• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تردید دلائل انقطاع نبوت از روئے حدیث

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تردید دلائل انقطاع نبوت از روئے حدیث

پہلی حدیث:۔لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ(بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل جلد اول صفحہ۴۹۱ مطبوعہ میرٹھ)

الجواب نمبر ۱:۔اس حدیث کی دوسری روایت ہے ۔

قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَا عَلِیُّ اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ کَھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّکَ لَسْتَ نَبِیًّا۔(طبقات کبیر لابن سعد جلد۳ صفحہ ۲۵ بیروت ۱۹۵۷ء)

کہ آنحضرتؐنے فرمایاتھاکہ اے علی کیا تو خوش نہیں کہ تو مجھے ایسا ہی ہے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ہارون مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد تو نبی نہیں ہوگا۔’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘کی تشریح کردی کہ آنحضرت صلعم کا خطاب عام نہیں بلکہ خاص حضرت علی ؓسے ہے۔

الجواب نمبر۲:۔اسی بخاری میں آنحضرت صلعم کی بعینہٖ ایسی ہی ایک اور حدیث ہے؟ ’’عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلْعَمْ اِذَاھَلَکَ کِسْرٰی فَلَا کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ‘‘(بخاری کتاب الایمان والنذور باب کیف کانت یمین النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ) آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسریٰ مرے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور جب یہ قیصر مرے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا ۔

اپنے متعلق ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ اور قیصر کے متعلق ’’لَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ‘‘ فرمایا ۔ کیا قیصر کے بعد کوئی نہیں ہوا ؟ اور کیا کسریٰ شاہ ایران کے بعد اور کوئی کسریٰ نہیں ہوا ؟ اگر ہوئے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ ہوتے رہے ہیں تو پھر حدیث لَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ اور لَا کِسْرٰی بَعْدَہٗ کے کیا معنے ہیں ۔ اگر اس کے معنے یہ ہیں کہ ان قیصر و کسریٰ کے بعد اس شان کے قیصر و کسریٰ نہ ہوں گے جیساکہ فتح البارری شرح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی کتاب المناقب دار نشر الکتب الاسلامیہ لاہور جلد ۶ میں اس حدیث کا مطلب ہے ’’مَعْنَاہُ فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ یَمْلِکُ مِثْلَ مَا یَمْلِکُ ھُوَ۔‘‘ کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ قیصر مر جائے گا توا س کے بعد کوئی ایسا قیصر نہ ہوگا جو اس طرح حکومت کرے جس طرح یہ کرتا ہے۔ تولَا نَبِیَّ بَعْدِیْکا مطلب بھی یوں ہوگا کہ آپ جیسا نبی آپ کے بعد نہیں ہوگا ۔ یہ ’’لَا‘‘ صفت موصوف کی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ جیسا کہ مقولہ ’’لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَارِ‘‘ (موضوعات کبیر از ملَّا علی قاری صفحہ ۵۹، ۸۱)کیا حضرت علی ؓ کے بعد کوئی جوان نہیں ہوا ؟ اور کیا ذوالفقار کے بعد کوئی تلوار نہیں بنی؟ پس اس میں حضرت علی جیسے جوان کی اور ذوالفقار جیسی تلوارکی نفی ہے ۔ مطلق نفی نہیں ۔ پس ’’لَا‘‘ نفی جنس کا نہیں ۔ بلکہ صفت موصوف کی نفی کے لئے آیا ہے ۔

الف۔ اما م رازی رحمۃ اﷲ علیہ حدیث لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ (بخاری ۔ کتاب المناقب مناقب انصار باب ہجرۃ النبی ؐ و اصحابہٗ الی المدینۃ )کی تشریح میں فرماتے ہیں ۔

وَاَمَّا قَوْلُہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ فَالْمُرَادُ اَلْھِجْرَۃُ الْمَخْصُوْصَۃُ

(تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۵۸۰ مطبوعہ مصر زیر آیات اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ ( الانفال:۷۳)

یعنی حضور ؐ کے ارشاد ’’لَا ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ فتح مکہ کے بعد ہر قسم کی ہجرت بند ہوگئی بلکہ صرف ایک خاص ہجر ت مراد ہے جو مکہ سے مدینہ کی طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوتی تھی۔

پس بعینہٖ اسی طرح ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ میں بھی ہر قسم کی نبوت مراد نہیں بلکہ صرف ایک مخصوص نبوۃ کا انقطاع مراد ہے جو شریعت جدیدہ کی حامل ہو اور جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر ے ۔ نیز براہ راست ہو ۔

نوٹ: ۔ بعض غیر احمدی ایام الصلح کے حوالہ سے کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ لَا نفی عام کے لئے ہے تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ حوالہ ایام الصلح پر حضرت اقدس بحث حضرت مسیح ناصری کی بعثت ثانی کے متعلق فرما کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اب مسیح ناصریؑ واپس نہیں آ سکتا۔ اور یہ کہہ کر غیر ا حمدیوں کو ملزم کر رہے ہیں کہ جب لَا نَبِیَّ بَعْدِیْکے مطا بق نبو ت بند ہوگئی اور لَا نفی عام کے لیے ہے تو پھر کس طرح آ نحضرتؐ کے بعد مسیح نبی اﷲ کا وا پس آنا ما نتے ہو ؟ لَاکا نفی عام ہونا غیر احمد یوں کو مسلم ہے اور یہی بتانا حضر ت اقدسؑ کا مقصود تھا۔ کیونکہ جب بقو ل غیر احمدیاں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ سے کسی قسم کا استثناء جائز ہی نہیں تو پھر مسیح نا صری کی آمد ثانی کے لیے وہ ا ستثناء کہاں سے نکا لتے ہیں؟ ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو ا پنا عقیدہ دربارۂ امکانِ نبوت ایسا واضح کر دیا ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ۔ لَا نفی کمال جس کا ذکر ہم نے بعض مثا لیں دے کر اوپر کیا ہے اس کو حضرت اقدس نے بھی تسلیم فرمایا ہے۔ملاحظہ ہو:۔

ــ’’یادرکھنا چاہیۓ کہ نفی کا اثر اسی حد تک محدود ہوتا ہے جو متکلم کے ارادہ میں متعین ہوتی ہے۔ خواہ وہ ارادہ صریحاً بیان کیا گیا ہو یااشارۃً مثلاً کو ئی کہے کہ اب سردی کانام ونشان نہیں رہا توظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالتِ مو جودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا ۔مگر اس کے کلام سے سمجھنا کہ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ کل کوہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی او رسب جگہ سخت اور تیزدھوپ پڑنے لگی اور اس کی یہ دلیل پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیاہے ۔وہ نفی جنس کا ’’لا‘‘ہے ۔جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہیئے درست نہیں ۔‘‘

(تصد یق النبیؐاز حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ناشر فخرالدین ملتانی صفحہ۱۰)

ب:۔’’ لَا کِسْریٰ بَعْدَہٗ ۔ یعنی……دوسرا کسریٰ پیدا نہیں ہوگا جو ظلم اور جورو جفا میں اُس کا قائم مقام ہو۔ اِس حدیث سے استنباط ہوسکتا ہے کہ…… پھر ایسی ہی خصلت کا کوئی اور اِنسان اُس قوم کے لئے پیدا ہونا خیال محال ہے۔‘‘

(تریاق ا لقلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۳۷۹)

پس حضرت اقدس نے کمال ِ موصوف کی نفی والا’’لَا‘‘ تسلیم فرمایا ہے بلکہ جو ا ستنباط ہم نے لا کسرٰی بعدہٗکی حدیث سے کیا تھا۔اُس کی حرف بحرف تصدیق بھی فرمادی ہے۔

ایامِ الصلح کے حوالہ میں حضرت اقدس نے غیراحمدیوں کو الزامی طورپر اُن کے مسلمہ عقیدہ کے رُو سے ساکت کیا ہے کہ لانبی بعدی کے لَا نفی عام سے حضرت عیسیٰ ؑکی استثناء کس طرح ہو سکتی ہے؟گویا یہ دلیل اس شحض کے لیے ہے جو حیات مسیح کا قائل ہو۔مگر نبوت کو آنحضرت صلعم کے بعدختم مانتاہو۔ مگر حضرت اقدس تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قطعی طور پر بروئے نصوص صریحہ قرآنیہ وحدیثیہ ووحیٔ الٰہی وفات یافتہ تسلیم کرتے تھے۔ حضورکے نزد یک مسیح ناصری کا واپس آنا اس لیے محال نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ مردہ واپس دُنیا میں نہیں آیا کر تا۔حضرت اقدس کی یہ دلیل اس طرح کی ہے جس طرح ہم نے وفات مسیحکے دلائل کے ضمن میں ’’اِسْمُہٗ اَحْمَدُ‘‘ والی پیشگوئی کو پا کٹ بک ہذا میں درج کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اگر حضرت مسیح ناصری دُنیا میں واپس آ جائیں تو اندر یں صورت وہ آنحضرت صلعم کے’’بعد‘ ‘اورآنحضرت صلعم کے’’قبل‘‘ ہوجائیں گے۔ حالانکہ پیشگوئی’’اِسْمُہٗ اَحْمَدُ‘‘ میں ’’احمد‘‘ رسول کو بہرحال حضرت مسیح سے ’’بعد‘‘میں ہونا چاہیئے۔

اب کوئی تمہارے جیسا عقلمند ہمارے اس استدلال کو لے کر کھڑا ہو جائے اور شور مچاو ے کہ دیکھو مصنف احمدیہ پاکٹ بک کا مذہب یہ ہے کہ اِسْمُہٗ اَحْمَدُ والی پیش گوئی کے مصداق حضرت مرزاصاحب علیہ السلام نہیں ۔بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔حالا نکہ ظاہر ہے کہ ہم نے اِسْمُہٗ اَحْمَدُکی پیش گوئی سے وفات مسیح پر استدلال غیر احمدیوں کے عقیدہ کے رُو سے کیا ہے کیونکہ وہ اِسْمُہٗ اَحْمَدُکی پیشگوئی کا مصداق آنحضرت صلعم ہی کو ما نتے ہیں۔ بعینہٖ اسی طرح حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے ’’لَانَبِیَّ بَعْدِیْ‘سے وفاتِ مسیح پر استدلال فرمایا ہے ۔ کیو نکہ غیراحمدی لَانَبِیَّ بَعْدِیْ کا ترجمہ ’’آخری نبی‘‘ ہی کر تے ہیں اور’’لَا‘‘ کو نفی عام ہی کے لیے قراردیتے ہیں۔ ورنہ حضرت اقدسؑ کا اپنا مذہب دربارۂ امکان نبوت دوسری جگہ پر ملا حظہ فرمائیں جس میں سے ایک حوالہ یہ ہے۔

’’شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے۔‘‘

(تجلیات الٰہیہ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۴۱۲)

نیز ’’لا‘‘کے متعلق حضرت اقدس کی تحر یرات سے دوحواے اور درج ہو چکے ہیں۔

(خادمؔ)

جواب نمبر۳:۔پھراس حد یث میں لفظ بَعْدِیْ بھی غور طلب ہے قرآن مجید میں لفظ ’’بعد‘‘ مغا ئرت اور مخالفت کے معنو ں میں بھی مستعمل ہوا ہے۔

۱۔(الجاثیۃ:۷) کہ اﷲ اور اس کی آیات کے بعد کونسی بات پر وہ ایمان لائیں گے؟اﷲ کے بعدکیا مطلب ؟ کیا اﷲ کے فوت ہونے کے بعد ؟ یا اﷲ کی غیر حاضری میں ؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں معنے باطل ہیں۔ پس ’’بعد اﷲ‘‘ کا مطلب یہی ہوگا کہ اﷲ کے خلاف ۔اﷲ کو چھوڑ کر یا میرے خلاف رہ کر کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔

۲۔حدیث میں ہے آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے فَاَوَّلْتُھُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ اَحَدُھُمَا اَسْوَدُ الْعَنْسِیُّ وَالْاٰخَرُ مُسَیْلَمَۃُ(بخاری کتاب المغازی باب وفدنبی حنیفہ حدیث ابن عباس بر روایت ابوہریرہ جلد۳صفحہ نمبر۴۹ مصری )یعنی آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ خواب میں میں نے سونے کے جو دوکنگن دیکھے اور ان کو پھُونک ماراکر اُڑایا۔تواس کی تعبیرمَیں نے یہ کی کہ اس سے مراد دوکذاب ہیں جومیرے بعد نکلیں گے ۔پہلا اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ ہے اس حدیث میں آنحضرت صلعم نے یَخْرُجَانِ بَعْدِیْفرمایا ہے کہ وہ دونوں کذاب میرے بعد نکلیں گے یہاں ’’بعد‘‘ سے مراد غیر حاضری یا ’’وفات‘‘ نہیں بلکہ’’مخالفت ‘‘ ہے کیونکہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی دونوں آنحضرت صلعم ہی کی زندگی میں مدعی نبوت ہو کر آنحضرت صلعم کے بالمقا بل کھڑے ہوگئے تھے چنانچہ اسی بخاری میں آنحضرت صلعم کی دوسری حدیث درج ہے ۔

’’فَاَوَّلْتُھُمَا الْکَذَّابَیْنِ اَنَا بَیْنَھُمَا صَاحِبُ صَنْعَاءَ وَ صَاحِبُ الْیَمَامَۃِ‘‘

(بخاری کتاب التعبیر الرؤیا۔باب النفخ فی المنام وکتاب المغازی باب وفدبنی حنیفہ )

پس میں نے اس سے مراد لی دو کذاب ۔جن کے میں اس وقت درمیان ہوں اسود عنسی اور مسیلمۃ الیمامی۔پس ’’اَنَا بَیْنَھُمَا‘‘صاف طور پر بتاتاہے کہ دوسری روایت میں یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ میں ’’بعدی ‘‘ سے مراد میرے مدمقابل اور میرے مخالف ہی ہے نہ کہ وفات یا غیر حاضری ۔پس لا نبی بعدی میں بھی ’’بعدی‘‘سے مراد ہے کہ میرے مدمقابل اور مخالف ہو کر کوئی نبی نہیں آسکتا ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نوٹ:۔بعض غیر احمدی کہا کرتے میں کہ حدیث ہذامیں ’’بعدی‘‘ سے مراد میرا مخالف ہونا نہیں ۔بلکہ یہاں ’’بعد‘‘کا مضاف الیہ محذوف ہے یعنی مراد ’’بَعْدَ نُبُوَّتِیْ‘‘ ہے کہ میری نبوت کے بعد۔ نیز اسی طرح سے قرآن مجید کی آیات میں ’’‘‘کے لفظ میں بھی ’’بعد‘‘ کا مضاف الیہ محذوف ہے یعنی’’بَعْدَ اٰیَاتِ اللّٰہِ‘‘ مراد ہے۔

الجواب نمبر۱:۔ یہ محض عربی زبان سے نا واقفیت کا ثبوت ہے ۔ کیو نکہ قرآن مجید کی محولہ بالا آیات اور حدیث ’’لَا نَبِیِّ بَعْدِیْ‘‘ ہر دو میں ’’بعد‘‘ کا مضاف الیہ مذکور موجود ہے ۔ چنانچہ آیت میں’’بعد‘‘ کا مضاف الیہ ’’اﷲ‘‘ ہے اور حدیث میں’’بعد‘‘ کا مضاف الیہ ’’ہی‘‘ ہے آیت مذکور میں تو ’’بعد‘‘ کا مضاف الیہ ’’اٰیٰتِ اللّٰہِ ‘‘ یا ’’کِتٰبِ اللّٰہِ‘‘ کو قرار دنیا اور بھی مضحکہ خیزہے کیو نکہ اس سے نہایت قبیح تکرار آیت قرآن میں مانناپڑتا ہے ۔جو صریحاً نا قابل قبول ہے ۔ یعنی آیت یوں بن جائے گی۔ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ کہ خداتعالیٰ کی آیات اور آیات کے بعد کونسی بات کو مانو گے یا یوں ہوگا کہ خداتعالیٰ کی کتاب اور آیات کے بعد کو نسی چیز مانو گے ۔

ظاہر ہے کہ آیات اور کتاب پر ایمان لانا کو ئی الگ الگ چیز نہیں اور یہ بے معنی تکرار قرآن مجید میں محض اس لیے بنایا جایا جاتا ہے کہ کہیں ’’بعد‘‘ کے معنی ’’خلاف ‘‘ ثابت نہ ہو جاہیں۔

جواب نمبر۲:۔ دوسرا جواب اس کایہ ہے کہ اگر بقول شما’’یخرجان بعدی‘‘ میں’’بعد‘‘ کا مضاف الیہ محذوف ہے تو ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں’’بعد‘‘ کا مضاف الیہ محذوف ہے اور وہ یہ ہے ’’بَعْدَ اِخْتِتَامِ زَمَانِ نُبُوَّتِیْ وَ ھُوَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘‘ یعنی میرے زمانہ نبو ت (جو قیامت تک ہے)کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔یعنی جو نبی آے گا وہ میرے زمانۂ نبوت میں یعنی میرے ماتحت ہو کر آئے گا ۔صاحب شریعت نبی نہ ہوگا کہ میرے زمانۂ نبوت کو منسوخ کر سکے ۔


Iلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ اور علماء گذشتہ

۱۔ ہم نے ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ کے جو معنے کئے ہیں ۔ بزرگان ِ امت نے بھی مختلف زمانوں میں اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں ۔ چنانچہ شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:۔

وَ ھٰذَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ صَلْعَمْ اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَ لَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذْ کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ۔ (فتو حات مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد۲ صفحہ ۳ مصری مطبوعہ دارلکتب العربیہ الکبر یٰ)

ــ’’یہی معنی ہیں حدیث اَنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ‘‘ اور ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ کے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کو ئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو معبوث ہوکر آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شر یعت کے خلاف کسی اور شریعت پر عمل کرتا ہو۔ہاں اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کے حکم کے ماتحت ہوکر آے تو پھر نبی ہو سکتا ہے۔

۲ ۔حضرت امام شعرانی اپنی کتاب الیواقیت وا لجواہر میں فرماتے ہیں:۔

’’قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ الْمُرَادُ بِہٖ مُشْرِعَ بَعْدِیْ‘‘ (الیواقیت وا لجواھر جلد۲صفحہ ۲۴از عبدالوہاب الشعرانی)

کہ آنحضرتؐ کایہ فرمانا کہ ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد صاحب شریعت کو ئی نبی نہ ہوگا۔

۳۔لغت کی کتاب تکملہ مجمع البحار الا نوار میں اس کے مصنف امام محمد طاہر فرماتے ہیں:۔

’’وَھٰذَااَیْضًا لَا یُنَافِیْ حَدِیْثَ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ لِاَ نَّہٗ اَرَادَ لَا نَبِیَّ یَنْسَخُ شَرْعَہٗ‘‘

(تکملہ مجمع البحارالانوار صفحہ۸۵از امام محمد طاہر گجراتی)

کہ حضرت عالٔشہؓ کا قول ’’قُوْلُوْا اَنَّہٗ خَاتَمُہ الْاَنْبِیَآءِ وَ لَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ(در منشور جلد۵ صفحہ ۲۰۴و تکملہ مجمع البحارالانوار صفحہ۸۵)کہ یہ تو کہو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپؐ کے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے مخالف نہیں ہے کیونکہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ سے مراد تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کر ے۔

۴۔نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:۔

’’حدیث لَا وَحْیَ بَعْدَ مَوْتِیْ بے اصل ہے ۔ہاں ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ آیا ہے جس کے معنے نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔‘‘ (اقتراب السا عۃ از نواب نورالحسن خان صفحہ۱۶۲ مطبع مفیدعام الکائنہ فی الرواۃ ۱۳۰۱ھ)

دوسری حدیث :۔ لَوْکَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ ( تر مذ ی کتاب المناقب ۔ باب مناقب عمرؓ ومشکوٰۃ کتاب المنا قب باب مناقب عمرؓ) کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوناہوتا تو حضرت عمر ہوتے۔

الجواب:۔ (۱) تر مذی اور مشکوٰۃ دونوں میں یہ حدیث موجود ہے ۔مگردونوں میں اس کے آگے ہی لکھا ہوا ہے۔’’ھٰذَاحَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔ ‘‘

(ترمذی حوالہ مذکور ہ بالا و مشکوٰۃ کتاب المناقب باب مناقب عمرؓ )

کہ یہ حدیث غریب ہے اور حدیث غریب جس کا ایک ہی راوی ہوتا ہے ہو قابل استناد نہیں ہوتی ۔ صرف ایک گواہ کے کہنے سے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا تھایہ بات ثابت نہیں ہو سکتی کہ فی الواقع آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا تھا۔

غیر احمدی :۔’’ کیا غریب حدیث ضعیف یا غلط ہوتی ہے۔ ہرگز نہیں صحیح ہوتی ہے‘‘

(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۳۱۹ بااوّل یکم مارچ ۱۹۵۰)

جواب:۔امام ترمذی نے اس روایت کو غریب اس لئے کہا ہے کہ اس کا صرف ایک ہی راوی مشرح بن ھاعان کے طر یقہ سے مروی ہے مشرح بن ھاعان کے متعلق لکھا ہے :۔ قَالَ ابْنُ حَبَّانَ فِی الضُّعَفَاءِ لَا یُتَابَعُ عَلَیْھَا فَالصَّوَابِ تَرْکُ مَااِنْفَرَدَبِہٖ قَالَ ابْنُ دَاؤُدَ اِنَّہٗ کَانَ فِیْ جَیْشِ الْحُجَّاجَ الَّذِیْنَ حَاصَرُوْااِبْنَ الزَّبَیْرِ وَ رَمُو الْکَعْبَۃَ بِالْمَنْجَنِیْقِ۔

(تہذیب التہذیب جلد۱۰ زیرلفظ مشرح بن ھاعان ومیزان الا عتدال جلد۳زیرلفظ مشرح بن ھاعان)

یعنی مِشرَح بن ھاعان کو ابن حبان نے ضیعف قراردیا ہے اس کی روایات کا اعتبا ر نہیں کیاجاتا اور صحیح بات یہ ہے کہ جس روایت کا یہ اکیلاہی راوی ہو وہ روایت درست تسلیم نہ کی جائے بلکہ ترک کردی جائے ابن داؤد کہتے ہیں کہ یہ راوی حجاج کے اس لشکر میں شامل تھا جنہوں نے حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کا محاصرہ کیا اور گھمانیوں سے کعبہ پر پتھر برساے تھے۔

پس یہ روایت اس شخص کی ہے جس نے کعبہ پر سنگ باری کی، اور پھر وہ اس روایت میں منفرد ہے اور اس امر پر محد ثین کا اتفاق ہے کہ مشرح بن ہاعان کی ایسی روایت جس میں وہ منفرد ہو ۔ قابل قبول نہیں ہوتی ۔ترمذی نے یہ حدیث نقل کرکے لکھد یا ہے کہ روایت ’’لکان عبر‘‘ میں مشرح بن ھاعان منفرد ہے لہٰذا یہ حدیث صرف ’’غریب ‘‘ہی نہیں بلکہ ضعیف بھی ہے۔

ب:۔مشرح بن ھاعان کے متعلق امام شوکانی لکھتے ہیں کہ وہ ’’متروک‘‘ہے۔ فِیْ اَسْنَادِہٖ مَتْرُوْکَانِ ھُمَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ وَاقِدٍ وَ مِشْرَحُ بْنُ ھَاعَانٍ۔

(الفوالدٔ المجموعہ فی الا حادیث المو ضوعہ مطبوعہ محمد ی پر یس لاہور صفحہ۱۱۳ سطر۱)

ج:۔ چنانچہ حضرت امام سیوطی نے اپنی کتاب جامع الصغیرمیں اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے۔ ملاحظہ ہو جامع الصغیر مصری باب اللام جلد۲صفحہ۷۳ جہاں پر یہ روایت نقل کرکے آگے (ض) کا نشان دیاہے، جس کے معنی ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے۔

اسی طری اس حدیث کاایک اور راوی بکربن عمرو المعافری بھی ہے اس کے متعلق (تہذیب التہذیب زیرلفظ بکر بن عمرو المعافری میں لکھا ہے کہ ’’قَالَ اَبُوْ عَبْدِ الْحَاکَمِ یُنْظُرُ فِیْ اَمْرِہٖ۔‘‘ کہ اس روایت کو مشوک سمجھا جاتاہے ۔

پس یہ روایت ہی ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔

غیراحمدی :۔ حضرت مرزا صاحب نے ازالہ اوہام صفحہ۹۸پر یہ روایت لکھی ہے۔

جواب :۔ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کہاں تحریر فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ؟ محض کسی قول کا نقل کرنا تو اس امر کو مستلزم نہیں کہ نقل کرنے والا اس قول کو مستند اور ثقہ بھی سمجھتا ہے۔

الجواب ۲:۔ اس حدیث کی دوسری روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا’’لَوْ لَمْ اُبْعَثْ لَبُعِثْتَ یَا عُمَرُ۔‘‘

( مرقاہ شرحِ مشکوٰۃ جلد۵ صفحہ۵۳۹، و بر حاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی باب مناقب ۔یہ حدیث صحیح ہے ۔اتعصبات سیوطی صفحہ۲۷۱)

ب:۔لَوْ لَمْ اُبْعَثْ فِیْکُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ فِیْکُمْ (کنوز الحقائق صفحہ۱۰۳ وصفحہ۱۵۹جلد ۲)

یعنی اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو اے عمر!تو مبعوث نہ ہوجاتا توعمر تم میں مبعوث ہوجاتا چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نبی ہو کر مبعوث ہوگئے اس لیے عمر نبی نہ بنے۔

تیسری حدیث ۔کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَآءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ الخ۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب ماذکرعن نبی اسرائیل )

الجواب نمبر ۱:۔ سَیَکُوْنُ خُلَفَاءَ کے الفاظ جو حدیث میں آئے ہیں صاف بتارہے ہیں کہ اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بعد قریب کا زمانہ مراد لیاہے ۔جیساکہ لفظ’’س‘‘ سے ظاہر ہے جو مستقبل قریب کے لئے آتا ہے یعنی میرے معاً بعد خلفاء ہوں گے اور معاًبعد نبی کوئی نہیں ہو گا۔

۲۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نبی اسرائیل میں قاعدہ یہ تھا کہ ان میں ہر نبی بادشاہ بھی ہوتا تھاجب کوئی نبی مرتاتو اس کا جا نشین بھی بادشاہ نبی ہو تا تھا ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بادشاہت اور نبوت جمع نہیں ہوگی ۔(مشکوٰۃ کتاب الرقاق باب الا نذار والتحذیر ) چنانچہ دیکھ لو ۔ابوبکرؓ ، عمرؓ ، عثمانؓ ، علیؓ بادشاہ (خلیفے) تو ہوئے مگر نبی نہ تھے اور جونبی ہوا (یعنی مسیح موعود ) وہ بادشاہ نہ ہوا۔

۳:۔ اس حدیث سے یہ نکالنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا قطعاًغلط ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آنے واے مسیح موعودؑ کو مسلم کی حدیث میں ’’نبی اللّٰہ‘‘ کرکے پکاراہے۔

(دیکھو مشکوٰۃصفحہ۴۶۹مجتبائی ومشکوٰۃ اصح المطابع صفحہ۴۷۳ ومسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ذکر الدجال ونزول مسیح)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴:۔یہ حدیث صرف آنحضرتؐ اور مسیح موعودؑکے درمیانی زمانہ کے لیے ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ یَعْنِیْ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیٌّ وَاِنَّہٗ نَازِلٌ۔‘‘

(ابو دؤد کتاب الملا حم باب خروج الدجال )

کہ اس نازل ہونے والے اورے میرے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا۔ بخاری میں بھی لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ نَبِیٌّ کے الفاظ آتے ہیں۔

(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر مریم )

الجواب ۱:۔ تیس کی تعیین بتاتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بعد کوئی سچے نبی بھی آنے والے تھے ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے کہ جو بھی آئیں گے جھوٹے ہی آئیں گے ۔

۲:۔ یہ حدیث بخاری، ترمذی اور ابوداؤدمیں ہے اور جہاں تک اس حد یث کے راویوں کا تعلق ہے یہ حدیث قابل استناد نہیں۔ کیونکہ بخاری نے اسے ابوالیمان سے بطریقہ شعیب وابو الزنادنقل کیاہے۔ ابوالزناد کے تعلق ربعیہ کا قول ہے کہ ’’لَیْسَ بِثِقَۃٍ وَلَا رَضًی‘‘ (میزان الا عتدال ذکر عبداﷲ بن ذکوان ابوالزناد)کہ راوی نہ ثقہ ہے اور نہ پسند ید ہ ۔ ابوالیمان راوی نے یہ روایت شعیب سے لی ہے مگر لکھا ہے لَمْ یَسْمَعْ اَبُوالْیَمَانِ مِنْ شُعَیْبٍ۔ ( میزان الا عتدال ذکر ابوالیمان)

کہ ابوالیمان نے شعیب سے ایک حدیث بھی نہیں سنی ۔ امام احمد بن حنبلؒ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ پس یہ روایت قابل استناد نہ رہی ۔

۳:۔ تیس دجالوں والی حدیث کو تر مذی نے جس طریقہ سے نقل کیا ہے اس کی اسناد میں ابوقلابہ اور ثوبان دو راوی ناقابل اعتبار ہیں ۔ ابو قلابہ کے متعلق تولکھا ہے کہ ’’لَیْسَ اَبُوْقَلَابَۃَ مِنْ فُقَھَاءِ التَّابِعِیْنَ وَھُوَ عِنْدَالنَّاسِ مَعْدُوْدٌ فِی الْبُلْہِ ۔ (تہذ یب التہذیب زیرلفظ ابوقلابہ)

’’اِنَّہٗ مُدَلِّسٌ عَمَّنْ لَحِقَھُمْ وَ عَمَّنْ لَمْ یَلْحَقْھُمْ‘‘(میزان الاعتد ال زیرلفظ ابوقلابہ)

کہ ابو قلابہ فقہا ء میں سے نہ تھا ۔بلکہ وہ لوگوں کے نزدیک ابلہ مشہور تھا ۔ اورجو اسے ملا اس کے بارے میں اور جواس سے نہیں ملا اس کے بارے میں بھی وہ تدریس کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ثوبان کے متعلق ازدی کا قول ہے کہ یَتَکَلَّمُوْنَ فِیْہِ (میزان الا عتدال زیرلفظ ثوبان)

کہ اس راوی کی صحت میں کلام ہے۔

ترمذی کے دوسرے طریقہ میں عبدالرزاق بن ہمام اور معمربن راشد دو راوی ضعیف ہیں۔ عبدالرزاق بن ہما م تو شیعہ تھا۔ قَالَ النَّسَائِیْ فِیْہِ نَظَرٌ…… اِنَّہُ لَکَذَّابٌ وَالْوَاقِدِیُّ اَصْدَقُ مِنْہُ قَالَ الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِیُّ……کَانَ عَبْدُالرَّزَّاقِ کَذَّابًا یَسْرِقُ الْحَدِیْثَ۔(تہذیب التہذیب زیرلفظ عبدالرزاق و زیرلفظ معمربن راشد) کہ نسائی کے نزدیک قابل اعتبار نہیں ۔اور عباس عنبری کہتے ہیں کہ وہ کذاب تھا اور واقدی سے بھی زیادہ جھوٹا تھا یہ شخص کذاب تھا اور حدیثیں چراریا کرتا تھا۔

یہ روایت عبدالرحمن بن ہمام نے معمرسے لی ہے اور میزان میں لکھا ہے کہ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ یُخْطِیُٔ عَلٰی مَعْمَرَ فِیْ اَحَادِیْثِ……قَالَ ابْنُ عُیُیْنَۃَ اَخَافُ اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا(میزان الاعتدال زیرلفظ معمربن راشد)کہ یہ ان روایات میں غلطی کرتا تھا جو یہ معمر سے لینا بیان کرتا تھا ابن عیینہ کہتے ہیں کہ مجھے خوف ہے کہ یہ راوی قرآن مجید کی اس آیت کا مصداق تھا۔ (الکہف:۱۰۵)

اسی طرح ’’معمر بن راشد ‘‘ کے متعلق یحییٰ ابن معین کہتے ہیں کہ ’’ضعیف ‘‘ تھا (میزان الاعتدال زیرلفظ معمربن راشد)اور ابن سعد کہتے ہیں کہ شیعہ تھا اور ابوحاتم کہتے ہیں کہ بصرہ میں اس نے جو روایات بیان کی ہیں ان میں غلط روایات بھی ہیں ۔ (تہذیب التہذیب زیرلفظ معمربن راشد)

۴:۔ ابوداؤد کے راویوں میں ابو قلابہ اور ثوبان بھی ہیں جن کے متعلق ضمن بؔ مندرجہ بالا میں بحث ہو چکی ہے ۔ان کے علاوہ سلیمان بن حزب اور محمد بن عیسیٰ بھی ضعیف ہیں ۔ سلیمان بن حزب کے متعلق خود ابوداؤد کہتے ہیں کہ راوی ایک حدیث کو پہلے ایک طرح بیان کرتا تھا، لیکن جب کبھی دوسری دفعہ اسی حدیث کو بیان کرتا تھا۔ تو پہلی سے مختلف ہوتی تھی اور خطیب کہتے ہیں کہ یہ شخص روایت کے الفاظ میں تبدیلی کردیا کرتا تھا (تہذیب التہذیب زیرلفظ سلطان بن حزب) محمد بن عیسیٰ کے متعلق تو ابوداؤد کہتے ہیں۔ کَانَ رُبَمَا یُدَلِّسُ ( تہذیب التہذیب زیرلفظ محمد بن عیسیٰ) کہ کبھی کبھی تدیس کر لیتاتھا ۔ ابوداؤد کے دوسرے طریقہ میں عبدالعز یز بن محمد اور العلا ء بن عبد الرحمن ضعیف ہیں ۔ عبدالعز یز بن محمد کو امام احمد بن حنبل نے خطار کار ۔ ابوزرعہ نے ’’سَیِّیُٔ الْحِفْظِ‘‘ا ور نسائی نے کہا ہے کہ ’’لَیْسَ بِالْقَوِیِّ‘‘(یعنی قوی نہیں ) ابن سعد کے نزدیک ’’کثیر الغلط‘ ‘ اور ساجی کے نزدیک ’’وہمی ‘‘ تھا (تہذیب التہذیب زیرلفظ عبدالعزیز بن محمد) اسی طرح ابوداؤد کا دوسراراوی العلاء بن عبد الرحمن بھی ضعیف ہے کیونکہ ان کے متعلق ابن معین کہتے ہیں۔

’’ھٰؤُلَاءِ الْاَرْبَعَۃِ لَیْسَ حَدِیْثُھُمْ حُجَّۃٌ‘‘ (۱)سہل بن ابی صالح (۲)و العلاء بن عبدالرحمن (۳) وعاصم بن عبید اﷲ (۴) ابن عقیل ۔ (تہذیب التہذیب زیرلفظ العلاء بن عبدالرحمن)

پس جہاں تک راویوں کا تعلق ہے یہ روایت قابل استناد نہیں ۔

۵:۔اگر صحیح تسلیم کرلی جاے تو یاد رکھنا چاہیے کہ مسلم کی شرح’’ اکمال الاکمال ‘‘ میں لکھا ہے ۔ ھٰذَاالْحَدِیْثَ ظَھَرَصِدْقُہٗ فَاِنَّہٗ لَوْ عُدَّ مَنْ تَنَبَّأَ مِنْ زَمَنِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی الْاٰنَ لَبَلَغَ ھٰذَا الْعَدَدُ وَ یَعْرِفُ ذٰلِکَ مَنْ یُّطَالِعُ التَّارِیْخَ۔(اکمال الاکمال جلد۷ صفحہ۴۵۸ مصری) کہ تیس د جال آچکے ہیں……اور اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر آج تک کے تمام نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو گنا جاے تو یہ تعداد پوری ہو چکی ہے اور اس بات کو وہ شخص جو تاریخ کا مطالعہ کرے جان لے گا۔

اس کتاب کے لکھنے والا ۸۲۸ھ میں فوت ہوا۔ گویا چار سوسال گزرے کہ تیس دجا ل آ چکے ہیں مگر مولوی اب تک تیس کے عدد کو طویل کئے جارہے ہیں۔

۶:۔ نواب صدیق حسن خانصاحب آف بھوپال حضرت مر زا صاحب کے دعویٰ سے قبل اپنی کتاب حجج الکرامہ میں تحریر فرماتے ہیں: کہ دجالوں کی تعداد پوری ہوچکی ہے چنانچہ ان اصل عبارت فارسی حسب ذیل ہے :۔

’’ بالجملہ آنچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اخباربوجود دجالین کذابین دریں امت فرمودہ بود، واقع شد۔‘‘ (حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو اس امت میں دجالوں کی آمدکی خبردی تھی وہ پوری ہو کر تعداد مکمل ہو چکی ہے۔

غر ضیکہ خواہ ۲۷ دجالوں کی آمد کیپیشگوئیہو۔خواہ تیس کی بہرحال وہ تعداد پوری ہوچکی ہے۔

غیراحمد ی :۔ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ قیامت تک یادنیا کے اخیر تک یہ دجال آئیں گے۔(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۴۶، ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۱۹۷)

تم اس تعداد کا اب ہی پورا ہونا بتاتے ہو؟

الجواب:۔ اس کاجواب یہ ہے کہ بیشک قیامت سے پہلے ہی ان دجالوں نے آنا تھا اور اکمال الاکمال اور حجج الکرامہ کے حوالوں میں بھی یہی درج ہے۔ان میں سے ایک بھی ایسا دجال نہیں جو قیامت کے بعد ہوا ہو ۔ مثلاً ہم کہیں کہ ’’زید مرنے سے پہلے دو بیویاں کر ے گا۔‘‘ اب اگر زید تیس سال کی عمر میں دو بیویاں کر لے تو تمہارے جیسا کوئی عقلمند فورا کہہ دے گا کہ چونکہ ابھی تک زید مرا نہیں ۔ لہٰذا ثابت ہو کہ اس نے دو بیویاں نہیں کیں ۔ ؂

نہ سمجھا تھک گئے ہم اس بت خود سر کو سمجھاتے

سمجھ جاتا اگر اتنا کسی پتھر کو سمجھاتے

پانچویں حدیث:۔ سَبْعُوْنَ دَجَّالُوْنَ (فتح البخاری شرح بخاری جزو ۲۹صفحہ۵۶۴ مطبوعہ دہلی از حافظ ابن حجر ؒ، طبرانی میں بروایت عبداﷲ عمر ذکر ہے۔ حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ ۲۳۳)ستر دجال آئیں گے ۔

الجواب ۔ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ (حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ۲۳۳)حافظ ابن حجر گفتہ سند ایں ہر دو حدیث ضعیف است ۔

۲۔اس حدیث میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے بلکہ یہ مذکور ہے کہ وہ جھوٹی حدیثیں بنائیں گے ۔ پس یہ صرف واقدی جیسے وضّاعوں کے متعلق ہے نیز ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے اتنا بڑا طومار جھوٹی حدیثوں کو کھڑا کررکھا ہے ۔ پس مولویوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیئے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
چھٹی حدیث ۔مَثَلِیْ وَ مَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَقَصْرٍ ۔

(بخاری ۔ مسلم ۔ مشکوٰۃ ۔( فضائل سید المر سلین ۔ قصر نبوت والی حدیث )

الجوا ب الاوّل:۔ یہ روایت قابل استناد نہیں ۔ کیونکہ بلحاظ روایت ضعیف ہے ۔ یہ دو طریقوں سے مروی ہے پہلے طریقہ میں زہیر بن محمد تمیمی ضعیف ہے اس کے متعلق لکھا ہے :۔

’’قَالَ مَعَاوِیَۃُ عَنْ یَحْیٰی ضَعِیْفٌ وَذَکَرَہٗ اَبُوْ زَرْعَۃٍ فِیْ اُسَامَی الضُّعَفَاءِ قَالَ عُثْمَانُ اَلدَّارِمِیُّ لَہٗ اَغَالِیْطٌ کَثِیْرَۃٌ وَقَالَ النَّسَائِیْ ضَعِیْفٌ وَفِیْ مَوْضِعٍ اٰخَرَ وَلَیْسَ بِالْقَوِیِّ۔ ‘‘ (تہذیب التہذیب زیرلفظ زہیر بن محمد تیمی)

کہ یحییٰ کے نزدیک اور ابو زرعہ کے نزدیک ضعیف ہے ۔ عثمان الدارمی کہتے ہیں کہ اس کی غلط روایا ت کی کثر ت سے ہیں ۔ نسائی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔

اس حدیث کے دوسرے طریقہ میں عبداﷲ بن دینار مولیٰ عمر اور ابو صالح الخوزی ضعیف ہیں۔

عبداﷲ بن دینار کی روایت کو عقیلی نے مخدوش قرار دیا ہے ۔ (تہذیب التہذیب زیرلفظ عبداﷲ بن دینار) اور ابو صالح الخوزی کو ابن معین قرار دیتے ہیں ۔

(تہذیب التہذیب زیرلفظ ابوصالح الخوزی ومیزان الاعتدال زیرلفظ ابوصالح الخوزی)

الجواب الثانی:۔ باوجود اس امر کے کہ اس روایت کے راوی ضعیف ہیں ۔ اگر بغرض بحث اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی تمہارا بیان کردہ مفہوم غلط ہے ۔ بلکہ تم حدیث کا جو مطلب لیتے ہو۔ اوراگر وہ مطلب لیا جائے تو اس میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک ہے کیونکہ تمہاری تشریح کے مطابق ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آکر اینٹ کی جگہ پُر کر دی ۔ گویا اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے تو نبوت کے محل میں ایک موری یا سوراخ باقی رہ جاتا حالانکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق تو خدا نے فرمایا ہے ۔ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (نزہۃ النظر فی شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۱۳ حاشیہ از محمد عبداﷲ ٹونکی و موضوعات کبیر از مُلّا علی قاری صفحہ ۵۹ ، ۸۱)کہ اگر آپ ؐ نہ ہوتے تو میں تمام جہان کو پیدا نہ کرتا ۔

پس اس حدیث سے وہ مفہوم مراد نہیں ہے جو مولوی بیان کرتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث میں شریعت کے محل کا ذکر ہے جس کو نبی تعمیر کرتے ہیں پہلے انبیاء اپنے اپنے وقت میں ضرورت کے مطابق احکا م شریعت لاتے رہے اور اس محل کی تکمیلکا سامان جمع ہو تا رہا۔ چونکہ عقلِ انسانی ارتقا ء کے بلند ترین مقام پر ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے وہ شریعتیں ناقص تھیں اور ان میں کمی باقی تھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس وقت تکمیلِ عقل انسانی ہو چکی تھی اور احکام شریعت کو سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو چکی تھی۔ اس لیے خدا تعالی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھیجا۔ آپؐ نے آکر پہلی شریعتو ں کو بھی قرآن میں شامل کر لیا اور جو کمی باقی تھی اس کو بھی پورا کر کے شریعت کے محل کو پو را کر دیا۔ قرآن مجید میں ہے ( البیّنۃ:۴) گویا اس میں سب پہلی شریعتیں بھی شامل ہیں عقلِ انسانی کی وہ ترقی جو عیسےٰ علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک کے زمانہ میں ہوئی۔ اس کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’اینٹ کی جگہ‘‘ (موضع لبنۃٍ ) قرار دیا ہے ۔

الجوب الثالث:۔ اس حدیث میں اَلْاَنْبِیَآءُ مِنْ قَبْلِیْ کا فقرہ بتاتا ہے کہ اس میں آنحضرتؐ نے صرف پہلے انبیاء ہی کا ذکر کیا ہے۔ بعد میں آنے والے انبیاء کا ذکر مقصود نہیں ۔

الجواب الرابع:۔ اب جبکہ عیسےٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ اینٹ کہاں لگے گی؟ جہاں سے ان کے لیے گنجائش نکالو گے وہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے بھی گنجائش ہو گی۔ اگر کہو کہ عیسےٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں تو گویا معلوم ہو ا کہ عیسیٰ علیہ السلام والی اینٹ نہیں لگی۔ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرمانا چاہیئے تھا کہ دو اینٹوں کی جگہ باقی ہے۔ ایک میں اور ایک عیسیٰ بن مریمپس وفاتِ مسیح ثابت ہے۔

ساتویں حدیث :۔ اَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ (ترمذی جلد۲ باب فضائل النبی صلی اﷲ علیہ وسلم باب ما جاء فی اسماء رسول اﷲؐ)

جواب نمبر ۱:۔ یہ رو ایت قابل حجت نہیں۔ کیوں کہ اس کا ایک راوی سفیان بن عُیَینَہ ہے جس نے یہ روایت زُہری سے لی ہے ۔ سفیان بن عُیینہ کے متعلق لکھا ہے ۔ کَانَ یُدَلِّسُ قَالَ اَحْمَدُ یُخْطِیُٔ فِیْ نَحْوِ مِنْ عِشْرِیْنَ حَدِیْثٍ عَنِ الزُّھْرِیْ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعَیْدِ الْقَطَّانُ قَالَ اَشْھَدُ اَنَّ السُّفْیَانَ بْنَ عُیَیْنَۃَ اخْتَلَطَ سَنَۃِ سَبْعٍ وَّ تِسْعِیْنَ وَ مِائَۃٍ فَمَنْ سَمِعَ مِنْہُ فِیْھَا فَسَمَاعُہٗ لَا شَیْیءٌ۔ (میزان الاعتدال جلد۱ صفحہ ۳۹۷ حیدرآباد)یعنی یہ راوی تدیس کیا کرتا تھا امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ زہری سے بیسیوں روایات میں اس نے غلطی کی ہے ( یہ عاقب والی روایت بھی اس نے زہری ہی سے لی ہے) یحییٰ بن سعید کہتیہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ سفیان بن عُیَینَہ کی سن ۱۹۷ھ میں عقل ماری گئی تھی۔ پس جس نے اس کے بعد اس سے روایت لی ہے وہ بے حقیقت ہے اس روایت کے دوسرے راوی زہری کے متعلق لکھا ہے کہ ’’کَانَ یُدَلِّسُ فِی النَّادِرِ‘‘ ( میزان الاعتدال زیرلفظ ہری و انوار محمدی جلد۲ صفحہ ۴۴۸ )کہ یہ راوی کبھی کبھی تدیس بھی کرلیا کرتاتھا پس اس روایت میں بھی اسی راوی نے از راہ تدیس وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ کے الفاظ بڑھا دیئے کیو نکہ شمائل ترمذی شریف میں مجتبائی میں جہاں یہ حدیث ہے وہاں ـ ’’وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ‘‘کے الفاظ کے اوپر بین السطور میں لکھا ہے ’’ھٰذَاقَوْلُ الزَّھْرِیُّ‘‘ کہ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاقول نہیں بلکہ علامہ زہری کا اپنا قول ہے۔

( شمائل ترمذی مجتبائی مطبوعہ ۱۳۴۲ھ صفحہ۲۶باب ما جاء فی اسماء رسول اﷲؐ)

نمبر ۲۔’’عاقب‘‘عربی لفظ ہے اور صحابہ جن کے سامنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کلام فرما رہے تھے وہ بھی عرب تھے پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ترجمہ کرنے کی کیا ضرورت تھی یہ ترجمہ ہی صاف بتلا رہا ہے کہ یہ ترجمہ کسی ایسے آدمی نے کیا ہے جو اس حدیث کو ان لوگوں کے سامنے بیان کر رہا تھا جو عر ب نہ تھے ۔

نمبر ۳: ۔ چنانچہ حضرت ملّا علی قاری نے صاف طور پر فرما دیا ہے ’’اَلظَّاھِرُ اَنَّ ھٰذَا تَفْسِیْرٌ لِّلصَّحَابِیْ اَوْ مَنْ بَعْدَہٗ فِیْ شَرْحِ مُسْلِمٍ قَالَ ابْنُ الْاَعْرَابِیِّ اَلْعَاقِبُ الَّذِیْ یُخْلِفُ فِی الْخَیْرِ مَنْ کَانَ قَبْلَہٗ‘‘ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد۵ صفحہ ۳۷۶ و برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی باب اسماء النبیؐ)کہ صاف ظاہر ہے کہ اَلْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ کسی صحابی یا بعد میں آنے والے شخص نے بطور تشریح بڑھا دیا ہے اور ابن عربی نے لکھا ہے ’’عاقب‘‘ وہ ہوتا ہے جو کسی اچھی بات میں اپنے سے پہلے کا قائم مقام ہو۔

ضروری نوٹ:۔ غیر احمدی ’’عُلَمَاءُ ھُمْ‘‘نے ہمارے اس زبر دست جواب کی تاب نہ لا کر ترمذی کے نئے ایڈیشن میں اس حدیث کے الفاظ میں یہودیانہ مماثلت کوپورا کرنے کے لیے تحریف کر دی ہے۔ چنانچہ ترمذی مجتبائی جو ۱۳۶۶ ھ یا اس سے قبل چھپی ہے اس میں وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ کے الفاظ ہیں (یعنی عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو) مگر بعد کی اسی مطبع کی چھپی ہوئی ترمذی میں الفاظ یوں ہیں اَلْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ ( کہ عاقب ہو کہ میرے بعد کوئی بنی نہیں )۔

گویا’’بَعْدَہٗ‘‘ غائب کے صیغے……کو بدل کر بَعْدِیْ متکلم کا صیغہ بنا دیا ہے تا کہ متکلم کے صیغے سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ الفاظ بھی آنحضرتؐ ہی کے ہیں۔ کسی دوسرے شخص کے نہیں۔ مگر خداکے فضل سے ان کی چوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں نے پکڑ لی ۔

آٹھویں حدیث:۔’’اِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَنْتُمْ اٰخِرُ الْاُمَمِ‘‘

( سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال و خروج عیسیٰ ابن مریم۔ وکتاب الزہد باب صفت امۃ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم)

جواب نمبرا:۔ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ ابن ماجہ نے جن راویوں سے اسے نقل کیا ہے ان میں سے عبدالرحمن بن محمد المحاربی اور اسمٰعیل بن رافع (ابو رافع)ضعیف ہیں۔ عبدا لرحمن بن محمد کے متعلق لکھا ہے ۔ قَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ یَرْوِیُ الْمَنَاکِیْرَ عَنِ الْمَھْجُوْلِیْنَ قَالَ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ الْمُحَارِبِیَّ کَانَ یُدَلِّسُ……قَالَ ابْنُ سَعْدٍ کَانَ کَثِیْرُ الْغَلَطِ۔

( میزان الاعتدال از ابوعبداﷲ محمد بن احمد عثمان الذھبی ۷۴۸ھ زیرلفظ عبدالرحمن بن محمد المحاربی و تہذیب التہذیب زیرلفظ عبدالرحمن بن محمد المحاربی)

کہ ابن معین کہتے ہیں کہ یہ راوی مجہول راویوں سے ناقابل قبول روایات بیان کیا کرتا تھا۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ راوی تدیس کیا کرتا تھا۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ راوی بہت غلط روایات کیا کرتا تھا۔ اس کا دوسرا راوی ابو رافع اسمٰعیل بن رافع بھی ضعیف ہے کیوں کہ لکھا ہے:۔ ضَعَّفَہٗ اَحْمَدُ وَ یَحْیٰی وَ جَمَاعَۃٌ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ مَتْرُوْکَ الْحَدِیْثِ قَالَ ابْنُ عَدِّیٍّ اَحَادِیْثُہٗ کُلُّھَا فِیْہِ نَظَرٌ۔(میزان الاعتدال از ابوعبداﷲ محمد بن احمد عثمان الذھبی زیرلفظ ابورافع اسمٰعیل بن رافع جلد۱ صفحہ ۱۰۵ حیدرآبادی)

یعنی امام احمد یحییٰ اور ایک جماعتِ محدثین نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے دار قطنی اسے متروک الحدیث کہتے ہیں اور ابن عدی کے نزدیک اس کی تمام کی تمام روایا ت مشکوک ہیں۔ اسی طرح اسے نسائی نے متروک الحدیث قرار دیا ہے اور ابن معین، ترمذی اور ابن سعد کے نذدیک بھی ضعیف ہے۔(تہذیب التہذیب زیرلفظ ابورافع اسمٰعیل بن رافع )پس یہ روایت بھی جعلی ہے ۔

جوب نمبر ۲:۔حدیث کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ اس میں صرف ان انبیاء کاختم ہونا مذکور ہے جو آکر نئی امت بناتے ہیں اور نئی شریعت لے کر آئیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر ہو کر دعویٰ نبوت کریں ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
جواب نمبر ۳:۔ اس حدیث کی تشریح مسلم کی دوسری حدیث کرتی ہے:۔

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَنَّ مَسْجَدِیْ اٰخِرُ الْمَسٰجِدِ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فضل الصلوٰۃ فی مسجد المدینۃ و مکۃ و کنزالعمال کتاب الفضائل فضائل الامکنۃ والازمنۃ فضل الحرمین والمسجد الاقصیٰ حدیث نمبر۳۴۹۹۴) کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد اور کوئی مسجد نہیں بنی؟ بلکہ جتنی مسجدیں دنیا میں مو جو د ہیں سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد ہی تعمیر ہوئی ہیں کیا ان کی تعمیر ناجائز ہوئی ہے ؟ نہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اب میری مسجد کے بعد اور کوئی ایسی مسجد نہیں بن سکتی جو اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے نہ بنائی گئی ہوجو میری مسجد کا مقصد ہے یا جس میں وہ نماز نہ پڑھیجائے جو میری مسجد میں پڑھی جاتی ہے یا جس کا قبلہ اور ہو۔ غرضیکہ مغائرت اور مخالفت کے معنوں میں یہاں اٰخِرُ الْمَسٰجِدِ آیا پس یہی آخر الانبیا ء کا مطلب ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے یا میری شریعت کے خلاف ہویا میری اتباع کے خلاف ہو یا میری اتباع اور متابعت سے باہر ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے ۔

مگر ہماری بحث غیر تشریعی امتی نبوت میں ہے۔

’’لفظ‘‘ آخر کی مثالیں

عربی نمبر ۱:۔ شَرٰی وُدِّیْ وَ شُکْرِیْ مِنْ بَعِیْدٍ

لَاخَیْرَ غَالِبٍ اَبَدًا رَبِیْعٍ

(’’ دیوان الحماسہ‘‘ لابی تمام حبیب بن اوس الطائی باب الحماسہ وقال قیس بن زھیر صفحہ ۱۲۵ مترجم اردو)

اس شعر کا ترجمہ مولوی ذوالفقار علی صاحب دیو بند ی جو حماسہ کے شارح ہیں یو ں کرتے ہیں۔ ربیع ابن زیاد نے میری دوستی اور شکر دُور بیٹھے ایسے شخص کے لیے جو بنی غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لیے عدیم المثل ہے خرید لیا ہے گویا ’’آخر‘‘کا ترجمہ ’’ہمیشہ کے لیے عدیم المثل‘‘ہو ا ۔پس انہی معنو ں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آخر الانبیاء یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم النظیر ہیں ۔

نمبر۳۔ امام جلال الدین سیو طی نے امام ابن تیمیہ کے متعلق لکھا ہے ۔

سَیِّدُنَا الْاِمَامُ الْعَالِمُ الْعَلَّامَۃُ۔ اِمَامُ الْاَئِمَّۃِ قُدْوَۃُ الْاُمَّۃِ عَلَّامَۃُ الْعُلَمَاءِ وَارِثُ الْاَنْبِیَاءِ اٰخِرُ الْمُجْتَھِدِیْنَ۔

(الاشباہ والنَّظَائر جلد۳ صفحہ ۳۱۰ مطبوعہ حیدرآباد و محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۳۴ایڈیشن اپریل ۱۹۸۹ء)

گویا امام ابن تیمیہ آخر المجتہدین تھے کیا ان کے بعد کوئی اور مجتہد نہیں ہو ا؟

اردو:۔ڈاکٹر سر محمد اقبال اپنے استاد داغؔ کا مرثیہ لکھتے ہوے کہتے ہیں ؂

چل بسا داغؔ آہ میت اس کی زیب دوش ہے آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے

گویا داغؔ دلی کا آخری شاعر تھا۔اسی مرثیہ میں آگے چل کر ڈاکٹر صاحب موصوف کہتے ہیں ؂

چل دیئے ساقی جوتھے مہ خانہ خالی رہ گیا یاد گار بزم دلّی ایک حالی رہ گیا

(بانگ درا از ڈاکٹر علامہ محمد اقابل صفحہ ۵۷)

گویا داغؔ کے بعد حالیؔ بزم دلّی کی یاد گا ر ہیں۔ نیز داغ کے بعد بھی دلّی میں سینکڑوں شاعر ہوئے ہیں جلیلؔ وغیرہ ان میں سے ممتاز ہیں ۔

نویں حدیث:۔اَنَا الْمُقَفّٰی( صحیح مسلم کتاب فضائل النبیؐ باب فی اسماء النبی صلی اﷲ علیہ وسلم) مقفیٰ کے معنی ہیں آخری بنی ۔

الجواب:۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بے شک مقفّٰی ہیں مگر مقفّٰی کاترجمہ آخری نبی جو غیر احمدی علماء کرتے ہیں وہ قطعاً غلط ہے علامہ ابن الانباری فرماتے ہیں۔مَعْنَاہُ الْمُتَّبَعُ لِلنَّبِیِّیْنَ (اکمال الاکمال شرح مسلم جلد ۶ صفحہ۱۴۳) کہ مقفیٰ کے معنے ہیں کہ وہ جس کی نبیاء اتباع کریں گویا یہ نام بذاتِ خود اس امر کا مقتضی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انبیاء آویں جو آ پ کی پیروی اور اتباع کریں اس کو انقطاع نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کرنا نادانی ہے ۔

دسویں حدیث:۔ یعفور نامی گدھے کا عقیدہ تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا۔ چنانچہ ابن حبّان اور ابن عساکر نے اس کو روایت کیا ہے کہ اس نے کہا لَا مِنَ الْاَنْبِیَآءِ غَیْرُکَ کہ اے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اب آپ کے سوا کوئی نبیوں میں سے باقی نہیں ہے۔

(دیکھو رسالہ حجۃاﷲ للعٰلمینصفحہ ۴۶۰ بحوالہ رسالہ ختم نبوت مصنفہ النبی الخبیر مولوی محمد بشیر کوٹلی لوہاراں صفحہ ۲۶ و ۲۷)

الجواب:۔ اس روایت کا جواب یہی ہے کہ اس کا کوئی جواب نہیں فی الواقعہ گدھے کا یہی خیال ہے کہ نبوت بند ہو گئی، لیکن تمہا را بیان کردہ گدھا توساتھ ہی ساتھ وفات مسیح کا بھی اعلان کر رہا ہے کیونکہ کہتا ہے کہ میری خواہش تھی کہ مجھ پر کوئی نبی سو اری کرے ۔ اب آپ کے سوا کوئی نبی نہیں رہ گیا اور میری نسل میں سے میرے سوا کوئی گدھا باقی نہیں اگر تہارے نزدیک گدھے کا یہی مذہب درست ہے تو وفات مسیح کا بھی اقرار کرو ۔ تمہاری اس مضحکہ خیز روایت کے پیش نظر وہ کون سے گدھے پر سواری کریں گے ؟

تحقیقی جواب:۔ یہ روایت محض بے اصل اور بے سند ہے اور اس روایت کو پیش کرناخو د آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں حد درجہ گستاخی کے مترادف ہے ۔

گیارھویں حدیث:۔ حدیث میں ہے ’’اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَ لَا نَبِیَّ‘‘

( ترمذی کتاب الرؤیا باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات، مسند احمد مسندالمکثرین من الصحابہ مسند انس بن مالک۔ فتوحاتِ مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد۲ صفحہ۳)

جواب ۱:۔یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کے چار راوی (ا)حسن بن محمد الزعفرانی ابو العلی بغدادی (۲)عفان بن مسلم البصری ۔(۳) عبدالواحد بن زیاد اور (۴)المختار بن فِلفِل المخذومی ضعیف ہیں ۔گویا سوائے حضرت انسؓ کے شروع سے لے کر آخر تک تمام سلسلۂ اسناد ضعیف راویوں پر مشتمل ہے حسن بن الزعفرانی کے متعلق علامہ ذہبی لکھتے ہیں ’’ضَعَّفَہٗ ابْنُ قَانِعٍ وَ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ قَدْ تَکَلَّمُوْا فِیْہِ‘‘ (میزان الاعتدال جلد۱ صفحہ۲۴۱ مطبوعہ حیدرآباد و مطبوعہ انوار محمدی جلد۱ صفحہ۲۱۲) یعنی ابن قانع کہتے ہیں کہ ضعیف تھا ۔ دار قطنی کہتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک اس راوی کی صحت کے بارے میں کلا م ہے۔ ابن عدی کہتے ہین کہ اس راوی نے ایسی احادیث کی روایات کی ہیں جن کا میں نے انکار کیا ۔

اسی طرح دوسرے راوی عفان بن مسلم البصری کے متعلق ابو خیثمہ کہتے ہیں ۔ اَنْکَرْنَا عَفَّانَ ( میزان الاعتدال زیرلفظ عفان بن مسلم البصری) کہ ہم اس راوی کو قابل قبول نہیں سمجھتے ۔ تیسرے راوی عبدالواحد بن زیاد کے متعلق لکھا ہے :۔فَقَالَ یَحْیٰی لَیْسَ بِشَیْءٍ ( میزا ن الاعتدال زیرلفظ عبدالواحد بن زیاد) کہ یحییٰ کہتے ہیں یہ راوی کسی کام کا نہیں ہے ۔

اسی طرح چوتھے راوی مختار بن فلفل کے متعلق کے متعلق لکھا ہے کہ یُخْطِیُٔ کَثِیْرًاتَکَلَّمَ فِیْہِ سَلَیْمَانِیْ نَعَدَّہٗ فِیْ رَوَایَۃِ الْمَنَاکِرِ عَنْ اَنَسٍ(تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیرلفظ مختار) کہ یہ راوی روایت میں اکثر غلطی کرتا تھا ۔ سلیمانی نے کہا ہے کہ یہ راوی انس سے ناقابل قبول روایات بیان کرنے والوں میں سے ہے چنانچہ روایت زیر بحث بھی اس روی نے انس سے ہی روایت کی ہے لہٰذا محدثین کے نزدیک قابل انکار ہے اور حجت نہیں ۔

۲۔حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:ـ۔’’اِنَّ النُّبُوَّۃَ الَّتِیْ اِنْقَطَعَتْ بِوَجُوْدِ رُسُوْلِ اللّٰہِ صَلْعَمْ اِنَّمَا ھِیَ النُّبُوَّۃُ التَّشْرِیْعُ لَا مُقَامَھَا فَلَا شَرْعَ یَکُوْنُ نَاسِخًا لِشَرْعِہٖ صَلْعَمْ وَلَا یَزِیْدُ فِیْ شَرْعِہٖ حُکْمًا اٰخِرِ وِ ھٰذِا مِعْنٰی قَوْلِہٖ صَلْعَمْ اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ اَیْ لَا نَبِیَّ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُّخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذَا کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ (فتوحات مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد۲ صفحہ۳)

کہ وہ نبوت جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقامِ نبوت۔ اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آسکتی نہ اس میں کوئی حکم کم کر سکتی ہے نہ زیادہ۔ یہی معنی ہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قو ل کے کہ اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میر ی شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو ۔ہاں اس صور ت میں نبی آسکتا ہے کہ وہ میر ی شریعت کے ما تحت آئے۔ (مفصل دیکھو دلائل امکانِ نبوت از اقوال بزرگان صفحہ ۴۴۲)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بارہویں حدیث:۔ لَا نُبُوَّۃَ بَعْدِیْ

(مسلم کتاب المغازی و فی ذکر غزوۃ تبوک حدیث بروایت سعد بن ابی وقاص و ترمذی کتاب فضائل صحابہ)

جواب ( ا) یہ رویت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کے چار رویوں میں تین ضعیف ہیں۔ قتیبہ۔حاتم بن اسمٰعیل المدنی ۔ بکیر بن مسمار الزہری ۔ قتیبہ کے متعلق لکھا ہے ۔قَالَ الْخَطِیْبُ ھُوَ مُنْکَرٌ جِدًّا(تہذیب ا لتہذب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیرلفظ قتیبہ) کہ خطیب کہتے ہیں کہ وہ سخت نا قابل قبول راوی ہے حاتم بن اسمٰعیل راوی کے متعلق نسائی کہتے ہیں کہ ’’لَیْسَ بِالْقَوِیِّ‘‘( تہذیب التہذیب زیرلفظ حاتم بن اسمٰعیل راوی ) کہ یہ راوی ثقہ نہیں تھا ۔

چوتھے راوی بکیر بن مسمار الزہری کے متعلق لکھا ہے ۔ قَالَ الْبُخَارِیُّ فِیْہِ نَظَرٌ( تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی زیرلفظ بکیر و میزان الاعتدال زیرلفظ بکیر بن مسمار الزہری) امام بخاری کہتے ہیں کہ اس راوی کے ثقہ ہونے میں کلام کیا جاتا ہے لہٰذا یہ روایت بھی حجت نہیں ہے ۔

(ب)۔ لَا نُبُوَّۃَ بَعْدِیْکے الفاظ ایک اور روایت میں بھی آتے ہیں۔ جس کو ابو نعیم نے حضرت معاذ ؓ سے روایت کیا ہے، لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ روایت ’’موضوع ‘‘ہے رَوَاہُ اَبُوْنَعِیْمٍ عَنْ مَعَاذٍ مَرْفُوْعًا وَ ھُوَ مَوْضُوْعٌ اٰفَتُہٗ بَشَرُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ الْاَنْصَارِیِّ( الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعۃ از امام شوکانی مطبوعہ محمدی پریس صفحہ ۱۱۶)کہ اس کا راوی بشر بن ابراہیم وضاع ہے اور یہ روایت جعلی ہے ۔

تیرھویں حدیث:۔’’کُنْتُ اَوَّلَ النَّبِیِّیْنَ فِی الْخَلْقِ وَاٰخِرَھُمْ فِی الْبَعْثِ‘‘

(موضو عات کبیر از مُلّا علی قاریصفحہ ۱۱۶ و درمنثور جز۵ از جلال الدین سیوطیؒ صفحہ ۱۸۴سورۃ الاحزاب زیرآیت یایھاالذین اذکروا نعمۃ اﷲ علیکم اذ جاء تکم جنود……الخ نمبر ۱۰)

جواب:۔ یہ ر وایت بھی موضوع ہے لکھا ہے: ۔ قَالَ الصِّغَانِیُّ ھُوَ مَوْضُوْعٌ وَ کَذَا قاَلَ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ ( الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ از امام شوکانی مطبوعہ محمدی پریس صفحہ ۱۰۸)کہ صغانی اور امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ روایت موضوع ہے۔

چودھویں حدیث:۔ لَا یُبْعَثُ بَعْدِیْ نَبِیًّا (الفوائد المجموعہ از امام شوکانی مطبوعہ محمدی پریس صفحہ ۱۵۲) کہ اﷲ تعالیٰ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کرے گا ۔

جواب: ۔یہ رویت بھی جھوٹی اور جعلی ہے۔ امام شوکانی اس روایت کو نقل کر کے لکھتے ہیں۔ ’’ھُوَ مَوْضُوْعٌ‘‘ (الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعۃ از امام شوکانی مطبوعہ محمدی پریس صفحہ ۱۵۲ سطر نمبر۱۰) کہ یہ روایت جعلی ہے۔

پس غیر احمد ی علماء کی طرف سے جس قدر روایا ت اپنی تائید میں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک بھی اس امر کے اثبات کے لیے کافی نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی پیروی اور غلامی میں آپ کی امت میں سے کوئی غیر تشریعی نبی نہیں آسکتا ۔

پندرہویں حدیث :۔ ’’اِنَّ جِبْرِیْلَ لَا یَنْزِلُ اِلَی الْاَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلْعَمْ۔‘‘

(اقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الکائنۃ فی الرواۃصفحہ ۱۶۳)(روح المعانی سورۃ الاخزاب زیرآیت نمبر۳۹:۴۸)

جواب :۔ یہ حدیث بے اصل ہے (اقتراب الساعۃصفحہ ۱۶۳)

لکھاہے:۔’’ یہ حدیث اِنَّ جِبْرِیْلَ لَا یَنْزِلُ اِلَی الْاَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلْعَمْ۔ بے اصل ہے ۔ حالانکہ کئی حدیثوں میں آنا جبریل کا آیا ہے ۔‘‘

( اقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الکائنۃ فی الرواۃصفحہ۱۶۳)

۲۔ حضر ت علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :۔

’’وَ مَا اشْتَھَرَ اَنَّ جِبْرِیْلَ لَا یَنْزِلُ اِلَی الْاَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ فَھُوَ لَا اَصْلَ لَہٗ‘‘

(روح المعانی الاحزاب زیرآیت نمبر ۳۹:۴۸و حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ ۴۳۱)

پس یہ رو ایت بھی حجت نہیں ۔

شر ک فی الرسالت کا لزام

احراری محض عوام کو دھوکہ دینے کی نیت سے کہا کرتے ہیں کہ ہم ’’شرک فی الرسالت‘‘ برداشت نہیں کر سکتے۔

جواب:۔( ۱)’’شرک فی الرسالۃ‘‘ کے قابلِ اعتراض ہونے کی اصطلاح تم نے کہاں سے نکالی ہے ؟ کیونکہ ’’شرک‘‘ تو اسلامی اصطلاح میں صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو ہم پلّہ یا حصہ دار ماننے کا نام ہے کیونکہ وہ ’’واحد‘‘ہے، لیکن رسالت تو ایک ایساانعام الٰہی ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی شریک ہیں ۔ پس اگر شرک فی الرسالۃ کوئی قابلِ اعتراض چیز ہے تو ہر مسلمان ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ اس شرک فی الرسالۃ کا اقرار کرتا ہے ۔

۲۔ تم خود مسیحؑ کی آمدِ ثانی کے قائل ہو جو’’نبی‘‘اﷲ کا ہے ۔پھر شرک فی الرسالۃ کی غیرت کہاں گئی ۔

۳۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکو وادیٔ طور میں (طٰہٰ :۱۳) کی صدالگا ئی اور دربارِ فرعون میں جانے کا حکم ملا تو حضرت مو سیٰ ؑنے یہ دعاکی ۔ (طٰہٰ:۳۰ تا۳۲)

اس آیت کا ترجمہ تفسیر قادری المعروف بہ تفسیر حسینی اردو و فارسی سے نقل کیا جاتا ہے ۔

’’اور کر دے میرے واسطے یعنی مقرر کر مدد دینے والا یا بوجھ بانٹنے والا میرے لوگوں میں سے ہارون میرا بھا ئی مضبوط کر اس کے سبب سے میری پیٹھ اور شریک کر اس ا ے میرے کا م میں یعنی انہیں نبوت میں میرا شریک کر دے۔‘‘ (جلد۲ صفحہ ۳۶)

(۴) حضرت امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ بھی فرماتے ہیں:۔ وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ وَالْاَمْرُ ھٰھُنَا النُّبُوُّۃُ (تفسیر کبیر جلد۶ صفحہ ۴۷ مصری زیرآیت وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ طٰہٰ:۳۲) یعنی یہ شریک فی النبوۃ کرنے کی دعا ہے۔

(۵) تفسیر ابی السعو د میں ہے:۔’’اِجْعَلْہُ شَرِیْکِیْ فِیْ نُبُوَّتِیْ‘‘(برحاشیہ تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۴۹ مصری ز یرآیت وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ طٰہٰ:۳۲) یعنی یہ دعا کی کہ اے خدا! ہارون کو میر ی نبوت میں شریک کر دے۔ پس یہ ’’شرک فی الرسالۃ‘‘ تو وہ اعلیٰ اور عمدہ چیز ہے جسے حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے دعاکر کے لجاجت سے حاصل کیا اور اﷲ تعالیٰ نے بھی اسے بہت بڑا انعام اور افضل قرار دیا۔ جیسا کہ فرماتا ہے :۔

(طٰہٰ: ۳۷،۳۸ )کہ اے مو سیٰ! ہم نے تیری یہ ’’شرک فی الرسالۃ‘‘والی دعا قبول کر لی اور صرف یہ نہیں بلکہ اس کے علاوہ ہم نے پہلے بھی ایک موقع پرتجھ پر ایک اور بڑا فضل کیا تھا ۔ سورۃمریم :۵۴ میں ہے’’ ‘‘یعنی ہم نے اپنی طرف سے خاص رحمت کے طور سر حضرت مو سیٰ ؑ کے بھائی ہارون ؑ کو نبی بنا یا۔ پس ثابت ہو ا کہ جس طرح موسیٰ ؑ کے نبی بن جانے کے بعد ان کے بھائی کاان کے تابع نبی ہوناحضرت مو سیٰ ؑکی توہین نہیں بلکہ عزت افزائی اور فضل خدا وندی ہے اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے غلاموں میں سے کسی کا نبی ہونا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت ہی میں رہناآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی علّو مرتبت اور شانِ عظمیٰ کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ باعث توہین ہے چنانچہ لکھا ہے:۔

ا۔ خاتم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرتبہ کو دیکھنا چاہیئے کہ ایسا پیغمبر جو کلمۂ خدا و روح اﷲ ہے زمانِ آخر میں ان کی امت میں داخل شامل ہو گا۔ یہ رتبہ تو دنیا میں پایا جاوے گا آخرت میں پورا پورا رتبہ عزت سب انبیا ء و رسل پر ظاہر ہوگا ۔ انشاء اﷲ ۔(اقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صفحہ ۹۴مطبع مفیدعام الکائنۃ فی الرواۃ ۱۳۰۱ھ)

ب۔’’لَیْسَ فِی الرُّسُلِ مَنْ یَّتَّبِعُہٗ رَسُوْلٌ اِلَّا نَبِیُّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ کَفٰی بِھٰذَا شَرْفًا لِھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ‘‘(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۴۲۷ سطر نمبر۱الفصل الاوّل در مطبع شاہجہانی) یعنی جملہ انبیاء علیہم السلام میں سے سوائے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اور کوئی ایسا نبی نہیں ہے جس کے تابع کوئی دوسرا نبی ہو اور یہ امت محمدیہ کی ایک بہت بڑی فضیلت ہے۔‘‘ گویا جس چیز کو احراری معترض کی خود ساختہ اصطلاح کے نام سے ناقابل برداشت ’’توہین‘‘ قرار دیتا ہے علماء گذشتہ کے نزدیک یہی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے بڑی فضیلت ہے اور امت محمدیہ کے شرف اور مرتبہ کو ثابت کرنے والی ہے۔

حضرت مو سیٰ ؑ کا جواب:۔

(۶) تورات میں ہے کہ حضرت مو سیٰ ؑ کے زمانہ میں بھی ’’شرک فی الرسالۃ‘‘کی جھوٹی ’’غیرت‘‘کا مظاہرہ کیا گیا تھا مگر حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے اس کا وہی جواب دیا جو آج ہم احرایوں کو دیتے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے انعام کے دروازے بند کرنے والے کون ہو ؟

ملاحظہ ہو۔ تو رات میں ہے :۔’’تب مو سیٰ ؑنے باہر جا کر خداوند کی باتیں قو م سے کہیں اور بنی اسرائیل سے سترشخص اکٹھے کئے اور انہیں خیمہ کے آس پاس کھڑا کیا۔ تب خداوند بدلی میں ہو کر اترا اور اس سے بولا اور اس کی روح میں سے جو اس میں تھی کچھ لے کے ان ستر بزرگ شخصوں کو دی۔ چنانچہ جب روح نے ان میں قرارپکڑا تو وہ نبوت کرنے لگے اور بعد اس کے پھر نہ کی اور ان میں سے دو شخص خیمہ گا ہ ہی میں رہے تھے جن میں سے ایک کا نام اِلداد تھا دوسرے کا نام میداد ۔ چنانچہ روح نے ان میں قرا ر پکڑ ا اور وہ خیمہ گا ہ ہی میں نبوت کرتے تھے ۔ تب ایک جوان نے دوڑ کے موسیٰ کوخبر دی کہ الدادؔ اور میدادؔ خیمہ گاہ میں نبوت کرتے ہیں ۔ سو موسیٰ کے خادم نونؔ کے بیٹے یشوع نے جو اس کے خاص جوانوں میں سے تھا۔ موسیٰ سے کہا :کہ اے میرے خداوند موسیٰ! انہیں منع کر۔ موسیٰ ؑ نے اسے کہا کیا تجھے میرے لیے رشک آتا ہے کاش کہ خداوند کے سارے بندے نبی ہوتے اور خداوند ان میں اپنی روح ڈالتا۔‘‘

( گنتی باب ۱۱آیت ۲۴ تا ۳۰)

غیر احمدی :۔ یہ تورات کا حوالہ ہے یہ بطور دلیل پیش نہیں ہو سکتا ۔

جواب:۔ قرآن میں ہے:۔ (یونس:۹۵) صحیح حدیث میں ہے ’’حَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَا ھَرَجَ‘‘ (بخاری۔ ترمذی۔ مسند احمدحنبلؒ۔ ابو داؤد بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطی جلد۱ صفحہ ۱۲۶ مطبوعہ مصر باب الباء و جلد۱ صفحہ۱۴۷ باب الحاء) یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بنی اسرائیل کی روایات بیان کرنے اور ان سے فائدہ اٹھا نیکی اجازت دی ۔ اور فرمایا کہ بے شک بنی اسرائیل کی روایات اخذ کر لیا کرو ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ خیر یہ تو عام حکم ہے لیکن روایت زیر بحث میں تو جس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہے اور خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس نظریہ کی طرف رہنمائی کرتاہے جو سورۃ طٰہٰ کی مندرجہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ پس اسکی صحت میں تو قطعاًکوئی کلام نہیں ہو سکتا ۔
 
Top