• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تردید الوہیّتِ مسیح ناصری علیہ السلام

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تردید الوہیّتِ مسیح ناصری علیہ السلام

۱۔’’خدا ایک ہے۔‘‘

ا۔حوالجات از عہدنامہ قدیم:

(۱) ۲سلاطین۱۵؍۱۹ (۲)یسعیاہ۵،۶؍۴۵ (۳)زبور۸تا۱۰؍۸۶ (۴)۲سموئیل۲۲؍۷
(۵) زبور۲؍۹۰ (۶)استثنا۴؍۶ (۷)استثنا۲۶؍۳۳ (۸)۱سموئیل۲؍۲
(۹)۱سیموئیل۳،۴؍۷ (۱۰)۲سیموئیل۳۲؍۲۲ (۱۱)۱سلاطین۳۹؍۸ (۱۲)استثنا۲۹؍۴
(۱۳)استثنا۹؍۷ (۱۴)یسعیاہ۱۰؍۴۳ (۱۵)۱سیموئیل۴۶؍۱۷ (۱۶)۱سلاطین۲۳؍۸
(۱۷)۱تواریخ۲۵؍۱۶ (۱۸)۱تواریخ۲۰؍۱۷ (۱۹)۱تواریخ۱۱؍۲۹ (۲۰)۲تواریخ۱۴؍۶
(۲۱)زبور۳۱؍۱۸ (۲۲)زبور۱۴؍۴۸ (۲۳)زبور۷؍۵۰

ب۔از عہد نامہ جدید:۔

۱۔اعمال۲۳؍۱۷’’پس جس کوتم بغیر معلوم کئے پوجتے ہو مَیں تم کو اُسی کی خبر دیتا ہوں۔‘‘

۲۔یوحنا۴۴؍۵۔’’تم جو ایک دوسروں سے عزّت چاہتے ہو اور وہ عزّت جو خدائے واحد سے ہوتی ہے کیونکر ایمان لاسکتے ہو۔‘‘

۳۔یوحنا۳؍۱۷۔’’اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے۔جانیں۔‘‘

۴۔مرقس۲۹، ۳۰؍۱۲۔ ’’اول یہ کہ اے اسرائیل اس پر خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ اور توخداوند سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔‘‘

۵۔۱کرنتھیوں۴تا۶؍۸’’اور سوا ایک کے اور کوئی خدا نہیں۔اگر آسمان و زمین میں بہت سے خدا کہلاتے ہیں۔چنانچہ بہتیرے خدا اور بہتیرے خداوند ہیں لیکن ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ۔‘‘

۶۔اِفسیوں۶؍۴۔’’اور سب کا خدا اورباپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے۔‘‘

۷۔یوحنّا۱۷؍۲۰ ’’میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنیخدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں۔‘‘

۲۔عیسائیوں کی دلیلیں اور اُن کی تردید

پہلی دلیل:۔ پہلی دلیل جو عیسائی صاحبان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کو تورات وانجیل میں خدا کا بیٹا کہاگیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کا بیٹا تھا۔

جواب نمبر۱۔ ابن اﷲ کا لفظ توریت اور انجیل میں صرف مسیح کے واسطے نہیں بولا گیابلکہ یہ لفظ مسیح کے سوا سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے متعلق استعمال کیا گیا ہے لیکن عیسائی صاحبان ان تمام لوگوں کو خدا کے بیٹے تسلیم نہیں کرتے۔حالانکہ جیسا مسیح کو ابن اﷲ کہا گیا ویسا ہی باقیوں کے حق میں ابن اﷲ کا لفظ بولا گیا۔(دیکھو ذیل کے حوالجات):۔

۱۔اسرائیل خدا کا بیٹاہے۔ خروج باب۴ آیت۲۲

۲۔داؤد خدا کا بڑا بیٹا ہے۔ زبورباب۸۹آیت۲۶،۲۷

۳۔سلیمان خدا کا بیٹا ہے۔ ۱تواریخ باب۲۲آیت۹،۱۰

۴۔قاضی مفتی خدا کے بیٹے ہیں۔ زبورباب۸۲آیت۶

۵۔سب بنی اسرائیل خدا کے بیٹے ہیں۔ رومیوں باب۹آیت۴

۶۔تمام یتیم بچے خدا کے لڑکے ہیں۔ زبورباب۶۸آیت۵

۷۔بدکارلوگ خدا کے لڑکے ہیں۔ یسعیاہ باب۳آیت۱

جواب نمبر۲:۔ اگر عیسائی صاحبان مسیح کو اس لئے خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں کہ اس کے لئے لفظ ابن اﷲ بولا گیا ہیتو پھر ہم اسے انسان سمجھتے ہیں اس لئے کہ انجیل میں اُسے انسان کا بیٹا کہا گیا ہے۔

دیکھو حوالے:۔

۱۔یسوع ابن داؤد بن ابراہیم ۔ متی باب۱آیت۱

۲۔انسان کا بیٹا کھاتا پیتا آیا۔ متی باب۱۱آیت۱۹ ومتی ۲۰؍۸و۶؍۹و۲۳؍۱۰

۳۔میں جو ابن آدم ہوں۔انسان ہوں۔ متی باب۴۔آیت۴

جواب نمبر۳:۔ خدا کا بیٹا ہونے سے مطلب ’’راستباز‘‘اور خدا کا محبوب ہونا ہے۔ (۱یوحنا۲۹؍۲و۱؍۲ومتی۴۵؍۵)

معلوم نہیں کہ مسیح میں کونسی ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اُسے تو خدا کا بیٹا بلکہ مجسم خدا سمجھا جاوے اور باقیوں کو محض عاجز انسان خیال کیاجاوے۔

دوسری دلیل:۔مسیح نے عظیم الشان معجزے دکھائے۔کیونکہ وہ معجزے بشری طاقت سے بالا تر تھے۔اس لئے معلوم ہوا کہ مسیح انسان نہ تھا خدا تھا۔

جواب نمبر۱:۔ عیسائی صاحبان اگر معجزے دکھانا ہی الوہیت کی علامت سمجھتے ہیں تو پھر تمام انبیاء علیہم السلام خدا ہونے کے مستحق ہیں۔اور کیوں نہیں؟آپ لوگ موسیٰ، ایلیاہ وغیرہ کو خدا سمجھتے جنہوں نے آپ کے مسیح سے بھی بڑھ کر معجزے دکھائے۔ سنیے:۔

۱۔پہلا معجزہ:۔ مسیح کا سب سے بڑا معجزہ مُردوں کو زندہ کرنا ہے۔مگر اس میں بھی مسیح کی کوئی خصوصیّت نہیں۔ مسیح کے علاوہ اور انبیاء علیہم السلام سے بھی یہ کرامت صادر ہوئی۔دیکھو حوالے:۔

۱۔الیسع نے مُردے زندہ کئے۔ ۲سلاطین باب۴آیت ۳۵تا۳۷

۲۔حزقیل نے ہزاروں پرانے مردے زندہ کئے۔ حزقیل باب۳۷آیت۱تا۱۳

۳۔ایلیاہ نے مردے زندہ کئے۔ ۱سلاطین باب۱۷آیت۲۲

۴۔الیشع کی لاش نے مردہ زندہ کردیا۔ ۲سلاطین ۲۱؍۱۳

ناظرین خود انصاف فرما سکتے ہیں کہ اگر مسیح بسبب مردے زندہ کرنے کے خدا ہو سکتا ہے تو الیسع، حزقیل اور ایلیاہ وغیرہ جنہوں نے ہزاروں مردے زندہ کئے کیوں نہ خدا سمجھے جاویں۔لیکن عیسائی ان کو محض انسان ہی سمجھتے ہیں۔

جواب نمبر۲:۔ انجیل سے ثابت ہے کہ مردوں سے مراد روحانی مردے ہیں نہ کہ جسمانی :۔

الف۔یوحنا۱۸؍۲۰و ۱۔کرنتھیوں ۳۱تا۵۱؍۱۵وافسیوں۱؍۲و۵؍۲

ب۔مُردہ سے مراد شہوات۔ کلسیوں ۳تا۵؍۳

ج۔زندگی سے مراد یسوع پر ایمان لانا۔یوحنا۳؍۱۷

۲۔دوسرا معجزہ:۔ بیماروں کو اچھا کرنا۔

جواب:۔اس میں بھی اور انبیاء مسیح کے شریک ہیں۔

۱۔الیشع نے نعمان سپہ سالار کو جو کوڑھی تھا اچھا کیا۔ (۲سلاطین باب ۵آیت۱۴)

۲۔یوسف نے اپنے باپ یعقوب کوآنکھیں دیں۔دیکھو (پیدائش باب۴۶آیت۴تا۳۰ )

۳۔بیماروں سے روحانی بیمار مراد ہیں۔ مرقس۱۷؍۱۲ و پطرس۲۴؍۲

۴۔رُوحانی اندھے بہرے۔ متی۱۳؍۱۳و۱۴؍۱۵ویوحنا۳۹؍۹

۳۔تیسرا معجزہ:۔ تھوڑے کھانے اور شراب کو بڑھا دینا۔

جواب:۔ یہ کام بھی بہت سے انبیاء سے ظہور پذیر ہوا بلکہ بعض انبیاء اس کام میں مسیح سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔دیکھو حوالے:۔

۱۔ایلیاہ نے مٹھی بھر آٹے اور تھوڑے تیل کو بڑھا دیا کہ وہ سال بھر تک تمام نہ ہوا۔ دیکھو(۱سلاطین باب۱۷آیت۱۲تا۱۶)

۲۔الیشع نے بھی ذرا سے تیل کو اس قدر بڑھادیا کہ گھر والوں کے پاس اُس کے رکھنے کے لئے کوئی برتن نہ رہا۔ (۲سلاطین باب۴آیت۲تا۶)

۴۔چوتھا معجزہ:۔ بغیر کشتی کے دریا پر چلنا۔

جواب:۔ یہ بھی صرف مسیح کا کام نہ تھابلکہ موسیٰ نے اس سے بڑھ کر معجزہ دکھایا۔اس نے سمندر کو ایسی لاٹھی ماری کہ وہ پھٹ گیا اور سیال پانی الگ الگ دونوں طرف کھڑا ہو گیا۔

۲۔یُوشع نے یردن کو خشک کر دیا۔ (کتاب یوشع ۱۷؍۳)

۳۔ایلیاہ نے دریا کے دوٹکڑے کردئیے۔ (۲سلاطین۸؍۲)

۴۔الیشع نے ناکارہ چشموں اور بنجر زمینوں کو ایک پیالہ پانی سے اُچھال دیا۔ (۲سلاطین ۱۹تا۲۲؍۲ )

۵۔الیشع نے چادر مار کر پانی کے دو ٹکڑے کئے۔ (۲سلاطین۱۴؍۲)

۶۔موسیٰ کی دعا سے مینہ اور اولے تھم گئے۔ (خروج۳۴؍۹)

۷۔موسیٰ نے ہاتھ بڑھا کر مینڈک پھیلادئیے۔ (خروج۲۳؍۹)

۸۔ہارون نے مینڈک مصر میں پھیلا دئیے۔ (خروج۶،۷؍۸)

۹۔موسیٰ نے ہاتھ پھیلا کر سب مصر پر اندھیرا کردیا۔ (خروج ۲۲؍۱۰)

۱۰۔موسیٰ نے ہاتھ بڑھا کر سب سواریوں کو ہلاک کر دیا۔ (خروج۲۶تا۲۹؍۱۴)

۱۱۔یشوع نے چاند اور سورج کو حکم دے کر کھڑا کردیا۔ (یشوع۱۲تا۱۴؍۱۰)

۱۲۔یسعیاہ نے سورج کو دس درجہ پیچھے ہٹا دیا۔ (۲سلاطین۱۱؍۲۰)

۱۳۔تین شخص جلتی آگ میں ڈالے مگر نہ جلے۔ (دانیال۲۱تا۲۵؍۳)

۵۔پانچواں معجزہ:۔مسیح نے پرندے بنائے۔پس وہ خالق ٹھہرا۔

احمدی:۔ تورات میں ہے۔ہارون نے جوئیں بنائیں۔ (خروج۱۷؍۸)

پس وہ بھی بقول شما خالق ٹھہرا۔یک نہ شد دوشد۔

ایک اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت مسیح نے مریدوں کو فرمایا کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم میرے جیسے کام کر سکتے ہو۔ اب عیسائی صاحبان سے سوال ہے کہ اگر معجزاتِ عظیم الشان کی و جہ سے آپ لوگ مسیح کو خدا مانتے ہو۔تب تو حواریوں کو بھی شریکِ الوہیّت ماننا چاہیے۔ کیونکہ انہوں نے بھی معجزات دکھائے اور اگر آپ یہ کہیں کہ حواریوں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ بالکل ہی بے ایمان تھے۔

ایک اور جواب:۔ انجیل میں مسیح نے صاف فرما دیا کہ میرے بعد بہت سے جھوٹے نبی پیدا ہوں گے جو اتنے بڑے بڑے معجزات دکھائیں گے کہ ہو سکتاہے کہ وہ کاملین کو دھوکہ میں ڈال دیں لیکن تم ان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آنا۔مسیح کے اس قول سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے نزدیک ایک جھوٹا آدمی معجزات دکھا سکتا ہے تو پھر معجزات خدائی کا معیار کس طرح ہوئے اور معجزات دکھانے سے مسیح کی خدائی کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟

تیسری دلیل:۔جس سے مسیح کی الوہیّت ثابت کی جاتی ہے وہ مسیح کا ایک قول ہے جو اس نے اپنے مخالف یہودیوں کو کہا۔کہ’’تم نیچے سے ہو۔میں اوپر سے ہوں۔تم اس جہان کے ہو ۔میں اِس جہان کا نہیں۔‘‘

جواب:۔ اس فقرہ کے معنے بالکل صاف ہیں کہ اے یہودیو!میں نبی ہوں۔ میرے علوم آسمانی ہیں اور تم زمینی علوم پر مٹے ہوئے ہو۔تم میرا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو۔یہ ایک عام محاورہ ہے ۔اردو میں بھی مستعمل ہے۔دیکھو ہم ایک شخص کو زمینی یا دنیا دار کہتے ہیں۔اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ زمین میں اور دنیا میں رہتا ہے۔کیونکہ زمین اور دنیا میں تو نیک بھی رہتے ہیں۔مسیح بھی تیس برس تک (ہمارے نزدیک ۱۲۰ برس تک)اسی دنیا میں رہا۔بلکہ اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ یہ شخص خدا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دنیا سے محبت کرتا ہے۔اسی طرح مسیح نے بھی یہودیوں کو کہا کہ میں تمہاری طرح تقلیدی علوم کا اور زمینی فنون کا وارث نہیں بلکہ میں آسمانی علوم کا وارث ہوں،لیکن اگر عیسائی خواہ مخواہ ضد سے اس فقرے سے مسیح کی الوہیت ثابت کرنا چاہے تو وہ یاد رکھے کہ اس بات میں بھی مسیح کی خصوصیّت نہیں بلکہ تمام نیک لوگ اور حواری اس بات میں شامل ہیں۔دیکھو حوالے:

۱۔ مسیح حواریوں کے متعلق خدا سے دعا میں عرض کرتا ہے:۔

’’اس لئے کہ جیسامیں دنیا کا نہیں ہوں وے بھی دنیا کے نہیں ہیں۔‘‘ (یوحنا باب ۱۷ آیت۱۴)

اب اگر اس دنیا کا نہ ہونے کی و جہ سے مسیح خدا ہو۔تو پھر تمام حواری بھی اسی و جہ سے خدا سمجھنے چاہئیں۔

۲۔ ایک جگہ مسیح حواریوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔

’’اِس لئے کہ دنیا کے نہیں ہو۔‘‘ (یوحنا باب ۱۵ آیت۱۹)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
چوتھی دلیل:۔مسیح کہتا ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں۔میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے۔

جواب:۔ یہ الفاظ اگر مسیح کی خدائی کا ثبوت بن سکتے ہیں تو تمام لوگ جن کے متعلق انجیل میں خود یسوع نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ بھی خدائی کے مستحق ہیں۔دیکھو حوالہ:۔

۱۔مسیح خدا کے حضور حواریوں کی سفارش کرتا ہوا ایک جگہ کہتا ہے ۔’’تاکہ وہ سب ایک ہوجاویں ۔جیسا کہ اے باپ تو مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں کہ وہ بھی ہم میں ایک ہوں۔‘‘ (یوحنا باب ۱۷ آیت۲۱تا۲۳)

اب اگر ایک ہوجانے کے لفظ سے کوئی خدا بن سکتا ہے تو تمام حواری بھی خدا ہونے چاہئیں۔نیز دیکھو (یوحنا باب ۱۴۔آیت۲۰)

پانچویں دلیل:۔مسیح نے کہا کہ’’میں خدا سے نکلا ہوں۔‘‘’’تو مجھ سے پیدا ہوا۔‘‘ (عبرانیوں ۵؍۱و یوحنا ۴۲؍۸)

جواب: ۱۔پورا حوالہ پڑھو۔’’یسوع نے ان سے کہا ۔’’اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اس لئے کہ میں خدا سے نکلا اور آیا ہوں۔کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا۔‘‘ (یوحنا ۴۲؍۸)

پس خود مسیح نے ’’نکلنے‘‘کی تشریح کرکے بتا دیا کہ اس سے مراد تجسّم الٰہی نہیں بلکہ صرف صفت ارسال المرسلین کا اظہار ہے۔چنانچہ مزید وضاحت کے لئے دیکھو:۔(۱یوحنا ۸؍۱۷)

۲۔ ’’جو کوئی خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کی باتیں سنتا ہے۔‘‘ (یوحنا ۴۷؍۸)

۳۔ ’’جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں……خدا سے پیدا ہوئے۔‘‘ (۱یوحنا ۱۲۔۱۳؍۱)

۴۔ ’’جو کوئی راستبازی سے کام کرتا ہے وہ اس سے پیدا ہوا ہے۔‘‘ (۱یوحنا۲۹؍۲)

۵۔ ’’جو کوئی خدا سے پیدا ہوا وہ گناہ نہیں کرتا۔‘‘ (۱یوحنا ۹؍۳)

۶۔ ’’جو کوئی محبت رکھتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے۔‘‘ (۱یوحنا ۱؍۵)

۷۔ ’’شاعروں میں سے بعض نے کہا کہ ہم تو اس کی نسل ہیں۔پس خدا کی نسل ہو کر یہ خیال کرنا مناسب نہیں۔ (اعمال۲۸،۲۹؍۱۷)

۸۔ ’’سب ایک ہی اصل سے ہیں۔‘‘ (عبرانیوں۱۱؍۲)

چھٹی دلیل:۔’’یسوع کے لئے کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے۔‘‘ (عبرانیوں۸؍۱۳)

جواب:۔ لیکن لکھا ہے:۔

۱۔’’پیشتر اس کے کہ پہاڑ پیدا ہوئے اور زمین اور دنیا کو تو نے بنایا۔ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے۔‘‘ (زبور۲؍۹۰)

۲۔’’مجھ سے آگے کوئی خدا نہ بنا اور میرے بعد بھی کوئی خدا نہ ہوگا۔‘‘ (یسعیاہ باب ۴۳آیت۱۰)

۳۔’’ملک صدق بے باپ،بے ماں،بے نسب نامہ ہے۔نہ اس کے دنوں کا شروع ،نہ زندگی کا آخر بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا۔‘‘ (عبرانیوں۳؍۷)

تحقیقی جواب:۔مسیح کے لئے کل اور آج یکساں ہونا،بلکہ اس کے علم کا ازلی و ابدی ہونا محض دعویٰ ہے جو محتاج ِ دلیل ہے۔بلکہ خود انجیل سے اس کی تردید ہوتی ہے۔مثلاً:۔

۱۔انجیر کے درخت کا علم نہ ہوا کہ اس میں پھل ہے یا نہیں۔ (متی ۱تا۸؍۲ و مرقس ۲۳؍۲)

۲۔’’میرے کپڑے کو کس نے چُھوا؟‘‘ (لوقا ۴۷،۴۵؍۹ و مرقس ۳۰؍۵)

ساتویں دلیل:۔حضرت مسیح کا بے باپ پیدا ہونا۔

جواب:۔ اگر مسیح اس و جہ سے خدا ہو سکتا ہے کہ وہ بے باپ تھا تو آدم تو ڈبل خدا ہو نا چاہیے کیونکہ مسیح تو صرف بے باپ ہی تھا ۔مگر آدم بے باپ ہی نہ تھا بلکہ ماں بھی اس کی کوئی نہ تھی۔اس طرح ملک صدق سالم بھی خدا مجسم ہونے کا حقدار نہ تھا۔کیونکہ وہ بھی بغیر ماں باپ کے تھا۔ دیکھو عبرانیوں باب ۷ آیت ۳۔

پھر علاوہ ازیں تمام وہ حیوانات جو ابتدائے آفرینش میں خدا نے بے باپ اور ماں کے پیدا کئے سب کے سب خدا مجسم ہونے چاہئیں۔اچھا ان کو جانے دیجیے۔اب موجودہ لاکھوں کروڑوں کیڑے مکوڑے جو برسات آتے ہی بغیر ماں باپ ہوتے ہیں کیا وہ مسیح کے ساتھ خدا ئی کے حقدار نہیں؟ بلکہ ان کا زیادہ حق ہے کیونکہ مسیح کے متعلق تو کوئی شبہ بھی کر سکتا ہے کہ اس کا کوئی باپ بھی ہو مگر جس کی ماں بھی نہ ہواُس پر کیا شبہ ہو سکتا ہے۔گو ہم مریم کو پاکباز و عصمت مآب سمجھتے ہیں پر دنیا کا منہ کون بند کرے اور یہودیوں کے الزامات کا جواب کون دے۔

آٹھویں دلیل:۔آدم نے گناہ کیا اس و جہ سے اس کی تمام نسل میں گناہ کا بیج بویا گیا۔اور تمام انسان اِس میں گرفتار ہوئے۔مسیح چونکہ آدم کی پشت سے نہیں تھا اس لئے وہ گنہگا ر نہ ہوا۔اور گناہ سے پاک صرف خدا ہے اس لئے مسیح خدا ہوا۔

جواب:۔ اس دلیل میں جس قدر بھی دعوے ہیں سب کے سب سرے سے ہی غلط ہیں۔ نمبروار سنیے:۔

۱۔ آدم کے گناہ کی و جہ سے اس کی نسل کا گنہگار ٹھہرنا خدا کے عدل کے بالکل خلاف ہے ۔کیا یہی عیسائیوں کے خدا باپ کا عدل ہے کہ باپ کے گناہ کرنے سے بیٹا گنہگار سمجھا جاوے؟

۲۔ جو آدم کی پشت سے ہو وہ گنہگا ر ہوتا ہے۔یہ بات بھی بالکل غلط ہے عقلاً بھی جیسا کہ اوپر ثابت کر آئے ہیں اور نقلاً بھی ۔اپنے گھر کی کتاب لُوقا کھولئے گا ۔باب ۱ آیت ۶ ۔’’وے دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے حکموں اور قانونوں پر بے عیب چلنے والے تھے۔‘‘

دیکھیے یہ زکریا اور اس کی بیوی کی تعریف ہے۔اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی بالکل بے گناہ تھے ۔تو یہ دعویٰ کرنا کہ آدم کی اولاد میں سب گنہگار ہیں۔خود لوقا کے نزدیک غلط ہے کیونکہ زکریا اور اس کی بیوی باباآدم ہی کی اولاد میں سے تھے۔

۳۔ یہ کہنا کہ جو آدم کی پشت میں سے نہ ہو وہ بے گناہ ہوتا ہے ایک نہایت ہی بدیہی البطلان قضیہ ہے۔کیا شیطان گنہگار نہیں ؟اور کیا وہ آدم کی اولاد میں سے ہے؟پھر سانپ نے گناہ کیا اور اسے مٹی کھانی پڑی۔ کیا وہ آدم کی پشت سے ہے؟پھر تمام وہ دیو یا بھوت جنہیں مسیح اور اس کے حواری نکالا کرتے تھے خبیث روحیں نہ تھیں؟کیا وہ بھی آدم کی نسل سے تھے؟

۴۔ عیسائیوں کا یہ کہنا کہ مسیح بے گناہ تھا۔مدعی سست گواہ چست والی بات یاددلاتا ہے کیونکہ مسیح صاف اقرار کرتا ہے کہ مجھے نیک مت کہو نیک صرف با پ ہے ۔پھر اگر خود مسیح بھی دعویٰ کرتاتو کیا ہوتا۔دلیل کے بغیر تو کوئی شخص نہیں مانتا۔گو ہم اسے نیک سمجھتے ہیں اس لئے کہ ہمارے قرآن نے اس کی تعریف کی مگر یہودیوں کو کون لا جواب کرے۔وہ فوراً الزام لگانے شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے یہ کیا اور وہ کیا۔بد چلن عورت سے تیل ملوایا۔یہودیوں کے عالموں کو گندی گالیاں دیں۔بغیر اجازت لینے کے حواریوں سمیت ایک کھیت کے سٹّے توڑ کر نوش کرنے لگا۔کھاؤ پیؤ اور شرابی تھا۔غرض ان یہودیوں کا منہ کون بند کرے۔

عیسائیوں کی یہ دلیل کہ مسیح اس و جہ سے کہ وہ آدم کی نسل سے نہ تھا پاک اور بے گناہ ہے قطعی طور پر غلط ہے۔کیونکہ :۔

۱۔ آدم کا گناہ جو بقول عیسائیوں کے موروثی طور پر اب تک آدم کی نسل میں چلا آتا ہے۔ اس کا اصل ذمہ وار (مطابق پیدائش ۱۔۶؍۳)آدم نہ تھا بلکہ حوا تھی جس نے شیطان کے دھوکہ میں آکر آدم کو بہکایا۔پس مسیح بو جہ حوا کی اولاد ہونے کے گنہگار ٹھہرا۔

۲۔ تورات میں لکھا ہے:۔

الف۔’’اور وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے وہ کیونکر پاک ٹھہرے۔‘‘ (ایوب ۴؍۲۵)

ب۔’’اور وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے وہ کیونکر صادق ٹھہرے۔‘‘ (ایوب ۱۵؍۵)

(۵) چونکہ مسیح بے گناہ تھا اس لئے وہ خدا ہوا مگر اس خدائی میں مسیح اکیلا نہیں ۔زکریا بھی گناہ سے پاک تھا، اس لئے وہ بھی خدا ہوا ۔زکریا کی بیوی بھی گناہ سے پاک تھی اس لئے وہ بھی خدا ہوئی اور خدا کی بیوی بھی۔اس حساب سے یحییٰ بھی خدا ٹھہرا۔کیونکہ اس کی ماں بھی خدا ، باپ بھی خدا،بلکہ یحییٰ مسیح سے بڑا خدا ہونا چاہیے۔کیونکہ مسیح کی ماں تو انسان تھی اور یحییٰ کے ماں باپ دونوں خدا تھے۔

ملک صدق سالم بھی خدا ہونے کا مستحق ہے کیونکہ وہ آدم کی اولاد سے نہ تھا۔اور جو آدم کی اولاد سے نہ ہو۔وہ گناہ سے پاک ہوتا ہے۔اورجو گناہ سے پاک ہو وہ خدا ہوتا ہے۔اس لئے ملک صدق سالم بھی خدا ہوا۔پھر تمام فرشتے بھی خدا ہیں کیونکہ وہ گناہ سے پاک ہیں۔پھر تمام حیوانات چرند و پرندخدائی کے حقدار ہیں کیونکہ وہ گناہوں میں آلودہ نہیں۔

نویں دلیل:۔خود تین دن مردہ رہ کر پھر زندہ ہوگیا۔

جواب:۔مسیح جسمانی طور پر مر کر نہیں جیابلکہ روحانی طور پر زندہ کیا گیا۔

الف۔۱پطرس۱۸؍۳۔’’وہ جسم کے اعتبار سے مارا گیا مگر روح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا۔‘‘

ب۔’’جس طرح یسوع مر کر جیا اسی طرح ہم بھی مر کر جیتے ہیں۔‘‘ (رومیوں ۱۰؍۶ و ۱۰۔۱۱؍۸و پطرس ۲۴؍۲)
 
Top