعد فارسی زبان کا یہ فقرہ درج کیا گیا ہے جو اس الہام کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔’’بشارت باد ترا یا احمد من۔تو مراد مَنی و با مَنی نشاندم درخت بزرگی ترا بدست ِخود۔‘‘اور اس الہام کے ذکر سے پہلے لکھا ہے:۔
’’چونکہ یہ عاجز اعلان کا اذن بھی پاتا ہے۔ اس لئے کتاب میں یعنی حصہ چہارم میں درج بھی کیا جائے گا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ55،56)۔ (مرتب)
اور خبث کی بیماری سے مجذوم کی طرح گداز ہوگئے ہیں۔ وہ بجز اِس آسمانی دوا کے جو حقیقت میں حق کے طالبوں کے لئے آبِ حیات تھی۔ تندرستی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَب۔
اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو۔ اور کفر اور شرک اور بد عقیدگی کو مت پھیلاؤ۔ تو وہ کہتے ہیں۔ کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے۔ اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو۔ یہی لوگ مفسد ہیں۔ جو زمین پر فساد کررہے ہیں۔ کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں۔
یعنی یہ زمانہ اپنے فسادِ عظیم کے رُو سے اندھیری رات کی مانند ہے۔ سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اِ س زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔ انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے۔
اِنِّیْ نَاصِرُکَ۔ اِنِّیْ حَافِظُکَ۔ اِنِّیْ جَا عِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یُّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ وَتِلْکَ الْاَ یَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔
میں تیری مدد کروں گا۔ میں تیری حفاظت کروں گا۔ میں تجھے لوگوں کے لئے پیش رَو بناؤں گا۔ کیا لوگوں کو تعجب ہوا۔ کہہ خداوند ذوالعجائب ہے۔ ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا۔ کہ ایسا کیوں کیا۔ اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔
یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی۔ اور عنایاتِ الٰہیہ نوبت بہ نوبت اُمت ِ محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتی رہتی ہیں۔
وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔اِذَا نَصَرَاللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۔ فَالنَّارُ مَوْعِدُھُمْ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔
اور کہیں گے کہ یہ تجھ کو کہاں سے ؟اور یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ خدائے تعالیٰ جب مومن کی مدد کرتا ہے۔ تو زمین پر کئی اس کے حاسد بنادیتا ہے۔ سو جو لوگ حسد پر اصرار کریں۔ اور باز نہ آویں۔ تو جہنم اُن کا وعدہ گاہ ہے۔ کہہ یہ سب کاروبار خدا کی طرف سے ہیں۔ پھر اُن کو چھوڑدے۔ تا اپنے بے جا خوض میں کھیلتے رہیں۔
تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ۔ اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی وَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ۔
لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ۔ اور اُن پر رحم کر۔ تو اُن میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ اور اُن کی باتوں پر صبر کر۔
حضرت موسیٰ بُردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی۔ ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ ٔعالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرتِ موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاقِ فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے۔ جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو رُوئے زمین پر تھے۔ زیادہ بُرد بار تھا۔ سو خدا نے توریت میں موسیٰ کی بُردباری کی ایسی تعریف کی۔ جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔ وہ حضرت موسیٰ سے ہزار درجہ بڑھ کر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاقِ فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ تو خلق عظیم پر ہے.......اور چونکہ اُمت ِ محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔ اس لئے الہام متذکرہ بالا میں اِس عاجز کی تشبیہہ حضرتِ موسیٰ سےدی گئی۔ اور یہ تمام برکات حضرت سید الرسل کے ہیں جو خداوند کریم اس کی عاجز اُمت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطباتِ شریفہ سے یاد فرماتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ503 تا 509 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 599 تا 607)
1883ء
’’پھر بعد اِس کے یہ الہامی عبارت ہے۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔ وَیُحِبُّوْنَ اَنْ تُدْھِنُوْنَ۔ قُلْ یَآ اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۔ قِیْلَ ارْجِعَوْٓا اِلَی اللّٰہِ فَلَا تَرْجِعُوْنَ۔ وَقِیْلَ اسْتَحْوِذُوْا فَلَا تَسْتَحْوِذُوْنَ۔ اَمْ تَسْئَلُھُمْ مِّنْ خَرْجٍ فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۔ بَلْ اٰتَیْنٰھُمْ بِالْحَقِّ فَھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ۔ سُبْحَانَہ‘وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ۔اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَاُیُفْتَنُوْنَ۔ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا۔ وَلَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ خَافِیَۃٌ۔ وَلَا یَصْلَحُ شَیْءٌ قَبْلَ اِصْلَا حِہٖ۔ وَمَنْ رُّدَّ مِنْ مَّطْبَعِہٖ فَلَا مَرَدَّ لَہ‘۔
اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں۔
جیسے بیوقوف ایمان لائے ہیں۔ خبردار ہو۔ وہی بیوقوف ہیں۔ مگر جانتے نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ تم اُن سے مداہنہ کرو۔ کہہ اے کافرو میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا۔ جس کی تم کرتے ہو۔ تم کو کہا گیا کہ خدا کی طرف رجوع کرو۔ سو تم رجوع نہیں کرتے۔ اور تم کو کہا گیا۔ جو تم اپنے نفسوں پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہیں آتے۔ کیا تو اِن لوگوں سے کچھ مزدوری مانگتا ہے۔ پس وہ اس تاوان کی و جہ سے حق کو قبول کرنا ایک پہاڑ سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کو مفت حق دیا جاتاہے۔ اور وہ حق سے کراہت کررہے ہیں۔ خداے تعالیٰ ان عیبوں سے پاک و برتر ہے۔ جو وہ لوگ اس کی ذات پر لگاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چُھوٹ جاویں گے۔ چاہتے ہیں جو ایسے کاموں سے تعریف کئے جائیں۔ جن کو انہوں نے کیا نہیں۔ اور خداے تعالیٰ سے کوئی چیز چُھپی ہوئی نہیں۔ اور جب تک وہ کسی شے کی اصلاح نہ کرے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اور جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا جائے اس کو کوئی واپس نہیں لاسکتا۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۔ یَآ اِبْرَاھِیْمُ اَغْرِضْ عَنْ ھٰذَا اِنَّہ‘عَبْدٌ1 غَیْرُ صَالِحٍ۔ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌوَمَا اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِمُسَیْطِرٍ۔
کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا۔ کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔جس چیز کا تجھ کو علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ۔ اور اُن لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر۔ وہ غرق کئے جائیں گے۔ اے ابراہیم اس سے کنارہ کر۔ یہ صالح آدمی نہیں۔ تو صرف نصیحت دہندہ ہے۔ اِن پرداروغہ نہیں۔
یہ چند آیات جو بطورِ الہام القا ہوئی ہیں بعض خاص لوگو ں کے حق میں ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ509،510 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 607، 608)
1883ء
’’پھر آگے اس کے یہ الہام ہے۔
1 وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاتَّخِذُوْ2 ا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی۔
اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو۔ اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔
1 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ88 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 115 سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی الٰہی کی دوسری قرأت اِنَّہ‘ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ہے۔ (مرتب)
2 ’’اِس مقام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجاگیا تم اپنی عبادتوں اورعقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ اورہرایک امر میں اُس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 20، 21۔ روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 68)
اس جگہ مقامِ ابراہیم سے اخلاقِ مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے۔ یعنی محبت ِ الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا۔ یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے۔ جو امت ِ محمدیہ کو بطور تبعیّت و وراثت عطا ہوتا ہے۔ اور جو شخص قلب ِ ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے۔
یُظِلُّ رَبُّکَ عَلَیْکَ وَیُغِیْثُکَ وَیَرْحَمُکَ۔ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ فَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدہٖ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔
خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا۔ اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا۔ اور تجھ پر رحم کرے گا۔ اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں۔ مگر خدا تجھے بچائے گا۔ اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا۔ اگرچہ تمام لوگ دریغ کریں۔
یعنی خدا تجھے آپ مدد دے گا۔ اور تیری سعی کے ضائع ہونے سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کی تائیدیں تیرے شامل حال رہیں گی۔
وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَرَ1۔ اَوْقِدْلِیْ یَاھَامَانُ لَعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلیٰٓ اِلٰہِ مُوْسٰی وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہ‘مِنَ الْکٰذِبِیْنَ
یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکا۔ تا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اِس شخص کے خدا پر مطلع ہوجاؤں۔ کہ کیونکر وہ اُس کی مدد کرتا ہے۔ اور اُس کے ساتھ ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔
یہ کسی واقعہ آیندہ کی طرف اشارہ ہے کہ خوبصورت گذشتہ بیان کیا گیا ہے۔
تَبَّتْ یَدَٓا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَاکَانَ لَہ‘ٓ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَآ اِلَّا خَآئِفًا۔ وَمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے۔ اور وہ بھی ہلاک ہوا۔ اور اُس کو لائق نہ تھا کہ اِس کام میں بجز خائف اور ترساں ہونے کے یونہی دلیری سے داخل ہوجاتا اور جوتجھ کو پہنچے تو وہ خدا کی طرف سے ہے۔
1 (ا) یہ لفظ کفّر اور کفَر دونوں قرأتیں ہیں۔ کیونکہ کافر کہنے والا بہر حال منکر بھی ہوگا اور جو شخص اس (بقیہ حاشیہ) دعویٰ سے منکر ہے وہ بہرحال کافر ٹھہرائے گا۔ اور ھامان کا لفظ ہیمان کے لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ہیمان اُسے کہتے ہیں جو کسی وادی میں اکیلا سرگرداں پھرے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 64حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 82)
(ب) ’’یادر ہے کہ اس وحی الٰہی میں دونوں قرأتیں ہیں۔ کَفَرَ بھی اور کَفَّرَ بھی۔ اور اگر کَفَرَ کی قرأت کی رو سے معنے لئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ پہلے شخص مُستَفْتِیْ میرے پر اعتماد رکھتا ہوگا۔ اور معتقدین میں داخل ہوگا۔ اور پھر بعد میں برگشتہ اور منکر ہوجائے گا۔ اور یہ معنی مولوی محمد حسین بٹالوی پر بہت چسپاں ہیں۔ جنہوں نے براہین احمدیہ کے ریویو میں میری نسبت ایسا اعتقاد ظاہر کیا۔ کہ اپنے ماں باپ بھی میری پر فدا کردیئے۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 354 حاشیہْ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 368 حاشیہ)
یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے۔ جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اُس سے ظہور میں آوے1۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اَلْفِتْنَۃ ھٰھُنَا۔ فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُو لُوا الْعَزْمِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَمًّا حُبًّا مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْاَکْرَمِ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔
اس جگہ فتنہ ہے پس صبر کر۔ جیسے اولُو العزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے۔ تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اُس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں۔
شَاتَانِ تُذْ بَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔
دو بکریاں2 ذبح کی جائیں گی۔ اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا۔ یعنی ہریک کیلئے قضاء و قدر درپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں ....
وَلا تَھنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہ‘ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا۔
اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر
1۔ ’’یہ پیش گوئی قریباً فتویٰ تکفیر سے بارہ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے یعنی جبکہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فتویٰ تکفیر لکھا۔ اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کو کہا کہ سب سے پہلے اس پر مہر لگاوے۔ اور میرے کفر کی نسبت فتویٰ دیدے۔ اور تمام مسلمانوں میں میرا کافر ہونا شائع کردے۔ سو اس فتویٰ اور میاں صاحب مذکور کے مہر سے بارہ برس پہلے یہ کتاب تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہوچکی تھی اور مولوی محمد حسین جو بارہ برس کے بعد اوّل المکفرّین بنے۔ بانی تکفیر کے وُہی تھے۔ اور اس آگ کو اپنی شہرت کی و جہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین صاحب دہلوی تھے۔ اس جگہ سے خدا کا علمِ غیب ثابت ہوتا ہے کہ ابھی اس فتویٰ کا نام ونشان نہ تھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب میری نسبت خادموں کی طرح اپنے تئیں سمجھتے تھے اُس وقت خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی جس کو کچھ بھی عقل اور فہم ہے وہ سوچے اور سمجھے کہ کیا انسانی طاقتوں میں یہ بات داخل ہوسکتی ہے کہ جو طوفان بارہ برس کے بعد آنے والا تھا جس کا پر زور سیلاب مولوی محمد حسین جیسے مدعی اخلاص کو درجہ ضلالت کی طرف کھینچ کر لے گیا اور نذیر حسین جیسے مخلص کو جو کہتا تھا کہ براہین احمدیہ جیسی اسلام میں کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی۔ اس سیلاب نے دبالیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 75 روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 215، 216)
2 یہ پیشگوئی حضرت شہزادہ مولا ناسید عبداللطیف صاحب کابلی شہید و مولوی عبدالرحمن صاحب کابلی شہید رضی اللہ عنہ‘ کی شہادت سے پوری ہوئی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے کتاب تذکرۃ الشہادتین۔ (مرتب)
ہے۔ اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا۔
اَوْ فَی اللّٰہُ اَجْرَکَ۔ وَیَرْضٰی عَنْکَ رَبُّکَ وَیُتِمُّ اسْمَکَ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْ اشَیْئًا وَّھُوَ اشَرٌّ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْاشَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔
خدا تیرا بدلہ پورا دے گا۔ اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے اسم کو پورا کرے گا۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو۔ اور اصل میں وہ تمہارے لئے بُری ہو۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو۔ اور اصل میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور خدا تعالیٰ عواقب ِ امور جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے۔
کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ اِنَّ السَّمٰوَات، وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا۔ وَ اِنْ یَّتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ قُلْ اِنَّمَا بَشَرٌ1 مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔ وَالْخَیْرُکُلُّہ‘فِی الْقُرْاٰنِ۔ لَا یَمَسُّہ‘ٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًامِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔
میں ایک خزانہ2پوشیدہ تھاسو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں۔ آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا۔ اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے۔ اور ٹھٹھا مار کرکہیں گے۔ کیا یہی ہے جس کو خدا نے اصلاح خلق کے لئے مقرر کیا۔ یعنی جن کا مادّہ ہی خبث ہے۔ اُن سے صلاحیت کی اُمید مت رکھ۔
اور پھر فرمایا۔ کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں۔ مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے۔ کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں۔ وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہئے۔ اور تمام خیر اور بھلائی قرآن میں ہے۔ بجز اُسکے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی۔ اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ
1 یہ وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اربعین نمبر 2 کے صفحہ8پر بحوالہ براہین احمدیہ یوں نقل فرمائی ہے۔’’قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ براہین احمدیہ میں بَشَرٌ سے پہلے ’’اَنَا‘‘ کا لفظ سہو کتابت سے رہ گیا ہے۔
(روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 354) (مرتب)
2 پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ فرماتے ہیں:۔’’میں نے ایک روز حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت کنت کَنْزًا الخ ...... کے معانی میں صوفیاء نے اور نیز دیگر علماء نے بہت کچھ زور لگائے۔ آپ فرمائیں کہ اس جملہ مبارک کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا۔ آسان معنی اس کے یہی ہیں کہ جب دنیا میں ضلالت اور گمراہی اور کفر وشرک اور بدعات و رسومات مختر عات پھیل جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور اُس تک پہنچنے کی راہیں گُم ہوجاتی ہیں۔ اور دل سخت اور خشیت اللہ سے خالی ہوجاتے ہیں۔ تو ایسے وقت اور ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ
اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے۔ اور میں ایک1عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں۔ کیا تم کو عقل نہیں....
قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی وَاِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ۔ اِیْلِیْ اٰوس۔
کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے۔ اور میرے ساتھ میرا رب ہے۔ عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر۔ میں مغلوب ہوں۔ میری طرف سے مقابلہ کر۔ اے میرے خدا۔ اے میرے خدا۔ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اٰوس بباعث سُرعت ِورود مشتبہ رہا ہے اور نہ اس کے کچھ معنے کُھلے۔ واللہ
(بقیہ حاشیہ) مخفی خزانہ کی طرح ہوجاتا ہے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں پھر دنیا پرظاہر ہوؤں اور دنیا مجھے پہچانے۔ تو خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے اور اُس کو خلعتِ خلافت عطا فرماتا ہے اُس کے ذریعہ سے وہ شناخت کیا جاتا ہے وہ پسندیدہ اور برگزیدہ بندہ خدا تعالیٰ کی محبت ازسرِ نو خالی دلوں میں بھرتا اور اُس کی معرفت کے اسرار لوگوں پر ظاہر کرتا ہے ہر ایک زمانہ میں ابتدائے آفرینش سے یہی سنّت اللہ اور یہی طریقتہ اللہ رہا ہے۔ بالآخر ہمارے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ لوگ معرفت الٰہی کو کھو بیٹھے صفاتِ الٰہی میں کچھ کا کچھ اپنی طرف سے تصرف کیا۔ اسماء اللہ سے غافل ہوگئے اُس کی کتابوں اور صحیفوں کو ترک کر بیٹھے اُس کے ندّ اور شریک بنالئے۔ پس خدا تعالیٰ پوشیدہ خزانہ کی طرح ہوگیا۔ تو خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت اور محبت دے کر بھیجا۔ تا کہ دنیا کو راہِ راست پر لگایا جاوے۔ پس اسی واسطے ہم تحریر سے‘ تقریر سے‘ توجہ سے‘ دعا سے‘اپنے چال چلن سے پر ہیبت پیشگوئیوں اور اسرارِ غیب سے جو خدا نے ہمیں عطا کئے۔ اور معارف و حقائق و دقائق قرآنی سے رات دن لگے ہوئے ہیں۔ اور ہم کیا خداتعالیٰ نے ہمارے سب کاروبار اور اعضا اور ہاتھ اور زبان اور ہر ایک حرکت و سکون کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے جس طرح اُس کی مرضی ہوتی ہے وہ ہمیں چلاتا ہے اور ہم اُسی طرح چلتے ہیں۔ ہمارا اس میں کچھ اختیار نہیں۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر23 مؤرخہ4 2؍ جون1902ء صفحہ 11)
1 ’’قریباً1882ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ ولَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ اوراس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگاسکے گا۔ چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے کوئی شخص دور یا نزدیک رہنے والا ہماری گذشتہ سوانح پر کسی قسم کا داغ ثابت نہیں کرسکتا۔ بلکہ گذشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُر زور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے۔ اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں۔ اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں۔ پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے۔ پیشگوئی وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ کا مصدِّق ہے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 212۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 590)
اعلم بالصواب .........
یَا عَبْدَ الْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ۔ وَنَجَّیْنَا کَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنَّاکَ فُتُوْنًا۔ لَیَا تِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھَمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔
اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں۔ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا۔ اور تجھ کو غم سے نجات دی اور تجھکو خالص کیا۔ اور تم کو میری طرف سے مدد آئیگی۔ خبردار ہو لشکر خدا کا ہی غالب ہوتا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں جو اُن کو عذاب پہنچادے جب تک تو اُن کے درمیان ہے یا جب وہ استغفار کریں۔
اَنَا بُدُّکَ اللَّازِمُ۔ اَنَا مُحْیِیْکَ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہ‘ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ۔
میں تیرا چارہ لازمی ہوں۔ میں تیرا زندہ کرنے والا ہوں۔ میں نے تجھ میں سچائی کی روح پھونکی ہے۔ اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے۔ تاکہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے۔ سو تو اس بیج کی طرح ہے جس نے اپنا سبزہ نکالا۔ پھر موٹا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اپنی ساقوں پر قائم ہوگیا۔
ان آیات میں خدائے تعالیٰ کی اُن تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اُس عروج اور اقبال اور عزت اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔
ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے۔ اور درمیان میں جو بعض مکروہات اور شدائد ہیں۔ وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرمادے۔
یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا۔ تو قادر تھا کہ جو کام مدِّنظر ہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہوجاتی لیکن تکالیف اِس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطا یا ہوں........
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّاقَالُوْا وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَلَمَّا تجَلّٰی رَبُّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ‘ دَکًّا۔ وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِالْکَافِرِیْنَ۔ بَعْدَ الْعُسْرِیُسْرٌ۔ وَلِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ وَلِنَجْعَلَہ‘ٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ قَوْلُ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُوْنَ۔
کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس خدا نے اُس کو اُن الزامات سے بَری کیا۔ جو اُس پر لگائے گئے تھے۔ اور خدا کے نزدیک وہ وجیہہ1 ہے۔کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں۔ پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلّی کی تو اُس کو پاش پاش کردیا۔ یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے۔ اور خدائے تعالیٰ کافروں کے مکر کو سست کردیگا اور اُن کو مغلوب اور ذلیل کرکے دکھلائے گا۔ تنگی کے بعد فراخی ہے۔ اور پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے۔ کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں اور ہم اُس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنائیں گے۔ اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا یہ وہ سچی بات ہے جس میں تم شک کرتے ہو۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ۔ رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ۔ مَتَّعَ اللّٰہُ الْمُسْلِمِیْنَ بِبَرَکَاتِھِمْ فَانْظُرُوْٓا اِلٰٓی اٰثَارِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ۔ وَاَنْبِئُوْنِیْ مِنْ مِّثْلِ ھٰٓؤُ لَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ وَمَنْ یَّبْتَغْ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا لَّنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کار سول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ وہ کفّار پر سخت ہیں۔ یعنی کفّار اُن کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں۔ اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں۔ وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے۔ اور نہ بیع مانع ہوتی ہے۔ یعنی محبت ِ الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دُنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں۔ اُن کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خداے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت ِ الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو اُن آثار کو دیکھو اور اگر اِن لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے پاس ہے یعنی اگر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ اِسی طرح تائیداتِ الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین ِ اسلام کے کسی اور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا۔ وہ دین ہرگز اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیاں کاروں میں ہوگا۔
یَآ اَحْمَدُ فَا ضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ1 فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
1 ’’یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے وقت میں میرے پر خون کا الزام لگایا گیا۔ خدا نے مجھے اُس سے بَری کردیا اور پھر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کے وقت میں مجھ پر الزام لگایا گیا اُس سے بھی خدا نے مجھے بَری کردیا اور پھر مجھ پر جاہل ہونے کا الزام لگایا گیا۔ سو مخالف مولویوں کی خود جہالت ثابت ہوئی اور پھر مہرعلی نے مجھ پر سارق ہونے کا الزام لگایا۔ سو اس کا خود سارق ہونا ثابت ہوا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ131 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 509)
2 حضرت اقدس نزول المسیح میں اس کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں:۔’’ہم تجھے بہت سے ارادتمند عطا کریں گے اور ایک کثیر جماعت تجھے دی جاوے گی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 131۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 509)
وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ سِرُّکَ سِرِّیْ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِٓیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ وَجِیْھًافِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔
اے احمدتیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے ہم نے تجھ کو معارفِ کثیرہ عطا فرمائے ہیں ۔سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے۔ اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اُتار دیا ہے۔ اور تیرے ذِکر کو اونچا کردیا ہے۔ تُو سیدھی راہ پر ہے۔ دنیا اور آخرۃ میں وجیہہ اور مقربین میں سے ہے۔
حَمَاکَ اللّٰہُ۔ نَصَرَکَ اللّٰہُ۔ رَفَعَ اللّٰہُ حُجَّۃَ الْاِسْلَامِ۔ جَمَالٌ۔ ھُوَالَّذِیْ اَمْشَاکُمْ فِیْ کُلِّ حَالٍ۔ لَا تُحَاطُ اَسْرَارُ الْاَولِیَآئِ۔
خدا تیر ی حمایت کرے گا۔ خدا تجھ کو مدد دے گا۔ خدا حجت ِاسلام کو بلندکرے گا۔ جمالِ الٰہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے۔ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہے۔ وہ احاطہ سے باہر ہیں۔ کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے.........
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداے تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں جو تربیت ِ عباد میں مصروف ہیں۔ ایک صفت رفق اور لطف اور احسان ہے اس کا نام جمال ہے۔ اور دوسری صفت قہر اور سختی ہے اِس کا نام جلال ہے۔ سو عادۃ اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جو لوگ اُس کی درگاہِ عالی میں بلائے جاتے ہیں۔ اُن کی تربیت کبھی جمالی صفت سے اور کبھی جلالی صفت سے ہوتی ہے۔ اور جہاں حضرت احدیّت کے تلطّفاتِ عظیمہ مبذول ہوتے ہیں۔ وہاں ہمیشہ صفت ِ جمالی کے تجلیات کا غلبہ رہتا ہے۔ مگر کبھی کبھی بندگانِ خاص کی صفاتِ جلالیہ سے بھی تادیب اور تربیت منظور ہوتی ہے جیسے انبیاء کرام کے ساتھ بھی خدا ے تعالیٰ کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ صفاتِ جمالیہ حضرت احدیت کے اُن کی تربیت میں مصروف رہے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اُن کی استقامت اور اخلاقِ فاضلہ کے ظاہر کرنے کے لئے جلالی صفتیں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ اور اُن کو شریر لوگوں کے ہاتھ سے انواع اقسام کے دکھ ملتے رہے ہیں۔ تا اُن کے وہ اخلاق فاضلہ جو بغیر تکالیف شاقہ کے پیش آنے کے ظاہر نہیں ہوسکتے۔ وہ سب ظاہر ہوجائیں۔ اور دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کچے نہیں ہیں۔ بلکہ سچے وفادار ہیں۔
وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَا اِلَّا سِحرٌ یُّؤْثَرُ۔ لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً۔ لَا یُصَدِّقُ السَّفِیْہُ اِلَّا سَیْفَۃَ الْھَلَاکِ۔ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّکَ قُلْ اَتٰٓی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی۔
اور کہیں گے یہ تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ یہ تو ایک سحر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم ہرگز نہیں مانیں گے۔
جب تک خدا کو بچشمِ خود دیکھ نہ لیں۔سفیہ بجز ضربہ ٔ ہلاکت کے کسی چیز کو باور نہیں کرتا۔ میرا اور تیرا دشمن ہے۔ کہہ خدا کا امر آیا ہے۔ سو تم جلدی مت کرو۔ جب خدا کی مدد آئے گی تو کہا جائے گا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں کہیں گے کہ کیوں نہیں۔
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَلَاتَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُمْ رَءُوْفًا رَّحِیْمًا۔ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ تَمُوْتُ وَاَنَا رَاضٍ مِّنْکَ۔ فَادْخُلُوا الْجَنَّۃَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْ ھَآ اٰمِنِیْنَ سَلَامٌ عَلَیْکٌ جُعِلْتَ مُبَارَکًا سَمِعَ اللّٰہُ اِنَّہ‘سَمِیْعُ الدُّعَآئِ۔ اَنْتَ مُبَارَکٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ اَمْرَاضُ النَّاسِ وَبَرَکَا تُہ‘اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ وَ اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ مَنَّ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ وَاَحْسَنَ اِلٰٓی اَحْبَابِکُمْ وَعَلَّمَکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْن۔ وَاِنْ تَعُدُّ و انِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔
میں تجھ کو پوری1نعمت دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے مُتّبعین میں داخل ہوجائیں۔ اُن کو اُن کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ یعنی وہ لوگ حجت اور دلیل کے رُو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے۔ اور صدق اور راستی کے انوار سا طعہ اُنہیں کے شامل حال رہیں گے۔ اور سُست مت ہو اور غم مت کرو۔ خدا تم پر بہت ہی مہربان ہے۔ خبردار ہو بہ تحقیق جو لو گ مقربان الٰہی ہوتے ہیں اُن پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں۔ تُو اس حالت میں مرے گا کہ جب خدا تجھ پر راضی ہوگا۔ پس بہشت میں داخل ہوانشاء اللہ امن کے ساتھ۔ تم پر سلام ہو۔ تم شرک سے پاک ہوگئے۔ سو تم امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہو۔ تجھ پر سلام۔ تو مبارک کیا گیا۔ خدانے دعا سن لی۔ وہ دعاؤں کو سنتا ہے۔ تو دنیا اور آخرت میں مبارک ہے.........لوگوں کی بیماریاں اور خدا کی برکتیں۔ یعنی مبارک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے لوگوں کی روحانی بیماریاں دُور
1 ’’میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفّی کے معنے ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں۔ جن کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے الہامی غلطی نہیں۔ میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلاً جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خدا تعالیٰ قائم نہیں رکھتا۔ مگر یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کرسکتا۔ خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو و نسیان لازمہ بشریّت ہے۔‘‘
(ایّام الصلح صفحہ41۔ روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 271، 272۔ نیز دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ73 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 93)
ہوں گی اور جن کے نفس سعید ہیں۔ وہ میری باتوں کے ذریعہ سے رشد اور ہدایت پاجائیں گے اور ایسا ہی جسمانی بیماریاں اور تکالیف جن میں تقدیر مبرم نہیں1۔
اور پھر فرمایا کہ تیرا رب بڑا ہی قادر ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا کی نعمت کو یاد رکھ۔ اور میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی۔
اس جگہ جاننا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے۔ یعنی جو شخص حضرت ِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پر متابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اُس کے تمام ہم عصروں سے بر تر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلّی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جناب احدیّت کی طرف سے ثابت ہیں۔ اور دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اُس کی محبت کے طفیل سے علیٰ قدر متابعت و محبت مراتب پاتے ہیں۔فما اعظم شان کمالہ اللّٰھم صلّ علیہ واٰلہٖ۔
اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ الہام یہ ہے۔ اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ پر راضی اور تو اُس پر راضی۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو۔ اور میری بہشت میں اندر آجا۔ خدا نے تجھ پر احسان کیا۔ اور تیرے دوستوں سے نیکی کی۔ اور تجھ کو علم بخشا جس کو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا۔ اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ510 تا 521 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 608تا 623)
1883ء
’’پہلے اس2 سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُبَارَکًا حَیْثُمَا کُنْتُ
یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کر۔ کہ ہر جگہ کہ میں بودو باش کروں۔ برکت میرے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی۔ قبول فرمائی۔ اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اوّل آپ ہی
1 حضرت اقدس الہام امراض الناس وبرکاتہ‘ کی تشریح یوں فرماتے ہیں:۔’’یعنی لوگوں میں مرض پھیلے گی اور اس کے ساتھ ہی خدا کی برکتیں نازل ہوں گی اور وہ اس طرح پر کہ وہ بعض کو نشان کے طور پر اس بلا سے محفوظ رکھے گا اور دوسرے یہ کہ یہ بیماریاں جو آئیں گی یہ دینی برکات کا موجب ہوجائیں گی اور بہتیرے لوگ اُن خوفناک دنوں میں دینی برکات سے حصہ لیں گے اور سلسلہ حقہ میں داخل ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور طاعون کا خوفناک نظارہ دیکھ کر بڑے متعصّب اس سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ20۔ روحانی خزائن جلد نمبر18۔ صفحہ 398)
2 یعنی الہام جُعِلْتَ مُبَارَکًا مندرجہ صفحہ 75(مرتب)
الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا۔ اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 520 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 621)
1883ء
’’پھر ان الہامات کے بعد چند الہام فارسی اور اُردو میں اور ایک انگریزی میں ہوا...........اور وہ یہ ہے:۔
بخرام کہ 1 وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔پاک محمدؐمطفٰے نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کردیگا۔ اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اِس طرف توجہ کرے گا۔ اِس نشان کا مدّعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں2۔ جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھُلا ہے۔ اور اُس کی پاک رحمتیں اِس طرف متوجہ ہیں۔ دی ڈیز شَلْ کم وِہْن گاڈ شیل ہَیلْپ یُو۔ گلوری بی ٹو دس لارڈ گَوڈ میکرآف ارتھ اینڈ ہیْون3۔
وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوالجلال آفرینندۂ زمین و آسمان۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ521، 522 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 623)
1 (ترجمہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ’’اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر اُن کا قدم پڑیگا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ133، روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 511)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ حضور کو جو الہام ہوا ہے ’’قرآن خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں‘‘ اس الہام الٰہی میں ’’میرے‘‘ کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے یعنی کس کے منہ کی باتیں۔
فرمایا:۔ خدا کے منہ کی باتیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں۔ اس طرح کے ضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔
(بدر جلد 6نمبر 28۔ 11 جولائی 1907ء صفحہ 6)
3 9. The days shall come when God shall help you.
10. Glory be to This Lord God Maker of earth and heaven.
1883ء
’’ ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یک دفعہ بعض امور میں تین طرح کا غم پیش آگیا تھاجس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور بجز ہرج و نقصان اُٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی۔ اُسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا۔ اور اُس وقت ہمراہ ایک آریہ ملاوا مل نامی تھا۔ جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ
پھر دوبارہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ٌ
یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے۔ ضرور نجات دیں گے۔ کیا تو نہیں جانتا۔ کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
چنانچہ اسی قدم پر جہاں الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اُس الہام سے اطلاع دی گئی تھی۔ اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ553، 554 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 659، 660)
1883ء
1 دوہ آل مین شُڈ بی اینگری بٹ گوڈ از وِدّ یُو۔ 2ہِی شل ہیلپ یُو۔
3 ورڈس اوف گوڈ کین ناٹ ایکس چینج
یعنی اگرچہ تمام آدمی ناراض ہوں گے۔ مگر خدا تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہاری مدد کریگا۔ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ554 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ660، 661)
1883ء
اَلْخَیْرُکُلَّہ‘فِی الْقُرْاٰنِ کِتَابِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ اِلَیْہِ یُصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ۔
یعنی تمام بھلائی قرآن میں ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہی اللہ جو رحمان ہے اُسی رحمان کی طرف کلماتِ طیبہ صعود کرتے ہیں۔
1
1 Though all men should be angry but God is with you.
2 He shall help you.
3 Words of God can not exchange.
ھُوَالَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ م بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنُشُرُ رَحْمَتَہ‘
اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو نا امیدی کے پیچھے مینہہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
یَجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عَبَادِہٖ
جس کو چاہتا ہے بندوںمیں سے چُن لیتا ہے۔
وَکَذَالِکَ مَنَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَالْفَحَشَآئَ۔ وَلِتَنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُ ھُمْ فَھُمْ غَافِلُوْنَ۔
اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا۔ تا ہم اُس سے بدی اور فحش کو روک دیں۔ اور تا تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز مراد ہے کہ جو باعتبار کسی روحانی مناسبت کے اطلاق پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ554، 555 حاشیہ در حاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 661، 662)
1883ء بعد اس کے فرمایا:۔
قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ رَبُّنَا عَاجٍ۔ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْ نَنِیْٓ اِلَیْہِ۔ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنْ غَمِّیْ۔ اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ۔کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ۔
کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان نہیں لاتے۔ یعنی خداے تعالیٰ کا تائیدات کرنا۔ اور اسرار غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا۔ اور مختلف زمانوں میں الہام دینااور معارف اور حقائق الٰہیہ سے اطلاع بخشنا یہ سب خدا کی شہادت ہے۔ جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے۔ پھر بقیہ الہامات ِ بالا کا (ترجمہ1)یہ ہے کہ بہ تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے راہ بتلائے گا۔ اے میرے رب میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر۔ ہمارا رب عاجی ہے۔ (اس کے معنے ابھی تک معلوم نہیں ہوئے) جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بُلاتے ہیں۔ اُن سے اے میرے رب مجھے زندان بہتر ہے۔ اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُونے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ تیری بخششوں نے ہم کو گستاخ کردیا۔
یہ سب اسرار ہیں کہ جو اپنے اپنے اوقات پر چسپاں ہیں۔ جن کا علم حضرت عالم الغیب کو ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 555،556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 662 تا 664)
1 ’’ترجمہ‘‘ کالفظ اصل میں موجود نہیں۔ یہ مرتّب کی طرف سے ہے۔
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا۔
ھُوَشَعْنَا ۔ نَعْسَا
یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں۔ اور اِن کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے1۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664)
’’پھربعد اس کے دو فقرے انگریزی ہیں۔ جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت ِ الہام ابھی تک معلوم نہیں۔ اور وہ یہ ہیں:۔
آئی لَوْ یُوْ۔ آی شل گِو یُو ءِ لارج پارٹی اَوف اِسلام2
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664)
(ترجمہ) میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں تجھے ایک بڑا گروہ اسلام کا دوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 80، روحانی خزائن جلدنمبر21 صفحہ 105)
1883ء
پھر بعد اس کے یہ الہام ہے:۔
یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مَتَوَفِیْکَ 1 وَرَافِعُکَ اِلَیَّ (وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا2 وَجَاعِلُ
1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں اس الہام کی تشریح میں تحریرفرمایا ہے۔
’’ ھُوَ شعْنا نَعْسَا:۔اے خدا میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما۔ ہم نے نجات دیدی۔ یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں۔ اور یہ ایک پیش گوئی ہے جو دعا کی صورت میں کی گئی۔ اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا۔ اور اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی۔ بے کسی۔ ناداری۔ کسی آئندہ زمانہ میں وہ دور کردی جائیں گی۔ چنانچہ پچیس برس کے بعد یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 80۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 104)
(نوٹ از مرتب) فقرہ ھُوَ شعْنا متی21/9میں بھی آیا ہے جس کا ترجمہ حاشیہ میں یوں لکھا ہے۔ ’کرم کرکے نجات دے‘ دیکھیئے زبور118/45۔
نَعْسَاکا ترجمہ عبرانی میں ہے’’قبول ہوئی‘‘ (عربی عبرانی ڈکشنری)
2 I love you. I Shall give you a large party of Islam.
3 ’’الہام اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ اس قدر ہوا ہے جس کا خدا ہی شمار جانتا ہے۔ بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ67 مکتوب مؤرخہ20 نومبر1883ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
4 ’’یہ فقرہ سہو کاتب سے براہین میں رہ گیا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ73حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 94، 95)
الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَرْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔
اے عیسٰی 1میں تجھے کامل اجر بخشوں گا۔یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا۔ یا دنیا سے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کردوں گا۔ اور تیرے تابعین کو اِن پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ یعنی تیرے ہم عقیدوں اور ہم مشریوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔ پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ 2ہے۔ اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556، 557 حاشیہ در حاشیہ نمبر4روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664، 665)
1883ء
’’اور پھر بعد اِس کے اُردو میں الہام فرمایا۔
میں اپنی چمکار3 دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔دنیا میں ایک نذیر آیا‘ پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اِسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ557حاشیہ در حاشیہ نمبر4 ۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 664، 665)
(ب) ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ اس کی دوسری قرأت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔‘‘
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 1۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 207)
(ج) ’’دنیا میں ایک نبی آیا۔ مگر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔‘‘ نوٹ:۔’’ ایک قرأت اس الہام میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ اور یہی قرأت براہین میں درج ہے۔ اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرأت درج نہیں کی گئی۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 7اگست1899ء مندرجہ الحکم جلد3 نمبر 29 مؤرخہ17؍اگست1899ء صفحہ6)
1 اس کے متعلق دیکھو حاشیہ نمبر1 متعلقہ ترجمہ وحی صفحہ75۔ (مرتب)
2 یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو فریق ہوں گے ایک پرانے مسلمان جن کا نام اوّلین رکھا گیا۔ جواب تک تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میں سے اسلام میں داخل ہوں گے۔ یعنی ہندوؤں اور سکھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے۔ اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں داخل ہوچکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 82۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 108)
3 ’’یہ وہی چمکار ہے جو کوہِ طور کی چمکار سے مشابہت رکھتی ہے اور اس سے مراد جلالی معجزات ہیں۔ جیسا کہ کوہِ طور پر بنی اسرائیل کو جلالی معجزات دکھائے گئے تھے۔‘‘ (ضمیمہ چشمہ ٔ معرفت صفحہ27۔ روحانی خزائن جلدنمبر23 صفحہ 398)
1883ء
اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْلَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ۔
اس جگہ ایک فتنہ ہے۔ سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ‘ دَکًّا
جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلّی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا۔
قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمَدِ۔
یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔
مَقَامٌ لَّا تَتَرَتَّی الْعَبْدُ فِیْہِ بِسَعْیِ الْاَعْمَالِ۔
یعنی عبداللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطاہوتا ہے۔ کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
یَا دَاو‘دُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا۔ وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَا۔ وَاَمَّا بِنِعْمَۃَ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔یُو مَسٹ ڈو وہاٹ آی ٹَولْڈ یُو1۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے۔ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَاَیْتَ خَدِیْجَتِیْ۔ اِنَّکَ الیَوْمَ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۔ اَنْتَ مُحَدَّثُ اللّٰہِ۔ فِیْکَ مَادَّۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔
اے داؤد خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر۔ اور سلام کا جواب احسن طور پر دے۔ اور اپنے رب کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذِکر کر۔ میری نعمت کا شکر کر کہ تُونے اُس کو قبل از وقت پایا۔ آج تجھے حظِّ عظیم ہے۔ تُو محدّث اللہ ہے۔ تجھ میں مادّئہ فاروقی ہے۔
سَلَامٌ عَلَیْکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ۔ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ۔ ذُوْعَقْلٍ مَّتِیْنٍ۔ حِبُّ اللّٰہِ خَلِیْلُ اللّٰہِ اَسَدُ اللّٰہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ۔ بَیْتُ الْفِکْرِ وَبَیْتُ الذِّکْرِ۔ وَمَنْ دَخَلَہ‘کَانَ اٰمِنًا۔
تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم! تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانت دار اور قوی العقل ہے اور دوست خدا ہے۔ خلیل اللہ ہے۔ اسد اللہ ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیج۔
یعنی یہ اُسی نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے۔
اور بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراضہے کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں
1 You must do what I told you
کھولا؟ کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی؟ کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا۔ اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبّد و صحت نیت و حُسن ایمان داخل ہوگا۔ وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔
بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اُس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے۔
اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد1کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔
مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔
یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اِس میں کیا جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557 تا 559حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلدنمبر1، 665 تا 667)
1883ء
’’پھر بعد اس کے اس عاجز کی نسبت فرمایا۔
1 (الف) ’’ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا۔ منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے.............. فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ۔ وَمَنْ دَخَلَہ‘کَانَ اٰمِنًا۔‘‘ (مکتوباتِ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 55)
(ب) ’’ایک مرتبہ میں نے اس مسجد کی تاریخ .........الہامی طور پر معلوم کرنی چاہی تو مجھے الہام ہوا۔ مبارک و مبارک و کل امر مبارک یجعل فیہ۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ 186۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 190)
(ج) اس الہام میں تین قسم کے نشان ہیں۔ (1) اوّل یہ کہ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مادّۂ تاریخ بنائے مسجد ہے۔ (2) دوم یہ کہ یہ پیش گوئی بتلارہی ہے کہ ایک بڑے سلسلہ کے کاروبار اسی مسجد میں ہوں گے چنانچہ اب تک اسی مسجد میں بیٹھ کر ہزار ہا آدمی بیعت توبہ کرچکے ہیں ‘ اسی میں بیٹھ کر صد ہا معارف بیان کئے جاتے ہیں اور اسی میں بیٹھ کر کتب ِ جدیدہ کی تالیف کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی میں ایک گروہِ کثیر مسلمانوں کا پنج وقت نماز پڑھتا ہے اور وعظ سنتے ہیں اور دلی سوز سے دعائیں کی جاتی ہیں۔ اور بنائے مسجد کے وقت میں ان باتوں میں سے کسی بات کی علامت موجود نہ تھی۔(3) سوم یہ کہ یہ الہام دلالت کررہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں کوئی آفت آنے والی ہے اور جو شخص اخلاص کے ساتھ اس میں داخل ہوگا وہ اس آفت سے بچ جائے گا۔ اور براہین احمدیہ کے دوسرے مقامات سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ آفت طاعون ہے سو یہ پیش گوئی بھی اس سے نکلتی ہے کہ جو شخص پُوری ارادت اور اخلاص سے جس کو خدا پسند کر لیوے اس مسجد میں داخل ہوگا وہ طاعون سے بھی بچایا جائے گا۔ یعنی طاعونی موت سے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 147، 148۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 525، 526)
رُفِعْتَ وَجُعِلْتَ مُبَارَکًا
تو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَا نَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ۔
یعنی جو لوگ اُن برکات و انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں۔ اور ایمان اُن کا خالص اور وفاداری سے ہوگا۔ تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ۔ قُلِ اللّٰہُ حَافِظُہ‘عِنَایَۃُ اللّٰہِ حَافِظُکَ۔ نَحْنُ نَزَّلْنَاہُ وَاِنَّا لَہ‘ لَحَافِظُوْنَ۔ اَللّٰہُ خَیْرٌحَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ وَیُخَوِّ فُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اَئِمَّۃُ الْکُفْرِ۔ لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْآعْلٰی۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔ اِنَّ یَوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ۔ بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ۔ نَصَرْتُکَ مِنْ لَّدُنِّیْ۔ اِنِّیْ مُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ۔ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ خَلَقْتُ لَکَ لَیْلًا وَّنَھَارًا۔ اِعْمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔
مخالف لوگ ارادہ کریں گے۔ کہ تاخدا کے نور کو بُجھا دیں۔ کہہ خدا اُس نو ُرکا آپ محافظ ہے۔ عنایت الٰہیہ تیری نگہبان ہے۔ ہم نے1 اُتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں۔ خدا خیرالحافظین ہے۔ اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ اور تجھ کو اور اور چیزوں سے ڈرائیں گے۔ یہی پیشوایانِ کفر ہیں۔ مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے۔ یعنی حجت اور بر ہان اور قبولیت اور برکت کے رُو سے تو ُ ہی غالب ہے۔ خدا کئی میدانوںمیں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا۔
پھرفرمایا کہ میرا دن حق اور باطل میں فرق بیّن کرے گا۔ خدا لکھ چکا ہے۔ کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے۔ کوئی نہیں کہ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے۔ یہ خدا کے کام دین کی سچائی کے لئے حجت ہیں۔ میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا۔ میں خود تیرا غم دُور کروں گا۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا۔ جو کچھ تو چاہے کر کہ میں نے تجھے بخشا۔ تو مجھ سے وہ منزلت رکھتا ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں۔
1 سہوِ کاتب سے لفظ ’’اس کو‘‘ ترجمہ سے رہ گیا ہے۔ (مرتّب)
اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیاتِ شرعیہ تجھے حلال ہیں۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئےہیں اور اعمالِ صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی۔ اور سب ایمانیاتِ اِس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئیں۔ وَذالک فضل اللّٰہ یؤ تیہ من یشآئُ
وَقَالُوْٓا اِنْ ھُوَ(اِلَّا 1) اِفْکُ نِٰ فْتَریٰ۔ وَمَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ۔ وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ و فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ اِجْتَبَیْنَاھُمْ وَاصْطَفَیْنَاھُمْ کَذَالِکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمَؤْ مِنیْنَ۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْ مِنْ اٰیَا تِنَا عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ کُلَّ یُوْمٍ ھُوَفِیْ شَاْنٍ۔ فَفَھَّمْنَاھَا سُلَیْمَانَ۔ وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ قُلْ جَآئَ کُمْ نُوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ فَلَا تَکْفُرُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ صَافَیْنَاہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ۔ تَفَرَّدْ نَا بِذَالِکَ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَا ھِیْمَ مُصَلًّی۔
اورکہیں گے کہ یہ جھوٹ بنالیا ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا۔ حالانکہ بنی آدم یکساں پیدا نہیں کئے گئے۔ بعض کو بعض پر خدا نے بزرگی دی ہے اور اُن کو دوسروں میں سے چُن لیا ہے۔ یہی سچ ہے تا مومنوں کے لئے نشان ہو۔ کیا تم خیال کرتے ہو۔ کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں۔ نہیں بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے۔ اور اُس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے۔ ہر یک دن میں وہ ایک شان میں ہے۔ پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے۔ یعنی اس عاجز کو۔ اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا۔ حالانکہ اُن کے دل یقین کرگئے۔ سو عنقریب ہم اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیں گے۔ کہہ خدا کی طرف سے نور اُترا ہے۔ سو تم اگر مومن ہو تو انکار مت کرو۔ ابراہیم پر سلام۔ ہم نے اُس کو خالص کیا۔ اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کام کیا۔ سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو۔ یعنی رسول کریم کا طریقہ حقہ کہ جو حال کے زمانہ میں اکثر لوگوں پر مُشتبہ ہوگیا ہے اور بعض یہودیوں کی طرح صرف ظواہر پرست اور بعض مُشرکوں کی طرح مخلوق پرستی تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ طریقہ خداوند کریم کے اِس عاجز بندہ سے دریافت کرلیں اور اُس پر چلیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 559 تا 562 حاشیہ در حاشیہ نمبر4 روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 667تا671)
1 اس الہام میں اِلَّا کا لفظ سہو کتابت سے رہ گیا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین نمبر2 طبع اوّل صفحہ 7 روحانی خزائن جلد نمبر17صفحہ 353 میں بحوالہ براہین احمدیہ یہی الہام درج فرمایا ہے اور اس میں لفظ اِلَّا موجود ہے۔ (مرتب)
اگست 1883ء
(الف) ’’ اُن1کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس اکتوبر1883ء میں پیش آیا۔ تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اِس عاجز کو دیدی تھی۔ چنانچہ یہ خبربعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 535 حاشیہ نمبر11۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 640 حاشیہ نمبر11)
(ب) ’’پنڈت دیانند کی بابت اس کی موت سے دو مہینے پہلے لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی۔ کہ اب وہ بہت ہی نزدیک مرے گا۔ بلکہ کشفی حالت میں مَیں نے اُس کو مُردہ پایا۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ43۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 382)
(ج) ’’اس ملک پنجاب میں جب دیانند بانی مبانی آریہ مذہب نے اپنے خیالات پھیلائے اورسِفلہ طبع ہندوؤں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیراورایسے ہی دوسرے انبیاء ؑ کی توہین پر چالاک کردیا۔ اور خود بھی قلم پکڑتے ہی اپنی شیطانی کتابوں میں جابجا خدا کے تمام پاک اور برگزیدہ نبیوں کی تحقیر اور توہین شروع کی۔ اور خاص اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں بہت کچھ جھوٹ کی نجاست کو استعمال کیا اور بزرگ پیغمبروں کو گندی گالیاں دیں تب مجھے اس کی نسبت الہام ہوا کہ
خدا تعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اُٹھالے گا۔‘‘
(تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ 167۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 607)
28 اگست 1883ء
’’شاید پرسوں کے دن یعنی بروز سہ شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے۔
فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِلنَّاسِ
یعنی اس میں لوگوں کیلئے برکتیں ہیں۔‘‘ (از مکتوب مؤرخہ30اگست 1883ء مکتوبات جلد اوّل صفحہ 45)
6ستمبر 1883ء ’’بتاریخ6 ؍ستمبر1883ء روز پنج شنبہ خداوند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز کی تسلی کے لئے اپنے کلامِ مبارک کے ذریعہ یہ بشارت دی کہ
بِست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔
کیونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی۔ اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذاتِ غیب دان کا خاصہ ہے کسی اور کاکام نہیں ہے۔ دوسری عجیب بر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی۔ کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کا کچھ تعلق نہیں۔ پس انہیں عجائبات کی و جہ سے
1 پنڈت دیانند صاحب (مرتّب)
یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا۔
10 ستمبر1883ء
پھر10؍ستمبر 1883ء کو تاکیدی طور پر سہ بارہ الہام ہوا کہ
بست ویک روپیہ آئے ہیں
جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیش گوئی کا ظہور ہوجائے گا۔ چنانچہ ابھی الہام پر شاید تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیمار دار آیا اور اُس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا۔ ہر چند علاج معالجہ اِس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آجاوے۔ تو اگر اُس کی دوا یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے لِلّٰہ فی اللہ دی جاتی ہے ۔ لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا۔ کیونکہ فی الفور خیال آیا۔ کہ یہ اُس پیش گوئی کی ایک جُز ہے۔ پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے کہ شاید دوسری جُزبذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو۔ ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا کہ میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپیہ کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے۔ ڈیرہ غازیخاں سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں۔ جب آئے گا تو دوں گا۔ اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی۔ اور وہ اضطراب پیش آیا۔ جو بیان نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ یہ عاجز اسی تردّد میں سربزانو تھا اور اِس تصوّر میں تھا کہ پانچ اور ایک مل چھ ہوئے۔ اب اکیس کیونکر ہوں گے‘ یا الٰہی یہ کیا ہوا۔ سو اسی استغراق میں تھا کہ یک دفعہ یہ الہام ہوا:۔
بست ویک آئے ہیں۔ اِس میں شک نہیں
اس الہام پر دوپہر نہیں گذرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر دی کہ دراصل بست روپے آئے ہیں اور پہلے یونہی منہ سے نکل گیا تھاجو میں نے پانچ روپیہ کہہ دیا۔ چنانچہ وہی آریہ بیس روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی طرف سے تھالے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا اور نیز منشی الٰہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاکخانہ کی رسید کے تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ منی آرڈر 6؍ستمبر 1883ء کو یعنی اُسی روز جب الہام ہوا۔ قادیان میں پہنچ گیا تھا۔ پس ڈاک منشی کا سارا املا انشاء غلط نکلا اور حضرتِ عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا۔ پس اس مبارک دن کی یاد داشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئی۔ فالحمد للّٰہ علی اٰلائہٖ ونعمائہٖ ظاھر ھا و باطنھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ522۔524حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 624۔ 626)
9اکتوبر1883ء
’’آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اِس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد1کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں۔ ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے۔ جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں۔ اور خط ِ ریحانی میں جو پیچان اورمسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا۔ جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے:۔
لَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ
اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے۔ جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اس کو کون مسمار کرے۔ اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اس کو کون ذلیل کرے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ9 اکتوبر1883ء بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 61)
22اکتوبر1883ء
’’آج اِس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا۔ بعالمِ کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ
فتح کا نقّارہ بجے
پھر ایک نے مسکرا کر اُن ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ
دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری
جب اِس عاجز نے دیکھا تو وہ اِسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی۔ مگر نہایت رُعب ناک۔ جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں۔ اور تصویر کے یمین و یسار میں۔
حجتہ اللہ القادر و سُلطان احمد ِ مختار
لکھا تھا۔ اور یہ سوموار کا روز اُنیسویں ذوالحجہ1300ھ مطابق 22؍اکتوبر83ء اور ششم کا تک سم1940 بکرم ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ515، 516 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 615)
24اکتوبر1883ء سے قبل
’’ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ
1 یعنی مسجد مبارک (مرتّب)
اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو مَیں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اُوپر سے مدد کرسکتا ہوں۔‘‘
(از مکتوب 24؍اکتوبر1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ63)
29 اکتوبر1883ء سے قبل
’’ بارہا اس عاجز کو حضرتِ احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں۔ جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجہ ٔ قدرت احدیّت میں مقہور اور مغلوب ہے۔ اور تصرّفاتِ الٰہیہ زمین و آسمان میں کام کررہے ہیں۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 29 اکتوبر1883ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 63)
29 اکتوبر1883ء سے قبل
’’ چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا۔
اِنْ 1 یَّمْسَسْکَ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہ‘اِلَّاھُوَ۔ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللَّہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ لَاٰتٍ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 29اکتوبر1883ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ63)
19،20 نومبر 1883ء
’’رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا۔ اور وہ یہ ہے:۔
قُلْ لِّضَیْفِکَ2 اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۔ قُلْ لِاّ َخِیْکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ
یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا۔ اس کے معنے ......ہیں......جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے۔ اس کو کہدے
1 (ترجمہ از مرتب) اگر وہ (خداوند کریم) تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے۔ تو اس کے سوا کوئی بھی اُسے دُور نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے۔ تو کوئی اس کے فضل کو رد بھی نہیں کرسکتا۔ کیا تم جانتے نہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہوگا۔
(نوٹ از مرتب) مکتوبات احمدیہ 29 اکتوبر1883ء صفحہ63 میں لفظ ان یمسَسْکَ کی بجائے ان تمسسک لکھا ہے جو سہوِ کاتب معلوم ہوتا ہے۔
2 حیاتِ احمد (مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) جلد 2 نمبر2 صفحہ 72 پر یہ الہام واضح طور پر بالفاظ قُلْ لِضَیْفِکَ الخ درج ہے لیکن مکتوبات جلد اوّل صفحہ 67 میں یہ لفظ ایسا صاف نہیں لکھا بلکہ کچھ ایسا لکھا (لضیفک) ہے کہ لِضَیْفِکَ کی بجائے لِفَیْضِکَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ترجمہ کے الفاظ ’’مورد فیض‘‘ اس احتمال کو اور بھی قوت دیتے ہیں۔ گو ضَیْف کے معنے بھی موردِ فیض سمجھے جاسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہی ایام میں حضور کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ہوئی تھی۔ ( مرتب)
کہ میں.........(تجھے) وفات دوں گا۔
معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے کم وبیش کوئی لوگ ہیں۔ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتےہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت ۔ اُن کے عُسریُسر کی نسبت۔ اُنکے حوادث کی نسبت۔ ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے۔‘‘
(ازمکتوب مؤرخہ20؍نومبر1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ67، 68)
’’پندرہ 1برس کے بعد جب میرے بھائی2 کی وفات کا وقت نزدیک آیا۔ تو میں امرتسر میں تھا مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ اب قطعی طور پر اُن کی زندگی کا پیالہ پُر ہوچکا اور بہت جلد فوت ہونے والے ہیں۔ میں نے وہ خواب حکیم محمد شرؔیف کو جو امرت سر میں ایک حکیم تھے سنائی۔ اور پھر اپنے بھائی کو خط لکھا کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں۔ کیونکہ مجھے دکھلایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں۔ انہوں نے عام گھر والوں کو اس سے اطلاع دے دی۔ اور پھر چند ہفتہ میں ہی اس جہانِ فانی سے گذر گئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 39۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 211، 212)
1883ء
’’اکسٹھواں نشان اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا:۔
اے عَمّی بازیِ ٔ خویش کردی و مرا افسو س بسیار دادی۔3
یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی۔ اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت اور ناگہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہوگی..........اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا۔ کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طور پر فوت ہوگیا۔ اور
1 میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سخت بیمار ہوگئے تھے۔ اور بالکل ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے تھے۔ حضرت اقدس ؑ نے ان کے لئے دعا کی تو خواب میں دکھایا گیا کہ آپ ایک پورے تندرست انسان کی طرف بغیر کسی سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں۔ چنانچہ حضور ؑ نے لکھا ہے۔ کہ برادر مذکور اس خواب کے پندرہ برس بعد تک زندہ رہے۔ مفصل دیکھو رؤیا نمبر10، 12 تذکرہ صفحہ نمبر 8، 9۔ (مرتب)
2 مراد مرزا غلام قادر صاحب برادر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے چچا! تو اپنی جان پر کھیل گیا۔ اور مجھے بہت افسوس میں چھوڑ گیا۔
میرے اُس لڑکے کو اس کی موت کا صدمہ پہنچا۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 223۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 233)
1883ء
’’ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات سے ایک دن پہلے الہام ہوا
’’ جنازہ ‘‘
اور میں نے اس الہام کی بہت لوگوں کو خبر دے دی۔ چنانچہ دوسرے روز بھائی صاحب فوت ہوئے1۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 225۔ روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 603)
دسمبر 1883ء
’’اس ہفتہ میں بعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں................ اور وہ کلمات یہ ہیں:۔
پریشن۔ عمر۔ براطوس۔ یا پلا طوس
یعنے پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمرؔ عربی لفظ ہے۔ اس جگہ برا طوؔس اور پریشن کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں؟پھر دو الفاظ اور ہیں۔
ھُوْ شَعْنَا 2 نَعْسَا
معلوم نہیں کس زبان کے ہیں۔ اور انگریزی یہ ہیں۔ اوّل عربی فقرہ ہے۔
یَا دَاو‘ دُ عَامِلْ بالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا
یُوْمَسْٹ ڈو وَہاٹ آئی ٹولڈ یُوْ 3۔تم کو وہ کرنا چاہئے۔ جو میں نے فرمایا ہے۔
1 خاکسار مرتب کے عرض کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اُمّ المؤمنین سے دریافت کیا۔ کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات کس سنہ میں ہوئی تھی۔ تو آپ نے فرمایا کہ میری شادی سے (جو1884ء میں ہوئی تھی) ایک سال قبل اُن کی وفات ہوچکی تھی۔ نیز کتاب پنجاب چیفس میں بھی سنہ وفات1883ء ہی لکھا ہے۔
2 (الف) ’’یہ ایک عبرانی لفظ ہے جس کے معنے ہیں’نجات دے۔‘ فرمایا کہ یا مسیح الخلق عدوانا کا مضمون اس سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ (البدر جلد4نمبر16 پرچہ8مئی1903ء صفحہ 122 کالم نمبر 3)
(ب) ’’چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے۔ اور الہام الٰہی میں ایک سرعت ہوتی ہے۔ اس لئے ممکن ہے۔ کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کچھ فرق ہو۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہ اللہ تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا۔ یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف و نحو کے ماتحت نہیں چلتا۔ اس کی نظیریں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں مثلاً یہ آیت اِنَّ ھٰذَانِ لَسَا حِرَانِ انسانی نحو کی رُو سے اِنَّ ھٰذَیْنِ چاہئے۔‘‘ ( حقیقتہ الوحی صفحہ 304 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 317 حاشیہ)
3 You must do what I told you.
یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے۔ اور ترجمہ اس کا الہامی نہیں........ فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہوجاتا ہے........ اور وہ الہام یہ ہیں:۔
دَو 8آل من شُڈ بی اَنگری بٹ گاڈ اِز وِد یُوْ۔ ہِی9 شل ہلپ یُو۔ وارڈس 10آف گاڈ ناٹ *کین ایکس چینج1۔
ترجمہ:۔ اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے‘ لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا۔ وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے۔
پھر بعد اس کے ایک دو اَور الہام انگریزی ہیں۔ جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہے۔
آئی شل ہلپ یُو2
مگربعد اس کے یہ ہے:۔
یُوہَیو ٹو گو امرت سر3
پھرایک فقرہ ہے جس کے معنے معلوم نہیں اور وہ یہ ہے:۔
ہِی ہل ٹس ان دی ضلع پشاور4
(مکتوب12 ؍دسمبر1883ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ68،69)
جنوری 1884ء
’’ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی۔ اس وقت اس کی کوئی اَور صورت تھی۔ پھر بعد اس کے قدرتِ الٰہیہ کی ناگہانی تجلّی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی۔ یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردۂ
1 8. Though all men should be angry but God is with you.
9. He shall help you
10. Words of God not can exchange.
☆ یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ یہی الہام صفحہ 78 پر بھی درج ہے جہاں Can not کے الفاظ ہیں۔ (مرتب)
2 میں تیری مدد کروں گا۔ I shall help you
3 تمہیں امرتسر جانا ہوگا۔ You have to go Amritsar
4 وہ ضلع پشاور میں قیام کرتا ہے۔ He halts in the Zilla Peshawar
Zilla’’ضلع‘‘ کا لفظ انگریزی زبان میں استعمال ہوتا ہے دیکھو Public Servants Inquiries Act sec 8 (دی پبلک سرونٹس انکوائریز ایکٹ دفعہ 8) نیز دی پنجاب کورٹس ایکٹ شائع کردہ شمیر چند 1923ء صفحہ 83 زیر دفعہ نمبر 32، The Punjab Courts Act نیز آکسفورڈ ڈکشنری زیر لفظ’’ضلع۔‘‘ (مرتب)
غیب سے اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی۔ سو اَبْ اس کتاب کا متولّی اور مہتمم ظاہراً وباطناً حضرت ربّ العالمین ہے۔‘‘
(ہم اور ہماری کتاب۔ آخری صفحہ ٔ ٹائٹل براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 673)
فرمایا یہ میرا ایک پرانا الہام ہے۔
’’ 1 اَفَلَایَتَدَبَّرُوْنَ اَمْرَکَ۔ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِغَیْرِ اللّٰہ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔‘‘
(البدر جلد1 نمبر5 مؤرخہ 28؍نومبر1902ء صفحہ 37)
جنوری 1884ء
’’کچھ دن گذرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمعِ زاہدین اور عابدین ہے۔ اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے وقت ایک شعر موزون اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور شہود وغیرہ آتا ہے۔ جیسے یہ مصرع
تمام شب گذرا نیم در قیام و سجود
چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں۔ پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے۔ مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی۔ اور جو شعر اس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہوگیا اور وہ یہ ہے۔
طریق ِ زہد و تعبد ندا نم اے زاہد
خدائے من قدمم راندبررہ داؤد ‘‘2
(از مکتوب مؤرخہ 7جنوری 1884ء بنام میر عباس علی صاحب مکتوبات جلد اوّل صفحہ 71)
3جنوری 1884ء
(الف) ’’آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے۔ بعض آدمیوں کے بیوقوف تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی۔ دُعاء کے لئے یہ الہام ہوا۔
بحسن قبولی دعاء بنگر کہ چہ زود دُعاء قبُول میکنم
1 (ترجمہ از مرتب) کیا یہ لوگ تیرے معاملہ میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ معاملہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں وہ بہت اختلاف پاتے۔ (نوٹ) چونکہ البدر میں لکھا ہوا ہے کہ یہ پُرانا الہام براہین احمدیہ کے زمانہ کا ہے اس لئے اسے براہین کے بعد رکھا جاتا ہے۔(مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) اے زاہد ! میں تو کوئی زہد و تعبد کا طریق نہیں جانتا۔ میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستہ پر ڈال دیا ہے۔
3جنوری1884ء کو یہ الہام ہوا۔ 6 تاریخ کو آپ کا روپیہ آگیا۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ7جنوری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات جلد اوّل صفحہ72)
(ب) ’’ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ اور جیسا کہ اہل فقر اور توکل پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے۔ تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کویہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دُعا کریں۔ پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر دُعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے۔ جب ہم دُعا کرچکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں
تب ہم خوش ہوکر قادیان کی طرف واپس آئے۔ اور بازار کا رُخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ہمیں ایک خط ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں۔ اور غالباً وہ روپیہ اُسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ234۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 612)
جنوری 1884ء
’’ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا، یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن کے سابق تعارف نہیں، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ1 بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے۔ اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو ان کو ناگوار گذری ہے،سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے۔ آپ نے اُس وقت مجھ کو کہاکہ وضع بدل لو۔ میں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے۔ سو وہ لوگ بیزار ہوگئےاور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جاکر بیٹھ گئے۔ تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں، میں ان کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں۔ پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن سے علیٰحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا۔ معلوم ہوا کہ ان سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے۔ جب نظر اُٹھا کر دیکھا تو آپ ہی ہیں۔ اب اگرچہ خوابوں میں تعینات معتبر نہیں ہوتے اور اگر خدا چاہے تو تقدیرات معلّقہ کو مبدّل بھی کردیتا ہے لیکن اندیشہ گذرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شہر نہ ہو۔ لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں۔ حقیقی شوق اور ارادت کہ جولغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے۔ لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے............. بہتر ہے کہ آنمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئےزورنہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے۔ یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ ان کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے۔ بلکہ ان کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ
1 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔ (مرتّب)
اور دُور ہے۔ سیفعل اللّٰہ مایشآ ء ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 18؍جنوری1884ء بنام میر عباس علی لود ھیانوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 72،73)
تخمیناً فروری 1884ء
’’مجھ کو یاد ہے اور شاید عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند1نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے۔ اُس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہوجاؤں2۔ اور بہت کچھ انکسار اور تذلّل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں۔ مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا۔ کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کردیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں۔ اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا کہ
’’پاس ہوجاوے گا۔‘‘
اور وہ عجیب الہام بھی اکثر لوگوں کو بتلایا گیا۔ چنانچہ وہ لڑکا پاس ہوگیا۔ فالحمدللہ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ11؍مئی 1884ء بنام نواب علی محمد خانصاحب جھجر۔ الحکم جلد3نمبر34 مؤرخہ23؍ستمبر1899ء صفحہ1،2)
1884ء
’’ایک دفعہ نواب علی محمد3خاں مرحوم رئیس لودھیانہ نے میری طرف خط لکھا۔ کہ میرے بعض امور معاش بند ہوگئے ہیں۔ آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب مَیں نے دعا کی۔ تو مجھے الہام ہوا کہ
کُھل جائیں گے
میں نے بذریعہ خط ان کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کُھل گئے اور اُن کو بشدّت اعتقاد ہوگیا۔‘‘
(حقیقتہ الوحی صفحہ246۔ روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 257)
1 خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب مرحوم مراد ہیں۔ (مرتّب)
2 الحکم میں ’’پاس ہوجاوے گا‘‘ لکھا ہے جو سہوِ کاتب ہے۔ (مرتّب)
3 نواب علی محمد خانصاحب مرحوم کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ دراصل جھجر کے رئیس تھے مگر لدھیانہ میں رہائش رکھتے تھے اور آپ حضرت اقدس سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور اکثر حضور سے اپنی مشکلات کے حل کروانے کیلئے دعا کروایا کرتے تھے ان کے متعلق جن نشانات کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے ان میں نہ تو کوئی ترتیب مدنظر ہے اور نہ ہی سوائے ایک دو کے کہ جن میں تاریخ درج ہے صحیح طور پر تاریخ کا کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہاں صرف قیاس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعات1884ء کے قریب قریب کے ہیں۔ (مرتب)
1884ء
’’پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض1اپنےپوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا۔ اور جس گھڑی انہوں نے خط ڈاک میں ڈالا۔ اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے۔ تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے۔ دوسرے دن وہ خط آگیا۔ اور جب میرا خط اُن کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی۔ کیونکہ میرے اس راز کی خبر کسی کو نہ تھی۔ اور ان کا اعتقاد اس قدر بڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہوگئے۔ اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کردیئے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 246۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 257، 258)
تخمیناً 1884ء
’’ عالمِ کشف میں ان2 کا دوسرا خط مجھ کو ملا۔ جس میں بہت بیقراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے ...........اُن کے لئے دعا کی۔ اور مجھ کو الہام ہواکہ
کچھ عرصہ کے لئے یہ روک اُٹھادی جاوے گی۔ اور اُن کو اس غم سے نجات دی جائے گی۔
یہ الہام ان کو اسی خط میں لکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کا موجب ہوا۔ چنانچہ وہ الہام جلد تر پور اہوا اور تھوڑے دنوں کے بعد اُن کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہوگئی اور روک اُٹھ گئی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 219۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 597)
12 فروری1884ء
’’شایدپرسوں مکرر الہام ہوا تھا۔
یَا یَحْیٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ۔ خُذْھَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَ تَھَا الْاُوْلٰی 3
یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہوچکا ہے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 15؍فروری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ74)
1 علی محمد خاں صاحب نواب جھجر نے لدھیانہ میں ایک غلّہ منڈی بنائی تھی کسی شخص کی شرارت کے سبب اُن کی منڈی بے رونق ہوگئی اور بہت نقصان ہونے لگا۔ تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف رجوع کیا لیکن پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارہ میں آتا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی۔ کہ اس مضمون کا خط نواب صاحب کی طرف سے آرہیگا۔ (نزول المسیح صفحہ 218 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 596)
2 نواب علی محمد خاں صاحب آف جھجر۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے یحییٰ اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ اسے پکڑلے اور خوف نہ کر۔ ہم اسے اس کی پہلی حالت کی طرف لَوٹا دیں گے۔
15فروری 1884ء
آج حضرت خداوند کریم کی طرف سے یہ الہام ہوا۔
یَا عَبْدَ الرَّافِعِ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اِنِّیْ مُعِزُّکَ لَا مَانِعَ لِمَا اُعْطِیْ۔1
(از مکتوب مؤرخہ15؍فروری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 74)
28 مارچ 1884ء
اس خط کی تحریر کے بعد یہ شعر کسی بزرگ کا الہام ہوا:۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما 2
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام منشی احمد جان ؒ۔ مؤرخہ 28 مارچ1884ء مطابق 29 جمادی الاوّل
1301ھ مندرجہ الحکم جلد37 نمبر7 مؤرخہ28 فروری1934ء صفحہ10)
9 مئی 1884ء
’’ حضرت خداوندکریم کی قبولیت کی ایک یہ نشانی ہے کہ بعض اوقات آپ1 کی توجہات کی مجھ کو وہ خبر دیتا رہا ہے اور پرسوں کے دن بھی ایک عجیب بات ہوئی۔ کہ ابھی آں مخدوم کا منی آرڈر نہیں پہنچا تھا۔ اور نہ خط پہنچا تھا۔ کہ ایک منی آرڈر آپ کی طرف سے برنگ زرد مجھکو حالت کشفی میں دکھلایا گیا۔ اور پھر آں مخدوم کے خط سے اس عاجز کو بذریعہ الہام اطلاع دی گئی۔ اور آپ کے مافی الضمیر سےاورخط کے مضمون سے مطلع کیا گیا۔ اس میں بہ پیرایہ الہامی عبارت بطور حکایت آں مخدوم کی طرف سے یہ بھی فقرہ تھا۔ میرے خیال میں یہ آپ کی توجہ کا اثر ہے۔چنانچہ یہ خط کا مضمون اور مافی الضمیر کا منشاء تین ہندوؤں اور بہت سے مسلمانوں کو بھی بتلایا گیا۔ ازاں بعد آں مخدوم کا منی آرڈر اور خط بھی آگیا۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 11مئی1884ء بنام نواب علی محمد خانصاحب آف جھجر ۔
مندرجہ الحکم جلد3 نمبر34 مؤرخہ23؍ستمبر1899ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) اے رفعت بخشنے والے خدا کے بندے۔ میں تجھے اپنی جناب میں رفعت بخشوں گا۔ میں تجھے عزت اور غلبہ دُوں گا۔ جو کچھ میں دُوں اُسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ شخص ہرگز نہیں مرتا۔ جس کا دل عشق سے زندہ ہوگیا۔ صفحہ ٔ عالم پر ہمارا دوام ثابت ہے۔
3 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب)
مئی 1884ء
’’ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب1صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدّل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گذار ہیں اور نہایت عمدگی اور صفائی سے یہ خواب آئی اور یہ خواب بہ طور کشف تھی۔ چنانچہ اسی صبح کو نواب صاحب کو اس خواب سے اطلاع دی گئی۔‘‘
(مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب مؤرخہ 26مئی 1884ء ۔ مندرجہ الحکم جلد 3نمبر13 مؤرخہ 12 اپریل1899ء صفحہ8)
مئی 1884ء
’’پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک صاحب الٰہی بخش نام اکؤنٹنٹ نے کہ جو اس کتاب2کے معاون ہیں۔ کسی اپنی مشکل میں دعا کے لئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپیہ بھیجے اور جس روز یہ خواب آئی اس روز سے دو چار دن پہلے ان کی طرف سے دعا کے لئے الحا ح ہوچکا تھا۔ مگر یہ عاجز نواب3صاحب کے لئے مشغول تھا۔ اس لئے ان کے لئے دُعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا اور جس روز نواب صاحب کے لئے بشارت دی گئی تھی تو اس دن خیال کیا کہ آج منشی الٰہی بخش کے لئے توجہ سے دعا کریں سو بعد نماز عصر جب وقت ِ صفا پایا اور دعا کا ارادہ کیا گیا تو پھر بھی دل نے یہی چاہا کہ اس دعا میں بھی نواب صاحب کو شامل کرلیا جائے سو اس وقت نواب صاحب اور منشی الٰہی بخش دونوں کے لئے دعا کی گئی۔ بعد دُعا اسی جگہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْھِمَا مِنَ الْغَمِّ
یعنی ہم دونوں کو غم سے نجات دیں گے..............پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کا خط آگیا کہ سرائے کاکام جاری ہوگیا ہے۔‘‘
(مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب مؤرخہ 26مئی1884ء
مندرجہ الحکم جلد3 نمبر13 مؤرخہ 12 اپریل 1899ء صفحہ8 و نمبر41 مؤرخہ 19؍ اپریل 1899ء صفحہ 6)
نومبر1884ء
’’ایک ابتلاء مجھ کو اس شادی4کے وقت یہ پیش آیا کہ بباعث اس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا............میری حالت ِ مردمی کالعدم تھی۔ اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی اس لئے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا..........کہ آپ بباعث سخت کمزوری اس لائق نہ تھے.........غرض اس ابتلاء کے وقت میں نے جنابِ الٰہی میں دُعا کی۔ اور مجھے اس نے دفع مرض کے لئے اپنے الہام کے ذریعے سے دوائیں بتلائیں۔ اور میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوائیں میرے
1 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب) 2 براہین احمدیہ (مرتّب)
3 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب) 4 جو17؍ نومبر1884ء کو دہلی میں ہوئی۔ (مرتب)
منہ میں ڈال رہا ہے۔ چنانچہ وہ دوا میں نے طیّار کی۔ اور اس میں خدا نے اس قدرت برکت ڈال دی کہ میں نے دلی یقین سے معلوم کیا کہ وہ پُر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دُنیا میں مل سکتی ہے وہ مجھے دی گئی۔ اور چار لڑکے مجھے عطا کئے گئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ35، 36 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 203، 204)
اِنَّ اللّٰہَ بَشَّرَنِیْ فِیْٓ اَبْنَا ئِیْ بَشَارَۃً بَعْدَ بَشَارَۃٍ حَتّٰی بَلَّغَ عَدَدَھُمْ اِلٰی ثَلٰثَۃٍ وَّ اَنْبَاَنِیْ بِھِمْ قَبْلَ وُجُوْ دِھِمْ بِالْاِلْھَامِ۔1
(انجام آتھم صفحہ 182روحانی خزائن جلد نمبر11 صفحہ 182)
اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ قُلْ اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔2
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 30دسمبر1884ء۔ مندرجہ الحکم جلد19 نمبر 3مؤرخہ 21؍جنوری 1915ء صفحہ3)
اوائل مارچ 1885ء
’’مصنّف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّدِ وقت ہے۔ اور روحانی طور پر اُس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت ِ متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اُن بہتوں پر اکابر اولیا سے فضلیت دی گئی ہے۔ کہ جو اس سے پہلے گذرچکے ہیں۔ اور اُس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد وحرمان ہے۔‘‘
(اشتہار ضمیمہ سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 319)
8 مارچ 1885ء
’’عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جلّ شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلّل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے بیٹوں کے بارہ میں بشارت کے بعد بشارت دی یہاں تک کہ انکی تعداد تین تک پہنچائی۔ اور مجھے ان کی پیدائش سے پہلے الہام کے ذریعہ ان کی خبر دی۔ (نوٹ از مرتب) اس کے متعلق حضرت امّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے۔ فرمایا:۔’’ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھیر کر واپس دہلی گئی۔ تو ان ایام میں حضرت مسیح موعود نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ 73)
2 (ترجمہ از مرتب) میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ کہہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
............ اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرضِ اتمام حجت یہ خط............ مع اشتہار انگریزی1.....شائع کیا جائے۔ اور اُس کی ایک کاپی بخدمت معز ز پادری صاحبان ..............اور بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان.............ارسال کی جاوے۔
یہ تجویز نہ اپنے فکر و اجتہا دسے قرار پائی ہے۔ بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچتے پر رجوع نہ کرینگے) ملزم و لاجواب و مغلوب ہوجائیں گے۔‘‘
(از چھٹی مطبوعہ مؤرخہ8مارچ1885ء ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ11مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 20)
6اپریل 1885ء
’’ آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں۔ اور میں نے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا۔اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے۔ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہےکہ گرایا جائے گا۔ مَیں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلّ شانہ‘ کے تصرّف میں ہوں جہاں مجھ کو بٹھائے گا بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا، کھڑا ہوجاؤں گا۔ اور یہ الہام ہوا۔
یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ
یعنی تیرے لئے ابدالِ شام کے دُعا کرتے ہیں۔ اور بندے خدا کے عرب میں سے دُعا کرتے ہیں۔
خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس 2کا ظہور ہو۔ وَاللّٰہ اَعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ6؍ اپریل1885ء ۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ86)
10 جولائی 1885ء
’’ایک مرتبہ مجھے یا دہے کہ میں نے عالمِ کشف میں دیکھا1کہ بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا۔ اور پھر اُس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند ِ قادرِ مطلق جلّ شانہ‘ کے
1 یعنی اشتہار ضمیمہ سُرمہ چشم ِ آریہ جو اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہو۔ (مرتب)
2 آج چالیس سال کے بعد خطہ ٔ شام اور ملک عرب اس الہام کی تصدیقی شہادت بصدائے عام کررہا ہے۔ اور آج وہاں سلسلہ کی کئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں۔ جو حضور اقدس کے کام میں ہاتھ بٹاتیں اور حضور پر درود اور سلام بھیجتی ہیں۔ (مرتب)
3 اس واقعہ کے متعلق حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو انہوں نے شہادت کے طور پر اخبار الفضل جلد 4 نمبر24مؤرخہ26؍ ستمبر1916ء میں شائع کرائی تھی درج ذیل ہے:۔
’’رمضان شریف میں یہ عاجز حاضر خدمت سراپا برکت تھا کہ آخری عشرہ میں 27؍تاریخ کو جمعہ تھا۔ اس جمعہ کی صبح نماز پڑھ کر
سامنے پیش کیا ہے (اور یاد رکھنا چاہئے کہ مکاشفات اوررؤیاصالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفاتِ جمالیہ یا جلالیہ الٰہیہ انسان کی شکل پر متمثل ہوکر صاحب کشف کو نظر آجاتے ہیں۔ اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادرِ مطلق ہے۔ اور یہ امر ارباب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے۔ جس سے کوئی صاحب ِ کشف انکار نہیں کرسکتا) غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت ِ متخیّلہ کے آگے ایسی دکھلائی دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے، اُس ذاتِ بیچون و بیچگون کے آگے وہ کتاب قضاء قدر پیش کی گئی اور اُس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثّل تھا، اپنے قلم کو سُرخی کی دوات میں ڈبو کر اوّل اُس سُرخی کو اِس عاجز کی طرف چھڑکا اور بقیہ سُرخی کا قلم کے
بقیہ حاشیہ:
حضرت اقدس حسب معمول حجرہ مذکور (یعنی مسجد مبارک کے ساتھ مشرق والا چھوٹا حجرہ) میں جاکر چارپائی پر لیٹ گئے۔ اور یہ عاجز پاس بیٹھ کر حسب معمول پاؤں مبارک دبانے لگ گیا۔ حتیٰ کہ آفتاب نکل آیا اور حجرہ میں بھی روشنی ہوگئی۔
حضرت اقدس اس وقت کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ اور منہ مبارک پر اپنا ہاتھ کہنی کی جگہ سے رکھا ہوا تھا۔ میرے دل میں اس وقت بڑے سرور اور ذوق سے یہ خیالات موجزن تھے کہ میں کیا خوش نصیب ہوں کیا ہی عمدہ موقعہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے مجھے دیا ہے کہ مہینوں میں مہینہ مبارک رمضان شریف کا ہے اور تاریخ بھی جو 27 ہے مبارک ہے اور عشرہ بھی مبارک ہے اور دن بھی جمعہ ہے جو نہایت مبارک ہے اور جس شخص کے پاس بیٹھا ہوں وہ بھی نہایت مبارک ہے اللہ اکبر کس قدر برکتیں آج میرے لئے جمع ہیں۔ اگر خدا وند کریم اس وقت کوئی نشان حضرت اقدس کا مجھے دکھا دے تو کیا بعید ہے۔ میں اسی سرور میں تھا۔ اور پاؤں ٹخنہ کے قریب سے دبا رہا تھا کہ یکایک حضرت اقدس کے بدنِ مبارک پر لرزہ سا محسوس ہوا۔ اور اس لرزہ کے ساتھ ہی حضور نے اپنا ہاتھ مبارک منہ پر سے اُٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اُس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ شاید جاری بھی تھے۔ اور پھر اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر لیٹے رہے جب میری نظر ٹخنہ پر پڑی تو اُس پر ایک قطرہ سُرخی کا جو پھیلا ہوا نہیں بلکہ بستہ تھا۔ مجھے دکھلائی دیامَیں نے اپنی شہادت کی انگلی کا پھول اُس قطرہ پر رکھا تو وہ پھیل گیا اور سُرخی میری اُنگلی کو بھی لگ گئی۔ اس وقت میں حیران ہوا۔ اور میرے دل میں یہ آیت گذری۔صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً۔نیز یہ بھی دل میں گذرا کہ اگر یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں شاید خوشبو بھی ہو۔ چنانچہ میں نے اپنی انگلی سونگھی مگر خوشبو وغیرہ کچھ نہ تھی۔ پھر میں ٹخنہ کی طرف سے کمر کی طرف دبانے لگا۔ تو حضرت اقدس کے کُرتہ پر بھی چند داغ سُرخی کے گیلے گیلے دیکھے۔ مجھ کو نہایت تعجب ہوا۔ اور میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور حجرہ کی ہر جگہ کو خوب اچھی طرح دیکھا۔ مگر مجھے سُرخی کا کوئی نشان حجرہ کے اندر نہ ملا۔ آخر حیران سا ہوکر بیٹھ گیا۔ اور بدستور پاؤں دبانے لگ گیا۔ حضرت صاحب منہ پر ہاتھ رکھے لیٹے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر مسجد مبارک میں آکر بیٹھ گئے یہ عاجز بدستور پھر کمر وغیرہ دبانے لگ گیا۔
اس وقت میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور یہ سرخی کہاں سے گری۔ پہلے تو ٹال دیا پھر اس عاجز کے اصرار پر وہ سارا واقعہ بیان فرمایا۔ جس کو حضرت اقدس تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج فرماچکے ہیں مگر بیان کرنے سے پہلے اس عاجز کو رویت باری تعالیٰ کا مسئلہ اور کشفی امور کا خارج میں وجود پکڑنا حضرت محی الدین عربی کے واقعات سنا کر خوب اچھی طرح سے
مونہہ میں رہ گیا۔ اُ س سے اُس کتاب پر دستخط1 کردیئے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دُور ہوگئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا‘ تو کئی قطرات سُرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے۔ چنانچہ ایک صاحب عبداللہ نام جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اُس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہوکر بیٹھے ہوئے تھے، دو یا تین قطرہ سُرخی کے اُن کی ٹوپی پر پڑے۔ پس وہ سُرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آگئی۔ اسی طرح اور کئی مکاشفات میں ‘ جن کا لکھنا موجب تطویل ہےمشاہدہ کیا گیا ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ صفحہ 131، 132حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 179، 180(
1885ء
’’میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں اور منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہو اتنے میں جواب ملا۔
اِصْبِرْ سَنَفْرُ غُ یَا مِرْزَا 1 !
پھر ایک بار دیکھا کہ کچہری میں گیا ہوں تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر عدالت کی کُرسی پر بیٹھا ہے اور ایک
بقیہ حاشیہ:۔
ذہن نشین کرادیا تھا کہ اس جہان میں کاملین کو بعض صفاتِ الٰہیہ جمالی یا جلالی متمثل ہوکر دکھلائی دے جاتی ہیں۔ پھر حضرت نے مجھے فرمایا کہ آپ کے کپڑوں پر بھی کوئی قطرہ گرا۔ میں نے اپنے کپڑے اِدھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیاکہ حضرت میرے پر تو کوئی قطرہ نہیں ہے فرمایا اپنی ٹوپی پر (جو سفید ململ کی تھی) دیکھو۔ میں نے ٹوپی اُتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا۔ مجھے اس وقت بہت ہی خوشی ہوئی کہ میرے پر بھی ایک قطرہ خدا کی روشنائی کا گرا۔ اس عاجز نے وہ کُرتہ جس پر سُرخی گری تھی تبرکاًحضرت اقدس سے باصرار تمام لے لیا۔ اس عہد پر کہ میں وصیت کر جاؤنگا کہ میرے کفن کے ساتھ دفن کردیا جاوے۔ کیونکہ حضرت اقدس اس و جہ سے اُسے دینے سے انکار کرتے تھے کہ میرے اور آپ کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنا لیں گے اور اس کی پُوجا شروع ہوجائیگی۔ غرض کہ بہت ردّ و قدح کے بعد دیا جو میرے پاس اس وقت تک موجود ہے اور سُرخی کے نشان اس وقت تک بلا کم و کاست بعینہٖ موجود ہیں۔
یہ ہے سچی عینی شہادت! اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو لعنتہ اللہ علی الکاذبین کی وعید کافی ہے میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سراسر سچ ہے۔ اگر جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی ***! ***!! ***!!! مجھ پر خد اکا غضب! غضب!!غضب!!!
عاجز عبداللہ سنوری‘‘
1 چونکہ عین آریہ صاحبوں کے مقابل پر یہ نشان تھا اس لئے میرے خیال میں یہ پنڈت لیکھرام کے مارے جانے کی طرف اشارہ تھا۔ اور طاعون کے وقوع کی طرف بھی اشارہ تھا۔‘‘ (نسیم دعوت صفحہ 62حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 427)
2 (ترجمہ از مرتب) مرزا! ٹھہرو ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں۔
سر رشتہ دار کے ہاتھ میں ایک مثل ہے جو وہ پیش کررہا ہے۔ حاکم نے مثل دیکھ کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے غور سے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک خالی کرسی پڑی ہے، مجھے اُس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر میں بیدار ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر5 مؤرخہ7 فروری1903ء صفحہ14 و البدر جلد2 نمبر6 مؤرخہ27 فروری 1903ء صفحہ 42 کالم نمبر1)
5 اگست 1885ء
’’مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک اُن پر ایک سخت مصیبت پڑے گی۔ یعنی ان کے اہل و عیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہوجائے گا۔ جس سے اُن کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا۔ آج ہی کی تاریخ کے حساب جو تئیس ساون سم 1942 مطابق5اگست 1885ء ہے، یہ واقعہ ظہور میں آئے گا۔1 مرقوم5اگست1885ء ۔‘‘
(اعلان 20مارچ1888ء تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 102)
1885ء
(الف) ’’ قریباً چودہ برس کا عرصہ گذرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میری اس بیوی1کو چوتھا لڑکا پیدا ہوا ہےاور تین پہلے موجود ہیں۔ اور یہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز دو شنبہ یعنی پیر ہوا ہے اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا۔ اور خواب میں دیکھا تھا اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے۔
اب جبکہ یہ لڑکا مبارک احمد پیدا ہوا تو وہ خواب بھول گئے اور عقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کا سامان نہ ہوسکا اور ہر طرف حارج پیش آئے۔ ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گذر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پیدا ہوگا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔ تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدّل ہوگیا کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیااور ہم سب زور لگار ہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور عقیقہ پیر کو ہوا۔ یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔ انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چار لڑکے پیدا ہوسکیں ‘ زندہ بھی رہیں یہ خدا
1 چنانچہ عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی۔‘‘
(اعلان مؤرخہ20 مارچ1888ء مندرجہ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 103۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 144)
2 حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ (مرتب)
کے کام ہیں مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے پھر آنکھ بند کرلیتی ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ27جون1899ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 26،27)
(ب)’’عرصہ چوداں برس کا ہوا ہے کہ ایک خواب آئی تھی۔ کہ چار لڑکے ہوں گے۔ اور چوتھے لڑکے کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔‘‘ (از مکتوب بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مؤرخہ26جون1899ء)
1885ء
’’میاں عبداللہ سنوری جو علاقہ پٹیالہ میں پٹواری ہیں، ایک مرتبہ ان کو ایک کام پیش آیا جس کے ہونے کے لئے انہوں نے ہر طرح سے کوشش کی اور بعض وجوہ سے ان کو اس کام کے ہوجانے کی امید بھی ہوگئی تھی۔ پھر انہوں نے دعا کے لئے ہماری طرف التجا کی۔ ہم نے جب دعا کی تو بلاتوقف الہام ہوا۔
’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘
تب میں نے ان کو کہدیا کہ یہ کام ہرگز نہیں ہوگا اور وہ الہام سنا دیا اور آخرکار ایسا ظہور میں آیا اور کچھ ایسے موانع پیش آئے کہ وہ کام ہوتا ہوتا رہ گیا۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 234روحانی خزائن جلد 18صفحہ 612)
28نومبر1885ء
’’28 نومبر1885ء کی رات کو یعنی اُس رات کو جو 28نومبر1885ء کے دن سے پہلے آئی تھی۔ اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی۔ اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اُس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اُس کو بیان کرسکوں۔ مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ
مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی 1
سو اُس رمی کو رمیِ شہب سے بہت مناسبت تھی۔
یہ شہبِ ثاقبہ کا تماشا جو28نومبر1885ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کی عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا۔ لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذّت اُٹھانے والا میں ہی تھا۔ میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں۔ اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہوگیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی و جہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میری دل میں الہاماً ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے۔
اور پھر اُس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہو رکے وقت میں نکلا تھا۔
1 ’’جو کچھ تونے چلایا وہ تونے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 70۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 73)
میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے دوسر انشان ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 110 ، 111 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ110 ، 111)
نومبر1885ء
(الف)’’ہم پر خود اپنی نسبت‘ اپنے بعض جدّی اقارب کی نسبت‘ اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گو یا نجم الہند1ہیں اور ایک دیسی امیر نووارد2پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت و فوت اعِزّہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں۔ جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی۔ منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں۔‘‘
(اشتہار 20فروری1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 99،100)
(ب) ’’ دلیپ سنگھ کی نسبت پیش از وقوع اُس3 کو بتلایا گیا۔ کہ مجھے کشفی4طور پر معلوم ہؤاہوا ہےکہ پنجاب کا آنا اُس
1 (الف)’’وہ پیشگوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی اور ایک دفعہ ناگہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا......آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی.......ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی۔‘‘ (اشتہار12؍مارچ1897ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 341، 342) اس اشتہار میں سر سید احمد خانصاحب مخاطب ہیں۔ (مرتب)
(ب) ’’اخیر عمر میں سید صاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا۔‘‘
( نزول المسیح صفحہ 191۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 569)
2 (الف) ’’ ہم نے صد ہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلادیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے۔ جس کے پنجاب میں آنے کی خبر مشہورہورہی ہے لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا۔ بلکہ اس سفر میں اُس کی عزت و آسائش یا جان کا خطرہ ہے..........بالآخر اُس کو مطابق اِسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سُبکی اور خجالت اُٹھانی پڑی۔ اور اپنے مدعا سے محروم رہا۔‘‘
(اشتہار محکّ اخیار و اشرار ضمیمہ سرمہ چشم آریہ صفحہ 1تا4۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 318 ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 90۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 131)
(ب) ’’دلیپ سنگھ عدن سےواپس 1ہوا۔ اور اس کی عزت و آسائش میں بہت خطرہ پڑا۔ جیسا کہ میں نے صدہا آدمیوں کو خبر دی تھی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 226۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 604)
(ج) ’’وہ فقرہ اشتہار20فروری1886ء جس میں لکھا ہے کہ امیر نووارد پنجابی الاصل کی نسبت متوحش خبریں‘ اس سے مراد دلیپ سنگھ ہے۔ ایسا ہی یہ خبر جابجا صدہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو جو پانچ سو سے کسی قدر زیادہ ہی ہوں گے۔ کئی شہروں میں پیش از وقوع بتلائی گئی تھی۔ اور اشتہارات 20فروری1886ء بھی دُور دُور ملکوں تک تقسیم کئے گئے تھے۔ پھر آخر کار جیسا کہ پیش از وقوع بیان کیا گیا اور لکھا گیا تھا۔ وہ سب باتیں دلیپ سنگھ کی نسبت پوری ہوگئیں۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ صفحہ 188۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 236)
3 لالہ شرمپت کو۔ (مرتّب) 4 (نوٹ از مرتب) مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور کی روایت
1 اخبار ریاضؔ ہند امرت سر مطبوعہ3؍مئی1886ء میں صفحہ 314 کالم نمبر1 پر مہارا جہ دلیپ سنگھ صاحب کے عدنؔ میں رہ جانے کی خبر شائع ہوئی۔ (مرتب)
کے لئے مقدر نہیں۔ یا تو یہ مرے گا اور یا ذلّت اور بے عزتی اُٹھائے گا اور اپنے مطلب سے ناکام رہے گا۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ 43۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 382)
1886ء
(الف)’’خداوند کریم جلّ شانہ‘ نے اُس شہر کا نام بتادیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے۔ اور وہ ہوشیارپور1ہے۔ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ10 مکتوب نمبر20بنام چودھری رستم علی صاحب ؓ)
(ب) ’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام مشہو رہوچکا ہے۔ بایں الفاظ یا بایں معنی ایک معاملہ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر 36 مؤرخہ5ستمبر1907ء صفحہ 10)
جنوری 1886ء
* اِعْلَمْ اَنَّ زَوْجَۃَ اَحْمَدَ وَاَقَارِ بَھَاکَا نُوْا مِنْ عَشِیْرَتِیْ۔ وَکَا نُوْا لَا یَتَّخِذُوْنَ فِیْ سُبُلِ الدِّیْنِ وَتِیْرَتِیْ۔ بَلْ کَانُوْا یَجْتَرِئُ وْنَ عَلَی السَّیِّئَاتِ۔ وَاَنْوَاعِ الْبِدْعَاتِ۔ وَکَانُوْا فِیْھَا مُفْرِطِیْنَ۔ فَاُلْھِمْتُ مِنَ الرَّحْمَانِ اَنَّہ‘ مُعَذِّبُھُمْ لَوْ لَمْ یَکُوْنُوْا تَائِبِیْنَ۔ وَقَالَ لِیْ رَبِّیْ اِنَّھُمْ اِنْ لَّمْ یَتُوْبُوْا وَلَمْ یَرْجِعُوْا فَنُنَزِّلُ
☆ جا ننا چاہئے کہ احمد بیگ کی بیوی اور اس کے دیگر اقارب میرے رشتہ داروں میں سے تھے اور دینی امور کی راہوں میں میرا طریقہ اختیار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ہر قسم کی بدکرداریوں اور گوناگوں بدعتوں کا بڑی دلیری سے ارتکاب کرتے تھے۔ اور اس بات میں حد سے بڑھے ہوئے تھے پس
بقیہ حاشیہ:---------------------------------------------------------------
سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضور کو ماہ نومبر1885ء میں ہو اتھا۔ لکھتے ہیں:۔
’’یہ خاکسار درماہ نومبر1885ء کہ واسطے ملاقات جناب مرزا صاحب موصوف (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے گیا۔ اور اسی روز منجانب اللہ بابت مہاراجہ دلیپ سنگھ کے منکشف ہوا تھا وہ میرے پاس اور نیز کئی آدمی جو اس وقت موجود تھے۔ ظاہر کیا۔ کہ یہ لوگ آمدن دلیپ سنگھ صاحب کے (باعث)سرور و خوشی کررہے ہیں۔ یہ ان کو سرور حاصل نہ ہوگا۔ مجھ کو آج خدا کی طرف سے ظاہر ہوا ہے کہ جو وہ آئے گا۔ بہت شدائد و مصائب اُٹھائے گا۔ بلکہ یہاں تک اس وقت مرزا صاحب نے فرمایا۔ کہ اس کی لاش ایک صندوق میں مجھ کو دکھلائی گئی ہے۔‘‘
(روایات صحابہ صفحہ ج155/4 روایت مولوی جمال الدین صاحب سیکھوانیؓ )
1 میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ کی روایت ہے کہ پہلے حضورؑ کا ارادہ چلّہ کشی کے لئے سوجان پورضلع گورداسپور میں جانے کا تھا مگر بعد میں الہام ہؤا کہ ’’تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔‘‘
دیکھئے سیرۃ المہدی حصّہ اوّل صفحہ 69 (مرتّب)

عَلَیْھِمْ رِجْسًا مِّن السَّمٰوَاتِ۔ وَنَجْعَلُ دَارَھُمْ مَمْلُوَّۃً مِّنَ الْاَرَامِلِ وَالثَّیِّبَاتِ۔ وَنَتَوَفّٰہُمْ اَبَا تِرَمَخْذُوْلِیْنَ وَاِنْ تَابُوْ وَاَصْلَحُوْا فَنَتُوْبُ عَلَیْھِمْ بِالرَّحْمَۃِ۔ وَنُغَیِّرُ مَا اَرَدْنَا مِنَ الْعُقُوْبَۃِ۔ فَیَظْفَرُوْنَ بِمَا یَبْتَغُوْنَ فَرِحِیْنَ۔ فَنَصَحْتُ لَھُمْ اِتْمَا مًا لِّلْحُجَّۃِ۔ وَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ذِی الْمَغْفِرَۃِ۔ فَمَا سَمِعُوْا کَلِمَاتِیْ۔ وَزَادُوْا فِیْ مُعَادَا تِیْ۔ فَبَدَالِیْ اَنَ اُشِیْعَ الْاِشْتِھَارَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ۔ لَعَلَّھُمْ یَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ۔
فَاَشَعْتُ الْاِ شْتِھَارَ۔ وَاَنَا فِی ھُشْیَارَ۔ فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُھُوْرِھِمْ غَیْرَ مُبَالِیْنَ۔
(انجام آتھم صفحہ 211، 213۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 211۔213)
1886ء
(الف) فَلَمَّا 1 لَمْ یَنْتَھُوْا بِھٰذَا الْاِشْتِھَارِ۔ وَلَمْ یَتْرُکُوْا طَرِیْقَ التَّبَارِ۔ فَکَشَفَ اللّٰہُ عَلَیَّ اُمُوْرًا لِتِلْکَ الْفِتْنَۃِ وَاَنَا بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ۔ وَکَانَ ھٰذَا الْکَشْفُ تَفْصِیْلَ ذَالِکَ الْاِلْھَامِ فِی الْمَرَّۃِ الثَّانِیَۃِ۔ وَ بَیَانُہ‘ اَنِّیْ کُنْتُ اُرِیْدُ اَنْ اَرْقُدَ۔ فَاِذَا تَمَثَّلَتْ لِیْ اُمُّ زَوْجَۃِ اَحْمَدَ۔ وَرَاَیْتُھَا فِیْ شَانٍ اَحْزَنَنِیْ وَاُرْجِدَ۔ وَھُوَاَنِّیْ
مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاماًبتایا گیا۔ کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی۔ تو اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب نازل کرے گا اور مجھے میرے پروردگار نے کہا۔ کہ اگر ان لوگوں نے توبہ نہ کی۔ اور اپنی بے راہیوں سے باز نہ آئے تو ہم اُن پر آسمان سے عذاب نازل کریں گے اور ان کے گھروں کو بیواؤں سے بھردیں گے اور اگر انہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کی۔ تو ہم رحمت کے ساتھ اُن کی طرف رجوع کریں گے اور سزا کے ارادہ کو تبدیل کردیں گے۔ پس جو کچھ وہ چاہتے ہیں۔ بخوشی خاطر دیکھیں گے۔ اور میں نے اُن کو اتمام حجت کے لئے نصیحت کی اور کہا کہ خداوند غفور سے مغفرت چاہو۔ مگر انہوں نے میری کوئی بات نہ سنی اور دشمنی میں اور بھی بڑھ گئے۔ پھر میرے دل میں آیا کہ اس بارہ میں اشتہار شائع کروں تا یہ لوگ ڈریں اور راہ صواب کی طرف رجوع کریں۔ اور خدائے تعالیٰ سے بخشش چاہیں۔
پس میں نے اشتہار شائع کردیا اور میں اس وقت ہوشیار پور میں تھا۔ مگر انہوں نے اس اشتہار کو بے پرواہی سے پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔
1 (ترجمہ از مرتب) پھر جب وہ اس اشتہار سے نہ رُکے اور ہلاکت کی راہ کونہ چھوڑا۔ تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس خاندان کے متعلق چند امور ظاہر فرمائے۔ جبکہ میں نیند اور بیداری کے بَین بَین تھا۔ اور یہ کشف دوبارہ اس الہام کی تفصیل تھا جس کا واقعہ یوں ہے کہ میں جب سونے لگا تو احمد بیگ کی خوشدامنہ میرے سامنے متمثّل ہوئی۔ میں نے اُسے جس حال میں دیکھا۔ دیکھتے ہی میں غمگین ہوگیا

وَجَدْ تُّھَافِیْ فَزَعٍ شَدِیْدٍ عِنْدَالتَّلَاقِیْ۔ وَعَبَرَاتُھَا یَتَحَدَّرْنَ مِنَ الْمَاٰقِیْ۔ فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ اَیْ عَلٰی بِنْتِکِ وَبِنْتِ بِنْتِکِ۔ ثُمَّ تَنَزَّلْتُ مِنْ ھٰذَا الْمَقَامِ۔ وَفُھِّمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّہٗ تَفْصِیْلُ الْاِلْھَامِ السَّابِقِ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ۔
وَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ مَعْنَی الْعَقِبِ مِنَ الدَّیَّانِ۔ آنَّ الْمُرَادَھٰھُنَابِنْتُھَا وَ بِنْتُ بِنْتِھَا لَا اَحَدٌ مِّنَ الصِّبْیَانِ۔ وَنُفِثَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْبَلَآئَ بَلَآئَ انِ۔ بَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِھَا وَبَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِ الْبِنْتِ مِنَ الرَّحْمٰنِ وَ اِنَّھُمَا مُتَشَابِھَانِ مِنَ اللّٰہِ اَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 213، 214۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 213۔214)
(ب) ’’جنوری 1886ء میں بمقام ہوشیار پور ایک اور الہام عربی مرزا احمد بیگ1کی نسبت ہوا تھا۔ جس کو ایک مجمع میں جس میں بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ و مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی موجود تھے، سُناگیا ۔ جس کی عبارت یہ ہے:۔
1 رَئَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْئَۃَ وَاَثَرُ الْبُکَآئِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقَبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ۔‘‘
(اشتہار پانز 15دہم جولائی1888ء تیتمہ اشتہار دہم جولائی1888ء۔ تبلیغِ رسالت صفحہ 120۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 162)
اور میرا بدن لرز گیا۔ بوقت ِ ملاقات میں نے اسے سخت گھبراہٹ میں پایا اور دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ تب مَیں نے اُسے کہا ۔ اے عورت! توبہ کر۔ توبہ کر۔ کیونکہ تیری نسل پر مصیبت آنے والی ہے۔ یعنی تیری بیٹی اور نواسی پر۔ پھر مجھ پر سے وہ کشفی حالت جاتی رہی۔ اور مجھے اپنے رب کی طرف سے تفہیم ہوئی۔ کہ یہ خدائے علّام کی طرف سے پہلے الہام کی تفصیل ہے۔ اور عقب کے معنی کے متعلق میرے دل میں خدائے تعالیٰ کی طر سے یہ ڈالا گیا۔ کہ یہاں مراد اس کی بیٹی اور نواسی ہے۔ نہ کوئی اور بچہ۔ اورمیرے دل میں یہ پھونکا گیا۔ کہ بَلا سے مُراد دو مصیبتیں ہیں۔ ایک وہ مصیبت جو اس کی بیٹی پر آنے والی ہے۔ اور دوسری وہ جو اُس کی نواسی پر آئے گی۔ اور یہ دونوں خدائے احکم الحاکمین کی طرف سے باہم مشابہ ہیں۔
1 یعنی مرازا احمد بیگ ہوشیار پوری جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چچازاد بہن بیاہی گئی تھیں جن کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) میں نے اس عورت (یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ساس کو جو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا امام الدین وغیرہ کی والدہ تھی)کو ایسے حال میں دیکھا کہ اس کے منہ پر گریہ و بُکا کے آثار تھے تب میں نے اُسے کہا کہ اے عورت! توبہ کر توبہ کر۔ کیونکہ بلا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے وہ شخص (یعنی مرزا احمد بیگ) مرے گا۔ اور اس کی و جہ سے کئی سگ سیرت لوگ (پیدا ہوکر) پیچھے رہ جائیں گے۔
20 فروری 1886ء
’’خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہریک چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ‘ و عزّاسمہ‘) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ
میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تونے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرّعات کو سنا۔ اور تیری دُعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لودھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا۔ تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں۔ موت کے پنجہ سے نجات پاویں۔ اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں۔ اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے۔ اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے۔ اور خدا اور خدا کے دین اور ا س کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک کھلی نشانی ملے۔ اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔
سو تجھے بشارت ہو۔ کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیّت و نسل ہوگا۔
خوبصورت پاک1 لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اُس کانام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس رُوح دی گئی ہے۔ اور وہ رِجس سے پاک ہے وہ نوراللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔
1 یہ عبارت کہ خوبصورت۔ پاک لڑکا تمہارا مہمان......جو آسمان سے آتا ہے یہ تمام عبارت .........چند روزہ زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روزہ رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجائے اور بعد کا فقرہ مصلح موعود کی طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اسی کی تعریف ہے...........بیس فروری1886ء کی پیش گوئی............دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی جو غلطی سے ایک سمجھی گئی۔ اور پھر بعد میں ..........الہام نے اس غلطی کو رفع کردیا۔‘‘
(مکتوب 4دسمبر 1888ء بنام حضرت خلیفۃ اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحہ 43,44)
اس کے ساتھ فضل1 ہے جو اُس کےآنے کے ساتھ آئے گا ۔2
وہ صاحب ِ شکوہ اور عظمت اور دَولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئیگا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمتہ اللہ ہے۔ کیونکہ خدا کی رحمت و غیّوری نے اُسے کلمہ ٔتمجید سے بھیجا ہے وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔اور دل کا حلیم ۔ اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْاَوّلِ وَالْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے
1 بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ ........مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اِس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 21 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 467، تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ141)
(نوٹ از مرتب) اس الہامی فقرہ کے مطابق مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے 7اگست1887ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ جو چند روزہ زندگی گذار کر نومبر1888ء میں اس دنیا کو چھوڑگیا۔ اور اپنے خدا سے جاملا۔ اور اس پیشگوئی کے اس فقرہ کے مطابق کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ اس کے بعد وہ لڑکا پید اہوا۔ جس کا نام اس پیشگوئی میں فضل رکھا گیا تھا۔ اور جس کا دوسرا نام الہام الٰہی نے محمود ؔ اور تیسرا نام بشیر ثانی بتایا تھا۔ اور جس کا ایک نام فضل عمر ظاہر کیا گیا تھا۔ آپ کی پیدائش12؍جنوری1889ء کو ہوئی۔ اور14؍مارچ 1914ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب ِ خلافت سے سرفراز فرمایا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
2 رسالہ التبلیغ ملحقہ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں مصلح موعود کے متعلق مزید اوصاف کا ذکر ہے۔
والفضل ینزل بنزولہ وھو نور و مبارک وطیب و من المطھرین۔ یُفشی البرکات و یغذی الخلق من الطیبات و ینصرالدین....... و انہ اٰیۃ من اٰیاتی و علم التائیداتی لیعلم الذین کذبوا انی معک بفضلی المبین......وھو فھیم و ذہین و حسین۔ قد ملئی قلبہ علمًا و باطنہ حلمًا و صدرہ سلمًا۔ واعطی لہ نفس مسیحی و بورک بالروح الامین۔ یوم الاثنین نواھًا لک یا یوم الاثنین یاتی فیک ارواح المبارکین۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام (التبلیغ) صفحہ 577، 578۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 577، 578)
(ترجمہ از مرتب) اور فضل اس کے آنے کے ساتھ آئیگا۔ اور وہ نور ہے اور مبارک اور پاک اور پاکبازوں میں سے ہے برکتیں پھیلائیگا اور مخلوق کو پاکیزہ غذائیں دیگا اور دین کا مددگار ہوگا..........اور وہ میرے نشانوں میں سے ایک نشان اور میری تائیدوں کا علم ہوگا۔ تا وہ لوگ جو جھٹلاتے ہیں جان لیں کہ میں اپنے کھلے فضل سے تیرے ساتھ ہوں........اور وہ فہیم اور ذہین اور حسین ہوگا۔ اس کا دل علم سے اور باطن حلم سے اور سینہ سلامتی سے بھرپور ہوگا۔ اور اسے مسیحی نفس عطا کیا گیا۔ اور روح امین سے برکت دیا گیا ہوگا۔ دو شنبہ! اے مبارک دوشنبہ تجھ میں مبارک روحیں آئیں گی۔
ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسُوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور اسیروں کی رُستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں 1اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔‘‘
(اشتہار 20فروری1886ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 59،60۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 100 تا 102)
1886ء
’’پھر خدائے کریم نے مجھے بشارت دے کر کہا۔ کہ
تیرا گھربرکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کرونگا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریّت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دُونگا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گےاور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہریک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہوجائے گی 2۔اگر وہ توبہ نہ
1 ’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں۔ بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہ‘ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہےاور درحقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اَتم ہے۔ کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الٰہی میں دعا کرکے ایک روح واپس منگوایا جاوے۔ .......جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے............مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسا نہٖ و بہ برکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دُعا کو قبول کرکے ایسی بابرکت رُوح بھیجنے کا وعدہ فرمایا۔ جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظا ہر یہ نشان احیاء موتٰی کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔ مُردوں کی بھی رُوح ہی دُعا سے واپس آتی ہے۔ اور اس جگہ بھی دُعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے۔ مگر ان رُوحوں اور اس رُوح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔‘‘
(اشتہار22مارچ1886ء روز دو شنبہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 114، 115)
2 ’’جس وقت حضور نے دعویٰ کیا اس وقت آپ کے خاندان میں ستّر کے قریب مرد تھے۔ لیکن اب ان کے سوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں۔ ان ستّر میں سے کسی ایک کی بھی اولاد موجود نہیں۔‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ الحکم نمبر 19 تا 22 مؤرخہ 21 تا 28 مئی و 7 تا 12جون1943ء صفحہ10)
کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا۔ یہانتک کہ وہ نابود ہوجائیں گے اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اِرد گِرد پھیلائے گا اورایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گاتیری ذریّت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف بُلا لُونگا پر تیرا نام صفحہ ٔزمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پَے اور تیرے نابُود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامردی میں مریں گے۔ لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دیگا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دُوں گا اور اُن میں کثرت بخشونگا اور وہ مسلمانوں کے اس دو سرے گروہ پر تابروز قیامت غالب رہیں گے۔ جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا اُنہیں نہیں بھُولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اَجر پائیں گے۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلّی طور پر اُن سے مشابہت رکھتا ہے) تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تُو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا، یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اُس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیاتو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو۔ اگر تم سچّے ہواور اگر تم بھی پیش نہ کرسکو اور یاد رکھوکہ ہر گز پیش نہ کرسکو گے تو اُس آگ سے ڈروکہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔ فقط۔‘‘
(از اشتہار20؍فروری1886ء۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ60،62۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 102، 103)
1886ء
’’ شایدچار ماہ کا عرصہ ہوا ۔ کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین کامل الظاہر و الباطن تم کو عطا کیا جائے گا۔ سو اُس کا نام بشیرؔہوگا۔ اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ
سے ہوگا۔ اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہورہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا۔ اور جناب الٰہی میں یہ بات قرار پاچکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمہیں عطا ہوگی وہ صاحب ِ اولاد ہوگی۔ اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا۔ تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے۔ تین ان میں سے تو آم کے تھے۔ مگر ایک پھل سبز رنگ کا بہت بڑا تھا۔ وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا۔ اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں ہے۔ مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مُراد اولاد ہے۔ اور جبکہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی۔ اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دیئے گئے۔ جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ8جون1886ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ5، 6)
1886ء
’’ان دنوں اتفاقاً نئی شادی کے لئے دو شخصوں نے تحریک کی تھی۔ مگر جب ان کی نسبت استخارہ کیا گیا۔ تو ایک عورت کی نسبت جواب ملا۔ کہ اس کی قِسمت میں ذلّت و محتاجگی و بے عزتی ہے اور اس لائق نہیں کہ تمہاری اہلیہ ہو۔ اور دُوسری کی نسبت اشارہ ہوا کہ اس کی شکل اچھی نہیں۔ گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحب ِ صورت و صاحب ِ سیرت لڑکا جس کی بشارت دی گئی ہے وہ برعایت مناسبت ظاہری اہلیہ جمیلہ و پارسا طبع سے پیدا ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ8جون1886ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ6)
مارچ1886ء
’’ اس عاجز کے اشتہار مؤرخہ20فروری1886ء...........میں ایک پیشگوئی دربارہ توَلُّد ایک فرزند صالح ہے۔ جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا............ایسا لڑکا بموجب وعدۂ الٰہی نو برس 1 کے عرصہ تک ضرور
1 (الف) ’’جن صفاتِ خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گو نو برس سے بھی دو چند ہوتی۔ اُس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آسکتا۔ بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسی عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخصّ آدمی کے تولّد پر مشتمل ہے انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے اور دعا کی قبولیت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے۔ نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے۔‘‘ (اشتہار8اپریل1886ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ75،76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 116، 117)
(ب) ’’وہ.......خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر 1888ء صفحہ 7حاشیہ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 127۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 116،117)
(ج) ’’میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کریگا۔ اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا۔ تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا۔ اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی
پیدا ہوگا۔ خواہ جلد ہو‘ خواہ دیر سے۔ بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہوجائے گا۔‘‘
(اشتہار 22؍مارچ1886؁ ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ72، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 113)
8 اپریل 1886ء
(الف) ’’ بعد اشاعت اشتہار مندرجہ1بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی گئی۔ تو آج 8اپریل 1886ء میں اللہ جلّ شانہ‘ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا۔ کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب میں ہونے والا ہے جو ایک مدّتِ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہےیا بالضرور اُس کے قریب حمل میں ہے۔ لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیاکہ جو اَبْ پیدا ہوگایہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نوبرس کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔‘‘
(اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
(ب) ’’عربی الہام کے یہ دو فقرہ ہیں:۔
نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ۔ وَنَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔
جو نزول یا قریب النزول پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘
(حاشیہ اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
(ج) پھر بعد میں اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ
’’انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔‘‘
(اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
1886ء
’’ جن 2دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ اور لوگوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کیلئے شور مچایا۔ کہ پیشگوئی غلط نکلی ان
بقیہ حاشیہ: رہ جائیگا تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کریگا۔ جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ 12جنوری1989ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 148حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191)
1 اشتہار22 مارچ 1886؁ء۔ (مرتّب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں 15؍اپریل1886ء میں لڑکی پیدا ہوئی جس کانام عصمتؔ رکھا گیا اس لڑکی کی پیدائش پر مخالفین نے یہ شور مچایا۔ کہ لڑکے کے متعلق جو پیشگوئی تھی وہ غلط نکلی۔ کیونکہ موجودہ حمل سے لڑکی پیداہوئی ہے نہ کہ لڑکا۔ مگر یہ اعتراض بالکل غلط تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ موجودہ حمل سے ہی ضرور لڑکا پیدا ہوگا۔ بلکہ الہام 8اپریل 1886ء کی ذیل میں یہ صراحت کی گئی تھی کہ عنقریب ایک لڑکا ہوگا۔ خواہ موجودہ حمل سے ہو یا اس کے قریب آئندہ حمل سے۔ چنانچہ عصمت کی پیدائش کے بعد دوسرے حمل سے بشیر اوّل پیدا ہوگیا۔ (مرتب)
دنوں میں یہ الہام ہوا تھا:۔
دشمن کا بھی خوب وار نکلا :: تِسپر بھی وہ وار پار نکلا
یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی۔ مگر جلد فہیم لوگ سمجھ 1جائیں گے اور ناواقف شرمندہ ہوں گے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر16 صفحہ7 مؤرخہ30؍اپریل1902ء)
26اپریل 1886ء
’’شیخ مہر علی کی نسبت ضرور قادیان میں 26اپریل1886ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی۔ جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی۔ چنانچہ ان ہی دنوں میں ان کو اطلاع بھی دی گئی تھی۔ خواب یہ تھی کہ اُن کی فرش نشست کو آگ لگ گئی اور ایک بڑا تہلکہ برپا ہوا اور ایک پُرہول شعلہ آگ کا اُٹھا اور کوئی نہیں تھا جو اُس کو بُجھاتا۔ آخر میں مَیں نے بار بار پانی ڈال کر اُس کو بجھادیا2۔پھر آگ نظر نہیں آئی مگر دھواں رہ گیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ کس قدر اُس آگ نے جلادیا۔ مگر ایسا ہی دل میں گذرا کہ کچھ تھوڑا نقصان ہوا۔ یہ خواب تھی۔ یہ
1 چنانچہ اس بشارت کے مطابق عصمتؔ کی پیدائش کے بعد 7اگست1887ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔ جس کی پیدائش سے 20فروری1886ء والے الہام کا یہ فقرہ پورا ہوا۔ کہ ’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔‘‘ نیز8اپریل کا یہ الہام پورا ہوا۔ کہ ’’ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے۔‘‘ (مرتب)
2 ’’اسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی۔ کہ شیخ صاحب پر اور اُن کی عزت پر سخت مصیبت آئے گی۔ اور میرا پانی ڈالنا یہ ہوگا کہ آخر میری ہی دُعا سے نہ کسی اور و جہ سے وہ بلا دُور ہوجائے گی..........آخر قریباً چھ ماہ گذرنے پر ایسا ہی ہوا۔ اور میں انبالہ چھاؤنی میں تھا کہ ایک شخص محمد بخش نام شیخ صاحب کے فرزند جان محمد کی طرف سے میرے پاس پہنچا اور بیان کیا کہ فلاں مقدمہ میں شیخ صاحب حوالات میں ہوگئے میں نے اُس شخص سے اپنے خط کا حال دریافت کیا جس میں چھ ماہ پہلے اس بلا کی اطلاع دی گئی تھی۔ تو اُس وقت محمد بخش نے اِس خط کے پہنچنے سے لاعلمی ظاہر کی۔ لیکن آخر خود شیخ صاحب نے رہائی کے بعد کئی دفعہ اقرار کیا کہ وہ خط ایک صندوق میں سے مل گیا۔ پھر شیخ صاحب تو حوالات میں ہوچکے تھے لیکن اُن کے بیٹے جان محمد کی طرف سے شاید محمد بخش کے دستخط سے جو ایک شخص ان کے تعلق داروں میں سے ہے کئی خط اِس عاجز کے نام دُعا کے لئے آئے اور اللہ جلّ شانہ‘ جانتا ہے کہ کئی راتیں نہایت مجاہدہ سے دُعائیں گی گئیں۔ اور اوائل میں صورت قضاء قدر کی نہایت پیچیدہ اور مبرم معلوم ہوتی تھی۔ لیکن آخر کار خدا تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اُن کے بارے میں رہا ہونے کی بشارت دے دی اور اُس بشارت سے اُن کے بیٹے کو مختصر لفظوں میں اطلاع دی گئی .........
دعا بہت کی گئی اور آخر فقرہ میں بریّت اور فضل الٰہی کی بشارت دی گئی تھی وہ الفاظ اگرچہ بہت کم تھے مگرقَلَّ وَدَلَّ تھی۔‘‘
(ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام صفحہ 6از اشتہار 25فروری1893ء مع حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 653،654)
خط1شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد اُن کے گھر سے اُن کے بیٹے کو ملا۔ پھر بعد اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشتناک اور کسی قدر اچھا تھا۔ میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی۔ جس کی نسبت دعوے سے بیان کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 22)
1886ء
نواب صدیق حسن خاں2.....نے غیر قوموں کو صرف مہدی کی تلوار سے ڈرایااور آخر پکڑے گئے۔ اور نواب ہونے سے معطّل کئے گئے اور بڑے انکسار سے میری طرف خط لکھا کہ میں اُن کے لئے دُعا کروں تب میں نے اُس کو قابل رحم سمجھ کر اُس کے لئے دُعا کی تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا:۔
سرکوبی سے اُس کی عزت بچائی گئی
..........آخر کچھ مدّت کے بعد اُن کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ37۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 470)
1 یعنی جو خط اس خواب کی اطلاع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کو لکھا تھا۔ (مرتب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کے بعض شروع کے حصے نواب صدیق حسن خان کو بھیج کر انہیں تحریک کی تھی کہ وہ اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لیں جس کے جواب میں نواب صاحب نے لکھا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا اُن میں کچھ مدد دینا خلافِ منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اِس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ اُمید نہ رکھیں۔ نواب صاحب کے اس جواب کا ذکر کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کے ضمیمہ اشتہار ’’مسلمانوں کی نازک حالت اور انگریزی گورنمنٹ‘‘ میں تحریر فرمایا:۔’’ ہم بھی نواب صاحب کو اُمید گاہ نہیں بناتے بلکہ اُمید گاہ خداوند ِ کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے۔‘‘)
جس کے بعد نواب صاحب پر گورنمنٹ انگریزی کسی معاملہ میں ناراض ہوئی اور ان سے نوابی کا خطاب واپس لے لیا۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔’’نواب صاحب صدیق حسن خان پر جو ابتلاء پیش آیا۔ وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا میں نے دعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 37 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 470)
نواب صاحب کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا تو حضرت اقدس کی خدمت میں خط کے ذریعہ دُعا کی درخواست کی۔ (مرتب)
1886ء
’’مرزا امام الدین و نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم نے اسی1کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے2والا ہے۔‘‘ (اشتہار 10جولائی1888ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159،160)
3اگست1886ء
’’ہم پر آج جو تیسری اگست 86 ء ہے منجانب اللہ اُس3 کی نسبت معلوم ہوا ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرےتو اُس کی بے راہیوں کا وبال جلد تر اُسے درپیش ہے اور اگر یہ معمولی رنجوں میں سے کوئی رنج ہو تو اُس کو پیشگوئی کا مصداق مت سمجھو لیکن اگر ایسا رنج پیش آیا جو کسی کے خیال و گمان میں نہیں تھا تو پھر سمجھنا چاہئے کہ یہ مصداق پیشگوئی ہے لیکن اگر وہ باز آنے والا ہے تو پھر بھی انجام بخیر ہوگا یا تنبیہہ کے بعد راحت پیدا ہوجائے گی۔‘‘(سرمہ چشم آریہ صفحہ190،191۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 238، 239)
13 فروری 1887ء
’’آج مجھے فجر کے وقت یُوں القا ہوا۔ یعنی بطور الہام
عبدالباسط
معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا۔ شاید آپ کی طرف اشارہ ہو4۔ واللہ اعلم ۔‘‘
(از مکتوب13فروری1887ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر 2 صفحہ 20)
اپریل 1887ء
’’ چند روز ہوئے میں نے اس قرضہ کے تردُّد میں خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اُوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا۔ اتنے میں ایک بندۂ خدا آیا، اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اُوپر چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے۔
آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوام آپ ہی ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کے لئے دُعا کی ایسا ہی برقّتِ قلب خط کے پڑھنے سے آپ کے لئے مُنہ سے دلی دُعا نکل گئی۔ مُسْتَجَابٌ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔‘‘
(مکتوب 2مئی 1887ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 27)
1 یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری۔ (مرتب) 2 اس پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ 30ستمبر1892ء کو بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا۔ (مرتب) 3 یعنی مرزا امام الدین ۔ (مرتب)
4 (نوٹ از عرفانی صاحبؓ) حضرت حکیم الامت نے بارہا فرمایا کہ میرا الہامی نام عبدالباسط ہے۔ (مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 20)
1887ء
’’ ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک دوست انگریزی خواں نجف علی نام (جو کہ کابل میں بھی گیا تھا اور شاید اب بھی وہاں ہے) میرے پاس آیا اور اُس کے ہمراہ محبی مرزا خدا بخش1صاحب بھی تھے۔ ہم تینوں سیر کے لئے باہر گئے تو راستہ میں کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ نجف علی نے میری مخالفت اور نفاق میں کچھ باتیں کی ہیں۔ چنانچہ یہ کشف اُس کو سنایا گیاتو اُس نے اقرار کیا کہ یہ بات صحیح ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 206۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 584)
1887ء
’’ ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے۔ اور لدھیانہ کی طرف جارہے تھے۔ کہ الہام ہوا:۔
’’نصف ترا نصف عمالیق را‘‘
اور اس کے ساتھ یہ تفہیم ہوئی کہ امام بی بی2جو ہمارے جدی شرکاء میں سے ایک عورت تھی مرجائے گی اور اس کی زمین نصف ہمیں اور نصف دیگر شرکاء کو مل جائے گی۔
یہ الہام ان دوستوں کو جو اُس وقت ہمارے ساتھ تھے سنادیا گیا تھا۔ چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ عورت مذکور مر گئی اور اس کی نصف زمین ہمیں ملی اور نصف بعض دیگر شرکاء کو ملی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 213،214۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 591، 592)
1887ء (قریباً)
’’ایک دفعہ ہمیں موضع کُنجراں ضلع گورداسپور کو جانے کا اتفاق ہوا اور شیخ حامد علی ساکن تھِہ ؔغلام نبی ہمارے ساتھ تھا۔ جب صبح کو ہم نے جانے کا قصد کیا تو الہام ہوا کہ
اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہوگا
1 پیغام صلح جلد 23نمبر77 صفحہ4 سے مرزا خدابخش صاحب کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اور مولوی نجف علی قادیان آئے۔ تو اُن دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی امریکہ کے ایک باشندہ الیگزنڈر رسل وِب کے ساتھ خط و کتابت ہورہی تھی حضور نے سیر میں یہ خواب سنائی۔ اور مولوی نجف علی نے اقرار کیا کہ واقعی مولوی محمد حسین بٹالوی سے اُن کی باتیں سن کر آپ کا سخت مخالف ہوگیا تھا اور میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ آپ کی کوئی بات قبول نہ کرونگا۔ اور شحنہ حق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ 1887ء کا ہے۔ کیونکہ اس میں الیگزنڈ رسل وِب کی خط و کتاب در ج ہے۔ (مرتب)
2 امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ہمشیرہ تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چچا زاد بھائی کی، جو مفقود الخبرہوچکا تھا، بیوہ تھی۔ (مرتب)
چنانچہ راستہ میں شیخ حامد علی کی ایک چادر اور ہمارا ایک رُومال گُم ہوگیا۔ اس وقت حامد علی کے پاس وہی چادر تھی۔ ‘‘
(نزول المسیح صفحہ 229،230۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 607،608)
1887ء
’’بیجناتھ برہمن ولد بھگت رام کو کشفی طور پر اطلاع دی گئی تھی کہ ایک برس کے عرصہ تک تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے اور کوئی خوشی کی تقریب بھی ہوگی۔ چنانچہ اس پیشگوئی پر اس کے دستخط کرائے گئے جو اَب تک موجود ہیں۔ پھر بعد ازاں ایک برس کے عرصہ میں اس کا باپ جوانی کی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔ اور اسی دن انکی شادی کی تقریب بھی پیش تھی یعنی کسی کا بیاہ تھا۔‘‘ (شحنہ حق صفحہ44،45۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ 384)
11جولائی 1887ء
’’ میں نے آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان کو کیا کھلائیں، آم تو خراب ہوگئے ہیں۔ تب اور آم غیب سے موجود ہوگئے۔ واللہ اعلم اس کی کیا تعبیر ہے۔‘‘
(مکتوب 11جولائی1887ء بنام چودھری رستم علی صاحب۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر3 صفحہ 42)
7اگست 1887ء
اِنَّآ اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِ یْرًا کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّ بَرْقٌ کُلُّ شَیْئٍ تَحْتَ قَدَمَیْہِ۔
یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہدؔ اور مُبَشّر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے۔ اور یہ اُس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں۔ اور رعد اور برق بھی ہو۔ یہ سب چیزیں اُس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں1۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر1888ء صفحہ 16 تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 178)
1 الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اس کی عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے۔کہ پسر متوفیٰ کے قدم اُٹھانے کے بعد پہلے ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق۔ اسی ترتیب کے رو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا۔ یعنی پہلے بشیر کی موت کی و جہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اُس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے۔ اور جس طرح ظلمت ظہور میں آگئی۔ اسی طرح یقینا جاننا چاہئے کہ کسی دن وہ رعد اور روشنی بھی ظہور میں آجائے گی۔ جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دیگی۔ اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مُردہ دلوں کے مُنہ سے نکلے ہیں۔ ان کو نابود اور ناپدید کردیگی .............سو اَے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا۔ حیرانی میں مت پڑو۔ بلکہ خوش ہو۔ اور خوشی سے اُچھلو۔ کہ اس کے بعد اب روشنی آئیگی۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 16،17 تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136،137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179، 180)
1888ء
(الف) ’’اُس1 لڑکے کی پیدائش کے بعد اس کی طہارت باطنی اور صفائی استعداد کی تعریفیں الہام میں بیان کی گئیں اور پاک ؔ اور نورؔاللہ اور یداللہؔ اور مقدسؔ اور بشیر ؔ اور خداباماست اس کا نام رکھا گیا......... خدا تعالیٰ نے پسر متوفیٰ کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے ان میں سے ایک بشیر ؔ اورایک عنمواؔئیل اور ایک خدا باؔماست و رحمت ِؔحق اور ایک یداللہ بجلالٍ وجمالٍ ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 4دسمبر1888ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر صفحہ41،50)
(ب) ’’خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا2 جو فوت ہوگیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دُنیوی جذبات بکلّی اس کی فطرت سے مسلوب۔ اور دین کی چمک اِس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدّیقی رُوح اپنے اندر رکھتا ہے اور اُس کا نام بارانِ رحمت اور مبشرؔ اور بشیر ؔ اور یَداؔللہ بجلال وجمال وغیرہ اسماء بھی ہیں۔ سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اُس کی صفات ظاہر کی یہ سب اس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں، جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر 1888ء صفحہ7،8 و تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ127،128۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 169)
1888ء
’’اور اُس3کی تعریف میں ایک یہ الہام ہوا۔ کہ
جَآئَ کَ النُّوْرُ وَھُوَ اَفْضَلُ مِنْکَ
یعنی کمالات ِ استعدادیہ میں وہ تجھ سے افضل ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ4دسمبر1888ء ۔ بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر5 صفحہ50)
5جنوری1888ء
’’چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا۔ اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ 5جنوری 1888ء کو لکھا گیا ہے۔ مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کرکے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سُرخی میری نسبت ’’کمینہ ‘‘ رکھی ہے۔ معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں اور وہ تحریر پڑھ کر کہا کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا۔ھٰذَا مَارَاَیْتُ واللّٰہُ اَعْلَمُ بتاوِیْلہٖ۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات جلد چہارم صفحہ 4)
1 بشیر اوّل جو 7اگست1887ء کو پیدا ہوا۔ اور4؍نومبر 1888ء کو فوت ہوگیا۔ (مرتب)
2، 3 یعنی بشیر اوّل۔ (مرتب)
14فروری1888ء
’’13،14فروری1888ء کی گذشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم ّ و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی۔ میں نہایت وحشت و تردُّد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا۔ چنانچہ کل سندرؔداس کی وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔معلوم ہوتا ہے یہ وہی غم تھا جس کی طرف اشارہ تھا۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ15فروری1888ء بنام چودھری رستم علی صاحب۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر3 صفحہ72،73)
1888ء (قریباً)
’’ایک دفعہ ہمیں لدھیاؔنہ سے پٹیالہؔ جانے کا اتفاق ہوا۔ روانہ ہونے سے پہلے الہام ہوا کہ
اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ ہم ّ و غم پیش آئے گا
اس پیشگوئی کی خبر ہم نے اپنے ہمراہیوں کو دے دی۔ چنانچہ جبکہ ہم پٹیالہ سے واپس آنے لگے تو عصر کا وقت تھا۔ ایک جگہ ہم نے نماز پڑھنے کے لئے اپنا چوغہ اُتار کرسید محمد ؔحسین خاں صاحب وزیر ریاست کے ایک نوکر کو دیا تا کہ وضو کریں۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوکر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے باندھے ہوئے تھے وہ رومال گر گیا ہے۔ تب ہمیں وہ الہام یاد آیا کہ اس نقصان کا ہونا ضروری تھا۔
پھر جب ہم گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک سٹیشن دوراؔہہ پر ہمارے ایک رفیق کو کسی مسافر انگریز نے محض دھوکہ دہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہہ دیاکہ لدھیانہ آگیا ہے۔ چنانچہ ہم اُس جگہ سب اُتر پڑے اور جب ریل چل دی تب ہم کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور سٹیشن تھا۔ اور ایک بیابان میں اُترنے سے سب جماعت کو تکلیف ہوئی اور اس طرح پر الہام مذکور کا دوسرا حصہ بھی پورا ہوگیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ231،232۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ 609،610)
مئی 1888ء
’’ایک بار فتح مسیح نام ایک عیسائی نے کہا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے میں نے جب اُسے کہا کہ تو پیشگوئی کر، تو گھبرا یا اورمجھے کہا کہ ایک مضمون بند لفافہ میں رکھا جاوے اور آپ اس کا مضمون بتادیں مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ
’’ تُواس کو قبول کرلے‘‘
جب میں نے اس کو بھی قبول کرلیا تو کئی سو آدمیوں کے مجمع میں آخر پادری وائٹ بریخٹ نے کہا کہ یہ فتح مسیح جھوٹا ہے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر 5 مورخہ 7 فروری 1902ء صفحہ 4 کالم نمبر 3)
مئی 1888ء
(الف) 1’’اِنَّ اللّٰہَ رَآٰی اَبْنَآئَ عَمِّیْ وَغَیْرَ ھُمْ۔ مِنْ شُعُوْبِ اَبِیْ وَ اُمِّیٓ الْمَغْمُوْرِیْنَ فِی الْمُھْلِکَاتِ ......... وَالْمُنْکِرِیْنَ لِوُجُوْدِ اللّٰہِ وَمِنَ الْمُفْسِدِیْنَ...........وَرَآٰی اَنَّھُمْ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَالشَّرُوْرِ۔ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ.......... وَلَا یَتُوْبُوْنَ مِنْ سَبِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) بَلْ کَا نُوْا عَلَیْہِ مِنَ الْمُدَا وِمِیْنَ .......... وَبَیْنَمَاھُمْ کَذَا لِکَ اِذِاصْطَفَانِیْ رَبِّیْ لِتَجْدِیْدِ دِیْنِہٖ ........ وَرَزَقَنِیْ مِنَ الْاِلْھَامَاتِ وَالْمُکَالَمَاتِ وَ الْمُخَاطَبَاتِ وَالْمُکَاشَفَاتِ رِزْقًا حَسَنًا.........فَطَغَوْا وَبَغَوْا وَاسْتَدْعَوْا الْاٰیَاتِ اسْتِھْزَآئً وَّقَالُوْا لَانَعْلَمُ اِلٰھًایُکَلِّمُ اَحَدًا ........... فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ........ وَکَذَالِکَ سَدَرُوْا فِیْ غَلَوَاتِھِمْ وَجَمَعُوْا فی جَھَلَاتِھِمْ وَسَدَلُوْا ثَوْبَ الْخُیَلَآئِ یَوْمًا فَیَوْمًا۔ حَتّٰی بَدَانَھُمْ اَنْ یُّشِیْعُوْا خُزَعْبِلَاتِھِمْ وَ یَصْطَادُوا السُّفَھَآئَ بِتَلْبِیْسَاتِھِمْ۔ فَکَتَبُوْا کِتَابًا کَانَ فِیْہِ سَبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَبُّ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِنْکَارُ وُجُوْدِالْبَارِیِٔ عَزَّاسْمُہ‘۔ وَمَعَذَالِکَ طَلَبُوْا فِیْہِ اٰیَاتِ صِدْقِیْ مِنِّیْ وَ اٰیَاتِ وُجُوْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاَرْسَلُوْا کِتَابَھُمْ فِی الْاٰفَاقِ وَالْاَقْطَارِ وَاَعَانُوْا بِھَاکَفَرۃَ الْھِنْدِ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا مَّا سُمِعَ مِثْلُہ‘ فِی الْفَرَاعِنَۃِ الْاَوَّلِیْنَ۔ فَلَمَّا بَلَغَنِیْ کِتَابُھُمُ الْذِيْ کَانَ قَدْصَنَّفَہ‘ کَبِیْرُھُمْ فِی الْخُبْثِ وَالْعُمُرِ
1 (ترجمہ ازمرتب) اللہ تعالیٰ نے میرے جدّی بھائیوں اور قریبیوں کو دیکھا۔ کہ وہ مہلک امور میں منہمک ہیں...........اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں اور مفسد ہیں ...............اور اُس نے دیکھا۔ کہ وہ لوگوں کو بدیوں اور شرارتوں کی طرف بلاتے اور نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں ................اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بد زبانی سے باز نہیں آتے۔ بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں..........اسی دَوران میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کی تجدید کیلئے چُن لیا............اور اپنے الہامات ‘ مخاطبات اور مکاشفات سے مجھے بہرہ ور کیا..............جس پر اُنہوں نے سرکشی کی۔ اور تمسخر کے طور پر مجھ سے نشانات کا مطالبہ کیا۔ اور کہا۔ کہ ہمیں ایسے معبود کا کوئی علم نہیں جو کسی سے کلام کرتا ہو.............اور اگر یہ شخص سچا ہے تو ہمیں کوئی نشان دکھائے...............اسی طرح یہ لوگ اپنی حد سے بڑھ گئے۔ اور اپنی جہالتوں میں سرکش ہوتے گئے۔ اور ان کا تکبر روز بروز بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے گندے خیالات کی اشاعت شروع کردی اور کم عقل لوگوں کو اپنے فریبوں کا شکار بنانے لگے۔ چنانچہ انہوں نے ایک گندہ اشتہار نکالا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں اور قرآن کریم کے متعلق بد زبانی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت مانگا ہے۔ اور انہوں نے اپنا یہ اشتہار تمام اطرافِ عالم میں شائع کیا ہے۔ اور اس طرح سے ہندوستان بھر کے غیر مسلم لوگوں کو اسلام کے خلاف مدد دی ہے اور اس قدر تکبر کیا ہے۔ جو پہلے فراعنہ نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ سو جب ان کے سرغنہ کا جو خباثت میں بھی اُن کا بڑا ہے۔ جیسا کہ عمر میں بڑا ہے۔ لکھا ہوا یہ اشتہار مجھے ملا
............ فَاِذَا الْکَلِمَاتُ کَلِمَاتٌ تَکَا دُالسَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْھَا............ فَغَلَّقْتُ الْاَبْوَابَ وَدَعَوْتُ الرَّبَّ الْوَھَّابَ۔ وَطَرَحْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ وَخَرَرْتُ اَمَا مَہ‘ سَاجِدًا.......... وَقُلْتُ یَارَبِّ یَارَبِّ انْصُرْ عَبْدَکَ وَاخْذُلْ اَعْدَآئِک۔ اِسْتَجِبْنِیْ یَا رَبِّ اسْتَجِبْنِیْ۔ اِلَامَ یُسْتَھْزَئُ بِکَ وَبِرَسُوْلِکَ۔ وَحَتَّامَ یُکَذِّبُوْنَ کِتَابَکَ وَیَسُبُّوْنَ نَبِیَّکَ۔ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا مُعِیْنُ۔
فَرَحِمَ رَبِّیْ عَلٰی تَضَرُّعَاتِیْ وَزَفَرَاتِیْ وَ عَبَرَاتِیْ وَنَادَانِیْ وَقَالَ
اِنِّیْ رَاَیْتُ عِصْیَانَھُمْ وَطُغْیَانَھُمْ فَسَوْفَ اَضْرِبُھُمْ بِاَنْوَاعِ الْاٰفَاتِ اُبِیْدُھُمْ مِّنْ تَحْتِ السَّمٰوٰتِ۔ وَسَتَنْظُرُمَا آفْعَلُ بِھِمْ وَکُنَّاعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَادِرِیْنَ۔اِنِّیْٓ اَجْعَلُ نِسَآئَ ھُمْ اَرَامِلَ وَاَبْنَائَ ھُمْ یَتَامٰی وَ بُیُوْتَھُمْ خَرِبَۃً لِّیَذُوْقُوْا طَعْمَ مَا قَالُوْا وَمَا کَسَبُوْا۔ وَلٰکِنْ لَّآ اُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَّاحِدَۃً بَلْ قَلِیْلاً قَلِیْلاً لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ وَیَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ اِنَّ لَعْنَتِیْ نَازِلَۃٌ عَلَیْھِمْ وَعَلٰی جُدْرَانِ بُیُوْتِھِمْ وَعَلٰی صَغِیْرِھِمْ وَکَبِیْرِھِمْ وَنِسَآءِ ھِمْ وَرِجَالِھِمْ وَ نَزِیْلِھِمُ الَّذِیْ دَخَلَ اَبْوَابَھُمْ۔ وَکُلُّھُمْ کَانُوْا مَلْعُوْنِیْنَ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِّنْھُمْ وَبَعُدُوْا مِنْ مَّجَالِسِھِمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنَ الْمَرْحُوْمِیْنَ۔
.......... تو میں نے دیکھا کہ وہ الفاظ ایسے تھے کہ قریب تھا کہ آسمان ان کی و جہ سے پھٹ جائیں............اس پر میں نے دروازوں کو بند کرلیا۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر دُعا کی..............اور کہا کہ اے میرے ربّ! اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رُسوا کر۔ اے میرے ربّ ! میری دُعا سن۔ اور اُسے قبول فرما۔ کب تک تجھ سے اور تیرے رسُول سے تمسخر کیا جائے گا۔ اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بد کلامی کرتے رہیں گے۔ اے ازلی ابدی۔ اے مددگار خدا ! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔
تب میرے ربّ نے میری گریہ و زاری اور میری آہوں کوسُنکر مجھ پر رحم فرمایا اور مجھے پکار کر فرمایا :
میں نے اُن کی نافرمانی اور سرکشی کو دیکھا ہے میں اُن پر طرح طرح کی آفات ڈال کر اُنہیں آسمان کے نیچے سے نابود کردوں گا۔ اور تم جلد دیکھو گے کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔ اور ہم ہر ایک بات پر قادر ہیں۔ میں اُن کی عورتوں کو بیوہ ‘ اُن کے بچوں کو یتیم اور اُن کے گھروں کو ویران کردوں گا اور اس طرح سے وہ اپنی باتوں کا اور اپنی کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے۔ لیکن میں اُنہیں یکدم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجاً پکڑوں گا۔ تاکہ اُنہیں رجوع اور توبہ کا موقع ملے۔ میری *** اُن پر۔ اُن کے گھروں پر‘ اُن کے چھوٹوں اور بڑوں پر‘ اُن کی عورتوں اور مَردوں پر۔ اُن کے اُس مہمان پر جو اُن کے گھر میں داخل ہوگا پڑے گی۔ اور اُن تمام پر *** برسے گی سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں۔ اور اُن سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ اور اُن کی مجالس سے دُوری اختیار کریں۔ پس وہی لوگ ہیں جن پر رحم کیا جائے گا۔
ھٰذِہٖ خَلَاصَۃُ مَآ اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ۔ فَبَلَّغْتُ رَسَالَاتِ رَبِّیْ فَمَا خَافُوْا وَمَا صَدَّقُوْا۔ بَلْ زَادُوْاطُغْیَانًا وَّکُفَرًا وَّظَلُّوْایَسْتَھْزِئُ وْنَ کَاَعْدَآئِ الدِّیْنِ۔ فَخَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
اِنَّا سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتٍ مُّبْکِیَۃً وَّنُنَزِّلُ عَلَیْھِمْ ھُمُوْمًا عَجِیْبَۃً۔ وَاَمْرَاضًا غَرِیْبَۃً۔ وَنَجْعَلُ لَھُمْ مَعِیْشَۃً ضَنَکًا۔ وَنَصُبُّ عَلَیْھِمْ مَصَآئِبَ فَلَایَکُوْنُ لَھُمْ اَحَدٌ مِّن النَّاصِرِیْنَ۔
فَکَذَالِکَ فَعَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِھِمْ وَاَنْقَضَ ظُھُوْرَ ھُمْ بِاَثْقَالِ الْھُمُوْمِ وَالدُّیُوْنِ وَالْحَاجَاتِ وَاَنْزَلَ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْوَاعِ الْبَلَایَا وَالْاٰفَاتِ وَفَتَحَ عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ الْمَوْتِ وَالْوَفَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ اَوْیَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُتَنَبِّھِیْنَ۔ وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ فَمَافَھِمُوْا وَمَاتَنَبَّھُوْا وَمَاکَانُوْا مِنَ الْخَآئِفِیْنَ۔
وَلَمَّا قَرُبَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْاٰ یَۃِ اتَّفَقَ فِیْ تِلْکَ الْاَیَّامِ اَنَّ وَاحِدًا مِّنْ اَعَزِّ اَعِزَّتِھِمُ الَّذِیْ کَانَ اسْمُہ‘ اَحْمَدْ بِیْک اَرَادَ اَنْ یَّمْلِکَ اَرْضَ اُخْتِہِ الَّتِیْ کَانَ بَعْلُھَا مَفْقُوْدَالْخَبَرِ مِنْ سِنِیْنَ۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلدنمبر5 صفحہ566،570)
(ب) ’’نامبردہ1کی ایک ہمشیرہ ہمارے چچا زاد بھائی غلامؔ حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلامؔ حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے۔ نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرادی گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپور میں جاری ہے۔ نامبردہ یعنی
یہ میرے ربّ کی اس وحی کا خلاصہ ہے جو اُس نے مجھ پر نازل کی۔ پس میں نے اپنے پروردگار کے پیغامات اُن کو پہنچادیئے۔ لیکن نہ تو وہ ڈرے اور نہ ہی انہوں نے تصدیق کی بلکہ سرکشی اور انکار میں بڑھتے گئے۔ اور استہزاء میں دشمنانِ دین کا سا شیوہ اختیار کرلیا۔ پس میرے ربّ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:
ہم اُنہیں رُلانے والے نشانات دکھائیں گے۔اور اُن پر عجیب عجیب ہموم و امراض نازل کریں گے اور اُن کی معیشت تنگ کردیں گے اور اُن پر مصائب پر مصائب ڈالیں گے اور کوئی انہیں بچانیوالا نہیں ہوگا۔
پس اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ سلوک کیا۔ غموں ‘ قرضوں اور حاجات کے بوجھ سے ان کی پیٹھیں توڑ دیں۔ اور ان پر قِسم قِسم کے مصائب اور آفات نازل کئے اور موت فوت کے دروازے ان پر کھول دیئے تاکہ وہ باز آئیں۔ اور غفلت کو چھوڑ دیں۔ لیکن ان کے دل سخت ہوگئے پس وہ نہ سمجھے اور نہ بیدار ہوئے اور نہ ہی اُنہیں کوئی خوف لاحق ہوا۔
اور جب نشان کے ظہور کا وقت آیا۔ تو ان ایام میں ایسا اتفاق ہوا۔ کہ ان لوگوں کے ایک نہایت ہی قریبی رشتہ دار نے جس کا نام احمد بیگ تھا۔ ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین پر قبضہ کرلے۔ جس کا خاوند کئی سالوں سے مفقود الخبرہوگیا تھا۔
1 یعنی مرزا احمدبیگ ہوشیارپوری۔ (مرتّب )
ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرادیں۔ چنانچہ اُن کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بیکار تھا اس لئے مکتوب الیہ نے بتمام تر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا۔ تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کردیں۔ اور قریب تھا کہ دستخط کردیتے‘ لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدّت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب الٰہی میں استخارہ کرلینا چاہئے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔ پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آپہنچا تھا۔ جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کردیا۔
اُس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح1کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور اُن کو کہدے
1 وَاُنْبِئْتُ مِنْ اَخْبَارٍ مَّاذَھَبَ وَھْلِیْ قَطُّ اِلَیْھَا وَمَا کُنْتُ اِلَیْھَا مِنَ الْمُسْتَدْنِیْنَ۔ فَاَوْحَی اللّٰہُ اِلَیَّ اَنِ اخْطُبْ صَبِیَّتَۃُ الْکَبِیْرَۃَ لِنَفْسِکَ۔ وَقُلْ لَّہ‘ لِیُصَاھِرْکَ اَوَّلًا ثُمَّ لْیَقْتَبِسْ مِنْ قَبَسِکَ۔ وَقُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ لِاَھَبَکَ مَاطَلَبْتَ مِنَ الْاَرْضِ وَاَرْضًا اُخْرٰی مَعَھَاوَاُحْسِنَ اِلَیْکَ بِاِحْسَانَاتٍ اُخْرٰی عَلٰی اَنْ تُنْکِحَنِیْ اِحْدٰی بَنَاتِکَ الَّتِیْ ھِیَ کَبِیْرَتُھَا۔ وَذَالِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ۔ فَاِنْ قَبِلْتَ فَسَتَجِدُ نِیْ مِنَ الْمُتَقَبِّلِیْنَ۔ وَاِنْ لَّمْ تَقْبَلْ فَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اِنْکَاحَھَارَجُلاً اٰخَرَ لَایُبَارَکُ لَھَا وَ لَالَکَ فَاِنْ لَّمْ تَزْدَجِرْ فَیُصَبُّ عَلَیْکَ مَصَآئِبُ وَاٰخِرُ الْمَصَآئِبِ مَوْتُکَ فَتَمُوْتُ بَعْدَالنِّکَاحِ اِلٰی ثَلَاثِ سِنِیْنَ۔ بَلْ مَوْتَکَ قَرِیْبٌ وَّیَرِدُعَلَیْکَ وَاَنْتَ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَکَذَالِکَ یَمُوْتُ بَعْلُھَاالَّذِیْ یَصِیْرُ زَوْجَھَا اِلٰی حَوْلَیْنِ وَسِتَّۃِ اَشْھُرٍ قَضَآئً مِّنَ اللّٰہِ فَاصْنَعْ مَآ اَنْتَ صَانِعُہ‘ وَاِنِّیْ لَکَ لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ............ ثُمَّ کَتَبْتُ اِلَیْہِ مَکْتُوْبًا بِاِیْمَآئِ مَنَّانِیْ وَ اِشَارَۃِ رَحْمَانِی..........وَھَآ اَنَا کَتَبْتُ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ لَا عَنْ اَمْرِی فَاحْفَظْ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا فِیْ صَنْدُوْقِکَ فَاِنَّہ‘ مِنْ صُدُوْقٍ آمِیْنٍ وَاللّٰہ یَعْلَمُ اَنَّنِیْ فِیْہِ صَادِقٌ وَکُلُّ مَا وَعَدْتُّ فَھُوَمِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَا قُلْتُ اِذْ قُلْتُ وَلٰکِنْ اَنْطَقَنِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِاِلْھَامِہٖ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ572 تا 574)
(ترجمہ از مرتب) مجھے ایسے امور پر اطلاع دی گئی ‘ جن کی طرف کبھی میرا وہم بھی نہ گیا تھا اور نہ اُن کا مجھے کچھ پتہ تھا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعہ سے حکم دیاکہ اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کر۔ اور اُسے کہہ۔ کہ پہلے وہ تم سے مصاہرت کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد وہ تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے۔ نیز اُسے کہہ کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو زمین تم نے مانگی ہے ‘ وہ میں تمہیں دے دوں۔ اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی۔ نیز تم پر اور کئی رنگ میں احسانات کروں بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا رشتہ مجھ سے کردو۔ اور یہ تمہارے اور میرے درمیان ایک عہدو پیمان ہے جسے اگر تم قبول کروگے تو مجھے بہترین طور پر اسے قبول کرنے والا پاؤ گے۔ اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا
کہ تمام سلوک اور مروّت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا۔ اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20فروری1886ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی بُرا ہوگا۔ اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دُختر کا تین سال تک فوت ہوجائیگا۔ تین سال تک فوت ہونا روزِ نکاح کے حساب سے ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے۔ بلکہ بعض مکاشفات کے رُو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں۔ نزدیک1 پایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی۔ اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کررکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجامِ کار اِسی عاجز کے نکاح میں لادے گا اور بے دینوی کو مسلمان بنادے گا۔ اور گمراہوں میں ہدایت پھیلادے گا۔ چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے:۔
کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ ط فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَرُدُّ ھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔
یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا۔ اور وہ پہلے سے ہنسی کررہے تھے۔ سو خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا۔ اور انجام کار اُس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے تُو میرے
بقیہ حاشیہ:۔ ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہوگا نہ تمہارے حق میں۔ اور اگر تم اپنے ارادے سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے۔ اور آخر میں تمہاری موت ہوگی۔ اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور وہ موت ایسے حال میں آئیگی کہ تو غافل ہوگا اور ایسا ہی اُس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مرجائیگا۔ یہ قضاء الٰہی ہے پس تم جو چاہو کرو میں نے تم کو نصیحت کردی ہے............پھر میں نے اُسے اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے خط لکھا...............(اور اُسے یہ بھی لکھا کہ) لو میں نے یہ خط خدا کے حکم سے لکھا ہے اپنی رائے سے نہیں لکھا۔ پس اس خط کو اپنے صندوق میں محفوظ رکھ کہ یہ نہایت ہی سچّے امین کی طرف سے ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس معاملہ میں سچا ہوں اور جو وعدہ میں نے کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں نے نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھے بلوایا ہے۔
1 اس پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری 30ستمبر 1892ء کو بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا۔ (مرتب)
ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی۔ یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنّی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں۔ اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں۔ لیکن آخر کار خدائے تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی۔‘‘
(اشتہار10جولائی1888ء ۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 115 تا 117۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 157 تا159)
(ج) ’’1فَمِنْھَا مَا وَعَدَنِیْ رَبِّیْ فِیْ عَشِیْرَتِیَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُکَذِّ بُوْنَ بِاٰیَآتِ اللّٰہِ وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔ وَیَکْفُرُوْنَ بِااللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔ وَقَالُوْا لَا حَاجَۃَ لَنَا اِلَی اللّٰہِ وَلَآ اِلٰی کِتَابِہٖ وَلَآ اِلٰی رَسُوْلِہٖ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ۔ وَقَالُوْا لَا نَتَقَبَّلُ اٰیَۃً حَتّٰی یُرِیَنَا اللّٰہُ اٰیَۃً فِیْ اَنْفُسِنَا وَ اِنَّالَا نُؤْمِنُ بِالْفُرْقَانِ وَلَا نَعْلَمُ مَا الرِّسَالَۃُ وَمَا الْاِیْمَانُ وَاِنَّا مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔ فَدَعَوْتُ رَبِّیْ بِالتَّضَرُّعِ وَالْاِبْتِھَالِ وَمَدَدْتُّ اِلَیْہِ اَیْدِی السُّؤَالِ فَاَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
سَاُرِیْھِمْ اٰیَۃً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ
وَاَخْبَرَنِیْ وَقَالَ
اِنَّنِیْ سَاَجْعَلُ بِنْتًا مِّنْ بَنَاتِھِمْ اٰیَۃً لَّھُمْ
فَسَمَّاھَاوَقَالَ
اِنَّھَا سَیُجْعَلُ☆ ثَیِّبَۃً وَّیَمُوْتُ بَعْلُھَاوَ اَبُوْھَا اِلٰی ثَلٰثِ سَنَۃٍ مِّنْ یَّوْمِ النِّکَاحِ۔ ثُمَّ نَرُدُّ ھَا اِلَیْکَ بَعْدَ مَوْتِھِمَا وَلَا یَکُوْنُ اَحَدُھُمَا مِنَ الْعَاصِمِیْنَ۔
1 (ترجمہ از مرتب) پس منجملہ ان نشانات کے ایک وہ نشان ہے جو میرے رب نے میرے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں وعدہ کیا۔ وہ الٰہی نشانات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ اور اس کی کتاب کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے رسول خاتم النبیینؐ کی حاجت ہے اور یہ بھی کہتے کہ ہم کوئی نشان اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک کہ خدا ہمیں اپنے آدمیوں میں کوئی نشان دکھائے اور ہمیں تو ان پر کوئی ایمان نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ رسالت اور ایمان کیا ہے۔ ہم ان کے منکر ہیں۔ تب میں نے اپنے ربّ سے تضرّع اور عاجزی کے ساتھ دُعا کی اور اس کی طرف سوال کا ہاتھ بڑھایا۔ تو میرے ربّ نے الہام کیا۔ اور فرمایا
میں انہیں اُن کے اپنے آدمیوں میں نشان دکھاؤں گا
اور بتایا کہ میں اُن کی ایک لڑکی کو اُن کے حق میں نشان بناؤں گا۔ اور اس کی تعیین کی اور فرمایا کہ وہ بیوہ ہوجائیگی اور اس کا خاوند اور اس کا باپ روزِ نکاح سے تین سال کے اندر اندر مرجائیں گے اور اُن کی موت کے بعد اُسے تیری
☆ غالباً سہوِکاتب ہے۔ سَتُجْعَلُ چاہیئے۔ واللہ اَعلم۔ (مرتّب)
وَقَالَ
اِنَّا رَآدُّوْھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔
(کرامات الصادقین ٹائٹل پیج آخری ورق۔ روحانی خزائن جلد نمبر7 صفحہ 162)
1888ء
’’اشتہار دہم جولائی 18871کی پیشگوئی کا انتظار کریں۔ جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے:۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہ‘ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ زَوَّجُنَا کَھَا لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ۔ وَاِنْ یَرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے۔ کہہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح 2باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔ اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے۔ اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔‘‘
(اشتہار 27دسمبر 1891ء ملحق بہ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 350۔
نیز تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ85، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 301)
جولائی1888ء
الہام3.......فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ........کی تفصیل مکرر توجہ سے یہ کھلی ہے کہ خدائے تعالیٰ ہمارے کُنبے اورقوم میں ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بے دینی اور بدعتوں کی حمایت کی و جہ سے پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کریگا اور ان سے لڑیگا اور انہیں انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کردے گا اور وہ مصیبتیں اُن پر اتاریگا جن کی ہنوز اُنہیں خبر نہیں۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو
طرف لوٹائیں گے اور ان میں سے کوئی اسے بچا نہیں سکے گا۔ اور فرمایا کہ ہم اُسے تیری طرف لَوٹائیں گے اللہ تعالیٰ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں تمہارا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
1 دراصل جولائی 1888ء ہے اور1887ء سہو کتابت ہے۔ (مرتب)
2 ’’یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے۔یہ درست ہے۔ مگر جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط یہ بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ ہے کہ اَیَّتُھَاالْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کردیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ132،133۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 570)
3 مندرجہ اشتہار مؤرخہ دہم جولائی 1888ء۔ (مرتب)
اِس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور و جہ سے بلکہ بے دینی کی راہ سے مقابلہ کیا۔ ‘‘
(اشتہار پانزدہم جولائی 1888ء مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 160، 161)
1888ء
’’ہمیں اس1 رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی، سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کردیا تھا۔ اولاد بھی عطا کی اور اُن میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ2ہوگا۔ بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدّت تک وعدہ دیا جس کا نام محمودؔ احمدؐ ہوگا اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا۔‘‘
(اشتہار 51؍جولائی 8881ء تتمہ اشتہار دہم جولائی 8881ء)
اگست 1888ء
اللہ جلّ شانہ‘ نے مجھے خبر دی کہ
یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآئُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ۔ وَتُصَلِّیْ عَلَیْکَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ۔ وَیَحْمَدُکَ اللّٰہُ عَنْ عَرْشِہٖ۔3
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 کالم نمبر2)
1888ء
’’بارہا غوث اورقطب وقت میرے پر مکشوف کئے گئے جو میری عظمت مرتبت پر ایمان لائے ہیں‘ اور لائیں گے۔‘‘
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 کالم نمبر2)
1 یعنی محمدی بیگم بنت مرزا احمد بیگ کے رشتہ کی۔ (مرتب)
2 یعنی بشیر اوّل جو 7اگست1888ء کو پیدا ہوا۔ اور4نومبر1888ء کو فوت ہوگیا اور ا س کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’دین کا چراغ‘‘ لکھا ہے یہ اُس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ابھی آپ پر یہ بات نہیں کھُلی تھی کہ20فروری1886اء والے الہام میں دراصل دو لڑکوں کی خبر دی گئی تھی۔ ایک وہ لڑکا جو مہمان کے طور پر آنے والا تھا اور اُس نے دوسرے لڑکے کیلئے بطور ارہاص کے ہونا تھا اور دوسرا وہ جو عمر پانے والا تھا اور بشیر اوّل کے لئے دین کے چراغ کا لفظ اُس کی ذاتی استعدادات کی بناء پر استعمال کیا گیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے صاحبزادے ابراہیم کے متعلق فرماتے ہیں۔ لَوْعَاش اِبْرَاھِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو وہ ایسی استعداد رکھتا تھا کہ نبی ہوجاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 20فروری 1886ء والے الہام کی تشریح اپنے یکم دسمبر 1888ء والے ’’سبز اشتہار‘‘ میں فرمادی ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) تجھ پر عربؔ کے صلحاء اور شامؔ کے ابدال درود بھیجیں گے۔ زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔
1888ء
’’اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی‘ وہ جہنمی ہے۔‘‘
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 )
1888ء
’’یہ بات کھُلی کھُلی الہام الٰہی نے ظاہر کردی کہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا تھا۔ بلکہ اُس کی موت اُن سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوگی۔ جنہوں نے محض لِلّٰہ اُس کی موت سے غم کیا۔ اور اُس ابتلاء کی برداشت کرگئے کہ جو اُس کی موت سے ظہور میں آیا۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 16،17 حاشیہ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136،137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
1888ء
’’اس1کی موت کی تقریب پر بعض مسلمانوں کی نسبت یہ الہام ہوا:۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔ وَقَالُوْا تَا للّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ اِنَّ الصَّابِرِیْنَ یُوَفّٰی لَھُمْ اَجْرُھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔
اب خداتعالیٰ نے اِن آیات میں صاف بتلادیا کہ بشیر کی موت لوگوں کی آزمائش کے لئے ایک ضروری امر تھا۔ اور جو کچے تھے وہ مصلح موعود کے ملنے سے نا اُمید ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ تُو اسی طرح اس یوسف کی باتیں ہی کرتا رہیگا۔ یہاں تک کہ قریب مرگ ہوجائیگا۔ یا مرجائیگا۔ سو خدا تعالیٰ نے مجھے فرمادیا کہ ایسوں سے اپنا منہ پھیر لے جب تک وہ وقت پہنچ جائے۔ اور بشیر ؔ کی موت پر جو ثابت قدم رہے اُن کے لئے بے اندازہ اجر کا وعدہ ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔ اور کوتہ بینوں کی نظر میں حیرتناک۔‘‘
(مکتوب 4دسمبر1888ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد 5 نمبر 5 صفحہ49،50)
1888ء
’’2 اِنّ لِیْ کَانَ اِبْنًا صَغِیْرًا وَّکانَ اسْمُہ‘ بَشِیْرًا فَتَوَفَّاہُ اللّٰہُ فِیْ اَیَّامِالرِّضَاعِ۔ وَاللّٰہُ خَیْرٌ
1 یعنی بشیر اوّل کی موت۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) میرا ایک لڑکا جس کا نام بشیر احمد تھا۔ شیر خوارگی کے ایام میں فوت ہوگیا۔ اور حق یہ ہے کہ جن لوگوں نے تقویٰ اور خشیت ِ الٰہی کے طریق کار کو اختیارکرلیا ہو۔ اُن کی نظر اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتی ہے اس وقت مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم محض اپنے فضل اور احسان سے وہ تجھے واپس دینگے (یعنی اس کا مثیل عطا ہوگا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا بیٹا عطا کیا۔)
وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰثَرُوْا سُبُلَ التَّقْوٰی وَالْاِرْتِیَاعِ فَاُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ۔ اِنَّانَرُدُّہ‘ اِلَیْکَ تَفَضُّلاً عَلَیْکَ۔‘‘ (سِرّالخلافہ صفحہ53۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 381)
1888ء
(ا) ’’خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائیگا۔ جس کا نام محمود بھی ہے۔ وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا۔ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر1888ء صفحہ 17 حاشیہ و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
(ب) ’’ ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیرؔ رکھا۔ چنانچہ فرمایا کہ
دُوسرا بشیر تمہیں دیا جائےگا
یہ وُہی بشیرؔ ہے جس کا دوسرا نام محمودؔہے جس کی نسبت فرمایا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ۔‘‘ (مکتوب 4؍دسمبر1888ءبنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر5 صفحہ50)
(ج) ’’خدائے عزّوجلّ نے ............. اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا۔ جس کا نام محمود ؔ بھی ہوگا اور ا س عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ12جنوری1889ء۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 147،148۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحۃ 191)
1888ء
’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمودؔ ہے۔ ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ
محمود
تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھپایا۔ جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 40، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ214)
1888ء ’’ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا ؎
اےفخر رُسل قُرب تو معلومم شد :: دیر آمدۂٖ زراہِ دُور آمدۂٖ 1
(اشتہارتکمیل تبلیغ مؤرخہ 12؍جنوری1889ء و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ148، 149حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191۔ 193)
1 (ترجمہ از مرتب) اے رسُولوں کے فخر تیرا خدا کے نزدیک مقام قرب مجھے معلوم ہوگیا تُو دیر سے آیا ہے (اور) دُور کے راستہ سے آیا ہے۔
1888ء
(الف) ’’ خدائے تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا۔ کہ 20فروری1886ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی۔ اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ پہلے بشیرؔ کی نسبت پیشگوئی ہے۔ کہ جو رُوحانی طور پر نزولِ رحمت کا موجب ہوا۔ اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیرؔ کی نسبت ہے۔‘‘
(سبز اشتہار یکم دسمبر1888ء صفحہ17 حاشیہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
(ب) ’’اور یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے۔ وہ مصلح موعود کے حق میں ہے کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفّٰی کے حق میں ہیں۔ اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے۔ وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گاپس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل ؔ رکھا گیا۔ اور نیز دوسرا نام اُس کا محمودؔ ہے اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے۔ اور ایک الہام میں اُس کا نام فضل ِ عمر ظاہر کیاگیا ہے۔ اور ضرور تھا کہ اُس کا آنا معرضِ التوا میں رہتا۔ جب تک یہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے۔ پیدا ہوکر پھر واپس اُٹھایا جاتا۔ کیونکہ یہ سب امور حکمت ِ الٰہیہ نے اُس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے۔ اور بشیر اوّل جو فوت ہوگیا ہے۔ بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اِس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا۔‘‘1
(سبز اشتہار صفحہ12 حاشیہ و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ141،142)
1 مؤرخہ12؍جنوری1889ء کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ پیدا ہوئے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی پیدائش کی اطلاع اس اشتہار کے ذریعہ جس کا عنوان ’’تکمیل تبلیغ‘‘ تھا۔ یوں شائع فرمائی۔ خدائے عزّوجلّ نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی 1888ء اور اشتہار یکم دسمبر1888ء میں مندرج ہے اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا۔ کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دُوسرا بشیر دیا جائیگا۔ جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اِس عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے ‘ پیدا کرتا ہے۔ سو آج 12؍جنوری1889ء میں مطابق 9جمادی الاوّل1306ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہوگیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی۔ مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے۔ یا وہ کوئی اور ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا۔ اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا۔ تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا۔ اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا۔ تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر جاری ہوا تھا ؎
اے فخر رسل قرب تو معلومم شد :: دیر آمدۂٖ زراہِ دُور آمدۂٖ
1888ء
(الف) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت ِ مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے
بقیہ حاشیہ:
پس اگر حضرت باری جلّ شانہ‘ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی۔ تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مطابق 12جنوری1889ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ147 ۔ 149حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 191، 192)
اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہی قرار دیا۔ اور تفاؤل کے طور پر نام بھی بشیر الدین محمود رکھا۔ مگر کامل انکشاف کے بعد صحیح اطلاع دینے کا وعدہ فرمایا۔ سو حضور علیہ السلام ایفائے عہد فرماتے ہیں اور اس امر کے متعلق مختلف کتب میں اطلاع دیتے ہیں۔
(الف) ’’محمود جو بڑا لڑکا ہے۔ اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی مع محمود نام کے موجود ہے جو پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا۔ جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجامِ آتھم صفحہ 15 مطبوعہ1897ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر11 صفحہ 299)
(ب) ’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمودؔ کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اَب پیدا ہوگا۔ اور اُس کا نام محمود رکھا جائیگا۔ اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اَب تک موجود ہیں۔ اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا۔ اور اب نویں سال میں ہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 31مطبوعہ1897ء ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 12 صفحہ 36)
(ج) ’’محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی1888ء اور نیز اشتہار یکم دسمبر1888ء میں جو سبز اشتہار کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی۔ اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمودؔ رکھا جائے گا۔ پھر جبکہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی.......تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے12جنوری1889ء کو بمطابق9جمادی الاوّل1306ھ میں بروز شنبہ محمود ؔپیدا ہوا۔ ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ42، روحانی خزائن جلد نمبر15، صفحہ 219)
مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ12جنوری1889ء کے حاشیہ میں خیال ظاہر فرمایا تھا۔ اور بعض دوسرے مقامات پر بھی اشتہارات کئے ہیں۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں پوری ہوئی۔ چنانچہ جملہ واقعات اور کوائف اس پر شاہد ہیں۔ اور خود حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے صراحت کے ساتھ اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ چنانچہ حضور نے 28جنوری1944ء
بیعت1کریں۔
پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں اُنہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں اُن کا غمخوار ہوں گا۔ اور اُن کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا۔ اور خدا تعالیٰ میری دُعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دیگا۔ بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان تیار ہوں گے۔ یہ ربّانی حکم ہے۔ جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے:۔
2 اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔‘‘
(یکم دسمبر1888ء سبز اشتہار صفحہ24 و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ145۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 188)
(ب) ’’اُس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا۔ کہ زمین میں طوفانِ ضلالت برپا ہے۔ تو اِس طوفان کے وقت میں یہ کشتی طیّار کر۔ جو شخص اِس کشتی میں سوا رہوگا و ہ غرق ہونے سے نجات پاجائے گا اور جو انکار میں رہے گا۔ اُس کے لئے موت درپیش ہے۔
اورفرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا۔ اُس نے تیرے ہاتھ میں نہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ42،43مطبوعہ بار اوّل دسمبر و جنوری1890-91ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ24، 25)
1889ء
’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.......کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر
بقیہ حاشیہ: بروز جمعتہ المبارک خطبہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پاکر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔ حضور فرماتے ہیں:۔
(الف) ’’خداتعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اس امر کو ظاہر کردیا۔ اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔‘‘
(ب) ’’آج پہلی دفعہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں۔ اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے۔‘‘
(الفضل یکم فروری1944ء)
1 بیعت ِ اولیٰ لدھیانہ میں 20رجب 1306ھ مطابق23مارچ 1889ء بروز شنبہ کو ہوئی۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) جب تو عزم کرلے۔ تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے ماتحت نظام جماعت کی کشتی طیّار کر (جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے) جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ وہ دراصل خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا۔
(ازالہ اوہام صفحہ 855۔ روحانی خزائن جلد 3صفحۃ 565)
ہوجاؤ۔ اور اپنے ربّ کریم کو اکیلا مت چھوڑو۔ جو شخص اُسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جائے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ 12جنوری1889ء و تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ148، 149۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191، 192)
مارچ 1889ء
’’مجھے معلوم ہوا ہے۔ کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدّر ہیں۔ اِس انتظام پر موقوف ہیں۔ کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مُبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی طورمع کسی قدر کیفیّت کے (اگرممکن ہو) اندارج پاویں۔
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ 4اپریل 1889ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ845،846۔
روحانی خزائن جلد نمبر3، صفحہ 558، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 193)
1889ء
’’یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہ ایک ہی سلک میں منسلک ہوکر وحدت مجموعی کے پیرایہ میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہوگا۔ وہ اپنی سچائی کی مختلف المخرج شعاعوں کو ایک ہی خط ِ ممتد میں ظاہر کرے گا۔ خداوند عزّوجلّ کو بہت پسند آیا ہے۔‘‘
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ 4مارچ1889ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ847۔
روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 559۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 194)
1889ء
’’خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں او راس ناچیز کی توجہ کو ان کی1پاک استعدادوں کے ظہور و برُوز کا وسیلہ ٹھہرادے۔ اور اس قدوس جلیل الذّات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہوجاؤں۔‘‘
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ4 مارچ18891ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ850،
روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ562۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 197)
مارچ 1889ء
’’ منجملہ ان نشانوں کے جو پیشگوئی کے طور پر ظہور میں آئے وہ پیشگوئی ہے جو میں نے اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی ضلع گوجرانوالہ کے متعلق کی تھی..........اور وہ یہ ہے.........کہ قاضی صاحب آپ کو ایک سخت
1 یعنی بیعت کرنے والوں کی۔ (مرتب)
ابتلاء پیش آنے والا1ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 351 نشان نمبر 47۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ 472)
1889ء
’’ایک دفعہ مجھے علی گڑھ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اور مرض ضعف دماغ کی و جہ سے جس کا قادیان میں بھی کچھ مدّت پہلے دورہ رہ چکا تھا۔ میں اس لائق نہیں تھا کہ زیادہ گفتگو یا اور کوئی دماغی محنت کاکام کرسکتا.....اس حالت میں علی گڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسمٰعیل نام مجھ سے ملے اور انہوں نے نہایت انکساری سے وعظ کیلئے درخواست کی.....میں نے اس درخواست کو بشوقِ دل قبول کیا۔ اور چاہا کہ لوگوں کے عام مجمع میں اسلام کی حقیقت بیان کروں.... لیکن بعد اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا۔
مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغزخواری کرکے کسی جسمانی بلا میں پڑوں۔ اس لئے اُس نے وعظ کرنے سے مجھے روک دیا۔
ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا کہ میری ضعف کی حالت میں ایک نبی گذشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھ کو ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت کے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو۔ اس سے تو تم بیمار ہوجاؤ گے۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 27،28 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 17، 18)
دسمبر 1890ء
کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اِس مسیح کے
جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا
حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب
خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا
(ٹائٹل رسالہ فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ1)
1890ء
’’حضرت عالی سیدنا و مولانا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بطور پیشگوئی فرماچکے ہیں۔ کہ اِس اُمّت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرلے گی..... تب فارسؔ کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہوگا۔ اگر ایمان ثریّاؔ میں معلّق ہوتا ‘ تو وہ اُسے اس جگہ سے بھی پالیتا۔ یہ پیشگوئی
1 یہ پیشگوئی حضور ؑ نے اس وقت فرمائی جبکہ قاضی صاحب لدھیانہ میں حضورؑ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ اور پھر جس طرح یہ ابتلاء پیش آیا۔ اور پیشگوئی پوری ہوئی اس کی تفصیل قاضی صاحب موصوف نے اپنے خط میں درج کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجی۔ چنانچہ حضور ؑ نے اس خط کو بھی اسی کتاب تریاق القلوب میں درج فرما دیا۔ تفصیل وہاں دیکھ لی جاوے۔ (مرتب)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جس کی حقیقت الہام الٰہی نے اِس عاجز پر کھول دی اور تصریح سے اُس کی کیفیت ظاہر کردی اور مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے کھول دیا کہ حضرت مسیح بن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد پیدا ہوا.....پس جبکہ اس اُمّت کو بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ سو برس کے قریب مدّت گذری تو وہی آفات ان میں بھی بکثرت پیدا ہوگئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں۔ تا وہ پیشگوئی پوری ہو جو اِن کے حق میں کی گئی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے اِن کیلئے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیلِ مسیح اپنی قدرتِ کاملہ سے بھیج دیا۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ13 ،15 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 9،10)
1890ء
’’ خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بشارت دی کہ
موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا
اور فرمایا کہ
جو لوگ خدا تعالیٰ کے مقر ّب ہیں ‘ وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجایا کرتے ہیں۔
اور فرمایا کہ
’’میں اپنی چمکار دکھلاؤنگا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤنگا
پس میری اس دوبارہ زندگی سے مُراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ26 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 16 حاشیہ)
1890ء
’’ اس حکیم و قدیر نے اِس عاجز کو اصلاح خلائق کیلئے بھیج کر .....دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں1 پر امر تائید حق اور اشاعت ِ اسلام کو منقسم کردیا........... یہ پانچ طور کا سلسلہ جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا...........خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں۔ اور جس اصلاح کے لئے اُس نے ارادہ فرمایا ہے۔ وہ اِصلاح بجز استعمال ان پانچوں طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہوسکتی۔‘‘ (فتح اسلام صفحہ17،18,43 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 11,12 ،25،26)
1 یہ پانچ شاخیں ہیں۔ جن کی تفصیل حضور اقدس نے آگے اسی کتاب میں فرمائی ہے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے دوسری اشتہارات۔ تیسری مہمانخانہ اور مہمانوں کی خاطر مدارات۔ چوتھی مکتوبات اور پانچویں شاخ سلسلہ بیعت ہے تفصیل کے لئے دیکھئے فتح اسلام صفحہ181 تا41۔روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 12تا 25)۔ (مرتب)
1890ء
’’ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے۔ غیرت دینی کی و جہ سے کسی قدر اس عاجز نے وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ پر عمل کیامگر چونکہ وہ ایک شخص کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ
تیرے بیان میں سختی بہت ہے۔ رِفق چاہئے رِفق۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد چہارم صفحہ6)
جنوری 1891ء
توضیح مرام 1
(توضیح مرام ٹائٹل پیج)
1891ء
’’فضل الرحمن2کی نسبت اس عاجز کو پہلے سے ظن نیک ہے ایک دفعہ اس کی نسبت
سَیُھْدٰی3
کا الہام ہوچکا ہے۔‘‘ (از مکتوب مؤرخہ 9رچ1891ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ و مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ97)
1891ء
’’اللہ جلّ شانہ‘ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث ِ نبویہؐ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے۔‘‘
(از مکتوب بنام مولوی عبدالجبار صاحب۔ مؤرخہ11؍فروری1891ء و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ159۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 207)
1891ء
’’ کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھے ہوئے دیکھا۔ کہ
میں اکیلا ہوں‘ اور خدا میرے ساتھ ہے۔‘‘
1 اس رسالہ توضیح مرام کا نام الہامی ہے۔ (مرتب)
2 مفتی فضل الرحمن صاحب داماد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) وہ ضرور سیدھے راستہ پر ڈالا جائے گا۔
(نوٹ از عرفانی صاحب) مفتی فضل الرحمن صاحب کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحب نے مشورہ پوچھا تھا.....حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی تائید فرمائی (مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 98، 99)
اور اس کے ساتھ مجھے الہام ہوا۔
اِنِّیْ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ 1
سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کردیگا۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد چہارم صفحہ3)
11مارچ1891ء
’’شاید ایک ہفتہ ہوا۔ میں نے آپ2 کو خواب میں دیکھا۔ گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیا کروں۔ تو میں نے آپ کو یہ کہا ہے ۔
خدا سے ڈر ۔ پھر جو چاہے کر۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنام شیخ فتح محمد۔ مؤرخہ 18؍مارچ1891ء۔
مندرجہ الفضل جلد 31نمبر9 مؤرخہ8؍مئی1943ء صفحہ3)
1891ء
’’ہماری ایک لڑکی عصمت بی بی نام تھی۔ ایک دفعہ اس3کی نسبت الہام ہوا۔
کَرْمُ الْجَنَّۃِ دَوْحَۃُ الْجَنَّۃِ 4
تفہیم یہ تھی کہ وہ زندہ نہیں رہے گی۔ سو ایسا ہی ہوا۔ (نزول المسیح صفحہ 215روحانی خزائنجلدنمبر18صفحہ 593)
1891ء
’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں نعمت اللہ ولی کا وہ قصیدہ دیکھ رہا تھا جس میں اس نے میرے آنے کی بطور پیشگوئی خبر دی ہے اور میرا نام بھی لکھا ہے اور بتلایا ہے کہ تیرھویں صدی کے اخیر میں وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا اور میری نسبت یہ شعر لکھا ہے کہ
مہدیٔ وقت و عیسیٰ ٔ دوراں -:- ہر دورا شہسوار مے بینم
یعنی وہ آنے والا مہدی ؔبھی ہوگا اور عیسیٰ بھی ہوگا۔ دونوں ناموں کا مصداق ہوگا اور دونوں طور کے دعوے کرے گا۔
1 (ترجمہ از مرتب) میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ ضرور میرے لئے راستہ پیدا کردے گا۔
2 یعنی شیخ فتح محمد صاحب کو۔
3 نوٹ:۔سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 1۵1 سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبزادی عصمت بی بی کی وفات 1۹۸1ء میں ہوئی تھی اور یہ الہام اُس کی وفات سے پہلے کا ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) انگور کی جنّتی بیل۔ جنت کا بڑا درخت۔
پس اِس اثناء میں کہ میں یہ شعر پڑھ رہا تھا عین پڑھنے کے وقت مجھے یہ الہام ہوا۔
از پئے آں محمد احسن را -:- تارکِ روزگار مے بینم1
یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سید محمدؔ احسن امروہی اسی غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیٰحدہ ہوگئے۔ تا خدا کے مسیح موعود کے پاس حاضر ہوں۔ اور اس کے دعوے کی تائید کے لئے خدمت بجالاوے۔ اور یہ ایک پیشگوئی تھی۔ جو بعد میں نہایت صفائی سے ظہور میں آئی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 333۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 346)
1891ء
’’جب یہ آیتیں اُتریں کہ مشرکین رجس ہیں‘ پلید ہیں‘ شرّالبریّہ ہیں‘ سفہا ہیں اور ذریّت شیطان ہیں اور اُن کے معبود وقود النار اور حصب جہنّم ہیں تو ابوطاؔلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے ! اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں۔ اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔ تُونے اُن کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا اور اُن کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل ِ تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنّم اور وقود النار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رِجس اور ذریّت شیطان اور پلید ٹھہرایا۔ میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہارِ واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔ اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اِس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اِسی راہ میں وقف ہے۔ میں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رُک نہیں سکتا۔
اور اے چچا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا۔ بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکامِ الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رُکوں گا۔ مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذّت ہے کہ اس کی راہ میں دُکھ اُٹھاؤں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کررہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رِقّت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طاؔلب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا۔ تُو اورہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے۔ جا اپنے کام میں
1 یہ الہامی شعر نمونہ پرچہ القادیان یکم ستمبر1902ء میں بھی درج ہے۔ لیکن پہلے مصرعہ میں’’ از پۓ آں محمد احسن را‘‘ کی بجائے ’’ از برائیش محمد احسن را ‘‘ لکھا ہے۔ اگر یہ راوی کے حافظہ کی غلطی نہیں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس الہامی شعر کی دو قرأتیں ہیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
لگا رہ۔ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 16,18روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 110،111)
’’یہ سب مضمون ابوطالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کے دل پر نازل کی۔ صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اِس عاجز کی طرف سے ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 18,19روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 111،112)
1891ء
’’صحیح مسلم میں جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اُتریں گے.......دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزیدؔ پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں......مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ نے مسیح کے اُترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رُو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے کیونکہ دمشق پایۂ تخت یزید ہوچکا ہے اور یزیدیوں کا منصوبہ گاہ جس سے ہزار ہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ ہوئے۔ وہ دمشق ہی ہے....... سو خدا تعالیٰ نے اُس دمشق کو جس سے ایسے پُر ظلم احکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگ دل اور سیاہ دروں لوگ پیدا ہوگئے تھے اِس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈ کوارٹر ہوگا کیونکہ اکثر نبی ظالموں کی بستی میں ہی آتے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ *** کی جگہوں کو برکت کے مکانات بناتا رہا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 63تا70 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 138حاشیہ)
1891ء
’’قادیانؔ کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ
اُخْرِجَ مِنْہُ الْیَزِیْدِ یُّوْنَ
یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ72 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 138 حاشیہ)
1891ء
(الف) ’’ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ ایک شخص حارثؔ نام یعنی حر ّ اث 1آنے والا ہے جو
1 حارث کے معنے زمیندار کے ہیں۔ اور حر ّاث ؔ سے مراد بڑا زمیندار ہے۔ اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں پائی جاتی ہے۔ (مرتب)
ابوداؤد کی کتاب میں لکھا ہے۔ یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی درحقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کے رُو سے ایک ہی ہیں۔ یعنی اِن دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے۔ جو یہ عاجز ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 65حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 135)
(ب) ’’یہ پیشگوئی جو ابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حر ّاث ماورائے نہر سے یعنی ثمر قند کی طرف سے نکلے گا۔ جو آلِ رسول کو تقویت دیگا جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی۔ الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے۔ کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا۔ دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں۔ اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 79 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 141حاشیہ)
1891ء
’’پھر وہ منصور1مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ
خوشحال ہے ۔ خوشحال ہے
مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اُس کے پہچاننے سے قاصر رکھا۔ لیکن امید رکھتا ہوں۔ کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ98،99حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 149)
1891ء
’’اس عبارت تک یہ عاجز پہنچا تھا کہ یہ الہام ہوا۔
قُلْ لَّوْ کَانَ الْآمْرُمِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدْتُّمْ فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ قُلْ لَّوِاتَّبَعَ اللّٰہُ اَھْوَآئَ کُمْ لَفَسَدِتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَبَطَلَتْ حِکْمَتُہ‘۔ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَالْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔2
1 جس کا ذکر ابو داؤد کی حارث والی حدیث میں آتا ہے۔ یعنی حارث کی فوج کے مقدمۃ الجیش کا سردار جس کا نام حدیث میں منصور بیان ہوا ہے۔ اس کشف میں غالباً منصور سے مراد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) کہہ کہ اگر یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا۔ بلکہ غیر اللہ کی بناوٹ ہوتا۔ تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے۔ کہہ کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے خیالاتِ باطلہ کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور ان کے اندر رہنے والی مخلوق میں فساد برپا ہوجاتا۔ اور حکمت الٰہی باطل ہوجاتی۔ اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے۔ کہہ کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتوں (کے لکھنے) کے لئے روشنائی بن جاتے تو میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتے۔ اگرچہ ہم اتنے ہی اور (سمندر) ان میں شامل
پھر اس کے بعد الہام کیا گیا کہ
اِن علماء نے میرے گھر کو بدل ڈالا۔ میری عبادت گاہ میں اِن کے چُولھے ہیں۔ میری پرستش کی جگہ میں ان کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کُتر رہے ہیں۔
(ٹھوٹھیاں وہ چھوٹی پیالیاں ہیں جن کو ہندوستانی میں سکوریاں کہتے ہیں عبادت گاہ سے مراد اس الہام میں زمانۂ حال کے اکثر مولویوں کے دل ہیں جو دُنیا سے بھرے ہوئے ہیں)۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 75،76حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 139، 140حاشیہ)
1891ء
’’کشفی حالت میں اِس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں، ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے۔ تب میں نےاُس شخص کو جو زمین پر تھا، مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اُس نے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ تب میں نے اُس دُوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے ۔ وہ میری اِس بات کو سُنکر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں۔ اُس وقت میں نے یہ آیت پڑھی۔ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئْۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 97,98 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 149حاشیہ)
1891ء
’ ’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ جو بات اِس عاجز کی دعا کے ذریعہ سے ردّ کی جائے وہ کسی اَور سے قبول نہیں ہوسکتی اور جو دروازہ اس عاجز کے ذریعہ سے کھولا جائے وہ کسی اور ذریعہ سے بند نہیں ہوسکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 118حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 149حاشیہ)
1891ء
’’ اَنْتَ اَشَدُّ مُنَاسَبَۃً بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ خُلُقًا وَّ خَلْقًا وَّ زَمَانًا۔‘‘ 1
(ازالہ اوہام صفحہ 123،124۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 165)
بقیہ حاشیہ: کرکے انہیں بڑھاتے۔ کہہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) تُو کیا بلحاظ اخلاق اور کیا بلحاظ صورت و خِلْقَتْ اور کیا بلحاظ زمانہ عیسیٰ ابن ِ مریم کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مناسبت او مشابہت رکھتا ہے۔
1891ء
’’خدا یتعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے۔ کہ میری ہی ذرّیّت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی۔ وہ آسمان سے اُترے گا۔ اور زمین والوں کی راہ سیدھی کردے گا۔ وہ اسیروں کو رُستگاری بخشے گا۔ اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقیّد ہیں‘ رہائی دے گا۔ فرزند1 دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَآئِ۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 155،156۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 180)
1891ء
’’چند روز کا ذکر ہے کہ اِس عاجز نے اِس طرف توجہ کی۔ کہ کیا اس حدیث کا جو اَلآیَاتُ بَعْدَالْمِأَتَیْنہے۔ ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کررکھی تھی اور وہ نام یہ ہے:۔
غلام احمد قادیانی
اس نام کے عدد پورے تیرہ سو1300ہیں اور اس قصبہ قادیانؔ میں بجز اِس عاجز کے اور کسی شخص کا نام غلام ؔاحمد نہیں۔ بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اِس عاجز کے تمام دنیا میں غلامؔ احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں اور اِس عاجز کے ساتھ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ سبحانہ‘ بعض اسرار اعداد حروف تہجی میں میرے پر ظاہر کردیتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ185، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 189،190)
1891ء
(الف) ’’ ایک دفعہ میں نے آدم کے سن پیدائش کی طرف توجہ کی۔ تو مجھے اشارہ کیا گیا کہ ان اعداد پر نظر ڈال۔ جو سورۃ العصر کے حروف میں ہیں کہ انہیں میں سے وہ تاریخ نکلتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ186۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 190)
(ب) ’’ خداتعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد ِ نبوّت ہے۔ یعنی تیئیس برس کا تمام و کمال زمانہ یہ کل مدّت گذشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر 4739 برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ
1 (ترجمہ از مرتب) فرزند دلبند ۔ بزرگ اور اقبال مند۔ حق اور رفعت کا مظہر گویا کہ خدا آسمان سے اُتر آیا ہے۔
علیہ وسلم کے روزِ وفات تک قمری حساب1سے ہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 93-95روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 251،252)
1891ء
’’ایک شخص کی موت کی نسبت خدا یتعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ
کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ
یعنی وہ کُتّا ہے اور کُتّے کے عدد پر مرے گا۔ جو باون 52 سال پر دلالت کررہے ہیں۔ یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا۔ تب اُسی سال کے اندر اندر راہی مُلک بقا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ186،187۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 190)
1891ء
’’ابھی تھوڑے دن گذرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا اور اُس نے ظاہر کیا کہ میرا نام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ دین محمدی ہے جو مجسّم ہو کر نظر آیا ہے اور میں نے اس کو تسلّی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پاجائیگا۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 214، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 206)
1891ء
’’اور یہ جو میں نے مسمریزمی طریق کا عمل الترب1نام رکھا۔ جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے
1 اور شمسی حساب کے رُو سے4598 برس بعد آدم صفی اللہ حضرت نبیّنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے۔ ( تحفہ گولڑویہ صفحہ 92حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 247)
2 ترب کے معنی لغت میں ہم عمر یا مثیل کے لکھے ہیں۔ مگر اس لفظ میں تراب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’وَامّا التراب فاعلم ان ھدا اللفظ ماخوذ من لفظ التِرب۔ وتِرب الشیٔ الذی خلق مع ذالک الشیٔ عنداھل العرب۔ وقال ثعلب ترب الشیٔ مثلہ وما شابہ شیئًا فی الحسن والبھائ۔ فعلی ھذین المعنیین سمی التراب ترابًا لکونھافِی خلقھا ترب السمآئ۔ فان الارض خلقت مع السمآء فی ابتداء الزمان۔ وتشا بھا فی انواع صنع اللّٰہ المنّان۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ262، 263حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 11صفحہ 262،263)
(ترجمہ از مرتب) ’’لفظ تراب تِرب سے سے ماخوذ ہے اور عربوں کے نزدیک ترب الشیٔ کے معنی ہیں وہ چیز جو اس کے ساتھ پیدا ہو۔ اور ثعلب کا قول ہے کہ کسی چیز کی ترب وہ ہے جو خوبی میں اس کی مانند ہو۔ پس ان دونوں معنوں کی رُو سے مٹی کا نام تراب اس لئے رکھا گیا کہ وہ پیدائش میں آسمان کی ہم عمر یا مثیل ہے کیونکہ زمین ابتدائی زمانہ میں آسمان کے ساتھ ہی پیدا ہوئی ہے اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صنعت کے اقسام میں مشابہ ہیں۔‘‘
تھے۔ یہ الہامی نام ہے اور خدائے تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے اور اِس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ بھی الہام ہوا
ھٰذَا ھُوَا التِّرْبُ الذی لَا یَعْلَمُوْنَ
یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ312 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ259)
1891ء
’’ او رمجھے اُس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی اور اسی وقت کشفی طور پر یہ صداقت1 مذکورہ بالا میرے پر ظاہرکی گئی ہے۔ اور اسی مُعلّمِ حقیقی کی تعلیم سے میں نے وہ سب لکھا ہے۔ جو ابھی لکھا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ376، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 259)
1891ء
’’اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی۔ بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیّت بھی کردی گئی۔ اُس وقت گویا یہ پیشگوئی1 آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنے ہونگے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اُسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا۔
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ
یعنی یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ398،روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 306)
بقیہ حاشیہ:۔ پس اس رُو سے وحی الٰہی میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ علم زمینی ہے نہ کہ آسمانی۔ اسے وہی لوگ استعمال کرتے ہیں۔ جو رُوحانیت سے کم حصہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔ مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 308 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3۔ صفحہ 257 حاشیہ)
1 یعنی مَاقَتَلُوْوَمَاصَلَبُوْہُکی تفسیر۔ (مرتب)
2 یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری والی پیش گوئی۔ (مرتب)
1891ء
’’ خدا تعالیٰ نے آپ اپنے کلام میں میری طرف اشارہ کرکے فرمایا ہے:۔
نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کو بہت صاف کررہا ہے۔ اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی بیماریوں کو صاف کیا گیا ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ442، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 335)
1891ء
’’ ایک 1مدّت کی بات ہے جو اس عاجز نے خواب میں دیکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر مَیں کھڑا ہوں اور کئی لوگ مَر گئے ہیں یا مقتول ہیں اُن کو لوگ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی عرصہ میں روضہ کے اندر سے ایک آدمی نکلا اور اُس کے ہاتھ میں ایک سرکنڈہ تھا اور وہ اُس سرکنڈہ کو زمین پر مارتا تھا اور ہر ایک کوکہتا تھا کہ تیری اِس جگہ قبر ہوگی۔ تب وہ یہی کام کرتا کرتا میرے نزدیک آیا اور مجھ کو دکھلا کر اور میرے سامنے کھڑا ہوکر روضۂ شریفہ کے پاس کی زمین پر اُس نے اپنا سرکنڈہ مارا اور کہا کہ تیری اس جگہ قبر ہوگی۔ تب آنکھ کھل گئی۔
اور میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی تاویل کی کہ یہ معیّت معادی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ جو شخص فوت ہونے کے بعد روحانی طور پر کسی مقدس کےقریب ہوجائے۔ تو گویا اس کی قبر اُس مقدس کی قبر کے قریب ہوگی۔ واللہ اعلم وعِلْمُہ‘ اَحْکَم ُ۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ470،471۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 352)
1891ء
’’طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اُس پر بہرحال ایمان لاتے ہیں۔ لیکن اِس عاجز پر جو ایک رؤیامیں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ممالک ِ مغربی جو قدیم سے ظلمت کفرو ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منوّر کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصہ ملے گا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 515, روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 376،377)
1891ء
’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈنؔ میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مُدلّل بیان سے اسلامؔ کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا۔
سو مَیں نے اِس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں اِن لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز
1 چونکہ مدّت کی مقدار معلوم نہیں ہوسکی اسلئے اسے اس کے وقت ِ ذکر کی رعایت سے 1891ء کے نیچے ہی رکھا جاتا ہے۔ (مرتب)
صداقت کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ515،516۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 377)
1891ء
’’اُس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ چنانچہ اُس کا الہام یہ ہے کہ
’’مسیح ابنِ مریم رسُول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنْتَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنِ۔ اَنْتَ مُصِیْبٌ وَّمُعِیْنٌ لِلْحَقِّ۔‘‘ 1 (ازالہ اوہام صفحہ 561،562۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 402 )
1891ء
’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ
تو مغلوب ہوکر یعنے بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہو کر پھر آخرغالب ہوجائے گا اور انجام تیرے لئے ہوگا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اُتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی۔ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید ‘ تیری عظمت‘ تیری کمالیّت پھیلادے۔ خدا تعالیٰ تیرے چہرے کو ظاہر کرے گا اور تیرے سایہ کو لمبا کردے گا۔ دُنیا میں ایک نذیر آیا ، پَر دُنیا نے اُسے قبول نہیں کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچّائی ظاہر کردے گا۔ عنقریب اُسے ایک مُلک عظیم دیا جائیگا(........) اور خزائن اس پر کھولے جائیں گے(........) یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگرد نشان دکھلادینگے۔ حجت قائم ہوجائیگی اور فتح کھُلی کھُلی ہوگی۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بھاری جماعت ہیں۔ یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اگر لوگ تجھے چھوڑدینگے پَر مَیں نہیں چھوڑوں گا اور اگر لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر مَیں بچاؤنگا۔ مَیں اپنی چمکار دکھاؤنگا اور قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤنگا۔ اے ابراہیم تجھ پر سلام! ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چُن لیا۔ خدا تیرے سب کام درست کردیگا اور تیری ساری مرادیں تجھے دیگا۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید۔ خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑدے جب تک وہ خبیث کو طیّب سے جُدا نہ کرے۔ وہ تیرے مجد کو
1 (ترجمہ از مرتب) اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔ تُو میرے ساتھ ہے اور تُو روشن حق پر قائم ہے۔ تو راہِ صواب پر ہے اور حق کا مدد گار ہے۔
زیادہ کرے گا اور تیری ذریّت کو بڑھائے گا۔ اور مِن بَعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیا جائے گا۔ میں تجھے زمین کے کناروں تک عزّت کے ساتھ شہرت دُوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دُوں گا۔جَعَلْنَاکَ الْمسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا) ان کو کہدے کہ مَیں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔ یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا۔ سو تو اِن کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں خدا بہتر جانتا ہے۔ تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور اصل حقیقت تم پر مکشوف نہیں۔ جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت ِ الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرارِ ملکوتی سے حصہ ہے ایک اولی العزم پیدا ہوگا۔وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ تیری ہی نسل سے ہوگا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند
مَظْھَرْ ُالْحَقِّ وَ الْعُلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ 1 یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَانٌ مُّخْتَلِفٌ بِاَزْوَاجٍ مُّخْتَلِفَۃٍ۔ وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا۔ وَلَنُحْیِیَنَّک۔ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ط ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ
(ازالہ اوہام صفحہ632،635 روحانی خزائن جلد 3صفحہ 441،443)
1891ء
’’یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا۔ جو کمال طغیان اس کا اُس سَن ہجری میں شروع ہوگا۔ جو آیت وَاِنَّا عَلیٰ ذَھَابٍ بِہٖ لَقَادِرُوْنَ 2میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی 1274ھ ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ657۔روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ455)
1891ء
’’خدا تعالیٰ نے اپنے کشف ِ صریح سے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ قرآنِ کریم میں مثالی طور پر ابن ِ مریم کے آنے کا ذکر ہے۔3‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 667۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 460)
1891ء
’’اُس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اُس ابن ِ مریم کو رُوحانی پیدائش اور روحانی
1 (ترجمہ از مرتب) تجھ پر مختلف ازواج (یعنی رفقاء) کے ساتھ مختلف زمانے آئیں گے اور تُو دُور کی نسل دیکھے گا اور ہم تجھے خوش زندگی نصیب کریں گے اسّی سال یاا س کے قریب۔
2 (ترجمہ از مرتب) یقینا ہم اُس کو لے جانے پر قادر ہیں۔
3 دیکھو آیت وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلاً اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ۔ (الزخرف:58 )
زندگی بخشی۔ جیسا کہ اُس نے خود اُس کو اپنے الہام میں فرمایا۔
ثُمَّ اَحْیَیْنَاکَ بَعْدَمَآ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی وَ جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔
یعنی پھر ہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے فرقوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور تجھے ہم نے مسیح ابن ِ مریم بنایا۔ یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں موت روحانی پھیل گئی۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 674، روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 464)
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّیْ الْحَزَنَ وَ اٰتَانِیْ مَا لَمْ 1 یُؤْتَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔
احد من العالمین سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آیندہ زمانہ کے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ703،روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ479)
ترجمہ:۔ ’’اس خدا کی تعریف ہے جس نے میرا غم دُور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 107۔روحانی خزائن جلد نمبر22صفحہ110 )
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
1891ء
’’جب لوگ مسیح موعود کے دعویٰ سے سخت ابتلاء میں پڑگئے یہ الہامات ہوئے:۔
اَلَّذِیْنَ 1 تَابُوْاوَاَصْلَحُوْااُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ وَاَنَاالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ اُمَمٌ یَّسَّرْنَا لَھُمُ الْھُدٰی وَاُمَمٌ حَقَّ عَلَیْھِمْ الْعَذَابُ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ وَ لَکَیْدُ اللّٰہِ اَکْبَرُ۔ وَاِنْ یَّتَخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ قُلْ اَیُّھَا لْکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ فَانْتَظِرُوْٓا اٰیَاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ۔ حُجَّۃٌ قَآئِمَۃٌ وَّ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِافْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ و لَوْکَرِہَالْکَافِرُوْنَ۔ نُرِیْدُ اَنْ نُّنَزِّلَ عَلَیْکَ اَسْرَارًا مِّنَ السَّمَآئِ وَنُمَزِّقَ الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَّ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَ جُنُوْدَھُمَا مَاکَانُوْا یَحْذَرُوْنَ۔ سَلَّطْنَا کِلَابًا عَلَیْکَ وَ غَیَّظْنَا سِبَاعًا مِّنْ قَوْلِکَ وَفَتَنَّاکَ فُتُوْنًا۔ فَلَا تَحْزَنْ عَلَی الَّذِیْ قَالُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ۔ حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْمَانِ لِخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ یُؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ وَیُفْتَحُ عَلٰی یَدِہِ الْخَزَآئِنُ وَتُشْرِقُ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ
1 یہ الہام انجام آتھم صفحہ77پر یُوں درج ہے۔ ’’وَاَعْطَانِیْ مَا لَمْ یُعْطَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘ (مرتب)
وَ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ عَجِیْبٌ۔
یعنی جو لوگ توبہ کریں گے اور اپنی حالت کو درست کرلیں گے۔ تب مَیں بھی اُن کی طرف رجوع کروں گا اورمیں توّاب اور رحیم ہوں۔ بعض گروہ وہ ہیں جن کے لئے ہم نے ہدایت کو آسان کردیا اور بعض وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوا۔ وہ مکر کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی مکر کررہا ہے اور وہ خیرالماکرین ہے اور اس کا مکر بہت بڑا ہے اور تجھے ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں۔ کیا یہی ہے جو مبعوث ہوکر آیاہے۔ ان کو کہہ دے کہ اے منکرو! مَیں صادقوں میں سے ہوں اور کچھ عرصے کے بعد تم میرے نشان دیکھو گے۔ ہم اُنہیں اُن کے اردگرد اور خود اُنہیں میں اپنے نشان دکھائیں گے۔ حجت قائم کی جائے گی اور فتح کھُلی کھُلی ہوگی۔ خدا تم میں فیصلہ کردے گا ۔وہ کسی جھُوٹے حد سے بڑھنے والے کا رہنما نہیں ہوتا۔ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نُور کو بُجھا دیں مگر خدا اُسے پُورا کرے گا اگرچہ مُنکر لوگ کراہت ہی کریں۔ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ کچھ اسرار تیرے پر آسمان سے نازل کریں اور دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ باتیں دکھا دیں جن سے وہ ڈرتے ہیں۔ ہم نے کُتّوں کو تیرے پر مُسلطّ کیا اور درندوں کو تیری بات سے غصّہ دلایا اور سخت آزمائش میں تجھے ڈال دیا۔ سو تو اُن کی باتوں سے کچھ غم نہ کر۔ تیرا ربّ گھات میں ہے۔ وہ خدا جو رحمان ہے۔ وہ اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حُکم صادر کرتا ہے کہ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم و معارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے اور زمین اپنے ربّ کے نور سے روشن ہوجائیگی۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 855,856 روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 565، 566 )
1891ء
’’ جب مولوی محمد حسینؔ صاحب نے ہمارے کفر کا فتویٰ دیا اور لوگوں کو بھڑکایا کہ یہ مسلمان نہیں۔ ان کے جنازے درست نہیں اور ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ ہونے دیا جاوے۔ اُس وقت چونکہ بُغض و عداوت بڑھ گئی تھی۔ ہم گویا تنہا رہ گئے۔ اُس وقت مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے بڑے بھائی میرزا غلام قادر مرحوم کی شکل پر ایک شخص آیا ہے مگر مجھے فوراً معلوم کرایا گیا کہ یہ فرشتہ ہے مَیں نے کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو ؟ اُس نے کہا کہ
جئْتُ مِنْ حَضْرَۃِ الْوِتْرِ
میں جناب باری سے آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ کیوں؟ اُس نے کہا کہ بہت سے لوگ تم سے الگ ہوگئے ہیں اور تمہاری عداوت میں بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ پیغام دینے آیا ہوں۔ مَیں نے اُس کو الگ ہو کر ایک بات کہنی چاہی۔ جب وہ الگ ہوا تو مَیں نے کہا کہ لوگ تو مجھ سے علیٰحدہ ہوگئے ہیں مگر کیا تم بھی الگ ہوگئے ہو؟ اس نے کہا۔ نہیں۔ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ معاً میری حالت ِ کشف اس پر جاتی رہی۔‘‘
(الحکم جلد7نمبر 2مؤرخہ17جنوری1903ء صفحہ6۔ البدر جلد 1نمبر12 مؤرخہ16جنوری1903ء صفحہ97)1
1 یہ الہام انجام آتھم صفحہ77پر یُوں درج ہے۔ ’’وَاَعْطَانِیْ مَا لَمْ یُعْطَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘ (مرتب)
1891ء
’’چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہوچکا ہے کہ
اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ
اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ1 تقویٰ کا طریق چھوڑ کر ایسی گستا خی2کریں گے اورآیت لَاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ کو نظرانداز کردیں گے تو ایک سال تک اس گستاخی کا آپ پر ایسا کھُلا کھُلا اثر پڑے گا جو دوسروں کے لئے بطور نشان کے ہوجائے گا۔‘‘ (از اشتہار17اکتوبر 1891ء و تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ38۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 249)
نومبر1891ء
’’ ٭ رَاَیْتُنِیْ فِی الْمَنَامِ عَیْنَ اللّٰہِ وَتَیَقَّنْتُ اَنَّنِیْ ھُوَ وَلَمْ یَبْقَ لِیْ اِرَادَۃٌ وَّ لَا خَطْرَۃٌ وَّ لَا عَمَلٌ مِّنْ جِھَۃِ نَفْسِیْ وَصِرْتُ کَاِنَائٍ مُّنْثَلِمٍ بَلْ کَشَیْئٍ تَاَبَّطَہ‘ شَیْءٌ اٰخَرُ وَاَخْفَاہُ فِیْ نَفْسِہٖ حَتّٰی مَابَقِیَ مِنْہُ اَثَرٌ وَّ لَا رَآئِحَۃٌ وَّ صَارَکَالْمَفْقُوْدِیْنَ۔
وَاَعْنِیْ بِعَیْنِ اللّٰہِ رُجُوْعَ الظِّلِّ اِلٰی اَصْلِہٖ وَغَیْبُوْ بَتَہ‘ فِیْہِ کَمَا یَجْرِیْ مِثْلُ ھٰذِہِ الْحَالَاتِ فِیْ بَعْضِ الْاَوْقَاتِ عَلَی الْمُحِبِّیْنَ۔ وَتَفْصِیْلُ ذَالِکَ اَنَّ اللّٰہَ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا مِّنْ نِّظَامِ الْخَیْرِ جَعَلَنِیْ مِنْ تَجَلِّیَاتِہِ الذَّاتِیَّۃ بِمَنْزِلَۃِ مَشِیَّتِہٖ وَعِلْمِہٖ وَجَوَارِحِہٖ وَتَوْحِیْدِہٖ وَتَفْرِیْدِہٖ لِاِثْمَامِ مُرَادِہٖ وَتَکْمِیْلِ مَوَاعِیْدِہٖ کَمَا جَرَتْ عَادَتُہ‘ بِالْاَبْدَالِ وَالْاَقْطَابِ وَالصِّدِّیْقِیْنَ۔
٭ (مضمونِ بالا کا مفہوم بزبانِ اُردو حضور ؑ کے الفاظ میں)
’’مَیں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ مَیں خود خدا3ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا۔ اور مَیں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہوگیا ہوں۔ یا اس شے کی طرح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بس میں کر لیا ہو۔ اور اُسے اپنے اندر بالکل مخفی کرلیا ہو۔ یہاں تک کہ اُس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہ گیا ہو۔
اِس اثناء میں مَیں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی رُوح مجھ پر محیط ہوگئی اور میرے جسم پر مستولی ہوکر اپنے وجود میں مجھے
1 مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی۔ (مرتب)
2 یعنی ’’ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سُنکر اللہ جلّ شانہ‘ کی تین مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیںاور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن ِ مریم زندہ بحدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں۔‘‘ (اشتہار17 اکتوبر1891ء۔ تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ38۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 249)
3 خواب میں اگر کوئی دیکھے کہ وہ خدا بن گیا ہے۔ تو اس کی یہ تعبیر ہوگی۔ ’’اِھْتَدٰی اِلَی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ۔‘‘
(تعطیرالانام صفحہ 9) کہ اس شخص کو سیدھی راہ کی طرف ہدایت ملی۔ (مرتب)
فَرَاَیْتُ اَنَّ رُوْحَہ‘ اَحَاطَ عَلَیَّ وَاسْتَوٰی عَلٰی جِسْمِیْ وَلَفَّنِیْ فِیْ ضِمْنِ وُجُوْدِہٖ حَتّٰی مَابَقِیَ مِنِّیْ ذَرَّۃٌ وَّکُنْتُ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ۔ وَنَظَرْتُ اِلٰی جَسَدِیْ فَاِذَا جَوَارِحِیْ جَوَارِحُہ‘ وَعَیْنِیْ عَیْنُہ‘ وَاُذُنِیْ اُذُنُہ‘ وَلِسَانِیْ لِسَانُہ‘۔ اَخَذَنِیْ رَبِّیْ وَاسْتَوْفانِیْ وَاَکَّدَالْاِسْتِیْفَآئَ حَتّٰی کُنْتُ مِنَ الْفَانِیْنَ۔ وَ وَجَدْتُّ قُدْرَتَہ‘ وَقُوَّتَہ‘ تَفُوْرُفِیْ نَفْسِیْ وَاُلُوْھِیَّتَہ‘ تَتَمَوَّجُ فِیْ رُوْحِیْ وَضُرِبَتْ حَوْلَ قَلْبِیْ سُرَادِقَاتُ الْحَضْرَۃِ وَدَقَّقَ نَفْسِیْ سُلْطَانُ الْجَبَرُوْتِ۔ فَمَا بَقِیْتُ وَمَا بَقِیَ اِرَادَتِیْ وَلَا مُنَایَ۔ وَانْھَدَمَتْ عِمَارَۃُ نَفْسِیْ کُلُّھَا وَتَرَائَ تْ عِمَارَاتُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَمَحَتْ اَطْلَالُ وُجُوْدِیْ وَعَفَتْ بَقَایَا اَنَا نِیَّتِیْ وَمَا بَقِیَتْ ذَرَّۃٌ مِّنْ ھُوِیَّتِیْ وَالْاُلُوْھِیَّۃُ غَلَبَتْ عَلَیَّ غَلَبَۃً شَدِیْدَۃً تَآمَّۃً وَّجُذِبْتُ اِلَیْھَا مِنْ شَعْرِ رَاْسِیْ اِلٰی اَظْفَارِ اَرْجُلِیْ فَکُنْتُ لُبًّا بِلَا قُشُوْرٍ وَّ دُھْنًا بِغَیْرِ ثُفْلٍ وَّ بُذُوْرٍ وَّ بُوْعِدَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ نَفْسِیْ فَکُنْتُ کَشَیْئٍ لَّایُرٰی اَوْکَقَطْرَۃٍ رَّجَعَتْ اِلَی الْبَحْرِ فَسَتَرَہُ الْبَحْرُ بِرِدَآئِہٖ وَکَانَ تَحْتَ اَموَاجِ الْیَمِّ کَالْمَسْتُوْرِیْنَ۔ فَکُنْتُ فِیْ ھٰذِہِ الْحَالَۃِ لَآ اَدْرِیْ مَاکُنْتُ مِنْ قَبْلُ وَمَاکَانَ وُجُوْدِیْ وَکَانَتِ الْاُلُوْھِیَّۃُ نَفَذَتْ فِیْ عُرُوْقِیْ وَ اَوْتَارِیْ وَاَجْزَآئِ اَعْصَابِیْ وَرَاَیْتُ وُجُوْدِیْ کَالْمُنْھُوْبِیْن۔ وَکَاَنَّ اللّٰہَ اسْتَخْدَمَ جَمِیْعَ جَوَارِحِیْ وَمَلَکَھَا بِقُوَّۃٍ لَّایُمْکِنُ زَیَادَۃٌ عَلَیْھَا فَکُنْتُ مِنْ اَخْذِہٖ وَ تَنَاوُلِہٖ کَاَنِّیْ لَمْ اَکُنْ مِّنَ الْکَآئِنِیْنَ۔ وَکُنْتُ اَتَیَقَّنُ اَنَّ جَوَارِحِیْ لَیْسَتْ جَوَارِحِیْ بَلْ جَوَارِحُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُنْتُ اَتَخَیَّلُ اَنِّی انْعَدَمْتُ بِکُلِّ وُجُوْدِیْ وَانْسَلَخْتُ مِنْ کُلِّ ھُوِیَّتِیْ۔
پنہاں کرلیا۔ یہاں تک کہ میرا کوئی ذرّہ بھی باقی نہ رہا۔ اور مَیں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضا اُس کے اعضا اور میری آنکھ اُس کی آنکھ‘ اور میرے کان اُس کے کان‘ اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی۔ میرے ربّ نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا کہ مَیں بالکل اس میں محو ہوگیا اور مَیں نے دیکھا کہ اُس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی ہے اور اُس کی الُوہیت مجھ میں موجزن ہے۔ حضرت عزّت کے خیمے میرے دل کے چاروں طرف لگائے گئے اور سلطان جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا۔ سو نہ تو مَیں ہی رہا اور نہ میری کوئی تمنّا ہی باقی رہی۔ میری اپنی عمارت گر گئی اور ربّ العالمین کی عمارت نظر آنے لگی۔
اور الُو ہیت بڑے زور کے ساتھ مجھ پر غالب ہوئی اور مَیں سر کے بالوں سے ناخن ِ پا تک اس کی طرف کھینچا گیا پھر مَیں ہمہ مغز ہوگیا۔ جس میں کوئی پوست نہ تھا۔ اور ایسا تیل بن گیا جس میں کوئی میل نہیں تھی ۔ اور مجھ میں اورمیرے نفس میں جُدائی ڈال دی گئی۔ پَس مَیں اُس شے کی طرح ہوگیا جو نظر نہیں آتی یا اُس قطرہ کی طرح جو دریا میں جاملے اور دریا اُس کو اپنی چادر کے نیچے چھپالے۔ اس حالت میں مَیں نہیں جانتا تھا کہ اس سے پہلے مَیں کیا تھا اور میرا وجود کیا تھا۔ الُوہیت میرے رگوں اور پٹھوں میں سرایت کر گئی اور مَیں بالکل اپنے آپ سے کھویا گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے سب اعضاء
اپنے کام میں لگائے اور اس زور سے اپنے قبضہ میں کرلیا کہ اُس سے زیادہ ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کی گرفت سے

وَالْاٰنَ لَا مُنَازِعَ وَلَا شَرِیْکَ وَلَا قَابِضٌ یُزَاحِمُ۔ دَخَلَ رَبِّیْ عَلٰی وُجُوْدِیْ وَکَانَ کُلُّ غَضَبِیْ وَ حِلْمِیْ وَحُلْوِیْ وَ مُرِّیْ وَحَرَکَتِیْ وَسُکُوْنِیْ لَہ‘ وَمِنْہُ۔ وَصِرْتُ مِنْ نَّفْسِیْ کَالْخَالِیْنَ۔ وَبَیْنَمَآ اَنَا فِیْ ھٰذِہِ الْحَالَۃِ کُنْتُ اَقُوْلُ اِنَّا نُرِیْدُ نِظَامًا جَدِیْدًا۔ سَمَآئً جَدِیْدَۃً وَّاَرْضًا جَدِیْدَۃً فَخَلَقْتُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَوَّلًا بِصُوْرَۃٍ اِجْمَالِیَّۃٍ لَّا تَفْرِیْقَ فِیْھَا وَلَا تَرْتِیْبَ۔ ثُمَّ فَرَّقْتُھَا وَرَتَّبْتُھَا بِوَضْعٍ ھُوَ مُرَادُ الْحَقِّ وَکُنْتُ اَجِدُ نَفْسِیْ عَلٰی خَلْقِھَا کَالْقَادِرِیْنَ ثُمَّ خَلَقْتُ السَّمَآئَ الدُّنْیَا وَقُلْتُ اِنَّا زَیَّنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ ثُمَّ قُلْتُ الْاٰنَ نَخْلُقُ الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ۔ ثُمَّ انْحَدَرْتُ مِنَ الْکَشْفِ اِلَی الْاِلْھَامِ فَجَرٰی عَلٰی لِسَانِیْ۔
اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ اِنَّاخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ وَّکُنَّا کَذَالِکَ خَالِقِیْنَ۔
مَیں بالکل معدوم ہوگیا۔ اور مَیں اُس وقت یقین کرتا تھا کہ میرے اعضاء میرے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہیں اور مَیں خیال کرتا تھا کہ مَیں اپنے سارے وجود سے معدوم اور اپنی ہُوِیَّتْ سے قطعاً نکل چکا ہوں۔ اَب کوئی شریک اور مُنازِع روک کرنے والا نہیں رہا۔ خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہوگیا اور میرا غضب اور حلم اور تلخی اور شیرینی اور حرکت اور سکون سب اسی کا ہوگیا اور اس حالت میں مَیں یُوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو مَیں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی۔ پھر مَیں نے منشاءِ حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی اور مَیں دیکھتا تھا کہ مَیں اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر مَیں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا۔ اِنَّازَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۔ پھر مَیں نے کہا۔اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر جاری ہوا
1 اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ اِنَّا خَلُقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔‘‘
(کتاب البریّہ صفحہ78،79 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر13 صفحہ 103 تا 105)
(ب) ’’ ایک کشفی رنگ میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا ہے اور پھر مَیں نے کہا کہ آؤ۔ اب انسان کو پیدا کریں اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدا ئی کا دعویٰ کیا حالانکہ اُس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کریگا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہوجائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے۔‘‘ (چشمہ ٔ مسیحی صفحہ58 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر20 صفحہ 375، 376 )
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے ارادہ کیاکہ خلیفہ بناؤں تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ یقینا ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے۔ (مرتب)
1 وَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ اللّٰہَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّخْلُقَ اٰدَمَ فَیَخْلُقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّیَخْلُقُ کُلَّ مَالَا بُدَّمِنْہُ فِی السَّمَآء وَ الْاَرْضِیْنَ۔ ثُمَّ فِیْ اٰخِرِالْیَوْمِ السَّادِسِ یَخْلُقُ اٰدَمَ۔ وَکَذَالِکَ جَرَتْ عَادَتُہ‘ فِی الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ وَ اُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ ھٰذَا الْخَلْقَ الَّذِیْ رَاَیْتُہ‘ اِشَارَۃٌ اِلٰی تَائِیْدَاتٍ سَمَاوِیَّۃٍ وَّاَرْضِیَّۃٍ وَّجَعْلِ الْاَسْبَابِ مُوَافِقَۃً لِّلْمَطْلُوْبِ وَخَلْقِ کُلِّ فِطْرَۃٍ مُّنَاسِبَۃٍمُّسْتَعِدَّۃٍ لِّلَّحُوْقِ بِالصَّالِحِیْنَ الطَّیِّبِیْنَ۔
وَاُلْقِیَ فِیْ بَالِی اَنَّ اللّٰہَ یُنَادِیْ کُلَّ فِطْرَۃٍ صَالِحَۃٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَیَقُوْلُ کُوْنِیْ عَلٰی عُدَّۃٍ لِّنُصْرَۃِ عَبْدِیْ وَارْحَلُوْا اِلَیْہِ مُسَارِعِیْنَ۔
وَرَاَیْتُ ذَالِکَ فِیْ رَبِیْعِ الثَّانِیْ 1309 ھ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَصْدَقُ الْمُوْحِیْنَ۔ وَلَانَعْنِیْ بِھٰذِہِ الْوَاقِعَۃِ کَمَایُعْنٰی فِیْ کُتُبِ اَصْحَابِ وَحْدَۃِ الْوُجُوْدِ وَمَا نَعْنِیْ بِذَالِکَ مَاھُوَ مَذْھَبُ الْحُلُوْلِیِّیْنَ بَلْ ھٰذِہِ الْوَاقِعَۃُ تُوَافِقُ حَدِیْثَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَعْنِیْ بِذَالِکَ حَدِیْثَ الْبُخَارِیِّ فِیْ بَیَانِ مَرْتَبَۃِ قُرْبِ النَّوَافِلِ لِعِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ564 تا566۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ 564 تا 566)
1891ء
’’مَیں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں۔ کہ ایک آسمانی فیصلہ2 کے لئے مَیں مامور ہوں۔ اور اس کے ظاہری انتظام کے درست کرنے کے لئے مَیں نے 27دسمبر1891ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے۔ متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع
1 (ترجمہ از مرتب) اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو چھ دنوں کے اندر آسمانوں اور زمین کو اور ان تمام چیزوں کو پیدا کرتا ہے جن کا آسمان یا زمین میں پایا جانا ضروری ہوتا ہے اور چھٹے دن کے اخیر میں آدم کو پیدا کرتا ہے۔ اور یہی اس کی سنّتِ مستمرہ ہے۔ اور یہ بات بھی میرے دل میں ڈالی گئی کہ نئے آسمان اور زمین کا پیدا کیا جانا۔ جو مَیں نے رؤیا میں دیکھا ہے۔ اس میں تائیداتِ سماوی و ارضی کی طرف سے اصل مقصود کے مناسب حال اسباب پیدا کرنے اور ایسی فطرتوں کو وجود میں لانے کی طرف اشارہ ہے جو صالحین طیّبین میں شامل ہونے کی اہلیّت رکھتے ہوں۔ نیز میرے دل میں ڈالا گیا۔ کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک فطرتِ قابلہ کو آسمان سے حکم دیتا ہے کہ میرے بندے کی نصرت کے لئے تیار ہوجاؤ۔ اور اس بندے کی طرف دوڑ کر آؤ۔
اور یہ رؤیا مَیں نے ربیع الثانی 1309ھ میں دیکھی تھی۔ والحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔ اور اس سے مراد وحدت وجودی لوگوں والا عقیدہ یا حلولیوں والا عقیدہ نہیں۔ بلکہ یہ واقعہ صحیح بخاری کی اس حدیث کے مطابق ہے جس میں نوافل کے ذریعہ سے اللہ کے صالح بندوں کو حاصل ہونے والے مرتبہ ٔ قرب کا ذکر ہے۔
2 ’’آسمانی فیصلہ‘‘ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام کی برکات اب بھی جاری ہیں اور آپ اس مدّعا کے ثابت کرنے کے لئے مامور ہیں۔ (مرتب)
ہوں گے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 22 دسمبر1891ء بنام نواب محمد علیخان صاحب آف مالیر کوٹلہ۔ مکتوباتِ احمدیہ۔ جلد پنجم نمبر4صفحہ9)
1891ء
’’ایک دُعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ1 میرے پاس موجو دہیں اور ایک دفعہ گردن اُونچی ہوگئی۔ اور جیسے اقبال اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ اُبھارتا ہے ویسی ہی صورت پیدا ہوئی۔
مَیں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے۔ مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیا ہے مگر مَیں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال1اور کامیابی اور ترقی عزّت جلّ شانہ‘ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے۔ اگر(چہ) اس کا زمانہ نزدیک ہو یا دُور ہو۔ سو مَیں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا۔ مگر آج خوش ہوں کیونکہ آپ کے مآل کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔‘‘
(مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب22دسمبر1891ء ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر4 چہارم صفحہ 8،9)
1891ء
’’کِتَابٌ سَجَّلْنَاہُ مِنْ عِنْدِنَا۔‘‘
ترجمہ:۔ یہ وہ کتاب ہے جس پر ہم نے اپنے پاس سے مُہر لگادی ہے۔‘‘
(آسمانی فیصلہ صفحہ 13 مطبوعہ بار سوم نومبر 1901ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر4صفحہ 321)
1891ء
’’خدا تعالیٰ نے مجھ مخاطب کرکے صاف لفظوں میں فرمایا ہے:۔
اَنَا الْفَتَّاحُ اَفْتَحُ لَکَ۔ تَرٰی نَصْرًا عَجِیْبًا وَّ یَخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ جَلَابِیْبُ الصِّدْقِ۔ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ۔ اَلْخَوَارِقُ تَحْتَ مُنْتَہٰی صِدْقِ الْاَقْدَامِ۔ کُنْ لِّلّٰہِ جَمِیْعًا وَّ مَعَ اللّٰہِ جَمِیْعًا۔ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔
یعنی میں فتا ّح ہوں تجھے فتح دُوں گا۔ ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض اُن کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدّر
1 مراد نواب محمد علی خان صاحب آف ملیر کوٹلہ۔ (مرتب)
2 خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ یہ بشارت 1908ء میں اس طرح سے پوری ہوئی۔ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دامادی کا شرف بخشا۔ اور حضور کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صا حبہ آپ کے نکاح میں آئیں۔ اس سے بڑھ کر آپ کی اقبال مندی خوش نصیبی اور ترقی عزّت اور کیا ہوسکتی ہے۔ (مرتب)
ہے‘ اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش۔ ہم خطا پر تھے۔ یہ صدق کے جلابیب ہیں‘ جو ظاہر ہوں گے۔ سو جیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے۔ استقامت اختیار کر۔ خوارق یعنی کرامات اُس محل پر ظاہر ہوتی ہیں۔ جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے۔ تو سارا خدا کے لئے ہوجا۔ تو سارا خدا کے ساتھ ہوجا۔ خدا تجھے اُس مقام پر اُٹھائے گا جس میں تُو تعریف کیا جائے گا۔ ‘‘
(آسمانی فیصلہ صفحہ 37۔ مطبوعہ بار سوم نومبر 1901ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ 342)
1891ء
ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدراختلافِ الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ
’’میں تجھے عزّت دُوں گا اور بڑھاؤں گا۔ اور تیرے آثار میں برکت رکھ دُونگا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘ (آسمانی فیصلہ صفحہ 37۔ مطبوعہ بار سوم نومبر 1901ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ 342)
27 دسمبر 1891ء
28۔27۔14۔2۔27۔2۔26۔2۔28۔1۔23۔15۔11
1۔2۔27۔14۔10۔1۔28۔27۔47۔16۔11۔34۔14۔11
7۔1۔5۔34۔23۔34۔11۔14۔7۔23۔14۔1۔1
14۔5۔28۔7۔34۔1۔7۔34۔11۔16۔1۔14۔7۔2۔1۔7۔5۔1۔14۔1
14۔2۔28۔1۔7 1
(اشتہار 27؍دسمبر 1891ء ملحق بہ آسمانی فیصلہ و تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ 85۔ روحانی خزائن جلد 4۔ صفحہ 350)
1892ء
’’دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سخت عارضہ ہوتا ہے تو خداوند کریم اپنی طرف سے شفا بخشتا ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ زحیر اور اسہال خونی کی سخت بیماری ہوئی.......لیکن اس نازک حالت میں خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک عجیب طور سے شفا بخشی....... ایسا ہی اس دوسری بیماری میں جب حال قریب موت ہوا۔ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا:۔
اَلْاِبْرَائُ
سو یقین رکھتا ہوں کہ خداوند کریم اس بیماری سے نجات بخشے گا۔‘‘
(مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مؤرخہ 7؍اپریل 1892ء۔ مکتوات احمدیہ جلد پنجم نمبر 2 صفحہ 119)
1 یہ اعداد اور ان کے اندر کی چابی سب الہام کا حصہ ہیں جس کی حقیقت خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مگر انشاء اللہ العزیز اپنے وقت پر ضرور ظاہر ہوگی۔ (مرتب)
1892ء
’’ بارہا اِس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے۔‘‘
(نشان آسمانی صفحہ 15۔ روحانی خزائن جلد نمبر4صفحہ 375)
1892ء
’’یہ عاجز خدائے تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔ کہ اس تکفیر کے وقت میں کہ ہریک طرف سے اس زمانہ کے علماء کی آوازیں آرہی ہیں کہ لَسْتَ مُؤْ مِنًا۔ اللہ جلّ شانہ‘کی طرف سے یہ ندا ہے کہ
قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔1
ایک طرف حضرات مولوی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس شخص کی بیخ کنی کرو۔ اور ایک طرف الہام ہوتا ہے۔
یَتَرَ بَّصُوْنَ عَلَیْکَ الدَّوَآئِرَ عَلَیْھِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ۔2
اور ایک طرف وہ کوشش کررہے ہیں کہ اِس شخص کو سخت ذلیل اور رسوا کریں اور ایک طرف خدا وعدہ کرتا ہے۔
اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ اَللّٰہُ اَجْرُکَ اللّٰہُ یَعْطِیْکَ جَلَالَکَ۔3
اور ایک طرف مولوی لوگ فتوے پر فتوے لکھ رہے ہیں کہ اِس شخص کی ہم عقیدگی اور پَیروی سے انسان کافر ہوجاتا ہے اور ایک طرف خدا تعالیٰ اپنے اس الہام پر بتواتر زور دے رہا ہے۔
’’ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ‘‘4
غرض یہ تمام مولوی صاحبان خدا تعالیٰ سے لڑ رہے ہیں۔ اب دیکھئے کہ فتح کِس کی ہوتی ہے۔‘‘
(نشان ؔآسمانی صفحہ 38،39۔ روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ 398، 399)
25جولائی 1892ء
25جولائی 1892ء مطابق 20 ؍ذی الحجہ 1309ھ روز دو شنبہ۔ ’’آج مَیں نے بوقت
1 (ترجمہ از مرتب) کہہ مجھے مامور کیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ تجھ پر حوادث کے نزول کا انتظار کررہے ہیں۔ بُری گردش اُنہی پر پڑے گی۔
3 (ترجمہ از مرت) جو تیری ذلّت چاہے مَیں اُسے ذلیل کروںگا۔ اللہ تیرا اجر ہے۔ اللہ تجھے تیرا جلال عطا کرے گا۔
نوٹ از مرتب:۔ الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَک حضرت اقدس کو 1892ء میں بمقام لاہور شیخ محمد حسین بٹالوی کی نسبت بھی ہوا تھا ۔ ( دیکھیں الحکم جلد 1 نمبر 6 مؤرخہ 30؍ نومبر 1897ء صفحہ 2)
4 (ترجمہ از مرتب) کہہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ اسی طرح وہ بھی تم سے محبت کریگا۔
صبح صادق ساڑھے چار بجے دن کے خواب میں دیکھا کہ ایک حویلی ہے۔ اس میں میری بیوی والدہ محمود اور ایک عورت بیٹھی ہے۔ تب مَیں نے ایک مشک سفید رنگ میں پانی بھرا ہے اور اس مشک کو اُٹھا کر لایا ہوں اور وہ پانی لاکر ایک اپنے گھڑے میں ڈال دیا ہے۔ مَیں پانی کو ڈال چکا تھا کہ وہ عورت جو بیٹھی ہوئی تھی یکایک سُرخ اور خوش رنگ لباس پہنے ہوئے میرے پاس آگئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جوان عورت ہے۔ پیروں سے سر تک سُرخ لباس پہنے ہوئے شاید جالی کا کپڑ اہے۔ مَیں نے دل میں خیال کیا کہ وہی عورت ہے جس کے لئے اشتہار دئے تھے لیکن اِس کی صورت میری بیوی کی صورت معلوم ہوئی۔ گویا اس نے کہا یا دل میں کہا کہ مَیں آگئی ہوں۔ مَیں نے کہا یا اللہ آجاوے اور پھر وہ عورت مجھ سے بغلگیر ہوئی۔ اس کے بغلگیر ہوتے ہی میری آنکھ کھُل گئی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
اس سے دو چار روز پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ روشن بی بی میرے دالان کے دروازہ پر کھڑی ہوئی ہے اور مَیں دالان کے اندر بیٹھا ہوں۔ تب مَیں نے کہا کہا۔ آ ! روشن بی بی اندر آجا۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں صفحہ 33 از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام)
ماہِ اگست 1892ء
’’ مجھے تین چار روز ہوئے ایک متوحش1خواب آئی تھی۔ جس کی یہ تعبیر تھی کہ ہمارے ایک دوست پر دشمن نے حملہ کیا ہے اور کچھ ضرر پہنچاتا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کا بھی کام تمام ہوگیا۔‘‘
(مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مؤرخہ 26؍ اگست 1892۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر 2 صفحہ122)
1 (نوٹ از مرتب) یہ متوحش خواب حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے متعلق تھی اور اس میں ایک دوست سے مراد بھی آپ ہی ہیں۔ چنانچہ حضرت اقدس ؑ اسی مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:۔
کل کی ڈاک میں آں مکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے پڑھنے سے ایک حیرت دل پر طاری ہوئی مگر ساتھ ہی دل پھر کھُل گیا۔ یہ خداوند حکیم و کریم کی طرف سے ایک ابتلاء ہے انشاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں.........مجھے معلوم نہیں کہ ایسا پُر اشتعال حکم کس اشتعال کی و جہ سے دیا ہے کیا بدقسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم نیک بخت اور سچّے خیر خواہ نکالے جائیں۔ اور معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔‘‘
(مکتوب مذکور۔ مکتوباتِ احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ 121 تا 123)
حضرت مولانا یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ اس پُر اشتعال حکم کے سبب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت حکیم الامت اور مولوی محرم علی چشتی مرحوم پر ایک سیاسی الزام آپ کے دشمنوں نے لگایا تھا۔ راجہ امر سنگھ صاحب کو حضرت حکیم الامت سے بہت محبت تھی اور وہ آپ کی عملی زندگی اور صداقت پسندی کا عاشق تھا اور وہ ایک مدبّر اور صائب الرائے نوجوان تھا۔ وہ سیاسی
ماہ ِ اگست 1892ء
’’ مَیں نے رات کو جس قدر آں مکرم کے لئے دُعا کی اور جس حالت ِ پُر سوز میں دُعا کی اُس کو خداوند کریم خوب جانتا ہے...... دُعا کی حالت میں یہ الفاظ منجانب اللہ زبان پر جاری ہوئے:۔
لَوَیٰ عَلَیْہِ (اَوْ) لَا وَلِیَّ عَلَیْہِ 1
اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا۔ اور اسی کی طرف سے تھا۔‘‘
(مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ مؤرخہ 26؍اگست 1892ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ 122)
14؍اگست 1892ء
14؍اگست 1892ء مطابق 20؍محرم 1309ھ۔ ’’آج خواب میں مَیں نے دیکھا کہ محمدی (بیگم)جس کی نسبت پیشگوئی ہے باہر کسی تکیہ میں معہ چند کس کے بیٹھی ہوئی ہے اور سر اس کا شاید مُنڈا ہوا ہے اور بدن سے ننگی ہے اور نہایت مکروہ شکل ہے۔ مَیں نے اُس کو تین مرتبہ کہا ہے کہ تیرے سر منڈی ہونے کی یہ تعبیر ہے کہ تیرا خاوند مرجائے گا۔ اور مَیں نے دونوں ہاتھ اس کے سر پر اتارے ہیں اور پھر خواب میں مَیں نے یہی تعبیر کی ہے اور اسی رات والدہ محمود نے خواب میں دیکھا کہ محمدی (بیگم) سے میرا نکاح ہوگیا ہے اور ایک کاغذ مہر ان کے ہاتھ میں ہے جس پر ہزار روپیہ مہر لکھا ہے اور شیرینی منگوائی گئی ہے اور پھر میرے پاس وہ خواب میں کھڑی ہے۔‘‘
(رجسٹر صفحہ 34 متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام )
20اگست 1892ء
’’ آج رات بوقت دو2 بجے مَیں نے دیکھا کہ ایک سانپ صاحب جان مرحومہ کے گھر میں پھرتا ہے۔ پھر وہ زمین پر بیٹھ گیا اور محمد سعید نے اس کے سر پر انگلی رکھی تا اس کو قتل کرے۔ پھر مَیں نے بھی انگلی رکھ دی۔ تب اس کے سر میں آگ لگ گئی مگر مجھے معلوم ہوا کہ میری انگلی کو اس نے کاٹا ہے۔ انگلی د ہنی طرف کی سبابہ تھی متورم ہوگئی اور اندیشہ رہا کہ اس کا اثر دل کو نہ پہنچے مگر پہنچنا معلوم نہیں ہوا۔ اور اسی خواب میں معلوم ہوا کہ کچھ تکلیف
بقیہ حاشیہ: جماعت جو مہارا جہ پرتاپ سنگھ کی حالت سے واقف اور ان پر قابو یافتہ تھی انہیں یہ شبہ تھا کہ کسی بھی وقت مہارا جہ پرتاپ سنگھ کو معزول کردیا جائے گا۔ اور اس کی جگہ مہارا جہ امر سنگھ ہوجائیں گے یہ دراصل سیاسی اور اقتداری جنگ تھی۔ اور اس کو مذہب کا رنگ دیا گیا۔ کہ حضرت مولوی صاحب را جہ امر سنگھ کو جب وہ مہارا جہ ہوجائیں گے مسلمان کرلیں گے اس قسم کی سازش کرکے آپ کو اور مولوی محرم علی چشتی کو جموں سے نکل جانے کا حکم دیدیا گیا۔ آپ نے حضرت اقدس کو اطلاع دی اس کے جواب میں حضرت اقدس نے ............ خط لکھا۔‘‘ (حیات احمد جلد چہارم صفحہ 423)
1 (ترجمہ از مرتب) اس پر مہربان ہوا (یا) اس کے مقابلہ میں کوئی دوست نہیں۔
محمود کو بھی پہنچی ہے مگر بظاہر خیریت ہے۔ الٰہی ہریک تکلیف سے بچا۔ آمین۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیںصفحہ 34 از حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ )
26 اگست 1892ء
’‘ آج رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا کہ لڑکے کہتے ہیں کہ
عِید کل تو نہیں پر پرسوں ہوگی۔
معلوم نہیں کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے۔‘‘
(مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ مؤرخہ 26؍ اگست 1892ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ 123)
1892ء
’’خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیراعظم پٹیالہ کسی ابتلاء اور فکر اور غم میں مبتلا تھے۔ ان کی طرف سے متواتر دُعا کی درخواست ہوئی۔ اتفاقاً ایک دن الہام ہوا۔
’’چل رہی ہے نسیم رحمت کی -:- جو دُعا کیجئے قبو ُل ہے آج‘‘
اُس وقت مجھے یاد آیا کہ آج اِنہیں کے لئے دُعا کی جائے۔ چنانچہ دُعا کی گئی اور ان کو بذریعہ خط اطلاع دی گئی اور تھوڑے عرصہ کے بعد انہوں نے ابتلاء سے رہائی پائی اور بذریعہ خط اپنی رہائی سے اطلاع دی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 225، روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 603)
1892ء
’’ مَیں نے اُس1 کی وفات کے بعد اُس کو ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہے (جو سر سے پَیر تک سیاہ ہیں) اور مجھ سے قریباً سو قدم کے فاصلہ پر کھڑا ہے اور مجھ سے مدد کے طور پر کچھ مانگتا ہے۔ مَیں نے جواب دیا کہ اب وقت گذرگیا۔ اب ہم میں اور تم میں بہت فاصلہ ہے۔ تو میرے تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 295،296۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 209)
1892ء
’’ طُوْبِٰی لِمَنْ سَنَّ وَ سَارَ ‘‘ 2
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 2۔ روحانی خزائن جلد نمبر5صفحہ2)
1892ء
لَاتَخَفْ اِنَّنِیْ مَعَکَ۔ وَمَا شٍ مَّعَ مَشْیِکَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُ الْخَلْقُ۔ وَجَدْتُّکَ مَاوَجَدْتُّکَ۔ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَاِھَانَتَکَ۔ وَاِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ۔
1 میر عباس علی صاحب لُدھیانوی۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) جس شخص نے اس طریق کو اختیار کرلیا اور ا س پر چل پڑا۔ وہ بہت ہی خوش نصیب ہے۔
اَنْتَ مِنِّیْ وَ سِرُّکَ سِرِّیْ وَاَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ ۔اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔‘‘ 1
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 11۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ11)
1892ء
’’ مَنِہ دل در تنعُّمہائے دُنیا گر خدا خواہی
کہ مے خواہد نگارِ من تہید ستانِ عشرت را ‘‘2
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 55۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ 55)
1892ء
’’ مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا
کُجا بیند دلِ ناپاک رُوئے پاکِ حضرت را‘‘ 2
1892ء
’’ اب اس عاجز پر خداوند کریم نے جو کچھ کھولا اور ظاہر کیا وہ یہ ہے کہ اگر ہیئت دانوں اور طبعی والوں کے قواعد کسی قدر شہب ثاقبہ اور دُمدار ستاروں کا نسبت قبول بھی کئے جائیں تب بھی جو کچھ قرآن کریم میں اللہ جلّ شانہ‘ و عزّ اسمہ‘ نے ان کائنات الجَو ّ کی رُوحانی اغراض کی نسبت بیان فرمایا ہے اُس میں اور اُن ناقص العقل حکماء کے بیان میں کوئی مزاحمت اور جھگڑا نہیں کیونکہ ان لوگوں نے تو اپنا منصب صرف اِس قدر قرار دیا ہے کہ علل ماویہ اور اسباب عادیہ اِن چیزوں کے دریافت کرکے نظام ظاہری کا ایک باقاعدہ سلسلہ مقرر کردیا جائے لیکن قرآن کریم میں رُوحانی نظام کا ذکر ہے اور ظاہر ہے خدا تعالیٰ کا ایک فعل اس کے دوسرے فعل کا مزاحم نہیں ہوسکتا۔ پس کیا یہ تعجب کی جگہ
1 (ترجمہ از مرتب) خوف نہ کر مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے ساتھ ساتھ چلتا ہوں تو میرے ہاں وہ منزلت رکھتا ہے۔ جسے مخلوق میں سے کوئی نہیں جانتا۔ مَیں نے تجھے پایا ہے جو مَیں نے تجھے پایا ہے جو تیری اہانت چاہے گا مَیں اُسے ذلیل و رُسوا کردُوں گا اور جو شخص تیری مدد کرنے کا ارادہ کرے گا۔ اس کا مَیں مدد گار ہوں گا۔ تو میرا ہے اور تیرار از میرا راز ہے۔ اور تُو میرا مقصُود ہے اور میرے ساتھ ہے تُو میری درگاہ میں صاحب ِ وجاہت ہے مَیں نے تجھے اپنے لئے برگزیدہ کرلیا ہے۔
2 اس شعر کا صرف دوسرا مصرع الہامی ہے اور شعر کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کو چاہتے ہو تو دنیا کی آسائشوں سے دل مت لگاؤ۔ کیونکہ میرا محبوب آسائش سے دُور رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (مرتب)
3 اس شعر کا صرف پہلا مصرع الہامی ہے اور شعر کا مطلب یہ ہے کہ موتی کے پیدا ہونے کے لئے صاف قطرہ چاہئے۔ ایک ناپاک دل اس جناب عالی کے پاک چہرے کو کہاں دیکھ سکتا ہے۔
ہوسکتی ہے کہ جسمانی اور رُوحانی نظام خدا تعالیٰ کی قدرت سے ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ119،120،حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ 119،120)
3ستمبر 1892ء
’’ اقبال کے دن آئیں گے۔
یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اُنْظُرْاِلٰی یُوْسُفَ وَاِقْبَالِہٖ۔ وَقَالُوْ امَتٰی ھٰذَاالْوَعْدُ۔ قُلْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ۔ خَرُّوْالَہ‘ سُجَّدًا۔‘‘ 1
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 27)
21ستمبر 1892
’’سَیُوْلَدُ لَکُمُ الْوَلَدُ وَیُدْنٰی مِنْکُمُ الْفَضْلُ۔ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ۔‘‘ 2
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 26)
24 ستمبر 1892ء
روز شنبہ۔ ’’ آج بوقت قریب دو بجے رات کے مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میری بیوی آشفتہ حال کسی طرف گئی ہوئی ہے۔ مَیں نے ان کو بُلایا ہے اور کہا کہ چلو تمہیں وہ درخت دکھلا آؤں۔ پس مَیں ان کو باہر کی طرف لے گیا جب درخت کے قریب پہنچے جہاں قریب ایک باغ بھی تھا تو مَیں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ محمود ؔ کہاں ہے اُس نے کہا کہ بہشت میں۔ پھر کہا کہ قبر کے بہشت میں۔اَللّٰھُمَّ زِدْنِیْ عُمُرِی وَ عُمُرِ ابْنِیْ وَ عُمُرِ زَوْجَتِیْ وَبَدِّلْ سُوْٓئَ ھٰذِہِ الرُّؤْیَا بِالْحَسَنَۃِ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ اٰمین۔ تَوَکَّلْتُ عَلَیْکَ۔‘‘ 3
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 44)
27 ستمبر 1892ء 4
’’ایک دفعہ میری بیوی کے حقیقی بھائی سید محمد اسمٰعیل کا (جن کی عمر اُس وقت دس برس کی تھی )
1 (ترجمہ از مرتب ) ہر دور کی راہ سے تیرے پاس تحائف آئیں گے۔ یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو بھی۔ انہوں نے کہا یہ وعدہ کب تک۔ کہہ یقینا خدا کا وعدہ سچ ہے۔ وہ اس کی خاطر سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے۔
2 (ترجمہ از مرتب) عنقریب تمہارے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا۔ اور فضل تم سے نزدیک کیا جائے گا۔ یقینا میرا نور قریب ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اے اللہ میری عمر میں زیادتی فرما۔ اور میرے بیٹے کی عمر میں اور میری بیوی کی عمر میں بھی۔ اور اس خواب کی برائی کو بھلائی میں بدل دے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔ آمین۔ میں تجھی پر توکل کیا ہے۔
4 یہ تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متفرق یاد داشتوں کے رجسٹر میں صفحہ 44 پر درج ہے۔ یہ رجسٹر خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتب)
پٹیالہ سے خط آیا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسحاق میرے چھوٹے بھائی کو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہے۔ اور پھر خط کے اخیر میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اسحاق فوت ہوگیا ہے۔ اور بڑی جلدی سے بلایا کہ دیکھتے ہی چلے آویں۔ اس خط کے پڑھنے سے بڑی تشویش ہوئی کیونکہ اس وقت میرے گھر کے لوگ بھی سخت تپ سے بیمار تھے.......تب مجھے اس تشویش میں یک دفعہ غنودگی ہوئی۔ اور یہ الہام ہوا۔
اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ
یعنی اے عورتو! تمہارے فریب بہت بڑے ہیں .......اس کے ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ یہ ایک خلاف واقعہ بہانہ بنایا گیا ہے۔ تب مَیں نے..... شیخ حامد علی کو جو میرا نوکر تھا پٹیالہ روانہ کیا جس نے واپس آکر بیان کیا کہ اسحق اور اس کی والدہ ہر دو زندہ موجود ہیں۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 232، 233۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 610،611)
30ستمبر1892ء
ظُلُمَاتُ الْاِبْتَلَآئِ۔ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ۔ یُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَیُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ۔ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ۔ اَجِٓیْیُٔ مِنْ حَضْرَۃِ الْوِتْرِ۔1
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 50)
4اکتوبر1892ء
2 عَفَااللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ۔ اِنَّمَآ اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ لِشَیْئٍ اَنْ تَقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ اَنْتَ بِنَا مُلْحِقٌ ۔اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ لِشَیْئٍ اَنْ تَقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ اٰتِیْکَ غَدًا۔ جَآئَ کَ رَبُّکَ الْاَعْلٰی۔ اَنْتَ بِنَا مُلْحِقٌ۔ اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدَتَّ لِشَیْئٍ اَنْ تَقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ۔اَنْتَ مِنْ مَّآئِ نَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ۔ اَنْتَ بِنَا مُلْحِقٌ۔ اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ لِشَیْئٍ اَنْ تَقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ
1 (ترجمہ از مرتب) ابتلاء کے اندھیرے۔ یہ سخت دن ہے۔ تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا۔ اور فضل تیرے نزدیک ہوگا۔ میرا نور قریب ہے۔ میں جناب باری سے آتا ہوں۔
2 (ترجمہ از مرتب) اللہ تجھے معاف کرے ان کو تو نے کیوں اجازت دی۔ تیرا کام یہ ہے کہ جب تو کسی چیز کا ارادہ کرے تو اُسے کہے کہ ہوجا تو ہوجائیگی۔ تو ہم سے ملنے والا ہے۔ تیرا کام یہ ہے کہ جب تو کسی چیز کا ارادہ کرے۔ تو اُسے کہے کہ ہوجا تو وہ ہوجائے گی۔ مَیں تیرے پاس کل آؤں گا۔ تیرا رب اعلیٰ تیرے پاس آیا۔ تو ہم سے ملنے والا ہے۔ تیرا کام یہ ہے کہ جب تو کسی چیز کا ارادہ کرے تو اسے کہے کہ ہوجا۔ تو وہ ہوجائے گی۔تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور
وَتَفْرِیْدِیْ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ اَلْبَیْتُ الْمُحَوَّفَۃُ مُلِئَتْ مِنْ بَرَکَاتٍ۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 26)
10اکتوبر1892ء
’’مُرَادَاتُکَ حَاصِلَۃٌ۔1 یہ الہام قرآن کریم میں لکھا ہوا دکھلایا گیا۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 26)
12اکتوبر 1892ء 12اکتوبر 1892ء مطابق 28؍اسوج سم 1940
’’ 2 برسرسہ صد شمار ایں کار را۔ معلوم ہوتا ہے۔ ایں کار سے مراد اشتہار زن موعودہ کاکام ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 50)
12اکتوبر 1892ء
(1) جَآئَ کَ رَبُّکَ الْاَعْلٰی۔ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ فَتَرْضٰی۔
(2) یَاْتِیْکَ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ 3
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ 27)
12اکتوبر 1892ء
سبحان اللہ4 ! مخالفت ِ قوم کثیر کا رے است صعب ۔ایں کار از تو آیدو مرداں چنیں کنند۔
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ وَجَدْتُّکَ مَاوَجَدْتُّکَ۔ اَنْتَ مَخْلُوْقٌ مِّنْ مَّآئِ نَا الْقَدِیْمِ وَھُمْ مِّنَ الْفَشَلِ۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ 29)
تفرید۔تُومجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو مخلوق نہیں جانتی۔ وہ گھر جو لوگوں کے ہجوم سے گھراہؤاہے برکتوں سے بھردیا گیا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) تیری مرادیں حاصل ہوں گی۔
2 (ترجمہ از مرتب) اس کام کو تیسری صدی کے سر پر شمار کر۔
3 (ترجمہ از مرتب) تیرا رب اعلیٰ تیرے پاس آیا۔ اور تجھے ایسا کچھ دے گا۔ جس سے تو راضی ہوجائے گا۔ تیرے پاس نبیوں کا چاند آئے گا۔ اور تیرا کام ظاہر ہوجائے گا۔
4 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ بہت سے لوگوں کی مخالفت مشکل کام ہے یہ کام تجھ سے ہوسکتا ہے اور مرد ایسا ہی کرتے ہیں۔ تو میری طرف سے ایسے مرتبہ پر ہے جسے لوگ نہیں جانتے۔ مَیں نے تجھے پایا جیسا کہ پایا۔ تو ہمارے قدیم پانی سے پید اشدہ ہے اور وہ بُزدلی سے ہیں۔
12اکتوبر 1892ء
فَقُلْ لَّھُمْ مَّیْسُوْرًا۔ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ۔ یَعْقِلُکَ رَبُّکَ بِالْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ۔ فَشُبِّہَ عَلَیْہِ وَکَانَ مِنَ الْمُلْبَسِ۔ 1 (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ 30)
12اکتوبر 1892ء
محمد حسین ۔ الہام (گورنمنٹ پنجاب میں شہادت مخفی ناانصافی سے بیچتا ہے۔) اِذَادُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا۔2
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ 30)
18اکتوبر1892ء
’’جب یہ عاجز نور افشاں کے جواب میں اِس بات کو دلائل شافیہ کے ساتھ لِکھ چکا کہ درحقیقت رُوحانی قیامت کے مصداق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کسی قدر نعت ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو درحقیقت احاطہ ٔ بیان سے خارج ہے، اِن عبارات میں درج کرچکا اور نیز بطور نمونہ کچھ مناقب و محامدِ صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی ثبوت کے ذیل میں تحریر کر چکا تو وہ 17؍اکتوبر 1892ء کا دن تھا۔ پھر جب رات کو بعد تحریر نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مناقب و محامدصحابہ رضی اللہ عنہم سویا تو مجھے ایک نہایت مبارک اور پاک رؤیادکھا یا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں ایک وسیع مکان میں ہوں جس کے نہایت کشادہ اور وسیع دالان ہیں اور نہایت مکلّف فرش ہورہے ہیں اور اُوپر کی منزل ہے اور مَیں ایک جماعت کثیر کو ربّانی حقائق و معارف سُنا رہا ہوں اور ایک اجنبی اور غیر معتقد مولوی اُس جماعت میں بیٹھا ہے جو ہماری جماعت میں سے نہیں ہے مگر مَیں اس کا حُلیہ پہچانتا ہوں۔ وہ لاغر اندام اور سفید ریش ہے۔ اُس نے میرےاُس بیان میں دخل بے جادے کرکہا کہ یہ باتیں کنہ باری میں دخل ہے اور کنہ باری میں گفتگو کرنے کی ممانعت ہے۔ تو میں نے کہا کہ اے نادان ! اِن بیانوں کو کنہ باری سے کچھ تعلق نہیں۔ یہ معارف ہیں اور مَیں نے اُس کے بے جا دخل سے دل میں بہت رنج کیا اور کوشش کی کہ وہ چپ رہے مگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا۔ تب میرا غصہ بھڑکا اور مَیں نے کہا کہ اِس زمانہ کے بدذات مولوی شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ خدا اُن کی پردہ دری کرے گا اور ایسے ہی چند الفاظ اور بھی کہے جو اَب مجھے یاد نہیں رہے۔ تب مَیں نے اِس کے بعد کہا کہ کوئی ہے کہ اِس مولوی کو اِس مجلس سے باہر نکالے؟ تو میرے ملازم حامد علی نام کی صورت پر ایک شخص نظر آیا۔ اُس نے اُٹھتے ہی اِس مولوی کو پکڑ لیا اور دھکّے دے کر اُس کو اُس مجلس سے باہر نکالا اور زینہ کے نیچے اتار دیا۔ تب مَیں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جماعت کے قریب ایک وسیع چبوترہ پر کھڑے ہیں اور یہ بھی
1 (ترجمہ از مرتب) پس انہیں آسان پہلو سے کہہ۔ اور ا ن کے لئے بخشش مانگ تجھے تیرا رب کتاب اور حکمت کے ذریعہ عقل دے گا۔ یہ امر اس پر مشتبہ ہوگیا۔ اور وہ شک میں پڑگیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) جب زمین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا۔
گمان گذرتا ہے کہ چہل قدمی کر رہے ہیں اورمعلوم ہوتا ہے کہ جب مولوی کو نکالا گیا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُسی جگہ کے (قریب) ہی کھڑے تھے مگر اُس وقت نظر اُٹھا کر دیکھا نہیں۔ اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کتاب آئینہ کمالات ِ اسلام ہے۔ یعنی یہی کتاب اور یہ مقام جو اُس وقت چھپا ہوا معلوم ہوتا ہے اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت ِ مبارک اُس مقام رکھی ہوئی ہے کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامدِ مبارکہ کا ذکر اور آپ کی پاک اور پُر اثر اور اعلیٰ تعلیم کا بیان ہے اور ایک انگشت اُس مقام پر بھی رکھی ہوئی ہے کہ جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم کے کمالات اور صدق و صفا کا بیان ہے اور آپ تبسّم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
ھٰذَا لِیْ وَھٰذَا لِاَصْحَابِیْ
یعنی یہ تعریف میرے لئے ہے اور یہ میرے اصحاب کے لئے۔
اور پھر بعد اس کے خواب سے الہام کی طرف میری طبیعت متنزّل ہوئی اور کشفی حالت پیدا ہوگئی تو کشفاً میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اِس مقام میں جو خدا تعالیٰ کی تعریف ہے، اُس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا ظاہر کی اور پھر اُس کی نسبت یہ الہام ہوا کہ
ھٰذَا الثَّنَآئُ لِیْ 1
اور یہ رات منگل کی تھی اور تین بجے پر پندرہ منٹ گزرے تھے۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 215۔217 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ 215 تا 217)
19اکتوبر1892ء
زرِ چندہ حیدر آباد 2 ۔ کشف میں نواب محمد علی سے ملاقات ہوئی۔
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ 31)
19اکتوبر1892ء
3 لَاتَیْئَسُوْامِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ۔اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ فَاِذَا سَوَّیْتُہ‘ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْالَہ‘ سٰجِدِیْنَ۔
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ 30)
1 (ترجمہ ازمرتّب) یہ تعریف میرے لئے ہے۔
2 (ترجمہ ازمرتّب) حیدرآباد کے چندے کا روپیہ۔
3 (ترجمہ از مرتب) اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔ یقینا اللہ کی رحمت قریب ہے۔ مَیں نے چاہا کہ خلیفہ بناؤں تب مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ پھر جب مَیں اسے ٹھیک ٹھاک کروں اور اس میں اپنی روح پھُونکوں تو تم اس کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گرجاؤ۔
3 نومبر 1892ء
’’تیرے کلام میں جو تیرے منہ سے نکلتا ہے برکت رکھی جاتی ہے کیونکہ وہ تیرے منہ سے نکلتا ہے۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ 26)
نومبر 1892ء
’’ یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔‘‘ 1
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ26)
9نومبر 1892ء
’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیری اور مشکل راہ ہے اور مَیں رجماً بالغیب قدم مارتا جاتا ہوں اور ایک غیبی ہاتھ مجھ کو مدد دیتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مَیں قادیان پہنچ گیا اور جو مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے وہ مجھ کو نظر آئی۔ پھر سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے آتی ہے چلا۔اس وقت مَیں نے اپنےتئیں ایک سخت گھبراہٹ میں پایا کہ گویا اس گھبراہٹ سے بیہوش ہوتا جاتا ہوں اور اس وقت باربار اِن الفاظ سے دُعا کرتا ہوں کہ رَبِّ تَجَلَّ رَبِّ تَجَلَّ2۔ اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میراہاتھ ہے اور وہ بھی رَبِّ تَجَلَّ کہتا ہے اور بڑے زور سے مَیں دُعا کرتا ہوں۔
اور اس سے پہلے مجھ کو یاد ہے کہ مَیں نے اپنے لئے اوراپنی بیوی کے لئے اوراپنے لڑکے محمود کے لئے میں نے بہت دُعا کی ہے ۔ پھرمَیں نے دو کُتے خواب میں دیکھے۔ ایک سخت سیاہ اورایک سفید اورایک شخص کہ وہ کُتّوں کے پنجے کاٹتا ہے۔ پھر الہام ہؤا:
کُنْتُمْ کَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ3۔‘‘
(رجسٹرمتفرق یادداشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 235 )
12نومبر 1892ء
اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ وَلَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا الْمُسْتَرْشِدُوْنَ۔‘‘ 4
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ26)
1 (ترجمہ از مرتب) نبیوں کا چاند آئیگا۔ اور تیرا کام ظاہر ہوجائے گا۔
2 (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ تجلّی فرما اے میر ے ربّ تجلّی فرما۔
3 تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے نکالی گئی ہے۔
4 (ترجمہ از مرتّب) تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں۔
13نومبر 1892ء
’’ قَدْجَآئَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ اَقْرَبُ۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام صفحہ26)
یکم دسمبر 1892ء
’’رَدَدْنَآ اِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ۔ وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَاَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘ 2
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں صفحہ26 از حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام خلافت لائبریری ربوہ)
7دسمبر 1892ء
7دسمبر 1892ء کو ایک اوررؤیادیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کرلیتا ہے سو اس وقت مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ3 خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہورہا ہے۔ یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے۔ تب مَیں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہیں اور شفقت اور تَوَدُّدْ سے مجھے فرماتے ہیں کہ
یَاعَلِیُّ دَعْھُمْ وَاَنْصَاَھُمْ وَزِرَاعَتَھُمْ
یعنی اے علی ! اِن سے اور اِن کے مددگاروں اور اِن کی کھیتی سے کنارہ کر اور اِن کو چھوڑ دے اور اِن سے منہ پھیر لے اور مَیں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توہی حق پر ہے مگر اِن لوگوں سے ترکِ خطاب بہتر ہے اور کھیتی سے مراد مولویوں کے پَیروؤں کی وہ جماعت ہے جو اُن کی تعلیموں سے اثر پذیر ہے جس کی وہ ایک مدّت سے آبپاشی کرتے چلے آئے ہیں۔
پھر بعد اس کے میری طبیعت الہام کی طرف منحدر ہوئی اور الہام کے رُو سے خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ایک شخص مخالف میری نسبت کہتا ہے۔
ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُل مُوْسٰی
1 (ترجمہ از مرتّب) فتح کا وقت آگیا ہے اورفتح قریب ہے۔
2 (ترجمہ از مرتّب) ہم دوبارہ تیری طرف لوٹائیں گے۔ اورانہوں نے کہا یہ تیرے لیے کیونکر۔ کہ وہ خداعجیب ہے۔ آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمہیں بخش دے۔ وہ رحم کرنے والوں میں سے بہت ہی رحیم ہے۔
3 ’’اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بعد جو خلافت ہوگی اس کا انکارایک جماعت کریگی اورفتنہ ڈالے گی۔‘‘ (برکاتِ خلافت صفحہ 29)
یعنی مجھ کو چھوڑو تا مَیں موسیٰ کو یعنی اس عاجز کو قتل کردُوں اور یہ خواب رات کے تین بجے قریباً بیس منٹ کم میں دیکھی تھی اور صبح بُدھ کا دن تھا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 218,219 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 218،219 حاشیہ)
1892ء
(الف)’’ میرے پر کشفاً یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیا میں پھیل گئی۔ حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی۔ تب اُن کی روح رُوحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی اور اُس نے جوش میں آکر اور اپنی امّت کو ہلاکت کا مفسدہ پرداز پاکر زمین پر اپنا قائم مقام اور شبیہ چاہا جو اُس کا ایسا ہم طبع ہو کہ گویا وہی ہو۔ سو اُس کو خدائے تعالیٰ نے وعدہ کے موافق ایک شبیہ عطا کیا اور اس میں مسیح کی ہمّت اور سیرت اور رُوحانیت نازل ہوئی اور اس میں اور مسیح میں بشدّت اتّصال کیا گیا۔ گویا وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے بنائے گئے اور مسیح کی توجُّہات نے اس کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا اور اس میں ہوکر اپنا تقاضا پورا کرنا چاہا۔ پس ان معنوں سے اُس کا وجود مسیح کا وجود ٹھہرا اور مسیح کے پُر جوش ارادات اس میں نازل ہوئے جن کا نزول الہامی استعارات میں مسیح کا نزول قرار دیا گیا۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 254,255روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 254،255)
(ب) ’’جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے، حضرت مسیح کی رُوح اِن افتراؤں کی و جہ سے جو اُن پر اِس زمانہ میں کئے گئے، اپنے مثالی نزول کے لئے شدّت جوش میں تھی اور خدا تعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اِس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو۔ سو خدا تعالیٰ نے اُس کے جوش کے موافق اُس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پُورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا .......حضرت مسیح علیہ السَّلام کو دو مرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ اُن کی رُوحانیت نے قائم مقام طلب کیا۔ اوّل جبکہ اُن کے فوت ہونے پر چھ سو برس گذر گیا اور یہودیوں نے اِس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذباللہ مکّار اور کاذب تھا اور اُس کا ناجائز طور پر تولّد تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اِس بات پر غلُوّ کیاکہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اُس نے صلیب پر جان دی...... تب بہ اعلام الٰہی مسیح کی رُوحانیت جوش میں آئی اور اُس نے ان تمام الزاموں سے اپنی برّیت چاہی اور خدا تعالیٰ سے اپنا قائم مقام چاہا۔ تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.....یہ مسیح ناصری کی رُوحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا۔ فالحمد للہ۔
پھر دوسری مرتبہ مسیح کی رُوحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجّالیّت کی صفت اتم ّ اور اکمل طور پر آگئی.......پس اِس زمانہ میں دُوسری مرتبہ حضرت مسیح کی رُوحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دُنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اُس خواہش کے موافق دجّال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی رُوحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح
علیہ السَّلام کا رُوپ بن کر مسیح موعود کہلایا......موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی او ر مسیح کی قوم میں ہی دجّالیّت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی رُوحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔
یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ اس عاجز پر کھُلی ہے۔
اور یہ بھی کھُلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانہ کے گذرنے کے بعد کہ خیر اور صلاح اور غلبہ ٔ توحید کا زمانہ ہوگا۔ پھر دُنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عَود کرے گا اور بعض بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیّت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش شروع ہوجائے گی اور مخلوق کو خدا بنانے کی جہالت بُرے زور سے پھیلے گی اور یہ سب فساد عیسائی مذہب سے اِس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دُنیا میں پھیلیں گے۔ تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب ایک قہری شبیہ میں اُس کا نزول ہوکر اُس زمانہ کا خاتمہ ہوجائے گا تب آخر ہوگا اور دُنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی اُمّت کی نالائق کرتُوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدّر تھا کہ تین مرتبہ دُنیا میں نازل ہو۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 341۔346)
دسمبر1892ء
’’اب مجھ کو بتلایا گیا کہ جو مسلمان کو کافر کہتا ہے اور اس کو اہل قبلہ اور کلمہ گو اور عقائد اسلام کا معتقد پاکر پھر بھی کافر کہنے سے باز نہیں آتا۔ وہ خود دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ سو مَیں مامور ہوں کہ ایسے لوگوں سے جو ائمۃ التکفیرہیں او رمفتی اور مولوی اور محدِّث کہلاتے ہیں اور ابناء اور نِساء بھی رکھتے ہیں، مباہلہ کروں اور پہلے ایک عام مجلس میں ایک مفصّل تقریر کے ذریعہ سے ان کو اپنے دلائل سمجھادوں اور اُسی مجلس میں ان کے تمام الزامات اور شُبہات کا جو ان کے دل میں خلجان کرتے ہیں، جواب بھی دے دُوں اور پھر اگر کافر کہنے سے باز نہ آویں تو اُن سے مباہلہ کروں۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 256،257)
دسمبر1892ء
’’مباہلہ کی اجازت کے بارے میں جو کلامِ الٰہی میرے پر نازل ہوا وہ یہ ہے:۔
نَظَراللّٰہُ اِلَیْکَ مُعَطَّرًا۔ وَقَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا۔ قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ قَالُوْا کِتَابٌ مُمْتَلِیٌٔ مِّنَ الْکُفْرِ وَالْکَذِبِ قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَاَبْنَآئَ کُمْ وَنِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
ترجمہ:۔ یعنی خدا تعالیٰ نے ایک معطّر نظر سے تجھ کو دیکھا اوربعض لوگوں نے اپنےدلوں میں کہا کہ اے خدا! کیا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قائم کردے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلادے؟ تو خدا تعالیٰ نے اُن کو جواب دیا کہ جو مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اُن لوگوں نے کہا کہ اِس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کُفر سے بھری ہوئی ہے۔ سو اُن کو کہدے کہ آؤ! ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں۔ پھر اُن پر *** کریں جو
کاذب ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 263۔265 ۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 263۔265)
1892ء
’’مجھے حکم ہوا ہے کہ مَیں مبا ہلہ کی درخواست کو آئینہ کمالاتِ اسلام کے ساتھ شائع کروں۔‘‘
(مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحب مؤرخہ 10دسمبر 1892ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر 4 صفحہ 20)
دسمبر1892ء
’’یہ وہ اجازت مبا ہلہ ہے جو اِس عاجز کو دی گئی۔ لیکن ساتھ اِس کے جو بطور تبشیر کے اور الہامات ہوئے اُن میں سے بھی کسی قدر لکھتا ہوں اور وہ یہ ہیں:۔
’’ یَوْمَ یَجِیْٓئُ الْحَقَّ وَیُکْشَفُ الصِّدْقُ وَیَخْسَرُ الْخَاسِرُوْنَ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَامَعَکَ وَلَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا الْمُسْتَرْشِدُوْنَ۔ نَرُدُّ اِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ وَنُبَدِّ لَنَّکَ مِنْ بَعْدِ خَوْفِکَ اَمْنًا۔ یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ یَسُرُّاللّٰہُ وَجْھَکَ وَیُنِیْرُبُرْھَانَکَ۔ سَیُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَیُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ 1 وَقَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ وَلَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ۔ اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُف وَاِقْبَالِہٖ۔ قَدْجَآئَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ اَقْرَبُ۔ یَخِرُّوْنَ عَلٰی الْمَسَاجِدِ۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّاخَاطِئِیْنَ۔ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ نَجِیَّ الْاَسْرَارِ۔ اِنَّاخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ یَوْمٍ مَّوْعُوْدٍ۔‘‘
یعنی اس دن حق آئے گا اور صدق کھُل جائے گا۔ اور جو لوگ خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے۔ تُو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا۔ مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں۔ ہم پھر تجھ کو غالب کریں گے۔
1 حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام تریاق القلوب صفحہ 42 پر فرماتے ہیں:۔
’’میرا دوسرا لڑکا جس کا نام بشیر احمد ہے اس کے پید اہونے کی پیشگوئی آئینہ کمالاتِ اسلام کے صفحہ 266 میں کی گئی ہے.......اور پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں۔ یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ یَسُرُّاللّٰہُ وَجْھَکَ وَیُنِیْرُبُرْھَانَکَ۔ سَیُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَیُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ۔ ......... یعنی نبیوں کا چاند آئیگا اور تیرا کام بن جائیگا۔ تیرے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائیگا۔ یعنی خدا کے فضل کا موجب ہوگا اور نیز یہ کہ شکل و شباہت میں فضل احمد سے جو دوسری بیوی سے میرا لڑکا ہے مشابہت رکھے گا اور میرا نُور قریب ہے۔ پھر.....20؍اپریل 1893ء کو جیسا کہ اشتہار 20؍اپریل 93ء سے ظاہر ہے اس پیشگوئی کے مطابق وہ لڑکا پید اہوا۔ جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔‘‘ (مراد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔اے)
( مرتب)
اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کردیں گے۔ نبیوں کا چاند آئے گا۔ اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا خدا تیرے منہ کو بشّاش کرے گا۔ اور تیرے بُرہان کو روشن کردے گا۔ اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا۔ اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا۔ اور میرا نُور نزدیک ہے اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں؟ اِن کو کہہ کہ وہ خدا عجیب خدا ہے اُس کے ایسے ہی کام ہیں جس کو چاہتا ہے اپنے مقربوں میں جگہ دیتا ہے اور میرے فضل سے نومید مت ہو۔ یُوسف کو دیکھ اور اُس کے اقبال کو۔ فتح کا وقت آرہا ہے۔ اور فتح قریب ہے۔ مخالف یعنی جن کے لئے توبہ مقدّر ہے‘ اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے۔ کہ اے ہمارے خدا! ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے۔ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں ‘ خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ مَیں نے ارادہ کی کہ ایک اپنا خلیفہ زمین پر مقرر کروں۔ تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ جو نجیُّ الاسرار ہے۔ ہم نے ایسے دن اس کوپیدا کیا۔ جو وعدہ کا دن تھا۔
یعنی جو پہلے سے پاک نبی ؐ کے واسطہ سے ظاہر کیا گیا تھاکہ وہ فلاں زمانہ میں پیدا ہوگا۔ اور جس وقت پید اہوگا۔ فلاں قوم دُنیا میں اپنی سلطنت اور طاقت میں غالب ہوگی۔ اور فلاں قسم کی مخلوق پرستی رُوئے زمین پر پھیلی ہوئی ہوگی۔ اسی زمانہ میں وہ موعود پیدا ہوا۔ اور وہ صلیب کا زمانہ اور عیسیٰؔ پرستی کا زمانہ ہے۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 266۔269روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 266۔269)
1892ء
’’مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دُنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ ببرکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے اُس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 276۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 276)
1892ء
(الف) ’’ مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف ِ دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئیگا تو مَیں اس پر غالب رہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 348۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 348)
(ب) ’’وَاَوْحٰی اِلَیَّ بِاَنَّنِیْ غَالِبٌ عَلٰی کُلِّ خصِیْمٍ اَعْمٰی وَقَالَ اِنِّیْ مُھِیْنٌّ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 382۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 382)
(ج) ’’ مجھے اُس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص مکالمہ سے شرف بخشا ہے اور مجھے اطلاع دے دی ہے کہ مَیں جو سچا اور کامل خد ا ہوں۔ مَیں ہر ایک مقابلہ میں جو رُوحانی برکات اور سماوی تائیدات میں کیا جائے تیرے ساتھ ہوں اور تجھ کو غلبہ ہوگا۔‘‘ (جنگ مقدس صفحہ 55,56۔ بیان حضرت اقدس 25؍مئی 1893ء۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ 137،138)
1892ء
’’مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ مَیں ان مسلمانون پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں۔ ان کے ملہموں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں۔ پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیضِ سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب
ہوجاویں تو جس کا رد سے چاہیں مجھ کو ذبح کردیں مجھ کو منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہو تو کُفر کے فتوے دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام ِ الٰہی مجھ کو ہوگیا ہے، پہلے لکھ دیں اور شائع کرادیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلاچون و چرا دعویٰ کو منظور کرلیں۔ مَیں اس کام کے لئے بھی حاضر ہوں اور میرا خداوندکریم میرے ساتھ ہے۔ لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ مَیں ایسا مقابلہ صرف ائمۃ الکفر سے کروں۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 348۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 348)
1892ء
’’احادالناس ...........کےلئے مجھے یہ حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں۔ خدا تعالیٰ .........اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور اپنی حجت دنیا پر پوری کردے گا اور کچھ زیادہ دیر نہیں ہوگی کہ وہ اپنے نشان دکھائے گا۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 349۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ349)
10دسمبر1892ء
’’یہی خط1لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا۔
یَجِیْٓئُ الْحَقُّ وَیُکْشَفُ الصِّدْقُ وَیَخْسَرُالْخَاسِرُوْنَ۔ یَاْتِیْ قَمَرُالْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ۔
یعنی حق ظاہر ہوگا اور صدق کھُل جائے گا اور جنہو ں نے بدظنیوں سے زیان اُٹھایا وہ ذلّت اور رُسوائی کا زیان بھی اُٹھائیں گے۔ نبیوں کا چاند آئیگا اور تیرا کام ظاہر ہوجائے گا۔ تیرا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
مگر مَیں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے خدائے تعالیٰ کو اس کی ایک ذرّہ بھی پرواہ نہیں۔ وہ غنی ہے۔ دوسرے کا محتاج نہیں۔ اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اور ہر ایک شخص کی آزمائش کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 355۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ355)
1892ء
حضرت اقدس نے ویب صاحب کے ہندوستان آنے سے پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ ہند میں آیا ہے اور ڈھول بجا رہا ہے جس کی تعبیر یہ تھی کہ وہ ایک بیہودہ کام میں مصروف ہے جس سے کچھ حاصل نہیں۔ چنانچہ یہ بات پوری ہوئی۔
(بدر ؔجلد 6نمبر 1مؤرخہ 14؍مارچ 1907ء صفحہ2)
1892ء
’’چند ماہ کا عرصہ ہوا جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں کہ ایک مضمون مَیں نے میاں محمد حسین کا دیکھا۔ جس
1 یعنی خط بنام نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ (مرتب)
میں میری نسبت لکھا ہوا تھا کہ یہ شخص کذّاب اور دجّال اور بے ایمان اور باایں ہمہ سخت نادان اور جاہل اور علوم دینیہ سے بے خبر ہے۔ تب مَیں جناب الٰہی میں رویا کہ میری مدد کر تو اس دعا کے بعد الہام ہوا کہ
اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ
یعنی دعا کرو کہ مَیں قبول کروں گا۔ مگر مَیں بالطبع نافر تھا کہ کسی کے عذاب کے لئے دُعا کروں۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 604۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 604)
1893ء
’’میرا ارادہ یہ تھا کہ یہ خط1اُردو میں لکھوں۔ لیکن رات کو بعض اشارات الہامی سے ایسا ہوا۔ کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہئے۔ اور یہ بھی الہام ہوا۔ کہ اِن لوگوں پر اثر بہت کم پڑیگا۔ ہاں اتمام حجت ہوگا۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 360۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ 360)
1893ء
’’2 قَدْاَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ فِیْ اَمْرِکُمْ وَقَالَ
اِنَّھُمْ یُنَادُوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 366،367روحانی خزائن جلد5 صفحہ 366،367)
1893ء
’’1 ھُوَ نَادَانِیْ وَ قَالَ
قُلْ لِّعِبَادِٓیْ اِنَّنِیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ ‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 367،368۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ36)
1893ء
’’ 4 نَادَانِیْ رَبِّیْ مِنَ السَّمَآئِ اَنْ
اِضْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَقُمْ وَاَنْذِرْ فَاِنَّکَ مِنَ الْمَامُوْرِیْنَ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ
1 یعنی التبلیغ مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ364 (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) (اے فقراء و مشائخ)مجھے میرے ربّ نے آپ لوگوں کے متعلق الہام کے ذریعہ سے بتایا ہے کہ یہ لوگ دُور سے پکارے جاتے ہیں۔ یعنی بہت دُور جاپڑے ہیں۔
3 (ترجمہ از مرتب) اس نے مجھے پکار کر فرمایا۔ کہ میرے بندوں سے کہدے کہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں۔ اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔
4 (ترجمہ از مرتب) میرے ربّ نے مجھے آسمان سے پکار کر فرمایا کہ تُو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی
اُنْذِرَ اٰبَآؤُ ھُمْ۔ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ۔ اِنَّا جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ لِاُتِمَّ حُجَّتِیْ عَلٰی قَوْمٍ مُتَنَصِّرِیْنَ۔ قُلْ ھٰذَا فَضْلُ رَبِّیْ۔ وَاِنِّیْٓ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُرُوْبِ الْخِطَابِ۔ وَاُمِرْتُ مِنَ اللّٰہِ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ اِنَّہ‘ یَرَی الْاَوْقَاتَ وَیَعْلَمُ مَصَالِحَھَا۔ وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا عِنْدَہ‘ خَزَآئِنُہ‘ اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنَ۔ قُلْ اَتَعْجَبُوْنَ مِنْ فِعْلِ اللّٰہِ۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَعْجَبُ الْعَجِیْبِیْنَ۔ یَرْفَعُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضَعُ مَنْ یَّشَآئُ وَیُعِزُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیُذِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔ لَایُسْئَلُ عَمَّایَفْعَلُ وَھُمْ مِنَ الْمَسئُوْلِیْنَ۔ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّی الْحَزَنَ وَاَعْطَانِیْ مَالَمْ یُعْطَ اَحَدٌمِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔ وَقَالُوْا کِتَابٌ مُّمْتَلِیٌٔ مِّنَ الْکُفْرِ وَالْکَذِبِ۔ قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَ کُمْ وَنِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسُکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ وَادْعُ عِبَادِیْ اِلَی الْحَقِّ وَبَشِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ وَادْعُھُمْ اِلٰی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ
کے ماتحت یہ کشتی تیار کر اور اُٹھ اور (لوگوں کو آنے والوں عذابوں سے) ڈرا۔ کیونکہ تو مامور ہے کہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادوں کے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ اچھی طرح ظاہر ہوجائے۔ ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا ہے تاکہ نصرانیت کو اختیار کرنے والے لوگوں پر مَیں اپنی حجت پوری کروں۔ تو کہہ کہ یہ میرے ربّ کا فضل ہے اور مَیں اپنے آپ کوہر قسم کے خطابوں سے الگ رکھتا ہوں۔ اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ہے اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔ وہ اوقات کو دیکھتا اور اس کے مصالح کو جانتا ہے اور ہر چیز کے اس کے پاس خزانے ہیں جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے۔ ہوجا۔ پس وہ ہوجاتی ہے۔ تو کہہ کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے فعل پر تعجب کرتے ہو۔ تو کہہ کہ اللہ کی شان نہایت عجیب ہے وہ جسے چاہتا ہے بلند کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گرادیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ذلیل کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی جناب کا برگزیدہ بنا لیتا ہے۔ جو کچھ کرتا ہے اس کی بابت پوچھا نہیں جاتا۔ اور لوگ جو کچھ کرتے ہیں۔ اس کی بابت پوچھے جائیں گے تو کہہ کہ تمام تعریف اللہ کو ہے جس نے مجھ سے غم دور کردیا اور مجھے وہ کچھ دیا جو تمام مخلوقات میں سے اور کسی کو نہیں دیا۔ اور کہتے ہیں کہ یہ کتاب کفر اور جھوٹ سے پُر ہے۔ کہہ کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں ‘ اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں اور اپنے آدمیوں اور تمہارے آدمیوں کو بُلا کر تضرّع کے ساتھ جھوٹوں پر *** ڈالیں۔ اور میرے بندوں کو حق کی طرف بُلا اور اُنہیں اللہ تعالیٰ کے (جلوہ نمائی کے) دنوں کی بشارت دے اور ایک روشن کتاب کی طرف انہیں بُلا۔جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں۔ وہ (تیری نہیں بلکہ) خدا کی بیعت کرتے ہیں۔
وَاللّٰہُ مَعَھُمْ حَیْثُمَا کَانُوْا اِنْ کَانُوْا فِیْ بَیْعَتِھِمْ مِّنَ الصَّادِقِیْن۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یَجْعَلْکُمْ مِّنَ الْمُنْصُوْرِیْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔
ھٰذَا مَا اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ فِیْ وَقْتِیْ ھٰذَا وَمِنْ قَبْلُ یُنْعِمُ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ وَھُوَ خَیْرُ الْمُنْعِمِیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 373۔375 روحانی خزائن جلد5 صفحہ 373۔375)
’’ 1 وَبَشَّرَنِیْ فِیْ وَقْتِیْ ھٰذا۔ وَقَالَ
یَا عِیْسٰی سَاُرِیْکَ اٰیَاتِیَ الْکُبْرٰی۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 382۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ382)
1893ء
’’ 2 اِنِّیْ مَعَکَ حَیْثُ مَاکُنْتَ وَاِنِّیْ نَاصِرُکَ وَاِنِّیْ بُدُّکَ الَّازِمُ وَ عَضُدُکَ الْاَقْوٰی۔ وَاَمَرَنِیْ اَدْعُوَالْخَلْقَ اِلَی الْفُرْقَان وَدِیْنِ خَیْرِالْوَرٰی۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 382۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ382)
اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے اور وہ جہاں پر ہوں گے۔ اللہ ان کے ساتھ ہوگا۔ بشرطیکہ وہ اپنی بیعت میں سچّے ہوں۔ تو کہہ کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور وہ تمہیں اپنا خاص نور عطا کرے گا۔ اور تمہیں کوئی امتیازی نشان بخشے گا۔ اور اپنے منصوروں میں داخل کردے گا۔ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں اور اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ ہیں وہ الہام جو میرے رب نے مجھے اسی وقت اور اس سے قبل کئے۔ وہ جس پر چاہتا ہے انعام کرتا ہے۔ اور وہ سب منعموں سے بہتر ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) اور خدا تعالیٰ نے مجھے اسی وقت بشارت دی۔ اور فرمایا ہے۔ اے عیسیٰ مَیں تجھے عنقریب بڑے بڑے نشان دکھاؤں گا۔
2 (ترجمہ از مرتب) تُو جہاں بھی ہو مَیں تیرے ساتھ ہوں مَیں تیری مدد کروں گا اور مَیں ہمیشہ کے لئے تیرا چارہ اور سہارا اور تیرا نہایت قوی بازو ہوں اور مجھے حکم دیا کہ مَیں لوگوں کو قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دعوت دُوں۔
1893ء
’’ 1 اِنِّیْ جَاعِلُکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ وَکَانَ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئِ مُّقْتَدِرًا۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 426۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ426)
’’ 2 وَفَھَّمَنِیْ رَبِّیْ اَسْرَارَ ھٰذِہِ 3 الْاٰیَۃِ وَاخْتَصَّنِیْ بِھَا۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 442۔443۔ روحانی خزائن جلدصفحہ442،443)
1893ء
’’4 وَ قَدْ اَنْبَاَنِیْ رَبِّیْ اَنَّنِیْ کَسَفِیْنَۃِ نُوْحٍ لِّلْخَلْقِ فَمَنْ اَتَانِیْ وَدَخَلَ فِی الْبَیْعَۃِ فَقَدْ نَجَامِنَ الضَّیْعَۃِ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 486۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ486)
1893ء
’’5 وَاِنِّیْ اَدْرَکْتُ بِالْکَشْفِ اَنَّ حَظِیْرَۃَ الْقُدْسِ تُسْقٰی بِمَآئِ القُرْاٰنِ وَھُوَ بَحْرٌمَّوَّاجٌ مِّنْ مَّآئِ الْحَیَاۃِ۔ مَنْ شَرِب مِنْہُ فَھُوَ یُحْیٰی۔ بَلْ یَکُوْنُ مِنَ الْمُحْیِیْنَ۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 545۔546۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 545، 546)
1893ء
’’ 6 یَآاَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ
1 (ترجمہ از مرتب) اور کہا کہ مَیں تجھے عیسیٰ ؔ ابن مریمؔ بناتا ہوں اور اللہ ہر ایک بات پر قادر ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) اورمیرے ربّ نے مجھے اس آیت کے اسرار سمجھائے ہیں اور انہیں مجھ سے مخصوص کیا ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) یعنی آیت وَالسَّمَآء ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ۔ اس آیت کے حضور نے آگے تفسیر فرمائی ہے۔ دیکھئے آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 443تا446۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 443 تا 446۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) اورمیرے ربّ نے مجھے خبر دی ہے کہ مَیں لوگوں کے لئے نوح کی کشتی کی طرح ہوں۔ پس جو شخص میرے پاس آکر بیعت میں داخل ہوگا وہ ضائع ہونے سے بچ جاوے گا۔
5 (ترجمہ از مرتب) مجھے کشف سے معلوم ہوا ہے۔ کہ مظیرۃ القدس کی سیرابی قرآن کریم کے پانی سے ہورہی ہے وہ ایک سمندر ہے جس میں آب حیات موجیں ماررہا ہے۔ جو اس میں سے پیتا ہے وہ زندہ ہوجاتا ہے بلکہ دوسروں کو زندہ کرنے والا بن جاتا ہے۔
6 (ترجمہ از مرتب) اے احمد! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ خدائے رحمان نے تجھے قرآن سکھلایا۔ تاکہ تُو ان لوگوں کو ڈرائے ۔
اٰبَآؤُھُمْ۔ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْن۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ وَیُعَلِّمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ تُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ وَ تُحْیِ الدِّیْنَ۔ اِنَّا جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنْ عِنْدہٖ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔ وَاللّٰہُ یَنْصُرُکَ وَلَولَمْ یَنْصُرْکَ النَّاسُ۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ یَآ اَحْمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغَفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیَرْحَمْ عَلَیْکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 550۔551۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 550، 551)
1893ء
’’1تَضَرَّعْتُ فِیْ حَضْرَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَطَرَحْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ مُتَمَنِّیًا لِّکَشْفِ سِرِّالنُّزُوْلِ وَکَشْفِ حَقِیْقَۃِ الدَّجَّالِ لِاَعْلَمَہ‘ عِلْمَ الْیَقِیْنِ۔ وَاَرَاہُ عَیْنَ الْیَقِیْنِ۔
جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھُل جائے۔ کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں۔ اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔ اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دُوں گا۔ اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کروں گا۔ اور تیرے تابعین کو اُن پر جومنکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ آج تُو میرے نزدیک با مرتبہ اور امین ہے۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید۔ سو وہ وقت آگیا۔ جو تیری مدد کی جائے اور تجھے لوگوںمیں معروف مشہور کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ تجھے اپنے پاس سے سکھائے گا۔ تو شریعت کو قائم کرے گا۔ اور دین کو زندہ کرے گا۔ ہم نے تجھے مسیح بن مریم بنایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا اگرچہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا۔ اگرچہ لوگ تیری مدد نہ کریں۔ یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے۔ پس تُو شک کرنے والوں میں سے مت ہو۔ اے میرے احمد! تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا۔ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو۔ تو آؤ میری پیروی کرو۔ تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور تمہارے گناہ بخش دے اور تم پر رحم کرے اور وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور زاری کی۔ اور اس کے سامنے اپنے آپ کو یہ تمنّا کرتے ہوئے ڈال دیا۔ کہ مجھ پر نزول کا راز کھلے۔ اور دجّال کی حقیقت کا انکشاف ہو۔ تاکہ علم الیقین کی رُو سے جانوں اور عین الیقین کی آنکھ سے
فَتَوَجَّھَتْ عَنَایَتُہ‘ لِتَعْلِیْمِیْ وَتَفْھِیْمِیْ۔ وَاُلْھِمْتُ وَعُلِّمْتُ مِنْ لَّدُنْہُ اَنَّ النُّزُوْلَ فِیْ اَصْلِ مَفْھُوْمِہٖ حَقٌّ وَّلٰکِنْ مَّافَھِمَ الْمُسْلِمُوْنَ حَقِیْقَتَہ‘........فَاَخْبَرَ فِیْ رَبِّیْ اَنَّ النُّزُوْلَ رُوْحَانِیٌّ لَّاجِسْمَانِیٌّ............ اَمَّاالدَّجَّالُ فَاسْمَعُوْا اُبَیِّنْ لَّکُمْ حَقِیْقَتَہ‘ مِنْ صَفَآئِ اِلْھَامِیْ وَزُلَالِیْ... ....اَیُّھَا الْاَعِزَّۃُ قَدْکُشِفَ عَلَیَّ اَنَّ وَحْدَۃَ الدَّجَّالِ لَیْسَتْ وَحْدَۃً شَخْصِیَّۃً بَلْ وَحْدَۃٌ نَّوْعِیَّۃٌ بِمَعْنَی اتِّحَادِ الْاٰرَآئِ فِیْ نَوْعِ الدَّجَّالِیَّۃٍ کَمَا یَدُلُّ عَلَیْہِ لَفْظُ الدَّجَّالِ وَاِنَّ فِیْ ھٰذَا الْاِسْمِ اٰیَاتٍ لِّلْمُتَفَکِّرِیْنَ۔ فَالْمُرَادُ مِنْ لَّفْظِ الدَّجَّالِ سِلْسِلَۃٌ مُّلْتَئِمَۃٌ مِّنْ ھِمَمٍ دَجَّالِیَۃٍ بَعْضُھَا ظَھِیْرٌ لِّلْبَعْضِ کَاَنَّھَا بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ مِّنْ لَّبِنٍ مُّتَّحِدَۃِ الْقَالِبِ کُلُّ لَبِنَۃٍ تُشَارِکُ مَایَلِیْھَافِیْ لَوْنِھَا وَ قِوَامِھَا وَمِقْدَارِھَا وَ اسْتِحْکَامِھَا وَاُدْخِلَتْ بَعْضُھَا فِیْ بَعْضٍ وَّ اُشِیْدَتْ مِنْ خَارِجِھَا بِالطِّیْنِ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 552۔555۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ552،555)
1893ء
’’رَاَیْتُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَارَاَیْتُہ‘ فِیْ مُسْتَطْرَفِ الْاَیَّامِ فَجَعَلَنِیْ کَالْعِرْدَامِ وَاَعَدَّنِیْ لِلْاِصْلِخْمَامِ لِاُحَارِبَ الْفَرَاعِنَۃَ وَ الظَّالِمِیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 561۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 561)
دیکھوں۔ تب اس کی عنایت میری تعلیم و تفہیم کی خاطر متوجہ ہوئی اور مجھے الہاماً بتلایا گیا۔ کہ اصل مفہوم کے لحاظ سے تو نزول حق ہے۔ مگر مسلمان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھے .......... پس میرے ربّ نے مجھے بتلایا۔ کہ نزول روحانی ہے۔ جسمانی نہیں.......... اب دجّال کے متعلق سُنو۔ جس کی حقیقت مَیں تمہیں صاف خالص الہام سے بتاتا ہوں..........اے عزیزو! مجھے بتایا گیا ہے کہ دجّال کو بصیغہ واحد ذکر کرنے سے مقصُود اس کی وحدت شخصی کا اظہار نہیں۔ بلکہ وحدت نوعی مراد ہے۔ کہ اس کے تمام افراد دجّالی خیالات میں ہم رنگ ہوں گے جیسا کہ اس لفظ دجّال سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اور سوچنے سے یہ نام کئی رنگ میں اس حقیقت کا پتہ دیتا ہے۔ پس لفظ دجّال سے مراد دجّالی خیالات کی ایک زنجیر ہے جس کی کڑیاں ایک دُوسری سے ایسی ملی ہوئی ہیں جیسے ایک قالب کی اینٹوں کی پختہ عمارت ہو۔ جس کی اینٹیں رنگ۔ مقدار اور مضبوطی میں ایک جیسی ہوں اور ان کو باہم ملا کر اور باہر سے لیپ کر ایک کردیا گیاہو۔ (مرتب)
1 (ترجمہ از مرتب) انہی ایام میں مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اس سے پہلے بھی قریب عرصہ میں مجھے آپ کی زیارت ہوچکی تھی۔ آپ نے مجھے اپنا چابک بنایا اور مجھے مقابلہ کے لئے تیار کیا تاکہ مَیں فرعونی سیرت لوگوں اور ظالموں سے جنگ کروں۔
1893ء
’’1 وَھَنَّأَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
اِنَّا مُھْلِکُوْا بَعْلِھَا کَمَآ اَھْلَکْنَآ اَبَاھَاوَرَادُّوْھَآ اِلَیْکَ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ وَمَانُؤَخِرُّہٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ۔ قُلْ تَرَبَّصُوْا الْاَجَلَ وَاِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُتَرَبَّصِیْنَ۔ وَاِذَا جَآئَ وَعْدُالْحَقِّ اَھٰذَا الَّذِیْ کَذَّ بْتُمْ بِہٖ اَمْ کُنْتُمْ عَمِیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 576۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ576)
1893ء
(الف) 2 ’’ وَرَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ کَاَنِّیْ اَسْرَجْتُ جَوَادِیْ لِبَعْضِ مُرَادِیْ وَمَآ اَدْرِیْ اَیْنَ تَاَھُّبِیْ وَاَیُّ اَمْرٍ مَطْلَبِیْ۔ وَکُنْتُ اُحِسُّ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّنِیْ لِاَمْرٍ مِّنَ الْمَشْغُوْفِیْنَ۔ فَامْتَطَیْتُ اَجْرَدِیْ بِاسْتِصْحَابِ بَعْضِ السِّلَاحِ مُتَوَکِّلًا عَلَی اللّٰہِ کَسُنَّۃِ اَھْلِ الصَّلَاحِ۔ وَلَمْ اَکُنْ کَالْمُتَبَاطِئِیْنَ۔ ثُمَّ وَجَدْ تُّنِیْ کَاَنِّیْ عَثَرْتُ عَلٰی خَیْلٍ قَصَدُوْا مُتَسَلِّحِیْنَ دَارِیْ لِاِھْلَاکِیْ وَتَبَارِیْ وَکَاَنَّھُمْ یَجِیْئُوْنَ ِؒاِضْرَاریْمُنْخَرِطِیْنَ وَکُنْتُ وَحِیْدًا وَّ مَعَ ذَالِکَ رَاَیْتُنِیْ اَنِّیْ لَا اَلْبَسُ مِنْ خُوذٍ غَیْرَعُدَدٍ وَّجَدْ تُّھَا مِنَ اللّٰہِ کَعُوْذٍ۔ وَقَدْ اَنِفْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْقَاعِدِیْنَ وَ الْمُتَخَلِّفِیْنَ الْخَآئِفِیْنَ فَانْطَلَقْتُ مُجِدًّااِلٰی جِھَۃٍ مِّنَ الْجِھَاتِ۔
1 (ترجمہ از مرتب) اور میرے ربّ نے مجھے مبارکباد دی اور فرمایا۔ ہم اس کے خاوند کو (بھی) ہلاک کریں گے جیسا کہ ہم نے اس کے باپ کو ہلاک کیا۔ اوراس (لڑکی) کو تیری طرف لوٹائیں گے۔ تیرے ربّ کی طرف سے (یہ) سچ ہے۔ پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ اور ہم اسے صرف گنتی کی مدّت کے لئے تاخیر کریں گے کہہ اس عرصہ کی انتظار کرو۔ اور مَیں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ اور جب خدا کا وعدہ آئیگا (تب کہا جائیگا) کیا یہ وہی ہے جس کو تم نے جھٹلا یا تھا یا تم اندھے تھے۔
2 ترجمہ از مرتب) اور (ایک مرتبہ) مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں نے کسی مقصد کے لئے جانے کی غرض سے اپنے گھوڑے پر زین ڈالی ہے اور یہ بات مَیں نہیں جانتا تھا کہ کدھر اور کس مقصد کے لئے جانے کی تیار کررہا ہوں ہاں مَیں اپنے دل میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ مَیں کسی خاص بات کے شغف اور اشتیاق کی و جہ سے یہ تیاری کررہا ہوں اور مَیں نے کچھ ہتھیار لگا لئے اور صالحین کے طریق کے مطابق اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے چُستی کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اس کے بعد مَیں نے ایسا محسوس کیا کہ گویا مجھے کچھ سواروں کا پتہ لگا ہے جو مسلّح ہیں اور مجھے ہلاک کرنے کی غرض سے میرے مکان پر چڑھائی کرکے آئے ہیں۔ اور مَیں تنِ تنہا ہوں۔ اور ان ہتھیاروں کے سوا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے پناہ کے طورپر دیئے گئے تھے۔ کوئی خود وغیرہ بچاؤ کا سامان میرے پاس نہیں تھا۔ اور میدانِ مقابلہ سے پیچھے ہٹ رہنا اور ڈر کر اندر بیٹھے رہنا بھی گوارا نہ ہوا اس لئے مَیں اپنے اس اہم مقصد کے لئے جو میرے پیش نظر
مُسْتَقْرِیًا اِرْبِیَ الَّذِیْ کُنْتُ اَحْسِبُہ‘ مِنْ اَکْبَرِ الْمُھِمَّاتِ وَاَعْظَمِالْمَثُوْبَاتِ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ۔ اِذْرَاَیْتُ اُلُوْفًا مِّنَ النَّاس فَارِسِیْنَ عَلَی الْاَفْرَاسِ۔ یَاْتُوْنَ اِلَیَّ مُتَسَارِعِیْنَ۔ فَفَرِحْتُ بِدُؤْ یَتِھِمْ کَالْخَبَّاسِ وَ وَ جَدْتُّ فِیْ قَلْبِیْ حَوْلًا لِّلْجِحَاسِ۔ وَکُنْتُ اَتْلُوْھُمْ کَتِلْوِالصَّیَّادِیْنَ۔ ثُمَّ اَطْلَقْتُ الْفَرَسَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ لِاُدْرِکَ مِنْ فَصِّ اَخْبَارِھِمْ۔ وَکُنْتُ اَتَیَقَّنُ اَنَّنِیْ لَمِنَ الْمُظَفَّرِیْنَ۔ فَدَنَوْتُ مِنْھُمْ فَاِذَاھُمْ قَوْمٌ دُرُوْسُ الْبَرَّۃِ کَرِیْہُ الْھَیْئَۃِ مِیْسَمُھُمْ کَمِیْسَمِ الْمُشْرِکِیْنَ۔ وَلِبَاسُھُمْ لِبَاسُ الْفَاسِقِیْنَ وَرَاَیْتُھُمْ مُطْلِقِیْنَ اَفْرَاسَھُمْ کَالْمُغِیْرِیْنَ۔ وَکُنْتُ اُقَیّدُ لَحْظِیْ بِاَشْبَاحِھِمْ کَالرَّآئِیْنَ وَکُنْتُ اُسَارِعُ اِلَیْھِمْ کَالْکُمَاۃِ۔ وَکَانَ فَرَسِیْ کَاَنَّہ‘ یُزْجِیْہِ قَآئِدُالْغَیْبِ۔ کَاِزْجَآئِ الْحَمُوْلَاتِ بِالْحُدَاۃِ۔ وَکُنْتُ عَلٰی طَلَاوَۃِ اَقْدَامِہٖ کَالْمُسْتَطْرِفِیْن۔ فَمَالَبِثُوْا اَنْ رَّجَعُوْا مُتَدَھْدِھًا اِلٰی خَمِیْلَتِیْ۔ لِیُزَاحِمُوْا حَوْلِیْ وَحِیْلَتِیْ وَلِیُتْلِفُوْا ثِمَارِیْ وَیُزْعِجُوا اَشْجَارِیْ۔ وَلِیَشُنُّوْا عَلَیْھَا الْغَارَاتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فَاَوْ حَشَنِیْ دُخُوْ لُھُمْ فِیْ بُسْتَانِیْ وَاُدْھِشْتُ بِاِغْرَاقِھِمْ وَ وُلُوْجِھِمْ فِیْھَا فَضَجِرْتُ ضَجْرًا وَّقَلِقَ جَنَانِیْ وَ شَھِدَ تَوَسُّمِیْ اَنَّھُمْ یُرِیْدُوْنَ اِبَادَۃَ اَثْمَارِیْ وَکَسْرَ اَغْصَانِیْ۔ فَبَادَرْتُ اِلَیْھِمْ وَظَنَنْتُ اَنَّ الْوَقْتَ
تھا اور دین و دنیا کے حق میں بہترین نتائج پیدا کرنے والا تھا۔ اپنی پوری طاقت اور کوشش کے ساتھ تیزی سے ایک طرف چل پڑا۔ اسی اثناء میں مجھے ہزارہا شاہسوار نظر آئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور نہایت تیزی کے ساتھ میری طرف آرہے تھے۔ مَیں انہیں دیکھ کر ایسا خوش ہوا کہ گویا مجھے غنیمت ملی ہے اور مجھے اپنے اندر دشمن کے مقابلہ کی طاقت محسوس ہونے لگی۔ اور مَیں اس طرح پر ان کا پیچھا کرنے لگا۔ جیسے شکاری لوگ شکار کا پیچھا کرتے ہیں۔ پھر مَیں نے اس کی حقیقت ِ حال دریافت کرنے کے لئے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے دَوڑایا۔ اور مجھے یقین تھا کہ مَیں کامیاب ہوں گا۔ پھر مَیں ان کے قریب ہوا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ان لوگوں کے کپڑے بوسیدہ اور دریدہ ہیں۔ ان کی شکلیں مکروہ ہیں۔ اور ان کی ہیئت مشرکوں کی سی اور لباس بدکردار لوگوں کاسا ہے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ غارت ڈالنے کی غرض سے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ اور میں پورے غور اور توجہ سے ان کی شکلوں کو دیکھ رہا ہوں اور مَیں پہلوانوں اور بہادروں کی طرح تیزی سے ان کی طرف جارہا ہوں اور میرا گھوڑا ایسا تیزی سے جاتا تھا کہ کوئی غیب سے اِسی طرح پر چلا رہا ہے جیسا کہ حدی خوان لوگ اونٹوں کو تیز چلاتے ہیں۔ مَیں اس کے قدموں کی خوبصُورتی اور دلکشی کی و جہ سے بھی خوشی محسوس کرتا تھا۔ اس پر انہوں نے میری طاقت اور میری تدبیر میں مزاحم ہونے۔ میرے باغ کے پھلوں کو تلف کرنے اور درختوں کی بیخ کنی کرنے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ان پر غارت ڈالنے کی غرض سے فوراً لوٹ کر میرے باغ کی طرف رُخ کیا۔ ان کے میرے باغ میں داخل ہونے اور گھس جانے کی و جہ سے
مِنْ مَّخَاشِی اللَّاوَآئِ۔ وَصَارَتْ اَرْضِیْ مَوْطِنَ الْاَعْدَآئِ۔ وَاَوْجَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ خِیْفَۃً کَالضَّعِیْفِیْنَ الْمَزْئُ وْ دِیْنَ فَقَصَدْتُّ الْحَدِیْقَۃَ۔ لِاُفَتِّشَ الْحَقِیْقَۃَ۔ فَلَمَّا دَخَلْتُ حَدِیْقَتِیْ۔ وَاسْتَشْرَفْتُ بِتَحْدِیْقِ حَدَقَتِیْ وَاسْتَطْلَعْتُ طَلْعَ مَقَامِھِمْ رَاَیْتُھُمْ مِّنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ فِیْ بُحْبُوْحَۃِ بُسْتَانِیْ سَاقِطِیْنَ مَصْرُوْعِیْنَ کَالْمَیِّتِیْنَ۔ فَاَفْرَخَ کَرْبِیْ وَاٰمَنَ سِرْبِیْ وَبَادَرْتُ اِلَیْھِمْ جذِلًا وَّبِاِقْدَامِ الْفَرِحِیْنَ فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْھُمْ وَجَدْتُّھُمْ اَصْبَحُوْا فَرْسٰی کَمَوْتِ نَفْسٍ وَّاحِدٍ مَیِّتِیْنَ ذَلِیْلِیْنَ مَقْھُوْرِیْنَ سُلِخَتْ جُلُوْدُھُمْ وَشُجَّتْ رُئُ وْسُھُمْ وَذُعِطَتْ حُلُوْقُھُمْ وَقُطِعَتْ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ وَصُرِعُوْا کَالْمُمَزَّقِیْنَ۔ وَاغْتِیْلُوْا کَالَّذِیْنَ سَقَطَ عَلَیْھِمْ صَاعِقَۃٌ فَکَا نُوْا مِنَ الْمُحْرَقِیْنَ۔ فَقُمْتُ عَلٰی مَصَارِعِھِمْ عِنْدَ التَّلَاقِیْ وَعَبَرَاتِیْ یَتَحَدَّرْنَ مِنْ مَّاٰقِیْ وَقُلْتُ یَارَبِّ رُوْحِیْ فِدَآئُ سَبِیْلِکَ لَقَدْ تُبْتُ عَلَیَّ۔ وَنَصَرْتَ عَبْدَکَ بِنُصْرَۃٍ لَّا یُوْجَدُ مِثْلُہ‘ فِی الْعَالَمِیْنَ۔ رَبِّ قَتَلْتَھُمْ بِاَیْدِیْکَ قَبْلَ اَنْ قَاتَلَ صِرْعَانِ۔ وَحَارَبَ حِتْنَانِ۔ وَبَارَزَقِتْلَانِ۔ تَفْعَلُ مَاتَشَآئُ وَلَیْسَ مِثْلُکَ فِی النَّاصِرِیْنَ۔ اَنْتَ اَنْقَذْ تَنِیْ وَنَجَّیْتَنِیْ وَمَاکُنْتُ اَنْ اُنْجٰی
میں گھبرایا۔ اور مجھے سخت تشویش اور بے چینی پیدا ہوئی۔ اور میری فراست نے بتایا۔ کہ وہ لوگ میرے باغ کے پھلوں کو تباہ کرنا اور شاخوں کو توڑدینا چاہتے ہیں اس لئے مَیں دوڑ کر ان کی طرف بڑھا۔ اور مَیں نے سمجھا کہ یہ وقت سخت خطرناک ہے اور میری زمین کو دشمنوں نے اپنا وطن بنا لیا ہے اور مَیں کمزور اور خوفزدہ لوگوں کی طرح اپنے دل میں خوف محسوس کرنے لگا۔ سو اس بنا پر مَیں حقیقت حال معلوم کرنے کی غرض سے اپنے باغ کی طرف چل پڑا۔ اور جب مَیں اپنے باغ میں داخل ہوا۔ اور غور سے اُس میں نگاہ ڈالی اور اس میں ان کے مقام کی جگہ دریافت کرنے لگا۔ تو مَیں نے دُور ہی سے دیکھا کہ وہ میرے باغ کے درمیانی صحن میں گرے پڑے اور مُردوں کی طرح بچھڑے پڑے ہیں۔ اس پر میری گھبراہٹ جاتی رہی۔ اور مجھے اطمینان خاطر حاصل ہوگیا۔ اور مَیں نہایت خوشی کے ساتھ تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ اور جب مَیں ان کے قریب پہنچا۔ تو دیکھا کہ وہ سب کے سب یکدم ذلّت کی حالت میں اور مورد غضب ِ الٰہی بن کر اس طرح پر مر گئے جیسے ایک شخص کا مرنا واقع ہوتا ہے اور ان کے چمڑے اتارے گئے اور اُن کے سروں کو کچل دیا گیا اور ان کے گلوں کو کاٹ دیا گیا اور اُن کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور پارہ پارہ کرکے پھینک دیئے گئے اور یکدم ان پر ایسی تباہی آئی جیسی کسی قوم پر بجلی گر کر ایک ہی دم میں اُسے نابود کردیتی ہے اور وہ بھسم ہوگئے اس کے بعد مَیں اُن کی ہلاکت کی جگہ پر جہاں وہ مقابلہ کیلئے اکٹھے ہوئے تھے کھڑا ہوا۔ اورمیری آنکھوں سے آنسو کثرت سے بہہ رہے تھے اور مَیں نے (بارگاہِ الٰہی میں) عرض کیا۔ کہ اے میرے ربّ میری جان تیری راہ پر فدا ہو۔ تو نے مجھ ناچیز پر خاص کرم فرمایا ہے اور اپنے بندۂ درگاہ کی وہ نصرت فرمائی ہے جس کی نظیر اقوام میں نہیں مل سکتی۔ اے میرے ربّ تُو نے پیشتر اس کے کہ دو فریق باہم جنگ کرتے اور دو حریف کارزار کو عمل میں لاتے اور دو مرد میدانِ کارزار میں کار فرما ہوتے۔ اپنے ہاتھوں سے ان کو قتل کردیا۔ تو جو چاہتا ہے
مِنْ ھٰذِہِ الْبَلَایَالَوْ لَا رَحْمَتُکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَکُنْتُ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ الْمُنِیْبِیْنَ۔ فالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
وَاَوَّلْتُ ھٰذِہِ الرُّؤْیَآ اِلٰی نُصْرَۃِ اللّٰہِ وَ ظَفَرِہٖ بِغَیْرِ تَوَسُّطِ الْاَیْدِیْ وَالْاَسْبَابِ۔ لِیُتِمَّ عَلَیَّ نَعْمَآئَ ہٗ وَیَجْعَلَنِیْ مِنَ الْمُنْعَمِیْنَ۔ وَالْاٰنَ اُبَیِّنُ لَکُمْ تَاْوِیْلَ الرُّؤْیَا لِتَکُوْنُوْا مِنَ الْمُبَصِّرِیْنَ۔ فَاَمَّا شَجُّ الرُّئُ وْسِ وَذَعْطُ الْحُلُوْقِ فَتَاوِیْلُہ‘ کَسْرُکِبْرِ الْاَعْدَائِ۔ وَقَصْمُ اِزْدِھَآئِھِمْ وَجَعْلُھُمْ کَالْمُنْکَسِرِیْنَ۔ وَاَمَّا تَقْطِیْعُ الْاَیْدِیْ فَتَاْوِیْلُہ‘ اِزَالَۃُ قُوَّۃِ الْمُبَارَاتِ وَالْمُمَارَاتِ وَاِعْجَازُھُمْ وَصَدُّھُمْ عَنِ الْبَطْشِ وَحِیَلِ الْمُقَاوَمَاتِ وَالْتِزَاعُ اَسْلِحَۃِ الْھَیْجَآئِ مِنْھُمْ وَجَعْلُھُمْ مَخْذُوْلِیْنَ مَصْدُوْدِیْنَ وَاَمَّا تَقْطِیْعُ الْاَرْجُلِ فَتَاْوِیْلُہ‘ اِتْمَامُ الْحُجَّۃِ عَلَیْھِمْ وَسَدُّطَرِیْقِ الْمَنَاصِ وَتَغْلِیْقُ اَبْوَابِ الْفِرَارِ وَتَشْدِیْدُ الْاِلْزَامِ عَلَیْھِمْ وَجَعْلُھُمْ کَالْمَسْجُوْنِیْنَ وَھٰذَا فِعْلُ اللّٰہِ الَّذِیْ قَادِرٌ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ۔ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ۔ وَیَرْحَمُ مَنْ یَّشَآئُ۔ وَیَھْزِمُ مَنْ یَّشَآئُ۔ وَیَفْتَحُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَمَا کَانَ لَہ‘ اَحَدٌ مِّنَ الْمُعْجِزِیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 578، 581۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 578، 581)
کرتا ہے۔اور تیرے جیسا کوئی مدد دینے والا نہیں ہے تُو نے ہی مجھے بچایا اور مجھے نجات بخشی۔اے ارحم الراحمین ۔ اگر تو رحم نہ کرتا۔ تو ممکن نہ تھا کہ مَیں ان بلاؤں اور آفات سے نجات پاتا۔ پھر مَیں بیدار ہوگیا۔ اور مَیں اس وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہا تھا۔ اور اس کی طرف میری رُوح جھکی ہوئی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ کے لئے تعریف ہے جو تمام مخلوق کا ربّ ہے۔
اور مَیں نے اس رؤیا کی یہ تعبیر کی کہ اس میں ظاہری اسباب اور انسانی کوششوں کے دخل کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور کامیابی کی بشارت ہے اور یہ کہ وہ مجھ پر اپنے انعام کو کامل کرنا اور مجھے اپنے فضلوں میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ اب میں تمہاری بصیرت افزائی کے لئے اس رویا کی تعبیر کھول کر بتاتا ہوں۔ اس میں سر کو کچلنے اور گلا کاٹنے سے مراد دشمن کے تکبّر کو اور اُن کے فخرو غرور کو توڑنا اور اُن میں انکسار پیدا کرنا ہے۔ اور اُن کے ہاتھوں کو کاٹنے سے مراد اُن کی مقابلہ کی قوت کو مٹانا۔ اُنہیں عاجز کردینا اور چیرہ دستی سے اور مقابلہ کرنے سے روکنا اور ان سے لڑائی کے ہتھیار چھین لینا اور انہیں بستگی اور بے چارگی کی حالت میں کردینا ہے۔ اور پاؤں کاٹنے کے معنے اُن پر اتمام حجت کرنا اور بھاگ سکنے کی تمام راہیں اور فرار کے تمام دروازے بند کرنا اور انہیں پورے طور پر ملزم کرنا اور قیدیوں کی طرح کردینا ہے۔اوریہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہر ایک بات پر کامل قدرت رکھتا ہے جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا
(ب) مدّت کی بات ہے، مَیں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ مَیں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور باغ کی طرف جاتا ہوں اور مَیں اکیلا ہوں۔ سامنے سے ایک لشکر نکلا جس کا یہ ارادہ ہے کہ ہمارے باغ کو کاٹ دیں۔ مجھ پر اُن کا کوئی خوف طاری نہیں ہوا اور میرے دل میں یہ یقین ہے کہ مَیں اکیلا ان سب کے واسطے کافی ہوں۔ وہ لوگ اندر باغ میں چلے گئے اور ان کے پیچھے مَیں بھی چلا گیا۔ جب مَیں اندر گیا تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سب کے سب مرے پڑے ہیں اور اُن کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوئے ہیں اور اُن کی کھالیں اُتری ہوئی ہیں۔ تب خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا نظارہ دیکھ کر مجھ پر رقت طاری ہوئی اور مَیں رو پڑا کہ کس کا مقدور ہے کہ ایسا کر سکے۔
فرمایا : اس لشکر سے ایسے ہی آدمی مراد ہیں جو جماعت کو مُرتد کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے عقیدوں کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے باغ کے درختوں کو کاٹ ڈا لیں۔ خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کے ساتھ اُن کو ناکام کرے گا اور اُن کی تمام کوششوں کو نیست و نابود کردے گا۔
فرمایا: یہ جو کچھ دیکھا گیا ہے کہ اُن کا سر کٹا ہوا ہے اِس سے یہ مراد ہے کہ اُن کا تمام گھمنڈ ٹوٹ جائے گا اور اُن کے تکبّر اور نخوت کو پامال کیا جاوے گا اور ہاتھ ایک ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔ ہاتھ کے کاٹے جانے سے مُراد یہ ہے کہ اُن کے پاس مقابلہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا اورپاؤں سے انسان شکست پانے کے وقت بھاگنے کاکام لے سکتا ہے لیکن اُن کے پاؤں بھی کٹے ہوئے ہیں جس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے واسطے کوئی جگہ فرار کی نہ ہوگی اور یہ جو دیکھا گیا ہے کہ ان کی کھال بھی اُتری ہوئی ہے اس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے تمام پَردے فاش ہوجائیں گے اور اُن کے عیوب ظاہر ہوجائیں گے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 23مؤرخہ 7ن 1906ء صفحہ 3)
1893ء
اَ لَااے دشمنِ نادان و بے راہ * بِتَرس از تیغِ بُرّانِ محمدؐ 1
(اشتہار مؤرخہ20؍فروری1893ء )مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد5 صفحہ 649)
(ترجمہ) ’’اے لیکھرام تُو کیوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
بقیہ ترجمہ: چاہتا ہے رحم کرتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے شکست دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے فتح دیتا ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا۔
1 حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام نے سب سے اوّل اجمالی طور پر20؍فروری1886ء کے اشتہار (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 98) میں اس پیشگوئی کا ذکر فرمایا۔ پھر برکات ؔ الدعا۔ کرامات الصادقین اور آئینہ کمالاتِ اسلام میں مفصّل طور پر اس کے متعلق الہامات الٰہی بیان فرمائے جن میں صاف طور پر لکھ دیا گیا۔ کہ لیکھرام اپنی شوخی
کی اس تلوار سے جو تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیگی، کیوں نہیں ڈرتا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 288۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 301)
1893ء
(الف) ’’اس عاجز نے اشتہار 20؍فروری 1886ء میں ........لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو اُن کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں۔ سو اس اشتہار کے بعد .........لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اِس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو ، شائع کردو۔ میری طرف سے اجازت ہے سو اُس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جل شانہ‘ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔
عِجْلٌ جَسَدٗ لَّہ‘ خُوَارٌ ۔ لہ‘ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ
یعنی یہ صرف ایک بے جان گو سالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اُس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدّر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہے گا۔‘‘
(اشتہار 20؍فروری 1893ء مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 649، 650)
(ب) ’’یہ گوسالہ بیجان ہے جس میں رُوحانیت کی جان نہیں۔ صرف آواز ہی آواز ہے پس وہ سامری کے گوسالہ کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ عبارت لَہٗ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ کی تصریح موافق تفہیم الٰہی یہ ہے کہ لَہٗ کَمِثْلِہٖ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 287۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 300)
بقیہ حاشیہ:
شرارت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے کی سزا میں چھ سال کے اندر عید کے دوسرے دن بذریعہ قتل اس دُنیا سے کوچ کر جائیگا۔
اس کے مقابل پر اُس نے بھی اپنی کتاب میں حضرت اقدس کی نسبت لکھا کہ میرے پرمیشر نے مجھے یہ الہام کیا ہے کہ یہ شخص (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ مرتب) تین سال کے اندر ہیضہ سے مرجائیگا۔
لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح حضرت اقدس نے اس کی نسبت پیشگوئی فرمائی تھی۔ کہ بترس از تیغِ بُرّانِ محمدؐ اسی کے مطابق یہ شخص ۶ برس کے عرصہ کے اندر بذریعہ قتل پنجہ ٔ اجل میں گرفتار ہوگیا۔ اور جس طرح فرمایا گیا تھا کہ گوسالہ سامری کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا۔ بالکل اسی طرح یہ گوسالہ سامری بھی شنبہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔ اور جس طرح وہ جلایا گیا۔ اور اس کی ہڈیاں دریا میں پھینکی گئیں۔ اسی طرح یہ بھی جلایا گیا۔ اور اس کی ہڈیاں بھی دریا ہی میں ڈالی گئیں۔
مفصّل دیکھو استفتاؔء اُردو۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 125۔ سراجؔ منیر، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 110، 111 تریاق ؔالقلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ172، 191۔ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ 522، 524۔ حقیقۃ ؔالوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحۃ294۔ چشمہ ٔؔمعرفت صفحہ125 وغیرہ۔ (مرتب)
20 فروری 1893ء
(الف) ’’ آج جو 20؍فروری 1893ء روز دوشنبہ ہے۔ اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس فروری 1893ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی اُن بے ادبیوں کی سزا میں جو اِس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں‘ عذاب شدید میں مبتلا ہوجائیگا۔ ‘‘
(اشتہار 20؍فروری 1893ء مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 650 )
(ب) ’’لیکھرام کے متعلق ایک یہ پیشگوئی تھی کہ
یُقْضٰی اَمْرُہٗ فِیْ سِتٍّ
یعنی چھ میں اس کاکام تمام کیا جائے گا.......اس پیشگوئی کا جیسا کہ مفہوم ہے ایسا ہی ظہور میں آیا یعنی لیکھرام چھ مارچ کو زخمی ہوا اور دن کے چھٹے گھنٹے میں زخمی ہوا۔‘‘
(استفتاء اُردو صفحہ 17 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 125)
1893ء
’’میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس1 کے مَرنے کے تھوڑی مدّت کے بعد پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 14؍جون 1903ء۔ مندرجہ الفضل جلد 39/5نمبر 97
مؤرخہ 25؍اپریل 1951ء صفحہ 4)
1893ء
’’ اِس کتاب2کی تحریر کے وقت دو دفعہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کیااور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بُلاتا ہے اور کہتا ہے:۔
ھٰذَا کِتَابٌ مُّبَارَکٌ فَقُوْمُوْا لِلْاِجْلَالِ وَالْاِکْرَامِ
یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔
(اشتہار کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد5 صفحۃ 652)
1 یعنی لیکھرام پشاوری۔ (مرتب)
2 یعنی آئینہ کمالاتِ اسلام (مرتب)
25 فروری 1893ء
’’آج رات مَیں نے جو 25؍فروری 1893ء کی رات تھی۔ شیخ1صاحب کی اِن باتوں2سے سخت درد مند ہوکر آسمانی فیصلہ کے لئے دُعا کی۔ خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک دوکاندار کی طرف مَیں نے کسی قدر قیمت بھیجی تھی کہ وہ ایک عُمدہ اور خوشبودار چیز بھیج دے۔ اُس نے قیمت رکھ کر ایک بدبودار چیز بھیج دی۔ وہ چیز دیکھ کر مجھے غصہ آیا اور مَیں نے کہا کہ جاؤ دوکاندار کو کہو کہ وُہی چیز دے ورنہ مَیں اس دَغا کی اُس پر نالش کروں گا اور پھر عدالت سے کم سے کم چھ ماہ کی اُس کو سزا ملے گی اور امید تو زیادہ کی ہے۔ تب دوکاندار نے شاید یہ کہلا بھیجا کہ یہ میرا کام نہیں یا میرا اختیار نہیں اور ساتھ ہی یہ کہلا بھیجا کہ ایک سودائی پھرتا ہے۔ اُس کا اثر میرے دل پر پڑگیا اور مَیں بھول گیا اور اب وہی چیز دینے کو تیار ہوں۔
اِس کی مَیں نے یہ تعبیر کی کہ شیخ صاحب پر یہ ندامت آنے والی ہے اور انجام کار وہ نادم ہوں گے اور ابھی کسی دوسرے آدمی کا اُن کے دل پر اثر ہے۔‘‘
(اشتہار شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور۔ صفحہ 7 مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 655، 656)
1893ء
’’پھر مَیں نے توجہ کی تو مجھے یہ الہام ہوا:۔
اِنَّانَرٰی تَقَلَّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ۔ نُقَلِّبُ فِی السَّمَآئِ مَاقَلَّبْتَ فِی الْاَرْضِ اِنَّا مَعَکَ نَرْفَعُکَ دَرَجَاتٍ۔
یعنی ہم آسمان پر دیکھ رہے ہیں کہ تیرا دل مہر علی کی خیر اندیشی سے بد دعا کی طرف پھر گیا۔ سو ہم بات کو اُسی طرح آسمان پر پھیردینگے جس طرح تو زمین پر پھیر دیگا۔ ہم تیرے ساتھ ہیں تیرے درجات بڑھائینگے۔ ‘‘
(اشتہار شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور صفحہ8 مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 656)
1 شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور (مرتب)
2 شیخ مہر علی صاحب کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے قید ہونے سے چھ ماہ قبل بذریعہ ایک خواب اطلاع دی تھی کہ اس کی جائے نشست فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور حضرت نے اس پر پانی ڈال کر بجھایا ہے۔ اس ابتلا اور مصیبت سے حضرت اقدس نے اُسی وقت شیخ صاحب کو خبر دے دی اور توبہ اور استغفار کی طرف توجہ دلائی۔ لیکن بعد رہائی شیخ صاحب نے حضرت کے اس خط سے انکار کردیا۔ بلکہ اُلٹا یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ خط تو کوئی نہیں لکھا مگر اس مضمون کا جھوٹا بیان مجھ سے لکھوانا چاہتے تھے۔ اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ صاحب کے اسی دلآویز رویہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (مرتب)
1893ء
’’ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ اس1کے گھر میں آگ لگ گئی اور پھر مَیں نے اُس کو بُجھایا.........بعد میں شیخ مہر علی کی نسبت ایک اور پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ ایک اور سخت بلا میں مبتلا ہوگا۔ چنانچہ بعد اس کے وہ مرض فالج میں مبتلا ہوگیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 222،223۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 233)
18 مارچ 1893ء
(الف) ’’آج جو 29؍ شعبان 1310ھ ہے اِ س مضمون کے لکھنے کے وقت خدا تعالیٰ نے دُعا کے لئے دل کھول دیا۔ سو مَیں نے اِس وقت اسی طرح سے رقّتِ دل سے اس مقابلہ2میں فتح پانے کے لئے دُعا کی اور میرا دل کھُل گیا۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ قبول ہوگئی اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ الہام جو مجھ کو میاں بٹالوی کی نسبت ہوا تھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ وہ اسی موقع کیلئے ہوا تھا۔ مَیں نے اس مقابلہ کے لئے چالیس دن کا عرصہ ٹھہرا کر دعا کی ہے اور وہی عرصہ میری زبان پر جاری ہوا۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 604، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 604)
(ب) (خدا تعالیٰ نے) ’’مجھ کو بشارت دی کہ اگر میاں بطالوی یا کوئی دوسرا اس کا ہم مشرب مقابلہ3 پر آئے تو شکست فاش اٹھا کر سخت ذلیل ہوگا۔‘‘ (کرامات الصادقین صفحہ 4۔ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 46)
19 مارچ 1893ء
’’یکم رمضان المبارک۔ اِنَّنِیْ1 مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ نَجَّیْنَاکَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاکَ فَتُوْنًا۔ رسید مژدہ کہ ایام غم نخواہد ماند۔ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ۔ لَنُبَدِّ لَنَّکُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِکُمْ اَمْنَا۔ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ اَیْنَ الْمَفَرُّ۔ یَوْم تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ۔ یعنی زمین کے باشندوں کے خیالات اور رائیں بدلائی جائینگی۔ اِنَّمَا یُؤَخِّرُ ھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اَجَلٍ قَرِیْبٍ۔ اِنَّا مُقْتَدِرُوْنَ وَاِنَّا قَادِرُوْنَ۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 84)
1 یعنی شیخ مہر علی ہوشیار پوری۔ (مرتّب) 2 و 3 مقابلہ تفسیر نویسی۔ (مرتّب)
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ میں سنتا ہون اور دیکھتا ہوں۔ ایسے طریق سے مدافعت کر جو احسن ہو۔ ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تیری خوب آزمائش کی۔ خوشخبری پہنچی کہ غم کے دن نہیں رہیں گے۔ خدا ہی کیلئے معاملہ ہے اس کے پہلے اور اس کے بعد بھی۔ تو بھی مریگا۔ اور وہ بھی مریں گے۔ یقینا ہم تمہارے خوف کی حالت کو اس کے بعد امن کی حالت میں بدل دیں گے۔ وہ اپنے منہ پیٹیں گے کہ کہاں بھاگیں۔ اُس دن وہ زمین دوسری زمین میں تبدیل کردی جائیگی ان کو مقررہ میعاد تک ڈھیل دے رہا ہے۔ وہ میعاد قریب ہے۔ ہم قادرو توانا ہیں ۔ اے ہمارے ربّ ہم کو بخش دے ہم خطار کار تھے۔
25 مارچ 1893ء
’’ اب تک آپ1 کیلئے جہاں تک انسانی کوشش سے ہوسکتا ہے توجہ کی گئی .......اور آخر جو بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہوا۔ وہ یہ تھا:۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔قُلْ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ
یعنی اللہ جل شانہ‘ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ کوئی بات اس کے آگے اَنہونی نہیں۔ انہیں کہدو ...2.... جائیں۔ اور یہ الہام ابھی ہوا ہے۔ اس الہام میں جو میرے دل میں خداتعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادۂ الٰہی آپ کی خیر اور بہتری کیلئے مقدّر ہے لیکن وہ اس بات سے وابستہ ہے کہ آپ اسلامی صلاحیت اور التزام صوم و صلوٰۃ و تقویٰ و طہارت میں ترقی کریں۔ بلکہ ان شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امر مخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کے لئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں۔‘‘
(مکتوب بنام نواب محمد علی خانصاحب۔ اصحابِ احمد جلد دوم صفحہ 216۔217)
3 2اپریل 1893ء
’’حضرت مولوی حکیم نورالدّین صاحب نے بھیرہ میں ایک عظیم الشان مکان بنوایا تھا........ابھی پورے طور پر وہ مکان طیار نہ ہوا تھا .......جاڑہ کا موسم تھا۔ مولوی صاحب چلتی ہوئی ملاقات کو آئے تھے۔ رات کو حضرت امام کو وحی4 ہوئی کہ مولوی صاحب کو ہجرت کرنی چاہئے۔ چنانچہ صبح کو مولوی صاحب کو سنایا کہ ہجرت کرو۔ اور وطن نہ جاؤ۔ یہ صدیق کا فرزند کوئی چگونگی درمیان میں نہ لایا۔ مکان خراب ہوا۔ مگر یہ مردِ خدا نہیں گیا۔‘‘
(از خطبہ مولانا عبدالکریم صاحب ؓ الحکم جلد 6 نمبر 32 مؤرخہ 10 ؍ستمبر 1902ء صفحہ 11)
2اپریل 1893ء
’’آج جو 2؍ اپریل 1893ء مطابق 14؍ ماہِ رمضان 1310 ھ ہے۔ صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوںاور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں۔ اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل ‘ گویا اُس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے۔ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ مَیں نے
1 یعنی نواب محمد علی خانصاحب آف مالیر کوٹلہ۔ (مرتب)
2 یہ جگہ اصل خط میں پھٹی ہوئی ہے۔ (اصحاب احمد)
3 یہ تاریخ حضڑت خلیفہ اوّل کی جیبی بیاض میں (جو مولوی عبدالرحمٰن صاحب شاکرؔ کے پاس ہے) درج ہے۔ (مرتبؔ)
4 اس وحی کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی سوانح حیات میں جو اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی کو لکھوائی۔ یوں فرمایا۔’’مولوی عبدالکریم صاحب سے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے) فرمایا کہ مجھ کو نورالدین کے متعلق الہام ہوا ہے اور وہ شعر حریری میں موجود ہے۔ لاتصبون الی الوطن۔ فیہ تھان و تمتحن۔‘‘ (مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نورالدین) (ترجمہ از مرتب) تو وطن کی طرف ہرگز رُخ نہ کرنا۔ اس میں تیری اہانت ہوگی اور تجھے تکلیفیں اُٹھانی پڑیں گی۔
نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں۔ ملائک شِداد غلاظ میں سے ہے۔
اور اُس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی۔ اور مَیں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک1اَور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے تب مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اُس دُوسرے شخص کی سزادہی کے لئے مامور کیا گیا ہے ۔ مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ہاں یہ یقینی طور پر یاد رہا ہے کہ وہ دُوسرا شخص اُنہیں چند آدمیوں میں سے تھا جن کی نسبت مَیں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یک شنبہ کا دن اور 4 بجے صبح کا وقت تھا فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(برکات الدّعا۔ ٹائٹل پیج صفحہ 4 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ 33)
1893ء
’’اللہ جل شانہ‘ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جل شانہ‘ نے اپنے الہام سے فرمادیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلا تفاوت ایسا ہی انسان تھا۔ جس طرح اور انسان ہیں۔مگر خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور اس کا مرسل اور برگزیدہ ہے۔ اور مجھ کو یہ بھی فرمایا۔ کہ جو مسیح کو دیا گیا۔ وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور تو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک رُوحانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کردے گا۔ اور یکسر الصلیب کا مصداق ہوگا۔‘‘
(حجتہ الاسلام صفحہ 9۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ 49)
1893ء
’’وَاِنِّیْ رَئَیْتَ اَنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ یُؤْمِنُ بِاِیْمَانِیْ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَرَئَیْتُ کَاَنَّہٗ تَرَکَ
1 (نوٹ از مرتب) واقعات نے بتادیا کہ دوسرا شخص شردھانند تھا۔ جو اس پیشگوئی کے مطابق دسمبر 1926ء کو عبدالرشید کاتب دہلوی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ شردھانند کے واقعہ قتل کے متعلق حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ہے..........دو شخصوں کے قتل کی پیشگوئی تھی۔ ان میں سے ایک لیکھرام صاحب تھے۔ اور دوسرے کا نام آپ کو اُس وقت یاد نہ تھا عجیب حکمت ہے کہ پہلے شردھانند کا نام منشی رام تھا۔ اور مارے جانے کے وقت ان کا نام شردھانند تھا۔ اسی و جہ سے حضرت صاحب کو اُن کا نام یاد نہ رہا۔ پھر وہ لیکھرام کے بھی قائم مقام ہیں۔ چنانچہ تیج نے لکھا ہے کہ جب لیکھرام کے قتل کی خبر جالندھر پہنچی تو سوامی شرھانند صاحب اپنا کام چھوڑ کر لاہور آگئے۔ اور سوامی لیکھرام صاحب کا کام انہوں نے سنبھال لیا۔ بہر حال آریوں میں سے بڑے پایہ کے لیڈر تھے بہت سی باتیں ان کے قتل کی لیکھرام صاحب کے قتل سے ملتی ہیں۔ لیکھرام صاحب ہفتہ کے دن جمعہ وعید سے اگلے روز مارے گئے اور یہ جمعرات کو مارے گئے جو جمعہ کے ساتھ کا دن ہے۔ وہاں بھی قاتل کمبل پوش تھااور یہاں بھی کمبل پوش ہی ہے۔ وہاں بھی قاتل کو پہلے روکا گیا لیکن اس کو اندر جانے کی اجازت دی گئی اور یہاں بھی اسی طرح ہوا۔‘‘
(الفضل جلد 14 ؍نمبر 55 مؤرخہ 11؍جنوری 1927ء صفحہ 4)
2 (ترجمہ از مرتب) اور مَیں نے دیکھا کہ یہ شخص یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی اپنے مرنے سے پہلے میرا مومن ہونا مان لے گا اور
قَوْلَ التَّکْفِیْرِ وَتَابَ۔ وَھٰذِہٖ رُؤْیَایَ وَاَرْجُوْ اَنْ یَّجْعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا۔‘‘
(حجتہ الاسلام صفحہ 19۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ 59)
5 جون 1893ء
’’ آج رات جو مجھ پر کھُلا وہ یہ ہے کہ جبکہ مَیں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جنابِ الٰہی میں دُعا کی کہ تُو اِس امر میں فیصلہ کر۔ اور ہم عاجز بندے ہیں۔ تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث1میں دونوں فریقوں میں جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچّے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے۔ وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دِن ایک مہینہ لے کر یعنی 15 ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاویگا۔ اور اُس کو سخت ذلّت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچّے خدا کو مانتا ہے اُس کی اِس سے عزت ظاہر ہوگی۔اور اس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آوے گی۔ بعض اندھے سوُجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سُننے لگیں گے۔2 ‘‘
(جنگ مقدس صفحہ 188،189۔ مضمون حضرت اقدس 5؍جون 1893۔ روحانی خزائن جلد6صفحہ 291،292)
بقیہ حاشیہ: مَیں نے دیکھا کہ گویا اس نے مجھے کافر کہنا چھوڑ دیا ہے اور اس خیال سے توبہ کرلی ہے اور یہ میری رؤیا ہے۔ اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ میرا خدا اسے پورا کردے گا۔
خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ اس پیشگوئی کے بیس برس بعد 1914ء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک مقدمہ کے دَوران میں منصف اوّل ضلع گوجرانوالہ کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے اور اسلام کے مختلف فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھوایا کہ
’’ یہ سب فرقے قرآن مجید کو خدا کا کلام مانتے ہیں۔ اور یہ سب فرقے قرآن کی مانند حدیث کو بھی مانتے ہیں ایک فرقہ احمدیؐ بھی اب تھوڑے عرصہ سے پیدا ہوا ہے جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ مسیحیت اور مہدویّت کا کیا ہے یہ فرقہ بھی قرآن کو اور حدیث کو یکساں مانتا ہے...........کسی فرقہ کو جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ ہمارا فرقہ مطلقاً کافر نہیں کہتا۔‘‘
(مفصل دیکھو الفضل جلد 1نمبر 35 مؤرخہ 11؍فروری 1914ء صفحہ 3)
1 یعنی مناظرہ مابین حضرت مسیح موعود علیہ السلام و ڈپٹی عبداللہ آتھم۔جو کتاب جنگ مقدس میں درج ہے۔ (مرتب)
2 اس پیشگوئی میں صاف طور پر ظاہر کیا گیا تھا۔ کہ اگر آتھم حق کی طرف رجوع نہ کرے گا تو پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاویگا سو چونکہ آتھم نے میعاد مقررہ کے اندر اسلام اور بانی ٔ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق اپنی عادت کے خلاف بالکل خاموشی اختیار کرلی اور دیگر قرائن سے بھی ثابت کردیا کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے ڈر گیا۔ اور اسلام کی حقانیت سے مرعوب ہوگیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت مَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ کے مطابق اس پر رحم کیا اور اُسے ہاویہ میں گرنے سے بچالیا۔ لیکن چونکہ بعد میں اُس نے حضرت اقدس کے بار بار متوجہ کرنے حتیٰ کہ چار ہزار روپیہ تک انعامی اشتہار شائع کرنے پر بھی اظہارِ حق سے انکار کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ
5جون 1893ء
’’ آج جلسہ مباحثہ سے واپس آنے کے بعد قریب ایک بجے دن کے حضرت اقدس کو اس مباحثہ کی فتح پر بشارت بخش الہام ہوا۔ جو حضور نے اسی وقت حاضرین کو آکرسُنایا۔ اور وہ یہ ہے:۔
ھَنَّأَکَ اللّٰہُ
یعنی اللہ تعالیٰ تجھے مبارکباد دیتا ہے۔ (عبدالکریم1) ۔‘‘
(جنگ مقدس آخری مضمون حضرت اقدس ۔ نیز تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 61 حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 434)
جون 1893ء
(ا) ’’یَمُوْتُ قَبْلَ از ثَمَانیہ 2 ایک دشمن کی نسبت یہ الہام ہے۔ نام اس دشمن کا یاد نہیں۔
(2) یَمُوْتُ بِغَیْرِ مَرَضٍ 2 یہ کس کی نسبت ہے۔ پتہ معلوم نہیں۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 84)
2 اگست 1893ء
’’خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں اپنی اسی کتاب میں یہ مصرع لکھتا ہوں:۔
آؤبُلبُل چلیں کہ وقت آیا
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 216)
بقیہ حاشیہ: ’’اب اگر آتھم صاحب قسم کھالیویں (کہ وہ پیشگوئی کے نتیجہ میں مرعوب نہیں ہوئے اور کسی جہت سے بھی رجوع نہیں کیا) تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں۔ اور تقدیر مُبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں۔ تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑیگا۔ جس نے حق کا اخفا کرکے دُنیا کو دھوکہ دینا چاہا ....... اور وہ دن نزدیک ہیں دُور نہیں۔‘‘ (اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ صفحہ 11 تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ 177۔ مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ 106) ’’اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیں۔ اور ذبح بھی کرڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ 3 بحوالہ اشتہار 30؍دسمبر 1895ء مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 204) مگر اس پر بھی آتھم نے قسم نہ کھائی۔ سو چونکہ آتھم نے سچی قسم سے منہ پھیرا۔ اور نہ چاہا کہ حق ظاہر ہو اس لئے آخری اشتہار مؤرخہ 30؍دسمبر 1895ء پر جو قسم دلانے کیلئے دیا گیا تھا ابھی سات مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق آتھم صاحب مؤرخہ 27؍جولائی 1896ء بمقام فیروز پور اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ (مرتب)
1 حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) آٹھ سے پہلے مریگا۔
3 (ترجمہ از مرتب) بیماری کے بغیر مرے گا۔
22 اگست 1893ء
9؍صفر 1311ھ۔ 8؍بھادوں سم 1950 روز سہ شنبہ۔
’’آج رات مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص مجھ کو کہتا ہے کہ تم ولی ہو میں نے کہا کہ کیونکر۔ اس نے جواب دیا کہ مَیں تمہارے ملنے کے لئے آیا تھا۔ راہ میں دریا تھا۔ مَیں نے کہا کہ اگر یہ ولی ہے تو دریا کا یہ کنارہ گر پڑے۔ تبھی وہ گر پڑا۔ اور پھر میری بیوی نے مجھ کو مبارکباد دی کہ تمہارے تیسرا لڑکا پیدا ہوا۔ مبارک باد ہو۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 218)
1893ء
’’ بَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
1 اِنِّیْ سَاُوْتِیْکَ بَرَکَۃً وَّ اُجْلِیْٓ اَنْوَارَ ھَا حَتّٰی یَتَبَرَّکَ بِثِیَابِکَ الْمُلُوْکُ وَالسَّلَاطِیْنُ۔
وَقَالَ
اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ وَ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُ ھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ۔ وَقُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰہُ وَاَللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔ لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ اِنِّیْ مَعَکَ فَکُنْ مَّعِیْ اَیْنَمَا کُنْتَ۔ کُنْ مَّعَ اللّٰہِ حَیْثُمَا کُنْتَ۔ اَیْنَمَا تُوَلُّوْا افَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْزِجَتْ لِلنَّاسِ وَفَخْرًا لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں تجھے برکت دُوں گا اور اس کے انوار کو روشن کروں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اور فرمایا۔ مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ اور وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں ان کے لئے ہم کافی ہیں۔ اے احمدؐ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تُونے چلا یا وہ تُونے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔ تاکہ تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھُل جائے۔ یعنی معلوم ہوجائے کہ کون تجھ سے برگشتہ ہوتا ہے۔ کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں۔ اور مَیں سب پہلے ایمان لانے والا ہوں۔ کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ اور باطل بھاگنے والا ہی تھا۔ ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔ پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ اور کہہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔ وہ لوگ بھی تدبیریں کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیر کررہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر سب سے بہتر ہوتی ہے۔ اُسی نے اپنے رسُول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تا اس دین کو سب دینوں پر غالب کرے۔ خدا کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا مَیں تیرے
وَلَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ وَاِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَٓا اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا۔ وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ۔ وَاِنَّکَ لَمِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔
بُشْرٰی لَکَ یَآ اَحْمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ وَاِذَا نَصَرَاللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْحَاسِدِیْنَ۔ تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی فَاصْبِرْعَلٰی جَوْرِ الْجَائِرِیْنَ۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُقْتَنُوْنَ۔ اَلْفِتْنَۃُ ھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌمِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ
ساتھ ہوں پس تُو میرے ساتھ ہو جہاں تُو ہو وے۔ خدا کے ساتھ ہو جہاں تو ہو وے جس طرف تم رُخ کروگے اسی طرف اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی۔ تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے اور مؤمنین کے لئے موجب ِ فخر بنا کر پیدا کی گئی۔ اور تُو خدا کی رحمت سے نومید مت ہو۔ خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے۔ خبردار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے وہ مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی۔ خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے۔ جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔ اور تو ہمارے نزدیک صاحب ِ مرتبہ ہے اور امین ہے اور کہیں گے کہ یہ وحی نہیں ہے یہ کلمات تو اپنی طرف سے بنائے گئے ہیں۔ ان کو کہہ کہ وہ خدا ہے کہ جس نے یہ کلمات نازل کئے۔ پھر ان کو لہو ولعب کے خیالات میں چھوڑدے اور اس سے زیادہ ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے۔ اور تیرے پر میری رحمت دُنیا اور دین میں ہے اور تو یقینا ان لوگوں میں سے ہے جن کے شاملِ حال نصرتِ الٰہی ہوتی ہے۔
تجھے بشارت ہو اے میرے احمدؔ۔ تو میری مراد اور میرے ساتھ ہے۔ مَیں نے تیری عزت کا درخت اپنے ہاتھ سے لگایا۔ کیا ان لوگوں کو تعجب ہے تو کہہ خدا ذوالعجائب ہے وہ اپنے بندو ں میں سے جسے چاہتا انتخاب کرلیتا ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔ اور جب خدا مومن کی مدد کرتا ہے تو اس کے کئی حاسد مقرر کردیتا ہے۔ لوگوں سے لطف کے ساتھ پیش آ۔ اور ان پر رحم کر۔ تُو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اس لئے ظالموں کے ظلم پر صبر کر۔ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ یونہی چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کا امتحان نہیں لیا جائے گا۔ اس جگہ ایک فتنہ ہے۔ پس صبر کرجیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔ خبردار وہ فتنہ (آزمائش) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تا وہ تجھ سے محبت
حُبًّا جَمًّا۔ وَفَّی اللّٰہُ اَجْرَکَ وَیَرْضٰی عَنْکَ رَبُّکَ وَیُتِمُّ اسْمَکَ وَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا قُلْ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ فَانْتَظِرُوْٓا اٰیَاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔ قُلْ ھٰذَا فَضْلُ رَبِّیْ وَاِنِّیْٓ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُرُوْبِ الْخِطَابِ۔ وَاِنِّیْٓ اَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ یُتِمُّ نُوْرَہٗ وَیُحْیِ الدِّیْنَ۔ نُرِیْدُ اَنْ نُنَزِّلَ عَلَیْکَ اٰیَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَنُمَزِّقَ الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ لِخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ۔ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَحِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔ وَاُمَمٌ حَقَّ عَلَیْھِمُ الْعَذَابُ وَیَمْکُرُوْنَ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ مِنَ السَّمَآئِ۔رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ۔ وَیُخَوِّ فُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا سَمَّیْتُکَ
کرے۔ اللہ تعالیٰ تجھے تیرا اجر پورا پورا دے گا۔ اور تجھ سے راضی ہوگا۔ اور تیرے نام کو کمال بخشے گا۔ اور یہ لوگ تو تجھے محض تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔ تو کہہ کہ مَیں یقینا راستباز ہوں۔ پس تم ایک وقت تک میرے نشانوں کا انتظار کرو۔ تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے تجھے مسیح ابن ِ مریم بنایا۔ کہہ یہ میرے ربّ کا فضل ہے اور مَیں تو اپنے آپ کو تمام قسم کے خطابات سے الگ رکھتا ہوں۔ اور مَیں تو مسلمانوں میں سے ایک ہوں۔ وہ چاہتے ہیں۔ کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہہ کی پھونکوں سے بجھادیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گا اور دین کو زندہ کرے گا۔ ہم تجھ پر آسمان سے نشانات اُتارنا چاہتے ہیں۔ اور دشمنوں کو بالکل منتشر کردینا چاہتے ہیں۔ خدائے رحمن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی بادشاہت آسمانی ہے پس اللہ پر توکل کر۔ ہماری آنکھوں ک سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا۔ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری نہیں بلکہ خدا کی بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔ اور (بالمقابل) کئی گروہ ایسے ہیں جن پر عذاب واقع ہوگا اور وہ تدبیریں کررہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان لاؤگے یا نہیں۔ پھر ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرو گے یا نہیں۔ میرے ساتھ میرا ربّ ہے عنقریب وہ میرا راہ کھول دیگا۔ اے میرے ربّ !مجھے دکھلا کہ تُو کیونکر مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔ اے میرے ربّ ! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے ربّ! مجھے اکیلا مت چھوڑ۔ اور تو خیر الوارثین ہے۔ اے میرے ربّ ! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے ربّ! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا
الْمُتَوَکِّلَ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔ نَحْمَدُکَ وَنُصَلِّیْ۔ یَآ اَحْمَدُ یَتِمُّ اسْمُکَ وَلَا یَتِمُّ اسْمِیْ۔ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْعَابِرُسَبِیْلٍ۔ وَکُنْ مِّنْ الصَّالِحِیْن الصِّدِّیْقِیْنَ۔ اَنَا اخْتَرْتُکَ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَآ اَبْنَآئَ الْفَارِسِ۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَآ اَدْرَاکَ مَآ اَصْحٰبُ الصُّفَّۃِ تَرٰی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ رَبَّنَآ اِنَّنَاسَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ۔ شَاْنُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ۔ وَمَعَکَ جُنْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِیْنَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِی وَتَفْرِیْدِیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ بُوْرِکْتَ یَا اَحْمَدُ وَکَانَ مَابَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّایَعْلَمُھَاالْخَلْقُ۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکُکَ حَتّٰی یَمِیْزَا لْخَبِیْثَ
فیصلہ کردے۔ اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ اور تجھے یہ لوگ ڈراتے ہیں۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا۔ خدا عرش سے تیری تعریف کررہا ہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔
اے احمد ؐ تیرا نام پورا ہوجائیگا۔ اور میرا نام پورا نہیں ہوگا۔ تو دنیا میں ایسے طور پر رہ کہ گویا تو ایک غریب الوطن بلکہ ایک راہرو ہے اور صالح اور راستباز لوگوں میں سے ہو۔ مَیں نے تجھے چن لیا اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی۔ توحید کو پکڑو۔ توحید کو پکڑو۔ اے فارس کے بیٹو! اور تُو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سُنا کہ اُن کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے رُوگردانی نہ کر۔ اور لوگوں کے ملنے سے نہ تھک اور اطاعت اختیار کرنے والوں کے لئے اپنے بازو کو جھکا۔ جو صُفّہ میں رہنے والے ہیں۔ اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صُفّہ میں رہنے والے۔ تُو دیکھے گا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! ہم ایمان لائے۔ پس ہمیں بھی گواہوں میں لکھ۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے۔ اور آسمانوں اور زمینوں کی ایک فوج تیرے ساتھ ہے۔ تو مجھ سے ایسا ہے۔ جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ پس وہ وقت آتا ہے کہ تُو مدد دیا جائے گا اور دُنیا میں مشہو رکیا جائے گا۔ اے احمد ؐ! تو برکت دیا گیا۔ اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی۔ وہ تیرا ہی حق تھا۔ تومیری درگاہ میں وجیہہ ہے میں نے تجھے اپنے لئے چنا۔ تو مجھ سے بمنزلہ اس قُرب کے ہے جس کو دُنیا نہیں جانتی۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ کو چھوڑ دےجب تک
مِنَ الطَّیِّبِ۔ اُنْظُرْاِلٰی یُوْسُفَ وَاِقْبَالِہٖ۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ لِیُقِیْمَ الشَّرِیْعَۃَ وَیُحٰیِ الدِّیْنَ۔ کِتَابُ الْوَلِیِّ ذُوالْفَقَارِ عَلِیٍّ۔ وَلَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ رَجُلٌ مِّنْ اَبْنَآئِ الْفَارِسِ۔ یَکَادُزَیْتُہٗ یُضِیْٓئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْمُرْسَلِیْنَ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیّیْنَ۔ یَرْحَمُکَ رَبُّکَ وَیَعْصِمُکَ مِنْ عِنْدِہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ اَحَدٌ مِّنْ اَھْلِ الْاَرْضِیْنَ۔ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَاکَانَ لَہٗٓ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَآ اِلَّاخَآئِفًا وَّمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ وَاعْلَمْ اَنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ۔ وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ اِنَّا سَنُرِیْھِمْ اٰیَۃً مِّنْ اٰیَاتِنَا فِیْ الثَّیِّبَۃِ وَنَرُدُّھَا اِلَیْکَ اَمْرٌ مِّنْ لَّدُنَّآ اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُکَذِّبُوْنَ بِاٰیَاتِیْ وَکَانُوْا بِیْ مِنَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ فَبُشْرٰی لَکَ فِی النِّکَاحِ۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ اِنَّا زَوَّجْنَاکَھَا۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ وَاِنَّا رَآدُّوْ ھَآ اِلَیْکَ اِنَّ رَبَّکَ
کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلادے۔ یوسف اور ا سکے اقبال کی طرف دیکھ اللہ تعالیٰ اپنے امرپر غالب ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ مَیں نے چاہا کہ مَیں خلیفہ بناؤں۔ پس مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ تاکہ وہ شریعت کو قائم کرے اور دین کو زندہ رے۔ ولی کی کتاب علی کی ذوالفقار ہے۔ اور اگر ایمان ثریا سے لٹکا ہوتا تو ابناء فارس میں سے ایک شخص اُسے وہاں سے بھی لے آتا۔ قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہوجائے۔ا گرچہ آگ اسے چھوئی بھی نہ ہو۔ اللہ کا رسول تمام رسولوں کے لباس میں۔ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو۔ تو آؤ میری پیروی کرو۔ تاخدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور محمدؐ اور محمد ؐ کی آل پر درود بھیج۔ جو تمام بنی آدم کا سردار اور خاتم النّبیّین ہے۔ تیرا ربّ تجھ پر رحمت کرے گا۔ اور اپنی جناب سے تیری حفاظت کا سامان کرے گا۔ اگرچہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے تیری حفاظت کرے گا۔ اگرچہ رُوئے زمین کے لوگوں میں سے کوئی بھی تیری حفاظت نہ کرے۔ ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے۔ اور وہ ہلاک ہوگیا۔ اس کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس کام میں (یعنی تکفیر اور تکذیب میں) دخل دیتا مگر ڈرتے ہوئے جو تجھ پر آئے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جان لے کہ نیک انجام متقیوں کا ہوتا ہے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو آنے والے عذاب سے ڈرا۔ ہم انہیں اس بیوہ کے متعلق بھی اپنا ایک نشان دکھائیں گے۔ اور اسے تیری لوٹائیں گے۔ یہ امر ہماری جناب سے مقدّر ہوچکا ہے۔ اور ہم ہی کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ میرے نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور مجھ پر تمسخر کرتے تھے۔ پس تجھے نکاح کے متعلق بشارت ہو۔ یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے حق ہے۔ پس تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو۔ ہم نے اس کو تیرے ساتھ ملادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں اور ہم اُسے
فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ۔ فَضْلٌ مِّنْ لَّدُنَّا۔ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلنَّاظِرِیْنَ۔ شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ وَنُرِیْھِمْ جَزَآئَ الْفَاسِقِیْنَ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَھٰٓی اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَآ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔ کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا۔ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ یُّوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمْرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَاِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ۔ یَا عَبْدَالْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ وَاِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔اَنَا بُدُّکَ اللَّازِمُ اَنَا مُحْیِیْکَ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ۔ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔ فَکُنْ
تیری طرف واپس لائیں گے۔ تیرا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ یہ ہمارا فضل ہے تا دیکھنے والوں کے لئے ایک نشان ہو۔ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ اور رُوئے زمین کے سب لوگ فنا ہونے والے ہیں۔ اور ہم اُنہیں ارد گرد اور خود اُن کی ذات میں نشان دکھائیں گے۔ اور اُنہیں ہم نافرمانوں کی سزا (کا نمونہ)دکھائیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی۔ اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا (اس دن کہا جائے گا۔کہ) کیا یہ حق نہ تھا؟ بلکہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کھُلی گمراہی میں ہیں۔ مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا۔ پس مَیں نے چاہا کہ ظاہر کیا جاؤں۔ آسمان اور زمین بند گٹھڑی کی طرح تھے۔ پس ہم نے ان کو کھول دیا۔ کہہ میں محض ایک بشیر ہوں جس پر وحی کی جاتی ہے۔ کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے اور تمام بھلائی اور نیکی قرآن میں ہے اور اس کے اسرار تک وہی پہنچ سکتے ہیں جو پاک دل ہیں۔ اور مَیں نے اس سے پہلے ایک عمر تم میں بسر کی ہے پس کیا تم سوچتے نہیں۔ کہو اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور میرا ربّ میرے ساتھ ہے وہ ضرور میرے لئے رستہ نکالے گا۔ اے میرے ربّ!بخش اور آسمان سے رحمت نازل کر۔ اے میرے ربّ! مَیں مغلوب ہوں تو میرے دشمن سے انتقام لے۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ اے عبدالقادؔر! مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ مَیں نے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت تیرے لئے لگایااور تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امین ہے۔ مَیں تیرا لازمی چارہ ہوں۔ مَیں تجھے زندہ کرنے والا ہوں۔ مَیں نے اپنی طرف سے راستی کی رُوح تجھ میں پھونکی۔ اور مَیں نے تجھ پر اپنی جناب سے محبت ڈال دی اور ایسا کیا کہ تو میری آنکھوں کے سامنے تیار کیا جائے۔ اس کھیتی کی طرح جو
مِّنَ الشَّاکِرِیْنَ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدُہٗ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ عَلِیْمًا بِالشَّاکِرِیْنَ۔ فَقَبِلَ اللّٰہُ عَبْدَہٗ وَبَرَّاَہٗ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا۔ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ اللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ۔ وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَ لِنُعْطِیَہٗ مَجْدًا مِّنْ لَّدُنَّا وَکَذَالِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ سِرُّکَ سِرِّی۔ لَا تُحَاطُ اَسْرَارُ الْاَوْلِیَآئِ۔ اِنَّکَ عَلٰی حقٍّ مُّبِیْنٍ۔ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ لَا یُصَدِّقُ السَّفِیْہُ اِلَّا ضَرْبَۃَ الْاِھْلَاکِ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّکَ۔ عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ۔ قُلْ اَتٰیٓ اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُسْتَعْجِلِیْنَ۔ یَاْتِیْکَ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْنَ٭۔ یَوْمَ یَجِیْٓئُ الْحَقُّ وَیَنْکَشَفُ الصِّدْقُ وَیَخْسَرُ الْخَاسِرُوْنَ۔ وَتَرَی الْغَافِلِیْنَ یَخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ تَمُوْتُ وَاَنَا رَاضٍ مِّنْکَ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَآ اٰمِنِیْنَ۔‘‘
(تحفہ بغداد صفحہ 17۔25 ۔ روحانی خزائن جلد 7 صفحۃ 21 تا 31)
اپنی سُوئی نکالے۔ پھر مضبوط ہوجائے پھر اپنی نالی پر کھڑی ہوجائے۔ ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح دے دی۔ تا تیری طرف منسُوب کردہ غلطیوں کو چاہے پہلی ہوں یا پچھلی مٹادے۔ پس تو شاکرین میں سے ہوجا۔ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو جاننے والا نہیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کو قبول فرمالیا اور لوگوں کی جھوٹی تہمتوں سے بَری ثابت کیا اور وہ اپنے ربّ کے نزدیک وجیہہ ہے اور جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلّی کرے گا۔ تو اسے پاش پاش کردیگا۔ اور اللہ کافروں کی تدبیر کو سُست کردیگا۔ اور تاکہ ہم اُسے لوگوں کے لئے نشان اور اپنی طرف سے رحمت بنائیں اور تاکہ ہم اسے اپنی طرف سے بزرگی عطا کریں اور ہم اسی طرح محسنوں کو جزا دیا کرتے ہیں تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ اولیاء کے اسرار کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ تو کھلے کھلے حق پر ہے دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور مقرّبین میں سے ہے۔ نادان آدمی ہلاکت کی مار کوہی مانتا ہے وہ میرا بھی دشمن ہے اور تیرا بھی۔ وہ ایک گوسالہ ہے وہ جسم ہی جسم ہے(رُوحانیت نہیں) وہ بُڑبڑاتا ہے۔ کہہ اللہ کا حکم آیا سمجھو اس لئے تم جلد بازی نہ کرو۔ تیرے پاس نبیوں کا چاند آئیگا اور تیرا کام سہل طور پر حاصل ہوجائیگا اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمّہ ہوچکا ہے۔ اس دن حق آئے گا اور سچائی کھل جائیگی۔ اور نقصان اٹھانے والے نقصان اُٹھائیں گے۔ اور تم ان غافلوں کو دیکھو گے کہ وہ سجدہ گاہوں پر گر کر کہیں گے اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش کہ ہم خطا کار تھے۔ (انہیں کہا جائے گا) آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ اللہ تمہیں بخش دے گا۔ اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ تو اس حالت میں وفات پائے گا کہ مَیں تجھ سے راضی ہوں گا۔ تمہارے لئے سلامتی ہے اور خوشحالی ہے۔ پس تم اس میں امن کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔
٭ 30جولائی 1893ء (منہ)
1893ء
’’ 1 وَ اِ نِّیْ اَ نَا ا لرَّ حْمَانُ نَاصِرُ حِزْ بِہٖ‘‘
وَ مِنْ حِزْبِیْ فَیُعْلٰی وَ یُنْصَرٗ
(کرامات الصادقین صفحہ44۔ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 86)
1893ء
2 وَ بَشَرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ مُبَشِّرًا
’’ سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَالْعِیْدُ اَقْرَبُ‘‘
(کرامات الصادقین صفحہ 54۔ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 96)
11ستمبر1893ء
’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ والدہ محمود خوش لباس کے ساتھ ایک جگہ آئی ہے جہاں مولوی نور دین بیٹھے ہیں اور آکر دو جوڑا کڑا مولوی صاحب کو دیئے ہیں۔ پھر دیکھا کہ وہ کھانا طیار کررہی ہیں۔ اور منشی جلال الدین بیٹھے ہیں۔ اور پھر ایک عورت آئی ہے جس کا نام اغلباً بھاگ بھری (ہے) جوان عورت ہے جس نے مجھ کو بلایا ہے۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 216)
18 ستمبر 1893ء
7؍ ربیع الاوّل 1311ھ۔ 4؍اسوج سم 1950 روزدوشنبہ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْ ھٰذِہِ الرُّؤْیَا۔
1 اس شعر کا پہلا مصرع الہامی ہے اور شعر کا ترجمہ یہ ہے۔ اور مَیں ہی ہوں رحمن اپنی جماعت کی مدد کرنے والا۔ اور جو شخص میرے گروہ میں سے ہو۔ اُسے غلبہ اور نصرت دی جائے گی۔ (مرتب)
2 اس شعر کا دوسرا مصرع الہامی ہے اور شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ میرے ربّ نے مجھے بشارت دی اور بشارت دے کر کہا کہ تو عنقریب عید کے دن کو پہچان لے گا۔ اور عید اس سے قریب تر ہوگی۔
اس شعر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’ کتاب کرامات الصادقین کے ایک عربی شعر میں جو واقعہ قتل پنڈت لیکھرام سے چار سال پہلے تمام فرقوں میں شائع ہوچکا تھا۔ اُس کی موت کا دن اور تاریخ بتلائی گئی تھی۔ چنانچہ اس شعر پر ہندو اخبار نے لیکھرام کے قتل کے وقت بڑا شور مچایا تھا اور وہ شعر یہ ہے۔ وَ بَشَرَنِیْ رَبِّیْ .................غرض یہ عظیم الشان پیشگوئی اس قدر قوت اور عام شہرت کے ساتھ پھیلنے کے بعد 6؍مارچ 1897ء کو اس طرح پوری ہوئی کہ ایک شخص نے جس کا آج تک پتہ نہیںلگا کہ کون تھا۔ شام کے وقت لاہور کے شہر میں شنبہ کے دن جو عید سے دوسرا دن تھا۔ لیکھرام کے پیٹ میں ایک کاری چھُری مارکر دن دہاڑے ایسا غائب ہوا کہ آج تک پھر اس کا پتہ نہ لگا۔ حالانکہ لیکھرام کے ساتھ کتنی مدّت سے رہتا تھا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 182۔183۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 560)
’’میں نے خواب میں دیکھاکہ اوّل گویا کوئی شخص مجھ کو کہتا ہے کہ میرا نام فتح اور ظفر ہے اور پھر یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے:۔
اَصْلَحَ اللّٰہُ اَمْرِیْ کُلَّہٗ ۔1
اور پھر دیکھا کہ ایک مکان شبیہ مسجد میں ہوں اور ایک الماری کے پاس کھڑا ہوں اور حامد علی بھی کھڑا ہے۔ اتنے میں میری نظر پڑی تو مَیں نے میاں عبداللہ غزنوی کو دیکھا کہ بیٹھے (ہیں) اور میرا بھائی مرزا غلام قادر بھی بیٹھا ہے۔ تب مَیں نے نزدیک ہوکر ان کو السلام علیکم (کہا) تو انہوں نے بھی وعلیکم السلام کہا۔ اور بہت سے دعائیہ کلمات ساتھ ملادیئے جن میں صرف یہ لفظ محفوظ رہا کہ اَخَّرَکَ اللّٰہُ۔ مگر معنی یہی یاد رہے کہ ان کے کلمات ایسے ہی تھے کہ تیرا خدا مدد گار ہو۔ تیری فتح ہو۔ پھر مَیں اس مجلس میں بیٹھ گیا اور کہا کہ مَیں نے خواب بھی دیکھی ہے کہ کسی کو مَیں نے السلام علیکم کہا ہے اور اس نے جواب دیا ہے وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَالظَّفَرٌ۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 217)
یکم اکتوبر1893ء
’’ 2 رَاَیْتُ فِیْ لَیْلَتِیْ ھٰذِہٖٓ اَنَّ النَّمْلَ تَخْرُجُ مِنْ اَنْفِیْ بَعْضُھَا حَیٌّ وَّ بَعْضُھَا مَیِّتٌ۔ وَ بَعْدَھَا خَرَجَ الدَّمُ وَ جَمَعَ فِی الْاَرْضِ۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِتَاْوِیْلِہٖ وَفَوَّضْتُ اَمْرِی اِلَیْہِ۔‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 219)
1893ء
’’ اگرچہ مسلمانوں کے ظاہری عقیدہ کے موافق لیلۃ القدر ایک متبرک رات کا نام ہے۔ مگر جس حقیقت پر خدا تعالیٰ نے مجھ کو مطلع کیا ہے، وہ یہ ہے کہ علاوہ ان معنوں کے جو مسلَّمِ قوم ہیں۔ لیلۃ القدر وہ زمانہ بھی ہے جب دُنیا میں ظلمت پھیل جاتی ہے اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے۔ تب وہ تاریکی بالطبع تقاضا کرتی ہے کہ آسمان سے کوئی نور نازل ہو۔ سو خدا تعالیٰ اس وقت اپنے نورانی ملائکہ اور رُوح القدس کو زمین پر نازل کرتا ہے۔ اسی طور کے نزول کے ساتھ جو فرشتوں کی شان کے ساتھ مناسب حال ہے۔ تب رُوح القدس تو اس مجدّد اور مُصْلح سے تعلق پکڑتا ہے جو ا جتبا اور ا صطفا کی خلعت سے مشرف ہوکر دعوتِ حق کے لئے مامور ہوتا ہے۔ اور فرشتے ان تمام لوگوں سے تعلق پکڑتے ہیں جوسعید اور رشید اور مستعد ہیں۔ اور ان کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں اورنیک
1 (ترجمہ از مرتب) خدا تعالیٰ میرا تمام کام درست کردے۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے اسی رات میں دیکھا کہ میری ناک سے چیونٹیاں نکل رہی ہیں بعض زندہ ہیں اور بعض مُردہ۔ اور اس کے بعد خون نکلا اور زمین میں جمع ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعبیر کو بہتر جانتا ہے اور مَیں نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کیا۔
توفیقیں ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ تب دُنیا میں سلامتی اور سعادت کی راہیں پھیلتی ہیں۔ اور ایسا ہی ہوتا رہتا ہے جب تک دین اپنے اُس کمال کو پہنچ جائے۔ جو اس کے لئے مقدّر کیا گیا ہے۔‘‘
(شہادت القرآن صفحہ 17۔ پہلاا ایڈیشن۔ روحانی خزائن جلد6صفحہ 313،314)
1893ء
’’ وَاِنَّ رَبِیْ قَدْ بَشَّرَنِیْ فِی الْعَرَبِ وَاَلْھَمَنِیْ اَنْ اَمُوْنَھُمْ وَاُرِیَھُمْ طَرِیْقَھُمْ وَاُصْلِحَ لَھُمْ شُیُوْنَھُمْ ۔1‘‘ (حمامتہ البشریٰ صفحہ 7، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 182)
1893ء
’’ اَنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ۔ وَمَآ اَنْتَ بِفَضْلِہٖ مِنْ مَّجَانِیْنَ۔ وَیُخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا۔ سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔ وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصَارٰی۔ وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ 2
(حما مۃ البشریٰ صفحہ 8۔ روحانی خزائن جلد7 صفحہ 183)
1893ء
’’ 3 وَقَدْ اُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ قَوْلَ عِیْسٰی عِنْدَ مَنَارَۃِ دِمَشْقَ‘‘ اِشَارَۃٌ اِلٰی زَمَانِ ظُھُوْرِہٖ فَاِنَّ اَعْدَادَ حُرُوْفِہٖ تَدُلُّ عَلَی السَّنَۃِ الْھِجْرِیَّۃِ الَّتِیْ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ فِیْہِ وَاخْتَارَذِکْرَ لَفْظِ الْمَنَارَۃِ اِشَارَۃً اِلٰی اَنَّ اَرْضَ دِمَشْقَ تُنِیْرُ وَ تُشْرِقُ بِدَعْوَاتِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ بَعْدَ مَآ اَظْلَمَتْ بِاَنْوَاعِ الْبِدْعَاتِ وَاَنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ اَرْضَ دِمَشْقَ کَانَتْ
1 اور میرے ربّ نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ مَیں اُن کی خبر گیری کروں۔ اورٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال درست کروں۔‘‘ (حما مۃ البشریٰ صفحہ 7 نیز مترجم حصہ اوّل صفحہ 19۔20)
2 تُواپنے ربّ کی طرف سے اعلیٰ درجہ کی شہادت کے ساتھ ہے۔ اور تو اس کے فضل سے مجنون نہیں ہے اور اللہ کے سوا تجھے اوروں سے ڈراتے ہیں۔ ہم خود تیری نگرانی کرنے والے ہیں۔ مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا ہے۔ اللہ اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے اور یہود نصاریٰ تجھ سے کبھی راضی نہ ہوں گے۔ اور تدبیریں کرتے رہیں گے۔ اور اللہ بھی تدبیر کرے گا۔ اور تدبیر کرنے میں اللہ سب سے بڑھ چڑھ کر ہے۔‘‘
3 (ترجمہ از مرتب) میرے دل میں ڈالا گیا کہ حدیث کے جن الفاظ میں منارہ دمشق کے پاس عیسیٰ کے نزول ترجمہ از مرتب:۔ کا ذکر ہے اس میں اس کے زمانہ ٔ ظہور کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ اس کے حروف کے اعداد اُسی سالِ ہجری پر دلالت کرتے ہیں۔جس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا۔ اور آپ نے منارہ کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ کہ دمشق کی
مَنْبَعَ فِتَنِ الْمُتَنَصِّرِیْنَ۔‘‘ (حمامۃ البشریٰ صفحہ 37۔ روحانی خزائن جلد7 صفحہ 225)
1893ء
اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ لِاُتِمَّ حُجَّۃَ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ وَاَرَی الْخَلْقَ جَھْلَ الْفَاسِقِیْنَ فَاَلَّفْتُ ھٰذِہِ الرِّسَالَۃَ ۔1 ‘‘
(نورالحق حصہ دوم صفحہ 61۔ روحانی خزاءن جلد8 صفحہ 259)
1894ء
(الف) ’’ 2اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّآ اَیَّدْنَا عَبْدَنَا فَاْتُوْا بِکِتَابٍ مِّنْ مِّثْلِہ۔3 ‘‘
(الحکم جلد6 نمبر 23 مؤرخہ24جون1902 ء صفحہ12)
(ب) ’’بَعْدَ مَا اَزْمَعْتُ تَالِیْفَ ھٰذَا الْکِتَابِ اُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّ الْاَرْبَابِ اَنَّ الْکَافِرِیْنَ وَ الْمُکَفِّرِیْنَ لَایَقْدِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْ یُّؤَلِّفُوْا کِتَابًا مِثْلَ ھٰذَا فِیْ نَثْرِھَا وَنَظْمِھَا مَعَ الْتِزَامِ مَعَا رِفِھَا وَحِکَمِھَا۔ فَمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّکَذِّبَ الْھَامِیْ فَلْیَاْتِ بِمِثْلِ کَلَامِیْ۔ فَاِنَّ الْمَھْدِیَّ یُھْدٰی اِلٰی اُمُوْرٍ لَّایُھْدٰی اِلَیْھَا غَیْرُہٗ۔ وَلَا یُدْرِکُہٗ مُعَانِدُہٗ وَلَوْکَانَ عَلَی الْھَوَآئِ سَیْرُہٗ۔4‘‘
(نورالحق حصہ دوم سرورق طبع اوّل۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ187)
زمین طرح طرح کی بدعات کی ظلمتوں میں رہنے کے بعد مسیح موعود کی دُعاؤں سے روشن ہوجائیگی۔ اور یہ بات تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ دمشق کی زمین عیسائیوں کے فتنہ کا منبع رہی ہے۔
1 (ترجمہ ازمرتّب ) میرے ربّ نے مجھے الہام کیا کہ مَیں ان (عیسائیوں) پر الٰہی حجت پوری کروں اور ان بدکاروں کی جہالت لوگوں کو دکھاؤں۔ تب مَیں نے یہ رسالہ (نورالحق) تالیف کیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) اگر تم اس بات کے متعلق شک میں ہو کہ ہم نے اپنے اس بندہ کی تائید و نصرت کی ہے۔ تو اس کتاب (نورالحق) کی مانند کوئی کتاب لے آؤ۔
3 پیر سراج الحق صاحب نعمانی روایت فرماتے ہیں کہ:۔’’مجھے یاد ہے کہ نورالحق کتاب عربی زبان میں لکھنے کے لئے آپ آمادہ ہوئے تو آپ کو مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد کہ خاکسار آپ کی کمر اور پیر اور گردن دبارہا تھا۔ یہ وحی ہوئی۔ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا۔ اُسی وقت آپ نے یہ وحی ہم کو سُنائی اور بشارت دی کہ اس کتاب کی مثل کوئی پیش نہیں کرسکتا خواہ دنیاجمع ہوجاوے۔
(الحکم جلد 6نمبر 23 مؤرخہ24؍جون 1902ء صفحہ12) (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) اور جب مَیں نے اس کتاب (نورالحق) کی تالیف کا پختہ ارادہ کرلیا۔ تو خداوند کریم کی طرف سے مجھے یہ الہام ہوا کہ کافر اور مکفّر لوگ اس جیسی کتاب کی تالیف نہیں کرسکیں گے۔ جو ا س کی نثر اور نظم میں اور معارف اور حکمتوں کے التزام میں اس کی مثل ہو۔ اس لئے جو شخص میرے دعویٰ الہام کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتا ہو اُسے چاہئے کہ میرے اس کلام کی مثل لائے اور یاد رکھو کہ کوئی اس کی مثل نہیں لاسکتا۔ کیونکہ مہدی ان امور کی طرف راہ پاتا ہے جن تک اس کے غیر کی رسائی نہیں ہوتی اور اس کا دشمن اسے نہیں پاسکتا۔ اگرچہ وہ ہوا میں ہی کیوں نہ اُڑتا ہو۔
(ج) ’’وَقَدْ اُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّھُمْ کُلُّھُمْ کَالْاَعْمٰی وَلَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا وَاَنَّھُمْ کَانُوْا فِیْ دَعَاوِیْہِمْ کَاذِبِیْنَ۔5‘‘ (نورالحق حصہ دوم صفحہ 62۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 260)
(د) ’’رسالہ نورالحق اگرچہ عیسائیوں کی مولویت آزمانے کے لئے لکھا گیا۔ مگر یہ چند مخالف یعنی شیخ محمد حسین بطالوی اور اس کے نقش ِ قدم پر چلنے والے میاں رسل بابا وغیرہ جو مکفّر اور بدگو اوربدزبان ہیں اس خطاب سے باہر نہیں ہیں۔ الہام سے یہی ثابت ہوا ہے۔ کہ کوئی کافروں اور مکفّروں سے رسالہ نورالحق کا جواب نہیں لکھ سکے گا۔ کیونکہ وہ جھوٹے اور کاذب اور مفتری اور جاہل اور نادان ہیں۔‘‘ (اتمام الحجتہ صفحہ 24۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 303)
1894ء
’’دوخواب اور دو الہام سے مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ دشمن اور مخالف اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہے گا۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مؤرخہ 3؍اپریل 1894ء بنام مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور۔مندرجہ الحکم جلد7نمبر38 مؤرخہ17؍اکتوبر1903ء صفحہ5تا7)
1894ء
’’ وَلِیْ اَنْ اَقُوْلَ اِنَّنِیْ حِرْزٌ لَّھَا وَحِصْنٌ حَافِظٌ مِّنَ الْاٰفٓاتِ وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ مَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ
(ترجمہ) ’’اورمَیں کہہ سکتا ہوں کہ مَیں اس گورنمنٹ کے لئے بطور ایک تعویذ کے ہوں اور بطور ایک پناہ کے ہوں‘ جو آفتوں سے بچاوے۔ اور خدا نے بشارت دی اور کہا۔ کہ خدا ایسا نہیں کہ ان کو دُکھ پہنچاوے۔ اور تُو اُن میں ہو۔‘‘
(نورالحق حصہ اوّل صفحہ 32،33۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 45)
1894ء
(الف) ’’ وَاِنِّیْ رَاَیْتُ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ مِرَارًا فِی الْمَنَامِ وَمِرَارًا فِی الْحَالَۃِ الْکَشْفِیِّۃِ۔ وَقَدْ اَکْلَ مَعِیَ عَلٰی مَآئِدَۃٍ وَّاحِدَۃٍ۔ وَرَاَیْتُہٗ مَرَّۃً وَاسْتَفْسَرْتُہٗ مِمَّا وَقَعَ قَوْمُہٗ فِیْہِ۔ فَاسْتَوٰی عَلَیْہِ الدَّھْشُ وَّ ذَکَرَ عَظْمَۃَ اللّٰہِ وَطَفِقَ یُسَبِّحُ وَیُقَدِّسُ وَاَشَارَ اِلَی الْاَرْضِ وَقَالَ اِنَّمَا اَنَا تُرَابِیٌّ وَبَرِیْٓءٌ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ۔ فَرَاَیْتُہٗ کَالْمُنْکَسِرِیْنَ الْمُتَوَاضِعِیْنَ۔‘‘
(ترجمہ) اور مَیں نے بارہا عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور بارہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی۔ اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اُس نے کھانا کھایا۔ اور ایک دفعہ مَیں نے اس کو دیکھا۔ اور ا س فتنہ کے بارے میں پوچھا۔ جس میں اس کی قوم مُبتلا ہوگئی ہے۔ پس اس پر دہشت غالب ہوگئی۔ اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا۔ اور اُس کی تسبیح اور تقدیس
1 (ترجمہ از مرتب) میرے ربّ کی طرف سے مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ سب ہی اندھوں کی طرح ہیں۔ اور اس کی مثل ہرگز نہیں لاسکیں گے۔ اور یہ اپنے دعووں میں جھوٹے ہیں۔
میں لگ گیا۔ اور زمین کی طرف اشارہ کیا۔ اور کہا کہ مَیں تو صرف خاکی ہوں۔ اور ان تہمتوں سے بَری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں۔ پَس مَیں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا۔‘‘
(نورالحق حصہ اوّل صفحہ 41۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 56، 57)
(ب)’’خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ‘ ایک یہ بھی ہے جو مَیں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے۔ یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اُس سے باتیں کرکے اس کے اصل دعویٰ اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے یہ ایک بڑی بات ہے۔ جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفّارہ اور تثلیت اور انبیّت ہے ایسے متنفّر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افتراء جو اُن پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے۔
یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب ِ حق نیّت کی صفائی سے ایک مدّت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دُعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے۔ اُن سے باتیں بھی کرسکتا ہے اور اُن کی نسبت اُن سے گواہی بھی لے سکتا ہے۔ کیونکہ مَیں وہ شخص ہوں جس کی رُوح میں برُوز کے طور پر یسوع مسیح کی رُوح سکونت رکھتی ہے۔‘‘ (تحفہ قیصریہ صفحہ21۔ روحانی خزائن جلد12 صفحہ 273)
1894ء
’’ وَرَاَیْتُہٗ مَرَّۃً اُخْرٰی قَآئِمًا عَلٰی عَتَبَۃِ بَابِیْ وَ فِیْ یَدِہٖ قِرْطَاسٌ کَصَحِیْفَۃٍ فَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ فِیْھَا اَسْمَائَ عِبَادٍ یُّحِبُّوْنَ اللّٰہَ وَیُحِبُّھُمْ وَبَیَانُ مَرَاتِبِ قُرْبِھِمْ عِنْدَ اللّٰہِ فَقَرَاْتَھَا فَاِذَافِیْ اٰخِرِھَا مَکْتُوْبٌ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْ مَرْتَبَتِیْ عِنْدَ رَبِّیْ۔
ھُوَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔
(ترجمہ) اور ایک مرتبہ مَیں نے اُس1کو دیکھا کہ میرے درازہ کی دہلیز پر کھڑا ہے اور ایک کاغذ خط کی طرح اُس کے ہاتھ میں ہے۔ سو میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس خط میں ان لوگوں کے نام درج ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کو دوست رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُنہیں دوست رکھتا ہے اور اُس میں اُن کے اُن مراتب ِ قرب کا بیان ہے جو عنداللہ اُن کو حاصل ہیں۔ پس مَیں نے اس خط کو پڑھا۔ سو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے آخر میں میرے مرتبہ کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ لکھا ہوا ہے۔ کہ وہ مجھ سے ایسا ہے۔ جیسا کہ میری توحید اور تفرید اور عنقریب وہ لوگوں میں مشہور کیا جائے گا۔‘‘
(نورالحق حصہ اوّل صفحہ 41،42۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 57)
1894ء
(الف) ’’فَالْحَقُّ الَّذِیْ اَرَانَا الْحَقُّ الْحَکِیْمُ وَاَنْبَاَنَا اللَّطِیْفُ الْعَلِیْمُ ھُوَ اَنَّ حَرْبَۃَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ سَمَاوِیَّۃٌ لَّا اَرْضِیَّۃٌ وَّ مُحَارَبَاتُہٗ کُلُّھَا بِاَنْظَارٍ رُّوْحَانِیَّۃٍ لَّا بِاَسْلِحَۃٍ
1 حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو۔ (مرتّب)
جِسْمَانِیَّۃٍ وَّ ھُوَ یَقْتُلُ الْاَعْدَآئَ بِعَقْدِ النَّظَرِ وَالْھِمَّۃِ اَعْنِیْ بِتَصَرُّفِ الْبَاطِنِ وَاِتْمَامِ الْحُجَّۃِ لَابِالسِّھَامِ وَالرِّمَاحِ وَالْمَشْرَفِیَّۃِ وَلَہٗ مَلَکُوْتُ السَّمَآئِ لَا مَلَکُوْتُ الْاَرْضِیْنَ۔
(ترجمہ) پس وہ حق جو ہم کو حکیم مطلق نے دکھلایا اور لطیف علیم نے بتلایا۔ وہ یہی ہے کہ مسیح موعود کا حربہ آسمانی ہے نہ زمینی اور لڑائیاں اُس کی روحانی نظروں کے ساتھ ہیں نہ جسمانی ہتھیاروں کے ساتھ اور وہ دشمنوں کو نظر اور ہمت سے قتل کریگا۔ یعنی تصرّف باطن اور اتمام حجت کے ساتھ نہ تیر اور نیزہ اور تلوار سے اور اُس کی آسمانی بادشاہت ہے نہ زمینی۔‘‘ (نورالحق حصہ اوّل صفحہ 52۔ روحانی خزائن جلد8صفحہ72)
(ب) ’’وَاَلْھَمَنَا اَنَّ الْحَرْبَ حَرْبٌ رُّوْحَانِیٌّ بِنَظَرٍ رُّوْحَانِیٍّ
(ترجمہ) اور ہمارے ربّ نے ہمیں الہام دیا کہ مسیح موعود کی لڑائیاں، رُوحانی لڑائیاں ہیں جو رُوحانی نظر کے ساتھ ہوں گی۔‘‘
(نورالحق حصہ اوّل صفحہ54۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 75)
1894ء
’’وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْمَسِیْحَ سَمَّی الْاٰخِرِیْنَ مِنَ النَّصَارَ الدَّجَّالِیْنَ۔ لَا الْاَوَّلِیْنَ۔ وَاِنْ کَانَ الْاَوَّلُوْنَ اَیْضًا دَاخِلِیْنَ فِی الضَّآلِیْنَ الْمُحَرِّفِیْنَ۔ وَالسِّرُّفِیْ ذَالِکَ اَنَّ الْاَوَّلِیْنَ مَاکَانُوْا مُجْتَھِدِیْنَ سَاعِیْنَ لِاِضْلَالِ الْخَلْقِ کَمِثْلِ الْاٰخِرِیْنَ۔ بَلْ مَاکَانُوْا عَلَیْھَا قَادِرِیْنَ۔
(ترجمہ) اور میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے آخری زمانہ کے نصاریٰ کا نام دجّال رکھا۔ اور ایسا نام پہلوں کا نہیں رکھا۔ اگرچہ پہلے بھی گمراہوں میں داخل تھے۔ اور کتابوں کی تحریف کرنے والے تھے۔ سو اس میں بھید یہ ہے کہ پہلے نصاریٰ خلق اللہ کے گمراہ کرنے کی ایسی سخت کوششیں نہیں کرتے تھے۔ جیسی پچھلوں نے کیں بلکہ وہ ان کوششوں پر قادر نہیں تھے۔ ‘‘
(نورالحق حصہ اوّل صفحہ 57،58۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 79،80)
1894ء
’’وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْمُرَادَ مِنْ لَّفْظِ الرُّوْحِ فِیْ اٰیَۃِ یَوْمَ یَقُوْمُ الرَّوْحُ جَمَاعَۃُ الرُّسُلِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَالْمُحَدَّثِیْنَ اَجْمَعِیْنَ الَّذِیْنَ یُلْقَی الرُّوْحُ عَلَیْھِمْ وَیَجْعَلُوْنَ مُکَلَّمِیْنَ۔
(ترجمہ) اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ رُوح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت ہے۔ جن پر رُوح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں۔‘‘ (نورالحق حصہ اوّل صفحہ 73۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 98)
1894ء
’’ وَاِنِّیْ اُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّکَ لَا تَقْدِرُ عَلٰی ھٰذَا النِّضَالِ وَیُبْدِی اللّٰہُ عَجْزَکَ وَیُخْزِیْکَ وَیُثْبِتُ اَنَّکَ اَسِیْرٌ فِی الْجَھْلِ وَ الضَّلَالِ وَ لَوِاجْتَمَعَتْ قَوْمُکَ مَعَکَ عَلٰی ھٰذَا الْخَیَالِ فَتَرْجِعُوْنَ مَغْلُوْبِیْنَ۔
(ترجمہ) اورمجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ تُو1اس مقابلہ پر قادر نہیں ہوگا۔ اور خدا تعالیٰ تیرا عجز ظاہر کردے گا۔ تجھے رُسوا کردے گا اور ثابت کرے گا۔ کہ تُو گمراہی میں اسیر ہے اور اگرچہ تیری قوم اس خیال مقابلہ میں تجھ سے متفق ہوجائے مگر آخر تم مغلوب ہوجاؤ گے۔‘‘ (نورالحق حصہ اوّل صفحہ 114۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 153)
1894ء
’’وَاِنِّیْٓ اَرٰٓی اَنَّ اَھْلَ مَکَّۃَ یَدْخُلُوْنَ اَفْوَاجًا فِیْ حِزْبِ اللّٰہِ الْقَادِرِ الْمُخْتَارِ وَھٰذَا مِنْ رَّبِّ السَّمَآئِ وَ عَجِیْبٌ فِیْ اَعْیُنِ اَھْلِ الْاَرْضِیْنَ۔
(ترجمہ) اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اہل ِ مکّہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہوجائیں گے۔ اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب۔‘‘ (نورالحق حصہ دوم صفحہ 10۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 197)
1894ء
’’فَالتَّاْوِیْلُ الصَّحِیْحُ وَالْمَعْنَی الْحَقُّ الصَّرِیْحُ اَنَّ الْمُرَادَ مِنْ خُسُوْفِ اَوَّلِ لَیْلَۃِ رَمَضَانَ اَنْ یَّنْخَسِفَ القَمَرُ فِیْ لَیْلَۃٍ اُوْلٰی مِنْ لِّیَالٍ ثَلَاثٍ یَّکْمُلُ نُوْرُالْقَمَرِ فِیْھَا وَتَعْرِفُ اَیَّامَ الْبِیْضِ..... اَلْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہٖ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ اَنْ یَّظْھَرَ کُسُوْفُ الشَّمْسِ مُنَصِّفًا اَیَّامَ الْاِنْکِسَافِ ...... وَمَاقُلْتُ مِنْ نَّفْسِیْ بَلْ ھٰذَآ اِلْھَامٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘
(ترجمہ) پس تاویل صحیح اور معنی حق صریح یہ ہیں۔ کہ یہ فقرہ کہ خسوف اوّل رات رمضان میں ہوگا۔ اس کے معنے یہ ہیں۔ کہ ان تین راتوں میں سے جو چاندنی راتیں کہلاتی ہیں۔ پہلی رات میں گرہن ہوگا۔ اور ایامِ بیض کو تُو جانتا ہے...........یہ قول کہ سورج گرہن اُس کے نصف میں ہوگا۔ اس سے یہ مراد ہے کہ سورج گرہن ایسے طور سے ظاہر ہوگا کہ ایامِ کسوف کو نصفا نصف کردے گا.............یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ خدا تعالیٰ کے الہام سے کہا ہے۔‘‘
(نورالحق حصہ دوم صفحہ 13،15،19۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 201،204،210)
1894ء
’’2 اِعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ نَفَثَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ ھٰذَا الْخُسُوْفَ وَالْکُسُوْفَ فِیْ رَمَضَانَ اٰیَتَانِ مُخَوِّفَتَانِ لِقَوْمِ انِ تَّبِعُوْا الشَّیْطَانَ۔ وَاٰثَرُوا الظُّلْمَ وَ الطُّغْیَانَ وَھَیَّجُوا الْفِتَنَ وَاَحَبُّو الْاِفْتِنَانَ
1 یعنی پادری عمادالدین۔ (مرتب)
2 ’’میں نے اپنی کتاب نورالحق کے صفحہ 35 سے صفحہ38 تک یہ پیشگوئی لکھی ہے۔ کہ خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ رمضان میں جو خسوف کسوف ہوا۔ یہ آنے والے عذاب کا ایک مقدمہ ہے۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق ملک میں ایسی طاعون پھیلی کہ اب تک تین لاکھ کے قریب لوگ مرگئے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 228۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 239)
وَمَا کَانُوْا مُنْتَھِیْنَ........ وَلَئِنْ اَبَوْا فَاِنَّ الْعَذَابَ قَدْحَانَ۔
(ترجمہ) جان کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں پھونکا کہ یہ خسوف اور کسُوف جو رمضان میں ہوا ہے یہ دو خوفناک نشان ہیں۔ جو ان کے ڈرانے کے لئے ظاہر ہوئے ہیں۔ جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ جنہوں نے ظلم اور بے اعتدالی کو اختیار کرلیا..... اور اگر نافرمانی کی تو عذاب کا وقت تو آگیا۔‘‘ (نورالحق حصہ دوم صفحہ 35۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 227،228)
1894ء
’’فَمَآ اَنَا اَدْعُوْھُمْ کُلَّھُمْ کَدَعْوَتِیْ لِلنَّصَارٰی لِھٰذِہِ الْمُقَابَلَۃِ.......وَعُلِّمْتُ مِنْ رَّبِیْ اَنَّھُمْ مِّنَ الْمَغْلُوْبِیْنَ۔1 ‘‘
(نورالحق حصہ دوم آخری صفحہ ٹائٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ271،272)
1894ء
وَبَشَّرَنِیْ وَقَالَ
’’اِنَّ الْمَسِیْحَ الْمَوْعُوْدَ الَّذِیْ یَرْقُبُوْنَہٗ وَالْمَھْدِیَّ الْمَسْعُوْدَ الَّذِیْ یَنْتَظِرُوْنَہٗ ھُوَاَنْتَ۔ نَفْعَلُ مَانَشَآئُ فَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔2 ‘‘ (اتمام الحجۃ صفحہ 3۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ275)
1894ء
’’اِنَّکَ مِنَ الْمَاْمُوْرِیْنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآ ؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ 3‘‘
(سرّ الخلافہ صفحہ8۔ روحانی خزائن جلد8 صفحۃ 326)
1894ء
’’4 وَاَظھَر عَلَیَّ رَبِّیْ اَنَّ الصِّدِّیْقَ وَالْفَارُوْقَ وَعُثْمَانَ کَانُوْا مِنْ اَھْلِ الصَّلَاحِ وَالْاِیْمَانِ۔ وَکَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰثَرَھُمُ اللّٰہُ وَخُصُّوْا بِمَوَاھِبِ الرَّحْمَانِ.............
وَاِنِّیْ اُخْبِرْتُ اَنَّھُمْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ وَمَنْ اٰذَاھُمْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہَ وَکَانَ مِنَ
1 (ترجمہ از مرتب) پس مَیں ان تمام (مکفر مولویوں) کو اس مقابلہ کے لئے بلاتا ہوں جیسا کہ مَیں نے عیسائیوں کو بُلایا۔ اور میرے ربّ کی طرف سے مجھے علم دیا گیا ہے کہ وہ مغلوب ہوں گے۔
2 (ترجمہ از مرتب) خدا نے مجھے بشارت دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ تُو ہے ہم جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
3 (ترجمہ از مرتب) تو مامور ہے کہ ان لوگوں کو ڈرائے۔ جن کے باپ دادوں کے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا اور تاکہ مجرموں کی راہ اچھی طرح ظاہر ہوجائے۔
4 (ترجمہ از مرتب) اور میرے ربّ نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق ؓ اور فاروقؓ اور عثمان ؓ صالح اور مومن تھے۔ اور اُن
الْمُعْتَدِیْنَ۔ ‘‘ (سرّ الخلافہ صفحہ 8،9۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 326،327)
1894ء
’’وَعُلِّمْتُ اَنَّ الصِّدِّیْقَ اَعْظَمُ شَانًا وَّ اَرْفَعُ مَکَانًا مِّنْ جَمِیْعِ الصَّحَابَۃِ۔ 1‘‘
(سرّ الخلافہ صفحہ 18۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 337)
1894ء
’’ 2کَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَارِفًا تَآمَّ الْمَعْرِفَۃِ حَلِیْمَ الْخُلُقِ رَحِیْمَ الْفِطْرَۃِ۔ وَکَانَ یَعِیْشُ فِیْ زِیِّ الْاِنْکِسَارِ وَالْغُرْبَۃِ۔ وَکَانَ کَثِیْرَ الْعَفْوِ وَالشَّفْقَۃِ وَالرَّحْمَۃِ۔ وَکَانَ یُعْرَفُ بِنُوْرِ الْجَبْھَۃِ وَکَانَ شَدِیْدَ التَّعَلُّقِ بِالْمُصْطَفٰی وَالْتَصَقَتْ رُوْحُہٗ بِرُوْحِ خَیْرِ الْوَرٰی وَغَشِیَہٗ مِنَ النُّوْرِمَا غَشِیَ مُقْتَدَاہُ مَحْبُوْبَ الْمَوْلٰی وَاخْتَفیٰ تَحْتَ شَعْشَعَانِ نُوْرِ الرَّسُوْلِ وَفُیُوْضِہِ الْعُظْمٰی۔ وَکَاَ نَ مُمْتَازًا مِّنْ سَائِرِ النَّاسِ فِیْ فَھْمِ الْقُرْاٰنِ وَفِیْ مَحَبَّۃِ سَیِّدِ الرُّسُلِ وَ فَخْرِ نَوْعِ الْاِنْسَانِ۔
وَلَمَّا تَجَلّٰی لَہٗ النَّشْأَۃُ الْاُخْرَوِیَّۃُ وَالْاَسْرَارُ الْاِلٰھِیَّۃُ نَفَضَ التَّعَلُّقَاتِ الدُّنْیَوِیَّۃَ وَنَبَذَالْعِلَقَ الْجِسْمَانِیَّۃَ وَانْصَبَغَ بِصِبْغِ الْمَحْبُوْبِ وَتَرَکَ کُلَّ مُرَادٍ لِّلْوَاحِدِالْمَطْلُوْبِ وَتَجَرَّدَتْ نَفْسُہٗ عَنْ کُدُوْرَاتِ الْجَسَدِ وَتَلَوَّنَتْ بِلَوْنِ الْحَقِّ الْاَحَدِ وَغَابَتْ فِیْ مَرْضَاتِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
وَاِذَا تَمَکَّنَ الْحُبُّ الصَّادِقُ الْاِلٰھِیُّ مِنْ جَمِیْعِ عُرُوْقِ نَفْسِہٖ وَجَذْرِ قَلْبِہٖ وَ ذَرَّاتِ وُجُوْدِہٖ
)لوگوں( میں سے تھے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے چُن لیا۔ اور خدا تعالیٰ کی عطا سے مخصُوص کئے گئے اور مجھے خبر دی گئی۔ کہ وہ صالحین میں سے تھے۔ اور جس شخص نے ان کو ایذا پہنچائی تو اُس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچائی اور وہ حد سے گذرنے والا ہوا۔
1 (ترجمہ از مرتب) اور مجھے علم دیا گیا ہے کہ صدیق ؓ تمام صحابہ میں سے بڑی شان اور بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) عارفِ کامل‘ عادۃً حلیم اور فطرۃً رحیم تھے۔ خاکساری اور انکسار آپ کا شیوہ تھا اور عفو ‘ شفقت و رافت آپ کامعمول تھا۔ اور آپ کی پیشانی سے نور ٹپکتا تھا۔ آپ کا آنحضرت ؐ سے ایسا گہرا تعلق تھا کہ آپ کی روح آنحضرت ؐ کی رُوحِ پاک سے متحد ہوچکی تھی۔ اور آپ پر اُنہیں انوار کا نزول ہوگیا تھا۔ جو آنحضرت ؐ کے شامل ِ حال تھے۔ اور آنحضرت ؐ کے انوار و فیوض عظیمہ آپ پر محیط تھے۔ فہم قرآن اور محبت ِ نبوی ؐ میں آپ کو سب لوگوں سے ممتاز طور پر حصہ ٔوافر ملا تھا۔
اور جب آپ پر رُوحانی عالم اور اسرارِ الٰہیہ کا دروازہ کھُلا۔ تو آپ نے عام دنیوی تعلقات اور جسمانی علائق کو چھوڑ دیا۔ اور محبوب حقیقی کے رنگ میں رنگین ہوگئے اور خداوند ِ یکتا کی راہ میں ہر ایک مراد کو چھوڑ دیا۔ اور جسمانی کدورتوں کا جامہ اُتار کر خدائی صفات کا جامہ پہن لیا اور رضائے الٰہی میں محو ہوگئے۔
اور جب عشق ِ حقیقی آپ کے رگ و ریشہ میں اور ہر ذرّۂ وجود میں جاگزین ہوگیا اور اس کے
وَظَھَرَتْ اَنْوَارُہٗ فِیْٓ اَفْعَالِہٖ وَ اَقْوَالِہٖ وَ قِیَامِہٖ وَقُعُوْدِہٖ سُمِّیَ صِدِّیْقًا وَّ اُعْطِیَ عِلْمًا غَضًّا طَرِیًّا وَّ عَمِیْقًا مِّنْ حَضْرَۃِ خَیْرِ الْوَاھِبِیْنَ فَکَانَ الصِّدْقُ لَہٗ مَلَکَۃً مُّسْتَقِرَّۃً وَ عَادَۃً طَبْعِیَّۃً وَّ بَدَتْ فِیْہِ اٰثَارُہٗ وَ اَنْوَارُہٗ فِیْ کُلِّ قَوْلٍ وَّفِعْلٍ وَّحَرَکَۃٍ وَّسُکُوْنٍ وَّحَوَآسَّ وَاَنْفَاسٍ وَّ اُدْخِلَ فِی الْمُنْعَمِیْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِیْنَ وَ اِنَّہٗ کَانَ نُسْخَۃً اِجْمَالِیَّۃً مِّنْ کِتَابِ النُّبُوَّۃِ وَکَان اِمَامَ اَرْبَابِ الْفَضْلِ وَانْفُتُوَّۃِ وَمِنْ بَقِیَّۃِ طِیْنِ النَّبِیِّیْنَ۔
وَلَا تَحْسَبْ قَوْلَنَا ھٰذَا نَوْعًا مِّنَ الْمُبَالَغَۃِ وَلَا مِنْ قَبِیْلِ الْمُسَامَحَۃِ وَالتَّجَوُّزِ وَلَا مِنْ نَوْرِ عَیْنِ الْمُحَبَّۃِ بَلْ ھُوَا لْحَقِیْقَۃُ الَّتِیْ ظَھَرَتْ عَلَیَّ مِنْ حَضْرَۃِ الْعِزَّۃِ۔‘‘
(سرّ الخلافہ صفحہ 31،32۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 355)
1894ء
(الف) ’’ خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلادیا کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اُس کے رعب کو تسلیم کرکے حق کی طرف رجوع کرنے کا کسی قدر حصہ لے لیا جس حصہ نے اُس کے وعدہ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی۔ اور ہاویہ میں تو گرا۔ لیکن اس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیا۔ جس کا نام موت ہے..........
خدا تعالیٰ نے ..........مجھے فرمایا:۔
1اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ وَلَا تَعْجَبُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ وَبِعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی۔ وَنُمَزِّقُ
انوار آپ کے افعال و اقوال اور نشست و برخاست میں نمایاں طور پر نظر آنے لگے تو آپ کو صدّیق کا نام دیا گیا اور تازہ اور باریک علوم خداوند تعالیٰ کی طرف سے عطاہوئے جس کے نتیجہ میں صدق آپ کی فطرت میں داخل ہوگیا اور طبعی عادت بن گیا اور اس کے آثارو انوار آپ کے ہر ایک قول وفعل اور ہر ایک حرکت و سکون میں نیز آپ کے حواس اور انفاسِ طیّبہ میں ظاہر ہوگئے اورآپکو خداوندِ کریم نے اپنے خاص انعام یافتہ لوگوں میں داخل فرمایا اور حق یہ ہے کہ آپ کا وجود کتابِ نبوّت کا ایک اجمالی نسخہ تھا اورآپ اربابِ فضل و کمال کے پیشوا اورانبیاء کی پاک سرشت سے بہرہ یاب تھے۔
میرا یہ کلام مبالغہ پر ہر گز مبنی نہیں ہے۔ نہ اس کی بناء محض خوش اعتقادی پر ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔
1 (نوٹ از مرتب) محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے درویش قادیان منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی سے روایت کرتےہیں کہ ’’جب آتھم کی میعاد کا آخری دن تھا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لائے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کو بُلایا اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ۔ اور اس کی تفہیم یہ ہوئی ہے کہ ہٖ کی ضمیر آتھم کی طرف جاتی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ وہ اس میعاد کے اندر نہیں مرے گا۔ ‘‘ (اصحابِ احمد جلد اوّل صفحہ 57)
الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ وَّ مَکْرُ اُوْلٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ۔ اِنَّانَکْشِفُ السِّرَّعَنْ سَاقِہٖ۔ یَوْ مَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ وَھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا۔
ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ہم ّ اور غم ّ پر اطلاع پائی۔ اور اس کو مہلت دی۔ جب تک کہ وہ بے باکی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھُلادے (یہ معنے فقرہ مذکورہ کے تفہیم الٰہی سے ہیں) اور پھر فرمایا۔ کہ خدا تعالیٰ کی یہی سُنّت ہے۔ اور ربّانی سنتوں میں تغیر اور تبدّل نہیں پائے گا اس فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ جب تک ایسے کامل اسباب پیدا نہ ہوجائیں۔ جو غضب الٰہی کو مشتعل کریں اور اگر دل کے کسی گوشہ میں بھی کچھ خوف الٰہی مخفی ہو اور کچھ دھڑکہ شروع ہوجائے تو عذاب نازل نہیں ہوتا۔ اور دوسرے وقت پر جا پڑتا ہے۔
اور پھر فرمایا کہ کچھ تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو (یہ اس عاجز کی جماعت کو خطاب ہے) اور پھر فرمایا۔ کہ مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ تُو ہی غالب ہے (یہ اس عاجز کو خطاب ہے) اور پھر فرمایا کہ ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کردیں گے۔ یعنی ان کو ذلّت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہوجائے گا۔ اس میں یہ تفہیم ہوئی کہ تم ہی فتحیاب ہو نہ دشمن۔ اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور نہ باز آئے گا، جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور اُن کو ہلاک نہ کردے یعنی جو مکر بنایا گیا اور مجسم کیا گیا، اُس کو توڑ ڈالے گا۔ اور اُس کو مُردہ کرکے پھینک دے گا اور اُس کی لاش لوگوں کو دکھا دے گا اور پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے ننگا کرکے دکھا دیں گے۔ یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اور فتح کے دلائل ِ بیّنہ ظاہر کریں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔ پہلے مومن بھی اور پچھلے مومن بھی اور پھر فرمایا کہ و جہ مذکورہ سے عذاب موت کی تاخیر ہماری سُنّت ہے۔ جس کو ہم نے ذکر کردیا۔ اب جو چاہے وہ راہ اختیار کرلے جو اُس کے ربّ کی طرف جاتی ہے ا س میں بدظنّی کرنے والوں پر زجر اور ملامت ہے اور نیز اس میں یہ بھی تفہیم ہوئی ہے کہ جو سعادت مند لوگ ہیں ‘ اور جو خدا ہی کو چاہتے ہیں اور کسی بخل اور تعصّب یا جلد بازی یا سوء فہم کے اندھیرے میں مبتلا نہیں وہ اِس بیان کو قبول کریں گے۔ اور تعلیم الٰہی کے موافق اس کو پائیں گے لیکن جو اپنے نفس اور اپنی نفسانی ضد کے پیرو یا حقیقت شناس نہیں وہ بے باکی اور نفسانی ظلمت کی و جہ سے اُس کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘
(انوار الاسلام صفحہ 2،3۔ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 2،3)
(ب) ’’ اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہوچکا اور آگے کچھ نہیں۔ کیونکہ آئندہ کے لئے الہام میں یہ بشارتیں ہیں۔ وَنُمَزِّقُ الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ
وَثُلَّۃٌ مِنَ الْاٰخِرِیْنَ۔یعنی مخالف فاش شکستوں سے پارہ پارہ ہوجائیں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔ پہلا گروہ بھی اور پچھلا گروہ بھی۔ پس یقینا سمجھو کہ وہ دن آنے والے ہیں کہ وہ سب باتیں پوری ہوں گی جو الٰہی الہام میں آچکیں۔ دشمن شرمندہ ہوگا اور مخالف ذلّت اُٹھائے گا اور ہریک پہلو سے فتح ظاہر ہوجائے گی اور یقینا سمجھئے کہ یہ بھی ایک فتح ہے اور آنے والی فتح کا ایک مقدّمہ ہے۔‘‘
(انوار الالسلام صفحہ 15،16۔ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 16،17)
(ج) ’’ بعض وقت ایک باریک پیشگوئی لوگوں کے امتحان کے لئے ہوتی ہے۔ تا خدا تعالیٰ اُنہیں دکھلاوے کہ ان کی عقلیں کہاں تک ہیں۔ اور ہم لکھ چکے ہیں کہ حدیث نبویؐ کی رُو سے اِس پیشگوئی میں کج دل لوگوں کا امتحان بھی منظور تھا۔ اِس لئے باریک طور پر پوری ہوئی۔ مگر اس کے اور بھی لوازم ہیں جو بعد میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ کشف ِ ساق کی پیشگوئی اِس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‘‘ (اشتہار ملحقہ ضیاء الحق صفحہ8۔ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 319)
1894ء
’’ خدائے تعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پر ایک ابتلاء آنے والا ہے۔ تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اور کون کچا ہے۔‘‘ (مکتوب نمبر 7 بنام نواب محمد علی خان صاحب مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 67)
1894ء
’’اِس1 تحریر کے لکھنے کے بعد مجھ پر نیند غالب ہوگئی۔ اور مَیں سو گیا۔ اور خواب میں دیکھا کہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں اور اُن کی گود میں ایک بچہ کھیلتا ہے جو اُنہیں کا ہے اور وہ بچہ خوش رنگ خوبصورت ہے اور آنکھیں بڑی بڑی ہیں۔ مَیں نے مولوی صاحب سے کہا کہ خدا نے بعوض محمد احمد آپ کو وہ لڑکا دیا کہ رنگ میں ‘ شکل میں ‘ طاقت میں اُس سے بدرجہا بہتر ہے۔ اور مَیں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تو اور بیوی کا لڑکا معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلا لڑکا تو ضعیف الخلقت ‘ بیمار سا اور نیم جان سا تھااور یہ تو قوی ہیکل اور خوش رنگ ہے اور پھر میرے
1 یعنی تحریر متعلق سعد اللہ لدھیانوی۔ (مرتب)
نوٹ:۔ حضرت مولانا حاجی حافظ نور الدین خلیفۃ المسیح اوّل ؓ فرماتے ہیں:۔
’’میرا لڑکا عبدالحی آیۃ اللہ ہے۔ محمد احمد مر گیاتھا۔ لودھیانہ کے ایک معترض نے اس پر اعتراض کیا ..........مَیں نے اس لودھیانوی معترض کی تحریر کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا اوراُس پر کوئی توجہ نہ کی۔ مگر میرے آقا و امام نے اس پر توجہ کی ‘ تو اس کو وہ بشارت ملی جو انوارالاسلام کے صفحہ 26 (روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 27) پر درج ہے۔ اور پھر اس کے چند برس بعد یہ بچہ جس کا نام عبدالحی ہے، پیدا ہوا۔ کشف کے مطابق اس کے جسم پر بعض پھوڑے نکلے۔ جن کے علاج میں میری طبابت گرد تھی۔ عبدالحی کو ان پھوڑوں کے باعث سخت تکلیف تھی اور وہ ساری رات اور دن بھر تڑپتا اور بے چین رہتا۔ جس کے ساتھ ہم کو بھی کرب ہوتا۔ مگر ہم مجبور تھے، کچھ نہ کرسکتے تھے۔ ان پھوڑوں کے علاج کی طرف بھی اس کشف میں ایما تھا۔ اور اس کی ایک جُزو ہلدی تھی اور اس کے ساتھ ایک اور دوائی تھی جو یاد نہ رہی تھی۔ ہم نے اس کے اضطراب اور کرب کو دیکھ کر چاہا کہ ہلدی لگائیں۔ آپ نے کہا کہ مَیں جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا دوسرا جُزو یاد نہیں۔ مگر ہم نے غلطی
دل میں یہ آیت گذری جس کا زبان سے سنانا یاد نہیں۔ اور وہ یہ ہے:۔
مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْنُنْسِھَانَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔1
اور مَیں جانتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس عَدُوّالدین2کا جواب ہے کیو نکہ اس نے عیسائیوں کا حامی بن کر اسلام پر حملہ کیا۔ اور وہ بھی بیجا اور بے ایمانی سے بھرا ہوا حملہ۔ اور ایک جُزو اس خواب کی رہ گئی۔ مَیں نے دیکھا کہ اس بچہ کے بدن پر کچھ پھنسی یا ثُؤْلُوْل کے مشابہ بخارات نکل رہے ہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اس کا علاج ہلدی اور ایک اور چیز ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘
(انوار الاسلام صفحہ 26 بقیہ حاشیہ در حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 27،28 بقیہ حاشیہ درحاشیہ)
1894ء
’’اولاد کے بارے میں میاں عبدالحق3نے کوئی الہام تو پیش نہ کیا۔ صرف طولِ امل ہے لیکن ہم کو اس بارہ میں بھی الہام ہوا اور اللہ جلّ شانہٗ نے بشارت دی اور فرمایا کہ
اِنَّا نَبَشِّرُکَ بَغُلَامٍ
یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں4۔‘‘
(انوار الاسلام صفحہ 39 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 40 حاشیہ)
کھائی اور ہلدی لگادی۔ جس سے وہ بہت ہی تڑپا اور آخر ہم کو وہ دھونی پڑی۔ اس سے ہمارا ایمان تازہ ہوگیا کہ ہم کیسے ضعیف اور عاجز ہیں کہ اپنے قیاس اور فکر سے اتنی بات نہیں نکال سکے۔ اور یہ مامور اور مُرسلوں کی جماعت ایک مشین اور کَلْ کی طرح ہوتے ہیں جس کے چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔ اس کے بُلائے بغیر یہ نہیں بولتے۔ غرض میرا ایمان ان نشانوں سے بھی پہلے کا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو نشان کے بغیر نہ چھوڑا۔ سینکڑوں نشان دکھادیئے۔‘‘
(رسالہ تفسیر سُورۂ جمعہ صفحہ 48،49)
یہ لڑکا اس پیشگوئی کے پانچ سال بعد 15؍فروری 1899ء کو پید اہوا۔ جس کا نام عبدالحی رکھا گیا۔ (مرتب)
1 (ترجمہ از مرتب) جس نشان کو بھی ہم مٹادیں یا بھلوادیں اس بہتر دوسرا نشان یا اس جیسا نشان لاتےہیں۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ خداتعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: 107)
2 سعد اللہ لدھیانوی۔ (مرتب)
3 یعنی میاں عبدالحق غزنوی ثمَّ امرتسری ۔ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ کیا تھا۔ (مرتب)
4 ہمیں خدا تعالیٰ نے عبدالحق کی یاوہ گوئی کے جواب میں بشارت دی تھی کہ تجھے ایک لڑکا دیا جائے گاجیسا کہ ہم اسی رسالہ انوار الاسلام میں اس بشارت کو شائع بھی کرچکے ہیں۔ سو الحمدللہ والمنتہ کہ اس الہام کے مطابق 27؍ذیقعد 1312ھ مطابق 24؍مئی 1895ء میں میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام شریف احمد رکھا گیا۔‘‘
(ٹائٹل ضیاء الحق صفحہ آخر۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 323)
یہاں 1894ء کے وہ الہامات درج کئے جاتے ہیں جو حضڑت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کاپی میں درج فرمائے تھے۔ اورجب 1935ء حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحب نے پہلی بارتذکرہ مرتب کیا تھا اُس وقت یہ گم ہوچکی تھی۔ 1938ء میں یہ کاپی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو مل گئی اور حضور نے اس کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 19اگست 1938ء مطبوعہ الفضل جلد 26نمبر20 مورخہ 31 اگست 1938ء میں فرمایا تھا۔ بعد میں یہ کاپی دوبارہ کاغذات میں کہیں گم ہوگئی اور1983ء میں قادیان سے مل گئی اورآجکل یہ تبرکات کمیٹی ربوہ کی تحویل میں ہے۔ دیباچہ میں اس کی فوٹو بھی شائع کی گئی ہے۔ موجودہ تذکرہ کے متن میں یہ الہامات صفحہ188 سے صفحہ194 تک درج ہیں ان پر ’’٭‘‘ کا نشان لگادیا گیا ہے۔
٭ 17 اگست 1894ء
اِنِّیْ اَنَا الْوَدُوْدُالْکَرِیْمُ۔ 1
٭ 18 اگست 1894ء
اِنَّ اللہ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْاوَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ 2
٭22 اگست 1894ء
وَفِیْ ذَالِکُمْ بَلَاٌء مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ۔ 3
٭ 25 اگست 1894ء
(الف) اِنَّ النَّاسَ کَانُوْبِاٰیَاتِنَایَجْحَدُوْنَ۔ 4
(ب) ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا۔5
1 (ترجمہ از مرتّب) یقیناً میں بہت محبت کرنے والا مہربان ہوں۔
2 (ترجمہ) خداان کے ساتھ ہے جو پرہیزگاری اختیارکرتے ہیں اوران کے ساتھ ہے جو نیکوکارہیں۔
(انجامِ آتھم ۔ روحانی خزائن جلدنمبر11 صفحہ54)
3 (ترجمہ از مرتّب) اوراس میں تمہارے خدا کی طرف سے تمہارا بڑا اِمتحان تھا۔
4 (ترجمہ از مرتّب) یقیناً لوگ ہمارے نشانوں کا انکارکرتے تھے۔
5 (ترجمہ از مرتب) مومنوں نے اپنے (لوگوں کے) بارہ میں نیک گمان کیا۔
٭ 26 اگست 1894ء
یَوْمَئذٍیَّفْرَحُ الْمُؤمِنُوْنَ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰ خِرِیْنَ۔ 1
٭ 26 اگست 1894ء
(الف) اِنَّانَکْشِفُ السِّرَّعَنْ سَاقِہٖ۔ 2
(ب) وَلَاتَعْجَبُوْ اوَلَاتَحْزَنُوْاوَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْاعْلٰی ۔ 3
٭27 اگست 1894ء
(الف) اِنِّیْ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ 4
(ب) مَیں نے دیکھا کہ ایک بَیت اللہ اور ایک طرف بَیت المقدس اور بیچ میں مَیں کھڑا ہوں۔
(ج) مَیں نے دیکھا کہ کچھ کیلے میرے سامنے رکھے ہیں اورایک کیلا مَیں نے حامد علی کودیا ہے۔
٭ 29اگست 1894ء
لَنْ تَجِدَ لِسُنُّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ 5
٭ 31 اگست 1894ء
(الف) اِطَّلَعَ اللہُ عَلیٰ ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ۔ 6
1 (ترجمہ) اس دن مومن خوش ہوں گے۔ ایک گروہ پہلوں میں سے اورایک گروہ پچھلوں میں سے۔
(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ61)
2 (ترجمہ) ہم حقیقت کو اس کی پنڈلی سے کھول دیں گے۔
3 (ترجمہ) اورتعجّب مت کرو اورغمناک مت ہو اورتم ہی غالب ہوگے اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے۔ یقیناً غلبہ تجھ ہی کو ہے۔
(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 61)
4 (ترجمہ از مرتب) یقیناً میرا ربّ میرے ساتھ ہے اوروہ یقیناً میری رہبری کرے گا۔
5 (ترجمہ) تُو خدا کی سُنّت میں تبدیلی نہیں پائے گا۔ (انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 61)
6 (ترجمہ) خدا اس کے یعنی آتھم کے غم پر مطلع ہؤا۔ (انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 61)
(ب) اِطَّلَعَ اللہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ۔ وَلَنْ تَجِدَلِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا۔ وَلَا تَعْجَبُوْ وَلَاتَحْزَنُوْا۔1 وَفِیْ ذَالِکَ بَلَائٌ مِّنْ رَّبِکُمْ عَظِیْمٌ2
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ اِنَّانَکْشِفُ السِّرَّعَنْ سَاقِہٖ۔ وَنُمَزِّقُ الْاَعْدَءَ کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ ھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَائَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیلًا۔3
٭یکم ستمبر1894ء
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْحُزْنَ۔4
٭2 ستمبر1894ء
(الف) میں نے دیکھا کہ کئی انار میرے پاس رکھے ہیں اور ایک انار مَیں نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔
(ب) وَمَکْرُاُوْلٰئِکَ ھُوَیَبُوْرُ۔ 5
1 (ترجمہ) خدا اس کے یعنی آتھم کے غم پر مطلع ہؤا۔ یہ خدا کی سُنّت ہے اورتُو خدا کی سُنّت میں تبدیلی نہیں پائے گا۔ اورتعجّب مَت کرو اورغمناک مَت ہو۔
2 (ترجمہ از مرتّب) اور اس میں تمہارے رَبّ کی طرف سے عظیم ابتلاء ہے۔
3 (ترجمہ) اور تم ہی غالب ہو اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اورہم حقیقت کو اس کی پنڈلی سے کھول دیں گے۔ اورہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔ اس دن مومن خوش ہوں گے۔ اور گروہ پہلوں میں سے اورایک پچھلوں میں سے۔ یہ تذکرہ ہے جو چاہے خدا کی راہ کو اختیار کرے۔
4 (ترجمہ) اس خدا کو تعریف جس نے میرا غم دُور کیا۔ (حقیقتہ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 110)
5 (ترجمہ) اور ان کا مَکر ہلاک ہوجائے گا۔ (انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 61)
(ج) اَیْ یَھْلِکُ بَعْدَوُجُوْدِھَاوَتَجَسُّمِھَا۔ وَیَمُوْتُ بَعْدَ حَیَاتِھَا فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ۔1
(د) کَمِثْلِکَ دُرٌّلَّایُضَاعُ۔2
(ہ) عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْاشَیْئًا وَّھُوَخَیْرٌلَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْاشَیْئًاوَّ ھُوَشَرٌّلَّکُمْ وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن۔ 3
٭14ستمبر1894ء
وَقْتُ الْاِبْتِلَائِ وَوَقْتُ الْاِ صْطِفَا ئِ وَلَایُرَدُّوَقْتُ الْعَذَابِ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔4
٭18ستمبر1894ء
(الف) لَنْ یَّجْعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا۔5
(ب) داغِ ہجرت
1 (ترجمہ از مرتّب) یعنی اس کے وجود پانے اورجسم اختیار کرنے کے بعد وہ ہلاک ہوجائے گا اورلوگوں کی نظرمیں اس کی حیات کے بعد وہ مَرجائے گا۔
2 (ترجمہ از مرتّب) تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاسکتا۔
3 (ترجمہ از مرتّب) یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز سے نفرت کرو اور وہ دراصل تمہارے لیے اچھی ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو چاہو اوروہ دراصل تمہارے لئے اچھی نہ ہو اورخدا جانتا ہے اورتم نہیں جانتے۔
4 (ترجمہ) اِبتلاء کا وقت ہے اور اصطفاء کا وقت ہے اورعذاب کا وقت مجرموں کے سر پر سے کبھی نہیں ٹل سکتا۔
(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ 56،57)
5 (ترجمہ) خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ کافروں کا مومنوں پر کچھ الزام ہو۔
(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ 59)
(ج) وَمَکَرُہْ وَمَکَرَ اللہُ وَاللہ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ ثُمَّ یَتَقَضّٰی عَلَی الْمَاکِرِیْنَ۔ 1
(د) زیدتہ الرّوا ئح 2 ----- قَالُوْاسَاحِرٌ کَذَّابٌ۔ 3
(ھ) اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۔ 4
(و) عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْشَیْئاً وَھُوَخَیْرٌلَّکُمْ وَعَسٰی اِنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ۔ وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ۔5
(ز) وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُوْلِی النِّعْمَۃِ۔ 6
(ح) خُذْھَاوَلَاتَخَفْ سَنُعِیدُھَاسِیْرَتَھَاالْاُوْلٰی۔7
(ت) اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔ 8
29ستمبر1894ء
’’آخر اے مُردار9! دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا۔ اے عَدُوَّ اللہ! تو مجھ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ
1 (ترجمہ از مرتّب) اور انہوں نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔ پھر وہ تدبیر کرنے والوں پر جھپٹ پڑے گا۔
2 نوٹ:۔ یہ الفاظ پڑھے نہیں گئے۔ (مرتّب)
3 (ترجمہ ازمرتب) انہوں نے کہا کہ یہ شخص جادوگراوربہت بڑا جھوٹا ہے۔
4 (ترجمہ) تیرابدگو بے خبر ہے۔ (انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 58)
5 (ترجمہ از مرتّب) یہ ممکن ہے کہ ایک چیز سے تم نفرت کرو اوروہ دراصل تمہارے لئے اچھی ہو اورممکن ہے کہ ایک چیز تم چاہو اوروہ دراصل تمہارے لئے اچھی ہو اورخداجانتا ہے اورتم نہیں جانتے۔
6 (ترجمہ) اورمنعم مکذّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑدے۔ (انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 55)
7 (ترجمہ از مرتّب) اسے پکڑلے اورخوف مت کر۔ ہم اس کی پہلی خصلت پھر اس میں ڈال دیں گے۔
8 (ترجمہ از مرتّب) آج مَیں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کردیا ہے۔
9 مُراد سعداللہ لدھیانوی۔ (مرتب)
سے لڑ رہا ہے۔ بخدا مجھے اسی وقت 29؍ستمبر 1894ء کو تیری نسبت الہام ہوا ہے:۔
اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ ۔1‘‘
( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 79۔ اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ۔ مندرجہ انوار الاسلام صفحہ 12۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ 86)
٭30ستمبر1894ء
(الف) اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًامُّبِیْنًا۔2
(ب) اَنْتَ مَعِیْ وَمَنْ مَّعَکَ ۔ 3
٭3اکتوبر1894ء
قَدْجَائَ کُمُ الْفَتْحُ۔ 4
٭5اکتوبر1894ء
یَانُوْحُ اَسِرِّرُؤْیَاکَ۔5
٭11اکتوبر1894ء
عبداللہ آتھم کی نسبت۔لَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ۔ 6
1 (ترجمہ از مرتّب) تیرا دشمن ہی اَبتر رہے گا۔
(نوٹ) یہ شخص یعنی سعد اللہ لدھیانوی جنوری 1907ء کے پہلے ہفتہ میں نمونیا پلیگ سے مَرگیا۔ اس کے مَرنے کے کچھ عرصہ بعد یعنی 12جولائی 1926ء کو اس کا اکلوتا بیٹا محمودنامی بھی جو اِس الہام سے پہلے کا تھا موضع کوم کلاں ضلع لدھیانہ میں لاولد فوت ہوگیا اور اِس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق سعد اللہ کی نسل منقطع ہوگئی۔(مرتّب)
2 (ترجمہ) ہم نے تجھ کو کُھلی کُھلی فتح دی ہے۔ (انجام آتھم ۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 61)
3 (ترجمہ از مرتب) تُو میرے ساتھ اور ان کے ساتھ ہے جو تیرے ساتھ ہیں۔
4 (ترجمہ از مرتّب) فتح تمہارے پاس آگئی ہے۔
5 (ترجمہ) اے نوح! اپنے خواب کو پوشیدہ رکھ۔ (انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ 61)
6 (ترجمہ) اورآتھم نابودکرنے والی آگ میں ڈال دیا جاوے گا۔
(انجامِ آتھم ۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 62)
٭12اکتوبر1894ء
اِنَّ النَّصَارٰی حَوَّلُواالْاَمْرَ۔ 1
اکتوبر1894ء
’’بعض نادان عیسائیوں کا یہ کہنا کہ جو ہونا تھا ہوچکا۔ عجیب حماقت اور بے دینی ہے۔ وہ اس امر واقعہ کو کیونکر اور کہاں چھُپا سکتے ہیں کہ وہ پہلی2پیشگوئی دو پہلو پر مشتمل تھی۔ پس اگر ایک ہی پہلو پر مدار فیصلہ رکھا جائے تو اِس سے بڑھ کر کونسی بے ایمانی ہوگی۔ اور دوسرے پہلو کے امتحان کا وہی ذریعہ جو الٰہی تفہیم نے میرے پر ظاہر کیا۔ یعنی یہ کہ آپ قسم مؤکّد بعذاب موت کھا جائیں۔‘‘
(اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ مؤرخہ 5؍اکتوبر 1894ء مندرجہ تبلیغ رسالت صفحہ 159۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ87،88)
٭4نومبر1894ء
اِس تاریخ مَیں نے دیکھا کہ ایک سانپ مَیں نے قتل کیا اورایک سانپ سے مَیں بھاگا ہوں۔
٭5نومبر1894ء
(الف) اِس تاریخ یہ اِلہام ہؤا۔ بررُوئے من انوارہابتافت۔ 3
(ب) بررُوئے من انوارسعادت بتافت۔ 4
(ج) فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّاقَالُوْاوَکَانَ عِنْدَاللہِ وَجِیْھًا۔5
1 (ترجمہ از مرتّب) نصارٰی نے حقیقت کو بدل دیا ہے۔
2 یعنی عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کہ 15ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتّب) میرے چہرہ پر اس کے انوار ہَویدا ہیں۔
4 (ترجمہ از مرتّب) میرے چہرہ پر خوش بختی کے انوار ہَویدا ہیں۔
5 (ترجمہ) سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کوبَری کیا اوروہ خدا کے نزدیک ایک وجہیہ ہے۔
(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 58)
(د) اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ 1
1894ء
’’جب آتھم نے قسم کھانے سے انکار کیا تب فیصلہ کے لئے دوسرا الہام یہ ہوا کہ اگر آتھم اس دعویٰ میں سچا ہے کہ اُس نے رجوع نہیں کیا تو وہ عمر پائے گا اور اگر جھوٹا ہے تو جلد مر جائے گا۔‘‘
(ایام الصُلح حاشیہ صفحہ 89 ۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحۃ 326حاشیہ)
٭5دسمبر1894ء
کومَیں نے خواب میں دیکھا کہ اوّل گویا محمود کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے۔ مَیں نے بجھادی ہےپھر ایک اور شخص کے آگ لگی ہے اورمَیں نے بُجھا دی ہے۔ اور پھر میرے کپڑوں کو آگ لگادی ہے اور مَیں نے اپنے اُوپر پانی ڈال لیا ہے اور آگ بُجھ گئی ہے مگر کچھ سیاہ داغ سا بازو پر نمودار ہے اور خیر ہے۔ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ۔‘‘
٭11دسمبر1894ء
بروزمنگل وقت 12 منٹ دو گھنٹے
یَوْمُ الثُّلْثَائِ
رَئَیْتُ فِیْ ھٰذَاالْوَقْتِ کَاَنَّ حَامِدعَلِیْ دَخَلَ فِیْ ھٰذِہِ الْحُجْرَۃِ وَفِیْ یَدِہٖ فَخِذَانِ مِنْ شَاۃٍ مَسْلُوْخَۃٍ۔
فَنُفَوِّضُ اَمْرَنَااِلٰی اللہِ وَنَسْئَلہٗ خَیْرًاوَّعَافِیَۃً۔ رَبَّنَااغْفِرْلَنَاذُنُوْبَنَا وَاحْفِظْنَامِنْ کُلِ بَلَائٍ وَاحْفِظْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ 2
1 (ترجمہ از مرتّب) میرا رَب یقیناً میرے ساتھ ہے وہ جلد ہی میری رہبری کرے گا۔
2 (ترجمہ از مرتّب) اس وقت مَیں نے دیکھا کہ گویا حامد علی اس کمرہ میں داخل ہؤا ہے اور اس کے ہاتھ میں کھال اُتری ہوئی بکری کی دورانیں ہیں۔
پس ہم اپنا معاملہ خدا کے سپردکرتے ہیں اور اس سے بہتری اور عافیّت کے طالب ہیں۔ اے ہمارے رَبّ! ہمارے قصورمعاف فرما اورہمیں ہر مصیبت سے بچا اورہمیں دُنیا و آخرت کی رسوائی سے بھی محفوظ رکھ۔
12دسمبر1894ء
بروز بدھ
یَوْمُ الْاَرْبَعَائ
رَئَیْتُ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ کَاَنِّیْ عَلٰی مَکَانِ مُحَمَّد حُسَیْن بَتَالِوِیْ وَاِنَّا صَلَّیْنَا وَظَنَنْتُ اَنِّیْ اِمَامٌ وَاخْطَائْ تُ فِیْ جَھْرِالْفَاتِحَۃِ ۔۔۔ وَقُلْتُ لِمَ لَمْ تَمْنَعُوْنِیْ مِنَ الْجَھْرِ۔ ثُمَّ ظَنَنْتُ اَنِّیْ کَبَّرْتُ جَھْرًا وَمَاقَرَأتُ الْفَاتِحَۃَ وَمَااَتَذَکَّرُ اَنَّ مُحَمَّد حُسَیْن کَانَ مَعَنَافِی الصَّلٰوۃِ اَوْاَدَّی قَبْلَنَا الصَّلٰوۃَ ثُمَّ اِذَا فَرَغْنَامِنَ الصَّلٰوۃِ کُنْتُ جَالِسًا عَلٰی مُقَابَلَۃِ مُحَمَّد حُسَیْن عَلٰی فِرَاشٍ وَاَظُنُّ اَنَّہٗ کَانَ فِیْ ھٰذَاالْوَقْتِ اَسْوَدَ اللَّوْنِ کَالْعُرْیَانِ وَکَانَ لَوْ نُہٗ مَائِلًا اِلَی السَّوَادِ فَاَخَذَنِیَ الْحَیَائُ اَنْ اَنْظُرَاِلَیْہِ ۔۔۔ وَاَظُنُّ اَنِّیْ قُلْتُ لَہٗ ھَلْ لَکَ اَنْ تُصَالِحَ وتَمِیْلَ اِلَی السِّلْمِ قَالَ نَعَمْ فَدَنٰی مِنِّیْ حَتّٰی عَانَقَنِیْ جَالِسًافَقُلْتُ اَتَغْفِرُ لِیْ کُلَّ مَاقُلْتُ فِیْ شَأْنِکَ مِنْ کَلِمَاتٍ تُؤْ ذِیْکَ فَاِنْ شِئْتَ فَاغْفِرْوَاُرِیْدُ اَنْ لَایَبْقٰی لَکَ غِلٌّ وَنَزَاعٌ یَوْمَ نُحْشَرُوَنُقُوْمُ اَمَامَ اللّٰہِ تَعَالٰی قَالَ غَفَرْتُ لَکَ قُلْتُ فَاشْھَدْ اَنِّیْ غَفَرْتُ لَکَ کُلَّ مَاجَرٰی عَلٰی لِسَانِکَ مِنْ تَکْفِیْرِیْ وَتَکْذِیْبِیْ وَغَیْرَ ذٰلِکَ ثُمَّ قُمْتُ وَ تَذَکَّرْتُ رُؤْ یًا فِیْ ھٰذَاالْبَابِ وَقُلْتُ یَعْلَمُ الْحَاضِرُوْنَ مِنْ اَتْبَاعِیْ اَنِّیْ رَئَیْتُ مِنْ قَبْلِ فِیْ ھٰذَاالْبَابِ ثُمَّ نَادَامُنادٍ اَنَّ رَجُلًا اَلْمُسَمّٰی سُلْطَان بیگ فِیْ حَالَۃِ الْاِخْتِضَارِ فَقُلْتُ سَیَمُوْتُ وَرَئَیْتُ مِنْ قَبلِ اَنَّ الْمُصَالِحَۃَ یَکُوْنُ فِیْ یَوْمِ مَوْتِہٖ۔
وَقُلْتُ لَہٗ اَنِّیْ رَئَیْتُ مِنْ قَبْلُ فِیْ مَنَامِیْ اَنَّ مِنْ عَلَامَاتِ الْمُصَالِحَۃِ اَنَّہٗ یَوْ مَئِذٍ یَمُوْتُ بَھَائُ الدِّیْنِ فَتَبَسَّمَ مُحَمَّد حُسَیْن وَعَجِبَ عَجَبًا شَدِیْدًا وَقَالَ ھٰذَا حَقٌّ اِنَّ بَھَاؤُ الدِّین قَدْ مَاتَ فَکَاَنَّہٗ اِسْتَعْظَمَ شَانَ ھٰذَاالْخَبَرِ ثُمَّ انْتَقَلَ مِنْ مَّکَانٍ اِلٰی مَکَانٍ اٰخَرَالَّذِیْ کَانَ فِیْ بَیْتٍ وَاحِدٍ فَقَصَدْ تُ اَنْ اَدْعُوْہُ اِلٰی مَائِدَۃٍ نوبتُ اَن اَیُّھَا لَہٗ فَجِئْتُہٗ بِمَکَانٍ کَانَ فِیْہِ وَقُلْتُ اَقْبِلْ دَعْوَتِی الْیَوْمَ فَاعْتَذَراِعْتِذَارًا خَفِیفَا ثُمَّ قَبِلَ وَقَالَ سَاَجِی ئُ وَقُلْتُ
اِنِّیْ رَئَیْتُ قَبْلَ ھٰذَااَنَّ الْمُصَالِحَۃَ یَکُوْنَ بِلَاوَاسِطَۃِ اَحَدٍ وَلَایَکُوْنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ اَحَدٌ۔ فَکَانَ کَمَارَئَیْتُ وَرَئَیْتُہٗ عِنْدَالْمُعَانَقَۃِ کَاَنَّہٗ طِفْلٌ صَغِیْرٌ اَسْوَدُ اللَّوْنِ۔
(کاپی الہامات نمبر 2۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ 1894ء)
اِس رؤیا کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتغییر الفاظ سراجِ منیر میں یوں فرمایا ہے۔
’’ ایک مرتبہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں محمد حسین 1کے مکان پر گیا ہوں اور میرے ساتھ ایک جماعت ہے اور ہم نے وہیں نماز پڑھی ‘ اور مَیں نے امامت کرائی اور مجھے خیال گذرا کہ مجھ سے نماز میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ مَیں نے ظہر یا عصر کی نماز میں سورۃ فاتحہ کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا تھا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ مَیں نے سورۃ فاتحہ بلند آواز سے نہیں پڑھی بلکہ صرف تکبیر بلند آواز سے کہی پھر جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ محمد حسین ہمارے مقابل پر بیٹھا ہے اور اس وقت مجھے اُس کا سیاہ رنگ معلوم ہوتا ہے اور بالکل برہنہ ہے۔ پس مجھے شرم آئی کہ مَیں اُس کی طرف نظر کروں۔ پس اُسی حال میں وہ میرے پاس آگیا۔ مَیں نے اُسے کہا کہ کیا وقت نہیں آیا کہ تُو صُلح کرے اور کیا تُو چاہتا ہے کہ تجھ سے صلح کی جائے۔ اُس نےکہا کہ ہاں۔ پس وہ بہت نزدیک آیا اور بغلگیر2ہوا۔ اور وہ اس وقت چھوٹے بچہ کی طرح تھا۔ پھر مَیں نے کہا کہ اگر تُو چاہے تو ان باتوں سے درگذر کر جو مَیں نے تیرے حق میں کہیں جن سے تُجھے دکھ پہنچا اور خوب یاد رکھ کہ مَیں نے کچھ نہیں کہا مگر صحت نیت سے اور ہم ڈرتے ہیں خدا کے اس بھاری دن سے جبکہ ہم اس کے سامنے کھڑے ہوں گے اس نے کہا کہ مَیں نے درگذر کی۔ تب میں نے کہا گواہ رہ کہ مَیں نے وہ تمام باتیں تجھے بخش دیں جو تیری زبان پر جاری ہوئیں اور تیری تکفیر اور تکذیب کو مَیں نے معاف کیا۔ اس کے بعد ہی وہ اپنے اصلی قد پر نظر آیا اور سفید کپڑے نظر آئے پھر مَیں نے کہا۔ جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا آج وہ پورا ہوگیا۔
پھر ایک آواز دینے والے نے آواز دی کہ ایک شخص جس کا نام سلطان بیگ ہے جان کندن میں ہے۔ مَیں نے کہا کہ اب عنقریب وہ مرجائے گا کیونکہ مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے کہ اُس کی موت کے دن صلح ہوگی۔ پھر مَیں نے محمد حسین کو یہ کہا کہ مَیں نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ صلح کے دن کی یہ نشانی ہے کہ اُس دن بہاؤالدین فوت ہوجائے گا۔ محمد حسین نے اِس
1 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ (مرتب)
2 (نوٹ از مرتب) یہ رؤیا حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں پوری ہوئی۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں:۔
’’ جب میرا زمانہ آیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ندامت پیدا کی۔ چنانچہ میں ایک دفعہ بٹالہ گیا تو وہ خود مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور مَیں نے دیکھا کہ اُن پر سخت ندامت طاری تھی ..........پھر اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کو اس رنگ میں بھی پورا فرمادیا کہ ان کے دو لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے اور انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی۔‘‘
(الفضل جلد 32 نمبر 168 مؤرخہ 20؍جولائی 1944ء صفحہ 2)
بات کو سن کر نہایت تعظیم کی نظر سے دیکھا اور ایسا تعجب کیا۔ جیسا کہ ایک شخص ایک واقعہ صحیحہ کی عظمت سے تعجب کرتا ہے اور کہا یہ بالکل سچ ہے اور واقعی بہاؤ الدین فوت ہوگیا۔ پھر مَیں نے اس کی دعوت کی اور اُس نے ایک خفیف عُذر کے بعد دعوت کو قبول کرلیا اور پھر مَیں نے اُس کو کہا کہ مَیں نے خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ صلح بلاواسطہ ہوگی۔ سو جیسا کہ دیکھا تھا ویسا ہی ظہور میں آگیا اور یہ بدھ کا دن اور تاریخ 12؍دسمبر 1894ء تھی۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 70،71۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 80،81)
٭21دسمبر1894ء
(الف) فَاَجَائَ ھَاالْمَخاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قاَلَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا۔ فَوَقَا ھُمُ اللہُ مِنْ شَرِّذَالِکَ الْیَوْمِ۔1
اس وقت مَیں نے دیکھا کہ میری بیوی اس گھر کے اندرکے دالان میں گھبرائی دردِزۃ میں اضطراب کرتی ہوئی میری چارپائی تک پہونچی ہے۔
(ب) یَامَسٰیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا۔2
مارچ 1895ء
’’کچھ تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مجھ کو خواب آیا تھا کہ ایک جگہ مَیں بیٹھا ہوں۔ یکدفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ غیب سے کسی قدر روپیہ میرے سامنے موجود ہوگیا ہے۔ مَیں حیران ہوا کہ کہاں سے آیا۔ آخر میری یہ رائے ٹھہری کہ خداتعالیٰ کے فرشتہ نے ہماری حاجات کے لئے یہاں رکھ دیا ہے۔ پھر ساتھ الہام ہوا کہ
اِنِّیْ مُرْسِلٌ اِلَیْکُمْ ھَدِیَّۃً
کہ مَیں تمہاری طرف ہدیہ بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی میرے دل میں پڑا کہ اس کی یہی تعبیر ہے کہ ہمارے مخلص دوست حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب اس فرشتہ کے رنگ میں متمثل کئے گئے ہوں گے اور غالباً وہ روپیہ بھیجیں گے اورمَیں نے اس
1 (ترجمہ از مرتب) پھر اس (عورت) کو دردِزہ کھجور کے تنے کی طرف لے گئ۔ تب اس نے کہا کاش مَیں اس سے پہلے مَرجاتی۔ پھرخدانے انہیں اس دن کی خرابی سے بچالیا۔
2 (ترجمہ) اے مسیح جو خلقت کی بھلائی کے لئے بھیجا گیا۔ ہماری طاعون کے دفع کے لئے مددکر۔
(ایّام الصّلح۔ روحانی خزائن جلد 14۔ صفحہ 403)
خواب کو عربی زبان میں اپنی کتاب میں لکھ لیا۔ چنانچہ کل اس کی تصدیق ہوگئی۔ الحمد للہ قبولیت کی نشانی ہے کہ مولیٰ کریم نے خواب اور الہام سے تصدیق فرمائی۔‘‘
(از مکتوب 6؍مارچ 1895ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ دیکھو مکتوبات احمد جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 3)
اپریل 1895ء
’’اَوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّ الدِّیْنَ ھُوَالْاِسْلَامُ وَاَنَّ الرَّسُوْلَ ھُوَالْمُصْطَفَی السَّیِّدُ الْاِمَامُ۔ رَسُوْلٌ اُمِّیٌّ آمِیْنٌ۔ فَکَمَآ اَنَّ رَبَّنَآ اَنَّ اَحَدٌ یَّسْتَحِقُّ الْعِبَادَۃَ وَحْدَہٗ فَکَذَالِکَ رَسُوْلُنَا الْمُطَاعُ وَاحِدٌ لَّانَبِیَّ بَعْدَہٗ وَلَاشَرِیْکَ مَعَہٗ وَ اَنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔
(خدا تعالیٰ نے ) مجھے الہام کیا کہ دین اللہ اسلام ہی ہے اور سچا رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سردار امام ہے جو رسول امّی امین ہے۔ پس جیسا کہ عبادت صرف خدا کے لئے مسلّم ہے اور وہ واحد لاشریک ہے اسی طرح ہمارا رسول اس بات میں واحد ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس بات میں واحد ہے کہ خاتم الانبیاء ہے۔‘‘
(منن الرحمن صفحہ 20۔ رُوحانی خزائن جلد9 صفحہ 164)
1895ء
(الف) ’’اِنَّہٗ صَرَفَ قَلْبِیْ اِلٰی تَحْقِیْقِ الْاَلْسِنَۃِ وَاَعَانَ نَظْرِیْ فِیْ تَنْقِیْدِ اللُّغَاتِ الْمُتَفَرِّقَۃِ وَعَلَّمَنِیْ اَنَّ الْعَرَبِیَّۃَ اُمُّھَا وَجَامِعُ کَیْفِھَا وَکَمِّھَا۔ وَاَنَّھَا لِسَانٌ اَصْلِیٌّ لِّنَوْعِ الْاِنْسَانِ وَلُغَۃٌ اِلْھَامِیَّۃٌ مِّنْ حَضْرَۃِ الرَّحْمَانِ۔ وَتَتِمَّۃٌ لِّخِلْقَۃِ الْبَشَرِ مِنْ اَحْسَنِ الْخَالِقِیْنَ۔
اس نے زبانوں کی تحقیق کی طرف میرے دل کو پھیر دیا اور میری نظر کو متفرق زبانوں کے پرکھنے کے لئے مدد کی۔ اور مجھ کو سکھلایا کہ عربی تمام زبانوں کی ماں اور اُن کی کیفیت کمیّت کی جامع ہے اور وہ نوع انسان کے لئے ایک اصلی زبان اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الہامی لغت ہے اور انسانی پیدائش کا تتمّہ ہے جو احسن الخالقین نے ظاہر کیا ہے۔‘‘
(منن الرحمن صفحہ 22۔ رُوحانی خزائن جلد 9 صفحہ 164)
(ب) ’’وَعُلِّمْتُ مِنْ سِرِّاللُّغَاتِ وَمَثْوَاھَا۔ وَزُوِّدْتُّ مِنْ فَصِّ الْکَلِمَاتِ وَنَجْرَاھَا۔ وَکَذَالِکَ اُعْطِیْتُ مِنْ اَسْرَارٍ عُلْیَا وَّ نِکَاتٍ عُظْمٰی۔
اور مجھ کو لغتوں کا سِرّ اور ان کی اصل جگہ بتلائی گئی اور کلمات کے پیوند اور اُن کے راز سے مَیں توشہ دیا گیا۔ اور اسی طرح بلند بھید مجھ کو عطا کئے گئے اور بڑے بڑے نکتے مجھ کودیئے گئے۔‘‘
(منن الرحمن صفحہ 38،39 رُوحانی خزائن جلد 9 صفحہ 182، 183)
1895ء
’’ وَکُشِفَ عَلَیَّ اَنَّ الْاٰیَۃَ الْمَوْصُوْفَۃَ1وَالْاِشَارَاتِ الْمَلْفُوْفَۃَ تَھْدِیْٓ اِلٰی فَضَآئِلِ الْعَرَبِیَّۃِ۔ وَتُشِیْرُ اِلٰٓی اَنَّھَا اُمُّ الْاَلْسِنَۃِ وَ اَنَّ الْقُرْاٰنَ اُمّ الْکُتُبِ السَّابِقَۃِ۔ وَاَنَّ مَکَّۃَ اُمُّ الْاَرْضِیْنَ۔
اور میرے پر کھولا گیاکہ آیۃ موصوفہ اور اشارات ملفوفہ عربی کے فضائل کی طرف ہدایت کرتی ہیں۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ کہ وہ اُمّ الالسنہ ہے اور قرآن پہلی کتابوں کا اُمّ یعنی اصل ہے اور مکّہ تمام زمین کا اُمّ ہے۔‘‘
(منن الرحمن صفحہ 39۔ رُوحانی خزائن جلد 9 صفحہ 183)
24 مئی 1895ء
(الف) ’’جب یہ پیدا 2ہوا تھا۔ تو اُس وقت عالمِ کشف میں آسمان پر ایک ستارہ دیکھا تھا جس پر لکھا تھا۔
مُعَمَّرُ اللّٰہِ ۔‘‘3
(الحکم جلد 11نمبر 1 مؤرخہ 10؍جنوری 1907ء صفحہ 1)
(ب) ’’ تو اُس وقت عالم کشف میں مَیں نے دیکھا کہ آسمان پر سے ایک روپیہ اُترا اور میرے ہاتھ پر رکھا گیا۔ اس پر لکھا تھا۔
مُعَمَّرُ اللّٰہِ ۔‘‘
1895ء
’’ مجھے اپنے مرض ذیابیطس کی و جہ سے آنکھوں کا بہت اندیشہ تھا۔ کیونکہ اس مرض کے غلبہ سے آنکھ کی بینائی کم ہوجایا کرتی ہے اور نزول الماء ہوجاتا ہے۔ اس اندیشہ کی و جہ سے دعا کی گئی تو الہام ہوا کہ
نَزَلَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی ثَلٰثٍ اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ۔‘‘
یعنی رحمت تین اعضاء پر نازل ہوگی۔ ایک تو آنکھ اور دو اَور عضو۔ اس جگہ آنکھ کا ذکر تو کردیا لیکن باقی دو اعضاء کی تصریح نہیں فرمائی۔ مگر لوگ کہا کرتے ہیں کہ زندگی کا لُطف تین عضو کی بقا میں ہے؛ آنکھ، کانؔ، پرانؔ۔ اس الہام کے پورا ہونے کی کیفیت اس سے معلوم ہوسکتی ہے کہ قریباً اٹھارہ سال سے یہ مرض مجھے لاحق ہےاور ڈاکٹر اور حکیم لوگ جانتے ہیں کہ اس مرض میں آنکھوں کو کیسا اندیشہ ہوتا ہے پھر کونسی طاقت ہے جس نے پہلے سے خبر دے دی کہ یہ قانون تجھ پر توڑ دیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی کرکے دکھا دیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 214۔ رُوحانی خزائن جلد18 صفحہ 592،593)
1 یعنی آیت لِتُنذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا۔(مرتب)
2 مراد حضرت صاحبزادہ شریف احمد صاحب ۔
3 (ترجمہ از مرتب) خدا کی طرف سے عمر پانے والا۔
نوٹ:۔ یہ رؤیا حضور نے جنوری 1907ء میں بیان فرمائی ہے مگر چونکہ ساتھ فرمادیا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی پیدائش کے وقت دیکھی تھی۔ اس لئے اسے صاحبزادہ موصوف کی پیدائش کے سن کے الہامات و کشوف میں درج کیا گیا ہے۔ (مرتب)
دسمبر 1895ء
’’ اس تاریخ سے پہلے جو جمادی الثانی 1313ھ روز شنبہ مطابق 7؍دسمبر 1895ء ہے دیکھا تھا کہ میرے تینوں لڑکے ایک جگہ بیٹھے ہیں اور مَیں کہتا ہوں یعنی ان کو مخاطب کرکے کہ ہم میں اور تم میں صرف ایک دن کی میعاد ہے۔ اس کی مَیں نے یہ تعبیر کی کہ یہ چوتھے لڑکے کی روح مجھ میں بولی ہے۔‘‘
(کاپی مضامین متفرقہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 204)
27 جنوری 1896ء
’’رَاَیْتُ کَاَنَّ مَسْجِدًا اَعْنِیْ الْمَسْجِدَ الَّذِیْ وَقَعَ عِنْدَ السُّوْقِ قَدْ ھُدِّمَتْ۔ وَھَدَّمَہٗ رَجْلٌ۔ وَھَدَّمَ مَعَہٗ مَکَانًا لَّنَا۔ وَاَنَا اَقُوْلُ کَانَ ھٰذَا مَسْجِدًا فَنُفَوِّضُ الْاَمْرَ اِلَی اللّٰہِ۔1‘‘
(کاپی مضامین متفرقہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 219)
16 مارچ 1896ء
’’عین ایک بجے رات پر 29؍رمضان شب دوشنبہ کو یعنی 16؍مارچ 1896ء کو مَیں نے امام علی شاہ کو خواب میں دیکھا۔ گویا پہلے مَیں ان کے مکان پر گیا اور پھر وہ میرے چھوڑنے کے لئے ایک جماعت کے ساتھ آئے جو شاید قریب دس آدمی کے ہوں گے اور انہوں نے مجھ سے میرا طریق پوچھا اور مَیں نے بجواب ان کے فارسی زبان میں ان کو کہا کہ
’’آنچہ2در ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مے کردید آں نظر اجمالی بود و ناقص۔ و آنچہ ما مے کینم آں نظر مبسُوط است و محیط۔ بہ بینیدایں طریق است کہ کارِشما مثل غنچہ بود وہمہ اجزاء نہفتہ ( اس میں مَیں نے ہاتھ کو غنچہ کی شکل بناکر دکھلایا) پھر مَیں نے کہا۔ وکار3 ماہمہ شگفتہ است و مثل ِ گُل۔ و در ذکرِ ما نظر برہمہ تفاصیل نفی غیر عبور مے کند۔ و ایں چنیں شکل است۔ (پھر مَیں نے ہاتھ کو غنچہ شگفتہ کی طرح کرکے دکھلایا ‘ اورکہا بہ بینید4 ایں چنیں است لَآ اِلٰہَ
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے دیکھا گویا مسجد یعنی وہ مسجد جو بازار کے پاس ہے گرادی گئی ہے اور اس کو ایک شخص نے گرایا ہے اور اس کے ساتھ ایک اور مکان کو بھی جو ہمارا تھا گرادیا ہے اور مَیں کہتا ہوں کہ یہ تو مسجد تھی۔ پس ہم اس معاملے کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ذکر میں تم کرتے تھے وہ اجمالی نظر تھی اور ناقص اور وہ جو ہم کرتے ہیں وہ نظر مبسُوط اور محیط ہے دیکھو یوں ہے کہ تمہارا کام غنچہ کی طرح تھا اور تمام اجزاء پوشیدہ تھے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اور ہمارا کام کھِلے ہوئے پھول کی مانند ہے۔ اور ہمارے ذکر میں نظر غیر کی نفی کی تمام تفصیلات پر حاوی ہے اور یہ شکل ہے۔
4 (ترجمہ از مرتب) دیکھو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یُوں ہے۔ یہ نفی تمام اجزاء پر تفصیلی طور سے ہے۔
اِلَّا اللّٰہُ ۔ ایں نفی برہمہ اجزاء زروئے تفصیل است۔ میں نے جب یہ بات کہی تو ان کو ایک لذّت آئی جیسا کہ کسی کو ایک جدید اور عجیب نکتہ سُننے سے لذت آتی ہے اور یہ لذّت ان کی اُن کی ایک منہ کی حالت سے مجھ کو معلوم ہوئی اور انہوں نے ایک روپیہ نذر کیا۔ مجھے خیال آیا کہ مَیں نے تو کسی وقت ان کو دو رَوپے دیئے تھے۔ انہیں میں سے انہوں نے مجھے ایک روپیہ دیا پھر اسی جگہ کھڑے ہونے کی حالت میں ایک گلی میں جو ہمارے مکان کے قریب شمالی طرف ہے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ گورداسپور کب جائیں گے۔ مَیں نے جواب دیا۔نمے دانم۔ قدمے برزمین استوار نمے شود تاخدا نخواہد1۔ پھر مَیں اسی گلی میں اُن کو وہیں چھوڑ کر نکل آیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اور اُسی وقت 2 بجے رات کے یہ چند سطریں لکھیں گئیں۔ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 205)
22مارچ 1896ء
’’ آج 22؍ مارچ 1896ء کو مجھ کو الہام ہوا۔
یَآ اَھْلَ الْمَدِیْنَۃِ جَآئَ کُمْ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ۔2‘‘
(رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 205)
1896ء
’’ مجھے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
’’ مَیں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا۔‘‘
پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی گواہی ادا کرسکوں۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام نواب محمد علی خان صاحب۔ مؤرخہ 6؍اپریل 1896ء
از مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 129)
1896ء
’’ یَا عِیْسَی الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِی وَ تَفْرِیْدِی۔ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔
(ترجمہ) ’’ اے وہ عیسیٰ جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ تو میری جناب میں وہ مرتبہ رکھتا ہے جس کا لوگوں کو علم نہیں۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ سو وقت آگیا کہ تو لوگوں میں شناخت کیا جائے اور مدد دیا جائے۔ وہ خدا جس نے اپنے رسُول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تا اس دین کو سب دینوں۔
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں نہیں جانتا کوئی قدم مضبوطی سے زمین پر نہیں پڑتا جب تک کہ خدانہیں چاہتا۔
2 (ترجمہ از مرتب) اے شہر والو! تمہارے پاس اللہ کی نصرت آگئی۔ اور فتح قریب ہے۔
لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنَ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرْ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَنْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمَّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمْ الرُّعْبَ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَلاْفَتْحُ وَانْتَھٰیٓ اَمْرالزَّمَانِ اِلَیْنَآ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ اِنِّیْ مَعَکَ۔ کُنَ مَّعِیْ اَیْنَمَا کُنْتَ۔ کُنْ مَّعَ اللّٰہِ حَیْثُمَا کُنْتَ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ۔ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ یَآ اَحْمَدُ یَتِمُّ اسْمُکَ وَلَا یَتِمُّ اسْمِیْ۔ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ شَانُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ۔ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ مَعَکَ کَمَاھُوَ مَعِیْ2294 } ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِی حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ
پرغالب کرے۔ خدا کی پیشگوئیوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ کہہ مَیں مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلا مومن ہوں۔ وہ رحمن ہے جس نے قرآن سکھلایا تا کہ تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے۔ ہم تیرے لئے ٹھٹھا کرنے والوں کے لئے کافی ہیں کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان لاتے ہو کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم قبول کرتے ہو۔ میرے ساتھ میرا خدا ہے وہ عنقریب مجھے کامیابی کی راہ دکھائے گا۔ ان کو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہو لو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔ کیا مَیں بتلاؤں کہ کن پر شیطان اُترا کرتے ہیں۔ ہر ایک جھوٹے مفتری پر اُترتے ہیں۔ ارادہ کرتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے مُونہہ کی پھونکوں سے بُجھادیں اور خدا اپنے نور کو کامل کرے گا اگرچہ کافر کراہت ہی کریں۔ عنقریب ہم اُن کے دلوں پر رُعب ڈال دیں گے۔ جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ کا امر ہماری طرف رجوع کرے گا۔ کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ میرے ساتھ ہو جہاں تُو ہو وے۔خدا کے ساتھ ہو جہاں تُو ہو وے۔ تم بہتر اُمّت ہو جو لوگوں کے نفع کے لئے نکالے گئے۔ تو ہماری آنکھوں
1 ’’ھُوَ کا ضمیر واحد باعتبار واحد فی الذہن یعنی مخلوق ہے۔ اور ایسا محاورہ قرآن شریف میں بہت ہے۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 52 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد11 صفحہ 52 حاشیہ)
لِنَفْسِیْ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ الدُّنْیَا وَ حَضْرَتِیْ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔ زَادَ مُجْدَکَ۔ یَنْقَطِعُ اٰبَآئُ کَ وَیَبْدَئُ مِنْکَ۔ نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَاُحْیِیْتَ بِالصِّدْقِ اَیُّھَا لصِّدِّیْقُ نُصِرْتَ۔ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنْاصٍ۔ اٰثَرَکَ اللّٰہ ُ عَلَیْنَا وَلَوْ کُنَّا کارِھِیْنَ۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خاطِئِیْنَ۔ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ۔ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ وَیُحِیِ الدِّیْنَ وَلَوْکَانَ الاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ۔ سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا۔ خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ۔ جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ۔ شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہٗ۔ کِتَابُ الْوَلِیِّ ذُوالْفِقَارِ
کے سامنے ہے۔ خدا تیرے ذکر کو بلند کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ اے احمد ! تیرا نام پور اہوجائے گا۔ قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو۔ میں تجھے اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں۔ مَیں نے اپنی محبت کو تجھ پر ڈال دیا۔ تیری شان عجیب ہے۔ تیرا اجر قریب ہے۔ زمین و آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے۔ تو میری جناب میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھے اپنے لئے چُن لیا۔ تو دُنیا اور میری جناب میں وجیہہ ہے، پاک ہے۔ وہ خدا جو بہت برکتوں والا اور بہت بلند ہے، تیری بزرگی کو اُس نے زیادہ کیا۔ اب سے تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہوجائے گا اور خدا تجھ سے شروع کرے گا۔ تُو رعب کے ساتھ مدد دیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا۔ اے صدیق! تو مدد دیا گیا اور مخالف کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ خدا نے تجھے ہم پراختیار کرلیا۔ اگرچہ ہم کراہت کرتے تھے۔ اے ہمارے خدا! ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے۔ آج تم پر اَے رجوع کرنے والو! کچھ سرزنش نہیں۔ خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تجھے یونہی چھوڑ دے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلادے اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔ جب خد اکی مدد اور فتح آئی اور اس کا کلمہ پورا ہوا۔ کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس میں تم جلدی کرتے تھے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ مَیں نے اس کو برابر کیا اور اپنی رُوح اس میں پھونکی شریعت کو قائم کرے گا۔ اور دین کو زندہ کرے گا۔ اور اگر ایمان ثریا سے معلّق ہوتا تب بھی اسے پالیتا۔ پاک ہے وہ جس نے اپنے بندہ کو رات میں سیر کرایا، آدم کو پیدا کیا اوراس کو عزت دی۔ خدا کا فرستادہ نبیوں کے حلّہ میں۔ وہ لوگ جو کافر ہوگئے اور خد اکی راہ سے روکنے لگے۔ ایک فارسی الاصل آدمی نے اُن کے خیالات کو ردّ کیا۔ خدا اس کی
عَلِیٍّ۔ یَکَادُ زَیْتُہٗ یُضِیْٓ ئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نَار۔ خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَآ اَبْنَآئَ الْفَارِسِ۔ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَکَانَ اَمْرُاللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ۔ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ یَا عَبْدِیْ لَا تَخَفْ اِنِّیْ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّا نَاْتِیْ الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا۔ اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ۔ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔ وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔وَقَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ۔ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔ اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا۔ وَمَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ قَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ۔ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ ۔ وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ۔ وَاِنَّکَ
کوشش کا شکر گذار ہے۔ اس ولی کی کتاب ایسی ہے جیسے علی کی ذوالفقار۔ اس کا تیل یونہی چمکنے کو ہے اگرچہ آگ چھو بھی نہ جائے۔ توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو، اے فارس کے بیٹو !ہم نے اِس کو قادیان کے قریب اُتارا ہے۔ اور حق کے ساتھ اُتارا ہے اور ضرورت ِ حقہ ّکے ساتھ اُترا ہے اور جو خدا نے ٹھہرا رکھا تھا وہ ہونا ہی تھا۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت انتقام لینے والی ہیں۔ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ دکھلائیں گے۔ اے میرے بندے ! مت خوف کر مَیں دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں۔ کیا تُونے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو کم کرتے چلے آتے ہیں۔ اس کی طرفوں سے۔ کیا تُونے نہیں دیکھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ محمد پر اور اس کے آل پر درُود بھیج۔ وہ بنی آدم کا سردار اور خاتم الانبیاء ہے تو صراطِ مستقیم پر ہے۔ پس جو کچھ حکم ہوتا ہے کھول کر بیان کر اور جاہلوں سے کنارہ کر۔ اور کہتے ہیں کہ دوشہروں1میں ایک بڑے آدمی کو خدا نے کیوں مامور نہ کیا۔ اور کہتے ہیں کہ تجھے کہاں یہ رُتبہ ،یہ تو مکر ہے کہ مِل جُل کر بنایا گیا ہے اور کئی لوگوں نے اس مکر میں اس شخص کی مدد کی ہے تجھے دیکھتے ہیں اور تُو انہیں نظر نہیں آتا۔ اے لوگو ! جان لو کہ زمین مرگئی تھی اور خدا پھر اُسے نئے سرے زندہ کر رہا ہے۔ اور جو خدا کا ہو ، خدا اس کا ہوجاتا ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں۔ اور اُن کے ساتھ ہے جو نیکو کار ہیں۔ کہتے ہیں کہ
1 یعنی اس شخص کو مہدی موعود ہونے کا دعوٰی ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان کا رہنے والا ہے کیوں مہدی معود مکّہ یا مدینہ میں مبعوث نہ ہؤاجو سرزمینِ اسلام ہے۔‘‘
(حقیقٰۃ الوحی صفحۃ 82 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 85 حاشیہ)
مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَ یَمْشِیْٓ اِلَیْکَ۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ کَمِثْلِکَ دُرُّلَّایُضَاعُ۔ بُشْرٰی لَکَ یَآ اَحْمَدِیْ۔ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ۔ اِنِّیْ نَاصِرُکَ۔ اِنِّیْ حافِظُکَ۔ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اِخْتِلَاقٌ۔ اِذَا نَصَرَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمُ یَلْعَبُوْنَ۔ لَا تُحَاطُ اَسْرَارُ الْاَوْلِیَآئِ۔ تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ۔ اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ۔ وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ۔ اَنْتَ مِنْ مَّآئِنَا وَھُمْ مِنْ فَشَلٍ۔1 وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ
یہ تمام افترا ہے ، کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے ، تو یہ سخت گناہ میری گردن پر ہے۔ آج تُو ہمارے نزدیک بارتبہ اور امین ہے۔ اور تیرے پر دین اور دُنیا میں میری رحمت ہے اور تُو مدد دیا گیا ہے۔ خدا عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔ خبردار خدا کی مدد قریب ہے۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا۔ تجھے خوشخبری ہو، اے میرے احمد! تُو میری مراد ہے۔ اور میرے ساتھ ہے۔ مَیں تیر امددگار ہوں مَیں تیرا حافظ ہوں۔ مَیں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا۔ کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے ، اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے وہ اپنے کاموں میں پوچھا نہیں جاتا اور دوسرے پوچھے جاتے ہیں اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ضرور افترا ہے۔ خدا جب مومن کو مدد دیتا ہے تو زمین پر اُس کے کئی حاسد بنادیتا ہے۔ کہہ خدا ہے جس نے یہ الہام کیا۔ پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنی کج فکریوں میں بازی کریں۔ اولیاء کے اسرار پرکوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ لوگوں سے لطف کے ساتھ پیش آ اور اُن پر رحم کر۔ تُو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے، اور ان کی باتوں پر صبر کر اور منعم مکذِّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے۔ تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے۔ اور جب ان کو کہا
1 ’’یہ جو فرمایا کہ تُو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے۔ اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کا پانی، تقویٰ کا پانی، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حُبّ اللہ کا پانی ہے۔ جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بُزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے اور ہرایک بے ایمانی اور بدکاری کی جڑ بُزدلی اور نامردی ہے۔ جب قوت استقامت باقی نہیں رہتی تو انسان گناہ کی طرف جھُک جاتا ہے۔ غرض فشل شیطان کی طرف سے ہے اور عقائد صالحہ اور اعمال طیبہ کا پانی خدا تعالیٰ کی طرف سے۔ جب بچہ پیٹ میں پڑتا ہے تو اس وقت اگر بچہ سعید ہے اور نیک ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر رُوح القدس کا سایہ ہوتا ہے اور اگر بچہ شقی ہے اور بد ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر شیطان کا سایہ ہوتا ہے اورشیطان اس
کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ قِیْلَ ارْجِعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ فَلَا تَرْجِعُوْنَ۔ وَقِیْلَ اسْتَحْوِذُوْا فَلَا تَسْتَحْوِذُوْنَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولَو الْعَزْمِ۔ تَبَّتْ یَدَٓا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ مَاکَانَ لَہٗ اَنْ یَّدْ خُلَ فِیْھَآ اِلَّا خَآئِفًا۔ وَمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَمًّا۔ حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْرَمِ۔ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔ وَقْتُ الْاِبْتِلَآئِ وَ وَقْتُ الْاِصْطِفَآئِ۔ وَلَا یُرَدُّ وَقْتُ الْعَذَابِ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔ وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیئًا وَھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیئًا وَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَا ھُمَا۔ وَاِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔
جائے کہ ایمان لاؤ، جیسا کہ اچھے آدمی ایمان لائے۔ تو جواب میں کہتے ہیں کہ کیا اس طرح ایمان لائیں جیسا کہ سفیہہ اور بیوقوف ایمان لائے۔ خوب یاد رکھو کہ درحقیقت بیوقوف اورسفیہ یہی لوگ ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ ہم کیسی غلطی پر ہیں۔ ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ کہا گیا کہ تم رجوع کرو ، سو تم نے رجوع نہ کیا اور کہا گیا کہ تم اپنے وساوس پر غالب آجاؤ، سو تم غالب نہ آئے۔ سب تعریف خداکو ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔ اس جگہ فتنہ ہے سو اولوالعزم لوگوں کی طرح صبرکر۔ ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا۔ اس کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس فتنہ میں دخل دیتا۔ یعنی اس کا بانی ہوتا مگر ڈرتے ہوئے اور تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر اُسی قدر جو خدا نے مقرر کی۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ تجھ سے بہت ہی پیار کرے۔ یہ خدا کا پیار کرنا ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور یہ پیار وہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔ ابتلا کا وقت ہے اور اصطفا کا وقت ہے اور عذاب کا وقت مجرموں کے سر پر سے کبھی نہیں ٹل سکتا۔ اور اے اس مامور کی جماعت سُست مت ہوجانا اور غم میں نہ پڑجانا۔ اور بالآخر غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر ثابت رہو گے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک چیز کو تم چاہو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی نہ ہو، اور ایک چیز سے نفرت کرو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی ہو اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا سو مَیں نے
بقیہ حاشیہ: میں شراکت رکھتا ہے اور بطور استعارہ وہ شیطان کی ذُریّت کہلاتی ہے اور جو خدا کے ہیں وہ خدا کے کہلاتے ہیں جن کو پہلی کتابوں میں بطور استعارہ ابناء اللہ کہا گیا ہے۔‘‘
(انجام آتھم حاشیہ صفحہ 56۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ 56،57)
اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا افْتِرَآءٌ۔ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی۔ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنبِکَ م وَمَا تَاَخَّرَ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ فَبَرَّاَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا۔ وَ اللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَاذِبِیْنَ۔ وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًا۔ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُوْنَ۔ یَآ اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ اِنَّ شَانِئِکَ ھُوَا1 الْاَبْتَرُ۔ یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ یَوْمَ یَجِیْٓئُ الْحَقُّ وَ
چاہا کہ شناخت کیا جاؤں۔ زمین و آسمان بندھے ہوئے تھے سو ہم نے دونوں کو کھول دیا اور تجھے انہوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے کیا یہی ہے جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا۔ کہہ مَیں ایک آدمی ہوں تم جیسا مجھے خدا سے الہام ہوتا ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور تمام بھلائی قرآن میں ہے اور مَیں اس سے پہلے ایک مدّت سے تم میں ہی رہتا تھا۔ کیا تمہیں میرے حالات معلوم نہیں اور انہوں نے کہا کہ یہ باتیں افترا ہیں کہہ حقیقی ہدایت جس میں غلطی نہ ہو خدا کی ہدایت ہے اور خبردار ہو کہ خدا کا گروہ ہی آخر کار غالب ہوتا ہے۔ ہم نے تجھے کھُلی کھُلی فتح دی ہے تا تیرے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کئے جائیں۔ کیا خدا اپنے بندوں کے لئے کافی نہیں ہے سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بَری کیا اور وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے اور خدا کافروں کے مکر کو سُست کردے گا اور ہم اس کو لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے اور رحمت کا نمونہ ہوگا۔ اور یہی مقدّر تھا ۔یہ وہ سچا قول ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔ اے احمد! رحمت تیرے لبوں پر جاری ہورہی ہے۔ ہم نے تجھے بہت سے حقائق اور معارف اور برکات بخشے ہیں۔ اور ذرّیت نیک عطا کی ہے۔ سو خدا کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔تیرا بد گو بے خیر ہے یعنی خدا اُسے بے نشان کردے گا اور وہ نامراد مرے گا۔ نبیوں کا چاند آئے گا
1 ’’یہ الہام کہ اِنَّ شَانِئِکَ ھُوَا الْاَبْتَرُ۔ اس وقت اس عاجز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوا کہ جب ایک شخص نو مسلم سعد اللہ نام نے ایک نظم گالیوں سے بھری ہوئی اس عاجز کی طرف بھیجی تھی اور اس میں اس عاجز کی نسبت اس ہندو زادہ نے وہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ جب تک ایک شخص درحقیقت شقی خبیث طینت۔ فاسد القلب نہ ہو۔ ایسے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا..............سو یہ الہام اس کے اشتہار اور رسالہ کے پڑھنے کے وقت ہوا کہ اِنَّ شَانِئِکَ ھُوَا الْاَبْتَرُ۔ سو اگر اس ہندو زادہ بد فطرت کی نسبت ایسا وقوع میں نہ آیا۔ اور وہ نامراد اور ذلیل اور رُسوا نہ مَرا۔ تو سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘
(انجام آتھم حاشیہ صفحہ 58,59روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 58،59)
یُکْشَفُ الصِّدْقُ وَیَخْسَرُالخَاسِرُوْنَ۔ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَا مَعَکَ سِرُّکَ سِرِّیْ۔ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ۔ یُخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اَئِمَّۃُ الْکُفْرِ۔ لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ۔ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ۔ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلَبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔ قُلْ ھٰذَا فَضْلُ رَبِّیْ وَاِنِّیْٓ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُرُوْبِ الْخِطَابِ۔ یَاعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمۃِ۔ نَظَرَ اللّٰہُ اِلَیْکَ مُعَطَّرًا۔ وَقَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ وَقَالُوْا کِتَابٌ مُّمْتَلِیٌٔ مِّنَ الْکُفْرِ وَالْکَذِبِ۔ قُلْ تَعَالُوْ انَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَاَبْنَآئَ کُمْ وَ نِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ صَافَیْنَاہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ۔ تَفَرَّدْنَا بِذَالِکَ۔ یَادَاوٗدُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا۔ تَمُوْتُ وَاَنَا رَاضٍ مِّنْکَ۔ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِیْ وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔
اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا۔ اس دن حق آئے گا اور سچ کھولا جائے گا۔ اور جو خسران میں ہیں، ان کا خسران ظاہر ہوجائے گا۔ میری یاد میں نماز کو قائم کر۔ تو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے ہم نے تیرا وہ بوجھ اُتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی۔ اور تیرے ذکر کو ہم نے بلند کیا۔ تجھے خدا کے سوا اَوروں سے ڈراتے ہیں۔ یہ کفر کے پیشوا ہیں۔ مت ڈر، غلبہ تجھی کو ہے۔ مَیں نے اپنی رحمت اور قدرت کے درخت تیرے لئے اپنے ہاتھ سے لگائے۔ خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ کافروں کا مومنوں پرکچھ الزام ہو۔ خدا تجھے کئی میدانوں میں فتح دے گا۔ خدا کایہ قدیم نوشتہ ہے کہ مَیں اور میرے رسُول غالب رہیں گے۔ اس کے کلموں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ وہ خدا جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا کہہ یہ خدا کا فضل ہے اور میں تو کسی خطاب کو نہیں چاہتا اے عیسیٰ! مَیں تجھے وفات دُوں گااور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اور تیرے تابعداروں کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ خدا نے تیرے پر خوشبودار نظر کی اور لوگوں نے دلوں میں کہا کہ اے خدا ! کیا تو ایسے مفسد کو اپنا خلیفہ بنائے گا۔ خدا نے کہا۔ کہ جو کچھ مَیں جانتا ہوں تمہیں معلوم نہیں۔ اور لوگوں نے کہا کہ یہ کتاب کُفر اور کذب سے بھری ہوئی ہے۔ ان کو کہدے کہ آؤ ہم اور تم اپنے بیٹوں اور عورتوں اور عزیزوں سمیت ایک جگہ اکٹھے ہوں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر *** بھیجیں۔ ابراہیم یعنی اس عاجز پر سلام ہم نے اس سے دلی دوستی کی اور غم سے نجات دی۔ یہ ہمارا ہی کام تھا جو ہم نے کیا۔ اے داؤد! لوگوں سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاملہ کر۔ تو اس حالت میں مرے گا کہ مَیں تجھ سے راضی ہوں گا۔ اور خدا تجھ کو لوگوں کے
فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَرُدُّھَآ اِلَیْکَ۔ اَمْرٌ مِّنْ لَّدُنَّا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ۔ زَوَّجْنَا کَھَا۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ اِنَّا رَآدُّوْ ھَآ اِلَیْکَ۔ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَالْاَرْضِ۔ اِذَانُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ۔ اِنَّمَا یُؤَخِرُ ھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّیً اَجَلٍ قَرِیْبٍ۔ یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ۔ تَوَجَّھْتُ لِفَضْلِ الْخِطَابِ۔ اِنَّا رَآدُّوْھَآ اِلَیْکَ۔ اِنِ اسْتَجَارَتْکَ فَاَجِرْھَا۔ وَلَا تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتُھَا الْاُوْلٰی۔ اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ یَانُوْحُ اَسِرَّ رُؤْیَاکَ۔ وَقَالُوْا مَتٰی ھٰذَا لْوَعْدُ۔ قُلْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ وَلَا یَعْلَمُوْنَ اِلَّا الْمُسْتَرْشِدُوْنَ۔ لَاتَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ۔ اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَاِقْبَالِہٖ۔ اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً۔ وَلَا تَعْجَبُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ وَبِعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ اِنَّکَ
شر سے بچائے گا۔ انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا۔ سو خدا ان کے لئے تجھے کفایت کرے گا۔ اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنے والے ہیں۔ بعد واپسی کے ہم نے نکاح کردیا۔ تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو۔ خدا کے کلمے بدلا نہیں کرتے، تیرا ربّ جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور ا س کو کر دیتا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ہم اس کو واپس لانے والے ہیں۔ اس دن زمین دوسری زمین سے بدلائی جائے گی۔ جب صور میں پھونکا گیا تو کوئی رشتہ ان میں باقی نہیں رہے گا۔ خدا ان کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دے رہا ہے جو نزدیک وقت ہے۔ نبیوں کا چاند آئے گا۔ اور تیرا سارا کام حاصل ہوجائے گا۔ یہ سخت دن ہے۔ آج مَیں فیصلہ کرنے کے لئے متوجہ ہوا۔ ہم اس کو تیری طرف واپس لائیں گے۔ اگر تیری پناہ ڈھونڈے تو پناہ دے دے۔ اور مت خوف کر ہم اس کی پہلی خصلت پھر اس میں ڈال دیں گے۔ ہم نے تجھ کو کھُلی کھُلی فتح دی۔ اے نوح ! اپنے خوابوں کو پوشیدہ رکھ۔ اور کہا لوگوں نے یہ وعدہ کب ہوگا۔ کہہ خدا کا وعدہ سچا وعدہ ہے۔ تو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں۔ خدا کے فضل سے نومید مت ہو۔ یوسف کو دیکھ اور اُس کے اقبال کو۔ خدا اس کے اَیْ 1آتھم کے غم پر مطلع ہوا۔ اس لئے اُس نے عذاب میں تاخیر کی۔ یہ خدا کی سنّت ہے اور تُو خدا کی سنّت میں تبدیلی نہیں پائے گا۔ اور تعجب مت کرو۔ اور غمناک مت ہو۔ اور تم ہی غالب ہو۔ اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اور مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے۔
1 اس کے معنی ’’یعنی‘‘ ہیں۔ (مرتّب)
اَنْتَ الْاَعْلٰی۔ وَنُمَزِّقُ الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ۔ اِنَّا نَکْشِفُ السِّرَّ عَنْ سَاقِہٖ۔ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ وَھٰذَا تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً۔ اِنَّ النَّصَارٰی حَوَّلُوا الْاَمْرَ۔ سَنَرُدُّھَا عَلَی النَّصَارٰی۔ لَیُنْبَذَ نَّ فِی الْحُطُمَۃِ۔ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ مَّظْھَرِ الْحَقِّ وَالْعَلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔ اِسْمُہٗ عمانوایل۔ یُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ۔ وَیُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ۔ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ۔ فَلَہٗ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ۔
(فارسی و اُردو الہام)
بخرام کہ وقت ِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنارِ بلند تر محکم افتاد۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا۔ اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا۔ مَیں اپنی چمکار دِکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ اور تیری برکتیں پھیلاؤں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پَر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ 1‘‘
(انجام آتھم صفحہ 51 تا 62۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 51 تا 62)
کہ غلبہ تجھی کو ہے۔ اور ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے اور ان کا مکر ہلاک ہوجائے گا۔ اور ہم حقیقت کو اس کی پنڈلی سے کھول دیں گے۔ اُس دن مومن خوش ہوں گے۔ اور (ایک) گروہ پہلوں میں سے اور ایک پچھلوں میں سے۔ اور یہ تذکرہ ہے۔ پس جو چاہے خدا کی راہ کو اختیار کرے۔ نصاریٰ نے حقیقت کو بدلا دیا ہے۔ سو ہم ذلّت اور شکست کو نصاریٰ پر واپس پھینک دیں گے اور آتھم نابود کرنے والی آگ میں ڈال دیا جاوے گا۔ ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو حق اور بلندی کا مظہر ہوگا۔ گویا خدا آسمان سے اُترا۔ نام اس کا عمانوایل ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ تجھے لڑکا دیا جائے گا۔ اور خداکا فضل تجھ سے نزدیک ہوگا۔ میرا نُور قریب ہے۔ کہہ میں شریر مخلوقات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ یہ بے جان گوسالہ ہے اور بے ہودہ گو یعنی لیکھرام پشاوری ، سو اس کو دُکھ کی مار اور عذاب ہوگا یعنی اسی دُنیا میں۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 51تا 62۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 51 تا 62)
1 ’’ ان میں سے بعض الہامات بیس برس کے عرصہ سے ہیں۔ جو مختلف ترتیبوں اور کمی بیشی کے ساتھ باربار القا ہوئے ہیں۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ51)
1896ء
اُلْقِیَ 1 فِیْ رُوْعِیْ اَنْ اَکْتُبَ ھٰذَا الْمَکْتُوْبَ2 فِی الْعَرَبِیَّۃ وَ اُتَرْجِمَہٗ بِالْفَارِسِیَّۃِ وَ اَرْعَی النَّوَظِرَفِی النَّوَاضِرِ الْاَصْلِیَّۃِ وَ اُوْسِعَ التَّبْلِیْغَ بالْاَلْسُنِ الْاِسْلَامِیَّۃِ لَیِکُوْنَ بَلَاغًا تَآمًّا لِّلطَّالِبِیْنَ۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ 74،75۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 74،75)
1896ء
’’ 3 یَآ اَحْمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 77روحانی خزائن جلد 11 صفحہ77)
1896ء
’’ 4 اَنْتَ عِیْسَی الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہٗ۔ کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَایُضَاعُ۔ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 77روحانی خزائن جلد 11 صفحہ77)
1896ء
’’ 5 اِنِّی مُرْسِلُکَ اِلٰی قَوْمٍ مُّفْسِدِیْنَ۔ وَاِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ وَاِنِّیْ مُسْتَخْلِفُکَ اِکْرَامًا کَمَا جَرَتْ سُنَّتِیْ فِی الْاَوَّلِیْنَ۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ 79۔روحانی خزائن جلد 11 صفحہ79)
1896ء
’’ 6 اِنَّکَ اَنْتَ مِنِّی الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ۔ وَاُرْسِلْتَ لِیُتِمَّ مَا وَعَدَ مِنْ قَبْلُ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ اِنَّ وَعْدَہٗ کَانَ مَفْعُوْلاً وَّھُوَ اَصْدَقُ الصَّادِقِیْنَ۔‘‘ (انجام آتھم صفحہ 80۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 80)
1 (ترجمہ از مرتب) میرے دل میں ڈالا گیا کہ مَیں اس کتاب کو عربی زبان میں لکھوں اور فارسی میں اس کا ترجمہ کروں۔ اور اس طرح دیکھنے والوں کو حقیقی سبزہ زاروں میں پھراؤں۔ اور تبلیغ کو اسلامی زبانوں میں پھیلاؤں۔ تاکہ طالبانِ حق کے لئے یہ تبلیغ مرتبہ ٔ کمال کو پہنچ جائے۔
2 یعنی مکتوب مشمولہ کتاب انجام آتھم صٖحات 73 تا 282 ۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ 73 تا 282 (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے میرے احمد ! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے۔
4 (ترجمہ از مرتب) تو عیسیٰ ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرستادہ نبیوں کے لباس میں۔
5 (ترجمہ از مرتب) مَیں تجھے ایک مفسد قوم کی طرف بھیجتا ہوں۔ اور مَیں تجھے لوگوں کا امام بناتا ہوں۔ اور مَیں تجھے اکرام سے خلیفہ مقرر کرتا ہوں جیسا کہ پہلے لوگوں میں میری سنّت رہی ہے۔
6 (ترجمہ از مرتب) تُو ہی میری طرف سے مسیح ابن ِ مریم ہے۔ اور اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تا وہ جو وعدہ تیرے ربّ اکرم
1896ء
’’ 1 اِنَّکَ اَنْتَ ھُوَ فِیْ حُلَلِ الْبُرُوْزِ۔ وَھٰذَا ھُوَالْوَعْدُ الْحَقُّ الَّذِیْ کَانَ کَالسِّرِّ الْمَرْمُوْزِ۔ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَلَا تَخَفْ اَلْسِنَۃَ الْجَاھِلِیْنَ وَ کَذَالِکَ جَرَتْ سُنَّۃُ اللّٰہِ فِی الْمُتَقَدِّمِیْنَ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 80۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 80)
1896ء
’’ 1 یَآ اَحْمَدُ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآئِکَ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 181۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 181)
یکم اکتوبر1896ء
’’ کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آں محب مجھ کو پہنچا۔ اُس کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ اس روپیہ کے پہنچنے سے تخمیناً سات گھنٹہ پہلے مجھ کو خدائے عزّوجلّ نے اس کی اطلاع دی۔ سو آپ کی اس خدمت کے لئے یہ اجر کافی ہے کہ خدا تعالیٰ آپ سے راضی ہے اس کی رضا کے بعد اگر تمام جہان ریزہ ریزہ ہوجاوے تو کچھ پرواہ نہیں۔ یہ کشف اور الہام آپ ہی کے بارہ میں مجھ کو دو دفعہ ہوا ہے۔ فالحمدللہ ۔ الحمداللہ۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 5 بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی مؤرخہ 2؍اکتوبر 1896ء)
21دسمبر 1896ء
’’ جلسہ ٔ اعظم مذاہب جو لاہورٹاؤن ہال میں 26,27,28؍ دسمبر 1896ء کو ہوگا اُس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارے میں پڑھا جاوے گا۔ یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اُس کی تائید سے لکھا گیا ہے......مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت او رمعرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اوراس کو اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہوجائیں گی اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی، کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلاسکیں خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی
بقیہ حاشیہ:۔ نے پہلے سے کیا ہوا تھا۔ وہ پورا ہو۔ اس کا وعدہ ضرور پورا ہوتا ہے۔ اور وہ سب سے بڑھ کر سچا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) تُو بروزی طور پر وہی (یعنی عیسیٰ ؑ) ہے اور یہی وہ سچا وعدہ ہے جو رازِ پوشیدہ کی طرح چلا آتا تھا۔ پس جو حکم تجھے دیا جاتا ہے اُسے کھول کر لوگوں کو پہنچا۔ اور جاہل لوگوں کی زبان درازی سے مت ڈر۔ اور اسی طرح پہلے لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت جاری رہی ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) اے احمد ! مَیں تیری تمام دعائیں قبول کروں گامگر تیرے شریکوں کے بارے میں نہیں۔
اور۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس کی پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو۔
مَیں نے عالمِ کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطع نکلا۔ جو اردگرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی۔ تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا۔ وہ بلند آواز سے بولا کہ
اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ خَرِبَتْ خَیْبَرُ
اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی متعارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرادیا ہے۔ سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھُل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پُورا کرے۔
پھر مَیں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا
اِنَّ اللّٰہَ مَعَکَ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْمُ اَیْنَمَا قُمْتَ
یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اورخدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑاہو۔ یہ حمایت الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے1۔‘‘
(اشتہار مؤرخہ 21؍دسمبر 1896ء زیر عنوان ’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری‘‘
و تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحہ7 7۔79۔ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 293،294)
جب مَیں مضمون ختم کرچکا تو خداتعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہؤا کہ
’’مضمون بالا رہا‘‘
(حقیقتہ الوحی صفحہ 279۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 291)
1 ’’ یہ الہام بذریعہ ایک چھپے ہوئے اشتہار مؤرخہ 21؍دسمبر کے قبل جلسہ ہذا ہی دوروز کے اندر ہی دور و نزدیک شائع کیا گیا۔ اور سب لوگوں کو اس بات سے آگاہی دی گئی کہ ہمارا ہی مضمون غالب رہے گا۔ پس ایسا ہی ہوا کہ اس جلسہ میں جس قدر مضامین پڑھے گئے تھے ان سب پر ہمارا مضمون غالب اور فائق رہا اور خود اُس جلسہ میں غیر مذاہب کے وکلاء نے بھی پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر گواہیاں دیں کہ مرزا صاحب کا مضمون سب پر غالب رہا۔ اور انگریزی اخبار سول ملٹری گزٹ اور پنجاب اَبزرور اور دیگر اخباروں نے بڑے زور سے گواہی دی۔ کہ ہمارا مضمون سب مضامین پر غالب رہا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 195۔ روحانی خزائن جلد18 صفحۃ 573)
اس بارہ میں اس مذہبی کانفرنس کے سکرٹری دھنپت رائے بی اے ایل ایل بی پلیڈر چیف کورٹ پنجاب
1896ء
’’مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بارہا بعض مُردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے۔ اور مَیں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ رُوحانی خزائن جلد 10 صفحہ 405ٌ
1896ء
’’مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی۔ کہ چند روز ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مُبشّر الہام مجھے ہوا ہے۔
اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً
ترجمہ یعنی میں فوجوں کے ساتھ ناگاہ تیرے پاس آنے والا ہوں۔ یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف
بقیہ حاشیہ: ’’رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب‘‘ (دھرم مہوتسو) میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شایقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا۔ ڈیڑھ بجے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھرنے لگا۔ اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پُر ہوگیا۔ اس وقت کوئی سات آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا۔ مختلف مذاہب و ملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتدبہ اور ذی علم آدمی موجود تھے اگرچہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا۔ لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ بن نہ پڑا۔ اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤسا ء عمائد پنجاب ‘ علماء فضلاء ‘ بیرسٹر ‘ وکیل ‘ پروفیسر ‘ اکسٹرا اسسٹنٹ ‘ ڈاکٹر‘ غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے ان لوگوں کے اس طرح جمع ہوجانے اور نہایت صبرو تحمل کے ساتھ جوش سے برابر چار پانچ گھنٹے اُس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدس تحریک سے ہمدردی تھی..........اس مضمون کے لئے اگرچہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی تھے۔ لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو۔ تب تک کارروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جاوے ان کا ایسا فرمانا عین اہل ِ جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشاء کے مطابق تھا۔ کیونکہ جب وقت مقررہ کے گذرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دے دیا۔ تو حاضرین اور موڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا .........یہ مضمون قریباً چار گھنٹے میں ختم ہوا۔ اور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و قبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ‘‘
(دیکھو رپورٹ جلسہ ٔ اعظم مذاہب (دھرم مہوتسو) صفحہ 79، 80)
اشارہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 3؍ جنوری 1897ء بنام سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 7)
یکم جنوری 1897ء
’’ 1 وَ بَشَّرَنِیْ رَبِّیْ بِرَابِحٍ رَّحْمَۃً۔ وَقَالَ
اِنَّہٗ یَجْعَلُ الثَّلٰثَۃَ اَرْ بَعَۃً .........
ثُمَّ کُرِّرَ عَلَیَّ صُوْرَۃُ ھٰذِہِ الْوَاقِعَۃِ فَبَیْنَمَآ اَنَا کُنْتُ بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ۔ فَتَحَرَّکَ فِیْ صُلْبِیْ رُوحُ الرَّابِعِ بِعَالَمِ الْمُکَاشَفَۃِ فَنَا دیٰٓ اِخْوَانَہٗ وَقَالَ
بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ مِیْعَادُ یَوْمٍ مِّنَ الْحَضْرَۃِ
فَاَظُنُّ اَنَّہٗٓ اَشَارَ اِلَی السَّنَۃِ الْکَامِلَۃِ۔ اَوْ اَمَدٍ اٰخَرَمِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 182، 183۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحۃ 182،183)
(ب) ’’اسی لڑکے2نے اسی طرح پیدائش سے پہلے یکم جنوری 1897ء میں بطور الہام یہ کلام مجھ سے کیا اور مخاطب بھائی تھے کہ مجھ میں اور تم میں ایک دن کی میعاد ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 41۔ روحانی خزائن جلد15 صفحۃ 217)
(ج) ’’الہام کے موافق مباہلہ کے بعد ہمیں ایک لڑکا عطا کیا۔ جس کے پیدا ہونے سے تین لڑکے ہمارے ہوگئے یعنی دوسری بیوی سے۔ اور نہ صرف یہی بلکہ ایک چوتھے3لڑکے کے لئے متواتر الہام کیا۔ اور ہم عبدالحق کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ نہیں مرے گا جب تک اس الہام کا پورا ہونا بھی نہ سن لے۔ اب اس کو چاہئے کہ اگر وہ کچھ چیز ہے ، تو دُعا سے اس پیشگوئی کو ٹال دے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 58۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 342)
1 (ترجمہ از مرتب) اور میرے ربّ نے مجھے اپنی رحمت سے ایک چوتھے لڑکے کی بشارت دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کردے گا...........پھر دوبارہ اس واقعہ کا نقشہ مجھے دکھایا گیا۔ اور اسی (کشفی) حالت میں کہ مَیں نیند اور بیداری کی حالت میں تھا۔ عالم مکا شفہ میں چوتھے لڑکے کی روح نے میری صلب میں حرکت کی۔ اور اس نے اپنے بھائیوں کو پکار کر کہا کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک دن کی میعاد مقرر ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس نے ایک سال کی طرف یا کسی اور میعاد کی طرف جس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اشارہ کیا۔
2 یعنی مبارک احمد پسر چہارم۔ (مرتب)
3 ’’خدا تعالیٰ نے میری تصدیق کے لئے اور تمام مخالفین کی تکذیب کے لئے اور عبدالحق غزنوی کو متنبہ کرنے کے لئے اس پسر چہارم کی پیشگوئی کو 14؍جون 1899ء میں جو مطابق 4؍صفر 1317ھ تھی بروز چہار شنبہ پورا کردیا۔ یعنی وہ مولود مسعود چوتھا لڑکا (مبارک احمد ہے۔مرتب)تاریخ مذکورہ میں پیدا ہوگیا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 43۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 221)
1897ء
’’خدا تعالیٰ نے ...........ایک فرزند کی نسبت جس کا نام مبارک احمد ہے ‘ ظاہر فرمایا کہ عبدالحق نہیں مرے گا جب تک کہ وہ پیدا نہ ہو...............دوسرا نام اس لڑکے کا ایک خواب کی بنا پر دولت احمد بھی ہے۔‘‘
( اشتہار معیار الاخیار صفحہ 5۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 272)
1897ء
’’مَیں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہوجائے۔ میرا دل مُردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے..... مَیں کبھی کا اس غم سے فنا ہوجاتا اگر میرا مولا اور میرا قادر توانا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے، غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے۔ مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اُس کا بیٹا اب ضرور مرے گا۔ خد اقادر فرماتا ہے کہ اگر مَیں چاہوں تو مریم اور اُس کے بیٹے عیسیٰ اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں۔ سو اَب اُس نے چاہا ہے کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھاوے۔ سو اب دونوں مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی‘ جو جھوٹے خداؤں کو قبول کرلیتی تھیں۔ نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا۔ اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہوجائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں۔
قریب ہے کہ سب ملّتیں ہلاک ہونگی مگر اسلام۔ اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا‘ نہ کند ہوگا۔ جب تک دجالیّت کو پاش پاش نہ کردے۔ وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ‘ ملکوں میں پھیلے گی۔ اس دن نہ کوئی مصنوعی کفّارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کردے گا لیکن نہ کسی تلوار سے ‘ اور نہ کسی بندوق سے ‘ بلکہ مستعد رُوحوں کو روشنی عطا کرنے سے ‘ اور پاک دلوں پر ایک نور اُتارنے سے۔ تب یہباتیں جو مَیں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی۔‘‘
اَلْاِشْتِھَارُ مُسْتَیْقِنًا بِوَحْیِ اللّٰہِ الْقَھَّارِ۔
(مؤرخہ 14؍جنوری 1897ء مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ 304، 305)
یکم فروری 1897ء
’’جب میری لڑکی مبارکہ والدہ کے پیٹ میں تھی تو حساب کی غلطی سے فکر دامن گیر ہوا۔ اور اس کا غم حد سے بڑھ گیا کہ شاید کوئی اور مرض ہو تب مَیں نے جنابِ الٰہی میں دُعا کی تو الہام ہوا کہ
آید آن روزے کہ مستخلص شود
اور مجھے تفہیم ہوئی کہ لڑکی پیدا ہوگی۔ چنانچہ اس کے مطابق 27؍رمضان 1314ھ کو لڑکی پیدا ہوئی جس کام مبارکہ رکھا گیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 202۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 580)
1897ء
’’ خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اُس کی نسبت فرمایا۔
تُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَۃِ
یعنی زیور میں نشوو نما پائے گی یعنی نہ وہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی۔ چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 217۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 227)
فروری 1897ء
(الف) ’’ ایک شخص اہل تشیع میں سے جوا پنے آپ کو شیخ نجفی کے نام سے مشہور کرتا تھا ایک دفعہ لاہور میں آکر ہمارے مقابلہ میں بہت شور مچانے لگا اور نشان کا طلب گار ہوا۔ چنانچہ ہم نے باشاعت اشتہار یکم فروری 1897ء اُس کو وعدہ دیا کہ چالیس روز تک تجھے اللہ تعالیٰ کوئی نشان دکھلائے گا۔ سو خدا کا احسان ہے کہ ابھی چالیس دن پورے نہ ہوئے تھے کہ نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری وقوع میں آگیا۔ تب تو شیخ ضال نجفی فوراً لاہور سے بھاگ گیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 209۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 587)
(ب) ’’حضرت شیخ الاسلام 1درخط ِ خود وعدہ می فرماید کہ در چہل دقیقہ نشا نے تونم نمود۔ بسیار خوب است۔ یکے از اخبار غیب بذریعہ اشتہار مے شائع فرمائید بجائے چہل دقیقہ مہلت چہل ساعت اوشا نرامی دہیم۔ پس اگر در چہل روز نشانے ازما ظاہر نہ شد۔ و ازیشاں در چہل ساعت ظاہر شد۔ یا فرض کنید کہ ازیشان نیز در چہل روز ظاہر شُد۔ بر بزرگی او شاں ایمان خواہیم آورد۔ و ترک دعویٔ خود خواہیم کرد۔ و اگر نشانے از مادریں مدّت بظہور2آمد وازیشاں چیزے بظہور نیا مد۔ ہمیں دلیل بر صدقِ ما وکذب شاں خواہد بود۔‘‘ (اشتہار واجب الاظہار۔ یکم فروری 1897ء صفحہ 3 حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 323 حاشیہ)
1 (ترجمہ از مرتب) حضرت (حاجی شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ملقّب بہ) شیخ الاسلام ( جو شیعہ ہیں) اپنے خط میں وعدہ کرتے ہیں کہ ہم چالیس منٹ میں نشان دکھانے کے لئے تیار ہیں۔ بہت اچھا۔ اشتہار کے ذریعہ سے کوئی پیشگوئی شائع کریں۔ ہم انہیں چالیس منٹ کی بجائے چالیس گھنٹے کی مہلت دیتے ہیں۔ پس اگر چالیس روز کے عرصے میں ہماری طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہوا۔ اور ان کی طرف سے چالیس گھنٹہ کے اندر نشان ظاہر ہوگیا بلکہ چالیس گھنٹہ نہ سہی۔ چالیس روز کے اندر بھی اگر اُن کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوا۔ تو اُن کی بزرگی پر ہم ایمان لے آویں گے۔ اور اپنے دعویٰ کو چھوڑ دیں گے۔ اور اگر اس عرصہ میں ہماری طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوا۔ اور ان کی طرف سے کوئی ظاہر نہ ہوا۔ تو یہ ہمارے صدق اور اُن کے کذب کی دلیل ہوگا۔
2 ’’شیخ نجفی نے اپنے خط میں چالیس دقیقہ میں نشان دکھلانے کا وعدہ
فروری 1897ء
’’ ایک دفعہ مَیں نے اسی لیکھرام کے متعلق دیکھا کہ ایک نیزہ ہے اس کا پھل بڑا چمکتا ہے اور لیکھرام کا سر پڑا ہوا ہے۔ اُسے اس نیزے سے پرو دیا گیا ہے اور کہا گیا کہ پھر قادیان میں نہ آوے گا۔ (ان ایام میں لیکھرام قادیان میں تھا اور اس کے قتل سے ایک ماہ پیشتر کا یہ واقعہ ہے)
(البدر جلد 1 نمبر 12 پرچہ 16؍جنوری 1903ء صفحہ 90)
12 فروری 1897ء
’’ بتاریخ نہم رمضان المبارک 1314 ہجری حضرت اقدس مسیح موعود مہدی مسعود نے خواب میں دیکھا کہ ملازم ان کا مسمی پیرا دروازے پر کھڑا آواز دے رہا ہے کہ یہ خط لے جاؤ۔ مولوی سید محمد احسن صاحب کا خط ہے۔ جب حضرت اقدس نے اُس خط کو لیا تو اُس پر لکھا ہوا بہت کچھ ہے مگر حضرت اقدس نے اُس وقت صرف (العارف) پڑھا۔ جب آپ اُس خط کو اندر مکان کے لے گئے تو اس کو مسک العارف پڑھا۔ پھر آنکھ کھُل گئی۔‘‘
(مسک المعارف صفحہ 62 مصنفہ مولوی محمد احسن صاحب امروہوی)
1897ء
’’ ایک عرصہ ہوا کہ مجھے الہام ہوا تھا۔
وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
یعنی اپنے مکان کو وسیع کر کہ لوگ دُور دُور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے۔ سو پشاور سے مدراس تک تو مَیں نے اس پیشگوئی کو پورے ہوتے دیکھ لیا مگر ا س کے بعد دوبارہ پھر یہی الہام ہوا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیشگوئی پھر زیادہ قوت او ر کثرت سے پوری ہوگی۔ وَاللّٰہ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ لَا مَانِعَ لِمَآ ارَادَ۔‘‘
(اشتہار مؤرخہ 17؍فروری 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحۃ 327)
بقیہ حاشیہ:۔ کیا تھا۔ اور ہم نے یکم فروری 1897ء سے چالیس روز میں.......سو خدا کا احسان ہے کہ یکم فروری 1897ء سے پینتیس دن تک یعنی چالیس دن کے اندر نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری وقوع میں آگیا........اب ہماری طرف سے نشان تو ہوچکا۔ اور نجفی کا کذب کھُل گیا۔ تاہم تنزل کے طور پر ہم راضی ہیں کہ وہ مسجد شاہی کے منارہ سے اب نیچے گر کے دکھلاوے تاکہ اگر شیخ نجدی منظرین میں داخل ہے تو بارے شیخ نجفی کا قصہ تو تمام ہوا اور اگر اب بھی اپنا نشان نہ دکھلایا تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔‘‘
(اشتہار 10؍مارچ 1897ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 339)
1897ء
’’ خداوند علیم و خبیر سے خبر پاکر مَیں نے اپنے اشتہار 12؍مارچ 1897ء میں اس امر کو ظاہر کردیا تھا کہ اب سید احمد خان صاحب کے۔سی۔ایس۔آئی کی موت کا وقت قریب ہے۔ افسوس ہے کہ ایک نظر دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا۔ سید صاحب غور سے پڑھیں کہ اب ملاقات کے عوض میں یہی اشتہار ہے۔ چنانچہ اس اشتہار کے ایک سال بعد سید صاحب وفات پاگئے۔‘‘
( نزول المسیح صفحہ 191,192۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 569،570)
1897ء
’’ مَیں آپ1کو یقین دلاتا ہوں۔ کہ مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا۔‘‘
(اشتہار 12؍مارچ 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 341)
15 مارچ 1897ء
’’ اس تحریر کے وقت ابھی ایک الہام ہوا۔ اور وہ یہ ہے۔
سلامت 2بر تو اے مَردِ سلامت3
(سراج منیر صفحہ 27 حاشیہ ۔ اشتہار 15؍مارچ 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 356 حاشیہ۔
روحانی خزائن جلد12 صفحہ 31)
1897ء
(الف) ’’ شیخ محمد حسین بٹالوی.......کی نسبت تین مرتبہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی حالت پُر ضلالت سے رجوع کرے گا اور پھر خدا اُس کی آنکھیں کھولے گا۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 70۔ روحانی خزائن جلد12 صفحہ 80)
(ب)’’ ممکن ہے کہ محمد حسین کا انجام اس آیت پر ہو اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ
1 مراد سر سید احمد خاں صاحب۔ (مرتب)
2 (ترجمہ) اے سلامتی والے شخص تیرے لئے سلامتی ہے۔
3 یہ وحی الٰہی اس وقت حضور پر نازل ہوئی تھی۔ جب لیکھرام کی ہلاکت کے بعد آریوں کی طرف سے متواتر قتل کی دھمکی دی جاتی تھی۔ (مرتب)

بَنُوْٓ اِسْرَائِیْلَ۔ کیونکہ بعض رؤیااس عاجز کی اس تاویل کی مؤ یّد ہیں۔‘‘
(اشتہار 15؍مارچ 1897ء مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 356۔ و سراج منیر صفحہ29 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 31)
(ج) ’’خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشف ظاہر کررہا ہے کہ وہ بالآخر ایمان لائیگا۔ مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ ایمانِ فرعون1 کی طرح صرف اسی قدر ہوگا کہ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓ اِسْرَائِیْلَ۔ یا پرہیزگار لوگوں کی طرح۔ واللہ اعلم۔‘‘
(استفتاء اُردو صفحہ 22 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد12 صفحہ 130)
1897ء
’’میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النّبیّین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بکلّی بند ہیں۔ اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوں کے رُو سے آسکتا ہے اور نہ کوئی قدیم نبی۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 3۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 76)
1897ء
’’ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّی رُوْحَ الصِّدْقِ .......میں جو لفظ لَدُنْ کا ذکر ہے اُ س کی شرح کشفی طور پر یوں معلوم ہوئی۔ کہ ایک فرشتہ خواب میں کہتا ہے کہ یہ مقام لَدُنْ جہاں تجھے پہنچایا گیا۔ یہ وہ مقام ہے ‘ جہاں ہمیشہ بارشیں ہوتی رہتی ہیں۔ اور ایک دم بھی بارش نہیں تھمتی۔‘‘ (سراج منیر صفحہ 74۔ روحانی خزائن جلد12۔ صفحہ 76)
1 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ ’’ اصل میں محمد حسین زیرک آدمی تھا۔ مگر دیکھتا تھا کہ ابتدا سے اس میں ایک قسم کی خود پسندی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ کہ اس طرح پر اس کا تنقیہ کر دے۔ یہ اس کے لئے استفراغ ہے۔ براہین میں ایک الہام درج ہے جس میں اس کا فرعون نام رکھا گیا ہے اس نے بھی آخر یہی کہنا تھا کہ اٰمَنْتُ بِالَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓ اِسْرَائِیْلَ۔ اس لئے اس کے لئے بھی اٰمَنْتُ بِالَّذِیْ کا وقت مقدّر ہے۔ اس پر پوچھا گیا کہ وہ کیا امر ہے جس کی و جہ سے یہ آخری سعادت اس کے لئے مقدّر ہے۔ فرمایا۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مگر اُس نے ایک کام تو کیا ہے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا اور وہ واقعی اخلاص سے لکھا تھا کیونکہ اُس وقت اُس کی یہ حالت تھی کہ بعض اوقات میرے جوتے اُٹھا کر جھاڑ کر آگے رکھ دیا کرتا تھا اور ایک بار مجھے اپنے مکان میں اس غرض سے لے گیا کہ وہ مبارک ہوجاوے۔ اور ایک بار اصرار کرکے مجھے وضو کرایا۔ غرض بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ مَیں قادیان ہی میں آکر رہوں مگر مَیں نے اُس وقت اُسے یہی کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ اس کے بعد اسے یہ ابتلاء پیش آگیا۔ کیا تعجب ہے کہ اس اخلاص کے بدلے میں خدا نے اس کا انجام اچھا رکھا ہو۔‘‘
( الحکم جلد 7 نمبر 2مؤرخہ 17؍جنوری 1903ء صفحہ 7،8)
1897ء
’’ عالمِ کشف میں مَیں نے دیکھا کہ زمین نے مجھ سے گفتگو کی اور کہا۔
یَاوَلِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَآ اَعْرِفُکَ
یعنی اے خدا کے ولی ! مَیں تجھ کو پہچانتی نہ تھی۔‘‘ (سراج منیر صفحہ 78۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 80)
1897ء
’’ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ان اشتہارات1کی تقریب پر جو آریہ قوم اور پادریوں اور سکھوں کے مقابل پر جاری ہوئے ہیں۔ جو شخص مقابل پر آئے گا۔ خدا اُس میدان میں میری مدد کرے گا۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 72۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 81)
1897ء
’’مجھے میرے خدا نے مخاطب کرکے فرمایا ہے۔
اَلْاَرْضُ وَ السَّمَآئُ مَعَکَ کَما۔ ھُوَ2 مَعِیْ۔ قُلْ لِّیَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ قُلْ لِّیْ سَلَامٌ۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ یَاْتِیْ نَصْرُ اللّٰہِ۔ اِنَّا سَنُنْذِرُ الْعَالَمَ کُلَّہٗ۔ اِنَّا سَنَنْزِلُ۔ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا
یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہے۔ جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے۔ کہہ آسمان اور زمین میرے لئے ہے۔ کہہ میرے لئے سلامتی ہے وہ سلامتی جو خدا قادر کے حضور میں سچائی کی نشست گاہ میں ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں۔ اور جن کا اُصول یہ ہے کہ خلق اللہ سے نیکی کرتے رہیں۔ خدا کی مدد آتی ہے ہم تمام دُنیا کو متنبہ کریں گے۔ ہم زمین پر اُتریں گے۔ مَیں ہی کامل اور سچا خدا ہوں میرے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 81،82۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 83،84)
1897ء
’’ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ کہ دُنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصہ ٔدنیا پر محیط ہوگئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ اُن پر گذر گیا ہے، اُن میں
1 ان اشتہارات سے مراد 15،22؍مارچ ، 5 ، 11،16، 27، 28؍اپریل 1897ء کے اشتہارات ہیں۔ جن میں لیکھرام کے قتل کا ذمہ دار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قرار دینے والے تمام لوگوں کے سامنے ایک فیصلہ کن طریق پیش کرکے انہیں اس کی طرف بلایا گیا تھا۔ مگر ان میں سے کسی کو سامنے آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ (مرتّب)
2 ’’ضمیر ھُوَ اس تاویل سے (واحد) ہے کہ اس کا مرجع مخلوق ہے۔‘‘ (سراج منیر صفحہ 74 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد12 صفحہ 83)
سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رُو سے جھوٹا نہیں اور نہ اُن نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ صفحہ4۔ روحانی خزائن جلد12 ۔ صفحہ 256)
1897ء
’’نامبردہ1نے خَلوت کی ملاقات میں سلطان روم کے لئے ایک خاص دُعا کرنے کے لئے درخواست کی اور یہ بھی چاہا ۔ کہ آئندہ اوس کے لئے جو کچھ آسمانی قضاء قدر سے آنے والا ہے اُس سے وہ اطلاع پاوے مَیں نے اس کو صاف کہہ دیا کہ سلطان کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور مَیں کشفی طریق سے اُس کے ارکان2کی حالت اچھی نہیں دیکھتا۔ اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔
1 یعنی حسین کامی سفیر سلطانِ روم جو 1897ء میں قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا تھا۔ (مرتب)
2 ’’واضح ہوکہ عرصہ تخمیناً دوماہ یا تین ماہ کا گذرا ہے کہ ایک معزز تُرک کی معرفت ہمیں یہ خبرملی تھی کہ حسین کامی مذکور ایک ارتکابِ جُرم کی وجہ سے اپنے عہدہ سے موقوف کیا گیا ہے اور اس کی املاک ضبط کی گئی (ہیں) مگر میں نے اس خبر کو ایک شخص کی روایت خیال کرکے شائع نہیں کیا تھا کہ شاید غلط ہو۔ آج اخبار نیّر آصفی مدراس مورخہ 12اکتوبر 1899ء کے ذریعہ سے ہمیں مفصّل طورپر معلوم ہوگیا کہ ہماری وہ پیشگوئی حسین کامی کی نسبت نہایت کامل صفائی سے پوری ہوگئی۔ ہماری وہ نصیحت جو ہم نے اپنے خلوت خانہ میں اُس کو کی تھی کہ توبہ کروتانیک پَھل پاؤ۔ جس کو ہم نے اپنے اشتہار 24مئی 1897ء میں شائع کردیا تھا اس پر پابند نہ ہونے سے آخر وہ اپنی پاداشِ کردار کو پہنچ گیا اوراَب وہ ضرور اُس نصیحت کو یادکرتا ہوگا۔ ... اَب ہم اخبار مذکور میں سے وہ چھٹی ... ذیل میں نقل کردیتے ہیں اور وہ یہ ہے:۔
’’قسطنطنیہ کی چٹّھی ‘‘
’’ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گذشتہ دوسالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجروحین عساکرحرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کرکے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہندکودیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ ہرزرچندہ تمام وکمال قسطنطنیہ میں نہیں پہنچا اور اس امر کے باور کرنے کہ یہ وجہ ہوتی ہے کہ حسین بک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی کو جو ایک ہزارچھ سوروپیہ کے قریب مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر اورمولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور نے مختلف مقامات سے وصول کرکے بھیجا تھا وہ سب غبن کرگیا ایک کوڑی تک قسطنطنیہ میں نہیں پہونچائی مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہونچی تو اس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اُگلوانے کی کوشش کی اور کی اراضی مملوکہ کو نیلام کراکر وصولی رقم کا انتظام کیا اوربابِ عالی میں غبن کی خبر بھجواکر نوکری سے موقف کرایا.... حافظ عبدالرحٰمن الہندی الامرتسری۔ سکہ جدیدہ۔ وکالہ صالح آفندی قاہرہ (ملک مصر)‘‘
(ازاشتہار 18 نومبر 1899ء مجموعہ اشتہارت جلد سوم صفحہ 189،190)
یہی وہ باتیں تھیں جو سفیر کو اپنی بدقسمتی سے بہت بُری معلوم ہوئیں۔ مَیں نے کئی اشارات سے اس بات پر بھی زور دیا۔ کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوعِ انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بربادی کو چاہتی ہے توبہ کرو تا نیک پھل پاؤ1۔ مگر مَیں اُس کے دل کی طرف خیال کررہا تھا کہ وہ ان باتوں کو بہت ہی برا مانتا تھا۔ اور یہ ایک صریح دلیل اس بات پر ہے کہ سلطنت روم کے اچھے دن نہیں ہیں۔ اور پھر اوس کا بدگوئی کے ساتھ واپس جانا یہ اور دلیل ہے کہ زوال کے علامات موجود ہیں ماسوا اس کے میرے دعویٰ مسیح موعود اور مہدی معہود کے بارے میں بھی کئی باتیں درمیان آئیں۔ مَیں نے اُس کو بار بار سمجھایا۔ کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں اور کسی خونی مسیح اور خونی مہدی کا انتظار کرنا جیسا کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے یہ سب بیہودہ قصے ہیں۔ اس کے ساتھ مَیں نے یہ بھی اُس کو کہا کہ
خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیٰحدہ رہے گا ‘ وہ کاٹا جائے گا ‘ بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ۔
اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ تمام باتیں تِیر کی طرح اوس کو لگتی تھیں۔ اور مَیں نے اپنی طرف سے نہیں ‘ بلکہ جو کچھ خدا نے الہام کے ذریعہ فرمایا تھا۔ وہی کہا تھا ۔......
اور مَیں مکرّر ناظرین کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مجھے اس سفیر کی ملاقات کا ایک ذرّہ شوق نہ تھا....... اُس کے الحاح پر مَیں نے اُس کو قادیان آنے کی اجازت دی۔ لیکن اللہ جلّ شانہٗ جانتا ہے ‘ جس پر جھوٹ باندھنا *** کا داغ خریدنا ہے۔ کہ اوس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دیدی تھی کہ اِس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(اشتہار 24؍ مئی 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ 415 تا 418)
جون 1897ء
’’ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ السُّلْطَانَ۔2‘‘
(اشتہار 7؍جون 1897ء ۔تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 127۔ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 423)
1 اِس تقریر میں دو پیشگوئیاں تھیں (1) ایک یہ کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں۔ا ور دیانت اور امانت کی نیک صفات سے تم محروم ہو(2) دوم یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھا پھل نہیں ملے گا۔ اور تیرا انجام بد ہوگا۔ پھر اسی اشتہار میں (بطور پیشگوئی سفیر مذکور کی نسبت) یہ لکھا تھا کہ بہتر تھا کہ میرے پاس نہ آتا۔ میرے پاس سے ایسی بدگوئی سے واپس جانا اُس کی سخت بد قسمتی ہے یہی و جہ تھی کہ میری نصیحت اس کو بُری لگی اور اوس نے جاکر میری بدگوئی کی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 187 ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحۃ 565، 566 نیز دیکھئے تریاق القلوب صفحہ 118۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 409)
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے چاہا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو آدم کو پیدا کیا جو اللہ کا خلیفہ اور بادشاہ ہے۔
25 جون 1897ء
’’ ہم نے دینی مصلحت اور شکر الٰہی کے طور پر ایک کتاب تحفہ ٔ قیصریہ نام بطور ہدیہ قیصرہ ہند کی خدمت میں بھیجنے کے لئے تجویز کی تھی۔ آج ایک خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس ارادہ میں کامیابی نہ ہو۔ ایک الہام میں ہماری جماعت کے ایک ابتلاء کی طرف بھی اشارہ ہے مگر انجام سب خیرو عافیت ہے۔‘‘
(از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ مؤرخہ 9؍جون 1897ء ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 8)
25 جون 1897ء
’’افسوس کہ پرچہ چودھویں صدی 15؍جون 1897ء میں بھی بہت سی جزع فزع کے ساتھ سلطان روم کا بہانہ رکھ کر نہایت ظالمانہ توہین اور تحقیر و استہزاء اس عاجز کی نسبت کیا گیا ہے .............مگر کچھ ضرور نہیں کہ مَیں اُس کے ردّ میں تضیع اوقات کروں۔ کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے جس کے ہاتھ حساب ہے لیکن ایک عجیب بات ہے جس کا اس وقت ذکر کرنا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ جب یہ اخبار چودھویں صدی میرے رُوبرو پڑھا گیا تو میری رُوح نے اس مقام میں بددُعا کے لئے حرکت کی جہاں لکھا ہے کہ ’’ ایک بزرگ نے جب یہ اشتہار (یعنی اس عاجز کا اشتہار) پڑھا تو بے ساختہ اُن کے مُنہ سے یہ شعر نکل گیا ۔
چوُں خدا خواہد کہ پَردہ کَس دَرَدْ
میلش اندر طعنۂ پاکاں برد‘‘
مَیں نے ہر چند اس رُوحی حرکت کو روکا اور دبایا اور بار بار کوشش کی کہ یہ بات میری رُوح سے نکل جائے مگر وہ نہ نکل سکی۔ تب مَیں نے سمجھا کہ وہ خدا کی طرف سے ہے تب مَیں نے اُس شخص کے بارے میں دُعا کی جس کو بزرگ کےلفظ سے اخبار میں لکھا گیا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ دُعا قبول ہوگئی اور وہ دُعا یہ ہے کہ یا الٰہی اگر تُو جانتا ہے کہ مَیں کذّاب ہوں اور تیری طرف سے نہیں ہوں اور جیسا کہ میری نسبت کہا گیا ہے، ملعون اور مردُود ہوں اور کاذب ہوں اور تجھ سے میرا تعلق اور تیرا مجھ سے نہیں‘ تو مَیں تیری جناب میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ہلاک کر ڈال اور اگر تُو جانتا ہے کہ مَیں تیری طرف سے ہوں اور تیرا بھیجا ہوا ہوں ‘ او رمسیح موعود ہوں تو اُس شخص کے پَردے پھاڑ 1دے۔ جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے۔ لیکن
1 الحمد للہ کہ یہ نشان بڑی آب و تاب سے پورا ہوگیا۔ اور چودھویں صدی کے بزرگ نے بڑی عجز و انکساری سے معافی نامہ لکھا۔ چنانچہ بزرگ صاحب لکھتے ہیں:۔
’’ سیدی و مولائی۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ‘ ۔ ایک خطا کار اپنی غلط کاری سے اعتراف کرتا ہوا (اس نیاز نامہ کے ذریعہ سے) قادیان کے مبارک مقام پر (گویا) حاضر ہوکر آپ کے رحم کا خواستگار ہوتا ہے۔ یکم جولائی 97ء سے یکم جولائی 98ء تک جو اس گنہ گار کو مہلت دی گئی۔ اب آسمانی بادشاہت میں آپ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتا
اگر وہ اس عرصہ میں قادیان میں آکر مجمع عام میں توبہ کرے۔ تو اُسے معاف فرما کہ تو رحیم و کریم ہے۔
یہ دُعا ہے کہ مَیں اس بزرگ کے حق میں کی۔ مگر مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ بزرگ کون ہے اور کہاں رہتے ہیں۔ اور کس مذہب اور قوم کے ہیں۔جنہوں نے کذاب ٹھیرا کر میری پردہ دری کی پیشگوئی کی اور نہ مجھے جاننے کی کچھ ضرورت ہے مگر اس شخص کے اس کلمہ سے میرے دل کو دُکھ پہنچا اور ایک جوش پیدا ہوا۔ تب مَیں نے دُعا کردی اور یکم جولائی 1897ء سے یکم جولائی 1898ء تک اس کا فیصلہ کرنا خدا تعالیٰ سے مانگا ہے۔‘‘
(از اشتہار 25؍ جون 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات 437،438)
جولائی 1897ء
’’ جولائی 1897ء میں جب عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اسسٹنٹ سرجنی کا آخری امتحان دیا اور ہم نے اُن کے لئے دُعا کی تو الہام ہوا۔
’’تم پاس ہوگئے ہو‘‘
یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ پاس ہوگیا ہے کیونکہ مخلصوں کے لئے جو یگانگت کی حد تک پہنچتے ہیں ایسے
بقیہ حاشیہ:۔ ہوں (اس موقع پر مجھے القا ہوا کہ جس طرح آپ کی دُعا قبول ہوئی اسی طرح میری التجا و عاجزی قبول ہوکر حضرت اقدس کے حضور معافی و رہائی دی گئی) ..............اس وقت تو مَیں ایک مجرم گنہ گاروں کی طرح آپ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں (مجھ کو حاضر ہونے میں بھی کچھ عذر نہیں مگر بعض حالات میں حاضری سے معاف کیا جانے کا مستحق ہوں۔) شاید جولائی 1898ء سے پہلے ہی حاضر ہوجاؤں۔
امید کہ بارگاہِ قُدس سے بھی آپ کو راضی نامہ دینے کے لئے تحریک فرمائی جائے۔ کہ نَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ جو جرم عمدًا و جان بوجھ کر نہ کیا جائے وہ قابل راضی نامہ و معافی کے ہوتا ہے۔ فَاعْفُوْا وَاَصْلِحُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُّحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔
مَیں ہوں حضور کا مجرم
دستخط بزرگ راولپنڈی 29؍اکتوبر 97ء ؁ ‘‘
(کتاب البریّہ صفحہ 87 تا91۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 113 تا117)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں لکھا:۔
’’خدا تعالیٰ اس بزرگ کی خطا کو معاف کرے اور اس سے راضی ہو۔ مَیں اس سے راضی ہوں اور اس کو معافی دیتا ہوں۔‘‘ (از اشتہار 20؍نومبر 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحۃ 482)
؎ یہ بزرگ خوا جہ جہاں داد چیف آف گکھڑ باشندہ ضلع راولپنڈی کے تھے۔ دیکھئے الحکم جلد 47 نمبر 23۔ 24 مؤرخہ 28/21جون 1943ء صفحہ 4 (مرتب)
فقرے آجاتے ہیں.........
بالآخر عزیز مذکور اپنے امتحان میں بڑی خوبی سے کامیاب ہوا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 223۔ روحانی خزائن جلد18۔ صفحہ 601)
29 جولائی 1897ء
’’ 29؍ جولائی 1897ء کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور اُس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اُس نے کوئی نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور مَیں اُس کو دُور سے دیکھ رہا ہوں اور جبکہ وہ قریب پہنچی ‘ تو میرے دل میں تو یہی تھا کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے۔
پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا
مَا ھٰذَٓا1 اِلَّا تَھْدِیْدُ الْحُکَّامِ
یعنی یہ جو دیکھا ‘اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہوگی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔
پھر بعد اس کے الہام ہوا۔
قَدِ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔
ترجمہ:۔ مومنوں پر ایک ابتلا آیا یعنی بوجہ اس مقدمہ2کے تمہاری جماعت ایک امتحان میں پڑے گی۔
1 حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ نے اپنی پرانی نوٹ بک کے حوالہ سے ان چار الہامات ذیل۔(ا) مَاھٰذَا اِلَّا لَّھْدِیْدُ الْحُکَّامِ۔(2) صادق آں باشد کہ ایام بلا۔ (3) یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ۔ (4) ابرائ۔ کی تاریخ نزول 21؍اگست 1897ء لکھی ہے۔ واللہ اعلم۔ ان کے علاوہ دو اور الہام بھی اسی تاریخ کے لکھے ہیں۔ (ا) اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ الْعَزِیْزالْاَکْبَرِ۔ (2) اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔ دیکھئے ذکرِ حبیب صفحہ 221 (مرتب)
2 یعنی مقدمہ اقدامِ قتل منجانب مارٹن کلارک (مرتب) ۔’’یہ مقدمہ اس طرح سے ہوا کہ ایک شخص عبدالحمید نام نے عیسائیوں کے سکھلانے پر مجسٹریٹ ضلع امرتسر کے رُو برو اظہار دیئے کہ مجھے مرزا غلام احمد نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اس پر مجسٹریٹ امرتسر نے میری گرفتاری کے لئے یکم اگست کو وارنٹ جاری کیا۔ جس کی خبر سن کر ہمارے مخالفین امرتسر و بٹالہ میں ریل کے پلیٹ فارموں اور سڑکوں پر آ آ کر کھڑے ہوتے تھے۔ تا کہ میری ذلّت دیکھیں لیکن خدا کی قدرت ایسی ہوئی کہ اوّل تو وہ وارنٹ خدا جانے کہاں گم ہوگیا۔ دوم مجسٹریٹ ضلع امرتسر کو بعد میں خبر لگی کہ اُس نے غیر ضلع میں وارنٹ
پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ
لِیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الْمُجَاھِدِیْنَ مِنْکُمْ وَلِیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ۔
یہ میری جماعت کی طرف خطاب ہے کہ خدا نے ایسا کیا تاخدا تمہیں جتلادے کہ تم میں سے وہ کون ہے کہ اُس کے مامور کی راہ میں صدق دل سے کوشش کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنے دعویٰ بیعت میں جھوٹا ہے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ ایک گروہ تو اس مقدمہ اور دوسرے مقدمہ میں جو مسٹر ڈوئی صاحب کی عدالت میں فیصلہ ہوا، صدق دل سے اور کامل ہمدردی سے تڑپتا پھرا۔ اور انہوں نے اپنی مالی اور جانی کوششوں میں فرق نہیں رکھا اور دُکھ اٹھا کر اپنی سچائی دکھلائی اور دوسرا گروہ وہ بھی تھا کہ ایک ذرّہ ہمدردی میں شریک نہ ہوسکے سو ان کے لئے وہ کھڑکی بند ہے جو اِن صادقوں کے لئے کھولی گئی۔
پھر یہ الہام ہوا کہ
صادق آں باشد کہ ایامِ بلا :: مے گذار دبا محبّت باوفا
یعنی خدا کی نظرمیں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلاکے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گذارتا ہے۔
پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک اور موزوں کلمہ ڈالا گیا۔ لیکن نہ اس طرح پر کہ جو الہام جلی کی صورت ہوتی ہے۔ بلکہ الہام خفی کے طور پر دل اس مضمون سے بھر گیا اور وہ یہ تھا۔
گرقضا را عاشقے گرد د اسیر :: بوسد آں زنجیر را کز آشنا
یعنی اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اُس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہوا۔
بقیہ حاشیہ:۔ جاری کرنے میں بڑی غلطی کھائی ہے۔ پس اُس نے 6؍اگست کو جلدی سے صاحب گورداسپور کو تار دیا۔ کہ وارنٹ فوراً روک دو۔ جس پر سب حیران ہوئے کہ وارنٹ کیسا۔ لیکن مثل مقدمہ کے آنے پر صاحب ضلع گورداسپور نے ایک معمولی سمن کے ذریعہ سے مجھے بلایا اور عزت کے ساتھ اپنے پاس کرسی دی۔ یہ صاحب ضلع جس کانام کپتان ایم ۔ ڈبلیو ڈگلس تھا۔ بہ سبب زیرک اور دانشمند اور منصف مزاج ہونے کے فوراً سمجھ گیاکہ مقدمہ بے اصل اور جھوٹا ہے۔ اس لئے میں نے ایک دوسرے مقام میں اس کو پیلاطوؔس سے نسبت دی ہے بلکہ مردانگی اور انصاف میں اُس سے بڑھ کر۔ لیکن خدا کا اور فضل یہ ہوا کہ خود عبدالحمید نے عدالت میں اقرار کرلیا۔ کہ عیسائیوں نے مجھے سکھلا کر یہ اظہار دلایا تھا ورنہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ مجھے قتل کے لئے ترغیب دی گئی تھی۔ پس صاحب ضلع نے اس آخری بیان کو صحیح سمجھا اور بڑے زور شور کا چٹھا لکھ کر مجھے بَری کردیا اور تبسم کے ساتھ عدالت میں مجھے مبارکباد دی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 198،199۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 576، 577مفصّل بیان کیلئے دیکھو کتاب البر ّیہ صفحہ 1 تا 104۔ روحانی خزائن جلد13 صفحۃ 19 تا 122)
پھر اس کے بعد یہ الہام ہوا۔
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَالْعُلٰی۔
ترجمہ:۔ یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا۔ پھر تجھے واپس لائے گا یعنی انجام بخیر و عافیت ہوگا۔ مَیں اپنے فوجوں کے سمیت (جو ملائکہ ہیں) ایک ناگہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا مَیں رحمت کرنے والا ہوں۔ مَیں ہی ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے یعنی میرا ہی بول بالا رہے گا۔
پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ
مخالفوں میں پھُوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلّت اور اہانت اور ملامت ِ خلق۔1
(اور پھر اخیر حکم) اِبْرَآء یعنی بے قصورت ٹھہرانا۔
پھر بعد اس کے الہام ہوا۔
وَفِیْہِ شَیْءٌ
یعنی بریت تو ہوگی۔ مگر اس میں کچھ چیز ہوگی (یہ اس نوٹس کی طرف اشارہ تھا۔ جو بَری کرنے کے لئے لکھا گیا تھا کہ طرزِ مباحثہ نرم چاہئے)
پھر ساتھ اس کے یہ الہام ہوا کہ:۔
بَلَجَتْ اٰیَاتِیْ
کہ میرے نشان روشن ہوں گے۔ اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوجائیں گے (چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس مقدمہ میں جو ستمبر 1899ء میں عدالت مسٹر جے آر ڈریمنڈ صاحب بہادر میں فیصلہ ہوا۔ عبدالحمید ملزم نے دوبارہ اقرار کیا کہ میرا پہلا بیان جھوٹا تھا)
اور پھر الہام ہوا۔
لِوَآئُ فَتْحٍ۔ یعنی فتح کا جھنڈا
پھر بعد اس کے الہام ہوا۔
اِنَّمَآ اَمْرُنَا اِذَآ اَرَدْنَا شَیْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔
یعنی ہمارے اُمور کے لئے ہمارا یہی قانون ہے کہ جب ہم کسی چیز کا ہوجانا چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہوجا ‘
1 (نوٹ از مرتب) یہ دراصل الہام کا ترجمہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’اصل لفظ الہام کے بٹالوی کی نسبت بہت سخت تھے۔ ہم نے نرم الفاظ میں ان کا ترجمہ کردیا ہے۔‘‘ (کتاب البر ّیہ ٹائٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ1)
پس وہ ہوجاتی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 91۔ روحانی خزائن جلد5، صفحہ 341 تا 343)
(ب) ’’ مقدمہ 1سے تین ماہ پہلے مندرجہ ذیل الہام اس2ابتلاء کے بارے میں ہوئے۔
قَدِابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ مَاھٰذَٓا اِلَّا تَھْدِیْدُ الْحُکَّامِ۔ اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَخْتَۃً۔ یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَالْعُلٰی۔ مخالفوں میں پھُوٹ ...........اور ایک شخص متنافس کی ذلّت اور اہانت اور ملامت ِ خلق۔ (اور اخیر حکم) اِبْرَآء بے قصور ٹھہرانا بَلَجَتْ اٰیَاتِیْ۔
یعنی تجھ پر اور تیرے ساتھ کے مومنوں پر مؤاخذہ حُکّام کا ابتلاء آئے گا۔ وہ ابتلاء صرف تہدید ہوگا، اس سے زیادہ نہیں۔ وہ خدا جس نے خدمت ِ قرآن تجھے سپرد کی ہے پھر تجھے قادیان میں واپس لائے گا۔ مَیں اپنے فرشتوں کے ساتھ ناگہانی طور پر تیری مدد کروں گا۔ میری مدد تجھے پہونچے گی۔ مَیں ذوالجلال بلند شان والا رحمان ہوں۔ مَیں مخالفوں میں پھوٹ ڈالوں گا( اس میں یہ اشارہ ہے۔ کہ آخر عبدالحمید اور اور پادری گرےؔ اور نوردین عیسائی مخالفانہ بیان دیں گے) اور یہ فقرہ کہ متنافس کی ذلّت اور اہانت اور ملامت خلق ‘ یہ محمد حسین بٹالوی کی طرف اشارہ ہے کہ کرسی کے معاملہ میں اور پھر پادریوں کے خلاف واقعہ شہادت پر طرح طرح کی ذلّت اور ملامت خلق اُس کو پیش آئی اور انجام کار یہ ہوگا کہ تمہیں بَری اور بے قصور ٹھہرایا جائے گا اور میرا نشان ظاہر ہوگا۔‘‘
(ٹائٹل پیج کتاب البر ّیہ۔ روحانی خزائن جلد 13۔ صفحہ اوّل)
(ج) اس الہام کا ایک حصہ تو اس طرح پورا ہوا کہ ہمارے مخالفین یعنی عبدالحمید اور اس کے سکھلانے والے عیسائیوں میں پھوٹ پڑی کہ عبدالحمید نے صاف اقرار کرلیا کہ مجھے ان لوگوں نے یہ جھوٹی بات سکھائی تھی ورنہ اصل میں یہ کچھ بات نہ تھی۔ صرف ان کے بہکانے پر مَیں نے ایسا کہا................اور دوسرا حصہ الہام کا اس طرح پورا ہوا کہ دورانِ مقدمہ میں جب مُوحّدین کے ایڈووکیٹ مولوی محمد حسین میری مخالفت میں عیسائیوں کے گواہ بن کر پیش ہوئے تو برخلاف اپنی اُمیدوں کے میری عزت دیکھ کر اُس طمع خام میں پڑے کہ ہم بھی کرسی مانگیں چنانچہ آتے ہی انہوں نے سوال کیا کہ مجھے کرسی ملنی چاہئے۔ مگر افسوس صاحب ڈپٹی کمشنر نے اُن کو جھڑک دیا اور سخت جھڑکا کہ تم کو کرسی نہیں مل سکتی۔ سو یہ خدا کا ایک نشان تھا کہ جو کچھ انہوں نے میرے لئے چاہا وہ خود اُن کو پیش آگیا۔‘‘
(نزول المسیح 199۔200۔ روحانی خزائن جلد18 صفحۃ 577،578)
1 یعنی مقدمہ اقدامِ قتل منجانب پادری مارٹن کلارک بخلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ (مرتب)
2 یعنی ابتلاء مقدمہ مذکور جس کی پیشگوئی براہین احمدیہ صفحہ 516 میں اس مقدمہ سے اٹھارہ برس پہلے شائع ہوئی تھی۔
(مرتب)
اکتوبر1897ء
’’ شروع اکتوبر 1897ء میں مجھے دکھایا گیا کہ مَیں ایک گواہی کے لئے ایک انگریز حاکم کے پاس حاضر کیا گیا ہوں اور اس حاکم نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے والد کا کیا نام ہے؟ لیکن جیسا کہ شہادت کے لئے دستور ہے، مجھے قسم نہیں دی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 221۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 599)
8 اکتوبر1897ء
’’ پھر 8؍اکتوبر 1897ء کو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ اس مقدمہ1 کا سپاہی سمن لے کر آیا ہے۔ یہ خواب مسجد میں عام جماعت کو سنادی گئی تھی۔ آخر ایسا ہی ظہور میں آیا اور سپاہی سمن لے کر آگیا اور معلوم ہوا کہ ایڈیٹر اخبار ناظم الہند لاہور نے مجھے گواہ لکھا دیا ہے.....سو جب مَیں ملتان میں پہنچ کر عدالت میں گواہی کے لئے گیا تو ایسا ہی ظہور میں آیا۔ حاکم کو ایسا سہو ہوگیا کہ قسم دینا بھول گیا اور اظہار شروع کردیئے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 221۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 599)
’’ تُو اس سے نکلا ، اور اُس نے تمام دُنیا سے تجھ کو چُنا .... تُو جہان کا نُور ہے ....تُو خدا کا وقار ہے، پس وہ تجھے ترک نہیں کرے گا۔ تُو کلمۃ الازل ہے پس تو مٹایا نہیں جائیگا۔ ....میرا لُوٹا ہوا مال تجھے ملے گا۔ مَیں تجھے عزت دُوں گا اور تیری حفاظت کروں گا۔ یہ ہوگا ، یہ ہوگا، یہ ہوگا، اور پھر انتقال ہوگا۔ تیرے پر میرے کامل انعام ہیں .... میری سچائی پر خدا گواہی دیتا ہے۔ پھر کیوں تم ایمان نہیں لاتے ....ہماری فتح آئے گی اور زمانہ کا کاروبار ہم پر ختم ہوگا۔ اس دن کہا جائے گا کہ کیا یہ حق نہ تھا ....خدا کی رحمت کے خزانے تجھے دیئے گئے ....آوا ہَنْ (خدا تیرے اندر اُتر آیا) .... تُو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے .... تُو مدد دیا جائے گا اور کسی کو گریز کی جگہ نہیں رہے گی۔ تو حق کے ساتھ نازل ہوا اور تیرے ساتھ نبیوں کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں ....کیا لوگ اس سے تعجب کرتے ہیں۔ کہہ خدا عجیب ہے۔ چُن لیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا ....اُس کے لئے وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے اعمال کی قوت سے پہنچ نہیں سکتا ....اے لوگو! تمہارے پاس خدا کا نور آیا ، پس تم مُنکر مت بنو۔‘‘
(کتاب البر ّیہ صفحہ 75۔77۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 101 تا103)
1 یعنی وہ مقدمہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہادت کے لئے 29۔30؍اکتوبر کو ملتان تشریف لے گئے تھے۔
(مرتب)
1897ء
’’ مَیں تجھے برکت دُوں گا ، اور بہت برکت دُوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے۔‘‘
(کتاب البر ّیہ طبع اوّل صفحہ 148 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 13۔ صفحۃ 179)
نومبر 1897ء
’’ حضور حُجتہ الاسلام نے ایکرؤیادیکھی کہ گویا دارالامان میں طاعون آگئی ہے۔ اس کی تفہیم کھجلی ؔہوئی۔
آپ نے فرمایا۔ قادیان طاعون نامیمون سے مامون و مصؤن رہے گا البتہ خارش کا مرض ہو تو تعجب نہیں۔ اس پر جناب نے یہ بھی اجتہاد فرمایا ہے (کہ کھجلی پیدا کرنے والی دوا طاعون کو روک دے گی)
(فقرہ مندرجہ خطوط وحدانی اجتہادی اور قیاسی ہے نہ الہامی)
(الحکم جلد 1 نمبر 5 مؤرخہ 23؍نومبر 1897ء صفحہ4)
’’ انہی1دنوں میں مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ اگلے سال بعض احباب دنیا میں نہ ہوں گے۔ گو مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کشف کا مصدا کون کون احباب ہوں گے اور مَیں جانتا ہوں کہ یہ اس لئے ہے تا ہر ایک شخص بجائے خود سفر آخرت کی طیّاری رکھے۔‘‘
(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 62)
1898ء
’’ مجھے2معلوم ہے کہ پچھلے قحط کے دنوں میں میرے مخدوم و امام (صلوات اللہ علیہ السلام) (کو) اپنی جماعت کی حالت پر خیال تھا کہ اس میں بہت عیال دار (اور ) اکثر غریب ہیں۔ ان کو بڑی مشکلات پیش آئیں گی جس پر حضور کو الہام ہوا :
فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ 3
(الحکم جلد 2 نمبر 26 ، 27 مؤرخہ 6، 13؍ ستمبر1898ء صفحہ11)
1 یعنی ایام جلسہ سالانہ 1897ء ۔ (مرتب)
2 یعنی شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) مجھے آسمان اور زمین کے ربّ کی قسم ہے کہ یہ بات واقع ہونے والی ہے۔
1898ء
(الف) ’’ 1 وَ اَوْحٰٓی اِلَیَّ رَبِّیْ وَ وَعَدَنِیْ اَنَّہٗ سَیَنْصُرُنِیْ حَتّٰی یَبْلُغَ اَمْرِیْ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا۔ وَتَتَمَوَّجُ بُحُوْرُ الْحَقِّ حَتّٰی یُعْجِبَ النَّاسَ حُبَابُ غَوَارِبِھَا۔‘‘
( لُجتہ النو ر صفحہ 67۔ روحانی خزائن جلد16 صفحہ 408)
(ب) ’’حضرت اقدس امام الزمان سلّمہ الرحمان کو اللہ کریم نے وعدہ دیا ہے کہ
مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہونچاؤں گا
مَیں2دیکھتا ہوں کہ اس مقدس الہام کے پورا ہونے کی بہت سی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔‘‘
( الحکم جلد 2 نمبر 5،6 مؤرخہ 27؍مارچ و2؍اپریل 1898ء صفحہ 13)
و
(الحکم جلد 2 نمبر 24،25 مؤرخہ 20،27؍اگست 1898ء صفحہ 14 )
21 جنوری 1898ء
’’مَیں نے تہجد میں اس3 کے متعلق دعا کی تو الہام ہوا۔
اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ۔
اب خیال ہوتا ہے کہ وہ الہام4 جو ہوا تھا کہ
کون کہہ سکتا ہے ، اے بجلی ! آسمان سے مت گر
شاید اسی سے متعلق ہو۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر 27 مؤرخہ 24؍جولائی 1901ء صفحہ 1)
1 (ترجمہ از مرتب) میرے ربّ نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دیگا یہاں تک کہ میرا کلام مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا۔ اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے۔
2 یعنی ایڈیٹر الحکم (مرتب)
3 یعنی طاعون کے متعلق (مرتب)
4 نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ اس الہام کے نزول کی تاریخ 14؍جنوری ہے۔ دیکھو اصحاب ِ احمدؐ صفحہ ج2؍525 (مرتب)
1898ء
(الف) ’’ (ا) 1اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ (2) اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ۔(3) اِنِّیْ مَعَ الرَّحْمٰنِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ (4) اِنَّ اللّٰہَ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْن۔‘‘
(خط مولوی عبدالکریم صاحب ؓ محررہ یکم فروری 1898ء۔ اخبار البدر جلد 11نمبر 4،5 مؤرخہ 16؍نومبر 1911ء صفحہ 3)
(ب) ’’مجھے اس2 سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا۔ اور وہ یہ ہے:۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ اِنَّہٗٓ اٰوَی الْقَرْیَۃَ
یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیّت دور نہ ہو تب تک ظاہری وباء بھی دُور نہیں ہوگی۔‘‘
(اشتہار ’’طاعون‘‘ مؤرخہ 6؍فروری 1898ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ5)
(ج) ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ اِنَّہٗٓ اٰوَی الْقَرْیَۃَ۔
یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دُور نہیں کریگا۔ جب تک لوگ اُن خیالات کو دُور نہ کرلیں جو اُن کے دلوں میں ہیں یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دُور نہیں ہوگی اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تاتم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ5 مطبوعہ اپریل 1902ء۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ225)
2 فروری 1898ء
’’ آج تیسرا روز ہے ، الہام ہوا کہ
یَوْمَ3 تَاْتِیْکَ الْغَاشِیَۃُ یَوْمَ تَنْجُوْ کُلُّ نَفْسٍم بِّمَا کَسَبَتْ۔ یَوْمَ نَجْزِیْ کُلَّ نَفْسٍ بِّمَا کَسَبَتْ۔‘‘
(از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ محررہ 4؍فروری 1898ء مندرجہ الحکم جلد 2 نمبر 2مؤرخہ 6؍ مارچ 1898ء صفحہ 10)
1 (ترجمہ از مرتب) (1) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا۔ جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں۔ جو اُن کے نفسوں میں ہے۔(2) وہ اس بستی کو کچھ تکلیف کے بعد پناہ میں لے لیگا۔ (3) مَیں رحمان کے ساتھ تیرے پاس اچانک آنے کو ہوں۔ (4) اللہ تعالیٰ کافروں کے منصوبوں کو توڑنے والا ہے ۔
2 یعنی طاعون کے سیاہ پودوں والی رؤیا۔ جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) ایک خوفناک ، اور گھیر لینے والا وقت آنے والا ہے۔ اس وقت ہر ایک شخص اپنے اعمال کے مطابق نجات پائے گا اس وقت ہم ہر شخص کو اس کے اعمال کے موافق جزا دیں گے۔
6 فروری 1898ء
’’ آج جو 6؍فروری 1898ء روز یکشنبہ ہے۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگارہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں۔ مَیں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب مُلک میں پھیلنے والی ہے۔ میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے یہ کہا کہ آیندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد کے جاڑے میں پھیلے گا لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو مَیں نے دیکھا۔‘‘
(اشتہار ’’طاعون ‘‘ مؤرخہ 6؍فروری 1898ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 5 ایام الصلح صفحہ121۔ روحانی خزائن جلد4 صفحہ 361)
(ب) ’’ جب یہ پیشگوئی 6؍فروری 1898ء میں شائع ہوئی تب پنجاب میں صرف دو ضلعے آلودہ تھے مگر بعد اس کے پنجاب کے 23 ضلعے اس مرض سے آلودہ ہوگئے اور پونے دس ماہ میں تین لاکھ سولہ ہزار کیس ہوئے اور دو لاکھ اٹھارہ ہزار سات سو ننانوے فوتیاں ہوئیں۔ دیکھو سرکاری نقشہ جات۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 153،154۔ روحانی خزائن جلد18۔ صفحہ 531۔532 حاشیہ)
فروری 1898ء
’’ مجھے ایک رُوحانی طریق سے معلوم ہوا ہے کہ اس1مرض اور مرض خارش کا مادہ ایک ہی ہے اور مَیں گمان کرتا ہوں کہ غالباً یہ بات صحیح ہوگی۔ کیونکہ مرض جرب یعنی خارش میں ایسی دوائیں مفید پڑتی ہیں جن میں کچھ پارہ کا جزو ہو یا گندھک کی آمیزش ہو۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی دوائیں اس مرض کے لئے بھی مفید ہوسکیں اور جبکہ دونوں مرضوں کا مادہ ایک ہے تو کچھ تعجب نہیں کہ خارش کے پیدا ہونے سے اس مرض میں کچھ کمی پیدا ہوجائے۔ یہ روحانی قواعد کا ایک راز ہے۔ جس سے مَیں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر تجربہ کرنیوالے اس امر کی طرف توجہ کریں اور ٹیکہ لگانے والوں کی طرح بطور حفظ ِ ماتقدم ایسے ملک کے لوگوں میں جو خطرہ طاعون میں ہوں خارش کی مرض پھیلادیں تو میرے گمان میں ہے کہ وہ مادہ اس راہ سے تحلیل پاجائے اور طاعون سے امن رہے مگر حکومت اور ڈاکٹروں کی توجہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے مَیں نے محض ہمدردی کی راہ سے اس امر کو لکھ دیا ہے کیونکہ میرے دل میں یہ خیال ایسے زور کے ساتھ پیدا ہوا جس کو مَیں روک نہیں سکا۔‘‘ (ایام الصلح صفحہ 120۔121۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ 360)
25 مارچ 1898ء
’’ مَیں نے جو اپنی نسبت خوابیں اور الہامات دیکھے مَیں اُن سے حیران ہوں۔ دو مرتبہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا مجھے مرض طاعون ہوگئی ہے اور ورم طاعون نمودار ہے۔ اب آج بھی یہی خواب
1 یعنی مرض طاعون۔ (مرتب)
آئی ہے۔ اسی کے قریب قریب ایک الہام بھی ہے جو کسی رنج اور بلا پر دلالت کرتا ہے اور معبّرین نے طاعون سے مراد کبھی تو طاعون اور کبھی خارش اور حکام کی طرف سے کوئی عذاب و تکالیف ، اور کبھی کوئی اور فتنہ رنجدِہ مراد لیا ہے۔ معلوم نہیں کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہے۔‘‘
(مکتوب 25؍مارچ 1898ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 13)
1898ء
’’جب کتاب اُمہات المؤمنین عیسائیوں کی طرف سے شائع ہوئی تو انجمن حمایت اسلام لاہور کے ممبروں نے گورنمنٹ میں اس مضمون کا میموریل بھیجا۔ کہ اس مضمون کی اشاعت بند کی جائے اور مصنف سے باز پرس ہو۔ مگر مَیں اُن کے میموریل کے سخت مخالف تھا اور مَیں نے اپنی تحریر1 میں صاف طور پر شائع کیا تھا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ مگر اُن لوگوں نے میری صلاح کو قبول نہ کیا بلکہ بد گوئی کی۔ اسی اثنا میں مجھے الہام ہوا کہ
سَتَذْکُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَکُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ
یعنی عنقریب تمہیں یہ بات میری یاد آئے گی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ تمہیں اپنے میموریل میں ناکامی رہے گی اور جس امر کو مَیں نے اختیار کیا ہے یعنی مخالفین کے اعتراضات کو ردّکرنا اور ان کو جواب دینا، اس امر کو مَیں خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔ یہ الہام قبل از وقت ایک گروہ کثیر کو سنایا گیا تھا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا یعنی انجمن کی وہ درخواست نامنظور ہوئی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 225،226۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 603،604)
1898ء
’’ مسیح اُس صدیق کو کہتے ہیں جس کے مَسَحْ یعنی چھونے میں خدا نے برکت رکھی ہو....اور اس کے مقابل پر مسیح اُس معہود دجّال کو بھی کہتے ہیں جس کی خبیث طاقت اور تاثیر سے آفات اور دہریت اور بے ایمانی پیدا ہو....یہی معنی ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں القاء کئے ہیں۔‘‘ (ایام الصلح صفحہ 59،60۔ روحانی خزائن جلد 14، صفحہ 294)
1898ء
(الف) ’’ مجھے ایک الہام میں یہ فقرات القاء ہوئے تھےکہ
یَامَسِیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا
میرےخیال میں ہے کہ عدوی سے مراد یہی طاعون ہے۔‘‘
(ایام الصلح صفحہ 109۔ روحانی خزائن جلد14۔ صفحہ 346)
1 دیکھو اشتہار 4؍مئی 1898ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ41 (مرتب)
(ب) ’’ یعنی اے مسیح جو خلقت کی بھلائی کے لئے بھیجا گیا۔ ہماری طاعون کے دفع کے لئے مدد کر۔‘‘
(ایام الصلح صفحہ 156۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ 403)
4 جولائی 1898ء
’’ جہاں براہین احمدیہ1میں اسرار اور معارف کے انعام کا اس عاجز کی نسبت ذکر فرمایا گیا ہے۔ وہاں احمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ یَآ اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ2۔ اور جہاں دنیا کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے ، وہاں عیسیٰ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ جیسا کہ میرے الہام میں براہین احمدیہ میں فرمایا۔ یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ3 ایسا ہی وہ الہام ہے جو فرمایا کہ مَیں تجھے برکت دُونگا، یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ یہ وہ سِرّ ہے جو مہدی اور عیسیٰ کے نام کی نسبت مجھ کو الہامِ الٰہی سے کھُلا۔ اور وہ پیر کا دن اور تیرھویں صفر 1316ھ تھا۔ اور جولائی 1898ء کی چوتھی تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا۔‘‘ (ایام الصلح صفحہ 151۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 398)
1898ء
’’ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دے دی ہے کہ بہت سے اس جماعت میں سے ہیں جو ابھی اس جماعت سے باہر اور خدا کے علم میں اس جماعت میں داخل ہیں۔ بار بار ان لوگوں کی نسبت یہ الہام ہوا ہے۔
یَخِرُّوْنَ سُجَّدًا۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ
یعنی سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا! ہمیں بخش کیونکہ ہم خطا پر تھے۔‘‘
(ایام الصلح صفحہ 177۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 426)
1898ء
’’آیندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا۔ وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے....دن بہت سخت ہیں....مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دُکھ کے
1 روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 517 حاشیہ
2 اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے۔
3 اے عیسیٰ! میں تجھے کامل اجربخشوں گا یا وفات دوں گا اوراپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا یا دُنیا سے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اورہم مشربوں کو حجت اوربرہاں اوربرکات کے رُو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔
(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 664،665۔ حاشیہ در حاشیہ)
دن ہیں ....مجھے اس بات کا خیال ہے کہ اس شورِ قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں۔‘‘
(مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحب۔ مؤرخہ 21؍جولائی 1898ء مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 87)
1898ء
’’یہ دوا 1حسب الہامِ الٰہی طیّار ہوئی ہے۔‘‘
(اشتہار ’’دوائے طاعون‘‘ مؤرخہ 23؍جولائی 1898ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 52 حاشیہ)
1898ء
’’ آپ کو وہ الہام یاد ہوگا
قادر ہے وہ بادشاہ ٹوٹا کام بناوے ۔‘‘
(مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ 26؍جولائی 1898ء مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 18)
یکم اگست 1898ء
’’ صبح کی نماز کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا کہ’’ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈاڑھ کا حصہ جو بوسیدہ ہوگئی ہے۔ اس کو مَیں نے منہ سے نکالا اور وہ بہت صاف تھا اور اُسے ہاتھ میں رکھا۔‘‘ پھر فرمایا کہ’’ خواب میں دانت اگر ہاتھ سے گرایا جاوے تو وہ مُنذر ہوتا ہے۔ ورنہ مُبَشِّر۔‘‘ (الحکم جلد 2نمبر 22،23 مؤرخہ 6،13؍اگست 1898ء صفحہ 16)
1898ء
’’ جب بعض مخالفین کی مخبری سے میرے پر ٹیکس لگانے کے لئے سرکار کی طرف سے مقدمہ ہوا اور میری طرف سے عذر داری کی گئی تو مَیں ایک دن چھوٹی مسجد میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آمد خرچ کا حساب کررہے تھے کہ مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہوئی اور اس میں دکھایا گیا کہ ہندو تحصیلدار بٹالہ جس کے پاس مقدمہ تھا، بدل گیا ہے اور اس کے عوض ایک اور شخص کرسی پر بیٹھا ہے جو مسلمان ہے اور اس کشف کے ساتھ بعض امور ایسے ظاہر ہوئے جو فتح کی بشارت دیتے تھے تب مَیں نے اُسی وقت یہ کشف حاضرین کو سنادیا جن میں ایک خوا جہ جمال الدین صاحب بی۔ اے انسپکٹر مدارس جموں و کشمیر تھے اور بہت سے جماعت کے لوگ تھے چنانچہ اس کے بعد ایسا ہوا کہ وہ تحصیلدار یکایک بدل گیا اور اس کی جگہ میاں تاج الدین صاحب تحصیلدار بٹالہ مقرر ہوئے جنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ اصل حقیقت کو دریافت کرلیا اور جو کچھ تحقیقات سے معلوم ہوا اس کی رپورٹ ڈکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور میں بھیج دی اور نیک اتفاق یہ ہوا کہ صاحب موصوف بھی زیرک اور انصاف پسند تھے۔ انہوں
1 یعنی تریاقِ الٰہی۔ (مرتّب)
نے لکھ دیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کا ایک شہرت یافتہ فرقہ ہے جن کی نسبت ہم بدظنّی نہیں کرسکتے یعنی جو کچھ عذر کیا گیا ہے وہ واقعی درست ہے۔ اس لئے ٹیکس معاف اور مسل داخل دفتر ہو1۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 228۔229۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 606،607)
1898ء
’’میری طبیعت کچھ ایسی واقع تھی کہ مَیں پوشیدہ رہنے کو بہت چاہتا تھا اور مَیں ملنے والوں سے تنگ آجاتا تھا اور کوفتہ خاطر ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ میرا باپ مجھ سے نومید ہوگیا اور سمجھا کہ یہ ہم میں ایک شب باش مہمان کی طرح ہے جو صرف روٹی کھانے کا شریک ہوتا ہے اور گمان کیا کہ یہ خلوت کا عادی ہے۔ اورلوگوں سے وسیع گھر کے ساتھ میل جول رکھنے والا نہیں سو وہ ہمیشہ مجھے اس عادت پر غضب سے اور تیز کاردوں سے ملامت کرتا اور مجھے دن رات اور ظاہر اور درپردہ دُنیا کی ترقی کے لئے نصیحت کیا کرتا تھا اور دُنیا کی آرائشوں کی طرف رغبت دیتا تھا اور میرا دل خدا کی طرف کھنچا جارہا تھا اور ایسا ہی میرا بھائی مجھے پیش آیا اور وہ اِن باتوں میں میرے باپ سے مشابہ تھا۔ پس خدا نے اِن دونوں کو وفات دی اور زیادہ دیر تک زندہ نہ رکھا اور اُس نے مجھے کہا کہ ایسا 2ہی کرنا چاہئے تھا تا تجھ سے خصومت کرنے والے باقی نہ رہیں اور اُن کا الحاح تجھ کو ضرر نہ کرے۔‘‘
(نجم الہدیٰ طبع اوّل صفحہ 10۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ 51،52)
3 ستمبر1898ء
(الف) الہام جو حضرت اقدس کو 3؍ستمبر 1898ء کو ہوا۔ اور جو جناب نے مسجد مبارک میں لکھوا کر چسپاں کردیا ہے۔
’’ غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَہٗ دَفَعَ اِلَیْہِ مِنْ مَّالِہٖ دَفْعَۃً۔‘‘
(الحکم جلد 2 نمبر 26،27۔مؤرخہ 6،13؍ستمبر 1898ء صفحہ 14)
(ب) ’’چند ہفتہ ہوئے ہیں مجھے الہام ہوا تھا۔
غَثَمَ لَہٗ۔ دَفَعَ اِلَیْہِ مِنْ مَّالِہٖ دَفْعَۃً۔ 3
1 بتاریخ 17؍ستمبر 2898ء انکم ٹیکس معاف کیا گیا۔ (مرتب)
2 عربی میں الہام کی عبارت یہ ہے:۔ ’’کَذَالِکَ لِئَلَّایَبْقٰی مُنَازِعٌ فِیْکَ وَلَایَضُرُّکَ اِلْحَاحُ الْاَغْیَارِ۔‘‘
(نجم الہدیٰ حصہ عربی صفہ 10۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ 52)
3 لسان العرب میں ہے۔ غَثَمَ لَہُ مِنَ الْمَالِ غَثْمَۃً۔ اِذَا دَفَعَ لَہٗ دَفْعَۃً۔ اوراقرب الموارد میں ہے۔ غَثَمَ لَہٗ :دَفَعَ لَہٗ دَفْعَۃً مِّنَ الْمَالِ جَیِّدَۃً ۔ اسلئے الہام کا ترجمہ ہوا۔ اُس نے اپنے مال میں سے اس کیلئے بہت سا حصہ ایک ہی بار الگ کردیا۔ (مرتب)
اس میں تفہیم یہ ہوئی تھی کہ کوئی شخص کسی مطلب کے حصول پر بہت سا حصہ اپنے مال میں سے بطور نذر بھجوائے گا۔ مَیں نے اس الہام کو اپنی کتاب میں لکھ لیا تھا بلکہ اپنے گھر کے قریب دیوار پر مسجد کی ، نہایت خوشخط یہ الہام لکھ کر چسپاں کردیا۔ اس الہام میں نہ کسی مدت کا ذکر ہے کہ کب ہوگا اور نہ کسی انسان کا ذکر ہے کہ کس شخص کو ایسی کامیابی ہوگی یا ایسی مسرت ظہور میں آئے گی۔‘‘
(مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ مؤرخہ 3؍اکتوبر 1898ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 20)
26ستمبر1898ء
’’ رات مَیں نے دیکھا کہ ایک بڑا پیالہ شربت کا پیا۔ اس کی حلاوت اس قدر ہے کہ میری طبیعت برداشت نہیں کرتی بایں ہمہ مَیں اس کو پئے جاتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال بھی گذرتا ہے کہ مجھے پیشاب کثرت سے آتا ہے، اتنا میٹھا اور کثیر شربت مَیں کیوں پی رہا ہوں۔ مگر اس پر بھی مَیں اُس پیالے کو پی گیا۔
شربت سے مراد کامیابی ہوتی ہے اور یہ اسلام اور ہماری جماعت کی کامیابی کی بشارت ہے۔‘‘
(الحکم جلد 2نمبر 28،29 مؤرخہ20 ،27؍ستمبر 1898ء صفحہ3)
1898ء
’’ مَیں امام الزّماں ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا۔ دیکھو مَیں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا۔‘‘ (ضرورۃ الامام صفحہ 26۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 497)
1898ء
’’ خدا نے ....مجھےبار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت ِ الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں۔‘‘ (ضرورۃ الامام صفحہ 31۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 502)
3اکتوبر1898ء
’’ صبح کو بعد نماز فجر فرمایا کہ
رات کو بعد تہجد لیٹ گیا ، تھوڑی سی غنودگی کے بعد دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کے چار ورق ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ آریہ لوگ اب خود اس کتاب کو چھپوا رہے ہیں۔‘‘ (الحکم جلد 2 نمبر 30مؤرخہ 8؍اکتوبر 1898ء صفحہ 6)
14اکتوبر 1898ء
’’ 14؍اکتوبر 1898ء کو مولوی عبدالکریم صاحب ؓ سیالکوٹی خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ دَورانِ خطبہ فرمایا۔ بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے اُن پر خدا نے *** کی، داؤد ؑ اور مسیح ؑابن ِ مریم کی زبان سے اور یہ اس لئے
ہوئی کہ وہ حدِّ اعتدال سے بڑھ نکلے اور نافرمانی کے لئے تجاوز کرگئے۔ بنی اسرائیل کا ایسا حال ہوگیا تھا کہ نہی عن المنکر اور امر بالمعروف قطعاً چھوڑ دیا تھا۔ چھوٹے بڑوں کی شرارتوں پر اور بڑے چھوٹوں کی شیطنتوں پر رضامند ہوگئے تھے۔ اس لئے مسیحؑ اور داؤد ؑ کی لسان سے اُن پر *** برسی....اب پھر وقت آیا ہے کہ دنیا میں سُوکھے ہوئے درخت ہَرے ہوں۔ خدا تعالیٰ کے فضل کی بارش ہورہی ہے۔ زمانہ کا امام آیا ہے۔ جو ابن ِ مریم کے نام سے آیا ہے اور اس کو داؤد بھی کہا گیا ہے۔ پس بڑی ضروری اور خطرناک بات ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اس کے مقابلہ میں گندی اور ناپاک کوششیں کرنے والے اور اس سے منہ پھیرنے والے اُس *** کے نیچے آجاویں، جو داؤد ؑ اور مسیح ابن ِ مریم کی زبان سے ہوئی۔‘‘
جس وقت مولانا نے یہ فقرہ (خط کشیدہ) فرمایا اسی وقت حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا کہ
’’ یہ *** ابھی وزیر آباد میں برسی ہے۔‘‘
(الحکم جلد 2 نمبر 32 مؤرخہ 22؍اکتوبر 1898ء صفحہ ب؍5)
4نومبر1898ء
’’ آج 4؍نومبر 1898ء میں خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک شخص روپیہ بھیجتا ہے۔ مَیں بہت خوش ہوا اور یقین رکھتا تھا کہ آج روپیہ صہ50 آئے گا۔چنانچہ آج ہی 4؍نومبر 1898ء کو آپ کا روپیہ صہ50 آگیا۔ فالحمدللہ ، وجزاکم اللہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپیہ بھیجنا درگاہِ الٰہی میں قبول ہے۔‘‘
(از مکتوبات بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مکتوب مؤرخہ 4؍نومبر 1898ء بروز جمعہ)
1898ء
’’ مَیں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ1 کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھا تھا۔ ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کرسکتا۔مجھے اندیشہ تھا۔ آخر اس کا یہ پہلو ظاہر ہوا۔ یہ تقدیر مبرم تھی جو ظہور میں آئی۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 92 مکتوب مؤرخہ 8؍نومبر 1898ء بنام نواب محمد علی خاں صاحبؓ )
15 نومبر1898ء
’’ 2 اِنِّیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ فَاصْبِرْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ۔ جَزَآئُ سَیِّئَۃٍ بِّمِثْلِھَا۔ وَتَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ۔ مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ۔ فَاصْبِرْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ
1 یعنی نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ پس تم صبر کرو اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرے۔ برائی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا۔ اور ان لوگوں پر ذلّت طاری ہوگی۔ اللہ (کے عذاب) سے انہیں کوئی نہیں بچاسکے گا۔ پس تم صبر کرو اس
بَاَمْرِہٖ اِنِّیْ مَعَکُمْ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ اِنِّیْ مَعَکُمَا اَسْمَعُ وَاَرٰی۔‘‘
(تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب 1)
’’ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔ اِنَّہٗ طَیِّبٌ مَّقْبُوْلُ الرَّحْمٰنِ۔ اِتَّقِ اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْخَآ ئِفِیْنَ1۔‘‘
(تحریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب)
16 نومبر1898ء
’’ اِنِّیْ مَعَ الْغَفَّارِ۔ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً3۔‘‘
(تحریر ات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب)
20 نومبر 1898ء
(الف) الہام محمد علی خان بَاَیِّ عَزِیْزٍ بَعْدَہٗ تَعْلَمُوْنَ
مولوی محمد علی4 خدا میرا بھی گنہ بخشے
(تحریر حضرت مسیح موعود علیہ والسلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب)
(ب) ’’ یہ رات جو پیر کی گذری ہے اس میں غالباً تین بجے کے قریب آپ5کی نسبت مجھے الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے:۔
فَبِاَیِّ عَزِیْزٍ بَعْدہٗ تَعْلَمُوْنَ۔
یہ اللہ جل شانہٗ کا کلام ہے۔ وہ آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اس حادثہ کے بعد اور کونسا بڑا حادثہ ہے جس سے تم عبرت پکڑو گے۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام نواب محمد علی خان صاحب مؤرخہ 22؍نومبر 1898ء مندرجہ الحکم جلد 7 نمبر 36 مؤرخہ 30؍ستمبر 1903ء صفحہ 5)
21 نومبر1898ء
’’ شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی....نے اس راقم کی تحقیر اور توہین اور دُشنام دہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی....میرے بعض دوستوں نے کمال نرمی اور تہذیب سے شیخ صاحب موصوف سے یہ درخواست
وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرے۔ یقینا مَیں تمہارے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ یقینا مَیں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔
1 یہ رجسٹر خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے یہ رجسٹر وہی ہے جس کی دوسری طرف رشتہ کے لڑکوں اور لڑکیوں کے نام بھی درج ہیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں مغلوب ہوں۔ پس میری مدد کر۔ وہ پاک ہے۔ خدا کا مقبول ہے۔ اللہ سے ڈر۔ یقینا اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں خدائے غفّار کے ساتھ ہوں تیرے پاس اچانک آؤں گا۔
4 ان دونوں الہاموں کے سامنے یہ دو نام لکھے ہوئے ہیں۔ پہلا الہام جیسا کہ نواب محمد علی خان صاحب کے متعلق ہے۔ اسی طرح یہ دوسرا الہام مولوی محمد علی صاحب کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم ۔ (مرتب) 5 یعنی نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ۔ (مرتب)
کی تھی کہ .... آپ مُباہلہ کرکے تصفیہ کرلیں کیونکہ جب کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہوسکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے۔ جس کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اثر مُباہلہ کے لئے اس طرف سے ایک سال کی شرط ہے۔ اور یہ شرط الہام کی بنا پر ہے....شیخ محمد حسین نے ....بجائے اس کے کہ نیک نیتی سے مُباہلہ کے میدان میں آتا۔ یہ طریق اختیار کیا کہ ایک گندہ اور گالیوں سے پُر اشتہار لکھ کر محمد بخش جعفر زٹلّی اور ابوالحسن تبّتی کے نام سے چھپوا دیا۔
اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے۔ اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے دُعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے۔ اور وہ دُعا جو مَیں نے کی ہے ، یہ ہے کہ
’’اے میرے ذوالجلال پروردگار اگر مَیں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں۔ جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں بار بار مجھ کو کذّاب اور دجّال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ اور جیسا کہ اُس نے اور محمد بخش جعفر زٹلّی اور ابوالحسن تبّتی نے اس اشتہار میں جو 10؍نومبر 1898ء کو چھپا ہے میرے ذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا۔ تو اے میرے مولیٰ! اگر مَیں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل ہوں۔ تو مجھ پر تیرہ ماہ کے اندر یعنی پندرہ دسمبر 1898ء سے پندرہ جنوری 1900ء تک ذلّت کی مار وارد کر۔ اور اُن لوگوں کی عزت اور وجاہت ظاہر کر۔ اور اس روز کے جھگڑے کو فیصلہ فرما۔ لیکن اگر اے میرے آقا! میرے مولیٰ! میرے منعم ، میری اُن نعمتوں کے دینے والے جو تو جانتا ہے اور مَیں جانتا ہوں تیری جناب میں میری کچھ عزت ہے۔ تو مَیں عاجزی سے دُعا کرتا ہوں کہ ان تیرہ (13) مہینوں میں جو 15؍دسمبر 1898ء سے 15؍جنوری 1900ء تک شمار کئے جائیں گے۔ شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلّی او رتبّتی مذکور کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے، ذلّت کی مار سے دنیا میں رُسوا کر (یہ تیرہ مہینے خدا کے الہام سے معلوم ہوئے ہیں۔ یعنی سال پر ایک ماہ اورزیادہ ہے۔ منہ)
غرض اگر یہ لوگ تیری نظر سے سچے اور متّقی اور پرہیزگار اور مَیں کذّاب اور مفتری ہوں تو مجھے ان تیرہ مہینوں میں ذلّت کی مار سے تباہ کر اور اگر تیری جناب میں مجھے وجاہت اور عزت ہے تو میرے لئے یہ نشان ظاہر فرما کہ ان تینوں کو ذلیل اور رُسوا اور ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ کا مصداق کر۔ آمین ثم ّ آمین۔
یہ دُعا تھی جو مَیں نے کی۔ اس کے جواب میں یہ الہام ہوا۔
مَیں ظالم کو ذلیل اور رُسوا کروں گا۔ اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا۔1
(ہاتھ کاٹنے سے مراد یہ ہے کہ جن ہاتھوں سے ظالم نے جو حق پر نہیں ہے۔ ناجائز تحریر کا کام لیا۔ وہ ہاتھ اس کی حسرت
1 (نوٹ از مرتب) الہام میں یہ فقرہ بھی تھا کہ وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا۔‘‘ سو محمد حسین نے مجسٹریٹ ضلع کی ایک ہی دھمکی سے ہمیشہ کے لئے اس بات کا اقرار کرلیا کہ مَیں کبھی مرزا صاحب کو کافر اور دجّال اور کذّاب نہیں کہوں گا۔ حالانکہ وہ اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں عہد کرچکا تھا کہ مَیں اس شخص کو مرتے دم تک کافر اور دجّال کہتا رہونگا۔ یہی حال ابوالحسن تبّتی اور جعفر زٹلّی کا ہوا۔ اُن کی قلمیں بھی ایسی ٹوٹیں کہ پھر خبر ہی نہیں لگی کہ کہاں گئے۔‘‘
(مفصل دیکھو اشتہار 17؍دسمبر 1899ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 214 تا 217)
کا موجب ہوں گے اور افسوس کرے گا کہ کیوں یہ ہاتھ ایسے کام پر چلے۔منہ)
اور چند عربی الہامات ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔
1اِنَّ الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ سَیَنَا لُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ۔ ضَرْبُ اللّٰہِ اَشَدُّ مِنْ ضَرْبِ النَّاسِ۔ اِنَّمَآ اَمْرُنَآ اِذَآ اَرَدْنَا شَیْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ اَتَعْجَبُ لِاَمْرِیْ۔ اِنِّیْ مَعَ الْعُشَّاقِ۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَالْعُلٰی۔ وَیَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ۔ وَیُطْرَحُ بَیْنَ یَدَیَّ۔ جَزَآئُ سَیِّئَۃٍم بِّمِثْلِھَا۔ وَتَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ۔ مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ۔ فَاصْبِرْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔
یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ ان دونوں فریق میں سے جن کا ذکر اس اشتہار میں ہے۔ یعنی یہ خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلّی اور مولوی عبدالحسن تبّتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں ان میں سے جو کاذب ہے ، ذلیل ہوگا۔ یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بنا پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے ایک کھُلا کھُلا نشان ہوکر ہدایت کی راہ اُن پر کھولے گا.....
اور عربی الہامات کا خلاصہ مطلب یہی ہے کہ جو لوگ سچے کی ذلّت کیلئے بدزبانی کررہے ہیں اور منصوبے باندھ رہے ہیں۔ خدا اُن کو ذلیل کرے گا۔ اور میعاد پندرہ دسمبر 1898ء سے تیرہ مہینے ہیں جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے اور 14؍دسمبر1898ء تک جو دن ہیں وہ توبہ اور رجوع کے لئے مہلت ہے۔ فقط 2۔‘‘
(اشتہار 21؍نومبر 1898۔ مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 57 تا62۔ تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ 51۔55)
1 (ترجمہ از مرتب) جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ سے روک رہے ہیں۔ اُن پر ان کے ربّ کی طرف سے غضب نازل ہوگا۔ اللہ کی مار لوگوں کی مار سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ ہم جب کسی بات کا ارادہ کریں تو اس کے متعلق ہمارا حکم صرف یہ ہوتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے کیا تم میرے حکم پر تعجب کرتے ہو۔ مَیں عاشقوں کے ساتھ ہوتا ہوں۔ مَیں ہی ہوں رحمت کرنے والا۔ مجد اور بزرگی کا مالک۔ اور ظالم اپنے دونوں ہاتھ کاٹے گا۔ اور میرے سامنے پھینکا جائے گا۔ بدی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا اور ان لوگوں پر ذلّت طاری ہوگی۔ اللہ (کے عذاب) سے کوئی انہیں بچا نہیں سکے گا۔ پس تم صبر کرو۔ اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو نیکو کار ہوتے ہیں۔
2 ’’اشتہار 21؍نومبر 1898ء .............میں فریق ظالم اور کاذب کی نسبت یہ عربی الہام تھا۔ کہ جَزَآئُ سَیِّئَۃٍم بِّمِثْلِھَا وَتَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃ ُ ٗ ۔ یعنی جس قسم کی فریق مظلوم کو بدی پہنچائی گئی ہے۔ اُسی قسم کی فریق ظالم کو جزا پہنچے گی۔ سو آج یہ پیشگوئی کامل طور پر پوری ہوگی۔ کیونکہ مولوی محمد حسین نے بدزبانی سے میری ذلّت کی تھی۔ اور میرا نام کافر اور دجّال اور کذّاب اور ملحد رکھا تھا۔ اور یہی فتویٰ کفر وغیرہ کا میری نسبت پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں سے لکھوایا۔ اور اسی بنا پر محمد حسین مذکور کی تعلیم سے اور
21 دسمبر 1898ء
’’ آج صبح کے وقت مجھ کو یہ الہام ہوا۔
قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے
بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے
(مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مؤرخہ 21؍دسمبر 1898ء مکتوبات احمدیہ پنجم حصہ اوّل صفحہ 23)
31 دسمبر 1898ء
’’ فرمایا: رات یعنی 31؍دسمبر 1898ء شب کو الہام ہوا۔
اَلسُّھَیْلُ الْبَدْرِیُّ1
پھر فرمایا کہ سہیل وہ ستارہ ہے جس کو ولدُ الزِّنَا کُش بھی کہتے ہیں کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو تَکَوُّنی کیڑے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ابو الفضل نے اسی ستارے کی نسبت لکھا ہے۔
ولد الزنا کش آمد چوستارۂ یمانی
(الحکم جلد 3 نمبر 1۔مؤرخہ 10؍جنوری 1899ء صفحہ 6)
1898ء
’’ خوا جہ جمال الدین صاحب بی۔ اے جو ہماری جماعت میں داخل ہیں جب امتحانِ منصفی میں فیل ہوئے اور ان کو بہت ناکامی اور ناامیدی لاحق ہوئی اور سخت غم ہو تو اُن کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ
سَیُغْفَرُ
یعنی اللہ تعالیٰ اُن کے اس غم کا تدارک کرے گا۔ چنانچہ اس کے مطابق وہ جلد ریاست کشمیر میں ایک ایسے عہدہ پر ترقی یاب ہوئے جو عہدہ منصفی سے اُن کے لئے بہتر ہوا یعنی وہ تمام ریاست جموں کشمیر کے انسپکٹر مدارس ہوگئے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 213۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 591)
بقیہ حاشیہ: خود اس کے لکھوانے سے محمد بخش جعفر زٹلی لاہور وغیرہ نے گندے بہتان میرے پر اور میرے گھر کے لوگوں پر لگائے۔ سو اب یہی فتویٰ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں بلکہ خود محمد حسین کے اُستاد نذیر حسین نے اس کی نسبت دے دیا۔ یعنی یہ کہ وہ کذّاب اور دجّال اور مفتری اور کافر اور بدعتی اور اہل سنّت سے خارج بلکہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
(اشتہار 3؍جنوری 1899ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 92۔ مفصّل دیکھئے اشتہار 27؍دسمبر 1898ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ74 تا 78)
1 (ترجمہ از مرتب) سہیل ستارہ جو عرب علاقوں میں موسم گرما کے بعد ہونے والی بارشوں کے بعد طلوع ہوتا ہے۔
1898ء (قریباً1)
’’ ایک دفعہ ہمارے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں بہت خراب ہوگئی تھیں۔ پلکیں گر گئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا۔ آخر ہم نے دُعا کی تو الہام ہوا۔
بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ
یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔
اِس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی۔ اور آنکھیں بالکل تندرست ہوگئیں۔ اس سے پہلے کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا تھا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 230۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 608)
15جنوری 1899ء
’’ مَاکَانَ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ2۔‘‘
(تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ برورق ملحقہ کتاب تعطیرالانام 3)
18 جنوری 1899ء
’’ غِیْضَ الْمَآئُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ 4۔‘‘
(تحریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باوراق ملحقہ کتاب تعطیر الانام)
3 فروری 1899ء
(الف) ’’ مجھے 21 ؍رمضان المبارک 1316ھ جمعہ کی رات میں جس میں انتشارِ رُوحانیت مجھے محسوس ہوتا تھا اور میرے خیال میں تھا کہ یہ لیلتہ ُ القدر ہے اور آسمان سے نہایت آرام اور آہستگی سے مینہ برس رہا تھا، ایک رؤیاہوا۔ یہ رؤیااُن کے لئے ہے جو ہماری گورنمنٹ عالیہ کو ہمیشہ میری نسبت شک میں ڈالنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ کسی نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ اگر تیرا خدا قادر خدا ہے تو تُو اس سے درخواست کر کہ یہ پتھر جو تیرے سر پر ہے بھینس بن جائے۔ تب مَیں نے دیکھا کہ ایک وزنی پتھر میرے سر پر ہے جس کو کبھی مَیں پتھر اور کبھی لکڑی خیال کرتا ہوں۔ تب مَیں نے یہ معلوم کرتے ہی اس پتھر کو زمین پر پھینک
1 الہام کی یہ تاریخ تخمینی ہے۔ اور اس تاریخ کے لحاظ سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی عمر اس وقت پانچ سال کی بنتی ہے۔ حالانکہ آپ قریباً سات سال کی عمر تک آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا رہے۔ اس لئے الہام کی تاریخ غالباً 1900ء کے قریب بنتی ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) خدا ایسا نہیں کہ انہیں اس حال میں عذاب دے کہ تُو ان میں ہو۔
3 یہ کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) پانی خشک ہوگیا اور بات کا فیصلہ ہوا۔
دیا۔ پھر بعد اس کے مَیں نے جنابِ الٰہی میں دُعا کی کہ اس پتھر کو بھینس بنادیا جائے۔اور مَیں اس دُعا میں محو ہوگیا۔ جب بعد اس کے مَیں نے سَر اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پتھر بھینس بن گیا۔ سب سے پہلے میری نظر اُس کی آنکھوں پر پڑی اس کی بڑی روشن اور لمبی آنکھیں تھیں۔ تب مَیں یہ دیکھ کر کہ خدا نے پتھر کو جس کی آنکھیں نہیں تھیں۔ ایسی خوبصورت بھینس بنادیا۔ جس کی ایسی لمبی اور روشن آنکھیں ہیں اور خوبصورت اور مفید جاندار ہے۔ خدا کی قدرت کو یاد کرکے وجد میں آگیا۔ اور بلاتوقف سجدہ میں گرا۔ اور مَیں سجدہ میں بلند آواز سے خدا تعالیٰ کی بزرگی کا ان الفاظ سے اقرار کرتا تھا کہ:۔
رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ رَبِّیَ الْاَعْلٰی
اور اس قدر اُونچی آواز تھی کہ مَیں خیال کرتا ہوں کہ وہ آواز دُور دُور جاتی تھی تب مَیں نے ایک عورت سے جو میرے پاس کھڑی تھی جس کا نام بھانو1 تھا۔ اور غالباً اس دُعا کی اُس نے درخواست کی تھی یہ کہا کہ دیکھ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے جس نے پتھر کو بھینس بناکر آنکھیں عطا کیں اور مَیں یہ اُس کو کہہ رہا تھا۔ کہ پھر یکدفعہ خدا کی قدرت کے تصور سے میرے دل نے جوش مارا اور میرا دل اُس کی تعریف سے پھر دوبارہ بھر گیا اور پھر مَیں پہلی طرح وجد میں آکر سجدہ میں گر پڑا اور ہر وقت یہ تصور میرے دل کو خدا تعالیٰ کے آستانہ پر یہ کہتے ہوئے گراتا تھا کہ یا الٰہی ! تیری کیسی بلند شان ہے تیرے کیسے عجیب کام ہیں کہ تُو نے ایک بے جان پتھر کو بھینس بنادیا اُس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں جن سے وہ سب کچھ دیکھتا ہے اور نہ صرف یہی بلکہ اُس کے دودھ کی بھی امید ہے۔ قدرت کی باتیں ہیں کہ کیا تھا اور کیا ہوگیا۔ مَیں سجدہ میں ہی تھا کہ آنکھ کھُل گئی۔ قریباً اُس وقت رات کے چار بج چکے تھے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
مَیں نے اس کی یہ تعبیر2کی ہے کہ وہ ظالم طبع مخالف جو میرے پر خلاف واقعہ اور سراسر جھوٹ باتیں بنا کر گورنمنٹ تک پہنچاتے ہیں ، وہ کامیاب نہیں ہوں گے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خواب میں ایک پتھر کو بھینس بنادیا اور اُس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں۔ اسی طرح انجام کار وہ میری نسبت حُکّام کو بصیرت اور بینائی عطا کرے گا۔ اور وہ اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔ یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب۔‘‘
(حقیقۃ المہدی صفحہ 10،11۔ روحانی خزائن جل،14، صفحہ 443 تا445)
1 بھانو ایک عورت کا نام تھا جو بسراواں متصل قادیان کی رہنے والی تھی اور مخلص احمدی تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر اکثر آتی جاتی تھی۔ (مرتب)
2 ’’ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق ( جو پولیس نے مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف دائر کیا تھا۔ مرتب) یہ خواب ہے۔ کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے جس کا ارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہوجانا۔ اس کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پیدا ہوجائیں ، جن سے حاکم کی آنکھیں کھُل جائیں۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 5؍فروری 1899ء بنام چودھری رستم علی صاحب ؓ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ 156، 157)
(ب) ’’ اب فوجدار مقدمہ کی تاریخ 14؍فروری 1899ء ہوگئی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیت بخیر نہیں۔ جمعہ کی رات مجھے یہ خواب آئی ہے کہ ایک لکڑی یا پتھر کو مَیں نے جنابِ الٰہی میں دعا کرکے بھینس بنا دیا ہے اور پھرا س خیال سے کہ ایک بڑا نشان ظاہر ہوا ہے۔ سجدہ1میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں۔رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ رَبِّیَ الْاَعْلٰی ۔ میرے خیال میں ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ لکڑی اور پتھر سے مراد وہی سخت دل اور منافق طبع حاکم ہو اور پھر میری دُعا سے اس کا بھینس بن جانا، اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ہمارے لئے ایک مفید چیز بن گئی ہے۔ جس کے دُودھ کی اُمید ہے۔ اگر یہ تاویل درست ہے تو امید قوی ہے کہ مقدمہ پلٹا کھا کر نیک صورت پر آجائے گا اور ہمارے مفید ہوجائے گا اور سجدہ کی تعبیر یہ لکھی ہے کہ دشمن پر فتح ہو۔ الہامات بھی اس کے قریب قریب ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس خواب کے ظہور کا محل کوئی اَور ہو۔ بہرحال ہمارے لئے بہتر ہے خواہ کسی پیرایہ میں ہو۔‘‘
(ماخوذ از مکتوب قلمی بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ؓ مؤرخہ 5؍فروری 1899ء)
1899ء
’’ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپو رکے پاس میری نسبت بہ نیت سزا دلانے کے فوجداری میں ایک مقدمہ پولیس نے بنایا تھا اور اُس کی نسبت خدا تعالیٰ نے مجھے بتلایا کہ ایسی کوشش کرنے والے نامراد رہیں گے چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا۔
اِنَّا تَجَالَدْنَا فَانْقَطَعَ الْعَدُوُّ وَاَسْبَا بُہٗ
یعنی ہم نے تلوا کے ساتھ جنگ کیا۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن ہلاک ہوگیا اور اُس کےاسباب بھی ہلاک ہوئے۔ اس جگہ دشمن سے مراد ایک ڈپٹی انسپکٹر ہے جس نے ناحق عداوت سے مقدمہ بنایا تھا ۔ آخر طاعون سے ہلاک ہوا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 217۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 227)
1899ء
’’ اس2کے بعد جو مجھے الہام ہوئے وہ اسی رؤیاکے مؤ یّد ہیں۔ وہ بھی ذیل میں لکھتا ہوں۔ تاکہ اُس آخری وقت میں جب یہ باتیں پوری ہوں ، لوگوں کے ایمان قوی ہوں.... اور الہامات جو اس خواب کے مؤ یّد ہیں یہ ہیں:۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْاوَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ اَنْتَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔ اَنْتَ مَعِیْ یَآ اِبْرَاھِیْمُ یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ یَآ اَرْضُ ابْلَعِیْ
1 سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے
( مکتوب بنام چودھری رستم علی خان صاحب ؓ مؤرخہ 5؍فروری 1899ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد 5 نمبر 3 صفحہ 157)
2 یعنی مندرجہ بالا خواب نمبر 3فروری 1899ء ص273 (مرتب)
مَآئَ کِ ۔ غِیْضَ1الْمَآئُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ۔ سَلَامٗ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔ وَامْتَا زُوا الْیَوْمَ اَیُّھَالْمُجْرِمُوْنَ۔ اِنَّا تَجَا لَدْنَا فَانْقَطَعَ الْعَدُوُّ وَ اَسْبَابُہٗ۔ وَیْلٌ لَّھُمْ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ۔ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیُوْثَقُ۔ وَاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَبْرَارِ۔ وَاِنَّہٗ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ۔ اِنَّہٗ مِنْ اٰیَۃِ اللّٰہِ وَ اِنَّہٗ فَتْحٌ عَظِیْمٌ۔ اَنْتَ اِسْمِیَ الْاَعْلٰی۔ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ مَحْبُوْبِیْنَ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
یعنی خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے اور تُو پرہیزگاروں کے ساتھ ہے اور تو میرے ساتھ ہے اے ابراہیم۔ میری مدد تجھے پہنچے گی۔ مَیں رحمان ہوں۔ اےزمین اپنے پانی کو یعنی خلافِ واقعہ اور فتنہ انگیز شکایتوں کو جو زمین پر پھیلائی گئی ہیں۔ نِگل جا۔ پانی خشک ہوگیا اور بات کا فیصلہ ہوا۔ تجھے سلامتی ہے۔ یہ ربِّ رحیم نے فرمایا اور اے ظالمو! آج تم الگ ہوجاؤ۔ ہم نے دشمن کو مغلوب کیا اور اس کے تمام اسباب کاٹ دیئے۔ ان پر واویلا ہے۔ کیسے افترا کرتے ہیں۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا اور خدا نیکوں کے ساتھ ہوگا۔ وہ اُن کی مدد پر قادر ہے۔ مونہہ بگڑیں گے۔ خدا کا یہ نشان ہے اور یہ فتح عظیم ہے۔ تو میرا وہ اسم ہے جو سب سے بڑا ہے اور تُو محبوبین کے مقام پر ہے۔ مَیں نے تجھے اپنے لئے چُنا کہہ مَیں مامور ہوں اور تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘ (حقیقۃ المہدی صفحہ 12، 13 طبع اوّل۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ446)
1899ء
’’ وہ مقدمہ جو منشی محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ کی رپورٹ کی بناء پر دائر ہوکر عدالت مسٹر ڈوئی صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپور میں میرے پر چلایا گیا تھا ....اس مقدمہ کے انجام سے خدا تعالیٰ نے پیش از وقت مجھے بذریعہ الہام خبر دے دی کہ وہ مجھے آخر کار دشمنوں کے بد ارادے سے سلامت اور محفوظ رکھے گا۔ اور مخالفوں کی کوششیں ضائع جائیں گی۔
سو ایسا ہی وقوع میں آیا.....قبل اس کے جو یہ مقدمہ دائر ہو۔ مجھے خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے اطلاع دی تھی کہ تم پر ایسا مقدمہ عنقریب ہونے والا ہے اور اس اطلاع پانے کے بعد مَیں نے دُعا کی اور وہ دُعا منظور ہوکر آخر میری بریّت ہوئی اور قبل انفصال مقدمہ کے یہ الہام بھی ہوا کہ
تیری عزت اور جان سلامت رہے گی اور دشمنوں کے حملے جو اسی بد غرض کے لئے ہیں۔ اُن سے تجھے بچایا جائے گا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 79۔ طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 309)
1 اس الہام کی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلم مبارک سے تحریر فرمودہ کتاب تعطیر الانام کے حاشیہ پر 18؍جنوری 1899ء درج ہے یہ کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتب)
1899ء
’’ ظہر کی نماز کا وقت تھا کہ یک دفعہ مجھے الہام ہوا کہ
تَرٰی فَخِذًا اَلِیْمًا
یعنی تُو ایک دردناک ران دیکھے گا۔ تب مَیں نے یہ الہام اس1کو سنایا۔ اور پھر بعد اس کے بلا توقف مَیں نماز کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہونے لگا اور وہ بھی میرے ساتھ ہی زینہ پر سے اُترا۔ جب ہم زینہ پر سے اُتر آئے تو دو گھوڑوں پر دو لڑکے سوار دکھائی دیئے جن کی عمر بیس برس کے اندر اندر ہوگی اور ایک کچھ چھوٹا اور ایک بڑا۔ وہ سوار ہونے کی حالت میں ہی ہمارے پاس آکر ہمارے پاس کھڑے ہوگئے اور ایک نے ان میں سے مجھ کو کہا کہ یہ دوسرا سوار میرا بھائی ہے اور اس کی ران میں سخت درد ہورہا ہے اس کا کوئی علاج پوچھنے آئے ہیں۔ تب مَیں نے حامد علی کو کہہ دیا کہ گواہ رہ کہ یہ پیشگوئی دو تین منٹ میں ہی پوری ہوگئی۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 32،33 طبع اوّل۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 196،197)
10 مارچ 1899ء
فرمایاکہ ’’ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ 2سلمہا اللہ پنجابی زبان میں بول رہی ہے کہ
مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی۔ ‘‘
(الحکم جلد 7 نمبر 21 مؤرخہ10؍جون 1903ء صفحہ2)
13 اپریل 1899ء
’’13؍اپریل 1899ء کو یہ الہام ہوا۔
اِصْبِرْ مَلِیًّا سَاَھَبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیًّا
یعنی کچھ تھوڑا عرصہ صبر کر کہ مَیں تجھے ایک پاک لڑکا عنقریب عطا کروں گا اور یہ پنجشنبہ کا دن تھا اور ذی الحج 1316ھ کی دوسری تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا اور اس الہام کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا
رَبِّ اَصِحَّ زَوْجَتِیْ ھٰذِہٖ
یعنی اے میرے خدا! میری اس بیوی کو بیمار ہونے سے بچا اور بیماری سے تندرست کر۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس بچہ کے پیدا ہونے کے وقت کسی بیماری کا اندیشہ ہے3۔ سو اس الہام کو مَیں نے اس تمام جماعت کو سنادیا جو میرے پاس قادیان میں موجود تھے۔ اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے بہت سے خط لکھ کر
1 یعنی شیخ حامد علی کو۔ (مرتب) 2 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صا حبہ۔ (مرتب)
3 بچہ پیدا ہونے کے بعد جیسا کہ الہام کا منشا تھا۔ میری بیوی بیمار ہوگئی۔ چنانچہ اب تک بعض عوارض مرض موجود ہیں۔ اور اعراض شدیدہ سے بفضلہ تعالیٰ صحت ہوگئی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 41 حاشیہ۔ طبع اوّل۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 217)
اپنے تمام معزز دوستوں کو اس الہام سے خبر دی۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 41 طبع اوّل۔ رُوحانی خزائن جلد15 صفحہ 216، 217)
19مئی 1899ء
’’ 1 اِ نَّا لَنَعْلَمُ الْاَمْرَ وَ اِنَّا عَالِمُوْنَ سَیُبْدَی الْاَمْرُ وَنَنْسِفَنَّ نَسْفًا۔‘‘
(از خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ۔ مندرجہ الحکم جلد 3 نمبر22 مؤرخہ 23؍جون 1899ء صفحہ 8)
13جون 1899ء
(الف) ’’جب 13؍جون 1899ء کا دن چڑھا جس پر الہام2مذکورہ کی تاریخ کو جو 13؍اپریل 1899ء کو ہوا تھا۔ پورے دو مہینے ہوتے تھے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسی لڑکےکی مجھ میں رُوح بولی اور الہام کے طور پر یہ کلام اس کا مَیں نے سنا۔
اِنِّیْٓ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ
یعنی اَب میرا وقت آگیا اور مَیں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا اور پھراُسی کی طرف جاؤں گا.... اور پھر بعد اس کے 14؍جون 1899ء کو وہ پیدا ہوا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 41۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 217)
(ب)’’ مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ مَیں تجھے ایک اَور لڑکا دوں گا اور یہ وہی چوتھا لڑکا ہے جو اَب پیدا ہوا ہے۔ جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور اس کے پیدا ہونے کی خبر قریباً دو برس3پہلے مجھے دی گئی اور پھر اس وقت دی گئی کہ جب اس کے پیدا ہونے میں قریباً دو مہینے رہتے تھے اور پھر جب یہ پیدا ہونے کو تھا یہ الہام ہوا۔
اِنِّیْٓ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ
یعنی مَیں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں اور خدا ہی کی طرف جاؤں گا۔ مَیں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ لڑکا نیک ہوگا اور رُو بخدا ہوگا اور خدا کی طرف سے اس کی حرکت ہوگی اور یا یہ کہ جلد فوت4 ہوجائے گا۔ اس بات کا علم خدا تعالیٰ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادہ کے موافق ہے۔ ‘‘(تریاق القلوب صفحہ40۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 213،214)
1 (ترجمہ از مرتب) ہم اصل بات جانتے ہیں۔ اور بے شک ہم جاننے والے ہیں۔ وہ بات عنقریب ظاہر کردی جائے گی۔ اور یقینا ہم ذرّہ ذرّ کرکے اُڑادیں گے۔
2 یعنی الہام 13اپریل 1899ء (مرتّب)
3 ایک رنگ میں اس پسر چہارم کا وعدہ اس کے ظہور کے چودہ برس پہلے بھی دیا گیا تھا دیکھئے الہام 1885ء (مرتب)
4 چنانچہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد بچپن میں ہی 16؍ستمبر 1907ء کو وفات پاگیا۔ (مرتب)
جون 1899ء
’’ پھر اس1 کے بعد الہام ہوا۔
کَفٰی ھٰذَا 2‘‘
(خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد 3 نمبر 23 مؤرخہ 30؍جون 1899ء صفحہ7)
14جون 1899ء
’’ یرے گھر میں جو ایامِ اُمید تھے۔ 14؍ جون کو اوّل دردِ زہ کے وقت ہولناک حالت پیدا ہوگئی یعنی بدن تمام سرد ہوگیا اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اس وقت مَیں نے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دُنیا کو الوداع کہتی ہے۔ بچوں کی سخت دردناک حالت تھی ارو دوسرے گھر میں رہنے والی عورتیں اور اُن کی والدہ تمام مُردہ کی طرح اور نیم جان تھے کیونکہ ردّی علامتیں یکدفعہ پیدا ہوگئی تھیں۔ اس حالت میں اُن کا آخری دم خیال کرکے اور پھر خدا کی قدرت کو مظہر العجائب یقین کرکے اُن کی صحت کے لئے مَیں نے دُعا کی یکدفعہ حالت بدل گئی اور الہام ہوا۔
تَحْوِیْلُ الْمَوْتِ
یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا۔ اور دوسرے وقت پر ڈال دیا۔ اور بدن پھر گرم ہوگیا۔ اور حواس قائم ہوگئے۔ اور لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 26 مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی
و تشحیذ الاذہان جلد 3 نمبر 2،3 صفحہ 16 بابت فروری و مارچ 1908ء)
17 جون 1899ء
’’رؤیا۔ حضرت اقدس کیا دیکھتے ہیں کہ آگ اور دھوآں ہے اور چنگاڑیاں اُڑ کر آپ کی طرف آتی ہیں۔ مگر ضرر نہیں دیتیں۔ اس حال میں آپ یہ پڑھ رہے ہیں۔
’’ 3 یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ اِنَّ رَبِّیْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔‘‘
(منقول از خط مولانا عبدالکریم مؤرخہ 23؍جون 1899ء ۔ مندرجہ الحکم جلد3 نمبر 22 مؤرخہ 23؍جون 1899ء صفحہ 8)
25جون 1899ء
’’ مَیں نے دو روز ہوئے کہ یاکم و بیش آپ 4 کو خواب میں دیکھا تھا۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 27؍جون 1899ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراستی۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر 5 حصہ اوّل صفحہ 27)
1 یعنی الہام اِنِّیْٓ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ کے بعد۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) یہ کافی ہے۔ (نوٹ از مرتب) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اب آپ کے ہاں کوئی اور نرینہ بچہ پیدا نہ ہوگا۔
3 (ترجمہ از مرتب) اے حیّ اے قیّوم! مَیں تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں۔ یقینا میرا ربّ آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے ۔ (مرتب)
4 یعنی سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ (مرتب)
1899ء
’’ جو شخص تیری پَیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔‘‘
(از خط حضرت اقدس ؑ بنام بابو الٰہی بخش صاحب 16؍جون 1899۔
مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 275۔دیکھئے تبلیغ رسالت جلد نہم صفحہ 27)
30 جون 1899ء
’’30؍جون 1899ء میں مجھے یہ الہام ہوا۔
پہلے بیہوشی ۔ پھر غشی۔ پھر موت۔
ساتھ ہی اس کے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا اور الحکم 30؍جون1899ء میں درج ہوکر شائع کیا گیا۔
پھر آخر جولائی 1899ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست یعنی ڈاکٹر محمد بوڑے خاں اسسٹنٹ سرجن ایک ناگہانی موت سے قصوؔرمیں گذر گئے۔ اوّل بیہوش رہے پھر یکدفعہ غشی طاری ہوگئی۔ پھر اس ناپائیدار دنیا سے کوچ کیا اور اُن کی موت اور اس الہام میں صرف بیس بائیس دن کا فرق تھا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 213، 214۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 223، 224)
1899ء
’’ صبح حضرت اقدس ؑ کو یہ رؤیاہوئی ہے کہ حضرت ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند سلمہا اللہ تعالیٰ گویا حضرت اقدس کے گھر میں رونق افروز ہوئی ہیں۔ حضرت اقدس رؤیامیں عاجز راقم عبدالکریم کو جو اُس وقت حضور اقدس کے پاس بیٹھا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ملکہ معظّمہ کمال شفقت سے ہمارے ہاں قدم رنجہ فرما ہوئی ہیں اور دو روز قیام فرمایا ہے ان کا کوئی شکریہ بھی ادا کرنا چاہئے۔ اس رؤیاکی تعبیر یہ تھی کہ حضرت کے ساتھ کوئی نصرتِ الٰہی شامل ہوئی چاہتی ہے1۔‘‘
(از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد 3 نمبر 24 مؤرخہ 10؍جولائی 1899ء صفحہ3)
1 اُس ہفتہ میں سب سے عجیب اور دلچسپ بات جو واقع ہوئی ......وہ ایک چٹھی کا حضرت کے نام آنا تھا اس میں پختہ ثبوت اور تفصیل سے لکھا ہے کہ جلال آباد (علاقہ کابل) کے علاقہ میں یوزآسف نبی کا چبوترہ موجود ہے اور وہاں مشہور ہے کہ دو ہزار برس ہوئے کہ یہ نبی شام سے آیا تھا اور سرکار کابل کی طرف سے کچھ جاگیر بھی اس چبوترہ کے نام ہے.....اس خط حضرت اقدس اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا۔ ’’ اللہ تعالیٰ گواہ اور علیم ہے کہ اگر مجھے کوئی کروڑوں روپئے لادیتا تو میں کبھی اتنا خوش نہ ہوتا جیسا اس خط نے مجھے خوشی بخشی ہے۔‘‘ ........خدا کا علم اور قدرت دیکھئے ظہر کے وقت
1899ء
(الف) ’’ ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی۔ ایک دم قرار نہ تھا۔ کسی شخص سے مَیں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اس نے کہا کہ علاجِ دندان اخراجِ دندان اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا۔ تب اُس وقت مجھے غنودگی آگئی اور مَیں زمین پر بے تابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی پاس بچھی ہوئی تھی۔ مَیں نے بے تابی کی حالت میں اس چارپائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آگئی۔ جب مَیں بیدار ہوا تو درد کا نام و نشان نہ تھا۔ اور زبان پر یہ الہام جاری تھا۔
اِذَا مَرِضْتَ فَھُوَ یَشْفِیْ
یعنی جب تُو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 235 1۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 246، 247)
(ب) ’’ (حضرت )مولوی نورالدین صاحب کو ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ ہوا۔ لگاتار دانت کا سخت درد رہا۔ اور سوائے اُکھڑوانے کے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا۔ فرمایا2مجھے بھی ایک دفعہ خطرناک درد ہوا۔ یہاں تک کہ مارے درد کے غشی ہوگئی۔ اس میں الہام ہوا۔
وَاِذَا مَرِضْتَ فَھُوَ یَشْفِیْ
جب اُٹھا تو درد جاتا رہا۔‘‘ (از خط مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد 3 نمبر 24 مؤرخہ 10؍جولائی 1899ء صفحہ4)
6 جولائی 1899ء
’’6؍جولائی کی رات کو خدا تعالیٰ نے بہشت و دوزخ کا نظارہ آپ کو دکھایا اوّل بہشت دکھائی گئی اور اس کے ہر قسم کے ثمرات و نعماء دکھائی گئیں اتنے میں الہام ہوا:۔
یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔3
پھر دوزخ دکھایا گیا۔ وہ سخت مکروہ اور پاخانہ کی شکل کا تھا۔ اتنے میں الہاماً زبان پر جاری ہوا۔
اس رؤیا کی صحیح تاویل پوری ہوگئی۔‘‘
(خط حضرت مولانا عبدالکریم صاحب ؓمندرجہ الحکم جلد 3 نمبر 24 مؤرخہ 10؍جولائی 1899ء صفحہ3)1
2 (نوٹ از مرتب) یہ الہام یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے (جو جز ب میں درج ہے ) معلوم ہوتا ہے کہ 10؍جولائی 1899ء سے یہ پہلے کا الہام ہے۔
3 یعنی حضرت اقدس نے فرمایا۔ (مرتب)
لَوْلَا1 فَضْلُ اللّٰہِ وَرَحْمَتُہٗ عَلَیَّ لَاُلْقِیَ رَاْسِیْ فِیْ ھٰذَا الْکَنِیْفِ۔2
(از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد 3 نمبر 24 مؤرخہ 10؍جولائی 1899ء صفحہ 4)
27 اگست 1899ء
’’ مجھ کو اپنی نسبت یہ الہام ہوا:
’’خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے۔ آسمان سے کئی تخت اُترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا۔ دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت ملائکہ 3نے تیری مدد کی۔‘‘
(از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 30۔ الحکم 9ستمبر 1899ء صفحہ5)
30 اگست 1899ء
’’ رحمت ِ الٰہی کے چپکے سامان۔‘‘
(منقول از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد 3 نمبر 32 مؤرخہ 9؍ستمبر 1899ء صفحہ 5)
30 اگست 1899ء
’’ اسی تاریخ کورؤیامیں حضرت اقدس نے نبض پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اس سے ذلّت کی آواز آتی ہے یا نصرت کی۔ تو نبض سے نصرت کی آواز آئی۔‘‘ (خط مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد 3 نمبر 32 مؤرخہ 9؍ستمبر 1899ء صفحہ 5)
2 ستمبر1899ء
’’ اس قدر فقرہ کہ
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ۔
اس وقت جو مَیں یہی مقام لکھ رہا تھا، الہام ہوا اور آج دوسری ستمبر 1899ء روز شنبہ اور ایک بجے کا عمل ‘ وقت
1 ترجمہ:۔ ’’اگر خدا کا فضل و رحمت مجھ پر نہ ہوتی تو میرا سر اس پاخانہ میں ڈالا جاتا۔ یہ ایک انعامِ الٰہی کی طرز ہے کہ خدا نے آپ کو ایسے مکان کے لئے بنایا ہی نہیں اس سے پیشتر مدت ہوئی حضرت کچھ لوگوں کو اس تاریک غار میں دیکھ چکے تھے۔‘‘
(خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ اخبار الحکم جلد 3نمبر 24 مؤرخہ 10؍جولائی 1899ء صفحہ 4)
2 احادیث نبویہ میں دنیا کو ایک روڑی کی صورت میں بتایا گیا ہے پس وحی الٰہی ان احادیث کی تصدیق کرتی ہے اور معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے ہی مجھے دنیا سے بے رغبت کیا ہے ورنہ مَیں بھی اسی مزبلہ کا ایک کیڑا ہوتا۔ (مرتب)
3 اربعین نمبر 3 صفحہ 37 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 428 و ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 25 ، روحانی خزائن 17 صفحہ 75سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی الٰہی ’’ملائکہ نے تیری مدد کی‘‘ کی دوسری قرأت ’’فرشتوں نے تیری مدد کی‘‘ہے۔ (مرتب)
نماز ظہر ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 59 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد15 صفحۃ 262 حاشیہ)
14 ستمبر 1899ء
’’14؍ستمبر 1899ء کو یہ الہام ہوا:۔
ایک عزت 1کا خطاب۔ ایک عزت کا خطاب لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃِ ۔ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا۔
یہ تمام خدائے پاک قدیر کا کلام ہے.....مَیں اپنے اجتہاد سے اس کے یہ معنے سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جھگڑے کے فیصلہ کرنے کے لئے جو کسی حد تک پورانا ہوگیا ہے اور حد سے زیادہ تکذیب اور تکفیر ہوچکی ہے۔ کوئی ایسا برکت اور رحمت اور فضل اور صلح کاری کا نشان ظاہر کرے گا کہ وہ انسانی ہاتھوں سے برتر اور پاک تر ہوگا۔ تب ایسی کھُلی کھُلی سچائی کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات میں ایک تبدیلی واقع ہوگی۔ اور نیک طنیت آدمیوں کے کینے یکدفعہ رفع ہوجائیں گے۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب نمبر 4 2 ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 501 تا 504)
18 ستمبر 1899ء
’’ آج رات مَیں نے 18؍ستمبر 1899ء کو بروز دوشنبہ خواب میں دیکھا کہ بارش ہورہی ہے۔ آہستہ آہستہ مینہہ برس رہا ہے۔ مَیں نے شاید خواب میں یہ کہا۔ کہ ہم تو ابھی دُعا کرنے کو تھے کہ بارش ہو سو ہو ہی گئی۔
مَیں نہیں جانتا کہ عنقریب بارش ہوجائے یا ہمارے الہام 13؍ستمبر 1899ء ایک عزت کا خطاب۔ ایک عزت کا خطاب۔ لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا۔‘‘ کے متعلق خدا کی رحمت اور فتح اور نصرت کی بارش ہماری جماعت پر ہوگی یا دونوں ہی ہوجائیں۔ ہماری خواب سچی ہے۔ اس کا ظہور ضرور ہوگا۔ دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بارانِ رحمت کا دروازہ آسمان سے کھُلے گا یا غیر معمولی کوئی نشان روحانی فتح اور نصرت کا ظاہر ہوگا مگر نشان ہوگا نہ معمولی بات۔‘‘ (الحکم جلد 3نمبر 36 مؤرخہ 10؍اکتوبر 1899ء صفحہ 7)
19 ستمبر 1899ء
’’19؍ستمبر 1899ء کو خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے اپنا کلام مجھ پر نازل کیا۔
اِنَّآ اَخْرَجْنَا لَکَ زُرُوْعًایَّآ اِبْرَاھِیْمُ۔
یعنی اے ابراہیم ! ہم تیرے لئے ربیع کی کھیتیاں اُگائیں گے۔ زُرُوع ‘ زرع کی جمع ہے۔ اور زرع عربی زبان میں ربیع کی کھیتی یعنی کنک و جو وغیرہ کو کہتے ہیں مگر آثار ایسے نہیں ہیں کہ یہ الہام اپنے ظاہر معنوں کے رُو سے پورا ہو۔
1 ’’مجھے امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا ہے اور مجھے یہ ایک عزت کا خطاب دیا گیا ہے۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 23؍مئی 1908ء مندرجہ اخبار عام 26؍مئی 1908 ء)
2 نیز دیکھئے الحکم جلد 3 نمبر 33 مؤرخہ 16؍ستمبر 1899ء صفحہ 6
کیونکہ ربیع کے تخم ریزی کے ایام گویا گذر گئے لہٰذا مجھے صرف اجتہاد سے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ تجھے کیا غم ہے۔ تیری کھیتیاں تو بہت نکلیں گی یعنی ہم تیری تمام حاجات کے متکفّل ہیں۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب نمبر 4 صفحہ 2 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 504 اشتہار 22؍اکتوبر 1899ء مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 171 حاشیہ)
4 اکتوبر 1899ء
’’ ایک اَور دوسرا الہام متشابہات میں سے ہے جو 4؍اکتوبر 1899ء کو مجھے ہوا اور وہ یہ ہے کہ
قیصر ہند کی طرف سے شکریہ‘‘
اب یہ ایسا لفظ ہے کہ حیرت میں ڈالتا ہے کیونکہ مَیں ایک گوشہ نشین آدمی ہوں اور ہریک قابل ِ پسند خدمت سے عاری اور قبل از موت اپنے تئیں مردہ سمجھتا ہوں۔ میرا شکریہ کیسا۔ سو ایسے الہام متشابہات میں سے ہوتے ہیں۔ جب تک خدا خود ان کی حقیقت ظاہر نہ کرے۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب نمبر 4 صفحہ 2 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 504 حاشیہ۔
اشتہار 22؍اکتوبر 1899ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 171)
20 اکتوبر 1899ء
’’20؍اکتوبر 1899ء کو خواب میں مجھے یہ دکھایا گیا کہ ایک لڑکا1ہے جس کا نام عزیز ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے۔ وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے۔
مَیں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی ہے کہ عزیز عزت پانے والے کو کہتے ہیں اور سلطان جو خواب میں اس لڑکے
1 حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ
رؤیا مذکوراشارتاً درج ہوئی تھی ورنہ صاف طورپر آپ نے فرمایا تھا کہ عزیز احمد خلف مرزاسلطان احمدکو میں نے دیکھا ہے۔
(الحکم 10مارچ 1906ء صفحۃ 1)
چنانچہ یہ رؤیا اس طرح پوری ہوئی کہ اواخر فروری 1906ء میں اس رؤیا کے قریباً ساڑھے چھ سال بعد مرزا عزیز احمد صاحب نے اپنے دادا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور جماعت میں داخل ہوگئے۔
اس رؤیا میں مرزا عزیز احمد صاحب کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی طرف منسوب کرنے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف مرزا عزیز احمد صاحب بلکہ مرزا سلطان احمد صاحب بھی حضور کی بیعت میں داخل ہوکر جسمانی رشتہ کے علاوہ روحانی طور پر بھی فرزندی میں داخل ہوجائیں گے۔ سو الحمدللہ کہ حضرت ممدوح بھی 25؍دسمبر 1930ء کو اپنے چھوٹے بھائی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہوگئے۔ (مرتب)
کا باپ سمجھا گیا ہے۔ یہ لفظ یعنی سلطان عربی زبان میں اُس دلیل کو کہتے ہیں کہ جو ایسی بیّن الظہور ہو جو بباعث اپنے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دلوں پر اپنا تسلّط کرلے گویا سلطان کا لفظ تسلّط سے لیا گیا ہے اور سلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل کو کہتے ہیں جو اپنی قبولیت اور روشنی کی و جہ سے دلوں پر قبضہ کرلے اور طبائع سلیمہ پر اُس کا تسلطِّ تام ہوجائے پس اس لحاظ سے کہ خواب میں عزیز جو سلطان کا لڑکا معلوم ہوا، اس کی یہ تعبیر ہوئی کہ ایسا نشان جو لوگوں کے دلوں پر تسلّط کرنے والا ہوگا، ظہور میں آئے گا اور اس نشان کے ظہور کا نتیجہ جس کو دوسرے لفظوں میں اس نشان کا بچہ کہہ سکتے ہیں، دلوں میں میرا عزیز ہونا ہوگا، جس کو خواب میں عزیز کے تمثّل سے ظاہر کیا گیا۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب نمبر 4 صفحہ 2 ۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 505،506۔
اشتہار 22؍اکتوبر 1899ء مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 172،173)
21 اکتوبر 1899ء
’’ ایک خواب .......بھی 21اکتوبر 1899ء کو مَیں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَیں نے خواب میں محبی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا..... کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا ان کا چہرہ ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر مَیں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے۔
یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے مَیں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہوگا اور جیسا کہ مَیں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ مَیں صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب نمبر 4 صفحہ 2 ۔ روحانی خزائن جلد15 صفحہ 505، 506۔ اشتہار 22؍اکتوبر 1899ء مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 171، 172)
1899ء
’’ مُبشّروں کا زوال نہیں ہوتا۔ گورنر1جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔‘‘ (الحکم جلد 3 نمبر40 مؤرخہ 10؍ نومبر 1899ء صفحہ 6)
1899ء
’’ خدا نے مجھے .....خبر دی کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی۔ ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اور ایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا یہ خدا کا ارادہ ہے، گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں۔‘‘
(اشتہار واجب الاظہار صفحہ 2،3 ضمیمہ تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 521)
1 ’’ہمارا نام حَکَم عام بھی ہے جس کا اگر انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو گورنر جنرل ہوتا ہے۔‘‘
(الحکم جلد3 نمبر 26 مؤرخہ 24 ؍جولائی 1899ء صفحہ 6)
5 جنوری 1900ء
’’ میرے چچا زاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا۔ اُس نے یہ ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقعہ پر دیوا رکھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رُک گیا اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میرے پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رُک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی۔ گویا ہم محاصرہ میں آگئے۔ ناچار دیوانی میں منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج کے محکمہ میں نالش کی گئی۔ جب نالش ہوچکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ ناقابل ِ فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے ‘ اس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مثل کی رُو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدّعا علیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین دراصل کسی اَور شریک کی تھی جس کانام غلام جیلانی تھا اور اس کے قبضہ میں سے نکل گئی تھی تب اس نے امام الدین کو اس زمین کا قابض خیال کرکے گورداسپور میں بصیغہ ٔ دیوانی نالش کی تھی اور بوجہ ثبوت مخالفانہ قبضہ کے وہ نالش خارج ہوگئی تھی تب سے امام الدین کا اس پر قبضہ چلا آتا ہے....
اس سخت مشکل کو دیکھ کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہوگا کہ اس مقدمہ میں صلح کی جائے یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کر راضی کر لیا جائے لہٰذا مَیں نے مجبوراً اس تجویز کو پسند کرلیا تھا مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا اس کو مجھ سے بلکہ دین ِ اسلام سے ایک ذاتی بُغض تھا اور اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا اِن پر قطعاً دروازہ بند ہے لہٰذا وہ اپنی شوخی میں اَور بھی بڑھ گیا۔ آخر ہم نے اس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا...... اور امام الدین کی یہاں تک بدنیت تھی کہ ہمارے گھر کے آگے جو صحن تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکّے ٹھہرتے تھے وہاں ہر وقت مزاحمت کرتا اور گالیاں نکالتا تھا۔ اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اُس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تا ہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نکل نہ سکیں اور نہ باہر جاسکیں۔ یہ دن بڑی تشویش کے تھے یہاں تک کہ ہم ضاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ کا مصداق ہوگئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی۔ اس لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی اور اُس سے مدد مانگی گئی تب بعد دعا مندرجہ ذیل الہام ہوا۔
اور یہ الہام علیٰحدہ علیٰحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سید ناصرشاہ صاحب اورسیئر متعین بارہ مولا کشمیر میرے پیر دبا رہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا۔
مَیں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا۔ پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الٰہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے، زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہوجاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحی الٰہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ کل وحی الٰہی نازل ہوکر سید فضل شاہ صاحب لاہور
کے قلم سے لکھی گئی اوراس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اُس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے، جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کار اس مقدمہ میں فتح ہوگی۔ چنانچہ مَیں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الٰہی سنادی۔ اور اس کے معنے اور شانِ نزول سے اطلاع دے دی اور اخبار الحکم1میں چھپوا دیا اور سب کو کہدیا کہ اگرچہ مقدمہ اب خطرناک اور صورت نومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کردے گا۔ جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحی الٰہی کا خلاصہ مضمون یہی تھا۔ اب ہم اس وحی الٰہی کو معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے:۔
اَلرَّحٰی تَدُوْرُ وَیَنْزِلُ الْقَضَائُ اِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ 2 وَّلَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّرُدَّ مَا اَتٰی۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ لَّا یَتَبَدَّلُ وَلَایَخْفٰی۔ وَیَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْہُ۔ وَحْیٌ مِّنْ رَّبِّ السَّمٰوَاتِ الْعُلٰی۔ اِنَّ رَبِّیْ لَایَضِلُّ وَلَا یَنْسٰی۔ ظَفَرٌ مُّبِیْنٌ۔ وَاِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُ فِیْ غَیِّہٖ یَتَمَطّٰی۔ اِنَّہٗ مَعَکَ وَ اِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَمَآ اَخْفٰی۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یَعْلَمُ کُلَّ شَیْئٍ وَّیَرٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ یُحْسِنُوْنَ الْحُسْنٰی۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَا اَحْمَدَ اِلٰی قَوْمِہٖ فَاَعْرَضُوْا وَقَالُوْا کَذَّابٌ اَشِرٌ۔ وَجَعَلُوْا یَشْھَدُوْنَ عَلَیْہِ وَیَسِیْلُوْنَ اِلَیْہِ کَمَآئٍ مُّنْھَمِرٍ۔ اِنَّ حِبِّیْ قَرِیْبٌ اِنَّہٗ قَرِیْبٌ مُّسْتَتِرٌ۔
(ترجمہ) چکّی پھرے گی اور قضا و قدر نازل ہوگی۔ یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی۔ جیسا کہ چکّی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکّی کا جو سامنے ہوتا ہے۔ بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے۔ اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ خدا کا فضل ہے۔ جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ یہ ضرور آئے گا۔ اور کسی کی مجال نہیں جو اس کو ردّ کرسکے۔ کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے۔ اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا۔ اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا۔ اور ایک بات پیدا ہوجائے گی۔ جو تجھے تعجب میں ڈالے گی۔ یہ اُس خدا کی وحی ہے۔ جو بلند آسمانوں کا خدا ہے۔ میرا ربّ اس صراطِ مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں سو تمہیں اس مقدمہ میں کھُلی کھُلی فتح ہوگی۔ مگر اس فیصلہ میں اُس وقت تک تاخیر ہے ‘ جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے۔ تو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے۔ پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اور ناز اور تکبر میں چھوڑ دے۔ وہ قادر تیرے ساتھ ہے اس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے ‘ بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں۔ جو انسان کے فہم سے بھی برتر ہیں ‘ وہ بھی اُس کو معلوم ہیں۔ وہی خدا
1 دیکھو الحکم جلد 4 نمبر 3 مؤرخہ 24؍جنوری 1900ء صفحہ 10 ۔ (مرتب)
2 ’’ عجب بات ہے کہ اس الہام میں بشارت فضل کے لفظ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ہاتھ سے بروقت نزول یہ وحی قلمبند کرائی گئی اس کا نام بھی فضل ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 267 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 280)
حقیقی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ انسان کو نہیں چاہئے کہ کسی دوسرے پر توکّل کرے کہ گویا وہ اس کا معبود ہے ایک خدا ہی ہے جو یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اور جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے۔ اور وہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ا ور اُس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام باریک لوازم کو ادا کرتے ہیں۔ سطحی طور پر نیکی نہیں کرتے اور نہ ناقص طور پر۔ بلکہ اُس کی عمیق در عمیق شاخوں کو بجا لاتے ہیں اور کمال خوبی سے اُس کا انجام دیتے ہیں۔ سو اُنہیں کی خدا مدد کرتا ہے ‘ کیونکہ وہ اس کی پسندیدہ راہوں کے خادم ہوتے ہیں اور اُن پر چلتے ہیں اور چلاتے ہیں۔ ہم نے احمد کو یعنی اس عاجز کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا۔ پس قوم اُس سے رُو گردان ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذّاب ہے۔ دُنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے۔ یعنی ایسے ایسے حیلوں سے دُنیا کمانا چاہتا ہے۔ اور اُنہوں نے عدالتوں میں اُس پر گواہیاں دیں تا اُس کو گرفتار کرادیں۔ اور وہ ایک تُند سیلاب کی طرح جو اُوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اُس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے1۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 266۔271 ۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 278 تا 283۔ بعض تشریحات کو چھوڑ کر)
1 ’’یہ پیشگوئی قبل از وقت بلکہ کئی مہینے فیصلہ سے پہلے عام طور پر شائع ہوچکی تھی اور الحکم اخبار میں درج ہوکر دور دراز مُلک کے لوگوں تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی۔ پھر فیصلہ کا دن آیا......سو ایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پرانی مثل کا انڈکس دیکھنا چاہئے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے جب وہ دیکھا گیا۔ تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ میرزا غلام مرتضیٰ یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں۔ تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہوگیا۔ حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا۔ اس نے فی الفور وہ انڈکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کھُل گئی اس لئے اس نے بلاتوقف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کردی اگر وہ کاغذ پیش نہ ہوتا تو حاکم مجوز بجز اس کے کیا کرسکتا تھا کہ مقدمہ کو خارج کرتا اور دشمن بدخواہ کے ہاتھ سے ہمیں تکلیفیں اُٹھانی پڑتیں۔ یہ خدا کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
اور یہ پیشگوئی درحقیقت ایک پیشگوئی نہیں بلکہ پیشگوئیاں ہیں کیونکہ ایک تو اس میں فتح کا وعدہ ہے اور دوسرے ایک امر مخفی کے ظاہر کرنے کا وعدہ ہے جو سب کی نظر سے پوشیدہ تھا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 271،272۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 283، 284)
خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ مذکورہ بالا فیصلہ جیسا کہ الحکم جلد 5 نمبر 30 مؤرخہ 17؍اگست 1901ء صفحہ 14 سے معلوم ہوتا ہے۔ 12؍اگست 1901ء کو ہوا۔ جس میں ڈسٹرکٹ جج گورداسپور نے دیوار گرانے اور سفید میدان میں کسی جدید تعمیر نہ کرنے کا دوامی حکم دیا۔ اور ایک سو روپیہ بطور حرجانہ مدعی کو علاوہ اخراجات مقدمہ کے دیئے جانیکا حکم صادر فرمایا۔ جسے حضرت اقدس نے کمال فیاضی سے مرزا امام الدین کی درخواست پر اسے معاف کردیا۔
(یہ نوٹ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ہے)
28 فروری 1900ء
’’ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ۔‘‘
(تحریر1حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
(ترجمہ) پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلّی کی۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 516 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 615 حاشیہ نمبر 3)
2 مارچ 1900ء2
’’ چند ماہ کا عرصہ گذرتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا تھا۔
اَلْاَمْرَاضُ 3 تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ.......ایسا ہی اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ 4 کا بھی الہام ہوا۔‘‘
(الحکم جلد 4 نمبر 29 مؤرخہ 16؍اگست 1900ء صفحہ 10)
11اپریل 1900ء
’’عید اَضحیٰ کی صبح کو مجھے الہام ہوا کہ کچھ عربی بولو۔ چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی۔ اور اس سے پہلے مَیں نے کچھ عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی۔ لیکن اُس دن مَیں عید کا خطبہ
1 یہ تحریر کتاب تعطیر الانام کے ایک ملحقہ ورق پر ہے اور یہ کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتب)
2 میاں امام الدین صاحب ؓ سکنہ سیکھواں ضلع نے الہام اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ کی تاریخ 2؍مارچ 1900ء لکھی ہے۔
دیکھئے روایات صحابہ جلد5 صفحہ 62۔ (مرتب)
3 (ترجمہ) یعنی بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
4 ’’اس الہامی پیشگوئی کے مطابق ملک میں وباء ہیضہ وغیرہ جس شدّت کے ساتھ پھیلے ہیں اور جس قدر جانیں ان کی نذر ہوئی ہیں وہ کوئی مخفی امر نہیں.......یہ الہام ایسے وقت میں ہوا تھا۔ جبکہ ابھی ہیضہ وغیرہ امراض کا پنجاب میں نام و نشان تھا.........ایسا ہی اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔کا الہام بھی ہوا تھا۔ جس سے حضرت اقدس کے کسی مخلص دوست کی موت کا پتہ ملتا ہے آخر یہ ساری باتیں (جوخدائے علیم کا کلام تھا) اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ اور ان الہامات کے موافق ہماری جماعت کے بعض نہایت مخلص اور پُر جوش دوست ہم سے علیٰحدہ ہوئے۔ ازاں جملہ میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار ساکن بٹالہ ہیں جو اس الہام کے موافق فوت ہوئے۔‘‘
(الحکم جلد4 نمبر 14 مؤرخہ 17؍اپریل 1900ء صفحہ10)
5 الحکم جلد 4 نمبر 14 مؤرخہ 17؍اپریل 1900ء صفحہ 2 میں لکھا ہے:۔
’’ آج عید کی صبح کو مولانا موصوف (یعنی مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی) اندر تشریف لے گئے اور عرض کیا کہ ’’ مَیں آج خصوصیت کے ساتھ عرض کرنے کو آیا ہوں کہ آپ تقریر ضرور کریں۔ خواہ چند فقرے ہی ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ’’خدا نے ہی حکم دیا ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ رات کو الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو۔ مَیں کوئی اَور مجمع سمجھتا تھا۔ شاید یہی مجمع ہو۔‘‘
عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان پر جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جُز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہوکر زبانی فی البدیہہ کہی گئی اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی۔ مَیں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہلِ علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہوکر کرسکے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 210۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 588)
(ب) ’’11؍اپریل 1900ء کو عیداضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو۔ تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا۔
کَلَامٌ اُفْصِحَتْ 1 مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کرِیْمٍ
یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے......تب مَیں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی۔ اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور مَیں نہیں خیال کرسکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جُزوتک تھی ‘ ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اوّل کسی کاغذ میں قلمبند کیا جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کرسکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ2 الہامیہ رکھا گیا، لوگوں میں سنائی گئی۔ اس وقت حاضرین کی تعداد
1 (ترجمہ از مرتب) یہ فصیح کلام خدائے کریم کی طرف سے ہے ۔
(نوٹ از مرتب) افصحت میں ضمیر کلام کی طرف جاتی ہے جو باعتبار معنی جمع قرار دیتے ہوئے ضمیر مؤنّث لائی گئی۔ چنانچہ کلام بمعنی مجموعہ کلمات استعمال ہو کر اس کی صفت جمع لانا بھی ثابت ہے جیسا کہ مزاح عقیلی کا قول ہے لظل رھینًا خاشع الطرف حطہ۔ تحلُّب جدوٰی والکلام الطرائف۔ (لسان العرب)
2 (نوٹ از مرتب) اسی خطبہ الہامیہ کے متعلق دو2 خوابیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلم مبارک سے لکھی ہوئی ملی ہیں۔ 19؍اپریل 1900ء کی تاریخ دیکر حضور ؑ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی مندرجہ ذیل خواب لکھی ہے کہ ’’میاں عبداللہ سنوری کہتے ہیں کہ منشی غلام قادر مرحوم سنور والے یہاں آئے ہیں ان سے انہوں نے پوچھا کہ اِس جلسہ کی بابت اُس طرف کی خبر دو۔ کیا کہتے ہیں۔ تو اُس نے جواب دیا کہ اُوپر بڑی دھوم مچ رہی ہے۔ یہ خواب بعینہٖ سید امیر علی شاہ صاحب کے خواب سے مشابہ ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ جس وقت عربی خطبہ بروز عید پڑھا جاتا تھا۔ اس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام جلسہ میں موجود ہیں اور اس خطبہ کو سن رہے ہیں۔ یہ خواب عین خطبہ پڑھنے کے وقت ہی بطور کشف اس جگہ بیٹھے ہوئے ان کو معلوم ہوگیا تھا۔ ‘‘
(رقم فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام برورق کتاب تعطیر الانام موجودہ خلافت لائبریری ربوہ)
شاید دو سو کے قریب ہوگی۔ سبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھُل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ مَیں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کررہا تھا کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا۔ خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.........یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا۔ اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 362، 363)
(ج) 1 ’’ھٰذَا ھُوَالْکِتَابُ الَّذِیْ اُلْھِمْتُ حِصَّۃً مِّنْہُ مِنْ رَّبِّ الْعِبَادِ فِیْ یَوْمِ عِیْدٍ مِّنَ الْاَعْیَادِ فَقَرَاْتُہٗ عَلَی الْحَاضِرِیْنَ بِاِنْطَاقِ الرُّوْحِ الْاَمِیْنَ۔ مِنْ غَیْرِ مَدَدِ التَّرْقِیْمِ وَالتَّدْوِیْنَ۔ فَلَاشَکَّ اَنَّہٗٓ اٰیَۃٌ مِّنَ الْاٰیَاتِ۔ وَمَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یَّنْطِقَ کَمِثْلِیْ مُرْتَجِلاً مُّسْتَحْضِرًا فِیْ مِثْلِ ھٰذِہِ الْعِبَارَاتِ........ وَاِنَّہٗ صَنِیْعَۃُ اِحْسَانِ الْحَضْرَۃِ وَمَطِیَّۃُ تَبْلِیْغِ النَّاسِ اِلَی السَّعَادَۃِ وَاِنَّہٗ غَیْثٌ مِّنَ اللّٰہِ بَعْدَ مَا اَمْحَلَتِ الْبِلَادُ وَعَمَّ الْفَسَادُ۔ وَلَنْ تَجِدَ ھٰذِہِ الْمَعَارِفَ فِی الْاٰثَارِ الْمُنْتَقَاۃِ الْمُدَوَّنَۃِ مِنَ الثِقَاتِ۔ بَلْ ھِیَ حَقَآئِقُ اُوْحِیَتْ اِلَیَّ مِنْ رَّبِّ الْکَآئِنَاتِ۔‘‘
(سرورق خطبہ الہامیہ طبع اوّل۔ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ1)
اپریل 1900ء
’’ ابھی حضرت مولانا2 موصوف ترجمہ3سناہی رہے تھے کہ حضرت اقدس فرطِ جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں جاپڑے۔ آپ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ سجدہ سے سر اُٹھا کر حضرت اقدس ؑ
1 (ترجمہ از مرتب) یہ (خطبہ الہامیہ) وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ (طبع اوّل صفحات 1 تا 38 جو’’ یَا عِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُوْا سے شروع ہوتا ہے وَسَوْف یُنَبِّئُھُمْ مِثْلُ خَبِیْرٍ‘‘ پر ختم ہوتا ہے) مجھے خدا کی تعالیٰ کی طرف سے ایک عید (عید الالضحیٰ 1317ھ جو بتاریخ 11؍اپریل 1900ء تھی) کے دن الہام ہوا تھا۔ اور پہلے سے لکھوانے اور تحریر میں لانے کے بغیر مَیں نے محض روح امین کے بلوانے پر حاضرین کے سامنے پڑھا تھا اس لئے اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا بھاری نشانِ الٰہی ہے۔ اور اس طرح فی البدیہہ زبانی ایسی عبارت میں بولنا جیسا کہ مَیں نے یہ خطبہ پڑھا تھا کسی بشر کی طاقت میں نہیں ہے...........یہ بارگاہِ الٰہی کا ایک عظیم الشان احسان ہے اور لوگوں کو سعادت تک پہنچانے کے لئے ایک سواری ہے۔ اور اُس قحط کے بعد جو تمام بلاد پر محیط ہوگیا تھا۔ اور جب کہ دنیا پر تباہی چھاگئی تھی۔ یہ نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے بارانِ رحمت بن کر آیا اور ایسے حقائق و معارف چیدہ سے چیدہ تصانیف سلف و خلف ثقات میں بھی قطعاً نہیں مل سکتے۔ بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جو ربّ العالمین کی طرف سے بذریعہ وحی مجھے بتائے گئے ہیں۔
2 مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ۔ (مرتب)
3 خطبہ الہامیہ کاترجمہ۔ (مرتب)
نے فرمایا کہ ’’ابھی مَیں نے سُرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ
مُبارک
یہ گویاقبولیت کا نشان ہے۔‘‘ (الحکم جلد 4 نمبر 16 مؤرخہ یکم مئی 1900ء صفحہ 5)
اپریل 1900ء
’’ ایک دفعہ عزیز مرحوم1کی زندگی میں بکثرت اس کی شفا کے لئے دعا کی۔ تب خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک ہے گویا وہ چاند کے ٹکڑے اکٹھے کرکے بنائی گئی ہے اور ایک شخص ایوب بیگ کو اس سڑک پر سے لے جارہا ہے او وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے اور نہایت خوش اور چمکیلی ہے گویا زمین پر چاند بچھایا گیا ہے مَیں نے یہ خواب اپنی جماعت میں بیان کی اورتکلف کے طور پر یہ سمجھا کہ یہ صحت کی طرف اشارہ ہے لیکن دل نہیں مانتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر صحت ہو سو اب اس خواب کی تعبیر ظہور میں آئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘
( از مکتوب بنام ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مندرجہ الحکم جلد4 نمبر18 مؤرخہ 17؍مئی 1900ء صفحہ 4)
25 اپریل 1900ء
’’ اِس خط کے لکھنے کے وقت میں جو ایوب بیگ مرحوم کی طرف توجہ تھی کہ وہ کیونکر جلد ہماری آنکھوں سے ناپدید ہوگیا۔ اور تمام تعلقات کو خواب و خیال کرگیا کہ یک دفعہ الہام ہوا۔
مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کے راہ سے داخل ہو۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیز ایوب2بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے۔ اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو۔‘‘ ( از مکتوب بنام ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مندرجہ الحکم جلد4 نمبر18 مؤرخہ 17؍مئی 1900ء صفحہ 4)
1900ء
’’ خدا نے مجھے کہا کہ اُٹھ اور ان لوگوں کو کہدے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی ردّ کردو گے خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا۔ اُس کے یہ الفاظ ہیں۔
قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَقُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔ اَیْ مُرْسَلٌ مِّنَ اللّٰہِ۔
(از اشتہار معیار الاخیار صفحہ 3 مؤرخہ 25؍مئی 1900ء مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 269،270)
(ترجمہ) ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں۔ ان کو کہہ کہ میرے
1 مرزا ایّوب بیگ صاحب (مرتّب) 2 مرزا یّوب بیگ صاحب (مرتّب)
پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس تم قبول کروگے یا نہیں۔ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تاخدا بھی تم سے محبت رکھے1۔‘‘
1900ء
’’ اب اس رسالہ کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیانؔ کے بارے میں کشفی طور پر مَیں نے لکھا یعنی یہ کہ اس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے۔ درحقیقت یہ صحیح بات ہے۔ کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیت کہ سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے۔ اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے۔ پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدؔالحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا۔ ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت ِ اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا۔ برکاتِ اسلامی کے زمانہ تک ‘ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے ‘ پہونچا دیا۔ پس اس پہلو کے رُو سے جو اسلام کے انتہا زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سَیرِ کشفی ہے۔ مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے۔ جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔ مُبَارَکٌ وَّمُبَارِکٌ وَکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول او رفاعل واقع ہوا۔ قرآن شریف کی آیت بَارَکْنَا حَوْلَہٗ کے مطابق ہے۔ پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے۔‘‘
(از اشتہار منارۃ المسیح مؤرخہ 28؍مئی 1900ء صفحہ ج حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 288،289)
2 جون 1900ء
’’آج2؍جون 1900ء کو بروز شنبہ بعد دوپہر دو بجے کے وقت مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ ایک ورق جو نہایت سفید تھا ‘ دکھلایا گیا۔ اُس کی آخری سطر میں لکھا تھا :۔
اِقبال
مَیں خیال کرتا ہوں کہ آخر سطر میں یہ لفظ لکھنے سے انجام کی طرف اشارہ تھا یعنی انجام باقبال ہے۔
پھر ساتھ ہی یہ الہام ہوا:۔
قادر کے کاروبار نمودار ہوگئے : : کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہوگئے
اس کے یہ معنے مجھے سمجھائے گئے کہ عنقریب کچھ ایسے زبردست نشان ظاہر ہوجائیں گے۔ جس سے کافر کہنے والے ‘ جو مجھے کافر کہتے تھے ‘ الزام میں پھنس جائیں گے اور خوب پکڑے جائیں گے اور کوئی گریز کی جگہ ان کے لئے باقی نہیں رہے گی۔ یہ پیشگوئی ہے ہر ایک پڑھنے والا اس کو یاد رکھے۔‘‘
(اشتہار مشمولہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 26۔ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 77)
1 (بقیہ ترجمہ از مرتب) اور کہہ کہ اے لوگو! مَیں تم سب کی طرف خدا تعالیٰ کا رسول ہوکر آیا ہوں۔ 2 خطبہ الہامیہ (مرتّب)
3 جون 1900ء
’’ اس کے بعد 3؍جون 1900ء کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے یہ الہام ہوا:۔
کافر جو کہتے تھے وہ نگونسار ہوگئے :: جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہوگئے۔
یعنی کافر کہنے والوں پر خدا کی حجت ایسی پوری ہوگئی کہ ان کے لئے کوئی عذر کی جگہ نہ رہی۔ یہ آئندہ زمانہ کی خبر ہے کہ عنقریب ایسا ہوگا اور کوئی ایسی چمکتی ہوئی دلیل ظاہر ہوجائے گی کہ فیصلہ کردے گی۔‘‘
(از اشتہار مشمولہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 27۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 77)
1900ء
’’ مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین ِ اسلام ہی سچا ہے۔ مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر ‘ اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے مجھے سمجھا یاگیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا ‘ اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا ‘ اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور مجھے خدا کی پاک مطہّر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ مَیں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حَکَم ہوں۔‘‘
(اربعین نمبر اوّل صفحہ 3۔4 مؤرخہ 23؍ جولائی 1900ء۔ روحانی ضلد 17 صفحہ 345۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 344)
1900ء
’’ یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَوْمً مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآ ؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنَّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلُہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنَ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا۔ وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ ھٰذَا مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ لِتَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌمِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ وَقُلِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَ اِنْ عَدْتُّمْ عُدْنَا۔ وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْرًا۔ یُخَوِّفّوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اِنَّکَ بَاَعْیُنِنَا۔ سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔ نَحْمَدُکَ وَ نُصَلِّیْ۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بَاَفْوَاھِھِمْ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَہٰٓی
اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَآ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا۔ وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوَ نَتَوَفَّیَنَّکَ۔ اِنِّیْ مَعَکَ فَکُنْ مَّعِیْ اَیْنَمَاکُنْتَ۔ کُنْ مَعَ اللّٰہِ حَیْثُ مَاکُنْتَ۔ اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَافْتِخَارًا لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ وَلَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ۔ اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ اَلَآ اِنَّ نَصرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نَّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ اِنِّیْ مُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ۔ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ وَّ قَرَّبْنَاہُ نَجِیًّا۔ اَشْجَعُ النَّاسِ۔ وَلَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ اَنَارَاللّٰہُ بُرْھَانَہٗ۔ یَا اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا۔ یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ۔ یَآ اَحْمَدِیْٓ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ۔ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ۔ وَنَظَرْنَآ اِلَیْکَ وَ قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰٓی اِبْرَھِیْمَ۔ یَآ اَحْمَدُ یَتِمُّ اسْمُکَ وَلَا یَتِمُّ اسْمِیْ۔ بُوْرِکْتَ یَآ اَحْمَدُ وَکَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ۔ شَاْنُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْب ٌ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ۔ وَسِرُّکَ سِرّیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ۔ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔ وَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ وَقَالُوْٓااِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ اِذَا نَصَرَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہٗ الْحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ۔ یَنْقَطِعُ اٰبَآؤُکَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَا الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ یَآ اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَدْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَا اَحْمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ تَمُوْتُ وَاَنَا رَاضٍ مِّنْکَ۔ فَادْخُلُوْا الْجَنَّۃَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَآ اٰمِنِیْنَ۔ خدا تیرے سب کام درست کردیگا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا سَلَامٌ عَلَیْکَ جُعِلْتَ مُبَارَکًا۔ وَاِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھُوَ اِلَّا اِفْکُ نِ ا فْتَرٰی وَمَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ۔ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ
مَنْ یَّشَآئُ۔ وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَفَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ قُلْ جَآئَ کُمْ نُوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ فَلَا تَکْفُرُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہٗ۔ کِتَابُ الْوَلِیِّ ذُوالْفَقَارِ عَلِیٍّ۔ وَلَوْکَانَ الاْایْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُرَیَّا لَنَا لَہٗ لَکَادُ زَیْتُہٗ یُضِیْٓئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔ دَنٰی فَتَدْلّٰی فَکَانَ قَوْسَیْنِ1(اَوْ) اَدْنٰی۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ۔ وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ۔ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔ وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُوْنَ۔ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔ وَقَالُوْٓا اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ۔ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ وَلَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔ یَا عَبْدَالْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ۔ وَاِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ۔ وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ اَنَا بُدُّکَ اللَّازِمُ۔ اَنَا مُحْیِیْکَ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ۔ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَمْشِیْٓ اِلَیْکَ۔ خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ۔ جَرِیُّ اللّٰہُ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۔ وَمَنْ رُدَّ مِنْ مَّطْبَعِہٖ فَلَا مَرَدَّلَہٗ۔ وَاِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْ کَفَّرَ۔ اَوْ قِدْلِیْ یَا ھَامَانُ لَعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ عَلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ۔ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَاکَان لَہٗٓ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَآ اِلَّا خَآئِفًا۔ وَمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ۔ وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّاجَمًّا۔ حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْرَمِ۔ عَطَائً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔ کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ اِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَا ھُمَا۔ وَاِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّاھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔ بخرام کہ وقت ِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ پاک محمد ؐ مصطفی نبیوں کا سردار۔ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور
1 براہین احمدیہ حصہ چہارم میں صفحہ 493 (حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) پر یہ الہام اس طرح درج ہے ’’ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔‘‘ (مرتب)
حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ اَللّٰہُ حَافِظُہٗ۔ عِنَایَۃُ اللّٰہِ حَافِظُہٗ۔ نَحْنُ نَزَّلْنَاہُ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔ اللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ یُخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ اَئِمَّۃُ الْکُفْرِ۔ لَاتَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی۔یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔ اِنَّ یَوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ۔ لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ خَلَقْتُ لَکَ لَیْلاً وَّنَھَارًا۔ اِعْمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّایَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیَاتِنَا عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ ھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ بَعْدِ مَاقَنَطُوْا۔ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ۔ سَلَامٌ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ۔ صَافَیْنَاہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ۔ تَفَرَّدْنَا بِذَالِکَ۔ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی۔‘‘
(اربعین نمبر 2 صفحہ 6 تا 8 مطبوعہ دسمبر 1900ء۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 351 تا 355)
ترجمہ: اے احمد خدا نے تجھ میں برکت ڈالی۔ اُس نے تجھے قرآن سکھایا۔ تا تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے۔ اور تا کہ مجرموں کی راہ کھُل جائے۔ یعنی معلوم ہوجائے کہ کون کون مجرم ہے۔ کہہ دے کہ میرے پر خدا کا حکم نازل ہوا ہے اور مَیں تمام مومنوں سے پہلا ہوں۔ وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا۔ اُس نے دو امر کے ساتھ اُسے بھیجا ہے ایک تو یہ کہ اُس کو نعمت ِ ہدایت سے مشرف فرمایا ہے..... اور دین ِ الحق عطا کیا گیا ہے.....کہ وہ اسلام کی خوبی اور فوقیت ہر ایک پہلو سے تمام مذاہب پر ثابت کردے.....اور تم ایک گڑھے کے کنارہ پر تھے۔ خدا نے تمہیں اس سے نجات دی۔ اور یہ ابتدا سے مقدر تھا۔ خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اور وہ ہنسی کرنے والوں کے لئے کافی ہوگا۔ یہ تمام کاروبار خدا کی رحمت سے ہے۔ وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ تاکہ لوگوں کے لئے نشان ہو۔ اُن کو کہدے کہ اگر خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو۔ تو آؤ میری پَیروی کرو۔ تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور ان کو کہدے کہ میرے پاس میری سچائی پر خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی کو قبول کرتے ہو یا نہیں۔ اور ان کو کہہ دے کہ تم اپنی جگہ پر کام کرو اور مَیں اپنی جگہ پر کرتا ہوں۔ پھر تمہیں معلوم ہوجائیگا کہ خدا کس کے ساتھ ہے۔ خدا نے تجلّی فرمائی ہے کہ تا تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم نے مونہہ پھیر لیا۔ تو وہ بھی مونہہ پھیر لیگا۔ اور سچائی کے مخالف ہمیشہ کے زندان میں رہیں گے۔ تجھ کو یہ لوگ ڈراتے ہیں۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا۔ خدا عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے۔ ہم تیری تعریف کرتے اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بُجھادیں۔ مگر خدا اُس نور کو نہیں چھوڑے گا۔ جب تک پورا نہ کرلے۔ اگرچہ منکر کراہت کریں۔ ہم عنقریب اُن کے دلوں میں رُعب ڈالیں گے۔ جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلیگا۔ تو کہا جائیگا کہ کیا یہ سچ نہ تھا۔ جیسا کہ تم نے سمجھا اور کہتے ہیں کہ یہ صرف بناوٹ ہے۔ اُن کو کہہ دے
کہ خدا ہے جس نے یہ کاروبار بنایا۔ پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنے بازیچہ میں لگے رہیں۔ ان کو کہہ دے کہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو اس کا گناہ میرے پرہوگا۔ اور افترا کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہے۔ اور ہم قادر ہیں کہ تیری موت سے پہلے کچھ اُن کو اپنا کرشمہ ٔ قدرت دکھا دیں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں۔ یا تجھ کو وفات دے دیں۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ سو تو ہر ایک جگہ میرے ساتھ رہ (اللہ کے ساتھ رہ جہاں بھی کہ تو ہو۔ جس طرف بھی تم اپنا رُخ پھیرو وہیں اللہ تعالیٰ کی توجہ ہے۔ مرتب) تم بہترین امّت ہوں جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالے گئے۔ اور تم مومنوں کا فخر ہو۔ اور خدا کی رحمت سے نومید مت ہو۔ اُس کی رحمت تجھ سے قریب ہے۔ اُس کی مدد تجھ سے قریب ہے۔ اس کی مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی۔ دُور کی راہ سے مدد کرنے والے آئیں گے۔ خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا۔ وہ لوگ تیری مدد کریں گے۔ جن کے دلوں میں مَیں الہام ڈالوں گا۔ مَیں غم سے تجھے نجات دوں گا۔ مَیں خدا قادر 1 ہوں۔ ہم تجھے ایک کھُلی فتح دیں گے۔ جو ولی کو فتح دی جاتی ہے۔ وہ بڑی فتح ہوتی ہے اور ہم نے اس کو خاص اپنا رازدار بنایا۔ سب انسانوں سے زیادہ بہادر ہے۔ اور اگر ایمان ثریّا پر ہوتا تو وہیں سے وہ لے آتا۔ خدا اس کے بُرہان کو روشن کرے گا۔ اے احمد رحمت تیرے لبوں پر جاری کی گئی۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ خدا تیرے ذکر کو اُونچا کرے گا۔ اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ اے میرے احمد تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ مَیں نے تیرا درخت اپنے ہاتھ سے لگایا۔ اور ہم نے تیری طرف نظر کی۔ اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے۔ اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا.....اے احمد تیرا نام پورا ہوجائے گا۔ اور میرا نام پورا نہیں ہوگا۔ اے احمد تو مبارک کیا گیا اور جو تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی حق تھا۔ تیری شان عجیب ہے۔ اور تیرا بدلہ قریب ہے۔ مَیں تجھے لوگوں کے لئے امام معہود بناؤں گا۔ یعنی تجھے مسیح موعود اور مہدی معہود کروں گا۔ کیا لوگ اس سے تعجب کرتے ہیں۔ ان کو کہدے کہ خدا ذُوالعجائب ہے۔ اسی طرح ہمیشہ کیا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اور اپنے برگزیدہ بندوں میں داخل کردیتا ہے۔ اور وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا ۔ اور لوگ اپنے اعمال سے پوچھے جاتے ہیں۔ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھے اپنے لئے چُنا۔ زمین اور آسمان تیرے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسا کہ میرے ساتھ۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید۔ پس وقت آگیا ہے کہ تجھ کو لوگوں میں شہرت دی جائے گی۔ اب تو تیرے پر وہ وقت ہے کہ کوئی بھی تجھ کو نہیں پہچانتا۔ اور نزدیک ہے کہ تو تمام لوگوں میں شہرت پاجائے گا۔ اور کہیں گے کہ یہ رُتبہ تجھے کہاں سے ملا۔ یہ تو جھوٹ ہی معلوم ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کی مدد کرتا ہے اور اس کو اپنے برگزیدوں میں داخل کرلیتا ہے تو زمین پر کئی حاسد اس کے لئے مقرر کردیتا ہے یہی سنت اللہ ہے پس ان کو کہدے کہ مَیں تو کچھ چیز نہیں۔ مگر خدا نے ایسا ہی کیا۔ پھر ان کو چھوڑ دے کہ تا بیہودہ فکروں میں پڑے رہیں۔ اور خدا بہت پاک اور بہت مبارک اور بہت اونچا ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا۔ وہ
1 یہ حضور اقدس نے الہام کا حاصل مطلب بیان فرمایا ہے لفظی ترجمہ یہ ہے اور تیرا ربّ قادر ہے۔ (مرتب)
وقت آتا ہے کہ تیرے باپ دادے کا ذکر کوئی بھی نہیں کریگا۔ اور ابتداء سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا۔ (اور یہی انبیاء اور مامورین عظام میں خدا تعالیٰ کی عادت ہے) اور خدا ایسا نہیں ہے کہ تجھ کو چھوڑ دے۔ جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ ایک خلیفہ پیدا کروں سو مَیں نے آدم کو بنایا۔ اے آدم تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو ۔ اےاحمد تُو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو۔ اے مریم تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو۔ تو اس حالت میں مرے گا کہ مَیں تجھ سے راضی ہونگا اور خدا کے فضل سے تو بہشت میں داخل ہوگا۔ سلامتی کے ساتھ پاکیزگی کے ساتھ امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہوگا۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری مرادیں تجھے دے گا۔ تیرے پر سلام تُو مبارک کیا گیا۔ اور جس قدر لوگ تیرے زمانہ میں ہیں۔ سب پر مَیں نے تجھے فضیلت دی۔ کہیں گے یہ تو افترا ہے۔ ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سنا۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور بعض کو بعض پر فضیلت بخشی۔ ان کو کہدے کہ خدا کی طرف سے نور تمہارے پاس آیا ہے۔ پس اگر تم مومن ہو تو انکار مت کرو۔ جو لوگ کافر ہوگئے اور خدا کی راہ کے مزاحم ہوئے اُن پر ایک مرد نے جو فارس کی نسل میں سے ہے ردّ کیا۔ (اللہ تعالیٰ نےاُس کی قدر کی) کتاب ولی کی علی کی ذوالفقار ہے اور اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو وہاں سے اُس کو لے آتا۔ قریب ہے کہ اس کا تیل خودبخود بھڑک اُٹھے اگرچہ آگ اس کو نہ چھوئے وہ خدا سے نزدیک ہوا۔ اور آگے سے آگے بڑھا یہاں تک کہ دو قوموں کے درمیان کھڑا ہوگیا .............ہم نے اس کو قادیان کے قریب اُتارا۔ اور حق کے ساتھ اُتارا۔ اور حق کے ساتھ اُترا۔ اور اس میں وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو قرآن اور حدیث میں تھی۔ یعنی وہی مسیح موعود ہے۔ جس کا ذکر قرآن شریف اور حدیثوں میں تھا۔ سچی بات یہی ہے۔ جس میں تم لوگ شک کرتے ہو اور بعض کہیں گے کہ اس عہدہ اور منصب کے لائق فلاں فلاں تھا جو فلاں جگہ رہتا ہے اور کہیں گے کہ یہ تو مکر ہے جو تم نے شہر میں مِل جُل کر بنالیا۔ یہ لوگ تیری طرف دیکھتے ہیں اور تو انہیں نظر نہیں آتا۔ دیکھو یہ کیسا نشان ہے کہ خدا نے اُسے سکھلایا۔ اور بغیر ان کے جو پاک کئے جاتے ہیں۔ کسی کو علمِ قرآن نہیں دیا جاتا۔ اےقادر کے بندے مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ اور آج تو میرے پاس امین ہے اور تیرے پر دنیا اور دین میں میری رحمت ہے اور تو منصور اور مظفّر ہے۔ دُنیا اور آخرت میں وجیہہ اور خدا کا مقرّب ہے۔ مَیں تیرا ضروری چارہ ہوں۔ اور مَیں نے تجھے زندہ کیا۔ مَیں نے اپنے پاس سے سچائی کی رُوح تجھ میں پھُونکی۔ اور اپنی محبت تیرے پر ڈا ل دی۔ اور تُو نے میری آنکھوں کے سامنے پرورش پائی۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔ اس نے اس آدم کو یعنی تجھ کو پیدا کیا اور اس کو عزت دی۔ یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے حُلّوں میں۔ جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا گیا۔ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اور یاد کر وہ آنے والا زمانہ جب کہ ایک شخص تیرے پر کفر کا فتویٰ لگائے گا۔ اور اپنے کسی ایسے شخص کو جس کے فتویٰ کا دُنیا پر عام اثر ہوتا ہو۔ کہے گا کہ اے ہامان میرے لئے اس فتنہ کی آگ بھڑکا۔ تا مَیں اُس شخص کے خدا پر اطلاع پاؤں اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔ ہلاک ہوگئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ (یعنی جس نے یہ فتویٰ لکھا یا لکھوایا)اُس کو نہیں
چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے1.......اس فتویٰ تکفیر سے جو کچھ تکلیف تجھے پہنچے گی وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ یہ ایک فتنہ ہوگا پس صبر کرو جیسا کہ اولولعزم نبیوں نے صبر کیا۔ اور آخر خدا منکرین کے مکر کو سُست کردے گا۔ سمجھ اور یاد رکھ کہ یہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تا وہ تجھ سے بہت سا پیار کرے یہ اس خدا کا پیار ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور اس مصیبت کے صلہ میں ایک ایسی بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔ مَیں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ پس مَیں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں۔ زمین اور آسمان دونوں ایک سربستہ گٹھڑی کی طرح ہوگئے تھے۔ جن کے جواہر اور اسرار پوشیدہ تھے۔ پس ہم نے ان دونوں کو کھول دیا۔ یعنی اس زمانہ میں ایک قوم پیدا ہوگئی جو ارضی خواص اور طبائع کو ظاہر کررہے ہیں۔ اور ان کے مقابل پر ایک دوسری قوم پیداکی گئی جن پر آسمان سے دروازے کھولے گئے اور تجھے منکروں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے اور کہتے ہیں کیا یہی ہے جس کو خدا نے مبعوث فرمایا۔ کہہ مَیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے فقط ایک بشر ہوں مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور تمام بہتری قرآن میں ہے۔ مٹک کر چل کہ تیرا وقت پہنچ گیا۔ اور محمدیوں کا پَیر ایک بلند اور محکم مینار پر پڑگیا۔ وہی پاک محمد ؐ جو نبیوں کا سردار ہے۔ اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا۔ اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا..........مَیں تیری جماعت کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غلبہ دوں گا۔ ایک گروہ پہلوں میں سے ہوگا۔ جو اوائل حال میں قبول کرلیں گے اور ایک گروہ پچھلوں میں سے ہوگا۔ جو متواتر نشانوں کے بعد مانیں گے۔ مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤنگا دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُسے قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ خدا اُس کا نگہبان ہے خداکی عنایت اس کی نگہبان ہے۔ ہم نے اس کو اتارا اور ہم ہی اُس کے نگہبان ہیں خدا بہتر نگہبانی کرنے والا ہے اور وہ رحمان اور رحیم ہے کفر کے پیشوا تجھے ڈرائیں گے۔تُو مت ڈر کہ تُو غالب رہے گا۔ خدا ہر ایک میدان میں تیری مدد کرے گا۔ میرا دن ایک بڑے فیصلہ کا دن ہے۔ میری طرف سے یہ وعدہ ہوچکا ہے کہ مَیں اورمیرے رسول فتح یاب رہیں گے۔ کوئی نہیں کہ میری باتوں میں کچھ تبدیلی کردے۔ تو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرے لئے مَیں نے رات اور دن پیدا کیا۔ جو چاہے کر کہ تو مغفور ہے۔ تو مجھ سے وہ نسبت رکھتا ہے جس کی دنیا کو خبر نہیں۔ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ کوئی آسمان پر رہنے والا یا کسی غار میں چھُپنے والا وہ عجیب تر انسان ہے کہہ خدا عجیب در عجیب باتیں ظاہر کرنے والا ہے۔ ہر ایک دن نیا اعجوبہ ظاہر کرتا ہے وہی خدا ہے جو نومیدی کے بعد بارش نازل کرتا ہے (کہہ اس پر دلیل لاؤ۔ اگر تم سچے ہو۔ اور تُو ان لوگوں کو یہ خوشخبری سنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے۔ براہین احمدیہ) اور پاک
1 ’’یہ جو فرمایا کہ اگر دخل دیتا تو چاہئے تھاکہ ڈرتے ڈرتے دخل دیتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی بات جو کسی مجدّد وقت کی کسی کو سمجھ نہ آوے تو کچھ مضائقہ نہیں کہ ڈرتے ڈرتے نیک نیتی اور پاک دل کے ساتھ اس مسئلہ میں بحث کرے مگر عداوت اور بدزبانی تک اس معاملہ کو نہ پہنچاوے کہ انجام اس کا سلب ایمان اور ابو لہب کا خطاب ہے۔‘‘
(ضیاء الحق صفحہ 33۔34)
کلمے اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ ابراہیم ؑ پر سلام (یعنی اس عاجز پر) ہم نے اُس سے محبت کی اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کیا۔ پس تم ابراہیم کے قدم پر چلو۔‘‘ (اربعین نمبر 2 صفحہ9 تا 21 مطبوعہ 1936ء۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحۃ 355 تا 368)
1900ء
’’1 سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعالٰی زَادَ مَجْدَکَ یَنْقَطِعُ اٰبَآؤُکَ وُیُبْدَئُ مِنْکَ۔ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔ سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ۔ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔ تَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا وَّ لَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ اَوْ نَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْنًا۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ ھٰذَا مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ۔ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئ۔ لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ اِنَّہٗ ھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ وَتَھْذِیْبِ الْاَخْلَاقِ۔ وَقَالُوْا سَیُقْلَبُ الْاَمْرُ۔ وَمَا کَانُوْا عَلَی الْغَیْبِ مُطَّلِعِیْنَ۔ اِنَّآ اٰتَیْنَاکَ الدُّنْیَا وَخَزَآئِنَ رَحْمَۃِ رَبِّکَ وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔ وَ اِنِّیْ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ
1 (ترجمہ از مرتب) وہ خدا بہت پاک اور بہت مبارک اور بہت اُونچا ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا۔ وہ وقت آتا ہے کہ تیرے باپ دادے کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا اور سلسلہ خاندان تجھ سے شروع ہوگا۔ یہ وہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔ تجھ پر خدا کا سلام جو رحیم ہے۔ اور کہا جائے گا کہ ظالموں کے لئے ہلاکت ہے تو دور کی نسل بھی دیکھے گا۔ اور ہم تجھے خوش زندگی عطا کریں گے۔ اسی سال یا اس کے قریب یا اس سے چند سال زیادہ۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔ یہ تیرے ربّ کی رحمت سے ہے۔ وہ اپنی نعمت کو تجھ پر پُورا کرے گا تاکہ مومنوں کے لئے نشان ہو۔ اللہ تعالیٰ کئی معرکوں میں تیری نصرت کرے گا۔ او ر اللہ اپنا نور پورا کریگا۔ اگرچہ کافر ناپسند کریں۔ اور وہ مکر کرتے ہیں اللہ انہیں ان کے مکر کی سزا دے گا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ دیکھ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت تجھ سے قریب ہے۔ اس کی مدد تجھ سے قریب ہے۔ اس کی مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی۔ دُور کی راہ سے مدد کرنے والے آئیں گے۔ ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو کوئی ٹلا نہیں سکتا۔ وہ غالب اور عظمت والا ہے۔ خدا وہ خدا ہے۔ جس نے اپنا رسول اپنی ہدایت ‘ اپنے سچے دین اور اخلاق کی درستی کے لئے بھیجا۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ عنقریب یہ معاملہ درہم برہم کردیا جائے گا حالانکہ انہیں غیب پر کوئی اطلاع نہیں۔ ہم نے تجھے دنیا اور تیرے ربّ کی رحمت کے خزانے دیئے۔ اور تو ان لوگوں میں
الْقِیَامَۃِ۔ وَاِنَّکَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ فَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔ وَ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ وَیُحْیِ الدِّیْنَ۔ وَلَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ۔ اِنَّآ اَنْزَلَنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ اِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَا ھُمَا۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ وَقَالُوْا مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْ اٰبَآئِ نَا الْاَوَّلِیْنَ۔ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی۔وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَہٗ لَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ وَیَقُوْلُوْنَ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَٓا
سے ہے جو نصرت یافتہ ہیں۔ اور مَیں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ اور یقینا تو ہمارے حضور صاحب مرتبت اور امین ہے۔تو میرے حضور وہ مرتبہ رکھتا ہے۔ جسے مخلوق نہیں جانتی۔ اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے۔ یہاں تک کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے دکھلادے۔ پس مکذّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ جب اللہ کی نصرت اور فتح آئیگی اور تیرے ربّ کی بات پوری ہوجائے گی۔ ( تو کہا جائے گا) یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق تم جلدی کا مطالبہ کرتے تھے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں۔ تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ وہ شریعت کو قائم کرے گا۔ اور دین کو زندہ کرے گا۔ اور اگر ایمان ثریا سے معلّق ہوتا۔ تب بھی وہ اُسے پالیتا۔ ہم نے اس کو قادیان کے قریب اُتارا ہے۔ اوراس کو ضرورتِ حقہ کے مطابق ہم نے اُتارا ہے۔ اور وہ ضرورتِ حقہ کے ساتھ اُترا ہے۔ اور جو خدا نے ٹھہرا رکھا تھا وہ ہونا ہی تھا۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی نکلی۔ اور خدا کا حکم پورا ہوتا ہے۔ زمین اور آسمان بندھے ہوئے تھے۔ سو ہم نے دونوں کو کھول دیا۔ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا۔ تا اس دین کوسب دینوں پر غالب کرے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ تمام افترا ہے۔ کہہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو یہ سخت گناہ میری گردن پر ہے۔ اور مَیں اس سے پہلے ایک مدّت تک تم میں ہی رہتا تھا۔ کیا تم غور نہیں کرتے؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس بات کا ذکر اپنے بزرگوں سے نہیں سنا۔ کہہ ہدایت دراصل خدا کی ہدایت ہے اور جو شخص اس کے سوا اَور دین کو پسند کرے گا۔ اُسے قبول نہیں
اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۔ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۔ مِنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ مَھِیْنٌ۔ وَ لَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ جَاھِلٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ وَاِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ ذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ اُمَمٌ یَّسَّرْنَا لَھُمْ الْھُدٰی۔ وَ اُمَمٌ حَقَّ عَلَیْھِمُ الْعَذَابُ۔ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ وَلَکَیْدُ اللّٰہِ اَکْبَرُ۔ وَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ یَجُوْحُ الدِّیْنَ وَقَد بَلَجَتْ اٰیَاتِیْ وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھُمْ 1اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا۔ قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ۔ قُلْ اَیُّھَا الْکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ وَعِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ۔ وَ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ
کیا جائیگا۔ اور وہ آخرت میں نقصان رسیدہ ہوگا۔ اور یقینا تو صراطِ مستقیم پر ہے۔ دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور مقرّبین میں سے ہے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ بات تجھے کہاں سے حاصل ہوئی۔ یہ تو بشر کا کلام ہے اور بعض اَور لوگوں نے اس کام میں اسے مدد دی ہے۔ کیا تم فریب کو ماننے لگے۔ حالانکہ تم دیکھ رہے ہو۔ جو وعدہ تمہیں دیا گیا ہے اس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔ اس شخص کا وعدہ جو ذلیل آدمی ہے اور اپنی بات کو کھول کر بیان بھی نہیں کرسکتا۔ جاہل ہے یا مجنون۔ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو۔ تو آؤ میری پیروی کرو۔ تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور ہم تجھ سے ٹھٹھا کرنیوالوں کے مقابل پر تیرے لئے کافی ہوں گے۔ اور مکذّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے۔ سب تعریف اس خدا کو ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔ جس کو چاہتا ہے۔ اپنے لئے چُن لیتا ہے۔ وہ اپنے کام سے پوچھا نہیں جاتا۔ اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ کئی لوگوں کے لئے ہم نے ہدایت کا قبول کرنا سہل کر دیا اور کئی لوگ عذاب کے مستوجب ہوگئے۔ اور وہ منصوبہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیر کریگا۔ اوراللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اور اللہ کی جنگ بہت سخت ہوتی ہے اور تجھے انہوں نے ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے وہ ہنسی کی راہ سے کہتے ہیں۔ کیا یہی ہے۔ جس کو خدا نے مبعوث کیا۔ یہ شخص تو دین کی بیخ کنی کرنے والا ہے اور میری آیات روشن ہوگئیں۔ اور انہوں نے ظلم اور تعدّی کی راہ سے انکار کیا۔ حالانکہ اُن کے نفس اُسے سچا جانتے تھے اللہ انہیں ہلاک کرے۔ کدھر پھرے جاتے ہیں۔ کہہ اے منکرو! مَیں صادقوں میں سے ہوں۔ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں
1 نقل مطابق اصل۔ الہامات مندرجہ براہین احمدیہ حصّہ چہارم میں ’’واستیقنتھا‘‘ ہے۔ (مرتّب)
بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنُکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ وَالَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْٓا اُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ اَلْاِمَامُ خَیْرُ الْاَنَامِ۔ وَیَقُوْلُ الْعَدُوَّ لَستَ مُرْسَلاً۔ سَنَاْخُذُہٗ مِنْ مَّارِنٍ اَوْ خُرْطُوْمٍ۔ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۔ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا۔ قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ وَ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔ یَتَرَبَّصُوْنَ عَلَیْکَ الدَّوَآئِرَ عَلَیْھِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْٓئِ۔ قُلِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ وَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ یَعْصِمْکَ اللّٰہُ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ۔ اَنْتَ وَقَارُہٗ فَکَیْفَ یَتْرُکُکَ۔ اَنْتَ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہٗ۔ کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ۔ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا۔ اَلَمْ تَرَا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ فَانْتَظِرُوا الْاٰیَاتِ حتّٰی حِیْنٍ۔ اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ وَ اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَنْصَارِکَ وَاَنْتَ اِسْمِیَ الْاَعْلٰی۔ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ۔ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ الْمَحْبُوْبِیْنَ۔ فَاصْبِرْ
اور ہماری آنکھوں کے روبرو کشتی تیار کر اور ہمارے اشارے سے۔ وہ لوگ جو تیرے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں وہ خد اکے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی۔ وہی ہیں جن پر مَیں رجوع برحمت کرونگا۔ اور مَیں رجوع برحمت کرنے والا اور رحیم ہوں۔ امام تمام جہان سے بہتر ہوتا ہے۔ اور دشمن کہتا ہے کہ تو مرسل نہیں۔ ہم اُس کو ناک سے پکڑیں گے یعنی دلائل قاطعہ سے اس کا منہ بند کردینگے۔ اورجب تیرے ربّ نے کہا۔ مَیں زمین پر خلیفہ بنانیوالا ہوں۔ وہ بولے۔ کیا تُو ایسے شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے۔ فرمایا اس کی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں۔ تم نہیں جانتے۔ اور وہ تیری طرف نگاہ کرتے ہیں حالانکہ نہیں دیکھتے۔ وہ تیرے متعلق حوادث کی انتظار میں رہتے ہیں۔ مصائب انہی کو گھیریں گے۔ کہہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لئے مشغول رہو اور مَیں بھی عمل میں مشغول ہوں پھر دیکھو گے کہ کس کے عمل میں قبولیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا۔ اگرچہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں۔ اور اگر لوگ تیری حفاظت نہ کریں۔ تو اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ پاک ہے اللہ۔ تو خدا کا وقار ہے۔ پس وہ تجھے ترک نہیں کرے گا۔ تُو وہ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے مومنوں پر الزام لگانے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھے گا۔ کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو کم کرتے چلے آتے ہیں۔اس کی تمام طرفوں سے۔ کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ پس تم ایک وقت تک نشانات کی انتظار کرو۔ توبرگزیدہ مسیح ہے۔ اور مَیں تیرے ساتھ اور تیرے انصار کے ساتھ ہوں۔ا ورتُو میرا اسمِ اعلیٰ ہے۔ تُو مجھے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ تو میرے تمام محبوبوں کا قائم مقام ہے۔ پس صبر کر۔ یہاں تک کہ ہمارا حکم آوے اور
حَتّٰی یَاْتِیَکَ اَمْرُنَا وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ وَ اَنْذِرْ قَوْمَکَ وَ قُلْ اِنِّیْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ قَوْمٌ مُّتَشَاکِسُوْنَ۔ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَرُدُّھَآ اِلَیْکَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ وَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَّلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ اِنَّا زَوَّجْنَا کَھَا۔ اِنَّمَآ اَمْرُنَا اِذَآ اَرَدْنَا شَیْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ اِنَّمَا نُؤَخِّرُ ھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اَجَلٍ قَرِیْبٍ۔ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا۔ یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ۔ وَ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَتَوَجَّھْتُ لِفَصْلِ الْخِطَابِ۔ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ وَیَخِرُّوْنَ عَلَی الْاَذْقَانِ۔ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ بُشْرٰی لَکُمْ فِیْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ۔ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۔ قُلْ لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ لَنْ یُّخْزِیَھُمُ اللّٰہُ۔ مَآ اَھْلَکَ اللّٰہُ اَھْلَکَ 1اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ
اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ڈرا۔ اور اپنی قوم کو ڈرا۔ اور کہہ مَیں کھُلا کھُلا نذیر ہوں۔ یہ ایک بدخُلق قوم ہے۔ انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا۔ سو خدا اُن کے لئے تجھے کفایت کرے گا۔ اور اس کو تیری طرف واپس لائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں۔ اور اللہ کا وعدہ حق ہے۔ اور تیرا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کہہ مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو۔ ہم نے اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا۔ ہم جب کسی چیز کو چاہیں۔ تو ہمارا حکم اس کے متعلق صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم کہتے ہیں ہوجا۔ پس وہ ہوجاتی ہے۔ ہم انہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے رہے ہیں۔ جو نزدیک وقت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بے شمارفضل ہے۔ تیرے پاس میری نصرت آئیگی۔ مَیں ہی رحمان ہوں اور جب اللہ کی نصرت آئی۔ اور مَیں فیصلہ کے لئے متوجہ ہوا۔ تو کہیں گے۔ اے ہمارے ربّ ہمیں بخش دے ہم خطاکار ہیں اور ٹھوڑیوں کے بَل گریں گے۔ (تب انہیں کہا جائے گاکہ) آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب سے زیادہ معاف کرنے والا ہے۔ ان دنوں میں تمہیں بشارت ہو۔ دشمنوں کے چہرے متغیر ہوجائیں گے۔ اس دن ظالم کف ِ دست ملے گا اور کہے گا۔ کاش مَیں اس رسول کا راستہ اختیار کرلیتا۔ اور کہتے ہیں۔ یہ تو انسان کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے کہہ اگر یہ غیر اللہ کا کلام ہوتا تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے۔ اور مومنوں کو بشارت دو کہ اُن کے لئے اُن کے ربّ کے حضور میں ایک ظاہر و باطن طور پر کامل درجہ ہے۔ اللہ انہیں ہرگز رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ تیرے اہل کو ہلاک
1 اِس الہام کی تاریخ مرزا خدابخش صاحب نے اپنے مکتوب میں 1897ء لکھی ہے۔ (دیکھئے اصحابِ احمد جلد دوم صفحۃ 116 حاشیہ)
یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ۔ تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ۔ نُرِیْدُ اَنْ نُّنَزِّلَ عَلَیکَ اَسْرَارًا مِّنَ السَّمَآئِ وَنُمَزِّقَ الْاَعْدَآئَ کُلَّ مُمَزِّقٍ وَّ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَجُنُوْدَ ھُمَا مَاکَانُوْا یَحْذَرُوْنَ۔ قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ فَانْظُرُوْٓا اٰیَاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ۔ حُجَّۃٌ قَآئِمَۃٌ وَّفَتْحٌ مُّبِیْنٌ۔ حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ لِخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ۔ یُؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ۔ وَ تُفْتَحُ عَلٰی یَدِہِ الْخَزَآئِنُ وَ تُشْرِقُ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَفِیْٓ اَعْیُنِکُمْ عَجِیْبٌ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَاکَ بُرْھَانًا وَّ کَانَ اللّٰہُ قَدِیْرًا۔ عَلَیْکَ بَرَکَاتٌ وَّ سَلَامٌ۔ سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔ اَنْتَ قَابِلٌ یَّاْتِیْکَ وَابِلٌ۔ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ عَلٰی ثَلَاثٍ اَلْعَیْنِ وَعَلَی الْاُخْرَیَیْنِ۔ وَلَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ اِنَّآ اٰتَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَّبِکَ وَ انْحَرْ۔ اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ فَاعْبُدْنِیْ وَلَاتَسْتَعِنْ مِّنْ غَیْرِیْ۔ اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا۔ لَا یَدَ اِلَّا یَدِیْ۔ اِنَّآ اِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَآئَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ فَتْحٌ وَّ ظَفَرٌ۔ اِنِّیْٓ اَمُوْجُ مَوْجَ الْبَحْرِ۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکَ شُوَاظًا مِّنْ نَّارٍ۔
نہیں کرے گا۔ وہ لوگ جو ایمان لائے۔ اور اپنے ایمان کو ظلم کی ملونی سے محفوظ رکھا‘ وہی لوگ ہیں جن کے لئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے ہم تجھ پر بعض اَور آسمانی اسرار اُتارنا چاہتے ہیں۔ اور دشمنوں کو پارہ پارہ کردینگے۔ اور ہم فرعون اور ہامان اور اُس کے لشکر کو وہ کچھ دکھائیں گے۔ جس سے وہ ڈرتے ہیں۔ کہہ اے کافرو! مَیں سچا ہوں۔ پس تم ایک وقت تک میرے نشانات کا انتظار کرو۔ ہم عنقریب انہیں اپنے نشان اُن کے اردگرد اور ان کی ذاتوں میں دکھائیں گے۔ اس دن حجت قائم ہوگی۔ اور کھُلی کھُلی فتح ہوجائے گی۔ خدائے رحمان کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے۔ جس کی آسمانی بادشاہت ہے اس کو ملک عظیم دیا جائے گا۔ اور خزانے اس کے لئے کھولے جائیں گے۔ اور تمام زمین اپنے ربّ کے نور سے جگمگا اُٹھے گی یہ اللہ کا فضل ہے۔ اور تمہاری نگاہ میں عجیب۔ تجھ پر سلامتی ہو۔ ہم نے تجھے ایک عظیم الشان حجت کے طور پر اُتارا ہے۔ اور تیرا ربّ قادر ہے۔ تجھ پر برکات اور سلامتی ہو۔ تم پر اسی خدا کا سلام جو رحیم ہے۔ تو قابلیت رکھتا ہے اس لئے کہ تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا۔ تیرے تین عضووں پر خاص طور پر خدا کی رحمت نازل ہوگی۔ ایک تو آنکھ اور باقی دو اَور ۔ اور ہم تجھے پاکیزہ زندگی دیں گے۔ ہم نے تجھے خیر کثیر دی ہے۔ پس تُو اپنے ربّ کی عبادت کر اور قربانیاں کر۔ اللہ مَیں ہی ہوں پس میری ہی عبادت کر اور میرے غیر سے مدد مت طلب کر۔ مَیں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میری طاقت کے سوا کوئی طاقت نہیں۔ ہم جب کسی قوم کی حدود میں اُترتے ہیں۔ تو ان لوگوں کی صبح خراب ہوتی ہے جنہیں ڈرایا گیا ہو۔ مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ یکدم آؤں گا (اس دن) کھلی کھلی فتح ہوگی۔ اور کامیابی ہوگی۔ مَیں سمندر کی طرح موجزن ہوں گا۔ اس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا۔ پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم
قَدِابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ ثُمَّ یُرَدُّ اِلَیْکَ السَّلَامُ۔ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَکُمْ۔ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ اَلرَّحٰی تَدُوْرُ وَیَنْزِلُ الْقَضَآئُ۔ اِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ۔ وَلَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّرُدَّ مَآ اَتٰی۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ لَّا یَتَبَدَّلُ وَلَا یَخْفٰی۔ وَیَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْہُ۔ وَحْیٌ مِّن رَّبِّ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی۔ اِنَّ رَبِّیْ لَایَضِلُّ وَ لَایَنْسٰی۔ ظَفَرٌ مُّبِیْنٌ۔ وَ اِنَّمَا نُؤَخِّرُھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُ فِیْ غَیِّہٖ یَتَمَطّٰی۔ اِنَّہٗ مَعَکَ اِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَمَآ اَخْفٰی۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ یَعْلَمُ کُلَّ شَیْئٍ وَّیَرٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ یُحْسِنُوْنَ الْحُسنٰی۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اَحْمَدَ اِلٰی قَوْمِہٖ فَاَعْرَضُوْا وَقَالُوْا کَذَّابٌ اَشِرٌ۔ وَجَعَلُوْا یَشْھَدُوْنَ عَلَیْہِ وَیَسِیْلُوْنَ کَمَآئِ مُّنْھَمِرٍ۔ اِنَّ حِبِّیْ قَرِیْبٌ۔ اِنَّہٗ قَرِیْبٌ مُّسْتَتِرٌ۔ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّقْتُلُوْکَ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ۔ یَکْلَأُکَ اللّٰہُ۔ اِنِّیْ حَافِظُکَ۔ عِنَایَۃُ
نبیوں نے صبر کیا۔ ہم تیری طرف (آزمائش کی) آگ کے شعلے بھیجیں گے۔ مومن ضرور ابتلاء میں ڈالے جائیں گے۔ پھر تیری طرف سلامتی لوٹائی جائے گی۔ اور عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو۔ اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو۔ اور اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔ چکّی پھرے گی اور قضا قدر نازل ہوگی۔ یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ یہ ضرور آئے گا۔ اور کسی کی مجال نہیں جو اُس کو ردّ کرسکے۔ کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا۔ اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا۔ اور ایک بات پیدا ہوجائے گی۔ جو تجھے تعجب میں ڈالے گی۔ یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے۔ میرا ربّ اس صراطِ مستقیم کو نہیں چھوڑتا۔ جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں۔ جو مدد کرنے کے لائق ہیں۔ سو تمہیں اس مقدمہ میں کھُلی کھُلی فتح ہوگی۔ مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے۔ جو ہم نے مقرر کر رکھی ہے۔ تو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے۔ پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اور ناز و تکبر میں چھوڑ دے۔ وہ قادر تیرے ساتھ ہے۔ اس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے۔ بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں۔ جو انسان کے فہم سے بھی برتر ہیں۔ وہ بھی اس کو معلوم ہیں۔ وہ خدا حقیقی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے۔ اور جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور وہ خد ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام باریک لوازم کو ادا کرتے ہیں۔ ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ پس قوم اس سے روگردان ہوگئی۔ اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذّاب ہے۔ دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اس کے خلاف گواہیاں دیں۔ تا ا س کو گرفتار کرادیں۔ اور وہ ایک تُند سیلاب کی طرح جو اُوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے۔ اس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے۔ کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں۔ کہ تجھے قتل کردیں۔ اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ اور تیری نگہبانی کرے گا۔ مَیں تیری حفاظت
اللّٰہِ حَافِظُکَ۔ تَرٰی نَسْلاًمبَعِیْدًا اَبْنَآئَ الْقَمَرِ۔ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ۔ اِنَّہٗ سَیَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبًا۔ اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَ النُّفُوْسُ تُضَاعُ۔ وَسَاَنْزِلُ وَ اِنَّ یَوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ۔ لَا تَعْجَبَنْ مِنْ اَمْرِیْ۔ اِنَّا نُرِیْدُ اَنْ نُّعِرَّکَ وَ نَحْفَظَکَ۔ یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَ اَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ مَآ اَنْتَ اَنْ تَتْرُکَ الشَّیْطَانَ قَبْلَ اَنْ تَغْلِبَہٗ۔ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ اَلْفَوْقُ مَعَکَ وَ التَّحْتُ مَعَ اَعْدَآئِ کَ۔ وَاَیْنَمَا تُوَ لُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًامَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ وَلِتَدْعُوَ قَوْمًا اٰخَرِیْنَ عَادَیْتُمْ مَّوَدَّۃً۔ اِنَّا نَعْلَمُ الْاَمْرَ وَ اِنَّا لَعَالِمُوْنَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ۔ اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِیْجَتِیْ۔ ھٰذَا مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَا مَعَکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ۔ اَنْتَ بُرْھَانٌ وَّ اَنْتَ فُرْقَانٌ۔ یُرِی اللّٰہُ بِکَ سَبِیْلَہٗ۔ اَنْتَ الْقَآئِمُ عَلٰی نَفْسِہٖ۔ مَظْھَرُ الْحَیِّ۔ وَاَنْتَ مِنِّیْ مَبْدَئُ
کرنے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری محافظ ہے۔ تُو نسل بعید دیکھے گا۔ قمر کے بیٹے۔ ٹھٹھا کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے ہم کافی ہیں۔ تیرا ربّ موقع دیکھ رہا ہے۔ وہ عنقریب بچوں کو (غم کی وجہ سے) بوڑھا کردے گا۔ بیماریاں پھیلائی جائیں گی۔ اور جانیں ضائع ہوں گی اور مَیں عنقریب اُتروں گا۔ اور میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے۔ میرے امر سے تعجب مت کر۔ ہم تجھے عزت دینا چاہتے ہیں۔ اور تیری حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ نبیوں کا چاند آئے گا۔ اور تیرا سارا کام تجھے حاصل ہوجائے گا۔ تو ایسا نہیں ہے کہ شیطان کو مغلوب کرنے سے قبل اسے چھوڑ دے۔ اور دشمن چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھادیں۔ اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے بلندی تیرے لئے ہے اور پستی تیرے دشمنوں کے حصہ میں۔ اور جدھر تم منہ پھیرو گے۔ اُدھرہی اللہ کی وجہ ہوگی۔ کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ خدا وہ خدا ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔ تاکہ تُو اس قوم کو ڈرائے۔ جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے۔ اور تاکہ تُو دوسری قوم کو دعوت دے۔ بالکل ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے دشمنوں کے درمیان دوستی پیدا کردے۔ ہم معاملہ کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ اور ہم ہی جاننے والے ہیں۔ اس خدا کو تعریف ہے جس نے دامادی اور نسب ہر دو کی رُو سے تم پر احسان کیا۔ میری نعمت کو یاد کر کہ تونے میری خدیجہ کو دیکھا یہ تیرے ربّ کی رحمت ہے۔ وہ اپنی نعمتیں تیرے پر پوری کرے گا۔ تاکہ خدا کا یہ کام مومنوں کیلئے نشان ہو۔ اے ابراہیم! تو میرے ساتھ ہے۔ اورمَیں تیرے ساتھ ہوں۔ تو روشن نشان اور فیصلہ کن نشان ہے۔ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ سے لوگوں کو اپنی راہ دکھائے گا۔ تو خدا کے
الْاَمْرِ۔ وَاَنْتَ مِنْ مَّآئِ نَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ۔ اِذَا التَّقَی الْفِئَتَانِ۔ فَاِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔ وَیَنْصُرُہُ الْمَلَآئِکَۃُ۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَ الْعُلٰی۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ وَلِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ م بَعْدُ۔ یَا عَبْدِیْ لَا تَخَفْ۔اَلَمْ لَّرَاَنَّاْتِی الْاَرْضَنَنْقُصُھَامِنْ اَطْرَفِھَا۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔‘‘
(اربعین نمبر 2 صفحہ 31 تا 36۔ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 379 تا 385)
1900ء
’’ 1 فَلَا وَ رَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔‘‘ (الحکم جلد4نمبر 30مؤرخہ 24؍اگست 1900ء صفحہ7)
1900ء
(الف) تحفہ گولڑویہ میں بڑے بڑے دقائق معارف بیان فرمائے ہیں۔ آج فرماتے تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام ہوا ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ رسالہ بڑا بابرکت ہوگا ‘ اسے پورا کرو۔ اور پھر الہام ہوا۔
قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔‘‘
(از مکتوب مولانا عبدالکریم صاحبؓ مؤرخہ 3؍ستمبر 1900ء مندرجہ الحکم جلد10 نمبر 35 مؤرخہ 10؍اکتوبر 1906ء صفحہ9)
(ب) ’’ اِس رسالہ1میں عجیب عجیب نکات و اسرار لکھے جارہے ہیں۔ اور اس تحفہ کی نسبت یہ وحی حضرت اقدس
نفس پر قائم ہے٭۔زندہ خدا کا مظہر۔ اور تو میری طرف سے امر مقصود کا مبدء ہے۔ اور تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ فشل
سے ہیں۔ جب دو گروہ آمنے سامنے ہوں گے۔ تو مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اور ملائکہ اس کی مدد کریں گے۔ مَیں ہی رحمان ہوں بزرگی اور بلندی والا۔ اور وہ اپنی خواہش کے ماتحت نہیں بولتا۔ بلکہ وحی کا تابع ہے۔ جو نازل کی جاتی ہے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ مَیں خلیفہ بناؤ ں پس مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔ اور شروع میں بھی اور بعدمیں بھی اللہ ہی کی حکومت ہے۔ اے میرے بندے مت ڈر۔ کیا تو نہیں دیکھتا۔ کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے آتے ہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) تیرے ربّ کی قسم ہے وہ مومن نہیں ہونگے جب تک تجھے اپنے تمام جھگڑوں میں حکم نہ بنائیں۔ پھر جو تُو فیصلہ کرے اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں۔ اور اُسے بشاشت سے تسلیم کرلیں۔
1 تحفہ گولڑویہ ۔ الحکم 10 ستمبر1900ء صفحہ 10۔ (مرتب)
٭ (نوٹ ازمرتّب) یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے۔ (دیکھئے اربعین نمبر3 صفحہ 34۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 425)
علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوچکی ہے کہ
رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔‘‘
(الحکم جلد4نمبر 32 مؤرخہ 10؍ستمبر 1906ء صفحہ 10)
7 ستمبر1900ء
’’ حضرت کو کل درد سر کے وقت بار بار یہ الہام ہوا۔
اِنِّیْ مَعَ 1 الْاُمَرَآئِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔‘‘
(از مکتوب مولانا عبدالکریم صاحبؓ مؤرخہ8؍ستمبر 1900ء مندرجہ الحکم جلد10 نمبر 35 مؤرخہ 10؍اکتوبر 1906ء صفحہ10)
1900ء
’’ اسی مضمون کے لکھنے کے وقت خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ
یَلَاشْ خدا کا ہی نام ہے
یہ ایک نیا الہامی لفظ ہے کہ اب تک مَیں نے اس کو اس صورت پر قرآن اور حدیث میں نہیں پایا۔ اور نہ کسی لغت کی کتاب میں دیکھا۔ اس کے معنے میرے پر یہ کھولے گئے۔ یَالَاشَرِیْکَ اس نام کے الہام سے یہ غرض ہے کہ کوئی انسان کسی ایسی قابل ِ تعریف صفت یا اسم یا کسی فعل سے مخصوص نہیں جو وہ صفت یا اسم یا فعل کسی دُوسرے میں نہیں پایا جاتا۔ یہی سرّ ہے جس کی وجہ سے ہر ایک نبی کی صفات اور معجزات اظلال کے رنگ میں اس کی اُمّت کے خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ جو اس کے جوہر سے مناسبت تامہ رکھتے ہیں۔ یا کسی خصوصیت کے دھوکہ میں جہلا اُمّت کے کسی نبی کو لاشریک نہ ٹھہرائیں۔ یہ سخت کفر ہے جو کسی نبی کو یلاش کا نام دیا جائے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 69 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 203،204 حاشیہ)
1900ء
’’ 2 وَ اِذَا ھَلَکَ الدَّجَّالُ فَلَا دَجَّالَ بَعْدَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ اَمْرٌ مِّنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ وَّ نَبَأٌمِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا الْکَرِیْمِ وَبَشَارَۃٌ مِّنَ الرَّئُ وْفِ الرَّحِیْمِ۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ صفحہ 89۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 241)
1900ء
(ا) ’’ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں3جو پیش کرتے ہیں۔ تحریف معنوی یا لفظی میں
1 (ترجمہ از مرتب) یعنی مَیں امیروں کے ساتھ تیری طرف اچانک آؤں گا۔
2 (ترجمہ از مرتب) اور جب دجّال ہلاک ہوگا۔ تو اس کے بعد قیامت کے دن تک کوئی دجّال نہیں ہوگا۔ یہ خدائے حکیم و علیم کی طرف سے فیصلہ ہے اور ہمارے ربّ کریم کی طرف سے پیشگوئی اور بشارت ہے۔
3 ’’ جو محض ظنّیات کا ذخیرہ اور مجروح اور مخدوش ہیں......اور قرآن بھی ان حدیثوں کو جھوٹی ٹھیراتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ9۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 51حاشیہ)
آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں۔‘‘
(ضمیمہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 10۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 51 حاشیہ)
1900ء
(الف) ’’ کشفی طور پر ایک مرتبہ مجھے ایک شخص دکھایا گیا۔ گویا وہ سنسکرت کا ایک عالم آدمی ہے جو کرشن کا نہایت درجہ معتقد ہے۔ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا۔ اور مجھے مخاطب کرکے بولا کہ
’’ ہے رُو دّر گوپال تیری استت گیتا میں لکھی ہے۔
اسی وقت مَیں نے سمجھا کہ تمام دُنیا ایک رُودّر گوپال کا انتظا رکررہی ہے کیا ہندو ‘ کیا مسلمان ‘ اور کیا عیسائی۔ مگر اپنے اپنے لفظوں میں اور زبانوں میں۔ اور سب نے یہی وقت ٹھہرایا ہے۔ اور اس کی یہ دونوں صفتیں قائم ہیں۔ یعنی سُوروں کو مارنے والا ‘ اور گائیوں کی حفاظت کرنے والا۔ اور وہ مَیں ہوں۔ جس کی نسبت ہندوؤں میں پیشگوئی کرنے والے قدیم سے زور دیتے آئے ہیں کہ وہ آریہ ورت میں ‘ یعنی اسی ملک ہند میں پیدا ہوگا۔ اور انہوں نے اس کے مسکن کے نام بھی لکھے۔ مگر وہ تمام نام استعارہ کے طور پر ہیں۔ جن کے نیچے ایک اَور حقیقت ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 130 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 315 تا 317)
(ب) ’’ خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بارہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گذرا ہے ‘ وہ خدا کے برگزیدہ اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا۔ اور ہندوؤں میں اَوتار کا لفظ درحقیقت نبی کے ہم معنی ہے۔ اور ہندوؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں ایک اَوْتار آئے گا۔ جو کرشن کے صفات پر ہوگا اور اس کا بروز ہوگا۔ اور میرےپر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ مَیں ہوں۔ کرشن کی دو صفت ہیں۔ ایک رُودّر یعنی درندوں اور سُوروں کو قتل کرنے والا۔ یعنی دلائل اور نشانوں سے۔ دوسرے گوپال یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکوں کا مددگار۔ اور یہ دونوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں اور یہی دونوں صفتیں خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 130 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 317)
(ج) وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اُس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تُو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے۔
(لیکچر سیالکوٹ صفحہ 33 ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 228)
(د) اب واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اوراوتار میں نہیں پائی جاتی اوراپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اُترتا تھا۔ وہ خدا کی طرف سے فتحمند اوربااقبال
تھا جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا۔ وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑدیاگیا۔ وہ خدا کی محبت سے پُر تھا اورنیکی سے دوستی اور شَرّ سے دشمنی رکھتا تھا۔ خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اُس کا بروز یعنی اوتار پَیدا کرے۔ سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پوراہوا۔
(لیکچر سیالکوٹ صفحہ 33،34۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 228، 229)
(ھ) ’’مجھے منجملہ اَور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہؤا تھا کہ
ہے کرشن رُودّر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے۔‘‘
(لیکچرسیالکوٹ صفحہ 34 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 229)
(و) ’’ جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا اِن دنوں میں انتظار کرتے ہیں۔ وہ کرشن مَیں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ
جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ وہ تُو ہی ہے۔ آریوں کا بادشاہ۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 85۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 521،522)
1900ء
’’ ایک بڑا تخت مربع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے۔ جس پر مَیں بیٹھا ہوا ہوں۔ ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے۔ کرشن جی کہاں ہیں۔ جس سے سوال کیا گیا۔ وہ میری طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ یہ ہے۔ پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذر کے طور پر دینے لگے۔ اتنے ہجوم میں سے ایک ہندو بولا۔
’’ہے کرشن جی رُودّر گوپال‘‘
(یہ ایک عرصہ 1دراز کی رؤیاہے)
(البدر جلد2 نمبر 41، 42 مؤرخہ 29؍اکتوبر و 8؍نومبر 1903ء صفحہ 322)
1900ء
فرمایا 2 کہ
’’ ایک بار ہم نے کرشن جی کو دیکھا وہ کالے رنگ کے تھے اور پتلی ناک کشادہ پیشانی والے ہیں۔ کرشن جی نے
2،1 چونکہ اس کشف کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی۔ اس لئے سابقہ کشف کی مناسبت سے اسے یہاں درج کیا گیا۔
(مرتب)
اس الہام کا بھی صحیح سن ء معلوم نہیں ہوسکا۔ پچھلی مناسبت سے یہاں لکھا گیا ۔ (مرتب)
اُٹھ کر اپنی ناک ہماری ناک سے اور اپنی پیشانی ہماری پیشانی سے ملا کر چسپاں کردی۔‘‘
(الحکم جلد12 نمبر17 مؤرخہ 6؍مارچ 1908ء صفحہ 7)
1900ء
’’ ایک 1باریہ الہام ہوا تھا کہ
’’ آریوں کا بادشاہ آیا۔‘‘
(الحکم جلد 12نمبر 17 مؤرخہ 6؍مارچ 1908ء صفحہ 7)
1900ء (الف) ’’ ایک دفعہ مجھے مرض ذیابیطس کے سبب بہت تکلیف تھی۔ کئی دفعہ سَو، سَو مرتبہ دن میں پیشاب آتا تھا۔ دونوں شانوں میں ایسے آثار نمودار ہوگئے۔ جن سے کاربنکل کا اندیشہ تھا۔ تب مَیں دُعا میں مصروف ہوا تو یہ الہام ہوا۔
’’وَالْمَوْتِ اِذَا عَسْعَسَ‘‘
یعنی قسم ہے موت کی جب کہ ہٹائی جائے۔ چنانچہ یہ الہام بھی ایسا پورا ہوا کہ اس وقت سے لے کر ہمیشہ ہماری زندگی کا ہر ایک سیکنڈ ایک نشان ہے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 235۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 613)
(ب) ’’ پرانا الہام: اَلْوِدَاعُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔غِیْضَ الْمَآئُ۔ وَالْمَوْتِ اِذَا عَسْعَسَ۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ موجودہ خلافت لائبریری۔ ربوہ)
1900ء
’’فرمایا:کیا دیکھتا ہوں کہ محمود کی والدہ آئی ہیں۔ اور ان کے ہاتھ میں ایک جوتی ہے اور مجھ سے کہتی ہیں۔ یہ نئی جوتی آپ پہن لیں۔ اور پھر میرے ہاتھ میں دیکر کہا۔ یہ جوتی آپ کے لئے ہے پہن لیجئے، دشمن زیر ہے۔‘‘
(از چٹھی مولانا عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد4نمبر 37 مؤرخہ 17؍اکتوبر 1900ء صفحہ 2)
27 اکتوبر 1900ء
(الف) ’’ بہت دفعہ ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات بتلاتے ہیں۔ مَیں اُس کو سنتا ہوں۔ مگر آپؐ کی صورت نہیں دیکھتا ہوں۔ غرض یہ ایک حالت ہوتی ہے جو بین الکشف والالہام ہوتی ہے۔
رات کو آپ ؐ نے مسیح موعود کے متعلق یہ فرمایا ہے۔
یَضَعُ الْحَرْبَ وَیُصَالِحُ 1 النَّاس
یعنی ایک طرف تو جنگ وجدال اور حرب کو اُٹھادے گا۔ دوسری طرف اندرُونی طور پر مصالحت کرادے گا۔ گویا
1 کاتب کی غلطی سے بَیْنَ کا لفظ رہ گیا ہے۔ چنانچہ الحکم جلد9 نمبر 42 مؤرخہ 30؍نومبر 1905ء صفحہ 2 سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل الہام یُصَالِحُ بَیْنَ النَّاسِ ہے۔ (مرتب)
مسیح موعود کے لئے دو نشان ہوں گے:۔
اوّل بَیرونی نشان کہ حرب نہ ہوگی۔
دُوسرا اندرونی نشان کہ باہم مصالحت ہوجاوے گی۔
پھر اس کے بعد فرمایا۔
سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ۔
سِلْمان یعنی دوصُلحیں
اور پھر فرمایا۔
عَلٰی مَشْرَبِ الْحَسَنِ
یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں بھی دو2 ہی صُلحیں تھیں۔ ایک صلح تو اُنہوں نے حضرت معاؔویہ کے ساتھ کرلی اور دوسری صحابہؓ کی باہم صلح کرادی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود حسنی المشرب ہے.......
اس کے بعد فرمایا کہ
حسنؔ کا دودھ پئے گا
پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ مہدی آپ کی آل میں سے ہوگا۔ یہ مسئلہ اس الہام سے حل ہوگیا اور مسیح موعود کا جو مہدی بھی ہے ‘ کام بھی معلوم ہوگیا۔ پس وہ جولوگ کہتے ہیں کہ وہ آتے ہی تلوار چلائے گا اور کافروں کو قتل کرے گا ‘ جھوٹے ہیں۔ اصل بات یہی ہے جو اس الہام میں بتلائی گئی ہے کہ وہ دو صلحوں کا وارث ہوگا۔ یعنی بَیرونی طور پر بھی صلح کرے گا اور اندرونی طور پر بھی مصالحت ہی کرادے گا۔ ‘‘
(الحکم جلد4 نمبر 40 مؤرخہ 10؍نومبر 1900ء صفحہ3)
(ب) ’’ یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھی۔ اس کی تصدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ
’’سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ عَلٰی مَشْرَبِ الْحَسَنِ۔‘‘
میرا نام سلمان رکھا یعنی دو سِلم۔ اور سِلم عربی میں صلح کو کہتے ہیں۔ یعنی مقدّر ہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہوں گی۔ ایک اندرونی جو بُغض اور شحنا دُور کرے گی۔ دوسری بَیرونی کہ جو بَیرونی عداوت کے وجوہ کو پامال کرکے اور اسلام کی عظمت دکھا کر غیر مذہب والوں کو اسلام کی طرف جھکادے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سلمان آیا ہے اُس سے بھی مَیں مراد ہوں۔ ورنہ اُس سلمان پر دو صلح کی پیشگوئی صادق نہیں آتی۔ ‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ صفحہ 15۔ روحانی خزائن جلد 18 صفح-ہ 212 حاشیہ)
1900ء
’’ 1 بُشْرٰی لَکَ اَحْمَدِیْ۔ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ۔ غَرَسْتُ لَکَ قُدْرَتِیْ بِیَدِیْ۔سِرُّکَ سِرِّیْ۔ اَنْتَ وَجِیْہً فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ یَآ اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ بُوْرِکْتَ یَآ اَحْمَدُ وَکَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حقًّا فِیْکَ۔ الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَا الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ وَ اِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنَ۔ وَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ وَ اِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَا لَمِیْنَ۔ یَآ اَحْمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَآ اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ ھٰذَا مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ لِیُقِیْمَ الشَّرِیْعَۃَ وَ یُحْیِ الدِّیْنَ۔ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ
ترجمہ:۔ اے میرے احمد تجھے بشارت ہو۔ تو میری مراد ہے۔ اور میرے ساتھ ہے۔ مَیں نے اپنے ہاتھ سے تیرا درخت لگایا۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ اور تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے اپنے لئے تجھے چنا۔ تو مجھ سے ایساہے۔ جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ پس وقت آگیا ہے کہ تو مدد دیا جائے۔ اور لوگوں میں تیرے نام کی شہرت دی جائے۔ اے احمد تیرے لبوں میں نعمت یعنی حقائق اور معارف جاری ہیں۔ اے احمد تو برکت دیا گیا۔ اور یہ برکت تیرا ہی حق تھا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی قرآن کے اُن معنوں پر اطلاع دی جن کو لوگ بھول گئے تھے۔ تاکہ تُو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے بے خبر گذر گئے۔ اور تاکہ مجرموں پر خدا کی حجت پوری ہو جائے۔ ان کو کہہ دے کہ مَیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی وحی اور حکم سے یہ سب باتیں کہتا ہوں۔ اور مَیں اس زمانہ میں تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں۔ ان کو کہدے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔ اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا۔ اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں کرے گا۔ کہ وہ تجھے چھوڑ دے جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے۔ اور تیرے پر دُنیا اور دین میں میری رحمت ہے اور تو آج ہماری نظر میں صاحب ِ مرتبہ ہے۔ اور ان میں سے ہے جن کو مدد دی جاتی ہے۔ اور مجھ سے تو وہ مقام اور مرتبہ رکھتا ہے جس کو دنیا نہیں جانتی اور ہم نے دُنیا پر رحمت کرنے کے لئے تجھے بھیجا ہے۔ اے احمد اپنے زوج کے ساتھ بہشت میں داخل ہو۔ یعنی ہر ایک جو تجھ سے تعلق رکھنے والا ہے گو وہ تیری بیوی ہے یا تیرا دوست ہے
الْاَنْبِیَآئِ۔ وَجِیْہٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اُعْرَفَ۔ وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ یَآ عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ یُخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَ لَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔ نَحْمَدُکَ وَ نُصَلِّی۔ وَ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ وَ قَالُوْٓا اِنْ ھُوَ اِلَّآ اِنْکُ اِن فْتَرٰی۔ وَمَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ۔ وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ کَذَالِکَ لِتَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ وَجَحَدُوْا بِھَا وَ اسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ
نجات پائیگا۔ اور اس کو بہشتی زندگی ملے گی اور بہشت میں داخل ہو گا1میں نے ارادہ کیا کہ زمین پر اپنا جانشین پیدا کروں۔ سو مَیں نے اس آدم کو پیدا کیا۔ یہ آدم شریعت کو قائم کرے گا۔ اور دین کو زندہ کرے گا۔ یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے لباس میں۔ دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور خدا کے مقربوں میں سے۔ مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا۔ پس مَیں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں۔ اور ہم اس اپنے بندہ کو اپنا ایک نشان بنائیں گے۔ اور اپنی رحمت کا ایک نمونہ کریں گے۔ اور ابتدا سے یہی مقدّر تھا۔ اے عیسیٰ مَیں تجھے طبعی طور پر وفات دوں گا۔ یعنی تیرے مخالف تیرے قتل پر قادر نہیں ہوسکیں گے اور مَیں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ یعنی دلائل واضح سے اور کھُلے کھُلے نشانوں سے ثابت کردوں گا کہ تُو میرے مقر ّبوں میں سے ہے اور اُن تمام الزاموں سے تجھے پاک کروں گا جو تیرے پر منکر لوگ لگاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے تیرے پَیرو ہوں گے مَیں اُن کو اُن دوسرے گروہ پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دُوں گا۔ جو تیرے مخالف ہوں۔ تیرے تابعین کا ایک گروہ پہلوں میں سے ہوگا۔ اور ایک گروہ پچھلوں میں سے۔ لوگ تجھے اپنی شرارتوں سے ڈرائیں گے۔ پر خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا۔ گو لوگ نہ بچاویں۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ وہ عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے۔ یعنی جو گالیاں نکالتے ہیں ان کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔ اور جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں ان کے لئے ہم اکیلے کافی ہیں۔ اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو جھوٹا افترا ہے جو اس شخص نے کیا۔ ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سنا۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ کسی کو کوئی مرتبہ دینا خدا پر مشکل نہیں۔ ہم نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ پس اسی طرح اس شخص کو یہ مرتبہ عطا فرمایا تاکہ
1 ’’یہ مرتبہ تیرے ربّ کی رحمت سے ہے تاکہ لوگوں کے لئے نشان ہو۔‘‘ (براہین احمدیہ)
اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ وَ اِنْ یَرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔ کَتَب اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ۔ وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ۔ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۔ وَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ وَیَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَایُبْصِرُوْنَ وَاِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْ کَفَّرَ۔ اَوْقِدْ لِیْ یَا ھَامَانُ لَعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ عَلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَا کَانَ لَہٗ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَآ اِلَّا خَائِفًا۔ وَمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ
مومنوں کے لئے نشان ہو۔ مگر خدا کے نشانوں سے ان لوگوں نے انکار کیا۔ دل تو مان گئے مگر یہ انکار تکبر اور ظلم کی وجہ سے تھا۔ ان کو کہدے کہ میرے پاس خدا کی طرف سے گواہی ہے پس کیا تم مانتے نہیں پھر ان کو کہدے کہ میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے۔ پس کیا تم قبول نہیں کرتے اور جب نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو ایک معمولی امر ہے جو قدیم سے چلا آتا ہے......خدا نے قدیم سے لکھ رکھا ہے یعنی مقرر کر رکھا ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے یعنی گو کسی قسم کا مقابلہ آپڑے جو لوگ خدا کی طرف سے ہیں۔ وہ مغلوب نہیں ہوں گے اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ خدا وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ کوئی نہیں جو خد اکی باتوں کو بدل دے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو کسی ظلم سے آلودہ نہیں کیا ان کو ہر ایک بلا سے امن ہے اور وہی ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کر وہ تو ایک غرق شدہ قوم ہے۔ اور تجھے ان لوگوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو خدا نے مبعوث فرمایا۔ اور تیری طرف دیکھتے ہیں اور تُو اُنہیں نظر نہیں آتا۔ اور یاد کرو وہ وقت جب تیرے پر ایک شخص سراسر مکر سے تکفیر کا فتویٰ دے گا........وہ اپنے بزرگ ہامان کو کہے گا کہ اس تکفیر کی بنیاد تو ڈال کہ تیرا اثر لوگوں پر بہت ہے اور تُو اپنے فتویٰ سے سب کو افروختہ کرسکتا ہے سو تُو سب سے پہلے اس کفر نامہ پر مُہر لگا۔ تا سب علماء بھڑک اُٹھیں اور تیری مُہر کو دیکھ کر وہ بھی مہریں لگا دیں اور تاکہ مَیں دیکھوں کہ خدا اس شخص کے ساتھ ہے یا نہیں کیونکہ مَیں اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں (تب اس نے مُہر لگادی) ابو لہب ہلاک ہوگیا۔ اوراس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے۔ (ایک وہ ہاتھ جس کے ساتھ تکفیر نامہ کو پکڑا اور دوسرا وہ ہاتھ جس کے ساتھ مُہر لگائی یا تکفیر نامہ لکھا) اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس کام میں دخل دیتا۔ مگر ڈرتے
اُولُوالْعَزْمِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَمًّا۔ حُبًّامِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْرَمِ۔ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔ وَفِی اللّٰہِ اَجْرُکَ وَیَرْضٰی عَنْکَ رَبُّکَ وَیُتِمُّ اسْمَکَ۔ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔1
ڈرتے. اور جو تجھے رنج پہنچے گا۔ وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ جب وہ ہامان تکفیر نامہ پر مُہر لگادے گا تو بڑا فتنہ برپا ہوگا۔ پس تو صبر کر۔ جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے فتنہ ہوگا۔ تا وہ تجھ سے بہت محبت کرے۔ جو دائمی محبت ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔ اور خدا میں تیرا اجر ہے۔ خدا تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے نام کو پورا کریگا بہت ایسی باتیں ہیں۔ کہ تم چاہتے ہو۔ مگر وہ تمہارے لئے اچھی نہیں۔ اور بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم نہیں چاہتے اور وہ تمہارے لئے اچھی ہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
(اربعین نمبر 3 از صفحہ 23 تا 29۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 410 تا 318
و ضمیمہ گولڑویہ صفحہ 14 تا 19۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 59 تا 65)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
1900ء
’’خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذّب یا متردّد1کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہےکہ اِمَامُکُمْ مِّنْکُمْ ۔‘‘
(اربعین نمبر 3 حاشیہ صفحہ 28۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 417)
1900ء
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ۔‘‘
یعنی خدا کی سب حمد ہے جس نے تجھ کو مسیح ابن ِ مریم بنایا۔ تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتااور پھر فرمایا۔
لَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ۔ وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا۔
1 چونکہ کئی دفعہ کئی ترتیبوں کے رنگ میں یہ الہامات ہوچکے ہیں اِس لئے فقرات کے جوڑنے میں ایک خاص ترتیب کا لحاظ نہیں۔ ہر ایک ترتیب فہمِ ملہم کے مطابق الہامی ہے۔ (اربعین نمبر 3 صفحہ 24 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 412)
2 یعنی متردّد بین التکفیرو التکذیب۔ (مرتب)
مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔
یعنی ہم تجھے ایک پاک اور آرام کی زندگی عنایت کریں گے۔ اَسی برس یا اس کے قریب قریب یعنی دو چار برس کم یا زیادہ اور تو ایک دُور کی نسل دیکھے گا بلندی اور غلبہ کا مظہر گویا خدا آسمان سے نازل ہوا۔
یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآئِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی۔ مَآ اَنْتَ اَنْ تَتْرُکَ الشَّیْطَانَ قَبْلَ اَنْ تَغْلِبَہٗ۔ اَلْفَوْقُ مَعَکَ وَ التَّحْتُ مَعَ اَعْدَآئِ ک۔
یعنی نبیوں کا چاند چڑھے گا اور تو کامیاب ہوجائیگا تو ایسا نہیں کہ شیطان کو چھوڑ دے قبل اس کے کہ اس پر غالب ہو اور اُوپر رہنا تیرے حصے میں ہے اورنیچے رہنا تیرے دشمنوں کے حصہ میں۔
اور پھر فرمایا۔
اِنِّیْ مُھِیْن مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَالْخبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ اَنْتَ وَقَارُہٗ۔ فَکَیْفَ یَتْرُکُکَ۔ اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ فَاخْتَرْنِیْ۔ قُلْ رَّبِّ اِنِّیْ اخْتَرْتُکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ۔
مَیں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے اور مَیں اُس کو مدد دُونگا جو تیری مدد کرتا ہے اور خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے۔ خدا ہر ایک عیب سے پاک ہے اور تو اس کا وقار ہے۔ پس وہ تجھے کیونکر چھوڑ دے مَیں ہی خدا ہوں۔ تو سراسر میرے لئے ہوجا۔ تو کہہ اے میرے ربّ! مَیں نے تجھے ہر چیز پر اختیار کیا۔
اور پھر فرمایا۔
سَیَقُوْلُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مَرْسَلاً۔ سَنَاْخُذُہٗ مِنْ مَّارِنٍ اَوْخُرْ طُوْمٍ۔ وَ اِنَّا مِنَ الظَّالِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۔ اِنِّیْ مَع الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَالَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً۔ وَ قَالُوْا سَیُقْلَبُ الْاَمْرُ وَمَا کَانُوْا عَلَی الْغَیْبِ مُطَّلِعِیْنَ۔ اِنَّا اَنْزَلْنَاکَ وَکَانَ اللّٰہُ قَدِیْرًا۔
یعنی دشمن کہے گا کہ تو خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ ہم اس کو ناک سے پکڑیں گے یعنی دلائل قاطعہ سے اس کا دم بند کردیں گے۔ اور ہم جزا کے دن ظالموں سے بدلہ لیں گے۔ مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ تیرے پاس ناگہانی طور پر آؤں گا۔ یعنی جس گھڑی تیری مدد کی جائے گی۔ اُس گھڑی کا تجھے علم نہیں۔ اور اُس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا۔ کہ کاش مَیں اس خدا کے بھیجے ہوئے سے مخالفت نہ کرتا اور اس کے ساتھ رہتا اور کہتے ہیں کہ یہ جماعت متفرق ہوجائے گی۔ اور بات بگڑ جائیگی حالانکہ ان کو غیب کا علم نہیں دیا گیا۔ تو ہماری طرف سے ایک برہان ہے۔
اور خدا قادر تھا کہ ضرورت کے وقت میں اپنی بُرہان ظاہر کرتا۔
اور پھر فرمایا۔
اِنَّا اَرْسَلْنَآ اَحْمَدَ اِلٰی قَوْمِہٖ فَاَعْرَضُوْا وَقَالُوْا۔ کَذَّابٌ اَشِرٌ۔ وَجَعَلُوْا یَشْھَدُوْنَ عَلَیْہِ وَ یَسِیْلُوْنَ کَمَآئٍ مُّنْھَمِرٍ۔ اِنَّ حِبِّیْ قَرِیْبٌ مُّسْتَتِرٌ۔ یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ۔ اَنْتَ قَابِلٌ یَّاْتِیْکَ وَابِلٌ۔ اِنِّیْ حَاشِرُ کُلِّ قَوْمٍ یَّاْتُوْنَکَ جُنُبًا۔ وَ اِنِّیْٓ اَنَرْتُ مَکَانَکَ تَنْزِیْلٌ مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ بَلَجَتْ اٰیَاتِیْ وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ اَنْتَ مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ۔ طَیِّبٌ مَّقْبُوْلُ الرَّحْمٰنِ۔ وَاَنْتَ اسْمِیَ الْاَعْلٰی۔ بُشْرٰی لَکَ فِیْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ۔ اَنْتَ مِنِّیْ یَآ اِبْرَاھِیْمُ۔ اَنْتَ الْقَآئِمُ عَلٰی نَفْسِہٖ۔ مَظْھَرُ الْحَیِّ۔ وَاَنْتَ مِنِّیْ مَبْدَئُ الْاَمْرِ۔ اَنْتَ مِنْ مَّآئِ نَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ۔ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یَوَلَّوْنَ الدُّبُرَ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ۔ اَنْذِرْ قَوْمَکَ وَقُلْ اِنِّیْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ اِنَّآ اَخْرَجْنَا لَکَ زُرْوْعًا یَّآاِبْرَاھِیْمُ۔ قَالُوْا لَنُھْلِکَنَّکَ قَالَ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ وَ اِنِّیْ مَعْ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ وَ اِنِّیْٓ اَمُوْجُ مَوْجُ الْبَحْرِ۔ اِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ۔ وَلَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّرُدَّ مَا اَتٰی۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ لَّا یَتَبَدَّلُ وَلَایَخْفٰی وَ یَنْزِلُ مَاتَعْجَبُ مِنْہُ وَحْیٌ مِّنْ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّاھُوَ۔ یَعْلَمُ کُلَّ شَیْئٍ وَّیَرٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ یُحْسِنُوْنَ الْحُسْنٰی۔ تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ۔ وَلَھُمْ بُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ اَنْتَ تُرَبّٰی فِیْ حِجْرِ النَّبِیِّ۔ وَاَنْتَ 1تَسْکُنُ قُنَنَ الْجِبَالِ وَ اِنِّیْ مَعَکَ فِیْ کُلِّ حَالٍ۔
ترجمہ:۔ ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ تب لوگوں نے کہا کہ یہ کذّاب ہے۔ اور انہوں نے اُس پر گواہیاں دیں۔ اور سیلاب کی طرح اُس پر گرے۔ اُس نے کہا۔ کہ میرا دوست قریب ہے مگر پوشیدہ تجھے میری مدد آئے گی۔ مَیں رحمن ہوں۔ تو قابلیت رکھتا ہے۔ اس لئے تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا۔ مَیں ہریک قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا۔ مَیں نے تیرے مکان کو روشن کیا۔ یہ اس خدا کا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے اور اگر کوئی کہے کہ کیونکر ہم جانیں کہ یہ خدا کا کلام ہے تواُن کے لئے یہ علامت ہے کہ یہ کلام نشانوں کے ساتھ اُترا ہے اور خدا ہرگز کافروں کو یہ موقع نہیں دے گا کہ مومنوں پر کوئی واقعی اعتراض کر سکیں۔ تو علم کا شہر ہے۔ طیّب اور خدا کا مقبول۔ اور تو میرا سب سے بڑا نام ہے تجھے ان دنوں میں خوشخبری ہو اے ابراہیم تُو مجھ سے ہے۔ تو خدا کے
1 اس الہام کا ترجمہ متن میں نہیں آیا حاشیہ میں دیا گیا ہے۔ دیکھیں اگلے صفحہ پر (مرتب)
نفس پر قائم ہے زندہ خدا کا مظہر اور تو مجھ سے امر مقصود کا مبدء ہے۔ اور تو ہمارے پانی سے ہے۔ اور دوسرے لوگ فشل سے۔
کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑی جماعت ہیں۔ انتقام لینے والے۔ یہ سب بھاگ جائیں گے او رپیٹھ پھیر لیں گے اور خدا قابل تعریف ہے جس نے تجھے دامادی اور آبائی عزت بخشی۔ اپنی قوم کو ڈرا۔ اور کہہ کہ مَیں خدا کی طرف سے ڈرانے والا ہوں۔ ہم نے کئی کھیت تیرے لئے طیّار کر رکھے ہیں۔ اے ابراہیم۔ اور لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ہلاک کریں گے۔ مگر خدا نے اپنے بندہ کو کہا یہ کچھ خوف کی جگہ نہیں۔ مَیں اور میرے رسول غالب ہوں گے۔ اور مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ عنقریب آؤں گا۔ مَیں سمندر کی طرح موجزنی کروں گا۔ خدا کا فضل آنے والا ہے۔ اور کوئی نہیں جو اس کو ردّ کرسکے اور کہہ خدا کی قسم یہ بات سچ ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہوگی اور نہ وہ چھُپی رہے گی۔ اور وہ امر نازل ہوگا۔ جس سے تو تعجب کرے گا۔ یہ خدا کی وحی ہے جو اونچے آسمانوں کا بنانے والا ہے۔ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور دیکھتا ہے اور وہ خدا اُن کے ساتھ ہے۔ جو اُس سے ڈرتے ہیں۔ اور نیکی کو نیک طور پر ادا کرتے ہیں۔ اور اپنے نیک عملوں کو خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے۔ اور دنیا کی زندگی میں بھی ان کو بشارتیں ہیں۔ تو نبی کی کنار عاطفت میں پرورش پارہا ہے.......1 اور مَیں ہر حال میں تیرے ساتھ ہوں۔
اور پھر فرمایا۔
وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ یَجُوْحُ الدِّیْنَ۔ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ۔ قُلْ لَّوْکَانَ الْاَمْرُمِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدْ تُّمْ فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ وَتَھْذِیْبِ الْاَخْلَاقِ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا۔ تَنْزِیْلٌ مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآئُ ھُمْ۔ وَلِتَدْعُوَ قَوْمًا اٰخَرِیْنَ۔ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مَّوَدَّۃً۔ یَخِرُّوْنَ عَلَی الْاْذْقَانِ سُجَّدًا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّحِمِیْنَ۔ اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ فَاعْبُدْنِیْ وَ لَاتَنْسَنِیْ وَاجْتَھِدْ اَنْ تَصِلَنِیْ وَاسئَلْ رَّبَّکَ وَکُنْ سَئُوْلاً۔ اَللّٰہُ وَلِیٌّ حَنَّانٌ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ تَحْکُمُوْنَ نَزَّلْنَا عَلٰی ھٰذَا الْعَبْدِ رَحْمَۃًط وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔ ذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔ اِنَّ یَوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ ۔ وَ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ وَ اِنَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ
1 (ترجمہ از مرتّب) اور تُو پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہتا ہے۔
نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ۔ وَ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ وَیَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ۔ اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ ذُوالسُّلْطَانِ۔
ترجمہ: اور کہتے ہیں کہ یہ بناوٹ ہے اور یہ شخص دین کی بیخ کرنی کرتا ہے۔ کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ کہہ اگر یہ امر خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو تم اُس میں بہت سا اختلاف پاتے یعنی خدا تعالیٰ کی کلام سے اس کی کوئی تائید نہ ملتی.....خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین ِ حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔ ان کو کہدے کہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو میرے پر اس کا جُرم ہے یعنی مَیں ہلاک ہوجاؤں گا۔ اور اُس شخص سے زیادہ تر ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے۔ یہ کلام خدا کی طرف سے ہے جو غالب اور رحیم ہے۔ تا تو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا دوسری قوموں کو دعوتِ دین کرے۔ عنقریب ہے کہ خدا تم میں اور تمہارے دشمنوں میں دوستی کردیگا1اور تیرا خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اس روز وہ لوگ سجدے میں گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے۔ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں خدا معاف کرے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ مَیں خدا ہوں۔ میری پرستش کر اور میرے تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتا رہ۔ اپنے خدا سے مانگتا رہ۔ اور بہت مانگنے والا ہو۔ خدا دوست اور مہربان ہے۔ اس نے قرآن سکھلایا۔ پس تم قران کو چھوڑ کر کس حدیث پر چلو گے۔ ہم نے اس بندہ پر رحمت نازل کی ہے۔ اور یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا۔ بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو۔ یہ خدا کی وحی ہے۔ یہ خدا کے قریب ہوا۔ یعنی اُوپر کی طرف گیا اور پھر نیچے کی طرف تبلیغ حق کے لئے جھکا۔ اس لئے یہ دوقوسوں کے وسط میں آگیا۔ اُوپر خدا اور نیچے مخلوق۔ مکذّبین کیلئے مجھ کو چھوڑ دے مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہونگا۔ میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے۔ اورتُو سیدھی راہ پر ہے۔ اور جو کچھ ہم ان کے لئے وعدے کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ تیری زندگی میں تجھے دکھلادیں۔ اور یا تجھ کو وفات دے دیں۔ اور بعد میں وہ وعدے پورے کریں۔ اور مَیں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ یعنی تیرا رفع الی اللہ دنیا پر ثابت کردُوں گا۔ اور میری مدد تجھے پہنچے گی۔ مَیں ہوں وہ خدا جس کے نشان دلوں پر تسلّط کرتے ہیں اور اُن کو قبضہ میں لے آتے ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 32 ۔37۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 421، 427)
1 ’’یہ غیر ممکن ہے کہ تمام لوگ مان لیں۔ کیونکہ بموجب آیت وَلِذَالِکَ خَلَقَھُمْ٭ اور بموجب آیت کریمہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔٭٭ سب کا ایمان لانا خلاف نصِّ صریح ہے پس اس جگہ سعید لوگ مراد ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 36۔ روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 427)
٭ ھود: 120
٭٭ اٰل عمران : 56
1900ء
(الف) ’’ایک عزت کا خطاب۔ ایک عزت کا خطاب۔ لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃِ1۔ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا .....خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے۔ مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤں گا۔ آسمان سے کئی تخت اُترے۔ مگر سب سے اُونچا تیرا تخت بچھایا گیا۔ دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت فرشتوں نے تیری مدد کی۔ آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا۔ اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے۔ آسمانوں پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا۔ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے۔ مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو خُذُواالرِّفْقَ فَاِنَّ الرِّفْقَ رَاْسُ الْخَیْرَاتِ 1 نرمی کرو۔ نرمی کرو۔ کہ تمام نیکیوں کا سر نرمی ہے.......
خدا تیرے سب کام درست کردیگا۔ اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا۔ ربّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ
1 عزت کے خطاب سے مراد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اسباب پیدا ہوجائیں گے۔ کہ اکثر لوگ پہچان لیں گے۔ اور عزت کا خطاب دیں گے اور یہ تب ہوگا جب ایک نشان ظاہر ہوگا۔
(اربعین نمبر3 صفحہ 37۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 428)
2 (الف) اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنی بیوی سے کسی قدر زبانی سختی کا برتاؤ کیا تھا۔ اس پر حکم ہوا کہ اس قدر سخت گوئی نہیں چاہئے۔ حتی المقدور پہلا فرض مومن کا ہر ایک کے ساتھ نرمی اور حسنِ اخلاق ہے۔ اور بعض اوقات تلخ الفاظ کا استعمال بطور تلخ دوا جائز ہے۔ امابحکم ضرورت و بقدر ضرورت نہ یہ کہ سخت گوئی طبیعت پر غالب آجائے۔
(اربعین نمبر 3 صفحہ 38 ۔ روحانی خزائن جلد17۔ صفحہ 429۔ ضمیمہ تحفہ گولڑویّہ صفحہ 25)
(ب) ’’ اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے۔ کہ اپنی بیویوں سے رِفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ اُن کی کنیزکیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْف یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی (بسر) کرو۔ اور حدیث میں ہے خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ بِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کیلئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 38 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 428، 429)
اس سے برکات کم نہیں ہیں۔ اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ۔ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام 2ہے۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 37,38۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 427 تا 429)
(ب) اور پھر فرمایا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مجھے الہام ہوا تھا۔ اُردو زبان میں۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کا بندہ ہوگا اُسے طاعون نہ ہوگی اور جو شخص ضرر اُٹھاویگا اپنے نفس سے اُٹھاوے گا۔
(البدر جلد 1نمبر 5،6 مؤرخہ 28؍نومبر و 5؍دسمبر 1902ء صفحہ 34)
1900ء
’’ لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے۔ شیرِ خدا نے ان کو پکڑا۔ شیرِ خدا نے فتح پائی۔
اور پھر فرمایا۔
بخرام کہ وقت ِ تو نزدیک رسید و پائے محمدؐیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔1پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار۔ و روشن شد نشا نہائے من۔ بڑا مبارک وہ دن ہوگا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا ‘ پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی کو ظاہر کردیگا۔ آمین۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 38 حاشیہ روحانی خزائن جلد 17۔ 429)
1 ’’یہ فقرہ بطور حکایت میری طرف سے خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 38 حاشیہ روحانی خزائن جلد 17۔ 429)
2 ’’ اس فقرہ سے مُراد کہ محمدیوں کا پیر اونچے منار پر جا پڑا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں جو آخرالزمان کے مسیح موعود کے لئے تھیں۔ جس کی نسبت یہود کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا۔ اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا۔ مگر وہ مسلمانوں میں سے پیدا ہوا۔ اس لئے بلند مینار عزت کا محمدؐیوں کے حصہ میں آیا۔ اور اس جگہ محمدی کہا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اب تک صرف ظاہری قوت اور شوکت اسلام دیکھ رہے تھے جس کا اسم محمدؐ مظہر ہے۔ اب وہ لوگ بکثرت آسمانی نشان پائیں گے جو اسم احمد ؐ کے مظہر کو لازم حال ہے۔ کیونکہ اسم احمدؐ انکسار اور فروتنی اور کمال درجہ کی محویت کو چاہتا ہے جو لازم حال حقیقت احمدیّت اور حامدیّت اور عاشقیّت اور محبّیت ہے اور حامدیّت اور عاشقیّت کے لازم حال صدور آیات تائیدیہ ہے۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 38 حاشیہ روحانی خزائن جلد 17۔ 429)
1900ء
’’ میرے ایک1وست نے اپنی نیک نیتی سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا2 میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں۔ اس سے کیونکر سمجھا جائے کہ اگر دوسرا شخص افتراء کرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا ...... جس رات مَیں نے اپنے اس دوست کو یہ باتیں سمجھائیں تو اسی رات مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے وہ حالت ہوکر جو وحی اللہ کے وقت میرے پر وارد ہوتی ہے۔ وہ نظارہ گفتگو کا دوبارہ دکھلایا گیا اور پھر الہام ہوا۔
قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی
یعنی خدا نے جو مجھے اس آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا کے متعلق سمجھایا3ہے۔ وہی معنے صحیح ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر4 صفحہ5تا7۔ روحانی خزائن جلد17 صفحہ 434 تا 437)
4 دسمبر1900ء
’’ منشی الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب عصائے موسیٰ مجھ کو ملی۔ جس میں میری ذاتیات کی نسبت محض سُو ءِ ظن سے اور خدا کی بعض سچی اور پاک پیشگوئیوں پر سراسر شتابکاری سے حملے کئے ہیں۔ وہ کتاب جب مَیں نے ہاتھ میں سے چھوڑی تو تھوڑی دیر کے بعد منشی الٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہوا۔
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّرَوْا طَمْثَکَ۔ وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّرِیَکَ اِنْعَامَہٗ۔ اَلْاِنْعَامَاتِ الْمُتَوَاتِرَۃَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ۔ وَاللّٰہُ وَلِیُّکَ وَرَبُّکَ۔ فَقُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ یُحْسِنُوْنَ الْحُسْنٰی۔ 4
1 میاں وزیر خاں صاحب افغان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوست مولوی محمد احسن صاحب تھے۔ دیکھئے روایات صحابہ جلد 14 صفحہ 363 (مرتب)
2 الحاقّۃ: 25
3 ’’ یعنی اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوّت اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوّت کے مانند ہر گز زندگی نہیں پائے گا۔‘‘
(اربعین نمبر 4 صفحہ1۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 430)
4 اخبار الحکم جلد4 نمبر 44 مؤرخہ 10؍ دسمبر 1900ء صفحہ 6 پر اس الہام کی نسبت لکھا ہے کہ:۔
’’آپ نے 4؍دسمبر 1900ء کی صبح کو فرمایا کہ رات کو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی کتاب کے آنے کا نقشہ میرے سامنے پیش کیا گیا اور پھر یہ الہام ہوا......
اس الہام پر حضرت ؑ نے فرمایا کہ ’’یہ الہام اپنے اندر ایک علمی اور فلسفیانہ پہلو رکھتا ہے۔ جو طمث کے لفظ سے اور اس کے مقابلہ
ترجمہ:۔ یہ لوگ خونِ حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی ناپاکی اور پلیدی اور خباثت کی تلاش میں ہیں۔ اور خدا چاہتا ہے کہ اپنی متواتر نعمتیں جو تیرے پر ہیں دکھلاوےاور خونِ حیض سے تجھے کیونکر مشابہت ہو۔ اور وہ کہاں تجھ میں باقی ہے۔ پاک تغیرات نے اس خون کو خوبصورت لڑکا بنادیا۔ اور وہ لڑکا جو اس خون سے میرے بنا میرے ہاتھ سے پیدا ہوا۔ اس لئے تو مجھ سے بمنزلہ اولاد کے ہے یعنی گو بچوں کا گوشت پوست خونِ حیض سے ہی پیدا ہوتا ہے مگر وہ خونِ حیض کی طرح ناپاک نہیں کہلاسکتے۔ اسی طرح تُو بھی انسان کی فطرتی ناپاکی سے جو لازم بشریّت ہے۔ اور خونِ حیض سے مشابہ ہے ترقی کر گیا ہے۔ اب اس پاک لڑکے میں خونِ حیض کی تلاش کرنا حُمق ہے وہ تو خدا کے ہاتھ سے غلام زکی بن گیا۔ اور اس کے لئے بمنزلہ اولاد کے ہوگیا۔ اور خدا تیرا متولّی اور تیرا پرورندہ ہے۔ اس لئے خاص طور پر پدری مشابہت درمیان ہے۔ جس آگ کو اس کتاب عصائے موسیٰ سے بھڑکانا چاہا ہے۔ ہم نے اس کو بجھا دیا ہے۔ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ‘ جو نیک کاموں کو پوری خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ اور تقویٰ کے باریک پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر 4 صفحہ 19 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 452)
8 دسمبر 1900ء
8؍دسمبر 1900ء کی صبح کو فرمایا کہ کل رات میری انگلی کے پوٹے میں درد تھا۔ اور اس شدّت کے ساتھ درد تھا کہ مجھے خیال آیا تھا کہ رات کیونکر بسر ہوگی۔ آخر ذرا سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا۔
کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا
اور سَلَاماً کا لفظ ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ معاً درد جاتا رہا ایسا کہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔1 ‘‘
(الحکم جلد 4 نمبر 44 مؤرخہ 10؍ دسمبر 1900ء صفحہ6)
11 دسمبر1900ء
(الف) ’’ مَیں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ مَیں اس وقت سے پہلے مروں جب تک کہ میرا قادر خدا
بقیہ حاشیہ: میں اَوْلَادِیْ کے لفظ میں رکھا گیا ہے۔ کیا مطلب کہ یہ مخاطب لوگ تو ایک ناپاک اور ردّی شے سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان کو اتنی خبر نہیں ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ۔ غرض یہ ہے کہ اس مبشر الہام سے صادق مسیح موعود علیہ السلام کا انجام ایک غضب و غصہ کے فرزند کے بالمقابل صاف معلوم ہوتا ہے۔‘‘
1 ’’ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اس قدر یقین اور علیٰ وجہ البصیرت یقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کرکے جس قسم کی چاہو قسم دے دو۔ بلکہ میرے تو یقین یہاں تک ہے کہ اگر مَیں اس بات سے انکار کروں یا وہم بھی کروں کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں۔ تو معاً کافر ہوجاؤں۔‘‘
(الحکم جلد4 نمبر 44 مؤرخہ 10؍ دسمبر 1900ء صفحہ6)
ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بری.....ثابت نہ کرے ...... اسی کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو 11؍دسمبر1 1900؁ء روز پنجشنبہ کو یہ الہام ہوا:
برمقامِ فلک شدہ یارب :: گر امیدے دہم مدار عجب
بعد 11۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ مَیں نہیں جانتا کہ گیاراں دن ہیں یا گیاراں ہفتہ یا گیاراں مہینے یا گیاراں سال۔ مگر بہرحال ایک نشان میری بریّت کے لئے اس مدّت میں ظاہر ہوگا۔‘‘
(اربعین نمبر4صفحہ 21 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 457)
(ب) ’’ بر مقامِ فلک شدہ یارب :: گر اُمیدے دِہَم مدار عجب
(خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری دُہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے۔ اب مَیں اگر تجھے کوئی امیداور بشارت دُوں ‘ تو تعجب مت کر میری سنّت اور موہبت کے خلاف نہیں) بعد 11۔ انشاء اللہ (فرمایا اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ 11 سے کیا مُراد2ہے گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا۔ یہی ہندسہ 11 کا دکھایا گیا ہے)۔‘‘
(الحکم جلد4 نمبر 45 مؤرخہ 17؍دسمبر1900ء صفحہ 2)
1 الحکم جلد 4 نمبر 45 مؤرخہ 17؍دسمبر 1900ء صفحہ 2 میں اس وحی کی تاریخ 13؍دسمبر وقت شب لکھی ہے۔ (مرتب)
2 (نوٹ از مرتب) بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اس کا انکشاف ہوا کہ یہ الہام الٰہی بخش کے بارے میں ہے چنانچہ حضورتتمہ حقیقۃ الوحی کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں۔’’بابو الٰہی بخش صاحب گیارہ چارپایوں کے ہلاک ہونے کے بعد طاعون کے ساتھ ہلاک کئے گئے۔ جیسا کہ اس الہام شعر میں ہے؎ برمقامِ فلک شدہ یارب + گر امیدے دہم مدار عجب بعد گیاراں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بابو صاحب کا بارھواں نمبر تھا۔ اور ان کے بعد دو اَور ہیں تا چودہ پورے ہوجائیں۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ 151۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 589)
چونکہ الہامی پیشگوئیاں ذوالوجوہ والمعارف ہوا کرتی ہیں جن کے مصداق متعدد بار وقوع پذیر ہوکر مومنوں کے ایمان کو تازہ کرتے اور نیا عرفان پیدا کرتے ہیں۔ اس بناء پر اس پیشگوئی کا ایک اور بھی مصداق حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کے وجود میں ظاہر ہوا۔ چنانچہ حضرت ممدوح نے اس الہام کو ہجرت قادیان پر چسپاں کرتے ہوئے فرمایا۔
’’جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے مَیں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہئے تو اس وقت لاہور فون کیا گیا کہ کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے۔ لیکن آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اسلئے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی مَیں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا۔’’بعد گیارہ ‘‘ مَیں نے خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ تاریخ ہے۔ اور مَیں نے سمجھا کہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہوگا۔ مگر انتظار کرتے کرتے عیسوی ماہ کی 28تاریخ آگئی۔ لیکن گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہوسکا.......مَیں سوچ
13 دسمبر 1900ء
(الف) ’’ پھر وحی ہوئی۔
لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں۔ ان کو اطلاع دی جاوے۔ نظیف مٹی کے ہیں۔ وسوسہ نہیں رہیگا مگر مٹی رہے گی۔ سلسلہ قبول الہامات میں سب سے کچا مولوی تھا۔ سب مولوی ننگے ہوجائیں گے۔1 اَنَااللّٰہُ ذُوالْمِنَنِ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔‘‘ (الحکم جلد 4 نمبر45 مؤرخہ 17؍دسمبر 1900ء صفحہ2)
(ب) ’’ ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں وسوسہ پڑگیا ہے۔ پر مٹی نظیف ہے۔ وسوسہ نہیں رہے گا۔ مٹی رہے گی۔‘‘ (الحکم جلد6 نمبر 29 مؤرخہ 17؍اگست 1902ء صفحہ12)
1900ء
’’ ایک دفعہ ڈاکٹر نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدمِ صحت کا لڑکا سخت بیمار ہوگیا اس کی والدہ بہت بیتاب تھی۔ اس کی حالت پر رحم آیا اور دُعا کی تو الہام ہوا۔
’’اچھا ہو جائے گا۔‘‘
بقیہ حاشیہ: رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام بعد گیارہ سے کیا مراد ہے۔ تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں۔ دراصل یہ اُن کی غلطی تھی وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں تھے۔ بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے...........مَیں نے اُنہیں حالات بتائے اور کہا کہ وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں آج ہی واپس جاکر کوشش کرتا ہوں........آخر اُنہوں نے نواب محمد الدین صاحب مرحوم کی کار لی۔ اور عزیز منصور احمد کی جیپ۔ اسی طرح بعض اَور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے۔ دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اَور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں۔ اُس دوست کا وعدہ تھا کہ وہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے۔ لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ دس بج گئے اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہو اور یہ انتظام گیارہ کے بعد ہو۔ میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپرد ان دنوں ایسے انتظام تھے اُن کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ مَیں نے اُنہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام ’’بعد گیارہ‘‘ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہوسکے گا۔ پہلے مَیں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے۔ لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے.......آخر گیارہ بجکر پانچ منٹ پر مَیں نے فون اُٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا کہ مَیں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپٹن عطاء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں چنانچہ ہم کیپٹن عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے۔‘‘
(اقتباس خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ۔ الفضل جلد3 نمبر 174۔ مؤرخہ 31؍جولائی 1949ء صفحہ 5۔6)
1۔ (ترجمہ از مرتب) مَیں اللہ ہوں بہت احسان کرنیوالا۔ مَیں یقینا اپنے رسول کی مدد کیلئے کھڑا ہونگا۔
اسی وقت یہ الہام سب کو سنایا گیا جو پاس موجود تھے۔ آخر ایسا ہی ہوا کہ وہ لڑکا خدا کے فضل سے بالکل تندرست ہوگیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 230۔ روحانی خزائن جلد 18۔ صفحہ 608)
1900ء
’’حضرت اُمّ المؤمنین علیہا السلام کی طبیعت 3؍جنوری 1901ء کو کسی قدر ناساز ہوگئی تھی۔ اس کے متعلق حضرت اقدس نے سَیر کے وقت فرمایا کہ چند روز ہوئے۔ مَیں نے گھر میں کہا کہ مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ کوئی عورت آئی ہے اور اس نے آکر کہا ہے کہ تمہیں1کچھ ہوگیا ہے اور پھر الہام ہوا
اَصِحَّ زَوْجَتِیْ
چنانچہ کل 3؍جنوری 1901ء کو یہ کشف اور الہام پورا ہوگیا۔ یکایک بیہوشی ہوگئی اور جس طرح مجھے دکھایا گیا تھا ‘ اُسی طرح ایک عورت نے آکر بتایا۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر 3 مؤرخہ 24؍جنوری 1901ء صفحہ5)
1901ء
’’ قَالُوْٓا اِنَّ التَّفْسِیْرَ لَیْسَ بِشَیْئٍ 2۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر 3 مؤرخہ 24؍جنوری 1901ء صفحہ8)
5 جنوری 1901ء
(الف) ’’ فرمایا۔ آج رات کو الہام ہوا۔
مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآئِ۔
یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کرسکے گا۔ خدا نے مخالفین سے سلب ِ طاقت اور سلب ِ علم کرلیا ہے۔
اگرچہ ضمیر واحد مذکر غائب ایک شخص یعنی مہر شاہ2کی طرف ہے۔ لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کرکے ایک ہی حکم رکھا ہے۔ تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو کہ تمام مخالفین ایک وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس تفسیر کے مقابل میں لکھنا چاہیں تو ہرگز نہ لکھ سکیں گے۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر 3 مؤرخہ 24؍جنوری 1901ء صفحہ10)
(ب) ’’ اِنِّیْ اُرِیْتُ مُبَشِّرَۃً فِیْ لَیْلَۃِ الثُّلَثَآئِ۔ اِذْ دَعَوْتُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلَہٗ مُعْجِزَۃً لِّلْعُلَمَآئِ۔ وَ دَعَوْتُ اَنْ لَّا یَقْدِرَعَلٰی مِثْلِہٖٓ اَحَدٌ مِّنَ الْاُدَبَآئِ۔ وَلَا یُعْطٰی لَھُمْ قُدْرَۃٌ عَلَی الْاِنْشَآئِ۔ فَاُجِیْبَ دُعَآئِیْ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنْ حَضْرَۃِ الْکِبْرِیَآئِ۔وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ
1 حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا مُراد ہیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) انہوں نے کہا کہ یہ تفسیر کچھ بھی نہیں(یعنی تفسیر اعجاز المسیح)
3 یعنی پیر مہر علی شاہ گولڑوی۔ (مرتب)
وَقَالَ مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ۔ فَفَھِمْتُ اَنَّہٗ یُشِیْرُ اِلٰٓی اَنَّ الْعِدَالَا یَقْدِرُوْنَ عَلَیْہِ۔ وَلَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَا کَصِفَتَیْہِ۔ وَکَانَتْ ھٰذِہِ الْبِشَارَۃُ مِنَ اللّٰہِ الْمَنَّانِ فِی الْعَشْرِالْاٰخِرِ مِنْ رَّمْضَانَ1۔‘‘
(اعجاز المسیح صفحہ 66۔67 صفحہ 66،67۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 68،69)
(ج) ’’ جب بالمقابل تفسیر نویسی میں مخالف مولوی عاجز آگئے۔ اور مہر علی شاہ گولڑوی نے کئی طرح کی قابل شرم کارروائیاں کیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو یکطرفہ طور پر تفسیر القرآن کا معجزہ عطا فرمایا۔ اور سترروز کے عرصہ میں رسالہ اعجاز المسیح لکھا گیا۔ اس عرصہ میں طرح طرح کی رُکاوٹیں پیش آئیں۔ اور بہت سا وقت بیماری میں گذرا........انہیں دنوں میں اس رسالہ کے متعلق یہ الہام ہوا کہ مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَمَآئِ یعنی روک دیا اس کو روکنے والے نے آسمان سے۔ سو یہ الہام اس صفائی سے پورا ہوا کہ اب تک میاں مہر علی اُس کا جواب نہیں دے سکا۔ اور نہ اُن کا کوئی حامی جواب دینے پر قادر ہوسکا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 224۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 602)
1901ء
’’ کتاب اعجاز المسیح کے بارے میں یہ الہام ہوا تھا کہ
مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَتَنَمَّرَ۔ فَسَوْفَ یَرٰی اَنَّہٗ تَنَدَّمَ وَتَذَمَّرَ
یعنی2 جو شخص غصہ سے بھر کر اس کتاب کا جواب لکھنے کیلئے طیّار ہوگا وہ عنقریب دیکھ لیگا کہ وہ نادم ہوا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوا۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 193۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 571، 572)
1 (ترجمہ از مرتب) منگل کی رات کو مَیں نے ایک مبشر خواب دیکھا تھا جبکہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تھی کہ اس کتاب (اعجاز المسیح) کو علماء کے لئے ایک معجزہ بنادے اور یہ دعا کی تھی کہ کوئی ادیب اس کی مثل نہ لاسکے۔ اور انہیں اس کے انشاء کی توفیق ہی نہ ملے۔ پس میری دعا اسی مبارک رات خدا تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوگئی۔ اور میرے خدا نے مجھے بشارت دی۔ اور فرمایا۔ کہ آسمان سے منع کردیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کتاب کی نظیر لکھے۔ تو مَیں سمجھ گیا کہ اس الہام میں خدا نے اشارہ کیا ہے کہ دشمن اس امر پر قادر نہیں ہوں گے اور اس کی مثل نہیں لاسکیں گے نہ ہی بلاغت میں اور نہ ہی سورۃ فاتحہ کے حقائق میں۔ اور یہ بشارت رمضان شریف کے آخری عشرے میں ملی تھی۔
2 (الف) ’’محمد حسین فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقعہ شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ مَیں اس کتاب جواب لکھتا ہوں۔ اور ایسی لاف مارنے کے بعد جب اس نے جواب کے لئے نوٹ تیار کرنے شروع کئے اور ہماری کتاب کے اندر بعض صداقتوں پر جو ہم نے لکھی تھیں۔ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ لکھا تو ............ مجھ پر *** بھیج کر ایک ہفتہ کے اندر ہی آپ *** موت کے نیچے آگیا۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 194۔ روحانی خزائن جد 18۔ صفحہ 572)
(ب) ’’پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے جب اس کتاب اعجاز المسیح کا بہت عرصہ کے بعد جواب اُردو میں لکھا۔ تو اس بات کے ثابت
1901ء
’’1 بَلِیَّۃٌ مَّالِیَّۃٌ۔ یعنی مالی ابتلاء۔‘‘
(البدر جلد 2نمبر 3 مؤرخہ 6؍فروری 1903ء صفحہ 23 و الحکم جلد 7 نمبر 6 مؤرخہ 14؍فروری 1903ء صفحہ7)
22 فروری 1901ء
’’رات ایک پھنسی نے جو کئی دن سے نکلی ہوئی ہے اور ساتھ ہی خارش نے تنگ کیا۔ بشریّت کی وجہ سے دھیان آیا کہ کہیں یہ ذیابیطس کا اثر اور نتیجہ نہ ہو۔ اتنے میں خدا ئے رحیم و قدوس نے وحی کی کہ
اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ دَافِعُ الْاَذٰیٓ 1
اور پھر وحی ہوئی۔
اِنِّیْ لَایَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ 3
(از چٹھی مولانا عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد5 نمبر8 مؤرخہ 3؍مارچ 1901ء صفحہ 9)
23 فروری 1901ء
’’ کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔4‘‘ (الحکم جلد5 نمبر 8 مؤرخہ 3؍مارچ 1901ء صفحہ 12)
اپریل 1901ء
’’ حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک روز اپنی اور سلسلہ عالیہ کے خاص دوستوں کی زیادتی عمر کے لئے دُعا کی۔ تو یہ مبشر الہام ہوا۔
رَبِّ زِدْنِیْ عُمُرِیْ وَفِیْ عَمُرِ زَوْجِیْ زِیَادَۃً خَارِقَ الْعَادَۃِ۔
یعنی اے میرے ربّ! میری عمر میں اور میرے ساتھی کی عمر میں خارق عادت زیادت فرما۔‘‘
(الحکم جلد5 نمبر 14 مؤرخہ 17؍اپریل 1901ء صفحہ13)
بقیہ حاشیہ: ہوجانے سے کہ یہ اُردو عبارت بھی لفظ بلفظ مولوی محمد حسن بھینی کی کتاب کا سرقہ ہے۔ مہر علی شاہ کی بڑی ذلّت ہوئی۔ اور مذکورہ بالا الہام کی اُس کے حق میں بھی پورا ہوا۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 194۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 572)
1 (نوٹ از مرتب) اس الہام کو 1901ء کے تحت اس لئے رکھا گیا کہ البدر کے مندرجہ بالا پرچے میں یہ الفاظ ہیں۔ یکم فروری کو ایک دو سال کا الہام آپ نے اس کے متعلق سنایا۔ اور الحکم 14 فروری 1903ء میں یہ الفاظ ہیں۔ ’’فرمایا ایک پُرانا الہام بَلِیَّۃ ُ ٗ مَّالِیَّۃٌ ہے۔‘‘
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں رحمان ہوں تکلیفوں کو دُور کرنے والا۔
3 (ترجمہ از مرتب) میرے حضور میں مُرسل نہیں ڈرتے۔
4 (ترجمہ از مرتب) ٹھٹھا کرنے والوں کے مقابلہ میں ہم تیرے لئے کافی ہیں۔
18 اپریل 1901ء
’’18؍اپریل 1901ء کو آپ نے ایک الہام سنایا تھا۔
سال دیگر را کہ مے داند حساب + تاکجا رفت آنکہ باما بود یار 1
(الحکم جلد5نمبر 18 مؤرخہ 17؍مئی 1901ء صفحہ12)
1901ء
’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ بخار آیا تو الہام ہوا۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ
چنانچہ اس کے بعد بہت جلد تندرست ہوگئے۔‘‘ (الحکم جلد5نمبر 21 مؤرخہ 10؍جون 1901ء صفحہ9 حاشیہ)
1901ء
’’ 9؍مئی 1901ء کو آپ نے یہ الہام سنایا۔
آج سے یہ شرف دکھائیں گے ہم ‘‘
(الحکم جلد5نمبر 18 مؤرخہ 17؍مئی 1901ء صفحہ12)
1901ء
’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے۔ اور وہ سورۃ ہے۔ اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ ........ اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تُونے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے اَصْحَابِ الْفِیْلِ کے ساتھ کیا کِیا۔ یعنی اُن کا مکر اُلٹا کر اُن پر ہی مارا........یہ پیشگوئی قیامت تک جائیگی۔ جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہوں تب ہی اللہ تعالیٰ اُن کے تباہ کرنے کے لئے اُن کی کوششوں کو خاک میں ملادینے کے سامان کردیتا ہے۔ ......
اس وقت اَصْحَابِ الْفِیْلِ کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں......... اصحاب فیل زور میں ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے.........
مجھے بھی یہی2الہام ہوا ہے۔ جس میں صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کرکے رہے گی۔ ‘‘
(الحکم جلد5نمبر26مؤرخہ 17؍جولائی 1901ء صفحہ2)
1 (ترجمہ از مرتب) آئندہ سال کا حساب کون جانتا ہے۔ جو دوست گذشتہ سال ہمارے ساتھ تھے وہ اب کدھر گئے۔
2 اس الہام کی تاریخ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے 22؍اگست 1897ء لکھی ہے۔ دیکھئے ذکر حبیب ؑ صفحہ 221۔ (مرتب)
1901ء
’’ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سُلْطَانُ الْقَلَمِ رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘
(الحکم جلد5نمبر22مؤرخہ 17؍جون 1901ء صفحہ2)
’’ تین دن ہوئے مجھے الہام ہوا تھا۔
اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔1
مَیں حیران ہوں یہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے۔ اور عموماً مقدّمات میں ہوا ہے۔ افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بھی بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا جوش نفسانی نہیں ہوتا ہے اس کے تو انتقام کے ساتھ بھی رحمانیت کا جوش ہوتا ہے۔ پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے ‘ تو اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں جب تک مقابل کی طرف سے جوشِ انتقام کی حد نہ ہوجا وے ‘ خدا تعالیٰ کی انتقامی قوت جوش میں نہیں آتی۔‘‘
(الحکم جلد5نمبر26مؤرخہ 17؍جولائی 1901ء صفحہ9)
11 اگست 1901ء2
’’ اَیَّامُ غَضَبِ اللّٰہِ ۔3‘‘
فرمایا: جب یہ وحی ہوئی ‘ تو مَیں غضب ِ الٰہی سے ڈر گیا اور مَیں نے دُعا کی۔ تب یہ وحی ہوئی۔
غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِیْدًا 4
پھر دُعا کی تو یہ وحی نازل ہوئی:
اِنَّہٗ یُنْجِیْ اَھْدَ السَّعَادَۃِ ۔5
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں فوجیں لے کر تیرے پاس آچانک آؤں گا۔
(نوٹ از مرتب) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 15؍جولائی 1901ء کو گورداسپور اس مقدمہ میں جو میرزا نظام الدین وغیرہ پر مسجد مبارک کا راستہ بندکرنے کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ فریق ثانی کی درخواست پر بغرض ادائے شہادت گئے ہوئے تھے وہاں پر آپ نے یہ الہام بیان فرمایا۔ (الحکم جلد 5 نمبر26 مورخہ 17جولائی 1901ء)
2 یہ تاریخ 11؍اگست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلم مبارک سے رجسٹر محاورات العرب میں لکھی ہوئی ہے۔ اور یہ رجسٹر خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) غضب ِ الٰہی کے ایام۔ 4 (ترجمہ از مرتب) مَیں سخت غضب ناک ہوا۔
5 (ترجمہ از مرتب) وہ سعید لوگوں کو بچالے گا۔
اس کے بعد یہ وحی ہوئی۔
اِنِّیْٓ اُنْجِیْ الصَّادِقِیْنَ ۔1‘‘
(الحکم جلد5نمبر30مؤرخہ 17؍اگست1901ء صفحہ14)
15 اگست 1901ء
’’15؍اگست 1901ء کی صبح کو ایک الہام ہوا۔
وَ اِنِّیْٓ اَرٰی بَعْضَ الْمَصَآئِبِ تَنْزِلُ ۔6 ‘‘
(الحکم جلد5نمبر31مؤرخہ 24؍اگست1901ء صفحہ4)
21 اگست 1901ء
’’ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
(تحریر فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رجسٹر محاورات العرب)
ترجمہ:۔ ہم نے تجھ کو معارفِ کثیرہ عطا فرمائے ہیں سو اس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 517 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3۔روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 618 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
26 اگست 1901ء
فرمایا:’’ تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعر لکھ رہے تھے۔ اس میں ایک مصرع الہامی درج ہوا۔ وہ شعر یہ ہے۔
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتّقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر 32 مؤرخہ 31؍اگست 1901ء صفحہ 13)
1901ء
’’26 یا 27؍اگست یا اس کے قریب ایک دن حضرت نے فرمایا۔ ہم نےرؤیامیں دیکھا ہے کہ ایک شخص نے قے کی ہے اور اس پر کپڑا دے کر اُسے چھپاتا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر33 مؤرخہ10؍ستمبر 1901ء صفحہ 9)
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں راست بازوں کو نجات دوں گا۔
2 (ترجمہ از مرتب) اور مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض مصائب نازل ہورہے ہیں۔
28 اگست 1901ء
28؍اگست 1901ء ]کی صبح کو حضرت نے فرمایا کہ ’’ ہمارے مخالف دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو مسلمان ملّا مولوی وغیرہ۔ دوسرے عیسائی انگریز وغیرہ۔ دونوں اس مخالفت میں ‘ اور اسلام پر ناجائز حملے کرنے میں زیادتی کرتے ہیں۔ آج ہمیں ان دونوں قوموں کے متعلق ایک نظارہ دکھایا گیا۔ اور الہام کی صورت پیدا ہوئی۔ مگر اچھی طرح یاد نہیں رہا۔ انگریزوں وغیرہ کے متعلق اس طرح تھا کہ ان میں بہت لوگ ہیں جو سچائی کی قدر کریں گے۔ اور ملّا مولویوں وغیرہ کے متعلق یہ تھا کہ ان میں سے اکثر کی قوت مسلوب ہوگئی ہے۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر33 مؤرخہ10؍ستمبر 1901ء صفحہ 9)
2 ستمبر 1901ء
فرمایا۔’’آج ہم نےرؤیامیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا دربا ر ہے ‘ اور ایک مجمع ہے۔ اور اس میں تلواروں کا ذکر ہورہا ہے۔ تو مَیں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ
سب سے بہتر اور تیز تر وہ تلوار ہے جو تیری تلوار میرے پاس ہے۔
اس کے بعد ہماری آنکھ کھُل گئی اور پھر ہم نہیں سوئے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ جب مبشر خواب دیکھو ‘ تو اُس کے بعد جہاں تک ہوسکے، نہیں سونا چاہئے اور تلوار سے مراد یہی حربہ ہے جو کہ ہم اس وقت اپنے مخالفوں پر چلا رہے ہیں‘ جو آسمانی حربہ ہے۔‘‘ (الحکم جلد 5 نمبر33 مؤرخہ10؍ستمبر 1901ء صفحہ 9)
1901ء
فرمایا: ’’ مَیں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔ مَیں نے ایک شخص کو دیا کہ اسے پڑھو تو اس نے کہا۔ اس پر اواہن لکھا ہوا ہے مجھے اس سے کراہت آئی۔ مَیں نے اُسے کہا کہ تو مجھے دکھا۔ جب مَیں نے پھر ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا:
اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔1‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر39 مؤرخہ24؍اکتوبر 1901ء صفحہ 2)
1901ء
’’30؍ستمبر کی رات کو حضرت اُمّ المؤمنین علیہا السلام نے 12 بجے کے قریب ایک رؤیادیکھی اور آپ نے حضرت اقدس کو اُسی وقت اس رؤیاسے اطلاع دی اور وہ یُوں ہے:۔
عیسیٰ کا مسئلہ حل ہوگیا۔ خدا کہتا ہے مَیں جب عیسیٰ کو اُتارتا ہوں تو پَوڑی کھینچ لیتا ہوں۔ اس کے معنی حضرت اُمّ المؤمنین کے دل میں یہ ڈالے گئے کہ عیسیٰ کی حیات و ممات میں انسان کا دخل نہیں۔
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے ارادہ کیا کہ خلیفہ بناؤں۔ پس مَیں نے آدم کو پیدا کیا۔
یہ تورؤیاکا مضمون ہے۔ حضرت امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ اس پر مَیں نے توجہ کی تو یہ القاء ہوا کہ
حقیقت میں ہزار سالہ موت کے بعد جو اَب اِحیا ہوا ہے اس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے۔
جیسے خدا نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا تھا۔ یہاں مسیح موعود کو بلاواسطہ کسی اُستاد یا مُرشد روحانی زندگی عطا فرمائی۔ اُستاد بھی حقیقت میں باپ ہی ہوتا ہے۔ بلکہ حقیقی باپ استاد ہی ہوتا ہے۔ افلاطون کہتا ہے کہ باپ تو روح کو زمین پر لاتا ہے اور اُستاد زمین سے آسمان پر پہنچاتا ہے۔ غرض تو جیسے مسیح بِن باپ پیدا ہوا۔ اور اُس کی اس حیات میں کسی انسان کا دخل نہ تھا۔ ویسے ہی یہاں بدوں کسی اُستاد یا مُرشد کے خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور فیض سے روحانی زندگی عطا کی۔
پھر مَیں نے موت کے متعلق جب توجہ کی ‘ تو ذرا سی غنودگی کے بعد الہام ہوا۔
فری میسن1مسلّط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں۔
فریمیسن کے متعلق میرے دل میں گذرا کہ جن کے ارادے مخفی ہوں۔ پَوڑی کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ ارواح کا نزول آسمان سے ہی ہوتا ہے اور صعود بھی آسمان ہی پر ہوتا ہے۔
غرض یہ کیسی لطیف بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس میں عظیم الشان بشارت اور پیشگوئی رکھ دی ہے۔ لوگ ہمارے قتل کے ارادے کریں گے۔ مگر خدا تعالیٰ اُن کو ہم پر مسلّط نہیں کرے گا۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر37 مؤرخہ10؍اکتوبر 1901ء صفحہ7)
1901ء
’’ ایک دفعہ مَیں نے عالمِ کشف میں دیکھا کہ مبارک احمد جو پسر چہارم میرا ہے ‘ چٹائی کے پاس گر پڑا ہے۔ اور سخت چوٹ آئی ہے اور کُرتہ خون سے بھر گیا ہے۔
خدا تعالیٰ کی قدرت کہ ابھی اس کشف پر شاید تین منٹ سے زیادہ نہیں گذرے ہوں گے کہ مَیں دالان سے باہر آیا۔ اور مبارک احمد کہ شاید اس وقت سوا دو سال کا ہوگا۔ چٹائی کے پاس کھڑا تھا۔ بچوں کی طرح کوئی حرکت کرکے پَیر پھسل گیا اور زمین پر جاپڑا۔ اور کپڑے خون سے بھر گئے۔ اور جس طرح عالمِ کشف میں دیکھا تھا اُسی طرح ظہور میں آگیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 219،220۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 597،598)
21 اکتوبر 1901ء
’’ قاضی یوسف علی صاحب نعمانی سر رشتہ دار ایگزیکٹو کمیٹی.......ریاست جنید پانچ مہینے سے سخت بیمار تھے۔ بیماری کی حالت میں سنگرور سے بمشکل دارالامان حضرت امام کے قدموں میں حاضر ہوئے.......
1 FREEMASON
ایک روز وہ سخت بیمار ہوئے یعنی 21؍اکتوبر 1901ء کو ظہر کے وقت سے اُن کی حالت متغیر ہوگئی........قریب تھا کہ رُوح پرواز کر جائے۔ نبض ایسی کمزور ہوئی کہ گویا ایک کیڑی کی چال سے بھی کم تھی....... صاحبزادہ پِیر سراج الحق صاحب نعمانی گھبرائے اور حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ....... حضرت نے تین دوائیں اپنے پاس سے اسی وقت طیّار کرکے صاحبزادہ صاحب کو عنایت کیں اور خود دُعا کی۔ کچھ منٹ ہی گذرے ہوں گے جو حضرت کو دورؤیامبشر اور ایک الہام ہوا۔ وہ الہام یہ ہے:۔
ھٰذَا عِلَاجُ الْوَقْتِ وَ النِّرْبِسِیْ
اس کےمعنے یہ ہوئے کہ یہ جو علاج آپ نے کِیا۔ یہ ایسے ہی اڑے وقت کا علاج ہے۔ اور نِربِسِیْ جو زہروں کو دُور کرنے والی ہے ‘ اس کا استعمال کرو۔ سو حضرت اقدس صبح کے وقت نِربِسِیْ اپنے ساتھ لائے اور اس کا استعمال کا حُکم دیا۔ یہ یقینی بات ہے کہ ادھر حضرت اقدس نے دُعا کی اور اُدھر الہام اوررؤیاہوا۔ اور اُسی وقت جو ایک منٹ کا فاصلہ بھی بیچ میں نہیں بتاسکتے۔ قاضی صاحب میں رُوح داخل ہوگئی۔ اور آناً فاناً میں تندرست ہوگئے۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر39 مؤرخہ24؍اکتوبر 1901ء صفحہ15)
16 نومبر 1901ء
فرمایا:’’آج ایک مُنْذِر الہام ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک خوفناک رؤیابھی ہے۔ وہ الہام یہ ہے:
مَحْمُوْمٌ 1
پھر نَظَرْتُ اِلَی الْمَحْمُوْمِ 2
پھر دیکھا کہ بکرے کی ران کا ٹکڑا چھت سے لٹکایا ہوا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر42 مؤرخہ17؍نومبر 1901ء صفحہ4)
17 نومبر 1901ء
’’رات ..........مَیں نے دیکھا۔ کہ ایک سپاہی وارنٹ لے کر آیا ہے۔ اور اس نے میرے ہاتھ پر ایک رسّی سی لپیٹی ہے۔ تو مَیں اُسے کہہ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے مجھے تو اس سے ایک لذّت اور سُرور آرہا ہے۔ وہ لذّت ایسی ہے۔ کہ مَیں اسے بیان نہیں کرسکتا۔ پھر اسی اثناء میں میرے ہاتھ میں معاً ایک پروانہ دیا گیا ہے۔ کسی نے کہا یہ اعلیٰ عدالت سے آیا ہے۔ وہ پروانہ بہت ہی خوشخط لکھا ہوا تھا اور میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کا لکھا ہوا تھا۔ مَیں نے اس پروانہ کو جب پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا۔
عدالت ِ عالیہ نے اسے بَری کیا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) یعنی ایک تپ والا ۔ 2 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے اس تپ والے کی طرف دیکھا۔
فرمایا: اس سے پہلے کئی دن ہوئے یہ الہام ہوا تھا۔
رَشَنَ الْخَبَرُ 1
رَشنَ ناخواندہ مہمان کو کہتے ہیں۔‘‘ (الحکم جلد 5 نمبر44 مؤرخہ30؍نومبر 1901ء صفحہ2)
1901ء
’’مبارکہ2کے متعلق ایک الہام سنایا:۔
نواب مبارکہ بیگم۔‘‘
(الحکم جلد 5 نمبر44 مؤرخہ30؍نومبر 1901ء صفحہ3)
1901ء
’’ہؤا اِک خواب میں مجھ پر اظہر :: کہ اِس3کو بھی ملے گا بخت برتر
لقب عزت کا پاوے وہ مقرّر :: یہی روزِ اَزل سے ہے مقدّر‘‘
’’نہ دیکھیں وہ زمانہ بے کَسی کا :: مصیبت کا، الم کا، بے بسی کا
یہ ہوں‘ میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا :: جب آوے وقت میری واپسی کا
بشارت تُو نے پہلے سے سنا دی :: فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ 4 ‘‘
’’خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد :: بشارت تُو نے دی اور پھر یہ اولاد
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد :: بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد
خبر تُونے یہ مجھ کو بارہا دی! :: فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ‘‘
’’بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا :: جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دُور اُس ماہ سے اندھیرا :: دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا
بشارت کیا ہے ایک دل کی غِذا دی :: فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ‘‘
کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت :: کہ یاد آجائے گی جس سے قیامت
مجھے یہ بات مَولا نے بتادی :: فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ‘‘
(آمین ۔ بشیر احمد۔ شریف احمد۔ مبارکہ بیگم مطبوعہ 27؍نومبر 1901ء)
(الحکم جلد 5 نمبر45 مورخہ 10 دسمبر1901ء صفحہ 3،4)
1 یعنی اچانک خبر آگئی۔ (مرتب) 2 حضرت اقدس ؑ کی صاحبزادی
3 حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (مرتّب)
4 (ترجمہ از مرتب) پاک ہے وہ ذات جس نے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا
1901ء
’’ ایک دفعہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مبارک احمد میرا چوتھا لڑکا فوت ہوگیا ہے اس سے چند دنوں کے بعد مُبارک احمد کو سخت تاپ ہوا۔ اور آٹھ دفعہ غش ہوکر آخری غش میں ایسا معلوم ہوا کہ جان نکل گئی ہے۔ آخر دعا شروع کی۔ اور ابھی مَیں دُعا میں تھا کہ سب نے کہا کہ مبارک احمد فوت ہوگیا ہے۔ تب مَیں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا۔ تو نہ دم تھا نہ نبض تھی۔ آنکھیں میّت کی طرح پتھرا گئیں تھیں لیکن دعائے خارق عادت نے اثر دکھلایا۔ اور میرے ہاتھ رکھنے سے ہی جان محسوس ہونے لگی۔ یہاں تک کہ لڑکا زندہ ہوگیا اور زندگی کے علامات پیدا ہوگئے۔ تب مَیں نے بلند آواز سے حاضرین کو کہا کہ اگر عیسیٰ بن مریم نے کوئی مُردہ زندہ کیا ہے تو اس سے زیادہ ہرگز نہیں یعنی اسی طرح کا مُردہ زندہ ہوا ہوگا نہ کہ وہ جس کی جان آسمان پر پہنچ چکی ہواور ملک الموت نے اس کی رُوح کو قرار گاہ تک پہنچا دیا ہو۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 220۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ598)
1901ء
’’ایک دفعہ مجھے الہام ہوا۔
’’ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ‘‘
اے میرے ربّ! مجھے دکھا کہ تُو مُردہ کیونکر زندہ کرتا ہے۔ اور آسمان سے اپنی بخشش اور رحمت نازل فرما۔
اِس الہام میں یہ خبر دی گئی کہ کبھی ایسا موقع آنے والا ہے کہ ہمیں یہ دُعا کرنی پڑیگی اور وہ قبول ہوگی چنانچہ ایسا ہوا کہ ایک دفعہ ہمارا لڑکا مبارک احمد ایسا سخت بیمار ہوا کہ سب نے کہا۔ وہ مر گیا ہے ہم اُٹھے اور دُعا کرتے ہوئے لڑکے پر ہاتھ پھیرتے تھے ‘ تو لڑکے کو سانس آنا شروع ہوگیا تھا۔ علاوہ ازیں یہ الہام اس طرح سے بھی پُورا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اب تک ہمارے ہاتھ سے ہزارہا رُوحانی مُردہ زندہ کئے ہیں اور کررہا ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 235،236۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 613، 614)
9 جنوری 1902ء
’’ ابتدائے جنوری 1902ء کو ایک عرب صاحب آئے ہوئے تھے بعض لوگ اُن کے متعلق مختلف رائیں رکھتے تھے۔ حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو 9؍جنوری کی شب کو اس کے متعلق الہام ہوا۔
قَدْ جَرَتْ عَادَۃُ اللّٰہِ اَنَّہٗ لَا یَنْفَعُ الْاَمْوَاتَ اِلَّا الدُّعَآئُ 1
اس وقت رات کے تین بجے ہوں گے۔
حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ اس وقت پر مَیں نے دُعا کی ‘ تو یہ الہام ہوا۔
فَکَلِّمْہُ مِنْ کُلِّ بَابٍ وَّ لَنْ یَّنْفَعَہٗ اِلَّا ھٰذَا الدَّوَٓائُ (اَیِ الدُّعَآئُ )2
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ کی عادت اس طرح پر جاری ہے کہ مُردوں کو دُعا کے سوا اَور کوئی چیز نفع نہیں دیتی۔
2 (ترجمہ از مرتب) پس اس سے ہر رنگ میں گفتگو کر مگر اس دوا (یعنی دعا) کے سوا کوئی چیز اس پر اثر نہیں کرے گی۔
اور پھر ایک اَور الہام اسی عرب کے متعلق ہوا کہ
فَیَتَّبِعُ الْقُرْاٰنَ۔ اِنَّ الْقُرْاٰنَ کِتَابُ اللّٰہِ کِتَابُ الصَّادِقِ۔1‘‘
(الحکم جلد7 نمبر 12 مؤرخہ 31؍مارچ 1903ء صفحہ3)
1902ء
’’ ایک رات کو مجھے اس طرح الہام ہوا کہ جیسے اخبار عن الغائب ہوتا ہے۔ اور وہ یہ الفاظ سے۔
اِنِّیْٓ اَفِرُّ مَعَ اَھْلِیْٓ اِلَیْکَ 2
یہ الہام سب دوستوں کو سنایا گیا۔ چنانچہ اُسی دن خلیفہ نورالدین 3054 }صا حب کا جموں سے خط آیا کہ اس شہر میں طاعون کا زور پڑ گیا ہے اور مَیں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ اپنے سب بال بچوں کو ساتھ لے کر قادیان چلا آؤں۔
(نزول المسیح صفحہ 211۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 589)
29 مارچ 1902ء
لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمَقَامُ۔ یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْھَآ اَحَدٌ 4 ‘‘
(الحکم جلد6 نمبر12 مؤرخہ 31؍مارچ 1902ء صفحہ15)
1902ء
(الف) ’’پھر اس5کے بعد یہ بھی فرمایا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) اس کے نتیجہ میں وہ قرآن کی اتباع اختیار کرلیگا۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے وہ سچے کی کتاب ہے۔
نوٹ:۔ چنانچہ 9؍جنوری 1902ء کی صبح کو جب آپ سیر کو نکلے تو حضرت اقدس نے عربی زبان میں ایک تقریر فرمائی...........جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عرب صاحب جو پہلے بڑے جوش سے بولتے تھے۔ بالکل صاف ہوگئے۔ اور اُنہوں نے صدق دل سے بیعت کی۔ اور ایک اشتہار بھی شائع کیا اور بڑے جوش کے ساتھ اپنے ملک کی طرف بغرض تبلیغ چلے گئے۔‘‘
(الحکم جلد7نمبر12 مؤرخہ 31؍مارچ 1903ء صفحہ3)
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں اپنے اہل کے ساتھ تیری طرف دوڑ کر آرہا ہوں۔
3 اس سے مراد حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ نہیں ہیں بلکہ خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں جو پہلے تاجر کتب تھے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) اگر اس سلسلہ احمدیہ کا پاس اور اکرام خدا کو منظور نہ ہوتا تو یہ مقام بھی ہلاک ہوجاتا۔ اس جہنم یعنی طاعون پر ایسا وقت آنے والا ہے کہ اس میں کوئی نہیں رہے گا۔
(نوٹ از مرتب) ڈائری حضرت نواب محمد علی خان صاحب میں اس الہام کی تاریخ 29؍مارچ لکھی ہے۔دیکھئے اصحابِ احمد جلد2 صفحہ 572 مؤلّفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔ قادیان۔
5 یعنی الہام یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَان ُ ٗ لَّیْسَ فِیْھَآ اَحَد ُ ٗ ۔(مرتب)
یُغَا ثُ1 النَّاسُ وَیَعْصِرُوْنَ۔
پھر بارشیں ہوںگی۔ کشادگی ہوگی۔ فصلیں خوب پکیں گی۔ موتوں سے لوگ بچیں گے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر3 مؤرخہ 6؍فروری 1903ء صفحہ 16)
(ب) ’’خد انے مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔
یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْھَآ اَحَدٌ۔
یعنی اس جہنّم پر جو طاعون اور زلزلوں کا جہنّم ہے ایک دن ایسا زمانہ آئیگا کہ اِس جہنّم میں کوئی فردِ بشر نہیں ہوگا۔ یعنی اس ملک میں اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلق کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا۔ ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا۔
اور پھر اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ثُمَّ یُغَا ثُ النَّاسُ وَیَعْصِرُوْنَ۔
یعنی پھر لوگوں کی دُعائیں سُنی جائیں گی۔ اور وقت پر بارشیں ہوں گی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آجائیگا۔ اور غیر معمولی آفتیں دُور ہوجائیں گی۔‘‘
(تجلّیات الٰہیہ صفحہ 7۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 399)
6 اپریل 1902ء
6؍اپریل 1902ء کی صبح کو فرمایا۔
’’رات مَیں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی بیمار کُتّا ہے۔ مَیں اُسے دوا دینے لگا ہوں۔ تو میری زبان پر جاری ہوا۔
اِس کُتّے کا آخری دم ہے۔‘‘
(الحکم جلد14 نمبر19 مؤرخہ 28؍مئی 1910ء صفحہ 5)
10اپریل 1902ء
’’ آج پہلے وقت ہی یہ الہام ہوا۔
دِلَم مے بِلرزَد چو یاد آورم :: مناجاتِ شوریدہ اندر حَرم 2
1 ثُمَّ کا لفظ کتابت میں رہ گیا ہے۔ تجلّیات الٰہیہ میں یہ لفظ موجود ہے اور ترجمہ میں پھر کا لفظ بھی اسکا مؤ یّد ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب)جب مجھے پریشان حال شخص کا حرم میں علیٰحدگی کی حالت میں دُعا کرنا یاد آتا ہے۔ تو میرا دل کانپ جاتا ہے۔
(نوٹ از مرتب) اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس مناجات کی طرف اشارہ ہے جو حضور کی طرف سے
شوریدہ سے مُراد دعا کرنے والا ہے۔ اور حرم سے مراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کردیا ہو۔ اور دلم مے بلرزد خدا کی طرف (سے) ہے۔ یعنی یہ دُعائیں قوی اثر ہیں۔ مَیں انہیںجلدی قبول کرتا ہوں۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا نشان ہے۔ دلم مے بلرزد ‘ بظاہر ایک غیر محل سا محاورہ ہوسکتا ہے مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخار ی میں ہے کہ مومن کی جان نکالنے میں مجھے تردّد ہوتا ہے۔
توریت میں جو پچھتانا وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں۔ دراصل وہ اسی قسم کے محاورہ ہیں جو اس سلسلہ کی ناواقفی کی وجہ سے لوگوں نے نہیں سمجھے۔ اس الہام میں خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے۔ اور حرم کے لفظ میں گویا حفاظت کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر17 مؤرخہ10؍مئی1902ء صفحہ 6)
1902ء
’’ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ رَاَیْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْ ۔ یعنی مَیں نے اپنے ربّ کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا۔ مَیں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔
بقیہ حاشیہ: بوساطت پِیر صاحب منشی احمد جان صاحب 1303ھ میں بیت اللہ کے اندر بآوازِ بلند دعا کی گئی۔ اور جماعت آمین کہتی گئی۔ چنانچہ پیر صاحب جب حج کے لئے تشریف لے جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں خط لکھا کہ ’’ اِس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقامِ محمود مبارک میں اس احقر عباداللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت اور غربت کے ہاتھ بحضور دل اُٹھا کر گذارش کریں کہ ’’اے ارحم الراحمین۔ ایک تیرا بندہ عاجز و ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تُو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیات اور گناہوں کو بخش۔ کہ تو غفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہوجائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دُوری ڈال۔ اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبّین میں اُٹھا۔ اے ارحم الراحمین جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تُو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک ...........اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں۔ پوری کر، اور اس عاجز اور ................اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کے ................حمایت میں رکھ۔ دین و دُنیا میں اُن کا متکفّل ...............اور سب کو اپنے دارالرضا میں پہنچا۔ اور اپنے .............اور اُس کے آل و اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر۔ آمین یا رب العالمین۔‘‘
یہ دُعا ہے جس کے لئے آپ پر فرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدّل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے کریں۔ والسلام۔ خاکسار غلام احمد 1303ھ
(نوٹ) اس خط میں جہاں نقطے دیئے گئے ہیں اس جگہ سے خط بباعث دیرینہ ہونے کے پھٹ کر ضائع ہوگیا ہے۔
(الحکم جلد37 نمبر 5 مؤرخہ 14؍فروری 1934ء صفحہ 4)
اُن کی شکل بڑی بارعب تھی۔ انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا۔ اس لئے بڑے بلند ہمّت اور عالی حوصلہ تھے۔ غرض مَیں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے۔
اس میں سِرّ یہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قُرب اور تعلّق شدید رکھتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت ‘ تعلّق اور شدّتِ محبت کو ظاہر کرتا ہے اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے۔ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ ۔ اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْ لَادِیْ ۔ یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے۔‘‘ (الحکم جلد6 نمبر17 مؤرخہ10؍مئی1902ء صفحہ 7)
10اپریل 1902ء
’’ افسوس صد افسوس ‘‘
(الحکم جلد6 نمبر17 مؤرخہ10؍مئی1902ء صفحہ 7)
11 اپریل 1902ء
’’ رہگرائے عالَمِ جاودانی شُد1 ۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر17 مؤرخہ10؍مئی1902ء صفحہ 7)
1902ء
’’ حضرت اقدس ایک روز فرماتے تھے۔ ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے اُونچی اُونچی دو منزلی یا چومنزلی یا اس سے بھی زیادہ اُونچے اُونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ ‘ بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں۔ اور اُن کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں‘ روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ اور قسماقسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں۔ یکّے ‘ بگھیاں ، ٹمٹم ‘ فٹن ‘ پالکیاں ‘ گھوڑے ‘ شِکرمیں ‘ پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھِڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے۔‘‘
(از مضمون پِیر سراج الحق صاحبؓ۔ مندرجہ الحکم جلد6 نمبر 16 مؤرخہ 30؍اپریل1902ء صفحہ12،13)
1902ء
’’دو دفعہ ہم نےرؤیامیں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جُھکتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں۔ اور کرشن ہیں۔ اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں۔‘‘ (الحکم جلد6 نمبر15 مؤرخہ24؍اپریل 1902ء صفحہ 8)
1 (ترجمہ از مرتّب) اس نے عالَمِ بقا کی راہ اختیار کرلی۔
1902ء
’’ اور ایک دفعہ الہام ہوا۔
ہے کرشن رودر گوپال تیری مہما ہو۔ تیری استتی گیتا میں موجود ہے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر15 مؤرخہ24؍اپریل 1902ء صفحہ 8)
1902ء
’’اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ اِنِّیْ بَایَعْتُکَ بَایَعَنِیْ رَبِّیْ ۔1‘‘
(الحکم جلد6 نمبر15 مؤرخہ24؍اپریل 1902ء صفحہ 8)
18 اپریل 1902ء
’’فرمایا :آج رات کو یہ الہام ہوا۔
’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔ وَمَنْ یَّلُوْمُہٗ اَلُوْمُ۔ اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ۔2 ‘‘
(الحکم جلد6 نمبر15 مؤرخہ24؍اپریل 1902ء صفحہ 8)
1902ء
’’جو باتیں آج سے چار برس پہلے کہی گئی تھیں۔ وہ پوری ہوگئیں.......اور پھر اس کے بعد ان دنوں میں بھی خدا نے مجھے خبر دی۔ چنانچہ وہ عزوجلّ فرماتا ہے۔
مَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ اِنَّہ‘ٓ اٰوَی الْقَرْیَۃَ۔ لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمَقَامُ۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ دَافِعُ الْاَذٰی۔ اِنِّیْ لَایَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ اِنِّیْ حَفِیْظٌ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ۔ اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ۔ غَضِبْتُ غَضَبًا
1 (ترجمہ از مرتب) تو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مَیں نے تیرے ساتھ ایک سودا کیا ہے خدا نے بھی میرے ساتھ ایک سودا کیا ہے۔
2 ترجمہ:۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہونگا ‘ اس کی مدد کرونگا اورجو اس کو ملامت کرے گا اس کو ملامت کرونگا۔ روزہ افطار کرونگا اور روزہ رکھونگا یعنی کبھی طاعون بند ہوجائیگی اور کبھی زور پکڑے گی۔
’’ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار کرنے سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتے۔ پس یہ صرف ایک استعارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی مَیں اپنا قہر نازل کرونگا اور کبھی کچھ مہلت دُونگا...........اس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ مَیں بیمار تھا ‘ مَیں بھوکا تھا ‘ مَیں ننگا تھا۔الخ‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 104 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107 حاشیہ)
شَدِیْدًا1۔ اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ۔ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ۔ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ۔ اِنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا۔ اِنِّیْ اَجَھِّزُ الْجَیْشَ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جَاثِمِیْنَ۔ سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ۔ اِنِّیْ بَایَعْتُکَ بَایَعَنِیْ رَبِّیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ 2 اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ۔ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔ اَلْفَوْقُ مَعَکَ وَالتَّحْتُ مَعَ اَعْدَآئِکَ۔ فَاصْبِرْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ۔ یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْھَآ اَحَدٌ۔
ترجمہ:۔خدا ایسا نہیں کہ قادیان کے لوگوں کو عذاب دے۔ حالانکہ تُو ان میں رہتا ہے۔ وہ اس گاؤں کو طاعون کی دست بُرد اور اس کی تباہی سے بچالیگا۔ اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا ‘ اور تیرا اکرام مدِّنظر نہ ہوتا ‘ تو مَیں اس گاؤں کو
1 ’’اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایا ہے کہ غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِیْدًا۔‘‘
(بدر جلد 6نمبر 14 مؤرخہ4؍اپریل 1907ء صفحہ 5)
’’مَیں قسم حضرت احدیّت جلّ شانہ‘ کی کھا کر کہتا ہوں کہ میرے پر خدا نے اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا ہے کہ میرا غضب زمین پر بھڑکا ہے کیونکہ اس زمانہ میں اکثر لوگ معصیت اور دنیا پرستی میں ایسے غرق ہوگئے ہیں کہ خدائے تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں رہا۔ اور وہ جو اُس کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا ہے اُس سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ اور یہ ٹھٹھا اور لعن طعن حد سے گذر گیا ہے۔ پس خدا فرماتا ہے کہ مَیں اُن سے جنگ کروں گا۔ (جنگ سے مراد انسانی جنگ نہیں ہے بلکہ فرشتوں کا جنگ اور قضا و قدر کا جنگ) اور میرے وہ حملے ان پر ہوں گے۔ جو ان کے خیال و گمان میں نہیں۔ کیونکہ انہوں نے جھوٹ سے اس قدر دوستی کی کہ سچائی کو اپنے پاؤں کے نیچے پامال کرنا چاہا۔ پس خدا فرماتا ہے کہ مَیں نے اب ارادہ کیا ہے کہ اپنے غریب گروہ کو ان درندوں کے حملوں سے بچاؤں اور سچائی کی حمایت میں کئی نشان ظاہر کروں۔‘‘ (اشتہار 4؍اپریل 1905ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 518)
2 ’’یاد رہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے ‘ کہ مَیں خدا ہوں ‘ یا خدا کا بیٹا ہوں۔ لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ اور فرمایا۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ایسا ہی بجائے قُلْ یَا عِبَادَاللّٰہِ کے قُلْ یَاعِبَادِیْ بھی کہا۔ اور یہ بھی فرمایا فَاذْکُرُواللّٰہَ کَذِکْرِ کُمْ اٰبَآئَکُمْ ۔ پس اس خدا کے کلام کو ہوشیاری اور احتیاط سے پڑھو اور از قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ اور اس کی کیفیت میں دخل نہ دو اور حقیقت بحوالہ خدا کرو۔ اور یقین رکھو کہ خدا اِتِّخَاذِ وَلَد سے پاک ہے تاہم متشابہات کے رنگ میں بہت کچھ اس کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ پس اس سے بچو کہ متشابہات کی پَیروی کرو اور ہلاک ہوجاؤ۔ اور میری نسبت بیّنات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَر ُ ٗ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّالْخَیْرُکُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 7حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 227)
ہلاک کردیتا۔ مَیں رحمان ہوں جو دُکھ کو دُور کرنے والا ہے۔ میرے رسولوں کو میرے پاس کچھ خوف اور غم نہیں مَیں نگہ رکھنے والا ہوں۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروں گا جو میرے رسول کو ملامت کرتا ہے۔ مَیں اپنے وقتوں کو تقسیم کردُوں گا کہ کچھ حصہ برس کا تو مَیں افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کرونگا اور کچھ حصہ برس کا مَیں روزہ رکھوں گا یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہوجائیگی یا بالکل نہیں رہے گی۔ میرا غضب بھڑک رہا ہے۔ بیماریاں پھیلیں گی اورجانیں ضائع ہوں گی مگر وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور ایمان میں کچھ نقص نہیں ہوگا وہ امن میں رہیں گے اور ان کو مخلصی کی راہ ملے گی۔ یہ خیال مت کرو کہ جرائم پیشہ بچے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی زمین کے قریب آتے جاتے ہیں۔ مَیں اندر ہی اندر اپنا لشکر طیّار کررہا ہوں یعنی طاعونی کیڑوں کو پرورش دے رہا ہوں پس وہ اپنے گھروں میں ایسے سوجائیں گے جیسا کہ اُونٹ مرا رہ جاتا ہے۔ ہم ان کو اپنے نشان پہلے تو دُور دُور کے لوگوں میں دکھائیں گے اور پھر خود انہی میں ہمارے نشان ظاہر ہوں گے۔ اور یہ دن خدا کی مدد اور فتح کے ہوں گے۔ مَیں نے تجھ سے ایک خریدوفروخت کی ہے۔ یعنی ایک چیز میری تھی جس کا تو مالک بنایا گیا۔ اور ایک چیز تیری تھی جس کا مَیں مالک بن گیا تُو بھی اس خریدوفروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خدا نے مجھ سے خریدوفروخت کی تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد۔ تُو مجھ میں سے ہے اور مَیں تجھ میں سے ہوں۔ وہ وقت قریب ہے کہ مَیں ایسے مقام پر تجھے کھڑا کرونگا کہ دُنیا تیری حمد و ثنا کرے گی۔ فوق تیرے ساتھ ہے اور تحت تیرے دشمنوں کے ساتھ۔ پس صبر کر جب تک کہ وعدہ کا دن آجائے۔ طاعون پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ کوئی بھی اس میں گرفتار نہیں ہوگا یعنی انجام کار خیروعافیت ہے۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 5، 8۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 226 تا228)
21 اپریل 1902ء
’’ مدّت ہوئی کہ پہلے اس سے طاعون کے بارے میں حِکَایَۃً عَنِ الْغَیْرِ خدا نے مجھے یہ خبر دی تھی۔ یَا مَسِیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا۔ مگر آج کہ 21؍اپریل 1902ء ہے اُسی الہام کو پھر اس طرح فرمایا گیا۔
یَامَسِیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا لَنْ تَرٰی مِنْم بَعْدُ مَوَآدَّنَا وَفَسَادَنَا۔
یعنی اے خدا کے مسیح جو مخلوق کی طرف بھیجا گیا۔ ہماری جلد خبر لے اور ہمیں اپنی شفاعت سے بچا۔ تو اس کے بعد ہمارے خبیث مادوں کو نہیں دیکھے گا اور نہ ہمارا فساد کچھ فساد باقی رہے گا۔ یعنی ہم سیدھے ہوجاویں گے۔ اور گندہ دہانی اور بدزبانی چھوڑ دیں گے۔ یہ خدا کا کلام براہین احمدیہ کے اس الہام کے مطابق ہے کہ آخری دنوں میں ہم لوگوں پر طاعون بھیجیں گے۔ جیسا کہ فرمایا۔ کَذَالِکَ مَنَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَالْفَحْشَآئَ۔ یعنی ہم طاعون کے ساتھ اس یوسف پر یہ احسان کریں گے کہ بدزبان لوگوں کا منہ بند کردیں گے تاکہ وہ ڈر کر گالیوں سے باز آجائیں۔ انہی دنوں کے متعلق خدا کا یہ کلام ہے جس میں زمین کی کلام سے مجھے اطلاع دی گئی۔ اور وہ یہ ہے
یَا وَلِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَآ اَعْرِفُکَ۔ یعنی اے خدا کے ولی! مَیں اس سے پہلے تجھے نہیں پہچانتی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کشفی طور پر زمین میرے سامنے کی گئی۔ اور اس نے یہ کلام کیا کہ مَیں اب تک تجھے نہیں پہچانتی تھی کہ تُو ولیُّ الرحمان ہے۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 8 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 228، 229 حاشیہ)
1902ء
’’چراغ دین1کی نسبت مَیں یہ مضمون2لکھ رہا تھا کہ تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھ کو خدائے عزّوجلّ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔
نَزَلَ بِہٖ جَبِیْزٌ
یعنی اس پر جبیز نازل ہوا اور اسی کو اس نے الہام یارؤیاسمجھ لیا۔ جبیز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو۔ اور مشکل سے حلق میں سے اُتر سکے۔ اور مردِ بخیل اور لئیم کو بھی کہتے ہیں۔ جس کی طبیعت میں کمینگی اور فرومایگی اوربُخل کا حصہ زیادہ ہو۔ اور اس جگہ لفظ جبیز سے مراد وہ حدیث النفس اور اضغاثُ ا لْاَحْلام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں اور بخل کے آثار موجود ہیں۔ اور ایسے خیالات خشک مجاہدات کا نتیجہ ‘ یا تمنّا اور آرزو کے وقت القاء شیطان ہوتا ہے اور یا خشکی اور سوداوی مواد کی وجہ سے کبھی الہامی آرزو کے وقت ایسے خیالات کا دل پر القاء ہوجاتا ہے۔ اور چونکہ اُن کے نیچے کوئی روحانیت نہیں ہوتی اس لئے الٰہی اصطلاح میں ایسے خیالات کا نام جبیز ہے اور علاج توبہ اور استغفار اور ایسے خیالات سے اعراض کلّی ہے ورنہ جبیز کی کثرت سے دیوانگی کا اندیشہ ہے۔ خدا ہر ایک کو اس سے محفوظ رکھے۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 23 حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ243)
23 اپریل 1902ء
’’رات کو عین خسوفِ قمر کے وقت میں چراغدین3کی نسبت مجھے الہام ہوا۔
اِنِّیْ اُذِیْبُ مَنْ یُّرِیْبُ
مَیں فنا کردوں گا مَیں غارت کروں گا۔ مَیں غضب4 نازل کروں گا۔ اگر اُس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور
1 یعنی چراغ دین جمو ُنی مرتد۔ (مرتب)
2 صفحات 19۔22 رسالہ دافع البلاء مؤرخہ 23؍اپریل 1902ء۔ (مرتب)
3 چراغدین جمو ُنی ۔ (مرتب)
4 ’’یہ شخص 4؍اپریل کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے فوت ہوکر میری پیشگوئی کی تصدیق کرگیا اور بڑی نومیدی سے اس نے جان دی۔ اور مرنے سے چند دن پہلے ایک مباہلہ کا کاغذ اس نے لکھا جس میں اپنا اور میرا نام ذکر کرکے خدا تعالیٰ سے دُعا کی۔ کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو۔ خدا کی قدرت کہ وہ کاغذ ابھی کاتب کے ہاتھ میں ہی تھا اور وہ کاپی لکھ رہا تھا کہ چراغ دین مع اپنے دونوں بیٹوں کے اُسی دن ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا۔ فاعتبروا یا اُولی الابصار۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۔123۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 126)
رسالت اور مامور ہونے کے دعویٰ سے توبہ نہ کی۔ اور خدا کے انصار جو سالہائے دراز سے خدمت اور نصرت میں مشغول اور دن رات صحبت میں رہتے ہیں ان سے عَفو ِ تقصیر نہ کرائی۔ کیونکہ اُس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی توہین کی کہ اپنے نفس کو اُن سب پر مقدم کرلیا۔‘‘
(دافع البلاء صفحہ 23۔24 حاشیہ نمبر2۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 243، 244)
28 اپریل 1902ء
’’ اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔1 ‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 16 مؤرخہ 30؍اپریل 1902ء صفحہ 7)
30 اپریل 1902ء
’’فرمایا آج رات کو الہام ہوا۔
لَوْ لَاالْاَمْرُ لَھَلَکَ النَّمْرُ۔
یعنی اگر سنّت اللہ اور امر الٰہی اس طرح پر نہ ہوتا کہ ائمۃ الکُفر اخیر میں ہلاک ہوا کریں۔ تو اب بھی بڑے بڑے مخالف جلد تباہ ہوجاتے۔ لیکن چونکہ بڑے مخالف جو ہوتے ہیں ان میں ایک خوبی عزم اور ہمّت اور لوگوں پر حکمرانی اور اثر ڈالنے کی ہوتی ہے۔ اس واسطے ان کے متعلق یہ امید بھی ہوتی ہے کہ شاید لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑ کر توبہ کریں۔ اور دین کی خدمت میں اپنی قوتوں کو کام میں لاویں۔‘‘ (الحکم جلد 6نمبر16 مؤرخہ 30؍اپریل 1902ء صفحہ8)
1902ء
’’ایک عرصہ ہؤا میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ گویا میر ناصر نواب ایک دیوار بنا رہے ہیں۔ جو فصیل شہر ہے مَیں نے اس کو جو دیکھا تو خوف آیاکیونکہ وہ قد ِ آدم بنی ہوئی تھی۔ خوف یہ ہوا کہ اس پر آدمی چڑھ سکتا ہے مگر جب دوسری طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ قادیان بہت اونچی کی گئی ہے اس لئے یہ دیوار دوسری طرف سے بہت اونچی ہے
1 (ترجمہ از مرتب) جس قدر لوگ اس گھر میں رہتے ہیں۔ مَیں انہیں طاعون سے محفوظ رکھوں گا۔
نوٹ:۔ 4؍مئی 1904ء ۔’’ آج دن کو مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے مینجر و ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی طبیعت علیل ہوگئی اور درد سر اور بخار کے عوارض دیکھ کر مولوی صاحب کو شبہ گذرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں۔ جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے۔ اور فرمایا۔ کہ میرے دار میں ہوکر اگر آپ کو طاعون ہو تو پھر اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھیرا۔ آپ نے نبض دیکھ کر اُن کو یقین دلایا کہ ہرگز بخار نہیں ہے۔ پھر تھرمامیٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے جس سے بخار کا شبہ ہو۔ اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ اس کی کتابوں پر ہے۔‘‘
(البدر جلد3 نمبر 19؍18۔ مؤرخہ 8۔16؍مئی 1904ء صفحہ4)
اور یہ دیوار گویا ریختہ کی بنی ہوئی ہے۔ فرش کی زمین بھی پختہ کی گئی ہے اور غور سے جو دیکھا تو وہ دیوار ہمارے گھروں کے ارد گرد ہے اور ارادہ ہے کہ قادیان کے گرد بھی بنائی جاوے۔ شاید اللہ رحم کرکے ان بلاؤں میں تخفیف کردے۔‘‘
(الحکم جلد 6نمبر36 مؤرخہ 10؍اکتوبر 1902ء صفحہ16)
1902ء
’’ایک دفعہ مَیں خود سخت بیمار ہوگیا اور حالت ایسی بگڑی کہ بیماری سے جان بَر ہونا مشکل معلوم ہوتا تھا۔ تب یہ الہام ہوا۔
مَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ 1
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق عین نا امیدی کی حالت میں شفا بخشی اور یُوں تو ہزار ہا لوگ شفا پاتے ہیں۔ مگر ایسی ناامیدی کی حالت میں سینکڑوں انسانوں میں دعویٰ سے یہ پیش کرنا کہ شفا ضرور حاصل ہوجائیگی یہ انسان کا کام نہیں۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 221۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ599)
1902ء
’’مَیں نے اُسے2بارہا دیکھا ہے۔ ایک بار مَیں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 6نمبر29 مؤرخہ17؍اگست 1902ء صفحہ12)
1902ء
’’ ایک دفعہ ان3 کا لڑکا مرزا براہیم بیگ مرحوم بیمار ہوا تو انہوں نے میری طرف دعا کے لئے خط لکھا۔ ہم نے دعا کی تو کشف میں دیکھا کہ ابراہیم ہمارے پاس بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بہشت میں سلام پہنچادو۔ جس کے معنے یہی دل میں ڈالے گئے کہ اب ان کی زندگی کا خاتمہ ہے۔ اگرچہ دل نہیں چاہتا تھا تاہم بہت سوچنے کے بعد میرزا محمد یوسف بیگ صاحب کو اس حادثہ سے اطلاع دی گئی اور تھوڑے دنوں کے بعد وہ جوان غریب مزاج فرمانبردار بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے اِس جہانِ فانی سے چل بسا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ223۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 601)
1902ء
’’رات کے تین بجے حضرت اقدس کو الہام ہوا۔
اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا بِاسْتِکْبَارٍ 4
1 (ترجمہ از مرتب) کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا۔ اور جو وجود لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ وہ دنیا میں زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے۔
2 یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو۔ (مرتب) 3 مرزا محمد یوسف بیگ صاحب ساکن ساماؔنہ ریاست پٹیالہ۔ (مرتب)
4 ترجمہ:۔ یعنی مَیں دار کے اندر رہنے والوں کی حفاظت کروں گا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تکبر کے ساتھ علو کیا۔
فرمایا۔ علو دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک جائز ہوتا ہے۔ اور دوسرا ناجائز۔ جائز کی مثال وہ علو ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام میں تھا۔ اور ناجائز کی مثال وہ علو ہے جو فرعون میں تھا۔‘‘ (الحکم جلد6 نمبر 17 مؤرخہ 10؍مئی 1902ء صفحہ 10)
5 مئی 1902ء
اور فرمایا کہ صبح کی نماز کے بعد یہ الہام ہوا۔
اِنِّیْٓ اَرَی الْمَلَآئِکَۃَ الشِّدَادَ 1
فرمایا :’’ خدا کے غضب شدید سے بغیر تقویٰ و طہارت کے کوئی نہیں بچ سکتا۔ پس سب کو چاہئے کہ تقویٰ و طہارت کو اختیار کریں۔ اور اگر کوئی فاسق اور فاجر دار میں داخل ہوجائے تو اس کا بچ رہنا یقینی کیونکر ہوسکتا ہے۔ ہاں اس میں پھر بھی ایک قسم کی خصوصیت کی گئی ہے۔ کیونکہ جو لوگ علوّ استکبار نہ کریں۔ ان کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے لیکن اِنَّہ‘ اٰوَی الْقَرْیَۃَ میں یہ امر نہیں۔ وہاں انتشار اور ہل چل شدید سے بچنے کاوعدہ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسا امر نہیں کرتا۔ جس سے لوگوں کو جرأت پیدا ہوجائے اور گناہ کی طرف جھکنے لگیں۔‘‘ (الحکم جلد6 نمبر 17 مؤرخہ 10؍مئی 1902ء صفحہ 10،11)
1902ء
(الف) ’’ان دنوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔
اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ2۔ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا مِنِ اسْتِکْبَارٍ۔ وَ اُحَافِظُکَ خَاصَّۃً۔ سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔
یعنی مَیں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا ‘ جو تیرے گھر میں ہوگا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اُونچا کریں۔ اور مَیں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا۔ خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 24۔ روحانی خزائن جلد18۔ صفحہ 401)
(ب) ’’ اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔ کہ تُو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہوگا۔ اور وہ جو کامل پَیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہوجائیگا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے۔ اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا۔ تا وہ قوموں میں فرق کرکے دکھلادے3۔لیکن وہ جو کامل طور پر پَیروی نہیں کرتا۔ وہ تجھ میں
1 ترجمہ:۔ مَیں سخت فرشتوں کو دیکھتا ہوں جیسا کہ مثلاً ملک الموت وغیرہ ہیں۔
2 ’’ اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خشت و خاک کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پُوری پَیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ 10۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 10)
3 ’’مَیں باربار کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطور نشان الٰہی کے نتیجہ یہ ہوگا کہ طاعون کے
سے نہیں ہے۔ اس کے لئے مت دلگیر ہو۔ یہ حکمِ الٰہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چار دیوار میں رہتے ہیں ٹیکا کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ2۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ2)
1902ء
’’اور اُس نے مجھے مخاطب کرکے یہ بھی فرمایا کہ۔
عموماً قادیان میں سخت بربادی افگن طاعون نہیں آئے گی جس سے لوگ کُتّوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سرگردانی کے دیوانہ ہوجائیں اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ2۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ2)
11 مئی 1902ء
’’آج صبح خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی۔
خوشی کا مقام۔نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ1
فرمایا: اب یہ ہماری آمد ثانی ہے۔ اور فرمایا: مسیح علیہ السلام کو صلیب کو واقعہ پیش آیا اور خدا تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی۔ ہمیں اس کی مانند صُلْب یعنی پیٹھ کے متعلّقات کے درد2سے وہی واقعہ جو پورا موت کا نمونہ تھا ‘ پیش آیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے عافیت بخشی۔ اور فرمایا: جس طرح توریت کا وہ بادشاہ جسے نبی نے کہا کہ تیری عمر کے پندرہ دن رہ گئے ہیں اور اس نے بڑی تضرع اور خشوع سے گِریہ و بکا کیا اور خدا تعالیٰ نے اس نبی کی معرفت اُسے بشارت دی کہ اس کی عمر پندرہ روز کی جگہ پندہ سال تک بڑھائی گئی اور معاً اُسے ایک اَور خوشخبری دی گئی کہ دشمن پر اُسے فتح بھی نصیب ہوگی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دو بشارتیں دی ہیں۔ ایک عافیت یعنی عمر کی درازی کی بشارت جس کے الفاظ یہ ہیں’’خوشی کا مقام‘‘ دوسری عظیم الشان نصرت اور فتح کی بشارت ۔‘‘ (الحکم پرچہ غیر معمولی۔ مؤرخہ 11؍مئی 1902ء)
مئی 1902ء
’’ دَوران ا یّام 3دورہ مرض میں
اَلْیَوْمَ4یَوْمُ عِیْدٍ۔کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ۔اے میرے قادر خدا اس پیالہ کو ٹال دے۔
بقیہ حاشیہ: کے ذریعہ سے یہ جماعت بڑھے گی۔ اور خارق عادت ترقی کرے گی۔ اور ان کی ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی۔‘‘
(کشی نوح صفحہ 5۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 5،6)
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نصرت اور جلد آنیوالی فتح۔ 2۔ یہ درد گُردہ تھا۔ (مرتب)
3 9، 10؍مئی 1902ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کو دردِ صُلب کا دَورہ ہوا تھا اس کی طرف اشارہ ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) آج کادن عید کا دن ہے۔ ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔
خدا غمگین ہے۔یُعَظِّمُکَ الْمَالَآئِکَۃُ 1
خدا تعالیٰ کی وحی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی۔‘‘ (الحکم جلد6 نمبر 19 مؤرخہ 24؍مئی 1902ء صفحہ 1)
مئی 1902ء
’’فرمایا: بیماری کی شدّت میں جبکہ یہ گمان ہوتا تھا کہ رُوح پرواز کر جائے گی مجھے بھی الہام ہوا۔
اللَّھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا۔
یعنی اے خدا! اگر تُو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا ‘ تو پھر اس کے بعد اس زمین پر تیری پرستش کبھی نہ ہوگی۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر 20 مؤرخہ 31؍مئی 1902ء صفحہ 5)
جون 1902ء
’’سَیُھْزَمُ فَلَا یُرٰی۔ نَبَأٌ مِّنَ اللّٰہِ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰی۔
(ترجمہ) عنقریب وہ گریز کر جائے گا اور پھر نظرنہ آئے گا۔ یہ2پیشگوئی ہے خدا کی طرف سے جو نہاں در نہاں کو جاننے والا ہے۔‘‘ (الہدیٰ والتبصرۃ لمن یریٰ صفحہ9۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 254)
1902ء
’’ مَیں ایک اَوررؤیالکھتا ہوں ‘ جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ یہ کہ مَیں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر مونہہ آدمی کے مونہہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ یوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہوگیا اور مَیں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بَن ہیں جن میں بَیل ‘ گدھے ‘ گھوڑے ‘ کُتّے‘ سُؤر ‘ بھیڑئیے ‘ اُونٹ وغیرہ جانور ہر ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بد عملوں سے ان صورتوں میں ہیں۔
اور پھر مَیں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے ‘ جو محض قدرت سے زمین میں پیدا ہوگیا ہے وہ میرے پاس آبیٹھا ہے اور قُطب کی طرف اُس کا منہ ہے۔ خاموش صُورت ہے ‘ آنکھوں میں بہت حیا ہے اور باربار چند منٹ کے بعد اُن بنوں میں سے کسی بَن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بَن میں داخل ہوتا ہے تو اس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شورِ قیامت اٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چابنے کی آواز آتی ہے تب وہ فراغت کرکے پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے اور شاید دس 10 منٹ کے قریب بیٹھا رہتا ہے اور پھر دوسرے بَن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے۔ آنکھیں اُس کی بہت لمبی ہیں اور مَیں اس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے
1 (ترجمہ از مرتب) فرشتے تیری تعظیم کرتے ہیں۔
2 یہ پیشگوئی علّامہ رشید رعنا ایڈیٹر المناؔر مصر کے متعلق ہے۔ (مرتّب)
خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے مَیں مامور ہوں اور نہایت شریف اور پرہیزگار جانور معلوم ہوتا ہے اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ہے۔
تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دَٓابَّۃُ الْاَرْضِ ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ ......یہی دا بۃ الارض جو اِن آیات میں مذکور ہے ‘ جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتداء سے مقرر ہے یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالمِ کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دابۃالارض رکھا کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اسی لئے پہلے چوہوں پر اِس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہوسکتی ہے اِسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 37۔39۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 415 تا 417)
اگست 1902ء
’’ نزول المسیح جو آج کل لکھ رہے ہیں اور پِیر گولڑی کی کتاب سیف چشتیائی بھی زیر نظر ہے اس پر کسی قدر توجہ کرنے سے یہ الہام ہوا۔
’’ اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ الْقَدِیْرُلَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ۔1 ‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 28 مؤرخہ 10؍اگست 1902ء صفحہ4)
15 اگست 1902ء 2
’’ تُخْرَجُ الصُّدُوْرُ اِلَی الْقُبُوْرِ۔3 ‘‘
یہ بھی ایک الہام ہے۔ اس الہام کے بعد نذیر حسین دہلوی اور فتح علی اور اللہ بخش تَونسوی وغیرہ اس جہان سے رخصت ہوئے۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر39مؤرخہ31؍اکتوبر 1902ء صفحہ10)
اگست 1902ء
(الف) ’’ شاید تین ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے کہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ قادیان کی اُس گلی میں
1 (ترجمہ) مَیں ہی ہوں تیرا ربّ کامل قدرت والا۔ میری باتوں کو کوئی ٹلا نہیں سکتا۔
2 یہ تاریخ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی پُرانی نوٹ بُک میں لکھی ہے۔ دیکھئے ذکر ِ حبیب صفحہ 216۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتّب) مخالفین کے سرگردہ قبروں کی طرف منتقل کئے جائیں گے۔
جس میں ہم اکثر سَیر کو جاتے ہیں آپ 1 مصافحہ کے لئے میری طرف آرہے ہیں۔ سو وہ بات پوری ہوگئی۔‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 37مؤرخہ 17؍اکتوبر 1902ء صفحہ16)
(ب) ’’ مَیں نے ایک بار اُس کے متعلق دیکھا کہ گویا اُسی راستہ ہم سَیر کو نکلے ہیں تو اُس بَڑ2کے درخت کے نیچے جو میراں بخش حجام کی حویلی کے پاس ہے نبی بخش سامنے سے آکر ملا ہے اور اُس نے مصافحہ کیا ہے۔ یہ رؤیااُن دنوں کی ہے جب وہ مخالفت کے اشتہار چھپواتا پھرتا تھا۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر 38 مؤرخہ 24؍اکتوبر 1902ء صفحہ10)
1902ء
’’ خدا تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ عادت ہے کہ جب دُعا انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو آخر ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ سے اس روک کو توڑتا ہے تب بعد اس کے بلا توقف رحمت ِ الٰہی ظاہر ہوجاتی ہے بلکہ قبل اس کے جو صبح ہو آثارِ رحمت نمودار ہونے لگتے ہیں۔‘‘(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ مؤرخہ 16؍اگست 1902ء
مندرجہ تشحیذالاذہان ستمبر 1907ء صفحہ 31۔32, 293۔294)
1902ء
’’حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاوینگی اس کے معنی یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جو لوگ خادمِ دین ہوں گے اُن کی عمریں بڑھائی جاویں گی۔ جو خادم نہیں ہوسکتا وہ بُڈھے بیل کی مانند ہے کہ مالک جب چاہے اُسے ذبح کر ڈالے۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر31مؤرخہ31؍اگست 1902ء صفحہ8)
1902ء
’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 16۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ17)
1902ء
’’مَیں نے اپنے والد صاحب کو خواب میں دیکھا (دراصل ملائکہ کا تمثل تھا مگر آپ کی صورت میں) آپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی ہے۔ گویا مجھے مارنے کیلئے ہے۔ مَیں نے کہا۔ کوئی اپنی اولاد کو بھی مارتا ہے۔ جب مَیں یہ کہتا ہوں تو اُن کی آنکھیں پُر آب ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ ایسا ہی کرتے ہیں تو مَیں یہی کہتا ہوں۔ آخر
1 اس سے مراد مہر نبی بخش صاحب ہیں جو کسی وقت لغزش کھاکر مرتد ہوگئے تھے۔ بعد میں توبہ کی توفیق پائی اور حضرت اقدس کی خدمت میں تجدید بیعت کے لئے خط لکھا۔ اس کے جواب میں حضور نے یہ تحریر فرمایا۔‘‘ (مرتب)
2 یہ بَڑ کا درخت حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے مکان اور خان بہادر مرزا سلطان احمد ؓصاحب کے مکان کے درمیانی راستہ میں ہوتا تھا۔ (مرتب)
دو تین بار جب اسی طرح ہوا پھر میری آنکھ کھُل گئی۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ6)
1902ء
حضرت مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت کل ناساز تھی .......فرمایا.......
’’ مَیں نے دُعا کی کہ بدون دوا کے شفا دے۔ تو پھر اذن ہوا کہ ہم نے شفا دی اور شفا ہوگئی۔‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ6)
1902ء
’’ مولوی نذیر حسین دہلی مر گیا۔ اس کے مرنے کی خبر آئی تو آپ کی زبان پر اس کے لئے جاری ہوا۔
مَاتَ1 ضَآلٌّ ھَائِمًا2 ‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ7)
17 اکتوبر1902ء
’’ فرمایا: آج میری زبان پر پھر یہ الہام جاری تھا۔
اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا مِنِ اسْتِکْبَارٍ 3
اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا ہمیشہ ساتھ ہی ہوتا ہے۔خدا معلوم اس کے کیا معنے ہیں اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ متنبہ رہیں، تقویٰ پر قائم رہیں، ایک علو تو اس رنگ میں ہوتا ہے جیسے کہ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ اور ایک علو شیطان کا ہوتا ہے جیسے اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ اور اس کے بارے میں ہے۔ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ۔ یہ اُس سے سوال ہے کہ تیرا علو تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی ہے خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اعلیٰ کا لفظ آیا اور ہمیشہ آتا ہے۔ جیسے اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی ۔ مگریہ تو انکسار سے ہوتا ہے اور وہ تکبر سے ملا ہوا ہوتاہے۔‘‘
(البدر جلد 1 نمبر1 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ4)
18 اکتوبر1902ء
(الف) ’’فرمایا کہ آج کوئی پہر رات باقی ہوگی کہ الہام ہوا۔
اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ وَلِنَجْعَلَہ‘ٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا۔ وَکَانَ اَمْرًا
1 (ترجمہ از مرتب) ایک گمراہ شخص سرگردانی کی حالت میں مرے گیا۔
2 ’’اس الہام سے اس کی تاریخ (1320ھ) بھی نکلتی ہے۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ7حاشیہ)
3 (ترجمہ) مَیں ان تمام کی جو دار میں ہیں حفاظت کرونگا۔ سوائے ان لوگوں کے جو تکبر سے بڑے بنتے ہیں
مَّقْضِیًّا1۔عِنْدِیْ مُعَالَجَاتٌ 2
(البدر جلد 1 نمبر1 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ5 و الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ10)
(ب) ’’مَیں نے اس الہام کو معمول کے موافق کتاب میں لکھ لیا۔ اور پھر گھر میں (مراد حضرت اُمّ المؤمنین علیہا السلام ۔ ایڈیٹر) دریافت کیا کہ آج تم نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے ابھی ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک صندوق بذریعہ بلٹی آیا ہے جس کو شیخ رحمت اللہ نے بھیجا ہے اور وہ دوائیوں کا صندوق ہے۔ حکیم فضل الدین کی بیوی اور ہَرُوْ دائی پاس کھڑی ہیں۔ جب اُس کو کھولا گیا تو وہ لبالب دوائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ڈبیاں ہیں شیشیاں ہیں غرض پورے طور پر بھرا ہوا ہے گھاس پھُوس کی جگہ بھی دوائیاں ہیں۔
مَیں نے اس لحاظ سے کہ اُن کے ایمان میں اَور بھی ترقی ہو کہا کہ مجھے آج یہ الہام ہوا ہے اور مَیں نے وہ لکھا ہوا الہام ان کو دکھا دیا۔ خدا کی قدرت ہے کہ کیسا عجیب توارد ہےادھر الہام رَحْمَۃً مِّنَّا ہے۔ ادھررؤیامیں دکھایا گیا ہے کہ رحمت اللہ نے بھیجا ہے۔ اور پھر حکیم فضل الدین کی بیوی مریم3 کاپاس ہونا۔ چراغ4 کا لانا یہ سب مبشرات ہیں۔ لِنَجْعَلَہ‘ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ سے مراد یہ ہے کہ یہ وعدہ حفاظت جو ہے، اس حفظ کو لوگوں کے لئے ایک نشان ٹھہراؤنگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب کھلے کھلے طور پر کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے اِنَّا تَجَالَدْنَا میں ہوا تھا۔ اس وقت ایک قوم تمنّا کے ساتھ ٹیکا کرارہی ہے اور ہم اس نشان کے ساتھ ناز کرتے ہیں۔‘‘ ( الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ10)
18 اکتوبر1902ء
’’اس الہام کے ساتھ ایک اردو الہام بھی تھا ‘ مگر وہ بہت لمبا تھا یاد نہیں رہا اس کا خلاصہ اور مغز یاد رہا ہے کہ
ایمان کے ساتھ نجات ہے۔‘‘
( الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ10)
و
(البدر جلد 1 نمبر1 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ5)
1 (ترجمہ) مَیں ہر ایک کی جو اس گھرکی چاردوارکے اندرہےطاعون سے بچاؤں گا۔ اور اُس کو لوگوں کے لئےرحمت کا نشان بنائیں گے اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا۔
2 (ترجمہ از مرتب) میرے پاس کئی علاج ہیں۔ 3۔ مریم حکیم فضل الدین صاحب مرحوم بھیروی کی ایک بیوی تھی۔ (مرتب)
4۔ چرؔاغ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ایک ملازم تھے۔ بعد میں مدرسہ احمدیہ میں چپڑاسی ہوتے تھے۔ ریٹائرہوکر ربوہ دالہجرت میں وفات پائی ہے۔ (مرتّب)

18 اکتوبر1902ء
’’ فرمایا کہ رات کو ایک اَور فقرہ الہام ہوا تھا، بھول گیا تھا اَب یاد آیا ہے وہ یہ ہے۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یُّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّاوَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ۔1 ‘‘
(البدر جلد 1 نمبر1 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ7 و الحکم جلد 6 نمبر 39 مؤرخہ 31؍اکتوبر 1902ء صفحہ11)
19 اکتوبر1902ء
’’ یُرِیْدُوْنَ اَن یُّطْفِئُوْا نُوْرَکَ۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفُوْا عِرْضَکَ۔ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلَکَ 2 ‘‘
(بدر جلد 1 نمبر2 مؤرخہ 7؍نومبر 1902ء صفحہ10 )
20اکتوبر1902ء
’’ رات کے تین بجے کے قریب مجھے الہام ہوا۔
وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ لِلسِّلْسِلَۃِ السَّمَاوِیَۃِ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ۔ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا ھُوَکَآئِنٌ۔ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہُ وَّاحِدٌ۔ وَالْخَیْرُکُلُّہ‘ فِی الْقُرْاٰنِ۔ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُ ھَاالنَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ۔3
معلوم ہوتا ہے کہ آدمی دو قسم ہیں۔ ایک وہ کہ جانتے تو نہیں ‘ مگر اُن میں ابھی انسانیت ہے۔ دوسرے وہ
1 (ترجمہ از مرتب) کیا لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ کہ اُنہیں صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیاجائے گا اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا۔
2 (ترجمہ از مرتب) دشمن ارادہ کریں گے کہ تیرے نور کو بجھادیں۔ وہ تیری آبرو ریزی کرنا چاہیں گے مگر مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گا۔
نوٹ:۔ الحکم جلد 6 نمبر40 مؤرخہ 10؍نومبر 1902ء صفحہ1 میں ’’ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفُوْا عِرْضَکَ‘‘کی بجائے اس کی یہ قرأت بیان ہوئی ہے۔’’وَاَنْ یَّتَخَطَّفُوْا عِرْضَکَ۔‘‘ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اور یا تو ہم تجھے وہ بعض وعدے دکھا دیں گے جو ہم نے سلسلہ سماویہ ّ کے لئے کئے ہیں۔ اور یا تجھے وفات دے دیں گے۔ جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہوکر رہے گا تو کہدے کہ مَیں تمہاری طرح ایک بشر ہوں جس پر وحی کی گئی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ اور تمام خیر قرآن میں ہے۔ پس اس آگ سے ڈرو۔ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کفار کے لئے تیار کی گئی ہے۔
جن کے آنکھ ‘ کان ‘ فہم وغیرہ سب جاتے رہتے ہیں اور حجارہ میں داخل ہیں وہ بھی جہنّم میں داخل ہوں گے جو کہ سمجھے ہوئے تو ہیں مگر بعض تعلّقات دُنیاوی کی وجہ سے وہ قبول نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے اس میں کوئی تجویز ہے اور اس کو ابھی مخفی رکھا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی ہونے والی ہے اور اللہ کریم کچھ چشم نمائی کرنے والے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہوچکا۔ اب ٹل نہیں سکتا۔‘‘ (البدر جلد 1 نمبر2 مؤرخہ 7؍نومبر 1902ء صفحہ10,11 )
1902ء
’’طاعون کا تذکرہ ہو پڑا۔ فرمایا۔ ایک بار مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ
خدا قادیان میں نازل ہوگا ‘ اپنے وعدہ کے موافق۔
اور پھر یہ بھی تھا
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔1‘‘
(البدر جلد 1 نمبر2 مؤرخہ 7؍نومبر 1902ء صفحہ11 و الحکم جلد6نمبر40 مؤرخہ 10؍نومبر 1902ء صفحہ اوّل)
30 اکتوبر 1902ء
(الف) ’’ نتیجہ خلاف مراد ہوا یانِکلا
آخر کا لفظ ٹھیک یاد نہیں اور یہ بھی پختہ پتہ نہیں کہ یہ الہام کس امر کے متعلق ہے۔‘‘
(البدر جلد 1 نمبر2 مؤرخہ 7؍نومبر 1902ء صفحہ16 )
(ب) ’’ نتیجہ خلاف ِاُ مّید ہے۔‘‘
(الحکم جلد6نمبر40 مؤرخہ 10؍نومبر 1902ء صفحہ11)
6 نومبر 1902ء
’’ 6؍نومبر 1902ء کی شام کو میرے دل میں ڈالا گیا کہ ایک قصدیدہ مقام مُدّکے مباحثہ کے متعلق بناؤں۔‘‘
(اعجاز احمدی صفحہ 89۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 203)
1902ء
’’ 2 فَقَدسَرَّنِیْ فِیْ ھٰذِہِ الصُّوْرِ صُوْرَۃٌ
لِیَدْفَعَ رَبِّیْ کُلَّمَا کَانَ یَحْشُر‘‘
1 (ترجمہ از مرتب) سوائے مومنوں اور نیک عمل کرنے والوں کے۔
2 ھٰذَا الشِّعْرُ مِنْ وَّحْیِ اللّٰہِ تَعَالٰی جَلَّ شَاْنُہٗ (اعجاز احمدی صفحہ44 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ156)
(ترجمہ از مرتب) یہ شعر اللہ تعالیٰ کی وحی سے ہے۔
(ترجمہ) پس ان صورتوں میں مجھے ایک طریق اچھا معلوم ہوا تا میرا خدا اس طوفان کو دُور کرے جو اُس1نے اُٹھایا ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی صفحہ 44۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 156)
1902ء
’’ ایک قصیدہ مَیں نے عربی میں تالیف کیا تھا جس کا نام اعجاز احمدی رکھا تھا اور الہامی طور پر بتلایا گیا تھا کہ
اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا اور اگر طاقت بھی رکھتا ہوگا تو خدا روک ڈال دے گا۔پس قاضی ظفرالدین جو نہایت درجہ اپنی طینت میں خمیر انکار اور تعصّب اور خودبینی رکھتا تھا اس نے اس قصیدہ کا جواب لکھنا شروع کیا تاخدا کے فرمودہ کی تکذیب کرے پس ابھی وہ لکھ ہی رہا تھا کہ ملک الموت نے اس کا کام تمام کردیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 165 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 604)
1902ء
’’ میرے مکان کے ملحق دو مکان تھے جو میرے قبضہ میں نہیں تھے اور بباعث تنگی مکان توسیع مکان2 کی ضرورت تھی۔ ایک دفعہ مجھے کشفی طور پر دکھلایا گیا جو اُس زمین پر ایک بڑا چبوترہ ہے اور مجھے خواب میں دکھا گیا کہ اس جگہ ایک لمبا دالان بن جائے اور مجھے دکھایا گیا کہ اس زمین کے مشرقی حصہ نے ہماری عمارت کے بننے کے لئے دعا کی ہے اور مغربی حصہ کی زمین اُفتادہ نے آمین کہی ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 379۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 393)
15 نومبر1902ء(قریباً)
’’29؍نومبر 1902ء روز شنبہ کو ایک خواب بیان کیا جسے دیکھے ہوئے قریب دو ہفتے گذرے تھے وہ خواب یہ ہے کہ
ایک مقام پر میں کھڑا ہوں تو ایک شخص آکر چیل کی طرح جھپٹا مار کرے میرے سر سے ٹوپی لے گیا۔ پھر دوسری بار حملہ کرکے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے مگر مَیں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جاسکتا۔ اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑلیا مگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے اتنے میں ایک اَور شخص آگیا جو قادیان کا رہنے والا تھا۔ اس نے بھی اُسے پکڑلیا مَیں جانتا تھا کہ مؤخر الذکر ایک مومن متقی ہے۔ پھر اُسے
1 یعنی مولوی ثناء اللہ صاحب نے (مرتب)
2 معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی مکان ہے جس کا اشتہار کشتی نوح کے آخر میں حضرت اقدس ؑ نے دیا تھا۔ اور جس میں حضرت مرزا بشیر احمد رہتے تھے۔ اور اس لحاظ سے یہ کشف 1902ء یا اس سے قدرے قبل کا بنتا ہے۔ مگر چونکہ صحیح تاریخ کا پتہ نہیں لگ سکا۔ اس لئے اسے کشتی نوح کے سنِ تصنیف میں درج کردیا ہے۔واللہ اعلم۔ (مرتب)
عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اُسے جاتے ہی 4 یا 6 یا 9 ماہ کی قید کا حکم دے دیا۔‘‘
( البدر جلد 1نمبر 5،6 مؤرخہ 28؍نومبرو 5؍دسمبر 1902ء صفحہ 37)
1902ء
’’فرمایا کہ مجھےرؤیاہوا ہے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی سر سے ننگا مَیلے کُچیلے کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آیا ہے اس سے مجھے سخت بدبُو آتی ہے۔ میرے پاس آکر کہتا ہے کہ میرے کان کے نیچے طاعون کی گلٹی نکلی ہوئی ہے مَیں اُسے کہتا ہوں۔ پیچھے ہٹ جا ‘ پیچھے ہٹ جا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ تفہیم الٰہی کوئی نہیں۔‘‘
( البدر جلد 1نمبر 5،6 مؤرخہ 28؍نومبرو 5؍دسمبر 1902ء صفحہ 34)
17 نومبر1902ء
’’ فرمایا۔ رات مَیں نے خواب میں کچھ بارش ہوتی دیکھی ہے۔ یُونہی ترشُّح سا ہے اور قطرات پڑ رہے ہیں مگر بڑے آرام اور سکون سے۔‘‘
( البدر جلد 1نمبر 5،6 مؤرخہ 28؍نومبرو 5؍دسمبر 1902ء صفحہ 35 و الحکم جلد 6نمبر 42 مؤرخہ 24؍نومبر 1902ء صفحہ 4)
18 نومبر1902ء
’’ فرمایا کہ نماز (فجر) سے کوئی 20 یا 25 منٹ پیشتر مَیں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خریدی ہے کہ اپنی جماعت کی میّتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام مقبرہ بہشتی ہے یعنی جو اس میں دفن ہوگا وہ بہشتی ہوگا پھر اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کشمیر میں کسرِ صلیب کے لئے یہ سامان ہوا ہے کہ کچھ پُرانی انجیلیں وہاں سے نِکلی ہیں۔ مَیں نے تجویز کی کہ کچھ آدمی وہاں جاویں تو وہ انجیلیں لاویں تو ایک کتاب اُن پر لکھی جاوے۔ یہ سُنکر مولوی مبارک علی صاحب طیّار ہوئے کہ مَیں جاتا ہوں مگر اس مقبرہ بہشتی میں میرے لئے جگہ رکھی جاوے۔ مَیں کہا کہ نورالدین کو بھی ساتھ بھیجدو........
فرمایا کہ اس سے پیشتر مَیں نے تجویز کی تھی کہ ہماری جماعت کی میّتوں کے لئے ایک الگ قبرستان یہاں ہو سو خدا نے آج اس کی تائید کردی اور انجیل کے معنے بشارت کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ وہاں سے کوئی بڑی بشارت ظاہر کرے اور جو شخص وہ کام کرکے لائے گا وہ قطعی بہشتی ہے۔‘‘
( البدر جلد 1نمبر 5،6 مؤرخہ 28؍نومبرو 5؍دسمبر 1902ء صفحہ 35 و الحکم جلد 6نمبر 42 مؤرخہ 24؍نومبر 1902ء صفحہ 4)
20نومبر 1902ء بروز پنجشنبہ
’’ پگٹ1کے متعلق دُعا اور توجہ کرنے سے حضرت اقدس نےرؤیامیں دیکھا کہ کچھ
1 پگٹ لنڈن کا ایک پادری تھا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ مسیح موعود ہے چند آدمی اس کے ساتھ ہوگئے اس کا ایک ٹائپ شدہ اشتہار مفتی محمد صادق صاحب کے نام آیا تھا۔ مفتی صاحب نے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تب حضور نے
کتابیں ہیں جن پر تین بار تسبیح تسبیح تسبیح لکھا ہوا تھا پھر الہام ہوا۔
1 وَاللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ اِنَّھُمْ لَایُحْسِنُوْنَ۔
اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی موجودہ حالت خراب ہے اور یا آئندہ توبہ نہ کریں گے اور یہ معنے بھی اس کے ہیں۔ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ۔ اور یہ مطلب بھی اس سے ہے کہ اس نے یہ کام اچھا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ پر یہ افترا اور منصوبہ باندھا اور اَللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوگا۔ حقیقت میں یہ بڑی شوخی ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا جاوے۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر4 مؤرخہ 21؍نومبر 1902ء صفحہ 25 و البدر جلد 5، 6نمبر 42 مؤرخہ 28؍نومبرو 5؍دسمبر 1902ء صفحہ3 ،4
و الحکم جلد 6نمبر 42 مؤرخہ 24؍نومبر 1902ء صفحہ 6)
21 نومبر1902ء
’’ مَیں جب اشتہار 2 کو ختم کرچکا۔ شاید دو سطریں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا یہاں تک کہ مَیں بمجبوری کاغذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سو گیا تو خواب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے۔ مَیں نے ان دونوں کو مخاطب کرکے یہ کہا۔
خُسِفَ الْقَمَرُ وَ الشَّمْسُ فِیْ رَمَضَانَ۔ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۔
یعنی چاند اور سورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا۔ پس تم اے دونوں صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کر رہے ہو ؟ پھر مَیں خواب میں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ اٰلَآئِ سے مُراد اس جگہ مَیں ہوں۔ اور پھر مَیں نے ایک دالان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا کہ اس میں چراغ روشن ہے۔ گویا رات کا وقت ہے اور اُسی الہام مندرجہ بالا کو چند
بقیہ حاشیہ:
ایک چھوٹا سا اشتہار صرف ایک صفحہ کا لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو دیا کہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اور چھپوا کر ولایت بھیج دیں۔ اس اشتہار میں حضور نے لکھا تھا کہ تمہارے دعویٰ کا اشتہار ہمارے سیکرٹری کے پاس پہنچا ہے۔ تم اس دعویٰ میں جھوٹے ہو اور اگر تم طاقت رکھتے ہو تو میرا مقابلہ کرو۔ خدا نے مجھ کو یہ بتایا ہے کہ مَیں مسیح موعود ہوں اور اسلام سچا دین ہے۔ یہ اشتہار جب اس کو پہنچا تو اس نے خاموشی اختیار کی۔ اس اشتہار کو ولایت کے اخباروں نے بھی چھاپا اور ان کے (Cuttings) (اقتباسات) قادیان آئے تھے۔ ان دنوں میں ایک عورت اس کے پاس رہتی تھی اس کے ساتھ اس کا تعلق ہوگیا۔ جس کے متعلق اخباروں میں اس کے حق میں بدنامی کی خبریں شائع ہوئیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اشتہار کے پہنچنے کے بعد وہ خاموش ہوگیا۔ اس نے نہ پھر کبھی کوئی دعویٰ کیا اور نہ ہی اپنی کوئی جماعت بنائی اور نہ کوئی سلسلہ قائم کیا اور اسی خاموشی میں وہ فوت ہوگیا۔ (مرتب)
1 (ترجمہ از مرتب) اور اللہ کی سزا سخت ہوتی ہے یہ لوگ نیک اعمال بجا نہیں لاتے
2 یعنی ریویو مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی۔ مورخہ 27نومبر 1902ء روحانی خزائن جلد19 صفحہ 206تا216۔ (مرتب)
آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اس سے یہ دونوں فقرے نقل کررہے ہیں۔ گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو مَیں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش صاحب رفو گر امرت سری ہیں۔‘‘
(ریویو مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی و مولوی عبداللہ چکڑالوی صفحہ3 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ 209حاشیہ)
22 نومبر1902ء
’’ آج رات مجھےرؤیامیں دکھا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلّف اور زور سے ایک بُوٹی کو اُس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑھا رکھی ہے وہ بُوٹی افتیموں کی مانند ے۔ اور جیسے جیسے وہ بُوٹی اس درخت پر چڑھتی ہے اس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجواہٹ اور بد شکلی پیدا ہورہی ہے اورجن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے اُن کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہوچکے ہیں۔ تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور مَیں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا ‘ پُوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بُوٹی کیسی ہے جس نے ایک لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے۔ تب اُس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بُوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور اُن کی کثرت نے اس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تب میری آنکھ کھُل گئی۔‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحہ 5حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ212 حاشیہ)
22 نومبر1902ء
’’اسی رات میں ایک الہام ہوا۔ بوقت 3 بجے 2 منٹ اُوپر۔ اور وہ یہ ہے:۔
مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ نَبْتَلِہٖ بِذُرِّیَّۃٍ فَاسِقَۃٍ مُلْحِدَۃٍ یَّمِیْلُوْنَ اِلَی الدُّنْیَا وَلَا یَعْبُدُونَنِیْ شَیْئًا۔
جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا ہم اُس کو ایک خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کریں گے جن کی ملحدانہ زندگی ہوگی۔ وہ دُنیا پر گریں گے اور میری پرستش سے انکو کچھ بھی حصہ نہ ہوگا یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہوگا اور توبہ اور تقویٰ نصیب نہیں ہوگا۔‘‘
(ریویو مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحہ6 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 213 حاشیہ)
5 دسمبر1902ء
(الف) ’’ جمعہ کے دن جب مَیں بیمار تھا تو مجھے یہ الہام ہوا تھا۔
یَمُوْتُ قَبْلَ یَوْمِیْ ھٰذَا
یعنی یہ میرے اس دن سے پیشتر مرے گا۔ یوم سے مراد جمعہ کا دن ہے جو کہ اصل میں خدا کا دن ہے۔‘‘
(البدر جلد1نمبر7مؤرخہ 12؍دسمبر 1902ء صفحہ 55)
(ب) ’’ مولوی رسل بابا امرتسری.......طاعون سے پکڑا گیا۔ اور اُس کے عین طاعون کے دنوں میں جمعہ کے روز مجھ کو الہام ہوا کہ یَمُوْتُ قَبْلَ یَوْمِیْ ھٰذَا ۔یعنی آیندہ جمعہ سے پہلے مرجائے گا۔ چنانچہ وہ آیندہ جمعہ سے پہلے 8؍دسمبر 1902ء کو ½ 5 بجے صبح کے اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 299۔300۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 312،313)
6 دسمبر1902ء
(الف) ’’رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے۔ اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر مَیں ہوں اور وہ کوچہ سربستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے1آئے ہیں۔ ایک اُن میں سے میری طرف آیا تو مَیں نے اُسے مار کر ہٹا دیا پھر دُوسرا آیا تو اُسے بھی ہٹادیا۔
پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُرزور معلوم ہوتا تھا کہ مَیں نے خیال کیا کہ اَب اس سے مَفرّ نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اُس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ مَیں نے اُس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں۔ مَیں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا مگر مَیں نے پھر نہ دیکھا۔ اُس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میری دل پر مندرجہ ذیل دُعا القا کی گئی۔
2 رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ 3
اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسمِ اعظم ہے۔ اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اُسے
1 ’’ اس واقعہ کے دیکھنے کے ساتھ ہی مجھ کو تفہیم ہوئی کہ کوئی دشمن مقدمہ برپا کریگا اور اس کے تین وکیل ہونگے ...... بعد میں کریم دین نے جہلم میں میرے پر مقدمہ کیا اور میری طلبی ہوئی اور وہ مقدمہ فوجداری اور سخت مقدمہ تھا اور جیسا کہ کشفی حالت میں ظاہر کیا گیا۔ تین وکیل اُس کے تھے۔ آخر بموجب وعدہ الٰہی وہ مقدمہ اس کا خارج ہوا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 381 ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 395۔ البدر جلد 2 نمبر1، 2 مؤرخہ 23، 30جنوری 1903ء صفحہ 11)
2 (ترجمہ از مرتب) اے میرے ربّ! ہر ایک چیز تیری خدمت گذار ہے۔ اے میرے ربّ! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔
3 ’’فرمایا : یہ دُعا ایک حِرز اور تعویذ ہے...........مَیں اس دُعا کو اب التزاماً ہر نماز میں پڑھاکرونگا۔ آپ بھی پڑھا کریں۔
فرمایا : اس میں بڑی بات جو سچّی توحید سکھاتی ‘ یعنی اللہ جلّشانہ‘ کو ہی ضارّ اور نافع یقین دلاتی ہے۔ یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شے تیری خادم ہے یعنی کوئی موذی اور مضر شے تیرے ارادے اور اِذن کے بغیر کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتی۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر44 مؤرخہ 10؍دسمبر 1902ء صفحہ 10)
نجات ہوگی۔ (البدر جلد 1نمبر7 مؤرخہ12؍دسمبر 1902ء صفحہ 54 و الحکم جلد 6نمبر44 مؤرخہ10؍دسمبر 1902ء صفحہ 10)
(ب) ’’وَمِنْ اٰیَاتِیْ مَا اَنْبَأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ۔ فِیْٓ اَمْرِ رَجُلٍ لَّئِیْمٍ وَّبُھْتَانِہِ الْعَظِیْمِ۔ وَاَوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّہ‘ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَخَطَّفَ عِرْضَکَ۔ ثُمَّ یَجْعَلُ نَفْسَہ‘ غَرَضَکَ وَ اَرَانیْ فِیْہِ رُؤْیَا ثَلٰثَ مَرَّاتٍ۔ وَاَرَانِیْٓ اَنَّ الْعَدُوَّ اَعَدَّ لِذَالِکَ ثَلٰثَۃَ حُمَاۃٍ لِّتَوْھِیْنٍ وَّ اِعْنَاتٍ وَّرَئَیْتُ کَاَنِّیْ اُحْضِرْتُ مُحَاکَمَۃً کَالْمَاخُوْذِیْنَ۔ وَرَئَیْتُ اَنَّ اٰخِرَ اَمْرِیْ نَجَاۃٌ بِفَضْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَلَوْ بَعْدَ حِیْنٍ۔ وَبُشِّرْتُ اَنَّ الْبَلَآئَ یُرَدُّ عَلٰی عَدُوِّی الْکَذَّابِ الْمُھِیْنِ...........ثُمَّ قَعَدْتُّ کَالْمُنْتَظِرِیْنَ۔ وَمَا مَرَّ عَلٰی مَا رَئَیْتُ اِلَّا سَنَۃٌ فَاِذَا ظَھَرَ قَدَرُاللّٰہِ عَلٰی یَدِعَدُوٍّ مُّبِیْنِ نِ اسْمُہ‘ کَرَمُ الدِّیْنِ۔‘‘
(مواہب الرحمن صفحہ 129۔ روحانی خزائن جلد19 صٖحہ 350)
ترجمہ:۔ ’’اور منجملہ میرے نشان کے ایک یہ ہے کہ جو خدائے علیم و حکیم نے ایک لئیم شخص کی نسبت اور اس کے بہتانِ عظیم کی نسبت مجھے خبردی اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ یہ شخص میری عزت دُور کرنے کے لئے حملہ کرے گا اور انجام کار میرا نشانہ آپ بن جائے گا اور خدا نے تین خوابوں میں یہ حقیقت میرے پر ظاہر کی اور خواب میں میرے پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنی کامیابی کے لئے مقرر کریگا تاکہ کسی طرح اہانت کرے اور رنج پہنچاوے اور مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ گویا مَیں کسی عدالت میں گرفتاروں کی طرح حاضر کیا گیا ہوں اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات ہے۔ اگرچہ کچھ مدّت کے بعد ہو اور مجھے بشارت دی گئی کہ اس دشمن کذاب مہین پر بَلارَدّکی جائے گی .......... پھر مَیں انتظار کرتا رہا کہ کب یہ پیشگوئی کی باتیں ظہور میں آئیں گی پس جب ایک برس گذرا تو یہ مقدر باتیں کریم دین کے ہاتھ سے ظہور میں آگئیں(یعنی اس نے ناحق میرے پر فوجداری مقدمات دائر کئے)۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 215۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 225)
6 دسمبر1902ء
’’اس خواب1کے بعد پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گھوڑے کا سوار ملا۔ جب مَیں گھر کے قریب آیا تو ایک شخص نے میرے ہاتھ پر پیسے رکھے۔ مَیں نے خیال کیا کہ اس میں دونّی چونّی بھی ہوگی آگے آیا تو دیکھا کہ فجّو2 (فضل نشاں) کشمیری
عورت بیٹھی ہے۔ پھر جب مسجد میں گیا تو دیکھا کہ ہزارہا آدمی بیٹھے ہیں اور کپڑے سب کے پُرانے معلوم ہوتے ہیں۔ مسجد میں اَور آگے بڑھا تو دیکھا ایک جنازہ رکھا ہوا ہے۔ اس کی بڑی سی چارپائی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ کس کا جنازہ ہے۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر7 مؤرخہ 12؍دسمبر 1902ء صفحہ 54)
1 یعنی تین بھینسوں والا خواب (مرتب)
2 فجّو قادیان کے ایک شخص مسمی غفّارا کی بیوی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں خادمہ تھی۔ (مرتب)
8دسمبر1902ء
’’ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر وضو کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ زمین پولی 1ہے اور اس کے نیچے ایک غار سی چلی جاتی ہے۔ مَیں نے اس میں پاؤں رکھا تو دھس گیا اور خوب یاد ہے کہ پھر مَیں نیچے ہی نیچے چلا گیا۔ پھر ایک جَست کرکے مَیں اُوپر آگیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَیں ہوا میں تَیر رہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول ‘ اور اس قدر بڑا ‘ جیسے یہاں2سے نواب صاحب کا گھر۔ اور مَیں اُس پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر تَیر رہا ہوں۔ سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے۔ مَیں نے اُن کو بُلا کر کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسیٰ ؑ تو پانی پر چلتے تھے اور مَیں ہوا پر تَیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل اُن سے بڑھ کر مجھ پر ہے۔ حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے۔ نہ ہاتھ نہ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے اِدھر اُدھر تیر رہے ہیں۔ ایک بجنے میں 20 منٹ باقی تھے کہ مَیں نے یہ خواب دیکھا۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر7 مؤرخہ 12؍دسمبر 1902ء صفحہ 55)
9 دسمبر1902ء
’’ گذشتہ شب کو مجھے یہ الہام ہوا ہے۔
3 سَلَامٌ عَلَیْکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ
پھر اس کے بعد الہام ہوا۔
4 سَلَا مٌ عَلٰٓی اَمْرِکَ۔ صِرْتَ فَآئِزًا۔ 5
(البدر جلد 1نمبر7 مؤرخہ12؍دسمبر 1902ء صفحہ 55 و الحکم جلد 6نمبر44 مؤرخہ10؍دسمبر 1902ء صفحہ 18)
12دسمبر1902ء
فرمایا کہ یہ الہام ہوا ہے اس کے ساتھ ایک اَور عجیب اورمبشّر فقرہ تھا وہ یاد نہیں رہا۔
یُنَادِیْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَآئِ۔6
(البدر جلد 1 نمبر 8 مؤرخہ 19؍دسمبر 1902ء صفحہ 58)
1 زم اور کھوکھلی (مرتب)
2 یہاں سے مراد مسجد مبارک ہے اور نواب صاحب کے گھر سے مراد نواب محمد علی خاں صاحب کا وہ مکان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ساتھ متصل ہے۔ (مرتب
3 (ترجمہ از مرتب) اے ابراہیم ! تجھ پر سلام ۔
4 (ترجمہ از مرتب) تیرے کاروبار پر سلامتی ہو۔ تو بامراد ہوگیا
5 ’’مولوی رُسل بابا.......8؍دسمبر 1902ء کو ساڑھے پانچ بجے صبح کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا........پھر ساتھ ہی مجھے یہ الہام ہوا۔ سَلَامٌ عَلَیْکَ الخ یعنی اے ابراہیم تیرے پر سلام تو فتحیاب ہوگیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 299۔300 ۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 312، 313)
6 (ترجمہ از مرتب) ایک آسمان سے آیا ہوا پکارنے والا پکار رہا ہے۔
19 دسمبر1902ء
’’ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْ۔ 1‘‘
(البدر جلد 1نمبر9 مؤرخہ26؍دسمبر 1902ء صفحہ 68 و الحکم جلد 6نمبر46 مؤرخہ24؍دسمبر 1902ء صفحہ 14)
19 دسمبر1902ء
’’ مغرب و عشاء کی نماز باجماعت ادا کرکے حضرت اقدس تشریف لے گئے اور پھر تشریف لائے تو آپ نے اپنی تین رؤیا سُنائیں جو کہ آپ نے پے در پے دیکھی تھیں۔
(اوّل) کہ ایک شخص نے ایک روپیہ اور پانچ چھوارےرؤیامیں دیئے۔
اس کے بعد پھر غنودگی ہوئی تو دیکھا کہ تریاق القلوب کا ایک صفحہ دکھایا گیا ہے جس پر
عَلٰی شُکْرِ الْمَصَآئِبِ
لکھا ہوا ہے جس کے یہ معنے ہوئے کہ ھٰذِہٖ صِلَۃٌ عَلٰی شُکْرِ الْمَصَآئِبِ گویا یہ روپیہ اور چھوارے شکرالمصائب کا صلہ ہے۔
تیسری دفعہ پھر کچھ ورق دکھائے گئے جن پر بیٹوں کے بارے میں کچھ لکھا ہوا تھا اور جو اس وقت یاد نہیں ہے۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر9 مؤرخہ26؍دسمبر 1902ء صفحہ 69)
21 دسمبر1902ء
’’21؍دسمبر کی رات کو جس کی صبح کو 22؍دسمبر تھی ا ور جو اَخیر عشرہ رمضان کی پہلی رات تھی۔ آپ کو الہام ہوا۔
یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی۔2
فرمایا اس زمانہ میں جو بیس پچیس برس کے قریب ہوتا ہے یہ الہام کبھی نہیں ہوا۔ موسیٰ کا نام تو کئی الہاموں میں رکھا گیا ہے۔‘‘ ( الحکم جلد 6نمبر46 مؤرخہ24؍دسمبر 1902ء صفحہ 11، 12و البدر جلد 1نمبر9 مؤرخہ26؍دسمبر 1902ء صفحہ 71)
22 دسمبر1902ء
’’ اِنَّہ‘ کَرِیْمٌ تَمَشّیٰٓ اَمَامَکَ وَعَادیٰ مَنْ عَادیٰ‘‘3
فرمایا۔ کل جو الہام ہوا تھا۔یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی۔یہ اسی الہام سے آگے معلوم ہوتا ہے۔ جہاں ایک الہام کا قافیہ جب دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہامات ایک دُوسرے سے دس دن کے
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں فوجیں لے کر آرہا ہوں۔
2 (ترجمہ از مرتب) تم پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے۔ جو موسیٰ کے زمانہ کی طرح ہوگا۔
3 (ترجمہ از مرتب) وہ کریم ہے ‘ وہ تیرے آگے آگے چلتا ہے اور اس شخص کا دشمن بن جاتا ہے جو تیرے ساتھ دشمنی کرتا ہے۔
فاصلہ سے ہوں۔ مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا تعلق آپس میں ضرور ہے یہاں بھی موسیٰ اور عادیٰ کا قافیہ ملتا ہے اور پھر توریت میں اس قسم کا مضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ تُو چل مَیں تیرے آگے چلتا ہوں۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر10 مؤرخہ2؍جنوری 1903ء صفحہ 72 و البدر جلد 1نمبر9 مؤرخہ26؍دسمبر 1902ء صفحہ 71
الحکم جلد 6نمبر46 مؤرخہ24؍دسمبر 1902ء صفحہ13، 14)
23 دسمبر 1902ء
’’ نماز فجر سے پیشتر حضرت اقدس نے یہ رؤیاسُنائی۔
مَیں کسی اَور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ ایک دو آدمی ساتھ ہیں۔ کسی نے کہا راستہ بند ہے، ایک بڑا بحرِ زخّار چل رہا ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہوہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے۔ ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر10 مؤرخہ2؍جنوری 1903ء صفحہ 76)
24 دسمبر1902ء
’’ اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَسَیَشْھَدُاللّٰہُ لِیْ۔
ترجمہ:۔ مَیں صادق ہوں ‘ صادق ہوں ‘ عنقریب خدا تعالیٰ میری شہادت دے گا۔‘‘
( الحکم جلد 6نمبر46 مؤرخہ24؍دسمبر 1902ء صفحہ 14 ،البدر جلد 1نمبر10 مؤرخہ2؍جنوری 1903ء صفحہ 77، 78 ۔ اشتہار یکم جنوری 1903ء جلد3صفحہ 483)
1902ء
(الف) ’’ اِنِّیْٓ اَنَا الصَّاعِقَۃُ 1 ‘‘
(البدر جلد 1نمبر11 مؤرخہ9؍جنوری 1903ء صفحہ 86 و الحکم جلد 7نمبر1 مؤرخہ10؍جنوری 1903ء صفحہ 2)
(ب) ’’ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نیا اسم ہے آج تک کبھی نہیں سُنا۔ حضرت اقدس نے فرمایا۔ بے شک۔ اسی طرح طاعون کی نسبت جو الہامات ہیں وہ بھی ہیں۔ جیسے اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ ۔ یہ بھی کیسے لطیف الفاظ ہیں۔ گویا خدا فرماتا ہے کہ طاعون کے متعلق میرے دو کام ہونگے۔ کچھ حصہ چُپ رہوں گا یعنی روزہ رکھونگا اور کچھ افطار کرونگا اور یہی واقعہ ہم چند سال سے دیکھتے ہیں۔ شدّت گرمی اور شدّت سردی کے موسم میں طاعون دب جاتی ہے گویا وہ اصوم کا وقت ہے۔ اور فروری ‘ مارچ ‘ اکتوبر وغیرہ میں زور کرتی ہے وہ گویا افطار کا وقت ہوتا ہے اور اسی لطیف کلام میں سے ہے۔ اِنِّیْ اَنَا الصَّاعِقَۃُ۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر11 مؤرخہ9؍جنوری 1903ء صفحہ 86)
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں ہی صاعقہ ہوں۔
1902ء
’’31؍دسمبر 1902ء بروز چہار شنبہ، حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:۔
ایک دفعہ ایک خاکروبہ نے ایک جگہ سے مَیلا اُٹھایا اور اس کا ایک حصہ چھوڑ دیا۔ مَیں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا مجھے نظر آیا کہ اس نے ایک حصہ چھوڑ دیا ہے تو مَیں نے اُس خاکروبہ سے کہا۔ وہ سُنکر حیران ہوئی کہ اس نے اندر بیٹھے کیسے دیکھ لیا۔ مَیں نے اس پر خدا کا شکر کیا کہ یہ باوجود مَیلے کے سر پر موجود ہونے کے نہیں دیکھ سکتی حالانکہ مجھے اس نے اس قدر دُور دراز فاصلہ سے دکھلادیا۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر11 مؤرخہ9؍جنوری 1903ء صفحہ 84)
1902ء
’’یکم جنوری 1903ء کو فرمایا۔ ایک دفعہ مجھے ایک فرشتہ آٹھ یا دس سالہ لڑکے کی شکل پر نظر آیا۔ اُس نے بڑے فصیح اور بلیغ الفاظ میں کہا کہ
خدا تمہاری ساری مُرادیں پُوری کریگا۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر12 مؤرخہ16؍جنوری 1903ء صفحہ 90)
یکم جنوری 1903ء
’’اوّل ایک خفیف خواب میں جو کشف کے رنگ میں تھی مجھے دکھایا گیا کہ مَیں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے۔ پھر وہ کشفی حالت وحی کی طرف منتقل ہوگئی۔ چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ‘ ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں۔
یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمَانُ شَیْئًا1 اَتٰٓی اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔ بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا لنَّبِیُّوْنَ۔
(البدر جلد 1نمبر11 مؤرخہ 9؍جنوری 1903ء صفحہ 85 ، الحکم جلد 7 نمبر 1 مؤرخہ 10؍جنوری 1903ء صفحہ1)
ترجمہ:۔ خدا جو رحمان ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا۔ خدا کا امر آرہا ہے۔ تم جلدی نہ کرو۔ یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے۔
صبح 5 بجے کا وقت تھا۔ یکم جنوری 1903ء و یکم شوال 1320ھ روزِ عید ‘ جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی۔
(اشتہار یکم جنوری 1903ء مندرجہ الحکم جلد 7 نمبر 1 مؤرخہ 10؍جنوری 1903ء صفحہ1۔ مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ 483)
1 حضرت اقدس نے فرمایا۔ ’’شے سے مُراد کوئی عظیم الشان بات ہے اسکی عظمت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کو پوشیدہ رکھا ہے کیونکہ چھُپانے میں ایک عظمت ہوتی ہے جیسے جنّت کے انعامات کے لئے فرمایا ہے۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ۔ (سورۃ السّجدۃ: 17)
کھانے پر جیسے دسترخوان ہوتا ہے۔ اُس کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہی مقصود ہوتی ہے۔ غرض یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے۔‘‘ ( الحکم جلد 7 نمبر 1 مؤرخہ 10؍جنوری 1903ء صفحہ2)
یکم جنوری 1903ء
’’ حضرت اقدس تشریف لائے تو کمر کے گرد ایک صافہ لپیٹا ہوا تھا۔ فرمایا کہ کچھ شکایت درد گردہ کی شروع ہو رہی ہے اس لئے مَیں نے باندھ لیا ہے ذرا غنودگی ہوئی تھی اس میں الہام ہوا ہے۔
تا عَو دِ صحت 1
فرمایا کہ صحت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب تک وہ ارادہ نہ کرے کیا ہوسکتا ہے۔
(البدر جلد 1نمبر11 مؤرخہ9؍جنوری 1903ء صفحہ 85)
2 جنوری 1903ء
’’جَآئَ نِیْ اٰئِلٌ وَّاخْتَارَ۔ وَاَدَارَ اِصْبَعَہ‘ وَاَشَارَ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وَیَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔آئل جبرائیل ہے ، فرشہ بشارت دینے والا۔
ترجمہ:۔ آیا میرے پاس آئل ،اور اُس نے اختیار کیا (یعنی چُن لیا تجھ کو) اور گھمایا اُس نے اپنی اُنگلی کو ‘ اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اُس شخص پر جو تجھ پر اُچھلا۔
فرمایا۔ آئل اصل میں ایالت سے ہےیعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کو ظالم سے بچاتا ہے ۔یہاں جبرئیل نہیں کہا، آئل کہا۔ اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے۔ اس لئے فرشتہ کا نام ہی آئل رکھ دیا۔ پھر اُس نے اُنگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن اور اشارہ کیا کہ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وغیرہ۔
یہ بھی اس پہلے الہام سے ملتا ہے اِنَّہ‘ کَرِیْمٌ تَمَشّیٰٓ اَمَامَکَ وَعَادیٰ کُلَّ مَنْ عَادیٰ ۔ وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس نے اس کی عداوت کی۔ چونکہ آئل کا لفظ لُغت میں مل نہ سکتا ہوگا یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہوگا اس لئے الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کردی ہے۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر12 مؤرخہ 16؍جنوری 1903ء صفحہ 90، الحکم جلد 7 نمبر 2 مؤرخہ 17؍جنوری 1903ء صفحہ5۔6)
9 جنوری 1903ء
’’ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ اَتٰی۔2 رَکَلَ وَ رَکیٰ۔ فَطُوْبٰی لِمَنْ وَّجَدَ وَرَاٰی۔
1 (ترجمہ از مرتب) بحالی صحت تک
2 الحکم میں وَرَکَلَ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقیقۃ الوحی صفحہ 91 (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 94) پر بھی ’’واؤ ‘‘کے ساتھ لکھا ہے۔ (مرتب)
قُتِل1خَیْبَۃً۔ وَزِیْدَ ھَیْبَۃً۔‘‘
(البدر جلد 1نمبر12 مؤرخہ 16؍جنوری 1903ء صفحہ 96 ، الحکم جلد 7 نمبر 2 مؤرخہ 17؍جنوری 1903ء صفحہ 16 حاشیہ)
ترجمہ:۔ خدا کا وعدہ آیا اور زمین پر ایک پاؤں مارا اور خلل کی اصلاح کی۔پس مبارک وہ جس نے پایا اور دیکھا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 91۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 94)
’’ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سُنا۔ اور اُس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا۔ یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا۔ اور اس کا بڑا اثر لوگوں کے دلوں پر ہوا۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ61۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ 75 حاشیہ)
11 جنوری 1903ء
(الف) ’’ فرمایا ابھی فجر کو مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔ اس کے ایک طرف کچھ اشتہار ہے اور دُوسری طرف ہماری طرف سے لکھا ہوا ہے۔ جس کا عنوان یہ ہے۔
بَقِیَّۃُ الطَّاعُوْنِ۔2 ‘‘
(البدر جلد 1نمبر12 مؤرخہ 16؍جنوری 1903ء صفحہ 94 و الحکم جلد 7 نمبر 2 مؤرخہ 17؍جنوری 1903ء صفحہ16 حاشیہ)
(ب) ’’اب طاعون سر پر ہے اور جہاں تک مجھے خدا تعالیٰ سے علم دیا گیا ہے۔ ابھی بہت سا حصہ اس کا باقی ہے۔‘‘
(لیکچر لاہور صفحہ 28۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 174)
12 جنوری 1903ء
’’ مَیں نے دیکھا کہ میری بیوی نے ایک روپیہ مجھ کو دیا ہے اور کہا کہ یہ تمہارے لئے روپیہ نذر ہے۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 1 جو خلافت لائبریری صدر انجمن احمدیہ میں موجود ہے)
1 اس الہام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ وحی الٰہی صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی نسبت ہوئی تھی جبکہ وہ زندہ تھے بلکہ وہ قادیان میں موجود ہی تھے۔‘‘
دیکھئے حاشیہ اشتہار 16؍اکتوبر 1903ء مندرجہ تذکرۃ الشہادتین صفحہ 61 ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 75 حاشیہ۔
ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 11, 12 بابت ماہ نومبر و دسمبر 1903ء صفحہ 462 (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) طاعون کا باقی ماندہ حصہ۔ (نوٹ) یہ الہام ’’بقیّۃ الطاعون‘‘ مواہب الرحمن صفحہ 108 ۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 328پر بھی درج ہے۔
13 جنوری 1903ء
’’ 1 اِنِّیْ مُھِیْن ُ ٗ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ اِنِّیْ مُعِیْن ُ ٗ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ۔ اَنْتَ وَجِیْہ ُ ٗ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ وَسِرُّکَ سِرِّیْ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ وَسِرُّکَ سِرِّیْ اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَکُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدیْ۔ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ (النَّاسِ) یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ وَیَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَمْشِیْٓ اِلَیْکَ۔ اَنْتَ وَجِیْہ ُ ٗ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ وَسِرُّکَ سِرِّیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ یَآ اَحْمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ۔ وَاَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ سِرُّکَ سِرِّیْ۔ اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَکُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ۔ اَنْتَ وَجِیْہ ُ ٗ فِیْ حَضْرَتِیْ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ1)
1903ء
وَاِنَّہ‘ بَشَّرَ نِیْ وَقَالَ
’’لَا اُبْقِیْ لَکَ فِی الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔2 ‘‘
وَقَالَ
یَعْصِمُکَ اللّٰہ مِنْ عِنْدِہٖ وَھُوَ الْوَلِیُّ الرَّحْمٰنُ۔3 ‘‘
(مواہب الرحمن صفحہ17۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 235)
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں اس شخص کی اہانت کرونگا جو تیری اہانت کریگا۔ مَیں اس شخص کی اعانت کرونگا جو تیری اعانت کریگا۔ تُو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھے اپنے لئے چُن لیا۔ اور تیرا بھید میرا بھید ہے۔ تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرا بھید میرا بھید ہے۔ جب تو غضبناک ہوتا ہے تو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور جب تو محبت کرتا ہے مَیں محبت کرتا ہوں تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ پس وقت آگیا ہے کہ تیری مدد کی جائے اور تجھے لوگوں میں مشہور کیا جائے۔ اللہ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔ اور اللہ تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے مَیں نے تجھے اپنے لئے چُن لیا۔ اور تیرا بھید میرا بھید ہے۔ میرے نزدیک تیرا وہ مرتبہ ہے جس کو لوگ نہیں جانتے۔ اے میرے احمد۔ تومیری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے اور تو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ جب تُو غضب ناک ہوتا ہے تو مَیں غضبناک ہوتا ہوں۔ اور جب تو محبت کرتا ہے تو مَیں محبت کرتا ہوں۔ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھ کو اپنے لئے چُن لیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) اور اس نے مجھے بشارت دی اور فرمایا۔ مَیں تیرے متعلق رُسواکن باتوں کا ذکر تک نہیں چھوڑوں گا۔
3 (ترجمہ از مرتب) اور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تیری حفاظت اپنی طرف سے کریگا۔ اور وہی بیحد رحم کرنیوالا دوست ہے۔
15 جنوری 1903ء
’’لاہور میں کثرت سے بار بار یہ الہام ہوا۔
اُرِیْکَ بَرَکَاتٍ مِّنْ کُلِّ طَرَفٍ 1
یعنی مَیں ہر ایک جانب سے تجھے اپنی برکتیں دکھلاؤں گا۔‘‘
( الحکم جلد 7 نمبر 4 مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15 و البدر جلد 2نمبر1, 2 مؤرخہ 23,30؍جنوری 1903ء صفحہ 9)
18نوری 1903ء
’’جہلم سے واپسی پر کامو کے اور مریدکے کے سٹیشن کے مابین:
اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ۔2 ‘‘
(البدر جلد2نمبر1 , 2 مؤرخہ 23,30؍جنوری 1903ء صفحہ 7 و الحکم جلد 7 نمبر 4 مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15)
1 ’’یہ پیشگوئی اس طرح پُوری ہوئی کہ * جب مَیں جہلم کے قریب پہنچا۔ تو تخمیناً دس ہزار سے زیادہ آدمی ہوگا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے۔ اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کی کچہری کے اردگرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکّام حیرت میں پڑگئے۔ گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی۔ اور قریباً دوسو کے عورت بیعت کرکے اس سلسلہ میں داخل ہوئی اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا، خارج کیا گیا اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دیئے اور تحفے پیش کئے۔ اور اس طرح ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالامال ہوکر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پُوری کی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 252۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 264)
٭ ’’راستہ میں لاہور سے آگے گوجرانوالہ اور وزیر آباد اور گجرات وغیرہ سٹیشنوں پر اس قدر لوگ ملاقات کے لئے آئے کہ سٹیشنوں پر انتظام رکھنا مشکل ہوگیا۔ ٹکٹ پلیٹ فارم ختم ہونیکی وجہ سے لوگ بلا ٹکٹ پلیٹ فارم پر چلے گئے۔ اور بعض مقامات پر گاڑی کو کثرت ہجوم کی وجہ سے زیادہ دیر تک ٹھہرایا گیا اور نہایت نرمی سے زائروں کو ملازمین ریل نے گاڑی سے علیٰحدہ کیا۔ بعض جگہ کچھ دُور تک لوگ گاڑی کو پکڑے ہوئے ساتھ چلے گئے۔ خوف تھا کہ کوئی آدمی نہ مرجائے۔ ان واقعات کو مخالف اخباروں میں بھی مثل پنجہ ٔ فولاد شائع کیا تھا۔منہ‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 252 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 264)
2 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز پر تجھے ترجیح دی
19جنوری 1903ء
’’ اَفَانِیْنُ اٰیَاتٍ۔1‘‘
( الحکم جلد 7 نمبر 4 مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15 و البدر جلد 2نمبر1, 2 مؤرخہ 23,30؍جنوری 1903ء صفحہ 7)
19 جنوری 1903ء
’’ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہ‘ وَالطَّیْرَ۔2 ‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ2,3)
19 جنوری 1903ء
حضرت اقدس نے عشاء سے پیشتر یہ رؤیاسنائی کہ ’’مَیں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اورمیرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور مَیں اپنے آپ کو مُوسیٰ سمجھتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں۔ نظر اُٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر ِ کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے و گاڑیوں و رتھوں کے ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آگیا ہے۔ میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہوگئے ہیں اور بلند آواز سے چلّاتے ہیں کہ اے موسیٰ ہم پکڑے گئے۔ تو مَیں نے بلند آواز سے کہا۔
’’ کَلَّآ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔3 ‘‘
اتنے میں مَیں بیدار ہوگیا۔ اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے۔‘‘
(البدر جلد2نمبر1 , 2 مؤرخہ 23,30؍جنوری 1903ء صفحہ 7 و الحکم جلد 7 نمبر 4 مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15)
21 جنوری 1903ء
’’خواب میں مَیں نے دیکھا کہ کرم دین کو کچھ سزا ہوگئی ہے۔ پھر اس کے بعد یہ الہام ہوا۔
’’ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَالُوْا یَعْتَدُوْن۔4 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 2)
1 (ترجمہ از مرتب) گوناگوں نشانات۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ اے پہاڑو! اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھُک جاؤ اور اے پرندو تم بھی۔
3 (ترجمہ از مرتب) نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ میرا ربّ میرے ساتھ ہے۔ وہ ضرور میرے لئے رستہ نکالے گا۔
4 (ترجمہ از مرتب) یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے بڑھ گئے۔
21 جنوری 1903ء
’’ نَو فرزند کی نسبت الہام ہوا:۔
غَاسِقُ اللّٰہِ
یعنی وہ قمر جس کو خسوف لگے گا۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ2)
22 جنوری 1903ء
’’ 1 رَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ کَاَنَّ اِمْرَئَ تِیْ جَآئَ تْنِیْ وَعَلَیْھَا ثَوْب ُ ٗ کَا لْمُحْرِمِ وَجَلَسَتْ عِنْدِیْ۔ وَقَالَتْ لَوْ مِتُّ فَعَلَیْکَ اَنْ تَغْسِلَنِیْ اَنْتَ لَاغَیْرُکَ۔ وَ اَرَادَتْ عِنْدَ وَضْعِ الْحَمْلِ۔ ثُمَّ بَعْدَ ذٰلِکَ اَحْسَسْتُ زَلْزَلَۃً خَفِیْفَۃً وَّ مَا اَعْقَبَھَا ضَرَرٌ۔ وَخَرَجْتُ اَنَا وَزَوْجَتِیْ مِنْ مَّکَانِ السَّقْفِ اِلَی الْفِنَآئِ وَکَانَ ھٰذَا یَوْمُ الْخَمِیْسِ ۲۲شوال۱۳۲۰؁ ھ وَاَحْسَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ فِیْ وَقْتِ قَوْلِ زَوْجَتِیْ کَاَنَّ جِبْرَئِیْلَ قَاعِد ُ ٗ عِنْدِی ۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ2)
22 جنوری 1903ء
’’ رات کو مَیں نے دیکھا کہ ایک بڑا زلزلہ آیا مگر اس سے کسی عمارت وغیرہ کا نقصان نہیں ہوا۔‘‘
(البدر جلد2نمبر5 مؤرخہ 20؍فروری 1903ء صفحہ36 و البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ7۔ البدرجلد2 نمبر5 مورخہ 20فروری1903ء صفحہ 36)
24 جنوری 1903ء
’’ فرمایا۔ آج ایک کشف میں دکھایا گیا۔
تَفْصِیْلُ مَاصَنَعَ اللّٰہُ فِیْ ھٰذَا الْبَاْسِ بَعْدَمَآ اَشَعْتُہ‘ فِی النَّاسِ۔2 ‘‘
’’اس کے بعد الہامی صورت ہوگئی اور زبان پر یہی جاری تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ کے متعلق جو قبل از
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میری بیوی میرے پاس آئی ہے اور اس پر گویا احرام والے کپڑے ہیں اور میرے پاس بیٹھ گئی۔ اور کہا کہ اگر مَیں مرجاؤں تو مجھے آپ ہی غسل دیں اور اس وقت اس نے وضع حمل کے وقت مرنا مراد لیا۔ پھر اس کے بعدمَیں نے ایک خفیف سا زلزلہ محسوس کیا جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اور مَیں اور میری بیوی مکان کے اندر سے صحن میں نکل آئے اور یہ جمعرات کا دن اور تاریخ 22؍شوال 1320ھ تھی۔ اور مَیں نے اپنی بیوی کے قول کے وقت اپنے دل میں محسوس کیا گویا حضرت جبرئیل میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔
2 (ترجمہ از مرتب) تفصیل ان کارناموں کی جو خدا تعالیٰ نے اس جنگ میں کئے۔ بعد اس کے کہ مَیں نے اس پیشگوئی کو لوگوں میں شائع کیا۔
وقت پیشگوئی کے رنگ میں بتلایا گیا تھا۔ اب اس کی تفصیل ہوگی۔‘‘
(البدر جلد2نمبر5 مؤرخہ 20؍فروری 1903ء صفحہ36 و البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ7
و الحکم جلد 7 نمبر 4 مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15)
(ب) ’’ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں ایک مضمون شائع کرنے لگا ہوں۔ گویا کرم الدین کے مقدمہ کے بارے میں کہ آخری نتیجہ کیا ہوا۔ اور مَیں اس پر یہ عنوان لکھنا چاہتا ہوں۔
تَفْصِیْلُ مَاصَنَعَ اللّٰہُ فِی ھٰذَا الْبَاْسِ بَعْدَ مَآ اَشَعْنَاہُ فِی النَّاسِ۔ قَدْ بَعُدُوا مِنْ مَّآئِ الْحَیَاۃِ۔ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ3)
25جنوری 1903ء
’’25؍جنوری 1903ء کو حضرت اقدس نےرؤیاسُنائی کہ مجھے کھانسی کی کمال تکلیف تھی۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد احسن صاحب مجھے ایک گانٹھ سونٹھ یا سپاری کی۔ اور جائفل دے رہے ہیں کہ اسے مُنہ میں رکھو۔
اس خواب کے بعد مجھے دو گھنٹہ تک بالکل آرام رہا اور اب بھی تکلیف تو ہے مگر بہت کم۔ اور 26؍جنوری کی سیر میں آپ نے فرمایا۔ رات کو مَیں نے سونٹھ اور جائفل مُنہ میں رکھا تھا، اس سے کھانسی کو بہت ہی آرام ہے۔‘‘
( البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ7 و الحکم جلد 7 نمبر 5 مؤرخہ 7؍فروری 1903ء صفحہ14)
28 جنوری 1903ء
(الف) ’’ اس2وقت مجھے اوّل ایک کشفی صورت میں خواب کے ذریعہ دکھلایا گیا ہے کہ میرے گھر میں (یعنی اُمّ المؤمنین) کہتے ہیں کہ اگر مَیں فوت ہوجاؤں تو میری تجہیز و تکفین آپ خود اپنے ہاتھ سے کرنا۔ اس کے بعد مجھے ایک بڑا منذر الہام ہوا ہے۔
غَاسِقُ اللّٰہِ۔‘‘
( البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ7 ، الحکم جلد7نمبر6 مورخہ14 فروری 1903ء صفحہ4۔
الحکم جلد 7 نمبر4 مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15)
1 (ترجمہ از مرتب) تفصیل ان کارناموں کی جو خدا نے اس جنگ میں کئے۔ بعد اس کے کہ ہم نے اس پیشگوئی کو لوگوں میں شائع کیا وہ زندگی کے پانی سے دُور ہوگئے ہیں پس تُو انہیں اچھی طرح پیس ڈال۔
2 (ترجمہ از مرتب) یہ خواب اور الہام غَاسِقُ اللّٰہِ دونوں21جنوری 1903 کے تحت درج ہوچکے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر فرمودہ کاپی کے حوالہ سے انکی تاریخ 21 , 22؍جنوری بیان فرمائی گئی ہے پس یا تو اخباروں کی تاریخ 28؍جنوری کے لکھنے میں سہو ہے یا ممکن ہے کہ دوبارہ انکشاف ہوا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مرتب)
(ب) ’’ مجھے اس کے یہ معنی معلوم ہوئے ہیں کہ جو بچہ1میرے ہاں پیدا ہونے والا ہے۔ وہ زندہ نہ رہے گا۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ8)
(ج) ’’ میں نے اس سے پیشتر یہ خیال کیا تھا کہ چونکہ عنقریب گھر میں وضع حمل ہونے والا ہے۔ تو شاید مولود کی وفات پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے۔ مگر بعد میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس سے مُراد ابتلاء ہے...........اور اس سے جماعت کا ابتلاء مُراد نہیں ہے بلکہ منکرین کا جو کہ جہالت ‘ نادانی‘ افتراء سے کام لیتے ہیں۔.........تاریکی جب خدا کی طرف منسوب ہو۔ تو دشمن کی آنکھ میں ابتلاء کا موقع اس سے مراد ہوتا ہے اور ا س لئے اس کو غاسق اللہ کہتے ہیں۔‘‘
(البدر جلد2نمبر6 مؤرخہ 27؍فروری 1903ء صفحہ43)
28 جنوری 1903ء
’’ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ عِبَادِہٖ یُوَاسِیْکَ۔‘‘
( البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ10 و الحکم جلد 7 نمبر 4 مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15)
ترجمہ:۔ ’’یعنی خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ تیری غمخواری کرے گا۔‘‘
( البدر جلد2 نمبر3 مؤرخہ6؍فروری 1903ء صفحہ24)
28 جنوری 1903ء
’’آج صبح کو الہام ہوا۔
سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا2 ‘‘
اس کے بعد تھوڑی سی غنودگی میں ایک خواب بھی دیکھا کہ ایک چوغہ سنہری بہت خوبصورت ہے۔ مَیں نے کہا کہ عید کے دن پہنوں گا۔اس الہام میں عَجَبًا کا لفظ بتلاتا ہے کہ کوئی نہایت مؤثر بات ہے۔‘‘
( البدر جلد2 نمبر6 مؤرخہ27؍فروری 1903ء صفحہ43 و البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ8
و الحکم جلد 7 نمبر 4مؤرخہ 31؍جنوری 1903ء صفحہ15)
1 یہ بچہ صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ تھیں ‘ جو 28؍جنوری 1903ء کو ساڑھے چار بجے کے قریب پیدا ہوئیں۔ اور 3؍دسمبر 1903ء کو فوت ہوئیں۔ دیکھئے پرچہ غیر معمولی الحکم 3؍دسمبر 1903ء بحوالہ تاریخ احمدیت جدید ایڈیشن جلد2 صفحہ273۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں نہایت شاندار طور پر تیرا اکرام کرونگا۔
(نوٹ) کاپی الہامات صفحہ 3 میں یہ الہام یوں درج ہے۔ سَیُکْرِمُکَ اللّٰہُ اِکْرَامًا عَجَبًا (یعنی اللہ تعالیٰ شاندار طور پر تیرا اکرام کرے گا)
28 جنوری 1903ء
’’ رات مَیں نے ایک اَور خواب بھی دیکھا کہ مَیں جہلم میں ہوں اور ڈپٹی سنسارچند صاحب کے کمرے میں ہوتا ہوا آگے کوٹھی کے ایک اَور کمرہ کی طرف جارہا ہوں۔‘‘
( البدر جلد2 نمبر1, 2 مؤرخہ23, 30؍جنوری 1903ء صفحہ8 و البدجلد2 نمبر6 مؤرخہ27؍فروری 1903ء صفحہ43۔
الحکم جلد 6 نمبر 4مؤرخہ 14؍فروری 1903ء صفحہ4)
29 جنوری 1903ء
’’ 1 اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔ اُصَلِّیْ وَ اَصُوْمُ۔ یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہ‘ وَالطَّیْرَ۔ قَدْ بَعُدُوْا مِنْ مَّآئِ الْحَیَاۃِ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ3)
30 جنوری 1903ء
’’ عشاء سے قبل حضرت اقدس نے یہ الہام سُنایا۔
لَایَمُوْتُ اَحَد ُ ٗ مِّنْ رِّجَالِکُمْ۔2
اور فرمایا۔ اس کے حقیقی معنے کہ تمہارے رِجال میں کوئی نہ مرے گا ‘ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ موت تو انبیاء تک کو آتی ہے۔ اور نہ قیامت تک کسی نے زندہ رہنا ہے مگر اس کے مفہوم کا پتہ نہیں ہے۔ شاید کوئی اَور معنے ہوں۔‘‘
(البدرجلد2 نمبر3 مؤرخہ6؍فروری 1903ء صفحہ24 و الحکم جلد 7 نمبر 6مؤرخہ 14؍فروری 1903ء صفحہ7)
30 جنوری 1903ء
’’ اسی3 رات خواب میں دیکھا کہ گویا زارِ روس کا سوٹا میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں پوشیدہ طور پر بندوق کی نالی بھی ہے۔ دونوں کام نکالتا ہے۔ اور پھر دیکھاکہ وہ بادشاہ جس کے پاس بو علی سینا
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ مَیں خاص رحمتیں نازل کرونگا اور عذاب کو روکونگا اے پہاڑو اور اے پرندو! میرے اس بندہ کے ساتھ وجد اور رقّت سے میری یاد کرو۔ وہ زندگی کے پانی سے دُور ہوگئے ہیں۔ پس تو انہیں اچھی طرح پیس ڈال۔
2 (ترجمہ از مرتب) تمہارے خاص آدمیوں میں سے کوئی نہیں مریگا۔
اس سے مراد طاعون کی موت معلوم ہوتی ہے یا یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاص افراد کا ذکر خیر بھی ہمیشہ قائم رہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مرتب)
3 یعنی جس رات الہام لا یموت احد مّن رّجالکم ہوا تھا۔ (مرتب)
تھا۔ اس کی کمان میرے پاس ہے۔ اور مَیں نے اس کمان سے ایک شیر کی طرف تِیر چلایا ہے۔ اور شاید بو علی سینا بھی میرے پاس کھڑا ہے اور وہ بادشاہ بھی۔‘‘ (کاپی الہامات1حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ4)
31 جنوری 1903ء
’’ اِنَّ اللّٰہَ رَئُ وْف ُ ٗ رَّحِیْم ُ ٗ 2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ4)
1903ء
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِاَرْبَعَۃً مِّنَ الْبَنِیْنَ وَاَنْجَزَ وَعْدَہ‘ مِنَ الْاِحْسَانِ۔ وَ بَشَّرَنِیْ بِخَامِسٍ فِیْ حِیْنٍ مِّنَ الْاَحْیَانِ۔‘‘
(مواہب الرحمن صفحہ 139۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 360)
یعنی اللہ تعالیٰ کو حمد و ثنا ہے جس نے پِیرانہ سالی میں چار لڑکے مجھے دیئے اور اپنا وعدہ پورا کیا ............(اور) پانچواں لڑکا جو چار سے علاوہ بطور نافلہ پَیدا ہونیوالا تھا ‘ اُس کی خدا نے مجھے بشارت دی۔ کہ وہ کسی وقت ضرور پَیدا 3ہوگا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 218, 219۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 228،229)
2 فروری 1903ء
’’2؍فروری 1903ء کو سیر میں حضرت اقدس نے یہ الہامات سُنائے جو کہ آپ کو رات کو ہوئے۔
سَنُنْجِیْکَ۔ سَنُعْلِیْکَ۔ اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔ سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا۔ سُمِعَ الدُّعَآئُ۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ دُعَآئُ کَ مُسْتَجَابٌ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔ وَاُصَلِّیْ وَ اَصُوْمُ۔ وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ۔4 ‘‘
(الحکم جلد 7 نمبر 5 مؤرخہ 7؍فروری 1903ء صفحہ 16)
(ترجمہ) ’’ہم تجھے نجات دیں گے۔ ہم تجھے غالب کریں گے۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ اور مَیں تجھے ایسی بزرگی دُوں گا۔ جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے۔ مَیں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طور پر آؤں گا۔ مَیں
1 یہ رؤیا باختلاف الفاظ الحکم اور البدر میں بھی ہے۔ دیکھئے الحکم جلد7 نمبر4مؤرخہ31؍جنوری1903ء صفحہ15 و البدر جلد2نمبر3مؤرخہ6؍فروری1903ء صفحہ24 (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) یقینا اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔
3 ’’چنانچہ قریباً تین ماہ کا عرصہ گذرا ہے کہ میرے لڑکے محمود احمد کے گھر میں لڑکا پَیدا ہوا۔ جس کا نام نصیر احمد رکھا گیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 218۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 229)
4 (بقیہ ترجمہ از مرتب) تیری دُعا سُنی گئی۔ تیری دُعا مقبُول ہے۔ مَیں خاص رحمتیں نازل کرونگا۔ اور عذاب کو روکوں گا۔
اپنے رسُول کے ساتھ کھڑا ہونگا۔ اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے گی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 87 , 90 , 96، ۔103۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 106،99،93،90 )
2 فروری 1903ء
’’ مَیں نے میرزا خدا بخش صاحب کو دیکھا ہے کہ اُن کے کرتے کے ایک دامن پر لہو کے داغ ہیں۔ پھر اَور داغ ان کے گریبان کے نزدیک بھی دیکھے ہیں۔ مَیں اس وقت کہتا ہُوں کہ یہ ویسے ہی نشان ہیں جیسے کہ عبداللہ سنوری صاحب کو جو کرتہ دیا گیا ہے اُس پر تھے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر3 مؤرخہ 6؍فروری 1903ء صفحہ 24)
3 فروری 1903ء
’’ 1 اُصَلِّیْ وَ اَصُوْمُ۔ اَسْھَرُ وَ اَنَامُ۔ وَاَجْعَلُ لَکَ اَنْوَارَ الْقُدُوْمِ۔ وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر5 مؤرخہ 7؍فروری 1903ء صفحہ 16)
(ترجمہ) ’’ اور تیرے لئے اپنے آنے کے نور 2عطاکروں گا۔ اور وہ چیز تجھے دوں گا۔ جو تیرے ساتھ ہمیشہ رہے گی۔ خدا ان کے ساتھ ہوگا۔ جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ92،104۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 92، 104)
3 فروری 1903ء
بَرَزَمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الرِّمَاحِ
(البدجلد2 نمبر4 مؤرخہ13؍فروری 1903ء صفحہ25 و الحکم جلد 7 نمبر 6مؤرخہ 14؍فروری 1903ء صفحہ13 حاشیہ)
(ترجمہ) ’’انہوں نے جو کچھ ان کے پاس ہتھیار تھے سب ظاہر کردیئے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 103۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 106)
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں (تجھ پر) خاص رحمتیں نازل کرونگا۔ اور عام لوگوں سے اپنے عذاب کو روک لونگا۔ مَیں چشم نمائی بھی کرونگا اور چشم پوشی بھی۔
(نوٹ ازمرتب) حضور کے الہامات کی کاپی صفحہ 3 میں الہام اُصلّی و اصوم سے پہلے یہ الہام بھی ہے انّی مع الرسول اقوم۔جس کا ترجمہ یہ ہے مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہونگا۔
2 تذکرۃ الشہادتین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ یوں بھی فرمایا ہے۔’’ اور اپنی تجلّی کے نور تجھ میں رکھ دُونگا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین صفحہ7۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 9)
4 فروری 1903ء
’’ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر5 مؤرخہ 7؍فروری 1903ء صفحہ 16)
(ترجمہ) ’’کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے ہیں۔ اور نافرمانی کی راہوں پر قدم رکھا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ91، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 93)
8 فروری 1903ء
’’ اَلْحَرْبُ مُھَیَّجَۃ ُ ٗ۔1 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ5)
8فروری 1903ء
’’ پھر یہ زندہ ہوئی ہے مرمر کر‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ5)
فروری 1903ء
’’ آج آریہ سماج قادیان کی طرف سے میری نظر سے ایک اشتہار گذرا........... اس اشتہار میں ہمارے سید و مولیٰ جناب رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور میری نسبت اور میرے معزز احباب کی نسبت اس قدر سخت الفاظ اور گالیاں استعمال کی ہیں کہ بظاہر یہی دل چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جاوے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ
اس تحریر کا جواب لکھ اور مَیں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘
تب مجھے اس مبشر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں مَیں اکیلا نہیں۔ سو مَیں اپنے خدا سے قوت پاکر اُٹھا اور اُس کی روح کی تائید سے مَیں نے اس رسالہ2 کو لکھا۔‘‘
(نسیم دعوت صفحہ 1،2۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 363،364)
1 بدر میں یہ الہام ان الفاظ میں ہے۔’’حَرْبٌ مُّھَیَّجَۃٌ‘‘جوش سے بھری ہوئی لڑائی۔ فرمایا کہ اس کا اشارہ یا تو مقدمہ کی شاخوں کی طرف معلوم ہوتا ہے یا آریہ سماج کو جو اشتہار نو مسلموں نے دیا ہے اُس سے جوش میں آکر وہ لوگ کچھ گندی گالیاںوغیرہ دیویں۔ چنانچہ شام کو ایک اشتہار آریوں کی طرف سے نکل آیا جس میں ایسے ہی گندے الفاظ تھے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر4 مؤرخہ 13؍فروری 1903ء صفحہ 25)
2 یعنی رسالہ ’’ نسیم دعوت ‘‘۔ (مرتب)
1903ء
’’ ایک دفعہ مَیں نے دعا کی کہ یہ بیماریاں بالکل دُور کردی جائیں تو جواب ملا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ تب میرے دل میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ڈالا گیا کہ مسیح موعود کے لئے یہ بھی ایک علامت ہے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ دو زرد چادروں میں اُتریگا۔ سو یہ و ُہی دو زرد رنگ کی چادریں ہیں۔ ایک اُوپر کے حصہ بدن پر اور ایک نیچے کے حصہ بدن پر۔‘‘
(نسیم دعوت صفحہ 70۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 435،436)
9 فروری 1903ء
’’ 1 اِ نِّیْ مَعَ الْاَسْبَابِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اُجِیْبُ۔ اُخْطِیْ وَ اُصِیْبُ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ مُحِیْط ُ ٗ۔‘‘
( البدر جلد2 نمبر4 مؤرخہ 13؍فروری 1903ء صفحہ 25 و الحکم جلد 7 نمبر6 مؤرخہ 14؍فروری 1903ء صفحہ13 حاشیہ)
(ترجمہ2) مَیں رسول کے ساتھ ہوکر جواب دُونگا۔ اپنے ارادے کو کبھی چھوڑ بھی دُوں گا اور کبھی ارادہ پورا کرونگا۔3‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 103۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 100)
10فروری 1903ء
’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر4 مؤرخہ 13؍فروری 1903ء صفحہ 25 و الحکم جلد 7 نمبر6 مؤرخہ 14؍فروری 1903ء صفحہ13 حاشیہ)
(ترجمہ) ’’ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اور ایک وقت مقرر تک مَیں اس زمین سے علیٰحدہ نہیں ہونگا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 103 , 104۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107)
1 (نوٹ از مرتب) حضور کی کاپی الہامات صفحہ5 میں اس الہام سے پہلے یہ الہام بھی ہے اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً (ترجمہ از مرتب) مَیں فوجوں کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤنگا۔
2 (بقیہ ترجمہ از مرتب) مَیں خاص سامان لے کر تیرے پاس اچانک آؤنگا۔ مَیں اپنے رسول کی حمایت میں (انہیں) گھیرنے والا ہوں۔
3 ’’ اس وحی الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ مَیں خطا بھی کرونگا اور صواب بھی۔ یعنی جو مَیں چاہونگا کبھی کروں گا ‘ کبھی نہیں۔ اور کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں۔ ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کے کلام میں آجاتے ہیں۔ جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبض روح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں۔ حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے اسی طرح یہ وحی الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا ہوجاتا ہے اور کبھی پُورا ہوجاتا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسُوخ کردیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 103 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 106حاشیہ)
11 فروری 1903ء
’’ اے ازلی ابدی خدا بیڑیوں کو پکڑ کے آ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 6۔ حقیقۃ الوحی صفحہ 104۔ روحانی خزائن جلد 22۔ صفحہ 107)
(ترجمہ) ’’ اے ازلی ابدی خدا میری مدد کے لئے آ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 104حقیقۃ الوحی صفحہ 104۔ روحانی خزائن جلد 22۔ صفحہ 107)
11 فروری 1903ء
’’اِ نِّیْ مَعَ الْجَیْشِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ ذُواللُّطْفِ وَ النَّدٰی۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰن ذُوالْمَجْدِ وَ الْعُلٰی۔1 ‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ6)
17 فروری 1903ء
’’یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَ فَتْحُ الْحُنَیْنِ۔2 ‘‘
( البدر جلد2 نمبر5 مؤرخہ 20؍فروری 1903ء صفحہ 39 و الحکم جلد 7 نمبر7 مؤرخہ 21؍فروری 1903ء صفحہ16)
18 فروری 1903ء
’’ فرمایا ۔ کہ کل 18؍فروری کو یکایک مرض کا دَورہ ہوگیا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے اسی حالت میں ایک الہام ہوا جس کا صرف ایک حصہ یاد رہا۔ چونکہ بہت تیزی کے ساتھ ہوا تھا جیسے بجلی کوندتی ہے اس لئے باقی حصہ محفوظ نہ رہا۔ وہ یہ ہے:۔
وَیُبْقِیْکَ
اس کا ترجمہ بھی اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی بتایا اور وہ یہ ہے:۔
تا بدیر ترا خواہد داشت3۔ ‘‘
( الحکم جلد 7 نمبر7 مؤرخہ 21؍فروری 1903ء صفحہ16 و البدر جلد2 نمبر6 مؤرخہ 27؍فروری 1903ء صفحہ 47)
21 فروری 1903ء
’’ضَاقَتِ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ4‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ6)
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں لشکر کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤنگا۔ مَیں ہی لطف اور بخشش کا مالک رحمان ہوں مَیں ہی بزرگی اور بلندی کا مالک رحمان ہوں۔
2 (ترجمہ از مرتب) روز دوشنبہ اور حنین والی فتح۔
3 (ترجمہ از مرتب) وہ تجھے دیر تک رکھے گا۔
4 (ترجمہ از مرتب) زمین فراخی کے باوجود تنگ ہوگئی۔
22 فروری 1903ء
آج رات پانچ بجے دیکھا کہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے نہایت شیریں اور سرد اور لذیذ دودھ مجھے پلایا ہے۔ پھر کسی نے کہا کہ اب..........(الفاظ پڑھے نہیں گئے)
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ6)
25 فروری 1903ء
’’ زن 1 باد آں فرزند کہ چنیں پدرے بگذر دوا و ملول نیست۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ6)
1903ء
فرمایا کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سینہ میں جذب ہوجاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر اُن کی لا انتہاء نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر8 مؤرخہ 28؍فروری 1903ء صفحہ7)
یکم مارچ 1903ء
’’ صبح کی سیر(کے وقت) نواب2صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آج رات ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا۔
حُجَّۃُ اللّٰہِ
یہ امر کوئی ذاتی معاملات سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں سے الگ ہوکر آئے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجّتہ اللہ رکھا۔ یعنی آپ اُن پر حجت ہونگے۔ قیامت کے دن اُن کو کہا جاوے گا کہ فلاں شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پرکھا اور مانا۔ تم نے کیوں ایسا نہ کیا۔ یہ بھی تم میں سے ہی تھا۔ اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا۔ چونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کا نام حجتہ اللہ رکھا۔ آپ کو بھی چاہئے کہ آپ اُن لوگوں پر تحریر سے ‘ تقریر سے ‘ ہر طرح سے حجت پُوری کردیں۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر9 مؤرخہ 10؍مارچ 1903ء صفحہ11)
1 (ترجمہ از مرتب) وہ لڑکا جس کا ایسا باپ گذر جائے اور ملول تک نہ ہو(کاش) وہ عورت ہوتا ( تو اچھا تھا)
2 نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ۔ (مرتب)
1903ء
’’ آج بوقت چار بجے صبح کو مَیں نے ایک خواب دیکھا۔ مَیں حیرت میں ہوں کہ اس کی کیا تعبیر ہے۔ مَیں نے آپ1کی بیگم صاحبہ عزیزہ سعیدہ امتہ الحمید بیگم کو خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک اولیاء اللہ خدا تعالیٰ سے تعلّق رکھنے والی ہوتی ہیں۔ اور ان کے ہاتھ میں دس روپیہ سفید اور صاف ہیں۔ یہ میرے دل میں گذرا ہے کہ دس روپیہ ہیں۔ مَیں نے صرف دُور سے دیکھے ہیں۔ تب انہوں نے وہ دس روپیہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پھینکے ہیں۔ اور ان روپوں میں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں جیسا کہ چاند کی شعاعیں ہوتی ہیں نہایت تیز اور چمکدار کرنیں ہیں جو تاریکی کو روشن کردیتی ہیں اور مَیں اس وقت تعجب میں ہوں کہ روپیہ میں سے کس وجہ سے اس قدر نُورانی کرنیں نکلتی ہیں۔ اور خیال گذرتا ہے کہ ان نورانی کرنوں کا اصل موجب خود وہی ہیں۔ اس حیرت سے آنکھ کھُل گئی.............تعجب میں ہوں کہ اس کی تعبیر کیا ہے شاید اس کی یہ تعبیر ہے کہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی نہایت نیک حالت درپیش ہے اسلام میں عورتوں میں سے بھی صالح اور ولی ہوتی رہی ہیں۔ جیسا کہ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا۔ اور یہ بھی خیال گذرتا ہے کہ شاید اس کی تعبیر یہ ہو کہ زمانہ کے رنگ بدلنے سے آپ کو کوئی بڑا مرتبہ مل جائے اور آپ کی یہ بیگم صاحبہ اس مرتبہ میں شریک ہوں۔ آئندہ خدا تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام نواب محمد علی خانصاحبؓ۔ اصحابِ احمد جلد2 صفحہ 210 , 211)
9 مارچ 1903ء
’’فرمایا: رات کو مَیں نے ایک خواب دیکھی کہ ایک شخص نے مجھے ایک پروانہ دیا ہے۔ وہ لمبا سا کاغذ ہے مَیں نے پڑھا تو لکھا ہوا تھا کہ عدالت سے چار جگہ کے لئے طاعون کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اس پروانہ سے پایا جاتا تھا کہ اس کا اجرا مَیں نے کیا ہے جیسے کاغذات محافظ دفتر کے پاس ہوتے ہیں۔ ویسے ہی وہ میرے پاس ہیں۔ مَیں نے کہا کہ یہ ایک عرصہ سے ہے اور اس کی تعمیل آج تک نہ ہوئی۔ اَب مَیں اس کا کیا جواب دُوں گا۔ اس سے مجھے ایک خوف طاری ہوا۔ اور تمام رات مَیں اسی خرخشہ میں رہا اور اس پر روشن خط میں لفظ
طاعون
کا لکھا تھا۔ گویا حکم میرے نام آتا ہے اور مَیں جاری کرتا ہوں۔
پھر مَیں نے دیکھا کہ اپنی جماعت کے چند آدمی کُشتی کررہے ہیں۔ مَیں نے کہا آؤ مَیں تم کو ایک خواب سُناؤں۔ مگر وہ نہ آئے۔ مَیں نے کہا۔ کیوں نہیں سُنتے۔ جو شخص خدا کی باتیں نہیں سُنتا وہ دوزخی ہوتا ہے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر 9 مؤرخہ 20؍مارچ 1903ء صفحہ65,66)
1 نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ۔ (مرتب)
9 مارچ 1903ء
’’اور دیکھا کہ گویا ایک شخص امام الدین اور مولوی محمد یہ بھی انگریزی میں کچھ کام کر رہے ہیں۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ7)
10 مارچ1903ء
’’ یُرِیْدُوْنَ اَنْ لَّایَتِمَّ اَمْرُکَ۔ وَاللّٰہُ یَاْبٰی اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَکَ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 7)
(ترجمہ)’’ وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام ناتمام رہے۔ اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑدے جب تک تیرے کام پورے نہ کردے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 95۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 98)
15 مارچ1903ء
’’ اِنَّا نَرِثُ الْاَرْضَ نَاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 7)
(ترجمہ) ’’ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 104۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107)
مارچ1903ء
’’ مَیں نے بعض بیماریوں میں آزمایا ہے اور دیکھا ہے کہ محض دعا سے اس کا فضل ہوا اور مرض جاتا رہا ہے۔ ابھی دوچار دن ہوئے ہیں کثرتِ پیشاب اور اسہال کی و جہ سے مَیں مضمحل ہوگیا تھا۔ مَیں نے دعا کی تو الہام ہوا:۔
دُعَآئُ کَ مُسْتَجَابٌ 1
اس کے بعد ہی دیکھا کہ وہ شکایت جاتی رہی۔ خدا ایک ایسا نسخہ ہے جو سارے نسخوں سے بہتر ہے اور چُھپانے کے قابل ہے۔ مگر پھر دیکھتا ہوں کہ یہ بخل ہے اِس لئے ظاہر کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (الحکم جلد 7 نمبر 11 مؤرخہ 24 مارچ 1903ء صفحہ 6)
16 مارچ1903ء
’’رات کو مَیں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنی جماعت میں سے گھوڑے پر سے گر پڑا۔ پھر آنکھ کھل گئی۔ سوچتا رہا کہ کیا تعبیر کریں۔ قیاسی طور پر جو بات اقرب ہووے لگائی جاسکتی ہے کہ اس اثناء میں غنودگی غالب ہوئی اور الہام ہوا:۔
استقامت میں فرق آگیا
1 (ترجمہ از مرتّب) تمہاری دعا مقبول ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ وہ کون شخص ہے ؟ حضرت نے فرمایا کہ معلوم تو ہے مگر جب تک خدا کا اِذن نہ ہو مَیں بتلایا نہیں کرتا۔ میرا کام دعا کرنا ہے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر 10 مؤرکہ 27 اپریل 1903ء صفحہ 75)
19مارچ1903ء
’’فرمایا۔ آج مَیں نے ایک خواب دیکھا جیسے آنکھ کے آگے ایک نظّارہ گذر جاتا ہے۔ دیکھتا ہوں کہ دو 2 سنڈھوں کے سر جسم سے الگ کئے ہوئے ہاتھوں میں ہیں۔ ایک ایک ہاتھ میں اور دوسرا دوسرے ہاتھ میں۔‘‘
(البدر جلد 2 نمبر11 مؤرخہ 3 اپریل 1903ء صفحہ 81)
26 مارچ1903ء
’’فرمایا۔ آج میری طبیعت علیل تھی اِس لئے میری آنکھ لگ گئی ۔ جب اُٹھا تو یہ الفاظ زبان پر جاری تھے یا سنائی دیئے۔
طاعون کا دروازہ کھولا گیا
معلوم ہوتا ہے کہ طاعون اب پیچھا نہیں چھوڑتی۔‘‘ (البدر جلد 2 نمبر10 مؤرخہ 27 مارچ 1903ء صفحہ80)
1903ء
’’مَیں اس1 مکان کی طرف سے مسجد کی طرف چلا جارہا ہوں۔ مَیں نے ایک شخص کو آتے ہوئے دیکھا جو کہ ایک سکھ کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ جس طرح سے اکالئے اور کُوکہ سکھ ہوتے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک بہت تیز ‘ خوفناک ‘ بڑا اور چوڑا چھُرا تھا اور اُس چھُرے کا دستہ چھوٹا ساتھا۔ وہ چھُرا بڑا ہی تیز معلوم ہوتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ اس سے لوگوں کو قتل کرتا پھرتا تھا۔ جہاں اُس نے چھُرا رکھا اور گردن اُڑ گئی۔ کچھ اس طرح معلوم ہوتا تھا جس طرح مَیں نے لیکھرام کے وقت میں ایک آدمی خواب میں دیکھا تھا۔ اس کی صورت بڑی ڈراؤنی تھی اور بڑا ہی دہشت ناک آدمی معلوم ہوتا تھا۔ مجھے بھی اُس سے خوف معلوم ہوا اور مَیں نے اس کی طرف جانا نہ چاہا لیکن میرے پاؤں بہت بوجھل ہوگئے اور مَیں بڑا ہی زور لگا کر ادھر سے نکلا لیکن اُس نے میری مزاحمت نہ کی اور اگرچہ مجھ کو اس سے خوف معلوم ہوا لیکن اُس نے مجھ کو کوئی تکلیف نہ دی اور پھر وہ خبر نہیں کہ کس طرف کو نکل گیا ۔‘‘ (البدر جلد 2 نمبر11 مؤرخہ 3 اپریل 1903ء صفحہ85)
1903ء
’’رؤیا۔ ایک حنائی رنگ کا لکھا ہوا دو ورقہ کاغذ کچھ تھوڑے فاصلہ پر گر پڑا ہے۔ مَیں نے ایک ہندو کو کہا ہے کہ اس کو پکڑو ۔ جب وہ پکڑنے لگا تو وہ کاغذ کچھ تھوڑی دُور آگے جا پڑا۔ پھر وہ ہندو .......اُٹھانے
1 اس سے مرا دحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا اپنا رہائشی مکان ہے جو کہ مسجد مبارک سے متّصل ہے۔ (مرتّب)
لگا تو وہ وہاں سے اُڑ کر اَور آگے جا پڑا۔ لیکن وہ دو ورقہ اس طرح کچھ ترتیب سے کھُل کر اُڑتا رہا ہے کہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ کوئی جاندار چیز ہے۔ جب وہ کچھ فاصلہ تک چلا گیا تو وہ ہندو وہاں جاکر پھر اس کو پکڑنے لگا۔ تب وہ دو ورقہ اُ ڑ کر میرے پاس آگیا تو اُس وقت میری زبان سے یہ کلمہ نکلا:۔
جس کا تھا اُس کے پاس آگیا
پھر مَیں نے اس کو مخاطب ہو کر کہا کہ ہم وہ قوم ہیں جو رُوح القدس کے بُلائے بولتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جن کے حق میں خدا نے فرمایا ہے:۔
لَنَفَخْنَا فِیْھِمْ مِّنْ صِدْقِنَا 1
اسلامی خدمات کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ لینا ہی نہیں چاہتا۔ شاید دوسرا اس میں کچھ غلطی بھی کرے۔ واللہ اَعلم۔
جو شخص اِسلام کے عقائد کا منافی ہے وہ اِسلام کی تائید کیا کرے گا۔ سناتن دھرم میں اِس قِسم کے بھی آدمی ہوتے ہیں کہ وہ کسی فرقہ کے مکذّب نہیں ہوتے اور معمولی چیزوں کے آگے بھی ہاتھ جوڑتے پھرتے ہیں۔ خدا نہیں چاہتا کہ جو سلسلہ اُس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اس کا کوئی شریک ہو۔ یہاں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کاغذ ہمارے پاس آگیا۔‘‘
(البدر جلد 2 نمبر11 مؤرخہ 3 اپریل 1903ء صفحہ85)
7 اپریل1903ء
’’(دیکھا کہ) مَیں کسی راستہ پر چلا جاتا ہوں۔ گھر کے لوگ بھی ساتھ ہیں اور مبارک احمد کو مَیں نے گود میں لیا ہوا ہے۔ بعض جگہ نشیب و فراز بھی آجاتا ہے ۔ جیسے کہ دیوار کے برابر چڑھنا پڑتا ہے مگر آسانی سے اُتر چڑھ جاتا ہوں اور مبارک اسی طرح میری گود میں ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک مسجد میں جانا ہے۔ جاتے جاتے ایک گھر میں جا داخل ہوئے ہیں ۔گویا وہ گھر ہی مسجد ِ موعود ہے جس کی طرف ہم جارہے ہیں۔ اندر جاکر دیکھا ہے کہ ایک عورت بعمر 18 سال سفید رنگ وہاں بیٹھی ہے۔ اس کے کپڑے بھگوے رنگ کے ہیں مگر بہت صاف ہیں۔ جب اندر گئے ہیں تو گھر والوں نے کہا ہے کہ یہ احسن2 کی ہمشیرہ ہے۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر15 مؤرخہ 24 اپریل 1903ء صفحہ6)
1 (ترجمہ از مرتّب) ہم نے یقینا ان لوگوں میں اپنی بعض سچائیوں کی رُوح ڈال دی ہے۔
2 حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی ایک چچازاد بہن کا ایک لڑکا مرزا حسن بیگ نامی ہے۔ علاوہ اس کے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی ڈیوڑھی میں ایک صاحب قدرت اللہ خان صاحب شاہجہانپوری رہتے تھے ان کے ایک لڑکے کا نام بھی احسن تھا۔ واللہ اعلم مراد کیا ہے۔ (مرتّب)
12 اپریل1903ء
’’فرمایا کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحرِ ذخّار کی طرح دریا ہے جوسانپ کی طرح بَل پیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جارہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو اُلٹا بہنے لگا ہے۔‘‘ (الحکم جلد7 نمبر14 مؤرخہ17 اپریل 1903ء صفحہ7)
18 اپریل1903ء
’’فرمایا ۔ مَیں لیٹا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نظر کے آگے سے پھر گئے ۔ پھر یہ لفظ الہام ہوئے:۔
سَاُخْبِرُہ‘ فِیْ اٰخِرِ الْوَقْتِ اَنَّکَ لَسْتَ عَلَی الْحَقِّ۔1‘‘
(البدر جلد 2 نمبر14 مؤرخہ 24 اپریل 1903ء صفحہ109۔الحکم جلد7 نمبر15 مؤرخہ24 اپریل 1903ء صفحہ15)
21 اپریل1903ء
’’فرمایا ۔ آج صبح جب مَیں نماز کے بعد ذرا لیٹ گیا تو الہام ہوا مگر افسوس ہے کہ ایک حصہ اس کا یاد نہیں رہا۔ ایک پہلے عربی کا فقرہ تھا اور اس کے بعد اس کا ترجمہ اُردو میں تھا۔ وہ اُردو فقرہ یاد ہے:۔
یہ بات آسمان پر قرار پاچکی ہے ‘ تبدیلی ہونے والی نہیں
اور عربی فقرہ کچھ اس سے مشابہ تھا:۔
تَعَھَّدَ وَتَمَکَّنَ فِی السَّمَآئِ
مگر وہ اصل فقرہ بھُول گیا اور اِس نسیاں میں بھی کچھ منشاء ِ الٰہی ہوتا ہے۔ گویا اِس کا یہ مطلب ہے کہ یہ اب تقدیر مُبرم ہے اس میں اب تبدیلی نہیں ہوگی۔‘‘ (الحکم جلد7 نمبر15 مؤرخہ24 اپریل 1903ء صفحہ12)
25 اپریل1903ء 2
’’قُلْنَا یَآ اَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَیَا سَمَآئُ اَقْلِعِیْ۔3 ‘‘
اس الہام کے متعلق جہاں تک میری رائے ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ عام شہروں اور دیہات کے متعلق نہیں اور نہ اس سے دوام منع ثابت ہوتا ہے۔ غالباً یہی ہے کہ بعض دیہات اور شہروں میں جن کی نسبت خدا کا ارداہ ہے چند مہینوں تک طاعون بند رہے اور پھر جہاں خداوند قدیر چاہے پھر پھُوٹ پڑے اور یہ بکلّی بند نہیں ہوگی جب تک وہ ارادہ بکمال و تمام پُورا نہ ہوجائے جو آسمان پر قرار پایا ہے اور ضرور ہے کہ زمین اپنے مواد نکالتی رہے جب تک کہ
1 (ترجمہ از مرتّب) مَیں اُسے آخری وقت میں بتادوں گا کہ تُو حق پر نہیں تھا۔
(نوٹ از مرتّب) یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی کاپی الہامات صفحہ 7 میں یوں ہے’’اِنِّیْ سَاُخْبِرُہ‘ فِیْ اٰخِرِ الْوَقْتِ اَنَّکَ لَسْتَ عَلَی الْحَقِّ۔‘‘نیز اس الہام کی تاریخ 17 اپریل 1903ء درج ہے۔
2 یہ تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے الہامات کی کاپی صفحہ 7 پر درج ہے اور اس میں تاریخ درج کرنے کے بعد لکھا ہے ’’طاعون کی نسبت‘‘ ۔ (مرتّب)
3 (ترجمہ از مرتّب) اور ہم نے کہا اے زمین اپنا پانی نِگل لے اور اے بادل تُو برسنے سے رُک جا۔
خدا کا ارادہ اپنے کمال کو نہ پہنچے۔ ‘‘
(الحکم جلد7 نمبر15 مؤرخہ24 اپریل 1903ء صفحہ15۔البدر جلد 2 نمبر15 مؤرخہ یکم مئی 1903ء صفحہ117)
26 اپریل1903ء
’’رَبِّ اِنِّیْ مَظْلُوْمٌ فَانْتَصِرْ۔ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ7)
29 اپریل1903ء
’’اٰمِنًا مِّنَ اللّٰہِ الرَّحِیْمِ2۔ احمد مقبول۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ7)
29 اپریل1903ء
’’اِنَّا نَرِثُ الْاَرْضَ نَاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا۔‘‘
(البدر جلد 2 نمبر15 مؤرخہ یکم مئی 1903ء صفحہ117 حاشیہ)
(ترجمہ ) ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 104۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107)
30 اپریل1903ء
’’اَرْبَعَۃَ عَشَرَ دَوَآبًّا۔ یا شاید یہ ہے اِنَّا اَمَتْنَا اَرْبَعَۃَ عَشَرَ دَوَآبًّا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ7)
(ترجمہ ) ہم نے چودہ چارپایوں کو ہلاک کردیا۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 105۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 108)
30 اپریل1903ء
’’فرمایا کہ مجھے الہام ہوا مگر اس کا آخری حصہ یاد ہے دوسرے الفاظ یاد نہیں رہے۔ جو الفاظ یاد ہیں وہ یہ ہیں:۔
فِیْہِ خَیْرٌ وَّ بَرَکَۃٌ
اس کا ترجمہ بھی بتلایا گیا:۔
اِس میں تمام دُنیا کی بھلائی ہے
(البدر جلد نمبر16 مؤرخہ 8 مئی 1903ء صفحہ122)
1 (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ مَیں ستم رسیدہ ہوں میری مدد فرما اور انہیں اچھی طرح پیس ڈال۔
2 (ترجمہ از مرتّب) خدائے رحیم کی طرف سے امن پانے والا۔
یکم مئی1903ء
’’فرمایا۔ مَیں نے ایک منذررؤیادیکھی ہے مگر شُکر ہے کہ وہ درمیان میں رہ گئی۔ دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص ہے جو میدان میں بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ یہاں ایک بَیل ذبح کریں گے۔ وہ باتوں ہی میں رہا اور کوئی بَیل وغیرہ ذبح نہ ہوا۔ اسی حالت میں الہام ہوا جس کے الفاظ تو یاد نہیں رہے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر16 مؤرخہ8 مئی 1903ء صفحہ122۔الحکم جلد 7نمبر17 مؤرخہ 10 مئی 1903ء صفحہ13)
1903ء
’’مَیں نے ایک دفعہ کشف1میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا:۔
جے تُوں میرا ہو رہیں سب جَگ تیرا ہو۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر16 مؤرخہ8 مئی 1903ء صفحہ123حاشیہ ۔ بدر جلد6 نمبر17 مؤرخہ25 اپریل 1907ء صفحہ 8۔
الحکم جلد 7نمبر17 مؤرخہ 10 مئی 1903ء صفحہ14)
1903ء
’’مجھے خواب میں دو دفعہ پنجابی مصرعہ بتلائے گئے ہیں۔ ایک تو یہی جو بیان ہوا۔ اور ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے۔ اس میں ایک مجذوب (جس میں محبت ِ الٰہی کا جذبہ ہو) میری طرف آرہا ہے۔ جب میرے پاس پہنچا تو اُس نے یہ پڑھا :۔
عشقِ الٰہی وَسّے مُنہ پر ولیاں ایہہ نشانی
(البدر جلد2 نمبر16 مؤرخہ8 مئی 1903ء صفحہ123حاشیہ)
2 مئی1903ء
’’فرمایا۔ کچھ دن ہوئے کہ مَیں بیماروں کیلئے دعا کرتا تھا ۔ ایک شخص کیلئے خاص طور سے دعا کی۔ دیکھا کہ وہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اور پھر الہام ہوا:۔
آثارِ صحّت
مگر تصریح بالکل نہیں کہ یہ الہام کس کی نسبت ہے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر16 مؤرخہ8 مئی 1903ء صفحہ123 ۔ الحکم جلد7 نمبر17 مؤرخہ10 مئی 1903ء صفحہ 13)
1 اس کشف کو یہاں اس لئے ذکر کیا کہ اگلے کشف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسی زمانہ کا ہے اور حافظ محمد ابراہیم صاحب مہاجر کی روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف براہین احمدیہ کے زمانہ سے بھی بہت پہلے کا ہے جبکہ حضور ؑ کی عمر تقریباً بتیس تینتیس سال کی تھی۔ دیکھئے سیر ت احمد صفحہ 191 مصنّفہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ۔ (مرتّب)
13 مئی1903ء
13 مئی کو والدہ محمود سخت بیمار تھی تپ سے ۔ تب الہام ہوا:۔
’’خوشی و خُرمی‘‘
تب قبل اِس کے کہ شام ہو ان کو صحت حاصل ہوگئی اور خوشحال ہوگئی۔ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ8)
14 مئی1903ء
’’سرانجامِ جاہل جہنّم بود ۔ کہ جاہل نکو عاقبت کم بود1
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ8۔ بدر جلد 2 نمبر 23 مؤرخہ 7 جون 1906ء)
15 مئی1903ء
کسی کی طرف سے کلام ہے ۔ ہمارے دوست چل دئے اور ہم بھی۔(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ8)
1903ء
’’اِنَّا نَجِدُ الْوَارِثِیْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ یَّتَزَایَدُوْنَ۔2‘‘
(متفرق یادداشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 8)
19 مئی1903ء
’’فرمایا۔ رات بارہ بجے کے قریب مَیں نے ایک رؤیادیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ یہ فتح ہوگئی۔ بار بار اسے تکرار کرتا ہے۔ گویا کہ بہت سی فتوحات کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد طبیعت وحی کی طرف منتقل ہوئی اور الہام ہوا:۔
مجموعہ ٔ فتوحات۔‘‘ 3
(البدر جلد2 نمبر19 مؤرخہ29 مئی 1903ء صفحہ147 )
27 مئی1903ء
(ا) ’’خواب میں اوّل دیکھا کہ ایک چوغہ سیاہ رنگ مجھ کو دیا گیا ہے اور اس کے لوہے کے بٹن میرے ہاتھ میں ہیں اور پھر مَیں نے اس کے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں سے ایک پرچہ نکلا ۔ اس میں
1 (ترجمہ از مرتّب) جاہل کا انجام جہنم ہے۔ جاہل کا خاتمہ بالخیر کم ہوتا ہے۔
2 (ترجمہ از مرتّب) ہم وارثوں کو ہر سال میں بڑھتے ہوئے پاتے ہیں۔ (نوٹ از مرتّب) اِس الہام کی تاریخ نزول کا پتہ نہیں لگ سکا۔ مجبوراً یہاں درج کرنا پڑا۔
3 کاپی الہامات صفحہ 8 میں یہ 18 مئی کی تاریخ کے ساتھ یوں درج ہے ’’پہلے مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس بیان کرتا ہے کہ تمہاری فلاں فتح ہوئی ‘ فلاں فتح ہوئی ‘ فلاں فتح ہوئی۔ بعد اس کے الہام ہوا ’’مجموعہ ٔ فتوحات ۔‘‘ (مرتّب)
یہ عبارت لکھی ہوئی تھی:۔
بَلا نازل یا حادثات یا .........
اور مَیں نے خواب میں اپنی بیوی کے پاس یہ ذکر کیا کہ اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ بَلا نازل یا حادثات یا ........اور دو پرچہ اَور تھے ان کا مضمون یاد نہیں۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ8)
(ب) ’’فرمایا۔ یہ الفاظ الہام ........ہوئے ہیں مگر معلوم نہیں کہ کس کی طرف اشارہ ہے:۔
بَلا نازل یا حادثات یا ..........
یاد نہیں رہا کہ ’یا‘ کے آگے کیا تھا۔رؤیاکا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ پیچ در پیچ بات ہوتی ہے اور الگ الگ رنگ ہوتا ہے۔ صحابہ کرام ؓ کی شہادت کو آنحضرت ؐ نے گائیوں کے ذبح ہونے کے رنگ میں دیکھا حالانکہ خدا اِس بات پر قادر تھا کہ خواب میں خاص صحابہ ہی کو دکھلادیتا۔‘‘ (البدر جلد2 نمبر20 مؤرخہ5 جون 1903ء صفحہ154)
31 مئی1903ء
’’آج خواب میں مَیں نے دیکھا کہ ایک جگہ مَیں اپنی جوتی بھُول گیا ہوں۔ پھر مجھے یاد آیا تو مَیں اسی جگہ گیا تو معلوم ہوا کہ جوتی اس جگہ نہیں ‘ کوئی اُٹھا کر لے گیا اور اس جگہ بجائے جوتی کے بہت سے چنے یعنی نخود پڑے ہیں۔ پھر مجھے الہام ہوا:۔
مشکل کشا کے ہوگئے مشکل تمام کام۔‘‘
اس کے نیچے تاریخ یوں لکھی ہے:۔
’’31 مئی 1903ء مطابق 3 ربیع الاوّل 1321ھ روز یکشنبہ‘‘
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ 1
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ8)
3 جون1903ء
’’خواب میں دیکھا کہ کسی شخص نے مجھ کوکچھ روپیہ دیا کہ یہ سرکار سے تجھ کو ملا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈگری کا روپیہ تھا۔ مَیں نے اس کو ایک چادر کے پلّے سے باندھ کر رکھ لیا اور مَیں نے دینے والے کو پوچھا کہ کیا اس کی رسید لو گے۔ اس نے کہا کہ رسید کی حاجت نہیں ‘ مَیں اعتباری آدمی ہوں۔ پھر دیکھا کہ وہ روپیہ گم ہوگیا۔ کوئی لے گیا۔ مَیں نے اُس شخص سے پوچھا کہ وہ کتنا روپیہ تھا۔ اُس نے کہا 2تھے۔ اور مَیں نے ایک
1 (ترجمہ) اے اللہ رحم کر۔
2 نقل مطابق اصل۔
شخص کو جو اپنے ملازموں میں سے معلوم ہوتا ہے پکڑ لیا کہ تو نے لیا ہے اور وہ انکار کرتا ہے ۔ اب تک پتہ نہیں کہ کس نے لیا۔ ہم کچہری کے مقام پر ہیں مگر وہاں حاکم کوئی نہیں ۔ بعد اس کے الہام ہوا:۔
اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔ اِنِّیْ مَعَ کَثْرَۃِ رِزْقِکَ۔1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ9)
4 جون1903ء
’’فرمایا۔ 2 یا 3 بجے رات کو مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک جگہ پر معہ چند ایک دوستوں کے گیا ہوں۔ وہ دوست وہی ہیں جو رات دن پاس رہتے ہیں۔ ایک اُن میں مخالف بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا سیاہ رنگ ‘ لمبا قد اور کپڑے چرکین ہیں۔ آگے جاتے ہوئے تین قبریں نظر آئی ہیں۔ ایک قبر کو دیکھ کر مَیں نے خیال کیا کہ والد صاحب کی قبر ہے۔ اور دوسری قبر یں سامنے نظر آئیں۔ مَیں ان کی طرف چلا ۔ اس قبر سے کچھ فاصلہ پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب ِ قبر (جسے مَیں نے والد کی قبر سمجھا تھا) زندہ ہو کر قبر پر بیٹھا ہوا ہے ۔غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اَور شکل ہے والد صاحب کی شکل نہیں مگر خوب گورا رنگ ‘ پتلا بدن ‘ فربہ چہرہ ہے۔ مَیں نے سمجھا کہ اس قبر میں یہی تھا۔ اتنے میں اُس نے آگے ہاتھ بڑھایا کہ مصافحہ کرے۔ مَیں نے مصافحہ کیا اور نام پوچھا تو اُس نے کہا نظام الدین۔ پھر ہم وہاں سے چلے آئے۔ آتے ہوئے مَیں نے اُسے پیغام دیا کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور والد2صاحب کو السلام علیکم کہہ چھوڑنا۔ راستہ میں مَیں نے اس مخالف سے پوچھا کہ آج جو ہم نے یہ عظیم الشان معجزہ دیکھا کیا اَب بھی نہ مانو گے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ اَب تو حد ہوگئی ‘ اَب بھی نہ مانوں تو کب مانوں ۔ مُردہ زندہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد الہام ہوا:۔
سَلِیْمٌ حَامِدٌ مُّسْتَبْشِرًا 3
کچھ حصہ الہام یاد نہیں4رہا۔
والد صاحب کا زندہ ہونا یا کِسی اَور مُردہ کا زندہ ہونا ‘ کسی مُردہ امر کا زندہ ہونا ہے۔ مَیں نے اِس سے یہ بھی سمجھا کہ ہمارا کام والدین کے رفع درجات کا بھی موجب ہے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر21 مؤرخہ12 جون 1903ء صفحہ162۔الحکم جلد 7نمبر22 مؤرخہ 17 جون 1903ء صفحہ15)
1 (ترجمہ از مرتّب) یقینا مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ مَیں تیرے کثرتِ رزق کے ساتھ ہوں۔
2 کاپی الہامات میں ’’والدین ‘‘ لکھا ہے۔
3 (ترجمہ از مرتّب) صحیح سلامت ۔ اللہ تعالیٰ کا شُکر کرنے والا۔ خوشی کی حالت میں یا خوشخبری پاکر۔
4 حضرت مسیح موعود علیہ السّلام اپنے الہامات کی کاپی صفحہ 9 میں الہام ’’ سَلِیْمٌ حَامِدٌ مُّسْتَبْشِرًا‘‘کے بعد لکھتے ہیں پھر الہام ہوا ’’نُقِلُوْا اِلَی الْمَقَابِرِ۔‘‘
4 جون1903ء
’’خدا جانے کس کے حق میں ہے لَا یُوَا فِیْکَ اللّٰہُ 1یا یہ کہ لَا یُعَافِیْکَ اللّٰہُ۔2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ10)
13 جون1903ء
’’ اِنِّیْ اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ3‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ10)
20 جون1903ء
’’ عمر دراز
اِنَّآ اَلَنَّا لَکَ الْحَدِیْدَ۔ اِنِّیْ تَعَلَّقْتُ بِاَھْدَابِکُمْ ۔ رَجُلٌ کَبِیْرٌ۔
یادداشت ۔ جب یہ الہام ہوا اِنِّیْ تَعَلَّقْتُ بِاَھْدَابِکُمْ ۔ رَجُلٌ کَبِیْرٌ اس کے بعد قلات کے بادشاہ معطل کی طرف سے خط آیا کہ مَیں آپ کے دامن سے وابستہ ہوگیا۔ اس کے گواہ مفتی محمد صادق ‘ مولوی مبارک علی ‘ سیّد سرور شاہ ‘ مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے ‘ مولوی عبدالکریم صاحب ‘ مولوی حکیم نوردین صاحب ‘ نواب محمد علی خان صاحب‘ مولوی شیر علی صاحب بی ۔ اے وغیرہ اصحاب ہیں جو چالیس کے قریب ہوں گے۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ10)
21 جون1903ء
(الف) ’’مجھے دو عصا دیئے گئے ۔ ایک جو میرے پاس تھا ‘ دوسرے وہ جو گم ہوگیا تھا۔ اور گمشدہ عصا کو جو مَیں نے دیکھا تو اس کے منہ پر لکھا ہوا تھا:۔
دُعَآئُ کَ مُسْتَجَابٌ۔5 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ10)
(ب) ’’21 جون کو ایک چَھڑی پر یہ لکھا ہوا دکھایا گیا دُعَآئُ کَ مُسْتَجَابٌ۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر23 مؤرخہ26 جون 1903ء صفحہ179۔الحکم جلد 7نمبر23 مؤرخہ 24 جون 1903ء صفحہ15)
1 (ترجمہ از مرتّب) اللہ تیرے پاس نہیں آئے گا۔
2 (ترجمہ از مرتّب)اللہ تجھے عافیت نہیں دے گا۔
3 (ترجمہ) مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 102۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 105)
4 (ترجمہ از مرتّب)ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم کردیا۔ مَیں نے آپ کا دامن پکڑ لیا ہے۔ ایک بڑا آدمی۔
(نوٹ از مرتّب) یہ الہام البدر جلد 2 نمبر 23 مؤرخہ 26 جون 1903ء صفحۃ 179 میں بھی درج ہے۔
5 (ترجمہ از مرتّب) تیری دعا مقبول ہے۔
28 جون1903ء
’’ اٰیَاتٌ لِّلسَّآئِلِیْنَ۔1 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ10)
29 جون1903ء
’’ میرے خیال پر یہ کشش غالب ہوئی کہ یہ مقدمات جو کرم الدین کی طرف سے میرے پر ہیں یا بعض میرے جماعت کے لوگوں کی طرف سے کرم الدین پر ہیں ان کا انجام کیا ہوگا۔ سو اس غلبہ کشش کے وقت میری حالت وحی ٔ الٰہی کی طرف منتقل کی گئی اور خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا:۔
’’اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْ وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ فِیْہِ اٰیَاتٌ لِّلسَّآئِلِیْنَ
اِس کے معنے یہ مجھے سمجھائے گئے کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس کے ساتھ ہوگا اور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا کہ جو پرہیز گار ہیں۔ یعنی جھوٹ نہیں بولتے ‘ ظلم نہیں کرتے ‘ تہمت نہیں لگاتے ‘ اور دَغااور فریب اور خیانت سے ناحق خدا کے بندوں کو نہیں ستاتے اور ہر ایک بدی سے بچتے اور راستبازی اور انصاف کو اختیار کرتے ہیں اور خدا سے ڈر کر اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بنی نوع کے وہ سچے خیر خواہ ہیں۔ ان میں درندگی اور ظلم اور بدی کا جوش نہیں بلکہ عام طور پر ہر ایک کے ساتھ وہ نیکی کرنے کیلئے تیار ہیں۔ سو انجام یہ ہے کہ اُن کے حق میں فیصلہ ہوگا تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں جو ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے۔ اُن کیلئے نہ ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہوں گے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر24 مؤرخہ3 جولائی 1903ء صفحہ189۔الحکم جلد 7نمبر24 مؤرخہ30 جون 1903ء صفحہ11)
14 جولائی1903ء
’’لَاتَیْئَسُوْا مِنْ خَزَآئِنِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ۔ اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ اِنِّیْ اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ۔اِنَّا فَتَحْنَا عَلَیْکَ اَبْوَابَ الدُّنْیَا۔2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ11)
1 (ترجمہ از مرتّب) سوال کرنے والوں کیلئے نشانات
2 (ترجمہ از مرتّب)اللہ کی رحمت کے خزانوں سے نا اُمید مت ہو۔ ہم نے تجھے خیرِ کثیر دیا۔ دُور دُور سے تیرے پاس ہدیئے آئیں گے ۔ لوگ دُور دُور سے تیرے پاس آئیں گے۔ تُو اپنے مکان کو وسیع کر۔ مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا۔ ہم نے تجھ پر دُنیا کے دروازے کھول دیئے۔
18 جولائی1903ء
’’جَآئَ کَ الْفَتْحُ ثُمَّ جَآئَ کَ الْفَتْحُ 1
پھر مَیں نے دیکھا کہ مبارک کو بہت سُرخ پگڑی پہنائی گئی ہے۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
21 جولائی1903ء
’’یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَفَتْحُ الْحُنَیْنِ۔2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
21 جولائی1903ء
’’آج قریب صبح مَیں نے دیکھا کہ مرزا احمد بیگ رشتہ دار نظام الدین فوت ہوگیا ہے اور ایسا خیال گذرا کہ وہ سخت جان کندن میں ہے۔ پھر مَیں نے کہا کہ احمد بیگ اور امام الدین کے مرنے میں صرف چھ سات دن کا فاصلہ ہے۔ اسی کی تائید میں اسی تاریخ صاحبزادہ سراج الحق نے خواب میں دیکھا کہ ایک درخت نہایت سر سبز ہے اور نظام الدین کی ملکیت ہے اس کے نیچے ہم کھڑے ہیں۔ اتنے میں میر اسمٰعیل آئے اور کہا کہ اس کی ایک شاخ ہم کاٹ دیں گے۔ تب انہوں نے اس درخت کی سرسبز شاخ کاٹ دی۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
23 جولائی1903ء
’’فرمایا۔ رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک آم ہے جسے مَیں نے تھوڑاسا چوسا تو معلوم ہوا کہ وہ تین پَھل ہیں۔ جب کسی نے پوچھا کہ کیا پَھل ہیں تو کہا ایک آم ہے ‘ ایک طوبیٰ اور ایک اَور پَھل ہے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر29 مؤرخہ7 اگست 1903ء صفحہ226۔کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
23 جولائی1903ء
’’دیکھا ظفر احمد میرے پاس آیا ہے۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
1 (ترجمہ از مرتّب) تیرے پاس فتح آئی پھر تیرے پاس فتح آئی ۔
(نوٹ) یہ الہام البدر جلد 2 نمبر 27 مؤرخہ 24 جولائی 1903 ء صفحہ 213حاشیہ اور الحکم جلد 7 نمبر 29 مؤرخہ 10 اگست 1903ء صفحہ 20 حاشیہ پر بھی درج ہے۔
2 (ترجمہ از مرتّب)سوموار کا دن اور حنین کی فتح
24 جولائی1903ء
’’اَلْفِتْنَۃُ وَ الصَّدَقَاتُ۔1‘‘
(البدر جلد2 نمبر29 مؤرخہ7 اگست 1903ء صفحہ226۔کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
27 جولائی1903ء
’’خواب میں مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص گویا چراغ یا فجاّگورداسپور سے آیا ہے اور اس کے پاس کچھ روپے اور کچھ پیسے ہیں اور کہتا ہے کہ یہ بقیہ چندہ گورداسپور سے لایا ہوں۔ مَیں نے ایک ....2میں یعنی برتن میں وہ روپے پیسے جمع کرادیئے تو معلوم ہوا کہ بہت سے پیسے ہیں۔ مَیں نے چاہا کہ یہ چندہ کا روپیہ ہے اِس کو گِن لیں۔ جب مَیں گننے لگا تو وہ تمام پیسے کشمش کی شکل پر ہوگئے ہیں۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ13)
28 جولائی1903ء
’’مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک پہاڑ پر ہوں اور میرے ساتھ کئی آدمی ہیں اور ہم مِدّل جو ایک قسم کا اناج ہوتا ہے اس کے دانے کھارہے ہیں اور زمین پر جب نظر کی تو بہت سے ڈیلے زمین پر پڑے ہیں۔ پھر مَیں وہاں سے اُٹھا اور ایک کنارہ پر گیا تو مجھے اندیشہ ہوا کہ اس کے کنارہ پر صدہا ہاتھ کا گڑھا ہے جس گڑھے سے خدا نے مجھ کو بچالیا اور پھر دوسری طرف مَیں آیا توسطح مستوی نہیں بلکہ ایک طرف سے بہت اُونچا اور دوسری طرف سے بہت نیچا ہے جس سے انسان بے اختیار پھسل سکتا ہے مگر خدا نے مجھے اس سے بچالیا ۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ13)
29 جولائی1903ء
’’یَنْقَطِعُ اٰبَآئُ کَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
(ترجمہ) تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا۔
29 جولائی1903ء
’’سَعٰی لَھَا سَعْیَھَا۔3‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ12)
1 (ترجمہ از مرتّب) ایک خاص فتنہ آرہا ہے اور اس کا علاج صدقات ہیں۔ واللہ اَعلَم۔
2 یہ ایک لفظ پڑھا نہیں گیا ۔ (مرتّب)
3 (ترجمہ از مرتّب) اس نے اس کیلئے بڑی کوشش کی۔
30 جولائی1903ء
الہام کسی کی نسبت یعنی حکایۃً عن الغیر
’’کَذَبْتَ۔1 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ13)
1903ء
’’ایک دن یہ ذکر آگیا کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ ہیں تو مجھے خیال گذرا کہ ایک دروازہ بہشت کا کیوں زیادہ ہے۔ اس پر معاً خدا تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ ’’جرائم کے اصول بھی سات ہیں اور محاسن کے بھی سات۔ مگر ایک دروازہ رحمتِ الٰہی کا ہے جو بہشت کے دروازوں میں زیادہ ہے۔‘‘ (البدر جلد2 نمبر29 مؤرخہ7 اگست 1903ء صفحہ227)
11 اگست1903ء 2
’’اِنِّیْ اَرَی الرَّحْمٰنَ حَلَّ غَضَبُہ‘ عَلَی الْاَرْضِ۔‘‘
(ترجمہ) مَیں رحمن کو دیکھتا ہوں (یعنی) اگرچہ خدا رحمن ہے مگر گناہ حد سے بڑھ گیا ہے جس سے اس کا غضب نازل ہوگیا ہے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر32 مؤرخہ28 اگست 1903ء صفحہ253۔الحکم جلد 7نمبر31 مؤرخہ24 اگست 1903ء صفحہ6)
14 اگست1903ء3
(1) یٰسٓ وَالْقُرْاٰن الْحَکِیْمِ4۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔5
(2) اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مَّحْسِنُوْنَ۔6
1 (ترجمہ از مرتّب) تونے جھوٹ بولا۔
2 یہ تاریخ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 15 میں درج ہے۔
3 یہ تاریخ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 15 میں درج ہے۔
4 حضور کی کاپی الہامات صفحہ 15 میں یہ الہام یوں درج ہے یٰسٓ وَالْقُرْاٰن۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ الخ۔ (مرتّب)
5 (ترجمہ از مرتّب) (1) اے سردار پُر حکمت قرآن اِس اس بات کا گواہ ہے کہ تُو خدا کا مُرسل ہے اور راہِ راست پر ہے۔ اس کا نزول اس خدا کی طرف سے ہے جو غالب اور رحم کرنے والا ہے۔
6 ’’خداان کے ساتھ ہے جو تقو ٰی اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نکو کار ہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 102۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 105)
(3) لَآ 1 اِلٰہَ اِلَّآاَنَا فَاتَّخِذْنِیْ وَکِیْلاً۔ 2
(4) سَاُکْرِمُکَ بَعْدَتَوْھِیْنِکَ۔
(البدر جلد2 نمبر32 مؤرخہ28 اگست 1903ء صفحہ253۔الحکم جلد 7نمبر30 مؤرخہ17 اگست 1903ء صفحہ20حاشیہ)
14 اگست1903ء
’’ 4 اَلَّا تَخَافُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا۔ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ لَاتَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہ‘ وَالطَّیْرَ۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ15)
14 اگست1903ء
’’ 5 یَسْئَلُونَکَ عَنْ شَانِکَ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَا ھُمَا۔ اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بَاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ جِئْتَ فَصْلَ الْفَتْحِ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ15)
1 (ترجمہ از مرتّب) میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ پس تُو مجھے ہی اپنا کار ساز بنا۔
2 ’’جب یہ الہام مجھ کو ہوا تو میرے دل پر ایک لرزہ پڑا اور مجھے خیال آیا کہ میری جماعت ابھی اِس لائق نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کا نام بھی لے۔ اور مجھے اس سے زیادہ کوئی حسرت نہیں کہ مَیں فوت ہوجاؤں اور جماعت کو ایسی ناتمام اور خام حالت میں چھوڑ جاؤں۔‘‘
(اشتہار ’’جماعت کو ارشاد‘‘۔ ضمیمہ ریویو آف ریلیجنز ستمبر 1903ء صفحہ 4،5)
3 (ترجمہ) ’’مَیں بعد اس کے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزت دوں گا اور تیرا اِکرام کروں گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 95۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 98)
(نوٹ از مرتّب) یہ الہام حضور کی کاپی صفحہ 15 میں اور حقیقۃ الوحی میں بھی بغیر سین کے یوں لکھاہے اُکرِمُکَ بَعْدَتَوْھِیْنِکَ۔
4 (ترجمہ از مرتّب) تم خوف نہ کرو اور غمگین نہ ہو ۔ جھوٹوں پر اللہ کی *** ہو ( دو مرتبہ) کیا اللہ اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں ۔ اے پہاڑو! اس کے ساتھ خدا کے حضور جھُک جاؤ اور اے پرندو تم بھی۔ اللہ نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔
5 (ترجمہ از مرتّب) تیری شان کے بارے میں وہ پوچھیں گے تو کہہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے۔ آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے تب ہم نے انہیں کھول دیا۔ کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کِیا۔ کیا اس نے ان کی تدبیر کو ضائع نہ کردیا۔ اللہ نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔ تُو فتح کے موسم میں آیا ہے۔
15 اگست1903ء
’’لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔1‘‘
(البدر جلد2 نمبر32 مؤرخہ28 اگست 1903ء صفحہ253۔الحکم جلد 7نمبر30 مؤرخہ17 اگست 1903ء صفحہ20حاشیہ)
18 اگست1903ء
(ا) 2 سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا حَسَنًا (ب) سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا (ج) اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا (د) قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ (ر) 3 یَسْئَلُوْنَکَ عَنْ شَاْنِکَ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ (س) مَاتَرٰی
1 جھوٹو ں پر اللہ کی ***
2 (ترجمہ از مرتّب) (الف) مَیں تیرا بہت اچھا اِکرام کروں گا۔
3 ’’ایک دفعہ جب مَیں گورداسپور میں ایک فوجداری مقدمہ کی و جہ سے ( جو کرم دین جہلمی نے میرے پر دائر کیا تھا ) موجود تھا۔ مجھے الہام ہوا یَسْئَلُوْ نَکَ الخ........ بعد اس کے جب ہم کچہری میں گئے تو فریقِ ثانی کے وکیل نے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا آپ کی شان اور آپ کا مرتبہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تریاق القلوب میں لکھا ہے۔ مَیں نے جواب دیا کہ ہاں خدا کے فضل سے یہی مرتبہ ہے۔ اُسی نے یہ مرتبہ مجھے عطا کیا ہے۔ تب وہ الہام جو خدا کی طرف سے صبح کے وقت ہوا تھا قریباً عصر کے وقت پورا ہوگیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ265، 266۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 277،278)
خاکسار مرتّب عرض کرتا ہے کہ وکیل فریق مخالف نے جس کتاب کے متعلق مذکورہ بالا سوال کیا تھا وہ دراصل تحفہ گولڑویہ تھی تریاق القلوب نہیں تھی ‘ اور تحفہ گولڑویہ کے جو صفحات وکیل فریق مخالف نے پیش کرکے ان کے متعلق مذکورہ بالا سوال کیا تھا وہ صفحہ 48لغایت 50 تھے۔ چنانچہ اس مقدمہ کی مسل جس میں وہ کتاب شامل کی گئی تھی اور جس پر مُہرِ عدالت ثبت شدہ ہے عدالت سے اس کی نقل حاصل کرلی گئی ہے اور وہ ہمارے پاس محفوظ ہے ‘ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا بیان حضور کے اپنے الفاظ میں اِس طرح پر درج ہے:۔
’’ تحفہ گولڑویہ میری تصنیف ہے۔ یکم ستمبر1902ء کو شائع ہوا۔ پیر مہر علی کے مقابلہ پر لکھی ہے۔ یہ کتاب سیف چشتیائی کے جواب میں نہیں لکھی گئی۔‘‘
سوال :۔ جن لوگوں کا ذکر صفحہ 48لغایت صفحہ 50اِس کتاب میں لکھا ہے آپ ہی اس کا مصداق ہیں؟
جواب:۔ خدا کے فضل اور رحمت سے مَیں اس کا مصداق ہوں۔‘‘
(دیکھئے سیرۃ المہدی حصّہ دوم صفحہ 67)
پس حقیقۃالوحی کے اِس حوالہ میں تحفہ گولڑویہ کے بجائے تریاق القلوب سہواً لکھا گیا ہے۔(مرتّب)
فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ۔1
(البدر جلد2 نمبر32 مؤرخہ28 اگست 1903ء صفحہ253۔الحکم جلد 7نمبر31 مؤرخہ24 اگست 1903ء صفحہ6)
ترجمہ:۔’’ (ب) مَیں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے (ج) آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو کھول دیا ۔یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی‘ اور آسمان نے بھی۔ (د) ان کو کہہ کہ وہ خدا ہے جس نے یہ کلما ت نازل کئے ہیں۔ پھر ان کو لہو و لعب کے خیالات میں چھوڑ دے (ر) یعنی تیری شان کے بارے میں پوچھیں گے کہ تیری شان اور کیا مرتبہ ہے۔ کہہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے۔ پھر ان کو اپنی لہو و لعب میں چھوڑ دے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 90‘107‘ 70‘ 265‘266۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 93‘ 73‘ 110‘ 277‘ 278)
18 اگست1903ء
’’فرمایا ۔ ایک خوان میرے آگے پیش ہوا ہے ۔ اس میں فالودہ معلوم ہوتا ہے اور کچھ فیرنی بھی رکابیوں میں ہے۔ مَیں نے کہا کہ چمچہ لاؤ۔ تو کسی نے کہا کہ ہر ایک کھانا عمدہ نہیں ہوتا سوائے فیرنی اور فالودہ کے۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر32 مؤرخہ28 اگست 1903ء صفحہ351)
19 اگست1903ء
’’اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔‘‘
ترجمہ:۔ ’’کیا تُونے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے اصحابِ فیل کے ساتھ کیا کِیا۔ کیا اس نے اُن کے مکر کو اُلٹا کر اُنہیں پر نہیں مارا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ105۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ108)
19 اگست1903ء
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّخِذْنِیْ وَکِیْلاً۔2‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 15)
20 اگست1903ء
’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر32 مؤرخہ28 اگست 1903ء صفحہ253۔الحکم جلد 7نمبر31 مؤرخہ24 اگست 1903ء صفحہ6)
1 (ترجمہ از مرتب) رحمٰن کی پیدائش میں تم کوئی کسر نہیں پاؤ گے۔
2 (ترجمہ از مرتب) میرے سوا اَور کوئی معبود نہیں ۔ پس تو مجھے ہی اپنا کارساز بنا۔
ترجمہ:۔ ’’خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ72۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ75‘ 76)
22 اگست1903ء
’’خدا کی پناہ میں عمر گذارو‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 15۔البدر جلد2 نمبر32 مؤرخہ28 اگست 1903ء صفحہ253۔
الحکم جلد 7نمبر31 مؤرخہ24 اگست 1903ء صفحہ6)
23 اگست1903ء
’’23 اگست 1903ء کو بزبان انگریزی مَیں نے ڈوئی1کے مقابل پر ایک اشتہار شائع کیا تھا اور خدا تعالیٰ سے الہام پاکر اس میں لکھا تھا کہ خواہ ڈوئی میرے ساتھ مباہلہ کرے یا نہ کرے وہ خدا کے عذاب سے نہیں بچے گا اور خدا جھوٹے اور سچے میں فیصلہ کرکے دکھلائے گا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃالوحی صفحہ73حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ509)
24 اگست1903ء
(الف) ’’ فرمایا۔مَیں نے دیکھا کہ ایک بِلّی ہے اور گویا کہ ایک کبوتر ہمارے پاس ہے وہ اس پر حملہ کرتی ہے۔ بار بار ہٹانے سے باز نہیں آتی تو آخر مَیں نے ا س کا ناک کاٹ دیا ہے اور خون بہہ رہا ہے پھر بھی باز نہ آئی تو مَیں نے اُسے گردن سے پکڑ کے اس کا منہ زمین سے رگڑنا شروع کیا۔ باربار رگڑتا تھا لیکن
1 خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ یہ شخص امریکہ کا باشندہ تھا۔ اِسلام کا سخت دشمن اور عیسائیت کا پکا حامی تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور حضرت اقدس کے بار بار سمجھانے کے باوجود اس کے رویہ میں ذرا تغیر پیدا نہ ہوا بلکہ دن بدن تکبر ‘ شوخی اور شرارت میں بڑھتا گیا۔ آخر حضرت اقدس اور اس کے درمیان مباہلہ ہوا جس کے مضمون کو یورپ و امریکہ کے متعدد اخباروں نے شائع کیا۔
(تفصیل کیلئے دیکھئے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 71‘ 72۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 506‘ 507)
پھر اس کا یہ حشر ہوا کہ اس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی۔ اس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا مگر اُس کا شراب خوار ہونا ثابت ہوگیا اور وہ اُس اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اُس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کرکے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اُس کے قبضہ میں تھا اس کو جواب دیا گیا اور اس کی بیوی اور اُس کا بیٹا اُس کے دشمن ہوگئے اور اُس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزّنا ہے ۔۔۔۔۔۔ آخر کار اُس پر فالج گِرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اُس کو اُٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہوگیا اور حواس بجا نہ رہے ۔۔۔۔ آخر کار مارچ 1907ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور دَرد اور دُکھ کے ساتھ مر گیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃالوحی صفحہ76‘77۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ512‘513)
پھر بھی سر اُٹھاتی جاتی تھی تو آخر مَیں نے کہا کہ آؤ اسے پھانسی دے دیں۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر34 مؤرخہ11 ستمبر 1903ء صفحہ365۔کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 15)
(ب)’’ پھر مَیں نے آئینہ خواب میں دیکھا اور رعب ناک اور چمکتا ہوا چہرہ نظر آیا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 15)
یکم ستمبر1903ء
’’فرمایا۔ آج خواب میں ایک فقرہ منہ سے یہ نکلا:۔
فیر مین1‘‘
(البدر جلد2 نمبر24 مؤرخہ11 ستمبر 1903ء صفحہ366)
2 ستمبر1903ء
’’فرمایا ۔ اسہال آنے سے میری طبیعت میں کچھ کمزوری پیدا ہوگئی۔ ایک تھوڑی سی غنودگی میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دونوں طرف دو آدمی پستولیں لئے کھڑے ہیں۔ اِس اثنا میں مجھے الہام ہوا:
فِیْ حِفَاظَۃِ اللّٰہِ ۔ 2‘‘
(البدر جلد2 نمبر35 مؤرخہ18 ستمبر 1903ء صفحہ380۔الحکم جلد7 نمبر36 مؤرخہ30 ستمبر 1903ء صفحہ15)
5 ستمبر1903 3
’’مَیں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ.....جونہایت خوبصورت اور سر سبز تھی ہمارے باغ میں سے کاٹی گئی ہے اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے تو کسی نے کہا کہ اِس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اس بیری4کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی تھی اور پھر دوبارہ اُگے گی‘ اور ساتھ ہی مجھے یہ وحیِ الٰہی ہوئی کہ
’’کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا‘‘
1 (ترجمہ از مرتب) اچھا آدمی (Fairman) 2 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں۔
3 یہ تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی کاپی صفحہ 16 میں درج ہے۔ (مرتب)
4 حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اِس کشف کو دو شہید وں (صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب اور مولوی نعمت اللہ صاحب ) پر چسپاں فرماتے ہوئے فرمایا:
’’ بیری جو پہلے کاٹی گئی تھی اس سے مراد سید عبداللطیف صاحب تھے۔ انہیں بیری قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ پھلدار یعنی صاحب ِ اولاد تھے اور سرو کی شاخ سے یہ مراد تھی کہ بیری کے بعد جو شاخ کاٹی جائے گی وہ پھلدار نہیں ہوگی۔ چنانچہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی ابھی شادی بھی نہ ہوئی تھی کہ شہید کردیئے گئے۔‘‘ (الفضل جلد 12 نمبر 64 مؤرخہ 11 دسمبر 1924صفحہ 5)
اس کی مَیں نے یہ تعبیر کی کہ تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بارور ہو کر ہماری جماعت کو بڑھاوے گا۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ 55۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 57۔ ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 11‘ 12 بابت ماہ نومبر و دسمبر 1903صفحہ 450)
9 ستمبر1903ء
’’فرمایا۔مجھے الہام ہوا سَلَامٌ عَلَیْکُم طِبْتُمْ 1
پھر چونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا اس کا علاج خدا تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ناموں کا وِرد کیا جاوے۔
یَاحَفِیْظُ ۔ یَاعَزِیْزُ۔ یَارَفِیْقُ 2
رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔‘‘
(البدر جلد2 نمبر35 مؤرخہ18 ستمبر 1903ء صفحہ280۔ الحکم جلد 7 نمبر 36 مؤرخہ 30 ستمبر 1903ء صفحہ 15)
10 ستمبر1903ء
’’خواب میں مَیں نے دیکھا میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے کسی مخالف کی۔ مَیں اس کو پانی میں دھو رہا ہوں اور ایک شخص پانی ڈالتا ہے ۔ جب مَیں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو وہ ساری کتاب دھوئی گئی ہے اور سفید کاغذ نکل آیا ہے صرف ٹائٹل پیج پر ایک نام یا اس کے مشابہ رہ گیا ہے۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 17)
21 ستمبر1903ء
’’رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعۂ ہند میں۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ17 الحکم جلد 7 نمبر46‘47 مؤرخہ 17‘24 ستمبر 1903ء صفحہ 15۔
البدرجلد3نمبر1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ6 حاشیہ)
23 ستمبر1903ء
حضرت اقدس ؑ نے صبح کو اُٹھ کر ذیل کا رؤیا سنایا۔’’ مَیں نے ایک قلم لکھنے کے واسطے اُٹھائی ہے۔ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کی زبان ٹوٹی ہوئی ہے۔ تو مَیں نے کہا کہ محمد افضل نے جو پَر (نِب) بھیجے ہیں اُن میں (سے) ایک لگادو۔ وہ پَر تلاش کئے جارہے ہیں کہ اس اثنائے میں میری آنکھ کھُل گئی۔‘‘
(البدر جلد2نمبر37 مؤرخہ 2 اکتوبر 1903ء صفحہ390)
1 (ترجمہ از مرتب) تمہارے لئے سلامتی ہے خوش رہو۔
2 (ترجمہ از مرتب) اے حفاظت کرنے والے ۔ اے غالب۔ اے رفیق۔
(ب) فرمایا کہ کوئی دنیا کا کاروبار چھوڑ کر ہمارے پاس بیٹھے تو ایک دریا پیشگوئیوں کا بہتا ہوا دیکھے جیسے کہ کل کی قلم والی پیشگوئی پوری 1ہوئی ہے۔‘‘ (البدر جلد2 نمبر37 مؤرخہ2 اکتوبر 1903ء صفحہ390)
1903ء
’’خوش و خورم باش2‘‘ (البدر جلد2 نمبر37 مؤرخہ2 اکتوبر 1903ء صفحہ390)
1903ء
’’ یَآ اَحْمَدُ جُعِلْتَ مُرْسَلاً
اے احمد تُو مُرسل بنایا گیا۔ یعنی جیسے کہ تُو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا۔ سو اسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے کیونکہ احمد نبی ہے نبوّت اس سے مُنفک نہیں ہوسکتی۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ43۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ45‘46۔ ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 11‘ 12 بابت ماہ نومبر و دسمبر 1903صفحہ 441)
1903ء
’’طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا۔ میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بیہوش ہوگیا اور بیہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا اِن میں جو طاعون کا زور ہے ‘ فوت ہوگیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھیرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اُس نے فرمایا ہے اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ یعنی مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے ‘ طاعون سے بچاؤں گا۔ اِس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ مَیں بیان نہیں کرسکتا۔ قریباً رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے
1 ’’ 10بجے کے بعد مقدمہ کرم دین صاحب بنام حضرت اقدس و حکیم فضل دین صاحب پیش ہوا۔ خوا جہ صاحب نے حکیم فضل دین صاحب کی طرف سے درخواست پیش کی کہ مولوی کرم دین صاحب نے جو استغاثہ کیا ہے وہ وہی امر ہے جس کی تحقیق کیلئے خود میری طرف سے کرم دین صاحب پر استغاثہ دائر ہوئے ہیں اِس لئے جب تک وہ مقدمات فیصل نہ ہوں اس وقت تک اس مقدمہ کو ملتوی کیا جاوے۔ اس پر فریقین کے وکلاء کی بحث رہی اور عدالت نے دوسرے دن فیصلہ دینے کا حکم صادر فرمایا۔ شام کے وقت حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا۔ خوش و خرم باش۔ 24 کو مقدمہ شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم بنام مولوی کرم دین صاحب و ایڈیٹر سراج الاخبار جہلم تھا۔ مگر چونکہ مستغیث کی شہادت موجود نہ تھی اِس لئے اس کی تاریخ 21 اکتوبر 1903ء پڑی۔ کل کی بحث پر چونکہ ابھی عدالت نے فیصلہ تحریر نہیں کیا تھا اِس لئے خواجہ صاحب نے کچھ اَور قانونی بحث کرنی چاہی ‘ جس کو سُن کر عدالت نے ایک بجے کے بعد اس دن یہ فیصلہ دیا کہ درخواست التوا مقدمہ نامنظور ہے اور اِس طرح سے خدا کی وہ بات پوری ہوئی جو کہ اس نے 22 کی رات کو اپنے فرستادہ کو دکھائی اور 23 کی صبح کو اُس نے سُنائی۔‘‘ (البدر جلد2 نمبر37 مؤرخہ2 اکتوبر 1903ء صفحہ390)
2 (ترجمہ از مرتب) خوش و خرم ہو۔ (نوٹ از مرتب) یہ الہام مقدمہ کرم دین کے دَوران میں ہوا۔
کی حالت اَبتر ہوگئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں ‘ یہ اَور ہی بَلا ہے۔ تب مَیں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدانخواستہ لڑکا فوت ہوگیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کیلئے بہت کچھ سامان ہاتھ آجائے گا۔ اسی حالت میں مَیں نے وضو کیا اور نماز کیلئے کھڑا ہوگیا اور معاً کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسر آگئی جو استجابت ِ دعا کیلئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور مَیں اُس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی مَیں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور مَیں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے۔ تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مَیں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور مَیں چار رکعت پوری کر چکا تھا۔ فی الفور اُس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام و نشان نہیں اور ہذیان اور بیتا بی اور بیہوشی بالکل دُور ہوچکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی۔ مجھے اس خدا کی قدرت کے نظّارہ نے الٰہی طاقتوں اور دُعا قبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 84‘ 85 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 87‘88)
1903ء
فرمایا۔’’چند سا ل1ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالمِ کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ اَب تُو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر 1‘2 مؤرخہ 10 جنوری 1907ء صفحہ 3۔ الحکم جلد 11 نمبر 1 مؤرخہ 10 جنوری 1907 صفحہ 1)
1903ء
’’اَتٰیٓ اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔ بِشَارَۃٌ تَلَقَّا ھَا النَّبِیُّونَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ اِنَّہٗ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ وَاِنَّہٗ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَشَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ اَتَفِرُّوْنَ مِنِّیْ،وَاِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۔ یَقُوْلُوْنَ اِنْ ھٰذَآ
ترجمہ: خدا کا اَمر آرہا ہے ‘ پس تم جلدی مت کرو۔ یہ خوشخبری ہے جو قدیم سے نبیوں کو ملتی رہی ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ یعنی اَدب اور حیا اور خوفِ الٰہی کی پابندی سے اُن ظنّی راہوں کو بھی چھوڑتے ہیں جن میں معصیت اور نافرمانی کا گمان ہوسکتا ہے اور دلیری سے کوئی قدم نہیں اُٹھاتے بلکہ ڈرتے ڈرتے کسی فعل یا قول کے بجالانے کا قصد کرتے ہیں اور خدا اُن کے ساتھ ہے جو اُس کے ساتھ اخلاص اور اُس کے بندوں سے نیکی بجالاتے ہیں۔ وہ قوی اور غالب ہے۔ وہ ہر ایک امر پر غالب ہے‘
1 چونکہ سال کی تعیین نہیں ہوسکی اِس لے پہلے کشف کی مناسبت سے اِسے یہاں درج کیا گیا ۔ (مرتب)
اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔ جَاھِلٌ اَوْمَجْنُوْنٌ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔اِنِیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ، وَاِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ۔ وَاِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ اِذَاجَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ،ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ۔ وَاِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ بَلْ اٰتَیْنَا ھُمْ بِالْحَقِّ فَھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۔ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ۔ وَیَقُوْلُوْنَ لَسْتَ مُرْسَلاً۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ۔ وَکُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہَ وَیَمْشِیْٓ اِلَیْکَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا
مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ جب وہ ایک بات کو چاہتاہے تو کہتا ہے کہ ہو۔ پس وہ بات ہوجاتی ہے۔ کیا تم مجھ سے بھاگ سکتے ہو اور ہم مجرموں سے انتقام لیں گے۔ کہتے ہیں کہ یہ تو صرف انسان کا قول ہے اور ان باتوں میں دوسروں نے اس شخص کی مدد کی ہے۔ یہ توجاہل ہے یا مجنون ہے۔ ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تاخدا بھی تمہیں دوست رکھے۔ اور جو لوگ تجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں ہم ان کیلئے کافی ہیں۔ مَیں اُس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے در پے ہے۔ اور مَیں اُس شخص کی مدد کروں گا جو تیری مدد کرنا چاہتا ہے۔ مَیں ہوں جو میرے پاس ہو کر میرے رسول ڈرا نہیں کرتے۔ جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی ‘ اور تیرے رَبّ کا کلمہ پورا ہوجائے گا تو کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس کیلئے تم جلدی کرتے تھے ۔ اور جب اُن کو کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں خبردار ہو کہ وہی مفسد ہیں اور تجھے انہوں نے ہنسی اور ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے ۔ اور ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں کہ کیا یہ وہی شخص ہے کہ جو خدا نے مبعوث فرمایا۔ یہ تو اُن کی باتیں ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اُن کے سامنے حق پیش کیا ‘ پس وہ حق کے قبول کرنے سے کراہت کررہے ہیں۔ اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے وہ عنقریب جان لیں کہ وہ کس طرف پھیرے جائیں گے۔ خدا ان تہمتوں سے پاک اور برتر ہے جو اُس پر لگارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ تُو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نہیں۔ ان کو کہہ دے کہ خدا کی میرے پاس گواہی موجود ہے۔ پس کیا تم ایمان لاتے ہو۔ تُو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے اپنے لئے تجھے چُن لیا ۔ جب تُو کِسی پر ناراض ہوتو مَیں اُس پر ناراض ہوتا ہوں اور ہر ایک چیز جس سے تُو پیار کرتا ہے مَیں بھی اُس سے پیار کرتا ہوں۔ خدا اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا

یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدیْ۔ اَنْتَ مِنْ مَّآئِ نَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَعْلَمْ۔ قَالُوْآ اَنّٰی لَک ھٰذَا۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَجِیْبٌ لَّا رَآدَّلِفَضْلِہٖ۔لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ۔ خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ وَقَالُوْآ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا، قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ۔ یَقُوْلُوْنَ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ۔ وَمَآ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔ یَآ اَحْمَدِیْٓ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ۔سِرُّکَ سِرِّیْ۔ شَاْنُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ۔ اِنِّیْٓ اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ۔ یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی۔ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۔ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَمَشّٰیٓ اَمَامَکَ وَعَادٰی لَکَ مَنْ عَادٰی ، وَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔ اِنَّا
ہے۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔ تُو مجھ سے اُس مرتبہ پر ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ تُو ہمارے پانی سے ہے اور وہ لوگ فشل سے۔ اُس خدا کو حَمد ہے جس نے تجھے مسیح ابن ِ مریم بنایا۔ اور تجھے وہ باتیں سکھلائیں جن کی تجھے خبر نہ تھی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ مرتبہ تجھے کہاں سے اور کیونکر مل سکتا ہے۔ ان کو کہہ دے کہ میرا خدا عجیب ہے۔ اُس کے فضائل کو کوئی رَدّ نہیں کرسکتا۔ جو کام وہ کرتا ہے اُس سے پوچھا نہیں جاتا کہ ایسا کیوں کیا مگر لوگ اپنے اپنے کاموں سے پوچھے جاتے ہیں۔ تیرا رَبّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اُس نے اس آدم کو پیدا کرکے اس کو بزرگی دی۔ مَیں نے اس زمانہ میں ارادہ کیا کہ اپنا ایک خلیفہ زمین پر قائم کروں‘ پس مَیں نے اس آدم کو پیدا کیا۔ اور لوگوں نے کہا کہ کیا تُو ایسا شخص اپنا خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے ۔ یعنی پھُوٹ ڈالتا ہے۔ تو خدا نے اُنہیں کہا کہ جن باتوں کا مجھے علم ہے تمہیں وہ باتیں معلوم نہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ ایک بناوٹ ہے۔ کہہ خدا ہے جس نے یہ سلسلہ قائم کیا‘ پھر یہ کہہ کر اُن کو اپنے لہو ولعب میں چھوڑدے ۔ اور ہم نے حق کے ساتھ اس کو اُتارا اور ضرورتِ حقّہ کے موافق وہ اُترا۔ اور ہم نے تجھے تمام دنیا کیلئے ایک عام رحمت کرکے بھیجا ہے۔ اے میرے احمد ! تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ تیری شان عجیب ہے اور اجر قریب ہے۔ مَیں نے تجھے روشن کیا اور مَیں نے تجھے چُنا۔ تیرے پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ موسیٰ ؑ پر زمانہ آیا تھا۔ اور تُو اُن لوگوں کے بارے میں میری جناب میں شفاعت مت کر جو ظالم ہیں کیونکہ وہ غرق کئے جائیں گے۔ اور یہ لوگ مَکر کریں گے اور خدا بھی اُن سے مَکر کرے گا اور خدا تعالیٰ بہتر مَکر کرنے والا ہے۔ وہ کریم ہے جو تیرے آگے آگے چلتا ہے اور اُس کو وہ اپنا دشمن قرار دیتا ہے
نَرِثُ الْاَرْضَ نَاْ کُلُھَامِنْ اَطْرَافِھَا۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اٰبَآؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ قُلْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔ وَالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔ لَایَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ تُؤْمِنُوْنَ۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ لَّایَتِمَّ اَمْرُکَ ، وَاللّٰہُ یَاْبٰی اِلَّآ اَن یُّتِمَّ اَمْرَکَ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔ وَکَانَ وَعْدُاللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ اَتٰی۔ وَرَکَلَ وَرَکیٰ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا ، وَیَسْطُوْبِکُلِّ مَنْ سَطَا۔ حَلَّ غَضَبُہٗ عَلَی الْاَرْضَ۔ ذَالِکَ بِمَاعَصَوْا وَّ کَانُوْ یَعْتَدُوْنَ۔ اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ۔ اَمْرٌ مِّنَ السَّمَآئِ۔ اَمْرٌ مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْرَمِ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ اِنَّہٗٓ اٰوَی الْقَرْیَۃَ۔ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اِصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔ اِنَّہٗ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ۔ اِنِّیْ اُحَافِظُ
جوتجھ سے دشمنی کرتا ہے اور وہ عنقریب تجھے وہ چیزیں دے گا جن سے تُو راضی ہوجائے گا۔ ہم زمین کے وارث ہوں گے۔ اور ہم اُس کو اُس کے طرفوں سے کھاتے جاتے ہیں تاکہ تُو ا س قوم کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھُل جائے۔ کہہ مَیں مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے مومن ہوں۔ کہہ میرے پر یہ وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے۔ اور تمام خیر قرآن میں ہے۔ اس کے حقائق معارف تک وہی لوگ پہنچتے ہیں جو پاک کئے جاتے ہیں۔ پس تم اُس کے بعد یعنی اس کو چھوڑ کر کِس حدیث پر ایمان لاؤ گے ۔ یہ لوگ ارادہ کرتے ہیں کہ کچھ ایسی کوشش کریں کہ تیرا اَمر ناتمام رہ جائے لیکن خدا تو یہی چاہتا ہے کہ تیری بات کو کمال تک پہنچاوے۔ اور خدا ایسا نہیں ہے کہ قبل اس کے جو پاک اور پلید میں فرق کرکے دکھلاوے ۔ تجھے چھوڑ دے۔ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو (یعنی اِس عاجز کو )ہدایت اور دین ِ حق دے کر اِس غرض سے بھیجا ہے تا وہ اِس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور خدا کا وعدہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ خدا کا وعدہ آگیا اور ایک پَیر اس نے زمین پر مارا اور خلل کی اصلاح کی۔ خدا تجھے دشمنوں سے بچائے گا اور اُس شخص پر حملہ کرے گا کہ جو ظلم کی راہ سے تیرے پر حملہ کرے گا۔ اُس کا غضب زمین پر اُتر آیا کیونکہ لوگوں نے معصیت پر کمر باندھی اور وہ حد سے گذر گئے۔ بیماریاں مُلک میں پھیلائی جائیں گی اور طرح طرح کے اسباب سے جانیں تلف کی جائیں گی ۔ یہ امر آسمان پر قرار پاچکا ہے۔ یہ اُس خدا کا امر ہے جو غالب اور بزرگ ہے۔ جو کچھ قوم پر نازل ہوا خدا اُس کو نہیں بدلائے گا جب تک کہ وہ لوگ اپنے دلوں کی حالتیں نہ بدلالیں۔ وہ اُس گاؤں کو جو قادیان ہے کسی قدر ابتلا

کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا مِنِ اسْتِکْبَارٍ۔ وَ اُحَافِظُکَ خَآصَّۃً ۔ سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ وَامْتَا زُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ۔ اِنِّی مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاَصُوْمُ وَ اَ لُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ۔ وَاُعْطِیْکَ مَایَدُوْمُ۔ وَاَجْعَلُ لَکَ اَنْوَارَ الْقُدُوْمِ۔ وَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ۔ اِنِّیْ اَنَا الصَّاعِقَۃُ وَاِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ ذُوالُّلطْفِ وَالنَّدٰی۔
کے بعد اپنی پناہ میں لے لیگا۔ آج خدا کے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے کشتی بنا۔ وہ قادر خدا تیرے ساتھ اور تیرے لوگوں کے ساتھ ہے۔ مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کے اندر ہے بچاؤں گا۔ مگر وہ لوگ جو میرے مقابل پر تکبر سے اپنے تئیں نافرمان اور اُونچا رکھتے ہیں۔ یعنی پورے طور پر اطاعت نہیں کرتے ۔ اور خاص کر میری حفاظت تیرے شاملِ حال رہے گی۔ خدائے رحیم کی طرف سے سلامتی ہے۔ تم پر سلامتی ہے۔ تم پاک نفس ہو۔ اور اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ۔ مَیں اس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں اور افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا۔ اور اُس کو ملامت کروں گا جو ملامت کرتا ہے۔ اور تجھے وہ نعمت دوں گا جو ہمیشہ رہے گی۔ اور اپنی تجلّی کے نور تجھ میں رکھ دوں گا۔ اور مَیں اس زمین سے وقت ِ مقدّر تک علیحدہ نہیں ہوں گا۔ یعنی میری قہری تجلّی میں فرق نہ آئے گا۔ مَیں صاعقہ ہوں اور مَیں رحمن ہوں صاحب ِ لُطف اور بخشش۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ3تا 7۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ4 تا 9۔ ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 11‘ 12 بابت
ماہِ نومبر و دسمبر 1903صفحہ 407 تا 412)
1903ء
’’ اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجت اور بُرہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دُنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا ا س مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے ‘ نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی....... یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جو اَب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے ....... اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی ......... اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم ؑ کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دُنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یک دفعہ
اس عقیدہ سے بیزار ہوجائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بد ظن ہوکر اس عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دُنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا ۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھُولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ64‘65روحانی خزائن جلد 20 صفحہ66‘ 67
ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 11‘ 12 بابت ماہِ نومبر و دسمبر 1903صفحہ 455 تا 456)
1903ء
’’ اور یہ خیال مت کرو کہ آریہ یعنی ہندو دیا نندی والے کچھ چیز ہیں ....... ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لو گے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ65‘66۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ67‘68۔
ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 11‘ 12 بابت ماہِ نومبر و دسمبر 1903صفحہ 456)
1903ء
’’ میرا ارادہ تھا کہ قبل اس کے جو 16 اکتوبر 1903ء کو بمقام گورداسپور ایک مقدمہ پر جاؤں .........یہ رسالہ تالیف کرلوں اور اس کو ساتھ لے جاؤں ۔ تو ایسا اِتفاق ہوا کہ مجھے دردِ گُردہ سخت پیدا ہوا ۔ مَیں نے خیال کیا کہ یہ کام ناتمام رہ گیا۔ صرف دو چار دن ہیں اگر مَیں اِسی طرح دردِ گردہ میں مُبتلا رہا جو ایک مُہلک بیماری ہے تو یہ تالیف نہیں ہوسکے گا۔ تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی۔ مَیں نے رات کے وقت میں جبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گذر چکی تھی۔ اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ اَب مَیں دُعا کرتا ہوں تم آمین کہو۔ سو مَیں نے اسی درد ناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے تصورسے دعا کی کہ یا الٰہی اس مرحوم کیلئے مَیں اس کو لکھنا چاہتا تھا۔ تو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہوئی اور الہام ہوا:
سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ
یعنی سلامتی اور عافیت ہے ‘ یہ خدائے رحیم کا کلام ہے۔
پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ مَیں بالکل تندرست ہوگیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ فَا لْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِک۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ72‘73۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ74‘75۔ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 11‘ 12
بابت ماہِ نومبر و دسمبر 1903صفحہ461)
13 اکتوبر1903ء
سَبَّحَکَ اللّٰہَ وَرَافَاکَ۔خدا ترا از عیوب منزّہ کرد۔ وبا تو موافقت کرد۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 18)
(ترجمہ) خدا نے ہر ایک عیب سے تجھے پاک کیا اور تجھ سے موافقت کی۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 95۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 99)
22 اکتوبر1903ء
’’ اِنِّیْ مَلَکْتُ الشَّرْقَ وَالْغَرْبَ۔1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 18)
25 اکتوبر1903ء
’’اِنِّیْ اُنَوِّرُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ ظَفَرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ۔ ظَفَرٌ وَّفَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ۔ فخر احمد۔ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا۔2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 18)
25 اکتوبر1903ء
’’ہمارے مکرم خانصاحب محمد علی خان صاحب کا چھوٹا لڑکا عبدالرحیم سخت بیمار ہوگیا۔ چودہ روز ایک ہی تپ لازمِ حال (رہا) اور اس پر حواس میں فتور اور بیہوشی رہی آخر نوبت احتراق تک پہنچ گئی ......حضرت خلیفۃ اللہ علیہ السلام کو ہر روز دعا کیلئے توجہ دلائی جاتی تھی اور وہ کرتے تھے۔ 25 اکتوبر کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بڑی بیتابی سے عرض کی گئی کہ عبدالرحیم کی زندگی کے آثار اچھے نظر نہیں آتے۔ حضرت رؤف رحیم تہجد میں اس کیلئے دعا کررہے تھے کہ اتنے میں خدا کی وحی سے آپ پر کھُلا کہ
تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدّر
.....فرمایا ۔ جب خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا۔ اُس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ یا الٰہی اگر یہ دعا کا موقع نہیں تو مَیں شفاعت کرتا ہوں۔ اس کا موقع تو ہے۔ اس پر معاً وحی نازل ہوئی:
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں مشرق اور مغرب کا مالک ہوا۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں روشن کروں گا ہر اس شخص کو جو اِس گھر میں ہے۔ خدا کی طرف سے ظفر اور کھُلی کھُلی فتح۔ خدا کی طرف سے ظفر اور فتح۔ احمد کا فخر۔ مَیں نے خدائے رحمن کیلئے روزہ کی مَنّت مانی۔
یُسَبِّحُ لَہٗ 1 مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَمِنْ فِی الْاَرْضِ مَنْ ذَالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ 2
اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت خوف اور ہیبت وارد ہوئی کہ مَیں نے بلا اِذن شفاعت کی ہے ایک دو منٹ کے بعد پھر وحی ہوئی:
3 اِ نَّکَ اَنْتَ الْمَجَازُ
یعنی تجھے اجازت ہے۔ اس کے بعد حالاً بعد حالٍ عبدالرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی اور اَب ہر ایک جو دیکھتا ‘ اور پہچانتا تھا ‘ اسے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر جاتا اور اعتراف کرتا ہے کہ لارَیب مُردہ زندہ ہوا ہے۔‘‘
(البدر جلد 2 نمبر 41‘ 42 مؤرخہ 29 اکتوبر ‘ 18 نومبر 1903ء صفحہ 321 محررّہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب ؓ 29 اکتوبر 1903ء)
1903ء(قریباً)
’’عرصہ قریباً تین سال کا ہوا ہے کہ صبح کے وقت کشفی طور پر مجھے دکھایا گیا کہ مبارک احمد سخت مبہُوت اور بَد حواس ہوکر میرے پاس دوڑا آیا ہے اور نہایت بے قرار ہے اور حواس اُڑے ہوئے ہیں اور کہتا ہے کہ ابا پانی ۔ یعنی مجھے پانی دو.......
اِس کے بعد اُسی وقت ہم باغ میں گئے ۔ اور قریباً آٹھ بجے صبح کا وقت تھا اور مبارک احمد بھی ساتھ تھا اور مبارک احمد کئی دوسرے چھوٹے بچوں کیساتھ باغ کے ایک گوشے میں کھیلتا تھا اور عمر قریباًچار برس کی تھی۔ اُس وقت مَیں ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ مبارک احمد زور سے میری طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور سخت بدحواس ہورہا ہے۔ میرے سامنے آکر اتنا اُس کے منہ سے نکلا کہ ابا پانی ۔ بعد اس کے نیم بیہوش کی طرح ہوگیا اور وہاں سے کنواں قریباً پچاس قدم کے فاصلہ پر تھا۔ مَیں نے اُس کو گود میں اُٹھا لیا اور جہاں تک مجھ سے ہوسکا مَیں تیز قدم اُٹھا کر اور دَوڑ کر کنوئیں تک پہنچا اور اُس کے منہ میں پانی ڈالا۔ جب اُس کو ہوش آئی اور کچھ آرام آیا تو مَیں نے اُس سے اِس حادثہ کا سبب دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ بعض بچوں کے کہنے سے مَیں نے بہت سا پِسا ہوا نمک پھانک لیا اور دماغ پر بخار چڑھ گئے اور سانس رُک گیا اور گلا گھونٹا گیا۔ پس اِس طرح پر خدا نے اُ س کو شفا دی اور کشفی پیشگوئی پوری کی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 385۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحۃ 399‘ 400)
22 نومبر1903ء
’’مَیں ایک قبر پر بیٹھا ہوں۔ صاحب ِ قبر میرے سامنے بیٹھا ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ
1 کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 18 پر لِلّٰہِ لکھا ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) آسمانوں اور زمین کی سب مخلوق اس کی تسبیح کرتی ہے۔ کون ہے جو اس کے اِذن کے بغیر اس کے حضور شفاعت کرے۔
3 کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 18 پر وَاِنَّکَ الخ درج ہے۔
آج بہت سی دعائیں امورِ ضروری کے متعلق مانگ لوں اور یہ شخص آمین کہتا جاوے۔ آخر مَیں نے دعائیں مانگنی شروع کیں جن میں سے بعض دعائیں یاد ہیں اور بعض بھول گئیں۔ ہر ایک دعا پر وہ شخص بڑی شرح صدر سے آمین کہتا تھا ۔ ایک دعا یہ ہے کہ الٰہی ! میرے سلسلے کو ترقی ہو اور تیری نصرت اور تائید اس کے شاملِ حال ہو۔ اور بعض دعائیں اپنے دوستوں کے حق میں تھیں۔ اتنے میں خیال آیا کہ یہ دعا بھی مانگ لوں کہ میری عمر 95سال ہوجاوے۔ مَیں نے دعا کی اُس نے آمین نہ کہی۔ مَیں نے وجہ پوچھی وہ خاموش ہورہا۔ پھر مَیں نے اُس سے سخت تکرار اور اصرار شروع کیا یہاں تک کہ اس سے ہاتھ پائی کرتا تھا۔ بہت عرصہ کے بعد اُس نے کہا اچھا دعا کرو مَیں آمین کہوں گا۔ چنانچہ مَیں نے دعا کی کہ الٰہی میری عمر 95 برس کی ہوجاوے۔ اس نے آمین کہی۔ مَیں نے اس سے کہا کہ ہر ایک دعا پر تو شرح صَدر سے آمین کہتا تھا اِس دعا پر کیا ہوگیا۔ اُس نے ایک دفتر عُذروں کا بیان کیا کہ یہ وجہ تھی فلاں وجہ تھی جو میرے ذہن سے جاتا رہا مگر مفہوم بعض عُذروں کا یہ تھا کہ گویا وہ کہتا ہے کہ جب ہم کسی امر کی نسبت آمین کہتے ہیں تو ہماری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔‘‘
(البدر جلد 2 نمبر47 مؤرخہ 16 دسمبر 1903ء صفحہ374 ۔ الحکم جلد 7 نمبر 46‘ 47 مؤرخہ17‘ 24 ستمبر 1903ء صفحہ 15
و کاپی الہامات صفحہ 19 ‘ بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ)
22 نومبر1903ء
یکم رمضان 1321ھ ’’ مَااَحْسَنَ شَانَک1۔سخت بیماری کے وقت دعا کی گئی تھی۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 19‘20)
23 نومبر1903ء
’’2 رمضان میں مَیں نے دیکھا کہ سلطان احمد کی تائی مسماۃ حرمت بی بی ایک مکان پر جو سِکھوں کے دھرمسالہ سے مشابہ ہے میرے پاس آئی اور لڑائی کا ارادہ رکھتی ہے اور کھڑی ہوکر میری طرف ایک سوٹا چلایا جو سیاہ رنگ کا تھا۔ مَیں نے اپنی سفید سوٹی سے اس کو روک دیا۔ بعد اس کے مَیں نے اس کو کہا کہ اگر مَیں نفسانی آدمی ہوں تو تم مجھے فنا کرسکتی ہو لیکن اگر مَیں نفسانی آدمی نہیں تو تم مجھے فنا نہیں کرسکتیں۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 19)
26 نومبر1903ء
’’میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 19)
1 (ترجمہ از مرتّب) تیراحال کیسا اچھا ہے۔
26 نومبر1903ء
’’ 1 اِنِّیْ اُمِّرْتُ مِنَ الرَّحْمٰنِ فَاْتُوْنِیْ اَجْمَعِیْنَ۔ اِنِّیْٓ اُمِّرْتُ مِنَ الرَّحْمٰنِ فَاْتُوْنِیْ اَجْمَعِیْنَ۔ اِنِّیْٓ اُمِّرْتُ مِنَ الرَّحْمٰنِ فَاْتُوْنِیْ اَجْمَعِیْنَ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 19)
26 نومبر1903ء
’’ 2 لَکَ الْفَتْحُ وَلَکَ الْغَلَبَۃُ۔‘‘
(الاستفتاء عربی صفحہ 76۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702)
نومبر1903ء
’’ 2ہماری فتح‘ ہمارا غلبہ ‘‘
(الحکم جلد 7نمبر 46‘ 47 مؤرخہ 17‘ 24 دسمبر 1903ء صفحہ 15۔ البدر جلد 3 نمبر 1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ 6)
2 دسمبر1903ء
’’ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ گھر میں مَیں ایک جگہ بیٹھا ہوں یکدفعہ وہ چوبارہ جس میں اخی مولوی عبدالکریم صاحب رہتے ہیں گِرا اور تمام گِر کے نیچے آپڑا اور اس کے گرنے کا بہت صدمہ ہوا ‘ اور بڑی آواز آئی ۔ اسی وقت میرے خیال میں آیا کہ غلام قادر میرا بھائی چوبارہ میں تھا۔ شاید وہ دَب کر مرگیا۔ پھر دوبارہ دل میں ڈالا گیا کہ وہ اس چوبارہ میں نہیں تھا۔ وہ بچ گیا ہے۔ یہ خواب ہے جو آج بارھویں روزہ کی رات میں بدھ کے دن کی رات کو مَیں نے دیکھی۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس کے بَد اثر سے مجھے اور میرے تمام عیال اطفال اور میرے دوستوں کو بچاوے ۔ آمین ثم ّ آمین۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ 20)
1 (ترجمہ از مرتّب) مَیں خدائے رحمٰن کی طرف سے امیر بنایا گیا ہوں پس تم سب میرے پاس آؤ۔
2 (ترجمہ از مرتّب) تیرے لئے فتح ہے اور تیرے لئے غلبہ۔
3 ’’سعداللہ کی اِس پیشگوئی کے پُوراہونے کے متعلق ایک مجلس میں ذکر تھا۔۔۔ایک۔۔۔خادم نے عرض کیا کہ یہ امر شاید قبل از وقت ہو۔ اس پر حضرت اقدس نے بزور کہا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوچکی ہے اورہمیں اس میں کوئی تامل نہیں ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اِس بات کو جھوٹا نہیں کرے گا اور اس میں فتح ہماری ہے۔ اس پر حضرت کو الہام ہؤاجو الحکم میں 30نومبر1906ء کو چھاپ دیا گیا۔ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ۔ اورابھی اِس الہام پر تھوڑاہی عرصہ گذرا تھا کہ 4جنوری کی شب کو لدھیانہ کے ایک تارنے خبردی کہ سعداللہ فوت ہوگیا۔‘‘ (الحکم جلد11 نمبر1 مورخہ 10 جنوری 1907ء صفحہ 15)
4 دسمبر1903ء
’’مطابق 14 رمضان المبارک۔ جب یہ توجہ کی گئی کہ حمل والدہ محمود نکالنا بہتر ہے یا نہیں تو اس وقت بوقت قریب اڑھائی بجے رات کے یہ الہام ہوا:۔
1 وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُونَ بَلَآئٌ وَّاَنْوَارٌ ۔ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ ثُمَّ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ۔
خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود ۔ خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود۔ بسترِ عیش۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ20 2)
5 دسمبر1903ء
خواب۔’’ہمارے مکان کے متصل ایک بڑا چبوترہ ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اِس جگہ ایک لمبا دالان مہمانوں کے واسطے بنایا جائے ۔ پھر ہم نے دعا کی کہ بن 3جاوے۔
(الحکم جلد 2 نمبر 46‘47 مؤرخہ 17‘ 24 دسمبر 1903ء صفحہ 15۔ البدر جلد 3 نمبر 1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ 6 حاشیہ)
5 دسمبر1903ء
حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بمقام گورداسپور اپنی جماعت کے موجود اور غیر موجود خدام کیلئے عام طور پر دعائیں کیں۔ جو موجود تھے یا جن کے نام یاد آگئے ان کا نام لے کر ‘ اور کل جماعت کیلئے عام طور پر دعا کی جس پر یہ الہام ہوا:
فَبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ 4
(البدر جلد 3 نمبر 1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ 6 حاشیہ ۔الحکم جلد7 نمبر 46‘47 مؤرخہ 17‘ 24 دسمبر 1903ء صفحہ 15)
1 (ترجمہ از مرتب)اور اللہ تعالیٰ نکالنے والا ہے جو کچھ کہ تم چھپاتے ہو۔ آزمائش اور انوار۔ مَیں رحمن خدا ہوں۔ پھر(مَیں کہتا ہوں) مَیں رحمن خدا ہوں۔ خوش ہو کہ انجام نیک ہوگا۔
٭ اس الہام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
آج 25 جون 1904ء روز شنبہ کو یعنی اس رات کو جو جمعہ کا دن گذرنے کے بعد آتی ہے مطابق 10 ربیع الثانی 1322ھ اور دہم ہاڑ 1956 میرے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی اور اس کا نام امۃ الحفیظ رکھا گیا۔ یہی وہ لڑکی ہے جس کے متعلق الہام ہوا تھا ’’وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُون۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ30)
2 نیز دیکھئے البدر جلد 3 نمبر 1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ 6‘ الحکم جلد 7 نمبر 46‘ 47 مؤرخہ 17‘ 24 دسمبر 1903ء صفحہ 15 لیکن ان میں’’اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ ثُمَّ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰن‘‘ درج نہیں۔
3 سو ایسا ہی ہوا۔ بجائے ایک دالان کے اس پلیٹ فارم پر قریباً سارا مہمان خانہ اور مدرسہ احمدیہ تعمیر ہوگیا۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) پس مومنوں کیلئے خوشخبری ہے۔
12 دسمبر1903ء
اِنِّیْ حِمَی الرَّحْمٰنِ
(مَیں خدا کی باڑ ہوں1) فرمایا یہ خطاب میری طرف ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعدا طرح طرح کے منصوبے کرتے ہوویں گے۔ ایک شعر بھی اِس مضمون کا ہے
اے آنکہ سُوئے من بد ویدی بصد تبر از باغباں بترس کہ من شاخِ مثمرم
( البدر جلد 2 نمبر48 مؤرخہ 24 دسمبر 1903ء صفحہ 383)
17 دسمبر1903ء
’’2 تَرٰی نَصْرًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ اُرِیْحُکَ وَلَآ اُجِیْحُکَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَّوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ اُرِیْحُکَ وَلَآ اُجِیْحُکَ۔ اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآئَ کَ۔ کَمَّلَ اللّٰہُ اِعْزَازَکَ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ21)
18 دسمبر1903ء
’’کُلُّکُمْ ذَاھِبٌ ۔ ضرور کامیابی۔ اَکْمَلَ اللّٰہُ کُلَّ مَقْصِدِیْ۔ کُلُّ اَمْرِیْ کُمِّلَ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَقْصِدُکَ وَاَرُوْمُ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ اُرِیْحُکَ وَلَآ اُجِیْحُکَ۔3‘‘
( البدر جلد 3 نمبر 1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ 6 ۔الحکم جلد7 نمبر 46‘47 مؤرخہ 17‘ 24 دسمبر 1903ء صفحہ 15)
1 کاپی الہامات صفحہ 21 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ ’’میں ہوں خدا کی چراگاہ‘‘ بھی تحریر فرمایا ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) تُو اللہ کی طرف سے نصرت دیکھے گا۔ تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مَیں تجھے راحت دوں گا اور تجھے نہ مٹاؤں گا۔ یقینا اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متّقی اور نیکو کار ہیں۔ رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد ہی غالب ہوجائیں گے۔ یقینا اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو محسن ہیں۔ مَیں تجھے راحت دوں گا اور تجھے نہیں مٹاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ تجھے لمبی عمر تک باقی رکھے۔ اللہ تعالیٰ تیرا اعزاز مکمل فرمائے۔
3 (ترجمہ از مرتب)تم میں سے ہر ایک چل بسنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرا تمام مقصد پورا کردیا۔ میرا سارا کام مکمل ہوگیا۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور مَیں تیری طرف توجہ اور ارادہ کروں گا۔ تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا۔
(نوٹ از مرتب)الحکم میں الہام اُرِیْحُکَ وَلَآ اُجِیْحُکَ نہیں ہے نیز الہام ’’ضرور کامیابی ‘‘ بھی نہیں ہے۔ کاپی الہامات صفحہ 21 میں 18 دسمبر کے ان الہامات میں فرق ہے۔ الہام اَعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ زائد ہے اور الہام نمبر 6 و 7 درج نہیں۔
19 دسمبر1903ء
’’ (1) کَبُرَ عِنْدَاللّٰہِ مَوْتُ ھٰذَا الرَّجُلِ۔1‘‘
’’ (2) اولاد کے ساتھ ملائم سلوک کیا جائے گا۔2‘‘
( البدر جلد 3 نمبر 1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ 6۔ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ21)
19 دسمبر1903ء 3
’’رؤیا میں دیکھا کہ کوئی کہتا ہے زلزلہ کا ایک دھکہ۔ مگر مَیں نے کوئی زلزلہ محسوس نہیں کیا۔ نہ دیوار‘ نہ مکان ہلتا تھا۔ بعد ازاں الہام ہوا:۔
4 اِنّ اللّٰہَ لَا یَضُرُّ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ تَرٰی نَصْرًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَھُمْ5 یَعْمَھُوْنَ۔‘‘
( البدر جلد 3 نمبر 1 مؤرخہ یکم جنوری 1904ء صفحہ 6 ۔الحکم جلد7 نمبر 46‘47 مؤرخہ 17‘ 24 دسمبر 1903ء صفحہ 15)
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی موت کا واقعہ بڑا بھاری ہے۔
2 سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے 8 مارچ 1956ء کو اپنے بیٹے صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور آپ سلسلہ سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ جب وہ یکم جنوری 1904ء کو فوت ہوئے تو دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں صبح کی نماز کیلئے تشریف لائے اور فرمایا آج مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے۔‘‘
حاضرین مجلس نے کہا کہ حضور کے اہل بیت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ پھر یہ الہا م کس شخص کے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا خان محمد خان صاحب کپورتھلوی کل فوت ہوگئے ہیں اور یہ الہام مجھے انہی کے متعلق ہوا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ نے الہام میں انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا ہے۔
پھر ان کے متعلق یہ الہام بھی ہوا کہ ’’ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا۔‘‘
(الفضل 23 نومبر 1960ء بحوالہ خطبات محمود جلد سوم صفحہ 678)
(نوٹ از حضرت عرفانی صاحب ؓ) منشی محمد خان صاحب افسربگی خانہ کپورتھلہ تھے۔ جب ان کی وفات ہوئی اِس جگہ کیلئے کپورتھلہ کے کئی شخص امیدوار تھے ......اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ وحی بتادیا تھا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا چنانچہ (حضرت منشی محمد خان صاحب ؓ کے فرزند ِ اکبر) منشی عبدالمجید خان صاحب افسر بگی خانہ مقرر ہوئے اور بالآخر ترقی کرتے کرتے وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوئے اور اسی عہدے سے پنشن پائی۔ (مکتوباتِ احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحہ 64‘ 65)
3 یہ تاریخ حضور کے الہامات کی کاپی صفحہ 21 میں درج ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ ضرر نہیں پہنچائے گا۔ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں اور جو نیکو کار ہوں ۔ تُو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد دیکھے گا اور وہ بہکتے رہیں گے۔
5 حضور ؑ کے الہامات کی کاپی صفحہ 21 میں وَاِنَّھُمْ یَعْمَھُوْنَ ہے۔ (مرتب)
2 جنوری 1904ء 1
’’13 جنوری کو حضرت اقدس ؑ نے فرمایا۔ چند روز ہوئے ہم نے دیکھا کہ اُس رُوڑی پر جو گلی کے سرے پر ہے ایک کوٹھا (کمرہ ) ہے۔ اُس کوٹھے نے دعا کی اور جس کوٹھے میں ہم رہتے ہیں اُس کوٹھے نے آمین کہی۔ دعا برکات وغیرہ کیلئے تھی۔‘‘
( الحکم جلد8 نمبر2 مؤرخہ 17 جنوری 1904ء صفحہ 2)
2 جنوری1904ء
’’میری کھانسی کیلئے الہام:۔
اِنشاء اللہ خیرو عافیت۔ خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود۔2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
2 جنوری1904ء
’’فَضْلٌ یَّسِیْرٌ۔3‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
2 جنوری1904ء
’’ایک کتاب دیکھی جس کے اوّل سطر میں بہشت کا ذکر کیا ہے ا ور پھر نارنول کا۔ گویا جگہ اس کی نارنول ہے جو ایک شہر ہے۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
3 جنوری1904ء
’’4 اِنِّیْ سَاَنْصُرُکَ۔ نصرت و فتح و ظفر تابست* سال ۔ اِنِّیْ اَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَا اَنْ تُفَنِّدُوْنِ۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
1 یہ تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاما ت کی کاپی صفحہ 22 میں درج ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) خوش ہو کہ انجام اچھا ہوگا۔
3 (ترجمہ از مرتب) آسان فضل۔
4 (ترجمہ از مرتب) مَیں تجھے جلد ہی مدد دوں گا۔ نصرت اور فتح اور ظفر بیس 20 سال تک۔ مَیں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ کہو۔
☆ یہ الہام 4 جنوری اور 27 جنوری 1904ء کا ہے۔ 1904ء میں بیس سال جمع کرنے سے 1924ء بنتا ہے۔ مذکورہ الہام میں 1924ء کی طرف اشارہ ہے جب مسجد فضل لندن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ چنانچہ اب جو عظیم عالمی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ان کا تعلق اسی مسجد سے ہے اور یہی سال طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنَ الْمَغْرِبِ کا آغاز اور عالمی فتح و ظفر کی ابتداء ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس رؤیا کی تعبیر ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے حضور تحریر فرماتے ہیں:۔ بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ کریں۔
4 جنوری1 1904ء
’’غُلِبَتِ2 الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز اُردو صفحہ 40 پرچہ ماہ جنوری 1904ء)
8 جنوری1904ء
’’3 طُوَّلَ اللّٰہُ عُمُرَکَ اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآئَ کَ۔کَمَّلَ اللّٰہُ اِعْزَازَکَ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
9 جنوری1904ء
’’4 اِنِّیْ رَئَیْتُ فَخِذَیْ شَاۃٍ مَسْلُوْخَۃٍ طَرِیَّتَیْنِ۔ اَرَانِیْٓ اَحَدٌ وَّھُمَا فِیْ یَدَیْہِ مَآ اَعْلَمُ ذَھَبَ بِھِمَآ اَوْبَقِیَ قَآئِمًا۔ رَبِّ احْفَظْنِیْ وَ زَوْجِیْ وَوُلْدِیْ وَاَحْبَابِیْ وَاَوْلَادَ اَحْبَابِیْ مِنْ شَرِّھٰذِہِ الرُّؤْیَا۔ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ اٰمِیْن۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ:
’’ ایسا ہی طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر بہرحال ایمان لاتے ہیں۔ لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفروظلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کررہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا۔ سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 376‘ 377) (مرتب)
1 کاپی الہامات صفحہ 22 پر اس الہام کی تاریخ نزول 2 جنوری لکھی ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) اہل روم نزدیک کی زمین میں مغلوب کئے جائیں گے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غلبہ پائیں گے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اللہ تیر عمر دراز کرے ۔ اللہ تعالیٰ تجھے دیر تک باقی رکھے۔ خدا تیرا اعزاز کامل کرے۔
4 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے کھال اُتری بکری کی دو تازہ رانیں دیکھیں۔ کسی نے مجھے دکھائیں جو اس کے ہاتھ میں تھیں۔ مَیں نہیں جانتا کہ وہ ان کو لے گیا یا لئے کھڑا رہا۔ اے میرے رَبّ اس رؤیا کے شر سے میری حفاظت فرما اور میری بیوی کی اور میری اولاد کی اور میرے دوستوں اور دوستوں کی اولاد کی۔ یقینا تُو ہر چیز پر قادر ہے۔ آمین
9 جنوری1904ء
’’لَا تَثَرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاتُوْنِیْ بِاَھْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ1۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
9 جنوری1904ء
’’مَیں نے دیکھا کہ گویا مبارک کے بدن پر کچھ لرزہ ہے۔ مَیں اس کو گولی دینا چاہتا ہوں اور باہر قاضی ضیاء الدین کھڑا ہے مَیں چاہتا ہوں اس کو ایک روپیہ شیرینی لانے کیلئے دوں۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ22)
13 جنوری1904ء
’’رؤیا ۔ مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ چلے جائیں ۔ مَیں قادیان کو چلا گیا ہوں اور مَیں وضو کررہا ہوں اور فکر میں ہوں کہ ہم کیوں چلے آئے ۔ مچلکہ دیا ہوا تھا خواجہ کمال الدین صاحب سے مشورہ کرلیتے۔‘‘
(الحکم جلد 8 نمبر 2 مؤرخہ 17 جنوری 1904ء صفحہ 2)
14 جنوری1904ء
’’قریباً دو بجے رات کے الہام ہوا:۔
2 اَرَادْتُ اَنْ تَسْتَفْتِحَ
(الحکم جلد 8 نمبر 2 مؤرخہ 17 جنوری 1904ء صفحہ 2)
14 جنوری1904ء
رؤیا۔ فرمایا:’’ ہم ایک جگہ جارہے ہیں۔ ایک ہاتھی دیکھا۔ اُس سے بھاگے اور ایک اَور کُوچہ میں چلے گئے۔ لوگ بھی بھاگے جاتے ہیں۔ مَیں نے پوچھا کہ ہاتھی کہاں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ کسی اَور کُوچہ میں چلا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک نہیں آیا۔‘‘
پھر نظارہ بدل گیا۔ گویا گھر میں بیٹھے ہیں۔ قلم پر مَیں نے دو نوک لگائے ہیں جو ولایت سے آئے ہیں۔ پھر مَیں کہتا ہوں یہ بھی نامَرد ہی نکلا۔ اس کے بعد الہام ہوا:۔
اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ۔3‘‘
(الحکم جلد 8 نمبر 2 مؤرخہ 17 جنوری 1904ء صفحہ 2)
1 (ترجمہ از مرتب) آج تم پر کوئی ملامت نہیں ۔ پس تم سب اپنے اہل سمیت میرے پاس آؤ۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں چاہتا ہوں کہ آپ فتح کیلئے دعا کریں۔
3 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ یقینا غالب ہے اور سزا دینے کی طاقت رکھتا ہے۔
27 جنوری1904ء
(1) ’’ نصرت و فتح و ظفر تابست سال۔‘‘
(2) ’’رَأَیْتُ زَوْجَتِیْ مَحْلُوْقَ الرَّأْسِ مَا اَعْلَمُ تَعْبِیْرُہٗ اَللّٰھُمَّ اصْرِفْ سُوْٓئَ ھٰذَا الرُّؤْیَا عَنِّیْ وَعَنْ زَوْجَتِیْ وَعَنْ وَلَدِیْ۔ اٰمِیْن۔1
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
8 فروری1904ء
فرمایا :۔’’کھانسی کی شدت بہت ہوتی تھی اور بعض وقت حالت جان کندنی کی سی ہو جاتی تھی اور کوئی اُمّید زندگی کی باقی نہ رہتی تھی کہ مجھے الہام ہوا:۔
اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہ اَفْوَاجًا۔ 2
اس کی تفہیم یہ ہوئی کہ موت کا جو خیال کرتے ہو وہ غلط ہے۔ یہ اُس وقت ہوگی جب خدا کی فتح اور نصرت ہوگی اور لوگ فوج دَر فوج اِس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر 8 مؤرخہ 24 فروری 1904ء صفحہ 2۔ الحکم جلد8 نمبر 6 مؤرخہ 17 فروری 1904ء صفحہ 6)
15 فروری1904ء
’’دیکھا کہ دو پیاز ہاتھ میں ہیں۔ اور پھر آپ کو ایک کوٹھا پیازوں کا دکھایا گیا مگر اس کوٹھے کو کسی نے ایسی لات ماری کہ وہ اندر ہی اندر غرق ہوگیا اور ایک الہام ہوا:۔
لَعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًی۔3 ‘‘
(البدر جلد 3 نمبر11 مؤرخہ16 مارچ 1904ء صفحہ 2حاشیہ۔ الحکم جلد8 نمبر 6 مؤرخہ 17 فروری 1904ء صفحہ 4)
24 فروری1904ء
’’مَیں نے دیکھا کہ ایک سُرخ جوتا میرے سامنے رکھا گیا ہے اور ایک سنہری جوتا عمدہ کسی اَور کو بھیجا گیا ہے۔ خیال گذرتا ہے کہ وہ میری جماعت میں سے ہے۔ شاید خواجہ کمال الدین ہیں ۔ ایسا ہی خیال گذرتا ہے۔واللہ اعلم۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے (رؤیا میں ) دیکھا کہ میری اہلیہ کا سر منڈھا ہوا ہے۔ مَیں اس کی تعبیر نہیں جانتا۔ اے اللہ ! اس رؤیا کے بد اثرات مجھ سے ‘ میری اہلیہ سے اور میری اولاد سے دُور فرمادے۔ آمین۔
2 (ترجمہ از مرتب) جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور لوگوں کو تم اللہ کے دین میں فوج دَر فوج داخل ہوتے دیکھو گے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اُمّید ہے کہ مَیں تمہارے پاس ا س میں سے کوئی انگارہ لے آؤں یا اس آگ کے پاس مجھے رہنمائی مل جائے۔
24 فروری1904ء
’’ مَیں نے دیکھا کوئی کہتا ہے کہ فلاں شخص کی جگہ شیخ آیا۔ خیال گذرتا ہے کہ چندو لال کی جگہ آیا۔ واللہ اَعلم۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
29 فروری1904ء
’’میدان میں فتح خدا تجھے دے گا ‘‘
(ضمیمہ اخبار البدر جلد 3 نمبر 11 مؤرخہ 16 مارچ 1904ء صفحہ 10 حاشیہ نیز کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
یکم مارچ1904ء
’’تمہارا نام ہے علی باس‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
2 مارچ1904ء
’’وقت صبح کے دیکھا کہ ایک کاغذ کا تھیلہ ہے جو روپیہ سے بھرا ہوا ہے وہ مجھ کو کسی نے دیا اور مَیں نے لے لیا اور رومال سفید میں اس کو باندھنے لگاہوں اور باندھتے وقت یہ دعا پڑھی رَبِّ اجْعَلْ بَرَکَۃً فِیْہِ اور یہ کلمہ بطور الہام تھا اور غنودگی ہوگئی اور دیکھا کہ ایک ٹوکرا انگوروں کے ڈبوں کا بھرا ہوا آیا ہے۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
11 مارچ1904ء
’’بُشْرٰی لَکَ یَا غُلَامَ اَحْمَدَ 1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
13 مارچ1904ء
’’مَیں نے دیکھا کہ گویا ہولیوں کے دن ہیں۔ بہت ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہولی میں مشغول ہیں۔ چند بڑی مسجد میں جہاں مَیں کھڑا ہوں آئے ہیں۔ پھر مَیں بازار کے اندر آیا ہوں اور غول کے غول ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے کھڑے ہیں۔ ایک گروہ کے پاس جو مَیں جاتا ہوں تو کہتا ہوں خبردار مَیں مسلمان ہوں۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
15 مارچ1904ء
’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں نے اپنے مقدمہ میں دو معتبر آدمی حاکم کی طرف بھیجے ہیں اور پھر مَیں گیا ہوں اور جاکر پلنگ پر بیٹھ گیا ہوں اور اس وقت سلطان احمد میرے ساتھ ہے اور مَیں نے
1 (ترجمہ از مرتب) اے غلام احمد تجھے بشارت ہو۔
دیکھا کہ وہ دونوں فرستادہ میرے وہاں موجود ہیں اور ایک ہندو بیٹھا ہے جو مخالف ہے وہ دیکھتے ہی حاکم کو کہنے لگا کہ اَب مَیں جاتا ہوں۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ23)
26 مارچ1904ء
’’ مَیں نے عبدالرحمن خان خلف نواب محمد علی خان صاحب کیلئے دعا کی۔ صبح کے وقت بطور کشف مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ رات کا وقت ہے اور کوئی کہتا ہے روشنی ہوگئی ‘ روشنی ہوگئی۔ پھر کوئی کہتا ہے کہ آسمان پر روشنی ہے۔ جب مَیں نے آسمان پر نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک یا دو 2 لکیریں سُنہری رنگ کی آسمان پر شمالاً و جنوباًہیں ۔ اور پھر آنکھ کھل گئی۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ4 2)
27 مارچ1904ء
’’بادشاہِ وقت پر جو تِیر چلاوے ۔ اُسی تِیر سے وہ آپ مارا جاوے ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ5 2۔ بدر جلد 1 نمبر 11 مؤرخہ 15 جون 1905ء صفحہ 2)
27 مارچ1904ء
’’اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ 1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ5 2۔ البدر جلد 3 نمبر15 مؤرخہ 16 اپریل 1904ء صفحہ 4 حاشیہ)
31 مارچ1904ء
’’خواب میں دیکھا کہ مَیں آگ کے پاس کھڑا ہوں اور دامن میرا آگ میں پڑ گیا مگر آگ اس کو چھُو بھی نہیں گئی۔ بعد اس کے الہام ہوا:۔
خدا کا فضل ۔ خدا کی رحمت۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ25)
2 اپریل1904ء
’’عُلیا بیگم ۔ پھر دیکھا کہ مُنشی جلال الدین آگئے۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ25)
6 اپریل1904ء
’’مَیں نے دیکھا کہ ایک عورتوں میں سے عورت ہے۔ اس کے بھائی اور ایک بیٹا فوت ہوگیا ہے۔ کچھ خدا کی طرف سے تنبیہہ ہے۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ25)
1 (ترجمہ از مرتب) تیرا دشمن اَبتر رہے گا۔
12 اپریل1904ء
(1) ’’صحت اور تندرستی(2) اَجَرتُ مِنَ النَّارِ 2
(3) اے بسا خانۂ دشمن کہ تُو ویراں کردی (4) جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے۔3 ‘‘
( الحکم جلد8 نمبر 13 مؤرخہ 24 اپریل 1904ء صفحہ 1۔البدر جلد 3 نمبر 15 مؤرخہ 16 اپریل 1904ء صفحہ 4 حاشیہ)
16 اپریل1904ء
’’فجر کے وقت فرمایا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک سڑک ہے جس پر کوئی کوئی درخت ہے اورایک مقام دارہ ( فقراء کے تکیہ وغیرہ) کی طرح ہے۔ مَیں وہاں پہنچا ہوں۔ مفتی محمد صادق میرے ساتھ تھے۔ دو چار اَور دوست بھی ہمراہ تھے لیکن اُن کے نام اور وہ حصہ خواب کا بھُول گیا ہوں۔ آخر سڑک کے کنارہ آیا تو ایک مکان دیکھا جو کہ میرا یہ (سکونتی) مقام معلوم ہوتا ہے لیکن چاروں طرف پھرتا ہوں ‘ اُس کا دروازہ نہیں ملتا اور جہاں دروازہ تھا وہاں ایک پختہ عمارت کی دیوار معلوم ہوتی ہے۔ فجو (فضل النساء) سفید کپڑے پہنے بیٹھی ہے اور اُس کے ساتھ فجا (فضل) بھی ہے لیکن فجے کی ایک اُنگلی پر خفیف سا زخم ہے جس سے وہ روتا ہے۔ فجے نے آکر ایک ستون جیسی دیوار کو صرف ہاتھ ہی لگایا ہے کہ وہا ں ایک دروازہ بڑی پھاٹک کی طرح ایسے کھُل گیا ہے جیسے ایک پینچ کے دبانے سے بعض کل دار دروازے کھُل جاتے ہیں۔جب اُس دروازہ کے اندر داخل ہوا تو کسی نے کہا کہ یہ دروازہ فضل الرحمن نے کھول دیا ہے۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر16‘17 مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904ء صفحہ 6۔کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السّلام صفحہ5 2)
17 اپریل1904ء
’’اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔4‘‘
کہنہ ’’اَفَا تَّخَذْ تُمْ عِنْدِ اللّٰہِ عَھْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ عَھْدَہٗ ۔5‘‘
’’مَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّابِاِذْنِ اللّٰہِ۔6‘‘
1 الہام نمبر 1 صحت اور تندرستی البدر میں نہیں ہے۔ نیز کاپی الہامات میں صرف الہام نمبر 3 درج ہے۔ (مرتب)
2 مَیں نے آگ سے بچالیا۔
3 ’’یہ الہامات 12 اپریل کو دس 10 بجے کے قریب جب آپ دعا کررہے تھے ہوئے طاعون کی کارروائی کے متعلق ہیں ۔‘‘
( الحکم جلد8 نمبر 13 مؤرخہ 24 اپریل 1904ء صفحہ 1)
4 (ترجمہ از مرتب) مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا۔
5 (ترجمہ از مرتب) کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لیا ہوا ہے جس پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔
6 (ترجمہ از مرتب) کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اِذن کے بغیر مر نہیں سکتا۔
(3) ’’ وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِشِفَآئٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۔1‘‘
(4)’’ یَاوَلِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَآ اَعْرِفُکَ۔ 2‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 26)
19 اپریل1904ء
’’ایک رؤیاکے بعد الہام ہوا:۔
مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا 3
اِس الہام کو سُناتے وقت حضور ؑ نے فرمایا کہ دیکھو اِس مسجد پر بھی یہی الہام لکھا ہوا ہے جو پچیس برس کے قریب کا ہے۔‘‘ (الحکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 24 اپریل 1904ء صفحہ 1)
19 اپریل1904ء4
’’فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کیلئے اور قادیان کیلئے دعا کررہا تھا تو یہ الہام ہوا:۔
(1) زندگی کے فیشن سے دُور جاپڑے ہیں۔
(2) فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔5‘‘
فرمایا : میرے دل میں آیا کہ اس پِیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسُوب کیا گیا ہے۔ اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بَیت الدّعا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے
یَا رَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَ مَزِّقْ اَعْدَآئَ کَ وَاَعْدَآئِیْ وَ اَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْعَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَلَاتَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا 6
اِس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا
1 (ترجمہ) یعنی اگر تمہیں اُس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اَور شفا پیش کرو۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 37۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 209)
2 (ترجمہ ) یعنی اَے خدا کے ولی ! مَیں تجھ کو پہچانتی نہ تھی۔ (سراجِ منیر صفحہ 78۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 80)
3 (ترجمہ) جو اس میں داخل ہوگا وہ خطرات سے محفوظ ہوجائے گا۔
4 یہ تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے الہامات کی کاپی صفحہ 26 میں لکھی ہے۔ تاہم الہامات کی ترتیب مختلف ہے۔ (مرتب)
5 (ترجمہ) پس پیس ڈال اُن کو خوب پیس ڈالنا۔
6 (ترجمہ از مرتب) اے میرے رَبّ! تو میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما اور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ۔
وقت ہے ۔
پھر فرمایا ۔ ہمیشہ سے سُنّت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں اُن کو ہٹادیا کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں۔ ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح ان اُمور کو ظاہر کررہا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 24 اپریل 1904ء صفحہ 1)
1904ء
’’پھر فرمایا کہ اس کے بعدرؤیاہوئی کہ
ایک عورت قرآن پڑھ رہی تھی۔ اس سے اپنی جماعت کی نسبت تفاؤل کی نیت سے پوچھا کہ پہلی سطر پر اوّل کیا لفظ ہے تو اس نے کہا کہ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
مَیں نے سمجھا کہ یہ جماعت کیلئے ہے۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر 16‘17مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904ء صفحہ 6۔ الحکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 24 اپریل 1904ء صفحہ 1 ‘ باختلاف الفاظ)
20 اپریل1904ء1
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ۔2‘‘
(البدر جلد 3 نمبر 16‘17مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904ء صفحہ8۔ الحکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 24 اپریل 1904ء صفحہ 1 )
’’عرش پر آپ نے فرمایا کہ یہ لفظ اِس لئے بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلّیات ِ جمالی و جلالی کا اتم مظہر عرش ہے اور مسیح موعود اتم مظہر صفات ِ جمالیہ کا ہے جو کہ اِس وقت ظاہر ہورہی ہیں اور اِس لئے کل انبیاء کے ناموں سے مجھے خطاب کیا گیا ہے تاکہ اُن کے کل صفات کا مظہرِ تام مَیں ہوجاؤں۔ خدا تعالیٰ کی صفات مُحیی و ممیت برابر کام میں زور سے لگی ہوئی ہیں۔ ایک طرف تو لوگ زندہ ہورہے ہیں اور ایک طرف مَر رہے ہیں۔ پس چونکہ ان ایام میں خدا کی صفات اپنی پوری تجلّی سے کام کررہی ہیں اس مناسبت کے لحاظ سے عرش کہا گیا ہے۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر 16‘17مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904ء صفحہ8)
1 کاپی الہامات صفحہ 26 پر ان الہامات کی ترتیب مختلف ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) تُو میرے نزدیک وہ مقام رکھتا ہے جس سے تمام مخلوق ناواقف ہے۔ تُو میرے نزدیک بمنزلہ عرش کے ہے۔
22 اپریل1904ء
’’اِنَّ اللّٰہَ حَافِظُ کُلِّ شَیْئٍ1۔ اُذْکُرْ عَلَیْکَ نِعْمَتِیْ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ 2۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28)
28 اپریل1904ء
’’3اِعْمَلُوْ ا مَاشِئْتُمْ۔ اِنِّیْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ۔ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ۔ اِنِّیْٓ اَمَرْتُ لَکُمْ۔(اَیْ اَمَرْتُ الْمَلَآئِکَۃَ4) زَادَ اللّٰہُ عُمُرَکَ۔ اُذْکُرْنِعْمَتِیْ5۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر 16‘17مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904ء صفحہ8 وغیر معمولی پرچہ الحکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 28 اپریل
1904ءحاشیہ۔ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28)
28 اپریل1904ء
امن است درمکانِ محبت سرائے ما 6
اور ایک خواب میں معلوم ہوا کہ طاعون تو گئی مگر بخار رہ گیا۔ ‘‘
(غیر معمولی پرچہ الحکم جلد 8 نمبر 13 مؤرخہ 28 اپریل 1904ء ۔البدر جلد 3 نمبر 16‘17مؤرخہ 24 اپریل و یکم مئی 1904ء صفحہ8 )
1 ترجمہ از مرتب) یقینا اللہ ہر چیز کی حفاظت کرتا ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) یا د کر میری نعمت کو جو تجھ پر کی۔ مَیں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگایا۔
3 (ترجمہ از مرتب) کرو جو چاہو۔ مَیں نے تمہیں گناہوں سے محفوظ کرلیا ہے۔ انشاء اللہ تم محفوظ ہو۔ کرو جو تم چاہتے ہو۔ مَیں نے تہارے لئے فرشتوں کو حکم دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تیری عمر بڑھا دی۔ میر ی نعمت کو یاد کر۔ مَیں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگادیا ہے۔
4 کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28 میں اَلْمَلٰٓئِکَۃُ کے بعد لَکُمْ کا لفظ ہے۔
5 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک انگوٹھی جو حضور ؑ کی وفات کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے حصہ میں آئی تھی اس میں یہ عبارت کندہ ہے اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ اور تاریخ 1312 ہجری درج ہے:
اس انگوٹھی کا عکس یہ ہے:۔ ممکن ہے کہ یہ الہام نیا ہو یا ان دو 2 الہاموں کو جو تذکرہ کے صفحہ 72 و صفحہ 75 میں آچکے ہیں انگوٹھی میں کندہ کرادیا ہو۔ (مرتب)
6 (ترجمہ از مرتب) ہمارا مکان جو ہماری محبت سرائے ہے اس میں ہر طرح سے امن ہے۔
اپریل1904ء
’’کوریا خطرناک حالت میں ہے۔ مشرقی طاقت۔1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28)
29 اپریل1904ء
’’اِنَّنِیْ فِی الْکِتَابِ مَسْطُوْرٌ 2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28)
29 اپریل1904ء
’’دُنیا با مّید قائم۔ فَتَحْنَا عَلَیْکَ اَبْوَابَ الدُّنْیَا۔3‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28)
30 اپریل1904ء
’’اُعْطِیْتُمْ کُلَّ النَّعِیْمِ۔ تُرْزَقُوْنَ مِنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ4۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28)
1 یڈیٹر صاحب اخبار الحکم لکھتے ہیں:’’ جب جاپان اور روس کی لڑائی شروع ہوئی ہے اور ابھی کوئی میدان جاپان نے نہیں مارا تھا حضرت اقدس کو ایک الہام ہوا تھا ’’ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت۔‘‘ اِس الہام کو ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ جانتا ہے خصوصاً وہ لوگ جو دارالامان میں رہتے ہیں۔ میری غفلت سے یہ اخبار میں پہلے شائع نہیں ہوسکا۔ اِس وقت میری غرض اِس الہام کے اندراج سے یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ عالیہ کے ساتھ اس مشرقی طاقت کو کوئی مناسبت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 24 مؤرخہ 10 جولائی 1905ء صفحہ 10)
(نوٹ از مرتب) روس اور جاپان کی جنگ سے پہلے کوریا پر روس کا اقتدار تھا۔ یہ جنگ 27‘ 28 مئی 1905ء کو ختم ہوئی اور معاہدہ صلح مرتب کیا گیا۔ اس معاہدہ صلح میں سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ کوریا میں جاپان کا پورا اقتدار رہے گا۔ گویا مشرقی طاقت (جاپان ) کے غلبہ اور کوریا کے مفتوح ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی واضح رنگ میں پوری ہوگئی۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ پیشگوئیوں کے ظہو رتعدد و قوع میں مثانی کا حکم رکھتے ہیں اب جو اُفق ِ سیاست پر مشرقی طاقت کا نیا ستارہ طلوع ہورہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ واقعاتِ آئندہ اس الہامی پیشگوئی کی ایک نئی تفسیر پیش کریں گے ‘ انشاء اللہ تعالیٰ۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں کتاب میں لکھا ہوا ہوں ۔ یعنی میرا کتاب میں ذکر ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) دُنیا اُمّید پر قائم ہے۔ ہم نے تجھ پر دُنیا کے دروازے کھول دیئے۔
4 (ترجمہ از مرتب) تمہیں ہر قِسم کی نعمتیں دی گئیں ۔ تمہیں اُوپر سے بھی رِزق ملے گا اور تمہارے پاؤں کے نیچے سے بھی ۔
9 مئی1904ء
’’فرمایا ۔ رؤیامیں ’’کِسی نے بیروں کا ایک ڈھیر چارپائی پر لاکر رکھ دیا ہے ۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر18‘19مؤرخہ 8/16مئی 1904ء صفحہ 10 حاشیہ۔ الحکم جلد 8 نمبر 16 مؤرخہ 17 مئی 1904صفحہ 5)
9 مئی1904ء
فرمایا۔رؤیامیں ایک جنت دکھائی گئی۔ پھر الہام ہوا:۔
(1) مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ 1
(2) 2 لِیَزْ دَا دُوْا حُسْنًا مَّعَ حُسْنِکَ3۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر18‘19مؤرخہ 8/16مئی 1904ء صفحہ 10 حاشیہ۔ الحکم جلد 8 نمبر 16 مؤرخہ 17 مئی 1904صفحہ 5)
10 مئی1904ء
دُخت ِکرام4
(البدر جلد 3 نمبر18‘19مؤرخہ 8/16مئی 1904ء صفحہ 10 حاشیہ۔ الحکم جلد 8 نمبر 16 مؤرخہ 17 مئی 1904صفحہ 5)
15 مئی1904ء
(1)اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ (2) اِنِّیْ مَعَکَ یَآ اِمَامُ رَفِیْعُ الْقَدْرِ۔ (3) رَبِّ اجْزِہٖ جَزَآئً اَوْفٰی (4) شوخ و شنگ لڑکا پیدا ہوگا (5) اِنَّہٗ فَعَّال ٌ لِّمَایُرِیْدُ5۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر18‘19مؤرخہ 8/16 مئی 1904ء صفحہ 10 حاشیہ۔ الحکم جلد 8 نمبر 16 مؤرخہ 17 مئی 1904صفحہ 5)
1 (ترجمہ از مرتب) اس جنت کی مثال جس کا پرہیزگاروں کو وعدہ دیا گیا ہے۔
2 بدر میں لِیَزْدَا دُوْا کی بجائے لفظ سَیَزْدَادُوْا لکھا ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) تیرے حسن کے ساتھ انہیں بھی حسن میں بڑھنا چاہئے۔
4 (ترجمہ از مرتب) کریم آباء کی لڑکی ۔ (نوٹ از مرتب) الہام دُخت ِ کرام کی مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صا حبہ ہیں جو 25 جون 1904ء کو پیدا ہوئیں اور نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے عقد میں آئیں۔
5 (ترجمہ از مرتب) (1) تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ (2) اے عالی قدر امام مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ (3) اے میرے رَبّ پوری پوری جزا دے۔ (4) چُست اور ہوشیار لڑکا پیدا ہوگا۔ یقینا خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
16 مئی1904ء
’’(1) اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ (2) کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّایُضَاعُ1۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر18‘19مؤرخہ 8/16 مئی1904ء صفحہ 10 حاشیہ۔ الحکم جلد 8 نمبر 16 مؤرخہ 17 مئی 1904صفحہ 5)
مئی1904ء
(الف)2 اَلَنَّا لَکَ الْحَدِیْدَ۔ معنی ٔ دیگر نہ پسندیم ما۔
(البدر جلد 3 نمبر29مؤرخہ یکم اگست 1904ء صفحہ4۔ الحکم جلد 8 نمبر17 مؤرخہ24 مئی 1904صفحہ2)
(ب) ’’مولوی کرم الدین کے مقدمہ میں جو گورداسپور میں دائر تھا کرم دین مذکور اِس بات پرزور دیتا تھا کہ لئیم کے لفظ کے معنے ولدالزنا ہیں اور کذّاب کے یہ معنی ہیں جو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہو۔ یہی معنے پہلی عدالت نے قبول کئے۔ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا۔ معنی ٔ دیگر نہ پسند یم ما۔ جس سے یہ تفہیم ہوئی کہ دوسری عدالت میں یہ معنے قائم نہیں رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اپیل کی عدالت میں صاحب ڈویژنل جج نے ان تمام عذرات کو رَدّ کردیا اور یہ لکھا کہ کذّاب اور لئیم کے الفاظ کرم دین کے مناسب ِ حال ہیں بلکہ وہ اس سے بڑھ کر الفاظ کا بھی مستحق ہے۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 380۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 394)
مئی1904ء
(1) 3 کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (2) لَا تُقْبَلُ مِنْھُمْ شَھَادَۃٌ (3) حُسنِ بیان۔
(الحکم جلد 8 نمبر17 مؤرخہ24 مئی 1904صفحہ6)
مئی1904ء
’’سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمْ الرُّعْبَ4۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر29مؤرخہ یکم اگست 1904ء صفحہ4۔ الحکم جلد 8 نمبر17 مؤرخہ24 مئی 1904صفحہ2حاشیہ)
1 (ترجمہ) (1) مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں ۔ (2) تیرے جیسا قیمتی موتی ضائع نہیں ہوسکتا۔
2 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تمہارے لئے لوہا نرم کردیا۔ ہم کسی اَور معنی کو پسند نہیں کرتے۔
3 (ترجمہ از مرتب) (1) خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے ۔ (2)ان لوگوں کی کوئی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔
4 (ترجمہ از مرتب) ہم ان کے دلوں پر رُعب طاری کردیں گے۔
(نوٹ ) یہ الہام گورداسپور سے واپس آتے وقت راستہ میں ہوا تھا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کے تعلق میں تشریف لے گئے تھے۔ (دیکھئے الحکم مؤرخہ 24 مئی 1904ء صفحہ 2) (مرتب)
مئی1904ء
’’مجھے بارہا خدا تعالیٰ مخاطب کرکے فرما چکا ہے کہ جب تو دعا کرے تو مَیں تیری سنوں گا۔‘‘
( الحکم جلد 8 نمبر17 مؤرخہ 24 مئی 1904صفحہ4)
31 مئی1904ء
’’اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔1‘‘
الحکم جلد 8 نمبر18 مؤرخہ31 مئی 1904صفحہ9۔البدر جلد 3 نمبر20‘21مؤرخہ 24 مئی و یکم جون 1904ء صفحہ15)
یکم جون1904ء
’’اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ اَمْرِکَ۔ اِنِّیْٓ اَنَا التَّوَّابُ مَنْ جَآئَ کَ جَآئَ نِیْ۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍوَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃُ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ عَفَتِ الدِّیَارُ مُحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا۔2‘‘
( الحکم جلد 8 نمبر18 مؤرخہ31 مئی 1904صفحہ9۔البدر جلد 3 نمبر20‘21مؤرخہ 24 مئی و یکم جون 1904ء صفحہ15)
یکم جون 1904ء
(الف) ’’ ساتھ اس 3کے یہ بھی الہام تھا کہ
زلزلہ کا دھکا۔‘‘
(اشتہار 18 اپریل 1905ء مندرجہ الحکم جلد 9 نمبر14 مؤرخہ24 اپریل 1905صفحہ5‘6)
(ب) ’’پھرخدانے مجھے خبردی کہ ایک زلزلہ کا دھکّا ظاہرہوگا جس سے جانوں اورعمارتوں کا نقصان ہوگا۔..... چنانچہ 4 اپریل 1905ء کو وہ زلزلہ آیا۔‘‘ (اشتہار29 اپریل 1906ء مندرجہ ریویوریلیجنز جلد5نمبر5بابت ماہ مئی 1906ء صفحہ196)
1904ء
اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ۔4
(الحکم جلد 8 نمبر18 مؤرخہ31 مئی 1904صفحہ8۔البدر جلد 3 نمبر20‘21مؤرخہ 24 مئی و یکم جون 1904ء صفحہ15)
1 (ترجمہ از مرتب) ہم ایک کھُلی کھُلی فتح تجھ کو عطا کریں گے۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں ہی رحمن ہوں۔ مَیں تیرے لئے تیرے کام میں سہولت پیدا کروں گا۔ مَیں ہی ہوں توبہ قبول کرنے والا۔ جو تیرے پاس آیا وہ میرے پاس آیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو بدر میں مدد دی اس حالت میں کہ تم بہت کمزور تھے۔ تمہارے لئے سلامتی ہے تم خوش رہو۔ عارضی رہائش کے مکانات بھی مِٹ جائیں گے اور مستقل رہائش کے بھی۔ 3 یعنی الہام عَفَتِ الدِّیَارُ مُحَلُّھَا وَ مُقَا مُھَا (نوٹ از مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) تُو مجھ سے ظاہر ہوا اور مَیں تجھ سے۔ بالکل ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔
1904ء
(رؤیا) ’’عطر کی شیشی ہاتھ میں ہے۔ ہاتھوں پر اور پگڑی پر عطر مَل رہے ہیں۔‘‘
( الحکم جلد 8 نمبر18 مؤرخہ31 مئی 1904صفحہ9۔البدر جلد 3 نمبر20‘21مؤرخہ 24 مئی و یکم جون 1904ء صفحہ15)
8 جون1904ء
( ایک الہام کا خلاصہ) خدا تیرا دوست ہے۔ اسی کے صلاح و مشورہ پر چل۔
’’عَفَتِ الدِّیَارُ مُحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا۔ اِنِّیْ ٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ اَعْطَیْتُکَ کُلَّ النَّعِیْمِ۔1‘‘
( الحکم جلد 8 نمبر19 ‘20مؤرخہ 10‘ 17جون 1904صفحہ10)
12 جون1904ء
’’2کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّایُضَاعُ۔ لَایَاْتِیْ عَلَیْکَ یَوْمُ الْخُسْرَانِ۔‘‘
(الاستفتاء صفحہ 76۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702)
12 جون 1904ء
’’اَعْطَیْتُکُمْ کُلَّ النَّعِیْمِ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ۔3‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 28)
14 جون1904ء
’’ مَکَانٌ اَلِیْمٌ۔4‘‘
’’14 جون 1904ء کو دیکھا کہ ہم ایک حاکم کی عدالت کے دروازہ کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور
1 (ترجمہ از مرتب) عارضی رہائش کے بھی مکانات مِٹ جائیں گے اور مستقل رہاش کے بھی۔ مَیں تمام ان لوگوں کی جو اس گھر میں رہتے ہیں حفاظت کروں گا۔ مَیں نے تجھے سارے انعامات عطا کئے ہیں۔
خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ اِس الہام ِ الٰہی کے مطابق 4 اپریل 1905ء کو شمالی ہندوستان میں ایک نہایت خطرناک زلزلہ آیا جس کا مرکز دھرمسالہ ضلع کانگڑ ہ تھا۔ اس زلزلہ سے ہزاروں مکانات اور جانیں تلف ہوئیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے ۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہوگا۔ تجھ پر گھاٹے کا دن نہیں آئے گا۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے تم کو ہر قِسم کی نعمتیں دیں۔ جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ جو ایمان لائے ان کیلئے بخشش اور باعزت رزق ہے۔
4 (ترجمہ از مرتب) دردناک گھر۔
بعض لوگ اس کی راہ پر بیٹھ گئے ہیں۔ اتنے میں وہ حاکم نکلا ہے۔ گھوڑے پر سوار ہے اور بہت ناراض ہے۔ کہتا ہے یہ لوگ میری راہ پر کیوں بیٹھ گئے ۔ اتنی قید اور اتنے ضرب بید لگاؤ۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ29)
18 جون1904ء
’’رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت۔ اِنَّمَآ اَمْرُکَ اِذَٓا اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ فِیْ ھٰذَا۔کُلُّ اَمْرٍ مُّبَدَّلٌ۔ سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ۔1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ29)
19جون1904ء
والدہ محمود کی طرف سے۔اُرِیْدُ اَنْ اَتَخَلَّصَ۔2
منجانب اللہ۔اُرِیْدُ اَنْ اُخَلِّصَ۔3
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ29)
21جون 1904ء
’’اَنَا الرَّحْمٰنُ فَاطْلُبْنِیْ تَجِدْنِیْ۔4‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 29)
22 جون1904ء
’’اَحْسِنْ وِدَادَکَ۔ سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ اَمْرِکَ5۔لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ6۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 29)
1 (ترجمہ از مرتب) مصیبت آگئی تھی لیکن خیریت سے گذرگئی۔ تیرا معاملہ یوں ہے کہ جب تُو کسی چیز کا ارادہ کرے اور اُسے کہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ تمام برکت اسی میں ہے۔ ہر بات بدلی ہوئی ہے۔ عنقریب مَیں تیرے لئے ہر اَمرمیں سہولت کردوں گا۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں خلاص ہونا چاہتی ہوں۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں خلاصی دینا چاہتا ہوں۔
4 (ترجمہ از مرتب) مَیں رحمن خدا ہوں ۔ تُو مجھے تلاش کرے گا تو پالے گا۔
5 (ترجمہ از مرتب) اپنی دوستی کو سنوار۔ مَیں عنقریب تیرے معاملے میں سہولت پیدا کردوں گا۔
6 ( ترجمہ از مرتب) تم نیکی ہر گز حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزوں کو خرچ نہ کرو۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
30جون1904ء
’’خدا تیری ساری مرادیں پوری کردے گا۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر27مؤرخہ16 جولائی 1904ء صفحہ4۔ الحکم جلد 8 نمبر22 مؤرخہ10 جولائی 1904صفحہ12)
جون1904ء
’’مولوی محمد علی صاحب کورؤیامیں کہا: آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر29مؤرخہ یکم اگست 1904ء صفحہ4)
26جولائی 1904ء
رؤیا۔’’دیکھا کہ ہم قادیان گئے ہیں۔ اپنے دروازے کے سامنے کھڑے ہیں۔ ایک عورت نے کہا ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔ اور پوچھا کہ راضی خوشی آئے۔ خیرو عافیت سے آئے۔ ‘‘ (الحکم جلد 8 نمبر 25‘ 26 مؤرخہ 31 جولائی ‘ 10 اگست 1904ء صفحہ 15)
27جولائی1904ء
’’ایک نظارہ دکھایا گیا کہ کوئی اَمر پیش کیا گیا ہے۔ پھر الہام ہوا:
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْ رِ۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ لِلْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ1۔‘‘
(الحکم جلد 8 نمبر 25‘ 26 مؤرخہ 31 جولائی ‘ 10 اگست 1904ء صفحہ 15)
29 جولائی1904ء
’’مبارک سَو مبارک۔ آسمانی تائیدیں ہمارے ساتھ ہیں۔
اَجْرُکَ قَآئِمٌ وَّ ذِکْرُکَ دَآئِمٌ ۔2‘‘
(الحکم جلد 8 نمبر 25‘ 26 مؤرخہ 31 جولائی ‘ 10 اگست 1904ء صفحہ 15۔البدر جلد 3 نمبر29مؤرخہ یکم اگست 1904ء صفحہ4)
جولائی1904ء
(1)’’ مَیں تمہیں بھی ایک معجزہ دکھاؤں گا۔‘‘
(2) اَلَنَّالَکَ الْحَدِیْدَ ۔3 (البدر جلد 3 نمبر29مؤرخہ یکم اگست 1904ء صفحہ4)
1 (ترجمہ از مرتب) ہم نے اُسے لیلۃالقدر میں اُتارا ہے۔ ہم نے اُسے مسیح موعود کیلئے اُتارا ہے۔
(نوٹ از مرتب) یہ الہام بدر جلد 3 نمبر 29 مؤرخہ یکم اگست 1904ء صفحہ 4 میں بھی ہے مگر اس میں الہام کے متعلق وہ تشریح نہیں جو الحکم میں دی گئی ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) تیرا اَجر ثابت ہے اور تیرا ذِکر دائم رہنے والا ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم کردیا ہے۔
1904ء
’’کرم دین نام ایک مولوی نے فوجداری مقدمہ گورداسپور میں میرے نام دائر کیا اور میرے مخالف مولویوں نے اس کی تائید میں آتمارام اکسٹرا اَسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جاکر گواہیاں دیں............آتمارام نے اس مقدمہ میں اپنی نافہمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کیلئے مستعد ہوگیا ۔ اُس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتمارام کو اُس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کریگا۔ چنانچہ یہ کشف مَیں نے اپنی جماعت کو سنادیا1اور پھر ایسا ہی ہوا کہ قریباً بیس ، پچیس دن کے عرصہ میں دو بیٹے اُس کے مَر گئے اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتمارام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا۔ اگرچہ فیصلہ لکھنے میں اُس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی مگر اَخیر پر خدا نے اُس کو اِس حرکت سے روک دیالیکن تاہم اُس نے سات سو روپیہ جرمانہ کیا۔ پھر ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کے ساتھ مَیں بَری کیا گیا اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرا جرمانہ واپس ہوا مگر آتمارام کے دو بیٹے واپس نہ آئے ........اور خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی کے مطابق جو میری کتاب مواہب الرحمن میں پہلے چھپ کر شائع ہوچکی تھی‘ مَیں بَری کیاگیا اور میرا جرمانہ واپس کیا گیا اور حاکم مجوز کو منسوخی حکم کے ساتھ یہ تنبیہہ ہوئی کہ یہ حکم اس نے بے جا دیا۔ مگر کرم دین کو جیسا کہ مَیں مواہب الرحمن میں شائع کرچکا تھا‘ سزا مل گئی اور عدالت کی رائے سے اُس کے کذّاب ہونے پر مُہر لگ گئی۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 121‘ 122۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 124‘ 125)
29جولائی1904ء
’’دیکھا کہ بڑے2مرزا صاحب مرحوم نے ایک بڑی لوئی سیاہ رنگ کی بنوائی ہے جو کہ حاجی بافندہ لے کر آیا ہے اور گویا مرزا صاحب مرحوم کی طرف سے کہتا ہے کہ یہ اس کام ( یعنی کوئی نالش کرنی ہے یا ایسا ہی کوئی کام ہے) کیلئے بنوائی تھی لیکن اب آپ کا ارادہ اس کیلئے نہیں تو رکھ چھوڑو کسی اَور کام آئے گی ۔‘‘
(الحکم جلد 8 نمبر 25‘ 26 مؤرخہ 31 جولائی ‘ 10 اگست 1904ء صفحہ 15)
اگست 1904ء
’’3 یَا جِبَالُ اسْجُدِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر29مؤرخہ یکم اگست 1904ء صفحہ4حاشیہ)
1 قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت ِ احمدیہ سرحد اپنی ’’ سوانح ظہور احمد موعود‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’حضور نے رؤیا دیکھا کہ ایک شیر آتما رام کے دونوں لڑکے اُٹھا کر لے گیا۔ اِدھر حضرت صاحب نے رؤیا سنائی اُدھر آتمارام کو تار آگئی کہ آپ کے لڑکے کو طاعون ہوگیا۔ دو جوان لڑکے یکے بعد دیگرے طاعون سے مرگئے۔‘‘(ظہور احمد موعود صفحہ 51‘52)
2 یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ ۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے پہاڑو! تم بھی اس کی معیت اختیار کرکے سجدہ میں گِر جاؤ اور پرندے بھی گِرجائیں۔
ستمبر1904ء
(1) خواب میں دیکھا کہ کسی نے کھجوریں اور بیر پکے ہوئے پیش کئے ہیں۔
(2) نہایت خوشنما برؔفی ایک ڈَبے میں دیکھی۔
(3) ایک اَسیر کے نظارہ کے بعد الہام ہوا:۔
1 یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا۔
(4)کوئی کہتا ہے۔ ہماری قِسمت آیت وار۔
(الحکم جلد 8 نمبر31 مؤرخہ17 ستمبر 1904ء صفحہ8)
ستمبر1904ء
’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ فَقَطْ۔2‘‘
(الحکم جلد 8 نمبر33 مؤرخہ30 ستمبر 1904ء صفحہ7)
3 اکتوبر 1904ء
’’ قَدْ جَآئَ الدِّیْنُ مِنَ النُّصْرَۃِ ثُمَّ سَیَعُوْدُ مِنَ النُّصْرَۃِ۔1‘‘
(الحکم 4جلد8 نمبر33 مؤرخہ30 ستمبر 1904ء صفحہ 6 حاشیہ)
1904ء
بہت سے حادثات اور عجیب کاموں کے بعد تیرا حادثہ ہوگا۔
(البدر جلد 3 نمبر39 مؤرخہ16 اکتوبر1904ء صفحہ8)
20 اکتوبر 1904ء
’’مَیں نے خواب میں سراج الحق کو دیکھا اور مَیں انہیں کہتا ہوں کہ اِتنی مدت تم کہاں رہے۔ پھر مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک الہام لکھوں اور وہ یہ ہے:۔
اِشْرَقُ الْعَارِضِ بَعْدَ اِصْلَاحِ الْعَارِضِ۔5‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 30)
1 (ترجمہ از مرتب) وہ خدا کی محبت میں مسکینوں ‘ یتیموں اور اَسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ ہوں اور بس۔
3 (ترجمہ از مرتب) دین پہلے بھی نصرت ہی سے غالب آیا تھا اور اب دوبارہ بھی وہ نصرت ہی کے ذریعہ سے غالب آئیگا۔
4 (نوٹ) 30 ستمبر 1904ء کا پرچہ الحکم ہے مگر اس میں الہام 3 اکتوبر 1904ء کے درج ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پرچہ تاریخ ِ مقررہ پر شائع نہ ہوسکا بلکہ دیر سے شائع ہوا۔ تاریخ تو معینہ ہی درج کردی گئی مگر الہامات بعد کے بھی درج کردیئے گئے ہیں۔ (مرتب)
5 (ترجمہ از مرتب) بیماری سے شفا پانے کے بعد رخسار کا چمکنا۔
20 اکتوبر1904ء
’’ خواب میں دیکھا کہ ایک مُرغ میرے بستر (پر ) بیٹھاہے ۔ مَیں نے اس کی ٹانگ ( پر) سوٹی ماری اور پھر پکڑ کر اپنی زوجہ کو دیا جس سے مراد لڑکا1 کہتے ہیں۔ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 30)
4 نومبر1904ء
’’ 25 شعبان 1322ھ بروز جمعہ مقام سرائے بٹالہ بوقت واپسی اَز سیالکوٹ ۔ خواب مَیں نے دیکھا کہ راجہ گلاب سنگھ راجہ وفات (یافتہ) کشمیر میرے پَیر دبا رہا ہے اور پھر دیکھا کہ بہت سے زیورات سونے کے جمع ہورہے ہیں اور مولوی نورالدین صاحب نے پوچھا ہے یہ کیسے زیورات ہیں۔ مَیں نے کہا گوالیار کے راجہ نے خیرات کیلئے بھیجے ہیں اور گوالیار کا راجہ بھی ملنے کیلئے آتا ہے۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ31)
22 نومبر 1904ء
مطابق 12 رمضان المبارک 1322ھ ۔ روز نقصان بر تو نیاید۔ کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ۔ لَا یَاْتِیْ عَلَیْکَ یَوْمُ الْخُسْرَانِ۔2 (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ31)
23 نومبر 1904ء
بیوی پھر گئی۔ اس کو مرتد ہونا کہتے ہیں۔ ہماری آخری گھڑی۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ32)
نومبر 1904ء
رؤیا۔ حضرت صاحبزادہ مبارک احمد سلّمہ اللہ الاحد حضرت کو کچھ دیر تک نہیں ملا۔ حضرت کو تشویش اور فکر ہوئی۔ اس کی تلاش کررہے ہیں۔ تب حضرت اُمّ المؤمنین نے فرمایا کہ یہ مبارک موجود تو ہے۔ پھر حضرت نے تین سجدہ شکر کے کئے زمین پر۔ (الحکم جلد 8 نمبر 40 مؤرخہ 24 نومبر 1904ء صفحہ 6)
1 اِس خواب کو لکھنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعا لکھی ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَللَّھُمَّ ارْزُقْنِیْ وَلَدًا ذَکَرًا خَامِسًا مَّعَ حَیَاۃِ نَفْسِیْ وَزَوْجَتِیْ وَوَلَدِیْ اَجْمَعِیْنَ۔ آمین۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اے اللہ ! مجھے میری بیوی اور میری ساری اولاد کی زندگی کے ساتھ ایک پانچواں فرزند نرینہ عطا فرما۔
(مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) نقصان کا دن تجھ پر نہ آئے۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا۔ تجھ پر گھاٹے کا دن نہیں آئے گا۔
(نوٹ از مرتب) الہام روز نقصان بر تو نیامد الحکم جلد 8 نمبر 40 مؤرخہ 24 نومبر 1904ء صفحہ 6 و البدر جلد 3 نمبر 44 ‘ 45 مؤرخہ 24 نومبر و یکم دسمبر 1904ء صفحہ 3 پر بھی شائع ہوا ہے۔
23 نومبر1904ء
’’ آج خواب میں دیکھا کہ بہت سی کنجیاں میرے سامنے پڑی ہیں شاید ہزار دو ہزار کنجی ہے۔ یعنی مفتاح۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ31نیز الحکم جلد 8 نمبر 40 مؤرخہ 24 نومبر 1904ء صفحہ 6 )
24 نومبر1904ء
(الف)رؤیا۔ ’’ مَیں نے ایک سفید تہ بند باندھا ہوا ہے مگر وہ بالکل سفید نہیں ہے کچھ کچھ میلا ہے کہ اس اثناء میں مولوی صاحب نماز پڑھانے لگے ہیں اور انہوں نے سورۂ الحمد جَہر سے پڑھی ہے اور اُس کے بعد انہوں نے یہ پڑھا:۔
اَلْفَارِقُ وَمَآ اَدْرَاکَ مَا الْفَارِقُ 1
اس وقت مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ قرآن شریف میں سے ہی ہے۔‘‘
(البدر جلد 3 نمبر 44‘ 45 مؤرخہ 24 نومبر و یکم دسمبر1904صفحہ 3)
(ب)رؤیا۔ مولوی حکیم نورالدین صاحب نے نماز جَہری میں سورہ فاتحہ پڑھ کر ’’اَلْفَارِقُ وَمَآ اَدْرَاکَ مَا الْفَارِقُ‘‘ پڑھا۔ ( الحکم جلد 8 نمبر 40 مؤرخہ 24 نومبر 1904ء صفحہ 6 )
25 نومبر 1904ء
’’غلام قادر گھر آگئے ۔ گھر نور اور برکت سے بھر گیا۔ رَدَّ اللّٰہُ اِلَیَّ۔2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ33الحکم جلد 8 نمبر 40 مؤرخہ 24 نومبر 1904ء صفحہ 6)
8 دسمبر 1904ء روز عید روز جمعہ
اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ۔3‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ33)
8 دسمبر 1904ء
رسید مژدہ کہ ایامِ نو بہار آمد
(البدر جلد 3 نمبر 44‘ 45 مؤرخہ 24 نومبرو یکم دسمبر1904صفحہ 6۔ب۔کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ33)
1 (ترجمہ از مرتب) وہ عظیم الشان اَمر فارق آرہا ہے اور تم کیا سمجھتے ہو کہ وہ اَمر فارق کِس شان کا ہوگا۔
2 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس بھیج دیا۔
3 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تجھے خیرِ کثیر دیا۔
4 (ترجمہ از مرتب) خوشخبری آئی ہے کہ نئی بہار کے دن آگئے ہیں۔
12دسمبر1904ء
’’ لَا تَیْئَسُوْا 1 مِنْ خَزَآئِنِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ۔اِنّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ33)
6 جنوری1905ء
’’ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت بہت علیل رہی۔ چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو درسِ قرآن ملتوی رکھنا پڑا۔ آپ کی طبیعت کی ناسازی دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی صحت کیلئے کثرت سے دعا شروع کی ‘ تو 6جنوری کو آپ نے تشریف لاکر فرمایا کہ مَیں دعا کررہا تھا کہ یہ الہام ہوا:۔
اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِشِفَآئٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۔‘‘
(البدر جلد 4 نمبر2 مؤرخہ10 جنوری 1905صفحہ 5)
18 جنوری1905ء
’’پہلے قریب صبح دیکھا کہ کسی نے بہت سے پیسے جس قدر ہاتھ میں آسکتے ہیں میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ بعد اس کے الہام ہوا:۔
اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ 3
بعداس کے آنکھ کھل گئی۔ پھر غنودگی ہو کر دیکھا کہ دو لفافے بند جن میں خط ہیں یا کوئی خبر ہے کسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس نے ان دونوں میں سے ایک لفافہ مجھے دے دیا۔ بعد اس کے الہام ہوا:۔
چونکا دینے والی خبر
یہ وقت ِ صبح تھا۔ پانچ صبح کے بج چکے تھے کچھ منٹ اُوپر بھی۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام1صفحہ34)
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ کی رحمت کے خزانوں سے نا امید مت ہو۔ ہم نے تجھے خیرِ کثیر دیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں کوئی شک ہو تو اس شفا کی مثل کوئی شفا پیش کرو۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں اپنے رسول ؐ کے ساتھ کھڑاہوں گا۔
4 نیز دیکھئے البدر جلد 4 نمبر4مؤرخہ یکم فروری 1905صفحہ 3 و الحکم جلد 9نمبر 4 مؤرخہ31 جنوری 1905ء صفحہ 8۔
(مرتب)
18 جنوری1905ء
’’1غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ اَتیٰٓ اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔ بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّوْنَ۔ تَرٰی نَصْرًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَاِنَّھُمْ یَعْمَھُوْنَ۔ اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَمَشّیٰٓ اَمَامَکَ وَعَادٰی لَکَ مَنْ عَادٰی۔ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ وَاِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَاِعَانَتَکَ۔ اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَکُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ یَحْمَدُکَ مِنْ عَرْشِہٖ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَمْشِیْٓ اِلَیْکَ۔ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ۔ سَنُنْجِیْکَ سَنُعْلِیْکَ۔ سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ اٰیَاتٌ لِّلسَّآئِلِیْنَ۔ ظَفَرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ اُرِیْحُکَ وَلَآ اُجِیْحُکَ۔ اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآئَ کَ وَکَمَّلَ اللّٰہُ اِعْزَازَکَ۔ وَطَوَّلَ اللّٰہُ عُمُرَکَ۔ نصرت و فتح و ظفر تابست سال۔ میدان میں فتح۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔
1 (ترجمہ از مرتب) رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے اور وہ مغلوب ہوجانے کے بعد ہی غالب آئیں گے ۔ یقینا اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہے جو نیکو کار ہیں۔ اللہ کا حکم آگیا پس جلدی نہ چاہو۔ یہ وہ خوشخبری ہے جو نبیوں کو ملی۔ تُو اللہ کی طرف سے نصرت کو دیکھے گا اور وہ بہکتے رہیں گے۔ وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے اور اس کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے۔ یہ اِس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے بڑھتے تھے۔ مَیں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذِلّت کا ارادہ کرے اور مَیں اس کا مدد گار ہوں گا جو تیری مدد کرے۔ جب تُو غضبناک ہوتا ہے تو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور ہر وہ جس سے تُو محبت کرتا ہے اس سے مَیں بھی محبت کرتا ہوں۔ تُو میری بارگاہ میں وجیہہ ہے ۔ مَیں نے تجھ کو اپنے لئے چن لیا۔ وہ اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔ اللہ تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چل کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے ہر چیز پر ترجیح دی۔ ہم جلد ہی تجھے نجات دیں گے۔ ہم تجھے جلد ہی غالب کریں گے۔ عنقریب مَیں تجھے بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب کریں گے۔ مَیں اچانک فوجوں کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا۔ پوچھنے والوں کیلئے نشان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظفر اور کھُلی کھُلی فتح۔ تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا۔ اللہ تجھے دیر تک باقی رکھے اور تیرے اعزاز کو مکمل کرے اور تیری عمر کو لمبا کرے۔ نصرت اور فتح اور ظفر بیس سال تک......تُو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے ۔ تُو مجھ سے بمنزلہ میری توحید اور تفرید کے ہے۔ تُو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو مخلوق نہیں جانتی ۔ اللہ تجھے بچائے گا خواہ لوگ تجھے نہ بچائیں ۔ کیا اللہ
یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۔ اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 34‘35)
27 جنوری1905ء
27 جنوری 1905ء کو حضرت اقدس کے دائیں رخسار مبارک پر ایک آماس سا نمودار ہوا جس سے بہت تکلیف ہوئی۔ حضور ؑ نے دعا فرمائی تو ذیل فقرات الہام ہوئے۔ دَم کرنے سے فوراً صحت حاصل ہوگئی:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الْکَافِیْ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الشَّافِیْ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الْغَفُوْرِ الرَّحِیْمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الْبَرِّ الْکَرِیْمِ1۔ یَاحَفِیْظُ ۔ یَا عَزِیْزُ۔ یَا رَفِیْقُ۔ یَا وَلِیُّ اشْفِنِیْ۔2‘‘
(البدر جلد 4 نمبر4مؤرخہ یکم فروری 1905صفحہ 3۔ الحکم جلد 9 نمبر 4 مؤرخہ 31 جنوری 1905ء صفحہ 8۔ کاپی الہامات صفحہ 35)
یکم فروری1905ء
(1) اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ۔
(2) اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ۔3
(البدر جلد 4 نمبر5مؤرخہ 8 فروری 1905صفحہ 2۔ الحکم جلد 9 نمبر5 مؤرخہ 10 فروری 1905ء صفحہ 12۔ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 35)
یکم فروری1905ء
4 اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ اٰثَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ
اپنے بندے کیلئے کافی نہیں۔ اے پہاڑو ! اس کے ساتھ جھک جاؤ اور اے پرندو تم بھی ۔ کیا تُو نے نہیں دیکھاکہ تیرے رَبّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کِیا ۔ کیا اُن کی تدبیر کو ناکام نہ بنادیا۔
1 کاپی الہامات صفحہ 35 میں اَلْبَرِّالرَّحِیْمِ لکھا ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو کافی ہے ۔ مَیں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو شافی ہے ۔ مَیں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو غفور و رحیم ہے۔ مَیں اللہ کے نام کے ساتھ مدد چاہتا ہوں جو احسان کرنے والا کریم ہے ۔ اے حفاظت کرنے والے۔ اے غالب۔ اے رفیق ۔ اے ولی مجھے شفا دے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اگر ایسا نہ ہو کہ تم مجھے جھٹلانے لگو تو مَیں ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینا یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ (2) مَیں مع جبریل کے تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔
4 (ترجمہ از مرتب) تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید ۔ تُو مجھ سے بمنزلہ عرش کے ہے۔ تُو مجھ سے بمنزلہ بیٹے کے ہے۔ تُو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو دُنیا نہیں جانتی۔ مَیں مع جبریل کے تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ۔ مَیں نے تجھے ترجیح دی اور تجھ کو چن لیا۔ تُو میری دَر گاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھ کو اپنے لئے چن لیا۔
فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ35)
4 فروری1905ء
1 سَلَامٌ قَوْلاًمِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ۔ سَلَامٌ قَوْلاًمِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ۔ ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ35)
فروری1905ء
(الف) ’’رؤیا۔ ایک کاغذ دکھایا گیا جس میں کچھ سطور فارسی خط میں ہیں اور سب انگریزی لکھا ہوا ہے۔ مطلب جن کا یہ سمجھ میں آیا کہ جس قدر روپیہ نکلتا ہے سب دے دیا جاوے گا۔‘‘
(البدر جلد 4 نمبر5مؤرخہ 8 فروری 1905صفحہ 2۔ الحکم جلد 9 نمبر5 مؤرخہ 10 فروری 1905ء صفحہ 12)
(ب) ’’ایک رؤیادیکھی کہ ایک کاغذ ہے جس کے اُوپر کی دو تین سطریں فارسی خط میں ہیں باقی سب انگریزی ہے۔ اس کا مطلب یہ سمجھ میں آیا کہ گویا کوئی میرا نام لے کر کہتا ہے کہ دو سو پچاس روپیہ انہیں دیا جائے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 2 فروری 1905ء )
20 فروری1905ء
’’اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَآ اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔‘‘
(البدر جلد 4 نمبر7مؤرخہ 5 مارچ1905صفحہ 2۔ الحکم جلد 9 نمبر7 مؤرخہ24 فروری 1905ء صفحہ 12)
ترجمہ:۔ تُو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہوجاتی ہے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 105۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 108)
20 فروری1905ء
’’حضور ؑ کی طبیعت ناساز تھی۔ حالت ِ کشفی میں ایک شیشی دکھائی گئی جس پر لکھا ہوا تھا :۔
خاکسار پیپر منٹ ۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر7 مؤرخہ24 فروری 1905ء صفحہ 12۔ریویو آف ریلیجنز ماہ مارچ 1905ء صفحہ 130)
27 فروری1905ء
’’کشف دیکھا کہ درد ناک موتوں سے عجیب طرح پر شورِ قیامت2برپا ہے۔ میرے
اور تجھ کو چن لیا۔ تُو میری دَر گاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھ کو اپنے لئے چن لیا۔
1 (ترجمہ از مرتب) سلامتی ہو ربّ ِ رحیم کی طرف سے یہ بات ہے۔ اور اے مجرمو! آج تم علیٰحدہ ہوجاؤ۔ سلامتی ربّ ِ رحیم کی طرف سے یہ بات ہے۔ اور اے مجرمو! آج تم علیٰحدہ ہوجاؤ۔
2 (نوٹ از مرتب) یہ شورِ قیامت برپا کرنے والا نشان وہ زلزلہ تھا جو 4 اپریل 1905ء کو صبح کو مختلف مقامات پر آیا۔
منہ پر الہامِ الٰہی تھا کہ
مو تا مو تی لگ رہی ہے
کہ مَیں بیدار ہوگیا۔‘‘
(البدر جلد 4 نمبر7مؤرخہ 5 فروری 1905صفحہ 3۔ الحکم جلد 9 نمبر10مؤرخہ 24 مارچ 1905ء صفحہ 2)
1905ء
’’ مجھے دکھلایا گیا کہ ملک عذاب ِ الٰہی سے مِٹ جانے کو ہے ۔ نہ مستقل سکونت امن کی جگہ رہے گی نہ عارضی سکونت ۔ مقاموں پر اور عارضی سکونت گاہوں پر آفت آئے گی۔‘‘
(اشتہار الدعوت 5 اپریل 1905ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 519۔ الحکم 24 مارچ 1905ء صفحہ 9)
2 مارچ1905ء
’’خدائے عزوجل اس کی عزت رکھے۔‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 39)
3 مارچ1905ء
’’وہ رات جس کے بعد جمعہ 3 مارچ 1905ء ہے ایک بجنے کے بعد پینتیس 35 منٹ اس رات مَیں نے خواب دیکھا کہ کچھ روپیہ کی کمی اور سخت مشکلات پیش ہیں اور بہت فکر دامن گیر ہے۔ مَیں کسی کو کہتا ہوں کہ ایک کاغذ بناؤ جس میں لکھا ہو کہ جمع یہ تھا اور خرچ یہ ہوا۔ کوئی میری بات کی طرف توجہ نہیں کرتا اور سامنے ایک شخص کچھ حساب کے کاغذات لکھ رہا ہے۔ مَیں نے شناخت کیا کہ یہ تو لچھمی داس جمع خرچ نویس ہے جو کِسی
بقیہ حاشیہ:۔ اور متعدد اخباروں میں اسے نمونہ ٔ قیامت قرار دیا گیا۔ اخبار وکیل امرتسر نے لکھا:۔
’’یہ زلزلہ اِس درجہ ہولناک اور مہیب تھا کہ اِسے قیامت ِ صغریٰ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔ بلکہ جس وقت وہ اپنی پوری شدت پر خدائے قہار کا جلال ظاہر کررہا تھا۔ اس وقت تو لوگوں کو عموماً یہی یقین آگیا تھا کہ بس قیامت آہی گئی ہے۔ ‘‘ یہ تصدیق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی جو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ ایک قیامت ہے ۔ جو لوگ قیامت کے منکر ہیں وہ اب دیکھ لیں کہ کس طرح ایک ہی سیکنڈ میں ساری دُنیا فنا ہوسکتی ہے ......اور فرمایا .......ہم صبح یہی مضمون لکھ رہے تھے اور اِس الہام پر پہنچے تھے جو براہین احمدیہ میں درج تھا کہ ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی کو ظاہر کردے گا۔‘‘ ہم یہ الفاظ لکھ رہے تھے اور اس کے پورا ہونے کے ثبوت آگے درج کرنے کو تھے کہ یکدفعہ زلزلہ ہوا۔ یہ ایک زور آور حملہ ہے اور پیشگوئی میں حملوں کا لفظ جمع ہے جو عربی میں تین پر اطلاق پاتا ہے اِس واسطے خوف ہے کہ طاعون اور زلزلہ کے سوائے خدا جانے تیسرا حملہ کونسا ہے جو ہماری سچائی کے ثبوت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمانا ہے ۔‘‘
(البدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 1 مؤرخہ 6 اپریل 1905ء صفحہ 6)
زمانہ میں خزانہ سیالکوٹ میں اسی عہدہ پر نوکر تھا۔ مَیں نے اس کو بُلانا چاہا۔ وہ بھی نہ آیا۔ لاپرواہ رہا۔ اور مَیں نے دیکھا کہ روپیہ کی بہت کمی ہے۔ کسی طرح بات نہیں بنتی ۔ اسی اثناء میں ایک صالح مرد سادہ طبع سادہ پوش آیا۔ اس نے اپنی بھری ہوئی مٹھی روپیہ کی میری جھولی میں ڈال دی اور ایسے جلدی چلا گیا کہ مَیں اس کا نام بھی نہیں پوچھ سکا مگر پھر بھی روپیہ کی کمی رہی۔ پھر ایک اَور صالح مرد آیا جو محض نورانی شکل سادہ طبع کوٹلہ کے ایک صوفی کی شکل کے مشابہ تھا جس کا نام غالباً کرم الٰہی یا فضل الٰہی ہے جس نے کُرتہ بیچ کر ہمیں روپیہ دیا تھا صورت انسان کی ہے مگر علیٰحدہ خلقت کا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ اس نے د ونوں ہاتھ روپیہ سے بھر کر میری جھولی میں وہ روپیہ ڈال دیا اور وہ بہت سا روپیہ ہوگیا۔ مَیں نے پوچھا آپ کا نام کیا ۔ اس نے کہا۔ نام کیا ہوتا ہے نام کچھ نہیں۔ مَیں نے کہا کچھ بتلاؤ۔ نام کیا ہے ۔ اس نے کہا۔ ٹیچی1۔ اور مَیں اُس وقت چشم ِ پُر آب ہوگیا کہ ہماری جماعت میں ایسے بھی ہیں جو اِس قدر روپیہ دیتے اور نام نہیں بتلاتے ‘ اور ساتھ ہی کہتا ہوں کہ یہ تو آدمی نہیں یہ تو فرشتہ ہے ۔ اور جب بہت سے مال کا نظارہ میرے سامنے آیا مَیں نے کہا مَیں اس میں سے منظور محمد کی بیوی کو دوں گا کہ وہ حاجتمند ہے اور جب مَیں نے یہ خواب دیکھا اس وقت رات کا ایک بج کر اس پر پینتیس منٹ زیادہ گذر چکے تھے۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 39 نیز دیکھئے الحکم جلد 9 نمبر10مؤرخہ 24 مارچ 1905ء صفحہ 2۔
ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر3 بابت ماہ مارچ 1905ء )
6 مارچ1905ء
’’تھوڑی سی غنودگی ہوئی تو دیکھتا ہوں کہ یہ مکان2جو اَب بن رہا ہے ( جس کا اشتہارکشتی نوح میں دیا گیا تھا) سامنے آگیا ہے۔ اس پر ایک معمار بیٹھاہے۔ اس نے کہا۔ مبارک۔ مَیں نے کہا خیر مبارک ۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر10مؤرخہ 24 مارچ 1905ء صفحہ 2۔ ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر3 بابت ماہ مارچ 1905ء )
17 مارچ1905ء
’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھے کہتا ہے ۔ سزائے موت۔ یعنی چالیس دن کے بعد موت کا حکم ہے۔ مَیں نے مولوی محمد علی صاحب سے پوچھا ہے اس حکم کا اپیل بھی ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا اپیل ہوسکتا ہے بلکہ اپیل در اپیل بھی۔‘‘
1 ’’ٹیچی پنجابی زبان میں وقت ِ مقررہ کو کہتے ہیں۔ یعنی عین ضرورت کے وقت آنے والا۔‘‘
( حقیقۃ الوحی صفحہ 332۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 346)
2 اِس سے وہ مکان مراد ہے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رہتے تھے۔ (مرتب)
’’پھر بعد اس کے مجھے 18 مارچ 1905ء کو بخار ہوا۔ پیشاب نہایت شدید درد سے آتا تھا اور پیشاب کی راہ خون آنا شروع ہوا یہاں تک کہ بہت سا خون نکلا۔‘‘
’’پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے 18 مارچ 1905ء کو بعد شام کے الہام ہوا:۔
سنتا1 ہے دیکھتا ہے
پھر الہام ہوا:۔
لَا تَیْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ 2
پھر ایک الہام عربی میں تھا جس کے یہ معنی تھے کہ مکذبین کو نشان دکھلائے جائیں گے۔ پھر بعد اس کے مرض سے اس قدر تخفیف ہوئی کہ مرض دُور ہوگئی صرف کسی قدر سوزش باقی ہے۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 40۔الحکم جلد 9 نمبر10مؤرخہ 24 مارچ 1905ء صفحہ2)
20 مارچ1905ء
’’شکارِ مرگ ‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر10مؤرخہ 24 مارچ 1905ء صفحہ 2)
’’آج 20 مارچ 1905ء مرض طاعون میں محمد افضل بیمار ہوا اور اسی وقت کسی کی نسبت جو معلوم نہیں الہام ہوا ’’شکارِمرگ‘‘ واللہ اعلم کس کی نسبت ہے۔ محمد افضل مرحوم 12 مارچ 1905ء کو فوت3 ہوگیا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 40)
23 مارچ1905ء
’’4فَأَ جَآئَ ہُ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قَالَ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا۔ ھُزِّ اِلَیْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَاقِطْ عَلَیْکَ رُطَبًا جَنِیًّا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ42)
1 الحکم میں یہ الہام یوں چھپا ہے ’’وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے ۔‘‘ (الحکم جلد 9 نمبر10مؤرخہ 24 فروری1905ء صفحہ 2)
2 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید مت ہو۔ (نوٹ) یہ الہام الحکم پرچہ مذکور میں بھی ہے۔ (مرتب)
3 ’’چنانچہ اسی تقدیرِ مبرم کے مطابق جس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ پر پہلے ہی کردیا تھا۔ منشی صاحب مرحوم 21 مارچ کو عصر کی نماز کے بعد فوت ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر4 بابت ماہ ِاپریل 1905صفحہ 170 )
4 (ترجمہ از مرتب) پھر اس کو دردِ زِہ کھجور کے تنے کی طرف لے گئی۔ تب اس نے کہا کاش مَیں اس سے پہلے مرجاتا اور بھولا بسرا ہوجاتا ۔ کھجور کے تنے کو ہلا تجھ پر تازہ بتازہ کھجوریں گِریں گی۔
23 مارچ1905ء
’’آج مَیں نے ایک لمبی خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ میں ہوں اور آتما مجسٹریٹ گورداسپور میرے پاس ہے ۔ ہم زمین پر بیٹھے ہیں اور بہت سی گفتگو مقدمہ کی بابت اس سے ہوئی ہے۔ مَیں کچھ ایسا ذکر کرتا ہوں کہ تو نے مجھے ستایا۔ خدا نے مجھے بَری کیا۔ تو نے مجھے تکلیف دی۔ پھر مَیں کہتا ہوں کہ دراصل اس مقدمہ میں انصاف کرنا تیرے پر مشکل تھا کہ دو فریق کے ایک ہی وقت میں تیرے پاس مقدمے پیش ہوئے اور تیری انصافی قوت طعنِ خلق یا حکام کی بد ظنّی کا خیال کرکے اسی خیال سے مغلوب ہوگئی۔ تو نے خدا کا خوف نہیں کیا مگر افسوس ہے ایک بدمعاش کیلئے تو نے مجھے بہت تکلیف دی اور مَیں نے تیری اولاد کی نسبت کچھ نہیں کہا‘ صرف ایک خواب ان کی موت کی نسبت دیکھا تھا جو پورا ہوگیا۔ شاید اسی خواب کی وجہ سے تجھ میں یہ مخالفت کا جوش پیدا ہوا۔ اس نے آہ مار کر کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی اور دراصل اس دھوکہ دینے کا بانی چند ولعل ہے ۔ پھر بعد اس کے نہایت غمناک دِل سے گویا اس پر کوئی مصیبت ہے۔ عذر خواہ ہوکر اس نے اپنا سر میرے بازو پر رکھ دیا گویا سجدہ کرتا ہے اور میری پناہ مانگتا ہے1۔ مَیں نے کہا اچھا۔ مَیں نے خدا کیلئے تیرا گناہ بخشا۔ یہ بات کہتے ہی آنکھ کھل گئی اور جب مَیں نے اس کے بیٹے کا ذکر کیا تو مَیں زمین پر الگ جا بیٹھا اور اس کو دکھایا کہ خواب میں جب تیرے بیٹے کی موت مجھ کو دکھائی گئی تو تم اس طرح زمین پر بیٹھے تھے۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ41)
23 مارچ1905ء
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جناب ِ باری میں دعا کررہے تھے کہ نزولِ وحی ہوئی:۔
سَلَامًا سَلَامًا 2۔‘‘
(البدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 1 مؤرخہ 6 اپریل 1905ء صفحہ 3۔الحکم جلد 9 نمبر11مؤرخہ31 مارچ 1905ء صفحہ 1)
26 مارچ1905ء
’’چودھری رستم علی‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر12مؤرخہ10 اپریل 1905ء صفحہ2 1)
1 یہ رؤیا حضرت امیر المو ٔ منین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد میں پوری ہوئی۔ حضور فرماتے ہیں:۔
’’ بعد میں اسی مجسٹریٹ کو ایسی سزا ملی کہ وہ ایک دفعہ لدھیانہ کے سٹیشن پر مجھے ملنے کیلئے آیا اور اُس نے روتے ہوئے مجھ سے معافی مانگی اور کہا مَیں سخت دُکھ میں ہوں۔ مَیں نے مرزا صاحب کے پاس معافی مانگنے کیلئے جانا تھا لیکن وہ تو اَب فوت ہوچکے ہیں اِس لئے مَیں آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ میرے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے اس عذاب سے نکال لے۔ اگر یہ عذاب کچھ اَور عرصہ تک قائم رہا تو مَیں پاگل ہوجاؤں گا۔‘‘
(الفضل جلد46/11 نمبر 282 مؤرخہ 29 نومبر 1957صفحہ 5)
2 (ترجمہ از مرتب) سلامتی سلامتی۔
یکم اپریل1905ء
’’رات کے وقت نزولِ وحی ہوا:۔
مَحَوْنَا نَارَ جَھَنَّمَ1
فرمایا ۔ اجتہادی طور پر ایسا خیال آتا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اَب قریباً طاعون کو دُنیا سے اُٹھانے والا ہے۔ واللہ اَعلم ۔ یا یہ کہ اِس گاؤں سے اُٹھانے والا ہے۔‘‘
(البدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 1 مؤرخہ 6 اپریل 1905ء صفحہ 3۔الحکم جلد 9 نمبر12مؤرخہ10 اپریل 1905ء صفحہ2 1)
3 اپریل1905ء
’’موت دروازے پر کھڑی ہے۔‘‘
(البدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 1 مؤرخہ 6 اپریل 1905ء صفحہ 3۔الحکم جلد 9 نمبر12مؤرخہ10 اپریل 1905ء صفحہ2 1)
3 اپریل1905ء
رؤیا۔ ’’دیکھا کہ مرزا نظام الدین کے مکان پر مرزا سلطان احمد کھڑا ہے اور سب لباس سرتاپا سیاہ ہے۔ ایسی گاڑھی سیاہی کہ دیکھی نہیں جاتی۔ اسی وقت معلوم ہوا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے۔ اُس وقت مَیں نے گھر میں مخاطب ہوکر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ تب دو 2 فرشتے اَور ظاہر ہوگئے اور تین کرسیاں معلوم ہوئیں اور تینوں پر وہ تین فرشتے بیٹھ گئے اور بہت تیز قلم سے کچھ لکھنا شروع کیا جس کی تیز آواز سنائی دیتی تھی۔ ان کے اس طرز کے لکھنے میں ایک رُعب تھا۔ مَیں پاس کھڑا ہوں ( کہ بیداری ہوگئی)۔
اُسی وقت حضرت اقدس ؑ نے یہ خواب سنایا اور فرمایا کہ کوئی ہیبت ناک نشان ہونے والا ہے۔ اِس کی تعبیر یوں ہے کہ سلطان احمد سے مراد ایسے دلائل اور براہین ہیں جو دلوں پر تسلط کرتے اور دلوں کو پکڑلیتے ہیں اور نظام الدین سے مراد ایسا نشان ہے جس سے دین ِ اسلام کی صلاحیت ہوگی اور اُس کا نظام درست ہوجائے گا۔ سیاہ کپڑے ظاہر کرتے ہیں کہ اَب کوئی ڈرانے والا نشان ظاہر ہونے والا ہے۔ اور یہ جو کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے ‘ اِس سے یہ مراد ہے کہ یہ ہماری دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔ کیونکہ نتیجہ بچے کو بھی کہتے ہیں۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر12مؤرخہ10 اپریل 1905ء صفحہ2 1۔البدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 1 مؤرخہ 6 اپریل 1905ء صفحہ 3)
5 اپریل1905ء
’’ کَفَفْتُ 2 عَنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ
فرمایا ۔ بنی اسرائیل سے مراد وہ قوم ہے جس پر اُس قسم کے واقعات تکلیف وارد ہوئے ہوں جیسے کہ
1 (ترجمہ) ہم نے جہنم کی آگ کو محو کیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے بنی اسرائیل سے (دشمن کا حملہ ) روک دیا۔

بنی اسرائیل پر فرعون کے زمانہ میں ہوئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت بنی اسرائیل سے مشابہ ہے۔ وہ لوگ جو اُن پر بیجا ظالمانہ حملہ کرتے ہیں اُن کو خدا تعالیٰ نے فرعون سے مشابہت دی ہے اور پیشگوئی کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ایسے بے جا حملہ کرنے والے روک دئے جائیں گے اور ایسے نشان ظاہر ہوں گے کہ اُن کی باتوں کا لوگوں کے دلوں پر کچھ اثر نہیں ہوگا۔‘‘
(البدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 1 مؤرخہ 6 اپریل 1905ء صفحہ 3۔الحکم جلد 9 نمبر12مؤرخہ10 اپریل 1905ء صفحہ2 1)
6 اپریل1905ء
’’کوئی رُوح کہتی ہے
ہم نے وہ جہان 1 چھوڑ دیا ہے
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ہم سے تعلقِ دوستی یا دشمنی رکھنے والا اِس جہان سے گذر جائے گا۔‘‘
(البدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 1 مؤرخہ 6 اپریل 1905ء صفحہ 3۔الحکم جلد 9 نمبر12مؤرخہ10 اپریل 1905ء صفحہ2 1)
7 اپریل1905ء
’’4 اپریل 1905ء کو جب زلزلہ آیا تھا اس دن لاہور سے کئی دوستوں کے خط آئے .....کہ ہم کو خداوند تعالیٰ نے اس آفت سے بچالیا مگر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا ایک خط بھی نہ آیا ......پھر دوسرے روز بھی کوئی خط نہ آیا ......پھر تیسرے روز بھی کوئی خط نہ آیا۔ اور کسی دوست نے بھی نہ لکھا کہ میر محمد اسمٰعیل صاحب خیروعافیت سے ہیں۔ تب اُن دونوں2کی حالت مارے غم کے قریب موت کے ہوگئی اور حضرت کو دعا کے واسطے کہا حضرت نے ان کا سخت قلق اور رنج دیکھ کر بہت توجہ سے دعا کی تو جواب میں یہ الہام ہوا:۔
اسسٹنٹ سرجن 3 ‘‘
(بدر سلسلۃالجدید جلد 1 نمبر6 1 مؤرخہ 20 جولائی 1905ء صفحہ 7)
8 اپریل1905ء
’’آج رات تین بجے کے قریب خدائے تعالیٰ کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی جو ذیل میں لکھی جاتی ہے:۔
1 فرمایا۔ ’’ یہ میرے ساتھ عادت اللہ ہے کہ کشف میں اس دنیا کو ’’وہ جہان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 5 بابت ماہِ اپریل 1905ء)
2 یعنی حضرت اُمّ المؤمنین و والدہ صا حبہ حضرت اُمّ المؤمنین ۔ (مرتب)
3 چنانچہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب اسی سال میڈیکل کالج لاہور کے آخری امتحان میں تمام پنجاب میں اوّل نمبر پر پاس ہوکر اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے اور 1928ء میں سول سرجن لگ کر 1936ء میں ریٹائر ہوئے۔ (مرتب)
تازہ نشان۔ تازہ نشان کا دھکہ۔زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ ۔ قُوْا اَنْفُسَکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَبْرَارِ۔ دَنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ۔ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ۔
(ترجمہ مع شرح) یعنی خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا۔ مخلوق کو اس نشان کا ایک دھکا لگے گا۔ وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا ( مجھے علم نہیں دیا گیا کہ زلزلہ سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اَور شدید آفت ہے جو دُنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہہ سکیں گے) اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب آئے گا اور مجھے علم نہیں کہ وہ چند دن یا چند ہفتوں تک ظاہر ہوگا یا خدا تعالیٰ اس کو چند مہینوں یا چند سال کے بعد ظاہر فرمائے گا۔ بہرحال وہ حادثہ زلزلہ ہو یا کچھ اَور ہو۔ قریب ہو یا بعید ہو۔ پہلے سے بہت خطرناک ہے۔ سخت خطرناک ہے۔ اگر ہمدردی ٔ مخلوق مجھے مجبور نہ کرتی تو مَیں بیان نہ کرتا.....
بقیہ ترجمہ عربی وحی کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کرکے اپنے تئیں بچالو قبل اس کے جو وہ ہولناک دن آوے جو ایک دَم میں تباہ کردے گا۔ اور فرماتا ہے کہ خدا اُن کے ساتھ ہے جو نیکی کرتے ہیں اور بدی سے بچتے ہیں اور پھر اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میرا فضل تیرے نزدیک آگیا۔ یعنی وہ وقت آگیا کہ تُو کامل طور پر شناخت کیا جاوے۔ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا .......
دیکھو آج مَیں نے بتلادیا۔ زمین بھی سنتی ہے اور آسمان بھی کہ ہریک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پر آمادہ ہوگا اور ہریک جو زمین کو اپنی بدیوں سے ناپاک کرے گا وہ پکڑا جائے گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اُترے کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی۔ پس اُٹھو اور ہوشیار ہوجاؤ کہ وہ آخری وقت قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی۔ مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا کہ یہ سب باتیں اُس کی طرف سے ہیں میری طرف سے نہیں ہیں۔ کاش یہ باتیں نیک ظنّی سے دیکھی جاویں۔ کاش مَیں اُن کی نظر میں کاذب نہ ٹھیرتا۔ تا دُنیا ہلاکت سے بچ جاتی ......ورنہ وہ دِن آتا ہے کہ انسانوں کو دیوانہ کردے گا۔ نادان بدقسمت کہے گا کہ یہ باتیں جھوٹ ہیں۔ ہائے وہ کیوں اس قدر سوتا ہے۔ آفتاب تو نکلنے کو ہے۔ جب خدائے تعالیٰ اس وحی کے الفاظ میرے پر نازل کرچکا تو ایک رُوح کی آواز میرے کان میں پڑی جو کوئی ناپاک رُوح تھی اور مَیں نے اس کو یہ کہتے سنا کہ
مَیں سوتے سوتے جہنّم میں پڑ گیا
انسان کا کیا حَرج ہے اگر وہ فسق و فجور کو چھوڑ دے۔ کون سا اس میں اس کا نقصان ہے اگر وہ مخلوق پرستی نہ کرے۔ آگ لگ چکی ہے۔ اُٹھو اور اس آگ کو اپنے آنسوؤں سے بجھاؤ۔‘‘
(اشتہار الانذار 8 اپریل 1905ء مندرجہ الحکم جلد 9 نمبر 12 مؤرخہ 10 اپریل 1905ء صفحہ 2)
9 اپریل1905ء
’’9اپریل کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے ایک سخت زلزلہ کی خبر دی ہے جو نمونہ قیامت اور ہوشرُبا
ہوگا ۔ چونکہ دو مرتبہ مکرر طور پر اس علیم مطلق نے اس آئندہ واقعہ پر مجھے مطلع فرمایا ہے اِس لئے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ عظیم الشان حادثہ جو محشر کے حادثہ کو یاد دلادے گا۔ دُور1نہیں ہے۔ مجھے خدائے عزوجل نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ دونوں زلزلے تیری سچائی ظاہر کرنے کیلئے دو نشان ہیں اُنہیں نشانوں کی طرح جو موسیٰ ؑنے فرعون کے سامنے دکھلائے تھے اور اُس نشان کی طرح جو نوح ؑنے اپنی قوم کو دکھلایا تھا۔
اور یاد رہے کہ ان نشانوں کے بعد بھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھُلے گی اور حیرت زدہ ہوکر کہے گا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے۔ ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بد تر آئے گا۔ خدا فرماتا ہے کہ مَیں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کرلیں۔ اور جس طرح یوسف ؑ نبی کے وقت میں ہوا کہ سخت کال پڑا یہاں تک کہ کھانے کیلئے درختوں کے پتے بھی نہ رہے۔ اسی طرح ایک آفت کا سامنا موجود ہوگا۔ اور جیسا یوسف ؑ نے اناج کے ذخیرہ سے لوگوں کی جان بچائی اسی طرح جان بچانے کیلئے خدا نے اِس جگہ بھی مجھے ایک روحانی غذا کا مہتمم بنایا ہے ۔ جو شخص اس غذا کو سچے دل سے پورے وزن کے ساتھ کھائے گا مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ضرور اس پر رحم کیا جائے گا.....
ہاں خدا تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دے رکھی ہے کہ طاعون اِس جماعت کی تعداد کو بڑھائے گی اور دوسرے مسلمانوں کی تعداد کو گھٹائے گی......مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس آنے والے نشان کے بعد جو مجھ کو قبول کرے گا اس کا ایمان قابلِ عزت نہیں۔ جن کے کان ہیں سنیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا غضب زمین پر بھڑکا ہے کیونکہ زمین والوں نے میری طرف سے منہ پھیر لیا ہے۔ پس جب ایک انسانی سلطنت عدول حکمی سے ناراض ہوجاتی ہے اور ہولناک سزادیتی ہے پھر خدا کا غضب کیسا ہوگا۔ پس توبہ کرو کہ دن نزدیک ہیں۔
اور اس بارے میں جو عربی میں مجھے وحیِ الٰہی ہوئی اِس جگہ مَیں اُس کو معہ ترجمہ لکھ کر اس اشتہار کو ختم کرتا ہوں اور وہ یہ ہے:۔
بخور آنچہ ترابخور انم۔ لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآئِ وَفِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِرُوْنَ۔ نَزَلْتُ لَکَ۔ لَکَ نُرِیْ اٰیَاتٍ وَّنَھْدِمُ مَا یَعْمُرُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ کَفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَجُنُوْدَ ھُمَا کَانُوْا خَاطِئِیْنَ۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔
1 ’’اگر خدا تعالیٰ نے اس آفت ِ شدیدہ کے ظہور میں بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال ہیں اس سے زیادہ نہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 258)

یعنی جو کچھ مَیں تجھے کھلاتا ہوں وہ کھا۔ تیرا آسمان پر ایک درجہ ہے اور نیز ان میں درجہ ہے جو آنکھیں رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ اور مَیں تیرے لئے زمین پر اُتروں گا تا اپنے نشان دکھلاؤں۔ ہم تیرے لئے زلزلہ کا نشان دکھلائیں گے اور وہ عمارتیں جن کو غافل انسان بناتے ہیں یا آئندہ بنائیں1گے گرادیں گے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زلزلہ نہیں بلکہ کئی زلزلے ہوں گے جو عمارتوں کو وقتاً وفوقتاً گرائیں 2گے۔
اور پھر فرمایا کہ مَیں تیری جماعت کے لوگوں کو جو مخلص ہیں اور بیٹوں کا حکم رکھتے ہیں‘ بچاؤں گا۔ اِس وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھے اسرائیل قرار دیا اور مخلص لوگوں کو میرے بیٹے ۔ اِس طرح پر وہ بنی اسرائیل ٹھہرے۔ اور پھر فرمایا کہ مَیں آخر کو ظاہر کروں گا کہ فرعون یعنی وہ لوگ جو فرعون کی خصلت پر ہیں اور ہامان یعنی وہ لوگ جو ہامان کی خصلت پر ہیں اور ان کے ساتھ کے لوگ جو اُن کا لشکر ہیں۔ یہ سب خطا پر تھے۔ اور پھر فرمایا کہ مَیں اپنی تمام فوجوں کے ساتھ یعنی فرشتوں کے ساتھ نشانوں کے دکھلانے کیلئے ناگہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا۔ یعنی اُس وقت جب اکثر لوگ باور نہیں کریں گے اور ہنسی اور ٹھٹھے میں مشغول ہوں گے اور بالکل میرے کام سے بے خبر ہوں گے۔ تب مَیں اُس نشان کو ظاہر کردوں گا کہ جس سے زمین کانپ اُٹھے گی۔ تب وہ روز دُنیا کیلئے ایک ماتم کا دن ہوگا۔ مبارک وہ جوڈریں اور قبل اس کے جو خدا کے غضب کا دن آوے توبہ سے اس کو راضی کرلیں کیونکہ وہ حلیم اور کریم اور غفور اور توّاب ہے جیسا کہ وہ شدید العقاب بھی ہے۔‘‘
(اشتہار 18 اپریل 1905ء ۔ الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ 5‘ 6۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 525 تا 534)
3 9اپریل1905ء
’’خدا نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ آخری حصہ زندگی کا یہی ہے جو اَب گذر رہا ہے جیسا کہ عربی میں وحیِ الٰہی یہ ہے:۔
قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَّدُّرُ۔ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا
یعنی تیری اجلِ مقدر اَب قریب ہے۔ اور ہم تیری نسبت ایک بات بھی ایسی نہیں چھوڑیں گے جو موجب ِ رسوائی
1 (حاشیہ از مرتب) یہ پیشگوئی 20 مئی 1905ء کو پوری ہوگئی۔ یعنی دھرم سالہ میں مؤرخہ 20 مئی 1905ء کو پھر سخت زلزلہ آیا اور کئی نئے مکانات جو رہائش کیلئے بنائے گئے تھے گِر گئے۔‘‘
(دیکھئے سول اینڈ ملٹری گزٹ مؤرخہ 24 مئی 1905ء )
2 ’’یہ فقرہ روحانی اور ظاہری دونوں معنی رکھتا ہے۔ اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ بد اَندیشیوں اور منصوبوں کی جو جو عمارتیں وہ بنائیں گے اُنہیں اللہ تعالیٰ مُنہدم کرتا رہے گا۔‘‘
( حاشیہ اشتہار 18 اپریل 1905ء مندرجہ الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ 6)
3 کاپی الہامات صفحہ 42 میں یہ تاریخ درج ہے۔ (مرتب)
ہواور طعن و تشنیع ہو۔ اسی بناء پر اس نے مجھے توفیق دی کہ پنجم حصہ براہین ِ احمدیہ شائع کیاجائے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 70 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 90)
14 اپریل1905ء
’’رؤیا میں دیکھا کہ مَیں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے۔ آگے ایک مکان نظر آیا۔ اس وقت زلزلہ آیا مگر ہم کو کوئی نقصان اس زلزلہ سے نہیں ہوا۔‘‘
(بدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر 3 مؤرخہ 20 اپریل 1905ء صفحہ1۔ الحکم جلد 9 نمبر 13 مؤرخہ 17 اپریل 1905ء صفحہ 12 1)
1905ء
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنّی کا مادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلاء کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور بَد گمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مُردار کی طرف۔ پس مَیں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں۔ مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اِذن نہیں دیا جاتا کہ اُن کو مطلع کروں۔ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے۔ پس مقامِ خوف ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 87۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 114)
1905ء
’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورۃ کہف میں ذوالقرنین کے قصہ کے بارے میں ہیں میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنے کھولے2 ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ91۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ119)
1905ء
’’خدا نے مجھے فرمایا کہ وہ تو تجھے رَدّ کرتے ہیں مگر مَیں تجھے خاتم الخلفاء بناؤں گا۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ104 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ267)
15 اپریل1905ء
’’قبل ظہر تھوڑی سی ربودگی اور غنودگی ہوکر یہ الہام ہوا:۔
1 نیز الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ 5‘6
2 یہ معنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ حصہ پنجم مطبوعہ 1914ء کے صفحہ 102 تا 108۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 119 تا 126 پر بیان فرمائے ہیں ۔ (مرتب)
اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ۔1 ‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 13 مؤرخہ 17 اپریل 1905ء صفحہ 12۔ بدر سلسلہ جدید جلد 1 نمبر3 مؤرخہ 20 اپریل 1905ء صفحہ1 )
15 اپریل1905ء
(الف)’’آج رات خواب میں دیکھا کہ سخت زلزلہ آیا ہے جو پہلے سے زیادہ معلوم ہوتا تھا۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر 3 مؤرخہ 20 اپریل 1905ء صفحہ1)
(ب)
اِ ک نشاں ہے آنیوالا آج سے کچھ دن کے بعد
تاریخ امروز 15 اپریل 1905ء
آئے گا قہرِ خدا سے خلق پر اِک انقلاب
یک بیک اِک زلزلہ سے سخت جُنبش کھائیں گے
اِک جھپک میں یہ زمیں ہوجائے گی زیرو زبر
رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یاسمن
ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس
ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی
خون سے مُردوں کے کوہستان کے آبِ رواں
مضمحل ہوجائیں گے اس خوف سے سب جن و اِنس
اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربّانی نشاں
ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہ ِ ناشناس
وحیِ حق کی بات ہے ہوکر رہے گی بے خطا جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر و مرغزار
اِک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار
کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار
نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آبِ رودبار
صبح کردے گی انہیں مثلِ درختانِ چنار
بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار
(بلبل)
راہ کو بھولیں گے ہوکر مَست و بیخود راہوار
سُرخ ہوجائیں گے جیسے ہو شرابِ انجبار
زار بھی ہوگا تو ہوگا اُس گھڑی باحالِ زار
آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار
اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دارومدار
کچھ دنوں کر صبر ہوکر متّقی اور بُردبار (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 120۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 151‘ 152)
(نوٹ) ’’خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ قیامت ہوگا۔ بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہئے جس کی طرف سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا اشارہ کرتی ہے لیکن مَیں ابھی تک اِس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا۔ ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اَور شدید آفت2جو قیامت کا نمونہ دکھاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت
1 (ترجمہ ) مَیں فوجیں لے کر اچانک تیرے پاس آؤں گا۔
2 ’’اگر خدا تعالیٰ نے اس آفت ِ شدیدہ کے ظہور میں بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال ہیں.......بہر حال وہ سولہ سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97‘98۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 258‘ 259)
تباہی آوے ۔ ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اُس صورت میں مَیں کاذب ٹھہروں گا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 120 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 151)
18 اپریل1905ء
(الف)’’دیکھا کہ زور سے اللہ اکبر اللہ اکبر (ساری اذان) کہہ رہاہوں۔ ایک اُونچے درخت پر ایک آدمی بیٹھا ہے۔ وہ بھی یہی کلمات بول رہا ہے۔ اس کے بعد مَیں نے بآوازِ بلند درُود شریف پڑھنا شروع کیا اور اس کے بعد وہ آدمی نیچے اُتر آیا اور اُس نے کہا کہ سید محمد علی شاہ آگئے ہیں۔
اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے زور سے زلزلہ آیا ہے ا ور زمین اس طرح اُڑ رہی ہے جس طرح رُوئی دُھنی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ وحی نازل ہوئی:۔
ہے سرِ راہ پر تمہارے وہ جو ہے مولا کریم۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر 3 مؤرخہ 20 اپریل 1905ء صفحہ1۔ الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ1)
سونے والو جلدی جاگو یہ نہ وقت ِ خواب ہے
زلزلہ سے دیکھتا ہوں مَیں زمیں زیرو زبر
ہے سرِ راہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مَولیٰ کریم
کوئی کشتی اَب بچا سکتی نہیں اس سَیل سے جو خبر دی وحیِ حق نے اس سے دِل بیتاب ہے
وقت اَب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے
نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے
حیلے سب جاتے رہے اِک حضرتِ توّاب ہے (الحکم جلد 1 نمبر 5 مؤرخہ 4 مئی 1905ء صفحہ 4۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 525۔ اشتہار النداء مِن وحی السّماء۔
تبلیغِ رسالت جلد دہم صفحہ 82 ‘ 83)
(ج)
جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار
جس سے قیمہ بن کے پھر دیکھیں گے قیمہ کا بگھار
پاک کر دینے کا تیرتھ کعبہ ہے یا ہردوار
لیکن ممکن ہے کہ ہو کچھ اَور ہی قسموں کی مار
جس کی دُنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار
شادیاں کرتے تھے جو پیٹیں گے ہوکر سوگوار
پَست ہوجائیں گے جیسے پَست ہو اِک جائے غار
جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں اُن کا شمار
دی خبر مجھ کو کہ وہ دِن ہوں گے ایامِ بہار
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لو اے ہوشیار (منقول اَز نوٹ بُک حضرت مسیح موعود علیہ السلام بحوالہ دُرّ ِ ثمین شائع کردہ مکرم محمد یامین صاحب مرحوم)
21 اپریل1905ء
’’اَمن اَست دَر مکان محبت سرائے ما۔ 1 ‘‘
(بدر جلد 1 نمبر 3 مؤرخہ 20 اپریل 1905ء صفحہ1۔ الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ1)
(ب) ’’4 اپریل 1905ء کے زلزلہ کے وقت ہم مع اپنے تمام اہل و عیال کے باغ میں چلے گئے تھے اور ایک میدان ہماری زمین کا جس میں پانچ ہزار آدمی کی گنجائش ہوسکتی تھی ‘ ہم نے سونے کیلئے پسند کیا اور اس میں دو خیمے لگائے اور اِردگرد قناتوں سے پَردہ کرادیا مگر پھر بھی چوروں کا خطرہ تھا کیونکہ جنگل تھا ۔ اس کے قریب ہی بعض دیہات میں نامی چور رہتے ہیں جو کئی مرتبہ سزا پاچکے ہیں۔
ایک مرتبہ رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں پہرہ کیلئے پھرتا ہوں۔ جب مَیں چند قدم گیا تو ایک شخص مجھے ملا اور اُس نے کہا کہ آگے فرشتوں کا پہرہ ہے یعنی تمہارے پہرہ کی کچھ ضرورت نہیں۔ تمہاری فرودگاہ کے اِرد گرد فرشتے پہرہ دے رہے ہیں۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا:۔
اَمن اَست دَر مقام ِ محبت سرائے ما 2
پھر چند روز کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اِرد گرد کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا باشندہ جو نامی چور تھا ‘ چوری کے ارادہ سے ہمارے باغ میں آیا اور اس کا نام بشن سِنگھ تھا۔ رات کا پچھلا حصہ تھا جب وہ اِس ارادہ سے باغ میں داخل ہوا مگر موقع نہ ملنے سے ایک پیاز کے کھیت میں بیٹھ گیا اور بہت سی پیاز اس نے توڑی اور ایک ڈھیر لگادیا اور پھر کسی نے دیکھ لیا۔ تب وہاں سے دوڑا۔ اور وہ اِس قدر قوی ہیکل تھا کہ اس کو دس آدمی بھی نہ پکڑ سکتے‘ اگر خدا کی پیشگوئی نے پہلے سے اُس کو پکڑا ہوا نہ ہوتا۔ دَوڑنے کے وقت ایک گڑھے میں پَیر اس کا جاپڑا۔ پھر بھی وہ سنبھل کر اُٹھا۔ مگر آگے پیچھے سے لوگ پہنچ گئے اور اس طرح پر سردار بشن سِنگھ باوجود اپنی سخت کوشش کے پکڑے گئے اور عدالت میں جاتے ہی سزا یاب ہوگئے۔
بعد اس کے ہمارے سکونتی مکان میں سے جو باغ میں ہے جس میں ہم دن کے وقت رہتے تھے ‘ ایک بڑا سانپ نکلا جو ایک زہریلا سانپ تھا اور بڑا لمبا تھا وہ بھی اس چور کی طرح اپنی سزا کو پہنچا اور اِس طرح پر فرشتوں کی حفاظت کا ثبوت ہمیں دست بدست مِل گیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 302 ‘ 303۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 315 ‘ 316)
1، 2 (ترجمہ از مرتب) ہمارے مکان محبت سرائے میں امن ہے۔
22 اپریل1905ء
’’جَآئَ کَ الْفَتْحُ۔1 ‘‘
(بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1۔ الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ1)
23 اپریل1905ء
’’بھونچال آیا اور بڑی شدت سے آیا۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1۔ الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ1)
24 اپریل2 1905ء
’’تما م حوادِث اور عجائباتِ قدرت دِکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ ہوگا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 42۔ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 70 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 90)
25 اپریل1905ء
’’قُلْ مَالَکَ حِیْلَۃٌ 3‘‘
(بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1۔ الحکم جلد 9 نمبر 14 مؤرخہ 24 اپریل 1905ء صفحہ1)
28 اپریل1905ء
’’رؤیا میں دیکھا کہ ایک سفید کپڑا ہے۔ اس پر کسی نے ایک انگشتری رکھ دی ہے۔ اس کے بعد الہاماتِ ذیل ہوئے:۔
فتح نمایاں۔ ہماری فتح۔ صَدَّقْتُ الرُّؤْیَا 4 ۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً 5۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر 15 مؤرخہ 30 اپریل 1905ء صفحہ1۔بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1)
’’ خدا تعالیٰ ہمیشہ انبیاء کی امداد فرشتوں کے ذریعہ سے کرتا ہے جو لوگوں میں نیکی کی ترغیب پید اکرتے ہیں اور حق کی طرف راہ د کھاتے ہیں۔ اسی شب صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت
1 (ترجمہ ) تیرے پاس فتح آئی۔
2 یہ تاریخ کاپی الہامات صفحہ 42 میں درج ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) کہو اَب تمہارا حیلہ کارگر نہیں ہوسکتا۔
4 (ترجمہ از مرتب) سچا کِیا مَیں نے خواب کو۔
5 (ترجمہ) مَیں اپنے فرشتوں کی فوجوں کے ساتھ اس وقت آؤں گا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہوگا کہ ایسا حادثہ ہونے والا ہے۔
کو اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً الہام1ہوا ہے۔ صبح اُٹھ کر ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ بے شک یہ الہام ہوا ہے۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1)
29 اپریل1905ء
’’رات دو بجنے میں سات منٹ باقی تھے کہ مَیں نے دیکھا کہ یکایک زمین ہلنی شروع ہوئی۔ پھر ایک زور کا دھکا لگا۔ مَیں نےرؤیاہی میں گھر والوں کو کہا کہ اُٹھو زلزلہ آیا ہے اور یہ بھی کہا کہ مبارک کو لے لو۔ اسی حالت ِرؤیامیں یہ بھی خیال آیا کہ شاستری کی پیشگوئی غلط نکلی۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر 15 مؤرخہ 30 اپریل 1905ء صفحہ1۔بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1)
29 اپریل1905ء
’’آج 29 اپریل 1905ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری مرتبہ کے زلزلہ شدیدہ کی نسبت اطلاع دی ہے۔ سو مَیں محض ہمدری ٔ مخلوق کیلئے عام طور پر تمام دُنیا کو اطلاع دیتا ہوں کہ یہ بات آسمان پر قرار پاچکی ہے کہ ایک شدید آفت سخت تباہی ڈالنے والی دُنیا2 پر آوے گی جس کا نام خدا تعالیٰ
1 حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو خواب میں یہ الہام بتائے جانے میں غالباً ایک بڑی حکمت یہ تھی کہ اس الہام کا آپ کے زمانہ خلافت میں ایک خاص ظہور مقدّر تھا جیسا کہ مارچ 1953ء میں ہوا۔ (مرتب)
2 ’’مجھے خدا تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ آفت جس کا نام اُس نے زلزلہ رکھا ہے نمونہ ٔ قیامت ہوگا اور پہلے سے بڑھ کر اس کا ظہور ہوگا ...... اگر چہ بظاہر لفظ زلزلہ کا آیا ہے مگر ممکن ہے کہ وہ کوئی اَور آفت ہو جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہو مگر نہایت شدید آفت ہو جو پہلے سے بھی زیادہ تباہی ڈالنے والی ہو جس کا سخت اثر مکانات پر بھی پڑے ..... جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ زلزلہ تیری ہی زندگی میں آئے گا اور اس زلزلہ کے آنے سے تیرے لئے فتح نمایاں ہوگی اور ایک مخلوقِ کثیر تیری جماعت میں داخل ہوجائے گی اور تیرے لئے وہ آسمانی نشان ہوگا۔ تیری تائید کیلئے خدا خود اُترے گا اور اپنے عجائب کام دکھلائے گا جو کبھی دُنیا نے نہیں دیکھے اور دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور تیری جماعت میں داخل ہوں گے اور وہ زلزلہ پہلے زلزلہ سے بڑھ کر ہوگا اور اس میں قیامت کے آثار ظاہر ہوں گے اور دُنیا میں ایک انقلاب پیدا کرے گا اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں اُس وقت آؤں گا کہ جب دل سخت ہوجائیں گے اور زلزلہ آنے کے خیال سے لوگ اطمینان حاصل کرلیں گے اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں مخفی طور پر آؤں گا اور مَیں ایسے وقت میں آؤں گا کہ کسی کو بھی اطلاع نہیں ہوگی۔ یعنی لوگ اپنے دُنیا کے کاروبار میں سرگرمی اور اطمینان سے مشغول ہوں گے کہ یک دفعہ وہ آفت نازل ہوجائے گی اور اس سے پہلے لوگ تسلّی کر بیٹھے ہوں گے کہ زلزلہ نہیں آئے گا اور اپنے تئیں بے خطر اور امن میں سمجھ لیا ہوگا تب یک دفعہ یہ آفت ان کے سروں پر ٹوٹے گی مگر خدا فرماتا ہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے۔ آفتاب بہار کی صبح میں نمودار ہوگا اور خزاں کی شام میں غروب کرے گا تب کئی گھروں میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے وقت کو شناخت نہ کیا۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 93‘ 94۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 253‘ 255)
نے بار بار زلزلہ رکھا ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ وہ قریب ہے یا کچھ دنوں کے بعد خدا تعالیٰ اُس کو ظاہر فرمادے گا۔ مگر بار بار خبر دینے سے یہی سمجھاجاتا ہے کہ بہت دُور نہیں ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی خبر اور اُس کی خاص وحی ہے جو عالمِ الْاَسرار ہے......
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں چھُپ کر آؤں گا۔ مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ اس وقت آؤں گا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہوگا کہ ایسا حادثہ ہونے والا ہے۔ غالباً وہ صبح کا وقت ہوگا یا کچھ حصہ رات میں سے ‘ یا ایسا وقت ہوگا جو اس سے قریب ہے......
اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس روز مَیں اُن پر رحم کروں گا جن کے دل مجھ سے ترساں اور ہراساں ہیں جو نہ بدی کرتے ہیں اور نہ بدی کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں۔ اور خدا نے یہ بھی فرمایا کہ اس روز تیرے لئے فتح ِ نمایاں ظاہر ہوگی۔ کیونکہ خدا اس روز وہ سب کچھ دکھلائے گا جو قبل از وقت دُنیا کو سُنایا گیا۔ خوش قِسمت وہ جو اَب بھی سمجھ جائے.........
مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی ہے تا وہ جو خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کرتے اور نہ مجھ کو ‘ اُن کو پتہ لگ جائے۔ مَیں محض ہمدردی کی راہ سے یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر بڑے بڑے مکانوں سے جو دو 2 منزلے سہ 3 منزلے ہیں اجتناب کریں تو اس میں رعایت ظاہر ہے آئندہ ان کا اختیار۔‘‘
(البلاغ۔ اشتہار 29 اپریل 1905ء بروز شنبہ مندرجہ الحکم جلد 9 نمبر 15 مؤرخہ 30 اپریل 1905ء صفحہ9)
اپریل1905ء
’’جب ہم بہار کے موسم میں 1905ء میں باغ میں تھے تو مجھے اپنی جماعت کے لوگوں میں سے جو باغ میں تھے کسی ایک کی نسبت یہ الہام ہوا تھا کہ
خدا کا ارادہ ہی نہ تھا کہ اُس کو اچھا کرے ‘ مگر فضل سے اپنے ارادہ کو بدل دیا
اِس الہام کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ سید مہدی حسین صاحب جو ہمارے باغ میں تھے اور ہماری جماعت میں داخل ہیں اُن کی بیوی سخت بیمار ہوگئی۔ وہ پہلے بھی تپ اور ورم سے جو منہ اور دونوں پَیروں اور تمام بدن پر تھی ‘ بیمار تھی اور بہت کمزور تھی اور حاملہ تھی۔ پھر بعد وضع حمل جو بعد میں ہوا‘ اُس کی حالت بہت نازک ہوگئی اور آثار نا اُمیدی ظاہر ہوگئے اور مَیں اس کیلئے دعا کرتا رہا۔ آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کو دوبارہ زندگی حاصل ہوئی ......دوسرے روز سید مہدی حسین کی اہلیہ کی زبان پر یہ الہام مِن جانب اللہ جاری ہوا کہ تُو اچھی تو نہ ہوتی مگر حضرت صاحب کی دعا کا سبب ہے کہ اَب تُو اچھی ہوجائے گی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ364 ‘ 365۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 378 ‘ 379)
یکم مئی1905ء
’’عالم ِ کشف میں ایک اشتہار دکھایا گیا ۔ اس کے سر پر لکھا ہوا ہے:۔
اَلْمُبَارَکُ
پھر بطور وحی کے زبان پر جاری ہوا:۔
بَرَکَۃٌ زَائِدَۃٌ عَلیٰ ھٰذَا الرَّجُلِ 1
اِس کے بعد ایکرؤیاہوا کہ مَیں رات کو اُٹھا ہوں۔ پہلے بشیر احمد ‘ شریف احمد ملے۔ پھر مَیں آگے جاتا ہوں کہ پہرے والوں کو دیکھوں تو مَیں کہتا ہوں یا کوئی کہتا ہے کہ
اس کے آگے فرشتے پہرہ دے رہے ہیں۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر 15 مؤرخہ 30 اپریل 1905ء صفحہ1۔
الحکم جلد 9 نمبر 16 مؤرخہ10 مئی 1905ء صفحہ1)
یکم مئی1905ء
رؤیا۔ دیکھا کہ زلزلہ آیا ہے۔
( بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر 16 مؤرخہ10 مئی 1905ء صفحہ1)
3 مئی1905ء
’’مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ رَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔2
فرمایا۔ اِ س سے اشارہ ان اشتہارات کی طرف معلوم ہوتا ہے جو حال میں شائع ہورہے ہیں۔‘‘
) بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر 16 مؤرخہ10 مئی 1905ء صفحہ1)
1905ء
’’مجھے خدا نے اپنے الہام سے یہ بھی خبر دی ہے کہ
جو شخص تیری طرف تِیر چلائے گا مَیں اُسی تِیر سے اس کا کام تمام کردوں گا۔‘‘
) براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 78۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 102)
1 (ترجمہ) ایک سے زیادہ برکت ہے اس مرد پر ۔
2 (ترجمہ از مرتب) جو تیر تُو نے چلایا وہ تُو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔
3 مئی1905ء
رؤیا۔ صبح کے وقت لکھا ہوا دکھایا گیا:۔
’’آہ نادر شاہ کہاں گیا۔1 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر 4 مؤرخہ 27 اپریل 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر 16 مؤرخہ10 مئی 1905ء صفحہ1)
5 مئی1905ء
(کشف) آج باغ میں سے ایک جامن کا پتّہ مَیں نے غور سے دیکھا تو اس پر جدھر سے پڑھیں یہی لکھا ہوا نظر آتا تھا:۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
( بدر جلد 1 نمبر5مؤرخہ 4 مئی 1905ء صفحہ7)
9 مئی1905ء
’’پھر بہار آئی ‘ خدا1 کی بات پھر پوری ہوئی۔ یَسْتَنْبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۔3‘‘
( بدر جلد 1 نمبر6 مؤرخہ 11 مئی 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر 16 مؤرخہ10 مئی 1905ء صفحہ1)
1 (نوٹ از مرتب) یہ پیشگوئی اِس طور پر پوری ہوئی کہ 1929ء میں جب امیر امان اللہ خاں والئے تخت افغانستان کی حکومت کا تختہ اللہ تعالیٰ نے حبیب اللہ خاں المعروف بچہ سقّہ کے ہاتھ سے اُلٹوایا تو افغانوں نے جلد ہی نادر خاں کو جو اُس وقت فرانس میں تھا‘ اپنی مدد کیلئے بلایا۔ چنانچہ نادر خاں آیا اور ا س کے ہاتھ سے بچہ سقّہ گرفتار ہوکر مارا گیا اور نادر خاں افغانستان کا بادشاہ بن گیا۔ اس وقت ا س نے اپنے خاندانی اور ملکی لقب ’’خان ‘‘ کو چھوڑ کر اُس کی بجائے ’’شاہ ‘‘ کا لقب اختیار کیا اور ’’نادر شاہ‘‘ کہلانے لگا۔
اس کے بعد 8 نومبر 1933ء کو عین دن کے وقت نادر شاہ کو ایک شخص عبدالخالق نے ایک بڑے مجمع میں قتل کردیا اور اس طرح پر نادر شاہ کی بے وقت اور اچانک موت نے نہ صرف افغانستان بلکہ تمام دُنیا کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ کہلوائے کہ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا۔‘‘
2 ’’پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اَور سخت زلزلہ آنے والا ہے۔ وہ بہار کے دن ہوں گے۔ نہ معلوم کہ وہ ابتداء بہار کا ہوگا جبکہ درختوں میں پتہ نکلتا ہے یا درمیان اُس کا یا اَخیر کے دن۔ جیسا کہ الفاظ وحی کے یہ ہیں ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔‘‘ چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں آیا تھا اِس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلنا شروع ہوجاتا ہے اِس لئے
9 مئی1905ء
’’ فتح نمایاں ‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 43)
10 مئی1905ء
’’ کیا عذاب کا معاملہ درست ہے۔ اگر درست ہے تو کِس حد تک۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر6 مؤرخہ 11 مئی 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر 17 مؤرخہ17 مئی 1905ء صفحہ1)
13 مئی1905ء
’’خواب میں دیکھا کہ ہم ایک عدالت میں ہیں اور ایک مقدمہ ہے۔ شبہ گذرتا ہے کہ مجسٹریٹ ایک شخص ڈپٹی قائم علی ہے اور اس کا سر رشتہ دار ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم ہیں اور ہم تینوں ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہم مدعی ہیں اور مدعا علیہ کو بلوانا ہے۔ مجسٹریٹ نے سر رشتہ دار کے کان میں کچھ کہا جس کو ہم نے بھی سن لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ 25 روپے طلبانہ داخل کردیں اور فریق ثانی کو بلایا جاوے۔ ہم نے جیب سے 25 روپے دے دیئے اور فریق مخالف کو طلب کیا گیا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر6 مؤرخہ 11 مئی 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر 17 مؤرخہ17 مئی 1905ء صفحہ1)
’’فرمایا ۔ قائم علی میں ’’علی‘‘ خدا کا نام ہے اور اس سے مراد علو مرتبہ اور غلام قادر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے کچھ کام کرنا چاہتا ہے اور طلبانہ سے مراد کچھ ابتلاء اور تکلیف ہے۔ یعنی قدرت ِ خداوندی سے کامیابی ضرور ہماری ہے لیکن اُس میں کچھ درمیانی تکلیف مقدر ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ انبیاء اور اولیاء اللہ کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔‘‘ (بدر جلد 1 نمبر6 مؤرخہ 11 مئی 1905ء صفحہ1)
14 مئی1905ء
’’میاں محمد اسحق1 ،حضرت میر ناصر نواب صاحب کا چھوٹا صاحبزادہ بیمار تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے میں حالت اچھی نہ تھی۔ فرمایا۔ مَیں نے دعا کی اور دعا کی اصل وجہ تو شماتت ِ اعداء تھی۔ ورنہ اولاد ہو یا
بقیہ حاشیہ: اِسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اَخیر تک وہ دن رہیں گے۔‘‘
(الوصیّت صفحہ 15۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 314)
3 (ترجمہ از مرتّب) اور تجھ سے اس اہم واقعہ کے متعلق پُوچھتے ہیں کہ کیا وہ واقعی ہونے والا ہے۔ کہوہاں۔ مجھے اپنے ربّ کی قَسم ہے وہ یقیناً واقع ہوگا۔
1 (نوٹ از مرتب) بدر میں الفاظِ ذَیل ہیں:۔
’’میاں محمود احمد اور میاں محمد اسحق بیمار ہیں ان کے واسطے دعا کرتے تھے۔ الہام ہوا۔‘‘
کوئی اَور عزیز۔ موت فوت تو ساتھ ہی ہے۔ غرض جب مَیں دعا کررہا تھا تو یہ الہام ہوا:۔
(1) سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔1
(2) پر خدا کا رحم ہے ‘ کوئی بھی اس سے ڈر نہیں۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 17 مؤرخہ17 مئی 1905ء صفحہ1۔ بدر جلد 1 نمبر6 مؤرخہ 11 مئی 1905ء صفحہ1)
مئی1905ء
’’24مئی کو بیان کیا کہ کئی روز ہوئے جب اسحق بیمار تھا‘ تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سے مُردار خوار جانور لَم ڈھینگ ہیں اور پاس ہی ایک مُردار پڑا ہوا ہے۔ اِس رؤیاکے بعد اس جگہ کو بدل دیا۔ وہ معاً اچھا ہوگیا۔ پہلے اس کے متعلق الہام ہوا تھا سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ۔2 ‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1905ء صفحہ1۔ بدر جلد 1 نمبر7 مؤرخہ18 مئی 1905ء صفحہ6)
20 مئی1905ء
’’صَدَّقْنَا الرُّؤْیَآ اِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ۔3‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1905ء صفحہ1۔ بدر جلد 1 نمبر7 مؤرخہ18 مئی 1905ء صفحہ5)
23 مئی1905ء
’’ (1) زمین تہ و بالا کردی
(2) اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ 4
(3) لنگر اُٹھا دو۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1905ء صفحہ1۔ بدر جلد 1 نمبر7 مؤرخہ18 مئی 1905ء صفحہ5)
24 مئی1905ء
’’رؤیامیں دیکھا کہ زینب نام ایک خادمہ لڑکی ساتھ ہے اور کنوئیں5 کی طرف جو
1 (ترجمہ) خدائے رحیم کی طرف سے سلامتی ہے۔
2 (نوٹ از مرتب) حضرت میر صاحب ؓ نے اس کے بعد 39 سال حیات پاکر بتاریخ 17 مارچ 1944ئ وفات پائی اور عجیب قدرت ِ الٰہی ہے کہ آخری وقت میں جبکہ سُورہ ٔ یٰسین آپ پر پڑھی جارہی تھی جب پڑھنے والے نے آیت’’سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ‘‘ کی تلاوت کی تو آپ کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی گویا آخری لمحاتِ حیات میں اِس الہام ِ رَبّانی کے سننے کی منتظر تھی۔
3 (ترجمہ از مرتب) یعنی ہم نے زلزلہ کی نسبت تیری رؤیا کو سچا کرکے دکھلادیا اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔
4 (ترجمہ از مرتب) مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا۔
5 یہ کنواں اب مٹی بھر کر بند کردیا گیا ہے۔ (مرتب)
باغ کے جنوبی مغربی کونے پر ہے‘ میں گیا ہوں تو کہتا ہوں کہ ایسے کنوئیں سے دُور رہنا چاہئے۔زلزلہ کے وقت ایسے کنوئیں خطرناک ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ زمین کے اندر یہ کنواں گِر پڑے ۔ گویا زلزلہ کے سبب کنوئیں کے زیرو بالا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 18 مؤرخہ24 مئی 1905ء صفحہ1۔ بدر جلد 1 نمبر7 مؤرخہ18 مئی 1905ء صفحہ1)
25 مئی1905ء
’’ 1 اُرِیْدُ مَا تُرِیْدُوْنَ ‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1905ء صفحہ1۔ بدر جلد 1 نمبر8 مؤرخہ25 مئی 1905ء صفحہ2)
26 مئی1905ء
’’فرمایا۔ گھر میں طبیعت علیل تھی۔ بہت سر درد ‘ بخار اور کھانسی بھی تھی۔ لوگوں کیلئے ابتلاء کا خوف ہوتا ہے۔ مَیں نے رات بہت دعا کی (شیخ رحمت اللہ کو مخاطب کرکے) آپ کیلئے بھی دعا کی تھی۔ پہلے تو ایک مشتبہ سا الہام ہوا۔ معلوم نہیں کِس کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے:۔
(1) 3 شَرُّالَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۔ (2) مَیں ان کو سزا دوں گا۔ (3) مَیں اس عورت کو سزا دوں گا۔
معلوم نہیں یہ کِس کے متعلق ہے۔ اِس کے بعد گھر والوں کے متعلق یہ الہام ہوا:۔
(1) 3 رَدَّ اِلَیْھَا رَوْحَھَا وَرَیْحَانَھَا (2) اِنِّیْ رَدَدْتُّ اِلَیْھَا رَوْحَھَا وَرَیْحَانَھَا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر8 مؤرخہ25 مئی 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1905ء صفحہ1حاشیہ)
26 مئی1905ء
’’رؤیا۔ اسی وقت جبکہ مذکورہ بالا الہام ہوا‘ دیکھا کہ کسی نے کہا کہ آنے والے زلزلے کی یہ نشانی ہے۔ جب مَیں نے نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ اس ہمارے خیمہ کے سر پر سے ‘ جو باغ کے قریب نصب کیا ہوا ہے‘ ایک چیز گِری ہے۔ خیمہ کی چوب کا اُوپر کا سِرا وہ چیز ہے۔ جب مَیں نے اُٹھایا تو وہ ایک لَونگ ہے جو عورتوں کے ناک میں ڈالنے کا ایک زیور ہے اور ایک کاغذ کے اندر لپٹا ہوا ہے۔ میرے دل میں خیال گذرا
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں وہی چاہتا ہوں جو تم چاہتے ہو۔ (نوٹ از مرتب) اِس الہام کی تاریخ حضور ؑ کی کاپی الہامات صفحہ 43 میں 23 مئی درج ہے۔
2 (ترجمہ) شرارت ان لوگوں کی جن پر تُو نے انعام کیا۔
3 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اس کی راحت اور خوش زندگی کو لَوٹایا۔ مَیں نے اس کی راحت اور خوش زندگی کو لَوٹادیا۔
کہ یہ ہمارے ہی گھر کا مدت سے کھویا ہوا تھا اور اَب ملا ہے اور زمین کی بلندی سے ملا ہے اور یہی نشانی زلزلہ کی ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر8 مؤرخہ25 مئی 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر 19 مؤرخہ31 مئی 1905ء صفحہ1)
27 مئی1905ء
’’ عَبْدُ الْقَادِرِ رَضِیْ اللّٰہُ عَنْہُ۔ اَرٰی رِضْوَانَہٗ ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔‘‘
پہلی وحی کے متعلق فرمایا کہ خدا کچھ اپنی قدرتیں میرے واسطے ظاہر کرنے والا ہے اِس واسطے میرا نام عبدالقادر رکھا۔ رضوان کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کوئی فعل دُنیا میں خدا کی طرف سے ایسا ظاہر ہونے والا ہے جس سے ثابت ہوجائے اور دُنیا پر روشن ہوجائے کہ خدا مجھ پر راضی ہے۔ دُنیا میں بھی جب بادشاہ کسی پر راضی ہوتا ہے تو فعلی رنگ میں بھی اس رضامندی کا کچھ اظہار ہوتا ہے۔ اِس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی رضا پر دلالت کرنیوالے افعال دیکھتا ہوں۔
مومن کو اللہ تعالیٰ کی رضا بہت پیاری ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مؤمنین جب بہشت میں داخل کئے جائیں گے تو اُن سے کہا جائے گا کہ اَب مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو۔ تو وہ عرض کریں گے کہ اَے رَبّ ! تُو ہم پر راضی ہوجا۔ جواب ملے گا اگر مَیں راضی نہ ہوتا تو تم کو بہشت میں کِس طرح داخل کرتا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر8 مؤرخہ25 مئی 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر 19 مؤرخہ31 مئی 1905ء صفحہ1)
28 مئی1905ء
رؤیا۔’’ شیخ رحمت اللہ صاحب کی ایک گھڑی میرے پاس ہے اور ایک چیز جیسے ترازو کے دو 2 پلڑے ہوتے ہیں۔مثل جھیوروں کی بینگھی کے۔ مَیں ایک ڈولی میں بیٹھا ہوا ہوں۔ پھر کِسی نے میاں شریف احمد کو اس میں بٹھادیا اور اس کو چکر دینا شروع کیا۔ اِتنے میں گھڑی گِر گئی اور اس جگہ قریب ہی گِری ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ اس کو تلاش کرو۔ ایسا نہ ہو کہ محمد حسین نالش کردے۔
فرمایا کہ خیال گذرتا ہے کہ شاید گھڑی سے مراد وہ ساعت ہے جو زلزلہ کی ساعت ہے جو معلوم نہیں۔ واللہ اعلم اور وہ رحمت کی ساعت ہے یعنی یہ ساعت ہمارے واسطے رحمت ِ الٰہی کا موجب ہوگی۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر8 مؤرخہ25 مئی 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر 19 مؤرخہ31 مئی 1905ء صفحہ1)
29 مئی1905ء
’’یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ط وَیَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔2 ‘‘
1 (ترجمہ از مرتب) قادر خدا کا بندہ۔ اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہوا۔ مَیں اس کی خوشنودی دیکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے۔
2 (ترجمہ) ’’اِس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے اور وہ مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہوجائیں گے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 73۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 77)
(فرمایا) یہ الہام کوئی پچیس سال کے بعد پھر ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کسی زبردست اظہار کا پھر کوئی وقت قریب ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر9 مؤرخہ یکم جون 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر 19 مؤرخہ31 مئی 1905ء صفحہ1)
30 مئی1905ء
’’ صَلٰوۃُ الْعَرْشِ اِلَی الْفَرْشِ
یعنی رحمت ِ الٰہی جو تم پر ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ عرش سے لیکر فرش تک ہے۔
فرمایا: اس میں کمّی کیفی مبالغہ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت نے فضا کو بھر دیا۔ یہ الہام آئندہ بشارت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ لفظی ہی نہیں بلکہ عملی رنگ میں ظاہر ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ جب وہ کسی پر خوش ہوتا ہے تو عملی رنگ میں اُس کا اظہار دُنیا پر کرتا ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر9 مؤرخہ یکم جون 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر 19 مؤرخہ31 مئی 1905ء صفحہ1)
30 مئی1905ء
(الف) ’’حضرت کے گھر میں بیمار تھیں اور سخت تکلیف تھی۔ کئی دوائیاں کیں کچھ فائدہ نہ ہوا آخر آپ ؑ دعا میں مشغول ہوئے۔ الہام ہوا:۔
(1) 1 اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ
چنانچہ دو منٹ ابھی گذرے تھے کہ خدا نے مرض کی حقیقت کھول دی2۔ مرض نہایت تکلیف دِہ تپ تھا۔ ساتھ اس کے اَور عوارض تھے ۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر20 مؤرخہ10 جون 1905ء صفحہ1۔بدر جلد 1 نمبر9 مؤرخہ یکم جون 1905ء صفحہ2)
(ب) ’’اِس الہام سے چند منٹ بعد ہی میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بیماری بباعث حرارت ِ جگر ہے ‘ اور دل میں ڈالا گیا کہ کتاب شفاء الاسقام کا نسخہ اس کیلئے مفید ہوگا۔ سو وہ نسخہ بنایا گیا اور وہ قرص تھے۔ جب
1 (ترجمہ) تحقیق میرے ساتھ میرا رَبّ ہے‘ مجھے راہ دکھائے گا اور کامیاب کرے گا۔
2 فرمایا۔’’اِس الہام کے ہوتے ہی میرے دل میں پڑا کہ اَب تک علاج کا راستہ درست نہ تھا۔ اب اللہ تعالیٰ علاج کے واسطے صحیح راہ بتلادے گا۔ چنانچہ اسی وقت دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ جگر میں کچھ نقص معلوم ہوتا ہے اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اس سے پہلے تشخیص درست نہیں ہوئی۔ چنانچہ مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل ؓ) کے ساتھ ذکر کیا گیا انہوں نے اسی وقت ایک نسخہ تجویز کیا۔ جگر پر ضماد کیا تو خدا تعالیٰ نے فوراً آرام دیا اور ایسی راحت ہوئی کہ پہلے کسی دوائی سے نہ ہوئی تھی۔‘‘ (بدر جلد 1 نمبر 10 مؤرخہ 8 جون 1905ء صفحہ3)
تین چار قُرص کھائے گئے تو ایک دن صبح کے وقت مَیں نے خواب میں دیکھا کہ عبدالرحمن نام ایک شخص ہمارے مکان میں آیا ہے اور وہ کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ بخار ٹوٹ گیا۔ اور یہ عجیب قدرتِ الٰہی ہے کہ ایک طرف یہ خواب دیکھی گئی اور دوسری طرف جب مَیں نے نبض دیکھی تو بخار کا نام و نشان نہ تھا۔ پھر یہ الہام ہوا:۔
تو در منزلِ ماچو بار بار آئی ۔ خدا ابر ِ رحمت ببارید یانے۔1‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 277۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ 289 ‘ 290 )
3 جون1905ء
’’ یُنَجِّی النَّاسَ مِنَ الْاَمْرَاضِ۔
فرمایا۔ یہ میری طرف اشارہ تھا کہ بہتوں کو میرے ذریعہ سے امراضِ خطرناک سے نجات ہوگی۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر9 مؤرخہ یکم جون 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر20 مؤرخہ10 جون 1905ء صفحہ1)
7 جون1905ء
والدہ محمود کو سخت موذی بخار تھا۔ رات مَیں نے دعا کی صبح ایک شخص خواب (میں) آیا۔ گویا وہ کہتا ہے بخار ٹوٹ گیا۔ اسی دن بخار ٹوٹ گیا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ 444447 })
جون1905ء
10 جون 1905ء کو فرمایا۔ ’’دو تین دن ہوئے الہام ہوا تھا:۔
مُضِرِّ صحت۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر21 مؤرخہ17 جون 1905ء صفحہ1)
9 جون1905ء
’’ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ وَمَعَ کُلِّ مَنْ اَحَبَّکَ۔3‘‘
( بدر جلد 1 نمبر9 مؤرخہ یکم جون 1905ء صفحہ2حاشیہ۔ الحکم جلد 9 نمبر20 مؤرخہ10 جون 1905ء صفحہ1)
1 (نوٹ از مرتب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہام کا جو ترجمہ فرمایا وہ اگلے صفحہ کے حاشیہ نمبر2 میں ملاحظہ فرمائیں۔
2 (ترجمہ) امراض سے لوگوں کو نجات دیتا ہے اور دے گا۔
3 نیز دیکھئے الحکم جلد 9 نمبر20 مؤرخہ10 جون 1905ء صفحہ1 و بدر جلد 1 نمبر9 مؤرخہ یکم جون 1905ء صفحہ2۔
4 (ترجمہ از مرتب) مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور ان تمام کے ساتھ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں یا رکھیں گے۔
9 جون1905ء
’’1 رَدَدْتُّ اِلَیْھَا رَوْحَھَا وَرَیْحَانَھَا۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔
امن است در مقامِ محبت سرائے ما۔‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ43)
13 جون1905ء
’’ایک کاغذ دکھایا گیا جس پر پانچ سطریں لکھی ہوئی تھیں۔ ان کو نظم کہہ سکتے ہیں نہ نثر ۔ کچھ مِلا جُلا سا تھا۔ وہ کاغذ میرے ہاتھ میں دیا گیا۔ مَیں نے پانچوں سطروں کو پڑھا مگر اُٹھتے اُٹھتے ایک سطر یاد رہی اور وہ اِس طرح تھی:۔
تو 2 در منزل ماچو بار بار آئی۔ خدا اَبر رحمت ببارِید یانے3‘‘
( بدر جلد 1 نمبر10 مؤرخہ 8 جون 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر21 مؤرخہ17 جون 1905ء صفحہ1)
15 جون1905ء
’’ اس کا غوث محمد نام رکھا گیا ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ44)
16 جون1905ء
رؤیا ۔ قبل از نماز صبح۔ مَیں اپنے مکان میں کمرے کے اندر کھڑا ہوں۔ اس وقت دیکھا کہ باہر ایک عورت4زمین پر بیٹھی ہے جو مخالفانہ رنگ میں ہے۔ وہ بہت بُری حالت میں ہے اور اُس کے سر کے بال مقراض سے کٹے ہوئے ہیں۔ کوئی زیور نہیں اور نہایت ردّی اور مکروہ حالت میں ہے اور اُس کے سر پر ایک مَیلا سا کپڑا پگڑی کی طرح لپیٹا ہوا ہے۔ اُس کے ساتھ بات کرنے سے مجھے کراہت آتی ہے۔ نمازِ عصر کا وقت ہے مَیں جلدی سے اُٹھا ہوں کہ نماز کیلئے چلا جاؤں ۔ کچھ کپڑے مَیں نے ساتھ لئے ہیں کہ نیچے جا کر پہن لُوں گا۔
1 (ترجمہ) اِس کے معنی دونوں طرح ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا خدا نے ابر ِ رحمت برسایا۔ یعنی ضرور برسایا۔ اور دوسرا یہ لفظ ابر ِ رحمت خدا کا بدل ہو۔ اور اِس طرح یہ معنے ہوں گے کہ خدا ہی خود ابر ِ رحمت ہے۔ کیا وہ برسا یا نہ برسا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان بار بار دعا کرتا ہے گویا خدا کے گھر میں جاتا ہے اور آخر کار خدا اُس کی سنتا ہے۔ (بدر 8 جون 1905ء)
2 الحکم جلد 9 نمبر 21 مؤرخہ 17 جون 1905ء صفحہ 1 حاشیہ میں لفظ ’’نہ‘‘ ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے اس کی طرف اس کی راحت اور خوش زندگی کو لَوٹا دیا۔ یقینا میرے ساتھ میرا رَبّ ہے جو میری رہنمائی کرے گا۔ ہمارے محبت بھرے مکان میں ہر طرح سے امن ہے۔
4 ’’یہ وہی عورت معلوم ہوتی ہے جس کے متعلق اسی اخبار میں درج ہوا تھا کہ مَیں ان کو سزادوں گا۔ مَیں اس عورت کو سزا دوں گا۔‘‘ (ایڈیٹر الحکم)
یہ جلدی اِس لئے کی کہ اس عورت کو میرے ساتھ بات کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ پس مَیں نے جلدی کے سبب پگڑی کو ہاتھ میں لیا اور پشمینہ کی سُرخ چادر اُوپر لے لی اور کمرے سے نکلا۔ جب مَیں اس کے برابر گذرا تو میرے منہ سے یا آسمان سے آواز آئی کہ
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ 1
ساتھ ہی یہ الہام ہوا کہ
اس پر آفت پڑی ‘ آفت پڑی
اور دیکھا کہ وہ عورت ایک نہایت ذلیل شکل میں کوڑھیوں کی طرح بیٹھی ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر10 مؤرخہ 8 جون 1905ء صفحہ 7۔ الحکم جلد 9 نمبر22 مؤرخہ24 جون 1905ء صفحہ2)
19 جون1905ء
’’ہماری جماعت کے چار آدمیوں میں سے جو سخت بیمار ہوئے تھے اسی جگہ باغ میں ان میں سے ایک 2کے متعلق یہ الہام ہوا:۔
خدا نے اس کو اچھا کرنا ہی نہیں تھا۔ بے نیازی کے کام ہیں۔ اعجاز المسیح
یعنی اُس کی موت تقدیر ِ مبرم کی طرح تھی۔ گویا مبرم تھی۔ مگر یہ معجزہ مسیح موعود ہے کہ اُس کو خدا نے اچھا کردیا۔ مبرم تقدیر قابلِ تبدیل نہیں ہوتی مگر بعض تقدیریں مبرم سے سخت مشابہت رکھتی ہیں اور بنظر کشفی مبرم معلوم ہوتی ہیں ۔ ایسی تقدیر ایک صاحب ِ برکت اور صاحب ِ حال کی کامل توجہ اور اقبال علی اللہ سے دُور ہوسکتی ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر11 مؤرخہ 15 جون 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر22 مؤرخہ24 جون 1905ء صفحہ2)
20 جون1905ء
(ا) عَجِّلْ۔ عَجِّلْ 3 (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ45)
(ب) اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَاالْخَلْقُ۔ صَلٰوۃُ الْعَرْشِ اِلَی الْفَرْشِ۔ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔ 4 (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ45)
1 (ترجمہ از مرتب) جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی *** ہے۔
2 ’’چار بیماروں میں سے ایک میاں محمد اسحق صاحبزادہ میر ناصر نواب صاحب تھے جن کی مرض کی حالت ظاہری نظر میں واقعی مایوسی کی حد تک پہنچ چکی تھی۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 7 بابت ماہ جولائی 1905ء صفحہ 290)
3 (ترجمہ از مرتب) جلدی کر ۔ جلدی کر۔
4 (ترجمہ از مرتب) تُو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے۔ تُو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو دُنیا نہیں جانتی ۔ رحمت ِ الٰہی عرش سے فرش تک ہے۔ تُو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں۔
26 جون1905ء
’’اِنِّیْ مَعَ الرَّحْمٰنِ فِیْ کُلِّ حَالَۃٍ۔ حَالَۃٍ الْمَوْتِ وَحَالَۃِ الْبَقَآئِ۔1‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ45)
2 جولائی1905ء
رؤیا۔ ’’دیکھا کہ ایک بڑا دریا ہے۔ اُس میں سے کوئی چیز نکلی جس میں سے شعلے نکلتے ہیں اور ہمارے سامنے ہوئی جیسا کہ دریا بطور تحفہ کے کوئی چیز ہمارے آگے پیشکش کرتا ہے۔ وہ چیز ہم نے لے لی۔ تو وہ ایک ٹوپی تھی جس کو ہم نے سر پر رکھ لیا۔ اُس کے بعد دریا نے ایک اَور چیز پیش کی جو ایک چغہ کی شکل میں تھی۔ وہ بھی ہم نے لے لی۔
فرمایا۔ دریا سے مراد کوئی بڑا بادشاہ یا اسی کی مانند کوئی اَور ذی شان آدمی یا کوئی بڑا اہلِ علم و فضل و کمال ہوتا ہے اور اُس کے تحفہ دینے سے مراد حلقہ خادموں میں داخل ہونا ۔ یا مُعتقد ہونا ۔ یا مالی خدمت کرنا۔ یا کسی غرض کیلئے رجوع لانا ہے۔ واللہ تعالیٰ اَعلم ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر13 مؤرخہ29 جون 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر24 مؤرخہ10 جولائی 1905ء صفحہ11)
12 جولائی1905ء
روحانی عالم کا دروازہ 2تیرے پر کھولا گیا۔3 فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر15 مؤرخہ13 جولائی 1905ء صفحہ2)
26 جولائی1905ء
’’ کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ 4 ‘‘
فرمایا۔ یہ صفاتِ الٰہیہ کا ظہور ہے۔ کسی زمانہ میں کوئی ایک صفت ظاہر ہوتی ہے اور کسی زمانہ میں پوشیدہ رہتی ہے۔ جب ایک اصلاح کا زمانہ دُو رپڑجاتا ہے اور لوگوں میں خدا شناسی نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ پھر اپنی معرفت کو ظاہر کرنے کے واسطے ایک ایسا آدمی پیدا کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اس کی معرفت دُنیا میں پھیلتی ہے لیکن جس زمانہ میں وہ مخفی ہوتا ہے اس زمانہ میں عابدوں کی عبادت اور زاہدوں کے زُہد بھی ادھورے اور نکمّے رہ
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں ہر حالت میں رحمن خدا کے ساتھ ہوں خواہ موت کی حالت ہو خواہ بقاء کی۔
2 کاپی الہامات صفحہ 45 میں ’’کا دروازہ‘‘ کا لفظ نہیں ہے بدر میں ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) پس آج تیری نگاہ تیز ہے۔
(نوٹ از مرتب) اِس الہام کی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کاپی الہامات صفحہ 45 میں 13 جولائی 1905ء لکھی ہے۔
4 (ترجمہ) مَیں مخفی خزانہ تھا پھر مَیں نے چاہا کہ مَیں پہچانا جاؤں۔
جاتے ہیں۔ یہ الہام براہین احمدیہ میں بھی درج ہے لیکن اب پھر اس کے خاص ظہور کا وقت معلوم ہوتا ہے اِس واسطے دوبارہ یہ الہام ہوا ہے ۔‘‘ (بدر جلد 1 نمبر17 مؤرخہ27 جولائی 1905ء صفحہ2۔ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 8 بابت ماہ اگست 1905ء صفحہ 330)
29 جولائی1905ء
فرمایا آج اللہ تعالیٰ نے میرا ایک اَور نام رکھا ہے جو پہلے کبھی سنا بھی نہیں۔ تھوڑی سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا:۔
محمد مفلح ۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر27 مؤرخہ31 جولائی 1905ء صفحہ3۔بدر جلد 1 نمبر17 مؤرخہ27 جولائی 1905ء صفحہ2)
31 جولائی1905ء
’’ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ اُقَدِّرُ مَا اَشَآئُ۔ 1 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام صفحہ45)
3 اگست2 1905ء
’’رؤیا میں دیکھا کہ ایک لفافہ ہے جس میں کچھ پیسے ہیں۔ کچھ پیسے اس میں سے نکل کر باہر سامنے بھی پڑے ہیں۔ اس کے بعد الہام ہوا:۔
تیرے لئے میرا نام چمکا
فرمایا۔ اِس الہام سے پہلے اگرچہ خواب میں پیسے دیکھے گئے جو کسی جھگڑے یا غم پر دلالت کرتے ہیں مگر وحیِ الٰہی صریح لفظوں میں دلالت کرتی ہے کہ اس کے بعد کوئی نشان ظاہر ہوگا جس کے واقعہ سے خدا تعالیٰ اپنا نام اور اپنی ہستی کو لوگوں پر ظاہر کرے گا۔‘‘ (بدر جلد 1 نمبر18 مؤرخہ3 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر28 مؤرخہ10 اگست 1905ء صفحہ3)
20 اگست1905ء
’’ فَزِعَ عِیْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ۔3 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر20مؤرخہ17 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر30 مؤرخہ24 اگست 1905ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں رحمن خدا ہوں جو چاہتا ہوں مقدّر کرتا ہوں۔
2 الہامات حضرت مسیح موود علیہ السلام کی کاپی کے صفحہ 45 پر اس کی تاریخ 3 جولائی 1905ء درج ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) عیسیٰ اور اس کے ساتھی گھبراگئے۔ (نوٹ) ’’جس دِن یہ الہام سُنایا گیا یعنی 21 اگست 1905ء اسی دن حضرت مخدوم و مکرم مولوی عبدالکریم صاحب غفراللہ لہٗ کی گردن کے نیچے ایک چھوٹی سی پھنسی نمودار ہوگئی۔ یہ مولوی صاحب مرحوم کی مرض کی ابتداء تھی۔ اور 51 دن کی مرض کے بعد 11 اکتوبر بدھ کے روز 2 1/2بجے دن کے حضرت مرحوم سینتالیس سال کی عمر میں بموجب الہامِ الٰہی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اِس دارِ ناپائیدار سے انتقال فرما کر حیاتِ ابدی میں جاداخل ہوئے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 10 ماہ اکتوبر 1905ء ٹائٹل پیج صفحہ 2)
22 اگست1905ء
’’چند آدمی سامنے ہیں۔ ایک چادر میں کوئی شَے ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ آپ لے لیں۔ دیکھا تو اُس میں چند مُرغ ہیں اور ایک بکرا ہے۔ مَیں اُن مرغوں کو اُٹھا کر اور سر سے اُونچا کرکے لے چلا تاکہ کوئی بلّی وغیرہ نہ پڑے۔ راستہ میں ایک بلّی ملی جس کے منہ میں کوئی شَے مِثل چوہا ہے مگر اس بلّی نے اس طرف توجہ نہیں کی اور مَیں ان مرغوں کو محفوظ لے کر گھر پہنچ گیا۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر20 مؤرخہ17 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر30 مؤرخہ24 اگست 1905ء صفحہ1)
24 اگست1905ء
’’پہاڑ گرا ‘ اور زلزلہ آیا‘‘
(بدر جلد 1 نمبر21 مؤرخہ24 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر30 مؤرخہ24 اگست 1905ء صفحہ1حاشیہ)
24 اگست1905ء
رؤیا۔’’مَیں ایک جگہ کھڑا ہوں۔ آگے ایک پردہ ہے۔ پردہ کے پیچھے سے آواز آئی:۔
تُو جانتا ہے مَیں کون ہوں۔ مَیں خدا ہوں جس کو چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں جس کو چاہتا ہوں ذِلّت دیتا ہوں۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر21 مؤرخہ24 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر30 مؤرخہ24 اگست 1905ء صفحہ1)
26 اگست1905ء
دیکھا کہ ایک شخص سامنے کھڑا ہے۔ اس نے نہایت زور کے ساتھ قلم چلایا جیسا کہ کوئی دیا سلائی رگڑتا ہے اور اس کے قلم کے لکھنے کی آواز بھی آئی۔ اس نے لکھا:۔
شَاھَتِ الْوُجُوْہُ
فرمایا: اس کے معنے ہیں دشمنوں کے منہ کالے ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی عظیم الشان نشان کے ذریعہ سے دشمنوں کو روسیاہ کرنا چاہتا ہے۔‘‘ (بدر جلد 1 نمبر21 مؤرخہ24 اگست 1905ء صفحہ2)
29 اگست1905ء
’’اے عمارت مفت میں تو تھک گئی۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 46)
30 اگست1905ء
(الف) ’’ مولوی عبدالکریم صاحب کی گردن کے نیچے پُشت پر ایک پھوڑا
ہے جس کو چیرا دیا گیا ہے۔ فرمایا:۔
مَیں نے ان کے واسطے رات دعا کی تھی۔رؤیامیں دیکھا کہ مولوی نورالدین صاحب ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے ہیں اور رو رہے ہیں۔
فرمایا : ہمارا تجربہ ہے کہ خواب کے اندر رونا اچھا ہوتا ہے اور میری رائے میں طبیب کا رونا مولوی صاحب کی صحت کی بشارت ہے۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر22 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر31 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ10)
(ب) ’’ایک خواب میں اُن1 کو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں ....... خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مراد صحت اور کبھی صحت سے مراد موت ہوتی ہے اور کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اور اس کی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 26۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 458 ‘ 459)
30 اگست1905ء
’’رؤیا۔ دیکھا کہ میرے ہاتھ میں چابیاں ہیں۔ ایک صندوق کو کھولنے کا ارادہ ہے۔
فرمایا۔ اس میں اشارہ حل مشکلات کی طرف ہے۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر22 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر31 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ10)
31 اگست1905ء
’’ایک عورت مرگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 46)
31 اگست1905ء
’’ نماز پڑھ رہے تھے اور فاتحہ کے بعد سورۃ والعصر پڑھنا تھا۔ اتنے میں غنودگی ہوکر سورۃ والعصر کی جگہ بڑے زور سے زبان پر یہ سورت بطور الہام جاری ہوئی:
اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر22 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر31 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ10)
31 اگست1905ء
(الف) فرمایا۔’’ نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کیلئے دعا کی
1 یعنی مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (مرتب)
گئی۔ صبح ( کی نماز) کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی ......مَیں نے دیکھا کہ عبداللہ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذپیش کرکے کہتا ہے کہ اِس کاغذ پر مَیں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے۔ میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت مَیں نے عبداللہ کے چہرے کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ مَیں نے اُس کو کہا کہ یہ لوگ رُوکھے ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی سپارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت۔ مَیں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا۔ کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کررہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں۔ مَیں نے جاکر کاغذ اس کو دیا اور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے اس پر دستخط کردو۔ اس نے بلا تامل اسی وقت لے کر دستخط کردیئے۔ پھر مَیں نے واپس آکروہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو ابھی دستخط گِیلے ہیں اورپوچھا کہ عبداللہ کہاں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہوگئی۔ تب مَیں نے دیکھا کہ اس وقت مَیں کہتا ہوں مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر دستخط ہوگئے ہیں۔
یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے۔ ملائک طرح طرح کے تمثلات اختیار کرلیا کرتے ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔ سنوری سے یہ مراد ہے کہ سنور عربی میں بلّی کو کہتے ہیں اور علمِ تعبیر کی رُو سے بلّی ایک بیماری کا نمونہ ہے۔ عبداللہ سنوری سے مراد ہوئی ‘ وہ عبداللہ جو بیمار ہے۔ فرمایا طِبّ تو ظاہری محکمہ ہے ایک اس کے ورا محکمہ پردہ میں ہے جب تک وہاں دستخط نہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
(بدر جلد 1 نمبر22 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر31 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ10)
(ب) فرمایا ۔’’ مولوی صاحب کی زیادہ علالت کے وقت مَیں بہت دعا کرتا تھا اور بعض نقشے میرے آگے ایسے آئے جن سے نا اُمیدی ظاہر ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا موت کا وقت ہے........یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت نازل کی ‘ اور عبداللہ سنوری والا خواب مَیں نے دیکھا جس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تشفّی ہوئی.......اِس دعا میں مَیں نے ایک شفاعت کی تھی جیسا کہ خواب کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے کہ یہ شخص میرا دوست ہے۔ خدا کی قدرت اور اس کا عالم الغیب ہونا ظاہر ہونا تھا کہ مولوی صاحب بچ گئے۔ خدا کی کتب میں نبی کے ماتحت اُمّت کو عورت کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ایک جگہ نیک بندوں کی تشبیہہ فرعون کی عورت سے دی گئی ہے اور دوسری جگہ عمران کی بیوی سے مشابہت دی گئی ہے۔ اناجیل میں بھی مسیح کو دولہا اور اُمّت کو دُلہن قرار دیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُمّت کے واسطے نبی کی ایسی ہی اطاعت لازم ہے جیسی کہ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے۔ اِسی واسطے ہماری رؤیامیں عبداللہ نے کہا کہ میری بیوی بیمار ہے۔ عبداللہ نبی کا نام ہے۔ قرآن شریف میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبداللہ آیا ہے۔ مٹھن
سے مراد وہ لذّت اور راحت صحت کی ہے جو بیماری کی تلخی کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ مقبول سے مراد ہے کہ دعا قبول ہوگئی۔ یہ سب گہرے استعارات اور تمثلات ہیں۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ3۔بدر جلد 1 نمبر23 مؤرخہ7 ستمبر 1905ء صفحہ2)
1905ء
’’بہت 1عرصہ پہلے یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ جس چوبارہ میں مولوی صاحب رہتے ہیں وہ چوبارہ گر گیا۔‘‘
( الحکم جلد10 نمبر6 مؤرخہ17 فروری1906ء صفحہ11)
31 اگست1905ء
’’بعد ظہر الہام ہوا:
اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ 2 ‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر31 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ10۔ بدر جلد 1 نمبر22 مؤرخہ31 اگست 1905ء صفحہ2)
2 ستمبر1905ء
’’ 3 سینتالیس سال کی عمر۔اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
1 چونکہ اِس رؤیا کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی اِس لئے اوپر کی مناسبت سے اسے یہاں درج کیا گیا۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) اِس الہام یعنی اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِکے بعد 9 مارچ 1906ء کو الہام ہوا رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔ رَبِّ لَا تُرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ (تذکرہ صفحہ 513) بظاہر یہ دونوں الہام متضاد معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل ان میں کوئی تضاد نہیں۔ پہلے الہام سے رویت کشفی مراد ہے اور دوسرے الہام سے زلزلۃ السّاعۃکی پیشگوئی کا وقوع متاخر کیا جانا مراد ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں’’آج (27 ماچ 1906ء) زلزلہ کے وقت کیلئے توجہ کی گئی تھی کہ کب آوے گا۔ اسی توجہ کی حالت میں زلزلہ کی صورت آنکھوں کے آگے آگئی اور پھر الہام ہوا رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھَذَا (الہام27 مارچ 1906ء ) خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ یہ الہامی دعا اس دوسرے الہام کے مترداف ہے کہ رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔ لَا تُرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُم۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول بھی فرمالی۔ اَخَّرَ ہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُّسَمًّی (الہام 28 مارچ 1906ء)اور پہلی الہامی دعا یوں قبول ہوئی کہ جب 8۔9 اپریل 1906ء کو پھر رَبِّ اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ کا الہام ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو ایک زلزلہ کا نظارہ دکھادیا اور اسکے ساتھ ہی الہام ہوا لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ۔ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ (الہام 11 جون 1906ء) اِس الہام کی ہَیبت محتاجِ بیان نہیں۔
3 (نوٹ از مرتب) خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعد میں واقعات نے بتادیا کہ اِس الہام میں مولانا عبدالکریم صاحب کی جو اس وقت کار بنکل سے بیمار تھے ‘ وفات کی خبر دی گئی تھی کیونکہ وفات کے وقت اُن کی عمر سینتالیس سال کی تھی۔
اس سے دوسرے دن 3 ستمبر 1905ء کو ایک شخص کا خط آیا جس نے اپنی بدکاریوں اور غفلتوں پر افسوس کی تحریر کرکے لکھا۔ اب میری عمر سینتالیس سال کی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اَلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)
فرمایا۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو خط باہر سے آنے والا ہوتا ہے اس کے مضمون سے پہلے ہی سے اطلاع دی جاتی ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر23 مؤرخہ7 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ3)
2 ستمبر1905ء
’’اس نے اچھا ہونا ہی نہیں تھا۔1 ‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 26۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 458)
2 ستمبر1905ء
’’تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَفِیْ الدِّیْنِ تُقْصِرُوْنَ ۔2 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 46 نیز دیکھئے بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2)
4 ستمبر1905ء
’’مَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ 3۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر23 مؤرخہ7 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ3)
7 ستمبر1905ء
(1) ’’ ایک کاغذ دکھایا گیا جیساکہ منی آرڈر کا فارم ہوتا ہے اور سامنے اس کے پاس پندرہ رکھے ہوئے ہیں۔ (اِس کشف کے تھوڑی دیر بعد پندرہ کا منی آرڈر آیا)
(2) ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا ہوا تھا:
’’آتش فشاں ‘‘
1 (نوٹ از مرتب) حضرت مولانا عبدالکریم صاحب چونکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک نہایت ہی مخلص بزرگ تھے جن کی وفات پر طبعاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کو سخت صدمہ ہونے والا تھا اِس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس الہام کے ذریعہ سے ہوشیار کردیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) تم دُنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور دین میں کوتاہی کرتے ہو۔
(نوٹ از مرتب) بدر میں الہام کا صرف پہلا حصہ ہے۔ ’’وَفِی الدِّیْنِ تُقْصِرُوْنَ‘‘ کا فقرہ نہیں ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اِذنِ الٰہی کے بغیر کوئی نفس مَر نہیں سکتا۔
(3) پھر ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا تھا:
’’ مَصَالِحُ الْعَرَبِ۔ مَسِیْرُالْعَرَبِ ‘‘
(4) پھر ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا تھا:
’’بامُراد‘‘
(5) پھر ایک کاغذدکھائی دیا اس پر لکھا تھا:
رَدّ بَلا 1
آج کے الہام مَسِیْرُالْعَرَبِ کا ذکر تھا۔ فرمایا۔ اِس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ’’عرب میں چلنا‘‘ شاید مقدّرہوکہ ہم عرب2 میں جائیں۔ مدّت ہوئی کہ کوئی پچیس چھبیس سال کا عرصہ گذرا ہے ایک دفعہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اُس نے عربی میں لکھا ہے اورآدھا انگریزی میں لکھا ہے۔ انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعے سےپورے ہوتے ہیں۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیصروکسرٰی کی کُنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر23 مؤرخہ7 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ3)
7ستمبر 1905ء
’’ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر23 مؤرخہ7 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ3)
8 ستمبر 1905ء
(1) ’’ 4 اِذَاجَآءَ اَفْوَاجٌ رَّسَمٌّ مِّنَ السَّمَآءِ۔‘‘
1 ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کا بیان ہے کہ یہ الہام ’’ردّبلا‘‘ 4 ستمبر1905ء کو ہؤا۔ یعنی جس روز کہ مولانا عبدالکریم صاحب کا بڑا اپریشن کیا گیا۔ دیکھئے الحکم جلد 10 نمبر5 مورخہ 10 فروری 1906ء صفحہ 4)
2 یہ پیشگوئی حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ پوری ہوئی۔ چنانچہ حضور دو دفعہ عرب میں تشریف لے گئے۔ پہلے تو 1913ء میں حج ِ بَیت اللہ شریف کی غرض سے مکّہ معظمہ اورمدینہ منورہ اورجدّہ کا سفر کیا اور دوسری دفعہ 1924ء میں حضور بَیت المقدس اوردمشق تشریف لے گئے۔ (مرتّب)
3 (ترجمہ از مرتّب) اورجو تیرے ربّ کا احسان ہے اس کو بیان کر۔
4 (ترجمہ از مرتّب) جب آسمان سے فوجیں اور زہر آئیں گے۔

(2) کفن1 میں لپیٹا گیا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر23 مؤرخہ7 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ3)
9 ستمبر1905ء
(ا) ’’اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا۔2 ‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ3)
(ب) ’’ آج صبح بہت سوچنے کے بعدمیرے دِل میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ بعض وقت ترتیب کے لحاظ سے الہامات پہلے یا پیچھے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اِن الہامات کی ترتیب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالی کہ ایسے الہامات جیسے ’’ اِذَا جَآئَ اَفْوَاجٌ وَّسَمٌّ مِّنَ السَّمَآئِ ‘‘اور ’’ کفن میں لپیٹا گیا‘‘ اور ’’ اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا ‘‘یہ اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ قضا و قدر تو ایسی ہی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و رحم سے رَدّ ِ بلاکردیا۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ12)
10 ستمبر1905ء
(الف) ’’دورہ پیشاب کی بڑی تکلیف تھی۔ دعا کی گئی ۔ الہام ہوا:۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔3 ‘‘
(بدر جلد 1نمبر24 مؤرخہ14 ستمبر1905ء صفحہ2)
(ب) ’ ’ اس وقت تمام بیماری جاتی رہی۔‘‘
(بدر جلد6نمبر31 مؤرخہ یکم اگست1905ء صفحہ6)
10 ستمبر1905ء
رؤیا۔ ’’ایک جگہ ایک بڑی حویلی ہے۔ اس کے آگے ایک بڑا چبوترہ ہے جس کی کُرسی بہت بلند ہے۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب سفید کپڑے پہنے ہوئے دروازہ پر بیٹھے ہیں۔ اسی جگہ مَیں ہوں اور پانچ چار اَور دوست ہیں جو ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب مَیں آپ کو آپ کی صحت
1 الحکم مؤرخہ 10 ستمبر 1905ء صفحہ 3 میں یہ الہام یوں ہے’’کفن میں لپیٹا ہوا۔‘‘ اِس الہام میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کی وفات کی اطلاع دی گئی ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) بے شک موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔
(نوٹ ) اِس الہام میں بھی حضرت مولانا عبدالکریم صاحب ؓ کی وفات کی خبر دی گئی ہے۔(مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) تم پر سلامتی ہو۔
کی مبارکباد1دیتا ہوںاور پھر مَیں رو پڑا اور میرے ساتھ کے دوست بھی رو پڑے اور مولوی صاحب بھی رو پڑے۔ پھر مَیں نے کہا دعا کرو اور دعا میں تین دفعہ سورہ فاتحہ پڑھی۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر25 مؤرخہ22 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ12)
12 ستمبر1905ء
(ا) ’’دو شہتیر ٹوٹ2گئے۔ ’’اِنِّیْ مُھِیْنٌ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔3 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر24 مؤرخہ14 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ12)
(ب) ’’ فرمایا ۔جو الہامِ الٰہی نازل ہوا تھا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے ان میں سے ایک شہتیر تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے دوسرے چودھری 4صاحب معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
( بدر جلد 2 نمبر23 مؤرخہ7 جون 1906ء صفحہ4)
13 ستمبر1905ء
’’ عَفَتِ الدِّیَارُ کَذِکْرِیْ 5
فرمایا ۔ کَذِکْرِی سےمراد یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے پیشگوئی ہوچکی ہے۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر32 مؤرخہ10 ستمبر1905ء صفحہ12۔بدر جلد 1 نمبر24 مؤرخہ14 ستمبر 1905ء صفحہ2)
1 (نوٹ از مرتب) خواب کے دو 2 حصے ہیں ابتدائی حصہ میں مولوی صاحب کی درمیانی حالت صحت طبع کی اشارہ تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کاربنکل سے بالکل نجات دے دی اور آخری حصہ میں آپ کی وفات کے متعلق خبر تھی۔ ابتدائی حصہ کے متعلق ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ اپریشن کے بعد زخم کی حالت کئی روز تک خراب رہی اور انگور کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا۔ حضرت نے دعا کی ۔ صبح کو رؤیا سنایا.........اُسی روز قریب دس بجے کے مَیں جو پٹّی لگانے کیلئے گیا تویہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ قریباً تمام زخم پر انگور آگیا تھا۔ اِس سے پہلے روز انگور کا نام و نشان نہ تھا اور سڑا ہوا مواد اس کے اندر سے نکلتا تھا۔ یہ بالکل عجوبہ اور خارق عادت بات تھی کہ اتنے بڑے زخم پر جو اس وقت قریب 8انچ لمبا اور 6انچ چوڑا تھا‘ ایک دن میں انگو رآجائے۔ میرے اور ڈاکٹر رشید الدین صاحب کے خیال میں یہ قریباً آٹھ دس روز کا کام تھا جو ایک دن میں ظہور پذیر ہوا تھا اور یہ دعا کا نتیجہ تھا۔‘‘
(الحکم جلد 10 نمبر 5 مؤرخہ 10 فروری 1906ء صفحہ 4)
2 الحکم جلد 9 نمبر 32 مؤرخہ 10 ستمبر 1905ء صفحہ 12 میں ہے ’’دو 2 شہتیر ٹوٹ جائیں گے۔‘‘ اس کے بعد زور سے الہام ہوا:۔
’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ اَرَادَ اِھَانَتَکَ‘‘
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں ایسے شخص کو ذلیل کروں گا جو تیری اہانت چاہے گا۔
4 یعنی چودھری الہ داد صاحب ہیڈ کلرک دفتر ریویو آف ریلیجنز قادیان جو 27 مئی 1906ءکو فوت ہوئے۔ (مرتب)
5 (ترجمہ از مرتب) دیار مِٹ جائیں گے جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں۔
16 ستمبر1905ء
رؤیا۔ ’’دیکھا کہ ایک شخص مسمّٰی شرمپت ساتھ ہے۔ ایک گہرے پانی میں جو جھیل کی طرح ہے ہم ہر دو کنارہ کی طرف تیرتے جاتے ہیں۔ کنارہ بہت دُو رہے اور مَیں پانی پر لیٹا ہوا جارہا ہوں اور تیرتا چلاجاتا ہوں۔ اِسی طرح تیرتے ہوئے جب مَیں قریب نصف کے پہنچا تو معلوم ہوا کہ قریباً زانو تک پانی ہے۔ پھر کنارہ پر پہنچ گئے اور خیال آیا کہ میرا لڑکا مبارک اُسی کنارہ پر رہا ہے۔ پھر ہم اس کو لینے کے واسطے واپس آئے ۔ تب دیکھا کہ پانی ایک طرف سے بالکل خشک ہے ایک طرف باقی ہے اور لوگ خشکی پر چلتے ہیں ہم بھی خشکی کی راہ پر چلنے لگے۔
فرمایا۔ بظاہر تو آج کل مولوی عبدالکریم صاحب کے واسطے دعا کی جاتی ہے اور غالباً ان کے متعلق یہ رؤیاہے۔ شاید یہ تعبیر ہو کہ ایک حصہ زخم کا خشک ہوگیا ہے اور دوسرا حصہ ابھی باقی ہے اور شرمپت کے لفظ سے انجام بخیر معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اَعلم۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر25 مؤرخہ22 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر33 مؤرخہ24 ستمبر1905ء صفحہ1)
19 ستمبر1905ء
رؤیا۔ ’’ دیکھا کہ مرزا غلام قادر صاحب میرے بڑے بھائی نہایت سفید لباس پہنے ہوئے میرے ساتھ جارہے ہیں اور کچھ باتیں کرتے ہیں۔ ایک شخص ان کی باتیں سنکر کہتا ہے کہ یہ کیسی فصیح بلیغ گفتگو کرتے ہیں۔ گویا پہلے سے حفظ کرکے آئے ہیں۔ فقط
فرمایا۔ ہمارا تجربہ ہے کہ جب کبھی ہم اپنے بھائی صاحب کو خواب میں دیکھتے ہیں اس سے مراد کسی مشکل کام کا حل ہونا ہوتا ہے......غلام قادر سے خدائے قادر کی قدرت کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر25 مؤرخہ22 ستمبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر33 مؤرخہ24 ستمبر1905ء صفحہ1)
20 ستمبر1905ء
رؤیا۔ ’’ دیکھا کہ مَیں بٹالہ کو جاتا ہوں۔ خیال آیا کہ نماز کا وقت تنگ ہے اس واسطے ایک مسجد میں گیا جو کہ چھوٹی سی مسجد ہے۔ مسجد کے زینوں پر سے چڑھتے ہوئے مرزا خدا بخش صاحب کی آواز آئی۔ وہ تو کہیں کو چلے گئے۔ پھر جب مَیں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بڑے مرزا صاحب یعنی والد صاحب کا ایک پرانا نوکر مرزا رحمت اللہ نام جو قریباً پچاس سال تک والد صاحب کی خدمت میں رہا تھا اور جس کو فوت ہوئے بھی قریباً چالیس سال ہوئے ہیں وہاں موجود ہے اور غمگین سا ہے اور مسجد کے کنوئیں کی منڈیر پر محمد1اسحق بیٹھا اور پیر منظور محمد بھی اس جگہ ہے۔ اسحق نے مرزا رحمت اللہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ بڑے مرزا صاحب نے اس کی روٹی
1 حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ و ناظر ضیافت۔ (مرتب)
بند کردی ہے اور یہ ارادہ کرتا تھا کہ چلا جائے اور خدا جانے کہاں جانا تھا مگر منظور محمد نے اس کو رکھ لیا ہے کہ تجارت کرکے گذارہ کرلیں گے۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ معلوم نہیں مرزا صاحب نے کیوں روٹی بند کردی ہے بزرگوں کے کام پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ پھر الہام ہوا:
اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔1
فرمایا کہ یہ ایک پر معنی خواب ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ روٹی مدارِ حیات ہے۔ کیونکہ خوراک کے ساتھ زندگی کا بقا ہے۔ روٹی کا بند ہونا اِس دُنیا سے فوت ہوجانا ہوتا ہے۔ سو بنظرِ اسباب ظاہری یہ سخت بیماری ایک موت کا پیغام ہے۔ لیکن روٹی پھر لگ گئی ہے کیونکہ منظور احمد نے رحمت اللہ کو رکھ لیا ہے۔ رحمت اللہ سے مراد خدا کی رحمت ہے اور منظور محمد سے مراد وہ امر ہے جو محمد کو منظور ہے۔ وحی ٔ الٰہی نے میرا نام محمد بھی رکھا ہے۔ پس اِس سے مراد مولوی صاحب کی صحت اور تندرستی ہے جس کے واسطے ہم دعائیں کرتے ہیں۔ تجارت سے مراد دعا کرنا ‘ خدا پر ایمان رکھنا‘ اس پر بھروسہ کرنااور اعمالِ صالحہ کا بجالانا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰ تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وََرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ 2
........غرض معمولی زندگی جو بغیر کسی عوض کے تھی وہ تو بند ہوچکی ہے لیکن اَب تجارتی زندگی باقی ہے یعنی وہ زندگی جو دعاؤں کا نتیجہ ہے اسی نے رحمت اللہ کو جاتے جاتے روک لیا ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر25 مؤرخہ22 ستمبر 1905ء صفحہ7۔الحکم جلد 9 نمبر33 مؤرخہ24 ستمبر1905ء صفحہ1‘2)
22 ستمبر1905ء
’’طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ۔3‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر33 مؤرخہ24 ستمبر1905ء صفحہ2۔بدر جلد 1 نمبر26 مؤرخہ29 ستمبر 1905ء صفحہ3)
1 (ترجمہ) مَیں رحمن خدا ہوں۔ مُرسل میرے پاس نہیں ڈرا کرتے کہ یہ خدا کے کام ہیں۔ پھر ان کو چھوڑ دے ۔ جن کاموں میں لگے ہوئے ہیں ان میں لہو و لعب کریں۔
2 سورۃ الصّف : 11‘12
3 (ترجمہ از مرتب) ہم پر وداع کی گھاٹی سے بدر کا طلوع ہوا :: (نوٹ از حضرت عرفانی صاحب) 21 ستمبر کی رات کو اعلیٰ حضرت مولوی صاحب کے لئے بہت دعا کرتے رہے۔ اس پر (یہ) الہام ہوا:: (الحکم)
(نوٹ از مرتب) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کی کاپی کے صفحہ 49 پر یہ الہام مکمل شعر کی صورت میں یوں درج ہے ۔ ؎
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعٖ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَادَعَالِلّٰہِ دَاعٖ
(ترجمہ از مرتب مصرعہ دوم) ہم پر شکر کرنا لازم ہے جب تک کوئی دعا کرنے والا دعا کرسکتا ہے۔
27 ستمبر1905ء
(1) ’’ تَاْتِیْک 1 نُصْرَتِیْ (2) یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2)
28 ستمبر1905ء
’’ 2 حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2)
29 ستمبر1905ء
(1) ’’ 3 لَا تَخَفْ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ (2) وَقَالُوْا مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لِمَاتُوْعَدُوْنَ (3) قُلْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوالْاِقْتِدَارِ اَفَلَاتُؤْمِنُوْنَ (4) قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ (5) قُلْ مَآ اَزِیْدُ لَکُمْ مِّنْ اَمْرِیْ۔ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (6) اِنَّآ اَنْزَلْنَا ہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ اِنَّا کُنَّا مُنْزِلِیْنَ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر27 مؤرخہ6 اکتوبر 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر34 مؤرخہ30 ستمبر1905ء صفحہ12)
ستمبر1905ء
’’ 4 اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 51)
1 (ترجمہ از مرتب) (1) میری مدد تیرے پاس آئے گی (2) ہر ایک دُور کی راہ سے تیرے پاس تحائف آئیں گے۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ قرار گاہ اور قیام گاہ ہونے کی رُو سے بہت اچھی جگہ ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) (1) مت خوف کر۔ میری درگاہ میں رسول خوف نہیں کیا کرتے (2) اور کہتے ہیں کون ہے جو اس کے پاس شفاعت کرے۔ وہ بات جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا ہے بالکل انہونی ہے (3) کہہ اللہ تعالیٰ غالب ہے قدرت رکھنے والا۔ پس کیا تم ایمان نہیں لاتے (4) کہہ میرے پاس اللہ کی طرف سے گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان لاتے ہو؟ (5) کہہ مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں بڑھاتا اور سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے (6) ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں اُتارا ہے ۔ یقینا ہم ہی اُتارنے والے ہیں۔
4 (ترجمہ از مرتب) کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کِیا۔ کیا ان کی تدبیر کو بیکار نہیں کردیا تھا۔
یکم اکتوبر1905ء
رؤیا۔ ’’ کسی شخص نے ہمارے ہاتھ پر سونف رکھ دی ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر27 مؤرخہ6 اکتوبر 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر35 مؤرخہ10 اکتوبر1905ء صفحہ1)
2 اکتوبر1905ء
’’ دیکھا کہ ایک مکان ہے۔ اس پر چڑھنے کیلئے ایک زینہ لگا ہوا ہے جو لوہے کا ہے اور تختے پاؤں رکھنے کے بھی ہیں۔ اُوپر ایک دروازہ ہے۔ مَیں اس زینہ پر چڑھتا ہوں مگر چڑھ نہیں سکتا۔ اتنے میں اُوپر سے کسی نے دروازہ بند کردیا اور کہا کہ دوسرے راستہ سے آؤ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ راستہ تو نزدیک ہے اور فوراً پہنچ سکتے ہیں مگر دوسرا راستہ دُور ہے۔ کوئی دو تین سَو گز کا فاصلہ ہے۔ پس ہم اُس دوسرے راستہ سے جانے لگے تو دیکھا کہ مَیں ایک مضبوط گھوڑے پر سوار ہوں اور آگے آگے ایک خدمتگار ہے جس کا نام غفّار ہے اور ایک اَور سوار بھی ساتھ ہے جو آگے آگے چلتا ہے۔ مَیں غفّار کو کہتا ہوں کہ آگے مت نکل ہمارے ساتھ ساتھ چل۔ تھوڑ راستہ طے کیا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔‘‘ ( بدر جلد 1 نمبر27 مؤرخہ6 اکتوبر 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر35 مؤرخہ10 اکتوبر1905ء صفحہ1)
5 اکتوبر1905ء
’’رِہا گو سفندان عالی جناب 1‘‘
( بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر35 مؤرخہ10 اکتوبر1905ء صفحہ1 کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 51)
5 اکتوبر1905ء
’’آہوئے مرگ 2‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 51)
7 اکتوبر1905ء
’’دیکھا کہ مَیں گورداسپور سے آیا ہوں اور ایک مضبوط گوٹ گھوڑے پر سوار ہوں جو ککّے رنگ کا ہے۔ گھوڑے پر ہی نماز پڑھی ہے اور سجدہ بھی کیا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ جب مَیں گورداسپور گیا تھا تو میرا بھائی بیمار تھا اور ان کے بچنے کی امید نہ تھی۔ معلوم نہیں اس کا اب کیا حال ہے۔ گھر کے پاس کوچہ میں میراں بخش حجام ملا۔ وہ بڑی خوش خوش باتیں کرتا ہے جس سے مَیں نے سمجھا کہ اب بھائی صاحب تندرست ہوں گے۔ ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر35 مؤرخہ10 اکتوبر1905ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) عالی جناب کی بھیڑیں رِہا ہیں۔
2 (ترجمہ از مرتب) موت کے ہرن۔
7 اکتوبر1905ء
’’ 1رؤیا میں دیکھا کہ ایک عورت قریباً تیس سال عمر فوت ہوگئی۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر35 مؤرخہ10 اکتوبر1905ء صفحہ1)
10 اکتوبر1905ء
’’ دیکھا کہ مَیں کسی جگہ ہوں اور استنجا کے واسطے ایک جگہ سے ڈھیلا لیا ہے تو دیکھا کہ وہاں بہت سے آدمی جیسے مزدور لنگوٹی پوش ہوتے ہیں ‘ بیٹھے ہیں جن سے کراہت ہوئی۔ پھر مَیں نے شادی2 خاں کو بلانا چاہا اور خیال آیا کہ اتنے آدمیوں سے اسے کس طرح شناخت کروں ‘ مگر مَیں نے آواز دی تو شادی خاں فوراً کھڑا ہوگیا۔ اس کے ساتھ الہام ہوا:۔
اِذْکَفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیلَ3‘‘
( بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر35 مؤرخہ10 اکتوبر1905ء صفحہ1)
11 اکتوبر1905ء
رؤیا۔’’ دیکھا کہ قدرت اللہ کی بیوی روپو ٔں کی ایک ڈھیری میرے پیش کرتی ہے۔ اس میں ایک لکڑی بھی ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر36 مؤرخہ17 اکتوبر1905ء صفحہ 10)
11 اکتوبر1905ء
’’الہام (1) 4اُرِیْدُ الْخَیْرَ (2) یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اعْبُدُوْارَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ۔ 5
فرمایا۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی موت پر حد سے زیادہ غم کرنا اور اس کی نسبت یہ خیال کرلینا کہ اس کے بغیر اب فلاں حَرج ہوگا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یا حد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیا جاتا ہے وہ معبود کے حکم میں ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ایک کو بُلا لیتا ہے دوسرا قائم مقام اسکے
1 (نوٹ) اسی روز ایک خادمہ تابی کی پوتی عمر تیس سال فوت ہوئی جو بچہ جننے کے بعد بیمار تھی۔ (الحکم)
2 اِ س سے مراد میاں شادی خاں صاحب مرحوم ہیں جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے خسر تھے۔
(مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) جب مَیں نے بنی اسرائیل سے ان کے دشمنوں کو باز رکھا۔
4 (ترجمہ) (1) مَیں خیر کا ارادہ کرتا ہوں (2) اے لوگو! اپنے رَبّ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا۔
5 اِس الہام کی تاریخ حضور ؑ کی کاپی الہامات صفحہ 51 میں 10 اکتوبر درج ہے اور اس کے بعد وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کا فقرہ بھی درج ہے مکمل الہام یوں ہے ۔
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اعْبُدُوْارَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ۔(مرتب)
کردیتا ہے‘ قادر او ربے نیاز ہے۔ پہلے اس سے ایک یہ بھی الہام ہوا تھا تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یعنی تم دُنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر36 مؤرخہ17 اکتوبر1905ء صفحہ10۔بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2)
12 اکتوبر1905ء
’’اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ 1‘‘
(بدر جلد 1 نمبر28 مؤرخہ13 اکتوبر 1905ء صفحہ2)
17 اکتوبر1905ء
’’2رسید مژدہ کہ آں یارِ دل پسند آمد
رسید مژدہ کہ دیوار از میاں برخاست‘‘
( بدر جلد 1 نمبر29 مؤرخہ20 اکتوبر 1905ء صفحہ3۔الحکم جلد 9 نمبر37 مؤرخہ24 اکتوبر1905ء صفحہ 1)
18 اکتوبر1905ء
’’ اِنِّیْ مَعَ3 الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاَلُوْمُ مَنْ4 یَّلُوْمُ وَ اُعْطِیْکَ مَایَدُوْمُ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر29 مؤرخہ20 اکتوبر 1905ء صفحہ3۔الحکم جلد 9 نمبر37 مؤرخہ24 اکتوبر1905ء صفحہ 1)
18 اکتوبر1905ء
(الف) رؤیا۔ ’’ایک شخص نے مجھےکنوئیں کی ایک کوری ٹِنڈ میں ٹھنڈا پانی دیا۔ پھر الہام ہوا:
’’آبِ زندگی ‘‘
اس کے بعد الہام ہوا:
قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ 5
1 (ترجمہ) مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) خوشخبری ملی کہ وہ محبوب آگیا۔ خوشخبری ملی کہ پَردہ درمیان سے اُٹھ گیا۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور جو ملامت کرے گا مَیں اُسے ملامت کروں گا اور تجھے وہ کچھ عطا کروں گا جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔
4 الحکم 24 اکتوبر 1905ء صفحہ 1 میں لفظ ’’ مَایَلُوْم‘‘ہے جو غالباً سہو ِ کاتب ہے۔ (مرتب)
5 (ترجمہ از مرتب) تیرے رَبّ کی مقرر کردہ میعاد تھوڑی رہ گئی ہے۔
پھر الہام ہوا:
1خداکی طرف سے سب پر اُداسی چھاگئی ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر29 مؤرخہ20 اکتوبر 1905ء صفحہ3۔الحکم جلد 9 نمبر37 مؤرخہ24 اکتوبر1905ء صفحہ 1)
(ب) ’’چند روز کارؤیاہے کہ ایک کوری ٹِنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے۔ پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفّٰی اور مقطّر پانی ہے۔ اِس کے ساتھ الہام تھا:
آبِ زندگی۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 12 دسمبر 1905ء صفحہ 480)
18 اکتوبر1905ء
’’خواب میں دیکھا کہ ایک چغہ ہے۔ وہ اُلٹا ہے مگر اس پر زربفت کاکام کیا ہوا ہے۔ دھاگا نظر نہیں آتا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر29 مؤرخہ20 اکتوبر 1905ء صفحہ3۔الحکم جلد 9 نمبر37 مؤرخہ24 اکتوبر1905ء صفحہ 1)
19 اکتوبر1905ء
’’ 2لَاتَقُوْمُوْا وَلَا تَقْعُدُوْآ اِلَّا مَعَہٗ۔ لَاتَرِدُوْا مَوْرِدًا اِلَّا مَعِیْ۔ اِنِّیْ مَعَکَ - وَمَعَ اَھْلِکَ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر29 مؤرخہ20 اکتوبر 1905ء صفحہ3۔الحکم جلد 9 نمبر37 مؤرخہ24 اکتوبر1905ء صفحہ 1)
19 اکتوبر1905ء
’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّحْمٰنِ اَدُوْرُ3‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 52)
1 حضور ؑ کی کاپی الہامات صفحہ 52 میں یہ الہام یوں درج ہے’’ اس دن خدا کی طرف سے سب پر اُداسی چھا جائیگی‘‘ نیز تاریخ الہام 15 اکتوبر درج ہے۔(مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) نہ کھڑے ہو اور نہ بیٹھو مگر اُس کے ساتھ ۔ نہ اُترو کسی جگہ میں مگر میرے ساتھ۔ مَیں تیرے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔
(نوٹ ) سفرِ دہلی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استخارہ کیا اس پر الہام ہوا۔
( الحکم جلد 9 نمبر 41 مؤرخہ 24 نومبر 1905ء صفحہ 5)
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں خدائے رحمن کے ساتھ چکر کھاتا ہوں۔
20 اکتوبر1905ء
’’یہ خدا کاکام ہے ۔ اللہ اکبر۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر30 مؤرخہ27 اکتوبر 1905ء صفحہ2)
21 اکتوبر1905ء
’’1’اِنِّیْٓ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ وَاُعْطِیْکَ مَایَدُوْمُ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاَرُوْمُ مَایَرُوْمُ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر30 مؤرخہ27 اکتوبر 1905ء صفحہ2)
21 اکتوبر1905ء
’’ہمارا حصہ دے دو۔‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 52)
22 اکتوبر1905ء
رؤیا۔ ’’دیکھا کہ دہلی گئے ہیں تو تمام دروازے بند ہیں۔ پھر دیکھا کہ اُن پر قفل لگے ہوئے ہیں۔ پھر دیکھا کہ کوئی شخص کچھ تکلیف دینے والی شَے میرے کان میں ڈالتا ہے۔ مَیں نے کہا تم مجھے کیا دُکھ دیتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس سے زیادہ دُکھ دیا گیا تھا۔‘‘ (بدر جلد 1 نمبر30 مؤرخہ27 اکتوبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر38 مؤرخہ31 اکتوبر1905ء صفحہ 1)
22 اکتوبر1905ء
’’تَاْتِیْکَ وَاَنَا مَعَکَ۔ 2
یہ الہام بخیروعافیت سفر سے واپس آنے کی خبر دیتا ہے۔‘‘ (الحکم جلد 9 نمبر43 مؤرخہ10 دسمبر1905ء صفحہ 5)
24 اکتوبر1905ء
’’فرمایا۔ کہ آج رات مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تھوڑے چنے بھُنے ہوئے سفید ہیں اور اُن کے ساتھ ہی منقہ بھی ہے۔
فرمایا۔ ہمارا تجربہ ہے کہ چنے ‘ مُولی ‘ بینگن یا پیاز خواب میں دیکھیں تو کوئی ا مرِ مکروہ پیش آتا ہے۔ لیکن منقہ دِل کو قوت دینے والی شَے ہے اور اس کو دیکھنا اچھا ہے۔ اِس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ا مرِ مکروہ چھوٹا یا
1 (ترجمہ از مرتب) مَیں ملامت کرنے والے کو ملامت کروں گا اور تجھے وہ چیز عطا کروں گا جو ہمیشہ کیلئے ہوگی۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور جس بات کا وہ قصد کرے گا اسی کا مَیں قصد کروں گا۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ تیرے پاس آئے گی جبکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں گا۔
(نوٹ از مرتب) اس میں حضرت اُمّ المو ٔ منین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف اشارہ ہے۔
بڑا درپیش ہے1جومنقہ کی آمیزش سے وہ کراہت جاتی رہے گی۔ فرمایا کہ انسان کی زندگی کے ساتھ مکروہات کا سلسلہ بھی لگا ہوا ہے۔ اگر انسان چاہے کہ میری ساری عمر خوشی میں گذرے تو یہ ہو نہیں سکتا۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِیُسْرًا۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ یہ زندگی کا چکر ہے جب تنگی آوے تو سمجھنا چاہئے کہ اس کے بعد فراخی بھی ضرور آئے گی۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر31 مؤرخہ31 اکتوبر 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر38 مؤرخہ31 اکتوبر1905ء صفحہ 1)
25 اکتوبر1905ء
رؤیا۔’’دیکھا کہ بڑا سخت زلزلہ آیا ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر31 مؤرخہ31 اکتوبر 1905ء صفحہ4)
یکم نومبر1905ء
’’دست ِ تو ‘ دُعائے تو ‘ ترحم زخدا2 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر34 مؤرخہ8 نومبر 1905ء صفحہ3۔الحکم جلد 9 نمبر38 مؤرخہ31 اکتوبر1905ء صفحہ 2 حاشیہ)
نومبر1905ء
’’ رَبِّ عَلِّمْنِیْ مَاھُوَخَیْرٌ عِنْدِکَ۔‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 52)
(ترجمہ)اے میرے خدا مجھے وہ سکھلا جو تیرے نزدیک بہتر ہے۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 103۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106)
9 نومبر1905ء
’’خواب میں گنّا دکھائی دیا۔ فرمایا۔ اِس سے مُراد کوئی مُفسد ہ یا ہنگامہ ہوتا ہے۔ الہام۔ جو اس کے ساتھ ہوا یہ ہے:۔
اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔3‘‘
( بدر جلد 1 نمبر35 مؤرخہ15 نومبر 1905ء صفحہ4۔الحکم جلد 9 نمبر40 مؤرخہ17 نومبر1905ء صفحہ 1)
1 فرمایا اگلے دن جو خواب میں چنے دیکھے گئے تھے معلوم ہوتا ہے کہ میر ناصر نواب صاحب کی بیماری کی طرف اشارہ تھا۔
( بدر جلد 1 نمبر31 مؤرخہ31 اکتوبر 1905ء صفحہ4)
2 یہ الہام قطب مینار ( دہلی۔ مرتب) سے واپس آتے ہوئے گاڑی میں مقبرہ منصور صفدر جنگ وزیر ہمایوں کے پاس ہوا
(البدر مؤرخہ 8 نومبر 1905ء صفحہ 3) ’’میر ناصر نواب صاحب کو خطرناک درد قولنج تھی۔ دعا کرنے پر یہ الہام ہوا ۔ اور خدا نے شفا دی۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 11 بابت ماہ نومبر 1905ء آخری ورق کا اندرونی صفحہ ) (ترجمہ) تیرا ہاتھ ہے اور تیری دُعا اور خدا کی طرف سے رحم ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 99۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102)
3 (ترجمہ) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
نوٹ:۔’’یہ رؤیا اور الہام آپ نے (بمقام امرتسر۔ مرتب) لیکچر سے پہلے سنا دیا تھا ۔ لیکچر شروع کرنے کے آدھ
11 نومبر1905ء
’’ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ لَا یُقْبَلُ عَمَلٌ مِّثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِّنْ غَیْرِ التَّقْوٰی۔1‘‘
( بدر جلد 1 نمبر35 مؤرخہ15 نومبر 1905ء صفحہ1۔الحکم جلد 9 نمبر40 مؤرخہ17 نومبر1905ء صفحہ 1)
13 نومبر1905ء
’’اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ۔2 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر36 مؤرخہ17 نومبر 1905ء صفحہ2 حاشیہ)
14 نومبر1905ء
رؤیا۔’’ ایک کاغذ دکھایا گیا جس پر عربی عبارت میں ایمان کے اقسام لکھے ہیں۔ وہ عبارت یاد نہیں رہی مگر اُس کا مطلب غالباً یہ تھا کہ ایمان چار قِسم ہے۔ ایک روایتی ایمان ‘ دوسرا وہ جو بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ تیسرا حالی ایمان ‘ چوتھا استغراقی جو محویّت سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر36 مؤرخہ17 نومبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر40 مؤرخہ17 نومبر1905ء صفحہ 1)
نومبر1905ء
’’مجھے خدا تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ میرا انہی سے پَیوند ہے۔ یعنی وہی خدا کے دفتر میں مُرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں۔‘‘ ( الحکم جلد 9 نمبر40 مؤرخہ17 نومبر1905ء صفحہ5)
15 نومبر1905ء
وحی ہوئی: ’’ زندگیوں کا خاتمہ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر36 مؤرخہ17 نومبر 1905ء صفحہ2۔الحکم جلد 9 نمبر40 مؤرخہ17 نومبر1905ء صفحہ 1)
19 نومبر1905ء
’’کمبل میں لپیٹ کر صبح قبر میں رکھ دو۔‘‘ (الحکم جلد 9 نمبر41 مؤرخہ24 نومبر1905ء صفحہ 1)
بقیہ حاشیہ: گھنٹہ بعد پورا ہوگیا۔ کوتاہ اندیش مخالفوں اور مُفسدوں نے اِس قدر شورو شر پیدا کیا کہ اپنی طرف سے وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘ (الحکم مؤرخہ 17 نومبر 1905ء صفحہ1)
1 (ترجمہ) یا تو وہ بعض باتیں ہم تجھے دکھائیں گے جن کا ان کو ہم نے وعدہ دیا ہے یا تجھے وفات دیں گے۔ تقویٰ کے بغیر کوئی عمل ذرّہ برابر بھی قبول نہیں کیا جاتا۔
2 (ترجمہ از مرتب) تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مَیں نے تیرا نام متوکل رکھاہے۔
19 نومبر1905ء
’’ ایک رؤیامیں دیکھا کہ سانپ نے میری ایڑی پر کاٹا ہے مگر اس سے کوئی زخم اور درد نہیں ہوا خفیف سا خون نکلا ہے۔ والد صاحب مرحوم نے اسے دیکھا ہے تو علاج بھی بتایا ہے اور جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی فکر کی بات نہیں۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر41 مؤرخہ24 نومبر1905ء صفحہ 1)
20 نومبر1905ء
(1) اِنِّیْ مَعَکَ یَا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ 1
(2) سب مسلمانوں کو2 جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلیٰ دِیْنٍ وَّاحِدٍ.3
( بدر جلد 1 نمبر37 مؤرخہ24 نومبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر41 مؤرخہ24 نومبر1905ء صفحہ1)
نومبر1905ء
فرمایا:’’ چند روز ہوئے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کورؤیامیں دیکھا۔ پہلے کچھ باتیں ہوئیں پھر خیال آیا کہ یہ تو فوت شدہ ہیں۔ آؤ اِن سے دعا کرائیں۔ تب مَیں نے اُن کو کہا کہ آپ میرے واسطے دُعا کریں کہ میری اتنی عمر ہو کہ سلسلہ کی تکمیل کے واسطے کافی وقت مِل جائے۔ اِس کے جواب میں اُنہوں نے کہا ’’تحصیلدار‘‘ ۔ مَیں نے
1 (ترجمہ) مَیں تیرے ساتھ ہوں اے رسول اللہ کے بیٹے۔
2 فرمایا۔’’ کہ یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو۔ عَلیٰ دِیْنٍ وَّاحِدٍ۔ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے۔ احکام اور امر دو 2 قِسم کے ہوتے ہیں۔ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو ‘ زکوٰۃ دو ‘ خون نہ کرو وغیرہ۔ اِس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدّل نہ کرنا ‘ یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے۔
دوسرا امر کونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا (وَّ) سَلَامًا اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا۔ اور یہ امر جو میرے اِس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ رُوئے زمین عَلیٰ دِیْنٍ وَّاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہوکر رہیں گے۔ ہاں اِس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قِسم کا بھی اختلاف نہ رہے۔ اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہوگا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں۔‘‘
( الحکم جلد 9 نمبر42 مؤرخہ30 نومبر1905ء صفحہ2)
(نوٹ از مرتب)کاپی الہامات صفحہ 53 پر یہ الہام عربی زبان میں یوں درج ہے اَجْمِعُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ لِیَجْتَمِعُوْا عَلیٰ دِیْنٍ وَّاحِدٍ
3 (ترجمہ از مرتب) دین ِ واحد پر۔
کہایہ آپ غیر متعلق بات کرتے ہیں۔ جس امر کے واسطے مَیں نے آپ کو دُعا کے واسطے کہا ہے آپ وہ دُعا کریں۔ تب اُنہوں نے دعا کے واسطے سینے تک ہاتھ اُٹھائے مگر اُونچے نہ کئے اور کہا ’’اکیس 21 ‘‘۔مَیں نے کہا کھول کر بیان کرو مگر انہوں نے کچھ کھول کر نہ بیان کیا اور بار بار اکیس1اکیس کہتے رہے اور پھر چلے گئے۔
فرمایا۔ تحصیلدار کے لفظ سے یہ مُراد معلوم ہوتی ہے کہ تحصیلدار کے دو کام ہوتے ہیں ایک رعایا سے سرکاری لگان وصول کرنا دوسرے رعایا کے باہمی حقوق کا تصفیہ کرنا اور ان میں باہم عدل قائم کرنا۔ اسی طرح مسیح موعود کا یہ کام ہے کہ خدا کے حق کا مطالبہ کرے اور توحید کو زمین پر پھیلاوے۔ دوسرے یہ کہ حَکَم عَدل ہوکر اُمّتِ محمدیہ کو باہمی عَدل پر قائم کرے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر37 مؤرخہ24 نومبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر41 مؤرخہ24 نومبر1905ء صفحہ1)
29 نومبر1905ء
(1) قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ2 (2) بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں (3) اُس
1 مولوی صاحب کا اکیس ۔ اکیس ۔ اکیس کہنا ظاہر کرتا ہے کہ اکیس کا لفظ آپ کی تبلیغ کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ آپ ؑ کا سوال مولوی صاحب سے یہ تھا کہ مجھ کو اتنی عمر ملے کہ سلسلہ کی تبلیغ کیلئے کافی ہو اور ا سکے جواب میں مولوی صاحب نے اکیس کا لفظ فرمایا ہے۔ یعنی تمہاری اِس تبلیغ کا وقت اکیس تک ہوگا۔ چنانچہ واقعات کو دیکھنے سے اس خواب کی سچائی بڑے زور سے ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ حضرت اقدس ؑ کا اشتہاربیعت جمادی الاوّل 1306ھ میں ہوا ہے اور اکیسویں سال اسی مہینے میں آپ کا انتقال ہوا اور اسی طرح 1888ء میں اشتہار بیعت نکلا اور 1908ء میں وفات ہوئی جس سے اس خواب کی تعبیر واضح ہوگئی کہ اس خواب سے یہ مُراد تھی کہ اکیسویں سال آپ ؑ کی وفات ہوگی۔‘‘
(رسالہ تشحیذ الاذہان جلد 3 نمبر 6‘ 7 بابت ماہ جون و جولائی 1908ء صفحہ 8‘ 9 از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ)
حضرت امیر المؤ منین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیل و بروز تھے اِس لئے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی قِسم کا انکشاف ہوا اور اانکشاف سے اکیس سال بعد آپ کی وفات ہوئی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 23 اپریل 1944ء کو فرمایا ’’آج مَیں نے ویسا ہی ایک رؤیا دیکھا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک رؤیا ہے......یہ ساری رؤیا تو نہیں مگر آج رات ایک لمبے عرصہ تک یہی رؤیا ذہن میں آکر بار بار یہ الفاظ جاری ہوتے رہے اکیس اکیس۔‘‘
(الفضل جلد 32 نمبر 99 مؤرخہ 29 اپریل 1944ء صفحہ 2)
چنانچہ 1944ءسے ٹھیک اکیس سال بعد حضور ؓ کا وصالِ مبارک ہوا اور لفظاً لفظاً خدا تعالیٰ کی بات پوری ہوئی۔ (مرتب)
2 (ترجمہ ) تیرے رَبّ کی میعاد تھوڑی رہ گئی ہے۔
دن سب پر اُداسی چھا جائے گی (4) قَرُبَ 1اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ۔ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔‘‘2
( بدر جلد 1 نمبر38 مؤرخہ8 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر42 مؤرخہ30 نومبر1905ء صفحہ1)
1905ء
فرمایا ۔ ’’میرے ایک چچا صاحب فوت ہوگئے تھے۔ عرصہ ہوا ۔ مَیں نے ایک مرتبہ اُن کو عالَمِ رؤیامیں دیکھا اور ان سے اس عالَم کے حالات پوچھے کہ کِس طرح انسان فوت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت عجیب نظارہ ہوتا ہے۔ جب انسان کا آخری وقت آتا ہے تو دو 2 فرشتے جو سفیدپوش ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں اور وہ کہتے آتے ہیں مَولا بس ۔ مَولا بس۔
(فرمایا۔ حقیقت میں ایسی حالت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے یہی لفظ مَولا بس موزوں ہوتا ہے)۔
اور پھر وہ قریب آکر دونوں اُنگلیاں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں۔
اے رُوح ! جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ۔
فرمایا۔ طبعی اُمور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے رُوح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہؤا نکلتی ہے۔ تو ریت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نتھنوں کے ذریعہ زندگی کی رُوح پھُونکی گئی۔ وہ عالَم عجیب اسرار کا عالَم ہے ۔ جن کو اِس زندگی میں انسان پورے طور پر سمجھ بھی نہیں سکتا۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 43 مؤرخہ 10 دسمبر 1905ء صفحہ3)
2 دسمبر1905ء
رؤیا۔ ’’دیکھا کہ ایک دیوار پر ایک مُرغی ہے۔ وہ کچھ بولتی ہے۔ سب فقرات یاد نہیں رہے مگر آخری فقرہ جو یاد رہا یہ تھا:۔
اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ۔3
اس کے بعد بیداری ہوئی۔ یہ خیال تھا کہ مُرغی نے یہ کیا الفاظ بولے ہیں۔ پھر الہام ہوا:۔
اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْل اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ۔4
1 (ترجمہ) تیری اجلِ مقدّر قریب ہے اور ہم تیرے لئے کوئی رُسوا کرنے والا ذکر باقی نہ چھوڑیں گے۔ (بدر)
2 فرمایا۔ اِن الہامات پر غور کرکے مَیں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ زمانہ بہت ہی قریب ہے۔ پہلے بھی یہ الہام ہوا تھا۔ اس وقت اس کے ساتھ ایک رؤیا بھی تھی۔ (الحکم جلد 9 نمبر 43 مؤرخہ 10 دسمبر 1905ء صفحہ2)
3 (ترجمہ) اگر تم مسلمان ہو۔
4 اللہ کی راہ میں خرچ کرو اگر تم مسلمان ہو۔
فرمایا کہ مُرغی کا خطاب اور الہام کا خطاب ہر دوجماعت کی طرف تھے۔ دونوں فقروں میں ہماری جماعت مخاطب ہے۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر38 مؤرخہ8 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر43 مؤرخہ10 دسمبر1905ء صفحہ1)
6 دسمبر1905ء1
’’قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ۔ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔ قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ شَیْئًا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر38 مؤرخہ8 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر43 مؤرخہ10 دسمبر1905ء صفحہ1)
(ترجمہ) ’’تیری اجل قریب آگئی ہے اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رُسوائی کا موجب ہو۔ تیری نسبت خدا کی میعادِ مقررہ تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کر دیں گے اور کچھ بھی ان میں سے باقی نہیں رکھیں گے جن کے بیان سے تیری رُسوائی مطلوب ہو۔‘‘
(الوصیّت صفحہ 2۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 301 ‘ 302)
’’ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رُسوا کرنے والا ذکر باقی نہ چھوڑیں گے۔ یہ بڑا مبشّر الہام ہے۔ یعنی تیرے آنے کی جو علّتِ غائی ہے اُس کو ہم پورا کردیں گے۔‘‘
(الحکم مؤرخہ 10 دسمبر 1905ء صفحہ 2)
فرمایا ۔ ’’ان فقرات کے ساتھ لگانے سے صاف منشاء الٰہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغامِ رحلت دیا جاوے گا تو دِل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ ابھی ہمارے فلاں فلاں مقاصد باقی ہیں۔ اِس کیلئے فرمایا کہ ہم سب کی تکمیل کریں گے۔
فرمایا۔ لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب اُمور کی تکمیل مامور ہی کرجائے۔ وہ بڑی بڑی اُمّیدیں باندھ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ مامور اپنی زندگی میں ہی کرکے اُٹھا ہے۔ صحابہ ؓ میں بھی ایسا خیال پَیدا ہوگیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے فوت ہونے کا وقت نہیں آیا کیونکہ دعویٰ تو تھا کہ کل دُنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب (کا) بھی بہت سا حصہ یوں ہی پڑا تھا مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ کرتا رہتا ہے تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت ِ دین کا ثواب ملتا رہے۔‘‘
(مکتوباتِ2 احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ 61‘62)
1 کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 53 میں اس کی تاریخ 4 دسمبر درج ہے۔ (مرتب)
2 (نوٹ) یہ مکتوب مؤرخہ 6 دسمبر 1905ء کو مولوی محمد علی صاحب نے حضرت اقدس ؑ کے حکم سے لکھا ہے اور دستخط مولوی صاحب کے ہیں۔
6 دسمبر1 1905ء
(رؤیا میں دیکھا 2)کہ دہلی گئے ہیں اور بخیریت واپس آئے ہیں۔ پھر الہاماً یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَوْصَلَنِیْ صَحِیْحًا۔ 3
( بدر جلد2 نمبر3 مؤرخہ19 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر2 مؤرخہ17 جنوری1906ء صفحہ3
کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 53)
7 دسمبر 1905ء
’’ 4 قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔ قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ شَیْئًا۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر38 مؤرخہ8 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر43 مؤرخہ10 دسمبر1905ء صفحہ1)
7 دسمبر 1905ء
’’خدایا زندگی بخش۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 53)
1 یہ تاریخ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 53 میں درج ہے۔ (مرتب)
2 حضرت امیر المؤ منین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ’’اِس الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لے ہی نہیں گئے۔ آخری سفر جو آپ نے دہلی کی طرف کیا وہ 1905ء کا ہے۔ تو یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا مثیل دہلی جائے گا۔ لوگ اس پر پتھراؤ کریں گے۔ یہ جو سنگباری کی گئی یہ دراصل مجھ پر تھی جسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسند پر بٹھایا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آپ کو یعنی آپ کے مظہر کو صحیح و سالم قادیان لے آئے گا......یہ جو کہا گیا ہے کہ مجھے صحیح و سالم پہنچا دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دوسروں کو نقصان پہنچے گا۔‘‘
(الفضل جلد 32 نمبر 102 مؤرخہ 3 مئی 1944ء صفحہ 5)
3 (ترجمہ از مرتب) سب حمد اس اللہ کیلئے ہے جس نے مجھے صحیح و سالم پہنچا دیا۔
4 (ترجمہ از مرتب) تیر ی مقدّر اجل قریب ہے اور ہم تیرے لئے کوئی رُسوا کن ذکر باقی نہیں چھوڑیں گے۔ تیرے رَبّ کی میعاد تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم تیرے لئے کوئی رُسوا کن چیز نہیں چھوڑیں گے۔ اور ہماری آخری بات یہ ہے کہ سب تعریف خدا کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا رَبّ ہے۔
9 دسمبر1905ء
’’ نئے قبرستان کی زمین کے متعلق الہام ہوا:۔
اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر38 مؤرخہ8 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر43 مؤرخہ10 دسمبر1905ء صفحہ
1کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 53)
’’یعنی ہر ایک قِسم کی رحمت اِس قبرستان میں اُتاری گئی ہے۔‘‘ (الوصیّت صفحہ 16۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 318)
10 دسمبر 1905ء
’’ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔1‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 53)
13 دسمبر 1905ء
’’ کَبُرَتْ فِتْنَۃٌ۔ 2 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر39 مؤرخہ15 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر44 مؤرخہ17 دسمبر1905ء صفحہ4)
14 دسمبر 1905ء
’’ 3 جَآئَ وَقْتُکَ وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَاتِ بَاھِرَاتٍ (2) قَرُبَ وَقْتُکَ وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَاتِ بَیِّنَاتٍ۔ ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر39 مؤرخہ15 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر44 مؤرخہ17 دسمبر1905ء صفحہ4)
فرمایا۔ اِن الہامات میں الفاظ بَاھِرَات ، بَیِّنَات صفت کے طور پر نہیں آئے بلکہ حال کے طور پر آئے ہیں اور دوام کا فائدہ دیتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ چمکتے ہوئے اور کھُلے نشانات اِس سلسلہ کی صداقت کے واسطے ہمیشہ قائم رہیں گے۔ یہ خدا تعالیٰ کے لُطف ‘ مدارات اور احسان کا ایک بڑا نمونہ ہے اور اس میں بڑی خوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے الفاظ شوکت کے ساتھ تسلّی دیتے ہیں کہ تم تردّد نہ کرو۔ اِس سلسلہ کے قیام کے اصل مقصد کو ہم پورا کردیں گے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہرات اور بیّنات کیا ہیں مگر ایک بڑے شُکر اور سجدے کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی ایک عظیم الشّان بشارت نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اِس سلسلہ کی تائید میں ایسے کام کرے گا جن سے بہت تبدیلی ہوگی اور دُنیا پر ایک عظیم اثر پڑے گا۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر39 مؤرخہ15 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر44 مؤرخہ17 دسمبر1905ء صفحہ4)
1 (ترجمہ ا ز مرتب) میرا رَبّ یقینا میرے ساتھ ہے وہ جلد ہی میری رہبری کرے گا۔
2 (ترجمہ ) فتنہ بڑا ہوگیا۔
3 (ترجمہ) تیرا وقت آگیا اور ہم تیرے واسطے روشن نشان باقی رکھیں گے۔ تیرا وقت قریب آگیا اور ہم تیرے واسطے کھُلے نشان باقی رکھیں گے ۔
16 دسمبر1905ء
(1) ’’ قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ مَایُرْضِیْکَ رَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ قَرُبَ مَا تُوْعَدُوْنَ۔ (2) اَمَرْتُ نَافِذًا۔1 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر39 مؤرخہ15 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر44 مؤرخہ17 دسمبر1905ء صفحہ4)
دسمبر 1905ء
’’ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ۔ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔ قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ۔ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ شَیْئًا۔ وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ۔ تَمُوْتُ وَاَنَاراضٍ مِّنْکَ۔ جَآئَ وَقْتُکَ۔ وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَاتِ بَاھِرَاتٍ ط جَآئَ وَقْتُکَ وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَاتِ بَیِّنَاتٍ ط قَرُبَ مَاتُوْعَدُوْنَ۔ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔ اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ۔‘‘
(ترجمہ) ’’تیری اجل قریب آگئی ہے۔ اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رُسوائی کا موجب ہو۔ تیری نسبت خدا کی میعاد مقررہ تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کردیں گے اور کچھ بھی اُن میں سے باقی نہیں رکھیں گے جن کے بیان سے تیری رُسوائی مطلو ب ہو۔ اور ہم اِس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ مخالفوں کی نسبت ہماری پیشگوئیاں ہیں ان میں سے تجھے کچھ دکھادیں یا تجھے وفات دیدیں۔ تُو اِس حالت میں فوت ہوگا جو مَیں تجھ سے راضی ہوں گا اور ہم کھُلے کھُلے نشان تیری تصدیق کیلئے ہمیشہ موجود رکھیں گے ۔ جو وعدہ کیا گیا وہ قریب ہے۔ اپنے رَبّ کی نعمت کا جو تیرے پر ہوئی ‘ لوگوں کے پاس بیان کر۔ جو شخص تقویٰ اختیار کرے ‘ اور صبر کرے۔ تو خدا ایسے نیکوکاروں کا اَجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ الوصیّت صفحہ2۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 301‘302)
دسمبر 1905ء
’’ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اُس دن سب پر اُداسی چھا جائے گی۔ یہ ہوگا ‘ یہ ہوگا ‘ یہ ہوگا۔ بعد اس کے تمہارا واقعہ ہوگا۔ تمام حوادث اور عجائباتِ قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔ ‘‘
(الوصیّت صفحہ3۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ302)
1 (ترجمہ ا ز مرتب) (1) تیرا رَبّ کہتا ہے کہ ایک امر آسمان سے اُترے گا جس سے تُو خوش ہوجائے گا۔ یہ ہماری طرف سے رحمت ہے اور یہ فیصلہ شدہ بات ہے جو ابتداء سے مقدّر تھی۔ وہ وقت قریب آگیا جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا (2) مَیں نے یہ حکم نافذ کردیا ہے یعنی اٹل ہے::
(نوٹ از مرتب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی کاپی صفحہ 53 میں یہ دوسرا اِلہام ’’اَمَرْتُ نَافِذًا‘‘کی بجائے ’’عَرَفْتُ نَافِذًا‘‘ لکھا ہے۔
دسمبر 1905ء
’’حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دُنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے ‘ اور شدّت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے ‘ اور زمین کو تہ و بالا کردیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہوجائے گی۔ پھر وہ جو توبہ کریں گے اور گناہوں سے دست کش ہوجائیں گے خدا اُن پر رحم کرے گا۔‘‘
(الوصیّت صفحہ3۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 302‘303)
دسمبر 1905ء
’’ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ۔کہ
تُو میری طرف سے نذیر ہے ۔ مَیں نے تجھے بھیجا تا مجرم ‘ نیکوکاروں سے الگ کئے جائیں۔ ‘‘
(الوصیّت صفحہ3۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ303)
دسمبر 1905ء
’’ خدا نے مجھے خبر دی ہے ۔کہ
مَیں تیری جماعت کیلئے تیری ہی ذرّیت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اُس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے ‘‘ (الوصیّت صفحہ6 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ306 حاشیہ)
دسمبر 1905ء
’’ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ۔کہ
تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے۔ ‘‘
(الوصیّت صفحہ7۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ307 )
دسمبر 1905ء
’’ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ‘ ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دُنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں۔ ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔ ‘‘ (الوصیّت صفحہ9۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ309 )
دسمبر 1905ء
’’ خدا نے فرمایا زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِیعنی وہ زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا اور پھر فرمایا لَکَ نُرِیْ اٰیٰتٍ وَّنَھْدِمُ مَایَعْمُرُوْنَ ۔یعنی تیرے لئے ہم نشان دکھلائیں گے اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ہم ان کو گراتے جائیں گے۔ اور پھر فرمایا ’’بھونچال آیا اور شدّت سے آیا۔زمین تہ و بالا کردی۔‘‘
(الوصیّت صفحہ14۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ314 - 315 )
دسمبر 1905ء
’’مجھے ایک جگہ دکھلادی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی۔ ایک فرشتہ مَیں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے۔ تب ایک مقام پر اُس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے۔ پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اُس کی تمام مٹّی چاندی کی تھی۔ تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے۔ اَور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ اُن برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں۔‘‘
(الوصیّت صفحہ15۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316)
دسمبر 1905ء
’’ 1 اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ط وَاَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ ط وَاُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ ط لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآئِ وَفِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِرُوْنَ۔ وَلَکَ نُرِیْٓ اٰیَاتٍ وَّنَھْدِمُ مَایَعْمُرُوْنَ۔ وَقَالُوْآ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا۔ قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ۔ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ لَا تَخَفْ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ اَتٰٓی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔ بِشَارَۃٌ تَلَقَّا ھَاالنَّبِیُّوْنَ۔ یَآاَحْمَدِیْٓ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ۔ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔ وَاَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَ کُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ۔ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ط لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًاط یَعْصِمُکَ
1 ترجمہ:۔ مَیں اس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اور اس شخص کو ملامت کروں گا جو اس کو ملامت کرے۔ اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے گی۔ تیرا آسمان پر ایک درجہ اور ایک مرتبہ ہے اور نیز ان لوگوں کی نگاہ میں جو دیکھتے ہیں۔ اور تیرے لئے ہم نشان دکھلائیں گے۔ اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ہم ان کو گراتے جائیں گے۔ اور انہوں نے کہا کہ کیا تُو ایسے شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے۔ اُس نے کہا کہ اس کی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ کچھ خوف مت کرکہ میرے رسول میرے قرب میں کسی سے نہیں ڈرتے۔ خدا کا امر آرہا ہے پس تم جلدی مت کرو۔ یہ خوشخبری ہے جو قدیم سے نبیوں کو ملتی رہی ہے۔ اے میرے احمد ؐ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ (اور) تو مجھ سے بمنزلہ اس انتہائی قرب کے ہے جس کو دُنیا نہیں جان سکتی۔ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ مَیں نے تجھے اپنے لئے چنا۔ جس پر تو غضبناک ہو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور جن سے تو محبت کرتا ہے مَیں بھی محبت کرتا ہوں۔ خدا نے تجھے ہر ایک چیز میں سے چن لیا۔ اس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح بن مریم بنایا۔ وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ اور وعدہ پورا ہونا ہی
اللّٰہُ مِنَ الْعِدَاوَ یَسْطُوْبِکُلِّ مَنْ سَطَا۔ ذَالِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ طکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ وَھُمْ مِّنْ م بَعْدِغَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَاالْمُجْرِمُوْنَ۔‘‘
(الوصیّت صفحہ16‘17 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 317حاشیہ)
دسمبر 1905ء
’’خدا نے میرا دل اپنی وحیِ خفی سے اِس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کیلئے ایسے شرائط لگادیئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہوسکیں جو اپنے صدق اور کامل راستبازی کی وجہ سے اُن شرائط کے پابند ہوں۔ سو وہ تین شرطیں ہیں اور سب کو بجالانا ہوگا۔......پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اِس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کیلئے چندہ داخل کرے.....
دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اِس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیّت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اُس کے تمام ترکہ کا حسب ِ ہدایت اِس سلسلہ کے اشاعت ِ اسلام اور تبلیغ ِاحکامِ قرآن میں خرچ ہوگا۔ اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیّت میں اِس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اِس سے کم نہیں ہوگا .....
تیسری شرط یہ ہے کہ اِس قبرستان میں دفن ہونے والا متّقی ہو اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شِرک اور بدعت کاکام نہ کرتا ہو۔ سچا اور صاف مسلمان ہو۔‘‘
(الوصیّت صفحہ16تا 18۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 318تا320)
تھا۔ خدا تجھے دشمنوں کے شر سے بچائے گا اور اس شخص پر حملہ کرے گا جو تیرے پر حملہ کرتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے اور نافرمانی کی راہوں پر قدم رکھا ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں۔ اے پہاڑو اور اے پرندو! میرے اِس بندہ کے ساتھ وجد اور رِقّت سے میری یاد کرو۔ خدا نے لکھ چھوڑ اہے کہ مَیں اورمیرے رسول غالب رہیں گے۔ اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوجائیں گے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نیکوکار ہیں۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اُ ن کے قدم اُن کے رَبّ کے نزدیک صداقت پر ہیں۔ تم سب پر اُس خدا کا سلام ہے جو رحیم ہے اور اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ۔
(ترجمہ ماخوذ از حقیقۃ الوحی و تذکرۃ الشہادتین و الوصیّت۔ مرتب)
دسمبر 1905ء
’’میری نسبت اور میرے اہل و عیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے باقی ہر ایک مَرد ہویا عورت اُن کو شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا۔‘‘
(ضمیمہ متعلقہ رسالہ الوصیّت۔ رُوحانی خزائن جلد 20 صفحہ 327)
23 دسمبر 1905ء
’’وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔1 ‘‘
( بدر جلد 1 نمبر40 مؤرخہ22 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 9 نمبر45 مؤرخہ24 دسمبر1905ء صفحہ1)
26 دسمبر 1905ء
(1) ’’ 2 یَا قَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَامِنْکَ۔3 (2) اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ نَّافِلَۃً لَّکَ نَافِلَۃً مِّنْ عِنْدِیْ۔‘‘
( بدر جلد 1 نمبر41 مؤرخہ29 دسمبر 1905ء صفحہ2۔ الحکم جلد 10 نمبر1 مؤرخہ10 جنوری1906ء صفحہ1)
31 دسمبر 1905ء
(ا) رؤیا۔ ’’دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی قبر کے پاس تین اَور قبریں ہیں اور ایک قبر پر لال کپڑا ڈالا ہے۔‘‘
( بدر جلد 2 نمبر1 مؤرخہ5 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد 10 نمبر1 مؤرخہ10 جنوری1906ء صفحہ1)
(ب) فرمایا۔’’یہ جورؤیادیکھا گیا تھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی قبر کے پاس دو 2 اَور قبریں ہیں ‘ وہ بھی
1 (ترجمہ) اور اپنے رَبّ کی نعمت کا ذکر کر۔
2 (1) اے چاند اے سورج تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں (2) ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ وہ تیرے لئے نافلہ ہے۔ وہ ہماری طرف سے نافلہ ہے۔
3 ’’یَاقَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَامِنْک یعنی اے چاند اور اے سورج تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں۔ اِس وحیِ الٰہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا۔ اِس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیضیاب اور مستفاد ہوتا ہے اسی طرح میرا نور خدا تعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے۔ پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کر کے پکارا۔اِس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا۔ وہ پوشیدہ تھا اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہوجائے گااور اس کی چمک سے دُنیا بے خبر تھی مگر اَب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دُنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 4۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 397)
پورا ہوا۔ ایک قبر الٰہی بخش صاحب ساکن مالیر کوٹلہ کی بنی اور دوسری چودھری1 صاحب مرحوم کی بنی۔‘‘
( بدر جلد2نمبر23 مؤرخہ7 جون1906ء صفحہ4)
یکم جنوری1906ء
’’تین2 بکرے ذبح کئے جائیں گے۔
فرمایا ۔ ظاہر پر حمل کرکے آج ہم نے تین بکرے ذبح کرادیئے ہیں۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر1 مؤرخہ5 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر1 مؤرخہ10 جنوری1906ء صفحہ1)
3 جنوری 1906ء
3 ’’اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْۃً۔ حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَا ھَآ اَنَّھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ۔ وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر1 مؤرخہ5 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر1 مؤرخہ10 جنوری1906ء صفحہ1)
5 جنوری 1906ء
4 وَضَعْنَاعَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ ٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ۔ وَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔
1 یعنی چودھری الہ داد صاحب ؓ ہیڈ کلرک دفتر ریویو آف ریلیجنز قادیان۔ اور رؤیا میں تین قبروں کا جو ذکر ہے یہ تیسری قبر بھی وہاں بنی ہوئی ہے جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کی اہلیہ زینب بی بی مرحومہ کی ہے۔(مرتب)
2 یہ الہام بھی ایک دوسرے الہام ’’شَاتَانِ تُذْبَحَانِ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 512 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 ‘ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 610) کی طرح بدقسمت افغانستان کی خونی زمین میں پورا ہوا۔ امیر امان اللہ خان نے اپنے عہد ِ حکومت میں باوجود کامل مذہبی آزادی کا اعلان کرنے اور احمدیوں کی حفاظت کا ذمہ لینے کے تین احمدیوں کو سنگسار کردیا۔ چنانچہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب ؓ 31 اگست 1924ء میں شہید ہوئے اور مولوی عبدالحلیم صاحب ؓ اور قاری نور علی صاحب ؓ 12 فروری 1925ء میں شہید کئے گئے۔
(الفضل 21 فروری 1925ء صفحہ 1 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 475 ) (مرتب)
3 (ترجمہ) مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا۔ جس بستی کو ہم ہلاک کردیں اُن پر پھر واپس آنا حرام ہے اور ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اُتار دیئے جنہوں نے تیری پیٹھ کو توڑ دیا تھا۔
4 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اُتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی اور اس قوم کی جَڑ کاٹی گئی جو ایمان نہیں لاتے۔
اِس سے پہلے دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ محمد حسین بٹالوی کو الہام ہوا ہے کہ قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ ۔ مَیں نے خیال کیا کہ اس نے ہمارے مخالف ہماری جماعت متفرق ہونے کے بارے میں شائع کیا ہے بعد اس کے کچھ غنودگی ہوگئی۔ پھر الہام ہوا:
قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔ یَاقَمَرُ 1 یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ ۔‘‘
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 54)
10جنوری1906ء
(1)’’ 2 اَللّٰہُ غَالِبٌ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ
(2) یُنْجِیْکَ مِنْ کَرْبِکَ ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر2مؤرخہ12 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر2مؤرخہ17 جنوری1906ء صفحہ3)
10جنوری 1906ء
’’ایک رؤیامیں دیکھا کہ بہت سے ہندو آئے ہیں اور ایک کاغذ پیش کیا کہ اس پر دستخط کردو۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ پبلک نے کردیئے ہیں۔ مَیں نے کہا مَیں پبلک میں نہیں یا کہا کہ پبلک سے باہر ہوں۔ ایک اَور بات بھی کہنے کو تھا۔ کیا خدا نے اِس پر دستخط کردیئے ہیں۔ مگر یہ بات نہیں کی تھی کہ بیداری ہوگئی۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر2مؤرخہ12 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر2مؤرخہ17 جنوری1906ء صفحہ3)
13جنوری 1906ء
3 قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْکُلَّ شَیْئٍ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ ھُمْ یَتَّقُوْنَ۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 54۔الحکم جلد10 نمبر2مؤرخہ17 جنوری1906ء صفحہ3۔
بدر جلد2 نمبر3مؤرخہ19 جنوری 1906ء صفحہ2 )
1 (ترجمہ از مرتب) اے چاند اے سورج تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں۔
2 (ترجمہ) (1) خدا ہر شے پر غالب ہے۔ (2) تجھے تیرے کرب سے نجات دے گا۔
3 (ترجمہ) تو کہہ دے اللہ۔ پھر سب چیزوں کو چھوڑ دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ کر اور دوسرے کسی کی پروا نہ کر۔
(بقیہ ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ متّقیوں کے ساتھ ہے۔
13 جنوری 1906ء
1 (1) لَا یُقْبَلُ عَمَلٌ مِّثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِّنْ غَیْرِ التَّقْوٰی (2) زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ وَنَھْدِمُ مَا یَعْمُرُوْنَ (3) عَفَتِ الدِّیَارُ کَذِکْرِیْ (4) قُلْ مَا یَعْبَؤُابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَادُعَآؤُکُمْ۔
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 54 )
14 جنوری 1906ء
(1)’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (2) سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (3) ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ55 )
(ترجمہ) خدا نے ابتداء سے مقدّر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کے رسول غالب رہیں گے (2) خدائے رحیم کہتا ہے کہ سلامتی ہے ۔ یعنی خائب و خاسر کی طرح تیری موت نہیں ہے۔ اور یہ کلمہ کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘ اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مکی فتح نصیب ہوگی۔ جیسا کہ وہاں دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے۔ دوسرے یہ معنے ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہوگی۔ خودبخود لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہوجائیں گے۔ فقرہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ مکہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فقرہ سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ مدینہ کی طرف ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر3مؤرخہ19 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر2مؤرخہ17 جنوری1906ء صفحہ3)
15 جنوری 1906ء
’’تزلزل در ایوانِ کسریٰ فتاد 2 ‘‘
( بدر جلد2 نمبر3مؤرخہ19 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر3مؤرخہ24 جنوری1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) (1) کوئی عمل تقویٰ کے بغیر ذرّہ بھر قبول نہیں کیا جائے گا (2) قیامت والا زلزلہ ۔ اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ہم ان کو گراتے جائیں گے(3) گھر مٹ جائیں گے جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں (4) کہہ دے کہ میرے رَبّ کو تمہاری پروا ہی کیا ہے۔ اگر تم دُعا نہیں کروگے۔
2 (ترجمہ از مرتب) شاہِ ایران کے محل میں تزلزل پڑگیا۔
(نوٹ از مرتب) چنانچہ اِس الہام کے بعد بالکل خلافِ توقع ایران میں جلد ہی شورِ بغاوت برپا ہوا اور مرزا محمد علی شاہِ ایران نے مجبوراً بتاریخ 15 جولائی 1909ء روس کے سفارت خانہ میں پناہ لی۔ آخر وہ تخت سے معزول کیا گیا اور پارلیمنٹ بنائی گئی۔ مفصّل دیکھئے ’’دعوۃ الامیر ‘‘ تصنیف حضرت سیّدنا امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز اُردو ایڈیشن نمبر 9 صفحہ 204 ‘ 205۔ فارسی ایڈیشن صفحہ 326 تا 329 میں دوسری پیشگوئی ۔
20 جنوری 1906ء
’’ 1 یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۔ وَتَرَی الْاَرْضَ یَوْمَئِذٍ خَامِدَۃً مُّصْفَرَّۃً۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر4مؤرخہ26 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر3مؤرخہ24 جنوری1906ء صفحہ1)
20 جنوری 1906ء
’’وَقَالُوْا لَسْتَ مُرْسَلاً۔ قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ۔‘‘
( الاستفتاء صفحہ 76۔ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702)
(ترجمہ) اور کہیں گے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں۔ کہہ میری سچائی پر خدا گواہی دے رہا ہے۔ اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں۔‘‘
( حقیقۃ الوحی91۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 94)
25 جنوری 1906ء
(1) ’’ 2 تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ(2) یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ3بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر4مؤرخہ26 جنوری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر4مؤرخہ31 جنوری1906ء صفحہ3)
1 (ترجمہ) اس دن آسمان ایک کھلا کھلا دُھواں لائے گا۔ یعنی آسمان ایک دُخانی صورت کا عذاب زمین پر نازل کرے گا اور تو زمین کو دیکھے گا کہ ایک مردہ سی ہوگئی ہے اور راکھ کی طرح بن گئی ہے اور اس پر بجائے سر سبزی کے زردی چھاگئی ہے
2 (ترجمہ از مرتب) (1) آسمان ایک کھلا کھلا دھواں لائے گا (2) اُس دن آسمان ایک کھلا کھلا دُھواں لائے گا۔
3 (نوٹ از مرتب) علاوہ دیگر معانی کے ظاہری رنگ میں بھی یہ الہام پورا ہوا۔ چنانچہ بابو نصیر احمد صاحب کمسٹریٹ ایجنٹ تونچانہ بازار کیمپ انبالہ نے جو اپنی چشم دید شہادت الحکم میں شائع کرائی اس میں لکھتے ہیں کہ ’’22 فروری 1906ء کو بوقت2/1 4 بجے شام (چھاؤنی انبالہ میں ) پلیگ کارنٹین کے پاس سے دُھواں نکلنا شروع ہوا اور آسمان کی جانب روانہ ہوا۔ اس دُھوئیں میں اِس قدر روشنی تھی جیسے کہ بجلی کی روشنی ہوتی ہے اور ایسی گڑ گڑاہٹ تھی کہ جیسے توپیں سر ہوتی ہیں۔ یہ دُھواں شمال سے اُٹھ کر جانب ِ جنوب روانہ ہوا۔ اس کے راستہ میں ایک پختہ عمارت تھی جہاں چیچک کا ٹیکہ لگایا جاتا تھا اس کی چھت کو صاف اُڑادیا۔
بس اسی پر خیر نہیں ہوئی وہاں سے یہ خدا کا زبردست نشان گورنمنٹ بوچری پر جابِراجا۔ جو اس جگہ سے قریباً دو 2 فرلانگ تھی اور اس پختہ عمارت کی چھت کو بالکل اُڑا دیا اور احاطہ کی ایک دیوار کو گرادیا اور دو تین آدمیوں کو خفیف سی چوٹیں بھی
26 جنوری 1906ء
’’فرمایا۔ دِل میں اُن مشکلات کا خیال تھا جو سلسلہ حقہ کی راہ میں ہیں تو یہ الہام ہوا :
’’ 1 سَفِیْنَۃٌ وَّسَکِیْنَۃٌ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر5مؤرخہ2 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر4مؤرخہ31 جنوری1906ء صفحہ3)
26 جنوری 1906ء
’’دیکھا کہ ایک مربع شکل کا صندوق ہے جس میں دو خانے ہیں۔ ایک خانہ میں موت ایک عورت کی شکل میں بیٹھی اور دوسرے خانہ میں اس کی لڑکی ہے ۔ وہ عورت مجھے تلاش کرتی ہے اور وہ صندوق گاڑی کی طرح چلتا ہے۔ مَیں نے اس کو اشارے سے کہا کہ کچھ تاخیر کرو۔ تب وہ مَتامّل سی رہ گئی۔‘‘ ( بدر جلد2 نمبر5مؤرخہ2 فروری 1906ء صفحہ2)
27 جنوری 1906ء
’’(1) الہام ہوا:۔
(اے2) وَرڈ اینڈ ٹو ُ گرلز
(2)خواب میں دیکھا کہ گویا ایک انگریز مذکورہ بالا الفاظ باربار بولتا ہے۔ پھر جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ انگریز نہیں بلکہ وہ مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے ہیں جو وہ الفاظ بول رہے ہیں۔ اور پھر یہی الہام انگریزی میں ہوا اور ساتھ ہی اس کا ترجمہ بھی۔ یعنی یہ کہ
’’ایک کلام اور دو لڑکیاں‘‘
( بدر جلد2 نمبر5مؤرخہ2 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر4مؤرخہ31 جنوری1906ء صفحہ3)
27 جنوری 1906ء
’’ایک کتاب دکھلائی گئی اس پر لکھا تھا:۔
لائف۔ 3‘‘
( بدر جلد2 نمبر5مؤرخہ2 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر4مؤرخہ31 جنوری1906ء صفحہ3)
بقیہ حاشیہ: آئیں۔ یہاں پر چار بیل گاڑی کھڑی تھیں جس میں سے تین کو اُلٹ دیا اور ایک عظیم الشان کیکر کو جَڑ سے اُکھیڑ کر پھینک دیا اور سات آٹھ کیکروں کے تنے توڑدیئے۔ ترازو جو اس جگہ گڑا ہوا تھا اس کا ایک پلڑا قریب ایک فرلانگ باہر کھیت میں گرا۔ اس کے بعد پولیس کی چوکی کے برآمدہ کو گرا کر یہ دُھواں غائب ہوگیا۔‘‘
(خط نصیر احمد صاحب محررہ مؤرخہ 24 فروری 1906ء ۔ الحکم جلد 10 نمبر 8 مؤرخہ 10 مارچ 1906ء صفحہ 3)
1 کشتی اور سکینت 2 A word and two girls (بدر میں لفظ Aنہیں ہے)
3 Life ترجمہ:۔ زندگی
28 جنوری 1906ء
الہام ’’ 25 فروری کے بعد جانا ہوگا 1۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر5مؤرخہ2 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر4مؤرخہ31 جنوری1906ء صفحہ3)
29 جنوری 1906ء
’’خواب میں دیکھا کہ زلزلہ آیا ہے اور زلزلہ شدید ہے لیکن نقصان کچھ نہیں ہوا اور ہم اُٹھ کر ایک طرف کو چلے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بیداری ہے۔ اس کے بعد بیداری ہوئی۔ تب مَیں نے کہا کہ یہ خواب تھی۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر5مؤرخہ2 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر4مؤرخہ31 جنوری1906ء صفحہ3)
یکم فروری 1906ء
(1) ’’2 تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃُ
(2)پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
(3) 3 وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر6مؤرخہ9 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر5مؤرخہ10 فروری1906ء صفحہ11)
1 (نوٹ از مرتب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی کاپی صفحہ 56 میں یہ الہام یوں درج ہے’’25 فروری 1906ء کے بعد جانا ہوگا۔‘‘
حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اس الہام کو حضرت سیّدہ اُمِّ طاہر احمد پر چسپاں فرماتے ہوئے فرمایا:۔
’’اُمِّ طاہر کی بیماری اور وفات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض الہامات میں بھی ذکر آتا ہے۔ مَیں جب ہوشیار پور گیا تو رستہ میں میرا ذہن اس الہام کی طرف منتقل ہوا کہ ’’25 فروری کے بعد جانا ہوگا۔‘‘ ہم نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح جلدی انہیں دوسرے ہسپتال میں منتقل کردیا جائے۔ مَیں نے کرایہ پر کوٹھی لینے کی بھی بڑی کوشش کی مگر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کے سامان میسر نہ آسکے ۔ آخر 25 فروری کو سر گنگا رام ہسپتال میں اُن کے داخلہ کا انتظام ہوا اور 26 فروری کو ہم انہیں لے گئے۔‘‘
(الفضل جلد 32 نمبر 83 مؤرخہ 9 اپریل 1944ء صفحہ 3)
2 (ترجمہ) اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔ یعنی ایک زلزلہ آیا اس کے بعد ایک اَور آنے والا ہے۔
3 (ترجمہ) اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہے وہی زمین میں ٹھیرے گی ۔ یعنی جو انسان خلقت کو فائدہ پہنچانے والے ہیں ان کو زندگی عطا کی جاوے گی۔
3 فروری 1906ء
’’رات کے تین بجے کے قریب جبکہ بادل نہایت زور سے گرج رہا تھا الہام ہوا:۔
اُٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں
فرمایا اس قت ہمارا شغل یہی ہوگا کہ نماز پڑھیں اور خدا کی عبرت کا نظارہ دیکھیں۔ ‘‘
( بدر جلد2 نمبر6مؤرخہ9 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر5مؤرخہ10 فروری1906ء صفحہ11)
5 فروری 1906ء
روز دو شنبہ عید اضحٰی حضرت اقدس نےرؤیادیکھا کہ ’’میاں محمد اسحق پسر حضرت میر ناصر نواب صاحب اور صالحہ بی بنت صاحبزادہ منظور محمد کے باہمی1تعلق نکاح کی تیاری ہورہی ہے۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر6مؤرخہ9 فروری 1906ء صفحہ5 زیرِ عنوان ’’بَارَکَ اللّٰہ ‘‘بدر 5 فروری 1906ء)
8 فروری 1906ء
’’ (1) زمین کہتی ہے:۔
(1) 2 یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَآ اَعْرِفُکَ (2) یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَ غَمُّہٗ دَوْحَۃَ اِسْمٰعِیْلَ۔ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ3
(3) ایک دانا کس کس نے کھانا۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر7مؤرخہ16 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر5مؤرخہ10 فروری1906ء صفحہ11)
8 فروری 1906ء
’’ خواب میں دیکھا گیا تھا کہ ہمارے باغ کے قریب ایک نہر رواں ہے ۔ مَیں کہتا ہوں کہ اب با غ جلد چند روز میں پرورش پاجائے گا اور اگر پانی بھی نہ ملے گا تب بھی سرسبز ہوجاوے گا۔ میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ باغ سے مراد اپنی جماعت ہے اور نہر سے مراد نصرت اور تائید ِ الٰہی ہے جو شاخوں کے رنگ میں ظاہر ہوگی۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر7مؤرخہ16 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر6مؤرخہ17 فروری1906ء صفحہ1)
1 چنانچہ اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ نے مسجد ِ اقصیٰ میں اس نکاح کا اعلان فرمایا۔ (مرتب)
( بدر جلد2 نمبر6مؤرخہ9 فروری 1906ء صفحہ5 زیرِ عنوان ’’بَارَکَ اللّٰہ ‘‘۔الحکم جلد 10 نمبر 5 مؤرخہ 10 فروری 1906ء صفحہ 11۔ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 462)
2 (ترجمہ) اے نبی اللہ ٭! مَیں تم کو نہیں پہچانتی تھی۔ (2) اس کا ہم ّ اور غم باہر نکال دے گا۔ اسمٰعیل کے درخت کو۔پس اس کو پوشیدہ رکھ یہاں تک کہ وہ ظاہر ہوجاوے۔
3 البدر میں ’’یخرج‘‘ لکھا ہے جو سہو ِ کاتب معلوم ہوتا ہے۔
٭ بدر و الحکم میں ’’ اے اللہ کے نبی ‘‘ ہے ۔
9 فروری 1906ء
’’در کلامِ توچیزے است کہ شعراء راداراں دخلے نیست ۔ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَّبٍّ کَرِیْمٍ۔ ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 62)
(ترجمہ) تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 102‘ 103۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106)
10 فروری 1906ء
’’دیکھا کہ ایک جماعت ِ کثیر میرے پاس کھڑی ہے ۔ ایک حاکم آیا اور اس نے کھڑے ہوکر کہا کہ کیوں اس جماعت کو منتشر نہ کیا جاوے ؟ مَیں نے کہا کہ اس جماعت میں کوئی مخالفت نہیں صرف تعلیم پاتے ہیں۔ پھر اس حاکم نے کہ گویا وہ ایک فرشتہ تھا آسمان کی طرف منہ کرکے ایک دو 2 باتیں کیں جو سمجھ میں نہیں آئیں۔ پھر اُس نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ سلام ‘ اور چلا گیا۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر7مؤرخہ16 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر6مؤرخہ17 فروری1906ء صفحہ1)
11فروری 1906ء
الہام ہوا:۔
’’ پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب اُن کی دلجوئی ہوگی۔1‘‘
( بدر جلد2 نمبر7مؤرخہ16 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر6مؤرخہ17 فروری1906ء صفحہ1)
11فروری 1906ء
’’ اوّل کسی نے کہا
کرنسی نوٹ
پھر ایک کتاب مجھے دی گئی۔ گویا وہ کرنسی نوٹ تھے۔ اور پھر الہاماً میری زبان پر جاری ہوا دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا ۔
فرمایا۔ (اخبار سے مراد خبر ہے)۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر7مؤرخہ16 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر6مؤرخہ17 فروری1906ء صفحہ1)
1 1905ء میں بنگالہ کی جو تقسیم ہوئی تھی وہ اس کی دلآزاری کا باعث بنی۔ آخر جارج پنجم نے اس الہام سے پانچ سال بعد وہ تقسیم منسوخ کردی جو بنگالیوں کی دلجوئی کا باعث بنی۔ (مرتب)
1906ء
’’ 1 اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیَاتِنَا عَجَبًا۔‘‘
(الحکم جلد 10 نمبر 6 مؤرخہ 17 فروری 1906ء صفحہ3)
16 فروری2 1906ء
’’ 3 رَبِّ اشْفِ زَوْجَتِیْ ھٰذِہٖ وَاجْعَلْ لَّھَا بَرَکَاتٍ فِی السَّمَآئِ وَ بَرَکَاتٍ فِی الْاَرْضِ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر8مؤرخہ23 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر7مؤرخہ24 فروری1906ء صفحہ1۔ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 56)
16فروری 1906ء
’’تَکْفِیْکَ ھٰذِہِ الْاِمْرَأَۃُ۔4 ‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 56)
18فروری 1906ء
’’اِنِّیْ مَعَ الَّذِیْنَ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ۔5 اَیْ یَاْتُوْنَ اِلَی اللّٰہِ حَنِیْفًا کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ۔ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 56)
19فروری 1906ء
’’عورت6 کی چال ۔ ایلی7ایلی لما سبقتانی۔ بریّت۔ وَ اِذْ کَفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔
1 (ترجمہ از مرتب) کیا تیر اخیال ہے کہ کہف اور رقیم والے ہمارے عجیب نشانات میں سے تھے۔
(نوٹ) چونکہ اِس الہام کے سَن کی تعیین نہیں ہوسکی اِس لئے سنِ اشاعت کے لحاظ سے اِسے یہاں درج کیا گیا ۔(مرتب)
2 کاپی الہامات صفحہ 56 میں اِس کی تاریخ 13 فروری روز سہ شنبہ ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اے میرے ربّ میری اِس بیوی کو شفا بخش اور اسے آسمانی برکتیں اور زمینی برکتیں عطا فرما۔
4 (ترجمہ از مرتب) یہ عورت تجھے کافی ہے۔
5 (ترجمہ از مرتب) مَیں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو ہدایت پاتے ہیں یعنی خدا کی طرف یکسر ہوکر آتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تو ابراہیم ؑ کی مِلّت کا پَیرو کار ہوں جو رُو بحق تھا۔
6 اِس الہام کی پیشگوئی کا ایک ظہور جو واقعات کے رنگ میں آنکھوں کے سامنے آیا وہ بھی ہے جو حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک مکتوب سے معلوم ہوتا ہے۔ چراغدین جمونی کی وفات پر حضرت مفتی صاحبؓ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)
یہ خیال گذرتا ہے ۔ واللہ اَعلم کو ئی شخص زنانہ طور پر مَکر کرے ۔ یعنی مردِ میدان بن کر کارروائی نہ کرے بلکہ چھُپ کر عورتوں کی طرح کوئی نقصان پہنچانا چاہے جس کا نتیجہ آخر بریّت ہو۔ مگر یہ صرف اجتہادی رائے ہے ۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس کے کیا معنے ہیں۔ ایک مَردوں کی چال ہوتی ہے اور ایک زنانہ چال ہوتی ہے جو گمنام ہوکر کوئی بدی کرتا ہے یا عورت کی طرح چھُپ کر کوئی حملہ کرتا ہے۔ اور آخری فقرے کے یہ معنے ہیں کہ فرعون کے شر سے ہم نے بنی اسرائیل کو بچالیا۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر8مؤرخہ23 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر7مؤرخہ24 فروری1906ء صفحہ1)
19فروری 1906ء
’’دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے۔ تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا:۔
’’ بشیر الدَّولہ ‘‘
فرمایا: کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کِس کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن ہے کہ بشیر الدَّولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہوگا جس کا پَیدا ہونا موجب ِ خوشحالی اور دولتمندی ہوجائے۔ اور یہ بھی قرین ِ قیاس ہے کہ وہ لڑکا خود اقبا لمند اور صاحب ِ دولت ہو
بقیہ حاشیہ: نے قاضی صاحب ؓ کو بعض امور تحقیق طلب کے متعلق تفصیلات دریافت کرنے کیلئے لکھا۔ انہوں نے بعد تحقیق مفصل خط بھیج دیا جس میں چراغدین کی بیوی کے متعلق بھی بھی الفاظ ِ ذیل لکھ دیئے۔ ’’اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کے الزام لگاتے تھے۔ ممکن ہے کہ وہ اس کی زندگی میں ہی خراب ہو۔‘‘ یہ خط بدر 19 اپریل 1906ء صفحہ 3 میں شائع ہوگیا۔ اِس خط کے شائع ہونے پر معاندین نے قاضی صاحب ؓ کے خلاف بھی ہتک عزت کا مقدمہ کھڑا کرنا چاہا اور پَیروی مقدمہ کیلئے ایک بڑی کمیٹی مقرر ہوئی۔ اس پر قاضی صاحب ؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تفصیل دیتے ہوئے دعا کیلئے لکھا اور اس میں یہ بھی لکھا کہ 19 فروری کا الہام ’’عورت کی چال ۔ ایلی ایلی لما سبقتانی‘‘ شاید یہی چال نہ ہو۔ حضور اقدس ؑ نے اس خط پر اپنے دست ِ مبارک سے رقم فرمایا: ’’ اِس خط کو بہت محفوظ رکھا جائے اور اس کا جواب لکھ دیا جاوے کہ اب صبر سے خدا تعالیٰ پر توکل کریں۔ دعا کی جائے گی۔‘‘
(پھر) اس مقدمہ کے متعلق یوں ہوا کہ عین اس تاریخ کو جس دن دعویٰ ہونا تھا اور سب تیاری ہر طرح سے مکمل ہوچکی تھی اس دن علی الصبح پتہ لگا کہ وہ عورت اپنے آشنا کے ساتھ غائب ہوگئی اور اس طرح ان مخالفوں کی ساری کارستانی پر پانی پھر گیا اور میرے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت ِ دعا اور حضور ؑ کی توجہ کی برکت کا ایک روشن نشان ظاہر ہوا۔
تفصیلی حالات کیلئے دیکھئے اصحابِ احمد جلد 6 صفحہ 141 تا 146۔
7 (ترجمہ از مرتب) اے خدا ! اے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ۔ بریّت اور یاد کرو۔ جب مَیں بنی اسرائیل سے (دشمن کو ) باز رکھا۔
لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کِس وقت یہ لڑکا پیدا ہوگا ۔ خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا۔ ممکن ہے کہ جلد ہو یا خدا اِس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر8مؤرخہ23 فروری 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر7مؤرخہ24 فروری1906ء صفحہ1)
24فروری 1906ء
’’ شُد جہانِ عشق بروے آشکار 1 ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 58)
25 2 فروری 1906ء
(الف) ’’درد ناک دُکھ اور درد ناک واقعہ ‘‘
( بدر جلد2 نمبر9مؤرخہ2 مارچ 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر7مؤرخہ24 فروری1906ء صفحہ1)
(ب) نواب محمد علی خان صاحب رئیس کوٹلہ مالیر کی نسبت میرے پر خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ اُن کی بیوی عنقریب فوت ہوجائے گی اور موت کی خبر دے کر یہ بھی فرمایا کہ
درد ناک دُکھ اور درد ناک واقعہ
....اور یہ اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی جبکہ نواب صاحب موصوف کی بیوی بہر طرح تندرست اور صحیح و سالم تھی۔ پھر تخمیناً چھ ماہ کے بعد نواب محمد علی خان صاحب بیوی کو سِل کی مرض ہوگئی.....آخر رمضان 1324ھ میں وہ مرحومہ اُسی مرض سے اِس ناپائیدار دُنیا سے گذر گئیں۔ اِس پیشگوئی سے نواب صاحب کو بھی قبل از وقت خبر دی گئی تھی۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 3‘ 4 ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 434 ‘ 435)
25 فروری1906ء
(ا) ’’اس کے بعدرؤیامیں دیکھا کہ کوئی خادمہ عورت جو اپنے تعلق والوں میں سے کِسی گھر کی ہے ‘ آئی ہے اور کہتی ہے کہ میری بیوی یکایک مَر گئی۔ یہ سُن کر مَیں اُٹھا ہوں کہ اپنے گھر میں اطلاع کروں کہ پہلا الہام پورا ہوگیا اور پگڑی اور عَصَا ہاتھ میں لیا اور چلنے کو تھا کہ بیداری ہوگئی۔ ‘‘(بدر جلد2 نمبر9مؤرخہ2 مارچ 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر7مؤرخہ24 فروری1906ء صفحہ1)
25 فروری1906ء
’’اس الہام3کے علاوہ مرحومہ4کے متعلق حضرت اقدس کو ایک الہام یہ بھی ہوا تھا کہ
امتہ الحفیظ
1 (ترجمہ از مرتب) عشق کا جہان اس پر ظاہر ہوا۔
2 کاپی الہامات صفحہ 58 میں اِس کی تاریخ 23 فروری درج ہے۔ (مرتب)
3 یعنی الہام ’’ درد ناک دُکھ درد ناک واقعہ‘‘ (مرتب)
4 یعنی نواب محمد علی خان صاحب کی بیوی ۔ (مرتب)
اور اُس پر آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اِس الہام میں حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور خدا کے وعدے سچے ہیں۔ مگر اِس جگہ یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حفاظت سے مراد حفاظت ِ جسم ہے یا حفاظت ِ روح ۔‘‘
( بدر جلد2 نمبر44مؤرخہ یکم نومبر1906ء صفحہ4)
1906ء
’’پھر1خدا نے مجھے خبر دی کہ موسمِ بہار میں ایک اَور غیر معمولی زلزلہ آئے گا اور 25 فروری 1906ء کے بعد آئے گا۔ چنانچہ 27 فروری 1906ء کا دن گذرنے کے بعد رات کو بوقت ڈیڑھ بجے وہ زلزلہ آیا جس سے بہت گھر مسمار ہوئے اور بہت سی جانیں ضائع ہوئیں۔ ‘‘
( اشتہار 29 اپریل 1906ء مندرجہ الحکم جلد10 نمبر15مؤرخہ30 اپریل1906ء صفحہ10)
یکم مارچ 1906ء
(الف) زلزلہ آنے کو ہے
فرمایا : اِس کے معنے یہ ہیں کہ اِسی زلزلہ کو جوہوا ‘ اصل زلزلہ نہ سمجھو بلکہ سخت زلزلہ آنے کو ہے۔
) بدر جلد2 نمبر9مؤرخہ2 مارچ 1906ء صفحہ2۔ الحکم جلد10 نمبر8مؤرخہ10 مارچ1906ء صفحہ1)
(ب) ’’میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہے وہ ابھی آیا نہیں بلکہ آنے کو ہے اور یہ زلزلہ اس کا پیش خیمہ ہے جو پیشگوئی کے مطابق پورا ہوا۔‘‘
) اشتہارزلزلہ کی پیشگوئی 2 مارچ 1906ء مندرجہ الحکم جلد10 نمبر8مؤرخہ10 مارچ1906ء صفحہ5)
7 مارچ1906ء
’’ ھَآ اِنِّیْٓ اٰثَرْتُکَ2۔ ‘‘
( بدر جلد2 نمبر10مؤرخہ9 مارچ 1906ء صفحہ2۔الحکم جلد10 نمبر8مؤرخہ10 مارچ1906ء صفحہ1)
8 مارچ1906ء
زلزلہ کے متعلق دعا کی گئی کہ کب آوے گا۔ الہام ہوا:
عَلیٰٓ اُصُوْلِہِ الْقَدِیْمِ ۔3
( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 58)
1 چونکہ اِس الہام کی تاریخ نزول معلوم نہیں ہوسکی اِس لئے 25 فروری کے ذِکر کی مناسبت سے اسے یہاں رکھا گیا۔(مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) دیکھ ! مَیں نے تجھے چن لیا۔
3 (ترجمہ از مرتب) اس کے قدیم دستور کے مطابق۔
9 مارچ1906ء
’’ (1) زلزلہ آنے کو ہے ۔ ہمارے لئے عید کا دن۔
(2) رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔ رَبِّ لَا تُرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۔1‘‘
(3)جس سے تو بہت پیار کرتا ہے مَیں اس سے بہت پیار کروں گا اور جس سے تو ناراض ہے مَیں اس سے ناراض ہوں گا۔
یعنی تیرا کِسی سے محبت کرنا اس کو ایسی آفت سے بچائے گا۔ تیرا کسی سے ناراض ہونا اس کو ایسی آفت میں مبتلا کرے گا۔
(4) اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔2
یعنی جس سے تجھے محبت ہوگی خدا بھی اس سے محبت کرے گا اور اُسے بچائے گا۔
(5) خدا نے تیری ساری باتیں پوری کردیں۔
(6) وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ3 ۔
یاد رہے کہ قرآن کریم کے طرزِ بیان کے موافق اِس آیت کے یہ معنے ہیں کہ میری زندگی میں مخالفین کو بشرط نہ کرنے توبہ کے ان کی زبان درازیوں اور شوخیوں کی کچھ سزا دے گا کیونکہ انہوں نے تقویٰ سے کام نہ کیا۔
(7) قُلْ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ4۔
اور پھر زلزلہ کی طرف اشارہ کرکے یہ الہام ہوا:۔
(8) رَبِّ اَرِنِیْٓ اٰیَۃً مِّنَ السَّمَآئِ۔ اِکْرَامٌ مَّعَ الْاِنْعَامِ5۔ ‘‘
( بدر جلد2 نمبر11مؤرخہ16 مارچ 1906ء صفحہ2۔الحکم ضمیمہ10 مارچ1906ء تازہ الہامات)
1 (ترجمہ ) اے میرے ربّ مجھے قیامت کا زلزلہ نہ دکھلا۔ اے میرے ربّ ان میں سے کسی کی موت مجھے نہ دکھلا۔
نیز دیکھئے نوٹ بر صفحہ 475 زیرِ الہام اَ رِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔
2 (ترجمہ) جس طرف تمہارا منہ ہوگا اسی طرف خدا بھی منہ کرے گا۔
3 (ترجمہ از مرتب) یا تو ہم بعض وہ عذاب کی پیشگوئیاں تیری زندگی میں پوری کرکے دکھلادیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے اور یا تجھے وفات دے دیں گے اور بعد میں سب کچھ پورا کردیں گے۔
4 (ترجمہ) کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا محض خدا کیلئے ہے جو ربّ العالمین ہے نہ کسی اَور کام کیلئے۔
5 (ترجمہ) اے میرے ربّ ! مجھے آسمان سے ایک نشان دکھلا۔ اس نشان کے ظہور کے وقت خدا ایک عزت دے گا جس کے ساتھ ایک انعام ہوگا۔
1906ء
’’وہ فرماتا ہے کہ مَیں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا ۔ یعنی کسی جوتشی یا مُلہم یا خواب بین کو اُس وقت کی خبر نہیں دی جائے گی بجُز اس قدر خبر کے جو اُس نے اپنے مسیح موعود ؑ کو دے دی یا آئندہ اس پر کچھ زیادہ کرے۔ ان نشانون کے بعد دُنیا میں ایک تبدیلی پَیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دُنیا کی محبت ٹھنڈی ہوجائے گی اور غفلت کے پَردے درمیان سے اُٹھا دیئے جائیں گے اور حقیقی اسلام کا شربت اُنہیں پلایا جائے گا ۔‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 2‘ 3۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396)
11 مارچ1906ء
’’ 1 چُو دَورِ خسروی آغاز کردند :: مسلماں را مسلماں باز کردند
دَورِ خسروی سے مراد اِس عاجز کا عہد ِ دعوت ہے مگر اِس جگہ دُنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی۔ خلاصہ معنے اِس الہام کا یہ ہے کہ جب دَورِ خسروی یعنی دَورِ مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اُس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے جیسا کہ اَب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 3۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396‘397۔ بدر جلد 2 نمبر 11 مؤرخہ 16 مارچ 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 9 مؤرخہ 17 مارچ 1906ء صفحہ1)
12 مارچ1906ء
(1)2 اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً (2) وَلِنَجْعَلَ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ (3) اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ۔
(بدر جلد 2 نمبر 11 مؤرخہ 16 مارچ 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 9 مؤرخہ 17 مارچ 1906ء صفحہ1)
13 مارچ1906ء
(1) ’’ مردو ں کو جتنے چاہو ‘ ساتھ لے جاؤ مگر عورتیں نہ جاویں
(2) 3 اِنَّآ اَعْطَیْنَکَ الْکَوْثَرَ۔فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ اِنَّ شَاْنِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۔
1 (ترجمہ از مرتب) جب فارسی الاصل بادشاہ کا دَور شروع ہوگا تو نام نہاد مسلمان کو از سرِ نَو مسلمان کیا جائے گا۔
2 (ترجمہ ) (1) مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤں گا (2) اور تاکہ ہر بات میں ہم تیرے واسطے آسانی کردیں۔ (3) تحقیق تیرا ربّ کرنے والا ہے جو کچھ کہ چاہے۔
(نوٹ از مرتب) کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 59 میں الہام ’’اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ‘‘ کے بعد مزید یہ فقرہ ہے ’’فِیْ کُلِّ حَالٍ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ۔‘‘ ( وہ ہر حال میں صالحین میں سے ہے ۔مرتب)
3 (ترجمہ) (2) تحقیق ہم نے تجھے کوثر عطا کیا۔ پس نماز پڑھ اپنے ربّ کیلئے اور قربانی کر۔ تحقیق تیرا دشمن بے نسل ہے۔
(3)1 اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ۔
(4) سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔‘‘
( بدر جلد 2 نمبر 11 مؤرخہ 16 مارچ 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 9 مؤرخہ 17 مارچ 1906ء صفحہ1۔
کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 59)
13 مارچ1906ء
’’ خواب میں دیکھا کہ میر ناصر نواب صاحب اپنے ہاتھ پر ایک درخت رکھ کر لائے ہیں جو پھَل دار ہے اور جب مجھ کو دیا تو وہ ایک بڑا درخت ہوگیا جو بیدا نہ تُوت کے درخت کے مشابہ تھا اور نہایت سبز تھا اور پھَلوں اور پھُولوں سے بھرا ہوا تھا اور پَھل اس کے نہایت شیریں تھے اور عجیب تر یہ کہ پھُول بھی شیریں تھے۔ مگر معمولی درختوں میں سے نہیں تھا۔ ایک ایسا درخت تھا کہ کبھی دُنیا میں دیکھا نہیں گیا۔ مَیں اس درخت کے پھَل اور پھُول کھارہا تھا کہ آنکھ کھُل گئی۔
میری دانست میں میر ناصر سے مراد خدائے ناصر ہے کہ وہ ایک ایسے عجیب طور سے مدد کریگا جو فوق العادت ہوگی۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 11 مؤرخہ 16 مارچ 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 9 مؤرخہ 17 مارچ 1906ء صفحہ1)
1906ء
’’ تھوڑی غنودگی کی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک کاغذ پر لکھا ہوا مجھے یہ دکھلایا کہ
تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ
یعنی قرآن شریف کی سچائی پر 2یہ نشان ہوں گے۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ حاشیہ صفحہ 2۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396حاشیہ)
14مارچ1906ء
(الف) ’’ اَنْتَ سَلْمَانُ وَمِنِّیْ یَا ذَا الْبَرَکَات۔4
فرمایا: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جو کہ آپ ؐ نے اصحاب ؓ میں سے ایک فارسی شخص سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا۔‘‘ (بدر جلد 2 نمبر 11 مؤرخہ 16 مارچ 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 9 مؤرخہ 17 مارچ 1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ) (3) اگر مشرکین میں سے کوئی تیری پناہ چاہے تو اُسے پناہ دے (4) ان کیلئے برابر ہے کہ تو انہیں ڈرائے یا نہ ڈرائے۔ وہ نہیں ایمان لائیں گے۔
2 یعنی موجودہ زلزلے ۔ (مرتب)
3 یہ تاریخ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 59 میں درج ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) تو سلمان ہے اور مجھ سے ہے اے صاحب ِ برکات۔
(ب) ’’رؤیامیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ۔
اَنْتَ سَلْمَانُ وَمِنِّیْ یَا ذَا الْبَرَکَاتِ۔1 ‘‘
( ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ مارچ 1906ء صفحہ 162)
14 مارچ1906ء
’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار ۔2
(تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 1۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 395)
14 مارچ1906ء
فرمایا۔ ’’مَیں کل کے دن چند دفعہ اِس الہام3الٰہی کو پڑھ رہا تھا کہ یک دفعہ میری رُوح میں یہ عبارت پھُونکی گئی جو پہلے الہام4کے بعد میں ہے۔
مقامِ او مبیں ازراہِ تحقیر :: بدو رانش رسولاں ناز کردند5 ‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 4۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 397۔ بدر جلد 2 نمبر 13 مؤرخہ 29 مارچ 1906ء صفحہ 1۔
الحکم جلد 10 نمبر 9 مؤرخہ 17 مارچ 1906ء صفحہ1)
15 مارچ1906ء
آج پھر 15 مارچ 1906ء کو بروز پنجشنبہ وقت ِ صبح یہ الہام ہوا:۔
’’خدا نکلنے کو ہے۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ بُرُوْزِیْ۔ وَعْدَ اللّٰہِ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ لَا یُبَدَّلُ۔یعنی خدا ان پانچ زلزلوں کو لانے سے اپنا چہرہ ظاہر کرے گا اور اپنے وجود کو دکھلادے گا۔ اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ مَیں ہی ظاہر ہوگیا۔ یعنی تیرا ظہور بعینہٖ میرا ظہور ہوگا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے کہ پانچ زلزلوں کے ساتھ خدا اپنے تئیں ظاہر کرے گا اور خدا کا وعدہ نہیں ٹلے گا اور وہ ضرور ہوکر رہے گا۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 13۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 404۔ الحکم جلد 10 نمبر 9 مؤرخہ 17 مارچ 1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) تو سلمان ہے اور مجھ سے ہے اے صاحب ِ برکات۔
2 (ترجمہ) مَیں اس زلزلہ کے نشان کی پنج مرتبہ تم کو چمک دکھلائوں گا ۔ (حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 96)
3 یعنی الہام چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار۔ (مرتب)
4 چو دَورِ خسروی آغاز کردند۔ (مرتب)
5 (ترجمہ از مرتب) اس کے مقام کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ۔ اس کے عہد پر تو رسولوں کو بھی ناز ہے۔
مارچ1906ء
’’یسوع مریم کا بیٹا اِس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں اور بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں۔ سو مَیں نے اگرچہ یہ دُعا کی ہے کہ یسوع ابن ِ مریم کی طرح شرک کی ترقی کا مَیں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کردیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہوجاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا .......سو اے سننے والو ! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 20‘21 طبع اوّل۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409)
16مارچ1906ء
’’اُسْتُجِیْبَ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ کُلُّ مَا دَعَوْتَ وَمِنْھَا قُوَّۃُ الْاِسْلَامِ وَشَوْکَتُہٗ۔1‘‘
(الاستفتاء صفحہ 54 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 678 حاشیہ)
18 مارچ1906ء
’’آج بروز یکشنبہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنے گھر کے مکان میں بیٹھا ہوں اور ایک خربوزہ کی شکل پر کوئی پَھل میرے ہاتھ میں ہے اس کو چھیل کر کھانا چاہتا ہوں۔ اتنے میں مَیں نے محمود احمد کو دیکھا۔ اس کے ساتھ ایک انگریز ہے۔ وہ ہمارے گھر میں داخل ہوگیا۔ پہلے اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پانی کے گھڑے رکھے جاتے ہیں پھر اُس چوبارے کی طرف آگے بڑھا جہاں بیٹھ کر مَیں کام کرتا ہوں۔ گویا اُس کے اندر جا کر تلاشی کرنا چاہتا ہے۔ اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ میر ناصر نواب کی شکل پر ایک شخص میرے سامنے کھڑاہے۔ اُس نے بطور اشارہ کے مجھ کو کہا کہ آپ بھی اُس چوبارہ میں جائیں انگریز تلاشی کرے گا اور میرے دل میں گذرا کہ اُس میں صرف وہ کاغذات پڑے ہیں جو نَو تالیف کتاب کا مسوّدہ ہے‘ وہی دیکھے گا۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔
فرمایا۔ معلوم نہیں اِس واقعہ کی کیا تعبیر ہے۔ اس سے پہلے تھوڑے دن ہوئے ہیں یہ دیکھا تھا یعنی یہ الہام ہوا
1 (ترجمہ از مرتب) آج رات وہ سب دعائیں جو تونے کی ہیں قبول کی گئیں۔ اُن دعائوں میں سے اسلام کی قوت و شوکت کیلئے دعا بھی تھی۔
تھا کہ ’’عورت کی چال ۔ ایلی ایلی لما سبقتانی ۔ بریّت ۔اِذْکَفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْل۔‘‘ مَیں نے اپنے اجتہاد سے ا س کے یہ معنے سمجھے تھے کہ کوئی شخص عورتوں کی طرح پوشیدہ مَکر کرے گا جس سے ممکن ہے کہ ہم پر اس کی دھوکہ دہی سے کوئی مقدمہ ہو مگر آخر بریّت ہوگی۔ مگر یہ میرے اجتہادی معنے ہیں اور ممکن ہے کہ جو کچھ مَیں نے پہلے دیکھا اور جو مَیں نے اَب دیکھا اس کے کوئی اَور معنے ہوں لیکن ظاہری معنے یہی ہیں۔ واللہ اَعلم۔
اِس خواب میں محمود کا دیکھنا اور پھر میر ناصر نواب کا دیکھنا نیک انجام پر دلالت کرتا ہے کیونکہ محمود کا لفظ خاتمہ محمود کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اس اِبتلا کا خاتمہ اچھا ہوگا اور ناصر نواب کا دیکھنا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ ناصر ہوگا اور اپنی نصرت سے ابتلا سے رہائی دے گا اور آخر یہ ابتلا نشان کی صورت میں ہوجائے گا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر12 مؤرخہ 22 مارچ 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 10 مؤرخہ 24 مارچ 1906ء صفحہ1)
20 مارچ1906ء
’’ اَلْمُرَادُ حَاصِلٌ ۔1 ‘‘
(الاستفتاء صفحہ76 ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 702 )
24 مارچ1906ء
’’ (1) رفیقوں کو کہہ دیں کہ عجائب در عجائب کام دکھلانے کا وقت آگیا ہے۔
(2) قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ مَایُرْضِیْکَ۔2 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر13 مؤرخہ 29 مارچ 1906ء صفحہ 1۔الحکم جلد 10 نمبر 10 مؤرخہ 24 مارچ 1906ء صفحہ1)
27 مارچ1906ء
’’فرمایا۔ آج زلزلہ کے وقت کیلئے توجہ کی گئی تھی کہ کب آوے گا۔ اِسی توجہ کی حالت میں زلزلہ کی صورت آنکھوں کے آگے آگئی اور پھر الہام ہوا:۔
رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا
یعنی اَے میرے خدا ! یہ زلزلہ جو نظر کے سامنے ہے اس کا وقت کچھ پیچھے ڈال دے۔
قاعدہ نحو کے مطابق ھٰذَا کی جگہ ھٰذِہٖ چاہئے تھا مگر اِس جگہ ھٰذَا سے مراد ھٰذَا الْعَذَاب ہے کیونکہ اصل غرض تو عذاب سے ہے ورنہ زلزلے تو پہلے بھی آچکے ہیں۔ پھر بعد اس کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا:۔
رَبِّ سَلِّطْنِیْ عَلَی النَّارِ
یعنی اے میرے خدا !مجھے آگ پر مسلّط کردے۔ یعنی ایسا کر کہ عذاب کی آگ میرے حکم میں ہوجاوے۔ جس کو
1 (ترجمہ از مرتب) مرا د بَر آنے والی ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) تیرے رَبّ نے کہا کہ آسمان سے وہ چیز اُترنے والی ہے جو تجھے خوش کرے گی۔
مَیں عذاب دینا چاہوں وہ عذاب میں گرفتار ہو اور جس کو مَیں چھوڑنا چاہوں وہ عذاب سے محفوظ رہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر13 مؤرخہ 29 مارچ 1906ء صفحہ 1۔الحکم جلد 10 نمبر11 مؤرخہ31 مارچ 1906ء صفحہ1)
28 مارچ1906ء
’’اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلیٰ وَقْتٍ مُّسَمًّی 1
فرمایا۔ چھوٹے زلزلے تو آتے ہی رہتے ہیں لیکن سخت زلزلہ جو آنے والا ہے اس کے وقت میں تاخیر ڈالی گئی ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ تاخیر کتنی ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر14 مؤرخہ5 اپریل 1906ء صفحہ 2۔بدر جلد 2 نمبر15 مؤرخہ12 اپریل 1906ء صفحہ 2۔
الحکم جلد 10 نمبر11 مؤرخہ31 مارچ 1906ء صفحہ1)
31 مارچ1906ء
’’مَیں پچاس یا ساٹھ اَور نشان دکھلاؤں گا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر14 مؤرخہ5 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم2 جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1)
مارچ1906ء
’’چند روز ہوئے یہ الہام ہوا تھا:۔
3 اِ نَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ نَّافِلَۃً لَّکَ۔
ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں یا بشارت کِسی اَور وقت تک موقوف ہو۔‘‘ (بدر جلد 2 نمبر14 مؤرخہ5 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1)
مارچ1906ء
’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابلِ مؤاخذہ ہے۔‘‘
(مکتوب بنام ڈاکٹر عبدالحکیم مُرتد مندرجہ رسالہ ’’الذکر الحکیم ‘‘ نمبر 4 صفحہ 24 مرتبہ ڈاکٹر عبدالحکیم مُرتد۔ الفضل جلد 22 نمبر 85 مؤرخہ 15 جنوری 1935ء صفحہ 8)
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ نے اس میں تاخیر ڈال دی ہے وقت ِ مقررہ تک۔
2 الحکم میں یہ الفاظ ہیں’’ مَیں پچاس یا ساٹھ نشان اَور دکھلاؤں گا۔‘‘
3 (ترجمہ الہام) ’’ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 95۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 99)
3 اپریل1906ء
’’(1) ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (2) اِنَّ اللّٰہَ قَدْ مَنَّ عَلَیْنَا۔1 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر14 مؤرخہ5 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1)
3 اپریل1906ء
’’کل مولوی عبدالکریم صاحب کو خواب میں دیکھا کہ ایک بڑے کمرے میں پھر رہے ہیں۔ مَیں نے کہا آؤ مصافحہ کرلیں اور پھر مصافحہ کیا اور مَیں نے کہا کہ تم دُعا کرو کہ ہم اپنے دشمنوں پر غالب آویں۔‘‘
(الحکم جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1 ۔بدر جلد 2 نمبر14 مؤرخہ5 اپریل 1906ء صفحہ 2)
4 اپریل1906ء
’’آج پھر مولوی صاحب مرحوم کو دیکھا کہ ایک کمرے میں پھرتے ہیں۔ بہت جوش میں اور سخت ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ کیوں لوگ مخالفت کرتے ہیں اور کیوں اطاعت نہیں کرتے۔‘‘
(الحکم جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1 ۔بدر جلد 2 نمبر14 مؤرخہ5 اپریل 1906ء صفحہ 2)
4 اپریل1906ء
’’ یَاْتِیْکَ الْفَرَجُ 2 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر15 مؤرخہ12 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1۔
کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 64۔ حقیقۃ الوحی صفحہ 87۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 90)
8 اپریل1906ء
’’(1) 3 رَبِّ اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ (2) یُرِیْکُمُ اللّٰہُ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ
......یعنی اس میں بہت جانوں کا نقصان ہوگا۔ یہ نہیں کہ حقیقت میں قیامت آجائے گی بلکہ یہ معنے ہیں کہ دُنیا پر سخت صدمہ ہوگا اور بہت جانیں تلف ہوں گی۔‘‘ (بدر جلد 2 نمبر15 مؤرخہ12 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کردے۔ (2) بے شک اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔
2 (ترجمہ ) کشائش تجھے ملے گی (حقیقۃ الوحی) (نوٹ از مرتب) الحکم میں اس کی تاریخ 7 اپریل لکھی ہے۔
3 (ترجمہ) خدا یا مجھے وہ زلزلہ دکھا جو اپنی شدّت کی وجہ سے نمونہ ٔ قیامت ہے۔ (2) خدا تعالیٰ تمہیں وہ زلزلہ دکھائے گا جو اپنی شدّت کی وجہ سے نمونہ ٔ قیامت ہوگا۔ نیز دیکھئے نوٹ بر صفحہ 474 زیرِ الہام اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔
9 اپریل1906ء
’’ نَحْنُ اَوْلِیَآئُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔ سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 64)
(ترجمہ) ہم تمہارے متولّی اور متکفّل دُنیا اور آخرت میں ہیں۔
) حقیقۃ الوحی صفحہ 86‘87۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 89‘90)
تم سب پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے۔
) حقیقۃ الوحی صفحہ 91۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 94)
9 اپریل1906ء
اِن میں سے بعض الہامات مکرّر ہیں یعنی پہلے بھی ہوچکے ہیں اور آج پھر ہوئے ۔
(1)1 رَ بِّ اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ (2) یُرِیْکُمُ اللّٰہُ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ(3) 2اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ (4) یَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۔ وَلَا یُرَدُّ 3 عَنْ قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ (5) نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ (6) اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یُّبْعَثَکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (7) ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔(8) اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ۔‘‘
فرمایا: یہ الہام پہلے بھی ہوچکا ہے اب پھر ہوا ہے اور خوف ہے کہ اِس سے کیا مطلب ہے ۔ معلوم نہیں کہ قادیان کے متعلق ہے یا پنجاب کے متعلق ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر15 مؤرخہ12 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر12 مؤرخہ10 اپریل 1906ء صفحہ1۔
کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 64)
1 (ترجمہ از مرتب) (1) اے میرے ربّ مجھے وہ زلزلہ دکھا جو قیامت کا نمونہ ہوگا (2) اللہ تمہیں وہ زلزلہ دکھائے گا جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ (نوٹ از مرتب) یہ پیشگوئی حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے زمانہ میں پوری ہوئی۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں:’’ یہ زلزلہ بھی میرے زمانہ میں آیا۔‘‘
(الفضل جلد 32 نمبر 168مؤرخہ 20 جولائی 1944ء صفحہ 3)
2 (ترجمہ) (3) مَیں تجھے وہ زلزلہ دکھائوں گا جو اپنی شدت کی وجہ سے نمونہ قیامت ہوگا (4) تجھ سے پوچھتے ہیں کیا وہ بات سچ ہے۔ کہہ ہاں میرے رَبّ کی قَسم ہے اور اِعراض کرنے والی قوم سے وہ عذاب نہیں ٹلے گا (5) خدا سے مدد اور کھلی فتح (6) اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ تجھے مقامِ محمود پر مبعوث کرے (7) وہی خدا جس نے اپنا رسول بھیجا ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے (8) امراض پھیلائی جائیں گی اور جانیں ضائع کی جائیں گی۔
3 الاستفتاء صفحہ 76 ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702 میں یہ الہام یوں درج ہے ’’ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنْ قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ ۔ (مرتب)
9 1ا پریل1906ء
’’2 تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَخَاطِئِیْنَ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر16 مؤرخہ19 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر13 مؤرخہ17 اپریل 1906ء صفحہ1۔
حقیقۃ الوحی صفحہ 90۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 93)
12 اپریل1906ء
فرمایا۔ چند روز ہوئے کہ کشفی نظر میں ایک عورت مجھے دکھلائی گئی اور پھر الہام ہوا
وَیْلٌ لِّھٰذِہِ الْاِمْرَأَۃِ وَبَعْلِھَا 3
(بدر جلد 2 نمبر17 مؤرخہ26 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر14 مؤرخہ24 اپریل 1906ء صفحہ1۔
کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 64)
14 اپریل1906ء
’’(1) رؤیا۔ دیکھا کہ طاعون ترقی کررہی ہے (2) دو مرتبہ الہام ہوا:۔
زلزلہ آیا ۔ زلزلہ آیا
(3) عالمِ خواب میں ایسا محسوس ہوا کہ زلزلہ آرہا ہے (4) الہام ہوا:۔
اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔4‘‘
(بدر جلد 2 نمبر16 مؤرخہ19 اپریل 1906ء ۔الحکم جلد 10 نمبر13 مؤرخہ17 اپریل 1906ء صفحہ1۔
حقیقۃ الوحی صفحہ 101۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 105)
15 اپریل1906ء
’’رؤیا۔ دیکھا کہ ایک بڑا سانپ ہے جس کی گردن مَگھ (مرغابی) کی طرح بڑی ہے۔
1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی کاپی صفحہ 64 میں یہ تاریخ 9 اپریل 1906ء درج ہے۔ البتہ بدر اور الحکم میں 13 اپریل لکھی ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) اللہ کی قَسم بے شک خدا نے تجھے ہم پر فضیلت بخشی ہے اور ہم یقینا خطاکار تھے۔
حقیقۃ الوحی صفحہ90 ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 93 میں ہے ’’ اور پھر تجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ خدا کی قَسم خدا نے ہم سب میں سے تجھے چن لیا اور ہماری خطا تھی جو ہم برگشتہ رہے۔‘‘
3 (ترجمہ از مرتب) اس عورت اور اس کے خاوند کیلئے ہلاکت ہے۔
4 (ترجمہ) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو تم پر شاہد ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔
وہ میرے پیچھے دَوڑا۔ مَیں ایک اُونچی جگہ دیوار پر چڑھ گیا اور اس کو مخاطب کرکے کہا:۔
خدا قاتل تو باد ۔ مرا از دست تو محفوظ دارد۔1 ‘‘
اس کے بعد یہ نظارہ دیکھا کہ گویا مَیں اُس سانپ پر سوار ہوں اور اُس سانپ کی گردن میرے ہاتھ میں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُلٹ کر مجھے کاٹے ۔ تب مَیں نے زیادہ تر سر کے قریب سے اُس کو پکڑا تاکہ وہ کاٹ نہ سکے۔ فقط فرمایا۔ اِس رؤیامیں کسی فتنہ کی خبر دی گئی ہے ۔ کوئی مخفی دشمن ہے جو کسی رنگ میں نیش زنی کرے گا مگر نامراد رہے گا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر16 مؤرخہ19 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر13 مؤرخہ17 اپریل 1906ء صفحہ1)
16 اپریل1906ء
’’اِنِّیْ حَفِیْظُکَ2‘‘
(بدر جلد 2 نمبر16 مؤرخہ19 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر13 مؤرخہ17 اپریل 1906ء صفحہ1)
16 اپریل1906ء
’’رؤیا میں مولوی عبدالکریم صاحب کو دیکھا۔ گویا زندہ ہوگئے ہیں۔ مَیں نے پوچھا زخموں کا کیا حال ہے تو کہا کہ سب اچھے ہوگئے۔ اِس پر خواب میں بڑا تعجب ہورہا ہے کہ یہ اِحیاءِ مَوتٰی ہے۔ پھر خواب ہی میں خیال گذررہا ہے کہ خواب نہ ہو مگر بہت سے لوگ جمع ہیں اور سب جاگتے ہیں۔‘‘
فرمایا۔ ’’اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے کوئی ایسا نشان دکھائے جس سے دین ِ اسلام کی زندگی مخلوق پر ثابت ہوجائے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر17 مؤرخہ26 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر13 مؤرخہ17 اپریل 1906ء صفحہ1)
24 اپریل1906ء
’’فرمایا۔ آج رات بیماری کی حالت میں الہام ہوا تھا:۔
اِشْفِنِیْ مِن لَّدُنْکَ وَارْحَمْنِیْ۔3 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر17 مؤرخہ26 اپریل 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر14 مؤرخہ24 اپریل 1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) خدا خودہی تیرا قاتل ہو اور مجھے تیرے شر سے محفوظ رکھے۔
2 (ترجمہ) مَیں تیری نگہبانی کروں گا۔
3 (ترجمہ) مجھے اپنی طرف سے شفا بخش اور رحم کر۔
27 اپریل1906ء
’’(1) 1 رَبِّ لَاتُضَیِّعْ عُمُرِیْ وَعُمُرَھَا وَاحْفَظْنِیْ مِنْ کُلِّ اٰفَۃٍ تُرْسَلُ اِلَیَّ(2) اِنَّہٗ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ مَایُغْنِیْکَ(3) اُرِیْکَ مَا یُرْضِیْکَ(4) عِنْدِیْ حَسَنَۃٌ ھِیَ خَیْرٌ مِّنْ جَبَلٍ(5) اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (6) آسمان سے دُودھ اُترا ہے ‘ محفوظ رکھو۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر18 مؤرخہ3 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر15 مؤرخہ30 اپریل 1906ء صفحہ1)
27 اپریل1906ء
’’ اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔2 ‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 101۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 105۔بدر جلد 2 نمبر18 مؤرخہ3 مئی 1906ء صفحہ 2)
28 اپریل1906ء
’’(1) تیری خوش زندگی کا سامان ہوگیا ہے۔
(2) اَللّٰہُ خَیْرٌ مِّنْ کُلِّ شَیْئٍ۔3 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر18 مؤرخہ3 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر15 مؤرخہ30 اپریل 1906ء صفحہ1)
29 اپریل1906ء
’’(1) دشمن کا بھی ایک وار نکلا۔
(2) وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَا وِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔4 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 18 مؤرخہ3 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر15 مؤرخہ30 اپریل 1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) (1) اے میرے ربّ میری او ر اس کی عمر کو ضائع نہ کریو اور مجھے ان تمام آفات سے محفوظ فرمائیو جو میری طرف بھیجی جاویں (2) تحقیق آسمان سے وہ چیز نازل ہونے والی ہے جو تجھے غنی کر دے گی(3) تجھے وہ چیز دکھلائوں گا جو تجھے خوش کردے گی (4) میرے پاس بھلائی ہے جو پہاڑ سے بہتر ہے (5) کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تمہاری طرف رسول بھیجا ہے جو تمہارا نگران ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔
3 (ترجمہ) اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز سے بہتر ہے۔
4 (ترجمہ) یہ دن (خوشی و غم یا فتح و شکست کے ) ہم (نوبت بہ نوبت) لوگوں میں پھیرا کرتے ہیں۔
4 مئی1906ء
’’اِنِّیْ مَعَ الْاَکْرَامِ۔ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۔1 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر19 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر16 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ1)
5 مئی1906ء
رؤیا۔’’ایک شخص نے ایک دوائی کو لاوائن کی ایک بوتل دی جو سُرخ رنگ کی دوائی ہے اور بوتل بند کی ہوئی اور اس پر رسیاں لپیٹی ہوئی ہیں۔ ظاہر دیکھنے میں تو بوتل ہی نظر آتی ہے مگر جس شخص نے دی ہے وہ کہتا ہے کہ یہ کتاب دیتا ہوں۔ دیکھنے میں تو بوتل ہی نظر آتی تھی لیکن کہنے میں وہ شخص اس کانام کتاب رکھتا ہے۔ اس وقت مَیں کہتا ہوں کہ اس کا وقت آگیا ہے۔ اس کو نوکر رکھا جائے۔ اور مَیں نے اس کتاب پر دستخط کردیئے ہیں۔ پھر الہام ہوا:۔
یہ میری کتاب ہے اس کو کوئی ہاتھ نہ لگاوے مگر وہی جو میرے لئے خاص خدمت گار ہیں۔
پھر الہام ہوا:۔
اَللّٰہُ یُعْلِیْنَا وَلَا نُعْلیٰ 2
فرمایا۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ ہم دشمنوں پر غالب ہوں گے اور دشمن سے مغلوب نہ ہوں گے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر19 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر16 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ1)
5 مئی1906ء
’’پھر بہار آئی ‘ تو آئے ثلج کے آنے کے دن
ثلج کا لفظ عربی ہے ۔ اِس کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ وہ برف جو آسمان سے پڑتی ہے اور شدتِ سردی کا موجب ہوجاتی ہے اور بارش اس کے لوازم سے ہوتی ہے۔ اس کو عربی میں ثلج کہتے ہیں۔
اِن معنوں کی بناء پر اِس پیشگوئی کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ بہار کے دنوں میں آسمان سے ہمارے ملک میں خدا تعالیٰ غیر معمولی طور پہ آفتیں نازل کرے گا اور برف اور اس کے لوازم سے شدتِ سردی اور کثرتِ بارش ظہور میں آئے گی ‘اور دوسرے معنے اس کے عربی میں اطمینانِ قلب حاصل کرنا ہے۔ یعنی انسان کو کسی امر پر ایسے دلائل اور شواہد میسر آجاویں جس سے اس کا دِل مطمئن ہوجائے۔ اِسی وجہ سے کہتے ہیں کہ فلاں تقریر موجب ِ ثلجِ قلب ہوگئی۔ یعنی ایسے دلائلِ قاطعہ بیان کئے گئے جن سے کُلّی اطمینان ہوگئی۔ اور یہ لفظ کبھی خوشی اور راحت پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جو اطمینانِ قلب کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب انسان کا دِل کِسی
1 (ترجمہ ) تحقیق مَیں بزرگوں کے ساتھ ہوں۔ اگر تو نہ ہوتا تو مَیں آسمان کو پَیدا نہ کرتا۔
2 (ترجمہ) اللہ تعالیٰ ہمیں اُونچا کرے گا ہم نیچے نہیں کئے جائیں گے۔

امر میں پوری تسلّی اور سکینت پالیتا ہے تو اس کے لوازم میں سے ہے کہ خوشی اور راحت ضرور ہوتی ہے ۔غرض یہ پیشگوئی ان پہلوؤں پر مشتمل ہے۔
اِس پیشگوئی پر غور کرنے سے ذہن ضروری طور پر اِس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس جگہ ثلج کے دوسرے معنے ہیں یعنی یہ کہ ہر ایک شبہ و شک دُور کرنا اور پوری تسلّی بخشنا۔ تو اِس جگہ اس فقرہ سے یہ بھی مراد ہوگی کہ چونکہ گذشتہ دونوں زلزلوں کی نسبت کج طبع لوگوں نے شبہات بھی پیدا کئے تھے اور ثلجِ قلب یعنی کُلّی اطمینان سے محروم رہ گئے تھے مگر بہار کے موسم میں ایک ایسا نشان ظاہر ہوگا جس سے ثلجِ قلب ہوجاوے گی اور گذشتہ شکوک و شبہات بکلّی دُور ہوجائیں گے اور حجت پوری ہوجائے گی۔
اِس الہام پر زیادہ غور کرنے سے یہ بھی قرین ِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ بہار کے دنوں تک نہ صرف ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہوجائیں گے اور جب بہار کا موسم آئے گا تو اس قدر تواتر نشانوں کی وجہ سے دلوں پر اثر ہوگا کہ مخالفین کے منہ بند1 ہو جائیں گے اور حق کے طالبوں کے دل پوری تسلّی پائیں گے اور یہ بیان اس بناء پر ہے کہ جب ثلج کے معنے تسلّی پانا اور شکوک اور شبہات سے رہائی ہوجانا سمجھے جائیں لیکن اگر برف اور بارش کے معنے ہوئے تو خدا تعالیٰ کوئی اَور سماوی آفت (نازل ) کرے گا۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر19 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر16 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ1)
6 مئی1906ء
’’وَلَا تُکَلِّمْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۔ وَعْدٌ عَلَیْنَا حَقٌّ۔‘‘
(ترجمہ) ان لوگوں کے بارہ میں میرے ساتھ بات نہ کر جو ظالم ہیں۔ یعنی دُنیا کو دین پر مقدّم رکھتے ہیں اور
1 فرمایا کہ’’ دیکھو ثلج کے آنے کے دن والی پیشگوئی کِس طرح پوری ہوگئی اور مَیں نے اس کے دو 2 پہلو لئے تھے۔ایک تو یہ کہ خدا کچھ ایسے نشان دکھائے جن کی وجہ سے لوگوں پر حجت قائم ہوجائے اور دل تسکین پکڑ جائے ‘ اور دوسرا یہ کہ سخت بارش اور سردی اور ژالہ باری ہو جو ایک زمانہ دراز سے کبھی نہ ہوئی ہو۔ تو خداتعالیٰ نے یہ دونوں پہلو پورے کردیئے۔ یہ نشان اِس طرح متواتر ظہور میں آئے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ یورپ اور امریکہ پر بھی حجت قائم ہوگئی۔ یعنی ڈوئی کی موت سے ........بس یہ ایک نشان تھا جس نے تمام یورپ اور امریکہ پر ‘ اور سعد اللہ کی موت نے ہندوستان پر حجت قائم کردی ہے........پس اِن دو نشانوں اور دوسرے کئی نشانوں نے مل کر دُنیا پر ثلج کی پیشگوئی کا پورا ہونا ثابت کردیا اور پھر یہی نہیں اصل الفاظ میں بھی یہ پیشگوئی کھُلے طور سے پوری ہوگئی۔ یعنی اس بہار کے موسم میں جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ بہار کے موسم میں ایسا ہوگا ۔ ایسی سخت سردی اور بارش اور ژالہ باری ہوئی ہے کہ دُنیا چیخ اُٹھی ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر17 مؤرخہ 25 اپریل 1907ء صفحہ 6)
دُنیا کے ہموم و غموم میں لگ کر دین کے پہلو سے لاپروا ہیں‘ مَیں ان کو ضرور غرق کروں گا اور ناکامی میں مریں گے۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے جو نہیں ٹلے گا۔
میرے خیال میں یہ الہام ہماری جماعت کے بعض افراد کی نسبت ہے جو دُنیا کے ہموم و غموم میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور دین کی فکر اور غم سے لاپروا ہیں۔ گویا خدا تعالیٰ مجھے ہدایت فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کیلئے دعا مت کر۔ ان کی شفاعت مت کر ‘ کیونکہ جیسا کہ ان کا دین مَرگیا ان کی دُنیا بھی مرے گی۔ ظاہر ہے کہ دعا اور شفاعت دوستوں کیلئے ہوتی ہے نہ دشمنوں کیلئے ۔ پس اسی قرینہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ الہام خاص دوستوں کیلئے ہے اور ایک بڑے عذاب سے ان کو ڈرایا گیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ عذاب دوسروں کیلئے بھی ہو مگر ایسے لوگوں کیلئے بھی ضروری ہے کہ بظاہر اس جماعت میں داخل ہیں مگر ان کی حالت دُنیا پرستی کی ہمارے اصول کے مخالف ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر19 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر16 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ1)
7 مئی1906ء
’’ کلیسیا کی طاقت کا نسخہ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر19 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر16 مؤرخہ10 مئی 1906ء صفحہ1)
11 مئی1906ء
’’ کَشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں‘‘
(بدر جلد 2 نمبر20مؤرخہ17 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر17 مؤرخہ17 مئی 1906ء صفحہ1)
14 مئی1906ء
’’ 1 ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الزَّلْزَلَۃِ۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا۔ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا۔ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا۔ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا۔‘‘
یعنی انسانوں پر حَیرت طاری ہوجاوے گی کہ اُن کے علوم اور تجارب کی حد سے باہر ظہور میں آئے گا۔ اُس دن زمین اپنا قِصّہ بیان کرے گی کہ اس پر کیا آفت آئی ۔کیونکہ خدا اپنے رسول کو اس کے مافی الضمیر کا ترجمان بنائے گا اور اس رسول کو وحی کرے گا کہ کس باعث سے یہ غیر معمولی آفت ظہور میں آئی۔ پھر خدا تعالیٰ مجھے فرماتا
1 (ترجمہ) کیا تجھے زلزلے کی خبر پہنچی نہیں کہ کِس طرح واقعہ ہوگا۔ زمین ایک سخت دھکا دی جائے گی اور زمین جو کچھ اس کے اندر ہے باہر پھینک دے گی۔ یعنی اکثر جگہ ایسا ہوگا۔ تب انسان کہے گا کہ آج زمین کو کیا ہوگیا وہ تو مقررہ طریقوں سے باہر چلی گئی ہے۔ ( اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی کیونکہ تیرے ربّ نے اسے وحی کی ہوگی۔ مرتب)
ہے کہ
یہ سب نشان تیرے لئے زمین پر ظاہر کئے جائیں گے تا زمین کے لوگ تجھے شناخت کرلیں۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر20مؤرخہ17 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر17 مؤرخہ17 مئی 1906ء صفحہ1)
18 مئی1906ء
’’رؤیا میں دیکھا کہ کوئی شخص طاعون کے متعلق کہتا ہے
اَب تک پیچھا نہیں چھوڑتی‘‘
(بدر جلد 2 نمبر21 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ1)
18 مئی1906ء
(الف) الہام ہوا:۔
’’ زندگی کے آثار‘‘
اِس وحیِ الٰہی کے تھوڑی دیر کے بعد سیٹھ عبدالرحمن صاحب کا مدراس سے تار آیا جس میں سیٹھ صاحب کی بیماری میں افاقہ کی خبر تھی۔ اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ پہلے خدا کا تار پہنچا اور پیچھے بندوں کا۔ اِس الہام خبر سے صرف یہ سمجھا گیا کہ جس مضمون کا تار روانہ کیا گیا تھا اسی مضمون سے خدا نے اطلاع دے دی۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر21 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ1)
(ب) ’’میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبدالرحمن تاجر مدراس ‘ اُن کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مُہلک پھوڑا ہوتا ہے ‘ بیمار ہیں۔ چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اِس لئے اُن کی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تردّد ہوا۔ قریباً نَو بجے دن کا وقت تھا کہ مَیں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ یکدفعہ غنودگی ہوکر میرا سر نیچے کی طرف جھُک گیا اور معاً خدائے عزّوجلّ کی طرف سے وحی ہوئی کہ
آثارِ زندگی
بعد اِس کے ایک اَور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے ‘ کوئی گھبراہٹ نہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ5 32۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ338)
20 مئی1906ء
’’1اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔‘‘
1 (ترجمہ) (1) مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا۔
(2) ’’ 1 اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر21 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ1)
22 مئی1906ء
(الف)’’ تُرَدُّ عَلَیْک اَنْوَارُ الشَّبَابِ۔ سَیَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنُ الشَّبَابِ۔ وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِشِفَآئٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۔ رُدَّ عَلَیْھَا رَوْحُھَا وَرَیْحَانُھَا۔‘‘
اِن الہامات کا باعث یہ ہے کہ عرصہ تین چار ماہ سے میری طبیعت نہایت ضعیف ہوگئی ہے۔ بجُز دو 2 وقت ظہر اور عصر کے نماز کیلئے بھی (مسجد میں ) نہیں جاسکتااور اکثر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں اور اگر ایک سطر بھی کچھ لکھوں یا فکر کروں تو خطرناک دَورانِ سر شروع ہوجاتا ہے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔ جسم بالکل بیکار ہورہا ہے اور جسمانی قویٰ ایسے مضمحل ہوگئے ہیں کہ خطرناک حالت ہے ۔ گویا مسلوب القویٰ ہوں اور آخری وقت ہے۔ ایسا ہی میری بیوی دائم المرض ہے۔ امراضِ رحم و جگر دامنگیر ہیں۔ پس مَیں نے دُعا کی تھی کہ خدا تعالیٰ مجھے وہ پہلی قوت جوانی کے عالَم کی عطا کرے تا مَیں کچھ خدمت ِ دین کرسکوں اور اپنی بیوی کی صحت کیلئے بھی دُعا کی تھی۔ اُس دُعا پر یہ الہام ہوئے ہیں جو اُوپر ذکر کئے گئے۔ خدا تعالیٰ ان کے بہتر معنے جانتا ہے۔ صرف اِس قدر معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں صحت عطا فرمائے گا اور مجھے وہ قوتیں عطا کرے گا جن سے مَیں خدمت ِ دین کرسکوں۔ واللہ اَعلم بالصواب۔ اور اِس میں یہ خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ میری بیوی کو بھی صحت اور تندرستی عطا کرے گا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر21 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر18 مؤرخہ24 مئی 1906ء صفحہ1)
(ب) ’’مجھے دماغی کمزوری اور دَورانِ سر کی وجہ سے بہت سی ناطاقتی ہوگئی تھی یہاں تک کہ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اَب میری حالت بالکل تالیف تصنیف کے لائق نہیں رہی اور ایسی کمزوری تھی کہ گویا بدن میں رُوح نہیں تھی۔ اِس حالت میں مجھے الہام ہوا:۔
تُرَدُّ عَلَیْکَ اَنْوَارُ الشَّبَابِ
یعنی جوانی کے نور تیری طرف واپس کئے۔ بعد اس کے چند روز میں ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری گمشدہ قوتیں پھر
1 (ترجمہ) (2) مَیں تجھے وہ زلزلہ دکھائوں گا جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ مَیں ان سب کی حفاظت کروں گا جو اِس گھر میں ہیں۔
2 (ترجمہ از مرتب) تیری طرف نور جوانی کے یعنی قوتیں جوانی کی لَوٹائی جائیں گی اور تیرے پر زمانہ جوانی کا آئے گا۔ یعنی جوانی کی قوتیں دی جائیں گی تا خدمت ِ دین میں حَرج نہ ہو اور اگر تم اے لوگو ہمارے اِس نشان سے شک میں ہو تو اس شفا کی نظیر پیش کرو۔ اور تیری بیوی کی طرف بھی صحت اور تازگی لَوٹائی جائے گی۔
(بدر جلد 2 نمبر 21 مؤرخہ 24 مئی 1906ء صفحہ 2)
واپس آتی جاتی ہیں اور تھوڑے دنوں کے بعدمجھ میں اِس قدر طاقت ہوگئی کہ مَیں ہر روز دو 2 دو 2 جُز نَو تالیف کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھ سکتا ہوں اور نہ صرف لکھنا بلکہ سوچنا اور فکر کرنا جو نئی تالیف کیلئے ضروری ہے پورے طور پر میسر آگیا۔ ہاں دو 2 مرض میرے لاحق حال ہیں ایک بدن کے اُوپر کے حِصّہ میں اور دوسری بدن کے نیچے کے حِصّہ میں۔ اُوپر کے حصّہ میں دَورانِ سر ہے اور نیچے کے حصّہ میں کثرتِ پیشاب ہے اور یہ دونوں مرضیں اُسی زمانہ سے ہیں جس زمانہ سے مَیں نے اپنا دعویٰ مامور مِن اللہ ہونے کا شائع کیا ہے ۔ مَیں نے ان کیلئے دُعائیں بھی کیں مگر منع میں جواب پایااور میرے دل میں القا کیا گیا کہ ابتداء سے مسیح موعود کیلئے یہ نشان مقرر ہے کہ وہ دو 2 ز رد چادروں کے ساتھ دو 2 فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اُترے گا۔ سو یہ وہی دو 2 زرد چادریں ہیں جو میری جسمانی حالت کے ساتھ شامل کی گئیں۔ انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے زرد چادر کی تعبیر بیماری ہے اور دو 2 زرد چادریں دو 2 بیماریاں ہیں جو دو 2 حصّہ بدن پر مشتمل ہیں اور میرے پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی کھولا گیا ہے کہ دو 2 زرد چادروں سے مراد دو2 بیماریاں ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمُودہ پورا ہوتا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 306 ‘ 307 نشان نمبر 136۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 319‘ 320)
25 مئی1906ء
’’ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الزَّلْزَلَۃِ۔ بَلْ یَاْتِیْھِمْ بَغْتَۃً۔1
اگر چاہوں تو اُس دن خاتمہ
اِس کے بعد ایک علیٰحدہ الہام ہوا دو چار ماہ
(بدر جلد 2 نمبر22 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر19 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ1)
27 مئی1906ء
’’ اُرِیْحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ وَاُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا۔
اِس کے ساتھ ہی دل میں ایک تفہیم ہوئی جس کا یہ مطلب تھا جیسا کہ مَیں نے ابراہیم کو قوم بنایا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر22 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر19 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ1)
27 مئی1906ء
(الف) آفتوں اور مصیبتوں کے دن ہیں۔
1 (ترجمہ) کیا تجھے زلزلہ کی بات پہنچی ہے (نہیں ) بلکہ اُن کے پاس اچانک آئے گا۔
2 (ترجمہ ) مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا۔
(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 93)
ایک دوست کا ذکر تھا جس پر بہت سی دُنیوی مشکلات گِر رہی ہیں۔ فرمایا یہ الہام اُسی کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر22 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر19 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ1)
(ب) کل مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام مندرجہ ذیل الفاظ میں یا کِسی قدر تغیر لفظ سے ہوا تھا کہ
’’کئی آفتیں اور مصیبتیں ہم پر نازل ہوگئی ہیں۔ 1‘‘
(مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ 28 مئی 1906ء ۔
مکتوباتِ احمدیہ جلد ہفتم حِصّہ اوّل صفحہ 37 مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔ا ے)
30 مئی1906ء
(1) ’’خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی2 کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ فرشتوں3 کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے پر تونے وقت کو نہ پہچانا 4 نہ دیکھا نہ جانا۔
(2) برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں۔
1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اِسی خط میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’مَیں تمام دن اِس الہام کے بعد غمگین رہا کہ یہ کیسا بھید ہے۔ آج خط پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ آپ کا پیغام خدا تعالیٰ نے پہنچایا تھا۔ ‘‘ (مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ۔ مکتوباتِ احمدیہ جلد 7 حِصّہ اوّل صفحہ 37)
2 ’’یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عبدالحکیم خاں کے اس فقرہ کا رَدّ ہے ہے کہ جو مجھے کاذب اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہوجائے گا۔ گویا مَیں کاذب ہوں اور وہ صادق۔ اور وہ مرد صالح ہے اور مَیں شریر۔ اور خدا تعالیٰ اس کے رَدّ میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ذِلّت کی موت اور ذِلّت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو تو دُنیا تباہ ہوجائے اور صادق اور کاذب میں کوئی امر خارق نہ رہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 557 تا 560 حاشیہ۔ اشتہار 16 اگست 1906ء مشمولہ کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ 1‘ 2۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 411)
3 ’’فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار سے آسمانی عذاب مراد ہے کہ جو بغیر ذریعہ انسانی ہاتھوں کے ظاہر ہوگا۔‘‘
(اشتہار 16 اگست 1906ء)
4 ’’یعنی تُو نے یہ غور نہ کیا کہ کیا اس زمانہ میں اور اس نازک وقت میں اُمّتِ محمدیہ کیلئے کسی دجّال کی ضرورت ہے یا کسی مصلح اور مجدّد کی۔‘‘ (اشتہار 16 اگست 1906ء)
(3) 1 رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّ کَاذِبٍ۔
(4) اَنْتَ تَرٰی کُلَّ مُصْلِحٍ وَّ صَادِقٍ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر22 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر19 مؤرخہ31 مئی 1906ء صفحہ1)
مئی1906ء
’’فرمایا: چند روز ہوئے مَیں نے دیکھا تھا (رؤیا کہ ) بہت سے زنبور ہیں اور مَیں ان کو کپڑے میں پکڑ کر ماررہا ہوں۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر23 مؤرخہ7 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر20 مؤرخہ10 جون1906ء صفحہ1)
4 جون1906ء
(الف) ’’رؤیا۔ دیکھا کہ مَیں ایک جگہ ہوں اور وہاں ایک چادر ایک اُونچی جگہ پر رکھی ہوئی ہے۔ اتنے میں ایک چِڑا آیا اور اس چادر پر بیٹھ گیا۔ تب مَیں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ جس طرح بنی اسرائیل کے واسطے آسمان سے پرند اُترتے تھے اسی طرح ہمارے واسطے ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر23 مؤرخہ7 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر20 مؤرخہ10 جون1906ء صفحہ1)
(ب) ’’مجھے یاد ہے کہ جب نظام الدین2کیلئے مَیں نے دعا کی تب خوا ب میں دیکھا کہ ایک چِڑا اُڑتا ہوا
1 ’’یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کرکے دکھلا۔ تُو جانتا ہے کہ صادق او ر مصلح کون ہے۔ اِس فقرہ الہامیہ میں عبدالحکیم خاں کے اس قول کا رَدّ ہے جو وہ کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہوجائے گا۔ پس چونکہ وہ اپنے تئیں صادق ٹھیراتا ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تُو صادق نہیں ہے مَیں صادق اور کاذب میں فرق کرکے دکھلائوں گا۔‘‘
(اشتہار 16 اگست 1906ء مشمولہ کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ 1‘ 2۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ409 تا 411)
2 ’’نظام الدین نام سیالکوٹ میں ایک مستری ہے ۔ چند روز ہوئے اس کا ایک خط میرے نام آیا.......اس کا مضمون یہ تھا کہ مَیں فوجداری جُرم میں گرفتار ہوگیا ہوں اور کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ اس بیقراری میں مَیں نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اِس خوفناک مقدمہ سے رہا کردے تو مَیں مبلغ پچاس روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بلا توقف ادا کردوں گا۔ اِتفاق ایسا ہوا کہ جب اس کا خط پہنچا تو مجھے خود روپیہ کی ضرورت تھی۔ تب مَیں نے دعا کی کہ اے خدا ئے قادر و کریم ! اگر تُو اس شخص کو اس مقدمہ سے رہائی بخشے تو تین طور کا فضل تیرا ہوگا۔ اوّل یہ کہ یہ مضطر آدمی اس بَلا سے رہائی پاجائے گا۔ دوم مجھے جو اِس وقت روپیہ کی ضرورت ہے میرا مطلب کسی قدر پُورا ہوگا۔ سوم تیرا نشان ظاہر ہوجائے گا۔ دُعا کرنے سے چند روز بعد نظام الدین کا خط آیا..........اور دوسرے روز پچاس روپے آگئے۔‘‘
(مکتوب مذکور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صفحہ40 تا 41)
میرے ہاتھ میں آگیا اور اُس نے اپنے تئیں میرے حوالہ کردیا اور مَیں نے کہا کہ یہ ہمارا آسمانی رزق ہے جیسا کہ بنی اسرائیل پر آسمان سے رزق اُترا کرتا تھا۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام 5 جون 1906ء
مکتوباتِ احمدیہ جلد ہفتم حصّہ اوّل صفحہ40 مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے ۔قادیان)
5 جون1906ء
(1) ’’1 مَآاُرْ سِلَ نَبِیٌّ اِلَّا اَخْزٰی بِہِ اللّٰہُ قَوْمًا لَّا یُؤْمِنُوْنَ۔
(2) یُلْقِی الرُّوْحَ عَلیٰ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔
(3) خدا کی فیلنگ٭ اور خدا کی مُہر نے کتنا بڑا کام کیا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر23 مؤرخہ7 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر20 مؤرخہ10 جون1906ء صفحہ1)
7 جون1906ء
’’بذریعہ الہامِ الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں ‘ یعنی محمدی بیگم کا ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے دو2 نام ہوں گے۔
(1) بشیر الدّولہ (2) عَالَم کباب
یہ ہر دونام بذریعہ الہامِ الٰہی معلوم ہوئے اور اِن کی تعبیر اور تفہیم یہ ہے:۔
(1) بشیر الدَّولہ سے یہ مُراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کیلئے بشارت دینے والا ہوگا ۔ اُس کے پیدا ہونے کے بعد (یا اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد ) زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی اور گروہِ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی۔
1 (ترجمہ) (1) کوئی نبی نہیں بھیجا گیا مگر خدا نے اس کی وجہ سے ایک قوم کو رُسوا کیا جو ایمان نہیں لاتے تھے۔
(ترجمہ) (2) خدا اپنے بندوں سے جس کو چاہتا ہے نبوّت کی رُوح اس پر ڈالتا ہے۔
2 ’’اِس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مُہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی کرنے والا اِس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمّتی ہے اور ایک پہلو سے نبی۔ کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب ِ خاتَم بنایا یعنی آپ کو افاضہ ِ ٔ کمال کیلئے مُہر دی جو کسی اَور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اِسی وجہ سے آپ ؐ کا نام خاتم النّبییّن ٹھہرا۔ یعنی آپ ؐ کی پَیروی کمالاتِ نبوّت بخشتی ہے اور آپ ؐ کی توجہِ ٔروحانی نبی تراش ہے اور یہ قو ت ِ قدسیہ کسی اَور نبی کو نہیں ملی۔‘‘
( حقیقۃ الوحی صفحہ96‘ 97حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ99 تا 100)
٭ FEELING
(2)عالَم کباب سے یہ مُراد ہے کہ اُس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی بُرائی بھلائی شناخت کرے دُنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی۔ گویا دُنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اِس وجہ سے اس لڑکے کا نام عالَم کباب رکھا گیا۔ غرض وہ لڑکا اِس لحاظ سے کہ ہماری دولت اور اقبال کی ترقی کیلئے ایک نشان ہوگا بشیر الدّولہ کہلائے گا اور اِس لحاظ سے کہ مخالفوں کیلئے قیامت کا نمونہ ہوگا عالَم کباب کے نام سے موسُوم ہوگا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر24 مؤرخہ14 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر20 مؤرخہ10 جون1906ء صفحہ1)
7 جون1906ء
’’اِس کے بعد معلوم ہوا کہ اس لڑکے کے دو 2 نام اَور ہیں (1) ایک شادی خان کیونکہ وہ اس جماعت کیلئے شادی کا موجب ہوگا (2) دوسرے کلمۃ اللہ خان کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جو ابتدا سے مقرر تھا اس زمانہ میں پُورا ہوجائے گا اور ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے جب تک یہ پیشگوئی پُوری ہو اور گذشتہ الہام 1 اے وارڈ اَینڈ ٹو گرل اِسی پیشگوئی کو بیان کرتا ہے جس کے معنے ہیں ایک کلمہ اور دو لڑکیاں ۔ کیونکہ میاں منظور محمد کی دو لڑکیاں ہیں اور جب کلمۃ اللہ پیدا ہوگا تب یہ بات پُوری ہوجائے گی ایک کلمہ اور دو لڑکیاں۔‘‘ (بدر جلد 2 نمبر24 مؤرخہ14 جون 1906ء صفحہ 2حاشیہ)
7 جون1906ء
’’2 رَبِّ اَرِنِیْ اَنْوَارَکَ الْکُلِّیّۃَ (2) اِنِّیْٓ اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ (3) وَ اِنَّہٗ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَائِ مَایُرْضِیْکَ (4) 3د و نشان ظاہر ہوں گے (5) اللہ تعالیٰ اُس کو سلامت رکھنا نہیں چاہتا۔ (یہ کسی طرف اشارہ ہے) ۔(6) اِنَّآ اَخَذْنَاہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ 4 (7) خدا تمہیں
1 بدر 2 فروری 1906ء اور الحکم 31 جنوری 1906ء میں یہ الہام ’’ اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز ‘‘ (A word and two girls) اور اس کا ترجمہ ’’ ایک کلام اور دو لڑکیاں ‘‘ درج ہے۔( دیکھئے تذکرہ صفحہ505)۔
2 (ترجمہ از مرتب) (1) اے میرے ربّ مجھے اپنے وہ اَنوار دکھا جو محیط ِ کُل ہوں (2) مَیں نے تجھے روشن کیا اور تجھے برگزیدہ کیا (3) اور آسمان سے ایک ایسا اَمر اُترنے والا ہے جو تجھے خوش کردے گا۔
3 (نوٹ از مرتب) اس میں سعد اللہ لدھیانوی اور ڈاکٹر ڈوئی امریکن کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ممالک مشرقیہ میں تو سعداللہ لدھیانوی میری پیشگوئی اور مباہلہ کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی نمونیا پلیگ سے مَر گیا۔ یہ تو پہلا نشان تھا اور دوسرا نشان اس سے بہت ہی بڑا ہوگا جس میں فتح عظیم ہوگی۔ سو وہ ڈوئی کی موت ہے جو ممالک ِ مغربیہ میں ظہور میں آئی .......اِس سے خدا تعالیٰ کا وہ الہام پُورا ہوا کہ مَیں دو2 نشان دکھاؤں گا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ74۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ510)
4 (ترجمہ از مرتب) ہم اُسے دَرد ناک عذاب کے ساتھ پکڑیں گے۔
سلامت رکھے (8) 1 یَنْصُرُ کَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ(9) یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجِّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (10) سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُم(11) وَلَاتُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر24 مؤرخہ14 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر20 مؤرخہ10 جون1906ء صفحہ1)
7 جون1906ء
’’2 اِنِّیْٓ اُرِیْکَ مَا یُرْضِیْکَ۔‘‘
(الاستفتاء صفحہ76ملحقہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ702)
11 جون1906ء
رؤیا۔’’دیکھا کہ پندرہ سولہ نوجوان عورتیں خوبصورت اور نہایت خوش لباس پہنے ہوئے میرے سامنے آئی ہیں۔ مَیں نے اِس خیال سے کہ یہ عورتیں ہیں مُنہ اُن سے پھیر لیا اور اُن سے پُوچھا کہ تم کیسے آئی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کے پاس ہی آئی ہیں۔ پھر انہوں نے وہیں ہمارے دالان میں ڈیرے لگادیئے۔
فرمایا۔رؤیامیں عورت سے مُراد اقبال اور فتح مندی اور تائید ِ الٰہی ہوتی ہے۔ اِس رؤیامیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انہیں عورتوں میں وہ بھی ایک عورت تھی جو پہلے کبھی آئی تھی۔ فرمایا اس میں اشارہ ایک پُرانے3ر ؤیا کی طرف تھا جو حضرت والد صاحب کی وفات کے چند یَوم بعد مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک پِیڑھی پر بیٹھا ہوں ‘ تو ایک عورت نوجوان عمدہ لباس پہنے ہوئے تیس 30 بتیس 32 سال کی میرے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میرا ارادہ اب اِس گھر سے چلے جانے کا تھا مگر تمہارے لئے رہ گئی ہوں۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر24 مؤرخہ14 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر21 مؤرخہ17 جون1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) (8) وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے (9) وہ ہر ایک دُور کی راہ سے آئیں گے ہر ایک دُور کی راہ سے تیرے پاس تحائف آئیں گے (10) تم پر سلام ہو ۔ خوشحال رہو(11) اور جو لوگ تیرے پاس آئیں گے ‘ تجھے چاہئے کہ اُن سے بد خُلقی نہ کرے اور ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں تجھے وہ دکھاؤں گا جو تجھے راضی کردے گا۔
3 دیکھئے رؤیا 1876ء تذکرہ صفحہ20 ازالہ اوہام صفحہ 213 ‘ 214طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 205‘ 206۔ الحکم جلد 8 نمبر 22 مؤرخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 12)
11 جون1906ء
’’ایک زلزلہ کا نظارہ دکھائی دیا اور ساتھ ہی اس کے الہام ہوا:۔
لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ۔ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَارِ۔1‘‘
(بدر جلد 2 نمبر24 مؤرخہ14 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر21 مؤرخہ17 جون1906ء صفحہ1)
11 جون1906ء
’’مقبولوں میں قبولیّت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور ان کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور اُن پر کوئی غالب نہیں ہوسکتا اور (وہ) سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار تیرے2آگے ہے۔3اِ نَّا اَخَذْنَاکَ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ پر تُو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر24 مؤرخہ14 جون 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر21 مؤرخہ17 جون1906ء صفحہ1)
13 جون1906ء
(1) ’’4 یَکَا دُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ (2) ہر کجا باشی ‘ خوش باشی۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر24 مؤرخہ14 جون 1906ء صفحہ 2حاشیہ)
14 جون1906ء
’’ 5 وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اِنَّمَانَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر25 مؤرخہ21 جون 1906ء صفحہ3۔الحکم جلد 10 نمبر21 مؤرخہ17 جون1906ء صفحہ1)
16 جون1906ء
’’زلزلہ آنے کو6 ہے ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر25 مؤرخہ21 جون 1906ء صفحہ3۔الحکم جلد 10 نمبر21 مؤرخہ17 جون1906ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) آج کس کی بادشاہت ہے خداوند واحد قہار کی۔
2 متعلق ڈاکٹر عبدالحکیم مُرتد۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تجھے درد ناک عذاب کے ساتھ پکڑا۔
4 (ترجمہ از مرتب) (1) بجلی ان کی آنکھیں اُچک لینے کو ہے (2) جہاں رہو خوش رہو۔
5 (ترجمہ) اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت مچائو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔
6 یہ زلزلہ 21 جولائی 1906ء کو رات کے قریباً دو 2 بجے آیا۔ (بدر جلد 2 نمبر30 مؤرخہ 26 جولائی 1906ء )
19 جون1906ء
’’میاںمنظور محمد صاحب کے اُس بیٹے کا نام جو بطور نشان ہوگا بذریعہ الہامِ الٰہی مفصّلہ ٔ ذیل معلوم ہوئے:۔
(1) کلمۃ العزیز (2) کلمۃ اللہ خاں (3) وارڈ1 (4) بشیر الدّولہ (5) شادی خاں (6) عالَمِ کباب (7) ناصر الدین (8) فاتح الدین (9) 2 ھٰذَا یَوْمٌ مُّبَارَکٌ ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر25 مؤرخہ21 جون 1906ء صفحہ3۔الحکم جلد 10 نمبر22 مؤرخہ24 جون1906ء صفحہ1)
جولائی1906ء
(1) 3 اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ (2) اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر26۔28 مؤرخہ12 جولائی 1906ء صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر24 مؤرخہ10 جولائی1906ء صفحہ1)
8 جولائی1906ء
’’میرا لڑکا مبارک احمد خسرہ کی بیماری سے سخت گھبراہٹ اور اضطراب میں تھا ۔ ایک رات تو شام سے صُبح تک تڑپ تڑپ کر اُس نے بسر کی اور ایک دَم نیند نہ آئی اور دوسری رات میں اُس سے سخت تر آثار ظاہر ہوئے اور بیہوشی میں اپنی بوٹیاں توڑتا تھا اور ہذیان کرتا تھا اور ایک سخت خارش بدن میں تھی۔ اس وقت میرا دِل دَرد مند ہوا اور الہام ہوا:۔
اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ4
تب معاً دُعا کے بعد مجھے کشفی حالت میں معلوم ہوا کہ اس کے بستر پر چوہوں کی شکل پر بہت سے جانور پڑے ہیں اور وہ اُس کو کاٹ رہے ہیں اور ایک شخص اُٹھا اور اُس نے تمام وہ جانور اکٹھے کرکے ایک چادر میں باندھ دیئے اور کہا اِس کو باہر پھینک آؤ اور پھر وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مَیں نہیں جانتا کہ پہلے وہ کشفی حالت دُور ہوئی یا پہلے مرض دُور ہوگئی اور لڑکا فجر تک آرام سے سویا رہا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحۃ 87‘88 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 90 ‘ 91 حاشیہ )5
1 Word (کلمہ)
2 (ترجمہ از مرتب) یہ مبارک دن ہے۔
3 (ترجمہ ) (1) مجھ سے دعا مانگ مَیں قبول کروں گا (2) مَیں فوجوں کے سمیت تیرے پاس اچانک آؤں گا۔ (بدر و الحکم)
4 (ترجمہ از مرتب) میرے حضور دعا کرو مَیں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
5 بدر جلد 2 نمبر 26 ۔ 28 مؤرخہ 12 جولائی 1906ء صفحہ 2۔ الحکم جلد 10 نمبر 24 مؤرخہ 10 جولائی 1906ء صفحہ 1 پر یہ الہام 8 جون 1906ء کا لکھا گیا ہے جو درست نہیں۔ صحیح تاریخ 8 جولائی 1906ء ہے جو حقیقۃ الوحی میں درج ہے۔(مرتب)
10 جولائی1906ء
’’1دیکھ مَیں آسمان سے تیرے لئے برساؤں گا اور زمین سے نکالوں گا۔ پر وہ جو تیرے مخالف ہیں پکڑے جائیں گے ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر33 مؤرخہ16 اگست 1906ء صفحہ2۔الحکم جلد 10 نمبر29 مؤرخہ17 اگست1906ء صفحہ1)
1906ء
’’ یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی
اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تُو نے چلایا وہ تُونے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔
اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُ نْذِ رَ اٰبَآؤُھُمْ وَ لِتَسْتَبِیْنَ
خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے صحیح معنے تجھ پر ظاہر کئے تاکہ تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ
سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ط ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
مجرموں کی راہ کھُل جائے یعنی معلوم ہوجائے کہ کون تجھ سے برگشتہ ہوتا ہے ۔ کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں
قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ۔ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ
کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ اور باطل بھاگنے والا ہی تھا۔ ہر ایک برکت محمد
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ
صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے ۔ پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ اور کہیں گے کہ یہ
اِلَّا اخْتِلَاقٌ ۔قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ قُلْ
وحی نہیں ہے یہ کلمات تو اپنی طرف سے بنائے ہیں۔ اُن کو کہہ وہ خدا ہے جس نے یہ کلمات نازل کئے پھر ان کو لہو و لعب کے خیالات میں چھوڑ دے۔ ان کو کہہ
اِنِ افْتَرَیتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی
اگر یہ کلمات میرا اِفترا ہے اور خدا کا کلام نہیں تو پھر مَیں سخت سزا کے لائق ہُوں اور اُس انسان سے زیادہ تر کون ظالم ہے
عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ
جس نے خدا پر افترا کیا اور جھُوٹ باندھا۔ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔
لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِہٖ۔ لَامُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ۔ یَقُوْلُوْنَ اَنّٰی لَکَ
تا اُس دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے ۔ خدا کی باتیں پُوری ہوکر رہتی ہیں کوئی اُن کو بدل نہیں سکتا ۔ اور لوگ کہیں گے کہ
1 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے الاستفتاء صفحہ 76 مشمولہ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702 میں اِس الہام کا عربی میں ترجمہ فرماتے ہوئے اس کی تاریخ ’’10 جولائی 1906ء ‘‘ تحریر فرمائی ہے اِس لئے اِسے یہاں درج کیا گیا۔ (مرتب)
ھٰذَا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۔ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔
یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا ؟ یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے یہ تو انسان کا قول ہے اور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔
اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۔ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۔
اے لوگو! کیا تم ایک فریب میں دانستہ پھنستے ہو؟ جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے اس کا ہونا کب ممکن ہے۔
مِنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ مُھِیْنٌ جَاھِلٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۔ قُلْ عِنْدِیٰ
پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے جو بے ٹھکانے باتیں کرتا ہے ان کو کہہ کہ میرے پاس
شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ
خدا کی گواہی ہے پس کیا قبول کرو گے یا نہیں ؟ پھر ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔
فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ۔ ھٰذَا
پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں ؟ اور مَیں پہلے اس سے ایک مدت تک تم میں ہی رہتا تھا کیا تم سمجھتے نہیں ؟ یہ
مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ۔ فَبَشِّرْ۔ وَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ
مرتبہ تیرے رَبّ کی رحمت سے ہے وہ اپنی نعمت تیرے پر پُوری کرے گا۔ پس تُو خوشخبری دے اور خدا کے فضل سے تُو
بِمَجْنُوْنٍ۔ لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآئِ وَفِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِرُوْنَ۔ وَلَکَ
دیوانہ نہیں ہے۔ تیرا آسمان پر ایک درجہ اور ایک مرتبہ ہے اور نیز اُن لوگوں کی نگاہ میں جو دیکھتے ہیں ۔ اور تیرے لئے
نُرِیْٓ اٰیَاتٍ وَّ نَھْدِمُ مَا یَعْمُرُوْنَ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ
ہم نشان دکھائیں گے اور جو عمارتیں بناتے ہیں ہم ڈھادیں گے۔ اُس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح
ابْنَ مَرْیَم۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ 1۔وَقَالُوْآ اَتَجْعَلُ
ابن ِ مریم بنایا۔ وہ اُن کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا جو کرتا ہے اور لوگ اپنے کاموں سے پوچھے جاتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ کیا تُو ایسے
فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لَاتَعْلَمُوْنَ۔ اِنِّیْ مُھِیْنٌ
شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے۔ اُس نے کہا کہ اس کی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ مَیں اُس شخص کی اہانت
مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ کَتَبَ اللّٰہُ
کروں گا جو تیری اِہانت کا ارادہ کرے گا۔ میرے قُرب میں میرے رسول کسی دشمن سے نہیں ڈرا کرتے۔ خدا نے لکھ چھوڑا ہے
1 ’’ خدا تعالیٰ کا پاک کلام جو میری کتاب براہین احمدیہ ( براہین احمدیہ صفحہ 497 حاشیہ نمبر 3۔ صفحہ 557 حاشیہ نمبر 4 ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 590 ‘ 664۔ مرتب) کے بعض مقامات میں لکھا گیا ہے ‘ اس میں خدا تعالیٰ نے تبصریح ذکر کر دیا ہے کہ کِس رح اُس نے مجھے عیسیٰ بن مریم ٹھہرایا۔ اِس کتاب میں پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور بعد اس کے ظاہر کیا کہ اس مریم میں خدا کی طرف سے رُوح پھُونکی گئی اور پھر فرمایا کہ رُوح پھُونکنے کے بعد مریمی مرتبہ عیسوی مرتبہ کی طرف منتقل ہوگیا اور اِس طرح مریم سے عیسیٰ پیدا ہوکر
لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ1وَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْن۔ اِنَّ اللّٰہَ
کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوجائیں گے ۔ خدا اُن کے
مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔
ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نکو کار ہیں۔ قیامت کے مشابہ ایک زلزلہ آنے والا ہے جو تمہیں دکھاؤں گا
اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ۔ جَآئَ الْحَقُّ وَ
اور مَیں ہر ایک کو جو اِس گھر میں ہے نگاہ رکھوں گا۔ اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ۔ حق آیا
زَھَقَ الْبَاطِلُ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔ بِشَارَۃٌ تَلَقَّا ھَا النَّبِیُّونَ
اور باطل بھاگ گیا۔ یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے۔ یہ وہ بشارت ہے جو نبیوں کی ملی تھی۔
اَنْتَ عَلیٰ بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ
تُو خدا کی طرف سے کھُلی کھُلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اُن کیلئے ہم کافی ہیں۔ کیا مَیں تمہیں
عَلیٰ مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ۔ تَنَزَّلُ عَلیٰ کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ۔ وَلَا تَیْئَسْ
بتلاؤں کہ کن لوگوں پر شیطان اُترا کرتے ہیں۔ ہر ایک کذّاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں۔ اور تُو خدا کی رحمت سے
مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اَلَآ اَنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ یَاْتِیْکَ
نو مید مت ہو۔ خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے۔ خبردار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے۔ وہ مدد ہر ایک دُور
بقیہ حاشیہ: ابن ِ مریم کہلایا۔ پھر دوسرے مقام میں اِسی مرتبہ کے متعلق فرمایا: فَاَجَآئَ ہُ الْمَخَاضُ اِلیٰ جِذْعِ النَّخْلَۃِط قَالَ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا ۔ اِس جگہ خدا تعالیٰ ایک استعارہ کے رنگ میں فرماتا ہے کہ جب اس مامور میں مریمی مرتبہ سے عیسوی مرتبہ کا تولّد ہوا اور اس لحاظ سے یہ مامور ابن ِ مریم بننے لگا۔ تو تبلیغ کی ضرورت جو دَردِزِہ سے مشابہت رکھتی ہے اس کو اُمّت کی خشک جڑھ کے سامنے لائی۔ جس میں فہم اور تقویٰ کا پھَل نہیں تھا اور وہ تیار تھے کہ ایسا دعویٰ سُن کر اِفتراء کی تہمتیں لگاویں اور دُکھ دیں اور طرح طرح کی باتیں اُس کے حق میں کریں۔ تب اُس نے اپنے دِل میں کہا کہ کاش مَیں پہلے اس سے مَر جاتا اور ایسا بھولا بسرا ہوجاتا کہ کوئی میرے نام سے واقف نہ ہوتا۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ 72 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 75)
1 ’’اِس وحیِ الٰہی میں خدا نے میرا نام رُسُل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیم السّلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسُوب کئے ہیں۔ مَیں آدم ہوں۔ مَیں شیث ہوں۔ مَیں نوح ہوں۔ مَیں ابراہیم ہوں۔ مَیں اسمٰعیل ہوں۔ مَیں یعقوب ہوں۔ مَیں یوسف ہوں۔ مَیں موسیٰ ہوں۔ مَیں داؤد ہوں۔ مَیں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا مَیں مظہرِ اَتَم ہوں۔ یعنی ظِلّی طور پر محمّدؐ اور احمد ؐ ہوں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 72 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76حاشیہ)
مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔
کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہوجائیں گے اِس کثرت سے
یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔
لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے۔ خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں
قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ مَایُرْضِیْکَ۔ اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا
ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔ تیرا ربّ فرماتا ہے کہ ایک ایسا امر آسمان سے نازل ہوگا جس سے تُو خوش ہوجائے گا۔ ہم
مُّبِیْنًا۔ فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ وَّقَرَّبْنَاہُ نَجِّیًّا۔ اَشْجَعُ النَّاسِ۔ وَلَوْکَانَ
ایک کھُلی کھُلی فتح تجھ کو عطا کریں گے ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اس کو ایک ایسا قُرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ
الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ۔ اَنَارَ اللّٰہُ بُرْھَانَہٗ۔ کُنْتُ کَنْزًا
بہادر ہے۔ اور اگر ایمان ثریّا سے معلّق ہوتا تو وہ وہیں جاکر اُس کو لے لیتا۔ خدا اُس کی حجت روشن کرے گا۔ مَیں ایک خزانہ
مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ یَاقَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا
پوشیدہ تھا پس مَیں نے چاہا کہ ظاہر کیا جاؤں۔ اے چانداور اے سورج ! تُو مجھ سے ظاہر ہوا اور میں
مِنْکَ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَانْتَھٰٓی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ
تجھ سے۔ جب خدا کی مدد آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا تب کہا جائے گا کہ کیا یہ شخص جو بھیجا
رَبِّکَ 1۔ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ
گیا حق پر نہ تھا ؟ اور چاہئے کہ تُو مخلوقِ الٰہی کے ملنے کے وقت چیں بر جبیں نہ ہو‘ اور چاہئے کہ تُو لوگوں کی کثرتِ ملاقات سے تھک
مِّنَ النَّاسِ۔ وَ وَسِّعْ مَکَانَکَ وَبَشّرِالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ
نہ جائے اور تجھے لازم ہے کہ اپنے مکانوں کو وسیع کرے تا لوگ جو کثرت سے آئیں گے ان کو اُترنے کیلئے کافی گنجائش ہو اور ایمان والوں کو
صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ مَّآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔
خوشخبری دے کہ خدا کے حضور میں انکا قدم صدق پر ہے۔ اور جو کچھ تیرے ربّ کی طرف سے تیرے پر وحی نازل کی گئی ہے وہ اُن لوگوں کو سُنا جو
اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ۔ وَمَآ اَدْرٰکَ مَآ اَصْحٰبُ الصُّفَّۃِ۔ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ
تیری جماعت میں داخل ہوں گے۔ صُفّہ کے رہنے والے۔ اور تُو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صُفّہ کے رہنے والے۔ تُو دیکھے گا کہ اُنکی آنکھوں سے آنسُو
تُفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ۔ یُصَلُّوْنَ عَلَیْک۔ رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا
جاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درُود بھجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک منادی کرنے والے
یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ۔ وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا یَآ اَحْمَدُ
کی آواز سنی ہے جو ایمان کی طرف بُلاتا ہے اور خدا کی طرف بُلاتا ہے اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے ۔ اے احمد!
1 ’وَتَمَتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ۔اور خدا کا وعدہ پورا ہوگا۔‘‘ (ترجمہ از مرتب)
فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلیٰ شَفَتَیْکَ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ۔
تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ مَیں نے تیرا نام متوکل رکھا۔
یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ بُوْرِکْتَ
خدا تیرا ذکر بلند کرے گا۔ اور اپنی نعمت دُنیا اور آخرت میں تیرے پر پُوری کرے گا۔ اے احمد ! تُو
یَآ اَحْمَدُ۔ وَکَانَ مَابَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ شَاْنُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ
برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیر اہی حق تھا۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا اَجر
قَرِیْبٌ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ ط اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ
قریب ہے۔ آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں جیسے کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ تُو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔
اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْط سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ زَادَ مَجْدَکَ۔
مَیں نے تجھے اپنے لئے چُنا۔ خدائے پاک بڑا برکتوں والا اور بڑا بزرگ ہے وہ تیری بزرگی کو زیادہ کرے گا۔
یَنْقَطِعُ اٰبَآئُ کَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ1و َمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ۔ حَتّٰی
تیرے باپ دادوں کا ذکر منقطع ہوجائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ کو چھوڑ دے
یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ
جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے۔ اور جب خدا تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور خدا کا وعدہ پُورا ہوگا
ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ
تب کہا جائے گا کہ یہ وہی امر ہے جس کیلئے تم جلدی کرتے تھے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو مَیں نے اس آدم کو
اٰدَمَ ط دَنیٰ فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔ یُحِٰی الدِّیْنَ وَ
پیدا کیا۔ وہ خدا سے نزدیک ہوا پھر مخلوق کی طرف جھُکا اور خدا اور مخلوق کے درمیان ایسا ہوگیا جیسا کہ دو قوسوں کے درمیان کا خط ہوتا ہے۔
یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃ یَا اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ط یَا مَرْیَمُ
دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔ اے آدم تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔ اے مریم
اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَا اَحْمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ
تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔ اے احمد! تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔
1 یاد رہے کہ ظاہری بزرگی اور وجاہت کے لحاظ سے اِس خاکسار کا خاندان بہت شہرت رکھتا تھا بلکہ اِس زمانہ تک بھی اس خاندان کی دُنیوی شوکت زوال کے قریب قریب تھی۔ میرے دادا صاحب کے اِس نواح میں بیاسی گائوں اپنی ملکیت کے تھے اور پہلے اِس سے وہ والیانِ ملک کے رنگ میں بسر کرتے تھے اور کسی سلطنت کے ماتحت نہ تھے اور پھر رفتہ رفتہ حِکمت اور مشیّتِ ایزدی سے سکھوں کے زمانہ میں چند لڑائیوں کے بعد سب کچھ کھو بیٹھے اور صرف چھ6 گاؤں ان کے قبضہ میں رہے اور پھر دو گاؤں اَور ہاتھ
نُصِرْتَ وَ قَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ
تجھے مدد دی جائے گی اور مخالف کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ وہ لوگ جو کافر ہوئے اور خدا کے
سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ۔ شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہٗ۔ اَمْ
راہ کے مانع ہوئے ان کا ایک فارسی الاصل آدمی نے رَدّ کیا۔ خدا اس کی کوشش کو شکر گذار ہے۔ کیا
یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ۔ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایک زبردست جماعت تباہ کرنے والے ہیں۔ یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔
اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ وَ اِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ
تُو ہمارے نزدیک آج صاحب ِ مرتبہ امین ہے اور تیرے پر میری رحمت دُنیا اور دین میں ہے۔
وَ اِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَمْشِیْ اِلَیْکَ۔ سُبْحَانَ الَّذِیْٓ
اور تُو اُن لوگوں میں سے ہے جن کے شامل نصرتِ الٰہی ہوتی ہے۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چل رہا ہے۔ وہ پاک ذات وہی خدا ہے
بقیہ حاشیہ: سے جاتے رہے اور صرف چار گاؤں رہ گئے اور اِس طرح پر دُنیوی شوکت جو کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی زوال پذیر ہوگئی۔ بہر حال یہ خاندان اِس نواح میں بہت شہرت رکھتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ عزت صرف دنیوی حیثیت تک محدود رہے کیونکہ دُنیا کی عزتوں کا بجز بے جا مشیخت اور تکبر اور غرور کے اور کوئی ماحصل نہیں اِس لئے اب خدا تعالیٰ اپنی پاک وحی میں وعدہ دیتا ہے اور مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اَب یہ خاندان اپنا رنگ بدل لے گا اور اِس خاندان کا سلسلہ تم سے شروع ہوگا اور پہلا ذکر منقطع ہوجائے گا۔ اور اِس وحیِ الٰہی میں کثرتِ نسل کی طرف بھی اشارہ ہے یعنی نسل بہت ہوجائے گی اور جیسا کہ بظاہر سمجھا گیا ہے یہ خاندان مغلیہ خاندان کے نام سے شہرت رکھتا ہے لیکن خدائے عالم الغیب نے جو دانائے حقیقت ِ حال ہے بار بار اپنی وحیِ مقدّس میں ظاہر فرمایا ہے جو یہ فارسی خاندان ہے اور مجھ کو ابناءِ فارس کرکے پکارا ہے جیسا کہ وہ میری نسبت فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَکَرَاللّٰہُ سَعْیَہٗ ۔ یعنی جو لوگ کافر ہوکر خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں ایک فارسی الاصل نے ان کا رَدّ لکھا ہے خدا اس کی اس کوشش کا شکر گذار ہے۔ پھر وہ ایک اَور وحی میں میری نسبت فرماتا ہے لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًام بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ ۔ یعنی اگر ایمان ثریّا کے ساتھ معلّق ہوتا تو ایک فارسی الاصل انسان وہاں بھی اُس کو پالیتا۔ پھر اپنی ایک اَور وحی میں مجھ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَآ اَبْنَآئَ الْفَارِسِ ۔یعنی توحید کو پکڑو ۔ توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو۔
اِن تمام کلماتِ الٰہیہ سے ثابت ہے کہ اِس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مُغلیہ۔ نہ معلوم کِس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہوگیا اور جیسا کہ ہمیں اطلاع دی گئی ہے میرے خاندان کا شجرہ نَسب اِس طرح پر ہے کہ میرے والد کا نام میرزا غلام مرتضیٰ تھا اور اُن کے والد کا نام میرزا عطا محمد۔ میرزا عطا محمد کے والد کا نام میرزا گل محمد۔ میرزا گل محمد کے والد میرزا فیض محمد
اَسْرٰی بَعَبْدِہٖ لَیْلًا۔ خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ۔ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ 1
جس نے ایک رات میں تجھے سیر کرادیا۔ اُس نے اِس آدم کو پَیدا کیا اور پھر اُس کو عزت دی۔ یہ رسولِ خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک
الْاَنْبِیَآئِ۔ بُشْرٰی لَکَ یَآ اَحْمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ۔ سِرُّکَ
نبی کی ایک خاص صفت اِس میں موجود ہے۔ تجھے بشارت ہو اے احمد ! تُو میری مُراد اور میرے ساتھ ہے۔ تیر ابھید
سِرِّیْ۔ اِنِّیْ نَاصِرُکَ۔ اِنِّیْ حَافِظُکَ۔ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔
میرا بھید ہے ۔ مَیں تیری مدد کروں گا ۔ مَیں تیرا نگہبان رہوں گا ۔ مَیں لوگوں کیلئے تجھے امام بناؤں گا تُو ان کا رہبر ہوگا اور وہ تیرے
اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ
پَیرو ہوں گے۔ کیا ان لوگوں کو تعجب آیا؟ کہہ خدا ذوالعجائب ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا
بقیہ حاشیہ: اور میرزا فیض محمد کے والد میرزا محمد قائم۔ میرزا محمد قائم کے والد میرزا محمد اسلم ۔ میرزا محمد اسلم کے والد میرزا دلاور۔ میرزا دلاور کے والد میرزا الہ دین۔ میرزا الہ دین کے والد میرزا جعفر بیگ۔ میرزا جعفر بیگ کے والد میرزا محمد بیگ ۔میرزا محمدبیگ کے والد میرزا عبدالباقی۔ میرزا عبدالباقی کے والد میرزا محمد سلطان۔ میرزا محمد سلطان کے والد میرزا ہادی بیگ۔
معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے ان کو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے۔ بہرحال جو کچھ خدا نے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے۔ انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے۔ ٭ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ 76‘ 77 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 79 تا 81)
٭حاشیہ در حاشیہ:۔ میرے خاندان کی نسبت ایک اَور وحیِ الٰہی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا میری نسبت فرماتا ہے سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ (ترجمہ)سلمان یعنی یہ عاجز جو دو صلح کی بنیاد ڈالتا ہے ہم میں سے ہے جو اہلِ بَیت ہیں۔ یہ وحیِ الٰہی اس مشہور واقعہ کی تصدیق کرتی ہے جو بعض دادیاں اِس عاجز کی سادات میں سے تھیں اور دو صلح سے مُراد یہ ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ ایک صلح میرے ہاتھ سے اور میرے ذریعہ سے اسلام کی اندرونی فرقوں میں ہوگی اور بہت کچھ تفرقہ اُٹھ جائے گا اور دوسری صلح اسلام کے بَیرونی دشمنوں کے ساتھ ہوگی کہ بہتوں کو اسلام کی حقانیت کی سمجھ دی جائے گی اور وہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے تب خاتمہ ہوگا۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ 78حاشیہ در حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 81حاشیہ در حاشیہ)
’’اِس وحیِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اَخِیرتک جس قدر انبیاء علیہم السّلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دُنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی اُن سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اِس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گذرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اِس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے۔ اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 89۔ روحانی خزائن جلد21 صفحہ 116)
وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ وَ قَالُوْآ اِنْ ھٰذَآ
اور لوگ پُوچھے جاتے ہیں۔ اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔ اور کہیں گے کہ یہ تو صرف
اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔
ایک بناوٹ ہے۔ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔
اِذَا نَصَرَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۔ وَلَا رَآدَّ
جب خدا تعالیٰ مومن کی مدد کرتا ہے تو زمین پر اس کے کئی حاسد مقرر کردیتا ہے اور اُس کے فضل کو کوئی رَدّ
لِفَضْلِہٖ۔ فَالنَّارُ مَوْعِدُ ھُمْ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ
نہیں کرسکتا۔ پس جہنّم اُن کے وعدہ کی جگہ ہے۔ کہہ خدا نے یہ کلام اُتارا ہے۔ پھر ان کولہو و لعب کے خیالات
یَلْعَبُوْنَ۔ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْآ اَنُؤْمِنُ کَمَآ
میں چھوڑدے۔ اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسا کہ لوگ ایمان لائے کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی
اٰمَنَ السُّفَھَآئُ۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ
طرح ایمان لائیں۔ خبردار ہو کہ درحقیقت وہی لوگ بیوقوف ہیں مگر اپنی نادانی پر مطلع نہیں۔ اور جب اُن کو کہا جائے
لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ لا۔ قَالُوْآاِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۔ قُلْ جَآئَ کُمْ نُوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ
کہ زمین پر فساد مت کرو کہتے ہیں کہ بلکہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں۔ کہہ تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے۔
فَلَا تَکْفُرُوْآ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ اَمْ تَسْئَلُھُمْ مِّنْ خَرْجٍ فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ
پس اگر مومن ہو تو انکار مت کرو۔ کیا تُو ان سے کچھ خراج مانگتا ہے پس وہ اس چَٹّی کی وجہ سے ایمان لانے کا بوجھ
مُّثْقَلُوْنَ۔ بَلْ اَتَیْنٰھُمْ بِالْحَقِّ فَھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ۔ تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ
اُٹھا نہیں سکتے بلکہ ہم نے اُن کو حق دیا اور وہ حق لینے سے کراہت کرتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ لُطف
وَ تَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ۔ اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی وَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُوْلُوْنَ۔
اور رحم کے ساتھ پیش آ۔ تُو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی باتوں پر صبر کر۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔
کیا تُو اِس لئے اپنے تئیں ہلاک کرے گا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ اس بات کے پیچھے مت پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔
وَ لَاتُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۔ اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۔ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا
اور ان لوگوں کے بارہ میں جو ظالم ہیں مجھ سے گفتگو مت کر کیونکہ وہ سب غرق کئے جائیں گے۔ اور ہماری آنکھوں کے روبرو کشتی تیار کر
وَ وَحِیْنَا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ط
اور ہمارے اشارے سے۔ وہ لوگ جو تیرے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں وہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْ کَفَّرَط1۔ اَوْ قِدْلِیْ یَا ھَامَانُ لَعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ عَلیٰٓ
پر ہے اور یاد کر وہ وقت جب تجھ سے وہ شخص مَکر کرنے لگا جس نے تیری تکفیر کی اور تجھے کافر ٹھیرایا اور کہا کہ اے ہامان میرے لئے آگ بھڑکا تا مَیں
اِلٰہِ مُوْسیٰ۔ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ۔ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ
موسیٰ کے خدا پر اطلاع پاؤں اور مَیں اُس کو جھُوٹا سمجھتا ہوں۔ ہلاک ہوگئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے
وَّ تَبَّ2۔ مَاکَانَ لَہٗٓ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَآ اِلَّاخَآئِفًا ط وَمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ ۔
اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا اُس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے۔ اور جو کچھ تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی
اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ۔
طرف سے ہے۔ اس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا۔ پس صبر کر جیسا کہ اولوا العزم نبیوں نے صبر کیا۔ وہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔
لِیُحِبَّ حُبًّاجَمًّا۔ حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْاَکْرَمِ۔ شَاتَانِ تُذْبَحَانِ۔ وَکُلُّ مَنْ
تا وہ تجھ سے محبت کرے۔ وہ اس خدا کی محبت ہے جو بہت غالب اور بہت بزرگ ہے۔ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ اور ہر ایک
عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ۔ اَلَمْ تَعْلَمْ
جو زمین پر ہے آخر وہ فنا ہوگا۔ تم کچھ غم مت کرو اور اندوہ گیں مت ہو۔ کیا خدا اپنے بندے کیلئے کافی نہیں ؟ کیا تُو نہیں جانتا
اَنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ وَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ
کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ اور تجھے اُنہوں نے ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے۔ وہ ہنسی کی راہ سے کہتے ہیں کیا یہی ہے
بَعَثَ اللّٰہُ۔ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔
جس کو خدا نے مبعوث فرمایا؟ ان کو کہہ کہ مَیں تو ایک انسان ہوں۔ میری طرف یہ وحی ہوئی ہے کہ تمہارا ایک خدا ہے
وَ الْخَیْرُ کُلّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔ لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ
اور تمام بھلائی اور نیکی قرآن میں ہے کسی دوسری کتاب میں نہیں۔ اس کے اسرار تک وہی پہنچتے ہیں جو پاک دل ہیں۔ کہہ ہدایت
1 مکفر سے مراد مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی ہے ۔ کیونکہ اس نے استفتاء لکھ کر نذیر حسین کے سامنے پیش کیا اور اس ملک میں تکفیر کی آگ بھڑکانے والا نذیر حسین ہی تھا۔ عَلَیْہِ مَا یَسْتَحِقُّہٗ۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ81حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 83)
2 اِس جگہ ابو لہب سے مرا دایک دہلوی مولوی ہے جو فوت ہوچکا ہے اور یہ پیشگوئی 25 برس کی ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے اور یہ اُس زمانہ میں شائع ہوچکی ہے جب میری نسبت تکفیر کا فتویٰ بھی ان مولویوں کی طرف سے نکلا تھا۔ تکفیر کے فتویٰ کا بانی بھی وہی دہلی کا مولوی تھا جس کا نام خدا تعالیٰ نے ابو لہب رکھا اور تکفیر سے ایک مدّت دراز پہلے یہ خبر دے دی جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ81حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 84)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ھُوَالْھُدٰی۔ وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلیٰ رَجُلٌ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ1
دراصل خدا کی ہدایت ہی ہے۔ اور کہیں گے کہ یہ وحیِ الٰہی کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں ہوئی جو دو شہروں میں سے کسی ایک شہر کا باشندہ
وَ قَالُوْآ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ 2 یَنْظُرُوْنَ
ہے۔ اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہوگیا۔ یہ تو ایک مَکر ہے جو تم لوگوں نے مل کر بنایا۔ یہ لوگ تیری طرف دیکھتے ہیں
اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔
مگر تُو انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ان کو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ اَنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا۔ وَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ
خدا آیا ہے تا تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر شرارت کی طرف عود کروگے تو ہم بھی عذاب دینے کی طرف عود کریں گے اور ہم نے جہنّم کو
حَصِیْرًا۔ وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن۔ قُلِ اعْمَلُوْا عَلیٰ مَکَانَتِکُم
کافروں کیلئے قید خانہ بنایا ہے اور ہم نے تجھے تمام دُنیا پر رحمت کرنے کیلئے بھیجا ہے ان کو کہہ کہ تم اپنے مکانوں پر اپنے طور پر عمل کرو
اِنِّیْ عَامِلٌ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ لَا یُقْبَلُ عَمَلٌ مِّثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِّنْ
اور مَیں اپنے طور پر عمل کررہا ہوں پھر تھوڑی دیر کے بعد تم دیکھ لو گے کہ کس کی خدا مدد کرتا ہے کوئی عمل بغیر تقویٰ کے ایک ذرّہ
غَیْرِ التَّقْوٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔
قبول نہیں ہوسکتا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو نیک کاموں میں مشغول ہیں
قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ
کہہ اگر مَیں نے اِفترا کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔ اور مَیں پہلے اِس سے ایک مدّت تک تم میں رہتا
قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ وَ لِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً
تھا کیا تم کو سمجھ نہیں؟ کیا خدا اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں ہے۔ اور ہم اس کو لوگوں کیلئے
لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا۔ وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ
ایک نشان اور ایک نمونہ رحمت بنائیں گے۔ اور یہ ابتداء سے مقدّر تھا۔ یہ وہی اَمر ہے جس میں تم
تَمْتَرُوْنَ۔ سَلَامٌ عَلَیْکَ ط جُعِلْتَ مُبَارَکًا۔ اَنْتَ مُبَارَکٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔
شک کرتے تھے۔ تیرے پر سلام۔ تُو مبارک کیا گیا۔ تُو دُنیا اور آخرت میں مبارک ہے
1 یعنی اِس شخص کو مہدی موعود ہونے کا دعویٰ ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان کا رہنے والا ہے۔ کیوں مہدی معہود مکہ یا مدینہ میں مبعوث نہ ہوا جو سرزمینِ اسلام ہے۔ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ82حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 85)
2 الہام کے الفاظ فِی الْمَدِیْنَۃِ کا ترجمہ ’’شہر میں‘‘ حقیقۃ الوحی کے پہلے ایڈیشن میں بھی موجود نہیں ہے۔ (مرتب)
اَمْرَاضُ النَّاسِ وَ بَرَکَاتُہٗ1 بخر ام کہ وقت ِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں
تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی۔
بر مَنار بلند تر محکم افتاد2۔ پاک مصطفیٰ نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا۔ ربّ الافواج اِس طرف توجہ کریگا۔ اِس نشان کا مدّعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں۔
یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ
اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور مَیں تیرے تابعین کو تیرے مُنکروں
کَفَرُوْآ اِلیٰ یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔
پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ ان میں سے ایک پہلا گروہ ہو اور ایک پچھلا
مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ۔ فَحَانَ
تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ پس وہ وقت آتا ہے
اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ ط اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ۔ اَنْتَ
کہ تُو مدد دیا جائے گا اور دُنیا میں مشہور کیا جائے گا ۔ تُو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے ۔ تُو
مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ۔3 اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَاالْخَلْقُ۔ نَحْنُ
مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے ۔ تُو مجھ سے بمنزلہ اُس انتہائی قُرب کے ہے جس کو دُنیا نہیں جان سکتی۔ہم
1 یہ خدا کا قول کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی۔ روحانی اور جسمانی دونوں قِسم کے مریضوں پر مشتمل ہے۔ روحانی طور پر اِ س لئے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ بَیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد اُن کے عملی حالات درست ہوگئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور مَیں صد ہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہوگئی ہے کہ کِس طرح وہ جذباتِ نفسانیہ سے پاک ہوں اور جسمانی امراض کی نسبت مَیں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اکثر خطرناک امراض والے میری دعا اور توجہ سے شفایاب ہوئے ہیں۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ83‘84حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 86‘87)
2 (ترجمہ از مرتب) خوش خوش چل کہ تیرا وقت نزدیک آپہنچا ہے اور محمدی گروہ کا پاؤں ایک بہت اُونچے مینار پر مضبوطی سے قائم ہوگیا ہے۔
3 خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے اور یہ کلمہ بطور استعارہ کے ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں ایسے ایسے الفاظ سے نادان
اَوْلِیَآئُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۔ اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ ۔ وَکُلَّمَا اَحْبَبْتَ
ہم تمہارے متولّی اور متکفّل دُنیا اور آخرت میں ہیں۔ جس پر تُو غضبناک ہو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور جن سے تُو محبت کرے
اَحْبَبْتُ ۔ مَنْ عَادٰی وَلِیًّا لِّیْ فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ لِلْحَرْبِ ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔
مَیں بھی محبت کرتا ہوں اور جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھے مَیں لڑنے کیلئے اُس کو متنبہ کرتا ہوں۔ مَیں اِس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا
وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ۔ وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ۔ یَاْتِیْکَ الْفَرَجُ ۔ سَلَامٌ عَلیٰٓ
اور اس شخص کو ملامت کروں گا جو اس کو ملامت کرے۔ اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے گی۔ کشایش تجھے ملی گی۔ اِس
اِبْرَاھِیْمَ ۔ صَافَیْنَاہُ وَ نَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ۔ تَفَرَّدْنَا بِذٰلِکَ ۔ فَاتَّخِذُوْا مِنْ
ابراہیم پر سلام۔ ہم نے اس سے صاف دوستی کی اور غم سے نجات دی۔ ہم اِس امر میں اکیلے ہیں۔ سو تم اِس ابراہیم
مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی ۔اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ۔ وَ بِالْحَقِّ
کے مقام سے عبادت کی جگہ بناؤ یعنی اِس نمونہ پر چلو۔ ہم نے اُس کو قادیان کے قریب اُتارا ہے اور عین ضرورت کے وقت
اَنْزَلْنَاہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ۔ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ۔ وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔
اُتارا ہے اور ضرورت کے وقت اُترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ اور خدا کا ارادہ پُورا ہونا ہی تھا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔ لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ
اس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح ابنِ مریم بنایا ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا اور
ھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ۔ آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا
لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ خدا نے تجھے ہر ایک چیز میں سے چُن لیا۔ دُنیا میں کئی تخت اُترے پر تیرا
تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْراللّٰہِ ۔ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ
تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا۔ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نو رکو بجھادیں۔ خبردار ہو کہ انجام کار خدا کی جماعت ہی
ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔ لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلیٰ۔ لَا تَخَفْ۔ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ
غالب ہوگی۔ کچھ خوف مت کر تُو ہی غالب ہوگا۔ کچھ خوف مت کر کہ میرے رسول میرے قُرب میں کسی
الْمُرْسَلُوْنَ۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ۔ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ
سے نہیں ڈرتے۔ دشمن ارادہ کریں گے کہ اپنے مُنہ کی پھُونکوں سے خدا کے نور کو بُجھادیں اور خد اپنے نور کو پُورا کریگا
بقیہ حاشیہ: عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا ٹھیرا رکھا ہے اِس لئے مصلحت ِ الٰہی نے یہ چاہا کہ اِس سے بڑھ کر الفاظ اِس عاجز کیلئے استعمال کرے تا عیسائیوں کی آنکھیں کھُلیں اور وہ سمجھیں کہ وہ الفاظ جن سے مسیح کو وہ خدا بناتے ہیں اِس اُمّت میں بھی ایک ہے جس کی نسبت اُس سے بڑھ کر ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ86حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 89)
وَ لَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ نُنَزِّلُ عَلَیْکَ اَسْرَارًا مِّنَ السَّمَآئ۔ وَ نُمَزِّقُ الْاَعْدَآءَ
اگرچہ کافر کراہت ہی کریں۔ ہم آسمان سے تیرے پر کئی پوشیدہ باتیں نازل کریں گے۔ اور دشمنوں کے منصوبوں کو
کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ وَ نُرِیْ فِرْعَوْنَ وَ ھَامَانَ وَ جُنُوْدَ ھُمَا مَاکَانُوْا یَحْذَرُوْنَ۔ فَلَا
ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔ اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر کو وہ ہاتھ دکھادیں گے جس سے وہ ڈرتے ہیں ۔ پس
تَحْزَنْ عَلَی الَّذِیْ قَالُوْآ اِنَّ رَبَّکَ لَبِا لْمِرْ صَادِ۔ مَآ اُرْسِلَ نَبِیٌّ اِلَّآ اَخْزٰی
ان باتوں سے کچھ غم مت کر کہ تیرا خدا ان کی تاک میں ہے۔ کوئی نبی نہیں بھیجا گیا جس کے آنے کے ساتھ خدا نے اُن
بِہِ اللّٰہُ قَوْمًا لَّا یُؤْمِنُوْنَ۔ سَنُنْجِیْکَ۔ سَنُعْلِیْکَ۔ سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا۔
لوگوں کو رُسوا نہیں کیا جو اس پر ایمان نہیں لائے تھے ۔ ہم تجھے نجات دیں گے۔ ہم تجھے غالب کریں گے اور مَیں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے
اُرِیْحُکَ وَ لَا اُجِیْحُکَ وَ اُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا۔ وَ لَکَ نُرِیْٓ اٰیَاتٍ وَّ نَھْدِمُ مَا
لوگ تعجب میں پڑیں گے ۔ مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پَیدا کروں گا۔ اور تیرے لئے ہم بڑے بڑے
یَعْمُرُوْنَ۔ اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَ قْتُہٗ۔ کَمِثْلِکَ دُرٌّ
نشان دکھاویں گے اور ہم اُن عمارتوں کو ڈھادیں گے جو بنائی جاتی ہیں۔ تُو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔ اور تیرے جیسا
لَّا یُضَاعُ۔ لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآئِ وَ فِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِرُوْنَ۔ یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمٰنُ
موتی ضائع نہیں ہوسکتا۔ آسمان پر تیرا بڑا درجہ ہے اور نیز اُن لوگوں کی نگاہ میں جن کو آنکھیں دی گئی ہیں خدا ایک کرشمہ ٔ قدرت تیرے
شَیْئًا۔ یَخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ۔ یَخِرُّوْنَ عَلَی الْاَذْقَانِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَآ
لئے ظاہر کرے گا۔ اس سے مُنکر لوگ سجدہ گاہوں میں گِر پڑیں گے اور اپنی ٹھوڑیوں پر گِر پڑیں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہمارے
اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ تَا للّٰہِ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَا لَخَاطِئِیْنَ۔ لَاتَثْرِیْبَ
گناہ بخش ہم خطا پر تھے اور پھر تجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ خدا کی قَسم خدا نے ہم سب میں سے تجھے چُن لیا اور ہماری خطا تھی جو ہم برگشتہ
عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ ز وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ
رہے۔ تب کہا جائے گا کہ آج جو تم ایمان لائے تم پر کچھ سرزنش نہیں ۔ خدا نے تمہارے گناہ بخش دیئے اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ خدا تجھے
مِنَ الْعِدَا وَ یَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔
دشمنوں کے شر سے بچائے گا اور اس شخص پر حملہ کریگا جو تیرے پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے ہیں اور نافرمانی کی راہوں
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَ۔ سَلَامٌ قَوْلًا
پر قدم رکھا ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں ہے۔ اے پہاڑو اور اے پرندو میرے اِس بندہ کے ساتھ وَجد اور رِقّت سے میری یاد کرو
مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَاالْمُجْرِمُوْنَ۔ اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ مَعَکَ
تم سب پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے۔ اور اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ۔ مَیں اور رُوح القدس تیرے ساتھ ہیں
وَ مَعَ اَھْلِکَ لَا تَخَفْ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ اَتٰی۔
اور تیرے اہل کے ساتھ ۔ مت ڈر میرے قُرب میں میرے رسول نہیں ڈرتے۔ خدا کا وعدہ آیا
وَ رَکَلَ وَرَکیٰ فَطُوبیٰ لِمَنْ وَّجَدَ وَ رَاٰی ط اُمَمٌ یَّسَّرْنَا لَھُمُ الْھُدٰی ط
اور زمین پر ایک پاؤں مارا اور خلل کی اصلاح کی۔ پس مبارک وہ جس نے پایا اور دیکھا اور بعض نے ہدایت پائی
وَ اُمَمٌ حَقَّ عَلَیْھِمُ الْعَذَابُ وَقَالُوْا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ کَفٰی بِا للّٰہِ شَھِیْدًا۔
اور بعض مستوجب عذاب ہوگئے اور کہیں گے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں۔ کہہ میری سچائی پر خدا گواہی دے
بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ ط یَنْصُرُکُمُ اللّٰہُ فِیْ وَقْتٍ عَزِیْزٍ۔
رہا ہے اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں۔ خدا ایک عزیز وقت میں تمہاری مدد کریگا۔
حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ لِخَلِیفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ۔ یُؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ وَ تُفْتَحُ
خدائے رحمن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کیلئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے۔ اس کو ملک ِ عظیم دیا جائے گا اور خزینے
عَلیٰ یَدِہِ1 الْخَزَآئِنُ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ عَجِیْبٌ ط قُلْ
اس کیلئے کھولے جائیں گے۔ یہ خدا کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ کہہ
یَآ اَیُّھَا الکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ط فَانْتَظِرُوْٓا اٰیَاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ ط سَنُرِیھِمْ
اے مُنکرو! مَیں صادقوں میں سے ہوں۔ پس تم میرے نشانوں کا ایک وقت تک انتظار کرو۔ ہم عنقریب ان کو
اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ ط حُجَّۃٌ قَآئِمَۃٌ وَّ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ ط اِنَّ اللّٰہَ
اپنے نشان ان کے اردگرد اور ان کی ذاتوں میں دکھائیں گے۔ اُس دن حجت قائم ہوگی اور کھُلی کھُلی فتح ہوجائیگی۔ خدا اُس
یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ ط وَ
دن تم میں فیصلہ کردے گا۔ خدا اُس شخص کو کامیاب نہیں کرتا جو حد سے نکلا ہوا اور کذّاب ہے اور
وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَ قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ
ہم وہ بھار تیرا اُٹھا لیں جس نے تیری کمر توڑ دی۔ اور ہم اس قوم کو جڑھ سے کاٹ دیں گے جو ایک حق الامر پر
لَا یُؤْمِنُوْنَ2 قُلِ اعْمَلُوْا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ
ایمان نہیں لاتے۔ ان کو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کیلئے عمل میں مشغول رہو اور مَیں بھی عمل میں مشغول ہوں پھر دیکھو گے کہ کس کے
1 کسی آئندہ زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے ‘ جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کشفی رنگ میں کُنجیاں دی گئی تھیں مگر ان کُنجیوں کا ظہور حضرت عمر فاروق ؓ کے ذریعہ سے ہوا۔ خدا جب اپنے ہاتھ سے ایک قوم بناتا ہے تو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ اُن کو لوگ پائوں کے نیچے کُچلتے رہیں۔ آخر بعض بادشاہ اُن کی جماعت میں داخل ہوجاتے ہیںاور اِس طرح پر وہ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ہوا۔ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ 91 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 94 حاشیہ)
2 یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ حق کھُل جائیگا اور تمام جھگڑے طے ہوجائیں گے اور یہ فیصلہ آسمانی نشانوں کے ساتھ ہوگا
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ ھَلْ اَتٰکَ
عمل میں قبولیت پیدا ہوتی ہے۔ خدا ان کے ساتھ ہوگا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو نیک کاموں میں مشغول ہیں۔ کیا تجھے
حَدِیْثُ الزَّلْزَلَۃِ۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ
آنے والے زلزلہ کی خبر نہیں ملی؟ یاد کر جبکہ سخت طور پر زمین ہلائی جائے گی۔ اور زمین جو کچھ اُس کے اندر ہے باہر
اَثْقَا لَھَا وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَاج یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا بِاَنَّ رَبَّکَ
پھینک دیگی۔ اور انسان کہے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا کہ یہ غیر معمولی بَلا اس میں پیدا ہوگئی۔ اُس دن زمین اپنی باتیں بیان کریگی کہ کیا اس پر
اَوْحٰی لَھَا اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا وَ مَا یَاْتِیْھِمْ اِلَّا بَغْتَۃً
گذرا۔ خدا اس کیلئے اپنے رسول پر وحی نازل کریگا کہ یہ مصیبت پیش آئی ہے۔ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ زلزلہ نہیں آئیگا؟ ضرور آئیگا
یَسْئَلُوْنَکَ اَحَقُّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ط وَ لَا یُرَدُّ عَنْ
اور ایسے وقت آئیگا کہ وہ بالکل غفلت میں ہوں گے۔ اور ہر ایک اپنے دُنیا کے کام میں مشغول ہوگا کہ زلزلہ ان کو پکڑ لے گا۔ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ
قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ ط اَلرَّحٰی یَدُوْرُ وَ یَنْزِلُ الْقَضَآئُ ط لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ
کیا ایسے زلزلہ کا آنا سچ ہے؟ کہہ کہ خدا کی قَسم اِس زلزلہ کا آنا سچ ہے اور خدا سے برگشتہ ہونے والے کسی مقام میں اس سے بچ نہیں سکتے یعنی کوئی مقام
کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ
ان کو پناہ نہیں دے سکتا بلکہ اگر گھر کے دروازہ میں بھی کھڑے ہیں تو توفیق نہ پائیں گے جو اس سے باہر ہوجائیں مگر اپنے عمل سے۔ ایک چکی گردش میں آئیگی اور قضا
الْبَیِّنَۃُ۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دُنیا میں اندھیر پڑجاتا۔ اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ
نازل ہوگی۔ جو لوگ اہلِ کتاب اور مُشرکوں میں سے حق کے مُنکر ہوگئے وہ بجُز اِس نشانِ عظیم کے باز آنے والے نہ تھے۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دُنیا میں اندھیر پڑ
یُرِیْکُمُ اللّٰہُ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ
جاتا۔ مَیں تجھے قیامت والا زلزلہ دکھاؤں گا۔ خدا تجھے قیامت والا زلزلہ دکھائے گا۔ اُس دن کہا جائیگا آج کس کا ملک ہے۔ کیا اُس خدا کا ملک
چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشان کی پنج بار2۔ اگر چاہوں تو اس دن خاتمہ۔ اِنِّیْٓ اُحَافِظُ
نہیں جو سب پر غالب ہے اور مَیں اِس زلزلہ کے نشان کی پنج مرتبہ تم کو چمک دکھلاؤں گا۔ اگر چاہوں تو اُس دن دُنیا کا خاتمہ کردوں۔ مَیں ہر ایک کی
بقیہ حاشیہ: زمین بگڑ گئی ہے اب آسمان اس کے ساتھ جنگ کریگا۔منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ92 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 95 حاشیہ)
1 اِس وحیِ الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار زلزلے کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دُنیا اُن کو معمولی سمجھے گی اور پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگاکہ لوگوں کو سَودائی اور دیوانہ کردے گا یہاں تک کہ وہ تمنا کریں گے کہ وہ اس دن سے پہلے مر جاتے ۔ اب یاد رہے کہ اس وحیِ الٰہی کے بعد اس وقت تک جو 22 جولائی 1906ء ہے اِس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی 28 فروری 1906ء اور 20 مئی 1906ء اور 21 جولائی 1906ء ۔ مگر غالباً خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں ہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں۔ شاید چار زلزلے پہلے ایسے ہوں گے جیسا کہ 4 اپریل 1905ء کا زلزلہ تھا اور پانچواں قیامت کا نمونہ ہوگا۔ وّاللّٰہُ اَعْلَمُ ۔ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ 93 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 96 حاشیہ)
کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ اُرِیْکَ مَا یُرْضِیْکَ ط۔ رفیقوں کو کہہ دو کہ عجائب در عجائب کام
جو تیرے گھر میں ہوگا اُسکی حفاظت کرونگا۔ اور مَیں تجھے وہ کرشمہ ٔ قدرت دکھلاؤنگا جس سے تُو خوش ہوجائیگا۔ رفیقوں کو کہہ دو کہ عجائب در عجائب کام
دکھلانے کا وقت آگیا ہے۔ اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ
دکھلانے کا وقت آگیا ہے۔ مَیں ایک عظیم فتح تجھ کو عطا کرونگا جو کھُلی کھُلی فتح ہوگی تاکہ تیرا خدا تیرے تمام
مِنْ ذَنْبِکَم وَمَا تَاَخَّرَ1۔اِنِّیْٓ اَنَا التَّوَّابُ ط مَنْ جَآئَ کَ جَآئَ نِیْ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ
گناہ بخش دے جو پہلے ہیں اور پچھلے ہیں۔ مَیں توبہ قبول کرنے والا ہوں۔ جو شخص تیرے پاس آئیگا وہ گویا میرے پاس آئیگا
طِبْتُمْ ط نَحْمَدُکَ وَ نُصَلِّیْ ط۔ صَلوٰۃُ الْعَرْشِ اِلَی الْفَرْشِ ط نَزَلْتُ لَکَ
تم پر سلام تم پاک ہو۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔ عر ش سے فرش تک تیرے پر درود ہے۔ مَیں تیرے لئے
وَ لَکَ نُرِیْٓ اٰیَاتٍ۔ اَلْامْرَاضُ تُشَاعُ۔ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ
اُترا ہوں اور تیرے لئے اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ ملک میں بیماریاں پھیلیں گی اور بہت جانیں ضائع ہوں گی اور خدا ایسا نہیں ہے
لِیُغَیِّرَ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ اِنَّہٗٓ اٰوَی2 الْقَرْیَۃَ۔
جو اپنی تقدیر کو بدل دے جو ایک قوم پر نازل کی جب تک وہ قوم اپنے دلوں کے خیالات کو نہ بدل ڈالیں ۔ وہ اس قادیان کو کسی قدر بلا کے بعد
لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ ط اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِط مَا کَانَ اللّٰہُ
اپنی پناہ میں لے گا۔ اگر مجھے تیری عزت کا پاس نہ ہوتا تو اِس گاؤں کو مَیں ہلاک کردیتا ۔ مَیں ہر ایک کو جو اِس گھر کی چاردیوار کے اندر ہے
لِیُعَذِ بَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْط۔ امن است در مکانِ محبت سرائے ما۔ بھونچال
بچالونگا۔ کوئی ان میں سے طاعون یا بھونچال سے نہیں مرے گا۔ خدا ایسا نہیں ہے کہ جن میں تُو ہے اُن کو عذاب کرے۔ ہماری محبت کا گھر امن کا گھر ہے۔
1 ظالم انسان کا قاعدہ ہے کہ وہ خدا کے رسولوں اور نبیوں پر ہزار ہا نکتہ چینیاں کرتا ہے اور طرح طرح کے عیب اُن میں نکالتا ہے۔ گویا دُنیا کے تمام عیبوں اور خرابیوں اور جرائم اور معاصی اور خیانتوں کا وہی مجموعہ ہیں۔ اب ان وساوس کا کہاں تک جواب دیا جائے جو نفس کی شرارت کے ساتھ مخلوط ہیں۔ اِس لئے یہ سُنّت اللہ ہے کہ آخر اِن تمام جھگڑوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کوئی ایسا عظیم الشّان نشان ظاہر کرتا ہے جس سے اُس نبی کی بریّت ظاہرہوتی ہے۔ پس لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ کے یہی معنے ہیں۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ 94 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 97 حاشیہ)
2 اٰوٰی کا لفظ عرب کی زبان میں اس موقعہ پر استعمال پاتا ہے جبکہ کسی قدر تکلیف کے بعد کسی شخص کو اپنی پناہ میں لیا جائے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی۔ اور جیسا کہ فرماتا ہے اٰوَیْنٰھُمَا اِلیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ 94 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 97 حاشیہ)
آیا اور شدت سے آیا زمین تہ و بالا کردی۔ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ1۔
ایک زلزلہ آئیگا اور بڑی سختی سے آئیگا اور زمین کو زیر و زبر کردیگا۔ اُس دن آسمان سے ایک کھُلا کھُلا دُھوآں نازل ہوگا
وَتَرَی الْاَرْضَ یَوْمَئِذٍ خَامِدَۃً مُّصْفَرَّۃً ط۔ اُکْرِمُکَ بَعْدَ تَوْھِیْنِکَ۔2
اور اُس دن زمین زرد پڑجائیگی یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہونگے۔ مَیں بعد اس کے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزت دونگا اور تیرا اکرام
یُرِیْدُوْنَ اَنْ لَّا یَتِمَّ اَمْرُکَ۔ وَ اللّٰہُ یَاْبٰی اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَکَ۔ اِنِّیْٓ
کرونگا۔وہ ارادہ کریں گے جو تیر اکام ناتمام رہے اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑدے جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کرے۔ مَیں
اَنَا الرَّحْمٰنُ ط سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍط۔ اُرِیْکَ بَرَکَاتٍ مِّنْ کُلِّ
رحمان ہوں۔ ہر ایک اَمر میں تجھے سہولت دوں گا۔ ہر ایک طرف سے تجھے برکتیں
طَرَفٍ۔ نَزَلَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی ثَلَاثٍ اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ ط تُرَدُّ
دکھلاؤں گا۔ میری رحمت تیرے تین عضو پر نازل ہے ایک آنکھیں اور دو اَور عضو ہیں یعنی اُن کو سلامت رکھوں گا
اِلَیْکَ اَنْوَارُ الشَّبَابِ تَرٰی نَسْلاًم بَعِیْدًا3 اِنَّا نُبَشِّرُکَ بغُلَامٍ مَّظْھَرِ الْحَقِّ
اور جوانی کے نور تیری طرف عَود کریں گے اور تُو اپنی ایک دُو رکی نسل کو دیکھ لے گا۔ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق
وَالْعُلٰی کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ ط اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ نَّافِلَۃً لَّکَ۔
کا ظہور ہوگا۔ گویا آسمان سے خدا اُترے گا۔ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا۔
سَبَّحَکَ اللّٰہُ وَ رَافَاکَ ط وَ عَلَّمَکَ مَالَمْ تَعْلَمْ ط اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَمَشّٰی
خدا نے ہر ایک عیب سے تجھے پاک کیا اور تجھ سے موافقت کی۔ اور وہ معارف تجھے سکھلائے جن کا تجھے علم نہ تھا۔ وہ کریم ہے وہ تیرے
اَمَا مَکَ وَ عَادٰی لَکَ مَنْ عَادٰی وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَٓا اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ اَلَمْ
آگے آگے چلا اور تیرے دشمنوں کا وہ دشمن ہوا۔ اور کہیں گے کہ یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ اے مُعترض کیا تو
تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ یُلْقِی الرُّوْحَ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ
نہیں جانتا کہ خدا ہر ایک بات پر قادر ہے ۔ جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی رُوح ڈالتا ہے یعنی منصب ِ
1 یعنی اُس زلزلہ کیلئے جو قیامت کا نمونہ ہوگا یہ علامتیں ہیں کہ کچھ دن پہلے اُس سے قحط پڑیگا اور زمین خشک رہ جائیگی ۔ نہ معلوم کہ معاً اُس کے بعد یا کچھ دیر کے بعد زلزلہ آئے گا۔ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ 94 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 98 حاشیہ)
2 یعنی وہ بڑے نشان جو دُنیا میں ظاہر ہوں گے ضرور ہے جو پہلے اُن سے توہین کی جائے اور طرح طرح کی بُری باتیں کہی جائیں اور الزام لگائے جائیں تب بعد اس کے آسمان سے خوفناک نشان ظاہر ہوں گے۔ یہی سُنّت اللہ ہے کہ پہلی نوبت مُنکروں کی ہوتی ہے اور دوسری خدا کی۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ 95 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 98 حاشیہ)
3 یہ خدا تعالیٰ کی وحی یعنی تَرٰی نَسْلاًم بَعِیْدًا قریباً تیس سال کی ہے۔ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ 95 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 98 حاشیہ)
مِنْ عِبَادِہٖ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ
نبوّت اُس کو بخشتا ہے۔ اور یہ تو تمام برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو
مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ ط۔ خدا کی 1فِیلنگ٭ اور خدا کی مُہر نے کِتنا بڑا کام کِیا۔
تعلیم دی اور بہت برکتوں والا جس نے تعلیم پائی۔ خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اس کے محسوس کرنے اور نبوّت کی مُہر نے جس میں بشدّت قوّت کا فیضان ہے بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعو ث ہونے کے دو باعث ہیں (1) خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور (2) آنحضرت ؐ کی مُہر کا فیضان ::
اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ کُلِّ مَنْ اَحَبَّکَ تیرے لئے میرا نام چمکا۔ رُوحانی
مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ اور ہر ایک کے ساتھ جو تجھ سے پیار کرتا ہے۔ تیرے لئے میرے نام نے اپنی چمک دکھلائی۔
عالَم تیرے پر کھولا گیا۔ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۔ اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآئَ کَ ۔ اسّی یا اس پر
روحانی عالَم تیرے پر کھولا گیا۔ پس آج نظر تیری تیز ہے۔ خدا تیری عمر دراز کرے گا۔ اسّی برس یا
پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم۔ مَیں تجھے بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے
پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم۔
کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ تیرے لئے میرا نام چمکا۔ پچاس یا ساٹھ نشان اَور
دکھاؤں گا۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیّت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور ان کی
1 یہ وحیِ الٰہی کہ خدا کی فِیلنگ اور خدا کی مُہر نے کِتنا بڑا کام کیا۔ اِس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے اِس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشّان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مُہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی کرنے والا اِس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمّتی ہے اور ایک پہلو سے نبی۔ کیونکہ اللہ جلّ شانہ ٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب ِ خاتّم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اَور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی۔ اِسی وجہ سے آپ ؐ کا نام خاتم النّبیین ٹھیرا۔ یعنی آپ کی پَیروی کمالاتِ نبوّت بخشتی ہے۔ اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔ اور یہ قوّتِ قدسیہ کسی اَور نبی کو نہیں ملی۔ یہی معنے اِس حدیث کے ہیں کہ عُلَمَآئُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآ ئِ بَنِیْٓ اِسْرَائِ یْلَ یعنی میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے۔ اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوّت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوّتیں براہِ راست خدا کی ایک مَوہبت تھیں حضرت موسیٰ کی پَیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا۔ اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی ‘ بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہِ راست ان کو منصب ِ نبوّت ملا اور ان کو چھوڑ کر جب اَور بنی اسرائیل کا حال دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کو رُشد اور صلاح اور تقویٰ سے بہت ہی کم حصہ ملا تھا اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی اُمّت اولیاء اللہ کے وجود سے عموماً محروم رہی تھی اور کوئی شاذو نادر اُن میں ہوا تو وہ حکم معدوم کا رکھتا ہے۔ منہ
٭ Feeling (حقیقۃ الوحی صفحہ96‘97 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 99 تا 101حاشیہ)
تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔
فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے1۔ پر تُو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا۔
برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں۔ رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّکَاذِبٍ اَنْتَ
اے خدا سچے اور جھُوٹے میں فرق کرکے دکھلا۔ تُو ہر ایک
تَریٰ کُلَّ مُصْلِحٍ وَّ صَادِقٍ۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ ط رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ۔ وَانْصُرْنِیْ
مصلح اور صادق کو جانتا ہے۔ اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری مدد
وَارْحَمْنِیْ۔خدا قاتلِ توباد۔ و مرا از شر تو محفوظ دارد۔ زلزلہ آیا اُٹھو نمازیں پڑھیں
کر اور مجھ پر رحم کر۔ اے دشمن تُو جو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے خدا تجھے تباہ کرے اور تیرے شر سے مجھے نگہ رکھے۔ یعنی وہ بھونچال
اور قیامت کا نمونہ دیکھیں۔ یُظْھِرُکَ اللّٰہُ وَیُثْنِیْ عَلَیْکَ۔ لَوْلَاکَ لَمَا
جو وعدہ دیا گیا ہے جلد آنیوالا ہے۔ اس وقت خد اکے بندے قیامت کا نمونہ دیکھ کر نمازیں پڑھیں گے۔ خدا تجھے غالب کریگااور تیری تعریف
خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ2۔ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔دستِ تو دُعائے تو
لوگوں میں شائع کردیگا۔ اگر مَیں تجھے پَیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔ مجھ سے مانگو مَیں تمہیں دوں گا۔ تیرا ہاتھ ہے اور تیری دُعا
ترحم ز خدا۔ زلزلہ کا دھکا۔ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا۔ تَتْبَعُھَا
اور خدا کی طرف سے رحم ہے۔ زلزلہ کا دھکا جس سے ایک حصہ عمارت کا مٹ جائیگا مستقل سکونت کی جگہ اور عارضی سکونت کی جگہ سب مِٹ
الرَّادِفَۃُ ۔ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ پھر بہار آئی تو آئے
جائیں گی۔ اُس کے بعد ایک اَور زلزلہ آئیگا۔ بہار جب دوبارہ آئیگی تو پھر ایک اَور زلزلہ آئیگا۔ پھر بہار جب بار سوم آئیگی تو اس وقت
ثلج کے آنے کے دن ۔ رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا۔ اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ
اطمینان کے دن آجائیں گے اور اس وقت تک خدا کئی نشان ظاہر کریگا۔ اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور میں کسی قدر تاخیر کردے۔ خدا نمونہ ٔ قیامت
1 یہ پیشگوئی ایک ایسے شخص کے بارہ میں ہے جو مُرید بن کر پھر مُرتد ہوگیا اور بہت شوخیاں دکھلائیں اور گالیاں دیں اور زبان درازی میں آگے سے آگے بڑھا۔ پس خدا فرماتا ہے کہ کیوں آگے بڑھتا ہے۔ کیا تُو فرشتوں کی تلواریں نہیں دیکھتا؟۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ97 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 101حاشیہ)
2 ہر ایک عظیم الشّان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے ۔ یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگایا جاتا ہے اور زمین پر مُستعد طبیعتیں پَیدا کی جاتی ہیں۔ پس یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ99 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102حاشیہ)
مُّسَمًّی1۔ تَرٰی نَصْرًا عَجِیْبًا وَ یَخِرُّوْنَ عَلَی الْاَذْقَانِ۔
کے زلزلہ کے ظہور میں ایک وقت ِ مقرر تک تاخیر کردیگا۔ تب تو ایک عجیب مدد دیکھے گا اور تیرے مخالف ٹھوڑیوں پر گریں گے یہ کہتے
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ۔
ہوئے کہ اے خدا ہمیں بخش اور ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے۔ اور زمین کہے گی کہ اے خدا کے نبی مَیں تجھے شناخت نہیں
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔
کرتی تھی۔ اے خطا کارو! آج تم پر کوئی ملامت نہیں خدا تمہارے گناہ بخش دے گا۔ وہ اَرحم الراحمین ہے۔
تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَ تَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ ط اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسیٰ۔ یَاْتِیْ
لوگوں کے ساتھ لُطف اور مدارات سے پیش آ۔ تُو مجھ سے بمنزلہ موسٰے کے2 ہے۔ تیرے پر
1 پہلے یہ وحیِ الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونہ ٔ قیامت ہوگا بہت جلد آنے والا ہے اور اُس کیلئے یہ نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظور محمد لُدھیانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑکا پیدا ہوگا اور وہ لڑکا اُس زلزلہ کے ظہور کیلئے ایک نشان ہوگااِس لئے اس کا نام بشیر الدّولہ ہوگا۔ کیونکہ وہ ہماری ترقّیِ ٔ سلسلہ کیلئے بشارت دے گا۔ اِسی طرح اُس کا نام عالم کباب ہوگا۔ کیونکہ اگر لوگ توبہ نہیں کریں گے تو بڑی بڑی آفتیں دُنیا میں آئیں گی۔ ایسا ہی اس کا نام کلمۃ اللہ اور کلمۃ العزیز ہوگا۔ کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جو وقت پر ظاہر ہوگااور اس کیلئے اَور نام بھی ہوں گے مگر بعد اس کے مَیں نے دعا کی کہ اُس زلزلہ نمونہ ٔ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے۔ اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا ہے ۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا۔ اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلیٰ وَقْتٍ مُسَمًّی۔ یعنی خدا نے دعا قبول کرکے اس زلزلہ کو کسی اَور وقت پر ڈال دیا ہے اور یہ وحیِ الٰہی قریباً چار ماہ سے اخبار بدر اور الحکم میں چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔ اور چونکہ زلزلہ نمونہ ٔ قیامت آنے میں تاخیر ہوگئی اِس لئے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی۔ لہٰذا پیر منظور محمد کے گھرمیں 17 جولائی 1906ء میں بروز شنبہ لڑکی پیدا ہوئی اور یہ دعا کی قبولیّت کا ایک نشان ہے اور نیز وحیِ الٰہی کی سچائی کا ایک نشان ہے جو لڑکی پیدا ہونے سے قریباً چار ماہ پہلے شائع ہوچکی تھی مگر یہ ضرور ہوگا کہ کم درجہ کے زلزلے آتے رہیں گے اور ضرور ہے کہ زمین نمونہ ٔ قیامت زلزلہ سے رُکی رہے جب تک وہ موعود لڑکا پَیدا ہو ۔یاد رہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت کی نشانی ہے کہ لڑکی پَیدا کرکے آئندہ بَلا یعنی زلزلہ نمونہ ٔ قیامت کی نسبت تسلّی دے دی کہ اس میں بموجب وعدہ اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلیٰ وَقْتٍ مُسَمًّی ابھی تاخیر ہے۔ اور اگر لڑکا پَیدا ہوجاتا تو ہر ایک زلزلہ اور ہر ایک آفت کے وقت سخت غم اور اندیشہ دامنگیر ہوتا کہ شاید وہ وقت آگیا اور تاخیر کا کچھ اعتبار نہ ہوتا۔ اور اَب تو تاخیر ایک شرط کے ساتھ مشروط ہوکر معیّن ہوگئی۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ100 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 103حاشیہ)
2 نقل مطابق اصل (مرتب)
عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوسیٰ۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا
موسیٰ کے زمانہ کی طرح ایک زمانہ آئے گا۔ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے اُسی رسول
عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۔ آسمان سے بہت دُودھ اُترا ہے محفوظ رکھو۔
کی مانند جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ آسمان سے بہت دُودھ اُترا ہے یعنی معارف اور حقائق کا دُودھ۔
اِنِّیْٓ اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ۔ تیری خوش زندگی کا سامان ہوگیا ہے۔ وَاللّٰہُ خَیْرٌ
مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا اور تیری خوش زندگی کا سامان ہوگیا ہے۔ خدا ہر چیز سے
مِّنْ کُلِّ شَیْئٍ ط عِنْدِیْ حَسَنَۃٌ ھِیَ خَیْرٌ مِّنْ جَبَلٍ۔ بہت سے سلام میرے
بہتر ہے۔ میرے قُرب میں ایک نیکی ہے جو وہ ایک پہاڑ سے زیادہ ہے۔ تیرے پر بہ کثرت میرے
تیرے پر ہوں۔ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا وَّالَّذِیْنَ
سلام ہیں۔ ہم نے کثرت سے تجھے دیا ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو راہِ راست اختیار کرتے ہیں اور جو
ھُمْ صَادِقُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔
صادق ہیں۔ خدا ان کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکو کار ہیں۔
اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّبْعَثَکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔ دو نشان ظاہر ہوں گے۔ وَامْتَازُوا
خدا نے ارادہ کیا ہے جو تجھے وہ مقام بخشے جس میں تُو تعریف کیا جائے گا۔ دو2 نشان ظاہر ہوں گے۔ اور اے
الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ۔ یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ ط ھٰذَا الَّذِیْ
مجرمو آج تم الگ ہوجاؤ۔ خدا کے نشانوں کی برق اُن کی آنکھیں اُچک کر لے جائیگی۔ یہ وہی بات ہے
کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔ یَآ اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلیٰ شَفَتَیْکَ۔کَلَامٌ
جس کیلئے جلدی کرتے تھے۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے۔ تیرا کلام
اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمِ۔ در کلامِ تو چیزے ست کہ شعرا رادراں دخلے
خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔ تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل
نیست۔ رَبِّ عَلِّمْنِیْ مَا ھُوَ خَیْرٌ عِنْدَکَ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا
نہیں ہے۔ اے میرے خدا مجھے وہ سکھلا جو تیرے نزدیک بہتر ہے۔ تجھے خدا دشمنوں سے بچائے گا
وَ یَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔ بَرَّزَ مَا عِنْدَ ھُمْ مِنَ الرَّمَاحِ۔ اِنِّیْ سَاُخْبِرُہٗ
اور حملہ کرنے والوں پر حملہ کرے گا۔ انہوں نے جو کچھ ان کے پاس ہتھیار تھے سب ظاہر کردیئے۔ مَیں مولوی محمد حسین بٹالوی کو
فِیْ اٰخِرِ الْوَقْتِ اَنَّکَ لَسْتَ عَلَی الْحَقِّط اِنَّ اللّٰہَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ اِنَّآ اَلَنَّالَکَ
آخری وقت میں خبر دے دوں گا کہ تُو حق پر نہیں ہے۔ خدا رؤف و رحیم ہے۔ ہم نے تیرے لئے
الْحَدِیْدَ۔ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اُجِیْبُ ط
لوہے کو نرم کردیا۔ مَیں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طور پر آؤں گا۔ مَیں رسول کے ساتھ ہوکر جواب دوں گا۔
اُخْطِیْ وَ اُصِیْبُ1۔ وَ قَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَجِیْبٌ۔
اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دونگا اور کبھی ارادہ پورا کروں گا۔ اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہوا؟ کہہ خدا وند ذوالعجائب ہے۔
جَآئَ نِیْٓ اٰیِلٌ2 وَّ اخْتَارَط وَ اَدَارَاِصْبَعَہٗ وَ اَشَارَط۔ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ اَتٰی۔ فَطُوْبٰی
میرے پاس آیل آیا اور اُس نے مجھے چُن لیا اور اپنی اُنگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا۔ پس مبارک
لِمَنْ وَّ جَدَوَرَاٰی۔ اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَ النُّفُوْسُ تُضَاعُ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ
وہ جو اس کو پاوے اور دیکھے۔ طرح طرح کی بیماریاں پھیلائی جائیں گی اور کئی آفتوں سے جانوں کا نقصان ہوگا۔ مَیں اپنے رسول
اَقُوْمُ وَ اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ ط3۔ وَ لَنْ اَبرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ۔
کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور مَیں افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا۔ اور ایک وقت ِ مقرر تک مَیں اِس زمین سے علیحدہ نہیں ہونگا
وَ اَجْعَلُ لَکَ اَنْوَارَ الْقُدُوْمِ۔ وَاَقْصِدُکَ وَ اَرُوْمُ ط۔ وَاُعْطِیْکَ مَا
اور تیرے لئے اپنے آنے کے نور عطا کروں گا۔ اور تیری طرف قصد کروں گا۔ اور وہ چیز تجھے دوں گا جو
یَدُوْمُ۔ اِنَّا نَرِثُ الْاَرْضَ نَاْ کُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا نُقِلُوْٓا اِلَی
تیرے ساتھ ہمیشہ رہے گی۔ ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے ۔ کئی لوگ قبروں
1 اِس وحیِ الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ مَیں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی۔ یعنی جو مَیں چاہوں گا کبھی کروں گا اور کبھی نہیں۔ اور کبھی میرا ارادہ پُورا ہوگا اور کبھی نہیں۔ ایسے الفاظ خداتعالیٰ کی کلام میں آجاتے ہیں۔ جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبضِ رُوح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے۔ اِسی طرح یہ وحیِ الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پُورا ہوجاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ103 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106حاشیہ)
2 اِس جگہ آئیل خدا تعالیٰ نے جبرئیل کا نام رکھا ہے اِس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ103 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 106حاشیہ)
3 ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسُوب نہیں ہوسکتے۔ پس یہ صرف ایک اِستعارہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی مَیں اپنا قہر نازل کروں گا اور کبھی کچھ مُہلت دوں گا اس شخص کی مانند جو کبھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے ‘ اور اِس قِسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ
الْمَقَابِرِ۔ ظَفَرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ۔ اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ قَدِیْرٌ اِنَّہٗ
کی طرف نقل کریں گے۔ اُس دن خدا کی طرف سے کھُلی کھُلی فتح ہوگی۔ میرا ربّ زبردست قدرت والا ہے۔ اور وہ
قَوِیٌّ عَزِیْزٌ حَلَّ غَضَبُہٗ عَلَی الْاَرْضِ ۔ اِنِّیْ صَادِقٌ اِنِّیْ صَادِقٌ وَّ
قوی اور غالب ہے۔ اس کا غضب زمین پر نازل ہوگا۔ مَیں صادق ہوں مَیں صادق ہوں اور
یَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ۔ اے اَزلی اَبدی خدا بیڑیوں کو پکڑ کے آ۔ ضَاقَتِ الْاَرْضُ بِمَا
خدا میری گواہی دے گا۔ اے اَزلی اَبدی خدا میری مدد کیلئے آ۔ زمین باجود فراخی کے مجھ پر تنگ
رَحُبَتْ۔ رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْط فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًاط زندگی کے
ہوگئی ہے۔ اے میرے خدا مَیں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے لے۔ پس ان کو پِیس ڈال کہ وہ زندگی کی
فیشن سے دُور جا پڑے ہیں۔ اِنَّمَآ اَمْرُکَ اِذَآ اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ
وضع سے دُور جاپڑے ہیں۔ تُو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور
کُنْ فَیَکُوْنَ ۔ تو در منزلِ ماجو بار بار آئی۔ خدا اَبرِ رحمت ببارید یانے۔ اِنَّآ اَمَتْنَآ
ہوجاتی ہے۔ اے میرے بندے چونکہ تُو میری فرودگاہ میں بار بار آتا ہے اِس لئے اب تُو خو دیکھ لے کہ تیرے
اَرْبَعَۃَ عَشَرَدَوَابًّا۔ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔
پر رحمت کی بارش ہوئی یا نہ ۔ ہم نے چودہ 1چارپایوں کو ہلاک کردیا کیونکہ وہ نافرمانی میں حد سے گذر گئے تھے۔
سرانجامِ جاہل جہنّم بود ۔ کہ جاہل نکو عاقبت کم بود۔ میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا۔ اِنِّیْ اُمِّرْتُ
جاہل کا انجام جہنّم ہے۔ جاہل کا خاتمہ بالخیر کم ہوتا ہے۔ میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا۔ مَیں خدا کی طرف سے
مِنَ الرَّحْمٰنِ فَاْتُوْنِیْ۔ اِنِّیْ حِمَی الرَّحْمٰنِ۔ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ
خلیفہ کیا گیا ہوں پس تم میری طرف آجاؤ۔ مَیں خدا کا چراگاہ ہوں اور مجھے گُم گشتہ یوسف کی خوشبو آئی 2 ہے
لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنَ ۔ اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ ط اَلَمْ
اگر تم یہ نہ کہو کہ یہ شخص بہک رہا ہے۔ کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رَبّ نے اصحاب ِ فِیل کے ساتھ کیا کِیا۔ کیا اُس نے
بقیہ حَاشیہ: مَیں بیمار تھا۔ مَیں بھُوکا تھا ۔ مَیں ننگا تھا۔ منہ (حقیقۃ الوحی صفحہ104 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 107حاشیہ)
1 ’’بابو الٰہی بخش صاحب گیارہ چارپایوں کے ہلاک ہونے کے بعدطاعون کے ساتھ ہلاک کئے گئے جیسا کہ اِس الہامی شعر میں ہے۔ برمقام فلک شدہ یاربّ۔ گر امیدے دہم مدار عجب ۔ بعد گیاراں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ بابو صاحب کا بارھواں نمبر تھا اور ان کے بعد دو اَور ہیں تا چودہ پُورے ہوجاویں ۔‘‘ منہ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ151 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 589حاشیہ)
2 پہلے ایڈیشن میں غالباً سہو کاتب سے ’’لائی ہے‘‘ کے الفاظ ہیں۔ (مرتب)
یَجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ وہ کام جو تم نے کِیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں
اُن کے مَکر کو اُلٹا کر اُنہی پر نہیں مارا۔ وہ کام جو تم نے کِیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں
ہوگا1۔ اِنَّا عَفَوْنَا عَنْکَ ۔ لَقَدْ نَصَرَ کُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ۔
ہوگا۔ہم نے تجھے معاف کیا۔ خدا نے بدر میں یعنی اِس چودھویں صدی میں تمہیں ذِلّت میں پاکر تمہاری مدد کی۔
وَ قَالُوْا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلْ لَّوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدْتُّمْ
اور کہیں گے کہ یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ ان کو کہہ کہ اگر یہ کاروبار بجُز خدا کے کسی اَور کا ہوتا تو اِس میں
فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔
بہت اختلاف تم دیکھتے۔ ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤگے یا نہیں۔
یَاْتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَآءِ۔ وَ اَمْرُکَ یَتَاَتّٰی ۔ وَامْتَازُوالْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ
نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام پُورا ہوجائے گا۔ اور آج اے مجرمو ! تم الگ ہوجاؤ۔
بھونچال آیا اوربشدّت آیا۔ زمین تہ و بالا کردی2۔ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔
بڑی شدّت سے زلزلہ آئے گا اور اُوپر کی زمین نیچے کردے گا۔ یہ وہی وعدہ ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے۔
1 اس کی تصریح نہیں کی گئی واللہ اَعلم ۔ مِنہ
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ105 حاشیہ۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 108)
2 اِس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے۔ جیسا کہ یسعیاہ نبی کے زمانہ میں ہوا کہ اس نبی کی پیشگوئی کے مطابق پہلے ایک عورت مسماۃ علمہ کو لڑکا پَیدا ہوا۔ پھر بعد اس کے حزقیاہ بادشاہ نے فقہ ٭ پر فتح پائی۔ اسی طرح سے اس زلزلہ سے پہلے پیر منظور محمد لُدھیانوی کی بیوی کو جس کا نام محمدی بیگم ہے لڑکا پَیدا ہوگا اور وہ لڑکا اس بڑے زلزلہ کے لئے نشان ہوگا جو قیامت کا نمونہ ہوگا مگر ضروری ہے کہ اس سے پہلے اَور زلزلے بھی آویں۔ اس لڑکے کے مفصّلہ ذیل نام ہوں گے:
بشیر الدولہ۔ کیونکہ وہ ہماری فتح کیلئے نشان ہوگا۔ کلمۃ اللہ خاں۔ یعنی خداکا کلمہ۔ عالم کباب۔ ورڈ۔ شادی خان۔ کلمۃ العزیز وغیرہ۔ کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جس سے حق کا غلبہ ہوگا ۔ تمام دُنیا خدا کے ہی کلمے ہیں اِس لئے اس کا نام کلمۃ اللہ رکھنا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ وہ لڑکا اَب کی دفعہ وہ لڑکا٭٭ پیدا نہیں ہوا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یعنی وہ زلزلۃ الساعۃ جس کیلئے وہ لڑکا نشان ہوگا ہم نے اُس کو ایک اَور وقت پر ڈال دیا۔ مِنہ (حقیقۃ الوحی صفحہ 106حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 110)
٭ ایڈیشن اوّل میں فقہ لکھا تھا لیکن یسعیاہ باب 7 کے مطابق یہ لفظ فِقح ہے جو ایک بادشاہ کا نام ہے۔ (مرتب)
٭٭ غالباً سہو ِ کاتب سے ’’وہ لڑکا‘‘ کے الفاظ دوبار لکھے گئے ہیں۔ (مرتب)

اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ سَفِیْنَۃٌ وَّ سَکِیْنَۃٌ۔ اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ
مَیں ہر ایک کو جو اِس گھر میں ہے اس زلزلہ سے بچالُوں گا۔ کشتی ہے اور آرام ہے۔ مَیں تیرے ساتھ اور تیرے
اَھْلِکَ اُرِیْدُ مَا تُرِیْدُوْنَ ۔ پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا اَب
اہل کے ساتھ ہوں۔ مَیں وہی ارادہ کروں گا جو تمہارا ارادہ ہے۔ بنگالہ کی نسبت پیشگوئی ہے جو تقسیمِ بنگالہ کی دِلآزاری کی گئی
ان کی دِلجوئی ہوگی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ
خدا فرماتا ہے کہ پھر وہ وقت آتا ہے کہ پھر کسی پَیرایہ میں اہلِ بنگالہ کی دِلجوئی کی جائیگی۔ اُس خدا کو تعریف ہے جس نے
لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ 1ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّی الْحَزَنَ ط وَ اٰتَانِیْ
دامادی اور نسب کی رُو سے تیرے پر احسان کیا۔ اُس خدا کو تعریف ہے جس نے میرا غم دُور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی
مَالَمْ یُؤْتَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔ یٰسٓ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ط عَلٰی
جو اِس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی۔ اے سردار ! تُو خدا کا مُرسل ہے۔ راہِ راست
صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ط تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ ط اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ
پر ۔ اُس خدا کی طرف سے جو غالب اور رحم کرنیوالا ہے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ اس زمانہ میں اپنا خلیفہ مقرر کروں
فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ۔ چو دَورِ خسروی2آغاز کردند۔
سو مَیں نے اس آدم کو پَیدا کیا ۔ وہ دین کو زندہ کریگا اور شریعت کو قائم کریگا۔ جب مسیح السّلطان کا دَور شروع کیا گیا
مسلماں را مسلماں باز کردند۔ اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا۔
تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سِرے سے مسلمان بنانے لگے۔ آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو
قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ اِنَّ ذَا الْعَرْشِ یَدْعُوْکَ ۔ وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ
کھول دیا یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی اور آسمان نے بھی۔ اَب تیرا وقت ِ موت قریب آگیا۔ ذوالعرش تجھے بُلاتا ہے۔ اور ہم تیرے لئے کوئی
الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ
رُسوا کنندہ اَمر نہیں چھوڑیں گے۔ تیرے ربّ کا وعدہ کم رہ گیا ہے۔ اور ہم تیرے لئے کوئی امر رُسوا کنندہ باقی نہیں
1 یعنی خدا نے تجھ پر یہ اِحسان کیا کہ ایک شریف اور معزز اور شہرت یافتہ اور باوجاہت خاندان سے تجھے پَیدا کیا اور دوسرے یہ احسان کیا کہ ایک معزز دہلی کے سادات خاندان سے تیری بیوی آئی ۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ 107حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 110حاشیہ)
2 خدا تعالیٰ کی کتابو ں میں مسیح آخرالزماں کو بادشاہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اِس سے مُراد آسمانی بادشاہی ہے ۔ یعنی وہ آئندہ سلسلہ کا ایک بادشاہ ہوگا اور بڑے بڑے اکابر اس کے پَیرو ہوں گے۔ منہ
(حقیقۃ الوحی صفحہ 107حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 110حاشیہ)
شَیْئًا۔ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں ۔ اُس دن خدا کی طرف سے سب پر اُداسی
چھوڑیں گے ۔ زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ اُس دن سب جماعت دِل برداشتہ اور اُداس
چھاجائے گی۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔ پھر تیرا واقعہ ہوگا۔ تمام عجائباتِ قدرت دکھلانے
ہوجائے گی۔ کئی واقعات کے ظہور کے بعد پھر تیرا واقعہ ظہور میں آئے گا۔ قدرتِ الٰہی کے کئی عجائب کام پہلے دکھلائے
کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔ جَآئَ وَقْتُکَ وَ نُبْقِیْ لَکَ الْاٰیٰتِ بَاھِرَاتٍ۔ جَآئَ
جائیں گے پھر تمہاری موت کا واقعہ ظہور میں آئیگا۔ تیرا وقت آگیا ہے۔ اور ہم تیرے لئے روشن نشان چھوڑیں گے۔ تیرا
وَقْتُکَ وَ نُبْقِیْ لَکَ الْاٰیٰتِ بَیِّنَاتٍ ط رَبِّ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ
وقت آگیا ہے اور ہم تیرے لئے کھُلے نشان باقی رکھیں گے۔ اے میرے خدا اِسلام پر مجھے وفات دے اور
بِالصَّالِحِیْنَ۔ اٰمین::
نیکوکاروں کے ساتھ مجھے ملادے۔ آمین::
(حقیقۃ الوحی صفحہ70 تا 108حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ73تا 111حاشیہ)
30 جولائی1906ء
’’فرمایا۔ آج مجھے ایک الہام ہوا۔ اُس کے پُورے الفاظ یاد نہیں رہے اور جس قدر یاد رہا وہ یقینی ہے مگر معلوم1نہیں کِس کے حق میں ہے لیکن خطرناک ہے اور وہ یہ ہے:۔
ایک دَم میں دَم رخصت ہوا
یہ الہام ایک موزون عبارت میں ہے مگر ایک لفظ درمیان میں سے بھُول گیا ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 31 مؤرخہ 2 اگست 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 27 مؤرخہ 31 جولائی 1906صفحہ 1)
یکم اگست1906ء
’’دیکھا کہ زلزلہ آیا ہے۔ پھر الہام ہوا:۔
(1) اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ1۔ (2) اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔3 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 32 مؤرخہ 9 اگست 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 28 مؤرخہ 10 اگست1906صفحہ 1)
1 الہام پورا ہونے پر حضور کو اس کا علم دیا گیا کہ یہ میاں صاحب نور مہاجر کے متعلق تھا۔
(دیکھئے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 4۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ435) (مرتب)
2 (ترجمہ) (1) مَیں اُن سب کی حفاظت کروں گا جو اِس گھر میں ہیں۔
3 (ترجمہ ) (2) مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو مَیں نے اِس آدم کو پَیدا کیا۔
5 اگست1906ء
’’یک دفعہ نصف حصّہ اسفل بدن کا میرا بے حِس ہوگیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی...... مجھے خیال گذرا کہ یہ فالج کی علامات ہیں۔ ساتھ ہی سخت درد تھی۔ دِل میں گھبراہٹ تھی۔ کروٹ بدلنا مشکل تھا۔ رات کو جب مَیں بہت تکلیف میں تھا تو مجھے شماتت ِ اعدا کا خیال آیا مگر محض دین کیلئے نہ کِسی اَور امر کیلئے ۔ تب مَیں نے جنابِ الٰہی میں دعا کی......تب مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا:۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْزِی الْمُؤْمِنِیْنَ۔
یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور خدا مومنوں کو رُسوا نہیں کیا کرتا۔
پس اُسی خدائے کریم کی مجھے قَسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو اِس وقت بھی دیکھ رہا ہے کہ مَیں اس پر اِفترا کرتا ہوں یا سچ بولتا ہوں کہ اِس الہام کے ساتھ ہی شاید آدھ گھنٹہ تک مجھے نیند آگئی اور پھر یک دفعہ جب آنکھ کھُلی تو مَیں نے دیکھا کہ مرض کا نام و نشان نہیں رہا۔ تمام لوگ سوئے ہوئے تھے اور مَیں اُٹھا اور امتحان کیلئے چلنا شروع کیا تو ثابت ہوا کہ مَیں بالکل تندرست ہوں۔‘‘
( حقیقۃ الوحی صفحہ 234۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ245۔246) 1
اگست1906ء
(1)’’دیکھ2مَیں آسمان سے تیرے لئے برساؤں گا اور زمین سے نکالوں گا پر وہ جو تیرے مخالف ہیں پکڑے جائیں گے۔
(2) صِحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے3آئیں گے۔ (بدر جلد 2 نمبر 39 مؤرخہ 27 ستمبر 1906صفحہ 12)
1 نیز دیکھئے بدر جلد 2 نمبر 32 مؤرخہ 9 اگست 1906ء صفحہ 2۔ الحکم جلد 10 نمبر 28 مؤرخہ 10 اگست 1906ء صفحہ1
2 حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اِس الہام کی تاریخ نزول الاستفتاء صفحہ76 ‘ ضمیمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702 میں 10 جولائی 1906ء لکھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہام مکرّرنازل ہوا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَم ۔ (مرتب)
3 (الف) ’’ خدا تعالیٰ نے مجھے صرف یہی خبر نہیں دی کہ پنجاب میں زلزلے وغیرہ آفات آئیں گی کیونکہ مَیں صرف پنجاب کیلئے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جہاں تک دُنیا کی آبادی ہے ان سب کی اِصلاح کیلئے مامور ہوں۔ پس مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ آفتیں اور یہ زلزلے صرف پنجاب سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام دُنیا ان آفات سے حصّہ لے گی۔ اور جیسا کہ امریکہ وغیرہ کے بہت حصّے تباہ ہوچکے ہیں۔ یہی گھڑی کسی دن یورپ کیلئے درپیش ہے اور پھر یہ ہَولناک دن پنجاب اور ہندوستان اور ہر ایک حصّہ ایشیا کیلئے مقدّر ہے۔ جو شخص زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا۔‘‘ ( حقیقۃ الوحی صفحہ192حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ200)
(ب) ’’ یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے۔ اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اِس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اِس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اِس قدر
(3) وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ۔1
(4) سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا۔ وَاُلْقِیْ بِہِ الرُّعْبَ الْعَظِیْمَ۔2
(5) یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔3 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 33 مؤرخہ 16 اگست 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 29 مؤرخہ 17 اگست1906صفحہ 1)
21 اگست1906ء
(1) ’’شب گذشتہ کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ اِس قدر زنبور ہیں ( جن سے مُراد کمینہ دشمن ہیں) کہ تمام سطح زمین اُن سے پُر ہے اور ٹڈی دَل سے زیادہ ان کی کثرت ہے۔ اِس قدر ہیں کہ زمین کو قریباً ڈھانک دیا ہے اور تھوڑے ان میں سے پَرواز بھی کررہے ہیں جو نیش زنی کا ارادہ رکھتے ہیں مگر نامُراد رہے اور مَیں اپنے لڑکوں شریف اور بشیر کو کہتا ہوں کہ قُرآن شریف کی یہ آیت پڑھو اور بدن پر پھُونک لو
بقیہ حاشیہ: سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پَیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اُس کے ساتھ ہی اَور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پَیدا ہونگی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہوجائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پَیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دُنیا قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی۔ کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اِس لئے کہ نوعِ انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمّت اور تمام خیالات سے دُنیا پر ہی گِر گئے ہیں۔ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو ان بَلاؤں میں کچھ تاخیر ہوجاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدّت سے مخفی تھے ظاہر ہوگئے .......یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے۔ مَیں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے۔ اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تُو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو ! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گِرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔‘‘
( حقیقۃ الوحی صفحہ256‘ 257۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ268‘ 269)
1 (ترجمہ از مرتب) ہر ایک چغل خور ‘ عیب گیر کیلئے ہلاکت ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں تجھے ایک عجیب طور پر عزت دوں گا اور اس کے ذریعہ سے دُنیا پر بڑا رُعب ڈالوں گا۔
3 (ترجمہ) لوگ دُور دراز سے تیرے پاس آئیں گے۔ اور دُور دُور سے ہدیئے آئیں گے۔

کچھ نقصان نہیں کریں گے اور وہ آیت یہ ہے:۔
وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ۔1 ‘‘ (سورۃ الشعراء : 130)
پھر بعد اس کے آنکھ کھُل گئی۔‘‘
(2) اِلہام ہوا:۔
نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ۔ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ۔2
(3) قریباً نصف رات کے بعد الہام ہوا:۔
صبر کر ‘ خدا تیرے دشمن کو ہلاک کرے گا‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 34 مؤرخہ 23 اگست 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 30مؤرخہ 24 اگست1906صفحہ 1)
23 اگست1906ء
’’آجکل کوئی نشان ظاہر ہوگا۔3
یعنی عنقریب کوئی نشان ظاہر ہونے والا ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 35 مؤرخہ 30 اگست 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 31مؤرخہ 10 ستمبر1906صفحہ 1)
25 اگست1906ء
’’شَفِیْعُ اللّٰہِ
فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی کے یہ میرا نام رکھا ہے اور اس کے معنے ہیں : اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا شفیع۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 35 مؤرخہ 30 اگست 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 31مؤرخہ 10 ستمبر1906صفحہ 1)
4 ستمبر1906ء
’’اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً 4‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 36 مؤرخہ 6 ستمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر 31مؤرخہ 10 ستمبر1906صفحہ 1)
4 ستمبر1906ء
’’فرمایا۔ آج ہی ایک خواب میں دیکھا کہ ایک چوغہ زرّیں جس پر بہت سنہری کام کیا ہوا ہے مجھے غیب سے دیا گیا ہے۔ ایک چور اُس چوغہ کو لے کر بھاگا۔ اُس چور کے پیچھے کوئی آدمی بھاگا جس نے چور کو پکڑ لیا
1 (ترجمہ از مرتب ) اور جب تم کسی کو پکڑتے ہو تو جابر ہوکر پکڑتے ہو۔
2 (ترجمہ) رُعب کے ساتھ تیری نصرت کی گئی اور مخالفوں نے کہا اب کوئی جائے پناہ نہیں۔
3 6 ستمبر 1906ء کو خدا تعالیٰ نے یہ نشان ظاہر فرمادیا۔ تفصیل کیلئے دیکھئے رؤیا 5 ستمبر 1906ء اور اس کا حاشیہ ۔ (مرتب)
4 (ترجمہ) مَیں رُوح کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤں گا۔
اور چوغہ واپس لے لیا۔ بعد اس کے وہ چوغہ ایک کتاب کی شکل میں ہوگیا جس کو تفسیر کبیر کہتے ہیں اور معلوم ہوا کہ چور اُس کو اِس غرض سے لے کر بھاگا تھا کہ اِس تفسیر کو نابُود کردے۔
فرمایا۔ اِس کشف کی تعبیر یہ ہے کہ چور سے مُراد شیطان ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ ہمارے ملفوظات لوگوں کی نظر سے غائب کردے مگر ایسا نہیں ہوگا اور تفسیر کبیر جو چوغہ کے رنگ میں دکھائی گئی اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ ہمارے لئے موجب ِ عزت اور زینت ہوگی۔ واللہ اَعلم۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 36 مؤرخہ 6 ستمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر 31مؤرخہ 10 ستمبر1906صفحہ 1)
5 ستمبر1906ء
’’رؤیا۔ مَیں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم 1خاں (مرتد دشمن) ہمارے مکان کے پاس کھڑا ہے اور والدہ محمد اسحق (زو جہ میر ناصر نواب صاحب ) اُس کو اپنے گھر میں بُلاتی ہیں مگر مَیں نے اُسے اندر نہیں آنے دیا اور مَیں نے کہا کہ
مَیں نہیں آنے دیتا۔ اِس میں ہماری بے عزتی ہے
دشمن کے گھر میں داخل ہونے سے مُراد کوئی مصیبت یا موت ہوتی ہے اور وہ اندر نہیں آسکا۔ یعنی خدا نے اُس بَلا کو ٹال دیا۔ پھر الہام ہوا:۔
اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ
(ترجمہ) مَیں ان سب کی حفاظت کروں گا جو اِس گھر میں ہیں۔
علاوہ اس کے ایک گوشت کا ٹکڑا خواب میں دکھایا گیا جو کِسی غم کی طرف دلالت کرتا تھا ۔ اور یہ بھی دیکھا کہ ایک انڈا میرے ہاتھ میں ہے جو کہ ٹوٹ گیا2ہے ۔ یہ بھی کِسی کی موت کی طرف اشارہ تھا۔ لیکن خواب کے تمام امور مُعلّق ہوتے
1 فرمایا۔ اِن دنوں کتاب حقیقۃ الوحی میں نشانات جمع کررہا ہوں تو میرے دل میں خیال آیا کہ پچھلے نشانات کے ساتھ کوئی تازہ نشان بھی ہونا چاہئے۔ خدا تعالیٰ نے اِس خیال کو بھی جلد پورا کردیا۔
فرمایا۔ عبدالحکیم چونکہ ایک دشمن ہے اِس واسطے وہ دکھایا گیا۔ دشمن کے خواب میں گھر کے اندر داخل ہوجانے کی تعبیر کسی دُکھ اور موت سے ہوتی ہے۔ سو مَیں نے خواب میں کہا کہ مَیں اُس کو نہیں آنے دوں گا۔ یعنی میری دُعا نے اُس مصیبت کو ٹال دیا۔
فرمایا۔ اِنِّیْٓ اُحَافِظُ والا الہام جو اس خواب کے ساتھ تھا‘ ظاہر کرتا تھا کہ کوئی واقعہ طاعون کا ہونے والا ہے۔
(بدر جلد 2 نمبر 37 مؤرخہ 13 ستمبر1906صفحہ 3)
2 اِن خوابوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے میر ( ناصر نواب ) صاحب (مرحوم) کو جو لاہور جانے کو تیار تھے روک دیا کہ ابھی نہ جاویں اور ان کو کہہ دیا کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اہل و عیال کے متعلق ایک بَلا آنے والی ہے مَیں ڈرتا
ہیں اور دُعا سے ٹل سکتے ہیں ۔ قطعی حکم نہیں ہوتا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 37 مؤرخہ 13 ستمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر 32مؤرخہ 17 ستمبر1906صفحہ 1)
8 ستمبر1906ء
(1)لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے ۔ شیرِ خدا نے ان کو پکڑا اور شیرِ خدا نے فتح پائی۔
(2)امین الملک جے سنگھ بہادر۔
(3)رَبِّ لَا تُبْقِ لَیْ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔1
(بدر جلد 2 نمبر 37 مؤرخہ 13 ستمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر31مؤرخہ 10 ستمبر1906صفحہ 1۔
الحکم جلد 10 نمبر 32مؤرخہ 17 ستمبر1906صفحہ 1)
(4) ’’ (ا) پیٹ پھَٹ گیا۔2 ‘‘ (معلوم نہیں یہ کس کے متعلق الہام ہے)
(بدر جلد 2 نمبر 37 مؤرخہ 13 ستمبر 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر 32مؤرخہ 10 ستمبر1906صفحہ 1)
(ب) ’’ 30 جولائی 1906ء میں اور بعد اس کے اَور کئی تاریخوں میں وحیِ الٰہی کے ذریعہ بتلایا گیا کہ ایک شخص
بقیہ حاشیہ: ہوں کہ وہ بَلا سفر میں نازل ہو اور موجب ِ شماتت ِ اعدا ہوجائے ۔ اِس کے گواہ خود میر صاحب اورگھر کے لوگ ہیں ۔ چنانچہ یہ بات سُن کر میر صاحب نے مع اہل و عیال لاہور میں جانا ملتوی کردیا اور جب صبح ہوئی تو پیشگوئی کے مطابق عزیز محمد اسحق کو سخت بخار ہوگیا اور اُس بخار کے ساتھ رانوں میں دو 2 گلٹیاں نکل آئیں جس سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ طاعون ہے اور ایک نہایت خوفناک امر پیش آگیا اور گھر میں سب پر ایک دہشت طاری ہوئی اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب معالج تھے مگر ہر دو 2 بُنِ ران میں دو 2 گلٹیوں کے نکلنے سے وہ بھی دہشت زدہ ہوگئے ۔ تب حضرت مسیح موعود نے دُعا کرنا شروع کیا اور نہایت اِضطراب سے توجہ کی۔ تب خدا کے فضل سے اس دُعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ ابھی دو 2 یا تین گھنٹے سے زیادہ نہیں گذرا ہوگا کہ بخار بالکل ٹوٹ گیا اور پھر گلٹیاں بھی گُم ہوگئیں۔ گویا مرض کا نام و نشان نہ تھا اور تمام آثار طاعون کے جاتے رہے اور اَب میاں محمد اسحق بخیرو عافیت باہر پھرتے ہیں۔
(بدر جلد 2 نمبر 37 مؤرخہ 13 ستمبر 1906صفحہ 3نیز دیکھئے حقیقۃ الوحی صفحہ 327۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 340 تا 342۔ نشان نمبر 143)
1 (ترجمہ از مرتب) اے میرے رَبّ ( میرے لئے) رُسوا کرنے والی چیزوں میں سے کوئی باقی نہ رکھ۔
2 ’’ اِس پیشگوئی کے مطابق شعبان 1324ھ میں میاں صاحب نور مہاجر جو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی جماعت میں سے تھا یک دفعہ ایک دَم پیٹ پھٹنے کے ساتھ مَر گیا اور معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں کچھ مدّت سے رسَولی تھی لیکن کچھ محسوس نہیں کرتا تھا اور جوان ‘ مضبوط و توانا تھا۔یک دفعہ پیٹ میں دَرد ہوا اور آخری کلمہ اُس کا یہ تھا کہ اُس نے تین مرتبہ کہا کہ میرا پیٹ پھَٹ گیا۔ بعد اُس کے مَر گیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ4۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 435)

اِس جماعت میں سے ایک1 دم میں دُنیا سے رخصت ہوجائے گا اور پیٹ پھَٹ جائے گا اور شعبان کے مہینہ میں وہ فوت ہوگا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ4)
8 ستمبر1906ء
رؤیا۔ دیکھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک کاغذ بھیجا ہے جو پروف کی طرح ہے جو لڑکا لے کر آیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے حاشیہ پر سطر ہے ذرا پڑھ لینا۔ اُس کاغذ کے دائیں طرف کے حاشیہ پر لکھا ہے:۔
دشمن نہایت اضطراب میں ہے
(بدر جلد 2 نمبر 37 مؤرخہ 13 ستمبر 1906صفحہ 2۔الحکم جلد 10 نمبر32مؤرخہ 17 ستمبر1906صفحہ 1)
15 ستمبر1906ء
’’فرمایا۔ گھر میں ایک چوکھٹ کے اندر ایک قطعہ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے:۔
رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ
ہم نے آج کشفی نگاہ میں دیکھا کہ وہ الفاظ مٹے ہوئے ہیں مگر اس پر لکھا ہے۔ خیر۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 38 مؤرخہ 20 ستمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر33مؤرخہ 24 ستمبر1906صفحہ 1)
17 ستمبر1906ء
’’ (1) 2 قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ مَا یُرْضِیْکَ وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ۔
(2) قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ۔ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔3
(4) بَارَکَ اللّٰہُ فِیْ اِلْھَامِکَ وَوَحْیِکَ وَ رُؤْیَاکَ۔4
1 یہ الہام 30جولائی 1906ء کو ہؤا تھا۔ دیکھئے صفحہ563۔ (مرتّب)
2 (ترجمہ از مرتب) (1) تیرے رَبّ نے فرمایا ہے کہ تیرے لئے آسمان سے وہ چیز اُترنے والی ہے جو تجھے خوش کردے گی۔ اور ہم تیرے رَبّ کے حکم کے سوائے کبھی نازل نہیں ہوتے۔
3 (ترجمہ ) (2) اللہ تعالیٰ نے تیری دُعا سُن لی۔ تیری دُعا قبول کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نیکی کرتے ہیں۔
4 برکت دی اللہ تعالیٰ نے تیرے الہام میں اور تیری وحی میں اور تیری خوابوں میں۔
(4) کَتَبْتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَحْمَۃً وَّ کَتَبْتُ لَکَ رَحْمَۃً فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔1
(5) نُزِیْدُ فِیْ رَحْمَتِکَ وَ صِدْقِکَ وَ وَ فَآئِ کَ۔2
( اَیْ نَزِیْدُ بَرَکَاتٍ یہ خدا کی طرف سے نہیں صرف تفہیم ہے میرے لفظوں میں)
(6)کُلُّ مُکَذِّبٍ جَآئَ۔ یَآ اَیُّھَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَ اَھْلَنَا الضُّرُّ وَ جِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجَاۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَ تَصَدَّقْ عَلَیْنَا۔ اِنَّ اللّٰہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ۔3
(7) مَآ اَنَا اِلَّا کَالْقُرْاٰنِ وَ سَیَظْھَرُ عَلٰی یَدَیَّ مَا ظَھَرَ مِنَ الْفُرْقَانِ۔4
(8) رؤیا۔ دیکھا کہ مَیں ایک فراخ اور خوبصورت اور چمکدار چوغہ پہنے ہوئے چند آدمیوں کے ساتھ ایک طرف جارہا ہوں اور وہ چوغہ میرے پاؤں تک لٹک رہا ہے اور چمک کی شعاعیں اس میں سے نکل رہی ہیں۔
(9) خدا اُس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا۔ ( نامعلوم کِس کے متعلق یہ الہام ہے)۔
(10) رؤیادیکھا کہ ایک بھونچال آیا۔ کچھ دہشت ناک معلوم ہوا اور ہم چھت کے نیچے سے باہر آگئے مبارک میرے ساتھ تھا اور خفیف خفیف بارش کے قطرے خوشنما برس رہے تھے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 38 مؤرخہ 20 ستمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر33مؤرخہ 24 ستمبر1906صفحہ 1)
24ستمبر1906ء
(الف) ’’موت ، تیراں 13ماہ حال کو
غالباًتیراں ماہ حال سے مُراد تیراںماہ شعبان ہے۔ واللہ اَعلم ۔ اور مَیں نہیں جانتا کہ تیراں ماہ حال سے یہی شعبان ہے یا کِسی اَور شعبان کی تیراں تاریخ۔ اور مَیں قطعی طور پر نہیں جانتا کہ کِس کے حق میں ہے اِس لئے طبیعت غمگین ہے۔ خدائے تعالیٰ فضل کرے۔ آمین۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 39 مؤرخہ 27 ستمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر33مؤرخہ 24 ستمبر1906صفحہ 1)
1 (4)تجھ پر ایمان لانے والوں کیلئے مَیں نے رحمت لکھ دی ہے اور تیرے لئے دُنیا اور آخرت میں مَیں نے رحمت لکھ دی ہے۔
2 (5) تیری رحمت اور صدق اور وفا میں ہم زیادتی کریں گے۔ یعنی تجھ پر برکات کی زیادتی کی جائے گی۔
3 (6) سب مکذب آئے اور کہنے لگے۔ اے عزیز ہم اور ہمارے اہل و عیال تکلیف میں ہیں اور ہم تھوڑی سی پونجی لائے ہیں۔ پس ہمیں پورا ناپ تول دے اور ہم پر صدقہ کر۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔
4 (7)مَیں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔
(ب) بعد میں فرمایا کہ ’’ سُرعت ِ الہام کے سبب بعض دفعہ ٹھیک الفاظ یاد نہیں رہتے ۔ اِس واسطے تیراں کا لفظ تھا ‘ یا تئیس کا ‘ یا تیس1 کا۔ (بدر جلد 2 نمبر43 مؤرخہ 25 اکتوبر 1906صفحہ 4)
26 ستمبر1906ء
’’ 2 اے مظفّر تجھ پر سلام ہو کہ خدا نے تیری بات سُن لی۔ خدا تیرے لئے لڑکا دے گا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 39 مؤرخہ 27 ستمبر 1906صفحہ 3)
27 ستمبر1906ء
’’ بَلَجَتْ 3 اٰیَاتِیْ۔ وَبَشِّرِالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ4 لَھُمُ الْفَتْحُ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 40 مؤرخہ 4 اکتوبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر34مؤرخہ 30 ستمبر1906صفحہ 1 ۔الاستفتاء صفحہ 76 ۔ضمیمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702)
2 اکتوبر1906ء
’’لَنَبْلُوَنَّکُمْ5 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 40 مؤرخہ 4 اکتوبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر34مؤرخہ 30 ستمبر1906صفحہ 1 )
2 اکتوبر1906ء
’’مَیں نے دیکھا کہ ایک کتاب ہے۔ گویا وہ میری کتاب ہے۔ ا س کا نام نَہْجُ الْمُصَلِّی ہے۔ پھر الہام ہوا:۔
فَوْقٌ حَمِیْدٌ6
کاذب کا خدا دشمن ہے وہ اس کو جہنّم میں پہنچائے گا۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 40 مؤرخہ 4 اکتوبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر34مؤرخہ 7 30 ستمبر1906صفحہ 1 )
1 اگر تیس کا لفظ تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہام بھی میاں صاحب نور افغان مہاجر مرحوم کے متعلق تھا ۔ چنانچہ مرحوم 30 شعبان 1324ھ مطابق 19 اکتوبر 1906ء کو فوت ہوئے۔ دیکھئے بدر پرچہ مذکور۔ (مرتب)
2 الاستفتاء صفحہ 76 میں اِس الہام کی تاریخ 27 ستمبر لکھی ہے اور حضور ؑ نے اس کا عربی میں یہ ترجمہ فرمایا ہے:۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا الْمُظَفَّرُ سُمِعَ دُعَائُ کَ۔‘‘ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) ظاہر ہوگئیں میری نشانیاں ۔ اور خوشخبری دے اُن لوگوں کو جو ایمان لائے۔ بیشک ان کے واسطے فتح ہے۔
4 الاستفتاء صفحہ 76 میں یوں درج ہے ’’بِاَنَّ لَھُمُ الْفَتْحُ۔‘‘ (مرتب)
5 (ترجمہ از مرتب) ہم تجھ کو ضرور آزمائیں گے۔
6 (ترجمہ از مرتب) قابلِ تعریف غلبہ۔
7 آپ تعجب نہ کریں کہ 2 اکتوبرکا الہام 30 ستمبر کے پرچہ میں کیونکر شائع ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الحکم دیر سے شائع
9 اکتوبر1906ء
’’مَیں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ میرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم ایک مضبوط گھوڑے پر سوار ہے اور مَیں نے خیال کیا کہ یہ فرشتہ ہے اور لفظ قادر کی مناسبت سے اُس شکل پر ظاہر ہوا ہے اور مَیں اُس کے آگے اِس قدر دوڑتا ہوں کہ گھوڑا پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم شہر میں داخل ہوگئے اور وہ فرشتہ جو میرے بھائی کی شکل پر تھا گھوڑے پر سے اُتر آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک تازیانہ ہے اور ایک مضبوط سپاہی قوی ہیکل شکل میں ہے اور ہم نے شہر میں ایک طرف جانے کا ارادہ کیا۔ گویا کوئی کام ہے یا کوئی خدمت ہے جو اس فرشتہ نے بجا لانی ہے۔ بعد اس کے الہام ہوا:۔
اَے عبدالحکیم ! خدا تعالیٰ تجھے ہر ایک ضرر سے بچاوے۔ اندھا ہونے اور مفلوج ہونے اور مجذوم ہونے سے
اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ عبدالحکیم میرا نام رکھا گیا ہے
خلاصہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ ان بیماریوں میں سے کوئی بیماری میرے لاحق ِ حال ہو کیونکہ اس میں شماتت ِ اعداء ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 41 مؤرخہ 11 اکتوبر 1906صفحہ 1۔الحکم جلد 10 نمبر35مؤرخہ 10 اکتوبر 1906صفحہ 1 )
15 اکتوبر1906ء
’’ خواب میں دیکھا کہ مَیں کچھ لکھ رہا ہوں اور لکھتے لکھتے یہ الفاظ دیکھے:۔
عِلْمُ 1 ا لدَّرْمَان223
فرمایا۔ علم عربی لفظ ہے اور درمان فارسی ہے۔ اس کے آ گے 223 کا ہندسہ ہے معلوم نہیں کہ اس سے کیا مُراد ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 42 مؤرخہ 18 اکتوبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر36مؤرخہ 17 اکتوبر1906صفحہ 1 )
بقیہ حاشیہ: ہوا مگر تاریخ پچھلی ڈالی گئی۔ چنانچہ الحکم جلد 10 نمبر 34 مؤرخہ 30 ستمبر 1906ء صفحہ 1میں بھی یہ نوٹ دیا گیا۔ (مرتب)
1 نوٹ از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
’’عِلم عربی لفظ ہے جس کے معنے ہیں۔ جاننا۔ اور درمان ایک فارسی لفظ ہے جس کے معنے ہیں۔ علاج ۔ یعنی علاج کا علم 15 اکتوبر سے 223دن بعد ہوجائے گا۔ اب دیکھنا چاہئے کہ 15 اکتوبر سے دو سو تئیسواں دن کونسا ہے۔ سو حساب لگا کر دیکھو کہ وہ دن 25 مئی 1907ء ہے۔ چنانچہ اِس الہام کے مطابق حضرت اقدس ؑ 26 مئی کو فوت ہوئے۔
اَب ایک اَور غور طلب امر ہے جس کا شاید مخالف کم فہمی سے انکار کردے اور وہ یہ کہ الہام تو ہوا ہے 1906ء کو اور فوت ہوئے 1908ء میں۔ تو یہ ایک سال اور 223 دن ہوئے۔
سو یاد رہے کہ اس کی دو2 وجوہات ہیں۔ اوّل تو یہ کہ اس کے ساتھ ہی الہام ہے کہ اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا
16 اکتوبر1906ء
’’مَیں نے دیکھا کہ کسی کی موت قریب ہے۔ یہ متعین نہ ہوا کہ کِس کی مَوت آئی ہے۔ تب اس کشفی حالت میں ہی مَیں نے دُعا کی۔ الہام ہوا:۔
اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا
یعنی مَوتوں کے تِیر خطا نہیں جاتے
تب مَیں نے اسی کشفی حالت میں ہی پھر دُعا کی کہ اے خدا ! تُو ہر چیز پر قادر ہے۔ تب الہام ہوا:۔
اِنَّ الْمَنَایَا قَدْ تَطِیْشُ سِھَامُھَا
اِس کے بعد یہ بھی الہام تھا:۔
رسیدہ1 بود بلائے وَلے بخیر گذشت
مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ہم سب میں سے یہ کس کے حق میں ہے۔ واللہ اَعلم بالصّواب ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 42 مؤرخہ 18 اکتوبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر36مؤرخہ 17 اکتوبر1906صفحہ 1 )
20 اکتوبر1906ء
’’ اَللّٰہُ عَدُ وُّالْکَاذِبِ وَ اِنَّہٗ یُوْصِلُہٗ اِلٰی جَھَنَّمَ۔ اُغْرِقَتْ
بقیہ حاشیہ: یعنی مَوتوں کے تِیر خطا نہیں جاتے (اِس سے بھی ثابت ہے کہ یہ 223 والا الہام مَوت کے متعلق ہے)اور پھر بعد اس کے الہام ہوا ٭ اِنَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ ھُمْ نَزِیْدُ عُمُرَکَ(دیکھئے ریویو آف ریلیجنز مؤرخہ 20 نومبر 1906ء صفحہ 2) یعنی تیری وفات تو 1907ء میں ہی تھی مگر ہم نے اس عمر کو بڑھا دیا۔ چنانچہ پورے ایک سال تک عمر میں ترقّی دی گئی اور ایک سال کے بعد وہ حساب شروع ہوا۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ؑ کی وفات 26 مئی کو تھی اور اگر آپ 1907ء میں فوت ہوجاتے تو ایک تو چند معاندین ِ سِلسلہ شور مچادیتے کہ ہماری پیشگوئی کی میعاد کے اندر فوت ہوئے اور ایک یہ کہ اس وقت 27 تاریخ کو آپ کی وفات ٹھہرتی اِس لئے ضروری تھا کہ آپ کی وفات لِیپ اِیئر ( یعنی جس سال میں فروری کے 29 دن ہوں) میں ہوتی تاکہ پورے 223 دن کے بعد 26 مئی کو فوت ہوں۔ پس صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی وفات 1908ء میں ہونی چاہئے تھی جو کہ لِیپ اِیئر ہے نہ کہ 1907ء میں جس میں فروری کے 28 دن ہوتے ہیں اور 223 دن 26 مئی تک ختم نہیں ہوتے بلکہ 27 کو ختم ہوتے ہیں۔‘‘ (رسالہ تشحیذالاذہان جلد 3‘ نمبر 6 ‘ 7 پرچہ ماہ جون و جولائی 1908ء صفحہ 216)
٭ سہو ِ کاتب سے تشحیذ الاذہان جلد 2 نمبر 5 مؤرخہ 10 مئی 1907ء صفحہ 23 میں لفظ’’اِمَّا‘‘ لکھا گیا ہے۔ (مرتب)
1 (ترجمہ از مرتب) بَلا سر پر آئی ہوئی تھی لیکن خدا کے فضل سے ٹل گئی۔
سَفِیْنَۃُ الْاَذَلِّ۔1اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔2‘‘
(الاستفتاء صفحہ 76 ضمیمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702)
23 اکتوبر1906ء
’’ اِنَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ۔ نَزِیْدُ عُمُرَکَ۔3‘‘
(بدر جلد 2 نمبر43 مؤرخہ 25 اکتوبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر37مؤرخہ 24 اکتوبر1906صفحہ 1 )
30 اکتوبر1906ء
’’کتاب حقیقۃ الوحی کے انطباع اور تیاری میں جو بہت سا خرچ ہوا ہے اور ہونیوالا ہے اس ے متعلق خیال تھا تو الہام ہوا:۔
یَاْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتِیْکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئٍ۔4‘‘
(بدر جلد 2 نمبر44 مؤرخہ یکم نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر37مؤرخہ 24 5 اکتوبر1906صفحہ 1 )
31 اکتوبر1906ء
’’ یَنْصُرُکُمُ اللّٰہُ فِیْ دِیْنِہٖ۔6‘‘
(بدر جلد 2 نمبر45 مؤرخہ 8 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر38مؤرخہ 10 نومبر1906صفحہ 1 )
1 حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے یہ الہامات اُردو سے عربی میں ترجمہ کر کے الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 76۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702 میں درج فرمائے ہیں۔ الہام نمبر 1 جو 2 اکتوبر کو بھی نازل ہوا‘ اس کے الفاظ اُردو میں یہ ہیں:۔
’’کاذب کا خدا دشمن ہے۔ وہ اس کو جہنّم میں پہنچائے گا‘‘
اور الہام نمبر 2 جو 15 نومبر کو دوبارہ ہوا ا س کے اُردو میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’کمترین کا بیڑا غرق ہوگیا‘‘ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) تیرے ربّ کی گرفت بہت سخت ہے۔
3 (ترجمہ ) ہم تجھے بعض وہ امور دکھلاویں گے جو مخالفوں کی نسبت ہمارا وعدہ ہے اور تیری عمر زیادہ کریں گے۔
4 (ترجمہ) ہر ایک دُور کی راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے۔ اور ہر ایک دُور کی راہ سے تیرے پاس تحائف لائیں گے۔ تیرے پاس وہ لوگ تحائف لائیں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے۔
5 چونکہ اخبار دیر سے شائع ہوا ہے اِس لئے بعض واقعات 24 اکتوبر کے بعد کے درج ہیں۔ (ایڈیٹر الحکم )
6 (ترجمہ ) خدا اپنے دین میں تمہاری مدد کرے گا۔
2 نومبر1906ء
’’ مَیں نے دیکھا کہ رات کے وقت مَیں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور ایک اَور شخص میرے پاس ہے تب مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ بہت سے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں۔ تب مَیں نے اُن ستاروں کو دیکھ کر اور اُنہیں کی طرف اشارہ کرکے کہا:۔
آسمانی بادشاہت
پھر معلوم ہوا کہ کوئی شخص دروازہ پر ہے اور کھٹکھٹاتا ہے۔ جب مَیں نے دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک سودائی ہے جس کا نام میراں بخش ہے۔ اُس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اندر آگیا۔ اس کے ساتھ بھی ایک شخص ہے مگر اُس نے مصافحہ نہیں کیا اور نہ وہ اندر آیا۔
اِس کی تعبیر مَیں نے یہ کی کہ آسمانی بادشاہت سے مُراد ہمارے سلسلہ کے برگزیدہ لوگ ہیں جن کو خدا زمین پر پھَیلادے گا۔ اور اس دیوانہ سے مُراد کوئی مُتکبر ‘ مغرور‘ متموّل یا تعصّب کی وجہ سے کوئی دیوانہ ہے۔ خدا اس کو توفیق ِ بَیعت دے گا۔ پھر الہام ہوا:۔
لَاتَخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا
گویا مَیں کسی دوسرے کو تسلّی دیتا ہوں کہ تُو مت ڈر خدا ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر45 مؤرخہ 8 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر38مؤرخہ 10 نومبر1906صفحہ 1 )
7 نومبر1906ء
’’آج رات لنگر خانہ کے اخراجات کی نسبت مَیں قریباً 12 بجے رات کے اپنے گھر کے لوگوں سے بات کررہا تھا کہ اَب خرچ ماہوار ی لنگر خانہ کا پندرہ سَو سے بھی بڑھ گیا ہے۔ کیا قرضہ لے لیں؟ پھر خیال آیا کہ قرضہ لینے سے کیا فائدہ۔ کیونکہ دو ہزار روپیہ بھی لے لیں تو ایک ماہ میں خرچ ہوجائیں گے۔ اس کے بعد مَیں سو گیا۔ صُبح نماز کے بعد الہام ہوا:۔
اَتَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْ یُرَبِّیْکُمْ فِی الْاَرْحَامِ۔1‘‘
(بدر جلد 2 نمبر45 مؤرخہ 8 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر38مؤرخہ 10 نومبر1906صفحہ 1 )
نومبر1906ء
رؤیا۔ ’’دیکھا کہ مَیں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور کسی طرف جارہا ہوں۔ جاتے ہوئے آگے بالکل تاریکی ہوگئی تو مَیں واپس آگیا اور میرے ساتھ کچھ عورتیں بھی ہیں۔ واپس آتے ہوئے بھی راستہ میں گردو غبار کے سبب تاریکی ہوگئی اور گھوڑے کی باگ کو مَیں نے ٹٹول کر ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے۔ چند قدم چل کر روشنی ہوگئی۔
1 (ترجمہ از مرتب) کیا تُو خدا کی رحمت سے نا اُمید ہوتا ہے۔ وہ خدا جو رِحموں میں تمہاری پرورش کرتا ہے۔
آگے دیکھا ایک بڑا چبوترہ ہے۔ اُس پر اُتر پڑا۔ وہاں چند ایک لڑکے ہیں۔ انہوں نے شور مچایا کہ مولوی عبدالکریم آگئے۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آرہے ہیں۔ اُن کے ساتھ مَیں نے مصَافحہ کیا اور السّلام علیکم کہا۔ مولوی صاحب مرحوم نے ایک چیز نکال کر مجھے بطور تحفہ دی اور کہا کہ بشپ جو پادریوں کا افسر ہے وہ بھی اسی سے کام چلاتا ہے۔ وہ چیز اِس طرح سے ہے جیسا کہ خرگوش ہوتا ہے۔ بادامی رنگ ۔ اس کے آگے ایک بڑی نالی لگی ہوئی ہے اور نالی کے آگے ایک قلم لگا ہوا ہے۔ اس نالی کے اندر ہَوا بھر جاتی ہے جس سے وہ قلم بغیر محنت کے بآسانی چلنے لگتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نے تو یہ قلم نہیں منگوایا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب نے منگوایا ہوگا۔ مَیں نے کہا۔ اچھا مَیں مولوی صاحب کو دے دوں گا۔ اِس کے بعد بیداری ہوگئی۔
تعبیر۔ عورتوں سے مُراد کمزور لوگ ہوسکتے ہیں اور خدا نے قرآن شریف میں (اس ) اُمّت کے نیک بندوں کو بھی فرعون کی عورت اور مریم سے تشبیہ دی ہے اور قلم سے مُراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مولوی محمد علی صاحب کے دِل میں ایسی طاقت پَیدا کردے کہ وہ مخالفوں کے َردّ میں اعلیٰ مضامین لکھیں۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر46 مؤرخہ 15 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر39مؤرخہ 17 نومبر1906صفحہ 1 )
نومبر1906ء
’’ رَبِّ لَا تَذَرْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔1‘‘
(بدر جلد 2 نمبر46 مؤرخہ 15 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر39مؤرخہ 17 نومبر1906صفحہ 1 )
13 نومبر1906ء
’’ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَانَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْمِثْلِھَا۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔2 ‘‘
اور گویا مَیں کسی کو کہتا ہوں:۔
لَا تَخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔3 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر46 مؤرخہ 15 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر39مؤرخہ 17 نومبر1906صفحہ 1 )
1906ء
’’نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے تھے۔ منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولی عہد کے ماتحت رعایا کی طرح قرار دیئے گئے تھے اور اُنہوں نے بہت کچھ کوشش کی مگر ناکام رہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) اے میرے ربّ زمین پر کافروں میں سے کوئی باشندہ نہ چھوڑ۔
2 (ترجمہ ازمرتب) کِسی نشان کو ہم منسُوخ نہیں کرتے یا فراموش نہیں کراتے مگر اس سے بہتر یا اس جیسا نشان عطا کرتے ہیں۔کیا تُو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) مت ڈر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقا بہ سے اپنی داد رسی چاہیں اوراس میں بھی کچھ اُمّید نہ تھی کیونکہ اُن کے برخلاف قطعی طور پر حکامِ ماتحت نے فیصلہ کردیا تھا۔ اس طوفانِ غم و ہمّ میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے اُنہوں نے صرف مجھ سے دُعا ہی کی درخواست نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر خدا تعالیٰ اُن پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے تو وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بِلا توقّف لنگر خانہ کی مدد کیلئے ادا کریں گے ۔ چنانچہ بہت سی دُعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہواکہ:۔
اے سَیف اپنا رُخ اِس طرف پھیر لے 1
تب مَیں نے نواب محمد علی خان صاحب کو اِس وحیِ الٰہی سے اطلاع دی ۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے اُن پر رحم کیا۔‘‘
(چشمۂ معرفت صفحہ 323‘ 324۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 339 )
15 نومبر1906ء
’’آج رات ستائیسویں رمضان المبارک تھی اور اِس پر یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ یہ رات شب ِ قدر کی ہوتی ہے۔ مَیں نے سوچا کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں شاید پھر یہ رات نصیب ہو یا نہ ہو۔ پس مَیں اُٹھا اور مَیں نے نماز پڑھ کر دُعا2 کی۔ بعد میں مفصّلہ ذیل الہامات ہوئے:۔
(1) قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے
بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے
(2) کمترین3 کا بیڑہ غرق ہوگیا (یعنی کِسی کے قول کی طرف اشارہ ہے) اور یا شاید کمترین سے مُراد کوئی شدید مخالف ہے۔
(3) تیری دعا قبول کی گئی۔
اصل میں یہ ہرسہ الہام پیشگوئیاں ہیں خواہ ایک شخص کیلئے ہوں اور خواہ تین جُدا شخصوں کے حق میں ہوں۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر47 مؤرخہ 22 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر39مؤرخہ 17 نومبر1906صفحہ 2)
18 نومبر1906ء
’’رؤیا۔ دیکھا کہ ہمارے باغ میں (کئی) ایک آدمی جڑھ لگارہے ہیں۔ پھر غیب سے آواز آئی:۔
مبارک
(2) پھر ایک نظّارہ آنکھوں کے سامنے پھِر گیا اور ا س کے بعد الہام ہوا:۔
1 یہ الہام اخبار بدر جلد 2 نمبر46 مؤرخہ 15 نومبر 1906صفحہ 3والحکم جلد 10 نمبر39مؤرخہ 17 نومبر1906صفحہ 1 پر بھی درج ہے۔
2 یعنی دُعا کرنے کیلئے نماز پڑھی اور اُس میں دُعا کی۔ (مرتب)
3 الاستفتاء مشمولہ حقیقۃ الوحی صفحہ 76۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہام حضور ؑ کو 20 اکتوبر 1906ء میں بھی ہوا تھا۔ (مرتب)
1 مَا وَقَفْتَ مَوْقِفًا اَغْیَظَ مِنْ ھٰذَا۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر47 مؤرخہ 22 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر40مؤرخہ 24 نومبر1906صفحہ 1)
22 نومبر1906ء
’’2 رَبِّ احْفَظْنِیْ فَاِنَّ الْقَوْمَ یَتَّخِذُوْنَنِیْ سُخْرَۃً۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر48 مؤرخہ 29 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر40مؤرخہ 24 نومبر1906صفحہ 1)
23 نومبر1906ء
(1) ’’اِنَّ اللّٰہَ مَنَّ عَلَیْکُمْ وَ اُعْطِیْکَ مَا اُعْطِیْکَ۔ 3 (2) اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَیْکَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَی اللّٰہِ 4 (3) اَولیاء اللہ سے مخالفت رکھنا ‘ اس کا نتیجہ اچھا نہیں۔ ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر48 مؤرخہ 29 نومبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر40مؤرخہ 24 نومبر1906صفحہ 1)
1906ء
’’عبدالکریم5 نام ولد عبدالرحمن ساکن حیدر آباد دکن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے۔ قضاء قدر سے اس کو سگِ دیوانہ کاٹ گیا۔ ہم نے اس کو معالجہ کیلئے کسولی بھیج دیا۔ چند روز تک اُس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا۔ تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کُتّے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیںاور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہوگئی۔ تب اُس غریب الوطن عاجز کیلئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دُعا کیلئے ایک خاص توجہ پَیدا ہوگئی۔ ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مَرجائے گا۔ ناچار اُس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اِس حالت میں
1 (ترجمہ از مرتب) تُو کسی موقعہ پر اِس سے زیادہ (دشمنوں کو ) غصہ دلانے کی صورت میں کھڑا نہیں ہوا۔ بے شک تیرے ربّ کی گرفت سخت ہوتی ہے۔
2 (ترجمہ) اے میرے ربّ! میری حفاظت کر کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے کی جگہ ٹھہرالیا۔
3 (ترجمہ از مرتب) خدا نے تم پر احسان کیا اور مَیں تجھے دوں گا جو چیز دوں گا۔
4 (ترجمہ) جو لوگ تیری طرف اِلتفات نہیں کرتے یعنی نظرِ انکار سے دیکھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف بھی اِلتفات نہیں کرتے۔
5 میاں عبدالکریم صاحب یاد گیر ضلع گلبرگہ ریاست حیدرآباد دکن کے رہنے والے تھے۔ آپ اِس واقعہ کے بعد 38 سال تک زندہ رہے اور آخر دسمبر 1934ء میں وفات پائی۔ (مرتب)
اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اُس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اَب اس کا کوئی علاج نہیں۔ مگر اُس غریب اور بے وطن لڑکے کیلئے میرے دل میں بہت توجہ پَیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کیلئے دعا کرنے کیلئے بہت اصرار کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابلِ رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مَر گیا تو ایک بُرے رنگ میں اُس کی موت شماتت ِ اعدا کا موجب ہوگی۔ تب میرا دل اس کیلئے سخت درد اور بے قراری میں مُبتلا ہوا۔ اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے ‘ اور اگر پیدا ہوجائے تو خدا تعالیٰ کے اِذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مُردہ زندہ ہوجائے ۔ غرض اُس کیلئے اِقبال علی اللہ کی حالت میسّر آگئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلّط میرے دل پر کرلیا تب اِس بیمار پر جو درحقیقت مُردہ تھا اِس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یک دفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رُخ کیا اور اُس نے کہا کہ اَب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا۔ تب اُس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کرکے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی یہاں تک کہ چند روز تک بکُلّی صحت یاب ہوگیا۔ میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پَیدا ہوگئی یہ اِس لئے نہیں تھی کہ یہ دیوانگی اُس کو ہلاک کرے بلکہ اِس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو‘ اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دُنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کُتّے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہوگئے ہوں پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہوسکے۔ اور اِس سے زیادہ اِس بات کا اَور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جو ماہر اِس فن کے کسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کیلئے ڈاکٹر مقرر ہیں اُنہوں نے ہمارے تار کے جواب میں صاف لکھ دیا ہے کہ اَب کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔
اِس جگہ اِس قدر لکھنا رہ گیا کہ جب مَیں نے اس لڑکے کیلئے دُعا کی تو خدا نے میرے دل میں القا کیا کہ فلاں دوا دینی چاہئے ۔ چنانچہ مَیں نے چند دفعہ وہ دَوا بیمار کو دی آخر بیمار اچھا ہوگیا یا یُوں کہو کہ مُردہ زندہ ہوگیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 46‘47۔ رُوحانی خزائن جلد 22 صفحہ 480‘ 481)
نومبر1906ء
(الف) ’’ ایک امر کے متعلق مزید تحقیقات کی حاجت تھی۔ اِس پر الہام ہوا:۔
لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ ۔‘‘1
(الحکم جلد 10 نمبر41مؤرخہ 30 نومبر1906صفحہ 1۔بدر جلد 2 نمبر49 مؤرخہ 6 دسمبر 1906صفحہ 3)
1 (ترجمہ از مرتب) اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قَسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس قَسم کو ضرور پُورا کردے گا۔
(ب) ’’ 1 وَرُبَّ مُوْذٍ مَّآ اٰذَوْنِیْ اِلَّا لِیُظْھِرَاللّٰہُ بِھِمْ بَعْضَ الْاٰیَاتِ وَ قَدْ قَصَصْنَا قِصَصَھُمْ فِیْ حَقِیْقَۃِ الْوَحْیِ لِتَکُوْنَ تَبْصِرَۃً لِّلطَّالِبِیْنَ وَ الطَّالِبَاتِ ۔ وَاَقْرَبُ الْقِصَصِ مِنْ ھٰذَا الْوَقْتِ قِصَّۃُ رَجُلٍ مَّاتَ فِیْ ذِی الْقَعْدَۃِ ۔ وَکَانَ یَلْعَنُنِیْ وَیَسُبُّنِیْ ۔ وَکَانَ اسْمُہٗ سَعْدَاللّٰہِ ۔ وَکَانَ سَبُّہٗ کَالصَّعْدَۃِ ۔ وَاِذَا بَلَغَ شَتْمُہٗ اِلٰی مُنْتَھَاہُ وَ سَبَ فِی الْاِیْذَآئِ کُلَّ مَنْ سِوَاہُ اَوْحٰٓی اِلَیَّ رَبِّیْ فِیْٓ اَمْرِ مَوْتِہٖ وَخِزْیِہٖ وَقَطْعِ نَسْلِہٖ بِمَا قَضَاہُ وَقَالَ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۔ فَاَشَعْتُ بَیْنَ النَّاسِ مَآ اَوْحٰی رَبِّیَ الْاَکبَرُ ۔ ثُمَّ بَعْدَ ذٰلِکَ صَدَّقَ اللّٰہُ اِلْھَامِیْ ۔ فَاَرَدْتُّ اَنْ اُفصِّلَہٗ فِیْ کَلَامِیْ ۔ وَاُشِیْعَ مَاصَنَعَ اللّٰہُ بِذَالِکَ الْفَتَّانِ۔ وَعَدُوِّ عِبَادِاللّٰہِ الرَّحْمٰنِ ۔ فَمَنَعَنِیْ مِنْ ذٰلِکَ وَکِیْلٌ کَانَ مِنْ جَمَاعَتِیْ وَخَوَّفَنِیْ مِنْ اِرَادَۃِ اِشَاعَتِیْ ۔ وَقَالَ لَوْاَشَعْتَھَالَاتَاْ مَنُ جَمَاعَتِیْ وَخَوَّفَنِیْ مِنْ اِرَادَۃِ اِشَاعَتِیْ۔ وَقَالَ لَوْ اَشَعْتَھَالَاتَاْ مَنُ مَقْتَ الْحُکَّامِ، وَیَجُرُّکَ الْقَانُوْنُ اِلَی الْاَثَامِ، وَلَاسَبِیْلَ اِلْی الْخَلَاصِ ۔ وَلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ، وَ تَلْزَمُکَ الْمَصَآئِبُ مُلَازَمَۃَ الْغَرِیْمِ ۔ وَالْمَآلُ مَعْلُوْمٌ بَعْدَالتَّعَبِ الْعَظِیْمِ ۔ وَلَیْسَتِ الْحُکُوْمَۃُ تَارِکَ الْمُجْرِمِیْنَ ۔ فَالْخَیْرُ فِیْ اِخْفَآئِ ھٰذَا الْوَحْیِ کَالْمُحْتَاطِیْنَ ۔ فَقُلْتُ اِنِّیْٓ اَرَی الصَّوَابَ فِیْ تَعْظِیْمِ الْاِلْھَامِ ۔
1 (ترجمہ از مرتب) کئی ایذارسانی کی ایذا کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے بعض نشانات دکھائے۔ ایسے لوگوں کا ذکر ہم نے طالبانِ حق کی بصیرت کی غرض سے حقیقۃ الوحی میں کیا ہے اور ایک اِس قِسم کا تازہ واقعہ ایک شخص (کی ہلاکت) کا ہے جو ابھی ماہِ ذی قعدہ 1324ھ میں واقع ہوا ہے۔ یہ شخص میرے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا کرتا تھا اور مجھ پر لعنتیں بھیجا کرتا تھا۔ اس کانام سعد اللہ (لدھیانوی) تھا۔ یہ شخص اپنی بد زبانی سے نیزہ کی طرح سخت زخم پیدا کرتا تھا۔ جب اس شخص کی بَد زبانی اپنی اِنتہا کو پہنچ گئی اور وہ ایذارسانی میں سب سے آگے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے جلد ہلاک ہونے اور ذلیل اور رُسوا اور اَبتر ہونے کے متعلق اپنی قضا و قدر سے آگاہی بخشی اور اس کے متعلق فرمایا اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ یعنی تیرا یہ دشمن منقطع النّسل اور ناکام و نامُراد رہے گا۔ چنانچہ مَیں نے اِس وحیِ الٰہی کو لوگوں میں شائع کردیا اور ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی اس وحی کی سچائی کو جو اُس نے مجھے الہام کی تھی ظاہر کردیااور اپنے فرمودہ کو پورا کردیا اِس لئے مَیں نے چاہا کہ اسے تفصیل سے بیان کرکے لوگوں میں اس کی اشاعت کروں۔ لیکن ایک وکیل نے جو میری جماعت میں شامل تھا مجھے اس کی اشاعت سے روکا اور اس کے متعلق بہت خوف اور خطرہ کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کی اشاعت کی صورت میں یہ معاملہ ضرور حکام تک پہنچے گااور اس وقت قانون کی زد اور سزا سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی اور مصائب کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور مقدمہ کی سخت مصیبت اُٹھانے کے بعداس کا جو نتیجہ ہوگا وہ ظاہر ہے اور ایسی صورت میں حکومت ضرور سزا دے گی اِس لئے بہتری اسی میں ہے کہ احتیاط سے کام لے کر اس وحی
وَ اِنَّ الْاِخْفَآئَ مَعْصِیّۃٌ عِنْدِیْ وَمِنْ سِیَرِاللِّئَامِ ۔ وَمَاکَانَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّضُرَّ مِنْ دُوْنِ بَارِیَٔ الْاَنَامِ ۔ وَلَا اُبَالِیْ بَعْدَہٗ تَھْدِیْدَ الْحُکَّامِ ۔ وَنَدْعُوْ رَبَّنَا الَّذِیْ ھُوَ مَنْبِتُ الْفَضْلِ وَ اِنْ لَّمْ یُسْتَجَبْ فَنَرْضٰی بِالْعَیْشِ الرَّذْلِ وَ وَاللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یُسَلِّطُ عَلَیَّ ھٰذَا الشَّرِیْرَ ۔ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْہِ اٰفَۃً وَّ یُنْجِیْ عَبْدَہُ الْمُسْتَجِیْرَ ۔ فَسَمِعَ کَلَامِیْ بَعْضُ زُبْدَۃِ الْمُخْلِصِیْنَ الْفَاضِلُ الْجَلِیْلُ فِیْ عِلْمِ الدِّیْنِ ۔ اَعْنِیْ مُحِبَّنَا الْمَوْلَوِیَّ الْحَکِیْمَ نُوْرُالدِّیْنِ فَجَرٰی عَلٰی لِسَانِہٖ حَدِیْثُ رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ ۔ وَاطْمَئَنَّ الْقُلُوْبُ بِقَوْلِیْ وَ قَوْلِہٖ ۔ وَخَطَّأُوا الْمُحَذِّرَ ۔ وَاسْتَضْعَفُوْا بِنَآئَ ھَوْلِہٖ ۔ ثُمَّ دَعَوْتُ عَلٰی سَعْدِاللّٰہِ اِلٰی ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ وَّ تَمَنَّیْتُ مَوْتَہٗ مِنْ رَّبٍّ عَلَّامٍ ۔ فَاَوْحٰی اِلَیَّ
رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ لَوْاَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ
یَعْنِیْ اَنَّہٗ تَعَالٰی یُدَافِعُ عَنْکَ شَرَّہٗ ۔ فَوَاللّٰہِ مَا مَضٰی عَلَیَّ اِلَّا لَیَالِیْ حَتّٰی جَآئَ نِیْ نَعْیُ مَوْتِہٖ ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَا ضَرَبَ الْعَدُوَّ بِسَوْطِہٖ۔‘‘
(الاستفتاء صفحہ 35‘36 ضمیمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 656 تا 658)
کا اخفاء کیا جائے۔ مَیں نے اُسے کہا کہ میرے نزدیک تو راہِ صواب یہی ہے کہ الہامِ الٰہی کی تعظیم کو مقدّم کیا جائے اور اس کا اخفاء میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی معصیت میں داخل اور ایک کمینہ فعل ہے اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت نہیں کہ ضَرر پہنچا سکے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد مَیں حکام کی تہدید سے نہیں ڈرتا۔ ہاں ہم اللہ تعالیٰ کی جناب میں جو فضل و کرم کا منبع ہے دُعا کریں گے کہ وہ ہمیں ہر ایک مصیبت اور فتنہ سے محفوظ رکھے اور اگر قضاء و قدر میں یہی لکھا ہے کہ یہ مصیبت ہم پر آئے تو ہم اِس ذِلّت والی زندگی پر ہی راضی ہیں اور مَیں اللہ تعالیٰ کی قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ اُس شریر انسان کو مُجھ پر مسلّط نہیں کرے گااور اُسے کسی آفت میں مُبتلا کرکے اپنے اِس بندہ کو جو اس کے حضور پناہ کا طالب ہے اس کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ جب میری یہ بات میرے یکتا مخلص فاضل ماہر علومِ دین مولوی حکیم نورالدین صاحب نے سُنی تو اُن کی زبان پر حدیث رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَجاری ہوئی اور میرے جواب کو سُنکر اور نیز مولوی صاحب سے یہ حدیث سُنکر جماعت کے لوگوں کو اطمینان حاصل ہوگیا اور انہوں نے اس وکیل کو جس نے مجھے ڈرایا تھا غلطی خوردہ قرار دیا اور اس کی تخویف کو ہیچ سمجھا۔ اس کے بعد مَیں نے تین روز تک سعد اللہ کی موت کیلئے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعائیں کیں جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی نازل کی رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ یعنی بعض لوگ جو عوام کی نظروں میں پراگندہ مُو اور غبار آلود ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور وہ مقام رکھتے ہیں کہ اگر وہ کسی بات کے متعلق قَسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قَسم کو ضرور پورا کردیتا ہے اور اس سے مُراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے شر سے تمہیں محفوظ کرے گا۔ سو مجھے اللہ تعالیٰ کی قَسم ہے کہ ابھی چند ہی روز گذرے تھے کہ اس کی ہلاکت کی خبر آگئی۔ سو اللہ تعالیٰ کا شُکر ہے کہ اُس نے اس دشمن کو اپنے کوڑے کا نشانہ بنایا۔
نوٹ از مرتب:۔ یہ وکیل خواجہ کمال الدین صاحب تھے ۔ چنانچہ الحکم جلد 38 نمبر 7 مؤرخہ 28 فروری 1935ء صفحہ 3‘4
4 دسمبر1906ء
(1) یُکْرِمُکَ اللّٰہُ اِکْرَامًا عَجِیْبًا۔1
پھر مجھے ایک مُہر دی گئی جو میری ہے۔ اُس میں لکھا ہے:۔
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
پھر الہام ہوا:۔ (2) اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔2
پھر الہام ہوا:۔
مبارک باد۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر49 مؤرخہ 6 دسمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر42مؤرخہ 10 دسمبر1906صفحہ 1)
16 دسمبر1906ء
’’بَشِّرْ ھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ وَ ذَکِّرْھُمْ تَذْکِیْرًا۔3 ‘‘
(بدر جلد 2 نمبر51 مؤرخہ 20 دسمبر 1906صفحہ 3۔الحکم جلد 10 نمبر43مؤرخہ 17 دسمبر1906صفحہ 1)
بقیہ حاشیہ: میں جہاں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی چشم دید روایات درج ہیں ان میں بھی یہ واقعہ تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ ذیل میں اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے:۔
واقعہ یوں ہے کہ جب حضرت اقدس ؑ نے حقیقۃ الوحی کے حاشیہ صفحہ 364 (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 378) میں سعداللہ لدھیانوی کے بیٹے کو نامَرد لکھا تو خواجہ صاحب چونکہ وکیل تھے اِس لئے بہت گھبرائے کہ اگر سعداللہ نے مقدمہ کردیا تو اس کے بیٹے کو نامَرد ثابت کرنا مشکل ہوجائے گا اِس لئے حضور ؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور اِس حاشیہ کو کاٹ ڈالیں ۔ حضورؑ نے فرمایا ’’مَیں نے خدا تعالیٰ کی مرضی سے لکھا ہے مَیں اس کو نہیں کاٹوں گا۔‘‘ خواجہ صاحب نے پھر کہا کہ حضور مجھے تو بہت گھبراہٹ رہے گی۔ فرمایا ’’ اگر سعداللہ مقدمہ کرے گا تو ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم آپ کو وکیل نہیں بنائیں گے۔‘‘ اِس پر وہ خاموش ہوگئے اور لاہور جاکر محمد علی صاحب کو خط لکھا کہ رات مجھے نیند نہیں آئی کہ اگر سعداللہ نے دعویٰ کردیا تو اس کو ثابت کرنا مشکل ہے۔ چَین کی دو 2 ہی صورتیں ہیں یا حضرت صاحب حاشیہ کاٹ ڈالیں یا سعداللہ مرجائے۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے جب حضور ؑ کی خدمت میں عرض کیا تو حضور ؑ نے سُن کر فرمایا ’’ کوئی تعجب نہیں کہ سعد اللہ جلد ہی مَر جائے۔‘‘ چنانچہ بعد میں حضور ؑ کو ’’ رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَالخ‘‘ الہام ہوا اور پھر چند روز کے بعد سعد اللہ کی مَوت کی نسبت تار آگئی اور حضرت نے تتمہ حقیقۃ الوحی میں مندرجہ بالا واقعہ لکھا۔
1 (ترجمہ) (1) خدا عجیب طور پر تیری بزرگی ظاہر کرے گا۔
2 (ترجمہ) (2) کیا اللہ اپنے بندہ کے واسطے کافی نہیں۔
3 (ترجمہ از مرتب) ان کو اللہ تعالیٰ کے (جلوہ نمائی کے) دنوں کی خوشخبری دے اور انہیں اس کی اچھی طرح یاددہانی کرا۔
1906ء
’’برتر گمان و وہم سے احمد ؐ کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیحُ الزّمان ہے‘‘ 1
( حقیقۃ الوحی صفحہ 274 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 286 )
1906ء
’’مجھے دو بیماریاں مدّت دراز سے تھیں ۔ ایک شدید دردِ سر ۔ جس سے مَیں نہایت بے تاب ہوجاتا تھا اور ہَولناک عوارض پَیدا ہوجاتے تھے اور یہ مرض قریباً پچیس برس تک دامنگیر رہی اور اس کے ساتھ دَورانِ سر بھی لاحق ہوگیا اور طبیبوں نے لکھا ہے کہ ان عوارض کا آخری نتیجہ مِرگی ہوتا ہے......مَیں دُعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ اِن امراض سے مجھے محفوظ رکھے۔ ایک دفعہ عالَمِ2 کشف میں مجھے دکھائی دیا کہ ایک بَلا سیاہ رنگ چار پائے کی شکل پر جو بھیڑ کے قد کی مانند اس کا قدتھا اور بڑے بڑے بال تھے اور بڑے بڑے پنجے تھے میرے پر حملہ کرنے لگی اور میرے دِل میں ڈالا گیا کہ یہی صرع ہے تب مَیں نے اپنا دہنا ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ دُور ہو تیرا مجھ میں حِصّہ نہیں ۔ تب خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ بعد اس کے وہ خطرناک عوارض جاتے رہے اور وہ دردِ شدید بالکل جاتی رہی صرف دَورانِ سر کبھی کبھی ہوتا ہے تا دو زرد رنگ چادروں کی پیشگوئی میں خلل نہ آوے۔
دوسری مرض ذیابیطس تخمیناً بیس برس سے ہے جو مجھے لاحق ہے.......اور ابھی تک بیس دفعہ کے قریب ہر روز پیشاب آتا ہے اور امتحان سے بول میں شکّر پائی گئی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹروں کے تجربہ کے رُو سے انجام ذیابیطس کا یا تو نزول الماء ہوتا ہے اور یا کاربنکل یعنی سرطان کا پھوڑا نکلتا ہے جو مُہلک ہوتا ہے۔ سو اسی وقت نزول الماء کی نسبت مجھے الہام ہوا:۔
نَزَلَتِ الرَّحَمَۃُ عَلٰی ثَلَاثٍ اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ
یعنی تین عضو پر رحمت نازل کی گئی آنکھ اور دو اَور عضو پر ۔ اور پھر جب کاربنکل کا خیال میرے دل میں آیا تو الہام ہوا:۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ
سو ایک عمر گذری کہ مَیں اِن بَلاؤں سے محفوظ ہوں۔ فالحمدللہ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ363 ‘364۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 376‘377)
1 اِس الہام کی تاریخ نزول کا معیّن طور پر پتہ نہیں لگ سکا ۔
2 چونکہ اِس کشف اور اِن الہامات کے وقت ِ نزول کا معیّن طور پر کوئی پتہ نہیں لگ سکا اِس لئے وقت ِ ذکر کی رعایت سے انہیں حقیقۃ الوحی کے زمانہ میں ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ (مرتب)
جنوری 1907ء
’’حضور نے تین چار روز کے الہام اور خواب سُنایا۔
(1) سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا۔ وَّکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقْتَدِرًا۔1
(2) رؤیا۔ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اُس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ
وہ بادشاہ آیا
دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اِس نے قاضی بننا ہے۔
فرمایا ۔ قاضی حَکَم کو بھی کہتے ہیں۔ قاضی وہ ہے جو تائید ِ حق کرے اور باطل کو رَدّ کرے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر1‘2 مؤرخہ 10 جنوری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر1مؤرخہ 10 جنوری1907صفحہ 1)
22 جنوری1907ء
’’ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔2‘‘
اِس وحی کے بعد مَیں کسی کو آواز مار کر اِس طرح سے پکارتا ہوں:۔
فتح۔فتح
گویا اُس کا نام فتح ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر4 مؤرخہ 24 جنوری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر3مؤرخہ 24 جنوری1907صفحہ 1)
23جنوری1907ء
’’اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ ۔ اَصْرِفُ عَنْکَ سُوْٓئَ الْاَقْدَارِ۔3‘‘
(بدر جلد 6 نمبر4 مؤرخہ 24 جنوری1907صفحہ 3)
یکم فروری1907ء
(1) ’’روشن نشان
1 (ترجمہ) عنقریب مَیں تیری عجیب عزت ظاہر کروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر شَے پر قادر ہے۔
2 (ترجمہ) بیشک اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اے اہلِ بَیت تم سے ناپاکی کو دُور کردے اور تمہیں پاک کرے اور مُطَہّر بنائے۔
3 (ترجمہ) تحقیق مَیں رحمن ہوں۔ مَیں بُری قضاء و قدر تجھ سے پھیر دوں گا۔ یعنی بعض بلائیں جو مقدّر ہیں وہ ظہور میں نہیں آئیں گی۔
(2) ہماری فتح ہوئی۔1 ‘‘
(بدر جلد 6 نمبر6 مؤرخہ7 فروری1907صفحہ 2۔الحکم جلد 11 نمبر5مؤرخہ 10 فروری1907صفحہ 1)
3 فروری1907ء
(1) ’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لَکُمُ الْیُسْرَ (2) اُلْحِقَ بِشِیْعَۃِ مُوْسٰی ۔ وَرَضِیَ اللّٰہُ بِہٖ قَوْلًا (3) اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔2
(بدر جلد 6 نمبر6 مؤرخہ7 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر5مؤرخہ 10 فروری1907صفحہ 1)
9 فروری1907ء
(1) ’’ خدا نے تیرے پر رحم کیا ہے۔(2) رَحِمَکَ اللّٰہُ۔3 (3) اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی4۔ (4) اُمّید بھاری۔ (5) ہر ایک مکان سے خیر دُعا ہے۔ (6)5 اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَبْرَارِ۔ (7) اَنْتَ مِنَ الْاَبْرَارِ۔تمام دُنیا کے6لئےایک۔
فرمایا ۔یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کے نہایت فضل و احسان اور رحمت کو ظاہر کرتا ہے۔ توریت میں ایسا ہی ایک فقرہ حضرت موسیٰ کے متعلق ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر7 مؤرخہ14 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر5مؤرخہ 10 فروری1907صفحہ 1)
1 (نوٹ از مرتب) بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3پر جب یہ الہام دوبارہ چھَپا ہے تو وہاں یہ الفاظ ہیں ’’ روشن نشان اور ہماری فتح۔‘‘ ممکن ہے کہ یہ دوسری قرأ ت ہو ۔ واللہ اَعلم۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے جو اِس الہام کا عربی میں ترجمہ فرمایا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ وہ عربی ترجمہ یہ ہے:۔اَلْاٰیَۃُ الْمُنِیْرَۃُ وَ فَتْحُنَا۔‘‘ (الاستفتاء صفحہ 76 ضمیمہ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 702)
2 (ترجمہ) (1) خدا تعالیٰ نے تمہاری آسانی او ر آرام کا ارادہ کیا ہے۔ (2) اِس شخص یا اِن اشخاص کو موسیٰ کے خاص گروہ یعنی اِس عاجز کے گروہ میں داخل کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے بموجب اس کے قول کے راضی ہوا۔ (3) اے اہلِ بَیت خدا نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تمہاری پلیدی دُور کردے اورتمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا۔
3 (ترجمہ) (2) خدا نے تجھ پر رحم کیا۔
4 (ترجمہ) بے شک تُو ہی بلند ہے۔
5 (ترجمہ) (6) بے شک خدا نیکوں کے ساتھ ہے۔ (7) تُو نیکو ں میں سے ہے۔
6 الہام کے یہ الفاظ الحکم کے پرچہ مذکورہ بالا میں ہیں۔ نیز بدر 4 اپریل 1907ء کے صفحہ 3 پر بھی یہی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی دستی تحریر کا عکس جو الفضل جلد 3 نمبر 35 مؤرخہ 12 ستمبر1915ء صفحہ 7 میں چھپا ہے اس میں بھی یہ الفاظ ہیں ’’ تمام دُنیا کیلئے ایک ۔‘‘ مگر بدر 14 فروری 1906ء کے پرچہ میں یہ الہام اِن الفاظ میں چھپا ہے ’’تمام دُنیا میں سے ایک ۔‘‘ ممکن ہے یہ سہو ِ کتابت ہو یا اس الہام کی یہ دوسری قرأ ت ہے۔ واللہ اعلم بالصّواب۔ (مرتب)
9 فروری1907ء
(1) ’’ اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک گڑھاقبر کے اندازہ کی مانند ہے اور ہمیں معلوم ہوا کہ اُس میں ایک سانپ ہے اور پھر ایسا خیال آیا کہ وہ سانپ گڑھے میں سے نکل کر کسی طرف بھاگ گیا ہے۔ اِس خیال کے بعد مبارک احمد نے اس گڑھے میں قدم رکھا تو اس کے قدم رکھنے کے وقت محسوس ہوا کہ وہ سانپ ابھی گڑھے میں ہے اور اس سانپ نے حرکت کی اور پھر ساتھ ہی اس سانپ نے باہر کی طرف نکلنا شروع کیا۔ جب باہر کی طرف بھاگنے لگا تب ایسا دکھائی دیا کہ گویا وہ ایک اژدہا ہے اور اس کی دو 2 ٹانگیں ہیں۔ ایک ٹانگ تو کِسی قدر پتلی ہے اور دوسری ٹانگ اِس قدر موٹی ہے جیسی کسی بھینس کی ٹانگ یا ہاتھی کی ٹانگ۔ مبارک احمد کی والدہ اُس سانپ کی طرف دَوڑی اور ایک چاقو سے اس کی پتلی ٹانگ کاٹ دی۔ پھر وہ اژدہا مکان کی دوسری طرف آگیا اور مَیں اُس کی طرف گیا اور میرے ہاتھ میں ایک چاقو تھا مَیں نے بڑی ٹانگ اس اژدہا کی اُس چاقو سے کاٹ دی۔ بہت آسانی سے کٹ گئی جیسے مُولی یا گاجر۔ اور بہت کچھ پانی زہریلا اس سانپ کا چاقو کے ساتھ آلُودہ رہا۔ مَیں نے اس چاقو کو ایک آگ میں جو قریب ہی سُلگ رہی تھی ‘ ڈال دیا اور اُس سے بڑی بدبو آئی۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اس کے زہر سے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے مگر کوئی نقصان نہ پہنچا بہرحال اس اژدہا کا کام تمام کردیا اور پھر ہم تینوں اس مکان سے جب باہر آئے تو ڈاکٹر عبداللہ سامنے آتے نظر آئے۔ جب قریب پہنچے تو مُسکرا کر مجھے کہنے لگے کہ تار آئی ہے کہ دو پُل ٹوٹ گئے۔ مَیں نے دریافت کیا کہ کون کون سا پُل اور کِس کِس مقام کا پُل ٹوٹا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو معلوم نہیں مگر یہ معلوم ہے کہ دو پُل جو ٹوٹے ہیں وہ پنجاب کے پُل ہیں۔ پھر اس کے بعد الہام ہوا:۔
(2) اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُ تَنَالُ مِنْہُ فَتْحًا عَظِیْمًا1۔
(3) زندگی بآرام ہوجانا پہلی زندگی سے ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر7 مؤرخہ14 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر6مؤرخہ 17 فروری1907صفحہ 1)
1 (ترجمہ) ایک اَور عید ہے جس میں تُو ایک بڑی فتح پائے گا۔
نوٹ:۔ 9 فروری 1907ء کو مجھے یہ الہام ہوا کہ اِنَّکَ اَنتَ الْاَعْلٰی۔یعنی غلبہ تجھی کو ہوگا اور پھر اسی تاریخ مجھے یہ الہام ہوا اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُ تَنَالُ مِنْہُ فَتْحًا عَظِیْمًا یعنی ایک اَور خوشی کا نشان تجھ کو ملے گا جس سے ایک بڑی فتح تیری ہوگی۔ جس میں یہ تفہیم ہوئی کہ ممالک ِ مشرقیہ میں سعداللہ لدھیانوی میری پیشگوئی اور مباہلہ کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی نمونیا پلیگ سے مَر گیا۔ یہ تو پہلا نشان تھا اور دوسرا نشان اس سے بہت ہی بڑا ہوگا جس میں فتحِ عظیم ہوگی۔ سو وہ ڈوئی کی موت ہے جو ممالک ِ مغربیہ میں ظہور میں آئی۔ دیکھئے پرچہ اخبار بدر 14 فروری 1907ء ۔ اِس سے خدا تعالیٰ کا وہ الہام پورا ہوا کہ ’’مَیں دو نشان دکھاؤں گا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 74 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 510) یہ الہام 7 جون 1906ء کو ہوا جس کے الفاظ یہ ہیں ’’دو نشان ظاہر ہوں گے۔‘‘ (دیکھئے تذکرہ صفحہ 534۔ الہام 7 جون 1906ء ) (مرتب)
10 فروری1907ء
(1) ’’1 دَعْنِیْ اَقْتُلْ مَنْ اٰذَاکَ ۔ اِنَّ الْعَذَابَ مُرَبَّعٌ وَّ مُدَوَّرٌ۔ (2) وَ ضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ ۔2 لَکَ رَحْمَۃٌ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر7 مؤرخہ14 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر6مؤرخہ 17 فروری1907صفحہ 1)
12 فروری1907ء
’’ ایک اَور خوشخبری (2) نُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَالْبَرَکَۃَ 3(3) آسمان ٹوٹ پڑا سارا۔ کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ (یہ انسان کا مقولہ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اِنسان کی طرف سے فرماتا ہے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔)
فرمایا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دہشت ناک آسمانی امر ہے ‘ اور محاورہ عرب میں آسمان سے مُراد وبال بھی ہوتا ہے مگر ہم کسی خاص پہلو پر زور نہیں دے سکتے کہ کیا مُراد ہے۔
(4) اُولٰٓئِکَ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔4‘‘
(بدر جلد 6 نمبر7 مؤرخہ14 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر6مؤرخہ 17 فروری1907صفحہ 1)
15 فروری1907ء
’’ (1) مَنْ ذَا الَّذِیْ ھُوَاَسْعَدُ مِنْکَ ۔5 (2)ایک 6 ہفتہ تک ایک بھی باقی نہیں رہے گا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر8 مؤرخہ21 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر7مؤرخہ 24 فروری1907صفحہ 1)
1 (ترجمہ) (1) مجھے چھوڑ ‘ تا مَیں اُس شخص کو قتل کروں جو تجھے ایذا دیتا ہے۔ دشمنوں کیلئے عذاب ہر چہار طرف سے ہے‘ اور اِردگرد سے گھیرے ہوئے ہے ۔ (2) ہم نے تیرا وہ بوجھ اُتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی تھی۔ تیرے لئے ایک رحمت ہے۔
2 بدر جلد 6 نمبر 14 مؤرخہ 4 اپریل 1907ء صفحہ3 پر جو یہ الہام دوبارہ چھپا ہے۔ اس میں اس کے آگے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ بھی ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) ہم تیرے اس خیر اور برکت کے گُن گاتے ہیں۔
4 (ترجمہ) یہ ایک ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم نشین خداکی رحمت سے محروم نہیں رہ سکتا۔
5 (ترجمہ ) وہ کون ہے جو تجھ سے زیادہ سعادت مند ہے۔
6 فرمایا۔ ’’ اِس کی تشریح نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ہفتہ سے مُراد کتنی مدّت ہے۔‘‘
(الحکم جلد 11 نمبر6مؤرخہ 17 فروری1907صفحہ 1)
’’ذکر ہوا کہ ا خبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون روز بروز ترقّی پکڑتی جاتی ہے۔ حضرت اقدس علیہ السّلام نے فرمایا
15 فروری1907ء
’’ 1 وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر8 مؤرخہ21 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر7مؤرخہ 24 فروری1907صفحہ 1)
18 فروری1907ء
’’(1) 2 کُلُّ الْفَتْحِ بَعْدَہٗ (2) مَظْھَرُالْحَقِّ وَالْعَلَآئِ3 کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔
یعنی ایک نشان ظاہر ہوگا جو تمام فتوحات کا مجموعہ ہوگا اور اُس وقت حق ظاہر ہوجائے گا اور حق کا غلبہ ہوگا۔ گویا خدا آسمان سے اُترے گا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر8 مؤرخہ21 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر7مؤرخہ 24 فروری1907صفحہ 1)
بقیہ حاشیہ: شاید وہ جو ہمارا الہام ہے’’ ایک ہفتہ تک ایک بھی باقی نہ رہے گا‘‘ یہ خاص اشخاص کے متعلق ہو اور اس کا ظہور اس شکل میں ہو۔ کل دہلی سے خط آیا ہے کہ مولوی عبدالمجید دہلوی جو ہمارا سخت معاند تھا یکایک مر گیا۔ ایسا ہی ایک اَور بڑے معاند کی مرگِ مفاجات کا ذکر تھا۔‘‘
(الحکم جلد 11 نمبر8مؤرخہ10 مارچ1907صفحہ 15)
1 (ترجمہ) ہر ایک چغل خور اور عیب گیر پر *** ہے۔
2 (1) سب فتح اس کے بعد ہے ۔ (2) وہ حق اور غلبہ کا مظہر ہوگا۔ گویا خدا آسمان سے اُترے گا۔
3 حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اِس الہام کی تشریح کے ضمن میں فرمایا:’’ 18 فروری کا الہام مَظْھَرُالْحَقِّ وَالْعَلَآئِ وہ الہام ہے جو اس سے پہلے پسرِ موعود کے متعلق ہوچکا تھا۔ جب مَیں نے یہ الہام پڑھا تو میرے ذہن میں آیا کہ یہ پیشگوئی دوبارہ بیان کی گئی ہے اور عجیب بات یہ نظر آئی کہ پہلی پیشگوئی بھی فروری میں کی گئی تھی اور یہ الہام بھی فروری کا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی وفات کا وقت قریب آیا یعنی آپ کی وفات سے قریباً سوا سال قبل اللہ تعالیٰ نے پھر اس پیشگوئی کو دُہرادیا تا ایک لمبا عرصہ گذر جانے کی وجہ سے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ منسُوخ ہوگئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ کُلُّ الْفَتْحِ بَعْدَہٗ کہ اِس نشان کے بعد اصل فتوحات ہوں گی۔ پھر آگے اسی سلسلہ میں یہ الہام ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ جب اِس پیشگوئی کا ظہور ہوگا تو چاروں سے طرف سے دشمن حملہ کرے گا۔ چنانچہ اس طرف مجھ پر اس پیشگوئی کا انکشاف ہوا اور ادھر پیغامیوںنے مخالفت کی آگ پُورے زور کے ساتھ بھڑکا دی اور طرح طرح کے اتہامات ‘ جھوٹ اور کذب بیانیوں سے کام لینا شروع کردیا مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتادیا تھا کہ ’’پسپاشُدہ ہجوم ۔‘‘ اس کامفہوم وہی ہے جو قرآن کریم کی آیت سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(القمر:46) کا ہے۔ یعنی سب دشمن جمع ہو کر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل و رُسوا کرے گا اور وہ شکست کھاجائیں گے۔ یہ الہام اس دوسرے الہام سے جو پسرِ موعود کے متعلق ہے بہت ملتا ہے کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔ یعنی جب پسرِ موعود ظاہر ہوگا تو حق آجائے گا اور باطل بھاگ جائے گا۔ باطل تو بھاگنے ہی کی اہلیّت رکھتا ہے۔‘‘
(الفضل جلد 32نمبر178مؤرخہ یکم اگست1944صفحہ3‘4)
20 فروری1907ء
’’(1) اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ۔1 (2) پسپاشدہ ہجوم۔ (3) افسوسناک خبر آئی ہے۔
فرمایا۔ اِس الہام پر ذہن کا اِنتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا مگر یہ اِنتقالِ ذہن بعد بیداری ہوا۔ الہام بھی شاید اس کے متعلق ہو۔
(4) بہتر ہوگا کہ اَور شادی کرلیں۔
فرمایا۔ معلوم نہیں کہ کِس کی نسبت یہ الہام ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر8 مؤرخہ21 فروری1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر7مؤرخہ 24 فروری1907صفحہ 1)
20 فروری1907ء
’’ خدا فرماتا ہے کہ:۔
مَیں2 ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتحِ عظیم ہوگی۔ وہ عام دُنیا کیلئے ایک نشان ہوگا اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا۔ چاہئے کہ ہر ایک آنکھ اُس کی مُنتظر رہے کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں‘ اُس کی طرف سے ہے ۔ مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے۔‘‘
(اشتہار 20 فروری 1907ء مندرجہ اندرونی ٹائٹل پیج ’قادیان کے آریہ اور ہم‘ صفحہ 2۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 418۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 567)
1 (ترجمہ) (1) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑاہوں گا اور اس کے ملامت کنندہ کو ملامت کروں گا۔
2 (الف) ’’ڈوئی اِس پیشگوئی کے بعد اِس قدر جلد مَر گیا کہ ابھی پندرہ دن ہی اس کی اشاعت پر گذرے تھے کہ ڈوئی کا خاتمہ ہوگیا۔ پس ایک طالب ِ حق کیلئے یہ ایک قطعی دلیل ہے کہ یہ پیشگوئی خاص ڈوئی کے بارے میں تھی کیونکہ اوّل تو اس پیشگوئی میں یہ لکھا ہے کہ وہ فتحِ عظیم کا نشان تمام دُنیا کیلئے ہوگا اور دوسرے یہ لکھا ہے کہ وہ عنقریب ظاہر ہونے والا ہے۔ پس اِس سے زیادہ عنقریب اَور کیا ہوگا کہ اِس پیشگوئی کے بعد بَد قِسمت ڈوئی اپنی زندگی کے بیس دن بھی پورے نہ کرسکا اور خاک میں جا ملا۔ جن پادری صاحبان نے آتھم کے بارہ میں شور مچایا تھا اب اُن کو ڈوئی کی موت پر ضرور غور کرنی چاہئے ۔‘‘منہ
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ75 حاشیہ۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 511حاشیہ)
(ب) ’’اب ظاہر ہے کہ اِس سے بڑھ کر اَور کیا معجزہ ہوگا۔ چونکہ میرا اصل کام کسرِ صلیب ہے سو اُس کے مَرنے سے ایک بڑا حصّہ صلیب کا ٹوٹ گیا کیونکہ وہ تمام دُنیا سے اوّل درجہ پر حامیِ صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دُعا سے تمام مسلمان ہلاک ہوجائیں گے اور اسلام نابُود ہوجائے گااور خانہ کعبہ ویران ہوجائے گا۔ سو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا......پس مَیں قَسم کھاسکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ77۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 513)
23 فروری1907ء
’’ (1) 1وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔ (2) سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔
یہ اِس طرف اشارہ ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ خدا کے نشانوں سے انکار کی گنجائش نہیں رہے گی اور نشان ایسے طور سے کھُلیں گے کہ مُنہ بند ہوجائیں گے۔
(3) رؤیامیں گویا مَیں کہتا ہوں یا کِسی نے کہا ہے کہ :۔
اَب جنازہ جاکر پڑھیں گے
گویا کِسی کا جنازہ ہے جو پڑھا جاوے گا۔
(4) لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔2
کِسی دوست کو اس میں تسلّی دی گئی ہے گویا مَیں تسلّی دوں گا۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر9مؤرخہ28 فروری1907صفحہ 3)
25 فروری1907ء
’’ (1) مِنَ النَّاسِ وَ الْعَامَّۃِ۔3
فرمایا ۔ یعنی مِنْ خَوَاصِّ النَّاسِ وَ الْعَآمَّۃِ۔ یہ طاعون کی طرف اشارہ ہے کہ اِس مرتبہ طاعون کے حملہ سے کچھ خاص لوگ بھی مَریں گے جو معزز ہوتے ہیں یا سفید پوش ہوتے ہیں اور عام لوگوں میں بھی مَری پڑے گی۔
(2) لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ۔4
اِ س الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں سے بھی کچھ لوگ طاعون سے مَریں گے اور یہ مَرنا الہام اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ کے مخالف نہیں کیونکہ اٰوٰی سے مُراد الہامِ الٰہی میں یہ ہے کہ آخر قادیان کے لوگ بچائے جائیں گے۔ بکُلّی استیصال نہیں ہوگا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر9مؤرخہ28 فروری1907صفحہ 3)
26 فروری1907ء
’’ تُحفۃ ُ الملوک‘‘
اِس کے معنے ابھی نہیں کھُلے۔ بہرحال ملوک سے اس کو کچھ نسبت ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر9مؤرخہ28 فروری1907صفحہ 3)
1 (ترجمہ) (1) جب کوئی نشان دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ معمولی بات ہے کوئی خارق عادت امر نہیں یا کوئی فریب ہے۔ (2) عنقریب یہ لوگ بھاگ جائیں گے اور پیٹھیں پھیر لیں گے۔
2 (ترجمہ) غم نہ کر خدا ہمارے ساتھ ہے۔
3 یہ الہام 7 مارچ 1907ء کو دوبارہ بھی ہوا۔ (بدر جلد 6 نمبر11مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3) (مرتب)
4 (ترجمہ) اگر تیری عزت کا پاس نہ ہوتا تو مَیں تمام قادیان کو ہلاک کردیتا۔
28 فروری1907ء
’’سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی1۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر10 مؤرخہ7 مارچ1907صفحہ 1۔الحکم جلد 11 نمبر8مؤرخہ 10 مارچ1907صفحہ 1)
28 فروری1907ء
’’خوش آمدی ۔ نیک آمدی2۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر8مؤرخہ 10 مارچ1907صفحہ 1)
2 مارچ1907ء
’’ (1) اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔3
تفہیم یہ ہوئی ہے کہ اے اہلِ خانہ خدا تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے تا معلوم ہو کہ تم اس کے ارادوں پر ایمان رکھتے ہو یا نہیں اور تا وہ اے اہلِ بَیت تمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا۔
اور پھر انہیں کی طرف اشارہ کرکے الہام ہوا:۔
(2) ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر۔
پھر الہام ہوا:۔
(3) یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ۔4
اِس میں تفہیم یہ ہوئی کہ اے اہلِ بَیت کسی دوسرے کو تکیہ گاہ مت بنا۔ وہی خدا تیرا متکفّل اور رازق ہے جس نے تجھے پَیدا کیا۔
پھر الہام ہوا:۔
(4) یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ اللّٰہَ خَلَقَکُمْ۔
ترجمہ یہ ہے ۔ اے اہلِ بَیت خدا سے ڈرو اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرو اور نہ کوئی بات منہ سے نکالو۔ وہی خدا ہے جس نے تمہیں پَیدا کیا۔
اور پھر میری طرف سے بطور حکایت الہام ہوا:۔
(5) اے میرے اہلِ بَیت ! خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے۔
1 چنانچہ اُسی دن بارش ہوگئی اور 2 مارچ کے بعد کی رات کو سخت زلزلہ آیا ۔ (بدر و الحکم مذکورہ بالا)
2 (ترجمہ از مرتب) تم خوش آئے ہو اور اچھے آئے ہو۔
3 (ترجمہ از مرتب) اے اہلِ بَیت ! خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دُور کرے اور تا تمہیں پاک کرے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے۔
4 (ترجمہ) (3) اے لوگو! تم اپنے ربّ کی پرستش کرو۔ وہ خدا جس نے تمہیں پَیدا کیا۔
اور پھر مجھے مخاطب کرکے الہام ہوا:۔
(6) اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ۔ اَنْتَ الَّذِیْ طَارَاِلَیَّ رُوْحُہٗ۔
یعنی تُو مجھ سے ظاہر ہوا اور مَیں اس زمانہ میں تجھ سے ظاہر ہونے والا ہوں۔ تُو وہ ہے جس کی رُوح نے میری طرف پرواز کیا۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر10 مؤرخہ7 مارچ1907صفحہ 1۔الحکم جلد 11 نمبر8مؤرخہ 10 مارچ1907صفحہ 1)
7 مارچ1907ء
(1) 1 رَ بَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَھُمْ۔
(2) اَعْجِبْتُمْ اَنْ تَمُوْتُوْا۔
(3) ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں۔
معلوم نہیں کہ یہ کن لوگوں کی طرف یا کِس کی2 طرف اشارہ ہے۔
(بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر9مؤرخہ 17 مارچ1907صفحہ 1)
7 مارچ1907ء
(ا) ’’ پچیس دن (یا یہ کہ پچیس دن تک)
اور پچیس دن کے الہام میں یہ اشارہ ہے کہ 7 مارچ سے پچیس دن پُورے ہونے کے سر پر یا 7 مارچ 1907ء سے پچیس دن تک کوئی نیا واقعہ ظاہر ہوگا اور ضرور ہے کہ تقدیرِ الٰہی اِس واقعہ کو روک رکھے جب تک کہ 7 مارچ 1907ء سے پچیس دن گذر نہ جاویں یا یہ کہ 7 مارچ 1907ء سے پچیس دن تک یہ واقعہ ظہور میں آجائے گا۔ اگر صرف پچیس دن کے لحاظ سے معنے کئے جاویں تو اس طور سے ضرور ہے کہ اِس واقعہ کے ظہور کی یکم اپریل سے اُمّید رکھی جائے کیونکہ الہامِ الٰہی کے رُو سے ساتویں مارچ پچیس دن کے شمار میں داخل ہے۔ اِس صورت میں پچیس دن مارچ کی اکتیس 31 تاریخ تک پُورے ہوجاتے ہیں ۔ تو اِس طور پر پیشگوئی کے ظہو رکا مہینہ اپریل ٹھہرتا ہے۔ مگر یہ سوال کہ وہ واقعہ کیا ہے جس کی پیشگوئی کی گئی ہے؟ اس کا ہم اِس وقت کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے بجُز اِس کے کہ یہ کہیں کہ کوئی ہَولناک یا تعجب انگیز واقعہ ہے کہ ظہور کے بعد پیشگوئی کے رنگ میں ثابت ہوجائے گا اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ واقعہ ہماری ذات کے متعلق ہے یا ہمارے دوستوں کے متعلق یا دشمنوں کے متعلق۔ جس امر کو خدا نے پوشیدہ کیا ہے ہم ظاہر نہیں کرسکتے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر9مؤرخہ 17 مارچ1907صفحہ 1)
1 (ترجمہ) (1) اے خدا ! ہم میں اور ہمارے دشمنوں میں فیصلہ کر۔ (2) کیا تم تعجب کرتے ہو کہ تم موت کا شکار ہوجاؤ۔
2 واقعات نے بتادیا کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔ چنانچہ جب لاہور میں حضور ؑ کی وفات ہوئی باجود یہ کہ وہاں ہی صندوق تیار کیا گیا تھا اور بٹالہ تک آپ کو صندوق میں رکھا گیا مگر پھر کِسی مصلحت کے ماتحت جنازہ صندوق سے نکال کر صرف کفن میں لپیٹے ہوئے قادیان میں چارپائی پر اُٹھا کر لایا گیا۔ (مرتب)
(ب) ’’اِس کے بعد جس رنگ میں یہ پیشگوئی ظہور میں آئی وہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک 31 مارچ 1907ء کو جس پر 7 مارچ سے پچیس دن ختم ہوتے ہیں‘ ایک بڑا شعلہ آگ کا جس سے دل کانپ اُٹھے ‘ آسمان پر ظاہر ہوا اور ایک ہَولناک چمک کے ساتھ قریباً سات سَو میل کے فاصلہ تک (جو اَب تک معلوم ہوچکا ہے یا اس سے بھی زیادہ) جابجا زمین پر گِرتا دیکھا گیا اور ایسے ہَولناک طور پر گِرا کہ ہزار ہا مخلوقِ خدا اُس کے نظّارہ سے حیران ہوگئی اور بعض بیہوش ہوکر زمین پر گِر پڑے اور جب اُن کے منہ میں پانی ڈالا گیا تب اُن کو ہوش آئی۔ اکثر لوگوں کا یہی بیان ہے کہ وہ آگ کا ایک آتشی گولہ تھا جو نہایت مہیب اور غیر معمولی صورت میں نمودار ہوا اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ زمین پر گِرا اور پھر دُھواں ہوکر آسمان پر چڑھ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ82۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 518)
7 مارچ1907ء
’’مِنَ النَّاسِ وَالْعَآمَّۃِ
(اَیْ مِنْ خَوَآصِّ النَّاسِ وَالْعَآمَّۃِ) یعنی طاعون خاص لوگوں میں بھی پڑے گی اور عام لوگوں میں بھی۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر9مؤرخہ 17 مارچ1907صفحہ 1)
7 مارچ1907ء
(الف) ’’نَعَیْتُ1۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ۔‘‘
(الاستفتاء صفحہ 76ضمیمہ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ702)
(ب) ’’مَیں تجھے ایک کاذب کی موت کی خبر دیتا ہوں۔ خدا سچّوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3)
مارچ1907ء
’’قہری تجلّی ہوگی۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3)
مارچ1907ء
’’وقت کو پالے۔ قہرِ الٰہی کی تجلّی ہَے۔ دشمن ہلاک ہوگیا۔ آج مبارک دن ہَے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3)
مارچ1907ء
’’ذلیل انسا ن کا بیڑا2غرق ہوگیا۔ تیری دُعا قبول کی گئی۔ جو لوگ تیری طرف توجہ نہیں کرتے وہ خدا
1 یہ پیشگوئی ڈوئی کے متعلق تھی جو پوری ہوگئی۔ (تشحیذالاذہان جلد 2 نمبر 2‘3۔ مارچ 1907ء صفحہ 140 /40)
2 حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اسے (جبکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی زندگی میں تشحیذالاذہان کے ایڈیٹر تھے) ایک آریہ سومراج نامی ایڈیٹر اخبار شبھ چنتک پر چسپاں فرماتے ہوئے لکھا کہ ’’وحی کے مُنکر گروہ کا ایک چالاک اور دریدہ دہن ذلیل انسان مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق آج (9 اپریل 1907ء ) طاعون سے مَر گیا اور کتاب ’’قادیان
کی طرف بھی توجہ نہیں کرتے۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3)
مارچ1907ء
’’خدا تجھے ایک غیرمعمولی عزت دے گا اور ہر ایک نعمت کے دروازے تیرے پر کھولے جاویں گے۔ خدا یہ ارادہ نہیں کہ تجھے مشکلات میں ڈالے بلکہ وہ ہر ایک بات میں تیرے لئے سہولت پَیدا کرے گا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3)
9 مارچ1907ء
’’ہزاروں آدمی تیرے پَروں کے نیچے ہیں۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر9مؤرخہ 17 مارچ1907صفحہ 1)
فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رسول آتا ہے اس کے ذریعہ سے ایک باطنی پرورش انسانوں کی ہوتی ہے ۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے اوّل نزولِ فیضان اس پر ہوتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے دوسروں کو بھی حاصل ہوتا ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 4)
12 مارچ1907ء
(1) ’’ 1 یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ۔ (2) اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَامِنْکَ۔ (3) ظُھُوْرُکَ ظُھُوْرِیْ۔ (4) اَنْتَ الَّذِیْ طَارَ اِلَیَّ رُوْحُہٗ۔ (5) اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ ذُوالْجُوْدِ وَالْعَطَآئِ۔ (6) اُنْزِلُ الرَّحْمَۃَ عَلٰی مَنْ اَشَآئُ۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر9مؤرخہ 17 مارچ1907صفحہ 1)
13 مارچ1907ء
(1)لاہورمیں ایک بے شرم ہے۔ (2) 2 وَیْلٌ لَّکَ وَلِاِفْکِکَ۔
بقیہ حاشیہ: کے آریہ اور ہم‘‘ اسی شخص کی دریدہ دہنی کی وجہ سے لکھنی پڑی تھی جس میں حضرت مسیح موعود نے خدا سے دُعا مانگی تھی کہ اب ہمارا اور ان کا فیصلہ کرلو۔ خدا نے دُعا سُنی اور فیصلہ کردیا۔‘‘
(تشحیذالاذہان جلد 2 نمبر 4 بابت ماہ اپریل 1907ء صفحہ 153 /138)
1 (ترجمہ) (1) اے عیسیٰ ! مَیں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھالوں گا۔ (2) تُو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے۔ (3) تیرا ظہور میرا ظہور ہے۔ (4) تُو وہ ہے جس کے رُوح نے میری طرف پرواز کیا۔ (5) مَیں خدا ہوں صاحب ِ جُود اور بخشش۔ (6) جس پر چاہتا ہوں رحمت نازل کرتا ہوں۔
2 (ترجمہ ) (2) اے مخالف ! تیرے پر *** اور تیرے جھُوٹ پر۔
(3)1 اِنِّیْ نَعَیْتُ۔(4) اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا۔ (5) اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ۔
یہ پیشگوئی آج پوری ہوگئی کہ آج ہی سِول میں خبر آئی ہے کہ ڈوئی جس کے عذاب کے بارے میں مَیں نے خبر دی تھی وہ مَر گیا ۔ یہ وہ ڈوئی ہے جس کو مباہلہ کیلئے بُلایا گیا تھا۔
(6) ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دیئے جائیں گے۔
(7) 2 اِ نَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَ کُمْ تَطْھِیْرًا۔
یہ تیسری مرتبہ الہام ہے ۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔
(8) 3 اَ عْجَبَنِیْ مَوْتُکُمْ۔
(9) یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قِسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت ہی سخت ہوگی۔
(10) ریاست کابل میں قریب پچاسی ہزار کے آدمی مریں گے۔
(11) 4 وَا سْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ۔
یہ اِس آیت کی طرف اشارہ ہے:۔ 5 وَ غِیْضَ الْمَآئُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ۔‘‘ (ہود:45)
(بدر جلد 6 نمبر11 مؤرخہ14 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر9مؤرخہ 17 مارچ1907صفحہ 1)
18 مارچ1907ء
(ا) (1) قدرت کے دروازے کھُلے ہیں۔
(2) نیکی یہی ہے کہ خدا کے احکام کو پُورا کرنا۔
(3) تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں۔
(4) 6 اِنِّیْٓ اَنَرْتُکَ وَ اٰثَرْتُکَ۔
(5) جو 7 دعائیں آج قبول ہوئیں ان میں قوّت اور شوکت ِ اسلام بھی ہے۔
1 (ترجمہ) (3) مَیں نے ایک شخص کی موت کی خبر دی۔ (4) مَیں ہی خدا ہوں میرے سوا اَور کوئی خدا نہیں۔ (5) خدا سچوں کے ساتھ ہوتاہے۔
2 (ترجمہ ) (7) خدا نے ارادہ کیا اے اہلِ خانہ کہ تمہاری پلیدی کو دُور کرے اور تمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا۔
3 (ترجمہ) (8) تمہاری موت نے مجھے تعجب میں ڈالا۔
4 (ترجمہ) (11) کشتی جو دی پر ٹھہر جاوے گی۔
5 (ترجمہ از مرتب) اور پانی خشک کردیا گیا اور فیصلہ صادر کردیا گیا اور وہ (کشتی ) جودی (پہاڑ) پر ٹھہر گئی۔
6 (ترجمہ) (4) مَیں نے تجھے روشن کیااور تجھے برگزیدہ کیا۔
7 ’’میرے ایک دوست سیّدناصر شاہ اور سیر اِس گردش اور تشویش میں مُبتلا ہوگئے تھے کہ وہ گلگت میں تبدیل کئے گئے تھے اور وہ سفر شدید اور تکالیف ِ شاقہ کا تحمل نہیں کرسکتے تھے آخر وہ رخصت لے کر دُعا کرانے کیلئے میرے پاس
(6) تیرے لئے ایک خزانہ مخفی تھا۔
(7)کُلٌّ لَّکَ وَلِاَمْرِکَ۔1
(8) یا اللہ ! اب شہر کی بَلائیں بھی ٹال دے 2
(9) ایک موسیٰ3 ہے مَیں اس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اس کو عزت دوں گا۔
(10) اَجُرُّ الْاَثِیْمَ وَاُرِیْہِ الْجَحِیْمَ۔
(ترجمہ حسب ِ تفہیم) اور جس نے میرا گناہ کیا ہے مَیں اس کو گھسیٹوں گا اور اس کو دوزخ دکھلاؤں گا۔
(11) بَلَجَتْ اٰیَاتِیْ۔4
بقیہ حاشیہ: آئے تا وہ جمّوں میں متعیّن ہوں اور گلگت میں نہ جائیں۔ اور یہ اَمر بظاہر محال تھا کیونکہ گلگت میں ان کی تبدیلی ہوچکی تھی اِس لئے وہ نہایت مُضطرب تھے۔ مَیں نے ایک رات ان کے لئے اور نیز کئی اَور دُعائیں کیں اور شوکت ِ اسلام کیلئے بھی دُعا کی اور نمازِ تہجد میں دعائیں کرتا رہا تب تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ خدا نے مجھے خبر دی کہ تمام دعائیں قبول ہوگئیں جن میں قوّت اور شوکت ِ اسلام بھی ہے۔ اِس پَیرایہ میں مجھے اطلاع دی گئی کہ سیّدناصر شاہ کی تبدیلی مُلتوی کی گئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ خدا نے اُن کے بارے میں میری دعا قبول کی......فی الفور مَیں نے اُن کو اطلاع دے دی کہ تمہاری نسبت میری دعا قبول ہوگئی۔ پھر بعد اس کے شاید تیسرے دن یا چوتھے دن ریاست کے کسی اہلکار کا اُن کو خط آگیا کہ آپ کی تبدیلی ملتوی کی گئی۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ157‘158۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ596)
1 (ترجمہ) سب تیرے لئے اور تیرے کام کیلئے ہے۔
2 گو اس کے معنی اَور بھی ہوں مگر ایک معنی اِس کے یہ بھی ہیں کہ یہ سخت بدزبان آریہ سوم راج اور اچھر جوہر ہفتہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے اخبار چھاپتے تھے یہ بھی اس شہر کی بَلائیں تھیں۔ خدا تعالیٰ نے ان کو ٹال دیا اور جہنّم واصل کردیا۔
(بدر جلد 6 نمبر17 مؤرخہ25 اپریل1907صفحہ 7)
فرمایا:۔’’ جب سے کہ یہ الہام ہوا ہے......تب سے قادیان میں گویا امن ہے یہ بھی ایک تازہ نشان ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر13 مؤرخہ28 مارچ1907صفحہ 4)
3 (نوٹ از مرتب) الحمدللہ یہ پیشگوئی روزِ اشاعت کے سترھویں دن پُوری ہوگئی۔ حضرتِ اقدس کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے الہام میں موسیٰ رکھا ہے۔ حضور کے مقابل پر بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ نے بھی موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا۔ خدا تعالیٰ نے حضور کو فرمایا کہ موسیٰ تُو ہی ہے اَور کوئی موسیٰ نہیں۔ چنانچہ اپریل 1907ء کے پہلے ہفتہ میں بروز اتوار بابو الٰہی بخش طاعون سے ہلاک ہوگیا۔ الہام نمبر 10 کے قبل از وقت بتانے سے اس کی ذِلّت اور نمایاں ہوجاتی ہے۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 5)
4 (ترجمہ) میرے نشان ظاہر ہوجائیں گے۔

(12) 1قُلِ ا للّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔
(بدر جلد 6 نمبر12 مؤرخہ21 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر10مؤرخہ 24 مارچ1907صفحہ 1)
(ب) بَلَجَتْ اٰیَاتِیْ ۔ تِلْکَ اٰیَاتٌ ظَھَرَتْ بَعْضُھَا خَلْفَ بَعْضٍ۔ اَجُرُّالْاَثِیْمَ وَاُرِیْہِ الْجَحِیْمَ ۔ اِنِّیْٓ اٰثَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ۔
(ترجمہ) میرے نشان روشن ہوں گے۔ بعض نشان بعض کے بعد ظہور میں آئیں گے تا اُس موسیٰ کی عزت ظاہر کی جائے۔ پر جس نے میرا گناہ کیا ہے مَیں اس کو گھسیٹوں گا اور اس کو دوزخ دکھلاؤں گا۔ مَیں نے تجھ کو چُن لیا اور اختیار کیا۔ تیری عاجزانہ راہیں مجھے پسند آئیں۔
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ84 حاشیہ)
19 مارچ1907ء
’’(1) خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے کہ:۔
مَیں نے خدا کی مرضی کیلئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے۔
اِس پر مَیں نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ:۔
اسی سے تو تم پر حُسن چڑھا ہے
یہ فقرہ اس فقرہ سے مشابہ ہے جو زبور میں ہے کہ تُو حُسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے۔
(2) اَرَدْتُّ زَمَانَ الزَّلْزَلَۃِ۔2
اِس سے کسی معمولی زلزلہ کی طرف اشارہ نہیں معلوم ہوتا بلکہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو بڑے زلازل کا ارادہ کیا ہے یہ ان میں سے ایک ہے جس کا وقت قریب 3 آگیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر12 مؤرخہ21 مارچ1907صفحہ 3و نمبر 13 مؤرخہ 28 مارچ 1907ء صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر10مؤرخہ 24 مارچ1907صفحہ 1 و نمبر 11 مؤرخہ 31 مارچ 1907ء صفحہ1)
24 مارچ1907ء
(1) ’’ لاکھوں4 انسانوں کو تہ و بالا کردوں گا۔
1 (ترجمہ) کہہ دے اللہ ہے پھر ان کو چھوڑدے اپنی بیہودگی میں لعب کریں۔
2 (ترجمہ) مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ زلزلہ کا زمانہ آجاوے۔
3 چنانچہ ’’12 اور13 اپریل کی درمیانی شب کو 12بجے کے قریب پنجاب کے اکثر مقامات میں زلزلہ آیا.....(اور) 14 اپریل 1907ء کو میکسیکو میں خطرناک زلزلہ آیا۔ چلپان‘ سنگو اور جلاپہ کے شہر برباد ہوگئے۔‘‘ (الحکم جلد 11 نمبر14 مؤرخہ24 اپریل1907صفحہ6)
4 یہ الہام جب بدر 4 اپریل 1907ء صفحہ 3 میں دوبارہ چھپا ہے تو اس میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’لاکھوں آدمی تہ و بالا کردوں گا۔‘‘ (مرتب)
(2) 1 اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر13 مؤرخہ28 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر11مؤرخہ 31 مارچ1907صفحہ 1)
25 مارچ1907ء
’’ (1) وَ الضُّحٰی وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰی مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی وَلَدَا رُالْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی۔
(2) وَاللّٰہِ لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ۔
(3) اِکْرَامٌ تُسْمِعُ بِہِ الْمَوْتٰی۔
(4) عِلْمُہٗ عِنْدَ رَبِّیْ ۔ لَایَضِلُّ رَبِّیْ وَلَایَنْسٰی۔
(5) لَا تَطَأُ قَدَمُ الْعَآمَّۃِ قَدَمَ النَّبِیِّ۔
(6) بَلَغْتُ قَدَمَ الرَّسُوْلِ۔
(7) اِنِّیْ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر13 مؤرخہ28 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر11مؤرخہ 31 مارچ1907صفحہ 1 )
27 مارچ1907ء
’’ (1) 3 کُلُّ وَ احِدٍ مِّنْھُمْ ثَلَجَ (2) اِنْقَلَبَ عَلٰی عَقِبَیْہِ
1 (ترجمہ) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ یعنی اس کی نصرت اور حفاظت کروں گا۔
2 (ترجمہ) (1) ہم قَسم کھاتے ہیں وقت ِ چاشت کی اور رات کی جبکہ ڈھانپ لیوے کل چیزوں کو کہ تیرے پروردگار نے تجھے چھوڑ نہیں دیا اور نہ تجھ سے ناخوش ہوا ہے اور البتہ آخرت کا گھر تیرے لئے اس دُنیا کی نسبت بہت بہتر ہے۔
(2) قَسم ہے اللہ کی کہ اگر تمہارا اِکرام ہم کو منظور نہ ہوتا تو یہ مقام ہلاک ہوجاتا۔
(3) تیرا ایسا اِکرام کروں گا کہ اس کے ذریعہ سے تُو مُردوں کو سُنائے گا۔
(4) اِس کا عِلم میرے ربّ کو ہے۔ میرا ربّ نہ بے راہ ہوتا ہے اور نہ بھُولتا ہے۔
(5) عام لوگوں کا قدم نبی کے قدم کو پامال نہیں کرسکتا۔
(6) مَیں رسول کے قدم پر پہنچ گیا ہوں۔
(7) بے شک مَیں ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والا ہوں۔
3 (ترجمہ از مرتب) (1) ان میں سے ہر ایک کی دِلجمعی ہوگئی۔ (2) وہ اپنی ایڑیوں کے بَل پھِر گیا۔
(3) لَقَدْ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا 1۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر13 مؤرخہ28 مارچ1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر11مؤرخہ 31 مارچ1907صفحہ 1)
28 مارچ1907ء
’’ (1) میرا دشمن ہلاک ہوگیا۔ ہُن اُسدا لیکھا خدا نال جاپیا اے۔
یعنی عنقریب میرا دشمن ہلاک ہوجائے گا اور پھر اس کا خدا سے معاملہ پڑے گا۔
(2) میرے دشمن ہلاک ہوگئے۔
یعنی آئندہ عنقریب ہلاک ہوں گے۔
(3) اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَبْرَارِ2۔‘‘
(4) کوئی درباری میرے حلقہ ٔ اطاعت سے گذرنے نہ پاوے۔ کوئی درباری اس جُرم پر سزا سے محفوظ نہیں رہے گا۔
یعنی جو شخص خدا سے تعلق رکھنے والا ہے اس کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا جب تک وہ مجھے قبول نہ کرے اور جو شخص اس حُکم سے لاپرواہ ہے وہ سزا سے محفوظ نہیں رہے گا۔
(5) سلطان عبدالقادر
اِس الہام میں میرا نام سلطان عبدالقادر رکھا گیا۔ کیونکہ جس طرح سلطان دوسروں پر حکمران اور افسر ہوتا ہے۔ اسی طرح مجھ کو تمام روحانی درباریوں پر افسری عطا کی گئی ہے۔ یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کا تعلق نہیں رہے گا جب تک وہ میری اطاعت نہ کریں اور میری اطاعت کا جوآ اپنی گردن پر نہ اُٹھائیں۔ یہ اسی قِسم کا فقرہ ہے جیسا کہ یہ فقرہ کہ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہِ۔یہ فقرہ سَیّد عبدالقادر رضی اللہ عنہ کا ہے جس کے معنے ہیں کہ ہر ایک ولی کی گردن پر میرا قدم ہے۔
(6) اُحِلَّ لَہُ الطَّیِّبَاتُ۔ قُلْ مَا فَعَلْتُ اِلَّا مَآ اَمَرَنِیَ اللّٰہُ۔
(تشریح) اِس سلطان عبدالقادر کیلئے وہ تمام چیزیں حلال کی گئیں جو پاک ہیں۔ کہہ مَیں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو خدا کے حکم کے برخلاف ہو۔ بلکہ وہی کیا جو خدا نے مجھے فرمایا۔
(7) پھر بعد اس کے کشفی رنگ میں وہ مقبرہ مجھے دکھلایا گیا جس کا نام خدا نے بہشتی مقبرہ رکھا ہے اور
1 (ترجمہ از مرتب) (3) بے شک تجھے اللہ نے ہم پر ترجیح دی۔
2 (ترجمہ) خدا نیکوں کے ساتھ ہے۔
پھر الہام ہوا:۔
کُلُّ مَقَابِرِالْاَرْضِ لَا تُقَابِلُ ھٰذِہِ الْاَرْضَ
یعنی زمین ِ ہند کے تمام قبرستان اِس زمین سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یعنی اِس زمین کو جو برکتیں دی گئیں وہ برکتیں تمام پنجاب اور ہندوستان میں کسی اَور قبرستان کو نہیں دی گئیں۔
(8)پھر مَیں نے دیکھا کہ ایک راہ پر چل رہا ہوں اور میرے ساتھ میرا لڑکا مبارک احمد اور اُس کی والدہ ہے اور مجھے خیال گذرتا ہے کہ میرزا غلام قادر مرحوم بھی (جو میرے بھائی ہیں) میرے ساتھ ہیں اور راہ میں اِس قدر زنبور ہیں کہ ٹِڈّی دَل کی طرح زمین پر پھَیل رہے ہیں اور ایک میری ناف کے اندر بیٹھ گیا ہے اور پھر اُڑ گیا مگر کسی نے ضرر نہیں پہنچایا اور پھر ہم سب ایک مسجد میں داخل ہوگئے ہیں اور مسجد میں بھی کروڑ ہا زنبور ہیں مگر ہم ان کی شرّ سے محفوظ رہے ہیں۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر11مؤرخہ 31 مارچ1907صفحہ 2)
29 مارچ1907ء
’’ (1) اے اَزلی اَبدی خدا ! مجھے زندگی کا شربت پلا۔
(2) اَحَقَّ اللّٰہُ اَمْرِیْ وَلَا تَنْفَکَّا مِنْ ھٰذِہِ الْمَرْحَلَۃِ۔1
(3) دولت ِ اعلام بذریعہ الہام بہشتی کمرہ میں نزول ہوگا۔
(4) ھَلْ نَرٰی جَزَآئَ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانَ2۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ 1)
29 مارچ1907ء
’’ لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ۔3
1 (ترجمہ) خدا نے میری بات کو سچا کردیا اور تم دونوں اس مرحلہ سے نہیں چھُوٹو گے۔
(نوٹ از مرتب) الحمد للہ یہ پیشگوئی اخبار شبھ چنتک کے مینجر اچھر چند اور ایڈیٹر سوم راج کے طاعون سے ہلاک ہونے سے پوری ہوگئی۔ یہ دونوں اشخاص اپنی گندہ دہانی اور بَد زبانی میں قادیان کے آریوں کے لیڈر تھے اور قادیان میں رہ کر نہایت ناپاکی کے ساتھ سلسلہ حقّہ کے برخلاف بولتے اور لکھتے رہتے تھے ۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔ (دیکھئے بدر 11 اپریل 1907ء صفحہ 5)
2 (ترجمہ) نہیں دیکھتے ہم احسان کی جزا بجُز احسان کے۔
3 (ترجمہ) اگر تیری عزت ہمیں منظور نہ ہوتی تو یہ مقام تباہ ہوجاتا۔
(نوٹ از مرتب) بدر جلد 6 نمبر 15 مؤرخہ 11 اپریل 1907ء پر جو یہ الہام دوبارہ چھَپا ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ یا یہ کہا لَوْلَاخَیْرُالْاَنَامِ لَھَلَکَ الْمُقَامُ
(ترجمہ) اگر تمام مخلوق سے بہتر شخص نہ ہوتا تو یہ مقام تباہ ہوجاتا۔‘‘
اِس میں ابتدائی حروف کچھ اَور تھے جو یاد نہیں رہے مگر مفہوم یہی تھا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر14 مؤرخہ4 اپریل1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 مارچ1907صفحہ1)
2 اپریل1907ء
اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ ۔ وَ اُعْطِیْکَ مَایَدُوْمُ۔1
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ 2)
4 اپریل1907ء
(1) لائف آف پین2۔ (2) اللہ رحم کر۔ (3) اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ فِیْ کُلِّ حَالٍ4۔(4) اِخْتَرَطْنَا سَیْفَہٗ 4۔(5)خدا کے سات نکو کار بندے ہر جگہ پر بیٹھے ہیں۔(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ 2)
5 اپریل1907ء
(1) حٰمٓ ۔ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ5۔ (2)راز کھُل گیا۔
تفہیم : وہ جوحٰم ہے۔ اس میں خدا کے نوشتہ کے کئی نشان ہیں جو ظاہر ہونے والے ہیں۔ حٰم مقطّعات میں کسی کا نام ہے۔ یہی تفہیم ہے۔
(3) اَلَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ۔6
یہ قومِ مخالف کی طرف اشارہ ہے۔ ساتھ کا فقرہ بھُول گیا۔ واللہ اَعلم۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ 2)
5 اپریل1907ء
(1) مُتْ 7 اَیُّھَا الْخَوَّانُ 8۔(2) تَمَّتْ کَلِمَۃُ اللّٰہِ۔ (3) اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔ (4) الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا۔ (5) رَحِمَ اللّٰہُ ۔
1 مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور جو اُسے ملامت کرتا ہے اسے ملامت کروں گا اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے۔
2 (1) Life of pain (ترجمہ) تلخ زندگی ۔
3 (3) مَیں ہر حال میں اللہ کے ساتھ ہوں۔
4 (4) ہم نے اس کی تلوار کو کھینچا ہے۔
5 (ترجمہ از مرتب) حٰم ۔ یہ کھول کر بیان کرنے والی کتاب کے نشان ہیں۔
6 (ترجمہ) وہ لوگ جنہوں نے سَبت کے معاملہ میں زیادتی کی۔
7 (ترجمہ) (1) اے بڑے خیانت کرنے والے مَر جا۔ (2) اللہ کی بات پوری ہوئی۔(3) اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔ (4) وہ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے۔ (5) اللہ نے رحم کیا۔ (6) تیرے سوائے جتنے ہیں ان سب پر ہم نے تجھے بزرگی دی۔
8 (نوٹ از مرتب) منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی ؓ کی روایت ہے کہ یہ الہام ایڈیٹر اخبار شُبھ چنتک قادیان کے متعلق تھا۔ لکھتے
(6) فَضَّلْنَاکَ عَلٰی مَا سِوَاکَ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ2)
اپریل1907ء
’’بابو2صاحب کی موت کے بعد مجھ کو یہ الہام ہوا تھا فَتَنَّا بَعْضَھُمْ مِّنْ م بَعْضٍ یعنی ہم نے الٰہی بخش کی موت سے اُن کے دوستوں کا امتحان کرنا چاہا ہے کہ کیا وہ اب بھی سمجھتے ہیں یا نہیں۔
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 125۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 561)
7 اپریل1907ء
’’(1) 2 وَاللّٰہِ اِنِّیْ غَالِبٌ وَ سَیَظْھَرُ شَوْکَتِیْ۔ وَکُلٌّ ھَالِکٌ اِلَّا مَنْ قَعَدَفِیْ سَفِیْنَتِیْ۔ اِعْزَازٌ۔
(2) الہام کے الفاظ یاد نہیں رہے اور معنے یہ ہیں کہ
فلاں کو پکڑو اور فلاں کو چھوڑو
(یہ فرشتوں کو حکمِ الٰہی ہے)۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ1‘ 2)
7 اپریل1907ء
ایک اَور قیامت برپا ہوئی۔
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ 1)
9اپریل1907ء
ایک اَور بَلا برپا ہوئی۔ (الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ 2)
بقیہ حاشیہ: ہیں کہ (جب) ’’آریوں میں طاعون پھُوٹی۔ جس کو طاعون ہوتی مَیں اور شیخ یعقوب علی صاحب اسے دیکھنے جاتے۔ اور سب آریہ کارکن اخبار مذکور کے جو تھے مَر گئے صرف مالک اخبار بچ رہا۔ پھر اُسے بھی طاعون ہوئی......پھر وہ ذرا اچھا ہوگیا......(حضور ؑ کو جب اس کا عِلم ہوا تو فرمایا) اَب جا کر دیکھو۔ مَیں اور شیخ صاحب اس وقت گئے تو چیخ پکار ہورہی تھی اور وہ مَر چکا تھا۔‘‘ (روایاتِ صحابہ صفحہ 349 ج13)
1 (ترجمہ) تیرے سوائے جتنے ہیں ان سب پر ہم نے تجھے بزرگی دی۔
2 یعنی بابو الٰہی بخش جس کی موت 6 اپریل 1907ء کو ہوئی۔ (مرتب)
3 (ترجمہ) بخدا مَیں غالب ہوں اور عنقریب میری شوکت ظاہر ہوجائے گی اور ہر ایک مَرے گا مگر وہی ( بچے گا) جو میری کشتی میں بیٹھ گیا۔ یہ اعزاز ہے۔
9 اپریل1907ء
(1) بلائے دمشق۔
(2) سِرُّکَ سِرِّیْ۔ 1
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ11 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر12مؤرخہ 10 اپریل1907صفحہ 2)
11 اپریل1907ء
’’دہلی میں واصلِ جہنّم واصل خان فوت ہوگیا۔
حکیم واصل خان دہلی کا تو فوت ہوچکا ہواہے۔ تفہیم یہ تھی کہ واصل خان نام ایک شخص کے عزیزوں میں سے کوئی طاعون سے مَر جائے گا۔ کیونکہ جہنّم کا لفظ دوسرے الہامات میں بھی طاعون کیلئے استعمال ہوا ہے۔ یہ نشان بھی اپنے وقت پر پُورا ہوکر ترقّیِ ایمان کا موجب ہوگا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر16 مؤرخہ18 اپریل1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر13مؤرخہ 17 اپریل1907صفحہ 2)
14 اپریل1907ء
’’ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر16 مؤرخہ18 اپریل1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر13مؤرخہ 17 اپریل1907صفحہ 2)
15 اپریل1907ء
’’(1) فتح ہے تمہاری ۔ (2) تمہارے نام کی۔ (3)اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۔ (4) حَدُّ ظُبَاۃٍ۔ (5) اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی۔ (6)احمد ۔ غزنوی ۔4
(نہ معلوم کیا اشارہ ہے)
(8) پھر قرآن مجلّد دیکھا اُس کی جلد پر شیرازہ کے قریب لکھا ہوا تھا سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر16 مؤرخہ18 اپریل1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر13مؤرخہ 17 اپریل1907صفحہ 2)
1 تیرا بھید میرا بھید ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں دُعا کرنے والے کی دُعا کو قبول کرتا ہوں۔
3 (ترجمہ) (3) تیرا دشمن ہی ابتر ہے۔ (4) تلوار کی تیز دھار۔ (5) تُو مجھ سے مانند موسیٰ کے ہے۔ (8) سلامتی ہے ۔ یہ بات ربِّ رحیم کی طرف سے کہی گئی ہے۔
4 الحکم پرچہ مذکور میں اِس الہام کا نمبر 7 لکھا ہے اِس طرح (مرتب)
17 اپریل1907ء
’’ (1)خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا۔ پس یہ پھُوٹ کا ثمرہ ہے۔
(2) 1 اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔(3)2اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ الْکَرِیْمِ۔(4) طوفان آیا۔ وہی طوفا ن۔ شر آئی۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر16 مؤرخہ18 اپریل1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر14مؤرخہ 24 اپریل1907صفحہ3)
20 اپریل1907ء
(الف) ’’صبح کے وقت الہام ہوا۔ اوّل خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں بڑی مسجد (میں) ہوں۔ بشیر احمد میرا لڑکا میرے پاس ہے۔ وہ مشرق اور کچھ شمال کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے۔ اس طرف زلزلہ گیا3ہے اور مجھے زلزلہ آنے سے پہلے الہام ہوا:۔
اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ
اور پھر الہام ہوا:۔
مَظْھَرُالْحَقِّ وَ الْعَلٰی
یعنی وہ ایسا امر ہوگا جس سے حق کھُلے گا اور حق ظاہر ہوگا۔‘‘
( 4 مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام)
(ب) رؤیامیں دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے۔ وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ ’’زلزلہ اس طرف چلا گیا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر18 مؤرخہ2 مئی1907صفحہ 1۔الحکم جلد 11 نمبر15مؤرخہ 30 اپریل1907صفحہ 4)
21 اپریل1907ء
’’(1) سَاُرِیْکُمْ اٰیَاتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ۔(2) یہ دو گھرہی مَر گئے۔ ( اس میں خاص دو گھروںکی طرف اشارہ ہے)۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر17 مؤرخہ25 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر14مؤرخہ 24 اپریل1907صفحہ 3)
1 (ترجمہ از مرتب) (2) مَیں افواج کے ساتھ اچانک تیرے پاس آئوں گا۔
2 (ترجمہ از مرتب) (3) مَیں اللہ مہربان بزرگ کے ساتھ ہوں۔
3 یہ زلزلہ 15 جنوری 1934ء کو صوبہ بہار میں آیا ۔مفصّل ٹریکٹ ’’ ایک اَور تازہ نشان ‘‘صفحہ 24۔ نوشتہ حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم ۔ اے۔ (مرتب)
4 یہ مکتوب میجر ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کے پاس ہے جو خاکسار نے دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ یہ مکتوب انہیں اپنے والد چودھری مولا بخش صاحب سے ملا۔ (مرتب)
5 (ترجمہ) مَیں تمہیں اپنے معجزات دکھلائوں گا مجھ سے جلدی مت کرو۔
23 اپریل1907ء
’’(1) اَصْلِحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ (2) 1 سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ۔
یہ الہام کہ اَصْلِحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ۔ اِس کے یہ معنے ہیں کہ اے میرے خدا ! مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اصلاح کر۔ یہ الہام درحقیقت تتمہ ان الہامات کا معلوم ہوتا ہے جن میں خدا تعالیٰ نے اس مخالف کا انجام بتلایا ہے اور وہ یہ الہام ہیں:۔
خَرُّوْا عَلَی الْاَذْقَانِ سُجَّدًا۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَخَاطِئِیْنَ۔ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔
یعنی بعض سخت مخالفوں کا یہ انجام ہوگا کہ وہ بعض نشان دیکھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا! ہمارے گناہ بخش۔ ہم خطا پر تھے اور مجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ بخدا خدا نے ہم پر تجھے فضیلت دی اور تجھے چُن لیا اور ہم غلطی پر تھے کہ تیری مخالفت کی۔ اِس کا یہ جواب ہوگا کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ خدا تمہیں بخش دے گا۔ وہ اَرحم الراحمین ہے۔ یہ اُس وقت ہوگا کہ جب بڑے بڑے نشان ظاہر ہوں گے۔ آخر سعید لوگوں کے دل کھُل جائیں گے اور وہ دل میں کہیں گے کہ کیا کوئی سچا مسیح اس سے زیادہ نشان دکھلاسکتا ہے یا اِس سے زیادہ اس کی نصرت اور تائید ہوسکتی تھی۔ تب یکدفعہ غیب سے قبول کے لئے ان میں طاقت پَیدا ہوجائیگی اور وہ حق کو قبول کرلیں گے۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر17 مؤرخہ25 اپریل1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر14مؤرخہ 24 اپریل1907صفحہ3)
30 اپریل1907ء
’’2 سَلَامٌ عَلَیْکَ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر15 مؤرخہ2 مئی1907صفحہ 1۔الحکم جلد 11 نمبر15مؤرخہ 30 اپریل1907صفحہ4)
یکم مئی1907ء
’’ (1) پوری ہوگئی
(2) فَلْیَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ۔ 3
1 (ترجمہ) تم سب پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے۔
2 (ترجمہ) تجھ پر سلامتی ہو۔
3 (ترجمہ) پس چاہئے کہ اپنے حمایتیوں کو بُلا لے تا پورا زور لگالیں۔
(3) اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویراں کردی۔ 1
(4) اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویراں کردی ۔
(5) وَ اِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَ نَّکُمْ۔2 ‘‘
(بدر جلد 6 نمبر18 مؤرخہ2 مئی1907صفحہ 1۔الحکم جلد 11 نمبر15مؤرخہ 30 اپریل1907صفحہ4)
یکم مئی1907ء
’’یَاْ تِیْکَ تَحَآئِفُ کَثِیْرَۃٌ۔3‘‘
(بدر جلد 6 نمبر20 مؤرخہ16 مئی1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر15مؤرخہ 30 اپریل1907صفحہ4)
2 تا 7 مئی1907ء
’’ (1) وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ۔4 (2) زبردست نشانوں کے ساتھ ترقّی ہوگی۔ (3) 5 اَنْزَلْنَاہُ عَلٰی رَقِیْمَۃٍ مِّنْ مُّوْسٰی (4) اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔(5) سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ۔(6) رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔(7) سَاُرِیْکُمْ اٰیَاتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر19 مؤرخہ9 مئی1907صفحہ 3۔الحکم جلد 11 نمبر16مؤرخہ 10 مئی1907صفحہ1)
11 مئی1907ء
’’رؤیا۔ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو دیکھا کہ وہ ہمارے مکان میں ایک جگہ
1 تُو نے کئی دشمنوں کے گھر ویران کئے۔(نوٹ) یہ مکرر الہام صرف الحکم پرچہ مذکور میں ہے بدر میں نہیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ) اگر تم شُکر کرو تو مَیں زیادہ دوں گا۔
3 (ترجمہ از مرتب) تیرے پاس بہت سے تحفے آئیں گے۔
4 (ترجمہ) (1)یا تو ہم بعض وہ اپنی پیشگوئیاں جو وعید کے طور پر کفار کے حق میں ہیں تجھ کو دکھلا دیں گے اور یا تجھ کو وفات دے دیں گے۔
5 (ترجمہ) (3)ہم نے اس ارادہ کو موسیٰ کی تحریر پر اُتارا ہے یعنی موسیٰ نے ایسا ہی ارادہ بذریعہ تحریر ظاہر کیا۔ سو ہم نے اس سے اتفاقِ رائے کیا۔ (4) مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کرتا ہے۔ (5) اس کے ناک پر یامنہ پر ہم آگ کا داغ لگائیں گے۔ (6) اے میرے ربّ ! مَیں مغلوب ہوں تُو انتقام لے۔(7) مَیں تمہیں اپنے معجزات دکھلائوں گا۔ مجھ سے جلد مت کرو۔
بیٹھے ہوئے ہیں۔ مَیں نے اپنے کِسی آدمی کو کہا کہ مولوی صاحب کو خاطر مداری سے کھانا کھلانا چاہئے ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
اِس رؤیاسے معلوم ہوتا ہے ۔ واللہ اَعلم کہ وہ دن نزدیک ہے کہ خدا تعالیٰ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کو خود رہنمائی کرے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ بھی ایک الہام سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ آخر وقت میں اُن کو سمجھا دے گا کہ انکار کرنا ان کی غلطی تھی اور یہ کہ مَیں اپنے دعویٰ مسیح موعود میں حق پر ہوں مگر معلوم نہیں کہ آخر وقت کے کیا معنے ہیں1۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر20 مؤرخہ16 مئی1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر17مؤرخہ 17 مئی1907صفحہ7)
12مئی1907ء
’’کشف۔ (1) آج ایک شخص مجھے کشفی طور پر دکھلایا گیا مگر مَیں اُس کی شکل بھُول گیا صرف یہ یاد رہا کہ وہ ایک سخت دشمن ہے جو اپنی تقریروں اور تحریروں میں گالیاں دیتا ہے اور سخت بد زبانی کرتا ہے۔ بعد اس کے الہام ہوا:۔
(2) بدی کا بدلہ بدی ہے۔ اُس کو پلیگ ہوگئی۔
یہ پیشگوئی ہے یعنی اُس کو پلیگ ہوجائے گی۔ پس مَیں یقین کرتا ہوں کہ جلد یا کچھ دیر کے بعد تم سُن لو گے کہ کوئی ایسا سخت دشمن پلیگ کا شکار ہوجائے گا۔ اگر ایسا کوئی دشمن جس پر تمہارے دِل بول اُٹھیں کہ یہ الہام کا مستحق ہوسکتا ہے طاعون میں مُبتلا نہ ہوا تو تمہارا حق ہے کہ تم تکذیب کرو۔
(3) بعد اِس کے مجھے دکھلایا گیا کہ ’’ملک میں بہت غفلت اور گناہ اور شوخی پھیل گئی ہے اور لوگ تکذیب سے باز آنے والے نہیں جب تک خدا اپنا قوی ہاتھ نہ دکھلادے۔‘‘ بعد اِس کے الہام ہوا:۔
(4) اس کا نتیجہ سخت طاعون ہے جو ملک میں پھَیلے گی۔وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ 2
(5) کئی نشان ظاہر ہوں گے۔
1 حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’میرے نزدیک اِس کی ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے دو لڑکے قادیان آئے۔انہوں نے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور میری بیعت میں شامل ہوئے۔ بعد میں گو انہوں نے کمزوری دکھائی مگر وہ اخلاقی کمزوری تھی مذہبی کمزوری نہیں تھی.....پس حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی یہ پیشگوئی درحقیت میرے ہاتھ پر پوری ہوئی۔ اِس طرح وہ رؤیا بھی پورا ہوا جو کبڈی کے میچ کے متعلق مَیں نے دیکھا تھا اور جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ آخر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی اِس طرف آجائیں گے۔‘‘ (الفضل جلد 32 نمبر 110 مؤرخہ 12 مئی 1944ء صفحہ 2)
2 (ترجمہ از مرتب) اس دن جھٹلانے والوں کیلئے تباہی ہوگی۔
(6) کئی بھاری دشمنوں کے گھر ویران ہوجائیں گے۔ وہ دُنیا کو چھوڑ جائیں گے۔
(7) ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔
(8) وہ قیامت کے دن ہوں گے۔
(9) زبردست نشانوں کے ساتھ ترقی ہوگی۔
(10) ایک ہَولناک نشان۔
یعنی ان میں سے ایک ہَولناک نشان ہوگا۔ شاید وہی زلزلہ ہو جس کا وعدہ ہے یا آسمان سے کوئی اَور نشان ظاہر ہو۔ یا طاعون قیامت کا نمونہ دکھلاوے۔
پھر خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ:۔
(11) میری رحمت تجھ کو لگ جائے گی۔ اللہ رحم کرے گا۔ 1وَا للّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔
(12)2 اَ عْیَیْنَاکَ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر20 مؤرخہ16 مئی1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر17مؤرخہ 17 مئی1907صفحہ7)
13 مئی1907ء
’’3 سَنُنْجِیْکَ ، سَنُعْلِیْکَ ، سَنُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا۔
(بدر جلد 6 نمبر20 مؤرخہ16 مئی1907صفحہ 5۔الحکم جلد 11 نمبر17مؤرخہ 17 مئی1907صفحہ7)
18 مئی1907ء
’’فرمایا۔ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ بادل چڑھا ہے ۔ مَیں ڈرا ہوں مگر کِسی نے کہا کہ تمہارے لئے مبارک ہے۔ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ عذاب کو بادل کے رنگ میں دکھایا جاتا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 11 نمبر18مؤرخہ 24 مئی1907صفحہ10۔بدر جلد 6 نمبر21 مؤرخہ23 مئی1907صفحہ 4)
1 (ترجمہ) اور اللہ تعالیٰ نہایت ہی اچھا سب سے بڑھ کر محافظ ہے۔
2 (ترجمہ) یعنی ہم اِس قدر نشان دکھلائیں گے کہ تو دیکھتے دیکھتے تھک جائے گا۔
3 (ترجمہ) ہم عنقریب تجھ کو دشمنوں کے شر سے نجات دیں گے اور ہم تجھے ان پر غالب کردیں گے اور ہم تجھے ایک عجیب طور پر بزرگی دیں گے۔
28 مئی1907ء
’’شریف احمد کی نسبت اُس کی بیماری کی حالت میں الہامات ہوئے:۔
(1) عَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ۔(2) اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ۔(3) اَئَ نْتِ لَاتَعْرِفِیْنَ الْقَدِیْرَ۔(4) مُرَادُکَ حَاصِلٌ۔(5) اَللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر22 مؤرخہ30 مئی1907صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر19مؤرخہ 31 مئی1907صفحہ3)
(ترجمہ) (1) اس کو یعنی شریف احمد کو خداتعالیٰ اُمّید سے بڑھ کر عمر دے گا۔ یہ الہام اس کی خطرناک بیماری کی حالت میں ہوا۔ (2) اس کو یعنی شریف احمد کو خدا تعالیٰ اُمّید سے بڑھ کر امیر کرے گا۔ (3) کیا تُو قادر کو نہیں پہچانتی ۔ ( یہ اس کی والدہ کی نسبت الہام ہے)۔ (4) تیری مُراد حاصل ہوجائے گی۔ (5) خدا سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہ اَرحم الراحمین ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات عَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ اور اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 دسمبر 1997ء میں فرمایا:
’’آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ الہامات تھے جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ پر چسپاں کئے گئے اور مَیں وہ فرد واحد ہوں یا اور بھی شاید ہوں ‘ جو شروع ہی سے یہ یقین رکھتا تھا کہ یہ الہامات اصل میں آپ کے صاحبزادہ حضرت مرزا منصور احمد صاحب سے متعلق ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بعض پیشگوئیاں ‘ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی ایسا واقعہ ہوچکا ہے‘ ایک شخص کے متعلق کی جاتی ہیں لیکن بیٹا مراد ہوتا ہے۔ وہ الہامات جیسا کہ میں اب آپ کے سامنے کھول کر بیان کروں گا بلاشبہ ایک ذرّہ بھی شک نہیں حضرت صاحبزادہ شریف احمد صاحب ؓ کے بیٹے کی صورت میں پورے ہونے تھے اور آپ ہی پر ان کا اطلاق ہوتا ہے۔وہ الہامات سنئے۔ شریف احمد کی نسبت اس کی بیماری کی حالت میں ( یہ 1907ء کا واقعہ ہے) الہامات ہوئے ’’عَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ ‘‘ اللہ نے اس کو لمبی عمر دی خلاف توقع۔
پھر فرمایا:’’ اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ‘‘ اللہ نے اسے صاحب امر بنایا یعنی امیر اور اس کا یہ امیر بننا خلاف توقع تھا۔ یعنی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ شخص اتنے لمبے عرصے تک امیر بنایا جائے۔
’’اَمَّرَہُ اللّٰہُ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسے امیر بنایا جائے گا۔ یعنی صاحب امر بنائے گا اور ایک دوسرے الہام سے بعینہٖ یہی بات ثابت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ اور اس کی تشریح میں (حضرت مسیح موعود ؑ)فرماتے ہیں کہ قاضی کے متعلق یہ الہام ہوا ہے وہ قاضی یعنی صاحب امر بنایا جائے گا۔ .........حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی عمر تو لمبی نہیں تھی۔ اپنے بھائیوں سے چھوٹی عمر میں فوت ہوگئے اور خلاف توقع لمبی عمر کہنا یہ ایک قسم کا خواہش کا اظہار تو ہے لیکن واقعات کا اظہار نہیں۔ اور آپ کے سپرد امارت کبھی نہیں کی گئی ۔ مجھے نہیں یا دشاید ہی کبھی آپ کو امیر بنایا گیا ہو ورنہ آپ امیر نہیں بنائے جاتے تھے۔ یہ وجہ تھی کہ ہمیشہ ان دونوں الہامات کو حضرت مرزا منصور احمد صاحب کے متعلق سمجھتا تھا اور آپ کی زندگی اس کی گواہ ہے‘ اس کثرت سے آپ کو شدید دل کے حملے ہوئے ہیں کہ ہر حملے پر ڈاکٹر کہتے تھے کہ اب یہ ہاتھ سے گئے اور پھر اللہ تعالیٰ خلاف توقع آپ کو ٹھیک
کردیتا تھا اور سب ڈاکٹر حیرت سے دیکھتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے......اس لئے ان کے متعلق یہ الہامات لازماً پورتے اُترتے ہیں کہ ’’ عَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ ‘‘ بغیر توقع کے لمبی عمر اور بغیر توقع کے بارہا عمر پانا یہ آپ کی ذات میں دونوں باتیں بعینہٖ صادق آتی ہیں۔
پھر ’’ اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ ‘‘ یعنی ان کو امارت بھی ایسی دی جائے گی کہ اس کے متعلق توقع نہیں کی جاسکتی۔ مَیں نے حساب لگایا ان کی امارت کا تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے زمانے میں ان کو امیر بنانا شروع کیا گیا ہے اور اس سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؒ کی باون سالہ حکومت میں اتنا عرصہ کبھی کسی کو امیر نہیں بنایا گیا جتنا ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور میرے دور میں امیر بنایا گیا۔ پینتالیس (45) بار آپ امیر مقامی مقرر ہوئے ہیں اور اس ہجرت کے دور میں تقریباً چودہ سال مسلسل امیر مقامی بنے رہے ہیں۔ یہ ہے خلاف توقع۔ سوچ بھی سکتا تھا کہ خلیفہ کی موجودگی میں کوئی شخص اتنا لمبا عرصہ امیر بنارہے۔ وہ امارت مقامی جو خود خلیفہ کے اپنے قبضے میں ہوا کرتی ہے اور اس کی وہاں موجودگی میں صدر عمومی ہے جو عمومی انتظام چلاتا ہے۔ مگر خلیفہ کی موجودگی میں امیر مقامی وہی ہوتا ہے۔ پس آپ عملاً میری جگہ بیٹھ گئے یعنی جس کرسی پر مَیں بیٹھا کرتا تھا اس پر میرے کہنے کے مطابق آپ براجمان ہوئے اور آپ نے تمام امور کو نہایت بہادری سے انجام دیا۔
’’وہ بادشاہ آیا‘‘ کے الہام کے متعلق (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں۔ فرمایا: دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ یعنی اس الہام کے ساتھ یہ آواز بھی آئی۔ قاضی حَکَم کو بھی کہتے ہیں۔ قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رَدّ کردے۔ یہ خوبی بھی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب میں غیر معمولی طور پر پائی جاتی تھی۔ باطل کو رَدّ کرنے کے معاملے میں اتنا بہادر انسان میں نے اور شاذ ہی دیکھا ہو۔
یہ صورت حال ایک اور الہام کو بھی یاد کرارہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرزا شریف احمد صاحب کو مخاطب کرکے کشف میں کہتے ہیں کہ ’’ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں‘‘ اب ظاہر بات ہے کہ یہ الہام حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے متعلق پورا نہیں ہوا۔.......یہ بات بعینہٖ آپ کی ذات پر پوری ہوئی ہے۔ وہ امارت مقامی جس میں مَیں بیٹھا کرتا تھا اب ظاہر ہے کہ مَیں اِس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمائندہ ہوں ‘ اِس وقت میاں شریف احمد صاحب موجود نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص موجود ہے تو یہ آپ کا بیٹاہے جس کے متعلق بعینہٖ یہ الفاظ پورے ہوتے ہیں ’’ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں ‘‘ یقینا آپ کا ایک مقام تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے وہ مقام بنا ہے اور اُبھرا ہے اور آئندہ آنے والی تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ کا وجود ایک مبارک وجود تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روحانی بیٹا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ جو کچھ بھی اپنے بیٹے کے متعلق دیکھا وہ ان کے بیٹے کے متعلق پورا ہوا۔ اب جبکہ مَیں نے ان کی جگہ ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی ان کے صاحبزادے مرزا مسرور احمد کو بنایا ہے تو میرا اس الہام کی طرف بھی دھیان پھرا کہ گویا آپ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ میری جگہ بیٹھ۔ یہ ساری باتیں ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی روح ایک پاک روح تھی ‘ بہت دلیر انسان ‘ خلافت کے حق میں ایک سونتی ہوئی تلوار تھے۔ .......اب میں ساری جماعت کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے لئے دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور میں مرزا مسرور احمد صاحب کے متعلق بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح جانشین بنائے ۔’’تو ہماری جگہ بیٹھ جا ‘‘ کا مضمون پوری طرح ان پر صادق آئے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی اعانت فرمائے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل لندن 30 جنوری تا 5 فروری 1998ء)
1907ء
چند دن ہوئے مجھ کو الہام ہوا تھا کہ
’’لاہور سے ایک افسوسناک خبر آئی‘‘
اِس الہام کی وجہ سے ہم نے ایک آدمی لاہور بھیج کر پُچھوایا بھی تھا کہ وہاں کے دوستوں کا کیا حال ہے مگر کیا معلوم تھا کہ یہ چند دن کے بعد پورا ہوگا۔ (بدر جلد 6 نمبر27 مؤرخہ4 جولائی1907صفحہ 7)
1907ء
’’اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ۔‘‘
ترجمہ:۔ یعنی مَیں تجھے وہ زلزلہ دکھاؤں گا جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر27 مؤرخہ4 جولائی1907صفحہ 4)
4 جولائی1907ء
’’فرمایا کہ آج دو بجے دن کے مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر کے آدمی اَب شاید امرتسر پہنچ گئے ہوں گے اور یہ بھی خیال تھا کہ امن و امان سے لاہور میں پہنچ جائیں۔ تب اِس خیال کے ساتھ ہی کچھ غنودگی ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نخود کی دال ( جو رنج اور ناخوشی پر دلالت کرتی ہے) میرے سامنے پڑی ہے اور اس میں کشمش کے دانے قریباً اسی قدر ہیں اور مَیں اُس میں سے کشمش کے دانے کھا رہا ہوں اور میرے دل میں خیال گذر رہا ہے کہ یہ ان کی حالت کا نمونہ ہے اور دال سے مراد کچھ رنج اور ناخوشی ہے کہ سفر میں ان کو پیش آئی ہے یا آنے والی ہے۔ پھر اسی حالت میں میری طبیعت الہامِ الٰہی کی طرف منتقل ہوگئی اور اِس بارے میں الہام ہوا:۔
خَیْرٌ لَّھُمْ۔ خَیْرٌ لَّھُمْ
یعنی ان کے لئے بہتر ہے ۔ ان کیلئے بہتر ہے۔ بعد اس کے اسی نظارۂِ خواب میں چند پیسے دیکھے کہ وہ غم او ر تشویش پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ چنے کی دال بھی ایک ناگوار اور رنج کے امر پر دلالت کرتی ہے ۔ فقط
.......اس کے بعد حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ خواب اور الہام تو ایک طرح پورا ہوگیا ہے2 مگر ایک خیال مجھے باقی ہے اور
1 چنانچہ چند رو زکے بعد خبر آئی کہ مریض فوت ہوگیا ہے (جو) ایک معصوم بچہ تھا۔ (ایڈیٹر بدر۔ پرچہ مذکور ہ بدر)
2 (نوٹ از ایڈیٹر) ’’اِس الہام اور خواب کی جبکہ اچھی طرح اشاعت ہوگئی تو قریب شام کے اپنا ایک آدمی جو سب قافلہ کو ریل پر سوار کرکے واپس آیا تھا اُس کی زبانی معلوم ہوا کہ عین دوپہر کی گرمی میں ریل کے اندر مسافروں کی کشاکش سے بچنے کے واسطے جو انتظام ریزرو کا کیا گیا تھا وہ نہ ہوسکا کیونکہ لاہور سے کوئی الگ گاڑی اِس مطلب کے واسطے نہ پہنچ سکی تھی اور اِس سبب سے تشویش ہوئی۔ اِس طرح خواب کا حصہ پورا ہوا مگر پھر بھی بموجب بشارت الہام کے خیریت رہی اور معمولی گاڑی میں آرام سے بیٹھ کر چلے گئے۔‘‘
(بدر جلد6 نمبر 28 مؤرخہ 11 جولائی 1907ء صفحہ 4۔الحکم جلد 11 نمبر 24 مؤرخہ 10 جولائی 1907ء صفحہ 12)
وہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو رَنج اور خوشی پر دلالت کرتی ہیں وہ دوبارہ دکھلائی گئی ہیں۔ یعنی اوّل چنے کی دال دکھلائی گئی اور پھر چند پیسے دکھلائے گئے۔ ایسا ہی الہام بھی دو دفعہ ہوا کہ
خَیْرٌ لَّھُمْ ۔ خَیْرٌ لَّھُمْ
اِس لئے دل میں ایک یہ خیال ہے کہ خدانخواستہ کوئی اَور امرِ مکروہ پیش نہ آیا ہو جس کیلئے دو دفعہ ایسی چیزیں دکھلائیں گئیں کہ علمِ تعبیر کی رُو سے رنج اور تشویش پر دلالت کرتی ہیں اور ایسا ہی اُن سے محفوظ رکھنے کیلئے دو دفعہ یہ الہام ہواکہ خَیْرٌ لَّھُمْ ۔ خَیْرٌ لَّھُم ۔
یہ میرا خیال ہے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک رنج سے محفوظ رکھے۔ آمین۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر28 مؤرخہ11 جولائی1907صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 24 مؤرخہ 10 جولائی 1907ء صفحہ 12)
1907ء
’’ایک 1دفعہ ہم کو سخت دردِ گردہ تھا۔ کسی دوا سے آرام نہ ہوتا تھا۔ الہام ہوا:۔
اَلْوَدَاع
اس کے بعد دَرد بالکل یک دفعہ بند ہوگیا تب معلوم ہوا کہ یہ الوداع دَرد کا تھا۔‘‘
(بدر جلد 6 نمبر28 مؤرخہ11 جولائی1907صفحہ 6)
12 جولائی1907ء
’’یہ 2اشتہار مَیں نے پڑھا اور ان لوگوں کی سخت زبانی پر افسوس ہوا مگر یہ الہام ہوا:۔
(1) حالیا مصلحت ِ وقت دراں مے بینم ۔3
اور یہ بات سچ ہے کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں جو اس کو ستایا نہیں گیا اور عجیب بات یہ ہے کہ جھُوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوتا۔
(2) رَبِّ اَخْرِجْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَخْرَجَنِیْ مِنَ النَّارِ۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ وَ لَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ۔
(ترجمہ) اے میرے ربّ مجھے آگ سے نکال ۔ سب تعریف اللہ کیلئے ہے جس نے مجھے آگ سے نکالا۔ مَیں رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروں گا جو اُسے ملامت کرے گا اور تجھے وہ چیز عطا کروں گا جو ہمیشہ رہے اور وقت ِ
1 چونکہ اِس الہام کی تاریخ کا پتہ نہیں لگ سکا اِس لئے اسے اشاعت کی تاریخ میں درج کیا گیا۔ (مرتب)
2 یعنی ’’ فتویٰ علماء روہیل کھنڈ بابت میرزا قادیانی مدعی نبوت ۔‘‘ محررہ صفر 1324ھ بمطابق اپریل 1906ء۔
(دیکھئے بدر جلد6 نمبر 29 مؤرخہ 18 جولائی 1907ء صفحہ 3۔ الحکم جلد 11 نمبر 25 مؤرخہ 17 جولائی 1907ء صفحہ 2)
(مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) ابھی مَیں اسی میں مصلحت ِ وقت دیکھتا ہوں۔
معلوم تک مَیں زمین پر رہوں گا۔
(3) پھر دیکھا کہ میرے مقابل پر کسی آدمی نے یا چند آدمیوں نے پتنگ چڑھائی ہے اور وہ پتنگ ٹوٹ گئی اور مَیں نے اس کو زمین کی طرف گِرتے دیکھا ۔ پھر کسی نے کہا:۔
غلام احمد کی جے َ 1
یعنی فتح۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر29 مؤرخہ18 جولائی1907صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 25 مؤرخہ 17 جولائی 1907ء صفحہ 2)
20 جولائی1907ء
’’(1) اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَرُوْمُ مَا یَرُوْمُ۔2
(2) کشفی رنگ میں مغز بادام دکھائے گئے اور اس کشف کا غلبہ اِس قدر تھا کہ مَیں اُٹھا کہ بادام لوں۔
(3) رَبِّ اَرِنِیْ حَقَآئِقَ الْاَشْیَائِ۔3
(4) ایسوسی ایشن۔4 ‘‘
( بدر جلد6 نمبر 30مؤرخہ 25 جولائی 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 26 مؤرخہ 24 جولائی 1907ء صفحہ 6)
1 حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فتنۂ احرار کے دَوران میں 14 جون 1935ء میں خطبہ جمعہ کے دَوران میں فرمایا’’ اِن الہامات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کوئی خاص مصائب نہیں آئے جس سے ثابت ہے کہ یہ الہامات آئندہ زمانہ کے متعلق ہیں.......دیکھو ان الہامات میں کِس طرح بتایا گیا ہے کہ آپ کے متبّعین کیلئے ایک جہنّم تیار کی جائے گی ۔ یہ جہنّم چونکہ آپ کے زمانہ میں نہیں اِس لئے لازماً آپ کے بعد کے زمانہ کیلئے ماننی پڑے گی مگر اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کو اس سے بچالے گا۔ کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جائیں گی جن کا جواب خود خدا دے گااور اُس وقت تک تائید ِ الٰہی ختم نہ ہوگی جب تک احمدیت کی فتح نہ ہو اور دُنیا میں غلام احمد کی جے َ کے نعرے بلند نہ ہوں۔ جے َ کا لفظ بتاتا ہے کہ اِس مخالفت میں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے لیکن بتادیا ہے کہ آخر وہ جے َ کہنے پر مجبور ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کے کلام میں خبریں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ابتلاء آئیں گے اور سخت آئیں گے۔ گالیاں دی جائیں گی۔ ہندو بھی مخالفت میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا حتّٰی کہ مخالف بھی پکار اُٹھیں گے کہ غلام احمد کی جے َ۔‘‘
(الفضل جلد 22 نمبر 192 مؤرخہ 17 جون 1935ء صفحہ 4)
2 (ترجمہ) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس بات کا قصد کروں گا جس کا وہ قصد کرے۔
3 (ترجمہ) اے میرے رَبّ ! مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا۔
4 Association
20 جولائی1907ء
’’حضرت نے ایک خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان میں ایک بکرا ذبح1کیا گیا ہے۔ ان ایام میں حضرت مولوی نورالدین صاحب علیل تھے چنانچہ اسی واسطے مولوی صاحب کو دوسرے مکان پر رکھا گیا۔‘‘
) بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 5۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء ضمیمہ ’’ب‘‘ )
1907ء
’’ 2 لَا تَنْقَطِعُ الْاَعْدَآئُ اِلَّا بِمَوْتِ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 31مؤرخہ یکم اگست 1907ء صفحہ 6۔ الحکم جلد 11 نمبر 28 مؤرخہ 10 اگست1907ء صفحہ 5)
جولائی1907ء
’’(1) ہیضہ کی آمدن ہونے والی ہے
(یہی لفظ ہیں۔ واللہ اَعلم)
(2) 3 اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ۔
(3) اور خواب میں دیکھا کہ مَیں نے ایک عورت کو تین روپے دیئے ہیں اور اُسے کہتا ہوں کہ کفن کیلئے مَیں آپ دوں گا۔ گویا کوئی مر گیا ہے اُس کی تجہیز و تکفین کیلئے تیاری کی ہے۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 31مؤرخہ یکم اگست 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 27 مؤرخہ 31 اگست1907ء صفحہ 3)
یکم اگست 1907ء
’’(1)4 رَبِّ اجْعَلْنِیْ غَالِبًا عَلٰی غَیْرِیْ(2) میری فتح (3) اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 32مؤرخہ 8 اگست 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 28 مؤرخہ 10 اگست1907ء صفحہ 2)
8 اگست 1907ء (قریباً)
(1) 5 شَرَّفْنَا بِکَلَامٍ مِّنَّا (2) شَرَّفْنَا بِاِکْرَامٍ مِّنَّا (3) سَلَامٌ
1 دراصل اس سے صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات مراد تھی جو 16 ستمبر 1907ء کو وقوع میں آئی۔ (مرتب)
2 (ترجمہ) دشمن نہیں مُنقطع ہوں گے مگر ان میں سے ایک کی موت کے ساتھ ۔
(نوٹ) یہ الہام دراصل پُرانا ہے مگر تاریخ کی تعیین نہ ہوسکنے کی وجہ سے سالِ اشاعت میں درج کیا گیا ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ) جو تیری اہانت چاہے گا مَیں اُسے ذلیل کروں گا۔ جو تیری مدد کا ارادہ کرے گا مَیں اس کا مددگار ہوجاؤں گا۔
4 (ترجمہ) (1) اے میرے ربّ ً مجھے میرے غیر پر غالب کر (3) مَیں اپنی فوجوں سمیت تیرے پاس اچانک آؤں گا۔
5 (ترجمہ) (1) ہم نے اپنے کلام سے مشرّف کیا (2) ہم نے اپنے اکرام سے مشرّف کیا (3) سلامتی۔
(4) 1 اِنِّیْ مُبَشِّرٌ(5) اِنَّ مَعَنَا (6) اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 33مؤرخہ 15 اگست 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 29 مؤرخہ 17 اگست1907ء صفحہ 5)
13 اگست1907ء
’’(1) عبرت بخش سزائیں دی گئیں (2) 2 اِنِّیْ مِنَ النَّاظِرِیْنَ (3) اِنِّیْٓ اَنْزَلْتُ مَعَکَ الْجَنَّۃَ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 33مؤرخہ 15 اگست 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 29 مؤرخہ 17 اگست1907ء صفحہ 5)
14 اگست 1907ء
’’آج ہمارے گھر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آئے ‘ آگئے ‘ عزت اور سلامتی ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 33مؤرخہ 15 اگست 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 29 مؤرخہ 17 اگست1907ء صفحہ 5)
17 اگست 1907ء
’’ 3 اِنَّ خَبَرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاقِعٌ۔
فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی پیشگوئی کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 34مؤرخہ 22 اگست 1907ء صفحہ 7۔ الحکم جلد 11 نمبر 30 مؤرخہ 24 اگست1907ء صفحہ 3)
18 اگست 1907ء
’’صبح نماز سے پہلے کشف4میں دیکھا کہ ایک بڑا ستارہ ٹوٹا ہے جو خوب زور سے چمکتا ہوا شمال مشرق کی جانب سے سیدھا سر تک آکر گم ہوگیا ہے۔
فرمایا۔ آج ہی ہماری لڑکی5نے بھی رؤیامیں دیکھا ہے کہ آسمان پر ستارے ٹوٹتے ہیں اور دھواں ہوکر چلے جاتے ہیں۔ ایک فرشتہ پاس کھڑا ہے جو کہتا ہے کہ یہ دشمن مرتے ہیں۔
1 (ترجمہ) (4) مَیں بشارت دینے والا ہوں (5) خدا ہمارے ساتھ ہے (6) مَیں خدا کے ساتھ ہوں۔
2 (ترجمہ) (2) مَیں دیکھنے والوں میں سے ہوں (3) مَیں نے تیرے ساتھ بہشت کو اُتارا ہے۔
3 (ترجمہ) رسول اللہ نے جو خبر بتلائی تھی وہ واقع ہونے والی ہے۔
4 یہ کشف ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوا ۔ چنانچہ 6 ستمبر 1907ء کو بوقت صبح صادق ایک ستارہ ٹوٹا۔شمال سے ظاہر ہوکر جنوب کو گیا۔ جو پہلے سُرخ رنگ تھا بعد میں سبز رنگ ہوگیا۔ روشنی میں دسویں رات کے چاند سے کم نہ تھا ۔ غائب ہونے پر دہشت ناک آواز گولے کی سنی گئی۔ دیکھئے بدر جلد 6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 7۔ (مرتب)۔
5 مراد حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ۔ (مرتب)
فرمایا۔ یہ خواب شاید ہماری خواب کی تعبیر ہے۔ ہماری لڑکی کو خواب بہت آتے ہیں اور اکثر سچے ہوتے ہیں۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 34مؤرخہ 22 اگست 1907ء صفحہ 7۔ الحکم جلد 11 نمبر 30 مؤرخہ 24 اگست1907ء صفحہ 3)
19 اگست1907ء
’’ آید آں روزے کہ مستخلص شود1 ‘‘
( بدر جلد6 نمبر 34مؤرخہ 22 اگست 1907ء صفحہ 7۔ الحکم جلد 11 نمبر 30 مؤرخہ 24 اگست1907ء صفحہ 3)
23 اگست 1907ء
’’(1) 2اِ نَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ سَیَنَا لُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ (2) یَوْمَ تَاْتِیْ السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۔ (3)اِنَّ خَبَرَرَسُوْلِ اللّٰہِ وَاقِعٌ(4) لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (5) اِنَّ رَبِّیْ کَرِیْمٌ قَرِیْنٌ(6) اِنَّہٗ فَضْلُ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا (7) اِنِّیْ مَعَکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ (8)3 لَا تَخَفْ صَدَّقْتُ قَوْلِیْ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 35مؤرخہ 29 اگست 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 31 مؤرخہ 31 اگست1907ء صفحہ 1)
23 اگست 1907ء
’’ 4سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 37مؤرخہ 12 ستمبر 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 23مؤرخہ 17 ستمبر1907ء صفحہ 1)
27اگست 1907ء
’’صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب جو سخت تپ سے بیمار ہیں اور بعض دفعہ بیہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ابھی تک بیمار ہیں ‘ اُن کی نسبت آج الہام ہوا:۔
قبول ہوگئی۔ نو دن کا بخار ٹوٹ گیا
(فرمایا) یعنی یہ دعا قبول ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب موصوف کو شفا دے ۔ یہ پختہ طور پر یاد نہیں رہا کہ کِس دن بخار شروع ہوا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میاں کی صحت کی بشارت دی اور نویں دن تپ کے ٹوٹ جانے کی خوشخبری پیش از وقت عطا کی ہے ۔ نویں دن کی تصریح نہیں کی اور نہ ہوسکتی ہے لیکن یہ معلوم
1 (ترجمہ از مرتب) وہ دن آرہا ہے کہ وہ تکلیف سے رہائی پائے۔
2 (ترجمہ) (1) تحقیق وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ سے روکا ان کو ان کے ربّ سے غضب پہنچے گا (2) جس دن آسمان کھلے طور پر دھواں لائے گا (3) اللہ کے رسول نے جو خبر دی تھی وہ واقع ہونے والی ہے (4) غم نہ کر تحقیق اللہ ہمارے ساتھ ہے
(5) تحقیق میرا ربّ سخی ہے اور نزدیک ہے (6) میرے ربّ نے فضل کیا وہ مجھ پر مہربان ہے (7) مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم۔
3 (8) تو کچھ خوف نہ کر ۔ مَیں نے اپنی بات کو سچا کر دکھایا۔ یعنی سچی کرکے دکھاؤں گا۔
4 (ترجمہ) قریب ہے کہ ان کو اُن کے ربّ کا غضب پہنچے گا۔
ہوتا ہے کہ تپ کی شدید حالت جس دن سے شروع ہوئی وہ ابتداء مرض کا ہوگا۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔1 ‘‘
( بدر جلد6 نمبر 35مؤرخہ 29 اگست 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 31 مؤرخہ 31 اگست1907ء صفحہ 1)
اگست1907ء
(الف) ’’تخمیناً اگست میں حضرت نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ مقبرہ بہشتی میں ہیں۔2قبر کھدواتے ہیں۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 5۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء ضمیمہ صفحہ ب)
(ب) فرمایا۔ بعض اَوقات اگر باپ خواب دیکھے تو اس سے مراد بیٹا ہوتا ہے اور اگر بیٹا خواب دیکھے تو ا س سے باپ مراد ہوتا ہے۔ ایک دفعہ مَیں خواب میں یہاں (بہشتی مقبرہ) آیا اور قبر کھودنے والوں کو کہا کہ میری قبر دوسروں سے جدا چاہئے۔ دیکھو جو میری نسبت تھا وہ میرے بیٹے3کی نسبت پورا ہوگیا۔‘‘
( الحکم جلد 11 نمبر 34 مؤرخہ 24 ستمبر1907ء صفحہ 6)
1 ’’اگست گذشتہ میں مبارک احمد تپ شدید سے سخت بیمار ہوگیا تھا یہاں تک کہ بار بار غشی تک نوبت پہنچتی تھی اور تپ ایک سَو پانچ درجہ تک پہنچ گیا اور سرمارنے کی ایسی حالت تھی کہ سرسام کا خوف ہوکر نومیدی کی حالت ہوچکی تھی۔ اسی حالت میں الہام ہوا کہ ’’نو دن کا بخار ٹوٹ گیا۔‘‘ یہ الہام اخبار بدر مؤرخہ 29 اگست میں قبل از وقت چھَپ گیا تھا۔ چنانچہ اس کے مطابق 30 اگست 1907ء کو بخار بالکل ٹوٹ گیا اور مبارک احمد تندرست ہوکر باغ سَیر کرنے کیلئے چلا گیا اور پھر چند روز بخار رہ کر 14 ستمبر 1907ء کو ٹوٹ گیا اور لڑکا بالکل صحت یاب ہوگیا اور لڑکے نے خود کہا کہ مَیں بالکل تندرست ہوں اور کھیلنا شروع کیا۔ اس بیماری سے تو شفا ہوئی لیکن خدا تعالیٰ کا ایک پرانا فرمودہ پورا ہونا تھا اِس واسطے ایک دوسرے مرض سے مبارک احمد پھر بیمار ہوا کیونکہ ضرور تھا کہ خدا کے منہ کی باتیں ساری پوری ہوجاتیں۔ اور اس الہام کی تفصیل یہ ہے کہ مبارک احمد کی پیدائش سے صرف ایک روز پہلے بذریعہ وحیِ الٰہی جتلایا گیا کہ یہ لڑکا جلد فوت ہوکر خدا تعالیٰ سے جاملے گا۔ چنانچہ اِس کی تشریح صاف الفاظ میں حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتاب تریاق القلوب مطبوعہ 1902ء کے صفحہ 40 ۔ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 213) میں کردی تھی۔ چنانچہ اِس جگہ ہم اصل عبار ت نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے:۔
’’مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ مَیں تجھے ایک اَور لڑکا دوں گا اور یہ وہی چوتھا لڑکا ہے جو اَب پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور اس کے پیدا ہونے کی خبر قریباً دو برس پہلے مجھے دی گئی اور پھر اُس وقت دی گئی کہ جب اس کے پیدا ہونے میں قریباً دو مہینے باقی رہتے تھے۔ اور پھر جب یہ پیدا ہونے کو تھا یہ الہام ہوا اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ یعنی میں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں اور خدا ہی کی طرف جائوں گا۔مَیں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ لڑکا نیک ہوگا اور رُو بخدا ہوگا اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی اور یا یہ کہ جلد فوت ہوجائے گا۔ اِس بات کا علم خدا تعالیٰ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادے کے موافق ہے۔‘‘
چنانچہ اس ارادہ ٔ الٰہی کے موافق مبارک احمد 16 ستمبر 1907ء روز دوشنبہ کی صبح کو اپنے خدا سے جا ملا اور مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔‘‘ ( بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 4)
2 ’’سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘ (بدر)
3 یعنی صاحبزادہ مبارک احمد صاحب۔ چنانچہ صاحبزادہ صاحب کی قبر دوسری قبروں سے کسی قدر فاصلہ پر ہے ۔ (مرتب)
2 ستمبر 1907ء
’’ 1اَفَمَنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّاِذَا دَعَاہُ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 37مؤرخہ 12 ستمبر 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء صفحہ 1)
5 ستمبر1907ء
’’(1) 2 تَوَ کَّلُوْا عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (2) بِسَلَامٍ مِّنَّا (3) تو ہر ایک بلا سے بچایا جائے گا۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 37مؤرخہ 12 ستمبر 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء صفحہ 1)
6 ستمبر1907ء
’’ 3 مَنْ کَانَ فِیْ نُصْرَۃِ اللّٰہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ نُصْرَتِہٖ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 37مؤرخہ 12 ستمبر 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء صفحہ 1)
10 ستمبر1907ء
’’4لَکُم الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 37مؤرخہ 12 ستمبر 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء صفحہ 1)
ستمبر1907ء
’’خواب میں دیکھا کہ ایک پانی کا گڑھا ہے ۔ میاں مبارک احمد اس میں داخل ہوا اور غرق ہوگیا۔ بہت تلاش کیا گیا مگر کچھ پتہ نہیں ملا۔ پھر آگے چلے گئے تو اس کی بجائے ایک اَور لڑکا بیٹھا ہوا ہے۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 5۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء ضمیمہ صفحہ ب)
14 ستمبر1907ء
’’ 5 لَاعِلَاجَ وَ لَا یُحْفَظُ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 5۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء صفحہ 2)
1 (ترجمہ از مرتب) کیاجو ہستی ایک بیقرار لاچار کی پکار سننے والی ہے اُسے چھوڑ کر کسی اَور کو پکارا جائے کہہ اللہ ہے۔ پھر انہیں ان کی بیہودہ گوئی میں چھوڑ۔
2 (ترجمہ از مرتب) (1) اس پر توکل کرو اگر تم مومن ہو (2) ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ۔
3 (ترجمہ از مرتب) جو شخص خدا کے دین کی مدد میں لگ جاتا ہے خدا اُس کی مدد میں لگ جاتا ہے۔
4 (ترجمہ) تمہارے لئے اس دُنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے۔
5 (ترجمہ از مرتب) نہ کوئی علاج ہوسکے گا اور نہ اس کی کسی طرح حفاظت ہوسکے گی۔
(نوٹ از مرتب) یہ الہام بھی صاحبزادہ مبارک احمد کے متعلق ہے جو دو دن بعد پورا ہوگیا۔ (بدر 19 ستمبر 1907ء صفحہ 5)
16 ستمبر 1907ء
’’1 یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۔‘‘ ( بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 1)
16 ستمبر1907ء
’’2 اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 5۔ الحکم جلد 11 نمبر 33 مؤرخہ 17 ستمبر1907ء صفحہ 1)
18 ستمبر1907ء
رؤیا۔ فرمایا۔ چند روز ہوئے مَیں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا تھا کہ وہ مُرتد ین میں داخل ہوگیا ہے۔ مَیں اُس کے پاس گیا۔ وہ ایک سنجیدہ آدمی ہے۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا۔ اُس نے کہا کہ مصلحت ِ وقت ہے۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 38مؤرخہ 19 ستمبر 1907ء صفحہ 5)
19 ستمبر1907ء
’’فرمایا۔ کئی دنوں سے اِبتلاؤں کا سامنا تھا۔ بیس پچیس دن رات تو مَیں سویا بھی نہیں۔ آج ذرا سی میری آنکھ لگ گئی تو یہ فقرہ الہام ہوا:۔
خدا خوش ہوگیا
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کریم اِس بات سے بہت خوش ہوا ہے کہ اِس ابتلا ء میں مَیں پورا اُترا ہوں اور اِس الہام کا یہی مطلب ہے کہ اس ابتلاء میں تو پورا اُترا ۔
اس کے بعد پھر آنکھ لگ گئی تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوشخط خوبصورت کا غذ میرے ہاتھ میں ہے جس پر کوئی پچاس ساٹھ سطریں لکھیں ہوئی ہیں۔ مَیں نے اس کو پڑھا ہے مگر اس میں سے یہ فقرہ مجھے یاد رہا ہے کہ
یَا عَبْدَ اللّٰہِ اِنِّیْ مَعَکَ۔ یعنی اے خدا کے بندے میں تیرے ساتھ ہوں3
اور اس کو پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ گویا خدا کو دیکھ لیا۔‘‘ (الحکم جلد 11 نمبر 35 مؤرخہ 30 ستمبر1907ء صفحہ2۔بدر جلد6 نمبر 39مؤرخہ 26 ستمبر 1907ء صفحہ 4و جلد6 نمبر 40مؤرخہ 3 اکتوبر 1907ء صفحہ 3)
20 ستمبر1907ء
’’ (1) 4 اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ۔ لَکُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (2) اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔‘‘
(بدر جلد6 نمبر 39مؤرخہ 26 ستمبر 1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 34 مؤرخہ 24 ستمبر1907ء صفحہ 2)
1 ترجمہ از مرتب) اس دن کو یاد کرو جب آسمان نمایاں طور پر دھواں لائے گا۔
2 (ترجمہ) ہم تجھے ایک حِلم والے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔
3 بدر میں یہ الہامات یوں درج ہیں’’خدا خوش ہوا‘‘اور یَا عَبْدِیْ اِنِّیْ مَعَکَ۔ اے میرے بندے مَیں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘ (مرتب)
4 (ترجمہ) (1) مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ تمہاری اِس دُنیا کی زندگانی میں خوشخبری ہے (2) مَیں ان سب کی حفاظت کروں گا جو اِس دار میں ہیں۔
20ستمبر 1907ء
’’فرمایا۔ ذرا سی مجھے غنودگی ہوئی تو الہام ہوا جس کا اِتنا حصہ یاد رہا:۔
اِنِّیْ مُبَارَکٌ۔1
اِس کے معنے بہت ہیں ۔ جیسے اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ ‘ ویسے ہی یہ ہے۔‘‘
(الحکم جلد11نمبر 35مؤرخہ 30 ستمبر 1907ء صفحہ 3)
21 ستمبر1907ء
’’(1) 2 وَا لضُّحٰی وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰی۔ مَا وَ دَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی (2) اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔ (3) اِنِّیْ مَعَکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ (4) اِنِّیْ مُبَارَکٌ (5) مَا بَقِیَ لِیْ ھَمٌّ بَعْدَ ذَالِکَ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 39مؤرخہ 26 ستمبر 1907ء صفحہ 4 و نمبر 40 مؤرخہ 3 اکتوبر 1907ء صفحہ3۔ الحکم جلد 11 نمبر 34 مؤرخہ 24 ستمبر1907ء صفحہ 2)
30 ستمبر1907ء
’’(1) 2 اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ رَحَی الْاِسْلَامِ (2) اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ (3) اِنَّ اللّٰہَ مَعِیْ فِیْ کُلِّ حَالٍ(4) ہر ایک حال میں تمہارے ساتھ مَیں ہوں ‘ تیری منشاء کے مطابق (5) کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ۔‘‘
(یعنی ہمیشہ موافقت کرنا لازمی امر نہیں۔ ابتلاء بھی درمیان ہیں)
(6) اَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ (7) اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ الرَّحْمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَالسُّلْطَانِ(8)5 اَ نْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ(9) اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ۔(یعنی تو میرے دین کی نصرت کرتا ہے جیسے ہارون موسیٰ کی نصرت کرتا تھا)
1 (ترجمہ از مرتب) مجھے برکت دی گئی ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) (1) چاشت کا وقت اور رات جبکہ وہ ڈھانپ لے شاہد ہے کہ تیرے ربّ نے تجھے نہیں چھوڑا اور نہ تیرا دشمن ہوا۔ (2) مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ (3)مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم ! (4)مَیں تمام برکتوں والا ہوں (5) اس کے بعد میرے واسطے کوئی غم باقی نہ رہا۔
3 (ترجمہ ) (1) تو مجھ سے بمنزلہ اسلام کی چکی کے ہے (2) مَیں نے تجھے روشن کیا اور تجھے پسند کیا (3) خدا ہر حال میں میرے ساتھ ہے (5) ہر روز وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے (6) مَیں نے چاہا کہ مَیں پہچانا جاؤں(7)مَیں تیرا ربّ رحمن ہوں صاحب عزت کا اور صاحب غلبہ کا۔
4 اشتہار 5 نومبر 1907ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 589 میں یہ الہام یوں درج ہے ’’اِنَّکَ بِمَنْزِلَۃِ رَحَی الْاِسْلَامِ۔‘‘
(مرتب)
5 (ترجمہ از مرتب) (8) تو میرے نزدیک بمنزلہ میرے عرش کے ہے (9) تو میرے نزدیک ہارون کے جابجا ہے۔
(10)1 اَ لَمْ تَرَکَیْفَ ☆ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔ (11) لائف آف پین (12) رَبِّ ارْحَمْنِیْ اِنَّ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ یُنْجِیْ مِنَ الْعَذَابِ۔ (13) تَعَلَّقْتُ بِالْاَھْدَابِ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 40مؤرخہ 3 اکتوبر1907ء صفحہ 3۔ الحکم جلد 11 نمبر 36 مؤرخہ 10 اکتوبر1907ء صفحہ 1)
8اکتوبر1907ء
’’(1) خیر اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالیٰ (2) 2وَ مَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ (3) یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ(4) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا (5) وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔(6)حنیف مسیح۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 42مؤرخہ 17 اکتوبر1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 37 مؤرخہ 17 اکتوبر1907ء صفحہ 5)
16 اکتوبر1907ء
’’3 اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ لَا یُخْزٰی عَبْدِیْ وَ لَا یُھَانُ عِشْقُکَ قَائِمٌ وَّوَصْلُکَ دَآئِمٌ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 42مؤرخہ 17 اکتوبر1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 37 مؤرخہ 17 اکتوبر1907ء صفحہ 5)
1 (ترجمہ از مرتب) (10) کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رَبّ نے اصحابِ فیل کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا۔ کیا ان کی تدبیر کو رائیگاں نہیں کردیا اور ان پر پرندے بھیجے تھے جھُنڈ کے جھُنڈ (11) تلخ زندگی (Life of Pain) (12)اے میرے ربّ ! مجھ پر رحم فرما۔ تحقیق تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں۔ یعنی تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے بچاتے ہیں (13)مَیں نے دامن سے تعلق کیا۔ یعنی اس کا دامن پکڑا۔
2 (ترجمہ ) (2) اور ہم میں سے ہر ایک کے واسطے ایک مقام معلوم ہے (3) تجھے وہ لوگ مدد دیں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے (4) اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو گاڑ دیا (5) اور ہم کسی بستی پر عذاب نہیں لاتے جب تک کہ اس میں رسول نہ بھیج لیں۔
3 (ترجمہ از مرتّب) مَیں ہی رحمٰن ہوں۔ میرا بندہ رُسوانہیں کیا جاتا اورنہ اسے ذلیل کیا جاتا ہے۔ تیرا عِشق قائم ہے اور تیرا تعلق ہمیشہ رہنے والا ہے۔
☆ الحکم جلد 11 نمبر 35 مؤرخہ 30 ستمبر 1907ء صفحہ 1 میں اِس الہام کی تاریخ 29 ستمبر 1907ء درج ہے۔ (مرتب)

21اکتوبر1907ء
’’(1) 1 مَنْ عَادٰی وَ لِیًّالِّیْ فَکَاَنَّمَاخَرَّ مِنَ السَّمَآئِ(2) اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ فَانْتَظِرْ۔
فرمایا۔ اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ کا الہام اُن لوگوں کے جواب میں معلوم ہوتا ہے جو خدا کے مُرسل کے مقابل پر ایسی شوخی اور تکذیب سے پیش آتے ہیں کہ گویا خیال کرتے ہیں کہ خدا موجود نہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں موجود ہوں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر کچھ ہورہا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کِس قدر بے جا حملے اور حد سے زیادہ زبان درازیاں ہورہی ہیں۔
(3) 2 لَا یُھَدُّ بِنَآؤُکَ وَ تُؤْتٰی مِنْ رَّبٍّ کَرِیْمٍ (4)3 وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَ رَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 43مؤرخہ 24 اکتوبر1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 38 مؤرخہ 24 اکتوبر1907ء صفحہ 3)
اکتوبر1907ء
(ا)’’(1)4 اُ ر یْکَ مَا اُرِیْکَ وَ مِنْ عَجَآئِبِ مَا یُرْضِیْکَ۔ (2) آپ کے لڑکا پیداہوا ہے۔ (یعنی آئندہ کسی وقت لڑکا پیدا ہوگا)۔
(3)رُدَّ اِلَیْھَا رَوْحُھَا وَ رَیْحَانُھَا۔
یعنی تمہاری بیوی کی طرف تازگی اور تازہ زندگی واپس کی گئی۔
(4) وَ اِمَّا تَرَیَنَّ اَحَدًا مِّنْھُمْ۔
اور اگر مخالفین یا معترض میں سے تیرے پاس کوئی آوے ( تَرَیَنَّ کے اِس جگہ یہی معنے ہیں)۔
(5)5 اِ نَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ۔
(6) یَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَکِ۔
(7) ساقیا آمدنِ عید مبارک بادت۔
(8) اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔
1 (1) جس نے میرے ولی کے ساتھ دشمنی کی۔ گویا آسمان سے گِرا۔ (2) مَیں موجود ہوں انتظار کر۔
2 (ترجمہ ) تیری بناتوڑی نہ جاوے گی اور تو ربِّ کریم سے دیا جائے گا۔
3 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تجھ سے تیرا بوجھ اُتار دیا جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اور تیرے ذکر کو بلند کردیا۔
4 (ترجمہ) مَیں تجھے دکھاؤں گا جو کچھ دکھاؤں گا اور نیز وہ باتیں دکھاؤں گا جن سے تو خوش ہوگا۔
5 (ترجمہ) (5) ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں(6) وہ مبارک احمد کی شبیہہ ہوگا (7) اے ساقی عید کا آنا تجھے مبارک ہو (8) تحقیق اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکی کرتے ہیں۔
(9) فرمایا۔ بعض متوحش خوابیں بھی ہیں۔ جیساکہ بعض کو قبرستان میں دفن کیا۔ ایک گوسپند مسلوخ دیکھا۔ معلوم نہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور کونسا محل ہے۔
( بدر جلد6 نمبر 44مؤرخہ 31 اکتوبر1907ء صفحہ 4۔ الحکم جلد 11 نمبر 39 مؤرخہ 31 اکتوبر1907ء صفحہ 1)
(ب) ’’یہ بھی دیکھا کہ گھر میں ہمارے ایک بکرا ذبح کیا ہوا کھال اُتاری ہوئی ایک جگہ لٹک رہا ہے۔ پھر دیکھا کہ ایک ران لٹک رہی ہے۔ یہ سب بعض موتوں کی طرف اشارات ہیں۔‘‘
( مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحب۔ مکتوباتِ احمدیہ جلد ہفتم حصہ اوّل صفحہ 45)
1907ء
’’وَیَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم الہام کریں گے۔ وہ دُور دراز جگہوں سے تیرے پاس آویں گے۔
اِس جگہ استعارہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ نے مجھے بیت اللہ سے مشابہت دی کیونکہ آیت یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق خانہ کعبہ کے حق میں ہے۔‘‘
(اشتہار 5 نومبر 1907ء مشمولہ اخبار الحکم جلد 11 نمبر 40 مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 5 زیر عنوان ’’تبصرہ‘‘)
1907ء
’’تیرے مخالفوں کا اخزاء اور افناء تیرے ہی ہاتھ سے مقدر تھا ۔ یعنی جو لوگ تجھے رسوا اور ہلاک کرنا چاہتے ہیں وہ آپ ہی رُسوا اور ہلاک ہوں گے۔‘‘
( اشتہار 5 نومبر 1907ء مشمولہ اخبار الحکم جلد 11 نمبر 40 مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 6۔ مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ590)
1907ء
’’اور پھر فرمایا کہ:۔
اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ الرَّحْمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَ السُّلْطَانِ۔ مَنْ عَادٰی وَ لِیًّالِّیْ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ۔ اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ فَانْتَظِرْ۔ سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ۔ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ لَکُمْ فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَ ط اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْبَرَکَاتِ۔ یَاعَبْدَ اللّٰہِ اِنِّیْ مَعَکَ۔ وَ الصُّحٰی وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰی مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔
یعنی مَیں رحمن ہوں صاحب عزت و سلطنت۔ جو میرے ولی سے دشمنی کرے گویا وہ آسمان سے گِر گیا۔ مَیں موجود ہوں پس میرے فیصلہ کا تو منتظر رہ۔ جو لوگ عداوت سے باز نہیں آتے عنقریب ان پر غضب ِ الٰہی نازل ہوگا۔ ہم عذاب نازل نہیں کرتے مگر اس حالت میں کہ جب پہلے رسول آجاوے۔ یعنی دُنیا پر عذاب ِ شدید نازل ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول آگیا ہے اور پھر فرمایا کہ عذاب سے وہ لوگ نجات پائیں گے جنہوں نے دلوں کو پاک کیا اور وہ لوگ سزا
پائیں گے جنہوں نے اپنے نفسوں کو گندہ کیا۔ ان کو کہہ دے کہ مَیں تمہارے لئے مامور ہوکر آیا ہوں۔ پس وہی کرو جو مَیں حکم کرتا ہوں۔ یہ برکت کے دن ہیں ان کا قدرکرو۔ اے خدا کے بندے مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مجھے روزِ روشن کی قسم ہے اور اس رات کی جو تاریک ہو۔جوتیرے رَبّ نے تجھے دشمن نہیں پکڑا۔‘‘
( اشتہار 5 نومبر 1907ء الحکم جلد 11 نمبر 40 مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 6)
1907ء
اور پھر فرمایا۔’’مَیں تیری نسل کو جڑ سے معدوم نہیں کروں گا بلکہ جو کچھ کھویا گیا وہ خدائے کریم واپس دے گا۔‘‘
( اشتہار 5 نومبر 1907ء )
1907ء
’’اور پھر اُردو میں فرمایا کہ:۔
’’ہر حال میں تمہارے ساتھ موافق ہوں اور تیرے منشاء کے مطابق ۔‘‘ ( اشتہار 5 نومبر 1907ء )
1907ء
’’اور پھر فرمایا :۔
لَکُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ خیر و نصرت و فتح انشاء اللہ تعالیٰ۔ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھَرَکَ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ۔ اِنِّیْ مَعَکَ ذَکَرْتُکَ فَاذْکُرْنِیْ۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ حَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُرْفَعَ بَیْنَ النَّاسِ۔ اِنِّیْ مَعَکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ۔ اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔ اِنَّکَ مَعِیْ وَ اَھْلُکَ۔ اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْمٰنُ فَانْتَظِرْ۔ قُلْ یَاْخُذُکَ اللّٰہ۔
یعنی تمہارے لئے دُنیا اور آخرت میں بشارت ہے۔ تیرا انجام نیک ہے۔ خیر ہے اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ہم تیرا بوجھ اُتار دیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی اور تیرے ذکر کو اُونچا کردیں گے۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں ۔ مَیں نے تجھے یاد کیا ہے سو تو مجھے بھی یاد کر۔ اور اپنے مکان کو وسیع کردے۔ وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جاوے گا اور لوگوں میں تیرا نام عزت اور بلندی سے لیا جائے گا۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور ایسا ہی تیرے اہل کے ساتھ۔ اور تومیرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل۔ مَیں رحمن ہوں میری مدد کا منتظر رہ۔ اور اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا۔
اور پھر آخر میں اُردو میں فرمایا کہ
مَیں تیری عمر کو بھی بڑھا1 دوں گا
یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی 1907ء سے (لے کر) 14 مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو
1 (نوٹ از مرتب) یہ پیشگوئی ڈاکٹر عبدالحکیم خان مرتد کی پیشگوئی کے مقابل پر ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام
دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو مَیں جھوٹاکروں گا اور تیری عمر کو بڑھادوں گا تا معلوم ہو کہ مَیں خدا ہوں ‘ اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے......اِس پیشگوئی کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی ہے ایک سخت طاعون اِس ملک میں اور دوسرے ممالک میں بھی آنے والی ہے جس کی نظیر پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ وہ لوگوں کو دیوانہ کی طرح کردے گی۔ معلوم نہیں
بقیہ حاشیہ: کی وفات کے متعلق کی تھی اور حضور ؑ کی یہ پیشگوئی اس طور پر پوری ہوئی کہ جب تک ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے اپنی پیشگوئی کو جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی ایک میعاد بیان کی تھی‘ منسوخ نہ کردیا اُس وقت تک اللہ تعالیٰ آپ کی عمر کو بڑھاتا گیا اور جب اُس نے ایک معین دن کے ساتھ اپنی پیشگوئی کو وابستہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دوسرے رنگ میں جھوٹا ثابت کیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ پہلے اس نے 12 جولائی 1906ء کو یہ پیشگوئی شائع کی کہ
’’مرزا مُسرِف ہے ‘ کذّاب ہے اور عیّار ہے۔ صادق کے سامنے شریر فنا ہوجائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتلائی گئی ہے۔‘‘
(کانا دجّال صفحہ 50)
اس کے جواب میں حضرت اقدس ؑ پر بذریعہ وحی یہ دعا نازل ہوئی:۔ رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّ کَاذِبٍ
اس کے بعد یکم جولائی 1907ء کو اُس نے لکھا :۔
’’اللہ نے اِس (مرزا) کی شوخیوں اور نافرمانیوں کی سزا میں سہ سالہ میعاد میں سے جو 11 جولائی 1909ء کو پوری ہونی تھی دس 10 مہینے اور گیارہ دن کم کردیئے اورمجھے یکم جولائی 1907ء کو الہاماً فرمایا کہ مرزا آج سے چودہ ماہ تک بسزائے موت ہاویہ میں گرایا جائے گا۔‘‘
(اعلان الحق و اتمام الحجۃ و تکملہ صفحہ 6مؤلفہ مرتد مذکور)
اِس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشتہار 5 نومبر 1907ء (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 591۔ الحکم مؤرخہ 10 نومبر 1907ء صفحہ7) میں اس کے متعلق مذکورہ بالا وحی الٰہی یعنی ’’ مَیں تیری عمر کو بھی بڑھادوں گا‘‘ شائع فرمائی۔ اس کے بعد مرتد مذکور نے 16 فروری کو یہ اعلان کیا کہ:۔
’’مرزا 21 ساون سم 1965 (مطابق 4 اگست 1908ء)تک ہلاک ہوجائے گا۔‘‘
(دیکھئے اعلان الحق و اتمام الحجۃ و تکملہ صفحہ 26)
اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے متعلق فرمایا کہ:۔
’’خدا نے اُس کی پیشگوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گااور خدا اُس کو ہلاک کرے گا اور مَیں اُس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔‘‘
(چشمہ ٔ معرفت صفحہ 322۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 337)
اِس کے بعد مرتد مذکور نے 8 مئی 1908ء کے خط کے ذریعہ سے اخبارات میں اعلان کیا کہ:۔
کہ اِس سال یا آئندہ سال میں ظاہر ہوگی۔ مگر خدا مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ مَیں تجھے اور تمام اُن لوگوں کو جو تیری چار دیواری کے اند ر ہیں بچاؤں گا۔ گویا اس دن یہ گھر نوح کی کشتی ہوگا جو شخص اس گھر میں داخل ہوجائے گا وہ بچایا جائے گا۔
( اشتہار 5 نومبر 1907ء۔ الحکم جلد مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 6)
6، 7 نومبر1907ء
’’سَاَھَبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیًّا۔ رَبِّ ھَبْ لِیْ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً۔ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامِ نا سْمُہٗ یَحْیٰ۔اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ۔ اَخَذَ ھُمُ اللّٰہُ بَقِیَ وَحْدَہٗ۔ لَا شَرِیْکَ مَعَہٗ۔ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ۔ موت قریب۔ اِنَّ اللّٰہَ یَحْمِلُ کُلَّ حِمْلٍ۔ مَنْ خَدَمَکَ خَدَمَ النَّاسَ کُلَّھُمْ۔ وَمَنْ اٰذَاکَ اٰذَی النَّاسَ جَمِیْعًا۔
آمدنِ1عید مبارک بادت۔ عید2 تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو۔
(ترجمہ) مَیں ایک پاک اور پاکیزہ لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں۔ اے میرے خدا پاک اولاد مجھے بخش ۔ مَیں تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں جس کا نام یحییٰ ہے (معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ زندہ رہنے والا) تو دیکھے گا کہ تیرا رَبّ اُن
بقیہ حاشیہ: ’’مرزا 21 ساون سم 1965 (4 اگست 1908ء) کو مرضِ مہلک میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوجائے گا۔‘‘
(پیسہ اخبار مؤرخہ 15 مئی 1908ء و اہلحدیث 15 مئی 1908ء)
اِس کے جواب میں حضور ؑ نے فرمایا:۔ ’’اللہ تعالیٰ ظاہر کردے گا کہ راستباز کون ہے۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 19‘20مؤرخہ 24 مئی1908ء صفحہ 7)
سو اللہ تعالیٰ نے مرتد مذکور کی پہلی تینوں پیشگوئیوں کی منسوخی کا اعلان خود اس کے قلم سے کرواکر اس کی آخری پیشگوئی کو جھوٹا ثابت کردیااور وہ اِس طرح پر کہ حضور کی وفات 4 اگست 1908ء کو نہیں بلکہ 26 مئی 1908ء کو ہوئی ۔صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔
اور مرتد ڈاکٹر پر اس کی تمام پیشگوئیاں اُلٹ پڑیں۔اُسے 30 اکتوبر 1906ء کو الہام ہوا تھا کہ ’’مرزا پھیپھڑے کے مرض سے ہلاک ہوگیا‘‘ مگر وہ خود پھیپھڑے کے مرض سے ہلاک ہوا۔ اُس نے پیشگوئی کی تھی کی ’’مرزا کی جڑ بنیاد اُکھڑ جائیگی۔‘‘ (اعلان الحق صفحہ 7) اور اپنے متعلق لکھا تھا:۔ "You will succeed"یعنی تم کامیاب ہوجاؤ گے (اعلان الحق صفحہ 7) سو اس کی اپنی جڑ بنیاد اُکھڑ گئی اور ایسی اُکھڑی کہ نام و نشان تک مِٹ گیا ۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے کام میں اللہ تعالیٰ نے اِس قدر برکت دی کہ آج رُوئے زمین کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ کے شیدائی نہ پائے جاتے ہوں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِک۔
1 (ترجمہ از مرتب) عید کا آنا تیرے لئے مبارک ہو۔
2 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ عید الفطر کے دَوران میں اِس الہام کی تفسیر و تشریح فرماتے
مخالفوں سے کیا کرے گا جو تیرے معدوم کرنے کیلئے حملے کرتے ہیں۔ خدا ان کو پکڑے گا اور یہ خدا کا بندہ اکیلا رہے گا۔ اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ہوگا۔ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔ یعنی باطل بھاگ جائے گا۔ ایک شخص کی موت قریب ہے۔ خدا ہر ایک بوجھ کو آپ اُٹھائے گا(اس کے معنے اَب تک معلوم نہیں ہوئے۔ آئندہ خدا قادر ہے کہ تفصیل ظاہر کردے) جو شخص تیری خدمت کرتا ہے اس نے ایسا کام کیا کہ گویا سارے جہان کی خدمت کی اور جو شخص تجھے دُکھ دیتا ہے اُس نے ایسا کام کیا کہ گویا ساری دُنیا کو دُکھ دیا۔‘‘
اِس کے بعد ایک اَور الہام ہے جس کے اظہار کی اجازت نہیں شاید بعد میں اجاز ت ہوجائے۔ اس کا پہلا فقرہ یہ ہے:۔
’’دیکھ مَیں ایک نہایت چھپی ہوئی بات پیش کرتا ہوں‘‘
( بدر جلد6 نمبر 46مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 2۔ الحکم جلد 11 نمبر 40 مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 3)
(اسی الہام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کو اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں ۔)
’’(ایک) نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دل کو غمناک کرتا رہتا ہے۔ ایک پیشگوئی ہے جو چند دفعہ خدا تعالیٰ
بقیہ حاشیہ: ہوئے ارشاد فرمایا:۔
’’ایک تو اِس الہام کے وقتی معنی تھے کہ اُس دن شبہ تھا آیا عید ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دُور فرمادیا اور بتایا ’’عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو۔‘‘ لیکن میرے نزدیک اِس وحی کا صرف یہی مفہوم نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’چاہے کرو یا نہ کرو۔‘‘ اور جس کام کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرمائے ’’چاہے کرو یا نہ کرو‘‘ صرف اس کیلئے خصوصیت سے الہام کرنا کوئی وجہ نہیں رکھتا۔ میرے نزدیک علاوہ اِس مفہوم کے ایک اَور لطیف نکتہ بھی اِس میں بیان فرمایا گیا ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت طرف اشارہ ہے۔ انبیاء کی بعثت بھی ایک عید ہوا کرتی ہے۔ یعنی ان کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کے فضل پھر دُنیا پر نازل ہوتے ہیں اور دُنیا میں ترقیات کا بیج ان کے ذریعہ بویا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسا بیج ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ ترقی کرکے ایک اِتنا بڑا درخت بن جاتا ہے جس کے پھَلوں اور سایہ سے اہل ِ دُنیا مُستفید ہوتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو وہ عید نظر نہیں آیا کرتی۔ لوگ عام طور پر اس سے منہ پھیر لیتے ہیں.....یہ فقرہ کہ ’’عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو‘‘ اس میں اس عید کی طرف اشارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی عید ہے‘ اور ا س کا یہ مطلب نہیں کہ چاہے یہ کرو یا نہ کرو ایک ہی بات ہے بلکہ یہ اسی طرح کہا گیا ہے جیسے کہتے ہیں ’ ہے تو سچا چاہے مانو یا نہ مانو‘۔ یعنی اس سے فائدہ اُٹھانا نہ اُٹھانا تمہارا کام ہے ہم نے چیز مہیا کردی ہے......اِس الہام میں اللہ تعالیٰ نے علم النفس کا ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے یعنی عید کرنا یا نہ کرنا انسان کے اندر کے احساسات پر منحصر ہے‘ صرف سامان کا موجود ہونا عید منانے کیلئے کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔‘‘ ( الفضل جلد16 نمبر 73مؤرخہ 19 مارچ1929ء صفحہ5۔خطبہ عید الفطر فرمودہ 13 مارچ1929ء)
کی طرف سے ہوچکی ہے۔ مَیں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا۔ اس پیشگوئی کے ایک حصہ کا حادثہ ہم میں اور آپ1میں مشترک ہے۔ بہت دُعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے اور دوسرے حصہ کا حادثہ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص سے متعلق ہے۔‘‘ ( مکتوب نمبر97/34 مکتوباتِ احمدیہ جلد ہفتم حصہ اوّل صفحہ 45)
10 نومبر1907ء
’’ایک وَبا پڑے گی
(فرمایا) ۔ معلوم نہیں یہ کس قسم کی وَبا ہوگی۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 46مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 2۔ الحکم جلد 11 نمبر 40 مؤرخہ 10 نومبر1907ء صفحہ 3)
نومبر1907ء
’’ (1) 2 قَذ فَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ الرُّعْبَ (2) وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوْبٍ۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 46مؤرخہ 21 نومبر1907ء صفحہ4۔ الحکم جلد 11 نمبر 42 مؤرخہ 24 نومبر1907ء صفحہ 3)
26 نومبر1907ء
’’(1) بلاءِ ناگہانی۔
(2) ایک عربی لفظ الہام ہوا جس کے معنے ہیں تو اُن کی چیخیں سنے گا۔
(3) یا اللہ فتح۔‘‘
( بدر جلد6 نمبر 48مؤرخہ 28 نومبر1907ء صفحہ 4)
29 نومبر1907ء
’’ 3 اِنَّمَا صَنَعُوْا ھُوَکَیْدُ سَاحِرٍ۔ وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی۔
(فرمایا) اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قوم یا گروہ اپنے دقیق مَکر سے مَیدانِ مقابلہ میں سلسلہ کی عظمت کو مٹانا چاہتی ہے مگر خدا تعالیٰ اسے بامراد نہیں کرے گا بلکہ حق کی عظمت ظاہر ہوگی۔‘‘ ( الحکم جلد 11 نمبر 43 مؤرخہ 30 نومبر1907ء صفحہ 11)
1907ء
’’ ایک4 دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں جو طبِّ
1 یعنی نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ۔ (مرتب)
2 (ترجمہ) خدا تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیا۔ (2) یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔
3 (ترجمہ) تحقیق جو کچھ انہوں نے بنایا ہے یہ ایک دھوکے کا منصوبہ ہے اور دھوکہ باز کامیاب نہیں ہوسکتا جس راہ سے بھی وہ آئے۔
4 چونکہ نزولِ الہام کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی اِس لئے اسے ؁ تصنیف کتاب چشمہ ٔ معرفت 15 مئی 1908ء کے ماتحت درج کیا گیا۔ (مرتب)
جسمانی کے قواعد ِ کلیہ اور اصولِ علمیّہ اور سِتَّہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے......اور جب مَیں نے اُن کتابوں کو پیش ِ نظر رکھ کر جو طِبِّ جسمانی کی کتابیں تھیں‘ قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طبِّ جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہایت بلیغ پَیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں۔‘‘ ( چشمہ ٔ معرفت صفحہ 95۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 103)
2 دسمبر1907ء
(الف)1 اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ۔
(2) اِنَّھُمْ مَّاصَنَعُوْا ھُوَ کَیْدُ سَاحِرٍ ط وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی۔
(3) اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ رُوْحِیْ۔
(4) اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ۔
(5) جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ۔‘‘ 3
( بدر جلد6 نمبر 50مؤرخہ 12 دسمبر1907ء صفحہ3۔ الحکم جلد 11 نمبر 44 مؤرخہ 10 دسمبر1907ء صفحہ 8۔
ضمیمہ چشمہ ٔ معرفت صفحہ 68۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 436)
(ب) ’’ جب مَیں مضمون4ختم کرچکا تو ساتھ ہی مجھ کو یہ الہام خدا کی طرف سے ہوا تھا:۔
اِنَّھُمْ مَّا صَنَعُوْا ھُوَکَیْدُ سَاحِرٍوَّلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ۔
(ترجمہ) آریہ لوگوں نے جو یہ جلسہ تجویز کیا ہے یہ مکار لوگوں کی طرح ایک مکر ہے اور اس کے نیچے ایک شرارت اور بَد نیتی مخفی ہے مگر فریب کرنے والا میرے ہاتھ سے کہاں بھاگے گا۔ جہاں جائے گا مَیں اس کو پکڑ وں گا اور میرے ہاتھ سے چھٹکارا نہیں پائے گا ۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ وہ ستارہ جو شیطان پر گِرتا ہے۔‘‘
(اشتہار 15 مئی 1908ء بعنوان باعث تالیف کتاب ہٰذا مندرجہ چشمہ ٔ معرفت صفحہ ج۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 7)
1 (ترجمہ) (1) تو مجھ سے بمنزلہ اس ستارے کے ہے جو قوت اور روشنی کے ساتھ شیطان پر حملہ کرتا ہے۔
2 (2) جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ ساحر کی تدبیر ہے اور ساحر کسی راہ سے آئے وہ کامیاب نہیں ہوگا۔(3) تو مجھ سے بمنزلہ میری رُوح کے ہے (4) تو مجھ سے بمنزلہ اُس ستارے کے ہے جو قوت اور روشنی کے ساتھ شیطان پر حملہ کرتا ہے۔ (5) حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔
3 (نوٹ از مرتب) یہ الہامات اُس لیکچر کی تصنیف کے وقت ہوئے جو 3 دسمبر 1907ء کو لاہور میں پڑھا گیا۔ (مرتب)
4 یعنی وہ مضمون جو قادیان میں آریوں کے مذہبی جلسہ میں سنا نے کیلئے لکھا گیا تھا اور یہ مضمون چشمہ ٔ معرفت کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ (مرتب)
دسمبر1907ء
’’(1) 1 اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔ اَحْمِلُ اَوْزَارَکَ (2) مَیں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں (3) اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْرُ (4) وَقَعَ وَاقِعٌ وَّ ھَلَکَ ھَالِکٌ (5) وَضَعْنَا النَّاسَ تَحْتَ اَقْدَامِکَ (6) وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (7) اُجِیْبَتْ دَعْوَتُکَ (8) سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ (9) اُجِیْبَتْ دَعْوَتُکُمَا۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ (10) اِنِّیْٓ مَعَکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ (11)2اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ الْاَعْلٰی (12) اِخْتَرْتُ لَکَ مَا اخْتَرْتَ (13) بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید (14) ستائیس کو ایک واقعہ3(ہمارے متعلق) اللّٰہُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی (15) خوشیاں منائیں گے (16)4 بَعْدَ سَنَۃٍ وَّاحِدَۃٍ (17) صَلٰوتُکَ خَیْرٌوَّاَبْقٰی۔ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (18) دَخَلْتُمُ الْجَنَّۃَ وَمَا عَلِمْتُمْ مَا الْجَنَّۃُ ذَالِکَ الْیَوْمُ الْاٰخِرُ۔‘‘ ( بدر جلد6 نمبر 51مؤرخہ 19 دسمبر1907ء صفحہ4‘5۔ الحکم جلد 11 نمبر 46 مؤرخہ 24 دسمبر1907ء صفحہ 4)
1 (ترجمہ) (1) مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ مَیں تیرے بوجھ اُٹھائوں گا(2) اے مسرور مَیں تیرے ساتھ ہوں (3) ایک واقع وقوع میں آئے گا اور ہلاک ہونے والا ہلاک ہوگا (4) ہم نے لوگوں کو تیرے قدموں کے نیچے رکھ دیا (5) ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اُٹھا دیا جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اور تیرے ذکر کو بلند کیا (6) تیری دُعا قبول کی گئی (7) عنقریب ہم ان کو نشانات دکھلائیں گے ۔ گردونواح میں اور خود اُن میں(8) تم دونوں کی دُعا قبول کی گئی۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے (9) مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم ! ۔
2 (ترجمہ) (11) مَیں تیرا رَبِّ اعلیٰ ہوں (12) مَیں نے تیرے لئے وہ امر پسند کیا جو تونے اپنے لئے پسند کیا (13) خوشی و خرمی سے چل کہ تیرا وقت قریب آگیا(14) اللہ تعالیٰ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔
3 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مکتوب میں بھی جو نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کو بھیجا تحریر فرمایا:۔
’’دوسرے نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دِل کو غمناک کرتا رہتا ہے ایک پیشگوئی ہے جو چند دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوچکی ہے۔ مَیں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا۔ اِس پیشگوئی کے ایک حصہ کا حادثہ ہم میں اور آپ میں مشترک ہے ۔ بہت دُعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے اور دوسرے حصہ کا حادثہ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص سے متعلق ہے۔ یہ بھی الہام کسی حصہ کی نسبت ہے کہ 27 تاریخ کو وہ واقعہ ہوگا ۔ نہیں معلوم کس مہینہ کی تاریخ اور کونسا سَن ہے۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام نواب محمد علی خان صاحب۔ مکتوباتِ احمدیہ جلد ہفتم حصہ اوّل صفحہ 45 مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔ اے قادیان)
واقعات نے بتادیاکہ یہ تاریخ 27 مئی 1908ء کی تھی جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھایا گیا۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) (16) ایک سال کے بعد (17) تیری عبادت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ تیری دعا اُن کیلئے آرام کا موجب ہے (18) تم داخل ہوگے بہشت میں اور تم جانتے ہو کہ کیا چیز ہے بہشت ‘ یہ آخری دن ہے۔
20 دسمبر1907ء
’’(1) آج ہماری بخت بیداری۔
(2)1 اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۔
(3) خدا نے اُسے لیا۔
(4) وَ اللہ! وَ اللہ! سِدّھا ہو یا اَوَ لَّا۔
فرمایا ۔ یہ پنجابی فقرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کج طبع آدمی درست ہوگیا ہے۔
(5) وقت رسید ۔2‘‘
( بدر جلد6 نمبر 52مؤرخہ 26 دسمبر1907ء صفحہ4۔ الحکم جلد 11 نمبر 46 مؤرخہ 24 دسمبر1907ء صفحہ 4)
ایامِ جلسہ1907ء
’’3 یَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْا الْجَآئِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔‘‘
( بدر جلد7 نمبر 1مؤرخہ 9 جنوری1908ء صفحہ1‘3۔ الحکم جلد 12 نمبر 1 مؤرخہ 2 جنوری1908ء صفحہ 3)
1 (ترجمہ) یقینا تیرا دشمن جو ہے وہی اَبتر ہے۔
2 (ترجمہ) وقت آگیا۔
3 (ترجمہ از مرتب) یعنی اے نبی ! بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلاؤ۔
(نوٹ) ’’ بعض مہمانوں کو (سالانہ جلسہ 1907ء کے موقعہ پر۔ مرتب) ایک دن کھانا بہت دیر میں ملا۔ روٹی کافی تیار تھی مگر جگہ تنگ تھی اور تھوڑے آدمی ایک وقت میں کھاسکتے تھے اِس واسطے بہت دیر ہوگئی اور بعض مہمان بغیر کھانا کھانے کے سونے کے کمروں میں چلے گئے .....تو ان کو یہ انعام ملا کہ خود خداوند ِ عالَم نے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور براہِ راست آسمان سے اللہ کے رسول کے پاس رات کو پیغام پہنچا کہ اَطْعِمُوْا الْجَآئِعَ وَالْمُعْتَرَّ بھوکے اور مُضطر کو کھانا کھلا۔ صبح سویرے حضور ؑ نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ رات کو بعض مہمان بھوکے رہے۔ اُسی وقت آپ نے ناظمانِ لنگر کو بلایا اور بہت تاکید کی کہ مہمانوں کی ہر طرح سے خاطر داری کی جاوے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔‘‘
( بدر جلد7 نمبر 1مؤرخہ 9 جنوری1908ء صفحہ3)
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ اسی الہام کے متعلق فرماتے ہیں:۔
’’28 دسمبر 1907ء کا واقعہ ہے کہ صبح کے آٹھ بجے کھانا کھانے کے بعد یہ عاجز جلسہ میں تقریروں کے سننے میں لگ گیا۔ اسی روز مسیحِ پاک کی تقریر بھی سنی اور خوب سیری حاصل ہوئی۔ نماز مغرب و عشاء ( جمع کردہ) ادا کی اور مسجد مبارک میں حسب الارشاد مجلس معتمدین صدر انجمن کے جنرل اجلاس میں شامل ہونے کی غرض سے بیٹھ گیا کہ اجلاس کے بعد کھانا کھالوں گا۔ اعلان کے مطابق اس میں جماعتوں کے صدر صاحبان اور سیکرٹریوں کی شمولیت ضروری تھی۔ میں اس وقت کمزور تھا۔ بھوکا تھا کہ صبح آٹھ بجے کا کھانا کھایا ہوا تھا۔ دن میں اور کچھ کھانے کو میسر نہ آیا تھا۔ بیس سالہ جوان تھا۔ شاید ایک آدھ کے سوا باقی تمام احباب سنتوں وغیرہ سے فارغ ہوکر مسجد سے چلے گئے تھے۔ اس حال کے پیش نظر نفس تقاضا کرتا تھا کہ اٹھ کر چلا جا کہ غالباً اراکین صدر انجمن احمدیہ کھانا کھانے کیلئے چلے گئے ہیں اور سب لوگ لنگر میں کھانا کھارہے ہیں تو بھی جاکر کھانا کھا کر چلا آ۔ لیکن غریب دل ڈرا کہ مبادا
یکم جنوری1908ء
(1)’’1 دبد بہ ٔ خسردیم شد بلند۔ زلزلہ در گورِ نظامی فگند۔
(2) اِنِّیْ مَعَکَ اَیْنَمَا تَذْھَبُ وَ تَسِیْرُ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 3مؤرخہ 23 جنوری1908ء صفحہ4۔ الحکم جلد 12 نمبر 6 مؤرخہ 22 جنوری1908ء صفحہ 10)
2 جنوری1908ء
’’(1) 2 اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔
(2) اِنِّیْ مَعَکَ فِیْ کُلِّ حَالٍ وَ عِنْدَ کُلِّ مَقَالٍ۔
(3) اِنِّیْ مَعَکَ فِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ۔نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ۔
بقیہ حاشیہ: غیر حاضر ہوجائوں۔ بیٹھا رہا ۔ پورے دو گھنٹے انتظار میں گذر گئے۔ بھوک نے بہت ستایا۔ قریباً پونے نو بجے معزز اراکین صدر انجمن اور چند احباب جماعت ہائے بیرون تشریف لے آئے۔ اجلاس شروع ہوکر پونے بارہ بجے رات ختم ہوا۔ خواہش خوراک از خود ختم ہوگئی کہ بھڑک کی طاقت ہی باقی نہ رہی تھی۔ مسجد سے نیچے اترا اور طوعاً و کرہاً لنگر کا رخ کیا جسے بند پایا۔ ناچار اپنی جائے قیام پر جو بیت المال کے کمروں میں تھی واپس آکر سونے کو تھا کہ کسی نے دروازہ پر دستک دی کہ جس مہمان بھائی نے کھانا نہیں کھایا وہ لنگر خانہ میں جاکر کھانا کھالے۔ چنانچہ بندہ گیا اور جو کچھ ملا شکر کرکے کھا کر چلا آیا۔
اگلی صبح کے نو دس بجے میں دیکھتا ہوں کہ پیارا مسیحِ پاک چھوٹی مسجد کے دروازہ میں گلی رخ کھڑا ہوا ہے اور کئی ایک عشاق سامنے کھڑے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو بلائیں۔ چنانچہ حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ سامنے حاضر ہوئے تو فرماتے ہیں معلوم ہوتا ہے آج رات کے کھانے کا انتظام اچھا نہ تھا کہ بعض مہمان بھوکے رہ گئے۔ کسی کی بھوک عرش تک پہنچی ہے اور مجھے بشدت الہام کیا گیا۔ یَآاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْا الْجَآئِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔
یہ الہام رات کے دس بجے کے قریب ہوا تھا جس پر حضور والا نے باہر منتظمین کو کہلا بھیجا تھا کہ جن مہمانوں کو کھانا نہیں ملا ان کو کھانا کھلایا جائے۔ اسی واسطے منتظمین میں سے کسی نے میرے دروازہ پر دستک دی تھی۔‘‘ (اصحاب احمد جلد 8 صفحہ 91‘92)
1 (ترجمہ از مرتب) (1) میری بادشاہت کا دبدبہ بلند ہوا۔ نظامی کی قبر میں زلزلہ پڑا (2) مَیں تیرے ساتھ ہوں جہاں تو جائے اور پھرے۔
2 (ترجمہ) (1) مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ (2) مَیں تیرے ساتھ ہوں ہر حال میں اور ہر گفتگو میں۔(3) مَیں تیرے ساتھ ہوں ہر ایک میدان میں۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور فتح قریب ہے۔
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’ مَیں نے خود حضرت صاحب سے سنا ہے ‘ فرماتے تھے کہ’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ‘‘ اور’’اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ‘‘ یہ دونوں الہام ایک ایک رات میں ہزار ہا دفعہ ہوئے ہیں اور فرمایا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تکیہ پر سر رکھا اور ان الہامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور صبح کو نماز کیلئے اُٹھے تو سلسلہ جاری تھا۔‘‘
(الفضل جلد 9 نمبر 34 مؤرخہ 31 اکتوبر 1921ء صفحہ 5 زیر عنوان حضرت خلیفۃ المسیح کی ڈائری مؤرخہ 20 اکتوبر 1921ء)
(4)1 وَھُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیُغْلَبُوْنَ۔
(5) وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ۔
(6) نَصَرَکُمُ اللّٰہُ نَصْرًا مُّؤَزَّرًا۔
(7) اِنِّیْ مَعَکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 3مؤرخہ 23 جنوری1908ء صفحہ4۔ الحکم جلد 12 نمبر 6 مؤرخہ 22 جنوری1908ء صفحہ 10)
5 جنوری1908ء
’’مرحوم امیر خاں کی بیوہ جس دن اُس کا خاوند فوت ہوا ‘ مَیں نے دیکھا کہ اُس بیوہ کی پیشانی پر 5 یا 6 یا 7 کا عدد لکھا ہوا ہے مَیں نے وہ مٹادیا اور اس کی جگہ اس کی پیشانی پرچھ کا عدد لکھ دیا ہے۔2 ‘‘
( بدر جلد7نمبر 3مؤرخہ 23 جنوری1908ء صفحہ4۔ الحکم جلد 12 نمبر 6 مؤرخہ 22 جنوری1908ء صفحہ 10)
18 جنوری1908ء
(الف) ’’یہ پیشگوئی کی آخری حد ہے۔ وہ وعدہ ٹلے گا نہیں جب تک خون کی ندیاں چاروں طرف سے بہہ نہ جائیں۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 3مؤرخہ 23 جنوری1908ء صفحہ4۔ الحکم جلد 12 نمبر 6 مؤرخہ 22 جنوری1908ء صفحہ 10)
(ب) ’’یہ پیشگوئی کی آخری حد ہے ۔ اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ یہ پیشگوئی کی آخری حد ہے۔ اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ وہ وعدہ ٹلے گا نہیں جب تک خون کی ندیاں چاروں طرف سے بہہ نہ جائیں۔‘‘
(تحریر فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر اَوراق کتاب تعطیر الانام3)
1 (ترجمہ از مرتب) (4) اور وہ غلبہ کے بعد عنقریب مغلوب ہوں گے۔ (5) اور یا تو ہم تجھے بعض وہ باتیں دکھادیں گے جو وعدہ کی گئی ہیں یا تجھے وفات دیں گے (6) مدد کی اللہ تعالیٰ نے تمہاری مؤیّدانہ مدد (7) اے ابراہیم ! مَیں تیرے ساتھ ہوں۔
2 امیر خاں صاحب مرحوم پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ یسر نا القرآن کی بیوی کے رشتہ میں بھائی تھے جن کے ساتھ محمد اکبر خانصاحب مرحوم کی دختراصغری بیگم صاحبہ بیاہی گئی تھیں۔ اُن کی وفات کے بعد اصغری بیگم صاحبہ میاں مدد خاں صاحب کے عقد میں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس بشارت کے ماتحت اُن کے چھ بچے ہوئے جن کے نام حسب ِ ذیل ہیں:۔
راجہ محمد عبداللہ خان صاحب ‘ راجہ محمد یعقوب خان صاحب (کارکن صدر انجمن احمدیہ) ‘ محمد داؤد صاحب ‘ محمد الیاس صاحب ‘ زینب اور عائشہ۔
اصغری بیگم صاحبہ اپنے والدین کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ایک حصہ میں رہتی تھیں اور اُن کی والدہ مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کرتی تھیں۔ (مرتب)
3 یہ کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتب)
19جنوری1908ء
’’1 اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 3مؤرخہ 23 جنوری1908ء صفحہ4۔ الحکم جلد 12 نمبر 6 مؤرخہ 22 جنوری1908ء صفحہ 10)
21جنوری1908ء
’’(1)2 مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا (2) اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِاللّٰہِ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 3مؤرخہ 23 جنوری1908ء صفحہ4۔ الحکم جلد 12 نمبر 6 مؤرخہ 22 جنوری1908ء صفحہ 10)
26جنوری1908ء
’’(1)3 حَرَّقَھُمَا اللّٰہُ (2) قَتَلَھُمَااللّٰہُ(3) میری فتح ہوئی (4)4اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ (5)5اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ سَمْعِیْ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 4مؤرخہ 30 جنوری1908ء صفحہ3۔ الحکم جلد 12 نمبر 7مؤرخہ 26 جنوری1908ء صفحہ 5حاشیہ)
26جنوری1908ء
’’(1)6 اِنِّیْ مَعَکَ یَآاِبْرَاھِیْمُ(2) از خدایا بند مردانِ خدا۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 4مؤرخہ 30 جنوری1908ء صفحہ3۔ الحکم جلد 12 نمبر 8مؤرخہ 30 جنوری1908ء صفحہ 2)
1 (ترجمہ ) مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں جو یہ ہے۔
2 (ترجمہ) وہ ملعون ہیں جہاں کہیں پائے جائیں پکڑے جائیں گے (2) تحقیق صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
3 (ترجمہ) (1) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جلادیا۔ (2) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو قتل کردیا۔
4 (ترجمہ) (4) بے شک ہم اس کو تیری طرف لَوٹائیں گے۔ (5) تو میرے نزدیک بمنزلہ میرے کانوں کے ہے۔
(نوٹ از مرتب) اِس الہام اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ کے بعد الحکم کے اسی پرچہ میں حضرت اُمّ المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی رؤیا بھی درج ہے جس سے الہام کی تعیین ‘ مطلب اور تشریح میں مدد لی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے:۔
’’اِس کے ساتھ ہی حضرت اُمّ المؤمنین علیہا السلام نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک ہمارا پالتو شیر ہے اُس نے ایک کُتّے کو پکڑ کر لٹادیا اور کہاچُپ۔‘‘ ( الحکم مؤرخہ 26 جنوری1908ء صفحہ 5حاشیہ)
5 یہ الہام الحکم میں نہیں ہے۔
6 (ترجمہ از مرتب) (1) مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم ! (2) خدا کے بندے خدا سے پاتے ہیں۔
9 فروری1908ء
(ا) ’’(1) 1 اَنْتَ اِمَامٌ مُّبَارَکٌ (2) لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَفَرَ (3) اِنِّیْ مَعَکَ فِی السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (4) اِنِّیْ مَعَکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (5) اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (6) اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا (7) لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ۔(8) آسمان ایک مُٹھی بھر رہ گیا۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 6مؤرخہ 13 فروری1908ء صفحہ2۔ الحکم جلد 12 نمبر 12مؤرخہ 14 فروری1908ء صفحہ 1)
(ب) ’’ (1)آسمان مُٹھی بھر رہ گیا۔ (2)آسمان مُٹھی بھر رہ گیا۔
(3) 2 لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ (4) لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ۔
(5)3 اَنْتَ اِمَامٌ مُّبَارَکٌ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ۔ (6) اَنْتَ اِمَامٌ مُّبَارَکٌ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ۔(7) اَنْتَ اِمَامٌمُّبَارَکٌ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ۔(8) بُوْرِکَ مَنْ مَّعَکَ وَ مَنْ حَوْلَکَ۔‘‘
(تحریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام برورق کتاب تعطیر الانام4)
11فروری1908ء
’’5 یَامَسِیْحَ اللّٰہِ عَدْوَانَا۔‘‘
(بدر جلد7نمبر 6مؤرخہ 13 فروری1908ء صفحہ2۔ الحکم جلد 12 نمبر 12مؤرخہ 14 فروری1908ء صفحہ 1)
فروری1908ء
’’کل ایک دوائی مَیں استعمال کرنے لگا تو الہام ہوا:۔
’’خطرناک‘‘
( بدر جلد7نمبر 6مؤرخہ 13 فروری1908ء صفحہ4)
1 (ترجمہ) (1) تو امامِ مبارک ہے (2) اللہ کی *** اُس پر جس نے انکار کیا(3) مَیں تیرے ساتھ ہوں آسمان اور زمین میں۔(4) مَیں دُنیا اور آخرت میں تیرے ساتھ ہوں (5) اللہ ساتھ ہے اُن کے جو تقویٰ اختیار کریں اور جو نیکوکار ہیں (6) جہاں کہیں پائے گئے پکڑے جائیں گے اور ہلاک کئے جائیں گے ۔(7) زینب کو قتل نہ کرو۔
2 (ترجمہ از مرتب) (3) زینب کو قتل نہ کرو (4) اللہ کی *** اُس پر جس نے انکار کیا۔
3 (ترجمہ از مرتب) (5) تومبارک امام ہے اللہ کی *** اُس پر جس نے انکار کیا۔(6) تومبارک امام ہے اللہ کی *** اُس پر جس نے انکار کیا۔(7) تومبارک امام ہے اللہ کی *** اُس پر جس نے انکار کیا۔(8) برکت دیا گیا وہ جو تیرے ساتھ ہے اور وہ جو تیرے گِرد ہے۔
4 یہ کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتب)
5 (ترجمہ) اے اللہ کے مسیح ہماری شفاعت کر۔
(نوٹ) اس الہام کی مزید وضاحت کیلئے دیکھئے ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 346 اور دافع البلاء۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 228۔
20 فروری1908ء
’’1 ظَفَرَکُمُ اللّٰہُ ظَفَرًا مُّبِیْنًا۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 7مؤرخہ 20 فروری1908ء صفحہ1)
7مارچ1908ء
’’ماتم کدہ‘‘
فرمایا۔ اِس کے متعلق کوئی تفہیم نہیں ہے۔
پھر غنودگی میں دیکھا کہ ایک جنازہ آتا ہے۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 10مؤرخہ 12 مارچ1908ء صفحہ2۔ الحکم جلد 12 نمبر 18مؤرخہ 10 مارچ1908ء صفحہ 6)
1908ء
’’ امام حسین کو مَیں نے دو مرتبہ دیکھا۔ ایک مرتبہ مَیں نے دیکھا کہ دُور سے ایک شخص چلا آرہا ہے اور میری زبان سے یہ لفظ نکلا۔ ابو عبداللہ حُسین۔ پھر دوبارہ دیکھا۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 10مؤرخہ 12 مارچ1908ء صفحہ4)
25مارچ1908ء
’’(1)2 اَمْثَالُ الرَّحْمَۃِ۔اَوَّلُ الذِّکْرِوَاٰخِرُالذِّکْرِ۔ (2) حٰمٓ۔ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ۔ (3) 3 لَا تَذْرُوْہُ جَارِیَۃٌ۔ (4) کبھی معدے کے خلل سے بھی وَرم ہوجاتی ہے۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 13مؤرخہ 2 اپریل1908ء صفحہ2۔ الحکم جلد 12 نمبر 22مؤرخہ 26 مارچ1908ء صفحہ 8)
29 مارچ1908ء
’’(1)4 اَحْسَنَ اللّٰہُ اَمْرَکَ۔(2) اَحْسَنَ اللّٰہُ اَمْرِیْ (3) یَاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔(4) اُمید سے بڑھ کر۔(5) رعایا میں سے ایک شخص کی موت(6) فتح۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 13مؤرخہ 2 اپریل1908ء صفحہ2۔ الحکم جلد 12 نمبر 23مؤرخہ 30 مارچ1908ء صفحہ 1)
1 (ترجمہ) اللہ نے تم کو کھلی فتح دی۔
2 (ترجمہ) (1) رحمت کی مثالیں۔ پہلے ذکر والا اور آخر ذکر والا۔(2) حٰمٓ کھول کر بیان کرنے والی کتاب کے یہ نشانات ہیں۔
3 (ترجمہ از مرتب) (3) کوئی واقعہ اس کا شیرازہ نہیں بکھیر سکے گا۔
4 (ترجمہ) (1) اللہ تعالیٰ نے تیرا کام اچھا کردیا۔(2) اللہ تعالیٰ نے میرا کام اچھا کردیا۔ (3) میرے پاس تحائف آئیں گے ہر دُور کی راہ سے۔
اپریل1908ء
’’ میاں منظور محمد صاحب کی بیوی1(جو حضرت اقدس ؑ کے گھر میں رہتے ہیں)مرضِ سِل سے بیمار ہے اس کی نسبت الہام ہوا:۔
(1) حٰمٓ۔ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ۔
(ترجمہ) لفظ حٰمٓ میں بیمار کا نام بطور اختصار ہے اور باقی الفاظ کے یہ معنے ہیں کہ اِس میں کئی نشان ہیں جو خدا کی کتاب میں مقرر ہیں۔
(2) بیمار بہت ہی چیخیں مارتا ہے۔ (3) ماتم کدہ۔
(4)2 اِ نِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ مِنْ ھٰذِہِ الْمَرَضِ الَّذِیْ ھُوَ سَارِیْ۔
(مِنْ ھٰذِہِ الْمَرَضِ یعنی مِنْ ھٰذِہِ الْاٰفَۃِ)
فرمایا کہ اگرچہ اس میں بظاہر عبارت میں غلطی معلوم ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ اس صرف نحو کا ماتحت نہیں ‘ اور ایسی مثالیں قرآن شریف میں بھی موجود ہیں۔ پھر حضرت کو بیمارکے واسطے بعض دوائیں دکھائی گئیں اور الہام ہوا کہ:۔
(5) امید سے بڑھ کر فائدہ ہوا۔ (6) دوبارہ زندگی۔(7) منسوخ شدہ زندگی۔(8)3اِنِّیْ بَرآئٌ مِّنْ ذَالِکَ۔
(یہ کسی دوسرے کا مقولہ ہے)
(9)4 کَتَبَ اللّٰہُ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۔
(10) حَقٌّ عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
(11) اَمْثَالُ الرَّحْمَۃِ فِیْ اَوَّلِ الذِّکْرِوَاٰخِرِالذِّکْرِ۔
یعنی دو شخص جو بیمار تھے ان کی نسبت جب دُعا کی گئی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوئی۔
1 (نوٹ از مرتب) ان کا نام محمدی بیگم تھا جو بالآخر 9 اکتوبر 1908ء کو فوت ہوگئیں اور الہام ’بیمار بہت ہی چیخیں مارتا ہے‘ ظاہری رنگ میں پورا ۔ چنانچہ ایڈیٹر صاحب بدر لکھتے ہیں:۔
’’یہ بھی ہم نے سنا کہ بعینہٖ یہی حالت تھی۔ آخر وہی ہوا جو میرے سَیّد و مولیٰ مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجنے والا مولیٰ فرماچکا ہے وہ یہ کہ ’’ ماتم کدہ۔‘‘ یعنی یہ بیمار فوت ہوجائے گا۔ پھر چونکہ سِل کا مرض ایک متعدی مرض ہے اِس لئے بشارت کیلئے فرمایا کہ اِ نِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ مِنْ ھٰذِہِ الْمَرَضِ الَّذِیْ ھُوَ سَارِیْ۔ پھر کچھ دوائیں بتائیں گئیں تاکہ باقی ماندہ دن زیادہ تکلیف سے نہ گذریں اور حسب ِ الہام ’’اُمید سے بڑھ کر فائدہ ہوا۔‘‘ بلکہ ’’دوبارہ زندگی ‘‘ عطا ہوئی۔ گو زندگی منسوخ شدہ تھی۔‘‘ ( بدر جلد7نمبر 39مؤرخہ 15 اکتوبر1908ء صفحہ1‘2)
2 (ترجمہ) مَیں تمام گھر والوں کو اِس بیماری سے بچائوں گا۔ ایسی بیماری جو متعدی ہے۔
3 (ترجمہ) مَیں اِس سے بیزار ہوں۔
4 (ترجمہ) (9) خدا تعالیٰ نے رحمت کا ارادہ کیا ہے۔ (10) ہم مومن کی ضرور نصرت کرتے ہیں۔(11) رحمت کے نمونے ذکر کے اوّل میں اور ذکر کے آخر میں۔
(12) رحمت اور فضل کا کلام۔ شکر کا کلام۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 16مؤرخہ 23 اپریل1908ء صفحہ8۔ الحکم جلد 12 نمبر 27مؤرخہ 14 اپریل1908ء صفحہ 3)
18 اپریل1908ء
’’(1)1 اِ نَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔(2) زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ۔ فَحَقَّ الْعَذَابُ وَ تَدَلّٰی (3) بُشْرٰی۔‘‘
(الحکم جلد 12 نمبر 29مؤرخہ 22 اپریل1908ء صفحہ 1)
22اپریل1908ء
’’(1) میرے لئے ایک نشان آسمان پر ظاہر ہوا۔
(2) خیرو خوبی کا نشان۔
(3) میری مرادیں پوری ہوئیں۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 17مؤرخہ 30 اپریل1908ء صفحہ7۔ الحکم جلد 12 نمبر 29مؤرخہ 22 اپریل1908ء صفحہ 1)
26 اپریل1908ء
’’2 مباش ایمن از بازی ٔ روزگار۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 17مؤرخہ 30 اپریل1908ء صفحہ7۔ الحکم جلد 12 نمبر 30مؤرخہ 26 اپریل1908ء صفحہ 1)
29 اپریل1908ء
’’3 اِ نِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 18مؤرخہ 7 مئی1908ء صفحہ5۔ الحکم جلد 12 نمبر 31مؤرخہ 6 مئی1908ء صفحہ 1)
1908ء
’’جو کچھ خدا نے مجھے خبردی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دُنیا اپنی بد عملی سے باز نہیں آئے گی اور برے کاموں سے توبہ نہیں کرے گی تو دُنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی اور ایک بلا ابھی بَس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہوجائے گی۔ آخر انسان نہایت تنگ ہوجائیں گے کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہوجائیں گے۔‘‘
( پیغامِ صلح صفحہ 9۔ رُوحانی خزائن جلد 23 صفحہ 444)
1 (ترجمہ از مرتب) ہم نے تجھے کھلی فتح دی ہے۔ (2) زمین پر زلزلہ آئے گا۔ پس عذاب واقع ہوگا اور اُتر آئے گا۔ (3) بشارت ہے۔
2 (ترجمہ از مرتب) زمانے کے کھیل سے بے خوف نہ رہ۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں ان تمام لوگوں کی حفاظت کروں گا جو اِس دار میں ہیں۔
9 مئی1908ء
’’ (1)سرنگ (2)1 اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 21مؤرخہ 26 مئی1908ء صفحہ7۔ الحکم جلد 12 نمبر 35مؤرخہ 30 مئی1908ء صفحہ 1)
10 مئی1908ء
’’2 اِ نَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ۔‘‘
( الحکم جلد 12 نمبر 36مؤرخہ 2 جون1908ء صفحہ 5)
15 مئی1908ء
’’ڈرو مت مومنو۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 21مؤرخہ 26 مئی1908ء صفحہ7۔ الحکم جلد 12 نمبر 35مؤرخہ 30 مئی1908ء صفحہ 1)
17 مئی1908ء
’’3اِ نِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔‘‘
( بدر جلد7نمبر 21مؤرخہ 26 مئی1908ء صفحہ7۔ الحکم جلد 12 نمبر 35مؤرخہ 30 مئی1908ء صفحہ 1)
1 (ترجمہ از مرتب) کوچ کا وقت آگیا ہے ہاں کوچ کا وقت آگیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے بلاشبہ ان کیلئے جَنّات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
(نوٹ از مرتب) حضرت مہتہ عبدالرحمن صاحب قادیانی ؓ اِس الہام کے شانِ نزول پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’17 مئی کی صبح کو مکرمی جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے چند معزز تعلیم یافتہ رؤساء لاہور کی دعوت کی تھی اور حضرت اقدس ؑسے اس موقع پر کچھ تقریر کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔ چنانچہ حضرت اقدس ؑ نے اس کو منظور بھی فرمالیا تھا۔ 16 کی رات کو حضرت اقدس ؑ کی طبیعت ناساز ہوگئی ا ور متواتر چند دَست آجانے کی وجہ سے بہت ضعف ہوگیا چنانچہ 17 کی صبح کو جب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بیدار ہوئے تو یہ الہام ہوا اِ نِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔چنانچہ اس وعدۂ الٰہی سے طاقت پاکر حضرت اقدس ؑ نے اِس موقع پر قریباً اڑھائی گھنٹہ تک کھڑے ہوکر بڑی پر زور تقریر فرمائی۔‘‘
( الحکم جلد 12 نمبر 35مؤرخہ 30 مئی1908ء صفحہ 1)
17 مئی1908ء
’’ مکن تکیہ بر عمرِ ناپائیدار۔1 ‘‘
( بدر جلد7نمبر 22مؤرخہ 2 جون1908ء صفحہ3)
20 مئی1908ء
’’اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ وَ الْمَوْتُ قَرِیْبٌ۔2 ‘‘
( بدر جلد7نمبر 22مؤرخہ 2 جون1908ء صفحہ3)
تَمَّ
☆☆☆
1 (ترجمہ از مرتب) ناپائیدار عمر پر بھروسہ مت کر۔
نوٹ:۔ اِس الہام میں سن وفات بھی بتایا گیا ہے ۔ چنانچہ اس کے اعداد 1326 ہیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ ) اب کوچ کا وقت آگیا۔ ہاں کوچ کا وقت آگیا اور موت قریب ہے۔


ضمیمہ تذکرہ


ضمیمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ‘رؤیااور کشوف جمع کئے گئے ہیں جو حضور کی زندگی میں شائع نہیں ہوئے یا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے بعد میں اپنی روایات میں بیان کیا ہے۔ (مرتب)


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
1876ء یا اس سے قبل
صوفی نبی بخش صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:۔
’’بڑے مرزا صاحب پر ایک مقدمہ تھا۔ مَیں نے دُعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا۔ مَیں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے؟ وہ کہنے لگا میرا نام حفیظ ہے۔ پھر وہ مقدمہ رفع دفع ہوگیا۔‘‘
( الحکم جلد 38 نمبر 14مؤرخہ 21 اپریل1935ء صفحہ 4)
1876ء (تقریباً)
میاں امام الدین صاحب ؓ سیکھوانی نے بیان کیا:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو نوماہ کے روزے رکھے ‘ اس دَوران میں جورؤیاو کشوف ہوئے ‘ اُن کا ذکر فرماتے ہوئے حضور ؑ نے ایک دفعہ فرمایا:۔
’’جب مَیں تین ماہ کے قریب پہنچا تو ایک شخص بڑا قد آور ‘ جسیم ‘ رنگ سرخ میرے سامنے یہ الفاظ کہتا تھا قرت‘قرت‘قرت ۔‘‘
( رجسٹر روایات2 صحابہ جلد 5 صفحہ 66۔الحکم جلد338 نمبر 30مؤرخہ 21 اگست1935ء صفحہ 6)
1882ء
میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا:۔
’’جب مَیں 1882ء میں پہلے پہل قادیان آیا تو اُس وقت .......میری ایک شادی ہوچکی تھی اور دوسری کا خیال تھا جس کے متعلق مَیں نے بعض خوابیں بھی دیکھی تھیں۔ مَیں نے ایک دن حضرت صاحب کے ساتھ ذکر کیا .... .... آپ نے میرے ماموں محمد یوسف صاحب مرحوم کو .........خط لکھا اور اس میں اسمٰعیل کے نام بھی ایک خط ڈالا
1 یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم و مغفور۔ (مرتب)
2 یہ رجسٹر خلافت لائبریری صدر انجمن ربوہ میں محفوظ ہے۔ (مرتب)
3 الحکم پرچہ مذکورہ بالا میں اِس الہام کا ترجمہ بھی ساتھ ہی درج ہے جو یہ ہے: ’’ تجھ کو قدر والا کیا۔ تجھ کو قدر والا کیا۔ تجھ کو قدر والا کیا۔‘‘ آگے یہ لکھا ہے:’’یہ بھی ایک کشف تھا۔‘‘ ممکن ہے کہ راوی کو سننے میں غلطی لگی ہو اور دراصل لفظ وَقَرْتَ ہوجیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے اور حرف ؤ سہواً حذف ہوگیا ہے۔ وقار کے معنے قدر و عظمت کے ہیں۔
(جس کی لڑکی کا رشتہ مطلوب تھا)......حضرت صاحب نے اِدھر یہ خطوط لکھے اور اُدھر میرے واسطے دُعا شروع فرمائی.....(ابھی) دُعا میں مصروف تھے کہ عین دُعا کرتے کرتے حضرت صاحب کو الہام ہوا:۔
’’ناکامی‘‘
پھر دُعا کی تو الہام ہوا :۔
’’اَے بسا آرزُو کہ خاک شُدہ1 ‘‘
پھر اس کے بعد ایک اَور الہام ہوا:۔
’’فَصَبُرٌ جَمِیْلٌ2 ‘‘
.....فرمایا کہ معلوم نہیں میاں عبداللہ صاحب کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہے کہ اِدھر دُعا کرتا ہوں اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل جاتا ہے ۔ چند دن کے بعد میاں محمد یوسف صاحب کا جواب آگیا کہ میاں عبداللہ کے والد اور دادا اور خسر تو راضی ہوگئے ہیں مگر اسمٰعیل انکار کرتا ہے۔ اِس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ اَب ہم اسمٰعیل کو خود کہیں گے .....ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے الہامات کا یہ منشا ہو کہ جس طریق پر کوشش کی گئی ہے اِس میں ناکامی ہے اور کسی اَور طریق پر کامیابی مقدر ہو.....پھر حضرت صاحب نے اسمٰعیل کو میرے متعلق کہا مگر اُس نے انکار کیا اور کئی عذر کردیئے۔‘‘
(سیرت المہدی مؤلّفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔ اے ‘ حصہ اوّل ایڈیشن دوم روایت نمبر 101 صفحہ 85 تا 87)
1882ء
میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا:۔
’’حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ابھی مَیں نے اسمٰعیل سے بات شروع نہیں کی تھی کہ مجھے کشف ہوا تھا کہ اُس نے میرے دائیں ہاتھ پر دَست پھِر دیا ہے۔ نیز مَیں نے کشف میں دیکھا تھا کہ اُس کی شہادت کی اُنگلی کٹی ہوئی ہے۔ اِس پر مَیں سمجھ گیا تھا کہ یہ اِس معاملہ میں مجھے نہایت گندے جواب دے گا...... اس کے بعد اسمٰعیل نے اپنی لڑکی کی دوسری جگہ شادی کردی....مگر اِس شادی کے بعد اسمٰعیل پر بڑی مصیبت آئی۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ اوّل ایڈیشن دوم روایت نمبر 101 صفحہ87 ‘88)
1883ء
مرزا دین محمد صاحب سکنہ لنگروال ضلع گورداسپور نے بیان کیا:۔
’’ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے صبح کے قریب جگایا اور فرمایا کہ:۔
’’.....مَیں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک چُنا ہوا ہے۔‘‘
1 (ترجمہ از مرتب) ہائے بہت سی آرزوئیں ہیں جو خاک میں مل گئیں۔
2 (ترجمہ از مرتب) پس صبر اچھا ہے۔
......فرمایا کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا۔ اس کے بعد مَیں چار دن یہاں رہا۔ میرے سامنے ایک منی آرڈر آیا۔ جس میں ہزار سے زائد روپیہ تھا۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر 636 صفحہ101۔ الفضل جلد 29 نمبر 273 مؤرخہ 2 دسمبر 1941ء صفحہ 4)
1883ء
حافظ محمد ابراہیم صاحب نے بیان کیا:۔
(الف) ’’83 ء میں جب شُہُب گِرے تو فرمایا: اس وقت مَیں دیکھ رہا تھا کہ مَیں اور سیّد عبدالقادر برابر برابر کھڑے ہیں۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ شیخ سعدی اور سیّد عبدالقادر ایک باغ میں سَیر کر رہے ہیں۔
انہی ایام میں آپ کا الہام ہوا ’’ یَا عَبْدُ الْقَادِرِ ۔‘‘ فرمایا کہ اولیاء کو عبدالقادر کا خطاب اُس وقت دیا جاتا ہے جب اُن کیلئے قادرانہ نشان دکھانے مقصود ہوں۔‘‘ ( الحکم جلد 39 نمبر 10 مؤرخہ 21 مارچ 1936ء صفحہ 5)
حافظ نور محمد صاحب سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے بیان کیا:۔
(ب) ’’ایک دفعہ حضور ؑ نے فرمایا کہ مَیں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سیّد عبدالقادر ؒ صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کراکر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہوکر فرمانے لگے کہ آؤ ہم اور تم برابر کھڑے ہوکر قد ناپیں۔ پھر انہوں نے میرے بائیں1 طرف کھڑے ہوکر کندھے سے کندھا ملایا تو اُس وقت دونوں برابر برابر رہے۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ سوم روایت 481۔ الحکم جلد 37 نمبر 33مؤرخہ 14 ستمبر 1936ئ صفحہ 4)
مولوی رحیم بخش صاحب سکنہ تلونڈی جھُنگلاں ضلع گورداسپور نے بیان کیا:۔
’’حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ مجھے ایک الہام ہوا ہے:۔
’’ یُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا2 ‘‘
اور آپ ؑ نے فرمایا کہ ’’ ہمیں خدا کے فضل سے غم تو کوئی نہیں ہے شاید آئندہ کوئی غم پیش آئے۔ جب مکان پر آئے تو ایک شخص امرتسر سے یہ خبر لایا کہ آپ کا وہ نگینہ جو ’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا ‘ وہ گم ہوگیا ہے ‘ اور نیز ایک ورق براہین احمدیہ کا لایا جو بہت خراب تھا او رپڑھا نہیں جاتا تھا۔ یہ معلوم کرکے آپ کو بہت تشویش ہوئی .....حضرت صاحب اور یہ خاکسار بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہوکر امرتسر پہنچے۔ جب حکیم صاحب کے مکان پر پہنچے تو حکیم صاحب نے بہت خوش ہوکر کہا کہ یہ آپ ؑ کا نگینہ گم ہوگیا تھا مگر ابھی مل گیا ہے ‘ اور جب مطبع میں جاکر کتاب دیکھی تو وہ اچھی چھپ رہی تھی۔ جس پر آپ ؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ
1 الحکم پرچہ مذکورہ بالا میں دائیں طرف کا ذکر ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) خدا تجھے غم سے نجات دے گا اور تیرا ربّ قادر ہے۔
(نوٹ از مرتب) الحکم مؤرخہ 14 اگست 1934ء صفحہ 3 میں متعلقہ حوالہ میں ’’ نُنَجِّیْکَ‘‘ چھپا ہے۔
نے ہم کو پہلے سے بشارت دے دی تھی کہ ہم تجھے غم سے نجات دیں گے سو وہ یہی غم تھا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر 450 صفحہ139‘ 140 ایڈیشن دوم۔ الحکم جلد 37 نمبر29 مؤرخہ 14 اگست 1934ئ صفحہ 3)
1884ء
حضرت اُمّ المؤ منین رضی اللہ عنہا نے فرمایا:۔
’’میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کو معلوم ہوا تھا کہ آپ ؑ کی دوسری شادی دِلّی میں ہوگی۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 69 صفحہ57 ایڈیشن دوم)
1884ء
’’حافظ حامد علی صاحب مرحوم خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب نے دوسری شادی کی تو ایک عمر تک تجرد میں رہنے اور مجاہدات کرنے کی وجہ سے آپ ؑ نے اپنے قویٰ میں ضعف محسوس کیا۔ اس پر وہ الہامی1 نسخہ جو ’’زدجامِ عشق ‘‘ کے نام سے مشہور ہے بنواکر استعمال کیا۔ چنانچہ وہ نسخہ نہایت ہی بابرکت ثابت ہوا .....الہامی ہونے کے متعلق دو باتیں سنی گئی ہیں۔ایک یہ کہ یہ نسخہ ہی الہام ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ کسی نے یہ نسخہ حضور ؑ کو بتایا اور پھر الہام نے اِسے استعمال کرنے کا حکم دیا۔ واللہ اَعلم۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر 569صفحہ50‘51 ایڈیشن دوم)
1884ء
حضرت اُمّ المؤمنین نے فرمایا:۔
’’جب میری شادی ہوئی اور مَیں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی تو اُن ایام میں حضرت مسیح موعود ؑ نے مجھے ایک خط لکھا کہ مَیں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 91صفحہ73 ایڈیشن دوم)
1884ء
میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بیان کیا:۔
’’حضرت اقدس ؑ دہلی سے واپس ہوئے۔ سرہند ریلوے سٹیشن پر حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا:۔
’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘
......حضور ؑ نے فرمایا کہ اِس الہام میں کسی دوست کے گِرنے کی خبر ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ میر صاحب2ہی نہ ہوں۔‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد نمبر 1 صفحہ 119)
1 نسخہ زدجامِ عشق یہ ہے جس میں ہر حرف دوا کے نام کا پہلا حرف مراد ہے:۔ زعفران ‘ دارچینی‘ جائفل ‘ افیون‘ مُشک‘ عقر قرحا‘ شنگرف‘ قرنفل یعنی لَونگ۔ اِن سب کو ہموزن کُوٹ کر گولیاں بناتے ہیں اور روغن سَمّ الفار میں چرب کرکے رکھتے ہیں اور روزانہ ایک گولی استعمال کرتے ہیں۔ ( سیرت المہدی حصہ سوم ایڈیشن دوم صفحہ 51 روایت نمبر 569)
2 یعنی میر عباس علی شاہ صاحب لدھیانوی۔ (مرتب)
1885ء
میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا:۔
(الف) ’’حضرت صاحب ؑ نے 1884ء میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جاکر کہیں چِلّہ کشی فرمائیں گے .....چنانچہ آپ ؑ نے ارادہ فرمایا کہ سوجان پور ضلع گورداسپور میں جاکر خلوت میں رہیں......مگر پھر حضور ؑ کو سفرِ سوجان پور کے متعلق الہام1 ہوا کہ:۔
’’تمہاری عُقدہ کُشائی ہوشیار پور میں ہوگی‘‘
( سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 88 صفحہ69 ایڈیشن دوم)
شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم نے لکھا:۔
(ب) ’’اللہ تعالیٰ کی ایک تحریک خفی کے ماتحت کچھ عرصہ کیلئے ضلع گورداسپور کے پہاڑی علاقہ (سوجان پور) کی طرف جاکر عبادت کرنا چاہتے تھے لیکن پھر خداتعالیٰ کی صاف صاف وحی نے آپ ؑ کو ہوشیار پور جانے کا ایماء فرمایا اور اس شہر کا نام بتایا۔‘‘ ( الحکم جلد 39 نمبر 13 مؤرخہ 14 اپریل 1936ء صفحہ4)
1886ء
میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایام چِلّہ ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا:۔
’’ بُوْرِکَ مَنْ فِیْھَا وَ مَنْ حَوْلَھَا2 ‘‘
اور حضور ؑ نے تشریح فرمائی کہ مَنْ فِیْھَا سے مَیں مُراد ہوں اور مَنْ حَوْلَھَا سے تم لوگ مُراد ہو۔
(سیرت المہدی حصّہ اوّل روایت نمبر88 صفحہ 72 ایڈیشن دوم)
1 یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اِن الفاظ میں شائع ہوچکا ہے:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام مشہور ہوچکا ہے بایں الفاظ یا بایں معنی:۔
’’ایک معاملہ کی عُقد کُشائی ہوشیار پور میں ہوگی‘‘
( بدر جلد 6 نمبر 36مؤرخہ 5 ستمبر 1907ء صفحہ10۔ دیکھئے تذکرہ صفحہ 106 ) (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) برکت والا ہے وہ جو اس میں ہے اور جو اس کے اِردگرد ہیں۔
(نوٹ از مرتب) یہ الہام اصل تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ا ِ ن الفاظ میں ہے’’ بُوْرِکَ مَنْ مَّعَکَ وَ مَنْ حَوْلَکَ ۔
(دیکھئے تذکرہ الہام 9 فروری 1908ء صفحہ 635)
نوٹ:۔ یہ الہام حضور ؑ کو ہوشیار پور کے چِلّہ کے دَوران ہوا ۔ میاں عبداللہ صاحب سنوری کا بیان ہے کہ آپ ؑ اُوپر بالاخانہ میں رہتے تھے ......ایک دن جب مَیں کھانا رکھنے اُوپر گیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ ( سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 88)
1886ء
میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا:۔
’’ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے.....حضور ؑ قبر کی طرف تشریف لے گئے .....اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے ۔ پھر .....فرمایا: جب مَیں نے دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دو زانو ہوکر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ1ساتھ نہ ہوتے تو مَیں اُن سے باتیں بھی کرلیتا۔ ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے۔ پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اُس سے ان کے حالات پوچھیں۔ چنانچہ حضور ؑ نے مجاور سے دریافت کیا۔ اُس نے کہا مَیں نے ان کو خود نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گذر گیا ہے۔ ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ یہ اِس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اِس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا۔ حضور ؑ پوچھا ‘ ان کا حلیہ کیا تھا؟ وہ کہنے لگا کہ سنا ہے کہ سانولہ رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھی۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 88 صفحہ71 ایڈیشن دوم)
1886ء
میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا:۔
’’پسرِ موعود کی پیشگوئی کے بعد حضرت صاحب ؑ کبھی کبھی ہم سے کہا کرتے تھے کہ دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم کو جلد وہ موعود لڑکا عطا کرے ۔ اُن دنوں میں حضرت کے گھر اُمید واری تھی۔ ایک دن بارش ہوئی تو مَیں نے مسجد مبارک کے اُوپر صحن میں جاکر بڑی دُعا کی.....پھر مجھے دُعاکرتے کرتے خیال آیا کہ باہر جنگل میں جاکر دُعا کروں.....چنانچہ مَیں قادیان سے مشرق کی طرف چلا گیا اور باہر جنگل میں بارش کے اندر بڑی دیر تک سجدہ میں دُعا کرتا رہا......اُسی دن شام کو یا دوسرے دن صبح کو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے:۔
’’اُن کو کہہ دو اُنہوں نے رنج بہت اُٹھایا ہے ثواب بہت ہوگا۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 110 صفحہ99‘100)
مئی1886ء
’’لَیْسَ الذَّکَرُ کَا لْاُنْثٰی2 ‘‘
(البشریٰ3 قلمی صفحہ 71 الہام نمبر 4 و مکتوب از صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست ِمبارک کے لکھے ہوئے الہامات میں سے )
1 اِس سے مراد میاں عبداللہ صاحب سنوری ؓ ہیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ) اس لڑکی جیسے بعض مرد بھی نہیں۔ (نوٹ) یہ الہام صاحبزادی عصمت کی پیدائش پر ہوا تھا۔
( البشریٰ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 71 حاشیہ نمبر 4)
3 یہ ’’البشریٰ‘‘ اور ’’مکتوب‘‘ دونوں خلافت لائبریری صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں موجود ہیں۔ (مرتب)
6 جنوری1891ء
(الف) ’’خواب میں دیکھا کہ میرے پاس مرزا غلام قادر میرے بھائی کھڑے ہیں اور مَیں یہ آیت قرآن شریف کی پڑھتا ہوں غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ اور کہتا ہوں کہ اَدْنَی الْاَرْضِ سے قادیان مراد ہے اور مَیں کہتا ہوں کہ قرآن شریف میں قادیان کا نام درج ہے۔‘‘
(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست ِمبارک کے لکھے ہوئے الہامات میں سے )
(ب) ’’ایک دفعہ ہمیں یہ الہام ہوا کہ:۔
’’غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ۔اور مجھے دکھایا گیا کہ اِس وعدہ کی آخری آیت تک جس قدر حروف ہیں ان میں اکمل اور اخلص موافقین کے نام بھی مخفی ہیں اور جو اشد انکار و عناد و مخالفت میں اپنی قوم میں سے ہیں ان کے نام بھی اس میں پوشیدہ ہیں ۔‘‘
پھر فرمایا۔’’اور مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص نے اَدْنَی الْاَرْض پر قرآن شریف میں ہاتھ رکھا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قادیان کا نام ہے۔‘‘
( تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 45 و مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ)
27 فروری1891ء
’’فَجِیْٓئَ بِالْکِتَابِ فَھُزِمُوْا۔1‘‘
مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓو البشریٰ2 صفحہ 55)
1891ء
خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط شائع کیا ہے جس کا اِقتباس درج ذیل ہے:۔
’’ہم نے آپ کی صحت کیلئے خدا سے دُعا مانگی اور ہم کو الہام ہوا کہ خواجہ حسن نظامی ابھی بہت دن زندہ رہیں گے اور مسلمانوں کے بڑے بڑے کام کریں گے۔‘‘
( الفضل جلد40/6 نمبر 238 مؤرخہ 11 اکتوبر 1952 صفحہ 2 بحوالہ اخبار منادی دہلی بابت ماہ ستمبر 1952ء صفحہ 4 تا 7)
1 (ترجمہ از مرتب) پھر کتاب لائی گئی ۔ تب انہیں شکست ہوئی۔ (مرتب)
(نوٹ) پیر صاحب لکھتے ہیں ۔ یہ الہام حضرت اقدس علیہ السلام کے دست ِ مبارک کے لکھے ہوئے سے نقل کئے گئے۔
2 البشریٰ مجموعہ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام غیر مطبوعہ ۔ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ ۔
(مرتب)
فروری1892ء
حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول ؓ بیان فرماتے تھے کہ:۔
’’ایک1 دفعہ کسی بحث کے دَوران میں حضرت مسیح موعود ؑ سے کسی مخالف نے کوئی حوالہ طلب کیا.....حضرت صاحب ؑ نے بخاری کا ایک نسخہ منگایا اور یونہی اس کی ورق گردانی شروع کردی اور جلد جلد ایک ایک ورق اُس کا اُلٹانے لگ گئے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور کہا لو یہ لکھ لو۔ دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے اور کسی نے حضرت صاحب سے دریافت بھی کیا جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ ’’جب مَیں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق اُلٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور اُن پر کچھ نہیں لکھا ہوا اِسی لئے مَیں ان کو جلد جلد اُلٹا تا گیا۔ آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔‘‘
( سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر 306 صفحہ 2‘3)
1892ء
(الف) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرۃ العزیز نے خطبہ جمعہ میں فرمایا :
’’ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے خبر دے دی:۔
’’ سلطنت ِ برطانیہ تاہشت سال :: بعد ازاں ضعف و فساد و اِختلال‘‘
اور یہ آٹھ سال جاکر ملکہ وکٹوریہ کی وفات2 پر پورے ہوگئے۔‘‘
(الفضل جلد 16 نمبر 78 مؤرخہ 5 اپریل 1929ءصفحہ 5)
(ب) حافظ حامد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ .....ان دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے:۔
’’سلطنت ِ برطانیہ تاہشت سال :: بعد ازاں ایام ضعف و اختلال‘‘
(سیر ت المہدی حصہ اوّل صفحہ 75 روایت نمبر 96 ایڈیشن دوم)
1 مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں:۔
’’ جہاں تک میری یاد مساعدت کرتی ہے ......یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ’’محدثیت اور نبوت ‘‘ پر بحث ہوئی تھی .....حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا جس میں حضرت عمر ؓ کی محدثیت پر استدلال تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگار وں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا اور بخاری خود بھیج دی۔مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا ۔ آخر حضرت مسیح موعود ؑ نے خود نکال کر پیش کیا ..... جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی تو فریقِ مخالف پر گویا ایک موت وارد ہوگئی.....اسی پر مباحثہ ختم کردیا ۔‘‘ (سیرت المہدی حصّہ سوم صفحہ 5، 6)
2 ملکہ وکٹوریہ کا انتقال 22 جنوری 1901ء میں ہوا۔ (مرتب)
(ج) میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ:۔
’’مجھے (یہ) الہام اِس طرح یاد ہے:۔
’’سلطنت ِ برطانیہ تا ہفت سال :: بعد ازاں باشد خلاف و اِختلال‘‘
( سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 75 روایت نمبر 69 ایڈیشن دوم)
(د) صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ نے بیان کیا:۔
’’مَیں نے حضرت سے یہ الہام اِس طرح پر سنا ہے:۔
’’قوت ِ برطانیہ تا ہشت سال :: بعد ازاں ایام ضعف و اِختلال‘‘
( سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 9 روایت نمبر 314)
غالباً 12 جولائی 1892ء
(خواب میں) ’’ لَہٗ تَبٌّ وَّ سَبٌّ وَّ افْتِضَاحٌ۔ 1 ‘‘
(جیبی2بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
12 اکتوبر 1892ء
’’یُصْلِحُ اللّٰہُ جَمَاعَتِیْ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔3‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
21 مارچ 1893ء
’’کل شب کو ایک خواب اور کچھ تحریری طور پر لکھا ہوا پیش ہوا۔ لکھا ہوا تو سوائے ن و ض کے اَور کچھ پڑھا نہ گیا اور خواب بھی سارا یاد نہیں رہا آخری فقرہ یاد رہا وہ یہ تھا:۔
’’اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔4 ‘‘
(از مکتوب مرزا خدا بخش صاحب مندرجہ ’’ اصحابِ احمد‘‘ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے حصہ دوم صفحہ 116 حاشیہ)
1 (ترجمہ از مرتب) اس کیلئے ہلاکت اور گا لیاں اور ذلت ہے۔
2 یہ جیبی بیاض عبدالرحمن صاحب شاکر کارکن صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے پاس موجود تھی جو ان کے والد مرحوم ماسٹر نعمت اللہ صاحب گوہر کو مرزا محمود بیگ صاحب آف پٹی نے دی تھی اور ان کا بیان ہے یہ بیاض انہیں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطا فرمائی تھی۔ اس کی فوٹوکاپی خلافت لائبریری میں موجود ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ میری جماعت کی اصلاح کردے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
4 (ترجمہ از مرتب) یقینا اللہ تعالیٰ علیم حکیم ہے۔
مارچ 1893ء
’’نورالدین1 کو دو گلاس دُودھ کے پلائے۔ ایک ہم نے خود دیا اور دوسرا اُس نے مانگ کر لیا اورکہا سرد ہے۔ پھر دُودھ کی ندی بن گئ اورہم اُس میں نبات کی ڈلی ہلاتے جاتے ہیں۔‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
2 اپریل 1893ء
’’مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے ایک دن ذکر کیا کہ مجھے الہام ہؤاہے:۔
2 لَا تَصْبُوَنَّ اِلَی الْوَطَنْ۔ فِیْہِ تُھَانُ وَتُمْتَحَنْ
یہ الہام نورالدین کے متعلق معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ اخبار جلد 8 نمبر40 مورخہ 29جولائی 1909 ء صفحہ 77۔ مرقاۃ الیقین فی حیاۃ الدین صفحہ 169 طبع اوّل)
’’4 وَاِنْ ھٰذَانِ لَسَاحِرَانِ یُرِیْدَانِ اَنْ یُخْرِجَاکُمْ۔‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ صفحہ 149)
’’کشف میں دیکھا۔ تفسیر حسینی 50اور51صفحہ پر
وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِلّنَّاسِ وَانْظُرْاِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُ ھَاثُمَّ نَکْسُوْ ھَالَحْمًا۔ فَلَمَّا
1 حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (مرتب)
2 یہ تاریخ حضرت خلفیۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جیبی بیاض میں درج ہے مگر وہاں ؁ء درج نہیں۔ تعیین سال چونکہ بدلائل 1893ء ثابت ہے(دیکھئے تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 494 جدید ایڈیشن مولانا نورالدینؓ کی ہجرت کا ایمان افروز واقعہ) اِس لئے ہم نے یہی سن درج کردیا۔ (مرتّب)
3 (ترجمہ از مرتّب) تُو وطن کی طرف ہرگز توجّہ نہ کر۔ اس میں تیری اہانت ہوگی اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں گی۔
(نوٹ از مرتّب) یہ الہام حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی بیاض جیبی صفحہ صفحہ 149 میں یُوں درج ہے۔ لَاتَصْبُوَنَّ اِلَی الْوَطَنْ۔ فِیْہِ تُضَامُ وَتُمْتَھَنْ اور اس کے ساتھ ہی حریریؔ کا دوسرا شعربھی درج ہے۔ فَاعْلَمْ بِاَنَّ الْحُرَّفِیْ ۔ اَوْطَائِہٖ یَلْقَی الْغَبَنْ۔ (ترجمہ) اپنے وطن کی طرف راغب مت ہو اس میں تجھ پر ظلم کیا جائے گا اورذلیل کیا جائے گا اوریاد رکھ کہ آزاد انسان اپنے وطن میں خسارہ پاتا ہے۔
4 (ترجمہ ازمرتّب) یہ دونوں بڑے ہوشیار اورچالاک ہیں تمہیں نکالنا چاہتے ہیں۔
(نوٹ) اِس الہام کے متعلق جیبی بیاض میں کوئی تاریخ درج نہیں اورنہ کوئی تشریح ہے۔ لیکن یہ الہام اسی صفحہ پر درج ہے جہاں الہام لَاتَصْبُوَنَّ لکھا ہے۔ (مرتّب)
5 (ترجمہ از مرتّب) اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لئے نشان بنائیں اوراُن ہڈیوں کی طرف دیکھ۔ ہم انہیں کیس اُبھارتے، پھر انہیں
تَبَیَّنَ لَہٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ فَسَّرَہٗ نُوْرُالدِّیْنِ بِالْمَعَارِفِ الْغَرِیْبَۃِ۔‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 149)
5 اپریل1893ء
قاضی سلیمان پٹیالوی کی نسبت الہام :۔
’’پشت بر قبلہ مے کنند نماز 1 ‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 157)
5 اپریل1893ء
بعد ظہر کے فرمایا بعد دُعا بہ نسبت خاکسار2 راقم الہام :۔
’’ اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ‘‘ 3
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 157)
7 اپر یل 1893ء 4
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’یہ باغِ اسلام ہم تم کو دیتے ہیں۔‘‘ (کشف)
پھر الہام ہؤا:۔
’’شُد تُرا ایں برگ و بار و شیخ و شاب5 ‘‘
اور تفہیم ہوئی۔ ایک جماعت اِس سلسلہ میں داخل ہوگی۔‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 158)
15 مئی1893ء
’’اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ6 الہام ہے۔پھر ملخ دیکھئے۔ مشرق سے مغرب کو جاتے ہیں اور اس کی بڑی گونج ہے۔‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 165)
گوشت پہناتے ہیں۔ پھر جب اس پر واضح ہوگیا تو کہا مَیں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ نورالدین نے اس کی عجیب و غریب معارف کے ساتھ تفسیر کی۔
1 (ترجمہ از مرتب) قبلہ کو پیٹھ دے کر نماز ادا کرتے ہیں ۔ 2 یعنی حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) یقینا صفا اور مروہ شائر اللہ میں سے ہیں۔
4 اِس الہام اور اگلے چار الہاموں کی جیبی بیاض میں صرف تاریخیں لکھی ہوئی ہیں مگر سنہ درج نہیں غالباً 1893ء ہی ہوگا۔ (مرتب)
5 (ترجمہ ا ز مرتب) یہ پھل پھول اور بوڑھے اور جوان سب آپ کے ہی ہوئے۔
6 (ترجمہ از مرتب) کیا تو نہیں جانتا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا۔
25 جون1893ء
(خواب میں) ’’سانپ نے ذراع پر کاٹا۔ ڈاکٹر کی جستجو کی تو مرزا غلام مرتضیٰ تھے۔ انہوں نے سینہ کاٹنا شروع کیا تاکہ زہر نکل جاوے۔ اس کے بعد الہام ہوا :۔
نَرُدُّھَا عَلَی النَّصَارٰی1‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 164)
11 جولائی
’’یہ کشف کہ سفید کاغذ پر (عبداللہ ) (سلطان محمد) لکھا ہے۔ پھر الہام ہوا :۔
بُشْرٰی لَکَ فِی النِّکَاحِ2
اور تفہیم ہوئی کہ یہ آتھم اور لڑکا معہود ہے۔‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 144)
3 ستمبر 1893ء
رات کو الہام ہوا:۔
’’کَرَامَۃٌ جَلِیْلَۃٌ قَدْ جَآئَ وَ قْتُھَا3‘‘
(از مکتوب 4بنام میر عباس علی صاحب ورق نمبر 12 و جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 149)
12 دسمبر1893ء
’’لَا یُرَی اللّٰہُ اِلَّا مِنْ نَّفْیٍ عَنْ اِرَادَاتِ الدُّنْیَا کُلِّھَا۔ مَاضَلَّ الشَّیْخُ وَمَا غَوٰی۔ یَآ اَیُّھَاالْعَوَآمُّ اتَّبِعُوْ الْاِمَامَ۔‘‘ 5
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 172)
1893ء
حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ لکھتے ہیں:۔ ’’سیّدنا واما منا مسیح موعود علیہ صَلَوات من ربّہٖ و رحمتہ نے
1 (ترجمہ از مرتب) ہم ااس نصاریٰ پرلوٹا دیں گے۔ (نوٹ) ایک الہام تذکرہ صفحہ 238 پر اِن الفاظ میں ہے:۔ اِنَّ النَّصَارٰی حَوَّلُوا الْاَمْرَ۔سَنَرُدُّھَا عَلَی النَّصَارٰی۔‘‘ ممکن ہے یہ الہام وہی ہو یا دوسرا ہو۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) اِس نکاح کے بارہ میں آپ کو خوشخبری ہو۔
3 (ترجمہ از مرتب) ایک بڑی کرامت ہے جس کا وقت آچکا ہے۔
4 یہ مکتوباتِ قلمی ‘ خلافت لائبریری صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں محفوظ ہیں۔ (مرتب)
5 (ترجمہ ا ز مرتب) خدا تعالیٰ دُنیا کے تمام ارادوں کو ترک کئے بغیر دکھائی نہیں دیتا۔ بزرگ شخص نہ ہی گمراہ ہوا اور نہ ہی ناکام اور ہلاک ہوا۔ اے عوام امام کی اتباع کرو۔
مجھے ہائی کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی بتادیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہاماً اطلاع دی ہے کہ :۔
’’حسین کو ٹیپوؤں کے شَر سے بچایا گیا ہے‘‘
سو خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و رحم سے مجھے ہر قسم کے فتنہ اور مصیبت اور بلا سے بچایا۔‘‘
(دیباچہ طبی ما ئۃ عامل صفحہ 29 از حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ بیرون دہلی دروازہ لاہور 29 مارچ 1950ئ)
1893ء
مکرم میاں محمد عبدالرحمن خان صاحب و مکرم میاں محمد عبداللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہماری پھوپھیوں کے ہاں اولاد نہ تھی۔ اُنہوں نے والد صاحب سے کہا کہ حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں دُعا کیلئے عرض کریں۔ نواب صاحب نے عرض کیا۔ بعد ازاں حضور ؑ نے فرمایا کہ:۔
’’مَیں نے دیکھا کہ مجھے گولیاں ملی ہیں۔ کچھ مَیں نے مولوی نورالدین صاحب کو دے دیں کچھ آ پ1 کو۔ لیکن مَیں نے نواب عنایت علی خان صاحب کو تلاش کیا لیکن وہ نہ ملے۔‘‘
(اصحابِ احمد حصہ دوم صفحہ 197)
6 اپریل1894ء
مرزا ایوب بیگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ (جب رمضان شریف میں ) 6 اپریل 1894ء کو گرہن لگنا تھا ......کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے۔ ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے آپ ؑ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی۔ حضور ؑ نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گا اور اِس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہوجائے گا......تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی ۔ حتّٰی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہوگیا ۔ تب حضور ؑ نے فرمایا کہ:۔
’’ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا۔ اس کی تعبیر غم ہوتی ہے۔ سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے یہ غم ظہور میں آیا۔‘‘
(اصحابِ احمدجلد اوّل صفحہ 80‘81)
1 یعنی نواب محمد علی خان صاحب۔ چنانچہ نواب صاحب کے ہاں اِس رؤیا کے بعد نرینہ اولاد ہوئی۔ اِس سے پہلے دو لڑکیاں ہی تھیں اِسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ خلیفہ اوّل کے ہاں بھی اُس وقت تک کئی لڑکے ہوکر فوت ہوچکے تھے اَب اس کے بعد آپ کو زندگی پانے والی نرینہ اولاد عطا ہوئی لیکن نواب عنایت علی خان صاحب کے ہاں ایک بیوی سے تو کوئی اولاد نہ ہوئی البتہ ایک دوسری بیگم کے بطن سے دو لڑکیاں ہوئیں۔ (مرتب)
31 جولائی1893ء
’’بروز دو شنبہ بعد نماز ظہر حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام1ہوا :۔
اَمِدُّوْا لَیْلَۃً اَزْھَی اللَّیَالِیْ
یعنی اس رات کو عبادت ‘ تسبیح ‘ تہلیل ‘ تکبیر اور درُود و استغفار وغیرہ سے شاغل رہو کیونکہ یہ رات2تمام راتوں سے افضل اور خوبصورت تر ہے۔‘‘ (تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 16۔ البشریٰ صفحہ 66 مرتبہ پیر سراج الحق صاحب ؓ نعمانی)
18 ستمبر1894ء
’’داغِ ہجرت‘‘
(تشحیذ الاذہان جلد 3 نمبر 6‘7 بابت ماہ جون و جولائی 1908ء صفحہ 14۔ ریویو آف ریلیجنز اُردو جلد 13 نمبر 6 ماہ جون 1914ئ صفحہ 223)
16 مارچ1895ء
’’احمد ِ زمان اس زمانہ کا احمد ؑ ‘‘
(تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ بواسطہ حکیم عبداللطیف3صاحب گجراتی)
31 مارچ1895ء4
’’اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عُرِضَ عَلٰی اَقْوَامٍ فَمَا دَخَلَ فِیْھمْ وَمَا دَخَلُوْافِیْہِ اِلَّا قَوْمٌ مُّنْقَطِعُوْنَ۔5 ‘‘
(درس القرآن حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ تقطیع خورد صفحہ 681۔ضمیمہ اخبار بدر 4 جولائی 1912ئ جلد 11۔
البشریٰ صفحہ 64 مرتبہ پیر سراج 5344 }ا لحق صاحب ؓ نعمانی ۔ حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ )
1 پیر سراج الحق صاحب ؓ لکھتے ہیں :۔ ’’حضور مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے لکھا گیا جو فرمایا تھا کہ کہیں یادداشت لکھ رکھو۔‘‘
(تذکرۃ المہدی صفحہ 16 حصہ دوم)
2 یعنی شب سہ شنبہ 27 محرم الحرام 1312ھ مطابق 31 جولائی 1894ء ۔
(تقویم عمری 1783ئ تا 1907ء صفحہ 228۔ البشریٰ صفحہ 66 حاشیہ نمبر 3۔ تذکرۃ المہدی صفحہ 16 حصہ دوم)
3 حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی نے خاکسار سے بیان کیا کہ یہ اور اس سے اگلے پانچ الہامات مَیں نے حکیم مولوی قطب الدین صاحب ؓ کے قرآن مجید سے نقل کئے ہیں۔ ان کا بیان ہے یہ کہ ’’یہ حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھوائے تھے۔‘‘ (مرتب)
4 حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی بیان کرتے ہیں کہ یہ تاریخ حکیم مولوی قطب الدین صاحب ؓ کے قرآن مجید پر درج تھی۔ (مرتب)
5 (ترجمہ از مرتب) یقینا یہ قرآن قوموں پر پیش کیا گیا مگر ان پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا اور اُنہوں نے اُسے قبول نہ کیا ‘ ہاں اس قوم نے اسے قبول کرلیا جو دُنیا سے منقطع تھے۔
6 پیر صاحب موصوف حاشیہ البشریٰ صفحہ 64 میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ الہام حضرت مولوی حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری .....(نے ) بتلایا ہے جو فرماتے ہیں کہ میرے قرآ ن شریف میں یہ بطور یادداشت لکھا ہوا ہے.....حضرت اقدس علیہ السلام نے مسجد مبارک میں بیان فرمایا تھا ۔‘‘ (مرتب)
13 اپریل1895ء
’’ نَزَلَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ ھُوَ اَعْلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ۔ اِنَّ الْقَوْمَ یَقْتُلُوْ نَنِیْ۔ اَیْ اَرَادُوْا قَتْلِیْ۔ وَاَنّٰی لَھُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ م بَعِیْد 1۔‘‘
(تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ بواسطہ حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی)
17 اپریل1895ء
’’ ھُوَ مُؤْمَنٌ امن دیا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ھُوَ مُؤْتَمَنٌ2۔ اِن دونوں کی نست تفہیم نہیں ہوئی کہ کس کی نسبت ہیں۔‘‘ (تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ )
1895ء3
’’ بَلَغَ الْاَمْرُ اِلٰی حَدِّہٖ۔ 4 ‘‘
(تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ )
14 مئی1895ء
’’اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ۔ قِیْلَ ارْجِعْ اِلٰی مَکَانِکَ۔ وَ فَضَّلَہٗ قَوْمٌ مُّتَشَاکِسُوْنَ۔ اِنَّھُمْ قَوْمٌ وَّرِثُوْہُ۔ اِنْ تَوَلّٰی تُوَلّٰی۔ اِنِّیْ اَرٰی۔ ‘‘5 (تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ )
16 نومبر1895ء
’’زمین پر ایک ہی نام بخشا گیا ۔
تفہیم ۔ جس پر یَغْفِرُلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ 6 ۔بولا گیا۔‘‘
(جیبی7بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ )
1 (ترجمہ از مرتب) فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جو سب سے بڑا تھا ‘ اُترا۔ قوم مجھے قتل کرنا چاہتی ہے مگر ان کو دُور کی جگہ سے پکڑنے کی کیسے توفیق ملے گی۔2 (ترجمہ از مرتب) وہ امن پایا ہوا ہے۔
3 حکیم مولوی عبداللطیف صاحب گجراتی کے نوٹوں میں 13 محرم 1895ء درج ہے۔ یعنی مہینہ قمری اور سال شمسی ہے ۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) معاملہ اپنی حد تک پہنچ گیا۔
5 (ترجمہ از مرتب) مَیں تو یوسف کی خوشبو پاتا ہوں‘ اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ سمجھو۔ کہا جائے گا اپنی جگہ پر واپس جا۔ اور اسے مخالف قوم نے فضیلت دی۔ یہ وہ قوم ہیں جو اس کے وارث ہوئے ہیں۔ اگر اس نے دوستی رکھی تو دوستی رکھی جائے گی ۔ یقینا مَیں دیکھتا ہوں۔
6 (ترجمہ از مرتب) اللہ تیری ہر سابقہ اور آئندہ ہونے والی لغزش بخش دے گا۔
7 یہ جیبی بیاض عبدالرحمن صاحب شاکر کے پاس تھی۔ اس کی فوٹو کاپی خلافت لائبریری میں موجود ہے۔
1897ء/1896ء
’’1314ھ کا ذکر ہے جب میرے ہاں لڑکی ساجدہ پیدا ہونے والی تھی ۔ جمعہ اور پنجگانہ نماز کے پڑھانے کا مجھے اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حکم تھا۔مَیں جمعہ کا خطبہ پڑھ رہا تھا اور سورۃ مومنون کا رکوع اَنْشَانَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ تک پڑھا۔دوسرے روز آپ ؑ نے مجھے فرمایا کہ سورۃ مومنون کی آیات جس قدر تم نے خطبہ میں پڑھیں وہ ساتھ کے ساتھ ہم پر الہام ہوتی رہیں۔ یہ تمہارا خطبہ مقبول ہوگیا۔‘‘
(البشریٰ صفحہ 76حاشیہ۔ تحریرصاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ)
2 مارچ1897ء
میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی......نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’آج شب گھر میں دردِ زِہ1کی تکلیف تھی ۔ دُعا کرتے کرتے لیکھرام سامنے آگیا۔ اس کے معاملہ میں بھی دعا کی گئی اور فرمایا کہ جو کام خدا کے منشاء میں جلد ہوجانے والا ہو اس کے متعلق دعا میں یاد کرایا جاتا ہے ۔ چنانچہ اس کے چوتھے روز لیکھرام مارا گیا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر 640۔ صفحہ 103)
1897ء
حضرت اقدس ؑ کو بہت روز ہوئے ایک خواب بدیں طور ہوئی کہ ہماری پگڑی اور عَصا اور چوغہ چوری ہوگیا۔ چوغہ تو جلد مل گیا مگر عَصا و پگڑی کیلئے آدمی واپس لینے گیا ہے۔ (مکتوب مرزا خدا بخش صاحب بحکم حضرت اقدس ؑ بنام منشی جلال الدین صاحب مؤرخہ 13 مارچ 1897ء مندرجہ رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 162)
1897ء
’’حسین کامی ترکی سفیر (کے متعلق) حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ رات کو خواب دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ منافق طبع ہے۔‘‘
(اصحابِ احمد جلد 7 صفحہ 128 روایت سردارماسٹر عبدالرحمن صاحب ؓ جالندھری سابق مہر سنگھ)
28 جولائی1897ء
’’الہام ہوا۔ تو پہ یا طو پہ ۔ فرمایا عبرانی لغت میں تلاش کرو شاید کہ یہ عبرانی لفظ ہو۔
(ذکر حبیب ؑصفحہ 222 مؤلّفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ )
21 اگست1897ء
(1) 2 اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْبَرِ۔ (2) اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ۔
(ذکر حبیب ؑ صفحہ 221)
1 چنانچہ سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ اسی شب پیدا ہوئیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) (1) مَیں خدائے عزیز و اکبر کے ساتھ ہوں۔ (2) تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں۔

1897ء
خواب میں دکھائے گئے۔ (1) تین اُسترے (2) عطر کی شیشی۔ (ذکر حبیب ؑ صفحہ 221)
1897ء
’’تین میں سے ایک پر عذاب نازل ہوگا۔‘‘ (ذکر حبیب ؑ صفحہ 221)
دسمبر1897ء
’’کل حضرت اقدس ؑ کو چار پانچ مریدوں کی قسمت دکھلائی گئی جن کو وہ خوب جانتے ہیں اور ایک کی عمر صرف چار سال باقی ہے۔ اِس سے زیادہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘
(اصحابِ احمد جلد 2 صفحہ 120 حاشیہ مکتوب مرزا خدا بخش صاحب و رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 5صفحہ 62 روایت میاں امام الدین1صاحب سیکھوانی)
1897ء
اور ایک الہام یہ بھی ہوا:۔
’’ وَقَادِرٌ عَلَی الْاِجْتِمَاعِ وَالْاِجْمَاعِ وَالْجَمْعِ۔2‘‘
(اصحابِ احمد جلد 2 صفحہ 120 حاشیہ مکتوب مرزا خدا بخش صاحب)
13یا 14 جنوری1898ء
حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’ہم کو خواب ہوا کہ ہماری جماعت کے ایک شخص کو ہم نے دیکھا۔ لیکن ہم اس کو اُس وقت پہچانتاتھا اَب یاد نہیں۔ ایک سونے کا کنٹھا پہنایا گیا ہے۔ مَیں نے کہا کہ ایک رُومال بھی باندھ دو اور وہ رومال بھی باندھا گیا۔‘‘
(اصحابِ احمد ؑ جلد 2 صفحہ 525‘ 526)
مارچ1898ء
’’ خواب میں دیکھا کہ سیّد احمد صاحب کا ستارہ قریب 4غروب ہے۔‘‘ (مکتوب سراج الحق صاحب ؓ نعمانی صفحہ 6)
1 میاں امام الدین صاحب کی روایت کی رُو سے اِس رؤیا کی تاریخ فروری 1900ء ہے۔ واللہ اَعلم۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) وہ جمع ہونے اور جمع کرنے اور جماعت بنانے پر قادر ہے۔
3 نقل مطابق اصل۔ (مرتب)
4 سر سیّد احمد خان صاحب کی وفات 27 مارچ 1898ء کو ہوئی۔ دیکھئے حیاتِ جاوید مؤلّفہ مولانا الطاف حسین حالی چھٹا باب 1878ء تا 1898ء صفحہ 304۔ (مرتب)
12 اپریل1898ء
’’لاہور سے ایک بی ۔ اے نوجوان بنوں کا رہنے والا بڑا تیز طبع ہمارے حضرت ؑ کو دیکھنے کیلئے (آیا) ..... حضرت ؑ کے دل میں القاء ہوا کہ اس کیلئے دُعا کرو۔ دُعا کی۔ معاً اس کا قلب تبدیل کیا گیا اور بیعت کی درخواست کی ۔‘‘
(اصحابِ احمد ؑحصہ دوم صفحہ 117 مکتوب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ 19 اپریل 1898ء)
1898ء
میاں عبدالعزیز صاحب ؓ سکنہ لاہور المعروف مغل بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’ایک دفعہ جبکہ حضور تریاقِ الٰہی بنا رہے تھے .....حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے مطب میں.......حضرت صاحب ؑ ..... تشریف لائے اور فرمایا: مولوی صاحب مجھے الہاماً بتایا گیا ہے کہ یہ دَوائی گرم خشک ہے میری منشاء ہے کہ اِسے لَسّی سے کھلایا کروں ۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ جلد 9 صفحہ 20)
11 اگست1898ء
’’ ھُوَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ مُرْغِمِیْکَ فَخَضَّرَ دَعْوَاکَ1۔ ‘‘
(ذکر ِ حبیب ؑ صفحہ 216)
6 مئی1899ء
’’رات عشاء کی نماز میں حضرت اقدس ؑ کی زبان پر الہاماً جاری ہوا:۔
وَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً کَثِیْرَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیَّ
یعنی انسانوں کے بہت سے دلوں کو میری طرف جھکادے۔ یہ ایک بشارت ہے سلسلہ کی ترقی کے متعلق۔‘‘
(خط نمبر 12 مولوی عبدالکریم صاحب ؓ 6 مئی 1899ء مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد 7 نمبر 6 جون 1912ء صفحہ 247)
12 جون1899ء
12 جون 1899ء کو الہام ہوا:۔
سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ2۔ ‘‘
(خط نمبر 13 مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد 7 نمبر 6 جون 1912ءصفحہ 248)
1 (ترجمہ از مرتب) وہی ہے جس نے تیرے بدخواہوں کو نکالا۔ پھر تیرے دعویٰ کو سر سبز کیا۔
2 (ترجمہ) عنقریب یہ لوگ بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔
(نوٹ) یہ الہام تذکرہ میں زیرِ سال 1877ء،1883 اور1896ء میں بھی اَور تاریخوں کے ماتحت چھَپ چکا ہے۔ (مرتب)
18 اکتوبر 1899ء
’’بالفعل خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا ہے کہ بیعت کرنے والے دو قسم میں رکھے جائیں گے ‘ ایک جو اعلیٰ اور صاف تر زندگی کے خواہشمند اور خدا تعالیٰ کے منشاء کی اطاعت کیلئے حاضر ہیں اور ایک وہ جو کسی قدر کمزور ہیں۔‘‘
(اقتباس مکتوب نمبر 4 حضرت مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 18 اکتوبر 1899ء مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد 7 نمبر 6 جون 1912ءصفحہ 243‘244)
1899ء
’’حضرت اقدس ؑ کورؤیاہوئی کہ حامد علی آکر کہتا ہے کہ باہر ایک ہندو کھڑا ہے اور دُعا کیلئے درخواست کرتا ہے۔ حضور اقدس ؑ اسے کہتے ہیں کہ بے نذر لئے ہم دُعا کرنے کے نہیں۔ پھر حامد علی دوبارہ واپس آتا ہے تو ایک چھوٹا بَیگ اور دو 2 چادریں ہیں اُن میں روپیہ بھر کر لاتا ہے۔ فرمایا ہندو سے مراد ایسا شخص ہوا کرتا ہے جو دُنیا کے غم ہم میں مبتلا ہو اور چاہے کہ کسی طرح دُنیوی ابتلاؤں سے نجات ہو۔‘‘
(مکتوب 1حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد 7 نمبر 6 جون 1912ء صفحہ247)
5 جنوری 1900ء
(الف) 7 جنوری 1900ء کو صبح کی نماز کے وقت حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ پرسوں کی نماز میں جب مَیں التّحیّات کیلئے بیٹھا تو بجائے التّحیّات کے یہ دُعا پڑھنے لگ گیا صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلَیْکَ وَ یُرَدُّ دُعَآئُ اَعْدَآئِ کَ عَلَیْھِمْ2۔ حضرت صاحب ؑفرماتے تھے کہ مَیں نے خیال کیا کہ یہ کیا پڑھ رہا ہوں ‘ تو معلوم ہوا کہ الہام ہے۔
(روایت منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس۔ رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11 صفحہ 104 و رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 142)
(ب) صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی نے بیان کیا کہ:۔
’’ ایک روز مغرب کی نماز پڑھی گئی اور مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس کھڑا تھا۔ جب نماز کا سلام پھیرا گیا تو آپ ؑ نے بایا ں ہاتھ میری دائیں ران پر رکھ کر فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب ! اِس وقت مَیں التحیات پڑھتا تھا الہاماً میری زبان پر جاری ہوا کہ:۔
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔‘‘
(الحکم جلد 26 نمبر20/19مؤرخہ28/21 مئی 1924ء صفحہ 5)
1 (نوٹ از مرتب) یہ مکتوب حضرت مولانا نے افریقہ کے ایک شخص کو لکھا کہ ’’آپ کا وعدہ ارسال روپیہ آنے سے ایک ہفتہ قبل حضور اقدس ؑ کو رؤیا ہوئی .......پھر جب نام بنام فہرست چندہ پر مشتمل خط آیا تو تاویل و تصدیق واضح ہوگئی۔‘‘
(مکتوب مذکور)
2 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ محمد ؐ پر صلوٰۃ بھیجے اور تجھ پر بھی ‘ اور تیرے دشمنوں کی بد دُعا اُن پر لوٹا دی جائے گی۔
7 جنوری 1900ء
منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس ولد میاں نورالدین صاحب ضلع گجرات نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو نمازِ عصر التحیات میں الہام ہوا:۔
’’وَاجْعَلْ لِّی غَلَبَۃً فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ1۔‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11 صفحہ 104 ‘105۔رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 142)
13 جنوری1900ء
منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو ظہر کی نماز میں سُنّت بعد از فرض کے التحیات میں یہ الہام ہوا:۔
’’وَاجْعَلْ لِّی نَافِعًا ھٰذِہِ التِّجَارَۃَ۔2‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11 صفحہ 106۔رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 143)
17 جنوری1900ء
منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا:۔
’’اِنِّیْٓ اَعْزَزْتُ وَ اَکْرَمْتُ وَ یَسُرُّنِیْ قَوْلُکَ اِنِّیْ عَلَّمْتُ۔4‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11 صفحہ 109حاشیہ۔رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 146)
17 جنوری1900ء
منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس ساکن کھاریاں نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا:۔
’’ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا۔ اَنَرْتُ مَکَانَکَ4۔‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 145)
1 (نوٹ از مرتب) اور دُنیا اور دین میں مجھے غلبہ دے۔
2 (ترجمہ از مرتب) اور میرے لئے یہ تجارت نفع والی بنا۔ اشارہ ’’ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(سورۃ الصّف :11)والی تجارت کی طرف معلوم ہوتا ہے ۔ میاں محمد الدین صاحب ؓ کی روایت میں ’’لِیْ‘‘ نہیں ہے۔
3 (ترجمہ از مرتب) مَیں نے عزت دی اور آپ کی بات مجھے پسند آتی ہے ۔ مَیں نے اسے تعلیم دی۔
(نوٹ ) ان ہی کی روایت میں الہام کا آخری فقرہ فَا کی زیادتی کے ساتھ فَاِنِّیْ عَلَّمْتُ لکھا ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) ان کے دل تو ہیں پر سمجھتے نہیں۔ مَیں نے تیری جگہ روشن کی۔
یکم فروری 1900ء
منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا:۔
اَمِتْنِیْ فِی الْمَجَبَّۃِ وَالْوِدَادِ :: وَکُنْ فِیْ ھٰذِہٖ لِیْ وَالْمَعَادٖ1
وَلَمْ یَبْقَ الْھُمُوْمُ لَنَا فَاِنَّا :: تَوَکَّلْنَا عَلٰی رَبِّ الْعِبَادٖ
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11 صفحہ 109حاشیہ ورجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 146)
18 فروری1900ء
مرزا خدا بخش صاحب نے تحریر کیا کہ:۔
’’پانچ روز ہوئے حضرت اقدس ؑ نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی قتل ہوگیا ہے اور کل اس کا وقوعہ ہوگیا۔ یہاں کے زمیندار باہم لڑپڑے اور ایک آدمی مارا گیا۔‘‘
(اصحابِ احمد مؤلّفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔ اے حصہ دوم صفحہ120حاشیہ از مکتوب مرزا خدا بخش صاحب مؤرخہ 23 فروری 1900ء)
مارچ1900ء
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے تحریر کیاکہ حضرت مسیح موعود ؑ کویہ الہام ہوا:۔
’’کُلُّ الْعَقْلِ فِیْ لُبْسِ النَّظِیْفِ وَ اَکْلِ اللَّطِیْفِ‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس کی بہت (لطیف) تفسیر فرمائی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اکل ِ حلال اور لباسِ نظیف نشان ہے اِنسان کی دانش کا ۔
( اصحابِ احمد مؤلّفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔ اے حصہ دوم صفحہ 444)
11 اپریل1900ء
عزیز دین صاحب نے بواسطہ عیدا صاحب گمہار سکنہ موضع کنڈیلا بیان کیا کہ (مسجد اقصٰے میں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد ) حضور ؑ نے اُٹھ کر کاغذ پر نقشہ منار کھینچا اور فرمایا کہ ’’ مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اِس قِسم کا مینار تم تیار کراؤ۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 7 صفحہ 345)
1900ء
شیخ نور احمد صاحب ڈاکٹر کا بیٹا سخت بیمار ہوگیا۔ اُمّ الصبیان کا دَور ہ ہوگیا۔ حالت یاس کی پیدا ہوگئی۔ حضرت ؑ نے دُعا کی ۔ الہام ہوا:۔ ’’اَنَا اللّٰہُ ذُوالْمِنَن2 ‘‘
(چنانچہ ) لڑکا اچھا ہوگیا۔ (ذکر ِ حبیبؐ صفحہ 238 مصنّفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ)
1 (ترجمہ از مرتب) مجھے اپنی محبت میں ہی وفات دے اور اِس دُنیا اور آخرت میں تُو میرا ہوجا۔ اور ہمیں کوئی غم نہیں رہے۔ کیونکہ ہم نے ربّ العباد پر توکل کیا۔
2 (ترجمہ از مرتب) مَیں خدا ہوں بہت احسانوں والا۔
1900ء
فرمایا۔’’ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا:۔
’’ اِنَّا لِلّٰہِ ہمارا بھائی اِس دُنیا سے چل دیا‘‘
مصداق ذہن میں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ عزا پُرسی کرتا ہے اور اظہارِ ہمدردی کرتا ہے۔‘‘ (ذکر ِ حبیب ؐ صفحہ 239)
6 جون1900ء
’’عِنْدَ ذٰلِکَ اَوْشَکَ الرَّدٰی۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔1‘‘
(ذکر ِ حبیب ؐ صفحہ 239)
7 جون1900ء
’’اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔2‘‘ (ذکر ِ حبیب ؐ صفحہ 240)
18 جون1900ء
پرسوں حضرت ؑ کو سر دَرد ہوا۔ اِس اثناء میں ایک اشتہار کشفاً دکھایا گیا۔ اس میں غزنویوں کا تذکرہ تھا۔ آخر ایک سطر میں تھوڑا سا لکھا ہوا یاد رہا۔‘‘
’’مُنہ کالے‘‘
پھر الہام ہؤا:۔
’’شَاھَتِ الْوُجُوْہُ3۔‘‘
(مکتوب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بنام میر حامد شاہ صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد 37 نمبر 10 مؤرخہ 21 مارچ 1934ءصفحہ 10)
نومبر1900ء
مَیں کئی روز بہت بیمار رہا۔ صحت خراب ہوگئی ہے ۔ تین روز ہوئے بشیر محمود کو سخت بخار ہوا۔ فرمایا مَیں نے دُعا کرنے کا ارادہ کیا تو میرے دل میں آیا کہ آپ4 (مجھے مخاطب کرکے فرمایا)بیمار ہیں اور مولوی نورالدین صاحب ؓ بھی بیمار ہیں۔ پھر تینوں کیلئے دُعا کی۔ الہام ہوا:۔
’’لِلْاَتْبَاعِ وَالْاَوْلَادِ ‘‘
یعنی تیری اولاد اور تیرے پیروؤں کے حق میں تیری دُعا سنی گئی۔
(ذکر ِ حبیبؐ صفحہ 238 مصنّفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓخط حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ 6 نومبر)
1 (ترجمہ) ایسے وقت میں موت نزدیک ہوجاتی ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
2 (ترجمہ) جو ہماری طرف آتے ہیں ہم ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔
3 (ترجمہ) ’’منہ کالے ہوگئے۔‘‘ (یہ مخالفین کی طرف اشارہ ہے)
4 یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ ۔ (مرتب)
1900ء
پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ کا بیان ہے کہ ایک روز صبح کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آج تھوڑی دیر ہوئی عجیب الہام ہوا کہ جو سمجھ میں نہیں آیا۔ پہلے الہام1 ہوا:۔
’’تائی آئی ‘‘
ہمارے تو کوئی تائی ہے نہیں نہ نزدیک نہ دُور ‘ ہاں ہمارے لڑکوں کی تائی ہے جو وہ ہماری دشمن ہے۔ پھر الہام ہوا:۔
’’تار آئی ‘‘
(البشریٰ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ صفحہ 113 حاشیہ)
25 فروری1901ء
’’کَشَابٍ 2مَّسْلُوْخَۃٍ عِنْدَ وَعْظٍ مُّعَطَّلٍ۔‘‘
(الحکم جلد 26 نمبر19‘20مؤرخہ21/28مئی 1924ءصفحہ 18)
1901ء
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
(الف) ’’جب قادیان کی زندگی احمدیوں کیلئے اِس قدر تکلیف دِہ تھی کہ مسجد میں خدا تعالیٰ کی عبادت
1 ’’اِس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد میں سے خلیفہ ہوگا۔ دوم یہ کہ اس وقت (حضور ؑ کی اولاد کی ) تائی صا حبہ جماعت میں شامل ہوں گی۔تیسرے تائی صاحبہ کی عمر کے متعلق پیشگوئی تھی .......کہ وہ زندہ رہے گی اور آپ ؑ کی اولاد سے ایک خلیفہ ہوگا جس کی بیعت میں (وہ) شامل ہوگی۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 دسمبر 1927ء حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مطبوعہ الفضل جلد 15 نمبر 47 مؤرخہ 9 دسمبر 1927ء صفحہ 8)
(نوٹ از مرتب) تائی صاحبہ کا نام حُرمت بی بی تھا اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی زوجیت میں تھیں۔ آپ نے 1916ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (دیکھئے الفضل جلد 3 نمبر 94 مؤرخہ 4 مارچ 1916ء) اور یکم دسمبر 1927ءمیں 97 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ موصیہ تھیں اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئیں۔ ( الفضل جلد 15 نمبر 47 مؤرخہ 9 دسمبر 1927صفحہ 5 تا 8 )
اور تار آئی سے یہ مراد تھی کہ یہ خبر گویا خدا تعالیٰ آسمانی تار کے ذریعہ دے رہا ہے۔ (ایضاً)
2 غالباً یہ لفظ کَشَاۃٍ ہے جو کاتب کی غلطی سے کَشَابٍ لکھا گیا۔ واللہ اَعلم بالصّواب ۔ جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اس میں ایک شخص کی حالت کا بیان ہے کہ اس کا حال ایک بے کار وعظ کے وقت بھی رِقّت سے ایسا ہوجاتا ہے ‘ گویا کھال اُتری ہوئی بکری ہے۔ (مرتب)
کیلئے آنے سے روکا جاتا۔راستہ میں کِیلے گاڑدیئے جاتے تاکہ گذرنے والے گریں۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا مجھے دکھایا گیا ہے (کہ) یہ علاقہ اِس قدر آباد ہوگا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی۔
( الفضل جلد 16 نمبر 13 مؤرخہ 14 اگست1928صفحہ 6 )
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرماتے ہیں:۔
(ب) ’’مجھے یاد ہے اِسی میدان سے جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا ایک رؤیاسنایا تھا کہ قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے اور مشرق کی طرف بھی بہت دُور تک اس کی آبادی چلی گئی ہے۔ اُس وقت یہاں صرف آٹھ دس گھر احمدیوں کے تھے اور وہ بھی بہت تنگدست ‘ باقی سب بطور مہمان آتے تھے۔‘‘
(فرمودہ 23 جنوری 1932ء بر موقع دعوت باعزاز مولانا جلال الدین شمس۔ الفضل جلد 19 نمبر 95مؤرخہ 9 فروری1932صفحہ 6 )
اگست1901ء
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ (مقدمہ ٔ دیوار میں) ’’عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چچاؤں پر ڈالا جائے........جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے۔ آپ ؑ کو عشاء کے قریب رؤیایا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پر بہت زیادہ ہے اور اِس وجہ سے وہ (مخالف رشتہ دار) تکلیف میں ہیں۔ چنانچہ آپ ؑ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اِسی وقت آدمی بھیجا جائے جو جاکر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کردیا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ24 جولائی 1936۔الفضل جلد 24 نمبر 29مؤرخہ 2 اگست1936صفحہ 8 )
17 دسمبر1901ء
منشی محمد الدین صاحب واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا:۔
لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَ لَوْکَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا۔1
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11 صفحہ 116حاشیہ ورجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 14 صفحہ 151)
22 دسمبر1901ء
نور محمد صاحب پنشنر تحصیلدار موضع موچی پورہ ضلع ملتان نے بیان کیا کہ (مَیں جبکہ) 22 دسمبر 1901ء کو دارُلامان میں آیا حضرت مسیح موعود ؑ کو اُس روز الہام ہوا تھا کہ:۔
1 (ترجمہ از مرتب) وہ اس کی مانند نہیں لاسکیں گے خواہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔
’’قدیمانِ خود را بیفزائے قدر1‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 5 صفحہ 76 )
جنوری 1902ء
’’ لِیَحْمِلْہُ رَجُلٌ۔2‘‘
(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )
1902ء
(الف) مرز اقدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور نے بیان کیا کہ:۔
’’غالباً 1902ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح سَیر کیلئے تشریف لے گئے......جب ہم اُس گاؤں کے بیچ میں پہنچے جو نواں پِنڈ کے نام سے مشہور ہے......خلیفہ رجب الدین صاحب نے (مجھے کہا).......کہ حضرت صاحب نے اس مقام پر جہاں سے کہ ریلوے لائن گذرے گی ‘ اپنے سوٹا سے نشان کردیا ہے۔ چنانچہ کئی سالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح موعود علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کیا۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 4صفحہ 177)
(ب) ’’آپ ؑ فرماتے تھے کہ یہاں ریل بھی آئے گی۔ ‘‘(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 5 صفحہ 81 روایت شاہ محمد صاحب سکنہ قادیان رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 6 صفحہ7 روایت نتھو صاحب سکنہ قادیان)
(ج) (بٹالہ والی سڑک کے خراب اور تکلیف دِہ ہونے کی شکایت پر) حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’گھبراؤ نہیں ۔ کوئی دن وہ ہوگا جب یہاںگاڑی آجائے گی۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 10 صفحہ 212روایت سردار بیگم زوجہ چودھری محمد حسین صاحب تلونڈی عنایت خاں)
1 (ترجمہ از مرتب) اپنے قدیمی تعلق والوں کی قدر بڑھا۔
2 یعنی یہ کمزور ہے اس کے سہارا کیلئے اس کے ساتھ کوئی آدمی جانا چاہئے۔
(نوٹ از مرتب) یہ الہام حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے متعلق ہے ۔ جب آپ بچپن میں بٹالہ میں مڈل کا امتحان دینے جارہے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا۔ اِس کے متعلق الحکم جلد 6 نمبر 3 مؤرخہ 17 جنوری 1902ء صفحہ 15 میں اِن الفاظ میں اشارہ ملتا ہے:۔’’صاحبزادہ محمود صاحب بھی شامل ِ امتحان ہوئے ۔ حضرت اقدس ؑ کو جو الہام ہوا اس کے متعلق ہوا ہے اگلی اشاعت میں درج کریں گے۔‘‘ مگر افسوس کہ پھر اس کی اشاعت نہ کی جاسکی۔ خاکسار مرتب نے جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اِس الہام کی تصدیق کے متعلق درخواست کی تو حضور نے تحریر فرمایا کہ ’’یہ الہام درست ہے ۔ مَیں تو چھوٹا تھا مولوی شیر علی صاحب ؓ نے مجلس سے آکر ہمیں سنایا تھا۔‘‘
(مکتوب حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منسلکہ صفحہ )
1902ء
(سردار ماسٹر عبدالرحمن صاحب ؓ جالندھری ) بیان کرتے ہیں:۔
’’جن ایام میں پیر مہر علی گولڑوی کو حضور ؑ نے مقابلۃً تفسیر نویسی لکھنے کا چیلنج دیا ہوا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ بعض لوگ حضور ؑ کی جان پر حملہ کرنے کو آئیں گے۔ چونکہ مَیں حضرت اقدس ؑ کے مکانات کے پہرہ کا انتظام کیا کرتا تھا مجھے پتہ لگا کہ ضلع راولپنڈی کے دو تین اشخاص جو پیر مہر علی شاہ کے فرستادہ معلوم ہوتے تھے ‘ لوگوں سے حضرت مسیح موعود ؑ کی بود و باش ‘ رہائش مکان اور اندر باہر آنے جانے کی جستجو کرتے تھے۔ مَیں نے حضرت اقدس ؑ کو اطلاع کردی۔ حضور ؑ نے حاکم علی سپاہی کے ذریعہ ان لوگوں کو بٹالہ پہنچا دیا۔‘‘ (اصحابِ احمد ؑ جلد 7 صفحہ 153)
1903ء
(الف) ’’اگست 1903ء میں بنّوں کا ایک عیسائی گل محمد نام قادیان آیا ۔ بہت گستاخی سے جھگڑتا اور بحث کرتا رہا اور اسی حالت میں چلاگیا۔ اُس کے چلا جانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایکرؤیادیکھا کہ گل محمد آنکھوں میں سُرمہ لگارہا ہے۔ فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُسے ہدایت ہوجائے گی۔ چنانچہ بہت سالوں کے بعد سنا گیا تھا کہ اُس نے پھر اسلام قبول کیا تھا ۔ بنّوں کے مشہور ڈاکٹر پینل کی بیوہ نے بھی مجھے اپنے کارڈ میں لکھا ہے کہ گل محمد نے عیسائیت کو ترک کردیا تھا اور اپنے پہلے مذہب میں داخل ہوگیا تھا۔ ‘‘ (ذکر ِ حبیب ؑ مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ صفحہ 111)
(ب) ’’مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم و تربیت صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے یوں بیان کیا کہ ’’ اس کے چلے جانے کے بعد دوسرے دن یا چند روز بعد ایک دن آپ ؑ نے فرمایا مَیں نے اس شخص کورؤیامیں دیکھا کہ مجھ سے سُرمہ دانی یا سُرمہ کی سلائی مانگتا ہے ۔ فرمایا کہ اس کے معنے ہیں کہ وہ مجھ سے نور و ہدایت کا طلبگار ہے۔‘‘
(الفضل جلد 29 نمبر 276 مؤرخہ 5 دسمبر 1941ء صفحہ 10)
17 فروری1904ء
قاضی عبدالرحیم صاحب ؓ 17 فروری 1904ء کی ڈائری میں لکھتے ہیں:۔
’’آج رات حضرت ؑ نے خواب بیان فرمایا۔ کسی نے کہا کہ جنگ ِ بدر کا قصہ مت بھولو۔‘‘
(اصحابِ احمد ؑ جلد 6 صفحہ 133)
1904ء
شیخ خیرالدین1صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ چندولال مجسٹریٹ کے متعلق حضور ؑ نے فرمایا
1 یہ صاحب اصل میں باشندہ لدھیانہ کے تھے او رموچی کا کام کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جوتی بناکردیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ مَیں گورداسپور میں کرم دین کے مقدمہ میں حضور ؑ کے ساتھ رہا۔
جبکہ کرم دین کا مقدمہ پیش تھا کہ ’’مَیں (تو ) چند و لا ل1کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا۔‘‘
(الحکم جلد 38 نمبر 25 مؤرخہ 14 جولائی 1935ء صفحہ 4 ورجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 9 صفحہ 58‘ 59)
مئی 1904ء
حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کی ایک روایت بوساطت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی لکھی ہے ’’قاضی ضیاء الدین صاحب ساکن کوٹ قاضی .....نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں ایک عریضہ نہایت انکساری کے الفاظ میں دُعا کی درخواست کرتے ہوئے لکھا .....حضرت اقدس علیہ السلام نے خط پہنچنے کے بعد دُعا کی اور آپ کو رات کے وقت جواب ملا:۔
’’وہ بیچارہ فوت ہوگیا ہے‘‘
آپ نے صبح حاضرین سے کہا کہ مَیں نے اِس طرح دُعا کی تھی اور یہ جواب ملا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ڈاک میں خط آیا کہ قاضی صاحب2فوت ہوگئے ہیں۔‘‘ (الحکم جلد 42نمبر 5‘6مؤرخہ 14‘21 فروری 1939ءصفحہ 3 )
1904ء
میاں عبدالعزیز صاحب سکنہ لاہو رالمعروف مغل نے بیان کیا کہ:۔
’’ایک دفعہ گورداسپور میں حضور ؑ نے صاحبزادہ مبارک احمد کو بوسہ دیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ اس کو چُومو۔‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 9 صفحہ 45)
17 اکتوبر1904ء
چودھری محمد علی خان صاحب اشرف ہیڈ ماسٹر بیرم پور نے بیان کیا کہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ) اسی مقدمہ کرم دین کی آخری پیشی پر تاریخ فیصلہ سے ایک دن قبل بوقت نماز عصر .....فرمایا کہ ہم نےرؤیادیکھی ہے ہم سفید گھوڑے پر سوار باہر سے گھر کو آرہے ہیں۔ (مفہوم) اور ہمارے گھر والے یہ الفاظ کہہ رہے ہیں کہ
1 ایک دفعہ چند ایک غیر احمدیوں نے کہا کہ حضور چند و لال مجسٹریٹ کا ارادہ آپ کو قید کرنے کا ہے۔ آپ ؑ دری پر لیٹے تھے ‘اُٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ مَیں تو چندو لال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا۔ چنانچہ آخر وہ اس عہدہ سے تنزل ہوکر ملتان تبدیل ہوگیا اور پھر پنشن پاکر لدھیانہ آیا اور آخر پاگل ہو کر مرا۔
(الحکم جلد 38نمبر 25مؤرخہ 14 جولائی1935ء صفحہ 4)
اس کے تنزل کی نسبت پیشگوئی کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقیقۃ الوحی صفحہ 216۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 226 نشان نمبر 29 میں بھی فرمایا ہے۔ (مرتب)
2 قاضی صاحب مرحوم کے فرزند قاضی محمد عبداللہ صاحب سابق ناظر ضیافت سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اُن کے والد صاحب موصوف کی وفات 15 مئی 1904ء کو ہوئی تھی۔ (مرتب)
ہمارا نقصان ہوگیا ہے (غالباً روپوں کا) تو مَیں نے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں مَیں تو سلامت آگیا ہوں۔
اِس رؤیاکی تعبیر آپ ؑ نے یہ فرمائی کہ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ منصف ( جو بیحد متعصب آریہ ہے اور آنحضور ؑ کے خلاف فیصلہ دینے پر تلا ہوا ہے )ہمیں جرمانہ وغیرہ کی سزا دے گا اور دوسری قِسم کی سزا نہ دے سکے گا۔ بالآخر عدالت ِ عالیہ سے ہم بَری ثابت ہوں گے اور اس کی شرارت سے ہم بچ کر سلامت رہیں گے۔ چنانچہ دوسرے دن یہی وقوعہ پیش آیا کہ منصف نے آپ ؑ کے خلاف جرمانہ کا حکم سنایا جو کہ اُسی وقت ادا کیا گیا .......اور اپیل کرنے پر جرمانہ بھی معاف ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد 38 نمبر 3 مؤرخہ 28 جنوری 1935ء صفحہ 4 )
8 اکتوبر1904ء
شکر الٰہی صاحب موضع نبی پور ضلع گورداسپور نے بیان کیا کہ:۔
’’مولوی کرم دین کے مقدمہ کے فیصلہ .......کے (دن) عصر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام درختوں کے نیچے ......ٹہل رہے تھے ......ٹہلتے ٹہلتے آپ ٹھہر گئے ۔ مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو کچھ فرمایا اور اُسی وقت (عدالت سے) آواز پڑگئی۔ شیڈ میں آیا تھا کہ آپ ؑ نے مولوی صاحب کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ مولوی صاحب ! کیا دیکھتا ہوں کہ میرا رُومال تالاب میں گر گیا ہے ‘ ٹٹولنے سے مل گیا ہے۔ فرمانے لگے کہ کچھ جرمانہ ہوگا مگر معاف ہوجاوے گا۔ سو ایسا ہی ہوا۔‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 3صفحہ 114)
10 اکتوبر1904ء
میاں اللہ یار صاحب ؓ ٹھیکے دار بٹالوی نے بواسطہ مولوی غلام نبی صاحب مصری بیان کیا کہ مقدمہ گورداسپور کی کارروائی سے فارغ ہونے کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس ہونے لگے تو حضور ؑ کو کشف یا الہام ہوا کہ:۔
’’راستہ بٹالہ والا خطرناک ہے‘‘
اِس لئے حضور ؑ نے حکم دیا کہ یکّے لاؤ تو اُسی وقت تین یکّے لائے گئے ( اور راستہ بدل کر چل پڑے) تو اُس وقت حضور ؑ نے فرمایا کہ یہ وجہ راستہ بدلنے کی ہے۔ تو حضور ؑ کچی سڑک پر قادیان پہنچے اور اِدھر ایک رَتھ حضور ؑ کی خاطر بٹالہ بھیجا گیا تھا۔ بجائے حضور ؑ کے سوار ہونے کے اَور لوگ رَتھ میں سوار ہوئے۔ ان میں ایک شیخ یعقوب علی صاحب تھے۔ جب پل پر پہنچے تو پل پر ایک بناوٹی میلہ مخالفوں نے بنارکھا تھا جس میں مسانیا (ں) اور بٹالہ کے مخالف تھے یہ مشورہ کیا کہ جب مرزا صاحب ؑ پل پر پہنچ گئے تو پل کے مغربی سمت کے لوگ اور مشرقی سمت کے (لوگ) پل پر ہی پکڑ لیں گے اور نہر میں پھینک دیں گے .....جب بٹالہ سے رَتھ روانہ ہوکر پل کے قریب آیا تو مخالف حسب ِ مشورہ دَوڑ کر رَتھ پر پڑگئے..... حملہ کیا۔ جب دیکھا کہ رَتھ مرزا صاحب ؑ سے خالی ہے اور سوار اَور لوگ ہیں تو انہوں نے ابتدائی حملہ کی ضربوں پر افسوس کیا۔
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 10صفحہ 280‘ 281)
1905ء (تقریباً)
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا:۔
’’عرصہ قریباً پانچ سال یا اِس سے زیادہ عرصہ گذرا کہ حضرت صاحب ؑ نے اپنا ایک خواب شائع کیا تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب گھوڑے پر سے گرے ہیں جو کہ 18 نومبر 1910ء کو بعینہٖ پوری1ہوگئی۔‘‘
(تشحیذ الاذہان جلد 5نمبر 11 ماہ نومبر 1910ئ صفحہ 399)
4 اپریل1905ء
میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا کہ حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ:۔
’’مجھے خدا نے فرمایا ہے جو شریر ہوگا اُس کو مَیں دُنیا میں بھی عذاب دوں گا اور آخرت میں بھی ۔ اگر شرافت سے وقت گذارلے ‘ خواہ بت پرستی کرے‘ تو اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اُس کو مَیں حشر کو عذاب دوں گا۔‘‘
(الحکم جلد 38 نمبر 36/35مؤرخہ 7/14اکتوبر 1935ء صفحہ 5)
1905ء
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ پیر منظور محمد صاحب ؓ سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑے زلزلہ کے بعد باغ میں مقیم تھے تو ایک دن آپ کو الہام ہوا تھا کہ:۔
’’تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت‘‘
....کچھ دن میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی بیمار ہوگئے اور چند روز میں فوت ہوگئے۔
(سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر 497 صفحہ 22)
1 (نوٹ از مرتب) حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جبکہ حضور اُن دنوں تشحیذ الاذہان کے ایڈیٹر تھے اِس پیشگوئی کے متعلق لکھا:۔
’’پیشگوئی کا ایسے وقت میں ہونا جب آپ کے پاس کیا ‘ قادیان کے احمدیوں میں سے کسی کے پاس بھی گھوڑا نہ تھا۔ پھر اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا فوت بھی ہوجانا اور اس پیشنگوئی کا بالکل ظہور نہ ہونا۔ پھر کسی شخص کا عزیزم عبدالحی سلّمہ اللہ تعالیٰ کو گھوڑا ہدیۃً پیش کرنا اور خریدہ ہوا نہ ہونا۔ نواب صاحب کے خود آکر ملنے کے باوجود حضرت مولوی صاحب کا وہاں تشریف لے جانا۔ رکابوں کا چھوٹا ہونا اور باوجود کہنے کے آپ کا بچوں کی تکلیف کے خیال سے اُن کے لمبے کرنے سے منع کرنا۔ احباب کا ساتھ چلنے کی خواہش کرنا اور آ پ کا روک دینا۔ گھوڑے کا بِدک کر تیز ہوجانا اور دونوں ساتھیوں کا پیچھے رہ جانا اور پھر آپ کا خاص اُس جگہ پر گرنا جہاں پتھر تھے ‘ ایسے عجیب واقعات ہیں کہ سوائے اِس کے کہ یقین کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کے خاص ارادے کے ماتحت حضرت صاحب کی پیشنگوئی کو پورا کرنے کیلئے ہوئے ہیں اَور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔‘‘ (تشحیذ الاذہان جلد 5نمبر 11 نومبر 1910ءصفحہ 404)
1905ء
قاضی حبیب اللہ صاحب لاہوری بیان کرتے ہیں کہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) جب مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کی قبر پر دُعا فرماکر واپس تشریف لارہے تھے تو .....فرمانے لگے:۔
’’آج رات مجھے الہام ہوا ہے:
حَرَامٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَا ھَآ اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
اور اس کی بار بار تکرار ہوئی۔ فرمایا یہ پہلے بھی کئی مرتبہ الہام ہوا ہے مگر رات اِس کے عجیب معنی سمجھا ئے گئے وہ یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ آئندہ لیکھرام جیسے ۔ عبداللہ آتھم جیسے ۔ پادری فنڈل جیسے ۔ عماد الدین جیسے پیدا ہی نہیں کروں گا۔‘‘ (الحکم جلد 39 نمبر 22 مؤرخہ 14 اکتوبر 1936ء صفحہ 4)
دسمبر1905ء
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
’’مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبریں دکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل و عیال کی قبریں ہیں اور اِس وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ گو یہ خواب اِس طرح چھَپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اِسی طرح ذکر فرمایا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 1937ء۔الفضل جلد 25 نمبر 151 مؤرخہ 2 جولائی 1937ء صفحہ 11)
1907ء
انہی 1دنوں میں حضور ؑ کو الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ:۔
’’مَیں تیرے صبر سے خوش ہؤا ہوں اور تیرا صبر مجھے پسند ہے‘‘
(الحکم جلد 37 نمبر 44 مؤرخہ 7 دسمبر 1934ء صفحہ 4۔ روایات حافظ محمد ابراہیم صاحب ؓ)
16 ستمبر1907ء
’’مبارک احمد کی وفات کے وقت بھی یہی الہام ہوا کہ:۔
اِنَّ الْمَنَا یَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا 2‘‘
اور پھر الہام ہوا کہ:۔
یَآ اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ 3‘‘
(تشحیذ الاذہان جلد 3نمبر 8پرچہ اگست 1908ء صفحہ 349)
1 یعنی جب کہ الہام ’’سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی‘‘ ہوا تھا اور یہ الہام 28 فروری 1907ء کو ہوا۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔
3 (ترجمہ از مرتب) اے لوگو! اپنے ربّ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔
1907ء
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شدید کھانسی ہوئی ......1907ء کا واقعہ ہے ......اور بعض اَوقات ایسا لمبا اُو چھّو آتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سانس رُک جائے گا۔ ایسی حالت میں باہرسے کوئی دوست آئے اور تحفہ کے طور پر پھَل لائے۔ مَیں نے وہ حضور ؑکے سامنے پیش کردیئے۔ آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا : کہہ دو ’’جزاک اللہ‘‘ اور پھر ان میں سے کوئی چیز غالباً کیلا تھا اُٹھایا اور .......فرمایا کہ یہ کھانسی میں کیسا ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا اچھا تو نہیں ہوتا۔ مگر آپ مسکرا پڑے اور چھیل کر کھانے لگے۔ مَیں نے پھر عرض کیا کہ کھانسی بہت سخت ہے اور یہ چیز کھانسی میں اچھی نہیں ۔ آپ پھر مسکرائے اور کھاتے رہے۔ مَیں نے اپنی نادانی سے پھر اصرار کیا کہ نہیں کھانا چاہئے۔ اس پر آپ پھر مسکرائے اور فرمایا مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ:۔
’’ کھانسی دُور ہوگئی‘‘
چنانچہ کھانسی اُسی وقت سے جاتی رہی۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1942ء۔الفضل جلد 30 نمبر 164 مؤرخہ 17 جولائی 1942ء صفحہ 3)
1908ء
سپُردَم بَتُومایۂ خویش را :: تُو دانی حساب ِ کم و بیش را 1
(منصب ِ خلافت صفحہ 40 تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ 12 اپریل 1914ء۔ برکات ِ خلافت صفحہ 24)
1908ء
’’خدا نے مجھے بتلایا ہے کہ لنگر جب تک تمہارے ہاتھ میں ہے چلتا رہے گا۔ اگر مَیں اسے ان کے ہاتھ میں دے دوں تو یہ چند دنوں میں ہی بند ہوجاوے۔2‘‘
(از خطبہ جمعہ فرمودہ 12 فروری 1915ء حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔الفضل جلد 2نمبر109مؤرخہ 25 فروری 1915ء صفحہ 6)
1 (ترجمہ) مَیں نے اپنی پونجی تیرے سپرد کی۔ کم و بیش حساب کو تو جانتا ہے۔ (مرتب)
2 یعنی وہ لوگ جو لنگر خانہ کے خرچ پر اعتراض کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب حضور علیہ السلام لاہور میں تھے تو ان میں سے ایک نے اپنے دوست کے نام لاہور ان دنوں قادیان سے ایک خط لکھا تھا اور اس میں ظاہر یہ کیا تھا کہ لنگر خانہ کا خرچ آمد سے بہت کم ہے اور جو روپیہ حضرت صاحب ؑ کے پاس آتا ہے وہ سب لنگر خانہ میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں او ر اپنے لوگوںپر نامناسب طور پر خرچ ہوتا ہے ......یہ خط وفات سے کچھ روز ہی پہلے لاہور بھیجا گیا اور اس کا علم حضرت اقدس علیہ السلام مغفور کو بھی ہوگیا تو آپ ؑ کو بہت رنج ہوا۔(ا لفضل جلد 1 نمبر 50 مؤرخہ 27 مئی 1914ء صفحہ 21) اور فرمایا کہ ’’ایسا لکھنے والا احمق ہے وہ بیوقوف ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ مہمان تو یہاں آرہے ہیں قادیان میں اَب جاتا کون ہے۔ اسے چاہئے تھا کہ وہ لاہور اور قادیان کا خرچ جمع کرکے دیکھتا کہ کتنا ہے۔‘‘(ا لفضل جلد 2 نمبر 109 مؤرخہ 25 فروری1915ء صفحہ 6)
1۔ اوائل1 کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس سیّدنا مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں کشفاً دکھایا گیا کہ ’’ایک باغ لگایا جارہا ہے اور مَیں اس کا مالی مقرر کیا گیا ہوں۔ ‘‘ (حیات احمد صفحہ 245 مرتبہ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ)
2۔ حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیا ن فرمایا کہ:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’مجھے .....اللہ تعالیٰ کی طرف سے ......بتایا گیا ہے ......کہ
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
بہت پڑھنا چاہئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصّہ اوّل روایت نمبر1 صفحہ 2ایڈیشن دوم)
3۔ (حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا)
’’ہمارے امام علیہ السلام نے ان2 کو خاتم النّبیّین رسول رَبّ العالمین نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتّسلیم کی شکل پررؤیامیں دیکھا یہ بسبب ان کی کمال اتّباع سُنّت کے تھا۔‘‘ (مقدمہ مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نورالدین زیر عنوان مذہب و عقائد صفحہ9 3)
4 ۔ (الف) مفتی محمد صادق صاحب ؓ نے بیان کیا:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک صاحب جو غالباً ریاست جیند کے رہنے والے تھے بیمار ہوکر علاج کے واسطے قادیان آئے اور پیر سراج الحق صاحب ؓ کے مکان پر اُنہوں نے قیام کیا۔ پیر صاحب نے اُن کی سفارش حضرت صاحب ؑ سے کی کہ یہ بیمار رہتے ہیں حضور ؑ اِن کیلئے دُعا کریں۔ حضور ؑ نے دُعا کی تو حضور ؑ کو الہام ہوا:۔
’’کُچلہ کونین فولاد ۔ یہ ہے دوائے ہمزاد‘‘
(اخبار ’’ المصلح‘‘ کراچی جلد 7 نمبر6مؤرخہ 8 جنوری 1954ء صفحہ 3)
(ب) ’’حَبّ کُچلا کونین فولاد مساوی نِصف سرخ۔ الہامی ہے۔‘‘
(جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ صفحہ 14۔ بیاض نورالدین مرتبہ مفتی فضل الرحمن صاحب جلد 1 صفحہ 61 طبع اوّل)
5 ۔ (الف) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
’’حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا اور دکھایا گیا کہ یہ جو مسجد مبارک کے پاس مکان3ہے اِس میں ہم کچھ حَسَنی طریق سے داخل ہوں گے اور کچھ حُسینی طریق سے ......معلوم نہیں اِس الہام کا کیا مطلب4ہے۔‘‘
(الفضل جلد 7نمبر28مؤرخہ 7 اکتوبر 1919ئ صفحہ 8)
1 یہاں سے وہ الہامات و کشوف و رئویا شروع ہوتے ہیں جن کے سنہ نزول کا پتہ نہیں چل سکا۔ (مرتب)
2 یعنی مولوی عبداللہ صاحب غزنوی۔ (مرتب)
3 یعنی مرزا نظام الدین صاحب کا مکان ۔ (مرتب)
4 ’’لیکن وقت پر معنے کھُلتے ہیں.......(اس کے معنے یہی ہیں) ........کہ حضرت حسن ؓ و حسین ؓ..........کا رویہ اختیار کرکے ہم داخل ہوں گے.........جو
(ب) حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ الہام کہ ہم اِس گھر میں کچھ حَسَنی طریق پر داخل ہوں گے اور کچھ حُسینی طریق پر ‘ اپنی پوری شان میں پورا ہوا ہے۔
(سیر ت المہدی ؑ حصہ اوّل صفحہ 31 روایت حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
6۔ (رؤیا) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل رؤیااپنی تقریر میں بیان فرمائی:۔
’’چھوٹی مسجد کے اُوپر تخت بِچھا ہوا ہے اور مَیں اُس پر بیٹھا ہوا ہوں اور میرے ساتھ ہی مولوی نورالدین صاحب ؓ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک شخص1(اس کا نام ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں)دیوانہ وار ہم پر حملہ کرنے لگا۔ مَیں نے ایک آدمی کو کہا کہ اس کو پکڑ کر مسجد سے نکال دو اور اس کو سیڑھیوں سے نیچے اُتار دیا۔ وہ بھاگتا ہوا چلا گیا۔ اور یاد رہے کہ مسجد سے مراد جماعت ہوتی ہے۔‘‘ (برکاتِ خلافت تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صفحہ 31)
7۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
’’تھوڑے ہی دن ہوئے مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام دیکھا کہ :۔ ’’بہت لوگ خیال کرتے ہیں کہ عورتیں ان کی کنیز کیں ہیں۔ کنیزکیں نہیں بلکہ ان کی ساتھی ہیں۔‘‘
(الفضل جلد 4نمبر89مؤرخہ12 مئی 1917ء صفحہ 5مضمون ’’تعداد ازدواج اور جماعت ِ احمدیہ‘‘)
8۔ ’’ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود بیماری کے سخت دَورہ میں تہجد کیلئے اُٹھے اور غش کھاکر گِر گئے اور نماز نہ پڑھ سکے تو الہام ہوا کہ:۔
’’ایسی حالت میں تہجد کی بجائے لیٹے لیٹے یہی ( یعنی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ)پڑھ لیا کرو۔‘‘
(ذکر ِ الٰہی از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صفحہ 113)
بقیہ حاشیہ: طریق اُن کا تھا وہی ہمارا ہوگا کہ کچھ تو صلح کے ذریعہ اور کچھ لڑائی کے ذریعہ ہم اس مکان میں داخل ہوں گے ۔ چنانچہ یہ دونوں صورتیں پوری ہوگئیں۔ لڑائی یعنی جلالی رنگ تو ایسا پورا ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اِس الہام کے مطابق کہ
’’اِس مکان میں بیوائیں ہی بیوائیں رہ جائیں گی‘‘
یہی حالت ہوگئی۔ پھر جمال کا اظہار ہوا تو ایسا کہ اس خاندان میں سے جو ایک بچہ رہ گیا تھا اُس کو کھینچ کر سلسلہ میں داخل کردیا۔‘‘ (الفضل جلد 7نمبر28مؤرخہ7 اکتوبر1919ءصفحہ 8)
1 حضرت مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب ؓ نے اپنی تصنیف کشف الاختلاف صفحہ 12 شائع شدہ فروری 1920ء میں یہ رؤیا درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ خواجہ کمال الدین صاحب تھے اور ان کے متعلق ان ایام میں جبکہ وہ وطن اخبار کے ساتھ ایک معاہدہ کی تجویز کررہے تھے حضرت مسیح موعود ؑ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خواجہ صاحب کی نسبت منذر خوابیں دیکھی ہیں۔ (ملخّص) (مرتب)
9۔ (الف) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جو پہلے کبھی شائع نہیں ہوا کہ:۔
’’حق اَولاد در اَولاد‘‘
یعنی اَولاد کا حق اس کے اندر موجود ہے۔ یہ ضرور ی نہیں کہ اِس جگہ اَولاد سے مراد صرف جسمانی اَولاد مراد ہو بلکہ ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا وہ آپ ؑ کی روحانی اَولاد میں شامل ہے۔‘‘
(الفضل لاہور (سلسلہ جدید) جلد 1نمبر59مؤرخہ26 نومبر 1947ء صفحہ 4)
(ب) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پاگئے۔ آپ ؑ کی وفات کے بعد والدہ مجھے بَیت الدُّعا میں لے گئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں والی کاپی میرے سامنے رکھ دی اور کہا مَیں سمجھتی ہوں یہی تمہارا سب سے بڑا ورثہ ہے۔ مَیں نے ان الہامات کو دیکھا تو ان میں ایک الہام آپ ؑ کی اَولاد کے متعلق یہ درج تھا’’ حق اَولاد در اَولاد ‘‘ ......حق اَولاد در اَولاد کے معنی درحقیقت یہی تھے کہ یہ حق جو باہر سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی زمینوں اور جائدادوں وغیرہ میں حصہ یہ کوئی زیادہ قیمتی نہیں۔ زیادہ قیمتی یہ چیز ہے کہ مَیں نے تمہاری اَولاد کے دماغوں میں وہ قابلیت رکھ دی ہے کہ جب بھی یہ اس قابلیت سے کام لیں گے دُنیا کے لیڈر ہی بنیں گے.......اور یہ وہ ورثہ ہے جو ہم نے تمہاری اَولاد کے دماغوں میں مستقل طور پر رکھ دیا ہے۔‘‘
(الفضل جلد 44نمبر247مؤرخہ22 اکتوبر 1955ء صفحہ 5۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 1947ء)
10۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ الغاشیۃآیت 4 تا 7 کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔ ’’ابھی کیا ہے ۔ ابھی وہ دن آئیں گے جب کہ لوگ کہیں گے کہ
لاہور بھی کوئی شہر 1ہوتا تھا۔‘‘
(ضمیمہ اخبار الفضل جلد 2 نمبر 50 مؤرخہ 11 اکتوبر 1914ء صفحہ 8)
1 لاہور کی تباہی کی پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شائع ہوچکی تھی وہ یہ ہے:۔
’’لاہور کی نسبت کہا جاتا تھا کہ اس کی سرزمین میں ایسے اجزاء ہیں کہ اس میں طاعونی کیڑے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن وہاں بھی طاعون نے آن ڈیرہ ڈالا ہے۔ ابھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے لیکن سالہاسال کے بعد لوگ دیکھیں گے کہ کیا ہوگا۔ کئی لوگ اور دیہات بالکل تباہ ہوجائیں گے۔ دُنیا سے اُن کا نام و نشان مِٹ جائے گا اور اُن کے آثار تک باقی نہ رہیں گے۔ لیکن یہ حالت کبھی قادیان پر وارد نہ ہوگی۔‘‘ (الحکم جلد 8 نمبر 23‘24مؤرخہ 17‘24 جولائی 1904ء صفحہ 12)
لیکن لاہور کے متعلق خاص لفظوں میں الہام ‘ یہ نہ تو پہلے شائع ہوا ہے اور نہ ہی ان شہادتوں سے پتہ ملتا ہے جو اس پیشگوئی
11۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریر1 فرمایا:۔
’’مَیں تو چھوٹا تھا۔ مولوی شیر علی صاحب ؓ نے مجلس2سے آکر سنایا تھا......کہ محمود ایک تیز روشنی والا لیمپ لے کر سڑک پر کھڑا ہے اور سڑک پر اس کی تیز روشنی پڑ رہی ہے۔‘‘
(مکتوب حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
12۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ناموں میں سے ایک نام خدا تعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے۔‘‘
(اخبار الفضل جلد 23نمبر229مؤرخہ4 اپریل 1936ء صفحہ 1۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مارچ 1936ء)
13۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشاورت 1936ء میں فرمایا:۔
’’(مَیں) اِس لئے خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ ٔ اوّل رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ مَیں خلیفہ ہوں۔ پس مَیں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔‘‘
(رپورٹ مجلس مشاورت (اجلاس اپریل) 1936ء صفحہ 17)
14۔ حافظ صوفی غلام محمد صاحب آف ماریشس نے بیان کیا کہ:۔
’’حضرت اقدس ؑ نے فرمایا: ایک بار میرے جی میں آیا کہ اللہ نے جو انعام مجھ پر کئے ہیں اُن پر ایک کتاب لکھوں۔
بقیہ حاشیہ: کے متعلق شائع ہوچکی ہیں ہاں مفہوم الہام ان میں ہے۔ چنانچہ علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ستائیس مزید شہادتیں اصحابِ ذیل کی اِس بارہ میں اخبار الفضل میں شائع ہوچکی ہیں۔ حکیم محمد حسین صاحب قریشی۔ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی۔ سردار عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ) ۔ مفتی محمد صادق صاحب ۔ منشی غلام محمد صاحب۔ مولوی فخرالدین صاحب ۔ بابو ابراہیم صاحب سیالکوٹی۔ خواجہ کرم داد صاحب جمونی۔ ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی۔ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر۔ رضیہ بیگم بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب۔ شیخ عبدالحمید صاحب آڈیٹر لاہور۔ مبارک علی شاہ صاحب ۔ حافظ محمد ابراہیم صاحب۔ عبدالحمید صاحب مورو سندھ۔ مرزا عبدالعزیز صاحب گلیانہ ضلع گجرات۔ عبدالواحد خان صاحب میرٹھ۔ مولوی سیّد احمد علی صاحب۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۔ چودھری محمد شریف صاحب قادیان۔ سیّد ناظر حسین صاحب کالو والی۔ مبارک احمد صاحب پنڈی چَری ۔ غلام محمد صاحب لویریوالہ۔ عبدالرحمن صاحب نائب تحصیلدار ریاست کپورتھلہ۔ ملک اللہ رکھا صاحب۔ فضل کریم صاحب اور سیئر لودی ننگل ضلع گورداسپور۔ غلام محمد صاحب امیر جماعت ِ احمدیہ سیّدوالہ ضلع شیخوپورہ۔
(حوالہ کیلئے دیکھئے پرچہ جات اخبار الفضل مؤرخہ 30 جون 1947ء ۔ یکم جولائی و 4‘ 12‘ 18 ‘ 28‘30 جولائی 1947ءو 9 اگست ‘ 14 اگست 1947ء وغیرہ ) (مرتب)
1 خاکسار عبداللطیف بہاولپوری نے حضور اقدس کی خدمت میں بعض الہامات کی تصدیق کے متعلق عریضہ مؤرخہ 7/2/53لکھا۔ اس پر حضور ؓ نے یہ بھی تحریر فرمایا۔
2 یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس سے۔ (مرتب)
فرمایا: اِس ارادے کی تکمیل کرنے لگا تو کشف میں دیکھا زور سے بارش ہورہی ہے اور اللہ مجھے فرماتا ہے کہ اگر یہ قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن سکو گے۔ تب مَیں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔‘‘
(تشحیذ الاذہان جلد 8 نمبر 10 ماہِ اکتوبر 1913ء صفحہ 533۔ رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 7 صفحہ 310)
15۔ ’’حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ1سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ؑ نے بہت مرتبہ زبانِ مبارک سے فرمایا کہ مَیں نے بارہا بیداری میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے اور کئی حدیثوں کی تصدیق آپ سے براہِ راست حاصل کی ہے خواہ وہ لوگوں کے نزدیک کمزور یا کم درجہ کی ہوں۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 52 روایت نمبر 572)
16۔ ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’اس مینار کے سامنے دو فرشتے میرے سامنے آئے جن کے پاس دو شیریں روٹیاں تھیں اور وہ روٹیا ں اُنہوں نے مجھے دیں اور کہا کہ ایک تمہارے لئے ہے اور دوسری تمہارے مریدوں کیلئے ہے2۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر 885صفحہ 263 )
17۔ میر عنایت علی شاہ صاحب نے بیان کیا کہ اوائلِ زمانہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رؤیامیر عباس علی صاحب سے بیان کیا تھا جو یہ تھا کہ:۔
’’ہم کسی شہر میں گئے اور وہاں کے لوگ ہم سے برگشتہ ہیں اور انہوں نے کچھ اپنے شکوک دریافت کئے جن کا جواب دیا گیا لیکن وہ ہمارے خلاف ہی رہے ۔ نماز کیلئے کہا کہ آؤ تم کو نماز پڑھائیں تو جواب دیا کہ ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور خواب میں یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا تھا جہاں ہماری دعوت تھی۔ اُس وقت ہم کو ایک کھلے کمرہ میں بٹھایا گیا لیکن اس میں کھانا نہ کھلایا گیا۔ پھر بعد میں ایک تنگ کمرہ میں بٹھلایا گیا اور اُس میں بڑی دِقّت سے کھانا کھایا گیا۔ آپ نے یہ رؤیابیان کرکے فرمایا۔ شاید وہ تمہارا لُدھیانہ ہی نہ ہو۔‘‘
پھر یہ رؤیالُدھیانہ میں ہی منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر پورا ہوا۔
(سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر 925 صفحہ 279 )
18۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ نے بیان کیا کہ:۔
’’حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ ایک دفعہ کسی شخص کا ذکر سنانے لگے کہ وہ کسی عورت پر سخت عاشق ہو گیا اور باوجود ہزار کوشش کے وہ اس عشق کو دل سے نہ نکال سکا۔ آخر حضرت صاحب ؑ کے پاس آیا اور طالب ِ دُعا
1 یعنی قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ۔ (مرتب)
2 یہ رؤیا اصل تذکرہ میں صفحہ 14 پر بھی آچکا ہے۔ اس میں ایک فرشتہ اور ایک نان کا ذکر ہے اور مریدوں کی بجائے درویشوں کا لفظ ہے۔ اگر یہ وہی رؤیا ہے تو راوی کے حافظہ کی غلطی ہوگی یا ممکن ہے کہ یہ کوئی دوسرا کشف ہو۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔ (مرتب)
ہوا ۔ حضرت صاحب ؑ نے مولوی صاحب ؓ سے فرمایا کہ
’’مجھے خدا کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص اُس عورت سے ضرور بدکاری کرے گا مگر مَیں بھی پورے زور سے اس کیلئے دُعا کروں گا ۔‘‘
چنانچہ وہ شخص قادیان ٹھہرا رہا اور حضور ؑ دُعا کرتے رہے یہاں تک کہ اُس نے ایک روز مولوی صاحب ؓ سے کہا کہ آج رات خواب میں مَیں نے اُس عورت کو دیکھا اور خواب میں ہی اُس سے مباشرت کی اور مَیں نے اِس دَوران میں اس کی شرمگاہ کو جہنّم کے گڑھے کی طرح دیکھا جس سے مجھے اس سے اِس قدر خوف اور نفرت پیدا ہوئی کہ یکدم وہ آتشِ عشق ٹھنڈی ہوگئی اور وہ محبت کی بے قراری سب دل سے نکل گئی بلکہ دل میں دُوری پیدا ہوگئی اور خدا کے فضل اور حضور ؑ کی دُعا کی برکت سے مَیں بدکاری سے بھی محفوظ رہا اور وہ جنون بھی جاتا رہا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر956صفحہ298)
19۔ صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ ہم ایک روز صحن مکان میں لیٹ رہے تھے جو ہمیں کشف ِ ملکوت ہوا اور کشف میں بہت سے فرشتے دیکھے کہ بہت خوبصورت لباسِ فاخرہ اور مکلّف پہنے ہوئے وَجد کرتے اور گاتے ہیں اور ہماری طرف بار بار چکر لگاتے ہیں اور ہر چکر میں ہماری طرف ہاتھ لمبا کرکے ایک غزل کا شعر پڑھتے ہیں اور اس مصرعہ کا آخر لفظ ’’پیر پیراں‘‘ ہے۔ وہ عین ہمارے منہ کے سامنے ہاتھ کرکے ہماری طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں ’’ پیر پیراں‘‘۔ (تذکرۃ المہدی مصنّفہ پیر سراج الحق صاحب ؓ حصہ اوّل جدید ایڈیشن صفحہ 47 ‘ 48)
20۔ صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔ایک گھنٹہ ہوا ہوگا ہم نے دیکھا کہ والدہ محمود قرآن شریف آگے رکھے ہوئے پڑھتی ہیں۔ جب یہ آیت پڑھی:۔
’’ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھُدَآئِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔1‘‘ (النّسآء : 70)
جب اُولٰٓئِکَ پڑھا تو محمود سامنے آکھڑا ہوا ۔ پھر دوبارہ اُولٰٓئِکَ پڑھا تو بشیر آکھڑا ہوا ۔ پھر شریف آگیا۔ پھر فرمایا جو پہلے ہے وہ پہلے ہے۔ (تذکرۃ المہدی مصنّفہ پیر سراج الحق صاحب حصہ دوم جدید ایڈیشن صفحہ 274)
21۔ صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارے سلسلہ میں بھی سخت تفرقہ پڑے گا اور فتنہ انداز اور ہوا و ہوس کے بندے جدا ہوجائیں گے۔ پھر خدا تعالیٰ اس تفرقہ کو مٹادے گا ۔ باقی جو کٹنے کے لائق اور راستی سے تعلق نہیں رکھتے اور فتنہ پرداز
1 (ترجمہ از مرتب) اور جو بھی اللہ کی اور اس رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں میں سے ‘ صدیقوں میں سے ‘ شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔
ہیں وہ کٹ جائیں گے اور دُنیا میں ایک حشر برپا ہوگا۔ وہ اوّل الحشر ہوگا اور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کُشت و خون ہوگا کہ زمین خون سے بھر جائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایا بھی آپس میں خوفناک لڑائی کرے گی۔ ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور اس تمام واقعات کا مرکز ملک ِ شام ہوگا۔ صاحبزادہ1 صاحب ! اُس وقت میرا لڑکا موعود ہوگا ۔ خدا نے اُس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کررکھا ہے۔ ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے۔ تم اس موعود کو پہچان لینا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم جدید ایڈیشن صفحہ 274)
22۔ (رؤیا) فرمایا۔ ’’ مَیں ایک زینہ پر چڑھتا ہوں مگر اِس طرح سے کہ مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ مَیں گر نہ پڑوں اور چھال مارکر یعنی قلانچ لگا کر دوسرے قدمچہ پر قدم رکھتا ہوں۔جب مَیں اُوپر چڑھا تو میری ناک سے خون آیا......فرمایا ........تعبیر بہت اچھی ہے۔ کہنے والا خون آیا کہے تو اچھا ہے اگر بہنا یا جانا کہے تو برا ہوتا ہے ۔ اس میں نقصان ہے۔ اِس لئے آنا کہنا چاہئے۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ آمدن روپیہ کی ہوگی اور خدا تعالیٰ ہمارے ہاتھ کشادہ کرے گا۔‘‘
(تذکرۃ المہدی مصنّفہ پیر سراج الحق صاحب ؓ حصہ دوم جدید ایڈیشن صفحہ 285)
23۔ فرمایا۔ ’’ ہمیں بھی ایک بار حج کے روز کشف میں حج کا نظارہ دکھایا گیا یہاں تک کہ سب کی باتیں ا ور لبیک اور تسبیح و تہلیل ہم سنتے تھے۔ اگر ہم چاہتے تو لوگوں کی باتیں لکھ لیتے۔‘‘
(تذکرۃ المہدی حصہ دوم جدید ایڈیشن صفحہ 313۔ الحکم جلد 40 نمبر 2 مؤرخہ 21 جنوری 1937ء صفحہ 3)
24۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا:۔
’’آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان موجود اور حاضر لوگوں میں کچھ ہم سے پیٹھ دیئے بیٹھے ہیں اور ہم سے رُو گردان ہیں اور کراہت کے ساتھ ہم سے دوسری طرف (منہ ) پھیر رکھا ہوا ہے۔‘‘
(تذکرۃ المہدی حصہ دوم جدید ایڈیشن صفحہ 314)
25۔ ’’ایک روز مَیں2اور حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں بیٹھے تھے ......آپ ؑ نے سرِ مبارک اُٹھایا اور فرمایا اَب ہمیں اِس وقت یہ الہام ہوا:۔
حَقّ‘‘
(تذکرۃ المہدی حصہ دوم جدید ایڈیشن صفحہ 314‘315)
26۔ ’’ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضرت اقدس سیّدنا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف رکھتے تھے ......
1،2 یعنی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ ۔ (مرتب)
سبع مثانی کی تحقیق کا ذکر ہوا۔ کسی نے الحمد کا نام بتلایا اور کسی نے دوسری آیتوں کا ‘ اور کسی نے کہا کہ الحمد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اِس لئے دونوں مقام پر نازل ہونے کے باعث اِس کا نام سبع مثانی ہوا۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ہمارے نزدیک اِس سورۃ کا ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونا اور دوسری بار مہدی و مسیح موعود پر نازل ہونا ہے جس کے سبب سے اِس کا نام سبع مثانی ہوا۔‘‘
(مکتوب1صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ)
27۔ فرمایا۔ ’’ آج رات کو ہمیں الہام ہوا ہے:۔
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَنْ لَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔ نَحْنُ اَوْلِیَآئُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔2 ‘‘
(مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ۔ البشریٰ مؤلّفہ صاحبزادہ صاحب صفحہ 64۔
الحکم جلد 23 نمبر 12 مؤرخہ 28 مارچ 1920ءصفحہ 1)
28۔ اس کے بعد پھر الہام ہوا:۔
’’نُوْرُالدِّیْن‘‘
(مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ۔ البشریٰ صفحہ 64)
29۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الہام سنایا کہ:۔
’’ پَٹّی پُٹّی گئی3‘‘
(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ۔ البشریٰ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب صفحہ 81)
1 یہ مکتوب قلمی دفتر تالیف و تصنیف صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں بوقت تیاری طبع دوم موجود تھا جس سے خاکسار نے نقل کیا مگر اَب کہیں غائب ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) یقینا وہ لو گ جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے ۔ پھر اس پر مضبوطی سے قائم رہے ان پر فرشتے اُترتے ہیں۔ یہ بشارت دیتے ہوئے کہ خوف نہ کھاؤ اور نہ غمگین ہو اور بشارت حاصل کرو اُس جنت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔ ہم تمہارے دوست مددگار ہیں اِس دُنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔
نوٹ:۔ الحکم پرچہ مذکورہ بالا اور البشریٰ صفحہ 64 میں یہ فقرہ ’’ نَحْنُ اَوْلِیَآئُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ‘‘ نہیں ہے اور الحکم پرچہ مذکورہ بالا میں اس کی جگہ نُوْرُالدِّیْن کے الفاظ ہیں۔ (مرتب)
3 پَٹّی ایک قصبہ کا نام ہے جو ضلع لاہور میں ہوتا تھا مگر ملکی تقسیم کے وقت ضلع امرتسر میں چلا گیا۔ (مرتب)
30۔ (الف) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ آیات پڑھی:۔
’’ لَہٗ مُعَقِّبٰتُ مِّنْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِاللّٰہ1 (الرّعد: 12)
اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ کو بھی جو اِس طرح آگے پیچھے دائیں بائیں چلتے دوڑتے تھے اور جنگوں میں بھی یہی حال تھا اِس آیت میں صحابہ ؓ مراد ہیں یہاں فرشتے مراد نہیں۔ اسی طرح یہ آیت ہم پر نازل ہوچکی ہے۔
(مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ)
(ب) (شیخ محمد اسمٰعیل صاحب سرساوی ؓ نے بیان کیا کہ )
’’حضور ؑ نے فرمایا ....قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ہم تیرے آگے پیچھے ‘ دائیں اور بائیں فرشتے مقرر کریں گے یہی الہام مجھ پر نازل ہوا ہے اور وہ فرشتے یہی ہیں جو میری باتیں سننے کیلئے آگے پیچھے بھاگتے ہیں ۔‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ نمبر 10 صفحہ 346‘ 347)
31۔ 2 وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا فَاْتُوْا بِاٰیَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ سَیُؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ وَ یُفْتَحُ عَلٰی یَدِہِ الْخَزَآئِنُ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ عَجِیْبٌ۔ حُکْمُ3اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ لِخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ الْمُغْلِ السُّلْطَانِ۔ اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وَ اِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ۔‘‘
(مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ)
32۔4غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَ یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ وَیَقُوْلُوْنَ اِنَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا مِنَ الْاَوَّلِیْنَ۔
1 (ترجمہ از مرتب) اس (رسول ) کیلئے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے (محافظ) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
2 (ترجمہ) ’’اور اگر تم شک میں ہو اس سے جو ہم نے اُتارا تو اس کی مانند کوئی ایک آیت لاؤ۔ عنقریب اس کو ایک ملک ِ عظیم دیا جائے گااور خزائن علوم و معارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے.....یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب ۔ ‘‘
(اَز ازالہ اوہام صفحہ 856۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 566)
نوٹ:۔ الہام ’’وَاِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْب‘‘ سے لیکر الہام ’’زدرگاہِ خدا مَردے بصد اعزا زمے آید‘‘ الخ کے متعلق صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ الہامات حضرت اقدس ؑ کے دست ِ مبارک کے لکھے ہوئے مَیں نے ایک صاحب سے لیکر نقل کئے تھے۔‘‘ (مرتب)
3 (ترجمہ ازمرتب ) خدا ئے رحمن کا حکم ہے اپنے خلیفہ مغل سلطان کیلئے ۔ اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ہوگا اور اگر سچا ہے تو بعض وہ وعید جو تمہیں سناتا ہے تمہیں پہنچیں گے۔ (نوٹ) الہام ’’حُکْمُ للّٰہِ الرَّحْمٰنِ لِخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ‘‘ تذکرہ کے صفحاتِ ذیل 150، 196، 306، 551، میں موجود ہے مگر وہاں مغل کا لفظ نہیں۔ (مرتب)
4 (ترجمہ) رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوں گئے اور وہ مغلوب ہوجانے کے بعد جلدی غالب آئیں گے۔ یہ کام اللہ تعالیٰ کے لئے
’’قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ عِلْمِہٖ اِلَّا قَلِیْلًا۔ وَ یَقْنَعُوْنَ بِظَاھِرِ اللَّفْظِ وَاِبْھَامِہٖ وَ یَسْتَکْشِفُوْنَ۔ قُلْ اِنِّیْ جِئْتُ عَلٰی قَدَمِ عِیْسٰی۔ قُلْ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ ‘‘ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 5)
33۔ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَاللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ۔1 (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 5)
34۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَیَّدَ الْحَقَّ بِاٰیَاتِہٖ۔2 (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 5)
35۔ سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ مَا وَلّٰھُمْ۔ قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِتَاْوِیْلِہٖ۔ سَیُؤَیِّدُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ وَمَنْ عَادٰی وَ لِیًّا فَقَدْ بَارَزْتُہٗ لِلْحَرْبِ۔1 (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6)
36۔ ’’وَاِنَّآ اَعْتَدْنَالِلْکَافِرِیْنَ سَلَاسِلَ وَاَغْلَالًا وَّسَعِیْرًا۔4 ‘‘ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6)
37۔ ’’اِحْرَامُ الدُّعَآئِ۔کَثُرَالدُّعَآئُ لِبَقَآئِ کَ۔ فَاَحْیَیْنَاہُ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا۔ وَاَحِبَّآئُ کَ کَاَنْبِیَآ ئِ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ۔خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید تیری عظمت تیری کمالیت پھیلادے۔ اِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآئً۔ اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔5‘‘
(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6)
ہوگا ۔ پہلا بھی اور بعد کا بھی ‘ اور اُس دن مومن خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ ہم نے یقینا یہ پہلوں سے سنا تھا۔ کہہ اللہ بہتر جانتا ہے اور تمہیں اس کے متعلق تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ وہ ظاہر لفظ اور ابہام پر قناعت کرتے اور حقیقت کا انکشاف چاہتے ہیں ۔ کہہ کہ مَیں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔ کہہ یقینا میرے ساتھ میرا ربّ ہے جو جلد ی ہی میری رہبری کرے گا۔ (مرتب)
1 (ترجمہ ) یقینا عیسیٰ کی حالت اللہ کے نزدیک آدم کی حالت کی طرح ہے۔ (مرتب)
2 (ترجمہ) سب تعریف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے جس نے اپنے نشانات سے حق کی تائید کی ۔ (مرتب)
3 (ترجمہ) عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کس چیز نے ان کو پھیرا ۔ کہہ اللہ تعالیٰ اس کی تاویل کو بہتر جانتا ہے ۔ عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کی تائید کرے گا۔ اور جو کوئی (میرے ) ولی سے دشمنی کرتا ہے تو مَیں اُس سے لڑائی کیلئے نکلتا ہوں۔ (مرتب)
4 (ترجمہ) اور یقینا ہم نے کافروں کیلئے زنجیریں اور طوق اور شعلے آگ کے تیار کر رکھے ہیں ۔ (مرتب)
5 (ترجمہ) دعا کا احرام ۔ تیری بقاء کیلئے کثرت سے دُعاہوئی۔ پھر ہم نے اُسے اپنی رحمت سے زندہ کیا۔ اور تیرے خاص دوست بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔ اس کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو۔ یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے مدافعت کرے گا ۔ (مرتب)
38۔ اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا1 ........2 مُعَمَّرُاللّٰہِ۔ نُوْرٌ۔ مُنَوَّرُ اللّٰہِ3۔‘‘
(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6)
39۔ ’’خدا تعالیٰ تجلی ٔ خاص سے اُترا‘‘۔ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6)
40۔ ’’خدا کے وجود کی یہ بہت بڑی نشانی ہے کہ اُس کے بندوں کو پیش از وقوع خبریں بتلائی جاتی ہیں‘‘۔
(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6)
41۔ ’’مَثْنٰی وَ ثُلَاثَ وَرُبَاعَ۔4(اب )تو اَمن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور مَیں تجھے پھر یہاں لاؤں گا۔‘‘
(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6۔ البشریٰ5قلمی صفحہ 57 مرتبہ پیر صاحب ؓ )
42۔ ؎ زدرگاہِ خدا مردے بصد اعزازمے آید
مبارک بادت اے مریم کہ عیسیٰ بازمے آید6
(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ 6۔ البشریٰ قلمی صفحہ 57 )
43۔ ’’فِی النَّارِ مَوْعِدُ ھُمْ۔7‘‘ (البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ صفحہ 18)
44۔ ’’ وَ اَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَھِیْجٍ۔8‘‘ ( البشریٰ صفحہ 53)
45۔ ’’رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا طُعْمَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔9 ‘‘ (البشریٰ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب ؓصفحہ 53)
1 (ترجمہ ) یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے مدافعت کرے گا۔
2 (ترجمہ) یہاں پر پیر صاحب ؓ نے ایک الہام لکھا ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکے اور وہ یہ ہے:۔
’’اے منکر پا مارا بالا بالا ۔‘‘
ممکن ہے ان سے کتابت میں کوئی غلطی ہوگئی ہو۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔ (مرتب)
3 (ترجمہ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے عمر دیا ہوا۔ نور۔ اللہ کا روشن کیا ہوا۔ (مرتب)
4 (ترجمہ) دو دو اور تین تین اور چار چار ۔ (مرتب)
5 یہ قلمی نسخہ خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔ (مرتّب)
6 (ترجمہ) خدا کی درگاہ سے ایک مرد بڑے اعزاز کے ساتھ آتا ہے۔
اے مریم تجھے مبارک ہو کہ عیسیٰ دوبارہ آتا ہے۔ (مرتب)
7 (ترجمہ) ان کے متعلق آگ میں ڈالنے کا وعدہ ہے۔ (مرتب)
8 (ترجمہ) اور ہم نے اس میں ہر قسم کی خوبصورت چیزیں اُگائیں۔ (مرتب)
9 (ترجمہ) اے ہمارے رَبّ ہمیں ظالم قوم کی خوراک نہ بنا۔ (مرتب)
46۔ ’’اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا۔1‘‘ ( البشریٰ صفحہ 55)
47۔ ’’دختر نیک آگاہی شاں خورد تر چندیں سال۔2 ‘‘ ( البشریٰ صفحہ57‘63)
48۔ ’’اے خدا اِس پیالہ کو ٹال دے ۔‘‘ ( البشریٰ صفحہ89)
49۔ ’’نزول در قادیان۔3‘‘ ( البشریٰ صفحہ96)
50۔ ’’تیری نمازوں سے تیرے کام افضل ہیں۔4 ‘‘ ( البشریٰ صفحہ99)
51۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ شرح قصیدہ ’’یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’اِسی قصیدہ کے متعلق ایک اَور روایت مرحوم و مغفور حضرت پیر سراج الحق رضی اللہ عنہ کی ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ قصدیہ تصنیف فرماچکے تو آپ ؑ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا کہ یہ قصیدہ جنابِ الٰہی میں قبول ہوگیا اور خدا نے مجھ سے فرمایا جو اِس قصیدہ کو حِفظ کرے گا اور ہمیشہ پڑھے گا مَیں اس کے دِل میں اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا اور اپنا قرب عطا کروں گا۔‘‘
(شرح القصیدہ صفحہ1‘2۔ 29 جون 1956ء)
52۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی ؓ نے بیان کیا کہ:۔
’’ایک مرتبہ حضرت اقدس ؑ کو خارش کی بہت سخت شکایت ہوگئی۔ تمام ہاتھ بھرے ہوئے تھے ۔ لکھنا یا دوسری ضروریات کا سرانجام دینا مشکل تھا۔ علاج بھی برابر کرتے تھے مگر خارش دُور نہ ہوئی تھی .......ایک دن (مَیں ) حضرت ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ عصر کے قریب وقت تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ؑ کے ہاتھ بالکل صاف ہیں مگر آپ ؑ کے آنسو بہہ رہے ہیں..... مَیں نے جرأت کرکے پوچھا کہ حضور آج خلافِ معمول آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ میرے دِل میں ایک معصیت کا خیال گذرا کہ اللہ تعالیٰ نے کام تو اِتنا بڑا میرے سپرد کیا ہے اور اِدھر صحت کا یہ حال ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی شکایت رہتی ہے ۔ اِس پر مجھے الہام 5ہوا:۔
’’ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے‘‘
1 (ترجمہ ) زمین اپنے رَبّ کے نور سے جگمگا اُٹھی۔ (مرتب)
2 ان کی نیک لڑکی سب سے چھوٹی چند سال کی ہے۔ (مرتب)
نوٹ:۔ اِس الہام کے متعلق پیر صاحب ؓ نے البشریٰ صفحہ63 پر لکھا ہے :۔ ’’الہام منقول از بیاض حضرت ؑ آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی۔‘‘
3 (ترجمہ) قادیان میں نزول۔ (مرتب)
4 (ترجمہ) یعنی جو عظیم الشان خدمات تو اسلام کی تائید میں بجا لا رہا ہے ۔ (مرتب)
5 (ترجمہ) یہ الہام غالباً1891ء یا 1892ء کا ہے۔ حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے خارش کی تکلیف کا واقعہ 1891ء بتلایا۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 256‘ 257 روایت نمبر 262)۔ اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے اسے 1892ء کا۔ (دیکھئے سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 53 روایت نمبر 574)۔ (مرتب)
اِس سے میرے قلب پر بے حد رِقّت اور ہیبت طاری ہے کہ مَیں نے ایسا خیال کیوں کیا۔ ادھر تو یہ الہام ہوا مگر جب اُٹھا تو ہاتھ بالکل صاف ہوگئے اور خارش کا نام و نشان نہ رہا۔ ایک طرف اِس پُر شوکت الہام کو دیکھتا ہوں دوسری طرف اُس فضل اور رحم کو ‘ تو میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور اس کے رحم و کرم کو دیکھ کر انتہائی جوش پید اہوگیا اور بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔‘‘ (الحکم جلد 37 نمبر 12 مؤرخہ 7 اپریل 1934ء صفحہ 4)
53۔ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’ایک دفعہ مَیں نے اجازت چاہی کہ مَیں جانا چاہتا ہوں تو آپ ؑ نے فرمایا کہ نہیں آج رہو۔ حضور ؑ کو الہام ہوا تھا کہ
’’ وَلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ ‘‘
یعنی اگر عُذر بھی کریں تو آج اجازت نہیں ملتی۔‘‘ (الحکم جلد 37 نمبر 32مؤرخہ 7 ستمبر 1934ء صفحہ 4)
54۔ (الف) میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے حافظ حامد علی صاحب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ:۔
’’ایک دفعہ مجھے1حضرت اقدس ؑنے ایک کام کیلئے ایک غیر ملک میں بھیجا۔ ایک مقررہ جہاز پر روانہ ہوا۔ جب جہاز نصف سفر طے کرچکا تو سمندر میں طوفان کے آثار دکھائی دیئے اور ایسا معلوم ہوا کہ جہاز غرق ہونے لگا ہے۔ لوگ چِلّانے لگے اور جہاز میں شورِ قیامت برپا ہوگیا۔ لوگ روتے اور آہ و بُکا کرتے تھے۔ مَیں بڑے زور اور دعویٰ سے کہ کہ مَیں پنجاب سے آیا ہوں اور مَیں ایسے شخص کے کام کو جارہا ہوں جسے خدا نے اِس زمانہ کا نبی بناکر بھیجا ہے اِس لئے جب تک مَیں اِس جہاز میں سوار ہوں خدا تعالیٰ اِس جہاز کو غرق نہیں کرے گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس حالت کو بدل دیا اور جہاز طوفانی حالت سے نکل کر خیریت سے کنارے جاسکا اور مَیں اپنی جگہ پر اُتر گیا اور جہاز آگے روانہ ہوگیا۔ مگر تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ غرق ہوگیا.......ہندوستان میں جب اِس جہاز کے غرق ہونے کی اطلاع آئی تو میرے عزیز روتے ہوئے حضرت ؑ کے پاس گئے اور کہا جس جہاز پر حامد علی سوار تھا وہ غرق ہوگیا ہے۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ہاں سنا تو ہے کہ جس جہاز پر حامد علی سوار تھا وہ فلاں تاریخ غرق ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر حضور ؑ خاموش ہوگئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد فرمایا مگر حامد علی اپنا کام کر رہا ہے‘ وہ غرق نہیں ہوا۔ بعد کے واقعات نے حضور ؑ کے اِس ارشاد کی تائید کی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضورؑ کو کشفی طور پر سارا واقعہ دکھا یا گیا ۔‘‘
(الحکم جلد 38 نمبر 2مؤرخہ 21 جنوری 1935ء صفحہ 5)
(ب) شیخ زین العابدین صاحب ؓ برادر حافظ حامد علی صاحب ؓنے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:۔
’’حافظ حامد علی کی نسبت تو مجھے الہام بھی ہوچکا ہے کہ یہ زندہ آئے گا اور فائدہ حاصل کرکے آئے گا۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11صفحہ 54)
1 یعنی حافظ حامد علی صاحب کو۔ (مرتب)
55۔ شیخ فضل الٰہی صاحب چِٹھی رسان نے بیان کیا کہ:۔
’’ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ مَیں ڈاک لے کر حضور ؑ ( کی خدمت ) میں جارہا تھا ۔ جب ڈپٹی شنکرداس کے مکان1 کے آگے سے گذرا تو مکان کے آگے چبوترہ پر ڈپٹی مذکور چارپائی پر بیٹھا تھا۔ مجھے (اوشیخ) پکار کر کہا کہ غلام احمد کو کہہ دو کہ لڑکے جب مسجد میں آتے ہیں تو شور ڈالتے ہیں اور باتوں سے بھی کھڑاک کرتے ہیں ہم کو تکلیف ہوتی ہے۔ ان کو منع کردے کہ وہ آرام سے گذارہ کریں۔ مَیں نے حضرت صاحب ؑ سے ایسا ہی جاکر عرض کردیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ :۔
’’یہ مکان تو ہمارے قبضہ میں آنے والا ہے ۔ خدا نے ہم کو اِس مکان کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 38 نمبر 9مؤرخہ 14 مارچ 1935ء صفحہ 4)
56۔ حکیم محمد قاسم صاحب ساکن لالہ موسیٰ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’ مجھے خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ:۔
’’یہ زمین تیری اور تیرے مریدوں کی ہے۔‘‘
(الحکم جلد 38 نمبر 25مؤرخہ 14 جولائی 1935ء صفحہ 4)
57۔ ماسٹر اللہ دِتّا صاحب مہاجر قادیان نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ مفتی2صاحب کو فرمایا کہ:۔
’’مَیں نے دیکھا کہ منظور3 کی طرف چیل جھپٹی ہے ۔ آپ ایک مسکین کو کھانا کھلایا کریں۔ حضرت مفتی صاحب سلّمہ اللہ نے عرض کی کہ حضور مقرر کردیا ہے ۔‘‘ (الحکم جلد 38 نمبر 25مؤرخہ 14 جولائی 1935ء صفحہ 10)
58۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ نے ذکر ِ حبیب ؑ کی ایک مجلس میں فرمایا کہ :۔
’’میرے چچا صاحب ..... کو حقہ کی بہت عادت تھی۔ انہوں نے سنایا کہ مَیں قادیان گیا تو ہم دو آدمی تھے۔ مسجد مبارک میں ہم سو گئے ۔ صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو آپ ؑ نے فرمایا:۔
’’مَیں نے آج خواب میں دیکھا کہ مسجد میں دو حقے پڑے ہیں۔‘‘
(الحکم جلد 38 نمبر 27مؤرخہ28 جولائی 1935ء صفحہ 4)
59۔ میاں امام الدین صاحب ؓ سیکھوانی کے پاکٹ بک میں (درج ) ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :۔
’’ایک روز مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارا جو باہر کا مکان ہے اُس کے آگے دو گھوڑے خوب موٹے تازے
1 اَب یہ مکان جماعت ِ احمدیہ کے قبضہ میں ہے اور قادیان میں اس میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں۔ (مرتب)
2 یعنی مفتی محمد صادق صاحب ؓ۔ (مرتب)
3 یہ مفتی صاحب ؓ کے صاحبزادے منظور احمد کی طرف اشارہ ہے۔ (مرتب)
بندھے ہوئے ہیں اور عربی گھوڑے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر ایک گھوڑے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہیں اور ایک گھوڑے پر مَیں سوار ہوں اور ہم دونوں بہادروں کی طرح تیز رفتار چلتے ہیں اور چلنے ( میں) کوئی کمی نہیں۔ بعد میں میری آنکھ کھل گئی۔‘‘ (الحکم جلد 38 نمبر 30مؤرخہ 21 اگست 1935ء صفحہ 6)
60۔ مولوی رحیم بخش صاحب ساکن موضع بہادر حسین تحصیل بٹالہ کا تحریری بیان ہے کہ:۔
’’ ایک مرتبہ عاجز اور شرمپت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ میں تھے۔ آپ ؑ اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ ساتھ ساتھ ہم بھی پھرتے تھے۔ شرمپت کو حضور ؑ نے مخاطب کرکے فرمایا کہ شرمپت مجھ کو الہام ہوا ہے کہ ملا وا یہووا اسکریوطی ہے۔ اور یہووا اسکریوطی وہ تھا جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوایا تھا۔ یہ ہمارا دوست ہے اس کو نہ بتانا شاید یہ الفاظ کہہ کر رنجیدہ٭ ہوگیا لیکن یہ فرمایا کہ تاریخ اور الہام لکھ رکھو۔ اس کے ایک مدت کے بعد ملاوا آپ ؑ کا سخت مخالف ہوگیا تھا۔‘‘ (الحکم جلد39 نمبر 15مؤرخہ14 جون 1936ء صفحہ 10)
61۔ حافظ عبدالعلی صاحب برادر مولوی شیر علی صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’ جو لوگ میرے پاؤں دباتے ہیں ‘ اُن کے رُوحانی حالات مجھے رات کو بوقت دُعا معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں اُن کیلئے دُعا کرتا ہوں۔‘‘ (الحکم جلد44 نمبر 20 تا 23مؤرخہ7‘14‘21‘28 اگست 1942ء صفحہ 3۔ رجسٹر روایاتِ صحاہ جلد 3 صفحہ 145)
62۔ مٹھہ ٹوانا ضلع شاہ پور سے ایک سکھ معہ اپنے لڑکے کے آیا۔ اُس کے لڑکے کو غالباً تپ دِق کا مرض تھا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علاج کرانے آیا تھا۔ اس لڑکے کا باپ دُعا کیلئے حاضر ہوتا۔ آپ ؑ دُعا فرماتے آپ ؑ کو الہاماً ایک نسخہ معلوم ہوا جو اس پر حضرت مولوی صاحب ؓ کی معرفت استعمال کرایا گیا اور وہ لڑکا شفایاب ہوگیا۔
(الفضل جلد30 نمبر 144مؤرخہ24 جون1942ء صفحہ 3)
63۔ فرمایا :۔’’مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ اِس سال ہمارے تین چار دوست داغِ مفارقت دے جائیں گے۔ مَیں1نے عرض کیا حضور ! وہ قادیان میں سے تو نہیں۔ فرمایا نہیں۔ پھر مَیں نے عرض کیا کہ حضور وہ کپورتھلہ کے تو نہیں؟فرمایا نہیں کپورتھلہ تو قادیان کا ایک محلہ ہے۔‘‘ (الفضل جلد26 نمبر75مؤرخہ یکم اپریل 1938ء صفحہ 4)
64۔ ’’خدا نے مجھے آپ2 کے بارہ میں علم دیا ہے کہ آپ جن ہموم3و غموم میں مبتلا ہیں اُن کو خدا تعالیٰ میری دُعا سے ٹال
1 یعنی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی۔ (مرتب)
2 یعنی نواب صاحب ریاست رام پور۔ (مرتب)
3 نواب صاحب ان ایام میں بہت رنجیدہ تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ایک چہیتی بیوی مرضِ سِل میں مبتلا تھی اور اس کے علاج و معالجہ میں بہت کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی۔ اس رنج و غم کی اطلاع خدا نے آپ کو دی۔
(الفضل جلد31 نمبر251مؤرخہ 26 اکتوبر 1943ء صفحہ 3)
٭ نقل مطابق اصل
دے گا بشرطیکہ آپ خدا کے مامور پر ایمان لے آئیں۔‘‘
(الفضل جلد31 نمبر251مؤرخہ 26 اکتوبر 1943ءصفحہ خط بنام نواب صاحب رام پور)
65۔ (الف) فرمایا:۔’’ رات 1اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ ......
لنگر خانہ میں رات کو رِیا کیا گیا ہے۔‘‘
(فرمایا)۔’’اب جو لنگر خانہ میں کام کررہے ہیں ان کو علیٰحدہ کرکے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت اور صالح ہوں۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 3 صفحہ 194روایت میاں اللہ دِتّا صاحب سہرانی سکنہ بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازیخاں)
(ب) فرمایا:۔’’ رات خدا تعالیٰ کی طرف سے جھِڑک آئی ہے ......میرا لنگر ذرا بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ اس میں رِیا کیا گیا ہے۔ مسکین محروم رہ گئے ہیں اور اُمراء کو اچھا کھانا کھلایا گیا ہے۔ پھر کھانے کا اِنتظام حضرت صاحب ؑ نے اپنے سامنے کروایا اور سب کو ایک قِسم کا کھانا کھلایا۔‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 3 1صفحہ 109روایت میاں اللہ دِتّہ صاحب بستی رنداں)
66۔ ’’ایک صاحب ایران کے رہنے والے جو خدا رسیدہ اور ملہم انسان تھے ‘ ان کو خدا کی طرف سے الہا ہوا کہ :۔
’’ مقصودِ تو از قادیان حاصل مے شو د2 ‘ ‘
.....(وہ) قادیان شریف تشریف لائے ...... حضرت مسیح موعود علیہ السلام سَیر کیلئے گھر سے باہر تشریف لائے اور احباب منتظرین آپ ؑ کے ساتھ چل دئے ۔ جب حضور ؑ چند قدم باہر کو تشریف لے گئے تو خدا کی طرف سے آپ کو الہام ہوا:۔
’’آپ کی تلاش میں ایک شخص بازار میں پھر رہا ہے اور آپ باہر جارہے ہیں۔‘‘
حضور ؑ پیچھے کو لَوٹ پڑے اور فرمایا۔ حکم ہوا کہ بازار کو چلو......جب بڑے بازار میں چوک کے پاس پہنچے تو وہ صاحب مِل گئے ۔‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 4صفحہ 17‘18روایت مولوی محمد عبدالعزیز صاحب آف بھینی شرقپور ضلع شیخوپورہ)
1 میاں اللہ دِتّہ صاحب بتاتے ہیں کہ یہ عید کا موقعہ تھا۔ لنگر خانہ میں خاص و عام کی تمیز کی گئی ۔ میرے دل میں بد گمانی پیدا ہوئی۔ صبح جب حضور ؑ نے یہ الہام سنایا تو وسوسہ جاتا رہا۔
(ملخّص از روایات مذکورہ بالا جلد 3 صفحہ194 ‘ جلد 13 صفحہ 109) (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) تیرا مقصود تجھے قادیان میں حاصل ہوگا۔
67۔ سیّد محمود عالم شاہ صاحب ( محاسب صدر انجمن احمدیہ) حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :۔
’’ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ....... (فرمایا) کہ مجھے بتلایا گیا ہے کہ ایک شخص نے رات دس مرتبہ زنا کیا ہے ۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب ؓ فرماتے تھے کہ ایک شخص نے مجھ سے اقرار کیا کہ وہ مَیں ہوں ۔ رات مجھے دس مرتبہ اِس قِسم کے خیالات پیدا ہوئے۔‘‘
( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 4صفحہ 37)
68۔ میاں چراغ الدین صاحب ولد میاں صدرالدین صاحب قادیان نے بیان کیاکہ:۔
’’ایک دفعہ حضور ؑ میاں1صاحب کی اُنگلی پکڑ کر سَیر کیلئے بسراواں تشریف لے گئے جہاں پر آج کل چھپّڑ ہے۔ وہاں پہنچ کر فرمایا کہ ’’دیکھو میاں! گاڑی کی آواز آرہی ہے ۔ ‘‘ پھر آپؑ یہ کہہ کر چل پڑے ۔ خدا کے فضل سے آجکل گاڑی کی آواز سنائی دیتی ہے :۔ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 4صفحہ 56)
69۔ سردار ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری لکھتے ہیں کہ میاں چراغ دین صاحب چپڑاسی بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’اِس سے پیشتر حضور ؑ نے اپنی رؤیابیان فرمائی تھی کہ مَیں ریل گاڑی میں سوار ہوکر قادیان آیا ہوں اور گاڑی بازار قادیان میں کھڑی ہوگئی۔2‘‘ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد ہفتم صفحہ 131)
70۔ ’’اَرْضُ اللّٰہِ لَیِّنَۃٌ وَ مُلْکٌ لَّیِّنٌ3‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 5 صفحہ 62 روایت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی ضلع گورداسپور)
71۔ ’’رات کو نو بج چکے تھے ....... حضور ؑ اپنے ہاتھ میں ایک پیالہ ‘ جس میں دُودھ اور ڈبل روٹی پڑی تھی ‘ اُٹھائے کنویں پر آگئے اور آکر میرے والد صاحب سے فرمانے لگے ’’ باباجی کوئی مہمان بھوکا ہے ‘‘ .........جب مہمان خانہ میں جاکر مہمانوں سے معلوم کیا تو کوئی نہ ملا۔ تو پھر ہم شیر محمد صاحب دوکاندار والی دکان .........کے پاس پہنچے تو وہاں سے ایک صاحب نے کہا کہ حضور مَیں نے دُودھ ڈبل روٹی کھانی ہے۔ اِس پر حضور ؑ نے وہ پیالہ اُس صاحب کو دے دیا۔ ‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 7 صفحہ 170 روایات بدرالدین صاحب ولد گل محمد صاحب سابق مالیر کوٹلہ حال قادیان)
72۔ (الف) حضور ؑ نے فرمایا۔’’ مخالف ہماری تبلیغ کو روکنا چاہتے ہیں‘ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری جماعت ریت کے ذرّوں کی طرح دکھائی ہے۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 8 صفحہ 203 روایت میاں فضل الدین عبداللہ صاحب ولد محمد بخش صاحب قادیان)
1 یعنی حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۔ (مرتب)
2 یہ پیشگوئی بعینہٖ 1928ء میں پوری ہوئی اور ریل گاڑی قادیان تک پہنچی اور وہی اس کا آخری سٹیشن تھا۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) خدا کی زمین نرم ہے اور حکومت بھی نرم ہے۔
(ب) فرمایا۔’’ مَیں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 12 صفحہ 114روایت شیخ عبدالکریم صاحب جلد ساز کراچی)
73۔ ’’فرمایا کہ مجھے ابھی غنودگی سی ہوگئی اور مَیں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں رحمت اللہ کے بچے ہیں اور ........ فرمایا رحمت اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 9صفحہ 69روایت بابو غلام محمد صاحب ریٹائرڈ ڈرافٹسمین لاہور)
74۔ ایک دفعہ بہت قحط پڑگیا اور آٹا روپیہ کا پانچ سیر ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود (علیہ السلام ) کو لنگر کے خرچ کی نسبت فکر پڑی تو آپ ؑ کو الہام ہوا:۔
’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔1‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 9صفحہ 105روایت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل)
75۔ فرمایا۔ آج رات مَیں محبوب عالم کیلئے دُعا کررہا تھا کہ مجھے الہام ہوا:۔
’’دِل پھیر دیا گیا 2 ‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 9صفحہ 132مکتوب مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بنام محبوب عالم صاحب)
76۔ حضرت صاحب ؑ کا الہام ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ :۔
کچھ آگ کی چنگاریاں مجھ پر پڑیں جو میرے تک آتے ہوئے بھَسم ہوگئیں۔
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 9صفحہ 213روایت بابو غلام محمد صاحب)
77۔ شیخ زَین العابدین صاحب سکنہ تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور نے بیان کیا کہ:۔
’’میری بیوی کو اٹھرا کی بیماری تھی ......مَیں حضرت صاحب ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ( اور دُعا کیلئے درخواست کی)فرمایا۔ آپ بھی دُعا کریں اور مَیں بھی دُعا کرتا ہوں ۔ ظہر کی نماز کے بعد سے لے کر عصر کی اذان تک حضور ؑنے دُعا کی ....... حضور ؑ نے دُعا ختم کی اور فرمایا تمہاری دُعا قبول ہوگئی اور اٹھرا کی بیماری دُور ہوگئی ہے۔ اِس حمل میں لڑکا ہوگا۔ آپ کی بیوی کی شکل اور بچہ کی شکل بھی مجھے دکھائی گئی ہے ...... خدا تعالیٰ کے فضل سے دُعا کے بعد اَب تک میرا کوئی بچہ فوت نہیں ہوا۔ چار لڑکے اور تین لڑکیاں زندہ موجود ہیں۔ ‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11صفحہ 61 تا 63)
1 (ترجمہ از مرتب) کیا اللہ اپنے بندے کیلئے کافی نہیں ۔
2 (نوٹ از مرتب) منشی محبوب عالم صاحب سکنہ لاہور نے حضور ؑ کی خدمت میں بار بار ایک عورت سے رشتہ کے متعلق دعا کیلئے لکھا اور پھر ایک دفعہ یہ لکھا کہ ’’حضور اگر وہ عورت مجھے نہیں دلاسکتے تو اس جہنّم سے جس میں پڑا ہوا ہوں ‘ مجھے نکالیں اور میرا دل اس سے پھِر جائے ۔‘‘ اِس پر حضور ؑ کو مذکورہ بالا الہام ہوا اور فرمایا ’’ یا تو یہ عورت آپ کو مل جائے گی یا پھر آپ کو اس کا خیال ہی نہیں آئے گا۔‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 9صفحہ 132مکتوب مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بنام محبوب عالم صاحب)
78۔ ’’ایک دفعہ ہمارے بڑے بھائی برکت علی صاحب شدید بیمار ہوگئے اور جسم پنجر کی طرح رہ گیا ۔ یہاں (قادیان) لے آئے۔ حضرت صاحب ؑ دو ماہ تک علاج کرتے رہے ۔ آخر ...... حضور ؑ نے بھائی حامد علی صاحب کو فرمایا کہ اَب تم اپنے بھائی کو واپس لے جاؤ اس کا بچنا محال ہے ......آدمی (کہار کو بلانے کیلئے ) گاؤں چل پڑا ۔ ابھی غالباً رجاوہ1ہی پہنچا ہوگا کہ پیچھے سے حضرت صاحب ؑ کو الہام ہوگیا کہ :۔
’’برکت علی صحتیاب ہوجائے گا‘‘
حضور ؑ نے اُسی وقت حامد علی کو بلا کر فرمایا کہ جس آدمی کو آپ نے بھیجا ہے واپس بلالو ......آدمی واپس آگیا اور دوسرے دن بخار ٹوٹ گیا۔‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11صفحہ 65روایت شیخ زین العابدین صاحبؓ)
79۔ شیخ زین العابدین صاحب ؓ نے بیان کیا کہ:۔
’’مہر علی2 کو یہاں3 لایا گیا تو حضور ؑ نے اس کا مہینہ ڈیڑھ مہینہ علاج کیا۔ مروڑہَٹ گئے مگر حضور ؑ کو الہام ہوا کہ یہ بچہ بچ نہیں سکے گا......مگر یہ خیال رکھنا کہ یہ چلتا پھرتا مرے گا لیٹا ہوا نہیں مرے گا۔ جس دن اس نے مرنا تھا بازار چلا گیا اور سیر دُودھ پیا اور شام کے قریب گھر آیا.......والدہ نے اُسے کھڑے کھڑے چھاتی سے لگایا مگر اسی حالت میں اس کی جان نکل گئی۔ حضرت صاحب ؑ نے جنازہ پڑھایا اور یہیں دفن کیا۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد11 صفحہ 66‘ 67)
80۔ ملک غلام حسین صاحب مہاجر خادم المسیح محلہ دار الرحمت قادیان کا بیان ہے کہ حضرت صاحب ؑ شام کی نماز پڑھ کر مسجد میں لیٹ جایا کرتے تھے اور بچے حضور ؑ کو دبایا کرتے تھے ۔ میرا بچہ محمد حسین بھی دبا رہا تھا۔ حضرت اقدس ؑ کی آنکھیں بند تھیں۔ ایک اَو ر لڑکا جلال جو ’’پٹّی‘‘ کا تھا اور مغل تھا وہ بھی دبا رہا تھا۔ حضرت اُمّ المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)بھی پاس بیٹھے تھے ۔ یکدم حضرت صاحب ؑ نے جو آنکھ کھولی تو فرمایا کہ:۔
’’محمد حسین ڈپٹی کمشنر بنے گا4
اور جلال اس کے گھوڑے کو چارہ ڈالا کرے گا۔‘‘ حضرت اُمّ المؤمنین نے جب یہ الفاظ سنے تو فوراً اُٹھ کر اندر گئیں اور میری بیوی کو جاکر مبارکباد دی۔‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 11صفحہ 92)
1 قادیان کے قریب ایک گائوں۔ (مرتب)
2 یعنی راوی شیخ زین العابدین صاحب کا بھائی جو سخت بیمار تھا ۔ جسے چھ ماہ سے دست آرہے تھے ۔ (مرتب)
3 یعنی قادیان میں ۔ (مرتب)
4 چنانچہ آخری عمر میں جبکہ وہ افریقہ میں تھے نیروبی کا ڈپٹی کمشنر جب چار ماہ کی رخصت پر گیا تو اُس کا عارضی قائم مقام محمد حسین کو مقرر کیا گیا ۔ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد 1 1 صفحہ 95)
81۔ منشی ظفر احمدصاحب کپورتھلوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے فرمایا :۔ ’’ رات مَیں نےرؤیادیکھا کہ میرے خدا کو کوئی گالیاں دیتا ہے۔ مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ جب آپ ؑ نےرؤیاکا ذکر فرمایا تو اس سے اگلے روز چودھری1صاحب کا لڑکا فوت ہوگیا۔ کیونکہ ایک ہی لڑکا تھا اس کی والدہ نے بہت جزع فزع کی اور اس حالت میں اس کے منہ سے ( یہ کلمہ) نکلا۔ ارے ظالم تو نے مجھ پر ظلم کیا۔‘‘
(رجسٹر روایاتِ2 صحابہ جلد 13صفحہ 361روایت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی)
82۔ مولوی صدرالدین صاحب سابق مبلّغ ایران نے خاکسار عبداللطیف مرتب تذکرہ کو اپنی روایات کی کاپی میں سے ایک یہ روایت سنائی کہ:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک خادم فضل الدین المعروف فجّا نے انہیں ایک روایت سنائی کہ ’’ایک دفعہ اتّفاقاًایک لیمپ میں تیل ڈالتے ہوئے کپڑوں میں آگ لگ گئی......میرا بہت سا جسم جَل گیا اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کہنے لگے کہ یہ بیس منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ فرمانے لگے کہ ایک گھنٹہ بمشکل زندہ رہے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمانے لگے کہ ’’ مَیں نے ابھی رؤیادیکھا ہے اور اس کو باغ میں دیکھا ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ اولاد والا ہوگا .......پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے لئے ساری رات دُعا کی اور حضرت اُمّ المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اور دو اَور عورتوں کو پاس باری باری بٹھا یا اور ساری رات میرے لئے دُعا کی آخر اللہ تعالیٰ نے مجھے موت سے نجات بخشی اور شفا عطا فرمائی۔‘‘
(کاپی مولوی صدرالدین صاحب)
83۔ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مرحوم و مغفور فرماتے تھے کہ مَیں نے متعدد مرتبہ حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری مرحوم سے سنا تھا کہ مجھ پر جس قدر حالات (میری زندگی میں) آنے والے تھے وہ سب مجھے حضور ؑ نے پہلے سے بتادیئے ہوئے تھے اور اس کے مطابق وہ سب مجھ پر گذرے۔ اور حضور ؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تمہاری وفات جمعہ کے روز ہوگی۔ آپ کی وفات (7 اکتوبر 1927ءکو جمعہ کے روز) قادیان میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔
(تذکرہ طبع اوّل میں یہ روایت صفحہ 134 کے حاشیہ میں دی گئی ہے۔ جبکہ طبع ثانی میں اسے ضمیمہ کے متن میں دیا گیا ہے)
1 یعنی چودھری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے ‘ جو اُن دنوں قادیان میں دارِ مسیح میں قیام پذیر تھے۔
(مرتب)
2 منشی عبدالرحمن صاحب کی روایت جو الحکم جلد 37 نمبر 40 پرچہ 7 نومبر 1934ء صفحہ 6 پر شائع ہوئی ہے۔ اس میں اس واقعہ بے اَدبی کا تو ذکر ہے مگر ابتدائی حصہ یعنی رؤیا کا ذکر نہیں۔
(نوٹ) حضور ؑ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور اُسے گھر سے نکل جانے کا حکم فرمایا۔(رجسٹر مذکور)
(مرتب)
84۔ قاضی محمد یوسف صاحب ؓ امیر جماعت ِ احمدیہ سرحد اپنی تصنیف ’’ سوانح ظہورِ احمد ِ موعود ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’حضرت احمد ؑ نے جماعت کے بارہ میں کوئی شکایت کی تو یہ الہام ہوا:
بہمیں مردماں بباید ساخت
یعنی انہیں لوگوں کے ساتھ گذارہ کرنا ہے۔‘‘ (ظہورِ احمد ِ موعود ؑ صفحہ 51 شائع شدہ 30 جنوری 1955ء)
85۔ قاضی صاحب موصوف لکھتے ہیں :۔
’’حضور ؑ نےرؤیادیکھا کہ ایک شیر آتما رام کے دونوں لڑکے اُٹھا کر لے گیا۔ اِدھر حضرت صاحب ؑ نےرؤیاسنائی اُدھر آتما رام کو تار آگئی کہ آپ کے لڑکے کو طاعون ہوگیا۔ دو 2 جوان لڑکے یکے بعد دیگرے طاعون سے مر گئے۔‘‘
(ظہورِ احمد ِ موعود ؑ صفحہ 51‘52)
86۔ مولوی عبداللہ صاحب ؓ بوتالوی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایامِ قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے ......حضور ؑ نے کھڑے کھڑے فرمایا کہ شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد (مبارک) سے بڑی مسجد (اقصیٰ) تک مسجد ہی مسجد ہے .......اس کے بعد حضور ؑ نے فرمایا کہ اَب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے۔‘‘ (اصحابِ احمد ؑ جلد 7صفحہ 207)
87۔ (محترمہ صالحہ بی بی صاحبہ ؓ اہلیہ قاضی عبدالرحیم صاحب ؓ فرماتی ہیں کہ ) ہندوؤں والے بازار میں سے جو اَب بڑا بازار کہلاتا ہے اور اُس وقت چھوٹا سا تھا ایک دفعہ حضور ؑ ( وہاں سے ) گذر کر سَیر کیلئے شمال کی طرف جہاں اَب حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کا گھر ہے ‘ تشریف لے گئے ۔ ہم دس پندرہ عورتیں حضور ؑ کے ہمراہ ہوں گی۔ واپسی پر اسی بازار میں سے گذرتے ہوئے چوک میں جو مسجد اقصیٰ کے متّصل شمال میں ہے کنوئیں کے پاس ٹھہر گئے اور سوٹی کی نوک زمین میں لگا کر فرمایا کہ یہ عنقریب احمدی بازار کہلائے گا اور یہاں احمدی ہی احمدی ہوں گے۔‘‘ (اصحابِ احمد ؑ جلد6صفحہ 123‘124)
88۔ (مرزا غلام اللہ صاحب انصار ساکن قادیان فرماتے ہیں)’’میرے بھائی نظام الدین صاحب نے ذکر کیا کہ جن دنوں حضرت صاحب ؑ سیالکوٹ میں نوکر تھے مَیں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ مجھے حضرت صاحب ؑ پڑھایا بھی کرتے تھے۔ آپ ؑ وہاں بھیم سین وکیل کو جو ہندو تھا ‘ قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے اور اس نے تقریباً چودہ پارہ تک قرآن حضرت صاحب ؑ سے پڑھا تھا۔ ایک دن حضرت صاحب ؑ نے صبح اُٹھ کر بھیم سین کو مخاطب کرکے یہ خواب سنایا کہ آج رات مَیں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔ آپ ؐ مجھ کو بارگاہِ ایزدی میں لے گئے اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی جس کے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ سارے جہان کو تقسیم کردو۔‘‘
(سیرتِ احمد ؑ مصنّفہ مولوی قدرت اللہ صاحب ؓ سنوری صفحہ 182‘ 183 روایت نمبر 66)
۞۞۞۞۞۞
 
Top