• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تردید دلائل انقطاع نبوت از روئے قرآن مجید

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تردید دلائل انقطاع نبوت از روئے قرآن مجید

پہلی آیت:۔ (الاحزاب:۴۱)

الجواب:۔ ۱۔ خَاتَمْ (تاء کی زبر کے ساتھ ) کے معنی ’’ختم کرنے والا‘‘ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ اسمِ فاعل نہیں بلکہ اسمِ آلہ ہے جس طرح ’’عَالَمْ‘‘ مَایُعْلَمُ بِہٖ یعنی جس سے علم حاصل ہو، یعنی اﷲ تعالیٰ کی ہستی معلوم ہو چونکہ دنیا سے خدا کی ہستی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اسے عَالَمْ کہتے ہیں۔ اسی طرح ’’خَاتَمْ‘‘ ہے جس کے معنی یُخْتَمُ بِہٖ ہوں گے۔ یعنی جس سے مہر لگائی جائے۔

پس خَاتَمْ کا ترجمہ ختم کرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ اسم فاعل میں عین کلمہ مکسور ہوتا ہے۔ جیسے قاتل ناصر۔ فاعل وغیرہ مگر خَاتَمْ میں عین کلمہ یعنی تاء مکسور نہیں بلکہ مفتوح ہے۔

۲۔ عربی زبان میں ’’خَاتَمْ‘‘ بفتحہ تا ء جب کسی جمع کے صیغہ کی طرف مضاف ہو مثلاً خَاتَمُ الشُّعَرَاءِ۔ خَاتَمُ الْفُقَھَاءِ۔ خَاتَمُ الْاَکَابِرِ۔ خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْنَ۔ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ خَاتَمُ الْمُھَاجِرِیْنَ وغیرہ ہو۔ تو اس کے معنے ہمیشہ بعد میں آنے والوں سے ’’افضل‘‘ کے ہوتے ہیں ہمارا غیر احمدی علماء کو چیلنج ہے کہ وہ عربی زبان کا کوئی مستعمل محاورہ پیش کریں جس میں ’’خاتم‘‘ کسی جمع کے صیغے کی طرف مضاف ہوا ہو اور پھر اس کے معنے بند کرنے والے کے ہوں کسی لغات کی کتاب لسان العرب، تاج العروس وغیرہ کا حوالہ دے دینا کافی نہ گا۔ جب تک اہلِ زبان میں اس محاورہ کا استعمال نہ دکھایا جاوے لغت کی کتابیں لکھنے والے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں او ر ان کی کتابوں میں ان کے اپنے عقائد کا داخل ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔ مثلا ’’المنجد اور الفرائد الدریہ‘‘ دونوں عربی کی لغات ہیں جن کے مؤلف عیسائی ہیں اور انہوں نے ’’ثالوث‘‘ کا ترجمہ ’’تثلیث مقدس‘‘The Holy Trinity کیا ہے۔ اب ’’مقدس‘‘ کسی لفظ کا ترجمہ نہیں بلکہ مؤلف کا اپنا اعتقاد ہے بعینہٖ اسی طرح ایک لغت لکھنے والا اگر اس عقیدہ کا حامی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت بند ہے تو وہ طبعًا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَکا ترجمہ نبیوں کو ختم کرنے والا ہی کرے گا قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے لغات لکھنے والوں کا ترجمہ مدِّ نظر رکھ کر خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَکا لفظ نہیں بولا۔ بلکہ اس اسلوب بیان کو مدِّ نظر رکھا ہے جو اہلِ زبان کا ہے لہٰذا ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ایک عرب جب ’’خاتم‘‘ کو کسی جمع کے صیغے مثلاً ’’شعراء۔ الفقھاء۔ المھاجرین‘‘ وغیرہ کی طرف مضاف کرتا ہے تو اس سے اس کی مراد کیا ہوتی ہے۔ جس طرح یہ لفظ قرآن مجید میں مستعمل ہوا ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اس طریق پر یہ لفظ ہمیشہ افضل کے معنوں میں آتا ہے۔ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے استعمال فرمایا ہے ۔ (۱) اِطْمَئِنَّ یَا عَمِّ فَاِنَّکَ خَاتَمُ الْمُھَاجِرِیْنَ فِی الْھِجْرَۃِ کَمَا اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ فِی النُّبُوَّۃِ۔ (کنز العمال از علامہ علاؤ الدین جلد ۶ صفحہ ۱۷۸ حرف العین فی ذکر العباس)

’’اے چچا (عباسؓ) آپ مطمئن رہئے کہ آپ اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جس طرح میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘

اب کیا حضرت عباس ؓ کے بعد کوئی مہاجر نہیں ہوا؟ حضرت مولوی رحمت اﷲ صاحب مہاجر مکی کے علاوہ آج تک ہزاروں لوگوں نے ہجرت کی اور قیامِ پاکستان کے بعد تو ایسی ’’ہجرت‘‘ ہوئی جس کی مثال ہی نہیں ملتی۔

پس ثابت ہوا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو ان معنوں میں خاتم المہاجرین قرار دیا ہے کہ ان کے بعد ان کی شان کا کوئی مہاجر نہ ہوگا۔ اگر کہو کہ یہاں صرف مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کا حضرت عباسؓ کو خاتم قرار دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں تو مکہ کا کوئی لفظ نہیں۔ جس لفظ (یعنی الف لام) کی تخصیص سے تم مکہ کی قید نکالتے ہو۔ اسی الف لام کی تخصیص سے ہم خاتم النبیین کے معنے صاحبِ شریعت نبیوں کا ختم کرنے والا کریں۔ تو اس پر اعتراض کیوں؟

نوٹ:۔ بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ اگر خاتم بمعنے ’’افضل‘‘ لیا جائے تو لازم آئے گا کہ حضرت عباسؓ ابو بکرؓ و عمر ؓ و علی ؓ رضوان اﷲ علیہم بلکہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی نعوذ باﷲ افضل ہوں۔ کیونکہ یہ بھی سب مہاجرین ہیں۔

جواب:۔ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ لفظ ’’خاتم‘‘ جب کسی صیغہ جمع کی طرف مضاف ہو تو اس میں موصوف کے بعد آنے والوں پر اس کی افضلیت مراد ہوتی ہے۔ پس حضرت عباس رضی اﷲ عنہ ’’خاتم المہاجرین‘‘ ہیں یعنی اپنے بعد میں آنے والے سب مہاجرین سے افضل ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا بھی ان ہی معنوں سے ہو گا کہ آپؐ اپنے بعد میں آنے والوں نبیوں سے افضل ہیں۔ تو کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء سے افضل نہیں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک حضورؐ اپنے سے بعد میں آنے والے نبیوں سے بوجہ خاتم النبیین ہونے کے افضل ہیں، لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سے پہلے ابنیاء سے بھی افضل ہیں کیونکہ حضورؐ خود فرماتے ہیں:۔

’’اِنِّیْ عِنْدَ اللّٰہِ مَکْتُوْبٌ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَ اِنَّ اٰدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِیْ طِیْنَتِہٖ۔‘‘

(۱۔ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن باب فضائل سید المرسلین صلوات اﷲ و سلام علیہ الفصل الاول۔ ۲۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۸ حدیث العرباض بن ساریہ۔ ۳۔ کنز العمال جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۸ کتاب الرابع من حرف الفاء کتاب الفضائل من قسم الافعال باب الاول الفصل الثالث فی فضائل متفرقہ تبنیٔعن التحدیث بالنعم دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

کہ میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبین ہوں جبکہ حضرت آدمؑ ابھی مٹی اور پانی میں تھے (نیز محمدیہؐ پاکٹ بک مطبوعہ ۱۹۸۹ء صفحہ ۴۰۲) گویا جس قدر انبیاء آئے وہ سب ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النبیین بننے کے بعد آئے۔ لہٰذا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تمام انبیاء سے ’’افضل‘‘ ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؂

سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر

لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے

نوٹ نمبر۲:۔ اس موقعہ پر بعض غیر احمدی لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الجہاد۔ ۲۔ کنز العمال جلد اول کتاب الاذکار من قسم الافعال من حرف الھمزہ باب فی القرآن فصل فی تفسیر سورۃ البقرۃ) والی حدیث بھی پیش کرتے ہیں تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ حدیث تو ہماری مؤید ہے۔ کیونکہ اس میں ’’لَا ہِجْرَۃَ‘‘ کا لفظ اسی طرح مستعمل ہوا ہے جس طرح لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں۔ اب کیا ’’لَا ہِجْرَۃَ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اب مطلقًا ہجرت ہی بند ہے؟ یا یہ کہ صرف ایک خاص ہجرت جو مکہ سے مدینہ کی طرف تھی وہ بند ہے؟ ظاہر ہے کہ مطلقًا ہجرت بند نہیں۔ کیونکہ یہ واقعات کے بھی خلاف ہے اور اس سے قرآن مجید کی آیات متعلقہ ہجرت کو منسوخ ماننا پڑتا ہے اب رہی دوسری صورت کہ خاص ہجرت بند کی گئی۔ تو بعینہٖ اسی طرح لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں بھی قطعًا نبوت بند نہ ہوئی بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت مراد لینی پڑے گی یعنی تشریعی نبوت یا بلا واسطہ نبوت وہو المراد۔

چنانچہ حضرت امام رازیؒ حدیث لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ کے بارے میں لکھتے ہیں:۔ وَ اَمَّا قَوْلُہٗ لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ‘‘ فَالْمُرَادُ اَلْھِجْرَۃُ المَخْصُوْصَۃُ (تفسیر کبیر جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۳ الطبعۃ الثانیۃ دار الکتب العلمیۃ طہران۔ مسند احمد بن حنبل مسند عبد اﷲ بن عباس حدیث ۱۹۹۱) یعنی اس حدیث میں مطلق ہجرت کی نفی نہیں بلکہ مخصوص ہجرۃ کی نفی مراد ہے اسی طرح تمہارا ’’لا‘‘ نفی جنس بھی اڑگیا!

۲۔ اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْصِیَاءِ‘‘

(کنوز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق بر حاشیہ جامع الصغیر مصری جلد ۱ صفحہ ۸۱)

کہ مَیں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علیؓ! تو خاتم الاوصیاء ہے کیا حضرت علیؓ کے بعد نہ کوئی موصی ہو سکتا ہے اور نہ کوئی وصی؟

ب۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔

اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَآءِ وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْلِیَّآءِ۔‘‘ (تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبیین احزاب رکوع ۳) کہ اے علی! میں خاتم الانبیاء ہوں اور تو خاتم لاولیاء ہے۔

۳۔ فتوحات مکیہ کے ٹائیٹل پیج پر حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کو خاتم الاولیاء لکھا ہے۔

۴۔ خود دیو بندی علماء نے اس محاورہ کو استعمال کیا ہے چنانچہ مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی وفات پر جو مرثیہ لکھا۔ اس کے ٹائیٹل پیج پر متوفی کو خاتم الاولیاء و المحدثین کہا ہے۔

۵۔ مولوی بدر عالم صاحب مدرس دیوبند نے اپنے رسالہ ’’الجواب الفصیح‘‘ کے صفحہ ۱ پر مولوی انور شاہ سابق صدر المدرسین دیوبند کو خاتم المحدثین و آئمۃ السابقین لکھا ہے۔

۶۔ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی کے رسالہ ’’عجالہ نافعہ جلد اول) کے ٹائٹل پیج پر حضرت شاہ صاحب موصوف کو خاتم المحدثین لکھا ہے۔

۷۔ حضر ت غوث اعظم ’’پیرانِ پیر‘‘ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں بِکَ تُخْتَمُ الْوَلَایَۃُ (فتوح الغیب مقالہ نمبر ۴ صفحہ ۲۳ نولکشور) اور اس کا ترجمہ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی نے یہ کیا ہے:۔

’’در زمانِ تو مرتبۂ ولایت و کمالِ تو فوق کمالاتِ ہمہ باشد و قدم تو برگردن ہمہ افتد۔‘‘ (فتوح الغیب مقالہ نمبر ۴ صفحہ ۷)

یعنی حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ اے انسان تو خلقت سے مر جائے گا تو ترقی کرتے کرتے ’’خاتم اولیاء‘‘ ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو ولایت کے مرتبہ کے کمال پر پہنچ جائے گا اور تیرا مقام ولایت سب ولیوں سے بالاتر ہو گا اور تیرا قدم باقی ولیوں کی گردن پر ہو گا۔ چنانچہ ندائے غیب ترجمہ اردو فتوح الغیب مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور میں بِکَ تُخْتَمُ الْوَلَایَۃُ کا ترجمہ یہ لکھا ’’کہ تو ایسا عزت دار ہو جائے گا کہ تیری مثل کوئی نہ ہو گا اور تو یگانہ و تنہاء پردۂ الٰہی میں چھپا لیا جائے گا۔ تیری مانند اولیاء وقت بھی نہ ہوسکیں گے بلکہ تو اس وقت ہر ایک رسول اور نبی کا وارث ہو جائے گا ولایت کاملہ تجھ کو مل جائے گی۔‘‘ (ندائے غیب صفحہ ۷)

پس خاتم النبیین کے بھی معنی یہی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے درجہ کو کوئی رسول نہ پا سکے گا اور آپؐ کو نبوت کاملہ مل گئی ہے۔

۸۔ مولوی بشیر احمد صاحب دیوبندی لکھتے ہیں:۔

خَاتَمُ الْاَکَابِرِ۔ حضرت گنگوہی کی وفات نے شہادت فاروقی کا نقشہ پیش کر دیا۔‘‘

(رسالہ القاسم جلد ۲ صفحہ ۵،۹)

۹۔ ’’خَاتَمَۃُ الْحَفَّاظِ شَمْسُ الدِّیْنِ اَبِی الْخَیْرِ محمد بن محمد بن محمد الجزری الدمشقی۔‘‘ (دیباچہ التجرید الصریح صفحہ ۴و صفحہ۵)

۱۰۔ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں:۔

غالب اور ذوق جو خاتم الشعراء ہیں۔ ان کے ہاں وہ الفاظ بے تکلف ملتے ہیں جن کو شیخ ناسخ مدتوں سے چھوڑ چکے تھے۔‘‘

(موازنہ انیس و دبیر از شبلی نعمانی صفحہ ۲۹عالمگیر پریس لاہور ناشر شیخ مبارک علی تاجر کتب اندرون لوہاری گیٹ لاہور)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۱۔ مولانا شبلی مرحوم کی نسبت لکھا ہے:۔

’’خاتم المصنفین مولانا شبلیؒ ۔‘‘

(افادات مہدی مرتبہ مہدی بیگم صفحہ ۲۹۴ طبع دوم مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ)

۱۲۔ مولوی عبد الستار صاحب اپنی مشہور پنجابی کتاب ’’قصص المحسنین‘‘ میں لکھتے ہیں ؂

جعفر صادق کرے روایت اس وچہ شک نہ کوئی

اس ویلے وچہ حق یوسف دے ختمِ نبوت ہوئی

(قصص المحسنین مطبوعہ مطبع کریمی لاہور جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۷۹)

۱۳۔ مولانا حالی لکھتے ہیں:۔

’’قانی کو اہلِ ایران خاتم الشعراء سمجھتے ہیں۔‘‘

(حیات سعدی از مولانا الطاف حسین حالی حاشیہ صفحہ ۷۴ طبع ستمبر ۱۹۴۶ء ناشران شیخ جان محمد الہ بخش تاجران کتب علوم مشرقیہ کشمیری بازار لاہور)

اور ’’شیخ علی حزین …… کو ہندوستان میں خاتم الشعراء سمجھتے ہیں۔‘‘

(حیات سعدی از مولانا الطاف حسین حالی حاشیہ صفحہ ۱۰۱ طبع ستمبر ۱۹۴۶ء ناشران شیخ جان محمد الہ بخش تاجران کتب علوم مشرقیہ کشمیری بازار لاہور)

۱۴۔ فارس کا مشہور شاعر انوری بادشاہ غیاث الدین محمد غوری کی تعریف میں کہتا ہے ؂

بر تو سلطانیت ختم و بر من مسکین سخن چوں شجاعت بر علیؓ و بر مصطفیؐ پیغمبری

یہ شعر اس طرح بھی ہے ؂

ختم شد بر تو سخاوت بر منِ مسکیں سخن چوں شجاعت بر علیؓ، بر مصطفےٰؐ پیغمبری

(کلیات انوری مطبوعہ منشی نولکشور ۱۲۹۷ھ لکھنو پریس)

۱۵۔ ’’لَخَاتَمُ الْحُفَّاظِ وَ الْمُجْتَھِدِیْنَ مُجَدِدُ الْمِائَۃِ التَّاسِعَۃِ الشَّیْخُ اَبِیْ الْفَضْلِ جَلَالُ الدِّیْنِ عَبْدُالرَّحْمٰنُ السَّخَاوِیُّ بْنُ اَبِیْ بَکْرٍ الشَّھِیْرُ بِالسُّیُوْطِیِّ۔‘‘

(المصنوع فی احادیث الموضوع صفحہ ۳ مصنفہ شیخ محمد طاہر)

۱۶۔ ابو تما م الطائی مؤلف حماسہ کی وفات پر حسن بن وہب (ایک عربی شاعر) مرثیہ لکھتا ہے:۔

فُجِعَ الْقَرِیْضُ بِخَاتَمِ الشُّعَرَاءِ

وَ غَدِیْرِ رَوْضَتِھَا حَبِیْبِ الطَّائِیْ

(وفیات الاعیان و ابن خلکان جلد ۲ صفحہ ۱۸ مطبوعہ دار صادر بیروت)

ترجمہ:۔ کہ شاعری کو بہت رنج پہنچا ہے۔ خاتم الشعراء (یعنی ابو تمام) اور حبیب الطائی جو شاعری کے صحن کا حوض تھا (کی وفات) سے اس شعر میں (ابو تمام) کو خاتم الشعراء قرار دیا گیا ہے کیا شاعر کا مطلب یہ ہے کہ ابو تمام کے بعد کوئی شاعر پیدا نہ ہو گا؟ یہ بحث نہیں کہ ابو تمام فی الواقع خاتم الشعراء ہے یا نہیں؟ بہرحال حسن بن وہب تو اسے خاتم الشعراء کہتا ہے۔ حالانکہ وہ خود شاعر ہے اور یہ بھی شعر ہے بہرحال محاورۂ زبان ثابت ہے۔

۱۷۔ ’’خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْنَ وَالْمُفَسِّرِیْنَ مَوْلَانَا شَاہْ عَبْدُ الْعَزِیْزِ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃِ۔‘‘

(ہدیۃ الشیعہ مصنفہ محمد قاسم نانوتوی بانیٔ دیوبند صفحہ ۱۱،۱۲ مکتبہ نعمانیہ اردو بازار گوجرانوالہ)

۱۸۔ حضرت امام رازی ؒفرماتے ہیں:۔

عِنْدَ ھٰذِہِ الدَّرَجَۃِ فَازُوْا بِالْخِلَعِ الْاَرْبَعَۃِ الْوَجُوْدِ وَالْحَیَاۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْعَقْلِ فَالْعَقْلُ خَاتَمُ الْکُلِّ۔ وَالْخَاتَمُ یَجِبُ اَنْ یَّکُوْنَ اَفْضَلَ اَلَا تَرٰی اَنَّ رَسُوْلَنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا کَانَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ کَانَ اَفْضَلَ الْاَنْبِیَآءِ عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَالْاِنْسَانُ لَمَّاکَانَ خَاتَمَ الْمَخْلُوْقَاتِ الْجَسْمَانِیَّۃِ کَانَ اَفْضَلَھَا کَذَالِکَ الْعَقْلُ لَمَّا کَانَ خَاتَمَ الْخِلَعِ الْفَائِضَۃِ مِنْ حَضْرَۃِ ذِی الْجَلَالِ کَانَ اَفْضَلَ الْخِلَعِ وَ اَکْمَلَھَا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۲۲، ۳۱، ۳۴ مصری)

یعنی اس مقام پر پہنچ کر انسان چار خلعتوں سے ممتاز کیا جاتا ہے یعنی وجود حیات، قدرت اور عقل۔ اور عقل ان سب کی خاتم ہے اور خاتم کے لئے ضروری ہے کہ ’’افضل‘‘ ہو۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ ہمارے رسول کریم صلعم بوجہ خاتم النبیین ہونے کے تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تھے اور اسی طرح انسان بوجہ خاتم المخلوقات ہونے کے تمام مخلوقات جسمانی سے افضل ہے اسی طرح عقل بھی بوجہ ان چاروں خلعتوں کی خاتم ہونے کے سب خلعتوں سے ’’افضل‘‘ اور اکمل ہے۔ پس صاف ثابت ہوا کہ خاتم کے جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں وہی درست ہیں۔

۱۹۔ امام زرقانی ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی لکھتے ہیں:۔

’’وَالْخَاتَمُ …… اَمَّا بِفَتْحِھَا مَعْنَاہُ اَحْسَنُ الْاَنْبِیَآءِ خَلْقًا وَخُلْقًا لِاَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَالُ الْاَنْبِیَآءِ کَالْخَاتَمِ الَّذِیْ یُتَجَمَّلُ بِہٖ وَ اَمَّا بِالْکَسْرِ …… فَمَعْنَاہٗ اٰخَرُ الْاَنْبِیَآءِ‘‘ ( شرح مواہب اللدنیہ جلد ۳ صفحہ ۱۶۴ مطبوعہ مصر)

’’کہ ت کی زبر ساتھ خاتم النبیین کے معنی ہیں۔ ’’احسن الانبیاء‘‘ (یعنی سب نبیوں سے اچھا نبی) بلحاظ صورت و سیرت کے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمام نبیوں کا جمال ہیں۔ انگوٹھی کی طرح جس سے خوبصورتی حاصل کی جاتی ہے اور ت کی زیر کے ساتھ ہو تو خاتم کے معنی ہیں آخری نبی۔‘‘

یاد رہے قرآن مجید میں ت کی زبر کے ساتھ ہی خاتم ہے نہ کہ زیر کے ساتھ ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۰۔ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانیٔ دیوبند لکھتے ہیں:۔

الف۔ ’’ہمارے حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی افضلیت کا اقرار بشرطِ فہم و انصاف ضرور ہے علیٰ ہذا القیاس جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ علم سے اوپر کوئی صفت نہیں جس کو عالم سے تعلق ہو تو خواہ مخواہ اس بات کا یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر تمام مراتب کمال اسی طرح ختم ہو گئے جیسے بادشاہ پر مراتب حکومت ختم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے جیسے بادشاہ کو خاتم الحکام کہہ سکتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم الکاملین اور خاتم النبیین کہہ سکتے ہیں۔ مگر جس شخص پر مراتبِ کمال ختم ہو جائیں گے۔ تو بایں وجہ کہ نبوت سب کمالاتِ بشری میں اعلیٰ ہے۔ چنانچہ مسلم بھی ہے …… سوائے آپؐ کے اور کسی نبی نے دعویٰ خاتمیت نہ کیا۔ بلکہ انجیل میں حضرت عیسیٰؑکا یہ ارشاد کہ جہان کا سردار آتا ہے خود اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰؑ خاتم نہیں۔ کیونکہ حسبِ اشارہ مثالِ خاتمیتِ بادشاہ خاتم وہی ہو گا جو سارے جہان کا سردار ہو اس وجہ سے ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب میں افضل سمجھتے ہیں پھر یہ آپؐ کا خاتم ہونا آپؐ کے سردار ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بقرینۂ دعویٰ خاتمیت جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول ہے یہ بات یقینی سمجھتے ہیں کہ وہ دو جہان کا سردار جن کی خبر حضرت عیسیٰعلیہ السلام دیتے ہیں۔ حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں۔‘‘

(دیکھو حجۃ الاسلام مصنفہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانیٔ دیوبند صفحہ ۵۲ تا ۵۴ مطبع احمدی علی گڑھ)

ب۔ یہی مولوی محمد قاسم نانوتوی بانیٔ دیوبند لفظ خاتم النبیین کی تشریح بایں الفاظ فرماتے ہیں:۔

’’اول معنی خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقّت نہ ہو سو عوام کے خیال میں تو رسول اﷲ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء ماسبق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِ مدح میں فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبارِ تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہو گی کہ (یعنی کیونکہ) اس میں ایک تو خدا کی جانب نعوذ باﷲ زیادہ گوئی کا وہم ہے …… دوسرے رسول اﷲ صلعم کی جانب نقصانِ قدر کا احتمال …… باقی یہ احتمال کہ یہ دین آخری دین تھا۔ اس لئے سدِّ باب اتباع مدعیان نبوت کیا ہے جو کل جھوٹے دعویٰ کر کے خلائق کو گمراہ کریں گے البتہ فی حدِ ذاتہٖ قابل لحاظ ہے پر جملہ اور جملہ میں کیا تناسب تھا۔ جو ایک دوسرے پر عطف کیا اور ایک کو مستدرک منہ اور دوسرے کو استدراک قرار دیا اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی بے ربطی اور بے ارتباطی خدا کے کلامِ معجز نظام میں متصور نہیں۔ اگر سدِ باب مذکور منظور ہی تھا۔ تو اس کے لئے اور بیسیوں مواقع تھے بلکہ بناء خاتمیت اور بات پر ہے جس سے تاخرِ زمانی اور سدِباب مذکور خود بخود لازم آ جاتا ہے اور افضلیت نبوی دو بالا ہو جاتی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو جاتا ہے۔ جیسے موصوف بالعرض کا وصف بالعرض کا وصف موصوف بالذات سے مکتسب ہوتا ہے۔ موصوف بالذات کا وصف ……کسی غیر سے مکتسب اور مستعار نہیں ہوتا۔ مثال درکار ہو تو لیجئے! زمین و کہسار اور در و دیوار کا نور اگر آفتاب کا فیض ہے تو آفتاب کا نور کسی اور کا فیض نہیں اور ہماری غرض وصفِ ذاتی ہونے سے اتنی ہی تھی …… سو اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاتمیت کو تصور فرمایئے۔ یعنی آپ موصوف بوصفِ نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض۔ اوروں کی نبوت آپؐ کا فیض ہے۔ پر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں آپ پر سلسلۂ نبوت مختتم ہو جاتا ہے غرض آپ جیسے نبی الامۃ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی ہیں۔ اور یہی وجہ ہوئی کہ بشہادت …… الخ (اٰل عمران:۸۲) اور انبیاء کرام علیہم السلام سے آپؐ پر ایمان لانے اور آپ کی اتباع اور اقتدا کا عہد لیا گیا ادھر آپؑ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر حضرت موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو میرا ہی اتباع کرتے علاوہ بریں بعد نزول حضرت عیسیٰ کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر مبنی ہے۔‘‘

(تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتویؒ صفحہ ۳، ۴ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیوبند سہارنپور)

پھر فرماتے ہیں:۔

’’جیسے خاتم بفتح التاء (یعنی مہر۔ خادم) کا اثر اور فعل مختوم علیہ (یعنی مہر۔ خادم) کا اثر اور فعل مختوم علیہ (یعنی جس پر مہر لگائی جائے۔ خادم) پر ہوتا ہے۔ ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے۔‘‘

حاصل مطلب آیت کریمہ (۔خادم) کا اس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوتِ معروفہ تو رسول اﷲ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوۃِ معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے۔ انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیین شاہد ہے کیونکہ اوصافِ معروض و موصوف بالعرض۔ موصوف بالذات کی فرع ہوتے ہیں۔ موصوف بالذات اوصاف عرضیہ کی اصل ہوتا ہے اور وہ اس کی نسل …… سو جب ذات با برکاتِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم موصوف بالذات بالنبوۃ ہوئی اور انبیاء باقی موصوف بالعرض تو یہ بات اب ثابت ہو گئی کہ آپ والدِمعنوی ہیں اور انبیاء باقی آپؐ کے حق میں بمنزلۂ اولاد معنوی اور امتیوں کی نسبت لفظ رسول اﷲ ہیں۔ غور کیجئے‘‘ (تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتویؒ صفحہ ۱۰ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیوبند سہارنپور)

پھر فرماتے ہیں:۔

’’جیسے انبیاء گذشتہ کا وصفِ نبوت میں حسبِ تقریر مسطور اس لفظ سے آپؐ کی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے اور آپ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا اس میں انبیاء گذشتہ ہوں یا کوئی اور۔ اس طرح اگر فرض کیجئے آپ کے زمانہ میں بھی اس زمین میں یا کسی اور زمین میں یا آسمان میں کوئی نبی ہو تو وہ بھی اس وصفِ نبوت میں آپ ہی کا محتاج ہو گا۔ اور اس کا سلسلۂ نبوت بہر طور آپ پر مختتم ہو گا۔ اور کیوں نہ ہو عمل کا سلسلہ علم پر ختم ہوتا ہے جب علم ممکن للبشر ہی ختم ہو گیا تو پھر سلسلۂ علم و عمل کیا چلے؟

غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپؐ کا خاتم ہونا انبیاء گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہو گا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپؐ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔‘‘ (تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتوی صفحہ ۱۳، ۱۴ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیوبند سہارنپور)

پھر نتیجہ اس تمام بحث کا ان الفاظ میں نکالتے ہیں:۔

’’ہاں اگر خاتمیت، بمعنی اتصافِ ذاتی بوصفِ نبوت لیجئے جیسا اس ہیچمد ان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثلِ نبوی صلعم نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کی افرادِ خارجی ہی پر آپؐ کی افضلیت ثابت نہ ہو گی، افرادِ مقدرہ پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو گی۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیؐ میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘

(تحذیر الناس از مولونا محمد قاسم نانوتوی صفحہ ۲۵ مطبع کتب خانہ رحیمیہ دیوبند سہارنپور)

نوٹ:۔ صفحات کا نمبر اس ایڈیشن کا دیا گیا ہے جو مطبع قاسمی دیوبند کا مطبوعہ ہے اور تحذیر الناس مطبوعہ خیر خواہ سرکار سہارنپور میں آخری عبارت بجائے صفحہ ۲۵ کے صفحہ ۲۸ پر ہے۔ (خادم)

ان سب عبارات سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہوا کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی آخری نبی یا نبیوں کا بند کرنے والا نہیں۔ بلکہ افضل الانبیاء ’’نبی الابنیاء‘‘ ’’ابو الانبیاء‘‘ اور موصوف بوصفِ نبوت بالذات‘‘ کے ہیں۔

نوٹ:۔ بعض غیر احمدی علماء یہاں پر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مولوی محمد قاسم نانوتوی کا بھی یہی عقید تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ سو اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے اپنے عقیدہ کی یہاں بحث نہیں بلکہ لفظ ’’خاتم‘‘ کے حقیقی اور اصلی معنوں کی ہے اور جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا رہا ہے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بھی بعینہٖ وہی بیان کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ پھر ان کی مندرجہ بالا عبارت میں لفظ ’’پیدا‘‘ ہو سب سے بڑھ کر قابلِ غور ہے۔ کیونکہ یہاں یہ تاویل پیش نہیں کی جا سکتی کہ نزول مسیح کے عقیدہ کے پیش نظر ایسا لکھا گیا۔ اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا بھی خاتمیت کے منافی نہیں۔ بشرطیکہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت سے مستفاض ہو۔ یعنی بالعرض ہو۔ بالذات نہ ہوں۔ پس ہماری بحث صرف اس امر میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں اور حضور کی غلامی اور متابعت میں کسی نبی کا آنا ہر گز لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کے خلاف نہیں ہے پھر یہ بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ مولوی محمد قاسم صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیؐ میں فرق نہ آئے گا۔‘‘ ہم موجودہ دیوبندی علماء سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ بھی یہی الفاظ کہنے کے لئے تیار ہیں اور کیا آپ کا بھی یہی عقیدہ ہے؟ یقینا نہیں۔ کیونکہ موجودہ دیوبندی علماء کا عقیدہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی نبی آنحضرت صلعم کے بعد پیدا ہو خواہ آپ کا غلام اور امتی ہو۔ اور آپ کی پیروی کے ماتحت ہی نبی ہو اور حضورؐ اور حضورؐ کی شریعت کا تابع ہو۔ پھر بھی اس کی آمد سے ’’خاتمیت محمدی‘‘ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسی لئے تو آنحضرت صلعم کے ایک غلام اور امتی بانیٔ سلسلۂ احمدیہ کے خلاف ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کا سٹنٹ کھڑا کر رکھا ہے۔ پس مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے حوالے صرف لفظ خاتم کے حقیقی معنوں کی تحقیق کے سلسلہ میں پیش کئے ہیں نہ کہ ان کے ذاتی عقیدہ کے اظہار کے لئے۔

۲۱۔ حضرت مولانا روم نے بھی خاتم کے معنی افضل ہی کئے ہیں۔ فرماتے ہیں ؂

بہر ایں ’’خاتم‘‘ شد است او کہ بجود مثل او نے بود نے خواہند بود

چونکہ دَر صنعت برداستاد دست تو نہ گوئی ختم صنعت بر تو ہست

(مثنوی مولانا روم دفتر ششم صفحہ ۸ مطبوعہ نولکشور ۱۸۹۶ء مفصل دیکھو پاکٹ بک ہذا صفحہ ۲۷۷)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۲۔ تفسیر حسینی المعروف بہ تفسیر قادری میں ہے:۔

عین الاجوبہ میں لکھا ہے کہ ہر نوشتے کی صحت مہر کے سبب سے ہے اور حق تعالیٰ نے پیغمبر کو مہر کہا تا کہ لوگ جان لیں کہ محبت الٰہی کے دعویٰ کی تصحیح آپؐ کی متابعت ہی سے کر سکتے ہیں ہر کتاب کا شرف اور بزرگی مہر کے سبب سے ہے تو سب پیغمبروں کو شرف حضرتؐ کی ذات سے ہے اور ہر کتبہ کی گواہ اس کی مہر ہوتی ہے تو محکمۂ قیامت میں گواہ آپ ہوں گے۔‘‘ (تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۱ صفحہ ۲۰۳ زیر آیت خاتم النبیین سورۃ احزاب)

پس اس عبادت سے ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی مصدق الانبیاء اور افضل الانبیاء اور شاہد الانبیاء ثابت ہوئے۔ پس اگر اس آیت کے بقول تمہارے ایک معنی آخری کے بھی ہوتے تب بھی ’’اِذَا جَاءَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتَدْلَالُ‘‘ کے اصل کے ماتحت یہ آیت انقطاعِ نبوت پر دلیل نہیں بن سکتی تھی کیونکہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہے کہ مہر تصدیق کے لئے بھی ہوتی ہے۔ توثیق کے لئے بھی ہوتی ہے۔ شرف اور عظمت کے لئے بھی ہوتی ہے۔ پس مہر کو صرف ایک خاص مفہوم میں مقید کرنے والا تحکم سے کام لیتا ہے۔ نیز جو شخص یہ کہتا ہے کہ خاتم (مہر) کے معنی اس آیت میں صرف اور بکلی بند کرنے کے ہیں اس ادعائے باطل کے اثبات کا بارِ ثبوت اس پر ہے، لیکن جیسا کہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے مندرجہ بالا حوالہ از تحذیر الناس صفحہ ۳ سے ثابت ہے آیت خاتم النبیین کا سیاق و سباق اور ترکیب قطعًا ان معنوں کی تائید نہیں کرتے۔ پس آیت کا صحیح مفہوم وہی ہے جو مندرجہ بالا حوالہ جات میں بیان کیا گیا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور دوسرے اہل عرب کے محاورۂ زبان کے مطابق خاتم النبیین کے معنی ’’افضل الانبیاء‘‘ کے ہیں ختم کے معنی پنجابی، اردو، فارسی میں آخری اور انقطاع کے بے شک ہوں۔ جس طرح لفظ مکر کے معنی اردو فارسی میں دھوکے کے ہیں۔ مگر عربی میں تدبیر کرنے کے اسی طرح ’’خاتم‘‘ کے جمع کے صیغے کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں عربی زبان میں بجز افضل اور صاحبِ کمال کے کوئی معنی نہیں آتے۔

نوٹ:۔ خاتم القوم عربی زبان کا کوئی محاورہ نہیں اور نہ کسی عرب نے کبھی اس کو استعمال کیا ہے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ محاورہ زبان ثابت کرو۔ آج اگر مؤلف لسان العرب یا تاج العروس ہمارے زمانہ میں زندہ ہوتے تو ہم ان سے دریافت کرتے کہ آپ نے جو ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنے ’’ختم کرنے والا‘‘ کئے ہیں۔ اس کے لئے اہلِ زبان کے کون سے مستعمل محاورہ کی آپ کے پاس سند ہے اور وہ محاورہ کب اور کہاں استعمال ہوا ہے؟

پس آج جو شخص ان لوگوں کا قائم مقام ہو کر ہم سے ختم نبوت پر بحث کرتا ہے اس سے ہمارا حق ہے کہ یہ مطالبہ کریں کہ وہ اہل زبان کا محاورہ پیش کرے لغت کی کتابوں سے ہماری بھی تائید ہوتی ہے تکملہ مجمع بحار الانوار میں جو لغت کی کتاب ہے لفظ خاتم کے نیچے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا یہ قول لکھا ہے:۔

’’قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ‘‘ (تکملہ مجمع بحار الانوار جلد چہارم صفحہ۸۵ نیز دیکھو در منثور از علامہ جلال الدین سیوطی جلد ۵ صفحہ ۲۰۴ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان) کہ یہ تو کہو کہ آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہیں۔ مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہ آوے گا۔ اس کے آگے لکھا ہے:۔

ھٰذَا نَاظِرٌ اِلٰی نُزُوْلِ عِیْسٰی وَھٰذَا اَیْضًا لَا یُنَافِیْ حَدِیْثَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ لِاَنَّہٗ اَرَادَ لَا نَبِیَّ یَنْسَخُ شَرْعَہٗ (تکملہ مجمع بحار الانوار صفحہ ۸۵) کہ یہ قول حضرت عائشہ صدیقہؓ کا نزول مسیح کا مؤید (محافظ) ہے اور لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ والی حدیث کا بھی مخالف نہیں۔ کیونکہ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ والی آیت اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کا مطلب تو یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو آنحضرتؐ کی شریعت کو منسوخ کرے۔

۲۔ اسی طرح مجمع البحار جلد ۱ صفحہ ۳۲۹ مطبع نولکشور پر لکھا ہے۔ ’’اُوْتِیْتُ …… خَوَاتِمَہٗ اَیْ اَلْقُرْاٰنُ خُتِمَتْ بِہِ الْکُتُبُ السَّمَاوِیَّۃُ وَھُوَ حُجَّۃٌ عَلٰی سَائِرِھَا وَ مُصَدِّقٌ لَھَا۔‘‘ کہ جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی خاتم الکتب ہے ان معنوں میں کہ وہ سب کتابوں کی مصدق ہے۔

الجواب نمبر ۲:۔ خَاتَم کے معنے انگوٹھی کے ہوتے ہیں اور انسان انگوٹھی زینت کے لئے پہنتا ہے پس ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنے نبیوں کی زینت ہوئے۔ چنانچہ ان معنوں کی تائید تفسیر فتح البیان جلد ۱۱ صفحہ ۱۰۰، ۱۰۱ مکتبہ العصریہ بیروت سے ہوتی ہے۔

’’صَارَ کَالْخَاتِمِ لَھُمُ الَّذِیْ یَخْتَمُوْنَ بِہٖ وَ یَتَزَیَّنُوْنَ بِکَوْنِہٖ مِنْھُمْ۔‘‘ یعنی آنحضرت صلعم نبیوں کی انگوٹھی بن گئے یعنی اس وجہ سے کہ آنحضرتؐ ان میں سے ایک ہیں وہ آپؐ کے وجود سے زینت حاصل کرتے ہیں۔

ب۔ مجمع البحرین میں زیر لفظ خَتَمَ صفحہ ۵۱۴ ’’خاتم النبیین‘‘ کے یہ معنی لکھے ہیں:۔

خَاتَمُ بَمَعْنِیْ الزِّیْنَۃِ مَاخُوْذٌ مِنَ الْخَاتَمِ الَّذِیْ ھُوَ زِیْنَۃٌ لِلَابِسِہٖ۔‘‘ کہ خاتم کے معنے زینت کے ہیں اور یہ معنے انگوٹھی سے نکلے ہیں جو پہننے والی کے لئے زینت کا موجب ہوتی ہے۔

ج۔ ان معنوں کی تائید عربی کے مشہور شاعر شہاب الدین الموسوی المعروف بابن معتوق کے قصیدہ میمیہ کے اس شعر سے ہوتی ہے جو اس نے آنحضرت صلعم کی مدح میں کہا ہے ؂

طَوْقُ الرَّسَالَۃِ تَاجُ الرُّسُلِ خَاتَمُھُمْ

بَلْ زِیْنَۃٌ لِعِبَادِ اللّٰہِ کُلِّھِمْ

(کتاب المجموعۃ البنھانیۃ فی المدائح النبویۃ۔ قافیۃ المیم مطبوعہ بیروت فی مطبعۃ المعارف ۱۳۲۰ھ مولفہ، یوسف بن اسماعیل النبہانی جزو ۴)

کہ آنحضرت صلعم نبوت کی مالا ہیں۔ آپؐ نبیوں کا تاج اور ان کی انگوٹھی (خَاتَم) ہیں۔ نہیں (صرف نبیوں ہی کے نہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر) خدا کے تمام بندوں کے لئے زینت ہیں۔

اس شعر میں طوق (مالا) ’’تاج‘‘ اور خاتم (انگوٹھی) تینوں زینت کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ لفظ ’’بل‘‘ کے ساتھ ’’زینت‘‘ کا لفظ خود پکار پکار کر کہہ رہا ہے اس شعر میں لفظ ’’خاتم‘‘ آخری کے معنے میں نہیں بلکہ زینت کے معنی میں آتا ہے۔ نیز چونکہ انگوٹھی انگلی کو گھیر لیتی ہے۔ اس لئے اس لحاظ سے خاتم النبیین کے معنی ہوں گے کہ تمام انبیاء کے کمالات کو اپنے اندر جمع کر لینے والا۔

۳۔ تذکرۃ الاولیاء مصنفہ جناب شیخ فرید الدین عطارؓ فارسی صفحہ ۲۷۲ میں لکھا ہے۔

’’مجذوب کے بہت سے درجہ ہیں۔ ان میں سے بعض کو نبوت کا تہائی حصہ ملتا ہے اور بعض کو نصف اور بعض کو نصف سے زیادہ یہاں تک کہ بعض مجذوب ایسے ہوتے ہیں۔ جن کا حصہ نبوت میں سے تمام مجذوبوں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ خاتم الاولیاء ہوتا ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور یہ مجذوب ممکن ہیں کہ امام مہدی ہوں۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء باب ۵۸ حضرت حکیم محمد علی الترمذی و اردو ترجمہ ظہیر الاصفیاء از مولانا سید اعجاز احمد مطبع شدہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)

نوٹ:۔ مندرجہ بالا اردو ترجمہ انوار الازکیاء و ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء مطبع مجیدی کانپور کے صفحہ ۵۳۷ سے لیا گیا ہے۔

لفظ ’’ختم‘‘ اور محاورۂ اہلِ عرب

لفظ ’’خاتم‘‘ کا صیغہ جمع پر مضاف ہو کر ’’افضل‘‘ ہونے کے معنوں میں ہونا بدلائل ثابت کیا جا چکا ہے۔ اب بعض مثالیں لفظ خَتَمَ کے فعل استعمال ہونے کی صورت میں محاورۂ اہل زبان سے پیش کی جاتی ہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ بعض لوگ ’’خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ‘‘ کی حدیث بھی پیش کر دیا کرتے ہیں اور اس کا جواب پہلے گذر چکا ہے۔

۱۔ یزید بن معاویہ کے متعلق لکھا ہے:۔

’’کَانَ فَصِیْحًا کَرِیْمًا شَاھِدًا مُفْلِقًا قَالُوْا بُدِیَٔ الشِعْرُ بِمَلِکٍ وَ خُتِمَ بِمَلِکٍ اِلٰی اِمْرَءِ الْقَیْسِ وَاِلَیْہِ۔ (کتاب الفخری لابن طقطقیٰ باب الدولۃ الامویۃ ذکر یزید)

کہ یزید بہت فصیح شاعر تھا اور نہایت اچھے شعر کہتا تھا۔ مشہور مقولہ ہے کہ شعر ایک بادشاہ سے شروع ہوا اور بادشاہ پر ختم ہوا۔ اس سے مراد امراء القیس اور یزید ہیں۔ یعنی امراء القیس سے شاعری شروع ہوئی اور یزید بن معاویہ پر ختم ہوئی۔ کیا عربی کے اس مقولہ کا مطلب یہ ہے کہ یزید کے بعد کوئی شاعر نہیں ہوا؟ نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ یزید اپنے زمانہ کا بہترین شاعر تھا۔

۲۔ اسی طرح وفیات الاعیان لابی العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر لابن خلقان جلد ۲ صفحہ ۷۱ میں ابو العباس محمد بن یزید المعروف بالمبرد نحوی کے ذکر میں لکھا ہے۔ ’’وَکَانَ الْمُبَرَّدُ الْمَذْکُوْرُ وَاَبُو الْعَبَّاسِ اَحْمَدُ بْنُ یَحْیٰی الْمُلَقَّبُ بِثَعْلَبٍ صَاحِبَ کِتَابَ الْفَصِیْحِ عَالَمِیْنَ مُتَعَارِضِیْنَ قَدْ خُتِمَ بِھِمَا تَارِیْخُ الْاُدَبَاءِ۔‘‘

کہ مبرد اور ابو العباس ثعلب مصنف کتاب الفصیح۔ دونوں بڑے عالم تھے اور ان دونوں کے ساتھ ادیبوں کی تاریخ ختم ہوئی۔

اب کیا ادباء کی تاریخ کے ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مبرد اور ثعلب کے بعد کوئی ادیب نہیں ہوا۔ نہیں۔ ہرگز نہیں مراد صرف یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے زمانہ کے بہترین ادیب تھے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
لفظ ’’ختم‘‘ اور قرآن مجید

بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں لفظ ’’ختم‘‘ بند کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت ’’ (یٰس:۶۶) میں کہ قیامت کے دن دوزخیوں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی قیامت کے روز دوزخی منہ سے بات نہ کر سکیں گے۔ پس ثابت ہوا کہ ختم یعنی مہر سے مراد بند کرنا ہے۔

الجواب:۔ اس کا جواب یہ ہے کہ گو لفظ ’’ختم‘‘ اور اس کے مشتقات کے متعلق بحث نہیں بلکہ بحث خاص طور پر لفظ خاتم بفتحہ تاء کے صیغۃ جمع کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں آخری یا افضل کے معنوں میں ہونے کی ہے۔ لیکن آیت مذکورہ بالا سے بھی ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ سے مراد مطلق بند کرنا ہے کیونکہ آیت محولہ کا مطلب یہ نہیں کہ قیامت کے دن دوزخی زبان سے بات ہی نہیں کر سکیں گے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم میں زبان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ تمام اعضاء اور جوارح کی نمائندہ ہونے کی ہے۔ یعنی اگر کوئی تکلیف انسان کے سر میں ہو تو اس کا اظہار بھی زبان کرتی ہے اور اگر ہاتھ یا پاؤں میں کوئی خرابی ہو تو وہ بھی زبان ہی بتاتی ہے تو بظاہر خیال ہو سکتا تھا کہ ممکن ہے قیامت کے دن بھی صرف زبان ہی اپنے علاوہ دوسرے اعضاء کے گناہ بیان کر دے گی۔

تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ اس دن ہر عضو اپنے گناہ خود بھی بیان کرے گا۔ ہاتھ اپنے گناہ بیان کریں گے پاؤں اپنی بدیاں گنائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ بد زبانی، غیبت اور جھوٹ وغیرہ گناہ جن کا ارتکاب خود زبان سے ہوا ہو گا۔ وہ کون بیان کرے گا؟ کیا ہاتھ بتائیں گے یا پاؤں؟ ظاہر ہے کہ زبان کے اپنے گناہ خود زبان ہی بتائے گی۔

پس قیامت کے دن دوزخی کا منہ بند ہونا تو ثابت نہ ہوا۔ بلکہ دوزخی کا بولنا اور اس کے منہ کا کھلا رہنا ثابت ہو۔ اگر کہو کہ تمہارا یہ استدلال محض قیاسی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ استدلال قیاسی نہیں بلکہ خود قرآن مجید میں ہی موجود ہے کہ قیامت کے دن دوزخیوں کی زبان بند نہیں ہو گی۔ بلکہ وہ باتیں کریں گے۔ چنانچہ سورۃ نور رکوع ۳ میں ہے (النور:۲۵)

یعنی قیامت کے دن ان کی زبانیں ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ان اعمال کی جو وہ کیا کرتے تھے۔

پس صاف طور پر ثابت ہوا کہ قیامت کے دن باوجود منہ پر ’’مہر‘‘ لگ جانے کے دوزخی باتیں کریں گے۔

چنانچہ ایک دوسری جگہ بھی ہے کہ جب جسم اور ہاتھ اور پاؤں دوزخیوں کے خلاف گواہی دیں گے تو لکھا ہے۔

(حٰم سجدۃ:۲۲) وہ اپنے جسموں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ گویا ان کی زبان بند نہ ہو گی۔

پس ’’‘‘ والی آیت میں ’’ختم‘‘ کے معنی ہر گز بکلی بند کرنے کے نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن زبان پر تصدیق اور سچائی کی مہر لگا دے گا۔پس وہ سچ سچ سب کچھ بیان کر دے گی اور جو کچھ وہ اپنے خلاف کہے گی اس کے لئے تو کسی مزید تائید او رشہادت کی ضرورت نہ ہو گی۔ لیکن جو کچھ وہ دوسرے اعضاء کے خلاف کہے گی اس کی تصدیق کرنے کے لئے ہر ایک عضو اپنے اپنے کردہ گناہوں کا اقبال کر لے گا۔ اس طرح سے الٰہی مہر کی تصدیق ہو جائے گی۔

ان معنوں کی تائید مندرجہ ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

(۱) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ:۔

’’اَلدَّنَانِیْرُ وَالدَّرَاھِمُ خَوَاتِیْمُ اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ فَمَنْ جَآءَ بِخَاتَمِ مَوْلَاہُ قُضِیَتْ حَاجَتُہٗ۔ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۲۱۷ و جامع الصغیر للسیوطی مصری جلد ۲ صفحہ ۱۴)

کہ زمین میں دینار اور درہم اﷲ تعالیٰ کی مہریں ہیں۔ پس جو شخص اپنے آقا کی مہر لے کر آتا ہے۔ اس کی حاجت پوری ہو جاتی ہے۔

(۲) ’’اٰمِیْنُ خَاتَمُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ عَلٰی لِسَانِ عِبَادِہٖ الْمُؤْمِنِیْنَ …… مَعْنَاہُ طَابِعُ اللّٰہُ عَلٰی عِبَادِہٖ لِاَنَّہٗ یُدْفَعُ بِہِ الْاٰفَاتُ وَالْبَلَایَا …… اَلْحَدِیْثُ اٰمِیْنُ دَرَجَۃً فِی الْجَنَّۃِ قِیْلَ مَعْنَاہُ اِنَّہٗ طَابِعُ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ وَقِیْلَ اِنَّہٗ کَلِمَۃٌ یَکْتَسِبُ بِھَا قَائِلُھَا دَرَجَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔

(فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۵۴،۵۵ و جامع الصغیر الامام سیوطی باب الالف جلد ۱ صفحہ ۴ مصری)

حدیث ’’آمین‘‘ خدا تعالیٰ کی مہر ہے۔ خدا کے مومن بندوں کی زبان پر اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’آمین‘‘ اﷲ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہر ہے کیونکہ اس سے آفات اور بلائیں خدا کے بندوں سے دور ہو جاتی ہیں دوسری حدیث میں ہے کہ ’’آمین‘‘ جنت میں ایک درجہ ہے کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’آمین‘‘ خدا کی ایک مہر ہے اس کے بندوں پر اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا کہنے والا جنت میں درجہ حاصل کرتا ہے۔

پس ان احادیث کی روشنی میں (جو محض محاورۂ عربی ثابت کرنے کے لئے پیش کی گی ہیں) آیات قرآنی کا مطلب یہی ہو گا کہ قیامت کے دن ان کی زبان پر مہر لگا دی جائے گی۔ یعنی اس کو جھوٹ بولنے سے محفوظ کیا جائے گا۔ سچ بولنے کی ممانعت نہ ہو گی۔ چنانچہ اس دن زبان جو کہے گی وہ سچ ہی ہو گا۔

(۱) ورنہ حوالہ مندرجہ بالا میں ’’خدا کے بندوں پر مہر‘‘ لگنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں ہو سکتا کہ مومن کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ بلکہ ظاہر ہے کہ اس کے معنی الٰہی حفاظت اور تصدیق ہی کے ہیں۔

۲۔ اسی طرح (البقرۃ:۸) کی آیت پیش کیا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔

الجواب:۔ (ا) احادیث مندرجہ بالا سے خوب وضاحت ہو جاتی ہے۔

(۲) یہ آیت تو تمہاری تغلیط اور ہماری تائید کرتی ہے کیونکہ اگر ’’ختم‘‘ کے معنی بند کرتا ہو تو پھر اس آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ کافروں کی حرکت قلب بند ہو گئی، لیکن ظاہر ہے کہ یہ غلط ہے۔

(۳):۔ کیا ان کافروں میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا؟

(۴):۔ زیادہ سے زیادہ تم اس کے یہی معنے کرو گے کہ کافروں کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی۔ اب ان کے دل میں ایمان کی بات داخل نہیں ہو سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کافروں کے دل میں کیا کوئی کفر اور بدی کی بات بھی داخل ہو سکتی یا ان کے دل پر اثر کر سکتی ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ جو چیز ان کے دل کے اندر موجود ہے (یعنی کفر) اس کی تائید اور تصدیق کرنے والی چیزوں کے داخل ہونے کے لئے ان کے دل کے دروازے کھلے ہیں بند نہیں ہوئے۔ ہاں اس کے خلاف (ایمان یا ہدایت وغیرہ) کی باتوں کے لئے دروازہ بند ہے۔

پس تمہارے معنوں کو تسلیم کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوا کہ جس چیز پر مہر لگائی جائے اس کے مؤید کے لئے دروازہ بند نہیں ہوتا بلکہ اس کے مخالف کے لئے بند ہوتا ہے۔

پس اگر ’’خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ‘‘ کے آیت کے معنی بھی اس اصول کے ماتحت لیتے ہو۔ تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کے خلاف کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ ہاں آپؐ کی تائید کے لئے نبی آ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ معنی ہم نے تمہارے معنوں کو تسلیم کر کے لکھے ہیں۔ ہمارے نقطۂ نگاہ سے اس کے معنوں کے لئے مندرجہ بالا حدیث پر غور کرو تو معنے یہ ہوں گے کہ کافروں کے دلوں میں جو گند ہے خدا اس کا اظہار اپنی مہر کے ذریعہ کرتا ہے یعنی یہ تصدیق کرتا ہے کہ ان کے دلوں میں گند بھرا ہے اور یہ کہ ’’‘‘ (البقرۃ:۷) وہ ایسے ہٹ دھرم ہیں کہ باوجود صداقت کے کھل جانے کے پھر بھی ایمان نہیں لاتے گویا ان کا ایمان نہ لانا خدا تعالیٰ کی مہر کے نتیجہ میں نہیں۔ جیسا کہ تمہارا خیال ہے، کیونکہ اس طور پر خدا تعالیٰ کی ذات موردِ اعتراض بنتی ہے کہ اگر وہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس میں ان کا کیا قصور؟ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ اب وہ بیچارے کافر رہنے پر مجبور ہیں۔

لیکن ہمارے نزدیک یہ بات نہیں۔ بلکہ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ان کی اندرونی کیفیت کو بے نقاب کر دیا ہے اور اس کے گندہ اور قابل نفرت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

بہرحال تم قرآن مجید کی کوئی بھی آیت پیش نہیں کر سکتے۔ جس میں ’’ختم‘‘ کا مشتق کلی طور پر بند کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ اور اگر ایسا ہو بھی تو آیت خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ پر اس کا اثر نہیں کیونکہ وہاں لفظ ’’خاتم‘‘ تاء کی زبر کے ساتھ اسم آلہ ہے اور عربی میں جب یہ لفظ جمع کی طرف مضاف ہو۔ اس کے معنے بلا استثناء ہمیشہ افضل کے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو ہمارے اس چیلنج کو توڑ سکے؟

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت مسیح موعود ؑ اور لفظ ’’خَاتَم‘‘ کا استعمال

بعض غیر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض اُردو کتب سے ’’خاتم الاولاد‘‘ اور ’’خاتم الخلفاء‘‘ وغیرہ کے محارے پیش کیا کرتے ہیں تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ عربی زبان میں اگر لفظ ’’خاتم‘‘ صیغہ جمع کی طرف مضاف ہو تو تو محارۂ عربی کے مطابق اس کے معنی بجز افضل کے نہیں ہوتے۔ اردو فارسی اور پنجابی میں اگر یہ لفظ’’بند کرنے والے‘‘ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہو تو اس سے مخالف کو کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ لفظ ’’مکر‘‘ کی مثال سے واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ لفظ اردو، فارسی اور پنجابی میں دھوکہ اور فریب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن عربی میں محض تدبیر کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ’’‘‘(اٰل عمران: ۵۵) والی آیت میں لفظ ’’مکر‘‘ اﷲ تعالیٰ کی نسبت استعمال ہوا ہے۔

۱۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کی کسی اُردو عبارت میں لفظ ’’خاتم الاولاد‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا اس بحث میں پیش کرنا مفید نہیں۔ کیونکہ ہماری بحث قرآن مجید کی آیت ’’خاتم النبیین‘‘ سے متعلق ہے جو اردو میں نہیں بلکہ عربی زبان میں ہے۔

۲۔ تریاق القلوب صفحہ۱۵۷ طبع اول و صفحہ ۳۰۰ طبع ثانی کی تمہاری پیش کردہ عبارت یہ ہے :۔

’’میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کانام جنت تھا او ر پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں اُن کے لئے خاتم الاولاد تھا۔ ‘‘ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۴۷۹)

اس عبارت میں ’’خاتم الاولاد‘‘ سے مراد اولاد کا سلسلہ بکلی منقطع کرنے والا نہیں ہوسکتا کیونکہ کیا آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلسہ آپؑ کے بعد ختم ہوگیا؟ نہیں بلکہ آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلہ آپ کے ذریعہ سے چلا اور آپ ’’خاتم الاولاد‘‘ ان معنوں میں ہوئے کہ آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلہ آپ کے سوا دوسرے بچوں کے ذریعہ سے منقطع ہوگیا۔ لیکن صرفآپ کے ذریعہ سے آگے ان کی اولاد چلی۔ ظاہر ہے کہ ’’اِبْنُ الْاِبْنِ اِبْنٌ‘‘۔ حضرت مسیح موعودؑکا ایک دوسرا الہام تھا:۔

’’یَنْقَطِعُ مِنْ اٰبَائِکَ وَ یَبْدَءُ مِنْکَ‘‘ (تذکرہ صفحہ ۵۳ ایڈیشن نمبر۴)

’’کہ تیرے والدین اور آباؤ اجداد کی نسل منقطع ہو جائے گی اور آئندہ تیرے ذریعہ سے شروع ہوگی۔‘‘

پھر اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں یہ کلام الٰہی درج ہے۔

’’ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہوجائے گی۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۰۲)۔ ’’اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ اندریں حالات ’’خاتم الاولاد‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے والدین کا ان معنوں میں آخری بچہ ہو کہ اس کے سوا ان کی اولاد کا سلسلہ کسی اور بچے کے ذریعہ سے نہ چلے بلکہ صرف اس کے ذریعہ سے اولاد کا سلسلہ چلے۔

پس ’’خاتم النبیین‘‘ کے بھی یہی معنی ہوئے کہ دوسرے نبیوں کا سلسلہ ختم ہوجائے اور آئندہ نبیوں کا سلسلہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ چلے۔

جس طرح ’’خاتم الاولاد‘‘ کے بعد ’’اولاد‘‘ کاسلسلہ بند نہیں ہوا اسی طرح ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی یہ نہیں ہوسکتے کہ آئندہ نبیوں کا سلسلہ بکلی بند ہوجائے۔ البتہ موسیٰ ؑ، عیسیٰ ؑ، یحییٰ، زکریاؑ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی نبوتیں حضرت محمد رسول اﷲ صلعم کی بعثت سے ختم ہوگئیں۔ اب ’’خاتم النبیین‘‘ کے ذریعہ توسط اور فیض سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوگا۔ پس تریاق القلوب کے حوالے سے تمہارا مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔

۳۔ اس تریاق القلوب کے اگلے صفحہ یعنی طبع اول تقطیع کلاں کے صفحہ ۱۵۸ و طبع ثانی تقطیع خورد کے صفحہ ۳۰۲ پر عربی عبارت کرکے (جس میں لفظ خاتم الاولاد استعمال ہوا ہے) حضرت نے اس کا خود ہی اردو ترجمہ بصورت ذیل درج فرمایا ہے فَھُوَ خَاتَمُ الْاَوْلَادِ (فصوص الحکم نص حکمتِ نقشیہ کلمہ شیشیہ جزو دوم) اور وہ خاتم الاولاد ہوگا۔ یعنی اس کی وفات کے بعد کوئی کامل بچہ پیدا نہیں ہوگا۔

پس ثابت ہوا کہ ’’خاتم الاولاد‘‘ کا محاورہ عربی کے لحاظ سے ترجمہ ’’کامل بچہ‘‘ ہے اور مراد یہ ہے کہ آپ کے والدین کے دوسرے بچے بھی تھے لیکن چونکہ آگے ا ن کی نسل منقطع ہو گئی اس لئے وہ ’’کامل بچے‘‘ کہلانے کے مستحق نہ تھے، لیکن چونکہ آپؑ ایسے بچے تھے جن کے ذریعہ آئندہ کے لئے آپ کے والدین کی اولاد کا سلسلہ چلا اس لئے ’’کامل بچہ‘‘ کہلانے کے آپ مستحق ہوئے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے آنحضرت صلعم کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ’’کامل نبی‘‘ ہیں۔ کیونکہ آپ کے آنے سے گذشتہ تمام نبیوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا، لیکن آپ کے ذریعہ اور آپ کے طفیل سے آئندہ غیرتشریعی اور امتی نبیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔

احراری:۔ ’’میں نکلا تھا‘‘ کا لفظ مضحکہ خیز ہے۔

احمدی:۔ یہ طرز کلام حضرت مسیح موعودؑکا اپنا نہیں بلکہ قرآن مجید کی اس آیت کا لفظی ترجمہ ہے۔(النحل:۷۹) جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔اور اﷲ نے نکالا تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے۔

پس اس’’’نکلنے ‘‘ میں تو خود معترض بھی شامل ہے۔ یوں بے حیا بن کر قرآنی محاورات پر جو چاہے اعتراض کرتا رہے!

۴۔ حضرت مسیح موعودؑنے خاتم کا محاورہ جب بھی عربی عبارت میں استعمال فرمایا ہے وہاں اس کے معنی افضل ہی کے ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں:۔

’’ھو خاتم الحسینین و الجمیلین، کما أنہ خاتم النبیین والمرسلین۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۵۶۳)

’’یعنی آنحضرت صلعم تمام حسینوں اور جمیلوں کے بھی خاتم ہیں جس طرح آپؐ رسولوں اور نبیوں کے خاتم ہیں۔‘‘

الف۔ پس صاف طور پر ثابت ہواکہ عربی محاورہ کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب ’’خاتم‘‘ کو افضل ہی کے معنوں میں استعمال فرماتے تھے۔

ب:۔ایک دوسری جگہ یہ عربی عبارت لکھتے ہیں:۔ ’’فحینئذٍ تکون وارثَ کل رسول ونبیّ…………وبِکَ تُختَم الولایۃ‘‘(تحفہ بغداد ۔روحانی خزائن جلد ۷صفحہ ۲۴، فتوح الغیب مقالہ نمبر۴ صفحہ ۲۳ فارسی ازشیخ عبد الحق محدث دہلوی، ندائے غیب صفحہ ۷ ترجمہ اردو ) اور اس عربی عبارت کا ترجمہ حضور اپنی طرف سے یہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’خداتعالےٰ تجھے اپنے نبیوں اور رسولوں کا وارث بنادے گا یعنی اُن کے علوم و معارف اور برکات جو مخفی اور ناپدید ہوگئے تھے۔ وہ از سرِ نو تجھ کو عطا کئے جائیں گے اور ولایت تیرے پر ختم ہوگی یعنی تیرے بعد کوئی نہیں اُٹھے گا جو تجھ سے بڑا ہو۔‘‘ (برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۱۶حاشیہ)

یہ دونوں عربی عبارتیں فیصلہ کن ہیں۔


حضرت مسیح موعودؑ کی دیگر تحریرات

بعض غیر احمدی حضرت مسیح موعودؑ کی بعض اس قسم کی تحریرات پیش کرتے ہیں جن میں معترضین کے نزدیک حضور نے خاتم النبین کا ترجمہ ’’بند کرنے والا‘‘ کیا ہے یاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت کو بند قرار دیا ہے۔

الجواب ۱:۔ حضرت اقدس نے جس نبوت یا رسالت کو بند قرار دیا ہے وہ غیر شریعی براہ راست نبوت ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔ ’’اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۲۱۰)

۲۔ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور جس کے معنے یہ ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قران مجید کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحد ہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلعم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتاہوں۔ یہ الزام میرے پر صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر ایک کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے……ہاں اس (خدا )نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں……میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں۔‘‘

(خط اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء، بدر ۱۱ جون ۱۹۰۸ ء صفحہ ۱۰ کالم ۱،۲ تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ ۵۴۵)

۳۔’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے ۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲)

۴۔ ’’یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں۔ ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے نبوت ہی باطل ہوتی ہے۔ کیا ہم ختم نبوت کے یہ معنے کر سکتے ہیں کہ وہ تمام برکات جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی َپیروی سے ملنی چاہئیں تھے وہ سب بند ہوگئے۔‘‘ (چشمہ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۸۳)

۵۔’’ خدا تعالیٰ کا یہ قول……اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم……نبیوں کے لئے مُہر ٹھہرائے گئے ہیں۔ یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ کی پیروی کی مُہر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا۔‘‘ (چشمہ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۸۸)

۶۔ ’’اﷲ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اِسی و جہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۰بقیہ حاشیہ )

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سینکڑوں حوالجات موجود ہیں۔ جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت اقدس نے جہاں آنحضرت صلعم کے بعد نبوت کو بند قرار دیا ہے۔ وہاں محض تشریعی اور براہ راست نبوت مراد لی ہے۔ اور جہاں حضرت اقدس نے نبوت کو جاری تسلیم فرمادیا ہے وہاں صرف غیر تشریعی اور بالواسطہ نبوت مراد لی ہے۔ فَلَا تَضَارَ۔

غیراحمدی:۔ حضر ت مرزا صاحب نے لکھا ہے۔

’’ألا تعلم أن الربّ الرحیم المتفضّل سمّی نبیَّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتَمَ الأنبیاء بغیر استثناء‘‘۔ (حمامۃ البشری۔روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۲۰۰)

کہ اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کا نام خاتم النبین بلا استثناء رکھا ہے غیر تشریعی نبوت کہاں گئی؟

الجواب۔ ہم آیت ’’خاتم النبین‘‘ کی بحث میں بدلائل قویہ ثابت کر آئے ہیں کہ ’’خاتم النبین‘‘ کا ترجمہ ’’افضل النبیین‘‘ ہے

پس حضرت اقدس کی عبار ت کا اردو میں ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم افضل الانبیاء بلا استثناء قرار دیا ہے۔‘‘

یعنی کوئی ایک بھی نبی ایسا نہیں جس سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم افضل نہ ہوں اسی طرح ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ والی حدیث کے متعلق بھی ہم ثابت کر آئے ہیں کہ اس کے معنی بھی یہی ہیں کی حضورؐ کے خلاف بلا حضورؐ کی اتباع کے نیز حضورؐ کی طرح صاحب شریعت کوئی نبینہ آئے گا۔

پس اس حوالہ سے تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوتا ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘کا جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ خود تمہارے بزرگ قبل از احمدیت کر چکے ہیں ملاحظہ ہو:۔

’’ہاں ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ آیا ہے۔ اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہیں لاوے گا۔‘‘

( اقتراب الساعۃ مطبع مفید عام الکائنہ فی الرواہ۱۳۰۱ھ صفحہ ۱۶۲ مصنفہ نواب نورالحسن خان)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
غیر احمدی:۔ حضرت مرزا صاحب نے مسیح ابن مریم کو سلسلہ موسویہ کا ’’خاتم الخلفاء‘‘ قرار دیا ہے اور اپنے آپ کو سلسلہ محمدیہؐ کا خاتم الخلفاء قرار دیا ہے۔

جواب:۔’’خاتم الالخلفاء‘‘ کے معنی افضل الخلفاء کے ہیں۔ آخری خلیفہ کے نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آپ کو اسی طرح سلسلہ محمدیہ کا خاتم الخلفاء قرار دیا ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سلسلہ موسویہ کا۔

اب سوال یہ ہے کہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعد سلسلہ خلافت تسلیم کیا ہے یا نہیں ؟

الف:۔ تو ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے:۔

’’ یُسافر المسیح الموعود أو خلیفۃ من خلفاۂ إلی أرض دمشق۔‘‘

( حمامۃ البشری۔روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۲۲۵)

کہ مسیح موعودؑ یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ دمشق کا سفر اختیار کرے گا۔

( نیز دیکھو پیغام صلح صفحہ ۳۱ و نیز ڈائری ۱۴ اپریل ۱۹۰۸ء)

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعد سلسلہ خلافت تسلیم فرمایاہے۔ پس خاتم الخلفاء کے معنی آخری خلیفہ کے نہ ہوئے۔بلکہ افضل الخلفاء کے ہوئے۔

ب:۔زیادہ وضاحت کے لئے اسی خطبہ لہامیہ میں حضرت اقدس فرماتے ہیں:۔’’انہٗ خاتم الانبیاء وانا خاتم الاولیاء لاولیّ بعدی الّا الذی ھومنّی وعلٰی عھدی۔‘‘

(خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۷۰)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں۔ مگر وہی جو مجھ سے ہو اور میرے عہد پر قائم ہو۔

غرضیکہ حضرت مرزا صاحب نے خاتم الانبیاء کا مفہوم بالکل واضح فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ مگر وہی جو آپ میں سے ہو اور آپ کے عہد پر آئے یعنی بالواسطہ بغیر شریعت کے۔

سو یہی مذہب جماعت احمدیہ کا ہے۔ خلافت کے متعلق تو حضرت بانی سلسلہ فرماتے ہیں:۔

’’ولایت و امامت وخلافتِ حقہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ یہ سلسلہ آئمہ راشدین خلفاء ربانیین کا کبھی بند نہیں ہو گا۔‘‘ ( الحکمؔ جلد۲ نمبر ۳۸ صفحہ ۳ کالم نمبر ۱، ۸ دسمبر ۱۸۹۸ ء قادیان)

دوسری آیت:۔ ( المائدۃ:۴)

الجواب:۔یہ آیت تو امکانِ نبوت کی دلیل ہے ( تفصیل دیکھو دلائل امکان نبوت بارہویں دلیل صفحہ۴۳۰)

اگر کہو کہ میں ’’نعمت‘‘ سے مراد نبوت ہے اور وہ تمام ہو گئی ۔ یعنی ختم ہو گئی تو اس کا جواب یہ ہے ۔

۱۔قرآن میں تورا ت کے متعلق ہے (الانعام:۱۵۵) گویا تورات ’’تمام‘‘ تھی مگر اس کے بعد پھر کتاب آ گئی ( قرآن)پس جس طرح اِتمامِ کتاب کے بعد کتاب آ گئی اسی طرح اِتمامِ نعمت کے بعد نعمت آگئی۔ فلا اعتراض!

۲۔اس آیت میں تو اتمامِ نعمت کا ذکر ہے اور نعمت صرف نبوت ہی نہیں بلکہ بادشاہت، صدیقیت، شہادت، صالحیت یہ سب نعمتیں ہیں جیسا کہ ( النساء:۰ ۷) نیز (المائدۃ:۲۱) پس اگر کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد نبوت بند ہو گئی ہے تو پھر امت محمدیہ میں بادشاہی ، صدیقیتاور شہادت اور صالحیت سب بند ہو گئیں۔مگر یہ خلاف واقعہ ہے۔ پس تمہارا ترجمہ غلط ہے اور صحیح ترجمہ یہ ہے کہ تم کو پوری نعمت دی گئی۔

۳۔قرآن مجید میں ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ نے اپنا خواب حضرت یعقوبؑ کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے جواب دیا۔

(یوسف:۷) کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تجھ پر اپنی نعمت تمام کرے جس طرح اس نے تیرے باپ دادا ابراہیم ؑ و اسحاق ؑپر اپنی نعمت تمام کی تھی۔گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی نعمت تمام ہوئی۔ پھر حضرت اسحق، یعقوب و یوسف علیہم السلام پر نعمت تمام ہوئی اور پھر آنحضرت صلعم کے ذریعہ مسلمانوں پر بھی نعمت تمام ہوئی۔ اس کے معنے بند کرنا کس طرح ہوئے؟ کیا حضر ت ابراہیم ؑ اور اسحاقؑ پر نبوت بند ہوگئی تھی ؟ پس اس کے یہ معنے ہیں کہ میں نے تم کو پوری پوری نعمت دی ہے اس آیت کا ترجمہ تفسیر حسینی میں مندرجہ ذیل درج ہے:۔

’’اور پوری کرے گا اپنی نعمت کہ نبوت ہے تجھ پر اوراولاد یعقوب پر یعنی تیرے بھائیوں پر ایک قول کے بموجب انہیں پیغمبر کہتے ہیں یا یعقوب علیہ السلام کی نسل پر کہ اس میں انبیاء علیہم السلام پیدا کرے گا‘‘ ( تفسیر حسینی جلد ۱ صفحہ ۴۸۵ مترجم اردو تفسیر سورۃ یوسف ع ۱)

پس ’’اتما م نبوت‘‘’’بر امت محمدیہ‘‘ کے معنی یہ ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ امت محمدیہ میں سے نبی پیدا کرے گا جس طرح آل یعقوب پر اتمام نعمت سے مراد ان میں نبی پیدا کرنا تھی۔

تیسری آیت:۔( سباء:۲۹) چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تما م دنیا کے رسول ہیں لہٰذا اب کوئی نبی نہیں آسکتا۔

الجواب :۔حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے۔ کیاان کے بعد بنی اسرائیل ہی کے لئے حضرت داؤد،سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام نبی ہو کر نہیں آئے ؟ پس آنحضرت صلعم چونکہ تمام دنیا کی طرف رسول ہیں (ب ) آپ کے بعد جو رسول آپؐ کی اتباع میں آئے گا وہ بھی تما م دنیا کی طرف ہو گا۔

۲۔قرآن مجید تمام دنیا کے لئے شریعت ہے پس جو نبی قرآن کی اشاعت کے لئے آئے گا وہ بھی ساری دنیا ہی کی طرف آئے گا۔

۳۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو بقول غیر احمدی آئیں گے وہ کن لوگوں کی طرف آئیں گے؟

چوتھی آیت:۔(الانبیاء:۱۰۸) چونکہ انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے رحمت ہو کر آئے ہیں اس لئے اب کسی نبی کے لئے گنجائش نہیں۔

الجواب:۔تیسری دلیل کا جواب پڑھو۔

پانچویں آیت:۔ (الاعراف:۱۵۸)

الجواب:۔تیسری دلیل پڑھو

چھٹی آیت:۔(البقرۃ:۵) بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی نازل نہ ہوگی۔

الجواب:۔(۱)اول تو عدم ذکر سے عدم شیٔ لازم نہیں آتا،لیکن ذرا غور تو کروکہ اسی آیت میں کیا کا لفظ موجود نہیں جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پرنازل ہونے والی ساری وحی پراپمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اور اس ’’‘‘ (قرآن مجید)میں متعدد مقامات پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتیوں اور غلاموں پر وحی الٰہی اور ملائکہ کے نزول کا ذکر موجود ہے اور بعد میں آنے والے امتی نبیوں کی بعثت کی خبر دے کر ان پر ایمان لانے کی تلقین کی گئی ہے(جن کی کسی قدر تفصیل دلائل امکان نبوت از روئے قرآن مجید میں دی گئی ہے وہاں سے ملاحظہ ہوں)لیکن بطور مزید مثال ایک آیت درج ہے۔

’’ ‘‘(حم سجدہ:۳۱)کہ وہ مومن جواسلامی توحید پر استقامت اختیار کریں گے ان پر فرشتے یہ پیغام لے کر نازل ہوں گے کہ کوئی خوف نہ کرو اور مت حزیں ہواور ہم تم کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ہم تمہارے اس دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی دوست ہیں۔یہ آیت اس امر کے اثبات کے لئے نص قطعی ہے کہ قرآن مجید اور حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے متبعین پر اسی دنیا میں ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔چنانچہ۔

تفسیر بیضاوی جلد ۲ صفحہ۲۶۷ مطبع احمدی دہلوی و تفسیر قادری المعروف بہ تفسیر حسینی جلد ۲ صفحہ۳۸۰مترجم اردو پر اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مومنوں پر اسی دنیا میں الہام الٰہی کے نزول کا اس آیت میں وعدہ دیا گیا ہے۔

(۲)پھر اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔

(المومن: ۱۶) اس کا ترجمہ تفسیر قادری سے نقل کیا جاتا ہے:۔

’’وہ ہے بلند کرنے والا درجے۔خداوندِ عرش ہے ڈالتاہے روح کو اپنے حکم سے یابھیجتا ہے جبرئیل کوجس پر چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے یعنی جسے چاہتا ہے مرتبۂ نبوت عطا فرماتا ہے تا کہ ڈراوے وہ جس پر وحی آئے لوگوں کو ملاقات کے دن سے۔ (تفسیر حسینی مترجم اردو جلد۲ صفحہ۳۶۰)

اس آیت میں ’’‘‘مضارع کا صیغہ ہے جو مستقبل کے زمانہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ پس اس میں بھی آئندہ وحی اور نبوت کا اجراء بیان کیا گیا ہے۔ پس جو شخص کا مصداق ہے وہ طبعی طور پر اس وحی پر ایمان لاتا ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کے طفیل حضور ؐکے غلاموں پر نازل ہوتی ہے۔ پھر اس شخص سے علیحدہ طور پر اقرار لینے کی کیا ضرورت تھی؟

(۳) اس طرح تو کوئی شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس آیت میں ایمان با لملائکہ کا بھی کوئی ذکر نہیں اس لئے ثابت ہوا کہ ملائکہ پر ایمان لانا ضروری نہیں یا یہ کہ سرے سے ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہوگا کہ ملائکہ پر ایمان کے اندر شامل ہے اور مذکور ہے۔ اس لئے علیحدہ طور پر اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔

(۴)اسی طرح اس آیت میں تمہارے خود تسلیم کردہ مسیح موعود اور مہدی کا بھی تو ذکر نہیں۔

آنحضرت صلعم کے بعد وحی

علاوہ مندرجہ بالا نیز دیگر آیات قرآنی کے (جن کی تفصیل مضمون ’’دلائل امکان نبوت‘‘ میں درج کی گئی ہے)احادیث نبوی میں بھی اس وحی کی خبر دی گئی ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود اور امام مہدی پر نازل ہوگی دیکھو صحیح مسلم۔کتاب الفتن و اشراط الساعۃباب صفت الدجال و نزول المسیح جلد۲ ومشکوٰۃکتاب الفتن باب فی العلامات بین یدی الساعۃکہ ’’اَوْحَی اللّٰہُ تَعَالٰی اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ‘‘کہ اﷲ تعالیٰ مسیح موعودؑ پر وحی نازل کرے گا۔ نیز دیکھو حجج الکرامہ صفحہ۴۳۱ و اقتراب الساعۃصفحہ۱۶۳ مطبع مفید عام الکائنۃ فی الرواۃجہاں حضرت امام سیوطی حضرت حافظ ابن حجر اور دیگر بزرگان کی تصریحات کی بناء پرلکھا ہے کہ مسیح موعودؑ پر بعد نزول حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ وحی نازل ہوگی۔مفصل حوالجات ذیل میں در ج ہیں:۔

۱۔علامہ ابن حجر الہیثمی سے جب پوچھا گیا کہ جب مسیح موعودؑ آئے گا تو اس پر وحی نازل ہوگی؟ توانہوں نے جواب دیا ۔

نَعَمْ یُوْحٰی اِلَیْہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحْیٌ حَقِیْقِیٌّ کَمَا فِیْ حَدِیْثِ مُسْلِمٍ(روح المعانی احزاب زیر آیت نمبر ۳۹ تا ۴۸) ہاں خدا تعالیٰ ان پر وحی حقیقی نازل کرے گا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے۔

۲۔حدیث مسلم میں ہے ’’یَقْتُلُ عِیْسَی الدَّجَّالَ عِنْدَ بَابِ لُدِّالشَّرْقِیِّ فَبَیْنَمَا ھُوَ کَذٰلِکَ اِذْ اَوْحَی اللّٰہُ اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ اِنِّیْ قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَادًا مِنْ عِبَادِیْ۔‘‘

(مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃباب ذکر الدجال، مشکوٰۃ صفحہ۴۵۳کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ)

کہ مسیح موعود ؑ دجال کو باب لُدّ شرقی پر قتل کرے گا اور جب وہ اس حالت میں ہوں گے تو خداتعالیٰ مسیح موعودؑ پر وحی کرے گا کہ میں نے اپنے بندوں میں سے بعض بندے تیری حمایت میں نکالے ہیں۔

۳۔اس حدیث کو نقل کرکے نواب صدیق حسن خاں صاحب حجج الکرامہ میں لکھتے ہیں:۔

’’وظاہر آنست کہ آرندہ وحی بسوئے او جبرئیل علیہ السلام باشد۔بلکہ بہمیں یقین داریم ودراں ترددنمی کنیم چہ جبرائیل سفیرِخدا است درمیان انبیاء علیہم السلام و فرشتہ دیگر برائے ایں کار معروف نیست‘‘

(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ۴۳۱)

کہ ہمیں یقین ہے کہ مسیح موعودؑ کی طرف جبرائیل ہی وحی لے کر آویں گے کیونکہ انبیا ء کی طرف خدا کی وحی لانے کے لئے وہی مقرر ہیں۔اور ان کے سوا کوئی دوسرا فرشتہ اس کام پر مقرر نہیں ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔علامہ ابن حجر الہیثمی فرماتے ہیں:۔وَ ذٰلک الْوَحْیُ عَلٰی لِسَانِ جِبْرِیْلَ اِذْ ھُوَ السَّفِیْرُ بَیْنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ اَنْبِیَآئِہٖ۔ (روح المعانی جلد ۸ احزاب زیر آیت نمبر ۳۹ تا ۴۸صفحہ۶۵)

علاوہ ازیں امام ابن حجرا لہیثمی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم ؑ (جو آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد پیدا ہوئے)نبی تھا اور پھر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی طرف حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوئے جس طرح جبرئیل ؑحضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ماں کی گود میں وحی لے کر نازل ہوئے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام پر تین سال کی عمر میں نازل ہوئے۔لکھتے ہیں: ۔

’’وَلَا بُعْدَ فِیْ اِثْبَاتِ النُّبُوَّۃِ لَہٗ مَعَ صِغْرِہٖ لِاَنَّہٗ کَعِیْسَی الْقَائِلِ یَوْمَ وُلِدَ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتَابَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَ کَیَحْییَ الَّذِیْ قَالَ تَعَالٰی فِیْہِ وَ اٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔‘‘ (الفتاویٰ الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر الہیثمی مطلب ما ورد فی حق ابراہیم ابن نبینا صفحہ ۲۳۵)

کہ ’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا صاحبزادہ ابراہیم ؑچھوٹی عمر میں نبی ہوگیاتو اس میں کوئی بعید ازعقل بات نہیں کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح ہیں جنہوں نے پیدائش کے دن کہا تھا کہ میں خدا کا بندہ ہوں۔ مجھے اﷲ نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ نیز وہ حضرت یحییٰ کی طرح ہیں جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو بچپن ہی کی عمر میں دانشمندی عطا فرمائی تھی۔‘‘پھر فرماتے ہیں:۔

وَ اِحْتَمَالُ نُزُوْلِ جِبْرِیْلَ بِوَحْیٍ لِعِیْسٰی اَوْ یَحْیٰی یَجْزِیْ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ وَ یُرَجِّحُہٗ اَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَوَّمَہٗ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ اَوْ عُمُرُہٗ ثَمَانِیَۃَ اَشْھُرٍ۔

(الفتاویٰ الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر الہیثمی مطلب ما ورد فی حق ابراہیم ابن نبینا صفحہ ۲۳۵)

کہ جس طرح حضرت عیسیٰ اور یحیٰ علیہ السلام پر بچپن میں جبرئیل ؑ وحی لے کر نازل ہوئے اس طرح احتمال ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ابن النبی صلعم پر جبرئیل وحی لے کر بچپن کی عمر میں نازل ہوئے اور یہ بات بدیں و جہ وزنی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بچہ ابراہیم ؑ کو عاشورہ کے روزے رکھوائے حالانکہ ان کی عمر ابھی صرف آٹھ ماہ کی تھی۔

۵۔علامہ ابن حجر مذکور فرماتے ہیں:۔’’وَخَبْرُ لَا َوحْیَ بَعْدِ یْ بَاطِلٌ وَ مَا اَشْھَرَاَنَّ جِبْرِیْلَ لَا یَنْزِلُ اِلٰی الْاَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلْعَمْ فَھُوَ لَااَصْلَ لَہٗ۔‘‘

(روح المعانی جلد ۸ احزاب زیر آیت ۳۹ تا ۴۸)

۶۔اس کا ترجمہ فارسی میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے یہ کیا ہے:۔

’’وآنکہ براَلْسِنَہ عامہ مشہور شدہ کہ نزول جبرائیل ؑ بسوئے ارض بعد موت رسول خدا صلعم نشودبے اصل محض است‘‘ (حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال صفحہ۴۳۱) کہ یہ حدیث کہ میرے بعد کوئی وحی نہیں باطل ہے(موضوع ہے)اور یہ جو عام طور پر مشہور ہے کہ جبرائیل وفاتِ نبویؐ کے بعد زمین پر نازل نہیں ہوں گے اس کی کوئی بنیادنہیں۔

مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر سے غیر احمدیوں کا استدلال باطل ہے۔

ساتویں آیت:۔(المائدۃ:۲۰)

جواب:۔ ’’فَتْرَۃ‘‘ کے معنے ختم ہوجانا نہیں بلکہ اس کے معنی’’وقفہ‘‘ کے ہیں جو دو رسولوں کے درمیان ہوتا ہے۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے:۔

"Interval between two fits of fever, between the missions of (الفرائد الدریہ صفحہ۵۴۴) two prophets,truce."

یعنی فترۃ کے معنی ہیں بخار کے دو حملوں کا درمیانی وقفہ ،دو نبیوں کا درمیانی زمانہ،عارضی صلح۔

پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد جب ایک وقفہ پڑگیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا گیا چنانچہ لکھا ہے :۔

’’وَ الْفَتْرَۃُ الَّتِیْ کَانَتْ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ‘‘(البحر المحیط جلد ۳ صفحہ۴۶۷ دارالکتب العلمیہ بیروت۔ لبنان ۱۹۹۳ء) کہ فترۃ سے مراد وہ زمانہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیا ن گزرا۔‘‘

۳۔حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ؂

نَبِیٌّ اَتَانَا بَعْدَ یَاسٍ وَ فَتْرَۃٍ مِنَ الرُّسُلِ وَالْاَوْثَانُ فِی الْاَرْضِ تُعْبَدٗ

(شرح دیوان حسان قافیہ الدال)

یعنی ہمارے پاس محمدؐ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یا س اور فترۃ کے بعد آئے ہیں(یعنی ایسے وقت جب کہ کافی عرصہ نبی کو مبعوث ہوئے گزرچکاتھا)اور حالت یہ ہے کہ زمین میں بتوں کی پرستش کی جاتی ہے۔

۴۔یہ آیت امکانِ نبوت کی دلیل ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس خیال سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک لمبے عرصہ تک کسی نبی کے مبعوث نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہ خیا ل نہ کرنے لگ جائیں کہ شاید خدا تعالیٰ نے اب نبی بھیجنا ہی بند کر دیا ہے اﷲ تعالیٰ نے نبی بھیج دیا۔ (المائدۃ:۲۰)تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا۔بعینہٖ یہی صورت حال اب بھی ہے۔
 
Top