• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تردید مُتعہ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تردید مُتعہ

جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے تو عرب میں آٹھ دس قسم کے نکاح رائج تھے جن میں سے ایک متعہ یعنی میعادی نکاح بھی تھا۔جس طرح باوجود خود اپنے نقائص کے شراب ایک مدت تک حرام نہیں ہوئی اسی طرح متعہ بھی جنگ خیبر تک حرام نہیں ہوا۔حضرت علی کرم اﷲ کی روایت بخاری (بخاری کتاب النکاح باب النھی عن نکاح المتعۃ) میں پائی جاتی ہے کہ رسول کریم ؐنے اعلان کیا کہ متعہ حرام کر دیا گیا ہے ۔پھر جنگ اوطاس (ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی نکاح المتعۃ) پر جو فتح مکہ کے دنوں میں ہوئی تھی رسول مقبول ؐ نے متعہ کی اجازت تین دن کے لئے دی تھی (مشکوٰۃ کتاب النکاح باب اعلان النکاح۔ ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی نکاح المتعۃ) اس کے بعد ابد تک حرام ہوگیا ۔ (ابو داؤد کتاب النکاح باب فی نکاح المتعۃ ۔و ابن ماجہ کتاب النکاح باب النھی عن نکاح المتعۃ) اس لئے پہلی حرمت کے قبل کے واقعات یا تین دن کے واقعات حجت نہیں ہوسکتے ورنہ شراب پینا بھی اس دلیل سے جائز ہوگا۔اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ابن عباس ؓیا ابن مسعودؓ یا بعض اور اصحاب اخیر تک حلت متعہ کے قائل تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ ؓ کے دو گروہ ہیں ایک حرمت کا قائل اور ایک حلت کا قائل۔چونکہ حرمت کا قائل گروہ بغیر آنحضرت ؐ سے حرمت کے سننے کے ایک حلت کو حرمت میں تبدیل نہیں کرسکتا اور حلت کا قائل گروہ حرمت کے فتویٰ کے نہ پہنچنے کی و جہ سے حلت کا اظہار کر سکتا ہے اس لئے حرمت کے گروہ کو حلت کے گروہ پر ترجیح دی جاوے گی اور وہ احادیث جن میں لکھا ہے کہ آنحضرت کے عہد میں متعہ تھا مگر ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کر دیا۔وہاں متعۃ الحج مراد ہے نہ کہ متعۃُ النساء۔

اور حضرت عمر ؓ کا یہ کہنا کہمُتَّعَتَانِ کَانَتَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنَا اُ حُرِّمُھُمَا (مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ۵۲،جلد۳۔صفحہ۳۲۵) یہاں پر حرام سے مراد اعلان اور اظہار حرمت ہے جیسا کہ حدیث اَنَا اُحَرِّمُ الْمَدِیْنَۃَ کَمَا حَرَّ مَ اِبْرَاھِیْمُ مَکَّۃَ (ابو داؤد کتاب المناسک باب فضل مکہ و مدینۃ ۔فردوس الاخبار جلد ۲ صفحہ ۲۱۲نیا ایڈیشن) میں ہے۔یعنی متعۃ الحج اور متعۃ النساء کو جو آنحضرت ؐکے زمانہ میں ایک وقت تک ہوتے تھے مگر بعد میں وہ حرام ہوگئے اور کئی لوگوں کو اس کی حرمت معلوم نہ ہوئی اس لئے میں لوگوں پر ان دونوں کی حرمت ظاہر کرتا ہوں اوروہ احادیث جن میں جنگ اوطاس کے تین دن کے متعہ کا ذکر ہے۔ (مشکوٰۃ کتاب النکاح باب اعلان النکاح۔ پہلی فصل) شیعوں کی کتب میں اس کے پہلے ٹکڑے دئیے گئے ہیں حالانکہ پوری حدیثیں یوں ہیں کہ تین دن کے بعد متعہ حرام قرار دیا گیا ہے فَھُوَ الْحَرَامُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (فردوس الاخبار نیا ایڈیشن جلد ۱ صفحہ ۹۷ روایت نمبر ۱۹۴ راوی سبرۃ الجھنی) اور یہ کہنا کہ اہل بیت کا اتفاق ہے کہ متعہ حلال ہے صحیح نہیں کیونکہ بارہ اماموں میں سے پہلے امام یعنی حضرت علیؓ کی حدیث بخاری شریف میں موجود ہے کہ متعہ حرام ہے۔نیز حدیث میں ہے کہ خود آنحضرت ؐ نے خدا تعالیٰ کے خاص حکم سے متعہ کو حرام قرار دیا۔ ملاحظہ ہو:۔

اِنِّیْ کُنْتُ اَحْلَلْتُ الْمُتْعَۃَ وَاِنَّ جِبْرِیْلَ اَتَانِیْ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّھَا حَرَامٌ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (فردوس الاخبار دیلمی جلد ۱ باب الالف ذکر الاخبار جاء ت عن النبیؐ فی مناقبہ) کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے متعہ حلال کیا تھا مگر جبرائیل میرے پاس آیا اور اس نے مجھے اطلاع دی کہ متعہ قیامت تک حرام ہے ۔

نوٹ:۔ دیلمی کے صفحہ و سطر کا حوالہ ’’فردوس الاخبار‘‘کے اس نسخے کے مطابق ہے جو کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن میں موجود ہے۔ (خادمؔ)

پس حضرت عمر ؓ پر کوئی الزام نہیں ،انہوں نے جو کچھ کیا آنحضرتؐ کے فتویٰ اور حکم کے مطابق کیا۔اور یہ کہنا کہ متعہ کا رواج ہوجاوے تو زنا مفقود ہوجائے گا۔ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ اگر شریعت نہ اتاری جاتی تو کوئی شخص گناہ گار نہ ہوتا۔

اب ہم قرآن مجید سے پہلے وہ مقام دیکھتے ہیں جہاں سے شیعہ لوگ متعہ نکالتے ہیں اور وہ (النساء:۲۵) کے الفاظ ہیں لیکن اگر اس آیت کے ما قبل اور ما بعد میں تدبر کیا جاوے تو یہ آیت متعہ کی تائید میں نہیں بلکہ متعہ کے بر خلاف ہے۔اس رکوع میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (النساء:۲۴) یعنی ماؤں اور ان تمام عورتوں سے ہمبستر ہونا جن کا ماؤں کے بعد ذکر ہے حرام ہے یعنی ان سے مجامعت حرام ہے۔آگے فرمایا (النساء:۲۵) یعنی ان عورتوں کے سوا باقی تمام عورتوں سے مجامعت کرنا جائز ہے مگر مجامعت کے لئے کچھ شرائط ہیں پہلے وہ پوری کرو پھر مجامعت کرو یعنی

۱۔ (النساء:۲۵) یعنی مہر مقرر کرو۔

۲۔ (النساء:۲۵) اس عورت کو قید میں لانے والے ہوں یعنی ایسا معاہدہ کریں کہ عورت پھر مرد سے چھوٹ نہ سکے۔

۳۔ (النساء:۲۵) یعنی غرض اس معاہدہ کی شہوت فرو کرنا نہ ہو۔

اب ان تین شرطوں کے بعد جب مرد ہمبستر ہوجاوے تو وہ جو پہلی شرط ہے یعنی مال مقرر کرنا اب اس کی پوری ادائیگی ضرور ہوگی۔اس لئے فرمایا (النساء:۲۵) یعنی چونکہ تم نے ان سے فائدہ اٹھایا اس لئے ان کے مہر ادا کرو۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی عورت سے ہمبستر ہونے کے لئے تین شرطوں کا پورا کرنا ضروری ہے۔ چونکہ متعہ میں دوسری شرط یعنی عورت کا قید ہوجانا مفقود ہے اس لئے معلوم ہوا کہ متعہ کے ذریعہ ہمبستر ہونا حرام ہے آگے (النساء:۲۶) اس کے بعد فرمایا (النساء:۲۶) یعنی لونڈی کو بیوی بنانا زنا سے بچنے کے لئے ہم نے جائز قرار دیا ۔ ورنہ (النساء:۲۶) اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی مشکلات کا حل متعہ نہیں ہے بلکہ لونڈیوں کو بیوی بنانا ہے۔

اب ہم غور کرتے ہیں کہ آیا میعادی نکاح عقلاً قابل عمل درآمد ہے یا کہ نہیں ۔غور کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بہت سے نقائص ہیں اور وہ یہ ہیں:۔

۱۔جو وفاداری خدا تعالیٰ نے عورت اور مرد کی طبیعت میں پیدا کی ہے وہ اس فعل سے مفقود ہوجائے گی۔

۲۔شریعت کہتی ہے کہ اَبْغَضُ الْحَلَالِ عِنْدَ اللّٰہِ الطَّلَاقُ (سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب کراھیۃ الطلاق) یعنی گو طلاق اپنے موقع پر جائز ہے مگر یہ سخت تکلیف دہ واقعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت مردو عورت کے تعلق کے بعد جدائی کو ناپسند کرتی ہے ۔حالانکہ متعہ میں پہلے ہی سے جدائی کی شرط کر لی جاتی ہے پس معلوم ہوا کہ متعہ عقلاً جائز نہیں ہے۔

۳۔تیسرا نقص یہ ہے کہ قرآن کریم نے عدت کی صرف دو صورتیں رکھی ہیں ۔مطلّقہ کی اور متوفی عنہا زوجھا کی۔ تیسری کوئی عدت اﷲ تعالٰے نے قرآن مجید میں بیان نہیں فرمائی۔اس سے معلوم ہوا کہ متعہ والی جدائی کی کوئی صورت ہی نہیں ہے اور جب کوئی صورت نہ ہوئی تو یہی متعہ کے ناجائز ہونے کی دلیل ہے۔

۴۔متعہ میں اختلاطِ نسل کا ڈر ہے۔

۵۔ایک شخص ایک عورت سے سفر میں تین دن کے لئے متعہ کرتا ہے اور تین دن کے بعد اپنے ملک میں واپس چلا جاتا ہے ممکن ہے کہ وہ عورت حاملہ ہوگئی ہو ۔ایسی صورت میں اولاد کے ضائع ہونے کا ڈر ہے۔

۶۔جو دلیل نیوگ کے خلاف پیش کی جاتی ہے کہ اگر یہ فطرت صحیحہ کے مطابق ہوتا تو اس کا اعلان ہوتا۔کیونکہ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ میں نکاح کے نتیجہ میں ہوں ۔یہی دلیل بعینہٖ متعہ کے خلاف پیش کی جاسکتی ہے کہ اس ملک میں لاکھوں شیعہ ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں متعہ کے نتیجہ میں ہوں اور نہ یہ کبھی کسی سے سنا ہے کہ میں اپنی لڑکی کا متعہ کرانا چاہتا ہوں ۔پس معلوم ہوا کہ متعہ فطرتِ صحیحہ کے خلاف ہے۔

۷۔آنحضرتؐ نے گیارہ نکاح کئے۔دوست اور دشمن آپ کی بیویوں کے نام جانتے ہیں مگر کوئی عورت ایسی نہیں جس سے آپ نے متعہ کیا ہوباوجود یکہ آپ کو تعدّد ازدواج کی دوسرے مسلمانوں سے زیادہ ضرورت تھی۔پس آپ کا متعہ نہ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ متعہ مستحسن امر نہیں۔

۸۔تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علیؓ نے متعدد نکاح کئے ہیں مگر کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں کہ آپ نے کوئی متعہ کیا ہو۔اگر کیا ہے تو عورت کا نام،متعہ اور مہر وغیرہ پوری کیفیت کے ساتھ بیان کیجئے۔

۹۔ہمارے نزدیک ائمہ اثنا عشرہ میں سے کسی نے متعہ نہیں کیا اور ہم کسی مشتبہ،مبہم یا عمومی روایت کے قائل نہیں۔ہم اس وقت ائمہ کے متعہ کو تسلیم کریں گے جبکہ شیعہ بالیقین کسی امام یا امام کی اولاد کو متعہ کی اولاد قرار دیں گے۔

۱۰۔جو ماحصل زنا کا ہے اور جو نقائص زنا میں ہیں وہی متعہ کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں شیعہ جو نقص زنا میں نکالیں گے اگر غور کیا جائے تو وہی نقص متعہ میں بھی پایا جاوے گا۔پس بحث مباحثہ میں شیعوں سے نقائصِ زنا پوچھنے چاہئیں پھر جب چھان بین کی جاوے گی تو لازماً وہی نقائص متعہ میں بھی ثابت ہوں گے۔

۱۱۔ممنوعہ کی کوئی عدت شریعت میں نہیں لہٰذا اختلاطِ نسل کا خطرہ ہے۔عدت خاوند کے طلا ق دینے یا مر جانے کی و جہ سے ہوتی ہے مگر متعہ میں نہ خاوند مرتا ہے اور نہ وہ طلاق ہی دیتا ہے۔ اس لئے اس کی کوئی شرعی عدت نہیں اور جب عدت نہیں تو معلوم ہوا کہ متعہ جائز نکاحوں میں سے کوئی نکاح نہیں ہے۔
 
Top