• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تردید حیاتِ مسیح ناصری علیہ السلام

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تردید حیاتِ مسیح ناصری علیہ السلام

پہلی دلیل اور اس کی تردید

………… (النساء: ۱۵۸، ۱۵۹)

ترجمہ۔ نہ انہوں (یہود نامسعود) نے مسیحؑ کو قتل کیا اور نہ صلیب پر مارا، بلکہ اﷲ نے مسیحؑ کو اٹھالیا۔

بَلْ ابطالیہ کا ابطال

استدلال علماء:۔ (ا) بَلْ اضرابیہ ابطالیہ ہے جو ابطال جملہ اُولیٰ و اثبات جملہ ثانیہ کی غرض سے آتا ہے۔ جب نہ قتل ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے تو یقینا زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔

جواب:۔ آسمان پر جانے اور مقتول و مصلوب ہونے میں کوئی ضدیت نہیں۔ کیا جو نہ مقتول ہو، نہ مصلوب وہ آسمان پر اٹھایا جاتا ہے؟ کیا آنحضرتؐ و حضرت موسیٰ ؑ کوزندہ آسمان پر مانتے ہو؟ کیونکہ نہ وہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب۔

جواب نمبر۲:۔ آیت مذکور میں بَلْ کو ابطالیہ قرار دینا غلط ہے بوجوہاتِ ذیل۔ قرآن کریم میں ہے (النمل:۶۶،۶۷)

الف۔ اس آیت میں تین دفعہ بَلْ آیا ہے اور تینوں جگہ ابطالیہ نہیں بلکہ ترقی (اِنْتِقَالُ مِنْ غَرْضٍ اِلٰی اٰخَرَ) کے لئے آیا ہے۔ والی آیت میں بَلْ کا ما قبل اور مابعد کلام خدا ہے۔ پس بَلْ ابطالیہ نہیں ہوسکتا۔

ب۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں بَلْ ابطالیہ نہیں آسکتا۔ ہاں جب خدا تعالیٰ کفارکا قول نقل کرے تو بغرض تردید اس میں بَلْابطالیہ آسکتا ہے ورنہ اصالتاً خدا تعالیٰ کے کلام میں ابطالیہ وارد نہیں ہوسکتا۔ ملاحظہ ہو:۔

۱۔ مشہور نحوی ابن مالک کہتا ہے۔ اِنَّھَا لَا تَقَحُ فِی التَّنْزِیْلِ اِلَّا عَلٰی ھٰذَا الْوَجْہِ (اَیْ لِاِنْتِقَالٍ مِنْ غَرَضٍ اِلٰی اٰخَرَ) (القصر المینی جلد۱ صفحہ۵۸۲) کہ قرآن کریم میں بَلْ سوائے ترقی کے اور کسی صورت میں (یعنی بغرض ابطال) نہیں آتا۔

۲۔ قَالَ السَّیُوْطِیُ بَعْدَ اَنْ نَقَلَ غَیْرَ ذٰلِکَ اَیْضًا فَھٰذِہِ النَّقُوْلُ مُتَضَافِرَۃٌ عَلٰی مَا قَالْ ابْنُ مَالِکٍ مِنْ عَدْمِ وَقُوْعِ الْاِضْرَابِ الْاِبْطَالِیْ فِی الْقُرْاٰنِ (القصر المینی جلد۱ صفحہ ۵۸۳) کہ سیوطی نے بہت سے اقوال اور مثالیں نقل کرکے کہا ہے کہ یہ تمام مثالیں ابن مالک کے اس قول کی تائید کرتی ہیں کہ قرآن میں بَلْ ابطالیہ نہیں آتا۔

۳۔ فَاِنَّ الَّذِیْ قَرَّرَہُ النَّاُس فِیْ اِضْرَابِ الْاِبْطَالِ اِنَّہُ الْوَاقِعُ بَعْدَ غَلَطٍ اَوْ نِسْیَانٍ اَوْتَبَدُّلِ رَأْیِ وَالْقُرْاٰنُ مُنَزَّہٌ عَنْ ذٰلِکَ (القصر المینی جلد۱ صفحہ ۵۸۲) کہ نحویوں نے لکھا ہے کہ بَلْ ابطالیہ یا تو غلطی یا نسیان کے بعد آتا ہے اور یا تبدیلی ٔ رائے کے موقع پر۔ اور قرآن مجید میں یہ تینوں باتیں نہیں پائی جاسکتیں اس لئے قرآن مجید میں ابطالیہ نہیں آسکتا۔ فَجَوَابٌ اِنَّہٗ یُحْکٰی (برحاشیہ مغنی اللبیب زیر ذکر ’’بل‘‘) کہ ابن مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حکایۃً عن الغیر بل ابطالیہ آسکتا ہے ورنہ نہیں۔

استدلال نمبر۲:۔ قَتَلُوْہُ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ مع الجسم ہیں تو رَفَعَہٗ میں بھی حضرت عیسیٰ مع الجسم اٹھائے گئے ہیں۔

جواب نمبر۱:۔ اول تو رَفَعَ کے معنی یہ نہیں لیکن اگر ہوں بھی تب بھی یہ ضروری نہیں کہ رَفَعَہٗ والی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ مع الجسم ہی ہوں۔چنانچہ دیکھئے قرآن مجید میں ہے۔ (البقرۃ:۱۵۵) نہ کہو ان لوگوں کو مردہ جو خدا کی راہ میں شہید کیے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس۔ اب اَحْیَاءٌ کا مبتداء محذوف ھُمْ ہے۔ اس کا مرجع مَنْ یُّقْتَلُ ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہیں۔ حالانکہ لفظ مَنْ میں یہی جسم مراد ہے۔ پس کیا ضرور ہے کہ ہم رَفَعَ میں جسم بھی مراد لیں۔

پھر سورۃ عبس میں ہے ……(عبس: ۱۸ تا ۲۲)

اَمَاتَہٗ اور فَاَقْبَرَہٗ کی ضمائر کا مرجع اَ لْاِنْسَانُہے جو روح اور جسم سے مرکب ہے مگر کیا قبر میں روح اور جسم دونوں اکٹھے رکھے جاتے ہیں؟

موت تو نام ہی اِخْرَاجُ الرُّوْحِ مِنَ الْجَسَدِ کا ہے۔ اگر روح مع الجسم مدفون ہو تو پھر زندہ دفن ہوا جو محال ہے پس یہاں اَقْبَرَہٗ کی ضمیر کا مرجع انسان بمعنی مجرد جسم ہوگا۔

ب۔ علم بدیع کی اصطلاح میں اسے صنعت استخدام کہتے ہیں۔ وَ مِنْہُ الْاِسْتِخْدَامُ وَ ھُوَ اَنْ یُّرَادَ بِلَفْظٍ لَہٗ مَعْنَیَانِ اَحَدُھُمَا ثُمَّ بِضَمِیْرِہٖ الْاٰخَرَ اَوْ یُرَادُ بِاَحَدِ ضَمِیْرَیْہِ اَحَدُھُمَا ثُمَّ بِالْاٰخَرِ الْاٰخَرَ (تلخیص المفتاح صفحہ ۷۱ طبع المجتبائی الواقع فی بلدۃ دہلی) کہ ایک لفظ جو ذو معنی ہو اس کی طرف دو ضمیریں پھیر کر اس سے دو الگ الگ مفہوم مراد لینا۔ مثالیں اوپر درج ہیں۔

پھر بھی اگر کوئی کہے کہ عیسیٰ ؑ تو جسم اور روح دونوں کے مجموعہ کا نام ہے پھر تم اکیلی روح کا رفع کیوں مراد لیتے ہو؟

تو اوّل تو اسے کہنا چاہیے کہ کسی کانام مختلف حیثیتوں سے ہوتا ہے مثلاً کہیں زید سیاہ ہے تو صرف جسم مراد ہوگا۔ حالانکہ ہم نے لفظ زید بولا تھا جو جسم اور روح دونوں کا نام تھا مگر قرینہ حالیہ نے اس جگہ اس معنے کو روک دیا۔ یا کہیں زید نیک ہے تو صرف روح مراد ہوگی۔ اسی طرح رفع ہمیشہ روح کا ہوتا ہے۔ اس خاکی جسم کے متعلق تو ازل سے یہی قانون الٰہی ہے (الاعراف: ۲۶)

لفظ رَفَعَ کی بحث

دوم: ۔ ہم حضرت عیسیٰ ؑکے رفع کے قائل ہیں مگر وہ رفع تھا روحانی جو کہ جسم سے اعلیٰ ہے جس طرح کہ روح جسم سے اعلیٰ ہے۔

جواب نمبر۳:۔ بندہ کے لئے جب لفظ رفع استعمال ہو تو ہر جگہ درجات کا رفع مراد ہوتا ہے۔ خصوصاً جب رفع اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو کیونکہ اس کی شان اعلیٰ ہے۔

قرآنِ مجید اور لفظ رَفَعَ

۱۔ (الانعام:۴) کہ وہ خدا آسمان میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔

۲۔ (البقرۃ:۱۱۶) کہ جدھر تم منہ کرو ادھر ہی اﷲ ہے۔

۳۔ (قٓ:۱۷) کہ ہم انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔ تو اس کی طرف رفع کے لئے آسمان پر جانا ضروری نہیں بلکہ وہ رفع اسی زمین پر ہوتے ہوئے ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سب مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرتؐ بین السجدتین (دو سجدوں کے درمیان) جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ وَارْفَعْنِیْ بھی ہے۔ یعنی اے اﷲ میرا رفع کر۔

( سنن ابن ما جہ کتابب الجنائز باب اقامۃ الصلوٰۃ ما یقول بین السجدتین)

سب مومن مانتے ہیں کہ آپؐ کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر۔ بھائیو! جب وہی لفظ رَفَعَ آنحضرتؐکے لئے آتا ہے تو اس سے آسمان پر جانا مراد نہیں لیتے اور جب عیسیٰ ؑ کے لئے آوے تو وہاں مراد لیتے ہو۔ ایں چہ بوالعجبی است!

پھر طرفہ یہ کہ تمام قرآن واحادیث میں کہیں بھی اس لفظ رَفَعَ کے معنی آسمان پر جانا نہیں۔ چنانچہ دیکھئے فرمایا:۔

۱۔ (الاعراف: ۱۷۷) اور اگر ہم چاہتے تو اس کا رفع کر لیتے لیکن وہ جھک گیا زمین کی طرف۔ اس جگہ بالاتفاق درجات کی ترقی مراد ہے۔ آسمان پر لے جانے کا ارادہ بتانا مدنظر نہیں۔

۲۔ (مریم:۵۸)یعنی ہم نے ادریسؑ کا رفع بلند مکان پر کیا۔

۳۔ (النور:۳۷)

۴۔ (عبس: ۱۴، ۱۵)

۵۔ (الواقعۃ: ۳۵)

۶۔ …… (المجادلۃ:۱۲)

گویا جب بھی کسی مومن اور عالم کے متعلق اﷲ تعالیٰ یہ کہے کہ میں نے اس کا رفع کیا ہے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کا بلند ہونا ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ سے زیادہ ان کے زمانہ میں اور کون مومن اور عالم تھا؟ پس آپ کے رفع سے مراد بھی ترقی درجات ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
احادیث اور لفظ رَفَعَ

۱۔ اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُرَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَی السَّمَآءِ السَّابِعَۃِ (کنزالعمال الجزء الثالث کتاب الاخلاق قسم الاقوال حدیث نمبر۵۷۱۷) کہ جب بندہ فروتنی کرتا ہے (خدا کے آگے گرتا ہے) تو اﷲ تعالیٰ اس کا ساتویں آسمان پر رفع کرلیتا ہے۔

نوٹ:۔ یہ حدیث محاورۂ زبان کے لحاظ سے کے معنے سمجھنے کے لئے واضح نص ہے کیونکہ اس میں لفظ رفع بھی موجود ہے۔ رفع کرنے والا بھی اﷲ ہے اور خاص بات جو اس میں موجود ہے وہ یہ کہ رفع کے فعل کا صلہ بھی الیٰ ہی آیا ہے۔ جیسا کہ آیت میں ہے۔اور زائد بات یہ کہ اس میں ساتویں آسمان کا لفظ بھی موجو د ہے (اَلسَّمَآءِ السَّابِعَۃِ) حالانکہ آیت میں آسمان کا لفظ بھی موجود نہیں ہے۔ وہاں رفع اﷲ کی طرف ہے اور ہم ثابت کرچکے ہیں کہ (الانعام:۴)کہ اﷲ تعالیٰ زمین میں بھی ہے اور آسمان میں بھی مگر مندرجہ بالا حدیث میں تو لفظ آسمان بھی موجود ہے مگر پھر بھی مولوی صاحبان اس کا ترجمہ روحانی رفع یعنی بلندی درجات ہی لیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے جو لفظ رفع استعمال ہوا ہے اس میں بھی رفع کے معنی بلندی درجات ہی کے ہیں نہ کہ آسمان پر چڑھ جانے کے۔

۲۔ ’’مَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ‘‘(مسلم کتاب البر والصلۃ باب استجاب العفو والتواضع۔مصر) یعنی کوئی ایسا شخص نہیں کہ وہ اﷲ کے آگے گرا ہو اور پھر اﷲ نے اس کا رفع نہ کیا ہو (یعنی جو اﷲ کے آگے گرے اﷲ اس کا رفع کرتا ہے۔)

۳۔ آنحضرتؐ اپنے چچا حضرت عباسؓ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں۔ رَفَعَکَ اللّٰہُ یَا عَمِّ (کنزالعمال کتاب الفضائل۔ فضائل الصحابۃ حرف العین) اے میرے چچا اﷲ آپ کا رفع کرے۔

۴۔ اَلتَّوَاضُعُ لَا یَزِیْدُ الْعَبْدَ اِلَّا رَفْعَۃً فَتَوَاضَعُوْا یَرْفَعْکُمُ اللّٰہُ (کنزالعمال الجزء الثالث کتاب الاخلاق من قسم الاقوال حدیث نمبر ۵۷۱۷) کہ خاکساری انسان کو رفعت میں بڑھاتی ہے۔ پس تم انکساری کرو، اﷲ تعالیٰ تمہارا رفع کرے گا۔

۵۔ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ (کنزالعمال الجزء الثالث کتاب الاخلاق من قسم الاقوال حدیث نمبر۵۷۱۷) کہ جو شخص اﷲ کے آگے گر جائے اﷲ اس کا رفع کرتا ہے۔

۶۔ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ تَخَشُّعًا لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ (کنزالعمال جلد۲ صفحہ ۲۵ حدیث ۵۹۵ زیر حرف الھمزۃ فی الاخلاق من قسم الاولی) کہ جو انکساری کرتے ہوئے اﷲ کے آگے گرے تو اﷲ اس کا رفع کرتا ہے۔

لغات عرب اور لفظ رَفَعَ

۱۔ صحاح جوہری زیر لفظ ’’رفع‘‘ ۔ اَلرَّفْعُ تَقْرِیْبُکَ الشَّیْء۔ رفع سے مراد کسی چیز کو قریب کرنا ہے۔ گویا رفع کے معنے قرب کے ہیں۔

۲۔ اقرب الموارد زیر لفظ رفع۔ رَفَعَہُ اِلَی السُّلْطَانِ رفعانًا اَیْ قَرَّبَہٗ۔ قریب کیا اس کو بادشاہ کے یعنی اس کا مقرب بنایا۔

۳۔ لسان العرب زیر لفظ رفع۔ فِی اَسْمَآءِ اللّٰہِ تَعَالٰی الرَّافِعُ۔ ھُوَالَّذِیْ یَرْفَعُ الْمُؤْمِنَ بِالْاَسْعَادِ وَ اَوْلِیَاءَ ہٗ بِالتَقْرِیْبِ…… وَالرَّفْعُ تَقْرِیْبُکَ الشَّیْءَ مِنَ الشَّیْءِ وَ فِی التَّنْزِیْلِ وَ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ اَیْ مُقَرَّبَۃٍ لَھُمْ…… وَ یُقَالُ نِسَآءٌ مَرْفُوْعَاتٌ اَیْ مُکَرَّمَاتٌ مِنْ قَوْلِکَ اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ مَنْ یَّشَآءُ…… وَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ۔ قَالَ الزُّجَاجُ قَالَ الْحَسَنُ تَاْوِیْلُ اَنْ تُرْفَعَ اَنْ تُعَظَّمَ کہ اﷲ تعالیٰ کے ناموں میں رافع کا لفظ ہے کیونکہ وہ بلند کرتا ہے مومن کو سعادت کے ساتھ اور اپنے دوستوں کو قرب کے ساتھ۔ اور رفع کسی چیز کو کسی چیز کے قریب کرنا اور قرآن کریم میں ہے یعنی ان کی عزت کی جائے گی۔

۴۔ تاج العروس زیر لفظ رفع۔ اَلرَّفْعُ ضِدُّ وَضَعَہٗ وَ مِنْہُ حَدِیْثُ الدُّعَاءِ۔ اَللّٰھُمَّ ارْفَعْنِیْ کہ رفع وضع کی ضد ہے۔ جیسا کہ حدیث میں دعا ہے کہ اے میرے ربّ میرا رفع کر۔

۵۔ منتہی الارب جلد۱ صفحہ ۱۷۷۔ رَفَعْتُہٗ اِلَی السُّلْطَانِ رُفْعَانًا بِالضَّمِّ اَیْ قَرَّبْتُہٗ۔

۶۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَحْتَمِلْ رَفَعَہٗ اِلَی السَّمَآءِ وَ رَفَعَہٗ مِنْ حَیْثُ التَّشْرِیْفِ۔

(مفردات راغب برحاشیہ نہایہ لابن الاثیر جلد۲ صفحہ ۸۰)

تفاسیر سے رَفَعَ کے معنی

آنحضرت صلعم کے لئے رَفَعَہٗ اِلَیْہِ کا استعمال

۱۔ یہ عجیب بات ہے کہ رَفَعَہٗ اِلَیْہِ کے الفاظ بعینہٖ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بھی استعمال ہوئے ہیں اور اس استعمال سے آیت متنازعہ فیہ کے معنی بالکل واضح ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ تفسیر صافی میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔

حَتّٰی اِذَا دَعَی اللّٰہُ نَبِیَّہٗ وَ رَفَعَہٗ اِلَیْہِ (تفسیر صافی جلد صفحہ ۳۰۴زیر آیت وَ مَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ)یعنی حتّٰی کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلایا اور آپ کا اپنی طرف رفع کیا (یعنی آپ کو وفات دی)۔

بعینہٖ اسی طرح آنحضرتؐ کے لئے رفعہٗ اِلَیہ کا لفظ بمعنی وفات۔ کتاب ’’و ما ثبت بالسنۃ‘‘ صفحہ ۳۹ پر بھی ہے۔ ان ہر دو حوالوں میں لفظ رفع بھی ہے۔ اﷲ فاعل مذکور ہے اور صلہ اِلٰی ہے مگر معنی موت کے ہیں۔

۲۔ تفسیر سرسید احمد خان سورۃ آل عمران زیر آیت ۹۹تا۱۰۱۔ ’’پہلی آیت میں اور چوتھی آیت میں لفظ رفع کا بھی آیا ہے جس سے عیسیٰ ؑ کی قدر و منزلت کا اظہار مقصود ہے نہ یہ کہ ان کے جسم کو اٹھالینے کا۔‘‘

۳۔ تفسیر کبیر ۔ ……وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ اَیْ وَ رَافِعُ عَمَلِکَ اِلَیَّ وَ ھُوَ کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی۔ (فاطر:۱۱) وَالْمُرَادُ مِنْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ اَنَّہٗ تَعَالٰی بَشَّرَہٗ بِقَبُوْلِ طَاعَتِہٖ وَ اَعْمَالِہٖ……الخ۔ رَافِعُکَ اِلَیَّ کے معنے ہیں کہ میں تیرے اعمال کو اٹھانے والا ہوں، یہ اﷲ تعالیٰ کے اس قول کی طرح اشارہ ہے۔ اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کا ان کی نیکیوں کے قبول کرنے کی بشارت دی۔

وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ۔ ھُوَ الرَّفْعَۃُ بِالدَّرَجَۃِ وَالْمَنْقَبَۃِ لَا بِالْمَکَانِ وَالْجِھَۃِ۔ (تفسیر کبیر زیر آیت) یعنی اس آیت سے جو مسیح کا رفع ثابت ہوتا ہے یہ درجات کی ترقی اور عزت کا رفع مراد ہے، رفع مکانی (جیسا کہ غیر احمدی مانتے ہیں) اور جہت والا مراد نہیں۔

۴۔ تفسیر جامع البیان زیر آیت ۔ رَافِعُکَ اِلَیَّ اَیْ مَحَلِّ کَرَامَتِیْ۔ یعنی اپنے عزت کے مقام کی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں۔ گویا جنت میں داخل کروں گا۔ بہ فرمودہ

۵۔ تفسیر روح البیان جلد۱ صفحہ ۳۳۱۔ رَافِعُکَ اِلَیَّ اَیْ اِلٰی مُحَلِّ کَرَامَتِیْ وَ مَقَرِّ مَلَائِکَتِیْ وَ جَعَلَ ذٰلِکَ رَفْعًا۔ اِلَیْہِ لِلتَّعْظِیْمِ وَ مِثْلُہٗ قَوْلُہٗ ()(الصّٰفّٰت:۱۰۰) وَ اِنَّمَا ذَھَبَ اِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنَ الْعِرَاقِ اِلَی الشَّامِ۔ یعنی اﷲ تعالیٰ کا اپنی طرف رفع فرمانا صرف تعظیم کے لئے ہے جیسا کہ اس کے قول میں ہے ۔حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف عراق سے شام کی طرف گئے تھے۔

لفظ رَفَعَ کے متعلق چیلنج

مندرجہ بالا تحقیق سے ثابت ہے کہ قرآن مجید، احادیث، تفاسیر اور عرب کے محاورہ کے رو سے لفظ رَفَعَ جب بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی انسان کی نسبت بولا جائے، تو اس کے معنی ہمیشہ ہی بلندیٔ درجات اور قرب روحانی کے ہوتے ہیں۔ ہم نے غیر احمدی علماء کو بارہا یہ چیلنج دیا ہے کہ وہ کلامِ عرب سے ایک ہی مثال اس امر کی پیش کریں کہ لفظ رفع کا فاعل اﷲ تعالیٰ مذکور ہو اور کوئی انسان اس کا مفعول ہو اور رفع کے معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھالینے کے ہوں، مگر آج تک اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکی اور نہ ہی آئندہ پیش کی جاسکے گی۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
غیر احمدی علماء کے مطالبہ کا جواب

ہمارے مندرجہ بالا چیلنج کا منہ چڑانے کے لئے مؤلف محمدیہ پاکٹ بک نے بھی اپنی پاکٹ بک کے صفحہ۵۴۸ طبع ۱۹۵۰ء پر یہ لکھ کر اپنی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔

’’جب رَفَعَ یَرْفَعُ رَفْعًا فَھُوَ رَافِعٌ میں سے کوئی بولا جائے جہاں اﷲ تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول جوہر ہو (عرض نہ ہو) اور صلہ اِلٰی مذکور ہو اور مجرور اس کا ضمیر ہو، اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو، وہاں سوائے آسمان پر اٹھانے کے دوسرے معنی ہوتے ہی نہیں۔‘‘

جواب نمبر۱:۔ تم نے یہ من گھڑت قاعدہ کہاں سے اخذ کیا ہے۔

کہو کہ جس طرح تم نے رَفَع کے متعلق اپنے چیلنج میں ایک قاعدہ خود ہی بنالیا ہے، اسی طرح ہم نے بھی بنالیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم لفظ رفع کے متعلق چیلنج مندرجہ بالا میں جو شرائط درج کی ہیں وہ ہمارے خود ساختہ یا خود تراشیدہ نہیں بلکہ لغتِ عرب میں درج ہیں۔ چنانچہ لسان العرب زیر مادہ رفع میں لکھا ہے:۔

فِی اَسْمَآءِ اللّٰہِ تَعَالٰی اَلرَّافِعُ۔ ھُوَالَّذِیْ یَرْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ بِالْاِسْعَادِ وَ اَوْلِیَاءَ ہٗ بِالتَقْرِیْبِ۔‘‘

کہ رافع اﷲ تعالیٰ کا نام ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومنوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ ان کو سعادت بخشتا ہے اور اپنے دوستوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ ان کو اپنا مقرب بنالیتا ہے۔

گویا اﷲ کے رفع کا فاعل اور انسان (مومن اولیاء) کے مفعول ہونے کی صورت میں لفظ رفع کے معنی بلندی درجات و حصول قرب الٰہی ہے۔ پس ہمارے چیلنج کی شرائط تو مندرجہ بالا حوالہ لغت پر مبنی ہیں مگر تم بتاؤ کہ تم نے جو قاعدہ درج کیا ہے اس کی سند محاورۂ عرب میں کہاں ہے؟

جواب نمبر۲:۔ تمہارے من گھڑت قاعدہ کی تغلیظ کے لئے مندرجہ ذیل دو مثالیں کافی ہیں:۔

۱۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ حَتّٰی اِذَا دَعَی اللّٰہُ نَبِیَّہٗ وَ رَفَعَہٗ اِلَیْہِ (تفسیر صافی صفحہ۱۱۳ زیر آیت ) یعنی حتّٰی کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلالیا اور ان کا اپنی طرف رفع کرلیا۔

۲۔ حضرت شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلویؒ، حافظ عبدالبر کا مندرجہ ذیل قول آنحضرتؐ کی وفات کی نسبت نقل کرتے ہیں:۔

کَانَ الْحِکْمَۃُ فِیْ بَعْثِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھَدَایَۃَ الْخَلْقِ وَ تَتْمِیْمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ وَ تَکْمِیْلَ مَبَانِی الدِّیْنِ فَحِیْنَ حُصِلَ ھٰذَا الْاَمْرُ وَ تَمَّ الْمَقْصُوْدُ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ۔

(ماثبت بالسنۃ صفحہ ۹۲ و مطبع محمدی لاہور صفحہ ۲۹)

یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت میں حکمت محض یہ تھی کہ مخلوق کو ہدایت ہو اور اخلاق اور دین کی تکمیل ہو۔ پس جب یہ مقصود حاصل ہوگیا تو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنی طرف رفع فرمالیا۔

ان ہر دو حوالجات میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن میں اﷲ فاعل، مفعول جوہر ہے عرض نہیں، صلہ بھی اِلیٰ مذکور ہے اور مجرور اسم ظاہر نہیں بلکہ ہٗکی ضمیر ہے اور یہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہے مگر یہاں معنی آسمان پر مع جسم عنصری اٹھائے جانے کے نہیں بلکہ متفقہ طور پر فوت ہوجانے کے معنی ہیں۔

(لفظ رفع کی دوسری مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔)

قرآن کریم اور لفظ اِلٰی

۱۔ (الصّٰفّٰت:۱۰۰)

۲۔ (العنکبوت: ۲۷)

۳۔ (یونس:۵ و الانعام:۶۱)

۴۔ (الذّٰریٰت:۵۱)

۵۔ (البقرۃ: ۱۵۶)

۶۔ (البقرۃ:۲۹)

اس استدلال پر چند اعتراضات

اس آیت سے اگر حضرت عیسیٰ ؑ کا آسمان پر جانا مراد ہوسکتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اﷲ تعالیٰ آسمان پر محدود ہے اور وہ بھی دوسرے آسمان پر حالانکہ محدودیتِ باری تعالیٰ محال ہے۔ پس عقیدہ حیاتِ مسیح بھی محال ہے۔

دوم:۔ کتبِ نحو میں اِلٰی کے معنی لکھے ہیں کہ یہ انتہاء غایت کے لئے آتا ہے تو اب اگر آسمان پر جانے کے معنی درست ہوں تو ماننا پڑے گا کہ (نعوذ باﷲ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے ساتھ پہلو بہ پہلو بیٹھے ہیں اور درمیان میں کچھ بھی فاصلہ نہیں۔ ورنہ پورے طور پر اِلٰی کے معنی متحقق نہیں ہوسکتے۔ پس ان معنوں پر ضد کرنا سراسر جہالت ہے۔

استدلال نمبر۳

’’‘‘ (النساء:۱۵۹) خدا تعالیٰ نے خود اپنی طاقت اور قدرت کا ذکر کرکے بتادیا ہے کہ یہاں آسمان پر جانا ہی مراد ہے۔

جواب الف:۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں جب اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں سے بچایا تھا تو اس کا ذکر سورۃ التوبۃ:۴۰ میں کرکے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا اس موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آسمان پر اٹھالئے گئے تھے؟ یا زمین پر ہی رکھ کر خدا تعالیٰ نے حضورؐ کو محفوظ رکھا اور اپنی قدرت کا ثبوت دیا۔

ب:۔ قدرت کسی چیز کو چھپانے میں نہیں بلکہ دشمن کے سامنے رکھ کر محفوظ رکھنے میں ہے۔ لہٰذا تمہارے اعتقاد کی رُو سے خدا تعالیٰ بزدل ٹھہرتا ہے۔ کیا زمین پر حضرت عیسیٰ ؑ کو رکھنے میں یہودیوں کا خوف تھا؟ (نعوذ باللّٰہ)

حیاتِ مسیحؑ کی دوسری دلیل

(الزخرف: ۶۲)

ترجمہ بقول غیراحمدیان:۔ حضرت عیسیٰ ؑ قیامت کی نشانی ہیں۔ پس تم اس میں مت شک کرو بلکہ اس پر ایمان لاؤ۔

جواب نمبر۱:۔ اِنَّہٗ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ ؑ کا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کا مرجع قرآن کریم یا آنحضرتؐ ماننے چاہئیں۔ چنانچہ تفسیر معالم التنزیل میں زیر آیت ھٰذا لکھا ہے:۔

قَالَ الْحَسَنُ وَ جَمَاعَۃٌ اِنّہٗ یَعْنِیْ اَنَّ الْقُراٰنَ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ کہ حضرت امام حسنؓ اور ایک جماعت کا قول ہے کہ اِنَّہٗ کی ضمیر کا مرجع قرآن کریم ہے۔

پھر تفسیر جامع البیان میں بھی اس آیت (الزخرف:۶۲) کے نیچے لکھا ہے کہ وَقِیْلَ الضَّمِیْرُ لِلْقُرْاٰنِ کہ بعض نے اس ضمیر کا مرجع قرآن کریم کو ٹھہرایا ہے۔

پھر تفسیر مجمع البیان میں اس آیت (الزخرف:۶۲) کے ماتحت لکھا ہے۔ وَ قِیْلَ اِنَّ مَعْنَاہُ اَنَّ الْقُرْاٰنَ لَدَلِیْلٌ لِّلسَّاعَۃِ لِاَنَّہٗ اٰخِرُ الْکُتُبِ کہ بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ قرآن کریم قیامت کی دلیل ہے کیونکہ وہ آخری کتاب ہے۔

اگر تمہاری بات ہی کو درست فرض کرلیا جائے تو اس صورت میں اِنَّہٗ کی ضمیر کا مرجع ’’ابن مریم مثلاً‘‘ ّ(یعنی مثیل مسیح) ماننا ہوگا۔

مَثَلٌ کے معنی لغت میں اَلشِّبْہُ وَالنَّظِیْرُ (المنجد زیر مادہ مثل) مانند اور نظیر کے ہیں۔ یعنی مثیل۔

’’‘‘(الزخرف:۵۸) کہ جب ابن مریمؑ کا مثیل بھیجا جائے گا تو خود آنحضرت کی قوم کہلانے والے لوگ اس پر تالیاں بجائیں گے۔

نیز منتہی الارب فی لغات العرب زیر مادہ مثلمیں بھی مَثَل کے معنے مانند اور ہمتا اور نظیر کے لکھے ہیں۔ چنانچہ ہمارے بیان کردہ ان معنوں کی تائید شرح لشرح العقائد المسمّی بالنبراس (جو اہلسنت کے عقائد کی معتبر کتاب ہے) کے حاشیہ کی مندرجہ ذیل عبارت سے ہوتی ہے۔

قَالَ مَقَاتَلُ ابْنُ سُلَیْمَانَ وَ مَنْ تَابَعَہٗ مِنَ الْمُفَسِّرِیْنَ فِیْ تَفْسِیْرِ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَ اِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ۔ قَالَ ھُوَ الْمَھْدِیْ یَکُوْنُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ وَ بَعْدَ خُرُوْجِہٖ تَکُوْنُ اَمَارَاتُ السَّاعَۃِ (شرح لشرح العقائد المسمّی بالنبراس صفحہ ۴۴۷ حاشیہ لحافظ محمد عبدالعزیز الفرھاروی۱۳۱۳ھ) کہ مقاتل بن سلیمان اور اس کے ہم خیال مفسرین نے لکھا ہے کہ اِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ سے مراد مہدی ہے جس کی آمد کے بعد قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔

نوٹ:۔ تالیاں بجانے کی قرآنی پیشگوئی کو غیر احمدی قریباً ہر مناظرہ کے موقع پر پورا کیا کرتے ہیں حالانکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔اِنَّمَا التَّصْفِیْقُ لِلنِّسَآءِ (بخاری کتاب السحو باب الاشارۃ فی الصلٰوۃ جلد۱ صفحہ ۸۴ مصری و تجرید بخاری مترجم حدیث صفحہ ۳۸۷) یعنی تالیاں بجانا صرف عورتوں کا کام ہے۔

(خادمؔ)

غیر احمدی:۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ سے مسند احمد جلد۱ صفحہ ۳۱۷المکتب الاسلامی بیروت و درمنثور زیر آیت ……و فتح البیان زیر آیت وابن کثیر میں مروی ہے کہ اس آیت میں نزولِ مسیح قبل از قیامت مراد ہے۔ ایسا ہی ابن جریر جلد ۱۵ صفحہ ۴۸ میں ہے۔ (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ۵۶۶۔۵۶۷ مطبع ۱۹۵۰ء)

جواب:۔ در منثور اور فتح البیان میں تو تمہاری پیش کردہ روایت کی سند درج نہیں ہے۔ البتہ ابن کثیر اور ابن جریر میں جس قدر سندات سے یہ تفسیر مروی ہے وہ سب کی سب موضوع ہیں۔ ابن کثیر میں یہ روایت دو طریقوں سے مروی ہے اور دونوں کا راوی عاصم بن ابی النجود ہے جو ضعیف ہے۔ اس کے متعلق لکھا ہے:۔

ثَبَتَ فِی الْقِرَأَۃِ وَ ھُوَ فِی الْحَدِیْثِ دُوْنَ الثَّبْتِ……قَالَ یَحْیَ القَطَّانُ مَا وَجَدْتُ رَجُلًا اِسْمُہٗ عَاصِمٌ اِلَّا وَجَدْتُہٗ رَوِیَ الْحِفْظَ وَ قَالَ النَّسَائِیْ لَیْسَ بِحَافِظٍ وَ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ فِیْ حِفْظِ عَاصِمٍ شَیْءٍ……وَ قَالَ ابْنُ خَرَاشٍ فِیْ حَدِیْثِہٖ نَکَرَۃٌ……وَقَالَ اَبُوْ حَاتِمِ لَیْسَ مَحَلُّہٗ اَنْ یُّقَالَ ثِقَۃٌ (میزان الاعتدال ذکر عاصم بن ابی النجود مصنفہ علامہ ذہبی شمس ) کہ یہ راوی قرآن مجید اچھا پڑھتا تھا لیکن حدیث میں مضبوط راوی نہ تھا۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عاصم نام کا میں نے کوئی راوی اچھے حافظہ والا نہیں دیکھا۔ امام نسائی نے بھی اس راوی کے متعلق کہا ہے کہ یہ اچھا راوی نہ تھا۔ ابن خراش نے کہا ہے کہ یہ منکرۃ الحدیث تھا اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ ثقہ نہ تھا۔

ابن جریر کے طریقوں میں سے پہلے تین میں تو یہی عاصم بن ابی النجود راوی ہے جو منکرالحدیث اور غیر ثقہ ہے۔ علاوہ ازیں پہلے طریقہ میں ابن عاصم کے علاوہ ایک راوی ابو یحییٰ مصدع بھی ہے جس کے متعلق لکھا ہے کہ وہ غیر ثقہ تھا۔ نیز لکھا ہے کہ :۔

قَدْ ذَکَرَہُ الْجَوْزُ جَانِیْ فِی الضُّعَفَاءِ……وَ قَالَ ابْنُ حَبَّانٍ فِی الضُّعَفَاءِ کَانَ یُخَالِفُ الْاِثْبَاتَ فِی الرِّوَایَاتِ وَ یَنْفَرِدُ بِالْمَنَاکِیْرِ۔(تہذیب التہذیبذکر مصدع ابو یحییٰ الاعرج المعرقب) کہ یہ راوی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔ ابن جریر کے دوسرے طریقہ میں عاصم کے علاوہ ایک راوری غالب بن فائد ہے۔ اس کے متعلق علامہ ذہبی لکھتے ہیں:۔

قَالَ الْاَزْدِیْ یَتَکَلَّمُوْنَ فِیْہِ وَقَالَ الْعُقَیْلِیُّ یُخَالَفُ فِیْ حَدِیْثِہٖ (میزان الاعتدال ذکر غالب بن فائدہ) کہ اس راوی کے ثقہ ہونے میں محدثین کو کلام ہے اور عُقیلی نے کہا کہ اس کی حدیث کو قبول نہیں کیا جاتا۔

اس طرح حافظ ابن حجر نے لسان المیزان حرف الحاء ذکر الحسین بن عبداﷲ بن ضمیرہ بن ابی ضمیرہ الجزء الثانی پر عُقیلی کا قول اس راوی کی نسبت نقل کیا ہے کہ صَاحِبُ وَھْمٍ کہ یہ وہمی آدمی تھا۔

اسی طرح ابن جریر کی چوتھی روایت کا ایک راوی فُضَیل بن مرزوق الرقاشی ہے جو شیعہ تھا اس کے متعلق ابو حاتم کا قول نقل کیا گیا ہے کہ اس راوی کی روایت حجت نہیں اور قَالَ النَّسَائِیْ ضَعِیْفٌ نیز ابن حبّان نے اسے خطاکار اور ضعیف قرار دیا ہے۔ نیز ابن معین نے بھی اسے ضعفاء میں شمار کیا ہے۔

(تہذیب التہذیب ذکر فضل بن مرزوق الجزء الرابع)

پس یہ ہے تمہاری پیش کردہ ’’تفسیر ابن عباسؓ ‘‘ کی حقیقت ۔ باقی رہی تمہاری شب معراج میں انبیاء کی چار کونسل والی ابن ما جہ کی روایت سو اس کی حقیقت حیات مسیح کی پندرہویں دلیل کے جواب میں دیکھو صفحہ ۳۷۸۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
غیر احمدی:۔ حضرت مرزا صاحب نے اعجاز احمدی صفحہ ۲۱ اور حمامۃ البشریٰ پہلا ایڈیشن کے صفحہ ۹۰ پر اِنَّہٗ کی ضمیر کا مرجع مسیحؑ کو مانا ہے۔ (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۶۶۔۵۶۷ مطبع ۱۹۵۰ء)

جواب نمبر۱:۔ حضورؑ نے بھی اسی صورت میں مانا ہے جس صورت میں ہم نے ایسا ہی مان کر جواب نمبر۲،۳ میں اس کا مفہوم بیان کیا ہے۔ یعنی اس رنگ میں کہ اگر اِنَّہٗکی ضمیر کا مرجع مسیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھی اس سے حیات مسیح ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس صورت میں اس سے مراد مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کی یا ہلاکت بنی اسرائیل کی پیشگوئی لی جائے گی۔

جواب نمبر۲:۔ علم کے معنی ہیں جاننا۔ یہ مصدر ہے اور مصدر کبھی کبھی مبالغہ کے لئے بھی آجاتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں زَیْدٌ عَدْلٌ۔ زید بہت عادل ہے۔ اسی طرح یہاں ہے کہ مسیح قیامت کا اچھی طرح جاننے والا تھا یعنی اس کو یقین تھا کہ قیامت ہوگی اور وہاں وہ اپنے دشمنوں کو پا بہ زنجیردیکھے گا۔ اس میں یہود پر بھی ایک حجت ہے کیونکہ ان کا ایک گروہ منکرِ قیامت تھا یا وہ یہود نامسعود کی ہلاکت کے وقت کو جانتا تھا۔

اگر ’’نشانی‘‘ بھی تسلیم کیا جائے تو ساعت سے مراد قیامتِ کُبریٰ تو ہو نہیں سکتی۔ جیسا کہ جواب نمبر۱ میں گزر چکا ہے ہاں یہود کی ہلاکت کی گھڑی مراد ہوسکتی ہے اور مطلب یہ بن جائے گا کہ عیسیٰ بن مریم کابے باپ پیدا ہونایا مبعوث ہونا اس بات کا بدیہی نشان تھا کہ سب بنی اسرائیل گندے ہوچکے ہیں اور ان کی ہلاکت دروازے پر کھڑی ہے۔

جواب نمبر۳:۔ ساعت سے مراد ہلاکت بنی اسرائیل کی گھڑی بھی ہوسکتی ہے۔

جواب نمبر۴:۔اگر فی الواقعہ یہ معنی درست ہوتے جو ہمارے دوست کرتے ہیں تو اگلے حصہ(الزخرف:۶۲) کا لانا لغو بن جاتا ہے کیونکہ یہ بات معقولیت سے بعید ہے کہ ابھی وہ نشانی آئی بھی نہیں مگر خدا تعالیٰ آنحضرتؐ کے منکروں کو فرماتا ہے کہ تم اس میں شک نہ کرو۔ ظاہر ہے کہ جب ابھی نشانی نے ایک نامعلوم مدت کے بعد آنا ہے تو ان کو شک سے ابھی کس بنا پر روکا جاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس جگہ مسیح قیامت کی نشانی ہونے کاتذکرہ نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآن مجید کو قیامت کی نشانی ٹھہرایا گیاہے ورنہ یہ حصہ بے معنی بنتا۔

جواب نمبر ۵:۔ کے بعد ہے کہ میری پیروی کرو۔ اگر قیامت کی نشانی مسیح تھے، تو اس کی مناسبت میں یہ فرمانا چاہیے تھا کہ تم اس کی پیروی کرنا۔ یہ کہنے کے کیا معنی کہ میری اتباع کرو۔ اس میں یہ کہہ کر کہ میری پیروی کرو، صاف بتا دیا کہ کوئی مسیح ناصری نہ آئے گا بلکہ تم اے مسلمانو! خود مسیح بنو اور اس کا طریق یہ ہے کہ تم میری اتباع کرو۔

لطیفہ:۔ یہ متنازعہ فیہا آیت سورۃ زخرف کی ہے جس سے استدلال کیا جاتاہے کہ مسیح چونکہ عِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ ہیں اس لئے وہ ضرور قیامت سے پیشتر تشریف لائیں گے لیکن اگر مسیح کو عِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ مان بھی لیا جاوے تب بھی آپ اُمتِ محمدیہ میں نہیں آسکتے۔ کیونکہ اس سورۃ کے آخری رکوع میں اﷲ تعالیٰ نے صاف فرمادیا ہے (الزخرف:۸۶) کہ وہ عِلـمُ السَّاعَۃ جسے تم دوبارہ زمین پر اُتار رہے ہو وہ اب اﷲ کے پاس بیٹھا ہے وہ تو تمہارے پاس ہرگز نہ آئے گا ہاں تم ہی اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پس اس کی انتظار فضول ترک کردو۔

حیات مسیح کی تیسری دلیل

(النساء:۱۶۰)

ترجمہ:۔ اور کوئی اہل کتاب (یہودی) نہیں مگر وہ حضرت عیسیٰ ؑ پر ضرور ایمان لائے گا اس کی موت سے پیشتر، یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کے مرنے سے پہلے سب یہود ایمان لائیں گے۔ چونکہ فی زماننا وہ سب ایمان نہیں لا رہے اس لئے ماننا پڑے گا کہ آپ اسی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں تشریف لاکر کفار سے منوائیں گے۔

جواب:۔ غیر احمدیوں کا مندرجہ بالا استدلال بہ ایں وجوہ باطل ہے۔

و جہ اول:۔ یہ وہ ایمان ہے جس میں اہل کتاب کا ہر فرد شامل ہے کیونکہ لفظ اِنْ مِنْ حصر کے لئے آتے ہیں اور جو ایمان غیر احمدی مراد لیتے ہیں وہ ہزارہا مرنے والے اہل کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ پس اگر یہ معنی ہیں تو اﷲ تعالیٰ ضرور ان سب اہل کتاب کو حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد ثانی تک زندہ رکھتا تا وہ ایمان لے آویں اور خدا کا فرمودہ سچ ثابت ہو لیکن جب ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ معنی ہی غلط ہیں۔

اس جگہ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ سب یہودی ایمان لائیں گے جو اس وقت موجود ہوں گے ۔ تو اوّل تو اس آیت میں اس کا ذکر نہیں۔ دومؔ احادیث میں صاف لکھا ہے کہ اصفہان کے ۷۰ ہزار یہود دجال کے ساتھ ہوں گے جو مارے جائیں گے اور کنزالعمال کتاب القیامۃ من قسم الاوّل الفصل الثالث فی اشراط الساعۃ جلد۷ صفحہ ۱۷۱ مصری۔ مطبوعہ حیدر آباد جلد۷ صفحہ ۱۷۴۔ پر لکھا ہے کہ ۱۲ ہزار یہودی عورتیں حضرت مسیح کا اتباع کریں گی۔ پس یہ معنی بھی غلط ہیں۔

و جہ دوئم:۔ یہ معنی اس لئے غلط ہیں کہ آگے پیچھے اس کے سب یہود کی بدیاں بھری ہوئی ہیں اور جو اِن میں سے نیک ہیں ان کی نیکیوں کا ذکر(النساء: ۱۶۳) سے ہوتا ہے۔ تو اب یہ طریق حکمت کے خلاف ہے کہ ایسی عظیم الشان نیکی کے بعد بھی ان کی بدیاں مذکور ہوں اور معاف نہ کی جائیں۔ پھر جس طرح یہ بات حکمت کے برخلاف ہے اسی طرح یہ قرآن کریم کے طرزِ بیان کے بھی برعکس ہے اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ معنی ہی غلط ہیں۔

و جہ سوم:۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ (النساء:۸۳) کہ اگر یہ قرآن اﷲ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اتنی بڑی کتاب میں ضرور کوئی اختلاف (قوانین قدرت کے مضامین وغیرہ میں ) ہوتا۔ ایسا نہ ہونے کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صداقت پر دلیل بیان فرمایا ہے، لیکن اگر غیر احمدیوں کے معنی صحیح تسلیم کیے جائیں تو قرآن کریم میں اختلاف پڑجاتا ہے کیونکہ اس آیت سے ماقبل فرمایا ہے ’’‘‘ (النساء:۴۷) کہ یہ تھوڑا مانیں گے بلکہ مانیں گے ہی نہیں، لیکن یہاں کہہ دیا کہ ’’سب ایمان لے آئیں گے‘‘ (بقول غیر احمدی صاحبان)۔

و جہ چہارم:۔ خداتعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو فرماتا ہے (اٰل عمران:۵۶) کہ میں تیرے متبعین کو یہود پر قیامت تک غلبہ دوں گا اور پھر فرماتا ہے (المائدۃ: ۱۵) کہ ہم نے ان میں قیامت تک بغض اور عداوت ڈال دی ہے اور پھر المائدۃ:۶۵ میں ہے ……اب ذرا سوچو کہ اگر سب اہل کتاب ایمان لے آئیں اور سب یہودی حضرت عیسیٰ ؑ کے متبع ہوجائیں تو پھر ان پر تا قیامت غلبہ کیونکر؟ اور ان میں بغض و عداوت کیسی؟ پس ماننا پڑے گا کہ یہ معنی ہی غلط ہیں۔

و جہ پنجم:۔ مَوْتِہٖ میں ہٖ کی ضمیر کی بجائے دوسری قراء ت میں ھُمْ کا لفظ آیا ہے جو جمع ہے اور جس سے صرف اہل کتاب ہی مراد لئے جاسکتے ہیں ھُمْ کے لئے دیکھیں عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ قَالَ ھِیَ فِیْ قَرَاءَ ۃِ اُبَیٍّ قَبْلَ مَوْتِھِمْ۔(ابن جریر جلد۶ صفحہ ۱۵) یعنی ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ابی بن کعبؓ کی قراء ت میں مَوْتِہٖ کی جگہ مَوْتِھِمْ آیا ہے۔

قَبْلَ مَوْتِھِمْ کے راوی

غیر احمدی:۔قَبْلَ مَوْتِھِمْ والی قراء ت جو ابن عباسؓ سے مروی ہے کذب محض ہے۔ اس میں دو راوی خصیف اور عتاب بن بشیر مجروح ہیں۔ (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ۵۶۲طبع ۱۹۵۰ء)

جواب:۔ ابن جریر نے ابن عباس سے پانچ روایات قَبْلَ مَوْتِھِمْ والی قراء ت کی نقل کی ہیں جن میں سے چار روایات ایسی ہیں جن میں یہ دونوں راوی نہیں ہیں۔ پس دوسری روایات تو تمہارے نزدیک بھی قابل اعتراض نہ ٹھہریں۔ تو ابن عباس سے مَوْتِھِمْ والی قراء ت ثابت تو ہوگئی۔ اعتراض کیا رہا۔

۲۔ باقی رہی پانچویں روایت جس کے راوی خصیف اور عتاب بن بشیر ہیں تو یہ روایت بھی درست ہے۔ خصیف بن عبدالرحمن کے متعلق لکھا ہے:۔

قَالَ ابْنُ مُعِیْنٍ لَیْسَ بِہٖ بَاْسٌ وَ قَالَ مَرَّۃً ثِقَۃٌ…… قَالَ ابْنُ سَعْدٍ کَانَ ثِقَۃٌ……قَالَ السَّاجِیْ صُدُوْقٌ (تہذیب التہذیب ذکر خصیف بن عبدالرحمن الجرزی) کہ خصیف ثقہ راوی تھا۔ جن لوگوں نے خصیف پر اعتراض کیا ہے ان کے نزدیک وہ روایت جو خصیف سے عبدالعزیز بن عبدالرحمن روایت کرے وہ ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ کیونکہ لکھا ہے وَالْبَلَاءُ مِنْ عَبْدِالْعَزِیْزِ لَا مِنْ خَصِیْفٍ (ایضاً) یعنی نقص عبدالعزیز میں ہے نہ کہ خصیف میں لیکن روایت متنازعہ میں عبدالعزیز راوی نہیں ہے۔

اس طرح اس روایت کا دوسرا راوی عتاب بن بشیر بھی قابل اعتبار اور ثقہ ہے جیسا کہ لکھا ہے:۔

قَالَ عُثْمَانُ الدَّارِمِیُّ عَنْ اَبِیْ مُعِیْنٍ ثِقَۃٌ……کَذَا اَرَّخَہٗ ابْنُ حَبَّانَ فِی الثِّقَاتِ……قَالَ الْحَاکِمُ عَنْ الدَّارِ قُطْنِیْ ثِقَۃٌ (تہذیب التہذیب ذکر عتاب بن بشیر الجرزی) یعنی عتاب بشیر کوابن معین اور ابن حبّان اور دار قطنی نے ثقہ قرار دیا ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
غیر احمدی:۔ ابن جریر میں ابن عباسؓ کا قول قَبْلَ مَوْتِ عِیْسٰی سعید بن جبیر کے طریق سے باسناد صحیح درج ہے۔ بحوالہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۶۲طبع ۱۹۵۰)۔

جواب:۔ ابن جریر میں سعید بن جبیر کے طریق سے صرف دو روایات درج ہیں۔ پہلی روایت محمد بن بشار نے ابن مہدی عبدالرحمن سے اور اس نے سفیان سے اور اس نے ابی حصین سے اور اس نے سعید بن جبیر سے۔ سو یہ روایت ضعیف ہے ۔ کیونکہ لکھا ہے:۔

قَالَ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَیَارٍ سَمِعْتُ عَمْرِو ابْنَ عَلِیٍّ یَحْلِفُ اَنَّ بَنْدَارًا یُکَذِّبُ فِیْمَا یَرْوِیْ عَنْ یَحْیٰ……قَالَ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ عَلِیٍّ ابْنِ الْمَدِیْنِیْ سَمِعْتُ اَبِیْ وَ سَئَلْتُہٗ عَنْ حَدِیْثٍ رَوَاہُ بَنْدَارٌ عَنِ ابْنِ مَھْدِیٍّ……فَقَالَ ھٰذَا کَذِبٌ……فَرَأَیْتُ یَحْیٰ لَا یَعْبَاءُ بِہٖ وَ یَسْتَضْعِفُہٗ قَالَ وَ رَأَیْتُ الْقَوَارِیْرِیَّ لَا یَرْضَاءُ بِہٖ۔ (تہذیب التہذیب الجزء الخامس بیروت لبنان طبع ثانیہ ۱۹۹۵ء صفحہ ۴۸) کہ عبداﷲ بن محمد کہتے ہیں کہ عَمْرو بن علی نے حلف اٹھا کر کہا کہ محمد بن بشار بندار جھوٹ بولتا تھا ان روایات میں جو اس نے یحییٰ سے روایت کی ہیں۔ اسی طرح سے علی بن المدینی سے محمد بن بشار کی ایک روایت جو اب مہدی سے لی ہے پوچھی گئی تو انہوں نے اس روایت کو کذب محض قرار دیا۔ اس طرح یحییٰ بن معین محمد بن بشار کو اچھا نہیں سمجھتے تھے (اس کی پرواہ نہ کرتے تھے) بلکہ اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔ اسی طرح قواریری بھی اسے پسند نہ کرتا تھا۔

یہ تو حال ہے پہلی روایت کا۔ (یاد رہے کہ یہ روایت بھی محمد بن بشار نے ابن مہدی سے روایت کی ہے)۔ دوسری روایت کا ایک راوی ابی بن العباس بن سہل الانصاری ہے جس کے متعلق لکھا ہے:۔

قَالَ اَبُوْ بَشْرِ الدُّوْلَابِیُّ لَیْسَ بِالْقَوِیِّ قُلْتُ وَ قَالَ ابْنُ مُعِیْنٍ ضَعِیْفٌ وَ قَالَ اَحْمَدُ مُنْکِرُ الْحَدِیْثِ۔ وَ قَالَ النَّسَائِیْ لَیْسَ بِالْقَوِیِّ وَ قَالَ الْعُقَیْلِیُّ لَہٗ اَحَادِیْثُ لَا یُتَابَعُ عَلٰی شَیْءٍ مِنْھَا……قَالَ الْبُخَارِیُّ لَیْسَ بِالْقَوِیِّ (تہذیب التہذیب ذکر ابن عباس بن سہل بن سعد الانصاری) کہ ابو بشر الدولابی نے کہا ہے کہ یہ راوی ثقہ نہیں۔ ابن معین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے اور امام احمد کے نزدیک منکرالحدیث تھا اور نسائی نے بھی غیر قوی قرار دیا ہے۔ عقیلی نے لکھا ہے کہ اس راوی کی حدیث قابل اتباع نہیں ہوئی۔ امام بخاری کے نزدیک بھی یہ راوی قوی نہیں ہے۔

ابن جریر میں قَبْلَ مَوْتِ عِیْسٰی والی روایت ابن عباسؓ سے صرف ایک ہی روایت ہے اگرچہ وہ سعید بن جبیر کے طریق سے تو نہیں لیکن پھر بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں بھی یہی ابی ابن العباس راوی ہے جو ضعیف ہے۔

پھر لکھا ہے وَ تَدُلُّ عَلَیْہِ قَرَاءَ ۃُ اُبَیٍّ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِھِمْ بِضَمِّ النُّوْنِ عَلٰی مَعْنٰی وَ اِنْ مِنْھُمْ اَحَدٌ اِلَّا سَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِھِمْ۔ (تفسیر کشاف زیر آیت ) یعنی ان معنوں پر حضرت اُبی بن کعب کی یہ قراء ت دلالت کرتی ہے اِلَّا لَیُؤْمَنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِھِمْ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔

حضرت اُبَی ابن کعب کی قراء ت کی اہمیت بخاری کی اس حدیث سے ظاہر ہے سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ خُذُوا الْقُرْاٰنَ مِنْ اَرْبَعَۃٍ مِنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ فَبَدَأَ بِہٖ وَ سَالَمِ مَوْلٰی اَبِیْ حُذَیْفَۃَ وَ مَعَاذِ ابْنَ جَبَلٍ وَ اُبَیٍّ بْنِ کَعْبٍ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب ابی بن کعبؓجلد۲ صفحہ ۱۹۴مصری) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن شریف حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ، حضرت سالمؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت اُبَی ابن کعبؓ سے سیکھو۔

اب متقی مومن کا فرض ہے کہ وہ دونوں قراء توں کو مدنظر رکھ کر معنے کرے اور وہ یہی ہوں گے کہ یہود کا ہر فرد اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ کے مصلوب ہونے پر ایمان لائے گا اور لاتا ہے ورنہ وہ یہودیت کو ترک کرکے صداقتِ عیسیٰ ؑ کا قائل ہوجائے گا جو باطل ہے۔

و جہ ششم:۔ وَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍؓ قَبْلَ مَوْتِ عِیْسٰی وَ عَنْہُ اَیْضًا قَالَ قَبْلَ مَوْتِ الْیَھُوْدِیِّ……وَ قِیْلَ الضَّمِیْرُ الْاَوَّلُ لِلّٰہِ وَ قِیْلَ اِلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ قَالَ بِہٖ عِکْرَمَۃُ ؓ (فتح البیان زیر آیت ……) کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ عیسیٰ ؑ کی موت سے پہلے اور انہی حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہودی کی موت سے پہلے……اور کہا گیاہے کہ پہلی ضمیراﷲ کی طرف پھرتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آنحضرتؐ کی طرف پھرتی ہے اور حضرت عکرمہؓ کا بھی یہی مذہب ہے۔

اس آیت میں دو ضمیریں ہیں۔ ایک بِہٖ اور دوسری بِھِمْ۔ ان دونوں ضمیروں کے مرجع کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ پہلی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ ؑ، اﷲ، نبی اور قرآن بتائے ہیں اور دوسری ضمیر کا مرجع عیسیٰ ؑ اور کتابی بتاتے ہیں۔ پس یہ دلیل غیر احمدیوں کی تب صحیح ہوسکتی ہے کہ تعیین مرجع میں مسیح پر اتفاق ہوتا لیکن ایسانہیں۔ پس اس قراء ت کے ہوتے ہوئے بھی غیر احمدیوں کے بیان کردہ معنی درست نہیں ہوسکتے۔

و جہ دہم:۔ اس کے بعد فرمایا (النساء: ۱۶۰) کہ وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا یعنی ان کے خلاف گواہی دے گا اور اگر اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ وہ سب مان جائیں گے تو گواہی کیسی اور اس گواہی کی کیا ضرورت؟ کیونکہ گواہی کی ضرورت تو ہمیشہ انکار کے بعد ہوتی ہے۔ قیامت کے ساتھ گواہی کو مخصوص کرنا بتاتا ہے کہ مسیح دنیا میں نہیں آئے گا۔ ورنہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ دنیا میں آکر گواہی دے گا۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے نون ثقیلہ کے معنی حال کے بھی کئے ہیں۔

(النساء: ۷۳) کا ترجمہ ’’کوئی تم میں سے سستی کرتا ہے۔‘‘

(تفسیر ثنائی زیر آیت ……)

نوٹ:۔ بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے جو اس آیت کا ترجمہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قَبْلَ مَوْتِہٖ سے مراد حضرت مسیحؑ کی وفات لیتے تھے لیکن یہ صریحاً مغالطہ ہے۔ حضرت خلیفۂ اول مَوْتِہٖکی ضمیر کا مرجع ’’کتابی‘‘ ہی لیتے تھے اور جو ترجمہ غیر احمدی ’’فضل الخطاب جلد۲ صفحہ ۸۰‘‘ کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں، اس میں ’’اس کی موت سے پہلے‘‘ کے الفاظ ہیں۔ یہ تصریح موجود نہیں کہ اس سے مراد کتابی ہے یا حضرت مسیحؑ۔ ورنہ حضرت خلیفۂ اولؓ کا مذہب وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیاہے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’۔ الخ (النساء:۱۶۰) کا ترجمہ یہ ہے اور نہیں کوئی اہل کتاب مگر ضرور ایمان لائے گا ساتھ اس قتل کے قبل موت اپنی کے۔‘‘

(الحکم جلد ۵ نمبر۳۳۔ مؤرخہ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ۱۱ حاشیہ)

حضرت ابو ہریرہؓ کا اجتہاد

بعض غیر احمدی علماء حضرت ابو ہریرہؓ کا اجتہاد بخاری کے حوالہ سے پیش کیا کرتے ہیں کہ انہوں نے نزولِ مسیح کی حدیث کو وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ والی آیت کے ساتھ منطبق کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت سے نزولِ مسیح ہی مراد ہے نہ کچھ اور۔

جواب: اس کا یہ ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہؓ کا اپنا اجتہاد ہے جو حجت نہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ راوی تو اعلیٰ درجہ کے ہیں مگر مجتہد نہیں۔ ملاحظہ ہو:۔

ا۔وَالْقِسْمُ الثَّانِیْ مِنَ الرُّوَاۃِ ھُمُ الْمَعْرُوْفُوْنَ بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَۃِ دُوْنَ الْاِجْتِھَادِ وَالْفَتْوٰی کَاَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ (اصول نظام الدین اسحاق بن ابراہیم الشاشی البحث الثانی۔ فصل فی اقسام الخبر والقسم الثانی من الرواۃ۔ مطبوعہ نول کشور صفحہ ۴۰۔ و کتب خانہ رشیدیہ دہلی صفحہ ۸۲) کہ راویوں میں سے دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ اور دیانتداری کے لحاظ سے تو مشہور ہیں مگر اجتہاد اور فتویٰ کے اعتبار سے قابل اعتبار نہیں جیسے ابو ہریرہؓ و انس بن مالک۔

ب۔مولانا ثناء اﷲ امرتسری پانی پتی اپنی تفسیر بنام تفسیر مظہری میں تحریر فرماتے ہیں:۔

تَاْوِیْلُ الْاٰیَۃِ بِاِرْجَاعِ الضَّمِیْرِ الثَّانِیْ اِلٰی عِیْسٰی مَمْنُوْعٌ۔ اِنَّمَا ھُوَزَعْمٌ مِنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ لَیْسَ ذٰلِکَ فِیْ شَیْءٍ فِی الْاَحَادِیْثِ(تفسیر مظہری جلد۳ صفحہ ۲۷۳ زیر آیت) یعنی آیت زیر بحث میں ضمیر ثانی (یعنی مَوْتِہٖ کی ضمیر کو) حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف پھیر کر آیت کے معنی کرنا غلط ہے، جائز نہیں۔ یہ تو محض ابوہریرہؓ کا اپنا زعم ہے جواحادیث کے بالمقابل وقعت نہیں رکھتا کیونکہ حدیث سے ایسا ثابت نہیں ہوتا۔

پس اہل اصول اور محدثین کے نزدیک حضرت ابوہریرہؓ ثقہ راوی ہیں اور ان کی روایت درست مگر ان کا اپنا خیال اور قول ہرگز حجت نہیں خصوصاً جبکہ قرآن مجید کی ۳۰ آیات، متعدد احادیث اور رہبرانِ اُمت کے بیسیوں اقوال اس کے خلاف ہوں۔ چنانچہ اسی بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ کا ایک اور اجتہاد درج ہے۔ آنحضرتؐ کی حدیث مَا مِنْ بنی آدم مولودٌ اِلَّا یمسح الشیطان حین یُولَدُ فَیَسْتَھِلُّ صَارِخًا من مَسِّ الشَّیْطان۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قولہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم……و مسلم کتاب الفضائل باب ۱۴۶) (کہ ہر بچہ کو بوقت پیدائش شیطان مس کرتا ہے بجز مریم اور ابن مریم کے، کہ وہ دونوں مسِّ شیطان سے پاک ہیں) کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں۔ فَاقْرَءُ وْا اِنْ شِئْتُمْ اِنِّیْ اُعِیْذُھاَ بِکَ وَ ذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ (بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ آل عمران جلد ۳ مطبع الٰہیہ مصر) کہ آنحضرتؐ کی اس حدیث کے سمجھنے کے لئے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھو کہ حضرت مریم ؑ کی والدہ نے کہا کہ میں مریم اور اس کی ذرّیت کے لئے شیطان الرجیم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔ حالانکہ حضرت ابوہریرہؓ کا یہ اجتہاد قطعی طور پر غلط ہے، کیونکہ حضرت مریم ؑ کی والدہ کی مندرجہ بالا دعا حضرت مریم ؑ کی ولادت کے بعد کی ہے اور حدیث میں جس مس شیطان کی نفی ہے وہ وقتِ ولادت کی ہے۔ پس جس طرح ابو ہریرہ ؓ کا اس آیت کے متعلق اجتہاد مندرجہ بخاری غلط ہے اس طرح ان کا (النساء:۱۶۰) والی آیت کے متعلق اجتہادمندرجہ بخاری بھی غلط ہے اور ناقابلِ استناد۔

اگر ان کا یہ قول (النساء: ۱۵۸) اس ضمیر کا مرجع ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ باوجود اس کے کہ خدا نے یہودیوں کے اس قول کی تردید پوری طرح کردی ہے پھر بھی وہ اپنے اس قول پر ایمان رکھیں گے کہ ہم نے مسیح کو قتل کردیا، ورنہ ان کا مذہب ہی درہم برہم ہوجاتا ہے مثلاً دیکھ لو اگر ایک یہودی حضرت عیسیٰ ؑ کو غیر مصلوب تسلیم کرلے تو پھر وہ آپ پر ایمان لائے گا اور اسی طرح اگر ایک عیسائی مصلوبیت مسیح کو چھوڑدے تو پھر ان کے مذہب کا بھی کچھ نہیں رہتا اور کفارہ مع دیگر اصولوں کے رخصت ہوجاتا ہے۔ پس یہی معنی ہیں۔ ان کے ایمان سے حقیقی اور قابلِ قبول ایمان مراد نہیں۔

حیات مسیح کی چوتھی دلیل

(المائدۃ:۱۸)کہ خدا کو کون روک سکتا ہے اگر وہ عیسیٰ بن مریم کو مارنے کا ارادہ کرے۔ ثابت ہوا ابھی تک خدا تعالیٰ نے ان کو مارنے کا ارادہ نہیں کیا۔

جواب:۔اس کے آگے (المائدۃ:۱۸) بھی پڑھو کہ اگر خدا چاہے عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ اور موجوداتِ ارضی کو ہلاک کرنا۔ تو کیا حضرت مریمؑ بھی زندہ ہیں اور کیا دنیا کی کوئی چیز ہلاک نہیں ہوتی؟ حالانکہ کوئی سیکنڈ اورسکینڈ کا کوئی حصہ نہیں گزرتا جب دنیا میں کوئی جاندار نہیں مرتا۔

اصل مطلب یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو مسیحؑ، مریمؑ اور موجودات ارضی کو جمیعاً (یکدم) ہلاک کردیتا مگر خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ دنیا کو ہلاک کرتا ہے۔ (الانبیاء:۴۵)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حیات مسیح کی پانچویں دلیل

(آل عمران:۴۷) کہ عیسیٰ ؑ مہد اور چالیس سال کی عمر میں کلام کریں گے۔ انہوں نے مہد میں تو کلام کیا مگر ۳۳ سال کی عمر میں چونکہ آسمان پر اٹھائے گئے اس لئے ابھی تک انہوں نے کھلکی عمر میں کلام نہیں کیا۔لہٰذا آسمان سے واپس آکر وہ کھلمیں بھی کلام کریں گے۔

جواب:۔ کَھْلکے معنی لغت سے ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر کے (مجمع البحار جلد۳ صفحہ۲۳۶ زیر لفظ کَھَلَ) بقول تمہارے جب وہ ۳۳ سال کی عمر میں اٹھائے گئے تو تین سال انہوں نے کَھْلمیں بھی کلام کرلیا۔ واپس لانے کی کیا ضروت ہے۔

۲۔ ہم تو احادیث صحیحہ کی بناء پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ۱۲۰ سال تک زندہ رہے، لہٰذا ان کا کَھْلکی عمر میں بھی کلام کرنا ثابت ہوگیا۔


حیات مسیح کی چھٹی دلیل

(اٰل عمران: ۴۹) الکتاب اور اَلحِکمۃ سے قرآن میں ہرجگہ قرآن اور حدیث مراد ہے۔ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ عیسیٰ ؑ کو قرآن و حدیث سکھائے گا۔ آمدِ ثانی ثابت۔

جواب:۔ یہ قاعدہ ہی غلط ہے، قرآن کریم میں ہے (النساء:۵۵) لہٰذا یہ تمہارا خود ساختہ قاعدہ غلط ہے۔

حضرت امام فخرالدین رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

اَلْمُرَادُ مِنَ الْکِتٰبِ تَعْلِیْمُ الْخَطِّ وَالْکِتَابَۃِ ثُمَّ الْمُرَادُ مِنَ الْحِکْمَۃِ تَعْلِیْمُ الْعُلُوْمِ وَ تَھْذِیْبُ الْاَخْلَاقِ (تفسیر کبیر زیر آیت ۔ آل عمران:۴۹) یعنی (تمہاری پیش کردہ آیت میں) کتاب سے مراد خط و کتابت (یعنی لکھنا پڑھنا) اور حکمت سے مراد علوم روحانی و اخلاقی ہیں۔

حیات مسیح کی ساتویں دلیل

(المائدۃ:۱۱۱) یعنی اے عیسیٰ ؑجب میں نے بنی اسرائیل کا ہاتھ تجھ سے روک لیا، اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو یہودیوں کے ہاتھ لگے ہی نہیں۔ اگر یہ مانا جائے کہ وہ صلیب پر لٹکائے گئے اور ان کے ہاتھوں سے خون بہا، اور پھر اس قدر مصیبتیں جھیلنے کے بعد صلیب پر سے زندہ اتارے گئے تو اس سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے۔

جواب:۔ کَفَّ، عَنْ کا جو ترجمہ کیا گیاہے وہ سرا سر غلط ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔

(المائدۃ: ۱۲) کہ اے مسلمانو! تم خدا کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ قوم (کافرین)نے تمہار ی طرف اپنے ہاتھ دراز کرنے کا ارادہ کیا تھا، پس خد انے ا ن کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا۔

کیا جنگوں کے موقعہ پر کبھی کوئی مسلمان زخمی یا شہید نہیں ہوتا تھا، پس درحقیقت کَفِّ یَد سے مراد حقیقی فتح سے کافروں کو روکنا ہے، یعنی یہ کہ کافر مسلمانوں پر حقیقی فتح نہیں پا سکتے ۔

حیات مسیح کی آٹھویں دلیل

(آل عمران: ۵۵) کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تم کو کافروں سے پاک کروں گایعنی کامل طور پر یہودیوں کے ہاتھوں سے بچاؤ ں گا۔ اگر احمدیوں کا مذہب مانا جائے کہ حضرت عیسیٰ ؑ صلیب پر لٹکائے گئے مگر زندہ اتر آئے، تو اس سے اس وعدہ کی تکذیب ہوتی ہے ۔

جواب:۔ تَطْھِیْر سے مراد اس آیت میں کافروں کے الزامات سے بری کرنا ہے نہ کہ ان کے ہاتھوں سے زخمی ہونے سے بچانا۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتاہے۔ (الاحزاب:۳۴) کہ اے اہل بیت اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی کو دور کر ے اور تم کو اچھی طرح پاک کرے۔

اب یہ تو ظاہر ہے کہ ازواج نبوی کے علاوہ حضرت امام حسین ؓ بھی اہل بیت میں سے ہیں۔ ان کی بھی تطہیر ہوئی ؟ کیا ان کو یزیدیوں کے ہاتھ سے جسمانی طور پر کوئی گزند نہیں پہنچا۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے تطہیر کے اور معنے لینا خلاف اسلوب قرآن ہے۔

حیات مسیح کی نویں دلیل

(النساء:۱۷۳)کہ مسیح خدا کی عبادت سے انکار نہیں کر ے گا۔

جواب:۔ ہاں بے شک حضرت مسیحؑ نے خدا تعالیٰ کاعَبْد ہونے سے نہ کبھی پہلے انکار کیا اور نہ خدا کی عبادت کرنے اور کرانے سے قیامت کے دن منکر ہوں گے، چنانچہ دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے:۔

(المائدۃ:۱۱۷) کہ جب اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن حضر ت مسیح سے پوچھے گا کہ کیا آپ نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بنا کر ہماری عبادت کیا کرو؟ تو مسیح اس کے جواب میں کہیں گے۔

(المائدۃ :۱۱۸) کہ میں نے ان سے وہی کچھ کہا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا، یعنی یہ کہ تم بھی اسی اﷲ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے۔ غرضیکہ والی آیت میں جس عدم انکار از عبادت کا ذکر ہے وہ قیامت کے دن ہو گا، جیسا کہ قرآن مجید نے دوسری جگہ خود اس کا ذکر بالتفصیل کر دیا ہے یعنی سورۂ مائدہ آخری رکوع میں جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے۔

لطیفہ

مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے حیاتِ مسیحؑ کی نویں دلیل یہ لکھی ہے۔ ’’قرآن مجید میں جہاں کہیں کسی شخص کو مقرب فرمایا ہے۔ سب جگہ مذکور ساکنینِ آسمان ہیں چنانچہ سور ۃ واقعہ میں جنتیوں کے حق میں لفظ مقرب وارد ہے اور قرآن و حدیث سے ظاہر ہے کہ جنت آسمان پر ہے، دوسرے موقعہ پر حضر ت مسیح کے لیے ’’‘‘ آیا ہے۔ مطلب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر ہیں۔‘‘

(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۷۲،۵۷۳ بار دوم ۱۹۸۹ء مطبع آرٹ پرنٹر لاہور ناشر المکتبۃ السفلیہ لاہور نمبر۲)

احمدی: ۱۔ جنت زمین پر ہویا آسمان پر لیکن ہم یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ فی ا لواقعہ ’’جنتیوں‘‘ میں سے ہیں۔ کیونکہ بقول تمہارے لفظ مقرب جہاں کہیں قرآن مجید میں آیا ہے وہاں اس سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا جنتی۔ حضرت مسیح فرشتے تو نہیں لہٰذا جنتی ضرور ہیں۔ بہرحال ان کی وفات ثابت ہے کیونکہ جنت کے متعلق خدا تعالیٰ فر ماتا ہے (الحجر:۴۹)

۲۔ باقی تمہارا لکھنا کہ ’’قرآن مجید میں مقرب کا لفظ صرف ساکنین آسمان کے لئے آیا ہے۔‘‘ تمہاری قرآن دانی کی دلیل ہے۔ سورہ اعراف اور سورہ شعراء میں فرعون کے جادوگروں کی نسبت (الاعراف :۱۱۵ و الشعرا ء :۴۳) کا لفظ آیا ہے۔ تمہارے نزدیک کیا فرعون کا دربار آسمان پر منعقد ہوتا تھا۔

۳۔ ذرا یہ بھی بتا دینا کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمبھی تمہارے نزدیک اپنی وفات تک اﷲ تعالیٰ کے مقرب تھے یا نہیں ؟

۴۔ حضرت مسیحؑ کے لئے جہاں مقرب کا لفظ آیا ہے ا س کے الفاظ یہ ہیں۔ (آل عمران :۴۶) کہ وہ دنیا میں بھی وجیہہ ہو گا اور آخرت میں بھی وجیہہ اور مقرب ہو گا۔ پس حضرت مسیح کا مقرب ہونا اَلْاٰخِرَۃ کے بعد ہے نہ کہ پہلے۔ لہٰذا اگر تمہارا خود ساختہ قاعدہ مان بھی لیا جائے تب بھی حضرت مسیحؑ کی وفات ہی اس کے ثابت ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کس طرح تم نے اسے حیاتِ مسیحؑ کی دلیل ٹھہرا لیا ہے ؟

غیر احمدی:۔حضرت مسیحؑ کا صلیب پر لٹکایا جانا اس کے ’’وجیہہ‘‘ ہونے کے منافی ہے۔

جواب:۔ جی نہیں! صلیب پر اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مارے جانا بے شک وجاہت کے خلاف تھا۔ کیونکہ عہد نامہ قدیم میں صلیب پر مارے جانے والے کو *** کہاگیا ہے نہ کہ صلیب پر لٹکائے جانے والے کو۔ پس مسیح کا محض صلیب پر لٹکنا اور زخمی ہونا ان کے وجیہہ ہونے کی نفی نہیں کرتا۔آنحضرتؐ کا دانت مبارک جنگِ اُحد میں شہید ہو گیا۔ حضورؐ دشمنوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر بے ہوش ہو گئے،لیکن کیا تمہارے نزدیک حضور صلی اﷲ علیہ وسلم وجیہہ نہ تھے ؟

حیاتِ مسیحؑ کی دسویں دلیل

کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم) کہ اے مسلمانو! تمہاری کیسی خوش قسمتی ہو گی کہ جب تم میں ابن مریم نزول فرما ہوں گے۔

جواب:۔ اس حدیث میں مِنَ السَّمَآءِ کا لفظ تو آیا نہیں۔ ہاں دو لفظ ہیں جن سے ہمارے دوستوں کو مغالطہ لگا ہے۔ ایک نَزَلَاور ایک ابن مریم۔ نزول کے متعلق یاد رہے کہ ا س کے لئے آسمان سے اترنا ضروری نہیں۔ ملاحظہ ہو۔

لفظ نُزُوْل قرآن میں

۱۔(الطلاق:اا،۱۲) کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری طرف محمد رسول اﷲ ؐ کو نازل فرمایا جو تم پر اﷲ کی نشانیاں پڑھتا ہے۔ کیا آپؐ آسمان سے آئے تھے ؟

۲۔ (الزمر:۷)اﷲ نے تمہارے واسطے جانور نازل کئے۔

۳۔(حدید:۲۶) ہم نے لوہا نازل کیا۔

۴۔ (الحجر:۲۲)

اور کوئی چیز بھی نہیں مگرہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور نہیں اتارتے ہم اس کو مگر ایک مقررہ اندازہ پر۔

۵۔(الاعراف:۲۷) ہم نے لباس نازل کیا۔

لفظ نُزُوْل اور احادیث

۱۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَزَلَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ (سنن الکبریٰ للبیہقی کتاب الحج باب النزول بالبحطأ بذی)آنحضرتؐ ایک درخت کے نیچے اترے۔

۲۔کَانَ اِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا فِیْ سَفَرٍ لَمْ یَرْتَحِلْ حَتّٰی یُصَلِّیْ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ۔ (کنز العمال جلد۷ صفحہ۳۸ کتاب شمائل من قسم الاقوال باب آداب السفر حدیث نمبر۱۸۱۵۳) آنحضرتؐ سفر میں مقام کرنے کے بعد دو درکعتیں پڑھ کے کوچ کرتے تھے۔

۳۔ لَمَّا نَزَلَ الْحَجَرَ(فتح الباری شرح بخاری جلد ۸کتاب المغازی باب نزول النبی الحجر) جب آنحضرتؐ حجر کی زمین میں اترے۔

امت محمدیہ کے لئے نُزُوْل کا لفظ

لَتَنْزِلَنَّ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ اَرْضًا یُقَالُ لَھَا الْبَصْرَۃُ (کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۸۰ کتاب القیامۃ من مسلم الاقوال( الاکمال ) حدیث نمبر ۱۸۲۴)میری امت کا ایک گروہ ایک ایسی زمین میں اترے گا جس کانام بصرہ ہوگا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دجال کیلئے نُزُوْل کالفظ

یَاْتِی الْمَسِیْحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ ھِمَّتُہٗ الْمَدِیْنَۃَ حَتّٰی یَنْزِلَ دُبُرَ اُحُدٍ(مشکوٰۃ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال۔ کنز العمال الجز الثانی عشر صفحہ ۱۰۸ کتاب الفضائل فضائل الامکنۃ والازمنۃ حدیث نمبر۳۴۸۵۴) فَیَنْزِلُ بَعْضَ السَّبَاخِ (بخاری کتاب الفتن باب لا یدخل الدجال المدینۃ۔ مشکوٰۃ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال )

ترجمہ:۔ کہ مسیح دجال مشرق کی طرف سے مدینہ کا قصد کرکے آئے گا۔یہاں تک کہ ُاحد کی پیٹھ کی طرف اترے گا (۲) مدینہ کی ایک شور زمین میں اترے گا۔

پس لفظ نزول سے دھوکہ نہ کھانا چاہیئے کہ ضرور حضرت مسیحؑ آسمان سے ہی آویں۔

بیہقی کا مِنَ السَّمَآءِ

نوٹ:۔ اس جگہ بعض جاہل امام بیہقی ۱۳۲۸ھ کی کتاب الاسماء وا لصفات بیروت۔لبنان صفحہ نمبر۴۲۴ سے یہ حدیث پیش کر دیا کرتے ہیں۔ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآءِ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔

اول۔ یاد رہے کہ اما م موصوف اس کے بعد لکھتے ہیں۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیْحِ عَنْ یَحْیٰ بْنِ بَکْرٍ وَ اَخْرَجَہٗ مُسْلِمٌ وَ مِنْ وَجْہٍ اٰخَرَ عَنْ یُوْنُسَ وَ اِنَّمَا اَرَادَ نُزُوْلُہٗ مِنَ السَّمَآءِ بَعْدَ الرَّفْعِ اِلَیْہِ۔صفحہ۴۲۴ کہ اس حدیث کو بخار ی نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے ایک اور و جہ سے یونس ؔ سے لیا ہے اور اس نے ارادہ نزول من السماء کا ہی کیاہے۔

امام کہتا ہے رواہ البخاری۔ بخاری میں راوی اور الفاظ سب موجود ہیں مگر من السماء نہیں ہے پس معلوم ہوا یہ حدیث کا حصہ نہیں۔

دوم۔ اس روایت کا ایک راوی ابو بکر محمد بن اسحاق بن محمد الناقد ہے جس کے متعلق لکھا ہے کَانَ یَدَّعِی الْحِفْظَ وَ فِیْہِ بَعْضُ التَّسَاھُلِ۔ (لسان المیزان حرف المیم۔ ابن حجر)کہ اس راوی میں تساہل پایا جاتا ہے۔ پس من السماء کے الفاظ کا اضافہ بھی اس راوی کا تساہل ہے اصل حدیث کے الفاظ نہیں۔ اس طرح اس روایت کا ایک اور راوی احمد بن ابراہیم بھی ضعیف ہے۔ دیکھو لسان المیزان حرف الالف۔ پس من السماء حجت نہیں۔

علاوہ ازیں اس روایت کا راوی یحییٰ بن عبدا ﷲ ہے ا س کے متعلق لکھا ہے۔ قَالَ اَبُوْ حَاتَمٍ…… لَایُحْتَجُّ بِہٖ…… وَ قَالَ النَّسَائِیْ ضَعِیْفٌ…… لَیْسَ بِثِقَۃٍ قَالَ یَحْیٰی…… لَیْسَ بِشَیْءٍ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۱۱صفحہ ۲۳۷،۲۳۸ و میزان الاعتدال از ابوعبداﷲ محمد بن احمد بن عثمان الذّھبی جلد ۲ صفحہ۲۹۴،۲۹۵ الطبعۃ الاولیٰ ۱۳۲۵ھ حرف الیاء مطبع طبع بمطبعۃ السعادۃ بجواد محافظۃ مصر )

اس طرح ا س روایت کاایک اور راوی یونس بن یزید بھی ضعیف ہے۔ یہ روایت یونس بن یزید نے ابن الشہاب الزہری سے روایت کی ہے اور اس کے متعلق لکھا ہے کہ قَالَ اَبُوْ زَرْعَۃُ الدَّمَشْقِیْ سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِاللّٰہِ اَحْمَدَ ابْنَ حَنْبَلٍ یَقُوْلُ فِیْ حَدِیْثِ یُوْنُسَ عَنِ الزُّھْرِیْ مُنْکَرَاتُ…… قَالَ ابْنُ سَعْدٍ…… لَیْسَ بِحُجَّۃٍ…… کَانَ سَیِّیءَ الْحِفْظِ۔(تہذیب التہذیب جلد ۱۱ صفحہ ۴۵۱۔۴۵۲حرف الیاء) کہ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا ہے کہ یونس کی ان روایت میں جو زُہری سے اس نے روایت کی ہیں منکرات ہیں۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ یونس قابلِ حجت نہیں ہے اور وکیع کہتے ہیں کہ اس کا حافظہ خراب تھا۔

اس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے کَانَ یُدَلِّسُ فِی النَّادِرِ (میزان الاعتدال از ابوعبداﷲ محمد بن احمد بن عثمان الذّھبی زیر لفظ یونس بن یزید )کہ کبھی کبھی یہ تدلیس سے کام لیا کرتا تھا۔ پس اس راویت میں بھی من السماء کے الفاظکی ایزا د بھی اس کے حافظہ کی غلطی یا تدلیس کا نیتجہ ہو سکتی ہے۔

سوم۔ بیہقی کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ ۱۳۲۸ھ میں چھپا ہے۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ بلکہ وفات کے بعد۔ اس لیے مولویوں نے اس میں منَ السماء کا لفظ اپنے پاس سے ازراہِ تحریف اور الحاق زائد کر دیا ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام جلا ل الدین سیوطی ؒ نے بیہیقی سے اس حدیث کو نقل کیاہے مگر اس میں من السماء کا لفظ نہیں۔ چنانچہ وہ اپنی تفسیر (درمنثور از علامہ جلال الدین سیوطیؒجلد ۲ صفحہ ۲۴۲) پر اس حدیث کو یوں بیان کرتے ہیں:۔

وَ اَخْرَجَ اَحْمَدُ وَالْبُخَارِیُّ وَالْمُسْلِمُ وَالْبَیْہَقِیُّ فِی الْاَسْمَاءِ وَالصِّفَاتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ وَ اِمَا مُکُمْ مِنْکُمْ (در منثور جلد از علامہ جلال الدین سیوطیؒ۲ صفحہ ۲۴۲)

اما م مذکور کا باوجود اس محولہ بالا روایت کو دیکھنے کے مِنَ السَّماءِ چھوڑ دینا بتاتا ہے کہ یہ حدیث کا حصہ نہیں، بعدکی ایزا د ہے۔ بہرحال حدیث نہیں۔ فَانْدَفَعَ الشَّکُّ مِنْہُ۔

حیاتِ مسیحؑ کی گیارہویں دلیل

حدیث میں ہے اِنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ(جامع البیان ابن جریر جلد۶ صفحہ ۱۹)کہ یقینا عیسیٰ ؑ نہیں مرے۔

جواب۔ ابن جریر بلحاظ حوالہ حدیث قابل استناد نہیں بو جہ ذیل:۔

شاہ عبدالعزیز صاحب محدثِ دہلوی ؒ اپنی تصنیف عجالہ نافعہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اس طبقہ میں وہ حدیثیں ہیں جن کانام و نشان پہلے قرنوں میں معلوم نہیں تھا اور متاخرین نے روایت کی ہیں تو ان کا حال دو شقوں سے خالی نہیں۔ یا سلف نے تفحص کیا اور ان کی اصل نہ پائی کہ ان کی روایت سے مشغول ہوتے یا ان کی اصل پائی اور ان میں قدح و علّت دیکھی کہ روایت نہ کی اور دونوں طرح یہ حدیثیں قابل اعتما د نہیں کہ کسی عقیدہ کے اثبات پر عمل کرنے کو ان سے سند لیں۔ اس قسم کی حدیثوں نے بہت سے محدثین کی راہزنی کی ہے۔ اس قسم کی حدیثوں کی کتابیں بہت تصنیف ہوئی ہیں۔ تھوڑی سی ہم بیان کرتے ہیں:۔ ‘‘

کتاب الضعفاء لابن حبان۔ تصانیف الحاکم۔ کتاب الضعفاء للعقیلی، کتاب الکامل لابن عدی، تصانیف خطیب۔ تصانیف ابن شاہین اور تفسیر ابن جریر (عجالہ نافعہ از عبدالعزیز محدّث دہلوی نور محمد کارخانہ تجارتِ کتب۔ آرام باغ۔ کراچی صفحہ۵)

مراسیل حسن بصری ؒ

۲۔ یہ روایت مرفوع متصل نہیں بلکہ مرسل ہے اور حضرت حسن بصری ؒ سے مروی ہے جو تا بعی تھے صحابی نہ تھے۔ مراسیل حسن بصری ؒ کے متعلق لکھا ہے:۔

مَا اَرْسَلَ فَلَیْسَ بِحُجَّۃٍ (تہذیب التہذیب حرف الحاء۔ زیر لفظ الحسن)یعنی حسن بصری کی مرسل روایت حجت نہیں ہوتی۔ لہٰذا لَمْ یَمُتْ والی روایت بھی حجت نہیں۔ حضرت احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں:۔ لَیْسَ فِی الْمُرْسَلَاتِ اَضْعَفُ مِنَ الْمُرْسَلَاتِ الْحَسَنَ۔

(تہذیب التہذیب از احمد بن حجر عسقلانی ؒمتوفی ۸۵۴ھزیر لفظ عطاء بن ابی رباح )

غیر احمدی:۔حضرت حسن بصری ؒ کی مرسل میں تو وہی کلا م کرے جس کو ان کے اقوال کا پورا علم نہ ہو۔ کیونکہ حسن بصری ؒ نے جس قدر روایات صحابی کا نام لئے بغیر آنحضرتؐ سے کی ہیں وہ سب کی سب انہوں نے حضرت علی ؓ سے لی ہیں، لیکن حجاج بن یوسف کے خوف سے انہوں نے حضر ت علی ؓ کا نام نہیں لیا۔

جواب نمبر ۱:۔ یہ تو حضرت حسن بصری ؒ پر کسی انسان کے خوف سے حق نہ کہنے کا الزام ہے۔ نمبر ۲ یہ ثابت ہے کہ حضرت حسن بصری ؒ نے حضرت علیؓ سے ایک حدیث بھی نہیں سنی۔ ملاحظہ ہو۔

سُئِلَ اَبُوْ زَرْعَۃِ ھَلْ سَمِعَ الْحَسَنُ اَحَدًا مِنَ الْبَدْرِیِّیْنَ قَالَ رَآھُمْ رُؤْ یَۃً رَأْیَ عُثْمَانَ وَ عَلِیًّا قِیْلَ ھَلْ سَمِعَ مِنْھُمَا حَدِیْثًا قَالَ لَا۔ (تہذیب التہذیب زیر لفظ الحسن) یعنی ابو زرعہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا حضرت حسن بصری نے کسی بدری صحابیؓ کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کو صرف ایک نظر دیکھا ہے۔ پوچھا گیا کہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ یا حضرت علی ؓ سے کوئی حدیث بھی سنی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس طرح لکھا ہے:۔

مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ اَحَدٍ مِنْ اَھْلِ بَدْرٍ مُشَافَھَۃً……قَالَ التِّرْمَذِیُّ لَا یُعْرَفُ لَہٗ سِمَاعٌ مِنْ عَلِیٍّ(تہذیب التہذیب زیر لفظ الحسن) کہ حضرت حسن بصری ؒ نے کسی بدری صحابی سے بھی کوئی حدیث نہیں سنی۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ حسن بصری کا حضرت علی ؓ سے کوئی حدیث سننا ثابت نہیں۔

۳۔ علامہ شوکانی لکھتے ہیں:۔ فَاِنَّ اَئِمَّۃَ الْحَدِیْثِ لَمْ یَثْبِتُوْا لِلْحَسَنِ مِنْ عَلِیٍّ سِمَاعًا (کتاب فوائد المجوعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ ۸۳ مطبع محمدی لاہو ر)کہ ائمہ حدیث کے نزدیک حضرت علی ؓ سے حضرت حسن بصری ؒ کا کوئی حدیث سننا ثابت نہیں۔ (نیز دیکھو تکملہ مجمع البحار جلد ۳ صفحہ ۵۱۸)

۴۔ اس روایت کے چار راوی ضعیف ہیں (۱) اسحاق بن ابراہیم بن سعید المدنی نے اس کے متعلق لکھا ہے۔ قَالَ اَبُوْ ذَرْعَۃٍ مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ لَیْسَ بِقَوِیٍّ وَقَالَ اَبُوْ حَاتِمٍ لِیْنُ الْحَدِیْثِ (تہذیب التہذیب زیر لفظ ابو زرعۃو میزان الاعتدال زیر لفظ ابو زرعۃ)کہ ابو زرعہ نے کہا ہے کہ اس راوی کی حدیث قابل انکار ہے اور قوی راوی نہیں ہے۔ ابو حاتم نے کہا کہ اس کی روایت کمزو ر ہوتی ہے۔

(۲) دوسرا راوی عبداﷲ بن ابی جعفر عیسیٰ بن ماہان ہے۔ اس کی نسبت لکھا ہے۔ قَالَ عَبْدُالْعَزِیْزِ ابْنِ سَلَامٍ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ ابْنَ حُمَیْدٍ یَقُوْلُ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ اَبِیْ جَعْفَرَ کَانَ فَاسِقًا……یُعْتَبُرَ حَدِیْثُہٗ مِنْ غَیْرِ رَوَایَتِہٖ عَنْ اَبِیْہِ وَ قَالَ السَّا جِیُ فِیْہِ ضُعْفٌ(تہذیب التہذیب از احمد بن حجر عسقلانی ؒزیر لفظ عبداﷲ بن ابی جعفر و میزان الاعتدال زیر لفظ عبداﷲ بن ابی جعفر عیسیٰ بن ماہان )یعنی عبدالعزیز بن سلام کہتے ہیں کہ یہ راوی فاسق تھا اور جو روایت یہ اپنے باپ سے کرے وہ لائق اعتبار نہیں ہو تی اور ساجیؔ نے کہا ہے کہ اس راوی کی روایت کمزور ہے۔ یا درکھنا چاہئے کہ لَمْ یَمُتْ والی روایت اس راوی نے اپنے باپ سے ہی روایت کی ہے لہٰذا یہ روایت تو بہرحا ل مردود ہے۔

(۳) تیسرا راوی اس دوسرے راوی عبداﷲ کا باپ ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان ہے۔ اس کے تعلق لکھا ہے۔ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ اَحْمَدَ عَنْ اَبِیْہِ لَیْسَ بِقَوِیٍّ فِی الْحَدِیْثِ……قَالَ عُمَرُ ابْنُ عَلِیٍّ فِیْہِ ضُعْفٌ……قَالَ النَّسَائِیْ لَیْسَ بِالْقَوِیِّ (تہذیب التہذیب زیر لفظ ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان و میزان الاعتدال)یعنی امام احمد کے نزدیک یہ راوی قوی نہیں، عمر بن علی کے نزدیک ضعیف ہے اور نسائی اور عجلی کے نزدیک بھی قوی نہیں۔ نیز اس راوی کو خطا کار اور سییٔ الحفظ بھی کہا گیا ہے۔

(۴) چوتھا راوی ربیع بن انس البکری المصری ہے، اس کے متعلق لکھا ہے۔ قَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ کَانَ یَتَشَیَّعُ فَیُفْرِطُ……النَّاسُ یَتَّقُوْنَ مِنْ حَدِیْثِہٖ مَا کَانَ مِنْ رَوَایَۃِ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَنْہُ لِاَنَّ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنْہُ اِضْطِرَابًا کَثِیْرًا (تہذیب التہذیب از احمد بن حجر عسقلانی ؒزیر لفظ ربیع بن انس البکری المصری) کہ یہ راوی غالی شیعہ تھا اور جو روایت اس سے ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان کرے، اس روایت سے لوگ بچتے ہیں کیونکہ ایس روایت سخت مخدوش ہوتی ہے ظاہر ہے کہ یہ لَمْ یَمُتْ والی روایت وہ ہے جو اس راوی سے ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان نے کی ہے لہٰذا قابلِ توجہ نہیں۔

پس اول تو یہ روایت مرسلاتِ حسن سے ہے اور اس و جہ سے حدیث مرفوع متصل نہیں۔ دوسرے اس کے پانچ میں سے چار راوی ضعیف اور غیر ثقہ ہیں اور بعض شیعہ بھی۔ پس سخت جھوٹی اور جعلی ہے۔

حیات مسیح کی بارہویں دلیل

اِنَّ عِیْسٰی یَاْتِیْ عَلَیْہِ الْفَنَاءُ۔

(جامع البیان ابن جریر جلد ۳ صفحہ۱۶۳ الطبعۃ الثالثۃ ۱۹۶۸ء مطبع مصطفیٰ البابی الحلبی مصر)

جواب۔ اس روایت کے راوی بھی وہی ہیں جو اِنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ(جامع البیان ابن جریر جلد ۶ صفحہ ۱۹) والی روایت کے ہیں یعنی اسحاق بن ابراہیم بن سعید، عبداﷲ بن ابی جعفر ابو جعفر عیسیٰ بن ماہان اور ربیع بن انس۔ جن پر جرح پچھلی روایت پر بحث کے ضمن میں درج ہو چکی ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حیاتِ مسیحؑ پر تیرہویں دلیل

یُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِیْ(۱۔ مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ علیہ السلام بروایت ابن جوزی فی الکتاب الوفاء۔ ۱۔ مطبع مجیدی صفحہ ۴۸۰، ۲۔ مطبع احمدی صفحہ ۴۷۲)(۲۔شرح لشرح العقائد المسمّٰی بالنبراس از حافظ محمد عبداالعزیز الفرھاروی۱۳۱۳ھ صفحہ ۵۸۶ )

جواب۔ اس کے د س۱۰ جواب ہیں۔

(۱) فرض کرو کہ آج حضرت عیسیٰ ؑ آسمان سے نازل ہو کر مدینہ میں تشریف لے جا کر فوت ہوجائیں تو آنحضرتؐ کی قبر مبارک کو کو ن سا سعید الفطرت مسلمان اکھاڑے گا؟ ہاں ممکن ہے کوئی احراری تیار ہو جائے۔

(۲) حضرت عائشہ صدیقہؓ کاخواب اس حدیث کے ظاہری معنی لینے سے روکتا ہے جو یہ ہے۔ ’’اِنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ رَأَ یْتُ ثَلَاثَۃَ اَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِیْ حُجْرَتِیْ فَقَصَصْتُ رُءْ یَایَ عَلٰی اَبِیْ بَکْرِ الصِّدِّیْقِؓ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ دُفِنَ فِیْ بَیْتِھَا قَالَ لَھَا اَبُوْ بَکْرٍ ھٰذَا اَحَدُ اَقْمَارِکَ وَھُوَ خَیْرُھَا (مؤطا امام مالک جلد ۱ صفحہ ۱۲۱ مصری)کہ حضرت اُمّ المومنین عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تین چاند میرے حجرہ میں گرے ہیں۔ میں نے اپنا یہ خواب اپنے والد صاحب ابو بکر صدیق ؓ سے بیان کیا۔ پس جب آنحضرتؐ فوت ہوئے اور حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں مدفون ہوئے تو حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ یہ تیرے تین چاندوں میں سے ایک ہے جو سب سے بہتر ہے۔۔ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد حضر ت ابوبکرؓ و عمرؓ فوت ہوئے اور اسی حجرہ میں مدفون ہوئے۔ گویا حضرت عائشہؓ کے خواب کے مطابق تین چاند ان کے حجرہ میں گر چکے اب اگر حضرت عیسیٰ بھی اس میں مدفون ہوں تو حضرت عائشہ کا خواب غلط ہوتا ہے۔

(۳) آنحضرتؐ نے فرمایااَنَا اَوَّلُ مَنْ یُّتَشَقُّ عَنْہُ الْقَبَرُ(مسلم کتاب الفضائل باب فضل نسب النبیؐ) میری خصوصیت یہ ہے کہ میں پہلا انسان ہوں گا جس کی قیامت کے دن قبر پھاڑی جائے گی۔ اب اگر حضرت عیسیٰ ؑ بھی حضورؐ کی قبر میں ساتھ ہی مدفون ہوں تو جس وقت آنحضرتؐ کی قبر پھاڑی جاوے گی تو وہ بھی اس خصو صیت میں شامل ہو جائیں گے۔

(۴) ترمذی میں ہے کہ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْ ُل اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَا اَوّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْاَرْضُ ثُمَّ اَبُوْ بَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ اٰتِیْ اَہْلُ البَقِیْعِ فَیُحْشَرُوْنَ۔ (ترمذی ۔ ابواب المناقب بَابِ اَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْاَرْضُ ثُمَّ اَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ)کہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں پہلا انسان ہوں کہ جس کی زمین (قبر)پھاڑی جائے گی۔ پھر میرے بعد ابو بکرؓ اورابو بکرؓ کے بعد عمرؓ اور عمرؓ کے بعد جنت البقیع کے باقی مومن۔ پس سب اکٹھے کئے جائیں گے۔

اگر حضر ت عیسیٰ ؑ نے بھی آنحضرتؐ کی قبر میں یا بقولِ شما حضورؐ کے روضہ میں دفن ہونا ہوتا تو دوسرے تیسرے یا کم از کم چوتھے نمبر پر ہی ان کا نام آجاتا۔ آنحضرتؐ نے اپنے روضہ (حجرہ عائشہؓ) میں مدفون ہونے والے اپنے سمیت ’’تینوں چاندوں‘‘کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے بعد جنت البقیع (قبرستان )میں مدفون صحابہؓ کا ذکر فرمایاہے اور حضرت عیسیٰ ؑ کا نام نہیں لیا۔پس یہ اس بات کی قطعی شہادت ہے کہآنحضرتؐ کی مدینہ والی قبر میں یا حضورؐ کے روضہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے دفن ہونے کی کوئی صور ت نہیں۔

(۴۔) ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ میں تیسرے دن کے بعد اپنی قبر میں نہ رہوں گا تو جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر میں حضرت عیسیٰ بقول تمہارے مدفون ہوں گے تو اس وقت تو آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم وہاں موجود نہ ہوں گے تو پھر معی کی شرط پوری نہ ہوئی۔

(۵) تم لوگ کنز العمال جلد ۱۱ ابواب فی فضائل سائرالانبیاء حدیث نمبر۳۲۲۳۲) کی روایت پیش کرتے ہو کہ مَا تَوَفَّی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیًّا اِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ۔کہ نبی جہاں مرتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔ (اور اسی و جہ سے حضرت مرزا صاحبؑ پر اعتراض کیا کرتے ہو اور اس کا جواب دوسری جگہ دیا ہے )اور تم مانتے ہو کہ اسی بناء پر آنحضرتؐ چونکہ حجرہ عائشہ میں فوت ہوئے اور اسی میں مدفون بھی ہوئے۔ تو اب اگر حضرت عیسیٰ ؑ واقعی آسمان سے آجائیں تو کیا وہ آنحضرتؐ کی قبر مبارک کے اند ر جا کر فوت ہوں گے۔

(۶) اسی حدیث میں ہے کہ فَاَقُوْمُ اَنَا وَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ فِیْ قَبْرٍ وَاحِدٍ بَیْنَ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ (کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۱۹۹ )پھر میں اور عیسیٰ بن مریم ایک ہی قبر میں جو ابو بکرؓ اور عمرؓ کے درمیان ہو گی کھڑے ہوں گے تو گویا اس کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ جس قبر میں مدفون ہوں گے وہ ابو بکرؓ و عمرؓ کی قبروں کے درمیان ہونی چاہیئے۔ اور ظاہرہے کہحضرت ابو بکرؓ و عمرؓ کی قبروں کے درمیان کوئی جگہ موجو د نہیں ہے۔

(۷)۔الف۔ اگر کہو کہ قبر سے مراد مقبرہ ہے تو یہ کسی لغت کی کتاب سے دکھاؤ اور انعام لو۔ بؔ۔اندریں صورت فَاَقُوْمُ اَنَا وَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ فِیْ قَبْرٍ وَاحِدٍ بَیْنَ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ (کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۱۹۹)قبر کا ترجمہ مقبرہ کرو گے ؟ کیا حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمر ؓ کے درمیان ایک مقبرہ ہو گا ؟

ج۔ مقبرہ تو کہتے ہی ’’مَوْضِعُ الْقُبُور‘‘ (المنجد لفظ مقبرہ )کو ہیں۔ پھر قبر کس طرح مقبرہ بن سکتی ہے ؟

د ؔ۔جب تم خود اس حدیث کے لفظی معنی نہیں کرتے بلکہ غلط تاویل کرتے ہو تو ہمارے لئے کیوں ناجائز ہے کہ ہم قرآن شریف و حدیث اور واقعا ت کی روشنی میں اس کے صحیح معنی بیان کریں ؟

(۸)قرآن مجید میں ہے ……(عبس:۱۸ تا ۲۲)گویا ہر انسان خواہ وہ ہندو ہو خواہ پارسی مر کر ’’قبر‘‘ میں ہی جاتا ہے پھر بتاؤ کہ وہ لوگ جن کی لاشیں جلا دی جاتی ہیں یا جن کو درندے کھا جاتے ہیں، یا جن کو مچھلیاں سمندر میں کھا جاتی ہیں کیا وہ بھی اس آیت کے مطابق قبرؔ میں جاتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں جاتے تو ثا بت ہوا کہ (۱) وہ انسان نہیں (۲)ان (غیر مسلموں )کو عذابِ قبر نہیں ہو گا۔ اور اگر کہو کہ قبر میں جاتے ہیں تو ثابت ہوا کہ قبر سے مراد ظاہری قبر کی مٹی نہ رہی بلکہ کوئی روحانی حالت ’’قبر‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی۔ پس کیوں ’’قبر‘‘ کے وہی معنی یُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِیْ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ بروایت ابن جوزی فی الکتاب الوفامطبع مجید کانپور صفحہ ۴۸۰ و مطبع احمدی دہلی صفحہ ۴۷۲) والی حدیث میں نہ لئے جائیں۔ اس طرح حدیث میں بھی آتا ہے۔ اَلْقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْحُفْرَۃٌ مِنْ حُفْرِ النِّیْرَانِ(ترمذی۔ ابواب صفۃ القیامۃ نمبر۲۶ بروایت ابی سعید مطبوعہ نول کشور صفحہ ۱۸۲) کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔

(۹) اگر آج حضرت عیسیٰ ؑ آجائیں تو کیا تم اس وقت تک ایمان نہ لاؤ گے جب تک کہ وہ مر کر آنحضرتؐ کی قبر میں مدفون نہ ہو جائیں ؟

(۱۰) اگر اس حدیث میں عیسیٰ بن مریمؑ سے مسیح ناصری مراد لیتے ہو تو پھر اسی حدیث سے ثابت ہوا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ کیونکہ آنحضرتؐ نے فرمایا یُدْفَنُ مَعِیَ کہ وہ آنحضرتؐکے ساتھ ہی دفن کر دیئے گئے گو یا آنحضرتؐ نے فرمایا کہ دینا میں اگر کسی انسان کو اﷲ تعالیٰ اتنالمبا زمانہ زندہ رکھتا تو یقینا ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہوتے۔ آپؐ سے زیادہ خدا کو اور کون پیارا ہے ؟ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔(الانبیاء:۳۵)کہ خدا تعالیٰ کی غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ آنحضرتؐ تو فوت ہو جائیں اور آپ سے پہلے انبیاء اتنا عرصہ زندہ رہیں۔ پس آنحضرتؐ نے فرما دیا کہ یاد رکھو جب تم مجھ کو دفن کر رہے ہو گے تو اسی وقت یہ ثابت ہو جائے گا کہ پہلا کوئی نبی زندہ نہیں رہا۔(المائدۃ:۷۶)کم از کم اس وقت تو مانو گے کہ عیسیٰ ؑ بھی زندہ نہیں گویا عیسیٰ ؑ میرے ساتھ ہی دفن ہو جائیں گے۔ (فَافْھَمْ اَیُّھَا الْعَاقِلُوْنَ)۔

حیاتِ مسیح کی چودہویں دلیل

ترمذی ابواب المناقب باب ما جاء فی فضل النبی صلی اﷲ علیہ و سلم پر ایک روایت ہے جس میں عبداﷲ بن سلامؓ نے اپنے دادا سے یہ روایت کیا ہے کہ قَالَ مَکْتُوْبٌ فِی التَّوْرٰۃِ صِفَۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ یُدْفَنُ مَعَہٗ قَالَ فَقَالَ اَبُوْ مَوْدُوْدٍ قَدْ بُقِیَ فِی الْبَیْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ۔ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ۔

جواب نمبر ۱:۔ یہ آنحضرتؐ کاقول نہیں اس لئے حجت نہیں۔

۲۔ خود ترمذی نے اسے ’’غریب‘‘ قرار دیا ہے۔

۳۔ اس کا ایک راوی مسلم بن قتبیہ ہے۔اس کے متعلق علامہ ذہبی فرماتے ہیں۔ قَالَ اَبُوْ حَاتَمٍ کَثِیْرُ الْوَھْمِ (میزان الاعتدال زیر لفظ مسلم بن قتیبۃ)کہ یہ بڑا وہمی آدمی تھا۔ اس روایت کا دوسرا راوی عثمان بن اضحاک ہے ا س کے متعلق لکھا ہے۔ وَ قَالَ الْاَجْرِیُّ سَأَلْتُ اَبَا دَاوٗدَ عَنِ الضِّحَاکِ مِنْ عُثْمَانَ الْخَرَامِیْ فَقَالَ ثِقَۃٌ وَابْنُہٗ عُثْمَانُ ضَعِیْفٌ(تہذیب التہذیب زیرلفظ عثمان بن عبداﷲ از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ) کہ ابو داؤد کہتے ہیں کہ عثمان بن ضحاک خود ضعیف ہیں لیکن اس کا باپ ثقہ تھا۔ نیز دیکھو میزان الاعتدال ذکر عثمان بن اضحاک بن عبداﷲ ضَعَّفَہٗ اَبُوْ دَاوٗدَ کہ اسے ابو داؤ د نے ضعیف قرار دیا ہے۔

نوٹ:۔ اس راوی کا باپ بھی بعض محدثین کے نزدیک ثقہ نہ تھا۔چنانچہ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ذکر عثمان بن ابی صفیۃ الانصاری۔ فَیْ حَدِیْثِہٖ ضُعْفٌ…… قَالَ اَبُوْ حَاتَمٍ لَا یَحْتَجُ وَ قَالَ اَبُوْ زَرْعَۃٍ لَیْسَ بِالْقَوِیِّ اسی طرح ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒذکر عثمان بن ابی صفیۃ جہاں لکھا ہے قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ کَانَ کَثِیْرُ الْخَطَاءِ لَیْسَ بِحُجَّۃٍ اسی طرح اس روایت کا تیسرا راوی محمد بن یوسف بن عبداﷲ بن سلام ہے۔ اس کے متعلق لکھا ہے ذَکَرَلَہٗ الْبُخَارِیُّ حَدِیْثًا وَقَالَ لَا یُتَابَعُ عَلَیْہِ وَلَا یَصِحُّ(تہذیب التہذیب ذکر محمد بن یوسف بن عبداﷲ بن سلام)کہ اس روای سے امام بخاری نے ایک حدیث نقل کی ہے اور امام بخاری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ یہ راوی قابلِ اتباع نہیں اور نہ ثقہ ہے۔

پس چونکہ اس روایت کے تین راوی غیر معتبر ہیں لہٰذا حجت نہیں۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حیاتِ مسیحؑ کی پندرہویں دلیل

ابن ما جہ موقوفاً اور مسند احمد میں مرفوعاً مروی ہے کہ معراج کی رات انبیاء کی چار کونسل میں جب قیامت کا ذکر ہوا تو حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا۔ فَذَکَرَ خُرُوْجَ الدَّجَّالِ قَالَ فَاَنْزِلُ وَ اَقْتُلُہٗ (سنن ابن ما جہ باب فتنہ الدجال و خروج عیسیٰ بن مریم عن عبداﷲ بن مسعود )(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۳۳)

جواب نمبر :ا۔ یہ عبداﷲ بن مسعودؓ کا قول ہے حدیثِ نبویؐ نہیں۔

۲۔ اس روایت کا پہلا راوی محمد بن بشار بن عثمان البصری بندا ر ہے جس کے متعلق لکھا ہے قَالَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ ابْنُ سَیَّارٍ سَمِعْتُ عَمَرَو ابْنَ عَلِیٍّ یَحْلِفُ اِنَّ بِنْدَارًا یَکْذِبُ فِیْمَا یَرْوِیْ عَنْ یَحْیٰی……قَالَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَلِیٍّ ابْنُ الْمَدِیْنِیْ سَمِعْتُ اَبِیْ وَ سَأَلْتُہٗ عَنْ حَدِیْثٍ رِوِاہُ بِنْدَارٌ عَنِ ابْنِ الْمَھْدِیِّ……فَقَالَ ھٰذَا کَذِبٌ وَ اَنْکَرَہٗ اَشَدَّ الْاَنْکَارِ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ الدَّورقِیُّ……فَرَأَیْتُ یَحْیٰی لَا یَعْبَاءُ بَہٖ وَ یَسْتَضْعِفُہٗ قَالَ وَ رَأَیْتُ الْقَوِارِیْرِ یَّ لَا یَرْضَاءُ بِہٖ۔ (تہذیب التہذیب ذکر محمد بن بشار بن عثمان البصری بندار)

یعنی عمرو بن علی نے حلف اٹھا کر کہا کہ یہ راوی ہر اس روایت میں جو وہ یحییٰ سے روایت کرتا ہے جھوٹ بولتا تھا۔ علی بن المدینی نے اس راوی کی اس روایت کی جو اس نے ابن مہدی سے لی ہے کذب قرار دیا۔ یحییٰ ابن معین نے اس راوی کو بے وقعت اور ضعیف قرار دیا ہے اور اسے قواریری نے بھی پسندیدہ راوی قرار نہیں دیا۔ اسی طرح اس روایت کا دوسرا راوی یزید بن ہارون ہے، اس کے متعلق یحییٰ بن معین کا قول یہ ہے کہ یَزِیْدٌ لَیْسَ مِنْ اَصْحَابِ الْحَدِیْثِ لِاَنَّہٗ لَا یُمَیِّزُ وَلاَ یُبَالِیْ عَمَّنْ رَوٰی۔ (تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی زیر لفظ یزید بن ھارون)کہ یہ راوی تو حدیث کے جاننے والوں میں سے تھا ہیں نہیں۔ کیونکہ نہ یہ تمیز کرتا تھا اور نہ پرواہ کرتا تھا کہ کس سے روایت لے رہا ہے۔ پس یہ ’’چار کونسل‘‘ والی روایت بھی نا قابل اعتبار ہے۔

حیات مسیح کی سولہویں دلیل

یَنْزِلُ اَخِیْ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآءِ عَلٰی جَبَلِ اَفِیْقَ۔(کنز العمال۔جلد ۱۴ حدیث نمبر ۳۹۷۱۹ صفحہ۲۶۲دارالکتب العلمیہ بیروت۔لبنان )

جواب نمبر ا:۔ یہ بے سند قول ہے۔

۲۔ صاحب کنز العمال نے اسے ابن عساکر کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اس کے آگے ’’کر‘‘ کے حروف درج ہیں اور ابن عساکر کے متعلق شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی اپنے رسالہ عجالۂ نافعہ از شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی نور محمد کارخانہ تجارت کتب، آرام باغ، کراچی صفحہ۵ پر تحریر فرماتے ہیں:۔ ’’و طبقۂ رابعہ احادثے کہ نام و نشان آنہا، در قرونِ سابقہ معلوم نبود و متاخران انرا روایت کردہ اند۔ پس حال آنہا از دو شق خالی نیست یا سلف تفحص کردند آنہا را صلے نیافتہ اند تا مشغول۔ بروایت آنہا مے شدند۔ یا۔یا فتندو دراں قد حے و علّتے دیدند کہ باعث شد ہمہ انہارا بر طرق روایت انہاد علیٰ کل تقدیرایں احادیث قابل اعتماد نیستند کہ در اثبات عقیدہ یا عملے بآنہا تمسّک کردہ شود وَ لَنِعْمَ مَا قَالَبَعْضُ الشُّیُوْخِ فِیْ اَمْثَالِ ھٰذِا ؂

فَاِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِیْ فَتِلْکَ مُصِیْبَۃٌ

وَاِنْ کُنْتَ تَدْرِیْ فَالْمُصِیْبَۃُ اَعْظَمٗ

وایں قسم احادیث راہِ بسیارے از محدثین زدہ است……دریں قسم احادیث کتبِ بسیار مصنفہ شدہ اند برخے را بشماریم کتاب الضعفا ء لابن حبان…… تفسیر ابن جریر……تصانیف ابن عساکر۔

یعنی طبقۂ رابعہ وہ حدیثیں ہیں جن کا نام و نشان پہلے قرنوں میں معلوم نہیں تھا اور متاخرین نے روایت کی ہیں تو ان کا حال دو شقوں سے خالی نہیں، یا سلف نے تفحص کیا اور ان کی اصل نہ پائی کہ ان کی روایت سے مشغول ہوتے۔ یا ان کی اصل پائی اور ان میں قدح اورعلّت دیکھی کہ روایت نہ کیا اور دونوں طرح یہ حدثیں قابل اعتبار نہیں کہ کسی عقیدہ کی اثبات پر یا عمل کرنے کو ان سے سند لیں اور کسی بزرگ نے ان جیسوں کے متعلق کیا خوب شعر فر مایا ہے۔ کہ اگر تو تجھے علم نہ ہو تو یہ مصیبت ہے لیکن اگر تجھے علم ہو تو یہ مصیبت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس قسم کی حدیثوں نے بہت سے محدثین کی راہزنی کی ہے۔ اس قسم کی حدیثوں کی کتابیں بہت تصنیف ہوئی ہیں۔ تھو ڑی سی ہم بیان کرتے ہیں۔کتاب الضعفاء لابن حبان…… تفسیر ابن جریر……ابن عساکر کی جملہ تصانیف۔

پس یہ روایت ابن عساکر میں ہونے کے با عث ہی کمزور ہے۔

۳۔ تمہاری وہ منارۂ دمشقی کے پاس نازل ہونے والی روایت مندرجہ ترمذی، مسلم ابو داؤد وغیرہ کہاں گئی ؟

حیات مسیحؑ کی سترہویں دلیل

معراج کی رات آنحضرت نے حضرت عیسیٰ ؑ کو دیکھا تو ان کا حلیہ عروہ بن مسعود کی طرح بیان فرمایا (رواہ مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الرویاء باب فی المعراج بروایت ابو ہریرہ)(مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم الی السمٰوت و فرض الصلوٰۃ بروایت جابر جلد ۱ صفحہ ۷۱)اور مسلم میں دوسری جگہ جہاں آخری زمانہ میں نزول مسیح کا ذکر کیا ہے، وہاں بھی اس کا حلیہ ’’کَاَنَّہٗ عُرْوَۃُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ‘‘ (عروہ بن مسعود کی طرح)بیان فرمایا ہے۔پس ثابت ہوا کہ مسیح ایک ہی ہے۔(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۸۴،۵۸۵ بار دوم ۱۹۸۹ء)

جواب۔ تمہاری پیش کردہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں:۔

پہلی روایت:۔ یہ روایت مسلم جلد ۱ صفحہ ۷۱ مصری میں ہے۔ اس کا ایک راوی ابو الزبیر محمد بن مسلم مکی ہے جو ضعیف ہے اس کے متعلق لکھا ہے۔ کَانَ اَیُّوْبُ یَقُوْلُ حَدَّثَنَا اَبُو الزُّبَیْرَ وَ اَبُو الزُّبَیْرَ اَبُو الزُّبَیْرَ…… کَانَ یَضْعِفُہٗ……قُلْتُ لِشَعْبَۃٍ مَالَکَ تَرَکْتَ حَدِیْثَ اَبِی الزُّبَیْرَ قَالَ رَأَیْتُہٗ یَزْنِ……قَالَ شَعْبَۃُ……قَدِمْتُ مَکَّۃَ فَسَمِعْتُ مِنْ اَبِی الزُّبَیْرَ فَبَیْنَا اَنَا جَالِسٌ عِنْدُہٗ اِذْ جَآءَ ہٗ رَجُلٌ فَسَأَلَہٗ عَنْ مَسْئَلَۃٍ فَرَدَّ عَلَیْہِ فَافْتَرٰی عَلَیْہِ فَقَالَ لَہٗ یَا اَبَا الزُّبَیْرَءَ تَفْتَرِیْ عَلٰی رَجُلٍ مُسْلِمٍ قَالَ اِنَّہٗ اَغْضَبَنِیْ قُلْتُ وَمَنْ یُغْضِبُکَ تَفْتَرِیْ عَلَیْہِ۔

(تہذیب التہذیب جلد۵ صفحہ ۲۸۲ از ابن حجر عسقلانی ؒ بیروت۔ لبنان۔و میزان الاعتدال جلد۳ صفحہ۱۲۴،۱۲۵ الطبعۃ الاولیٰ ۱۳۲۵ھ مطبعۃ السعادۃ )

یعنی ایوب اور عینیہ کہا کرتے تھے کہ ہم سے ابو زبیر نے روایت کی ہے اور ’’ابو زبیر بس ابو زبیر ہی ہے۔‘‘ یعنی وہ اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔ ورقاء کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے پوچھا کہ آپ نے ابو زبیر کی روایت کو ترک کیوں کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اسے زنا کرتے دیکھا ہے…… ایک دفعہ مکہ میں ابو زبیر کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے سامنے ابو زبیر نے ایک شخص پر افتراء کیا، اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم ایک مسلمان پر افتراء کرنے کی جرأت کرتے ہو ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اس پر افتراء اس لئے کیا ہے کیونکہ اس نے مجھے غصہ دلایا تھا۔ میں نے کہا کہ کیا جو شخص تم کو ناراض کرے گا تو اس پر افتراء کرے گا۔

۲۔ اس روایت کا دوسرا راوی قتیبہ بن سعید التیمی ہے یہ بھی ضعیف ہے چنانچہ لکھا ہے۔ قَالَ الْعُقَیْلِیُّ حَدِیْثُہٗ غَیْرُ مَحْفُوْظٍ مَجْھُوْلٌ فِی النَّسَبِ وَالرَّوَایَۃِ وَ اَسْنَادُہٗ لَا یُصِحُّ۔(تہذیب التہذیب ابن حجر زیر لفظ قتیبہ بن سعید التیمی و میزان الاعتدال ۳۴۴ حرف القاف الطبعۃ الاولیٰ ۱۳۲۵ھ از شمس الدین ابی عبداﷲ محمد)یعنی عقیلی نے کہا ہے کہ اس راوی کی روایت بالکل غیر محفوظ ہوتی ہے۔ یہ اپنے نسب اور روایات کرنے اور سند دینے میں مجہول تھا اور اس کی حدیث نہ مستند ہوتی ہے نہ ہی درست۔

یہ تو تمہاری پہلی حدیـث کا حال ہے باقی رہی دوسری روایت (حلیہ بوقتِ نزول ) سو وہ بھی ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کا ایک راوی شعبہ بن حجاج واسطی بصری ہے۔ اس کے متعلق لکھا ہے۔ کَانَ یُخْطِیْ فِیْ اَسْمَاءِ الرَّجَالِ کَثِیْرًا(تہذیب التہذیب ذکر شعبہ بن حجّاج واسطی بصری)کہ عجلی کے نزدیک یہ راوی اسماء الرجال میں غلطی کیا کرتا تھا اوریہی خیال دار قطنی کا ہے۔

اس دوسری روایت کا دوسرا راوی عبیداﷲ بن معا ذ العنبری ہے سو اس کے متعلق ابن معین کہتے ہیں۔اِبْنُ مُمَیْنَۃٍ وَ شَھَابٌ وَ عُبَیْدُاللّٰہِ ابْنُ مَعَاذٍ لَیْسُوْا اَصْحَابُ حَدِیْثٍ لَیْسُوْا بِشَیْءٍ کہ ابن ممینہ اور شہاب اور عبیداﷲ بن معاذ تینوں علم و حدیث نہ جانتے تھے اور نہ یہ راوی کسی حیثیت کے ہیں۔ (تہذیب التہذیب حرف العین زیر لفظ عبیداﷲ)

پس جب سابقہ مسیح کا حلیہ جس حدیث میں بتایا گیا ہے وہی ضعیف ہے اور اسی طرح نزول والی حدیث بھی۔ تو اندرین حالات اس مزعومہ یگانگت کو دلیل ٹھہرا نا عبث ہے۔

حیاتِ مسیحؑ کی اٹھارویں دلیل

کیا حضرت موسیٰ ؑ زندہ ہیں؟

غیر احمدی۔ حضرت مرزا صاحبؑ نے نورالحق صفحہ ۵۰ پر تحریر فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نسبت قرآن مجید میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے۔ پس ہم پر فر ض ہے کہ ہم ان کے آسمان پر زندہ ہونے پر ایمان لائیں۔ (محمدیہ پاکٹ بک از محمد عبداﷲ معمار امرتسری صفحہ ۶۱۰ مطبع طفیل آرٹ پرنٹرز لاہور ناشر المکتبۃ السفلیہ لاہور نمبر۲ طبع ثانی اپریل ۱۹۸۹ء)

جواب۔الف:۔اسی نورالحق میں تمہاری محولہ بالا عبارت سے سات ہی سطریں آگے لکھا ہے ’’وما من رسول إلا تُوُفّی وقد خلتْ من قبل عیسی الرسلُ‘‘ اور اس کا ترجمہ بھی اسی جگہ درج ہے کہ ’’اور کوئی نبی ایسا نہیں جو فوت نہ ہوا ہو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے جو نبی آئے وہ فوت ہو چکے ہیں‘‘۔(نور الحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۷۰)

پس جہاں تک حضرت موسیٰ ؑکی جسمانی وفات کا تعلق ہے اس کا فیصلہ تو اسی جگہ پر موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کا یہی مذہب ہے کہ سب کے سب نبی بلا استثناء جسمانی طور پر فوت ہو چکے ہیں ایک بھی زندہ نہیں۔ حضر ت مسیح موعودؑ نے جو حضرت موسیٰ ؑکی حیات کا ذکر فرمایا ہے تو وہ الزامی طور پر ہے یعنی یہ کہ اگر نصوص صریحہ قرآنیہ و حدیثیہ و عقلیہ کے با وجود حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات ثابت نہیں تو پھر کسی نبی کی بھی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ خصو صاً حضرت موسیٰ ؑکی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے بعینہٖ یہی مضمون دوسری جگہ بالتفصیل تحریر فرمایا ہے:۔

’’اب بتلاؤ کہ اس قدر تحقیقات کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے میں کسر کیا رہ گئی اور اگر باوجود اس بات کے کہ اتنی شہادتیں قرآن اور حدیث اور اجماع اور تاریخ اور نسخہ مرہم عیسیٰ اور وجود قبرسرینگر میں اور معراج میں بزمرۂ اموات دیکھے جانا اور عمر ایک سو بیس سال مقرر ہونا اور حدیث سے ثابت ہونا کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ کسی اور ملک کی طرف چلے گئے تھے اور اسی سیاحت کی وجہ سے اُن کا نام نبی سیاح مشہور تھا۔ یہ تمام شہادتیں اگر ان کے مرنے کو ثابت نہیں کرتیں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا۔ سب بجسم عنصری آسمان پر جا بیٹھے ہیں کیونکہ اس قدر شہادتیں اُن کی موت پر ہمارے پاس موجود نہیں بلکہ حضرت موسیٰ کی موت خود مشتبہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ اُن کی زندگی پر یہ آیت قرآنی گواہ ہے یعنی یہ کہ‘‘(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۱۰۱)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
(ب) ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ انہیں مولویوں کی ایسی ہی کئی مفسدانہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی مثلاً جب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تو نعوذ باﷲ مردہ ہیں مگر حضرت عیسیٰ قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہوگئے اور ہزاروں سادہ لوحوں کو انہوں نے انہیں باتوں سے گمراہ کیا اور ان بے تمیزوں نے یہ نہیں سمجھا کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے۔ دیکھئے اﷲ جلّ شانہٗ اپنے نبی کریمؐ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہیاور خودآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہونے کے بعد اپنا زندہ ہو جانا اور آسمان پر اٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جا ملنا بیان فرماتے ہیں پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کونسی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں۔ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا۔ خداتعالیٰ مولوی عبدالحق محدث دہلوی پر رحمت کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہو جائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجز سے مخالفت ظاہر کرنے کیلئے دین سے نکلتے جاتے ہیں خداتعالیٰ ان سب کو صفحہ زمین سے اٹھا لے تو بہتر ہے تا دین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۱۰،۶۱۱)

(ج) اسی مضمون کو ایک اور جگہ اسی طرح بیان فرماتے ہیں۔

’’ہاں اگر نص صریح سے ثابت ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باوجود جسمانی حیات کے جسمانی تحلیلوں اور تنزّل حالات اور فقدانِ قویٰ سے منزّہ ہیں تو وہ نص پیش کریں۔ اور یونہی کہہ دینا کہ خدا ہر ایک بات پر قادر ہے ایک فضول گوئی ہے اور اگر بغیر سند صریح کے اپنا خیال ہی بطور دلیل مستعمل ہو سکتا ہے تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بعد وفات پھر زندہ ہو کر مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں او رپیرانہ سالی کے لوازم سے مستثنیٰ ہیں اور حضرت عیسیٰ سے بدرجہا بڑھ کر تمام جسمانی قویٰ اور لوازم کاملہ حیات اپنی ذات میں جمع رکھتے ہیں اورآخری زمانہ میں پھر نازل ہوں گے۔ اب بتلاؤ کہ ہمارے اس دعویٰ اور تمہارے دعویٰ میں کیا فرق ہے۔‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۳۸۶)

پس یہ تینوں مفصل حوالہ جات نور الحق صفحہ ۵۰ کی مجمل عبارت کی تشریح ہیں اور مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بھی دوسرے انبیاء کی طرح جنت میں زندہ ہیں، اور ان کے ساتھ ہی حضرت عیسیٰ ؑ بھی ہیں۔ نیز یہ جواب غیر احمدی مولویوں کو ملزم کرنے کے لئے دیا گیا ہے یعنی بطور الزامِ خصم ہے نہ کہ اپنا عقیدہ۔

حیاتِ مسیح کی انیسویں دلیل

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:۔ اِنَّہٗ رُفِعَ بِجَسِدِہٖ وَ اِنَّہٗ حَیٌّ اَلْاٰنَ(طبقات کبیر جلد ۱ صفحہ۳۳ از محمد بن سعد متوفّٰی ۲۳۰ھ الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۹۴ء)

جواب:۔ یہ ایک جھوٹی اور جعلی روایت ہے۔ چنانچہ اس کے سارے ہی راوی ضعیف ہیں۔ پس یہ حضرت ابن عباسؓ کا قول نہیں ہو سکتا۔ خصوصًا جب کہ بخاری شریف کی مستند روایات سے ان کا مذہب مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ ثا بت ہے تو اس کے بالمقابل یہ سراپا جعلی روایت کیا حقیقت رکھتی ہے ؟

اس روایت کا پہلا راوی ہشام بن محمد السائب ہے قَالَ ابْنُ عَسَاکِرٍ رَافَضِیٌّ لَیْسَ بِثِقَۃٍ عَنِ ابْنِ الْکَلْبِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ(میزان الاعتدال از ابی عبداﷲ محمد احمد بن عثمان الذّھبی ۷۴۸ھ زیر لفظ ہشام بن محمد السابت) یعنی اس روای کی تمام وہ روایات جو اس نے اپنے باپ سے ابو صالح کی معرفت ابن عباس سے روایت کی ہیں، سب ضعیف ہیں اور روایت متنازعہ بھی اسناد کے لحاظ سے بعینہٖ ’’عَنْ اَبِیْہِ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‘‘ہے، لہٰذا جھوٹی ہے۔

۲۔ دوسرا راوی محمد بن السائب الکلبی ہے۔ یہ تو کذاب سبائی جماعت میں سے تھا جنہوں نے حضر ت عثمانؓ کو شہید کیا تھا اس کے متعلق عبدالواحد بن غیاث کا قول ہے جو عن مہدی منقول ہے کہ یہ راوی کلبی کافر تھا۔ معمر بن سلیمان کے باپ اور لیث بن ابی سلیم کا قول ہے:۔

کَانَ مِنْ کُوْفَۃٍ کَذَّابَانِ اَحَدُھُمَا الْکَلْبِیُّ وَالْاٰخَرُ الْاَسَدِیُّ۔ کہ کوفہ میں دو کذاب تھے ایک تو یہی راوی کلبی اور دوسرا اسدی۔ (تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی ؒ زیرلفظ محمد بن سائب کلبی ) یہ راوی ’’امام الوضاعین‘‘ تھا۔ (فوائد المجموعہ صفحہ ۱۴۷)

۳۔ ابو صالح:۔ اس کے متعلق لکھاہے:۔ اَبُوْ صَالِحٍ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ (تہذیب التہذیب زیر لفظ ابوصالح و میزان الاعتدال از ابی عبداﷲ محمد بن احمد بن عثمان الذّھبی ۷۴۸ھ)کہ ابو صالح نے نہ حضرت ابن عباس کو دیکھا اور نہ ان سے کوئی حدیث سنی۔ پس یہ روایت از سر تا پا جعلی ہے۔
 
Top