• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تفسیر موازنہ ۔ برہان ظفر ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر موازنہ ۔ برہان ظفر ۔ یونی کوڈ

بل فعالہُ کبیرھم ھذا
ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کون نہیں جانتا اور ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ آپ کی نسل میں سے خدا امام بنائے گا۔ خدا تعالیٰ نے ہر دو شاخوں کو ثمر آور کرکے اپنے وعدہ کو پورا فرما دیا۔ آپ ہی کی سیرت سے متعلق ایک واقعہ قرآن کریم میں سورۃ الانبیآء میں محفوظ ہے۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
وتا للہ لا کیدن اصنا مکم بعد ان تولوا مدبرین فجعلھم جذاذاً الا کبیراً لھم لعلھم الیہ یرجعون قالو من فعل ھذا بالھتنأ انہ لمن الظلمین قالوا سمعنا فتی یذکرھم بقل لہ ابراھیم قالو ا فاتوابہ علیٰ اعین الناس لعلھم یشھدون قالواء انت فعلت ھذا بالھتنا یٰابراھیم قال بل فعلہ کبیرھم ھذا فسلوھم ان کانوا ینطقون۔ (الانبیآء ۵۸ تا ۶۴)
قالوا حرقوہ وانصروا الھتکم ان کنتم فعلین قلنا ینارکونی برداً وسلماً علی ابراھیم (الانبیآء ۶۹۔۷۰)
ان آیات کا ترجمہ تفسیر صغیر میں اس طرح درج ہے کہ۔
’’ اور اس نے کہا ، خدا کی قسم ! جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جائوگے تو میں تمہارے بتوں کے خلاف ایک پکی تدبیر کروں گا۔ پھر اس نے ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سوائے ان میں سے بڑے کے تاکہ وہ (ایک دفعہ پھر) اس کے پاس آئیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے معبودوں سے یہ کام کس نے کیا ہے ایسا کرنے والا یقینا ظالموں میں سے ہے۔( تب کچھ دوسرے لوگوں نے) کہا ہم نے ایک نوجوان کو جس کا نام ابراھیم ہے ان کی کمزوریاں بیان کرتے سنا ہے۔ (تب قوم کے سرداروں نے) کہا (اگر بات یوں ہے تو) اس شخص کو سب لوگوں کے سامنے لائو شائد وہ (اس کے متعلق) کوئی فیصلہ کریں۔ (پھر) انہوں نے کہا اے ابراھیم ! کیا یہ کام تو نے ہمارے معبودوں سے کیاہے ؟ (ابراھیم نے ) کہا کہ (آخر) کسی کرنے والے نے تو یہ کام ضرور کیا ہے۔ یہ سب سے بڑا بت سامنے کھڑا ہے اگر وہ بول سکتے ہوں تو ان سے (یعنی اس بت سے بھی اور دوسرے بتوں سے بھی) پوچھ کر دیکھو ‘‘۔
’’ اس پر وہ غصے میں آکر کہنے لگے۔ اس شخص کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم نے کچھ کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ تب ہم نے کہا اے آگ ! تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈی بھی ہو جا اور اس کے لئے سلامتی کا باعث بھی بن جا ‘‘۔
ان آیات کی تفاسیر بیان کرتے ہوئے مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جھوٹ بولنے کے الزام بھی لگائے ہیں۔ اور حوالہ ایک حدیث کا دیا ہے۔ جوکہ علماء کے نزدیک بڑی مستند بھی ہے اور اگر کسی نے اس کی تطبیق کرنے کی کوشش کی یا اُس کو قرآنی تعلیم اور عصمت انبیاء کے خلاف بتایا تو اُسے ملزم بھی ٹھہرایا ہے گویا کہ حضرت ابراہیم نے واقعی جھوٹ بولا تھا لیکن اس کو تو ریہ کا نام دیا گیا جوکہ جان بچانے کی نیت سے علماء کے نزدیک جائز سمجھا گیا ہے۔
قارئین کے سامنے ان تفاسیر کو رکھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ ان کا خود مطالعہ کرکے تفسیر کی خوبی اور انبیاء کی عصمت قائم کرنے والوں اور گرانے والوں کو خود پرکھ سکیں۔
مولوی اشرف علی صاحب تھانوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
’’ ابو ھریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ابراہیم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تین مقاموں پر ان میں سے دو (تو محض) اللہ عزوجل کی ذات کیلئے ۔ ایک اُن کا جھوٹ یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے ان بتوں کو نہیں توڑا اس بڑے بت نے توڑا ہے دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ (آپ نے فرمایا) انی سقیم (یہ دونوں جھوٹ محض اللہ تعالیٰ کیلئے تھے اور تیسرا جھوٹ یہ ہے) کہ آپ ایک بار ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں جارہے تھے اور آپ کے ساتھ آپ کی بی بی سار جارہی تھی اور آپ ایک مقام پر اُترے ایک شخص بادشاہ کے پاس آیا اور بولا آپ کے ملک میں یہاں ایک مرد آیا ہے اُس کے پاس ایک عورت خوبصورت ہے ظالم نے اس کو آپ کے پاس بھیجا پھر ابراہیم اس کے پاس آئے وہ ظالم بولا یہ عورت آپ کے رشتہ میں کون ہے آپ نے فرمایا یہ میری بہن ہے ظالم بولا آپ جائیے اور اپنی بہن میرے پاس بھیج دیجئے آپ گئے سارہ کے پاس اور فرمایا اس ظالم نے مجھ سے تیرا رشتہ پوچھا تھا تومیں کہہ بیٹھا ہوں کہ تو میری بہن ہے تو مجھے اس کے پاس جاکر جھٹلانا مت اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں میری بہن ہے اور زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان نہیں ہے اور آپ خود اس کو لیکرگئے پھر آپ نماز پڑھنے لگے جب سارہ ظالم کے پاس داخل کی گئیں اور اُس ظالم نے آپ کو دیکھا اور آپ کو ہاتھ لگانے کیلئے جھکا تو خود سخت پکڑا گیا اور بولا کہ میرے لئے اللہ سے دُعا کر اور میں تجھ کو تکلیف نہ دوںگا آپ نے اس کیلئے دُعا کی پھر وہ کھل گیا۔ حدیث کے آخر تک روایت کیا اس کو بخاری نے مسلم نے۔ ابن کثیرتفا سیر میں ہے کہ اس بادشاہ کا دستور تھا کہ پردیسی کے آنے پر اگر اُس کے ساتھ خوبصورت عورت ہوئی اور یہ علوم ہوا کہ یہ اس کا خاوند ہے تو قتل کردیا کرتا تھا۔ اور اگر بہن یا بیٹی ہوئی تو بلا قتل صرف اُن کو چھین لیتا تھا۔ ابراہیم کو عین موقع پر یہ حال معلوم ہوا تو انہوں نے مطابق الہام اپنی جان بچائی کیلئے یہ جھوٹ بولا جو ظاہر میں جھوٹ مگر شرع میں جائز ہے کیونکہ شرع میں وہ جھوٹ ناجائز ہے جس کے ذریعہ غیر کو نقصان اوراپنے لئے ناجائز نفع مطلوب ہو مگر یہاں یہ بات نہیں اور بتوں کے توڑنے کے معاملہ میں انہوں نے بت پرستوں کے فائدہ کیلئے جھوٹ بولا تاکہ حقیقت سمجھ کر یہ خدا پرستی اختیار کرلیں ‘‘
(تفسیر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی صفحہ ۴۵۶ حاشیہ مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی)
اسی طرح کنز الایمان مترجم علامہ احمد رضا خان صاحب بریلوی و مفسر مولوی محمد نعیم الدین صاحب میں لکھا ہے کہ ۔
’’ واقعہ یہ ہے کہ اس قوم کا سالانہ ایک میلہ لگتا تھا جنگل میں جاتے تھے اور شام تک وہاں لہو ولعب میں مشغول رہتے تھے۔ واپسی کے وقت بت خانہ میں آتے تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اس کے بعد اپنے مکانوں کو واپس جاتے تھے جب حضرت ابراہیم نے ان کی ایک جماعت سے بتوں کے متعلق مناظرہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ کل کو ہماری عید ہے آپ وہاں چلیں دیکھیں کہ ہمارے دین اور طریقے میں کیا بہار ہے اور کیسے لطف آتے ہیں جب وہ میلے کا دن آیا اور آپ سے میلے میں چلنے کو کہا گیا توآپ عذر کرکے رہ گئے وہ لوگ روانہ ہوگئے جب ان کے باقی ماندہ اور کمزور لوگ جو آہستہ آہستہ جارہے تھے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے بتوں کا براچاہوں گا اس کو بعض لوگوں نے سنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بت خانہ کی طرف لوٹے یعنی بتوں کو توڑ کر چھوڑ دیا اور سیوا اس کے کاندھے پر رکھ دیا حاشیہ صفحہ ۴۷۳
قال بل فعلہ کا ترجمہ لکھا ہے کہ
فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا صفحہ ۴۷۴
اسی طرح یٰنا رکونی بردا وسلماً علی ابراھیم کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’نمرود اور اس کی قوم حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جلا ڈالنے پر یہ متفق ہوگئی اور انہوں نے آپ کو ایک مکان میں قید کردیا اور قریہ کوثی میں ایک عمار بنائی اور ایک مہینہ تک بکوشش تمام قسم کی لکڑیاں جمع کیں اور ایک عظیم آگ جلائی جس کی تپش سے ہوا میں پرواز کرنے والے پرندے جل جاتے تھے اور ایک منجنیق (گوپھن) کھڑی کی اور آ کو باندھ کر اس میں رکھ کر آگ میں پھینکا اس وقت آپ کی زبان مبارک پر تھا حسبی اللہ نعم الوکیل جبریل امین نے آپ سے عرض کیا کہ کچھ کام ہے آپ نے فرمایا تم سے نہیں جبریل نے عرض کیا تو اپنے رب سے سوال کیجئے فرمایا سوال کرنے سے اس کا میرے حال کو جاننا میرے لئے کفایت کرتا ہے۔ تو آگ نے سوا آپ کے بندش کے اور کچھ نہ جلایا اور آگ کی گرمی زائل ہوگئی اور روشنی باقی رہی ‘‘
(کنز الایمان صفحہ ۴۷۴ حاشیہ مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی ۶ حوالہ نمبر ۲۲۲)
اسی طرح شیعہ حضرات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ۔
’’ تفسیرقمی میں اس مقام پر حضرت ابراہیم کا قصہ جو ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابراہیم نے لوگوں کو بتوں کی عبادت سے بازرکھنا چاہا اور اپنی حجت و دلیل ان پر قائم کردی مگر وہ باز نہ آئے اور ان کی عید آئی تو وہ سب نمرود کے ساتھ باہر گئے تو ابراہیم کچھ کھانا اور لبسولا لیکر بت خانہ میں پہنچے ہر بت کے سامنے کھانا رکھتے اور کہتے تھے کہ اسے کھایا مجھے جواب دے۔ جواب نہ ملتا تھا تو کسی کا ہاتھ توڑ دیتے تھے کسی کاپائوں کسی کا سر سب بتوں کی تو یہی گت بنائی مگر بڑے کو جو صدر میں تھا یونہی رہنے دیا۔ اور بسولا اس کی گردن میں لٹکا دیا جب لوگ پلٹ کر میلے سے واپس آئے اور بت خانہ کی یہ حالت دیکھی تو اس وقت یہ کہا من فعل ھذا بالھتنا۔
اسی طرح لکھا ہے کہ جناب امام جعفر ؑ صادق سے منقول ہے کہ ابراہیم کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ بولتے ہوں تو ان کے بڑے بت نے ایسا کیا اور اگر نہ بولتے ہوں تو ان میں سے بڑے تک نے کچھ بھی نہیں کیا پس نہ وہ بولتے تھے اور نہ ابراھیم نے کوئی بات خلاف واقعہ کی‘‘۔
’’ اسی طرح مترجم نے بل فعلہ کبیر ھم ھذا کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ جو ان میں سب سے بڑا ہے (معلوم ہوتا ہے کہ) اُس نے ایسا کیا ہے‘‘۔
(ترجمہ و تفسیر مولانا سید مقبول احمد دہلوی
آیات زیر تفسیر سورۃ الانبیاء صفحہ ۵۲۱ مطبوعہ تبلیغات ایمانی ہند ۵۹ نجفی ہائوس نشان پاڑہ روڈ ممبئی ۔۹)
اسی طرح ا س تفسیر کے ضمیمہ میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔
’’ تفسیر قمی میں منقول ہے کہ ہر چند حضرت ابراہیم نے لوگوں پر اپنی حجت و دلیل قائم کی اور بتوں کی عبادت سے روکنا چاہا مگر انہوں نے حضرت کا کہنا نہ مانا۔ جب ان کا عید کا دن آیا تو نمرود مع اپنے ارکان دولت اور رعایا کے عید منانے کیلئے شہر سے نکلا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کے ہمراہ جانے سے کراہت کی تو نمرود نے اُن کو بت خانہ سپرد کردیا پس جب وہ لوگ چلے گئے تو ابراہیم علیہ السلام ہر بت کے سامنے کھانا لے گئے او ر ہر ایک سے ارشاد فرمایا لے کھانا کھالے اور اگر نہیں کھاتا تو مجھے جواب دے ۔ جب کوئی نہ بولا تو ہاتھ میں بسولا لیکر اُس کے ہاتھ پائوں توڑ ڈالے سب کے ساتھ یہی عمل کیا مگر بڑے بت کو چھوڑ دیا اور بسولا اس کی گردن میں لٹکا دیا ۔ وہ صدر میں دھرا ہوا تھا جب بادشاہ اور لوگ عید سے پلٹ کر آئے تو بتوں کو ٹوٹا پھوٹا پایا آپس میں کہنے لگے کہ جس نے ہمارے معبودوں کی یہ گت بنائی ہے بیشک وہ بڑا ظالم ہے (پھر) کہنے لگے ہم نے تو ایک نوجوان کو جس کا نام ابراہیم ہے اور جو آذر کا بیٹا (بھتیجا) ہے ۔ اُن کا (برا) ذکر کرتے ہوئے سنا تھا( ہونہو اُسی کی کرتوت ہے) پس وہ لوگ جناب ابراہیم کو نمرود کے پاس لے گئے ۔ نمرود نے آذر سے کہا تو نے مجھ سے خیانت کی اور اس لڑکے کی مجھے اطلاع نہ ہونے دی آذر نے جواب دیا کہ اے بادشاہ یہ کام ابراہیم کی ماں کا ہے اور وہ اپنے اس فعل کی جواب دہی بھی کرسکتی ہے ۔پس نمرود نے جناب ابراہیم ؑ کی والدہ کو طلب کرکے پوچھا کہ تو نے اس لڑکے کا حال مجھ سے کیوں پوشیدہ رکھا کہ اس نے ہمارے معبودوں کی گت جو کچھ بھی بنائی بنائی ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے بادشاہ میں نے تیری رعیتّ کی ہمدردی میں ایسا کیا ہے نمرود بولا اس کا مطلب بیان کرو ہمدردی کیسی ؟ والدۂ جناب ابراہیم ؑ نے کہا بات یہ ہے کہ جب میں نے یہ دیکھا کہ تو اپنی رعایا کی اولاد کو(ناحق) قتل کرتا ہے تو مجھے خیال ہوا کہ اس سے تو لوگوں کی نسل ہی قطع ہو جائے گی پس میں نے اپنے دل میں ٹھان لیا کہ اگریہ لڑکا وہی ہے جس کی تلاش میں نمرود ہے تو میں اس لڑکے کو اُس کے حوالے کردوں گی کہ اُسے قتل کردے اور لوگوں کی اولاد کے قتل کرنے سے باز رہے او راگر یہ وہ نہیں ہے تو ہمارا لڑکا ہمیں مبارک ! اے نمرود اب تو نے اسے پالیا تو اب رعایا کی اولاد قتل کرنے سے ہاتھ روک لے نمرود نے والدہ جناب ابراہیم ؑ کی بات قبو ل کی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ اے ابراہیم ؑ ! ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ؟ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ یہ حرکت تو ان کے بڑے نے کی ہے اب اگر یہ بولتے ہوں تو تم ان ہی سے پوچھ لو۔ جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ قسم بخدانہ تو اُن کے بڑے بت نے یہ فعل کیا تھا اور نہ ابراہیم علیہ السلام نے خلاف واقعہ کچھ فرمایا۔ اس پر کسی نے سوال کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ فرمایا ایسے ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا مشروط فرمایا یعنی یوں فرمایا کہ اگر یہ بڑا بت بول سکتا ہے تو یہ فعل بھی اس نے کیا اور اگر نہیں بول سکتا تو اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پس نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کے معاملہ میں اپنی قوم سے مشورہ لیا ان لوگوں نے کہا کہ اگر تم سے ہوسکتا ہے تو اپنے دیوتائوں کی مدد کرو او رابراہیم ؑ کو آگ میں جلا ڈالو۔ جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فرعون ابراہیم ؑ (یعنی نمرود) اور اس کے مشیرِ سلطنت بڑے ولد االحرام تھے کہ انہوں نے نمرود کو یہ مشورہ دیا حرقوہ وانصروا الھتکم ان کنتم فاعلین (ترجمہ کیلئے دیکھو صفحہ ۵۲۳ سطر۱) اور موسیٰ علیہ السلام والا فرعون اور اس کے اراکین دولت ولد الحلال تھے کہ انہوںنے جناب موسیٰ کے بارے میں یہ رائے دی ارجہ واخاہ وابعث فی المدائن حشرین یاتوک بکل سحارعلیم (ترجمہ کیلئے دیکھو صفحہ ۵۸۷ سطر۵) الغرض ابراہیم ؑ کو نمرود مردود نے قید کرلیا اور ان کو جلانے کے لئے (خشک) لکڑیاں جمع کرنے کاحکم دیا۔ جب آگ میں ڈلوانے کا دن آیا تو نمرود مع اپنے لشکر کے بستی سے باہر نکلا اور اُس مکان میں آیا جو خاص اس لئے بنایا گیا تھا کہ وہاں بیٹھ کر نمرود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جلنا دیکھے۔ وہ آگ بیحد تیز تھی جو کوئی پرند اُس پر سے گزرتا تھا تو جل جاتا تھا۔ کسی میں اتنی قدرت نہ تھی جو آگ کے قریب جاکر ابراہیم اُس میں ڈال دیتا (وہ لوگ حیران تھے کہ کس طرح ابراہیم ؑ کو آگ میں پھینکیں کہ) شیطان نمرود کے پاس آیا اور اُس نے ان لوگوں کے لئے گوپھن بنائی جب وہ تیار ہوگئی تو اس میں جناب ابراہیم ؑ کو بٹھایا آذر ملعون قریب آیا اور ایک طمانچہ اُس کافر نے رخسارہ ٔ ابراہیم ؑ پر مارا اور کہنے لگا اے ابراہیم ؑ اب بھی اپنا باطل عقیدہ چھوڑ دے اُس وقت کوئی چیز ایسی باقی نہ رہی جس نے پر وردگار عالم کی درگاہ میں جناب ابراہیم ؑ کیلئے دعا نہ کی ہو۔ ملائکہ آسمان دنیا پر بھیج دے گئے زمین نے عرض کی خدایا اگر ابراہیم ؑ جل گئے تو مجھ پر تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔ ملائکہ عرض کرنے لگے پروردگار ! تیرا (خلیل آگ میں جلایا جاتا ہے جناب احدیت سے خطاب ہوا اگر ابراہیم مجھ سے دعا کرے گا تو میں ضرور اس کیلئے کفائیت کروں گا۔ جبرئیل نے عرض کی خداوند !ابراہیم تیرا خلیل ہے اُس کے سوا زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہے تو نے اُس کے دشمن کو اُس پر مسلط کیا ہے کہ وہ ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانا چاہتا ہے ارشاد باری ہوا اے جبرئیل خاموش ہو جا یہ بات وہ کہے گا جو تیری مانند موت سے خو ف کرتا ہو۔ ابراہیم میرا بندہ ہے ۔ اگر وہ مجھ سے درخواست کرے گا تو میں اُس کی دستگیری کروں گا پس اُس وقت جناب ابراہیم ؑ نے یہ کلمات کہے اور دعا مانگی ۔ یا اللہ یا واحد یا احد یاصمد یامن لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد نجنی من النار برحمتک (اے اللہ ! اے تنہا ! اے یکتا ! اے بے نیاز ! نہ تجھ سے کوئی پیدا ہوا نہ تو کسی سے پیدا ہوا۔ نہ کوئی تیرا ہمسر ہے تو اپنی رحمت سے آتش نمرود سے مجھے نجات دے) امام علیہ السلام نے فرمایا پس جبکہ جناب ابراہیم علیہ السلام کو گوپھن میں رکھ دیاگیا تو جبرئیل علیہ السلام نے ہوا میں ان سے ملاقات کی اور عرض کی اے ابراہیم ؑ آیا آپ کو مجھ سے کوئی حاجت ہے تو بیان کیجئے اُن حضرت نے جواب دیا اے جبرائیل تم سے کوئی حاجت نہیں ہاں خدا سے ضرور ہے۔پس جبرائیل نے حضرت ابراہیم ؑ کو ایک انگوٹھی دی جس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ الجات ظھری الی اللہ واسندت امری الی اللہ وفوضت امری الی اللہ لکھا ہوا تھا۔ (جب جناب آگ میں پہنچے تو) خدائے تعالیٰ نے آگ کو سرد ہو جانے کا حکم دیا وہ اتنی ٹھنڈی ہوگئی کہ سردی سے حضرت ابراہیم ؑ کے دانت بجنے لگے۔ پھر آگ سے ارشاد باری ہوا۔ ابراہیم ؑ کو صحیح و سالم رکھا۔ پس جبرئیل حاضر خدمت ہوئے اور آگ میں بیٹھ کر اُن جناب ؑ سے باتیں کرنے لگے ۔ نمرود نے جو یہ واقعہ دیکھا تو کہنے لگا اگرکوئی شخص کسی کو معبود بنائے تو ابراہیم ؑ کے معبود جیسے کو اپنا خدا سمجھے یہ سنکر نمرود کے اراکین دولت میں سے ایک شخص بولا کہ میں نے آگ کو قسم دے دی تھی کہ ابراہیم ؑ کو نہ جلائے ۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ آگ سے ایک شعلہ نکلا اور اُسی شخص کو جلاکر خاک کردیا۔ اُس وقت حضرت لوطؑ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے اور ہجرت کرکے شام کی طرف چلے گئے اور نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو اُسی آگ میں ایک سبز اور شاداب باغ میں ایک مرد پیر کے ہمراہ باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو آذر سے کہا تیرے بیٹے (یعنی بھتیجے) کا اُس کے پروردگار کے نزدیک بڑا مرتبہ ہے ۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ چھپکلی تو آتش ابراہیمی بھڑکانے کیلئے پھونک مارتی تھی اور مینڈک اُس کے بجھانے کیلئے پانی لالا کے ڈالتا تھا۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے آگ کو یہ حکم دیا کونی بردا وسلاما۔ تو ساری دنیا میں تین دن تک آگ نے کچھ اپنا کام ہی نہ کیا۔ پھر خدائے تعالیٰ نے یہ فرمایا واردوٰ بہٖ کیدا فجعلنھم الاخسرین (ترجمہ کیلئے دیکھو صفحہ ۵۲۲ سطر۳ (اُس وقت سے آگ کام دینے لگی‘‘) (ترجمہ و تفسیر مولانا سید مقبول احمد دہلوی جلد دوم ضمیمہ ۳۴۱ تا ۳۴۴)
جناب مولانا مفتی محمد شفیع صاحب معارف القرآن میں اس کے تعلق سے بڑی لمبی بحث کرتے ہیں۔ او ربعض احتمالات بیان کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف جھوٹ کی منسوبی کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اُن کی تفسیر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس بات کے مصدق ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولے تھے۔ بلکہ جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان جھوٹوں سے بری قرار دیا ان پر موصوف یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ متشرقین سے مغلوب ہوکر مسلمانوں نے اس حدیث کو باطل اور غلط قرار دیا ہے قال بل فعلہ کبیرھم ہذا کا ترجمہ کرتے ہیں ’’ بولا نہیں پر یہ کیا ہے ان کے اس بڑے نے ‘‘ صفحہ۱۸۰ ۔ آگے اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
قال بل فعلہ کبیر ھم ھذا فسئلوھم ان کانو ینطقون یعنی جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کی برادری نے گرفتار کرکے بلایا اور ان سے اقرار لینے کیلئے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ معاملہ کیاہے تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ بلکہ ا ن کے بڑے نے یہ کام کیاہے تم خود ان سے دریافت کرلو اگر یہ بول سکتے ہوں۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود کیا تھا پھر اس سے انکار اور ان کے بڑے کی طرف منسوب کرنا بظاہر خلاف واقعہ ہے جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے ۔ حضرت خلیل اللہ کی شان اس سے بالا و برتر ہے اس کے جواب کیلئے حضرات مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کو خلاصہ تفسیر بیان القرآن میں اختیارکیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول بطور فرض کے تھا یعنی تم یہ کیوں نہیں فرض کر لیتے کہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہوگا اور بطور فرض کے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا جھو ٹ میں داخل نہیں جیسے خود قرآن میں ہے ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین یعنی اگر اللہ رحمن کے کوئی لڑکا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں داخل ہوتا، لیکن بے بنیاد اور بے تاویل وہ توجیہ ہے جس کو بحر محیط۔ قرطبی ۔ روح المعافی وغیرہ میں اختیارکیا ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے جو کام ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اس کو بڑے بت کی طرف بطور اسناد مجازی کے منسوب کردیا کیونکہ اس کام پرحضرت ابراہیم علیہ السلام کو آمادہ کرنے والا یہی بت تھا اور اس کی تخصیص شاید اس وجہ سے ہو کہ اُن کی برادری اُس بت کی تعظیم سب سے زیادہ کرتی تھی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی چور کی سزا میں اس کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر کہے کہ یہ میںنے نہیں کاٹا بلکہ تیرے عمل اور تیری کجردی نے ہاتھ کاٹا ہے۔کیونکہ ہاتھ کاٹنے کا سبب اس کاعمل ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلا نے عملی طور پر بھی بتوں کے توڑنے کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا تھا جیسا کہ روایات میں ہے کہ جس تبر یا کلہاڑے سے ان کے بت توڑے تھے یہ کلہاڑا بڑے بت کے مونڈھے پر یا اُس کے ہاتھ میں رکھد یا تھا کہ دیکھنے والے کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اُس نے ہی یہ کام کیا ہے اور قولاً بھی اس کی طرف منسوب فرمایا تو یہ ایک اسناد مجازی ہے جیسے عربی کا مشہور مقولہ انبت الربیع البقا اس کی معرف مثال ہے (یعنی موسم ربیع کی بارش نے کھیتی اگائی ہے) کہ اگرچہ اُگانے والا درحقیقت حق تعالیٰ ہے مگر اس کے ایک ظاہری سبب کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اور اس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بڑے بت کی طرف اس فعل کو عملاً اور قولاً منسوب کردینا جھوٹ ہرگز نہیں البتہ بہت سی مصالح دینیہ کیلئے یہ توریہ اختیار فرمایا ان میں ایک مصلحت تو یہی تھی کہ دیکھنے والوں کو اس طرف توجہ ہو جائے کہ شاید اس بڑے بت کو اس پر غصہ آگیا ہو کہ میرے ساتھ عبادت میں ان چھوٹے بتوں کو کیوں شریک کیاجاتا ہے ۔اگر یہ خیال ان کے دلوں میں پیدا ہو تو توحید حق کا راستہ کھل جاتا ہے کہ جب ایک بڑا بت اپنے ساتھ چھوٹے بتوں کی شرکت گوارا نہیں کرتا تو رب العالمین ان پتھروں کی شرکت اپنے ساتھ کیسے گوارا کرے ۔
دوسرے یہ کہ ان کو یہ خیال اس وقت پیدا ہونا قرین عقل ہے کہ جن کو ہم خدا او ر مختارِ کُل کہتے ہیں اگر یہ ایسے ہی ہوتے تو کوئی اُن کے توڑنے پر کیسے قادر ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اگر اس فعل کو وہ بڑے بُت کی طرف منسوب کردیں تو جو بُت یہ کام کرسکے کہ دوسرے بتوں کو توڑدے اس میں گویائی کی طاقت بھی ہونی چاہئے اس لئے فرمایا فسئلوھم ان کانواینطقون ، خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قول مذکور کو بلا تاویل کے اپنے ظاہر پر رکھ کر یہ کہا جائے کہ ابراھیم علیہ السلام نے اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب فرمایا اوریہ اسناد مجازی کے طور پر فرمایا تو اس میں کوئی جھوٹ اور خلاف واقعہ کا شبہ نہیں رہتا صرف ایک قسم کا تور یہ ہے
حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین جھوٹ منسوب کرنے کی حقیقت
ایک سوال اب یہ رہ جاتا ہے کہ صحیح احادیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ان ابراھیم علیہ السلام لم یکذب غیر ثلاث (رواہ البخاری ومسلم) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ بجز تین جگہوں کے پھر ان تینوں کی تفصیل اسی حدیث میں اس طرح بیان فرمائی کہ ان میں سے دو جھوٹ تو خالص اللہ کے لئے بولے گئے ایک یہی جو اس آیت میں بل فعلہ کبیر ھم فرمایا ہے دوسرا عید کے روز برادری سے یہ عذر کرنا کہ انی سقیم میں بیمار ہوں اور تیسرا (اپنی زوجہ کی حفاظت کیلئے بولا گیا) وہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک ایسی بستی پر گزر ہوا جہاں کار ئیس ظالم بدکار تھا جب کسی شخص کے ساتھ اس کی بیوی کو دیکھتا تو بیوی کو پکڑ لیتا اور اُس سے بدکاری کرتا، مگر یہ معاملہ اُس صورت میں نہ کرتا تھا جبکہ کوئی بیٹی اپنے باپ کے ساتھ یا بہن اپنے بھائی کے ساتھ ہو، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس بستی میں مع اہلیہ کے پہنچنے کی مخبری اس ظالم بدکار کے سامنے کردی گئی تو اُس نے حضرت سارہ کو گرفتار کرکے بلوالیا، پکڑنے والوں نے ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ عورت رشتہ میں تم سے کیا تعلق رکھتی ہے ابراہیم علیہ السلام نے ظالم کے خوف سے بچنے کیلئے یہ فرمادیا کہ یہ میری بہن ہے (یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں تیسرے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے) مگر اس کے باوجود وہ پکڑ لئے گئے اور ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کو بھی بتلا دیا کہ میں نے تم کو اپنی بہن کہا ہے تم بھی اس کے خلاف نہ کہنا اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی رشتہ سے تم میری بہن ہو کیونکہ اس وقت اس زمین میں ہم دو ہی مسلمان ہیں اور اسلامی اخوت کا تعلق رکھتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کومقابلے پر قدرت نہ تھی ، اللہ کے سامنے الحاح وزاری کیلئے نماز پڑھنا شروع کردیا حضرت سارہ اسکے پاس پہنچیں یہ ظالم بری نیت سے ان کی طرف بڑھا تو قدرت نے اس کو اپاہج و معذور کردیا اس پر اس نے حضرت سارہ سے درخواست کی کہ تم دُعا کردو کہ میری یہ معذوری دُور ہو جاوے میں تمہیں کچھ نہ کہوں گا، ان کی دُعا سے اللہ تعالیٰ نے پھر اس کو صحیح سالم کردیا مگر اُس نے عہد شکنی کی اور پھر بری نیت سے اُن پر ہاتھ ڈالنا چاہا پھر اللہ نے اُس کی ساتھ وہی معاملہ کیا اسی طرح تین مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا تو اسے حضرت سارہ کو واپس کردیا (یہ خلاصہ مضمون حدیث کا ہے) بہرحال اس حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین جھوٹ کی نسبت صراحۃً کی گئی ہے جو شانِ نبوت و عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندرموجود ہے وہ یہ کہ دراصل ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی جھوٹ نہ تھا یہ تو ریہ تھا جو ظلم سے بچنے کیلئے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا اس کی دلیل خود حدیث مذکور میں یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں اپنی بہن بتلایا ہے تم سے پوچھا جائے تو تم بھی مجھے بھائی بتلانا اور بہن کہنے کی وجہ بھی اُن کو بتلا دی کہ ہم دونوں اسلامی برادری کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں اسی کا نام توریہ ہے کہ الفاظ ایسے بولے جائیں جن کے دو مفہوم ہوسکیں۔ سننے والا اُس سے ایک مفہوم سمجھے اوربولنے والے کی نیت دوسرے مفہوم کی ہو اور ظلم سے بچنے کیلئے یہ تدبیر توریہ کی باتفاق فقہاء جائز ہے یہ شیعوں کے تقیہ سے بالکل مختلف چیز ہے تقیہ میں صریح جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے تو ریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنے سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح اور سچ ہوتے ہیں جیسے اسلامی برادری کے لحاظ سے بھائی بہن ہونا یہ وجہ تو خود حدیث مذکور کے الفاظ میں صراحۃً مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت کذب نہ تھا بلکہ ایک توریہ تھا ٹھیک اسی طرح کی توجیہہ پہلے دونوں کلاموں میں ہوسکتی ہے بل فعلہ کبیرھمکی توجیہہ ابھی اوپر لکھی گئی ہے کہ اس میں بطور اسناد مجازی اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا ہے اسی طرح انی سقیم کا لفظ ہے کیونکہ سقیم کا لفظ جس طرح ظاہری طور پر بیمار کے معنے میں آتا ہے اسی طرح رنجیدہ و غمگین اور مضمحل ہونے کے معنے میں بھی بولا جاتاہے ابراھیم علیہ السلام نے اسی دوسرے معنے کے لحاظ سے انی سقیم فرمایا تھا مخاطبوں نے اس کو بیماری کے معنے میں سمجھا او ر اسی حدیث میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ان تین کذبات میں دو اللہ کی ذات کیلئے تھے یہ خود قرینہ قویہ اس کا ہے کہ یہ کوئی گناہ کا کام نہ تھا ورنہ گناہ کا کام اللہ کے لئے کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوسکتا اور گناہ کا کام نہ ہونا جبھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ حقیقۃً کذب نہ ہو بلکہ ایسا کلام ہو جس کے دو معنی ہوسکتے ہوں، ایک کذب اوردوسرا صحیح ہو۔
حدیث کذبات ابراہیم علیہ السلام کو غلط قرار دینا جہالت ہے
مرزا قادیانی اورکچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اسلئے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے سارے راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر اس سے ایک کلیہ قاعدہ یہ نکال لیا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو خواہ وہ کتنی ہی قوی اور صحیح اور معتبر اسانیدسے ثابت ہو وہ غلط قرار دی جائے یہ بات اپنی جگہ تو بالکل صحیح اور ساری اُمت کے نزدیک بطور فرض محال کے مسلم ہے مگر علماء اُمت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کرکے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہوگیا اُن میں ایک بھی ایسی نہیں ہوسکتی کہ جس کو قرآن کے خلاف کہا جاسکے بلکہ وہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کانتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کورد اور باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیا اور یہ کہہ کر فارغ ہوگئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب غیر معتبر ہے جیسا کہ اسی حدیث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ الفاظ کذبات سے توریہ مراد ہونا خود حدیث کے اندر موجود ہے رہا یہ معاملہ کہ پھر حدیث میں توریہ کو کذبات کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا گیا تو اُس کی وجہ وہی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کی بھول اور لغزش کو عصیٰ اورغویٰ کے الفاظ سے تعبیر کرنے کی ابھی سورہ ٔ طہٰ میں موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ مقربانِ بارگاہ حق تعالیٰ کیلئے ادنیٰ کمزوری اورمحض رخصت اور جائز پر عمل کر لینا اور عزیمت کو چھوڑ دینا بھی قابلِ مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسی چیزوں پر قرآن میں حق تعالیٰ کا عتاب انبیاء کے بارے میں بکثرت منقول ہے حدیث شفاعت جو مشہور و معروف ہے کہ محشر میں ساری مخلوق جمع ہوکر حساب جلد ہونے کے متعلق انبیاء سے شفاعت کے طالب ہوں گے آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء سے پہلے تک تمام انبیاء کے پاس پہنچیں گے ہر پیغمبر اپنے کسی قصور اور کوتاہی کا ذکر کرکے شفاعت کی ہمت نہ کرے گا آخر میں سب خاتم الانبیاء علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ اس شفاعت کبریٰ کیلئے کھڑے ہوں گے۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ان کلمات کو جو بطور توریہ کے کہے گئے تھے حقیقۃً کذب نہ تھے مگر پیغمبرانہ عزیمت کے خلاف تھے اپنا قصور اور کوتاہی قرار دیکر عذر کردیں گے اسی کتاہی کی طرف اشارہ کرنے کیلئے حدیث میں ان کو بلفظ کذبات تعبیر کردیا گیا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق تھا اور آپ کی حدیث روایت کرنے اور بیان کرنے کی حد تک ہمیں بھی حق ہے مگر اپنی طرف سے کوئی حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں یوں کہے کہ انہوں نے جھوٹ بولا یہ جائز نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کے ساتھ سورہ طٰہٰکی تفسیر میں قرطبی اور بحرمحیط کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ قرآن یا حدیث میں جو اسطرح کے الفاظ کسی پیغمبر کے بارے میں آئے ہیں ان کا ذکر بطور تلاوت قرآن یا تعلیم قرآن یا روایت حدیث کے تو کیا جاسکتاہے خود اپنی طرف سے اُن الفاظ کا کسی پیغمبر کیطرف منسوب کرنا بے ادبی ہے جو کسی کیلئے جائز نہیں۔
حدیث مذکور میں ایک اہم ہدایت اوراخلاص عمل کی باریکی کا بیان
حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جن کذبات ثلٰثہ کا ذکر آیا ہے حدیث میں ان میں سے پہلے دو کے بارے میں تو یہ آیا کہ اللہ کیلئے تھے مگر تیسری بات جو حضرت سارہ کے بارے میں کہی گئی اُس کو اللہ کیلئے نہیں فرمایا۔ حالانکہ بیوی کی آبرو کی حفاظت بھی عین دین ہے اس پر تفسیر قرطبی میں قاضی ابوبکر بن عربی سے ایک بڑا نکۃ نقل کیا ہے جس کے متعلق ابن عربی نے فرمایا کہ یہ صلحاء واولیاء کی کمر توڑ دینے والی بات ہے وہ یہ کہ تیسری بات بھی اگرچہ کام دین ہی کا تھا مگر اس میں کچھ اپنا حظِ نفس بیوی کی عصمت اور حرم کی حفاظت کا بھی تھا، اتنی سی غرض دُنیاوی شامل ہوجانے کی بنا پر اس کو فی اللہ اور للہ کی فہرست سے الگ کردیا گیا کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اَلاَ لِلّٰہِ الدین الخالص ، یہ معاملہ بیوی کی عصمت کی حفاظت کا اگر ہماری یا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو بلاشبہ اس کو بھی للہ فی اللہ ہی میں شمار کیا جاتا مگر انبیاء علیھم السلام کی عظمت شان کا مقام سب سے بلند ہے اُن کیلئے اتنا سا حظِ نفس شامل ہونا بھی اخلاص کامل کے منافی سمجھا گیا ، واللہ اعلم وفقنا اللہ للاخلاص فی کل عمل۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نارِ نمرود کے گلزار بن جانے کی حقیقت
جو لوگ معجزات اورخوارق عادات کے منکر ہیں انہوں نے تو اس میں عجیب و غریب تحریفات کی ہیں بات یہ ہے کہ فلسفہ کا یہ ضابطہ کہ جو چیز کسی چیز کیلئے لازم ذات ہو وہ اُس سے کسی وقت جدا نہیں ہوسکتی خود ایک باطل اور بے دلیل ضابطہ ہے حقیقت یہ ہے کہ اس دُنیا میں اور تمام مخلوقات میں کوئی چیز کسی کے لازم ذات نہیں بلکہ صرف عادۃ اللہ یہ جاری ہے کہ آگ کیلئے حرارت اور جلانا لازم ہے، پانی کیلئے ٹھنڈا کرنا اور بجھانا لازم ہے، مگر یہ لازم صرف عادی ہے عقلی نہیں کیونکہ فلاسفہ بھی اس کے عقلی ہونے کی کوئی معقول دلیل نہیں پیش کرسکے اور جب یہ لازم عادی ہوا تو جب اللہ تعالیٰ کسی خاص حکمت سے کسی عادت کو بدلنا چاہتے ہیں بدل دیتے ہیں اُس کے بدلنے میں کوئی عقلی محال لازم نہیں آتا جب اللہ تعالیٰ چاہے تو آگ بجھانے اور ٹھنڈا کرنے کا کام کرنے لگتی ہے اور پانی جلانے کا حالانکہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی ہوتی ہے اور پانی بھی پانی ہی ہوتا ہے مگر کسی خاص فرد یا جماعت کے حق میں بحکم خداوندی وہ اپنی خاصیت چھوڑ دیتی ہے انبیاء علیھم السلام کی نبوت کے ثبوت میں جو معجزات حق تعالیٰ ظاہر فرماتے ہیں اُن سب کا حاصل یہی ہوتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو حکم دے دیا کہ ٹھنڈی ہو جا وہ ٹھنڈی ہوگئی اور اگر برداً کے ساتھ وسلاماً کا لفظ نہ ہوتا تو آگ برف کی طرح ٹھنڈی ہوکر سبب ایذابن جاتی اور آلِ فرعون جو پانی میں ڈوبے تھے اُن کے بارے میں قرآن نے فرمایا اُغْرِقُوْافَاُدْخِلُوْا نَارًا، یعنی یہ لوگ پانی میں غرق ہوکر آگ میں داخل ہوگئے حرقوہ یعنی پوری برادری اور نمرود نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ان کو آگ میں جلا دیا جائے تاریخی روایات میں ہے کہ ایک مہینہ تک سارے شہر کے لوگ اس کام کیلئے لکڑی وغیرہ سوختہ کا سامان جمع کرتے رہے پھر اس میں آگ لگاکر سات دن تک اس کو دھونکتے اور بھڑکاتے رہے یہاں تک کہ اُس کے شعلے فضائی آسمان میں اتنے اونچے ہوگئے کہ اگر کوئی پرندہ اس پر گزرے تو جل جائے اس وقت ارادہ کیا کہ ابراھیم علیہ السلام کو اس میں ڈالا جائے تو فکر ہوئی کہ ڈالیں کیسے اُس کے پاس تک جانا کسی کے بس میں نہیں تھا شیطان نے ان کو منجنیق (گوپیا) میں رکھ کر پھینکنے کی ترکیب بتلائی ، جس وقت اللہ کے خلیل منجنیق کے ذریعہ اس آگ کے سمندر میں پھینکے جارہے تھے تو سب فرشتے بلکہ زمین و آسمان اور اُن کی مخلوقات سب چیخ اُٹھے کہ یارب آپ کے خلیل پر کیا گزر رہی ہے حق تعالیٰ نے ان سب کو ابراہیم کی مدد کرنے کی اجازت دے دی، فرشتوں نے مد د کرنے کیلئے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ میرا حال دیکھ رہا ہے جبرائیل امین نے عرض کیا کہ آپ کو میری کسی مدد کی ضرورت ہے تو میں خدمت انجام دوں جو ابدیا کہ حاجت تو ہے مگر آپ کیطرف نہیں بلکہ اپنے رب کی طرف (مظھری) قلنا ینا رکونی بردا وسلا ما علیٰ ابراھیم اُوپر گزر چکا ہے کہ آگ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بردوسلام ہونے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ آگ آگ ہی نہ رہی ہو بلکہ ہوا تبدیل ہوگئی ہو مگر ظاہر یہ ہے کہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی رہی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آس پاس کے علاوہ دوسری چیزوں کو جلاتی رہی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جن رسیوں میں باندھ کر آگ میں ڈالا گیا تھا اُن رسیوں کو بھی آگ ہی نے جلاکر ختم کیا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بدن مبارک تک کوئی آنچ نہیں آئی۔ (کما فی بعض الروایات)
تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں سات روز رہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عمر میں کبھی ایسی راحت نہیں ملی جتنی ان سات دنوں میں حاصل تھی۔
(مظہری)
(معارف القرآن جلد ششم صفحہ ۱۸۵ تا ۱۹۰ مطبوعہ دار الکتاب دیوبند ۔ یوپی ۲۴۷۵۵۴)
زیر بحث آیات کی تشریح کے سلسلہ میں بعض مفسرین نے اگرچہ ان غلط تشریحات کو غلط بتایا ہے لیکن اُن کو غلط بتانے کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت کو ظاہر کرنے سے بھی قاصر رہے ہیں اور خاص طور پر آیت کا ترجمہ کرنے میں جو غلطی دوسروں نے کی وہی غلطی ان مفسرین نے بھی کی جو اس آیت سے متعلق واقعات کو غلط بیان کر رہے ہیں۔ انہیں لوگوں میں ابوالا علیٰ مودودی کا نام شامل ہے ۔ آپ نے بل فعلہ کبیرھم ھٰذا کاا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ
’ ’ اس نے جواب دیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں‘‘ (تفہیم القرآن جلد سوم صفحہ ۱۶۶)
پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے اُن کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے اسلئے کہی تھی کہ وہ لوگ جو اب میں خود اس کا اقرار کریں کہ ان کے یہ معبود بالکل بے بس ہیں اور اُن سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جاسکتی ۔ ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلافِ واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ نہ وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کیلئے کہتا ہے اور سننے والا بھی اُسے اسی معنی میں لیتا ہے۔
بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آگئی ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں ان میں سے ایک جھوٹ تو یہ ہے اور دوسرا جھوٹ سورہ ٔ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول انی سقلیم ہے اور تیسرا جھوٹ اُن کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے ۔ ایک گروہ روایت پر ستی میں غلوکرکے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لیکر پورے ذخیرہ ٔ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھاکر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابلِ اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطہ ٔ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کرکے صحیح مان لیا جائے سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔
یہ حدیث جس میں حضرت ابراہیم کے تین ’’ جھوٹ ‘‘ بیان کئے گئے ہیں صرف اِسی وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں۔ اُن میں سے ایک ’’ جھوٹ ‘‘ کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل خرد کا آدمی بھی اِس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ ’’ جھوٹ‘‘ کا اطلاق نہیں کرسکتا، کجا کہ ہم نبی ﷺ سے معاذ اللہ اس سخن ناشناسی کی توقع کریں ۔ رہا اِنّی سَقِیْمٌ والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اُس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی اُن کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی یہ کہہ دے گا کہ یہ ہرگز واقعہ نہیں ہوسکتا۔قصہ اُس وقت کا بتایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں ۔ بائیبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر ۷۵ اور حضرت سارہ کی عمر ۶۵ برس سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ اور اس عمر میں حضرت ابراہیم ؑ کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا ۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتائوں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے (پیدائش ، باب ۱۲) حدیث کی زیر بحث روایت میں تیسرے جھوٹ کی بنیاد اسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لئے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے ؟ اسی طرح کی افراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اُس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں ‘‘۔
(تفہیم القرآن جلد سوم صفحہ ۱۶۷۔۱۶۸)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو ترجمہ بل فعلہ کبیرھم ھذا کا کیا تھا وہ تفسیر صغیر کے حوالہ سے اس مضمون کے شروع میں لکھ دیا گیا تھا حضور رضی اللہ عنہ نے زیر بحث آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ درحقیقت طرز کلام کی واقفیت بھی کلام کے سمجھنے میں خاص طور پر مدد دیتی ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ وہ عام طور پر تعریضاً کلام کیا کرتے تھے بل فعلہ کبیرھم ھذا کا کلام بھی اسی طرز کا ہے اور ماھذہ التماثیل بھی اِسی رنگ میں کہا گیا ہے کہ یہ کیا چیز ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ مراد یہ ہے کہ کیا ایسی ذلیل اور حقیر چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو۔
اس جگہ رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک عجیب مماثلت ثابت ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے باپ بھی آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوچکے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد بھی اُن کی پیدائش سے قبل فوت ہوگئے تھے اور دونوں کو ان کے چچا نے پالا تھا اور پھر دونوں پالنے والے بھی مشرک تھے اور دونوں نبیوں نے اُن کو توحید کی تبلیغ کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا اور اُن کی قوم نے بھی اُن کو کہا تھا کہ ہمارے باپ دادے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے اسلئے ہم ان کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جب ابو طالب کو اسلام لانے کی دعوت دی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اے میرے بھتیجے میں جانتا ہوں کہ تیری باتیں سچی ہیں مگر لوگ کہیں گے کہ اس نے اپنے باپ دادے کا مذہب ڈر کر چھوڑ دیا ہے۔
(سیرۃ ابن ہشام جلد اوّل صفحہ ۱۴۶)
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے بزرگوں سے یہی کہا اور رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے بزرگوں سے یہی کہا کہ اگر تمہارے باپ دادے گمراہ ہوں گے تو کیا پھر بھی تم اُن کے پیچھے چلوگے؟ (مائدہ ع)
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ کیا تم مذاق کر رہے ہو یا کوئی سچی تعلیم لائے ہو۔ کیا یہ درست ہے کہ ہمارے باپ دادا بھی غلطی کرسکتے تھے ۔ انبیاء کے دشمن چونکہ دل میں ان کی قوتِ استدلال سے متاثر اور مرعوب ہوتے ہیں اُن کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ خود ہی کہہ دیں کہ ہم تو ہنسی کرتے تھے اور اس طرح اُن کو اس فکر سے نجات ملے جیسے حضرت خلیفۃ المسیح الااوّل رضی اللہ عنہ حکیم الہ دین صاحب کا حال سناتے تھے کہ وہ وفات مسیح ؑ کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ مرزا صاحب نے صرف مولویوں کو شرمندہ کرنے کیلئے یہ دعویٰ کیا ہے اگر یہ سب معافی مانگ لیں تو وہ فوراً اس دعویٰ کو باطل ثابت کردیں گے ۔ ان لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو سخت حادثہ میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کے دل میں ایک خفیف جھلک اُمید کی پیدا ہوتی ہے کہ شاید یہ خواب ہی ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے بھی آپ سے یہی کہا کہ کیا تم ہم سے مذاق تو نہیں کر رہے ۔ کیا یہ درست ہے کہ ہمارے باپ دادا بھی غلطی کرسکتے تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ تمہارا رب آسمان و زمین کا رب اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے اور میں اس پر دلیل سے قائم ہوں اور اس کا گواہ ہوں۔ اور میں تمہارے گھروں کی طرف لوٹ جانے کے بعد تمہارے بتوں کے ساتھ ایک تدبیر کروں گا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ کلام اُن میں سے کسی ایک نے سن لیا تھا۔ یا عید کو جاتے وقت سب سے آخر میں جو ضعفا ء تھے ان میں سے بعض نے سن لیا۔ مگر یہ کلام غالباً انہوں نے اپنے دل میں کہا تھا۔ حالانکہ اِس کے اتنے معنے ہیں کہ جب انہوں نے دلائل سے نہ مانا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عملی صورت میں ان کے بتوں کی برائی اُن پر ظاہر کرنی چاہی ۔ جو زیادہ مؤثر دلیل ہوتی ہے۔ چنانچہ اُس نے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے کہ شاید وہ خدا تعالیٰ کی طرف لوٹیں ۔ اس پر اس کی قوم کے لوگ بہت بگڑے اور کہا کہ ہمارے معبودوں سے یہ کام کس نے کیا ہے ۔ وہ بڑا ظالم ہے جو لوگ ابراہیم ؑ سے بحث کرکے آئے تھے انہوں نے کہا کہ ایک نوجوان ان بتوں کا برائی سے ذکر کرتا تھا ۔ اُس کا نام ابراہیم ہے۔ سمعنا فتی یذکرھم سے مراد بھی یہی ہے کہ اُن کا بری طرح ذکر کرتا تھا۔ چنانچہ اسی سورۃ میں آتا ہے وَاِذَا رَاٰکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلاَّ ھُزُوًا اَھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمُ وَھُمْ بِذِکْرِالرَّحْمٰنِ ھُمْ کَافِرُوْنَ (ع) یعنی اے محمد رسول اللہ (ﷺ) جب کفار تجھے دیکھتے ہیں تو وہ تجھے ایک حقیر چیز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا بری طرح ذکر کرتا ہے حالانکہ وہ خود رحمن خدا کے ذکر کاانکار کرتے ہیں۔ بہرحال جب ابراہیم ؑ کے متعلق کچھ لوگوں نے مذکورہ بالا باتیں کیں تو ابراہیم ؑ کی قوم نے کہا کہ سب شہروں کے سامنے اس کو لائو تاکہ جن لوگوں نے اس کو مخالفت کرتے دیکھا ہے وہ اس پر گواہی دیں اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ بتوں کا منکر ہی یہ کام کر سکتا ہے ۔ یا یہ کہ اس کے متعلق وہ یہ فیصلہ کریں کہ اس کو کیا سزا ملنی چاہئے اور یایہ کہ وہ بھی اس کی سزا دیکھیں۔ پھر انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اے ابراہیم کیا یہ سب کچھ تیری کرتوت ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں بل فعلہ یہ کام کسی نے کیا تو ضرور ہوگا۔ بغیر کسی کے کرنے کے آپ ہی آپ تو ہو نہیں سکتا۔ کبیر ھم ھذا ۔ اب یہ بت ان میں سے سب سے بڑا ہے تو ان صاحب سے پوچھو اگر بت بول سکتے ہیں تو یہ صاحب جواب دے دیں گے ۔ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو۔ بل فعلہ کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ بل فعلہ فاعل یعنی یہ کام کسی نے تو ضرور کیا ہوگا۔ اس صورت میں بل کے معنے اضراب کے نہیں ہوں گے بلکہ تصدیق کے ہوںگے کہ ہاں کسی نے تو کیا ہی ہوگا۔ اور وقف سے ثابت ہوتا ہے کہ اگلا حصہ الگ ہے اور اُس میں سوال کیا ہے کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو اس بڑے بت سے پوچھ لیتے۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت کے مطابق تعریضاً کلام کرتے ہیں کہ نہیں میں نے کیوں کرنا تھا اس نے کیا ہوگا ایسے کلام سے مراد انکار نہیں ہوتا بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ کیا یہ سوال بھی پوچھنے والا تھا میں نہ کرتا تو کیا اس بت نے کرنا تھا ؟
یہ جواب سن کروہ لوگ دلوں میں شرمندہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ تم خود ظالم تھے پھر مزید غور پر اور بھی شرمندہ ہوئے یا اپنی شرارت کی طرف لوٹ آئے اور بولے کہ ابراہیم تم جانتے ہو کہ یہ تو بولتے نہیں۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ کیا خدا تعالیٰ کے سوا ان بتوں کی تم پرستش کرتے ہو جو تمہیں کچھ بھی نفع نہیں دیتے اور نہ نقصان دیتے ہیں۔
اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رسول کریم ﷺ سے ایک زبردست مقابلہ کیا گیا ہے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے والد بھی بچپن میں فوت ہو گئے تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے والد بھی آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے اور دونوں کو اُن کے چچاؤں نے پالا تھا جو دونوں مشرک تھے ۔ دونوں نے اپنے چچائوں کو توحید کی تبلیغ کی مگر دونوں نے توحید کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یہ دونوں نبی توحید پر بڑی مضبوطی سے قائم تھے اوردونوں علی وجہ البصیرت خدا تعالیٰ کو خالق ارض و سما سمجھتے تھے ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی بت توڑے اورمحمد رسول اللہ ﷺ نے بھی بت توڑے۔ جب اُن کی قوم کے لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اس وقت بت توڑے جبکہ دوپہر کا وقت تھا اور کعبہ کے پاس تمام لوگ جمع تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اُسے آپ سارے مکہ والوں کے سامنے بتوں پر مارتے اور انہیں گراتے جاتے تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ اُف بھی کرسکے (تاریخ الحلبیہ جلد ۳) ابراہیم ؑ بیشک بڑا آدمی تھا مگر کتنا فرق ہے ابراہیم ؑ میں اور ہمارے محمدؐ میں اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ عَدَدَ کُلِّ ذَوَّۃٍ فِی السماء وَاْلاَ رْضِ بَلْ اَکْثَرَ‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۵۲۸۔تا ۵۳۰)


حضرت یوسف علیہ السلام
حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :۔
ولقد ھمت بہ وھم بھا لولا ان راٰبرھان ربہ کذالک لنصرف عنہ السوء والفحشاء انہ من عبادنا المخلصین (یوسف : ۲۵)
جناب مولانا شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’ اور البتہ تحقیق قصد کیا اس عورت نے ساتھ یوسف کے اور قصد کیا یوسف نے ساتھ اس کے اگر نہ ہوتا یہ کہ دیکھی دلیل رب اپنے کی اسی طرح کیا ہم نے تو پھیر دیں ہم اس سے برائی اور بے حیائی تحقیق وہ بندوں ہمارے خالص کیے گئوں سے تھا ‘‘۔
اس ترجمۃ القرآن میں مولانا اشرف علی صاحب تھانوی یوں ترجمہ کرتے ہیں کہ ’’اور اس عورت کے دل میں تو ان کا خیال جم ہی رہا تھااور ان کو بھی اس عورت کا کچھ کچھ خیال ہو چلا تھا اگر اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھا ہوتا تو زیادہ خیال ہو جاتا عجب نہ تھا ہم نے اسی طرح ان کو علم دیا تاکہ ہم ان سے صغیرہ اور کبیر گنا ہوں کو دور رکھیں وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا‘‘۔
اس ترجمۃ القرآن میں اس آیت کی تفسیر اس طرح درج ہے کہ ۔
’’ بعض علماء نے کہا کہ مرادھَمَّ سے اس جگہ خطراتِ حدیث نفس ہیں اور وہ قصد اختیاری سے نہیں ہوتے ایسے خیال سے آدمی ماخوذ نہیں بلکہ لائق مدح اور ثواب کا ہوتا ہے‘‘۔
(ترجمہ و تفسیر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی صفحہ۳۳۱)
مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اور مولانا شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی ہر دو کے ترجمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دل میں اس عورت سے برائی کا خیال ضرور آیا لیکن دلیل نے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا اور تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ قصد اصل میں اختیاری نہیں تھا لیکن قصد تو تھا چونکہ قصد سے رکے اس لئے قابل مواخذہ نہ ہو کر لائق مدح اور ثواب کا ہوگیا۔
محترم مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ’’ اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ۔ ہم نے یوں ہی کہا کہ اُس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے‘‘۔
اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔
’’ مگر حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے رب کی برہان دیکھی اور اس ارادہ فاسدہ سے محفوظ رہے اور برہان عصمت نبوت ہے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کے نفوس طاہرہ کو اخلاق ذمیمہ و افعال رذیلہ سے پاک پیدا کیا ہے اور اخلاق شریفہ طاہرہ مقدسہ پر ان کی خلقت فرمائی ہے اسلئے وہ ہر ناکردنی فعل سے باز رہتے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زلیخا آپ کے درپے ہوئی اس وقت آپ نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ انگشت مبارک دندان اقدس کے نیچے دباکر اجتناب کا اشارہ فرماتے تھے‘‘ ۔
(کنز الایمان ترجمہ مولانا احمد رضاخان بریلوی تفسیر مولانا نعیم الدین صاحب
مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی ۶ حوالہ نمبر ۲۲۲ صفحہ ۳۴۴)
ترجمہ اور تفسیر دونوں ہی اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ نے بدی کا ارادہ تو ضرور کیا تھا نعوذ باللہ لیکن برہان دیکھی تواس سے باز رہے۔
شیعہ مفسر مولانا سید مقبول احمد صاحب اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں
’’اور ضرور زلیخا نے یوسف سے بدی کا قصد کیا اور یوسف بھی زلیخا سے ایسا قصد کرتے اگر اپنے رب کی دلیل دیکھے ہوئے نہ ہوتے یہ اس لئے کہ ہم نے ان سے بدی اور بے حیائی کی بات کو دور رکھا ۔ بیشک وہ ہمار ے خالص بندوں میں سے تھے ‘‘۔
(تفسیر ترجمہ مولانا سید مقبول احمد مطبوعہ تبلیغات ایمانی ہند ۵۹ نجفی ہائوس نشان پاڑہ روڈممبئی ۹ صفحہ ۳۷۸۔۳۷۹)
اس ترجمہ میں بھی وہ بات بیان کی گئی ہے جو سابقہ لکھے ترجموں میں موجود ہے کہ یوسف بھی زلیخا سے ایسا قصد کرتے جوکہ عصمت انبیاء کے بالکل خلاف ہے۔
جناب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ۔
’’ وہ اُس کی طرف بڑھی اوریوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کردیں درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں سے تھا‘‘۔
اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’ برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے رب کی برہان سے مراد خدا کی سمجھائی ہوئی وہ دلیل ہے جس کی بناء پر حضرت یوسف ؑ کے ضمیر نے اُن کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اس عورت کی دعوتِ عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے ۔ اور وہ دلیل تھی کیا؟ اسے پچھلے جملہ میں بیان کیا جاچکا ہے یعنی یہ کہ ’’ میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی او رمیں ایسا برا کام کروں ۔ ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی‘‘ یہی وہ برہان حق تھی جس نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقعہ پر معصیت سے باز رکھا ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ’’ یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا ‘‘ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑ جاتی ۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کرلی گئی ہے حتیٰ کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے ایک پوری اُمت کی لغزش ہے وہ راہ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دُنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے۔
(تفہیم القرآن جلد ۲ صفحہ ۳۹۳ مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶)
اس ترجمہ اور تفسیر سے بھی یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت یوسف نے برہان دیکھی تو اس برہان حق ہی نے اُن کو نوخیز جوانی کے عالم میں گناہ سے باز رکھا ورنہ یوسف تو بڑھ ہی چکے ہوتے جوکہ ترجمہ سے ظاہر ہے کہ ’’ اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا‘‘ ترجمہ اور تفسیر کسی تبصرہ کی محتاج نہیں۔
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر اس طرح کرتے ہیں کہ ’’ اور البتہ عورت نے فکر کیا اس کا اور اس نے فکر کیا عورت کا اگر نہ ہوتا یہ کہ دیکھے قدرت اپنے رب کی یونہی ہوا تاکہ ہٹائیں ہم اس سے برائی اور بے حیائی ، البتہ وہ ہے ہمارے برگزیدہ بندوں میں ‘‘۔
تفسیر … اس کی مزید تفصیل اس آیت میں ہے کہ زلیخا تو گناہ کے خیال میں لگی ہوئی تھی یوسف علیہ السلام کے دل میں بھی انسانی فطرت کے تقاضے سے کچھ کچھ غیر اختیاری میلان پیدا ہونے لگا، مگر اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت میں اپنی حجت و برہان یوسف علیہ السلام کے سامنے کردی جس کی وجہ سے وہ غیر اختیاری میلان آگے بڑھنے کے بجائے بالکل ختم ہوگیا۔ اوروہ پیچھا چھڑا کر بھاگے … اس لئے اجمالی طور پر یہ تو متعین ہوگیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جو خیال پیدا ہوا وہ گناہ کے درجہ کا خیال نہ تھا تفصیل اس کی یہ ہے کہ عربی زبان میں لفظ ھَمََّّ دو معنی کیلئے بولا جاتا ہے ایک کسی کام کا قصد و ارادہ اور عزم کر لینا دوسرے محض دل میں وسوسہ اور غیر اختیاری خیال پیدا ہو جانا … پہلی صورت گناہ میں داخل اور قابلِ مواخذہ ہے ہاں اگر قصد وار ارادہ کے بعد خالص اللہ تعالیٰ کے خوف سے کوئی شخص اس گناہ کو باختیار خود چھوڑ دے تو حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کی جگہ اس کے نامہ ٔ اعمال میں ایک نیکی درج فرما دیتے ہیں اور دوسری صورت… کہ محض وسوسہ اور غیر اختیاری خیال آجائے، اور فعل کا ارادہ بالکل نہ ہو جیسے گرہی کے روزہ میں ٹھنڈے پانی کی طرف طبعی میلان غیر اختیاری سب کو ہو جاتا ہے حالانکہ روزہ میں پینے کا ارادہ بالکل نہیں ہوتا اس قسم کا خیال نہ انسان کے اختیار میں ہے نہ اس پر کوئی مواخذہ اور گنا ہ ہے …
اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ آیت میں لفظ ھَمََّّ زلیخا اور حضرت یوسف علیہ السلام دونوں کیلئے بولا گیا، مگر دونوں کے ھَمَّ یعنی خیال میں بڑا فرق ہے۔ پہلا گناہ میں داخل ہے اور دوسرا غیر اختیاری وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے جو گناہ میں داخل نہیں … خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دل میں جو خیال یا میلان پیدا ہوا وہ محض غیر اختیاری وسوسہ کے درجہ میں تھا جو گناہ میں داخل نہیں پھر اس وسوسہ کے خلاف عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا درجہ اور زیادہ بلند ہوگیا‘‘ (معارف القرآن جلد پنجم صفحہ ۳۵ تا ۳۷ مطبوعہ دارالکتاب دیوبند یوپی)
محترم سر سید احمد خا ن صاحب تفسیر القرآن میں زیر بحث آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ۔
’’ ہاں اس عورت نے اُس کے (یعنی یوسف کے ) ساتھ قصد کیا اور یوسف نے اُسی عورت کے ساتھ قصد کیا ہوتا اگرنہ یہ ہوتا کہ دیکھی یعنی سمجھی اُس نے دلیل اپنے رب یعنی مربی کی ۔ ایسا ہوا تاکہ ہم پھیر دیں اُس سے یعنی یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہے ہمارے مخلص بندوں میں سے ‘‘۔
تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :۔
دوسری آیت کے صاف معنی جو نص قرآنی سے پائے جاتے ہیں یہ ہیں کہ’’ اگر یوسف نے دلیل اپنے رب کی نہ دیکھی ہوتی یعنی نہ سمجھی ہوتی تو یوسف نے اس کے ساتھ قصد کیا ہوتا۔ پس قرآن مجید سے فحش کا قصدکرنا یا اس کا ارادہ دل میں آنا حضرت یوسف کی نسبت بیان نہیں ہوا ہے‘‘۔ (تفسیر القرآن جلد ۲ صفحہ ۶۶۔۶۷ سورۃ یوسف۔ مطبوعہ خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ)
حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:۔
ھَم سے مراد یوسف ؑ نے اس عورت کو روکنے میں زور لگایا۔ تمام مفسرین ھَمّ کے معنی کرتے ہیں کہ یوسف ؑ عورت کا قصد کرتے یا اس کا ارادہ کرتے لیکن حضور نے اس کا معنیٰ کیا ہے کہ یوسف نے عورت کو روکنے میں زور لگایا۔ اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’ حضرت یوسف علیہ السلام نے محض خدا تعالیٰ کے خوف سے ایک عورت کے ساتھ بدکاری کرنے سے پرہیز کیا ورنہ ایک آدمی بھی جس کی نگاہ بہت ہی چھوٹی اورپست ہو کہہ سکتا ہے اس تعلق سے وہ اس عزت سے جو اس وقت ان کی تھی زیادہ معزز اور آسودہ حال ہوتے اگرچہ یہ خیال ایک دنی الطبع آدمی کا ہوسکتا ہے کہ کسی بدی اور بدکاری میں کوئی آرام ۔ آسودگی کی عزت مل سکتی ہے کیونکہ ارشاد الٰہی اس طرح پر ہے کہ ساری عزتیں اللہ ہی کیلئے ہیں۔ اور پھر معزز ہونا رسول اور مومنین کیلئے لازمی ہے۔
بہرحال جو کچھ بھی ہو کمینہ فطرت ۔ کم حوصلہ انسان عاقبت اندیشی سے حصہ نہ رکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ ان کو آرام ملتا ہے ۔ مگر حضرت یوسف نے اس عزت اس آرام اور دولت پر لات ماری اورخدا تعالیٰ کے احکام کی عزت کی۔ قید قبول کی مگر احکام الٰہی کو نہ توڑا۔ نتیجہ کیا ہوا۔ وہی یوسف اسی مصر میں اسی شخص کے سامنے عورت کے اقرار کے موافق معزز اور راست باز ثابت ہوا۔ وہ امین ٹھہرایا گیا اور جس مرتبہ پر پہنچا تم میں سے کوئی اس سے واقف نہیں … عادت اللہ اور سنت اللہ اسی طرح پر واقعہ ہوئی ہے کہ کوئی محسن ہو۔ کبھی ہو۔ اس کو اسی طرح پر جزا ملتی ہے جیسے یوسف علیہ السلام کو ملی ‘‘۔ (الحکم ۱۷ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷ بحوالہ حقائق الفرقان جلد دوم ۳۹۱۔ ۳۹۲)
عظیم مفسر قرآن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔
اور اس (عورت) نے اس کے متعلق (اپنا) ارادہ پختہ کرلیا اور اُس (یوسف) نے بھی اس کے متعلق اپنا ارادہ (یعنی اس سے محفوظ رہنے کا) پختہ کرلیا (اور) اگر اس نے اپنے رب کا روشن نشان نہ دیکھا ہوتا(تو وہ ایسا عزم نہ کرسکتا) اسی طرح یہ (ہوا) تاکہ ہم اس سے (ہر ایک) بدی اور بے حیائی (کی بات) کو دور کردیں(اور) وہ یقینا ہمارے برگزیدہ (اور پاک کئے ہوئے) بندوں میں سے تھا۔ (تفسیر صغیر سورۃ یوسف آیت ۲۵)
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
’’ جیسا کہ حل لغات میں لکھا گیا ہے ھَم بہٖکے معنے مضبوط ارادہ کرنے کے ہوتے ہیں گو ساتھ ہی یہ اشارہ بھی ہوتا ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا خواہ اس وجہ سے کہ حالات بدل گئے خواہ اس سبب سے کہ روکیں پڑ گئیں۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ عزیز کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق ایک ارادہ کیا تھا لیکن وہ اسے پورا نہ کر سکی اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کے متعلق ایک ارادہ کیا لیکن وہ بھی اس ارادہ کو پورا نہ کرسکے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے یہ مراد ہے کہ دونوں نے آپس میں بدی کا ارادہ کیا لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اس کی نفی پہلی آیت میں ہوچکی ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ یوسف کو عزیز کی بیوی نے اس کے دلی خیالات کے خلاف پھسلانا چاہا۔ لیکن اس پر اُس کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا ۔ اور اس کام کے بد انجام سے اس عورت کو بھی ڈرایا۔ پس اس آیت کی موجودگی میں ھم بہ کے یہ معنے کسی طرح نہیں کئے جاسکتے کہ یوسف نے اس عورت سے کسی بری بات کا ارادہ کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص کی حالت کے مطابق اس کی طرف ارادہ منسوب کیا جاسکتا ہے دونوں کی اندرونی حالت کو پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے ۔ عورت کی اندرونی حالت یہ بتائی ہے کہ وہ بدی کا ارادہ رکھتی تھی اور یوسف علیہ السلام کی حالت یہ بتائی ہے کہ وہ اسے ظلم کے بدانجام سے ڈراتے تھے۔ پس اس جگہ دونوں کے ارادوں سے یہی مراد لی جاسکتی ہے کہ عزیز کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بدی کی راہ پر لگانا چاہا اور حضرت یوسف نے اسے نیکی کی راہ پر لگانا چاہا مگر دونوں اپنے مقصد کو پورا نہ کرسکے نہ یوسف علیہ السلا م نے عزیز کی بیوی کی بات مانی اور نہ اس نے یوسف علیہ السلام کی بات مانی۔
باقی رہا اللہ تعالیٰ کا قول لولا ان رابرھان ربہ سویہ ھم بھا کے ساتھ نہیں بلکہ الگ قول ہے اور اس کی جزا محذوف ہے جیسا کہ قرآن کریم میں متعدد جگہ جزاء محزوف کردی گئی ہے جیسے وَلَوْلَا فَضَلَ اللّٰہِ علیکم ورحمتہ وان اللہ تواب حکیم (نوررکوعٰ وَلَوْلَا اَنْ تصیبھم مصیبۃ بما قدمت ایدیھم فیقولوا ربنا َلولا ارسلت الینا رسولاً فنتبع اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ من المؤمنین (قصص ع۵) میں محذوف ہے اور اس حصہ ٔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے براہین نہ دیکھے ہوئے ہوتے تب ہوسکتا تھا کہ وہ اس ارادہ کے سوا کوئی اور ارادہ کرتے ۔ مثلاً اُسے نیکی کی طرف نہ بلاتے خاموش ہی رہتے۔ لیکن جب وہ براہین دیکھ چکے تھے تو پھر اس کے سوا اور وہ کر ہی کیا سکتے تھے ہاں یہ آگے اس عورت کی بدقسمتی تھی کہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی نصیحت کو قبول نہ کیا اور ظلم پر مصر رہی۔
برہان کے متعلق بھی مفسرین میں اختلاف ہے جن لوگوں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بدی کا ارادہ کیا تھا وہ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ عزیز کی بیوی اپنے بت پر پردہ ڈالنے لگی تھی کہ اس سے مجھے شرم آتی ہے اس پر یوسف علیہ السلام کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا کہ پھر میں کیوں نہ اپنے خدا سے شرمائوں جو دیکھتا اور جانتا ہے بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے چھت پر یہ لکھا ہوا دیکھا تھا ولا تقر بواالزنی انہ کان فاحشۃ (گویا قرآن اس وقت نازل ہوچکا تھا) بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہتیلی دیکھی ۔ جس پر یہ لکھا ہوا تھا ان علیکم لحافظین کراماً کا تبین ۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت دیکھی کہ وہ انگلیاں دانتوں میں دبا رہے تھے۔ مگر میں لکھ چکا ہوں کہ یہ معنے ہی غلط ہیں برھان سے مراد وہی آیات و نشانات ہیں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے ظاہر ہوچکے تھے۔ مثلاً ان کی رؤیا آئندہ رُوحانی ترقیات کے متعلق ۔ پھر کنوئیں میں ڈالتے وقت کا الہام کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس بلا سے بچا کر ترقی دے گا۔ اور ایک دن تیرے بھائی تیرے سامنے پیش ہوں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ایسے عظیم الشان کام کیلئے تیار کر رہا ہو اسے اللہ تعالیٰ ایک مشرکہ کے سامنے شرمندہ نہیں کرسکتا تھا۔
کذلک لنصرف سے یہ مراد ہے کہ ہم نے اسے براہین دکھائے ہی اس لئے تھے کہ اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کردیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس غرض سے یہ نشانات دکھائے تھے تو کس طرح ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف نتیجہ نکلتا۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ یہ واقعہ اس لئے ظاہر ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ یوسف ؑ کو اس عورت کی بدصحبت سے نجات دلائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بد لوگوں میں رہ کر انسان کے خیالات اور اس کے دماغ پر برا اثر پڑتا ہے اگر اس طرح عزیز کی بیوی اپنے ارادہ کا اظہار نہ کرتی تو اس کی اور اس کی ہمجولیوں کی صحبت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو رہنا پڑتا۔ جن کے اخلاق قرآن کریم سے ثابت ہے کہ نہایت گندے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے پسند نہ فرمایا کہ آپ ان کی صحبت میں رہیں اور اس کے بد ارادوں کو پوری طرح اور جلد اللہ تعالیٰ نے ظاہر کرا دیا اور اس طرح انہیں ان سے جدا کرکے قید خانہ میں بھجوا دیا جہاں علیحدگی میں عبادت الٰہی کا خاص موقع ان کو مل گیا‘‘۔
(تفسیر کبیر جلد سوم سورۃ یوسف صفحہ ۲۹۷،۲۹۸)
پس جماعت احمدیہ کے مفسرین نے حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کو جس رنگ میں پیش فرمایا ہے اور آپ کی اولو العزمی کو جس طرح بیان کیا ہے کوئی مفسر بھی اس کے قریب بھی نہیں گیا۔ قارئین نے مطالعہ سے خود بھی اس بات کو اخذ کرلیا ہوگا۔



حضرت سلیمان علیہ السلام
قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات مختلف جگہوں پر بیان ہوئے ہیں ۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ ایک اولوا لعزم نبی کے ساتھ ساتھ بہت بڑی حکومت کے مالک تھے۔ آپ کے زمانہ میں دنیا والوں نے صنعت میں بڑی ترقی کی تھی عام لوگوں کی بات تو کیا بڑی بڑی طاقتور قومیں بھی آپ کے تحت تھیں اور آپ کے حکم پر عمل کرتی تھیں۔
نبی کا کام توحید کو پھیلانا شرک کی کدورتوں کو دور کرنا ہوتا ہے آپ توحید کے پرستار تھے جبکہ دوسری طرف ملکہ سبا سورج پرست مشرکہ تھی اس بات کاذکر اور ملکہ سبا کے خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جس پرحکمت طریق سے ملکہ سبا کو توحید کا سبق دیا اس کو مفسرین نے مضحکہ خیز قصہ کے رنگ میں تفاسیر میں داخل کردیا۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
قیل لھا ادخلی الصرح فلما راتہ حسبتہ لجۃ وکشفت عن ساقیھاط قال انہ صرح ممردمن قواریرحٔ قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین۔ (النمل آیت نمبر ۴۵)
ترجمہ’’ اور اسے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جائو ۔ پس جب اُس نے اس (محل) کو دیکھا تو اس کو گہرا پانی سمجھا اور گھبرا گئی ۔ تب سلیمان نے کہا یہ تو محل ہے جس میں شیشہ کے ٹکڑے لگائے گئے ہیں ۔ تب وہ (ملکہ) بولی ۔ اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین خدا پر ایمان لاتی ہوں‘‘۔ (تفسیر صغیر صفحہ ۴۹۰)
سب سے پہلی بات جو بیان کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ لغت کے لحاظ سے پنڈلیوں سے کپڑا اٹھانے کے بھی درست ہیں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی تفسیر میں دونوں معنے درج کئے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسکا ترجمہ گھبرا گئی کیا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ اپنا پاجامہ پنڈلی سے اوپر اٹھایا کیا ہے اور یہ دونوں درست ہیں لیکن مفسرین نے پنڈلیوں سے متعلق جو تفسیر کی ہے وہ انبیاء کی شان کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ لکھا ہے۔
’’ دیوان خانے میں بیٹھے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام اس میں پتھروں کی جگہ شیشہ کا فرش تھا دور سے لگتا پانی گہرا اُس نے پنڈلیاں کھولیں پانی میں اترنے کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے پکارا کہ شیشوں کا فرش ہے پانی نہیں اس کو اپنی عقل کا قصور اور ان کی عقل کاکمال معلوم ہوا سمجھی کہ دین میں بھی جو یہ سمجھے ہیں سو ہی صحیح ہے حضرت سلیمان نے سنا تھاکہ ان کی پنڈلیوں پر بال ہیں بکری کی طرح اس طرح معلوم کر لیا کہ سچ تھے اُسکی دوا تجویز کی نورہ، کہتے ہیں کہ وہ پری کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی یہ اثر اُسکا تھا‘‘۔
(حاشیہ ترجمہ و تفسیر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی صفحہ ۵۳۱)
گویا کہ محل کا بنانا شیشہ لگانا اس کے نیچے سے پانی گزارنا یہ سب کا سب اس کی پنڈیوں کے بال دیکھنے کی خاطر تھا اور کوئی مقصد نہ تھا
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں تفاسیر میں بہت سی اسرائیلی روایات داخل کی گئی ہیں اُن کا خلاصہ کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ
’’حضرت سلیمان نے بلقیس سے شادی کرنے کاارادہ کیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ اس کے پائوں ایسے ہیں جیسے گدھوں کی کھر یں ہوتی ہیں اور اس کی پنڈلیوں میں بہت گھنے بال ہیں۔ حضرت سلیمان نے جنوں کو حکم دیا کہ اس طرح کا محل بنایا جائے جیسا مذکورہ آیت میں ہے۔ جب بلقیس آئی تو صحن خانہ کو پانی کی موج سمجھا اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں تاکہ پانی سے ہوکر سلیمان کے پاس جائے۔ حضرت سلیمان نے دیکھا کہ اس کی کھریں نہیں ہیں۔ بلکہ نہایت خوب صورت پائوں ہیں۔ البتہ اس کی پنڈلیوں پر بال تھے ۔ حضرت سلیمان نے اسکو نا پسند کیا اور اپنے انسانی مصاحبین سے پنڈلیوں کے صاف کرنے کی تدبیر پوچھی ۔ تو لوگوں نے رائے دی کہ اُسترے سے صاف کرایا جائے ۔ بلقیس کو جب معلوم ہوا تو اس نے کہا میرے بدن کو لوہا نہیں چھو سکتا۔ سلیمان نے بھی اس رائے کو ناپسند کیا کہ کہیں اُسترے سے پنڈلیاں نہ زخمی ہو جائیں۔ انہوں نے جنوں سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ ہم کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ پھر شیاطین سے اس کی تدبیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہم ایسی تدبیر کریںگے کہ پنڈلیاں چاندی کی طرح چمکنے لگیں گی۔ اور شیاطین نے بال صفا صابن بنا کردیا۔ بال صفا اس زمانہ سے ایجاد ہوا ہے ‘‘۔
(بحوالہ مدارک التنزیل جلد ۳ صفحہ ۲۱۴ کتاب تفسیروں میں اسرائیلی ۔ روایات مطبوعہ مرکز دعوت اسلام )
(جمعیۃ علماء ہند دیوبند صفحہ ۲۳۹)
تمام مفسرین نے انہیں روایات کو اپنی تفسیروں میں درج کیا ہے اور کسی کو یہ خیال بھی نہیں گزرا کہ ہم ان پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس سے کہیں انبیا کی شان گھٹتی تو نہیں۔ شیعہ حضرات کی تفاسیر بھی اس سے مبرّا نہیں ہیں۔
وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْھَا کا ترجمہ لکھا ہے کہ :۔
’’ اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول ڈالیں‘‘
اس کی تفسیر حاشیہ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔
’’ ان سے کہا گیا کہ محل میں چلے ۔ جب وہ جانیں لگیں تو خیال کیا کہ پانی ہے اس لئے اپنا کپڑا اونچا کیا اور دونوں پنڈلیاں کھولیں یکایک ظاہر ہوا کہ اُن کی پنڈلیوں پر بال بہت ہیں۔۔۔
حضرت سلیمان نے ملکہ بلقیس سے شادی کرلی اور شیاطین سے کہا کہ کوئی ایسی چیز تجویز کرو جس سے ملکہ کے بال دور ہو جائیں ۔ پس اُنہوں نے حمام بنایا اورنورہ پکاکر ٹھیک کیا ۔ پس حمام اور نورہ وہ چیزیں ہیں جن کو شیاطین نے تجویز کیا۔ اس طرح وہ چکیاں جو پانی سے چلتی ہیں‘‘
(ترجمہ و تفسیر مولانا سید مقبول احمد صاحب قبلہ دھلوی ناشر تبلیغاتِ ایمانی ہند ۵۹ نجفی ہائوس
نشان پاڑہ روڈ بمبئی ۴۰۰۰۰۹)
اسی طرح مفسر قرآن جناب احمد رضا خان صاحب بریلوی نے بھی وکَشَفَتْ عَنْ سَاَقِھَْاَ ا ترجمہ ’’ اور اپنی ساقیں کھولیں‘‘ کیاہے۔ مولانامفتی محمد شفیع صاحب نے بھی یوں ترجمہ کیا ہے کہ ’’ اور کھولیں اپنی پنڈلیاں‘‘ اسی کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔
’’ تو جب اُسکا صحن دیکھا تو اس کو پانی (سے بھرا ہوا) سمجھا اور (چونکہ قرینہ سے پایاب گمان کیا اس لئے اس کے اندر گھسنے کیلئے دامن اُٹھائے اور ) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ (اسوقت) سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو محل ہے جو (سب کا سب مع صحن) شیشوں سے بنایا گیا ہے (اور یہ حوض بھی شیشہ سے پٹا ہوا ہے) دامن اُٹھانے کی ضرورت نہیں (اسوقت) بلقیس (کو معلوم ہوگیا کہ یہاں پر دُنیوی صنعت کاری کے عجائب بھی ایسے ہیں جو آج تک میں نے آنکھ سے نہیں دیکھے تو اس کے دل میں ہر طرح سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظمت پیدا ہوئی‘‘
اسی طرح آگے لکھا ہے کہ ’’ حضرت عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ اس کے بعد بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے نکاح میں آگئی اور اس کو اس کے ملک پر برقرار رکھ کر یمن واپس بھیج دیا۔ ہر مہینے حضرت سلیمان علیہ السلام وہاں تشریف لے جاتے تو تین روز قیام فرماتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے لئے یمن میں تین عمدہ محلات ایسے تیار کروا دیئے تھے جس کی مثال و نظیر نہیں تھی‘‘ (معارف القرآن مطبوعہ دارالکتاب دیوبند یوپی صفحہ ۵۷۵۔۵۷۶)
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب تفہیم القرآن میں یوں ترجمہ کرتے ہیں کہ:۔
’’ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اترنے کیلئے اس نے اپنے پائنچے اُٹھا لئے‘‘۔
تفسیر کرتے ہوئے اس شیشہ کے محل کے بنانے کا مقصد یوں بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’ اور اب آخری چیز یہ تھی کہ اس نے دیکھا جو شخص یہ سامانِ عیش و تنعم رکھتا ہے اور ایسے شاندار محل میں رہتا ہے وہ کسی قدر غرور نفس سے پاک ہے‘‘۔
(تفہیم القرآن جلد ۳ صفحہ ۵۸۰ مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۔۶)
اس میں کوئی شک نہیں کہ وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْھَا کا ایک ترجمہ پنڈلیاں ننگی کرنا بھی ہے لیکن تمام مفسرین نے اس ترجمہ کو اس لئے پیش کیا کہ کچھ مفسر بال دیکھنے کے خیال پر جمے ہوئے ہیں اور جو اس خیال پر نہیں تو وہ اس شیش محل کو دُنیاوی وجاہت کے ظہور کا خیال کر رہے ہیں جبکہ انبیاء کی غرض دُنیاوی وجاہت نہیں ہوا کرتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام او ر خلفاء جماعت احمدیہ نے مفسرین کے ان موہوم خیالات کو بھی دور کیا ہے۔ اور ایک دم اچھوتی اور عصمت انبیأء کے عین مطابق تفسیر بیان فرمائی ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور بلقیس کے واقعہ کی حقیقت کو پیش فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ قرآن شریف میں ایک شاہزادی بلقیس نام کا ایک عجیب قصہ لکھا ہے جو سورج کی پوجا کرتی تھی شائد وید کی پیرو تھی حضرت سلیمان نے اس کو بلا یا اور اس کے آنے سے پہلے ایسا محل تیار کیا جس کا فرش شیشہ کا تھا اور شیشہ کے نیچے پانی بہہ رہا تھا جس بلقیس نے حضرت سلیمان کے پاس جانے کا قصد کیا تو اس نے اس شیشہ کو پانی سمجھا اور اپنا پاجامہ پنڈلی سے اوپر اٹھا لیا۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ دھوکہ مت کھا یہ پانی نہیں ہے بلکہ یہ شیشہ ہے پانی اس کے نیچے ہے ۔ تب وہ عقلمند عورت سمجھ گئی کہ اس پیرایہ میں میرے مذہب کی غلطی انہوں نے ظاہر کی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ سورج اور چاند اور دوسرے روشن اجرام شیشہ کی مانند ہیں اور ایک پوشیدہ طاقت ہے جو ان کے پردہ کے نیچے کام کررہی ہے اور وہی خدا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس جگہ فرمایا صرح ممر دمن قوارر ۔ یعنی یہ ایک محل ہے شیشوں سے بنایا گیا۔ سودنیا کو خدا نے شیش محل سے مثال دی ہے جاہل ان شیشوں کی پرستش کرتے ہیں اور دانا اس پوشیدہ طاقت کے پرستار ہیں مگر وید نے اُس شیش محل کی طرف کچھ اشارہ نہیں کیا اور ان ظاہری شیشوں کو پرمیشور سمجھ لیا اور پوشیدہ طاقت سے بے خبر رہا۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۹۰ مطبوعہ لندن)
نیز ایک جگہ فرماتے ہیں۔
’’قرآن شریف میں حضرت سلیمان ؑ اور بلقیس کا ذکر ہے کہ اس نے پانی کو دیکھ کر اپنی پنڈلی سے کپڑا اُٹھایا۔ اس میں بھی یہی تعلیم ہے جو حضرت سلیمان نے اس عورت کو دی تھی وہ دراصل آفتاب پرستی کرتی تھی اس کو اس طریق سے انہوں نے سمجھایا کہ جیسے یہ پانی شیشہ کے اندر چل رہا ہے دراصل اوپر شیشہ ہی ہے ۔ اسی طرح پر آفتاب کوروشنی اور ضیاء بخشنے والی ایک زبردست طاقت ہے۔‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر۲۸ مورخہ ۱۰ اگست ۱۹۰۲ء صفحہ ۸)
قارئین غور کریں کہاں بالوں کا قصہ اور کہاں دُنیاوی شان و شوکت کا اظہار اور کہاں یہ دعوت الی اللہ کا اچھوتا اور نرالاطریق کہ بنا کچھ بتائے ایک ملک کا بادشاہ دوسرے ملک کے بادشاہ کو ا سکی عقل کے مطابق توحید کی دعوت دیتا ہے اور شرک سے دور کرتا ہے۔
حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
’’ کَشَفَتْ عَنْ سَافَیْھَا ۔ اس کے معنے ہیں ’’ گھبرا گئی‘‘ خوب یاد رکھو آپ کا مطلب یہ تھا کہ سورج کی تیری قوم جو پرستش کرتی ہے وہ ایسی ہی غلطی میں گرفتار ہے جس طرح یہ شیشہ ہے اور اس کے نیچے پانی ہے۔ ایسا ہی سورج کو روشنی دینے والا ایک اور نور ہے ۔ اصل وہی ذات ہے‘‘۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍۲۱ جولائی ۱۹۱۰ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۹۴)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں۔
’’ اصل بات صرف اتنی ہے کہ ملکہ سبا ایک مشرکہ عورت تھی اور سورج پرست تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ وہ شرک چھو ڑ دے اس کیلئے آپ نے اُسے زبانی بھی نصیحت فرمائی۔ مگر پھر آپ نے چاہا کہ عملاً بھی اس کے عقیدہ کی غلطی اسپر ظاہر کریں۔ چنانچہ اس کے لئے آپ نے یہ طریق اختیار کیا کہ اُس کے قیام کیلئے آپ نے ایک ایسا محل تجویز فرمایا جس میں شیشہ کا فرش تھا اور اُس کے نیچے پانی بہتا تھا جب ملکہ اس کے فرش پر سے گذرنے لگی تو اُسے شبہ ہوا کہ یہ پانی ہے اور اس نے جھٹ اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑا اُٹھالیا یا اُسے دیکھ کہ وہ گھبرا گئی۔
(کشف عن شاقٍ کے یہ دونوں معنے ہیں) اس پر حضرت سلیمان نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ بی بی دھوکا مت کھائو جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تو دراصل شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے چونکہ پہلے آپ دلائل سے شرک کی غلطی اُس پر واضح کر چکے تھے اُس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اور سمجھایا ہے کہ جس طرح پانی کی جھلک شیشہ میں سے تجھے نظر آئی ہے اور تو نے اسے پانی سمجھ لیا ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلک رہا ہے۔ چنانچہ اس دلیل سے وہ بڑی متاثر ہوئی اور بے اختیار کہہ اٹھی کہ رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین ۔ (یعنی اے میرے رب میں نے شرک کرکے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے) اب میں سلیمان کے ساتھ یعنی اُس کے دین کے مطابق اُس خدا پر ایمان لاتی ہوں جو سب جہانوں کا رب ہے اور سورج اور چاند وغیرہ بھی اُسی سے فیض حاصل کر رہے ہیں ‘‘۔
(تفسیر کبیر جلد ۷ صفحہ ۳۹۷ و ۳۹۸مطبوعہ لندن)


اصحاب کہف
قرآن کریم میں سورۃ الکھف آئی ہے۔ جس میں ایک واقعہ اصحاب الکھف کا بیان ہوا ہے مفسرین قرآن نے اصحاب کھف کے واقعہ کو بھی عجیب و غریب واقعات سے مزین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ان تمام واقعات کے الگ الگ حصوں پر بحث کی جائے تو ایک لمبی چوڑی کتاب بن جائے اختصا ر سے اصحاب کہف کا واقعہ جو مفسرین کی مجموعی نظر میں پیش کیا جاسکتا ہے قصص القرآن کے حوالہ سے اس طرح ہے کہ ۔
’’ بعثت مسیح علیہ السلام کے وقت تقریباً تمام عرب بت پرستی میں ملوث تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر بلاد شام میں دین عیسوی کا چرچا ہوگیا لیکن تنظیموں کی یہ حکومتیں ابھی بت پرستی ہی کی زندگی گذار رہی تھیں چنانچہ رقیم کی کچھ سعید روحوں نے شرک سے بیزار ہوکر دین مسیحی قبول کرلیا بطرا کے اندر دین مسیحی کو قبول کر لینا گویا کہ حکومت وقت سے بغاوت کرنے کے مترادف تھا چنانچہ بادشاہ جس کا نام دقیانوس تھا اس نے دربار شاہی میں ان مسلم نوجوانوں کو طلب کرکے دین مسیحی کے بارے میں پوچھا انہوں نے صاف صاف بتلایا بادشاہ کی طرف سے ان نوجوانوں کو اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی مہلت دی گئی انہوں نے دربار سے واپس آکر مشورہ کیا اور باہم طے پایا کہ خاموشی کے ساتھ کسی جنگل کی غار میں جاکر پناہ لے لی جائے تاکہ مشرکوں کے شہر سے محفوظ رہ سکیں یہ سوچ کر وہ نوجوان اور اُن کے ساتھ ایک کتا پہاڑی کی ایک غا ر میں داخل ہوگئے جس کے اندر بقاء حیات کے قدرتی سامان مہیا تھے ایک طرف دہانہ ہے تو دوسری طرف منفذ جس سے صاف ہوا آتی ہے غار کارُخ شمال و جنوب ہے جس سے دھوپ کی تمازت اثر نہ کرسکے سورج نکلتے وقت غار کے دائیں ہوتا ہے اور غروب کے وقت بائیں یہ نوجوان اس غار میں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کردی ایک لمبے عرصہ کے بعد جب وہ سوکر اُٹھے تو باہم ایک دوسرے کو تک رہے تھے اور آپس میں سوال کر رہے تھے کہ ہم کتنی مدت سوئے کسی نے کہا ایک دن کسی نے کہا اس سے بھی کم دن کا تھوڑا حصہ ان میں سے ایک نے کہا لا یعنی گفتگو کو چھوڑو اللہ ہی جانتا ہے کہ تم کتنے دنوں تک محو خواب رہے اب تو ایسا کرو کہ کوئی شہر چلا جائے اور کھانا لے آئے اور کھانا اس چالاکی سے لایاجائے کہ کسی پر حقیقت کا انکشاف نہ ہو ورنہ تو کافر ہم کو اپنا مذہب قبول کرنے پر مجبور کر دیں گے ورنہ قتل کردیں گے ان میں سے ایک نوجوان اپنا قدیم سکہ لیکر شہر میں کھانے کیلئے آیا جب اس نے اپنے شہر کے بدلے ہوئے حالات دیکھے کہ تمام اہل شہر نے دین مسیحی قبول کرلیا ہے تو اگرچہ اس کو خوشی ہوئی مگر اس نے اپنے ساتھیوںکیلئے دُنیا سے علیحدگی کو ہی پسند کیا اور واپس آکر پھر اپنی غار میں سو گیا لوگوں کو شدہ شدہ اس واقعہ کا علم ہوا تو انہیں تلاش بسار کے بعد غار کا علم ہوگیا اصل شہر نے اگرچہ ان پاک طینت افراد کو شہر میں لے جانے پر اصرار کیا مگر ان افراد نے شہر کی مشغول زندگی سے نماز کی کنارہ کشی کو ترجیح دی اور آخر دم تک اس غار میں محو خواب رہ کر وفات پائی اھل شہر میں اس بات پر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ ان سعید روحوں کی نشانی کیسے باقی رکھی جائے بعض افراد نے کہا کہ ان کے پاس ایک عمارت بنا دی جائے بعض نے کہا کہ ان کے پاس مسجد بنا دی جائے چنانچہ اس غار کے پاس مسجد بنا دی گئی‘‘۔
(مکمل قصص القرآن تالیف مولانا قاضی زین العابدین صاحب سچادچرٹھی۔ مطبوعہ مرکز العارف ہو جائی آسام برانچ دیوبند صفحہ ۴۱۰ تا ۴۱۲)
قرآن کریم میں بیان واقعات کوئی قصے اور کہانیاں نہیں ان واقعات میں پیشگوئیاں مضمر ہیں جو اپنے اپنے وقت پر ظہور میں آتی ہیں لیکن مفسرین نے ان حقائق کے ساتھ ایسی ایسی فرسودہ باتوں کو جوڑ دیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے سارے واقعات کا لکھنا محال ہے لیکن ایک واقعہ قارئین کے لئے مفسرین کی فرسودہ رسائیوں کو کھولنے کیلئے ضرور ممدو معاون ثابت ہوگا لکھا ہے کہ:۔
’’ سدی اور وھب ابن منبہ کی ایک طویل روایت نقل کی جاتی ہے اس روایت میں منجملہ اور محیرالعقول باتوں کے یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا فرمائی کہ مجھے اصحاب کہف کو دکھا دیجئے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا گیا کہ آپ ان کو اس دُنیا میں نہیں دیکھ سکتے ۔ البتہ آپ اپنے اصحاب میں سے چار معزز صحابہ کو ان کے پاس بھیج دیجئے تاکہ وہ آپ کا پیغام رسالت ان لوگوں تک پہنچا دیں اور ان کو ایمان کی دعوت دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبر ئیل سے فرمایا کہ میں کس طرح ان لوگوں کو ان کے پاس بھیجوں ؟ جبرائیل نے کہا آپ اپنا کمبل بچھا دییجئے اس کے ایک کونے پر ابوبکر صدیق دوسرے کو نے پر عمر فاروق تیسرے کونے پر عثمان غنی اور چوتھے کونے پر علی ابن ابی طالب بیٹھ جائیں اور پھر آپ اس ہوا کو بلوائیں جو حضرت سلیمان کے لئے مسخر کی گئی تھی اللہ نے ہوا کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت کرے، آپ نے ایسا ہی کیا ہوا ان چاروں کو اڑا کر کہف کے دروازے تک لے گئی، پھر ان لوگوں نے کہف کے دروازے کے پتھر کو اُکھیڑا تو اصحاب کہف کے کتے نے ان لوگوں پرحملہ کردیا لیکن جب ان لوگوں کی صورتیں دیکھیں تو دُم ہلانے لگا اور سرکے اشارے سے کہا اندر چلے جائیے۔ سب لوگوں نے کہف میں داخل ہوکر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اس وقت اللہ تعالیٰ نے نوجوانان کہف کی روحوںکو ان کے جسموں میں لوٹا دیا تھا وہ سب کے سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور جواب میں کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ان چاروں بزرگوں نے اصحاب کہف سے کہا محمد رسول اللہ آپ کو سلام کہتے ہیں انہوں نے جواب میں کہا علیٰ محمد رسول اللہ ﷺ مادامت السموٰت والارض وعلیکم ما ابلغتم ، پھر آپ کا دین قبول کرلیا اور ایمان لے آئے اور کہا کہ حضورﷺ تک ہمارا سلام پہونچا دیجئے پھر وہ اپنی خوابگاہوں کی طرف لوٹ گئے اور سو گئے ‘‘
(تفسیر تعلیمی جلد ۴ صفحہ ۱۲۱ تا ۱۲۵ بحوالہ تفسیروں میں اسرائیلی روایات صفحہ ۱۹۴، ۱۹۵)
اصحاب کہف کی تعداد پھر محل و قوع اور حالات کے بارے میں مفسرین نے بہت سی اختلافی باتیں کی ہیں میں اس جگہ اصحاب کہف کے تین سو سال تک غیر طبعی سو جانے اور پھر جاگ جانے کی مفسرین کی آراء کو پیش کرتا ہوں کیونکہ اس واقعہ کا سہارا لیکر علماء اسلام نے حیات مسیح ؑ کے عقیدہ کو بڑی تقویت دی ہے اسلئے اس حصہ کی حقیقت کو پیش کرنا آگے آنے والے بعض واقعات کو افسانوی پیچ و خم سے نکالنے میں ممدو معاون ثابت ہوگا۔
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
فَضَربنا علیٰ اذانھم فی الکھفِ سنین عدَرا۔ ثم بعثنٰھم لنعلم ای الحزبین اَحْصیٰ لما لبثوا امداً۔ (سورۃ الکہف آیت ۱۲، ۱۳)
ترجمہ:۔ جس پر ہم نے اس وسیع غار میں چند گنتی کے سالوں کیلئے (بیرونی حالات کے) سننے سے محروم کردیا۔ پھر ہم نے انہیں اُٹھایا تاکہ ہم جان لیں کہ جتنی مدت وہ (وہاں) ٹھہرے رہے تھے اُسے (مسیح کے متبع) دونوں گروہوں میں سے زیادہ محفوظ رکھنے والا کون سا گروہ ہے۔
(تفسیر صغیر)
قرآن کریم کی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا محمد شفیع صاحب نے لکھا ہے کہ :۔
فضربنا علی اذانھم کے لفظی معنی کانوں کو بند کر دینے کے ہیں۔ غفلت کی نیندکو ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ نیند کے وقت سب سے پہلے آنکھ بند ہوتی ہے مگر کان اپنا کام کرتے رہتے ہیں آواز سنائی دیتی ہے جب نیند مکمل اورغالب ہو جاتی ہے تو کان بھی اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں اور پھر بیداری میں سب سے پہلے کان اپنا کام شروع کرتے ہیں کہ آواز سے سونے والاچو نکتا ہے پھر بیدار ہوتا ہے‘‘۔ (معارف القرآن جلد پنجم صفحہ ۵۳۸)
اسی طرح آگے لکھا ہے کہ :۔
’’ اللہ تعالیٰ نے ان کی دُعا کو قبول فرمایا او ر ان کی حفاظت اور تمام پریشانیوں سے نجات دینے کی صورت اس طرح بیان فرمائی کہ ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک نیند کا پردہ ڈال دیا پھر ہم نے ان کو (نیند سے) اُٹھایا تاکہ ہم (ظاہری طور پر بھی) معلوم کرلیں کہ (غار میں رہنے کی مدت میں بحث و اختلاف کرنے والوں میں سے) کونسا گروہ ان کے رہنے کی مدت سے زیادہ واقف تھا‘‘۔ (معارف القرآن جلد پنجم صفحہ ۵۳۹)
مولانا محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں مندرج آیات کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ ترجمہ کے مقابل پر نیند کو ہی بیان کیا ہے ۔ پھر مدت کا اختلاف اور دیگر واقعات بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں لیکن بنیاد اصحاب کہف کی نیند ہی ہے۔
محترم مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے درجہ بالا آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ :۔
’’ تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا پھر ہم نے انہیں جگایا کہ دیکھیں دو گروہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے‘‘۔
حاشیہ میں لکھتے ہیں ۔
’’ ۱۶ یعنی انہیں ایسی نیند سلادیا کہ کوئی بیدار نہ کرسکے‘‘
(کنز الایمان القرآن الکریم ۔ فرید بک ڈپو دہلی صفحہ ۴۲۶۔۴۲۷)
تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اصل انجیل کی حالت ابتر ہوگئی وہ بت پرستی میں مبتلا ہوئے اور دوسروں کو بت پرستی پر مجبور کرنے لگے ان میں دقیانوس بادشاہ بڑا جابر تھا جو بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اس کو قتل کر ڈالتا اصحاب کہف شہر افسوس کے شرفاء و معززین میں سے ایماندار لوگ تھے دقیانوس کے جبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کیلئے بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہوئے وہاں سوگئے ۔ تین سو برس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ غار کے اندر ہیں سو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کردیا جائے تاکہ وہ اس میں مرکر رہ جائیں اوروہ ان کی قبر ہو جائے یہی ان کی سزا ہے عمال حکومت میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا اس نے ان اصحاب کے نام تعداد واقعہ رانگ کی تختی پر کندہ کراکر تانبے کے صندوق میں دیوار کی بنیاد کے اندر محفوظ کردیا ……… بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہوگئے بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہ الٰہی میں دُعا کی یارب کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے خلق کو مردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اس غار کو تجویز کیا اور دیوار گرادی دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے اصحاب کہف بحکم الٰہی فرہان و شاداں اُٹھے چہرے شگفتہ طبیعتیں خوش زندگی کی تروتازگی موجود ایک نے دوسرے کو سلام کیا نماز کیلئے کھڑے ہوگئے فارغ ہوکر یملیخا سے کہا کہ آپ جایئے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائے اور یہ خبر بھی لائے کہ دقیانوس کا ہم لوگوں کی نسبت کیا ارادہ ہے وہ بازار گئے اور شہرہ پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی نئے نئے لوگ پائے …… پھر آپ نان پز کی دوکان پر گئے کھانا خریدنے کیلئے اس کو دقیانوسی سکہ کا روپیہ دیا جس کا چلن صدیوں سے موقو ف ہوگیا تھا اور اس کا دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا بازارو ں والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہے انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے وہ نیک تھا اُس نے بھی اُن سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے انہوں نے کہا خزانہ کہیں نہیں ہے یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے۔ حاکم نے کہا یہ بات کسی طرح قابل یقین نہیں اس میں جوسنہ موجود ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں اورہم بوڑھے ہیں ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں آپ نے فرمایا میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتائو تو عقدہ حل ہو جائے گا یہ بتائو کہ دقیانوسی بادشاہ کس حال و خیال میں ہے حاکم نے کہا آج روئے زمین پر اس نام کام کوئی بادشاہ نہیں سینکڑوں برس ہوئے جب ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے ۔ آپ نے فرمایا کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچاکر بھاگے ہیں میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں۔ چلو میں تمہیں ان سے ملادوں ……۔
ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم بحکم الٰہی اتنا طویل زمانہ سوئے اور اب اس لئے اُٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے بعد موت زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی ہوں حاکم سرغار پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا اس کو کھولا تو تختی برآمد ہوئی اس تختی میں ان اصحاب کے اسماء اور ان کے کتے کا نام لکھا تھا یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کیلئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی…… حاکم نے اپنے بادشاہ بیدروس کو واقعہ کی اطلاع دی وہ امراء و عمائد کو لیکر حاضر ہوا اور سجدہ شکر الٰہی بجا لایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دُعا قبول کی۔ بادشاہ نے سرغار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک سرور کا دن معین کیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں‘‘۔ (کنزلالایمان القرآن الکریم تفسیر احمد رضا خان صاحب بریلوی صفحہ ۴۲۶ و ۴۲۷)
حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب زیر بحث آیات کا ترجمہ یوں کرتے ہیں ۔
’’ پس پردہ مارا ہمنے اوپر کانوں ان کے کے یعنی سو لادیا ان کو بیچ غار کے برس کتنے ایک پھر اُٹھایا ہمنے ان کو توکہ ظاہر کریں ہم کون سا دونوں جماعتوں میں سے خوب گننے والا تھا اس چیز کوکہ ہے تھے مدت سے ‘‘۔
مولانااشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ :۔
’’ سو ہم نے اُس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک نیند کا پردہ ڈال دیا پھر ہم نے اُن کو اُٹھایا تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ ان دونوں گروہ میں کون سا گروہ ان کے رہنے کی مدت سے زیادہ واقف تھا‘‘۔ (ترجمہ و تفسیر مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی صفحہ ۴۱۰)
اس کی تفسیر میں وہی بات لکھی ہے جو احمد رضا خان صاحب نے لکھی ہے کہ آخرت میں دوبارہ زندہ ہونے کا جھگڑا ان لوگوں کے سوکر اُٹھ جانے سے حل ہوگیا بادشاہ نے خود جاکر تمام واقعات دیکھے اور لوگوں کو آخرت میں اٹھنے کا یقین دلایا۔
شیعہ عالم نے یوں ترجمہ کیاہے کہ
’’ پس اُسی کھوہ میں ہم نے ان کو برسوں سلا رکھا پھر ہم نے اُٹھا بٹھایا تاکہ ہم یہ جان لیں کہ ان کے دوگروہوں میں سے اس مدت کو جس میں وہ وہاں رہے ہیں زیادہ کس نے یاد رکھا ہے ‘‘۔
(ترجمۃ القرآن مولانا سید مقبول احمد صاحب مطبوعہ تبلیغات ایمانی ہند بمبئی صفحہ۴۴۹)
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے تفہیم القرآن میں زیر بحث آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ ۔
’’ تو ہم نے اُنہیں اُسی غار میں تھک کر سالہا سال کے لئے گہری نیند سلا دیا پھر ہم نے اُنہیں اُٹھایا تاکہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک شمار کرتاہے۔‘‘
(تفہیم القرآن جلد سوم صفحہ ۱۲)
مولانا مودودی صاحب نے فضربنا علی اذانھم کا ترجمہ تو گہری نیند سلا دینے کا ہی کیا ہے لیکن اس پر تفسیر میں کوئی بحث نہیں کی ہے آیت کے ترجمہ سے یہ بات عیاں ہے کہ موصوف بھی اس خیال کے مالک تھے کہ اصحاب کہف غار میں کئی سال تک سوتے رہے تھے اور پھر وہ اٹھے تھے اس طرح تمام مفسرین نے اس آیت کے معنی سونے اور پھر نیند سے اٹھنے کے ہی لئے ہیں لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو ترجمہ کیا ہے وہ ان تمام مترجمین اور مفسرین سے جدا ہے جوکہ اس مضمون کے شروع میں لکھ دیا گیا ہے۔
محترم سر سید احمد خان صاحب نے جملہ مفسرین سے ہٹ کر قرآن کریم کی منشاء کے مطابق تفسیر پیش کی ہے آپ نے لکھا ہے کہ :۔
’’ پس جو عجیب چیز اس قصہ میں بتائی گئی تھی وہ اصحاب کہف کا اسقدر مدت دراز تک سوتے رہنا یا غشی میں پڑا رہنا یامردہ ہوکر زندہ ہونا تھا جبکہ خدا تعالیٰ نے پہلی آیت میں اس قصہ کے عجیب ہونے کی نفی کی تو ان کے اسقدر مدت تک سوتے رہنے یا غشی میں پڑے رہنے یا مردہ ہوکر پھر زندہ ہونے کی نفی لازم آتی ہے۔
اس کی تائید خود قرآن مجید کی اگلی آیتوں سے ہوتی ہے جہاں سے خدا تعالیٰ نے خود ان کا واقعی اور سچا واقعہ بیان کرنا شروع کیا اور جس میں ان کے اسقدر زمانہ درا ز تک سوتے رہنے یا غش میں پڑے رہنے یا مردہ رہنے کا مطلق ذکر نہیں ہے نتیجہ اس بحث کا صرف اسقدر ہے کہ جو قصہ لوگوں میں مشہور تھا کہ اصحاب کہف اسقدر مدت دراز تک سوکر یا غش میں پڑے رہ کر اُٹھے یا مردہ ہوکر پھر زندہ ہوئے صحیح نہیں تھا‘‘۔
(تفسیر القرآن وھو الھدی والفرقان ازسر سید احمد خان صاحب۔
مطبوعہ خدا بخش اور ینٹل پبلک لائبریری پٹنہ حصہ اول جلد ہفتم صفحہ ۴۔۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ قرآن کریم میں کوئی قصہ نہیں۔ یہ ایسا عظیم الشان امر ہے کہ پرانی تفسیروں کا اس نے تختہ اُلٹ دیا۔ جہاں دوسری تفاسیر میں بات بات میں قصہ شروع ہو جاتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قدر بھی قرآن کریم میں واقعات کا ذکر ہے وہ ساری پیشگوئیاں ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے واقعات تھے جو رونما ہوئے یا آئندہ ہوں گے اس بات کا ذکر آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ :۔
’’ میں دیکھتا ہوں براہین میں میرا نام اصحاب الکہف بھی رکھا ہے اس میں یہ سر ہے کہ جیسے وہ مخفی تھے اسی طرح پر تیرہ سو برس سے یہ راز مخفی رہا اور کسی پر نہ کھلا اور ساتھ اس کے جو رقیم کا لفظ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود مخفی ہونے کے اس کے ساتھ ایک کتبہ بھی ہے اور یہ کتبہ یہی ہے کہ تمام نبی اس کے متعلق پیشگوئی کرتے چلے آئے ہیں۔
(الحکم جلد ۹ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰ ؍ اگست ۱۹۰۵؁ء صفحہ ۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے بھی اس کو ایک پیشگوئی بیان فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں:۔
’’ ضربنا علیٰ اذانھم ۔ کچھ مدت تک باہر کی کوئی خبر اس گروہ کو نہ پہنچی ۔ بعثنا : آخری ترقی دنیوی کی طرف اشارہ ہے ‘‘۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰ مارچ ۱۹۱۰؁ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سورۃ الکھف کی جو تفسیر کی ہے اس میں مفسرین کی آراء پر بڑی تفصیل سے بات کرتے ہوئے اصحاب کہف کے واقعہ سے پردہ اٹھایا ہے اور ان فرضی اور عقل سے دور واقعات کی قلعی کھولی ہے او ر وہ واقعہ جو لوگوں ہمیشہ ہی پریشانی میں ڈالتا رہا اس کی حقیقت کو آشکار کیاہے۔ اور یہ بات غلط ثابت کی ہے کہ کچھ لوگ غار میں داخل ہونے کے بعد سو گئے تھے اور پھر جاگے اور اُن کا سوئے رہنے کا عرصہ اس قدر لمبا تھا جو مفسرین نے بیان کیا ہے۔ شوق رکھنے والے قارئین تفسیر کبیر سے اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ آپ نے ساری بحث کرنے کے بعد جو نتیجہ نکالا ہے اس کو میں اس جگہ قارئین کے لئے درج کردیتا ہوں آپ فرماتے ہیں۔
’’ اب میں کہف کے بارے میں مختصراً بعض واقعات بتاتا ہوں جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں کہف سے مراد کیٹا کو منبر ہیں جو زمین دوز تہہ خانوں کا نام ہے۔ رومیوں اور یہود میں رواج تھا کہ وہ مردوں کو کمروں میں رکھتے تھے رومی حکومت کے بڑے بڑے شہروں میں شہروں سے باہر ایسی جگہیں بنی ہوئی تھیں اورکیٹا کومنبر کہلاتی تھیں ۔ جب مسیحیوں پر ظلم ہوئے تو انہوں نے جان بچانے کیلئے ان قبرستانوں میں پناہ لینی شروع کی جس کی دووجہیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ زمین دوز کمروں میں وہ آسانی سے چھپ سکتے تھے اور بیٹھنے ۔ سونے اور موسم کی شدت سے محفوظ رہنے کا بھی سامان ہوتا تھا۔ دوسرے اس لئے بھی کہ عام طور پر لوگ قبرستانوں سے ڈرتے ہیں۔ اور اس طرح لوگوں کی نظروں سے بچنے کا وہاں امکان زیادہ تھا یہ کٹا کومنیر روم نمبر ۱ کے پاس اسکندریہ نمبر۲ جو مصر کا شہر ہے اس کے پاس سسلی نمبر ۳ میں مالٹا نمبر ۴ میں نیپکرنمبر ۵ کے پاس اس وقت دریافت ہوئے ہیں ۔ مسٹری بنجین سکاٹ اپنی کتاب ’’ دی کٹا کو میزأیٹ روم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ میری رائے ہے کہ اس ابتدائی زمانہ میں بھی(جب پولوس روم گیا ہے) عیسائی اپنی حفاظت کے خیال سے لوگوں کے غصہ اور یہودیوں کے ظلموں اور رومی حکومت کے مظالم سے بچنے کیلئے ان تہہ خانوں میں پناہ لیا کرتے تھے ‘‘ (صفحہ ۶۳) پھر وہ ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں ’’وہ یقینا مجبور تھے کہ ان گڑھوں اور زمین دوز غاروں میں پناہ لیتے‘‘ اس جگہ مصنف نے ان تہہ خانوں کیلئے کیو(Cave) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جو عربی زبان کے لفظ کھف کا ہی بگڑا ہوا ہے گویا اس طرح اس انگریز مصنف نے عین وہی لفظ استعمال کردیا ہے جو قرآن کریم نے کیا ہے یہ کہ ان کو ایسا کرنے کی ضرورت تھی رومی مؤرخ ٹیسیٹس(Tacitus)کی شہادت سے ثابت ہوجاتا ہے وہ کہتا ہے کہ نیرو نے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے مسیحیوں کو زندہ جلانے کتوں سے پھڑوانے اور صلیب دینے کے مختلف طریق اختیار کر رکھے تھے اور اس غرض سے اُس نے اپنا شاہی باغ دیا ہوا تھا ۔ جس قوم پر اس قدر او رعام ظلم ہوگا ظاہر ہے کہ وہ ادھر اُدھر بچ کر پناہ لے گی۔
جب مسیحیوں نے ان جگہوں پر پناہ لینی شروع کی تو پناہ کے دنوں میں انہوں نے زیادہ حفاظت کی خاطر ا ن کے اندر اور کمرے بنانے شروع کر دیئے اس طرح جو لوگ شہید ہوتے تھے ان کی لاشوں کو بیحرمتی سے بچانے کیلئے بھی وہ ان تہ خانوں میں لاکر دفن کرتے تھے چونکہ یہ سلسلہ تین سو سال تک چلا گیا اس لئے یہ تہ خانے اس کثرت سے ہوگئے کہ بعض لوگوں کے اندازے کے مطابق وہ پندرہ میل کی لمبیائی تک چلے گئے ہیں۔
چونکہ ظلم یکساں نہیں چلتا تھا درمیان میں بعض بادشاہ نرمی کرنے لگ جاتے تھے اور مسیحی پھر واپس شہر میں آجاتے تھے پھر جب سختی کا دورآتا تھا تو بھاگ کر ان جگہوں میں چھپ جاتے اور معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انہیں وہاں مہینوں یا سالوں رہنا پڑتا تھا کیونکہ ان کے اندر سکولوں اور گرجوں کے کمرے بھی پائے گئے ہیں ۔
یہ تہہ خانے تین منزل میں بنے ہوئے ہیں اور ۱۹۲۴؁ء میں انگلستان جاتے ہوئے روم میں میں نے خود ان کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ۔ پہلی منزل کے کمروں کو تو انسان بغیر زیادہ تکلیف کے دیکھ سکتا ہے دوسری منزل میں بہت دم گھٹتا ہے اور تیسری منزل یعنی سب سے نیچے کے تہ خانہ میں جانا تو نمی اور تاریکی کی وجہ سے قریباً نا ممکن ہوتا ہے میں نے دیکھا کہ ان تہ خانوں کو مسیحیوں نے اپنی ضرورت کے مطابق اس طرح بنا لیا تھا جیسے بھول بھلیاں ہوتی ہے اور حفاظت کے مندرجہ ذیل طریق ان میں استعمال کئے گئے ہیں۔
(۱) وہ لوگ دروازوں پر کتے رکھتے تھے تا اجنبی آدمی کے آتے ہی ان کو اس کے بھونکنے سے علم ہو جائے ( ۲) زمین دوز کمرے جن میں وہ رہتے تھے جہاں سے انہیں زمین کی سطح پر سے داخل ہونے کا راستہ تھا۔ وہاں مٹی کی سیڑھی نہ ہوتی تھی بلکہ لکڑی کی سیڑھی رکھتے تھے تاکہ اپنا آدمی اترنے کے بعد وہاں سے سیڑھی ہٹا دی جاسکے اور تا دُشمن آئیں تو فوراً کمروں میں نہ پہنچ سکیں۔(۳) لیکن اگر وہ کود کر یا سیڑھیاں اپنے ساتھ لاکر اُتر ہی جائیں ۔ تو اس کے آگے حفاظت کا یہ علاج کیاگیا تھا کہ ہر کمرہ سے چار راستے بنا دئے گئے تھے ان میں سے ایک راستہ تو اگلے کمرہ کی طرف جاتا تھا اور باقی راستے کچھ دور جاکر بند ہو جاتے تھے اس کا یہ فائدہ تھا کہ عیسائی تو واقف ہونے کی وجہ سے جھٹ اگلے کمرہ کی طرف دوڑ جاتے تھے اور تعاقب کرنے والے غلط راستہ کی طرف چلے جاتے اور آگے راستہ بند دیکھ کر پھر دوسرے راستہ کی طرف لوٹتے ۔ اس طرح بار بار غلط راستوں کی طرف جانے کی وجہ سے بھاگنے والے عیسائیوں سے بہت پیچھے رہ جاتے ۔ اول تو یہ تعاقب ہی پولیس کو پریشان کر دیتا تھا لیکن اگر آخری حد تک تعاقب کر بھی لیتے تو (۴) مسیحی دوسری منزل یعنی نچلے تہ خانوں میں چلے جاتے جو پہلوں سے زیادہ تنگ زیادہ تاریک اور زیادہ پیچیدہ ہیں ۔ اگر بالفرض یہاں بھی کامیاب تعاقب کیا جاتا تو (۵) ان سے نیچے تیسرے تہہ خانے موجود تھے جن میں ہم لوگ تو دو چار منٹ بھی نہیں ٹھہر سکے گو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب وہ گر کر بہت زیادہ نمنان ہوگئے ہیں مگر بہرحال وہ بھیانک جگہیں ہیں جہاں غالباً صرف تعاقب کے وقت میں تھوڑی دیر کے لئے مسیحی پناہ لیتے تھے ۔ چونکہ سارے راستوں کی لمبائی کئی سو میل تک جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان جگہوں میں عیسائیوں کا پکڑنا آسان کام نہ ہوتا تھا۔ مگر گورنمنٹ آخر گورنمنٹ ہوتی ہے۔ کئی دفعہ پولیس پکڑ بھی لیتی تھی اور وہیں اُن لوگوں کو قتل کردیتی تھی۔ میں نے ایسے شہداء کی بہت سی قبریں وہاں دیکھی ہیں۔ ہم نے بعض کتبے پادری سے پڑھواکر معلوم کیا کہ ان میں وہ درد ناک واقعات بیان کئے گئے ہیں جو شہادت کے وقت ان کو پیش آتے تھے۔
قریب زمانہ میں جونئی قبریں اور کتبے دریافت ہوئے ہیں ان میں اُن لوگوں کی قبریں بھی ملی ہیں جن کے پاس پطرس ٹھہرے تھے یا جن کا بائیبل میں ذکر ہے (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ کیٹا کومنز)
ڈیسس کے وقت میں چونکہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ مسیحی بتوں کو سجدہ کرنے پر مجبور کئے جائیں اور بہت سختی سے مسیحیوں کو مارا جاتا تھا یہ زمانہ قریباً سارا کا سارا عیسائیوں نے کیٹا کومنبر میں گزارا سوائے ان کے جنہوں نے ڈر کر مذہب کو ظاہراً خیر آباد کہہ دیا اس لئے اس زمانہ میں اصحاب کہف نے ایک نہایت شاندار مثال قربانی کی پیش کی تھی۔ ان کتبوں سے جو کیٹا کومنبر میں لگے ہوئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسیحیوں میں شرک نہ تھا اور کتبوں میں کوئی لفظ شرک کا نہیں۔ مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں بلکہ محض ایک کڈ ریئے کی شکل میں دکھایا جاتا ہے ان کی والدہ کیلئے کوئی غیر معمولی عزت کا نشان نہیں ملتا زیادہ تر یونس نبی کے واقعہ کو اور حضرت نوح کے طوفان کے آخرمیں جو کبوتر اس بات کی خبر لایا تھا کہ پانی ہٹ کر زمین ننگی ہوگئی ہے اس واقعہ کو تصویروں میں دکھایا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نامہ قدیم کو ان لوگوں نے نہیں چھوڑا تھا اور مسیح کو صرف ایک نبی او رروحانی گڈریا خیال کرتے تھے (کیٹا کومبز کے واقعات کیلئے دیکھو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا دی کیٹا کومنبر ایٹ روم مصنفہ بینجمین سکاٹ اور ڈاکٹر میٹ لینڈ کی کتاب وغیرہ)۔
خلاصہ یہ کہ اصحاب کہف کے واقعہ میں مسیحیوں کے ابتدائی زمانہ کے حالات کو پیش کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ مسیحی قوم کی ابتداء تو اس طرح ہوئی تھی کہ وہ بت پرستی کے خلاف جہاد کرتے تھے اور شرک سے بچنے کیلئے انہوں نے صدیوں تک بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ لیکن انتہاء اس طرح ہوئی ہے کہ اصل دین کا کوئی نشان بھی اب مسیحیوں میں نہیں پایا جاتا‘‘۔
(تفسیر کبیر جلد ۴تفسیر سورۃ الکھف صفحہ ۴۲۴ تا ۴۲۷)
اب دیکھیں کہاں دیگر مفسرین کے قصے جو عقل و خرد سے بعید اور کہا یہ واقعات جو ہر انسان کی سمجھ میں آنے والے جس پر کوئی مخالف اسلام بھی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اور بے انتہا قربانیوں کی داستان اور کہاں نیند او رغشی کے مزوں کی داستان کوئی مناسبت نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان واقعات کو جو پیشگوئیوں کے رنگ میں بیان فرمایا ہے وہ بھی آج ہماری زندگیوں میں ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ مسیح اول کے زمانہ میں جن تکالیف کا سامنا ان کے ماننے والوں کو تھا اور اپنا ایمان چھپانے کے ساتھ ساتھ تبلیغ کرتے اور تکالیف اٹھاتے تھے اسی طرح ہی آج مسیح ثانی علیہ السلام کی آمد پر اُن کے ماننے والوں سے وہی سلوک جاری ہے اور پاکستان کو حکومت نے اس پیشگوئی کو اپنی ملکی اور حکومتی اور جبری طاقت سے پورا کردیا ہے پہلے مسیحیوں کو تین سو سال کے بعد راحت ملی تھی اس سورۃ کہف کی پیشگوئی کے مطابق ہی مسیح ثانی علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’ اگرچہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے کہ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے کچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کوپہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اُن کو سجدہ کرتے ہیں ۔ اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں ۔ سو میں نے اگرچہ یہ دُعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا میں ذریعہ نہ ٹھہرایا جائوں او ر میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کے گا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبردی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کامنہ بند کر دیں گے او رہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھاوے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کریگا اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔
(تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹)
اس طرح پہلے مسیح پر ایمان لانے والوں کی تین سو سال میں ترقی کے بالمقابل آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ
’’ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہوکر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا ۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۷)








حضرت لوط علیہ السلام
حضرت لوط علیہ السلام کے پاس مہمانوں کے آنے کا واقعہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے ۔ مفسرین قرآن نے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آنے والے مہمانوں کا ذکر جس انداز سے کیا ہے وہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے ہی سفلی بات ہے بلکہ ایک نبی کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے ایک سیدھے اور صاف واقعہ کو مفسرین نے اسرائیلی روایات سے متاتر ہوکر اس رنگ میں پیش کیا ہے جو لائق بیان نہیں ۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتاہے:۔
جاء ہ قومہ یھرعون الیہ ومن قبل کانوا یعملون السیات قال یقوم ھؤلآء بناتی ھن اطھرلکم فاتقوا اللہ ولا تخزون فی ضیفی الیس منکم رجل رشید۔
قال لقد علمت مالنا فی بنتک من حق وانک لتعلم نرید۔
(سورۃ ھود آیت ۷۹۔۸۰)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ان آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ :۔
’’ اور اس کی قوم (غصہ سے) اس کی طرف بھاگتی ہوئی آئی اور (یہ پہلا موقعہ نہ تھا) پہلے (بھی) وہ (لوگ نہایت خطرناک) بدیاں کرتے تھے اس نے کہا اے میری قوم یہ میری بیٹیاں (جو تمہارے ہی گھروں میں بیاہی ہوئی) ہیں۔ وہ تمہارے لئے (اور تمہاری آبرو کے بچانے کیلئے ) نہایت پاک(دل اور پاک خیال) ہیں پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میرے مہمانوں (کی موجودگی) میں مجھے رسوا نہ کرو کیا تم میں سے کوئی (بھی) سمجھدار (آدمی) نہیں ہے ؟
اُنہوں نے کہا کہ تو یقینا معلوم کرچکا ہے کہ تیری لڑکیوں کے متعلق ہمیں کوئی بھی حق (حاصل) نہیں ہے اورجو (کچھ) ہم چاہتے ہیں اُسے تو جانتا ہے‘‘۔
(تفسیر صغیر سورۃ ھود صفحہ ۲۸۱ ۔۲۸۲)
مولانا محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان نے ان آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ :۔
’’ اور اس کی قوم (نے جو یہ خبر سنی تو) ان کے (یعنی لوط علیہ السلام کے) پاس دوڑتے ہوئے آئے اور پہلے سے نامعقول حرکتیں کیا کرتے تھے۔ (اسی خیال سے اب بھی آئے) لوط (علیہ السلام بڑے گھبرائے اور براہ تملق) فرمانے لگے کہ اے میری قوم یہ میری (بہو) بیٹیاں (جو تمہارے گھروں میں ہیں) موجود ہیں وہ تمہارے (نفس کی کامرانی کے) لئے (اچھی) خاصی ہیں سو (ان مردوں پر نگاہ کرنے کے باب میں) اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھ کو فضیحت مت کرو (یعنی ان مہمانوں کو کچھ کہنا مجھ کو شرمندہ اور رسوا کرنا ہے، اگر ان کی رعایت نہیں کرتے کہ مسافر ہیں تو میرا خیال کرو کہ تم میں رہتا سہتاہوں افسوس اور تعجب ہے) کیا تم میں کوئی بھی (معقول آدمی ) بھلا مانس نہیں (کہ اس بات کو سمجھے اور اوروں کو سمجھائے) وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم کو آپ کی ان بہو بیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں (کیونکہ عورتوں سے ہم کو رغبت ہی نہیں) اور آپ کو تو معلوم ہے (یہاں آنے سے) جو ہمارا مطلب ہے‘‘
(معارف القرآن سورۃ ھود جلد ۴ صفحہ ۶۵۱)
قارئین غور کریں جو ترجمہ مولانا صاحب نے پیش کیا ہے اس کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی بھی بات قرآن کریم کی اصل عبارت میں موجود نہیں ہے آگے اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :۔
’’ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کافر ہونے کے علاوہ ایک ایسی خبیث بدکاری اور بے حیائی میں مبتلا تھی جو دُنیا میں کبھی پہلے نہ پائی گئی تھی جس سے جنگل کے جانور بھی نفرت کرتے ہیں کہ مرد مرد کے ساتھ منہ کالا کرے …… اللہ تعالیٰ نے اپنے چند فرشتے جن میں جبریل امین بھی شامل تھے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کیلئے بھیجے۔ …… حضرت لوط علیہ السلام جیسے مقبول و برگزیدہ پیغمبر کے گھر میں ان کی بیوی کافروں سے ملتی اورحضرت لوط علیہ السلام کی مخالفت کرتی تھی جب یہ محترم مہمان حسین لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر میں مقیم ہوگئے تو ان کی بیوی نے ان کی قوم کے اوباش لوگوں کو خبرکردی کہ آج ہمارے گھر میں اس طرح کے مہمان آئے ہیں حضرت لوط کا سابقہ اندیشہ سامنے آگیا جس کا بیان دوسری آیت میں ہے وَجَأئَ قَوْمُہٗ یُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ یعنی آگئی ان کے پاس ان کی قوم دوڑی ہوئی اوروہ پہلے سے نامعقول حرکتیں کیا ہی کرتے تھے ۔
اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ اپنے خبیث عمل کی نحوست سے اس قدر بے حیا ہوچکے تھے کہ علانیہ حضرت لوط علیہ السلام کے مکان پر چڑھ دوڑے‘‘۔
حضرت لوط علیہ السلام نے جب دیکھا کہ انکی مدافعت مشکل ہے تو ان کو شر سے باز رکھنے کیلئے فرمایا کہ تم شروفساد سے باز آجائو تو میں اپنی لڑکیاں تمہارے سرداروں کے نکاح میں دے دوں گا، اس زمانہ میں مسلمان لڑکی کا نکاح کافر سے جائز تھا، …… اس تفسیر کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام کے اس قول کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اپنی خبیث عادت سے باز آئو شرافت کے ساتھ قوم کی لڑکیوں سے نکاح کرو، ان کو بیویاں بنائو،
پھر لوط علیہ السلام نے ان کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کیلئے فرمایا فاتقوا اللہ اور پھر عاجزانہ درخواست کی ولا تخزون فی ضیفی یعنی مجھ کو میرے مہمانوں کے متعلق رسوا نہ کرو ، اور فرمایا الیس منکم رجل رشید ۔ یعنی کیا تم میں کوئی ایک بھی بھلا مانس اور شریف آدمی نہیں جو میری فریاد سنے ۔
مگر وہاں شرافت و انسانیت کا کوئی اثر کسی میں باقی نہ تھا سب نے جواب میں کہا لقد علمت مالنا فی بناتک من حق وانک لتعلم مانرید یعنی آپ جانتے ہیں کہ آپ کی لڑکیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ آپ کو معلوم ہے‘‘۔
(معارف القرآن تفسیر سورۃ ھود جلد ۴ صفحہ ۶۵۲تا۶۵۴)
اس ساری تفسیر کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آنے والے مہمانوں سے بدفعلی کی غرض سے قوم کے لوگ اُن کے پاس آئے تھے اور حضرت لوط علیہ السلام نے ان مہمانوں سے بدفعلی نہ کرنے کے عوض انہیں اپنی لڑکیاں پیش کی تھیں۔ (نعوذ باللہ)
مولانا ابوالا علیٰ مودودی صاحب نے تفہیم القرآن میں اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ
’’ (اور مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ پہلے سے وہ ایسی ہی بدکاریوں کے خوگر تھے ۔ لوط ؑ نے ان سے کہا ’’ بھائیو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں یہ تمہارے لئے پاکیزہ تر ہیں ۔ کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ’’ تجھے معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں‘‘۔
پاکیزہ تر ہیں کا حاشیہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ ہوسکتا ہے کہ حضرت لوط ؑ کا اشارہ قوم کی لڑکیوں کی طرف ہو۔ کیونکہ نبی اپنی قو م کیلئے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور قوم کی لڑکیاں اس کی نگاہ میں اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادیوں کی طرف ہو۔ بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ حضرت لوط ؑ نے ان سے زنا کرنے کیلئے کہا ہوگا ’’ یہ تمہارے لئے پاکیزہ تر ہیں‘‘ کا فقرہ ایسا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ۔ حضرت لوط ؑ کا منشاء صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوت نفس کو اُس فطری اور جائز طریقے سے پورا کرو جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اس کے لئے عورتوں کی کمی نہیں‘‘۔
اسی طرح ہمارا کوئی حصہ نہیں کا حاشیہ یوں لکھا ہے کہ :۔
’’ یہ فقرہ ان لوگوں کے نفس کی پوری تصویر کھینچ دیتا ہے کہ وہ خباثت میں کس قدر ڈوب گئے۔ بات صرف اس حد تک ہی نہیں رہی تھی کہ وہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ سے ہٹ کر ایک گندی خلاف فطرت راہ پر چل پڑے تھے بلکہ نوبت یہاںتک پہنچ گئی تھی کہ ان کی ساری رغبت اور تمام دلچسپی اب اسی گندی راہ ہی میں تھی۔ ان کے نفس میں اب طلب اُس گندگی ہی کی رہ گئی تھی اوروہ فطرت اور پاکیزگی کی راہ کے متعلق یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے کہ یہ راستہ تو ہمارے لئے بناہی نہیں ہے یہ اخلاق کے زوال اور نفس کے بگاڑ کا انتہائی مرتبہ ہے جس سے فروترکسی مرتبے کاتصوّر نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (تفہیم القرآن جلد دوم سورۃ ھود صفحہ ۳۵۷۔۳۵۸)
مولانا ابوالااعلیٰ مودودی صاحب بھی بالکل اسی راستہ پر گئے ہیں جس پر مولانا محمد شفیع صاحب گئے تھے اب احمد رضا خا ن صاحب بریلوی کی تفسیر پڑھ لیں لکھا ہے کہ:۔
’’ مروی ہے کہ ملائکہ کو حکم الٰہی یہ تھا کہ وہ قومِ لوط کو اس وقت تک ہلا ک نہ کریں جب تک کہ حضرت لوط علیہ السلام خود اس قوم کی بدعملی پر چار مرتبہ گواہی نہ دیں چنانچہ جب یہ فرشتے حضرت لوط علیہ السلام سے ملے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا تمہیں اس بستی والوں کا حال معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ عمل کے اعتبار سے روئے زمین پر یہ بدترین بستی ہے اور یہ بات آپ نے چار مرتبہ فرمائی جب حضرت لوط علیہ السلام کی عورت جو کافرہ تھی نکلی اور اس نے اپنی قوم کو جاکر خبردی کہ حضرت لوط علیہ السلام کے یہاں ایسے خوبرو اور حسین مہمان آئے ہیں جن کی مثل اب تک کوئی شخص نظر نہیںآیا‘‘۔
یعملون السیات کا حاشیہ دیا ہے کہ
’’ اور کچھ شرم و حیاء باقی نہ ہی تھی‘‘
یٰقوْمِ ھٰولأئِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُلَکُمْ کا حاشیہ یہ دیا ہے کہ ۔
’’ اور اپنی بیبیوں سے تمتع کرو کہ وہ تمہارے لئے حلال ہے‘‘۔
(کنزل الایمان القرآن الکریم سورۃ ھود حاشیہ صفحہ ۳۳۳)
اسی طرح آگے یہ قصہ لکھاہے کہ ’’جب مکان میں یہ مہمان بیٹھے تھے اس کادروازہ حضرت لوط علیہ السلام نے بند کرلیا ۔ لیکن وہ اندر آنے کیلئے دیوار توڑ دینا چاہتے تھے اس پر فرشتوں نے کہا کہ دروازہ کھول دو یہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے حضرت نے دروازہ کھول دیا قوم کے لوگ مکان میں گھس آئے حضرت جبریل نے بحکم الٰہی اپنا بازو اُن کے منھ پر مارا سب اندھے ہوگئے اور حضرت لوط علیہ السلام کے مکان سے نکل کر بھاگے انہیں راستہ نظر نہیں آتا تھا اور یہ کہتے جاتے تھے ہائے ہائے لوط کے گھر میں بڑے جادو گر ہیں انہوں نے ہمیں جادو کردیا‘‘۔
(کنز الایمان حاشیہ سورۃ ھود صفحہ ۳۳۳)
مولانا شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی اورمولانا اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی نے بھی مذکورہ مترجمین کی طرح ہی ترجمہ کیاہے۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ ۔
’’ اور ان کی قوم اُن کے پاس دوڑتی ہوئی آئی اور پہلے سے نامعقول حرکتیںکیا کرتے تھے…… اے میری قوم یہ میری بیٹیاں موجود ہیں وہ تمہارے لئے خاصی ہیں…… ہم کو آپ کی بیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں اور آپ کو معلوم ہے جو ہمارا مطلب ہے‘‘۔
حاشیہ میں لکھا ہے کہ ۔
’’ فرشتے مہمان اترے ان کے گھر اور قوم دیکھ کردوڑے یہ ان کے بچانے کو اپنی بیٹیاں بیاہ دینی قبول کرنے لگے لیکن وہ کب مانتے تھے اس وقت کافروں سے بیاہ دینا منع نہ تھا ‘‘۔
(ترجمہ و تفسیر مولانا اشرف علی تھانوی مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی صفحہ ۳۲۱ سورۃ ھود)
جناب مولانا عبد اللہ یوسف علی صاحب کا جو انگریزی ترجمہ ہے اس میں بھی انہوں نے زیر بحث آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے یہی ترجمہ کیا ہے کہ وہ لوگ پہلے سے ہی قابل نفرین عمل کیا کرتے تھے۔
(انگریزی ترجمہ مولانا عبد اللہ یوسف علی طبع شرکۃ امانۃ امریکہ اشاعت جنوری ۱۹۸۹؁ء صفحہ ۵۳۱)
اسی طرح مکمل قصص القرآن میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر اس واقعہ کے ساتھ بڑی وضاحت سے اس کے صفحہ ۱۴۸ سے۱۵۱تک کیا ہے اسی کو میں اس چھوڑتا ہوں البتہ اِن مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے محترم سر سید احمد خان صاحب نے تفسیر القرآن میں اس کی تردید کرتے ہوئے معاملہ کو بڑی حد تک درست لائین میں پیش کیا ہے اور لوط علیہ السلام پر جو اعتراض پڑتا تھا اس کو دور کرنے کی کوشش کی ہے تفصیل کیلئے دیکھیں۔ تفسیر القرآن جلد پنجم تفسیر سورۃ ھود صفحہ۴۳ تا ۴۴)
اصل واقعہ بھی یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بستی والے یہ خیال کرتے تھے کہ حضرت لوط علیہ السلام باہر والوں سے مل کر ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں اس لئے ان کو کسی مہمان کے حضرت لوط علیہ السلام کے ہاں اترنے پر اعتراض ہوتا تھا جب خدا تعالیٰ کے فرشتے آئے تو ان کی قوم نے ان کو اسی طرح کے اجنبی جان کر ان کو پکڑنے کی غرض سے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر کا قصد کیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول مولانا حکیم نور الدین صاحب ؓ نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ۔’’ ھٰؤَلَائِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُلَکُمْ ۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوطؑ کی سات بیٹیاں تھیں پانچ اسی گائوں میں بیاہی ہوئی تھیں۔ تو حضرت لوط ؑ نے ان کو شرم دلائی کہ دیکھو سب لڑکیاں تمہارے ہی گھروں میں ہیں۔ پس کیا میں تمہارے برے میں ہوں کہ اجنبی لوگوں کو بطور جاسوس داخل کروں۔
اَطْھَرُلَکُمْ ۔یہ لڑکیاں میں نے تمہارے تقویٰ کیلئے پیش کی ہیں ان کا معاملہ سوچو کہ جب یہ تمہیں دیدیں تو میں گائوں کے برخلاف کوئی منصوبہ کیوں کرنے لگا‘‘۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶ دسمبر ۱۹۰۹؁ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ۳۷۱)
اور مَالَنَا فِیْ بَنٰتِکَ مِنْ حَقٍّ کے متعلق فرمایا ’’ بیٹیاں ضمانت میں نہیں رکھی جائیں‘‘۔ (تشحیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۵۹ بحوالہ حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ ۳۷۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور حضرت لوط علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والے اعتراضات کو بڑے اچھوتے رنگ میں پیش کرتے ہوئے مفسرین کی غلطی کو آشکار کیا ہے ۔ حضورفرماتے ہیں۔
’’ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے افعالِ بد کی وجہ سے حضرت لوط ؑ کے دل میں خطرہ پیدا ہوا کہ وہ کوئی شرارت نہ کریں اس سے کوئی خاص شرارت مراد نہیں۔چونکہ وہ پہلے بھی شرارتیں کیا کرتے تھے ۔ اس لئے حضرت لوطؑ کو خطرہ ہوا ۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے ۔ وہ لوگ ان کو دیکھ کر خوش ہوئے اور ان سے بدی کرنے کو دوڑ آئے مگر میرے نزدیک مفسرین کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سورہ ،حجر میں فرماتاہے اولم نَنْھَکَ عن العالمین ۔ یعنی کیا ہم نے تم کو غیر علاقہ کے آدمی لانے سے روکا ہوا نہیں ہے۔اگر وہ کسی بدکاری کا ارادہ رکھتے تھے۔ اور ان لوگوں کے آنے سے خوش تھے تو چاہئے تھا کہ تاکید کرتے کہ روز مسافروں کو پکڑ کر شہر میں لایا کرو۔ مگر وہ لوگ تو ناراض ہوکرکہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو پہلے سے روکا ہوا نہیں کہ غیر علاقہ کے آدمی کو شہر میں مت لایا کرو۔
اگر کہا جائے کہ دوسری جگہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وجآء اھل المدینـۃ یسْتَبْشِرُوْنَ (حجر ع ۵) کہ شہر والے خوش ہوکر بھاگے آئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس خوشی سے بھی یہ مراد نہیں کہ ان مہمانوں سے کسی قسم کی بے حیائی کا فعل کریں گے۔ بلکہ خوشی کا سبب یہ تھا کہ آج لوط ؑ کو سزا دینے کا بہانہ مل گیا ہے۔ اوروہ ہمارے قابو چڑھ گیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پرُانے زمانہ میں عام طورپر الگ الگ شہروں کی حکومتیں ہوا کرتی تھیں۔ اور یہ علاقہ جس میں حضرت ابراہیم ؑ او رحضرت لوط ؑ رہتے تھے یہ تو اس وقت باقاعدہ حکومتوں سے بالکل خالی تھا۔ ہر شہر یا قصبہ یا چند قصبات کی اپنی الگ حکومت ہوتی تھی۔ جو جمہوریت کا رنگ رکھتی تھی کبھی کوئی مَلِک خاکم ہوتا تھا کبھی صرف شہر کے رؤسا ملکر امور سیاسیہ کو طے کرلیا کرتے تھے۔ سڈوم اور عمورا دونوں بستیاں جن سے حضرت لوط ؑ کا تعلق تھا ایسی ہی شہری حکومتوں میں سے تھیں۔ اور شہر کا مَلِک ہی ان کا بادشاہ ہوتا تھا (دیکھو پیدائش باب ۱۴)
طالمود جو یہود کی روایات اور تاریخ کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ ان بستیوں کے لوگمسافروں کو لوٹ لینے کے عادی تھے (دیکھو جیوش انسا ئیکلوپیڈیا زیر لفظ سڈوم) اور جو قوم ہمسایوں کو اس طرح دکھ دے گی۔ وہ اُن سے خائف بھی رہیگی اور سڈوم والوں سے تو ہمسایوں کی عملاً بھی لڑائی رہتی تھی۔ (دیکھو پیدائش باب۱۴ ۔۱۔۲)
اس سبب سے یہ لوگ غیر معروف آدمیوں کو شہر میں آنے نہیں دیتے تھے۔ تاکہ ایسا نہ ہوکہ رات کو شہر کے دروازے کھولدیں اوردشمن سوتے میں آکر حملہ کردیں۔ حضرت لوط ؑ چونکہ سنت انبیأ کے مطابق مہمان نواز تھے وہ مسافروں کو لے آتے کہ باہر رہیں گے تو لوٹے جائیں گے ۔ یہ لوگ اُن کو منع کرتے ۔ جیسا کہ سورۃ حجر کی مذکورہ بالاآیت سے ثابت ہے۔ اس دفعہ جب پھر حضرت لوط ؑ آنے والے رسولوں کو لے آئے تو یہ لوگ ایک طرف تو غصہ سے بھر گئے کہ ہماری ہدایت کے خلاف یہ اجنبیوں کو لے آئے ہیں اور دوسری طرف خوش بھی ہوئے کہ اب لوط ؑ کو پکڑنے کا بہانہ مل جائے گا۔ اور یہ قصہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ جب یہ لوگ دوڑتے ہوئے حضرت لوط ؑ کے پاس پہنچے تو چونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ پہلے بھی مجھے مہمان لانے سے روکتے رہے ہیں۔ اس لئے وہ اس پہلے سلوک کی وجہ سے جو وہ لوگ ان سے کیا کرتے تھے ڈرے کہ کہیں مہمانوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کریں اور ان لوگوں سے کہا کہ میری بیٹیاں یہاں موجود ہیں (ان کی دوبیٹیوں کی اس شہر کے دو آدمیوں سے شادی ہوچکی تھی) وہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہیں یعنی مہمانوں کو رسوا کرکے نکالوگے تو اس میں تمہاری بدنامی ہے ۔ تم کوخوف ہے کہ باہرکے لوگوں سے ملکر میں تم کو نقصان نہ پہنچائوں ۔ تو میری بیٹیاں تمہارے اپنے گھروں میں موجود ہیں تم ان کو سزا دے کر مجھ سے بدلہ لے سکتے ہو۔ اس طرح تمہاری بدنامی بھی نہ ہوگی۔
بعض لوگوں نے تو رات کی اتباع میں اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی باکرہ لڑکیوں کو (یا تو ان کی دو لڑکیاں کنواری ہی تھیں اور یا بیاہی ہوئی ابھی رقصت نہ ہوئی تھیں) ان لوگوں پر پیش کیا کہ ان سے بدکاری کرلو۔ لیکن مہمانوں سے کچھ نہ کہو۔ مگر یہ معنی نبی کی شان کے خلاف ہیں۔وہ سب لوگوں سے زیادہ باعزت ہوتے ہیں ایسا کام ادنیٰ سے ادنیٰ لوگ بھی نہیں کرسکتے۔وہ کیوں کرنے لگے۔ ایسے مقابلے کے وقت میں تو بدکارلوگ بھی کبھی یہ تجویز پیش نہیں کرسکتے ۔ پس یہ غلطی اُن سے تورات کی نقل کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ قرآن کریم میں بدکاری کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا اُنہوں نے صرف شہر والوں کے خوف کو اس طرح دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ جب میرے عیال تمہارے قبضہ میں ہیں تو تمہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میں تمہارا دشمن ہوں۔ اور دوسرے لوگوں سے ملکر تمہارے شہر کو کوئی نقصان پہنچائوں گا اگر یہ بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو اسی پر عمل کرنا تمہاری عزت کے قیام کیلئے اچھا ہوگا اور مہمانوں کو بھی ذلیل کرنے کے عیب سے محفوظ ہو جائوگے۔
بعض مفسرین قرآن یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے نکاح کیلئے لڑکیاں پیش کی تھیں۔ (شیعہ مفسر سید محمد مقبول صاحب نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ ناقل) یہ خیال بھی درست نہیں معلوم ہوتا کیونکہ بائیبل کی رو سے تو ان کی لڑکیاں بیاہی ہوئی تھیں۔ اگر باکرہ لڑکیاں نکاح شدہ لڑکیوں کے علاوہ بھی سمجھی جائیں تب بھی یہ عقل کے خلاف ہے کہ شہر کے لوگ تو ایک خاص قسم کے فحش کیلئے آئے ہوں اور حضرت لوط ؑ یہ کہیں کہ تم میں سے دو آدمی میری لڑکیوں سے بیاہ کرلیں۔
یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت لوط ؑ بیٹیاں ان لوگوں کی بیویوں کو کہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ میری بیٹیاں (یعنی تمہاری بیویاں) جو تمہارے گھروں میں موجود ہیں ان سے تعلق تمہارے لئے بہت پاکیزہ امر ہے۔ اسے چھوڑ کر تم کن بدکاریوں میں مبتلا ہو رہے ہو گویا حضرت لوط ؑچونکہ معمر ہوچکے تھے عام محاورہ کے مطابق ان لوگوں کی بیویوں کو اپنی بیٹیاں قرار دیتے ہیں ‘‘۔
حضرت لوط ؑ نے جو ان لوگوں سے کہا کہ میری بیٹیاں تمہارے قبضہ میں ہیں۔ اگر تم مجھ سے کوئی امر اپنی ملکی مصالح کے خلاف دیکھو تو ان کے ذریعہ سے مجھے تکلیف پہنچا سکتے ہو۔ چونکہ یہ ایک رنگ یرغمال کا تھا اور یرغمال کے متعلق یہ دستور تھا کہ اس میں نرینہ اولاد ہی رکھی جاتی تھی۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ لڑکیاں رکھنے کا کوئی قاعدہ نہیں ہے اور تجھے معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں پس یہ کہنا کہ یرغمال رکھ لو اور مہمانوں کے متعلق مجھے کچھ نہ کہو۔ ایک ایسا مطالبہ ہے کہ جسے ہم تسلیم نہیں کرسکتے۔
جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ نے لڑکیوں کو بدکاری یا نکاح کیلئے پیش کیا تھا۔ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ ضرور ایسا ہی ہوگا تبھی تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ لڑکیوں کے متعلق ہمارا کوئی حق نہیں حالانکہ یہ آیت تو ان کے خلاف ہے ۔ کیونکہ جو قوم بدکاری میں اسقدر بڑھ چکی ہو وہ شہوانی امور کے متعلق حق و ناحق کا سوال کب اُٹھا سکتی ہے ان کا یہ کہنا کہ ہمارا کوئی حق نہیں تو بتاتا ہے کہ یہاں یرغمال کا ہی سوال تھا۔ اورچونکہ ان کے ہاں رواج تھا کہ یرغمال کے طورپر نرینہ اولاد ہی رکھی جاتی تھی وہ اسے خلاف دستور قرار دیتے ہیں۔ اور بے فائدہ سمجھتے ہیں۔ (تفسیر کبیر سورۃ ھود جلد ۳ صفحہ ۲۲۸۔تا ۲۳۰)
قارئین غور کریں کہاں اعتراضات سے پر اور سفلی خیالات سے مملو تفسیر اورکہاں شانِ نبوی کے عین مطابق اور حقائق سے پر تفسیر جس کو عقل بھی قبول کرتی ہے۔ اور فطرت کے بھی عین مطابق ہے۔
قارئین نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی تفسی میں پڑھا ہوگا کہ حضور نے لکھا ہے کہ حضرت لوط ؑ کی پانچ بیٹیاں اس شہر میں بیاہی ہوئی تھیں جبکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے کہ دو بیٹیاں شہر میں شادی شدہ تھیں اس طر ح یہ ایک اختلاف نظر آتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں تاریخی لحاظ سے درست ہیں بعض مؤرخ د و بیان کرتے ہیں اور بعض پانچ بھی۔




















حضرت عیسیٰ علیہ السلام
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر مختلف جگہوں پر موجود ہے انبیأء بنی اسرائیل میں سے جس قدر تفصیلی ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قرآن کریم میں موجود ہے کسی اور نبی کا نہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے لیکر وفات تک کے واقعات موجود ہیں ۔ پھر اگر دُنیائے مذاہب کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی بنی اسرائیل کے وہ نبی ہیں جس پر کثیر تعداد میں کتب لکھی گئی ہیں ۔ یہود کو اگر نکال بھی دیا جائے جوکہ چند ہی ہوں گے تمام عیسائی اور پھر مسلمان علماء نے خوب خوب اس عنوان پر لکھا ہے ۔ مفسرین قرآن جس طرح دیگر واقعات کے بیان کرنے میں اسرائیلی روایات سے الگ نہیں رہ سکے اُسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات میں بھی اسرائیلی روایات خوب داخل کی ہیں بلکہ بعض نے تو آپ کا مرتبہ بڑھانے کی غرض سے عیسائیوں کو بھی پیچھے ڈال دیا ہے۔ آپ ؑ کے تعلق سے تمام تر واقعات کو ایک جگہ رکھ کر اس کا جائزہ لینا ممکن نہیں اس لئے بعض عناوین کے تحت مفسرین کے حوالے پیش کروں گا ۔
پیدائش مسیح کے تعلق سے مفسرین ایک بات پر تو متفق ہیں کہ آپ کی پیدائش قدرت خداوندی سے بغیر باپ کے ہوئی تھی البتہ جو اعتراض غیروں کی طرف سے اس بات پر لگتا ہے اس کا تفصیلی جواب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں دیا ہے۔ اس لئے میں اس بات کو نہیں لوں گا۔
یُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَھْدِوَکَھْلاً
مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں۔
’’وہ لوگوں سے باتیں کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں ‘‘ تفسیر لکھی ہے کہ۔
’’بات کرنے کی عمر سے قبل ‘‘ ۔ کھلاً کی تفسیر کرتے ہیں۔
’’ آسمان سے نزول کے بعد ۔اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین کی طرف اُتریںگے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور دجال کو قتل کریں گے‘‘
(کنزل الایمان فرید بک ڈپو دہلی ۶ صفحہ۸۲)
سورۃ مریم آیت ۳۰ کی تفسیر حاشیہ میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’یہ گفتگو سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگاکر قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور داہنے دست مبارک سے اشارہ کرکے کلام شروع کیا‘‘ (کنز الایمان) اسی طرح سورۃ مائدہ آیت ۱۱۱ کے بھی ایسے ہی معنے اور تفسیر کی ہے۔ بلکہ حاشیہ میں ایک زائد بات یہ لکھی ہے کہ ۔
’’ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے نزول فرمائیں گے کیونکہ کہولت (پختہ عمر) کا وقت آنے سے پہلے آپ اُٹھائے گئے‘‘
(کنز الایمان صفحہ ۱۸۳)
مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی نے ترجمہ کیا ہے کہ ’’اور باتیں کرے گا لوگوں سے بیچ جھولے کے اور ادھیڑ‘‘۔مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے ترجمہ کیا۔
’’ اور آدمیوں سے کلام کریں گے گہوارہ میں اور بڑی عمر میں ‘‘
اس کا حاشیہ اس طرح ہے کہ۔
’’ ہدایت کی باتیں سکھا وے گا لوگوں کو سو وہ باتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ماں کی گود میں کہیں یا نبی ہوکر کہیں‘‘۔
(ترجمہ و تفسیر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی صفحہ ۷۶)
اس کا حاشیہ پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موصوف عیسیٰ علیہ السلام کے ما ں کی گود میں ہی باتیں کرنے کے قائل تھے جیسا کہ دیگر مفسرین بھی اس بات کے قائل تھے اورخود اس ترجمۃ القرآن کے حاشیہ زیر آیت قَالَ اِنّیْ عَبْدُ اللّٰہ (مریم آیت ۳۱ )لکھا ہے کہ ۔
’’ یہاں اُن پر لوگوں کا ہنگامہ ہوا اور طعن و تشنیع شروع ہوئی کہ تیر ے ماں باپ ایسے نہ تھے تو، یہ حرام کار کہاں سے پیدا ہوئی سچ بتا یہ بچہ کس کا ہے مریم نے حضرت مسیح ؑ کی طرف اشارہ کیا کہ خود اسی سے دریافت کرلو لوگوں نے کہا کہ ہم بچہ سے کیونکر بات چیت کرسکتے ہیں اتنے میں حضرت مسیح علیہ السلام گود میں سے آپ بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ……شیر خواری کی حالت میں اپنی ماں کی برائت کیلئے مسیح نے ایک ہی بارکلام کیا تھا پھر نہیں کیا بلکہ پھر اسوقت بولے جب اور لڑکے بولا کرتے ہیں ‘‘ (حاشیہ زیر آیت سورۃ مریم نمبر ۳۱ صفحہ ۴۲۸)
اسی طرح سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۱۱۱ کا ترجمہ محترم شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی نے اس طرح کیاہے کہ ۔
’’ باتیں کرتا تھا تو لوگوں سے بیچ جھولے کے اور ادھیڑ‘‘ اسی طرح مولانا اشر علی صاحب تھانوی نے ترجمہ کیا
’’ تم آدمیوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی ‘‘
اس تفسیر کے حاشیہ میں ہے کہ
’’ باتیں کرتا تھا لوگوں سے بیچ ادھیڑ عمرکے اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جاکر دوبارہ دُنیا میں آویں گے ۔ اور کچھ مدت تک رہیں گے کیونکہ جس وقت وہ اُٹھائے گئے ہیں اس وقت کہولت کو یعنی بڑی عمر کو نہیں پہنچے تھے‘‘
(ترجمہ و تفسیر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی)
بڑی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے تو کھلاً کا ترجمہ بالکل درست کرتے ہیں کہ ادھیڑ عمر لیکن ساتھ ہی حاشیہ آرائی یہ ہے کہ چونکہ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے اس لئے واپس دُنیا میں آکر کھلاً کی عمر کو پہنچیں گے پھر وفات پائیں گے۔ ایک سیدھی اور صاف بات ہے کہ ’’ باتیں کرتا تھا‘‘ اور یہی ترجمہ درست بھی ہے تو پھر یہ کیوں نہ مانا جائے کہ آپ نے بچپن ،جوانی اور ادھیڑ عمری کازمانہ پایا اور باتیں بھی کی تھیں تو تکلّم کا لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا کہ باتیں کرتا تھااگر نزول قرآن کریم کے بعد مسیح نے واپس آکر ادھیڑ عمر کو پہنچنا تھا اور باتیں کرنی تھیں تو پھر یوں ہونا چاہئے تھا کہ گہوارہ میں باتیں کرتاتھا اور بڑھاپے میں باتیں کرے گا مگر ایسا نہیں۔ اگر غور کریں تو خود اس آیت کا ترجمہ ہی جو تمام علماء نے کیا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر ایک دلیل ہے کیونکہ وہ اب باتیں بھی نہیں کرتے ہیں۔ ہاں جب بڑھاپے میں تھے تو باتیں کیا کرتے تھے۔
شیعہ مفسر نے ترجمہ کیا ہے کہ ۔
’’ اور آدمیوں سے وہ بچپن اور بڑھاپے میں (یکساں) باتیں کرے گا‘‘
(صفحہ ۸۷ ترجمۃ القرآن سید مقبول احمد صاحب جلد اوّل)
لیکن سورۃ مریم کی آیت قال انی عبداللہ کا حاشیہ یوں لکھا ہے کہ ۔
’’ کافی میں ہے کہ جناب امام محمد باقر سے دریافت کیا گیا تھا کہ جس وقت عیسیٰ ابن مریم نے گہوارہ میں بات کی آیا وہ اس وقت اہل زمانہ پر خدا کی حجت تھے فرمایا ہاں اس وقت نبی بھی تھے حجب خدا بھی تھے مگر رسول نہیں تھے (حالانکہ نبی اور رسول میں کوئی فرق نہیں ہے نبی کے معنی ہیں خدا سے غیب کی کثرت سے خبریں دینے والا۔ اور رسول کے معنی ہیں خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ناقل)… اس پر کسی نے عرض کی کہ کیا اس وقت اور اُس حالت میں کہ ابھی گہوارہ ہی میں تھے حضرت زکریہ پر بھی حجت ہوگئے تھے ؟ فرمایا جس وقت حضرت عیسیٰ نے بات کی اُس حالت میں وہ حضرت مریم کیلئے تو خدا کی ایک نشانی اور خدا کی رحمت ضرور تھے کہ حضرت مریم نے اُن کے کلام سے عبرت و نصیحت حاصل کی اور جتنے لوگوں نے ان کا کلام سنا اُن سب کیلئے نبی اور حجت خدا تھے۔ پھر خاموش ہوگئے۔ اور دو برس تک کوئی بات نہ کی…… پھر جب حضرت عیسیٰ سات برس کے ہوگئے تو وحی خدا کے موجب نبوت و رسالت کی باتیں کرنے لگے ‘‘۔
ـ(ترجمۃ القرآن مولانا سید مقبول احمد صاحب جلد دوم صفحہ ۴۸۹ سورۃ مریم)
مفسرین کے ذہن میں ایک یہ خیال بھی آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گہوارہ میں یا والدہ کی گود میں دودھ پینے کے دوران بات کی اور پھر آپ نے دو سال تک کوئی بات نہیں کی گویا کہ آپ کا ایک دم چھوٹی حالت میں کلام کرنا جوکہ پیدائش کے معاً بعد خیال کیا گیا ہے ان تفسیروں سے ظاہرہوتاہے۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے سورۃ اٰل عمران کی آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ۔
’’ لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمرکو پہنچ کر بھی ‘‘
(تفہیم القرآن جلد اوّل صفحہ ۲۵۱ مطبوعہ دہلی)
اس طرح سورۃ مریم کی آیت نمبر۳۰ کا ترجمہ کیا ہے کہ
’’ لوگوں نے کہا ’’ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے ؟‘‘
(تفہیم القرآن جلد سوم صفحہ ۴۴ مطبوعہ دہلی)
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۱۱ میں ترجمہ کیا ہے کہ ۔
’’ تو گہوارے میں بھی لوگوں سے باتیں کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی ‘‘
(تفہیم القرآن صفحہ ۵۱۲ جلد اوّل مطبوعہ دہلی)
سورۃ مریم کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ۔
’’ قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے (قارئین آگے بیان ہونے والی تفسیر کو پڑھ کر خود جائزہ لیں کہ معنوی تحریف کس نے کی ہے اور کس کی عقل پر باوجود جان لینے کے بغض و عناد کے پتھر پڑے ہیں ناقل) اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ’’ ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے ۔ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانہ میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کرلے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کیلئے کی گئی ہے اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کرنے کیلئے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت علاوہ بریں سورۃ آلِ عمران کی آیت ۴۶ اور سورہ ٔ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کے حیثیت ہی سے کیا تھا ۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بات کرے گا اور جوان ہوکر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خود حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا اور جوانی میں بھی ‘‘ (تفہیم القرآن جلد سوم صفحہ ۶۶۔۶۷ مطبوعہ دہلی)
مولانا صاحب کا اصل حملہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تفسیرپر ہے خاص طور پر حضرت مصلح موعود ؓ کی تفسیر پر اور ایک واضح بات سے کھسانی بلی کھمبا نوچے والا معاملہ کرتے ہیں جیسا کہ مولانا نے لکھا ہے کہ آیت کے سیاق و سباق پر کچھ غور کرنا چاہئے تھا تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف خود غور کرنا بھول گئے ہیں بات تو یہ ہو رہی تھی کہ
’’ اے مریم یہ تو تو نے بڑا باپ کر ڈالا ۔ اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی ‘‘ (ترجمہ تفہیم)
بجائے اس کے کہ حضرت عیسیٰ اس الزام کا جواب دیتے اورحضرت مریم کی بریت بیان کرتے یہ جواب دیا کہ’’ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے کتاب دی گئی ہے اور مجھے نبی بنایا گیا ‘‘ اب بتائیں کہ اس کا اس سے کیا جوڑ بنتا ہے لیکن بات سچی بیان فرمائی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مفسر صاحب نے قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے کھلاً کا ترجمہ بڑی عمر کیا ہے کہ جو درست ترجمہ ہے جو بڑھاپے کے معنوں میں آیا ہے جیسا کہ دوسرے مترجمین بھی یہی ترجمہ کرچکے ہیں لیکن موصوف چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات آسمانی مع جسم عنصری کے قائل ہیں اس لئے حاشیہ میں تفسیر بیان کرتے وقت بڑی عمر کو جوانی لیا ہے چونکہ ان کے خیال میں مسیح علیہ السلام جوانی میں ہی آسمان پر گئے ہیں قرآن قرآن کریم کی اس بات کی مخالفت کر رہے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بڑی عمر میں بھی کلام کیا تھا جس کا ترجمہ خود ہی موصوف نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر۱۱۱ میں کیا ہے۔ اور تفسیر میں مخالف ہوگئے ہیں۔
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان نے مذکورہ آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ
’’ اور باتیں کرے گا لوگوں سے جب کہ ماں کی گود میں ہوگا اور جبکہ پوری عمر کا ہوگا ‘‘
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر۱۱۱ کا ترجمہ کیا ہے کہ۔
’’ تو کلام کرتا تھا لوگوں سے گودمیں اور بڑی عمر میں ‘‘ ۔
تفسیر میں بھی بالکل وہی مطلب حاصل کیا ہے جو دیگر علماء نے لکھا ہے کہ’’ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک صفت یہ بھی بتلائی ہے کہ وہ بچپن کے گہوارے میں جب کوئی بچہ کلام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس حالت میں بھی کلام کریں گے۔ جیسا دوسری آیت میں مذکور ہے کہ جب لوگوں نے ابتداء ولادت کے بعد حضرت مریم پر تہمت کی بنا پر لعن طعن کیا تو یہ نومولود بچے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بول اُٹھے اِنّی عبد اللہ الخ …… ادھیڑ عمر جس کو عربی میں کہل کہتے ہیں۔ وہ اس دُنیا میں اُن کی ہوئی ہی نہ تھی اس لئے ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام بھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں اس لئے جس طرح ان کا بچپن کا کلام معجزہ تھا اسی طرح ادھیڑ عمرکا کلام بھی معجزہ ہی ہے‘‘۔ (معارف القرآن جلد دوم سورۃ اٰل عمران صفحہ ۶۶۔۶۷)
بالکل یہی تفسیر سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ۱۱۱ کی بھی جلد سوم صفحہ ۲۶۵ میں کی ہے۔
بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جب سورۃ مائدہ میں صاف لکھا ہے کہ تو لوگوں سے چھوٹی عمر میں اور ادھیڑ عمر میں کلام کرتا تھا تو پھر بھی یہ مفسر اس ترجمہ کے جو وہ خود کرتے ہیں تفسیر میں اس کے بالکل برعکس لکھتے ہیں کہ چھوٹی عمر میں کلام کرتا تھا اور ادھیڑ عمر میں کرے گاجبکہ آیت کے ترجمہ میں ہر عالم نے یہی لکھا ہے کہ ادھیڑ عمر میں بھی کرتے تھے تو پھر آئندہ کرنے کی بات کہاں سے آگئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
’’ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یادر چار مہینہ کے بولنے لگے بلکہ اس سے مطلب ہے کہ جب وہ دوچار برس کے ہوئے کیونکہ یہی وقت تو بچوں کا پنگھوڑوں میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کیلئے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر نہیں ہماری لڑکی امۃ الحفیظ بڑی باتیں کرتی ہے‘‘۔ (الحکم جلد ۱۱ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۷؁ء صفحہ ۱۱)
اسی طرح کہل کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ کہل کے لفظ سے درمیانی عمر کا آدمی مراد لیتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں ہے ۔ صحیح بخاری میں دیکھئے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے اُس میں کہل کے معنے جوان مضبوط کے لکھے ہیں اور یہی معنے قاموس اور تفسیر کشاف وغیرہ میں موجود ہیں اور سیاق و سباق آیات کا بھی انہیں معنوں کو چاہتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ کا اس کلام سے مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم نے خورد سالی کے زمانہ میں کلام کرکے اپنے نبی ہونے کا اظہار کیا پھر ایسا ہی جوانی میں بھرکر اور مبعوث ہوکر اپنی نبوت کا اظہار کرے گا۔سو کلام سے مراد وہ خاص کلام ہے جو حضرت مسیح نے ان یہودیوں سے کیا تھا جو یہ الزام ان کی والدہ پر لگاتے تھے اور جمع ہوکر آئے تھے کہ اے مریم تو نے یہ کیا کام کیا۔ پس یہی معنے منشاء کلام الٰہی کے مطابق ہیں اگر ادھیڑ عمر کے زمانے کا کلام مراد ہوتا تو اس صورت میں یہ آیت نعوذ باللہ غلط ٹھہرتی گویا اس کے یہ معنے ہوئے کہ مسیح نے خودر سالی میں کلام کی اور پھر پیرانہ سالی کے قریب پہنچ کر کلام کرے گا اور درمیان کی عمر میں بے زبان رہے گا مطلب تو صرف اتنا تھا کہ دو مرتبہ اپنی نبوت پر گواہی دے گا منصف کیلئے ایک بخاری کا دیکھنا ہی کافی ہے ‘‘۔
(الحق دہلی صفحہ ۳۷ روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۱۷۶)
حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا
’’ اس آیت پر لوگوں نے بے وجہ بحث کی ہے اور اس بے وجہ کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کی طبیعتیں عجوبہ پسند ہیں حالانکہ بات صاف ہے کہ بعض عورتوں کے بچے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں پھر بعض کے بچے گونگے بہرے ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ پیشگوئی میں مریم کو تسلی دیتا ہے کہ وہ گونگا نہیں ہوگا۔ بلکہ کلام کرنے والا ہوگا۔ اس وقت جبکہ بچے بولنا سیکھ لیتے ہیں جیسا کہ بڑا سمجھدار ہوکر کلام کرے گا۔ کھلا کے معنے بخاری میں حلیم کے لکھے ہیں۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ وہ تیری ہی زندگی میں ادھیڑ عمر تک پہنچ جاوے گا‘‘
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷ جون ۱۹۰۹؁ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۴۷۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ مھدا اور کھلاً کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ اگر کہا جائے کہ سورۃ اٰل عمران سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ یکلم الناس فی المھد وکھلا (اٰل عمران ع ۵) یہ بچہ مہدو کہل میں باتیں کرے گا اس لئے انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آل عمران میں جس الہام کا ذکر ہے اُس میں موقع نہیں بتایا گیا کہ کس موقع پر بات کرے گا صرف اتنا کہا گیا ہے کہ بات کرے گا پس سوال یہ ہے کہ اس موقعہ پر انہوں نے کیوں اشارہ کیا ؟ یا تو الہام بتاتا کہ وہ ہمیشہ ہی دودھ پیتے زمانہ میں باتیں کرے گا اور چونکہ وہ پہلے بھی باتیں کیاکرتا تھا اس لئے اس موقعہ پر بھی انہوں نے اس کی طرف اشارہ کردیا مگر اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں کہ اس سے پہلے بھی عیسیٰ بولا کرتے تھے۔ اور بعد میں بھی بولا کرتے تھے اس لئے یہ الہام اس فعل کا متحرک نہیں ہوسکتا ۔ اُن کا مسیح ؑ کی طرف اشارہ کرنا درحقیقت یہود کے اعتراض کا جواب تھا ۔ اُنہوں نے اعتراض یہکیا تھا کہ تو نے ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کیا ہے اور اپنی قوم اور خاندان کو بدنام کیا ہے حضرت مریم نے اس اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کر دیا کہ تم اس سے باتیں کرکے دیکھ لو کیا تمہیں یہ بدکاری کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے اگر تمہارا یہ خیال درست ہے کہ میں نے ایک حرام فعل کا ارتکاب کیا ہے تو پھر بدکاری کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان لڑکا کس طرح پیدا ہوگیا۔ تمہارے اصل کے مطابق تو خود یہ لڑکا تمہارے تمام شبہات اور وساوس کو دور کرنے والا اور میری بریت کو ثابت کرنے والا ہے۔
قالوا کیف نکلم من کان فی المھدصبیاً یہ آیت حضرت مسیح ؑ کے بچپن میں کلام کرنے کے متعلق بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہم اس سے کس طرح کلام کریں جوکہ مہد میں ایک بچہ کی حیثیت رکھتاہے۔
اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ مہد کا لفظ تیاری کے زمانہ کے لئے بھی بولا جاتاہے (قرآن کریم میں آتا ہے کہ ومھدثُ لہ تمھید (مدثرعٰ)یعنی میںنے کافر کو مال دیا روپیہ دیا اور اس کی ترقیات کیلئے بڑے بڑے سامان مہیا کئے پس مہد کا لفظ محاورۃً اس زمانہ کیلئے بھی بولا جاتا ہے جو تیاری کا زمانہ ہو۔ اور تیاری کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتاہے کیونکہ اُس زمانہ میں انسان آئندہ کیلئے اپنے اندر طاقتیں جمع کرتاہے ۔ یہاں بھی جوانی کے زمانہ کیلئے استعارۃً مہد کا لفظ بولا گیا ہے اور قوم کے بڑے لوگ چھوٹی عمر کے نوجوانوں کا ذکر انہی الفاظ میں کیا کرتے ہیں مگر اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ واقعہ میں پنگھوڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ ہم سے بہت چھوٹے ہیں رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو آپ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی۔ بڑھاپا شروع ہوچکا تھا کہ صلححدیبہ کے موقع پر جب کفار مکہ کی طرف سے ایک رئیس آپ سے گفتگو کرنے کیلئے آیا تو وہ بار بار کہتا کہ اے بچے میں تجھے کہتا ہوں کہ میری بات مان لو۔ حالانکہ آپ اس وقت قریباً ساٹھ سال کی عمر کے تھے مگر پھر بھی وہ آپ کو بچہ کہتا تھا کیونکہ خود اسی سال کا تھا ۔ تو قوم کے بڑے لوگوں کا یہ کہہ دینا کہ اس سے ہم کیا گفتگو کریں یہ تو ابھی کل کا بچہ ہے کوئی قابل تعجب بات نہیں۔ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی جب سخت غصہ میں آیا کرتے تو انجمن کے ممبروں سے کہا کرتے تھے کہ تم کل کے بچے دودھ پیتے بچے مرے سامنے بات کرتے ہو۔ اب اگر کوئی اس بات کو سنکر یہ کہنا شروع کردے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چودہ ممبروں پر مشتمل ایک انجمن بنائی تھی جس میں صرف ایک جوان شخص تھا باقی سب دودھ پیتے بچے تھے تو یہ کیسی ہنسی والی بات ہوگی جس طرح مولوی سید محمد احسن صاحب کہتے تھے کہ تم کل کے بچے ہو اسی طرح یہودی کہتے کہ یہ جو ہمارے سامنے پوتڑوں میں کھیلا ہوا ہے کیا ہم اس سے بات کریں یعنی ابھی تو اس کے سیکھنے کے دن ہیں یہ ہمیں کیا بتائے گا ہم اس سے بات کریں گویا ان الفاظ میں وہ اپنے علم و فضل اور اپنی عمر کی بڑائی پر فخر کرتے ہیں۔
دیکھو سورۃ آل عمران میں بتایا گیا ہے کہ یکلم الناس فی المھد وکھلا (ع۵) مسیح مہد اور کھل میں کلام کرے گا۔اس سے مسلمان یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ ایک پیشگوئی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ مسیح بچپن میں کلام کریگا اور مہد سے مراد حقیقی مہد ہے لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ کیونکہ سورۃ آل عمران میں مہد کے ساتھ کہل بھی لگایا گیا ہے اگر مہد میں بولنامعجزہ ہے تو سوال یہ ہے کہ کہا کہولت میں بولنا بھی معجزہ ہوتاہے کیا ۳۳ سے پچاس سال تک کی عمر میں جو کہولت کا زمانہ ہوتاہے لوگ بولا کرتے ہیں یا تینتیس سے پچاس سال تک کی عمر والا اگر بولے تو اُسے بڑا معجزہ سمجھا جاتا ہے؟ جب مہد کے ساتھ کہل کا لفظ بھی لگایا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہاں کسی عمر میں بولنے کا معجزہ مراد نہیں بلکہ بولنے کی نوعیت مراد ہے اگر کسی عمر میں بولنا مراد ہوتا تو ساتھ کہل کا لفظ کیوں ہوتا ۔ اگر کہل میں بولنا معجزہ ہوتا ہے تو پھر مہد سے مراد بھی دودھ پیتے بچے کا کلام کرنا مراد ہو سکتا ہے او اگر کہولت کا کلام عام بات ہے تو مہد کا زمانہ بھی وہی زمانہ لیا جائے گا جس میں عام بچے بولتے ہیں ۔ اس پر سوال ہوسکتا ہے کہ پھر پیشگوئی کیوں کی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مہد کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنے کی وہی ضرورت ہے جو کہولت کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنے کی ہے۔ آخر کہولت کی عمروالے باتیں کیا کرتے ہیں یا نہیں جب کیا کرتے ہیں تو پیشگوئی کیوں کی ؟ بہرحال کوئی نہ کوئی غرض ہے اور ہمیں وہ غرض تلاش کرنی چاہئے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ کلام اپنی ذات میں بھی معجزہ ہوتا ہے قطع نظر عمر کے …… پس خدا ہی یہ بتا سکتا تھا کہ مسیح ایسا کلام کریگا جو معجزہ ہوگا۔ یہ معجزہ دو مہینے کے بچہ کے کلام کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اس کلام کی ذاتی خوبیوں اور حسن کی وجہ سے ہے۔ پس مہد کے معنے بچپن کے کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر وہ جوانی میں بھی ایسی باتیں کرتے تھے جو عام آدمی نہیں کرسکتے تھے تو معجزہ تھا جس طرح رسول کریم ﷺ چالیس سال کی عمر میں بولے مگر اُن کا کلام پھر بھی معجزہ تھا اور ایسا معجزہ کہ مسیح کو اس کا ہزارواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوا پس محمد رسول اللہ ﷺ او ر موسیٰ وغیرہ کا کلام جس طرح بڑی عمر میں معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ ہی اس کے متعلق پہلے سے بتا سکتا تھا اسی طرح مسیح کے متعلق تھا ۔ پس پیشگوئی کی ضرورت مہد میں کلام کرنے کیلئے نہ تھی کیونکہ اس کے ساتھ کہل بھی لگا ہوا ہے پیشگوئی کی ضرورت معجزانہ کلام کی وجہ سے تھی اور اس وجہ سے مہد کے ساتھ کہل لگایا گیا ہے کیونکہ کلام خاص جس طرح جوانی میں معجزانہ ہوتا ہے اسی طرح کہولت اور بڑھاپے میں بھی معجزانہ ہوتا ہے‘‘
(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۱۹۵ تا ۱۹۷)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر کے پڑھنے کے بعد اب مولانا مودودی صاحب کی اس بات پر غور کریں جو انہو ں نے مہد کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تفہیم میں لکھی ہے کہ ۔
’’ قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ’’ ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے ‘‘۔
اور پھر غور کریں کہ معنوی تحریف کس نے کی ہے اور کس نے محض حیرت انگیز معجزہ دیکھنے اور بیان کرنے کی خاطر ایک سیدھے اور عام فہم مسئلہ کو الجھاکر رکھ دیا ہے جوکہ عقل کے بھی خلاف اور قانون قدرت کے بھی خلاف اورغیروں کے نزدیک کھلیِ ّاُڑانے کا باعث بھی ہے۔
مسیح علیہ السلام کا پرندے بنانا۔ مادر زاد اندھوں کو اور برص والوں کو اچھا کرنا۔ مردوں کو زندہ کرنا
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بہت سے معجزات منسوب کئے جاتے ہیں جیسے مٹی کے پرندے بناکر اُن میں پھونک مار کر ان کو اڑنے والا بنا دینا۔ اسی طرح مادرزاد اندھوں کو اور کوڑھیوں نیز سفید داغ والوں کو ہاتھ لگاکر اچھا کردینا اور برسوں کے مردوں کو زندہ کردینا۔ ان تمام باتوں کا انحصار قرآن کریم کی سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۵۰ پر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کا غلط ترجمہ اور تفسیر کرنے کی بناء پر خود مسلمانوں نے عیسائیوں کو اپنے پرغالب کرلیا اور ’’حقائق قرآن‘‘ جیسے معمولی سے ٹریکٹ کا جواب دینے کے قابل بھی نہ رہے۔ قرآن کریم کی اسی آیت کے حوالہ سے مسلمانوں پر عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کو آنحضرت ﷺ کے مقابل پر بیان کیا ہے اسی طرح بعض دیگر غلط عقائد بھی مسلمانوں کی لاجوابی کا باعث ہوئے۔
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۵۰ کا ترجمہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے اس طرح کیا ہے کہ ۔
’’ اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو و ہ فوراً پرند ہو جاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو‘‘۔
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ ۔
’’ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اُڑنے لگی چمگادڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اُڑنے والے جانوروں میں بہت اکمل اور عجیب تر ہے او رقدرت پر دلالت کرنے میں اوروں سے ابلغ کیونکہ وہ بغیر پروں کی اڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اور بچہ جنتی ہے باوجود یکہ اڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں ‘‘۔
پھر لکھا ہے
’’ جس کا برص عام ہوگیا لیوا اور اطباء اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب انتہائے عروج پر تھی او راس کے ماہرین امیر علاج میں یدطولیٰ رکھتے تھے اس لئے اُن کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہوکہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کر دینا یقینا معجزہ اور نبی کے صدق نبوت کی دلیل ہے ۔ وھب کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہو جاتا تھا ۔ اُن میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت تشریف لے جاتے اور دُعا فرماکر اُس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے‘‘
آگے لکھتے ہیں ۔
’’ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ایک عازر جس کو آپ کے ساتھ اخلاص تھا جب اُس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ کو اطلاع دی مگر وہ آپ سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا جب آپ تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے ۔ آپ نے اس کی بہن سے فرمایا ہمیں اس کی قبر پر لے چل وہ لے گئے ۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا فرمائی عازر باذن الٰہی زندہ ہوکر قبر سے باہرآیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے اولاد ہوئی ایک بڑھیا کا لڑکا جس کا جنازہ حضرت کے سامنے جارہا تھا آپ نے اس کیلئے دُعا فرمائی وہ زندہ ہوکر نعش برداروں کے کندھوں سے اتر پڑا کپڑا پہنے گھر آیا زندہ رہا اولاد ہوئی ۔ ایک عاشر کی لڑکی شام کو مری اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دُعا سے اس کو زندہ کیا ایک سام ابن نوح جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے لوگوں نے خواہش کی کہ آپ اُن کو زندہ کریں آپ ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کی سام نے سنا کوئی کہنے والاکہتا ہے اجب روح اللہ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُنہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی اس ھول سے اُن کا نصف سر سفید ہوگیا۔ پھر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سکرات موت کی تکلیف نہ ہو بغیر اس کے واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا‘‘۔
اسی طرح آگے لکھا ہے کہ۔
’’ جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے تو آپ نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کررکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیب کے علوم انبیأء کا معجزہ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دست مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ آدمی کو بتا دیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کیلئے تیار کر رکھا آپ کے پاس بچے بہت سے جمع ہوجاتے تھے آپ انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے فلاں چیز تمہارے لئے اُٹھا رکھی ہے بچے گھر جاتے روتے گھر والوں سے وہ چیز مانگتے گھر والے وہ چیز دیتے اور کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا بچے کہتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے روکا اور کہا وہ جادوگر ہیں۔ اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کوجمع کردیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا وہ یہاں نہیں ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے انہوں نے کہا سورہے ہیں فرمایا ایسا ہی ہوگا اب جو دروازہ کھولتے ہیں تو سب سورہی سور تھے‘‘
(کنز الایمان ترجمہ و تفسیر مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی شائع کردہ فرید بک ڈپو دہلی حاشیہ صفحہ۸۲۔۸۳)
بڑے ہی عجیب و غریب قصے درج کئے ہیں اس تفسیر میں جتنی بھی باتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب بائیبل سے یا پھر اسرائیلی روایات سے لی گئی ہیں ان باتوں کا قرآن کریم کی آیت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جس کو عیسائی لیکر مسلمانوں پر وار کرتے ہیں اور بڑے بڑے علماء کو لاجواب کر دیتے ہیں ۔’’ حقائق قرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ ۔
’’ مسیح کا مردوں کو زندہ کرنااصل اسلام نے ارروئے قرآن تسلیم کیا ہے اور احیائے موتیٰ بشری طاقت سے بالاتر اور فقط الوھیت سے مخصوص ہے چنانچہ قرآن کہتا ہے ھو الذی یحیی ویمیت(سورۃ المومنون رکوع ۵) یعنی وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے خدا کسی کو اپنی صفاتِ مخصوصہ میں شریک نہیں کرتا جیسا کہ لا یشرک فی حکمہ احداً (سورۃ الکہف رکوع ۴) سے صاف ظاہر ہے پس خاصہ الوھیت میں سوائے مسیح کوئی دوسرا بشر شریک نہیں۔ کیا محمد صاحب نے کبھی کوئی مردہ زندہ کیا؟ کیا ان حقائق سے اظہر من الشمس نہیں کہ مسیح محمد صاحب سے افضل ہے؟‘‘
(حقائق قرآن شائع کردہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی انارکلی لاہور بار ششم ۱۹۲۸؁ء صفحہ ۵)
قارئین غور کریں مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اسلام کی بات کرتے ہیں یا پھر عیسائیت کی اور مولانا صاحب اور اُن کے پیروکار ’’حقائق قرآن‘‘ کے اس سوال کا کیا جواب دیں گے جبکہ یہ خود مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے حقیقی مردے زندہ کئے تھے۔
مولانا محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان زیر بحث آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔
’’ میں تم لوگوں کے پاس اپنی نبوت پر کافی دلیل لیکر آیا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو (یقین لانے کے) لئے گارے سے ایسی شکل بناتا ہوں جیسی پرندہ کی شکل ہوتی ہے پھر اس (مصنوعی شکل) کے اندر پھونک مار دیتا ہوں جس سے وہ (سیح مچ کا جاندار) پرندہ بن جاتا ہے خدا کے حکم سے (ایک معجزہ تو یہ ہوا) اور میں اچھا کر دیتا ہوں مادرزاد اندھے کو اور برص کے بیمار کو اور زندہ کر دیتا ہوں مردوں کو خدا کے حکم سے (یہ دوسرا تیسرا معجزہ ہوا) اور میں تم کو بتا دیتا ہوں جو کچھ اپنے گھروں میں (کھا کرآتے ہو اور جو (گھروں میں) رکھ آتے ہو (یہ چوتھا معجزہ ہوا) ‘‘
(معارف القرآن جلد دوم سورۃ آل عمران صفحہ ۶۹)
مولانا نے بھی وہی تفسیر اختصار سے بیان کی ہے جس کو مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے بیان کیا ہے۔ مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی اور مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے بھی ترجمہ کرتے وقت دیگر مترجمین کی ہی تقلید کی ہے البۃ پرندوں کے پیدا کرنے کے تعلق سے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ۔
’’ اذن کی قید سے ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو وہ ہرگز یہ چیزیں نہ بنا سکتے خالق اللہ ہی تھا مگر اس خلق کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر جاری کیا تسویہ ونفخ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھا، خلق اللہ کی طرف سے ‘‘۔
(ترجمۃ القرآن مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سورۃ اٰل عمران حاشیہ صفحہ ۷۶)
شیعہ مفسر نے وہی کچھ بیان کیا ہے جو مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اپنی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں بلکہ اُن سے بھی کچھ آگے نکل گئے ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں۔
’’ اِنِیّ اَخْلُقُ لَکُمْ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کا خود مظہر ہوکر ثبوت دیا۔ چونکہ خدا ایسی چیز نہیں ہے کہ بندے اس کو دیکھ سکیں یا اُس سے بات کرسکیں اس لئے اُس نے اپنے خاص بندے ایسے بھیجے کہ وہ اُس کی صفات کے مظہر بنکر اُس کی ہر صفت کا ثبوت دیں اور وہ صفات ذات پر دلالت کریں‘‘۔
(گویا خلق کرنے کی صفت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پرندے بنانے سے ظاہرکی)
اسی طرح آگے لکھا ہے کہ ’’ تفسیر قمی میں جناب امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ کہا کہ میں خدا کا رسول ہوں اور تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں تو میں مٹی سے پرندے کی سی صورت پیدا کروں گا۔ پھر اس میںپھونک ماروں گا اور وہ حکم خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں مادرزاد اندھوں کو اور کوڑھیوں کو تندرست کروں گا ’…… نیز اس تفسیر میں منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ کے اصحاب نے یہ عرض کی کہ ہمیں ایک مردہ زندہ کرکے دکھلائیں حضرت اُن کو سام ابن نوح ؑ کی قبر پر لے گئے اور کچھ فرمایا تو وہ قبر حرکت میں آئی پھر کچھ فرمایا تو وہ قبر شق ہوگئی پھر کچھ فرمایا تو سام ابن نوح ؑ نکل آئے ‘‘۔
(ترجمہ و تفسیر مولانا سید مقبول احمد صاحب سورۃ آل عمران جلد ۱ صفحہ ۸۸ حاشیہ)
آگے بھی تفسیر پیش کی ہے جو کہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی تفسیر سے ملتی جلتی ہے اس لئے میں اس کو چھوڑتا ہوں مولانا ابوا لاعلیٰ مودودی صاحب نے زیر بحث آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے جس طرح دیگر مترجمین نے تراجم کئے ہیں لیکن اس آیت کے تحت کوئی تفسیر تفہیم میں بیان نہیں کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر بہت سی جگہو ں پر مختلف پیرایہ میں بیان فرمائی ہے ان تمام باتوں کا لکھنا تو ممکن نہیں البتہ جہاں ان سب باتوں کا خلاصہ آیا ہے وہاں سے ایک حوالہ درج کرتا ہوں۔ حضور ؑ فرماتے ہیں۔
’’ ہمارے کم توجہ علماء کی یہ غلطی ہے کہ اُن (مسیح علیہ السلام ) کی نسبت یہ گمان کرتے ہیں کہ گویا وہ بھی خالق العٰلمین کی طرح کسی جانور کا قالب تیار کرکے پھر اُس میں پھونک مارتے تھے اور وہ زندہ ہوکر اڑ جاتا اور مردہ پرہاتھ رکھتے تھے او وہ زندہ ہوکر چلنے پھرنے لگتا تھا اور غیب دانی کی بھی اُن میں طاقت تھی اور اب تک مرے بھی نہیں مع جسم آسمان پر موجود ہیں۔ اور اگر یہ باتیں جو ان کی طرف نسبت دی گئی ہیں صحیح ہوں تو پھر اُن کے خالق العالم اور عالم الغیب اور محی اموات ہونے میں کیا شک رہا پس اگر اس صورت میں کوئی عیسائی ان کی الوہیت پر استدلال کرنے اس بنا پر کہ لوازم شے کا پایا جانا وجود شے کو مستلزم ہے تو ہمارے بھائی مسلمانوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے اگر کہیں کہ دُعا سے ایسے معجزات ظہور میں آتے تھے تو یہ کلام الٰہی پر زیادت ہے کیونکہ قرآن کریم سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مثلاً پھونک مارنے سے وہ چیز جو ہیئت طیر کی طرح بنائی جاتی تھی لڑنے لگتی تھی۔ دُعا کا تو قرآن کریم میں کہیں بھی ذکر نہیں اور نہ ہی یہ ذکر ہے کہ اُس ہیئت طیر میں درحقیقت جان پڑ جاتی تھی۔ یہ تو نہیں چاہئے کہ اپنی طرف سے کلام الٰہی پر کچھ زیادت کریں یہی تو تحریف ہے جس کی وجہ سے یہودیوں پر *** ہوئی۔ پھر جس حالت میں جان پڑنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ معالم التنزیل اور بہت سی اور تفسیروں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہیئت پر تھوڑی دیر اُڑکر پھر مٹی کی طرح زمین پر گر پڑتی تھی تو بجز اُس کے اور کیا سمجھا جائے کہ وہ دراصل مٹی کی مٹی ہی تھی اور جس طرح مٹی کے کھلونے انسانی کلوں سے چلتے پھرتے ہیں وہ ایک نبی کی روح کی سرایت سے پرواز کرتے تھے ورنہ حقیقی خالقیت کے ماننے سے عظیم الشان فساد اور شرک لازم آتا ہے ۔ غرض تو معجزہ سے ہے اور بیجان کا باوجود بیجان ہونے کے پرواز پر بڑا معجزہ ہے ہاں اگر قرآن کریم کی کسی قرأت میں اس موقعہ پر فَیَکُوْنُ حَیَّا کا لفظ موجود ہے یا تاریخی طور پر ثابت ہے کہ درحقیقت وہ زندہ ہو جاتے تھے اور انڈے بھی دیتے تھے اور اب تک اُن کی نسل (سے) بھی بہت سے پرندے موجود ہیں تو پھر ان کا ثبوت دینا چاہئے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اگر تمام دنیا چاہے کہ ایک مکھی بنا سکے تو نہیں بن سکتی کیونکہ اس سے تشابہ فی خلق اللہ لازم آتا ہے اور یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے آپ ان کو خالق ہونے کا اذن دے رکھا تھا یہ خدا تعالیٰ پر افتراء ہے کلام الٰہی میں تناقص نہیں خدا تعالیٰ کسی کو ایسے اذن نہیں دیا کرتا ۔ اللہ تعالیٰ نے سید الرسل ﷺ کو ایک مکھی بنانے کا بھی اذن نہ دیا پھر مریم کے بیٹے کو یہ اذن کیونکر حاصل ہوا خدا تعالیٰ سے ڈرو اور مجاز کو حقیقت پر حمل نہ کرو‘‘۔
(شہادت القرآن روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۷۳۔۳۷۴ حاشیہ )
اکمہ کے تعلق سے فرمایا۔
’’ حضرت عیسیٰ کے معجزے تو ایسے ہیں کہ اس زمانے میں وہ بالکل معمولی سمجھے جاسکتے ہیں ۔ اکمہ سے مراد شب کو رہے۔ اب ایسا بیمار معمولی کلیجی سے بھی اچھا ہوسکتا ہے‘‘۔
(بدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ ۷ فروری ۱۹۰۷؁ء صفحہ ۴)
اس طرح احیاء موتیٰ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ رہا حضرت عیسیٰ کا احیاء موتیٰ اس میں روحانی احیاء موتیٰ کے تو ہم بھی قائل ہیں اور ہم مانتے ہیں کہ روحانی طور پر مردے زندہ ہوا کرتے ہیں اور اگر یہ کہہ کر کہ ایک شخص مرگیا اور پھر زندہ ہوگیا یہ قرآن شریف یا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور ایسا ماننے سے پھر قرآن شریف اور احادیث نبوی گویا ساری شریعت اسلام ہی کو ناقص ماننا پڑے گا کیونکہ رد الموتیٰ کے متعلق مسائل نہ قرآن شریف میں ہیں نہ حدیث نے کہیں ان کی صراحت کی ہے اور نہ فقہ میں کوئی بات اس کے متعلق ہے غرض کسی نے بھی اس کی تشریح نہیں کی۔ اس طرح پر یہ مسئلہ بھی صاف ہے‘‘۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰ اپریل ۱۹۰۳؁ء صفحہ ۸)
نیز فرمایا۔
’’ اگر مسیح واقعی مردوں کو زندہ کرتے تھے تو کیوں پھونک مارکر ایلیا کو زندہ نہ کردیا تا یہود ابتلاء سے بچ جاتے اور خود مسیح کو بھی ان تکالیف اور مشکلات کا سامنا نہ ہوتا جو ایلیا کی تاویل سے پیش آئیں‘‘۔ (الحکم جلد ۶ نمبر۳ مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۲؁ء صفحہ ۳)
حکیم الامت حضرت مولانا نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ۔
’’ قرآن مجید میں طین کا دو جگہ ذکر ہے ایک جگہ شیطان کا قول خلقتنی من نار و خلقتہ من طین (الاعراف :۱۳)
تراب وماء کے ملنے کو کہتے ہیں (تراب ۔مٹی جس میں پانی ملا ہوا نہ ہو ۔ ناقل) طین کیچڑ جو ہوتا ہے اس میں خاصیت ہے کہ جس رنگ میں چاہیں ڈھال لیں مگر آگ نہیں ڈھل سکتی۔ یہاں مسیح ؑ فرماتے ہیں کہ میں تجویز کر سکتا ہوں مگر اس کیلئے جو طین ہو یعنی کوئی شخص میری تعلیم کو تسلیم کرے اور اپنے میں طین کی صفات رکھے تا جس رنگ میں چاہیں ڈھال سکیں۔ تو وہ یکون طیرا جناب الٰہی میں اُڑنے والا ہو جاوے گا۔ طیر کا لفظ مومن کیلئے حدیث میں آیا ہے۔ فانفخ فیہ : میں اس میں کلام کی ایسی روح پھونکوں گا کہ وہ مادہ پرستی سے نکل کر بلند پرواز انسان ہو جائے گا ‘‘ ۔ (ضمیمہ اخبار بدر ۱۷؍ جون ۱۹۰۹؁ء)
نیز ایک جگہ فرماتے ہیں کہ۔
’’ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میری فرمانبرداری کرو اور ایسے تیار ہو جائو جیسے کیچڑ کہ اُسے جس طرز میں چاہو کسی شکل میں لایا جاسکتا ہے ۔ پھر میں اللہ کے فضل سے کلام الٰہی کے ساتھ تمہاری تربیت کروں گا او رجب تمہارا عمل درآمد اس کے مطابق ہوگا تو تم بلند پرواز انسان بن جائوگے اور روحانیت کے اُوپر پرندے بن کر اڑوگے…… تمام مذہبوں میں یہ خیال ہے کہ اندھا جذامی انسان ہے اپنے پچھلے جنم کے افعال و اعمال میں گرفتار ہے حضرت عیسیٰ ؑ نے بحکم الٰہی فرمایا کہ میں ان اندھوں کو بری ٹھہراتا ہوں۔ اور قوم میں جو ان کے متعلق پابندیاں تھیں ان کے ساتھ وہ تعلقات قائم نہ کرتے جو دوسرے بھائیوں کے ساتھ تھے وغیرہ ذالک ان کو اُٹھا دیا۔
ابرصن : تاج العروس صفحہ ۳۷۳ فصل الباء من الصاد میں لکھا ہے کہ وھو بیاض یظھرفی ظاھر البدن یعنی پھلیہری ۔ اور تاج العروس صفحہ ۴۰۹ فصل الکاف من باب الھاء میں لکھا ہے کہ (اکمہ) صاراعشی وھو الذی یبصر بالنھار ولا یبصر باللیل وبہ فسرالبخاری یعنی شب کور (جس سے ظاہر ہے کہ مسیح ؑ ابن مریم ؑ برص اور شب کوری کے مریضوں کو اپنے دم و دوا سے اچھا کرتے تھے جو امتِ محمدیہ کے افراد بھی کرتے ہیں) اچھا کرتے ہوں مگر وہ اندھے اور جذامی کیسے ہوں گے اس پر غور کرنے کیلئے قرآن مجید کی دوسری آیتوں کو دیکھنا چاہئے جس سے صاف کھلنا ہے کہ پیغمبر جن اندھوں اور جذامیوں کو اچھا کرتے ہیں وہ روحانی اندھے ہوتے ہیں۔ مثلاً ومن کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمیٰ واضل سبیلاً (بنی اسرائیل :۷۳) جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا یہاں متفق طور پر اعمیٰ سے مراد روحانی اندھے ہیں ۔ ایسا ہی پہلے پارہ میں صم بکم عمی فھم لا یرجعون سے ظاہر ہے کہ پیغمبروں کو جن بہروں ، گونگوں اور اندھوں سے سابقہ پڑتا ہے وہ روحانی ہوتے ہیں۔ ایک اور آیت ہے اَفمن یعلم انما انزل الیک من ربک الحق کمن ھو اعمیٰ (الرعد: ۲۰) کیا وہ جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف اُتارا گیا تیرے رب سے حق ہے برابر ہے اس کے جو اندھا ہے یعنی کلام اللہ کا منکر۔ پس اس آیت میں یہ فرمایا کہ حضرت مسیح ؑنے کہا میں اپنی تربیت سے ان اندھوں کو راہِ حق دکھاتا ہوں اور ان کے روحانی جذام کو درست کرتا ہوں۔واحی الموتی باذنِ اللہِ: احیاء موتیٰ کا مسئلہ بہت صاف تھا مگر بعض نے اس میں خواہ مخواہ دِقت پیدا کرلی اللہ نے اِن آیات میں بتا دیا ہے کہ طبعی موت سے مرے ہوئے حقیقی مردے کا رجوع دُنیا میں پھر ہرگز نہیں ہوتا اور اللہ کی یہ سنت نہیں کہ ایسے مرُدے کو اسی دُنیا میں زندہ کرے اور زندہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے ۔ انہ یحی الموتی (الحج:۷) اور فرمایا قل اللہ یحییکم ثم یمیتکم (الجاشیہ :۲۷) کہہ دے اللہ ہی زندہ کرے گا تم کو پھر تمہیں موت دے گا۔ اور حضرت ابراہیم ؑ اقرار کرتے ہیں ربی الذی یحی ویمیت (البقرۃ :۲۵۹) جس سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ احیاء صرف اللہ کا خاصہ ہے …… ایک احیاء پیغمبروں کا جیسا کہ فرمایا استجیبوا للہ وللر سول اذا دعاکم لما یحییکم (الانفاق: ۲۵) اللہ اور اس کے رسول کی مان لو جب وہ تمہیں زندہ کرنے کیلئے بلائے مسیح علیہ السلام چونکہ رسول تھے اس لئے اُن کا احیاء سے مراد پیغمبروں والا احیاء ہی لیا جائے گا۔ اومن کان میتافاحیینٰہُ وجعلنا لہ نوراً یمشی بہ فی الناس (الانعام: ۱۲۳) آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام الٰہی میں مردہ سے کیا مراد ہوتی ہے اور اس کی زندگی سے کیا مقصود ہے۔ یعنی جو شخص دین سے غافل ہو جس میں روحانی زندگی نہ ہو اُسے کلام الٰہی کی اصطلاح میں مردہ کہیں گے۔ جب وہ دین سے باخبر ہو اور اسی میں روحانیت آجائے تو وہ زندہ کہلائے گا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ روحانی مردوں کو زندہ کرتے تھے۔
وانبئکم بماتاکلون وما تدّخرون : اس کے معنے کرنے کیلئے بھی یہ دیکھ لینا چاہئے کہ نبی لوگوں کے کھانے پینے اور رکھنے کی چیزوں کے متعلق متنبہ کرتے ہیں یا وہ نجومیوں کی طرح یہ بتایا کرتے ہیں کہ تمہارے گھر میں یہ ہے تم یہ کھاکر آئے ہو یا وہ کھانے پینے کی چیزوں او رمال کے متعلق جائز و ناجائز کا حکم دیا کرتے ہیں۔ جب آخری بات ثابت ہے جیسا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی اُمت کو فرمایا مردار نہ کھائو دم، مسفوح نہ کھائو، خنزیر نہ کھائو ، مآاحل بہ لِغیر اللہ نہ کھائو ۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ ؑ نے حکم الٰہی کو واضح کیا کہ یہ چیزیں کھانے کی ہیں یہ نہ کھانے کی۔ اتنا مال جمع کرنے کی اجازت سے اتنا اس میں سے خدا کے نام دینا چاہئے ولا حل لکم بعض الذی حرم علیکم کے معنی بھی اسی تو ضیح سے کھل گئے۔یہودی اپنی بدعملیوں کی وجہ سے بعض چیزوں سے بعض نعمتوں سے محروم ہوگئے تھے فرمایا تم میری فرمانبرداری کرو وہ نعمتیں پھر اللہ تمہیں میسر کردے گا‘‘
(تشہیذ الاذہان جلد ۷ نمبر ۹ صفحہ ۴۱۶ تا ۴۲۱ بحوالہ حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۴۷۹ تا ۴۸۱)
قارئین! دیگر مفسرین کی تفاسیر کو پڑھیں اور پھر حکیم الامت رضی اللہ عنہ کی تفسیر پر غور کریں تو بڑی آسانی سے روحانیت سے پر تفسیر کو شناخت کرسکتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تخلق من الطین کھیئۃ الطیر کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ۔
’’ مفسرین کہتے ہیں اس آیت سے ثابت ہے کہ مسیح ؑ خدا تعالیٰ کی طرح پرندے پیدا کرتے تھے حالانکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ تو پرندوں کی طرح پیدا کرتا ہے اور پرندے مٹی کے جانور بناکر ان میں پھونک مارکر اُن کو زندہ نہیں کیا کرتے۔ بلکہ انڈے دیکر اُن پر بیٹھتے ہیں اور گرم کرکے اس میں سے بچے نکالتے ہیں ۔ اسی طرح مسیح ؑ کرتا تھا کہ طینی صفت لوگوں کو چن کر ان کی تربیت کرتا تھا اور اپنے کلام سے اُن کو گرمی پہنچاتا تھا یہاں تک کہ وہ بے جان انسان روحانی انسان بن جاتے تھے اور سب نبی ہی ایسا کرتے ہیں مسیح کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں ‘‘۔
(تفسیر صغیر سورۃ المائدہ آیت ۱۱۱ حاشیہ صفحہ ۱۶۰۔۱۶۱)
اکمہ والا برص کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ۔
’’ یہود کو حکم تھا کہ اندھوں اور مبروص کو ناپاک سمجھیں (احبار باب ۱۳ وباب ۲۱) مسیح ؑ سے اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کا ازالہ کروایا ۔ اسی کو اس جگہ بیان کیا گیا ہے ۔ لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ مادر زاد اندھوں اور مبروص کو وہ اچھا کرتے تھے ۔ حالانکہ مادر زاد کے الفاظ قرآن میں نہیں۔ اور موتیا بند کے مریضوں او رمبروصوں کو عام طور پر ڈاکٹر اور حکیم اچھا کرتے رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے مسیح ؑ کے متعلق جو آیتیں آتی ہیں مسلمان ان کے وہ معنے کرتے ہیں جن سے مسیح ؑ کی خدائی ثابت ہو‘‘۔ (تفسیر صغیر سورۃ اٰل عمران آیت ۵۰ حاشیہ صفحہ ۸۶)
احیاء موتیٰ کے تعلق سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے وہی تفسیر بیان فرمائی ہے جس کی تفصیل حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے آخر پر آپ نے فرمایا۔
’’ یہاں مفسرین یہ معنے کردیتے ہیں کہ روحانی تربیت کیلئے بلائیں تو خدا اور رسول کی بات کاجواب دیا کرو لیکن جب مسیح ؑ کی نسبت یہی احیاء کا لفظ آتا ہے تو اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ وہ سچ مچ کے مردے زندہ کرتے تھے اور اس طرح اس کو خدا قرار دیتے ہیں اور عیسائیوں کی مدد کرتے ہیں ۔ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘
(تفسیر صغیر المائدہ آیت ۱۱۱ حاشیہ صفحہ ۱۶۱)












آسمانی مائدہ
خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے مطالبہ پر ایک مائدہ نازل کرنے کی بات کی ہے اسی مائدہ کی وجہ سے اس سورۃ کانام ہی المائدہ رکھا گیا ہے۔ مفسرین نے اس مائدہ والے واقعہ کی بھی بڑی بڑی عجیب و غریب تفسیر یں پیش کی ہیں اوروہ واقعہ کس وجوہ کی بنا پر ہوا کیسے ہوا جن باتوں کا ذکر قرآن کریم میں نام کو بھی نہیں ہے وہ وہ باتیں مفسرین نے اپنی تفسیروں میں درج کردی ہیں۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
اذقال الحوار یون یعیسیٰ ابن مریم ھل تستطیع ربک ان ینزل علینا مآئدۃ من السماء قال اتقواللہ ان کنتم مؤمنین قالو نرید ان ناکل منھا وکتطمئن قلوبنا ونعلم ان قدصدقتنا ونکون علیھا من الشھدین۔
قال عیسیٰ ابن مریم اللھم ربنا انزل علینا مائدۃ من السمآء تکو نُ لنا عیداً لاولنا واخرنا وایۃ منک ج وار زقنا وانت خیر الرزقین۔
قال اللہ انی منزلھا علیکم فمن یکفربعد منکم فانی اعذبہ عذاباً لا اعذبہ احدا من العلمین۔ (المائدہ رکوع ۱۵)
اس کا ترجمہ تفسیر صغیر میں اس طرح ہے کہ ۔
اور (اس وقت کو بھی یاد کرو) جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تیرے ربّ میں طاقت ہے کہ ہمارے لئے آسمان سے (کھانوں سے بھرا ہوا) ایک خوان اتارے (اس پر) مسیح نے کہا اگر تم (سچے) مومن ہو تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔
انہوں نے (یعنی حواریوں نے) کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس (مائدہ) میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہو جائیں (کہ ہمارا خدا قادر ہے) اور ہمیں یقین ہو جائے کہ تو نے ہم سے سچ بولا ہے۔ اور ہم اس کے بارے میں گواہی دینے کے قابل ہو جائیں۔
(اس پر) عیسیٰ ابن مریم نے کہا ، اے اللہ ، ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے (کھانوں سے بھرا ہوا) طشت اتار جو ہم (مسیحیوں ) میں سے پہلے حصہ کیلئے بھی عید (کا موجب) ہو اور آخری حصہ کیلئے بھی عید کا (موجب) ہو اور تیری طرف سے ایک نشان (ہو) اور تو (اپنے پاس سے) ہم کو رزق دے اور تو سب رزق دینے والوں میں سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
اللہ نے فرمایا میں ایسا (مائدہ) تم پر یقینا نازل کروں گا پس جو کوئی بھی تم میں سے اس کے (نازل ہونے کے) بعد ناشکری کرے گا تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ دُنیا میں سے کسی اور (قوم) کو ایسا عذاب نہ دوں گا۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر میں کیا فرمایا ہے وہ میں بعد میں درج کروں گا پہلے میں دیگر مفسرین کی تفسیر پیش کر دیتا ہوں۔ اگر پرانی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی یہ صورت سامنے آتی ہے تفسیر جلالین میں لکھا ہے۔
مائدہ ایک سرخ دسترخوان تھا جو دو بدلیوں کے درمیان رکھا ہوا تھا ایک بدلی دسترخوان کے اوپر اور دوسری بدلی دسترخوان کے نیچے تھی، حضرت عیسیٰ کے تمام حواریین آسمان سے اُترتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ بتدریج نیچے آتا چلا جارہا ہے دوسری طرف حضرت عیسیٰ کا یہ حال تھا کہ وہ خوف و ہراس سے کانپ رہے تھے کیونکہ اللہ نے شرط کے ساتھ انزال مائدہ کیا تھا کہ اگر اس کے نزول کے بعد کسی نے کفر کیا تو ایسا سخت عذاب دوں گا کہ اب تک اتنا سخت عذاب کسی کو نہیں دیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ اپنی دُعا میں مصروف تھے اس دوران آسمان سے مائدہ اتر کر اُن لوگوں کے سامنے زمین پر ٹھہر گیا ، تمام حواریین د سترخوان کو چاروں طرف گھیر کر بیٹھ گئے۔ مائدہ کو اترا ہوا دیکھ کر حضرت عیسیٰ اور ا ن کے حواریین بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوگئے یہودیوں کا جمگھٹا ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور حیرت کر رہے تھے ، پھر لوٹ گئے، حضر ت عیسیٰ اور حواریین دسترخوان کے پاس آئے دیکھا کہ وہ ایک رومال سے ڈھکا ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰ نے حاضرین سے کہا تم لوگوں میں کون جرآت مند ہے اور اس کو اپنے نفس پر پورا پورا اعتماد ہے اور اپنے پروردگارکے امتحان میں پورا اترنے پر اطمینان ہے ؟ وہ سامنے آئے تاکہ ہم بھی اس کو دیکھ لیں اور اپنے پروردگار کی حمد کریں اور اللہ کی دی ہوئی روزی سے کھائیں حواریین نے کہا ’’ روح اللہ ! آپ اس کیلئے سب سے بہتر ہیں، آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر تازہ وضو کیا اور مرصلی پر آئے اور چند رکعتیں پڑھیں پھر بڑی دیر تک روتے رہے اور اللہ سے دُعا کرتے رہے کہ مجھے دسترخوان کھولنے کی اجازت دی جائے ، اے اللہ ! میرے لئے اور میری قوم کیلئے اُسے باعث برکت بنا، پھر مصلیٰ سے اٹھکر دسترخوان کے پاس آئے اور رومال کو پکڑا اور بسم اللہ خیر الرازقین کہا اور دسترخوان کھول دیا، دیکھا گیا کہ اس میں ایک موٹی تازی بھاری بھرکم تلی ہوئی مچھلی ہے، جس کے چھلکے صاف کئے ہوئے ہیں، اور اس کے اندر کانٹے بھی نہیں ہیں۔ اس سے گھی ٹپک رہا ہے اور بہہ کرمچھلی کے اطراف میں جم رہا ہے مچھلی کی چاروں طرف کی سبزیاں سوائے کراث (گندنا) کے ہیں مچھلی کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور اس کی دم کے پاس نمک ہے ، سبزیوں کے ارد گرد پانچ روٹیاں رکھی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک روٹی پر زیتون دوسری پر کھجور تیسری پر پانچ انار ہیں۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک پرزیتون دوسری پر شہد، تیسری پر گھی چوتھی پر پنیر اور پانچویں پر خشک گوشت رکھا ہے……… پھر آپ نے (یعنی عیسیٰ ؑ) فرمایا یاسمکۃ عودی باذن اللہ کما کنت اے مچھلی جیسی تو پہلے تھی اس طرح پھر اللہ کے حکم سے ہوجا، وہ مچھلی فوراً زندہ ہوگئی ، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ابھی پانی سے نکال کر رکھی گئی ہے اس کے بعدحضرت عیسیٰ نے کہا اے مچھلی تو جیسی تلی ہوئی تھی ویسی ہی ہو جا پھر اپنی حالت پر ہوگئی ‘‘۔
(جلالین مطبوعہ رشیدیہ دہلی صفحہ ۱۱۱ حاشیہ)
روح المعانی میں لکھا ہے کہ ۔
’’ تیرہ سو آدمیوں کے کھالینے کے بعد حضرت عیسیٰ اور حواریوں نے دیکھا کہ دسترخوان جیسا تھا ویسا ہی ہے اس میں کوئی کمی نہیںہوئی، کھانے کے بعد دسترخوان پھر فضا میں بلند ہوا اور آسمان کی طرف چلا گیا ‘‘۔
اسی طرح روح المعانی میں ایک روایت یہ بھی درج ہے کہ :۔
’’ اللہ کی طرف سے حضرت عیسیٰ کے پاس وحی آئی کہ میں نے پہلے ہی شرط لگا دی تھی کہ مائدہ اترنے کے بعد تم نے ناشکری کی تو تم کو ایسا عذاب دوں گا کہ ابتک ایسا عذاب میں نے کسی دوسرے کو نہیں دیا ہے اب اس کا وقت آگیا ہے چنانچہ وہ تمام لوگ جنہوں نے شک پھیلایا تھا وہ خود اس میں مبتلا تھے جب شام ہوئی تو وہ اپنی اپنی خوابگاہوں میں اچھی شکل و صورت میں اپنی بیویوں کے پاس شب گذاری کیلئے گئے مگر جب رات کا پچھلا پہر آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی صورتوں کو مسخ کرکے سؤر بنا دیا اور جب صبح ہوئی تو وہبستروں سے اٹھتے ہی غلاظتوں اور گھروں کی طرف بھاگے‘‘۔
(روح المعانی جلد ۷ صفحہ ۶۴ و جلالین شریف مطبع رشیدیہ صفحہ ۱۱۱ بحوالہ تفسیروں میں اسرائیلی روایات صفحہ ۱۱۹)
یہ تو عام تفسیروں کا خلاصہ ہے جو ان حواریوں سے معلوم ہوتا ہے اس کے علاوہ موجودہ زمانہ کے مفسرین کیا فرماتے ہیں غور کریں مولانا محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں۔
’’ مائدہ آسمان سے نازل ہوا تھا یا نہیں ؟ اس بارے میں مفسرین حضرات کا اختلاف ہے جمہور نزول کے قائل ہیں۔ چنانچہ ترمذی کی حدیث میں عمار بن یاسر ؓ سے منقول ہے کہ مائدہ آسمان سے نازل ہوا ۔ اس میں روٹی اورگوشت تھا، اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے (یعنی بعض نے) خیانت کی اور اگلے دن کے لئے اٹھاکر رکھا ، پس بندر اورخنزیر کی صورت میں مسخ ہوئے (نعوذ باللہ من غضب اللہ)
(معارف القرآن جلد سوم تفسیر سورۃ المائدہ صفحہ ۲۶۸ حاشیہ )
اسی طرح مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں کہ ۔
’’ اپنے بعد والوں کیلئے حواریوں کے یہ عرض کرنے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اُنہیں تیس روزے رکھنے کا حکم دیا فرمایا جب تم ان روزوں سے فارغ ہوجائوگے تو اللہ تعالیٰ سے جو دُعا کروگے قبول ہوگی انہوں نے روزے رکھ کر خوان اترنے کی دُعا کی اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے غسل فرمایا اور موٹا لباس پہنا اور دو رکعت نماز ادا کی اور سر مبار ک جھکایا اور روکر یہ دُعا کی جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے۔
یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں اس کی تعظیم کریں خوشیاں منائیں تیری عبادت کریں شکر بجا لائیں مسئلہ، اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید منانا اورخوشیاں منانا عبادتیں کرنا شکر الٰہی بجا لانا طریقہ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم ﷺ کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ تر رحمت ہے اس لئے حضور ﷺ کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الٰہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔ (اسی لئے بریلوی حضرات مولود شریف یا عید میلاد النبی ﷺ کے نام پر تقریبات کرتے اور پھر عرس کرنے اور قبروں کی تعظیم کرواتے ہیں (ناقل) …… چنانچہ آسمان سے خوان نازل ہوا اس کے بعد جنہوں نے ان میں سے کفر کیا وہ صورتیں مسخ کرکے خنزیر بنا دیئے گئے اور تین روز میں سب ہلاک ہوگئے‘‘۔
(کنزل الایمان تفسیر سورۃ المائدہ حاشیہ صفحہ ۱۸۴ مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی)
مولانااشرف علی صاحب تھانوی کے ترجمۃ القرآن کے حاشیہ میں درج ہے کہ ۔
’’ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ مائدہ کا نازل ہونا اس معجزہ مذکورہ کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے جو اناجیل اربعہ میں مذکور نہیں۔ پھر اس کی کیفیت میں مختلف اقوال ہیں کہ یہ ایک ایسے موقع کا قصہ ہے کہ جہاں حواریوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا تب انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ سے عرض کیا کہ اللہ ایسا کر سکتا ہے اس پر حضرت عیسیٰ ؑ نے خفا ہوکر فرمایا کہ اگر تم کو ایمان ہے تو الہ سے ڈرو پھر انہوں نے عرض کیا کہ محض اطمینان اور اپنے کھانے کیلئے یہ سوال ہے ورنہ اس کی قدرت میں کچھ کلام نہیں تب حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی دُعا کی کہ الٰہی آسمان سے مائدہ نازل کر کہ ہمارے اوّل آخر کیلئے عید یعنی باعثِ خوشی ہو اور تیری طرف سے نشانی ہو خدا نے فرمایا میں مائدہ نازل کرتا ہوں مگر اس کے بعد جو ناشکری کرے گا اس کو عذاب دوں گا جو جہان میں کسی کو نہ دوں گا۔ اس پر آسمان سے سرخ دسترخوان کہ اس کے اوپر بھی ایک بدلی اور نیچے بھی ایک بدلی تھی نازل ہوا اس کو کھولکر دیکھا تو اس میں تلی ہوئی مچھلی اور پانچ روٹیاں اور ترکاریاں رکھی ہوئی تھیں۔بعض کہتے ہیں کہ ہر قسم کی نعمتیں اس میں تھیں پھر بعض کہتے ہیں کہ یہ بات صرف ایک بار ہوئی بعض کہتے ہیں چالیس روز تک نازل ہوتا رہا ایک دن بیچ کرکے آتا تھا پھر جب لوگوں نے سحر اور نظر بندی کی بدگمانی کی تو اُن کے سؤر کے منہ ہوگئے تین روز کے بعد تڑپ کر مرگئے۔
(ترجمۃ القرآن مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سورۃ المائدہ حاشیہ صفحہ ۱۷۵)
شیعہ تفسیر میں درج ہے کہ۔
’’ تفسیر مجمع البیان میں جناب امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے یہ فرمایا تھا کہ تم تیس دن روزے رکھو پھر خدا سے جو چاہتا سوال کرنا وہ تمہیں عطا کردے گا۔ پس انھوں نے تیس روزے رکھے اور جب فارغ ہوچکے تو انہوں نے یہ کہا کہ اگر ہم نے کسی آدمی کا کام کیا ہوتا تو وہ ہمیں کھانا کھلاتا اب ہم نے روزے رکھے اور بھوکے مرے اب تو اللہ سے دُعا کیجئے کہ ایک خوان آسمان سے ہم پر نازل کردے ۔ چنانچہ فرشتے ایک خوان لیکر آئے اس میں سات بڑی بڑی روٹیاں تھیں اور سات رکابیاں تھیں وہ خوان لوگوں کے سامنے رکھا گیا۔ اور اول سے آخر تک سب نے کھایا ‘‘
(ترجمہ و تفسیر مولانا سید مقبول احمد صاحب سورۃ المائدہ حاشیہ صفحہ ۲۰۱)
اسی صفحہ ۲۰۱ کا ایک اورحاشیہ دوسری روایت کے ساتھ صفحہ ۱۳۶ تا صفحہ ۱۳۸ درج ہے اور یہ روایت چونکہ لمبی ہے اور اس کا اکثر حصہ شروع کی تفصیل میں آگیا ہے اس لئے چھوڑتا ہوں۔
سر سید احمد خان صاحب نے جو تفسیر پیش کی ہے وہ ان تمام مفسرین کی تفسیروں پر تنقید کا حکم رکھتی ہے اور انہوں نے ان تمام واقعات کو بے سروپا قصے اور کہانیاں بیان کیا ہے ۔ اسی طرح آپ نے لکھا ہے کہ ۔
’’ اس سے ظاہر ہے کہ مائدہ سے ان کی مراد پکا پکایا کھانے سے نہ تھی بلکہ کھانے کی چیزوں کے موجود ہونے سے تھی ‘‘۔ (تفسیر القرآن جلد ۱ حاشیہ صفحہ ۱۶۶)
مولانا مودودی صاحب مائدہ کے سلسلہ میں بالکل خاموش ہیں آیات کا صرف سادہ ترجمہ کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مائدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ قرآن شریف کے ایک مقام پر غور کرتے کرتے رسول اللہ ﷺ کی بڑی عظمت اور کامیابی معلوم ہوئی جس کے مقابل میں حضرت مسیح بہت کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ سورۃ مائدہ میں ہے کہ نزول مائدہ کی درخواست جب حواریوں نے کی تو وہاں صاف لکھا ہے قَالُوْا نَریْدُ اَنْ نَّاکُلَ مِنْھَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وِنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ۔ Oاس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس قدر معجزات مسیح کے بیان کئے جاتے ہیں اور جو حواریوں نے دیکھے تھے ان سب کے بعد ان کی یہ درخواست کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کے قلوب پہلے مطمئن نہ ہوئے تھے ورنہ یہ الفاظ کہنے کی ان کو کیا ضرورت تھی وتَطْمَئِنَّ قَلُوْبَنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا مسیح کی صداقت میں بھی اس سے پہلے کچھ شک ہی سا تھا ۔ اور وہ اس جھاڑ پھونک کو معجزہ کی حد تک نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کے مقابلہ میں صحابہ کرام ایسے مطمئن اور قوی الایمان تھے کہ قرآن شریف نے ان کی نسبت رَضِیَ اللّٰہ عَنْھُمْ وَرَضَوْ اعَنْہُ فرمایا اور یہ بھی بیان کیا کہ ان پر سکینت نازل فرمائی یہ آیت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی حقیقت کھولتی ہے اوررسول اللہ ﷺ کی عظمت قائم کرتی ہے صحابہ کا کہیں ذکر نہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم اطمینان قلب چاہتے ہیں بلکہ صحابہ کا یہ حال کہ ان پر سکینت نازل ہوئی اور یہود کا یہ حال یَعْرفُونَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنآء ھُمْ ان کی حالت بتائی یعنی رسول اللہ ﷺ کی صداقت یہاں تک کھل گئی تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کی طرح شناخت کرتے تھے اور نصاریٰ کا یہ حال کہ ان کی آنکھوں سے آپ کو دیکھیں تو آنسو جاری ہوجاتے تھے یہ مراتب مسیح کو کہاں نصیب ! ‘‘۔ (الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷ اگست ۱۹۰۲؁ء صفحہ ۱۰)
حضرت حکیم الحاج مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
’’ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس دُعا کا اثر حواریوں کیلئے نہیں تھا اور نہ مائدہ کوئی ایسی چیز ہے کہ صرف حواری ہی اس سے مستفیض ہوں گے بلکہ عام رزق مراد ہے جیسے کہ آگے خود تشریح کی ہے ۔ وَارْزُقنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ۔
اِنِّیْ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ :۔ یہاں علماء کی بحث ہے بعض کہتے ہیں کہ فَاِنِّیْ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا سن کر وہ ڈر گئے ۔ مگر میرے نزدیک یہ دُعا کی گئی اور یقینا قبول ہوئی۔ دیکھتے نہیں عیسیٰ کے نام لیووں کے پاس کتنا رزق ہے ۔ کتنی دولت ہے۔ یہاں تک کہ دن میں کئی بار لباس تبدیل کرتے اور نئے سے نئے کھانے کی وجہ سے گویا ہر روز ان کے ہاں عید ہوتی ہے عِیْداً لِاَ وَّلِنَا وَاٰخِرِنَا کے لفظ کا اثر ہے۔‘‘
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ اگست ۱۹۰۹؁ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ ۱۳۵۔ ۱۳۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے زیر تفسیر آیات کی تفسیر، تفسیر صغیر میں اس طرح فرمائی ہے کہ ۔
’’ اسی دُعا کے نتیجہ میں مسیحی قوم کے پہلے حصہ کو بھی دُنیا میں حکومت ملی تھی اور آخری حصہ کو بھی۔ درمیان میں محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں نے ان کی طاقت کو توڑا۔ اب یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے تو مسلمان ایک طرف تو یہ مبالغہ کرتے ہیں کہ آسمان پر جبریل نعمتیں پکا کر خوان فرشتوں کے سرپر رکھ کر صبح شام مسیحیوں کے کھانے کیلئے لاتے تھے اور دوسری طرف مسیحی حکومتوں کے ظلموں پر نالہ وبکا کرتے ہیں ‘‘۔
اسی طرح فرمایا۔
’’ اس جگہ جو یہ ذکر ہے کہ مائدہ طلب کرنے والوں کو ایسا عذاب ملے گا جو کسی کو نہ ملے گا دوسری جگہ یہی مضمون مسیحیوں کے متعلق آتا ہے ۔کہ ان کے شرک کی وجہ سے ان کو غیر معمولی عذاب ملے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ مسیحیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَاعَذِّبُھُمْ عَذَاباً شَدِیْداً فِیْ الدَُنیاَ وَالْاٰخِرَۃِ زوَمَا لَھُمْ مِنْ نٰصِرِیْنَ (اٰل عمرا ع) پس معلوم ہوا یہ وعدہ مسیحی قوم کے متعلق تھا نہ کہ حواریوں کے متعلق ۔ مسیحی قوم کے ابتدائی دور یعنی رومی دور میں بھی عیسائیوں کو بڑی کامیابیاں ہوئیں اور آخری دور یعنی اٹھار ہویں ۔ انیسویں صدی میں بھی عیسائیوں کو بڑی کامیابیاں ہوئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پیشگوئی کردی کہ میں وعدہ کے مطابق ان کو کثرت سے رزق دوں گا جو صبح و شام ان کو ملے گا۔ لیکن جو لوگ اس کے باوجود بھی نافرمانی کرتے رہیں گے ان کو میں سخت عذاب میں مبتلا کروں گا، ایساعذاب جو کسی کو نہیں ملا۔ پس یہ آیت عیسائیوں کے دو زمانوں کے متعلق پیشگوئی ہے نہ کہ حواریوں کے متعلق چنانچہ اگلی آیت سے بھی ظاہر ہے کہ یہ شرک کرنے والے عیسائیوں کے متعلق ہے حالانکہ حواری مشرک نہیں تھے ‘‘ (تفسیر صغیر سورۃ المائدہ حاشیہ صفحہ ۱۶۲)
پس یہ مضمون اور یہ تفسیر کسی تبصرہ کی محتاج نہیں ہم میں سے ہر شخص اس کی تصدیق کرسکتا ہے چونکہ یہ باتیں ہمارے سامنے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دُعا کے نتیجہ میں اوّل اور آخر حصہ کو کس قدر نواز دیا ہے اور قرآن کریم کی یہ پیشگوئی پوری ہوچکی ہے۔






حضرت مسیح ؑ کی حیات و وفات
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو قیام اسلام کی تیسری صدی سے تیرھویں صدی تک تو کم لیکن چودھویں صدی کے آغاز سے بڑا اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ قرآن کریم کی واضح تعلیم کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ مسیحی اقوام کی طرح مسیح علیہ السلام کی حیات کا قائل ہے اور ان کو مع جسم عنصری آسمان پر بٹھاتا ہے۔ اس جگہ میں اس بحث کو نہیں اُٹھانا چاہتا کہ میں مسیح کی وفات یا حیات کو ثابت کروں میں اس جگہ صرف ایک لفظ تَوَفِیّیْ کے تعلق سے کچھ عرض کروں گا اور یہ بتائوں گا کہ مترجمین نے اس لفظ کا کیا ترجمہ کیا ہے اور کیسا کیسا کیا ہے تاکہ مسیح علیہ السلام کے تعلق سے قرآن کریم میں درج شدہ لفظ فَلَمَّا تَوَفِیْتَنِی (المائدہ) اور مُتَوِفّیْکَ (اٰل عمران) کے معنی ظاہر ہوسکیں۔ اس جگہ میں سب سے پہلے مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کا ترجمہ پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے قرآن کریم میں تَوفی سے جڑے الفاظ کے کیا معنی کئے ہیں۔ باقی قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ مسیح علیہ السلام کے متعلق آئے اسی لفظ کے کیا معنی ہوں گے۔
مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مسیح علیہ السلام کے متعلق آئے لفظ مُتَوَفِیْکَ اٰل عمران آیت ۵۶ کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ’’ میں تم کو وفات دینے والا ہوں‘‘
محترم شاہ رفیع الدین صاحب فرماتے ہیں۔
’’ تحقیق میں لینے والا ہوں تجھ کو ‘‘
اس جگہ وَرَفِعُکَ کا ترجمہ مولانا اشرف علی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
’’ اور میں تم کو اپنی طرف اٹھائے لیتا ہوں‘‘
اور محترم شاہ رفیع الدین صاحب یوں ترجمہ کرتے ہیں۔
’’ اور اُٹھانے والا ہوں تجھ کو طرف اپنی ‘‘
یہ ہردو تراجم ایک ہی قرآن میں اُوپر نیچے موجود ہیں جوکہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی کا شائع شدہ ہے۔
اسی طرح فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ (المائدہ۱۱۸) کا ترجمہ مولانا اشرف علی صاحب نے اس طرح کیا ہے کہ ۔
’’ پھر جب آپ نے مجھ کو اٹھا لیا ‘‘
مولانا شاہ رفیع الدین صاحب یوں ترجمہ کرتے ہیں۔
’’ پس جب قبض کیا تو نے مجھ کو ‘‘۔
دونوں جگہ کے تراجم پر غور کریں ۔ سورۃ اٰل عمران میں مَتَوَفّیْکَ کا ترجمہ کیا ہے میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور اس جگہ ترجمہ کیا ہے پھر جب آپ نے مجھ کو اُٹھا لیا۔گویا یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ زندہ مع جسم اُٹھا لیا الحمد للہ کہ ترجمہ میں یہ بات نہیں لکھی البتہ حاشیہ آرائی یہی کی گئی ہے۔
قرآن کریم میں دوسری جگہوں پر اسی لفظ کے تراجم پر ایک نظر ڈالیں پہلا ترجمہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کا ہے اور دوسرا مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی کا۔
(اٰل عمران آیت ۱۹۴)
قرآن کے الفاظ
٭۔ وَتَوَ فَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ’’ اورہم کو نیک لوگوں کے ساتھ موت دیجئے‘‘
۲۔ اور مار ہم کو ساتھ نیک بختوں کے ‘‘
٭۔ توفّٰھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ (النسآء آیت ۹۸)
۱۔ ’’ جان فرشتے قبض کرتے ہیں ‘‘
۲۔ قبض کرتے ہیں ان کو فرشتے‘‘
٭۔ تُوُفَّتْہُ رَسُلَنَا (الانعام ۶۲)
۱۔ ’’ اُسکی روح ہمارے بھیجے ہوئے قبض کر لیتے ہیں ‘‘
۲۔ ’’ قبض کرتے ہیں اس کو بھیجے ہوئے ‘‘
٭۔ وَجآئُ تَھُمْ رَسُلَنَا یتو فونھم ( الاعراف آیت ۳۸)
۱۔ ’’ جب اُن کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اُن کی جان قبض کرنے آویں گے ‘‘
۲۔ ’’ جب آویں گے اُن کے پاس بھیجے ہوئے ہمارے قبض کرتے ہوئے ان کو ‘‘۔
٭۔ وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْن َ (الاعراف آیت ۱۲۷)
۱۔ اور ہماری جان حالتِ اسلام پر نکالیئے‘‘
۲۔ ’’ اور مار ہم کو مسلمان کر کر‘‘۔
٭۔ تَوْ فَّنِیْ مُسْلِماً (یوسف آیت ۱۰۲)
۱۔ ’’مجھ کو پوری فرمانبرداری کی حالت میں دُنیا سے اُٹھا لیجئے ‘‘
۲۔ ’’ قبض کر مجھ کو مطیع اپنا ‘‘
٭۔ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ (الرعد آیت ۴۱)
۱۔ ’’خواہ ہم آپ کو وفات دے دیں‘‘
۲۔’’ یاقبض کرلیویں تجھ کو‘‘۔
٭۔ قَلْ یَتَو فِکَّمُ ملَّکَ الْمَوت ِْ (السجدہ آیت ۱۲)
۱۔ ’’ آپ فرما دیجئے کہ تمہاری جان موت کا فرشتہ قبض کرتاہے‘‘
۲۔ ’’ کہہ قبض کرے گا تم کو فرشتہ موت کا ‘‘
٭۔ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلئِکَۃُ (محمد آیت ۲۸)
۱۔ جب کہ فرشتے اُن کی جان قبض کرتے ہوں گے‘‘۔
۲۔ جس وقت قبض کریں گے جان ان کو تو فرشتے‘‘۔
مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے سوائے ایک جگہ کے جو المائدہ کا حوالہ ہے ہر جگہ موت، روح قبض، وفات کے معنی لئے ہیں اور المائدہ میں اُٹھا لیا ترجمہ کیا ہے جبکہ اس کے بالمقابل سورۃ یوسف آیت ۱۰۲ میں موت کو انہیں الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’ مجھ کو پوری فرمانبرداری کی حالت میں دُنیا سے اُٹھا لیجئے‘‘ قرآن کریم کا ترجمہ کرتے وقت مولانا اشرف علی صاحب نے ہر جگہ تَوْفِیّ کے معنی موت کیئے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کئے گئے ہیں اس کے باوجود دیوبندیوں کا مسیح کے زندہ آسمان پر ہونے کا عقیدہ حیرت انگیز ہے۔ باقی مولانا شاہ رفیع الدین صاحب نے موت کو ہر جگہ ہی قبض کرنے کے لفظ میں پیش کیا ہے۔
مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کے ترجمۃ القرآن پر بھی ایک نظر لگاتے ہیں چونکہ آیات کے الفاظ اوپر درج کر دیئے گئے ہیں اس لئے دیگر تراجم کے پیش کرنے کے وقت اُن کو نوٹ کئے بغیر سورۃ اور آیت نمبر کے حوالے سے ترجمہ لکھتا ہوں۔
۱۔ آل عمران آیت ۵۶۔ ’’ میں تجھے پوری عمر تک پہنچائوں گا‘‘ یہ آیت مسیح ؑ کے متعلق ہے۔
۲۔ اٰل عمران آیت ۱۹۴ ’’ اورہماری موت اچھوں کے ساتھ کر‘‘
۳۔ النسآء آیت ۹۸۔ ’’ جس کی جان فرشتے نکالتے ہیں ‘‘
۴۔ المائدہ آیت ۱۱۸ ’’ پھر جب تو نے مجھے اُٹھا لیا‘‘ یہ آیت مسیح ؑ کے متعلق ہے۔
۵۔ الانعام آیت ۶۲ ’’ ہمارے فرشتے اُن کی روح قبض کرتے ہیں ‘‘۔
۶۔ الاعراف آیت ۳۸ ’’ ہمارے بھیجے ہوئے اُن کی جان نکالنے آئیں ‘‘
۷۔ الاعراف آیت ۱۲۸ ’’ اور ہمیں مسلمان اُٹھا‘‘۔
۸۔ یوسف آیت ۱۰۲ ’’ مجھے مسلمان اُٹھا‘‘
۹۔ الرعد آیت ۴۱ ’’ یا پہلے ہی اپنے پاس بلائیں‘‘
۱۰۔ السجدہ آیت ۱۲ ’’ تم فرماؤ تمہیں وفات دیتا ہے موت کا فرشتہ ‘‘
۱۱۔ محمد آیت ۲۸۔ ’’ جب فرشتے اُن کی روح قبض کریں گے‘‘۔
قارئین سورۃ اٰل عمران آیت ۵۶ اور سورۃ المائدہ آیت ۱۱۸ ان دو جگہوں کے معانی دیکھیں اور باقی جگہوں کے معانی پر غور کریں ہر جگہ ہی موصوف نے موت، روح قبض اور وفات کے معنے کئے ہیں۔
شیعہ تفسیر کا بھی جائزہ لیں۔
۱۔’’ سورۃ اٰل عمران آیت ۵۶۔’’ میں تمہاری موت پوری کرنے والا ہوں۔‘‘
۲۔ ’’سورۃ اٰل عمران آیت ۱۹۴ ۔ ’’اور ہم کو نیکوں کے ساتھ محسوب فرما۔‘‘
۳۔ ’’سورۃ النسآء آیت ۹۸ ۔ جن کا خاتمہ فرشتے اس حال میں کرتے ہیں کہ۔‘‘
۴۔ ’’سورۃ المائدہ آیت ۱۱۸ ۔ پھر جب تو نے میری مدت (قیام) پوری کردی۔‘‘
۵۔ ’’ سورۃ انعام آیت ۶۲ ۔ تو ہمارے بھیجے ہوئے اُس کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔‘‘
۶۔ ’’سورۃ الاعراف آیت ۳۸ ۔ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس پہنچ کر اُنکا فیصلہ کریں گے ‘‘ حاشیہ میں ہے رسلنا یہاں رسلنا سے مراد ملک الموت اور ان کے اعوان ہیں۔
۷۔ ’’سورۃ الاعراف آیت ۱۲۸۔ اور ہمارا خاتمہ اسلام پر کردے۔‘‘
۸۔ ’’سورۃ یوسف آیت ۱۰۲۔ ہمارا خاتمہ فرمانبرداری کی حالت میں کیجیو۔‘‘
۹۔ ’’سورۃ الرعد آیت ۴۱۔ تم کو (پہلے ہی ) اٹھا لیں۔‘‘
۱۰۔’’ سورۃ السجدہ آیت ۱۲ ۔ وہ تمہارا خاتمہ کرے گا۔‘‘
۱۱۔ ’’سورۃ محمد آیت ۲۸ ۔ جب کہ فرشتے ان کا خاتمہ اُس حالت میں کریں گے۔
ان تمام جگہوں پر توفّٰی کے لفظ سے متعلق جہاں بھی ترجمہ کیا ہے اس کا مطلب موت اور وفات قبض روح ہی ہے۔ مدتِ قیام پوری کرنے کے بعد وفات ہی آخری مرحلہ ہے اس کے باوجود شیعہ حضرات کا حیات مسیح کاعقیدہ جائے تعجب ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع صاحب نے تراجم اس طرح کئے ہیں۔
۱۔ سورۃ اٰل عمران آیت ۵۶ ’’(اے عیسیٰ) میں لے لوں گا تجھ کو‘‘
۲۔ سورۃ اٰل عمران آیت ۱۹۴ ’’اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ‘‘
۳۔ سورۃ النسآء آیت ۹۸ ۔ ’’جن کی جان نکالتے ہیں فرشتے‘‘
۴۔ سورۃ المائدہ آیت ۱۱۸۔’’ پھر جب تو نے مجھ کو اُٹھا لیا۔‘‘
۵۔ سورۃ انعام آیت ۶۲ ۔ ’’توقبضہ میں لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے‘‘
۶۔ سورۃ الاعراف آیت ۳۸ ’’ہمارے بھیجے ہوئے ان کی جان لینے کو۔‘‘
۷۔ سورۃ الاعراف آیت ۱۲۸۔’’ اور ہم کو مار مسلمان۔‘‘
۸۔سورۃ یوسف آیت ۱۰۲ ۔’’موت دے مجھ کو اسلام پر۔‘‘
۹۔ سورۃ الرعد آیت ۴۱۔ ’’یا تجھ کو اٹھا لیویں۔‘‘
۱۰۔ سورۃ السجدہ آیت ۱۲۔’’ تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا‘‘
۱۱۔ سورۃ محمد آیت ۲۸۔ ’’جب فرشتے جان نکالیں گے۔‘‘
(معارف القرآن مطبوعہ دارالکتاب دیوبند ۔ یوپی)
قارئین سورۃ المائدہ کی آبت جوکہ مسیح کے متعلق ہے موصوف نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ پھر جب تو نے مجھ کو اُٹھا لیا اسی طرح کا ترجمہ موصوف نے سورۃ الرعد کی آیت نمبر ۴۱ میں کیا ہے کہ یا تجھ کو اٹھا لیویں۔ جوکہ بمعنی وفات اور موت ہے۔ باقی سب جگہوں کے تراجم اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ اس لفظ کا ترجمہ موت ہی ہے خواہ اس کے لئے جو بھی لفظ استعمال کیا ہو۔ قبض روح یا اٹھانا یا مارنا یا موت دینا وغیرہ۔
اسی طرح مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کے تفہیم القرآن پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔
۱۔ سورۃ اٰل عمران آیت ۵۶ ۔’’ اے عیسیٰ ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا۔‘‘
۲۔سورۃ اٰل عمران آیت ۱۹۴۔ ’’اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔‘‘
۳۔ سورۃ المائدہ آیت ۱۱۸۔’’ جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا۔‘‘
۴۔ سورۃ النسآء آیت ۹۸۔ ’’اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں۔‘‘
۵۔ سورۃ انعام آیت ۶۲۔ ’’فرشتے ان کی جان نکالتے ہیں۔‘‘
۶۔ سورۃ الاعراف آیت ۳۸۔ ’’فرشتے اُن کی روحیں قبض کرنے کیلئے۔‘‘
۷۔ سورۃ الاعراف آیت ۱۲۷۔ ’’اور ہمیں دُنیا سے اُٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔‘‘
۸۔ سورۃ یوسف آیت ۱۰۲ ۔’’ میراخاتمہ اسلام پر کر۔‘‘
۹۔ سورۃ الاعد آیت ۴۱ ۔ ’’ہم تجھے اُٹھا لیں۔‘‘
۱۰۔ سورۃ السجد آیت ۱۲۔ ’’موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا پورا اپنے قبضہ میں لے لیگا۔‘‘
۱۱۔ سورۃ محمد آیت ۲۸۔’’ جب فرشتے اُن کی روحیں قبض کریں گے۔‘‘
قارئین مولانا مودودی صاحب بھی انہیں لوگوں میں شامل ہیں جن کو یہ کہنا گوارا نہیں کہ مسیح ؑ وفات پاچکے ہیں اس لئے انہوں نے بھی واپس بلا لیا ترجمہ کیا ہے جبکہ باقی سب جگہوں پر روح قبض کرنے اورخاتمہ کرنے کے معنی اور موت دینے کے معنی ہیں۔ پھر عام علماء اگر سورۃ المائدہ میں آئے لفظ تَوَ فَّیْتَنِیکا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ جب تو نے مجھے اُٹھا کیا تو مولانا مودودی صاحب نے خود ہی سورۃ الرعد آیت۴۱ کا ترجمہ کرتے وقت نتوفینک کا ترجمہ کیا ہے کہ ’ ’ہم تجھے اٹھالیں‘‘ اور یہ اٹھانا وہاں بمعنی موت کے لیا گیا ہے۔
ان تمام مترجمین کے تراجم میں سے تَوَفّٰی سے تعلق رکھنے والے الفاظ کا ترجمہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں کی سادگی کو پیش کیاجائے کہ یہ کتنے سادہ ہیں کہ مسیح علیہ السلام سے متعلق آیات کا ترجمہ کرتے وقت جو ترجمہ کیا ہے دوسری جگہ ویسے ہی الفاظ کا ترجمہ کرتے وقت اس ترجمہ کو بھول گئے ہیں۔ یہ علماء چاہے حیات مسیح کے متعلق کتنی ہی حاشیہ آرائی کریں لیکن اس صداقت کو یہ چھپا نہیں سکتے کہ مسیح کے تعلق سے آئے الفاظ سورۃ اٰل عمران آیت ۵۶ اور سورۃ المائدہ آیت ۱۱۸ کا مطلب بھی موت اوروفات اور قبض روح ہی ہے اس کے علاوہ اورکوئی دوسرا ترجمہ نہیں نکلتا۔ ان مفسرین نے جان بوجھ کر اپنے فرسودہ عقیدہ حیات مسیح ؑ کو تقویت دینے کی خاطر اُٹھا لینے کا ترجمہ کرکے حاشیہ آرائی کرتے ہوئے اُن کے زندہ اور جسم کے ساتھ آسمان پر جانے کا عقیدہ تفسیروں میں درج کردیا ہے۔
جہاں تک جماعت احمدیہ کا سوال ہے تو چونکہ جماعت کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک سو بیس سال کی عمر پاکر اس دُنیا میں ہی وفات پاچکے ہیں اور سرینگر کشمیر محلہ خانیار میں اُن کی قبر ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ہر دو مقام سورۃ اٰل عمران آیت ۵۶ اور سورۃ المائدہ آیت ۱۱۸ کا ترجمہ وفات ہی کیاہے اس لئے یہاں جماعتی تراجم کو پیش کرکے مضمون کو لمبا کرنا نہیں چاہتا ۔









اصحاب فیل
قرآن کریم کی ایک سورۃ ’’الفیل‘‘ کے نام سے ہے اس سورۃ میں ایک واقعہ کا ذکر ہے جوکہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے چند سال پہلے کا ہے اسی طرح ایک پیشگوئی موجود ہے جوکہ آئندہ پوری ہونے والی تھی۔
روایات میں آتا ہے کہ یمن کے گورنر ابرہہ نے ایک معبد بنوایا تھا اور لوگوں کو یہ ترغیب دیتا تھا کہ لوگ خانہ ٔ کعبہ کے طواف کی بجائے اس معبد کا طواف کیا کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک عرب کو اس بات کا غصہ آیا تو وہ ایک مرتبہ وہاں جاکر اس میں غلاظت کر آیا ۔ اس پر ابرہہ کو سخت غصہ آیا اور اُس نے ارادہ کیا کہ وہ خانہ ٔ کعبہ کو مسمار کردے۔ اس ارادہ سے وہ ایک بہت بڑا لشکر لیکر مکہ کی طرف آیا ۔ قبل اس کے کہ وہ اپنی کاروائی کرتا خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن میں چیچک کی وباء پھوٹ پڑی اور ان کی لاشوں پر پرندے آئے اور انہیںنوچ نوچ کر کھایا۔ یہ ایک واقعہ مفسرین نے بڑی بڑی حاشیہ آرائیوں کے ساتھ اپنی تفسیروں میں درج کیا ہے جوکہ ایک تو بعید از عقل ہیں اور دوسرے تضحیک کا باعث بھی۔ قصص القرآن والے صاحب نے لکھا ہے کہ۔
’’ جب ابرھہ وادی محسر کے اندر آیا تو سمندر کی طرف سے زوردار اور سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے پرندوں کی ٹکڑیاں نمودار ہوئیں جو کبوتر سے ذرا چھوٹے تھے اور ان کے پنجے سرخ تھے ان کی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے تھے پرندوں نے ان سنگریزوں کو لشکر پر پھینکنا شروع کردیا جس شخص کو سنگریزہ لگتا اس کے بدن کو چھید کر باہر نکل جاتا اور ایک طرح کا زہریلہ مادہ چھوڑ جاتا جس سے بدن کٹ کٹ کر گرنے لگا۔ بہت سے وہیں گر کر ہلا ک ہوگئے کچھ لوگ جن کو سنگر یزے لگ چکے تھے وہ واپس یمن پہونچے جن میں ابرھہ بھی تھا انہوں نے وہاں کراہتے ہوئے دم توڑ دیا ‘‘۔ (مکمل قصص القرآن صفحہ ۴۲۶)
مولانا محمد شفیع صاحب معارف القرآن میں اس سورۃ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔
’’ قدرتِ حق جل ّشانہ ٔ کا یہ کرشمہ تو یہاں ظاہر ہوا۔ دوسری طرف دریا کی طرف سے کچھ پرندوں کی قطاریں آتی دکھائی دیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ تین کنکریاں چنے یا مسور کے برابر تھیں ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں۔ واقدی کی روایت میں ہے کہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے۔ جثہ میں کبوتر سے چھوٹے تھے اُن ہر پنجے سرخ تھے اور پہنجے میں ایک کنکر اور ایک چونچ میں لئے آتے دکھائی دیتے تھے او ر فوراً ہی ابرھہ کے لشکر کے اُوپر چھا گئے ۔ یہ کنکریں جو ہر ایک کے ساتھ تھیں اُ ن کو ابرھہ کے لشکر پر گرایا ۔ ایک ایک کنکر نے وہ کام کیا جو ریوالور کی گولی بھی نہیں کر سکتی کہ جس پر پڑتی اس کے بدن کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔ یہ عذاب دیکھ کر ہاتھی سب بھاگ کھڑے ہوئے صرف ایک ہاتھی رہ گیا تھا جو اس کنکری سے ہلاک ہوا اور لشکر کے سب آدمی اسی موقع پر ہلاک نہیں ہوئے بلکہ مختلف اطراف میں بھاگے اُن سب کا یہ حال ہوا کہ راستہ میں مرکر گر گئے۔ ابرھہ کو چونکہ سخت سزا دینی تھی یہ فوراً ہلاک نہیں ہوا مگر اس کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑکر گرنے لگا اسی حال میں اس کو واپس یمن لایا گیا دارالحکومت صنعاء پہنچ کر اس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بہ گیا اور مرگیا ۔ ابرھہ کے ہاتھی محمود کے ساتھ دو ہاتھی بان یہیں مکہ مکرمہ میں رہ گئے مگر اس طرح کہ دونوں اندھے اور اپاہج ہوگئے تھے ‘‘۔ (معارف القرآن جلد ہشتم سورۃ الفیل صفحہ ۸۲۰۔۸۲۱)
مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اسی سورۃ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ ۔
’’ ابرھہ نے صبح تڑکے اپنے لشکروں کو تیاری کا حکم دیا اورہاتھیوں کو تیار کیا لیکن محمود ہاتھی نہ اُٹھا اورکعبہ کی طرف نہ چلا دوسری طرف چلاتے تھے چلتا تھا جب کعبہ کی طرف اس کا رُخ کرتے تھے بیٹھ جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرند ان پر بھیجے جو چھوٹے چھوٹے سنگریزے گراتے تھے‘‘
’’ جو سمندر کی جانب سے فوج در فوج آئیں ۔ ہر ایک کے پاس تین کنکریاں تھیں دو دونوں پائوں میں ایک منقار میں ‘‘
’’ جس پر وہ پرند سنگریزہ چھوڑتے وہ سنگریزہ اس کے خود کو توڑ کر سر سے نکلکر جسم کو چیر کر ہاتھی میں سے گزرکر زمین پر پہنچتا ہر سنگریزہ پر اس شخص کا نام لکھا تھا جو اس سنگریزہ سے ہلا ک کیا گیا ‘‘
(کنز الایمان تفسیر سورۃ الفیل حاشیہ صفحہ ۸۷۶مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی حوالہ نمبر ۲۲۲)
مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے ترجمۃ القرآن کے حاشیہ میں اس سورۃ کی تفسیر کے تحت تحریر ہے کہ ۔
’’ یمن کے ملک پر حبشی غالب رہے ایک مدت دیکھا کہ سارے عرب حج کرتے ہیں کعبہ کا۔ چاہا کہ سب ہمارے پاس جمع ہوا کریں کعبہ کی نقل ایک کعبہ بنایا دُنیا کا تکلف یہاں سے زیادہ کوئی نہ آیا زیارت کو جھونجلا کر فوج چڑہائی کعبہ شریف پر اور ساتھ کتنے ہاتھی لائے ڈہانے کو بیچ میں کئی قوم عرب کی مزاحم ہوئیں سب کو مارا جب حر م کی حد میں بیٹھے آسمان سے جانور آئے سبز چڑیا برابر تین تین کنکرلے کر دو پنجوں میں ایک مونہہ میں لاکھوں جانور لگے مارنے کنکر چلتے جیسے گولی بندوق کی اگراونٹ کی پیٹھ پر لگا پیٹ سے نکلا آدمی تو کیا چیز ہے ساری فوج میں ایک نہ بچا‘‘
(ترجمۃ القرآن مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی حاشیہ صفحہ ۸۳۹ تفسیر مولانا اشرف علی صاحب تھانوی)
اسی طرح مولانا سیّد محمد مقبول صاحب شیعہ مفسر نے لکھا ہے کہ :۔
’’ خدا تعالیٰ نے پرندوں کے جھلڑ کے جھلڑ بھیج دیئے جو لگاتار چلے آتے تھے
تَرْمیْھِمْ تفسیر قمی میں ہے کہ ہر پرندہ کے پاس تین تین کنکریاں تھیں ایک ایک چونچ میں اور دو دو پنجوں میں ہر پرندہ اڑتا ہوا ٹھیک ٹھیک اُن کے سر پر آجاتا اورکنکری کو سر کے مقابل چھوڑ دیتا۔ پس وہ مبرز سے نکل جاتی تھی۔ اور اس کی حالت ایسی بنا جاتی تھی جیسی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّا کُوْلٍ۔ کافی میں جناب امام جعفر صادق ؑسے اسی مطلب کی دو روایتیں درج ہیں جن کے الفاظ میں کچھ کمی و بیشی اور کچھ تفاوت ہے از اں جملہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں پر ایک پرندہ اس صورت کا بھیجا جیسی ابابیلیں ہوتی ہیں۔ اُن کی چونچ میں مسور کے دانے کے برابر پتھر تھے جس شخص پر اُن کو وہ پتھر پھینکنا منظور ہوتا تو ٹھیک اس کے محاذ میں آجاتا۔ پھر اس کے اُوپر وہ پتھر چھوڑ دیتا جو اس کا جسم توڑ کر مبرز کی راہ سے نکل جاتا۔ یہاں تک کہ اس سارے لشکر سے سوائے ایک شخص کے کوئی نہ بچا یہ شخص بھاگ کر چلا گیا تھا۔ اور جو کچھ دیکھ چکا تھا وہ لوگوں سے کہتا پھرا ایک جگہ بیان کررہا تھا کہ اتنے میں ایک پرندہ آگیا۔ اس شخص نے بتلایا کہ دیکھو وہ پرندہ اِسی صورت کا تھا۔ وہ یہ بتلا ہی رہا تھا کہ پرندے نے اُس کے سر کے مقابل آکر کنکری چھوڑ دی اور وہ اس کا بدن توڑ کر نکل گئی اور یہ وہیں کا وہیں مر کر رہ گیا‘‘۔
(ترجمہ و تفسیر القرآن مولانا سید مقبول احمد صاحب جلد ۲ حاشیہ صفحہ ۹۶۱)
محترم مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب سورۃ الفیل کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ۔
’’ یہ دُعائیں مانگ کر عبد المطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں میں چلے گئے، اور دوسرے روز ابرھہ مکے میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا، مگر اس کا خاص ہاتھی محمود یکایک بیٹھ گیا ۔ اس کو بہت تیر مارے گئے آنکسوں سے کچھوکے دیے گئے یہاں تک کہ اسے زخمی کردیا گیا مگر وہ نہ ہلا۔ اُسے جنوب ، شمال۔ مشرق، کی طرف موڑ کر چلانے کی کوشش کی جاتی تو وہ دوڑنے لگتا ، مگر مکے کی طرف موڑا جاتا تو وہ فوراً بیٹھ جاتا اور کسی طرح آگے بڑھنے کو تیار نہ ہوتا۔ اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لئے ہوئے آئے اور انہوں نے اس لشکرپر اُن سنگریزوں کی بارش کردی۔ جس پر بھی یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ۔محمد بن اسحاق اور عکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا اور بلادِ عرب میں سب سے پہلے چیچک اسی سال دیکھی گئی ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہوجاتی اور کھجلاتے ہی جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہو جاتا۔ ابن عباس ؓ کی دوسری روایت یہ ہے کہ گوشت اورخون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرھہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اُس کاجسم ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر رہا تھا ۔ اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا‘‘۔
(تفہیم القرآن جلد ششم تفسیر الفیل صفحہ ۴۶۶۔۴۶۷)
تمام مفسرین ایک ہی طرف گئے ہیں اور کسی مفسر کو بھی نہ اس میں کوئی پیشگوئی نظر آئی اور نہ ہی روحانیت کا کوئی سبق بلکہ یہ ایک قصہ ہی ان کو نظر آیا اور وہ بھی حیرت انگیز جو عقل و خرد کے بالکل خلاف ۔ اب ایک نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اِس کلام پر بھی لگائیں ۔ حضور ؑ فرماتے ہیں۔
’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ ﷺ کا علو اور مرتبہ ظاہرکیاہے اوروہ سورۃ ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْل ۔ یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات ﷺ مصائب اور دُکھ اٹھا رہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤیدّ ناصر ہوں۔ اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا ۔ یعنی اُن کا مکر الٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کیلئے بھیج دیئے ۔ ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوق نہ تھی بلکہ مٹی تھی۔ سجیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورۃ شریف میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کرکے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے۔
یعنی آپ کی ساری کاروائی کو برباد کرنے کیلئے جو سامان کرتے ہیں اور تدابیر عمل میں لاتے ہیں اُن کے تباہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو الٹا دیتا ہے کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی…… جب کبھی اصحاب الفیل پیدا ہوگا تب ہی اللہ تعالیٰ اُن کو تباہ کرنے کیلئے اُن کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے۔
پادریوں کا اصول یہی ہے اُن کی چھاتی پر اسلام ہی پتھر ہے ورنہ باقی تمام مذاہب اُن کے نزدیک نامراد ہیں ۔ ہندو بھی عیسائی ہوکر اسلام کے ہی رد میں کتابیں لکھتے ہیں۔ رام چند اور ٹھاکرداس نے اسلام کی تردید میں اپنا سارا زور لگاکر کتابیں لکھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اُن کا کانشنس کہتا ہے کہ اُن کی ہلاکت اِسلام ہی سے ہے طبعی طور پر خوف اُن کا ہی پڑتا ہے جن کے ذریعہ ہلاکت ہوتی ہے۔ ایک مرغی کا بچہ بلی کو دیکھتے ہی چلانے لگتا ہے اسی طرح پر مختلف مذاہب کے پیرو عموماً اور پادری خصوصاً جو اسلام کی تردید میں زور لگا رہے ہیں یہ اِسی لئے ہے کہ اُن کو یقین ہے بلکہ اندر ہی اندر ان کا دل ان کو بتاتا ہے کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو سِلسِل باطلہ کو پیس ڈالے گا‘‘۔
اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں حملہ کیا گیا ہے مگر مسلمانوں میں بہت کمزوریاں ہیں۔ اسلام غریب ہے اور اصحاب الفیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ دکھانا چاہتا ہے ۔ چڑیوں سے وہی کام لے گا ہماری جماعت ان کے مقابلہ میں کیا ہے ۔ اُن کے مقابلہ میں ہیچ ہے اُن کے اتفاق اور طاقت اور دولت کے سامنے نام بھی نہیں رکھتے ۔ لیکن ہم اصحاب الفیل کا واقعہ سامنے دیکھتے ہیں کہ کیسی تسلی کی آیات نازل فرمائی ہیں۔
مجھے یہی الہام ہوا ہے جس سے صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کرکے رہے گی ۔ ہاں اس پر وہی یقین رکھتے ہیں جن کو قرآن سے محبت ہے جسے قرآن سے محبت نہیں وہ ان باتوں کی کب پرواہ کرسکتا ہے‘‘۔
(الحکم جلد ۵ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۲۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد ہشتم صفحہ ۴۸۷۔۴۸۸)
حضرت حکیم الامّت الحاج مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ۔
’’یہاں بھی پہلے ایک شریر قوم کا بیان کیا ہے جو بڑی نکتہ چینی کی عادی اور موذی تھی اور اسلام کو عیب لگاتی تھی اور بہت سے اموال جمع کرکے فتح کے گھمنڈ میں مکہ پر اُنہوں نے چڑھائی کی۔ یہ ایک حبشیوں کا بادشاہ تھا …… آخر اس بادشاہ کے لشکر میں خطرناک وبا پڑی اور چیچک کا مرض جو حبشیوں میں عام طور پر پھیل جاتا ہے ان پر حملہ آور ہوا اور اوپر سے بارش ہوئی اور اس وادی میں سیلاب آیا۔ بہت سارے لشکری ہلاک ہوگئے اور جیسے عام قاعدہ ہے کہ جب کثرت سے مُردے ہو جاتے ہیں اور اُن کو کوئی جلانے والا اور گاڑنے والا نہیں رہتا تو ان کو پرندے کھاتے ہیں۔ اُن موذیوں کو بھی اسی طرح جانوروں نے کھایا ۔ یہ کوئی پہیلی اورمعماّ نہیں ۔ تاریخی واقعہ ہے۔ پر افسوس تمہاری عقلوں پر ! ‘‘۔ (نور الدین طبع سوم صفحہ ۱۶۲۔۱۶۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سورۃ الفیل کی بڑی لمبی اور تفصیلی تفسیر فرمائی ہے جو کہ ۷۷ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے میں اس میں سے صرف ان حصوں کی تفسیر اور بحث کو نوٹ کرتا ہوں جس سے دیگر مفسرین کی تفسیر کا مقابلہ اختصار سے ہوسکے۔ حضور فرماتے ہیں۔
’’ روایات میں آتا ہے کہ جب ابرہہ نے خانہ کعبہ پر مغمس میں حملہ کا ارادہ کیا اور اپنے ہاتھیوں کو لشکر کے آگے رکھنے کا حکم دیا تو بڑا ہاتھی جواور تمام ہاتھیوں کا لیڈر اور سردار تھا بیٹھ گیا اور اُس نے چلنے سے انکار کردیا۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ سمندر کی طرف سے کچھ پرندے اُڑتے ہوئے آرہے ہیں ۔ وہ پرندے چھوٹے چھوٹے تھے لیکن اُن کے منہ آدمیوں کی طرح تھے۔ ان کی چونچیں اونٹوں کی طرح تھیں اور اُن کے پنجے شیروں کی طرح تھے۔ ہر پرندہ کے پاس تین پتھر تھے۔ ایک پتھر اُس نے چونچ میں پکڑا ہوا تھا اور ایک ایک پتھر اُس نے ایک ایک پنجہ میں پکڑا ہوا تھا۔ پتھروں کے متعلق یہ روایت ہے کہ وہ چنے کے دانے سے چھوٹے اور مسور کے دانہ سے بڑے تھے گویا چنے اور مسور کے دانہ کے درمیان اُن کا حجم تھا۔ اُن پتھروں پر ابرہہ کے لشکر کے ایک ایک سپاہی کا نام لکھا ہوا تھا۔ کسی پر ابرہہ کا ، کسی پر کسی اور کا ،کسی پرکسی اور کا۔ جس پتھر پرکسی کا نام لکھا ہوا ہوتا تھا اُسی کی طرف وہ پرندے جاتے اور اُس کے سر پر دو پتھر مارتے پتھر اُس کے سر پر لگتا اور اُس کے پاخانہ کے مقام سے نکل جاتا اور وہ اُسی وقت مٹی کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ۔ اسی طرح لکھا ہے کہ اُن پتھروں سے سب کے سب آدمی مارے گئے یعنی ابرہہ کے لشکر میں جس قدر آدمی تھے اُن میں سے کوئی بھی نہیں بچا سوائے ابرہہ کے ۔ ابرہہ وہال سے بھاگا اُس کے نام کا پتھر جس پرندے کی چونچ میں تھا وہ بھی ساتھ ساتھ اڑتا گیا لیکن وہ پتھر اُس نے پھینکا نہیں یہاں تک کہ ابرہہ یمن جا پہنچا وہاں سے اُس نے جہاز لیا اور اس میں سوار ہوکر حبشہ کے ساحل پر پہنچا۔ پھر حبشہ کے ساحل پر پہنچ کر اُس زمانہ کے لحاظ سے پندرہ بیس دن کا سفر طے کرتے ہوئے وہ بخاشی کے پاس پہنچا اور اُسے بتایا کہ میں نے اس اس طرح خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ اچانک پرندے آئے اور انہوں نے آسمان پر سے پتھر پھینکے جن سے وہ سارے کے سارے آدمی مرگئے جو میرے ساتھ گئے تھے ۔نجاشی نے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے میری عقل میں تو نہیں آسکتا کہ چھوٹے چھوٹے پرندے آئیں لوگوں کو پتھر ماریں اور وہ مرجائیں۔ اتنے میں کچھ کھٹکا ہوا اور ابرہہ نے آسمان پر ایک اُسی قسم کا پرندہ دیکھ کر کہا ۔ بادشاہ سلامت اس قسم کے پرندے آئے تھے جن کی چونچ اور پنجوں میں پتھر تھے اوروہ ایک ایک آدمی کو مارتے تھے ابھی اُس نے اتنا ہی کہا تھا کہ پرندے نے ایک پتھر ابرہہ کے سر پر پھینکا پتھر پڑنے کی دیر تھی کہ وہ مرکر زمین پر جاپڑا۔
یہ وہ روایت ہے جو اپنی مکمل صورت میں راویوں نے بیان کی ہے اس روایت میں پتھروں کا ذکر آتا ہے اور اس لحاظ سے یہ میری پہلی بیان کردہ روایت کے خلاف بلکہ عقل کے بھی خلاف ہے اور کوئی عقلمند اس قسم کی باتوں کو صحیح تسلیم نہیں کرسکتا جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اکثر روایتیںیہی بتاتی ہیں کہ ابرہہ وہاں سے بھاگا مگر اُسے راستہ میں ہی چیچک ہوگئی اسی حالت میں وہ یمن پہنچا اور صنعاء کے قریب آکر مرگیا ۔ اور جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں اُن روایات میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ جس شخص کو پتھر لگتا تھا اُس کو چیچک نکل آتی تھی۔ دراصل یہ بہت مبالغہ آمیز روایتیں ہیں کہ پتھر اُن کے سر پر پڑتے اور ان کے پاخانہ کے سوراخ سے باہر نکل جاتے۔ مگر اسی قسم کی روایتوں میں سے بعض میں یہ بھی آتا ہے کہ جس کو پتھر لگتا اُس کو چیچک نکل آتی تھی۔ روایت کے یہ الفاظ دوسری تمام روایتوں کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں صرف چیچک ہوئی تھی ۔ مگر کہانی بنانے والوں نے اُسے کچھ کی کچھ شکل دے دی ۔یہ بات صحابہ کی متواتر روایت اور بعض دوسری روایتوں سے بھی ثابت ہے کہ اُنہیں چیچک ہوگئی تھی اور یہ بھی ثابت ہے کہ چیچک عرب میں پہلی دفعہ ابرہہ کے لشکر میں ہی نمودار ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک مسلمان کو یہ یقین کرانے کی کوشش کرنا کہ خدا تعالیٰ نے اُن کیلئے سمندر کی طرف سے خاص طور پر بعض ایسے جانور بھجوادئے تھے جن کا دنیا میں کہیں نام و نشان بھی نہیں ملتا اور پھر یہ کہنا کہ وہ تھے تو چڑیا کے برابر مگر اُن کے منہ آدمیوں کی طرح تھے چونچ اونٹ کی طرح تھی اور پنجے شیر کی طرح تھے بتاتا ہے کہ یہ کہانی بنانے والے نے الف لیلہ کے قصوں کو بھی مات کردیا ہے اگر تو وہ یہ کہتے کہ وہ پرندے بڑے بڑے دیو معلوم ہوتے تھے جیسے خیالی اور تصوری عقاب کا نقشہ کھینچا جاتا ہے اور بتاتے ہیں کہ اُن کے منہ بڑے خونخوار اونٹوں کی طرح تھے اور انہی کی طرح اُن کی گردنیں اُٹھی ہوئی تھیں۔ شیروں کی طرح بڑے بڑے پنجے تھے اور ہر ایک پنجے اور منہ میں پچاس پچاس سیر وزنی پتھر تھے جنہیں وہ آسما ن پر سے ابرہہ کے لشکر پر گراتے اور وہ اُسی وقت مرجاتے تب تو کوئی بات بھی ہوتی مگر وہ کہتے ہیں کہ وہ تھا تو چڑیا کا پنجہ لیکن نظر شیر کا پنجہ آتا تھا۔ بھلا چڑیا کے پنجہ سے شیر کی کیا ہیبت نظر آئے گی ۔ پھر چڑیا کی اتنی باریک سی چونچ سے جو تراشی ہوئی پنسل کی مانند ہو وحشی اونٹ کا اثر کس طرح پڑسکتا ہے پس یہ روایت اپنی ذات میں تمسخر سے کم نہیں اور بڑا تمسخر جو اس روایت میں کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ پرندے پتھر پھینکتے تھے تو جسے وہ پتھر لگتا اُسے چیچک نکل آتی گویا نعوذ باللہ خدا کو یہ نسخہ آج کل سوجھا ہے کہ وہ انسانی جسم کے اندر سے ہی چیچک کی بیماری پیدا کر دیتا ہے اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ کو یہ نسخہ معلوم نہیں تھا۔ اسی لئے وہ پرندے اُسے پیدا کرنے پڑے جو آدمیوں کے منہ والے اور اونٹ کی گردن والے اور شیر کے پنجے والے تھے اور و ہ بعض عجیب قسم کے پتھر جو اب دُنیا میں نہیں ملتے پھینکتے تھے ۔ یہ پتھر جس آدمی کے سر پر لگتے اُس کے پاخانہ کے سوراخ سے نکل جاتے مگر اس سب جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ صرف یہ ہوتا کہ پتھر جس کو لگتا اُس کو چیچک نکل آتی تھی یہ بات اپنی ذات میں ہی بتاتی ہے کہ یہ ان پڑھ عربوں کی قوت متخیلہ تھی جس نے یہ قصہ بنایا ۔ چونکہ وہ جانتے نہیں تھے کہ چیچک کیا ہوتی ہے اس لئے جب چیچک ہوئی تو لوگوں نے عجیب عجیب قصے بیان کرنے شروع کردئے ہوسکتا ہے کہ کسی نے یہ بیان کیا ہو کہ پتھروں پر اُن کی لاشیں ملیں۔ پھر کسی اور نے یہ ذکر کیا ہو کہ پرندوں نے اُن کا گوشت ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا تھا تو دوسرے نے یہ سمجھ لیا ہو کہ اُنہیں پرندوں نے ہی پتھر مار مار کر مار ڈالا تھا ۔ پھر جب انہوں نے کسی سے سنا کہ دراصل اُن کو چیچک نکل آئی تھی تو پہلی من گھڑت روایت کے ساتھ انہوں نے اس کو بھی ملا دیا اور روایت کو اس طرح شکل دے دی کہ وہ پرندے جس کو بھی پتھر مارتے تھے اس کو چیچک نکل آتی تھی ۔ یہ ایسی بات ہے جیسے مثل مشہور ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے پوچھا کہ بگلا پکڑنے کی کیا ترکیب ہے دوسرے نے جواب دیا کہ بگلا پکڑنے کی ایک بڑی عمدہ ترکیب ہے ۔ سردی کے موسم میں بگلا سکڑا ہوا تالاب کے کنارے بیٹھا ہوا ہوتا ہے تم موم لو اور آہستہ آہستہ لیٹتے لیٹتے جھاڑیوں اور پتھروں کے پیچھے چھپتے بگلے کے قریب جائو اور اُس کے سر پر موم رکھ دو۔ اس کے بعد چپ کرکے کسی پتھر کے پیچھے بیٹھ جائو جب سورج نکلے گا اور گرمی پیدا ہوگی تو وہ موم آہستہ آہستہ پگھل کر بگلے کی آنکھوں میں جاپڑے گی اور وہ اندھا ہو جائے گا ۔ اُس وقت آگے بڑھ کر بگلے کو پکڑ لینا ۔ اُس نے کہا اتنی کوشش کرنے کی بجائے کیوں نہ میں اُسی وقت بگلے کو پکڑ لوں جب میں اُس کے سر پر پہنچ جائوں موم رکھنے اور اُس کے پگھلنے کا انتظار کرنے اور پھر بگلے کے اندھے ہونے تک وہیں پتھروں کے پیچھے چھپ کر بیٹھے رہنے کی ضرورت ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ اگر اس طرح پکڑلوگے تو اس میں اُستاد ی کونسی ہوگی ۔ بعینہ یہی مثال اس روایت کو بیان کرنے والوں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے پرندے بھجوائے ہر پرندے کی چونچ اور پنجوں میں پتھر تھے ۔ وہ پتھر ہر ایک کے سر پر گراتے اور پھر جس کو بھی پتھر لگتا اس کو چیچک نکل آتی۔ سیدھی طرح کیوں نہ کہہ دیا کہ اُن کو چیچک نکل آئی تھی یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کیلئے اتنی بڑی کہانی کی ضرورت ہوتی۔ ہمارے سامنے خدا تعالیٰ روزانہ چیچک پیدا کرتا ہے مگرکبھی کوئی پرندے نہیں بھجواتا، فرق صرف یہی ہے کہ عرب میں چونکہ اس سے پہلے کبھی چیچک نہیں ہوئی تھی اس لئے وہ سمجھ نہ سکے کہ یہ کیا چیز ہے۔ جیسے آتشک پہلے یورپ میں ہوئی ہے اس کے بعد وہ دوسرے ممالک میں آئی۔ اسی طرح ہیضہ انیسویں صدی سے پہلے یورپ میں نہیں تھا ایشیائے کو چک اور چین میں ہوتا تھا پھر یہاں سے ایک روچلی اور یورپ میں بھی ہیضہ کے واقعات ہونے لگے اب بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ فلاں کو ہیضہ ہوگیا اگر ہم کہیں کہ خدا نے بڑے بڑے جن اور دیو بھیجے وہ ناک میں پھونک مارتے تھے جس سے انتڑیاں پھول جاتیں اور اس کے بعد دست لگ جاتے تھے۔ اور آدمی مر جاتا تھا تو کیا کوئی عقلمند اس کو ماننے کیلئے تیار ہوگا؟ اسی طرح چیچک اُن کو ویسے ہی نکلی جیسے آج کل لوگوں کو نکلتی ہے مگر چونکہ عربوں کو اس مرض کا علم نہیں تھا اسلئے مختلف باتوں کو سن سن کر انہوں نے ایک عجیب قصہ بنا لیا ۔ کسی سے سنا کہ وہ پتھروں پر مرے پڑے تھے کسی سے سنا کہ پرندے اُن کا گوشت نوچتے تھے کسی سے سنا کہ اُنہیں ایسے دانے نکل آتے تھے جو چنے سے چھوٹے اور مسور سے ذرا بڑے تھے۔ تو ان سب باتوں کو ملاکر انہوں نے’’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھا ن متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کی طرح ایک افسانہ بنا لیا ۔ حالانکہ واقعہ صرف اتنا تھا کہ اُن کو چیچک نکل آئی تھی۔ باقی یہ کہ پتھروں کا کیا واقعہ ہے اس کا ذکر اگلی آیت میں آجائے گا ۔ بہرحال وہ بات جو میں نے بیان کی ہے اُس کی تصدیق میں بعض اور روایات بھی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ چیچک والی بات ہی صحیح ہے۔
دُرمنثور میں ابن اسحاق جو ایک بہت بڑے مؤرخ گذرے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرتے ہیں (یہ روایت بعض اور کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے) کہ آپ نے فرمایا میں نے خود مکہ میں اپنی آنکھوں سے دو آدمیوں کو دیکھا جو بھیک مانگ رہے تھے اور آنکھوں سے اندھے تھے۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو اُس نے بتایا کہ یہ ابرھہ کے ہاتھیوں کے مہاوت ہیں ۔ دیکھ لو اس روایت سے بات بالکل صاف ہو جاتی ہے چیچک ہی ایک ایسا مرض ہے جس سے اکثر لوگ اندھے ہوجاتے ہیں۔ پرانے زمانہ میں تو اس قسم کے اندھوں کی بڑی کثرت تھی۔ اگر اندھوں سے اُن کے اندھا ہونے کی وجہ معلوم کی جاتی تھی تو سومیں سے اسی ّکا جواب یہ ہوتا تھا کہ چیچک نکلنے کی وجہ سے وہ اندھے ہوگئے دراصل چیچک جب شدت سے نکلے تو آنکھ میں اس کے دانے نکل آتے ہیں اور اس کی وجہ سے کئی لوگوں کی آنکھیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اب دیکھو کہ پہلی روایت میں تو یہ ذکر تھا کہ پرندے پتھر مارتے ہر پتھر آدمی کے سر پر لگتا اور اُس کے پاخانہ کے سوراخ سے نکل جاتا اور پھر اُس کو چیچک ہو جاتی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ان میں سے کسی بات کا ذکر نہیں فرماتیں۔ وہ یہ نہیں کہتیں کہ میں نے اُن کے سر دیکھے تو اُن میں سوراخ تھے بلکہ وہ سیدھی طرح ایک بات بیان کر دیتی ہیں کہ میں نے بعض اندھوں کو مکہ کی گلیوںمیں بھیک مانگتے دیکھاتو میرے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ ابرہہ کے ہاتھیوں کے غیل بان تھے۔ پھر روایت میں تو یہ ذکر آتا ہے کہ جس کو بھی پتھر لگتا وہ مر جاتا مگر حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے اُن میں سے بعض لوگوں کو زندہ بھیک مانگتے دیکھا صرف اتنی بات تھی کہ اندھے ہوچکے تھے اور یہ صریح طور پر چیچک نکلنے کی علامت ہے اب بھی باوجود اس کے کہ چیچک کے ٹیکے نکل آئے ہیں اگر اندھوں سے پوچھو تو بہت سے ایسے اندھے نکل آئیں گے جن کی بینائی چیچک کے نتیجہ میں ضائع ہوئی ہوگی۔
اسی طرح حلیہ ء ابو نعیم میں آتا ہے کہ لیسَ کلھم اصابہ العذاب یعنی ہر ایک کو یہ عذاب نہیں پہنچا تھا۔ اگر خدا نے پتھروں پر ہر ایک کا نام لکھ لکھ کر بھیجا تھا تو یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ خدا تو پتھروں پر اُن کا نام لکھے مگر وہ نہ مریں۔ اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ یہ بیماری تھی جس سے کچھ مرگئے او ر کچھ بچ گئے۔
پھر یہ بھی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ جس کو وہ پتھر لگتا تھا اُس کا گوشت جھڑنے لگ جاتا تھا ۔ یہ بھی چیچک کی ایک علامت ہے ۔ جب چیچک بڑی کثرت اور شدت کے ساتھ نکلتی ہے تو جسم کا گوشت گل سڑ کر جھڑنے لگتا ہے اور چمڑا بالکل گل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پتھروں کی جو شکل بتائی گئی ہے وہ بھی چیچک کے دانوں سے ملتی ہے کہا جاتا ہے کہ وہ پتھر چنے سے چھوٹا اور مسور سے بڑا ہوتا تھا اور یہی چیچک کے دانوں کی کیفیت ہوتی ہے چیچک کا دانہ چنے سے چھوٹا اور مسور سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ دراصل جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس قسم کی کہانیاں بات کو پورے طور پر نہ سمجھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی نے ابرہہ کے لشکر پر اس آسمانی عذاب کے نازل ہونے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہو کہ خدا نے اُن پر پتھرائو کردیا اور سننے والے نے یہ سمجھا ہو کہ واقعہ میں اُن پر پتھر گرے تھے۔ ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں ’’ تجھ پر پتھر پڑیں ‘‘ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ واقعہ میں تیرے سر پر پتھر آ آکر گریں۔ میں سمجھتا ہوں ایسی ہی کوئی بات اُس وقت کسی نے کہی ہوگی کہ آسمان سے اُن پر پتھر پڑے۔ اُس کا تو یہ مطلب تھا کہ آسمان سے عذاب نازل ہوا مگر سننے والے نے نتیجہ نکال لیا کہ واقعہ میں اُن پر پتھر پڑے تھے۔ پھر جب انہوں نے کسی ایسے شخص کو دیکھا جو اس مرض کے حملہ سے بچ گیا تھا اور اُس کے تمام جسم پر انہوں نے داغ دیکھے جو چنے سے کچھ چھوٹے او ر مسور سے ذرا بڑے تھے تو سمجھا کہ یہی اُن پتھروں کے نشان ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پتھر چنے سے چھوٹے اور مسور سے بڑے تھے‘‘۔
(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ ۴۷ تا ۵۱)
نیز فرمایا۔
’’ حل لغات میں جو معانی بتائے گئے ہیں اُن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو تفسیر میں اُوپر کرچکا ہو ں وہی درست اور صحیح ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ الم تری کیف فعل ربک باصحب الفیل میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مستقل طور پر عیسائیوں کے منصوبوں کو ایک لمبے عرصہ تک باطل کردیا۔ اسی لئے خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ الم یضل کیدھم کیا خدا نے اُن کی کید کو ہٹا نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ الم یجعل کیدھم فی تضلیل تضلیل مصدر ہے اور مصدر عربی زبان میں ہمیشہ مستقل اور لمبے زمانہ کے لئے استعمال ہوتاہے مثلاً ہم کہتے ہیں قامَ زید تو اس کے معنے ہو ں گے زید کھڑا ہوا لیکن اگر ہم کہیں گے زید فائم تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ زید دیر سے کھڑا ہے اور آئندہ بھی اُس کے کھڑا رہنے کی امید ہے۔ اسی طرح الم یجعل کیدھم فی تضلیل کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُس نے عیسائیوں کا منصوبہ صرف اُس وقت باطل نہیں کیا جب وہ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کیلئے آئے تھے بلکہ اُس نے بعد میں بھی ایک لمبے عرصہ تک اُن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور اُن کی قوت کو کچل دیا تا محمد رسول اللہ ﷺ کو بڑھنے اور پنپنے کا موقع ملے اور آپ ؐ کی ترقی کے راستہ میں کوئی روک واقع نہ ہو۔ چنانچہ اسلام کے مقابلہ میں عیسائی ایک لمبے عرصہ تک مغلوب رہے۔ مگر پھر قرآن کریم کی ہی پیشگوئیوں کے مطابق دوبارہ عیسائیوں کو غلبہ حاصل ہوا ۔ اور اب الٰہی فیصلہ یہ ہے کہ وہ مسیحیت کو دوسری شکست انشاء اللہ ہمارے ہاتھ سے دے دے گا‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ ۷۵)
نیز فرمایا۔
ابابیل جمع ہے جس کا مفرد کوئی نہیں لیکن بعض کے نزدیک اس کا مفرد ابول ہے۔ ابابیل کے متعلق عوام الناس یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ ابابیل وہی پرندہ مراد ہے جسے اردو زبان میں بھی ابابیل کہتے ہیں مگر یہ درست نہیں ۔ جس پرندے کو ہم ابابیل کہتے ہیں عربی زبان میں اُسے ابابیل نہیں بلکہ خفاش کہتے ہیں ۔ پس اس جگہ ابابیل سے کوئی خاص پرندہ مراد نہیں بلکہ اس کے معنے فِرَقٌ یعنی جماعتوںکے ہیں اور طیر ابابیل سے مراد یہ ہے کہ جماعت در جماعت اور گروہ در گروہ پرندے آئے۔ یہ لفظ انسانوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور حیوانوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور پرندوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے مگر گروہ در گروہ گھوڑے کسی جگہ کھڑے ہوں تو اُن کے متعلق بھی ابابیل کا لفظ استعمال کرلیا جائے گا چنانچہ عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ جاء با لخیل ابابیلجس کے معنے جماعات من ھھنا وھھناکے ہیں یعنی جماعت در جماعت اور گروہ در گروہ گھوڑے آئے کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے اسی طرح اگر انسانوں کا کوئی بہت بڑا لشکر جمع ہو تو اسے بھی ابابیل کہہ دیں گے اور مراد یہ ہوگی کہ بٹالین کے بعد بٹالین اور فوج کے بعد فوج آتی چلی گئی ۔ پھر اس کے ایک معنے ’’جماعات عظام‘‘ کے بھی ہوتے ہیں یعنی بڑی بڑی جماعتیں ۔ اور ابابیل کے معنے اقاطیع تتبع بعضھا بعضاً کے بھی ہوتے ہیں یعنی بڑے بڑے ٹکڑے جو ایک دوسرے کے بعد متواتر آتے چلے جائیں۔ پس ارسل علیھم طیرا ابابیل کے یہ معنے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف پرندے بھیجے جماعت در جماعت کچھ یہاں سے کچھ وہاں سے ۔ وہ بڑے بڑے ٹکڑوں میں باری باری آتے تھے اور گروہ در گروہ تھے۔ اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ چیچک سے اُس لشکر میں سخت موت پڑی اور لاشیں میدان میں چھوڑ کر باقی لوگ بھاگ گئے اور چاروں طرف سے گدھ او ر چیل آکر وہاں جمع ہوگئے تا ان کی لاشوں سے نوچ نوچ کر گوشت کھائیں۔
سجیل چکنی مٹی کے ڈلے کی طرح کے پتھر کو کہتے ہیں لیکن لغت کے بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ کلمہ معرب ہے اور سنگ گل سے بنا ہے جو فارسی زبان کا لفظ ہے یعنی پتھر اور مٹی ۔ عرب چونکہ گ نہیں بول سکتے اس لئے جب فارسی سے عربی زبان میں یہ لفظ گیا تو سنگ کی بجا ئے سنج اور گل کی بجائے جل بن گیا پس سجیل کے معنے ہیں ایسا پتھر جو کئی پتھر کے ٹکڑوں اور مٹی کی تہوں سے بنا ہوا ہو یا پکی ہوئی مٹی کا پتھر جسے پنجابی زبان میں کھنگر کہتے ہیں۔
ترمیھم بحجارۃ من سجیل کے معنے عام محاورہ کے مطابق تو یہ ہیں کہ اُن پر سجیلمارتے تھے لیکن اس کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ اُن کو سجیل پر مارتے تھے۔ اور چونکہ مردار خور پرندوں کا یہ عام فاعدہ ہے کہ وہ مردہ کا گوشت لیکر پتھر پر بیٹھ جاتے ہیں اور گوشت کو باربار پتھر پر مارتے جاتے اور کھاتے جاتے ہیں نہ معلوم اُسے نرم کرتے ہیں یا اُس کی صفائی کرتے ہیں۔ بہرحال چیلوں اور گدھوں کا یہ عام قاعدہ ہے کہ وہ گوشت کو کھاتے ہوئے پتھرپر مارتے جاتے ہیں اس لئے یہی درست ہے کہ جاء کے معنے اس جگہ ’’پر‘‘ کے لئے جائیں خصوصاً جبکہ یہ ثابت ہے کہ یہ لوگ چیچک سے مرے تھے اور اُن کی لاشیں تمام میدان میں پھیل گئی تھیں ۔ پس آیت کا یہ مطلب ہے کہ مردار خور پرندے وہاں جمع ہوگئے اور انہوں نے اُن کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اور پتھروں پر مارمار کر کھانی شروع کردیں۔۔۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُس تباہی کا نقشہ کھینچا ہے جو اصحاب الفیل پر آئی ۔ آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ چیلیں اور گدھ اور کوّے اوردوسرے مردار خور جانور جب کوئی بوٹی کھاتے ہیں تو کس طرح کھاتے ہیں وہ مردارکی بوٹی توڑ کر ایک طرف جا بیٹھتے ہیں اور پتھر پر بیٹھ کر کبھی اُسے ایک طرف سے مارتے ہیں کبھی دوسری طرف سے اور اس طرح بار بار اُس کو پتھر پر مارنے کے بعد کھاتے ہیں یہی کیفیت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ظاہر کی ہے اور بتایا ہے کہ جب ہم نے چیچک سے اُن کو مار دیا توچونکہ وہ ہزاروں ہزار تھے اس سے مردوں کے ڈھیروں پرگروہ در گروہ اورجماعت در جماعت چیلیں اور گدھ اورکوّے اور دوسرے مردار خور جانور اکٹھے ہوگئے۔ اور وہ بڑے بڑے جرنیل اور کرنیل جن کے ارد گرد ہر وقت پہرے رہتے تھے اور جو بڑی بڑی اعلیٰ وردیاں پہن کر اکڑ اکڑ کر چلتے تھے ان کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اور پتھروں پر مار مار کرکھانے لگے۔
غالباً کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنی زندگی میں یہ نظارہ نہ دیکھا ہو کہ چیلیں اور گدھ کس طرح بوٹی کھاتے ہیں۔ اُ ن کا یہی طریق ہوتا ہے کہ وہ بوٹی کو توڑ کر اینٹ یا پتھر پر جا بیٹھتے ہیں اور پھر اُس بوٹی کو چونچ میں مضبوطی سے پکڑ کر پتھر پر مارتے ہیں۔ کبھی اس طرف سے اور کبھی اس طرف سے شاید اس لئے کہ وہ مار مارکر اسے نرم کرنا چاہتے ہیں۔ یا اس کی کوئی اور وجہ ہے بہرحال وہ کرتے اسی طرح ہیں۔ ابرھہ کا لشکر بھی جب چیچک سے مرگیا تو مردار خور جانور اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے ا ن کی بوٹیاں توڑ توڑ کر پتھروں پر مار مارکر کھانی شروع کردیں اس کے بعد کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فجعلھم کعصف ما کول ۔ اس نے انہیں دانا کھائے ہوئے سٹیِ کی طرح کردیا جس طرح اندر سے گندم کو کیڑا کھا جائے اور اوپر کا صرف چھلکا باقی رہ جائے اسی طرح اُن کی کیفیت ہوگئی اُن کا گوشت سب گدھیں او رچیلیں اورکوّے کھا گئے اورباقی صرف ہڈیاں رہ گئیں یا چمڑا اور سر کے بال رہ گئے۔
یہ وہ واقعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں بیان فرمایا اور جو تمام آیات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے افسوس ہے کہ مفسرین نے بجائے اس کے کہ حقیقت پر غور کرتے ایسے ایسے لاطائل اوربے بنیاد اور لغوقصے اس کے متعلق اپنی تفسیروں میں بھر دیئے ہیں کہ جن کو پڑھ کر انسان کی اپنی عقل بھی حیران ہوتی ہے اور دشمن کو بھی اسلام پر ہنسی اڑانے کا موقع ملتا ہے۔
(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ ۷۵ تا ۷۷)
موجودہ زمانہ کے مفسرین پر افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے وہ زمانہ پایاجس میں ان تمام فرسودہ قصوں کی بیخ کنی کی گئی جوکہ لوگوں کے لئے اسلام پر ہنسی کرنے اور اعتراض کرنے کا باعث تھے انہوں نے صرف اور صرف مخالفت اور تعصب کی وجہ سے ان پر معارف تفاسیر سے سیکوئی فائدہ حاصل نہ کیا۔ قارئین کے لئے آج بھی موقعہ ہے کہ وہ عام لوگوں کے سامنے ان تفاسیرکے معارف کو پیش کرتے ہوئے اسلام کے دفاع میں لوگوں کے ذہنوں میں بسے قصوں اور کہانیوں سے اُن کے ذہنوں کو پاک و صاف کریں تاکہ وہ بھی حکمت کی باتوں کو جان کر پھر آگے دنیا کے معلم بنیں۔
اگر قرآن کریم کی سار ی تفسیرکاجائزہ پیش کیاجائے تو یہ بات کئی جلدوں تک پھیل جائے میں نے صرف چند نمونے قارئین کے سامنے پیش کئے ہیں تاکہ ایک اندازہ ہوسکے کہ قرآنی علوم اورمعارف کس تفسیر میں موجود ہیں اورکون سی تفاسیر ان علوم سے خالی اور قابل اعتراض باتوں پر مشتمل ہیں اس تفسیری نمونہ کو اب میں ختم کرتے ہوئے ایک دوسرے پہلو کو بھی قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔











تراجم القرآن
قرآن کریم کی تفاسیر کرنے میں علماء اور مفسرین نے جس طرح بے احتیاطیاں کی ہیں ترجمہ کرنے میں بھی غور و فکر سے کام نہیں لیا اور یہ نہیں دیکھا کہ آیا یہ ترجمہ کرنے سے قرآن کریم کی شان یا خدا کی شان یا نبی کی شان میں کوئی فرق تو نہیں آتا، بلکہ جیسا جی میں آیا ویسا ہی بغیر غور کئے ترجمہ کردیا۔ اس جگہ میں قارئین کیلئے ایسی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے۔
ان الذین کفروا سوا ء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لایؤمنون
(البقرہ آیت ۷)
اس آیت کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یوں کیا ہے کہ ’ ’ ایسے لوگ جنہوں نے کفرکیا (اور) تیرا اُن کو ڈرانا یا نہ ڈرانا اُن کیلئے یکساں (اثر پیدا کرتا ) ہے جب تک وہ اس حالت کو نہ بدلیں ایمان نہیں لائیں گے۔
اس آیت کا ترجمہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اس طرح کرتے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردہے اُن کیلئے یکساں ہے خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو بہر حال وہ ماننے والے نہیں ہیں‘‘۔
مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں ’’ بے شک جو لوگ کافر ہوچکے ہیں برابر ہے اُن کے حق میں خواہ آپ اُن کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لاویں گے ‘‘۔
مولانا شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ اس طرح ہے کہ ’’ تحقیق جو لوگ کہ کافر ہوئے برابر ہے اوپر ان کے کیا ڈرایا تو نے اُن کو یا نہ ڈرایا تو نے اُن کو نہیں ایمان لائیں گے‘‘۔
مولانا سیدمقبول صاحب شیعہ عالم ترجمہ کرتے ہیں۔
’’ جو کافر ہوچکے ان کے لئے برابر ہے خواہ تم ان کو ڈرائو یانہ ڈرائو وہ ایمان نہ لائیں گے‘‘
مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی ترجمہ کرتے ہیں کہ ۔
’’ بیشک جن کی قسمت میں کفر ہے انہیں برابر ہے چاہے تم اُنہیں ڈرائو یا نہ ڈرائو وہ ایمان لانے کے نہیں ‘‘۔
مولانا سر سید احمد خان صاحب ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ ہاں جو کفر میں پڑے ہیں خواہ اُن کو ڈرائو خواہ نہ ڈرائو اُن کو سب برابر ہے وہ ایمان نہیں لانے کے‘‘۔
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اس طرح ترجمہ کرتے ہیں ۔
’’ بیشک جو لوگ کافر ہوچکے ہیں برابر ہے اُن کو تو ڈرائے یا نہ ڈرائے وہ ایمان نہ لائیں گے۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر جتنے بھی مترجمین ہیں جو ترجمہ انہوں نے کیا ہے وہ سیدھا سیدھا قرآن کریم کی اس آیت کے بالکل خلاف ہے کہ آئندہ کفار فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اب جب ان کے تراجم کے مطابق کفار ڈرائے یا نہ ڈرائے جائیں ایمان لانے والے نہیں تو پھر لوگ فوج در فوج کس طرح اسلام میں داخل ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح اس سے آگے والی آیت جو ختم اللہ علیٰ قلوبھم والی ہے کہ اللہ نے اُن کی دلوں پر مہر کردی ہے جو ہمیشہ مخالفین اسلام کی طرف سے اعتراضات کا نشانہ بنی رہی اُن کے مطلب کی تصدیق کرتی ہے کہ جب خدا نے ہی مہر لگادی ہے اور پھر یہ بھی خدا نے فرمایا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے تو پھر بندے کا کیا قصور یہ تو خدا ہی نے کیا ہے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جو ترجمہ پیش کیا ہے وہ اس اعتراض کو جڑسے اُکھاڑ دیتا ہے۔ اور دیکھیں کیا ہی پیارا ترجمہ ہے کہ جب تک وہ اس حالت کہ نہ بدلیں ایمان نہیں لائیں گے ہاں جیسے ہی انہوں نے اپنی حالت کو بدل دیا تو پھر وہ ضرور ایمان لے آئیں گے اور دلوں اور کانوں اور آنکھوں کی مہریں بھی خود بخود ٹوٹ جائیں گی۔
۲۔ ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ علیم و خبیر ہے اسے ہر بات کا علم ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے اور جو کچھ زمین اورآسمان میں ظاہر اور پوشیدہ ہے سب کو خدا تعالیٰ جانتا ہے (النمل آیت ۲۶) یہی مضمون بار بار قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر آیا ہے اسی بنا پر خدا تعالیٰ کو عالم الغیب مانا جاتا ہے لیکن قرآن کریم کے مترجمین نے ایک جگہ ایسا ترجمہ کیا ہے جوکہ خدا کے عالم الغیب ہونے کے بالکل خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یعلم اللہ الذین جَھدَوا منکم ویعلم الصٰبرین۔ (سورۃ اٰل عمران آیت ۱۴۳)
اس آیت کے تراجم اس طرح ہوئے ہیں۔
’’ کیا تم کو خیال ہے کہ داخل ہو جائو گے جنت میں اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیںکیا ثابت رہنے والوں کو‘‘
(مولانا محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان)
۲۔ ہاں کیا تم یہ خیال کرتے ہوئے کہ جنت میں جا داخل ہوگے حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہو اور نہ اُن کو دیکھا جو ثابت قدم رہنے والے ہیں‘‘۔ (مولانا اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی)
۳۔ ’’ کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیںکہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں‘‘۔ (مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب)
۴۔’’ کیا تم نے یہ گمان کیا تھا تاکہ بہشت میں چلے جائوگے ؟ حالانکہ اُس وقت تک اللہ نے بذریعہ امتحان نہ اُن لوگوں کو جانا تھا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور نہ اُن لوگوں کو جو ثابت قدم رہے‘‘ (مولانا سید مقبول احمد صاحب)
۵۔ ’’ کیا اس گما ن میں ہو کہ جنت میں چلے جائوگے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوںکا امتحان نہ لیا اورنہ صبر والوں کی آزمائش کی‘‘۔(مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی)
۶۔ ’’ کیا تم نے گمان کیا کہ جنت میں جاویں گے اور ابھی تک نہیں جانا اللہ نے تم میں سے اُن لوگوں کو جو جہاد کرتے ہیں اور (ابھی تک نہیں جانا) صبر کرنے والوں کو‘‘۔
(مولانا سر سید احمد خان صاحب)
اب ان تراجم کے بالمقابل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ترجمہ دیکھیں۔
’’ کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جائوگے حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جو مجاہد ہیں ظاہر نہیں کیا اور نہ انہیں جو صابر ہیں ابھی اُس نے ظاہرکیا ہے ‘‘
سبحان اللہ !ہے کوئی اعتراض والی بات کون مخالف ہے جو اس ترجمہ کو پڑھ کر باقی تراجم پر ہونے والے اعتراض کی طرح اس پر اعتراض کرسکتا ہے۔ کوئی نہیں یہ ترجمہ قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کی عین شان کے مطابق ہے۔
۳۔ خدا تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے ۔ اور خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنے کاحکم نہیں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ۔
لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون۔ (حم السجدہ آیت ۳۸)
یعنی نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ صرف اللہ کو ، جس نے ان دونوں کو پیدا کیا ہے،۔ سجدہ کرو اگر تم پکے موحد ہو۔
اِس کے بالمقابل یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے آدم کو سجدہ کروایا۔ اور یہ مضمون لوگوں نے علماء کے غلط ترجموں ہی سے لیا ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس
(البقرۃ آیت ۳۵)
مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کیاہے کہ۔
۱ ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ‘‘۔ (احمد رضا خان صاحب بریلوی)
۲۔ ’’ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو، تو انہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے ‘‘
(مولانا سر سید احمد خان صاحب)
۳۔ ’’ اور جس وقت ہم نے کل فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب ہی نے سجدہ کیا‘‘۔ (مولانا سید مقبول احمد صاحب)
۴۔ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم کے آگے جھک جائو تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا ‘‘۔ (مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب)
۵۔’’ اور جب کہا ہم نے واسطے فرشتوں کے سجدہ کرو آدم کو پس سجدہ کیا مگر شیطان نے نہ مانا ‘
(مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی)
۶۔ ’’ اور جس وقت حکم دیا ہم نے فرشتوں کو (اور جنوں کو بھی) کہ سجدہ میں گر جائو آدم کے سامنے سو سب سجدے میں گر پڑے بجز ابلیس کے ‘‘۔
(مولانا اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی)
۷۔ ’’اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدہ میں گر پڑے مگر شیطان ‘‘
(مولانا محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان)
ان تراجم کے بالمقابل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے زیر بحث آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔
’’ اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو اس پر انہوں نے تو فرمانبرداری کی مگر ابلیس نے نہ کی۔
سجدہ کرنے کے معنی فرمانبرداری کے بھی ہوتے ہیں (اقرب) اور یہ معنی ایسے ہیں جوکہ قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہیں جبکہ دیگر مترجمین نے جو ترجمہ کیا ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم سے جگہ جگہ ٹکراتا ہے ۔ اور بالکل غلط ترجمہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح سے کیا ہے
’’ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی خاطر سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہوگئے سوائے ابلیس کے اس نے انکار کیا اور استکبار سے کام لیا او وہ کافروں میں سے تھا‘‘
قرآن کریم میں انبیآء کے خلاف مخالفین کی تدبیروں کاذکر آتا ہے جس کے لئے کے لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں کئی جگہوں پر آیا ہے جیسے سورۃ یونس ، اعراف، سبا، نمل، الٰ عمران وغیرہ وغیرہ ۔ اس لفظ کا ترجمہ کرتے وقت بھی مترجمین نے احتیاط سے کام نہیں لیا میں صرف دو جگہ کی مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
۱۔ سورۃ الفال ، آیت ۳۱ ہے کہ
ویمکرون ویمکر اللہ واللہ خیر المٰکرین۔
۲۔ قل اللہ اسرع مکرا۔ (یونس آیت ۲۲)
ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ۔ (انفال ۳۱)
ان سے کہو ’’ اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے‘‘ (یونس ۲۲)
(مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب)
۲۔ وہ (تیرے ساتھ) مکر کرتے تھے اورخدا (اُن کے ساتھ) مکر کرتا تھا۔
اور اللہ سب مکر کر نے والوں میں بہتر ہے‘‘ (انفال۳۱)
کہدے (اے پیغمبر) کہ اللہ بہت تیز ہے مکر میں۔ (یونس ۲۲)
(سر سید احمد خان صاحب)
۳۔ اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ نیک مکر کرنے والا ہے۔
(اتفال ۳۱)
کہہ کہ اللہ بہت جلد کرنے والا ہے مکر ۔ (یونس ۲۲)
(مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی)
۴۔ اور وہ بھی دائو کرتے تھے اور اللہ بھی دائو کرتا تھا اور اللہ کا داو سب سے بہتر ہے
(انفال ۳۱)
کہہ دے کہ اللہ سب سے جلد بنا سکتا ہے حیلے ۔ (یونس ۲۲)
ان مترجمین کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے یہ ترجمہ کیاہے کہ اللہ اپنا دائو کر رہا تھا اور اللہ سب دائو کرنے والوں سے بہتر دائو کرنے والاہے۔ (انفال ۳۱)
اسی طرح محمود الحسن دیوبندی صاحب نے بھی دائو کا لفظ ہی استعمال کیا ہے جناب شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے فارسی ترجمہ میں بدسگالی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان تراجم کے مقابل پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ترجمہ دیکھیں۔
۱۔ اور وہ بھی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیریں کر رہا تھا اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے‘‘ (الانفال ۳۱)
۲۔ تو (اُنہیں) کہہ (کہ اس کے مقابل پر) اللہ کی تدبیر تو بہت ہی جلد (کارگر) ہوا کرتی ہے۔ (یونس ۲۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں اور دوسروں کے ترجمہ میں فرق دیکھیں۔ پھر اس ترجمہ کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بامحاورہ ترجمہ ہے جوکہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے ۔ اس ترجمہ میں جن الفاظ کی عربی عبارات آیت میں موجود ہیں اس بات کو سمجھانے کیلئے تاکہ بامحاورہ ترجمہ سمجھ میں آجائے زائد الفاظ کو بریکٹ میں دیا گیا ہے جبکہ یہ خوبی دوسرے تراجم میں دیکھنے میں نہیں آتی۔
درجہ بالا آیت کے تراجم کو ایک بار پھر غور سے پڑھیں توآپ کو نظر آئے گا کہ ان مترجمین نے خدا تعالیٰ کی طرف کیسے کیسے الفاظ پھیرے ہیں عام مہذب گفتگو میں بھی کوئی شریف انسان کسی دوسرے آدمی کیلئے ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتا۔ ان تراجم کو دیکھ کر خدا کے بارے میں کی گئی گستاخی صاف نظر آتی ہے۔
۵۔ مندرجہ بالا آیات کے ترجمہ میں خدا تعالیٰ کو دائو لگانے والا مکر کرنے والا ، جیلے کرنے والا وغیرہ لکھا ہے نعوذ باللہ۔ اب ایک دوسری مثال بھی دیکھ لیں۔
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
ان المنا فقین یخٰدعون اللہ وھو خاد عھم (سورۃ النسآء آیت ۱۴۳)
ترجمہ دیکھیں۔ البتہ منافق دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور وہی اُن کو دغا دے گا۔
(مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان)
۲۔ یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے اُنہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ (مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب)
۳۔ بیشک منافق اللہ کو فریب دیتے ہیں اور اللہ اُن کو فریب دینے والا ہے۔
(مولانا سر سید احمد خان صاحب)
۴۔ منافقین دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور اللہ بھی اُن کو دغا دے گا۔
(مولانا محمود الحسن صاحب)
۵۔ تحقیق منافق فریب دیتے ہیں اللہ کو اور وہ فریب دینے والا ہے ان کو۔
(مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی)
بالکل ایسے ہی تراجم ڈپٹی نذیر احمد صاحب جناب محمد صاحب جالندھری مولانا شاہ عبد القادر صاحب نے بھی کئے ہیں۔اور کسی کے دل میں بھی ایسا ترجمہ کرتے ہوئے کوئی انقباض پیدا نہیں ہوا بڑے کھلے دل سے خدا تعالیٰ پر ایسا الزام دھر دیا ہے کوئی شریف انسان اپنے لئے ایسے الفاظ برداشت نہیں کرتا۔
احمد رضا خان صاحب بریلوی نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ ۔
’’بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی اُنہیں غافل کرکے مارے گا‘‘ اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس ترجمہ میں کتنی کمی ہے ایک مفہوم اپنی طرف سے اس ترجمہ میں داخل کردیا گیا ہے ۔ ان تراجم کے مقابل پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
منافق یقینا اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور وہ اُنہیں ان کے دھوکے کی سزا دے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قرآنی آیت کے عین مطابق اور خدا تعالیٰ کی شان کے مطابق اس آیت کا ترجمہ کیا ہے اور کسی شخص کو اس ترجمہ پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔
۶۔ خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے ہدایت اور گمراہی کے سارے راستے بیان کر دیئے ہیں اور انسان کو آزاد چھوڑا ہے چاہے وہ ہدایت کا راستہ اختیار کرے چاہے گمراہی کا۔ اس کا حساب آخرت میں لیا جائے گا۔ اورخدا تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ اگر یہ بات درست ما ن لی جائے کہ خدا تعالیٰ کسی کو مگراہ کرتا ہے تو پھر بندے کا کیا اختیار یہ تو خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے اور جب گمراہی اورہدایت خدا تعالیٰ نے اپنے اختیا ر میں رکھی ہے تو پھر قیامت کے د ن کسی حساب کتاب یا جزا سزا کا کیا سوال باقی رہتا ہے ۔ قرآن کریم میں صاف آیا ہے کہ جو چاہے قبول کرے جو چاہے انکار کرے خدا تعالیٰ کسی سے زبردستی نہیں کرتا۔ اور نہ ہی کسی کو گمراہ کرتا ہے۔ لیکن مترجمین قرآن نے تراجم کرتے وقت اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا ۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
ومن یضلل اللہ فلن تجدلہ سبیلاً (النسآء ۱۴۴)
اس آیت کے تراجم اس طرح کئے گئے ہیں۔
٭۔ ’’ اور جسے اللہ گمراہ کرے تو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔‘‘
(مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی)
٭۔’’ اور جس کو گمراہ کرے اللہ پس ہرگز نہ پائے گا تو واسطے اس کے راہ ‘‘
(مولانا شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی)
٭۔ ’’اور جس کو خدا تعالیٰ گمراہی میں ڈال دیں ایسے شخص کیلئے کوئی سبیل نہ پائو گے۔
(مولانا اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی)
٭۔ ’’اور جس کو اللہ گمراہ کرے تو پھر تو ہرگز نہ پاوے گا اس کیلئے’’رستہ ‘‘۔
( جناب ابو الاعلیٰ مودودی)
٭۔’’ اور جس کو گمراہ کرے اللہ تو ہرگز نہ پاوے گا تو ان کے واسطے کہیں راہ‘‘۔
(مولانا محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان)
٭۔ ’’اور جس سے خدا توفیق ہدایت سلب کر لے گا۔ تم اس کے لئے ہرگز کوئی راہ نہ پائوگے۔ (سید مقبول احمد صاحب)
ان مترجمین کے علاوہ بھی جس قدر مترجمین ہیں سب نے ہی اس طرح کا ترجمہ کیا ہے مولانا عبد اللہ یوسف علی صاحب بھی اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
Whome Allah leaves straying never will there find for him the way.
اب اس آیت کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
’’ اور جسے اللہ ہلاک کردے تو اس کیلئے ہرگز (نجات کا) کوئی راستہ نہیں پائے گا۔‘‘ آپ نے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اضل کا لفظ ہے جس کے ایک معنی ہلاک کرنے کے بھی ہیں(اقرب)
’’ اس آیت کا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ترجمہ کیا ’’ اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرادے تو اس کیلئے تو کوئی (ہدایت کی) راہ نہیں پائے گا۔
قارئین غور کریں اس ترجمہ کی موجودگی میں کیا کوئی شخص خدا تعالیٰ کی پاک ہستی پر کوئی اعتراض اُٹھا سکتا ہے ہرگز نہیں پس خدا تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ انسان اپنی گمراہی کا راستہ خود اختیارکرتاہے۔ جس کا نتیجہ ہلاکت ہوتی ہے۔
۷۔ قرآن کریم کا ترجمہ کرتے وقت علماء نے جہاں خدا تعالیٰ پر اعتراض کرنے کی جگہ بنادی وہاں ان کے غلط تراجم کی وجہ سے انبیآء بھی محفوظ نہیں رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے تعلق سے جن آیات کی تفسیرپہلے گزر چکی ہے وہاں ان علماء کے تراجم کے بھی نمونے پیش کر دیئے گئے تھے اس لئے میں اُن کو یہاں دوہرانا نہیں چاہتا۔
آنحضرت ﷺ کے بارے میں خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
ماضل صاحبکم وما غوی ۔ (النجم آیت ۳)
یعنی تمہارا ساتھی نہ رستہ بھولا ہوا ہے نہ گمراہ ہوا ہے۔
اس آیت کے بالمقابل سورۃ الضحیٰ کی آیت ۸ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ جوکہ شان نبوی ﷺ کے بالکل خلاف ہے اور ایسا غلط ترجمہ کرتے ہوئے ذرا بھی خدا خوفی نہیں دکھائی کہ ہم کس مقدس نبی کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں آیت ہے۔
ووَجَدَک ضآلاً فھدی ٰ (الضحیٰ آیت ۸)
٭۔ ترجمہ ’’ اور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی ‘‘(مولانا محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان)
٭۔ ’’ اور تم کو بھٹکا ہوا پایا اورمنزل مقصود تک پہنچایا‘‘ (مولانا سید مقبول احمد صاحب)
٭۔ ’’ اور تمہیںناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی‘‘ (مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب)
٭۔ ’’اور پایا تجھ کو راہ بھولا پس راہ دکھائی‘‘۔(مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی)
٭۔ ’’ آپ کو (شریعت سے) بے خبر پایا سو (آپ کو شریعت کا) راستہ بتا دیا‘‘
(مولانا اشرف علی صاحب تھانوی)
٭۔ And he found thee wandering and he gave thee guidance.
(مولانا عبد اللہ یوسف علی صاحب)
٭۔’’ اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی
(مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی)
اس جگہ جتنے مترجمین کی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کا ترجمہ سب تراجم سے جدا ہے اور اپنے اندر ایک ثانوی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔ اور اس ترجمہ کو لیکر بریلوی حضرات اکثر بڑا شور کرتے ہیں کہ بریلوی صاحب کا ترجمہ سب سے اعلیٰ ہے۔ ایک مرتبہ بمبئی میں ایک بریلوی مولانا قدوس کشمیری صاحب نے مولانا غلام فرید صاحب کا ترجمہ دیکھ کر پھر اس بریلوی صاحب کے ترجمہ سے ملاکر دیکھا تو بار بار کہتے تھے بریلوی صاحب کا ترجمہ سب سے اعلیٰ ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو آپ کو علم ہوگا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو ترجمہ کیا ہے وہ سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ غور فرمائیں۔
’’ اور جب اس نے تجھے (اپنی قوم کی محبت میں ) سرشار دیکھا تو (ان کی اصلاح کا) صحیح راستہ تجھے بتا دیا ‘‘۔
مولانا احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں۔
’’ اپنی محبت میں خود رفتہ پایا‘‘۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
’’ تجھے اپنی قوم کی محبت میں سرشار پایا‘‘۔
اس بات سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خدا ئے واحد کے سوا کبھی کسی کی عبادت نہیں کی اور ایک انسان کی اپنی محبت اور اپنی خاطر دُعا کسی دوسرے کو فائدہ نہیں دیتی۔ آپ نے تو خدا کو پاہی لیا ہے لیکن اگر آپ سرشار تھے تو اپنی قوم کی محبت کی خاطر کہ اُن کی کس طرح اصلاح کروں خدا تعالیٰ نے اپنی قوم کے لئے آپ کی بے قراری کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ
لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین ۔ (الشعراء آیت ۴)
یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوے۔
آپ تو اپنی قوم کی اصلاح کی خاطر ہی سرشار تھے۔ پس وہ ترجمہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے کیا ہے وہ اپنے اندر وسعت رکھتا ہے جبکہ احمد رضا خان صاحب بریلوی کا ترجمہ اپنے اندر اتنی وسعت نہیں رکھتا۔ بلکہ ایک ذات تک ہی محدود ہے جبکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کل عالم کو خدا تعالیٰ کا گرویدہ بنانا چاہتے تھے جس میں آپ کی خدا تعالیٰ نے راہنمائی فرمائی اور آپ کامیاب بھی ہوئے اور اس کا ثبوت صحابہ ؓ کی قربانیوں کی طرف نظر کرنے سے ملتا ہے جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنے آپ کو بھیڑوں اور بکریوں کی طرح قربان کردیا۔
۸۔ آنحضرت ﷺ کے خدا تعالیٰ سے شوق ملاقات کی ایک مثال قرآن کریم کی سورۃ نجم میں آئی ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
ثم دنیٰ فتدلّٰی ۔ (النجم آیت ۹)
اس آیت کا ترجمہ دیگر مترجمین نے اس طرح کیا ہے کہ۔
٭۔ ’’ پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا‘‘(مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان)
٭۔’’ پھر نزدیک ہوا پس اتر آیا‘‘ (مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی)
٭۔’’ پھر وہ فرشتہ (آپ کے ) نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا ‘‘
(مولانا اشرف علی صاحب تھانوی)
٭۔’’ پھر وہ قریب ہوا پھر معلق ہوگیا‘‘(مولانا سید مقبول احمد صاحب شیعہ عالم)
٭۔’’ پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اتر آیا ‘‘۔ (مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی)
٭۔’’ پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا‘‘ (مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب)
٭۔Then he approached and came closer'
(محمد عبد اللہ یوسف علی صاحب)
اب ان تراجم کے مقابل پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ترجمہ دیکھیں
’’ اور وہ (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ بندوں کے اس اضطراب کو دیکھ کر اور ان پر رحم کرکے خدا سے ملنے کیلئے ) اُس کے قریب ہوئے اور وہ (خدا) بھی (محمد رسول اللہ صلعم کی ملاقات کے شوق میں) اوپر سے نیچے آگیا‘‘ (تفسیر صغیر)
یہ وہی مضمون ہے جس کا ذکر اس سے پہلے والی آیت میں آچکا ہے اور اس ترجمہ کی تائید اس سے آگے والی آیت کرتی ہے جس میں بیان ہے کہ اور وہ دونوں دو کمانوں کے متحدہ وتر کی شکل میں تبدیل ہوگئے اور ہوتے ہوتے اس سے بھی زیادہ قرب کی صورت اختیار کرلی۔ پس یہ ترجمہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پیش فرمایا ہے اپنے اندر نہایت درجہ کی قربت اور گہرائی رکھتاہے۔ اور محمد مصطفی ﷺ کے اعلیٰ اور ارفع مقام کو بیان کرتا ہے کہ خدا بھی آسمانوں سے شوق ملاقات میں محمد مصطفی ﷺ کی طرف اتر آیا۔ اب اس ترجمہ کے بالمقابل دوسرے تراجم قاری کو کیا بات سمجھا اور بتا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ قاری اس ترجمہ کو سرسری نظر سے پڑھے اور آگے نکل جائے جس میں سے و ہ کچھ بھی عرفان حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی شانِ محمدی ؐ کو دیکھ سکتاہے۔
۹۔ چونکہ مضمون کافی لمبا ہوگیا ہے میں اور زیادہ مثالیں پیش نہ کرتے ہوئے صرف ایک مثال اور آپ کے سامنے رکھتا ہوں خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۔
والرجز فاھجر۔ (المدثر آیت ۶)
اس آیت کا ترجمہ کیا ہے۔
٭۔’’ اور میل کچیل کو دھو ڈال‘‘ (مولانا سید مقبول احمد صاحب)
٭۔’’ And all abomination shum (مولاا عبد اللہ یوسف علی صاحب )
٭۔’’ اور پلیدی کو پس چھوڑ دے‘‘۔ (مولاناشاہ رفیع الدین صاحب دہلوی)
٭۔’’ اور بتوں سے الگ رہو‘‘ (مولانا اشرف علی صاحب تھانوی)
٭۔’’ اورگندگی سے دور رہ ‘‘ (مولانا مفتی محمد شفیع صاحب)
٭۔’’ اور بتوں سے دور رہو‘‘ (مولانا احمد رضا خا ن صاحب بریلوی)
٭۔’’ اور گندگی سے دور رہو‘‘ (مولانا ابو الاعلیٰ مودودی)
ان تراجم کے بالمقابل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ‘‘
’’ اور شرکومٹا ڈال‘‘ حاشیہ میں فرماتے ہیں۔
’’ رجز کے معنے شرک کے ہوتے ہیں اور ھجر کے معنے کاٹ ڈالنے اور مٹادینے کے (اقرب) پس ہم نے والرجز فاھجر کے معنے لغت کے مطابق ’’ شرک کو مٹا ڈال کے لئے ہیں ‘
اب پھر ایک مرتبہ اوپر کے تراجم کو پڑھیں اور دیکھیں کہ آنحضرت ﷺ کی شان کس ترجمہ سے ظاہر ہوتی ہے آپ تو دنیا میں آئے ہی شرک کا قلع قمع کرنے تھے اور خدا تعالیٰ آپ کواسی بات کی طرف متوجہ فرمارہا ہے جبکہ دیگر مترجمین آنحضرت ﷺ کو گندگی سے اور پلیدی سے میل کچیل اور بتوں سے دور رہنے کی با ت کر رہے ہیں جس کا آپ کے دِل میں نہ کبھی وہم ہی آیا اور نہ ہی آپ کبھی ناپاکی اور پلیدی کے قریب گئے۔
قارئین ا ن مثالوں کے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ تا جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے تراجم اور تفاسیر کی خوبی آپ کو معلوم ہو اور آپ خود بھی اس سے استفادہ کریں اور پھر دوسروں کو بھی استفادہ کرنے کی تلقین کریں۔ میرا زندگی کا تجربہ ہے کہ میرے پاس کئی معترض آئے جو خود مسلمانوں میں سے بھی تھے اور اکثر غیر مسلموں میں سے ۔ اُنہوں نے چونکہ دوسروں کے تراجم اور تفاسیر کامطالعہ کیا تھا جب بات ہوتی تو قرآن کریم سے ہی ایک آیت پیش کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی تائید حاصل کرنا چاہتے۔ لیکن جب اُن کے سامنے جماعت کا ترجمہ اور تفسیر رکھی جاتی تو یک لخت اُن کی زبانیں گنگ ہو جاتیں اور وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے کہ اس ترجمہ نے تو ہمارے اعتراض کو سرے سے ختم کردیا ہے۔
پس اگر آج مخالفین اسلام کا مقابلہ کرنا ہے اور خود مسلمانوں کے غلط اور فرسودہ خیالات کو دور کرنا ہے تو بھی جماعتی تراجم اور تفاسیر کو زیر مطالعہ رکھنا ہوگا کہ ان میں ہر اعتراض کا جواب موجود ہے اور پھر یہ تراجم عین قرآن کی تعلیم اور مقصد اور عرفان اور حکمت کے مطابق ہیں خدا تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ میری حقیر سی کوشش کو بہتوں کیلئے عرفان اور حکمت اور معرفت پانے کا ذریعہ بنائے اور مجھے بھی قرآن کریم کا حقیقی عرفان حاصل ہو اوراس کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔(آمین) اللھم آمین۔


















بِسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
پیش لفظ
قرآن مجید خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور قیامت تک قائم رہنے والی لازوال شریعت اور انسانی معاشرہ کیلئے ایک مکمل اور ابدی لائحہ عمل ہے۔ اس کی تاثیراتِ قدسیہ نے نہ صرف عرب جیسی اُجڈ قوم میں ایک انقلاب عظیم پیدا کیا بلکہ چودہ سو سال کے لمبے عرصہ سے لیکر اب تک اس مقدس کتاب نے قلوبِ انسانی کو منور کر رکھا ہے۔ اس کی وسعت لامتناہی ہے اور اس کی حیثیت آفاقی ہے یہ حقائق و معارف اور علوم و حکمت کا ایک ایسا بحر ذخار ہے جس کا احاطہ کرنا قدرتِ انسان سے باہر ہے ۔ خود خدا تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ :۔
قل کَان البحر مداداً لکلمت ربی لنفد البحْر قبل ان تنفد کلمت ربِی ولو جئنا بمثلہ مدداً (الکھف : ۱۱۰)
یعنی (اے محمدؐ) تو انہیں کہہ کہ اگر ہر ایک سمندر میرے رب کی باتوں کے لکھنے کیلئے سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہر ایک سمندر کا پانی ختم ہو جاتا اگرچہ اس کو زیادہ کرنے کیلئے ہم اتنا ہی اور پانی سمندر میں لا ڈالتے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:۔
ولو ان مافی الارض من شجرۃ اقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحرما نفدت کلمت اللہ (لقمن : ۲۸)
یعنی زمین میں جتنے درخت ہیں اُن کی قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی سے بھرا ہوا ہو۔ اس طرح کہ سیاہی کے سات اور سمندر اس میں ملادئے جائیں تو بھی اللہ کی باتیں یا نشان ختم نہیں ہوں گے۔
گویا ہر زمانے کی ضرورت کے مطابق کلام الٰہی کے معارف و حقائق تازہ بتازہ اور نوع بہ نوع کھولے جاتے رہیں گے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہ ہوگا۔ لیکن یہ حقائق و معارف صرف اُنہی لوگوں کو عطا کئے جاتے ہیں جو خدا کے نزدیک پاک قرار پاتے ہیں جیسے فرمایا ۔ لا یمسہ الا المطھرون۔ (الواقعہ: ۸۰) چنانچہ اسلام کے آغاز ہی سے بے شمار نیک اور پاک بزرگوں کو اللہ تعالیٰ نے فہم قرآن عطا فرمایا۔ اور بزرگان سلف نے نہایت ہی عمدہ رنگ میں دُنیا کو مطالبِ قرآن سے روشناس کرایا۔ لیکن بسا اوقات سادگی اور حسن ظن کی وجہ سے اسرائیلی روایات کے تناظر میں بہت سے قصے اور کہانیاں جن کی کوئی سند نہیں تفاسیر کا جزء بن گئیں۔ اور بعد میں آنے والے مفسرین نے تحقیق کو بالائے طاق رکھ کر من وعن اُن روایات کو نقل کرنا شروع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسلام خصوصاً مستشرقین کو اسلام کے خلاف موشگافیاں کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اسلام بانی ٔ اسلام ﷺ اورمسلمانوں کو اپنی تضحیک کا نشانہ بنا لیا۔ تا آنکہ امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آیا۔ اورخدا تعالیٰ نے آپ ؑ کو فہم قرآن کا ایک عظیم اور زبردست نشان عطا فرمایا۔ آپ ؑ نے حقائق و معارفِ قرآن میں مقابلہ کیلئے علماء کو چیلنج بھی دیا اور یہ بھی فرمایا کہ ۔
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار
یہ سمجھنا کہ بزرگانِ سلف نے جو تفسیریں لکھی ہیں وہ حرفِ آخر ہیں اور انہی کے گرد چکر لگاتے رہنا نہایت درجہ کی کوتاہ اندیشی ہے۔ اُصول و مبادیات تو بیشک غیر متبدل ہوتے ہیں لیکن علوم و حکمت کے نئے نئے نکات اور نئے نئے مضامین ہر زمانے میں ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں جو قرآن کی عظمت شان پر دلالت کرتے ہیں۔
پس قرآن مجید ایک ایسا بحر ناپیدا کنار ہے جس کا احاطہ کرنا جن وانس اور زمان و مکان کے حدِ امکان سے باہر ہے ۔ قیامت تک ہر دور میں اس کے گوہر نایاب اپنی آب و تاب دکھاتے رہیں گے شرط یہ ہے کہ پاک دل اور پاک باطن اس میں غوطہ زن ہوں۔
زیر نظر تالیف ’’ تفاسیر القرآن کا تحقیقی موازنہ ‘‘ میں مکرم مولوی برہان احمد صاحب ظفر ناظر نشر و اشاعت نے متعدد عناوین کے تحت پرانی اور نئی تفاسیر کے ساتھ جماعت احمدیہ کے نقطہ نظر سے لکھی گئی تفسیرکا ایک معتدل اور تحقیقی موازنہ پیش کیا ہے ۔ اُن کی یہ محنت اور کاوش لائق تحسین ہے جو اہل علم و بصیرت کے لئے ایک علمی و روحانی مائدہ او رضیافت طبع کا سامان ہے ۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
اس تحقیق سے سلیم الطبع اور محققین تو فائدہ اُٹھائیں گے ہی لیکن عوام الناس کی بھی بہت سی غلط فہمیاں دُور ہوںگی اور وہ فہم قرآن کے صحیح اُسلوب کو سمجھنے میں کامیاب ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لئے تین ذرائع مقرر فرمائے ہیں۔ پہلا ذریعہ قرآن کریم ہے جس میں یہ خوبی بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ اس کے ایک حصہ کی تفسیر اسی کے دوسرے حصے سے ہو جاتی ہے۔ اسی لئے مفسرین نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ القراٰن یُفسّرُ بعضہ بعضاً یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد دوسرا ذریعہ ٔ ہدایت سنتِ متواترہ ہے یعنی شریعت کے وہ احکام جو آنحضرت ﷺ نے عملاً کرکے دکھلائے اور اس پر تواتر کے ساتھ مسلمان آج تک عمل پیرا ہیں یہ بھی قرآن کی تفسیر ہیں۔ اور تیسرا ذریعہ ہدایت وہ احادیث اور اقوال رسول ﷺ ہیں جو آپ ؐ کی وفات کے ڈیڑھ دو سو سال بعد جمع ہوئے۔ ایسی احادیث جو قرآن کریم اور سنت متواترہ کے خلاف نہ ہوں تو وہ بھی فہم قرآن کیلئے بہترین مددگار ہیں۔ علاوہ ازیں قانونِ قدرت اور قانونِ فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے دورِ جدید کے تقاضوں اور اس کی ضرورت کے مطابق اصولِ اسلام اور تعلیم قرآن کی حقانیت کو بیان کرنا، اُن کی گہرائی میں جاکر فلسفہ ٔ احکام کو آشکار کرنا، یہ دورِ حاضر کی ایسی ضرورت تھی جسے جماعت احمدیہ کی تفاسیر نے خوش اسلوبی سے سرانجام دیا ہے اور اسی طرف عامۃ المسلمین خصوصاً محققین کو متوجہ کرنا اس زیر نظر تالیف کی غرض او ر بڑا مقصد ہے جس میں مؤلف موصوف کامیاب نظر آتے ہیں۔
میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اس کاوش کو مقبول عام بناکر اس میں برکت دے اور یہ کتاب سعید روحوں کی ہدایت و راہ نمائی کا باعث بنے ۔ آمین۔

خاکسار
(محمد کریم الدین شاہدؔ)
ایڈیشنل ناظم وقفِ جدید بیرون۔ قادیان
6.5.2001
بّسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
عرض حال
اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے قرآن کریم جیسی پیاری اعلیٰ اور افضل کتاب جوکہ دائمی شریعت ہے کی تفاسیر پر کچھ لکھنے کی توفیق عطا کی۔ کسی عنوان پر کچھ لکھنے کیلئے بعض اوقات دل ہی میں تحریک پیدا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات اس کا کوئی متحرک ہوتا ہے۔ محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب منیر مبلغ سلسلہ جن دنوں ربوہ میں ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن تھے تو وہ مجھے ملاقات کے وقت کہنے لگے کہ میں قرآن کریم کی تفاسیر پر کچھ لکھوں ان کی اس تحریک نے میری توجہ اس طرف مبذول کروائی اور میں نے موجود الوقت جو تفاسیر لوگوں کے ہاتھوںمیں ہیں جمع کیں اور جماعت احمدیہ کی تفاسیر کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہوئے کچھ مرتب کرنے کی کوشش کی الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ کے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے یہ کام پایہ ٔ تکمیل کو پہنچا۔
مسودہ کی منظوری کے لئے محترم سید عبد الحی شاہ صاحب ناظر اشاعت ربوہ کا بیحد ممنون ہوں کہ انہوں نے خود بھی اس مضمون کو پڑھا اور اس کی اشاعت کی منظوری عنایت فرمائی۔
اسی طرح میں محترم مولانا سلطان محمود صاحب انور ناظر خدمت درویشان ربوہ کا بھی ممنون احسان ہوں کہ انہوں نے ایک ایک لفظ پڑھ کر اس میں تصحیح فرمائی اور جہاں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا اس کی طرف راہ نمائی کی جزاھم اللہ احسن الجزاء۔
کتاب کی اشاعت سے قبل اس کی پروف ریڈنگ ایک اہم کام ہے جس کیلئے خاکسار مکرم مولوی قریشی محمد فضل اللہ صاحب اور مکرم مولانا محمد حمید کوثر صاحب مدرسین مدرسہ احمدیہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے میرے استاذی المحترم مولانا محمد کریم الدین صاحب شاہد ایڈیشنل ناظم وقف جدید بیرون نے اس کتاب کیلئے پیش لفظ لکھا اس لئے میں ان کا بھی بیحد مشکور ہوں۔قارئین کی خدمت میں یہ عاجز ایک حقیر تحفہ پیش کر رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ پڑھنے والوں کو حقیقت سے آشکار کرے گا اور قرآن کریم کے معارف اور خزانے کو حاصل کرنے اور اس سے استفادہ کرنے کا موجب ہوگا۔ خدا تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہر قاری کے دل کو قرآن کریم کے انوار سے معمور کرے اور اس کی محبت دلوں میں بٹھائے اور خاکسار کی اس حقیر سی محنت کو قبول کرے۔ آمین۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے (مسیح موعود)
خاکسار
برہان احمد ظفر درانی قادیان
فہرست مضامین
نمبر شمار مضامین صفحہ
۱۔ عرض حال : 1
۲۔ پیش لفظ : 2
۳۔ تعارف : 5
۴۔ ابتدائیہ : 23
۵۔ ناسخ و منسوخ : 25
۶۔ حروف مقطعات : 51
۷۔ حضرت آدم علیہ السلام : 59
۸۔ ہابیل قابیل : 70
۹۔ ہاروت ماروت : 79
۱۰۔ احیائے موتیٰ : 117
۱۱۔ بل فعلہ کبیر ھم ھذا : 129
۱۲۔ حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی طرف تین جھوٹ
منسوب کرنے کی حقیقت : 138
۱۳۔ حضرت یوسف علیہ السلام : 149
۱۴۔ حضرت سلیمان علیہ السلام : 157
۱۵۔ اصحاب کہف : 163
۱۶۔ حضرت لوط علیہ السلام : 176
۱۷۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام : 186
۱۸۔ حضرت مسیح کا پرندے بنانامادرِ زاد اندھوں کو
اچھا کرنا برص والوں کو اچھا کرنا، مردے زندہ کرنا وغیرہ : 196
۱۹۔ مائدہ آسمانی : 207
۲۰۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات و وفات : 215
۲۱۔ اصحاب فیل : 222
۲۲۔ تراجم القرآن : 237


جملہ حقوق محفوظ

نام : تفاسیر القرآن کا تحقیقی موازنہ
زیر اہتمام : ظفر اینڈ سنز
تعداد : ایک ہزار
مقام اشاعت : محلہ احمدیہ قادیان
مطبع : پرنٹ ول پریس امرتسر
سن اشاعت : جون2001ء
قیمت : 115/-

تفاسیر القرآن
کا
تحقیقی موازنہ

مرتبہ
برہان احمد ظفر درّانی

ناشر
ظفر اینڈ سنز قادیان143516محلہ احمدیہ
ضلع گورداسپور ۔ پنجاب(بھارت)
 
Top